text
stringlengths
332
578k
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کو کرونا وائرس کے چھ نئے کیس سامنے آنے کے بعد شہر کی میئر موریل اِی باؤزر نے وفاقی دارالحکومت میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد میئر کو متاثرین کو لازمی طبی قرنطینہ میں ڈالنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے؛ جب کہ انھوں نے اشیائے ضروریہ کے نرخ میں اضافے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ باؤزر کے اس اعلان سے چند ہی گھنٹے قبل مارچ کے آخر تک منعقد ہونے والے تمام عوامی اجتماعات کو منسوخ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کی خاطر دوسروں سے ملنے سے احتراز کریں، خاص طور پر وہ لوگ جو مقامی گرجا گھر میں گئے ہوں جس کلیسا کے حلقے کے رہنے والے یا چرچ کے عملے کے دو ارکان سے ملے ہوں، جن میں کرونا وائرس کا مثبت ٹیسٹ آیا ہے۔ ڈی سی کے صحت کے سربراہ، لکواندرا نسبت نے کہا ہے کہ ’’ایسے میں جب کہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے کم از کم دو باسیوں کو وائرس لگنے کی تصدیق ہو گئی ہے، یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ وائرس ایک سے دوسرے فرد کو نہ لگے۔ وائرس لگنے کے اسباب کا ابھی تعین نہیں ہو سکا‘‘۔ علاقے کی تنظیمیں، جن میں گرجا گھر سے لے کر کھیلوں کی پیشہ ورانہ ٹیمیں شامل ہیں، اس کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ چرچ کے قائدین اور ڈسٹرکٹ، میری لینڈ اور ورجینیا کے سینکڑوں چرچ، جن میں نیشنل کیتھڈرل شامل ہے، وہ آئندہ دو ہفتوں تک بند رہیں گے۔ حکام نے بتایا ہے کہ سالانہ چیری بلاسم کا فیسٹول، جس کا مارچ کے آخر میں افتتاح ہونا تھا، ان ساری تقاریب کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جس میں ٹائیڈل بیسن کا خیرمقدمی علاقہ اور پتنگ بازی کا میلہ سب شامل ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ وارنر تھیٹر میں مجمع اکٹھا کرنے کی بجائے افتتاحی تقریب کو براہ راست اسٹریم کیا جائے گا۔
دعا کو حدیث شریف میں عبادت بلکہ عبادتوں کا مغز کہا گیا ہے، خود باری تعالیٰ نے بندوں کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر چھوٹی بڑی حاجت اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے خود دعا کرنے کے آداب بھی بتائے اور وہ پیارے پیارے الفاظ بھی سکھائے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی حاجت پیش کی جائے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج فرض و واجب امورکے سیکھنے کی لوگوں کو توفیق نہیں، تو مستحبات و آداب پر توجہ کون دے! دعا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ جتنی اس کی اہمیت ہے، اتنی ہی اس میں غفلت عام ہے۔ بعض افراد تو وہ ہیں جن کے پاس مالک الملک سے دعا کرنے کی فرصت ہی نہیں اور بعض وہ جنھوں نے کبھی دعا کرنا سیکھا ہی نہیں، وہ دعا کرتے بھی ہیں توایسا لگتا ہے کہ کسی ہوٹل کے بیرے کو آرڈر دے رہے ہوں، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ یہی سب کیا کم تھا کہ ایک طرف لوگوں نے فرض نمازوں وغیرہ کے بعد امام کے ساتھ رسمی سی جہری دعا کو لازمی قرار دے لیا اور دوسرے موقعوں پر تعلیم یا کسی اور جائز مقصد سے کی جانے والی اجتماعی دعا کو سِرے سے بدعت ٹھیرانے لگے، جب کہ اس میں بڑی تفصیل ہے اور فی نفسہٖ اجتماعی دعا جائز بلکہ اس میں قبولیت کی زیادہ امید ہے۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دعا اصلاً انفرادی عمل ہے ،یہ خدا اور بند ے کے درمیان رازونیاز اور سرگوشی کا درجہ رکھتی ہے ، پھر رسول اللہ ﷺنے ہر چیز خدا سے مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کی ضرورتیںالگ ہوتی ہیں،بعض ایسی بھی ضرورتیںہوتی ہیںجن کا بندہ اپنے مالک کے سامنے ذکر کرتا ہے وہ کسی اور کے سامنے ان کا ذکر نہیںکرسکتا ،اسی لیے رسو ل اللہ ﷺ اور صحابہ کا عام معمول انفرادی دعا کا تھا ،خاص خاص مواقع پر اجتماعی دعاکی جاتی تھی ،جیسے قنوتِ نازلہ ،بارش کے لیے دعاےاستسقا ،یا مسلمان کسی خاص آزمائش سے گزر رہے ہوںتو ان کے لیے دعا۔ اس لیے اگر کوئی لازم سمجھے بغیر کبھی کبھی اجتماعی دعا کر لے تو ا س کی گنجا ئش ہے ،لیکن اس کو روزانہ کا معمو ل نہ بنا یا جائےاور اس پر اصرار نہ کیا جائے اور اسے ضروری نہ سمجھاجائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے مسائل پر باہم نزاع پیدا نہ ہو نے دیا جائے۔دعا اجتماعی ہو یا انفرادی زیادہ سے زیا دہ مستحب ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنا واجب ہے ۔(کتاب الفتاویٰ) خیال رہے مذکورہ بالا حکم بابِ احکام سے متعلق ہے اور کہیں تربیت یا کسی اور جائز مقصد کے تحت لازم و ضروری سمجھے بغیر اجتماعی دعا کی وقتی پابندی کی جائے تو وہ بھی ناجائز و بدعت نہیں، جب کہ کوئی اور عارضہ نہ ہو۔اس لیے کہ دو چیزیں بالکل الگ الگ ہیں؛(1)بابِ احکام (2)بابِ تربیت۔ بابِ احکام کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت، فقہ اورشریعت سے جو جو چیزیں ثابت ہیں، ان کا پابند کیا جائے، اور جو ثابت نہیں ہے، اس کا پابند کرنا درست نہیں،اور بابِ تربیت کا مطلب یہ ہے کہ جو جو چیزیں شریعت سے ثابت ہیں ان کا پابند بنانے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزوں کا بھی پابند بنایا جائے جو شریعت سے کھل کر ثابت نہیں ہیں، لیکن ان امور کے اختیار کرنے میں تعلیم و تربیت کے حق میں مصلحتیں ہیںاور تربیت سیکھنے والوں کے لیے مفید اور معاون ہیں۔ جو معمولات بابِ احکام سے متعلق نہیں ہیں بلکہ بابِ تربیت سے متعلق ہیں، انھیں کتاب و سنت کے دلائل سے ناجائز ثابت کرنا درست نہیں ہوگا،اور بابِ تربیت کی چیزیں حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتیں۔(فتاویٰ قاسمیہ ملخصاً) طبرانی میں روایت موجود ہے: عن حبیب بن مسلمۃ الفھری، وکان مستجاباً، انہ امّر علی جیش، فدرب الدروب، فلما لقی العدو، قال الناس: سمعت رسول اللہﷺ یقول: لا یجتمع ملافیدعو بعضھم و یؤمن سائرھم، الا اجابھم اللہ۔ حضرت حبیب بن مَسلَمہ فَہریؓمستجابُ الدعوات صحابی تھے، انھیں ایک لشکر کا امیر بنایا گیا، انھوں نے ملکِ روم جانے کے راستے تیار کرائے۔ جب دشمن کا سامنا ہوا تو انھوں نے لوگوں سے کہا: میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو جماعت ایک جگہ جمع ہو اور ان میں سے ایک دعا کرائے باقی سب آمین کہیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔(معجم کبیر طبرانی، مجمع الزوائد) اسی لیے علما نے لکھا ہے کہ کسی دینی مجلس یا پروگرام کے بعد اجتماعی دعا کرنا، جس میں ایک شخص دعا کراتا ہے اور بقیہ سامعین ان کی دعا پر جہراً آمین کہتے ہیں، یہ طریقہ جائز اور حدیث سے ثابت ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ)یہاں تک کہ اگر کوئی دینی مجلس کے بالکل اخیر میں شرکت کرتا ہے وہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔(ایضاً)خلاصہ یہ کہ مجلس کے اختتام پر اجتماعی دعا ثابت ہے اور یہ اقرب الی الاجابۃ ہے،لیکن جہاں خصوصیت سے یہ دعا ثابت نہ ہو اس کو سنت سمجھ کر نہیں کرنا چاہیے۔(فتاویٰ دارالعلوم زکریا)اسی طرح کبھی یا خاص رمضان کی طاق راتوں میں باقاعدہ تداعی اور اعلان کے ساتھ اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے، البتہ اگر تداعی کے بغیر لوگ عبادت یا وعظ ونصیحت سننے کی غرض سے جمع ہوجائیں اور اخیر میں دعا کرلیں تو اس میں شرعاً حرج معلوم نہیں ہوتا ہے۔(کتاب النوازل) حیاۃ الصحابہ میں حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلویؒ نے اجتماعی دعا کے عنوان کے تحت طبرانی سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کیاہے،وہ لکھتے ہیں کہ حضرت قیس مدنی کہتے ہیں؛ ایک آدمی نے حضرت زید بن ثابتؓکی خدمت میں حاضر ہو کر کسی چیز کے بارے میں پوچھا، انھوں نے فرمایا: تم جاکر یہ بات حضرت ابوہریرہؓسے پوچھو کیوںکہ ایک مرتبہ میں، حضرت ابوہریرہ اور فلاں آدمی ہم تینوں مسجد میں دعا کررہے تھے، اور اپنے ربّ کا ذکرکررہے تھے کہ اتنے میں حضورﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے تو ہم خاموش ہوگئے، پھر فرمایا: جو تم کررہے تھے اسے کرتے رہو۔ چناںچہ میں نے اور میرے ساتھی نے حضرت ابوہریرہ سے پہلے دعاکی اور حضورﷺ ہماری دعا پر آمین کہتے رہے، پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! میرے ان دوساتھیوں نے جو کچھ تجھ سے مانگا میں وہ بھی تجھ سے مانگتاہوں اور ایسا علم بھی مانگتاہوں جو کبھی نہ بھولے۔ حضورﷺ نے فرمایا: آمین۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم بھی اللہ سے وہ علم مانگتے ہیں جو کبھی نہ بھولے، حضورﷺ نے فرمایا: یہ دَوسی نوجوان (یعنی حضرت ابوہریرہؓ) تم دونوں سے آگے نکل گئے۔(حیاۃ الصحابہ، طبرانی اوسط)
لاہور : پنجاب میں مساجد کے امام ، خطیب اور مفتیان نے اپنے حقوق کے حوالے سے شرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں مساجد کے امام و خطیب کی کم از کم تنخواہ 25ہزار روپے مقرر کی جائے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں مساجد کے امام، خطیب اور موذن بھی مطالبات لیکر میدان میں آگئے،امام وخطیب اورمفتیان نے اپنے حقوق کے حوالے سے شرعی اعلامیہ جاری کردیا۔ شرعی اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں مساجد کے امام وخطیب کی کم ازکم تنخواہ 25 ہزار روپے مقررکی جائے، مؤذن کی کم ازکم تنخواہ 20 جبکہ خادم کی تنخواہ 18 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ حکومت امام وخطیب اور موذن کو ان کی قابلیت کے مطابق گریڈ 12 سے 20 تک تنخواہ ،مراعات دی جائیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کے پی کے میں 30 ہزارمساجد کے آئمہ کی طرز پر باقی صوبوں میں بھی آئمہ کو وظائف دیئے جائیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ جب پہلے خلیفہ بنے تو آپ کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ حکومت غیر سرکاری مساجد کی انتظامیہ کو آئمہ، خطیب اور مؤذن کی تنخواہ مقرر کرنے کی پابند کرے۔ مولانا ضیاءالحق نقشبندی نے کہا کہ امام ،خطیب اور مؤذن 24گھنٹے خدمات سر انجام دیتے ہیں مگرانہیں 8سے 15ہزار روپے تک تنخواہ دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ارمان اور بھارت میں ریان نہ صرف ایک دوسرے کی طرف بلکہ اپنے ملکوں اور دنیا کے لیے امن اور دوستی کا اشارہ کر رہے تھے۔—فوٹو: اسکرین گریب آئیے اپنے بچوں کو امن سکھائیں اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا انہیں نفرت کے سکھا دے۔ 6 اپریل 2022 کو کھیلوں کے عالمی دن برائے ترقی اور امن کے فروغ کے لیے اسلام آباد میں 11 سالہ پاکستانی بچے اور بھارتی شہرکلکتہ میں 8 سالہ بھارتی لڑکے نے علامتی اشارے میں ایک دوسرے کے لیے #WhiteCards اٹھائے جو امن کے لیے کھیلوں کی بھی حمایت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان میں ارمان اور بھارت میں ریان نہ صرف ایک دوسرے کی طرف بلکہ اپنے ملکوں اور دنیا کے لیے امن اور دوستی کا اشارہ کر رہے تھے۔ یہ چھوٹی سی ویڈیو سوشل میڈیا پر اس دن #WhiteCard کے ساتھ پوسٹ کی جانے والی لاکھوں تصاویر اور ویڈیوز میں سے ایک تھی جو دنیا بھر میں کھیلوں کے ذریعے امن کے لیے علامتی اشاروں کے طور پر پوسٹ کی گئیں تھی۔ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 6 اپریل کو ترقی اور امن کے لیے کھیلوں کا عالمی دن قرار دے کر 1896 کے پہلے جدید اولمپک کھیلوں سے ایک تاریخی ربط پیدا کیا، یہ دن 2014 سے ہر سال منایا جاتا ہے۔ یہ‏ #WhiteCard کھیلوں کی دنیا میںyellow اور red کارڈ کی طرح ہے۔ 2007 میں امن اورکھیل کے منصوبے ( جس کی بنیاد جدید پینٹاتھلون اولمپک میڈلسٹ اور ورلڈ چیمپئن جوئل بوزاؤ نے رکھی) کا ماننا ہے کہ 'یہ #WhiteCard سزا دینے کی نہیں بلکہ امن کو فروغ دینے کی دعوت دیتا ہے'۔ اس سال اس اقدام میں حصہ لینے کی گزارش اس اقدام کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب یوکرین کے اولیکسینڈر ابرامینکو نے بیجنگ اولمپکس میں فری اسٹائل اسکائی جمپنگ مقابلے میں اپنے ملک کے لیے پہلا تمغہ جیتنے کے بعد اپنے مدمقابل روس کے الیا بروف کو گلے لگایا تھا۔ دونوں ایتھلیٹ کے پوڈیم پر گلے لگنے پر بڑی حد تک کسی کا دھیان نہیں گیا لیکن کچھ دنوں بعد روسی ٹینک یوکرین میں گھس گئے، اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ امن اور کھیل کے اقدام کے مطابق ابرامینکو اور بروف کے گلے ملنے کو بھول جانا دونوں ملکوں کے لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کھیل کی طاقت کو تسلیم کرنے میں ناکامی ہو گی۔ کھیل انسانوں کے ذہنوں کو سکون کے ساتھ سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور جب تک دنیا امن کی سوچ نہیں رکھے گی ہم عالمی سطح پر مثبت سماجی تبدیلیاں نہیں لا سکیں گے۔ جیسا کہ کھیلوں میں نوجوانوں کو شامل کرنا اور ان کی تربیت کرنا ضروری ہے، اسی طرح امن قائم کرنے میں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو امن کے بارے میں سکھائیں اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا انہیں نفرت اور تشدد کے بارے میں سکھائے۔ امن کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے کھیلوں سے زیادہ طاقتور ہتھیار شاید کوئی نہیں ہے۔ اکتوبر 2022 میں آسٹریلیا میں ہونے والے آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اس مسئلے پر کیے جارہے کام کی حمایت کرنے کیلئے ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سپر 12 مرحلے کے افتتاحی میچ میں بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے جبکہ بنگلا دیش پہلے ہی اس پول میں ہے اور سری لنکا بھی کوالیفائنگ راؤنڈ میں اچھی کارکردگی دکھا کر اس میں شامل ہوسکتا ہے۔ کیا ہم اس ایونٹ کے لیے جنوبی ایشیا کے ارد گرد ریلی نکال سکتے ہیں اور دوستوں اور مداحوں کو ایونٹ میں امن کے لیے اپنے #WhiteCards کو جمع کرنے کے لیے اکھٹا کرسکتے ہیں؟ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نےکہا تھا' کھیل میں دنیا کو بدلنے، دوسروں کو متاثر کرنے، لوگوں کو اس طرح متحد کرنے کی طاقت ہوتی ہے، جس طرح کوئی اور نہیں کرتا یہ نوجوانوں سے اس زبان میں بات کرتا ہے جسے وہ سمجھتے ہیں جبکہ کھیل وہاں امید پیدا کر سکتا ہے جہاں صرف مایوسی تھی'۔ مصنفین: راہول مکھرجی کولکتہ، بھارت میں ایک کاروباری اور انتظامی مشیر ہیں، جو امن کے لیے کھیل اور اولمپکس اقدار کی فعال طور پر وکالت کرتے ہیں۔ بینا سرور بوسٹن میں مقیم پاکستان کی صحافی اور ایڈیٹر ہیں۔ یہ ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹورک نیوز کا سنڈیکیٹڈ فیچر ہے۔
ڈپریشن نے بہت سارے لوگوں کی زندگی کو تاریکی میں ڈال دیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ ذہنی مرض ہے جو کہ معاشرتی رویوں سے مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ 2010 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق یہ دنیا کا دوسرا ایسا مرض ہے جو کہ معذوری کی وجہ بنتا ہے اور پاکستان میں اندازاً 34 فی صد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں، افسوس کہ ان کے پاس علاج کے اچھے اور کثیر مواقع بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ جب لوگوں میں ڈپریشن کے متعلق علم اور علاج کی کمی ہو تو سب سے بہترین راستہ احتیاط ہے۔ دھوپ چند جدید تحقیقات سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ جن علاقہ جات میں دھوپ زیادہ ہوتی ہے، وہاں لوگ کم ہی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، کوشش کریں کہ روزانہ، خاص کر صبح کے وقت، کم سے کم 30 منٹ دھوپ میں گزاریں۔ اس دوران آپ چہل قدمی کے لئے جا سکتے ہیں یا گھر پر رہ کر کسی ایسے حصے میں کوئی کام کر سکتے ہیں جہاں دھوپ موجود ہو۔ ورزش ورزش اچھی صحت کے لئے ویسے ہی ضروری ہے لیکن اس کے ذریعے آپ ڈپریشن سے بھی بچ سکتے ہیں۔ آپ کارڈیو ویسکیولر ایکسرسائز (Cardio Vascular Exercises) کو اپنے معمول میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیز قدمی اور مزید سخت ورزش کو بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ منٹ کے پہلے 50 سیکنڈ درمیانی رفتار پر چلیں اور آخری 10 سیکنڈ میں تیز قدموں سے چلیں۔ اس طرح سے 30 منٹ مکمل کر لیں۔ مضبوط تعلقات آپ کا معاشرتی دائرہ، دوست و احباب اور لوگوں سے تعلقات بھی ڈپریشن سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہو سکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ایسے لوگوں کے قریب رہیں، جن کے ساتھ اچھی ذہنی ہم آہنگی ہو اور آپ اُن پر اعتبار کر سکتے ہوں۔ مضبوط تعلقات آپ کو ڈپریشن سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ کاگنیٹو بہیوریل تھراپی (CBT) کاگنیٹو بہیوریل تھراپی کی کچھ ٹیکنیکس بھی استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔ ان سے آپ کے اندر مشکلات کو ذہنی پریشانی کے بغیر حل کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہوں گی۔ روزانہ 3 منٹ تک کوشش کریں کہ کوئی مسئلہ لکھیں اور پھر اس کے 3 حل لکھیں۔ اس طرح آپ ان جوابات کو حقیقتاً استعمال بھی کر سکتے ہیں اور مسائل کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت نے صحافی ایازامیرکا نام ان کی بہو سارہ انعام کے قتل کیس سے خارج کرنے کا حکم دے دیا۔ جج عامرعزیز نے ریمارکس دیےکہ ایازامیر کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت موجودنہیں،اس لیے ان کا نام مقدمے سے خارج کردیا جائے۔ ایازامیرکی بہوسارہ کو ان کے بیٹےشاہنوازامیرنے 23 ستمبر کی شب لڑائی جھگڑے کے بعد چک شہزاد کے ایک فارم ہاؤس میں ڈمبل کے وار سے قتل کردیا تھا۔ مقتولہ سارہ کی فیملی کینیڈا میں رہائش پزیرہونے کےسبب قتل کا مقدمہ تھانہ شہزاد ٹاؤن کے ایس ایچ اوسب انسپکٹر نوازش علی خان کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے ، مقتولہ کے چچا چچی کی جانب سے کیس میں نامزدگی پر ایازامیر کو24 ستمبرکوگرفتارکیا تھا۔ گزشتہ روزپولیس نے ایازامیرکو ڈیوٹی جج ایسٹ زاہد ترمزی کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے 4 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے انہیں ایک روزہ جسمانی ریمانڈپر پولیس کےحوالے کیا تھا۔ ایاز امیر کے وکیل نے عدالت میں مؤقف دیا تھا کہ میرے مؤکل مقدمے میں نامزد نہیں، ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں جبکہ پولیس نے بھی تصدیق کی کہ واقعے کی اطلاع ایازامیرنے ہی دی تھی۔ ایازامیر نےعدالت کو بتایا تھا کہ مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج ہوا،واقعہ سے متعلق معلوم ہوا تو پولیس کو فوری اطلاع دی، آئی جی اسلام آباد کو کال کی لیکن بات نہیں ہوسکی ،ایس پی رورل کو فوری موقع پر پہنچنے کا کہا۔ ایازامیر نے بتایاکہ میں نے ملزم کی والدہ کو فون پرکہا تھاکہ شاہنواز کو جانے نہیں دینا، ملازم گھرمیں ہے تو اس کو رسیوں سے باندھ دو، پورے مقدمہ میں میرا ذکرنہیں ہے، پولیس نے دفعہ 109 میں رکھا ہوا ہے، ایک روزہ ریمانڈ میں پولیس نے کچھ بھی نہیں پوچھا اورموبائل فون بھی قبضے میں لے رکھا ہے۔
’’محترم مسلمانو! ، اگر دورانِ نماز آپ کے پیٹھ پیچھے بچوں کے کھیلنے اور ہنسنے کی آوازیں نہیں آرہیں ، تو اپنی آنے والی نسل کے روشن مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوجاؤ۔‘‘ اس تحریر سے ترکی کی مساجد کے امامین اور علماء لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہماری مساجد ایسی جگہ ہونی چاہییں جہاں بچوں خوشی خوشی آئیں تاکہ وہ اچھی دوستی اپنائیں ،نماز کی پابندی کی عادت اپنائیں۔ ہمیں چاہیے کہ مسجدوں میں بچوں کی آمد کی ہر ممکن حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیونکہ یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں اور یہ ایک اچھی فکر ہے ۔ ترکی میں اب فیملی فرینڈلی مساجد کی تعمیرات بھی شروع ہوگئی ہیں۔ نیچے دی گئی تصویر ترکی استنبول کی ایک مسجد کی ہے جس میں دیکھ سکتے ہیں کے مسجد کی کارنر میں ایک بچوں کے کھیلنے کے واسطے پلے لینڈ بنایا ہوا ہے۔۔ترک کہتے ہیں کے پہلے بچوں کو مسجد کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرو خواہ وہ کھیلنے کی لالچ میں ہی کیوں نا آئیں۔۔آہستہ آہستہ وہ خود ہی عبادات اور فرائض کی طرف مائل ہوجائیں گے…. آئیں کوشش کریں کہ بچوں کو بھی مساجد میں اچھے رویے کے ساتھ خوش آمدید کہیں اور ایک اچھے مستقبل کی بنیاد رکھیں ۔ Like 0 Liked Liked No Comments بچوں کی تربیت بچے, تفریح, جون 2018ء, گرمی بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں کارآمد بنائیں روحانی ڈائجسٹ ⋅ جون 2018 گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی بچوں کی آزادی اور بےفکری کے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف مائیں پریشان ہوجاتی ہیں کہ بچے دن بھر کیا کریں گے۔ زیادہ تر بچے اپنی چھٹیاں کھیل کود کر گزار دیتے ہیں، یوں ان کی چھٹیاں بےمصرف گزر جاتی ہیں۔ بھئی! بچے جب دن بھر گھر میں رہیں گے تو شرارتیں بھی کریں گے اور نت نئی فرمائشیں کرکے آپ کو پریشان بھی کریں گے۔ چھٹیوں کے دوران عموماً بچوں میں ایک خاص تبدیلی آجاتی ہے۔ ان کا رویہ کبھی کبھی جارحانہ سا ہوجاتا ہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ماں کا رویہ بھی جارحانہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کا رویہ ٹھیک نہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ بچوں کی ان چھٹیوں سے پہلے ان کے لیے کچھ پروگرام ترتیب دیں لیں اور چھٹیوں کا آغاز ہوتے ہی ان پروگراموں کو عملی جامہپہنالیں۔ ٹائم ٹیبل بنائیں بچپن ہی سے وقت کی پابندی کا خیال بچوں کے ذہن میں بٹھا دیا جائے، تو وہ اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، اس لیے جیسے ہی چھٹیاں شروع ہوں، بچوں کا ایک ٹائم ٹیبل بنالیں۔ بعض بچے چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتےہوئے صبح دیر سے سو کر اٹھتے ہیں اور پھر سارا دن سست رہتے ہیں۔ بعض اوقات مائیں بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور یہ کہہ کر بچوں کو دیر تک سونے دیتی ہیں کہ چھٹیاں ہیں، اگر دیر تک سوتے رہیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ کریں، بلکہ بچوں کو صبح سویرے اٹھنے اور ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں سمجھائیں کہ چھٹیوں کا مقصد صرف آرام کرنا ہی نہیں۔ بلکہ کام کرنا بھی ہے۔ ٹائم ٹیبل میں ان کے سونے، جاگنے، کھانے پینے اور کھیل کود وغیرہ مقرر کرکے اندراج کریں۔اس طرح آپ کا بچہ اپنے اس رجحان کو چھٹیوں کے بعد بھی برقرار رکھے گا۔ ہوم ورک بہت سے اسکولز بچوں کو گھر پر کرنے کے لیے ڈھیر سارا کام دے دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بچہ کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتا۔ چھٹیوں میں بچوں کو ہوم ورک بہت زیادہ نہیں دینا چاہیے۔ اصل میں چھٹیوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی دلچسپیوں سے لطفاندوز ہوسکے۔ بہرحال چھٹیوں میں ہوم ورک ملتا ہے اگر مناسب منصوبہ بندی کرلی جائے تو وقت سے پہلے ہی کام ختم کیا جاسکتا ہے۔ روزانہ دو گھنٹے بچوں کی پڑھائی کے لیے مختص کریں۔ بچوں سے انگلش، اردو اور اپنی مادری زبان کے جملے بنوائیں۔ اس طرح بچوں کی لکھائی بہتر ہوگی۔ روزانہ دو گھنٹے اسکول کا کام کرانے سے بچوں پر بوجھ نہیں پڑے گا، ورنہ بعض بچے ڈیڑھ مہینہ ضائع کردینے کے بعد آخری ہفتے میں ہوم ورک کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس اسباق دہرانے کا بالکل وقت نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کھیل کود جسمانی ورزش بچوں کے لیے ضروری ہے، لہٰذا روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بچوں کو مل جل کر کھیلنے دیں۔ بعض بچے انڈور گیمز جیسے لوڈو، کیرم وغیرہ پسند کرتے ہیں۔ لڑکیاں زیادہ تر گڑیاں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ بعض بچے تنہا اپنے کھلونوں سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں تنہائی سے نکال کر ان کے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کریں اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ اپنے کھلونے و دیگر چیزیں دوسرے بچوں کے ساتھ شیئر کرنا بھی سیکھیں گے۔ کرکٹ، فٹبال اور سائیکلنگ بچوں کے لیے بہترین کھیل ہیں۔ ویسے زیادہ تر بچے بیشتر وقت ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتے ہیں یا پھر کمپیوٹر گیم کھیل کر بہت سے بچے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو ٹیلی ویژن بھی کچھ دیر کے لیے دیکھنے دیں اور کچھ وقت کمپیوٹر گیمز کے لیے مقرر کردیں لیکن بہت زیادہ دیر تک نہ ٹی وی دیکھیں اور نہ کمپیوٹرگیمزکھیلیں۔ تفریح کچھ والدین گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی چاہتے ہیں کہ بچے ہر وقت پڑھتے رہیں، لیکن چھٹیوں میں بچوں کے لیے صرف لکھنا پڑھنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ پڑھائی کے علاوہ بھی کچھ ایسا تفریحی سامان فراہم کیا جاسکتا ہے، جن سے بچے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہر شخص گھر میں رہتے رہتے اُ کتا جاتا ہے۔ وہ اپنے لیے تفریح طبع کے مختلف سامان تلاش کرتا ہے۔ بچوں کو خاص طورپر گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی چھٹیوں کے دوران اپنے بجٹ کے مطابق بچوں کو مختلف پارکوں، پلے لینڈز، تاریخی مقامات وغیرہ لے کر جائیں، اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کے گھر بھی بچوں کو لے کر جائیں کیونکہ جب لوگوں سے میل ملاپ بڑھے گا تو بچے پر اعتماد ہوں گے۔ اس طرح انہیں بڑوں سے بات کرنے اور ان کے درمیان بیٹھنے کے آداب معلوم ہوں گے۔ بچوں اور بڑوں کے درمیان تعلقاتبڑھیں گے۔ اگر ہوسکے تو ہفتہ دو ہفتہ کے لیے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنالیں، دوسرے شہر جا کر بچے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ انہیں سیر و تفریح کے بھرپور مواقع فراہم ہوں گے۔ دوسرے شہر کے تفریحی مقامات کی سیر کرنا بھی ایک خوشگوار عمل ہے جو ایک یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے خوشگوار ریت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بچے دوسرے شہروں کے بارے میں جان کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ہم فلاں شہر گئے تھے جہاں ہم نے بہت کچھ دیکھا۔ اگر ہوسکتے تو آپ بھی اس سال کسی تاریخی شہر کی تفریح کا پروگرام بنالیں۔ آرٹس اینڈ کرافٹس بچوں کو پڑھائی، کھیل کود اور تفریح کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی سکھائیں، مثلاً گھر میں موجود بیکار اشیاء سے کوئی کارآمد چیز تیار کرنا، جو ان کی پڑھائی میں بھی مددگار ثابت ہو۔ مثلاً فالتو اور پرانے کاغذات سے نئی ڈرائنگ بک تیار کرنا، گتے کا بکس بنانا، جس میں بچے اپنی کلر پینسلیں اور ربڑ وغیرہ رکھ سکیں۔ بچوں کو تحفے پیک کرنے کے مختلف طریقے بھی سکھائیں، تاکہ اپنے دوستوں کی سالگرہ یا عید کے موقع پر وہ تحفے اپنے ہاتھ سے پیک کرکے دیں۔ بچوں کو پینٹنگ کرنا بھی سکھائیں۔ مثلاً لڑکے اپنی پرانی ٹی شرٹس اور لڑکیاں اپنے سادہ فراک یا رومال وغیرہ پینٹ کرسکتی ہیں۔ شروع شروع میں بچوں سے غلطیاں بھی ہوں گی، مگر آپ انہیں ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں، بچے تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر کام مختلف انداز سے کریں گے، جس کے نتائج خوشگوار نکلیں گے۔ رنگوں سے کھیلنا بھی بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ بچوں کو رنگوں کا صحیح استعمال کرنا سکھائیں۔ اس سلسلے میں آپ کی پریشانی کو ہم دور کرتے ہیں۔ گھر میں شیشے کی خالی بوتلیں ہوں گی۔ آپ ان بوتلوں پر بچوں سے پینٹنگ کرائیں۔ بچوں کو ڈرائنگ میں بھی مہارت ہوجائے گی اور وہ برش سے رنگ آمیزی کا فن بھی سیکھ جائیں گے۔ آپ کے بچے یقیناً اس فن میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ بوتل پینٹنگ کے لیے چند اشیاء کی ضرورت ہوگی ایک عدد سفید خالی بوتل، ایک گلاس پانی، (یہ برش صاف کرنے کے لیے ہے) پینٹنگ برش نمبر دو۔ ایک عدد چھوٹا تولیہ، ایک عدد سنہری آؤٹ لائنر اور سنہری گلیٹر، سرخ اور نیلے رنگ کا پینٹ۔ بچوں سے کہیں کہ بوتل کو اچھی طرح صابن سے دھو کر خشک کرلیں۔ برش، سرخ رنگ کے پینٹ میں ڈبو کر بوتل پر اپنا پسندیدہ پھول بنائیں۔ چھوٹے اور ہلکے اسٹروک ڈالیں۔ چھوٹی اور بڑی پتیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے، اب دوسرا پھول نیلے رنگ سے اس طرح بنائیں جیسے سرخ پھول بنایا تھا۔ بچے بوتل کی مناسبت سے جتنے پھول پتیاں بنانا چاہیں، بنا سکتے ہیں۔ پھر پھول کے وسط میں ایک ڈاٹ ڈالیں۔ بوتل آدھے گھنٹے خشک کرنے کے لیے رکھ دیں۔ اب ڈاٹ پر سنہری رنگ سے آؤٹ لائن بنائیں، پتیوں پر گلیٹر کا اسٹروک دیں۔ بچے بوتل پر اپنی پسند کا ڈیزائن بنا سکتے ہیں یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنے اچھے پھول پتے رنگوں سے مزین کرسکتےہیں۔ برش سادہ پانی سے دھو کر خشک کرکے ڈبے میں رکھ دیں۔ Like 0 Liked Liked No Comments بچوں کی تربیت, علاج معالجہ آنکھوں کے امراض, بچے, جون 2018ء, عینک بچوں میں آنکھوں کے امراض روحانی ڈائجسٹ ⋅ جون 2018 اکثر والدین یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کو کیسے علم ہوگا کہ ان کے بچے کو آنکھوں کی کوئی تکلیف ہے….؟ بچپن میں اکثر بچے آنکھ مچولی یا چھپن چھپائی کھیلتے ہیں۔ لیکن ایسے بھی بہت سے بچے ہیں جو یہ کھیل کھیلنے سے قاصر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ بچے ان کھیلوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے بلکہ ان بچوں کی کمزور بصارت انہیں ایسا کرنے سےروکتیہے۔ آنکھوں کی بڑھتی ہوئی بیماریوں کی سب سے اہم وجہ دھول، آلودگی اور غیر مناسب روشنی ہے۔ آنکھوں کو آرام نہ دینے سے بھی آنکھوں میں خارش اور سرخی پیدا ہوتی ہے۔ ان تین اہم اسباب کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جو کہ بچوں کی بصارت کو متاثر کرتے ہیں جیسے کہ کمپیوٹر پر بہت دیر تک کام کرنا، ریسرچ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی غذا وٹامن اے کی کمی بھی ان بچوں میں کم نظر آنے اور Colour Blindness جیسے امراض پیدا کرتی ہے۔ جو بچے بڑے اور مصروف شہروں میں رہتے ہیں ان کے لیے آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے، سارا دن ان کی آنکھوں میں آلودگی، گاڑیوں کا دھواں دھول مٹی بھرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں خارش اور جلن شروع ہوجاتی ہے اور شام ہونے تک سر درد بھی انہیں اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے۔ اگر یہ علامات مسلسل رہیں تو بچہ اپنی پڑھائی پر پوری طرح توجہ نہیں دے پاتا اور اس کی پرفارمنس پر اثر پڑتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو سال میں ایک مرتبہ ماہر چشم کے پاس ضرور لے جائیں۔ اس طرح اگر کوئی خرابی ہوگی تو وہ اپنے ابتدائی دور میں ہی پکڑی جائے گی۔ اکثر ماہر چشم یہ تنبیہہ کرتے ہیں کہ اگر کسی مرض کی تشخیص کردی گئی ہے تو والدین کو گھریلو علاج ہرگز نہیں کرنا چاہیے اس طرح مرض میں مزید خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ دراصل چند کیسوں میں تو یہ گھریلو علاج مرض کو مستقل کرنے کا سبببنتا ہے۔ ایک نوزائیدہ بچہ تین ماہ تک روشنی کو سمجھ نہیں سکتا، تین ماہ کے بعد ہی وہ کسی بھی چیز کو فوکس کرسکتا ہے۔ اسی وقت والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کی آنکھوں کی حفاظت کے لیے ڈاکٹر سے ہدایات لیں اور اگر کسی قسم کی کوئی غیر معمولی بات ہے تو بچے کو فوراً ماہر چشم کے پاس لے جائیں ۔ تشخیص کا آسان طریقہ ایک سال سے پانچ سال کی عمرتک بچے بہت چست اور ہر چیز کو جاننے کے بارے میں بےتاب رہتے ہیں۔ اپنے اردگرد موجود ہر چیز کا مشاہدہ وہ بہت غور سے کرتے ہیں۔کتابوں میں تصویریں دیکھنا شروع کرتے ہیں اور چند بچے تو پڑھنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ اگر اس عمر میں ان کو کوئی بھی پریشانی لاحق ہو تو فوراً ماہر چشم کے پاس لے جائیں۔ تاخیر ہرگز نہ کریں۔ اکثر والدین یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کو کیسے علم ہوگا کہ ان کے بچے کو آنکھوں کی کوئی تکلیف ہے….؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ اگر بچہ آؤٹ ڈور گیمز میں زیادہ چستی پھرتی نہ دکھائے، کلاس میں اس کی پرفارمنس خراب ہوجائے، بلیک بورڈ پر لکھی تحریر کو درست نہ پڑھے اور لکھے ہوئے الفاظ کو زور سے پڑھنے سے انکار کرتا ہو تو آپ کو اپنے بچے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور یہی وہ وقت ہے جب آپ اسے ماہر چشم کے پاس لے جائیں۔ کبھی کبھی بچے شدید سر درد اور آنکھوں میں جلن و سوجن کی شکایت کرتے ہیں جو کہ بہت ہی کم روشنی میں پڑھنے یا کمپیوٹر پر دیر تک کام کرنے سے ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز ہر گز نہ کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جتنے بچے آنکھوں کی مختلف تکالیف میں مبتلا ہیں کبھی اتنے زیادہ تعداد میں نہیں تھے۔ کیونکہ آج کل بچے ٹی وی بھی زیادہ دیکھتے ہیں یا کمپیوٹر پر بہت دیر تک کام کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بچے ٹی وئی دیکھنا یا کمپیوٹر پر کام کرنا چھوڑ دیں۔ والدین کو بھی اس سلسلے میں احتیاط برتنی ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو تنبیہہ کریں کہ کمپیوٹر پر کام کرتے وقت بچوں کو کم از کم ایک میٹر دور بیٹھنا چاہیے اور ہر دس منٹ بعد اپنی آنکھیں دو سے تین سیکنڈ تک مسلسل بار بار جھپکنی چاہئیں۔ اسی طرح ٹی وی دیکھنے کےد وران بھی کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ ضروری ہے اس طرح ٹی وی سے نکلنے والی شعاعوں کا اثر کم سے کم تر ہوجاتاہے۔ بچوں کا پہلا آئی چیک اپ تب ہو جبکہ بچے کی عمر تین سے چار سال ہو۔ دوسرا پانچ سال کی عمر میں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد سال میں ایک مرتبہ چیک اپ بہت ضروری ہے۔ آنکھوں کی حفاظت کے لیے ٹپس! جس کمرے میں ٹی وی رکھا گیا ہو وہاں ضروری ہے کہ روشنی چاروں طرف سے آئے اور کمرے میں ہر طرف برابر روشنی ہو۔ ٹی وی دیکھنے کے دوران کم از کم فاصلہ چھ میٹر اور کمپیوٹر پر کام کرنے کے دوران کم از کم ایک میٹر ہونا ضروری ہے۔ ٹی وی ایسی جگہ رکھا ہو جو کہ آنکھوں کے لیول سے ذرا اونچی ہو۔ آنکھوں کے لیول کے برابر ٹی وی رکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زمین یا بستر پر بچوں کو ٹی وی دیکھنے کے دوران چت لیٹنے سے منع کریں۔ یہ آنکھوں کے لیے نقصاندہ ہے۔ کمپیوٹر پر کام کرنے کے لیے اس بات کی تسلی کرلیں کہ کمپیوٹر کے مانیٹر کے رنگ بہت زیادہ تیز نہ ہوں اور اس سے بہت زیادہ روشنی نہ نکل رہی ہو اور نہ ہی روشنی سیدھی مانیٹر پر پڑی رہی ہو۔ یہ بھی نقصان دہ ہے اور اگر ایسا ہے تو مانیٹر پر خاص کور یا پھر مانیٹر کے لیے دستیاب Anti Glase Glasses لگائیں۔ رات گئے تک نیٹ پر کام نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ بچے انٹرنیٹ کے شوقین ہوتے ہیں ان کو نیٹ پر دیر رات تک کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کئی بچے اپنے سونے کا بھی بہت سا وقت نیٹ پر گزارتے ہیں یہ نقصان دہ ہے۔ ان کو اپنی نیند ضرور پوری کرنی چاہیے۔ Like 0 Liked Liked No Comments بچوں کی تربیت بچے, تربیت, کھیل کود, مئی 2018ء بچوں کو کھیل کود سے مت روکیں روحانی ڈائجسٹ ⋅ مئی 2018 بچوں کی صحت و تندرستی کے لیے کھیل کود بھی ضروری ہے۔ بہت سی مائیں اس حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں کہ کھیل بچوں کی نشو و نما میں کس قدر مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کھیل کود سے بچوں کی جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی نشو و نما بھی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے چونکہ اپنے کھیل کے دوران ادھر ادھر چیزیں پھیلا دیتے ہیں جس سے گھر کی سیٹنگ خراب ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر مائیں چاہتی ہیں کہ ان کا بچہ خاموشی سے ایک جگہ بیٹھا کسی ایسے کھیل میں مگن رہے جس کے باعث گھر میں کوئی بےترتیبی نہ ہونے پائے اور وہ بار بار گھر سمیٹنے سےبچی رہیں۔ کئی مائیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ بچہ اپنے کھیل کے دوران ان کی توجہ کازیادہ طلبگار بھی نہ ہوتا کہ وہ جلدی جلدی گھر کے کام نمٹا سکیں۔ بچے کی ذہانت اور اس کی صلاحیتوں میں تب ہی اضافہ ہوگا کہ جب آپ اسے اس کے رجحان کے مطابق کھیلنے کی آزادی دیں گی اور کبھی کبھی کھیل میں اس کے ساتھ شامل بھی ہوں گی۔ بچے کی عمر کا پہلا سال بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دوران وہ بڑی تیزی کے ساتھ کھیل کھیل میں سیکھنے کے مراحل طے کرتا ہے اور نت نئی چیزوں کو چھو کر گویا ایک نئی دنیا دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب بچے گھٹنوں چلنے کی عمر کو پہنچ جائیں تب وہ ہر نئی چیز کو چھونے کے لیے بےتاب رہتے ہیں۔ ایسے میں گھر میں ان کی حفاظت کی خاطر خاص ماحول بنائیں۔ ایسی تمام چیزوں کو نہ صرف بچوں کی پہنچ بلکہ ان کی نظروں سے بھی دور رکھیں جن سے انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ نت نئی چیزیں بچوں کی نظروں کے حصار میں رہیں گی تو وہ انہیں لینے کی ضد ضرور کریں گے۔ نیچائی پر لگے ہوئے بجلی کے تمام سوئچ اور ساکٹس ٹیپ کی مدد سے اچھی طرح ڈھانپ دیں یا ان سے بجلی کا کنکشن ہی نکلوا دیں۔ اردگرد کے ماحول کو بچوں کے لیے محفوظ بنانے کے بعد انہیں اس بات کی اجازت دیں کہ وہ اپنے من چاہے کھیل سے لطف اندوز ہوسکیں اور ادھر ادھر گھوم پھر سکیں۔ اس طرح وہ نئی نئی باتیں سیکھیں گے، تاہم کھیل کے دوران ان پر نظر ضرور رکھیں کیونکہ چھوٹے بچوں کو ہر چیز منہ میں رکھنے اور اسے چکھنے کا تجسس بہت ہوتاہے۔ جس طرح بچے اپنے طور سے کھیل میں مگن رہ کر بہت سی باتیں سیکھتے ہیں اسی طرح بڑوں کی مدد سے کھیلے جانے والے کھیل بھی ان کےلیے کم اہم نہیں ہوتے۔ کیونکہ ایسے کھیلوں سے ان میں لوگوں سے رابطہ رکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے ماں اور بچے کے درمیان کھیلے جانے والے معصومانہ سے کھیل ‘‘تا….’’ کی مثال ہی لے لیں۔ اس کھیل سے بچے انتظار اور پھر خوش گوار حیرت جیسے جذبات سے روشناس ہوتے ہیں اور ہنس کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ماں جب دونوں ہاتھوں سے یا دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپاتی ہے اور پھر اچانک نمودار ہو کر ‘‘تا….’’ کہتی ہے تو بچہ خوشی و حیرت کے جذبات کے علاوہ انسانی تعلق اور رابطے کی اہمیت سے بھی واقف ہوتا ہے۔ اس کھیل کو کئی مرتبہ دہرائے جانے پر بچہ انتظار کی کیفیت سے بھی روشناس ہوتا ہے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو بچے کی بہتر نشو و نما میں معاون ہوتی ہیں۔ والدین کے ساتھ کوئی کھیل کھیلنا بچے کے لیے ہمیشہ انتہائی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا لمس اور جسمانی قرب بچے کو نہ صرف خوشی بلکہ تقویت بھی بخشتا ہے۔ اس سے بچے میں سیکھنے اور لوگوں سے رابطے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ بچے کے دلچسپاور محفوظ کھلونے بچوں کے لیے کھلونوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کھلونوں کی مدد سے وہ بہت سی نئی باتیں سیکھتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے تو ان کے ارد گرد موجود ہر چیز کھلونا ہوتی ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کبھی ماں باپ بھی ان کے لیے ایک دلچسپ کھلونے کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ بچے گھر میں موجود پلاسٹک کی رنگ برنگی اشیاء، برتنوں اور ڈبوں وغیرہ کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں اچھی طرح صاف کرکے انہیں کھیلنے کے لیے دے دیں۔ البتہ جب بازار سے کھلونے خریدنے کا سوال آئے تو چند باتیں ضرور ذہن میں رکھیں۔ نوزائدہ بچوں سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کے کھلونے یہ خیال درست نہیں کہ نوزائدہ بچے اچھی طرح دیکھ اور سن نہیں سکتے یا کسی چیز کو پہچاننے کی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی۔ وہ نہ صرف چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ مختلف آوازوں کی جانب فوراً متوجہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شوخ رنگ میوزیکل کھلونے انہیں بہت پسند آتے ہیں اور وہ انہیں پہچانتے بھی ہیں۔ پیدائش کے بعد کے چند روز بچوں کی ذہنی نشو و نما میں بہت اہم کردار اداکرتے ہیں اور تین ماہ کی عمر کو پہنچنے تک وہ اپنے پسندیدہ کھلونوں، رنگوں، چیزوں کی شکل و صورت اور مختلف میوزیکل کھلونوں کی آوازیں بخوبی پہچاننے لگتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے نرم ربر کے کھلونے اور رنگ برنگے جھنجھنے خریدیں لیکن خیال رکھیں کہ یہ کسی بھی قسم کے مضر مٹیریل سے بنے ہوئے نہہوں۔ سات سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے کھلونے سات سال کی عمر کو پہنچنے تک بچے زیادہ سے زیادہ متحرک رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور محض کھلونوں کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ افراد کے معاملے میں بھی ان کی پسند و ناپسند کا معیار قائم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سات سے بارہ سال تک کے دور میں ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس عمرمیں بچوں کو بیٹری کی مدد سے دوڑتے بھاگتے کھلونے جیسے کہ لڑکوں کو ریسنگ کاریں بہت پسند آتی ہیں۔ بچوں کو جب بھی کھلونے دلائیں تو ان کی عمر، ان کی دلچسپیوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت کے پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھیں۔ بچوں کو مختلف شیپس اور اشکال پر مبنی رنگین کھلونے لا کر دیں اور پھر کھیل کھیل میں انہیں شیپس اور رنگوں کی پہچان کرائیں۔ ایسے خوش رنگ بلاکس جن پر اردو اور انگریزی حروف تہجی تحریر ہوتے ہیں، چھوٹے بچوں کی تعلیم کا اچھا ذریعہ ہیں۔ بچے ان تعلیمی بلاکس کو جوڑنے اور توڑے کے دوران حروف تہجی کو پہچاننے لگتے ہیں۔ آپ کی یہ چھوٹی چھوٹی سی کوششیں بچے کی ابتدائی لرننگ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچہ اس قسم کی باتوں کو کھیل سمجھ کر ان میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔
معروف گلوکار، اداکار، میزبان اور ڈی جے محسن عباس حیدر کا شمار پاکستان کے مقبول اداکاروں میں ہوتا ہے۔ چھوٹے پردے سے لیکر بڑے پردے تک غزل گائیکی ہو یا ہپ ہاپ میوزک انٹرٹینمنٹ کے ہر میدان میں انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ 32 سالہ محسن کی مقبول ترین فلموں میں نامعلوم افراد، نامعلوم افراد 2، تیری میری لوو اسٹوری اور لوڈ ویڈنگ شامل ہیں۔ کوک اسٹوڈیو میں ان کا گایا گیا گانا ’اڈی جا‘ سپر ہٹ مانا جاتا ہے، اس گانے کی شاعری اور کمپوزیشن بھی محسن عباس نے خود کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف نجی چینلز پر سنجیدہ اداکاری سے بھی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ ٹی وی پر ہنس مکھ اور لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے والے محسن عباس اپنی نجی زندگی میں کئی مشکلات اور دشواریوں سے گزرے ہیں۔ ہم نیوز کو دیئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنی نجی زندگی اور میڈیا انڈسٹری کے حوالے سے بات چیت کی۔ سوال: پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں بہت کم وقت میں شہرت کی بلندیوں کو چھو کر آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے، اس وقت کے شرمیلے مزاج محسن عباس، جو اپنی نو عمری میں فیصل آباد سے کراچی کچھ بننے کی خاطر منتقل ہوا اور آج کے محسن میں کتنا فرق محسوس ہوتا ہے؟ اور کامیابی کی تعریف آپ کے نزدیک کیا ہے؟ محسن عباس: مجھے میڈیا انڈسٹری میں 13 سال ہو گئے ہیں، شہرت کی بلندیوں کو چھوا ہے یا نہیں اس کا تعین نہیں کر سکتا، نوکری ہی کر رہے ہیں مگر میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اپنے شوق کو اپنا روزگار بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کسی شہرت کی بلندی کو چھونے کی نہ آرزو ہے اور نہ ہی ایسی کسی ریس کا حصہ ہوں۔ میں واقعی شروع میں ایک شرمیلا لڑکا ہوتا تھا تاہم اب میں ایک با اعتماد انسان بن چکا ہوں، فیصل آباد سے کراچی آیا محنت کی اور اس انڈسٹری میں جگہ بنائی یہ سب کیسے ہوا اس کا مجھے بھی نہیں پتا، بس اوپر والا عنایت کرتا گیا، میری زندگی بنتی گئی اور مختلف پراجیکٹس کی پیشکش آتی رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کامیابی کی تعریف سکون کے علاوہ کچھ نہیں، امن و سکون کے ساتھ اور بغیر کسی پچھتاوے کی زندگی میرے نزدیک ایک کامیابی ہے۔ س: محسن آرٹ کی کوئی حد نہیں ہوتی کیا آپ اس فلسفے سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو پاک بھارت کشیدگی کے باعث حکومت نے بھارتی فلموں اور ڈراموں پر پابندی لگائی ہے اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ محسن عباس: آرٹ کی واقعی کوئی حد نہیں ہوتی جیسے مجھے میرے ایک گانے پر دنیا بھر کے مداحوں کی جانب سے اچھا ردعمل آج بھی مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی فلم اور گانا دیکھنا ہوتا ہے وہ کوئی نہ کوئی طریقہ کار اپنا کر اسے دیکھ لیتا ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری ابھی اس مقام پر نہیں پہنچی جہاں وہ ملک بھر کے سینما گھروں کے پیٹ بھر سکے، ان کے لئے بھارتی فلموں کا بزنس بہت ضروری ہوتا ہے تاہم اگر سرحدوں پر کشیدگی ہو تو قومی خودداری سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ تو چاہتے ہیں کہ امن کا بول بالا ہو اور امن سے اچھا کوئی جواب نہیں ہوتا، جس کا عملی مظاہرہ ہمارے وزیراعظم نے کر کے بھی دکھایا تاہم کچھ سیاسی و جنگ پسند مفاد پرست لوگ دونوں ممالک کے مابین امن نہیں دیکھنا چاہتے۔ س: کوک اسٹوڈیو میں آپ کا ایک اور رنگ نظر آیا، لوگ تو آپ کو ایک ہنس مکھ ڈی جے کی حیثیت سے جانتے تھے تاہم کوک اسٹوڈیو میں آپ نے اپنے لکھا ہوا گانا اُڈی جا گا کر دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کر دیا اور لوگ داد دیے بنا نہ رہ سکے، اُڈی جا کے بارے میں کچھ بتائیں اور آپ کا نیا گانا کب تک ریلیز ہو گا؟ محسن عباس: بہت سے لوگوں کو میرے کیریئر کے حوالے سے غلط فہمی رہی ہے کیونکہ میں اتفاق سے میرے تمام شروعاتی پراجیکٹس مزاح سے بھرپور تھے، جن میں فور مین شو، بی این این ہو، میرا ریڈیو شو ہو یا اب مذاق رات ہو تو لوگوں کو یہ ہی لگا کہ میں ایسے ہی کردار کرتا ہوں تاہم جب اداکاری شروع کی تو سنجیدہ کردار ادا کیے۔ اڈی جا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ کلام مجھ پر عطا ہوا جس پر میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ خدا نے اس کلام کے لئے مجھے چنا اور لوگ مزید حیران ہوئے جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ کلام بھی میں نے خود لکھا ہے ورنہ یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ بابا بھلے شاہ یہ کسی اور بزرگ کا کلام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر محسن عباس کو صفحے پر اتارا جائے تو اُڈی جا اس کی عکاسی ہو گی، مجھے خوشی ہوئی کہ اُڈی جا کی صورت میں اب لوگوں کو میرا اصل نظر آیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا اگلا گانہ کچھ دنوں قبل نہ جا کے نام سے ریلیز ہوا ہے اور مزید گانوں پر بھی کام کر رہا ہوں جنہیں جلد ہی ریلیز کیا جائے گا۔ س: فلمی دنیا کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اب پاکستان میں معیاری فلمیں بن رہی ہیں؟ محسن عباس: پاکستان میں اب معیاری فلمیں بننا شروع ہو گئی ہیں، مختلف قسم کا سینما اب سامنے آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پروڈیوسرز کو بھی نت نئے تجربات کرنے کے لئے اب ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے شروع سے منٹو، شاہ، اور ماہ میر کی طرز کی فلمیں بہت پسند ہیں، بہت جلد میری بھی ایک نئی فلم آ رہی ہے جس میں میرا ایک دلچسپ کردار ہے، امید کرتا ہوں کہ لوگوں کو میرا یہ کردار بھی پسند آئے گا۔ ٹیگز : coke studioHUM NewsMohsin AbbassPakistanاڈی جاانٹرویوپاکستانکوک اسٹوڈیومحسن عباسہم نیوز متعلقہ خبریں معروف کامیڈین اسماعیل تارا انتقال کر گئے تنازعات کا شکار فلم جوائے لینڈ کو ریلیز کی اجازت شاہ رخ خان کو ممبئی ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا تازہ ترین پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی پھر گرفتار تحریک حقیقی آزادی کے قیام تک جاری رہے گی، عمران خان بلاول بھٹو نے عمران خان کے استعفوں کے اعلان کو ڈرامہ قرار دے دیا جس دن عمران خان نے کہا پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے، مونس الہیٰ وفاقی حکومت کا پنجاب، کے پی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ جب تک اللہ نہ چاہے،پنجاب حکومت کو کچھ نہیں ہو گا، پرویزالہی ناکام ترین لانگ مارچ،عمران کے تمام پلانز بری طرح فیل ہو گئے،مریم نواز ویڈیوز پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی بل کی منظوری دے دی سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے بلامقابلہ وزیراعظم منتخب ہم نیوز پر شائع یا نشر ہونے والا مواد ادارتی ٹیم کی کاوش ہے۔ اس مواد کو بغیر پیشگی اجازت کسی بھی صورت میں استعمال یا نقل کرنا درست نہیں۔
اسلام آباد : بجلی 22 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی ہونے کا امکان ہے ، اضافہ اگست کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست پر نیپرا میں آج سماعت ہوگی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگست میں پانی سے 38.10 فیصد،کوئلے سے 15.39 فیصد بجلی پیداکی گئی jbko کوئلے سے بجلی کی پیداوار کی لاگت 20روپے 54پیسے تھی۔ سی پی پی اے کا کہنا تھا کہ اگست میں فرنس آئل سے 7.27،مقامی گیس سے9.36فیصدبجلی پیدا کی گئی، فرنس آئل سےبجلی کی پیداواری لاگت35روپے61پیسے رہی۔ درخواست کے مطابق مقامی گیس سے بجلی کی پیداواری لاگت10روپے49پیسےرہی اور اس عرصے میں درآمدی ایل این جی سے 12.49 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ سی پی پی اے نے بتایا کہ اگست میں آر ایل این جی سےفی یونٹ پیداواری لاگت 24روپے72 پیسےرہی، اگست میں جوہری ایندھن سےبجلی کی پیداوار 13.34فیصد رہی۔ اگست میں 13ارب 63 کروڑ 87 لاکھ یونٹ بجلی پیدا کی گئی، بجلی کی پیداواری لاگت 10 روپے11پیسے فی یونٹ رہی، اگست کے لیے ریفرنس فیول لاگت9روپے89پیسے فی یونٹ مقرر کی گئی تھی۔
