text
stringlengths
351
578k
فی الحال ، ڈیجیٹلائزیشن اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کی وجہ سے ، روایتی کاروبار کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اگر وہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو قبول کرتے ہیں تو انہیں زیادہ فائدہ ہوگا۔ "موبائل کا سال" کئی سالوں سے ڈیجیٹل دنیا میں چرچا رہا ہے۔ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ سال 2014 مسلسل تیسرا "موبائل کا سال" تھا۔ اگلے سالوں سے ، 2016 سے لیکر ، لائف ہیک کے مطابق بھی اس کی تعریف موصول ہوئی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ موبائل براؤز کرنے کے لئے استعمال ہونے والے موبائل ڈیوائسز کے بتدریج عروج کو بڑھتا ہے اور نہ کہ کسی خاص سال کو۔ سیمالٹ کے کسٹمر سکس مینیجر ، اینڈریو ڈہن ، مقامی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی لوازمات اور اس کی موجودہ اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ: فیس بک کا تخمینہ ہے کہ 2016 میں اشتہارات کی آمدنی 26 ارب ڈالر تھی۔ اس میں 80 فیصد تک بننے والے موبائل آلات (21.98 بلین ڈالر) پروگرام میں ڈیجیٹل ڈسپلے کے اشتہار کا 69 فیصد تک موبائل آلہ جات کا پتہ لگاتا ہے۔ 500 ملین سے زیادہ صارفین کے ساتھ ، انسٹاگرام تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشرتی نیٹ ورک کی حیثیت رکھتا ہے اور فیس بک مارکیٹنگ میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ تروی تجزیات ، ای مارکٹر پوسٹ ، ریاستہائے متحدہ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں سے حاصل شدہ ڈیٹا 2017 میں موبائلوں پر زیادہ زور دینے کے ساتھ اشتہار پر زیادہ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسمارٹ فونز کے مالک ہیں۔ امریکہ میں اسی فیصد انٹرنیٹ صارفین کے پاس کومسکور کے نتائج پر مبنی اسمارٹ فون موجود ہے۔ اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ کا سلسلہ جاری رکھنے کی کچھ وجوہات یہ ہیں کہ ایپل نے آئی فون کے لئے ایک سی سیریز تیار کی تھی ، اینڈرائیڈ کے پاس کم آخر والے اسمارٹ فون موجود ہیں جو زیادہ تر کیریئر دے دیتے ہیں ، اور ایک مضبوط دوسرے ہاتھ والے اسمارٹ فون مارکیٹ کی جگہ ہے۔ کاروبار سے فائدہ اٹھانے کے کچھ مواقع میں شامل ہیں: مقامی اہداف کے ل Google گوگل ایڈورڈز اور فیس بک اشتہارات۔ کسی خاص جگہ پر صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے اسنیپ چیٹ کے فلٹرز۔ ییلپ ایڈورٹائزنگ ییلپ پر حریف پروفائلز میں کاروبار رکھنے میں معاون ہے۔ انسٹاگرام کی نمو اور مقبولیت۔ روایتی کاروباروں کو ڈیجیٹل ٹرین سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بصورت دیگر ، اعلی کھلاڑی یقینی طور پر انہیں باہر لے جائیں گے۔ ایمیزون جب لوگ کاروبار اور مارکیٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ، ایمیزون پلیٹ فارم ہمیشہ اپنی گفتگو میں تبدیل ہوتا ہے۔ 80 ملین سے زیادہ صارفین ایمیزون کے بنیادی کاروبار کی رکنیت لیتے ہیں۔ ایمیزون کے لئے سالانہ خریداری کی فیس 8 ارب ڈالر ہے ، یہ وزیر اعظم کے اخراجات کا محاسبہ نہیں ہے۔ ایمیزون بڑے کاروباروں کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک چھوٹا یا مقامی کاروبار اتنی بڑی کمپنیوں سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ بہت زیادہ ممکن ہے لیکن ان کے مارکیٹرز سے بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ چھوٹے اور مقامی ڈیجیٹل اشتہارات کو کیا کرنا چاہئے وہ چار شعبے ہیں جن میں کاروبار کو ڈیجیٹل دنیا سے بچنے کے ل into تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام کاروباروں کے ل businesses کام نہیں کرسکتے ہیں ، لیکن وہ ابتدائی نقطوں کے طور پر بہترین کام کرتے ہیں۔ 1. فیس بک ، یا انسٹاگرام کا استعمال کرتے ہوئے مقام پر مبنی اشتہار۔ 2. فائدہ اٹھانا جو صارفین کو آن لائن خریداری جیسے سیملیس ، انسٹاکارٹ ، کیویر اور پوسٹ میٹس کو آرڈر کرنے اور خریدنے میں مدد کرتا ہے۔ 3. اسٹور میں بہتر تجربات یا ایسے مقامات کی فراہمی جو صارفین کو آسان خریداری کے ساتھ پیش کریں۔ 4. ای کامرس چینلز بنائے۔ ان کے ذریعہ ، کسی کو فروخت میں اضافہ کرنے کے ل social سوشل میڈیا (فیس بک) کے ذریعے دوبارہ نشانہ لگانے جیسے ٹولوں کو فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرنا سخت مقابلہ کی وجہ سے چھوٹے کاروباروں کے لئے یہ آسان نہیں ہے۔ امید ہے کہ ، Semalt سے حاصل کردہ بصیرت نے کچھ چیزوں پر روشنی ڈالی جو وہ متعلقہ رہنے اور فروغ پزیر رہنے کے ل to کرسکتے ہیں۔
لاہور (نیا ٹائم ویب ڈیسک)سائنسدانوں نے انسانی مدافعتی نظام اور پھیپھڑوں کے خلیوں کو نقصان پہنچانے والے ایک ہائبرڈ وائرس کو دریافت کیا ہے۔یہ پہلاموقع ہے جب سائنسدانوں نے نظام تنفس کو ہدف بنانے والے 2 عام وائرسز کے مدغم کے بعد بننے والے ایک ہائبرڈ وائرس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ پتا چلتا ہے کہ بیک وقت 2 بیماریوں سے متاثر مریضوں کی حالت بدتر ہو جاتی ہے ، دنیا بھر میں ہر سال انفلوائنزا اے وائرس کے باعث 50 لاکھ افراد ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں ، جبکہ آر ایس وی نامی وائرس 5 سال سے کم عمر بچوں یا معمر افراد کے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے ۔ سکاٹ لینڈ کی ایم آر سی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق نظام تنفس کے وائرسز عموماً جسم کے کسی ایک ہی حصے کو ہدف بناتے ہیں، تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کس طرح یہ انفیکشن ایک دوسرے کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ اس کو جاننے کیلئے سائنسدانوں نے انسانی پھیپھڑوں کے خلیات کو دونوں وائرسز سے دانستہ طور پر متاثر کر کے دریافت کیا کہ انسانی جسم میں دونوں وائرسز نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں مدغم ہوکر ایک ہائبرڈ وائرس کی شکل اختیار کرلی۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ وائرس کا مشاہدہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ، ہم 2 مختلف اقسام کے وائرسز کی بات کررہے ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر نئی قسم کا وائرس بناتے ہیں ۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ہائبرڈ وائرس ان خلیات کو بھی متاثر کرتے ہیں جن میں انفلوائنزا کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔یہ اینٹی باڈیز انفلوائنزا کے پروٹینز سے جڑنے میں بھی کامیاب رہیں تاہم وائرس نے آر ایس وی پروٹینز کو خلیات کو متاثر کرنے کیلئے استعمال کیا اور وائرسز کو مدافعتی نظام پر حملہ کرنے میں بھی مدد ملی ، جبکہ وہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیپھڑوں کے خلیات تک پہنچنے کے بھی قابل ہوگئے۔ محققین کا ماننا ہے کہ اس وجہ سے کچھ کیسز میں انفلوائنزا کی شدت سنگین ہو جاتی ہے اور مریض کو وائرل نمونیا کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ واضح رہے انفلوائنزا وائرس عموماً ناک، حلق اور سانس کی نالی کے خلیات کو متاثر کرتا ہے جبکہ آر ایس وی پھیپھڑوں کے اندر تک جاتا ہے، بیماری جتنی گہرائی میں پہنچے گی اس کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اب محققین کی طرف سے ایسے مریضوں پر تحقیق کی جائے گی جو بیک وقت 2 بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں تاکہ نتائج کی تصدیق کی جا سکے ۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا دیگر وائرسز بھی ایسے ہی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں یا نہیں۔
مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ==تعلیم اور خدمات== ... آفت عام انسانوں کی زندگی میں "آفتیں" اور عاشق مزاجوں کی زندگی میں "عورتیں" کبھی بول کر نہیں آتیں !!! زندگی بھلی چ... ان سے آیا نہ گیا ہم سے بلایا نہ گیا فیس بک گروپ "قوسِ قزح" میں 30 اگست 2016 کو عالمی سطح پر ایک فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرہ میں میر تقی میر کی مشہور... کاش میں مولوی ہوتا! 15 جون 2019 بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے بعض فارغین ایک جذباتی مضمون "کاش میں مولوی نہ ہوتا" کو بہت جذبے کے ساتھ... جملے باز 17 ستمبر 2017 ہند کی سیاست میں لفظ "جملہ" ایک اصطلاح بن چکا ہے۔ اور یہ اصطلاح اس وقت "ایجاد" ہوئی جب حالیہ حکومت ن... شیر شاہ آبادی ہا تحریر: ظفر شیرشا ه بادی، کٹیہار ملاحظہ :اس مضمون میں شیر شاہ آبادیوں کے تعلق سے کچھ معلومات میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں... #رافضی_رضاکار ایک عرصے سے سلمان و بن سلمان پر جو لوگ ستّو پانی باندھ کر طوفان بدتمیزی کا محاذ کھولے ہوئے ہیں، آج رافضیت کے ہاتھوں بہت معمولی قیمت پر صحا... غلامی کئی روز سے مسلسل مختلف گروپوں میں یہ پیغام نشر ہورہا ہے کہ بابری مسجد فیصلے کی وجہ سے کسی قسم کا بیان آگیا تو ہماری واٹ لگ جائے گی! اس لیے... #10YearsChallenge سال 2019کی شروعات ہوتے ہی سوشل میڈیا میں گزشتہ دس سالوں کی ایک جھلکی دکھانے کے لیے ایک ہیش ٹیگ چلا۔ تو مجھے بھی دس سال قبل کی ا... عزت عزت اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے! جو دیگر نعمتوں کی طرح ہی ہے۔ اگر اس کی ناقدری ہوئی تو یہ کسی بھی لمحے چھن سکتی ہے! اس لئےعقل مندوں کے...
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ بیجنگ ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کی حمایت کرتا رہے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے شینہوا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے روس کے صدر ولادیمیر پوتین ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کی حمایت کرتا رہے گا۔ اطلاعات کے مطابق صدر شی جن پنگ نے پوتین سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین روس کی خودمختاری اور سلامتی سے متعلقہ امور میں مشترکہ طور پر تعاون کرسکتا ہے۔ 24 فروری کو روس کی طرف سے یوکرائن میں فوجی آپریشن کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسرا ٹیلیفونک رابطہ تھا۔ چین اس قبل یوکرائن میں ماسکو کے فوجی آپریشن کی مذمت کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے ہونے والی عالمی تبدیلیوں اور بحران کے تناظر میں دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے مشترکہ تعلقات کو چینی صدر نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ بیجنگ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ واضح رہے کہ چین روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ برس تجارتی حجم 147 ارب ڈالر تھا۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی چلبلی اداکارہ و ماڈل اقراء عزیز آج اپنا 24 واں جنم دن منا رہی ہیں اس موقع پر شوہر یاسر حسین نے بیوی کیلئے محبت بھرا پیغام شیئر کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے معروف اداکار، ہدایتکار اور میزبان یاسر حسین نے اپنی بیوی اقراء عزیز کی 24 ویں سالگرہ منانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کردیں۔ یاسر حسین نے فوٹو شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام پر تصاویر کے ساتھ ایک طویل تحریر بھی شیئر کی جس میں انہوں نے اپنی اہلیہ اقراء عزیز سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے محبت بھرا پیغام دیا۔ یاسر حسین نے اپنی پوسٹ میں اقراء عزیز کو بیوی نمبر 1 قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘محبت کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ محبت کی نشانی کبیر حسین ہمارے ساتھ ہے’۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ شادی کی پیشکش، پھر شادی اور بچے تک آپ خوبصورت اور میں بےباک رہا اور ہر سال آپ بڑھی ہونے کے بجائے چھوٹی ہوجاتی ہیں، زندگی ایسے ہی گزرتی رہے تو میں بہت خوش ہوں۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا PCPorn.Games? PCPorn.Games میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے PCPorn.Games دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے PCPorn.Games? PCPorn.Games کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر PCPorn.Games, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر PCPorn.Games? آپ ادا کر سکتے ہیں PCPorn.Games دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, PCPorn.Games بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ PCPorn.Games کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, PCPorn.Games فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے PCPorn.Games پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے PCPorn.Games? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے PCPorn.Games کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
تفصیلات کے مطابق عوامی سواری موٹر سائیکل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا، موٹرسائیکل کی قیمتوں میں 1600سے 2000روپے تک اضافہ کیا گیا، ہنڈا 125 کے دام 2000روپے تک بڑھادیئے۔ ہنڈا 125سی سی ایک لاکھ31ہزار900 روپے کا کردیا گیا۔ ہنڈا 70 سی سی موٹر بائیک بھی 1600 روپے تک مہنگی کردی گئی۔ 70 سی سی موٹر سائیکل 79ہزار500 روپے کی کردی گئی۔ ہنڈا کمپنی نے قیمتوں میں اضافے کا اطلاق کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں: نئی 1000 سی سی گاڑی پاکستان میں آنے کو تیار یاد رہے کہ ہنڈا نے یکم اگست 2020 کو بھی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں تبدیلی کی تھی۔ ہنڈا CD70 کی قیمت 1 ہزار روپے اضافے کے ساتھ 76,900 روپے سے بڑھا کر 77,900 روپے ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ‏CG-125 اب 1,29,900 روپے کی ہو گئی تھی جبکہ اس کی پرانی قیمت 1,28,900 روپے تھی۔ CG-125S اور CG-125SE کی قیمتوں نے 2,000 روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا جو 1,54,900 روپے اور 1,56,900 روپے ہو گئی تھی۔
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، تفتیش کے دوران ایلون مسک نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر لگائے جعلی اکاؤنٹس کی تعداد غلط بتانے کے الزامات کی پشت پناہی نہیں کی۔ ٹوئٹر کے وکیل بریڈلی ولسن نے ڈیلاویئر جج کو بتایا کہ ’ایلون مسک کے ملازم، دو ڈیٹا سائنٹسٹس سے حاصل کی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جولائی کے آغاز میں ہی اندازہ لگایا تھا کہ پلیٹ فارم پر جعلی اکاؤنٹس کی تعداد 5.3 فیصد اور 11 فیصد ہے‘۔ وکیل کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا تجزیہ ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ جس سے ہم یہ بتا سکیں کہ ایلون مسک نے کس بنیاد پر ٹوئٹر ڈیل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ٹوئٹر کے وکلاء ایلون مسک سے دھوکہ دہی کے مقدمے میں تفتیش کیلئے تیار معروف امریکی کمپنی ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک سے ٹوئٹر کے وکلاء سے تفتیش کے لیے تیار ہیں۔ البتہ، ایلون مسک اور ان کے وکیل نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ ایلون مسک اور ٹوئٹر کے درمیان عدالتی جنگ جاری ہے، ٹوئٹر کی جانب سے ایلون مسک پر 54.20 ڈالرز فی شیئرکےحساب سے کی گئی ٹوئٹر ڈیل کو پورا کرنے کے لیے عدالت کی مدد سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگلے ماہ 17 تاریخ سے ولیمنگٹن میں ڈیلاویئر کی کورٹ آف چانسری میں اس مقدمے کی سماعت کا آغاز ہونے والا ہے۔
