id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
040514_israel_gazahomes_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040514_israel_gazahomes_am
غزہ میں گھروں کی تباہی کا حکم
اسرائیلی ریڈیو کے مطابق فوج کو غزہ کی پٹی میں رفاہ میں واقع سینکڑوں گھروں کو مسمار کرنے کے اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔
رفاہ میں گزشتہ تین روز کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں بارہ فلسطینی اور پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ریڈیو کے مطابق گھروں کی مسماری جنوبی غزہ اور مصر کے درمیان بفر زون کو وسیع کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ اسرائیلی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق ’نکل مکانی کرنے والے لوگوں کے لئے گھروں کی فراہمی کی ذمہ داری‘ اسرائیل پر ہو گی۔
030916_sexhyd_ali_mateen
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/09/030916_sexhyd_ali_mateen
جنسی امراض کی روک تھام
تحریر: علی حسن، بی بی سی، حیدراباد
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں جنسی تعلقات کے نتیجے میں ایچ آئی وی اور ایڈز جیسے امراض سے متعلق آگاہی کے لئے ایک دو سالہ منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے تعاون سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے لئے حیدرآباد چنا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حیدرآباد کے بازارِ حسن کی پیشہ ور جسم فروش عورتوں کو محفوظ جنسی تعلقات کے سلسلے میں تربیت دی جائے گی۔ منصوبے کے پروجیکٹ سپروائزر ڈاکٹر شمس ایچ صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ’ پیشہ ور جسم فروشوں میں وہ ایک ایسا گروپ ہے جس کا رویہ نہایت خطرناک ہے۔ پاکستان کے اندر ایڈز کے مریض ایک فی صد سے کم ہیں۔ جسم فروش خواتین میں جنسی بیماریاں ہوتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں معلومات سے آگاہی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم انہیں احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتاتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کاروبار پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر شمس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تربیت کے دوران جسم فروش عورتوں کو غیر فطری جنسی تعلقات کے مضر رساں نتائج سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ اس منصونے کے تحت ایک خاتون ڈاکٹر عشرت شاہ کو بھی مقرر کیا گیا ہے جو روزانہ چھ گھنٹے ان خواتین کے لئے کلینک چلانے کے ساتھ ساتھ جسم فروش عورتوں کی مشاورت کے فرائض بھی انجام دیں گی۔ ڈاکٹر شاہ ان عورتوں میں موجود بیماریوں اور ان کے تدارک کے سلسلے میں بتاتی ہیں ’ خاص طور پر یہ جبکہ ان عورتوں کا چوبیس گھنٹے کا کام ہے تو انہیں اپنی جان بھی بچانی ہوتی ہے لہذا ہم ان کو مختلف مشورے دیتے ہیں‘۔ منصوبے کے آغاز پر ان خواتین نے اسے خوش آمدید کہا ہے اور بازار ہی کی خواتین نے آگے بڑھ کر اپنی رضاکارانہ خدمات بھی پیش کی ہیں۔ کرن ایسی ہی خاتون ہیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پچاس فی صد لوگ سمجھ ہی نہیں پائے کہ یہاں پر کلینک کیسے اور کیوں کھلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کچھ لوگوں کو ڈر بھی لگ رہا ہے جبکہ کچھ ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں خود بھی ان کا ساتھ دے رہی ہوں۔ انہوں نے صحت کے لئے یہ اچھا ذریعہ بنایا ہے‘۔ حیدرآباد میں جہاں کبھی جسم فروشی کا کاروبار بڑے عروج پر تھا، اب تو سمٹ کر بہت محدود ہوگیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر شمس کے مطابق جتنے بھی لوگ ہیں انہیں کم از کم موذی بیماریوں سے آگاہ تو کیا جائے تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں۔
041025_reserves_khaliq_sq
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/10/041025_reserves_khaliq_sq
زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار
پاکستان کے زرمبادلہ کے بارہ ارب کے ذخائر کئی سالوں بعد پہلی دفعہ دباؤ کا شکار ہیں۔ پیسہ تیزی کے ساتھ ملک سے باہر جا رہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قیمت میں کمی جبکہ افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیپیٹل فلائیٹ کا سب سے بڑا سبب خلیجی ممالک میں سرمایہ کاری ہے۔ متعدد کمپنیاں جائیداد میں سرمایہ کاری کی سکیموں کے ذریعے خلیجی ممالک میں پیسہ کھینچ رہی ہیں۔
اس رجحان کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بہت محدود ہیں اور بچت سکیموں میں منافع کی شرح بھی کم ہے۔ فیملی ویزوں اور یقینی منافع جیسی مراعات کے ذریعے غیر ملکی کرنسی خلیجی ریاستوں میں برآمد کی جا رہی ہے۔ خلیجی کمپنیاں اس سلسلہ میں مختلف ٹی وی چینلز پر اشتہارات دے رہی ہیں۔ سٹیٹ بنک کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق صرف کراچی کے ہوائی اڈے سے روزانہ دس سے پندرہ ملین ڈالر کی غیرملکی کرنسی کسٹم حکام کی ملی بھگت سے دبئی سمگل کی جاتی ہے۔ یہ کاروائی ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں سے بھی ہو رہی ہے اور چیکنگ سخت ہونے کی صورت میں کشتیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں سنٹرل بورڈ آف ریوینیو کے چیرمین عبداللہ یوسف نے اپنی نگرانی میں کراچی ائیرپورٹ پر کارروائی کے دوران تقریباً چار ملین ڈالر کی کرنسی سمگل کرنے کے کوشش ناکام بنائی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق پاکستانی روپے کی قیمت میں گزشتہ چار ماہ کے دوران تقریباً چار فیصد کمی ہوئی جس کی سب سے بڑی وجہ غیر ملکی کرنسی کی غیرقانونی منتقلی ہے۔ جولائی کے مہینے میں امریکی ڈالر 57.50 روپے میں دستیاب تھا جبکہ اب کی کی قیمت 61.10 روپے ہو چکی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان سے نو سو ملین ڈالر سے زائد کی غیر ملکی کرنسی جائیداد میں سرمایہ کاری کی غرض سے متحدہ عرب امارات میں سمگل کی جا چکی ہے۔ قانونی طور پر ایک مسافر دس ہزار کی رقم ساتھ لے کر جا سکتا ہے۔کرنسی کا کاروبار کرنے والے اس قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئےدن میں ایک سے زیادہ دفعہ خلیجی ریاستوں کے سفر کر سکتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سٹیٹ بنک کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے حکومتی سطح پر اس معاملہ کو اٹھایا ہے۔ لیکن پاکستان کو خلیجی حکومتوں سے خاطر خواہ تعاون کی امید نہیں ہے کیونکہ یہ حکومتیں خود سرمایہ کاری کی سکیموں کا اعلان کرتی ہیں۔حکومت نے اس معامہ پر آئی ایم ایف اور امریکہ سے بھی بات چیت کی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ پاکستانی روپے کی قیمت میں گزشتہ چار ماہ میں تقریباً چار فیصد کی کمی آ چکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی برآمد ہے۔ تاہم عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مشینری اور پانی میں کمی کی وجہ سے ایندھن کی عالمی طلب میں اضافہ بھی روپے کی قیمت کو متاثر کر رہا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے تجارتی خسارہ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر زر مبادلہ کے ذخائر موجودہ مالی سال میں بارہ ارب سے نیچے نہ آئے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔ حکومت کے معاشی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق اس سال درآمدات، تیل کی قیمتوں اور تجارتی خسارہ میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے تاہم خطرے کی کوئی بات نہیں کیونکہ مجموعی اقتصادی صورت حال، زرمبادلہ کے ذخائر اور معیشت کے اہم خدوخال کافی حوصلہ افزاء ہیں۔ کئی دوسرے ماہرین کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران روپے کی قیمت میں مزید کمی ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر بارہ ارب ڈالر کی نفسیاتی حد سے نیچے ضرور آئیں گے۔غیر ملکی کرنسی کی برآمد کے ملکی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔
060304_guantanamo_detainees
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/03/060304_guantanamo_detainees
گوانتانامو: قیدیوں کی شہادت
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے پہلی بار گوانتانامو کے قیدیوں کے نام اور قومیتیں شائع کی ہیں۔ آزادئ اطلاعات کے قانون کے تحت امریکی خبررساں ایجنسی اے پی کی درخواست پر پینٹاگون نے چھ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویزات شائع کی ہیں ان کا مطالعہ کرنے میں ہفتوں لگ سکتا ہے جس کے بعد ہی قیدیوں کی شناخت واضح ہوگی۔
بعض اوقات ٹرائیبونل میں شہادت دینے والے قیدی کا نام صرف ’قیدی‘ لکھا ہے۔ کچھ قیدیوں کے نام جن کی شناخت سماعت کے دوران ابھرکر سامنے آئی ہے حسب ذیل ہیں: فیروز علی عباسیفیروز علی عباسی برطانوی شہری ہیں۔ انہوں نے تحریری شکایت کی ہے کہ جب وہ عبادت کررہے تھے تو ان کے سامنے ملٹری پولیس کے ارکان نے جنسی روابط قائم کیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جیل کے محافظوں نے انہیں ’سؤر‘ کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جو کہ اسلام میں منع ہے۔ فیروز علی عباسی نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں غلط انفارمیشن دی گئی تاکہ وہ شمال یعنی امریکی کی جانب رخ کرکے عبادت کریں، مکہ کی جانب نہیں دی گئی۔ وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی قیدی کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن انہیں ایک امریکی کرنل نے کہا: ’میں بین الاقوامی قوانین کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں دوبارہ بین الاقوامی قانون کا لفظ نہیں سننا چاہتا۔‘ قاری احتشام اللہ ان کا کہنا ہے کہ پشتون معاشرے میں ’یہ بری بات ہے اگر آپ چیلنج قبول نہ کریں۔‘ انہوں نے کہا ہے کہ دشمن امریکہ نہیں تھا بلکہ ’فارسی بولنے والے لوگ جن کے پشتو بولنے والے لوگوں سے اختلافات ہیں۔‘ عبدالحکیم بخاریعبدالحکیم بخاری کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان نے اس لیے قید کردیا کیوں کہ طالبان مخالف رہنما احمد شاہ مسعود کی تعریف کرنے کی وجہ سے انہیں مخبر سمجھا جانے لگا۔ گوانتانامو کی جیل میں حالات کے بارے میں انہوں نے کہا: ’یہاں قیدی جنت میں ہیں۔ امریکی لوگ بڑے اچھے ہیں۔ حقیقت میں۔ وہ ہمیں تین وقت کھانا دیتے ہیں، پھلوں کا رس اور سب کچھ۔‘ پھر عبدالحکیم بخاری نے کہا کہ وہ واپس گھر جانا چاہتے ہیں اپنی فیملی سے ملنے۔ محمد شریفانہوں نے انکار کیا ہے کہ وہ طالبان کے گارڈ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں پکڑ لیا اور کام کرنے کے لیے مجبور کیا اور انہیں ان کی بات ماننی پڑی کیوں کہ ڈر تھا کہ ان کے گھروالوں پر حملہ کیا جائے گا۔ محمد شریف نے بار بار اپنے خلاف شواہد کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’کوئی شواہد نہیں ہیں۔۔۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے، مجھے معلوم ہے کہ (میرے خلاف) کوئی شواہد نہیں ہیں۔‘ عبدالغفارچین کی اُگیور نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان ’میں تھے تاکہ چینی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے کچھ تریبت حاصل کرسکیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ عبدالغفار کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان میں پکڑ کر امریکی حکومت کو ’فروخت‘ کردیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چینی حکومت ان کی فیملی اور ان کے لوگوں کو اذیت دے رہی ہے۔ ظاہر شاہان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں رائفل اس لئے تھی کیوں کہ ایک خاندانی رنجش کی وجہ سے اپنے کزن سے تحفظ کرسکیں۔ ظاہر شاہ نے بتایا ہے کہ انہوں نے امریکی افواج کے خلاف لڑائی نہیں کی ہے۔ انہوں نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ ان کے پاس راکٹ سے داغا جانے والا گرینیڈ لانچر تھا۔ ’ہم آر پی جی سے کیا کرتے؟ میں نے افغانستان میں صرف ایک کام کیا: کاشتکاری۔ ہم گیہوں، مکئی، سبزیاں اور تربوز کی کاشت کرتے تھے۔‘ سیف اللہ پراچہتھائی لینڈ سے گرفتار کرکے انہیں گوانتانامو بھیجا گیا۔ وہ کروڑ پتی تاجر ہیں اور نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دو بار اسامہ بن لادن سے ملاقات کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ سیف اللہ پراچہ نے انکار کیا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کی مالی مدد کی یا اسامہ بن لادن کے لیے مترجم کا کام کیا۔ ان کا اس الزام سے بھی انکار ہے کہ انہوں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد پہنچانے کی منصوبہ سازی کی۔ انہیں بتایا کہ وہ اپنا کیس امریکی عدالتوں میں پیش کرسکیں گے۔ انہوں نے ایک بار کہا: ’میں یہاں سترہ ماہ سے ہوں، ایسا کب ہوگا (کہ عدالت تک رسائی ہوگی) ، جب میں مرجاؤں گا؟‘ میش ارشد الرشیدانہوں نے بتایا ہے کہ وہ عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود سے لڑنے کے لیے افغانستان گئے۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ٹریننگ القاعدہ کی ٹریننگ سمجھی جائے گی۔ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا ہے: ’میں طالبان سے تعلق نہیں رکھتا۔ میں ایک صرف ایک شخص ہوں، ایک مددگار۔ میں دوستم کے خلاف لڑنے گیا تھا۔‘ ٹرائیبیونل کے سامنے دیگر شواہداتکچھ ایسے قیدیوں نے جن کی شناخت نہیں کی گئی ہے بتایا کہ ٹرائیبیونل کے ارکان میں سے تین امریکی فوجی تھے۔ ایک نے کہا: ’امریکی فوج میری مخالف ہے۔۔۔ اگر میرا مخالف میرا جج ہے۔۔۔ تو مجھے انصاف کی امید نہیں کرنی چاہیئے۔‘ ٹرائیبیونل کے سربراہ نے کہا: ’آپ یا آپ کے بغیر یہ سماعت جاری رہے گی۔ آپ چاہیں تو اس میں حصہ لیں یا نہ لیں۔‘ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ مشال عواد سیاف الحباری نامی ایک شخص نے خودکشی کرنے کی کوشش کی جس سے ’دماغ کافی زخمی ہوگیا کیوں کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی۔‘ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ صوفیان حیدرباش محافظوں کے حکم کے خلاف جیل کی ’اپنی کوٹھری میں ننگے کھڑے رہے۔‘ دستاویز کے مطابق، ’قیدی کا تحریر شدہ رویہ، طبی تاریخ، سائکلوجیکل (ذہنی امداد کی) سروسز سے فائدہ اٹھانے کی (ناکام) کوششوں سے لگتا ہے کہ اس قیدی کی حالت بدتر ہی ہورہی ہے۔‘
world-51870917
https://www.bbc.com/urdu/world-51870917
اٹلی میں کورونا وائرس کا خوف: ’سب سنسان ہے اور ایک خوف کی فضا ہے‘
بریشیا کی گلیاں کرفیو زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ نہ سڑک پر کوئی ذی روح دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی دکان کھلی ہے لیکن یہ منظر صرف شمالی اٹلی کے اس قصبے کا نہیں بلکہ دو روز سے اس ملک کا کوئی بھی بڑا شہر ہو یا دیہی علاقہ ہر جانب یہی منظر دکھائی دے رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے براعظم یورپ کورونا وائرس کا نیا مرکز قرار دیا ہے اور یورپ میں اٹلی وہ ملک ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اطالوی حکام نے اس صورتحال میں پورے ملک میں ’لاک ڈاؤن‘ کا حکم دیا ہوا ہے جس سے ملک کی چھ کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اٹلی میں مقیم ہے اور قیصر شہزاد بھی ان میں سے ہی ایک ہیں۔ قیصر اسی بریشیا شہر کے باسی ہیں جہاں گذشتہ دنوں ایک پاکستانی کی کورونا سے ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ کورونا وائرس: اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 366 ہو گئی پہلے سے بیمار افراد کورونا وائرس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ ٹیلیفون پر بی بی سی اردو کی حمیرا کنول سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اٹلی میں مقیم ہیں لیکن کورونا کے پھیلاؤ کے بعد جو صورتحال ہے ایسا انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا ’ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے، ہاں سنتے تھے کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔ یہاں بسنے والے پرانے لوگ بتاتے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘ قیصر کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایئرپورٹ، بازار سب کچھ بند اور سڑکیں سنسان ہیں۔ باہر جانا ممنوع ہو گیا ہے اور ایک خوف کی فضا ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ اپنے خاندان کے ساتھ گھر کے اندر رہیں۔‘ اٹلی میں مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے ان کے مطابق ’ہماری بہتری کے لیے اعلان کر دیا ہے کہ آپ گھر سے بلاضرورت باہر نہیں نکل سکتے۔ آپ مارکیٹ جا سکتے ہیں یا نوکری پر جا سکتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔ قیصر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد علاقے میں بینکوں کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی چند بڑی دکانیں اور فارمیسی ہی کھلی ہیں اور چھوٹی مارکیٹیں اوردیگر سب کچھ بند ہے۔‘ قیصر بطور الیکٹریشن کام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہر فیکٹری اور ہر دفتر میں لکھ کر لگا دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔ آپ گھر سے باہر جائیں گے بھی تو کسی بھی دکان یا دفتر میں ایک وقت میں ایک بندہ داخل ہو سکتا ہے اور ایک میٹر فاصلہ بھی لازمی ہے۔‘ ان کے مطابق اس کے علاوہ کسی بھی دفتر اور مارکیٹ میں داخل ہوتے وقت لوگوں کی سکریننگ بھی کی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ جو لوگ اب بھی کام پر جا رہے ہیں انھیں ان کے اداروں کے مالکان کی جانب سے خط دیے گئے ہیں اور پوچھ گچھ پر وہ یہ خط دکھا کر ہی جا سکتے ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں قیصر کا کہنا ہے ’سکول اور یونیورسٹیاں تو دو ہفتوں سے بند ہیں اور والدین کہتے ہیں کہ اب بچے گھر میں رہ کر اکتا چکے ہیں کیونکہ نہ تو اب کوئی ریستوران کھلا ہے نہ سینما گھر اور نہ ہی کوئی پارک ہر سو ہو کا عالم ہے۔‘ شمالی اٹلی میں ہی بلونیا کے علاقے میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ مرکزی بلونیا میں مین چینترو کے علاقے میں سات برس سے مقیم پاکستانی شہری عاطف مہدی بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’یہاں چرچ، سکول، مسجدیں سب بند پڑا ہے۔‘ عاطف کا کہنا تھا کہ وہ دودھ پیک کرنے کے کارخانے میں کام کرتے ہیں جہاں ان حالات میں بھی کام ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا ’ابھی تو ہماری فیکٹری کھلی ہے لیکن اب ہمارے کام کے اوقات کم کر کے صبح چھ سے شام چھ تک کر دیے گئے ہیں۔‘ ریسٹورنٹس میں بھی ہو کا عالم ہے ان کا کہنا تھا ’بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے۔ پندرہ، بیس دن سے یہ حالات ہیں۔ پہلے رات بارہ سے دو بجے تک مارکیٹس اور کاروبار کھلا ہوتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی اس لیے اب انھوں نے اوقات کار بدل دیے ہیں اور کہا ہے کہ کوئی خلاف ورزی کرے گا تو اسے جرمانہ ہو گا۔‘ عاطف کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے پر250 یورو جرمانہ اور قید بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق اگر انھیں بازار تک بھی جانا ہو تو اس کے لیے فارم پر کرنا پڑتا ہے۔ ’یہاں باہر مارکیٹ جانے کے لیے انٹرنیٹ سے فارم ڈاون لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر اپنا نام، گھر کا پتا، کام کی نوعیت لکھنی ہوتی ہے۔ راستے میں پولیس چیک کر سکتی ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ان کے علاقے میں اشیائے خوردونوش اور ماسکس کی بھی قلت ہو گئی ہے۔ ’ماسک کے بغیر باہر نہیں جا سکتے اور ماسک مل تو رہے ہیں لیکن تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اسی طرح میں نے نوٹ کیا ہے کہ کل شام جب میں مارکیٹ گیا تو بہت سی سبزیاں جیسے شملہ مرچ اور پالک وغیرہ غائب تھیں۔‘
070917_lee_hatrick_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2007/09/070917_lee_hatrick_as
بریٹ لی کی ہیٹ ٹرک، انگلینڈ کی ہار
آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں آسٹریلوی تیز بولر بریٹ لی نے آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کپ کی پہلی ہیٹ ٹرک بنائی ہے۔ انہوں نے تین لگاتار گیندوں پر بنگلہ دیش کے تین کھلاڑی آؤٹ کر کے یہ کارنامہ انجام دیا۔
