News Text
stringlengths 151
36.2k
|
---|
اسلام باد عالمی بینک خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندی سے پیدا ہونے والے بحران سے متاثرہ خاندانوں کی جلد بحالی بچوں کی صحت کی بہتری اور شہری مراکز ترسیل میں معاونت کے لیے فنڈز فراہم کرے گااس منصوبے کے لیے عالمی بینک ملٹی ڈونر ٹرسٹ کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر فراہم کرے گا جس کے تحت شہریوں کی سہولت کے مراکز قائم کیے جائیں گے جو پوری قبائلی بادی اور اس سے منسلک اضلاع کو خدمات فراہم کرے گاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ جولائی 2019 میں ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی منظوری کے بعد سے منصوبے کی تیسری فنانسنگ ہوگییہ بھی پڑھیں ئندہ سال تک پاکستان میں غربت میں اضافے کا امکان ہے عالمی بینکان سہولیات کے مراکز کے ذریعے منتخب خدمات فراہم کی جائیں گی جس میں وائٹل رجسٹریشن سروس وی ایس سول رجسٹریشن منیجمنٹ سسٹم سی ایم ایس اور نادرا ای سہولت شامل ہے جو اس سے مستفید ہونے والوں کی مزید سرکاری خدمات تک رسائی کو بڑھائے گااس کے علاوہ ئندہ ماہ عالمی بینک کی اضافی فنانسنگ کی منظوری دی جائے گی جو گاہی سیشن میں حاضری سے منسلک نقدی کی منتقلی کے ذریعے بچوں کی صحت کو فروغ دے گیمنصوبے کی دستاویز کے مطابق اضافی سروسز مثلا وی ایس سی ایم ایس نادرا ای سہولت پلیٹ فارم اور دیگر سہولیات کے ساتھ اضلاع بنوں ڈیرہ اسمعیل خان لکی مروت اور ٹانک میں 16 نئے سہولت مراکز قائم کیے جائیں گےوی ایس میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور سی سیز کی تجدید اور اجرا سے متعلق تمام خدمات شامل ہوں گیمزید پڑھیں عالمی بینک سندھ میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے 20 کروڑ ڈالر قرض دے گااس کے علاوہ بلدیاتی حکومت یا کمشنر کے دفاتر کے تعاون سے سی ایم ایس متعارف کروانے سے شہری بالخصوص خواتین پیدائش شادی اور موت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں گیاس منصوبے پر خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے تمام ساتوں اضلاع میں عملدرمد کیا جارہا ہے ان اضلاع اور ان سے منسلک علاقوں میں شہریوں کی بنیادی سرکاری سروسز تک رسائی میں سیکیورٹی اور رسائی کے مسائل برقرار رہنے تک رکاوٹ ہےتاہم صوبہ خیبرپختونخوا میں ان اضلاع کے انضمام کا پیچیدہ عمل کمزور اداروں اور مسلسل سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس ایجنڈے کی تکمیل ایک طویل عمل ہے |
اسلام باد فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی نے دسمبر کی خری تاریخ سے قبل ٹیکس سال 2020 کے لیے گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریبا 23 فیصد کم انکم ٹیکس گوشوارے موصول کیے ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بورڈ کو دسمبر تک 13 لاکھ 10 ہزار ٹیکس گوشوارے موصول ہوئے جب کہ ٹیکس سال 2019 میں 16 لاکھ 90 ہزار ریٹرنز جمع کرائے گئے تھےان میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد افرادی کمپنیوں کی ایسوسی ایشنز دونوں شامل ہیںمزید پڑھیں انکم ٹیکس گوشوراے جمع کروانے کی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر توسیع جائزے کے دوران اس عرصے میں گوشواروں کے ساتھ وصول کیا گیا ٹیکس ارب 50 کروڑ روپے رہا جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں یہ 12 ارب 80 کروڑ روپے وصول کیا گیا تھا جو 492 فیصد کی کمی کی عکاسی کرتا ہےٹیکس سال 2020 کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی خری تاریخ میں ستمبر کے بعد سے توسیع کی گئی تھی تاکہ عوام کو اپنا ریٹرن فائل کرنے میں سانی ہوٹیکس سال 2019 کے لیے ایف بی کو 29 لاکھ ریٹرنز ملے تھے جو ایف بی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھےبھارت میں بادی کے مقابلے میں ریٹرن فائل کرنے کا تناسب فیصد فرانس میں 58 فیصد اور کینیڈا میں 80 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ تقریبا 002 فیصد پر موجود ہےوزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ڈان کو بتایا کہ خری تاریخ میں مزید توسیع نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ریٹرن فائلنگ میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہےیہ بھی پڑھیں ٹیکس کے بغیر پاکستانی رقوم کی منتقلی کے باعث زی فائیو پر پابندی لگائی فواد چوہدریڈاکٹر وقار نے کہا کہ فیلڈ فارمیشنز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان افراد کو انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے لیے وقت میں توسیع کریں جو ڈیڈ لائن سے قبل ان کو فائل کرنے کے قابل نہیں تھےانہوں نے کہا کہ نان فائلرز کو ریٹرن فائل کرنے کے لیے اضافی وقت طلب کرنے کے لیے متعلقہ ٹیکس فس میں درخواست جمع کرانا ہوگیاسی طرح معاون خصوصی نے بتایا کہ ٹیکس پریکٹیشنرز کو بھی اپنے کلائنٹ کے لیے توسیع حاصل کرنے کی اجازت ہےتاہم معاون خصوصی نے بتایا کہ سب کے لیے کوئی توسیع نہیں کی جائے گیجرمانے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے لیے کوئی جرمانہ نہیں ہوگا جنہوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے لیے توسیع مانگی ہےان کا کہنا تھا کہ مزید توسیع نہ کرنے کے فیصلے کا مقصد ملک میں ٹیکس نظم ضبط لانا ہے |
اسلام باد بورڈ انویسٹمنٹ بی او ئی کے چیئرمین عاطف بخاری نے جاپان کے سفیر کونینوری میٹسودا سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک اور خصوصی اقتصادی زون ایس ای زیڈ ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے ممالک کے لیے کھلے ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے جاپانی سفیر کو سندھ میں دھابیجی خصوصی اقتصادی زون کے لیے جاپانی مقیم ڈویلپر کے امکان کے بارے میں گاہ کیا اور کاروباری اداروں کو معاشی زون میں یونٹ قائم کرنے کی دعوت بھی دیانہوں نے روشنی ڈالی کہ دھابیجی اقتصادی زون کا مقام کراچی بندرگاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے بہت بہتر ہےمزید پڑھیں تین نئے خصوصی اقتصادی زونز کی منظوری دے دی گئیدریں اثنا جاپانی سفیر نے تجویز دی کہ اسلام باد کو اوساکا میں ایک تجارتی قونصل خانہ یا رابطہ ادارہ قائم کرنا چاہیے جو جاپان میں کاروباری گروہوں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعت کاروں کا ایک مرکز ہے اور اس سے دوطرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی2 کروڑ سے زائد کی بادی کے ساتھ اوساکا ایک اہم مالیاتی مرکز ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے شہری علاقوں میں شامل ہےسفیر کی تجویز کا جواب دیتے ہوئے عاطف بخاری نے کہا کہ اوساکا میں تجارتی قونصل خانے کے افتتاح کے لیے بورڈ انویسٹمنٹ وزارت خارجہ سے رابطہ کرے گاواضح رہے کہ اوساکا میں پاکستان کا قونصل خانہ ہے تاہم اس میں کوئی عملہ نہیں اور اس کی نگرانی ٹوکیو میں قائم سفارتخانہ کرتا ہے دستیاب معلومات کے مطابق جاپان میں پاکستان کے تجارت اور سرمایہ کاری کے قونصلر ٹوکیو میں واقع سفارت خانے میں مقیم ہیںیہ بھی پڑھیں وزیراعظم نے 10 خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنے کی منظوری دے دیبی او ئی کے چیئرمین نے کراچی کے لیے حکومت کے ترقیاتی منصوبے میں جاپان کی شمولیت کی بھی دعوت دیانہوں نے کہا کہ پانی کی فراہمی کے موجودہ نظام کی اپ گریڈیشن کراچی سرکلر ریلوے اور کیماڑی تا پپری ریل لائن سمیت ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں بہترین سرمایہ کاری کے مواقع ہیںاس موقع پر جاپانی سفیر نے کہا کہ جاپان فیصل باد میں پانی کی فراہمی کے نظام کی بہتری میں پہلے ہی مدد کر رہا ہے اور وہ کراچی پر بھی غور کرسکتا ہےملاقات میں پاکستان کے ماہی گیری کے شعبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیاجاپانی سفیر نے کہا کہ حکومت اور نجی شعبوں پر زور دیا جائے گا کہ وہ پاکستان کی ماہی گیری کی صنعت میں سرمایہ کاری کریں جاپانی پہلے ہی کورنگی فش ہاربر پروجیکٹ جیسے فشریز کے منصوبوں میں مشغول ہیںجاپانی سفیر نے ملک میں جاپانی ٹو انڈسٹری اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سرمایہ کاری کو مزید وسعت دینے کی بھی بات کی |
اسلام اباد پاکستان میں ماہ نومبر میں مسلسل تیسرے مہینے برامدات میں اضافہ دیکھا گیا اور یہ گزشتہ ماہ کی ارب ڈالر زائد سے 767 فیصد بڑھ کر ارب 16 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد شمار پاکستان ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئےبرامدات میں اضافہ بنیادی طور پر ٹیکسٹائل اور نان ٹیسکٹائل سامان کی دو ہندسوں میں ترقی کے باعث دیکھنے میں ایامزید پڑھیں اکتوبر میں برامدات 21 فیصد بڑھ کر ارب کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیںعلاوہ ازیں زیرجائزہ مہینے کے دوران درامدات بھی فیصد بڑھ گئیں جو تجارتی خسارہ میں معمولی اضافے کا باعث بنیںاعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نومبر 2019 کے مطابق میں ہوم ٹیکسٹائل 20 فیصد دواسازی کی مصنوعات 20 فیصد چاول 14 فیصد جراحی کا سامان 11 فیصد جرابیں اور موزے 41 فیصد جرسیز اور پل اوور 21 فیصد خواتین کے کپڑے 11 فیصد مردوں کے کپڑوں میں 43 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا جولائی سے نومبر کے دوران برامدات گزشتہ سال کے انہیں مہینوں کے ارب 53 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 211 فیصد کے معمولی اضافے کے بعد ارب 73 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہیںرواں مالی سال کے اغاز میں برامدات میں ایک مثبت رجحان دیکھنے میں ای اتھا لیکن اگست میں اس میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی تھی تاہم ستمبر اکتوبر اور نومبر میں اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہےادھر ٹیکسٹائل مصنوعات کی برامدات میں اضافے کے لیے وزارت تجارت نے ڈرا بیک اف لوکل ٹیکس اینڈ لیویز ڈی ایل ٹی ایل اسکیم کے تھت ارب 78 کروڑ روپے جاری کردیے گئےاس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت ٹیکسٹائل عبدالرزاق داد کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے برامدات کا لیکویڈٹی معاملات کا حل کریں گے اور برامدات کو بڑھانے میں مدد دیں گےخیال رہے کہ مالی سال 2020 میں برامدات 683 فیصد یا ایک ارب 57 کروڑ ڈالر گر کر 21 ارب 40 کروڑ ڈال رہی تھیں جو اسے پہلے سال 22 ارب 97 ارب ڈالر تھیاعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مئی سے بین الاقوامی خریداروں کی جانب سے برامدی ارڈرز خاص طور پر ٹیکسٹائل اور کپڑوں کے شعبے میں واضح بہتری نظر ائییہ بھی پڑھیں ستمبر میں ملکی برمدات فیصد بڑھ گئیںدوسری جانب نومبر میں درامدات بھی گزشتہ سال کے اسی عرصے کے ارب 92 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 777 فیصد بڑھ کر ارب 22 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیںمالی سال 20 کے ماہ کے دوران مجموعی درامدای بل گزشتہ سال کے انہیں مہینوں کے 19 ارب 17 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے 129 فیصد بڑھ کر 19 ارب 42 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگیا علاوہ ازیں ملک کا تجارتی خسارہ بھی نومبر میں 788 فیصد بڑھ گیا جس کی بنیادی وجہ درامدات میں اضافہ تھا یعنی تجارتی فرق گزشتہ سال کے اسی مہینے کے ایک ارب 91 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں ارب کروڑ 80 لاکھ ڈالر پر موجود رہا |
اسلام باد نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی این ٹی ڈی سی اور سوئی سدرن گیس کمپنی ایس ایس جی سی ایل کے 253 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں نہ ہونے پر تصفئی بی ہونے کی وجہ سے قومی نیٹ ورکس سے کے الیکٹرک کو اضافی بجلی اور گیس کی فراہمی کے قانونی انتظامات تعطل کا شکار ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ عوامی سیکٹر کی دونوں کمپنیوں این ٹی ڈی سی اور ایس ایس جی سی ایل نے واجبات کی منظوری تک کے الیکٹرک کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے پی پی اے اور گیس کی فراہمی کے معاہدے جی ایس اے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہےمزید پڑھیں کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر تحفظات ہیں لگتا ہے ان کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے چیف جسٹس واضح رہے کہ کابینہ کمیٹی برائے توانائی سی سی او ای کے رواں سال جون کے ایک فیصلے کے تحت نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کو ایک ہزار 400 میگاواٹ تک بڑھانا تھا جبکہ کے ای کو تقریبا 150 ایم ایم ایف سی ڈی اضافی گیس کی فراہمی کی جانی تھی تقریبا 200 ایم ایم ایف سی ڈی کی موجودہ گیس کی فراہمی کے لیے کے ای اور ایس ایس جی سی ایل کا معاہدہ اب تک نہیں ہوا ہےایس ایس جی سی ایل انتظامیہ اور بورڈ ڈائریکٹرز جی ایس اے میں داخلے سے قبل وفاقی حکومت کی طرف سے کسی طرح کی ضمانت یا 103 ارب کی کے ای سے ادائیگی کا منصوبہ بنانا چاہتے ہیںکے ای اس رقم کا مقابلہ کررہی ہے اور دعوی کرتی ہے کہ ایس ایس جی سی ایل کو تقریبا 13 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہےیہ بھی پڑھیں وفاق کا کے الیکٹرک کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے پر غوراین ٹی ڈی سی انتظامیہ بھی اضافی بجلی کی فراہمی کے لیے پی پی اے پر دستخط کرنے سے پہلے اپنے 150 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کرانا چاہتی ہےمعلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا ہے کہ کے ای انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں مختلف قانونی اور سیاسی حکام کے ساتھ مصروف رہی ہے تاہم کورونا پابندیوں کی وجہ سے چند اہم عہدیداروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئیئندہ ہفتے حکومت اور کے ای حکام کے درمیان اس موضوع پر ایک اور باضابطہ اجلاس متوقع ہےچند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی اسد عمر جو سی سی او ای کے سربراہ بھی ہیں نے مشاہدہ کیا تھا کہ کے ای ای کے معاملات کا حل ناگزیر ہوچکا ہے بصورت دیگر اس کی وصولی اور قابل ادائیگی گردشی قرضوں میں 421 ارب روپے کا اضافہ کردے گیکے ای کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ایس ایس جی سی ایل کے واجبات متنازع ہیں کیونکہ اس میں 13 ارب روپے کی اصل رقم کے مقابلہ میں 90 ارب کے کمپانڈ سود بھی شامل ہےان کا مقف تھا کہ اگر کے ای کو کمپانڈ سود ادا کرنا پڑتا ہے تو پھر سرکاری اداروں پر اس کے واجبات کی ادائیگی پر بھی اسی اصول پر عمل ہونا چاہیےوفاقی حکومت نے کے الیکٹرک کے لیے بجلی کی فراہمی کو نیشنل گرڈ سے بڑھا کر 1400 میگاواٹ کرنے کی پیش کش کی تھی2021 میں این ٹی ڈی سی کے ای کو 450 میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کرے گیجی ایس اے اور پی پی اے پر دستخط کرنے میں تاخیر کا باعث بننے والے معاملات کا عدم حل اگلے موسم گرما میں کراچی میں بجلی کی قلت اور بندش کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے |
اقوام متحدہ کے فوڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے نومبر میں غذائی اجناس کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ تقریبا سال کی اعلی ترین سطح پر گئی ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوڈ اینڈ ایگریکلچرل رگنائزیشن ایف اے او کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر تجارت کی جانے والی خورونوش کی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں خاص طور پر 45 ممالک پر اضافی دبا ہے جنہیں اپنی عوام کی خوراک کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت ہےایف اے او فوڈ پرائز انڈیکس نے رواں ماہ کے دوران اوسطا 105 پوائنٹس حاصل کیے جو اکتوبر کے مقابلے میں 39 فیصد اور ایک سال پہلے کے مقابلے میں 65 فیصد زیادہ تھےمزید پڑھیں 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین نہیں اسٹیٹ بینک کی وضاحتروم میں مقیم ایجنسی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جولائی 2012 کے بعد سے ماہانہ اضافہ سب سے زیادہ رہا اور دسمبر 2014 کے بعد سے انڈیکس سب سے اونچی سطح پر ہےسب سے زیادہ اضافہ سبزیوں کے تیل کی قیمت کے انڈیکس میں ہوا جو پام ئل کے کم ذخیرے کی وجہ سے 145 فیصد تک بڑھ گیاسیریل کی قیمتوں کا اشاریہ اکتوبر کے مقابلے میں 25 فیصد جبکہ ایک سال قبل کے مقابلے میں تقریبا 20 فیصد بڑھا ہےایف اے او نے بتایا کہ گندم کی برمدی قیمتیں بھی بڑھ گئیں جس کی وجہ سے ارجنٹائن میں پیداواری کمی ہے جبکہ مکئی کی قیمتیں بھی امریکا اور یوکرین میں کم پیداوار اور چین کی جانب سے بڑی خریداری کے باعث بڑھی ہیںیہ بھی پڑھیں ستمبر میں بھی مہنگائی بڑھ کر 9فیصد تک پہنچ گئیروس تھائی لینڈ اور یورپ میں خراب موسم کی صورتحال کی وجہ سے عالمی پیداوار میں کمی کے بڑھتے ہوئے امکانات کے دوران چینی کی قیمت کا انڈیکس بھی گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 33 فیصد بڑھ گیا ہےیورپ میں فروخت میں اضافے کی وجہ سے ڈیری مصنوعات کی قیمتیں بھی 09 فیصد بڑھ کر 18 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیںرپورٹ کے مطابق گوشت کی قیمتیں اکتوبر کے مقابلے میں 09 فیصد بڑھ گئی ہیں تاہم ایک سال قبل کے مقابلے میں اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے |
اسلام باد اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی اجلاس میں وفاقی کابینہ اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے پیک ورز جن اوقات میں لوڈ زیادہ ہوتا ہے کے خاتمے سے پیدا ہونے والی خلا پر ایک غیر طے شدہ سبسڈی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن کی درخواست پر بلائے گئے واحد نکاتی اجلاس نے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سمیت ای سی سی ممبران کو حیرت میں ڈال دیامزید پڑھیں کے الیکٹرک کو طویل لوڈ شیڈنگ پر نیپرا اور صارفین کے غیض غضب کا سامنا اراکین نے بتایا کہ پاور ڈویژن کی جانب سے کراچی سمیت ملک بھر میں صنعتی صارفین کے لیے استعمال کے اوقات ٹی او یو ٹیرف کے خاتمے سے متعلق سمری کو ای سی سی کابینہ کمیٹی برائے توانائی سی سی او ای اور وفاقی کابینہ نے نومبر کے پہلے ہفتے میں منظور کرلیا ہے جسے بعد ازاں نیپرا نے نوٹیفکیشن کے لیے منظور کرلیا تھاان کا خیال تھا کہ تمام رسمی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد ای سی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہےپاور ڈویژن نے ای سی سی کو بتایا کہ نیپرا نے نشاندہی کی ہے کہ جہاں صنعتی سپورٹ پیکیج کو منظور کرنے کے ساتھ ساتھ 21 ارب روپے کی سبسڈی مختص کردی گئی ہے وہیں ٹو او یو اسکیم کے خاتمے سے بھی کچھ سبسڈی پیدا ہوگی یا گردشی قرضے میں اضافہ ہوگا جس کا حساب نہیں لگایا گیا ہےٹی او یو اسکیم کے تحت صارفین سے تقریبا 18 گھنٹوں کے لیے 15 روپے فی یونٹ پیک نرخ وصول کیا جاتا ہے جبکہ شام کے پیک ورز میں تقریبا 21 روپے فی یونٹ لیا جاتا تھایہ بھی پڑھیں بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلوں کا منصوبہ پیک ورز کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ صنعتیں 15 روپے فی یونٹ کے نرخ ہی ادا کریں گیبعد ازاں ای سی سی نے صنعتی صارفین کے لیے بجلی استعمال کرنے کی اوقات کی بنیاد پر ٹیرف اسکیم کے خاتمے اور اس ضمن میں ایک واپڈا ڈسکوز اور کے الیکٹرک کے لیے متعلقہ ایس اوز میں ترمیم کرنے کی منظوری دے دیاس کے تحت صنعتی صارفین پیک ورز میں پیک ریٹ سے ٹیرف ادا کریں گےسرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ پیک ورز اور پیک ورز ٹیرف کے خاتمے کا اطلاق یکم نومبر 2020 سے 30 اپریل 2021 تک کی مدت کے لیے ہوگا |
کراچی پاکستان میں موبائل ہینڈ سیٹس کے مینوفکچررز جون 2020 میں کابینہ سے منظور کی گئی موبائل ڈیوائس مینوفکچرنگ پالیسی کے تحت مقامی سطح پر اسمبلنگ کے مقصد کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیر صنعت حماد اظہر سے موبائل کمپنی ویوو کے نمائندوں نے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اپنے اکانٹ سے یہ اعلان کیا کہ کمپنی نے پاکستان میں اسمارٹ فون تیار کرنے کی سہولت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کے لیے زمین خرید لی گئی ہےمزید پڑھیں موبائل فون کی مینوفیکچرنگ پالیسی منظورتاہم ویوو کے نمائندوں کی جانب سے اس ملاقات پر ردعمل دینے سے گریز کیا گیاخیال رہے کہ جون 2020 میں وفاقی کابینہ نے پالیسی منظور کی تھی لیکن انڈسٹری کے کچھ کھلاڑیوں نے کہا ہے کہ اس میں بہت سے خدشات ہیںاس پس منظر میں ڈان سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پالیسی میں لوکلائزیشن کی شرط کو پاکستان میں نافذ کرنا ناممکن ہے کیونکہ اسکرینز مدربورڈز اور بیٹریز کی تیاری یہاں ممکن نہیں ہےپالیسی میں موبائل ڈیوائسز کی سی کے ڈیایس کے ڈی مینوفکچرنگ پر فکسڈ سیلز ٹیکس کے خاتمے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر اسمبلڈ ڈیوائسز کی مقامی فروخت پر فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنی بھی شامل ہے تاہم انڈسٹری پلیئرز کہتے ہیں کہ ان اقدامات پر عمل درامد ابھی تک مکمل نہیں ہوااس صنعت کے ایک اندرونی پلیئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس لیے ڈان کو بتایا چونکہ حکومت کے ساتھ بات چیت ابھی جاری ہےیہ بھی پڑھیں مالی سال 2020 ملک میں موبائل فون کی درامد پر 54 ارب روپے کی ڈیوٹی وصولانہوں نے کہا کہ ان استثنی کے بغیر مقامی اسمبلی ممکن نہیں ہےجون میں پالیسی کی کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کل 16 مقامی کمپنیاں موبائل لات تیار کررہی ہیں جن میں سے بیشتر کمپنیاں فیچر فون یعنی جی تیار کررہی ہیں کمپنیاں اب اسمارٹ فون تیار کرنے کی طرف جارہی ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی جی جی کی طرف منتقل ہو رہی ہےٹیلی کام کے ایگزیکٹوز نے ڈان کو بتایا کہ جی قابل ہینڈ سیٹس کی کمی پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ملک میں ڈیجیٹل انقلاب کو فروغ دینے کے لیے ان ہینڈسیٹ کی مقامی اسمبلی ناگزیر ہےگزشتہ مالی سال 2020 میں موبائل ہینڈسیٹس کی درمدات تیزی سے بڑھ کر ایک ارب 37 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی تھی جبکہ مالی سال 2021 کے جولائی سے ستمبر کے درمیان یہ 49 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کو عبور کرچکی ہیں اور سست ہوتی معیشت کے باوجود گزذشتہ سال کے ریکارڈ کو مات دینے کے لیے تیار ہیں |
اسلام باد سندھ اور پنجاب میں گنے کی فصل کی کٹائی کی ابتدا کے بعد ریٹیل مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں تقریبا 20 فیصد تک تیزی سے کمی دیکھی جارہی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہاں تک کہ وزیراعظم نے بھی چینی کی فی کلو گرام قیمتوں میں 20 روپے تک کمی نے پر اطمینان کا اظہار کیاوزیراعظم نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں ملک میں گنے کی بر وقت کٹائی اور درمد شدہ چینی کی فراہمی کی وجہ حکومت کی مثر مداخلت سے متعلق اقدامات کو قرار دیایہ بھی پڑھیں شوگر ملز کا اعلی سوکروز کی فصل پیدا کرنے والے گنے کے کاشتکاروں کو اربوں روپے دینے سے انکاران کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوششوں سے چینی کی ایکس مل قیمتوں میں 20 روپے تک کمی ئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ میں نے صوبائی حکومتوں کو گنے کے کاشت کاروں کو چینی کی قیمتوں کی منصفانہ اور فوری ادائیگی کرنے کے لیے کہا ہےحالیہ اقدامات اور درمد شدہ چینی کی وجہ سے ملک بھر کی ریٹیل اور ہول سیل مارکیٹوں میں موجود چینی کے ذخیرے کے باعث صورت حال میں تبدیلی کا اثر دیکھا جاسکتا ہےکراچی ریٹیل گراسیریز گروپ کے چیئرمین فرید قریشی کا کہنا تھا کہ پچھلے دنوں چینی کی اوسطا ریٹیل قیمت 100 روپے تھی اور اب یہ 85 روپے فی کلوگرام ہوگئی ہےان کا مزید کہنا تھا کہ اس کی وجہ ہول سیل مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی ہے اور ہم امید کررہے ہیں کہ اس ہفتے کے دوران ہول سیل قیمت 75 روپے سے 78 روپے کے درمیان ہوجائے گیمزید پڑھیں گنے کی قیمت سے متعلق کیس لگتا ہے سندھ حکومت مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتیفرید قریشی نے پیش گوئی کی کہ ئندہ ہفتے سے ملنے والی تازہ چینی اور درمدات کے نتیجے میں چینی کی قیمتوں میں مزید کمی ئے گیاسی طرح لاہور اور پشاور میں بھی چینی کی ریٹیل قیمتوں میں اسی طرح کی کمی رپورٹ ہوئی مگر اسلام باد اور دیگر پنجاب کے شمالی علاقوں میں جہاں چینی کی پیداوار نہیں ہوتی وہاں ئندہ دنوں میں ممکنہ طور پر زیادہ ذخیرے کے اثرات نظر ئیں گےراولپنڈی کی ایک مرکزی ہول سیل مارکیٹ گنج منڈی کے تاجر جو شمالی پنجاب زاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں میں سامان فراہم کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف چینی کی فراہمی میں بہتری ئی ہے بلکہ قیمتوں میں بھی کمی رہی ہےیہ بھی پڑھیں گنے کی قیمت کم ہے تو کسان گنا اگاتے ہی کیوں ہیںایک اور تاجر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ئندہ دنوں میں درمد شدہ اور مقامی طور پر پیدا کی جانے والی چینی کے درمیان مقابلہ ہوگا اور جیسا کہ مقامی چینی کی مٹھاس زیادہ ہےتاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں ماضی میں ہونے والے اضافے کی ایک وجہ میڈیا میں مختلف خبروں کے ذریعے پیدا ہونے والی گھبراہٹ کے باعث کی جانے والی خریداری تھیپاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسکندر خان نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی بروقت گنے کی فصل کی کٹائی کے غاز پر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ گنے کی فصل کی فی 40 کلو گرام قیمت تقریبا 200 روپے مقرر کی گئی ہےاسکندر خان نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام کی جانب سے مڈل مین کو درمیان میں سے نکالنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو کسانوں سے گنا خرید لیتے ہیں اور ان کے تدارک سے ملوں کے لیے گنے کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مثبت قدم ہوسکتا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو چینی اور گڑ کی افغانستان اور اس سے باہر اسمگلنگ روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے جو مناسب سپلائی ہونے کی وجہ سے قیمتوں کو برقرار رکھنے کو یقینی بنائیں گایہ خبر دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی |
اسلام اباد ماہ نومبر میں کچھ اشیا کی قیمتوں میں معمولی کمی کے بعد افراط زر مہنگائی اکتوبر کی 89 فیصد سے کم ہوکر گزشتہ ماہ 83 فیصد رہیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلسل دوسرے ماہ بھی مہنگائی میں معمولی کمی ائی تاہم اس کے برعکس حقیقت میں ضروری اشیا کی قیمتیں اوپر کی طرف جارہی ہیںغذائی مہنگائی اب بھی دو ہندسوں میں موجود ہے اور گزرنے والے مہینے میں اس میں اضافہ دیکھنے میں ایاشہری علاقوں میں زائد غذائی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بڑھنے کا دبا جاری رہا اور نومبر میں غذائی اشیا کے گروپ کی قیمتیں سالانہ بنیادوں پر 13 فیصد جبکہ ماہانہ بنیاد پر 16 فیصد بڑھیںمزید پڑھیں اکتوبر میں مہنگائی معمولی سی کم ہوکر 89 فیصد رہیتاہم دیہی علاقوں میں یہ صورتحال مزید بدتر رہی جہاں نومبر میں اس میں سالانہ بنیادوں پر 161 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر فیصد اضافہ ہوا واضح رہے کہ بنیادی غذائی اشیا ٹماٹر پیاز مرغی انڈے چینی اور اٹے کی قیمتیوں میں گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے اور روزمرہ استعمال ہونے والی ان اشیا کی قیتموں میں معمولی اضافہ بھی مجموعی مہنگائی پر کافی اثر انداز ہوتا ہےنومبر میں سالانہ بنیادوں پر گندم کی قیمت 366 فیصد گندم کے اٹے کی قیمت 1328 فیصد چاول 73 فیصد انڈے 4867 فیصد اور چینی 3578 فیصد بڑھیادھر حکومت کی جانب سے شارٹ فال کو پورا کرنے اور مارکیٹ میں سپلائی کو بہتر بنانے کے لیے گندم اور چینی درامد کی گئی ہے مزید یہ کہ سبزیوں کی نئی فصلوں گنے کی کرشنگ کے سیزن اور پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے ساتھ ہی مہنگائی میں مزید کمی متوقع ہےمقامی پیداوار میں کمی کے ساتھ رواں مالی سال کا اغاز جولائی میں 93 فیصد کی مہنگائی سے ہوا جس کے بعد اگست میں اس میں کمی ائی اور یہ 82 فیصد رہی جس کے بعد ستمبر میں یہ ایک مرتبہ پھر فیصد تک پہنچ گئیجولائی سے نومبر کے دوران اوسط سی پی ائی گزشتہ سال کے 108 فیصد سے کم ہوکر 876 فیصد ہوگیاواضح رہے کہ مالی سال 2020 میں سی پی ائی اس سے پہلے سال کے 68 فیصد سے بڑھ کر 1074 فیصد تک پہنچ گیا تھا جو 122011 کے بعد سب سے زیادہ تھاشہری علاقوں میں نومبر میں جن اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ان میں مرغی 2136 فیصد ٹماٹر 1568 فیصد الو 879 فیصد پیاز 581 فیصد سبزیاں 563 فیصد خشک میوہ جات 438 فیصد انڈے 283 فیصد مکھن 261 فیصد مصالحہ جات اور مرچیں 26 فیصد اور مچھلی 189 فیصد بڑھیتاہم شہری علاقوں میں جن علاقوں کی قیمتوں میں کمی ائی ان میں گندم کا اٹا 483 فیصد گندم 431 فیصد دال مونگ 354 فیصد اور دال چنا 194 فیصد کم ہوئییہ بھی پڑھیں ائندہ مالی سال میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکاندیہی علاقوں میں مرغی 2076 فیصد الو 158 فیصد ٹماٹر 929 فیصد پیاز 656 فیصد چینی 539 فیصد انڈے 523 فیصد مصالحہ جات اور مرچیں 305 فیصد اور مکھن 146 فیصد تک مہنگی ہوئیںدوسری جانب جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ان میں گڑ 506 فیصد بیسن 228 فیصد دال مونگ 226 فیصد پھل 221 فیصد گندم کا اٹا 192 فیصد دال ماش 182 فیصد دال چنا 176 فیصد پھیلیاں 117 فیصد مچھلی 112 فیصد کم ہوئیعلاوہ ازیں شہری مراکز میں غیر غذائی افراط زر سالانہ بنیادوں پر 34 فیصد اور ماہانہ بنیادوں پر 01 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ دیہی علاقوں میں یہ کر بالترتیب 55 فیصد اور 02 تک بڑھ گئی |
اسلام باد سابقہ واپڈا کی مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیوں ڈسکوز کے پاس 1500 سے 1600 میگا واٹ کے نئے کنکشن کے لیے لگ بھگ ساڑھے لاکھ درخواستیں زیر التوا ہیں کیونکہ صارفین کو اپریلجون 2020 کے دوران 85 ارب کے استعدادی چارجز کے حساب سے ٹیرف میں 86 پیسے فی یونٹ اضافے کا سامنا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کی طرف سے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت ٹیرف میں 86 پیسے فی یونٹ اضافے کے لیے مختلف ڈسکوز کی جانب سے دائر درخواست پر عوامی سماعت ہوئی نیپرا نے ڈسکوز کے ذریعے پیش کردہ اعداد شمار کی تصدیق کے لیے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا جو عوامی سماعت کے اختتام تک تبدیل ہوتا رہامزید پڑھیں نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ محفوظ کرلیا نیپرا کے افسران نے وضاحت کی کہ اس شرح کے لیے ٹیرف میں اضافہ 70 پیسے فی یونٹ کے لگ بھگ ہوگا کیونکہ گزشتہ سہ ماہی کے لیے موجودہ 15 پیسے فی یونٹ استعدادی چارجز کی میعاد جلد ہی ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ 85 یا 86 پیسے فی یونٹ استعدادی چارجز لاگو ہوں گےگزشتہ ہفتے نیپرا نے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور ڈسکو کے غیر تسلی بخش ردعمل کی وجہ سے عوامی سماعت معطل کردی تھی اور ڈسکوز کے تمام چیف ایگزیکٹو فیسرز اور چیف فنانشل افسران کی موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کے ساتھ یکم دسمبر تک سماعت ملتوی کردی تھی تاکہ وہ تصدیق شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر اضافے کا جواز پیش کر سکیںمنگل کے روز سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو فیسر نے وضاحت کی کہ ساہیوال اور پورٹ قاسم کوئلے کے منصوبوں حبکو کے ایک منصوبے اور کچھ شمسی اور ہوا کے منصوبوں کی لاگت کا تخمینہ لگائے گئے اصل تخمینے سے دوگنا ہو چکا ہے لہذا استعدادی چارجز میں اضافی ضروری ہےاس کے علاوہ اس وقت ایک ڈالر 129 روپے کا تھا اور پھر روپے کی قدر گرتے گرتے ایک ڈالر 167 روپے کا ہو گیایہ بھی پڑھیں ریگولیٹرز نے بجلی کی قیمت میں 86 پیسہ فی یونٹ اضافے کی سماعت ملتوی کردیانہوں نے کہا کہ معیشت میں سست روی اور اس کے نتیجے میں تجارتی سرگرمیوں میں کمی سے استعدادی چارجز کے معاوضوں میں بھی اضافہ ہوا انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی معیشت اور زیادہ کھپت کی صورت میں گنجائش کے حساب سے کمی واقع ہوسکتی ہےنیپرا کے پنجاب کے رکن سیف اللہ چٹھہ کے ایک سوال کے جواب میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ سکھر الیکٹرک پاور اور کوئٹہ الیکٹرک پاور کی جانب سے اسی طرح کے دعوے کیے گئے جو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے اعدادوشمار سے مماثل نہیں ہیں حالانکہ دونوں ڈسکوز نے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی بلنگ انوائسز پر اپنی درخواستیں دائر کی تھیںسینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے پیر کو ان ڈسکوز سے کہا کہ وہ اپنے اعدادوشمار اپ ڈیٹ کریں لیکن نیپرا افسران نے کہا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور ڈسکو کے مابین ابھی بھی تضاد موجود ہے ڈسکو کے نمائندوں نے کہا کہ وہ سماعت کے بعد اپنے نظرثانی شدہ دعوں کو اپ ڈیٹ کریں گےسندھ کے رکن رفیق احمد نے حیرت کا اظہار کیا کہ سیشن ختم ہونے پر عوامی سماعت کے شرکا اور صارفین کو مستقل طور پر بدلتے ہوئے اعدادوشمار پر وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے اور کس حد تک اس بات کا جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ کس تعداد میں ٹیرف میں اضافے کی اجازت دی گئی ہےمزید پڑھیں بجلی کی قیمت میں 50 پیسے فی یونٹ اضافے کی تیاریبجلی کمپنیوں کے غیر تسلی بخش ردعمل پر نیپرا کے اراکین نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور عوام کے نمائندوں کو بتایا کہ ریگولیٹرز نے چیف ایگزیکٹو افسران اور چیف فنانشل افسران سے توقع تھی کہ وہ جس ٹیرف میں اضافہ چاہتے ہیں اس کمپنی کے ہر پہلو سے پوری طرح واقف ہوں گےنیپرا کے سندھ کے رکن نے کہا کہ ڈسکو کے ذریعے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ریگولیٹرز کے اعداد شمار سے معلوم ہوا ہے کہ نئے رابطوں کے لیے لگ بھگ ساڑھے لاکھ درخواستیں زیر التوا ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایپلی کیشنز زیادہ سے زیادہ 1500 سے 1600 میگاواٹ اضافی گنجائش استعمال کریں گی اور زیادہ استعدادی چارجز کے بجائے مجموعی ٹیرف کو کم کردیں گیایک سوال پر لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لیسکو کے چیف ایگزیکٹو فیسر نے کہا کہ لیسکو ایریا میں 250 صنعتی اور 2200 گھریلو اور تجارتی کنکشنز کے لیے درخواستیں باقی ہیں جو صرف 30 سے 35 میگاواٹ استعمال کرسکتی ہیں انہوں نے دعوی کیا کہ نیپرا کے حوالے سے بتائے جانے والے اعداد شمار غیر حقیقی ہیں کیونکہ یہ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کے دعوں پر مبنی ہیں جس میں وہ درخواستیں بھی شامل تھیں وہ ایک دن پہلے ہی دائر کی گئیں |
اسلام باد پاکستان نے کراچی میں 11 سو میگا واٹ کے جوہری بجلی گھر کو زمائشی بنیاد پر چلانے کے لیے ایندھن کی لوڈنگ کا غاز کردیا اس پلانٹ کا کمرشل پریشن اپریل 2021 میں شروع ہوگادوسری جانب زاد کشمیر کی حکومت نے 700 میگا واٹ کا ایک ہائیڈرو پاور منصوبہ تعمیر کرنے کے لیے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کردیےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن پی اے ای سی کے ایک ترجمان نے کہا کہ کراچی میں حال ہی میں تعمیر کیے جانے والے جوہری بجلی کے یونٹ2 کے2 کے لیے ایندھن کی لوڈنگ کا غاز پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے اس کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد منگل کو ہوایہ بھی پڑھیں نیوکلیئر پاور پلانٹ کراچی کی بادی کے لیے خطرہترجمان نے بتایا کہ کے2 پلانٹ کی تعمیر کا غاز 31 اگست 2015 کو ہوا تھا اور متعدد پریشنز اور سیفٹی ٹیسٹس کے بعد اس کا کمرشل پریشن اپریل 2021 میں شروع ہوگاخیال رہے کہ کے2 کراچی میں تعمیر کیے جانے والے 11 سو میگا واٹ کے زیر تعمیر جوہری بجلی گھروں میں سے ایک ہے کے3 کے سال 2021 کے خر میں فعال ہونے کی توقع ہےان دونوں جوہری بجلی گھروں کی تکمیل کورونا وائرس عالمی وبا کے باوجود بڑی حد تک شیڈول کے مطابق رہیایندھن کی لوڈنگ کا معائنہ اسٹریٹجک پلاننگ ڈویژن لیفٹیننٹ جنرل ندیم زکی منج پی اے ای سی کے چیئرمین محمد ندیم اور سینئر پاکستانی اور چینی حکام نے کیادوسری جانب حکومت زاد کشمیر نے چینی کمپنی چائنا گیز ہوبا گروپ اور اس کے مقامی شراکت دار لاریب گروپ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے زاد پتن ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے عملدرمد اور پانی کے استعمال کے سرچارج کے معاہدے پر دستخط کیےمزید پڑھیں تھر میں کوئلے کے بجلی گھروں کی الودگی سے 29 ہزار اموات ہوسکتی ہیں تحقیق ایک ارب 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری سے 7007 میگا واٹ کے منصوبے میں کوئی درمدی ایندھن شامل نہیں اور یہ ملک کو سستی اور ماحول دوست توانائی کی پیداوار کی جانب لے جائے گامعاہدے پر دستخط کی تقریب میں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان وزیر منصوبہ بندی اسد عمر غیر فعال سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ زاد کشمیر کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر شہزاد خان بنگش اور پرائیویٹ پاور انفرا اسٹرکچر بورڈ پی پی ئی بی کے مینیجنگ ڈائریکٹر شریک تھےچین کا گیزہوبا گروپ اور پاکستان لاریب گروپ اس منصوبے میں شراکت دار ہیں جبکہ قرض دہندگان کی کنسورشیم میں چائنا ڈیولپمنٹ بینک چائنا کنسٹرکشن بینک انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک چائنا اور بینک اف چائنا شامل ہیں |