یہ ایک قسم ہے۔ بلیک باکس ٹیسٹنگ جس میں مکمل طور پر مربوط سافٹ ویئر کو اس کے ہارڈ ویئر/سافٹ ویئر کے اجزاء کے ساتھ درست کرنے کے لیے پورے سسٹم کی جانچ کی جاتی ہے۔ عام طور پر جانچ کی دو قسمیں ہیں: بلیک باکس ٹیسٹنگ وائٹ باکس ٹیسٹنگ سسٹم ٹیسٹنگ کو بلیک باکس ٹیسٹنگ کہا جاتا ہے کیونکہ اس ٹیسٹنگ میں مکمل طور پر مربوط سافٹ ویئر کی بیرونی ورکنگ کو صارف کی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے جانچا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، وائٹ باکس ٹیسٹنگ سافٹ ویئر کے اندرونی کام کی جانچ کرتا ہے، یعنی کوڈ۔ مثال سسٹم ٹیسٹنگ کو ایک مثال کی مدد سے بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے: بال پوائنٹ قلم کی تیاری پر غور کریں۔ قلم کے مختلف اجزاء جیسے ٹوپی، باڈی، دم، سیاہی کارتوس، بال پوائنٹ وغیرہ الگ الگ تیار کیے جاتے ہیں۔ یونٹ کا تجربہ کیا ان کے کام اور کارکردگی کو چیک کرنے کے لیے۔ یونٹ ٹیسٹنگ کے بعد، اگلا مرحلہ یہ ہے کہ قلم کے دو یا دو سے زیادہ اجزاء کو یکجا کیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا وہ مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس قدم کو کہتے ہیں۔ انضمام کی جانچ . ایک بار یہ ہو جانے کے بعد، سسٹم کی جانچ شروع ہو جاتی ہے۔ اس میں قلم کو مجموعی طور پر استعمال کرنے والے کے لیے بیرونی ماحول جیسے کاغذ، گتے وغیرہ میں کام کرنے کے لیے جانچا جاتا ہے۔ سافٹ ویئر ٹیسٹنگ بمقابلہ سسٹم ٹیسٹنگ عام طور پر، سافٹ ویئر ٹیسٹنگ اور سسٹم ٹیسٹنگ کا استعمال کبھی کبھار ایک دوسرے کے ساتھ کیا جاتا ہے تاہم وہ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ بھی دیکھو 26 بہترین مفت آڈیو ریکارڈنگ سافٹ ویئر سسٹم ٹیسٹنگ سافٹ ویئر ٹیسٹنگ کے ایک مرحلے کا ایک حصہ ہے۔ سافٹ ویئر ٹیسٹنگ میں درج ذیل اقدامات ہوتے ہیں: • یونٹ ٹیسٹنگ : یہ جانچ کا پہلا مرحلہ ہے اور کوڈ کے ہر بلاک پر انفرادی طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر پروگرامر کے ذریعہ کیا جاتا ہے جس نے کوڈ لکھا ہے۔ • انٹیگریشن ٹیسٹنگ : ایک بار جب دو یا دو سے زیادہ انفرادی اجزاء کا یونٹ کا کامیابی سے تجربہ کیا جاتا ہے، تو وہ مرکزی سافٹ ویئر پیکج میں ضم ہو جاتے ہیں۔ یہاں ماڈیولز کو مطابقت کے لیے ان کے انضمام سے پہلے، دوران اور بعد میں جانچا جاتا ہے۔ چونکہ ایک ماڈیول کے مختلف حصے کئی پروگرامرز کے ذریعے بنائے جا سکتے ہیں، اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا ماڈیول مجموعی طور پر کام کرتا ہے یا نہیں۔ سسٹم ٹیسٹنگ: انضمام کی جانچ کے بعد، ایک پیشہ ور ٹیسٹنگ ایجنٹ انفرادی ماڈیولز کو اور اس کے بیرونی ماحول کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور پھر اسے قبولیت کی جانچ کے لیے عوام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے اس کی مجموعی جانچ کرتا ہے۔ • قبولیت کی جانچ : اس ٹیسٹنگ میں، پروڈکٹ کا بیٹا ورژن عوام کے لیے دستیاب کرایا جاتا ہے، اور صارف کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ آیا سسٹم قابل قبول ہے یا نہیں۔ اگر کوئی کیڑے پائے جاتے ہیں تو، سسٹم کو نئی بہتر فعالیتوں اور حل شدہ کیڑوں کے ساتھ دوبارہ جاری کیا جاتا ہے۔ سسٹم ٹیسٹنگ میں کیا ٹیسٹ کیا جاتا ہے؟ ایک سسٹم ٹیسٹنگ میں پورے سسٹم کی جانچ کی جاتی ہے اور اس لیے ٹیسٹ کرنے والے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا ٹیسٹ کیا جانا ہے۔ ٹیسٹر مندرجہ ذیل کے لیے سسٹم کی جانچ کرتا ہے: آخر سے آخر تک جانچ کی جاتی ہے جہاں مربوط اجزاء بشمول ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹمز کو ایک دوسرے اور پورے نظام کے ساتھ کامیاب تعامل کے لیے جانچا جاتا ہے۔ تفصیلی ٹیسٹ کیسز اور درخواست کے ہر پہلو کے لیے ٹیسٹ سویٹس تیار کیے جاتے ہیں اور ٹیسٹ کیسز کے ان پٹ اور مطلوبہ آؤٹ پٹ کی تصدیق کی جاتی ہے۔ صارف کے تجربے کو بھی پورے سسٹم کے ساتھ جانچا جاتا ہے۔ بھی دیکھو گوگل دستاویزات میں بارڈر شامل کرنے کے 3 آسان طریقے سسٹم ٹیسٹنگ کی اقسام ٹیسٹنگ کی سب سے جامع سطح ہونے کی وجہ سے، سسٹم ٹیسٹنگ میں 70 سے زیادہ اقسام کی ٹیسٹنگ دستیاب ہے۔ جانچ کی ان متعدد اقسام میں سے کچھ یہ ہیں: استعمال کی جانچ : سسٹم کی لچک، قابلیت، اور صارف دوستی کو آخری صارف کے نقطہ نظر سے جانچا جاتا ہے۔ دھواں ٹیسٹنگ : یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ نظام کے اہم افعال کام کریں۔ یہ یہ بھی چیک کرتا ہے کہ آیا بلٹ سسٹم مزید جانچ کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔ کارکردگی/لوڈ ٹیسٹنگ: دی سافٹ ویئر کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ حقیقی زندگی کے بوجھ کے تحت، جیسے ویب سرورز۔ سیکیورٹی ٹیسٹنگ : ممکن ہے۔ نظام میں کمزوریاں ڈیٹا اور وسائل کے لیک کے لیے جانچے جاتے ہیں جو مستقبل میں ہو سکتے ہیں۔ یہ نظام کو گھسنے والوں سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ریگریشن ٹیسٹنگ : کبھی کبھی پرانے کیڑے حل کرنے میں، نئے کیڑے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس ٹیسٹنگ میں، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے دوران کی گئی تبدیلیاں یا ماڈیولز کو سسٹم میں نئے کیڑے چیک کرنے کے لیے جانچا جاتا ہے۔ ریکوری ٹیسٹنگ : اس ٹیسٹنگ میں قابل اعتماد، قابل اعتمادی، اور ممکنہ کریشوں سے بازیابی کی جانچ کی جاتی ہے۔ ہجرت کی جانچ: بنیادی ڈھانچے کی ممکنہ تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے، نظام کو پرانے اور نئے نظام کے بنیادی ڈھانچے کے درمیان نقل و حرکت کے لیے چیک کیا جاتا ہے۔ فنکشنل ٹیسٹنگ: جانچ کرنے والے کسی بھی گمشدہ افعال کے لیے سسٹم کو چیک کرتے ہیں اور اس کے لیے ایک لاگ بناتے ہیں۔ یہ وہ افعال ہیں جو کسی پروڈکٹ کو بہتر کام کرنے کے لیے ہو سکتے ہیں۔ ہارڈ ویئر/سافٹ ویئر ٹیسٹنگ: بیرونی ماحول، یعنی ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹم کی تشکیل کردہ سافٹ ویئر پروڈکٹ کے ساتھ مطابقت کی جانچ کی جاتی ہے۔ تعمیل کی جانچ: نظام کو اندرونی یا بیرونی معیارات کی تعمیل کے لیے جانچا جاتا ہے۔ بھی دیکھو 20 بہترین نیٹ ورک سکیننگ ٹولز برائے ونڈوز فری (آئی پی اور پورٹ سکینر) ٹیسٹرز کے ذریعہ استعمال کردہ سسٹم ٹیسٹنگ متعدد متغیرات ٹیسٹرز کے ذریعہ استعمال کردہ سسٹم ٹیسٹنگ کی قسم کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ ہیں: بڑی، درمیانی یا چھوٹی کمپنی: استعمال شدہ سسٹم ٹیسٹنگ کی قسم کا انحصار اس کمپنی کے سائز پر ہوگا جس کے لیے ٹیسٹرز کام کرتے ہیں۔ بڑی کمپنیاں پیسے، انفراسٹرکچر وغیرہ جیسے کئی عوامل کی وجہ سے اپنے جانچ کے طریقوں میں درمیانے یا چھوٹے سے مختلف ہوتی ہیں۔ وقت کی دستیابی: سافٹ ویئر پروجیکٹ کے لیے موزوں ترین ٹیسٹنگ کی قسم کا تعین کرنے میں وقت ایک اہم عنصر ہے۔ وسائل کی دستیابی: وہ کمپنی جس کے لیے ٹیسٹر کام کرتا ہے وسائل کی دستیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بڑی فرموں کے پاس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مہنگا خودکار سافٹ ویئر ہوگا۔ تعلیم: ٹیسٹر کی مہارت استعمال کی جانے والی جانچ کی قسم کا تعین کرتی ہے۔ کچھ ٹیسٹرز کو جانچ کے لیے استعمال کرنے سے پہلے کچھ سافٹ ویئر سیکھنے ہوں گے۔ بجٹ: ٹیسٹنگ کے لیے منظور شدہ کل بجٹ نہ صرف چھوٹی بلکہ بڑی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ استعمال کیے جانے والے ٹیسٹ کی قسم کا تعین کرنے کے لیے ایک اہم عنصر بن جاتا ہے۔ ٹیسٹنگ ماحول ٹیسٹرز کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جس ماحول کو جانچ کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہ اصل پیداوار اور صارف کے ماحول کے جتنا ممکن ہو قریب ہو۔ اگر نہیں، تو یہ ممکن ہے کہ اختتامی صارف ان مسائل اور کیڑوں کی نشاندہی کر سکیں جو ٹیسٹرز کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیم کو نہیں ملے ہوں گے۔
پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ لنڈی کوتل 70 کی دہائی میں سر سبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ ملک کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ لیکن، پھر 80 کی دہائی کے آخر میں افغان-روس جنگ کے باعث خطّے کی صورتِ حال بدل گئی. افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ افغانستان سے مختلف اشيا کی آمد بھی شروع ہوئی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جہاں ماضی میں مقامی سطح پر افغان کرنسی کا چھوٹا سا کاروبار ہوا کرتا تھا اس کی جگہ اسمگلنگ نے لے لی۔ لوگوں نے کھیتی باڑی چھوڑ دی اور نئے کاروبار سے منسلک ہو گئے، جس ميں کپڑا، ميوہ جات، اليکٹرانک آلات سمیت کلاشن کوف اور ہيروئن وغيرہ شامل تھیں۔ پاکستان نے 2017 ميں 2600 کلو ميٹر طویل افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فيصلہ کيا، تاکہ سرحد کی دوسری جانب سے دہشت گردوں کے حملوں اور آمد کو روکا جا سکے۔ سيکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ باڑ لگنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات ميں نماياں کمی آئی ہے۔ ليکن، پاک-افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں کے رہائشيوں کا کہنا ہے کہ اس ضمن ميں ان کا کاروبار مکمل طور پر مفلوج ہو گيا ہے۔ خيبر ايجنسی کی تحصيل لنڈی کوتل ميں محمد وزير شنواری پرچون کا کاروبار کرتے ہيں۔ بارڈر مينجمنٹ سسٹم سے قبل وہ افغانستان میں طورخم بارڈر کے ذریعے با آسانی کاروبار کرتے تھے۔ محمد وزير شنواری يہاں سے آٹا، چاول، چينی سميت متعدد اشیا افغانستان برآمد کرتے تھے اور وہاں سے گھی، خشک ميوہ جات وغيرہ لاتے تھے۔ ياد رہے کہ بارڈر مينجمنٹ سسٹم کے تحت اب ہر شہری کو پاسپورٹ اور ويزا لازمی درکار ہوتا ہے۔ 'وائس آف امريکہ' سے بات کرتے ہوئے محمد وزير شنواری نے بتايا کہ جب سے پاک–افغان بارڈر پر باڑ لگی ہے اور آنے جانے کے لیے سفری دستاويزات لازمی قرار دی گئی ہیں، اس کے بعد سے قبائلی عوام کی معاشی حالت ابتر ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق، پہلے يہاں تحريکِ طالبان کے خلاف پاکستانی فوج نے بے شمار آپريشن کیے جس کی وجہ سے علاقے ميں ہر طرف خوف و ہراس رہتا تھا۔ اور اب بارڈر مينجمنٹ سسٹم لاگو ہو گيا ہے جس سے مقامی لوگوں کا کاروبار مکمل طور پر ختم ہو گيا ہے۔ محمد وزير شنواری کے مطابق، يہاں نہ تو زراعت کا کام ہے اور نہ ہی کارخانے ہیں۔ طورخم بارڈر سے کاروبار کی بندش کے بعد سے بے روزگاری ميں اضافہ ہو رہا ہے جس سے قبائلیوں کی معاشی پريشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ ان کے مطابق، پہلے جب ہم شام کو گھروں کو جاتے تھے تو ہر طرف خوش حالی ہوتی تھی۔ بچے، بيوی اور والدين سب کی زندگياں خوش حال تھيں۔ ليکن، اب ايسا نہیں ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ وزيرِ اعظم عمران خان کو ان کی پريشانيوں کا تدارک کرنا ہو گا۔ ورنہ انہيں خدشہ ہے کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ نوجوان نسل بے روزگاری کی وجہ سے شدت پسندی کی جانب مائل ہو جائيں۔ يہ مسائل صرف محمد وزير شنواری تک محدود نہیں ہيں۔ حاجی اوار دين لنڈی کوتل کے بازار ميں ايک ہوٹل چلاتے ہيں۔ ان کے مطابق، ان کا کاروبار مکمل طور پر تباہی کی نہج پر ہے۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ جب سے طورخم بارڈر پر سختی ہوئی ہے، ان کا کاروبار منافع بخش نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب نقل و حمل آزاد تھی تو مال مويشی آسانی سے آر پار جا سکتے تھے اور عمومی فيس وہ خاصہ دار فورس کو ديتے تھے۔ لیکن، اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ ان کے بقول، اب انہيں چار گنا زيادہ ٹيکس دينا پڑتا ہے، جس کے بعد مال مويشی اب نہ صرف ان کی دسترس سے باہر ہو گئے ہيں اور گاہک بھی ان کے ہوٹل کا رخ کم ہی کرتے ہيں۔ وزير شنواری کے مطابق، افغان يہاں گزشتہ 40 سال سے آباد ہيں اور لوگوں کی اب رشتہ دارياں بھی قائم ہو گئی ہيں، کيوں کہ بارڈر کے دونوں اطراف زيادہ تر ايک ہی قبيلے کے لوگ رہتے ہيں جنہیں باڑ نے جدا کر ديا ہے۔ عطااللہ خان کا تعلق باجوڑ کی تحصيل ماموند سے ہے۔ باجوڑ آٹھ تحصيلوں پر مشتمل ضلع ہے جب کہ سرحد پار افغانستان کا کنڑ کا علاقہ اس سے متصل ہے۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے عطااللہ خان نے بتايا کہ باڑ لگانے سے ان کا علاقہ بہت متاثر ہوا ہے۔ ان کے مطابق، باجوڑ ميں دو قوميں، ترکانی اور عثمان خيل، آباد ہيں۔ باجوڑ کی آٹھ تحصيلوں ميں سے چھ ترکانی قوم پر مشتمل ہيں جب کہ بارڈر کے اُس پار سات تحصيلوں ميں ترکانی قوم آباد ہے۔ عطااللہ خان کے مطابق، روس کے ساتھ جنگ کے بعد افغانستان سے متاثرين ترکانی قوم کے علاقوں ميں آباد ہوئے جس سے دونوں کے درميان رشتے داری بھی ہوئی۔ ان کے بقول، اس علاقے میں برف باری زيادہ ہوتی ہے تو يہاں کے لوگ اپنے مال مويشی سرديوں ميں سرحد پار چرانے کے لیے بھيج ديتے تھے۔ ليکن، اب ايسا ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق، سرحد پار ان کی مشترکہ زمينيں ہيں اور وہ وہاں سے کپاس، گندم اور جو سميت متعدد فصليں لايا کرتے تھے، جو اب ان کی نہيں رہيں، جس سے علاقے کے مکين بہت زيادہ نقصان کا شکار ہيں۔ پاکستانی فوج اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ ميڈيا سے بات کرتے ہوئے پشاور کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظہر شاہين کا کہنا تھا کہ باڑ کا مقصد ہر گز دو قوموں يا رشتہ داريوں کو تقسيم کرنا نہیں ہے۔ باڑ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد دہشت گردی روکنا ہے اور اس ضمن ميں کافی کاميابی بھی ملی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ميں نماياں کمی بھی اب قوم کے سامنے ہے۔ ان کے مطابق، مستقبل ميں عوام کی سہولت کے لیے مختلف علاقوں ميں کراسنگ پوائنٹس بھی کھولے جائيں گے، تاکہ بارڈر کے دونوں اطراف کے خاندان آپس ميں طورخم بارڈر کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی مل سکيں۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ان الزامات کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکہ "اس انتہائی سنگین معاملے" کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ واشنگٹن — امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے عراقی فوجیوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی اطلاعات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ بعض عراقی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے گزشتہ ماہ بغداد کے شمال میں واقع بلاد کے علاقے میں عراقی پولیس پر حملوں کے دوران کلورین بم استعمال کیے تھے۔ رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے کلورین گیس سے بھرے گھریلو ساختہ بموں کے حملوں کے نتیجے میں پیلا دھواں بلند ہونے کے باعث عراقی حکام کو شبہ ہوا ہے کہ شدت پسند ان کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان الزامات کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکہ "اس انتہائی سنگین معاملے" کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حکام ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی مختلف ذرائع سے تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔ شام کے سرحدی قصبے کوبانی پر دولتِ اسلامیہ کے حملوں کے خلاف مزاحمت کے دوران زخمی ہونے والے کرد جنگجووں کے ایک معالج نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ انہوں نے بھی رواں ہفتے لگ بھگ 20 ایسے افراد کا علاج کیا ہے جن میں کلورین گیس سے متاثر ہونے کی علامات موجود تھیں۔ ڈاکٹر دارا محمود ان چار ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو اب بھی کوبانی میں موجود ہیں اور وہاں لڑنے والے کرد جنگجووں کو طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر دارا نے 'وی او اے'کی کرد سروس کو ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا ہے کہ منگل کو ان کے پاس جن زخمیوں کو لایا گیا تھا انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، ان کی آنکھوں سے پانی رواں تھا اور وہ سر درد اور متلی کی شکایت کر رہے تھے۔ ڈاکٹر دارا کے بقول ان زخمیوں کے ہونٹ سوجے ہوئے تھے جب کہ ان کے جسم پر سرخ داغ تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کسی کیمیائی ہتھیار کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل عراقی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے ستمبر میں بغداد کے مغرب میں واقع سقلوایہ کے فوجی اڈے پر حملے کے دوران بھی کلورین بم استعمال کیے تھے۔ گزشتہ ماہ کیمیائی ہتھیاروں کے عدم استعمال کے عالمی ادارے نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسے رواں سال کے آغاز میں شام کے شمالی دیہات میں کلورین گیس کے متواتر اور منظم حملوں کے شواہد ملے تھے۔ تاہم عالمی ادارے نے کہا تھا کہ اسے حملوں میں ملوث افراد کے بارے میں واضح شواہد نہیں مل سکے ہیں۔ خیال رہے کہ شام کا یہ علاقہ اب دولتِ اسلامیہ کے قبضے میں ہے۔ رواں سال جولائی میں عراق میں اپنی پیش قدمی کےد وران دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے مثانہ کے علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے ایک گودام پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ تاہم اس وقت امریکی اورعراقی حکام نے کہا تھا کہ گودام میں موجود ہتھیار بہت پرانے تھے اور ان میں استعمال میں کیا جانے والا کیمیکل اپنا اثر کھو بیٹھا تھا۔ کلورین گیس انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن گیس کی شکل میں اس کی تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ کلورین سے بننے والے کیمیکلز پانی کی صفائی، کھاد کی تیاری اور دیگر صنعتوں میں عام استعمال کیے جاتے ہیں اور اسی لیے یہ بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔
سڈنی: آسٹریلیا میں مسافر بردار طیارے کے پائلٹ پر دوران پرواز اچانک نیند طاری ہوگئی جس کے باعث طیارہ ہوائی اڈے سے 46 کلومیٹر آگے نکل گیا۔ تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا میں 9 مسافروں کو لے کر نجی ایئرلائن کا چارٹرڈ طیارہ اڑانے والا پائلٹ نیند کے باعث ڈیون پورٹ سے کنگ آئی لینڈ کے ہوائی اڈے سےایک دو نہیں بلکہ 45 کلومیٹر آگے نکل گیا، جس سے کنٹرول ٹاور پر تشویش پیدا ہوگئی۔ برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ چارٹرڈ طیارے میں کل 9 مسافر سوار تھے لیکن کاک پیٹ میں پائلٹ اکیلا تھا جس کی وجہ سے اسے نیند آگئی، خیال رہے کہ پائلٹ کی گزشتہ 24 گھنٹے میں یہ ساتویں پرواز تھی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آسٹریلین حکام کی جانب سے پائلٹ پر نیند طاری ہونے کے واقعے سے متعلق تحقیقات کا آغاز کردیاگیا ہے، آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو تمام امور کا باغور جائزہ لے رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پائلٹ پر نیند طاری ہونے کا اندازہ جہاز کے 46 کلومیٹر آگے نکلنے سے ہوا، طیارے کو 240 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔لیکن طیارے نے 286 کلومیٹر کا سفر کیا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں پائلٹ کی صحت اور آرام سے متعلق بہت سخت قوانین ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ تھکن سے چورپائلٹ دوبارہ پرواز کے لیے بھیج دیا جائے۔ یہ طیارے کے عملے سمیت مسافروں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ آسٹریلین ٹرانسپورٹ سیفٹی بیورو کا کہنا ہے کہ پائلٹ کی دوران پرواز نیند سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ آئندہ برس جاری کی جائے گی تاہم اے ٹی ایس بی نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ پائلٹ کی نیند سے آنکھ کیسے کھلی اور اس نے پرواز کو باحفاظت کیسے اتارا۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ برس میلبرن سے کنگ آئی لینڈ جانے والا ایک چارٹرڈ طیارہ پرواز کے کچھ دیر بعد حادثے کا شکار ہوا تھا جس کے نتیجے میں 5 مسافر ہلاک ہوئے تھے۔
Q. یہاں رمضان میں مجھے تراویح پڑھانا ہے، یہاں کیوں کہ آٹھ تراویح ہوتی ہے، تو میں باقی تراویح کب پڑھوں؟ کیوں کہ وتر بھی میں ہی پڑھاؤں گا۔ (۲) یہاں وتر دو سلام سے ہوتی ہے، پہلی دو رکعت ایک سلام کے ساتھ اور تیسری رکعت ایک سلام کے ساتھ اور آخری رکعت کے قومہ میں دعا پڑھتے ہیں۔ یہاں مجھے تراویح اور وتر پڑھانی ہوگی۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ لازمی دو سلام کے ساتھ وتر پڑھو، میں مسلکاً حنفی ہوں تو میں کیا کروں؟بعد میں اپنی وتر دوبارہ پڑھوں یا اسی میں ادا ہوجائے گی؟ شریعت کی روشنی میں جواب سے نوازیں۔ 2213 مناظر Q. رمضان سے ایک دن پہلے کا روزہ جسے نفلی روزہ کی نیت سے کیا گیاہویہ روزہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ براہ کرم، جواب دیں۔ 3398 مناظر Q. شعبان کے نفل روزوں کے بارے میں سناہے کہ یہ بدعت ہے۔ براہ کر م، تفصیل سے جواب دیں۔ 2317 مناظر Q. میرا ایک بھائی ایک دماغی مرض (manic depression) سے دوچار ہے اور وہ نفسیاتی فریب کا شکار ہے جیسے ہذیان، آوازوں کا سننا، یہ سمجھنا کہ اللہ اس سے کلام کرتے ہیں وغیرہ ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا روزہ رکھنا اس کے اوپر فرض ہے؟ وہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے دوا لیتے ہیں لیکن وہ صد فی صد نارمل نہیں ہوتے۔ دوا سے اس کو کچھ حد تک راحت ہوجاتی ہے۔ جواب کے لیے شکر گزار ہوں گا۔ 1328 مناظر Q. مجھے ایک بات میں آپ سے مشورہ چاہیے تھا۔ میں دبئی میں رہتا ہوں اور یہاں کی عید کی صبح کراچی کی فلائٹ ہے میری، تو میں اس دن روزہ رکھ لوں؟ کراچی میں تو روزہ ہوگا۔ 2408 مناظر Q. کیا ماہ رمضان میں ہم کسی مسجد یا کسی کھلی جگہ یا کسی عبادت گاہ میں نماز تراویح ادا کرسکتے ہیں؟اگر پردہ کا نظم ہو تو کیا عورتیں بھی مردوں کے ساتھ باجماعت نماز تراویح میں شریک ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ 3281 مناظر Q. کیا ماہ رمضان کی راتوں میں مجامعت کرنا درست ہے؟ 2254 مناظر Q. میرے بھائی اس وقت بلجیم کے بارڈر پر فرانس میں رہتے ہیں۔ وہاں کا دن (فجر سے مغرب ) کا درمیانی وقفہ بائیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ کیا وہاں روزہ کی ادائیگی کی سلسلے میں کوئی رعایت ہوسکتی ہے؟ 1622 مناظر Q. میں دس ماہ کے بچے کی ماں ہوں۔ گذشتہ سال پیدائش کے بعد رمضان شروع ہوگیا اور میں پورے ماہ کا روزہ نہ رکھ سکی۔ اب دوسرا رمضان آنے والا ہے اور ابھی بھی بچے کو دودھ پلارہی ہوں، چناں چہ ابھی تک گذشتہ رمضان کا روزہ قضا نہیں کرسکی۔ میں اس کا کفارہ کیسے ادا کروں؟ از راہ کرم سہل ترین امر کی طرف رہنمائی فرمائیں۔ 2958 مناظر Q. یہ کہاں تک درست ہے کہ برطانیہ کے لوگ رویت ہلال کے سلسلے میں سعودی عرب کی اتباع کریں؟ کیا وہ چاند دیکھتے ہیں؟ (۲) اہل برطانیہ کو کیا کرنا چاہیے؛ اس سلسلے میں مفتی صاحب کی رائے کیا ہے؟ (۳) امام ابوحنیفہ کی رائے یہ تھی کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہے؛ اسی بنیاد پر نیز علامہ شامی کی رائے کی بنیاد پر کیا برطانیہ کے لوگ آسٹریلیا یا دنیا کے کسی ملک کی اتباع کرسکتے ہیں؟ 2677 مناظر Q. رمضان میں روزہ کے دوران ایک شخص نے ایک چھوٹی بچی (چا رسالہ) کو پکڑا اور اس کے اوپر لیٹا۔ اس درمیان اس کی منی خارج ہوئی لیکن دخول نہیں کیا۔ کیا اسے کفارہ میں مسلسل ساٹھ دن کا روزہ رکھنا ہوگا، یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا یا صدقہ دینا ہوگا؟ اس گناہ سے پاک ہونے اورتوبہ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ 2272 مناظر
صنعاء :یمن کے شہر عدن میں گورنر کے قافلے پربم حملے میں 5 افراد ہلاک ہوگئے ، گورنر حملے میں بال بال بچ گئے ۔ بم دھماکہ کار کے ذریعے کیا گیا ۔ عرب میڈیا کے مطابق یمن کے شہر عدن میں گورنر اور وزیرماحولیات ایک سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لئے سفر میں تھے ۔گورنر کی گاڑی کو ایک مقام پر کارمیں نصب بم کے ذریعے اڑانے کی کوشش کی گئی ۔ بارودی مواد سے بھری کار کو گورنر کی گاڑی تک پہنچنے سے روک لیا گیا تاہم کار بم دھماکے میں 5 افراد ہلاک ہوگئے ۔ واقعہ میں گورنر اوروزیرقانون دونوں ہی محفوظ رہے ۔ کاربم دھماکے کے بعد گورنر عدن احمد لاملاس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں لیکن ا س کا ر بم حملے میں سیکورٹی پر مامور اہلکار مارے گئے ہیں ۔ گورنر نے اس کار بم دھماکے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ایسے واقعات سے عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوگا ۔
لاہور سمیت پنجاب بھر میں 60 دن کے لیے رینجرز تعینات کر دی گئی، وزارت داخلہ کی طرف سے نوٹی فی کیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب میں رینجرز بلانے کا اعلان کیا ، ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی پی ایل عسکریت پسند ہو چکی ہے،پنجاب حکوت جہاں چاہیے رینجرز کو استعمال کر سکتی ہے۔ شیخ رشید کاکہنا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کی قیادت سے 6 مرتبہ مذاکرات کیے،انہوں نے عید میلاد کے جلوس کو احتجاج میں تبدیل کیا، ہم سے وعدہ کیا تھا کہ راستے کھول دیں گے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کالعدم جماعت کی باتوں سے لگتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے، سادھوکی میں مظاہرین نے کلاشنکوف سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس سے 3پولیس اہلکار شہید، 70زخمی ہو گئے، 8 کی حالت تشویشناک ہے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ فرانس کا سفیر پاکستان میں موجود نہیں ہے، فرانسیسی سفارتخانہ بند نہیں کر سکتے، پاکستان پر کافی دباو ہے، چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو۔ میں اپنے وعدے پر قائم ہوں یہ خاموشی سے واپس چلے جائیں اور جذباتی نعروں سے گریز کریں،یہ نہ ہواس تنظیم پرعالمی پابندی لگ جائےپھرمعاملہ ہمارےبس میں بھی نہیں ہوگا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ان کا اس تنظیم سے کوئی تعلق رہا نہ ہی کبھی ان کے مظاہرے میں شریک ہوئے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی، مولانا فضل الرحمان ملک کی سنجیدگی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