بنگلہ دیش نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 123 رنز بنائے جو آسٹریلیا نے 13.5 اوورز میں صرف ایک وکٹ گنوا کر پورے کر لیے اور اس اس طرح یہ میچ نو وکٹ سے جیت لیا۔ بریٹ لی کا شکار بننے والوں میں ثاقبل، مشرفے مرتضیٰ اور الوک کپالی تھے۔ بنگلہ دیش کی طرف سے تمیم اور آفتاب ہی قابلِ ذکر رنز بنا سکے۔ انہوں نے بالاترتیب 32 اور 31 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کی طرف سے گلکرسٹ اور ہیڈن نے اننگز کا آغاز کیا۔ جب سکور ایک 104 پر پہنچا تو گلکرسٹ رن آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے 28 گیندوں پر ایک چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 43 رنز بنائے۔ ہیڈن نو چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے 73 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ انگلینڈ بمقابلہ جنوبی افریقہ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں سپر ایٹ کے مقابلوں کے ابتدائی میچ میں جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کو 19 رنز سے شکست دی ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر صرف 154 رنز بنا سکی۔ لیکن انگلینڈ کی ٹیم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جب سکور 28 پر تھا تو انگلینڈ کے تین وکٹ گر چکے تھے۔ جس میں پیٹرسن رن آؤٹ اور کالنگوڈ بنا کوئی رن بنائے پویلین واپس جا چکے تھے۔ انگلینڈ کی طرف سے قابلِ ذکر سکور شاہ (36) اور پرائر (32) کا تھا۔
040301_oscar_awards_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/03/040301_oscar_awards_yourviews
لارڈ آف دی رِنگز اور آسکر ایوارڈز
لارڈ آف دی رِنگز ہالی ووڈ میں فلمی دنیا کی مقبول ترین تقریب آسکر اعزازات پر حاوی رہی۔ لارڈ آف دی رنگز نے گیارہ ایوراڈز حاصل کیے۔ ماضی میں صرف بین ہر اور ٹائٹانِک کو گیارہ ایوارڈز ملے ہیں۔ بعض شائقین کا کہنا ہے کہ کچھ اچھی فلمیں جیسے ماسٹر اینڈ کمانڈر، لاسٹ اِن ٹرانسلیشن، مِسٹک ریور اور کولڈ ماؤنٹین کو لارڈ آف دی رِنگز کی وجہ سے نقصان ہوا۔
کیا آپ نے یہ فلمیں دیکھی ہیں؟ کیا آپ نے آسکر اعزازات کی تقریب دیکھی؟ اس تقریب میں ملنے والے اعزازات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا لارڈ آف دی رِنگز گیارہ اعزازات کی مستحق تھی؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔ نوید باوجہ، لاہور: آسکر کی تقریب فیبولس تھی۔ لیکن لارڈ آف دی رِنگز اتنی بھی اچھی فلم نہیں تھی کہ اسے گیارہ ایوارڈ دیے جاتے۔ ابوزین، ٹورانٹو: اس سال کے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں مرکزی میزبان نے بہت ہی زیادہ اوورایکٹِنگ کی جس کی وجہ سے سارا مزہ کرکرا ہوگیا۔ میرے خیال میں لارڈ آف دی رِنگز اعزازات کی مستحق تھی۔ لیکن بعض ایوارڈ بالکل غلط دیے گئے ہیں۔ جیسے کہ رینی کو بیسٹ سپورٹِنگ ایکٹریس کا ایوارڈ میرے خیال میں بالکل غلط تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آسکر ایوارڈ میں بھی گھپلا ہوتا ہے۔ محمد عبیر خان، چترال، سرحد: یہ آسکر ایوارڈ کس چِڑیا کا نام ہے؟ لِنڈا اے، برِسبین آسٹریلیا: لارڈ آف دی رِنگز اعزازات کی مستحق تھی۔ لیکن پائریٹس آف دی کیریبین میں جانی ڈیپ نے کتنی اچھی ایکٹِنگ کی؟ محمد یوسف اقبال، دوبئی: اگر اس تقریب میں جنوبی ایشیا کی بھی کوئی فلم ہوتی تو پھر مزہ آتا۔ بہرحال، تقریب اچھی تھی، سب لوگ بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ مجھے لارڈ آف دی رِنگز کے تیسرے حصے کی بہ نسبت پہلے دو حصے زیادہ پسند آئے۔ صلاح الدین لنگا، جرمنی: اب سلطان راہی اور سید نور تو آسکر ایوارڈ لینے سے رہے۔ لارڈ آف دی رِنگز دنیا کی چند بہترین فلموں میں سے ہے۔ سعید احمد، پاکستان: یہ اچھی تقریب تھی۔ لارڈ آف دی رِنگز ایوارڈ کی مستحق تھی۔ فلم کے ڈائرکٹر کو مبارکباد۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بھی اس طرح کی اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔ جننا آغا، کراچی: میرے خیال میں لارڈ آف دی رِنگز کو گیارہ سے زائد ایوارڈ ملنے چاہئے تھے۔ یہ سب سے اچھی فلم ہے جو میں نے دیکھی ہے۔ شفیق اعوان، لاہور: بہت خوبصورت تقریب رہی۔ فلم اچھی ڈائرکشن کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اپنے ملک کے ڈائرکٹر کو چاہئے کہ وہ ان فلموں کے بنانے کے عمل سے سبق حاصل کریں۔ عمران چٹھہ، پاکستان: میرے خیال میں یہ لوگ صرف انگلِش لوگوں کو ہی ایوارڈ دیتے ہیں، بہت کم ایسا سننے میں آیا ہے کہ کسی پاکستانی یا انڈین فلم کو ایوارڈ ملا ہو۔ نامعلوم: آسکر کی تقریب اچھی تھی۔ اسد عاطف، کوئٹہ: کاش مجھے شادی کرنے کے لئے انجلینا جولی جیسی کوئی لڑکی مل جائے۔
world-53920210
https://www.bbc.com/urdu/world-53920210
میلانیا ٹرمپ: ایک غیر روایتی خاتونِ اول
امریکہ کی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ نے منگل کو 2020 ریپبلیکن نیشنل کنوینش کی دوسری رات ملک میں نسلی اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نسل کی بنیاد پر سوچنا بند ہونا چاہیے۔
امریکی خاتونِ اول زیادہ تر سیاست سے دور ہی رہی ہیں وسکونسن میں پولیس کی شوٹنگ کے بعد احتجاج کرنے والے مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ تشدد اور لوٹ مار بند کر دیں۔ صدر ٹرمپ اس وقت رائے عامہ کے جائزوں کو مطابق اپنے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے پیچھے ہیں۔ عام طور پر منظرِ عام پر زیادہ نہ آنے والی امریکی خاتونِ اول نے اپنا اہم خطاب وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک چھوٹے سے ہجوم سے کیا، جس میں ان کے شوہر بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ سب لوگوں کی طرح میں نے بھی اپنے ملک میں نسلی بدامنی کے بارے میں غور کیا ہے۔ ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کے کچھ حصوں پر فخر نہیں ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں کہ ماضی سے سیکھتے ہوئے مستقبل پر توجہ دیں۔‘ یہ بھی پڑھیے امریکہ کی خاتون اول کون؟ میرے خاوند شریف انسان ہیں: میلانیا ٹرمپ برطانوی اخبار کی ملانیا ٹرمپ سے معافی ’مجھے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں لوگوں سے کہتی ہوں کہ وہ مہذب طریقے سے اکٹھے ہوں تاکہ ہم کام کر سکیں اور اپنے امریکی نظریات پر پورے اتر سکیں۔‘ سنہ 1998 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو، جو کہ بہت زیادہ مالدار اور دلکش شخصیت کے مالک تھے، عادت نہیں تھی کہ وہ کسی سے فون نمبر مانگیں اور سامنے والا انکار کر دے۔ لیکن میلانیا کناوس کے کیس میں ان کو انکار سننا پڑا۔ ہوا یوں کہ جب پراپرٹی کنگ نے نیو یارک میں ایک پارٹی میں ایک نوجوان ماڈل سے نمبر مانگا تو ان کو جواب ملا۔ ’میں تمہیں اپنا نمبر نہیں دے رہی۔ تم مجھے اپنا نمبر دو، میں کال کروں گی۔‘ یہ تھیں میلانیا جن کی اس وقت عمر 28 سال تھی۔ اب ذرا سات سال آگے بڑھیں تو ان دونوں کی شادی فلوریڈا میں ہو رہی ہے جس میں کئی مشہور شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ اب ذرا اور آگے، تو اب وہ امریکہ کی خاتونِ اول ہیں اور ان کے شوہر دوسری مرتبہ صدر بننے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن آخر میلانیا ٹرمپ ہیں کون اور ہم ان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ ایک ’روایتی‘ خاتونِ اول پرکشش اور مکمل طور پر اپنے شوہر اور ان کی کامیابی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والی میلانیا ٹرمپ کو ریٹرو یا قدامت پسند صدارتی شریکِ حیات کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یا یوں کہیں کہ ماڈرن جیکی کینیڈی۔ سابق مسز کینیڈی کی طرح مسز ٹرمپ بھی چار زبانیں بولتی ہیں: سلوینین، فرانسیسی، جرمن اور انگلش۔ جب 1999 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ صدارتی عہدے کی طرف اشارہ کیا تھا تو میلانیا نے رپورٹروں کو بتایا تھا کہ ’میں بڑی روایتی (ثابت) ہوں گی، بیٹی فورڈ اور جیکی کینیڈی جیسی۔‘ لیکن کئی طرح سے وہ بالکل بھی روایتی خاتونِ اول نہیں ہیں: وہ پہلی خاتونِ اول ہیں جنھوں نے ماضی میں ایک جریدے میں برہنہ تصاویر چھپوائی ہوں۔ سنہ 2016 میں صدارت کے امیدوار کی ریپبلیکن نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق حریف ٹیڈ کروز کے حمایتیوں نے ملانیا کے ماڈلنگ کے دنوں کی برہنہ تصاویر نکال کر کہا تھا: ’ملیے میلانیا ٹرمپ سے، آپ کی اگلی خاتونِ اول۔ یا آپ ٹیڈ کروز کو ووٹ دیں گے۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور میلانیا کا ایک بیٹا، بیرون، بھی ہے سنہ 2016 کے اوائل میں ریڈیو پریزینٹر ہوارڈ سٹرن کا کیا ہوا ڈونلڈ اور میلانیا کا ایک فحش فون انٹرویو سامنے آیا جس میں پریزینٹر نے یہ تک پوچھ ڈالا کہ اس وقت انھوں نے کیا پہنا ہوا ہے۔ جواب تھا ’تقریباً کچھ نہیں۔‘ اور آپ کتنی مرتبہ مسٹر ٹرمپ کے ساتھ سیکس کرتی ہیں، جواب تھا ’ہر رات اور کئی مرتبہ زیادہ۔‘ اس انٹرویو کو بعد میں خواتین سے نفرت کے زمرے میں لیا گیا۔ میلانیا نے ایک مضمون کی وجہ سے ڈیلی میل پر بھی ہرجانے کا دعویٰ کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ 1990 کی دہائی میں ایک سیکس ورکر تھیں۔ اخبار نے بعد میں ان سے معافی مانگی اور ہرجانہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ ان کے ساتھ اس رویے کو کچھ تجزیہ کار ’سلٹ شیمنگ‘ بھی کہتے ہیں جو کہ عورتوں کو ملبوسات اور رہن سہن کی وجہ سے نشانہ بنانے کی ایک پریکٹس ہے۔ سلوینیا سے نیو یارک تک مسز ٹرمپ کا پیدائشی نام میلانیا کناوس رکھا گیا اور وہ سلوینیا کے دارالحکومت لبلانا سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع چھوٹے سے قصبے سیونیکا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد وکٹر پہلے ایک میئر کے ساتھ کام کرتے تھے اور بعد میں ایک کامیاب کار ڈیلر بن گئے۔ ان کی والدہ امالیجا ایک فیشن برانڈ کے لیے ڈیزائن پرنٹ کرتی تھیں۔ میلانیا نے لبلانا میں ڈیزائن اور آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پروفیشنل ویب سائٹ پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، لیکن بعد میں یہ سامنے آیا کہ وہ پہلے ہی سال تعلیم چھوڑ گئی تھیں۔ اس کے بعد اس ویب سائٹ کو بالکل صاف کر دیا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کاروباری ویب سائٹ کی طرف ری ڈائریکٹ کیا جانے لگا۔ 18 سال کی عمر میں انھوں نے میلان میں واقع ایک ماڈلنگ ایجنسی سے معاہدہ کیا اور یورپ اور امریکہ کے دورے کرنے لگیں، جس دوران وہ بڑی اشتہاری کیمپینز میں بھی نظر آئیں۔ ان کی ٹرمپ سے ملاقات نیو یارک فیشن ویک کے دوران ایک پارٹی میں ہی ہوئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اپنے شوہر کی طرح وہ شراب نہیں پیتیں، اور رات گئے تک جاری رہنے والی پارٹیوں سے اجتناب کرتی ہیں۔ ان کا اپنا برانڈڈ جیولری کا کاروبار ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ڈیزائن بھی کرتی ہیں۔ مزید پڑھیے امریکہ کی دوسری 'فرسٹ لیڈی' اپنے دور میں امریکہ کی عظمت کو بحال کیا ہے، صدر ٹرمپ امریکی صدر کا رہائی پانے والے شہریوں کا استقبال دونوں نے 2005 میں شادی کر لی اور 2006 میں ان کے ہاں بیٹے بیرون کی پیدائش ہوئی۔ وہ صدر ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد ابتدائی دنوں میں وائٹ ہاؤس منتقل نہیں ہوئیں بلکہ بیٹے کی سکول ٹرم مکمل ہونے تک نیو یارک میں ہی رہیں۔ وہ 2017 میں واشنگٹن منتقل ہو گئیں۔ منتقل ہونے کے بعد میلانیا وائٹ ہاؤس کو ہر سال کرسمس کے موقع پر سجانے میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ جب ان کے شوہر نے امیگریشن پر حملے شروع کر دیے تو ملانیا نے بظاہر اپنی حیثیت کو شفاف رکھنے کی بھی کوشش کی اور کہا کہ انھوں نے ہر کام قانون کے مطابق کیا ہے۔ انھوں نے جریدے ہارپر بازار کو بتایا کہ ’یہ میرے دماغ میں کبھی نہیں آیا کہ میں یہاں کاغذات کے بغیر رہوں۔ آپ قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ آپ قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ ہر مرتبہ کچھ مہینوں کے بعد آپ کو یورپ واپس جانا ہے اور ویزے پر مہر لگوانی ہے۔‘ جولائی 2020 میں ان کے آبائی شہر میں واقع ان کے ایک مجسمے کو آگ لگا دی گئی تھی جس کی پولیس نے تحقیقات کیں۔ ’پالیسی بنانا میرے شوہر کا کام ہے‘ میلانیا زیادہ تر سیاسی لڑائیوں سے دور ہی رہی ہیں، اور انھوں نے اپنی سیاسی مصروفیات کو صرف اپنے شوہر کے ساتھ کھڑے ہونے تک ہی محدود رکھا ہے۔ انھوں نے 2016 میں جی کیو جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے سیاست اور پالیسی میں شرکت نہ کرنے کو چنا ہے۔ یہ پالیسیاں میرے شوہر کا کام ہے۔‘ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ان کے لیے سب سے بڑا موقع اس وقت آیا تھا جب وہ جولائی میں ریپبلیکن نیشنل کنوینشن کے پہلے ہی دن سٹیج پر شریکِ حیات کے طور پر روایتی تقریر کرنے آئیں۔ لیکن وہ تجربہ کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں نے فوراً ہی نوٹس کیا کہ ان کی اور 2008 میں مشیل اوباما کی کنوینش کی تقریر میں کتنی زیادہ مماثلت تھی، اور ان پر تقریر کے الفاظ چوری کرنے کا الزام بھی لگا۔ سنہ 2018 میں انھوں نے ایک اور بڑا تنازع اس وقت کھڑا کر دیا جب وہ ایک جیکٹ پہنے باہر نکلیں جس پر لکھا تھا کہ ’میں واقعی پرواہ نہیں کرتی، کیا تم کرتے ہو؟‘ وہ اس وقت پناہ گزینوں کے ایک حراستی مرکز میں جا رہی تھیں۔ میڈیا میں اس وقت بہت بات ہوئی کہ میلانیا نے پناہ گزینوں کے حراستی مرکز میں جاتے ہوئے ہی کیوں اس جیکٹ کا انتخاب کیا انھوں نے بعد میں اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ان لوگوں اور بائیں بازو کے میڈیا کے لیے تھا جو مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔‘ ’میں انھیں دکھانا چاہتی ہوں کہ میں پرواہ نہیں کرتی۔‘ ان واقعات کے باوجود اگر ان کا موازنہ ان سے پہلے کی خواتین اول سے کیا جائے تو وہ تقریباً ایک نامعلوم شخصیت لگتی ہیں۔ انھوں نے جی کیو جریدے کو بتایا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو مشورہ دیتی ہیں۔ لیکن کیا مشورہ ہوتا ہے اس بارے میں وہ چپ رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کا کسی کو کچھ نہیں پتہ اور کسی کو کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا کیوں کہ یہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان ہے۔‘
040513_india_elex_2
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/05/040513_india_elex_2
کانگریس بی جے پی سے آگے نکل گئی
انڈیا میں لوک سبھا کے انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق کانگریس کی سرکردگی میں قائم اتحاد کو بی جے پی کی قیادت والے اتحاد پر واضح سبقت حاصل ہے۔
بی جے پی کے صدر وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ بی جے پی اب اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ جبکہ کانگریس نے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی کی کوشش شروع کر رہی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو بی جے پی اتحادیوں پر برتری حاصل ہے۔ چار مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل پیر کے روز ختم ہوا تھا جس میں سڑسٹھ کروڑ سے زیادہ رجسٹرڈ رائے دہندگان کی چھپن فی صد تعداد نے ووٹ ڈالے۔ لوک سبھا کی کُل 543 نشستوں میں سے 539 حلقوں میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ جبکہ چار نشستوں کے لئے بعض وجوہ کی بنا پر ووٹوں کی گنتی بعد میں ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی وجہ سے اب نتائج آنے کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ ملک بھر میں ایک ہزار دو سو چودہ مقامات پر گنتی ہو رہی ہے۔
world-50407448
https://www.bbc.com/urdu/world-50407448
پورن: عرب دنیا میں نوجوان پورن سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟
یہ صرف مسعود کی بات نہیں، بلکہ لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جو اپنے دبے ہوئے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے انٹرنیٹ کا رخ کرتے ہیں اور برہنہ تصاویر اور پورن ویڈیوز دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
اسکندریہ میں بھی لڑکوں کے لیے پورنوگرافی سے بچاؤ کے خصوصی تربیتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں کئی نوجوانوں کی طرح مسعود کا خیال بھی یہی تھا کہ ان کا ہر وقت پورن دیکھنے کا یہ شوق اس وقت ختم ہو جائے گا جب ان کی شادی ہو جائے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جب وہ 20 برس پہلے تک اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے تو وہ چھپ چھپا کر کوئی بلیو فلم دیکھ لیتے تھے، اور آج جب وہ اپنے مکان میں رہتے ہیں تو تب بھی ان کا یہ شوق کم نہیں ہوا۔ اگر کوئی چیز بدلی ہے تو وہ یہ ہے کہ اب مسعود ایک پورن ویب سائٹ سے دوسری پر چلے جاتے ہیں اور اپنے سمارٹ فون پر اسی قسم کا مواد دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن مسعود (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں اپنے اس جنسی جنون کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات بری طرح متاثر ہو گئے اور اب انھیں پورن دیکھنے میں بھی کوئی مزا نہیں آتا۔ ’قربت کے بغیر قربت‘ ایک اور صاحب نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی روایتی عرب بیوی کے ساتھ ان کے جنسی تعلقات نارمل تھے، لیکن وہ بوسہ یا کِس بالکل نہیں کرتی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان موبائل فون حائل ہو جاتا تھا۔ ان کے بقول پورن دیکھنے کی عادت کی وجہ سے ان میں جنسی ہیجان صرف پورن دیکھ کر ہی پیدا ہوتا۔ اہلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ’قربت کے بغیر قربت‘ تھی۔ ہم مسعود کی کہانی کی طرف واپس آئیں گے، لیکن ان کی کہانی انوکھی نہیں کیونکہ بہت سے عرب گھروں میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ عرصے میں دنیا کے اِس حصے میں انٹرنیٹ کی سپیڈ دوگنا تیز ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ موبائل فونز میں اضافے سے ہر کسی کو پورن فلموں کے ٹکڑے پہلے سے کہیں زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں۔ شریف طلیانی کے خیال میں خوشی سے بھرپور شادی اور پورن دیکھنے کی عادت میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ’پورن کلچر‘ مصر کی زقازیق یونیورسٹی سے منسلک نفسیاتی امراض کے ماہر پروفیسر وائل ابو ہندی کہتے ہیں کہ لاکھوں عرب نوجوان پورنوگرافی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ ’پورنوگرافی عرب معاشروں میں پھیل چکی ہے۔‘ ابو ہندی کے بقول ’بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ان کے شوہر انھیں پورنوگرافی دیکھنے کو کہتے ہیں تاکہ ان کے جنسی جذبات میں اضافہ ہو۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ چاہے شوہروں کی اس خواہش کی تکمیل کریں یا انکار کر دیں، دونوں صورتوں میں خواتین کو پچھتاوا ہوتا ہے۔‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ جن گھروں میں بیوی اور بچوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ والد پورنوگرافی دیکھتا ہے، ان میں دس سے 15 فیصد یقیناً ایسے خاندان ہوتے ہیں جہاں میاں بیوی کے تعلقات متاثر ہو جاتے ہیں یا وہ خاندان ٹھیک سے اکھٹے رہنے کے قابل نہیں رہتا۔‘ ’مخالفت نہ کریں‘ لیکن پورن فلموں کے اداکار شریف طلیانی کے خیال میں شادی کے رشتے اور پورن دیکھنے میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں پورن دیکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘ ’میں ایک ایسی دلہن کی تلاش میں ہوں جو میرے خیالوں کے مطابق ہو۔‘ طلیانی کو فخر ہے کہ یورپ منتقل ہونے سے پہلے وہ مصر میں جہاں رہتے تھے، وہ وہاں خاصے مقبول تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورن فلمیں بنانے والی کمپنیوں کے لیے کام کرنے پر ان کے خاندان والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ پورن فلموں میں کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ شوٹنگ سے پہلے جنسی طاقت میں اضافہ کرنے والی چیزیں یا ٹانک وغیرہ استعمال کریں۔ ’لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ اداکاروں میں کوئی جنسی کمزوری ہوتی ہے، بلکہ آپ کو ایک مقررہ وقت میں ایک منظر کی فلمبندی مکمل کرنا ہوتی ہے۔‘ چرچ کی جانب سے شروع کیے جانے والے پروگرام میں شادی کے جھگڑوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے ’تباہ کن اثرات‘ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹیلیگرام‘ پر ایک چیٹ میں، جس کا مقصد شادی شدہ جوڑوں کو پورن دیکھنے کی لت سے جان چھڑانے میں مدد کرنا ہے، وہاں ایک شوہر نے لکھا کہ پورن دیکھنے کی عادت کی وجہ سے انھوں نے اپنی بیوی سے بھی پورن سٹار کی طرح دکھائی دینے کا کہنا شروع کر دیا، لیکن جب انھوں نے اپنی بیوی کو موبائل پر دیکھا تو انھیں لگا کہ یہ کوئی نارمل جنسی تعلق نہیں تھا، بلکہ یہ محض ایک حماقت تھی۔ مصر میں جاری ایک رضاکارانہ پروگرام ’واعی‘ کے بانی ڈاکٹر محمد عبدالجواد کہتے ہیں کہ اس قسم کے رویے آپ کی اہلیہ کے جذبات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ساتھی کا ساتھ دینے کے لیے، یا اپنے گھر کو بچانے کے لیے اس قسم کی بات تسلیم بھی کر لیتی ہے، تب بھی اس کے منفی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس قسم کے تجربے کے بعد اکثر میاں بیوی کا رشتہ ایک موڑ پر ٹوٹ جاتا ہے یا ان میں طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی زندگی میں خوشی کی کمی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر جواد کا اندازہ ہے کہ آج کل 15 سے 20 فیصد طلاقیں پورن ویب سائٹس کی وجہ سے ہو رہی ہیں کیونکہ بیویوں کو لگتا ہے شوہر ان کا مقابلہ پورن فلموں کی اداکاراؤں سے کرتے ہیں جو کہ ناجائز ہے۔ ڈاکٹر جواد کے بقول ’پورن دیکھنا والا ہمیشہ اپنا دفاع یہ کہہ کر کرتا ہے کہ اُس کی اس عادت سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر کوئی متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر اس کے گھر کے افراد ضرور متاثر ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر جواد بتاتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق بہت زیادہ پورن دیکھنے کے اثرات ویسے ہی ہوتے ہیں جو کسی نشہ آور چیز کے استعمال سے ہوتے ہیں۔ حساس مسائل عرب دنیا میں ’لو کلچر‘ کے نام سے ایک سروس شروع کی گئی ہے جس کا مقصد معاشرے کو درپیش جنسی مسائل سے نمٹنا ہے۔ عرب معاشرے میں اس سروس کا آغاز ایک دلیرانہ قدم ہے۔ اگر پورن دیکھنے والے کو اس کی لت نہ پڑ جائے اور وہ اپنی ساتھی سے عجیب وغریب جنسی حرکات کا مطالبہ نہ کرے تو ’لو کلچر‘ سے منسلک ماہرین پورنوگرافی کو ایک مسئلہ نہیں سمجھتے۔ لیکن خاندانی مسائل پر کام کرنے والی صحافی دالیا فکری اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ عرب دنیا میں جنسی مسائل کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی، کوئی سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی، اس لیے اس قسم کے مسائل میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ’عدالتوں کی راہداریوں میں آپ کو اس قسم کے بہت سے معاملات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض اوقات ایک بیوی صرف اس وجہ سے طلاق لینے عدالت پہنچ جاتی ہے کہ اسے اذیت کا احساس ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنے شوہر کی پورن دیکھنے کی عادت کا ذکر بھی نہیں کرتی کیونکہ اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا کہ اس نے اپنی شادی کے خفیہ راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔‘ ’اس لحاظ سے ’لو کلچر‘ اپنی قسم کا پہلا قدم ہے جہاں ماہرین لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا کے بند کواڑوں کے پیچھے چیٹ رُومز ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو رضاکارانہ طور پر اپنے جنسی تجربات ایک دوسرے کو بتا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مرد ہماری خدمات سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنے مسائل کو مزید پیچیدہ کر لیں۔‘ دالیا فکری کے بقول انٹرنیٹ نے اپنے مسائل کھل کر بیان کرنے میں عورتوں کی مدد کی ہے، لیکن خواتین کو غیرتربیت یافتہ ماہرین کے مشوروں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔‘ حسام اور ماریان کہتے ہیں کہ بہت سی بیویوں کو شکایت ہے کہ ان کے شوہر پورن دیکھتے ہیں شادی سے پہلے بحالی کچھ عرصہ پہلے بی بی سی کو مصر کے تبلیغی چرچ کی جانب سے ایک دعوت نامہ بھی ملا جس میں ہمیں ان کے ایک تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب میں شمولیت کے لیے بلایا گیا۔ اس پرگرام کے تحت شادی شدہ افراد اور حال ہی میں شادی کرنے والے میاں بیوی کو باہمی تعلقات اور شادی کے جھگڑوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ فیملی کاؤنسلِنگ پروگرام کے بانی پادری اشرف فارس کہتے ہیں کہ مصر میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا مطلب یہ ہے کہ ’اب ایسے خاندانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہے جو خاندان ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں اور ناخوش ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان شکایات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ بہت سے مرد پورن ویب سائٹس دیکھتے ہیں اور اپنی بیویوں سے ’معمول سے زیادہ چیزوں` کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ اشرف فارس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو سمجھنا پڑے گا کہ پورن فلموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ نارمل نہیں ہوتا۔ ’اکثر مصری بیویوں کو الزام دیا جاتا ہے کہ ان کے جذبات بہت سرد ہیں اور وہ بہت بھولی ہوتی ہیں، لیکن اکثر مسئلہ خاوند کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس اپنی بیوی کے جذبات کی چابی نہیں ہوتی۔‘ اس سروس کے تحت میاں بیوی، ماریان اور حسام، ایسے مسیحی خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں جو مشکلات میں پھنسے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دونوں نے خصوصی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ ماریان بتاتی ہیں کہ ان کے پاس جو شادی شدہ جوڑے آتے ہیں ان میں ہمیشہ بیوی گلہ کرتی ہے کہ شوہر نے اسے دھوکہ دیا ہے، چاہیے شوہر کے تعلقات کسی دوسری خاتون کی بجائے صرف کمپیوٹر سے ہوں۔ ’پورنوگرفی ایسے ہی جیسے آپ کی شادی میں کوئی تیسرا فریق بھی آ گیا ہو۔ اور اس سے وہ عہد و پیمان ٹوٹ جاتے ہیں جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔‘ ’اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ اگر انہوں نے کسی پورن سائٹ پر ’دیکھیے‘ کا بٹن دبا دیا اور انہیں پورن دیکھنے کی عادت پڑ گئی تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔‘ ’شادی سے مسائل بگڑ جاتے ہیں‘ جہاں تک خواتین کی دنیا کا تعلق ہے، ان کے ہاں صورت حال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کیونکہ روایتی طور پرخواتین کے لیے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کے شوہر پورن دیکھتے ہیں۔ ان خواتین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق زندگی کا صرف دس فیصد ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات باقی 90 فیصد زندگی پر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ سلمیٰ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ پورن مناظر کے ساتھ ان کا تعلق اس وقت بنا تھا جب وہ پندرہ سولہ سال کی تھیں اور ان کی سہیلیاں ترکی زبان کی فلموں میں رومان سے بھرپور مناظر کی باتیں کرتی تھیں۔ لیکن سلمیٰ بتاتی ہیں کہ یہ چیز شادی کے بعد ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئی کیونکہ ان کے شوہر ہم بستری سے پہلے کے جذبات انگیز مناظر پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس کے بعد سلمیٰ نے بھی پورن سائٹس کا رخ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے پورن مناظر دیکھے تو انہیں اپنی زندگی کا موازنہ کر کے بہت حیرت ہوئی۔ ’میں سوچتی تھی کہ جب دوسرے مرد جنسی طور پر اتنے پرجوش ہیں تو میرا شوہر ایسا کیوں نہیں ہے۔‘ 'لو کلچر' کا آغاز عرب دنیا میں ایک دلیرانہ قدم ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے شوہر بھی پورن دیکھتے ہیں تو سلمیٰ کا کہنا تھا کہ ’اگر شوہر پورن دیکھتا ہے تو بیوی کو پتہ چل جاتا ہے۔ وہ یہ بات زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتا۔‘ تین بچوں کی والدہ سلمیٰ کہتی ہیں کہ ’میں نے پورن دیکھنے کی عادت سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک تربیتی پروگرام میں جانا شروع کر دیا، لیکن اس کے باوجود شوہر کے ساتھ میرے تعلقات زیادہ بہتر نہیں ہوئے۔‘ ’جس چیز کو تباہ ہونے میں برسوں لگے، وہ ایک دن میں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔‘ ’بحالی کا دروازہ‘ سلمیٰ کے برعکس، مسعود کا کہنا تھا کہ اگرچہ مشکل ہوئی، لیکن انھیں مسئلے کا حل مل گیا ہے۔ انھوں نے پورن کی عادت سے بحالی کے لیے ایسے تربیتی پروگرام پر عمل کیا جس میں انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ مسلسل 90 دن کسی بھی قسم کے جنسی فعل سے پرہیز کریں گے۔ نہ کسی قسم کی خود لذتی میں ملوث ہوں گے اور کسی جنسی ساتھی کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے کمپیوٹر پر ایک بلاک کر دینے والا سافٹ ویئر انسٹال کر دیا، انٹرنیٹ کا کنکشن کٹوا دیا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ 90 دن گن گن کے گزارے کیونکہ پورن سے دور رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ اس پروگرام میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ 90 دن کے لیے مسعود اپنی بیوی کے قریب بھی نہیں جا سکتے تھے۔ ’یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب آپ کو پورن دیکھنا اور کسی قسم کی جنسی حرکت کرنا نہایت گھٹیا کام لگتا شروع ہو جاتا ہے، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ میں معمول کی نارمل زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا۔‘ اتنے دنوں کے پرہیز سے ایک نیا جھگڑا بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ آپ کی بیوی کو نہیں پتا کہ آپ اپنا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’میں نے اپنی بیوی سے دیانتداری سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا رویہ حوصلہ افزا نہیں تھا، اس لیے میں نے اس سے اپنی پورن دیکھنے کی لت کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کیا۔‘ لیکن مسعود کہتے ہیں کہ کچھ وقت گزرنے کے ساتھ شاندار نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے۔ کمپیوٹر کی سکرین کو ’بدلتے رہیں‘ مسعود کا کہنا تھا کہ ’میں نے سوچا کہ پچھلے عرصے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بات کا ہر موقع گنوا رہا تھا، لیکن اب میرے پاس موقع تھا کہ میں کمپیوٹر کے سامنے سے اُٹھ جاؤں اور ان سے بات کروں۔ اس سے پہلے میں ہر وقت کمپیوٹر پر کوئی اہم کام کرنے کا ڈھونگ رچا رہا تھا اور جب سب سو جاتے تھے تو دھڑا دھڑ پورن دیکھنے لگ جاتا تھا۔‘ ’میں ہر رات چار گھنٹے پورن دیکھتا رہتا تھا۔ لیکن جب میں نے یہ حرکت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو آہستہ آہستہ اپنے ارد گرد کے ہر شخص کے ساتھ میرے تعلقات بہتر ہونے لگے۔ تربیت والے 90 دن کے دوران مجھے اپنی بیوی سے بھی ہم بستری کی اجازت نہیں تھی، چنانچہ میرے پاس بیوی سے بات کرنے کا وقت بھی زیادہ تھا۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔‘
070714_un_gaza_israel_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/07/070714_un_gaza_israel_rs
غزہ کے راستے کھولے جائیں: یواین
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل سے غزہ کے تمام سرحدی راستے دوبارہ کھولنے کو کہا ہے تاکہ علاقے میں جاری معاشی بحران کو روکا جا سکے۔
بان کی مون کا کہنا تھا کہ بنیادی ضروریات زندگی، امدادی کارکنوں اور تجارتی اجناس کو اندر داخلے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اگر غربت میں مزید اضافہ ہوا تو لوگ تقریباً امداد پر ہی انحصار شروع کردیں گے۔ دوسری طرف عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ غزہ میں تین ہزار سے زائد کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 65 ہزار افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالرز کی ہنگامی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں غزہ میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے سرحدی راستوں کو یا تو بند کر رکھا ہے یا ان پر رکاوٹیں حائل ہیں۔
071211_usconsern_pakatomic_weapons
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071211_usconsern_pakatomic_weapons
امریکی تشویش، پاکستانی جوہری اثاثے غیر محفوظ
پاکستان میں غیریقینی سیاسی حالات اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی لہر نے مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو ایک قدرے مختلف تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ انہیں موجودہ سیاسی بحران سے زیادہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی فکر لاحق ہے۔
کئی امریکی تِھنک ٹینکس نے تو موجودہ غیریقینی حالات کی وجہ سے حکومت کے گرنے کی صورت میں فوجی کارروائی کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کو اپنی حفاظتی تحویل میں لینے جیسے منصوبوں پر ذرائع ابلاغ میں بحث بھی شروع کر دی ہے۔ ان کو یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ یا دیگر شدت پسند تنظیمیں ان غیریقینی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں سرکاری اداروں کے بعض اہلکاروں کی مدد یا چوری سے کہیں یہ ہتھیار نہ حاصل کر لیں۔ کیا واقعی صورتحال اتنی خراب ہے اور پاکستانی جوہری ہتھیار اتنے غیرمحفوظ؟ امریکہ مخالف جذبات والے ممالک تو اور بھی کئی ہیں جو جوہری ہتھیار بھی رکھتے ہیں؟ تو پھر آخر پاکستان ہی کیوں؟ یہ دن جہاں پاکستان میں یومِ تکبیر کے طور پر منایا جانے لگا تو دوسری جانب امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کے لیے انتہائی تشویش کے آغاز کا روز بھی ثابت ہوا۔ بعد میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک اور پاکستان میں حالیہ کشیدگی اور انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے اس تشویش میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ حکومت پاکستان کی بار بار تردیدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود تشویشں میں بظاہر کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بڑھتی تشویش کا مظہر امریکہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مضامین ہیں۔ انتہائی اہم شخصیات کی جانب سے لکھے جانے والے ان مضامین کی تعداد میں حالیہ سیاسی و قانونی بحران کے بعد کچھ غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بش انتظامیہ کے ساتھ نظریاتی روابط رکھنے والے امریکی تِھنک ٹینک انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے فریڈرک کاگن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستانی ہتھیاروں کو قبضے میں لے کرامریکہ کی ریاست نیو میکسیکو کے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جانا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہے کہ پاکستانی وضاحتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ اس بارے میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد صادق کہتے ہیں کہ وہ بار بار تردید کرچکے ہیں کہ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ ’پاکستان کے جوہری اثاثے انتہائی جدید اور منظم کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کے تحت ہیں اور ان سے متعلق تمام خدشات بےبنیاد ہیں۔‘ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے قریب جب ملک میں تقریبا روزانہ خودکش حملے ہوں اور ملک کا سب سے مضبوط ادارہ یعنی فوج ہی نشانے پر ہو تو تشویش میں کمی کیسے آسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکہ نے یقینا ایسے چند ’کنٹنجینسی‘ منصوبے تیار کر رکھے ہوں گے جس کے تحت غیریقینی حالات کے پیش نظر وہ ان ہتھیاروں کو قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ اگر کوئی اور ملک امریکہ کی جگہ ہوتا تو شاید وہ بھی یہی کرتا۔ بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ القاعدہ امریکہ میں نائن الیون جیسے حملوں کے بعد اب اس سے بھی زیادہ خطرناک حملوں کے بارے میں کوششیں کر رہا ہوگا۔ اس خواہش کو پایہء تکمیل تک با آسانی پہنچانے کا یقیناً ایک ذریعہ جوہری ہتھیار ہوسکتے ہیں۔ امریکیوں کو یقین ہے کہ اس تنظیم کی کوشش ہوگی کہ وہ ان ہتھیاروں کو حاصل کر سکے۔ لیکن کیا القاعدہ جیسی تنظیم کے لیئے یہ ہتھیار حاصل کرنا ممکن ہے؟ پروفیسر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ القاعدہ یا اس سوچ کے حامل لوگ مستقبل میں یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ لیکن اس میں زیادہ تشویش کی بات مغربی ممالک کا یہ خوف ہے کہ شاید پاکستانی حساس اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے شدت پسند یہ ہتھیار حاصل نہ کر لیں۔ پروفیسر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں: ’پاکستانی ہتھیاروں کو چرانا شاید انتہائی سخت سکیورٹی کی وجہ سے ممکن نہ ہو لیکن اگر وہ لیبارٹریوں سے بم تیار کرنے کا مواد تھوڑا تھوڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو شاید وہ ایک ایسا ’کروڈ‘ بم یعنی خام کسم کا بم تیار کرسکیں جس سے اچھے بم جیسی تباہی تو حاصل نہ ہو لیکن ایک شہر کو پھر بھی تباہ کرسکیں گے۔‘ آخر پاکستان کی جانب شک کی انگلی کیوں اٹھتی ہے کہ شدت پسندوں کو جوہری ہھتیار ملیں گے تو یہیں سے ملیں گے۔ ناقدین کے خیال میں اگر پاکستان سے پورے کہ پورے سینٹی فیوجز برآمد کیے جاسکتے ہیں تو چھوٹا موٹا مواد کیوں نہیں۔ اس کی وجہ پروفیسر پرویز ہودبھائی کے مطابق حکومت کی کمزور رٹ قرار دی جاسکتی ہے۔ ’خفیہ اداروں یا فوج میں مجموعی طور پر اس کا امکان نہیں لیکن اندر کا ہی کوئی ایک شخص ایسا کر سکتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ایک چھٹی پر سپاہی کے کوہاٹ میں گزشتہ دنوں ویڈیو کی دوکانوں کو بموں سے اڑانے کی کوشش کے دوران گرفتاری ہے۔‘ حکومتِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کے جوہری ہتھیاروں کے مبینہ کاروبار میں ملوث ہونے کو ماضی کا ایک بند باب قرار دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان محمد صادق کہتے ہیں کہ وہ ایک انفرادی عمل تھا جس کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے لیئے یہ بات اب بھی وجہ تشویش ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں مذہبی لوگوں کا زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اس ادارے کے ایک اعلی اہلکار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اب بھی یہ بلاجھجک کہتے ہیں کہ انہیں غیرمسلم پسند نہیں۔ اس افسر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے نوبل انعام یافتہ عبدالسلام سے مصافحہ نہیں کیا کیونکہ وہ بقول ان کے ’قادیانی‘ تھے۔ نہ امریکی اور نہ پاکستان کے ماہرین موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور انہیں رکھے جانے والے مقام کے بارے میں کوئی زیادہ واضع معلومات رکھتے ہیں۔ اس بارے میں قیاس زیادہ اور قوی معلومات کم دستیاب ہیں۔ اگر جوہری بموں کی تعداد ہی لے لیں تو کوئی اسے تیس چالیس کے درمیان جبکہ بعض اور لوگ سو سے زیادہ بموں کی توقع کرتے ہیں۔ عسکری امور کے تجزیہ نگار برگیڈئر ریٹائرڈ شوکت قادر اس سے متفق نہیں کہ جوہری ہتھیاروں کے پاکستان سے چوری ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مغرب میں حفاظتی انتظامات سخت اور جدید ہیں تو وہاں کے چور بھی زیادہ جدید اور ماہر ہیں۔ ’پاکستان اور کسی دوسرے جوہری ملک سے ان ہتھیاروں کے غائب ہونے کا امکان ایک ہی طرح کا ہے۔ نہ کم نہ زیادہ۔‘ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندوں کا حکومت میں آکر ان ہتھیاروں کا کنٹرول سنبھالنا ممکن نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستانی مذہبی جماعتوں کو انتہا پسند نہیں کہا جاسکتا۔ ’رہی بات طاقت کے ذریعے انتہا پسندوں کے ہاتھ ان ہتھیاروں کے آنے کی تو اس کا امکان بھارت یا کسی مغربی ملک میں اتنا ہی ہے جتنا کہ کہیں اور۔‘ تو پھر پاکستان کیوں زیادہ مشکوک ہے۔ شوکت قادر اس شک کو بجا قرار دیتے ہیں۔ ’پاکستان کا جوہری پروگرام خود چوری کی بنیاد پر چلایا گیا۔‘ حالانکہ ان کے بقول کئی امریکی اور مغربی اشخاص بھی اس غیرقانونی کاروبار میں ملوث تھے لیکن جو پکڑا جائے چور وہی۔ شوکت قادر اس شک کی دوسری بڑی وجہ یہاں امریکہ مخالف انتہا پسندوں کی موجودگی کو قرار دیتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ وسطی ایشیا میں آج بھی جوہری سامان باآسانی دستیاب ہے جو کہ کافی تشویش کی بات ہے۔ ماہرین کے مطابق ایٹم بم بنانا آجکل کے جدید کمپیوٹر کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اگر ضروری سامان اور آلات میسر ہو تو مناسب تکنیکی سوجھ بوجھ رکھنے والے کمتر سہی لیکن ایک چھوٹا سا بم تیار کرسکتے ہیں۔ پروفیسر ہودبھائی اگرچہ مستقبل کی پیشن گوئی کے لئے شہرت نہیں رکھتے لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ اچھا مستقبل نہیں دیکھ رہے۔ ’اس صدی میں، شاید ہماری زندگی میں نہیں ہماری اگلی نسلوں کی زندگی میں وہ وقت شاید آئے جب اس دنیا کو ایک بڑا جوہری سانحہ دیکھنا پڑے گا۔‘ اس صورتحال سے بچنے کی خاطر ماہرین کے مطابق کم از کم پاکستان کی حد تک یہاں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو مزید نہ بڑھایا جائے، پہلے سے موجود ہتھیاروں کے حفاظتی اقدامات مزید بہتر کیے جائیں اور پاکستان اور بھارت کو مل کر ان ہتھیاروں کے خاتمے یا کم کرنے کا معاہدہ کرنا چاہئے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں سے ڈسے امریکہ کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کے پاس جوہری ہتھیار یقینا باعث تشویش ہیں۔ اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیئے اس کی سوچ بچار جاری ہے۔ بین الاقوامی ردعمل جاننے کے لیئے ہی سہی تاہم پاکستان جیسے کسی ملک پر حملے جیسی خبریں شاید جان بوجھ کر ہی وہاں کا ردعمل جاننے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔
080325_iftikhar_analysis_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080325_iftikhar_analysis_ra
’صدر مشرف بیرونی دروازے پر‘
کہتے ہیں کہ سیاست ممکنات کا فن ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پندرہ دن قبل اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے آرمی ہاؤس میں جنرل پرویز مشرف سمیت چار فوجی جرنیلوں کو انکار کر کے ’مشرف زدہ‘ سیاسی جماعتوں کو ممکنات کے اس فن سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا سیاسی سٹیج مہیا کیا کہ آج معتوب سیاستدان اقتدار سنبھالنے کی خوشی میں قومی اسمبلی میں بیٹھ کر ڈیسک بجا رہے ہیں۔
معزول چیف جسٹس افتخار چودھری چار ماہ بیس روز کی حراست کے بعد اپنی رہائش گاہ کی بالکونی میں اپنے معتقدین کو ہاتھ ہلا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ پرویز مشرف اپنی فوجی وردی اور حلیف سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی قوت سے محرومی کے بعد اب بقول اعتزاز حسن کے ’باہر جانے والے دروازہ‘ پر کھڑے ہیں۔ جسٹس افتخار چودھری کے ایک’ نو‘ نے پاکستان کی اکسٹھ سالہ عدالتی اور سیاسی تاریخ کو جنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ پہلی بار پاکستانی عوام، وکلاء، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہوا کہ افتخار چودھری نے وردی میں ملبوس طاقتور جرنیلوں کو انکار کر کے نو مارچ کو ہی ’نظریہ ضرورت‘ کو آرمی ہاؤس میں دفن کر کے عدلیہ کوآمریت کی زنجیروں سے ہمیشہ کے لیے آزاد کرا دیا۔ مگر تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد افتخار چوھری سمیت ساٹھ ججوں کی ’ معزولی‘ اور انکی نظر بندی نے وقتی طور پر لوگوں کے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ ایک سال پندرہ دنوں کے دوران کئی تاریخی واقعات نے جنم لیا۔ وکلاء کی تحریک نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کو اتنا کمزور کر دیا کہ انہوں نے پاکستانی کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن مرحومہ بینظیر بھٹو سے ان کی شرائط پر ڈیل کی۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرنا پڑا اور انیس سو ننانوے تک کرپشن کے تمام کیسز کو ختم کردیاگیا۔ اس گنگا میں پیپلز پارٹی کے حریف اور جنرل ریٹائرڈ مشرف کے حلیف جماعتوں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی شیر پاؤ اور دیگر شخصیات نے بھی اپنے ہاتھ دھو ڈالے۔ افتخار چودھری کے انکار کے نتیجہ میں جو احتجاجی تحریک چلی وہ بلاآخر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی کی جلاوطن رہنماء بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد نواز شرف کی وطن واپسی پر منتج ہوئی اور یہاں سے ہی حکمران مسلم لیگ کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا۔ دونوں سیاسی رہنماؤں کی آمد کیساتھ ہی انتخابات کا اعلان ہوا مگر ساتھ میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کی اہلیت کے بارے میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ سے قبل ہی پرویز مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر کے چیف جسٹس افتخار چودھری اور پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے تقریباً ساٹھ ججوں کو معزول کردیا اور یوں انہوں نے خود اپنے پاؤں پر کھلاڑی مار دی جس کے نتیجہ میں لوگوں کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوا جب پرویز مشرف نے بڑی نیم دلی کیساتھ طاقت کی چھڑی نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپ دیا۔ دوسری طرف راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت، اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں ان کے استقبالی جلوس پر حملہ میں ایک سو پچاس کے قریب لوگوں کی ہلاکت اور بارہ مئی کو کراچی میں پیش آنے والے جیسے واقعات کا محض چند ماہ میں پیش آنا پاکستان کی تاریخ کےناقابل فراموش واقعات ہیں۔ اپنی پہلی تقریر میں نومنتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑا کہ آج کی جمہوریت بینظیر بھٹو کے خون اور سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں نصیب ہوئی ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں معزول ججوں کی رہائی کا حکم میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونیوالا ’معاہدہ مری‘ پر عملدرآمد کی جانب اٹھائے جانے والا پہلا قدم ہے جبکہ منزل تک پہنچنے کے لیے اب بھی انتیس دن مزید باقی ہیں۔ نئی حکومت اور اٹھاون ٹو بی کے اختیارات کے مالک صدرپرویز مشرف کے درمیان تو باقاعدہ کھیل اب شروع ہوا ہے، سو آئندہ کیا ہوسکتا ہےاس بارے میں سرِدست کہنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ آخر کار’سیاست ممکنات کا ہی فن ہے۔،
060608_girlchild_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060608_girlchild_sen
گیارہ مویشیوں کے عوض دو پوتیاں
سندھ میں ایک شخص نےگیارہ مویشیوں کے بدلے سات اور آٹھ سالہ پوتیاں رشتےمیں دی ہیں۔صلح کے لیے کم سِن بچیاں سے نکاح شکارپور ضلع کی تحصیل لکھی غلام شاہ کے رہائشی محمد عالم کو مویشیوں کے تاجر امداد علی نے گیارہ مویشی چرانے کے لیئے دیئے تھے جو اس نے بیچ دیئے، جس پر دونوں میں تناز عہ کھڑا ہوگیا۔
علاقے کی معززین کی جانب سے کیئے گئے فیصلے میں گیارہ مویشی کی قیمت ایک لاکھ ستر ہزار رپے مقرر کی گئی لیکن محمد عالم کے پاس رقم نہیں تھی۔ رقم نہ ہونے کی وجہ سے محمد عالم سے اس کی دو پوتیوں سات سالہ کریماں اور آٹھ سالہ ہیر زادی کے رشتے طے کیئے گئے ہیں۔محمد عالم کے بیٹے اور بچیوں کے والد محمد رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ شکارپور کے وکیل آغا ثنا اللہ نے ان کے والد اور امداد علی کے درمیان تنازعے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ مسجد میں جاکر رقم طے کی جائے۔ رمضان کے مطابق کلام پاک پر قسم اٹھانے کے بعد میرے والد محمد عالم کو ایک لاکھ ستر ہزار روپے ادا کرنے کو کہا گیا جو قسطوں میں دینے تھے۔ بعد میں زبردستی میرے والد سے میری بچیوں کے رشتے ایک حلف نامے پر لکھوائے گئے جبکہ میں رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ محمد رمضان کے مطابق وہ اپنی بیٹیاں کسی صورت میں نہیں دیں گے مگر مخالف فریق دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہم نکاح پڑھوائیں گے۔ دوسری جانب آغا ثنااللہ نے بتایا کہ انہوں نے فریقین کو مسجد میں جاکر کلام پاک پر معاملہ طے کرنے کو کہا تھا جس کے بعد فریق واپس چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بچیاں دینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بعد میں فریقین نے اپنی برادری کے معزز یونین کونسل کے ناظم عبدالقادر سے فیصلہ کروایا ہے۔ چک کے یونین کونسل کے ناظم عبدالقادر کا کہنا ہے کہ محمد عالم نے اپنی مرضی سے اپنی بچیاں امداد علی کو دی ہیں اگر فریقین راضی ہیں تو ہم کیوں اعتراض کریں گے۔ بنگلانی برداری کے اس جرگے میں شریک ایم این اے میر ہزار خان بجارانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ فریقین کی باہمی رضامندی سے کیا ہے اگر ہم یہ فیصلہ نہیں کرتے تو یہ خونی تنازعہ اور بھی بڑھ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے میں خون کا معاوضہ مقرر کیا گیا تھا لیکن رشتہ داری فریقین کے اصرار پر بحال کی گئی ہے۔سرداروں کے اس فیصلے پر جیکب آباد میں این جی اوز کی جانب سے مظاہرے کیئے گئے ہیں جبکہ سیاستدانوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ سندھ میں دو سال قبل ہائی کورٹ نے جرگوں پر پابندی عائد کی تھی اور آئندہ جرگے منعقد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی اعلان کیا تھا۔ جرگے پر پابندی کے لیئے پٹیشن دائر کرنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے رہنما شبیر شر کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد بھی سندھ میں ہر روز کہیں نہ کہیں جرگہ ہو رہا ہے مگر عدالت نے کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ پابندی کے فیصلے کے بعد ہونے والے جرگوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا مگر وہ مقدمات ابھی تک التوٰی کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹھل میں پانچ بچیوں کو ایک خون کے بدلے میں دینے کے خلاف بھی وہ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے جس میں عدالت کو متوجہ کیا جائے گا کہ اس فیصلے سے توہین عدالت ہوئی ہے جس کا نوٹس لیا جائے۔ شبیر شر کے مطابق پاکستان کا قانون کسی کو کسی کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے نہ ہی کوئی شخص نجی کورٹ چلا سکتا ہے ان نکات کو بھی پٹیشن میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک قانون کے تحت سرداری نظام کا خاتمہ کیا گیا ہے اس قانون کے تحت کوئی بھی خود کو سردار نہیں کہلا سکتا اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے تین سال سزا مل سکتی ہے اس کو بھی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسمبلیوں میں وہی سردار اور جاگیردار موجود ہیں جو ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں سندھ کے موجودہ اور سابق وزیر اعلیٰ خود جرگوں میں بیٹھے کر فیصلے کرچکے ہیں۔
040930_fallujah_raid_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040930_fallujah_raid_am
عراق پر حملے، بائیس افراد ہلاک
عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ مزاحمت کاروں نے امریکی فوجی قافلے کو دو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں موقع پر موجود پولیس اہلکار کے مطابق سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق دوسرا بم دھماکہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی پہلے دھماکے کی زد میں آنے والی فوجی گاڑیوں کی مدد کے لیے پہنچے۔ اس کے علاوہ بغداد کے قریب واقع ایک امریکی فوجی اڈے سے راکٹ ٹکرانے کے نتیجے میں ایک فوجی ہلاک ہو گیا ہے مگر اس واقعہ کی مزید تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ عراق کے شمالی شہر موصل کے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں اس میں سوار پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔ عراق میں ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فلوجہ پر امریکی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکی فوج کے بقول حملے میں ابو مصعب الزرقاوی کے حامی شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ حملے کے باعث یہ گھر تباہ ہو گیا ہے۔
061224_qazi_iran_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/12/061224_qazi_iran_sq
’ایران، یکجہتی دکھانے کا موقع‘
پاکستان میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر پابندیوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ مسلمان ملکوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا اچھا موقعہ ہے۔
اتحاد کے سربراہ قاضی حسین احمد نے اتوار کو کراچی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہ ایٹمی طاقت ہیں مگر ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی، دوسرح طرف ایران بار بار اعلان کر رہا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقصد کے لئے ہے لیکن اس پر پابندیاں عائد کی جارہی ہے ۔ قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اس معاملے پر مسلمان ملکوں نے خاموش اختیار کی ہوئی ہےحالانکہ یہ موقعہ اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا ہے۔ قاضی حسین کے مطابق اگرمسلمان ممالک اسی طرح الگ الگ رہے، ایک دوسرے کی مدد کو نہ آئے تو خدشہ ہے کہ وہ ایک ایک کر کے مارے جائیں گے۔ مجلس عمل کے سربراہ نے قبائلی علاقے میں امریکی بمباری کی مذمت کی اور کہا کہ ایک تازہ واقعے میں ایک مسجد پر بمباری کی گئی ہے مگر حکومت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ ایک سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کا معاملہ طے ہوگیا ہے اور اس پر عملد رآمد عید کے بعد ہوگا۔
040606_batt_deeday
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/06/040606_batt_deeday
کیا آپ سپاہی کمل رام اور عبدالحفیظ کو جانتے ہیں
آپ میں سے اکثر نے چکوال کے صوبیدار خدادادخان کا نام تو سنا ہوگا۔وہ بھی اس لئے کہ خدادادخان پہلا ہندوستانی سپاہی تھا جسے پہلی عالمگیرجنگ میں شجاعت کے زبردست مظاہرے کے اعتراف میں سلطنتِ برطانیہ کی طرف سے پہلا وکٹوریہ کراس ملا تھا۔لیکن کم لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی ہے کہ اس جنگ میں شریک برطانوی نوآبادیات کے ایک ملین سپاہیوں میں سے ایک لاکھ سے زائد نے برطانیہ سے وفاداری نبھاتے ہوۓ یورپ، عراق، فلسطین، گیلی پولی، چین، مغربی اور مشرقی افریقہ کے محازوں پر اپنی جان نچھاور کردی۔ان لڑنے والوں میں پائلٹ آفیسر لیفٹیننٹ اندرالال بھی شامل تھا جس نے یورپ کے محاز پر دشمن کے دس طیارے مار گرانے کے بدلے فلائنگ کراس حاصل کیا۔کیا آپ لیفٹیننٹ اندرالال کو جانتے ہیں ؟
اسی طرح دوسری عالمگیر جنگ میں برطانوی نوآبادیات کے جن تین ملین فوجیوں اور سویلینز نے حصہ لیا ان میں سے ڈھائی ملین کا تعلق ہندوستان سے تھا۔چاہے شمالی افریقہ میں جنرل رومیل کے طوفانی جرمن ٹینک دستوں کو تباہ کرنے کا فرض ہو یا برما کے محاز پر جاپانیوں کو پیچھے دھکیلنے کا مشن۔روم میں اتحادی افواج کے داخلے کو آسان بنانے کے لئے بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کی ڈیوٹی ہو یا پھر رائل انڈین ایرفورس کی جانب سے دشمن کے عقب میں پیراشوٹ رجمنٹ اتارنے کی زمہ داری۔آپ نے جنرل پیٹن، فیلڈمارشل منٹگمری، جنرل آئزن ہاور اور جنرل میک آرتھر کے کارناموں پر ہالی وڈ کی فلمیں تو دیکھی ہوں گی لیکن وکٹوریہ کراس پانے والےنائک گیان سنگھ، سپاہی کمل رام،جمعدار عبدالحفیظ اور جارج کراس پانے والی خاتون فوجی نورعنائت خان کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔فی الحال میں ان چھتیس ہزار ہندوستانی فوجیوں کا تزکرہ چھوڑتا ہوں جو دوسری عالمی جنگ میں کام آۓ۔ ساٹھ برس پہلے چھ جون کو ڈیڑھ لاکھ امریکی اور برطانوی فوجی یورپ کو نازیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے فرانس میں نارمنڈی کے ساحل پر اترنا شروع ہوۓ۔لیکن کیا یہ ڈی ڈے ممکن تھا اگر اس دن اسی فی صد جرمن افواج کو سوویت فوجوں نے مشرقی محاز پر نہ الجھایا ہوا ہوتا۔ بیشتر مغربی مورخ گزشتہ ساٹھ برس سے بتا رہے ہیں کہ نازی جرمنی اور فاشسٹ جاپان سے آزادی چھیننے کی قیمت آٹھ لاکھ فرانسیسیوں، پانچ لاکھ امریکیوںاور تین لاکھ نوے ہزار برطانوی فوجیوں نے اپنے خون سے ادا کی۔لیکن سوویت یونین کے ان ڈھائی کروڑ سویلینز اور فوجیوں کے بارے میں فرانس برطانیہ اور امریکہ کے کتنے بچے جانتے ہیں جنہوں نے نازیوں کو دو ہزار کیلومیٹر تک برلن تک دھکیلنے کے سفر میں اپنی جانیں لٹا دیں۔لندن نازیوں کی مسلسل بمباری سے کھنڈر بن گیا تھا۔اس موضوع پر کئی کتابیں شائع ہوئیں اور کئی دستاویزی اور غیر دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں لیکن روس اور یوکرائن کے وہ دو ہزار قصبے اور دیہات کیا ہوۓ جنہیں نازی بلڈوزروں نے برابر کر دیا۔یہ بات کتنی دفعہ سامنے آ سکی کہ دوسری عالمی جنگ میں ایک کروڑ چودہ لاکھ چینی جاپانی فاشزم کی مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے۔ ساٹھ برس میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر اور روسی صدر کو ڈی ڈے کی تقریبات میں مدعو کیا گیا۔لیکن ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ، چینی وزیرِاعظم جیاؤ باؤ اور پاکستانی صدر پرویز مشرف کو اس تقریب کے بارے میں کتنا بتایا گیا ہے ؟ کیا غلام ملکوں کے فوجیوں کے بل پر لڑی جانے والی دونوں عالمی جنگیں صرف یورپ کی آزادی کی جنگیں تھیں ؟
051208_irani_films_as
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/12/051208_irani_films_as
ایرانی فلمیں لاہور میں
’ایک پہر دِن چڑھے ہم عازمِ نمائش گاہ ہوئے جہاں تصاویر انواع و اقسام کی ہمارے دیکھنے کو آویزاں تھیں۔۔۔ بعد ازاں ہمیں عمارت کے اس گوشے میں لے جایا گیا جسے حیرت کدہ کہیئے تو بے جا نہ ہوگا۔ وسط میں اس کمرے کے ایک بڑا پردہ سفید تان دیا گیا اور پھر کمرے میں روشن برقی قمقمے بجھا دیئے گئے۔ اب اس ’کَل‘ (مشین) میں سے کہ پروجیکٹر کہلاتی تھی، ایک دھار سفید روشنی کی نمودار ہوئی اور سفید پردے پر صحرائے عرب کا منظر نمودار ہوا جس میں بدو لوگ اونٹوں پر سوار محوِ سفر تھے۔ یہ تصاویر بطریقِ سینما ٹوگراف تیار کی گئی تھیں اور ہم انھیں دیکھ کر انتہائی محظوظ و مُتحیّر ہوئے۔‘