پاک سوزوکی موٹر کمپنی لیمٹڈ پی ایس ایم سی ایل انڈس موٹرز نے ایک بار پھر اپنی گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کردیا ہےدونوں کمپنیوں نے گاڑیوں کے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں ایک لاکھ روپے تک اضافہ کیا ہےاس سے پہلے کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قیمت کو جواز بناکر گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھامگر حالیہ مہینوں میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا مگر پھر بھی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جس کا اطلاق یکم دسمبر سے ہوگاسوزوکی کی جانب سے کلٹس اور سوئفٹ کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیاسوزوکی کلٹس وی ایکس ایل کی قیمت میں 70 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا اور اب یہ 19 لاکھ کی بجائے 19 لاکھ 70 ہزار روپے میں دستیاب ہوگیکلٹس اے جی ایس ایک لاکھ روپے اضافے کے بعد اب 20 لاکھ 30 ہزار روپے کی بجائے 21 لاکھ 30 ہزار روپے میں فروخت کی جائے گیسوزوکی سوئفٹ ٹومیٹک نیوی گیشن کی قیمت میں 35 ہزار روپے اضافہ کیا گیا اور اب یہ 21 لاکھ 75 ہزار روپے کی بجائے 22 لاکھ 10 ہزار روپے میں دستیاب ہوگیاس سے قبل پاک سوزوکی نے اکتوبر میں گاڑیوں کی قیمتوں میں 42 ہزار روپے تک اضافہ کیا تھادوسری جانب انڈس موٹرز نے کرولا اور گرانڈی کے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں اضافہ کیاکرولا 16 ایم ٹی کی قیمت میں 60 ہزار روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کی قیمت 31 لاکھ 59 ہزار روپے سے بڑھ کر 21 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگئی ہےکرولا 16 اے ٹی کی قیمت بھی 60 ہزار روپے اضافے سے 33 لاکھ ہزار روپے کی جگہ 33 لاکھ 69 ہزار روپے ہوگئی ہےکرولا 18 ایم ٹی کی قیمت پہلے 43 لاکھ 79 ہزار روپے تھی جو 70 ہزار روپے اضافے سے 35 لاکھ 49 ہزار روپے ہوگئی ہےکرولا 18 سی وی ٹی کی قیمت میں بھی 70 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا جو اب 36 لاکھ 29 ہزار روپے کی بجائے 36 لاکھ 99 ہزار روپے کی ہوگئی ہےالٹس گرانڈی 18 سی وی ٹی اسی ہزار روپے اضافے کے بعد 38 لاکھ 99 ہزار روپے کی جگہ 39 لاکھ 79 ہزار روپے میں فروخت ہوگیالٹس گرانڈی 18 سی وی ٹی کی قیمت ایک لاکھ روپے اضافے کے بعد 38 لاکھ 99 ہزار روپے کی جگہ 39 لاکھ 99 ہزار روپے ہوگئی ہے |
اسلام باد فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی ار کے جاری کردہ عبوری اعداد شمار کے مطابق نومبر کے مہینے میں ریونیو کلیکشن کا 348 ارب روپے کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا اور 346 ارب روپے تک کی وصولی کی گئیتاہم یہ سالانہ بنیادوں پر گزشتہ سال کے اسی ماہ کے 335 ارب روپے کے مقابلے میں فیصد ترقی کو ظاہر کر رہی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی جولائی تا نومبر کے دوران ایف بی ار نے 16 کھرب 86 ارب روپے تک کی کلیکشن کی جو 16 کھرب 69 ارب روپے کے متوقع ہدف سے 17 ارب روپے یا 101 فیصد تک تجاوز کرگئییہ بھی پڑھیں حکومت ستمبر میں ریونیو کے اہداف حاصل کرنے میں ناکاموزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ڈان کو بتایا کہ ایف بی اپنے ماہانہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوششیں کررہا ہے تاہم معاشی سرگرمیوں پر جزوی لاک ڈان ہونے کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہےڈاکٹر وقار مسعود خان کا کہنا تھا کہ دسمبر میں کارپوریٹ انکم ٹیکس ادائیگیوں سے ریونیو کلیکشن میں بہتری ئے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ کووڈ19 کی وبا کی دوسری لہر میں دوبارہ لاک ڈان لگنے سے چیزیں مزید خراب ہوسکتی ہیںنومبر میں انکم ٹیکس کی وصولی ایک کھرب 30 ارب روپے کے ہدف سے 21 ارب روپے کی کمی کے ساتھ ایک کھرب ارب روپے رہی تاہم گزشتہ برس کے اسی عرصے میں اکٹھا ہونے والے ایک کھرب ارب روپے کے مقابلے میں اس میں فیصد اضافہ ہوامزید پڑھیں ٹیکس وصولی میں کسی کو ناراض کرنا پڑا تو تیار ہیںمزید یہ کہ متعدد اقدامات متعارف کرانے کے باوجود انکم ٹیکس کا حصول توقعات سے بہت کم ہےعلاوہ ازیں ماہ نومبر میں سیلز ٹیکس کلیکشن 14 فیصد بڑھ کر 173 ارب روپے تک پہنچ گیا جو کہ گزشتہ سال اسی ماہ میں 152 ارب روپے تک رہا تھا تاہم یہ 142 ارب روپے کے متوقع ہدف سے 21 فیصد زائد رہانومبر کے مہینے میں یہ اضافہ پی او ایل قیمتوں کے بڑھنے درمدات میں اضافہ اور معاشی سرگرمیوں کے دوبارہ بحالی کا نتیجہ رہافیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایف ای ڈی کلیکشن 18 فیصد کمی کے ساتھ 23 ارب روپے رہی جبکہ گزشتہ سال اسی ماہ یہ 29 ارب روپے تھی نومبر کے لیے ایف ای ڈی کا متوقع ہدف 27 ارب روپے تھا جو ارب روپے کی کمی سے پورا نہیں ہوایہ بھی پڑھیںکورونا وائرس محصولات کی وصولی میں 300 ارب روپے نقصان کا تخمینہمزید یہ کہ کسٹم کلیکشن فیصد اضافہ کے ساتھ 57 ارب روپے رہی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 55 ارب روپے تھی جبکہ نومبر کے لیے متوقع ہدف 49 ارب روپے تھارواں مالی سال کے ابتدائی ماہ کے دوران 81 ارب روپے کے ری فنڈز کی ادائیگی کی گئی جو گزشتہ سال کے 41 ارب روپے کے مقابلے میں 97 فیصد زیادہ ہے جو صنعتی پیداوار کی بحالی سے معاشی سرگرمیوں میں ایک تیزی کی طرف اشارہ کرتی ہےحکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ کی تیاری کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کو مالی سال 2020 کے 39 کھرب 89 ارب روپے کی وصولیوں کے مقابلے میں مالی سال 2021 میں 49 کھرب 63 ارب روپے کلیکشن کی یقین دہانی کرائی تھی جو 244 فیصد کا متوقع اضافہ تھایہ خبر یکم دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی |
کراچی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصول کو پیر کے روز کراچی کے دورے کے دوران حکومت نے نیشنل بینک پاکستان میں تقرریوں پر تھرڈ پارٹی ڈٹ کی سفارش کی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی باڈی نے مزید ہدایت دی کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے موجودہ پینل سے ڈٹ فرم کا انتخاب کیا جا سکتا ہےمزید پڑھیں نیشنل بینک کے سابق صدر کی عہدے پر بحالی کی درخواست مستردرکن قومی اسمبلی فیض اللہ کاموکا کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس اسٹیٹ بینک میں ہوا کمیٹی کو اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے بینکنگ سروسز کارپوریشن ایکٹ سے متعلق ترمیم کے بارے میں تفصیلات بتائیں جو مرکزی بینک کو مطلوب تھے انہوں نے وضاحت کی کہ بینکنگ سروسز کارپوریشن کی سانی سے کارروائیوں کو یقینی بنانے کے لیے ان ترامیم کی ضرورت ہےنیشنل بینک سے متعلق ایک اور ایجنڈے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر بینکنگ جمیل احمد نے کمیٹی کو نیشنل بینک پاکستان کے موجودہ صدر کے فٹ ہونے اور مناسب جانچ کے بارے میں بتایا بعدازاں باقر جمیل احمد اور اسٹیٹ بینک بینکنگ کارپوریشن پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد اشرف خان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے مختلف سوالات کے جوابات دیےتفصیلی بحث مباحثے کے بعد کمیٹی نے متفقہ طور پر بینکاری خدمات ترمیمی بل 2020 منظور کیا تاہم کمیٹی ممبران نے مذکورہ پوزیشن کے لیے درکار قابلیت اور صدر نیشنل بینک پاکستان کی ڈگری قابلیت میں اختلافات پر تشویش کا اظہار کیاجمیل احمد نے وضاحت کی کہ نیشنل بینک پاکستان کے صدر عارف عثمانی کی خدمات کی سفارش کی گئی کیونکہ بینکنگ کے شعبے میں ان کا ساڑھے تین دہائیوں کا وسیع تجربہ ہےیہ بھی پڑھیں نیشنل بینک کیلئے گنیز ورلڈ ریکارڈز کا اعزازقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کا مقف تھا کہ حکومت کو اس وقت عارف عثمانی کے پچھلے ٹریک ریکارڈ پر عائد الزامات کو ختم کرنا پڑا جب انہیں نیشنل بینک کا صدر مقرر کیا گیا تھااس موقع پر نیشنل بینک پاکستان کے صدر نے کمیٹی کو بینک سے ملازمین کی خدمات حاصل کرنے کی حیثیت سے 2019 سے لے کر 2020 تک گاہ کیا عارف عثمانی نے کہا کہ کسی بھی تنظیم کا سب سے اہم عنصر اس کے لوگ تھے اور یہ خاص طور پر بینک جیسی خدمات فراہم کرنے والے کسی رگنائزیشن کے لیے انتہائی ضروری ہے متعدد شعبوں میں نیشنل بینک پاکستان کے سینئر وسائل کے معیار کی نشاندہی ایک سنگین خلا کے طور پر کی گئی ہے جہاں ڈٹ تبصروں میں واضح ہوتا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اسے حل کرنے کی خواہش کی کمی تھی اور اس کے نتیجے میں ساکھ کو نقصان پہنچا اور عوامی اعتماد مجروح ہوانیشنل بینک پاکستان کے صدر نے مزید کہا کہ بھرتی کا عمل موجودہ بورڈ کی منظور شدہ پالیسیوں اور بیرونی بھرتیوں کے لیے رائج عمل کو استعمال کرکے کیا گیا انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اس کے مطابق تمام سینئر عہدوں کا داخلی طور پر بینک کے اندر اشتہار دیا گیا تھا انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ داخلی امیدواروں کا اندازہ کیا گیا تھا اور اہل امیدواروں کو انٹرویو میں شارٹ لسٹ کیا گیا تاہم ان میں سے کوئی بھی مقررہ معیار کے مطابق نہیں پایا گیاعارف عثمانی نے مزید کہا کہ جن نئے افراد کو بھرتی کیا گیا وہ اپنے شعبوں میں بہت تجربہ کار تھے ان میں مہارت اور اعلی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیںمزید پڑھیں نیشنل بینک پاکستان کو برطانیہ سے 19 کروڑ پانڈز موصولنیشنل بینک پاکستان کے صدر نے سب جگہ شروع کیے گئے احتساب کی جانب بھی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی جس میں دو سینئر ایگزیکٹو نائب صدور اور پانچ ای وی پی کو برطرف کیا گیا تاکہ نیشنل بینک پاکستان کو ترقی کی حامل تنظیم بنائے جاسکے ان کا کہنا تھا کہ شکایات کا موجودہ سلسلہ دراصل انضباطی کارکردگی کے اقدامات کا ایک رد عمل تھاقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین نے بینک میں سینئر افسران کی بھرتی کے لیے لاگو تعلیمی معیار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کمیٹی کے کچھ اراکین نے نوٹ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام بینک کی بھرتی کی پالیسیوں کے منافی ہے |
ورچوئل کرنسی بٹ کوائن ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہےاس وقت دنیائے انٹرنیٹ کی اس کرنسی کے ایک یونٹ یا یوں کہہ لیں کہ ایک روپے کی قیمت 19 ہزار ڈالرز سے زیادہ ہوچکی ہےاس کرپٹو کرنسی کی قیمت 19 ہزار 783 ڈالرز 31 لاکھ 54 ہزار پاکستانی روپے سے زائد سے تجاوز کرگئی ہے اور اس طرح دسمبر 2017 میں قائم ہونے والے ریکارڈ کو توڑ دیایعنی ایک بٹ کوائن سے 29 تولے تک سونا خریدا جاسکتا ہےبٹ کوائن کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں بہت تیزی سے اتار چڑھا دیکھنے میں یا ہےگزشتہ ہفتے اس کرنسی کی قیمت بہت تیزی سے گری تھی مگر گزشتہ 72 گھنٹے میں میں ہزار ڈالرز سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہےماہرین نے کچھ عرصے پہلے پیشگوئی کی تھی کہ بٹ کوائن کی قیمت سال کے خر تک ریکارڈ سطح پر جاسکتی ہے تاہم موجودہ رفتار نے انہیں حیران کردیا ہےبٹ کوائن کی قیمتوں میں اس طرح کا اتار چڑھا نیا نہیں 2017 میں بھی ایسا دیکھنے میں یا تھا مگر ماہرین کو بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ موجودہ دنوں میں بٹ کوائن کی قیمت اتنی تیزی سے اوپر جائے گیرواں سال بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا قرار دی جارہی ہےبٹ کوائن کی قیمت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کچھچ ماہرین نے پیشگتوئی کی ہے کہ نے والے ہفتوں میں بھی یہ سلسلہ برقرار رہ سکتا ہےایک ماہر کا کہنا تھا کہ پے پال اسکوائر اور مائیکرو اسٹرٹیجی جیسی کمپنیوں کی جانب سے کرپٹو کرنسیوں کی حمایت سے بٹ کوائن کی قیمت 50 ہزار ڈالرز تک پہنچ جانا حیران کن نہیں ہوگا |
وفاقی حکومت نے ئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول کی قیمت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں روپے اضافہ کردیا گیاوزارت خزانہ سے جاری بیان کے مطابق عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں ہونے والا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا ہےبیان میں کہا گیا کہ ئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل ئل ایل ڈی او کی قیمتیں برقرار رہیں گی تاہم عالمی سطح پر غیر معمولی اضافے کے باعث ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے یہ بھی پڑھیں ئل کمپنیز اور ڈیلرز کے مارجن میں 16فیصد تک اضافہ متوقعڈیزل کی قیمت اضافے کے بعد 101 روپے 43 پیسے سے بڑھ کر 105 روپے 43 پیسے ہوگئی ہےپیٹرول کی فی لیٹر قیمت 100 روپے 69 پیسے مٹی کے تیل کی قیمت 65 روپے 29 پیسے اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت 62 روپے 86 پیسے پر برقرار رہیں گیڈیزل کی نئی قیمت کا اطلاق رات 12 بجے سے ہوگاواضح رہے کہ ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے یکم دسمبر سے 15 روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد بدل کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھی |
اسلام باد تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے گزشتہ سال کیے گئے وعدے کے برعکس مارکیٹ اسٹڈی کے بغیر ئل مارکیٹنگ کمپنیوں او ایم سی اور ڈیلرز کمیشن کے منافع کے مارجن میں 16 فیصد تک اضافہ کر سکتی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خزانہ اور منصوبہ بندی کی وزارتیں اور ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹیاوگرا اس وقت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی جانب سے حتمی فیصلہ لیے جانے سے قبل وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن کے ذریعہ پیش کردہ باضابطہ تجویز کا جائزہ لے رہی ہیںمزید پڑھیں ئل مارکیٹنگ کمپنیاں اسٹاک سے گریزاں ریفائنریز بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئیںوزارت خزانہ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پٹرولیم ڈویژن نے پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے ہر لیٹر پر او ایم سی کے مارجن میں 45 پیسے اضافے کی تجویز پیش کی تھی اس نے پیٹرول پر فی لیٹر 58 پیسے اور ایچ ایس ڈی پر 50 پیسے اضافے کی بھی سفارش کی ہےاسی طرح ئل مارکیٹنگ کمپنیز کو اب دونوں مصنوعات پر 326 روپے فی لیٹر مارجن ملے گا ڈیلرز پیٹرول کی فروخت پر فی لیٹر 428 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 362 روپے کما لیں گے پٹرولیم ڈویژن کے مطابق 16 فیصد اضافہ جون 2019 سے اکتوبر 2020 کے درمیان کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہےپچھلی حکومت نے 2013 میں او ایم سی کے مارجن اور ڈیلر کمیشن کو کنزیومر پرائس انڈیکس سے جوڑ دیا تھا ان 7سالوں میں پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر ڈیلر کمیشن میں 92 پیسے فی لیٹر33فیصد اور 82 پیسے 36فیصد کا اضافہ ہوا ہے پیٹرولیم ڈویژن اب ایک بار میں پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر بالترتیب 58 پیسے اور 50 پیسے فی لیٹر مارجن میں اضافے کا خواہاں ہےاسی طرح سالوں میں ئل مارکیٹنگ کمپنیز کے مارجن میں پیٹرول پر 58 پیسے فی لیٹر26 فیصد اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 95 پیسے 50فیصد کا اضافہ ہوا ہے پیٹرولیم ڈویژن اب ایک سال میں مارجن میں 45 پیسے فی لیٹر اضافے کا مطالبہ کررہا ہےیہ بھی پڑھیں پیٹرول کی قیمتوں کا طریقہ کار ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہایک عہدیدار نے بتایا کہ ئل کمپنیوں اور ان کے ڈیلروں کو کنزیومر پرائس انڈیکس کی بنیاد پر مارجن طے کرنا غیر منصفانہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس میں غیر معمولی اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر اس کی قیمت کی جانچ پڑتال اور تعین کی نہ کیا جائے تو اس کی قیمت مقررہ چیز کی قیمت سے بھی بڑھ جائے گیبنیادی طور پر اسی وجہ سے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نومبر کے پہلے ہفتے میں اسٹیک ہولڈرز کو حکم دیا تھا کہ وہ زاد مطالعے کے ذریعے فارمولے پر ایک نئی نظر ڈالے اور 2ماہ کے اندر اس پر دوبارہ رابطہ کریں یہ 13 مہینوں میں پورا نہیں ہوا اور اسٹیک ہولڈرز اب کووڈ19 کے پیچھے چھپ رہے ہیں جہاں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے 4ماہ بعد یہ وبا ئی تھیپیٹرولیم ڈویژن نے اب اسی کنزیومر پرائس انڈیکس پر مبنی فارمولے کو جاری رکھنے کی تاکید کی ہے جب تک کہ مستقبل قریب میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کی حکم کردہ اسٹڈی دستیاب نہ ہو جائے کہتے ہیں کہ ڈیلر مطالبہ کررہے تھے کہ ان کا مارجن روپے فی لیٹر تک بڑھایا جائے انہوں نے دلیل دی ہے کہ ئل ماریٹنگ کمپنیز بھی یہ دعوی کر رہی تھیں کہ ان کے مارجن پر ہر سال جولائی میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہےپٹرولیم ڈویژن نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو اطلاع دی ہے کہ نومبر 2019 کو او ئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلروں کے مارجن کا جائزہ لینے کے دوران اقتصادی رابطہ کمیٹی نے افراط زر کی اوسط شرح 658 فیصد کی بنیاد پر دونوں پیٹرولیم مصنوعات پر ئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلروں کے لیے مارجن میں ترمیم کی منظوری دی تھی جیسا کہ پلاننگ ڈویژن نے اپریل 2018 اور مئی 2019 کے درمیان مدت کے لیے منظوری دی تھی اور جس کا اطلاق یکم دسمبر 2019 سے ہونا تھااسی فیصلے کے تحت اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جس میں پیٹرولیم خزانہ اور منصوبہ بندی اور ترقی کے سیکریٹریوں اوگرا اور پاکستان بیورو اسٹیٹ اسٹکس کے اعلی اراکین اور نجی شعبے سے اراکین کے طور پر ایک تعلیمی یا ریٹائرڈ پریکٹیشنر کو لیا گیامزید پڑھیں اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار ائل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیاکمیٹی کو پیٹرولیم مصنوعات پر ئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلرز کے لیے مارجن کے تعین کے لیے موجودہ طریقہ کار پر جامع انداز مہیں نظر ثانی کرنے کی ضرورت تھی اور تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصا صارفین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے نظرثانی شدہ طریقہ کار وضع کرنا چاہیے تھاکمیٹی دو ماہ میں ای سی سی کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی کمیٹی کو سیکرٹریٹ کی مدد فراہم کرنے کے لئے پٹرولیم ڈویژن کی ضرورت تھی ای سی سی نے یہ بھی ہدایت کی کہ مستقبل میں ہر سال جولائی سے جون تک کسی فارمولے کا اطلاق ہونا چاہئےپٹرولیم ڈویژن نے اطلاع دی کہ حکم کے مطابق اس نے کمیٹی کے تین اجلاسوں کا اہتمام کیا ہے کمیٹی نے مجوزہ مطالعہ کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ چارٹرڈ اکانٹنٹس سے رضامندی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا صرف انسٹیٹیوٹ کاسٹ اینڈ منیجمنٹ اکانٹنٹس پاکستان نے 45لاکھ روپے کی لاگت سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا جبکہ انسٹی ٹیوٹ چارٹرڈ اکانٹنٹس پاکستان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا لہذا پاکستان انسٹی ٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس سے بھی درخواست کی گئی کیونکہ صرف ایک واحد انسٹی ٹیوٹ نے مذکورہ مطالعے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا پاکستان انسٹی ٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس نے 25لاکھ روپے کے عوض اپنی رضامندی کا اظہار کیایہ بھی پڑھیں ئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے پیٹرول کی قلت کی ذمہ داری وزارت توانائی پر ڈال دیمارجن پر پہلا مطالعہ بھی پاکستان انسٹی ٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس نے 2014 میں کیا تھا پیٹرولیم ڈویژن نے بتایا کہ اوگرا کو ئل مارکیٹگ کمپنیز کا لائسنسنگ اتھارٹی ہونے کے ناطے اس مطالعہ کا فنڈ دینے پر افسوس ہوا جبکہ منصوبہ بندی ڈویژن بھی اپنے بجٹ وسائل سے مطالعے کی لاگت کو پورا کرنے سے گریزاں ہے دریں اثنا کووڈ19 کی وجہ سے کوئی بھی ابھی تک فیلڈ کام کرنے کو تیار نہیں تھا پیٹرولیم ڈویژن نے دعوی کیا پاکستان انسٹی ٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس کو ایک سرکاری ادارہ ہونے کی حیثیت سے اپنے سابقہ مطالعہ کو ریفرنس کی شرائط کے مطابق لاگت کے محاسبوں کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں حاشیے پر نظر ثانی کے لیے ایک فارمولا کی تیاری کی اپ ڈیٹ کرنے کے لیے کہا گیا ہے کسی اور تاخیر سے بچنے کے لیے پیٹرولیم ڈویژن نے اب تجویز پیش کی ہے کہ مشاورت پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے اور اس شعبے کی ترقی سے متعلق پالیسیوں کی تیاری کے لیے پٹرولیم ڈویژن کے تحت برقرار رکھے گئے غیر تربیتی فنڈ کے ذریعے فنڈ کو پورا کیا جائے |
اسلام اباد پاکستان کسٹم نے گزشتہ سال ڈیوائس ائیڈینٹی فکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم ڈی ائی ار بی ایس کے ذریعے موبائل ڈیوائسز کی درامد پر 54 ارب روپے وصول کیے جو اس سے پہلے سال کے مقابلے میں 145 فیصد زیادہ ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ اف ریونیو ایف بی ار کی جاری کردہ اعداد شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل فون کی درامد سے ریونیو میں اضافے کی وجہ یہ ہے اب کوئی بھی بغیر ڈیوٹی ادااسمگل فون پاکستان میں ٹیکسز کی ادائیگی اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی پی ٹی اے سے رجسٹرڈ کیے بغیر استعمال نہیں کیا جاسکتاادھر ایک کسٹم عہدیدار کے مطابق ملک میں اسمگل شدہ ڈیوائسز کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کسٹمز نے پی ٹی اے کے اشتراک سے ڈی ائی ار بی ایس متعارف کروایا تھا اس کامیاب مداخلت نے ملک میں بڑی سرمایہ کاری کو اپنی جانب کھینچامزید پڑھیں مالی سال 2020 میں بیرون ممالک سے ئے موبائل فون پر ارب 80 کروڑ روپے ٹیکس وصولعہدیدار کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت 17 کمپنیز موبائل فونز مینوفکچرنگ کر رہی ہیں جبکہ ٹی سی ایل کا بھی ایئرلنک کے ساتھ پاکستان کی موبائل فون انڈسٹری میں سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے وہیں ایک اور کمپنی الکاٹیل بھی اسی پر غور کر رہی ہےاسی دوران چین جس سے جغرافیائی قربت ہے اور وہ ہینڈسیٹس مینوفیکچرنگ کے لیے عالمی مرکز ہے اس وقت بڑھتی مزدوروں کی لاگت سمیت امریکا کے ساتھ تجارتی کشیدگی کے باعث ملک سے باہر سرمایہ کاری کے لیے دیکھ رہا ہے جو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا مواقع فراہم کرتا ہےانہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال اور اسمگلرز کے خلاف ٹارگٹڈ اپریشنز کے ذریعے عملدرامد سے اسمگل شدہ اشیا کی دستیابی کا مسئلہ بڑے پیمانے پر حل ہوگیا ہے اور اس نے مقامی صنعت کے لیے جگہ فراہم کی ہےیکم جولائی 2019 سے حکومت نے بیگیج رولز کے تحت بیرون ملک سے ڈیوٹی فری موبائل ہینڈسیٹ کی سہولت بھی واپس لے لی تھی اور ایف بی ار کے مطابق یہ فیصلہ اس اسکیم کے غلط استعمال کی متعدد شکایات کو دیکھتے ہوئے لیا گیا تھاسرکاری اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مالی سال 2020 کے دوران بیگیج کے تحت مسافر 13 لاکھ 89 ہزار 707 موبائل ہینڈسیٹس لائے اور انہیں ڈی ائی ار بی ایس سے رجسٹرڈ کروایا جس کے نتیجے میں پاکستان کسٹمز نے مسافروں سے بیگیج کے تحت موبائل فونز کی درامد پر گزشتہ سال ارب 80 کروڑ روپے سے زیادہ اکٹھے کیےدوسری جانب کمرشلی طور پر موبائل فونز کی درامد کے لیے بھی واضح پالیسی ہے اور مالی سال 2020 کے دوران کمرشل درامدات کے تحت 209 ارب 31 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کے ایک کروڑ 98 لاکھ ہینڈسیٹس درامد کیے گئے جس پر ایف بی ار نے 39 ارب 41 کروڑ 40 لاکھ روپے ریونیو وصول کیایہ بھی پڑھیں موبائل فون کی درامد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے سلیب متعارفمئی میں حکومت نے موبائل فون مینوفکچرنگ پالیسی کی منظوری دی جو مقامی ہینڈسیٹ انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوئی ہے جو بین الاقوامی سطح پر مسابقت پذیر ہوسکتی ہےوہی مارکیٹ کے سائز میں اضافے کے ساتھ ساتھ جی کی طرف منتقلی کے باعث مقامی طلب کافی ہےعلاوہ ازیں اسی سے تعلق رکھنے والی دیگر صنعتیں جیسے پیکجنگ پلاسٹکس اور ائی ٹی سوفٹ ویئر وغیرہ پہلے ہی مقامی مارکیٹ میں ایک مضبوط حیثیت رکھتی ہیں |
ممبئی بھارت کی معیشت جولائی اور ستمبر کے دوران 75 فیصد سکڑنے سے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی بڑی ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگئی کیونکہ یہ ازادی کے بعد پہلی مرتبہ تکنیکی کساد بازاری میں داخل ہوئی ہےڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرکاری اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت کساد بازاری میں داخل ہوگئی ہےاگرچہ گزشتہ سہ ماہی میں ریکارڈ 239 فیصد سکڑنے کے مقابلے میں اعداد شمار میں بہتری تھی تاہم یہ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت سخت مقابلہ کر رہی ہے کیونکہ یہ طلب کو بحال کرنے اور روزگار پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے جبکہ کورونا وائرس کا انفیکشن بڑھ رہا ہےمزید پڑھیں بھارت میں کورونا کی ابتر صورتحال ایک دن میں 90 ہزار سے زائد کیسز رپورٹتاہم مسلسل سہ ماہیوں میں معیشت کے سکڑنے کا مطلب ہے کہ ملک 1947 کے بعد سے پہلی مرتبہ تکنیکی کساد بزاری میں داخل ہوگیا ہےوائرس سے متعلق لاک ڈانز سے ہونے والی عالمی تباہی کے بعد امریکا جاپان اور جرمنی سمیت بڑی معیشتوں کی جانب سے 30 ستمبر کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں ریکارڈ کی گئی ترقی نے توقعات کو بڑھا دیا ہے کہ بھارت بھی بحالی سے مستفید ہوگااگرچہ اکتوبر اور نومبر میں تہواروں کے سیزن کے باعث صارفین کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے میں ایا تاہم تعمیراتی اور مہمان نوازی کے شعبے متاثر ہونے سے وسیع پیمانے پر بحالی کی امیدیں ختم ہوگئیںلاک ڈان کی وجہ سے گزشتہ سہ ماہی میں تقریبا 40 فیصد کمی کے بعد جولائی سے ستمبر کے دوران مینوفکچرنگ کی سرگرمی میں اضافہ ہوا جبکہ کاشتکاری بھی نسبتا بہتر رہیتجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اعداد شمار حوصلہ افزا ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگلی سہ ماہی میں معیشت کی بہتری کا امکان ہوگابروڈا کے اسٹیٹ بینک کے چیف اقتصادیات سمیر نارنگ کا کہنا تھا کہ تمام اشاروں کو دیکھتے ہوئے بھارتی معیشت کے لیے بدترین صورتحال ختم ہوگئی ہم مسلسل بہتری دیکھیں گے اور اگے بڑھیں گےان کا کہنا تھا کہ جمعہ کے اعداد شمار نے فیصد سکڑنے کے بینک کے تخمینے کو غلط ثابت کردیا ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ معاشی بحالی کے امکانات تب تک ہیں جب تک انفیکشن بڑھنے پر کوئی نیا لاک ڈان نہیں لگتاکوانٹ ایکو ریسرچ کے ماہر معاشیات وویک کمار کا کہنا تھا کہ مارچ کے اخر میں ہونے والے مہینوں میں طویل لاک ڈان کی وجہ سے فیکٹریوں کی طویل بندش کے خاتمے کے بعد مینوفکچرنگ میں اضافہ بھارت کے لیے اچھا ہےیہ بھی پڑھیں بھارت کورونا کے کیسز میں اضافے کے بعد متعدد ریاستوں میں دوبارہ لاک ڈان نافذواضح رہے کہ بھارت کے مرکزی بینک کے گورنر شکتی کانتا داس کے گزشتہ ماہ کے جاری کردہ اندازے کے مطابق نئی دہلی نے اپنی اس معیشت کی بحالی کے لیے جدوجہد شروع کی ہے جس کا رواں سال 95 فیصد تک سکڑنے کا امکان ہےوہیں عالمی مالیاتی فنڈ ائی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ بھارت کی معیشت رواں سال 103 فیصد تک سکڑ جائے گی جو کسی بڑی ابھرتی ہوئی معیشت کے لیے سب سے بڑا بحران ہے اور یہ ازادی کے بعد سے بدترین ہےعلاوہ ازیں رواں ماہ کے اوائل میں اکسفورڈ اکنامکس کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وبائی مرض سے لگنے والی پابندیوں میں نرمی کے بعد بھارت کی معیشت بدترین متاثرہ ہوگی اور 2025 تک سالانہ پیداوار وائرس سے پہلے کی سطح سے 12 فیصد کم ہوگی |
اسلام باد وفاقی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی حالیہ معاشی بحالی کو ملک کے ساتھ ساتھ بڑے تجارتی شراکت داروں میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث زوال پذیری کا خطرہ ہے تاہم مہنگائی کا دبا کم ہوا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ معاشی اپڈیٹ اور نومبر کے منظر نامے میں کہا گیا کہ اگر کورونا وائرس کے جاری اثرات کو دیکھیں تو زوال کے خدشات بہت نمایاں ہوگئے ہیںمعاشی بحالی کا غاز نئے مالی سال کے غاز سے ہوا تھا جو اکتوبر تک جاری رہا لیکن معاشی منظرنامے کے اثرات معیشت کے کچھ شعبہ جات پر لگائی گئی پابندیوں کی شدت پر منحصر ہےیہ بھی پڑھیں مکمل لاک ڈان کے خدشات اسٹاک مارکیٹ میں 555 پوائنٹس کی کمیوزات نے اعتراف کیا کہ نومبر 2020 کے لیے مالی خسارہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے تقریبا 70 فیصد بڑھ گیا ہے حالانکہ ترقیاتی اخراجات میں کوئی اضافہ نہیں ہواکورونا کیسز کی تعداد میں حالیہ اضافہ حکومت کو محتاط پالیسی اپنانے پر مجبور کررہا ہے بالخصوص خدمات کے شعبے میں اور باقی دنیا کی طرح پاکستان کے معاشی منظر نامے کے لیے بھی ملا جلا پیغام ہےوزارت نے کہا کہ اگر عوام ایس او پیز پر عمل کریں تو اثرات کم ہوسکتے ہیں اور معیشت طویل المدتی ترقی کے راستے پر لوٹ سکتی ہےوزارت کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا دبا کم ہوا ہے اور یہ لچک ئندہ نے والے مہینوں میں بھی جاری رہنے کا امکان ہےجولائی سے اکتوبر تک کے عرصے میں پاکستان میں مہنگائی کا سب سے بڑا سبب بین الاقوامی اور مقامی اشیا کی قیمتیں تھیں بالخصوص اشیائے خورونوش اور تیل کی مصنوعات کی قیمتیں جبکہ ایکسچینج ریٹ اور مالی پالیسیوں نے بھی اس میں کردار ادا کیامزید پڑھیں قومی رابطہ کمیٹی نے مکمل لاک ڈان کے نفاذ کو مسترد کردیانومبر کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کووڈ 19 انفیکشن میں حالیہ اضافہ اور ہسپتالوں پر دبا نے پاکستان کی اہم ترین مارکیٹس کو زک پہنچائی ہےوزارت کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی ماہ کے دوران ترسیلات زر میں 265 فیصد اضفہ ہوا لیکن گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے برمدات 103 فیصد درمدات فیصد اور غیر ملکی سرمایہ کاری 62 فیصد کم ہوئی ہےرپورٹ کے مطابق تجارتی خسارہ فیصد اضافے کے بعد ارب 70 کروڑ ڈالر ہوگیا اس کے ساتھ گزشتہ برس کے پہلے ماہ میں ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا کرنٹ اکانٹ خسارہ رواں برس سرپلس رہااس کے علاوہ ملک کے مجموعی زر مبادلہ کے ذخائر 24 فیصد اضافے کے بعد نومبر میں 20 ارب 55 کروڑ ڈالر رہے |
پاکستان اسٹیل ملز نے ڈی سی ایز منیجرز اور صحت عامہ سمیت مختلف شعبوں سے ہزار 544 ملازمین کو نکالنے کی فہرست تیار کرلیترجمان پاکستان اسٹیل ملز محمد افضل کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی ملازمت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہےبیان میں بتایا گیا ہے کہ گروپ اور جے او سیز ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہےمزید پڑھیں اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کیلئے 19 ارب روپے سے زائد کی ضمنی گرانٹ منظورپاکستان اسٹیل ملز کی ملازمت سے برطرفی کی زد میں نے والے شعبوں میں اساتذہ لیکچرارز اسکولوں اور کالجوں کا غیر تدریسی عملہ ڈرائیورز فائرمین پریٹرز صحت عامہ اور سیکورٹی اسٹاف چوکیدار مالی پیرا میڈیکل اسٹاف باورچی فس اسٹاف فنانس ڈائریکٹوریٹ کا عملہ اے اینڈ پی ڈائریکٹوریٹ اور اے اینڈ پی ڈپارٹمنٹ شامل ہےترجمان نے اپنے بیان میں گاہ کیا کہ ڈی سی ایز ایس ای ڈی جی ایم اور مینیجرز کو بھی فارغ کردیا گیا ہےانہوں نے بتایا کہ برطرف کیے گئے تمام ملازمین کو بذریعہ ڈاک خطوط بھیج دیے گئے ہیںخیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد میں کمی کا عمل شروع کرنے کے لیے 19 ارب 65 کروڑ 60 لاکھ روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی منظوری دے دی گئی تھیاس سے قبل جون میں وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو برطرف کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن اس معاملے پر شدید احتجاج کیا گیا تھاپاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے کابینہ نے کہا تھا کہ سالہا سال سے غیر فعال ادارے کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی مفاد میں اصلاحاتی ایجنڈے کو مزید گے بڑھایا جائےیہ بھی پڑھیں وفاقی کابینہ نے اسٹیل ملز ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کی توثیق کردیای سی سی نے جون کو پاکستان اسٹیل ملز کے ہزار 350 ملازمین 100فیصد کو برطرف کرنے کی منظوری دی تھیمشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ حالیہ فیصلے کے نتیجے میں حکومت اسٹیل ملز کے 100 فیصد ملازمین کو فارغ کردے گی جن کی تعداد ہزار 350 ہے کل تعداد میں سے صرف 250 ملازمین کو اس منصوبے پر عمل درامد اور ضروری کام کی انجام دہی کی خاطر 120 روز کے لیے برقرار رکھا جائے گاای سی سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد تمام ملازمین کو برطرفی کے نوٹس جاری کردیے جائیں گےکابینہ میں کہا گیا تھا کہ اس منصوبے کا مالیاتی اثر 19 ارب 65 کروڑ 70 لاکھ روپے کے برابر ہوگا جو گریجویٹی اور پراوڈنٹ فنڈز کی ادائیگی کے لیے یکمشت جاری کیے جائیں گےپاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین نے برطرفی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھاعدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ 15 اپریل کو ہیومن ریسورس بورڈ کے اجلاس میں ہوارپورٹ میں اقرار کیا گیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ہزار 884 میں سے ہزار 784 ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا تھااسٹیل ملز انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں بتایا تھا کہ صرف ایک ہزار ملازمین کی گنجائش ہےمزید پڑھیں اسٹیل ملز سے ملازمین کو نکالنے کا معاملہ عدالت عظمی نے کیس کی سماعت جون مقرر کردیعلاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موجودہ اور سابق ملازمین کو 40 ارب کی ادائیگیاں واجب الادا ہیں جبکہ سال 2009 سے 2015 تک بھاری نقصان پر اسٹیل ملز کو بند کرنا پڑااسٹیل ملز میں ملازمین کی تعداد سے متعلق بتایا گیا تھا کہ 1990 اور 2019 میں ملازمین کی تعداد بالترتیب 27 ہزار اور ہزار 350 تھیرپورٹ کے مطابق 2015 سے بند اسٹیل ملز کے ملازمین کو 30 ارب کی ادائیگیاں ہوچکی ہیں جبکہ وفاقی حکومت بیل پیکجز اور تنخواہوں کی مد میں اب تک 92 ارب روپے ادا کر چکی ہےسپریم کورٹ کو پیش کردہ رپورٹ میں اقرار کیا گیا تھا کہ اسٹیل ملز کے مختلف منصوبوں کی مد میں قومی خزانے کو 229 ارب کا نقصان پہنچا |