اسلام آباد: ترجمان وزارت خزانہ نے سعودی عرب سے تیل ادھار لینے کی سہولت سے متعلق وضاحتی بیان جاری کردیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا تیل ادھار ملنےکی سہولت ایک سال کے لیے تھی جس کی تجدید ہوسکتی تھی۔ ترجمان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی سہولت رواں سال 9 جولائی کو ختم ہوگئی ہے اور اس معاہدے میں توسیع کی درخواست سعودی عرب کے ساتھ زیر غور ہے۔ پاکستان کیلئے سعودی عرب کا پیکج کیا تھا؟ واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا امدادی پیکج دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجدان کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے جس کے مطابق سعودی عرب نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ پاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر ایک سال کیلئے ڈپازٹ کرے گا جس کا مقصد ادائیگیوں کے توازن کو سہارا دینا ہے۔ عوام کی خدمت سے بڑھ کر حکومت کی کوئی اور ترجیح نہیں، چودھری سرور معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل دے گا اور یہ سلسلہ 3 سال تک جاری رہے گا جس کے بعد اس پر دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ امدادی پیکج کے تحت سعودی حکومت نے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھوانے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط 19 نومبر 2018 ، دوسری قسط 14 دسمبر 2018 اور تیسری قسط 25 جنوری 2019 کو موصول ہوئی تھی۔ سعودی حکومت نے اب پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں جس کی تصدیق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’کرونا وائرس کی وجہ سے سعودیہ کی معیشت پر کافی دباؤ آیا ہے، تیل کی قیمتیں جس طرح گری ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اس کا اثر ان کی معیشت پر پڑا، انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہم نے ان کی مشکلات کو سمجھنا ہے ان کے لیے ہم کل بھی حاضر تھے آج بھی حاضر ہیں
سوچنے کا یہ انداز اور طریقہ مریضانہ ہے اکثریت مادی ہوس میں غوطہ زن ہے ماہ محرم الحرام – فضیلت و اہمیت اعلان داخلہ عربی ادب کا تعارف شیئر کریں مطالعہ کیا ہوا یاد نہیں رہتا Admin اگست 8, 2021 August 11, 2021 اکثر دوست یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو زیادہ تر باتیں حافظہ میں باقی نہیں رہتی، اور بعض اوقات ایک ہی مضمون کو ذہن میں رکھنے کے لیے کئی بار پڑھنا پڑتا ہے۔ میں عموما ایسا مشورہ نہیں دیتا کہ آپ ایک مضمون یا تحریر یاد کرنے کے لیے مکرر پڑھیں، اس سے فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ سمجھ کر پڑھتے جائیں اور پچھلے صفحات پر بار بار نظر دوڑانے کے بجائے، آگے مطالعہ کرتے جائیں۔ آپ کو رفتہ رفتہ خود ہی مطالعہ کا فائدہ محسوس ہونے لگےگا۔ __ شیخ سلمان العودہ کی مختصر سی کتاب ہے، جس کا نام ہے “زنزانۃ”۔ اس کتاب میں چھوٹے موٹے اہم شذرے جمع ہیں۔ اس کی ایک تحریر (فک السحر!) کے ضمن میں ایک پیرا بڑا عمدہ ہے جو اس مسئلہ کے بارے میں رہنائی کرتا ہے۔ عربی تحریر کی تصویر لگادی ہے، جس کا اردو ترجمہ یہ ہے: آپ لکھتے ہیں: “ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ: میں نے ایک کتاب پڑھی، لیکن مجھے اس میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ چناں چہ انہوں نے مجھے ایک کھجور دی اور فرمایا: لو یہ چباؤ! پھر مجھ سے پوچھا: کیا اب تم بڑے ہوگئے؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئی۔ چناں چہ اس کا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ، پٹھا، کچھ کھال، کچھ بال کچھ ناخن اور مسام وغیرہ۔ تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں وہ تقسیم ہوجاتی ہے، چناں چہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ اخلاق سنوارتا ہے، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے؛ اگرچہ میں اس کو محسوس نہیں کرپاتا۔
Home » Everyday News » میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاوز کر گئیں میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاوز کر گئیں Posted on اکتوبر 29, 2021 اسلام آباد: میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاویز کر گئیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ اب تک 78 ارب روپے فنانسنگ کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بینکوں کو 200 ارب روپے سے زائدکی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ بینکوں نے 78 ارب روپے کی فنانسنگ کی منظوری دی۔ کمرشل بینک اب تک 18 ارب روپے کی رقم تقسیم کر چکے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا ہے کہ میرا پاکستان میرا گھر کے نام سے مکانات کے قرضوں سے متعلق کمرشل بینک فنانسنگ کی درخواستوں کی منظوری کی رفتار بڑھائیں۔ یاد رہے کہ رواں سال ستمبر کے آخر تک بینکوں کے مکانات اور تعمیرات کے قرضے بڑھ کر 305 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس ستمبر کے آخر تک یہ 166 ارب روپے کی سطح پر تھے۔
بھارت کی خارجہ سیکرٹری نروپما راؤ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گی جہاں وہ 24 جون کو اپنے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کے ساتھ بات چیت میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیا ن اسلام آباد میں 15 جولائی کو ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دیں گی۔ نروپما راؤ پہلی بھارتی عہدے دار ہیں جو نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں۔ ا ن حملوں میں 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ پاک بھارت رابطوں کی بحالی ایک خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ بات چیت میں تعطل کافائدہ اُن کے بقول ایسی قوتوں کو ہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی مخالف ہیں ۔ عبدالباسط نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں دو طرفہ امن بات چیت میں کوئی تعطل نہیں آنا چاہیئے ۔ انھوں نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان اور بھارت میں باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور یہ اُسی صورت دور ہو گا جب مذاکرات میں حل طلب تنازعات پرٹھوس پیش رفت ہوگی۔ بھارت کے وزیر داخلہ پی چدم برم بھی آئندہ ہفتے علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے اجلاس میں شرکت کرنے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ اپنے پاکستانی ہم منصب رحمن ملک سے دوطرفہ اُمور پر بات چیت بھی کریں گے۔ ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اُن کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کے درمیان ملاقات سے پہلے اعلیٰ بھارتی عہدے داروں کے پاکستان کے دوروں سے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھارت نے اس کا الزام پاکستانی انتہاپسند تنظیموں پر لگاتے ہوئے یکطرفہ طور پر امن مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی اور بھارتی وزیراعظم سنگھ سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر تاہم اس سال اپریل میں بھوٹان میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پاکستان نے ممبئی کے ہلاکت خیز واقعات کی تحقیقات میں بھارتی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اسلام آباد میں متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے سلسلے میں ا ب تک جو بھی شواہد بھارت نے فراہم کیے ہیں وہ پاکستان میں زیر حراست مشتبہ افرادکو مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
کبری احمدی جو کئی سالوں سے ثقافتی اور اجتماعی کاموں میں مصروف ہیں، اُن کی جوانی کی شروعات انقلاب اسلامی کی کامیابی اور صدامی افواج کی ایران پر مسلط کردہ جنگ سے ہوئی تھی۔ جنگ کے نقارہ کی آواز نے اس جوان بسیجی خاتون کو اُن دنوں میں جب دشمن نے ان کی سرزمین پر حملہ کیا، جنگ کو سپورٹ کرنے والے اسٹاف کی طرف مائل کر دیا۔ ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی خبر نگار نے اُن سے گفتگو کے لئے وقت لیا تاکہ وہ محاذ کے پشت پردہ خواتین کے کردار کے بارے میں بات کریں۔ محترمہ احمدی نے مہربانی اور دل لگی سے اپنے واقعات سناتے ہوئے ہمیں اس سرزمین کے بیشتر لوگوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے محاذ کی سپورٹ اور لاجسٹک سرگرمیوں کو کس زمانے سے شروع کیا؟ میری سرگرمیوں کی ابتداء جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔ جب انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا اس وقت میں ۱۴ سال کی تھی اور میں اپنے شوہر کے ساتھ انقلاب کے لئے ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد میں بسیج کی ممبر بن گئی اور وہاں پر کام کرنا شروع کردیا۔ ہم اُس زمانے میں کونسل ۱۶ اور تہران کی ابوذر چھاؤنی میں کام کرتے تھے۔ کونسل ۱۶ میں جوادیہ، نازی آباد، یاغچی آباد، ہزار دستگاہ، چہار صد دستگاہ اور اُن کے اطراف کے علاقے شامل تھے۔ جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے اپنے گھروں سے فوجی بھائیوں کے لئے اوڑھنے والی چادریں اور کپڑے سی کر کام کا آغاز کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سن ۱۹۸۰ء کے اکتوبر یا نومبر کا مہینہ تھا ہمیں ابوذر چھاؤنی کے ذریعے پتہ چلا کہ پہلے مرحلے کے لئے کافی مقدار میں اوڑھنے والی چادروں کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس ان کو سینے کا سامان ہی نہیں تھا۔ میں اپنے محلہ اور گلی میں جن افراد کو جانتی تھی، میں نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی سلائی مشینیں ہمارے گھر لے آئیں تاکہ ہم ایک جگہ رہ کر کام کرسکیں۔ دو لوگ کٹنگ کریں اور بقیہ افراد سلائی کریں۔ ہمیں دو دن کے اندر ہزار چادروں کو تیار کرنا تھا۔ احباب پانچ سلائی مشینیں لے آئے لیکن ہمارے پاس کٹنگ کے لئے نہ میز تھی اور نہ ہی کوئی مناسب قینچی۔ ہم نے یہ سوچا نہیں تھا کہ ہم چند افراد کے ساتھ دو دن میں چادروں کو سی لیں گے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ہم سلائی مشینوں سے سیتے تھے تو ہماری نسل اور جدید نسل کے ذہن میں موٹر والی سلائی مشین آتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں زیادہ تر ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشینیں تھیں۔ ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشین سے کیسے ممکن تھا کہ چادریں دو دن کی مدت میں تیار ہوجائیں؟ بہت مشکل تھا۔ اتفاق سے تین ہاتھ والی سلائی مشینیں اور دو موٹر والی سلائی مشینیں تھیں۔ اُس زمانے میں لائٹ بہت جاتی تھی، جب لائٹ نہیں ہوتی تھی وہ لوگ جو ہاتھ والی سلائی مشین سے سیتے تھے وہ اپنا کام جاری رکھتے تھے لیکن وہ افراد جن کے پاس موٹر والی سلائی مشین تھی وہ اس کے پہیے کو ہاتھ سے گھوماتے تھے جبکہ اس کا دستہ بھی نہیں ہوتا تھا تاکہ وہ سلائی کا کام جاری رکھ سکیں۔ آپ لوگ چادریں سینے کے علاوہ اور کون سے کام کرتی تھیں؟ جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے سب سے پہلے جس کام کا آغاز کیا وہ بسیج اور سپاہ کے ساتھ تعاون کرنا تھا۔ کچھ عرصے کیلئے سپاہیوں کے گھر بھی چکر لگاتے تھے، بعد میں یہ کام ہم نے دوسرے افراد کے سپرد کردیا۔ محاذ تک عوامی امداد پہنچانے کا کام مساجد اور امام بارگاہوں سے اُسی طرح جاری تھا اور ہمیں وہاں پتہ چلا کہ کن چیزوں کی کمی ہے۔ البتہ وہ ادارے جو سپاہ سے رابطے میں تھے وہ زیادہ اس معاملہ کو کنٹرول کر رہے تھے، دوسری طرف سے ان امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ بعض چیزوں کی محاذ پر ضرورت نہیں تھی اور انہیں الگ کرنا چاہیے تھا یا ہم دوائیوں کی ایکسپائری ڈیٹ کو چیک کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ لوگوں کی امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کے لئے ایک الگ مرکز کی ضرورت ہے، اس کام کو گھر سے انجام دینا ممکن نہیں، ہم نے جنوب تہران میں سپورٹنگ اسٹاف تشکیل دیا۔ میرے خیال سے جنگ کو تقریباً تین چار مہینے گزرے ہوں گے کہ کیمپ مکمل طورپر تشکیل پا گیا۔ آپ کی ذمہ داری کیا تھی؟ میں سن ۱۹۸۰ء میں کونسل ۱۶ میں کام کرتی تھی اور سن ۱۹۸۰ء سے کونسل ۱۹ میں نئے خانی آباد کے کیمپ کی مسئولیت مجھ پر تھی۔ اُس زمانے میں آج کی طرح سوشل نیٹ ورک موجود نہیں تھا ، حتی کہ بہت سے افراد کے گھروں میں ٹیلی فون تک نہیں تھا لیکن مسجد اور بسیج کے کیمپوں میں رفت و آمد تھی۔ وہاں کے لوگوں کے درمیان اچھا رابطہ قائم تھا اور سب کو پتہ چل جاتا تھا کہ کیا خبر ہے اور کون سا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ خبریں ایک دوسرے کے ذریعہ پھیل جاتیں۔ ہم کام کرنے والے افراد کی تلاش میں نہیں جاتے تھے، وہ لوگ خود رضاکارانہ طور پر آجاتے۔ حالات بھی خاص قسم کے حالات تھے۔ دیکھیں اس وقت بھی ملک میں کرونا کی وجہ سے خاص حالات ہیں، جبکہ اُس وقت جنگ تھی۔ آپ ان جدوجہد کرنے والی ٹیموں کو دیکھیں کہ کس طرح کام کررہی ہیں، اُس زمانے میں بھی کسی اور طریقہ سے تھا۔ البتہ اس طرح نہ سمجھا جائے کہ تمام لوگ جنگ میں درگیر تھے، نہیں ایسا نہیں تھا، لوگوں میں سے وہ افراد واقعاً جنگ میں درگیر تھے جو پشت پردہ محاذ کو کنٹرول کر رہے تھے اور اُن کے شوہر اور بیٹے محاذ پر موجود تھے۔ یہ خواتین ایک دوسرے سے مذہبی محافل، مساجد اور دوسرے کیمپوں میں ملتی تھیں اور بہت سرگرم تھیں۔ میرے شوہرفوجی تھے اور محاذ پر تھے اور میرا ایک فرزند تھا۔ جنگ سپورٹنگ اسٹاف میں آپ کی سرگرمی کس نوعیت کی تھی؟ پہلے چادریں سی کر اور بعد میں سپاہیوں کے لئے لباس سی کر شروع ہوئی لیکن بعد میں موسم کے اعتبار سے ہماری سرگرمیاں تبدیل ہوتی رہیں۔ ہم اچار، مربہ اور شربت بناتے تھے اور سپاہیوں کو حوصلہ دلانے اور اُن کے جوش و جذبات میں اضافہ کرنے کیلئے پرچم اور سر پر باندھنے والی پٹیاں سیتے اور لوگوں کی طرف سے لکھے گئے خطوط اُن تک پہنچانے کا کام انجام دیتے تھے۔ سردیوں میں سپاہیوں کے محاذ پر جانے کے وقت، ہم اُن کے لئے سوپ بناتے جنہیں بسوں میں بیٹھے سپاہیوں میں تقسیم کیا جاتا۔ پھر سپاہ پاسداران کی طرف سے کپڑوں کے تھان آنے لگے اور ہم اُس سے سپاہیوں کے فارم سیتے تھے۔ کچھ خواتین اپنے گھر سے کپڑے سی کر لاتی تھیں۔ جن خواتین کو جنگی علاقوں میں جانے کا مسئلہ نہیں تھا جیسے اُن کا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوتا تو اُن لوگوں کو اہواز یا دو کوھہ بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا اور وہ وہاں لانڈری میں مدد کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ سپورٹنگ اسٹاف کا کام بہت زیادہ وسیع ہوگیا، یعنی فوجی سامان کے علاوہ محاذ کے تمام لوازمات سپورٹنگ اسٹاف کی طرف سے مہیا ہوتے۔ اُس زمانے میں آج کل کی طرح نہیں تھا کہ ہر چیز وافر مقدار میں ہو – حتی مہنگائی کے باوجود – اُس وقت چیزیں کوٹہ سسٹم اور ٹوکن کی صورت میں تھیں۔ اُس زمانے کا ایک واقعہ ایسا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں میں اُسے نہیں بھولوں گی، یعنی میں نے اُس وقت یوسف کی خریداری کے معنی کو حقیقت میں درک کیا اور اب بھی جب مجھے یاد آتا ہے تو میں خود کوکنٹرول نہیں کرپاتی۔ شاید آپ کیلئے اتنا حساس نہ ہو، لیکن اُس زمانے میں لوگوں کو شکر اتنی آسانی سے نہیں ملتی تھی۔ ہر فرد کو ہر مہینہ ۴۰۰ گرام شکر کا ٹوکن دیا جاتا تھا اور ہم اس ۴۰۰ گرام کو جس طرح بھی ہوتا تھا پورے مہینے تک چلاتے تھے۔ یہ مقدار اتنی تھی جو اندازاً روزانہ استعمال ہوتی تھی نہ یہ کہ ہم اس سے شربت یا مربہ بنا سکیں۔ سن ۱۹۸۲ء میں ہونے والے رمضان آپریشن کے بعد گرمیوں میں جب بہت شدید گرمی پڑتی تھی ہم نے اعلان کیا کہ ہم محاذ کے لئے لیموں کا شربت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم سو گرام، سو گرام شکر جمع کرتے تاکہ مثال کے طور پر شربت کے دس بڑے پتیلے تیار کرلیں۔ ایک دن ہم ایک امام بارگاہ میں کام کر رہے تھے اور لوگ سامان لیکر آ رہے تھے۔ ایک بہت ہی ضعیف خاتون جنہوں نے اپنی چادر کو سمیٹا ہوا تھا اور اپنا ہاتھ کمر پر رکھ کر مشکل سے ہمارے پاس پہنچیں۔ اُن کے ہاتھ میں لیموں کے رس کی ایک بوتل تھی کہ شاید اُس کے اندر ایک کپ کے انداز کے مطابق لیموں کا رس تھا۔ انھوں نے سانس پھولی حالت میں کہا: "میرے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ میں صرف یہ لائی ہوں تاکہ خدا سے کہوں خدایا میں بھی یوسف کی خریدار ہوں۔" اس چیز نے تمام خواتین پر اثر کیا۔ اُس دن بس میں یہی سوچ رہ تھی کہ اس ضعیف خاتون کے ایک کپ لیموں کے رس کی برکت سے ہم نے بہت زیادہ امداد جمع کی اور دس پتیلوں میں لیمو ں کا گاڑھا شربت بنا کر محاذ پر بھیج دیا۔ وہ خواتین جو کیمپ میں آپ کے ساتھ کام کرتی تھی اُن کی تعداد کتنی تھی؟ اگر ہم حساب لگائیں تو ۲۵ خواتین۔ چونکہ بعض اوقات چکر لگانے والی خواتین بھی آتی تھیں اور کیمپ غالباً بند نہیں ہوتا تھا۔ وہ خواتین جو آپ کے ساتھ کام کرتی تھیں وہ کتنے سن و سال کی تھیں؟ میرے خیال سے ہمارے ساتھ ۵ سالہ بچی سے لیکر ۷۰ سال کی ضعیف خاتون تھیں۔ آپ ہفتہ میں جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف میں کتنی دفعہ جاتی تھیں؟ ہم روزانہ سپورٹنگ اسٹاف جایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم کسی خاص دن وہاں جائیں۔ کسی وقت ہم خود سپورٹنگ اسٹاف میں ہوتے اور بعض اوقات کچھ معاملات کو نمٹانے کے لئے ابوذر کیمپ جانا پڑتا تھا یا اُس اسٹور میں جاتے تھے جو شاہراہ تختی کے شروع میں تھا۔ کیمپوں اور محلوں سے لوگوں کی جو امداد اکٹھی ہوتی تھی انہیں اُس اسٹور میں منتقل کیا جاتا اور پھروہاں مرد حضرات اُس کو الگ کرتے، منظم کرتے اور محاذ کی طرف بھیج دیتے۔ اسٹاف میں آپ کا کام کس وقت شروع اور کس وقت ختم ہوتا تھا؟ کام پر منحصر ہوتا تھا۔ آپریشن کے زمانے میں ہم دن و رات کام کرتے تھے، اس کے علاوہ روزانہ بارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ اتنی مدت میں کام کرنے سے آپ کے شوہر کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا؟ میرے شوہر زیادہ تر محاذ پر ہوتے تھے اور انہیں میرے کام کرنےسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اُس زمانے میں منافقین شہروں میں بہت سرگرم تھے، آپ کا اُن سے کبھی سامنا نہیں ہوا؟ کیوں نہیں، ہمیں بہت دھمکیاں ملتی تھیں۔ البتہ یہ بات سن ۱۹۷۹ء کی ہے۔ منافقین نے سن ۱۹۷۹ء میں کونسل ۱۶ میں کسی شخص کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اُس زمین کے مالک کا اُن پر زور نہیں چلتا تھا بلکہ وہ اُن سے ڈرتا تھا۔ ایک دن جمعہ کو ہم کچھ بسیجی افواج کے ساتھ کہ جن کی عمریں کم تھیں اُس عمارت میں داخل ہوئے اور اُس جگہ کو اُن کے قبضہ سے آزاد کرالیا۔ جب ہم نے اُس جگہ کو آزاد کرالیا تو زمین کے مالک نے اپنی رضایت سے وہ جگہ ہمارے اختیار میں دیدی۔ ہم اُن منافقین کے ساتھ ایک محلہ میں رہتے تھے اور ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم سے راضی نہیں تھے لیکن اس ماجرا کے بعد اُن کی ہم سے دشمنی آشکارہوگئی اور وہ ہمیشہ سے کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ ہماری ٹیم کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ اس معاملے میں ہمارے ایک یا دو لوگ شہید ہوئے۔ ہمارا گھر گلی کے نکڑ پر تھا اور وہ مسلسل کاغذ پر دھمکیاں لکھتے اور اُسے پتھر پر لپیٹ کر گھر کے اندر پھینک دیا کرتے تھے۔ گھر کے بالائی حصے میں لگا شیشہ مسلسل پھینکے جانے والے پتھروں کی وجہ سے چٹک گیا تھا۔ اسی وجہ سے میں اپنے بچوں کو تنہا گھر سے باہر بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔ میں ہمیشہ اُنہیں ساتھ لیکر آتی جاتی تھی اور ہمیشہ وضو کی حالت میں باہر جاتی تھی اور ہر لمحہ شہادت کی منتظر رہتی تھی۔ اُن میں سے کسی ایک کے گھر میں، جہاں کی سپاہ نے تلاشی لی تھی۔ وہاں میری اور میرے ساتھ کام کرنے والی کچھ خواتین کی تصویریں ملیں اور ہمارا نام اُس لسٹ میں تھا جن خواتین کو انھوں نے قتل کرنا تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اُن کا نقشہ کیا تھا لیکن میرے خیال سے خواتین کو قتل کرنا اب اُن کے منصوبہ میں نہیں تھا چونکہ اُس کے بعد کسی کو نہیں مارا گیا۔ شاید اس معاملہ میں خواتین کو نہیں لانا چاہتے تھے کہ لوگوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچے لیکن اُن کی دھمکیاں اور اذیتیں اُسی طرح جاری و ساری تھیں۔ آپ اجتماعی کاموں کو انجام دینے کیلئے اپنی ذاتی زندگی کو کیسے مرتب کرتی تھیں ؟ میں بہت کم آرام کرتی تھی۔ میں اپنے لئے بہت کم وقت رکھتی تھی۔ آج کل بھی میرا یہی معمول ہے اور اب تو میری عادت بن گئی ہے۔ اگر میں چوبیس گھنٹوں میں سے دو گھنٹے تک اچھی طرح سوجاؤں تو میرے لئے کافی ہوتا ہے اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس وقت بھی میرے پاس بہت سے سوشل کام ہیں لیکن یہ چیز اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ میرے گھر کے کاموں میں خلل ایجاد کرے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد میں ثقافتی شعبہ میں چلی گئی اور میں آٹھ سال تک شہید محلاتی ٹاؤن میں خواتین کے امور سے متعلق دفتر میں سپاہ کے نمائندے کی حیثیت سے رہی اور وہاں پر جوانوں اور نوجوانوں کے لئے ثقافتی کام انجام دیئے، ہم تفریحی، زیارتی اور ورزشی پکنک اورراہیان نور کے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ میں چار سال تک بسیج تربیت کرنے والے ادارے اور دو سال تک بسیج کے ثقافتی امور میں رہی اور اس وقت چودہ سال سے قدر علوی خیریہ میں مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر ہوں اور خواتین کی سربراہی میں رہنے والوں گھروں کی مدد کرتی ہوں۔ یہ تمام کام منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔ میرے لئے اصل چیز میرا گھر اور گھرانہ ہے۔ اگر میں اپنی بہوؤں،بیٹوں، پوتے، پوتیوں میں ہم آہنگی اور ہم دلی ایجاد نہ کرسکوں اور گھر میں خوشی اور نشاط برقرار نہ رکھ سکوں اور دوسرے لوگوں کے گھروں میں پھل دار درخت کی آرزو رکھوں تو میرے اجتماعی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہذا اُس زمانے میں بھی اگر ہمیں گھر سے باہر بہت سے کام ہوتے تو ایسا نہیں تھا کہ ہم نے گھر کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا، گھر اور گھر والوں کا اپنا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ میرا پہلا بیٹا اُسی سن ۱۹۷۸ء میں پیدا ہوگیا تھا اور جنگ کے اختتام تک میرے تین بچے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا میں بچوں کو اپنے ساتھ اسٹاف لے جاتی تھی، دوسرے لوگ بھی یہی کام کرتے تھے۔ بچوں کو انجام دیئے جانے والے کام کی تعداد شماری میں مزہ آتا تھا۔ مجھے اسٹاف کے علاوہ کچھ اورجگہوں پر بھی جانا ہوتا تھا۔ میری ایک سہیلی تھیں جن کا نام محترمہ رضوان مُزدارانی تھا کہ ہم نے ہم آہنگی کی ہوئی تھی۔ ایک دن میں بچوں کو سنبھالتی اور وہ کیمپ یا دوسری جگہوں پر جاتی اور ایک دن وہ بچوں کا خیال رکھتیں اور میں جاتی۔ ہمارے شوہر حضرات زیادہ تر اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے تھے۔ آپ جنگ کی مدت میں جنگی علاقوں میں نہیں گئیں؟ میں نے خود بہت سی خواتین کو بھیجا لیکن میں خود جنگی علاقوں میں نہیں گئی۔ میرا بچہ چھوٹا تھا، میرے شوہر محاذ پر تھے اور بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی جس کی وجہ سے محاذ پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سن ۱۹۸۵ء یا ۱۹۸۶ ء میں طے پایا کہ میرے شوہر کو ایک سال کی ڈیوٹی پر کردستان بھیجا جائے۔ میں نے مضبوط ارادہ کرلیا اور اُن سے کہا : "میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔" وہ راضی نہیں ہو رہے تھے اور مسلسل کہہ رہے تھے: "کردستان کے حالات اہواز سے بہت مختلف ہیں۔" اہواز میں بہرحال صرف بمباری کا مسئلہ تھا۔ لیکن کردستان میں معاملہ فرق کرتا تھا ہم دشمن کے درمیان تھے اور ہمیں دشمن کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ دشمن کوملہ اور ڈیموکریٹ وغیرہ کے عنوان سے ملک کے مختلف مقامات سے وہاں موجود تھا ۔ وہاں پر بہت سے مسائل تھے جن کی وجہ سے دشمن کی شناخت بہت مشکل تھی۔ جنگی محاذ پر دشمن آپ کے روبرو ہوتا ہے لیکن کردستان میں ایسا نہیں تھا۔ سامنے والا دن میں آپ سے سلام علیک کرتا ہے اور رات میں جو اُس کے دل میں آتا ہے وہ آپ کے ساتھ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے میرے شوہر کسی صورت بھی راضی نہیں ہو رہے تھے کہ میں اُن کے ساتھ چلوں۔ خلاصہ یہ کہ میں نے بہت منّت مانی دعا کی اور آخر میں اُن سے کہا: "یا ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے یا آپ بھی نہیں جائیں گے۔" بہرحال وہ راضی ہوگئے اور ہم ارومیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید آپ کہیں مغربی آذر بائیجان کا کردستان سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن کرد نشین علاقے جو مہاباد، دیواندرہ اور اُس کے مضافات میں تھے ، سے نزدیک تھے۔ جس موقع پر ہم ارومیہ گئے وہ مجھے یاد نہیں ارومیہ کی چھاؤنی ابھی تک کومولوں کے اختیار میں تھی یا آزاد ہوچکی تھی۔ بہرحال شہر ارومیہ ابھی تک کچھ معاملات کی وجہ سے محفوظ نہیں تھا اور لوگوں کے ساتھ وہاں مختلف مسائل پیش آتے تھے۔ آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ جانے پر کیوں اصرار کیا؟ مجھے پتہ تھا وہاں ہماری موجودگی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سے شوہر کا نہ ہونا میرے لئے باعث پریشانی تھا۔ ہم کہ جنہیں تہران میں بھی خطرے تھا، پس میرے لئے خطرے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ آپ ارومیہ میں کیا کرتی تھیں؟ جیسا کہ میں ابوذر چھاؤنی میں کام کرتی تھی وہیں سے مجھے ارومیہ میں اُسی مرکز کے لئے کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ وہاں پر ہمیں تاکید کی گئی کہ ہم ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے گھروں میں نہ رہیں تاکہ ہمیں کوئی پہچان نہ سکے۔ لہذا ہم نے شہر کے اندر ایک گھر کرایہ پر لیا۔ جب میں کچھ خریدنے کے لئے دوکان جاتی تھی تو میں وہاں کی زبان کے بہت سے کلمات سے نا آشنا تھی اس وجہ سے اُنہیں پتہ تھا کہ ہم تہران سے آئے ہیں اور اجنبی ہیں۔ سب سوچتے تھے کہ ہمارا کام اس طرح کا ہے جس کی وجہ سے ہم وہاں منتقل ہوگئے ہیں چونکہ وہاں سب ترکی بولنے والے تھے وہاں پر کوئی نیا آتا تو اُنہیں بہت جلدی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ علاقائی باشندہ نہیں ہے۔ حاجی صاحب نے پڑوسیوں کو اپنے پیشے کے بارے میں بتایا تھا؟ آپ یقین کریں مجھے نہیں معلوم۔ آپ وہاں کیا کرتی تھیں۔ میں وہاں پر تہران کی طرح کام نہیں کرتی تھی۔ جہاں میرے شوہر کی ڈیوٹی لگتی تھی میں بھی اُن کےساتھ چلی جاتی او ر واپس آجاتی۔ جہاں پر مسائل کو حل کرنے کیلئے خواتین کی ضرورت ہوتی تھی تو مجھے فون کرتے تھے اور میں وہاں جایا کرتی تھی۔ مثلاً کومولوں کی کچھ جوان لڑکیاں تھیں جو خاکی یونیفارم پہنتی تھیں اور اُن کو گرفتار کرنے کے لئے خواتین فورس کی ضرورت ہوتی تھی۔ خطرات کے پیش نظر سپاہ کے افراد اس بات کی طرف مائل نہیں تھے کہ اس کام کے لئے تہران سے فورس بلائی جائے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا اور اگر کسی سے کام لینا چاہتے بھی تھے تو ایسے افراد کا انتخاب کرتے تھے جن کی عمر پچاس سے سال سے زیادہ ہو؛ عام طور سے جوانوں کا انتخاب نہیں کرتے تھے۔ آپ کو وہاں کا کوئی واقعہ یاد ہے؟ میں وہاں کا کوئی واقعہ نہ سناؤں تو بہتر ہے۔ دیکھیں میں ہمیشہ کہتی ہوں ہماری تاریخ کے مظلوم ترین شہداء کردستان کے شہداء ہیں جو اُس زمانے میں شہید ہوئے۔ اس وجہ سے کہ سنی شیعہ اور اُن کے درمیان اتحاد کی بحث اور بہت سے دوسرے مسائل تھے۔ کچھ کردی چاہتے تھے کردستان کو ملک سے الگ کرلیں اور وہاں پر ایک خودمختار حکومت بنائیں۔ وہاں پر افراد مظلومانہ ترین صورت میں شہید ہوئے اور ہم کبھی بھی یہ نہیں بتا سکے کہ وہ شہداء کیسے شہید ہوئے۔ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں گولی سے ماریں، اُنہیں قیدی بنالیں۔ اُن کے پیروں کو تاروں سے باندھ دیتے یا اُن کے جسم پر گرم گرم استری لگا دیتے یا اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے۔ ایسا کام کرتے تھے کہ اُن کی جان آہستہ آہستہ نکلے۔ اُن کے بارے میں بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ آپ ارومیہ میں کب تک موجود رہیں؟ میں چھ سات مہینہ وہاں رہی پھر وہاں پر کچھ مسائل کھڑے ہوگئے اور میں تہران واپس آگئی۔ ہمارے پاس ایک پیکان کار تھی جس میں بیٹھ کر ہم ڈیوٹی پر جاتے تھے۔ اس گاڑی میں بہت سی ٹیکنیکل خرابیاں تھیں، اگر آج مجھ سے کہا جائے آپ اس طرح کی گاڑی پر یہاں سے شہر ری میں حضرت عبد العظیم حسنی کے حرم تک جاکر واپس آئیں، میں کہوں گی یہ گاڑی محفوظ نہیں ہے۔ اس کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب بند ہوجاتی ہے تو پھر اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ یعنی ہم اگر پٹرول پمپ بھی جاتے تھے تو اُس کو بند نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو دوبارہ اسٹارٹ نہ ہو۔ آپ سوچیں ہائی وے پر گاڑی بار بار بند ہوجائے اور میں سخت سردی اور برفباری میں ایک طویل مسافت تک اُسے دھکا لگاؤں۔ کبھی کبھار میں پھسل جاتی اور دھکا نہیں دے پاتی۔ ایک دن جمعہ کو ہم ارومیہ سے صبح ۸ بجے کسی کام کے سلسلے میں مہاباد کے لئے روانہ ہوئے۔ اُس وقت میرے دو فرزند تھے جو ہمارے ساتھ تھے۔ وہاں پر کوئی آپریشن ہونا تھا جسے شہر مہا باد کی آزادی پہ ختم ہونا تھا اور ہم وہاں پر اُس ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے۔ میرے شوہر نے فوجی لباس نہیں پہنا ہوا تھا لیکن امریکی اوورکوٹ پہنا ہوا تھا اور اُن کے داڑھی والے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ انقلابی ہیں اور میں نے مقنعہ اور چادر پہنی ہوئی تھی۔ شہر مہا باد کے ٹول پلازہ کے پاس گاڑی بند ہوگئی۔ اسٹارٹ کرنے اور دھکا لگانے میں جتنا بھی زور لگا سکتے تھے لگا لیا، گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ سب سمجھ گئے کہ ہم اجنبی اور مسافر ہیں اور ہر کوئی اپنی بات کر رہا تھا۔ ایک جوان مرد نے ہم سے کہا: "مجھے ایک مکینک کی دوکان کا پتہ ہے گاڑی کو وہاں تک دھکا دیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔" گاڑی کو ایک بہت بڑے گیراج میں لے گئے۔ میرے شوہر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رہے اور نیچے نہیں اُترے۔ گاڑی گیراج کے اندر آنے کے بعد اُس آدمی نے گیراج کا شٹر نیچے گرادیا اور شٹر کو تالا لگا دیا! ایسا لگا جیسے اُس نے میرے دل کا شٹر بند کردیا ہو! میرے ذہن میں ہزار باتیں آئیں کہ کیا ہوا ہے کہ اس مرد نے شٹر کو نیچے کرکے اُسے تالا لگا دیا ہے؟ کیا ہمارا راز فاش ہوگیا ہے؟ خدایا یہاں پر کیا ہونے والا ہے؟! مہاباد میں ہمیں نہیں پتہ چلتا تھا کہ کون فوجی ہے اور کون عام شہری ہے۔ اس بات کی تشخیص دینا کہ کون سپاہی ہے اور کون کومولہ ہے بہت مشکل تھا۔ ہر کسی نے گولیوں والی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اور پورا شہر جنگی حالت میں تھا۔ وہ مرد گیراج کے پیچھے گیا اور وہاں سے اوزار لاکر میرے شوہر سے کہا: "اسٹارٹ کرو، ایسا کرو، ویسا کرو۔" میں مسلسل یہ سوچ رہی تھی کہ یہ دیگر ساتھیوں کے آنے تک ہمیں چکر دے رہا ہے ۔ شاید سوچ رہا ہے یہ اکیلا ہم دو کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بچے پچھلی سیٹ پر سورہے تھے۔ میرے اور شوہر کے درمیان بھی سکوت طاری تھا۔ اپنی زندگی کے تمام لحظات میں سے ا گر میں خوف کی تعریف کرنا چاہوں تو میں اُسی وقت کو بیان کرسکوں گی۔ میں اتنا ڈری ہوئی تھی کہ میری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ کوئی بھی واقعہ پیش آئے تو میرا ردّ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ میں نے سوچا کہ اگر اس وقت میرے بچوں اور میرے شوہر کے سر کو میرے سامنے کاٹ دیں تو مجھے کیسے ردّ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ اگر میرے شوہر کے سامنے میرے ساتھ زیادتی کریں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں دل ہی دل میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو پکار رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ میں کیا کروں اور کس طرح اس مسئلہ کو نمٹاؤں؟ اس وجہ سے میرا پورا وجود خوفزدہ تھا۔ دیکھیں خدا جانتا ہے مجھے مرنے کا خوف نہیں تھا، صرف میری حیثیت کا مسئلہ تھا اور اس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔ آہستہ آہستہ میرے پیر کے ناخنوں نے لرزنا شروع کیا، پھر یہ لرزنا میرے گھٹنوں تک پہنچا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تاکہ میرے شوہر کو میرے لرزنے کا پتہ نہ چلے لیکن آہستہ آہستہ یہ لرزہ میرے دانتوں تک پہنچ گیا اور میرے دانت آپس میں ٹکرانے لگے۔ میرے شوہر نے مجھ سے ایک جملہ کہا: "سردی لگ رہی ہے؟" میں نے اس وجہ سے کہ کہیں اُن کو پتہ نہ چل جائے میں ڈری ہوئی ہوں کہا: "ہاں!" حالانکہ مجھے سردی نہیں لگ رہی تھی۔ میرے شوہر نے اپنا اوورکوٹ اُتار کر میرے شانوں پر ڈال دیا۔ وہ لحظات میرے لئے ایک عمر طولانی کی طرح تھے۔ مجھے نہیں پتہ گاڑی صحیح ہونے میں کتنا وقت لگا، میرے شوہر نے اسٹارٹ دبایا اور گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ اُس کے بعد اُس مرد نے شٹر کو اوپر اٹھایا اور کہا: "معاف کیجئے گا جیسا کہ روز جمعہ ہے اور ظہر کا وقت نزدیک ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مشتری میرے پاس آئے اس لئے میں نے گیراج بند کردیا تھا۔ آئیں میرے ساتھ دوپہر کے کھانے پر چلیں۔" اس تجربہ کے بعد جو میرے لئے بہت ہی تلخ اور سخت تھا میں راضی ہوگئی کہ میرے شوہر وہیں رہیں اور میں واپس آجاؤں۔ جب آپ دوبارہ تہران آگئیں آپ نے جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھا؟ میں آٹھ سالہ دفاع مقدس کے آخر تک وہاں پر کام کرتی رہی لیکن ہمارے کام کی نوعیت بدلتی رہتی۔ میرے خیال سے جب عراق کی نے پہلی مرتبہ کیمیائی بمباری کی کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ میں نے ابتدائی طبی امداد اور فوجی ٹریننگ کورس کیا ہوا تھا، میں مدد کرنے کے لئے وہاں گئی۔ کیمیائی زخمیوں کے حالات واقعاً دردناک تھے۔ اُن کے جسم بڑے بڑے تولیوں میں لپٹے ہوئے تھے اُن میں سے کچھ کیمیائی زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ بمب پھٹنے کی آواز سے ذہنی توازن میں خلل کی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تھے اور اُنہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت تھی۔ ہمیں ایک ایسی مشکل کا سامنا تھا جس کی ہمیں شناخت ہی نہیں تھی۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ ان گیسز نے لوگوں کو کس مصیبت میں گرفتار کردیا ہے۔ ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم انجام دیتے تھے۔ اس طرح نہیں تھا کہ صرف زخموں کی مرہم پٹی کرتے یا انجکشن لگاتے، اگر ضرورت ہوتی تو زخموں کی صفائی بھی کرتے یا اوزاروں کو اینٹی سپٹک کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کیمیائی بمباری کی تھی، ہمارے پاس بہت سے وسائل نہیں تھے۔ اُس وقت میں اپنے تیسرے فرزند سے حاملہ تھی لیکن مجھے پتہ نہیں تھا اور میں وہاں کام کر رہی تھی۔ میری حالت بہت خراب ہوجاتی لیکن میں سوچتی کہ وہاں کے حالات کی وجہ سے میری ایسی حالت ہوجاتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم جب میں آپ سے باتیں کر رہی ہوں تو آپ میری آواز میں خش خش کو سن رہے ہیں یا نہیں؟ میرے پھیپھڑے اُس وقت سے خراب ہیں۔ ذرا سی سردی لگ جائے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مجھے معمولی حالت میں واپس آنے کے لئے بہت علاج معالجہ کروانا پڑتا ہے ۔ کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد کی دیکھ بھال میں کتنا عرصہ لگا؟ میں تین مہینے تک وہاں رہی تھی۔ اس مدت میں بچے کس کے پاس تھے؟ وہی باری باری بچوں کی دیکھ بھال والا مسئلہ جو میں نے پہلے بیان کیاکہ میں نے اپنی دوست محترمہ رضوان مُزدارانی سے طے کیا ہوا تھا۔ جنگ کے آخری سالوں میں میرے تین بیٹے تھے اور اُن کے بھی تین بیٹے۔ ہم ان آٹھ سالوں میں ایک ساتھ کام بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے کے دوست بھی تھے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ایران کی اورل ہسٹری سائٹ کو دیا۔ ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران صارفین کی تعداد: 2713 آپ کا پیغام  نام: ای میل: پیغام: گذشتہ مطالب صحت و سلامتی کے محافظ ملتان کا مصلح، چھبیسواں حصہ بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-3 ملتان کا مصلح، پچیسواں حصہ بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-2 ایران میں ایک جاپانی ماں کی داستان ملتان کا مصلح، چوبیسواں حصہ جنگ بندی کا اعلامیہ، اس کی قبولی اور جنگ کا خاتمہ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10820).popover({title: "", content: " کتنا منع کر رہی کہ نہیں جانا نہیں جانا۔ بس اسی لئے ضد کر رہے تھے؟ اب اس اتنے بڑے پارک میں اتنے گھنے درختوں میں رات کے اس وقت میں بچے کو کہاں ڈھونڈوں؟ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10841).popover({title: "", content: " سورج غروب ہو چکا تھا۔ میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگلے دس دنوں تک ایک ہاتھ اوپر کرنے کے لیے دوسرے ہاتھ سے سہارا دینا پڑتا تھا اور پھر واپس بہت آرام سے نیچے آتا تھا اور جو ہاتھ زخمی تھا اس کو دوبارہ واپس لانے سے تو چیخیں نکلتی تھیں ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10819).popover({title: "", content: " ایسا لگا کسی نے بالٹیاں بھر کر ٹھنڈا پانی مجھ پر ڈال دیا ہے ۔ میرے الفاظ میرے منہ میں جم گئے۔ ملتان مقدر کئے جانے کا لفظ سننے کے بعد اب میں کچھ نہ کہہ سکی سوائے اس کے کہ بچوں کے امتحانات نمٹنے تک صبر کیا جائے۔ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10840).popover({title: "", content: " چھے دن کے بعد ہمیں الرشید چھاؤنی لے گئے۔ وہیں پہ آقا حیدری اور آقاے کامبیز کمال وند بھی آگئے، ان کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی۔ در اصل ہماری بچپن کی دوستی اور محلہ داری بھی تھی ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10826).popover({title: "", content: " اسے ابھی گئے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بسیجیوں کی جانب سے ایک خط مجھے موصول ہوا۔ لفافے پر محمد کے دستخط دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ خط کھولا تو اس میں لکھا تھا: " پہلے میں مغربی جنگی محاذوں پر، جو پہاڑی علاقوں میں ہیں، مصروف تھا۔ لیکن اب جنوبی علاقے کی طرف آگیا ہوں ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10818).popover({title: "", content: " یہ چند روز جو مشہد میں گذرے انہوں نے مجھے ہندوستان کی یاد دلا دی۔ علی بغیر کی تعطل کے مسلسل کام میں لگا رہتا میری اور اس کی ملاقات بہت کم ہی ہو پاتی تھی۔ کھانے کے کمرے میں ہم سب جمع تھے اور میری نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10837).popover({title: "", content: " میں وہاں سے اٹھا اور مورچے میں جاکر اسدی صاحب اور ید اللھی صاحب کے پاس جا یٹھا، وہ بھی رو رہے تھے لیکن حقیقت کا علم انہیں بھی نہ تھا۔ بہرحال ان کا اصرار یہ تھا کہ کسی صورت اس حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے بھی کہا: اگرچہ یہ سب بہت افسوس ناک ہے لیکن کوئی اس کی مخالفت نہیں کرے گا
اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے نومبر کے لیے درآمدی آر ایل این جی کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے نومبر کے لیے درآمدی آر ایل این جی کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا جس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔ سوئی ناردرن کے لیے فی یونٹ قیمت ترسیل میں 0.31925 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے، سوئی سدرن سسٹم پر آر ایل این جی کی قیمت ترسیل میں 0.32974 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے۔ سوئی ناردرن سسٹم پر آر ایل این جی کی نئی قیمت 13.3888 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ قیمت تقسیم 14.4387 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔ سوئی سدرن سسٹم پر آر ایل این جی کی نئی قیمت 13.0157 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ قیمت تقسیم 14.8105 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں واقع بدھ دور کے آثار قدیمہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں کیوں کہ یہاں تانبہ نکالنے کے لیے کان کھودی جا رہی ہے۔ اے ایف پی اتوار 10 جولائی 2022 17:30 کابل کے نزدیک بڑی تعداد میں تانبے کے ذخائر میں دریافت ہوئے ہیں لیکن ان کی کھوج اور کان کنی نے یہاں واقع بدھ دور کے آثار قدیمہ کے لیے خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس جگہ سے تانبے کی کان کنی چینی کمپنیوں کا ایک گروپ سرانجام دے رہا ہے۔ ان آثار قدیمہ کی دیکھ بھال پر معمور محکمے کے منتظم جلات سرخابی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر تانبے کو نکالنے کا آغاز ہوا تو اس سے آثار قدیمہ کو نقصان ہو گا کیوں کہ کان کنی نازک کام نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’انہیں بم پھاڑ کر تانبے تک پہنچنا ہو گا۔ دھماکے بہت بھاری ہوتے ہیں جن سے بت ٹوٹ سکتے ہیں۔‘ آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کے لیے فرانس کی ایک کمپنی کام کر رہی تھی لیکن طالبان حکومت کو درپیش اقتصادی مشکلات نے تانبے کی کان کنی کو ترجیح دلا دی ہے۔ 2010 تک بدھ مت کے ان آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کا پراجیکٹ دنیا کے چند بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا۔ افغان وزارت کان کنی کے ترجمان عصمت اللہ برہان کا کہنا ہے کہ ’افغان انتطامیہ وزارت کان کنی اور وزارت اطلاعات اور ثقافت کی موجودہ پالیسی یہ ہے کہ تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ بدھ دور کی کوئی نشانی ضائع نہ جائے۔‘ اس جگہ سے دریافت ہونے والے زیادہ تر آثار دوسری اور نویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مٹی کے کچھ ایسے برتن بھی ملے ہیں جن کی عمر بدھ دور سے بھی زیادہ ہے۔ جلات سرخابی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یونیسکو یا جو ممالک ہماری حمایت کر رہے ہیں ان کا تعاون چاہیے تاکہ ہم کچھ آثار قدیمہ کو یہاں سے منتقل کر سکیں۔‘
امریکہ میں چین کے خلاف پکنے والا نفرت سے بھرپور لاوا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی پیک منصوبے سے کیپٹیل ازم کے بچاریوں کے پیٹ میں کتنے مروڑ اٹھتے ہوں گے۔ منصور جعفر [email protected] جمعہ 29 جنوری 2021 13:30 کیلی فورنیا میں ایک خاتون نے کرونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کے دوران ’مجھے کیپٹل ازم سے پیار ہے‘ کی عبارت والا بینر اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی) یہ دنیا انتہائی حیران کن جگہ ہے اس میں لاکھوں افراد کی ہلاکت کے باوجود کرونا وائرس ایسی عالمی وبا سے متعلق متعدد سازشی نظریے گردش کر رہے ہیں۔ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بے لگام پلیٹ فارم پر بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ اسی شور شرابے حال ہی میں امریکی ای کامرس کمپنی ’ایمازون‘ نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دو کتابوں کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ ایک کتاب کرونا (کورونا) وائرس سے متعلق متفرق سازشی نظریات سے عبارت ایک ایسے مصنف کے تحریر تھی جس نے کووڈ-19 کو بے بنیاد شوشا سمجھ کر اسے جھٹلانے کے لیے کتاب میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کتاب پر پابندی کے فیصلے کو چینلج کیا گیا، جس کے بعد’ایمازون‘ کو اپنے نیٹ ورک پر اس کی فروخت کی اجازت دینا پڑی۔ اس طرح عالمی وبا سے متعلق سازشی نظریے سے بھرپور کتاب ’ایمازون‘ پر بکنے لگی۔ ایک دوسری کتاب میں مصنفہ سارہ فلاؤنڈرز نے دنیا، امریکہ اور بالخصوص چین میں کووڈ-19 کے حوالے سے ہونے والی بحث کا موازنہ پیش کیا۔ انھوں نے مستند اعداد وشمار کی روشنی میں ثابت کیا کہ چین عالمی وبا کو کنڑول کرنے میں کامیاب رہا جبکہ امریکہ ایسی عالمی طاقت ابھی تک ناکام چلی آ رہی ہے۔ یہی وجہ سے نئے امریکی صدر نے اپنی ترجیحات کا تعین کرتے وقت عالمی وبا پر قابو پانا اہم نقطہ قرار دے رکھا ہے۔ سارا فلاؤنڈرز کی کتاب کا عنوان Capitalism on a Ventilator: The Impact of COVID-19 in China & the U.S. امریکہ کے لیے ایک فکری تازیانہ ثابت ہوا۔ مصنفہ نے کتاب کی ایمازون پر فروخت کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا، لیکن ان کی کتاب کو آن لائن فروخت کی اجازت نہ ملی۔ سارہ فلاؤنڈرز کی کتاب میں کھل کر اس بات پر بحث کی گئی: کیا جو بائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ دنیا میں مزید جنگوں کی راہ ہموار کرے گی؟ بائیڈن کی انتخابی مہم کے وقت خواہشات اور امیدوں کا گراف ناقابل یقین حد تک اونچا کر دیا گیا تھا، جسے دیکھتے ہوئے کتاب میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کیا گیا تجزیہ امریکی کار پردازوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور اس طرح کتاب کی آن لائن فروخت پر پابندی لگا دی گئی حالانکہ ایمازون پر اس سے زیادہ متنازع کتابیں اور اشیا کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی انتخاب کے نتائج میں اہم بات بائیڈن کی کامیابی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست تھی کیونکہ وہ نسل پرستی، غرور اور جارحانہ سیاست کا جو داغ دار ترکہ چھوڑ کر گئے ہیں، اسے دھونے میں امریکہ کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔ انتخاب کا شور تھم چکا ہے اور وائٹ ہاؤس ٹرمپ کے بوجھ سے آزاد ہو گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جو بائیڈن اپنی پالیسیوں میں کسی ٹھوس تبدیلی کا اشارہ نہیں دے رہے۔اب تک سامنے آنے والی کابینہ کے ناموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید نہ ختم ہونے والی جنگوں کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلنا امریکہ کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ دنیا بھر میں 800 امریکی فوجی اڈے اور مختلف ملکوں میں اس کی دسیوں ہزار سپاہ تعینات ہیں۔ جن ملکوں کے حکمران امریکی پالیسیوں کے سامنے سرجھکانے سے انکار کرتے ہیں، وہاں نہتے اور معصوم لوگوں کو پابندیاں لگا کر بھوکے مارنے کی پالیسی ایک کھلا راز ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی امریکی پابندیوں کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ امریکی عوام کو احساس نہیں کہ ان کا ملک جنگ کی حالت میں ہے کیونکہ قتل اور ڈرون حملے روزانہ کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے امریکہ کو دنیا بھر کے عسکری اخراجات سے بڑھ کر اپنی فوجی چوکسی اور تیاری پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں اگر سارہ جیسی بیدار ضمیر امریکی دانشور قلم اٹھاتی ہیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہے کہ امریکہ میں صحت عامہ کا کوئی منظم پروگرام کیوں نہیں۔ جن چیزوں کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے لیے اشد ضرورت ہے، انہیں انجام دینے کے لیے مطلوبہ وسائل میسر نہیں جبکہ دوسری جانب ٹریلین ڈالرز جنگی جنون پر صرف ہو رہے ہیں۔ کاش سابق صدر اوباما کا یہ قول سچ ثابت ہو جائے کہ ’جو بائیڈن اپنے اقتدار میں کسی جنگ کی حمایت نہیں کریں گے۔‘ مشہور کہاوت ہے کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،‘ امریکہ کی حد تک تو یہ مقولہ سو فیصد حد تک درست ہے کیونکہ امریکہ میں صدر کے اکیلے اعلانات الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ وہاں ایک بڑی مؤثر اور منظم اسٹبلشمنٹ ہے، جسے دنیا بھر میں 18 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک معلومات فراہم کرتے ہیں۔ امریکی صدر کے مشیران کی فوج ظفر موج، تھنک ٹینکس اور سب سے بڑھ کر فوج وتیل کی صعنت اور بینکنگ سیکٹر کا دباؤ مل کر ان کی امن یا جنگ کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔ اوباما اور بائیڈن ایک سے زائد مرتبہ فوجی اقدامات کے حق میں بات کر چکے ہیں۔ وہ نیٹو میں توسیع، یوکرائین میں کارروائی، عراق اور افغانستان میں فوج رکھنے کے حامی رہے ہیں۔ بائیڈن کبھی امن کے حق میں نہیں بولے۔ خوش فہمی کا لبادہ اتار کر ہمیں امریکی پالیسیوں کے اصل ماخذ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے نہ صدور کی ذاتی حیثیت میں دیے گیے بیانات پر۔ چین کی طرف سے امریکہ کو درپیش چیلنجز دیکھتے ہوئے یہ بات حقیقت معلوم ہونے لگی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدگی دراصل ’سرد جنگ‘ہے۔ اوباما اپنے دور حکومت میں جس pivot asia پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اسی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی فوج کو ری فوکس کیا گیا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) چین کے گرد امریکہ کی بیڑیوں کا جال بچھایا جا چکا ہے۔ ساؤتھ چائینا سمندر میں امریکی میرینز کی موجودگی امریکہ کی سرحد سے ہزاروں میل دور کوئی دفاعی اقدام قرار نہیں دی سکتی۔ ٹرمپ کی نسلی امتیاز کی پالیسی صرف امریکہ کو داخلی طور ہی نہیں بلکہ چین کو بھی گھائل کر رہی ہے۔ تجارتی بائیکاٹ اور طلبہ پر امریکی جامعات میں تعلیم کے دروازے بند کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہونے والے ثقافتی اور آرٹ منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں۔ ہواوے سمیت بڑی بڑی دوسری چینی کمپنیوں سے کاروبار اور سفارتی تعلقات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو 40 برس سے جاری تھے۔ ایسی ’سرد جنگ‘ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ہے۔ سی این این سکرین سے چمٹے امریکی عوام نہیں جانتے کہ ان کی حکومت کے لڑاکا بحری جہاز چین کے اندر ہزار کلومیٹر تک پہنچ چکے ہیں۔ اوسط امریکی شہری، چین کی تاریخ سے نابلد ہے۔ انہیں چین کی ایک ہی تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں وہ ایک غریب اور ترقی پذیر ملک کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انقلاب کے بعد چین، امریکہ کے لیے انتہائی خطرہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے روزانہ کئی جتن ہو رہے ہیں۔ امریکی سیاست کی غلام گردشوں میں چین کے خلاف نفرت کا لاوا پکتا دیکھ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمسائے ملک کے تعاون سے مکمل کیا جانے والا ’ون بلٹ، ون روڈ‘ المعروف ’سی پیک‘ منصوبہ سرمایہ داری کے بچاری کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ کووڈ۔19 کا مقابلہ کرنے میں امریکی ناکامی کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کے عظیم مصلح ابو الاعلیٰ مودودی کی تاریخی پیش گوئی ذہن میں گونچ رہی ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔‘ یہی حقیقت خود امریکی شہری سارہ فلاؤنڈرز نے بیان کرنے کی کوشش کی تو اظہار آزادی، شہری حقوق اور جمہوریت کا راگ آلاپنے والوں نے کتاب ’کیپیٹل ازم آن وینٹیلیٹر‘ کو دنیا بھر کے لیے شجر ممنوعہ بنا ڈالا۔
مقتول کی شناخت نہیں ہو سکی ہے، لاش شناخت اور پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دی گئی ہے۔دھر منگھو پیر میں گزشتہ روز واٹر بورڈ کے پانی کے ٹینک سے بچے کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی تھی۔ مذکورہ بچے کی کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس کو مقتول بچے کے ورثاء کی تلاش ہے جس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دی گئی ہے۔ کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن سیکٹر 7D میں حسنین مسجد کے قریب نالے سے 1 شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے جسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ہے۔ ایدھی ایمبولینس کے ذریعے مذکورہ 30 سالہ نامعلوم شخص کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ہے۔ گھر سے لڑکے کی لاش برآمد، فائرنگ سے 1 شخص زخمی پاپوش نگر کے علاقے میں واقع گھر سے 16سال کے ایک لڑکے کی لاش ملی ہے جسے پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ادھر لانڈھی کی مانسہرہ کالونی میں واقع قبرستان کے قریب ڈکیتی میں مزاحمت پر فائرنگ کے نتیجے میں 1 شخص زخمی ہو گیا جسے طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا گیا ہے۔
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے مسئلہ کشمیر کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔ مقامی خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ایک مقامی نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹر ویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے، یہ پاکستان کا بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جسے مذاکرات ذریعے حل ہونا چاہیے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہندوستان نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور اب تک ریاستی دہشت گردی میں ہندوستانی فوج نے 90 سے زائد نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ انڈین آرمی کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ انھوں نے ہندوستان پر زور دیا کہ نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو فوری طور پر روکا جائے۔ وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ یہ خارج از امکان نہیں کہ تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے مذکورہ حملہ ہندوستان نے خود کرایا ہو۔ جموں و کشمیر کے اوڑی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو فصل بوتے ہیں وہی کاٹنی پڑتی ہے۔ خواجہ آصف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اخلاقی، سفارتی، سیاسی طور پر کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا، جن کا ان سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں میں وعدہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو غصب کررہا ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کیلئے پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان، پاکستان پر اوڑی حملے کے الزامات لگا کر عالمی برادری کی توجہ کشمیر کے اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے جو اسے مہنگا پڑے گا۔ اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ہندوستان کی جانب سے اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔ دوسری جانب جموں و کشمیر میں اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کے حوالے سے ہندوستان کی درخواست پر پاکستان اور انڈین ڈائریکٹر جنرل ملڑی آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا جس میں لائن آف کنٹرول کی صورت حال سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیال رہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے قصبے اوڑی میں قائم انڈین فوجی مرکز پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 17 فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں اور ہندوستانی فورسز کے درمیان فوجی مرکز کے اندر فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد تمام 4 حملہ آوروں کو ہلاک کیے جانے کا دعویٰ سامنے آیا۔ ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی اپنا دورہ امریکا اور روس ملتوی کردیا جبکہ ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے فوری بعد ہندوستان نے جموں و کشمیر کے علاقے اوڑی میں انڈین فوجی مرکز پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حملے کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ ’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اسے پہچانا جانا چاہیے اور تنہا کردینا چاہیے‘۔ ہندوستانی وزیر داخلہ نے ٹوئیٹر پر انتہائی سخت الفاظ میں مزید الزامات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ انتہائی تربیت یافتہ تھے‘۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے خطاب میں کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔ دوسری جانب تجزیہ کار اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ حملے کے بعد نئی دہلی کی جانب سے اسلام آباد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنا اقوام متحدہ میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور دوران جھڑپوں اور ہندوستانی پولیس کی فائرنگ سے 100 کے قریب کشمیری ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پاکستان نے کئی بار ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے ہر بار یہ کہہ کر پیشکش مسترد کردی کہ وہ صرف سرحد پار سے ہونےوالی دہشت گردی پر بات چیت کرے گا۔
علیہ رحمۃ الرحمن جب 21 برس کے نوجوان تھے اُس وَقْت کا واقِعہ خود اُن ہی کی زَبانی ملاحَظہ ہو ، چُنانچِہ فرماتے ہیں : سَتْرہویں شریف ماہِ فاخِر ربیعُ الآخِر۱۲۹۳؁ھ میں کہ فقیر کو اکیسواں سال تھا۔اعلیٰ حضرت مصنِّف عَلّام سیِّدُنا الوالِدقُدِّسَ سِرُّہُ الماجِد و حضرت مُحِبُّ الرسول جناب مولیٰنا مولوی محمد عبدالقادِر صاحِب بدایونی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمراہِ رِکاب حاضِرِ بارگاہِ بیکس پناہ ِحُضور پُر نُور محبوبِ الہٰی نظامُ الحقِّ وَالدّین سلطانُ الْاَولیاء رَضِیَ اللہ تعالٰی عنہہوا۔حُجرۂ مُقدَّسہ کے چار طرف مجالسِ باطِلہ لَہْو و سَرَوْد گرْم تھیں ۔شور و غَوغا سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی۔دونوں حضراتِ عالیات اپنے قُلوبِ مُطْمَئِنّہ کے ساتھ حاضِرِمُواجَہَۂ اَقدس ( مُ۔وا۔جَ۔ہَ۔ ئِ۔ اَقدس )ہوکر مشغو ل ہوئے ۔ اِس فقیرِ بے تَوقیرنے ہُجومِ شور و شَر سے خاطِر( یعنی دل ) میں پریشانی پائی ۔دروازۂ مُطہَّرہ پر کھڑے ہوکر حضرتِ سلطانُ الْاَولیاء رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کی کہ اے مولیٰ ! غلام جس کیلئے حاضِر ہوا ،یہ آوازیں اس میں خَلَل اندازہیں ۔ (لفْظ یِہی تھے یا ان کے قَریب ،بَہَرحال مضمونِ مَعْروضہ یِہی تھا ) یہ عرض کرکے بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں دروازۂ حُجرۂِ طاہِرہ میں رکھا بِعَونِ رَبِّ قدیر وہ سب آوازیں دَفْعَۃً گُم تھیں ۔ مجھے گمان ہوا کہ یہ لوگ خاموش ہورہے ،پیچھے پھر کر دیکھا تو وُہی بازار گَرْم تھا ۔قدم کہ رکھا تھا باہَر ہٹایا پھر آوازوں کا وُہی جوش پایا ۔ پھر بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں اندر رکھا ۔ بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی پھر ویسے ہی کان ٹھنڈے تھے ۔اب معلو م ہوا کہ یہ مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کا کرم اور حضرتِ سلطانُ الْاَ ولیاء رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامت اور اس بندۂ ناچیز پر رَحْمت و مَعُونَت ہے ۔ شکر بجا لایا اور حاضِر مُواجَہَۂ عالِیہ ہوکر مشغول رہا ۔ کوئی آواز نہ سنائی دی ،جب باہَر آیا پھر وُہی حال تھا کہ خانقاہِ اقدس کے باہَر قِیام گاہ تک پہنچنا دشوار ہوا ۔ فقیر نے یہ اپنے اوپرگُزری ہوئی گزارِش کی ،کہ اوّل تو وہ نعمتِ الٰہیعَزَّوَجَلَّ تھی اور ربَّعَزَّوَجَلَّفرماتاہے: وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴿٪۱۱﴾ ’’ اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکی نعمتوں کو لوگوں سے خوب بیان کر ۔‘‘ مَع ھٰذا اِس میں غُلامانِ اولیائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکیلئے بِشارت اور مُنکِروں پر بَلا و حسرت ہے۔ الہٰی!عَزَّوَجَلَّ صَدَقہ اپنے محبوبوں (رِضْوانُ اللّٰہِ تعالیٰ علیھم اَجمعین ) کاہمیں دنیا و آخِرت و قَبْر و حَشْر میں اپنے محبوبوں عَلَیہِمُ الرِّضْوَان کے بَرَکاتِ بے پایاں سے بَہرہ مند فرما۔ (اَحْسَنُ الْوِعَاء لِاٰدَابِ الدُّعاء ص ۱۴۰) اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حِکایت’’ بائیس خواجہ کی چَوکھٹ دِہلی شریف‘‘ کی ہے ۔اِس میں تاجدارِ دِہلی حضرت سیِّدُنا خواجہ محبوبِ الہٰی نظام ُالدّین اولیا ءرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نُمایا ں کرامت ہے۔اِس حِکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باِلفرض اگر مزاراتِ اولیاء پر جُہَلاء غیر شَرْعی حَرَکات کررہے ہوں اور ان کو روکنے کی قُدرت نہ ہو تب بھی اپنے آپ کو اَہلُ اللّٰہ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکے درباروں کی حاضِری سے محروم نہ کرے۔ ہاں مگر یہ واجِب ہے کہ اُن خُرافات کو دل سے بُرا جانے اور اِن میں شامل ہونے سے بچے۔ بلکہ اُن کی طرف دیکھنے سے بھی خود کو بچائے۔ (فیضانِ بسم اللہ، ص۸)
پارس شاہد صدیقی وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں میرا آخری مہینہ تھا۔ان دنوں میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم اے کر رہا تھا‘ میرا ک... ماسٹر فضل صاحب ماسٹر فضل صاحب شاہد صدیقی بعض دفعہ چشم تصور بھی کیا کیا منظر دکھاتی ہے؛ کبھی بیابانوں میں مہکتے گلاب ‘کبھی صحراؤں میں میٹھے پانی ... Languages: Politics and Practices Languages: Politics and Practices By Shahid Siddqiui Language plays an important role in the sociopolitical and education systems o... حاجی صاحب ترنگ زئی بمقابلہ تاجِ برطانیہ حاجی صاحب ترنگ زئی بمقابلہ تاجِ برطانیہ شاہد صدیقی تاجِ برطانیہ کے خلاف سرحدی علاقے کے حریت پسندوںنے بھرپور جدوجہد کی۔ ان میں ایک... پنجابی زبان اور معاشرتی رویے پنجابی زبان اور معاشرتی رویے شاہد صدیقی کچھ عرصہ پیشتر صوبہ پنجاب میں ساہیوال کے ایک سکول نے طلباء کوایک ہدایت نامہ جاری کیاہے جس ...
جایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او نے معاشی ماہرین کو اس وقت سوچ میں ڈال دیا جب اس نے کہا کہ: سائیکل ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے – اس لئے کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا، وہ کار خریدنے کے لئے قرض بھی نہیں لیتا۔ انشورنس نہیں کرواتا – پیٹرول بھی نہیں خریدتا۔ اپنی گاڑی سروس اور مرمت کے لئے نہیں بھیجتا۔ کار پارکنگ کی فیس ادا نہیں کرتا۔ وہ ٹال پلازوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔ سائیکل چلانے کی وجہ سے صحت مند رہتا ہے موٹا نہیں ہوتا !! صحت مند رہنے کے باعث وہ دوائیں نہیں خریدتا۔‏ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ بھی شامل نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہر نیا فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ اپنے ملازمین کے علاوہ کم از کم 30 طرح کے لوگوں کے لئے روزگار کا سبب بنتا ہے۔‏ جن میں ڈاکٹر ، امراض قلب کے ماہر، ماہرِ معدہ و جگر، ماہر ناک کان گلہ، دندان ساز، کینسر سپیشلسٹ، حکیم اور میڈیکل سٹور مالکان وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سائیکل معیشت کی دشمن ہے اور مضبوط معیشت کے لئے صحت مند افراد سخت نقصان دہ ہیں۔‏
مؤرخہ 10 نومبر 2022ءبروز جمعرات حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے 145ویں یوم ولادت کی مناسبت سے شعبہ اُردو ،ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز یونی ورسٹی آ ف ایجوکیشن لوئر مال کیمپس کے زیر اہتمام"فکر اقبال" سمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ سیمینار کی صدارت محترمہ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین "ڈائریکٹر اقبال اکادمی،پاکستان " نے کی ۔پاکستان سے ماہر اقبالیات و ریسرچ اسکالر حسن رضا اقبالی اور تہران یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ماہر اقبالیات محترمہ ڈاکٹر وفا یزداں منش نے دعوت پر خصوصی شرکت کی ۔ ان کے ساتھ ساتھ ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کے ڈائریکٹر و ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمن خان اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے پرو وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد بھی سیمینار میں شریک ہوئے۔ میزبانی کے فرائض ڈاکٹر صائمہ علی نے سر انجام دئیے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد کلام اقبال پیش کیا گیا جس کے بعد ڈائریکٹر ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سب مہمانوں کا فردا فردا مختصر تعارف کرایا ۔ اس مختصر تعارف کے بعد حسن رضا اقبالی نے اقبال کے فلسفہ خودی پر فکر انگیز لیکچر دیا۔ ڈاکٹر وفا یزداں منش نے اقبال کی فارسی شاعری اور خصوصا ایران میں اقبال شناسی کے حوالے سے ہونے والی تحقیق پر روشنی ڈالی ۔ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ نے اقبال کی فکر و نظر اور اقبال کی نظر میں نوجوانوں کی اہمیت کے حوالے سے بصیرت افروز لیکچر دیا۔ جامعہ ہذا میں اس سیمینار کی حیثیت و اہمیت اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اقبال کی فکری تعلیمات آج کے مسلمان اور خصوصا پاکستانی نوجوان کے لیے سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ایک مثبت اور فعال انسان کے طور پر معاشرے کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکے ۔ سیمینار کے اختتام پر طلبا نے معزز مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کیے ۔ شعبہ اُردو کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کے اساتذہ و طلبا نے بھی جوش و جذبے سے اس سیمینار میں شرکت کی ۔
كتاب تعليم دين سادہ زبان ميں حوزہ علميہ قم كى ايك بلند پايہ علمى شخصيت حضرت آية اللہ ابراہيم امينى كى گران مايہ تاليفات ميں سے ايك سلسلہ ''آموزش دين در زبان سادہ كا اردو ترجمہ ہے _ اس كتاب كو خصوصيت كے ساتھ بچوں اور نوجوانوں كے لئے تحرير كيا گيا ہے _ ليكن اس كے مطالب اعلى علمى پيمانہ كے حامل ہيں اس بناپر اعلى تعليم يافتہ اور پختہ عمر كے افراد بھى اس سے استفادہ كر سكتے ہيں _ بچوں اور جوانوں كى مختلف ذہنى سطحوں كے پيش نظر اس سلسلہ كتب كو چار جلدوں ميں تيار كيا گيا ہے _ كتاب ہذا اس سلسلہ كتب كى چوتھى جلد كے ايك حصّہ پر مشتمل ہے جسے كتاب كى ضخامت كے پيش نظر عليحدہ شائع كيا جارہا ہے _ اس سلسلہ كتب كى امتيازى خصوصيات درج ذيل ہے _ _كتاب كے مضامين گوكہ اعلى مطالب پر مشتمل ہيں ليكن انھيں دل نشين پيرائے اور سادہ زبان ميں پيش كيا گيا ہے تا كہ يہ بچّوں كے لئے قابل فہم اور دلچسپ ہوں _ _اصول عقائد كے بيان كے وقت فلسفيانہ موشگافيوں سے پرہيز كرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالى طريقہ اختيار كيا گيا ہے كہ نو عمر طلبا اسے آسانى سے سمجھ سكتے ہيں _ _مطالب و معانى كے بيان كے وقت يہ كوشش كى گئي ہے كہ پڑھنے والوں كى فطرت خداجوئي بيدار كى جائے تا كہ وہ از خود مطالب و مفاہيم سے آگاہ ہوكر انھيں دل كى گہرائيوں سے قبول كريں اور ان كا ايمان استوار پائيدار ہوجائے _ _ہمارى درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمين شيخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں كتابوں كا ترجمہ كيا _ ان كتابوں كا پہلا ايڈيشن پاكستان ميں شائع ہواتھا اور اب اصل متن مؤلف محترم كى نظر ثانى كے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندى كى نظر ثانى اور بازنويسى كے بعد دوبارہ شائع كيا جارہاہے اپنى اس ناچيز سعى كو حضرت بقية اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف كى خدمت ميں ہديہ كرتا ہوں _
استنبول: ترکی کے مرکزی شہر استنبول میں بم دھماکے کی تحقیقات میں ترکیہ پولیس کی جانب سے گرفتاریاں جاری ہیں، گرفتار افراد کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کو استنبول شہر کے استقلال ایونیو میں بم دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور 81 زخمی ہو گئے تھے، دھماکے کے بعد تحقیقات کے دوران ترکیہ پولیس نے ایک شامی خاتون احلام البشیر کو یونان فرار ہونے سے قبل گرفتار کیا۔ بم نصب کرنے والی 46 سالہ شامی خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ وہ کرد عسکریت پسندوں کے لیے کام کر رہی تھیں۔ ادھر ترکیہ پولیس نے آج عمار جے اور اس کے بھائی احمد جے کو گرفتار کر لیا ہے، ترک میڈیا کے مطابق احمد جے مبینہ طور پر حملہ آور کو یونان فرار کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا، جب کہ عمار جے پولیس کو مطلوب تھا جو حملہ کرنے والی خاتون کے ساتھ رہتا تھا۔ ترکیہ کا دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کیخلاف جوابی کارروائی کا اعلان ترکی نے استنبول حملے پر امریکی تعزیت بھی سختی کے ساتھ مسترد کر دی ہے، وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے کہا کہ امریکی تعزیت ’جائے وقوعہ پر سب سے پہلے قاتل کے پہنچنے‘ جیسی ہے۔ خیال رہے کہ صدر رجب طیب اردوان نے واشنگٹن پر شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کا متعدد بار الزام لگایا، کرد جنگجوؤں کو انقرہ نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا HentaiPorn.Games? HentaiPorn.Games میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے HentaiPorn.Games دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے HentaiPorn.Games? HentaiPorn.Games کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر HentaiPorn.Games, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر HentaiPorn.Games? آپ ادا کر سکتے ہیں HentaiPorn.Games دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, HentaiPorn.Games بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ HentaiPorn.Games کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, HentaiPorn.Games فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے HentaiPorn.Games پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے HentaiPorn.Games? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے HentaiPorn.Games کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
آپ یا تو رشک ہو یا آپ تنہا حالت زار کے بارے میں افسوس محسوس ہو گا. اگر آپ کو لگتا ہے آپ کے ساتھی پوری طرح unromantic ہے اور پھر آپ کو شاید غصہ ہو جائے گا (صرف شادی شدہ جوڑے پوچھیں)! پیڈیی Relfies میں تبدیل کر رہے ہیں! پیار کی عوامی دکھاتا ہے زمانہ قدیم کے ایک رجحان ہے. اس بلاگ میں, کے عنوان سے, “امریکی تاریخ میں جنسیت“, نوجوان مردوں اور عورتوں کو زیادہ آزاد ہو جائے کرنے کے لئے شروع کر رہے تھے اور انہوں نے کھل کر ایک دوسرے کے ساتھ mingling شروع. بلاگ کی بھی آزادی گاڑیوں کے ساتھ آتا ہے کہ میں بھی کچھ اکیلے وقت حاصل کرنے کے لئے نوجوان مردوں اور اسباب ہونے کی خواتین میں کردار ادا کیا حوالہ دیا ہے! سنتری پر وایلیٹ ویا یہاں تک کہ بھارت میں, ہم اقتصادی ترقی اور ذاتی نقل و حرکت کے اثرات دیکھ رہے ہیں. ہم کھلے عام کیفے میں ممتا کی نمائش نوجوان مردوں اور عورتوں کو دیکھنے کے لئے زیادہ امکان ہے, مالز اور مووی تھیٹرز. بلکل, ہم ہر جگہ اخلاقی پولیس والے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر وقت کی ایک بہت خرچ کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ جوڑوں کے اشتراک کے نتیجے میں ہے ان کی “رشتہ داری سیلفیز”, کی طرف سے گڑھا ایک اصطلاح Dr.Benjamin. یہاں اس نے ایک کرانے کے بعد کہنا پڑا کیا ہے یہ کیسے relfies سمجھی جاتی ہیں اور کیا مطلب ہے پر مطالعہ. یہاں ان کا نتیجہ ہے. دوسروں کو فورم میں اگر آپ کو ایک اچھا رشتہ میں ہیں سنبھالیں گے relfies, "معاشقہ ..." کو آپ کی حیثیت کو تبدیل, اور فیس بک پر آپ کے تعلقات کے بارے میں بات. اس کے علاوہ, آپ کے پروفائل دیکھنے والے لوگوں سے آپ کے تعلقات کی ان کی درجہ بندی میں بہت درست ہیں. آپ ایک مضبوط رشتے میں ہیں، تو, ناظرین اپنے فیس بک پروفائل سے کہ اٹھا سکتے ہیں. البتہ, بھی حاصل کرنے میں کچھ خطرہ نہیں ہے schmoopie فیس بک پر آپ کے تعلقات کے بارے میں; آپ کے دوست آپ کے تعلقات اچھا چل رہا ہے لگتا ہے کہ جائے گا، اگرچہ, وہ آپ کو کم پسند آئے گی. کوئی بات نہیں جو آپ کی صورتحال کیا ہے, آپ کی گرفتاری کی محبت کرنے والوں کو بھول کہ دنیا بھی ان کے ارد گرد موجود ہے کہ ان تصاویر سے محبت کرتا ہوں شاید گے. یہ سب نہیں ہے. ہم گرفتار کر لیا ہے 13 محبت اور محبت کے مترادف ہیں کہ دو چیزوں پر توجہ مرکوز ہے کہ تصاویر – بارش اور کافی! بارش اور کافی رومانوی اور گرم جوشی کے ساتھ کی تصاویر کو جادو اور ہم اس کو ثابت کرنے کے لئے باہر قائم کیا ہے. محبت بھی ہمیشہ نہیں ہے “پرجوش” (کے لئے محفوظ لفظ “ہونٹ تالا”). ایک دوسرے کی آنکھوں میں گھورتی جوڑے, ہاتھ یا اس سے بھی آہستہ گاڑی میں اپنے پیاروں کی مدد کر انعقاد محبت اور پیار کا مظاہرہ. ان تمام جذبات قبضہ کرنے کی کوشش نیچے دی گئی تصاویر میں سے سیریز. محبت اور محبت: بارش میں محبت کرنے والوں کی تصاویر محبت اور محبت: کافی کی دکانوں میں سے محبت کرنے والوں کی تصاویر جب بارش ہو رہی ہے, ایک کپ کافی آپ کو مکمل محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام ہے. گرمی اور محبت کے ساتھ brimming کر رہے ہیں کہ ان تصاویر کو چیک کریں.
والد کی بیٹی سے محبت کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں، لیکن کیا آپ نے ایسا کبھی سنا ہے کہ بیٹی کو نقصان پہچانے والے جانور کو والد زندہ کھا لے؟ چین میں ایک شخص نے بیٹی کا انتقام لینے کے لیے کیکڑے کو زندہ کھا لیا، جس کے بعد خود اسپتال پہنچ گیا۔ چین کے صوبے زجیانگ میں ایک شخص پیٹ اور کمر کی شدید تکلیف کی شکایت لے کر اسپتال پہنچا تو ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ جس کے بعد اس کی بیوی نے ڈاکٹر کو بتایا کہ ایک چشمے کے قریب میری بیٹی پر ایک چھوٹے کیکڑے نے حملہ کیا تھا، جس پر مشتعل ہوکر میرے شوہر نے اسے اٹھا کر کھا لیا۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے مریض کے خون کے ٹیسٹ کیے اور پھر انہیں معلوم ہوا کہ انتقام لینے کی اس کوشش کے باعث وہ شخص 3 مختلف پیراسائیٹ انفیکشنز کا شکار ہوگیا ہے۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مردِ بحران میدان میں ہو اور اس کی ٹیم ایسے چھوٹے سے مارجن سے شکست کھا جائے۔ اس میں قصور مردِ بحران کا ہرگز ںہیں ہوتا بلکہ اس بے احتیاطی کا ہوتا ہے جو وکٹ کے دوسرے اینڈ پہ موجود بلے بازوں میں کروٹیں لے رہی ہوتی ہے۔ فخر زمان کا کرئیر اگرچہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے مگر وانڈررز کرکٹ گراؤنڈ کی یہ اننگز ان کی نشاطِ ثانیہ کا علمبردار تھی۔ جدوجہد کے وہ تمام لمحات جب فخر زمان اپنی ہستی کا ثبوت دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہ اننگز ان سبھی سوالوں کا جواب ہو سکتی تھی۔ لیکن اگر کوئی فخر کا ساتھ دیتا تو ۔۔۔۔۔ پاکستان کرکٹ میں ایسے لمحات بہت ہی نایاب ہیں کیوںکہ اگر کبھی کوئی مردِ بحران حالات کے مقابل ڈٹ کے کھڑا ہوا بھی تو اسے دوسرے کنارے سے کوئی نہ کوئی مدد بہر طور میسر رہی۔ یہ بھی پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم: اگر ذرا سا بھی ڈرامہ نہ ہو تو جیت کا کیا مزا؟ کیا پاکستانی ٹیم دورہ جنوبی افریقہ میں شائقین کی توجہ آئی پی ایل سے ہٹا پائے گی؟ پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: اب شاید یہ پہاڑ بھی سر ہو جائے انضمام الحق کی 2005 کی احمد آباد اننگز کو ہی لیجیے تو انھیں بھی دوسرے کنارے سے بہرحال کچھ نہ کچھ مدد میسر ہی رہی۔ لیکن فخر زمان کو ایسی کوئی مدد میسر نہیں تھی کیونکہ ’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔‘ اگر بابر اعظم یا محمد رضوان یا حتیٰ کہ شاداب ہی دوسرے کنارے پہ موجود رہتے تو فخر کو کوئی دلاسہ تو ہوتا کہ ان کے بعد بھی کوئی اس کشتی کو پار لگانے کی فکر تو کرے گا۔ مگر جب وقت نے سوال اٹھایا تو پاکستان کی جیب خالی تھی۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images عین ممکن ہے کہ اگر بابر اعظم نورکیہ کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب عجلت کی بجائے مصلحت سے دے دیتے تو یہاں پاکستاںی کارکردگی نہایت مختلف ہوتی۔ بعید از قیاس نہیں کہ اگر رضوان بھی منھ زور جارحیت اختیار کرنے کی بجائے فخر کی صلاحیتوں پہ اعتماد برقرار رکھتے تو نتیجہ پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہوتا۔ مگر ایسا ہو نہ پایا۔۔۔۔ کیونکہ 300 سے زائد مجموعے کا تعاقب کبھی بھی پاکستانی بیٹنگ کی قوت نہیں رہا۔ یہ ٹیم اس قابل تو یقیناً ہے کہ اچھی بولنگ کے بل پہ حریف کو 300 سے کم مجموعے پہ زیر کر ڈالے اور پھر آسان ہدف کا تعاقب کر لے مگر یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ 300 سے زائد ہدف کا تعاقب ویسے ہی کرے جیسے اوئن مورگن کی انگلش ٹیم کیا کرتی ہے۔ سیریز کے آغاز سے پہلے ہی بابر اعظم بے خوف کرکٹ کی بات کر رہے تھے۔ کیا یہ وہی بے خوف کرکٹ ہے جس کی بابت ان کے پیش رو کپتان سرفراز احمد نے چیمپئنز ٹرافی سے قبل اشارہ کیا تھا؟ بادی النظر میں یہ وہ کرکٹ نہیں ہے جو بابر اعظم چاہتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ نورکیہ کے پہلے ہی اوور میں بے وجہ جارحیت نہ اپناتے تو نتائج یقیناً مختلف ثابت ہوتے مگر نورکیہ کی برق رفتاری بابر اعظم کے سبھی منصوبے لے ڈوبی۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images پاکستان کے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اسے ایسے بہترین بولر میسر ہیں جو بیٹنگ وکٹ پہ بھی حریف کو 350 سے کم کے مجموعے پہ روک سکتے ہیں۔ کمی صرف اس امر کی ہے کہ پاکستانی بلے باز بھی ایسے ہدف کا تعاقب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ امام الحق میں یہ خاصیت ہے کہ وہ رن ریٹ سے قطع نظر اپنا کنارہ سنبھال سکتے ہیں۔ یہی خوبی ہمیں آج فخر زمان میں بھی دکھائی دی کہ وہ دوسرے اینڈ کی تباہ کاری سے قطع نظر اپنا کام بخوبی نبھاتے رہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کو ایسے قابلِ اعتماد لوگ میسر نہیں جو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا جانتے ہوں۔ دانش عزیز کا چونکہ یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے، اس لیے انھیں تنقید کا ہدف بنانا مناسب نہیں مگر ٹیم مینیجمنٹ کو بہرحال یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر دانش پانچویں نمبر پہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے تو شاید اس کی وجہ چوتھے نمبر کی کم مائیگی ہے۔ ویسے بھی اگر ٹیم انتظامیہ کو پانچویں نمبر پہ کوئی خطرہ مول لینا ہی تھا تو حیدر علی میں کیا برائی تھی جو انٹرنیشنل کرکٹ کا ذائقہ چکھ بھی چکے ہیں اور اسے نبھانا بھی جانتے ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کے لیے انٹرنیشنل ڈیبیو عموماً ہوم کنڈیشنزمیں ہی سودمند رہتا ہے۔ عابد علی اس کی بہترین مثال ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images پاکستانی بولنگ کی کہیے تو یہ عقدہ ابھی تک سبھی کی فہم سے بالاتر ہے کہ حسن علی اس پلیئنگ الیون کا حصہ کیوں نہیں ہیں۔ ایک طرف پاکستانی بولنگ بیچ کے اوورز کی ماراماری کا جواب دینے سے قاصر ہے تو دوسری جانب مکمل فٹ حسن علی بینچ پہ بیٹھے، کپتان کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں۔ اگر اسی بولنگ اٹیک میں پاکستان کو محمد حسنین کی بجائے حسن علی کی خدمات میسر ہوتیں تو اس مقابلے کا معیار ہی یکسر مختلف ہوتا۔ حسن علی کی موجودگی کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ شدید دقت کے آخری اوورز میں گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچانا بھی جانتے ہیں۔ یہ میچ ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے قابلِ فتح تھا اور یہاں پاکستان اپنی کسی صلاحیتی کمی کی وجہ سے نہیں ہارا بلکہ ٹیم سلیکشن کے چند فیصلے اس قدر اہم ثابت ہوئے کہ بابر اعظم کی ٹیم کے گلے پڑ گئے۔
