News Text
stringlengths
151
36.2k
اسلام باد پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ائی کی حکومت نے ئندہ مالی سال میں غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس پر انحصار میں کمی کا فیصلہ کرتے ہوئے گزشتہ مالی سال کے 30 کھرب 30 ارب روپے کے مقابلے میں 22 کھرب 20 ارب روپے قرض لینے کا تخمینہ لگا رکھا ہے گزشتہ مالی سال میں حکومت نے غیر ملکی ڈونرز اور ممالک سے 30 کھرب 30 ارب روپے کے قرض اور گرانٹس حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا تھا تاہم سال کے اختتام تک بیرونی قرضہ 22 کھرب 70 ارب روپے تھا جاری مالی سال میں حکومت نے بجٹ میں تعاون کے لیے غیر ملکی قرض میں اضافے کا تخمینہ 25 کھرب ارب روپے لگایا تھا لیکن کئی طے شدہ اقدامات مکمل نہیں ہوسکے مزید پڑھیں حکومت کی بیرونی قرضوں کی سروسنگ میں ریکارڈ اضافہابتدائی منصوبوں کے برعکس حکومت نے 450 ارب روپے کے یورو بانڈ جاری نہیں کیے تاہم ئندہ مالی سال سے حکومت ان بانڈز سے 247 ارب 50 کروڑ روپے بڑھانے کا ارادہ کررہی ہے اسی طرح جاری مالی سال میں دوست ممالک سے بجٹ تعاون کی مد میں طے شدہ 750 ارب کا بہا بھی لیا گیا جبکہ ئندہ مالی سال میں حکومت ایسے کسی تعاون کا ارادہ نہیں رکھتی مزید برں سعودی تیل مرکز کے تحت طے شدہ 480 ارب روپے میں سے صرف 183 ارب 48 کروڑ روپے استعمال کیے گئے مالی سال 212020 میں حکومت کا سعودی تیل مرکز سے 165 ارب روپے استعمال کرنے کا منصوبہ ہےدوسری جانب جاری مالی سال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف سے بجٹ تعاون کے لیے لیا جانے والا قرض 357 ارب 45 کروڑ روپے کے ہدف سے بڑھ کر 456 ارب 65 کروڑ روپے ہوگیا تھا ئندہ مالی سال میں حکومت نے ئی ایم ایف سے بجٹ تعاون کی مد میں 211 ارب کروڑ روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہےعلاوہ ازیں ئندہ مالی سال میں دیگر قرض کے منصوبوں میں اسلامی ترقیاتی بینک سے 165 ارب روپے اور مختلف کمرشل بینکوں سے 647 ارب 21 کروڑ روپے قرض کا منصوبہ شامل ہےبجٹ دستاویز کے مطابق غیرملکی یا بیرونی مالی معاونت کا مقصد ملک میں معاشی اور سماجی ترقی کو فروغ دینا ہےچونکہ کئی ترقی پذیر ممالک کے پاس تعلیم یا ٹرانسپورٹ کا نظام یا صاف پانی کے نظام کے لیے وافر فنڈز نہیں ہوتے لہذا یہ غیرملکی قرضے پیداواری صلاحیت میں اضافے قرض اور سود کی ادائیگی میں مدد کرتے ہیں تاہم اگر یہی قرضے کرنٹ اکانٹ خسارے کی فنانسنگ میں استعمال ہوں تو یہ معاشی ترقی میں کردار ادا نہیں کرتے بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں یہ بھی پڑھیں کووڈ19 کے باوجود بجٹ کے اہداف قابل حصول ہیں مشیرخزانہوزارت خزانہ نے کہا کہ اگر قرضوں کا تعمیری یا مثر طریقے سے استعمال نہ ہو تو ترقی پذیر ممالک کے مالی بحران کا سامنا کرنے یا قرضوں میں پھنسنے کا امکان ہوتا ہےوفاقی حکومت نے سرکاری اداروں وزارتوں اور کارپوریشنز کے لیے رواں مالی سال کے 143 ارب 13 کروڑ روپے کے مقابلے میں ئندہ مالی سال میں 66 ارب 82 کروڑ روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے تاہم صوبوں نے رواں مالی سال میں لیے گئے 71 ارب 60 کروڑ روپے کے مقابلے میں غیر ملکی قرضوں کا ہدف کا 151 ارب 33 کروڑ روپے تک تخمینہ لگایا ہےاسی طرح صوبوں کی جانب سے ئندہ مالی سال میں غیر ملکی ذرائع سے 15 ارب ایک کروڑ روپے گرانٹ لینے کا امکان ہے جبکہ وفاقی وزارتوں اور خود مختار اداروں کی جانب سے مختلف منصوبوں کے لیے ارب روپے کی گرانٹس حاصل کرنے کا امکان ہے یہ خبر 13 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ئی کی حکومت نے 12 جون کو 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ اس وفاقی بجٹ پر ماہرین اور عوام نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیابجٹ212020 کو وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر نے پیش کیا جبکہ اس دوران اپوزیشن کی جماعتوں نے احتجاج بھی جاری رکھاحکومت نے جہاں ئندہ مالی سال میں بجٹ میں دفاع تعلیم اور صحت سمیت دیگر اہم شعبوں کے بجٹ میں اضافہ کیا وہیں حکومت نے فنکاروں کی فلاح بہبود کے لیے مختص فنڈز میں بھی تین گنا اضافہ کردیاوفاقی حکومت نے ئندہ مالی سال کے لیے فنکاروں کی فلاح بہبود اور ان کی مالی مدد کے لیے فنڈز کو 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے تک کرنے کی تجویز دی ہےیہ بھی پڑھیں 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلانبجٹ پیش کرتے وقت وفاقی وزیر حماد اظہر نے بتایا کہ صدر مملکت عارف علوی کی خصوصی ہدایت پر رٹسٹ ویلفیئر فنڈ کا بجٹ بڑھایا جا رہا ہےانہوں نے کہا کہ فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کی مالی امداد اور فلاح بہبود کے لیے صدر پاکستان کی ہدایت پر حکومت نے رٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردی ہے حکومت نے فنکاروں کی فلاح بہبود کے بجٹ کو بڑھانے سمیت تفریح ثقافت اور مذہبی امور کے لیے بھی ارب 82 کروڑ 20 لاکھ روپے کا بجٹ بھی مختص کیا ہےتفریح ثقافت اور مذہبی امور کے لیے جاری کیے بجٹ میں سے ارب 50 کروڑ تک کا بجٹ نشر اشاعت کے شعبے کے لیے مختص کیا گیا ہے جبکہ مذہبی معاملات کے لیے بھی ایک ارب روپے سے زائد کا بجٹ تجویز کیا گیا ہےمزید پڑھیں دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویزاسی طرح تفریح ثقافت کے انتظامات اور معلومات کو عام کرنے کے لیے بھی 45 کروڑ 30 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہےعلاوہ ازیں حکومت نے اصلاحاتی پروگرامز کے خصوصی فنڈز کے قیام کا اعلان بھی کیاخصوصی اصلاحاتی فنڈز کے حوالے سے حماد اظہر نے بتایا کہ مختلف اصلاحاتی پروگرامز کے لیے خصوصی فنڈز کا قیام کیا گیا ہے جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے وائبلیٹی گیپ فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کے لیے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں
وفاقی حکومت نے 12 جون کو 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس پر ماہرین اور عوام نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہےرواں سال جہاں وفاقی حکومت نے ٹڈی دل اور کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے خصوصی فنڈز کا اعلان کیا وہیں تعلیم صحت اور دفاع سمیت کئی شعبوں کے بجٹ میں بھی نمایاں اضافہ کیا گیارواں سال وفاقی حکومت نے بجٹ میں سائنس ٹیکنالوجی ای گورننس اور نوجوانوں کے لیے خصوصی منصوبوں کے لیے بھی بجٹ مختص کیا ہےواضح رہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر نے بجٹ212020 پیش کیا اس دوران اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج بھی جاری رکھاحکومت نے رواں سال سائنس انفارمیشن ٹیکنالوجی ئی ٹی کی ترقی اور ان کے مختلف منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کے فنڈ تجویز کیے ہیںیہ بھی پڑھیں 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلانبجٹ پیش کرتے وقت حماد اظہر نے سائنس انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بات کرت ہوئے کہا کہ امرجنگ ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اداروں کی صلاحیت اور گنجائش کو بڑھانا وقت کی اشد ضرورت ہےانہوں نے خطاب میں کہا کہ ای گورننس اور ئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز جی سیلولر سروسز کے غاز پر حکومت کی توجہ ہے جس وجہ سے ان منصوبوں کے لیے حکومت نے 20 ارب روپے مختص کیے ہیںای گورننسحکومت نے جہاں سائنس ٹیکنالوجی کے لیے بجٹ مختص کیا وہیں حکومت نے ای گورننس کے فروغ کے لیے بھی خصوصی بجٹ اور فنڈز کا اعلان کیاوفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ای گورننس کے ذریعے حکومت کا پبلک سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہےمزید پڑھیں دفاعی بجٹ کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے کی تجویزان کے مطابق وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے اور اس منصوبے پر عملدرمد کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے فوڈ سیکیورٹیعلاوہ ازیں وفاقی حکومت نے فوڈ سیکیورٹی کے لیے بھی الگ 12 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہےفوڈ سیکیورٹی کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کو تحفظ خوراک سمیت فوڈ سیکیورٹی کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جائے گاکامیاب نوجوانمزید برں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کی فلاح بہبود ترقی کے پروگرام کامیاب نوجوان کے لیے بھی ارب روپے کا بجٹ جاری کیا ہے
اسلام اباد وفاقی حکومت نے ایک دہائی بعد کراچی کے ہسپتالوں قومی ادارہ برائے امراض قلب این ائی سی وی ڈی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر جے پی ایم سی اور قومی ادارہ برائے اطفال این ائی سی ایچ کے لیے فنڈز مختص کردیےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ برائے سال 212020 کے بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے ان ہسپتالوں کو چلانے کے لیے 14 ارب 18 کروڑ روپے مختص کیے جس میں سے ارب 24 کروڑ 20 لاکھ روپے این ائی سی وی ڈی ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے جے پی ایم اور ایک ارب کروڑ روپے این ائی سی ایچ کے لیے مختص کیے گئےوفاقی فنڈ کا سب سے بڑا حصہ این ائی سی وی ڈی کے لیے مختص کیا گیا جو ارب 24 کروڑ روپے ہے جس کا مقصد نہ صرف کراچی میں موجود مرکزی ہسپتال کو چلانا ہے بلکہ اس سے سندھ کے دیگر علاقوں میں موجود اس کی شاخوں اور سینے کی تکالیف کے یونٹس کو چلایا جائے گایہ بھی پڑھیں وفاقی حکومت کا سندھ کے بڑے ہسپتالوں کا انتظام واپس صوبے کو دینے کا فیصلہمزید یہ کہ وفاقی حکومت نے جناح ہسپتال کے لیے ارب 87 کروڑ مختص کیے جس میں سے ایک ارب 54 کروڑ روپے اس کے اپریشنل اخراجات اور 15 کروڑ 86 لاکھ 60 ہزار مرمت اور دیکھ بھال پر خرچ کیے جائیں گےخیال رہے کہ مئی 2019 میں وفاقی وزارت صحت نے سپریم کورٹ کے جنوی 2019 میں دیے گئے حکم کے تحت کراچی کے تینوں بڑے ہسپتال واپس لینے کا فیصلہ کیا تھاتاہم اس کے بعد سے وفاقی حکومت ہسپتالوں کا انتظام سنبھالنے سے گریزاں ہے جو اب تک سندھ حکومت کے پاس ہےدوسری جانب حکومت نے کورونا سے متعلق کھرب 75 ارب روپے کا پیکج فراہم کرنے کا دعوی کیا ہے جس کی وجہ سے مالی خسارہ مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کے فیصد سے بڑھ کر 91 فیصد ہوگیا12 کھرب روپے کے خصوصی محرک پیکج کہ جس میں ایک کھرب روپے کے ایمرجنسی فنڈ کا قیام بھی شامل تھا کی تفصیلات بتاتے ہوئے حماد اظہر نے بجٹ تقریر میں کہا کہ حکومت نے کھرب 75 ارب روپے طبی الات ذاتی تحفظ کی اشیا اور ادویات کے لیے مختص کیے ہیں تاکہ کورونا وائرس سے لڑ کر اس کے معیشت اور عوام پر اثرات کو کم کیا جاسکےمزید پڑھیں 18ویں ترمیم وفاقی حکومت صوبوں میں ہسپتال کیوں نہیں چلاسکتی چیف جسٹسانہوں نے بتایا کہ پیکج کی زیادہ تر رقم نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے اور فیڈرل بورڈ اف ریونیو ایف بی اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے استعمال کی جائے گی جبکہ ڈیڑھ کھرب روپے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں اور شیلٹر ہومز کے لیے رکھے گئےعلاوہ ازیں وفاقی حکومت نے یومیہ اجرت والے مزدوروں کی مالی امداد کے لیے کھرب روپے رکھے جبکہ 50 ارب روپے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گےاس کے ساتھ ہی حکومت نے ایف بی ار کے لیے برامدات پر ایکسپورٹ ری فنڈ کے لیے ایک کھرب اور ضرورت مند صارفین کے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کے لیے ایک کھرب روپے رکھے ہیں
وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بجٹ کو حقیقت پسندانہ قرار دیا لیکن تسلیم کیا کہ حکومت کے لیے اس کا حصول کووڈ19 کی وبا پر منحصر ہےنجی ٹی وی جیونیوز میں میزبان شاہزیب خانزادہ کے ساتھ گفتگو کے دوران عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے اہداف حقیقت پسندانہ ہیں لیکن بڑے پیمانے پر غیریقینی ہے اگر کورونا وائرس قابو سے باہر ہوتا ہے اور دوبارہ لاک ڈان نافذ ہوتا ہے تو ہمارے سامنے مختلف حالات ہوں گےمزید پڑھیں71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلانانہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اثرات کے باعث اس وقت حکومت کی ترجیح ٹیکس کا حصول نہیں ہے بلکہ ہماری ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے اسی لیے ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایاعبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کورونا وائرس سے پیدا شدہ حالات بہتر ہوتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ حکومت اگلے مالی سال کے اپنے اہداف حاصل کرپائے گیان کا کہنا تھا کہ اگر ہماری معیشت دو ماہ بعد ٹھیک ہوتی ہے تو ہم توقع کرسکتے ہیں کہ ہم اہداف حاصل کرسکتے ہیںانہوں نے کہا کہ زراعت اور پیداواری شعبے میں بہتری سے حکومت مجموعی طور پر بہتری لانے کے قابل ہوگیمشیر خزانہ نے نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی دیگر معیشتوں میں غیریقینی کے اثرات ہماری معیشت پر بھی ہیں اگر ان کی معیشتیں بہتر ہوتی ہیں توہماری برمدات میں اضافہ ہوگا اور اس کے بھی ہماری معیشت پر اثرات ہیںیہ بھی پڑھیںپبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کیلئے بجٹ میں 650 ارب روپے مختصقرضوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہم جتنا ممکن ہو کم سے کم قرضے لینے کی کوشش کریں گے جو بنیادی چیز ہے کیونکہ ہم نے شروع دن سے اپنے اخراجات کو کم کردیا ہےان کا کہنا تھا کہ لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ بعض چیزیں دسترس میں نہیں ہیں ہمیں سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے ہیںانہوں نے حکومت کے ترقیاتی بجٹ پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ جب ہم اس کو حتمی شکل دے رہے تھے تو وزیراعظم نے ہمیں ہدایت کی کہ موجودہ اخراجات کو کم کیا جائے اور میں نے اس نقطہ نظر سے اتفاق کیامشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہمیں منصوبوں پر سرمایہ کاری پر توجہ دینی چاہیے جس سے دو چیزیں ہوں گی روزگار پیدا ہوگا اور مختصر مدت میں ہدف حاصل ہوگامزید پڑھیںبجٹ212020 کسٹمز براہ راست ٹیکس سے استثنی سے متعلق اہم معلوماتمعاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کے باعث حکومت پر اعتبار سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ اعداد وشمار پاکستان بیورو شماریات نے فراہم کیے تھےان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے زاد ہیں حکومت کا گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ جی ڈی پی اور دیگر تخمیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہم بیورو کو مزید زاد رکھناچاہتے ہیںمشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ تخمینوں میں ردوبدل کو تسلیم کرنا اچھی بات ہے اور اب بطور حکومت ہمارا فرض پاکستان بیورو شماریات میں ٹیکنیکل صلاحیت کوبڑھانا ہے خیال رہے کہ وفاقی وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر نےقومی اسمبلی میں 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا تھاانہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درمد کیا جائےیہ بھی پڑھیںموبائل فونز بنانے پر ٹیکس میں کمی سگریٹ انرجی ڈرنکس مہنگیوفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 212020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیاان کا کہنا تھا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا ئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیںحماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے ٹیکسز میں غیر ضروری رد بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیںانہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا زاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکےوفاقی وزیر نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان صحت کارڈ بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہےحماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گاانہوں نے کہا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے
وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے مالی سال 212020 کا بجٹ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کے نعروں گونج اور ڈیسک کی تھاپ میں پیش کیاحماد اظہر نے کہا کہ حکومت توسیعی مالی پالیسی پیش کرنے جارہی ہے جو گزرے ہوئے مالی سال میں کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کے بعد وقت کی ضرورت ہےتوسیعی پالیسی کا مطلب ہے کہ حکومت انفرادی اور کاروباروں پر اخراجات بڑھانے کے لیے معاشی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ٹیکسوں میں کمی ہوسکتی ہے تاکہ گھرداری اور کاروبار سے زیادہ سرمایہ حاصل ہو یا بچت کی حوصلہ شکنی کے لیے شرح سود میں کمی کی کوشش یا دونوں راستے ہوسکتے ہیںمزید پڑھیں کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلانوفاقی وزیرنے نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث شرح سود میں 1325 سے فیصد تک تین ماہ کے دوران کمی کیحکومت ایک طرف ٹیکس سے بڑے پیمانے پر سرمایہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف عارضی سرمایے کو بھی بڑھانا چاہتی ہےحکومت کی جانب سے اس سلسلے میں بجٹ 212020 میں ٹیکس یا ڈیوٹیز میں دیے گئے استثنی کی فہرست کو ہم یہاں اجاگر کریں گےبجٹ میں مندرجہ صنعتوں کے خام مال کو کسٹمز کی ڈیوٹی سے مستثنی قرار دیا گیا ہے جس کےنتیجے میں یہ اشیا مکمل طور پر ڈیوٹی فری ہوں گیاشیا مندرجہ ذیل ہیںکیمکلزچمڑاٹیکسٹائلفرٹیلائزرزیہ بھی پڑھیںبجٹ سے متعلق تجزیہ کاروں کا ملا جلا رد عملحکومت کے مطابق یہ استثنی تقریبا 20 ہزار کے قریب اشیا پر ہوگا جو صنعتوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جن میں سے 20 فیصد درمدات میں شامل ہیںاسی طرح کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں بالترتیب 20 فیصد 16 فیصد 11 فیصد فیصد دے 11 فیصد کمی اس خام مال میں کی گئی ہے جو ربڑ بلیچنگ اور دیگر مقامی طور پر تیار ہونے والی اشیار میں استعمال ہوتا ہےسیلز ٹیکسحکومت نے ریٹیلرز کے لیے 14 فیصد سے 12 فیصد تک سیلز ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی ہے جس سے عام دکان داروں کو اس صورت میں فائدہ ہوگا اگران کا نظام لین دین کے لیے کمپیوٹرائزڈ ہووزیر کا کہنا تھا کہ یہ حکومت عام لوگوں کو ریلیف دینے اور دستاویزی معیشت پر یقین رکھتی ہےریستورانکورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہونے والی ریستوران اور ہوٹل کی صنعت کو نظر میں رکھتے ہوئے حکومت نے ٹیکس میں کمی کی تجویز پیش کی ہےحکومت نے اس صنعت کو اپریل سے ستمبر کے دوران ماہ کے لیے ٹیکس میں 15 فیصد سے اعشاریہ فیصد کمی تجویز کی ہےبچوں سے متعلق غذائی اشیافائلفوٹوڈان جینیاتی طور پر مسائل کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی خاص غذاں کو قیمتوں میں کمی لیے تمام ڈیوٹیز اور درمدی ٹیکسز سے منہا قرار دیا گیا ہےعالمی ادارہ صحت کے تحت پاکستان میں تیار ہونے والی بچوں کی غذائی اشیا اور حاملہ خواتین کے لیے بننے والی دیگر اشیا کے خام مال پر بھی حکومت نے کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز دی ہےکووڈ19 کٹسحکومت نے کورنا وائرس اور کینسر کی تشخیصی کٹس کو تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز سے مستثنی قرار دے دیا ہےمزید پڑھیںکورونا کے بعد معیشت کے غاز کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں تاجر رہنما ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنیمندرجہ ذیل شعبوں سے براہ راست ود ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کردیا گیا ہےبیرون ملک سے تعلیم سے متعلق اخراجات پر پیشگی ٹیکس وصولیاسٹیل اور یونٹس پر ٹیکسپنشن فنڈ پر ودہولڈنگ ٹیکستقریبات اور سماجی مواقعوں پر پیشگی ٹیکسرکیٹکٹ ڈیلرز اور کمیشن ایجنٹس پر پیشگی ٹیکستمباکو پر پیشگی ٹیکس
پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ئی کی حکومت نے اپنے دور کا دوسرا مکمل وفاقی بجٹ پیش کردیا ہے اور اس میں جہاں تنخواہوں اور پیشن میں اضافے کا ذکر نہیں وہیں مختلف اشیا پر ٹیکسز کی شرح کو بڑھانے کی تجویز ہےقومی اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ تجاویز میں وزیر صنعت پیدوار حماد اظہر نے بتایا کہ درمدی سگریٹس بیڑی سگارز اور تمباکونوشی کی دیگر اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایف ای ڈی کو 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کیا جارہا ہےساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اسی طرح تمباکو کے متبادل اور ای سگریٹس کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا جارہا ہےمزید پڑھیں 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے فلٹر راڈ جو سگریٹ کی تیاری میں بنیادی چیز ہے اس پر ایف ای ڈی کی موجودہ شرح 075 روپے سے بڑھا کر ایک روپے فی کلو گرام کرنے کی تجویز دی گئی ہےانرجی ڈرنکسحکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیفین پر مشتمل مشروبات کے استعمال میں کمی لانے کے لیے درمد اور مقامی فراہمی دونوں جگہ کمی لانے کے لیے ایف ای ڈی کو 13 سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز ہےڈبل کیبن پک اپاسی طرح حکومت نے ڈبل کیبن پک اپ کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر بھی یکساں قیمت والی دوسری گاڑیوں کے مطابق ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے موبائل فون پر سیلز ٹیکسوفاقی بجٹ میں حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کی تجویز سے منظور شدہ موبائل فون پالیسی کے مطابق پاکستان میں بنائے جانے والے فونز پر سیلز ٹیکس میں کمی کردی ہےیہ بھی پڑھیں بجٹ 212020 دفاع کیلئے 12 کھرب 90 ارب روپے مختصخیال رہے کہ وفاقی حکومت نے ئندہ مالی سال کے لیے 12 جون 2020 کو 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیائندہ مالی سال کے بجٹ میں فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی نے ریونیو کا ہدف 49 کھرب 50 ارب روپے لگایا ہے جبکہ دفاعی اخراجات کے لیے ئندہ مالی سال میں تقریبا 13 کھرب روپے رکھے گئے ہیں
پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ائی کی حکومت نے 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے دفاعی بجٹ میں تقریبا 62 ارب روپے کا اضافہ تجویز تاہم تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کیاقومی اسمبلی میں مالی سال 212020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہےانہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا غاز ہوا ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کیں تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیںانہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درمد کیا جائے فوٹو ڈان نیوز حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے ہوئے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم رکھتی ہےانہوں نے بتایا کہ ئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا جب 2018 میں ہماری حکومت ئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا اس وقت ملکی قرض سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی کرنٹ اکانٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برمدات میں کمی اور درمدات میں اضافہ ہوابجٹ 212020 کے اہم نکاتدفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویزایف بی کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویزنان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویزاین ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزوفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ ہزار 700 ارب روپے ہےاخراجات کا تخمینہ ہزار 136 ارب روپے لگایا گیا ہےمجموعی بجٹ خسارہ ہزار 195 ارب روپے تجویزوفاقی بجٹ خسارہ ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویزسبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویزپنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویزصوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویزدیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویزئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویزنیا پاکستان ہاسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزاحساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزئندہ مالی سال کا مکمل بجٹ یہاں پڑھیںوفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب گیا تھاانہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا ناقص پالیسیوں اور بد انتظامیوں کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جاپہنچا تھاساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب سے زائد کے نقصان کا سامنا تھا اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرضے لیے گئے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھابجٹ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 202019 کا غاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے مالی سال 192018 کے مقابلے میں 202019 میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں ئیانہوں نے کہا کہ مالی سال 202019 کے پہلے ماہ میں کرنٹ اکانٹ خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا تجارتی خسارے میں 21 فیصد کمی کی گئی اس کے علاوہ بجٹ خسارہ فیصد کم کیا گیاانہوں نے بتایا کہ حکومت نے ارب ڈالر کے بیرون قرضے کی ادائیگی کی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ارب ڈالر تھی اس کے باوجود اس سال زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم سطح پر رہےحماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے ہزار ارب روپے کا سود ادا کیا جو گزشتہ قرضوں پر دیا گیا اس کے علاوہ بیرون سرمایہ کاری تقریبا دوگنی ہوگئیبات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے ذریعے معاشی استحکام پیدا ہوا اس میں بجٹ اصلاحات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بند کیا گیا اس کے علاوہ کوئی سپلمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی ترقیاتی اخراجات میں حائل سرخ ٹیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی فوٹو عامر وسیم انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 میں نیشنل ٹیرف پالیسی کی منظوری دی گئی اس کے علاوہ میک ان پاکستان کے تحت پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کروایا گیاحماد اظہر کا کہنا تھا حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پبلک فنانس منیجمنٹ اصلاحات شروع کیں جس سے وفاقی حکومت کی مالی انتظامی معاملات میں بہتری ئی ہےوزیر صنعت کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا غاز کرکے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری لائی گئیانہوں نے کہا کہ ایل این جی پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کیے گئے جس سے ان کی کارکردگی میں قابل قدر بہتری ئی اس کے علاوہ کلیدی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا این ایچ اے پاکستان پوسٹ کراچی پوسٹ جیسے اہم اداروں کی مدن میں بالترتیب 70 فیصد 50 فیصد اور 17 فیصد اضافہ کیا گیا اور ان کی استطاعت کارکردگی اور شفافیت میں بہتری لائی گئیان کا کہنا تھا کہ ہم نے کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لیے کاروبار میں سانیوں کے انڈیکس کے لیے اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں پاکستان کاروبار میں سانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے اور انشااللہ اس میں مزید بہتری ئے گیوفاقی وزیر نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات پر عملدرمد کا مطالبہ کیا گیا ہماری حکومت نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے زبردست کاوشیں کیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن تقاضوں کو پورا کیا جا سکےاس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ ٹیرر فنانسنگ سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کے لیے نیشنل ایف اے ٹی ایف کورڈینیشن کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے جامع قسم کی ٹیکنیکل اور قانونی اصلاحات شروع کی گئی ہیں ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہےانہوں نے کہا کہ نتیجتا ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلے میں ہم نے قابل ذکر پیشرفت کی ہے ایک سال کے عرصے میں 14 نکات پر مکمل عمل کیا گیا اور 11 پر جزوی طور عملدرمد کیا گیا ہے جبکہ دو شعبوں میں عملدرمد کے لیے زبردست کوششیں کی جارہی ہیںان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے پہلے تو اسے انسانی صحت کے لیے مسئلہ سمجھا گیا لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضرمات بھی سامنے ئےحماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بھی کورونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا اور اس نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوشیں اور محنت کی تھیں اس فت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے اس مشکل وقت میں عوام کی زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ایسے اقدامات اور فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہوانہوں نے کہا کہ طویل لاک ڈان ملک بھر میں کاروبار کی بندش سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار جی ڈی پی کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیںان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا مالی 202019 کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہےتقریبا تمام صنعتیں کاروبار بری طرح متاثر ہوئےجی ڈی پی میں اندازا 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 33 فیصد سے کم ہو کر منفی 04 فیصد تک رہ گئی مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 71 فیصد تھا وہ 91 فیصد تک بڑھ گیاایف بی محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہواترسیلات زر اور برمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا حماد اظہر نے کہا کہ حکومت اللہ کے کرم سے اس سماجی اور معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثرہ کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکےانہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 1200 ارب روپے سے زائد کے ریلیف پیکج کی منظوری دی ہے مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی ہے جو درج ذیل کاموں کے لیے مختص ہےطبی لات کی خریداری حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں150 ارب روپے ایک کروڑ 60 لاکھ کمزور اور غریب خاندانوں اور پناہ گاہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے200 ارب یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کیش ملازمین اور کیش ٹرانسفر کے لیے مختص کیے گئے50 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے مختص کیے گئے100 ارب ایف بی اور وزارت تجارت کے لیے مختص ہیں تاکہ وہ برمد کنندگان کو ری فنڈ کا اجرا کر سکیں100 ارب روپے بجلی اور گیس کے مخر شدہ بلوں کے لیے مختص کیے گئےوزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت کم از کم 30 لاکھ کاروبار کے تین ماہ کے بل کی ادائیگی کے لیے 50 ارب روہے فراہم کیے گئےکسانوں کو سستی کھاد قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لیے 50 ارب کی رقم دی گئی100 ارب روپے ایمرجنسی فنڈ کے لیے مختص ہیںان کا کہنا تھا کہ اس ریلیف پیکج سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینا پڑیں فنانس ڈویژن نے متعلقہ اداروں خصوصا احساس این ڈی ایم اے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن اور فیڈرل بورڈ ریونیو کے لیے فنڈ کا انتظام اور اجرا کیا ہمیں اداروں کے ریلیف پیکج پر عملدرمد کرنے کے سلسلے میں بجا لائی گئی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیںوفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کسانوں اور عام دمی کا احساس کرتے ہوئے ریلیف کے اقدامات کیے جس کے لیے انہیں خوراک اور طبی ساز سامان کی مد میں 15روبے کی ٹیکس کی چھوٹ دی 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے پیٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی لیٹر کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیاانہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہم نے تعمیراتی شعبے کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے رعایتی ٹیکس متعارف کرا کر تاریخی مراعات بھی دی ہیں جن کی تفصیل یہ ہےفکس ٹیکس رجیم کو وضع کیابلڈرز اور ڈیولپرز سوائے اسٹیل کے خریداروں کے ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی ہے تاکہ عوام کو سستے گھر میسر سکیںمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گاخاندان کے لیے ایک گھر پر کیپیٹل گین ٹیکس کی چھوٹ ہو گیسستی رہائش کی تعمیر پر 90 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دے گئی ہےتعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہےان کا کہنا تھا کہ لاک ڈان کے برے اثرات کے ازالے کے لیے اسٹیٹ بینک پاکستان نے بھی بہت سے اقدامات متعارف کرائے ہیں جس کے تحت پالیسی ریٹ میں 525 فیصد کی بڑی کمی کی گئی ہے جو 1325 فیصد سے کم ہو کر فیصد رہ گیا ہے کاروبار کے پے رول لون میں تین ماہ کے لیے 96 ارب کی رقم فیصد کم شرح سود پر فراہم کی گئی ہے تاکہ بے روزگاری سے بچا جا سکے7 لاکھ 75 ہزار قرض دہندگان کو 491 ارب کے پرنسپل قرض کی ادائیگی ایک سال کے لیے مخر کر کے سہولت پہنچائی ہے اور 75 ارب کا قرض ری شیڈول کیا گیا ہے جبکہ افرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے بینکوں کو اضافی 800 ارب روپے قرض دینے کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے لیے قرض کی حد میں اضافہ کیا گیا ہےبجٹ کے نمایاں خدوخالوفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 212020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا ئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیںحماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے ٹیکسز میں غیر ضروری رد بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا زاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکےوفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان صحت کارڈ بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہےحماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے حکومتی مدن اخراجات خسارہانہوں نے کہا کہ کل ریونیو کا تخمینہ ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی ریونیو ہزار 963 روپے ہیں اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ ہزار 136 ارب روپے لگایا گیا ہے اس طرح بجٹ خسارہ ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس منفی 05 فیصد ہوگاحماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ ہزار 345 ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ برس کے ہزار 193 ارب روپے سے زیادہ ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی معاونت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے اس کے لیے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام متعلقہ اداروں کو پوورٹی ایلیویشن ڈویژن بنا کر اس میں ضم کردیا گیا ہے حکومتی اہدافانہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مالی سال 212020 کے دوران ان اہداف کے حصول کا فیصلہ کیا ہےجی ڈی پی کی شرح نمو کو منفی 04 سے بڑھا کر 21 فیصد پر لایا جائے گا کرنٹ اکانٹ خسارے کو 44 فیصد تک محدود رکھا جائے گامہنگائی کو 91 فیصد سے کم کرکے 65 فیصد تک لایا جائے گابراہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا احساس پروگرامانہوں نے کہا کہ اس غریب پرور پروگرام کے لیے پچھلے سال 187 ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کردیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اس میں سماجی تحفظ کے بہت سے پروگرامز شامل ہیں جیسے بی ئی ایس پی پاکستان بیت المال کے محکمے شامل ہیں یہ مختص رقم حکومت کی منظور کردہ پالیسی کے مطابق شفاف انداز سے خرچ کی جائے گی سبسڈیزحماد اظہر کا کہنا تھا کہ توانائی خوراک اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لیے 180 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈیز کا رخ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہےتعمیراتی شعبہانہوں نے کہا کہ پاکستان ہاسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کیے گئے انہوں نے کہا کہ اخوت فانڈیشن کی قرض حسنہ اسکیم کے ذریعے کم لاگت کے رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں خصوصی علاقہ جات صوبوں کے لیے گرانٹسوفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ خصوصی علاقوں زاد جموں کشمیر کے لیے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاس کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سندھ کو 19 ارب روپے اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ ان کے این ایف سی حصے سے زائد فراہم کی گئی ہیں زرمبادلہ بڑھانے کے لیے اقداماتحماد اظہر نے کہا کہ زرمبادلہ بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جس سے رقوم کی منتقلی بینکوں کے ذریعے بڑھانے کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیںمواصلاتحماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو سستی ٹرانسپورٹ سروسز فراہم کرنے کے لیے پاکستان ریلوے کے لیے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہےکامیاب نوجوان پروگرامانہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کو ترقی پسند ملک بنانے کے لیے نوجوانوں کے کردار پر زور دیا ہے انہوں نے کہا کہ کامیاب نوجوان پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے حکومت کا خصوصی پروگرام ہے جس کے کیے ارب روپے مختص کیے گئے ہیں وفاقی حکومت کے ہسپتالوفاقی وزیر نے کہا کہ لاہور اور کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جن میں شیخ زید ہسپتال لاہور جناح میڈیکل سینٹر کراچی اور دیگر ہسپتال شامل ہیںای گورننسانہوں نے کہا کہ ای گورننس کے ذریعے پبلک سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے جو وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ اس منصوبے پر عملدرمد کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے فنکاروں کی مالی امداد اور بہبودانہوں نے کہا کہ فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کی مالی امداد اور فلاح بہبود کے لیے صدر پاکستان کی ہدایت پر حکومت نے رٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردی ہے خصوصی فنڈز کا قیامحماد اظہر نے کہا کہ مختلف اصلاحاتی پروگرامز کے لیے خصوصی فنڈز کا قیام کیا گیا ہے جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے وائبلیٹی گیپ فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کے لیے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں زراعتوفاقی وزیر نے کہا کہ زرعی شعبے میں ریلیف پہنچانے کے لیے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں ترقیاتی بجٹانہوں نے کہا کہ حکومت کے وژن کے مطابق ترقیاتی ایجنڈے پر عملدرمد جاری ہے تاکہ مستحکم معاشی شرح نمو کا حصول ممکن ہوسکے اور غربت میں کمی بنیادی انفرا اسٹرکچر میں بہتری اور خوراک پانی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے حماد اظہر نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم ایک ہزار 324 ارب روپے ہے پبلک سیکٹر ڈیولمپنٹ پروگرام پی ایس ڈی پیانہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ترقیاتی مقاصد کو حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے جس کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبوں کی لاگت میں اضافے سے بچنے کے لیے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم مختص کی گی ہے حماد اظہر نے کہا کہ سماجی شعبے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے لیے گزشتہ سال کے 206 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 249 ارب کردیے گئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کی دفعات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اس حوالے سے بڑے شعبوں کے لیے مختص رقوم کی تفصیل درج ذیل ہے کورونا اور دیگر فات کی روک تھاموفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کورونا اور دیگر فات کی وجہ سے انسانی زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے جس کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں توانائی اور بجلیوفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی توجہ توانائی کے توسیعی منصوبوں اور بجلی کی ترسیل تقسیم کا نظام بہتر بنانے اور گردشی قرضوں کو کم کرنے کی طرف مرکوز ہے بجٹ میں خصوصی اکنامک زونز کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں اور غیرملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل رکھے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 80 ارب روپے مختص کیے ہیں ان فنڈز کو خاص طور پر بجلی کی طلب اور پیداوار کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا ہے بی وسائلانہوں نے کہا کہ پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہے اس سال حکومت پانی سے متعلق منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس ضمن میں 69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں حماد اظہر نے کہا کہ کثیرالمقاصد ڈیم بالخصوص دیامر بھاشا مہمند اور داسو ڈیم کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل فراہم کیے گئے ہیں ان منصوبوں سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے 30 ہزار سے زائد مواقع پیدا ہوں گے قومی شاہراہیں اور ریلوےانہوں نے کہا کہ صنعتی رابطوں تجارت کاروبار کے فروغ کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے اس سلسلے میں 118 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں وفاقی وزیر نے کہا کہ ریلوے کے ایم ویل ون منصوبے اور دیگر منصوبوں کے لیے 24 ارب روپے جبکہ مواصلات کے دیگر منصوبوں کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں صحتانہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں صحت کا شعبہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے اور بہتر طبی خدمات وبائی بیماریوں کی روک تھام طبی لات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے حماد اظہر نے کہا کہ کورونا کے علاج اور تدارک کے اقدامات کے علاوہ حکومت اپنی توجہ ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے کے لیے ئی سی ٹی سلوشن کی طرف مرکوز کررہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں گیتعلیموفاقی وزیر نے کہا کہ تعلیم کے 83 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ برس کے 77 ارب 20 کروڑ روپے کے مقابلے میں 79 فیصد زیادہ ہےیکساں نصاب کی تیاری معیاری نظام امتحانات وضع کرنے اسمارٹ اسکولوں کا قیام مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی جس کے لیے رقم مختص کردی گئی ہے اور ان اصلاحات کے لیے ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے مزید برں ہائر ایجوکیشن ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہےوفاقی وزیر نے کہا کہ اعلی تعلیم کے لیے وافر رقوم رکھی گئی ہے اس لیے ایچ ای سی کے لیے سال 202019 میں مختص کی گئی 60 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 64 ارب روپے کردی گئی ہے حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لیے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلا رٹیفیشل انٹیلی جنس روبوٹکس ٹومیشن اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق اور ترقی کے لیے کام کیا جاسکتا لہذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس حصول کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیںسائنس انفارمیشن ٹیکنالوجیانہوں نے بتایا کہ امرجنگ ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اداروں کی صلاحیت اور گنجائش کو بڑھانا اشد ضرورت ہے مزید برں ای گورننس اور ئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز جی سیلولر سروسز کے غاز پر حکومت کی توجہ ہےانہوں نے بتایا کہ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہےحماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل الیکٹرانک پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درمد کیا جائے گا اور این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گاموسمیاتی تبدیلیبجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر اور ماحول پر ظاہر ہونے والے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھی اپنے کو تیار کر رہا ہےانہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر بھی بہت سے اثرات ہیں جیسے غیر موسمی بارشیں فصلوں کے پیداواری رجحان میں کمی اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں لہذا اس سال موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ارب روپے مختص کیے جارہے ہیںخصوصی علاقہ جاتوفاقی بجٹ کی تقریر کے دوران حماد اظہر نے کہا کہ رواں برس بجٹ کے تحت مختص رقوم کے علاوہ حکومت نے زاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبوں کے لیے 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھیں ہیںانہوں نے بتایا کہ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں مختلف منصوبوں کے ذریعے 48 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہےپائیدار ترقی کے مقاصدانہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت ترقیاتی بجٹ میں 24 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہےتحفظ خوراک زراعت فوڈ سیکیورٹیبجٹ تقریر کے دوران حماد اظہر نے بتایا کہ تحفظ خوراک کے فروغ کے لیے ترقیاتی منصوبوں میں 12 ارب روپے کی رقم خرچ کی جائے گیدیگر ترقیاتی پروگرامانہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع میں ٹی ڈی پی کے انضام انصرام کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے جبکہ افغانستان کی بحالی میں معاونت کے لیے ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہےمحصولات سے متعلق تجاویزوفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11 فیصد ہے جو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہم نے ایک اصلاحاتی عمل شروع کیا تھا جو ایک جامع حکمت عملی پر مشتمل تھا جس کے ذریعے رواں سال درج ذیل کامیابیاں حاصل کی گئی ہیںمعاشی ترقی کا درمد کی بنیاد پر انحصار اب اندرونی ذرائع سے حاصل کردہ مدن کی ترقی سے تبدیل ہوگیا ہےتاریخی ری فنڈز ادا کیے گیے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 119 فیصد زیادہ ہیں پاکستان کی محدود ٹیکس بیس کو ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لاکر اور ہزار 616 ریٹیل لیٹس پر پوائنٹ سیلز کی کامیاب تنصیب کے ذریعے مزید وسیع کیا گیا ہے جسے اس سال دسمبر تک 15ہزار تک لے جانے کی کوشش ہے کورونا کی وجہ سے عام دکانداروں کا کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے ہم نے پوائنٹ سیل پر سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے مزید کم کرکے 12 فیصد کرنے تجویز دی جس سے عام افراد اور دکانداروں کو کاروبار میں مدد ملے گی اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں سانی ہوگی کورونا کی وجہ سے ہوٹل کی صنعت بہت متاثر ہوئی اس لیے اس صنعت پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 05 فیصد کرنے کی تجویز دی یہ چھوٹ اپریل سے ستمبر تک ماہ کے لیے دی جائے گی افراد اور تنخواہ دار طبقے کی سہولت کے لیے گوشوارہ کی موبائل اپیلی کیشن متعارف کروائی گئی جس سے انکم ٹیکس گوشواروں میں 37 فیصد اضافہ ہواٹیکس جمع کروانے کا ایک خودکار نظام متعارف کروایا گیااسمگلنگ اور قانونی عملدرمد کی ایک کامیاب مہم چلائی گئی جس سے برمد ہونے والی رقم میں 19سے 30 ارب روپے کا اضافہ ہواانہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے قبل کے عرصے میں محصولات اکٹھا کرنے کی شرح بھی قابل تعریف رہی ڈومیسٹک ٹیکسز میں 27 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکانٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ضروری درمدات کا خاتمہ کیا گیا حماد اظہر نے کہا کہ اسی وجہ سے مالی سال 2020 کے لیے ایف بی محصولات وصولی کا ہدف جو شروع میں ہزار 503 ارب روپے تھا اسے درمدات سکڑنے کے بعد ہزار 801 کیا گیا تھا بعد ازاں کورونا کی وبا نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا وفاقی وزیر نے کہا کہ کورونا وائرس کے بعد لاک ڈان اور معاشی سرگرمیاں کم ہونے کے باعث معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور بیروزگاری اور معاشی سست روی سے بچنے کے لیے وزیراعظم نے 12 سو ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث محصولات اکٹھا کرنے میں دشواری اور کمی کا سامنا کرنا پڑا جس کا تخمینہ تقریبا 900 ارب روپے ہے حماد اظہر نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث ایف بی کے ہدف میں کمی کی گئی اور اب یہ ہدف 3900 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اس دوران چھوٹے اور درمیانے تاجروں کے لیے فکسڈ مراعات کا پیکج متعارف کروایا گیا ہے اس کے علاوہ تعمیراتی شعبے کے لیے ایک تاریخی پیکج متعارف کروایا گیا وفاقی وزیر نے کہا کہ اس پیکج کے بر وقت اطلاق سے توقع کی جارہی ہے کہ یہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے روزگار کے تحفظ معاشی ترقی کی ترویج اور غیر مراعات یافتہ طبقے کو نیا پاکستان ہاسنگ پروگرام کے تحت کم قیمت پر گھر فراہم کرے گا حماد اظہر نے کہا کہ ہم نے ایسی پالیسیز تجویز کی ہیں جس سے معیشت کو دوبار پاں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہم نے بجٹ 212020 میں کاروبار کو ناکامی سے بچانے اور غریب عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جسے ریلیف بجٹ کہا جاسکتا ہے ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا وفاقی وزیر نے کسٹمز ایکٹ 1969 میں تجویز کردہ تبدیلیاں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹ کو کسی انسانی مداخلت کے بغیر برمد کنندگان کے بینک اکانٹس میں براہ راست منتقلی کرنے کے لیے خود کار بنایا جارہا ہے یہ اسکیمز ایک دہائی بعد تبدیل کی جارہی ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس حکومت نے کسٹم ٹیرف میں اصلاحات کی جامع مشق کا غاز کیا تھا اور خام مال پر مشتمل 1600 سے زائد ٹیرف لائنز کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی کیا اب صنعتی شعبے کی لگائی جانے والی لاگت میں کمی کے لیے خام مال میں مکمل طور پر تمام کسٹم ڈیوٹیوں سے مستثنی قرار دینے کی تجویز کی جاری ہے وفاقی وزیر نے کہا کہ ان اشیا کی فہرست میں کیمیکلز لیدر ٹیکسٹائل ربر کھاد میں استعمال ہونے والا خام مال شامل ہے ان ٹیرف لائنوں میں 20 ہزار کے قریب اشیا شامل ہیں جو مجموعی درمدات کا 20 فیصد ہیں انہوں نے کہا کہ خام مال اور ثانوی اشیا پر مشتمل 200 ٹیرف لائنز پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے ان اشیا میں بلیجنگ ربر اور گھریلو اشیا کا