تعلیم معاشرے کی ترقی کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے، جو قوم تعلیم حاصل کرتی ہے اورسائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں تربیت حاصل کرتے ہوئے نئے علم کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے، وہی ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوتی ہے اور جو قوم تعلیم و تربیت سے دور ہوکر توہم پرستی اور اندھ وشواسوں میں پڑ جاتی ہے، وہ ترقی کی راہ میں بھی پچھڑجاتی ہے، یعنی تعلیم و تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔ تعلیم کسی بھی شخص کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں مختلف برادری تعلیم کو خصوصی اہمیت دے رہی ہیں، اس معاملے میں مسلم معاشرہ اب بھی بہت پسماندہ ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں مسلمان خواتین کی حالت بے حد بدتر ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب تلاش کرنے کے لئے ۲۰۰۵ء میں منموہن سنگھ حکومت نیجسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس کا اصل مقصدپورے ملک کا سروے کرکے مسلمانوں کی معاشی تعلیمی اور معاشرتی حیثیت کا پتہ لگانا تھا۔ جسٹس راجندر سچر نے پورے دیانتداری اور محنت کے ساتھ پورے ملک کا جائزہ لیا۔اس تشخیص کے دوران، مرکزی حکومت ، ریاستی حکومت کے مراکز ، سرکاری و نیم سرکاری ،نجی تعلیمی مراکز اور مدارس وغیرہ کے تحت تمام محکموں کو شامل کیا گیا۔ ان جگہوں پر مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے اور ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کیا ہے؟ اس رپورٹ میں مسلمانوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن اس مضمون میں، مسلمانوں کی تعلقی حیثیت مقصودہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو سمجھنے کے لئے، یہ بہت ضروری ہے کہ ان کے معاشرتی تانے بانے کو سمجھا جائے۔ مسلمانوں میں ذات پات: سچر کمیٹی کی رپورٹ میں، مسلمانوں کے اندر ذات پات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ذات پات اسی طرح موجود ہے جیسے ہندوؤں میں۔ ذات پات کا یہ نظام مسلم پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں، عرب مسلم تاجر تجارت کی غرض سے بھارت آئے اور بہت سے لوگوں نے ان سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا، جس میں زیادہ تر ہندو مذہب ترک کرکے مسلمان ہوئے تھے، اس لئے ہندوؤں میں موجود ذات پات کا نظام مسلمانوں میںبھی موجود رہا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کے تین درجوںکی نشاندہی کی گئی۔ ۱۔اشراف ۲۔اجلاف ۳۔ارذال شادی،بیاہ اور رشتہ داری کے معاملے میں ذات پات اور اونچ نیچ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اشرف ذاتوں میں شیخ ،سید ، مغل اور پٹھان شامل تھے، بعد میں راجپوتوں کوبھی شامل کیا گیا۔ اشرف کی برتری کی وجہ ان کا غیر ملکی ہونا سمجھا جاتا ہے، جو محض افسانوی ہے۔ اجلاف میں محنت کش طبقہ جیسے جلاہے آتے ہیں۔ نائی، دھوبی ،بھنگی، چمار، کنجڑے ،قصائی اور نچلی ذاتیں ارذال ہیں۔ نچلی ذات کو اچھا کھانا کھانے جیسے پلائو یا بریانی بنانے، تعلیم حاصل کرنے ، اسلامی نام رکھنے اور یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں پکے مکانات بنانے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ پردہ صرف اشراف کی خواتین کے لئے مخصوص کیا گیا تھا، اور دوسرے طبقوں کی خواتین کو پردے سے روکاجاتا تھا۔ نچلی ذات کی خواتین اشراف کی خوشنودی اور جنسی تسکین کا سامان تھیں۔ کچھ نچلی ذات کی خواتین جیسے کنجر ذات کی عورتوں کو طواف بنایا جاتاتھا۔ مسلمان فرقے اور اسلامی مسلک: آج کے مسلم اسلام کو ماننے کے طریقے یعنی مسلک کی بنیاد پرمتعدد فرقوں میں منقسم ہیں۔ بنیادی طور پر دو ہی فرقے سنی اور شیعہ ہیں، لیکن ان فرقوں کو بھی کئی اور فرقوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں صرف کچھ اہم فرقوں کے نام لکھے جارہے ہیں۔ اہل سنت الجماعت:۔مقلد : (۱)حنفی: بریلوی ،دیوبندی(۲)شافعی(۳)مالکی(۴)حنبلی غیر مقلد(۱) اہل قرآن (۲)اہل حدیث(۳)جماعت اسلامی شیعہ:۔(۱)اثنا عشریہ(۲) فقہ جعفریہ (۳ ) باطنیہ (۴ )علویہ اس کے علاوہ احمدیہ وغیرہ اور بھی بہت سے فرقے ہیں ۔ جن کے ماننے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ ان تمام فرقوں میں اسلام مذہب کو لے کر بہت زیادہ نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو کافرکہتے ہیں ۔ ان کی مساجد الگ الگ ہیں، آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ان کے قبرستان بھی الگ الگ ہیں۔ مسلمانوں کا عالمی منظرنامہ: موجودہ دور میں، مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا گراف تشویشناک ہے۔ ۵۷ آزاد خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی تقریباً سوا ارب ہے۔ اس آبادی کا چالیس فی صد حصہ ناخواندہ( ان پڑھ) ہے۔ عالمی سطح پر، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسلم عوامی وسائل صرف چار فیصدہیں۔ سائنس سے متعلق ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں اور بیس لاکھ سائنسی تحقیقی مقالے ہر سال شائع ہوتے ہیں جبکہ اسلامی ممالک میں سائنسی کتابوں اور تحقیقی مقالوں کی کل تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔ یہ سب صرف مسلم آبادی کی موجودہ تعلیم سے دوری اور ان کی پریشان کن تعلیم پسماندگی کا ثبوت ہے، اسی طرح دینی تعلیم میں بھی مسلمانوں کی ترقی قابل ذکر نہیں ہے۔ مسلمان دنیا بھر میں کتابیں پڑھنے والوں کی فہرست میں بھی پیچھے ہیں۔ یورپ میں، فی فرد سالانہ 35 کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ اسرائیلی سال میں اوسطا ً40 کتابیں پڑھتے ہیں۔ جبکہ مسلمان سالانہ ایک یا کم کتاب پڑھتے ہیں۔ عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل رپورٹ 2011 کے مطابق، یورپی شہری سال میں 200 گھنٹے پڑھتے ہیں، جبکہ عرب مسلمان سال میں صرف 6 منٹ پڑھتے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکارممکن نہیں ہے۔ اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر گہری نگاہ ڈالیں تو ہمیں خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ کسی ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی میںتعلیم کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ تمام ترقی یقفتہ ممالک تعلیم بھی سب سے آگے ہیں،جو انھیں نہ صرف بیرونی ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی حیثیت: ہمارا ملک ہندوستان تعلیم اور ٹکنالوجی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ آج تقریباً 80 فیصدآبادی کے خواندگی کا دعوے کیے جا رہے ہیں۔ خواندگی کے معاملے میں ہندوستان کی پسماندگی کی سب سے اہم وجہ دلتوں اور پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی تعلیم سے دوری ہے۔ اگر طبقات کے اعتبار سے خواندگی پر نظر ڈالیں تو ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق، اقلیتوں کی آبادی یعنی مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ اور زرتشت اور ان کی خواندگی کی شرح مندرجہ ذیل ہے۔ شمار معاشرہ آبادی کی شرح خواندگی کا فیصد 1 مسلمان 12.4% 59.1% 2 عیسائی 2.3% 80.3% 3 سکھ 1.9% 69.4% 4 بدھ 2.7% 0.8% 7 5 زرتشترین 0.007% 97.9% جسٹس سچر نے اپنی رپورٹ میں پیش کیا کہ مسلمان اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں، نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی معاشرتی طور پر دیگر قوموں کے مقابلے میں اچھی پوزیشن میں ہیں۔ تعلیم کے میدان میں اور بھی انتہائی پسماندہ ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں ہندوستان کے دلتوں اور قبائلی قسم کے پسماندہ طبقات سے بھی پیچھے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کی حالت اور بھی خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میںاور پچھڑتے جا رہے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، 25فیصدمسلم بچے یا تو کبھی اسکول ہی نہیں جاتے ہیں یا جاتے ہیں، توبیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں عام رجحان ہے کہ وہ بنیاد پرست اور قدامت پسندہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے بچوں کو مدرسوں میں دینی تعلیم حاصل کرواتے ہیں، لیکن سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اس وہم سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ مدرسوں میں 4% سرکاری اسکولوں میں 66% نجی اسکولوں میں 30% آج ہندوستان کی مسلم آبادی 14.23 فیصد ہے جبکہ بھکاریوں میں وہ 25 فیصد ہیں۔ سچر کمیشن کی رپورٹ میں پہلے ہی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہوگئی ہے۔ آج بھی، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے چودہ سال بعد بھی، مسلمانوں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں ہوسکی، تعلیم ،ملازمتوں اور انسانی ترقی کے دیگر اشاریوں میں بھی صورتحال ویسے ہی بنی ہوئی ہے، کچھ معاملات میں ان کی حالت اور بھی بدتر ہوگئی ہے۔ 2001 سے 2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن آج بھی مسلم معاشرے کی آمدنی دوسری برادری کے مقابلے میں کم ہے۔ کچھ اشارے درج ذیل ہیں: فی شخص اوسطا ً خرچ 33 روپیے سرکاری ملازمتوں میں مسلمان 5 فیصد سے کم ہیں آئی اے ایس اور آئی پی ایس میں 3 فیصد فوج اور سیکیورٹی فورس 3.2 فیصد ریلوے 4.5 فیصد بینک 2.2 فیصد ناقص تعلیمی حالات اور مہارت کی کمی کی وجہ سے روزگار کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم اور روزگار نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی غربت ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں، بچے اور بوڑھے لوگ غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مسلمان اقلیتی طبقہ کے تین چوتھائی حصہ ہے۔ ان کی نشوونما کے بغیر، ہندوستان ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مسلمانوں کی حالت کے اسباب اور اقدامات: مسلم معاشرہ بہت سارے مذہبی مسالک اور حلقوں میں اس قدر منقسم ہے کہ ان کے مابین کوئی بات چیت نہیں ہوتی ہے۔ ہرمسلک کے لوگ صرف اپنے مولویوں اورمفتیوں کی بات سنتے ہیں۔ عام طور پر مولوی اور مفتی تعلیم پر زور نہیں دیتے ہیں، کیوں کہ تعلیم انسان کو اندھی مذہبیت سے باہر نکال دیتی ہے، اور مولوی نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے پیروکار ان کی گرفت سے باہر نکل جائیں۔ پیروکار جتنے زیادہ ہوں گے، اتنا ہی زیادہ وہ عام انتخابات میںتول مول کرسکتے ہیں۔ تمام مسالک کے بیشتر مسلم مذہبی پیشوا شیخ ،سید ،مغل ،پٹھان یعنی اشراف ہیں اور وہ اجلاف اور ارذال کو تعلیم کا اہل نہیں سمجھتے ہیں،لہٰذا صرف مذہبی رسومات یعنی روزہ ،نماز، حج اور زکوٰۃ کے ہی درس دیئے جاتے ہیں اور دینی تعلیم پر دنیاوی تعلیم کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ موجودہ مسلم نسل کے درمیانے طبقے کے اندر ایک خاص قسم کا خود اطمینان، کاہلی اور خود غرضی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خود پسندی میں گرفتارہے اور دوسروں کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک مسلم تاجر طبقہ ہے جواپنے اپنے مسلک کے مولوی مفتی کے زیر تسلط رہتے ہیں اور صرف کمانے اور دکھاوے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان حالات میں، مسلم معاشرے کو اس صورتحال سے دور کرنا اور آگاہی پھیلانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ قوی امیدہے کہ کچھ عرصے بعد، اسی متوسط اور کاروباری طبقہ میںبیداری آئے گی اور معاشرے میں تعلیم کے پھیلاؤ میں اضافے کے لئے زمین ہموار ہو گی۔ مذکورہ بالا صورتحال شمالی ہندوستان کی ہے۔جنوبی ہند کے مسلمانوں میں مذہبی اور معاشرتی فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اور کچھ ادارے مسلم معاشرے میں کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہے۔ مسلم معاشرے میں چلائے جانے والے زیادہ تر پروگرام مذہبی وابستگی سے باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ جدید تعلیم، نئی تربیت کے لئے جو کام مسلم علاقوں میں ہونا چاہئے، وہ نہیں ہو رہا ہے، اور یہ کام مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے۔ دلت آبادیوں اور مسلم آبادیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ غریب مسلمان اور دلت لوگ پسماندہ بستیوں میں رہتے ہیں، جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سڑکیں، بجلی، پانی، صحت کے مراکز، اسکولوں وغیرہ نہیں کے برابر ہیں، اور اگرہیں بھی تو ان کی حالت خراب ہے۔ دلت مسلمانوں سے زیادہ بیدار ہیں۔ انہیں جیوتی راؤ پھولے اور امبیڈکر کی میراث حاصل ہے۔ کچھ حکومتی پالیسیوں اور تحفظات کی وجہ سے دلت تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہوچکے ہیں، جس سے مسلمان محروم ہیں۔ غریب مسلم بچوں کے ساتھ اسکولوں میں تفریق اور امتیازی سلوک کرتے ہوئے انہیں بار بارپریشان کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر مسلمانوں کی معاشی حالت بھی کمزور ہے جس کی وجہ سے ان کے بچے اسکولی تعلیم اور اعلی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں،اس لئے پڑھائی بیچ میں چھوڑدیتے ہیں۔انہیں خاندان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چھوٹے موٹے کام سیکھ کر یا مزدور کی حیثیت سے کام کرکے اپنی زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ مسلم خواتین کی تعلیم پر عام عقیدہ یہ ہے کہ وہ پردہ کرتی ہیں،گھروں میں قید ہیںاس لئے ان پڑھ ہیں۔ تنگ نظر افراد نے مسلم خواتین کو نئی تعلیم وتربیت سے دور رکھ کر صرف دینی تعلیم پر زور دیا ہے۔ مسلم مذہبی بنیاد پرستوں نے مذہب کا سہارا لے کر خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے ہوئے، زویا حسن لکھتی ہیں کہ: \’\’ایک مسلمان عورت کی ہندوستان میں تعلیم نہ لینے کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ ان کا مقام شیڈول ذات کے جیسا ہے، جس کی وجہ سے شیڈول ذات کی عورتیں نہیں پڑھ سکتی ہیں۔ مذہب اور پردہ اتنی بڑی وجہ نہیں ہے۔ معاشرتی اور معاشی پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے، مسلمان عورت کی حیثیت کو بخوبی نہیں سمجھا جاسکتا۔ \’\’ ایسا کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ مسلم سماج کے طبقاتی منقسم طبقوں میں معاشرتی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، روزگار اور مہارت کی ترقی وغیرہ میں کتنے فیصد اشراف، اجلاف اور ارذال ہیں۔ قیاس آرائی کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اشراف ایک متوسط طبقہ ہے، اجلاف پسماندہ ہے اور ارذال بے حدپسماندہ ہے۔ جسٹس سچر نے جو کچھ کہا ہے وہ مسلم برادری کے ایک بڑے طبقہ اجلاف اور ارذال پر ثابت ہوتاہے کہ وہ دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہیں۔
اسلام آباد: احتساب عدالت میں پارک لین ریفرنس کی سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکلا اور نیب پراسیکیوٹرز کے درمیان شدید گرما گرم ہوگئی جس پر جج بھی برہم ہوگئے۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آصف زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس پر سماعت ہوئی جس دوران سابق صدر کے وکیل نے پارک لین ریفرنس میں ٹرائل کے خلاف نئی درخواست دائر کردی۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے نئی درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست تو پہلے سے دائر ہے اور نئی درخواست تاخیری حربہ ہے، پہلی درخواست میں جو باتیں کی گئیں، دوسری درخواست میں بھی وہی بیان کی گئیں، ان کو رات کو خواب آ جاتا ہے کہ صبح نئی درخواست دائر کرنی ہے۔ مظفر عباسی نے کہا کہ درخواست بھاری جرمانے کے ساتھ مسترد کی جائے، فردجرم عائد کرنے کے فیصلےکے بعد ریفرنس خارج کرنے کی درخواست دائر نہیں ہو سکتی، کراچی میں فرد جرم عائد کرنے کیلئے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے، آصف زرداری کی نئی نئی درخواستوں کا مقصد تاخیری حربے اپنانا ہے۔ اس دوران آصف زرداری کے وکلا اور نیب پراسیکیوٹرز کے درمیان شدید گرما گرمی ہوئی جس پر احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوہوئے وکلا کو تنبیہ کی۔ احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ آپ کیوں شور کر رہے ہیں؟ یہاں کسی کو سیاست نہیں کرنے دوں گا، چیخ کیوں رہے ہیں؟ میں کسی کو اپنی عدالت میں چیخنے کی اجازت نہیں دے سکتا، عدالت کو سیاسی اکھاڑا مت بنائیں۔ س موقع پر فاروق نائیک نے کہا کہ سردار مظفر عباسی کو خواب والے ریمارکس پر معافی مانگنی پڑے گی، اس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ میں معافی نہیں مانگوں گا۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے سردار عثمان بزدار دور میں بنائے 2 نئے اضلاع سمیت 3 اضلاع کی حتمی منظوری دے دی، پنجاب حکومت کی طرف سے نئے اضلاع میں تونسہ شریف اور کوہسار کو ضلع بنانے کی منظوری دی گئی جب کہ وزیر آباد کو بھی ضلع بنانے کی حتمی منظوری دے دی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ تونسہ شریف ، کوہسار اور وزیر آباد کو اضلاع بنانے کے بارے میں سمری متعلقہ محکموں کو ارسال کر دی گئی، تونسہ اور کوہسار کو اضلاع بنانے کا عمل سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ More More Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email Print
نئی دہلی: شعبہ اردو کے طلبا کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’بزمِ جامعہ‘ سیشن 2022-23 کی تشکیلِ نو عمل میں آئی۔ رواں میقات میں بزمِ جامعہ کے صدر خود صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر خالد مبشر کو ایڈوائزر مقرر کیا اور ان کے ساتھ اساتذہ میں پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر خوشتر زریں ملک اور ڈاکٹر راحین شمع کو بزمِ جامعہ کا رکن نامزد کیا۔ آج یہاں جاری ریلیز کے مطابق طلبا میں سے بزمِ جامعہ کے عہدہ داران اور اراکین باضابطہ الیکشن کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ سفیر صدیقی (ایم۔ اے۔ سمسٹر سوم) نائب صدر، عبدالرحمٰن عابد (ایم۔ اے۔ سمسٹر اول) جنرل سکریٹری، داؤد احمد (بی۔ اے۔ سمسٹر پنجم) جوائنٹ سکریٹری اور زاہد اقبال (بی۔ اے۔ سمسٹر سوم) خازن منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ ہر کلاس سے ایک طالب علم اور ایک طالبہ کو بزمِ جامعہ کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جن میں ایم۔ اے۔ سمسٹر سوم سے محمد مہتاب عالم اور مسکان، ایم۔ اے۔ سمسٹر اول سے محمد ثاقب اور نازنین خاتون، پی جی ڈپلوما ماس میڈیا سے عبدالواحد رحمانی اور اقرا خاتون، بی۔ اے۔ سمسٹر پنجم سے محمد جیلانی اور سعدیہ احمد، بی۔ اے۔ سمسٹر سوم سے محمد اظہر شمشاد اور نبیلہ کوثر اور بی۔ اے۔ سمسٹر اول سے محمد رضاء الرحمٰن اور صدف معین بزمِ جامعہ کے اراکین منتخب ہوئے۔ صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے بزمِ جامعہ کے نومنتخب عہدہ داران اور اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نوتشکیل شدہ بزمِ جامعہ شعبہئ اردو میں صحت مند علمی اور ادبی فضا قائم کرنے میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے طلبا کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی۔ واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبجیکٹ ایسوسی ایشن کے دستور کے مطابق ہر شعبے کی ایک طلبا تنظیم ہوتی ہے، جس کا مقصد تعلیمی اور ہم نصابی سرگرمیاں انجام دینا ہے۔
ڈرامے کی صنفہ نے غلطی سے 10 دیگوں کا مصالحہ ایک ہی دیگ میں ڈال کر پکا دیا اور اس کے ساتھ سویٹ ڈش کا اہتمام بھی نہیں کیا۔ رابعہ الرباء منگل 8 نومبر 2022 10:00 ڈرامے کی ہر قسط میں ایک پرانا جملہ یاد آتا ہے ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ (اے آر وائی فیس بک پیج) ڈراما ’تقدیر‘ افسانہ تقدیر نہیں، بس بہانہ تقدیر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ایک خاص گھریلو مزاج چاہیے۔ ڈرامے کا نام رشتے والی آنٹی یا اس قسم کا کچھ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ کوئی قسط ایسی نہیں گزری جس میں ان تین گھرانوں کو ایک ہی وائرس کا شکار نہ پایا ہو۔ تین گھرانوں کا ایک ہی مسئلہ ہے ’رشتہ‘۔ یقین کیجیے سب گھرانوں کو کسی نفسیاتی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔ رومی اپنے کردار میں شہزادیوں، پریوں جیسی فٹ دکھائی دے رہی ہے۔ جس کو بدنصیب ثابت کرنے کے لیے اتنے سارے کردار کام کر رہے ہیں۔ ہر قسط میں ایک پرانا جملہ یاد آتا رہا ’ساس بھی کبھی بہو تھی۔‘ لاڈوں سے پالی اکلوتی بیٹیوں کو والدین اور بھائی گھر میں اگر کچھ نہیں سیکھاتے، ان کو عملی زندگی سے دور رکھتے ہیں تو ان کو تیار رہنا چاہیے کہ ان کی بچی زندگی میں دھکے کھا کر اور دھوکے کھا کر سیکھے گی۔ زندگی جتنی جلد شروع کر دی جائے اتنا جلد جینا آجاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تو آپ نے دوسرے کی زندگی لاڈ پیار میں روکی ہوئی ہے، دوم الزام تیسرے فریق یا نصیب پہ لگا رہے ہیں، تو کافی نامناسب اور نامعقول جواز ہے۔ اس کمی کو بدنصیب کہہ کر خود کو تسلی تو دی جا سکتی ہے لیکن سچائی سے منہ نہیں چھپایا جا سکتا۔ ڈرامے میں اس سچائی سے منہ چھپا کر ایک عجیب معمہ دکھایا جا رہا ہے کہ رومی کے نصیب اچھے نہیں۔ جب کہ اس کے نصیب میں زندگی سیکھنا، اسے برتنا غلط وقت اور نامناسب جگہ پر آیا ہے۔ اگر کسی نے بیٹی شہزادی کی طرح پالی ہے تو اسے کسی شہزادے سے بیاہ دیا کریں تاکہ یہ نصیبوں والی منطق تو بدلے کہ لڑکی سے نہیں اس کے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔ نصیب ہوتے ہیں، بالکل ہوتے ہیں لیکن جب تک ہم کسی کھیل میں حصہ ہی نہیں لیں گے، اپنے حصے کی کوشش ہی نہیں کریں گے، نہ دوسرے کو کرنے دیں گے، تب تک ہم کوئی ٹرافی حاصل نہ کرنے کا گلہ شکوہ نہیں کر سکتے۔ جب لڑکی اپنے سے نیچے گھر میں جائے گی تو اسے وہ سب کرنا پڑجاتا ہے جو اس نے کبھی نہ کیا ہو۔ اس میں بدنصیبی کیا ہے کہ ایک گھر کا ماحول نہ آپ نے دیکھا نہ پرکھا، اٹھا کر جلدی سے بیٹی بیاہ دی اور اب رونا رو رہے ہیں۔ ’ہائے نصیب‘۔ رومی نے زندگی کا جوحصہ اپنے والدین کے گھر میں سیکھ کر گزارنا تھا۔ وہ سسرال آ کر گزار رہی ہے تو وہی غلطیاں ہوں گی جو سیکھتے وقت ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ نصیب سے آگے بڑھتے ہیں تو سب مردانہ کردار شدت سے مصنوعی پن کا شکار ہیں اور عورتیں مادیت پرستی میں جتی ہوئی ہیں۔ ایک بچہ احمد اپنی پھوپھو سے پیار کر رہا ہے تو کیا جاتا ہے، اچھا پیغام ہی جا رہا ہے کہ رشتے کتنے اہم ہیں۔ بچے کیسے اپنے خون سے کشش محسوس کرتے ہیں۔ فطری سی بات ہے مشترکہ خاندانی نظام میں یہ محبتیں یونہی تقسیم ہوتی ہیں لیکن بھابھی جان نے اس محبت کو جان کا عذاب بنایا ہوا ہے۔ اگر بھائی بہن سے محبت کرتے ہیں تو بھی سہنا دشوار ہے۔ اگر بیٹے ماں سے محبت کرتے ہیں تو بھی مشکل ہے اگر ماں بیٹے سے پیار کرتی ہے تو کیوں۔ بس اگر مشکل نہیں ہے تو ایک شوہر اپنی بیوی سے پیار کر رہا ہے تو مزے کی بات ہے۔ ہائے ترسی ہو ئی سوچ ہمیں ڈراموں میں کب تک دیکھنی پڑے گی؟ جیسے پانچ انگلیاں برابر نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں اسی طرح والدین کی محبت کے حوالے سے ایک انگلی ہر گھر میں بڑی ہوتی ہے۔ اب وہ کوئی بھی بچہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کو مسئلہ بنانے کی بجائے فطرت بھی دکھایا جا سکتا تھا کہ اسد چونکہ پہلی اولاد ہے ماں کو اسے زیادہ انس ہے۔ اس لیے بھی اور اس لیے بھی کہ اسد کے چھوٹے بھائی نے ماں کی مرضی کے خلاف اور اسد کی شادی سے پہلے شادی کر لی، دونوں معمے مل کر ماں کی انا کا مسلہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنا ساس ہونا جا بجا ہائی لائٹ کرتی ہیں۔ جس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو، وہ یہی کرے گا جو اس ڈرامے میں ہو رہا ہے۔ یونہی تو نہیں کہتے ’خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔‘ مہرین کی ساس صاحبہ ڈٹ کے ٹی وی پہ ساس بہو والے ڈرامے دیکھ دیکھ کر اس پر اپنے ذاتی تجزیے کرتی رہتی ہیں۔ لیکن عملی زندگی میں وہ تجزیوں سے کوسوں دور ایک روایتی ساس ہیں۔ جو ساس وہ ڈراموں میں دیکھا کرتیں تھیں۔ ایسے ایسے گھریلو سیاست کے مناظر ہیں کہ ہمارا غیر سیاسی دماغ ان کو ہضم کرنے سے قاصر ہے۔ سوشل میڈیا پر سمجھ دار خواتین کی طرف سے شدید ردعمل ملتا ہے کہ’یہ ہمارے سماج کی تصویر نہیں ہے۔‘ ’ہر بہو ایسی نہیں ہوتی ۔‘ ’ہر ساس ایسی نہیں ہو تی۔‘ ’بیٹے ایسے نہیں ہوتے۔‘ اجی یہ سب پڑھ کر، دیکھ کر ہمیں تو لگا کہ جناب من ڈرامے بھی ایسے نہیں ہوتے۔ جو گھر لوکیشن میں دکھائے جا رہے ہیں، یہ ان گھروں کے مسائل نہیں ہوتے۔ جن کا ذوق معیاری ہو ان کے شوق اور سوچ بھی اکثر معیاری ہوتی ہے۔ مردوں کے کاروبار میزوں پر بیٹھ کے نہیں چلتے۔ سفر کی خواریاں بھی حصے میں آتی ہیں۔ زندگی کی بیماریاں حملے کرتی ہیں۔ بیٹے جب باپ کے کاروبار سنبھالتے ہیں ان سے 10 غطیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے باپ، باپ کے روپ میں سامنے دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس کا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ ایک غلطی سے کاروبار ڈوب جاتا ہے۔ جب بزنس مین کی میٹنگ چل رہی ہوتی ہے اس کی اخلاقیات کا پہلا سبق موبائل بنا آواز کے ہوتا ہے۔ یہاں عجیب و غریب مرد ہیں اور ہونق قسم کے واقعات سے سین بنے گئے ہیں۔ صرف ہیرو جی کے موبائل کا باجا بجتا ہے اور وہ شدید اداکاری کرتے ہیں۔ اب بزنس کا بہت بڑا حصہ لیپ ٹاپ اور موبائل پر منتقل ہو چکا ہے۔ بیک اپ میں ریکارڈ رکھا جاتا ہے فائلیں ماضی بن چکی ہیں۔ پرانے گھریلو ملازم اگر دکھائے ہیں تو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ پرانے خاندانی ملازم کو معلوم ہوتا ہے کیا پھیکنا ہے کیا نہیں۔ ایسی بڑے بلنڈر ہو جانے کے باوجود ابا حضور کو بزنس کی پروا نہیں، بیٹوں کے رشتوں کے مسائل پر بیگماتی گفتگو کروائی گئی ہے۔ ان سب مردوں کو کوئی مردانہ مسئلہ لاحق نہیں۔ ان کے مسائل ان کے گھر کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور ان کے چونچلے اٹھانے سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ایک کامیاب بزنس مین پڑھا لکھا نہ بھی ہو اس کی عمر بھر کی محنت اس کی باڈی لینگویچ سے ملتی ہے۔ ان مردوں میں محنت کا جو حسن موجود نہیں۔ وہ اثاثہ زیست ہوتا ہے جو یہاں دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے کاروبار نہیں چلتے، نہ ہی ایسے کاروبار زندگی چلتا ہے کہ مرد و عورت کے مزاج میں نشیب و فراز ہی نہ آئیں۔ نیشب وفزاز کے مزاج کے لیے بس ساسوں اور بہوؤں کو منتخب کیا گیا ہے۔ گویا بس وہی مکمل انسان ہیں باقی سب ہم کوئی غلام ہیں۔ صنفہ نے غلطی سے 10 دیگوں کا مصالحہ ایک ہی دیگ میں ڈال کر اسے پکا دیا ہے اور اس کے ساتھ سویٹ ڈش کا اہتمام بھی نہیں کیا۔ اس لیے مرچی زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور اس کا خیال پوری ٹیم نے نہیں رکھا کہ وہ پیش کیا کرنے جا رہے ہیں۔ اے آر وائی کو اپنے ڈراموں کے معیار اور سماج کی اصل صورت حال پر توجہ دینےکی اشد ضرورت ہے اور ہمیں بھی اپنے حصے کی محنت کیے بنا تقدیر اور دوسروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ جاوید دانش اپنی ڈراموں کی کتاب ’ہجرت کے تماشے‘ میں لکھتے ہیں ’ڈراما زندگی کے سفر کا علامتی اظہار ہے۔ انسانیت کو سمجھنے اور انسانی رشتوں کا سفر۔‘