یہ اقتباس ایران کے فرماں روا مظفرالدین شاہ کے روزنامچے سے لیا گیا ہے اور اس پر 13جولائی 1900 کی تاریخ درج ہے جب شاہِ ایران یورپ کے اوّلین دورے پر گئے تھے اور فلم دیکھنے کا یہ منظر پیرس میں پیش آیا تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے، مظفرالدین شاہ نے اپنے شاہی فوٹو گرافر مرزا ابراہیم خان عکاس کو حکم دیا کہ فلم سازی کا تمام سازوسامان فوری طور پر خریدا جائے تاکہ ایران واپس جا کر وہ بھی شاہی محل اور درباریوں کی فلم بنا سکیں۔ اور اسطرح شاہی سرپرستی میں آج سے سو برس پہلے ایران میں فلم سازی کا آغاز ہوا۔ 1930 کے عشرے میں تفریحی مقاصد کے تحت فلمیں بننی شروع ہوئیں اور سینما گھروں کا رواج بھی اسی زمانے میں پڑا۔ 1960 کے عشرے میں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی سرپرستی میں نئے فلم سٹوڈیو تعمیر ہوئے اور غیر ملکی فلموں کو فارسی میں ڈب کرنے کے لئے جدید سازوسامان درآمد کیا گیا۔ ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے غیر ملکی فلموں کو فارسی میں ڈب کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ 1964 میں ایران کی پہلی فلم اکیڈمی کھُلی جہاں گزشتہ 40 سال کے دوران بہت سے فلمی مصّنفوں، ہدایتکاروں اور تکنیک کاروں نے تربیت حاصل کی ہے۔ انھی تربیت یافتہ لوگوں میں ڈاکٹر محمد شہبا بھی شامل ہیں جن کی بنیادی تربیت تو ایک فلم ایڈیٹر کے طور پر ہوئی تھی لیکن بعد میں انھوں نے سکرپٹ رائٹنگ اور ڈائریکشن کی تربیت بھی حاصل کی۔ وہ فلم تکنیک کے موضوع پر چالیس کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کر چکے ہیں اور آج کل فلم آرٹ کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں انھوں نے ایرانی فلموں کی جِس نمائش کا اہتمام کیا وہ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ ہر فلم سے پہلے وہ اسکا تفصیلی تعارف کراتے تھے، اور فلم دکھانے کے بعد حاضرین کے سوالات کے مفصّل جواب بھی دیتے تھے۔ انھیں ذاتی طور پر ہدایتکار مخمل باف کی ’ ناصرالدین شاہ: اکتورِ سینما‘ بہت پسند ہے۔ یہ فلم عالمی حلقوں میں اپنے انگریزی نام سے معروف ہے یعنی:ONCE UPON A TIME, CINEMAیہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے جسے فوٹوگرافروں سے سخت نفرت ہے اور اس نے حکم جاری کر رکھا ہے کہ سلطنت میں کوئی فوٹوگرافر نظر نہیں آنا چاہیئے۔ لیکن ایک جیالا کیمرہ مین پہرے داروں کو دھوکہ دے کر محل میں اپنے متحرک کیمرے سمیت داخل ہو جاتا ہے اور شاہی رسمِ تاج پوشی اور جشن کی تمام تقریبات کو فلم بند کر لیتا ہے۔ تاہم محل سے نکلتے وقت وہ پکڑا جاتا ہے اور اُسے سر قلم کرنے کے لئے دربار میں پیش کیا جاتا ہے لیکن سر قلم کرنے سے پہلے بادشاہ سلامت کو جرم کا مکمل ثبوت مہیّا کیا جاتا ہے اور شاہی جشن کی فلم دکھائی جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت یہ فلم دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور فلم میں اُن کی دلچسپی جنون کی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر ملوکانہ شان و شوکت کو تج کر ایک فلمی اداکار بننے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ بادشاہ کی، فلم آرٹ سے جو دلچسپی دکھائی گئی ہے وہ دراصل خود مخمل باف کے عشقِ فلم کی غماز ہے۔ یہ فلم کئی بین الاقوامی میلوں میں انعامات حاصل کر چکی ہے اور اہلِ لاہور نے بھی اسے کُھل کر داد دی ہے۔ لاہور میں دکھائی جانے والی ایک اور فلم ’نامہء نزدیک‘ ہے جو کہ اپنے انگریزی نام Close up کے تحت امریکہ، یورپ اور سکینڈے نیویا میں دکھائی جا چکی ہے۔ اس کہانی کا پس منظر بھی عجیب ہے: ایران میں ایک شخص خود کو ہدایتکار مخمل باف کے طور پر پیش کرتا ہے اور کئی روز تک مخمل باف کے مداحوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ آخر شک پڑنے پر پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے اور یہ جعلی مخمل باف گرفتار کر کے حوالات بھیج دیا جاتا ہے۔ عدالت میں یہ شخص اعتراف کرتا ہے کہ اس نے دھوکہ دیا تھا لیکن اس کی نیت ٹھیک تھی اور وہ محض چند روز تک شہرت اور عزت کا لطف اُٹھانا چاہتا تھا جو کہ اسے زندگی بھر نصیب نہیں ہوئی تھی۔ عدالت مُدّعی کی منشاء کے مطابق ملزم کو معاف کر دیتی ہے اور جب وہ رہا ہو کر حوالات سے باہر آتا ہے تو وہاں اصلی مخمل باف اُس سے ملاقات کے لئے موجود ہے۔ پھر دونوں اس گھر میں جاتے ہیں جہاں جعلی مخمل باف کئی روز تک مہمان بن کے پڑا رہا تھا ۔۔۔ اور یوں یہ فلم ہنسی خوشی کے ایک منظر پہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس فلم کی بُنیادی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی اداکار نہیں ہے بلکہ اُن اصل لوگوں نے کام کیا ہے جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ عدالت کی کارروائی بھی اصلی ہے اور عدالت کی اجازت سے پیشی کے روز اسکی فلم بندی کی گئی تھی۔ عباس کیا رُستمی اور جعفر پناہی۔ یہ تینوں نوجوانی کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور ایرانی سینما کو عالمی سطح پر متعارف کرانا اِن کا پرانا مشن تھا جو کہ اب بخیروخوبی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ لاہور میں ایرانی فلموں کی نمائش کے موقعے پر ایرانی ماہرِ فلم ڈاکٹر محمد شہبا نے بتایا کہ ایران میں ہر برس 80 کے قریب فیچر فلمیں بنتی ہیں، اِن کے علاوہ بچوں کے لئے بھی سات آٹھ فلمیں تیار کی جاتی ہیں اور اتنی ہی فلمیں خاص طور پر عالمی میلوں میں نمائش کےلئے بھی بنائی جاتی ہیں جو کہ ’فیسٹیول فلمیں‘ کہلاتی ہیں۔ اگرچہ فیچر فلموں کی پروڈکشن پرائیویٹ سیکٹر میں ہوتی ہے لیکن حکومت فلم سازوں کو آسان قرضے مہیّا کرتی ہے، خام فلم بہم پہنچاتی ہے اور تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔ محسن مخمل باف، عباس کیا رستمی اور جعفر پناہی جیسے مشاہیرِ فلم کے بعد اب ایرانی فلم سازوں کی ایک نئی پود تیار ہو چکی ہے جو اس روایت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ نوجوان مصّنف اور ہدایتکار ابوالقاسم طالبی کی نئی فلم ’بچپن کا جھگڑا‘ حال ہی میں نمائش کے لئے پیش ہوئی جس میں عراق کے ایک دیہاتی لڑکے کی داستان بیان کی گئی ہے۔ بارہ سالہ علی کا سارا خاندان امریکی بمباری کے دوران ہلاک ہو چکا ہے اور بچ نکلنے والے دیہاتی اپنا تباہ شدہ آبائی گاؤں چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں فرار ہو چکے ہیں۔ علی کو خبر ملتی ہے کہ اسکا شِیرخوار بھائی بمباری میں بچ گیا تھا ۔۔۔ چنانچہ علی اپنے ایک سالہ بھائی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔ اور یہ ساری فلم اسی تلاش پر مبنی ہے۔ لاہور کی نمائش میں پیش ہونے والی فلم Secret Ballot کو خواتین نے خاص طور پر پسند کیا۔ اس میں ایران کا ایک دور افتادہ علاقہ دکھایا گیا ہے جہاں عورتیں پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کر رہی ہیں۔ اس فلم کے مصنف اور ہدایتکار بابک پیامی ہیں لیکن جس فلم نے سب سے زیادہ داد وصول کی وہ عباس کیا رُستمی کی فلم ’10‘ تھی۔ یہ ساری کی ساری فلم ایک کار کے اندر ڈیجیٹل کیمرے سے تیار کی گئی ہے اور بعد میں اسے35 ایم ایم پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ کار میں وقفے وقفے سے سوار ہونے والے مسافروں کی کہانیوں کے ذریعے ایرانی معاشرے کے مختلف رُخ بے نقاب کئے گئے ہیں۔ فلم ’10‘ کو دیکھ کر اس عمومی تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ ایران میں فلموں پر سخت سینسر شپ عائد ہے اور معاشرے کے بُرے پہلوں پر تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو کر آزادانہ زندگی گزار رہی ہے اور اسکا نو سالہ بیٹا اس سے باغی ہو چکا ہے۔ اس کار کے مختلف مسافروں میں ایک طوائف بھی ہے جو شادی شدہ عورتوں کو ’بے وقوف‘ کہہ کر اُن کا مذاق اُڑاتی ہے اور انھیں مردِ واحد کی غلامی کا طعنہ دیتی ہے۔
070909_sharif_gtroad_feature
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070909_sharif_gtroad_feature
نواز شریف، جی ٹی روڈ پر پراسرار خاموشی
اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف سوموار کے روز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کے ذریعے لاہور روانہ ہوں گے۔ اپنی وزارت عظمی کے دور میں بڑے چاؤ سے تعمیرکردہ موٹر وے پر پانچ سو سال پرانی گزر گاہ کو فوقیت دینے میں نواز شریف کی یہ توقع پنہاں نظر آتی ہے کہ اسلام آباد سے لاہور تک ان کا عوامی استقبال کیا جائے گا۔
پنجاب کے چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں سے گزرتی اس شاہراہ پر نواز شریف کے ممکنہ سفر سے ایک روز قبل جی ٹی روڈ کے کنارے ان آبادیوں میں نواز شریف کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جاری آنکھ مچولی اس بات کی مظہر ہے کہ کم از کم انتظامیہ تو سمجھتی ہے کہ ایسا عین ممکن ہے۔ لیکن اگر استقبالی تیاریوں کی بات کی جائے، تو دو سو کلومیٹر سے زائد اس سفر میں جی ٹی روڈ کے ساتھ نہ تو بڑی مقدار میں بینرز اور پوسٹرز نظر آتے ہیں اور نہ ہی روایتی خیر مقدمی نعروں سے دیواریں رنگی ہیں۔ گوجر خان، دینہ، جہلم، سرائے عالمگیر، گوجرانوالہ سمیت جی ٹی روڈ پر واقع اکثر بڑے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم خاصی مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ تو پھر آٹھ سالہ جلاوطنی ترک کے واپس آنے والے رہنما کے استقبال سے صرف ایک روز پہلے یہ منظر اتنا پھیکا کیوں؟ جی ٹی روڈ کنارے بسے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کے دفاتر کے مناظر اسکی کچھ وضاحت کرتے ہیں۔ جہلم مسلم لیگ کے دفتر پر تالہ پڑا ہے۔ قریب ہی مقامی رہنما راجہ افضل کی رہائش گاہ ہے۔ اس پر بھی تالہ نظر آیا لیکن موبائل فون پر رابطوں کے بعد اس گھر کا تالہ کھلا تو معلوم ہوا کہ اہل خانہ تو اندر ہی موجود ہیں۔ استفسار پر راجہ افضل کے قریبی عزیز اور شہر کی ایک کونسل کے نائب ناظم شاہ نواز نے بتایا کہ گزشتہ شب سے انکے شہر میں مسلم لیگی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گلی محلوں میں پولیس اور انٹیلیجنس کے ارکان نواز شریف کے حامیوں کی بو سو نگھتے پھر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ راجہ افضل اور دیگر اہم رہنما عملاً روپوش ہیں لیکن سوموار کے روز تک۔ اس روز وہ باہر بھی نکلیں گے اور جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ بھی جائیں گے۔ جھنڈوں اور بینرز کی عدم موجودگی کی وجہ گوجر خان میں مسلم لیگی رہنما راجہ خورشید زمان کی رہائش گاہ جا کر معلوم ہوا کہ ایک کمرے میں سینکڑوں خیرمقدمی بینرز اور پوسٹرز ڈھیر کی صورت پڑے ہیں۔ راجہ خورشید زمان کے سیکرٹری محمد صابر کا کہنا ہے کہ تین روز سے ان بینرز کو جی ٹی روڈ کنارے آویزاں کرنے کی کوشش جاری ہے لیکن جب بھی کوئی کارکن بینر لگانے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا بلکہ اسکی خبر مقامی تھانے سے آتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بینرز اور خیرمقدمی نعرے آویزاں ہونے کے لئے لائے گئے ہیں، اور یہ نواز شریف کے جی ٹی روڈ سے گزرنے کے وقت ان کا استقبال کریں گے، چاہے مزید کارکنوں کو جیل جانا پڑے۔ عبدالرؤف شیخ لاڑکانہ سے آئے ہیں اور اب براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد ایئرپورٹ کی جانب گامزن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکے ساتھ ایک سو سے زائد لوگ ہیں جو سندھ کے مختلف علاقوں سے نواز شریف کا استقبال کرنے آئے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ پولیس نے روکا، رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن یہ پولیس کو جل دیتے گوجر خان تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب سفر بھی تھوڑا رہ گیا ہے۔ گجرات مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران (شجاعت حسین اور پرویز الہی) کا گڑھ ہے۔ علاقے میں ترقیاتی کاموں کے باعث لوگ ان کے حامی ہیں۔ لیکن چند لوگوں سے گفتگو کے بعد اندازا ہوا کہ مخالف وہ نواز شریف کی واپسی کے بھی نہیں ہیں۔ فدا گجرات میں ایک نجی ادارے کے ملازم ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ چوہدریوں کے حامی ہیں اور رہیں گے لیکن نواز شریف کی واپسی کے مخالف نہیں۔ ’نواز شریف ضرور واپس آئیں۔ لیکن بدامنی کی وجہ نہ بنیں۔ پرامن طریقے سے آئیں اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انتخاب میں حصہ لیں۔‘
071021_fazlu_presser_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/10/071021_fazlu_presser_nj
’فراہمیِ تحفظ میں حکومت ناکام‘
متحدہ مجلس عمل کے مرکزی رہنما اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کراچی میں بم دھماکوں کے بعد حکومت کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لئے قوائد وضوابط بنانے کی جو تجاویز دی جارہی ہیں وہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تاحال حکومت کی جانب سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔
اتوار کو پشاور میں جے یو آئی ضلع پشاور کی مجلس عمومی کے آئینی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بم دھماکوں کے بعد حکومت نے سیاسی جماعتوں کےلئے قوائد و ضوابط مرتب کرنے کے جو اعلانات شروع کررکھے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرانے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے میں اختلافات کے بارے انہوں نے کہا کہ’اختلافات تو موجود ہیں لیکن اتحاد کو برقرار رکھا جائےگا اور اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے ایک دوسرے سے جوگلے شکوے ہیں ان کو سپریم کونسل کے اجلاس میں طے کیا جائے گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ پارٹی کی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں 24 اور 25 اکتوبر کو کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان سے امریکی افواج واپس نہیں جاتی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتیں بھی اب اس سلسلے میں ان کے اس موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ انہوں نے اس بابت پاکستان میں متعین امریکی سفیر سے اپنی حالیہ ملاقات کا خصوصی طورپر تذکرہ کیا جس میں ان کے مطابق امریکی سفیر نے عندیہ دیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے پر غور کر رہا ہے۔ جے یو آئی کی مجلس عمومی کا آئینی اجلاس خصوصی طورپر اس سلسلے میں بلایاگیا تھا تاکہ ایم ایم اے میں اختلافات ، اسمبلیوں سے استعفوں اور سرحد اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے پارٹی کارکنوں کے خدشات کو دور کیا جاسکے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے تفصیلاً کارکنوں کو تمام سیاسی صورتحال سےآگاہ کیا اور تمام حالات کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ٹھہرایا۔ اس موقع پر اجلاس میں جے یو آئی کے ایک کارکن نے جوش میں آکر ’ نہیں مانتے نہیں مانتے مودودی کو نہیں مانتے‘ کا نعرہ بھی لگایا تاہم پارٹی سربراہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ سابق اپوزیشن رہنما نے صدراتی انتخاب کے دوران ذرائع ابلاغ کے کردار کو بھی دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملک میں جو بھی صورتحال بنتی ہے میڈیا اس کا ذمہ دار ان کو ٹھہراتا ہیں۔
world-52734364
https://www.bbc.com/urdu/world-52734364
سعودی عرب کا محدود حج کا اعلان، تاریخ میں حج کب کب منسوخ ہوا؟
سعودی عرب کی حکومت نے رواں برس کورونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سلطنت میں مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق 22 جون کی شب سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دنیا کے 180 سے زائد ممالک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر محدود تعداد میں سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کا موقع دیا جائے گا۔‘ جبکہ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹوئٹر پر بھی سعودی وزارت حج و عمرہ کے اس فیصلے کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ سعودی وزارت حج و عمرہ نے بیان میں مزید کہا کہ ’کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں پانچ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں اور 70 لاکھ سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔ کورونا کی وبا اور روزانہ عالمی سطح پر اس وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہ طے کیا گیا ہے کہ رواں برس 1441ھ کے حج میں سعودی سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے عازمین کو محدود تعداد میں شریک کیا جائے گا۔‘ یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کو حج سے کتنی آمدن ہوتی ہے؟ 'حج کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے' حج پر سبسڈی حج کے فلسفے سے متصادم ہے: حکومت سعودی وزارت حج و عمرہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ حج محفوظ اور صحت مند ماحول میں ہو۔ کورونا سے بچاؤ کے تقاضے پورے کیے جائیں، عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکے اور انسانی جان کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔‘ یاد رہے کہ کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سعودی حکومت نے اس سے قبل اپنے مقدس مقامات پر عمرے کی ادائیگی بھی معطل کر دی تھی۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں کورونا وائرس کے باعث 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 61 ہزار سے زائد ہے۔ سعودی حکومت نے کورونا کے باعث لاک ڈاؤن بھی 22 جون سے ختم کر دیا ہے جس کے بعد معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ اب جب کہ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پیش نظر رواں برس حج کو محدود کرتے ہوئے صرف ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو حج کرنے کی اجازت دی ہے وہیں کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے قبل حج کب کب اور کتنی مرتبہ منسوخ کیا گیا ہے؟ ماضی میں حج کب کب منسوخ ہوا؟ سنہ 2005 میں حج کے مناظر تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ فریضہ ہر سال ادا ہوتا رہا۔ اگرچہ مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی سال حج نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقعے ایسے ہیں جن میں حج ادا نہ ہو سکا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، چور اور ڈاکوؤں کے حاجیوں کے قافلے لوٹنا اور موسم کی انتہائی لہر شامل ہیں۔ سنہ 865: السفاک کا حملہ سنہ 865 میں اسماعیل بن یوسف نے، جنھیں السفاک کے نام سے جانا جاتا ہے، بغداد میں قائم عباسی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور مکہ میں عرفات کے پہاڑ پر حملہ کیا۔ ان کی فوج کے اس حملے میں وہاں موجود حج کے لیے آنے والے ہزاروں زائرین ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی وجہ سے اس سال حج نہ ہو سکا۔ سنہ 930: قرامطہ کا حملہ اس حملے کو سعودی شہر مکہ پر سب سے شدید حملوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ سنہ 930 میں قرامطہ فرقے کے سربراہ ابو طاہر الجنابی نے مکہ پر ایک بھرپور حملہ کیا جس دوران اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی کہ کئی سال تک حج نہ ہو سکا۔ سعودی عرب میں قائم شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اسلامی تاریخ دان اور احادیث کے ماہر الذهبي کی کتاب ’اسلام کی تاریـخ‘ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’316 ہجری کے واقعات کی وجہ سے کسی نے قرامطہ کے خوف کے باعث اس سال حج ادا نہیں کیا۔‘ سنہ 1889 کی اس تصویر میں زائرین کو خانہ کعبہ کے اردگرد جمع دیکھا جاسکتا ہے قرامطہ اس وقت کی اسلامی ریاست کو نہیں مانتے تھے اور اسی طرح وہ ریاست کے تحت مانے جانے والے اسلام کے بھی منحرف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حج پر ادا کیے جانے والے فرائض اسلام سے پہلے کے ہیں اور اس طرح وہ بت شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابو طاہر خانہ کعبہ کے دروازے پر آٹھ ذی الحج کو تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے اپنے جنگجوؤں کے ہاتھوں زائرین کا قتلِ عام کرواتے اور دیکھتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ کہتے رہے کہ ’عبادت کرنے والوں کو ختم کر دو، کعبہ کا غلاف پھاڑ دو اور حجرِ اسود اکھاڑ دو۔‘ اس دوران کعبہ میں 30 ہزار حاجیوں کا قتلِ عام ہوا اور انھیں بغیر کسی جنازے، غسل اور کفن کے دفنا دیا گیا۔ سنہ 1908 میں خانہ کعبہ کے قریب مکہ میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں مورخین کے مطابق حملہ آوروں نے لوگوں کو قتل کرنے کے بعد کئی ایک کی لاشیں زم زم کے کنویں میں بھی پھینکیں تاکہ اس کے پانی کو گندہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ حجرِ اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ اس وقت کے سعودی عرب کے مشرقی صوبے البحرین لے گئے جہاں یہ ابو طاہر کے پاس اس کے شہر الاحسا میں کئی سال رہا۔ بالآخر ایک بھاری تاوان کے بعد اسے واپس خانہ کعبہ میں لایا گیا۔ سنہ 983: عباسی اور فاطمی خلافتوں میں جھگڑے حج صرف لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال سیاست کی نظر بھی ہوا۔ سنہ 983 عیسوی میں عراق کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں کے سربراہان کے درمیان سیاسی کشمکش رہی اور مسلمانوں کو اس دوران حج کے لیے سفر کرنے نہ دیا گیا۔ اس کے بعد حج 991 میں ادا کیا گیا۔ مزید پڑھیے ’ماضی کا پورا مدینہ آج کی مسجدِ نبوی کا حصہ بن چکا ہے‘ حج پر سبسڈی حج کے فلسفے سے متصادم ہے: حکومت سعودی عرب میں ’تبدیلی کی لہر‘ سعودی عرب میں حج کی ادائیگی کے دوران لاکھوں مسلمان عرفات کے پہاڑ پر چڑھتے ہیں بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے حج منسوخ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 357 ہجری میں ایک اور بڑے واقعے کی وجہ سے لوگ حج نہ کر سکے اور یہ واقعہ دراصل ایک بیماری تھا۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ بہت سے زائرین راستے میں ہی ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے بھی تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔ سنہ 1831 میں انڈیا سے شروع ہونے والی ایک وبا نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کے لیے مکہ آئے تھے۔ حج اور عمرے کے دوران لوگ مدینہ میں مسجدِ نبوی کا دورہ بھی کرتے ہیں اسی طرح 1837 سے لے کر 1858 میں دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔ سنہ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں سنہ 1850 تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔ اکثر تحقیق کاروں کے مطابق یہ وبا انڈیا سے زائرین کے ذریعے آئی تھی جس نے نہ صرف ان کو بلکہ مکہ میں دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے دیگر زائرین کو بھی متاثر کیا تھا۔ مصری زائرین جوک در جوک بحرہ احمر کے ساحلوں کی طرف بھاگے جہاں انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہ وبا بعد میں نیو یارک تک پھیلی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سلطتِ عثمانیہ کے دور میں ہیضے کی وبا کے خاتمے کے لیے قرنطینہ پر خصوصاً زور دیا گیا تھا۔ رہزنی کا خوف اور حج کے بڑھتے ہوئے اخراجات سنہ 390 ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں مصر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔ سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضۂ حج متاثر ہوا۔ 654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔ جب کڑاکے کی سردی نے حج روک دیا سنہ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔ اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے حج کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ 2016 میں سعودی عرب کو حج سے 12 ارب ڈالر کی براہ راست آمدن ہوئی تھی کسوہ پر حملہ سنہ 1344 ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے کر جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔ یہ عیسوی کے حوالے سے 1925 کا سال بنتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے سعودی عرب وجود میں آیا ہے، یعنی 1932 سے لے کر اب تک، خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا۔