خام مال شامل ہے انہوں نے کہا کہ مقامی انجینئرنگ کے شعبے کی حوصلہ افزائی کے لیے ہاٹ رولڈ کوائلزپر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو 125 فیصد سے کم کرکے فیصد پر لانے کی تجویز کی جارہی ہے جس سے اسٹیل پائپ انڈر گرانڈ ٹینک بوائلر کی صنعت کو فروغ ملے گا حماد اظہر نے کہا کہ ماضی میں مختلف اشیا پر پروہیبیوٹو ریگولیٹری ڈیوٹی عائد تھی جس سے درمدات میں کمی لانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان میں سے کچھ چیزیں افغانستان منتقل ہوئیں اور بعدازاں اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان واپس ئیں انہوں نے کہا کہ مختلف اشیا مثلا کپڑے سینیٹری ویئر الیکٹروڈز کمبلوں پیڈ لاکس کو اسمگلنگ پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم کرنے کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ ضائع ہونے والے محصولات کو حاصل کیا جاسکے حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام کی صحت سے متعلق اخراجات کو کم کرنے کے لیے کورونا وائرس اور کینسر کی تشخیصی کٹس پر عائد تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو ختم کرنے کی تجویز دی جارہی ہے اور جینیاتی مسائل میں مبتلا بچوں کے خصوصی فوڈ سپلیمنٹس پرہیزی غذا کو تمام درمدی مرحلے پر تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز سے مستثنی قرار دینے کی تجویز دی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ سپلیمنٹری فوڈ بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال کو کسٹم ڈیوٹیز سے مستثنی قرار دینے کی تجویز دی جارہی ہےوفاقی وزیر نے کہا کہ اسمگلنگ کی سزاں کو جامع بنانے اور کم سے کم سزا کا قانون متعارف کروانے کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ کسٹم حکام اپنی مرضی سے اسمگلنگ میں ملوث شخص کو نہ چھوڑ سکیںحماد اظہر نے کہا کہ کسٹمز کے قانون میں ایڈوانس رولنگ کی شمولیت کی تجویز دی جارہی ہے جو عالمی سطح کے بہترین طریقہ کار کے مطابق ہے انہوں نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005 کے حوالے سے تجاویز اور ریلیف اقدامات پیش کیے جو مندرجہ ذیل ہیں غیر رجسٹرڈ شدہ افراد سے قومی شناختی کارڈ کی وصولی کی شرائط میں نرمی کرتے ہوئے بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کرنے کی تجویز دی گئی ہےوزات صحت کی تجویز پر طبی مقاصد کے لیے خصوصی پرہیزی غذا کی درمد پر استثنی کی تجویز پیش کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے چھٹے شیڈول میں ایک نیا سیریل صرف درمد پر استثنی کے لیے شامل کیا جارہا ہےکورونا وائرس سے متعلقہ صحت کے ساز سامان کی درمد پر استثنی میں ماہ کی توسیع کی تجویز پیش کی گئیکاروبار میں سانی سے متعلق تجاویزوفاقی وزیر نے کاروبار میں سانی سے متعلق مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیںود ہولڈنگ ٹیکس رجیم کو سان بنانے کے لیے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ ود ہولڈنگ شقوں کو حذف کیا جائے اور ان میں شادی ہالوں اور تعلیمی اداروں میں ٹیکس گزار والدین کے بچوں کی فیس پر عائد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہےغیر رہائشیوں پر 30 فیصد کی موجودہ شرح بہت زیادہ ہے لہذا بین الاقوامی معیار کے مطابق اسے درست کرنے کی ضرورت ہے اقدامات سی پیک کے منصوبوں کی تعمیل میں مددگار ثابت ہوں گےکمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز کو یکیسان مواقع فراہم کرنے کے لیے کیپیٹل گڈز کی امپورٹ میں ٹیکس کے بگاڑ سے بچنے کے لیے محصولات کی مزید وصولی اور چھوٹے اور درمیانے مینوفیکچررز کی سہولت کے لیے ایک بنیادی تبدیلی کی تجویز ہے اس تجویز کے تحت درمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کوخام مال پر 55 سے کم کر کے 2فیصد اور مشینری پر ٹیکس 535 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد یا جا رہا ہے اس کے ساتھ منسلک ایگزیمپشن سرٹیفکیٹ کا نظام بھی ختم کیا جارہا ہےکاروبار میں سہولت اور کاروبار کی لاگت میں کمی کرنے کے لیے سیکشن 21 کی موجودہ حد کو 10 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کیا جا رہا ہے جبکہ کاروبار میں ایک اکانٹ ہیڈ میں حد 50 ہزار سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ کرنے کی تجویز ہے اسی طرح کاروباری افراد کی سہولت کے لیے تنخواہ اور اجرت دینے کے لیے نقد رقم کی حد کو بڑھا کر 15ہزار سے 25 ہزار کیا جا رہا ہےبیرونی محصولات کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ تجویز ہے کہ ایک سال میں بیرونی ترسیلات زر کو بینک نکلوانے اور دوسرے بینک میں منتقل کرنے پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائےقبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوااجلاس کے دوران ئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئیاس سال کے بجٹ اجلاس کو محض رسمی سمجھا جا رہا تھا کیونکہ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس مقصد پر رائے دہی کے لیے دبا نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئی تھیںخیال رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 202019 میں 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا اور اس سے قبل پی ٹی ئی نے اقتدار میں نے کے بعد محض ماہ کے عرصے میں منی بجٹ بھی پیش کیے تھے مالی سال 212020 کے بجٹ کو مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے کورونا بجٹ کا نام دیا گیارواں سال کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب ملک کو عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث صحت کے بحران کے سامنا ہے جس نے ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مالی سال 202019پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 202019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 72 فیصد تجویز کیا گیا تھا گزشتہ بجٹ میں ایف بی ار کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھاعلاوہ ازیں مالی سال 202019میں وفاقی مدنی کا تخمینہ ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 192018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے اعلی تعلیم کے لیے 45 ارب روپے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے پی ٹی ئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھیقبل ازیں مالی سال 192018 میں 52 کھرب 46 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 53 ارب 85 ارب روپے ہوگئے تھے اس سے قبل مالی سالی 172018 میں 47 کھرب 53 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 48 کھرب 57 ارب روپے ہوگئے تھے 172016 میں 43 کھرب 96 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا لیکن اخراجات 42 کھرب 56 ارب روپے رہے مالی سال 162015 میں 40 کھرب 86 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اور اس سال بھی اخراجات بجٹ کے اندر رہتے ہوئے 40 کھرب 69 ارب رہے تھے جی ڈی پیاس سے قبل مالی سال 182017 میں جی ڈی پی کا ہدف فیصد مقرر تھا مالی سال 172016 میں 57 فیصد 162015 میں 55 فیصد 152014 میں 51 فیصد اور 142013 میں اس کا ہدف 44 فیصد رکھا گیا تھاخیال رہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کے حصے پر نظر ڈالیں تو مالی سال 192018 کیلئے یہ 38 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ 08 رہا 172016 میں عارضی طور پر 346 فیصد رہا 162015 میں 027 فیصد 152014 میں 213 فیصد اور 142013 میں یہ 25 فیصد تھاجی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 192018 کے لیے 81 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ منفی 03 فیصد رہا 172016 میں عارضی طور پر فیصد رہا 162015 میں 58 فیصد 152014 میں 52 فیصد اور 142013 میں یہ 453 فیصد تھاجی ڈی پی میں اشیاء کی پیداوار کے شعبے کا حصہ مالی سال 192018 کے لیے 76 فیصد مقرر کیا گیا لیکن یہ 140 رہا 172016 میں عارضی طور پر 43 فیصد 162015 میں فیصد 152014 میں 36 فیصد 142013 میں 349 فیصد تھاسروسز کے شعبے میں شرح نمو کی ترقی مالی سال 192018 کے لیے 65 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن یہ 471 رہی 172016 میں عارضی طور پر 56 فیصد 162015 میں 56 فیصد 152014 میں 44 فیصد اور 142013 میں 446 فیصد رہیگزشتہ بجٹس کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں ٹیکس ریونیو کی شرح 192018 میں 126 رہی 172016 میں 85 فیصد 162015 میں 126 فیصد 152014 میں 11 فیصد اور 142013 میں یہ 102 فیصد رہیاقتصادی جائزہ رپورٹگذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام باد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کےمشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ نے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے پروگرامز میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیںمشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور ٹیکسز کا بھی جائزہ کے لر ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیںڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ مالی سال 202019 میں مجموعی قومی پیداوار جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 04 فیصد ہے اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 267 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 264 ہےانہوں نے کہا تھا کہ خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 34 فیصد شرح نمو ہےمشیر خزانہ نے کہا تھا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 229 فیصد رہیانہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈان کی وجہ سے ٹرانسپورٹ ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 71 ہےمشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہمارے پورے ملک کی مدنی 04 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ مدنی فیصد بڑھے گی تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی مدن میں سے ساڑھے فیصد نقصان دیکھنا پڑاڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ملکی مدن میں 30 کھرب روپے کا نقصان ہوامجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کا 88 فیصدقومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچےقرض واجبات مجموعی ملکی پیداوارجی ڈی پی کے 1026 فیصد تک پہنچ چکے ہیں سروے کے اعداد شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض جی ڈی پی کے 844 فیصد تک پہنچ گیا تھاگزشتہ روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض مثال کے طور پر اپریل میں ائی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیںافراط زراقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ چی پی ئی افراط زر 1122 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 651 فیصد تھیرپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 347 فیصد ریکارڈ کی گئیٹیکس مراعات سے 11 کھرب 49 ارب روپے کا نقصان ہوااقتصادی سروے 202019 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت گزشتہ سال کے 972 ارب 04 کروڑ کے مقابلے میں 1825 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کھرب 49 ارب روپے ہوگئیانکم ٹیکس مراعات سال 201920 میں بڑھ کر 378 ارب روپے ہوگئی جو گزشتہ سال میں 141 ارب 64 کروڑ روپے تھی 16688 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہےاس ٹیکس مراعات میں کل مدنی سے 21207 ارب روپے اور کاروباری افراد کو دیے گئے 104498 ارب روپے شامل ہیںسب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ائی پی پیز ہیںسیلز ٹیکس میں مراعات 20192020 میں کم ہوکر 5188ارب روپے ہوگئی جو 201819 میں 5977 ارب روپے تھی جو 13 فیصد کی کمی ظاہر کرتی ہےایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہاقتصادی سروے پاکستان مطابق ملک میں کورونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہےسروے میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کروڑ سے بڑھ کر کروڑ ہو سکتی ہےپلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کوسٹ اف بیسک نیڈ سی بی این کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایا جس کے مطابق ماہانہ ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہے اس طریقہ کار کے مطابق 243 فیصد ابادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے
تاجر رہنما میاں زاہد حسین نے وفاقی حکومت کے بجٹ کو اسٹیٹس کو کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کے بعد معیشت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوئی اقدام موجود نہیں ہےپاکستان تحریک انصاف پی ٹی ئی کی وفاقی حکومت کی جانب سے اپنا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنے پر اپنے ردعمل میں سابق چیئرمین کورنگی ایسوسی ایشن ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کاٹی میاں زاہد حسین نے کہا کہ یہ ایک اسٹیٹس کو بجٹ ہے اس میں کوئی خاص سمت نہیں ہے کورونا کے بعد معیشت کی شروعات کے لیے بجٹ میں کوئی چیز شامل نہیں ہےنجی ٹی وی جیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا زیرو ریٹنگ کا مطالبہ تھا اس پر کوئی بات نظر نہیں ئی جس کو ہمیں کرنا تھا گورننس میں بھی کوئی خاص اقدام نظر نہیں یامزید پڑھیں70 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلانمیاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ریونیو کے شعبے خاص کر فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی میں خاصے اقدامات بتائے گئے ہیں جو بظاہر کاروباری برادری کے لیے اچھی نہیں ہیں لیکن جب تفصیلات ئیں گی تو دیکھیں گےان کا کہنا تھا کہ محسوس ہوتا ہے کاروباری برادری کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہےانہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ڈٹ کو ایک دوسال کے لیے مخر کیا جائے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کو انہوں نے مزید سخت کردیا ہےسابق چیئرمین کاٹی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مجموعی طور پر کاروباری سرگرمیوں میں شاید مشکلات میں مزید اضافہ ہولاہور چیمبر کامرس کا ردعمللاہور چیمبر کامرس کے صدر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ ان حالات میں اچھا بجٹ پیش کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن ہم نے جو ریلیف مانگا تھا وہ اس طرح نہیں ملاانہوں نے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر صحت سے متعلق اشیا پر ریلیف دیا جو اچھی بات ہےان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا اور قرضوں پر سود اب ادا کیا ہے جو اچھی بات ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت پر دبا ہوتا ہےلاہور چیمبر کامرس کے عہدیداروں نے کہا کہ حکومت نے ایف بی کا جو ہدف رکھا ہے وہ زیادہ ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ مشکلات ہوں گی اور ایف بی لوگوں کو تنگ کرے گیانہوں نے کہا کہ تعمیرات میں جس طرح سے سرمایہ کاری کے لیے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے بجٹ میں ایسا نہیں ہےان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تھے حکومت سی پیک پر کچھ ریلیف دے گی لیکن ہمیں کچھ نظر نہیں یا اسی طرح شرح سود کم کرنا حکومت کے اپنے مفاد میں ہے اور ہمارا خیال تھا مزید کم ہوگاحکومت کو چینلجز کا سامنا ہے نائب صدر ایف پی سی سی ئیفیڈریشن پاکستان چیمبر کامرس اینڈ انڈسٹری ایف پی سی سی ئی کے نائب صدر ڈاکٹر محمد ارشاد نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت کو معیشت سمیت مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اس لیے کورونا وائرس کی صورت حال میں حکومت کو بجٹ میں کوئی بڑا ریلیف دینا ممکن نہیں تھا مزید پڑھیں مالی سال 192018 سست معیشت بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی کمی کا باعثایک نجی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت قومی معیشت کی بہتری کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجٹ میں سیمنٹ کی قیمتوں میں کمی کردی ہے جو تعمیراتی صنعت میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے اور اس سے مزید 40 سے زیادہ صنعتیں وابستہ ہیں اور سیمنٹ کی قیمتوں میں کمی سے بھی ان پر اثر پڑے گا محمد ارشاد نے کہا کہ کورونا وائرس نے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور حکومت کے لیے اس خلا کو پر کرکے وسائل اور مسائل میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہےقبل ازیں وفاقی وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر نے71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درمد کیا جائےحماد اظہر نے بتایا تھا کہ ئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا جب 2018 میں ہماری حکومت جب ئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا اس وقت ملکی قرض سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی کرنٹ اکانٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برمدات میں کمی اور درمدات میں اضافہ ہوابجٹ 212020 کے اہم نکاتدفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویزایف بی کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویزنان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویزاین ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزوفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ ہزار 700 ارب روپے ہےاخراجات کا تخمینہ ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہےمجموعی بجٹ خسارہ ہزار 195 ارب روپے تجویزوفاقی بجٹ خسارہ ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویزسبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویزپنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویزصوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویزدیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویزئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویزنیا پاکستان ہاسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزاحساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویزسول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
کراچی مالی سال 202019 کے ابتدائی ماہ میں کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1378 فیصد منفی 1722فیصد ڈالرز کی کمی ہوئی ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اقتصادی سروے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کورونا وائرس نقصان دہ تھا لیکن گزشتہ برس یکم جولائی سے 11 جون کے اعداد شمار کا حساب کریں تو مارکیٹ نقصانات سے نمٹنے اور 362 فیصد اضافے میں کامیاب ہوئی سروے کے مطابق مالی سال 2019 میں مارکیٹ میں 1911 فیصد کمی تھی جبکہ 10 ماہ کے عرصے میں 1730 فیصد کمی تھیمزید پڑھیں مالی سال 202019 میں زراعت کی کارکردگی قابل ذکر رہیعلاوہ ازیں پی ایس ایکس نے ایم ایس سی ئی ایمرجنگ مارکیٹ انڈیکس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میں جولائی سے مارچ کے دوران 1961 فیصد کمی ئی سروے میں کہا گیا کہ 26 مارچ سے 31 مارچ کے درمیان انڈیکس میں 2375 فیصد کمی ئی اس عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں فیصد کمی ئی تاہم متوقع نقصان کے باعث حکومت کی جانب سے مارچ کی خر میں اعلان کردہ مالی پیکج اور اسٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 425 بیسز پوائنٹس کمی کرتے ہوئے اسے فیصد کرنے کا فیصلہ کیا تھا مالی سال 20 کی پہلی سہ ماہی میں ٹرن اوور کم رہا اور فروری میں سرمایہ کاروں نے شیئرز میں نقصان کے خدشے کے بعد سرمایہ کاری نہ کرنے کی خواہش کا عندیہ دیا تھا تاہم اکتوبر سے جنوری تک پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرامز کے فنڈ زرمبادلہ کی مستحکم شرح کے باعث مارکیٹ میں اضافہ ہوا یہ بھی پڑھیں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 54 فیصد تک ڑی صنعتکی کمیجولائی سے مارچ کے درمیان متحرک ہونے والے فنڈز کی 250 ارب روپے ہیں گزشتہ برس یہ تعداد 22 ارب روپے تھیاس سال غیر ملکیوں کے لوڈڈ شیئرز کی مالیت 13 کروڑ ڈالر ہے
اسلام اباد کورونا وائرس کے زراعت پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے اور مالی سال 202019 میں 267 فیصد کی قابل ذکر نمو ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ سال 058 فیصد تھیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ کپاس اور گنے کی فصلوں کے علاوہ تمام اہم فصلوں میں مثبت نمو دیکھی گئیتاہم 2019 کے اختتامی حصے میں ٹڈی دل کے حملے سنگین صورت اختیار کر گئی جس کی وجہ سے سندھ پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں اہم فصلوں کی پیداوار میں نقصانات رپورٹ ہوئےاقتصادی سروے کے مطابق ابتدائی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرسبز زمین کے نقصانات کے علاوہ ایک لاکھ 15 ہزار ہیکٹر پر پھیلی گندم تیل کے بیجوں کپاس چنے پھل اور سبزیوں کی فصلوں کو نقصان پہنچایہ بھی پڑھیں وفاقی بجٹ زراعت کے لیے 280 ارب روپے کے سالہ پروگرام کا غاز اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بھی کچھ فصلوں کا نقصان ہوا تاہم مجموعی طور پر ہونے والے نقصان کی تفصیلات میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے جائزے پر اتفاق کی کوششیں جاری ہیں چنانچہ اہم فصلوں میں 290 فیصد کی مثبت نمو گندم چاول اور مکئی کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے ہوئی جو بالترتیب 245 فیصد 289 فیصد اور 601 فیصد رہیتاہم کپاس اور گنے کی فصلوں کی نمو میں بالترتیب 692 فیصد اور 044 فیصد کی منفی نمو دیکھی گئیدیگر فصلوں میں 457 فیصد کی نمو سامنے ائی اور اس کی وجہ دالوں تیل کے بیجوں اور سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ تھامزید پڑھیں ای سی سی نے 100 ارب روپے کے زرعی پیکج کی منظوری دے دیکپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے کپاس سے بیج الگ کرنے کے عمل میں 461 فیصد کی کمی دیکھی گئی جبکہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں 258 فیصد کی نمو ہوئیدوسری جانب جنگلات اور ماہی گیری میں نمو بالترتیب 229 فیصد اور 060 فیصد رہیسروے میں نشاندہی کی گئی کہ مالی سال 202019 میں زراعت کی کارکردگی نہ صرف گزشتہ برس کے مقابلے میں بہتر ہوئی بلکہ اس نے دیگر شعبوں کے مقابلے میں بھی بہتر کارکردگی دکھائیتاہم موسمیاتی تبدیلیوں کیڑوں کے حملوں اور پانی کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے زرعی پیداوار اپنی صلاحیت سے کہیں کم رہیاس کے علاوہ زراعت سے متعلق سب سے اہم مسئلہ کسانوں کی منڈیوں تک براہ راست رسائی کا محدود ہونا ہے جس کی وجہ سے مڈل مین کا کردار اہم رہتا ہےیہ بھی پڑھیں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 54 فیصد تک کی کمیصلاحیت کے بارے میں سروے میں بتایا گیا کہ زرعی شعبے میں نہ صرف ملکی ابادی کے لیے پیداوار بلکہ برامدات کے لیے سرپلس پیداوار کی بھی صلاحیت ہے جس سے خوراک کے تحفظ میں اضافہ ہوگا بلکہ زر مبادلہ بھی حاصل ہوگاسروے میں کہا گیا کہ چونکہ لاجسٹک مسائل سے خوراک کی فراہمی میں مشکلات اسکتی ہیں اس لیے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا اہم ہیں جس سے کووڈ 19 کے باعث پڑنے والے سماجی معاشی اثرات کم کرنے میں مدد ملے
کراچی اقتصادی سروے 202019 میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جولائی 2019 میں افراط زر کے دبا کے باعث شرح سود میں اضافے کے اقدام سے نجی سیکٹر سے طلب میں کمی ئی جس سے کاروباری سرگرمی سست ہوگئی ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک پاکستان نے کہا کہ استحکام کی کوششوں کے باعث مقامی پیداوار اور ریٹیل تجارت بری طرح متاثر ہوئی کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈان کے باعث کاروبار کی بندش سے انہیں بڑا دھچکا لگا سروے میں کہا گیا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث معاشی سرگرمی سست ہوئی اور مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی مزید پڑھیں ٹیکس مراعات سے قومی خزانے کو 11 کھرب 49 ارب روپے کا نقصان ہوااس میں مزید کہا گیا کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت شرح سود صفر کے قریب ہے سروے کے مطابق وبا کے باعث طلب میں کمی کے باعث تیل کی قیمتوں میں کمی ئی جس سے مہنگائی کا دبا کم ہوا اور گزشتہ ماہ میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں فیصد کمی کی اقتصادی سروے کے مطابق چیلنجز کے باوجود بینکنگ سیکٹر نے بہترین کارکردگی دکھائی اور گزشتہ برس کے 73 فیصد کے مقابلے میں اس مرتبہ کارکردگی میں 117 فیصد اضافہ ہوا اس میں مزید کہا گیا کہ اس سال 13 فیصد ترقی سرمایہ کاری نے اثاثوں کی توسیع میں 40 فیصد سے زائد کردار ادا کیا دوسری جانب ایڈوانسز نیٹ میں گزشتہ برس کے 222 فیصد کے مقابلے میں 37 فیصد اضافہ ہوا یہ بھی پڑھیں پاکستان کا مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک جا پہنچاسروے کے مطابق ایڈوانسز میں یہ تبدیلی استحکام کے اقدامات کے باعث معاشی سرگرمی میں سست روی کی وجہ سے ہوئی اس میں مزید کہا گیا کہ ٹیکسٹائلز کیمیکلز فارماسیوٹیکلز اور سیمنٹ کے شعبوں میں فنانسنگ کی طلب میں کمی دیکھی گئی سروے کے مطابق یکم جولائی سے 24 اپریل کے درمیان بینک ڈپازٹس میں 4996 ارب روپے 39 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس سے ایک برس قبل 144 ارب اضافہ ہوا تھا
اسلام اباد رواں مالی سال کے دوران شرح تبادلہ میں کمی اور سکڑتی مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں نے بڑی صنعتوں کی پیداوار ایل ایس ایم میں 54 فیصد تک کی کمی کیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اقتصادی سروے برائے سال 202019 میں کہا گیا کہ جولائی تا مارچ تک کے عرصے میں کھاد کے سوا ہر شعبے میں کمی دیکھنے میں ائیٹیکسٹائل خوراک مشروبات تمباکو فولاد اور اسٹیل کی منصوعات کوک اور پیٹرولیم مصنوعات میں منفی نمو نے ملک کی مجموعی مینوفیکچرنگ کو متاثر کیایہ بھی پڑھیں پاکستان کا مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک جا پہنچااقتصادی سروے کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار مجبور معاشی ماحول کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی اور رواں مالی سال کے دوران کھچا جاری رہاخیال رہے کہ یہ بڑی صنعت مجموعی افرادی قوت کے 161 فیصد کو ملازمت کے مواقع فراہم کرتی ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13 سے 14 فیصد ہےمالی سال 202019 کی شروعات مثبت انداز میں ہوئی اور جولائی میں نمو 211 فیصد رہی جو اگست میں منفی 242 ہوگئی جبکہ ستمبر میں ترقی نے کچھ رفتار پکڑی اور 276 فیصد ہوگئی اور اکتوبر 2019 میں اس میں 54 فیصد کا تیز اضافہ دیکھنے میں ایاتاہم نومبر میں ایک مرتبہ بھی شرح نمو منفی 381 فیصد ہوگئی اس کے باوجود دسمبر 2019 میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1527 کا بڑا اضافہ دیکھنے میں ایامزید پڑھیںکورونا وائرس سے ریونیو میں تقریبا کھرب 99 ارب روپے کا نقصاناس اضافے کی وجہ چینی کی پیداوار تھی جو گزشتہ برس کے مقابلے بروقت شروع ہونے اور موسم کی بہتر صورتحال کے باعث جنوری میں 709 فیصد تک پہنچ گئیفروری میں 016 فیصد کی معمولی نمو کے ساتھ ایل ایس ایم مارچ میں کاروباری سرگرمیوں کی بندش کے باعث اچانک 219 فیصد تک جا پہنچیبڑی صنعتوں کی پیداوار میں جو اہم شعبے حصہ ڈالتے ہیں ان میں ٹیکسٹائل کا حجم 2091 فیصد مشروبات اور تمباکو 1237 فیصد کوک اور پیٹرولیم مصنوعات 55 فیصد فولاد اور اسٹیل کی مصنوعات 54 فیصد غیر دھاتی معدنی مصنوعات 536 فیصد اٹو موبائل 4613 فیصد ادویہ سازی 36 فیصد اور کیمیکلز 17 فیصد شامل ہیںیہ بھی پڑھیں بجٹ کیسا ہونا چاہیے اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ ٹیکسٹائل کی پیداوار جولائی سے مارچ کے عرصے میں 257 فیصد تک کم ہوئی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 017 فیصد تھیاسی طرح خوراک مشروبات کے شعبے میں رواں مالی سال کے دوران 233 فیصد کمی ہوئی کوک اور پیٹرولیم کی صنعت میں 1746 فیصد تک سکڑیرواں مالی سال کے دوران فولاد اور اسٹیل کی پیداوار سکڑنے کی رفتار منفی 796 فیصد رہی اس کمی کی بڑی وجہ لاگت میں اضافے کی وجہ سے تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی تھی
کراچی جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچےقومی اقتصادی سروے کے مطابق قرض واجبات مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کے 1026 فیصد تک پہنچ چکے ہیںاس میں سب سے زیادہ اضافہ حکومت کے مقامی قرضوں کی وجہ سے ظاہر ہو رہا ہے جو اس عرصے کے دوران 10 کھرب 74 ارب 60 کروڑ روپے تک بڑھ چکے ہیں جبکہ بقیہ اضافہ حکومت کے غیر ملکی قرض سے ہوا جو کھرب ارب روپے تک جا پہنچے ہیںسروے کے اعداد شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض جی ڈی پی کے 844 فیصد تک پہنچ گیا تھایہ بھی پڑھیں کورونا وائرس سے تقریبا 899 ارب روپے کے ریونیو نقصانات ہوئےدوسری جانب مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض مثال کے طور پر اپریل میں ائی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں تاہم گزشتہ برس قرض کی جی ڈی پی کے مقابلے میں شرح 742 فیصد تھیسروے میں کہا گیا کہ حکومت نے جولائی سے مارچ کے عرصے میں بجٹ سپورٹ کے لیے 20 کھرب 80 ارب روپے کا قرض لیا جبکہ ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کھرب شامل ہوئےاسی طرح ملکی قرض کا عرصہ تیزی سے طویل مدت کی جانب منتقل ہوامارچ تک ماہ کے ٹریژری بلز میں ملکی قرضوں کا 28 فیصد حصہ تھا جو جولائی میں 100 فیصد ہوگیامزید پڑھیں ائندہ مالی سال میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکانرواں مالی سال کے ابتدائی ماہ کے عرصے میں زیادہ ملکی قرض درمیانی سے طویل مدتی سرکای سیکیورٹیز پی ائی بیز اور این ایس ایس کے ذریعے لیا گیااس کے علاوہ حکومت ایک قرض کا انسٹرومنٹ متعارف کروانے کے عمل میں ہے جس کا ہدف سمندر پار پاکستانی ہیں اور یہ اوورسیز پاکستانیز سیونگز بل کہلائے گایہ انسٹرومنٹ اور 12 ماہ کے پیپر پر ڈالر کی بنیاد پر بالترتیب 55 فیصد 60 فیصد اور 65 فیصد کے ریٹرنز پیش کرے گاخیال رہے کہ پاکستان کا مجموعی سرکاری قرض حالیہ برسوں میں ریونیو کی وصولی کے تناسب سے تیزی سے بڑھا ہےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرسفرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کیلئے ریلیف پیکج ٹیکسز میں چھوٹ دینے کا اعلانحکومت کو رواں مالی سال کے اختتام تک قرضوں کے جی ڈی پی کی شرح کے حساب سے کم ہونے کی توقع تھی لیکن کووڈ 19 نے اس امید پر پانی پھیر دیاسروے کے مطابق اس کی بڑی وجہ نمو میں تیزی سے کمی اور بجٹ خسارے میں اضافہ ہےاسی طرح ابتدائی ماہ کے عرصے میں سود کی ادائیگی 18 کھرب 80 ارب روپے رہی جو سالانہ بجٹ کے حساب سے 28 کھرب 91 ارب روپے تھیشرح سود میں 55 فیصد پوائنٹس کے تیزی سے گرنے کی وجہ سال کے اخر تک سود کی ادائیگی کم رہنے کا امکان ہےجولائی سے مارچ کے عرصے میں سرکاری قرض ریونیو کا 575 فیصد نگل چکے تھے جبکہ سال 2013 سے 2018 تک یہ تناسب 40 فیصد تھایہ خبر 12 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام باد اقتصادی سروے 202019 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت گزشتہ سال کے 972 ارب 04 کروڑ کے مقابلے میں 1825 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کھرب 49 ارب روپے ہوگئیواضح رہے کہ ریاست مختلف صنعتوں اور مختلف گروہوں کو مختلف زمرے میں ٹیکس مراعات دیتی ہےاس طرح کے اخراجات میں گزشتہ دو سالوں کے دوران ان میں کافی اضافہ ہوا ہے جبکہ سال 182017 میں ٹیکس مراعات کی لاگت 540 ارب 98 کروڑ روپے تھیبین الاقوامی مالیاتی فنڈئی ایم ایف کے خری بیل بیکج کے دوران مجموعی طور پر ٹیکس مراعات میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے تاہم حکومت نے ایک بار پھر کچھ صنعتوں اور گروہوں کو کئی مراعات کی اجازت دی ہےمزید پڑھیں ائندہ مالی سال میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکانئی ایم ایف کے جاری کردہ پروگرام کے پہلے سال میں مراعات کی لاگت میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں اضافہ ہواانکم ٹیکس مراعات سال202019 میں بڑھ کر 378 ارب روپے ہوگئی جو گزشتہ سال میں 141 ارب 64 کروڑ روپے تھی جو کہ ان مراعات میں 16688 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہےاس ٹیکس مراعات میں کل مدنی سے 21207 ارب روپے اور کاروباری افراد کو دیے گئے 104498 ارب روپے شامل ہیں سب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والوں میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ائی پی پیز شامل ہیںسیلز ٹیکس میں مراعات 20192020 میں کم ہوکر 518ارب 80 کروڑ روپے ہوگئی جو 201819 میں 597 ارب 70 کروڑ روپے تھی جو 13 فیصد کی کمی ظاہر کرتی ہے اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے پانچ برمدی شعبوں کی صفر ریٹنگ والے نظام کو ختم کیا اور ان پانچوں شعبوں اور چینی کی مقامی فروخت پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی معیاری شرح نافذ کردیگزشتہ سال ان پانچوں شعبوں سے ہونے والے محصولات کا خسارہ 87 ارب روپے لگایا گیا تھاسیلز ٹیکس ایکٹ کے چھٹے شیڈول میں شامل اشیا کی درمد اور مقامی سپلائی پر مراعات اس سال 310 ارب 71 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی جو گزشتہ سال 301 ارب روپے تھی چھٹا شیڈول مستثنی مصنوعات کی فہرست ہے جن میں زیادہ تر صارفی اشیا شامل ہیںیہ بھی پڑھیں ملک میں مزید ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا اندیشہٹھویں شیڈول کے تحت مصنوعات کی درمد پر مراعات کی لاگت اس سال 118 ارب 13 کروڑ 70 لاکھ روپے رہی جو گذشتہ سال 156 ارب روپے تھی جو 242 فیص کمی ظاہر کرتا ہےاٹھواں شیڈول مخصوص شرائط کے تحت درمد شدہ اشیا پر لاگو ہوتا ہےپہلی مرتبہ سروے میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ موبائل فونز پر دستیاب مراعات 23 ارب15 کروڑ 40 لاکھ روپے ہےکسٹم میں مراعات 856 فیصد بڑھ کر 253111 فیصد ہوگئی جو ایک سال قبل 233 ارب 13 کروڑ 40 لاکھ روپے تھیبنیادی طور پر سی پیک سے متعلقہ درمدات ٹوموٹوو سیکٹر کے اکراجات اور اصلی سازوسامان پیدا کرنے والوں کے لیے اخراجات میں اس سال سب سے زیادہ عام ٹیکس مراعات 95 ارب 42 کروڑ روپے ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سال79 ارب 93 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا جو 1936 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے
اسلام اباد بین الاقوامی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ حکومت نے کہا ہے کہ ختم ہونے والے مالی سال میں مہنگائی کی شرح ابتدائی تخمینےکے 118 فیصد سے کم ہو کر 17 فیصد ہوگئیپاکستان اقتصادی سروے کی رپورٹ برائے سال 202019 کے مطابق خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے افراط زر کے دبا میں مزید کمی ہوگی اور حکومت کو مہنگائی کی شرح ائندہ مالی سال کے دوران واحد ہندسے تک محدود رہنے کی توقع ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے پھیلا سے طلب کی کمی نے قیمتوں پر نیچے کی طرف دبا ڈالا لیکن اس سے رسد میں خلل پڑنے کا بھی خطرہ ہےیہ بھی پڑھیں ملک میں مزید ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا اندیشہدوسری جانب سروے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی اور یوٹیلیٹی اسٹور پر فروخت ہونے والی اشیا پر سبسڈی دینے کے ساتھ متعدد پیکجز کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے سے رسد بہتر اور قیمتوں میں اضافے کو قابو کرنے میں مدد ملیسروے میں یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ مالی سال کے ابتدائی ماہ کے دوران افراط زر پر خاصہ دبا دیکھنے میں ایا اور جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس 146 فیصد تک بڑھ گیا جو گزشتہ برس کے اسی ماہ میں 56 فیصد تھا جس کی وجہ سے بنیادی طور پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ تھااس اضافے کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما تھے جس میں نقل حمل کی بلند لاگت اور سپلائی میں عارضی تعطل شامل ہےمزید پڑھیں بجٹ کیسا ہونا چاہیےرسد میں تعطل کی بڑی وجہ موسم کی صورتحال تھی اور 2019 کے تمام موسموں کے معمول کے اوقات میں کچھ تبدیلی دیکھنے میں ائی جس سے فصلوں میں معمولی نقصان ہوا اور درامد شدہ اشیائے خور نوش پر انحصار میں اضافہ دیکھنے میں ایاوبا کے ظاہر ہونے کے بعد حکومت نے متعدد پالیسی انتظامی اور ریلیف اقدامات متعارف کروائے تا کہ مہنگائی کو ایک ہندسے تک محدود رکھا جاسکے جس سے اپریل میں افراط زر کی شرح 85 فیصد ہوگئی اور مسلسل تیسرے ماہ بھی اس میں کمی دیکھی گئیاس کے علاوہ حکومت نے مارچ اور اپریل میں اقتصادی ریلیف اور محرک پیکجز کا اعلان کیا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کیںیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس پابندیوں سے 14 لاکھ روزگار ختم ہونے کا خدشہپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی کی شرح میں مزید کمی واقع ہوئی جو اپریل کے اعداد شمار سے ظاہر ہےمزید یہ کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی سے بھی مہنگائی کم کرنے میں مدد ملی اور اپریل کے دوران تاریخ میں پہلی مرتبہ تیل کی قیمتیں صفر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں
اسلام اباد اقتصادی سروے پاکستان کے اندازے کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سروے میں کہا گیا کہ کووڈ سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد کروڑ سے بڑھ کر کروڑ ہو سکتی ہےپلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کوسٹ اف بیسک نیڈ سی بی این کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایا جس کے مطابق ماہانہ ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہےاس طریقہ کار کے مطابق 243 فیصد ابادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس پابندیوں سے 14 لاکھ روزگار ختم ہونے کا خدشہ پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں قومی رابطہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی برائے کووڈ 19 کے تخمینے کے مطابق غریبوں کی تعداد میں اضافہ کورونا وائرس کے بعد کی صورتحال میں مجموعی گھریلو کھپت پر منحصر ہےصورتحال نمبر ایک کے مطابق اگر گھریلو کھپت فیصد سے کم ہوتی ہے تو لوگوں کی تعداد 243 فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد ہوجائے گی اور اس سے مزید 10 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے اجائیں گےصورتحال نمبر کے مطابق اگر گھریلو کھپت 10 فیصد تک کم ہوگئی تو لوگوں کی تعداد 335 فیصد تک بڑھ سکتی ہےسروے میں کہا گیا کہ لاک ڈانز اگرچہ جزوی ہی ہو اس کے ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور امکان ہے کہ جزوی لاک ڈان سے ایک کروڑ 26 لاکھ افراد نوکریوں سے محروم ہوسکتے ہیںمزید پڑھیں قومی اقتصادی کونسل نے ئندہ مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے دیسروے میں کہا گیا کہ وبا کے دوران اور اس کے خاتمے کے بعد قلیل مدتی امدن میں ہونے والے نقصانات میں بے مثال اضافہ ہوگاحکومت نے مالی اعانت حاصل کرنے والوں خاندانوں کی تعداد کو 50 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ 20 لاکھ کردیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کروڑ 80 لاکھ افراد تک یہ مدد پہنچی جو ابادی کی 32 فیصد سے زائد تعداد ہےخیال رہے کہ پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے پہلے ہدف غربت کے خاتمے کے تحت 2030 تک ہر قسم کی غربت ختم کرنے کے لیے پر عزم ہےسروے میں کہا گیا کہ حکومت نے غربت کو کم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے جن میں امدنی کا تحفظ سماجی تحفظ تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے ڈویژن تشکیل دیے تاکہ غربت کے خاتمے سماجی تحفظ کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی کوشش کو ہم اہنگ کیا جاسکے
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ مالی سال 202019 میں مجموعی قومی پیداوار جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 04 فیصد ہے اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 267 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 264 ہے خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 34 فیصد شرح نمو ہےاسلام باد میں اقتصادی سروے 202019 پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا ہمارے اخراجات مدن سے کافی زیادہ تھے انہوں نے کہا کہ برمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے خری سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16 اور 17 ارب ڈالر سے گر کر ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے تھے مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درمدات برمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25 ہزار ارب روپے ہو چکے تھے مزید پڑھیں ائندہ بجٹ میں نان فائلرز کیلئے سخت اقدامات متعارف کروانے کا امکاناپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریبا 30 ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکانٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے ہمارے اخراجات مدن سے کافی زیادہ تھےانہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کر رہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کر رہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریںاپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششیں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور مخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف سے ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروبار کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس بجلی اور قرضوں کے لیے حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیےکرنٹ اکانٹ خسارے کو 20 ارب سے ارب ڈالر تک لے ئےانہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹ رہے ہیں اور ورثے میں ملنے والے 20 ارب ڈالر کے کرنٹ اکانٹ خسارے کو کم کرکے ہم ارب ڈالر تک لے ئےمشیر خزانہ نے کہا کہ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پہلے سال اور خصوصی طور پر اس سال کرنٹ اکانٹ خسارے میں 73 فیصد کمی کی گئیڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں وہ واپس کرےانہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ئی کی موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کو واپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں ہزار ارب روپے واپس کیے یہ بھی پڑھیں حکومت کا 212020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکانڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کے اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات مدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے سیکریٹری خزانہ اور وزارت خزانہ کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور ارمی چیف کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نےفوج کے بجٹ کو منجمد کیا اسٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیاانہوں نے کہا کہ ایک فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال اسٹیٹ بینک پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے پورا سال کسی بھی ادارے اور کسی بھی حکومتی وزارت کو ایک ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے اور اس کا اثر نے دیکھا کہ کورونا وائرس نے سے پہلے ہم پرائمری سرپلس کے ایریا میں چلے گئے تھے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں ان کے لیے انفرااسٹرکچر یعنی سڑکیں پل ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں اور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلا سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا ہم نے درمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائیں تو درمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی میں تقریبا 27 فیصد جا رہی تھی مشیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکسز میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے اخراجات میں زبردست کمی اور نظم ضبط یا ہے باہر کے قرضوں کو خوش اسلوبی سے واپس کیا گیا اور اپنے تعلقات تجارت کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ برقرار رکھے اور برمد کنندگان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی برمدات بڑھائیں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں جنہیں بھلادیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا نان ٹیکس ریونیو میں اضافہانہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریبا 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام دمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیںمشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پروگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم مدنی والے لوگ ہیں ایسے جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152 ارب روپے رکھے گئےمزید پڑھیں رواں مالی سال خسارہ بڑھے گا محصولات کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں حفیظ شیخڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام پی ایس ڈی پی میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی مدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا یہ سب چیزیں ہم نے کورونا وائرس کے نے سے پہلے حاصل کیں پھر کورونا وائرس یا اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیادنیا کی مدن میں سے فیصد کمی ئے گیمشیر خزانہ نے کہا کہ ئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی مدن میں سے فیصد کمی ئے گی اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برمدات بھی متاثر ہوں گیڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں ان کی مدنی کم ہو گی یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے ئیں گےانہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی اور ایسا ہوا بھی ہے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ملک میں اقتصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی ہزار ارب کا نقصان پہنچاٹیکس ریونیو میں کمیڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہے کیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی مدنی 04 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ مدنی فیصد بڑھے گی تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی مدن میں سے ساڑھے فیصد نقصان دیکھنا پڑا مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برمدات بھی متاثر ہوئیں ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ ایف بی کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو ہزار 700 ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی کو ٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیااپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقد رقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبرد زما ہو سکیںانہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کورونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کو بچانا ہے اور اس کے لیے لیے دوطرح کے پیکج دیے گئےیہ بھی پڑھیں ئی ایم ایف سے اخراجات منجمد کرنے 49 کھرب کے ریونیو ہدف پر اتفاقمشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240 ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں ان کے ذریعے مختلف پروگرامز پر عملدرمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصا چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیںمشیر خزانہ نے کہا کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کاروبار زندگی بھی چلے اور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اب تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیے جا چکے ہیں جو شاید دنیا کی تاریخ میں ایک نمایاں چیز ہے کہ یہ سب اتنے اچھے انداز میں دیے گئے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ عام پاکستانیوں کو بلا امتیاز یہ پیسے دیے گئےزراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائےانہوں نے کہا کہ ہم نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے گئے یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیامشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ گندم خریدی جائے تاکہ جب کسانوں کے ہاتھ میں یہ پیسے ئیں گے تو وہ اپنے ضروریات زندگی بھی پورے کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ٹریکٹر چاہیے انہیں گھر بنانا ہے مویشی خریدنے ہیں یا سرمایہ کاری کرنی ہے تو وہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ چلے گا ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کو مراعات دی جا سکیں مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے کم مدن والے افراد کے ذاتی گھروں میں مدد کیلئے 30 ارب روپے رکھے گئےانہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کم مدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دیے گئے تاکہ ایف بی کی طرف سے ہراساں نہ کیا جاسکے اور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیاڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نیا پاکستان اسکیم کے تحت کم مدنی والے افراد کے لیے جو گھر بنیں گے تو اس میں ٹیکس میں بھی 90 فیصد کی چھوٹ دی گئی ہے یعنی اگر شروع میں ٹیکس ہزار ہیں تو بعد میں اسے ڈھائی ہزار کردیا گیا تاکہ لوگوں پر بوجھ نہ پڑےمزید پڑھیں حکومت اور ائی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں بڑا فرقانہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ لینڈ بینک بنائیں تاکہ سرکاری زمین کے اوپر کم مدنی کے گھر بنائے جا سکیںڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ جو سال مکمل ہورہا ہے اس میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 04 فیصد ہے اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 267 فیصد ہے صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 264 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 34 فیصد ہےمشیر خزانہ نے کہا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 229 فیصد رہی انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈان کی وجہ سے ٹرانسپورٹ ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 71 ہےان کا کہنا تھا کہ مال سال کے خسارے کو ہم نے ایک حد تک رکھا اور جولائی سے مارچ تک جی ڈی پی کا فیصد رہا جبکہ پچھلے سال یہ خسارہ 51 فیصد تھا ہم نے پرائمری بیلنس کو سرپلس میں رکھا تھا جو 194 ارب یا 05 فیصد تھا افراط زراقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ چی پی ئی افراط زر 1122 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 651 فیصد تھیرپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 347 فیصد ریکارڈ کی گئی ئندہ بجٹ میں کوشش ہوگی نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیںڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ نے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے جو پروگرامز ہیں ان میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور جو ٹیکسز ہیں ان کا بھی جائزہ لیا جائے جو ٹیکسز ہیں ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اثرات کا تخمینہ لگانا اتنا سان نہیں اور حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وبا کس رفتار سے بڑھے گی اور کب اس کا خاتمہ ہوگا انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ ایک توازن قائم کیا جائے ایک جانب لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو دوسری جانب ان کی معاشی صورتحال کو بہت خراب ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیںشرح نمو منفی 05 فیصد رہنے کا تخمینہشرح نمو کے حوالے سے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے شماریات بیورو اور نیشنل اکنامک باڈی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد شمار کے مطابق تخمینہ لگایا ہے کہ شرح نمو منفی 05 فیصد ہوگی جبکہ ئی ایم ایف نے جو نمبر استعمال کیا ہے وہ منفی 15فیصد ہےانہوں نے کہا کہ حال ہی میں عالمی بینک کی ایک رپورٹ ئی ہے جو منفی 25 فیصد پر ہے اور جب جون کا مہینہ ختم ہو گا تو ہمیں زیادہ بہتر اندازہ ہوگاایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ئی ایم ایف ہر کسی کے پاس مدد کے لیے بھاگ رہا ہوتا ہے ئی ایم ایف ایک بینک ہے تو وہ چاہتے ہیں جو بھی ان سے قرض لے وہ اس انداز میں معیشت کو چلائے کہ قرض واپس کرنے کا اہل ہو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ ئی ایم ایف ناراض نہیں حکومتی اور ان کے اراکین بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ کورونا کے معاملے پر ئی ایم ایف نے ریلیف دیا تعمیراتی صنعت سے متعلق انہوں نے لچک دکھائی اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی منظم طریقے سے چلیں مشیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی شعبے کا بنیادی نمبر کرنٹ اکانٹ خسارہ ہے جسے ارب ڈالر تک کم کردیا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومت نے اخراجات مدن سے کم کیےڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ زرمبادلہ کی شرح کے نظام میں استحکام لایا گیا جب اسے مصنوعی طریقے سے مستحکم کیا گیا تو درمدات میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن اب کئی ماہ سے درمدات مستحکم ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ اس سال براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127 فیصد اضافہ ہوا نان ٹیکس ریونیو کا ہدف ایک ہزار ایک سو تھا اور حکومت نے ایک ہزار سو ارب روپے جمع کیے ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیشہ تجاویز ماہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں یہ اعداد شمار اس لیے کم ہیں کہ خری سہ ماہی میں کورونا وائرس گیا تھا اور اگر مہینے کی بنیاد پر بتایا جاتا تو جی ڈی پی 25 سے کے درمیان ہوتا لیکن چونکہ ہم اسے کورونا وائرس کے بعد دکھا رہے ہیں اس لیے یہ منفی 04 ہے محصولات وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا چیئرپرسن ایف بی رپریس کانفرنس کے دوران وفاقی ریونیو بورڈ ایف بی کی چئیرپرسن ڈاکٹر نوشین جاوید امجد نے کہا کہ مالی سال 202019 میں محصولات وصولی کی شرح میں مجموعی طورپر17 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ سال کی بلند ترین شرح ہے نوشین جاوید امجد نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے محصولات وصولی میں مشکلات پیداہوئیں جس کی وجہ سے مجموعی اضافہ 13فیصد ہوگیا لیکن اگر وبا نا تی تو ٹیکس وصولی میں مزید اضافہ ہوتا اور ہم ہدف پورا کرپاتےغیر ملکی زرمبادلہ ساڑھے 18 ارب ڈالر ہوجائیں گے خسرو بختیاروفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیار نے کہا کہ وزیراعظم عمران خانے جب جی 20 ممالک سے قرضوں میں ریلیف کی اپیل کی تو ہمیں ارب 80 کروڑ ڈالر کا ریلیف ملا انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کے مالیاتی ادارے اس وقت پاکستان کے اصلاحاتی پروگرام کو سراہتے ہوئے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں خسرو بختیار نے کہا کہ ئی ایم ایف نے کووڈ19 کے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر دیے اور گزشتہ روز ایشیائی ترقیاتی نے کورونا وائرس سے متعلق 50 کروڑ روپے کی خصوصی فنانسنگ کی انہوں نے کہا کہ جہاں اس حکومت نے کرنٹ اکانٹ خسارہ 33 ارب ڈالر تک کم کیا اسی طرح ہمیں ورثے میں جو ارب 70 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ملے تھے وہ اس سال کے خر تک ساڑھے 18 ارب ڈالر سے زائد ہوجائیں گےوفاقی وزیر نے کہا کہ اس اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو بھی معاشی دھچکے ملے وہ بیرونی مالی پوزیشن ادائیگیوں میں عدم توازن کرنٹ اکاونٹ خسارے کی وجہ سے ملے اور اب حکومت ان چیزوں کو اس طرف لے ئی ہے کہ ہم ایک مستحکم پوزیشن پر ہیں خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے باعث معیشت کا پہیہ چلانا اور اس کے ساتھ زراعت کو ساتھ لے کرچلایا وزیراعظم نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 300 ارب روپے کا ایک مربوط زرعی ترقیاتی بجٹ رکھا ہے جو بڑی فصلوں کی پیداوار بپاشی کے نظام کو بہتر بنائیں گے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا ئی ایم ایف عالمی بینکایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انفراسٹرکچر بینک انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ایک کروڑ سے زائد خاندانوں میں 121 روپے تقسیم کیے گئے ڈاکٹر ثانیہ نشتروزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ملک میں انتہائی مشکل میں کورونا وائرس اور لاک ڈان کے باعث احساس ایمرجنسی کیش پروگرام شروع کیا گیاانہوں نے کہا کہ یہ پروگرام ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کے لیے منظور ہوا تھا اور ہی وزیراعظم نے اس کا دائرہ کار ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں تک بڑھانے کی منظوری دی ہے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ پچھلے ہفتوں میں ایک کروڑ سے زائد خاندانوں کی مالی معاونت کی اور اس مد میں 121 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیںاپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کی فی الحال کیٹیگریز ہیں اور تیسری کیٹیگری کی ادائیگیاں چل رہی ہیں جبکہ چوتھی کیٹیگری جس کی فنڈنگ وزیراعظم کے کووڈ فنڈ سے ہوگی اس کی ادائیگیوں کا بھی غاز کردیا گیا ہےانہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی جاری کی گئی ویڈیوز میں اس کا طریقہ کار بتایا گیا تھا اور اب ئندہ ہفتے اس حوال سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ اس حوالے سے کراچی سے گلگت تک ہزاروں احساس سینٹرز نے بیک وقت کام کیا اور لوگوں کی مدد کے لیے رضاکاروں کو متحرک کیاانہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کے پیسے کاٹنے والے بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کی بائیو میٹرک مسائل کو حل کیا ایس او پیز اور دیگر منظوریوں سمیت پوری حکومتی مشینری نے مل کر کام کیا فروری میں برمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا مشیر تجارتمشیر تجارت رزاق داد نے کہا کہ جب ملک میں حکومت ئی تو کہا جارہا تھا کہ برمدات جمود کا شکار ہیں تو ہم نے اسی پر توجہ مرکوز کی مشیر تجارت نے کہا کہ برمد کنندگان نے سیلز ٹیکس انکم ٹیکس کے لیے ری فنڈ کا مطالبہ کیا اور جس کا نتیجہ یہ نکلا یہ فروری 2020 میں گزشتہ برس کے مقابلے میں برمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درست سمت میں جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ مارچ میں کورونا وائرس نے کے بعد برمدات میں منفی 6فیصد اپریل میں منفی 55 فیصد اور مئی میں منفی 34 فیصد ہوگئی تھی مشیر تجارت نے کہا کہ اس وقت چین سے تجارت ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے جس میں فیصد کمی ئی ہے
اسلام اباد حکومت نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی ریٹرنز کے نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی اعلی شرح اور ٹیکس کی ادائیگی بہتر بنانے کے لیے سخت طریقہ کار متعارف کروانے کا فیصلہ کرلیایہ بات باخبر ذرائع نے ڈان کو بتائی گزشتہ حکومت نے نان فائلرز کے لیے زائد ود ہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا تھا جس کے نتیجے میں ریونیو حاصل ہوا اور سالوں سے فیڈرل بورڈ اف ریونیو کے لیے دستاویز تیار ہوئیںحکومت کی جانب سے غیر رجسٹرڈ افراد کے لیے 17 فیصد سیلز ٹیکس کی شرح سے معمولی سا زیادہ ٹیکس ریٹ متعارف کروانے کا امکان ہےمزید یہ کہ غیر رجسٹرڈ افراد ان پٹ ٹیکس کریڈٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں گےیہ بھی پڑھیں حکومت کا 212020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکانحکومت کے اندر سے ایف بی ار پر دوسرے ٹیکس شیڈول کے تحت انکم ٹیکس میں استثنی برقرار رکھنے کے لیے سخت دبا اور مزاحمت پائی جارہی ہےان استثنی سے کم امدن کے مضمرات کے باوجود اس کی دستاویزات کے لحاظ سے سیاسی اہمیت زیادہ ہےمحکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق اس استثنی کے حوالے سے اج جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا اور اجلاس میں کچھ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح پر نظر ثانی کی تجویز پر بھی غور کیا جائے گااس کے علاوہ حکام بجٹ میں کم از کم 10 ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے پر کام کررہے ہیں جس سے بہت کم امدن ہوتی ہے اور دستاویز میں ان کا کوئی کردار نہیںمزید پڑھیں اپ اپنے انکم ٹیکس ریٹرن خود کیسے بھر سکتے ہیںاسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حکومت غیر ملکی کرنسی کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگائے گی جو ایک فیصد یا اس سے کم ہوسکتا ہےدوسری جانب ای سگریٹس پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز بھی زیر غور ہے تاہم سگریٹرس کی قیمتوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ کابینہ کرے گیاس کے علاوہ کابینہ مشروبات پر عائد فیڈرل ایکسائیذ ڈیوٹی کی شرح میں تبدیلی پر بھی غور کرے گیایک تجویز کے مطابق غیر مقیم افراد کی امدن پر ٹیکس حتمی نہیں ہو گا بلکہ ردو بدل کے قابل ہوگا جس کے ذریعے محکمہ ریونیو امدن میں اضافہ کرسکے گایہ بھی پڑھیں ایف بی نے تاجروں کیلئے خصوصی ٹیکس اسکیم کے غلط استعمال کا پتہ لگا لیا اسی طرح تمباکو کے شعبے میں ٹیکس کے حوالے سے عملدرامد بہتر بنانے کے لیے ان لینڈ افسران کو ڈیوٹی کی ادائیگی نہ کی جانے والی سیگریٹس کو قبضے میں لے کر نذر اتش کا اختیار دیا جائے گا ابھی یہ اختیار صرف کسٹم انٹیلیجنس ڈپارٹمنٹ کے پاس ہےعلاوہ ازیں ان لینڈ ریونیو کو ڈیوٹی کی ادائیگی نہ کی جانے والی اشیا بشمول گاڑیوں کو قبضے میں لے کر وصولی کروانے کا اختیار دینے کی بھی تجویز ہے جس کا مقصد عملدرامد بہتر بنانا اور معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہےعلاوہ ازیں حکومت الٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی اے ڈی ار سی کے تحت ٹیکسز انکم ٹیکس سیلز ٹیکس فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی اور کسٹم میں ٹیکس دہندگان کے لیے مزید سہولیات بھی متعارف کروانے کو تیار ہےاصلاحات کے تحت ٹیکس دہندگان اگر اے ڈی ار سی کے فیصلوں سے مطمئن نہ ہوں تو اس کیس میں اپیل کرسکتے ہیںبجٹ تیار کرنے والے ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے ائی ایم ایف نے کسی قسم کے ریلیف اقدامات کی مخالفت کی ہےتاہم اب بھی حکومت اور ائی ایم ایف ٹیم کے درمیان کوئی باضابطہ ریونیو کا ہدف نہیں ہے محکمہ خزانہ اب بھی یہ سمجھتا ہے وہ ائندہ مالی سال میں مشکل سے 47 سے 48 کھرب روپے اکٹھا کرسکتا ہےذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ائندہ مالی سال کے بجٹ سے قبل ٹیکس ہدف کی تصدیق کرے گایہ خبر 11 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے کووڈ 19 وبا سے پیدا ہونے والے منفی معاشی اور معاشرتی اثرات کو کم کرنے کی غرض سے پاکستان کے لیے 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دیاے ڈی بی سے ملنے والا مذکورہ قرض معاشرتی تحفظ کے پروگرام سمیت صحت کے شعبے کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا مزیدپڑھیں عالمی بینک کی پاکستان سمیت 25 ممالک کیلئے 19 ارب ڈالر کے ہنگامی فنڈز کی منظوریاے ڈی بی کے صدر مساتسوگو سکاوا نے کہا کہ کووڈ 19 نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا انہوں نے کہا کہ ہم اس مشکل دور میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے پرعزم ہیںاے ڈی بی کے صدر نے کہا کہ پروگرام کی مدد سے حکومت مختلف شعبوں کی استعداد کار بڑھا سکتی ہے جس میں معاشرتی تحفظ اور صحت کے شعبے شامل ہیں یہ بھی پڑھیں کورونا وائرس ایشین انویسٹمنٹ بینک پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر فراہم کرے گااے ڈی بی کے اعلامیے کے مطابق اے ڈی بی کووڈ 19 ایکٹیو رسپانس اینڈ ایکسپینڈیچرسپورٹ ایس اے ای ایس پروگرام سے پاکستان کو مختلف منصوبے چلانے میں مدد ملے گی جس میں 30 لاکھ یومیہ اجرت والے مزدوروں کو نقد امداد کی ادائیگی اور سماجی کفالت کے تحت 75 لاکھ خاندانوں کو نقد گرانٹ شامل ہے انہوں نے کہا کہ مذکورہ پروگرام کی بدولت پاکستان طبی عملے کے لیے خصوصی لباس اور وینٹی لیٹرز حاصل کر سکے گا جس میں خواتین کے لیے مناسب سائز کے ذاتی حفاظتی سامان بھی شامل ہے اے ڈی بی کے مطابق مالی پروگرام سے کاروباری نوجوان طبقہ خصوصا 25 فیصد خواتین کو سرکاری اسکیموں بشمول کامیاب جوان پروگرام کے ذریعے معاونت مل سکے گی واضح رہے کہ ورلڈ بینک سیکیورینگ ہیومن انوسٹمنٹ ٹو فوزٹر ٹرانسفورمیشن شفٹ اور ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے بھی 5050 کروڑ ڈالر پر مشتمل پروگرام کے ساتھ اے ڈی بی کے سی اے ای ایس پروگرام کورونا وائرس کے تناظر میں استعمال کیا جائے گا مزید پڑھیں اے ڈی بی کی سندھ میں تعلیمی منصوبے کیلئے ساڑھے کروڑ ڈالر قرض کی منظوریخیال رہے کہ پاکستان کے لیے منظور ہونے والا اے ڈی بی کا پروگرام کووڈ 19 کے خصوصی فنڈز سے جاری ہوا جسے سی پی او کہتے ہیں اے ڈی بی نے 20 ارب ڈالر مختص کیے اور 13 اپریل کو سی پی او قائم کیا جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو کووڈ 19 میں مالی پروگرام پیش کرکے ان کے اقدامات کو حوصلہ دینا ہے خیال رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث پاکستان کو پہنچنے والا معاشی نقصان 25 کھرب روپے تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہےان اعداد شمار پر وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران مختلف قرض دہندہ اداروں اور حکومتی اداروں میں تقریبا اتفاق ہو گیا تھااجلاس میں بتایا گیا تھا کہ مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کے ذریعے پیمائش کیا جانے والا ملکی معیشت کا حجم 440 کھرب سے 25 کھرب روپے کم ہو کر 415 کھرب ہوگیامزیدپڑھیں ایشیائی ترقیاتی بینک کا پاکستان کو 27 ارب ڈالر قرض دینے کا اعلانایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے بھی ایشیائی ممالک کو وبا کے باعث پہنچنے والے نقصانات کی عمومی اور پاکستان کے حوالے سے خصوصی پریزینٹیشن دی تھی اے ڈی بی کے پیش کردہ اعداد شمار میں کووڈ 19 کے بعد کے منظر نامے میں پاکستان کی معیشت کی بحالی کی علامات نمایاں ہیںواضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا خطرناک صورتحال اختیار کر رہی ہے اور یومیہ ہزاروں کی تعداد میں کیسز اور درجنوں اموات سامنے رہی ہیںملک میں اس وقت ابھی تک کورونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ 16 ہزار 189 ہوچکی ہے جبکہ اموات ہزار 297 تک جاپہنچی ہیںابھی تک سامنے نے والے کیسز کی تعداد ہزار 360 ہے جبکہ 81 اموات کا اضافہ بھی ہوا ہےخیال رہے کہ گزشتہ روز بھی پاکستان میں تقریبا ہزار کیسز اور ریکارڈ 104 اموات سامنے ئیں تھیں
اسلام باد حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ 2021 میں وفاقی حکومت کے اخراجات اور حجم منجمد ہونے سے متعلق اتفاق ہوتا دکھائی دے رہا ہےخیال رہے کہ حکومت کی جانب سے 12 جون کو وفاقی بجٹ کا اعلان کیا جائے گا اور یہ فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے کیا گیا ہے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ منگل9 جون کو رات گئے حکومت کی اقتصادی ٹیم اور ئی ایم ایف کے درمیان ئندہ بجٹ سے متعلق حتمی مذاکرات ہوئے ذرائع کے مطابق ئندہ بجٹ میں کفایت شعاری اور سخت اقدامات پر توجہ مرکوز رہے گی جس کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہر سیکشن کی جانب سے کردار ادا کیا جائے گا اور قربانی دی جائے گی مزید پڑھیں حکومت اور ائی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں بڑا فرقاس کے ساتھ ہی ذرائع نے کہا کہ حکومت دنیا کو 212020 کے بجٹ کے ذریعے دنیا کو ٹھوس پیغام دے گی کہ وہ کئی چیلنجز کے باوجود مالی طور پر ذمہ دار ہے اور بین الاقوامی بہا کے ذریعے جو بھی مالی جگہ دستیاب ہوگی اسے سمجھداری سے استعمال کرے گیلہذا حکومت اعلان کرے گی کہ بجٹ میں وزیراعظم ہاس اور ایوان صدر کے اخراجات رواں برس منجمد رہیں گے اور ان کا درست استعمال کیا جائے گا مذاکرات کی بنیاد پر اس بات کے 90فیصد امکانات ہیں کہ تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ نہیں کیا جائے گا اس سلسلے میں حکومت میں ہر سطح پر تنخوہواں پنشنز اور دیگر اخراجات میں وسیع فرق کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو بھی شامل کیا جائے گا درحقیقت ئی ایم ایف نے تنخواہوں اور پنشن سے متعلق بلز میں ریشنلائزیشن کا مطالبہ کیا تھا علاوہ ازیں دونوں فریقین نے فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی کے 49 کھرب 50 ارب روپے کے ریونیو ہدف پر اتفاق کیا ہے جبکہ دفاع کے لیے 13 کھرب روپے کے اندر رقم مختص کی جائے گیاس کے ساتھ ہی ترقی کے امکانات کی حمایت کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 650 ارب روپے رکھے جائیں گے یہ بھی پڑھیں پاکستانی معیشت خطرات کا شکار اگلے سال تک بحالی کا امکان نہیں عالمی بینکمزید یہ کہ حل کے طور پر وفاقی حکومت کے ملازمین کے سیکریٹریٹ الانس میں تھوڑے سے اضافے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ وہ لوگ جو خصوصی مراعات اور الانسز حاصل کررہے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گیاس کا مطلب ہے کہ قومی احتساب بیورو فیڈرل بورڈ ریونیو ریگولیٹری اداروں خودمختار اداروں اور کارپوریشنز وزیراعظم فس انٹیلی جنس بیورو اور دیگر تنخواہوں میں اضافہ نہیں کریں گے علاوہ ازیں صوبائی حکومت کے ملازمین کی تنخواہیں الانسز اور مراعات اس وقت وفاقی ملازمین سے زیادہ ہیں لیکن اگر وفاقی حکومت سب کی تنخواہ میں اضافے کی اجازت دے تو صوبائی حکومت بھی ایسا کرتی ہے تاہم ئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کے غیر ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا ٹھوس موقف بھی اپنایا اور وہ ایسا چاہتے بھی ہیں خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان پہلے ہی تمام اداروں اور صوبوں کو ملازمین کی تنخواہوں میں فرق ختم کرنے کی ہدایت کرچکے ہیں اور انہیں بتایا تھا کہ یہ بجٹ سخت اقدامات کا واضح اشارہ ہوگا معاشی ریکوری سے متعلق تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ ستمبر 2020 میں ئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ اٹھایا جائے گا سول اخراجات میں سخت کمی سبسڈیز میں کمی کی جائی گی قرضے کو اسمارٹلی اسٹرکچر کیا جائے گا ور مالی دبا کو دور کرنے کے لیے ریلیف کے لیے کیش کی تقسیم اور فسکل اسپیس کو متحرک کیا جائے گا جبکہ مالی خسارہ جی ڈی پی کا فیصد طے کیا گیا ہے علاوہ ازیں رواں برس کوئی نئی سامیاں نہیں نکالی جائیں گے اور ناگزیر سامیوں پر بھرتی میں احتیاط کی جائے گی اور ماہ سے خالی سامیوں کے خاتمے پر غور کیا جائے گا اسی طرح وزارتیں اور سامیوں کی تفویض کردہ ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کی جائیں گی جس میں اعلی تعلیم اور بڑے شہروں کے بڑے ہسپتال شامل ہیں یہ خبر 10 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے فیصلے کی تقثیق کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو برطرف کرنے کی منظوری دے دیاسلام باد میں وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جہاں اسٹیل ملز کورونا وائرس کی صورت حال پیٹرول کی قلت اور دیگر معاملات پر بریفنگ دی گئی اور فیصلے کیے گئےوزیر اعظم ہاس سے جاری بیان کے مطابق کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے جون 2020 کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی توثیق کردیمزید پڑھیںاقتصادی رابطہ کمیٹی کی اسٹیل ملز کے ہزار 350 ملازمین فارغ کرنے کی منظوریوفاقی کابینہ نے اسٹیل ملز کے حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر تفصیلی غور کیا اور نوٹ کیا کہ موجودہ حکومت کا ایجنڈا اصلاحات کا ہےپاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے کابینہ نے کہا کہ سالہا سال سے غیر فعال ادارے کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی مفاد میں اصلاحاتی ایجنڈے کو مزید گے بڑھا یا جائےخیال رہے کہ ای سی سی نے جون کو پاکستان اسٹیل مل کے ہزار 350 ملازمین 100فیصد کو برطرف کرنے کی منظوری دی تھیمشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا تھا کہ حالیہ فیصلے کے نتیجے میں حکومت اسٹیل ملز کے 100 فیصد ملازمین کو فارغ کردے گی جن کی تعداد ہزار 350 ہے کل تعداد میں سے صرف 250 ملازمین کو اس منصوبے پر عمل درامد اور ضروری کام کی انجام دہی کی خاطر 120 روز کے لیے برقرار رکھا جائے گاای سی سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد تمام ملازمین کو برطرفی کے نوٹس جاری کردیے جائیں گےاس منصوبے کا مالیاتی اثر 19 ارب 65 کروڑ 70 لاکھ روپے کے برابر ہوگا جو گریجویٹی اور پراوڈنٹ فنڈز کی ادائیگی کے لیے یکمشت جاری کیے جائیں گےیہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیااس کے علاوہ اسٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں کے ادائیگی کی مد میں منظور شدہ ضمنی گرانٹ سے ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کی جائے گی اس طرح ہر فرد کو اوسطا 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گےمعاشی حالات کے باعث لاک ڈان ممکن نہیں وزیراعظمکابینہ کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کے کیسز سے متاثرہ مریضوں کی ضروریات پوری کرنے اور ملک میں صحت کی سہولیات کو مستحکم کر نے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے چاروں صوبوں میں کسیجن کی سہولت سے راستہ مزید ایک ہزار بستروں کی سہولت رواں ماہ قائم کی جائے گیوزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا کی صورت حال میں قیادت کا کردار اہم ہے ہمارے عوام کے ایک طبقے میں کورونا کے بارے میں اب بھی غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہےانہوں نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر لاک ڈان ممکن نہیں کیونکہ جہاں ہمیں ایک طرف کورونا سے خطرہ ہے وہاں دوسری طرف غربت بھی ہمارے لیے ایک بڑا امتحان ہے مزید پڑھیںملازمت سے نکالنے کا معاملہ اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کا عدالت سے رجوعوزیر اعظم نے کہا کہ معاشرے میں اضطراب پیدا کرنے کے بجائے اس صورت حال کا مقابلہ کرنا ہوگاانہوں نے کہا کہ حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہو کر کورونا کے پھیلا کو محدود کیا جا سکتا ہےعوام کو ہدایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کو حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے اور ایس او پیز پر سختی سے عمل درمد کرایا جائےکابینہ کے اجلاس کو وفاقی دارالحکومت میں واقع ہسپتالوں میں کورونا سے متعلق دستیاب سہولیات کے بارے میں بھی گاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ رواں ماہ مختلف ہسپتالوں میں مزید 200 بستروں کا اضافہ کر دیا جائے گاشوگر انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر بریفنگکابینہ کو شوگر انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی گاہ کیا گیا کابینہ کو بتایا گیا کہ انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں عملی اقدامات پر وزیر اعظم کی منظوری سے عمل درمد شروع کیا جا چکا ہےبتایا گیا کہ اس کارروائی کے تین حصے ہیں پہلا حصہ سزا اور ریکوری سے متعلق ہے جس میں سات مختلف اقدامات ہوں گےشوگر اسکینڈل کے حوالے سے اقدامات پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2014 سے 2019 کے دوران 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی تاہم وزیر اعظم کی ہدایت پر یہ مسئلہ نیب کے حوالے کر دیا گیا ہےسیلز ٹیکس انکم ٹیکس اور بے نامی ٹرانزیکشنز کا معاملہ ایف بی کے حوالے کر دیا گیا ہے جو 90 دنوں میں کارروائی مکمل کرے گا کابینہ کو بتایا گیا کہ کمیشن نے صرف ملوں کے معاملات کا جائزہ لیا تھا لیکن اب وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں ایف بی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بقیہ 88 ملوں کے معاملات کا بھی جائزہ لےاجلاس میں گاہ کیا گیا کہ کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن پاکستان کے حوالے کر دیا گیا جو 90 دنوں میں کارروائی مکمل کرے گاقرضے معاف کرانے بینکوں کے پاس رہن شدہ اثاثوں کو بیچنے اور لون ڈیفالٹ کا معاملہ اسٹیٹ بینک کے حوالے کیا گیا ہے جو 90 دنوں میں اپنا کام مکمل کرے گاشوگر اسکینڈل سے متعلق کارپوریٹ فراڈ کا معاملہ ایف ئی اے اور ایس ای سی پی کے حوالے کیا گیا ہے برمدات میں فراڈ اور منی لانڈرنگ کا معاملہ ایف ئی اے کے حوالے کیا گیا ہےوزیراعظم اور دیگر اراکین کو بتایا گیا کہ گنے کی قیمتوں اور متعلقہ صوبائی قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ صوبائی حکومتوں کے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا گیا ہےاجلاس کو بتایا گیا کہ چینی کی پیداواری قیمت کا تعین کرنے اور اس کی قیمتوں میں کمی لانے کے حوالے سے وزیر برائے صنعت پیداوار کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے حوالے سے اقدامات کے لیے سفارشات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پالیسی کی سطح پر اقدامات تجویز کرے گیوزیر اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شوگر انکوائری کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مکمل شفافیت اور عوام کے حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتی ہے وزیر اعظم نے کہا کہ چینی کی قیمت میں ہر صورت کمی لائیں گے اور عوام دیکھے گی کہ حکومت کے سامنے صرف عوام کا مفاد مقدم ہے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی جنگ ہے جو بھی اس معاملے میں ملوث ہوگا ان کے خلاف کارروائی ضرور ہوگیپیٹرولیم مصنوعات کی قلت پر نوٹسوزیراعظم نے کابینہ اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں میں پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت کی رپورٹس پر نوٹس لیاعمران خان نے ہدایت کی کہ اس مصنوعی قلت کا سبب بننے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائےپولٹری کی قیمتوں میں اضافہ بھی زیربحثکابینہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے پولٹری کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا وزیر اعظم نے مشیر خزانہ کو ہدایت کی کہ نیشنل پرائس مانیٹرنگ کنٹرول کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے اور اس معاملے کی تفصیلی رپورٹ کابینہ کو پیش کی جائےوفاقی کابینہ کے اجلاس کو متروکہ املاک کی جائیدادوں کو مثبت طریقے سے بروئے کار لانے اور متروکہ املاک وقف بورڈ کے معاملات کو منظم کرنے کے حوالے سے ٹاسک فورس کی سفارشات سے متعلق بریف کیا گیااجلاس کو بتایا گیا کہ متروکہ وقف املاک کی ملکیت میں 47 ہزار املاک ہیں وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ متروکہ املاک کی جائیدادوں کی نشاندہی کے عمل کو تیز کیا جائے اور ان کی جیو ٹیگنگ کے عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے
اسلام باد حکومت مالی سال 212020 کے بجٹ میں ریونیو ہدف 45 کھرب سے 467 ارب روپے کے درمیان طے کرنے کا ارادہ رکھتی ہےفنانس ڈویژن کے ذرائع کے مطابق حالیہ اجلاسوں میں حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کے عہدیداروں کے ساتھ ریونیو اہداف شیئر کیے تاہم ریونیو کے منصوبے پر ئی ایم ایف کی منظوری میں تاخیر ہوئی ہے اور اس معاملے کو جون کے تیسرے ہفتے میں طے شدہ میٹنگ کے دوران اٹھایا جائے گافنانس ڈویژن کے ذرائع نے پیر کو ڈان کو بتایا کہ حکومت منظوری کے حصول کے لیے فنڈ حکام کے ساتھ پہلے ہی اپنی ریونیو وصول کرنے کی تجاویز کو شیئر کر چکی ہےمزید پڑھیں ایف بی نے تاجر کو 10 سال کے مقررہ وقت کے بجائے ایک ماہ میں ارب روپے واپس کردیے ذرائع نے بتایا کہ محصولات کی وصولی کے منصوبے کے بارے میں ہم نے ئی ایم ایف کے عہدیداروں سے تفصیلی ملاقات کیئی ایم ایف نے سال 212020 کے لیے فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی کے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف 51 کھرب روپے مقرر کیا ہے جو مالی سال 2020 کے مجوزہ وصولی اہداف سے 30 فیصد زیادہ ہےذرائع نے بتایا کہ ہم نے اپنا حساب کتاب ئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا ہےان کا کہنا تھا کہ ئی ایم ایف کی جانب سے اہداف کی منظوری ابھی باقی ہےرواں سال کے لیے ئی ایم ایف نے کورونا وائرس کے باعث کاروبار پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے ایف بی کے ٹیکس ہدف کو 48 کھرب روپے سے کم کرکے 39 کھرب روپے تک کیا ہےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس کے باعث ملکی معیشت کو 25 کھرب روپے کا نقصان ذرائع کے مطابق حکومت معیشت پر لاک ڈان کے اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ میں اپنے محصولاتی ہدف کا اعلان کرے گیانہوں نے بتایا کہ ہم نے ئی ایم ایف کو گاہ کیا ہے کہ حکومت بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کرسکتی کیونکہ لوگ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے نئے ٹیکس اقدامات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیںئی ایم ایف کے عہدیداروں اور حکومت نے گزشتہ سال متعارف کرائے گئے بڑے ٹیکس اقدامات کے تسلسل پر ایک سمجھوتہ کیا ہےذرائع کے مطابق ئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امیر لوگوں کو ٹیکس مراعات دینے سے گریز کرےائی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان صرف ان شعبوں کو مراعات دینے پر توجہ دے جس میں کمزور اور غریب عوام کو فائدہ ہوذرائع نے بتایا کہ ہم نے ان مقاصد کے لیے کچھ شعبوں کی نشاندہی کی ہے ئی ایم ایف عام ٹیکس مراعات کے منافی ہےمزید پڑھیں اسٹیل ملز کے ملازمین کا کیا قصور ہے اسدعمر استعفی کیوں نہیں دیتے مشاہد اللہ اسی کے ساتھ ہی ئی ایم ایف نے اسلام باد سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ برمدات پر مبنی پانچ شعبوں یعنی ٹیکسٹائل کھیلوں سرجیکل قالین اور چمڑے کے لیے متعارف کرائے گئے موجودہ ٹیکس نظام کو جاری رکھےذرائع نے بتایا کہ بجٹ میں کسی بھی زیرو ریٹنگ پر غور نہیں کیا جائے گا اور 17 فیصد کے معیاری سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گیبجٹ میں ئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس قوانین طریقہ کار کو اسان کرنے پر توجہ دی جائے گی جبکہ دیگر اقدامات میں انتظامی تبدیلیاں شامل ہیںایف بی کا تخمینہ ہے کہ جزوی طور پر لاک ڈاون باقی رہنے کی صورت میں ئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر میں 450 ارب روپے کے محصولاتی نقصان کا امکان ہےایف بی ار نے پیش گوئی کی ہے کہ لاک ڈان میں توسیع کی صورت میں ٹیکس ادارے میں 350 ارب روپے کا مزید شارٹ فال دیکھا جائے گا
اسلام اباد عالمی بینک نے کورونا وائرس کی صورتحال کے باعث سامنے ئے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتی اندازے سے بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی جس کے بارے میں خبردار کیا گیا تھاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابقعالمی اقتصادی امکانات نامی اپنی نئی رپورٹ میں امریکا سے تعلق رکھنے والے قرض دہندہ ادارے نے اندازہ لگایا ہے کہ رواں مالی سال ملک کی معیشت خطرات کا شکار ہونے کا امکان ہے جس سے ائندہ مالی سال تک بحالی ممکن نہیںرپورٹ میں مالی سال 202019 کے دوران مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کی منفی شرح نمو 26 فیصد جبکہ سال 2120 میں 02 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہےیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس جنوبی ایشیا کیلئے بہت بڑا طوفان ہوسکتا ہے عالمی بینکبینک کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان مالی سال 202019 میں 26 فیصد اور افغانستان 2020 میں 55 فیصد دونوں کو معیشتوں کے سکڑنے کا سامنا ہوسکتا ہے کیوں کہ کمی کے اقدامات سے نجی کھپت پر بھاری بوجھ پڑنے کی توقع ہےرپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اہم برامدی شعبہ جات کے تیزی سے سکڑنے کی توقع ہے جس کی بحالی سست ہوگییہ کارکردگی عالمی بینک کی 12 اپریل کو جاری کردہ رپورٹ سے بھی خراب ہے جس میں شرح نمو 22 فیصد اور 13 فیصد رہنے اور 09 فیصد بحالی کی پیش گوئی کی گئی تھیخیال رہے کہ گزشتہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مالی سال 20 کے چوتھے حصے میں اٹ پٹ کے تیزی سے سکڑنے کا امکان ہے جس سے مجموعی شرح نمو 13 فیصد ہوجائے گیمزید پڑھیں پاکستان میں رواں سال نمو منفی 15 فیصد ہوگی ائی ایم ایف کی پیش گوئییہ اندازہ حکام کے حالیہ تخمینے کے برعکس ہے کیونکہ اس میں رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کے 04 تک کم ہوجانے اور ائندہ مالی سال تک 23 فیصد کی بحالی کا تخمینہ ظاہر کیا گیاتاہم دوسری جانب خطے کی دیگر معیشتیں بھارت بنگلہ دیش نیپال اور بھوٹان مالی سال 202019 میں بھی ترقی کرتی رہیں گی حالانکہ یہ سب بھی عالمی وبا کے اثرات سے متاثر ہوئی ہیںعالمی بینک نے خطے میں جی ڈی پی کے سال 2020 میں 27 فیصد سکڑنے کا تخمینہ لگایا ہے کیوں کہ وبا کے خلاف اقدامات نے کھپت اور خدمات میں رکاوٹ پیدا کردی ہے اور وبا کی صورتحال کے باعث نجی سرمایہ کار بھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں
اسلام باد ملک بھر میں پیٹرول کی مسلسل قلت کے باعث حکومت نے پیٹرول کی قیمت اور مارکیٹنگ کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے اور قیمتوں کے یکساں تعین کا طریقہ کار ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ئل مارکیٹنگ کمپنیزاو ایم سیز ہائی اوکٹین بلینڈنگ کمپونینٹ ایچ او بی سی کے معاملے میں کارٹیلائزیشن جیسے رویے پر تنقید کی زد میں ہیں خیال رہے کہ ایچ او بی سی ایک اور ڈی ریگولیٹڈ مصنوعات ہے اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی کے باوجود اس میں کمی نہیں دیکھی گئی مزید پڑھیں حکومت نے ئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پیٹرول کی مصنوعی قلت کا ذمہ دار قرار دے دیامیڈیا کی تنقید کے باعث ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے جون کو ایچ او بی سی کی غیر ضروری طور پر زیادہ قیمت پر کچھ او ایم سیز کو تنبیہ کی تھی جبکہ سازشی طریقوں پر معاملے کو مسابقتی کمیشنسی سی پی میں لے جانے کا عندیہ دیا تھا او ایم سیز سے بات چیت کے بعد پیٹرولیم ڈویژن نے پیٹرول کی قیمت جسے عام طور پر ئل انڈسٹری کی جانب سے موگاس 92 کہا جاتا ہے کو گزشتہ ماہ کے پلیٹز ئل گرام سے منسلک کرنے کا اصولی فیصلہ کیا تاکہ قیمتوں کے تعین کے موجودہ طریقہ کار کے بجائے پاکستان اسٹیٹ ئل پی ایس او کی اصل درمدی قیمت کی بنیاد پر قیمتیں طے کی جائیںڈان کی جانب سے دیکھے گئے سرکاری ریکارڈ کے مطابق حکام نے انڈسٹری کو واضح طور پر بتادیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی فریکونسی ماہانہ رہے گی کیونکہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹیای سی سی نے اسے 15 روزہ بنیاد پر منتقل کرنے سے انکار کردیا تھاتاہم قیمتوں کے تعین کے فارمولے کو پلیٹز ئل گرام پریویس منتھ ایوریج میں تبدیل کیا جائے گا اسی طرح ایچ او بی سی کی طرز پر پیٹرول کی قیمت بھی مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ ہوجائے گی جس میں او ایم سیز اور ڈیلرز کے کمیشنز بھی شامل ہوں گےیہ بھی پڑھیں ملک میں پیٹرول کی قلت مسابقتی کمیشن نے تحقیقات کا غاز کردیاعلاوہ ازیں حکومت نے یہ اتفاق بھی کیا ہے ان لینڈ فریٹ ایکوالائزیشن مارجن ئی ایف ای ایم کے طریقہ کار کو بھی ڈی ریگولیٹ کیا جائے گا جسے اس وقت ملک بھر میں قیمتیں یکساں رکھنے میں استعمال کیا جارہا ہے اس کا مطلب ہے کہ قیمتیں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ئل کمپنی سے دوسری کمپنی سے مختلف ہوں گیعلاوہ ازیں پورٹس اور ریفائنریز کے قریب موجود صارفین فائدے میں رہیں گے کیونکہ وہ کم قیمت پر پیٹرول حاصل کرسکیں گے جبکہ پورٹس اور ئل کی تنصیبات سے دور رہنے والے افراد کو زیادہ قیمت ادا کرنا ہوگی مزید برں اصل ٹرانسپورٹیشن کی قیمت پر منحصر ہونے کے باعث قیمتوں فی لیٹر ایک سے روپے تک کا فرق ہوسکتا ہے
اسلام باد وفاقی حکومت نے نجی شعبے کو بغیر کسی حساب کتاب کے گندم درمد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی اس درمد پر 60 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بھی ختم کردی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں گندم کی درمد پر فی الحال قابل اطلاق فیصد اور فیصد اضافی ڈیوٹی ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جبکہ یہ چھوٹ لاکھ ٹن گندم کی درمد پر بھی لاگو ہوگی جس کی مارچ میں ہی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اجازت دی تھیواضح رہے یہ یہ اجلاس ملک کی گندم کی ضروریات سے نمٹنے کے اقدامات اور ٹے کی قیمت پر قابو پانے کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا اور مذکورہ اجلاس میں گندم کی بین الصوبائی نقل حمل پر پابندی ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تاکہ اس کی ملک میں مناسب دستیابی کو یقینی بنایا جاسکےاس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت گندم اور ٹے کی اسمگلنگ کو روکے گی اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈان کا اغاز کرے گیمزید پڑھیں سندھ سرکاری گوداموں سے ارب 35 کروڑ روپے کی گندم غائب ہونے کا انکشافبعد ازاں سیکریٹری قومی تحفظ خوراک اور تحقیق عمر حامد خان نے بتایا کہ ملک میں گندم کی کٹائی جاری ہے اور اب تک تقریبا کروڑ 50 لاکھ ٹن کی کٹائی ہوچکی ہےانہوں نے بتایا کہ اس سال گندم کی پیداوار تقریبا کروڑ 70 لاکھ ٹن متوقع ہےساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نجی شعبے کے ذریعے گندم کی درمد ضرورت پر مبنی ہوگی جبکہ ملک میں گندم کی کمی نہیں ہوگیانہوں نے کہا کہ درمد کی اجازت دینے کے فیصلے سے نہ صرف گندم اور ٹے کی قیمتوں میں استحکام ئے گا بلکہ ذخیرہ اندوزی کے امکانات بھی ختم ہوں گےاجلاس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گندم کی فصل کے حجم صوبائی حکومتوں کی خریداری اور صوبوں کے دستیاب اسٹاک اور ضروریات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیااس موقع پر پنجاب کے لیے پیداوار کا ہدف ایک کروڑ 94 لاکھ ہزار ٹن سندھ کے لیے 38 لاکھ 52 ہزار ٹن خیبر پختونخوا کے لیے 12 لاکھ 20 ہزار ٹن اور بلوچستان کے لیے لاکھ 83 ہزار ٹن مقرر کیا گیایہ بھی پڑھیں سندھ میں گندم کے بحران میں شدت ٹے کی قیمت میں اضافہسرکاری اعداد شمار کے مطابق سرکاری شعبے نے اب تک گزشتہ سال کے 40 لاکھ 34 ہزار ٹن کے مقابلے میں تقریبا 70 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کی ہے جو تقریبا 38 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہےباخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن کو پنجاب کے 16 اضلاع میں اپنی خریداری مہم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ صوبائی حکومت مقررہ ہدف سے زیادہ گندم کی خریداری کررہی ہےتاہم عہدیداروں نے امید ظاہر کی ہے کہ وفاقی حکومت کے نئے اقدامات سے خیبر پختونخوا میں گندم اور ٹے کی دستیابی کی صورتحال میں کافی حد تک بہتری ئے گیخیال رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر خوراک پنجاب علیم خان نے اپنے کے پی کے ہم منصب کو یقین دلایا تھا کہ پنجاب اپنی ضروریات کے مطابق کے پی کو گندم فراہم کرے گا
اسٹیٹ بینک پاکستان ایس بی پی نے ان خبروں کے حوالے سے ایک وضاحت جاری کردی جس میں کہا گیا تھا کہ 2020 میں ملک میں افراط زر مہنگائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ دیکھنے میں ئیاسٹیٹ بینک نے ٹوئٹ میں کہا کہ ہمارے افراط زر کے مانیٹر کے ایک چارٹ سے غلط نتائج اخذ کیےگئے اس سے پاکستان کی افراط زر کا موازنہ کچھ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے مزیدپڑھیں مالی سال 2020 کے دوران پاکستان میں دنیا کی سب سے بلند افراط زر دیکھی گئیمرکزی بینک نے واضح کیا کہ اگرچہ مالی سال 2020 میں پاکستان میں اب تک افراط زر کی شرح نسبتا بلند رہی لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے بیان میں مزید کہا گیا کہ ارجنٹائن ایران نائیجیریا اور ترکی میں افراط زر کی شرح پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ جنوری کے بعد سے پاکستان میں افراط زر کی شرح دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے مقابلے میں بہت تیزی سے کم ہوئی واضح رہے کہ جون کو ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں اسٹیٹ بینک کے افراط زر مانیٹر کے اپریل کے چارٹ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پاکستان میں نہ صرف ترقی یافتہ معیشتوں بلکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں بھی سب سے زیادہ افراط زر ریکارڈ کی گئی یہ بھی پڑھیں ائی پی پیز سے مذاکرات کے لیے نئی کمیٹی تشکیلبیان میں کہا گیا تھا کہ جنوری میں افرط زر 146 ریکارڈ کی گئی جو 12 برسوں میں سب سے زیادہ تھی قیمتوں میں اضافے کے ردعمل میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود 1325 کردیا تھا اس میں مزید کہا تھا کہ کورونا وائرس سے طلب میں کمی کی وجہ سے افراط زر کم ہوا جس سے اسٹیٹ بینک نے صرف ماہ کے اندر سود کی شرح 525 تک کم کردی ایس بی پی کے افراط زر مانیٹر کے تفصیلی گراف سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ ترقی پذیر معیشتیں جیسے چین تھائی لینڈ بھارت بنگلہ دیش اور سری لنکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہےمزیدپڑھیں مہنگائی مزید کم ہوسکتی ہےضروریات پوری کرنے کے وسائل ہیں گورنر اسٹیٹ بینکتاہم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رواں مالی سال کے جولائی سے لے کر مئی تک کے عرصے میں مہنگائی اسٹیٹ بینک کے 1094 تا 11 فیصد کے تخمینے سے بھی کم رہی جس میں جون کے دوران مزید کمی کا امکان ہے
پاکستانی شہریوں کے لیے مالی سال 2020 بدترین ثابت ہوا جس میں انہوں نے دنیا کی سب سے بلند شرح مہنگائی کا مشاہدہ کیا جس کی وجہ سے پالیسی ساز شرح سود میں اضافے پر مجبور ہوئےاسٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے اپریل کے لیے جاری کردہ مہنگائی کی جائزاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ نہ صرف دنیا کی ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں پاکستان نے بلند ترین افراط زر کا مشاہدہ کیارواں مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کے دبا کو کم کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا لیکن بلند شرح سود کا الٹا اثر ہوا اور اس سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا بلکہ نجی شعبے نے صنعتی نمو اور خدمات میں رکاوٹ بننے والی مہنگی رقم کا قرض لینا بند کردیایہ بھی پڑھیں مہنگائی مزید کم ہوسکتی ہےضروریات پوری کرنے کے وسائل ہیں گورنر اسٹیٹ بینکرپورٹ کے مطابق جنوری میں افراط زر کی شرح 12 سال کی بلند ترین سطح پر یعنی 146 فیصد تھی اور قیمتوں میں اضافے کے رد عمل میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود 1325 فیصد تک بڑھا دی تھی تاہم کورونا وائرس کے پھیلا کے سبب پورا معاشی منظر نامہ الٹ گیا اور طلب میں کمی کے باعث اسٹیٹ بینک صرف ماہ کے عرصے میں شرح سود کو 525 فیصد تک کم کرنے پر مجبور ہوگیا شرح سود میں کمی کا اعلان اس وقت سامنے ایا جب مئی کے دوران مہنگائی کم ہو کر 82 فیصد ہوگئی جو اسٹیٹ بینک کے اندازے سے بھی کم تھیاسٹیٹ بینک کے مہنگائی کے جائزے کے تفصیلی گراف کو دیکھا جائے تو ترقی پذیر معیشتوں مثلا چین تھائی لینڈ بنگلہ دیش بھارت اور سری لنکا کے مقابلے پاکستان کی افراط زر میں عالمی وبا کے بعد سے کمی واقع ہوئی ہےمزید پڑھیں مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 82 فیصد ہوگئیرواں مالی سال کے جولائی سے لے کر مئی تک کے عرصے میں مہنگائی اسٹیٹ بینک کے 1094 تا 11 فیصد کے تخمینے سے بھی کم رہی جس میں جون کے دوران مزید کمی کا امکان ہےگزشتہ ماہ کے دوران حکومت نے مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جس سے پیدواری لاگت اور نقل حمل کی لاگت کم ہوئی اور اس سے افراط زر بھی کم ہوگئیٹی وی چینل پر ایک انٹرویو میں معروف صنعتکار زبیر موتی والا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے شرح سود کو 525 فیصد سے بھی کم کیا جائےتجارتی اور صنعتی شعبہ جات جہاں شرح سود میں کمی کا مطالبہ کرتے ہیں وہیں انہیں معلوم ہے کہ معیشت کی مکمل بحالی کے لیے 30 سے 40 کھرب روپے درکار ہیںیہ بھی پڑھیں ایک ماہ میں تیسری مرتبہ شرح سود میں کمی پالیسی ریٹ فیصد مقررتاہم معاشی سست روی کے ساتھ اس سال ریونیو کلیکشن بھی ہدف سے کم رہی یوں اتنے بڑے پیمانے پر حکومت کے لیے رقم کا بہا شامل کرنا نامکمن ہےاسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں کی اصل رقم کی ادائیگی موخر قرضوں کی ری شیڈولنگ اور صنعتی شعبوں میں نوکریوں کے خاتمے سے بچانے کے لیے اسان شرائط پر قرض فراہم کر کے اربوں روپے کا ریلیف دیا گیایہ خبر جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام باد وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد حکومت نے سابقہ سینئر بیوروکریٹ بابر یعقوب فتح محمد کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی کے قیام کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جو مبینہ طور پر 50 کھرب روپے کی اضافی ادائیگیوں اور ٹیرف میں کمی پر خودمختار بجلی پیدا کرنے والے اداروں ئی پی پیز سے بات چیت کرے گیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی اسی معاملےے پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے معدنیات مارکیٹنگ شہزاد قاسم کی سربراہی میںبنائی گئی ایک تکنیکی کمیٹی تحلیل ہوگئیخیال رہے کہ بابر یعقوب گزشتہ سال وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور اس وقت فیڈرل لینڈ کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیںاس نوٹیفکیشن کے تحت انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مذاکراتی کمیٹی کے لیے اپنی پسند کا سیکریٹری مقرر کریںمزید پڑھیں اگر ئی پی پیز رپورٹ درست ہے تو مافیا نے ملک کا گینگ ریپ کیا صدر مملکت کمیٹی میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستانایس ای سی پی کے سابق چیئرمین محمد علی بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک تفتیشی ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے غلط ذرائع سے ئی پی پیز کو تقریبا 50 کھرب روپے زائد کی ادائیگی پر ایک رپورٹ تیار کی تھیکمیٹی کے دیگر اراکین میں خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے وکیل اور بیرسٹر قاسم ودود اور پاور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری شامل ہیں جنہیں نامزد کیا جانا ابھی باقی ہےسیکریٹری توانائی عرفان علی کے مطابق وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی سی سی او ای نے اپریل کو وزیر توانائی عمر ایوب خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھیکمیٹی کو ہیٹ ریٹ ٹیسٹ مقامی سرمایہ کاروں کے لیے کرنسی کی قیمت سازی قرض کی مدت میں اضافے پریشن اور بحالی کے اخراجات اور ایکوئٹی پر ریٹرز کے سلسلے میں ئی پی پیز سے بات چیت کرنے کا پابند کیا گیا تھامرکزی کمیٹی میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مارکیٹنگ اینڈ ڈویلپمنٹ منرل ریسورس شہزاد قاسم اور خزانہ توانائی اور قانون ڈویژنز کے سیکریٹریز کو شامل کیا گیامرکزی کمیٹی نے شہزاد قاسم کی سربراہی میں ایک تکنیکی سب کمیٹی بھی تشکیل دی تھییہ بھی پڑھیں حکومت نے ائی پی پیز کو اہم بات چیت کیلئے طلب کرلیااسی دوران محمد علی کی قیادت میں کمیٹی نے شعبہ توانائی کے اڈٹ اور گردشی قرضوں کے حل کے لیے توانائی کے شعبے کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کیاس رپورٹ کے مطابق سی سی او ای نے 20 اپریل کو فیصلہ کیا کہ تجارتی اور پالیسی کے پہلوں سے متعلق محمد علی رپورٹ کی سفارشات ئی پی پیز سے متعلق تکنیکی کمیٹی کو ارسال کی جائیں گی جو پہلے ہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے معدنیات کے زیر نگرانی کام کررہی ہیںتاہم وزیر توانائی نے ئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس میں محمد علی بھی شامل تھےنوٹیفکیشن کے تحت مذاکراتی کمیٹی کو متعدد ئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کرنی ہے جس میں وہ ماضی کی اضافی ادائیگیوں کی مقدار سود کی شرحوں میں کمی اور قرض کی ادائیگیوں سمیت دیگر امور جیسے قرض کی مدت میں توسیع وغیرہ پر مذاکرات کریں گےنوٹیفکیشن میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ اضافی ادائیگیاں صرف اس حد تک محدود نہیں جو رپورٹ میں نمایاں کی گئیں اور مذاکراتی کمیٹی ان ممکنہ اضافی ادائیگیوں پر بھی غور کرے گی جو شاید رپورٹ میں شامل نہیں
ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن محمد جہانزیب خان نے 72 ارب ڈالر لاگت کے مین ریلوے لائن ایم ایل ون منصوبے کو حتمی منظوری کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی ایکنک کو بھجوا دیا ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر محمد جہانزیب خان کی زیر صدارت ہفتہ کو سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں 3618 ارب روپے لاگت کے 13 منصوبوں کی منظوری دی گئیاجلاس نے پاکستان ریلوے کی جانب سے پیش کیا گیا 72 ارب ڈالر کا ایم ایل ون منصوبہ حتمی منظوری کے لیے ایکنک کو بھجوا دیا منصوبے کے تحت کراچی تا پشاور 1872 کلو میٹر ریلوے ٹریک اپ گریڈ ہوگا والٹن اکیڈمی کی اپ گریڈیشن اور حویلیاں میں ڈرائی پورٹ بھی تعمیر ہوگیمزید پڑھیں ایم ایل ون منصوبے کیلئے فیصد شرح سود پر ارب ڈالر قرض لینے کی کوششیںاس کے علاوہ 184 ارب روپے کی لاگت کے مزید منصوبے حتمی منظوری کے لیے ایکنک کو بھجوا دیے گئےاجلاس میں توانائی فزیکل پلاننگ اینڈ ہاسنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹرانسپورٹ مواصلات اور بی وسائل سے متعلق بھی مختلف منصوبوں کی منظوری دی گئیواضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا حکومت کی جانب سے ایم ایل ون کی تعمیر کے لیے فیصد شرح سود پر چین سے ارب ڈالر قرض لینے کی کوششیں جاری ہیںاجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ اس منصوبے سے 20 ہزار بالواسطہ اور ایک لاکھ 50 ہزار بلاواسطہ نوکریاں پیدا ہوں گی اور پہلے مرحلے کے تحت منصوبے کے سیکشنز کی تکمیل میں سے سال کا عرصہ لگے گایہ بھی پڑھیں کابینہ کمیٹی کا ریلوے منصوبے پر چین سے بات چیت کا فیصلہ منصوبے سے ٹرینوں کی رفتار اور مال برداری کی گنجائش میں اضافہ ہوگا مسافر ٹرین کی رفتار 65 کلومیٹر سے بڑھ کر ایک سو 10 کلومیٹر سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی جبکہ مال گاڑی 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کی موجودہ رفتار تقریبا نصف ہے