اسلام باد گیس کے شارٹ فالز کا سامنا کرنے کے باوجود سوئی نادرن کیس پائپ لائنز لمیٹڈ ایس این جی پی ایل نے گیس کے نرخوں میں 123 فیصد لاکھ نئے گھریلو کنیکشنز اور میٹر رینٹ میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے جس کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سمیت اسٹیک ہولڈرز نے سختی سے مخالفت کیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کے قائم مقام چیئرمین نورالحق کی صدارت میں ہونے والی عوامی سماعت میں اسٹیک ہولڈرز نے مقف اختیار کیا کہ جب گیس کمپنی موجودہ صارفین کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے ایسے میں نیٹ ورک میں توسیع کا کوئی جواز نہیںان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی درخواست اس لیے دی گئی کیوں کہ کمپنی کا کاروباری ماڈل اثاثوں پر ملنے والے 1743 فیصد ریٹرنز پر بنیاد کرتا ہے اور مستقبل کے صارفین کے لیے نظام کی توسیع کی لاگت موجودہ صارفین کے گیس کی قیمتوں سے کی حاصل کی جاتی ہے جنہیں گیس کی قلت اور کم پریشر کا سامنا ہےیہ بھی پڑھیں صنعتوں نے گیس کی قیمت میں اضافے کی درخواست مسترد کردیپلاننگ کمیشن انرجی کے سابق رکن شاہد ستار نے پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرتے ہوئے اس بات پر حریت کا اظہار کیا کہ جب ان کے پاس موجودہ صارفین کے لیے گیس موجود نہیں ہے تو وہ پائپ لائنز کے نیٹ ورک میں کیوں توسیع کررہے ہیںانہوں نے کہا کہ یہ اس وقت مزید غیر منطقی ہوجاتا ہے جب گیس کمپنی کو رواں مالی سال میں اوگرا نے لاکھ نئے کنیکشنز کی منظوری دی تھی جو ابھی لگے بھی نہیں اور اب وہ مزید کنیکشنز کی اجازت مانگ رہے ہیںان کا کہنا تھا کہ کمپنی مزید کنیکشنز چاہتی ہے جس کا مطلب گیس کی طلب کافی زیادہ ہے اور کمپنی کو فراہمی بہتر بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر وہ اپنے اعداد شمار اور اس کے نتیجے میں گیس کی اصل کھپت تبدیل کرتی رہے گیمزید پڑھیں ایس این جی پی ایل کو گیس صارفین سے 115 ارب روپے وصول کرنے کی اجازتدوسری جانب پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے کہا کہ گیس کی قیمتوں پر عوامی سماعت سوالیہ نشان بن چکی ہے کیوں کہ جب بھی کمپنی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست کرتی ہے ریگولیٹر کچھ کمی کے بعد اس کی اجازت دے دیتا ہےانہوں نے کہا کہ درمدی ایل این جی کو گھریلو سیکٹر میں جلانا نا انصافی ہےایس این جی پی ایل نے ماہانہ میٹر رینٹ میں بھی 100 فیصد بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ پہلے ہی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ میٹر رینٹ کو 20 روپے کے بجائے 40 روپے ماہانہ ہونا چاہیے |
فلائی دبئی نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم ہونے کے بعد پروازوں کا سلسلہ باقاعدہ شروع کر دیا اور پہلی پرواز دبئی سے تل ابیب اور وہاں سے واپس دبئی گئیخبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق فلائی دبئی کی پہلی پرواز دبئی سے تل ابیب پہنچی تو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی وہاں موجود تھےمزید پڑھیں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاقبینجمن نیتن یاہو نے دبئی سے گھنٹوں بعد تل ابیب پہنچنے والی فلائی دبئی کی پہلی پرواز کے بارے میں کہا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہےانہوں نے مسافروں سے کہا کہ السلام علیکم بار بار یہاں ئیںفلائی دبئی کی پرواز بعد ازاں تل ابیب سے براہ راست پہلی مرتبہ دبئی پہنچ گئی یہ پرواز دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال ہونے کے بعد پہلی شیڈولڈ کمرشل پرواز تھی دبئی میں موجود امیگریشن کے ایک افسر نے اسرائیل سے نے والے مسافروں کو دبئی میں خوش مدید کہا مسافر دبئی شہر میں داخل ہوئے اور ان میں بعض ہاتھ ہلا کر امن کا نشان بنا رہے تھےمتحدہ عرب امارات کے امیر شیخ خلیفہ بن زاید النیہان نے ٹوئٹر پر اپنے تازہ بیان میں اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ اس سے مشرق وسطی میں امن اور ترقی تیز ہوگیمتحدہ عرب امارات اور اسرائیل کو تعلقات کے بعد کورونا سے متاثر ہونے والی معیشت میں بہتری کی توقعات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سیاحوں کا بھی تبادلہ ہوگایہ بھی پڑھیں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی امن معاہدہفلائی دبئی کے چیف ایگزیکٹو غیث الغیث نے پروازوں کے غاز کے اعلان کے وقت اپنے بیان میں کہا تھا کہ شیڈولڈ پروازوں کے غاز سے معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کے لیے مزید مواقع پیدا ہوں گےرپورٹ کے مطابق فلائی دبئی کی اسرائیل کے لیے ہفتے میں دو پروازیں ہوں گی جبکہ اگلے ہفتے سے اسرائیل کی ایئرلائنز کی کمرشل پروازیں بھی متوقع ہیںابوظہبی کی ایئرلائن اتحاد ایئرویز نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارچ 2021 سے تل ابیب کے لیے پروازیں شروع کرے گیاسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے جبکہ حکومتی سطح پر بینکنگ کاروباری معاہدوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طویل مدت سے جاری بائیکاٹ کو ختم کریں گےبعدازاں قریبی ملک بحرین نے بھی 15 ستمبر کو وائٹ ہاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یو اے ای کے ساتھ مل کر معاہدے پر دستخط کیے تھےمتحدہ عرب امارات اور بحرین وہ تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ مصر اور اردن بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیںایک اسرائیلی وفد گزشتہ روز معاہدے کو باضابطہ شکل دینے کے لیے بحرین روانہ ہوا تھامزید پڑھیں او ائی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطی کا امن منصوبہ مسترد کردیاخیال رہے کہ نام نہاد ابراہام معاہدہ جو اب اسرائیل اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان طویل عرصے سے خفیہ تعلقات کو سامنے لے یا ہے جس کی بنیاد حالیہ سالوں میں خطے میں موجود مشترکہ حریف ایران کے حوالے سے تشویش پر رکھی گئی تھیامریکا کے توسط سے ہونے والے ان معاہدوں پر فلسطینی غم غصے کا اظہار کرچکے ہیں جن کے رہنما ان معاہدوں کو عرب کے دیرینہ مقف کے برخلاف قرار دیتے ہیں اور جن کے مطابق اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک فلسطینی اپنی ایک زاد ریاست حاصل نہ کر لیںبعد ازاں 20 اکتوبر کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے دوطرفہ ویزا فری سفر کے معاہدے پر اتفاق کرلیا تھااس پیش رفت کے بعد اب اماراتی عرب دنیا میں پہلے شہری ہوں گے جنہیں اسرائیل میں داخل ہونے کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگیدونوں ریاستوں نے معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ایک شہریوں کو ویزا سے استثنی دینے سے متعلق ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ لوگوں کی زادانہ نقل حرکت سے اسرائیلی اور اماراتی معیشتوں کو فائدہ پہنچے گا |
اسلام باد کورونا وبا کے خاتمے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اعتماد کے باوجود اقوام متحدہ کی تجارت ترقی سے متعلق کانفرنس یو این سی ٹی اے ڈی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین معاشی نقصان روک نہیں سکے گاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ کے مطابق وبا کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیںیو این سی ٹی اے ڈی کی امپیکٹ کووڈ19پینڈیمک ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران کووڈ19 کی وبا سے بین الاقوامی معیشت میں 43 فیصد سکڑا متوقع ہےمزید پڑھیں یوٹیوب نے کورونا وائرس کے علاج سے متعلق ویڈیو پر امریکی چینل کو معطل کردیا عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر کے مزید 13 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیںرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فی الفور پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ایجنڈا 2030 بری طرح متاثر ہو سکتا ہےتجارتی بحالی اور وبا کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے تجارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہےیو این سی ٹی اے ڈی نے بین الاقوامی برادری کو خبر دار کیا ہے کہ کووڈ 19 کے معاشی نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کیے جائیں تاکہ کروڑوں انسانوں کو غربت سے بچانے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس کی وہ پیچیدگی جو موت کا خطرہ بڑھائے رپورٹ میں یو این سی ٹی اے ڈی نے عالمی معیشت کے تمام شعبوں پر وائرس کے گہرے اثرات کا پتا لگایا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اس بحران نے عالمی تجارت سرمایہ کاری پیداوار روزگار اور بالخر انفرادی معاش پر بھی کیا اثر ڈالا ہےاس رپورٹ میں بتایا گیا کہ وبائی مرض کا اثر غیر متزلزل اور سب سے زیادہ کمزور ممالک پر اثر انداز ہوا ہے جو کم مدنی والے خاندانوں تارکین وطن غیر رسمی کارکنوں اور خواتین کو متاثر کرتی ہے1998 کے ایشیائی مالی بحران کے بعد پہلی بار عالمی غربت عروج پر ہے1990 میں عالمی غربت کی شرح 359 فیصد تھی 2018 تک اس کو 86 فیصد تک محدود کردیا گیا تھا تاہم رواں سال پہلے ہی یہ 88 فیصد تک پہنچ چکا تھا اور امکان ہے کہ یہ 2021 میں بڑھ جائے گا |
اسلام باد وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے عالمی اقتصادی فورم کو گاہ کیا کہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے مالی اور کرنٹ اکانٹ خسارے میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ویڈیو لنک کے ذریعے عالمی اقتصادی فورم کے کنٹری اسٹریٹیجی ڈائیلاگ کے اجلاس کے دوسرے حصے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس بنیادی بیلنس سرپلس ہے جس کی مثال نہیں ملتیمزید پڑھیں وزیراعظم کی ورلڈ اکنامک فورم کے پروگرام میں کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں شیڈول مشیر خزانہ نے ریمارکس دیے کہ کووڈ19 سے پہلے تمام بنیادی معاشی اشاریے نمایاں بہتری کی عکاسی کررہے تھےانہوں نے فورم کو بریفنگ میں کہا کہ موجودہ حکومت کو 2018 میں ایک انتہائی غیر یقینی معاشی صورتحال ورثے میں ملی ہے لہذا ضرورت سے زیادہ سرکاری اخراجات کو کم کرنے محصولات کی وصولی میں اضافے مارکیٹ سے چلنے والے تبادلے کی شرح کو متعارف کرانے ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ کو ختم کرنے اور درمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے موجودہ مالی حکومت کو سخت مالی نظم ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑاان کا کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان میں مالی اور کرنٹ اکانٹ خسارے میں نمایاں بہتری دیکھنے میں ئی انہوں نے مزید کہا کہ تمام بنیادی معاشی اشارے کووڈ19 سے پہلے نمایاں بہتری کی عکاسی کر رہے تھےان کا کہنا تھا کہ کووڈ19 کے دوران حکومت نے اسمارٹ لاک ڈان متعارف کرایا تاکہ معاشی نظام متحرک رکھنے کے ساتھ ساتھ بیماری کے پھیلا کو بھی روکا جا سکےیہ بھی پڑھیں حکومت سال میں بجلی کے اخراجات میں 300 ارب روپے بچالے گی اسد عمر انہوں نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈان نے بہت سے کاروبار کو منفی معاشی اثر کو کم کرنے اور معاشرے کے کمزور طبقے کے افراد کے لیے محدود پیمانے پر دوبارہ کاروبار کو کھولنے یا جاری رکھنے کی اجازت دیکمزور خصوصا روزانہ کی بنیاد پر کمانے والوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو نقد رقم کی ادائیگی کیحفیظ شیخ نے واضح کیا کہ کووڈ19 کے پھیلا کے بعد سے حکومت نے معاشی بحالی میں تیزی لانے کے لیے زراعت اور تعمیراتی شعبوں میں سہولت کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیںچھوٹے درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے امدادی پیکیج نے لوگوں کو بے روزگاری سے محفوظ رکھا حالیہ اعداد شمار بحالی کے طرز عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے معیشت کی مضبوطی اور توسیع کو پورا کرتے ہیںکووڈ19 کے باوجود پاکستان نے غیر ملکی ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھا ہے جو پاکستان کی معیشت پر اعتماد کی واضح عکاسی کرتا ہےمزید پڑھیں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے عوام مایوسانہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت ترقی کے محرک کے طور پر نجی شعبے کی مضبوطی سے حمایت کرتی ہے اور پائیدار اور جامع معاشی نمو کے لیے ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھانے پر یقین رکھتی ہےانہوں نے کہا کہ ہم نے لبرل غیر ملکی سرمایہ کاری کے نظام کی پیروی کی ہے اور ملک میں کاروبار میں سانی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات متعارف کروائے ہیں انہوں نے کہا کہ موجودہ قیادت غیر ملکی سرمایہ کاروں کا خیرمقدم کرتی ہے اور شفافیت احتساب اور کشادگی پر یقین رکھتی ہےانہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ایجنڈا لوگوں کو بااختیار بنانا ہے جو انسانی وسائل کی ترقی پر کلیدی توجہ دے |
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ ایل این جی کے مسئلے پر ایک چینل کے صحافی دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہےشبلی فراز نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس کا اغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کے معاملے پر میڈیا میں بہت پروگرام ہو رہے ہیں لہذا ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حوالے سے کی وساطت سے عوام کو گاہ کریں کہ حکومت کیا کر رہی ہے کیونکہ بحیثیت جمہوری حکومت ہم جوابدہ ہیںمزید پڑھیں اوگرا کی غلطی سے ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گااس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ پچھلے تین چار ہفتے میں ایل این جی پر بہت سارے پروگرام کیے گئے ہیں عمر ایوب صاحب بھی گئے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جواب دینے کے باوجود بار بار دہرائی جا رہی ہیںان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں میں دانستہ طور پر ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے خصوصا ایک چینل پر ایک اینکر جواب ملنے کے باوجود محض ایک سلیکٹڈ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک ہی چیز کو بار بار دہراتے ہیں اور تصویر کشی کی کوشش کرتے ہیں وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ وہ ایک اچھے صحافی ہیں لیکن دانستہ یا غیردانستہ سلیکٹڈ ڈیٹا لے کر ایک تاثر دے رہے ہیں اور ایک تاثر کے لیے لہ کار بن رہے ہیں ایک اچھا صحافی اگر چیزوں کا معروضی تجزیہ نہ کرے تو اس کی اہمیت کم ہوتی جائے گییہ بھی پڑھیں پلانٹس کو پی ایس او ایس این جی پی ایل سے ایل این جی کی خریداری سے چھٹکارا مل گیاندیم بابر نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی حکومت میں جب پاکستان میں ایل این جی متعارف کرائی گئی تو اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت گیس کے بجائے پیٹرولیم پراڈکٹ قرار دے دیا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اوگرا گیس کی قیمت کا تعین کرتا ہے تو وہ ایل این جی کو اس کو شامل نہیں کر سکتاان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایل این جی لے کر تے ہیں جو مقامی گیس سے مہنگی ہے تو جب تک ہم اس ایل این جی کی قیمت وصول نہ کر پائیں اور ایسے خریدار جو پوری قیمت دینے کو تیار ہوں ہمارے پاس موجود نہ ہوں اس وقت تک ہم انہیں ایل این جی نہیں بیچ سکتےمعاون خصوصی نے کہا کہ اس وقت ایل این جی کی قیمت 1100 روپے فی ملین بی بی ٹی یو بنتی ہے لیکن یہی اگر مقامی گیس ہو تو اس کی اوسط قیمت اس سے دھی ہے لہذا پچھلی حکومت نے جو قانون بنایا اس کا ایک خاص مطلب ہے جو ہمارے اینکر صاحبان خصوصا جن کا میں ذکر کر رہا تھا وہ اس چیز کو جانتے بوجھتے نظرانداز کررہے ہیںانہوں نے کہا کہ وہ اینکر اس ایل این جی کو گاجر مولی سمجھ رہے ہیں کہ میں جا کر بازار سے لے اور پرسوں میں کسی کو بیچ دوں گا جو خریدار دگنی قیمت دینے کو تیار ہیں میں اسی کو بیچ سکتا ہوں میں اگر ایل این جی فالتو لے اور لوگ وہ قیمت دینے کو تیار نہ ہوں تو کیا میں اس ایل این جی کو ہوا میں چھوڑوںمزید پڑھیں اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار ائل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیاان کا کہنا تھا کہ ایل این جی کا اک کارگو ڈھائی کروڑ ڈالر کا ہے اگر میرے پاس ایل این جی کے خریداروں کے کنفرم رڈر نہیں ہیں تو میں ایل این جی لا کر کروں گا کیاندیم بابر نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے 800 ملین کیوبک فٹ لانگ ٹرم کنٹریکٹ پر لی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے ایل این جی لینی ہے تو جب میں پہلے 800 بیچ نہیں لوں گا میں اگر کوئی اور خریدتا ہوں جو اس 800 سے اوپر ہے تو میں پھر اس مخمصے میں ہوں کہ میں اس فالتو ایل این جی کا کیا کروںان کا کہنا تھا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب سے یہ حکومت ئی ہے ستمبر 2018 سے اس مہینے کے خر تک ان 27 مہینوں میں 35 کارگو ہم نے منگوائے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان 27 مہینوں میں سے مہینے ایسے تھے کہ جب ہماری ایل این جی کی مجموعی فروخت 800 یا اس سے تھوڑی کم تھی اگر میں فالتو ایل این جی لے تو میں ان ایک تہائی مہینوں میں کیا کروں گاانہوں نے سوال کیا کہ کیا میں 1100 کی منگوا کر ڈیڑھ سو کی بیچوں میں کیا کروں اس کا گردشی قرضے پیدا کروں ان دو چیزوں کے بعد پچھلی حکومت نے قانونا میرے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا ان دو چیزوں کو تناظر میں رکھیں اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ نے نئے معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کیے قیمتیں تو بہت گر گئی تھیں پچھلی حکومت کو مہنگی ایل این جی لانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو نے کیا کیایہ بھی پڑھیں برمدی شبعوں کیلئے بجلی گیس کی سبسڈی منظوران کا کہنا تھا کہ میں کو بتا دیتا ہوں کہ ہم نے کیا کیا ہے یہ 35 کارگو جو ستمبر 2018 سے لے کر نومبر 2020 تک ہم لے کر ئے ان کی اوسط قیمت 104فیصد برینٹ ہے اب اس کا خود موازنہ کر لیں کہ جو ہم طویل المدتی معاہدے کے تحت ہم خرید رہے ہیں قطر کا معاہدہ 1337فیصد پر ہے یہ حقائق ہیں تیز بولنے یا ڈھیر سارے نمبر جلدی سے کہہ دینے سے حقیقت نہیں بدلتی کنفیوژن تو پیدا ہو سکتی ہے شاید ایک تاثر بھی پیدا ہو جائے کچھ لوگ شاید اس پر یقین بھی کرنا شروع کردیں