world-55961158
https://www.bbc.com/urdu/world-55961158
بائیڈن انتظامیہ کا یمنی محاذ پر سعودی حمایت ختم کرنے کا اعلان: امریکہ کے ’بدلتے رویے‘ کے بعد سعودی عرب کا رد عمل کیا ہوگا؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کو حاصل امریکی تعاون روکنے کا اعلان کیا ہے۔
چھ سالوں سے جاری اس تباہ کن جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق اپنی پہلی اہم تقریر میں صدر بائیڈن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ 'یمن میں جنگ ختم ہونی چاہیے۔' سنہ 2014 میں یمن کی کمزور حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین تنازع شروع ہوا۔ ایک سال بعد تنازعے نے اس وقت شدید شکل اختیار کرلی جب سعودی عرب سمیت آٹھ عرب ممالک نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت سے حوثی باغیوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ اور یہ حملے ہنوز جاری ہیں۔ جو بائیڈن نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں اور اپنے پیش رو صدر کے کچھ فیصلوں کو الٹ دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’یمن جنگ میں امریکہ سعودی عرب کی مدد نہ کرے‘ ’امریکہ کے بغیر بھی سعودی عرب کا وجود رہا ہے‘ امریکہ میں زیر تربیت سعودی فوجیوں کی بے دخلی انھوں نے امریکہ میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو واپس لیا ہے۔ یہ فوجی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ہی جرمنی میں ہیں۔ صرف یہی نہیں، بائیڈن کے زیرقیادت امریکی حکومت سابق صدر ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے فوجی معاہدوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کے سودوں کو بھی عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اثر ایف 35 جنگی طیاروں کے معاہدے پر بھی پڑے گا۔ امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو گائیڈڈ میزائلوں کی فروخت بھی روک رہا ہے۔ اس سے یمن کی جنگ تو متاثر ہوگی لیکن جزیرۃ العرب میں القاعدہ کے خلاف جنگ پر اثر نہیں پڑے گا۔ دریں اثنا صدر بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی فوجی مہم میں امریکی حمایت روکنے کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں 'سیاسی حل' کے لیے پر عزم ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی حکومت نے کہا: 'سعودی عرب، یمن بحران کے جامع سیاسی حل کی حمایت کے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے یمن بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کا پرزور خیرمقدم کرتا ہے۔' سعودی عرب نے بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی خودمختاری کے تحفظ اور اس کے خلاف خطرات سے نمٹنے میں تعاون کے عزم کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر لکھا: 'ہم بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے، خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملوں سے نمٹنے کے لیے صدر بائیڈن کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم گذشتہ سات دہائیوں کی طرح امریکہ میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ کام کرنے کے متمنی ہیں۔' اپنے بیان میں شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا: 'ہم یمن کے بحران کا حل تلاش کرنے اور وہاں انسانی حالت کو بہتر بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔' سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پیغام صدر بائیڈن نے سینیئر سفارت کار ٹموتھی لینڈرکنگ کو یمن کے لیے امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور یمن بحران کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے بیشتر حصوں پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے۔ ٹیموتھی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ باغیوں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے مابین بات چیت دوبارہ شروع کرائیں۔ بی بی سی کی نمائندہ لیس ڈوسٹ کے مطابق صدر بائیڈن کا اعلان یمن جنگ کے خاتمے کے ان کے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ تاہم یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد کے لیے امریکی تعاون روکنے سے یہ خونی باب فوراً ختم نہیں ہوگا۔ لیکن امریکی صدر کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے لیے یہ ایک ’مضبوط پیغام‘ ضرور ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت بھی یمن جنگ سے نکلنے کے طریقوں کی تلاش میں ہے۔ بہرحال صدر بائیڈن کے لیے یمن میں امن کا قیام ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بائیڈن نے یہ کام ٹموتھی لینڈرنگ کو سونپا ہے جو کئی سالوں سے اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں اور اس میں شامل تمام لوگوں سے واقف ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔ انھوں نے نہ صرف یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے تعاون کو جاری رکھا بلکہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو امریکی دفاعی صنعت کے لیے بھی اہم قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کے دور کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں بدلاؤ آنا شروع ہوگیا ہے۔ بائیڈن کے حالیہ اعلان کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو اب نئی شکل دی جائے گی۔ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی تو آئے گی، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا سعودی عرب پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ مشرقی وسطی کے امور کے ماہر اور نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر پی آر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'یمن کے بارے میں بائیڈن پالیسی سے سعودی عرب کو اس جنگ سے نکلنے کا موقع ملے گا۔' دوسری طرف انقرہ میں یلدرم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر عمیر انس کہتے ہیں کہ 'امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔ توانائی اور سکیورٹی کے شعبے میں دونوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ اگر امریکہ سعودی عرب کو دوست نہیں رکھتا ہے تو خلیج فارس کی سلامتی پر سوالات پیدا ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں بائیڈن کی آمد سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔' بائیڈن کا یمن کے متعلق موقف پہلے سے ہی واضح تھا۔ عمر کا کہنا ہے کہ 'یمن کے متعلق سعودی عرب پر یقینا دباؤ رہے گا۔ متحدہ عرب امارات نے خود کو اس جنگ سے پیچھے ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات پیچھے ہٹتا ہے تو یمن کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ جمال خاشقجی خاشقجی کا معاملہ سعودی عرب کے لیے پریشانی کا باعث بائیڈن انتظامیہ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کا معاملہ سعودی عرب کو پریشان کر سکتا ہے۔ خیال رہے کہ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔ عمیر انس کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں خاشقجی کی موت کا معاملہ ایک بار پھر کھڑا ہوسکتا ہے۔ عمیر کا کہنا ہے کہ 'بائیڈن انتظامیہ جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی عرب کو ضرور گھیرے گی۔ امریکہ میں بہت سارے قانونی عمل شروع ہوسکتے ہیں اور اس میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اگر ولی عہد کا نام لیا گیا تو پریشانی ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ اور اس سے متعلق قانونی پہلوؤں کو کس طرح حل کیا جائے گا یہ سعودیوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے۔' سعودی عرب اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ خاشقجی کی موت میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملوث تھے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مصنف اور تجزیہ کار علی شہابی کہتے ہیں کہ امریکہ کو سعودی شہزادے کو شبے کا فائدہ دینا پڑے گا کیوں کہ ’ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔' خفیہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ سی آئی اے کا 'خیال ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کا حکم دیا ہوگا۔' لیکن علی شہابی کہتے ہیں کہ 'خواہ وہ سی آئی اے ہو یا محکمہ داخلہ یا پینٹاگون، حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں کچھ کرنے کے لیے امریکہ کا سعودی عرب کے ساتھ رہنا بہت ضروری ہے۔' دریں اثنا عمیر انس کا کہنا ہے کہ 'خلیج فارس کی سلامتی اہم ہے اور بائیڈن انتظامیہ چین یا روس کا اثر و رسوخ یہاں نہیں ہونے دینا چاہے گی۔ بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جہاں جہاں بھی روس کا اثر و رسوخ ہے امریکہ اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا۔' ایران کا جوہری معاہدہ اور سعودی اختلاف سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ایران کے جوہری معاہدے پر بھی اختلافات ہوسکتے ہیں۔ اوباما کے دور میں سعودی عرب نے بھی متفقہ طور پر ایران معاہدے کی حمایت کی تھی۔ بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد کرنے جارہے ہیں۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ یقینی طور پر ایران پر کچھ نیا دباؤ بنانے کی کوشش کرے گی۔ سعودی عرب چاہے گا کہ اس معاملے میں اس کے کچھ مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ تاہم ایران نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے جو معاہدہ منسوخ کیا تھا اس پر دوبارہ عملدرآمد کیا جائے گا۔ خارجہ امور سے متعلق یورپی کونسل کی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایلی جیرانمایہ کہتی ہیں کہ 'اگر آپ خارجہ پالیسی، جوہری ڈس آرمامنٹ اور محصول کے عہدوں پر بائیڈن انتظامیہ کی تقرریوں کو دیکھیں تو سارے جوہری مذاکرات اور معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے براہ راست منسلک رہے ہیں۔' عمیر انس کہتے ہیں: 'ایران کے ساتھ معاہدے پر ایران اور امریکہ کے درمیان کیا ہوتا ہے یہ بات بھی سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہوگی۔ سعودی عرب اپنے پڑوس میں شیعہ ملک کو بااختیار دیکھنا نہیں چاہے گا۔' سعودی عرب مشرق وسطی میں امریکہ کا ایک اہم سکیورٹی حلیف ہے اور خطے میں شیعہ باغی گروپوں کو روکنے میں اس کا کردار کارآمد رہا ہے۔ پروفیسر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'بائیڈن ایران کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی نہ اپنا سکیں گے۔ وہ سعودی عرب کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن کی ایران پالیسی میں سعودی عرب بھی شامل ہوگا۔' وائٹ ہاؤس میں نئی ٹیم کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا چیلنج صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کے نام پر ایک خالی چیک کاٹ دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ٹرمپ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ’آنکھیں بند کر رکھی ہے۔' وائٹ ہاؤس کی نئی ٹیم نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات دوبارہ طے کیے جائیں گے اور اس رشتے کے مرکز میں انسانی حقوق کو اہمیت حاصل ہوگی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2017 میں اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد سے انھوں نے سعودی عرب میں بہت سی معاشرتی تبدیلیاں کیں۔ لیکن اظہار رائے کی آزادی پر اب بھی شدید پہرا ہے۔ پروفیسر پی آر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'یہ واضح ہے کہ یہ حکومت ٹرمپ جیسی دوستانہ نہیں ہوگی۔ لیکن پچھلے چار سالوں میں سعودی عرب میں بہت کچھ بدلا ہے۔ سعودی عرب اب اسرائیل کے قریب ہے۔ 'امریکہ میں نئی حکومت کی وجہ سے جو نئے حالات پیدا ہوئے ہیں وہ سعودیوں کے لیے ایک چیلنج اور ایک موقع دونوں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کس طرح اپنے کارڈ کھیلتا ہے۔'
091206_baat_sa_baat_zee
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2009/12/091206_baat_sa_baat_zee
قاتل نامعلوم !
خدا خدا کرکے ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت کے بیٹے اور بے نظیر کے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کا عدالتی فیصلہ ہو ہی گیا۔جب تیرہ برس پہلے بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو مرتضیٰ بھٹو کراچی میں اپنی آبائی رہائش گاہ ستر کلفٹن کے باہر اپنے سات ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تو جائے وقوعہ تفتیشی افسر کے آنے سے پہلے پہلے صاف ہوگئی اور ٹریفک بحال ہوگئی۔
مرتضی بھٹو کے چھ ساتھیوں اور بقیہ اٹھارہ اعلیٰ و ادنی پولیس افسران کو سیشن عدالت نے باعزت بری کردیا سرکار نے مرتضیٰ کے چھ ساتھیوں پر فردِ جرم عائد کی اور مرتضیٰ بھٹو کے وارثوں نے آصف علی زرداری، وزیرِ اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ ، انٹیلی جینس بیورو کے سربراہ مسعود شریف کے علاوہ آئی جی شعیب سڈل سمیت اٹھارہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ دو پولیس افسر شاہد حیات اور حق نواز سیال پولیس مقابلے میں سرکاری طور پر زخمی قرار دیےگئے لیکن میڈیکل بورڈ نے فیصلہ دیا کہ دونوں افسروں نے خود ساختہ طور پر اپنے آپ کو زخمی کیا۔چند روز بعد حق نواز سیال پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ ایک سے زائد ججوں نے یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ سننے سے انکار کردیا اور سندھ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ یہ کیس کسی اور جج کے پاس بھیج دیا جائے۔استغاثہ کی چارج شیٹ میں دو سو تئیس گواہوں کے نام شامل کیے گئے۔لیکن ان میں سے تہتر گواہوں پر ہی جرح ہوسکی۔جس جوڈیشل مجسٹریٹ نے گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے وہ تک عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔ دو ملزم دورانِ مقدمہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آصف علی زرداری کو گزشتہ برس اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے ریویو پیٹیشن کی بنیاد پر بری کردیا۔ایس پی شکیب قریشی گزشتہ نومبر میں باعزت بری ہوگئے۔ جبکہ مرتضی بھٹو کے چھ ساتھیوں اور بقیہ اٹھارہ اعلیٰ و ادنی پولیس افسران کو سیشن عدالت نے چار اور پانچ دسمبر دو ہزار نو کو باعزت بری کردیا۔جس سیشن جج نے یہ فیصلہ سنایا اس نے تبصرہ کیا کہ مرتضی بھٹو قتل کیس کی فردِ جرم اور تحقیقاتی عمل میں نقائص پائے گئے ہیں تاہم یہ تبصرہ ملزمان کو بری کیے جانے کے فیصلے کا حصہ نہیں بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب استغاثے اور صفائی کی جانب سے نامزد کردہ تمام ملزم بے قصور ہیں تو پھر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے سات ساتھیوں کو کس نے مارا؟ اب صرف دو امکانات باقی ہیں۔ یا تو مقتولین نے خودکشی کرلی یا پھر ستر کلفٹن کے اردگرد پھیلے گھنے درختوں پر رہنے والے پرندوں نے فائرنگ کی، آوازوں سے گھبرا کر آٹھ افراد کو اجتماعی ٹھونگیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد اب بھٹو خاندان کی اموات کا گوشوارہ کچھ یوں ہے۔ نام قاتل ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل شاہنواز بھٹو نامعلوم مرتضیٰ بھٹو نامعلوم بے نظیر بھٹو نامعلوم جئے بھٹو، جئے بھٹو۔۔
040425_taleban_karzai_mki
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/04/040425_taleban_karzai_mki
طالبان کو انتخابات کی دعوت
افغانستان کے صدر حامدکرزئی نے معزول حکمراں طالبان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو افغانستان کی تعمیرِنو اور آئندہ کچھ عرصے کے دوران ہونے والے قومی انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔
حامد کرزئی نے اپنی تمام شرائط میں نرمی کرتے ہوئے صرف ان ایک سو پچاس فوجی اہلکاروں کو مجرم قرار دیا ہے جن کا تعلق القاعدہ سے پایا جاتا ہے۔ انھوں نے قندھار میں خطاب کرتے ہوئے حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا ہے۔ صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت گذشتہ چند مہینوں سے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند عناصر سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے قندھار میں ایک آدمی کو ایک بم سمیت گرفتار کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کا ارادہ اس وقت حملہ کرنا تھا جب صدر حامد کرزئی کا قافلہ وہاں سے گزرنے والا تھا۔ حامد کرزئی کے دورہ قندھار کے دوران پولیس کو انتہائی چوکنا رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
040513_india_elections_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/05/040513_india_elections_yourviews
کیا سونیاگاندھی وزیراعظم بنیں؟
انڈیا کے انتخابات میں شکست کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ اب وہ پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما ہونگے۔ سونیا گاندھی کی رہنمائی میں سیکولر کانگریس اتحاد کو تمام علاقوں میں کامیابی ملی ہے۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں ایک حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ چونکہ سونیا گاندھی غیرملکی ہیں اس لئے انہیں وزیراعظم نہیں بننا چاہئے۔