حکومت نے ئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریٹیلرز کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول میں پیٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیاوزیر توانائی اور پیٹرولیم عمر ایوب نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ چند ئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور ریٹیلرز غیرقانونی منافع کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی مصنوعی قلت پیدا کررہے ہیںان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کمپنیوں اور ڈیلرز کو بے نقاب کرنے اور ریگیولیٹرز اور صوبائی حکومتوں کی مدد سے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہےمزید پڑھیںملک بھر میں پیٹرول کی فراہمی شدید متاثروفاقی وزیر نے اعلان کیا کہ ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے اور دعوی کیا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کوئی کمی نہیں ہےدوسری جانب ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے ئل کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مصنوعی اضافے کے لیے بظاہر مل کر اور غیر مسابقتی انداز میں قیمت مقرر کی گئی ہےچند ئل کمپنیوں نے پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل ئل کو غیردانش مندانہ فیصلوں کے ذریعے صورت حال کو بگاڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ حکومت نے پہلے تیل کی درمد بند کردی اور متعدد منظور نظر کمپنیوں کے لیے شیڈول تبدیل کردیاپیٹرولیم ڈویژن سے جاری ایک بیان میں بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ملک میں پیٹرولیم اور ڈیزل کا مناسب اسٹاک موجود ہے اور شہریوں کو افراتفری میں خریداری سے گریز کرنا چاہیےبیان میں کہا گیا کہ پیٹرولیم ڈویژن واضح طور پر گاہ کر رہا ہے کہ ملک میں پیٹرول کی مناسب مقدار موجود ہےیہ بھی پڑھیںاوگرا نے پیٹرول کی فراہمی تعطل پر ئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کردیاپیٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ ماہانہ ضروریات کو پوری کرنے کے لیے ریفائنریز اور طے شدہ منصوبے کے تحت درمد شیڈول میں ہےپیٹرول کی قلت کے تاثر پر وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک میں لاکھ 72 ہزار ٹن پیٹرول اور لاکھ 76 ہزار ڈیزل کا ذخیرہ دستیاب ہے جو بالترتیب 12 اور 17 دنوں کے لیے کافی ہےدستاویزات میں درج تفصیلات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر میں مصنوعات کی دستیابی کا وسیع خلا ہے اور بعض علاقوں میں فراہمی کی صورت حال پیچیدہ ہے جبکہ کئی ریٹیل اسٹیشنز مکمل طور پر بند ہیں اور چند او ایم سی کے ریٹیلرز بالکل خشک ہوچکے ہیںپنجاب میں 20 روز کے لیے مطلوبہ ایک لاکھ 59 ہزار ٹن کے مقابلے میں اوسط 73 ہزار ٹن پیٹرول صرف چار روز کے لیے موجود ہے سندھ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں صرف تین روز کے لیے پیٹرول کا ذخیرہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں روز کا ذخیرہ موجود ہےاو ایم سی کا مجموعی ذخیرہ بلوچستان میں ہزار ٹن گلگت بلتستان میں 440 ٹن او کے پی میں 12 ہزار ٹن ہےاسی طرح ڈیزل کا ذخیرہ پنجاب کے پی اور گلگت میں صرف روز کے لیے کافی ہے پنجاب میں 94 ہزار ٹن ہے جبکہ صوبے میں جون میں روزانہ کی اوسط طلب 24 ہزار ٹن ہے کے پی میں ڈیزل کا مجموعی ذخیرہ 18 ہزار ٹن اور گلگلت بلتستان میں 994 ٹن ہے جو دونوں صوبوں میں صرف چار روز کے لیے کافی ہے سندھ میں 71 ہزار ٹن اور بلوچستان میں 1272 ٹن ڈیزل کا ذخیرہ ہے جو 12 روز کے لیے کافی ہےمزید پڑھیںملک میں پیٹرول کی قلت مسابقتی کمیشن نے تحقیقات کا غاز کردیاپیٹرولیم ڈویژن کے عہدیداروں نے کہا کہ شیل اور ٹوٹل پارکو کے پاس کم ذخیرہ ہے یہ بدقسمتی ہے کہ چند او ایم سی او ان کے ڈیلرز نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے یہ طریقہ اپنایا ہے جو عام شہریوں کے لیے قلت کا باعث بن رہا ہے اور صارفین کی زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہا ہےوزارت پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم ڈویژن اوگرا مسابقتی کمیشن پاکستان اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سمیت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر حالات کو معمول پر لانے کے لیے مناسب کارروائی کی جارہی ہےپیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ تمام او ایم سیز سے رابطے میں ہیں اور ان میں سے اکثر کے پاس کمی نہیں ہے شیل اور ٹوٹل پارکو کے پاس کم ذخیرہ ہے لیکن جون سے 10 جون تک ان کی اضافی درمد بھی پہنچ جائے گی جس کے بعد ان کا ذخیرہ بھی بڑھ جائے گاتمام چیف سیکریٹریز کو خطوظ لکھے گئے کہ پیٹرول اور ڈیزل کی دستیابی کو یقینی بنانے خود جا کر جائزہ لینے اور ریٹیلرز سے ذخیروں کی تصدیق کرکے وفاقی حکومت کو گاہ کرنے کے لیے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کریںصوبوں کو بھی کہا گیا کہ مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث پمپس اور ڈیلرز کے خلاف منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے متعلق 1977 کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کریںیہ خبر جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام اباد عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث پاکستان کو پہنچنے والا معاشی نقصان 25 کھرب روپے تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہےان اعداد شمار پر وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران مختلف قرض دہندہ اداروں اور حکومتی اداروں میں تقریبا اتفاق ہوگیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے شرکا نے اس بات پر بھی اتفاق کی کہ ائندہ مالی سال پر بھی وبا کے اثرات نمایاں ہوں گےیہ بھی پڑھیں مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 82 فیصد ہوگئیاجلاس میں بتایا گیا کہ مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کے ذریعے پیمائش کیا جانے والا ملکی معیشت کا حجم 440 کھرب سے 25 کھرب روپے کم ہو کر 415 کھرب ہوگیاایک اور اندازے کے مطابق شرح نمو کی بنیاد پر یہ نقصان تقریبا 16 کھرب روپے ہےموجودہ مالی سال کے تخمینے کے تحت جی ڈی پی میں فیصد اضافہ ہونا تھا لیکن یہ 04 فیصد سکڑ گئی جن کا مطلب جی ڈی پی کا مجموعی نقصان 36 فیصد یا 15 کھرب 80 ارب روپے رہاائندہ سال کے لیے بھی پلاننگ کمیشن نے جی ڈی پی کی شرح نمو 23 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے لیکن وزارت خزانہ اسٹیٹ بینک اف پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک عالمی بینک اور یو این ڈی پی اسے حقیقی تصور نہیں کرتےمزید پڑھیں مئی کے مہینے میں ریونیو کی وصولی میں 308 فیصد کمیان اداروں کے مطابق پاکستان کے تجارتی شراکت داروں پر سکڑنے کے جاری اثرات اور ملکی معاشی چیلنجز کے باعث ائندہ مالی سال میں شرح نمو 19 فیصد رہنے کا امکان ہےاس موقع پر مشیر خزانہ نے بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں اور سرکاری اداروں کو کہا کہ کووڈ 19 کے سبب پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ جاری رکھیں تا کہ حکومت کو فوری اور مضبوط پالیسی کے ساتھ رد عمل دینے میں مدد ملےیہ اجلاس عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا گیا تھااجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک ہوئے اور اسٹیٹ بینک اف پاکستان کا تفصیلی تجزیہ اور کووڈ 19 سے پڑنے والے معاشی اثرات پر اس کا پالیسی رد عمل پیش کیایہ بھی پڑھیں پیٹرول کی قیمت میں کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی لازمی کم ہونی چاہئیں وزیراعظمایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے بھی ایشیائی ممالک کو وبا کے باعث پہنچنے والے نقصانات کی عمومی اور پاکستان کے حوالے سے خصوصی پریزینٹیشن دیاے ڈی بی کے پیش کردہ اعداد شمار میں کووڈ 19 کے بعد کے منظر نامے میں پاکستان کی معیشت کی بحالی کی علامات نمایاں ہیںعلاوہ ازیں رکن پلاننگ کمیشن عاصم سعید نے بھی حکومتی ہدایت پر وبا کے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے تیار کردہ تفصیلی رپورٹ پیش کی
حکومت پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کے لیے ناروے کی حکومت کی 52 لاکھ ڈالر سے زائد کی گرانٹ کے معاہدے پر دستخط کردیےڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ فنڈ این ڈی ایم ایف کے ذریعے خیبر پختونخوا میں کورونا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں گےسیکریٹری فنانس ڈویژن نور احمد اور ایشیائی ڈیولپمنٹ بینک کے پاکستان کے لیے کنٹری ڈائریکٹر شیاہونگ یانگ نے معاہدے پر دستخط کیے یہ بھی پڑھیںکورونا وائرس یورپی یونین کا پاکستان کیلئے 26 ارب روپے سے زائد امداد کا اعلانمعاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد اے ڈی بی کی کنٹری ڈائریکٹر شیاہونگ یانگ نے اسلام باد میں ناروے کے سفارت خانے میں ناظم الامور سے منصوبے پر تبادلہ خیال کیامعاہدے کے تحت ناروے کی حکومت خیبرپختونخوا میں کووڈ19 کے بحران سے نمٹنے کے لیے 52 لاکھ 80 ہزار ڈالر فراہم کرے گی یہ گرانٹ پاکستان زلزلہ فنڈ کے غیر استعمال شدہ وسائل سے حاصل کی گئی ہے اور اس کی نگرانی اے ڈی بی کرے گااے ڈی بی کی کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ گرانٹ سے خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں ایمرجنسی سروسز ضروری لات کی فراہمی اور غریب افراد کی امداد کی جائے گیگرانٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ناروے کی حکومت اور اے ڈی بی کی پاکستان میں فات کے خطرات میں کمی لانے کے لیے شراکت داری کے عزم کا اظہار ہےخیال رہے کہ اے ڈی بی نے مئی میں وبائی صورت حال میں پاکستان کی مدد کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پروجیکٹ سے کروڑ ڈالر مختص کردیا تھا اور این ڈی ایف بورڈ ڈائریکٹرز نے سود سے حاصل کروڑ ڈالر مختص کیا تھامزید پڑھیںکوروناوائرس حکومت پاکستان کو جاپان سے 10 لاکھ ڈالر کی مزید امدادناروے کی حکومت پاکستان میں تعلیم صحت اور ہنگامی امداد سمیت مختلف شعبوں میں امداد کے منصوبے مکمل کرچکی ہےاے ڈی بی کے ساتھ مل کر ناروے نے 2005 میں زلزلہ متاثرین کی جلد بحالی کے لیے کام کیا تھابعدازاں 2010 اور 2011 میں پاکستان میں نے والے بدترین سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے ناروے کی حکومت نے کروڑ 64 لاکھ ڈالر سے زائد فراہم کیے تھے
پاکستان کرکٹ بورڈ پی سی بی نے اپنے 55 ملازمین کو نوکری سے برخاست کرنے کا نوٹس ایک روز بعد ہی واپس لے لیاپی سی بی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بورڈ کے اسٹاف اراکین کو رواں ہفتے ملازمت سے برخاست کرنے کے لیے جاری کیے گئے نوٹسز واپس لے لیے گئے ہیں پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان کا کہنا تھا کہ اسٹاف کا زیادہ ہونا موجودہ بورڈ کے لیے طویل مدتی پائیداری کا مسئلہ ہےمزید پڑھیںپی سی بی میں ملازمین کو نکالنے کا سلسلہ شروعانہوں نے کہا کہ تبدیلی کے لیے وقت کا چنا بہت اہم ہوتا ہے لہذا اس عمل سے متعلق اپنائے گئے طریقہ کار اور دیگر ذرائع میں بہتری کی ضرورت تھی وسیم خان نے کہا کہ ایک ذمہ دار ادارے کی حیثیت سے ہم نے اپنے فیصلےکا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد اس پر فوری نظرثانی کی اور نوٹسز کو فوری طور پر واپس لے لیاانہوں نے کہا کہ اس دوران پی سی بی اپنی ری اسٹرکچرنگ کا عمل جاری رکھے گا اور اس حوالے سے اپنے ملازمین کی معقول تعداد کو یقینی بنانے کے لیے معقول وقت پر ضروری فیصلے کرے گاملک بھر میں پی سی بی کے ملازمین کی مجموعی تعداد 710 ہے جس میں سے لاہور میں 361 اور کراچی دفتر میں 70 ملازمین ہیںخیال رہے کہ پی سی بی نے رواں ہفتے کئی ملازمین کو نوکری سے نکالنے کا نوٹس جاری کردیا تھاپی سی بی کے ترجمان نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ کورونا وائرس کے سبب مرتب ہونے والے معاشی اثرات کی وجہ سے نہیں کیا گیا بلکہ یہ کارپوریٹ اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ عملہ پہلے ہی اضافی تھاجن ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ان میں نچلے درجے کے ملازمین جیسا کہ فس بوائے وغیرہ بھی شامل تھے جس پر حیرانی کا اظہار کیا گیا تھایہ بھی پڑھیںپی سی بی مالی نقصان پورا کرنے کے لیے پرامیدبورڈ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسے مشکل وقت میں ان افراد کو نوکری سے فارغ کرنا انتہائی زیادتی ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریب طبقہ پہلے ہی کافی مشکلات سے دوچار ہےڈان کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پی سی بی نے اپنے سروسز ایکٹ میں 15مئی کو توسیع کی تھی جس کے لیے بورڈ گورنرز سے منظوری لی گئی تھی اور ترمیم کے بعد ہی عملے کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھاذرائع کے مطابق پی سی بی نے لاہور سے اور راولپنڈی سے تین افراد کو برطرف کر کے ایک ماہ کا نوٹس جاری کردیا تھا جس کی مدت 30جون کو ختم ہونے والی تھی جبکہ نے والے دنوں میں اس تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ تھا
معروف امریکی اقتصادی جریدے فوربز نے ہر سال کی طرح سال 2020 کی سب سے زیادہ کمانے والی دنیا بھر کی 100 شخصیات کی فہرست جاری کردیفوربز فہرست کے مطابق رواں سال کورونا وائرس کی وبا کے باعث کئی شوبز کھیل کے شعبے کی شخصیات کی کمائی میں واضح کمی دیکھی گئی جب کہ اس سال مجموعی طور پر 100 شخصیات نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 کروڑ ڈالر کم کمائے ہیںاس سال سب سے زیادہ کمانے والی 100 شخصیات نے مجموعی طور پر ارب 10 کروڑ ڈالر کمائے جس میں سے صرف ایک ہی شخصیت کی کمائی 59 کروڑ ڈالر ہےحیران کن طور پر اس سال سے سب سے زیادہ کمانے والی شخصیت 22 سالہ ٹی وی اسٹار ماڈل کایلی جینر ہیں جنہوں نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران 59 کروڑ امریکی ڈالر کمائےیہ بھی پڑھیں کایلی جینر پر بہت زیادہ امیر نظر نے کے لیے جھوٹ بولنے کا الزامکایلی جینر کو فوربز نے حال ہی میں سب سے کم عمر ارب پتی بننے والی فہرست سے خارج کیا تھا میگزین کے مطابق کایلی جینر نے ارب پتی بننے سے متعلق حقائق کو خفیہ رکھا میگزین نے انہیں 2019 میں دنیا کی کم عمر ارب پتی قرار دیا تھاکایلی جینر گزشتہ سال سب سے زیادہ کمائی کرنے والی دوسری شخصیت تھیںفوٹو فیس بک انسٹاگرام فوربز کی 2020 کی فہرست میں ٹیلر سوئفٹ سب سے زیادہ کمانے کے حوالے سے 25 ویں نمبر پر ہیں گزشتہ برس وہ پہلے نمبر پر تھیںسال 2019 میں ٹیلر سوئفٹ کی کمائی 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی رواں سال ان کی کمائی ساڑھے کروڑ ڈالر سے بھی کم ہوگئیمزید پڑھیں 2019 کی ریکارڈ کمائی کرنے والی شخصیات میں ٹیلر سوئفٹ سرفہرستکایلی جینر گزشتہ برس اس فہرست میں دوسرے نمبر پر تھیں اور انہوں نے گزشتہ سال 17 کروڑ ڈالر کمائے تھے مگر رواں سال کورونا کے باوجود انہوں نے گزشتہ سال کے مقابلے تین گنا زیادہ پیسے کمائے اور ان کی مجموعی کمائی 59 کروڑ ڈالر رہیسب سے زیادہ کمائی کرنے والی 100 شخصیات میں بھارت سے صرف ایک ہی شخصیت بولی وڈ کھلاڑی اکشے کمار جگہ بنانے میں کامیاب گئے اور وہ فہرست میں 52 ویں نمبر پر ہیںٹیلر سوئفٹ گزشتہ سال پہلے نمبر پر تھیں اس سال 25 ویں نمبر پر ہیںفائل فوٹو اے ایف پی اکشے کمار نے گزشتہ 12 ماہ میں کروڑ 82 لاکھ ڈالر تک کی کمائی کی حیران کن طور پر چینی سپر اسٹار جیکی چن ہولی وڈ اداکارہ گلوکارہ جینیفر لوپیاز گلوکارہ ریانا ادکار ول سمتھ ٹینس اسٹار نوواک جوکووچ ٹریوس اسکاٹ اور اوپرا ونفرے بھی کمائی میں ان سے پیچھے رہےدلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں اس فہرست میں کایلی جینر 59 کروڑ امریکی ڈالر کمائی کے ساتھ سرفہرست رہیں وہیں ان کے بوائے فرینڈ اور ان کی بیٹی کے باپ گلوکار ٹریوس اسکاٹ تین کروڑ 95 لاکھ ڈالر کمائی کے ساتھ 82 ویں نمبر پر رہےفوربز کی فہرست میں اکشے کمار واحد بھارتی شخص ہیں وہ 52 ویں نمبر پر ہیںفائل فوٹو این ڈی ٹی وی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ 22 سالہ ماڈل کایلی جینر کی کمائی ایک طرف اور ایک درجن بڑے اسٹارز کھلاڑیوں کی کمائی دوسری طرف لیکن پھر بھی کایلی جینر کی کمائی ان سے زیادہ ہے فہرست میں کایلی جینر کی سوتیلی بہن اور معروف ٹی وی اسٹار کم کارڈیشن کمائی کرنے کے حوالے سے 48 ویں نمبر پر ہے جب کہ ان کے منگیتر گلوکار کائنے ویسٹ 17 کروڑ ڈالر سے زائد کمائی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیںکم کارڈیشن اس سال 48 ویں نمبر پر ہیں گزشتہ سال 26 ویں نمبر پر تھیںفائل فوٹو اے ایف پی
مسابقتی کمیشن پاکستان سی سی پی نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قلت سے متعلق عوامی تحفظات اور شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا غاز کردیا ہےکمیٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ تحقیقات میں پتہ لگایا جائے گا کہ کہیں یہ بحران کسی مسابقتی سرگرمی کا نتیجہ تو نہیں ہےمزید پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11روپے 88 پیسے تک کی کمی کی سفارشسی سی پی کو مسابقت ایکٹ 2010 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ کاروبار مسابقتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں جن میں غالب حیثیت کا غلط استعمال شامل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں رسد کی کمی یا مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معقول اضافہ ہوسکتا ہےاعلامیے میں کہا گیا کہ ملک بھر میں ایندھن کی قلت ایسے وقت میں سامنے ائی جب حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے طلب میں کمی کے باعث اس کی قیمتوں میں کمی کی ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں نے سپلائی محدود کرکے یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیدا کردی ہےان کا کہنا تھا کہ تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے اپنی غالب حیثیت کے غلط استعمال کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتاانہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کر کے صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے حکومتی فیصلے سے مطلوبہ منافع کمانے کے لیے بے چین کاروبار کرنے والے ناراض ہو گئے ہیںیہ بھی پڑھیں اوگرا نے پیٹرول کی فراہمی تعطل پر ئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کردیا سی سی پی کی انکوائری سے ملک میں ایندھن کی قلت اور اس کی وجہ بننے والے اقدامات میں کسی بھی مسابقتی عمل کے ملوث ہونے کے امکان کا تعین ہوگاانکوائری میں مزید اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات سے تیل سے بننے والی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں ائیپشاور ہائی کورٹ کا پیٹرول کی قلت کا نوٹسدوسری جانب ملک میں پشاور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس قیصر رشید نے پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی عدم دستیابی کا نوٹس لے لیاڈپٹی کمشنر پشاور عدالت کے حکم پر ہشاور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں پیٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاجسٹس قیصر رشید نے حکم دیا جن پمپس پر پیٹرول دستیاب ہے اور پھر بھی لوگوں کو نہیں مل رہا تو ان کو فی الفور سیل کیا جائےمزید پڑھیں پیٹرولیم ڈویژن کا ای سی سی سے تیل کی قیمتوں میں 15 روز تک کمی نہ کرنے کا مطالبہاس موقع پر جسٹس قیصر رشید نے ڈپٹی کمشنر سے ٹے بحران پر استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھی اس ملک کا حصہ ہے اور وہاں گندم کی پیداوار اچھی ہوئی ہے لہذا اس مسئلے کو حل کریںانہوں نے کہا کہ ابھی گندم کٹائی سیزن گزرا ہے اور ایسے میں ریٹ کم ہونا چاہیے تھا لیکن مزید مہنگا کردیا ٹا بحران پر وزیر اعلی اور متعلقہ وزیر سے بات کر کے اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائےکراچی میں پیٹرول کی قلتواضح رہے کہ کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں عوام کو پیٹرول کی شدید قلت کا سامنا ہے اور حکومت کی جانب سے پیٹرول کی بروقت ترسیل کے باوجود عوام کو پیٹرول کے حصول مین مشکلات درپیش ہیںپیٹرول کی کمی کے باعث کراچی سمیت ملک بھر کے پیٹرول پمپس پر عوام قطاروں میں کھڑے نظر ئے اور ایک بڑی تعداد کو پیٹرول کے بغیر ہی مایوس واپس لوٹنا پڑاائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے پمپس کے خلاف کارروائی کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کرلیااوگرا نے ملک بھر میں پیٹرول اور ڈیزل کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور زاد کشمیر کے چیف سیکر ٹریز کو خطوط بھی لکھ دیے ہیں
لاہور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے مرغی میں کورونا وائرس کی افواہوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے جھوٹ اور بے بنیاد قرار دے دیاساتھ ہی انہوں نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو بغیر کسی خوف کے مرغی اور دیگر پولٹری مصنوعات کا استعمال جاری رکھنا چاہیےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسوسی ایشن کے شمالی ریجن کے نائب چیئرمین چوہدری فرغام نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں مرغی کی مصنوعات میں کوئی کورونا وائرس رپورٹ نہیں ہوا اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی حصے میں انسان میں وائرس کی منتقلی کو پولٹری سے جوڑے جانے کی کوئی رپورٹ نہیں ہےمزید پڑھیں سو سال پرانی ویکسین کورونا وائرس کے خلاف ہتھیارانہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پھیلائی یا گردش کرنے والی افواہیں مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد ہیںان کا کہنا تھا کہ وزارت قومی تحفظ خوراک اور تحقیق لائیو اسٹاک ونگ اور پولٹری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پنجاب نے بھی اپنے سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو مسترد کیا تھا جسے میڈیا میں بھی شائع کیا گیا ہےانہوں نے کہا کہ پولٹری زراعت پر مبنی صنعت کے سب سے منظم شعبوں میں سے ایک ہےانہوں نے کہا کہ پولٹری کا شعبہ 1962 سے قوم کی خدمت میں مصروف ہے اور لوگوں کو جانور کے پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قابل خرید پولٹری مصنوعات فراہم کر رہا ہے یہ شعبہ گوشت کی مجموعی کھپت میں 40 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار اور مدنی کے مواقع پیدا کرتا ہےساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لہذا ہم یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ مرغی کا گوشت صحت مند غذائیت بخش اور صارفین کے لیے محفوظ ہےعلاوہ ازیں لاہور پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر طارق جاوید نے چکن ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیراعلی عثمان بزدار کی جانب سے 260 روپے فی کلو چکن کا گوشت فروخت کرانے کے بعد ئندہ کچھ روز میں ہڑتال کے ایک اور رانڈ کے لیے تیار رہیںخیال رہے کہ چین سے شروع ہونے والا نوول کورونا وائرس صوبے ہوبے کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ سے جنم لیا تھا اور یہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا تھا جس کے بعد یہ انسان سے انسان میں منتقل ہورہا ہےگزشتہ برس دسمبر سے شروع ہونے والا یہ وائرس اس وقت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اور اب تک 65 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ لاکھ 86 ہزار سے زائد انتقال کرچکے ہیںاس وائرس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہے اور اس کے کیسز کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہوگئی ہےملک میں اس وقت 85 ہزار سے زائد افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ اس وبا سے جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 1717 ہے
اسلام اباد وزیراعظم عمران خان نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مناسب قیمتوں میں ان اشیا کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے لیے اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کردیدفتر وزیراعظم سے جاری کردہ بیان کے مطابق عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے لگام اضافے پر برہمی کا اظہار کیاجاری کردہ باضابطہ بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ چند ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کافی حد تک کم کیے جانے کے باوجود اشیائے ضروریہ کی قیتموں میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بجائے ان میں اضافہ ہورہا ہےیہ بھی پڑھں صوبوں کو اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی روکنے کی ہدایتوزیراعظم نے اٹے کی قیمتوں میں اضافے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب گندم کی کٹائی حال ہی میں اختتام پذیر ہوئی ہے تو ایسے میں اٹے کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی منطق نہیں ہےعمران خان نے صوبائی وزرائے اعلی اور چیف سیکریٹریز کو ہدایت کی کہ اس معاملے کو دیکھیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں کہ ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے اثرات اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر پڑیںوزیراعظم کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں روزانہ کی بنیاد پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام ادمی تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریںمزید پڑھیں وزیراعظم کی اشیا خورونوش میں ملاوٹ کےخلاف نیشنل ایکشن پلان مرتب کرنے کی ہدایتساتھ ہی انہوں نے نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو ہفتہ وار بنیادوں پر مانیٹر کرنے اور قیمتوں میں کمی کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت بھی کیخیال رہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کے باعث ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہوئی تھیں اور وزیراعظم نے اس مشکل وقت کے دوران قوم کو ریلیف دینے کے لیے قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھایہ خبر جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام اباد حکومت نے یکمشت ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے کی منظوری کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز پی ایس ایم کے ہزار 350 ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی منظوری دے دیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں فیصلہ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے اجلاس میں کیا گیااجلاس کے حوالے سے جاری ہونے والے باضابطہ بیان کے مطابق اجلاس میں عدالت عظمی کے فیصلوں احکامات اورپاکستان اسٹیل ملز کے حوالہ سے دیگر عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی روشنی میں پاکستان اسٹیل ملز کے ہیومن ریسورس رئیلائزیشن منصوبے کی مکمل اور حتمی منظوری دے دی گئییہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیامذکورہ فیصلہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی 13 مئی کی ہدایت پر وزارت صنعت پیداوار کی جانب سے ہیومن ریسورس رئیلائزیشن کی بنیاد پر نظر ثانی شدہ سمری پر کیا گیااس سے قبل کے منصوبے میں 18 ارب 74 کروڑ روپے کی لاگت میں ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کی تجویز دی گئی تھیحالیہ فیصلے کے نتیجے میں حکومت اسٹیل ملز کے 100 فیصد ملازمین کو فارغ کردے گی جن کی تعداد ہزار 350 ہے کل تعداد میں سے صرف 250 ملازمین کو اس منصوبے پر عملدرامد اور ضروری کام کی انجام دہی کی خاطر 120 روز کے لیے برقرار رکھا جائے گادوسری جانب ای سی سی کے فیصلے کو کابینہ کے ائندہ اجلاس میں منظوری ملنے کے بعد تمام ملازمین کو برطرفی کے نوٹسز جاری کردیے جائیں گےمزید پڑھیں اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے چینی کمپنیوں نے غور شروع کردیااس منصوبے کا مالیاتی اثر 19 ارب 65 کروڑ 70 لاکھ روپے کے برابر ہوگا جو گریجویٹی اور پراوڈنٹ فنڈز کی ادائیگی کے لیے یکمشت جاری کیے جائیں گےاس کے علاوہ اسٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں کے ادائیگی کی مد میں منظور شدہ ضمنی گرانٹ سے ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کی جائے گی اس طرح ہر فرد کو اوسطا 23 لاکھ روپے ادا کیے جائیں گےاپنی پیش کردہ سمری میں وزارت صنعت پیداوار نے بتایا کہ اسٹیل ملز کی کمزور معاشی صورتحال کے باعث حکومت سال 2013 سے ملازمین کو خالص ماہانہ تنخواہ ادا کررہی ہےخیال رہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 14 ہزار 753 ملازمین کے لیے انسانی وسائل کا کوئی منصوبہ تشکیل دیے بغیر جون 2015 میں تجارتی سرگرمیاں روک دی گئی تھیں جس کے بعد 2019 تک ملازمین کی تعداد کم ہو کر ہزار 350 رہ گئی تھییہ بھی پڑھیں اسٹیل مل کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں تاخیر اسٹیک ہولڈرز نے وزیر اعظم کو خبردار کردیااس وقت پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو خالص تنخواہوں کی مد میں ادا کی جانے والی رقم 35 کروڑ روپے کے برابر ہے جسے اسٹیل ملز کے مالی اکانٹس میں بطور قرض ایڈجسٹ کیا جاتا ہے یوں سال 2013 سے وفاقی حکومت تنخواہوں کی مد میں 34 ارب روپے جاری کر چکی ہےقبل ازیں ای سی سی میں جمع کروائی گئی سمری کے مطابق ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری کی ناکامی بدعنوانی نااہلیت اور زیادہ لوگوں کو ملازمت دینے کی نہ ختم ہونے والی کہانی ہےپاکستان اسٹیل ملز جون 2015 سے اس وقت بند کردی گئی تھی جب بلز کی عدم ادائیگی کے باعث اس کی گیس سپلائی میں تیزی سی کمی کی گئی تھی یہ بلز اس وقت نجی شعبے سے وابستہ ادارے کے ڈیفالٹ ہونے سے بہت کم تھےپاکچین انویسٹمنٹ بینک نے 2015 میں اعلان کیا تھا کہ 28 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور نئی انتظامیہ کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز اپنی لوکیشن مارکیٹ اور سہولیات کے ساتھ قابل نفع ادارہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے
ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں تعطل کے باعث ئل مارکیٹنگ کمپنیوں او ایم سیز کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں جواب طلب کرلیا ترجمان اوگرا عمران غزنوی کے مطابق ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے شیل پاکستان لمیٹڈ اٹک پیٹرولیم لمیٹڈ اور ٹوٹل پارکو پاکستان لمیٹڈ کو نوٹس جاری کیے مزید پڑھیں پیٹرولیم ڈویژن کا ای سی سی سے تیل کی قیمتوں میں 15 روز تک کمی نہ کرنے کا مطالبہبعدازاں وزیراعظم سٹیزن پورٹل پر ریٹیل لیٹس پر تیل کی فراہمی میں قلت کی شکایات پر اوگرا نے مزید ئل مینوفیکچرنگ کمپنیز گیس اینڈ ئل پوما اور ہیسکول کو بھی شوکاز نوٹس جاری کردیا اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ ئل مارکیٹنگ کمپنیز سے 24 گھنٹے میں جواب طلب کرلیا اوگرا کی پیٹرول پمپس کے خلاف کارروائی کی ہدایتعلاوہ ازیں اوگرا کی جانب سے چاروں صوبائی گلگت اور زاد کشمیر کے چیف سیکریٹریز کو ارسال کردہ خط میں گاہ کیا گیا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں لائسنس یافتہ او ایم سیز کے پیٹرول پمپس پر پیٹرولیم مصنوعات کی قلت سے متعلق رپورٹ کیا جارہا ہے جس کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اس میں کہا گیا کہ وزرات توانائی کی ہدایات کی روشنی میں اوگرا نے پہلے ہی او ایم سیز کو مصنوعات کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی اوگرا نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ڈسٹرکٹ کورڈینیشن فیسرز ڈی سی اوز کو اپنے دائرہ کار میں ذخیرہ اندوزی میں ملوث پیٹرول پمپس کے خلاف پرائس کنٹرول اینڈ پریوینشن پروفیٹرنگ اینڈ ہورڈنگ ایکٹ 1977 کے تحت کارروائی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے علاوہ ازیں ایسے ریٹیل لیٹس کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی جاتی ہے تاکہ اوگرا او ایم سیز یا ڈیلر کے خلاف ضروری کارروائی کرسکے خیال رہے کہ یکم جون کو پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے اوگرا کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ موگاز اور او ایم سیز کی جانب سے یکم جولائی 2020 سے پیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والے ممکنہ اضافے کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں ریٹیل لیٹس پر مصنوعات کی فراہمی میں کمی کی جاسکتی ہےاس میں کہا گیا تھا کہ بحرانی صورتحال سے بچنے کے لیے ریگولیٹر ہونے کی حیثیت سے اوگرا کو او ایم سیز کو ملک میں ہر ریٹیل لیٹ پر اسٹاکس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرے خط میں کہا گیا تھا کہ اس سلسلے میں اوگرا او ایم سیز کے ڈیپوزٹرمینلزٹ لیٹس پر اسٹاکس کی تصدیق کے لیے ٹیمیں بھی تعینات کرسکتی ہے بعدازاں گزشتہ روز اوگرا کی جانب سے ئل مارکیٹنگ کمپنیز کو ارسال کیے گئے خط میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں صارفین کو پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں کمی سے متعلق رپورٹ کیا جارہا ہے اور ایچ ڈی ئی پی سے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ کئی ریٹیل لیٹس پر پیٹرول موجود نہیں یا اس کی قلت ہے جس کے باعث صارفین کو فراہمی متاثر ہورہی ہے یہ بھی پڑھیں حکومت نے پیٹرول کی قیمت مزید روپے کم کردیاوگرا نے کہا تھا کہ ئل مارکیٹنگ کمپنیز کو فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ صارفین کو کسی مشکل کا سامنا نہ ہو خیال رہے کہ تیل کمپنیوں نے درمد کا حکم نہیں دیا تھا اور انوینٹری نقصانات سے بچنے کے لیے قیمتوں میں کمی کے امکان کے تحت ریفائنریز سے مقامی پیداوار کو کم کیا ہے قواعد کے تحت تمام تیل کمپنیوں اور ریفائنریز لائسنس کے تحت پابندی ہیں کہ وہ ہر وقت پیٹرولیم مصنوعات کے کم سے کم 21 دن کے استعمال کا احاطہ یقینی بنائیں چاہے ملک حالت جنگ میں ہو یا امن میںتاہم بدقسمتی سے 80 سے 90 تیل کی پیداواری کمپنیز اور ریفائنریز میں سے کسی نے بھی اس لازمی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور گزشتہ چند دنوں سے ملک کا پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا تقریبا مجموعی اسٹاک اوسطا 11 دنوں سے زیادہ کا نہیں تھا29 مئی کو ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان سے تمام مصنوعات اور تمام کمپنیوں کے ریٹیل اسٹیشن اور اسٹاک پوزیشن کی تصدیق کرنے کے لیے کہا گیا کیونکہ یہ اس عمل کے لیے وقت درکار تھا اور پہلے ہی تاخیر ہوچکی تھیمزید پڑھیں ملک بھر میں پیٹرول کی فراہمی شدید متاثرخری کوشش کے طور پر پیٹرولیم ڈویژن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے ذریعے کوشش کی تھی کہ دو ہفتوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو لیکن ای سی سی نے بھی اخری لمحے میں معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیاپیٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر اسے روکنے کا مطالبہ کیا تھا اور تیل کی صنعت کو موجودہ نرخوں پر فروخت کرکے اپنے کچھ نقصانات کی تلافی چاہیاس نے ای سی سی کو متنبہ کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کو معمول پر نے میں ہفتوں اور مہینوں لگ سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اسٹاک غیر معمولی طور پر کم تھےتاہم وزارت نے اپنی سمری میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیز اور ریفائنریز کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ 21 دن تک کے اسٹاک کو برقرار رکھیں اور نہ ہی اس نے اطلاع دی کہ تیل کمپنیاں برسوں سے انوینٹری فوائد کے ذریعے ونڈ فال منافع کما رہی ہیں اور اس طرح کا فائدہ کبھی بھی صارفین یا قومی خزانے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا تھا
اسلام باد ملک کے بیشتر حصوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ ئل مارکیٹنگ کمپنیز اور متعلقہ حکام کی مقررہ ڈپوز پر ضروری اسٹاک کو یقینی بنانے میں ناکامی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قیمتوں میں نظرثانی کے بعد مہینے کے پہلے دو دن چھوٹے اسٹاک کے فوری ختم ہو جانے کے بعد بہت سے شہروں اور علاقوں میں عام طور پر پیٹرول کے نام سے مشہور گاڑیوں کے ایندھن موٹر گیسولین کی سپلائی میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئیاس کے بعد تیل کمپنیوں کو پیٹرولیم ڈویژن کے حکام اور ئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کی جانب سے اسٹاک کے مکمل خاتمے سے بچنے کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنانے کا کہا گیاانہوں نے پیٹرول پمپس کو ہدایت کی کہ وہ ہر گاڑی کو زیادہ سے زیادہ 500 یا 1000 روپے تک کا پیٹرول فراہم کریں تاہم اس کے باوجود منگل کو اکثر پمپس میں پیٹرول ختم ہوگیامزید پڑھیں حکومت نے پیٹرول کی قیمت مزید روپے کم کردیعہدیداروں نے بتایا کہ اب یہ قلت 10 دن سے زائد عرصے تک رہے گی کیونکہ تیل کمپنیوں نے درمد کا حکم نہیں دیا اور انوینٹری نقصانات سے بچنے کے لیے قیمتوں میں کمی کے امکان کے تحت ریفائنریز سے مقامی پیداوار کو کم کیا ہےادھر یہ صورتحال اوگرا اور تیل کے ڈائریکٹریٹ جنرل کے سامنے واضح تھی جو مئی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں بھی تیل کی مارکیٹنگ کی بڑی کمپنیوں کے کم اسٹاک پر خطوط کا تبادلہ کرتے رہے ہیںقواعد کے تحت تمام تیل کمپنیوں اور ریفائنریز لائسنس کے تحت پابند ہیں کہ وہ ہر وقت پیٹرولیم مصنوعات کے کم سے کم 21 دن کے استعمال کا احاطہ یقینی بنائے چاہے ملک حالت جنگ میں ہو یا امن میںتاہم بدقسمتی سے 80 سے 90 تیل کی پیداواری کمپنیز اور ریفائنریز میں سے کسی نے بھی اس لازمی ضرورت کو پورا نہیں کیا اور گزشتہ چند دنوں سے ملک کا پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا تقریبا مجموعی اسٹاک اوسطا 11 دنوں سے زیادہ کا نہیں تھااس کے علاوہ بھی زیادہ تر اسٹاک بندرگاہ کے قریب تھے یا کچھ کیسز میں بڑے ڈیپوز کی ملکیت میں تھے لیکن پمپ اسٹیشنز تک اس کی نقل حرکت ناہموار رہی مثال کے طور پر جون کو پنجاب میں پیٹرول اور ڈیزل کے اسٹاک کی اوسط تین اور چار دن کی کھپت تھی سندھ میں پیٹرول اور ڈیزل کا اوسطا اسٹاک بالترتیب روز اور 16 روز کا رہا جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ صرف دن کا رہاسرکاری اعداد شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں ڈیزل اور پیٹرول کے لیے مجموعی اسٹاک بالترتیب اور روز کے لیے کافی تھے جبکہ زاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں دونوں مصنوعات کا اسٹاک روز کے لیے کافی تھاساتھ ہی یہ بات بھی سامنے ئی کہ منگل تک ملک بھر میں اسٹاک اوسطا سے روز کا تھا جبکہ ریفائنریز میں اسٹاک منگل کے دن سے 14 دن کے درمیان تھا لیکن کوئی بھی ضروری اسٹوریج کی حد پر نہیں تھایہ بھی پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے تک کمی پیٹرول 15 روپے سستاعہدیداروں نے بتایا کہ عید کی چھٹیوں کے دوران سپلائی میں خلل پڑنا شروع ہوا تھاتیل اور اوگرا کے ڈائریکٹر جنرل نے عید سے قبل ہی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ریفائنریز کو سپلائی بڑھانے کے لیے کہا اور مئی کے خری ہفتے میں تمام کمپنیوں سے اسٹاک کی تفصیلی پوزیشنز کا مطالبہ کیا حالانکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو روزانہ کی فراہمی مستقل بنیاد پر دستیاب ہوتی ہے29 مئی کو ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان سے تمام مصنوعات اور تمام کمپنیوں کے ریٹیل اسٹیشن اور اسٹاک پوزیشن کی تصدیق کرنے کے لیے کہا گیا کیونکہ یہ اس عمل کے لیے وقت درکار تھا اور پہلے ہی تاخیر ہوچکی تھیخری کوشش کے طور پر پیٹرولیم ڈویژن نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کے ذریعے کوشش کی کہ دو ہفتوں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو لیکن ای سی سی نے بھی اخری لمحے میں معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیاپیٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر اسے روکنے کا مطالبہ کیا اور تیل کی صنعت کو موجودہ نرخوں پر فروخت کرکے اپنے کچھ نقصانات کی تلافی چاہیاس نے ای سی سی کو متنبہ کیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کو معمول پر نے میں ہفتوں اور مہینوں لگ سکتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کے اسٹاک غیر معمولی طور پر کم تھےتاہم وزارت نے اپنی سمری میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ تیل پیدا کرنے والی کمپنیز اور ریفائنریز کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ 21 دن تک کے اسٹاک کو برقرار رکھیں اور نہ ہی اس نے اطلاع دی کہ تیل کمپنیاں برسوں سے انوینٹری فوائد کے ذریعے ونڈ فال منافع کما رہی ہیں اور اس طرح کا فائدہ کبھی بھی صارفین یا قومی خزانے کے ساتھ شیئر نہیں کیا جاتا تھا
کورونا وائرس کی وبا کے باعث جہاں دنیا کی طرح پاکستان کو بھی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے اسی طرح رواں سال پاکستانی کی برمد میں بھی نمایاں کمی کا امکان ہےعالمی فلائٹس کی بندش سرحدوں کو بند کیے جانے گڈز ٹرانسپورٹ کے بے تحاشا کرایوں اور سب سے بڑھ کر کی برمد کے کم رڈرز ملنے کے باعث رواں سال کی برمد میں 35 سے 40 فیصد کمی کا امکان ہےگزشتہ برس پاکستان نے مشرق وسطی یورپ امریکا جاپان اور سٹریلیا سمیت دیگر ممالک میں ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن برمد کیے تھے تاہم اس سال کورونا کے باعث نصف درمد متاثر ہونے کا امکان ہےپاکستان فروٹ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر اور فروٹ کی برمد کے بڑے بیوپاری وحید احمد نے ترک خبر رساں ادارے اناطولو کو بتایا کہ وبا کے باعث اس سال پاکستانی کی برمد 80 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ نہیں ہوگیانہوں نے بتایا کہ پاکستان صرف کی برمد سے ہی ہر سال کروڑ امریکی ڈالر تک کما لیتا ہے مگر رواں سال کورونا کی وبا کے باعث یہ رقم کروڑ ڈالر سے زیادہ نہیں ہوگیوحید احمد کا کہنا تھا کہ کے کاروبار کے حوالے سے وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے انہیں زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا اور عالمی سفر پر پابندیاں برمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیںانہوں نے بتایا کہ بعض برمد کنندگان نے کو کارگو جہازوں کے ذریعے یورپ اور امریکا بھجوایا ہے مگر اس ضمن میں انہوں نے کرائے کی مد میں چار گنا اضافی رقم ادا کیوحید احمد کے مطابق اگرچہ مشرق وسطی اور وسطی ایشیائی ممالک میں موں کو سمندر کے راستے بھیجا جاتا تھا مگر وہاں سے کورونا کے باعث ہزاروں پاکستان وطن ئے ہیں جس وجہ سے وہاں سے کے مطلوبہ رڈرز نہیں مل رہےپڑوسی ممالک ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان کو برمد کرنے میں مشکلات پیش ہیں دونوں ممالک کو پاکستان مجموعی طور پر 30 سے 35 ہزار میٹرک ٹن برمد کرتا تھام کی کاشت کے اخراجات میں بھی اضافہم کی پیداوار کے حوالے سے صوبہ پنجاب کے بعد دوسرے بڑے صوبے سندھ کے کاشت کار محمود نواز شاہ نے بھی اناطولو سے بات کے دوران وحید احمد کی باتوں سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس سال وبا کے باعث کی برمد متاثر ہوئی ہےمحمود نواز شاہ کے مطابق وبا کے باعث عالمی فضائی سفر بند ہونے کی وجہ سے کو دوسرے ممالک بھیجنے میں مسئلہ ہےانہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس سے بچا کی احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کی کاشت کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہےیہ بھی پڑھیں اب کی بار زیادہ میٹھے ہوں گےپاکستان نے گزشتہ ہفتے جزوی طور پر عالمی فضائی سفر بحال کیا تھا اور حکومت کے اس اعلان کو محمود نواز شاہ کی برمد سے متعلق کاروباری افراد کے لیے ریلیف قرار دیتے ہیںمحمود نواز شاہ کے مطابق اگرچہ فضائی سروس بحال ہونے سے کے بیوپاریوں کو تھوڑا سا ریلیف ضرور ملے گا تاہم اس سروس سے بہت بڑا ریلیف نہیں مل سکے گا اور نہ ہی ایئرلائنز وبا کے باعث کرایوں میں کمی کریں گیپیداوار میں کمیم کو پاکستان اور بھارت میں پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور حیران کن طور پر یہ دونوں دشمن ممالک کا قومی پھیل بھی ہےاس پھل کو خطے میں سیاسی ثقافتی ادبی تعلقات اور جذبات پرکھنے اور سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو کے تحائف دیتے دکھائی دیتے ہیںسال 2018 تک پاکستان سالانہ 19 لاکھ میٹرن ٹن پیدا کرتا تھا اور یہ موں کی پیداوار کے حوالے سے بھارت چین تھائی لینڈ انڈونیشیا اور میکسیو کے بعد چھٹا بڑا ملک تھاپاکستان میں تقریبا درجن کی اقسام پیدا ہوتی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور انور رٹول دسہری لنگڑا سرولی سندھڑی اور توتا پری ہیں لیکن کم قیمت کی وجہ سے ملک میں چونسا مشہور ہے اور یہ ملک میں پیدا ہونے والے موں کا 60 فیصد ہوتا ہےپاکستان میں سب سے زیادہ مشہور انور رٹول ہے جس کی کہانی بھی اس کی طرح مزیدار ہےانور رٹول پر اس کا نام تقسیم ہند سے قبل بھارت کی حالیہ ریاست اترپردیش کے ضلع باغ پت سے ہجرت کرکے پاکستانی صوبے پنجاب میں نے والے ایک کے کسان نے رکھا تھااتر پردیش کے گان رٹول سے پاکستان ہجرت کرکے نے والے کسان نے جب یہاں کی پیداوار کی تو انہوں نے نئی قسم کو اپنے والد انور اور گاں رٹول کا نام دیا اور یوں مذکورہ عام کا نام انور رٹول پڑ گیامزید پڑھیں میٹھے اور ذائقے دار موں کی پہچان بہت سانبھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں موجود پاکستانی سفارت خانہ تقریبا ہر سال انڈین وزیر اعظم سمیت دیگر سیاست دانوں اور حکومتی عہدیداروں کو کے تحائف بھجواتا ہے جب کہ یہی سلسلہ دیگر جگہوں پر بھی حکومتی سیاسی سطح پر دکھائی دیتا ہےمنفرد ذائقے اور مٹھاس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی کی طلب زیادہ ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ سال سے پاکستانی کی کاشت میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہےگزشتہ سال پاکستان میں کی کاشت 14 لاکھ میٹرن ٹن ہوئی تھی اس سے قبل 19 لاکھ میٹرن ٹن تھی اور اس سال بھی وحید احمد کے مطابق 14 لاکھ میٹرن ٹن تک پیداوار ہوگیم کی اچھی فصل اور کاشت کے لیے موسم گرما کی ضرورت پڑتی ہے اور رواں سال موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم گرما تاخیر سے شروع ہواوحید احمد نے بتایا کہ رواں سال موسم گرما کے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے کی کاشت بھی ہفتے تاخیر سے شروع ہوئی جس وجہ سے کی پیدوار میں کمی کا امکان ہے
اسلام اباد ملک میں مئی کے دوران مہنگائی کی شرح کم ہو کر 82 فیصد کی سطح پر اگئی جو اپریل کے دوران تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کے باعث 85 فیصد تک کم ہوئی تھیپاکستان ادارہ شماریات بی ایس پی نے گزشتہ برس منگائی کا حساب لگانے کا طریقہ کار تبدیل کردیا تھا جس کے بعد 12 ماہ کے دوران یہ ملک میں مہنگائی کی کم ترین شرح ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی اور اشیائے ضروریات کی بہتر فراہمی مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح کو کم کر کے واحد ہندسے تک لانے کا سبب بنیںیہ بھی پڑھیں حکومت نے پیٹرول کی قیمت مزید روپے کم کردی تاہم اشیائے خور نوش سے متعلق مہنگائی اب بھی دہرے ہندسوں میں موجود ہے اور مجموعی طور پر قیمتوں میں کمی کے باجود اس میں مئی کے مہینے کے دوران اضافہ ہواشہری علاقوں میں اشیائے خورو نوش کی مہنگائی میں سالانہ بنیاد پر 106 فیصد جبکہ ماہانہ بنیاد پر 15 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دیہی علاقوں میں یہ اضافہ بالترتیب 137 فیصد اور 14 فیصد ریکارڈ کیا گیاشہری علاقوں میں جن اشیا کی قیمت میں اضافہ ہوا ان میں چکن کی قیمت میں 4146 فیصد الو کی قیمت میں 3119 فیصد پھلوں کی قیمت میں 972 فیصد دودھ کی قیمت میں 463 فیصد مرچ مصالحے کی قیمت میں 371 فیصد اور مکھن کی قیمت میں 258 فیصد اضافہ ہوامزید پڑھیں اپریل میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 85 فیصد ہوگئیشہری علاقوں میں جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ان میں پیاز کی قیمت میں 2335 فیصد سبزیوں کی قیمت میں 1962 فیصد انڈوں کی قیمت میں 1874 فیصد ٹماٹروں کی قیمت میں 774 فیصد دال چنا کی قیمت میں 725 فیصد دال مسور کی قیمت میں 443 فیصد بیسن کی قیمت میں 438 فیصد اور گندم کی قیمت میں 317 فیصد کمی ہوئیعلاوہ ازیں دیہی علاقوں میں جن اشیا کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ان میں الو کی قیمت میں 4155 فیصد چکن 4152 فیصد پھل 1146 فیصد مرچ مصالحے 860 فیصد دال مونگ 436 فیصد دودھ 423 فیصد گڑ 275 فیصد اور دال ماش 213 فیصد مہنگی ہوئیدوسری جانب دیہی علاقوں میں جن اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ان میں ٹماٹروں کی قیمت 2182 فیصد پیاز 2177 فیصد سبزیوں کی قیمت 2108 فیصد انڈوں کی قیمت 1382 فیصد گندم 757 فیصد دال چنا 241 فیصد اور بیسن کی قیمت 212 فیصد کم ہوئییہ بھی پڑھیں نجی شعبے کے قرضوں میں 47 فیصد کمی اسی طرح شہری علاقوں میں خوراک کے سوا دیگر اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیاد پر 54 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماہانہ بنیاد پر اس میں 04 فیصد کی کمی ہوئی دیہاتوں میں یہ شرح 64 فیصد اور 05 فیصد رہی