ایک معاہدے میں جو آئی ٹی انڈسٹری کے سب سے بڑے ڈیٹا اسٹوریج فروشوں اور اس کی معروف سیکورٹی کمپنیوں میں سے ایک سے شادی کرتا ہے ، ای ایم سی کارپوریشن نے آج آر ایس اے سیکورٹی انکارپوریٹڈ کے حصول کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی۔ معاہدے کے تحت ، ہاپکنٹن ، ماس پر مبنی ای ایم سی کمپنیوں کے مطابق ، بیڈفورڈ ، ماس پر مبنی آر ایس اے کے لیے 28 ڈالر فی شیئر یا تقریبا 2. 2.1 بلین ڈالر ادا کرے گی۔ حصول تیسری سہ ماہی کے آخر میں یا اس سال کی چوتھی سہ ماہی کے اوائل میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ ای ایم سی کے چیئرمین ، صدر اور سی ای او جو ٹوچی نے کہا کہ 'مینڈیٹ ہمارے صارفین سے واضح ہے: ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے قابل ہونا چاہیے کہ معلومات محفوظ اور خفیہ ہو'۔ 'یہ وہ چیزیں ہیں جو RSA EMC پر لاتی ہیں۔' وہ ٹیکنالوجی کمپنی جو سیکورٹی کو انفارمیشن مینجمنٹ کے ساتھ مربوط کرتی ہے 'ٹیکنالوجی مارکیٹ پلیس میں بہت بڑی فاتح ہوگی اور وہ کمپنی EMC ہے'۔ زوم کیسے کام کرتا ہے؟ ٹوسی نے کہا ، 'EMC وہ جگہ ہے جہاں معلومات رہتی ہے ، اور RSA کے ساتھ ، یہ وہ جگہ ہے جہاں یہ محفوظ طریقے سے رہے گی۔ اس سے پہلے ، ایک میں بیان ، Tucci نے کہا کہ یہ معاہدہ 'سیکورٹی مارکیٹ کے زمین کی تزئین میں بنیادی تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔' آر ایس اے کے سی ای او اور صدر آرٹ کووییلو نے کہا ، 'آر ایس اے ای ایم سی صارفین کو یقین دہانی کرانے کے قابل ہے کہ صرف بااختیار صارفین کو معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ 'اب وقت آگیا ہے کہ سیکیورٹی انفارمیشن انفراسٹرکچر کا لازمی حصہ بن جائے۔' حصول کی تکمیل پر ، RSA EMC کے انفارمیشن سیکورٹی ڈویژن کے طور پر کام کرے گا ، جس کا صدر دفتر بیڈ فورڈ میں ہوگا۔ آرٹ کووییلو ای ایم سی کے ایگزیکٹو نائب صدر اور ڈویژن کے صدر بنیں گے۔ یوٹاہ میں مقیم برٹن گروپ کے مڈ ویل کے تجزیہ کار فل شیکٹر نے کہا کہ ای ایم سی کے اس اقدام کے لیے فوری ڈرائیور کو دیکھنا مشکل ہے۔ لیکن طویل مدتی کے دوران ، آر ایس اے کی ٹیکنالوجیز اسٹوریج وینڈر کو اپنے اسٹوریج مینجمنٹ پروڈکٹس کے اوپر مضبوط رسائی کنٹرول اور آڈیٹنگ کی صلاحیت پیش کرنے کی اجازت دے گی۔ شیکٹر نے کہا کہ ای ایم سی کا اہم کارپوریٹ ڈیٹا کے نگران کی حیثیت سے یہ اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ صارفین کو اس ڈیٹا کی حفاظت کا ایک بہتر طریقہ فراہم کرنا EMC کے لیے معنی رکھتا ہے۔ شیکٹر نے کہا کہ آر ایس اے خود ترقی کے لیے اچھی طرح سے پوزیشن میں تھا ، خاص طور پر مضبوط تصدیق ٹیکنالوجیز فراہم کرنے والے کے طور پر۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط شناختی انتظام کے پورے تصور اور ملٹی فیکٹر کی توثیق میں دلچسپی - خاص طور پر مالیاتی اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی کمیونٹیز میں - نے حال ہی میں آر ایس اے کو 'پوری طرح سے کشش' دی ہے۔ 'ان کے کاروبار کے اختتام میں بہت زیادہ الٹا تھا۔ اس سے انہیں آمدنی کا سلسلہ دینے میں مدد ملی جو صحت مند تھی اور شاید ان کی تشخیص میں بہتری آئی۔ کیمبرج کے ایک تجزیہ کار جوناتھن پین ، ماس پر مبنی فورسٹر ریسرچ انکارپوریشن نے کہا کہ ممکنہ طور پر RSA کی خفیہ کاری اور کلیدی انتظامی ٹیکنالوجیز EMC کے لیے فوری دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ مختصر مدت میں ، ای ایم سی کے انٹرپرائز گاہکوں کو ذخیرہ شدہ ڈیٹا کی حفاظت کے لیے اضافی حفاظتی مصنوعات کی ضرورت کم نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ طویل عرصے کے دوران ، وہ EMC اسٹوریج مینجمنٹ پروڈکٹس میں مزید شناخت پر مبنی رسائی کنٹرول کی صلاحیتوں کو دیکھنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ پین نے کہا ، 'اس معاہدے میں بہت زیادہ امکانات ہیں۔ آر ایس اے کا حصول ڈیجیٹل رائٹس مینجمنٹ سوفٹ ویئر کے ایک فروش ، اتھینٹیکا انکارپوریٹڈ کے فروری کے حصول کے بعد ہے۔ اس وقت ، ای ایم سی کے عہدیداروں نے کہا کہ Authentica کی ٹیکنالوجیز اس قسم کی سیکورٹی سے متعلقہ مصنوعات کی نمائندگی کرتی ہیں جو اسے تیار کرنا چاہتی ہیں۔ یہ معاہدہ پچھلے سال اسی یونین کی بازگشت کرتا ہے ، جب سیکورٹی فرم سیمنٹیک کارپوریشن نے اسٹوریج وینڈر ویریٹاس سافٹ ویئر کارپوریشن کو خریدا تھا جس کی ابتدائی قیمت 13.5 بلین ڈالر تھی۔ یہ معاہدہ گزشتہ جولائی میں بند ہوا تھا۔ ٹوسی نے کہا کہ آر ایس اے کو حاصل نہ کرنا اور اس طرح اس کمپنی کی ٹیکنالوجیز کو نہ لانا 'اسی طرح کی حرکت کرنے والے حریفوں کے لیے' ہمیں شدید نقصان میں ڈال دیتا '۔ '[اگر] ہم یہ صحیح طریقے سے کرتے ہیں ، جو ہمارا چیلنج ہے ... یہ ایک غیر معمولی کہانی بننے والی ہے۔' گارٹنر انکارپوریٹڈ کے تجزیہ کار جان پیسکاٹور کو شک تھا۔ Pescatore نے کہا ، 'EMC کوشش کر رہی ہے کہ اسے RSA کے تمام ٹکڑوں کی طرح نظر آئے۔ درحقیقت ، RSA کے پورٹ فولیو کا صرف ایک چھوٹا حصہ EMC کی موجودہ سٹوریج مینجمنٹ کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں فوری طور پر استعمال ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس اے کی سیکیور آئی ڈی پروڈکٹ ، جو اس کے سب سے بڑے فروخت کنندگان میں سے ایک ہے ، خالصتا used کمپنیوں کو کارپوریٹ نیٹ ورکس تک ریموٹ رسائی کے قابل بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور ای ایم سی کے اسٹوریج صارفین کے لیے اس کے زیادہ استعمال ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پیسکٹور نے کہا کہ سیمنٹیک کی ویریٹاس کی خریداری کی طرح ، ای ایم سی کے ذریعہ آر ایس اے کے حصول کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ 'بڑے حصول کے ستر فیصد کام نہیں کرتے. مجھے نہیں لگتا کہ کوئی کہے گا کہ سیمنٹیک اور ویریٹاس معاہدہ اب تک چیخ چیخ کر رہا ہے۔ اس مقام پر ، اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے جو چھلانگ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ایک چیخنے والی کامیابی ہوگی۔ ملفورڈ ، ماس میں انٹرپرائز اسٹریٹیجی گروپ انکارپوریٹڈ کے تجزیہ کار برائن بابینیو نے اس سے اتفاق نہیں کیا ، کہا کہ ای ایم سی آر ایس اے خرید رہا ہے کیونکہ اس کے صارفین ڈیٹا کی حفاظت کے بارے میں تیزی سے فکر مند ہو رہے ہیں۔ حالیہ ڈیٹا کی خلاف ورزی کے تناظر میں کانگریس میں تجویز کردہ سیکورٹی اور پرائیویسی قانون سازی کی ضروریات کو پورا کرنے میں RSA کے ٹولز EMC کی مدد کر سکتے ہیں۔ بابیناؤ نے سیمانٹیک وریٹاس معاہدے کے کسی بھی موازنہ کو مسترد کردیا۔ اس کا موازنہ سیمنٹیک/ویریٹاس سے نہیں کیا جاسکتا۔ 'وہاں آپ کا ایک کنزیومر بزنس اور انٹرپرائز کا بزنس اکٹھا تھا۔ یہاں ، آپ کے دو انٹرپرائز بزنس ہیں جو مختلف تنظیموں کو فروخت کرتے ہیں ، ان میں سے ایک کمپنی اپنے افق کو بڑھانا چاہتی ہے اور دوسری باہر نکلنے کی حکمت عملی کی تلاش میں ہے۔
درگاہ کے چیف انچارج کاشف نظامی نے کہا کہ عرس سے قبل درگاہ حضرت نظام الدین پر عقیدت مندوں کا جم غفیر نظر آنے لگا ہے، پاکستان سے 147 عقیدت مند عرس میں شرکت کے لیے دہلی پہنچ چکے ہیں۔ کاشف نظامی، نظام الدین درگاہ محمد تسلیم Published: 10 Nov 2022, 10:40 PM Engagement: 0 نئی دہلی: سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا کا 719واں عرس مبارک 12 نومبر سے 16 نومبر تک تزک و احتشام سے منایا جائے گا۔ اس کی تیاریاں بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہیں۔ درگاہ کے خدام کی جانب سے پوری درگاہ کو خصوصی پنڈال لگا کر سجایا جا رہا ہے اور محافل و لنگر کے انتظام و انصرام میں منتظمین مصروف ہیں۔ یہ بھی پڑھیں : ٹی-20 عالمی کپ: ’کیا کہوں یار، دل توڑنے والا تھا‘، سیمی فائنل میں ہندوستان کی شکست سے ورون دھون بھی مایوس عالمی وباء کورونا وائرس کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب عرس پوری شان و شوکت سے روایتی انداز میں منایا جائے گا۔ عرس سے قبل درگاہ حضرت نظام الدین پر عقیدت مندوں کا جم غفیر نظر آنے لگا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان سے 147 عقیدت مند عرس میں شرکت کے لیے دہلی پہنچ چکے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار عرس کے تعلق سے قومی آواز کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے درگاہ کے چیف انچارج کاشف نظامی نے کیا۔ یہ بھی پڑھیں : ہماچل پردیش میں انتخابی تشہیر ختم، ووٹنگ 12 نومبر کو، آئیے ڈالتے ہیں زمینی حقائق پر ایک نظر کاشف نظامی نے کہا کہ پانچ روز تک یہ عرس جاری رہے گا جس میں دنیا بھر سے زائرین درگاہ میں اپنی حاضری درج کرائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 12 نومبر بعد نماز مغرب تلاوت قرآن اور دعاء کے ساتھ عرس کی تقریبات شروع کی جائیں گی۔ 13 نومبر کو بعد نماز عشاء تلاوت قرآن پاک اور آستانہ شریف پر دعاء کا اہتمام کیا جائے گا۔ 14 نومبر صبح 11 بجے بڑا قل شریف، تلاوت قرآن، شجرہ خوانی اور دعاء کی جائے گی۔ 15 نومبر کو بھی صبح 11 بجے قل شریف، شجرہ خوانی، تلاوت قرآن اور دعاء ہوگی۔ 16 نومبر کو صبح 11 بجے تلاوت قرآن، قل شریف، شجرہ خوانی، دعاء کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیا کا 719ویں عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہوں گی۔ یہ بھی پڑھیں : کیرالہ: وجین حکومت کے لیے بج گئی خطرے کی گھنٹی، مقامی بلدیہ ضمنی انتخاب میں کانگریس کو ملی بڑی کامیابی کاشف نظامی نے بتایا کہ عرس کے موقع پر یہاں ہر مذاہب کے ماننے والے لوگ آتے ہیں جن کے لیے حفاظت کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ اتنی ہوتی ہے کہ پیر رکھنے کی جگہ تک نہیں ہوتی۔ کاشف نظامی نے لنگر کے تعلق سے کہا کہ اس مرتبہ لنگر کا بڑا انتظام کیا جا رہا ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے کہ ہر مذہب کے لوگ اس لنگر کو کھا سکیں۔ Follow us: Facebook, Twitter, Google News قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
اسلام آباد: بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تقریب میں بچوں سے خطاب میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے دل چسپ انداز میں اپنا تعارف کرایا۔ چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد کی ہدایت پر منعقدہ بچوں کے عالمی دن پر تقریب میں وفاقی وزیر شفقت محمود نے خود کو چھٹیاں دینے والا انکل کہہ کر تعارف کرایا۔ شفقت محمود نے بچوں سے سوال کیا آپ کو پتا ہے میں کون ہوں؟ میں چھٹیاں دینے والا انکل ہوں۔ وفاقی وزیر تعلیم نے اسکول کی چھٹیوں کے حوالے سے کہا کہ پچھلے سال تو بہت چھٹیاں ہو گئی تھیں لیکن اب نہیں ہوں گی، اب تعلم پر فوکس کرنا ہے تاکہ بچے پڑھ کر ترقی کر سکیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسموگ کے باعث اسکول بند نہیں ہوں گے۔ تقریب سے خطاب میں شفقت محمود کا کہنا تھا کہ کسی قوم کی تہذیب کی نشانی بے سہارا بچوں کو سہارا دینا ہے، خوشی ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو اب 9 اضلاع میں موجود ہے، امید ہے ایک وقت ہوگا جب ملک میں کوئی بچہ بے سہارا نہیں ہوگا۔ قبل ازیں، صحافیوں سے گفتگو میں شفقت محمود نے کہا تھا کہ اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ اسکول بند کرنے پڑیں، فیصلہ کیا ہے کہ تمام امتحانات بروقت اور مکمل سلیبس کے ساتھ ہوں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئر پرسن سارہ احمد نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا، انھوں نے کہا بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام ممکن اقدامات کیے گئے ہیں، محفوظ بچے ہی ملک کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہیں، بچوں کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
بیتی ہوئی صدیاں اقوام کے مزاج ڈھالتی ہیں۔ دوسری بار شیبانی خان کے ہاتھوں سمر قند سے پسپا ہو کر ظہیر الدین بابر نے ازبکستان میں ایک قبائلی سردار کے پاس پناہ لی۔ اب وہ شاعری اور تصوف کی طرف مائل تھا۔ مستقبل میں امید کی کوئی کرن نہ تھی۔ اپنی فوج وہ کھو چکا تھا؛حتیٰ کہ اس کے جوتے ٹوٹ گئے۔ اسی اثنا میں سمر قند میں رہ جانے والی والدہ اور بہن نے واپسی کی اطلاع دی۔ اپنی خودنوشت تزکِ بابری میں وہ لکھتا ہے: اماں جان آپہنچی ہیں اور اپنے ساتھ بھوکوں کا ایک لشکر لائی ہیں۔ ایک ایک کر کے بابر کے ساتھی آن ملے اور کسی نئی سرزمین کا رخ کرنے پر اصرار کیا۔ جنگجوئی ان کے لہو میں تھی اور اپنے لیڈر پہ انہیں کامل اعتماد تھا۔ یہ اعتماد درست ثابت ہوا۔ اوّل خراسان کا ایک حصہ اور پھر ہندوستان اس نے فتح کیا، جہاں اگلی اڑھائی تین صدیوں تک اس کی اولاد سریر آرائے سلطنت رہی۔ مغلوں کا ہتھیار رواداری تھا۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ صرف اس فاتح کی حکومت دراز ہوتی ہے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو کر سوچ سکے، جس کے دامن میں سب لوگ پناہ لے سکیں۔ کیا یہ بات طالبان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے؟ بابر ہمیشہ شاکی رہا کہ کابل کے باشندے تند خو ہیں۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس تاریخی شہر سے فاتح کو بے پناہ محبت تھی۔ سیب سے ملتا جلتا بہی نام کا پھل اب کمیاب ہے۔ آگرہ میں بابر کے دربار میں بہی کے خوان لائے گئے تو فرطِ مسرت سے وہ رو پڑا۔ کنواہ کی جنگ میں ظفر یاب ہوا تو کابل کے شہریوں میں سے ہر ایک کے لیے دو اشرفیاں بھیجیں۔ مرا تو کابل میں دفن ہونے کی وصیت کی۔ وسطِ شہر میں آج بھی ایک ٹیلے پر اس کا مزار قائم ہے۔ وہ آدمی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولتا تھا۔ اپنے عیوب کے بارے میں اس طرح گفتگو کرتا، گویا کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو۔ عملیت اور رومان کا ایک حیرت انگیز نمونہ۔ اپنے ساتھیوں پہ شفیق، اپنی اولاد پہ نثار۔ ترکانِ عثمانی تھے یا ترکانِ تیموری، بھائی بھائیوں اور بیٹے باپ کے خلاف بغاوت کیا کرتے۔ بابر وہ تنہا آدمی ہے، جس نے اپنے فرزند ہمایوں پہ جان نچھاور کر دی۔ معالج مایوس ہو گئے تو انہوں نے بتایا کہ صدقہ ہی اب واحد امید ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے قیمتی چیز کوہِ نور ہیرا تجویز کیا گیا۔"ایک زندہ آدمی کے بدلے میں پتھر کا ایک ٹکڑا؟ " اس نے حیرت سے کہا۔ پھر مریض کی مسہری کے گرد سات چکر کاٹے اور دعا کی کہ خالقِ تقدیر بیٹے کے بدلے اس کی جان قبول کر لے۔ تاریخ ایسی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ مغل زوال کے بعد سفاک نادر شاہ کے حریفوں میں سے ایک، احمد شاہ ابدالی نے آج کے افغانستان کی بنیاد رکھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ملتان میں پیدا ہوا تھا، مسلم برصغیر میں اس کی دلچسپی غیر معمولی تھی۔ مغلوں کے پنجاب میں سکھ اور شمال مشرق میں مرہٹے چھا گئے۔ میرؔ صاحب نے اس عہد کو مصور کیا ہے۔ چور اچکے، سکھ مرہٹے، شاہ و گدا زر خواہاں ہیں چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے ابعشروں تک برصغیر کے وسیع وعریض میدان خانہ جنگی کا شکار رہے؛حتیٰ کہ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کے لشکر جرار کو ابدالی نے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ قندہار کو اس نے دارالحکومت کیا، جس کے لیے مغلوں اور ایرانیوں نے بارہا جنگیں لڑی تھیں۔ شاید اسی لیے کہ ایرانیوں سے محفوظ رہ سکے۔ ابدالی کے اڑھائی سو برس بعد، اقتدار سنبھالنے واے ملا عمر نے خلافت کا اعلان کیا تو اسی شہر کو مرکز بنایا۔ ابدالی کے مزار پر نصب کیا گیا کتبہ یہ تھا "بادشاہِ افغانستان و ترکمانستان" سلطان کو ادراک تھا کہ اس کی سلطنت میں کئی اقوام بستی ہیں، تاریخی عمل میں شایدجو یکجا ہو سکیں۔ بتدریج شاید ہو جاتیں مگر خارجی مداخلت! ابدالی قبیلے نے مدتوں افغانستان پر حکومت کی۔ بیشتر اس کادفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ مغلوں کی طرح اس راز سے وہ واقف تھے کہ مختلف قبائل، لسانی و نسلی گروہوں اور مکاتب فکر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ ظاہر شاہ کے عہد تک قرار باقی رہا۔ بامِ دنیاپامیر کی رفعتوں پر مقیم قل آغا کے ترک قبیلے سے لے کر بامیان کے تاتاری قبائل تک، وادیء پنج شیر کے فصیح فارسی بولنے والے تاجکوں سے لے کر، ہمارے کافرستان والوں کے عم زاد، یونانی النسل نورستانی تک، اس عہد میں آسودہ تھے۔ ہر چند کہ بادشاہت تھی۔ ہر چند کہ ملک پسماندہ تھا لیکن غیر ملکیوں سے محفوظ اور پر امن۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل۔ پھر ساڑھے تین سو برس سے آگے بڑھتے روسیوں کو گرم پانیوں کی آرزو نے بے تاب کیا۔ پھر وسطی ایشیا کی باقی مسلم ریاستوں کی طرح افغانستان کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھا۔ اشتراکیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 1974ء میں سردار داؤد کی سرپرستی سے تغیر کا آغاز کیا۔ خانہ جنگی بڑھتی گئی تو دسمبر 1979ء میں سرخ افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ باقی تاریخ ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے کتنی ہی حماقتیں کی ہوں لیکن روسیوں کی ایسی مزاحمت انہوں نے کی کہ ایک عشرہ بھی بتا نہ سکے۔ ماسکو کے لیے وہ مامون الرشید کے جنرل طاہر ثابت ہوئے۔ 1989ء میں اس حال میں روسی واپس گئے کہ سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ماسکو میں روسی جنرلوں کو بھیک مانگتے دیکھا گیا۔ سائنس دان فرار ہونے لگے، جہاں کہاوت یہ ہے: اجنبی دیس میں بادشاہ بننے سے بہتر ہے کہ اپنے وطن میں آدمی بھکاری بن کر رہے۔ روسیوں نے تیرہ لاکھ افغان قتل کرڈالے اور تیرہ لاکھ اپاہج۔ سوویت یونین کے خلاف افغان حریت پسندوں کو 122اقوام کی اخلاقی تائید حاصل تھی۔ طاقتور افواج کی مالی اور اسلحی مدد بھی۔ امریکیوں کو تنِ تنہا انہوں نے ہرا دیا۔ صرف پاکستان کی محدود سی خفیہ تائید انہیں حاصل تھی، جس کی اشرافیہ اور اکثر دانشور خوئے غلامی کے مارے ہیں۔ حلیف اقوام کی امداد کے علاوہ 3600ارب ڈالر امریکیوں نے اس جنگ پر لٹائے۔ گذشتہ برس 35ارب ڈالر جرمنی نے صرف کیے، جی ہاں 35ارب ڈالر، بخیل برطانویوں نے 18ارب ڈالر، جاپان نے 16ارب ڈالر، عالمگیر صف بندی میں آسٹریلیا اور بھارت کے ہمراہ جو واشنگٹن کا رفیق ہے۔ چودہ ارب ڈالر فرانس نے دیے۔ اس کے باوجود یہ جنگ کیوں ہار دی گئی؟ مغربی سپاہی کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا کہ جان لٹاتا۔ ویت نام اور عراق میں بھی یہی ہوا تھا۔ آئن سٹائن کے بقول ایک ہی تجربے کو بار بار دہرانا ان احمقوں کا شیوہ ہے، جو سیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ کہانی طویل ہے اور پیچیدہ بھی۔ آسانی سے سمٹ نہیں سکتی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سرزمین کو تسخیر نہیں کر سکتے۔ ثانیاً یہ کہ افغانستان کی مختلف نسلوں، قبائل اور لسانی گروہوں کو ایک نیا عمرانی معاہدہ درکار ہے۔ افغانی سخت گیر ہیں، مذہبی اور شکی ہیں۔ اکثریت غیر ملکیوں کو گوارا نہیں کرتی، انتہائی سخت جان۔ حرفِ آخر وہی کہ ممالک، اقوام اور معاشرے طاقت سے نہیں بدلتے۔ علم، اخلاقی بالیدگی اور محبت سے رفیع ہوتے ہیں۔ یہ ایک پیہم جدوجہد ہوتی ہے، آغاز جس کا ادراک سے ہوتا ہے۔ مسلسل تربیت سے معاشرہ صیقل ہونے اور فروغ پانے لگتا ہے۔ یہ ادراک کہاں ہے۔ اخلاقی شعور کی اہمیت کا احساس کس کو ہے؟ About Haroon Ur Rasheed Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.
اسلام آباد : سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن ( ایس ای سی پی ) نے نومبر میں ایک ہزار 387 کمپنیا ں رجسٹر کیں جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 30فیصد زیادہ ہے ۔ نئی رجسٹریشن کے بعد کمپنیوں کی کل تعداد ایک لاکھ 8 ہزار 433 ہو گئی ہے، ملک میں کاروباری آسانیوں کے لئے کئے گئے اقدامات او ر اصلاحات کے نتیجے میں کمپنیوں کی نئی رجسٹریشن میں اضافہ دیکھا گیا۔ اکتوبر میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں میں 72 فیصد کمپنیاں پرائیویٹ لمیٹڈ ہیں جبکہ 25 فیصد نے سنگل ممبر کمپنیوں کے طورپر رجسٹریشن حاصل کی اور 3 فیصد میں بطور پبلک ان لسٹڈ، غیر منافع بخش ایسوسی ایشن، غیر ملکی کمپنیاں اور لمیٹیڈ لائیبیلٹی پارٹنر شپس شامل ہیں۔ اس ماہ 96فیصد کمپنیوں کی رجسٹریشن آن لائن کی گئی جبکہ 130 غیر ملکی کمپنیوں نے بیرون ملک سے رجسٹریشن مکمل کی ، اس ماہ سب سے زیادہ یعنی237 کمپنیاں ٹریڈنگ کے شعبے میں رجسٹر ہوئیں۔ خدمات کے شعبے میں 165، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں 159، تعمیرات کے شعبے میں 151، سیاحت میں77، رئیل اسٹیٹ میں66، تعلیم میں65، خوراک و مشروبات میں 51، کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ میں39، انجنیئرنگ اورفارماسیوٹیکل میں 35،، مارکیٹنگ اور ڈیویلپمنٹ میں 33، ٹیکسٹائل میں27، ٹرانسپورٹ میں 25، کیمیکل میں 24، آٹو اینڈ الائیڈ میں21، ہیلتھ کیئرمیں19، کان کنی /کھدائی میں16، توانائی اور لاگنگ میں 12، براڈکاسٹنگ اور ٹیلی کاسٹنگ، اور فیول اینڈ انرجی میں 11، اور 96 کمپنیاں دیگر شعبوں میں رجسٹر کی گئیں۔ نومبر میں کل 61 کمپنیوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی، ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا تعلق بحرین، چین، جمہوریہ چیک، مصر، جرمنی، جنوبی کوریا، ملائیشیا، فلپائن، روس، سعودی عرب، اسپین، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، تائیوان، تاجکستان، برطانیہ اور امریکہ سے ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے کہا ہے کہ ایران اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کی سالگرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ ایٹمی معاہدہ 13 سال کے مذاکرات کے بعد وجود میں آیا جس کے ایک ہفتہ بعد سکیورٹی کونسل میں قرارداد 2231 منظور کی گئی ۔ سید عباس موسوی نے کہا کہ امریکہ میں ٹرمپ کی حکومت کے آنے سے قبل بعض مشکلات کے باوجود مشترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل در آمد جاری رہا ، ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد مشترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد روک دیا اور امریکہ عملی طور پر سن 2018 میں مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوگیا۔ امریکہ کا یہ اقدام سکیورٹی کونسل قرارداد 2231 کے خلاف تھا ۔ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوکر دوبارہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں نافذ کردیں۔ سید عباس موسوی نے کہا کہ امریکہ کے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہونے کے ایک سال بعد ایران نے بھی مرحلہ وار مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے وعدوں پر عمل در آمد میں کمی کرنے کا اعلان کردیا اور یورپی ممالک کی طرف سے بھی عمل نہ کرنے کی بنا پر ایران نے اس سلسلے مین پانچ قدم اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران تمام اقدامات کے باوجود بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد جاری رکھےگا۔
اس وقت جہلم میں 47 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض جن میں کرونا وائرس بیماری کی کوئی علامات نہیں ہیں ان افراد کو گھروں میں آئسولیٹ کیا گیا ہے اور 7 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کرونا وائرس کے 21 (Suspected) ممکنہ مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ تمام مریضوں کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ محکمہ صحت جہلم نے گزشتہ روز تک کورونا کے مشتبہ 61746 افراد کے نمونے لے کر لیبارٹری بھجوائے ہیں جن میں سے 1497 افراد کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔ آج مزید 7 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض صحت یاب ہوئے ہیں۔ اب تک کل 1401 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ آج مزید 1 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض جاں بحق ہوا ہے اس وقت کل کرونا وائرس سے 42 اموات ہوئی ہیں۔ کرونا وائرس کی دوسری لہر میں محکمہ صحت جہلم نے یکم اکتوبر 2020 سے اب تک کل کرونا وائرس کے مشتبہ 47553 افراد کے نمونے لے کر لیبارٹری بھجوائے ہیں جن میں 1005 افراد کی رپورٹ مثبت موصول ہوئی کرونا وائرس کی دوسری لہر میں اب تک 33 اموات ہوئی ہیں۔
سوال: لاہور۔ بھائی بچپن سے میرے ہی پاس پلا بڑھا ہے۔ ہمارے والد ملک کی تقسیم کے وقت شہید ہو گئے تھے۔ میری شادی ہوئی تو میں بھائی کو اپنے ساتھ لے کر آئی ۔ میرے شوہر باوجود ہمدرد ہونے کے بہت زیادہ سخت طبیعت ہیں۔ صرف پڑھائی کی خاطر بھائی کو اس قدر مارتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں سوج جاتے ہیں۔ تھپڑوں سے کانوں پر ورم آ جاتا ہے۔ مجھ سے یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔ ہماری اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ اور شوہر کو بچوں کی نفسیات سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی ہر برائی کو ان سے چھپانا شروع کر دیا۔ خدا خدا کر کے بھائی نے ایف۔اے پاس کیا لیکن بری سوسائٹی نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ گھر میں دیر سے آتا تو میں شوہر سے جھوٹ بول دیتی کہ وہ تو کب کا سویا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ پینے پلانے لگا۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا مگر بے سود۔ اب وہ پکا شرابی اور شاید اور بھی بہت کچھ ہے۔ اس کی عمر بھی کافی ہو گئی ہے۔ میں نے اس کی شادی نہیں کی۔ نہ ہی وہ خود شادی میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اگر ہم اس کی شادی کر بھی دیں تو آنے والی کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ جواب: رات کو جب بھائی گہری نیند سو جائے آپ اپنے کمرہ میں بیٹھ کر تین سو مرتبہ وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (سورۃ 93 آیت 10)پڑھ کر بھائی کا تصور کر کے پھونک مار دیا کریں اور بات کئے بغیر سو جائیں۔ ایک نیند لینے کے بعد بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 65 تا 65 روحانی ڈاک (جلد اوّل) کے مضامین : ِ انتساب ِ ترتیب و پیشکش ِ 1 - اولاد نہیں ہوتی ِ 2 - الرجی کا علاج ِ 3 - ایک سو پچاس چھینکیں ِ 4 - اداسی ِ 5 - انگلیاں کشش کا ذریعہ ِ 6 - اولاد نرینہ ِ 7 - اولاد نہیں ہوئی ِ 8 - اندرونی بخار ِ 9 - احساس کمتری ِ 10 - استغناء اور کیلوریز ِ 11 - انسانی وولٹیج ِ 12 - ایک لاکھ خواہشات ِ 13 - ایب نارمل زندگی ِ 14 - اجمیر شریف کی حاضری ِ 15 - آوارہ لڑکا ِ 16 - آنکھوں کے سامنے نقطے ِ 17 - آنکھ میں آنسو ِ 18 - آدھے جسم میں درد ِ 19 - آسمان ِ 20 - آنتیں ِ 21 - آپریشن ِ 22 - آٹھ علاج ِ 23 - انا للہ و انا الیہ راجعون ِ 24 - اسلامی لباس کا تصور ِ 25 - آرزو ِ 26 - اندھی محبت ِ 27 - استخارہ ِ 28 - ایک عجیب بیماری ِ 29 - اجتماعی خود کشی ِ 30 - اجتماعی سکون ِ 31 - اُم الصبیان ِ 32 - آوازیں آتی ہیں ِ 33 - اندرونی مریض ِ 34 - ایمان کی روشنی ِ 35 - اقتدار کی جنگ ِ 36 - اولاد ِ 37 - برص کا علاج ِ 38 - برے خیالات ِ 39 - بجلی کے جھٹکے ِ 40 - بیوہ عورت ِ 41 - بچپن کا خواب ِ 42 - بیٹی نہیں بیٹا ِ 43 - بے وفا شوہر ِ 44 - بہرے پن کا علاج ِ 45 - بخار ِ 46 - بچوں کی نفسیات ِ 47 - بدعقیدہ ِ 48 - بھوت ِ 49 - بیہوشی ِ 50 - بزدلی کی تصویر ِ 51 - برقی رو کا ہجوم ِ 52 - بارونق چہرہ ِ 53 - بھینگا پن ِ 54 - بڑا سر ِ 55 - بسم اللہ کی زکوٰۃ ِ 56 - بے جوڑ شادی ِ 57 - بال خورے کا علاج ِ 58 - پراگندہ ذہنی ِ 59 - پریشانیوں کا حل ِ 60 - پرانی پیچش ِ 61 - پولیو کا علاج ِ 62 - پڑھنے میں دل نہ لگنا ِ 63 - پر اسرار بیماری ِ 64 - پیٹ کی تکلیف ِ 65 - پسینہ آنا ِ 66 - پیدائشی دماغی معذور ِ 67 - پسند کی شادی ِ 68 - پیلیا ِ 69 - پرانی پیچش ِ 70 - پیر صاحب ِ 71 - پیر وہ نہیں ہوتا جو مرید بنا دیتے ہیں ِ 72 - پرابلم ِ 73 - پرکشش چہرہ ِ 74 - پیر سو جاتے ہیں ِ 75 - پچہتر ہزار روپیہ ِ 76 - ترقی نہیں ہوتی ِ 77 - تقدیر ِ 78 - تیسری آنکھ ِ 79 - تصور شیخ ِ 80 - تخلیقی فارمولے ِ 81 - تنہائی کا احساس ِ 82 - ٹائی فائیڈ کے اثرات ِ 83 - ٹیڑھا منہ ِ 84 - ٹانگیں کپکپاتی ہیں ِ 85 - ٹیلی پیتھی ِ 86 - ٹیوشن ِ 87 - ٹانگیں کمزور ہیں ِ 88 - ٹونسلز ِ 89 - ٹرانس پیرنٹ ِ 90 - جادو کا توڑ(۱) ِ 91 - جوڑوں کادرد ِ 92 - جسم میں کرنٹ لگنا ِ 93 - جادو کا توڑ(۲) ِ 94 - جسم چھوٹا سر بڑا ِ 95 - جلد بازی ِ 96 - جسم میں آگ ِ 97 - جنسی مسائل ِ 98 - جادو ختم کرنے کیلئے ِ 99 - جگر کا متاثر ہونا ِ 100 - جسم اچھل اچھل جاتا ہے ِ 101 - جن ِ 102 - جھنجلاہٹ کیسے دور ہو ِ 103 - جہیز کا مسئلہ ِ 104 - چوکور کاغذ ِ 105 - چمگاڈر ِ 106 - چاند گرہن ِ 107 - چہرے پر دانے ِ 108 - چہرے پر چھائیاں ِ 109 - چھپکلی کا خوف ِ 110 - چھوٹی بیگم ِ 111 - چہرے پر بال ِ 112 - حضرت خضرؑ سے ملاقات ِ 113 - حسد کی عادت ِ 114 - حروف مقطعات ِ 115 - حالات کی ستم ظریفی ِ 116 - حسد ِ 117 - حسب منشاء شادی کیلئے ِ 118 - حقیقت آگاہی ِ 119 - خوف ِ 120 - خود سے باتیں کرنا ِ 121 - خون کی بوند ِ 122 - خوفناک شکلیں نظر آتی ہیں ِ 123 - خیالی پلاؤ ِ 124 - خون میں کمزوری ِ 125 - خود ترغیبی ِ 126 - خود غرضی ِ 127 - خون کی کلیاں(۱) ِ 128 - خالہ کی روح ِ 129 - خلفشار ِ 130 - خون کی الٹیاں(۲) ِ 131 - خشکی کا علاج ِ 132 - خشک خارش ِ 133 - خواب اور ہماری زندگی ِ 134 - دماغی خلئے اور پیدائش ِ 135 - دل میں سوراخ ِ 136 - دنیا بیزاری ِ 137 - دماغی امراض ِ 138 - دماغ کے اوپر خول چڑھ گیا ہے ِ 139 - دستخط کیجئے اور مسئلہ حل ِ 140 - دوپٹہ میں جوئیں ِ 141 - دل میں درد ِ 142 - دمہ ِ 143 - دریا اور سبزہ زار ِ 144 - دواؤں کا ری ایکشن ِ 145 - دوائیں ِ 146 - دماغ کے اعصاب ِ 147 - دانت پیسنا ِ 148 - دوسری شادی ِ 149 - دماغی توازن ِ 150 - دکھی لڑکی ِ 151 - درخت بولتے ہیں ِ 152 - دھوکہ ِ 153 - ڈراؤنے خواب ِ 154 - ذہنی سکون ِ 155 - ذہنی مریضہ ِ 156 - ذہنی الجھنیں ِ 157 - ذہنی مریض ِ 158 - روح سے ملاقات ِ 159 - رنگ و نور کا شہر ِ 160 - روح کا الارم ِ 161 - روحانی غذا ِ 162 - رشتہ کی تلاش ِ 163 - روشن مستقبل ِ 164 - روح اور اسلام ِ 165 - رات بھر روتی ہوں ِ 166 - زنانی آواز ِ 167 - زندگی کا ساتھی ِ 168 - زبان ساتھ نہیں دیتی ِ 169 - زبان کھل جائے گی ِ 170 - سکون کی تلاش ِ 171 - سر اور معدہ ِ 172 - سوتے میں پیشاب نکل جاتا ہے ِ 173 - سایہ ِ 174 - سیپ کی پوٹلی ِ 175 - سر کے بال گر رہے ہیں ِ 176 - سانس کی بیماری ِ 177 - سینے میں درد ِ 178 - سانس رک جاتا ہے ِ 179 - سانولا رنگ ِ 180 - سردی میں پسینہ ِ 181 - سوچ میں ڈوبے رہنا ِ 182 - سیاہ رنگ چہرہ ِ 183 - سائیکالوجی ِ 184 - سیلاب اور سیمنٹ ِ 185 - سکون ِ 186 - سیرت طیبہؐ ِ 187 - شادی کے مسائل ِ 188 - شادی ِ 189 - شوہر لندن میں ہیں ِ 190 - شباب آمیز کہانیاں ِ 191 - شوہر شکل نہیں دیکھتا ِ 192 - شفا ء دینا اللہ کا کام ہے ِ 193 - شیطانی وسوسے ِ 194 - شادی اور شرم ِ 195 - شوہر کا مزاج ِ 196 - شوہر نے آنکھیں بدل لیں ِ 197 - شکی شوہر ِ 198 - شادی روکنے کیلئے ِ 199 - شوہر کی محبت ِ 200 - شریعت اور طریقت ِ 201 - شجر ممنوعہ کی روحانی تفسیر ِ 202 - شکوہ ِ 203 - ضدی بچہ ِ 204 - طلبہ متوجہ ہوں ِ 205 - طلسمی سانپ ِ 206 - عقیدہ کی خرابی ِ 207 - عشق کا سمندر ِ 208 - علوم اور صلاحیت ِ 209 - علاج کی ضرورت نہیں ہے ِ 210 - عملیات کا شوق ِ 211 - غلطی کا اعتراف ِ 212 - فریج میں رکھا ہوا کھانا ِ 213 - فحش خیالات ِ 214 - فالج ِ 215 - قلب کی سیاہی ِ 216 - قوت ارادی ِ 217 - قبض اور گیس ِ 218 - قرض ِ 219 - کر بھلا ہو بھلا ِ 220 - کنجوس سسرال ِ 221 - کرایہ دار ِ 222 - کلر تھراپی ِ 223 - کشف القبور ِ 224 - کثرت اولاد سے پریشانی ِ 225 - کانوں میں سیٹیاں ِ 226 - گھر کا فساد ِ 227 - گوشت ِ 228 - گردوں میں پتھری ِ 229 - گیس کا مرض ِ 230 - لانبے بال ِ 231 - لکنت ِ 232 - لنگڑی کا درد ِ 233 - ملازمت میں ترقی ِ 234 - مستقل خارش ِ 235 - مالی پریشانیاں ِ 236 - مردے نظر آنا ِ 237 - موت کے خوف سے نجات ِ 238 - مراقبہ کی شرائط ِ 239 - مرض کا علاج شادی ِ 240 - منگیتر کی نفرت ِ 241 - موت کا خیال ِ 242 - نیند میں جھٹکے لگنا ِ 243 - نفسیاتی بیماری ِ 244 - نماز پڑھنے کو دل نہیں چاہتا ِ 245 - نعمت یا زحمت ِ 246 - نیند نہیں آتی ِ 247 - وظیفہ کی رجعت ِ 248 - وٹّہ سٹّہ کی شادی ِ 249 - ہرجائی شوہر ِ 250 - ہڈیوں کی بیماری ِ 251 - ہمزاد اور جنات ِ 252 - ہاتھ لگائے کھجلی ہوتی ہے ِ 253 - ہیروئن ِ 254 - ہڈیوں کا پنجر ِ 255 - ہمنوا دل ِ 256 - ہونٹوں پر داغ ِ 257 - یہ مست اور ملنگ بندے
میرے ایک دوست نے پروفیسر ابوالقاسم جورجی کی کتاب پڑھی اوراس سے بہت ہی متاثر ہوا اورکہنے لگے کہ اگروہ شادی کرنا چاہتا ہے تو ان دونوں پر کوئي حرج نہیں کہ متعہ کرلیں ( اسلام میں مؤقت شادی کے لیے ایک شرعی اصطلاح ہے ) مؤقت شادی کی تعریف یہ ہے کہ : جب کسی کوپسند لگے تواس کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ تھوڑی مدت کے لیے شادی کرلے ۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے متعہ کے بارہ میں مزید معلومات دیں ، اور اس سوچ اور فکر پر کس فرقہ اورگروپ کا ایمان ہے ؟ گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ وضاحت کریں ۔ جواب کا متن متعلقہ الحمد للہ. متعہ – یا مؤقت شادی – یہ ہے کہ کوئي شخص کسی عورت سے کچھ معین وقت کے لیے کچھ مال کے عوض شادی کرے ۔ شادی میں اصل تویہ ہے کہ اس میں استمرار اورہمیشگی ہو ، اورمؤقت شادی - یعنی متعہ – شروع اسلام میں مباح تھی لیکن بعد میں اسے حرام کردیا گیا اورقیامت تک یہ حرام ہی رہے گی ۔ علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھریلو گدھے کے گوشت کوخیبر کے دور میں منع فرمایا تھا ۔ اورایک ورایت میں ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے روز عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کے گوشت سے روک دیا ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 3979 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔ اورربیع بن سبرہ جھنی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، اوراب اللہ تعالی نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے ، اب جس کے بھی پاس ان میں سے کچھ ہو وہ انہيں چھوڑ دے اورجو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے تو شادی کو اپنی نشانی قرار دیا ہے جوغوروفکر اورتدبر کی دعوت دیتی ہے ، اوراللہ تعالی نے خاوند اوربیوی کے مابین مودت ومحبت اوررحمت پیدا کی ہے اورخاوند کے لیے بیوی کوسکون والی بنایا اوراولاد پیدا کرنے کی رغبت پیدا کی ہے ، اوراسی طرح عورت کے لیے عدت اوروراثت بھی مقرر فرمائي ہے ، لیکن یہ سب کچھ اس حرام متعہ میں نہیں پایا جاتا ۔ رافضیوں کے ہاں – یہ شیعہ ہی ہیں جومتعہ کے جواز کے قائل ہیں – متعہ کی جانے والی عورت نہ تو بیوی ہے اورنہ ہی لونڈی ، اوراللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے : اورجولوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اورلونڈيوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ، جواس کے علاوہ کچھ اورچاہیں وہ ہی حد سے تجاوز کرنےوالے ہیں المؤمنون ( 5- 7 ) رافضی شیعہ نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے کوئي دلیل بھی صحیح نہیں : ا - اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے : اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کا مقرر کیاہوا مہر دے دو النساء ( 24 ) ۔ ان کا کہنا ہے کہ : اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل ہے ، اوراللہ تعالی کے فرمان ان کے مہر کو اللہ تعالی کے فرمان استمتعتم سے متعہ مراد لینے کا قرینہ بنایا ہے کہ یہاں سے مراد متعہ ہے ۔ رافضيوں پر رد : اس کا رد یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے اس سے قبل آيت میں یہ ذکرکیا ہے کہ مرد پر کونسی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے اور اس آیت میں مرد کے نکاح کے لیے حلال عورتوں کا ذکر کیا اورشادی شدہ عورت کواس کا مہر دینے کا حکم دیا ہے ۔ اوراللہ تعالی نے شادی کی لذت کویہاں پر استمتاع سے تعبیر کیا ہے ، اور حدیث شریف میں بھی اسی طرح وارد ہے : ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھوگے ، اوراگر اس سے فائد لینے کی کوشش کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے ، اوراس میں کچھ ٹیڑھا پن ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4889 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔ اوپر والی آیت میں اللہ تعالی نے مہر کو اجرت سے تعبیر کیا ہے یہاں سے وہ مال مراد نہيں جومتعہ کرنے والا متعہ کی جانے والی عورت کوعقد متعہ میں دیتا ہے ، کتاب اللہ میں ایک اورجگہ پر بھی مہر کو اجرت کہا گيا ہے : اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے الاحزاب ( 50 ) ۔ تویہاں پر اللہ تعالی نے آتیت اجورھن کے الفاظ بولے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کا استدلال کررہے ہیں اس میں متعہ کی اباحت کی نہ توکوئي دلیل ہی ہے اورنہ ہی کوئي قرینہ ہی پایا جاتا ہے ۔ اوراگر بالفرض ہم یہ کہیں کہ آیت اباحت متعہ پردلالت کرتی ہے توہم یہ کہيں گےکہ یہ آیت منسوخ ہے جس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لیے متعہ حرام کردیا گيا ہے ۔ ب – ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام سے اس کے جائز ہونے کی روایت ملتی ہے اورخاص کر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ۔ اس کا رد یہ ہے کہ : رافضی و شیعہ اپنی خواہشات پر چلتے ہیں اوران میں اتباع ھواء ہے ، وہ تو سب صحابہ کرام کو ( نعوذ باللہ ) کافر قرار دیتے ہیں ، اورپھر آپ دیکھیں کہ ان کے افعال سے استدلال بھی کرتے ہیں جیسا کہ یہاں اوراس کے علاوہ بھی کئي ایک مواقع پر کیا ہے ۔ اورجن سے متعہ کے جواز کا قول ملتاہے انہیں تحریم متعہ کی نص نہیں پہنچی اس لیے انہوں نے جواز کا قول کہا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے اباحت معتہ کے قول پر صحابہ کرام نے تو رد بھی کیا ہے ( جن میں علی بن ابی طالب ، اورعبداللہ بن زبیر رضي اللہ تعالی عنہم ) شامل ہیں ۔ علی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارہ میں نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں توعلی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اے ابن عباس ذرا ٹھرو بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن اس سے اور گھریلو گدھوں سے روک دیا تھا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1407 ) ۔
(جنید ریاض) لاہور بورڈ کے تحت پیپر دینے والے لاکھوں طلبا کیلئے بُری خبر،تعلیمی بورڈ نے پیپروں کی ری چیکنگ فیس میں 400 روپے اضافہ کردیا. واضح رہے کہ اس سے قبل فی پیپر کیلئے ری چیکنگ فیس 700 روپے وصول کی جاتی تھی، چیکنگ فیس بڑھنے کے بعد فی پیپر 1100 روپے کردی گئی ، ری چیکنگ فیس بڑھنے پر طلبا پریشانی سے دوچار ہیں۔ ڈالر کی قدر میں کتناا اضافہ ہوا؟ طلباکا کہنا ہے کہ پیپروں کی ری چیکنگ فیس پہلے ہی بہت زیادہ تھی،مہنگائی کے اس دور میں فیس بڑھانا انصافی ہے۔ طلبانے چیئرمین بورڈ سے مطالبہ کیا ہے کہ بورڈ حکام پیپروں کی ری چیکنگ فیس میں کمی کریں۔ دوسری جانب بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ اساتذہ کا معاوضہ بیس فیصد بڑھنے کی وجہ ری چیکنگ فیس بڑھائی گئی ہے۔
ميں نے ايك مسجد ميں نماز استسقاء سے قبل مشاہدہ كيا كہ ايك طالب علم نے اپنى عباء الٹ پہن ركھى تھى، اور نماز كے بعد ميں نے اس كا سبب دريافت كيا، كيونكہ مجھے تو علم تھا كہ چادر يا عباء تو نماز اور خطبہ ختم ہونے كے بعد الٹائى جاتى ہے، تو اس نے جواب ديا: اس ميں كوئى حرج نہيں، ميں نے تو نماز سے قبل ہى الٹا لى تھى، تا كہ جب ميں اسے دوبارہ الٹاؤں تو يہ اچھى شكل ميں ہو، جناب والا اس ميں آپ كى كيا رائے ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟ جواب کا متن الحمد للہ. نماز استسقاء كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد شدہ احاديث سے ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ نماز ميں چادر عام حالت ميں ہونى چاہيے ليكن جب دوران خطبہ امام اپنى چادر الٹائے تو اس وقت مقتديوں كو بھى الٹانى چاہيے. ليكن چادر يا عباء نماز سے قبل ہى الٹا لى جائے تو ظاہر يہى ہوتا كہ ايسا كرنا غير مشروع اور سنت كے مخالف ہے. اللہ تعالى سب كو توفيق سے نوازے. ماخذ: ديكھيں: كتاب مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لفضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 13 / 83 )
ودربھ کے مختلف اضلاع میں اردو ادب کی تصنیف وتالیف کا سلسلہ یوں تو ۱۹۴۶؁ء سے ہی شروع ہوچکا تھا مگر جب یہاں ادب اطفال کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بچوں کے ادب پر مشتمل تصانیف کا پوری ایک صدی تک سراغ نہیں ملتا البتہ بچوں کے لیے اس اثناء میں گاہے بہ گاہے اہل قلم کی کئی تخلیقات منظر عام پر ضرور آئی ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جن لوگوں نے قلم سنبھالا ان میں سے چند اہل قلم نے ادب اطفال کی جانب توجہ دی۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے پھیلے اس اندھیرے کو دور کرنے کا خیال یہاں سب سے پہلے شفیقہ فرحت اور فیض انصاری کے دل میں پیدا ہوا۔ انھوں نے ۱۹۵۳؁ء میں بچوں کے لیے ’’چاند‘‘ اخبار کا اجراء کیا ۔ اس میں مقتدر ادباء وشعراء کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ تک یہ باقاعدگی سے نکلتا رہا بعد میں جب فیض انصاری مجلس ادارت سے الگ ہوگئے تو شفیقہ فرحت نے ’’کرنیں‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا لیکن یہ زیادہ دنوں تک شائع نہ ہوسکا اور بہت جلد بند ہوگیا۔ اس کے بعدایک طویل عرصہ تک کسی صاحب قلم نے بچوں کے ادب پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی۔ ناگپور میں ۱۹۸۰؁ء کے آس پاس وکیل نجیب سامنے آئے جنھوں نے بالخصوص بچوں کے لیے قلم سنبھالا اور سنجیدگی وباقاعدگی سے بچوں کے لیے خوبصورت کہانیاں تخلیق کرنے لگے۔ یوں تو وکیل نجیب نے بچوں کے لیے سوچنے اور لکھنے کا سلسلہ اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے شروع کردیا تھا۔ ان کی سب سے پہلی تخلیق ’’ہم خوددار ہیں‘‘ مزاحیہ خاکہ روزنامہ انقلاب کے بچوں کا صفحہ ’’پھلواری‘‘ میں ۱۹۶۲؁ء میںشائع ہوا۔ اس کے بعد گاہے بہ گاہے آپ لکھتے رہے لیکن ۱۹۸۰؁ء کے بعدآپ کی کہانیاں مسلسل بچوں کے رسائل میں شائع ہوئیں۔ وکیل نجیب کی دلچسپی شروع سے ہی بچوں کی کہانی نویسی میں کم اور ناول نویسی میںزیادہ رہی ہے لہذا آپ نے ناول نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ بچوں کے لیے آپ کی اب تک ۳۱ تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہاں ادباء و شعراء کی تصانیف عموماً مہاراشٹر اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوتی ہیں لیکن وکیل نجیب کی تصانیف نہ صرف مہاراشٹر اردو اکادمی بلکہ اردو اکادمی دہلی، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی سے بھی شائع ہوئی ہیں۔ آپ کا پہلا ناول ’’بے زبان ساتھی‘‘ ترقی اردو بیورو دہلی نے شائع کیا۔ یہ ناول ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’جنگل کی امانت‘‘ یہ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے مالی تعاون سے ۱۹۸۶؁ء میںشائع ہوا۔ اس کی بیشتر کہانیاں کھلونا، نور اور پیام تعلیم میں شائع ہوئیں۔ اس تصنیف کو مہاراشٹرا اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا۔ ۱۹۹۱؁ء میں ’’مہربان جن‘‘ ۲۰۴ صفحات پر مشتمل ناول دہلی اردو اکادمی نے شائع کیا۔ ۱۹۹۴؁ء میں ’’خطرناک راستے‘‘ ناول منظر عام پر آیا جسے ترقی اردو بیورودہلی نے شائع کیا یہ ۸۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’خوفناک حویلی‘‘ یہ بچوں کے لیے شائع ہونے والا پانچواں ناول ہے۔ اس کی کہانی ۱۰۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ناول کتابی صورت میں آنے سے قبل بچوں کا رسالہ ’’امنگ‘‘ میں سلسلہ وار قسطوں میں شائع ہوچکا ہے۔ ۱۹۹۹؁ء میں ’’واپسی‘‘ ناول کی اشاعت عمل میںآئی۔ کتابی صورت میں آنے سے قبل یہ ناول ماہنامہ ’’الہلال‘‘میںقسطوار شائع ہوچکا ہے۔ وکیل نجیب کا ’’پانچ بھائی‘‘ یہ ناول نرالی دنیاپبلی کیشنز کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے اس کی کہانی ۱۵۰ صفحات پر محیط ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی نے وکیل نجیب کا ایک اور ناول ’’جانباز ساتھی‘‘ شائع کیا۔ ایک ناول ’’جانباز شہزادے‘‘ کے نام سے بھی بچوں کی نرالی دنیا میں قسط وار شائع ہوکر کتابی صورت میں نرالی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوچکا ہے۔ بعدازاں ’’غدّاروزیر‘‘ رحمانی پبلی کیشنزمالیگائوںکے زیر اہتمام شائع ہوا۔ یہ تصویری طویل کہانی ہے جو ۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتابی صورت میں آنے سے قبل یہ کہانی ’’امنگ‘‘ میں قسط وار شائع ہوچکی ہے۔ ۲۰۰۳؁ء میں آپ نے شمالی ہندوستان کے چند خوبصورت مقامات کی سیر کا پروگرام مرتب کیا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیر کر آنے کے بعدبچوں کے لیے ایک خوبصورت سا سفرنامہ تحریر کیا۔ یہ سفرنامہ اسی عنوان سے آپ نے ۲۰۰۳؁ء میںشائع کیا۔ بعدازاں قومی کونسل برائے فروغ اردو نے آپ کے ایک ناول ’’سازش‘‘ کو شائع کیا۔ آپ کی یہ تصنیف بھی بہت مقبول ہوئی۔ ۲۰۰۵؁ء میں آپ کا ضخیم سائنٹفک ناول ’’کمپیوٹان‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔ آپ کا یہ ناول بہت مقبول ہوا اور اشاعت سے قبل مختلف اخبارات ورسائل میں شائع بھی ہوا۔ ’’ماں کی بددعا‘‘ وکیل نجیب کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جسے رحمانی پبلی کیشنز نے اپنے طور پر شائع کیا ہے۔ کسی زمانے میں ناگپور سے قریب کامٹی میں رونما ہوئے ایک حقیقی واقعہ کو موضوع بناکر وکیل نجیب نے ایک ناول ’’نواب بنڈی والا‘‘ لکھاجسے انھوں نے ۲۰۰۶؁ء میںشائع کیا۔ یہ ناول ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد ’’انسانیت اور درندگی‘‘ یہ ناول منظر عام پر آیا۔ اس ناول کو بھی رحمانی پبلی کیشنز نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ آپ کا ایک اور ناول ’’معصوم بجوکا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں کمپیوٹان، واپسی اور ماں کی بددعا تصانیف کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعتیں بھی عمل میں آئیں۔ چند سال قبل ڈراموں پر مشتمل تصنیف ’’اپنا دکھ اپنی خوشی‘‘ منظر عام پر آئی۔ ’’اندھیرا اجالا‘‘ ۲۰۱۰؁ء میں کہانیوں پر مشتمل مجموعہ شائع ہوا۔ اسی سال ’’کچھ ڈرامے کچھ کہانیاں‘‘ اس عنوان کے تحت ۱۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب منظر عام پر آئی۔ سن ۲۰۱۱؁ء میں ’’ایک شخصیت پانچ کہانیاں‘‘ تصنیف منظر عام پر آئی۔ طویل تعطّل کے بعد۸؍اگست ۲۰۱۸؁ء کو وکیل نجیب کا تحریر کردہ ناول ’’تلاش پیہم‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس کا اجراء پروفیسر ڈاکٹر محمد اظہر حیات کے دست مبارک سے عمل میں آیا۔ یہ ناول ایک باغی اور سرکش خوبصورت لڑکی کی داستان ہے جو اپنی نت نئی سازش سے شریف لوگوں کو اپنے جال میں پھانستی تھی۔ مختصراًعرض یہ ہے کہ وکیل نجیب کا قلم بڑی تیز رفتاری سے بچوں کا مفید ادب تخلیق کرنے میں منہمک ہے۔ آپ نے ادب اطفال کے نثری سرمایہ کو مالامال کیا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد دکی پہلی کہانی ’’عقل مند شہزادہ‘‘ ماہ اپریل ۱۹۸۲؁ء میں ماہنامہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی۔اس کے بعد ان کی یکے بعد دیگرے کئی کہانیاں پیام تعلیم، کھلونا، نور، فردوس اور گلشن اطفال میں شائع ہوئیں۔ آپ کی اب تک بچوں کے لیے تیرہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ بچوں کے لیے آپ کی پہلی کتاب ’’صبح کا بھولا‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی اس میں ۲۴ سبق آموز کہانیاں موجودہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمدکے طرزاسلوب فن، کہانی نویسی پر ملک کے کئی اہل قلم نے ان کے انداز نگارش کو پسند کیا اور مستقبل میں ان سے اچھی امیدیں رکھی ہیں۔ عبدالخالق اور طفیل احمدنے بھی ۱۹۸۲؁ء کے بعد بچوں کے لیے کہانیاں لکھنی شروع کی تھیں۔ عبدالخالق کی کہانیاں ’’ٹوٹے ہاتھوں کا طمانچہ‘‘ پیام تعلیم ۱۹۸۲؁ء، ’’لالچ‘‘ پیام تعلیم فروری ۱۹۸۳؁ء، ’’چالاک بڑھیا‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۳؁ء، ’’پھول شہزادی‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۴؁ء اور طفیل احمد کی کہانیاں ’’کنجوس آدمی‘‘ پیام تعلیم مارچ ۱۹۸۲؁ء، ’’ایک تھا راجہ‘‘ پیام تعلیم اپریل ۱۹۸۲؁ء ، ’’خون کا بدلہ خون‘‘ پیام تعلیم جون ۱۹۸۲؁ء، ’’خواب‘‘ پیام تعلیم جنوری ۱۹۸۴؁ء میں شائع ہوئیں لیکن اس کے بعد دونوں کا قلم خاموش ہوگیا۔ غلام رسول اشرف نے جہاں اشرف نیوز ایجنسی کے ذریعہ ناگپور میں بچوں کے رسائل کو بچوں کے ہاتھوں تک پہنچانے کی سعی کی وہیں اپنے طالب علموں کو کہانیاں لکھنے کی بھی ترغیب دی نتیجہ میں ’’پیام تعلیم‘‘ کے رسائل میں روشن آرا ’’دوڑ میرے کدو ٹھمک ٹھمک‘‘ مارچ ۱۹۸۲؁ء، رشیدہ خاتون ’’قبر کی خبر‘‘ جون ۱۹۸۲؁ء، ظہیر خان ’’انوکھی شرارت‘‘ اگست ۱۹۸۲؁ء، افسر اقبال ’’اندھی عقل‘‘ اگست ۱۹۸۲؁ء، شفیق الرحمن ’’محنت کا پھل‘‘ جنوری ۱۹۸۳؁ئٗ کی کاوشیں ملتی ہیں لیکن تادیر اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھنے اور طلبہ کی عدم دلچسپی کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ڈاکٹر محمد اظہر حیات نے بھی گاہے بگاہے بچوںکے لیے مضامین اورکہانیاںلکھی ہیں۔ آپ کی پہلی کہانی ’’پیار کا بھوکا‘‘ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۷۰؁ء کو روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل یہی کہانی ماہنامہ نور رامپور میں شائع ہوچکی تھی۔ اسی ماہنامے میں بچوں کے لیے آپ کے کئی مضامین شائع ہوئے۔ ’’ماں باپ کو اف نہ کہو‘‘ ایک مضمون شائع ہوا۔ ماہنامہ ’’الفاظ ہند‘‘ کامٹی میں’’خوددار لڑکا‘‘ اس عنوان سے ایک کہانی مئی ۲۰۱۷؁ء شائع ہوئی۔ ایک مزاحیہ مضمون کہ ’’ہم فیل ہوگئے‘‘ ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد کی زینت بنا نیز ’’لے بندر روٹی ‘‘ بھی اسی ماہنامہ میں شائع ہوا ہے۔ حالانکہ یہ ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے تاہم یہ دونوں مزاحیہ مضامین بچوں کے ادب کے شاہکار ہیں۔ آپ اردو اکادمی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اسی زمانہ میں ۱۴؍نومبر ۱۹۹۸؁ء کو اردو اکادمی کے زیر اہتمام ناگپور شہر کے دیشپانڈے ہال میں ایک عظیم الشان بچوں کے شاعروں کا مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں ڈاکٹر مظفر حنفی، ظفر گورکھپوری، عبدلاحد ساز، خیال انصاری، امین حزیں، حیدر بیابانی کے علاوہ بیشمار نامور مقامی وبیرونی شعراء نے شرکت کی تھی۔ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ مشاعرہ بے حد کامیاب رہا اور ابھی تک ذہنوں میں محفوظ ہے۔ شعراء اطفال کا مشاعرہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منعقد کیا گیا اس سے علاقۂ ودربھ میں ادب اطفال کے ادباء وشعراء کو ایک نئی تحریک وترغیب ملی اور ماحول سازگار ہوا۔ ڈاکٹر اظہر حیات کا قلم ہنوز رواں دواں ہے۔ان کی ایک کہانی ’’الفاظ ہند‘‘ کامٹی کے کہانی نمبر میں ’’ماموں‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۸؁ء میں شائع ہوئی ادبی حلقوں میں اسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر جہاں کہنہ مشق شاعر ہیں وہیں ایک بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ آپ کے کئی مضامین، کہانیاں، رپورتاژ اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ بچوں کے ادب پر بھی آپ کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’’اردو زبان کا سوتیلا بچہ‘‘ مئی ۲۰۰۵؁ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں چھہ طویل مضامین ہیں جو ادب اطفال اور تعلیمی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ شریف احمد شریف ایک قادرالکلام شاعر، نظم ونثر دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گذشتہ چندسالوں سے بچوں کے ادب پر بھی خاصی توجہ دی اور بچوں کے لیے کئی دلچسپ کہانیاں اور خوبصورت نظمیں تخلیق کیں۔ آپ کی کہانیاں نہ صرف ملک کے مختلف رسائل مثلاً امنگ، بچوں کی نرالی دنیا، پیام تعلیم اور نور میں شائع ہوچکی ہیں بلکہ پاکستان سے شائع ہونے والے بچوں کے رسائل میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ مٹھی بھر کہانیاں اس عنوان کے تحت بچوں کے لئے خوبصورت مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ محترم شمس الرحمن فاروقی نے آپ کی طرز نگارش پر یوں اظہار خیال کیا ہے ’’مٹھی بھر کہانیاں نام کا مجموعہ آپ نے مجھے بھیجا ہے اسے میں نے جگہ جگہ سے پڑھا اور لطف اندوز ہوا۔ شریف صاحب کی زبان نہایت سادہ اور بامحاورہ نظر آئی۔ کہانیاں بیان کرنے کا سلیقہ بھی انھیں خوب آتا ہے۔ کتابوں کی بڑھتی ہوئی بھیڑ میں مٹھی بھر کہانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ ڈاکٹر محمدابوالکلام کے مضامین بچوں کے لئے کہانیاں، افسانے مختلف رسائل واخبارات میں گاہے بہ گاہے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ نے باقاعدگی کے ساتھ بچوں کے ادب کی جانب خصوصی توجہ دی۔ آپ کی پہلی تصنیف بچوں کا ناول ’’توبہ‘‘ ہے۔ یہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ آپ کی دوسری تصنیف ’’ہمارا ماحول اور آلودگی‘‘ بھی منظر عام پر آئی ہے۔ ڈاکٹر محمد اسداللہ نے انشائیہ نگاری کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی کئی نظمیں، مضامین اور کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ۲۰۰۵؁ء میں بچوں کے لیے ’’پرواز‘‘ نامی کتاب منظر عام پر آئی۔ اسداللہ کی یہ تصنیف سوال وجواب پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں اسلامیات، سائنس وسوشل سائنس، ادب اور متفرقات اس طرح پانچ ابواب قائم کئے گئے ہیں۔ ان ابواب کے ذریعہ بچوں کو کافی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر محمداسداللہ کی بچوں کے لئے مزاحیہ کہانیوں پر مشتمل کتاب ’’گپ شپ‘‘ بھی منظر عام پر آئی۔ شمیم اکبر علی میونسپل کارپوریشن ناگپور میں درس وتدریس کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ کہانیوں کے علاوہ آپ کے چند مضامین بھی ’’گلشن اطفال‘‘ میں نظر سے گزرے ہیں۔ مطالعہ کا شوق ہے لہذا خوب کتابیں خرید کر پڑھتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’’ودربھ میں بچوں کے نثری ادب کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ اور اس میں وکیل نجیب کا حصہ‘‘ موضوع پر تحقیقی مقالہ محترم ڈاکٹر اظہر حیات کی نگرانی میں مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ناگپور میں ادب اطفال کی صنف ڈرامہ نگاری میں بھی چند نام نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ زہرہ جبیں کی ڈراموں پر مشتمل دو کتابیں : ’’صبح کے بھولے‘‘ اور ’’مشعل راہ‘‘ ۱۹۷۸؁ء میں منظر عام پر آئیں گوکہ یہ ڈرامے خالص بچوں کے ادب کے زمرے میں شامل نہیں کئے جاسکتے ہیں البتہ ان دونوں کتابوں کے ڈرامے سبق آموز، اخلاقی اور اصلاحی ضرور ہیں۔ بچوں کے لیے ڈرامہ لکھنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد اسداللہ کا بھی ہے۔ آپ نے نہ صرف ڈرامے لکھے ہیں بلکہ انھیں اسٹیج بھی کئے ہیں۔ آپ کے ڈرامے انعامات کے مستحق بھی قرار دئیے گئے ہیں۔ ۲۰۰۱؁ء میں مولانا ابوالکلام آزاد ہائی اسکول میں ضلع پریشد ناگپور کی جانب سے ایک اردو ڈرامہ ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ورک شاپ میں مجاہدین آزادی کے کارناموں پر ڈرامے تحریر کئے گئے۔ اس ورک شاپ میں ناگپور کے اردو مدارس کے اساتذہ نے شرکت کی تھی اور ڈرامے تحریر کئے تھے۔ ڈاکٹر محمد اسداللہ نے ان ہی ڈراموں کو مرتب کرکے مہاراشٹر اردو اکادمی کے تعاون سے ’’صبح زرنگار‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۱؁ء میںکتاب شائع کی۔اس کتاب میںوکیل نجیب (آزادی کے گمنام سپاہی) ، محمد اسداللہ (آزادی)، ضیاء اللہ خاں لودھی (آج کے بچے کل کے نیتا)، ڈاکٹر اشفاق احمد (دوگز زمیں بھی نہ ملی)، سلام وفا (سلطان جمہور)م محمد حسن بھاٹی (منا چھپ جا)، ڈاکٹر عادلہ کھادی والا (مقدمہ)، فہمیدہ بیگ (شمع ہر رنگ میں جلتی ہے) وغیرہ صاحبان کے ڈرامے شامل ہیں۔ وکیل نجیب کی اس ضمن میں دو کتابیں ’’اپنا دکھ اپنی خوشی‘‘ اور ’’کچھ ڈرامے کچھ کہانیاں‘‘ منظر عام پر آئی ہیں۔ ضیاء اللہ خاںلودھی صاحب مصور، ڈرامہ نگار،کمرشیل ڈیزائنر اور ہدایت کار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ضیاء اللہ خاں لودھی قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں انعامات حاصل کرچکے ہیں۔ مہاراشٹر اردو اکادمی کے ڈراموں کے مقابلے میںان کا ڈرامہ تبادلہ کو اول انعام کا مستحق قرار دیاگیا ہے۔ بہترین اسکرپٹ رائیٹر، ہدایت کار اور بہترین اداکاری کے انعامات سے بھی نوازے گئے ہیں۔ موصوف نے نہ صرف بچوں کے لئے ڈرامے لکھے ہیںبلکہ انھیں اسٹیج بھی کئے ہیں۔ان کے یہ ڈرامے تعلیمی مجلہ ’’تہذیب الکلام‘‘ میں شائع بھی ہوئے ہیں۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد اسکول گاندھی باغ ناگپور میں فائن آرٹ کے معلم ہیں۔ ودربھ میں بچوں کے نثری ادب کی روایت گوکہ بہت شاندار نہیں ہے تاہم مایوس کن بھی نہیں ہے۔ البتّہ عصر حاضر مں جو ادیب اور قلم کار اس سمت توجہ دے رہے ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ودربھ کے قلم کار ملک گیر پیمانہ پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ ان کی وجہ سے اردو ادب اطفال میں رونق ہے۔