سونیا گاندھی اطالوی نژاد ہیں۔ برصغیر کے معاشرے میں کیا ایک غیرملکی نژاد شہری کو ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا؟ آپ کی خیال میں واجپئی کے حکمران اتحاد کی شکست کی کیا وجہ ہے؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں جہانگیر احمد، دوبئی: مجھے یقین ہے کہ سونیا وزیراعظم بنیں گیں کیونکہ وہاں پاکستانی سیاست کی طرح نہیں ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت حکومت نہ کرے، بلکہ فوج کرے۔ انڈیا میں حقیقی جمہوریت ہے۔ عمران خان، پاکستان: سونیا گاندھی کافی ذہین خاتون ہیں۔ ان کا وزیراعظم بننا انڈوپاکستان تعلقات کے لئے بہتر ہوگا۔ راحت ملک، پاکستان: بے شک سونیا گاندھی کو وزیراعظم ہونا چاہئے، واجپئی نے اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اسلم پرویز میمن، کراچی: مجھے امید ہے کہ سونیا گاندھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے کام کریں گی۔ وہ نیوٹرل بھی ہیں کیونکہ وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی ہندو۔ لیاقت خان، جھنگ: امید ہے کہ اب ہم پاکستانیوں کو فری ویزہ انڈیا کے سیر کے لئے ملے گا۔ آپ چونکہ ایک جمہوری ملک میں پیدا ہوئی ہیں اس لئے جمہوری قدروں کا پاس کریں گی۔ انجینیئر ہمایوں رشید، کراچی: واجپئی کی شکست کی وجہ صرف غریب عوام کی غربت ہے۔ بی جے پی سارے ڈرامے کرتی رہی لیکن غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ شاہد مقصود، اسلام آباد: ہاں انہیں وزیراعظم بننا چاہئے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی: پتہ نہیں سونیا گاندھی ہمیشہ سے ہی مجھے اچھی لگتی رہیں، شاید راجیو گاندھی کی اچانک موت کی وجہ سے یا شاید کوئی اور وجہ ہو۔ اس وقت ان کی جیت اچھا شگون ہے۔ ان کو ہی انڈیا کا وزیراعظم بننا چاہئے۔ ملک کے لئے اچھی حکمران ثابت ہونگی۔ غیرملکی ہونے کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابو وفا شیخ، سعودی عرب: جب تک راہول گاندھی اس قابل نہیں ہوجاتے کہ وزیراعظم بن سکیں، سونیا کو ہی اس عہدے کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ ان میں قابلیت بھی ہے۔ ارشاد احمد سادات، سرحد: سونیا گاندھی ایماندار ہیں، امن کی خواہاں ہیں، فیصلے کرنے میں ہمت دکھاتی ہیں اور کول مائنڈیڈ ہیں۔ عبدالقدیر انصاری، دوبئی: سونیا گاندھی کو بھی آزماکر دیکھنا چاہئے۔ کم از کم وہ کٹر ہندوؤں سے تو ٹھیک رہیں گی۔ اور جمہور کی بھی یہی رائے۔ عارف اقبال، نیویارک: سونیا گاندھی موجودہ حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ بی جے پی کی حکومت میں انتہاپسند عناصر تھے۔ انڈیا کے شہری کی حیثیت سے سونیا کو حق ہے کہو وزیراعظم بنیں۔ حنیف نعیم، پاکستان: سونیا ہی وزیراعظم کے عہدے کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔ شفیع اللہ خان، سعودی عرب: میں چاہتا ہوں کہ سونیا گاندھی ہی وزیراعظم بنیں۔ صادق عباسی، چمن کوٹ: ہاں! سونیا کو ہی وزیراعظم بننا چاہئ غلام قادر، دوبئی: ہاں، سونیا گاندھی کو وزیراعظم بننا چاہئے کیونکہ وہ سیکولر کانگریس پارٹی کی رہنما ہیں۔ میری تمام نیک خواہشات ان کے لئے۔ شفیق اعوان، لاہور: سونیا گاندھی کا جیتنا ہی خوشی ہے۔ وہ ایک بہت وزیراعظم ہونگیں۔ ان کو میری مبارکباد۔ غلام فرید شیخ، سندھ: ویسے عورت کی کی عقل کمزور تو ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ عورت امن پرست اور دوستی پسند ہوتی ہے۔ اس لئے انڈیا اور پاکستان کے لئے سونیا گاندھی بہتر ہیں اور میں ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ طارق حسن، ملتان: سونیا وزیراعظم بن سکتی ہیں کیونکہ انڈیا کسی ایک قوم کا ملک نہیں ہے۔ انہوں کانگریس اور سیکولرزم میں ایک نئ روح پھونکی ہے۔ عابد، ہانگ کانگ: واجپئی صاحب نے دل جیتے، کرکٹ میچ بھی جیتے، مگر الیکشن نہ جیت سکے۔ محمد صادق خان، جدہ: سونیا جی انڈیا کی وزیراعظم بنیں گی۔ طاہر ملک، ہانگ کانگ: سونیا کو پرائیم منسٹر بننا چاہئے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ اطالوی نژاد ہیں۔ وہ ایک اچھی لیڈر ہیں۔ عابد علی بیگ، ہانگ کانگ: جمہوریت کا تقاضہ یہی ہے کہ سونیا گاندھی کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ اگر بات پیدائش کی ہے تو نہ جاتنے کتنے ایسے ہونگے کہ جن کے آباءو اجداد کہیں باہر سے ہندوستان آئے ہونگے۔ وقار احمد، نوشہرہ: جہاں تک سونیا کے غیرملکی ہونے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اکثریت نے انہیں قبول کیا ہے، اسی لئے وزیراعظم کے لئے ان کا کوئی مثال نہیں ہوگا۔ افتخار لطیف، آسام: انڈیا کو ایک عملی جمہوریت کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف نام کی جمہوریت۔ علاء الدین خان، کویت: بھارتی نژاد تمام سیاستدان کرپٹ ہیں اس لئے غیرملکی نژاد سونیا گاندھی کو ٹرائی کریں، کیونکہ انہوں نے کانگریس کی کامیابی کے لئے کافی محنت کی ہے۔ کشش، ممبئی: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتا، مجھے اس بات کی فکر ہے کہ قوم کی خدمات بہتر کون کرے گا۔ فرخ مقصود، لاہور: میرا خیال ہے کہ سونیا گاندھی کو انڈیا کا وزیراعظم بنانا چاہئے، اگر وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پرامن ماحو بنا سکتی ہیں اور اپنے عوام کے حق میں بہتر ہیں۔ وہ ہندو مسلم جھگڑے ختم کرنے کی کوشش کریں اور انڈیا اور علاقے میں امن قائم کریں۔ اے موکھرجی، کمبرِج: میرے خیال میں کانگریس کی واپسی اچھی علامت ہے، اس لئے نہیں کہ واجپئی کی حکومت بری تھی، بلکہ اس لئے کہ ہر پانچ سال پر حکومت تبدیل ہوتی رہنی چاہئے۔ ریحان شیخ، لاہور: تمام پاکستانی امید کرتے ہیں کہ سونیا ہی انڈیا کی نئی پرائیم منسٹر بنیں گی کیونکہ انڈیا کے عوام نے ہی ان کی پارٹی کو ووٹ دیکر موقع دیا ہے کہو اب ملک کی دوسری خاتون پرائیم منسٹر بنیں۔ ملک احمد، کراچی: عوام نے جب کانگریس کو اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب بنایا ہے تو وہ سونیا گاندھی کو بھی قبول کرلے گی۔ صوفیہ کمال، جرمنی: میں کانگریس کو کامیابی پر مبارکباد دیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کانگریس ایک سیکولر جماعت ثابت ہوگی، اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے لئے کام کرے گی۔ کانگریس کو چاہئے کہ ہندو شدت پسند گروہوں پر پابندی عائد کرے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرے۔ شاہزیر خان، اسلام آباد: ہاں! وہ انڈیا کی اگلی وزیراعظم ہوں گی۔ اور میرے خیال میں وہ بی جے پی کی حکومت سے بہتر ہیں۔ انڈیا کے عوام سونیا کو ہی وزیراعظم کی حیثیت سے چاہتے ہیں۔ محمد اصغر ڈار، پاکستان: ہاں! یہ اکثریت کا فیصلہ ہے، اور سونیا گاندھی وزیراعظم واجپئی سے بہتر ہیں۔ انعام اللہ، آسٹریلیا: چونکہ انڈیا کے لوگوں نے سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو منتخب کیا اس لئے انہیں اگلا وزیراعظم بننا چاہئے۔ اقبال پٹیل، برطانیہ: سونیا گاندھی کو اطالوی کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ بھارتی ہیں اور ان کے پردھان منتری بننے میں کوئی حرض نہیں، انہیں ہی بننا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ جمہوریت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر ابھی تک ان کو غیرملکی کہا جائے تو یہ ناانصافی ہے کیونکہ سب بھارتی غیرملکوں میں رہتے ہیں اور انہیں غیرملکی نہیں کہا جاتا۔ عبدالقدیر نومانی، دوبئی: سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ فرقہ پرست ذہن والے سے تو اچھی رہیں گی۔ نواز خان، ٹوکیو: انڈیا کے لوگ امن پسند کرتے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ ملک کی نئی وزیراعظم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں گی۔ محسن مغنی، ٹورانٹو: اگرچہ میں بی جے پی کو پسند نہیں کرتا تھا، لیکن مسٹر واجپئی ایک عظیم اسٹیٹسمین ہیں۔ اس میں کوئی نقصان نہیں کہ سونیا گاندھی وزیراعظم بن جائیں کیونکہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے، پاکستان کی طرح نہیں جہاں ہم اپنے شہریوں کو ملک بھی واپس نہیں دینے دیتے۔ خورشید عالم، سعودی عرب: ہندوستان کے چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی لوگ امن کو پسند کرتے ہیں اور بی جے پی ایک بہت بڑی فرقہ پرست پارٹی ہے۔ اس لئے وہ ہارگئی کیونکہ عوام امن چاہتے ہیں اور رہی بات سونیا گاندھی کی تو وہ عوام کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
050115_saudi_security_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050115_saudi_security_as
حج پر سخت حفاظتی انتظامات
سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ حج کے موقع پر مکہ میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور تقریباً پچاس ہزار پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان بریگیڈیر منصور الترکی نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی بنیادی ذمہ داری ہجوم کو کنٹرول کرنا ہو گا تاکہ ماضی کی طرح بھگدڑ اور افراتفری میں حاجیوں کی ہلاکت کے واقعات دوبارہ نہ دہرائے جا سکیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے بھی تیار رہیں گی۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ حج کے دوران کسی بھی طرح کے سیاسی اجتماع کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس سال پوری دنیا سے پندرہ لاکھ کے قریب لوگ سعودی عرب حج کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب میں گزشتہ اٹھارہ مہینوں میں تشدد کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور اس دوران تشدد کی واقعات میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
071103_bb_maulvi_faqir_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071103_bb_maulvi_faqir_zs
’بینظیر پر ہمارا قرض ضرور رہتا ہے‘
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں سرگرم مقامی طالبان کے کمانڈر مولوی فقیر محمد نے ذرائع ابلاغ میں ان سے منسوب اس بیان کی سختی سے تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو پر کراچی میں ہونے والے حملوں میں ان کا ہاتھ ہے۔
ہفتہ کو کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی کو ٹیلی فون کر کے انہوں نے بتایا کہ’میں اس پر فخر کرتا اگر کراچی کے حملے میں نے کیے ہوتے لیکن بینظیر خاتون ہے اور ہم خاتون کو نہیں مارتے بلکہ ہمارا کام مردوں کے ساتھ ہوتا ہے‘۔ انہوں نے کہاکہ ذرئع ابلاغ میں ان کے حوالے سے شائع شدہ اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بینظیر پر ہونے والے حملوں میں وہ ملوث ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بینظیر پر ہمارا قرض ضرور رہتا ہے کیونکہ انہوں نے 1994 میں ملاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کر کے ’ٹی این ایس ایم‘ کے رضاکاروں کو بڑی تعداد میں ہلاک کیا تھا‘۔ ایک سوال کے جواب میں مولوی فقیر کا کہنا تھا کہ سوات میں سکیورٹی فورسز نے’ مجاہدین‘ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہےکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ |ن کے مطابق ’ فوج اور سکیورٹی فورسز کے دیگر اہلکار مجاہدین کے ساتھ جنگ سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ لڑنے سے انکار کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو آزاد کر کے اچھا اقدام کیا ہے اور وہ بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔
130409_skiing_winter_olympics_rh
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/04/130409_skiing_winter_olympics_rh
سکیئنگ:’پاکستان سرمائی اولمپکس میں حصہ لے گا‘
پاکستان کی سکینگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سکیئرز کو سرمائی اولمپکس کے لیے دوسری بار کوالیفائی کر لیا ہے اور امید کی ہے کہ ملک میں اس کھیل کو مزید فروغ دیا جائے گا۔
محمد عباس نے 2010 میں کینیڈا میں منعقد ہوئی سرمائی اولمپکس میں حصہ لیا تھا پاکستان سکینگ فیڈریشن کے عہدیدار افتخار باجوہ نے کہا ’پاکستان کی سکینگ ٹیم نے یورپ اور ایشیا میں مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور سرمائی اولمپکس 2014 کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کھلاڑی میر نواز، محمد کریم اور محمد عباس نے پچھلے ماہ اٹلی، ترکی اور لبنان میں مختلف ایونٹس میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل محمد عباس نے 2010 میں کینیڈا میں منعقد ہوئی سرمائی اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ افتخار باجوہ نے کہا کہ اولمپکس میں حصہ لینے کے باعث امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں اس کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔ ’یہ بہت اہم موقع ہے پاکستان کے لیے۔ ایک بار تینوں کھلاڑی جنوری میں پانچ ریسیں مکمل کر لیں گے اس کے بعد بہترین کھلاڑی کا انتخاب کیا جائے گا۔‘
world-54898971
https://www.bbc.com/urdu/world-54898971
ڈونلڈ ٹرمپ: وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد صدر ٹرمپ مستقبل میں کیا کیا کر سکتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ ہر صورت 20 جنوری تک وائٹ ہاؤس میں بطور صدر موجود رہیں گے۔ اس روز کی شب وہ اپنے جانشین (امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے متوقع نتائج کے مطابق جو بائیڈن) کو صدارت منتقل کر دیں گے اور سابق امریکی صدور کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
تو پھر ایک معروف کارویاری شخصیت اور سیاستدان بلکہ سابق صدر کے طور پر ٹرمپ کا مستقبل کیا ہو گا؟ ان کے پاس کئی راستے ہیں۔ وہ پُرجوش تقاریر کرنے والے سپیکر بن سکتے ہیں، صدارت سے متعلق اپنے تجربات پر کتاب لکھ سکتے ہیں یا اپنے نام سے منسوب ایک صدارتی لائبریری کا منصوبہ سوچ سکتے ہیں۔ جمی کارٹر نے انسانی حقوق کے تحفظ کا راستہ اپنایا جبکہ جارج ڈبلیو بش نے ہاتھ میں پینٹ برش تھام لیا۔ لیکن ٹرمپ کبھی روایتی سیاستدان نہیں رہے تو ان سے کسی روایتی سیاستدان جیسے مستقبل کی توقع کیوں کی جائے۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کے پروفیسر ٹِم کالکنز کا کہنا ہے ’ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کئی روایات توڑی ہیں۔ ’یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عام سابق صدر جیسا رویہ اپنائیں گے جو ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔‘ ممکنہ طور پر ہم یہ دیکھ سکتے ہیں: وہ دوبارہ صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب 2020 سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی خواہشات کا اختتام نہ ہوا ہو۔ وہ اپنے دوسرے دور کے لیے دوبارہ صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں گروور کلیولینڈ وہ واحد صدر تھے جنھوں نے وائٹ ہاؤس سے رخصت کے بعد چار سال انتظار کیا اور 1893 میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ ان کا پہلا دور 1885 میں شروع ہوا تھا۔ امریکی آئین میں درج ہے کہ کوئی بھی دو مرتبہ سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس حوالے سے کوئی شرائط نہیں کہ ایسا مسلسل دو ادوار میں کرنا لازم ہے۔ یہ بھی پڑھیے ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا؟ امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟ صدر ٹرمپ کے ساتھ گزرا وہ دن جب وہ انتخاب ہارے جو بائیڈن: وہ سیاستدان جنھیں قسمت کبھی عام سا نہیں رہنے دیتی امریکہ کی پہلی خاتون اور غیر سفیدفام نائب صدر منتخب ہونے والی کملا ہیرس کون ہیں؟ ٹرمپ کے سابق ساتھیوں نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں ٹرمپ کے سابق چیف آف سٹاف مِک ملوانے کہتے ہیں کہ ’میں ٹرمپ کو ان لوگوں کی فہرست میں رکھوں گا جو 2024 میں صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘ ٹرمپ واضح طور پر انتخابی مہم کی ریلی میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں اور انھیں اس کے بدلے سات کروڑ 15 لاکھ ووٹ بھی ملے۔ یہ کسی بھی ہارنے والے امیدوار کے ریکارڈ ووٹ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام میں وہ اب بھی مقبول ہیں۔ پروفیسر کالکنز کا کہنا ہے کہ ’وہ اسی طاقت سے صدارت چھوڑیں گے جیسے انھوں نے صدارت شروع کی تھی۔‘ یہ قیاس آرائی بھی ہو رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے سب سے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر بھی صدارتی دوڑ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اب تک انھوں نے اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ ایک راستہ پھر سے کاروبار ہے؟ سیاستدان بننے سے قبل ٹرمپ معروف کاروباری شخصیت تھے اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں ان کا کافی نام تھا۔ انھیں ٹی وی سٹار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا اور وہ اپنے ہی برانڈ کے برانڈ سفیر تھے اور اپنے نام کو منافع بخش لائسنس کے سودے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چار سال قبل انھوں نے جہاں اپنے کام کو چھوڑا تھا وہ وہاں سے ہی آغاز کر کے کاروبار کی دنیا میں واپس آ جائیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آئندہ تین برسوں میں ٹرمپ پر 40 کروڑ ڈالر کے واجب الادا قرضے ہیں اگرچہ وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ان کی مجموعی مالیت کے ’بہت کم فیصد‘ کی نمائندگی ہے۔ ٹرمپ آرگنائزیشن کے پاس متعدد ہوٹل اور گولف کورس ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے علاوہ ممبئی، استنبول اور فلپائن میں بھی ان کی پراپرٹی ہے جبکہ امریکہ، برطانیہ، دبئی اور انڈونیشیا میں بھی ان کے گالف کورسز ہیں۔ لیکن اگر ٹرمپ دوبارہ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو انھیں بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔ ان کے بہت سے کاروبار سفر اور سیر و سیاحت کے شعبے سے متعلق ہیں جو کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ فوربز کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے ٹرمپ کی دولت ایک ارب ڈالر تک کم ہو سکتی ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ نے گذشتہ 15 برسوں میں سے 10 برسوں میں کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ریکارڈ کے مطابق (کاروبار میں) بڑا نقصان ہوا اور کئی برسوں تک ٹیکس دینے سے بچا گیا۔‘ ٹرمپ آرگنائزیشن اور صدر ٹرمپ دونوں اس رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دے چکے ہیں۔ ٹم کالکنز کہتے ہیں کہ صدر وقت کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے پاس ’گفتگو میں‘ اپنے برانڈ کو برقرار رکھنے کی ناقابل یقین صلاحیت موجود ہے اور صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے برانڈ کو بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ بڑے کسٹمرز نے اس برانڈ کی خریداری اس وقت چھوڑ دی جب انھوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے سینئر مشیر کے کردار کو قبول کیا۔ ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر ٹرمپ اپنے والد کے دور صدارت کے دوران ٹرمپ آرگنائزیشن کی دیکھ بھال کر رہے تھے لیکن وہ اپنے والد کے سیاسی کیریئر میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پروفیسر کالکنز کہتے ہیں ’سب سے اہم چیز جس کے بارے میں وہ سب سوچ رہے ہوں گے، وہ یہ ہے کہ اس خاندان کے لیے آگے کون سا راستہ بہترین ہوگا۔‘ وہ میڈیا کی ایک زبردست شخصیت بن جائیں صدر ٹرمپ ٹی وی کے لیے کوئی اجنبی چہرہ نہیں لہذا بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ نیوز میڈیا میں شامل ہو سکتے ہیں اور کسی قدامت پسند نیٹ ورک کے ساتھ تعاون کر کے اپنا چینل لانچ کر سکتے ہیں۔ کیو سکورز کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر ہینری شیفر کہتے ہیں ’ان کے پاس یقینی طور پر ممکنہ ناظرین ہوں گے۔‘ وہ کہتے ہیں ’ٹرمپ کارڈیشیئنز یا ہاورڈ سٹیرن کی طرح ’محبت سے نفرت والی شخصیت‘ کے طور پر اپنے برانڈ کی تعمیر میں کامیاب ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2015 میں ریئلٹی شو ’سلیبرٹی اپرینٹس‘ کے ریڈ کارپٹ میں شرکت کی تھی۔ ہینری شیفر توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ اس طرف واپس جائیں گے جو ان کے لیے سب سے بہترین ہے یعنی تنازع۔ ’وہ تنازعات پر پھلتے پھولتے ہیں، وہ اپنے فائدے کے لیے تنازع کو گھماتے ہیں، یہی ان کا طریقہ کار ہے۔‘ ان کے ممکنہ شراکت دار کیبل نیٹ ورکس ’ون امیرکن نیوز نیٹ ورک (او اے این این) یا نیوز میکس ہیں۔ او اے این این صدر ٹرمپ کو بہت پسند ہے جبکہ او اے این این بھی صدر ٹرمپ کو بہت پسند کرتا ہے ریٹائرمنٹ کے منصوبے بھی ہو سکتے ہیں صدور اکثر کتاب کے معاہدوں پر بھی دستخط کرتے ہیں، براک اور مشیل اوباما نے ریکارڈ توڑ مشترکہ معاہدہ کیا، جس کی اطلاعات کے مطابق مالیت 65 ملین ڈالر ہے۔ افواہوں کے مطابق جارج ڈبلیو بش کو اپنی یادداشت لکھنے کے لیے 10 ملین ڈالر پیشگی رقم دی گئی۔ اوباما فیملی نے نیٹ فلکس کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے پروڈکشن معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے اور دونوں کلنٹنز نے پوڈ کاسٹ کے معاہدے کیے۔ صدارت کے بعد ریٹائرمنٹ صدر ٹرمپ جب صدارت سے سبکدوش ہوں گے تو ان کو صدر کی پینشن کے علاوہ دیگر بہت سے مراعات بھی ملیں گی۔ سابق صدور کی پینشن اور مراعات سے متعلق ایک قانون جو 1958 میں منظور کیا گیا تھا، اس کا مقصد صدارت کے عہدے کی عزت اور وقار برقرار رکھنا تھا اور اس کے تحت سنہ 2017 میں سابق صدور کو سالانہ 2 لاکھ 7 ہزار 8 سو ڈالر پینشن کی مد میں ملتے ہیں۔ سابق صدور کو تاحیات خفیہ اداروں کی طرف سے سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، انہیں مفت علاج کرانے کی سہولت حاصل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ سفری اور سٹاف یا ذاتی عملے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی مالی مراعات دی جاتی ہیں۔ صدر ٹرمپ جن کی عمر 74 برس ہو چکی ہے وہ خاموشی سے ریٹائرمنٹ بھی اختیار کر سکتے ہیں. وہ اپنی باقی زندگی رفاحی کاموں کے لیے بھی وقف کر سکتے ہیں، اپنے بینک بیلنس میں لیکچر اور تقریریں کر کے اضافہ کر سکتے ہیں اور کوئی صدارتی لائبریری بھی بنا سکتے ہیں۔ عام طور پر صدر اپنی آبائی ریاست میں اپنی صدارت کے دور اور اپنے دور کی انتظامیہ کے بارے میں ایسے میوزیم بناتے ہیں جہاں پر ان کے دور کی اہم دستاویزات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ وہ اپنا فارغ وقت فلوریڈا کی ریاست میں مار آ لاگو جو ان کی پام بیچ سیر گاہ ہے، وہاں گزار سکتے ہیں۔ لیکن پروفیسر کالکنز ایک ایسے شخص کے لیے جس نے اپنی زندگی میں اس قدر توجہ حاصل کی ہو اور مرکز نگاہ رہا ہو، ایک خاموش زندگی یا کنارہ کشی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی شخصیت کے مالک نہیں جو اتنی خاموشی سے پس منظر میں چلی جائے۔ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ کا برانڈ ابھی کافی عرصے تک منظر عام پر رہے گا۔ اس سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو انھیں بہت برا محسوس ہوگا اور ہو سکتا ہے وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔

Urdu Summarization

Dataset Overview

The Urdu Summarization dataset contains news articles in Urdu language along with their summaries. The dataset contains a total of 48,071 news articles collected from the BBC Urdu website. Each article is labeled with its headline, summary, and full text.

Dataset Details

The dataset contains the following columns:

  • id (string): Unique identifier for each article
  • url (string): URL for the original article
  • title (string): Headline of the article
  • summary (string): Summary of the article
  • text (string): Full text of the article The dataset is distributed under the MIT License.

Data Collection

The data was collected from the BBC Urdu website using web scraping techniques. The articles were published between 2003 and 2020, covering a wide range of topics such as politics, sports, technology, and entertainment.

Data Preprocessing

The text data was preprocessed to remove any HTML tags and non-Urdu characters. The summaries were created by human annotators, who read the full text of the articles and summarized the main points. The dataset was split into training, validation, and test sets, with 80%, 10%, and 10% of the data in each set respectively.

Potential Use Cases

This dataset can be used for training and evaluating models for automatic summarization of Urdu text. It can also be used for research in natural language processing, machine learning, and information retrieval.

Acknowledgements

I thank the BBC Urdu team for publishing the news articles on their website and making them publicly available. We also thank the human annotators who created the summaries for the articles.

Relevant Papers

No papers have been published yet using this dataset.

License

The dataset is distributed under the MIT License.

Downloads last month
0
Edit dataset card