لاہور حکومت پنجاب نے کوونا وائرس کے خلاف جنگ میں پولیس اہلکاروں کی بطور فرنٹ لائن خدمات کے اعتراف کے بجائے پنجاب پولیس کے بجٹ میں ارب روپے کی کمی کردیسرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے ایندھن کے لیے مختص فنڈز میں سے 40 کروڑ روپے تفتیشی لاگت سے کروڑ 70 لاکھ روپے اسٹیشنری سے کروڑ 10 لاکھ روپے بجلی کے بلز کے لیے مختص 12 کروڑ روپے اور جاں بحق پولیس اہلکارو کے خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنے سے متعلق گرانٹ میں 25 کروڑ روپے کی کمی کردی انہوں نے کہا کہ یہ چونکانے والی پیشرفت ایسے وقت میں سامنے ئی ہے جب پنجاب میں پولیس اہلکار کورونا وائرس سے جاں بحق اور دیگر 650متاثر ہوچکے ہیں حال ہی میں لاہور میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے بھائی نے کہا کہ اگر کٹوتی کا مقصد اس رقم کو انسداد کورونا اقدامات سے متعلق حکومتی فنڈ میں منتقل کرنا ہے تو پولیس سے زیادہ کوئی اور فنڈنگ کا مستحق نہیں کیونکہ پنجاب کے حکومتی محکموں میں اب تک کورونا کے سب سے زیادہ کیسز پولیس میں سامنے ئے ہیںمزید پڑھیں پنجاب کے مختلف اضلاع میں کورونا وائرس سے 33 پولیس اہلکار متاثرانہوں نے کہا کہ عوام سے رابطے کے باعث ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس کے ساتھ ساتھ کم رینک والے پولیس اہلکار کے وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن پولیس اہلکاروں کے ٹیسٹ کیے گئے ان میں سے 10 فیصد کورونا میں مبتلا ہیں اور بجٹ میں یہ کٹوتی پولیس کو وبا کے خلاف جنگ میں مفلوج کردے گی مذکورہ معاملے سے گاہ سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ یہ کٹوتی غیر منصفانہ ہے کیونکہ پنجاب پولیس کو پہلے ہی کوسٹ انویسٹی گیشن کی مد میں 25 کروڑ میں سے 18 کروڑ روپے ملے جبکہ اس حوالے سے مطلوبہ رقم ارب 30 کروڑ روپے ہے انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ پنجاب پولیس کا پریشنل بجٹ کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث پولیس کے لیے اپنے یومیہ پریشن چلانا مشکل ہورہا ہے عہدیدار نے کہا کہ مجموعی صوبائی بجٹ میں پولیس کا حصہ 122011 میں فیصد سے کم ہوکر 202019 میں فیصد ہوگیا ہے انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں تنخواہ کا عنصر بڑھ رہا ہے جبکہ پریشنل حصہ کم ہورہا ہے اور بجٹ کا صرف 15 فیصد حصہ پریشنز کے لیے مختص ہےمالی سال 202019 کے غاز پر پنجاب پولیس کے لیے 117 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا جس میں سے 100 ارب تنخواہوں کے لیے مختص کیا گیا جبکہ 17 ارب روپے پریشنل اخراجات کی مد میں جاری کیے جانے تھے عہدیدار نے کہا کہ پریشنل اخراجات میں ارب روپے کی کمی کرتے ہوئے 14 ارب روپے جاری کیے گئے تھے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ موجودہ 114 ارب روپے میں سے 100 ارب تنخواہوں ساڑھے ارب ایندھن جبکہ ایک ارب روپے بجلی کے بلز کے لیے رکھے گئے ہیںان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ارب روپے پولیس کے دیگر یونٹس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے رکھے جائیں گے جن میں اسپیشل برانچ ایلیٹ فورس انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ ٹریفک اسپیشل پروٹیکشن یونٹ تربیت کے لیے شامل ہیں پولیس عہدیدار نے کہا کہ دیگر رقم پنجاب پولیس کے دیگر سربراہان کے لیے استعمال ہوگیانہوں نے کہا کہ اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ سروس کے دوران جاں بحق ہونے والے افسران کے خاندانوں کے لیے مختص فنڈز میں بھی کمی کی گئی ہے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے ملازمین کانسٹیبلز سے لے کر انسپکٹر جنرل تک کی تنخواہیں 2009 سے منجمد ہیں جس کے نتیجے میں پولیس افسران کے بجائے ان کے برابر رینک کے دیگر محکموں کے افسران زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں پولیس افسر نے کہا کہ 2019میں موجودہ حکومت نے پولیس الانسز ڈی فریز کرنے پر اتفاق کیا تھا اور 2008 سے فکسڈ ڈیلی الانس ایف ڈی اے کو 2013 کی قدر کے برابر کردیا تھاعہدیدار نے کہا کہ اگست 2019 میں محکمہ خزانہ نے بڑھائی گئی رقم کا 80 فیصد جاری کیا اور جنوری 2020 میں دیگر 20 فیصد جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وزیراعلی پنجاب کی منظوری کے باوجود پہلے سے منظور شدہ 20 فیصد ایف ڈی اے بیووکریسی کی تاخیر کا شکار ہوگیا یہ بھی پڑھیںکراچی میں 15 پولیس اہلکار کورونا کا شکار ڈی ائی جی کا محافظ بھی شاملانہوں نے پولیس میں تفریق کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جب وزرائے قانون اور خزانہ پر مشتمل کمیٹی نے 2019 میں پولیس الانس ڈی فریز کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا تو ضلعی انتظامیہ کے افسران میں اضافے پر غور نہیں کیا گیا تھا تاہم جب کابینہ کے سامنے تجاویز پیش کی گئی تو بی ایس17 اور پی اے ایس پی ایم ایس سے زائد افسران کے لیے ایگزیکٹو الانس تنخواہ کا 15 فیصد ایکسایجنڈا ئٹم کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور حیران کن طور پر منظور بھی ہوا تھا انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی تنخواہوں میں بڑا فرق پڑا تھا جس کے نتیجے میں پی اے ایس پی ایم ایس افسران اسی رینک کے پولیس افسران سے دگنی تنخواہ لے رہے ہیں عہدیدار نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعلی نے پولیس افسران کے ایگزیکٹو الانس میں توسیع کی بھی منظوری دی تھی لیکن بیوروکریسی نے اس میں تاخیر کے لیے ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی تجویز دی اس تفریق کی وجہ سے صرف پولیس فورس کی حوصلہ شکنی ہوگی یہ خبر یکم جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں مزید روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کردیاخزانہ ڈویژن سے جاری بیان کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں روپے پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 74 روپے 52 پیسے فی لیٹر ہوگی ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں پیسے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 80 روپے 15 پیسے فی لیٹر ہوگیمزید پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے تک کمی پیٹرول 15 روپے سستابیان میں کہا گیا کہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے کی کمی کی گئی ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 35 روپے 56 پیسے ہوگیاسی طرح لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت میں روپے 37 پیسے فی لیٹر کمی کے بعد نئی قیمت 38 روپے 14 پیسے فی لیٹر ہوگی اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب ہمارے ہاں ایندھن کم ترین نرخوں پردستیاب ہے انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت میں یہ ہم سےدگنا مہنگا ہےجبکہ بنگلہ دیش سری لنکا اورنیپال وغیرہ میں اس کےنرخ ہم سے 50 سے 75فیصد تک زیادہ ہیں خیال رہے کہ 29 مئی کو ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے یکم جون سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھی سمری کے مطابق اوگرا نے پیٹرول کی قیمت میں روپے پیسے کمی کی تجویز دیتے ہوئے اس کی قیمت81 روپے 58 پیسے سے کم کرکے 74 روپے 52 پیسے کرنے کی سفارش کی تھیاوگرا نے مٹی کے تیل کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت میں روپے 37 پیسے کمی کی سفارش بھی کی تھی یہ بھی پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکاناس سے قبل حکومت نے مئی کے مہینے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے تک کمی کا اعلان کیا تھاخزانہ ڈویژن سے جاری بیان میں پیٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 27 روپے 15 پیسے مٹی کے تیل کی قیمت میں 30 روپے ایک پیسہ اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھاواضح رہے کہ کورونا وائرس کے باعث عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باعث ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیموں میں 44 روپے تک کمی کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھیاتھارٹی کی جانب سے ہائی اسپیڈ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمتوں میں بالترتیب 33 روپے 94 پیسے اور 24 روپے 57 پیسے کمی کی تجویز دی گئی تھیتاہم حکومت نے ایک بار پھر عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کا پورا ریلیف عوام کو منتقل نہیں کیا تھاقبل ازیں 24 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں انے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر 15 روپے کمی کا اعلان بھی کیا تھااس سے قبل وفاقی حکومت نے 29 فروری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں روپے تک کمی کی تھی
اسلام باد ملک میں مئی کے مہینے میں ریونیو کی وصولی تیزی سے 308 فیصد کمی کے بعد 227 ارب روپے ہوگئی مئی مکمل لاک ڈان کا دوسرا مہینہ تھا اور اعداد شمار سے اس دوران معاشی سرگرمی میں تیزی سے کمی نظر تی ہے اپریل کے مہینے میں گزشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں ریونیو کی وصولی میں 16 فیصد سے زائد کمی ئی تھی فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی کے تخمینے کے مطابق سالانہ محصولات کی وصولی میں 850 ارب روپے کا نقصان ہوگا ایف بی کی جانب سے رات گئے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق ریونیو کی وصولی نظرثانی شدہ ہدف سے تقریبا 17 ارب روپے یا 734 فیصد کم ہےمزید پڑھیں کورونا وائرس محصولات کی وصولی میں 300 ارب روپے نقصان کا تخمینہبین الاقوامی مالیاتی ادارےئی ایم ایف نے حال ہی میں تیسری مرتبہ ریونیو وصولی کے ہدف میں کمی کرتے ہوئے اسے 48 کھرب روپے سے کم کرکے 39 کھرب 80 ارب روپے کردیا ہے یہ سو92 ارب کی کمی لاک ڈانز کے باعث معیشت میں سست روی کے رجحان کی وجہ سے کی گئیاب نئے ہدف کے حصول کے لیے جون میں 39 کھرب 80 ارب روپے کے نظرثانی شدہ ہدف تک پہنچنے کے لیے ایف بی کو سو 91 ارب روپے وصول کرنے ہوں گےریونیو کی وصولی میں کمی غیرمعمولی ہے یہاں تک بدترین وقت میں ریونیو وصولی میں کم از کم مہنگائی کی شرح جتنا اضافہ ہوجاتا ہےمارچ کے مہینے تک ہر ماہ ریونیو کی وصولی میں 16 فیصد کے قریب اضافہ دیکھا گیا تھا اور مئی میں 308 فیصد کمی سکڑتی ہوئی معیشت کو ظاہر کرتی ہےجولائی سے مئی کے درمیان ریونیو کی مجموعی وصولی اس سے ایک برس قبل کے 32کھرب 66 ارب روپے کے مقابلے میں 35 کھرب 18 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی جس میں 77 فیصد اضافہ ہوا تھاٹیکس کے لحاظ سے وصولی دیکھی جائے ان 11 ماہ میں کسٹمز کی وصولی 96 فیصد کمی کے ساتھ گزشتہ برس کے 608ارب 84 کروڑ 70 لاکھ روپے کے مقابلے میں 550 ارب 26 کروڑ 80 لاکھ تک کم ہوگئی تھی یہ بھی پڑھیں کورونا وائرس اسٹیٹ بینک نے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن چارجز ختم کردیےانکم ٹیکس کی وصولی گزشتہ برس کے اسی عرصے کے 11 کھرب 64 ارب روپے سے بڑھ کر 13 کھرب ارب روپے ہوگئی جس میں119 فیصد اضافہ ہوا ہے علاوہ ازیں اسی عرصے کے دوران درمد سطح پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی وصولی میں83 فیصد کمی ئی اس کے ساتھ ہی زیر جائزہ مہینوں میں سیلز ٹیکس کی وصولی 117 فیصد اضافے کے ساتھ گزشتہ برس کے 12 کھرب 28 ارب روپے سے بڑھ کر 14 کھرب 39 ارب روپے ہوگئیگزشتہ برس کے 204 ارب 42 کروڑ 60 لاکھ روپے کے مقابلے میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 103 فیصد اضافے کے ساتھ 225 ارب 54 کروڑ 50 لاکھ روپے ہوگئییہ خبر 31 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام باد پیٹرولیم ڈویژن نے باضابطہ طور پر تیل کی قیمتوں میں مجوزہ کمی کو 15 جون تک روکنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صنعت موجودہ نرخ پر فروخت کے ذریعے اپنے کچھ نقصانات کو پورا کرسکےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تجویز اقتصادی رابطہ کمیٹیای سی سی کے ہفتہ کو ہونے والے خصوصی اجلاس کے لیے تیار کی جانے والی سمری میں دی گئیذرائع نے کہا کہ وزارت توانائی نے ای سی سی کو تنبیہ کی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے سپلائی بری طرح متاثر ہوگی جسے معمول پر نے میں کئی ہفتے اور مہینے لگ سکتے ہیں کیونکہ اکثر ئل مارکیٹنگ کمپنیز او ایم سیز کے اسٹاکس غیرمعمولی طور پر کم ہوگئے ہیںمزید پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 11روپے 88 پیسے تک کی کمی کی سفارشوزارت کی جانب سے سمری میں یہ شامل نہیں کیا گیا کہ ان کی لائسنس یافتہ او ایم سیز اور ریفائنریز کے لیے 21 دن کا اسٹاک رکھنا لازمی ہے دوسری جانب حکومت ئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ریفائنزیز کو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی سے ہونے والے خسارے سے بچانے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ماہانہ سے 15 روزہ کرنے کی تجویز پر غور کررہی ہےای سی سی کو ارسال کی گئی اور ڈان کی جانب سے دیکھی گئی سمری میں دعوی کیا گیا ہے کہ 31 اگست 2016 کو وفاقی کابینہ کے فیصلے میں 15 روزہ پرائس ایڈجسٹمنٹ کی گنجائش دی گئی تھی لیکن اس پر عملدرمد نہیں ہوسکا تھا اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پیٹرولیم ڈویژن نے 15 دن کی قیمتوں کا تعین کرنے کی تجویز کی ہے لیکن ابتدائی 15 روزہ یعنی 16 جون تک قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کی سفارش بھی کی ہے یہ بھی پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے تک کمی پیٹرول 15 روپے سستاپیٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ اسی طرح یکم جون کے بجائے نئی قیمتوں کا اعلان 16 جون کو کیا جاسکتا ہے یہ اقدام او ایم سیز کو پاکستان اسٹیٹ ئل پی ایس او کے موجودہ نرخ پر مصنوعات کی درمد اور انوینٹری خسارے سے بچا کے لیے مراعات کے طور پر کام کرے گا اس میں تجویز دی گئی ہے کہ سابق ریفائنری کی قیمتیں اوسط 15 روز یا منتھلی پلیٹس پرائس پلس پریمیئم پی ایس او کے ٹینڈر پر مبنی قیمتوں کے تحت ہونی چاہئیں جس میں موجودہ طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ایس او کے اخراجات سمندری خسارے اور ٹیکسز بھی شامل ہوں گے یہ طریقہ کار دونوں ریفائنریز کے ساتھ ساتھ او ایم سی کی قیمتوں کا تعین کرنے کی بنیاد ہوگا واضح رہے کہ جون کے بعد سے پیٹرولیم مصنوعات کی ممکنہ قلت سے بچنے کے لیے پیٹرولیم ڈویژن قیمتوں کے بنیادی مسئلے کو حل کرتے ہوئے پرائس رسک 30 روز سے کم کرکے 15 روز کرنا اور پرائسنگ انڈیکس کو بہتر کرنا چاہتی ہےپیٹرولیم ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت قیمتوں کے تعین کے موجودہ طریقہ کار کو تبدیل نہیں کرتی تو امکان ہے کہ نہ صرف ریفائنریز اپنی پیداوار میں کمی کردیں گی بلکہ او ایم سیز کی درمدات بھی طلب کو پوری کرنے میں ناکافی ہوں گی جس سے بڑے پیمانے پر مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے
ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے یکم جون سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کردی سمری کے مطابق اوگرا نے پیٹرول کی قیمت میں روپے پیسے کمی کی تجویز دیتے ہوئے اس کی قیمت81 روپے 58 پیسے سے کم کرکے 74 روپے 52 پیسے کرنے کی سفارش کی ہے اوگرا نے مٹی کے تیل کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت میں روپے 37 پیسے کمی کی سفارش کی ہےساتھ ہی اوگرا نے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں پیسے کے اضافے کی تجویز بھی دی ہےمزید پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے تک کمی پیٹرول 15 روپے سستاخیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی منظوری کے بعد 31 مئی کو وزارت خزانہ کی جانب سے قیمتوں میں کمی سے متعلق اعلان کیا جائے گا اس سے قبل حکومت نے مئی کے مہینے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے تک کمی کا اعلان کیا تھاخزانہ ڈویژن سے جاری بیان میں پیٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 27 روپے 15 پیسے مٹی کے تیل کی قیمت میں 30 روپے ایک پیسہ اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا واضح رہے کہ کورونا وائرس کے باعث عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باعث ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیموں میں 44 روپے تک کمی کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھییہ بھی پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکاناتھارٹی کی جانب سے ہائی اسپیڈ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمتوں میں بالترتیب 33 روپے 94 پیسے اور 24 روپے 57 پیسے کمی کی تجویز دی گئی تھیتاہم حکومت نے ایک بار پھر عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کا پورا ریلیف عوام کو منتقل نہیں کیا تھاقبل ازیں 24 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں انے والے تعطل اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے عوام اور مختلف شعبوں کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر 15 روپے کمی کا اعلان بھی کیا تھاوفاقی حکومت نے 29 فروری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں روپے تک کمی کی تھی
بجٹ کے لیے جاری کردہ تازہ ترین اعداد شمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران نجی شعبے کی سرگرمیوں میں تیزی سے کمی ائی جبکہ حکومت کا پرائمری بیلنس بہتر ہواڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نجی شعبے کا اعتماد ظاہر کرنے والے تقریبا تمام اشاریے تیزی سے کمی ظاہر کرتے ہیں جبکہ نان ٹیکس ریونیو سے حکومت کی امدنی میں بہتری ائی جس سے اسے مالی خسارہ قابو میں رکھنے میں مدد ملیوزارت خزانہ نے رپورٹ کیا کہ مئی 2020 تک نجی شعبے کے لیے مجموعی کریڈٹ گزشتہ سال کے کھرب 63 ارب روپے کے مقابلے 47 فیصد کم یعنی کھرب 98 ارب روپے تھایہ بھی پڑھیں بڑی کاروباری شخصیات کا برطرفیوں سے بچنے کیلئے طویل رخصت کے نظام پر زوراسی طرح بڑے کاروباری اداروں کی جانب سے رکنگ کیپیٹل کے لیے کریڈٹ ٹیک اف گزشتہ برس کے کھرب 45 ارب 60 کروڑ روپے کے مقابلے 92 فیصد کم ہو کر 28 ارب روپے رہاوزارت خزانہ نے رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ منفی مقررہ سرمایہ کاری5 ارب 20 کروڑ روپے بھی رپورٹ کی جو گزشتہ برس 85 ارب 20 کروڑ روپے تھیدوسری جانب تجارت کی مالی اعانت گزشتہ برس کے ایک کھرب ارب روپے کے مقابلے میں 38 فیصد بہتر ہو کر ایک کھرب 64 ارب روپے تک جا پہنچامزید پڑھیں کورونا وائرس کے باعث فری لانسنگ میں نمایاں کمیعلاوہ ازیں اسٹیٹ بینک سے لیے گئے حکومتی قرضوں میں بھی واضح کمی ائی اور حکومت نے گزشتہ سال لیے گئے 49 کھرب 70 ارب روپے میں رواں سال کھرب 52 ارب روپے کا قرض ادا کیارپورٹ کے مطابق سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران نان ٹیکس ریونیو گزشتہ برس کے کھرب 22 ارب روپے کے مقابلے 159 فیصد اضافے کے ساتھ 10 کھرب ارب 60 کروڑ روپے رہا جبکہ فیڈرل بورڈ اف ریونیو ایف بی ار کا ریونیو بھی گزشتہ برس کے 10ماہ کے 29 کھرب 80 ارب روپے کے مقابلے 108 فیصد بڑھ کر 33 کھرب روپے تک پہنچ گیااسی طرح اخراجات میں 21 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ برس کے 36 کھرب 78 ارب روپے کے مقابلے میں 44 کھرب 55 ارب روپے رہے جبکہ صوبوں کو جاری کردہ اور پی ایس ڈی پی میں گزشتہ برس کے کھرب 31 ارب روپے کے مقابلے میں 26 فیصد بہتری ئی اور یہ کھرب 17 ارب روپے ہوگئےیہ بھی پڑھیں نجی شعبے کے قرضوں میں 47 فیصد کمیعلاوہ ازیں وزارت خزانہ نے دعوی کیا کہ مالیاتی خسارے کا کریڈٹ رواں برس مارچ کے اختتام تک مجموعی ملکی پیداوار کا 38 فیصد رہا جو کہ گزشتہ برس کی ابتدائی سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی کا فیصد تھا
فیس بک کے بعد اب امریکا کی مزید ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی بھارت میں ٹیلی کام صنعت میں اربوں ڈالرز کا سرمایہ کاری کرنے والی ہیںفنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گوگل کی جانب سے ووڈا فون ئیڈیا کے فیصد حصص خریدنے پر غور کیا جارہا ہے جو کہ بھارت کی دوسری بڑی ٹیلی کام کمپنی ہےاسی طرح ایک اور رپورٹ کے مطابق مائیکرو سافٹ ریلائنس جیو پلیٹ فارمز میں ارب ڈالرز سرمایہ کاری پر بات چیت کی جارہی ہےفنانشنل ٹائمز کے مطابق گوگل کی جانب سے ووڈا فون کے ساتھ جیو ریلائنس سے بھی مذاکرات ہورہے ہیںیہی وہ کمپنی ہے جس میں حال ہی میں فیس بک سمیت امریکا کی کئی کمپنیوں نے 103 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہےاس کمپنی کے بھارت میں 388 ملین سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں اور حالیہ ہفتوں میں اس میں بین الاقوامی کمپنیوں کی دلچسپپی میں اضافہ ہوا ہےتاہم جیو ریلائنس اور گوگل کی جانب سے اس رپورٹ پر بات کرنے سے گریز کیا گیا ہے جبکہ مائیکرو سافٹ نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیاجیو ریلائنس بھارت کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کی کمپنی ہے اور مذکورہ کمپنی میڈیا ٹیلی کمیونی کیشن ای کامرس موبائل مینیو فیکچرنگ سمیت متعدد انڈسٹریز کی مالک کمپنی ہےاسی کمپنی کے تحت ریلائنس انڈسٹریز ریلائنس فانڈیشن نیٹ ورک 18 میڈیا انویسٹمنٹ جیو فائبر ایل وائے ایف اسمارٹ فونز جیو فونجیو مارٹ جیو نیٹ وائی فائی جیو ایپس جیو پیمنٹ بینک اور جیو ساون سمیت کئی کمپنیاں کام کر رہی ہیںمکیش امبانی نے مذکورہ کمپنی کی 2016 میں شروعات کی تھی اور محض سال کے عرصے کے دوران جیو ریلائنس نے بھارت کے 40 کروڑ افراد کو لائن کردیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ 2022 تک بھارت کے 90 کروڑ افراد لائن ہوجائیں گےبھارت میں جہاں 40 کروڑ افراد جیو ریلائنس کے بدولت لائن ہوئے ہیں وہیں 20 سے کروڑ تک افراد دوسرے ذرائع سے بھی لائن ہیں اور وہاں ہر نے والے دن ٹیکنالوجی کمیونی کیشن کی بہتری کے باعث لائن ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہےگزشتہ ایک دہائی کے دوران فیس بک اور گوگل کی جانب سے بھارت پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور مختلف پروگرامز پر کام ششروع کیا ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لائن لانا ہےفیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ان کی کمپنی جیو پلیٹ فارمز کے ساتھ کام کرکے چھوٹے کاروباری افراد اور اداروں کو لائن لانے میں مدد فراہم کرے گی اور دونوں کمپنیوں نے اپنی شراکت داری سے کام بھی شروع کردیا ہے ووڈا فون ئیڈیا اور بھارتی کی تیسری بڑی کمپنی ائیر ٹیل کو اس وقت مالی مشکلات کا سامنا ہے اور ووڈا فون کی جانب سے رواں سال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے مدد نہ کی گئی تو کمپنی کو بند بھی کیا جاسکتا ہے
اسلام باد کورونا وائرس کے طویل عرصے تک جاری رہنے اور اس کے معاشی اثرات پر بڑے کاروباری اداروں نے برطرفیوں سے بچنے کے لیے مزدوروں کے لیے فرلو نظام کو عمل میں لاتے ہوئے حکومت سے نقد رقم میں حصہ داری کے لیے کوششیں شروع کردی ہیںڈان اخبار کی رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ معروف کاروباری شخصیت میاں منشا نے اپنے بزنس گروپ کے ایک وفد کی قیادت کی اور مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے ملاقات کیاس اجلاس کا مقصد وفاقی حکومت کو عالمی معاشی بدحالی کے نتیجے میں مزدوروں پر انحصار کرنے والے گارمنٹس جیسے شعبے کو درپیش چیلنجز کے بارے میں اگاہ کیاذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کاروباری برادری نے حکومت کو گاہ کیا کہ اگر کاروبار حکومت اور اسٹیٹ بینک پاکستان کے کورونا ریلیف اور دیگر پیکجز کے تحت مزدوروں کو 50 فیصد تنخواہ پر چھٹی پر بھیج دیتا ہے تو گارمنٹس انڈسٹری میں زیادہ تر مزدور غربت کا شکار ہوجائیں گےمزید پڑھیں انٹرنیٹ پر منافع بخش کاروبار کرنے کا یہی اچھا وقت ہےنیز یہ بھی کہا گیا کہ گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں بغیر کسی کام کے تنخواہ پر چھٹی سست معاشی بحالی سود کی ادائیگی اور یوٹیلیٹیز کی ادائیگی کی شکل میں بہت ساری لاگت ئے گی جس کی وجہ سے بہت سارے کاروبار مستقبل قریب میں حل طلب مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیںمیاں منشا نے تجویز دی کہ مزدور 80 فیصد تنخواہ کے ساتھ گزارا کرسکتا ہے جس کے لیے طویل رخصت کے نظام فرلو سسٹم لگایا جاسکتا ہے بشرطیکہ حکومت 30 فیصد اضافی مالی بوجھ کی ذمہ داری قبول کرےاس حوالے سے چند مثالیں بھی موجود ہیں جن میں تھائی لینڈ کا حوالہ دیا گیا جہاں مدد حکومت کی طرف سے مل رہی ہےسرکاری بیان میں کہا گیا کہ نشاط گروپ کے وفد نے مشیر خزانہ سے ملاقات کی جس میں کورونا سے متعلق معاشی بدحالی سے بڑے پیمانے پر مینوفیکچررز کو ہونے والے نقصانات سے گاہ کیا گیاوزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داد وزیر صنعت حماد اظہر مشیر ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ اور ایف بی کی چیئر پرسن نوشین جاوید امجد نے بھی اجلاس میں شرکت کی تھییہ بھی پڑھیں فیس بک پر اب چھوٹے کاروبار کیلئے لائن بزنس کرنا سانکاروباری برادری کے وفد نے بتایا کہ وبائی امراض کے باعث طلب برقرار نہیں رہ سکی جس کی وجہ سے اہم شراکت دار عنصر خاص طور پر گارمنٹس کا شعبہ بہت زیادہ مزدوروں کی لاگت ادا کر رہا ہےسرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ مستقل طور پر برطرفیوں یا فرلوس سے بچنے کے اقدامات سے کاروباری اداروں کی لیکوئڈٹی کی صورتحال پر دبا پڑ رہا ہے جنہیں ممکنہ حل طلب معاملات سے بچنے کے لیے ہستہ ہستہ معاشی بحالی کی توقع ہےبیان میں مزید کہا گیا کہ وفد کے سربراہ نے بڑے کاروباری اداروں کی لیکویڈیٹی پوزیشن کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کے بہتر کردار اور سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان لاگت کے اشتراک کے لیے منصوبہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چینی پر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی پر مقدمات بنیں گےاسلام باد میں پریس کانفرس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ائی کی حکومت یہ کمیشن بنا کر اس کی رپورٹ عام کرسکتی ہے تو مقدمے نہ بنائیںکمیشن کی رپورٹ کے تحت مقدمات قائم کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن جب فیصلہ ہوگا تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ پرانی حکومتوں کی سبسڈی مقدمات کے لیے چلی جائے اور اس حکومت کی سبسڈی نہیں جائےمزید پڑھیںاپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو گمراہ کن قرار دے دیاان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات تو بننے ہیں چاہے نیب یا ایف ئی اے کے پاس جائیں تاہم کس ادارے کے پاس جائیں گے ابھی فیصلہ نہیں ہواپنجاب حکومت کی سبسڈی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیشن میں وزیراعلی پنجاب اور وزیراعلی سندھ کو بلایاگیا لیکن مراد علی شاہ پیش نہیں ہوئے جبکہ عثمان بزدار پیش ہوئےان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی پنجاب نے کمیشن کے سوالات کے جواب دیے لیکن کمیشن نے ان کی پیداواری لاگت پر جائزے کی بات کو نہیں مانا کیونکہ انہوں نے پچھلے سال کی لاگت بتائی تھیمعاون خصوصی نے کہا کہ پیداواری لاگت پر ہم انہیں چھوڑ رہے ہیں اور ان سے سوال بنتا ہے اور سیکریٹری نے اپنی غلطی مان لی ہے لیکن مقدمات سب پر ہوں گےایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو نیب وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف ئی اے اور ایس ای سی پی کی سفارش پر وفاقی حکومت کسی کا بھی نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ای سی ایل میں ڈالے گیانہوں نے کہا کہ کمیشن نے پچھلے سال کی سبسڈیز کا ٹی او رز کے تحت جائزہ لیا اور تمام شواہد اکٹھے کیے اور پچھلے برسوں میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئیان کا کہنا تھا کہ اس 29 ارب کی سبسڈی میں سے 24 ارب روپے کی سبسڈی ہمارے دور حکومت میں پنجاب میں دی گئی وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی تاہم ایکسپورٹ سرپلس تھا اور برمد کرنے کی اجازت دییہ بھی پڑھیںوزیراعظم کی عوام کو گندم چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانیگزشتہ حکومت کی سبسڈی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کی حکومت نے 266 ارب روپے کی سبسڈی دی یہ کمیشن دونوں سبسڈیز کن حالات میں کن کو دی گئی اس کو بیان کیا ہےان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی ٹارزن بن کر کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے لیکن انہوں نے 20 ارب روپے کی سبسڈی دی تھیسابق وزیراعظم سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی امریکا سے تعلیم یافتہ ہیں اور خود کو انہوں نے لائق اعظم بھی قرار دیا ہوا ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ میں ان کے کارنامے درج ہیںشہزاد اکبر نے کہا کہ 2017 کی سبسڈی دی تو شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اور انہوں نے خود کہا ہے کہ ای سی سی کی بھی خود سربراہی کرتا تھا اور ان کے بارے میں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی ہےانہوں نے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ سلمان شہباز ہیں وہ شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرتے ہیں فواد حسن فواد نے اسی وقت وزارت صنعت ایک خط تحریر کیا تھا کہ فوری طور پر پیداواری قیمت نکالی جائے اور 17 گریڈ کے افسر پر دبا ڈال کر فرضی لاگت پر دستخط کرادیے گئے اور 20 ارب کی سبسڈی دی گئیپاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کے ساتھ صرف 20 ارب کا ہاتھ نہیں ہوا بلکہ 410 ارب کا دھوکا ہوا اور ایسے میں سندھ حکومت کیسے پیچھے رہ سکتی تھی کیونکہ مراد علی شاہ بھی ایک لائق اعظم ہیںشہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں دیے جبکہ میڈیا کے سامنے ٹارزن بن کر باتیں کررہے تھےخیال رہے کہ ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی پی پی پی نے شوگر فرانزک کمیشن ایس ایف سی رپورٹ پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے گمراہ کن اور اصل مجرمان کو محفوظ کرنے کی کوشش قرار دیا تھاپی پی پی اور مسلم لیگ کے رہنماں نے وزیراعظم عمران خان وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے نام رپورٹ میں شامل نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان لوگوں نے اس وقت چینی کی برامدات کی اجازت دی جب ملک میں اس کی قلت تھیمزید پڑھیںچینی کی برمد قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا رپورٹایس ایف سے چینی کی قلت اور ملک میں اس کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جس نے چینی بحران کے ذمہ دار شوگر ملز مالکان کے نام افشا کیے تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف پی ٹی ائی اور اس کے اتحادی سیاستدان اور ان کے عزیز شامل تھےمسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ یہ پوری رپورٹ انکھوں کا دھوکا اور اس اسکینڈل کے حقیقی مجرمان وزیراعظم عثمان بزدار اور ان کی کابینہ کو بچانے کی کوشش ہےان کا کہنا تھا کہ اسکینڈل یہ نہیں تھا کہ سبسڈی دینا کیسے ملکی بلکہ اصلی جرم تھا یہ مجرمانہ فیصلہ تھا کہ ملک میں چینی کی قلت کے دوران شوگر ایڈوائزری بورڈ کی تحریری تجویز کے خلاف چینی برامد کرنے کی منظوری دی گئیشاہد خاقان عباسی نے ایک بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان وزیراعلی عثمان بزار اور مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو فوری طور پر گرفتار کرنا چاہیے کیوں کہ انہوں نے ان تمام مبینہ فیصلوں کی منظوری دی جس سے چینی چوری کا راستہ نکلاسندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب نےردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ائی حکومت ملک میں انکوائری کمیشن اور ایگزیکٹو بورڈز کے ذریعے جھوٹ اور نااہلی کے جواز کا نیا رجحان قائم کررہی ہےچینی بحران رپورٹواضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھامعاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائےبعد ازاں اپریل کو وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 25 اپریل کو اعلی سطح کے کمیشن کی جانب سے اڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ انے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گیتاہم فرانزیک رپورٹ میں تاخیر ہوتی رہی اور بالاخر اسے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے عوام کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی تھیفرانزک رپورٹ کے بارے میں معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے گروہ کا ڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئےیہ بھی پڑھیں وزیراعلی پنجاب چینی انکوائری کمیشن میں پیش حکومت پنجاب کے کردار پر بیان ریکارڈمعاون خصوصی نے کہا کہ رپورٹ میں صاف نظر تا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہےانہوں نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک ڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 میں کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتاشہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے گنے کی خریداری کے لیے سی پی کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہےمعاون خصوصی نے مزید کہا کہ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہےشہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے ئی کہ عوام کو کس طرح لوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے انکوائری کمیشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا سے پہلے زاد ڈٹ نہیں کیا گیا تھاشہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل سالوں کے اعداد شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے شوگر ملز نے 182017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک ڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریبا 13 روپے کا فرق ہےشہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس گنے کی پھوک اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق گیا
عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث نہ صرف دنیا بھر میں باقاعدہ ملازمتیں متاثر ہوئی ہیں بلکہ فری لانس کام بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ اکثر پاکستانی فری لانسرز کا ماننا ہے کہ کووڈ19 کے باعث کام کی طلب میں نمایاں کمی ئی ہے64 فیصد پاکستانی فری لانسرز کی یہ رائے حالیہ سروے میں سامنے ئی جس میں کہا گیا کہ کاروبار اور کمپنیوں نے فری لانسنگ کی لاگت میں کمی کردی ہے اور نئے منصوبوں پر کام روک دیا ہےدنیا بھر کے 100 ممالک بشمول ابھرتی ہوئی مارکیٹوں جیسا کہ پاکستان کے فری لانسرز نے ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارم پایونیئر کو کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے متعلق رائے بیان کیپایونیئر کی رپورٹ فری لانسنگ ڈیورنگ کووڈ19 ایک ہزار سے زائد فری لانسرز کے سروے پر مبنی ہے جس میں دکھایا گیا کہ 64 فیصد پاکستانی فری لانسرز جن میں سے 33 فیصد گرافک ڈیزائنرز ہیں نے کہا کہ ان کی خدمات کی طلب میں کافی زیادہ کمی ئی ہے مزید پڑھیں کورونا وبا کے نتیجے میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں ریکارڈ کمیرپورٹ میں کہا گیا کہ 15 فیصد فری لانسرز کاروباروں کے لیے حالات معمول پر ہیں جبکہ 18 فیصد کے مطابق ان کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہوا ہے ٹیم کے حجم میں کمی سے متعلق 24 فیصد پاکستانی فری لانسرز نے کہا کہ وہ اسی ٹیم کو برقرار رکھیں گے یا اس میں اضافہ کریں گے جبکہ فیصد نے کہا کہ وہ اراکین میں کمی کریں گے مستقبل مسابقتی ہےمختصر عرصے میں فری لانسرز کی طلب کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن اکثر کا ماننا ہے کہ یہ صرف اس وقت تک کا معاملہ ہے جب تک کاروبار بحال نہیں ہوتے اور ٹیلنٹ حاصل کرنے کے لیے سورسنگ کرتے ہیںپاکستان میں 82 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد طلب میں اضافہ ہوگا انہوں نے کہا کہ مستقبل میں مقابلہ زیادہ ہوگا کیونکہ زیادہ لوگ فری لانسنگ کی جانب جارہے ہیں 64 فیصد کا کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران ان کی مدن تبدیل نہیں ہوئی یا اس میں اضافہ ہوا جس سے وہ پر اعتماد ہیں کہ اس صورتحال میں بھی ان کا معاوضہ منصفانہ ہے دوسری جانب 35 فیصد فری لانسرز کا کہنا ہے کہ ان کا معاوضہ کم ہوا ہےاکثر فریقین کا کہنا ہے کہ کل وقتی ملازمتوں کے بجائے ذاتی روزگار مستحکم ہوجائے گاپایونیئر کے چیف ایگزیکٹو افسر اسکاٹ گیلٹ نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد فری لانسرز کا سروے کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ 53 فیصد کا ماننا ہے کہ عالمی وبا کے خاتمے کے بعد ان کی خدمات کی طلب میں اضافہ ہوگا جبکہ مارکیٹ میں نئے فری لانسرز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے پاکستان سے فری لانسر دی ایئر 2019 ایمن سروش نے کہا کہ اس وقت کاروبار لائن منتقل ہورہے ہیں اور فری لانسرز کے پاس ویبایپ ڈیولپمنٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ دونوں میں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں انہوں نے مزید کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ چند فری لانسرز نہ صرف جاب پورٹلز پر فعال ہیں بلکہ دیگر سوشل میڈیا چینلز پر بھی سرگرم ہیں سی ای او نے کہا کہ موجودہ صورتحال لائن منصوبوں اور مواقع کو یکساں پشن فراہم کرتا دکھائی دے رہا ہے جنہیں پہلے کبھی اہم نہیں سمجھا گیا تھاعالمی منظر نامہرپورٹ کے مطابق شمالی امریکا اور یورپ میں موجود بین الاقوامی کلائنٹس کے ساتھ کام کرنے والے فری لانسرز کی طلب میں سب سے زیادہ کمی کا رجحان دیکھا جبکہ ایشیا اور سٹریلیا جہاں وبا پہلے ئی وہاں بھی فری لانسرز کی طلب میں کمی دیکھی گئی فری لانسرز جو خود اپنی ٹیم رکھتے ہیں سروے کے 21 فیصد نے اپنے ملازمین اور ماتحت کنٹریکٹرز کو محفوط کرنے میں لچک دکھائی تھی یہ بھی پڑھیں گوگل کی مفت ویڈیو کانفرنسنگ سروس استعمال کرنا سیکھیںرپورٹ کے مطابق 76 فیصد نے کہا کہ انہوں نے ٹیم کی مدن تبدیل نہیں کی جبکہ 17 فیصد نے اس میں کمی کیمزید برں 74 فیصد نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کا حجم برقرار رکھیں گے یا اس میں اضافہ کریں گے جبکہ 25 فیصد نے کہا کہ وہ کمی کریں گے رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی سطح پر سست روی کے باوجود فری لانسنگ کے نرخ مستحکم رہے ای کامرس کی طلبمارچ 2020 میں پایونیئر نے کہا تھا کہ امریکا میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں ماہانہ بنیادوں پر 33 فیصد اضافہ ہوا جنہوں نے بین الاقوامی فری لانسرز کو ادائیگی کے لیے پلیٹ فارم پر رجسٹرڈ کیا پایونیئر کے سی ای او نے کہا کہ کمپنیوں کو ایسا کرنے کے لیے اس خلا کو پر کرنا ہوگا جس کی وہ توقع نہیں کررہے تھے وہ صنعتیں جن میں طلب میں اضافہ ہوا ان میں ویب اینڈ گرافک ڈیزائن کانٹینٹ رائٹنگ اور مارکیٹنگ شامل ہیںیہ خبر 27 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
کراچی اسٹیٹ بینک پاکستان ایس بی پی کے جاری کردہ اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں نجی شعبے کا قرضہ 47 فیصد کم ہوکر کھرب 98 ارب روپے رہ گیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اعداد شمار میں روایتی اور اسلامی بینکوں دونوں کے نجی شعبے کے قرض لینے میں واضح کمی دیکھی گئی تاہم روایتی بینکوں کی اسلامی بینکاری کی برانچز میں اس عرصے میں بہتری دکھائی دیروایتی بینکوں سے نجی شعبے کا قرضہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں کھرب 83 ارب 80 کروڑ روپے کے مقابلے میں کم ہوکر ایک کھرب 22 ارب 60 کروڑ روپے رہ گیامزید پڑھیں بلند شرح سود کو بھول جائیں نئے کاروبار کرنے والوں کیلئے دلکش افرز اسی طرح اسلامی بینکوں سے لیا گیا قرضہ بھی گزشتہ سال کے 79 ارب روپے کے مقابلہ میں 52 ارب روپے پر گیاتاہم روایتی بینکوں کی اسلامی بینکاری برانچز سے نجی شعبے کا قرضہ ایک کھرب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر ایک کھرب 22 ارب 70 کروڑ روپے ہوگیا بڑھتی ہوئی مہنگائی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 1325 فیصد تک اضافے کے بعد قرضوں میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئیتاہم مارچ میں کوروناوائرس کے پھیلا کے بعد سے شرح سود کو فیصد تک کم کرکے 525 بیسس پوائنٹس کردیا گیا تھااعلی شرح سود نے نجی شعبے کے مجموعی قرضوں کو کم کیا جس کی وجہ سے ملک میں اچانک معاشی سست روی پیدا ہوئییہ بھی پڑھیں ایک ماہ میں تیسری مرتبہ شرح سود میں کمی پالیسی ریٹ فیصد مقرر رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران نجی شعبے کا قرضہ 71 فیصد کمی کے بعد 88 ارب روپے رہ گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں کھرب 95 ارب روپے تھاتاجروں اور کاروباری افراد نے بار بار شرح سود میں بڑے پیمانے پر کمی کا مطالبہ کیا تھا تاہم اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کو روکنے کے لیے ان کے مطالبات کو نظرانداز کیا تھاتاہم جیسے ہی وبائی مرض نے دنیا کو متاثر کیا اور اشیا طلب کو کم کیا مہنگائی کی شرح میں بھی بہتری ئیاس کے بعد مرکزی بینک نے بڑے پیمانے پر سود کی شرح میں کمی کی تاہم اس اقدام سے قرضے میں اضافہ نہیں ہوا کیونکہ وائرس کی وجہ سے تقریبا تمام کاروبار بند ہوگئے ہیں
اسلام باد ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اے ئی ئی بی کووڈ 19 وبا سے پیدا ہونے والے منفی معاشی اور معاشرتی اثرات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کرے گاحکومت کے کووڈ 19 پروگرام کے لیے مذکورہ رقم ایشین ڈیولپمنٹ بینک اے ڈی بی کے تعاون سے فراہم کی جائے گیمزیدپڑھیں ایف بی نے تاجروں کیلئے خصوصی ٹیکس اسکیم کے غلط استعمال کا پتہ لگا لیامجوزہ پروگرام کے بارے میں اے ئی ئی بی کی ایک رپورٹ میں کہا کہ وبا نے پاکستان کی معاشی بحالی کے جاری پروگرام سمیت بہترین شرح نمو کو برقرار رکھنے کی صلاحیت پر نمایاں اثر ڈالا ہے اے ڈی بی نے اندازہ لگایا ہے کہ جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران برمدات اور ترسیلات زر میں ارب ڈالر کی کمی واقع ہوگیاے ڈی بی نے توقع ظاہر کی کہ کل مدنی میں تقریبا ارب ڈالر کی کمی واقع ہوگی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا سارے اثرات پہلے ہی باضابطہ اور غیر رسمی دونوں شعبوں میں ہی ملازمت کے نقصانات کا باعث بنے ہیںیہ بھی پڑھیں عالمی بینک نے کووڈ19 سے نمٹنے کیلئے 50 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دیاے ئی ئی بی کا کہنا تھا کہ پروگرام اے ڈی بی کے سیف گارڈ پالیسی بیان ایس پی ایس کی شق کے مطابق تیار کیا گیا جو پالیسی پر مبنی قرضوں پر لاگو ہوتا ہے حکومت صحت کے شعبے میں ترقیاتی اخراجات کے پروگرام کی منظوری کے لیے متحرک ہوگئی ہے اور 72 ارب ڈالر پر مشتمل شبعہ صحت کے تین حصوں پر کام ہوگا جس میں صحت سوشل سیفٹی نیٹ اور معاشی طورپر متحرک کرنے سے متعلق اقدامات شامل ہیںمزید برں حکومت نے ایک وبا سے متعلق جامع 19 حکمت عملی تیاری کی اور رسپانس پلان کی بھی منظوری دے دی جس میں گزشتہ ماہ ترجیحی سرگرمیوں کے لیے 59 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فنانسنگ بھی شامل ہےان اخراجات میں خواتین سمیت غریبوں اور کمزوروں کی حفاظت کے لیے مخصوص حکمت عملی شامل ہے صحت کے شعبے کی صلاحیت اور رسد کو بڑھانے پیداواری شعبوں اور چھوٹے کاروباروں کو معاشی بدحالی سے بچانے جیسے اقدامات شامل ہوں گے یہ بھی پڑھیں ای سی سی نے کپاس کی خریداری کیلئے امدادی قیمت کی تجویز مسترد کردیدو روز قبل عالمی بینک کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کو صحت تعلیم خواتین کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور کووڈ19 کے خلاف اقدامات کے تحت سماجی تحفظ میں تعاون کے لیے 50 کروڑ قرض کے اجرا کی منظوری دیعالمی بینک کی جانب سے یہ قرض فوری جاری کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام سے قبل دستیاب ہوگاعالمی بینک سے ملنے والا یہ قرض 5سال کی رعایتی مدت کے ساتھ 30 سال پر محیط ہوگا اور اس قرض کو عالمی بینک کا ذیلی ادارہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن فراہم کرے گاخیال رہے کہ سینڑل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی سی ڈی ڈبلیو پی نے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضوں کے حصول کے لیے دیگر منصوبوں کی بھی منظوری دی تھیسی ڈی ڈبلیو پی کے منظور کردہ پروگرامز میں سے عالمی بینک سے 28 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے لیے منصوبے تیار کیے جائیں گے جس میں 10 کروڑ ڈالر سولڈ ویسٹ ایمرجنسی ایفیشنسی پروگرام اور ہائیڈرومنٹ اینڈ ایکوسسٹم ریسٹوریشن سروسز کے منصوبے کے لیے 18 کروڑ 80 لاکھ ڈالر بھی شامل ہیںمزیدپڑھیں ای سی سی نے 100 ارب روپے کے زرعی پیکج کی منظوری دے دیواضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور بھی مزید کیسز اور اموات کے بعد ملک میں مصدقہ کیسز 56 ہزار 792 ہوگئے جبکہ اموات 1169 تک پہنچ گئیںسرکاری سطح پر فراہم کردہ اعداد شمار کے مطابق ابھی تک 1024 نئے کیسز اور 13 اموات رپورٹ ہوئیںخیال رہے کہ ملک میں عالمی وبا کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سامنے یا تھا جس کے بعد سے اس وبا کو اب تک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے
اسلام باد فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی ار کے انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ نے تاجروں کے لیے خصوصی رضاکارانہ ٹیکس تعمیل اسکیم کے غلط استعمال کا پتہ لگا لیا جس کی وجہ سے حکومتی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں اس وقت کی حکومت نے ٹی وائی 15 سے ٹی وائی 18 کے لیے ورکنگ سرمایہ پر ٹیکس کی ادائیگی کے لیے تاجروں کے لیے ایک خصوصی اسکیم متعارف کروائی تھی اس کے علاوہ نان فائلرز اور مخصوص فائلرز کو سہولت پہنچانے کے لیے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا گیا تھااسکیم کے مطابق تاجروں کو مدنی کے ظاہر نہیں کیے گئے ذرائع کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس ڈٹ اور تشخیص سے چھوٹ دی گئی تھی تاہم سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے تاجروں کے لیے کوئی استثنی نہیں تھا مزید پڑھیں ایف بی ار نے ان لائن ٹیکس پروفائل نظام متعارف کروادیاادھر انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ نے اس رضاکارانہ تعمیل اسکیم کے جائزے کے دوران اس کے غلط استعمال کو پایا مختلف تاجر اس میں ملوث تھے جنہوں نے خود کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہیں کروایا تھا اور اپنے سیلز ٹیکس واجبات نہیں نکالے تھےاس حوالے سے ایک سینئر ٹیکس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ اسکیم تاجروں کو سان طریقے سے ان کے انکم ٹیکم ریٹرن فائلنگ میں صرف سہولت دینے کے لیے تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد سیلز ٹیکس واجبات ادا کرنے کے پابند تھے انہوں نے بتایا کہ اس عمل کے دوران کراچی سے تعلق رکھنے والے ان تاجروں کی نشاندہی ہوئی جنہوں نے اسکیم سے فائدہ اٹھایا لیکن خود کو سیلز ٹیکس ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہیں کروایاعہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کے کیسز کو مزید تحقیقات کے لیے متعلقہ محکموں کو بھیج دیا ہےیہ بھی پڑھیں ایف بی ریونیو کے حصول میں ناکام شارٹ فال 111 ارب روپے تک پہنچ گیاڈائریکٹریٹ کی جانب سے کراچی میں لارج ٹیکس پیئر یونٹس کے چیف کمشنرز کورپوریٹ ریجنل ٹیکس فس سی ٹی او اور ریجنل ٹیکس فسز کو معاملے کی مزید تحقیقات کی تجویز بھی دی گئیمزید برں اس اسکیم کے غلط استعمال کرنے والے تاجروں کی شناخت کے لیے جائزے کو ملک کے دیگر حصوں تک بھی بڑھانا چاہیےخیال رہے کہ اسکیم کو ان تاجروں کے لیے متعارف کروایا گیا تھا جنہوں نے گزشتہ 10 برس میں 31 دسمبر 2015 تک اپنی مدنی کا کوئی ریٹرن فائل نہیں کیا تھا
عالمی بینک کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کو صحت تعلیم خواتین کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور کووڈ19 کے خلاف اقدامات کے تحت سماجی تحفظ میں تعاون کے لیے 50 کروڑ قرض کے اجرا کی منظوری دے دیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کی جانب سے یہ قرض فوری جاری کردیا جائے گا اور ممکنہ طور پر 30 جون کو رواں مالی سال کے اختتام سے قبل دستیاب ہوگاعالمی بینک سے ملنے والا یہ قرض 5سال کی رعایتی مدت کے ساتھ 30 سال پر محیط ہوگا اور اس قرض کو عالمی بینک کا ذیلی ادارہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن فراہم کرے گامزید پڑھیںسماجی زرعی شعبے کیلئے عالمی بینک سے 37 کروڑ ڈالر قرض کا معاہدہوزارت خزانہ کی درخواست پر پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر جہانزیب خان کی صدارت میں رواں ہفتے کے اوائل میں سینڑل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی سی ڈی ڈبلیو پی کےاجلاس میں منصوبے کی تجاویز کو منظور کرلیا گیا تھاعالمی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے ارب ڈالر درکار ہیں اس لیے فنانس ڈویژن نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مجموعی طور ایک ارب 80 کروڑ ڈالر قرض کے لیے مختلف تجاویز پیش کی تھیںاس حوالے سے عالمی بینک نے اپنے بیان میں کہا کہ سرچنگ ہیومن ڈیولپمنٹ انویسٹمنٹ ٹو فوسٹر ٹرانسفارمیشن ایس ایچ ئی ایف ٹی پروگرام سے پاکستان کو کووڈ19 سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے اور سماجی تحفظ کے لیے سرمایہ کاری میں مدد ملے گیبیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ لاکھوں بچوں کو محفوظ بنانے اور پولیو سمیت دیگر بیماریوں کےخطرات سے بچانے کے لیے صوبوں اور وفاقی حکام کے درمیان رابطہ کاری میں بہترین تعاون کا باعث ہوگاعالمی بینک کا کہنا تھا کہ یہ قرض سے شہریوں کے تحفظ کے ہدفی پروگرام کو بہتر کرنے میں معاون ہوگا اور اس سے وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر کووڈ19 سے متاثرہ افراد بھی مستفید ہوں گےپاکستان میں تعینات عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ایلانگو پیچامتھو کا کہنا تھا کہ کووڈ19 ایک عالمی وبا ہے اور اس سے پاکستان میں ئے روز شہری متاثر ہورہے ہیں جبکہ اس سے نہ صرف معاشی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں بلکہ عوامی خدمت بھی متاثر ہوئی ہےیہ بھی پڑھیںایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کیلئے 30 کروڑ ڈالر کے امدادی قرض کی منظوری دے دیان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام صحت کے پیچیدہ نظام اور سماجی تحفظ پر توجہ دے گا کیونکہ پاکستان کو اس وقت شدید اثرات کا سامنا ہےپروگرام کی ٹاسک ٹیم کی سربراہ کرسٹینا پیناسکو سینٹوز کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کووڈ19 کے سماجی اور اقتصادی اثرات سے نمٹنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ سماجی تحفظ کے لیے مستحقین تک فوری اور مثر انداز میں رسائی ہوساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام احساس اور صوبائی پروگرام کے درمیان تعاون کی کوششوں کو یقینی بنانے کے لیے معاون ہے جس سے متاثرہ افراد کی نشان دہی ہوگی اور انہیں تعاون فراہم کیاجائے گاخیال رہے کہ سینڑل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی سی ڈی ڈبلیو پی نے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کے بیرونی قرضوں کے حصول کے لیے دیگر منصوبوں کی بھی منظوری دی تھیسی ڈی ڈبلیو پی کے منظور کردہ پروگراموں میں سے عالمی بینک سے 28 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے لیے منصوبے تیار کیے جائیں گے جس میں 10 کروڑ ڈالر سولڈ ویسٹ ایمرجنسی ایفیشنسی پروگرام اور ہائیڈرومنٹ اینڈ ایکوسسٹم ریسٹوریشن سروسز کے منصوبے کے لیے 18 کروڑ 80 لاکھ ڈالر بھی شامل ہیںمزید برں بچوں اور شہریوں کی غذائیت کو بہتر کرنے کے لیے ایک مرکز بنانے کی خاطر90 لاکھ ڈالر کا کوریا سے تعاون حاصل کیا جائے گادیگر تجاویز میں کروڑ 50 لاکھ ڈالر پینشن اصلاحات 30 کروڑ ڈالر مالی اداروں کی بہتری اور 50 لاکھ ڈالر معیشت کی پائیداری کے منصوبے شامل ہیںعالمی بینک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 1950 میں رکن بننے کے بعد سے اب تک 40 ارب ڈالر فراہم کیے جاچکے ہیں جبکہ پاکستان میں عالمی بینک کے منصوبوں کی نگرانی کنٹری پارٹنرشپ اسٹریٹجی کرتا ہے جس میں خاص کر توانائی نجی شعبہ معاشی مواقع پیدا کرنے اور خدمات کی فراہمی کے چار شعبے شامل ہیں