اسرائیلی سفیر نے کہا متحدہ عرب امارات اسرائیلی معیشت کے لیے ایک اہم ترقی کا انجن ہو سکتا ہے۔ تصویر: اسکرین گریب اماراتی نیوز ایجنسی اسرائیلی سفیرعامر ہائیک کا کہنا ہے کہ دو سے تین سال میں متحدہ عرب امارات (یواے ای) اسرائیل کے 10 بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل ہوگا۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یواے ای) کی باہمی تجارت میں گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران 117 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی سفیرعامر نے بتایا کہ گزشتہ سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 560 ملین ڈالر(2.06 ارب درہم) مالیت کی دو طرفہ تجارت 2022 کی پہلی ششماہی کے دوران 1.214 ارب ڈالر (4.46 ارب درہم) تک پہنچ گئی ہے، جو117 فیصد زائد ہے۔ ابوظہبی میں اسرائیلی سفارت خانے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کی دوسری سالگرہ کی تقریب میں شریک اسرائیلی سفیرعامر ہائیک کا کہنا تھا کہ یقین ہے کہ اگلے 2 سے 3 سال میں ہم (یواے ای) کو ان 10 سرِفہرست ممالک میں دیکھیں گے، جن کے ساتھ اسرائیل تجارت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (یواے ای) اسرائیلی معیشت، اسرائیلی صنعتوں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے ترقی کا انجن ثابت ہوگا۔ اسرائیلی سفیر نے کہا کہ جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے (CEPA) پر31 مئی 2022 کو (یواے ای) کے ساتھ 6 ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد دستخط کیے تھے۔ دوسری جانب (یواے ای) کی وزارت اقتصادیات کے مطابق توقع ہے کہ مذکورہ معاہدے سے دو طرفہ تجارت 5 سال میں 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ وزارت اقتصادیات نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کی GDP میں 1.9 ارب ڈالرکا اضافہ ہوگا جس کے بعد 2030 تک (یواے ای) کی کل برآمدات میں 0.5 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
موسم سرما میں اکثر گلے کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جو نہایت تکلیف کا باعث بنتے ہیں، گلے کی صحت کا خیال سارا سال ہی رکھنا ضروری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد گلے کی مناسب دیکھ بھال اور اس کی صحت کا خیال نہیں رکھتی اس لیے اس میں اکثر خراش یا نگلتے ہوئے تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ کچھ ایسے طریقے ہیں جنہیں اپنانا گلے کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ نم رکھیں گلے کی اندرونی سطح نہایت نرم بافتوں سے بنی ہوئی ہیں جنہیں صحت مند رکھنے کے لیے نم رکھنا بے حد ضروری ہے، کوشش کریں کہ کیفین سے بھرپور مشروبات سے دور رہیں جو جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ پیاس لگنے کی صورت میں سافٹ ڈرنک کے بجائے پانی پینے کو اپنی عادت بنائیں، ماہرین صحت کا مشورہ ہے کہ روزانہ 6 سے 8 گلاس پانی لازمی پیئں، اور اگر آپ ایسی جگہ کام کر رہے ہیں جہاں کا موسم خشک ہے یا ایئر کنڈیشنڈ چل رہا ہو تو پانی کا استعمال بڑھا دیں۔ ٹوتھ برش کی صفائی کو یقینی بنائیں جس طرح دانتوں کو باقاعدگی سے صاف کرنے کے لیے برش کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ٹوتھ برش کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھیں۔ دانتوں کی صفائی کے دوران کھانے کے اجزا اور دیگر مواد سے جراثیم اور بیکٹیریا برش پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے صبح دانت برش کرنے سے پہلے ایک کپ گرم پانی میں ایک چائے کا چمچ نمک ملا کر اس میں اپنے ٹوتھ برش کو بھگو دیں۔ نمکین پانی بیکٹیریل خلیوں کو دور کر کے برش کو صاف کر دے گا۔ حفظان صحت کے اصول اپنائیں بنیادی حفظان صحت کے طریقے، جیسے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانے کے برتن اور دیگر ذاتی اشیا کا اشتراک نہ کرنا، گلے کی خراش کو روکنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طرح وائرل یا بیکٹیریل گلے کے مسائل دوسروں تک نہیں پھیلیں گے۔ گلے کو آرام دیں اگر آپ کسی ایسے پشے سے وابستہ ہیں جس میں بات کرنا یا زیادہ بولنا شامل ہے جیسے گلوکار، اداکار، اسپیکر، استاد، یا ڈاکٹر تو ایسی صورت میں کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کریں تاکہ گلے کو آرام دیا جاسکے۔ نیم گرم نمکین محلول سے غرارے کریں نمک ملے پانی سے غرارے کرنا بہترین جراثیم کش عمل ثابت ہوتا ہے، اس طرح بیکٹیریا کی نشوونما رک جاتی ہے۔ لہٰذا، صحت مند گلے اور صبح کے وقت صاف ستھرا سانس لینے کے لیے، سونے سے قبل نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے ضرور کریں۔
٭ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے اسلامی تعاون تنظیم (او۔آئی۔سی)کی وزرا خارجہ کونسل کے نیامے میںمنعقدہ اجلاس کے موقع پر آج ملاقات کی۔ ٭ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی امور، کثیرالقومی اداروں کی سطح پر تعاون اور کورونا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ ٭ وزیر خارجہ نے ’جی۔بیس‘ اجلاس کے کامیاب انعقاد پر سعودی قیادت کو مبارک دی۔ ٭ وزیرخارجہ نے زوردیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے اور طویل المدتی تعلقات استوار ہیں۔ ٭ اطراف نے توانائی کے شعبے سمیت دوطرفہ تجارت اور معاشی تعاون کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ ٭ دونوں وزرا خارجہ نے امت مسلمہ کے کلیدی پلیٹ فارم کے طورپر ’او۔آئی۔سی‘ کی اہمیت اور کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے کردار پرگفتگو کی۔ ٭ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں جاری سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔ ٭ انہوں نے سلطنت کی کشمیر کے منصفانہ کاز کے لئے ٹھوس اور اصولی حمایت پر سعودی عرب کے اپنے ہم منصب کا شکریہ ادا کیا۔ ٭ شہزادہ فیصل نے اس اہمیت پر زور دیا جو سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے بردرانہ اور سٹرٹیجک تعلقات کو دیتا ہے۔
ن لیگ کے صدر نے احتساب عدالت کے سامنے نیب کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ عمران خان اور مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ فاطمہ علی @FatimaAli09 سوموار 5 اکتوبر 2020 15:00 پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پیر کو لاہور میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے روا رکھے گئے سلوک کی شکایت کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر نیب نے 28 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ سے حراست میں لیا تھا۔ پیر کو احتساب عدالت کے جسٹس جواد الحسن نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت میں کہا: 'میری ایک بہت ضروری شکایت ہے، سارا زمانہ جانتا ہے کہ مجھے کمر کی تکلیف ہے، میں 25 سال سے کمر کے درد میں مبتلا ہوں، نماز پڑھنے کے لیے کرسی کا رخ تبدیل کرنے کے لیے بھی مدد لیتا ہوں لیکن یکم اور دو اکتوبر کو میری مدد کرنے سے انکار کردیا گیا، پہلےکھانا میز پر رکھا جاتا تھا لیکن اب زمین پر رکھ دیتے ہیں اور یہ سب جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ مجھے جھکنا پڑے۔' انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب کو بھی شکایت بھجوا چکے ہیں۔ 'میرے ساتھ یہ سلوک عمران خان اور شہزاد اکبر کی ایما پر ہوا، مجھے کچھ ہوا یا میری جان گئی تو ایف آئی آر عمران خان اور شہزاد اکبر کے خلاف درج کراؤں گا۔' اس پر جسٹس جواد الحسن نے استفسار کیا: 'آپ نے اپنی شکایت مجھے بتا دی، جب تک آپ عدالتی تحویل میں ہیں، میرے احکامات چلیں گے، دوران تحویل کوئی غیرانسانی سلوک برداشت نہیں کروں گا۔ آئندہ یہ شکایت ہوئی تو میں اس کا نوٹس لوں گا۔' نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کو حوالات میں نہیں بلکہ خاص روم ڈسپنسری میں رکھا ہوا ہے اور انہیں کھانا گھر سے لانے کی اجازت دے رکھی ہے، اس پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ انہیں دو روز تک حوالات میں رکھا گیا تھا اور شکایت کرنے پر انہیں ڈسپنسری منتقل کیا گیا۔ جسٹس جواد الحسن نے دیگر وکلا کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا: 'مجھے سیاست میں آپ سے زیادہ تجربہ ہے، میں آج ہی اس سے متعلق مکمل آرڈر پاس کروں گا، یہ ہرگز درست نہیں کہ کھانا زمین پر دیا جائے۔' اس کے ساتھ ہی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ شہباز شریف کی شکایات کے حوالے سے ن لیگ کی سیکرٹری اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'شہباز شریف کا کھانا دن میں ایک مرتبہ گھر سے جاتا ہے، جس میں مختلف ڈشز ہوتی ہیں۔ چونکہ شہباز شریف کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے پرہیزی کھانا بھیجا جاتا ہے۔' انہوں نے مزید کہا 'نیب کی تحویل میں شہباز شریف کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں جیل میں اضافی احتیاط کی ضرورت ہے اور انہیں جان بوجھ کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا اظہار آج نے احتساب عدالت میں بھی کیا۔' جب اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: 'ہم شکایت ڈاٹ کام سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔' مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) مسرت چیمہ نے مزید کہا: 'سب سے پہلی بات یہ کہ کسی کے کہنے پر کسی کو نہیں بلایا گیا۔ دراصل منی لانڈرنگ کیس میں ان کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں سے جو پیسے نکلے ہیں یہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ان کا بیانیہ عوام اور میڈیا کے لیے اور ہے جبکہ جب نیب حکام ان سے سوال جواب کرتے ہیں تو یہ بالکل فلیٹ جواب دیتے ہیں۔' ان کا کہنا تھا: 'شہباز شریف جتنے الزامات لگا رہے ہیں انہیں بالکل اسی طرح دیکھا جائے جس طرح انہوں نے نوز شریف کے پلیٹ لیٹ کاؤنٹس کا ڈرامہ رچایا تھا، کہ ایک انتہائی بیمار مریض جو اس وقت بستر مرگ پر تھے لیکن جیسے ہی ایئر ایمبولینس میں بیٹھے تو وہ بالکل ٹھیک ہوگئے اور آج اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔' بقول مسرت چیمہ: 'ان کے قول و فعل میں تضاد ہے اور ان کی ساکھ صفر ہے۔ ان کی باتوں پر کسی کو کان اس لیے نہیں دھرنا چاہیے کیونکہ ان کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ جھوٹ پر مبنی ہے۔' مزید پڑھیے شہباز کی گرفتاری: 'کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہمیں جھکایا جا سکتا ہے' کاغذی لاک ڈاؤن اور شہباز شریف کی پکڑ کھٹی میٹھی گولیاں اور شہباز شریف شہباز شریف کی واپسی میں تاخیر پر لیگی اراکین میں بے چینی اسی بارے میں: شہباز شریفمسلم لیگ ناحتساب عدالتقومی احتساب بیورونیبعدالتمنی لانڈرنگ کیسلاہورپاکستانانڈپینڈنٹ اردو
مصر کے ایک چرچ میں آتشزدگی سے 41 افراد شہید روس یوکرین جنگ بندی کے لیے مسیحیوں کا 25مارچ کو یوم دعا منانے کا اعلان سکھر: ’زبردستی شادی‘ سے انکار پر ہندو لڑکی قتل پوپ فرانسس نے ویٹیکن کے نئے اصلاحاتی دستور کی منظوری دے دی کراچی سے اغوا ہونیوالی مسیحی بچی کو پولیس نے بازیاب کرا لیا مسیحی برادری ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کررہی ہے: آرمی چیف قمر باجوہ اوکاڑہ : نابالغ مسیحی لڑکی اغوا کے بعد زیادتی کی شکار مسیحی مشنری اہل خانہ سمیت اغوا، تاوان مانگ لیا گیا مسیحی مشنری کے اہل خانہ سمیت 17 افراد کا اغوا صوبائی وزیر اقلیتی امور اعجاز عالم کا دورہ ساہیوال شیئر کریں جسم فروشی کے لیے پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ پاکستان نے آٹھ ایسے چینی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے، جو مبینہ طور پر پاکستان سے نوجوان لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر انہیں چین لے جانا اور وہاں ان سے جسم فروشی کرانا چاہتے تھے۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار جمیل احمد کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان آٹھ چینی شہریوں کے ساتھ ساتھ ایسے چار پاکستانیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے،جو ایسی جعلی شادیوں کے لیے سہولت کار کا کام کرتے تھے۔ ایف آئی اے کے ایک دوسرے اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور مزید گرفتاریاں عمل میں آ سکتی ہیں۔ جمیل احمد نے اس حوالے سے مزید بتایا، ’’پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ سے متعلق ایف آئی اے کو معلومات ملی تھیں کہ انہیں چین لے جا کر وہاں ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔‘‘ جمیل احمد کے مطابق انہیں متعدد ایسے جرائم پیشہ گروہوں کا پتہ چلا ہے، جو خاص طور پر مسیحی خواتین کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں ’دلہنوں‘ کی اسمگلنگ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد حکومت کو ایسی رپورٹوں کے حوالے سے ’چوکنا‘ ہو جانا چاہیے۔ اس رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کا طریقہء کار بالکل ویسا ہی ہے، جیسا ایشیا کے پانچ دوسرے ممالک میں اپنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ہزاروں چینی شہری میانمار اور ویتنام جیسے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی خواتین سے شادی کرتے ہیں۔ چین کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں تک نافذ العمل رہنے والی ’ون چائلڈ پالیسی‘ کی وجہ سے خواتین اور مردوں کی مجموعی تعداد میں واضح فرق پیدا ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے مقامی میڈیا میں بھی ایسی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ لاہور کے ایک میرج بیورو میں غریب خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیاں پیسوں اور ویزے کے عوض چینی شہریوں سے کرائی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں واقع چینی سفارت خانے کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’چین پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اس طرح کے غیرقانونی شادی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔ ہم چین اور پاکستان دونوں ممالک کے شہریوں سے محتاط رہنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ وہ دھوکہ دہی سے بچ سکیں۔‘‘ پاکستانی خواتین کی چین میں اسمگلنگ کے علاوہ بھی اس ملک کو مشرق وسطیٰ میں بچوں کی اسمگلنگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی بچوں کو خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والی اونٹوں کی دوڑوں ریسوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کراچی: پاکستانیوں میں خود کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیٹول کی مہم ’ہوگا صاف پاکستان‘ کے تحت نیا صفائی ترانہ پیش کردیا گیا۔ اس ترانے کا مقصد صاف پاکستان کے تصور کی عکاسی کرنا ہے۔ آفیشل ترانے کی ویڈیو ’ہوگا صاف پاکستان‘ مہم کے چیمپئنز فہد مصطفیٰ ، وسیم بادامی، اقرار الحسن اور شنیرہ اکرم شامل ہیں، ترانے کی دھن شجاع حیدر نے بنائی جبکہ عاصم اظہر اور آئمہ بیگ نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ ریکٹ بینکر پاکستان کے مارکیٹینگ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ موسیقی عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے، ہوگا صاف پاکستان محض ایک سماجی مقصدنہیں جس کو برانڈ سپورٹ کررہا ہے بلکہ یہ ایک سماجی تحریک ہے جس کو ڈیٹول بھی زبان زدِ عام کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہاتھ دھونے کی عادات کو عام کرنے کے لیے لاتعداد مہمات، مفادِ عامہ کے پیغامات اور ٹی وی شوز پیش کیے جارہے ہیں مگر یہ ترانہ بھی پاکستانیوں کو اسی مقصد سے متحرک کرنے کی کوشش کا ہے تاکہ سب مل کر صحت مند اور پاکستان کی تشکیل کی ذمہ داری لیں‘۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جرجیس سیجا کا کہنا تھا کہ ’ہوگا صاف پاکستان نے ملک بھر کی صفائی کا بیڑا اٹھا لیا ہے تاکہ کچرے کو لے کر ہمارے رویے میں تبدیل آئے کیونکہ اس کی شرح میں سالانہ دو فیصد اضافہ ہورہا ہے جو بالآخر ہماری سڑکوں کی نظر ہوتا جارہا ہے‘‘۔   جرجیس سیجا کا کہنا تھا کہ ’ہوگا صاف پاکستان کے ساتھ پارٹنر شپ کا مقصد شہریوں کو تبدیلی اپنانے اور اس خواب پر عمل کرنے کے لیے راغب کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ملک کی ذمہ داری لینے کے لیے خود سے آگے بڑھیں‘۔ اے آر وائی اور ڈیٹول کی ’ہوگا صاف پاکستان‘ مہم وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ سال شروع کردہ ’کلین گرین پاکستان‘ کے اقدام کو آگے بڑھانے میں فعال کردار ادا کررہی ہے۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو پچاس برس مکمل ہوچکے۔20 ویں صدی میں انسانیت کی تباہی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے دنیا آگاہ ہوچکی تھی کہ یہ طاقت دنیا کے تحفظ کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ دنیا اس وقت تک جنگ عظیم اوّل و دوم جھیل چکی اور امریکا کی جانب سے جاپان پر جوہری طاقت کا استعمال بھی کیا جاچکا ہے۔جوہری ہتھیارکرہ ارض کے لئے ایک مہلک ایجاد ہے جس نے دنیا میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا۔ جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے ایک معاہدہ پچاس برس قبل عمل میں لایا گیا تھا جسے این پی ٹی(Non-Proliferation Treat) کا نام دیا گیا۔ جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں میں کمی کرنا تھا۔ این پی ٹی معاہدے کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں کمی کا اہم عنصر تسلیم کیا جاتا ہے، امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کا دعویٰ ہے کہ 1950کے مقابلے میں ایٹمی ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔5 مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا اساسی بنیاد کا حامل یہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے جو دنیا کے ممالک کو جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا پابند بناتا ہے۔ تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں اس معاہدے کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔این پی ٹی میں شامل ممالک نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا:1۔جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔2۔جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔3۔جوہری ہتھاروں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی نیک نیتی سے پیروی کرنا۔این پی ٹی معاہدے میں 191کے قریب ممالک شامل ہیں، شمالی کوریا این پی ٹی میں شامل ہوا تھا لیکن بعد ازاں اُس نے2003میں خود کو معاہدے سے الگ کرلیا۔ اسی طرح پاکستان، ایران، بھارت اور سوڈان این پی ٹی معاہدے میں شروع سے ہی شامل نہیں ہوئے۔ بھارت کی جانب سے خطے میں مہلک ہتھیاروں کی دوڑ و جوہری طاقت کے ممکنہ غلط استعمال کے خدشے کے سبب پاکستان کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ جب تک بھارت جوہری معاہدے میں شامل نہیں ہوتا، پاکستان کو اپنی مملکت کی بقا و تحفظ کے لئے ملک دشمن عناصر سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا ناگزیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے ہے اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے بارہا کوشش کی جاتی رہی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری کو گمراہ کیا جاسکے تاہم پاکستان کا موقف رہا کہ اس نے جو بھی قدم اٹھایا وہ اپنی مملکت کے دفاع کے خاطر اٹھایا، اس کے لئے پاکستان پر شدید دباؤ بھی بڑھایا گیا، پابندیاں بھی عاید کیں گئیں لیکن عوام نے سرزمین کے دفاع کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ اس وقت دنیا میں 9مملکتیں جوہری طاقت ہیں، جن میں پانچ ریاستیں امریکا، چین برطانیہ، فرانس اور روس کو تسلیم شدہ قرار دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان، بھارت، اسرائیل و شمالی کوریا بھی محدود تعداد میں جوہری ہتھیار رکھتی ہیں، امریکی سائنس دانوں کی تنظیم کے مطابق اسرائیل نے اپنے جوہری صلاحیتوں کے متعلق خاموشی اختیار کررکھی ہے تاہم اس کے بعد 80سے زاید جوہری ہتھیار موجود ہیں، جب کہ پاکستان کے پاس150، بھارت140شمالی کوریا25جوہری ہتھیارکے ذخائر رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں روس اس وقت سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والی مملکت ہے جن کی تعداد 6930بتائی جاتی ہے جبکہ امریکا کے پاس 5550، فرانس300، چین290اور برطانیہ215جوہری ہتھیاروں کے ذخائر رکھتا ہے۔