واشنگٹن : امریکی نائب معاون وزیرخارجہ ایلس ویلز معاشی میدان میں حکومتی اصلاحات کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت خارجہ کی کوششوں اورآئی ایم ایف پروگرام سے یہ ممکن ہوا۔ تفصیلات کے مطابق معاشی اصلاحات کے باعث موڈیزکی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری پر امریکی نائب معاون وزیرخارجہ ایلس ویلز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستانی حکومت کی معاشی میدان میں اصلاحات کی تعریف کرتے ہوئے کہا موڈیز نے پاکستان کے کریڈٹ آؤٹ لک میں نظرثانی کی، پاکستان کے کریڈٹ آؤٹ لک کے منفی سے مستحکم ہونے پر خوشی ہے، وزارت خارجہ کی کوششوں اورآئی ایم ایف پروگرام سے یہ ممکن ہوا۔ Pleased to see that @MoodysInvSvc has revised Pakistan’s credit outlook to stable thanks to @FinMinistryPak’s reform efforts and IMF program. With bold economic reforms, Pakistan can boost growth, attract private capital, and expand exports. AGW — State_SCA (@State_SCA) December 3, 2019 ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ جرأت مندانہ معاشی اصلاحات سے پاکستان پیداوار اور برآمدات بڑھا سکتا ہے جبکہ اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان سرمایہ کاری کو بھی راغب کرسکتا ہے۔ مزید پڑھیں : موڈیز نے پاکستان کا آؤٹ لک منفی سے مستحکم کردیا یاد رہے 2 دسمبر کو معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرتے ہوئے آؤٹ لُک کو منفی سے مستحکم کر دیا تھا ، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بی تھری پر برقرار رکھی ہے تاہم پہلے مستقبل یعنی آؤٹ لُک منفی تھا۔ عالمی ریٹنگ ادارے کا کہنا تھا کہ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر اب بھی کم ہیں اور انہیں بہتر ہونے میں وقت لگے گا مگر پالیسی ایڈجسٹمنٹ اور آزادانہ شرح مبادلہ سے ادائیگیوں کے توازن کی بہتری میں مدد ملے گی۔
اسلام آباد: پاکستانی دارالحکومت سےاغوا اور افغانستان میں قتل ہونے والے ایس پی طاہرداوڑ شہید کاجسدخاکی آج طور خم کے راستے پاکستان منتقل کیا جائے گا، خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طاہر داوڑکی نمازجنازہ پشاورمیں ادا کی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان میں قتل ہونے والے ایس پی طاہر داوڑ شہیدکی میت آج طور خم کے راستے پاکستان لائے جائے گی، وزیرِ اطلاعات کے پی شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طاہر داوڑ کی نمازِ جنازہ پشاور میں ادا کی جائے گی، نمازِ جنازہ کے بعد میت ورثا کے حوالے کی جائے گی۔ طاہر داوڑ کی نمازِ جنازہ پشاور میں ادا کی جائے گی گذشتہ روز دفتر خارجہ نے اسلام آباد سے اغوا ایس پی طاہرداوڑ کے افغانستان میں قتل اور لاش ملنے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ شہید ایس پی طاہر داوڑ شہید کا جسدخاکی جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ایس پی طاہرداوڑکی لاش گذشتہ روزننگرہارسے ملی،لاش کےساتھ ایس پی کاسروس کارڈبھی ملا ، لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے جلال آباد کے سرکاری اسپتال منتقل کردیا گیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ پاکستانی حکام کے حوالے کی جائے گی۔ مزید پڑھیں : ایس پی طاہر داوڑ کی میت جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ کے حوالے اس سے قبل داخلہ امورکے وزیرمملکت شہریار آفریدی نےکہا تھا معاملہ حساس ہے، فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے جبکہ خیبرپختونخواکےوزیراطلاعات شوکت یوسف زئی نے بتایا تھا طاہرداوڑ کی شہادت کی افغان حکومت نے تصدیق کردی ہے، پولیس ٹیم آج پورادن طورخم بارڈرپرانتظار کرکے واپس آگئی۔ واضح رہے کہ پشاور پولیس سے تعلق رکھنے والے افسر محمد طاہر خان داوڑ 17 روز قبل اسلام آباد کے علاقے ایف ٹین سیکٹر میں واک کرتے ہوئے غائب ہوئے تھے، اس کے بعد ان کی کچھ خبر نہیں ملی تھی۔ مزید پڑھیں: اسلام آباد سے لاپتا پشاور پولیس کے ایس پی کی تشدد زدہ نعش افغانستان سے برآمد جس کے بعد خبریں گردش کرتی رہی کہ 27 اکتوبر کو اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے پشاور کے ایس پی کو نامعلوم افراد نے اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا ہے، مقتول کی تشدد زدہ نعش افغان صوبے ننگرہار سے بر آمد ہوئی۔ اہلِ خانہ کے مطابق ایس پی طاہر داوڑ چھٹیوں پر تھے اور وہ ذاتی کام کے سلسلے میں اسلام آباد پہنچے تھے،جس کے بعد ان سے اچانک موبائل فون پر رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
گمشدہ افراد کے لئے آواز اُٹھانے والا اور سوشل میڈیا پر مقبول ہونے والی نظم کافر کافر تو بھی کافر ، کافر کافر میں بھی کافر ، کا خالق اور فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کا پروفیسر سلمان حید ر گزشتہ جمعے سے گمشدہ افراد میں شامل ہوگئے ہیں ، اور یہ واحد شخص نہیں اس سمیت اب تک اطلاع ہے کہ گیارہ سوشل ایکٹیویسٹ اور بلاگرز کو اٹھایا گیا ہے اور یہ سارے وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو تھے اور بلاگ لکھا کرتے تھے، اس بات کا علم کیسے ہوا ، کیوں کہ جب سے یہ بلاگرز لاپتہ ہوئے ہیں اسی دن سے کچھ پیجز اور گروپس جیسے روشنی، بھینسا، موچی ، وغیرہ بھی غائب یا غیرفعال ہوگئے ہیں اور شاید یہی لاپتہ افراد ہی ان پیجز کے ایڈمن تھے۔مگر اس میں کہاں تک حقیقت ہے اس بارے میں کوئی معلومات کسی کو بھی نہیں ہم نے اتفاق سے بہت سے پیجز کا وزٹ کیا ہے روشنی میں ایک خاص قسم کے الٹرا سیکولر نقطہ نظر کی تحریریں شائع ہوتی تھیں، مگر معتدل تحریریں بھی یہاں پر موجود تھیں مگر بھینسا ایک نہایت فضول قسم کا پیج تھا، میں نے خود کئی دفعہ اس پیج کے حوالے سے اور کچھ دیگر پیجز ،واجد کی واجدانیاں، سبزی والا، زلان سمیت بہت سے پیجز کے بارے میں فیس بک کو شکایت لگائی تھی کہ یہ غلط قسم کا مواد شائع کر رہے ہیں جس پر کچھ پیجز سے تصویریں ہٹادی گئیں اور کچھ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ہماری پالیسی کے مطابق ہیں اس لئے اس کو ریمو نہیں کرسکتے میری طرح بہت سے لوگوں نے بھینسا پیج کے سکرین شاٹس شیئر کیے تھے جس سے سب کو معلوم ہواتھا کہ یہ مذہب مخالف بلکہ مذہب اور خدا، اس کے پیغمبروں کی توہین کرنے والا پیج ہے۔ اگر سلمان حیدر یا کسی اور کا بھینسا سے تعلق ہے تو یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ بھینسا کے ایڈمنز پر یقینی طور پر قوانین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے، مگر یہ سب ریاستی قانون کے مطابق کیا جائے، جس میں ملزم کو اپنی صفائی کا حق ملنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر متحرک سیکولر سوچ رکھنے والے بلاگرز میں ایک کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ کہ وہ پولیو کے مریض ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم سائیبر سکیورٹی کے مطابق بلاگرز وقاص گورایا اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں۔ جبکہ رضا نصیرہفتہ کے دن سے لاپتہ ہیں اب ایک اور فر د ثمر عباس بھی ایک لسٹ میں آگئے ہیں ۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے سندھ اور پھر بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا اور اب سول سوسائٹی کے افراد کو بھی اٹھایا جارہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سلمان حیدر اور دیگر افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہی ہے مگر ہماری عدالتیں بے بس ہیں، ہماری سول سوسائٹی بھی لاچار ہے اور ہمارے سیاستدان بھی بے کار ہیں کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ ان کا راستہ روک سکیں سلمان حیدر گیا وہ پتا نہیں واپس لوٹتا ہے یا باقی زندگی ا ±س کی اونچی دیواروں کے عقوبت خانوں میں کٹتی ہے اس کا مجھے پتا نہیں مگر ایک چیز کا مجھے پتا ہے وہ یہ کہ یہ سلسلہ ر کے گا نہیں۔ کل ہم یا ہمارے دوست اس ظلم کا شکار ہوں گے اور ہمارے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ ہو جائے گا۔کیونکہ یہ ریاست فقیروں اور انسانوں کیلئے نہیں ہے یہ عقابوں اور شاہینوں کی ریاست ہے اس میں فاختہ کا زندہ رہنا محال ہے۔ اس لئے تو سلمان حیدر اپنی بیوی کو ٹیکسٹ کر کے بتا رہا تھا کہ آٹھ بجے تک آ جاو ¿نگا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے گھر والوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ جو باہر گیا ہے پتا نہیں لوٹ بھی پاتا ہے یا انجانے راستوں میں کھو کر پھر گھر کا پتا نہیں پاتا۔اب تو یہ بات سینیٹ میں چوہدری نثار صاحب نے بھی قبول کرلی ہے کہ سلمان حیدر خفیہ اداروں کے مہمان ہیں تو یعنی کہ وقاص گورایہ عاصم سعید اور احمد رضا بھی انہی اداروں کی تحویل میں ہیں یہ بات سمجھ سے باہر ہوگئی ہے کہ حساس ادارے کیونکر قانون سے بالاتر ہیں اداروں نے چار افراد ماورائے عدالت اٹھائے، ساتھ ہی تین پیجز بلاک ہوئے. یہاں سے یہ تاثر قائم کیا گیا کہ جو بھی اغوا کیا جارہا ہے، دراصل اس کا تعلق شر پسندی میں ملوث کسی پیج سے ہے سوال یہ ہے کہ جب افراد حراست میں ہیں اور یہ علم ہوچکا کہ وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر کسی خلاف آئین وقانون سرگر میوں میں ملوث تھے، تو پھر مشکل کیا تھی؟ کیا یہ زیادہ مناسب اور زیادہ آسان نہیں کہ تمام افراد کو عدالت میں پیش کرکے قانونی کارروائی کی جائے..؟کیا ایسے میں قانونی کارروائی اور بھی آسان نہیں ہوجاتی کہ جب سائبر کرائم بل جیسا غیر متوازن قانون موجود ہو.؟ وہ قانون جس کی ہر دوسری شق آپ ہی کو سہولت مہیا کرتی ہے؟ ملزم پر قتل کا الزام ہی کیوں نہ ہو اس کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتامشکل مگر یہ ہے کہ غیر جمہوری عناصر قانون کے سامنے جواب دہی کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں انہیں تسکین ملتی ہے، جب یہ منتخب ایوان اور عدل کے ایوان کو پامال کر کے شہری کو غائب کرتے ہیں، خود فیصلہ سناتے ہیں اور خود ہی تازیانے برساتے ہیںماورائے عدالت اٹھائے گئے بلاگرز کے گرد جرائم کی پر اسرار لکیر کھینچ کر مزید جبری گمشدگیوں کو جواز بخشنے کی بجائے قانونی کاروائی کرکے ان کے جرائم سے دو اور دو چار کی طرح آگاہ کیا جائے اور یہ بھی ایک حقیقت کہ ایک کالعدم تنظیم دارالحکومت کے مرکز میں جلسہ کرتی ہے، مگر ایک باشعور سماجی کارکن کو اسی شہر سے اٹھا لیا جاتا ہے، ہماری حکومت کی خامیوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے سلمان حیدر نقاد تھے۔جب تشدد کو قبول کر لیا جائے مگر اختلاف کو کچل دیا جائے تو یقین رکھیں کہ مستقبل قلم سے نہیں بندوق سے لکھا جا رہا ہے۔سچ کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ خطرات کو نظرانداز کرنے والے لوگ زیادہ نہیں، مگر جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نہ صرف ایک دوسرے سے ذہنی طور پر منسلک ہوتے ہیں، بلکہ ٹارچر سیلز میں اور قیدخانوں میں بھی انہیں اپنے ساتھی مل جاتے ہیں۔ اگر لکھنا اور شاعری یہاں جرم ہے، تو یہ جان لیا جائے کہ نظم مزاحمت کرے گی، اور تب تک لڑے گی جب تک کہ سلمان حیدر اور ان جیسے دیگر کارکنان بحفاظت اپنے گھروں کو نہیں لوٹ جاتے یوںہی ہم اپنی اپنی کھولیوں میں بند ہو کر ظلم سہیں گے، غدار اور ایجنٹ کے بے بنیاد القابات سے اپنے دامنوں کو داغدار ہوتا دیکھ دیکھ کے جئیں گے۔ حیف ایسی زندگی پر م ±جھے بھی لے جاو یارو اور گ ±م کردو اب اور درد نہیں سہے جاتے۔ یوں ہی کب تک اپنی روح کے زخموں کو ان کے نمک پاروں سے سڑتا ہوا برداشت کریں۔ حد ہوتی ہے، مگر یہاں کوئی حد نہیں کوئی ضابطہ نہیں، کوئی انسانیت نہیں بس ہر طرف جہالت اور ظلم کے چلتے پھرتے ب ±ت ہیں جو زندہ لوگوں کو زمین دوز کرتے ہیں اور پھر باقی بچ جانے والوں کو ڈرا دھمکا کر بربریت کے اس دھندے کو جاری رکھتے ہیں۔اگر واقعی میں بھینسا جیسے پیجز کے پیچھے یہ لوگ شامل ہیں تو ان کو سز ادی جائے ان کو قانون کے دائرے کے اندر لایا جائے کیونکہ سائبر قانون موجود ہے اگر ان سب لاپتہ افراد پر کوئی الزام ہے تو قانونی تقاضے پورے کر کے شفاف عدالتی عمل کے ذریعے ہی سزا ملنی چاہیے۔ دین ، اخلاقیات، ائین کسی کو یوں اٹھا لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ باقی ہم دعا کرتے ہیں کہ سلمان حید ر سمیت تمام لاپتہ افرادواپس اجائیں کیونکہ اس دعا کے سواہم کچھ نہیں کرسکتے . ایڈیٹرنوٹ سماجی میڈیا پر کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ریاست کے اہم اداروں کے درمیان نفرتیں پھیلانے میں اپنا مذموم کردار ادا کر رہے تھے ، اسی طرح کچھ عناصر فرقہ واریت کو ہوا دیکر سماج میں جبر ، تخریب کاری اور کشیدگی کو ہوا دے رہے تھے . یہ لوگ مختلف جعلی ناموں سے سوشل میڈیا پر پیجز چلا رہے تھے جہان ریاست ، حکومت ، فوج اور مذہب کے خلاف انتہائی ناشائستہ مواد موجود ہوتا تھا . دستیاب معلومات کے مطابق تقریبا 12 افراد کو نامعلوم افراد نے اٹھا لیا ہے . شبہ ہے کہ یہ افراد ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں . ممکن ہے کہ یہ افراد قصور وار ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان افراد کا کوئی قصور نہ ہو ، محض الزام یا افواہ کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا .آئی بی سی اردو پر شائع ہونے والے مضامین میں ہر شخص کو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق اپنی رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے ، ہم اس حق کا احترام کر تے ہیں تاہم کسی کی دل آزاری قابل قبول نہیں . آئی بی سی اردو کسی ایسے تاثر کی شدید الفاظ میں نفی کرتا ہے جس سے اٹھائے گئے کسی شخص پر اس کے مجرم ہونے کا گمان ہوتا ہو . آئی بی سی اردو ایک صحافتی پلیٹ فارم ہے جہاں تمام طبقات کو تہذیب اور اخلاقی حدود کے اندر اپنی رائے کی آزادی اور اظہار کا حق حاصل ہے . ہم ریاست پاکستان اور اس میں بسنے والے تمام طبقات کے آئینی حقوق کا احترام کر تے ہیں اور ان کے اس حق کیلئے ان کے ساتھ بھی کھڑے ہیں تاہم مملکت پاکستان ، ریاستی اداروں ، حکومت ،عدلیہ اور فوج سمیت کسی بھی مذہب اور مسلک کے خلاف بے ہودگی اور یاوہ گوئی پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں .
ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق پولیٹیکل پارٹی آرڈر اور رولز 2002ء کے تحت سیاسی جماعت کو شوکاز نوٹس جاری کرکے موقع دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فارن ایڈڈ پارٹی ثابت ہوچکی ہے، ایسی جماعت کے خلاف ڈکلیئریشن جاری کرنا لازمی ہے۔ ذرائع کے مطابق ممنوعہ فنڈ ضبط کرنے سے قبل پارٹی کو وضاحت کا ایک موقع دیا جاتا ہے، پارٹی کے پاس اگر کوئی دستاویز ہو، جو ممنوعہ فنڈنگ نہیں ہے کا ثبوت ہو تو اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جوابدہ کو موقع دیا جاتا ہے، اگر پارٹی اپنے حق میں دستاویز لے آئے تو الیکشن کمیشن فیصلہ واپس لے سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد عموماً 7 سے 14 روز کے اندر جواب دینا ہوتا ہے، شوکاز نوٹس کی کارروائی مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیج دے گا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ کوشش بہت کی، مگر اتنی ہمت الیکشن کمیشن کو بھی نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی پر پابندی یا عمران خان کی سیاست ختم کرنے کا فیصلہ دے سکے۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق پارٹی کے فنڈ ضبط کرنا یا اسے تحلیل کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے، الیکشن کمیشن ممنوعہ یا غیرملکی فنڈ کی نشاندہی کرکے اسے وفاقی حکومت کو ریفرنس کی صورت میں ارسال کرے گا۔ ذرائع کے مطابق ممنوعہ فنڈ کو ضبط کرلیا جاتا ہے، غیرملکی فنڈنگ پر پارٹی کو تحلیل کرنے کا ڈکلیئریشن لایا جاتا ہے، وفاقی حکومت ممنوعہ یا غیرملکی فنڈنگ کی نشاندہی پر اس کی تحقیقات کرے گی۔ ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق غیرملکی فنڈنگ ثابت ہونے پر وفاقی حکومت پارٹی تحلیل کرنے کا ڈکلیئریشن سپریم کورٹ کو ارسال کرے گی، عدالت عظمیٰ کے پاس حتمی اختیار ہے، وہ پارٹی تحلیل کرنے کا ڈکلیئریشن منظور یا مسترد کرے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے کل سے دوسرے مرحلے میں اسکولز کھلونے کی اجازت دے دی، جس کے تحت کل چھٹی سے آٹھویں تک کی کلاسز کا آغاز ہوگا۔ تعلیمی ادارے کھولنے کے دوسرے مرحلے سے متعلق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کا اجلاس ہوا۔ این سی او سی کے اجلاس میں وفاقی وزیر اسد عمر، وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود، وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ اور معاونِ خصوصی برائےصحت شریک ہوئے۔ اجلاس میں صوبائی وزرائے تعلیم اور سیکریٹری تعلیم بھی شریک تھے۔ این سی او سی کے اجلاس میں طے پایا کہ کل سے چھٹی سے آٹھویں تک کی کلاسز کا آغاز ہوگا۔ وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود پہلے ہی اسکول مرحلہ وار کھولنے کا شیڈول جاری کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کی وباء کے باعث تعلیمی ادارے تقریباً 200 دن بند رہنے کے بعد 15 ستمبر سے پہلے مرحلے میں کھل چکے ہیں۔ 15 ستمبر کو نویں، دسویں تک سرکاری و نجی اسکول، مدارس جبکہ کالج اور جامعات میں کورونا ایس او پیز کے تحت تدریسی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔
سڈنی: پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کپتان کی حفاظت کرے۔ تفصیلات کے مطابق بابراعظم نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں کہا کہ عمران خان پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کپتان کی حفاظت کرے اور ہمارے پیارے پاکستان کو محفوظ رکھے۔ Strongly condemn this heinous attack on @ImranKhanPTI. May Allah keep Kaptaan safe and protect our beloved Pakistan, Ameen. — Babar Azam (@babarazam258) November 3, 2022 واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان قاتلانہ حملے میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔پولیس کے مطابق فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور بھگدڑ مچ گئی جبکہ موقع پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آور کو فوری طور پر حراست میں لے لیا۔ فائرنگ کے بعد سیکیورٹی اہلکار فوری طور پر عمران خان کے پاس پہنچ گئے اور انہیں حصار میں لے کر بلٹ پروف جیکٹ ان کے سامنے کر دئیے تاہم چیئرمین پی ٹی آئی گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سیدھی ٹانگ میں گولی لگی ہے جبکہ پی ٹی آئی رہنما فیصل جاوید بھی زخمی ہوئے ہیں، اس کے علاوہ احمد چٹھہ اور چوہدری محمد یوسف بھی زخمی ہیں۔
بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ کے نواح میں پولیس اور ریڈی میڈ ملبوسات کے کاریگروں کے درمیان ہونے والی پُر تشدد جھڑپوں میں درجنوں لوگ زخمی ہوگئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ہنگامہ ہفتے کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوا، جب ڈھاکہ سے 30کلومیٹر شمال میں آشولیہ کے صنعتی علاقے میں واقع ریڈی میڈ کپڑوں کے کارخانوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ناراض مزدوروں نے کپڑے کے کئی کارخانوں میں توڑ پھوٹ کی اور کئی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اُنھوں نے ڈھاکہ سے تنگائیل جانے والی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کے نظام کو درہم برہم کردیا، جِس کے بعد پولیس حرکت میں آگئی۔ مقامی پولیس کے سربراہ، سراج الاسلام نے بتایا کہ بے قابو ہجوم نے ملبوسات کی فیکٹریوں پر حملے کیے، گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور جب پولیس نے ڈھاکہ تنگائیل ہائی وے پر ٹریفک بحال کرنے کی کوشش کی تو اُن پر سنگ باری بھی کی گئی۔ اسلام نے اعتراف کیا کہ پولیس نے بے قابو بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کے بلیٹ داغے اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ پولیس کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ چند مظاہرین نے گولیاں بھی چلائیں۔ عہدے دار کے مطابق، 40پولیس اہل کار زخمی ہیں جب کہ مزدوروں کی یونین کا کہنا ہے کہ 100سے زیادہ مزدور زخمی ہوئے ہیں۔
(24 نیوز)وزیراعظم شہباز شریف کو ملک میں بجلی کی تازہ ترین صورتحال پر آج صبح بریفنگ دی گئی اور لوڈشیڈنگ کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ پیش کی گئی ،وزارت توانائی کے حکام نے وزیراعظم کو بتایا کہ ملک میں بجلی کی طلب اور کھپت کے تازہ ترین اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مختلف فیڈرز پر بجلی کی ترسیل کی صورتحال دریافت کی اورکہا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے مل کر کام کرنا ہے، عوامی مشکلات کو کم ہونا چاہیے۔ یہ بھی پڑھیں:افغان مہاجرین کا جعلی دستاویزات کیساتھ پاکستانی بننے کا انکشاف دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ اور توانائی کی صورتحال پر اجلاس بلالئے ہیں، حکومتی معاشی اور توانائی ٹیم کو حکام نے وزیراعظم ہاؤس طلب کرلیا ہے۔وزیراعظم کو بجٹ کے اعداد و شمار پر بریفنگ دی جائے گی، بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ، مراعات، ٹیکسز سمیت مہنگائی کنٹرول پر مشاورت ہوگی۔وزیراعظم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کی صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا، پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار کے بارے میں بریفنگ دی جائے گی۔
انسان کی پیدائش سے لے کر آج تک ہزاروں صدیاں گزر چکی ہیں اور دنیا کے انسان مذہبی کتابوں کے ذریعہ آپس میں یہ فیصلہ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ کس مذہب میں بتایا ہوا خدا حقیقی خالق کائنات ہے لہذا دنیا کا کوئی بھی انسان اگر یہ دعوی کرے کہ اس کے مذہب کا خدا اصلی ہے تو اسے اپنے خدا کا نام اور اس کی بنائی ہوئی نیچر کی غیرجانبدار مخلوقات کو دنیا کے تمام انسانوں کے سامنے لاکر ثبوت کے طور پر پیش کرنا لازمی ہے بصورت دیگر اسے کوئی حق نہیں کہ خیالی خدا کے نا م پر عوام کو بے وقوف بناکر انہیں برین واش کرے اور پھر وہ اپنے اپنےگھروں میں پیدا ہونے والے معصوم بچوں کو برین واش کرکے بچپن سے خالی خداوں کی پوجا پر لگائیں۔ خیالی خدا وں کے نام پر عوام سے پیسہ بٹورنے کا حق کسی بھی ایسے انسان کو نہیں جو اپنے خدا کا نام اور اس کی تخلیق کردہ مخلوق اس کے دستخطوں کے ساتھ عوام کے سامنے پیش نہ کرسکےلہذا مجھے دنیا کے تمام ادیان و مذاہب کے مذہبی و روحانی پیشوا اور ان کے پیروکار اپنے خدا کی تخلیق کردہ مخلوق اس کے نام کے دستخطوں کے ساتھ دکھائیں اگر وہ سچے ہیں کیونکہ دین اسلام میں بتایا ہوا خدا "اللہ" اپنی تخلیق کردہ بہت سی مخلوق اپنے نام کے دستخطوں کے ساتھ دکھاچکا ہے اکیسویں صدی اور بعد میں آنے والے تمام انسانوں کے لیے۔ کیا کوئی غیرمسلم اپنے خدا کی تخلیق کردہ بہت سی مخلوق اس کے نام کے دستخطوں کے ساتھ دکھاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں دکھاسکتا کیونکہ غیرمسلموں کے مذہبی و روحانی پیشواوں نے دنیا کے انسانوں کو صدیوں سے بے وقوف بناکر رکھا ہوا ہے ایسے خداوں کے نام پر جنہیں اس کائنات پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لہذا دنیا کے تمام مسلم حکمرانوں سے میری درخواست ہے کہ اگر وہ واقعی اللہ کے ساتھ سو فیصد مخلص ہیں اور اپنے اپنے ممالک کی عوام کو مذہب کے نام پر دہشت گردی، قتل و غارت، فتنہ و فساد اور دیگر خرافات سے بچاکر اپنے اپنے ممالک میں ہمیشہ کے لیے امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پرایسے تمام ادیان ومذاہب کی تبلیغ پر پابندی عائد کریں جن کے مذہبی و روحانی پیشوا اپنے مذہب کے خدا کی تخلیق کردہ مخلوق اس کے نام کے دستخطوں کے ساتھ پیش کرنے میں ناکام ہوجائیں۔ چونکہ ہم مسلمان ایسا کرنے میں اللہ واحد القہار کے خاص فضل و کرم سے کامیاب ہوچکے ہیں لہذا دنیا کے تمام انسانوں کو سچے خدا کے بارے میں بتانے اور تبلیغ کرنے کا حق صرف مسلمانوں کو حاصل ہے ۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران اپنی عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے لاک ڈاون لگاسکتے ہیں اور ماسک پہننا لازم قرار دے کر شناختی کارڈ میں انٹری کرواکر لائسنس جاری کرواسکتے ہیں تو عوام کو جعلی خداوں اور ان کے نام پر ایجاد کردہ باطل مذاب سے بچانے کے لیے تبلیغ مذہب پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے اور صرف ایسے تمام افراد جو اپنے خدا کی تخلیق کردہ مخلوق اس کے نام کے دستخطوں کے ساتھ پیش کردیں انہیں ہی یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ دنیا کے انسانوں کو اپنے خدا کی تبلیغ کرسکیں گے لہذا انہیں اس بات کا حکومتی لائسنس جاری کیا جائے اور ان کے مذہب کے سوا دیگر تمام باطل ادیان و مذاب کے پیشواوں اور ان کے پیروکاروں کو یہ حق حاصل نہ ہونا ہوگا تاکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت روکنے میں مدد مل سکے۔ نیچر کے غیرجانبدار ناقابل شکست ثبوتوں کو دنیا بھر کے تمام غیرمسلموں تک مختلف زبانوں میں پہنچانے اور انہیں سمجھانے کے لیے دنیا بھر میں موجود تمام مخلص مسلمان اپنے وسائل و ذرائع کو بھرپور استعمال کریں تاکہ غیرمسلم اللہ کے کھلے معجزات دیکھ کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوسکیں اللہ کے حکم سے نیز آپ ہمارے ساتھ تعاون کرنے یا کام کرنے کے لئے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ ویب سائٹ کا تعارف سنہ 2009 سے ہم نے خالق کائنات کے وجود پر غیر جانبدار، فطری، عملی، قابل مشاہدہ ثبوتوں کے ذریعہ تحقیق کی ہے اور ان کی چھان بین کی ہے اور انہیں ایسے سچائی کے متلاشی افراد کے لئے فراہم کیا ہے جو ایک حقیقی خدا کو ڈھونڈنے کے لئے دینی کتابوں سے الجھے ہوئے ہیں لہذا اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے جہنم سے بچانے کی خاطر دین اسلام میں داخل ہوجائیں کیونکہ موت کے بعد ہمیشہ کی یقینی زندگی موجود ہے۔