اسلام اباد کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے کپاس کی خریداری کے لیے امدادی قیمت کی تجویز مسترد کرتے ہوئے مقامی سطح پر موبائل فون کی تیاری اور مینوفیکچرنگ کے لیے مراعات پالیسی منظور کرلیباخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر تحفظ خوراک سید فخر امام کی جانب سے ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کے ذریعے کپاس کی خریداری کی کم از کم امدادی قیمت کی تجویز ای سی سی کے سامنے پیش کی گئیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اصل میں فخر امام نے ہزار 224 روپے فی من امدادی قیمت کی تجویز دی تھی جسے کم کر کے ہزار روپے فی من کردیا گیا تھا لیکن اسے رقم کے بجائے امدادی قیمت کے میرٹ پر مسترد کردیا گیاواضح رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت کا کیس پیش کرنے کے لیے خصوصی مہمان کی حیثیت سے اجلاس میں پیش ہوئے تا کہ رقم کا بہا بہتر بنایا جاسکے اور مزید فصل اگانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہوسکےیہ بھی پڑھیں ای سی سی نے 100 ارب روپے کے زرعی پیکج کی منظوری دے دیاس موقع پر وزیر اقتصادی امور مخدم خسرو بختیار نے بھی کسانوں کے مقدمے کی حمایت کی تاہم وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داد نے اس اقدام کی مخالفت کیان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ٹیکسٹائل صنعت پہلے ہی خطے کے مسابقت داروں مثلا بھارت کے مقابلے نقصان میں ہے جس کی وجہ کم قیمت میں ان کی بہتر معیار کی کپاس کی دستیابی ہےچانچہ اگر حکومت نے مقامی ٹیکسٹائل ملز کو درامد اور معمولی منافع کمانے سے روکا تو اس کا مطلب ٹیکسٹائل کی برامدات کو نقصان پہنچانا ہوگااس دوران وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاح ڈاکٹر عشرت حسین وزیر صنعت پیداوار حماد اظہر معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر اور سیکریٹری خزانہ نے مخالف بیانیے کی حمایت کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ امدادی قیمت غیر پیداواری ثابت ہوگی اور اس سے پنڈورا بکس کھل جائے گااس موقع اجلاس کی صدارت کرنے والے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ جہاں یہ ضروری ہے کہ حکومت کپاس کے کاشکاروں کی مدد کرے وہیں امدادی قیمت کے بجائے مستحق کاشکاروں کو فائدہ پہنچانے کا کوئی اہدافی طریقہ کار ہونا چاہیےمزید پڑھیں ای سی سی نے مزدوروں یومیہ اجرت والوں کیلئے 75 ارب روپے مختص کردیےانہوں نے سید فخر امام کو ایسا پائیدار حل پیش کرنے کی تجویز دی جس سے کپاس کی پیداوار اور اس کا معیار بہتر ہو جس کے لیے حکومت ہر ممکن معاونت فراہم کرے گیساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کپاس تجارتی فصل ہے اس کا گنے یا گندم کی فصلوں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے جن کے لیے تحفظ خوراک کی بنیاد پر امدادی قیمت کا جواز ہوتا ہے صارفین کو اس بات کی ازادی ہونی چاہیے کہ انہیں جہاں مناسب لگے خام مال لیںعلاوہ ازیں اجلاس میں کہا گیا کہ چونکہ اس معاملے کی نوعیت وفاقی نہیں اس لیے وزارت کو صوبائی حکومتوں بالخصوص حکومت پنجاب کے ساتھ رابطہ کر کے کسانوں کو کپاس کی بہتر قیمت کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کرنا چاہیےموبائل فون مینو فیکچرنگدوسری جانب ای سی سی نے مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ اور تیاری کو فروغ دینے کے لیے موبائل ڈیوائس پالیسی کی منظور دی اور متعلقہ وزارت کو ہدایت کی کہ سرمایہ کاروں سے رابطے کر کے لاک ڈان کے خاتمے کے بعد ان سے اپنی صنعتیں پاکستان منتقل کرنے کا کہا جائےاطلاعات ہیں کہ یورپ اور چین کے کچھ فروخت کنندگان اپنی صنعت کو جی ٹیکنالوجی سے مطابقت رکھنے والی بنار ہے ہیں اور اس لیے اپنی موبائل فون فیکٹریز کو پاکستان منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھےکمیٹی کوبتایا گیا کہ پالیسی کے تحت موبائل فون ہینڈسیٹس کے پارٹس کسی مخصوص ماڈل کے بجائے پاکستان میں تیارہونے والے تمام موبائل فون ڈیوائسز میں استعمال کیے جاسکیں گےاس پالیسی کے نتیجہ میں معاون صنعتوں جیسے پیکجنگ اور پلاسٹنگ پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اعلی برانڈز کی متوقع مد کے نتیجے میں پاکستان کی مقامی صنعت کو بین الاقوامی ویلیو چین کا حصہ بننے کا موقع ملے گا جبکہ ریسرچ ڈیولپمنٹ مراکز اور سافٹ ویئر ایپلی کیشن کے لیے ایک سسٹم کا قیام بھی اس پالیسی کا حصہ ہے
اسلام باد کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے پاور پلانٹس کے قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع کے بارے میں سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں مذاکرات اور کورونا ریلیف پیکج سے توانائی کے شعبے میں سود کی ادائیگیوں کے لیے تقریبا 10 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دے دیوزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کی زیر صدارت ای سی سی اجلاس میں غیر ملکی تجارتی قرضوں کی ری شیڈولنگ کے خلاف بھی فیصلہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے جی20 ممبران کے ساتھ تقریبا 204 ارب ڈالر کی امداد سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرنے کی اجازت دے دی ہےای سی سی نے صلاحیتی چارجز کو کم کرنے کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز ائی پی پیز اور جنریشن کمپنیوں سے مذاکرات کے حوالے سے شرائط کی بھی منظوری دے دیمزید پڑھیں ای سی سی نے 100 ارب روپے کے زرعی پیکج کی منظوری دے دیذرائع کے مطابق عہدیداروں نے بجلی پیدا کرنے والوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں کے بارے میں ای سی سی کو گاہ کیا جو موجودہ 10 سال کی مدت سے بڑھا کر 20 سال تک کی جاسکتی ہے اور مصنوعی ری فنانسنگ ڈھانچے کے تحت بانڈز کے اجرا کے ذریعے مالیاتی خلا کو پر کیا جاسکتا ہےمیاں منشا کی سربراہی میں کاروباری برادری کے ایک گروپ نے ابتدائی طور پر یہ تجویز وزارت خزانہ کو پیش کی تھیاس اسکیم میں تقریبا 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت شامل ہوگی جو ایسے منصوبوں پر مشتمل ہے جس میں قرضوں کی خدمت کے سے سال کی مدت باقی ہےیہ اسکیم 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل بجلی منصوبوں پر لاگو ہوگیہر سال اصل قرض کی مدت ختم ہونے پر پائے جانے والے شارٹ فال کو پاور ڈویژن کی ایک شیل کمپنی پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کی جانب سے بانڈز سے مالی اعانت فراہم کی جائے گیذرائع نے بتایا کہ اس وقت تمام پاور پلانٹس فرنٹ لوڈ ہیں پہلے 10 سالوں میں سارا قرض دوبارہ ادا کیا جاسکتا ہے اگر 2530 سال منصوبے کی زندگی رہیقرض میں توسیع کی صورت میں قرض کی اصل مدت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن بینک 10 13 سال سے زائد عرصے کے لیے بانڈز کے ذریعے قرض پریمیم پر خریدیں گےموجودہ قرض دینے والے کو وہی ملے گا جس کا اس نے معاہدہ کیا تھا تاہم اس سے بجلی خریدنے والے کی ذمہ داری بڑھ جائے گیاسی طرح صارفین کے لیے طویل مدت میں دیکھا جائے تو قیمت زیادہ ہوگی تاہم ابتدائی برسوں میں انہیں تقریبا 65 پیسے فی یونٹ کم ملے گاای سی سی نے پاکستان انرجی سکوک کو چھ ماہ کی مدت کے لیے سود کی ادائیگی کے لیے خلا روکنے کے انتظام کے تحت پیکج سے 10 ارب روپے مختص کرنے کی اجازت بھی دییہ بھی پڑھیں ای سی سی نے مزدوروں یومیہ اجرت والوں کیلئے 75 ارب روپے مختص کردیےاس میں نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ میں ترامیم کی تجویز بھی پیش کی گئی جس کی سفارش کرنے والی کمیٹی کے سربراہ مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین تھےکابینہ کی منظوری کے تحت ای سی سی نے اقتصادی امور ڈویژن کو جی 20 گروپ کے قرض سے ریلیف کے لیے ایک یادداشت پر دستخط کرنے کی اجازت دیاس اقدام کے تحت پاکستان کو جی 20 کے قرض سے نجات کے اقدام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیرس کلب کے قرض دہندگان سمیت تمام سرکاری دو طرفہ قرض دہندگان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہےکمیٹی میں وزیر منصوبہ بندی وزیراعظم کے مشیر خزانہ مشیر تجارت مشیر غربت کا خاتمہ کورونا کے حوالے سے وزیر اعظم کے فوکل پرسن اور سیکریٹری فنانس شامل تھے
عالمی بینک کے صدر نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے کروڑ افراد انتہائی غربت کی سطح پر پہنچ جائیں گےاپنے بیان میں عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپاس نے کہا کہ چونکہ تمام ممالک اس وبا سے لڑ رہے ہیں اس لیے رواں سال عالمی اقتصادی ترقی کی شرح فیصد کم ہونے کا امکان ہےانہوں نے کہا کہ وائرس کی وجہ سے پہلے ہی لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور کاروبار بند ہورہے ہیں ڈیوڈ میلپاس نے کہا کہ دنیا بھر میں اس وقت لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہوچکا ہے اور صحت کے نظام پر شدید دبا ہےانہوں نے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ وبا کی وجہ سے کروڑ لوگ انتہائی غریب ہوجائیں گے جس کی وجہ سے غربت ختم کرنے کے لیے گزشتہ تین سالوں میں ہونے والی پیشرفت ختم ہوجائے گییہ بھی پڑھیں عالمی بینک کورونا وائرس سے متاثر پاکستان کیلئے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظورعالمی بینک کی تعریف کے مطابق یومیہ 190 ڈالر سے کم کمانے والا شخص انتہائی غریب کہلاتا ہےڈیوڈ میلپاس کا کہنا تھا کہ عالمی بینک نے غریب ممالک کو اس بحران میں مدد کے لیے 160 ارب ڈالر کی گرانٹس اور کم شرح سود پر قرضوں کی پیشکش کی ہے جبکہ دنیا کی 70 فیصد بادی والے 100 ممالک کو پہلے ہی ایمرجنسی فنانس کی منظوری دی جاچکی ہےتاہم انہوں نے کہا کہ چونکہ عالمی بینک ایک حد تک وسائل مہیا کر سکتا ہے اس لیے یہ ناکافی ہیں جبکہ غریب ممالک کو قرضے دینے کے حوالے سے تجارتی قرض دہندگان کے کردار کو دیکھ کر انہیں بھی مایوسی ہوئیواضح رہے کہ عالمی بینک غریب ممالک کو رواں سال کے خر تک قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہےاپریل کے اوائل میں ورلڈ بینک نے کورونا وائرس کے عدم پھیلا مراکز صحت کے نظام کو مضبوط بنانے اور ملک کو درپیش سماجی اقتصادی چیلنجز کے پیش نظر پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظور کیا تھامزید پڑھیں سماجی زرعی شعبے کیلئے عالمی بینک سے 37 کروڑ ڈالر قرض کا معاہدہ پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ایلنگو پٹچاموتو نے اس موقع پر کہا تھا کہ عالمی بینک پاکستان اور اس کے عوام کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کررہا ہےانہوں نے کہا کہ امدادی پیکج کو پاکستان وائرس سے متعلقہ تمام معاملات کی بہتر نگرانی کے لیے خرچ کرسکتا ہے اور یہ رقم غریبوں اور کمزور لوگوں کی مدد کے لیے بھی منتقل کی جاسکتی ہےکنٹری ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس زمائشی وقت میں مثر عمل درمد کو یقینی بنانے کے لیے ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ شراکت جاری رکھیں گے
وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز تاریخی مالی جدت کو سراہا ہے جس کے تحت حکومت نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پی ایس ایکس میں مسابقتی عمل کمپیٹیٹو بک بلڈنگ کے ذریعے سکوک کے اجرا سے 200 ارب روپے اکٹھے کیےٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے حکومت کو 18 ارب روپے کی بچت ہوئی جو عوام کی فلاح پر خرچ ہوسکیں گے ایک روز قبل شائع ہونے والے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے کیبور سے بھی کم شرح پر طویل المدتی قرض پاور اینرجی سکوک پی ای ایس میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کی وجہ سے حاصل کرلیا ہےمزید پڑھیں حکومت اور اسلامی بینکوں کا 200 ارب روپے کے سکوک بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ200 ارب کے سکوک کو ماہ کے دوران کیبور سے 010 فیصد کم میں طے کردہ ہدف سے 70فیصد سے زائد 339 ارب روپے تک جاری کیا گیا تھایہ پہلا موقع ہے جب حکومت کیبور سے کم شرح پر طویل المدتی قرض حاصل کرنے میں کامیاب رہیپیش رفت پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اس سے حکومت کی پالیسیوں پر مارکیٹ کے مضبوط اعتماد کی عکاسی ہوتی ہےوزیر اعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بھی اس ترقی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے پہلی بار کیبور سے بھی کم شرح پر بھاری رقم اکٹھا کرنے پر حکومت کی تعریف کی پی ایچ ایل جو ایک سرکاری ادارہ ہے نے 10 سالہ حکومتی ضمانت میں دیے گئے قرض کو سرمایہ کاروں کے لیے نیم سالانہ منافع کی ادائیگی کے ساتھ صرف 19996 ارب روپے کی منظوری دی تھییہ بھی پڑھیں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 200 ارب روپے کے سکوک بانڈز کی منظوری دے دیاسے بجلی کے شعبے کو درپیش لیکوئڈٹی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھااس طرح فنڈز اکٹھا کرکے حکومت نے قرض کی لاگت میں سے کیبور پلیس 08 فیصد کے کیبور پلس کے اخری اجرا کے مقابلے میں 088 فیصد تک بچایا تھاخیال رہے کہ کیبور ایک اوسط شرح ہے جس پر بینک دیگر بینکوں کو قرضہ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے صارفین سے سود حاصل کرسکیں
اسلام باد ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان کے نظام صحت کو مضبوط بنانے اور غریب مستحق افراد کی مدد کے لیے 30 کروڑ ڈالر کے امدادی قرض کی منظوری دے دیایشیائی ترقیاتی بینک کا یہ قرض ہسپتالوں کے لیے میڈیکل سپلائی اور محکمہ صحت کے عملے کے لیے حفاظتی سامان کی خریداری رضاکاروں کی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے گامزید پڑھیں قرض دہندگان نے پاکستان کا مالیاتی خطرہ کم کرنے میں مدد کی موڈیزاس کے علاوہ امدادی رقم دور دراز علاقوں میں ریسکیو سرگرمیاں انجام دینے کے لیے ایمرجنسی گاڑیوں کی خریداری اور جن علاقوں میں انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کی سہولیات میسر نہیں وہاں محروم طبقے میں کورونا وائرس کے حوالے سے گاہی بیدار کرنے کے لیے بھی استعمال کی جائے گیایشیائی ترقیاتی بینک کے نائب صدر شیژن چین نے کہا کہ کورونا وائرس کے پاکستان کے عوام کی صحت اور مالی حالات پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اس منصوبے کے ذریعے فنانسنگ کر کے ایشیائی ترقیاتی بینک کو پاکستان میں نظام صحت کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور مستحق خواتین اور اہلخانہ کو فوری مدد فراہم کی جا سکے گیانہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کے پڑوسی ممالک اور وسطی ایشیا کے علاقائی معاشی تعاون میں معلومات کے تبادلے میں مدد ملے گییہ بھی پڑھیں کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 88 کھرب ڈالر تک خسارے کا امکاناس قرض کی بدولت غریب افراد کو نقد رقم کی مدد فراہم کی جائے گی جہاں حکومت پاکستان کے احساس پروگرام کے ذریعے غریب گھرانے کی خواتین کو براہ راست فائدہ پہنچ سکے گاایشیائی ترقیتی بینک کے پراجیکٹ ایڈمنسٹریشن یونٹ ہیڈ ژینگ وو نے کہا کہ قرض کے اس پروگرام کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جس سے غریب نادار گھرانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اس رقم کی منتقلی کے اس غیر مشروط پروگرام سے غریب افراد کی کو بہتر غذا کی فراہمی اور خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد مل سکے گیاس کے علاوہ پاکستان کو فراہم کیے جانے والے قرض میں 50 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم ناروے کی حکومت نے دی ہے جو ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے ادا کی جائے گییاد رہے کہ گزشتہ ماہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ پراجیکٹ میں سے کروڑ ڈالر کی رقم کورونا وائرس کے سلسلے میں امداد کے طور پر دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس کے علاوہ اضافی کروڑ ڈالر کی رقم کی ادائیگی کا وعدہ بھی کیا گیا تھامزید پڑھیں ایشیائی ترقیاتی بینک کا ترقی پذیر ممالک کیلئے 20 ارب ڈالر کے پیکج کا اعلاناس کے ساتھ ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں طبی سامان اور حفاظتی لات کی خریداری کے لیے بھی 25 لاکھ ڈالر کی امداد کی منظوری دی تھی13 اپریل کو ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنے ترقی پذیر رکن ممالک کے لیے 20 ارب کے بنیادی پیکج کو تین گنا بڑھانے کی منظوری دی تھی تاکہ کورونا وائرس پر قابو پانے میں ان ممالک کی مدد کی جا سکے
اسلام اباد پاکستان اور عالمی بینک نے زرعی اور سماجی شعبے کے منصوبوں کی مدد کے لیے 37 کروڑ 10 لاکھ ڈالر قرض کے معاہدوں پر دستخط کردیےمعاہدے پر وزارت اقتصادی امور کے سیکریٹری نور احمد نے وفاقی حکومت کی جانب سے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نمائندوں نے اپنی صوبائی حکومت کی جانب سے دستخط کیےاس موقع پر عالمی بینک کی جانب سے کنٹری ڈائریکٹر پیچاموتھوالینگوین نے دستخط کیےاس رقم میں پنجاب میں ابتدائی سرمایہ کاری کے منصوبے کے ذریعے انسانی سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے 20 کروڑ ڈالر شامل ہیںیہ بھی پڑھیں عالمی بینک کی 50 کروڑ ڈالر کی امداد سے سماجی شعبے کو فروغ ملنے کا امکانمنصوبے کا مقصد صحت کی معیاری سہولیات کے استعمال میں اضافہ اور صوبے کے منتخب اضلاع میں غریب ناتواں گھرانوں میں اقتصادی معاشرتی شمولیت ہےمنصوبے کی مکمل منظور شدہ لاگت 30 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہے جس میں عالمی بینک کے 20 کروڑ ڈالر شامل ہیںاس منصوبے کا ہدف صحت کی بنیادی سہولیات کا معیار بہتر بنانا مشروط نقد رقم کی منتقلی کا نظام متعارف کروانا اور نوجوان والدین کی اقتصادی شمولیت کی مدد کرنا ہےمذکورہ منصوبے کا تصور ابتدائی تعلیم اور لوئر پرائمری تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا اور پنجاب میں غریب دوست انیشی ایٹوز کی کارکردگی اور پائیداری میں اضافہ کرنا ہےمزید پڑھیں عالمی بینک کورونا وائرس سے متاثر پاکستان کیلئے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظوریہ منصوبہ اسکلڈ برتھ اٹینڈنس کے فروغ حفاظتی ٹیکوں ابتدائی تعلیم کے لیے اسکولوں میں اندراج امدنی پیدا کرنے والی سرگرمیوں میں حائل رکاوٹیں دور کر کے اور امدنی کے ذرائع میں تنوع پیدا کر کے انسانی وسائل میں خلیج دور کرے گامنصوبہ پنجاب کے 36 سب سے غریب اضلاع میں سے 11 کو ہدف بنائے گا جس میں سے جنوبی پنجاب کے اضلاع ہیں جہاں غریب گھرانے مرتکز ہیںدوسری جانب 17 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے خیبرپختونخوا زرعی ابپاشی نظام کی بہتری کے منصوبے سے صوبے میں سیراب کھیتی باڑی کی کارکردگی بہتر ہونے کی توقع ہےمنصوبے کی مجموعی لاگت کا تخمینہ 21 کروڑ 93 لاکھ ڈالر ہے جس میں سے کروڑ 83 لاکھ ڈالر کے برابر مقامی کرنسی حکومت خیبرپختونخوا فراہم کرے گییہ بھی پڑھیں ائی ایم ایف ورلڈ بینک سے غریب ممالک کا قرض منسوخ کرنے کا مطالبہاس منصوبے کے ترقیاتی اہداف واٹر کورسز کو بحال کر کے فارم پر پانی کے انتظام کو بہتر بنا کر ابپاشی کی جدید ٹیکنالوجی متعارف کروا کر کمیونٹیز کی صلاحیت کو مضبوط کر کے کارکردگی کے مختلف پہلوں سے حاصل کیے جائیں گےیہ خبر 19 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام اباد گندم کی کٹائی کے سیزن میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی طلب رسد کی سخت صورتحال کے دوران حکومت نے ائل مارکیٹنگ کمپنیوں او ایم سیز اور ریفائنریز کو عیدالفطر سے قبل بڑے ٹرانسپورٹ ایندھن کی فراہمی میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے اختتام پر جاری کی گئی ایڈوائزری میں پیٹرولیم ڈویژن نے ہدایت کی کہ تمام ائل مارکیٹنگ کمپنیاں کراچی سے اندرون ملک اپنی لاجسٹک میں اضافہ کریں تا کہ او ایم سیز کے ڈپوز میں اطمینان بخش اسٹاک موجود ہوساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ تمام او ایم سیز اور ریفائنریز اپنی تنصیبات اور ڈپوز کو عیدالفطر کے پہلے اور دوسرے روز کے سوا عید کی تعطیلات کے دوران بھی فعال رکھیں جبکہ ریٹیل اٹ لیٹس بغیر کسی تعطیل کے فعال رہیں گےیہ بھی پڑھیں ائل کمپنیوں کے منافع کمانے کے باعث ملک میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قلتپیٹرولیم ڈویژن نے او ایم سیز اور ریفائنریز کو ہدایت کی کہ اگر عید الفطر 25 مئی کو ہوئی تو ڈپوز اور تنصیبات کو اتوار 24 مئی کو فعال رکھیں تا کہ تمام ریٹیل اٹلیٹس پر فراہمی کو یقینی بنایا جاسکےساتھ ہی ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا اور ائل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کو ہدایت کی گئی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک بھر میں تمام ریٹیل اٹ لیٹس بغیر کسی تعطل کے فعال رہیںیہ ایڈوائزری کچھ عرصے قبل ملک کے کئی حصوں میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فراہمی میں کمی کے بعد جاری کی گئی ہے کیوں کہ موسم کی غیر یقینی صورتحال میں کسانوں اور منسلک سپلائی چین کو گندم کی کٹائی اور ٹرانسپورٹ ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھامزید پڑھیں پیٹرول ڈیزل کی قیمت 50 روپے فی لیٹر کی جائے مسلم لیگ ناس کے بعد ائل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ایک دوسرے اور پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹوریٹ جنرل پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی اور ڈائریکٹوریٹ جنرل کے حکام کی جانب سے حکومت اور صنعت کے متفقہ فیصلوں میں یکطرفہ تبدیلیوں کے الزامات لگائے تھےبعدازاں تیل کی صنعت نے پروڈکٹ ریویو اجلاس میں کیے گئے متفقہ فیصلوں میں تبدیلوں پر باقاعدہ احتجاج بھی کیا تھا جبکہ ڈائریکٹوریٹ جنرل کے دفتر نے اس بات پر زور دیا کہ ائل فراہمی کے انتظامات کے حوالے سے فیصلہ کرنا اس کا کلی اختیار ہےقبل ازیں رواں ماہ کے اغاز میں پاکستان اسٹیٹ ائل پی ایس او نے ملک میں ڈیزل کی قلت اور اس بات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا کہ کچھ ائل مارکیٹنگ کمپنیاں 21 دن کے لازمی اسٹاک کو رکھنے میں کیوں ناکام رہیںیہ بھی پڑھیں اوگرا کی پیٹرول کی قیمت میں صرف پیسے کمی کی تجویزپی ایس او نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکنہ قلت کے انتباہ کے باوجود پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے تیل کی درامد منسوخ کیاپنی رپورٹ میں پی ایس او نے کہا تھا کہ کچھ بڑی ائل مارکیٹنگ کمپنیاں عوامی ریفائنریز سے اپنی پروڈکٹس نہیں اٹھا رہیں اور فروخت میں تیزی کے باوجود پروڈکٹ کے لیے مناسب دنوں کا احاطہ نہیں کیا
مقامی گاڑی اسمبل کرنے والی کمپنیوں کے لیے مکمل اور سیمی ناک ڈان سی کے ڈیایس کے ڈی کٹس کی درامدات میں کورونا وائرس کی وجہ سے شٹ ڈان کے باوجود گزشتہ دو ماہ بڑا اضافہ دیکھا گیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسمبلرز نے مارچ اور فروری میں بالترتیب کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے ایس کے ڈیز یا سی کے ڈیز منگوائے جبکہ اپریل کے مہینے میں اسمبلرز نے کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کا سامان عید پر فروخت کے بڑھنے کی امید کے ساتھ درامد کیے تاہم مارچ کے اخری ہفتے میں لگے شٹ ڈان کے باعث ان کے پاس اب اسٹاک کا ڈھیر لگا ہوا ہےایک کار فروخت کرنے والے سازوسامان اور متعلقہ اشیا کی درمد میں اضافے کی وجہ لاک ڈان سے قبل مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی ٹویوٹا یارس کا متعارف کرایا جانا جس کے ساتھ ساتھ سوزوکی الٹو اور دیگر نئی گاڑیاں بھی شامل ہیں کیونکہ اسمبلرز کو اپریل کے بعد سے فروخت میں اچانک اضافے کی امید تھی جس کی وجہ سے انہوں نے پہلے ہی سے کٹس کو بڑی مقدار میں منگوانا شروع کردیا تھامزید پڑھیں پاکستان نے پہلی مکمل برقی گاڑی متعارف کرادیانہوں نے کہا کہ مینوفیکچررز عام طور پر درمد شدہ پارٹس خام مال اور کٹس کے ارڈرز پورٹ پر شپمنٹ کی مد کے 30 دن کو مد نظر رکھتے ہوئے سے ماہ پہلے ہی دے دیتے ہیں اس کے بعد سامان کی کلیئرنس اور صارفین سے ایڈوانس بکنگ رڈر لینے میں کم از کم 10 دن اور لگ جاتے ہیںان کے مطابق صنعت کاروں نے زیادہ درمدات کی ہیں تاہم انہیں لاک ڈان کی وجہ سے ماہ کی بندش کی توقع نہیں تھیاپریل سے اب تک فروخت اور پیداوار صفر اور مالی سال 2020 کے 10 ماہ میں 50 فیصد سے زیادہ کمی کے ساتھ انڈس موٹر کمپنی ئی ایم سی نے ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں لاکھ 10 ہزار سے لاکھ روپے تک کا اضافہ کیا ہے جبکہ ہونڈا اٹلس نے 60 ہزار سے لاکھ 20 ہزار روپے کا اضافہ کیا ہےمارچ میں ڈالر 1584 روپے کا تھا جبکہ اپریل میں اس میں اضافہ ہوا اور وہ 164 روپے کا ہوگیا تھایہ بھی پڑھیں گاڑی کے ٹائر کو پنکچر ہونے سے بچانے کا حیرت انگیز طریقہٹو سیکٹر نے اب ایک راحت کا سانس لیا ہے بالخصوص پنجاب میں جہاں صوبائی حکومت نے پیر سے ہی پلانٹ کھولنے کی اجازت سے دی ہے جبکہ سندھ خصوصا کراچی میں اب بھی اس بارے میں غیر یقینی صورتحال ہےبائیکسبائیک کے بازاروں نے پیر سے جمعرات تک اپنی کاروائی دوبارہ شروع کردی تھی تاہم اتھرائزڈ ڈیلرز کے پاس سی ڈی 70 سی سی اور سی جی 125 سی سی کے اسٹاک ختم ہوگئے ہیںایسوسی ایشن پاکستان موٹرسائیکل اسمبلرز اے پی ایم اے کے چیئرمین محمد صابر شیخ نے بتایا کہ دیہی علاقوں کے بہت مال کاشتکاروں نے گندم کی کٹائی کے ذریعے کمائی جانے والی رقم سے موٹرسائیکلیں خریدنے کے لیے کراچی کی مارکیٹوں کا رخ کیا
بس کنڈیکٹر سے ڈرائیور بننے اور پھر چھوٹا سی دکان کھول کر ارب پتی بننے والے پاکستانی نژاد برطانوی ارب پتی سر انور پرویز کی دولت میں کورونا وائرس کے باعث کم از کم 32 ارب روپے کی کمی ہوئی ہےکورونا وائرس کے باعث نہ صرف سر انور پرویز بلکہ برطانیہ کے ایک ہزار ارب پتیوں کی دولت میں 54 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 80 کھرب روپے سے زائد کی کمی ہوئی ہےپاکستانی نژاد سر انور پرویز کی مجموعی دولت میں گزشتہ ماہ کے دوران 32 ارب روپے سے زائد کمی کے بعد وہ برطانیہ میں امیر ترین افراد کی فہرست میں 50 ویں نمبر پر گئےخبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی اخبار کی جانب سے ارب پتی افراد کی تازہ فہرست کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پہلی بار برطانیہ کے ارب پتی افراد کی دولت میں اتنی بڑی کمی دیکھی گئی اور وہ بھی صرف ماہ کے دوران ارب پتی افراد اربوں روپے سے محروم ہوگئےجیمس ڈائسن برطانیہ کے سب سے امیر شخص ہیںفائل فوٹو اے ایف پی دی سنڈے ٹائمز کی جانب سے ہر سال جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق اس سال مجموعی طور پر کورونا وائرس کے باعث ایک ہزار ارب پتی افراد کی 54 ارب ڈالر کی دولت کم ہوئی اور کئی ارب پتی افراد ارب ڈالر تک کی دولت سے محروم ہوگئےبرطانوی ارب پتی افراد میں سے کم از کم سے ارب پتی لوگ گزشتہ ماہ کے دوران پاکستانی 10 ارب روپے کی دولت سے محروم ہوگئے اور وہ امیر افراد کی فہرست میں بھی نیچے چلے گئےکورونا وائرس سے قبل پاکستانی نژاد ارب پتی شخص سر انور پرویز امیر ترین افراد کی فہرست میں 42 ویں نمبر پر تھے مگر گزشتہ ماہ میں 43 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 32 ارب روپے سے زائد کی دولت گنوانے کے بعد وہ امیر افراد کی فہرست میں مزید نیچے چلے گئے اور تازہ فہرست میں وہ 50 ویں نمبر پر ہیںسر انور پرویز 1950 کی دہائی میں روزگار کے سلسلے میں پنجاب کے شہر راولپنڈی سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے اور ابتدائی طور پر انہوں نے بس کنڈیکٹر کی نوکری کی تھیبس کنڈیکٹر کے بعد وہ ڈرائیور بنے تھے اور اس کے بعد انہوں نے 10 سال تک کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے اپنے دیگر اہل خانہ کو بھی ایک ایک کرکے برطانیہ منتقل کیا اور پھر 1960 تک ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کچھ کمائی کرنے لگے1963 میں انہوں نے انگلینڈ کے ارل کورٹس کے علاقے میں مصالحوں اور حلال گوشت کی چھوٹی سی دکان کھولی اور پھر انہوں نے کیش اینڈ کیری اسٹور کھولے اور رفتہ رفتہ ترقی کی منزلیں طے کرتے گئےگے چل کر سر انور پرویز نے بیسٹ وے نامی کمپنی بنائی جس کے تحت ہول سیل کے کاروبار سمیت سیمنٹ فارمیسی ریئل اسٹیٹ اور بینکنگ کے شعبے میں کاروبار کرنے لگے اور اسی گروپ کے تحت برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی کاوروبار چل رہے ہیںبھارتی نژاد ہندوجا براردز کی دولت میں ارب روپے کی کمی ہوئیفائل فوٹو اے ایف پی سر انور پرویز کو ان کی خدمات کے عوض 1999 میں ملکہ برطانیہ نے اعزاز بھی دیا جب کہ انہیں ایک اچھی سماجی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہےدیگر ارب پتیوں کی دولت میں بھی نمایاں کمیدی سنڈے ٹائمز کی فہرست کے مطابق سر انور پرویز کے علاوہ چند ارب پتی افراد کی دولت میں بھی بہت ہی زیادہ کمی ہوئی ہے اور ان کی دولت میں مجموعی طور پر ارب ڈالر یعنی پاکستانی سے کھرب روپے تک کی کمی ہوئیدولت میں کمی کے باعث کئی ارب پتی افراد دولت مند افراد کی فہرست میں بھی نیچے چلے گئے جب کہ کچھ افراد حیران کن طور پر ترقی کرکے اوپر گئےحیران کن طور مجد جیمس ڈائسن کی دولت میں اضافہ ہوا اور وہ 2018 کے بعد پہلی بار وبا کے دنوں میں برطانیہ کے سب سے امیر شخص بن گئے اور ان کی دولت 16 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زائد ہوگئیکورونا وائرس کی وجہ سے جن افراد کی دولت میں نمایاں کمی ہوئی ان میں بھارتی نژاد ارب پتی بھائی ہندوجا برادرز بھی ہیں جن کی دولت میں ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور ان کی دولت 22 ارب ڈالر سے کم ہوکر 14 ارب ڈالر تک جا پہنچیاسی طرح بھارتی نژاد ارب پتی شخص لکشمی متل کی دولت میں بھی ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور اب ان کی دولت ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئی اور وہ امیر افراد کی فہرست میں 19 ویں نمبر پر گئےلندن ارب پتی افراد کا دارالحکومتدی سنڈے ٹائمز کی فہرست کے مطابق اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ ماہ میں برطانوی ارب پتی افراد کی دولت میں 54 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تاہم اس کے باوجود لندن کو ارب پتی افراد کا دارالحکومت کہا جا سکتا ہےرپورٹ کے مطابق اس وقت بھی لندن میں 89 ارب پتی افراد رہائش پذیر ہیںلیکن ساتھ ہی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حیران کن طور پر زیادہ تر ارب پتی کاروباری افراد کورونا کے باعث حکومت سے مدد کے خواہاں ہیںرپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدد ارب پتی افراد نے کورونا کی وجہ سے کئی ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا اور انہوں نے کاروبار بند کردیے اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ حکومت مالی طور پر ان کی مدد کرےرپورٹ کے مطابق ارب پتی افراد چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت نہ صرف ان کی مالی مدد کرے بلکہ وہ انہیں ٹیکس میں بھی چھوٹ دےبھارتی نژاد لکشمی متل کی دولت میں بھی کمی ہوئیفائل فوٹو رائٹرز
ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی پنجاب سندھ اور خیبرپختونخوا کے درمیان علاقائی رابطہ سازی کو بہتر کرنے کے لیے سڑکوں کی بحالی سے متعلق منصوبوں میں تعاون کرے گاوفاقی حکومت نے منصوبے کی تحریری شکل کو کلیئر قرار دیا ہے اور صوبائی حکومتوں کے اپنے وسائل پر جاری قرضوں کے ساتھ منصوبوں کی نشان دہی اور ابتدائی تیکنیکی جائزہ لیا جارہا ہے جبکہ اے ڈی بی ان منصوبوں کو پہلے ہی کنٹری پریشن بزنس پلان 202022 میں شامل کرچکا ہےیہ بھی پڑھیںکورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 88 کھرب ڈالر تک خسارے کا امکانتفصیلات کے مطابق جن منصوبوں کو تیکنیکی معاونت فراہم کی جائے گی ان میں پنجاب کی صوبائی ہائی وے کا منصوبہ خیبر پختونخوا کے دورافتادہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شامل ہیںدوسرے مرحلے میں سندھ کی شاہراہوں کی بہتری کا منصوبہ شامل ہےان تمام منصوبوں کا مقصد صوبوں کے ساتھ علاقائی رابطے کو بہتر کرنے کے لیے صوبوں کی موجودہ شاہراہوں یا دور دراز علاقوں کی سڑکوں کی بحالی یا مرمت کرنا ہےاے ڈی بی کی دستاویزات کے مطابق تیکنیکی معاونت کو پیچدہ گردانا جارہا ہے کیونکہ منصوبوں کو حقیقی شکل دینے کے لیے قرض کی لاگت 20 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہےمنصوبوں کے لیے تیکنکی معاونت کا تخمینہ 16 لاکھ ڈالر ہے جس میں سے 15 لاکھ ڈالر اے ڈی بی کی ٹیکنیکل معاونت کے خصوصی فنڈ سے گرانٹ کی بنیاد پر جاری کیے جائیں گےمزید پڑھیںدیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ پاور چائنا اور ایف ڈبلیو او کو ایوارڈسڑکوں پر زیادہ انحصار کے باوجود سڑکوں کا ڈھانچہ ٹریفک کی زاد اور محفوظ روانی کی صلاحیت اور معیار کے راستے بدترین رکاوٹ ہےدوسری جانب قومی شاہراہیں بہتر ہوچکی ہیں جس پر مسلسل خرچ کیا جاتا رہا ہے اور ان میں پاکچین اقتصادی راہداری سی پیک کے منصوبوں اور شاہراہوں کی بہتر انتظام شامل ہےمجموعی طور پر سڑکوں کی بدتر اور بدترین حالت کو ختم کرنے کا ہدف پورا نہیں ہوا کیونکہ صرف 11 فیصد قومی شاہراہوں کو اچھی اور 67 فیصد بہتر تصور کیا گیا ہے جس کی وجہ پرانی سڑکوں اور پلوں کے انفرااسٹرکچر کی وجہ سے ہےیہ خبر 17 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
ملائیشیا نے بھارت سے ریکارڈ ایک لاکھ ٹن چاول درمد کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے جو رواں ماہ اور اگلے ایک ماہ کے دوران مکمل ہوجائے گاخبرایجنسی رائٹرز کو صنعت سے منسلک عہدیداروں نے بتایا کہ یہ شپمنٹ رواں ماہ اور اگلے ماہ مکمل ہوجائے گی اور یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی کے بعد اب مزید بہتری کا اشارہ ہےملائیشیا نے بھارت سے گزشتہ 5برسوں کے مقابلے میں رواں سال چاول کی خریداری میں تقریبا دوگنا اضافہ کرلیا ہے جبکہ دیگر برمدکنندگان میانمار ویت نام اورکمبوڈیا نے کورونا وائرس کے بحران کے دوران چاول کو اپنے لیے ذخیرہ کرنے کی خاطر برمد پر عارضی پابندی عائد کردی تھیمزید پڑھیںپام ئل تنازع حل کرنے کیلئے ملائیشیا کا بھارت سے اضافی خام چینی خریدنے کا فیصلہدنیا میں سب سے زیادہ چاول برمد کرنے والے بھارت میں ملائیشیا کی جانب سے بڑی مقدار میں اسے درمد سے کسانوں کو سانیاں ہوں گیبھارت کی رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر بی وی کرشنا را کا کہنا تھا کہ ملائیشیا بڑے عرصے بعد بھارت سے بڑی مقدار میں خریداری کررہا ہےبی وی کرشنا اور دیگر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی بھارت سے نئے معاہدے کے بعد چاول کی درمد رواں برس لاکھ ٹن ہوجائے گیعلاوہ ازیں ملائیشیا کے وزیر زراعت اور خوراک نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیابھارتی وزارت تجارت کی دستاویزات کے مطابق ملائیشیا نے گزشتہ برسوں کے دوران بھارت سے سالانہ 53 ہزار ٹن چاول درمد کیا اور گزشتہ برس ریکارڈ فروخت 86 ہزار 292 ٹن تھیادھر برمد کنندگان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اس وقت سفید چاول کی قیمت 390 ڈالر سے 400 ڈالر فی ٹن مقرر کررکھی ہےبھارت کی چاول کی کمپنی اولام انڈیا کے نائب صدر نیتن گپتا نے کہا کہ اسی لیے بھارت سے خریداری منافع بخش ہےچاول کے سب سے بڑے برمد کنندہ ستیام بالاجی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیمانشو اگروال کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ میانمار ویت نام اور کمبوڈیا کی جانب سے چاول کی برمد پر پابندی سے ملائیشیا کے بڑے درمد کنندہ برناس کو بھارت سے درمد پر مجبور کیا ہویہ بھی پڑھیںنئی ملائیشین حکومت بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہاں پام ئل تنازع کے حل کیلئے بھی پرامیدواضح رہے کہ ویت نام دنیا میں چاول برمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور رواں ماہ برمد کو مکمل طور پر بحال کردیا گیا ہے جبکہ مارچ میں فروخت کو معطل جبکہ اپریل میں رسد کو محدود کردیا گیا تھاچاول کی برمد روکنے کا مقصد ملک میں وبا کے دوران خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا تھارپورٹ کے مطابق ملائیشین پام ئل کے سب سے بڑے خریدار بھارت سے چاول کا معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملائیشیا نے بھارت سے چینی اور دیگر اشیا کی درمد میں حال ہی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہےیاد رہے کہ بھارت نے رواں برس کے اوائل میں ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے مسلمانوں کے حوالے سے بھارت کی اندرونی پالیسی پر مسلسل تنقید کے جواب میں پام ئل کی درمد کو محدود کردیا تھایہ خبر 16 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام اباد کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بی ائی ایس پی کے ذریعے مزدوروں اور یومیہ اجرت کمانے والوں میں تقسیم کرنے کے لیے 75 ارب روپے مختص کردیےیہ رقم وزیراعظم کی جانب سے مزدوروں اور یومیہ اجرت کمانے والوں کے لیے اعلان کردہ کھرب روپے کے ریلیف پیکج کا حصہ ہے جسے اس سے قبل وزارت صنعت پیداوار اور تجارت کے ذریعے صنعتوں اور کاروباری اداروں کو دیا جانا تھا تاکہ وہ ورکرز کو نوکریوں سے نہ نکالیںای سی سی کے اجلاس کی صدارت مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کی جس میں ان ورکرز کے لیے ہنگامی نقد معاونت کے طریقہ کار کی منظوری دی گئی جن کے روزگار عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث متاثر ہوئےیہ بھی پڑھیں وزیراعظم نے کورونا کے باعث بیروزگار ہونے والوں کیلئے ریلیف پروگرام کا غاز کردیاخیال رہے کہ ادائیگی کے طریقہ کار پر محکمہ خزانہ غربت مٹا ڈویژن اور بی ائی ایس پی نے کام کیابی ائی ایس پی بورڈ نے احساس مزدور کیٹگری میں رقوم حاصل کرنے والوں کی شناخت کے لیے احساس ایمرجنسی کیش کی کیٹیگری کی اہلیت کے طریقہ کار کو استعمال کرنے کی منظوری دیچنانچہ تصدیق کا عمل بی ائی ایس پی کے سروے اور نادرا کے قومی رجسٹریشن ڈیٹا کے اندراج پر کیا جائے گاکیٹیگری میں رقوم حاصل کرنے والوں کو شامل کر کے لیے درخواستیں صرف احساس لیبر پورٹل کے ذریعے وصول کی جائیں گیمزید پڑھیں احساس کیش پروگرام میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں وزیراعظم اس طرح 12 ہزار روپے نقد یکمشت معاونت کی تقسیم بی ائی ایس پی کے ادائیگی کے موجودہ طریقہ کار کے ذریعے کی جائے گیچاروں صوبے وفاقی دارالحکومت گلگت بلتستان اور ازاد کشمیر اپنی ابادی کے لحاظ سے احساس مزدور معاونت کے لیے کوٹہ مختص کریں گےخیال رہے کہ مئی کو وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ کووڈ 19 وبا ریلیف معاونت فنڈ 2020 کے ذریعے اکٹھی کی گئی رقوم کو مزدوروں اور یومیہ اجرت والوں کے لیے استعمال کیا جائے گا جن کا روزگار لاک ڈان کی وجہ سے بہت متاثر ہوااس موقع پر وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فنڈز احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے ذریعے ادا کیے جائیں گےیہ بھی پڑھیں پولیس اور ایف ئی اے احساس کیش پروگرام کی شفافیت میں کردار ادا کررہے ہیںوزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ عطیہ کیے گئے ہر روپے پر حکومت روپے فنڈ میں شامل کرے گیاس ضمن میں وزارت خزانہ نے بتایا کہ وزیراعظم ریلیف پیکج میں مختص شدہ کھرب روپے میں سے 75 ارب روپے ملک میں ورکرز کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے بی ائی ایس پی کو جاری کردیے گئے ہیں اور رقم اسی مقصد کے لیے استعمال کی جائے گییہ خبر 16 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام باد نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں ڈسکوز کی بگڑتی ہوئی کارکردگی بڑھتے ہوئے گردشی قرضے اور توانائی کے شعبے میں اس کی خراب ہوتی گورننس پر سنگین تشویش کا اظہار کردیاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیپرا نے حکومت کو فوری طور پر اس کے پاور پلانٹس بند کرنے کی تجویز دی ہےنیپرا نے اپنی فلیگ شپ اسٹیٹ دی انڈسٹری رپورٹ 2019 میں وفاق کے کنٹرول میں موجود سرکاری شعبے سے وابستہ اداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت توانائی اور توانائی ڈویژن کے تسلسل پر سوال اٹھادیا جو ناقابل قبول تکنیکی اور مالی کارکردگی کی وجہ بنا نیشنل الیکٹرک پاور اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نے شعبے میں بہتری اور گردشی قرضے میں کمی کے حکومتی دعوں کو بھی مسترد کردیا مزید پڑھیں نیپرا کا وزیراعظم سے توانائی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہنیپرا نے کہا کہ متعلقہ وزارت اور لائسنس یافتہ اداروں کو باقاعدہ ہدایات اور ایڈوائزریز کے باوجود سرکاری شعبے سے وابستہ اداروں کو اصلاحاتی عمل کے تحت مطلوبہ کنٹرول کسی حد تک فراہم نہیں کیا گیا رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ زیادہ تشویشناک ہے کہ اصلاحات کے بنیادی اصول جن پر بہت سے ممالک میں کامیابی سے شفافیت لانے معیار مقابلے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے عمل ہوتا ہے وہ متنازع ہوگئے ہیںنیپرا نے کہا کہ وزارت کی جانب سے ٹیرف کے تعین میں تبدیلی کرنا جو صرف نیپرا کا ڈومین ہے شفافیت کے خلاف ہےرپورٹ کے مطابق یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اصلاحاتی ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے اور اس پر عمل نہ کرنے سے پاور سیکٹر مکمل طور پر بدحالی کا شکار ہوجائے گا اور ناقص گوروننس کے نتیجے میں سرکاری شعبے کے منفی اثرات نہ صرف اسے تنزلی کی جانب لے جائیں گے بلکہ ملکی معیشت میں مزید سست روی ئے گینیپرا کے مطابق میں سے تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کم ہوئی یا اس میں بہتری نہیں ئی جبکہ کمپنیوں کی کارکردگی میں معمولی بہتری ئی ہےاس کے مطابق پیسکو کی ریکوری پوزیشن ایک فیصد خراب ہوئی جبکہ 182017 کے مقابلے میں 192018 میں ٹیسکو کی ریکوری پوزیشن میں ایک فیصد اضافہ ہوایہ بھی پڑھیں 800 ارب روپے کے گردشی قرضے کو سرکاری قرض میں تبدیل کرنے کا فیصلہ مزید یہ کہ پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں لیسکو اور گیپکو کی ریکوری کی شرح میں بالترتیب 275 اور 089 فیصد کمی جبکہ گزشتہ برس میں لیسکو اور فیسکو کی ریکوری کا تناسب تقریبا ایک جیسا رہاعلاوہ ازیں میپکو نے رواں برس اپنی ریکوری میں فیصد اضافہ کیاسندھ میں ہیسکو کی ریکوری کا تناسب فیصد تک بگڑ گیا جبکہ سیپکو نے اس میں 349 فیصد بہتری کی بلوچستان میں کیسکو کے ریکوری تناسب میں 176فیصد بہتری ئی
اسلام ابا حکومت نے سرپلس فنڈز کورونا سے متعلق ضروریات اور سماجی تحفظ کی جانب منتقل کرنے کے لیے تمام وزارتوں محکموں اور سول اداروں کو اپنے اخراجات میں کمی کی ہدایت کردیائندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے ایک اجلاس کے بعد وزارت خزانہ نے اخراجات میں مزید کمی موجودہ اخراجات کے تمام دائرہ اختیار کو اصولوں کے مطابق بنانے شرح سود کی ادائیگی سبسڈیز اور دیگر اخراجات کے حوالے سے ایک منصوبہ تیار کرنے کا عندیہ دیایہ بھی پڑھیں ایف بی کی تجاویز حکومت کے وژن کے مطابق نہیں ہیں عبدالحفیظ شیخ اسی تناظر میں وزارت خزانہ نے براہ راست بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بی ئی ایس پی کے میکانزم ذریعے غریب صارفین کے لیے بجلی کے بلز میں سبسڈی فراہم کرنے کا خیال بھی پیش کیا تاکہ موجودہ طریقہ کار کے بجائے صارفین کے لیے مقررہ ادائیگی کو یقینی بنایا جائےواضح رہے کہ موجودہ مالی سال کے کھرب 50 ارب روپے کے مقابلے ائندہ برس کے لیے پاور سبسڈی کی ادائیگی کا ہدف کھرب روپے سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہےوزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کے ویژن کے تحت موجودہ اخراجات کی بچت کو کورونا سے متعلق فنانسنگ کی جانب منتقل کرنے کے منصوبے پر غور کیا گیامزید پڑھیں کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 88 کھرب ڈالر تک خسارے کا امکانمشیر خزانہ کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری بیان میں وزارت نے کہا کہ ملاقات ائی ایم ایف کے جائزے کے تناظر میں کورونا وائرس کے باعث معاشی سست روی کے دوران وفاقی اخراجات کی ترجیحات طے کرنے کے لیے بلائی گئی تھیاس موقع پر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ذمہ دارانہ رویہ ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ کورونا وائرس کے اثرات کے باعث ملک کی معیشت کے تانے بانے بگڑنے کی توقع ہےیہ خبر 16 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
فیس بک نے دنیا کی مقبول ترین انیمیٹڈ تصاویر شیئر کرنے والی سروس گفی کو خرید لیا ہے اور اسے انسٹاگرام کا حصہ بنادیا ہےفیس بک کے پراڈکٹ شعبے کے نائب صدر وشال شاہ نے ایک بلاگ پوسٹ میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا انسٹاگرام اور گفی کو اکٹھا کرکے ہم لوگوں کے لیے اسٹوریز اور ڈائریکٹ میں بہترین گفس اور اسٹیکرز کی تلاش کو سان بنارہے ہیںفیس بک کی جانب سے گفی اے پی ئیز کو برسوں سے مختلف سروسز جیسے فیس بک میسنجر انسٹاگرام اور واٹس ایپ میں استعمال کیا جارہا ہےفیس بک کے مطابق صرف انسٹاگرام سے ہی گفی کے روزانہ ٹریفک کا 25 فیصد حصہ تا ہے جبکہ دیگر سروسز سے مزید 25 فیصد ٹریفک اس سروس کو ملتا ہےاس کے علاوہ ٹوئٹر سلیک اور دیگر میں اسے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایپل کی جانب سے ئی میسج کے گف فیچر کے لیے گفی کی کچھ تصاویر کو استعمال کیا جاتا ہےابھی یہ واضح نہیں کہ ان سروسز کو اس سروس کی فراہمی فیس بک کی جانب سے برقرار رکھی جائے گی یا نہیں تاہم مستقبل قریب میں کمپنی کا دیگر کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں گفی ٹیم نے اس حوالے سے لکھا ہم گفی کی دستیابی کو برقرار رکھیں گےاسی طرح عام صارفین بھی اپنی گفس کو اپ لوڈ کرسکیں گے جبکہ ڈویلپرز اور گفی کے اے پی ئی شراکت دار بھی اس سروس کی بہت بڑی لائبریری تک رسائی حاصل کرسکیں گے جن میں اسٹیکرز اور ایموجی بھی شامل ہیںان شراکت داروں میں ٹوئٹر سلیک اسکائپ ٹک ٹاک اور سام سنگ سمیت دیگر شامل ہیں انسٹاگرام نے بھی ایک ٹوئٹ میں یقین دہانی کرائی ہے کہ تھرڈ پارٹیز کو گفی تصاویر استعمال کرنے کی سہولت دی جائے گیایک رپورٹ کے مطابق فیس بک نے گفی کو 40 لاکھ ڈالرز کے عوض خریدا ہے اور وہ اس سروس کو 2015 سے خریدنے کی کوشش کررہی تھیخیال رہے کہ گفی سروس کا غاز 2013 میں ہوا تھا اور فیس بک نے اس اس وقت خریدا ہے جب اسے ریگولیٹر اور اسٹیٹ اٹارنی جنرلز کی سخت اسکروٹنی کا سامنا ہے
اسٹیٹ بینک پاکستان نے بینچ مارچ شرح سود میں مزید 100 بیسز پوائنٹس کی کمی کردی جس کے بعد یہ فیصد پر گیامرکزی بینک کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد دو ماہ کے دوران شرح سود میں یہ چوتھی بار کمی کی گئی ہےاسٹیٹ بینک کے بیان میں کہا گیا کہ سان مانیٹری پالیسی سے لوگوں اور کاروباروں کو لیکویڈٹی سپورٹ مل سکتی ہے جس سے انہیں موجودہ معاشی خلل کے عارضی مرحلے سے گزارنے میں مدد ملے گیبیان میں کہا گیا کہ شرح سود میں کمی سے افراط زر میں بھی کمی ئے گی جس کے رواں سال کے غاز میں بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا یہ بھی پڑھیں ایک ماہ میں تیسری مرتبہ شرح سود میں کمی پالیسی ریٹ فیصد مقررواضح رہے کہ ملک میں دو ماہ قبل کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے صحت بحران کے بعد سے اسٹیٹ بینک شرح سود میں مجموعی طور پر 525 بیسز پوائنٹس کی کمی کر چکا ہےمرکزی بینک کی جانب سے معیشت اور ملک کے غریب طبقے کو سہارا دینے کے لیے متعدد اسکیمیں بھی متعارف کروائی گئی ہیںخیال رہے کہ 16 اپریل کو اسٹیٹ بینک نے کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے باعث شرح سود میں فیصد کمی کا اعلان کردیا تھا جس کے ساتھ ہی شرح سود فیصد ہو گئی تھییہ ایک ماہ کے عرصے میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مسلسل تیسری مرتبہ کمی تھیمزید پڑھیں اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں مزید ڈیڑھ فیصد کمی کا فیصلہاس سے قبل 17مارچ کو 75 بیسز پوائنٹس کم کرتے ہوئے شرح سود 125کردی گئی تھی جس کے ایک ہی ہفتے بعد پالیسی ریٹ میں مزید ڈیڑھ فیصد کمی کا اعلان کیا گیا تھا24 مارچ کو مانیٹری پالیسی کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں کورونا وائرس کی وبا کے عالمی اور مقامی معیشت پر پڑنے والے سنگین اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا اور اس کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ کورونا کے باعث ہر لمحہ بدلتی صورتحال کے پیش نظر ہر ممکن اقدامات اٹھاتے رہیں گے تاکہ وائرس کے سنگین اثرات سے بچانے کے لیے معیشت کو سہارا دیا جا سکے
اسلام باد ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی کے مطابق عالمی وبا کورونا وائرس کے نتیجے میں عالمی معیشت کو 58 کھرب ڈالر سے 88 کھرب ڈالر خسارے کا سامنا ہوسکتا ہے جو عالمی شرح نمو کے 64 سے 97 فیصد کے برابر ہوگاایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کردہ نئی رپورٹ میں ایشیا اور پیسیفک میں ماہ میں وائرس کے پھیلا کی صورت میں 17 کھرب ڈالر اور ماہ کی صورت میں 25 کھرب ڈالر خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہےرپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے ایشیا اور پیسیفک میں عالمی سطح کی مجموعی پیداوار کی 30 فیصد کمی واقع ہوگیمزید پڑھیں پاکستان کی شرح نمو کم ہو کر 26 فیصد رہنے کا امکان ہے ایشیائی ترقیاتی بینکاس میں بتایا گیا کہ چین کو 11کھرب ڈالر سے 16 کھرب ڈالر کا خسارہ ہوسکتا ہے اس حوالے سے نئے تجزیے میں اپریل کو جاری کی گئی رپورٹ کے تجزیات کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے جس میں عالمی خسارے کا تخمنیہ 20 کھرب ڈالر سے 41 کھرب ڈالر تک لگایا گیا تھا رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی حکومتیں عالمی وبا کے اثرات پر تیزی سے ردعمل دے رہی ہیں اور مالی سانیوں صحت پر اخراجات میں اضافہ اور مدن اور ریونیو کے خسارے پر قابو پانے کے لیے براہ راست تعاون جیسے اقدامات کررہی ہیں علاوہ ازیں اس کے مطابق حکومتوں کی مستحکم کوششیں ان اقدام پر مرکوز ہیں کہ یہ اقدامات کوورنا وائرس کے معاشی اثرات میں 30 سے 40 فیصد کم کرسکتے ہیں جس سے عالمی معاشی خسارہ 41 کھرب ڈالر سے 54 کھرب ڈالر تک کم ہوسکتا ہے ایشیائی ترقیاتی بینک کا تجزیہ جو گلوبل ٹریڈ انالیسس پروجیکٹ کو ماڈل کے طور پر استعمال کرتا ہے اس میں وبا کا شکار 96 معیشتوں اور کورونا وائرس کے 40 لاکھ سے زائد کیسز کو شامل کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اے ڈی بی 2020 ایسٹیمیٹس میں شامل سیاحت سرمایہ کاری تجارت اور پیداوار کے ساتھ ساتھ نئی رپورٹ میں ٹرانسمیشن چینلز جیسا کہ نقل حرکت سیاحت اور دیگر صنعتوں کو متاثر کرنے والے تجارتی اخراجات فراہمی کی رکاوٹیں جو پیداوار اور سرمایہ کاری کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور حکومتی پالیسی ردعمل جو کورونا وائرس کے عالمی معیشت پر اثرات میں کمی لاتے ہیں شامل کیے گئے ہیںیہ بھی پڑھیں کورونا وائرس ترقی پذیر ایشیائی ممالک کی معیشتوں پر نمایاں اثرات مرتب کرے گااے ڈی بی کے چیف اکنامسٹ یاسوکی سواڈا نے کہا کہ نیا تجزیہ معیشت پر کورونا وائرس کے نمایاں اثرات کی وسیع تصویر کشی کرتا ہے انہوں نے کہا کہ اس میں معیشتوں کو نقصان سے بچا میں مدد کے لیے پالیسی مداخلتوں کے کردار کی اہمیت کی نشاندہی بھی کی گئی ہے یاسوکی سواڈا نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج کی مدد سے حکومتوں کو عالمی وبا پر قابو پانے کے اقدامات پر عملدرمد اور لوگوں اور معیشتوں پر اس کے اثرات میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے
ملک کے ٹیکس حکام کو واضح کردیا گیا ہے کہ اگلے سال کے مالی بل سے متعلق تجاویز حکومت کے وژن سے مطابقت نہیں رکھتیں اور اس کو مزید سان بنانے کی ضرورت جبکہ کاروبار میں سانی پیدا کرنے اور لاگت میں کمی کو یقینی بنایا جائےمشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اگلے مالی سال کے بجٹ سے متعلق ابتدائی اجلاس میں بجٹ تیار کرنے والے وزارت خزانہ کے اراکین اور فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی کو واضح پیغام دے دیا ہےحکومت جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ پیش کرنے کی تیاری کررہی ہےمزید پڑھیںپاکستان میں غربت کی شرح بڑھنے لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہعبدالحفیظ شیخ کی ایف بی کو دی گئی ہدایات سے ایک عہدیدار نے گاہ کیا جس کے مطابق مشیرخزانہ نے کہا کہ ایف بی کے بجٹ سے متعلق خیالات حکومت کے وژن کے مطابق نہیں ہیں جس کے تحت ٹیکس اور ٹیرف میں سانی پیدا کرنا ہےانہوں نے کہا کہ ہم فہرست میں اتنے سارے ٹیکسز کیوں شامل کررہے ہیں جن کا حاصل بہت کم ہے یا کچھ نہیں ہے جبکہ ٹیکس دہندگان کے لیے بڑی رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیںان کا کہنا تھا کہ ہم ٹیکسز کی تعداد کو یا تک کم کیوں نہیں کرسکتے تھے جن سے محصولات بھی زیادہ ہوں اور دوسری چیزوں کا خاتمہ ہو اس طرح بجٹ کو بجائے ایک خوف ناک کہانی بنانے کے سادہ پالیسی دستاویز بنادیا جائےاطلاعات کے مطابق عبدالحفیظ شیخ نے متعدد ٹیکسز میں اضافے کی تجویز بھی مسترد کردی اور کہا کہ یہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کا وقت نہیں کیونکہ خطرناک معاشی مسائل ہیں جس کے لیے متوازن رویے کی ضرورت ہےانہوں نے کہا کہ مسائل کو سان کرنے اور تنقید کو ختم کرنے کے لیے حکومت کے فلسفے اور ارادے کے مطابق بجٹ تیار کیا جائےیہ بھی پڑھیںعالمی بینک کورونا وائرس سے متاثر پاکستان کیلئے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظوراجلاس میں مشیر تجارت عبالرزاق داد مشیر اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور وزیر صنعت حماد اظہربھی شریک تھے جہاں عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کسٹم ڈیوٹی ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی اور ریگیولیٹری ڈیوٹی جیسے کئی ٹیکسز اور ان کے فوائد پر کو وضاحت دینی پڑتی ہےمشیر خزانہ کی زیر صدارت اس اجلاس کا بنیادی مقصد رواں ہفتے کے غاز میں وزیراعظم کے ساتھ حکومتی معاشی ٹیم کے اجلاس کا تسلسل تھا جس میں ٹیکسز کی تعداد کو کم کرنے محصولات کو بڑھانے اور عددی اور معیاری دونوں لحاظ سے بہتری لانے پر زور دیا گیا تھاعبدالحفیظ شیخ نے سختی سے کہا کہ کیا ہم اسمگلنگ کو زندگی کا حصہ مان چکے ہیں اور رجسٹرڈ اور دستاویزی کاروبار کو تحفظ دینا نہیں چاہتے ہماری عمل داری کہاں ہےانہوں نے اگلے اجلاس میں مختلف سطح کی 40 ٹیکسز اور ان کا حجم اثرات اور محصولات کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبے میں لاگت اور ان کا تجزیہ پیش کرنے کا حکم دیا تاکہ ٹیکس کے گنجلک اعداد سے بچا جاسکے لیکن ضروری ٹیکس کو برقرار رکھا جائےٹیکس حکام کو بتایا گیا کہ وہ ٹیکس اقدامات کو جائز ثابت کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف کا نام نہیں لے سکتے ہیں یا اصلاحات کا عمل کا رخ بدل نہیں سکتے ہیںانہیں کہا گیا کہ وضاحت سرمایے کے حصول اور معیشت پر ان کے اثرات اور ٹیکس دہندگان کی لاگت کی بنیاد پر ہونی چاہیےمزید پڑھیںکورونا وائرس پاکستان کی شرح نمو میں مزید فیصد کمی کی پیشگوئیایف بی کو گاہ کیا گیا کہ اگلے سال تقریبا 51 کھرب روپے کا ہدف پورا کرنا ہوگا جو رواں مالی سال 2020 کے اندازے 39 کھرب روپے سے 30 فیصد زیادہ ہےوزارت تجارت کو ہدایت کی گئی کہ اگر وہ موجودہ ڈیوٹی 11 فیصد سے 15 فیصد سے کم کرنا چاہتی ہے تو پھر بہتر ہوگا کہ کاروبار میں رکاوٹ سے بچنے کے لیے اس کو صفر کردیا جائےاجلاس میں وزارت تجارت کو ایک ہفتے کے اندر نظرثانی کرکے حکمت عملی دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئیمزید کہا گیا کہ کاروبار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو الگ سے دیکھا اور اسی طرح ود ہولڈنگ ٹیکسز کی تعداد اور اسٹیجز کو کم کرنا چاہیےحکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ رواں برس ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے لیے کمیٹیوں کے اجلاس کو منعقد نہ کیا جائے اور اس کے لیے 600 ارب روپے کا بجٹ منظوری کے لیے براہ راست قومی اقتصادی کونسل کے سامنے رکھا جائے گا جو ئی ایم ایف سے مذاکرات کے مطابق مالی سال 2020 میں کووڈ19 کے لیے رکھے گئے 701 ارب روپے سے کم ہوگایہ خبر 15 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
کراچی موڈیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طویل المیعاد بی ریٹنگز پر تنزلی کے لیے جائزہ لیا جائے گا کیونکہ اسے توقع ہے کہ حالیہ اعلان کردہ اقدام کے تحت جی 20 گروپ کے قرض دہندگان سے دوطرفہ قرض کی خدمات میں ریلیف کی درخواست کی جائے گی جس سے نجی شعبے کے قرض دہندگان کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گاڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق موڈیز کا کہنا ہے کہ قرض دہندگان کے لیے قرض کی خدمات کی ذمہ داریوں کی معطلی سے درجہ بندی پر اثرات کا امکان نہیں تاہم جی 20 گروپ نے نجی شعبے کے قرض دہندگان سے چند شرائط پر اس میں حصہ لینے پر زور دیا ہےایجنسی اس بات کا جائزہ لے گی کہ یا اس اقدام میں پاکستان کی شمولیت کا امکان نجی شعبے کے قرض پر عائد ہوگا جبکہ ملک نے قرض کی خدمت میں ریلیف کی درخواست کا فائدہ نجی شعبے تک کو پہنچانے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہےمزید پڑھیں موڈیز نے پاکستانی معیشت سےمتعلق مزید پیشگوئی کردی ایجنسی نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ اس شراکت سے ہونے والے کسی بھی قسم کے نقصان کی توقع کم درجہ بندی پر ہوگیموڈیز کے مطابق کورونا وائرس کا تیزی سے پھیلا عالمی معاشی نقطہ نظر میں تیزی سے بگاڑ اور خطرہ اٹھانے میں نمایاں کمی کے باعث شدید معاشی اور مالی نقصان کا خدشہ ہےایجنسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موجودہ خدشہ بنیادی طور پر معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے انے والی سست روی معاشی سرگرمیاں سست ہونے کے ساتھ ہی ٹیکس مدنی میں کمی اور کورونا وائرس سے متعلق حکومت کی مالی ضروریات سے متعلق ہیںموڈیز نے توقع کی کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت تقریبا ایک فیصد تک سکڑ جائے گی اور مالی سال 2021 میں دو سے تین فیصد تک ترقی کرے گی معاشی سست روی حکومتی مدنی پر دبا ڈالے گی اور معمولی طور پر اخراجات میں اضافہ کرے گی جس کے نتیجے میں مالی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 10 فیصد تک پہنچ جائے گایہ بھی پڑھیں کورونا وائرس موڈیز نے پاکستان کی ترقی کی شرح سے متعلق نئی پیش گوئی کردی نتیجتا موڈیز نے پیش گوئی کی کہ حکومت کے قرضے جون تک جی ڈی پی کے 8590 فیصد تک پہنچ سکتے ہیںتاہم معاشی سرگرمیاں جب معمول پر ائیں گی تو مالی اصلاحات کے بارے میں حکومت کا عزم اس کے ریونیو میں اضافے کے لیے اہم سہارا فراہم کرے گا مجموعی طور پر موڈیز کو توقع ہے کہ ابتدائی دھچکے کے بعد قرض کے بوجھ میں کمی کا رجحان دیکھا جائے گاگزشتہ 1824 مہینوں میں ہونے والے میکرو اکانومک ایڈجسٹمنٹ نے بھی بیرونی خطرات کے خدشات کو کم کردیا ہےموڈیز کے مطابق رواں اور ائندہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکانٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریبا فیصد یا اس سے کم ہوگا کیونکہ اشیا اور تیل کی درمدات میں کمی سے ترسیلات زر کی مد میں کمی واقع ہوگی جبکہ قرض دہندگان کی مالی اعانت کے ساتھ مل کر ادائیگیوں کا توازن وسیع پیمانے پر مستحکم ہونے کا امکان ہےریٹنگ ایجنسی کا کہنا تھا کہ ممالک جو سرکاری شعبے میں قرض کی خدمت میں ریلیف کے حصول کا انتخاب کرتے ہیں اس اقدام سے نجی شعبے کے قرض کی خدمات کی ادائیگی معطل ہوجانے یا دوبارہ مذاکرات کا باعث بن سکتے ہیں اور اسی تناظر میں موڈیز نے عالمی سطح پر پاکستان کی درجہ بندی کو جائزے میں رکھا ہےجائزے کے دوران موڈیز دیکھے گا کہ یا نجی شعبے میں شراکت کی رضاکارانہ نوعیت کے مطابق اقدام میں پاکستان کی شراکت کو نجی شعبے کے بغیر نافذ کیا جائے گا یا نجی شعبے کے قرض دہندگان کے لیے کسی نقصان کی توقع کی جا سکتی ہے
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق عالمی وبا کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان میں رواں مالی سال کا خسارہ تخمینے سے بہت زیادہ ہوگا رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں افراد ملازمت سے محروم ہوجائیں گے اور غربت میں اضافہ ہوگا مزید پڑھیں کورونا وائرس یو اے ای نے امدادی پیکج میں اضافہ کرکے اسے 70 ارب ڈالر تک کردیاخبررساں ادارے نے وزارت خزانہ کی دستاویزات کا حوالہ دے کر بتایا کہ محصولات میں کمی کی وجہ سے اخراجات اور عوامی اخراجات کا ترجیح بنیادوں پر دوبارہ تعین کرنا ہوگا کیونکہ کورونا کی وبا کے بعد مالی خسارہ 94 فیصد تک پہنچ سکتا ہے جبکہ گزشتہ خسارہ 74 فیصد تھا دو سرکاری عہدے داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ مالی صورتحال کے بارے میں حالیہ ملاقاتوں میں خدشے کااظہار کیا گیا تھا کہ یہ خسارہ دو ہندسے تک بھی پہنچ سکتا ہےواضح رہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے مئی کو رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ پیش گوئی کی تھی کہ مالی خسارہ فیصد تک ہوسکتا ہے علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر مخصوص اعداد وشمار بتانا مشکل ہے تاہم معیشت میں ایک سے ڈیڑھ فیصد گراوٹ ریکارڈ کی جا سکتی ہے انہوں نے ایک ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ابھی جہاں ہم موجود ہیں حالت خراب ہونے کا امکان ہےیہ بھی پڑھیں عالمی بینک کورونا وائرس سے متاثر پاکستان کیلئے 20 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکج منظوردستاویزات میں کہا گیا کہ مزدوروں اور غریب لوگوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں ایک اندازے کے مطابق غربت کی شرح 243 فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد ہوجائے گی سرکاری دستاویزات کے مطابق کم از کم 30 لاکھ افراد اپنی ملازمت سے محروم ہوجائیں گے جن میں 10لاکھ افراد صنعتی شعبے سے اور 20 لاکھ خدمات کے شعبے کے شامل ہوں گےدستاویزات میں بتایا گیا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ ڈیولپمنٹ اکنامکس نے پیشگوئی کی ہے کہ ملازمت میں کمی ایک کروڑ 80 لاکھ ہوسکتی ہےداخلی تخمینے کے مطابق اپریل میں ٹیکس وصولی میں 164 فیصد کی کمی واقع ہوئی انہوں نے بتایا کہ برمدات میں ارب 80 کروڑ ڈالر سے ارب 80 کروڑ ڈالر تک کمی واقع ہوگی جبکہ مشرق وسطی امریکا اور یورپ سے ترسیلات زر20 سے 21ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے جو 2019 میں 21 ارب 80 کروڑ ڈالر تھی تاہمدرمدات میں کمی سے مالی سال میں ملکی کرنٹ اکانٹ خسارہ کم ہوکر ارب 50 کروڑ ڈالر رہ جائے گا عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو کم سے کم ارب 40 ڈالر کی بیرونی مالی مدد ملنے کا امکان ہے یہ بھی پڑھیں کورونا وائرس کے باعث پریشان چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں کے لیے پیکجز کی منظوریرائٹرز کے مطابق مذکورہ رقم ئی ایم ایف کے سالہ پروگرام سے علیحدہ ہوگی خبررساں ادارے رائٹرز کو ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ہمارا بیرونی فنانس لک اس وقت بہت اچھا ہے ہماری توقعات اور اندازے مثبت ہیں عہدیداروں نے کہا کہ ملک کو ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے کورونا وائرس سے متعلق50 کروڑ ڈالر اور ورلڈ بینک سے ایک ارب ڈالر کی امداد مل رہی ہے حکومت نے چین سے بھی درخواست کی ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے تحت بنے بجلی کے منصوبوں سے متعلق ادائیگیوں کو ختم کیا جائے واضح رہے کہ دنیا بھر میں 43 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر اور لاکھ 97 ہزار سے زائد اموات کا سبب بننے والا مہلک کورونا وائرس پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب تک ملک میں مجموعی طور پر 36 ہزار 788 کیسز سامنے چکے ہیں جبکہ 791 اموات بھی ہوچکی ہیںمزیدپڑھیں ائی ایم ایف پروگرام اگلے سال کھربوں روپے کے مزید ٹیکس لگائے جائیں گےسرکاری سطح پر فراہم کردہ اعداد شمار کے مطابق ابھی تک 1403 نئے کیسز کا اضافہ ہوا ہے26 فروری 2020 کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے یا تھا جس کے بعد سے اب تک کے ڈھائی ماہ سے زائد کے عرصے میں کورونا وبا کے پھیلا میں وقت کے سات ساتھ تیزی دیکھنے میں ئی ہےفروری کے ابتدائی دن کی بات کریں تو اس میں صرف پاکستان میں کیسز تھے جو بعد ازاں مارچ کے مہینے کے خر تک 2007 تک پہنچ گئے
گزشتہ ماہ سے نافذ لاک ڈان کے بعد نہ صرف یومیہ اجرت والے افراد کو مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بہت سے متمول گھرانے بھی معاشی پریشانیوں کی زد میں ئےحکومت یا مخیر حضرات جتنا بھی راشن یا مالی معاونت کریں مگر متوسط طبقے کو نہ تو کوئی امداد دیتا ہے اور نہ ہی وہ خود سفید پوشی کی لکیر عبور کرتے ہیں ایسے میں جو لوگ بیروزگار ہوئے انہوں نے متبادل طریقوں سے نئے کام کی تلاش شروع کی بعض لوگ کاروبار کے نئے تجربات میں خاصے کامیاب ہوئے اور کچھ کے پلے ناکامی ئی اس تحریر میں ہم کچھ ایسے ہی لوگوں کے تجربات کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے وبائی پھوٹ کے بیچ مدن کے دیگر ذرائع تلاش کیےشہزاد کو لائن کاروبار میں مشکل پیش کیوں رہی ہےشہزاد کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی ہیں اور وہاں موجود ایک بوتیک کی فیکٹری میں درزی کا کام کرتے تھے لاک ڈان کے بعد بوتیک اور فیکٹری کی بندش کے باعث ان کی ماہانہ مدنی کا ذریعہ بھی ختم ہوگیا شہزاد نے معاشی بدحالی سے بچنے کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر سلائی کا کام جاری رکھنے کا ارادہ کیا شہزاد کا کہنا ہے کہ وہ دیگر ملبوسات کے علاوہ عروسی جوڑوں کو تیار کرنا بھی جانتے ہیں اب چونکہ لاک ڈان میں گاہک شہزاد کے پاس نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے خود گاہکوں سے رجوع کیا انہوں نے فیس بک اکانٹ اور واٹس ایپ سے لوگوں کو پیغام بھیجا کہ اگر کپڑوں کی معیاری سلائی کرانا چاہتے ہیں تو ان سے رابطہ کریں شہزاد نے سلائی کا پیغام تو لوگوں کو دیا مگر اپنی سلائی کے نمونے کے طور پر تیار شدہ ملبوسات کی تصاویر پوسٹ نہیں کیں کئی ہفتوں کی سرتوڑ کوشش کے بعد شہزاد کو فیس بک سے صرف کالیں ہی موصول ہوئیں مگر ایک سے بھی معاملات طے نہیں پاسکے شہزاد نے بتایا کہ ڈوری اور کنارے والے سوٹ کی سلائی 1200روپے مانگ رہا ہوں مگر لوگ 300 اور 400 روپے سے زیادہ سلائی دینے کو تیار نہیں ہیںشاید یہی مایوسی تھی کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے تفصیلات بتاتے وقت سخت ناگواری کا مظاہرہ کررہے تھے اور لہجے میں شکایت کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا ساتھ ہی انہوں نے نہایت ناگواری کے ساتھ اپنا فیس بک لنک دینے سے بھی انکار کردیامسز بلال کا پکوانوں کا کامیاب لائن کاروبارمسز بلال ڈیفنس میں ایک متمول گھرانے کی خاتون ہیں وہ ایک ریسٹورنٹ میں بطور شیف کام کرتی تھیں جبکہ ان کے شوہر سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں لاک ڈان کی وجہ سے ریسٹورنٹ بند ہوگئے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے کھلنے کا امکان بھی نظر نہیں تا حالات کو بھانپتے ہوئے ریسٹورنٹ کے مالک نے ملازمین کو فارغ کردیا اچانک ملازمت ختم ہونے پر ان کے ماتحت عملے میں بہت مایوسی پھیل گئی لیکن مسز بلال نے ہمت باندھی اور ان کے ساتھ مل کر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے انہوں نے فیس بک پر کے نام سے ایک پیج شروع کیا ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لذید کے ہیں مسز بلال نے فیس بک پیج پر نہ صرف اپنے پکائے ہوئے پکوانوں کی خوبصورت تصاویر پوسٹ کیں بلکہ معیار کا بھی وعدہ کیاچونکہ لذیذ ڈشز کی تیاری کے حوالے سے مسز بلال تو پہلے ہی اپنا نام رکھتی تھیں اور لاک ڈان میں تیار کھانے پینے کی اشیا کی دستیابی بھی تقریبا ختم ہوگئی تھی اس وجہ سے انہیں بہت اچھا رسپانس ملا اور لوگوں نے خوب رڈر بک کروائے مسز بلال کو پکوانوں کا رڈر پہلے پہل تو ان سے واقف چند افراد نے ہی دیا اور پھر فیس بک پیج پر کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے تبصرے دیکھ کر دیگر لوگوں نے بھی ان سے رابطے شروع کیے اور سلسلہ چل نکلا ہے مسز بلال کا کہنا ہے کہ لوگ ہمارے پکوانوں کی لذت اور معیار سے متاثر ہوکر رڈرز دے رہے ہیں اب تک ایک ہزار مختلف اسنیکس کی فروخت کرچکے ہیں مسز بلال کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے دونوں ساتھیوں کی ماہانہ تنخواہ اس فروخت سے حاصل کی ہے وہ رڈرز کی ہوم ڈیلیوری نہیں کرتی ہیں بلکہ لوگ اپنا سامان ان کے گھر سے حاصل کرلیتے ہیں اور وہیں ادائیگی کرتے ہیں مسز بلال کے شوہر کا تعلق سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبے سے ہے دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ لاک ڈان کے بعد وہ اس سلسلے کو بند کردیں گے کیونکہ باقاعدہ وٹ لیٹ بنائے بغیر یہ کام زیادہ دن نہیں چل سکتا اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ چونکہ لوگوں کو دیگر مشہور برانڈز کے پشن دستیاب ہوں گے اور وہ وہاں جاکر کھانا زیادہ پسند کریں گے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاک ڈان کھلنے کے بعد رڈرز میں نمایاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے مشتاق کو کیا مشکل پیش ارہی ہےاب کہانی سنیے جمشید روڈ کے رہائشی مشتاق صاحب کی جو لاک ڈان سے قبل اپنے دوست کی گاڑی ایک لائن ٹیکسی سروس کے لیے چلاتے تھے انہوں نے لاک ڈان کے بعد ایک ریسٹورنٹ کے ساتھ مل کر فاسٹ فوڈ ڈیلیوری کا کام شروع کردیا ابھی انہوں نے یومیہ سے جگہوں پر کھانوں کی ڈیلیوری شروع ہی کی تھی کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوگیارمضان المبارک کے دوران مشتاق نے بغیر تلے سموسے رول اور افطاری کے دیگر ئٹم فروخت کرنے کی کوشش شروع کی واٹس ایپ پر اس حوالے سے لوگوں سے رابطہ بھی کیا مگر بغیر تلے ئٹم کی فروخت نہ ہوسکی کیونکہ پہلے ہی بہت سے لوگ یہ چیزیں فروخت کررہے تھے ویسے بھی ان کا کام مال کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچانا تھا ایسے میں وہ معیار کی ضمانت نہیں دے سکتے تھے مگر چونکہ انہیں کام دوبارہ شروع ہونے کی کوئی امید بھی نہیں اس لیے انہوں نے بھی ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا ہے زرین کے کامیاب کاروبار کی کنجیزرین خان ایک گجراتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں کھانا بنانا اور دوستوں کو کھلانا ان کا مشغلہ ہے زرین کہتی ہیں کہ انہوں نے کھانا پکانے کا ہنر اپنی دادی سے سیکھا ہے جن کے کھانوں کی دھوم پورے خاندان اور حلقہ احباب میں تھی وہ ایک اعلی تعلیمی ادارے میں ملازمت کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں کھانا پکا کر اپنا شوق پورا کرتی تھیں لاک ڈان کی وجہ سے اب وہ دفتری امور گھر سے ہی سرانجام دیتی ہیں جن کو نمٹانے کے بعد بہت سا وقت بچ جاتا تھا بوریت سے بچنے کے لیے انہوں نے کھانا پکانے اور اسے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا زرین خان نے اپنی دادی کے نام سے منسوب فیس بک پیج بنایا اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم سے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ اگر انہیں معیاری افطاری درکار ہے تو رابطہ کریں زرین خان نے یہ کام یکم مئی سے شروع کیا ہے اور ان کے پاس رڈرز کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے پہلے سے رڈر ملتے تھے مگر اب یہ تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے اور اس سے زیادہ وہ ارڈرز بک نہیں کررہیں زرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن پہلے رڈر کی بکنگ لیتی ہیں خر وہ کون لوگ ہیں جو یہ ئٹم خریدتے ہیں اس حوالے سے زرین نے بتایا کہ پہلے پہل جب انہوں نے اعلان کیا تو ان کے قریبی دوستوں اور جاننے والوں نے رڈرز بک کروائے جنہوں نے پہلے ہی ان کے کھانے کا ذائقہ چکھا ہوا تھا فیس بک پر لوگوں کی جانب سے کھانے کی تعریف نے دیگر لوگوں کو بھی ان کے کھانے کی جانب راغب کیا ہے مسز بلال کے برعکس زرین نے اپنے رڈرز کی ڈیلیوری کے لیے ڈیلیوری بوائے سے رابطہ کیا ہوا ہے اور وہ کیش ڈیلیوری کے علاوہ بینک ٹرانسفر بھی قبول کرلیتی ہیں زرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں مقیم ایک فرد نے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا کہ وہ اپنے قرابت داروں کو کراچی میں افطاری بھجوانا چاہتے تھے سو انہوں نے بل کی رقم زرین کے بینک اکانٹ میں منتقل کردی اور زرین نے رڈر کی تکمیل کراچی کے پتے پر کردی انور خان نے وہی بیچا جس کی طلب تھیخر میں ملتے ہیں انور خان سے جو کراچی کے نیم متوسط علاقے میں اسکول اور کوچنگ سینٹر چلاتے تھے اسکول اور کوچنگ میں ملا جلا کر کوئی 500 بچے پڑھ رہے تھے اور ماہانہ ہزاروں روپے کی بچت ہورہی تھی مگر لاک ڈان کی وجہ سے تعلیمی ادارے کیا بند ہوئے اچانک ہی مدنی کا سلسلہ بھی بند ہوگیا بچوں کے والدین کا مقف ہے کہ جب پڑھایا ہی نہیں جارہا تو پھر فیس کس بات کی انور خان کے بھائی کپڑوں کی خرید فروخت کا کام کرتے تھے تو انہوں نے بھی بیروزگاری کے دنوں میں اس سلسلے کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا چونکہ جس وقت لاک ڈان شروع ہوا اس وقت گرمی کا موسم شروع نہیں ہوا تھا اور خواتین گرمیوں کے لیے لان کے ملبوسات تیار نہیں کراسکی تھیں اس لیے انہیں لان کے سوٹوں کی فروخت میں فائدہ محسوس ہوا اور انہوں نے اپنے بھائی سے لان کے کم قیمت سوٹ حاصل کرکے گھر گھر جاکر فروخت کا سلسلہ شروع کیا انور خان کا کہنا ہے کہ وہ یومیہ سے سوٹ فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور انہیں فی سوٹ 200 روپے کی بچت ہوتی ہے یہ مدنی اسکول اور کوچنگ کی مدنی سے بہت کم ہے مگر روزانہ کی دال روٹی چل رہی ہے اس سوال پر کہ کیا انہوں نے لائن فروخت کی کوشش کی ہے انور کا کہنا تھا کہ خریدار کپڑے کو دیکھ اور اس کو محسوس کرکے خریدتا ہے اس لیے لائن سے بہتر فروخت نہیں ہوپاتی ہے لائن سے دھوکہ دہی کے مسائل بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اپنا کاروبار شروع کرنے والوں کے لیےان تمام افراد کی زرق کمانے کی جدوجہد سے چند اہم نکات اخذ کیے جاسکتے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیںنیا پنپ اگر کوئی چیز یا خدمت فراہم کرنا چاہتے ہیں تو وہ دوسروں سے مختلف ہونی چاہیے لوگوں کو اگر وہی ذائقہ یا معیار مل رہا ہے جو پہلے سے ہی انہیں دستیاب تھا تو پھر کامیابی کے امکانات مشکل ہوجاتے ہیں مصنوعات کی طلبایسی چیزوں کو فروخت کیا جائے جس کی لوگوں کو فوری ضرورت ہو یا ان کی روزمرہ زندگی میں ان چیزوں کا کافی زیادہ استعمال ہو جیسا کہ انور خان نے کیا کہ لان کے ملبوسات کی فروخت کو اپنایا کیونکہ موسم گرما کی ابتدا تھی سو اس کی طلب بھی تھی اور بازار کی بندش کی وجہ سے وہ طلب انہوں نے پوری کردی حلقہ احبابزرین اور مسز بلال کی کامیابی میں سب سے اہم کردار ان کے حلقہ احباب کا تھا کیونکہ انہوں نے پہلے پہل نہ صرف ان سے خریداری کی بلکہ اپنی رائے کے ذریعے دیگر لوگوں کو بھی ان کے کاروبار سے متعارف کروایا اسی طرح انور خان کا اسکول اور کوچنگ سینٹر کی وجہ سے حلقہ احباب وسیع تھا اور انہیں بھی کسی قدر اسی طرح سے کامیابی حاصل ہوئی ہے دوسری طرف شہزاد اور مشتاق کا حلقہ احباب انہیں کاروبار میں مطلوبہ سپورٹ فراہم نہیں کرسکا لچکدار رویہ جب کسی بھی نئے طریقہ فروخت یا خدمات کو اپنانے کی کوشش کریں تو کو کسی قدر لچکدار رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو شہزاد اپنانے میں ناکام رہے شہزاد 1200روپے سوٹ کی سلائی طلب کرتا رہا جبکہ رابطہ کرنے والے 400 روپے تک دینے کو تیار تھے شہزاد اگر لچکدار رویہ اختیار کرتے تو یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے کام کو گے بڑھا سکتے تھے خود سے تیار کردہ مصنوعات کی اہمیتمشتاق کوشش کے باوجود کاروبار میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے سے کسی اور کی تیار کردہ اشیا کو فروخت کرنے کی کوشش کرر ہے تھے اب مسئلہ یہ تھا کہ ان چیزوں کی سپلائی کے لیے دیگر لوگوں نے پہلے سے لائن تیار کی ہوئی ہے اور انہوں نے خریداروں کا اعتماد بھی جیتا ہوا ہے ایسے میں کسی نئے فرد پر بھروسہ کیسے کیا جائےجو دکھتا ہے وہ بکتا ہےانور خان نے ایک نیا کام شروع کیا مگر انہوں نے ملبوسات کو گھر گھر جاکر اور لوگوں کو کپڑا دکھا کر فروخت کیا لوگوں نے بھی کپڑے کے معیار کو محسوس کرتے ہوئے اسے خرید لیا دوسری طرف شہزاد نے اپنے فیس بک پیج پر اپنے ہاتھوں سے سلے ہوئے کپڑوں کی تصاویر تک شائع نہیں کیں جس سے لوگوں نے انہیں رڈر نہیں دیے دوسری طرف مسز بلال اور زرین نے اپنے فیس بک پیج پر اچھی تصاویر کے ساتھ پکوانوں کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جس پر انہیں گے بڑھنے میں کافی مدد ملی معیار کی ضمانتکوئی بھی چیز جس کو فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اگر نے خود تیار ہی نہیں کی تو کس طرح سے معیار کی ضمانت فراہم کرسکتے ہیں مسز بلال کے مطابق ان کے بیف سموسے اسی لیے مشہور ہوئے کہ انہوں نے اچھا اور معیاری گوشت استعمال کیا تھا اگر بھی اس لاک ڈاون میں کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں تو پھر کو بھی ان چند اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام شروع کرنا ہوگا
واشنگٹن دنیا بھر کے 300 سے زائد قانون سازوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک پر زور دیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریب ترین ممالک کا قرض منسوخ کریں اور عالمی معاشی بحران سے بچنے کے لیے مالی اعانت میں اضافہ کریںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اپیل عالمی بینک اور ئی ایم ایف کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنماں کو بھیجے گئے خطوط میں سامنے ئیانہوں نے دونوں بین الاقوامی اداروں کو 15 دن میں جواب دینے کو کہامزید پڑھیں کورونا سے عالمی معیشت 32 فیصد سکڑنے کا خدشہواضح رہے کہ وائرس پر قابو پانے کے مقصد سے ہونے والے وسیع پیمانے پر ہونے والے لاک ڈان سے عالمی معیشت خاص طور پر غریب ممالک جہاں صحت کے کمزور نظام قرضوں کی اعلی سطح اور کم وسائل ہیں صحت اور معاشی بحران دونوں کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہےئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جورجیئا نے منگل کے روز کہا کہ ادارہ 2020 میں عالمی اٹ پٹ کی پیش گوئی پر نظرثانی کرنے اور اسے مزید کم کرنے کا امکان ہےان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے ڈھائی کھرب ڈالر سے زیادہ کی مالی امداد کی ضرورت ہوگیسابق امریکی صدارتی امیدوار سینیٹر برنی سینڈرز جنہوں نے مینیسوٹا سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ الہان عمر کے ساتھ اس اقدام کی قیادت کی تھی کہا کہ غریب ممالک کو اپنے عوام کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ہمارے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بجائے کہ وہ بڑے بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر واجب الادا غیر مستحکم قرضے ادا کریںیہ بھی پڑھیں پاکستان میں کورونا وبا سے 35 ہزار 458 افراد متاثر ساڑھے ہزار سے زائد صحتیابانہوں نے کہا کہ عالمی بینک ئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ان کے قرضے غربت بھوک اور بیماری میں ناقابل تصور اضافے کو روکنے کے لیے منسوخ کرنا چاہیے جو لاکھوں لوگوں کے لیے خطرناک ہیںقانون سازوں نے ئی ایم ایف کے غریب ترین ممالک میں سے 25 ممالک کی ماہ کے لیے قرض کی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے اقدام کا خیرمقدم کیا لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہےعالمی بینک نے کہا کہ وہ غریب ترین ممالک کے لیے اپنی امداد کو بڑھانے کے طریقوں پر غور کرے گا لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے خبردار کیا کہ قرضوں کی ادائیگی معاف کرنا اس کے کریڈٹ ریٹنگ کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور رکن ممالک کو کم لاگت فنڈ فراہم کرنے کی اس صلاحیت کو ضائع کر سکتا ہےخط میں تمام چھ براعظموں کے دو درجن ممالک سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے کہا کہ غریب ترین ممالک کی قرض کی خدمات کی ذمہ داریوں کو محض معطل کرنے کے بجائے منسوخ کیا جانا چاہیے جیسا کہ اپریل میں جی 20 ممالک کے گروپ نے اتفاق کیا تھاانہوں نے لکھا کہ ایسا کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ وہ ممالک اس وائرس سے لڑنے کے لیے درکار اخراجات کو ترجیح نہیں دے پائیں گے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی چین اور مالی منڈیوں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب عالمی معیشت کے 32 فیصد تک سکڑنے کا خدشہ ہے جو 1930 کی عالمی کساد بازاری کے بعد عالمی معیشت کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان ہوگااقوام متحدہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت کو ئندہ دو سالوں میں کورونا وائرس سے 85 ٹریلین ڈالر کے نقصان ہو سکتا ہے جس سے گزشتہ چار سال کے دوران حاصل ہونے والے تمام تر فوائد ضائع ہو جائیں گےمزید پڑھیں کورونا کے باعث سیاحت کی صنعت کو ایک کھرب ڈالر کے نقصان کا خدشہکورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلا سے قبل اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2020 میں عالمی معاشی شرح نمو میں 25 فیصد اضافے کا قوی امکان ہےلیکن اقوام متحدہ کی معاشی ٹیم کے سربراہ ایلیٹ ہیرس نے پریس کانفرنس سے خطاب میں سال کے وسط میں ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلا کے بعد عالمی معاشی منظر نامہ انتہائی تیزی سے تبدیل ہوا ہےانہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں پر بڑے پیمانے پر عائد پابندیوں اور بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال کے سبب عالمی معیشت 2020 کی دوسری سہ ماہی میں ایک جگہ ٹھہر گئی ہے ہم کساد بازاری کی ایک ایسی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں جس کی 1930 کی عالمی کساد بازاری کے بعد سے کوئی مثال نہیں ملتی یہ بھی پڑھیں کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 20 کھرب ڈالر تک نقصان کا خطرہواضح رہے کہ اپریل کے وسط میں عالمی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف نے عالمی معیشت فیصد تک سکڑنے کی پیش گوئی کی تھی لیکن اقوام متحدہ نے اس سے بھی زیادہ 32 فیصد تک معیشت کے سکڑنے کا عندیہ دیا ہےالبتہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے معیشت کے سکڑنے کے ساتھ ساتھ 2021 میں عالمی معاشی شرح نمو میں 58 فیصد ترقی کی نوید بھی سنائی تھی لیکن اقوام متحدہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتااقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ئندہ سال بھی غیریقینی صورتحال چھائی رہے گی جس کے سبب 34 فیصد معاشی بہتری کی توقع ہی کی جا سکتی ہےاس سلسلے میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں غربت میں مزید بڑے پیمانے پر اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیامزید پڑھیں کورونا وائرس کے بعد کی معیشت خدشات اور امکاناترپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے بھیانک اثرات کے سبب عدم مساوات اور غربت میں اضافے سے مزید 343 ملین لوگ غربت کی کم ترین لکیر سے نیچے چلے جائیں گے جن کی روزانہ مدنی 190 ڈالر ہے اور ان میں سے 56 فیصد کا تعلق افریقہ سے ہےاقوام متحدہ نے خطرہ ظاہر کیا کہ 2030 تک 13 کروڑ مزید افراد انتہائی غربت کا شکار افراد کی فہرست کا حصہ بن سکتے ہیں جس سے عالمی سطح پر ادارے کی غربت سے نمٹنے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا
واٹر اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی واپڈا نے دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے پاور چائنا اور فرنٹیئر ورکس رگنائزیشن ایف ڈبلیو او پر مشتمل جوائنٹ وینچر کے ساتھ 442 ارب روپے کے معاہدے پر دستخط کردیےمعاہدے میں ڈائی ورژن سسٹم مین ڈیم رسائی کے لیے پل اور 21 میگاواٹ صلاحیت کے تانگیر ہائیڈرو پاور منصوبے کی تعمیر شامل ہےمعاہدے پر دستخط کی تقریب میگاہائیڈل پراجیکٹس فس کمپلیکس میں منعقد ہوئی واپڈا کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم کے چیف ایگزیکٹوافسر سی ای او عامر بشیر چوہدری اور جوائنٹ وینچر کی جانب سے ینگ جیانڈو نے معاہدے پر دستخط کیے وفاقی وزیر بی وسائل فیصل واڈا چینی سفیر یا جنگ وفاقی سیکریٹری بی وسائل محمد اشرف چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین پاکستان رمی کے انجینئر انچیف لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز اور ڈائریکٹر جنرل ڈی جی ایف ڈبلیو او میجر جنرل کمال اظفر بھی اس موقع پر موجود تھےتقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر بی وسائل فیصل واڈا نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم پر تعمیراتی کام کا غاز ئندہ چند ہفتوں میں ہوجائے گا یہ منصوبہ پاکستان میں پانی خوراک اور توانائی سیکیورٹی کے لیے انتہائی ضروری ہےیہ بھی پڑھیں حکومت کا دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان بی وسائل کی ترقی کے حوالے سے موجودہ حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مئی میں مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کی گئی تھی جبکہ ایک سال کی قلیل مدت میں ملک میں دیامر بھاشا ڈیم کی صورت میں ایک اور بڑے کثیرالمقاصد منصوبے پر تعمیراتی کام شروع کیا جارہا ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتیاس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین واپڈا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ واپڈا اس اہم منصوبے کو مقررہ مدت میں مکمل کرے گا تاکہ ملک میں پانی اور بجلی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جاسکے انہوں نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 14065 ارب روپے ہے اور یہ 2028 میں مکمل ہوگا مجموعی لاگت میں زمین کی خریداری متاثرین کی باد کاری مقامی لوگوں کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات پر مبنی منصوبے مین ڈیم اور بجلی گھروں کی تعمیر شامل ہےان کا کہنا تھا کہ دیامر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 81 ملین ایکڑ فٹ جبکہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 4500 میگاواٹ ہوگی منصوبہ ہر سال نیشنل گرڈ کو 18 ارب 10 کروڑ یونٹ کم لاگت پن بجلی مہیا کرے گاقبل ازیں دیامر بھاشا ڈیم کے لیے کنسلٹنسی سروسز کا معاہدہ بھی ایوارڈ کیا جاچکا ہے جس کی مالیت 27 ارب 18 کروڑ روپے ہےمزید پڑھیں دیامر بھاشا مہمند ڈیم کی تعمیر کا اغاز 2019 میں ہوگا چیئرمین واپڈاواضح رہے کہ دو روز قبل ہی وفاقی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے غاز کا اعلان کیا تھاوزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات سابق ڈی جی ئی ایس پی لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے سماجی اربطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان پاکستان کی تمام نسلوں کے لیے تاریخی خبر ہے اور یہ ہماری معیشت کے لیے بھی بہترین ثابت ہوگاانہوں نے بتایا کہ ڈیم کی تعمیر سے 16 ہزار 500 ملازمتیں اور ہزار 500 میگاواٹ پن بجلی بھی پید اہوگیعاصم سلیم باجوہ کا کہنا تھا کہ منصوبے سے 12 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوگی جبکہ تربیلا ڈیم کی زندگی 35 برس بڑھ جائے گی
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے کسانوں کو کھاد پر سبسڈی زرعی قرضوں پر بینک مارک اپ میں کمی روئی کے بیج اور سفید مکھی کیڑے مار ادویات پر سبسڈی اور مقامی طور پر تیار ٹریکٹر پر سیلز ٹیکس سبسڈی فراہم کرنے کے لیے زراعی پیکج کی منظوری دے دی اسلام باد میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصول برائے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس ہوامزیدپڑھیں چینی بحران وزیر اعظم ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں شاہد خاقان عباسیکورونا وائرس سے متعلق 12 سو ارب روپے کے امدادی پیکج میں سے 100 ارب روپے چھوٹے اور درمیانے انٹرپرائزز ایس ایم ای اور زراعت کے لیے مختص کیے گئے ہیں پیکج کے تحت کھادوں کی خریداری پر کاشتکاروں کو تقریبا 37 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گیمختص کردہ رقم سے ڈے اے پی اور فاسفیٹک کھادوں کے فی بیگ پر 925 روپے اور یوریا اور دیگر نائٹروجن کھادوں کے فی بیگ پر 243 روپے سبسڈی دی جائے گی سبسڈی اسکیم کا اطلاق صوبوں کے ذریعے کیا جائے گا اور اس رقم کو اسکریچ کارڈ اسکیم کے ذریعے پہلے ہی پنجاب میں نافذ کیا جارہا ہےیہ بھی پڑھیں ای سی سی اجلاس میں مختلف منصوبوں کیلئے سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوریواضح رہے کہ ای سی سی پہلے ہی ایس ایم ایز کے لیے 50 ارب روپے کا پیکج منظور کرچکی ہے تاکہ تقریبا 35 لاکھ افراد کو پری پیڈ بجلی کی مد میں بلاواسطہ نقد ادائیگی کی جا سکے ای سی سی کو بتایا گیا کہ خریف سیزن کے لیے یوریا کا تخمینہ تقریبا 30 لاکھ ٹن اور ڈی اے پی 95 ہزار ٹن ہوگی زرعی پیکج کے تحت 88 ارب روپے کی لاگت سے کاشتکاروں کو زرعی قرضوں میں کمی اور 23 ارب روپے کی لاگت سے روئی کے بیج پر سبسڈی اور ارب روپے کی لاگت سے وائٹ فلائی کیڑے مار ادویات کی بھی منظوری دی گئیاس زرعی پیکج میں مقامی طور پر تیار کردہ ٹریکٹروں پر ایک سال کی مدت کے لیے سیلز ٹیکس پر ڈھائی ارب روپے کی سبسڈی بھی شامل ہوگیای سی سی نے غربت کے خاتمے اور سوشل سیفٹی ڈویژن کی جانب سے لائن کنٹرول ایل او سی کے ساتھ باد بادی لیے خصوصی ریلیف پیکج کی فراہمی کی تجویز کو بھی منظوری دے دیمزید پڑھیں ای سی پی اراکین کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے قوائد میں ترمیم مسترد کردیجس کے تحت لائن کنٹرول سے متصل خاندانوں کو 31 دسمبر 2020 تک ماہانہ ہزار روپے قسطیں تقسیم کی جائیں گیعلاوہ ازیں ای سی سی نے دفاعی خدمات کے زیر اہتمام پی او ایل یوٹیلیٹیز اور میڈیکل اسٹورز پر اخراجات پورے کرنے کے لیے دفاعی ڈویژن کی طرف سے 16 ارب روپے سے زائد اضافی گرانٹ کے لیے پیش کی گئی تجویز بھی منظور کرلیفنانس ڈویژن نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے ملازمین کو اکتوبر 2019 سے جون 2020 کے دوران تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 22 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ضمنی گرانٹ بھی منظور کرلیای سی سی نے وزارت قانون کی جانب سے کروڑ روپے کے سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دے دی جو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے ملازمین اور پریٹنگ اخراجات کے تحت استعمال ہوں گےعلاوہ ازیں وزارت انڈسٹری اینڈ پروڈکشن نے ای سی سی میں پاکستان اسٹیل ملز کے ہزار ملازمین کی معاوضے کے واجبات کی ادائیگی اور ریٹائرمنٹ کے لیے 18 ارب 74 کروڑ روپے کی گرانٹ کی تجوز پیش کی ای سی سی نے اس تجویز پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا اور وزارت صنعت پیداوار سے پی ایس ایم مینجمنٹ کے مشورے سے مذکورہ اسکیم پر دوبارہ کام کرنے کی ہدایت کی مزیدپڑھیں پی ٹی ائی حکومت کے دوران مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہای سی سی نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے پاسکو سے زاد جموں کشمیر حکومت کو ایک ارب 52 کروڑ روپے کی لاگت سے 35 ہزار میٹرک ٹن گندم کی فراہمی کی تجویز منظوری دی علاوہ ازیں گندم کی لاگت اور اتفاقی چارجز بھی شامل ہیں اور 50 فیصد ادائیگی وفاقی حکومت کورونا وائرس سے متعلق پیکج میں سے ادا کرے گی اس سے قبل وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کے باعث نافذ لاک ڈان سے متاثر ہونے والے چھوٹے تاجروں کے لیے 50 ارب روپے کے وزیراعظم چھوٹا کاروبار امدادی پیکج جبکہ ملازمت سے نکالے جانے والے افراد اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے 75 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تھا وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے کہا تھا کہ ای سی سی نے ایک اور اہم پیکج کی منظوری دی جس سے پورے پاکستان میں 35 لاکھ کاروبار مستفید ہوں گے اس پروگرام کا نام وزیراعظم کا چھوٹا کاروبار امدادی پیکج ہےواضح رہے کہ دنیا بھر کو لپیٹ میں لینے والی عالمی وبا کورونا وائرس کے کیسز میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اب تک پاکستان میں اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 35 ہزار 304 ہوگئی جبکہ 761 افراد انتقال بھی کرچکے ہیںسرکاری سطح پر کورونا وائرس کے فراہم کیے گئے اعداد شمار کے مطابق 13 مئی کو مزید 2150 نئے کیسز کی تصدیق کی جاچکی ہے
کراچی اسٹیٹ بینک پاکستان ایس بی پی سے جاری اعداد شمار کے مطابق رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں بیرونی قرضوں کی سروسنگ میں دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں 30 فیصد کمی ئیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے جنوری سے مارچ کے دوران دوسری سہ ماہی کے ارب 90 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں تیسری سہ ماہ میں بیرونی قرضے کی سروسنگ کی مد میں ارب 72 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کیے رواں مالی سال حکومت نے بیرونی قرضوں کی سروسنگ کی مد میں 11 ارب 58 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کیے جس میں ارب 95 کروڑ ڈالر سود بھی شامل ہے مزید پڑھیں جی 20 ممالک کے 18 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگحکومت نے مالی سال کی تین سہ ماہیوں میں قرضے کی سروسنگ کی مد میں مجموعی طور پر ارب 71 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ادا کیے مالیاتی ماہرین کو رواں مالی سال کے اختتام تک سروسنگ کی مجموعی لاگت 12 سے 13 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہےحکومت نے جی20 ممالک سے مئی سے جون 2021 تک ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کے قرضے کی ری شیڈولنگ کی درخواست کی ہےبین الاقوامی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف نے بھی کورونا وائرس کے باعث عالمی رہنماں سے غریب ممالک کو قرضوں میں ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے کرنٹ اکانٹ خسارے میں کمی کے باوجود قرضوں کی سروسنگ ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ پر اثرات مرتب کرتی ہے گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے 10 ارب 28 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں جولائی سے مارچ کے دوران کرنٹ اکانٹ خسارہ کم ہو کر ارب 76 کروڑ ڈالر ہوگیایہ بھی پڑھیں حکومت کی بیرونی قرضوں کی سروسنگ میں ریکارڈ اضافہمزید برں رواں مالی سال میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی بہتری ئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی 55 فیصد اضافہ ہوا خیال رہے کہ مالی سال 192018 کے دوران حکومت نے بیرونی قرضوں کی سروسنگ کی مد میں 11 ارب 55 کروڑ ڈالر ادا کیے جو اس سے ایک برس قبل کے دوران تقریبا 54 فیصد رہا تھاملک کے مرکزی بینک کی جانب سے 26 اگست 2019 کو جاری کیے گئے اعداد شمار کے مطابق حکومت نے اصل رقم کی مد میں ارب 65 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ادا کیے جبکہ ارب 93 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سود ادا کیا تھا
اسلام اباد ملک میں لاک ڈان کے دوران صنعتوں کے بند ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر ہونے والی مینوفیکچرنگ یعنی لارج اسکیل مینوفیچکرنگ ایل ایس ایم کی پیداوار مارچ کے مہینے میں سالانہ بنیاد پر 2295 فیصد کم ہوگئیپاکستان ادارہ شماریات پی ایس بی کے جاری کردہ اعداد شمار مارچ کے دوران عالمی معیشت کی سست روی کے مقامی مینوفیکچرنگ پر اثرات ظاہر کرتے ہیں جب صوبوں میں جزوی لاک ڈان نافذ تھاتاہم ائندہ ماہ جب پی ایس بی ڈیٹا جاری کرے گا تو اس میں اپریل میں نافذ ہونے والے مکمل لاک ڈان کے اثرات کہیں زیادہ ہوں گےماہانہ بنیادوں پر لارج اسکیل مینوفیکچرنگ فروری کے مقابلے مارچ میں 2199 فیصد کم رہییہ بھی پڑھیں مالی سال 192018 سست معیشت بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی کمی کا باعثفروری میں کووڈ 19 کے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ پر اثرات بہت معمولی تھے اور سالانہ بنیاد پر اس میں 115 فیصد جبکہ ماہانہ بنیاد پر 091 فیصد کمی ہوئی تھی اسی طرح مالی سال 202019 کے جولائی تا مارچ کے دوران ایک سال قبل کے مقابلے میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ 54 فیصد کم ہوئیخیال رہے کہ حکومت نے لاک ڈان جزوی طور پر ختم کر کے برامداتی صنعتوں کو بین الاقوامی ارڈرز پورے کرنے کے لیے اپنے افعال بحال کرنے کی اجازت دی تھیاس کے ساتھ مقامی ضروریات کو پورا کرنے والی صنعتوں کی بحالی کی بھی اجازت دے دی گئی تھیمزید پڑھیں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں فیصد کمی واضح رہے کہ ملک کی مجموعی مینوفیکچرنگ میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کا حصہ 80 فیصد ہے اور یہ مجموعی قومی پیداوار کے تقریبا 107 فیصد کے برابر ہےاس کے مقابلے میں چھوٹے پیمانے پر ہونے والی مینوفیکچرنگ مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی کے 18 فیصد اور ثانوی سیکٹر کے 137 فیصد کے برابر ہےیہ خبر 13 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
انڈین پریمیئر لیگ ئی پی ایل دنیا کی مہنگی ترین کرکٹ لیگ ہے جس پر بھارتی کرکٹ بورڈ بی سی سی ئی کا بھی بڑی حد تک مالی انحصار ہوتا ہے تاہم رواں برس کورونا وائرس کے باعث منسوخی سے 53 کروڑ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوسکتا ہےخبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ئی پی ایل میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کےمعاوضوں میں کمی کا تاحال کوئی منصوبہ نہیں ہےخیال رہے کہ 12 برس قبل شروع ہونے والی ئی پی ایل کورونا وائرس کے باعث طے شدہ شیڈول کے مطابق 29 مارچ کو شروع نہ ہوسکی تھی اور غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیاگیا تھامزید پڑھیںکورونا وائرس کے باعث ئی پی ایل غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتویئی پی ایل 2020 کی منسوخی سے بھارتی بورڈ کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی مالی دھچکا لگے گابی سی سی ئی کے خزانچی ارون دھومل کا کہنا تھا کہ بی سی ئی ئی کو بڑے مالی نقصان کاسامنا ہے اگر ئی پی ایل منعقد نہیں ہوئی تو بھارتی 40 ارب روپے 53 کروڑ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ نقصان ہوگاانہوں نے کہا کہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یا اس سال ئی پی ایل منعقد کرپائیں گے یانہیںبی سی سی ئی کی جانب سے 2008 میں ئی پی ایل شروع کردی گئی تھی جو دنیا کی مہنگی ترین اور منافع بخش لیگ بن گئی تھی جس سے بورڈ کو کروڑوں ڈالر کا سرمایہ جمع ہوتا ہےایک اندازے کے مطابق ئی پی ایل کا بھارتی معیشت میں سالانہ 11 ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ہوتا ہےارون دھومل نے کہاکہ ہم اس وقت مالی نقصان کاصحیح اندازہ لگا سکیں گے جب ہمیں یقین ہو کہ کس حد تک ٹورنامنٹ متاثر ہوا ہےڈف اینڈ فیلپس فنانشل کنسلٹنسی کے مطابق گزشتہ برس ئی پی ئی کی برانڈ ویلیو 67 ارب ڈالر تھی جس سے بھارت کے مختلف ادارے جڑے ہوئے ہیںیہ بھی پڑھیںہسپانوی فٹبال لا لیگا کے پانچ کھلاڑی کورونا وائرس کا شکارئی پی ایل کے 2020 تک سال کے ٹی وی حقوق کی مد میں بھارتی چینل اسٹار اسپورٹس نے 22 کروڑ ڈالر سے زائد ادا کیے تھے لیکن اطلاعات کے مطابق صرف 2020 میں 40 کروڑ ڈالر سرمایہ حاصل کرنے کا ہدف بنایا گیا تھاخیال رہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں اور فٹ بال کی مشہور لیگز بھی وقت پر شروع نہ ہوسکیں اور مقابلوں کو ملتوی کرنا پڑا ہےجنوبی افریقہ کی ٹیم رواں برس مارچ میں بھارت کا دورہ کرنے والی تھی لیکن لاک ڈان کے باعث اس سیریز کو بھی ملتوی کردیا گیاکورونا وائرس کے باعث کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہونے پر دنیا کے کئی ممالک کے بورڈز نے اسٹاف کی تنخواہوں میں کمی کرنے کا اعلان کیا تھاسٹریلیا کے کرکٹ بورڈ نے اپنے اکثر ملازمین کو تنخواہیں نہیں دیں جبکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے بھی تنخواہوں میں کمی کا اعلان کیامزید پڑھیںکھیلوں کی تنظیموں کو برس میں ایک ارب سے زائد گرانٹ دی گئیبی سی سی ئی کے صدر سارو گنگولی کے ہمراہ گزشتہ برس بورڈ کے مالی معاملات کا حصہ بننے والے ارون دھومل کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ کھلاڑیوں کے معاوضوں میں کٹوتی نہیں ہوگیان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری طرف سے خری قدم ہوگا جو ہم کریں گے اسی لیے ہم حتمی نقصان کے تعین کے لیے کام کررہے ہیںانہوں نے کہا کہ جب ہم نقصان کا جائزہ لے پائیں گے تو پھر ہم معاوضوں میں کٹوتی کا سوچیں گے لیکن یہ ہمارا خری قدم ہوگاارون دھومل نے کہا کہ بی سی سی ئی کی قیادت مسابقتی کرکٹ کی بحالی کے لیے ئی سی سی سے مسلسل تبادلہ خیال کررہی ہے
دوا ساز کمپنیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ادویات کی تیاری کا زیادہ انحصار بھارتی خام مال پر ہوتا ہے اس لیےبھارت سے درمد پر پابندی نہ لگائیں ورنہ 50 فیصد نقصان ہوگادوا سازوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ بھارت سے خام مال کی درمد پر پابندی سے نہ صرف ادویات کی کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ کووڈ19 کے خلاف پاکستان کے اقدامات بھی کمزور پڑجائیں گےکراچی پریس کلب میں پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن پی پی ایم اے کے نمائندوں نے نیوز بریفنگ میں حکومت کو خبردار کیامزید پڑھیںادویات اور متعدد وٹامنز بھارت سے منگوائی گئیں وزات قومی صحتدوا سازی کی صنعت کی تشویش کو اجاگر کرتے ہوئے پی پی ایم اے کے سینئر وائس چیئرمین سید فاروق بخاری کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو بھارت یا دیگر ممالک سے ادویات کے خام مال کی درمد پر پابندی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جبکہ ملک میں کووڈ19 کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہےان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں کووڈ19 سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قرنطینہ مراکز ئسولیشن کی سہولتیں اور ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز بنانے کے عمل میں ہے اور ایسی صورت میں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے ادویات کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانا اشد ضروری ہےسید فاروق بخاری نے کہا کہ پاکستان کی دوا کی صنعت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی مکمل پیداواری صلاحیت کو جاری رکھے اور اس کے لیے ہمارے بین الاقوامی برمدکنندگان سے خام مال کی مسلسل فراہمی کی ضرورت ہےانہوں نے کہا کہ بھارت اور دیگر ممالک سے خام مال کی درمد باقاعدہ قانون کے تحت ہوتی ہے جس کی نگرانی ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی پاکستان اور دیگر متعلقہ ریاستی ادارے کرتے ہیںپی پی ایم اے کے سینئر وائس چیئرمین کا کہنا تھاکہ پاکستان کی دوا سازی سے متعلق بین الاقوامی سپلائی چین میں رکاٹ کا کوئی بھی فیصلہ ملک میں کووڈ19 کا علاج کرنے والے طبی ماہرین کی صلاحیت پر برا اثر ڈالے گایہ بھی پڑھیںدواسازوں کا بھارت سے ادویات کی درمد پر تحقیقات کا مطالبہبھارت سے ادویات سازی کے خام مال کی درمد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے نشان دہی کی اور کہا کہ بھارت سے درمد ایس او نمر 429 کے تحت کی جارہی ہے جس کو وزارت تجارت اور نیشنل ہیلتھ سروس دونوں کی جانب سے منظور کیا گیا تھاپی پی ایم اے کے سابق مرکزی چیئرمین ڈاٹر قیصر وحید نے ایک سوال پر کہا کہ 95 فیصد ادویات درمدی خام مال کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں جس میں بھارت سے تقریبا 50 فیصد جبکہ دیگر چین اور یورپ کے چند ممالک سے درمد کیا جاتا ہےانہوں نے کہا کہ بھارت سے محدود پیمانے پر تیار ادویات درمد کی جاتی ہیں جن میں ویکسینز بھی شامل ہیںان کا کہنا تھا کہ معاملہ حکومت کے سامنے صحیح طریقے سے نہیں اٹھایا گیاڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا تھا کہ تمام ادویات ضروری ہیں جو صحت مند جسم اور دماغ کی ضرورت ہیں اسی طرح وٹامنز بھی دیگر ادویات کی طرح ضروری ہیں کیونکہ ان کمی سے صحت کے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیںیہ خبر 12 مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