لیکن حقائق نہیں بدلتےان کا کہنا تھا کہ پھر یہ سوال اٹھایا گیا کہ نے دسمبر میں بہت مہنگے کارگو لے لیے ابھی دسمبر شروع نہیں ہوا اور اگر میں اسے شامل بھی کر لوں تو نمبر 113فیصد جاتا ہے میں پھر بھی ان معاہدوں سے 20 فیصد سستا ہوںمعاون خصوصی نے کہا کہ ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر گرمیوں میں ایل این جی اتنی سستی تھی تو نے ڈھیر ساری کیوں نہیں خرید لی تو اس کا سان جواب ہے کہ جب گرمیوں میں قیمت برینٹ کا 10فیصد چل رہی تھی تو یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ بیچنے والے احمق ہیں کہ ان کو یہ معلوم نہیں کہ سردیوں میں قیمت بڑھ جاتی ہے یا ہم اتنے ناسمجھ ہیںان کا کہنا تھا کہ پچھلے 10سال کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں ٹرینڈ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ سال کے کچھ مہینوں میں قیمت کم ہوتی ہے اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے یہ ایک قدرتی امر ہے لہذا یہ تاثر درست نہیں ہےمزید پڑھیں ایل این جی ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعیل پر فرد جرم عائدندیم بابر نے کہا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے تو دو ٹرمینل لگا دیے اس حکومت نے ابھی تک کوئی ٹرمینل نہیں لگایا تو کیوں نہیں لگایا جو دو ٹرمینل لگے ہوئے ہیں ان کی 100فیصد استعداد کی حکومت نے گارنٹی دی ہوئی ہے اور روزانہ کے لاکھ ڈالر استعداد کی مد میں مختص رقم دینی پڑتی ہے چاہے وہ چلے یا نہ چلے یعنی سال کے 17 کروڑ ڈالر دینے پڑتے ہیں پھر چاہے وہ جتنا بھی چلیں اور ٹرمینل پورا سال فل نہیں چلتے لہذا اگر ٹرمینل فل نہیں چلتے کہ حکومت دو تین اور ٹرمینل اسی طرز پر لگا دے اس کا مطلب ہم حکومت پر مزید معاشی بوجھ بڑھا دیں گےانہوں نے مزید بتایا کہ اس حکومت نے نجی شعبے کو کہا کہ جو ٹرمینل لگانا چاہتا ہے وہ لگائے حکومت ان سے اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرے گی حکومت اس کو ترسیل کی صلاحیت فراہم کرے گی تاکہ وہ خود اپنی ایل این جی لائیں اور خود بیچیںان کا کہنا تھا کہ اس طرز پر دو کمپنیاں بالکل اسٹیج پر پہنچ چکی ہیں ایک کمپنی نے کہا ہے کہ وہ جنوری میں تعمیرات شروع کررہے ہیں اور دوسری اس سے چند ماہ بعد شروع کردے گیوزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ اس حکومت نے کہا کہ ہم ٹرمینل مزید لگوانا چاہتے ہیں ہم بطور حکومت یہ رسک نہیں لیں گے کہ روزانہ لاکھ ڈالر دیتے رہیں اور وہ کتنا استعمال ہو رہا ہے اس کا رسک بھی ہم اٹھائیںیہ بھی پڑھیں ئی پی پیز پر رپورٹ کے اجرا کے بعد ایل این جی پاور پلانٹس کے خریداروں کا بولی لگانے سے انکارانہوں نے کہا کہ ایک اور سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کراچی الیکٹرک کو گرمیوں میں تیل نہیں ملا یا اس کو ایل این جی دے دی گئی یہ کیوں ہوا سب لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی الیکٹرک کا کئی سالوں سے اور اس حکومت سے پہلے سے مسئلہ چل رہا ہے ان کے بجلی اور گیس کے کنٹریکٹ بہت عرصے سے ایکسپائر ہو چکے ہیں اور کراچی کو بھی ہر ممکن حد تک سپورٹ دے رہے ہیں کیونکہ یہاں کے باسی بھی پاکستان کے شہری ہیںان کا کہنا تھا کہ جب گرمیوں میں انہیں ایندھن کی کمی ہوئی تو ہم نے انہیں ایل این جی بھی دی حالانکہ ہمارا ان سے ایل این جی کا کوئی معاہدہ نہیں تھا پھر یہ کہا جاتا کہ ان کو تیل نہیں دیا گیا تو حکومت کی ان کو تیل دینے کی کوئی ذمے داری نہیں ہے وہ کسی کے ذریعے بھی تیل لے سکتے ہیں حکومت سے انہوں نے کبھی بھی تیل نہیں لیاندیم بابر نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سال فیول ئل پر ایف او پر جنریشن کیوں کی گئی تو دراصل دو سال پہلے بجلی کی کل پیداوار کا 21 فیصد ایف او پر تھا اس سال 11 مہینے ہو گئے ہیں کل پیداوار کا 39 فیصد فرنس ئل پر ہے اور اب اسے صرف ایمرجنسی اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے جب بات کی جاتی ہے تو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہم فرنس ئل کا استعمال 21 فیصد سے کم کرکے 39 فیصد پر لائےان کا کہنا تھا کہ پچھلے ہفتے ہم نے روس سے مفاہمتی یادداشت کو ازسرنو مرتب کرتے ہوئے دستخط کیے ہیں تاکہ نارتھ ساتھ پائپ لائن بنا سکیں ہم نے اس پائپ لائن کا حجم بھی بڑھا دیا ہے اور اب یہ 16 بی سی ایف گیس لے کر چلے گا ہمیں امید ہے کہ فروری مارچ میں اس پر کام شروع کردیں گےمزید پڑھیں سی این جی اسٹیشنز کو جلد نئے لائسنس جاری کیے جائیں گے معاون خصوصی نے دعوی کیا کہ اگلے دو تین سالوں میں ہم پائپ لائن کے شعبے میں اہم اصلاحات لا رہے ہیں اور کابینہ نے پیٹرولیم ڈویژن کو یہی ہدایت دی ہے کہ ایک مکمل اصلاحات پروگرام لے کر ئیںحکومتی اراکین نے ئندہ نے والے سالوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا عندیہ بھی دیاایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اگلے مہینے گردشی قرضہ صفر نہیں ہو گا کیونکہ ئی ایم ایف کے ساتھ جس منصوبے پر بات ہوئی تھی اس کے تحت جنوری سے ٹیرف بڑھنا تھا لیکن اس وقت مہنگائی زیادہ تھی اور پھر کووڈ گیا تو وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ ٹیرف نہ بڑھایا جائے اور جو ٹیرف نہیں بڑھایا گیا اس کی مالیت 270 ارب روپے بنتی ہےگردشی قرضوں کے حوالے سے شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں جو ہم نے مہنگے معاہدے کیے اس کے گرداب سے ہم باہر نہیں نکل پائے کیونکہ ان معاہدوں پر یکطرفہ طور پر کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جا سکتیان کا کہنا تھا کہ جو معاہدے کیے گئے اگر ان میں ٹیرف کا تعین صحیح وقت پر ہو جاتا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی وقت ہو جاتا تو گردشی قرضہ اتنا زیادہ نہ تا ماضی کی حکومتوں میں سیاسی فائدے کے لیے ٹیرف نہیں بڑھایا گیاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر دسمبر تک بھی گردشی قرضہ صفر رہتا ہے تو حکومت کو اس کے اثرعات صارفین کو منتقل کرنا پڑیں گے جہاں جنوری میں وزیر اعظم نے بڑھتی مہنگائی اور پھر کورونا کی وجہ سے ٹیرف میں اضافے سے روک دیا تھاشبلی فراز نے کہا کہ عوام نے بجلی گیس کے نرخ نہ بڑھنے سے فائدہ اٹھایا جہاں اس کے برعکس مسلم لیگن نے سیاسی فوائد کے حصول کے لیے نرخ نہیں بڑھائے تھے جس سے ریگولیترز کے مطالبے کے باوجود 170ارب روپے کی قیمت کا اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ گیس کے شعبے میں 192ارب کے گردشی قرضے چھوڑ دیے گئےانہوں نے کہا کہ سیاسی حکومتوں کے لیے یوٹیلٹی نرخوں میں اضافہ کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے اور حکومت بھی اسی مخمصے کا شکار ہےان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے مہنگے معاہدوں کی وجہ سے جو بجلی کا دلدل چھوڑا ہے موجودہ حکومت اس کے گرداب سے نکل نہیں پا رہیندیم بابر نے کہا کہ عوام سے پیسوں کی مکمل ریکوری کی وصولی کی ایک وجہ غیرموثر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی وجہ سے پڑنے والا دبا ہےانہوں نے کہا کہ اگر ہم ہر چیز اک طرف کردیں تو غیرموثر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی وجہ سے گردشی قرضوں کی مد میں ہر مہینے سے 14ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے |
کراچی ہول سیل قیمتیں 2800 روپے فی من سے 12 سے 13 سو روپے فی من ہونے کے باوجود پیاز کی ریٹیل قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برامدکنندگان کی جانب سے پیاز کی بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور قبل از وقت پیاز کی شمپنٹ کے لیے نومبر سے 15 روز کے لیے خود ساختہ پابندی لگائی گئی تھی تاہم اس کے باوجود ریٹیلرز سندھ کی نئی فصل کے لیے سائز اور کوالٹی کے حساب سے فی کلو پیاز کے 60 سے 80 روپے وصول کررہے ہیںل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن پی ایف وی اے کے سرپرست اعلی وحید احمد کا کہنا تھا کہ ایکسپورٹرز نے سندھ سے پیاز کی مکمل فصل پہنچنے کے بعد وہ 27 نومبر سے اس کی برمدات کا غاز کرنے اور ہول سیل قیمت میں 50 فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہےیہ بھی پڑھیں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے عوام مایوسان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کے اس فیصلے سے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اگاہ کردیا ہےوحید احمد نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایک اضافی مہینے کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں پیاز برامد کرنے کا موقع موجود ہے جس میں برامد کنندگان سرپلس حجم کو برامد کرکے فائدہ حاصل کریں گے اور ملک کے لیے قابل قدر غیرملکی زرمبادلہ جمع کریں گےمزید پڑھیں درمدات کے باوجود ٹماٹر پیاز کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیںان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ بعد بھارتی پیاز بھی بین الاقوامی مارکیٹ موجود ہوگی جو پاکستانی پیاز کی برمد کے مواقع کو محدود کردے گیوحید احمد نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مقامی کاشتکاروں کے وسیع مفاد میں ایران سے پیاز اور الو کی درمد پر پابندی عائد کرےیہ خبر 25 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی |
اسلام باد نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے غیر سنجیدہ رویے پر سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں ڈسکو کے بنیادی ٹیرف میں بجلی کے نرخوں میں 86 پیسہ فی یونٹ اضافے کی عوامی سماعت معطل کردی ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عوامی سماعت نیپرا چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں پنجاب اور سندھ کے اراکین نے شرکت کی سماعت میں مرکزی پاور خریداری ایجنسی سی پی پی اے اور اسلام باد الیکٹرک سپلائی کمپنی ئیسکو کے ایگزیکٹو کے علاوہ تمام ڈسکو کے سربراہان کی عدم موجودگی اور عدم دستیابی پر شدید برہمی کا اظہار کیا گیا تاہم ئیسکو عہدیدار ان چند اخراجات کو درست ثابت کرنے میں ناکام رہے جس کا انہوں نے محصولات میں مطالبہ کیا تھامزید پڑھیں بجلی کی قیمت میں 50 پیسے فی یونٹ اضافے کی تیاری سی پی پی اے نے اصل میں گزشتہ مالی سال 202019 کی چوتھی سہ ماہی اپریل تا جون 2020 کے لیے بجلی کی خریداری کی قیمت میں تغیر کی وجہ سے تمام ڈسکو کے لیے یکساں نرخوں میں 80 پیسے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ صارفین سے 827 ارب روپے وصول کیے جا سکیں تاہم عوامی سماعت کو بتایا گیا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی لیسکو نے اپنی مانگ 16 ارب روپے سے بڑھا کر 19 ارب روپے کردی ہے لہذا تقریبا 83 ارب روپے کی وصول کے لیے 86 پیسہ فی یونٹ ٹیرف میں اضافے کی ضرورت ہےجب نیپرا کے چیئرمین اور اراکین سے پوچھا گیا کہ سہ ماہی بجلی کی خریداری کی قیمت پی پی پی کے لیے نظرثانی شدہ تخمینے میں اضافہ کیوں ہوا تو لیسکو کے نمائندوں نے بتایا کہ یہ قومی ترسیل اور ترسیل کمپنی این ٹی ڈی سی کی طرف سے موصول شدہ نظر ثانی شدہ رسیدوں کی وجہ سے ہے لیسکو کی ٹیم نظر ثانی شدہ تخمینے کے لیے لیسکو کے اپنے اندازے سے متعلق سوالات کے جوابات کا صحیح طور پر جواب نہیں دے سکیاسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی جب ریگولیٹر نے سکھر الیکٹرک پاور کمپنی سیپکو کے ذریعے غیر معمولی طور پر زیادہ متغیر پریشن اینڈ مینٹیننس او اینڈ ایم لاگت کی مد میں 82 کروڑ 60 لاکھ روپے طلب کرنے کے حوالے سے وجہ دریافت کی کیونکہ اس کے مقابلے میں دیگر ڈسکوز نے 27 کروڑ 60 لاکھ روپے کا دعوی کیا سیپکو کے نمائندے بھی اس وجہ کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے اور بتایا کہ یہ دعوے سی پی پی اے این ٹی ڈی سی کی رسیدوں پر مبنی ہیںیہ بھی پڑھیں نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ محفوظ کرلیائیسکو کے چیف ایگزیکٹو شاہد اقبال جو ورچوئل طریقے سے سماعت میں شریک تھے وہ بھی اس صلاحیت کی خریداری کے حساب سے کمپنی کے ترمیم شدہ اخراجات کی وجوہات کا جواز پیش نہ کر سکے جو 12 ارب روپے کی اصل مانگ سے ارب روپے بڑھ گئی انہوں نے بتایا کہ اگست 2020 میں این ٹی ڈی سی کی طرف سے دعوی کی گئی اعلی ترسیلات پر مبنی یہ اضافہ ہوا ہے جب اس پر ایک سوال کیا گیا تو شاہد اقبال نے کہا کہ انوائس پر ئیسکو نے اعتراض کیا تھاحیران کن طور پر نیپرا کے چیئرمین اور اراکین نے یاد دلایا کہ محصولات میں اضافے کے لیے زیر غور پٹیشن گزشتہ مالی سال کے اپریل سے جون کے عرصے تک ہے جبکہ ایک چیف ایگزیکٹو رواں مالی سال کی اگست میں زیادہ کھپت کی وجہ سے اس کا جواز پیش کررہے ہیں توصیف فاروقی نے کہا کہ سی پی پی اے کو یہ جواز دینا ہوگا کہ ایک سہ ماہی کے اندر اندر صلاحیتوں کے چارجز میں 58 فیصد کا اضافہ کیوں ہوا ہے اور تب تک ریگولیٹر نرخوں میں اضافے کی اجازت نہیں دے سکتاتوصیف فاروقی اور اراکین کو تقریبا تمام ڈسکوز کی جانب سے ناکافی ردعمل پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا انہوں نے حکم دیا کہ سی پی پی اے سے کوئی شخص اس کی وضاحت کرے لیکن کوئی بھی دستیاب نہیں تھا بار بار کی جانے والی کوششوں کے بعد سی پی پی اے کے نمائندے کو فون پر لیا گیا تاکہ وہ نظر ثانی شدہ دعوں کی وجوہات کی وضاحت کرسکیں انہوں نے وضاحت کی کہ نظرثانی شدہ تخمینے زادانہ بجلی پروڈیوسرز ئی پی پی سے موصول انوائس پر مبنی تھے اور اعداد شمار سی پی پی اے کے پاس موجود ہیں جو بعد میں ریگولیٹر کو بھیجے جاسکتے ہیںمزید پڑھیں ڈسکوز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 48 پیسے فی یونٹ کا اضافہنیپرا کی ٹیم نے خواہش ظاہر کی کہ سی پی پی اے کے سربراہ ریحان اختر خود لائن ئیں تاکہ وہ نے والے سوالات کی وضاحت کریں اور ان کا جواب دیں لیکن بتایا گیا کہ وہ میٹنگ کے لیے پاور ڈویژن گئے ہیںاس پر توصیف فاروقی نے کہا کہ پھر جاکر پاور ڈویژن سے ٹیرف میں اضافے کا دعوی کریں ہم صرف پاور کمپنیوں کے مطالبے پر چیک پر دستخط نہیں کرسکتے وائس چیئرمین نیپرا سیف اللہ چٹھہ نے کہا کہ چونکہ محصولات میں اضافے کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑا ہے لہذا یہ ضروری تھا کہ محصولات میں اضافے کے جواز کو فراہم کیا جانا چاہیے نیپرا نے سی پی پی اے کو ہدایت کی ہے کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگی گئی رقم کا جواز فراہم کیا جائےریگولیٹرز نے اتفاق رائے کے ساتھ حکم دیا کہ جب تمام جواز دستیاب ہوں تو سماعت معطل اور دوبارہ شیڈول کی جاتی چاہیے انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ تمام ڈسکو اور سی پی پی اے کے تمام چیف ایگزیکٹوز اور چیف فنانشل فیسرز ریگولیٹر اور صارفین کو مطمئن کرنے کے لیے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے لیے ہمیشہ سماعتوں میں شریک ہوںسی پی پی اے نے سہ ماہی بجلی کی خریداری کی قیمت میں ایڈجسٹمنٹ کے حساب سے 86 پیسے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مجموعی طور پر 831 ارب روپے کی وصولی کی جاسکے جس میں 81 ارب کے صلاحیت میں اضافے کے چارجز شامل ہیں نیپرا اب ایک بار پھر یکم دسمبر 2020 کو عوامی سماعت کرے گی |
وزیراعظم عمران خان اور متعدد وزیر ورلڈ اکنامک فورم کے پاکستان سے متعلق کنٹری اسٹریٹجی ڈائیلاگ سی ایس ڈی کے موقع پر بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان اور دنیا کی کاروباری شخصیات سے ملاقات کریں گےدفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ڈائیلاگ کا افتتاح وزیراعظم عمران خان کریں گے اور ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورج برینڈ مشہور بین الاقوامی کمپنیوں کے سی ای اوز اور ورلڈ اکنامک فورم کی شراکت دار کمپنیوں کے ساتھ مباحثہ کریں گےمزید پڑھیں وزیراعظم عمران خان عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈیووس روانہخیال رہے کہ سی ایس ڈی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی کی جانب گامزن ممالک کے لیے ورلڈ اکنامک فورم کا پلیٹ فارم ہےدفتر خارجہ کے اعلامیے کے مطابق سی ایس ڈی کے ایک روزہ سیشن میں دنیا کی کاروباری شخصیات سے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ معاشی امور کے وزیر مخدوم خسرو بختیار اور وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر معیشت مالیات سرمایہ کاری تجارت پیدوار ڈیجیٹلائزیشن نئے کاروبار علاقائی رابطہ کاری پاکچین اقتصادی راہداری سی پیک اور دیگر معاملات پر بات کریں گےسی ایس ڈی کے خری سیشن میں انرجی ٹرانزیشن پرائیریٹیز اینڈ چیلنجز ان پاکستان کے عنوان سے مباحثہ ہوگا اور اس کی سربراہی مشترکہ طور پر وزیر توانائی عمر ایوب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اور معاون خصوصی برائے توانائی ندیم بابر کریں گےدفترخارجہ کے بیان کے مطابق سی ایس ڈی کے ہر سیشن میں ورلڈ اکنامک فورم کے صدر منیجنگ ڈائریکٹر اور دیگر سینئر عہدیدار موجود ہوں گے اور بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان کو پاکستان کی اعلی قیادت سے براہ راست بات کرنے کا موقع ملے گایہ بھی پڑھیں کورونا کے باعث ڈیووس اجلاس 2021 مخربیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اعلی سطح کی قیادت سے ملاقات کا موقع موجودہ حکومت کے معاشی اصلاحات کے لیے کیے گئے اقدامات کے باعث ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے وسیع مواقع کے نتیجے پر مل رہا ہےورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے سی ایس ڈی کے تحت پاکستان کے لیے اس طرح کے پروگرام کا انتظام پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اسی طرح کا ایونٹ رواں برس جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ڈیووس کے موقع پر بھی منعقد کیا گیا تھادفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ایک سال میں دوسری مرتبہ سی ایس ڈی کا اجلاس طلب کرنا پاکستان کے مثبت معاشی اقدامات اور کووڈ 19 کی وبا سمیت مختلف چیلنجز سے بہتر انداز میں نمٹنے کا اعتراف ہےورلڈ اکنامک فورم پاکستان کا یوم اسٹریٹجی منائے گا فیصل جاویدپاکستان تحریک انصاف پی ٹی ئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے ٹوئٹر پر کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم 25 نومبر کو پاکستان اسٹریٹجی ڈے منانے اعلان کرچکا ہےمزید پڑھیں ئی ایم ایف سے بات چیت محصولات کے نظام کی تجدید پر مرکوزان کا کہنا تھا کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کی کووڈ19 کے خلاف کامیاب پالیسیوں کا اعتراف ہےانہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی اور کامیابی کو دنیا میں مثال کے طر پر پیش کیا جائے گا فیصل جاوید نے کہا کہ یہ کورونا اور معیشت دونوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی شان دار حکمت عملی کی ایک اور توثیق ہے |
بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی سونے کی قیمت میں غیر معمولی کمی ریکارڈ کی گئیبین الاقوامی مارکیٹ میں خالص سونے کی فی اونس قیمت 51 ڈالر گھٹ کر ایک ہزار 815 ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہے جس کے بعد ملک میں فی تولہ سونے کی قیمت میں ہزار 350 روپے کی کمی ہوئی ہے اس غیر معمولی کمی کے بعد مقامی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 10 ہزار 500 روپے ہوگئی ہےاسی طرح دس گرام سونے کی قیمت میں بھی ہزار 15 روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے بعد اس کی قیمت 94 ہزار 736 روپے ہوگئییہ بھی پڑھیں روپے کی قدر میں اضافہ سونا مزید سستا ہوگیادوسری جانب فی تولہ چاندی کی قیمت 30 روپے کمی سے ایک ہزار 180 روپے اور دس گرام چاندی کی قیمت 26 روپے کمی سے ایک ہزار 11 روپے ہوگئی ہےواضح رہے کہ چند ماہ قبل عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت ہزار ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی جس کا اثر مقامی مارکیٹ میں بھی نظر یاپاکستان میں اگست 2020 کے پہلے ہفتے میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ 32 ہزار روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھیمزید پڑھیں سونے کی قیمت میں 1100 روپے اضافہ ماہرین نے چین اور بھارت کی جانب سے سونے کی بڑھتی ہوئی خریداری امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافے سے اہم کرنسیوں کی قدر میں کمی سونے میں سرمایہ کاری بڑھنے اور کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران کو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمتوں میں اس قدر اضافے کی وجہ قرار دیا تھاتاہم گزشتہ ایک ماہ کے دوران سونے کی قیمت میں بتدریج کمی رہی ہے |
اسلام باد سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان ایس ای سی پی نے ملک میں ڈیجیٹل اثاثوں کے قیام اور سائبر کرنسی کی حیثیت کی وضاحت سے متعلق قوانین وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں پہلی بریفنگ ایس ای سی پی ہیڈ فس میں ہوئیاس اجلاس کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر سیکیورٹیز مارکیٹ ڈویژن نازیہ عبید اور ڈائریکٹر انفارمیشن سسٹم اینڈ ٹیکنالوجی عبدالرحیم نے کیمزید پڑھیں بٹ کوائن پاکستانیوں کی کیا رائے ہےایس ای سی پی نے مشاہدہ کیا کہ جدت کی ضرورت کے سبب پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے میں ایک پالیسی اور انضباطی جواب تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے مالیاتی شعبے کو متاثر کیا جاسکتا ہے تاہم چیلنج یہ ہے کہ ڈیجیٹل اثاثے موجودہ ریگولیٹری فریم ورک کے اندر فٹ نہیں بیٹھتے ہیںجبکہ بٹ کوائن سمیت سائبر کرنسی کو متعدد ترقی یافتہ معیشتوں میں تسلیم کیا گیا ہے اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ ایس ای سی پی نے پہلے ہی پاکستان میں کرپٹوورچوئل کرنسی پر پابندی عائد کررکھی ہےڈیجیٹلکرپٹو کرنسیز ایس ای سی پی کے دائرہ کار میں نہیں تے ہیں لہذا پوزیشن پیپر اس مسئلے سے نہیں نمٹتا تاہم ایس ای سی پی نے ڈیجیٹل ٹوکناثاثوں اور یوٹیلیٹی ٹوکن کے اجرا سے متعلق پالیسی اور ضوابط وضع کرنے کے لیے مشاورت شروع کردی ہےمشاورتی عمل اسٹیک ہولڈرز متعلقہ شہریوں ماہرین کے ساتھ ہو گا اور ڈیجیٹل اثاثوں سے متعلق تصوراتی دستاویز اسٹیٹ بینک کے ساتھ شیئر کردیا گیا ہےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس کے بعد ورچول کرنسی کی اہمیت اور حیثیت عبدالرحیم نے کہا کہ ایس ای سی پی کا مقصد ڈیجیٹل اثاثوں کے بارے میں پالیسی وضع کرنا ہے جو بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی اصطلاح بلاکچین اوپن لیجر کے تحت قائم کیا گیا ہے جو ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس تک کوئی بھی کلائنٹ رسائی حاصل کرسکتا ہے تاہم چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتاانہوں نے کہا کہ بلاکچین کے فوائد یہ ہیں کہ یہ ٹرانزیکشن کا وقت بچاتا ہے لاگت سے زائد قیمتوں کو ختم کرتا ہے اور بیچ بچا کرانے والے کی ضرورت کو ختم کرتا ہے جبکہ اس میں چھیڑ چھاڑ فراڈ اور سائبر کرائم کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہےتاہم انہوں نے کہا کہ بٹ کوائن بھی بلاکچین پلیٹ فارم کا ایک پروڈکٹ ہے مگر یہ ایک کرپٹو کرنسی تھی جس کی وجہ سے اس وقت اس پر ملک میں پابندی عائد ہےدریں اثناء ملک میں حکام کی توجہ سیکیورٹی ٹوکن کو ریگولرائز کرنے میں مرکوز ہے جن کو یا تو حقیقی اثاثوں یا کریپٹوگرافک اثاثوں کی حمایت حاصل ہے |
اسلام باد تجارتی اور صنعتی نمائندوں سمیت بڑے اسٹیک ہولڈرز نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے رواں سال میں مالی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبے کی مخالفت کردیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے بجائے پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن اپٹما نے ایس ایس جی سی ایل کے ریونیو فرق کو کم کرنے اور گیس فراہمی کی لاگت میں کمی کے لیے گیس کی پیداواری قیمتوں میں کٹوتی کا کیس تیار کیا ہے جس کی خود ایس ایس جی سی ایل نے بھی حمایت کیدیگر اسٹیک ہولڈرز جن میں کار مینوفیکچررز سیرامکس ایسوسی ایشن اور کراچی کے ایوان صنعت تجارت نے ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے گیس ٹیرف میں 78 روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافے کے مطالبے کی مخالفت کییہ بھی پڑھیں گیس کمپنیوں کی قیمت میں اضافے سے متعلق درخواستیں مستردیہ معلومات ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کی ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے قیمتوں میں 78 روپے 95 پیسے فی برٹش تھرمل یونٹ اضافے کی درخواست پر ہونے والی عوامی سماعت کا لب لباب تھی سماعت اوگرا کے نائب چیئرمین نورالحق کی صدارت میں ہوئیاپٹما سندھ اور بلوچستان کی جانب سے بات کرتے ہوئے رضی الدین رضی نے مطالبہ کیا کہ پیٹرولیم پالیسی کی دفعہ کے تحت گیس کی پیداواری قیمت کو موجودہ 408 ڈالر سے کم کیا جانا چاہیے جس سے نہ صرف گیس کی قیمتوں میں کمی ئے گی بلکہ ایس ایس جی سی ایل کی مدن کا فرق بھی دور ہوگاایس ایس جی سی ایل نے اپنی مدن کے تخمینے پر نظر ثانی کی درخواست میں دعوی کیا تھا کہ اسے 28 ارب 24 کروڑ روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے جس کے لیے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہےرضی الدین رضی نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی گیس کی پیداواری قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے بلند ہےمزید پڑھیں ایس این جی پی ایل کو گیس صارفین سے 115 ارب روپے وصول کرنے کی اجازتتیل کے 40 ڈالر فی بیرل کے بینچ مارک پر پاکستان میں گیس کی پیداواری قیمت 408 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے لگ بھگ ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں گیس کی پیداواری قیمت ڈیڑھ سے ڈھائی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان ہےاپٹما کے نمائندے نے بھی ایس ایس جی سی ایل کی پٹیشن میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج جی ڈی ایس کے دعوے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ منفی جی ڈی ایس کا کوئی تصور نہیں اس لیے اسے مدن کی ضروریات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیےدوسری جانب ایس ایس جی سی ایل کے نمائندوں نے بھی ان اکانٹ فار گیس یو ایف جی کو ایک لعنت قرار دیا اور مقف اختیار کیا کہ کمپنی نقصانات کو کم کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے |
اسلام باد مسلم لیگ کی حکومت پر لینڈ مائنز چھوڑنے کا الزام عائد کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی اسد عمر نے دعوی کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے فیصلوں سے ئندہ سالوں 232021 میں بجلی کے اخراجات پر 300 ارب روپے سے زائد کا مجموعی اثر پڑے گاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر جو کابینہ کمیٹی برائے توانائی سی سی او ای کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ مسلم لیگ کی حکومت کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کی گنجائش میں اضافے سے ئندہ سالوں میں گردشی قرضوں میں تقریبا 10 کھرب روپے کا اضافہ ہوگاانہوں نے کہا کہ گنجائش سے متعلق ادائیگی کے اعتراضات جو 2018 میں 488 ارب روپے تھا اس کا اندازہ 2023 تک بڑھ کر 14 کھرب 73 ارب روپے ہوجائے گا کیونکہ 2018 کے 84 فیصد کے مقابلے میں سسٹم کا استعمال 55 فیصد ہوجائے گامزید پڑھیں بجلی کی قیمت میں 50 پیسے فی یونٹ اضافے کی تیاری انہوں نے کہا کہ 2023 میں ٹیرف میں اضافے کی ضرورت ہوگی 2018 میں 450 ارب روپے گردشی قرضے کا تخمینہ 409 روپے فی یونٹ تھا جبکہ مزید 809 روپے فی یونٹ اضافے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے 890 روپے کی گنجائش کی ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے جس سے 2023 تک مجموعی یونٹ کا خلا 1218 روپے رہ جائے گاوفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی ئی کی حکومت نے سستی بجلی کو یقینی بنانے کے لیے مسابقتی ٹیرف متعارف کروا کر پاور ڈویژن سے سینٹر پاور کو ختم کرانے کا فیصلہ کیا ہےانہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے تاہم ٹرانسمیشن نیٹ ورک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے کراچی سمیت پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہےایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں صنعتی سرگرمیوں میں تقریبا 20 فیصد کمی کو بھی مدنظر رکھا جاتا تو صلاحیت کے اضافے کو اب ختم نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ بجلی کے ذخائر موجود تھے جو ٹرانسمیشن کی رکاوٹوں وجہ سے کم نہیں ہوسکتے تھےوفاقی وزیر نے کہا کہ صلاحیت میں اضافہ اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ اس وقت کے وفاقی اداروں نے پنجاب میں ایل این جی اور کوئلے پر مبنی بجلی گھروں کی مخالفت کی تھیانہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے قطر سے مہنگی ایل این جی کا معاہدہ کیا تھا اور اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اس کو قابل عمل بنانے کے لیے پنجاب میں بجلی کے منصوبوں کو فراہم کیا جائےیہ بھی پڑھیں بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلوں کا منصوبہ اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی ئی کی حکومت اب بجلی کے شعبے میں اصلاحات لا رہی ہے جس کے تحت بلک پاور مارکیٹ کے تحت مسابقتی ٹیرف ممکن ہوسکے گا جبکہ حال ہی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کے ذریعے منظور شدہ مسابقتی تجارتی باہمی معاہدہ ماڈل اگلے 18 ماہ میں میں عمل میں ئے گا اور اس سے عام صارفین کو فائدہ ہوگاانہوں نے الزام لگایا کہ گزشتہ انتظامات سے سیاستدانوں بیوروکریٹس اور تقسیم کار کمپنیوں اور ان کے افسران کو فائدہ ہو رہا تھا کیونکہ صارفین سے قیمت ادا کروائی جارہی تھیوفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں اور سی سی او ای کے فیصلوں سے ئندہ سالوں میں 300 ارب روپے کے اثرات مرتب ہوں گےانہوں نے کہا کہ ستمبر کو سی سی او ای منظور شدہ سرکاری شعبے کے منصوبوں کی ایکویٹی پر ریٹرن کی شرح میں کمی کے نتیجے میں 232021 کے دوران پیداواری لاگت میں 100 ارب روپے کی کمی واقع ہوگی |
پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث ایک بار پھر مکمل لاک ڈان کے خدشات کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج پی ایس ایکس میں مندی دیکھی گئی اور کے ایس ای 100 انڈیکس 555 پوائنٹس 138 فیصد کمی کے بعد 39 ہزار 633 پوائنٹس پر بند ہواملک میں کورونا مثبت نے کی شرح میں اضافے کے بعد دوبارہ لاک ڈان کے خدشات کے باعث مارکیٹ میں ایک موقع پر انڈیکس میں 872 پوائنٹس تک کی کمی دیکھی گئیکاروباری ہفتے کے پہلے روز کمرشل بینکس سیمنٹ اور تیل گیس مارکیٹنگ کمپنیوں کو سب سے زیادہ نقصان کا سامنا رہا جبکہ ہسکول یونٹی فوڈز اور ٹی جی پاکستان کے شیئرز کا سب سے زیادہ کاروبار ہوا مزید پڑھیں کورونا کیسز میں اضافہ حصص مارکیٹ میں مندی انڈیکس میں 633 پوائنٹس کی کمی ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے محمد سہیل نے کہا کہ مکمل لاک ڈان کے خدشات مارکیٹ پر اثر انداز ہورہے ہیں کیونکہ لاک ڈان سے ملکی معیشت اور کارپوریٹ منافع متاثر ہوگااے کے ڈی سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر بزنس ڈیولپمنٹ عمر پرویز کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز وبا سے اموات اور حکومت کی جانب سے مکمل لاک ڈان کے اشارے کے باعث مارکیٹ پر حصص کی فروخت کا دبا رہاتاہم انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کی طرف سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف اور حکومت ئی ایم ایف کے درمیان کامیاب مذاکرات سے متعلق میڈیا رپورٹس کا بھی مارکیٹ پر اثر دکھائی دیاانہوں نے کہا کہ مارکیٹ کو نچلی سطح بالخصوصی اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود فیصد پر برقرار رکھنے سے مدد ملییہ بھی پڑھیں ئی ایم ایف سے بات چیت محصولات کے نظام کی تجدید پر مرکوزواضح رہے کہ ملک میں کورونا لاک ڈان کے باعث عائد پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد خری سہ ماہی میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور برمدات میں بھی بہتری ئی تھیتاہم نیشنل کمانڈ اینڈ پریشن سینٹر این سی او سی کی جانب سے پیر کو بتایا گیا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد دگنی ہوگئی ہےوبا کی دوسری لہر کے باعث حکومت نے 26 نومبر سے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے |
اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے نئے پالیسی ریٹ کا اعلان کردیا ہے اور اسے فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہےمرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس پیر کو منعقد ہوا جس میں نئے پالیسی ریٹ کورونا سے معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات مہنگائی اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سمیت مختلف امور پر تفصیلی گفتگو کی گئیمزید پڑھیں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے عوام مایوس کمیٹی کے مطابق ستمبر 2020 میں منعقدہ گزشتہ اجلاس کے بعد ملک میں بحالی کے عمل نے بتدریج زور پکڑا جو مالی سال 2021 میں فیصد سے کچھ زائد شرح نمو توقعات کے عین مطابق ہے اور کاروباری احساسات مزید بہتر ہوئے ہیںتاہم کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے کے پیش نظر اس منظر نامے کو خطرات درپیش ہیں اور نمو میں کمی کے خطرات ایک مرتبہ پھر منڈلانے لگے ہیںزری پالیسی کمیٹی نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی وجہ غذائی اشیا کی قیمتوں کا بڑھنا بتایا لیکن ساتھ ساتھ امید ظاہر کی گئی کہ رسد کے دبا میں عارضی کمی کا امکان ہے اور اوسط مہنگائی مالی سال کے لیے سابقہ اعلان کردہ 79 فیصد حد کے درمیان رہنے کا امکان ہے اور کمیٹی نے مجموعی طور پر نمو اور مہنگائی کے منظرنامے کو لاحق خطرات کو متوازن قرار دیااس سلسلے میں کہا گیا کہ زری پالیسی کا موجودہ مقف بحالی کو تقویت دینے کے ساتھ مہنگائی کی توقعات کو منجمد اور مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مناسب ہے لہذا ئندہ سہ ماہی میں نمو کو بڑھانے کے لیے وبا کے دوران دی گئی نمایاں مالیاتی زری اور قرضہ جاتی تحریک جاری رہنی چاہیےیہ بھی پڑھیں 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین نہیں اسٹیٹ بینک کی وضاحتکمیٹی نے حقیقی شعبے کے حوالے سے تبصرے میں کہا کہ تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کی بدولت حالیہ اعداد وشمار جولائی سے دیکھے جانے والی معاشی بحالی مزید مضبوطی اور وسعت کو ظاہر کرتے ہیںاس کے علاوہ مالی سال 2020 کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی اوسط فروخت کے حجم کی سطح پہلے سے بڑھ چکی ہے اور سیمنٹ کی فروخت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہےمالی 2021 کی پہلی سہ ماہی میں بڑے پیمانے پر اشیا سازی میں بحالی کا عمل جاری ہے اور 48 فیصد سالانہ توسیع ہوئی حالانکہ گزشتہ سال اس میں 55 فیصد کمی دیکھی گئی تھی جبکہ مینوفیکچرنگ کے 15 میں سے شعبے اضافے کے عکاس ہیں جن میں ٹیکسٹائل غذا اور مشروبات پیٹرولیم مصنوعات کاغذ اور گتہ ادویہ کیمیکل سیمنٹ کھاد اور ربڑ شامل ہیںزری پالیسی کمیٹی کے مطابق کورونا کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت کی فراہم کردہ تحریک پالیسی ریٹ میں کٹوتیوں اور اسٹیٹ بینک کے بروقت اقدامات سے بحالی میں مدد مل رہی ہے اور ان اقدامات کی بدولت سہولت فراہم کی گئی ملازمین کی برطرفیوں میں کمی ہوئی اور سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئیمزید پڑھیں دنیا کے سستے ترین شہروں میں پاکستان کا کونسا شہر شامل ہےزراعی شعبے کی بات کی جائے تو کپاس کی پیداوار میں متوقع کمی کی تلافی اسی صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ جب اہم فصلوں میں نمو اور امدادی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گندم کی بلند پیداوار کھاد اور کیڑے مار ادویہ پر اعلان کردہ اعانت باقاعدہ فراہم کی جائےاس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی پابندی کی وجہ سے خدمات کے کئی شعبوں بشمول تھوک پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں البتہ خوردہ تجارت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کو تعمیرات مینوفیکچرنگ اور زراعت میں تیزی سے بالواسطہ فائدہ پہنچنے کی امید ہےزری پالیسی کمیٹی کے مطابق بیرونی شعبے مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے اور پانچ برسوں سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران جاری کھاتہ فاضل رہا مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں مثبت اشاریوں کے بعد اکتوبر تک مجموعی کھاتہ بڑھ کر 12 ارب ڈالر کے فاضل تک پہنچ گیا جبکہ اس سے قبل اسی دورانیے میں 14 ارب ڈالر خسارہ ہوا تھااس کے ساتھ ساتھ ستمبر اور اکتوبر میں برمدات بحال ہوئیں اور مضبوط ترین بحالی ٹیکسٹائل چاول سیمنٹ کیمیکلز اور دوا سازی میں ہوئی ترسیلات زر میں 265 فیصد مضبوط نمو ہوئی البتہ ملکی سطح پر گرتی ہوئی طلب اور تیل کی کم قیمتوں کے باعث درمدات اب تک قابو میں رہی ہیںیہ بھی پڑھیں اکتوبر میں ٹیکسٹائل برامدات میں فیصد اضافہ ایل پی جی کی درامدات بڑھ گئیں اس حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ ایم پی سی کے گزشتہ اجلاس کے بعد پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر میں ساڑھے فیصد اضافے میں مدد ملی اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 129 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو فروری 2018 کے بعد بلند ترین سطح ہےزری پالیسی کمیٹی کے مطابق کارکردگی کی بنیاد پر بیرونی شعبے کے امکانات میں مزید بہتری ئی ہے اور مالی سال 21 کے لیے جاری کھاتے کا خسارہ اب جی ڈی پی کے فیصد سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہےحکومت کا اسٹیٹ نینک سے نئے قرض نہ لینے کا عزم برقرار ہے اور پست نان ٹیکس محاصل کے باوجود مالی سال 21 کی پہلی سہ ماہی میں بنیادی توازن جی ڈی پی کا 06 فیصد زائد رہا جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے پاس ہے البتہ بھاری سود کی ادائیگیوں کے سبب جب شرح سود میں حالیہ کمی کے فوائد پہنچنے لگے تو مجموعی بلند بجٹ خسارے میں کمی نی چاہیےمجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو حقیقی پالیسی ریٹ کچھ منفی رہا نجی شعبے کی نمو معتدل رہی تاہم اس کی ہر ماہ کی بنیاد پر نمو کورونا وائرس سے پہلے کے رجحانات کی جانب گامزن ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے کورونا کے بعد عارضی اور ہدف کی حامل ری فنانس اسکیمیں متعارف کراکر نجی شعبے کو قرضے کی فراہمی بڑھانے میں مدد دیمزید پڑھیں ستمبر میں ملکی برمدات فیصد بڑھ گئیںزری پالیسی کمیٹی کے مطابق عمومی مہنگائی جنوری سے اب تک بڑی کمی کے بعد گزشتہ ماہ میں فیصد کے قریب رہی جس کی وجہ رسد کے مسائل کے سبب منتخب غذائی اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے جبکہ ئندہ چند ماہ میں حکومت کی جانب سے کیے گئے رسد کے مسائل حل کرنے کے لیے متعدد اقدامات سے امید پیدا ہوئی ہے کہ موافق اساسی اثر اور معیشت کی اضافی گنجائش کی بدولت مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی |
لاہور ملک میں مدنی میں کمی اور معاشی کساد بازاری کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے حکومت پر تنقید جاری ہے کہ وہ سبزیوں اور ضروری اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے یا ماڈل بازار اور اوپن مارکیٹ پر کم توجہ دے رہے ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے جس صورتحال سے وہ گزر رہے ہیں وہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس قیمتوں میں اضافے کے مسئلے پر توجہ دینی چاہیےجوہر ٹان میاں پلازہ میں ماڈل بازار کا دورے کرنے والے عظمت کا کہنا تھا کہ میں اس بازار میں بھی سبزیوں کی قیمتوں کو دیکھ کر حیران ہوں جو خصوصی طور پر حکومت کے زیر انتظام ہے اور اگر کھلی منڈی سے سبزیاں خریدتے ہیں تو کو قیمتیں دوگنی ملیں گیمزید پڑھیں 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین نہیں اسٹیٹ بینک کی وضاحت انہوں نے کہا کہ یہ سردیوں کا موسم ہے جب زیادہ تر سبزیوں کی قیمتیں مقامی پیداوار کی وجہ سے کم ہوجاتی ہیں صرف گوبی کی قیمت چیک کریں جو چند سال پہلے کی نسبت دو سے تین گنا زیادہ ہے مگر کون پرواہ کرتا ہےمزید یہ کہ کھلی منڈی میں سبزیوں کی قیمتیں تقریبا 50 سے 80 فیصد زیادہ تھیںٹا چکی کی قیمت بھی اوپن مارکیٹ میں 70 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوگیا ہے جبکہ درمد شدہ چینی پاڈر 85 روپے میں دستیاب ہےمرغی کے گوشت کی قیمت بھی بلند ترین سطح پر ہے جو مارکیٹ میں 313 روپے فی کلو دستیاب ہے تاہم مختلف دکانوں پر دکاندار اسے 330 روپے فی کلو فروخت کرتے پائے گئے ہیںلاہور مارکیٹ کمیٹی کے سیکریٹری شہزاد چیمہ کے مطابق حکومت کی جانب سے بحرین متحدہ عرب امارات سری لنکا اور دیگر ممالک کو مقامی پیداوار کی برمد کی اجازت کے بعد پیاز کی قیمت میں اضافہ ہواان کا کہنا تھا کہ ہمارے پڑوسی ملک نے پیاز اور دیگر سبزیوں کی برمد پر پابندی عائد کردی ہے مگر پاکستان نے یہ صورتحال جاننے کے باوجود ایسا کیا تاہم حال ہی میں ہماری حکومت نے مقامی طور پر پیدا ہونے والے پیاز کی برمد پر پابندی عائد کردی ہے اور امید ہے کہ قیمت جلد ہی کم ہوجائے گییہ بھی پڑھیں ستمبر میں بھی مہنگائی بڑھ کر 9فیصد تک پہنچ گئی ان کا خیال تھا کہ سبزیوں کی قیمتیں جلد ہی کم ہوجائیں گی کیونکہ مقامی پیداوار ہول سیل مارکیٹوں میں نا شروع ہوگئی ہےانہوں نے کہا کہ لو کی قیمت اس لیے بڑھی کیونکہ یہ گلگت اور دیگر شہروں سے رہے ہیں تاہم ئندہ ماہ پنجاب کے لو نا شروع ہوجائیں گے مناسب مقدار میں اور اس سے خوردہ قیمت کم ہوجائے گی اسی طرح برمد پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے پیاز کی قیمت میں بھی کمی ئے گیشہزاد چیمہ نے کہا کہ ایران سے درمد کرنے کے فیصلے کی وجہ سے ٹماٹر کی قیمت بھی جلد ہی کم ہوجائے گیانہوں نے کہا کہ مجسٹریٹس کی تعداد میں کمی بھی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کی ایک وجہ ہے |
اسلام باد گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں کی جانب سے مقررہ قیمت اور میٹرز کے کرائے میں بالترتیب 123 فیصد اور 100 فیصد تک اضافے کے مطالبے کے درمیان حائل ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے خود گیس کمپنیوں کے بجائے زاد تھرڈ پارٹی کے ذریعے گیس میٹروں کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوگرا سوئی سدرن گیس کمپنی ایس ایس جی سی ایل کی طرف سے اس کے مالی سال 212020 میں تخمینہ لگائے گئے ریونیو ضروریات ای کو پورا کرنے کے لیے اس کی متوقع قیمت میں 79 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ ایم ایم بی ٹی یو یا لگ بھگ 11 فیصد اضافے کے لیے دائر کردہ درخواست پر سماعت کرے گااوگرا کے مطابق ایس ایس جی سی ایل نے ریگولیٹر کو اطلاع دی ہے کہ رواں سال کے دوران اس کی مقرر کردہ قیمت اوسطا 82225 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو یونٹ لگائی گئی تھی جس کی موجودہ شرح فی یونٹ 74325 روپے فی یونٹ ہے قیمت میں اضافے سے کراچی میں موجود گیس یوٹیلیٹی کمپنی کو سندھ اور بلوچستان سے تقریبا 28 ارب 24 کروڑ روپے کی اضافی مدنی ہوگیمزید پڑھیں اوگرا کی غلطی سے ایل این جی صارفین کو 350 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا اس کے بعد جمعرات 26 نومبر کو سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ ایس این جی پی ایل کی جانب سے مالی سال 212020 کے لیے اس کے ای کے لیے مقرر کردہ قیمتوں میں 774 روپے 123 فیصد اضافے کے لیے دائر درخواست پر عوامی سماعت ہوگیایس این جی پی ایل نے اپنے ماہانہ میٹرز کے کرائے میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہےاوگرا کے مطابق ایس این جی پی ایل نے مالی سال 212020 کے لیے اپنی اوسط قیمت ایک ہزار 405 روپے فی یونٹ مقرر کی ہے جبکہ موجودہ نرخ 63141 روپے فی یونٹ ہےفی یونٹ 77350 روپے اضافے کا مطالبہ موجودہ شرح سے تقریبا 123 فیصد زیادہ ہے اس سے اضافی مدنی میں تقریبا 250 ارب روپے کی مدنی متوقع ہےاس کے علاوہ ایس این جی پی ایل نے رواں مالی سال کے لیے ری گیسفائڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس کی سروسز کی لاگت 7233 روپے فی یونٹ بتائی ہےدونوں کمپنیوں نے ایک ہی روز 15 اکتوبر کو اپنی درخواستیں دائر کی تھیں جن پر نومبر کو نظر ثانی کی گئی تھیحیرت انگیز بات یہ ہے کہ اوگرا نے اپنی ویب سائٹ پر دونوں یوٹیلیٹی کمپنیوں کے ٹیرف درخواستیں دینے کے عمل کو معطل کردیا ہے جس سے صنعتی تجارتی رہائشی کھاد سیمنٹ اور گیس اور ایل این جی کے دیگر صارفین متاثر ہوں گےیہ بھی پڑھیں او ایم سیز کو لگام دینے کیلئے اوگرا کو مضبوط کرنا ہوگا ندیم بابراوگرا کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر عملی طور پر عوامی سماعتوں کا انعقاد ورچوئلی کرے گی تاہم اس نے مداخلت کرنے والوں سے کہا ہے کہ وہ ہر صفحے پر روپے کے معاوضے ادا کرنے کے بعد ہارڈ کاپیاں حاصل کریںدوسری جانب ریگولیٹر نے پہلے ہی اصولی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ گیس میٹرز کی جانچ کے لیے زاد تھرڈ پارٹیز کو شامل کریں گےاوگرا کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ریگولیٹر گیس میٹرز کی جانچ کی سروسز فراہم کرنے کے لیے زاد شہرت یافتہ اداروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے انہیں دعوت دینے کی پوزیشن میں ہےعہدیدار نے بتایا کہ متعدد گیس صارفین خود گیس کمپنیوں کی جانب سے جانچ کے موجودہ طریقہ کار کے بجائے گیس میٹرز کی زادانہ جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور مفادات کے تصادم کی نشاندہی کررہے ہیں |
اسلام باد ایسے وقت میں کہ جب ملک کووڈ 19 کی دوسری لہر سے نبرد زما ہے عالمی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف نے متعدد پالیسیوں کی تجویز دی ہے جس میں ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے سے لے کر ٹیکس استثنی ختم کرنا اور ملک کے نظام ٹیکس میں تمام خرابیاں دور کرنا شامل ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ ئی ایم ایف کے ٹیکنکل مشن نے پاکستان کے موجودہ ٹیکس نظام کا تفصیلی مطالعہ کر کے بولڈ اور مضبوط تجاویز پیش کیںذرائع کے مطابق رپورٹ خفیہ ہے اور منظر عام پر نہیں لائی جاسکتی لیکن اس میں پالیسی تجاویز کے ساتھ نظام ٹیکس کے تمام پہلوں کا احاطہ کیا گیا ہےیہ بھی پڑھیں تاجروں کیلئے فکسڈ ٹیکس کا معاملہ ائی ایم ایف کے سامنے اٹھانے کا فیصلہخیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں پہلی قسط کے اجرا کے بعد پاکستان نے ئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ایک تکنیکی ٹیم ٹیکس اسٹرکچر کا جائزہ لے گی اور عملدرمد کے لیے حکومت کو اقدامات کی تجویز دے گیذرائع کا کہنا تھا کہ ہمیں تکنیکی ٹیم سے رپورٹ موصول ہوچکی ہےحکومت نے ئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ ریونیو کو وسیع کرنے اور ریونیو کے ذرائع تلاش کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جائے گارپورٹ کے مواد کی معلومات رکھنے والے ذرائع نے کہا کہ اس میں پورے ٹیکس ڈھانچے کا احاطہ کیا گیا ہے اور حکومت کو فوری طور پر چند چیزوں پر عملدرمد کی تجویز بھی دی گئی ہےمزید پڑھیںائی ایم ایف پاکستان میں بیروزگاری بڑھنے شرح نمو ایک فیصد رہنے کی پیش گوئیرپورٹ کا زیادہ زور چیزوں پر ہے جہاں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اسے معقول بنانا ٹیکس استثنی پر نظر ثانی اور رعایت شامل ہےذرائع کے مطابق رپورٹ میں بہت سی ایسی چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بارے میں مشن سمجھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتیںرپورٹ میں سیلز ٹیکس سے متعلق بھی کچھ تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں لیکن حکومت کا ماننا ہے کہ اس کا مہنگا اثر ہوگا اس وقت توجہ کارپوریٹ انکم ٹیکس استثنی اور رعایت کی نظر ثانی پر دی جائے گی ایف بی نے اعتراف کیا کہ انکم ٹیکس کے معاملات میں استثنی بہت زیادہ ہےیہ بھی پڑھیںپاکستان کا قرضہ کم ہوکر جی ڈی پی کا 847 فیصد ہوگیا ائی ایم ایفذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اس پر کچھ کام کرلیا ہے اور نے والے دنوں میں مزید کیا جائے گا اور ان چیزوں میں عملدرمد کا کام ئندہ سال سے عملدرمد کے لیے اگلے مالی سال کے بجٹ میں کیا جائے گا |
کراچی اسٹیٹ بینک پاکستان نے بیرون ملک مقیم کارکنوں کی زبردستی وطن واپسی پر انتباہ جاری کیا ہے کہ یہ اقدام ملکی معیشت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرسکتا ہے اور حکومت سے صورتحال سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرنے پر زور دیاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے حال ہی میں جاری کردہ ریاست پاکستان کی معیشت 202019 کی پالیسی کے بیان میں کہا کہ اگرچہ کووڈ19 کے بحران کے اچانک ہونے کے سبب قلیل سے درمیانی مدتی توجہ مرکوز کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے حکومت کو بھی ایک طویل المیعاد حکمت معلی وضع کرنی چاہیے اور نقل مکانی کی جامع پالیسی کو اپنانا چاہیےمزید پڑھیں زلفی بخاری کی تارکین وطن سے 15 اگست کو بھارتی سفارتخانوں کے باہر احتجاج کرنے کی اپیلاس میں مزید کہا گیا کہ اگر مہاجرین کو جبری وطن واپسی پر مجبور کیا جاتا ہے تو موجودہ فریم ورک ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے کوئی جامع عملی منصوبہ پیش نہیں کرتاسالانہ رپورٹ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور خاص طور پر خلیجی خطے میں کارکنوں کی جبری وطن واپسی سے پیدا ہونے والی ممکنہ سنگین صورتحال کے بارے میں ایک جامع خاکہ فراہم کیا گیابیرون ملک جن ایک لاکھ ملازمتوں کے لیے بھرتی کا عمل جاری تھا وہ کووڈ19 کے باعث درہم برہم ہوگیا ہے اور جب تک بھرتی منصوبوں کو بحال نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ نوکریاں دوبارہ نے کا امکان نہیںیہ بھی پڑھیں حکومت کو پاکستانی تارکین وطن کیلئے ویزا کے عمل میں سانی پیدا کرنے کی ہدایتانہوں نے بتایا کہ تقریبا 50ہزار پاکستانی تارکین وطن کو مختلف ممالک میں چھٹیوں کا سامنا کرنا پڑا یہ ملازمتیں قلیل مدت میں بحال نہیں ہوسکتیں اور اس طرح وہ انتہائی خطرے سے دوچار ہیںبیورو امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ بی ای او ای کے مرتب کردہ اعداد شمار کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لگ بھگ 60ہزار پاکستانیوں کو بیرون ملک کام کے لیے بھرتی کیا گیا تھا لیکن سفری پابندیوں اور فلائٹ پریشن معطل ہونے کی وجہ سے وہ بیرون ملک نہیں جاسکے بی ای او ای نے ان ملازمتوں کو انتہائی خطرے سے دوچار قرار دیا ہےرپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ 50ہزار تارکین وطن 20 جون تک ادائیگی یا بلا معاوضہ چھٹیوں پر واپس ئے ان افراد کو نوکریوں سے فارغ نہیں کیا گیا لیکن ان کی ملازمت کا تسلسل خطرے میں ہےجبری برطرفی کی صورت میں مزدوروں کو معاوضہ اور دیگر واجبات بھی نہیں ملے اور اسی وجہ سے خود ہی سفر کے اخراجات کا بندوبست کرنا مشکل ہوگیا اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی حالیہ تعداد خلیجی خطے میں زیادہ ہے جس میں صرف دو ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں 91 فیصد سے زیادہ ہےمزید پڑھیں تارکین وطن یا ہجرت کرنے والوں کی زندگی کا مثبت چہرہرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل سے جون کے دوران قومی ایئر لائن نے 490 خصوصی پروازیں کی اور اپریل سے جون کے دوران 90ہزار 308 شہریوں کو وطن واپس بھیج لایا گیاکووڈ19 سے پہلے ہی نقل مکانی کے اہم مقامات سعودی عرب کویت اور دیگر نے داخلی اصلاحات کا عمل شروع کیا تھا اور مقامی کارکنوں کی بھرتی کی حوصلہ افزائی کے لیے جامع اقدامات اٹھائے تھے |
اسلام اباد پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پی ایس ایم اے نے وزارت صنعت کو لکھے گئے خط میں خبردار کیا ہے کہ ملک کی شوگرز ملز بندش کا سامنا کرسکتی ہیں کیونکہ انہیں خام مال کی شدید قلت کا سامنا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر کو گنے کی عدم دستیابی کا مقصد کسانوں کی جانب سے قیمتوں کو بڑھانے کا مطالبہ کے عنوان سے لکھے گئے خط میں ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ کسانوں کی جانب سے گنے کی فراہمی کو روک کر سازباز کی کوشش کی جارہی ہےپی ایس پی اے کی جانب سے خط کی نقل وزیر برائے قومی تحفظ خوراک سید فخر امام کو بھی ارسال کی گئیمزید پڑھیں سپریم کورٹ نے حکومت کو شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دیشوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں تمام شوگر ملز نے اپنی متعلقہ صوبائی حکومتوں کی ہدایات کے مطابق 20212020 کے لیے گنے کے کرشنگ سیزن کا اغاز کیاتاہم ملوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ملک کے مختلف حصوں میں کاشتکارون کی جانب سے گنے کی کٹائی شروع نہیں کی گئیایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ کسانوں کی جانب سے صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقرر کردہ 200 روپے فی 40 کلو کی قیمت کے مقابلے میں گنے کی زیادہ قیمت کا مطالبہ کیا جارہاساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ گنے کی موجودہ فراہمی کی وجہ سے یہ خطرہ ہے کہ گنے کی قلت کا سامنا کرنے والی شوگر ملز ایک ہفتے میں اپنے یونٹس بند کرنے پر مجبور ہوں گییہ بھی پڑھیں اٹارنی جنرل کی ملز مالکان کیخلاف منصفانہ غیر جانبدار کارروائی کی یقین دہانیایسوسی ایشن کی جانب سے وزرات صنعت حماد اظہر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مداخلت کریں اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے اس معاملے کو حل کریں تاکہ مقررہ قیمتوں پر گنے کی مسلسل فراہمی یقینی بنائی جائے اور عوام کو مناسب قیمت پر چینی کی فراہمی ہوپی ایس ایم اے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ گنے کی زیادہ قیمت باالاخر ملک میں چینی کی پیداواری قیمت میں اضافے کا سبب بنے گی لیکن قیمتوں میں اضافے کے لیے شوگر ملوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گاواضح رہے کہ پی ایس ایم اے اور چینی کی صنعت کی جانب سے مبینہ کارٹیلائیزیشن اور قیمتوں میں ہیراپھیری کی وجہ سے اس وقت چینی کی صنعت کو مسابقتی کمیشن پاکستان کی جانب سے انکوائری کا سامنا ہےیہ خبر 21 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی |
End of preview. Expand
in Dataset Viewer.
README.md exists but content is empty.
- Downloads last month
- 35