پانچ جوہری طاقتوں نے ایٹمی صلاحیت جنوری1967میں حاصل کی تھی جو معاہدے کے نفاذ سے قبل تھا، تاہم معاہدے کے تحت انہیں اپنے ایٹمی ذخائر میں کمی لانا ہوگی اور انہیں مستقل بنیادو ں پر نہیں رکھ سکتے۔ ایران اور امریکا نے درمیان جوہری صلاحیت پر تنازعہ خطے میں تشویش ناک حد تک جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایران نے اپنا جوہری پروگرام1951میں شروع کیا تھا لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے پانچ ممالک کو تحفظات ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے، اس لئے امریکا نے ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ سے اپنے ہی صدر بارک اوبامہ کا کیا گیا2015کا معاہدہ منسوخ کرکے ایران پر دباؤ بڑھایا کہ وہ ازسرنو جوہری معاہدہ کرے۔ ایران نے امریکی تجارتی پابندیوں اور دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے بارک اوبامہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر قائم رہنے پر زور دیا لیکن صدر ٹرمپ اس معاہدے میں کئی خامیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 1986میں جوہری ہتھیاروں کے تعداد70ہزار کے لگ بھگ تھی جو اب کم ہوکر 14ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔عالمی برادری اس اَمر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جوہری ہتھیار کا استعمال جنگ عظیم دوم میں کرلیا گیا تاہم اب کسی جنگ میں جوہری ہتھیار کو استعمال کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بظاہر امریکا، برطانیہ نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی پیدا کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید طرز میں ڈھالنے کا عمل شروع یا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے 2040تک اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید نظام کے تحت بنانے کے لئے ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی مناسبت سے امریکا نے بیان بھی جاری کیا ہے جس میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ”11 مئی 1995 کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں فریق ممالک نے یہ فیصلہ کیا کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے یا این پی ٹی کے نام سے معروف یہ معاہدہ غیرمعینہ مدت تک موثر رہنا چاہیے۔ این پی ٹی کا آغاز 1970 میں ہوا تھا اور ابتدائی طور پر اِس معاہدے کی مدت 25 برس رکھی گئی تھی۔ اسی لیے 1995 میں این پی ٹی کے جائزے اور اس میں توسیع کے لیے ہونے والی کانفرنس کے سامنے دو راستے تھے کہ آیا اِس معاہدے میں توسیع ہونی چاہیے اور اگر ایسا کیا جائے تو کیا اس کی کوئی مقررہ مدت ہونی چاہیے، یا یہ معاہدہ غیرمعینہ مدت تک موثر رہنا چاہیے۔ دانشمندانہ طور سے این پی ٹی کے فریقین نے معاہدے میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کا فیصلہ کیا جس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملی کہ جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کی کوششوں کی بنیاد قائم رہے گی“۔ جوہری ہتھیار کسی جنگ میں استعمال کئے جانا ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے، پاکستان نے محدود فاصلوں تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیار رکھے ہیں، کیونکہ اُس کے نزدیک بھارت کے جارحانہ عزائم قیام پاکستان کے وقت سے مملکت کے لئے خطرات کا سبب بنے ہوئے ہیں، پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارتی سازشوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا تو دوسری جانب ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف وزریوں و پاکستان کو دہمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارت فالس فیلگ آپریشن کی سازش میں جُتا ہوا ہے اور اپنی سازشوں سے پورے خطے میں جنگ کے مہیب سائے مسلط کئے ہوئے ہیں، مقبوضہ کشمیر، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے علاقوں میں بھارت نے سازشوں کا جال بندھا ہوا ہے، جس وہ برملا اظہار بھی کرتا ہے اور ڈھٹائی سے تسلیم بھی کرتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کرانے میں بھارت نے اپنا سازشی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے مطابق وہ کسی قسم کی جارحانہ سوچ کے تحت جوہری صلاحیت میں توسیع پسندانہ رجحان نہیں رکھتا، اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی جو صلاحیت ہے وہ پُرامن و سرزمین کی حفاظت کے لئے ہے، جو بھارت جیسی شاطرحکومت کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان این پی ٹی میں یکطرفہ طور پر شامل ہوکر بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو نہیں روک سکتا، اس لئے جب تک بھارت این پی ٹی کے معاہدے کا حصہ نہیں بنتا، اُس وقت تک پاکستان بھی ایم پی ٹی معاہدے میں شامل ہونے میں شدید تحفظات رکھتا ہے۔ عالمی برداری اگر مقبوضہ کشمیر کا پُر امن حل نکال کر کشمیری عوام کو حق خوداردایت دے دے تو خطے میں جوہری جنگ کا سبب بننے والاخدشہ ختم ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری و جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عمل درآمد کرائے تاکہ پاک۔ بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے باعث کسی مس ایڈونچرنگ کے خطرناک نتائج نہ نکلیں۔ پاکستان جوہری پروگرام کو پُرامن اور مفاد عامہ کے تحت محفوظ رکھنے پر مکمل طور پر کاربند ہے تاہم بھارت کے عزائم کو دیکھنا بھی عالمی برداری کی ذمے داری ہے۔
حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم کسی مجلس میں بیٹھو تو بسم اﷲ الرحمن الرحیم اور صلی اﷲ علٰی محمد کہو تو اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کر دے گا جو تمہیں غیبت کرنے سے باز رکھے گا۔ :: قول البديع : 133،علامہ سخاوی حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ شام کا ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک میرا باپ بوڑھا ہے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے کا مشتاق ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اپنے باپ کو میرے پاس لے آؤ آدمی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نابینا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو کہو کہ وہ سات راتیں صلی ا ﷲ علی محمد (اللہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے) پڑھ کر سوئے بے شک (اس عمل کے بعد) وہ مجھے خواب میں دیکھ لے گا اور مجھ سے حدیث روایت کرے گا آدمی نے ایسا ہی کیا تو اس کو خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ :: القول البديع : 133 حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صلی ا ﷲ علی محمد (اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے) کہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رحمت کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔ :: قول البديع : 133 حضرت خضر بن ابو عباس اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مؤمن بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو ترو تازہ اور منور کردیتا ہے۔ :: قول البديع : 132 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت سمرہ سوائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کثرت ذکر اور مجھ پر درود بھیجنا فقر کو ختم کر دیتا ہے۔ :: قول البديع، 129 حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جبرئیل سے پوچھا اﷲ کے ہاں محبوب ترین عمل کون سے ہیں؟ تو جبرئیل نے کہا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا۔ :: قول البديع، 129 حضرت علی علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت والے دن تین اشخاص اﷲتعالیٰ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے کہ جس دن اﷲتعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عرض کیا گیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ (تین اشخاص) کون ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک وہ شخص جس نے میری امت کے کسی مصیبت زدہ سے مصیبت کو دور کیا دوسرا وہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اور تیسرا وہ جس نے کثرت سے مجھ پر درود بھیجا۔:: قول البديع : 123 کثرتِ درود و سلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچہری کی حاضری نصیب کرتا ہے۔ زمین کے ٹکڑے بھی جن پر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے، اس شخص پر فخر کرتے ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا بندے اور جہنم کی آگ کے درمیان ڈھال بن جائے گا۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والے تمام اہل عمل سے آخرت میں سبقت لے جائیں گے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والے کی روح اعلیٰ مقامات پر فائز کی جاتی ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا تمام امور کی انجام دہی کو آسان بنا دیتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا تمام امور میں حائل مشکلات کو رفع کر دیتا ہے درود و سلام کی مجالس فرشتوں کی مجالس اور جنت کے باغات ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا دل کی مفلسی اور اس کے غموں کو دور کرتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ولایت کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ایسی عبادت ہے جو تمام اوقات اور احوال میں بلاشرط جائز ہے اس کے وقت کی کوئی پابندی نہیں یہ عبادت ہر وقت ادا ہے اس میں قضا نہیں ہے جبکہ دوسری تمام عبادات ایسی نہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا جنت کی شادابی عطا کرتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا بندے کے لئے دنیا، قبر اور یوم آخرت میں نور کا باعث بنتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے سے فرشتے کا درود بھیجنے والے کو اپنے پروں کے ساتھ گھیر لیتے ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا طبیعت اور مزاج سے وحشت کو ختم کر دیتا ہے۔ کسی عارف شخص سے روایت ہے کہ جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک نہایت ہی پاکیزہ خوشبو پیدا ہوتی ہے جو آسمان کے کناروں تک پہنچ جاتی ہے (اس خوشبو کی وجہ سے) فرشتے کہتے ہیں یہ اس مجلس کی خوشبو ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا گیا۔:: سعادة الدارين : 471،علامہ نبھانی حضرت امام ابی القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے رسالہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تجھ میں دس ہزار کان پیدا فرمائے یہاں تک کہ تو نے میرا کلام سنا اور دس ہزار زبانیں پیدا فرمائیں جس کے سبب تو نے مجھ سے کلام کیا۔ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب اور نزدیک ترین اس وقت ہوگا جب تو محمد عربی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجے گا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کہ، بروز قیامت اللہ تعالٰی کے حکم سے حضرت ابو البشر آدم علیہ السلام عرش الٰہی کے پاس سبز حلہ پہن کر تشریف فرما ہوں گے اور یہ دیکھتے ہوں گے کہ میری اولاد میں کس کس کو جنت میں لے جاتے ہیں اور کس کس کو دوزخ لے جاتے ہیں۔ اچانک آدم علیہ السلام دیکھیں گے کہ سید انبیاء و المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ایک امتی کو فرشتے دوزخ لے جا رہے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ دیکھ کر ندا دیں گے۔ اے اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کے ایک امتی کو ملائکہ کرام دوزخ لے جا رہے ہیں۔ سید دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ یہ سن کر میں اپنا تہبند مضبوط پکڑ کر ان فرشتوں کے پیچھے دوڑوں گا اور کہوں گا، اے رب تعالٰی کے فرشتو ! ٹھہر جاؤ۔ فرشتے یہ سن کر عرض کریں گے۔ یا حبیب اللہ ! ہم فرشتے ہیں اور فرشتے اللہ کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور وہ کام کرتے ہیں جس کا ہمیں دربار الٰہی سے حکم ملتا ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی ریش مبارک پکڑ کر دربار الٰہی میں عرض کریں گے۔ اے میرے رب کریم کیا تیرا میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں ہے کہ تجھے تیری امت کے بارے میں رسوا نہیں کروں گا تو عرش الٰہی سے حکم آئے گا۔ اے فرشتو ! میرے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو اور اس بندے کو واپس میزان پر لے چلو۔ فرشتے اس کو فوراً میزان کے پاس لے جائیں گے اور جب اس کے اعمال کا وزن کریں گے تو میں اپنی جیب سے ایک نور کا سفید کاغذ نکالوں گا اور بسم اللہ شریف پڑھ کر نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دوں گا تو اس کا نیکیوں والا پلڑا وزنی ہو جائے گا۔ اچانک ایک شور برپا ہوگا کہ کامیاب ہو گیا، کامیاب ہوگا۔ اس کو جنت میں لے جاؤ۔ جب فرشتے اسے جنت کو لے جاتے ہوں گے تو وہ کہے گا، اے میرے رب کے فرشتو ! ٹھہرو میں اس بزرگ سے کچھ عرض کر لوں۔ تب وہ عرض کرے گا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کا کیسا نورانی چہرہ ہے اور آپ کا خلق کتنا عظیم ہے۔ آپ نے میرے آنسوؤں پر رحم کھایا اور میری لغزشوں کو معاف کرایا۔ آپ کون ہیں ؟ فرمائیں گے، میں تیرا نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہوں اور یہ تیرا درود پاک تھا جو تونے مجھ پر پڑھا ہوا تھا۔ وہ میں نے تیرے آج کے دن کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم ِنبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور اس سے انکار کو ناممکنات میں سے گردانتے تھے ،نیز ختم ِنبوت کے منکرین خصوصاََ قادیانیوں کے کفر کا بر ملا اظہار فرماتے تھے ۔ذیل میں علامہ اقبال مرحوم کے عقیدۂ ختم ِنبوت اور قادیانیت کے حوالے سے چند ارشادات نقل کیے جارہے ہیں ۔ ٭ علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’ذاتی طور پر مجھے اس تحریک ) قادیانیت ( کے متعلق اس وقت شبھات پیدا ہوئے جب ایک نئی نبوت ،جو پیغمبر اسلام کی نبوت سے بھی بر تر تھی، کا دعوی کیا گیا اورتمام عالم اسلام کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا ۔بعدازاں میرے شبھات نے اس وقت مکمل بغاوت کی صورت اختیار کرلی ،جب میں نے اپنے کا نوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت ناز یبا زبان استعمال کرتے سنا ‘‘۔ ٭’’ ختم ِنبوت اسلام کا ایک نہایت اہم اور بنیادی تصور ہے ۔ اسلام میں نبوت چو نکہ اپنے معراج کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے ٭ختم ِنبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کا فر ہے تو وہ شخص کا ذب ہے ‘‘۔ ٭’’اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تنظیم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ،جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔جو شخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے‘‘۔ ٭جو اہر لعل نہرونے مرزائیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھا ،جس کا علامہ صاحب نے مدلل اور جامع جواب دیا چنا نچہ آخر میں لکھتے ہیں "In Islam Prophancy Reaches it's Perfection"- ٭قادیانی تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو بے حد نقصان پہنچا یا ہے ۔اگر استیصال نہ کیا گیا تو آئندہ شدید نقصان ہوگا ۔ ٭ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بنیاد نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے ،مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گااور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم ِنبوت ہی سے استوار ہو تی ہے ۔ ٭تمام ایکٹر جنہوں نے احمدیت کے ڈرامے میں حصہ لیا ہے ،وہ زوال اور انحطاط کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ ٭ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے ۔اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کررہی ہے ۔کیو نکہ ابھی وہ ) قادیانی( اس قابل ہیں کہ چوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچا سکے ۔ ٭قادیانی جماعت کا مقصد پیغمبر عرب کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی امت تیار کرنا ہے ۔ ٭بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے ،کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے ،لیکن مؤخرالذکر کو ) قادیانیت ( اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہر طور پر قائم رکھتی ہے لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے ،اس کے ضمیر میں یہودیت کے عناصر ہیں۔گویا تحریک ہی یہودیت کی طرف راجع ہے۔ ٭نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم ِنبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا۔ مغربیت کی ہوا نے انہیں حفظ نفس کے جذبہ سے عاری کردیا ہے لیکن عام مسلما ن جو ان کے نزدیک ملازدہ ہے ،اس تحریک ) قادیانیت ( کے مقابلہ میں حفظ نفس کا ثبوت دے رہا ہے۔ ٭رواداری کی تلقین کرنے والے اس شخص پر عدم رواداری کا الزام لگا نے میں غلامی کرتے ہیں جو اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭قادیانی نظریہ،ایک جدید نبوت کے اختراع سے قادیانی افکار کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس سے نبوت محمدیہ کے کامل واکمل ہونے کے انکار کی راہ کھلتی ہے ۔
یورپی یونین کی جانب سے کورونا وائرس سے محفوظ 14 ملکوں کے شہریوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے کورونا وائرس سے محفوظ 14 ملکوں کے شہریوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ، برازیل اور چین یورپی یونین کی اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق یورپی یونین کے شہریوں کے لیے بھی یونین کے اندر سرحدی کنٹرول ختم کر دیئے گئے ہیں۔ یورپ سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی موذی وباء نے مسلسل اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، جس کے ناصرف مریضوں میں بلکہ اس سے اموات میں بھی ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
README.md exists but content is empty. Use the Edit dataset card button to edit it.
Downloads last month
0
Edit dataset card