اسلام اباد حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان کے جی 20 ممالک کے دسمبر تک قابل ادا 18 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈولنگ کے مرحلے میں ہے اور وہ کسی کمرشل قرضوں کی ری شیڈولنگ طلب نہیں کر رہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے وزارت اقتصادی امور کو 17 اپریل کو جی 20 ممالک کے نمائندگان سے غریب ممالک کے لیے اعلان کیے گئے قرضوں میں ریلیف کے حوالے سے مذاکرات کرنے کی اجازت دیای سی سی نے وزارت سے 11 مشترکہ قرض دہندگان سے قرضوں کی معطلی کے لیے بات چیت کرنے کے لیے کہاای سی سی نے وزارت کو مذاکرات کے بعد قرضوں کی ری شیڈولنگ معاہدے کی منظوری کے لیے ای سی سی سے رابطہ کرنے کی بھی تجویز بھی دیمزید پڑھیںکورونا وائرس کے باعث پاکستان کو مزید قرضوں کی ضرورت ہے مشیر خزانہمجموعی طور پر قرضوں میں ریلیف کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سال مئی سے جون کے دوران 11 ممالک کو پاکستان کی جانب سے 18 ارب ڈالر کی ادائیگی معطل ہوجائے گی یہ دونوں قرض کی اصل رقم اور اس کے سود کی شکل میں ہیں بعدازاں اس رقم کو دوبارہ ادائیگی کے شیڈول میں شامل کیا جائے گاپاکستان پر ان ممالک کے کل 155 قرضوں کے تحت قابل ادا رقم تقریبا 207 ارب ڈالر ہے جی 20 ممالک کے باقی ممبران کی جانب سے پاکستان پر کوئی قرض نہیںاجلاس کو بتایا گیا کہ تقریبا 41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بشمول 32 کروڑ ڈالر اصل قرضہ اور کروڑ 53 لاکھ ڈالر بطور سود اس سال مئی اور جون میں ادا کیے جانے تھےاسی طرح ایک ارب 38 کروڑ کی رقم جس میں ایک ارب 17 کروڑ روپے کے اصل قرضے کی رقم بھی شامل ہے جولائی سے دسمبر میں ادا کی جانی تھیاب سے دسمبر تک کل قرضے جو پاکستان نے ادا کرنے ہیں وہ ایک ارب 79 کروڑ ڈالر ہیں جس میں بنیادی قرضے کی رقم ایک ارب 40 کروڑ ڈالر اور قرض پر سود کے طور پر 38 کروڑ 66 لاکھ ڈالر ہےپاکستان نے 11 مئی 2020 سے جون 2021 کے درمیان 11 مشترکہ قرض دہندگان کو کل ارب 58 کروڑ ڈالر قرض ادا کرنا ہےاس عرصے کے دوران پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ سعودی عرب کو 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیں اس کے بعد چین کو 61 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور جاپان کو 57 کروڑ 80 لاکھ ڈالر فرانس کو تقریبا 28 کروڑ ڈالر امریکا کو 19 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور جرمنی کو 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیںاس عرصے کے دوران ادا کیے جانے والے دوسرے قرضوں میں کوریا کو کروڑ 30 لاکھ ڈالر کینیڈا کو کروڑ 45 لاکھ ڈالر روس کو کروڑ 10 لاکھ ڈالر اٹلی کو 90 لاکھ ڈالر اور برطانیہ کو 13 لاکھ ڈالر شامل ہیںیہ بھی پڑھیں حکومت کا 212020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکاناسی سلسلے میں پیر کو جرمن سفیر اسٹیفن شلگچیک نے فرانسیسی سفیر ڈاکٹر مارک بیریٹی اور معاشی قونصلر اینیس بوتیر کے ہمراہ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے فنانس ڈویژن میں ملاقات کیڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے سفیروں کو خوش مدید کہتے ہوئے انہیں بتایا کہ وائرس کے پھیلا سے قبل پاکستان اپنے کرنٹ اکانٹ خسارے کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور سخت مالی نظم ضبط کی بدولت مالی سال کے دوران شرح نمو میں فیصد اضافہ متوقع تھا لیکن اب وائرس کے بعد شرح نمو اور ترقی کے اہداف کا تعین یا اندازہ لگانا بہت مشکل ہےاس کے بعد مشیر خزانہ نے دونوں ممالک کے سفیروں سے جی20 ممالک کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی تفصیلات کے حوالے سے گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں مزید قرضوں کی ضرورت ہےمشیر خزانہ نے کہا کہ جی20 فورم پر قرضوں کی ری شیڈولنگ کے حوالے سے ٹھوس مقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ غریب ملکوں کو حقیقت میں مدد کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو اس ریلیف پیکج سے سب سے کم فائدہ پہنچا ہےانہوں نے کہا کہ جی20 ممالک کے قرض کی مد میں پاکستان کو جو 18 ارب ڈالر کی قسط دسمبر 2020 میں ادا کرنی ہے اس کا بھی شیڈول ازسرنو مرتب کیا جا رہا ہےالبتہ عبدالحفیظ شیخ نے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی کمرشل قرضوں کے شیڈول کو ازسرنو مرتب کرنے کی درخواست نہیں کرے گاان کا کہنا تھا کہ مزید قرضوں کا بوجھ اٹھانے سے قبل فنانس ڈویژن ضروریات کو مدنظر رکھے گا کیونکہ اکثر اوقات لیے گئے قرض کی رقم پرانے قرض کو چکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہےاس موقع پر مشیر خزانہ نے دوست ممالک کی جانب سے کی جانے والی مدد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان تین ممالک کے عوام کی بہتری کے لیے مستقبل میں بھی تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہے گا
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے پیش نظر پاکستان کو مزید قرضوں کی ضرورت ہے اور رواں سال دسمبر میں شیڈول 18 ارب ڈالر کی قسط کے شیڈول کو دوبارہ سے مرتب کیا جا رہا ہےپیر کو جرمن سفیر اسٹیفن شلگچیک نے فرانسیسی سفیر ڈاکٹر مارک بیریٹی اور معاشی قونصلر اینیس بوتیر کے ہمراہ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے فنانس ڈویژن میں ملاقات کیمزید پڑھیں حکومت کا 212020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکانڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے سفیروں کو خوش مدید کہتے ہوئے انہیں کورونا وائرس کی بحرانی صورتحال کے ملک کی معاشی صورتحال اور اس کے مستقبل میں ملک کی معاشی صورتحال پر مرتب ہونے والے اثرات سے گاہ کیاانہوں نے بتایا کہ وائرس کے پھیلا سے قبل پاکستان اپنے کرنٹ اکانٹ خسارے کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور سخت مالی نظم ضبط کی بدولت مالی سال کے دوران شرح نمو میں فیصد اضافہ متوقع تھا لیکن اب وائرس کے بعد شرح نمو اور ترقی کے اہداف کا تعین یا اندازہ لگانا بہت مشکل ہےانہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شرح نمو منفی ایک سے منفی ڈیڑھ فیصد تک ہو گییہ بھی پڑھیں کورونا وائرس پاکستان میں ساڑھے 31 ہزار سے زائد افراد متاثر اموات 690 ہوگئیںانہوں نے سفیروں کو ملک کے ضرورت اور محروم طبقے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے احساس پروگرام کے ذریعے دیے جانے والے ریلیف پیکج اور چھوٹے اور بڑے کارباروں کی مدد کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی گاہ کیااس کے بعد مشیر خزانہ نے دونوں ممالک کے سفیروں سے جی20 ممالک کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی تفصیلات کے حوالے سے گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں مزید قرضوں کی ضرورت ہےمشیر خزانہ نے کہا کہ جی20 فورم پر قرضوں کی ری شیڈولنگ کے حوالے سے ٹھوس مقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ غریب ملکوں کو حقیقت میں مدد کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو اس ریلیف پیکج سے سب سے کم فائدہ پہنچا ہےمزید پڑھیں بھارت میں ریکارڈ نئے کیسز سامنے نے کے باوجود ٹرین سروس بحالانہوں نے کہا کہ جی20 ممالک کے قرض کی مد میں پاکستان کو جو 18 ارب ڈالر کی قسط دسمبر 2020 میں ادا کرنی ہے اس کا بھی شیڈول ازسرنو مرتب کیا جا رہا ہےالبتہ عبدالحفیظ شیخ نے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی کمرشل قرضوں کے شیڈول کو ازسرنو مرتب کرنے کی درخواست نہیں کرے گاان کا کہنا تھا کہ مزید قرضوں کا بوجھ اٹھانے سے قبل فنانس ڈویژن ضروریات کو مدنظر رکھے گا کیونکہ اکثر اوقات لیے گئے قرض کی رقم پرانے قرض کو چکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہےاس موقع پر مشیر خزانہ نے دوست ممالک کی جانب سے کی جانے والی مدد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان تین ممالک کے عوام کی بہتری کے لیے مستقبل میں بھی تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہے گایہ بھی پڑھیں امریکی نیشنل گارڈ کا سربراہ بیک وقت کورونا ٹیسٹ منفی اور مثبت نے پر پریشانواضح رہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈان سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور ملک میں تقریبا دو ماہ تک جاری رہنے والے لاک ڈان سے معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیںپاکستان میں اب تک 31 ہزار سے زائد افراد وائرس کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 690 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں
دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہونے والے ایشیائی ملک جاپان کے سب سے بڑے سرکاری بینک کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو اعلی ترین عہدے پر تعینات کردیا گیاجاپان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں خواتین زیادہ تر ملازمتیں کرتی ہیں تاہم ساتھ ہی وہاں کے کئی اداروں میں خواتین کو اعلی عہدوں پر مرد حضرات کے مقابلے کم تعینات کیا جاتا ہےجاپان کے دیگر شعبوں کی طرح بینکنگ سیکٹر میں بھی بہت ساری خواتین خدمات سر انجام دیتی ہیں تاہم اس شعبے میں بھی اعلی عہدوں پر خواتین کو کم ہی تعینات کیا جاتا ہےجاپان کے سرکاری بینک جاپان میں خواتین ملازمین کا تناسب 47 فیصد ہے یعنی اس بینک کے ملازمین میں سے تقریبا نصف خواتین ہیں تاہم ان میں سے محض 13 فیصد خواتین ہی مینیجر جیسے عہدوں پر تعینات ہیںبینک جاپان کے اعداد شمار کے مطابق خواتین ملازمین میں سے محض 20 فیصد خواتین بینک کے قانونی معاملات پیمنٹ کے مسائل اور کرنسی کے حوالے سے مسائل کو دیکھتی ہیںجاپان میں گزشتہ کئی سال سے خواتین کی جانب سے اعلی اور غیر رسمی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی جانب سے کئی شعبوں میں خدمات سر انجام دینے سے وہاں صفنی مساوات کو فروغ ملا ہے تاہم اب بھی جاپان میں مرد حضرات کو اہمیت حاصل ہےیہ بھی پڑھیں ایئرپورٹ کے اعلی عہدے پر پہلی بار خاتون کا تقرربینک جاپان میں 1998 میں پالیسی بورڈ تشکیل دیے جانے کے بعد اس میں خواتین کو شامل کرنے کی بات کی گئی تاہم ایسا نہیں ہوسکا اور اسی طرح تک اسی بینک کے سب سے اعلی یعنی گورنر کے عہدے پر کسی خاتون کو تعینات نہیں کیا گیاجاپان میں خواتین کی بادی مرد حضرات سے زیادہ ہے تاہم اس باوجود جاپان کو خواتین کے حوالے سے 153 بہترین ممالک میں سے 121 واں نمبر حاصل ہےاعلی تعلیم اور مہارت ہونے کے باوجود خواتین کو گے بڑھنے کے مواقع نہ دیے جانے پر جاپان میں حکومتی سطح پر بھی اسے انتہائی کم موضوع بحث بنایا جاتا ہے تاہم اب جاپان کی سرکاری بینک کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو ایک اعلی عہدے پر تعینات کردیا گیاجاپانی اخبار جاپان ٹائمز کے مطابق 55 سالہ بینکار توکیکو شمیزو کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کردیا گیا اور 11 مئی کو انہوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیںتوکیکو شمیزو کو پالیسی بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز میں سے ایک ہوں گی اس بورڈ میں شامل تمام ارکان کے اختیارات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور یہ بورڈ بینک کی تمام تر پالیسی بنانے سمیت اس پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتا ہےمزید پڑھیں پہلی بار خاتون فوج کی سربراہ مقررایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہونے والی 55 سالہ توکیکو شمیزو اس عہدے سے قبل 2010 میں پہلی خاتون برانچ مینیجر بنی تھیں اور اسی طرح انہوں نے پہلی خاتون کے طور پر بینک جاپان میں اعلی عہدوں پر بیرون ممالک بھی خدمات سر انجام دیںتوکیکو شمیزو کو پالیسی بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز میں شامل کیے جانے کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ممکنہ طور پر وہ مستقبل میں بینک کی پہلی خاتون سربراہ یا گورنر بھی تعینات ہو سکتی ہیں تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور خصوصی اقدامات اسد عمر نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطالبے پر چینی تحقیقاتی کمیشن مجھے ضرورت بلائے اور برمد سے متعلق کوئی سوال ہے تو وزیر اعظم سے نہیں بلکہ مجھ سے پوچھا جائےسماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں اسد عمر نے کہا کہ شاہد خاقان نے مطالبہ کیا ہے کے کمیشن مجھے اور وزیراعظم کو چینی برمد کرنے کی اجازت کے فیصلے کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے بلائےمزید پڑھیںچینی بحران وزیر اعظم ای سی سی چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں شاہد خاقان عباسیان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی کی سفارش پر کیا تھا اگر سوال ہے تو مجھ سے پوچھا جائے وزیراعظم سے نہیںاسد عمر نے کہا کہ کمیشن سے درخواست ہے کے مجھے ضرور بلایا جائےواضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور ای سی سی کے چیئرمین کرپٹ اور نااہل ہیں کیونکہ ای سی سی اور کابینہ کے فیصلے کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھیںوفاقی تحقیقاتی ادارے ایف ئی اے ہیڈکوارٹرز اسلام باد میں چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد خرم دستگیر کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت پر شوگر انکوائری کمیشن میں پیش ہوئے اور کمیشن کے سامنے کوئی سیاسی بات نہیں کیانہوں نے کہا تھا کہ چینی کے نام پر پاکستانی قوم پر 100 ارب روپے کا ڈاکا مارا گیا بلکہ ڈاکا جاری ہے ای سی سی اور کابینہ کے فیصلے کے بعد چینی کی قیمتیں بڑھیںشاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کرتے ہوئے کمیشن کو کہا کہ چینی بحران سے متعلق وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین کو بلا کر پوچھیںیہ بھی پڑھیںچینی بحران تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو پیش ہونے کی اجازت دے دیاس سے قبل چینی بحران کے تحقیقاتی کمیشن نے شاہد خاقان عباسی کو ثبوت جمع کرانے کے لیے پیش ہونے کی اجازت دی تھییاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم عمران نے عوام کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اعلی سطح کے کمیشن کی جانب سے اڈٹ رپورٹ کا تفصیلی نتیجہ انے کے بعد گندم اور چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گیچینی اٹے کے بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹیاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف ئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کی برمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو جہانگیر خان ترین کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیایہ بھی پڑھیںحقائق مسخ کرنے سے وزیراعظم وزیراعلی پنجاب کی چوری چھپ نہیں سکتیمریم اورنگ زیبرپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کیاس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوارپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 2960 فیصد حصہ برامد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کیکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئیرپورٹ میں بتایا گیا کہ برامد کنندگان کو طرح سے فائدہ ہوا پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 7144 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھیملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہےمزید پڑھیںوزیراعظم کی عوام کو گندم چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانیرپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں ئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی اس لیے مشیر تجارت صنعت پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ ایس اے بی نے 10 لاکھ ٹن چینی برمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے بھی منظوری دی حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھاتاہم چینی کی برمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دیرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری سے مئی 2019 تک پنجاب میں چینی کی برمد پر سبسڈی دی جاتی رہی اس عرصے میں مقامی مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 71 روپے ہوگئی لہذا چینی برمد کرنے والوں کو دو طریقوں سے فائدہ ہواتحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک یہ کہ انہوں نے ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی جبکہ مقامی مارکیٹ میں قیمت بڑھنے کا بھی انہیں فائدہ ہوا
اسلام باد وزارت پیٹرولیم نے ایک خطرناک اقدام کے تحت تیل کی مجموعی درمدات کے 20 فیصد استحکام ہیجنگ اور اس زیادہ شرح کی قیمت صارفین تک منتقل کرنے کے لیے تیل کی خریداری موجودہ کم قمیت کے مقابلے میں سے 15 ڈالر فی بیرل زیادہ نرخ پر خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹیای سی سی کو ارسال کی گئی سمری میں وزارت پیٹرولیم نے کہا ہے کہ یہ تجویز خام تیل کی قیمتوں سے بلواسطہ یا بلاواسطہ منسلک پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی درمدت کے کچھ حصے کو مستحکم کرے گیمزید یہ کہ اس میں خام تیل موٹر گیسولین ہائی اسپیڈ ڈیزل اور اس کے ساتھ ساتھ مائع قدرتی گیس ایل این جی بھی شامل ہے مزید پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات میں 30 روپے تک کمی پیٹرول 15 روپے سستامذکورہ تجویز کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سٹی بینک حبیب بینک اور جے پی مورگن سے مشاورت کے بعد حتمی شکل دی گئیادھر پاکستان اسٹیٹ ئلپی ایس او کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ تجویز کے تحت پاکستان اور اس کے صارفین پیٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی کے معاملے میں موجودہ مارکیٹ کریش کا مکمل فائدہ نہیں اٹھائیں گے انہوں نے کہا کہ بہتر خیال یہ ہوگا کہ تمام ئل کمپنیز خاص طور پر پی ایس او کو ان کی خریداریوں سے ہٹ کر متوازن طریقے سے کم قیمتوں کا مکمل فائدہ اٹھانے کی اجازت دی جائے کیونکہ تجویز کردہ نرخ بہت زیادہ ہیںدوسری جانب وزارت پیٹرولیم نے کہا کہ مذکورہ بالا تمام بینکوں نے پاکستان کو 15 سے 20 فیصد ایکسپوژر سے شروع کرنے اور اس میں اضافے پر غور کرنے کی تجویز دی تھی بینکرز نے قیمتوں کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن قیمتیں گھنٹوں کے حساب سے تبدیل ہوتی ہیں تو ہیجنگ پروگرام کی قیمت بڑھ گئیوزارت کے مطابق بینکوں نے تجویز دی کہ مارکیٹ میں کچھ دیر تک قیمتوں کے استحکام کا انتظار کیا جائےعلاوہ ازیں ای سی سی کی جانب سے پی ایس او کو بطور کانٹر پارٹی منظوری دینے اور وزارت خزانہ کو پاکستان اسٹیٹ ئل کی جانب سے کارکردگی کی ضمانت دینے کی درخواست کی گئی ہے اس کے ساتھ ہی سیکریٹری خزانہ کی قیادت میں وزارت پیٹرولیم قانون اور منصوبہ بندی کے سیکریٹریز پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ مخصوص بینکس کے ساتھ پشنز کو حتمی شکل دی جائے جبکہ حتمی منظوری کے لیے شارٹ نوٹس پر ای سی سی کی منظوری کی ضرورت ہوگیای سی سی کو ئل اینڈ ریگولیٹری اتھارٹیاوگرا کو ایل این جی یا دیگر کسی مصنوعات کی ماہانہ قیمتوں میں منتخب ہونے کی صورت میں پالیسی ہدایات دینے کا بھی کہا گیا ہےخیال رہے کہ 30 اپریل کو حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے تک کمی کا اعلان کیا تھاواضح رہے کہ کورونا وائرس کے باعث عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کے باعث ائل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا نے یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیموں میں 44 روپے تک کمی کی سمری پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال کی تھییہ بھی پڑھیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کا امکاناوگرا نے یکم مئی سے پیٹرول 20 روپے 68 پیسے فی لیٹر سستا کرنے کی تجویز دی تھی جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل ئل کی قیمتوں میں بالترتیب 33 روپے 94 پیسے اور 24 روپے 57 پیسے کمی کی تجویز دی گئی تھیتاہم حکومت نے ایک بار پھر عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کا پورا ریلیف عوام کو منتقل نہیں کیا تھا
اسلام باد ایشیائی ترقیاتی بینک اے ڈی بی نے اپنے سپلائی چین فنانس پروگرام کے تحت ان کمپنیوں کی مدد کے لیے 20 کروڑ ڈالر وقف کردیے ہیں جو بینک کے ترقی پذیر ممالک میں کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے ادویات اور دیگر ضرورت کا سامان بنا رہی ہیں اور اسے تقسیم کر رہی ہیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پروگرام کا مقصد صحت کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے این 95 ماسکس ٹیسٹ کٹس دستانے ذاتی تحفظ کا سامان پی پی ایز اور وینٹی لیٹرز حفظان صحت کی اشیا اور دیگر اہم سامان جیسی مصنوعات کے لیے سپلائی چین کو مستحکم کرنا ہےاے ڈی بی کی اس امداد میں چینلنگ فنڈ سے مینوفیکچررز ان کے فراہم کنندگان اور تقسیم کاروں کو پوسٹ شپمنٹ پوسٹ ایکسیپ ٹینس فنانس پری شپمنٹ قرض اور ڈسٹری بیوٹر فنانسنگ کے ذریعے ہدف بنایا گیا ہےمزید پڑھیں اے ڈی بی نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کردیاواضح رہے کہ اہم مال کی برمدات کی بندش نے 22 معیشتوں جس میں پاکستان بنگلہ دیش کینیڈا چیک ری پبلک مصر فرانس جرمنی بھارت انڈونیشیا ایران جاپان اردن قزاقستان کینیا ملائیشیا پولینڈ چین روسی فیڈریشن کوریا تائپی تھائی لینڈ اور یوکرین شامل ہیں ان میں فیس ماسکس کی قلت کو بڑھا دیا ہےان معیشتوں میں 18 مارچ سے برمدات پر پابندی عائد ہےاس کے ساتھ ساتھ اے ڈی بی کے تجارتی مالیاتی پروگرام میں 80 کروڑ ڈالر کے اضافے کو بھی متحرک کیا جائے گا اور اس اضافے کے ساتھ ہی ہنگامی صورتحال میں مقامی اور سرحد پار تجارت میں مدد کے لیے سہولیات کی فراہمی میں نرمی کی جائے گییہ پروگرام بحران کے ردعمل کا ایک مثر ذریعہ ہے کیونکہ اس کے ترقی پذیر ایشیا اور عالمی سطح دونوں میں بہت سے بینک سے مضبوط روابط ہیں عالمی سطح پر بینکس ایشیائی ترقیاتی بینک کے براہ راست تعاون کے اثرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے نجی شعبوں کے مالی وسائل کی شمولیت سے مالی تعاون کو متحرک کرنے میں خاص طور پر مددگار ہوسکتے ہیںاے ڈی بی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث بڑھتی ہوئی طلب جو جزوی طور پر خوفزدہ ہوکر خریداری ذخیرہ اندوزی اور پی پی ای کے غلط استعمال سے جڑی ہے وہ عالمی سپلائیز میں خلل ڈال رہی ہے اور زندگیوں کو خطرہ لاحق کررہی ہےساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ سرجیکل ماسکس گوگلز دستانے اور گانز کی طلب ڈرامائی طور پر بڑھنے سے ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اور یہ قیمتوں میں نمایاں اضافے کی طرف اشارہ ہے جبکہ پروڈکشن بیک لاگ کے باعث رڈرز پورا کرنے میں سے ماہ لگ سکتے ہیںیہ بھی پڑھیں اے ڈی بی سے 30 کروڑ ڈالر سے زائد قرض کے حصول کیلئے حکومتی دستاویزات کلیئرسب سے اہم چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ متاثرہ ممالک میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اور دیگر ایسے لوگوں کے لیے پی پی ایز کی اہم مصنوعات کا حصول ممکن ہو خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جنہیں اس وائرس کے پھیلا سے سب سے زیادہ خطرہ ہےواضح رہے کہ سال 2018 میں شعبہ صحت میں پی پی ایز کے لیے عالمی مارکیٹ کا تخمینہ ڈھائی ارب ڈالر مالیت لگایا گیا تھا دستانوں کی فروخت میں ہونے والی مدنی کا سب سے زیادہ حصہ 25 فیصد تھا اس کے بعد سوٹس یا کورالز 22 فیصد حصے رکھتے تھے جبکہ فیس ماسکس اور ٹوپیاں حصے کے حساب سے تیسرے نمبر پر 14 فیصد کے ساتھ موجود تھیں ریجن کے حساب سے دیکھیں تو 2018 میں امریکا کا مارکیٹ شیئر سب سے زیادہ 33 فیصد تھا جبکہ اس کے بعد ایشیا اور پیسیفک 28 فیصد اور یورپ 22 فیصد پر موجود تھا
اسلام باد ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ ریونیو ایف بی نے بجٹ 212020 کے لیے تجاویز کا مسودہ تیار کرلیا ہے جس میں قوانین میں سانیوں اور ٹیکس نظام میں بے قاعدگیوں کے خاتمے پر توجہ مرکوز کی گئی ہےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف بی کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس فری بجٹ کا اعلان کیے جانے کا امکان ہےانہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ عیدالفطر کے بعد بین الاقوامی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف سے مشاورت کے بعد کیا جائے گامزید برں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ئندہ سال کے بجٹ کو پہلے ہی کورونا بجٹ قرار دے چکے ہیں مزید پڑھیں رواں مالی سال خسارہ بڑھے گا محصولات کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں حفیظ شیختاہم اس کا انحصار ئی ایم ایف پر ہے کہ وہ سال 2021 کے ٹیکس کے لیے پاکستان کے کم ٹیکس ہدف کی تجویز پر غور کرے گا یا نہیں ئی ایم ایف نے ئندہ سال کے لیے 51 کھرب روپے کے ٹیکس ہدف کی تجویز دی تھی جو مالی سال 2020 میں پیش کیے گئے سے 30 گنا زیادہ ہےرواں برس کے لیے ئی ایم ایف نے مختلف کاروبار پر کورونا وائرس کے اثرات کے باعث ایف بی کا ٹیکس ہدف 48 کھرب سے کم کرکے 39 کھرب کردیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس بینچ مارک کے حصول کا انحصار بھی عید سے قبل اور بعد اور جون کے پورے مہینے میں کاروباری سرگرمی بہتری پر ہےایک اور سینئر ٹیکس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ئی ایم ایف حکام ئندہ بجٹ کی سمت کے تعین کے لیے پاکستانی معاشی ٹیم سے ملاقات کریں گے کہ یہ ٹیکس فری ہوگا یا ئندہ سال کے ہدف کے حصول کے لیے کچھ ٹیکس عائد ہوگاعہدیدار نے کہا کہ ایف بی نے ئندہ سال کی بجٹ تجاویز کے حوالے سے کام مکمل کرلیا اور اس وقت بے قاعدگیوں کی شناخت کی جارہی ہے تاکہ ان کا خاتمہ کیا جاسکےانہوں نے مزید کہا کہ ہم ٹیکس دہندگان کی سانی کے لیے ٹیکس قوانین کو سان اور سادہ بنانے پر بھی کام کررہے ہیں عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف بی ٹیکس سے متعلق مسائل کی شناخت کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی مصروف عمل ہے یہ بھی پڑھیں ایک ماہ میں تیسری مرتبہ شرح سود میں کمی پالیسی ریٹ فیصد مقرران کا مزید کہنا تھا کہ ہم ئندہ بجٹ میں کچھ شعبوں کے لیے ٹیکس مراعات پر بھی غور کریں گے تاکہ انہیں کاروبار کی بحالی میں مدد مل سکےانہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے برمدی شعبوں کے لیے صفر شرح ٹیکس ٹیکسٹائل کپڑے کی مقامی فروخت پر سیلز ٹیکس کی کم شرح کی اجازت تاجروں کے لیے قومی شناختی کارڈ کی شرط سے استثنی اور سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے فیصد کرنے کی تجاویز دی گئی ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام مطالبات اسٹیک ہولڈرز کے ہیںبجٹ کی تیاری سے گاہ ٹیکس حکام نے کہا کہ ایف بی نئے ٹیکس اقدامات متعارف کرنے سے گریز کرے گا لیکن پہلے سے موجود اقدامات جاری رکھنے کا دفاع بھی کرے گا انہوں نے کہا کہ اس سے ہمارے موجودہ ٹیکس کو فی الحال بچانے میں مدد ملے گی اور یہ کیسے گے بڑھتا ہے یہ گزرتے سال کے ساتھ دیکھا جائے گا ٹیکس حکام نے کہا کہ اس وقت کاروبار کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تعاون کے ذریعے ٹیکس دہندگان کو سانیاں فراہم کرنے پر توجہ مرکوز ہے جب معیشت بحال ہوگی تو ایف بی ٹیکس کی کسی نئی تجاویز کی حمایت کرے گاتاہم ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ایف بی موجودہ ٹیکس اقدامات میں سے زیادہ کو ختم نہیں کرسکتا ہمیں حکومتی مشینری چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے انہوں نے مزید کہا کہ دیگر اقدامات جیسا کہ نوٹوں کی اشاعت سے ملک میں مہنگائی کا دبا بڑھے گا
وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کا مالی خسارہ رواں مالی سال میں فیصد تک بڑھ جائے گا کیونکہ معیشت کورونا وائرس کے بحران سے دوچار ہےواضح رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 28 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 623 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں مزید پڑھیں ڈاکٹر حفیظ شیخ کیسے ثابت ہوں گےدوسری جانب حکومت نے ہفتے سے ملک گیر سطح پر لاک ڈان میں نرمی کا اعلان کیا ہے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا وائرس سے پہلے ہمارے پاس اس خسارے کا امکان 76 فیصد تھا انہوں نے کہا کہ اب کورونا وائرس کے بعد ہمارے خیال میں یہ خسارہ فیصد سے زیادہ ہوگا اور یہ فیصد تک بھی جا سکتا ہے اسلام باد میں اپنے دفتر میں غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے حفیظ شیخ نے کہا کہ ملک محصولات کے ہدف کو حاصل نہیں کرسکے گا جو حال ہی میں نیچے کی طرف گامزن تھا انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ئی ایم ایف سے اتفاق کیا گیا جس نے ملک کو سال دیے ہیںواضح رہے کہ ائی ایم ایف نے پاکستان میں معاشی استحکام کے لیے سال کے عرصے میں ارب ڈالر قرض فراہم کرنے کی منظوری دے دی تھی یہ بھی پڑھیں ایک ماہ میں تیسری مرتبہ شرح سود میں کمی پالیسی ریٹ فیصد مقررحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے 30 ارب 20 کروڑ ڈالر کے محصولات جمع کرنےکا ہدف طے کیا لیکن 19 فیصد کمی کے ساتھ اب یہ 24 ارب 54 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ محصولات اور برمدات کو نقصان پہنچا ہے ترسیلات زر متاثر ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے لوگ پریشانی کا شکار ہیںدوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترقیاتی شراکت داروں دوست ریاستوں مالیاتی اداروں اور جی 20 ممالک کی جانب سے تیز قرضوں امداد اور قرض سے نجات کی مدد سے پاکستان کو اپنی معیشت کو تیز تر رکھنے کے لیے ایک مالی جگہ پیدا کرنے کا امکان ہےحفیظ شیخ نے کہا کہ اسلام باد نے 70 سے زائد ممالک کو جی 20 کے ذریعے پیش کردہ قرضوں سے متعلق امداد کی درخواست کی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پاکستان کو ایک سال کے لیے تقریبا ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی ادائیگی موخر ہوگیمزید پڑھیں یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے لاکھ ٹن گندم مختص کردی گئیانہوں نے کہا کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک ہمیں خصوصی پیکیج دے رہے ہیں حفیظ شیخ نے مزید کہا کہ اگر ابھی قرض دہندگان کے دروازے پر دستک نہیں دے رہے تو پھر اس مدت میں گھر میں زیادہ دبا والی ضروریات تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں مالی سال 20202021 کا ئندہ بجٹ جون کے اوائل میں پیش کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے انہوں نے کہا کہ پہلا مقصد کورونا سے شہریوں کو متاثر ہونے سے بچانا ہے ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مزید کہا کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں گے کہ غریب افراد کو نقد رقم بھیجنے کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز کی فراہمی ممکن ہو انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی صنعت کو بالخصوص برمدی پہلو کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی یہ بھی پڑھیں خدشات کا سامنا کرنے والے ممالک کا قرضوں میں ریلیف کیلئے چین سے رابطہواضح رہے کہ حکومت نے کاروبار اور صنعت کی بحالی کے لیے پہلے ہی متعدد پیکیج متعارف کرائے ہیں جن میں ایک کھرب روپے کا پیکج شامل ہے تاکہ کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کی بحالی اور 12 کروڑ افراد کو نقد رقم کی منتقلی میں مدد ملےاس ضمن میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ان کی حکومت ئندہ بجٹ میں مالی خسارے کو کم کرنے کے ساتھ اخراجات میں بھی کمی لانے کی کوشش کرے گی جس میں دفاع سمیت دیگر ادارے بھی شامل ہیں
اسلام باد انٹرنیشنل لیبر رگنائزیشن ئی ایل او سے جاری نئے بریفنگ پیپر میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث نافذ لاک ڈان اور اس کے پھیلا کو روکنے اقدامات سے دنیا کے ارب غیر رسمی شعبوں سے وابستہ افراد میں سے ایک ارب 60 کروڑ متاثر ہوئےڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس میں کہا گیا کہ ان میں سے اکثر افراد سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں یا چھوٹے یونٹس میں کام کرتے ہیں جن میں رہائش اور فوڈ سروسز مینوفیکچرنگ ہول سیل اور ریٹیل اور شہری مارکیٹ کے لیے کام کرنے والے 50 کروڑ سے زائد کسان شامل ہیں جنہیں زیادہ معاشی دھچکا پہنچنے کا خطرہ ہےرپورٹ میں مزید کہا گیا کہ زیادہ خطرات کا شکار شعبوں میں خواتین خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں کورونا وائرس لاک ڈان اور اس کے پھیلا کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات نے کم مدن والے ممالک میں دنیا کی غیررسمی معیشت سے وابستہ ملازمین میں غربت کی سطح بڑھنے کے خطرے میں 56 فیصد پوائنٹس اضافہ کردیامزید پڑھیں کورونا وائرس امریکا میں اپریل میں کروڑ سے زائد نوکریاں ختمزیادہ مدن والے ممالک میں غیر رسمی ورکرز کی غربت کی سطح میں 52 فیصد پوائنٹس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ زیادہ متوسط مدن والے ممالک میں اضافے کا تخمینہ 21 فیصد پوائنٹس ہےاس کے ساتھ ہی ان ورکرز کے لیے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت کے باعث بہت سے ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے اقدامات پر کامیابی سے عملدرمد نہیں کیا جاسکتارپورٹ میں کہا گیا کہ یہ صورتحال بادی کے بچا اور عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کی حکومتی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے یہ غیر رسمی معیشتوں کی بڑی تعداد رکھنے والے ممالک میں سماجی تنا کا ذریعہ بن سکتی ہے اس میں مزید کہا گیا کہ اکثر غیر رسمی ورکرز کے پاس تعاون کا دیگر کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باعث انہیں ناقابل حل المیے کا سامنا ہے کہ وہ بھوک سے مرجائیں یا وائرس سے اشیائے خور ونوش کی فراہمی متاثر ہونے سے اس میں مزید اضافہ ہوا جس نے غیر رسمی معیشت کو خصوصی طور پر متاثر کیا ہے دنیا کے کروڑ 70 لاکھ گھریلو ملازمین جن میں سے 75 فیصد غیر رسمی ملازمین ہیں ان میں بیروزگاری کاخطرہ وائرس جتنا ہے رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ جروں کی درخواست پر یا لاک ڈانز کے باعث کام نہیں کرپارہے جبکہ وہ افراد جو ملازمت پر جارہے ہیں انہیں وائرس لگنے کا خطرہ زیادہ ہے اور ایک کروڑ 10 لاکھ تارکین وطن ملازمین کے لیے صورتحال اس بھی زیادہ خطرناک ہےاس میں کہا وہ ممالک جہاں غیر رسمی معیشتوں کی بڑی تعداد ہے اور مکمل لاک ڈانز اپنائے گئے ہیں وہ عالمی وبا کے نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہوئےیہ بھی پڑھیں امریکی تاریخ کا بدترین بحران کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگار غیر رسمی ورکرز لاک ڈان سے لاطینی امریکا اور عرب ممالک میں میں 89 فیصد افریقہ میں 83 فیصد ایشیا اور پیسیفک میں 73 فیصد اور یورپ اور وسطی ایشیا میں 64 فیصد متاثر ہوئے ئی ایل او کے مطابق ممالک کو ملٹی ٹریک حکمت عملی اپنانی ہوگی جو وبا کے معاشی اور صحت کے اثرات سے متعلق اقدامات کو جوڑےرپورٹ میں غیر رسمی ملازمین کے وائرس سے دور رہنے متاثرین کو طبی علاج تک رسائی انہیں اور ان کے خاندان کو مالی تعاون اور خوراک کی فراہمی اور ممالک کی معیشت کو نقصان سے بچانے کے لیے پالیسیوں کی ضرورت کی نشاندہی کی گئی
عالمی مالیاتی ادارے ئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جیورجیا نے کہا ہے کہ چند قرض پائیدار نہیں ہیں اور ان کو ازسر نو مرتب کرنے یا معاف کرنے کی ضرورت ہےکرسٹالینا جیورجیا نے رواں ہفتے کے غاز میں ئی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں حکومتوں پر غیر محفوظ ترین طبی عملے کی حفاظت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے خرچ کرنے پر زور دیاان کا کہنا تھا کہ چند معاملات میں یہ ممکن ہے کہ قرض پائیدار نہیں اس لیے چند اقدامات کرنے ہوں گے چاہے اسے از سر نومنظم یا ترتیب دیا جائے یا بعض پہلوں سے اس قرض کو معاف کردیا جائےمزید پڑھیںوزیراعظم پاکستان کیلئے جی20 ممالک ئی ایم ایف کے قرض ریلیف اقدامات کے معترفواشنگٹن میں ئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹرز سے جیورجیا کے انٹرویو کے اقتباسات جاری کیے گئے جس میں ان کا ماننا تھا کہ بحران میں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ جی20 ممالک قرضوں میں کچھ نرمی کاوعدہ کرچکے ہیںواضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ امیر ممالک کے رہنماں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور مالیاتی اداروں کے سربراہان سے درخواست کی تھی کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں چھوٹ دیں تاکہ وہ جان لیوا کووڈ19 سے نمٹنے کے لیے بہتر انداز میں کام کرسکیںوزیراعظم نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ چند ممالک کے لیے بھاری قرضے جان لیوا وبا اور بھوک سے اپنے شہریوں کی زندگیاں بچانے کی طرف توجہ دینے میں رکاوٹ ہیں جو لاک ڈان میں توسیع سے مزید گھمبیر ہوجائیں گےئی ایم ایف کی سربراہ نے قرضوں کی از سر نو ترتیب کی ضرورت کو تسلیم کیا اور کہا کہ پہلی ترجیح بیماری سے نجات ہے جو پہلے ہی ہزاروں افراد کی جان لے چکی ہے اورپوری دنیا میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ممالک سے صرف ایک بات کر رہے ہیں کہ برائے مہربانی اپنے ڈاکٹروں اور نرسوں پر زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کریں اور مہربانی کرکے غیر محفوظ ترین طبقے کو بچانے کے لیے پیسہ استعمال کریںیہ بھی پڑھیںترقی پذیر ممالک قرضوں میں چھوٹ کیلئے قدم اٹھائیں وزیراعظم کی اپیلانٹرویو لینے والی خاتون جولی ایچنگھم نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قرض کے ساتھ شرائط ہوتی ہیں جس سے عوام پر خرچ میں مشکل تی ہے اور اسی بات پر کووڈ19 کے بحران کے دوران عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہےاس پر کرسٹالینا جیورجیا کا کہنا تھا کہ وہ ئی ایم ایف کے سامنے موجود خطرات سے گاہ ہیں ہم ممالک میں شفافیت اور احتساب چاہتے ہیں وہ خود ہمارے فراہم کردہ فنڈ کے استعمال کے ڈٹ کے وعدوں پر پورا اتر رہے ہیں لیکن اس پر کوئی رسی نہیں بندھی ہوئی ہےئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ 100 سے زیادہ ممالک نے وبا کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے اور 50 سے زائد نے فوری طور پر 18 ارب ڈالر کے لگ بھگ منظور کرنے کی درخواست کی ہےدوران گفتگو کرسٹالینا جیورجیا کو عالمی معیشت کو درپیش بحران کے حد پر جائزہ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کچھ جواب نہیں دیامزید پڑھیںجی 20 نے پاکستان سمیت 76 ممالک کو قرضوں میں سہولت دینے کا فیصلہ کرلیاان کا کہنا تھا کہ یہ عظیم کساد بازاری کے بعد بدترین بحران ہے لیکن یہ اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ صحت کے بحران اور معاشی ضرب دونوں پر مشتمل ہے اور یہ حقیقی معنوں میں عالمی مسئلہ ہےواضح رہے کہ ئی ایم ایف کے پاس اس وقت ایک کھرب ڈالر قرض دینے کی صلاحیت ہے جو گزشتہ مالی بحران سے گنا زیادہ ہےیاد رہے کہ ئی ایم ایف نے کووڈ19 کے معاشی اثرات کو ختم کرنے کے لیے ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ کے تحت پاکستان کو ایک ارب 36 کروڑ 80 لاکھ ڈالر دینے کی منظوری دی تھییہ خبر مئی 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
امریکا کے محکمہ لیبر کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈان کی وجہ سے ملک میں صرف اپریل میں کروڑ سے زائد نوکریاں ختم ہوگئیں جو گزشتہ ایک دہائی میں پیدا ہوئی تھیںغیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکا میں معیشت کو غیر معمولی دھچکے سے بیروزگاری کی شرح 147 فیصد تک ہوگئی جو مارچ میں 44 تھیبیروزگاری کی یہ شرح 2009 میں سامنے نے والے عالمی مالی بحران سے کئی گنا زیادہ ہےامریکا میں مارچ میں لاکھ 70 ہزار نوکریاں ختم ہوئیں جو ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ تھیں حالانکہ لاک ڈان کے باعث کاروباری سرگرمیاں مارچ کے دوسرے حصے میں بند ہوئی تھیںامریکی محکمہ لیبر کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈان کے باعث غیر زرعی شعبوں میں ملازمتیں ختم ہونے کی شرح 1939 کے بعد سب سے زیادہ ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 1948 کے بعد سب سے زیادہ بڑھی ہے تمام اہم صنعتی شعبوں میں ملازمتیں تیزی سے ختم ہوئی ہیں جن میں بالخصوص تفریحی اور مہمان نوازی کی صنعتوں میں بڑی سطح پر نوکریاں ختم ہوئی ہیں اور یہ صنعتیں لاک ڈان سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیںیہ بھی پڑھیں امریکی تاریخ کا بدترین بحران کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگارتاہم محکمہ لیبر نے کہا کہ رپورٹ میں چند ورکرز کو غلط طریقے سے ملازم ظاہر کیا گیا حالانکہ انہیں بیروزگار شمار کرانا چاہیے تھااگر ان کا ٹھیک سے شمار کیا جائے تو بیروزگاری کی شرح فیصد تک زیادہ ہوگیدوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں غیر مثالی طور پر نوکریاں ختم ہونے پر کہا کہ یہ حیران کن نہیں ہے اعداد شمار سامنے نے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اس کے پورے امکانات تھے اس لیے یہ حیران کن نہیں ہےانہوں نے کہا کہ وہ یہ ملازمتیں دوبارہ پیدا کرلیں گےیاد رہے کہ 16 اپریل کو یہ رپورٹ سامنے ئی تھی کہ امریکی صدر کی جانب سے چار ہفتے قبل ملک گیر ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے بعد سے اب تک امریکا بھر میں کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگاری کا شکار ہو کر حکومتی مدد کے لیے درخواست دے چکے ہیںمزید پڑھیں امریکی معیشت پہلی سہ ماہی میں 48 فیصد گراوٹ کا شکارواشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے باعث امریکا کو ایک دہائی کے دوران روزگار کے سلسلے میں حاصل ہونے والے فوائد نقصان میں تبدیل ہوچکے ہیں اور لوگ حکومت کی مدد کے لیے فوڈ بینکوں کے باہر قطار در قطار کھڑے نظر رہے ہیںمحکمہ لیبر نے بتایا تھا کہ گزشتہ ہفتے 52 لاکھ افراد نے بیروزگاری کے باعث انشورنس کلیم فائل کیے تھے جو حالیہ دنوں میں ایک بڑا اضافہ ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں بھی بالترتیب 66 لاکھ اور 69 لاکھ افراد نے انشورنس کمپنیوں سے رابطہ کیا تھاخیال رہے کہ امریکا دنیا بھر میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک ہے جہاں اب تک اس سے 12 لاکھ 73 ہزار سے زائد افراد متاثر اور 76 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں
بلوچستان اور سندھ میں پولیو کے نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد رواں سال ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 47 ہوگئیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل انسٹیٹیوٹ ہیلتھ این ئی ایچ کے عہدیدار نے بتایا کہ بلوچستان میں اور سندھ میں ایک بچی میں پولیو کی تصدیق ہوئیان میں سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پولیو کے کیسز سامنے ئےمحکمہ صحت بلوچستان کے مطابق ژوب میں یونین کونسل اسلام یار سے تعلق رکھنے والی ماہ کی بچی میں پولیو کی تصدیق ہوئی جس کے نمونے 16 اور 17 اپریل کو لیے گئے تھے مزید پڑھیں سندھ میں پولیو وائرس کا نیا کیس سامنے گیا رواں سال تعداد 18 ہوگئیعلاوہ ازیں انسداد پولیو مہم کے دوران جب پولیو ٹیم نے دورہ کیا تھا تو بچی کے والدین نے قطرے پلانے سے انکار کردیا تھا دیگر متاثرین میں ساڑھے سالہ اور 13 ماہ کی بچیاں شامل ہیں جن کا تعلق بالترتیب نصیرباد اور جھل مگسی کے اضلاع سے ہےخیال رہے کہ رواں برس بلوچستان میں پولیو کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں یا ہے اور اب تک 10 کیسز سامنے چکے ہیںاین ئی ایچ کے عہدیدار نے کہا کہ سندھ میں ضلع قمبر کی رہائشی 36 ماہ کی بچی میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ تمام چاروں بچیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے خیال رہے کہ گزشتہ سال 2019 میں ملک بھر سے 146 پولیو کیسز سامنے ئے تھے جبکہ 2018 میں مجموعی کیسز کی تعداد 12 اور 2017 میں صرف تھییہ بھی پڑھیں پاکستان میں پولیو کے مزید کیسز رپورٹاس حوالے سے ایمرجنسی پریشنز سینٹر کے نیشنل منیجر ڈاکٹر رانا صفدر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پولیو مہم میں سال سے کم عمر کے کروڑ 96 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تھےان کا کہنا تھا کہ پشاور کوئٹہ پشین قلعہ عبداللہ میں بھی مہم جاری رہے گی اور ہمیں امید ہے کہ رواں سال اس وائرس پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے گاواضح رہے کہ رواں سال فروری میں پولیو مہم کے دوران لاکھ 65 ہزار پولیو رضاکار گھر گھر جاکر سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے
اسلام باد حکومت نے مائیکرو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ایم ایس ایم ایز شعبے کو مالی خدمات تک رسائی کی سہولت دینے کے لیے محفوظ ٹرانزیکشن رجسٹری ایس ٹی متعارف کروادیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ حکومت قرض دینے والے اداروں کے ساتھ بھی بات کر رہی ہے تاکہ تنخواہوں کی ادائیگی کے ذریعے ملازمین برقرار رکھنے میں ایم ایس ایم ایز کی مدد کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائےایس ٹی کا باضابطہ طور پر اجرا مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے کیا گیامزید پڑھیں حکومت ایس ایم ایز کے قرضوں پر بینکوں کے پہلے نقصان کا 40 فیصد برداشت کرے گیتقریب رونمائی کے موقع پر اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر ایس ای سی پی کے عامل خان چیئرمین بی او ئی عاطف بخاری چیئرپرسن کرن داز شمشاد اختر سی ای او کرن داز علی سرفراز ڈی ایف ئی ڈی پاکستان کے ڈپارٹمنٹ ہیڈ انیبل گیری اور عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹر الانگو پتچھاموتو بھی موجود تھےاس رجسٹری کو مالیاتی اداروں محفوظ لین دین ایکٹ 2016 کے تحت کمپنیوں کے علاوہ اداروں کی جانب سے ان کے غیرمنقولہ اثاثوں پر لگائے گئے سیکیورٹی انٹرسٹس اور چارجز کی رجسٹریشن کے لیے قائم کیا گیاایس ٹی کو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اف پاکستان ایس ای سی پی کی جانب چلایا جارہا ہےمحفوظ ٹرانزیکشن رجسٹری ایک الیکٹرانک رجسٹر ہے جس پر کسی بھی وقت ایک مخصوص ویب سائٹ کے ذریعے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ مالیاتی اداروں کو سیکیورٹی انٹرسٹس فائل کرنے کی اجازت دیتی ہےاس پر رجسٹریشن کا عمل مکمل طور پر خودکار ہے اور رجسٹری کو عوام کی جانب سے بغیر کسی چارج کے سرچ کیا جاسکتا ہےاس کے اجرا کے موقع پر مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایم ایس ایم ایز کا پیداوار برمدات اور روزگار کے حساب سے ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ہےڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ خاص طور پر ایس ایم ایز پاکستان میں تقریبا 90 فیصد کاروبار کرتے ہیں جبکہ غیر زرعی مزدور کی شرح 80 فیصد ہے اور یہ سالانہ جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ڈالتے ہیںتاہم ان کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی میں اتنے اہم کردار کے باوجود باضابطہ فنانس تک ان کی رسائی بینکاری کے ذریعے مجموعی قرض کے صرف فیصد تک محدود تھییہ بھی پڑھیں چھوٹا کاروبار امدادی پیکج سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے حماد اظہرانہوں نے امید ظاہر کی کہ ایس ٹی کا اٹھایا گیا قدم ایم ایس ایم ایز زرعی قرض داروں اور دیہی اداروں کے لیے فنانس تک رسائی کی بہتری میں ایک اہم گیم چینجر ثابت ہوگادوسری جانب اس ریفارم سے بینکوں کو بھی اپنے قرض دینے والے شعبوں کو وسیع کرنے میں مدد ملے گی اس کی پریشنلائیشنز کریٹ اشارے ملنے پر پاکستان کے اسکور کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوگی اور مالی شمولیت کو بہتر بنانے کے علاوہ خاص طور پر عالمی بینک کی کاروبار کرنے کی انڈیکس پر اس کی درجہ بندی بڑھائے گیعلاوہ ازیں مشیر خزانہ نے ایس ایم ایز کے لیے مالیاتی امدادی پیکج مختص کرنے کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں وزیر صنعت اور کنٹری ڈائریکٹر عالمی بینک نے بھی شرکت کی
اسلام باد حکومت نے کہا ہے کہ وہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ایس ایم ایز کو دیے گئے قرضوں پر بینکوں کو ہونے والے پہلے نقصان کا 40 فیصد برداشت کرے گیڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملازمت میں مدد کیلئے اسٹیٹ بینک کی ری فنانس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے ایس ایم ایز اور چھوٹے کاروبار کو بینک قرض دینے میں معاونت کرنے کے لیے وزارت خزانہ نے رسک شیئرنگ میکانزم کا اعلان کیا وزارت کا کہنا تھا کہ اس نے ملازمت میں مدد کے لیے اسٹیٹ بینک کی ری فنانس اسکیم کے تحت اس طرح کے قرضوں میں ایس ایم ایز کو جس طرح موزوں ضمانت اور بینکوں کے خدشات کے باعث تنفر کو سامنے کرنا پڑ رہا ہے اس کا ادراک کیا ہےمزید پڑھیں چھوٹا کاروبار امدادی پیکج سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے حماد اظہرلہذا وزارت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بینکوں کے ساتھ رسک شیئرنگ کے ذریعے ملازمین کی برطرفیوں کو روکا جائےجس کے تحت وفاقی حکومت مستقبل میں قرض کی کوئی خراب صورتحال کے باعث بوجھ کو بانٹے کے لیے برسوں میں کریڈٹ رسک شیئرنگ فیسلیٹی کے تحت بینکوں کے لیے 30 ارب روپے استعمال کرے گیاس رسک شیئرنگ کے تحت حکومت بینکوں کے فراہم کردہ قرض پورٹ فولیو کے بنیادی حصے پر 40 فیصد پہلا نقصان برداشت کرے گییہ سہولت بینکوں کو فائدہ دے گی کہ وہ ایسے ایس ایم ایز اور چھوٹے کارپوریٹس جن کی سیلز ارب روپے تک ہے انہیں ایس بی پی کی ری فنانس اسکیم کے تحت مالی اعانت کے لیے قرضوں میں توسیع کرسکیںواضح رہے کہ ملک میں کووڈ 19 کے باعث پڑنے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک اف پاکستان نے ملازمت میں مدد اور ورکرز کی برطرفیوں کو روکنے کے لیے ایک ری فنانس اسکیم متعارف کروائی تھییہ بھی پڑھیں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے معاشی نظام مستحکم کرنا اولین ترجیح ہے وزیر اعظماس اسکیم کے تحت ایسے کاروبار جو ئندہ ماہ کے لیے اپنے ورکرز کو نہ نکالنے کا عزم کریں وہ تین ماہ کی اجرت اور تنخواہوں کے اخراجات ایک رعایتی مارک اپ ریٹ شرح سود پر بینکوں کے ذریعے قرض حاصل کرسکتے ہیںوزارت کی جانب سے کہا گیا کہ رسک شیئرنگ میکانزم کے بعد یہ امید ہے کہ اس سے بینکوں کو ایس ایم ایز اور چھوٹے کارپوریٹس کو اسکیم کے تحت قرض دینے میں اضافہ ہوگایہ میکانزم متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے موصول ہونے والے فیڈ بیک کی بنیاد اور وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے درمیان تعاون سے تیار کیا گیا