پاکستانیوں آنکھیں کھولو! جاگو اور دیکھو پاکستان کے ارد گرد اور طاقتور ممالک نے پاکستان کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو صرف اسِ لئے بر طرف کیا گیا کہ امریکہ عمران خان کو پسند نہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شریف، زرداری اور تمام کرپٹ لوگوں کے ہا تھوںمیں پاکستان کی ریاست اس لیے تھما دی گئی کیونکہ وہ حزبِ اختلاف کی سیٹوں پر بیٹھے تھے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں جنرل باجوہ کو پتہ نہیں تھا کہ امپورٹیڈ حکومت قائم کرنے سے ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا؟ کیا آپ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تمام چوروں، منی لانڈرر اور کرپٹ عناصر کے مقدمات ختم کرنے میں پاکستان کے اندر موجود مفاد پرست عناصر کا ہاتھ ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت روزانہ کی بنیاد پر دیوالیہ کی طرف جانے کے باوجود اسحاق ڈار کو کرائم منسٹر شہباز شریف ائیر فورس کے خصوصی طیارے میں اپنے ساتھ لیکر لایا اور چوبیس گھنٹے کے اندر سینٹ کا حلف اٹھا کر وزیر خزانہ بنا دیا گیا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان دوبارہ حکومت میں آسکتا ہے اور کیا یہ کہ عمران خان کو قتل نہیں کیا جا سکتا؟ کیا آپ آج بھی اسِ غلط فہمی میں ہیں کہ پاکستان ایک نیوکلئیر ریاست ہونے کی وجہ سے ختم نہیں کیا جاسکتا؟ اگر آپ آج بھی انِ سوالات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ میرا کوئی وسوسہ ہے یا خیالی خوف ہےتو میرے محب ِ وطن پاکستانیوں آپ وہ غلطی کر رہے ہیں جس کی پھر کبھی تلافی نہیں ہو سکے گی۔ میں پچھلے کم سے کم دو سال سے لکھ رہا ہوں اور ویڈیو کے ذریعہ بھی یہ آپ لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ پاکستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے اور بڑی تیزی سے ہو رہا ہے یعنی گریٹر پنجاب، سندھو دیش، گریٹر پختونستان اور آزاد بلوچستان جو امریکہ کی فوجی چھائونی ہوگا۔شریف فیملی، زرداری اینڈ کمپنی، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے ملک دشمن عناصر اور گروپوں سے امریکہ ، بھارت اور برطانیہ یہ ڈیل کر چکے ہیں۔ پاکستان کے خزانے کا دیوالیہ ہونا، مہنگائی کا لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہونا، اسٹریٹ کرائمز میں نا قابل یقین اضافہ ہونا، دنِ دھاڑے عورتوں اور بچوں پر تشدد اور عصمت دری ہونا،ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم، اور ملک کے شمالی علاقوں میں آئے دنِ پاک فوجی آفیسروں کی اموات کوئی حادثاتی اموات کوئی حادثات نہیں بلکہ بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔یہ چیزیں میں عرصہ دراز سے قلم بند کرکے آپ تک پہنچاتا رہا ہوں ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدیگی کے وقت ایک لاکھ پاکستانی فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے جو اُس وقت دنیا کی تاریخ کی بھیانک ترین شکست تھی۔ پاک فوج کے جوانوں کو بھارتی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالوا کر اور دس لاکھ بنگالیوں کو صفہ ہستی سے مٹا کر بنگلادیش بنوا کر اس وقت کے جرنیل بھارت کے ذریعہ واپس مغربی پاکستان آگئے جن کا عزت سے استقبال کیا گیا، کیونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک بین الاقوامی ایجنڈا تھا جس میں بھارت، امریکہ، برطانیہ اور تمام بین الاقوامی طاقتیں ایک صفہ پر تھیں اور ہمارے زر خرید غلام حکم کی تعمیل کررہے تھے۔ آج بھارت سمیت تمام بین الاقوامی طاقتیں پھر ایک صفہ پر ہیں کہ پاکستان کے ٹکڑے کرنا ہیں تاکہ امت مسلمہ کی اسِ طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکے۔ یہ کام پاکستان کے کرپٹ ترین عناصر اور چند فوجی جرنیلوں سے یہ کام کرایا جا رہا ہے جو ۱۹۷۱ میں بھی مشرقی پاکستان کے زوال کے وقت سر انجام دے چکے ہیں۔ محب وطن پاکستانیوں حالات آپ کے سامنے ہیں۔ پاکستان کے خزانے میں ڈالرز نہیں ہیں؟ پاکستان کی کرنسی افغانستان، بنگلادیش اور بھارت سے بھی نیچے آگئی ہے؟ باقی کا کام اسحاق ڈار سے کرایا جائے گا اور یہ ہی شخص پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرے گا! اور انہیں میں سے ایک جنرل ہوگا جو پاکستان کے نیوکلئیر امریکہ کے سپرد کرے گا؟ آپ کو لگ رہا ہوگا کہ میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی کر رہا ہوں یا یہ صرف میرے ذہن کی پیداوار ہیں ۔ تو میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی عوام نے الگ کیا تھا؟ کسِ کسِ نےکیا کیا کردار نبھایا مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں، اگر آپ اس وقت چھوٹے تھے یا پیدا نہیں ہوئے تھے تو اپنے بزرگوں سے پوچھئے؟ مجھے یاد ہے میں اسُ وقت نوی جماعت میں تھا۔ میرے والد جب مشرقی پاکستان کے حالات اور اسُ وقت ممکنہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر تبصرہ کرتے تھےاور اپنی تحریروں میں بیان کرتے تھے تو لوگ انُ کا مزاق اڑاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا، مشرقی پاکستان کبھی الگ نہیں ہو سکتا۔ پھر اچانک ایک خبر رات آٹھ بجے ایران اور امریکہ کے ریڈیو خبروں کے ذریعہ مغربی پاکستان کی عوام کو پتہ چلا کہ مشرقی پاکستان کو ختم ہوگیا۔ میں یہ ایک بھارتی کی طرف سے جاری ویڈیو میں بیان کئے گئے بیانات شائع کر رہا ہوں۔ آج اسِ طرح کی باتیں صرف بھارت کا میڈیا ہی نہیں بلکہ انُ تمام ممالک میں ہو رہی ہیں جو پاکستان کے دوست نما دشمن ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کی کئی گھنٹوں پر محیط آیڈیوز کا انکشاف ہوتا اور ڈارک ویب پر شائع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا تحفظ کرنے والے ادارے اپنا کام سر انجام دینے میں ناکام ہیں یا پھر غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہے۔ اگر اسِ خفیہ ایجنسی کے ہوتے ہوئے پاکستان کے اہم ترین اداروں کے کاروائیاں باہر کے لوگوں کے ہاتھوں میں فروخت ہونے کے لئے دستیاب ہیں تو پھر پاکستان کو بچانے والا صرف اللہ کی ذات ہے۔ عمران خان کو اللہ تعالی نے آپ کو ایک معجزہ کے طور پر بھیجا ہے کیونکہ اب بھی اللہ ہمیں ہماری غلطیوں کو معاف کرکے بچے کچے پاکستان کو قائم رکھ سکتا ہے ویسے تو ہم اسِ لائق نہیں ہیں۔ عمران خان پر اسِ وقت ملک کے اندر ریاستی اور بین الاقوامی طاقتوں کا پریشر ہے۔ عمران خان کو بھرپور عوام کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے ابھی تک عمران خان کو قتل کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے مگر یہ مت سمجھئے کہ عمران کو راستے سے ہٹھانے کا کام ترک ہو گیا ہے؟ عمران خان کو اسِ وقت مستقل دبایا جارہا ہے کہ وہ عوامی مزاحمت کا اعلان نہ کرے! اگر اسِ وقت عمران کو اور پاکستان کو آپ بچا سکتے ہیں تو دیر مت لگائیے کیونکہ ایک ایک لمحہ تیزی سے گزر رہا ہے پتہ نہیں کل کیا ہوجائے؟ پاکستانیوں بیرونِ ملک پاکستانی مکمل طور پر آپ کی اور عمران خان کی تحریک کے ساتھ ہیں اگر وقت پڑا تو پاکستان بھی آ سکتے ہیں مگر ہم بیرونِ ملک رہ کر جو کام کر سکتے ہیں جس کی ضرورت بھی پڑیگی وہ آپ لوگ پاکستان میں نہیں کر سکتے۔مجھے میرے کئی پاکستان نامور صحافی اور کالم نگار یہ پیغام بھیجتے رہتے ہیں کہ آپ آسٹریلیا میں بیٹھ کر اپنے مشن کو جاری رکھیں کیونکہ جو آپ بیان کر سکتے ہیں ہم یہاں ریاستی جبر و زیادتیوں کی وجہ سے نہیں کر سکتے۔لحاظہ میں اور بہت سارے بیرونِ ملک صحافی و کالم نگاراپنا فرض نبھا رہے ہیں اور انشااللہ نبھاتے رہے گے۔ اللہ تعالی ہماری کوتاہیوں کو معاف کرکے پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور پاکستان کی حقیقی آزادی اور استحکام کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو سلامت رکھے (آمین)۔
بالی وڈ کے معروف اداکار اور ڈائریکٹر راکیش روشن کو گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی ہے، جو ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہے۔ راکیش روشن کے صاحبزادے اور معروف اداکار ہریتھک روشن نے انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعے مداحوں سے یہ خبر شیئر کی۔ ہریتھک نے لکھا، ‘آج صبح میں نے ڈیڈ سے ایک تصویر لینے کا کہا، میں جانتا ہوں کہ سرجری والے دن بھی وہ جِم کو مِس نہیں کریں گے، وہ شاید سب سے مضبوط انسان ہیں، جنہیں میں جانتا ہوں۔ ‘ اداکار نے مزید لکھا، ‘چند ہفتے قبل ہی انہیں (راکیش روشن کو) گلے کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے، جو ابھی ابتدائی اسٹیج پر ہے، لیکن وہ اس سے لڑنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں، بحیثیت خاندان ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اُن جیسا سربراہ ملا ہے۔’ راکیش روشن نے اپنے کیریئر میں بہت سی کامیاب فلموں کی ہدایات دی ہیں، جن میں ‘کوئی مل گیا’، ‘کہو نا پیار ہے’، ‘کرن ارجن’ اور ‘خون بھری مانگ’ شامل ہیں۔ انہیں فلم ‘خوبصورت’ اور ‘کھیل کھیل میں’ ان کی پرفارمنس کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ راکیش روشن کی صاحبزادی سنینا روشن کو بھی چند سال قبل رحم کے نچلے حصے کا کینسر (cervical cancer) تشخیص ہوا تھا، تاہم علاج کے بعد وہ صحت یاب ہوگئی تھیں۔
ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا اسپیشل جے آئی ٹی بنانے کا حکم آرمی چیف کا دورہ کراچی، مزار قائد پر حاضری، پھولوں کی چادر چڑھائی اسمبلیوں کی تحلیل پر عمران خان الیکشن کرا کے کیا کرے گا امریکا اور یورپ سے دوستی کریں گے، غلامی نہیں: مولانا فضل الرحمان سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کی سماعت، والدہ آبدیدہ ہو گئیں اسلام آباد: اتوار بازار میں آتشزدگی، 150 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ، رانا ثنا کا نوٹس پی ٹی آئی اجلاس، اسمبلیوں سے استعفے اور تحلیل کے حوالے سے مشاورت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سرکاری دورے پر انڈونیشیا پہنچ گئے پشاور:قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائی، 4 دہشتگرد گرفتار عمران خان نے اگلے چند روز میں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ کرلیا ہے 97 شیئر کریں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمائ رضا ربانی کی گرینڈ پیپلز الائنس بنانے کی تجویز admin مارچ 17, 2021 March 17, 2021 0 تبصرے اسلام آباد (جنرل رپورٹر) پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنمائ اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے گرینڈ پیپلز الائنس بنانے کی تجویز دے دی، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی رہی سہی توقیر بھی گزشتہ دنوں ختم ہوگئی، وکلا، عدلیہ اورمیڈیا کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، آج ضرورت ہے تمام جمہوری قوتیں گرینڈ پیپلز الائنس بنائیں۔ انہوں نے آج یہاں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک فاشسٹ ریاست کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی رہی سہی توقیر بھی گزشتہ دنوں ختم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کی آزادی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کہا گیا کہ صحافیوں کی بہبود کا بل اپوزیشن نے پاس نہیں ہونے دیا، جبکہ اس بل میں پیمرا کو مزید طاقت دی گئی تھی کہ وہ میڈیا کا گلہ دبائے، ضیائ دور میں بھی مزدور، طلبائ یونین اور تھنکرز کو کرش کیا گیا تھا۔ آج وکلا، عدلیہ اور میڈیا کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے آنے والے دنوں میں ہم سب اکھٹے ہوں گے۔ آج ضرورت ہے تمام جمہوری قوتیں گرینڈپیپلزالائنس بنائیں۔ پی ایف یوجے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ صحافت کے خلاف صوبائی حکومتیں بھی حربے استعمال کرتی ہیں۔ پبلک کیلئے نامعلوم لوگ ہوتے ہوں گے صحافیوں کو سب معلوم ہوتا ہے۔ میں اتفاق نہیں کرتا کہ آزادی صحافت کو نامعلوم افراد سے خطرہ ہے۔ کل بھی سندھ میں ایک صحافی کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ لوگ قومی مفاد کی جو مرضی تعریف کریں عوامی مفاد ہی قومی مفاد ہے۔ پاکستان کے آئین میں درج آرٹیکل 19میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔ اس آرٹیکل میں درج ہےکہ دوست ملک پر بھی تنقید نہیں ہوسکتی۔ وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل خوش دل خان نے کہا کہ پاکستان بھر کے وکلائ آزادی صحافت کی جدوجہد میں صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ پی ایف یوجے
تصوّف, منتخب تحریریں اکتوبر 2019ء, امام غزالیؒ, جلال الدین رومیؒ, داتا دربار, داتا گنج بخشؒ, رومی, سید علی بن عثمان ہجویری, شیخ فرید الدین عطارؒ, غزالی, غوث پاک تصوّف کی شہرہ آفاق اور لازوال کتابیں روحانی ڈائجسٹ ⋅ نومبر 2019 [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] تاریخ کے صفحات کے مطالعے سے روزِروشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ انسانی معاشروں کو مختلف ادوار میں مادی آلائشوں اور اخلاقی رذائل کے باعث ابتری کا سامنا رہا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ذہنی آلائشوں، علمی کثافتوں اور فکری غلاظتوں کے سدِ باب کے لیے امت میں ایسے نابغہء روزگار ہستیاں بھی ہمیشہ جنم لیتی رہی ہیں جن سے علم و معرفت، حکمت و دانش اور فہم و فراست کے چراغ روشن ہو تے ہیں۔ [/box] – پڑھے کے لیے کلک کیجیے! مسلمانوں میں ابتدا سے ہی ایک گروہ ایسا موجود ہے جس نے اپنا نصیب المعین یاد خدا و ذکر الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا، سکون و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا۔ رفتہ رفتہ اس مسلک کا نام مسلکِ تصوف پڑ گیا اور یہ گروہ گروہِ صوفیہ کہلانے لگا۔ اولیاء اللہ نے تزکیہ قلب، سکون، مشاہدہ اور باطنی اسرار کے لئے کتابیں تصنیف کیں۔ تصوف کی نمایاں کتابوں مثلا مثنوی مولوی از مولانا رومی، کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری، احیاء العلوم و کیمیائے سعادت از امام غزالی، منطق الطیر و تذکر الاولیا از شیخ فرید الدین عطار، فتوح الغیب از شیخ عبدلقادر جیلانی، العوارف المعارف از شیخ سہروردی، انیس الارواح از عثمان ہرونی، دلیلل العارفین از خواجہ معین الدین چشتی، راحت القلوب و اسرار الاولیاء از بابا فرید گنج شکر، فوائد الفواد و راحت المحبین از شیخ نظام الدین اولیا، خیرالمجالس و مفتاح العاشقین از شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی قوت القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حلیۃ الاولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالہ القشیری از امام قشیری وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملا بھی کتاب و سنت کی پیروی کی تلقین ملے گی۔ صوفیائے کرام نے اپنی تصانیف کی مدد سے یہ سکھانے کی کوشش کی کہ اتباع کتاب و سنت میں انتہائی سعی کی جائے۔ اوامرو نواہی کی تعمیل کی جائے، اطاعت و عبادت کو مقصود حیات سمجھا جائے، قلب کو ما سوا کی محبت اور تعلق سے الگ کیا جائے، نفس کو خشیت الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور تزکیۂ باطن کی سعی و جہد کا کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کیا جائے۔ صوفیائے کرام نے اپنی تصانیف کے ذریعے دنیا کو امن، عدم تشدد، محبت وبھائی چارہ کا درس دیا۔ صوفیہ نے پوری دنیا میں محبت کا پیغام پھیلایا اور بتایا کہ تصوف کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک سے ایساروحانی رشتہ جوڑے کہ اسے اپنے دل کے آئینے میں ساری دنیا کا عکس نظرآنے لگے۔ مسلم صوفیا کی بعض کتب کو مسلم دنیا میں اہمیت حاصل رہی اور ان کا مسلم تاریخ اور ثقافت کے فروغ میں بڑا کردار ہے، ان کتب نے عالمی طور پر بھی سماجی علمی ادبی و ثقافتی سطح پر دنیا پر اپنے مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔ صوفیا کرام کے محبت اور انسان دوستی کے فلسفیانہ نظریات، مغربی خیالات و تصوّرات پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوئے ہیں۔ مسلم صوفیا نے اپنی تعلیمات سے مغرب کو بتایا کہ اُسے قدیم اور ہم عصر ذہنوں سے رشتہ قائم کرنا چاہیے جو اعلیٰ انسانی اقدار کی تشکیل کرتے رہے ہیں اور آج بھی ہیومنزم کی قدر و قیمت کا احساس دلا رہے ہیں۔ مغرب میں ہیومنزم یا انسان دوستی کی تحریک کو زندگی بخشنے میں یہی صوفیانہ نظریات ہمیشہ پیش پیش رہے۔ صوفیا کا اخوت ومحبت کا یہ پیغام آج بھی بامعنیٰ ہے جو دنیا بھر میں انسانوں کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرسکتا ہے۔ زمانی حدود سے ماورا ہو رک صدیوں سے دنیا بھر کے انسانوں کو ذہنوں اور قلوب کی روشنی عطا کرنے میں مسلم صوفیاء کی ایک بڑی تعداد کے اسمائے گرامی لافانی شہرت کے حامل بن گئے ہیں۔ ان میں خاص طور پر دنیا بھر میں اپنے وسیع تر حلقہ قارئین کے لھاظ سے دیھا جائے تو ان ہستیوں میں مولانا جلال الدین رومی (مثنوی معنوی)، محمد ابو الحامد امام غزالی (کیمیائے سعادت)، شیخ فرید الدین عطار (منطق الطیر)، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (فتوح الغیب) اور حضرت علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش (کشف المحجوب) کے اسمائے گرامی نمایاں ترین نظر آتےہیں۔ آئیے ان ہستیوں کے مختصر ذکر اور ان کی کتابوں کے چند حوالوں سے اپنی علمی پیاس کی کچھ سیرابی اور اپنی ذہنی ، قلبی اور روحانی تسکین کا کچھ سامان کریں۔ مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے! مثنوی معنوی مولانا جلال الدین رومیؒ مولانا رومیؒ کا نام کس نے نہیں سنا اور ان کی مثنوی سے کون واقف نہیں ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی کےمشہور جلال الدین رومی کا شمار ایسے شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا کلام صدیوں کی گرد اُڑنے کے بعد بھی دھندلا نہیں ہوا بلکہ اُن کے اشعار کو پڑھ کے دلوں کے آئینے شفاف تر ہوتے جاتے ہیں اور روحوں کی کثافتیں دور ہو جاتی ہیں۔ آپ کے اشعار پڑھنے والے کے دل میں اترتےجاتے ہیں۔ رومی کا روشن کلام اسرار و رموز کا ایک خزینہ اور معرفت و عرفان کا ایک گنجینہ ہے۔ آپ کی شاعری میں اللہ اور نبی کریمﷺ سے محبت کا اظہار ہے، پند و نصائح کے موضوعات ہیں ، ان میں فلسفیانہ عقائد جھلکتے ہیں، حکمت کا رنگ نمایاں ہے، سوز وگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مولانا رومی کا کلام ایک طرف تو حکمت اور اعلیٰ خیالات کا گنجینہ ہے دوسری طرف شاعری کے محاسن سے پُرہے۔ اُن کے کلام میں سادگی بھی ہے، سوزو گداز بھی ہے ، عشق کی وارفتگی بھی اور وحدت کا اظہاربھی ہے۔ عشقِ نبویﷺ کا اظہار بھی، حیات و کائنات کے مسائل کا بیان بھی ہے۔ واقعت نگاری ہو یا قصہ گوئی ، وعظ و نصیحت ہو یا درسِ اخوت و مساوات ، ہر فن میں طاق ہیں ۔ اُن کے اشعار معنویت کا گہرا دریا ہیں اور تصوف کی نئی جہتوں کے عکاس ہیں۔ مولانا کی شہرۂ آفاق تصنیف مثنوی روم شاعری کی ایسی عظیم و جلیل کتاب ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عالمی ادب میں اس کا حریف نظر نہیں آتا۔مثنوی مولانا رومؒ کو دنیا کے ادبِ عالیہ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ شاعری کی کسی کتاب کو اس قدر احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ، جتنا احترام رومی کی شاعری کو حاصل ہے۔ سات سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ کلام عالمی ادب میں بے نظیر ہے۔ عالمی سطح پر ان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی ، ایران اور پاک و ہند میں مثنوی کو ایک نہایت محترم کتاب کا درجہ حاصل رہا ہے وہیں آپ کو یہ جان کر بھی شاید حیرت ہوگی کہ رومی کی شاعری امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کلام ‘‘بیسٹ سیلرز ’’ میں سے ہے۔ یہی نہیں رومی کی شاعری کی تشریح کرنے والے امریکی شاعر کولمین بارکس(Colman Barks)کی کتابیں بھی اتنی ہی شہرت کی حامل ہیں۔ مولانا رومیؒ کا زیادہ تر کام فارسی میں ہے، مگر رومی کا مکمل کلام 26 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، فارسی سے ترکی، عربی، انگریزی، جرمن، سویڈش، اٹالین، اردو، فرنچ، جاپانی، البانوی، اسپینش، ترکمان، کزخ، تاجک، چینی، یونانی، روسی، آذر بائجانی، ملائی، سواہلی، کُردی، بوسینائی، ڈچ اور کرغز زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے ، جبکہ پرتگالی اور یغور زبان میں ترجمہ زیر تکمیل ہے۔ ترکی میں قونیہ میٹرو پولیٹن بلدیہ نے آنے والے دنوں میں مثنوی معنوی کا ترجمہ 50 زبانوں میں کرنے کا ہدف طے کیا ہے۔ زبانوں کی یہ تعداد محض مکمل کلام یعنی ‘‘مثنوی معنوی ’’کے ترجمہ کی ہے۔ اس کے علاوہ رومی کے منتخب کلام پر مشتمل تصانیف دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ روزانہ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر مولانا رومی کے اشعار پوسٹ اور شئیر کئے جاتے ہیں۔ مولانا رومی کے بارے میں کئی دستاویزی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ رومی ایک عالمی مفکر ہیں اور دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق رومیؒ وہ بزرگ علمی ہستی ہیں جن کے کلام اور کتب کو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے نے عام کیا ہے۔ یورپ انہیں اپنا مانتا ہے، ایشیاء ان پر اپنا حق سمجھتا ہے جبکہ باقی دنیا ان کے پیغام کو محبت کا بنیادی جزو تسلیم کرتی ہے۔ ہم سے زیادہ تو مغربی دنیا میں لوگ ان کے کلام سے واقف ہیں۔ یہ چودھویں صدی کی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام اور اسلامی فلسفہ، تصوف کے بارے میں دلچسپی لینا شروع کی اور خاص طور پر فارسی زبان کی اعلیٰ کتب کا اپنی زبانوں (خاص کر انگریزی، فرانسیسی اور جرمن ) میں ترجمہ کرنا شروع کردیا۔ اس طرح ایک جانب تو وہ ہمارے مذہب و فلسفہ سے واقفیت حاصل کرنے لگے اور دوسری جانب اسلام کے اعلیٰ اصولوں و قوانین کی قدر بھی کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں کئی دانشوروں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے ممالک میں اپنے ہم زبانوں کو اِسلام کے سنہرے اُصولوں کے بارے میں بتلایا۔ یہ سلسلہ عمر خیامؒ کی رباعیات سے شروع ہوا، پھر طوسیؒ، عطارؒ، سعدیؒ اور رومیؒ وغیرہ کے کلام کے ترجمے ہوئے۔ مغرب نے مولانا رومیؒ کا صوفیانہ تخیل بہت خوشی سے اپنایا۔ جرمن دانشور اَنے مری شِمل نے ان کے کلام کا انگریزی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ کرکے لوگوں کو مسحور کردیا۔ جو کوئی بھی رومی کو جانتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ ان کا راستہ خدا سے محبت کا راستہ ہے۔ مولانا رومی کا طریقہ صرف اور صرف خدا کی محبت ہے۔ بقول رومی ‘‘سچائی کے بے شمار راستے ہیں گر جو راستہ میں نے چنا وہ محبت ہے’’۔ رومی کا سبق تھا محبت ،رومی کا پیغام تھا محبت، رومی کا مقصد تھا محبت، رومی کا اوڑھنا تھا،محبت رومی کا بچھونا تھا محبت۔ محبت کا دوسرا نام اگر رومیؒ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ رومی کو اپنا راہ نما تسلیم کرتے تھے اور اپنی شاعری میں انہوں نے رومی کی شمس تبریز ؒ سے عقیدت اور عشق کو مثال بنا کر پیش کیا ہے۔ امریکہ میں ‘‘آ گفٹ آف لو’’ (A Gift of Love)کے نام سے پورا ایک مکتب فکر ہے جو رومی پر تحقیق کے موقع فراہم کرتا ہے۔اسی حوالے سے ایک دستا ویزی فلم ‘‘رومی، پوئٹ آف دا ہارٹ’’ (The Point of The Heart) کے نام سے بنائی گئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] عشق اور رومی عقل جزوی را وزیر خود مگیر عقل کل را ساز ای سلطان وزیر عقل جزوی عقل را بدنام کرد کام دنیا مرد را ناکام کرد مولانا کے نزدیک عقل کی دو قسمیں ہیں ایک عقل جزوی جو ناقص ہوتی ہے، جو بحث و استدلال ظن و تخمین نفاق اور مصلحت اندیشی کی خوگر ہوتی ہے اور یہ عقل دنیا والوں کی ہے۔ دوسری عقل کلی ، جس کا تعلق اہل اللہ سے ہوتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر و فکر یقین و ایمان اور عشق کی خوگر ہوتی ہے۔ یہی حکمت دینی عقل کلی سالک کو عش کا خوگر بناتی ہے جو ہرادنی اور ہر اعلیٰ چیز کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور قوت فعال بھی۔ [/box] – مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے! کیمیائے سعادت حضرت امام غزالیؒ کیمیائے سعادت ابوحامد محمد الغزالی المعروف امامغزالی کی شاہ کار تصنیف ہے۔ یہ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔ کیمیائے سعادت امام غزالی کی اہم تصنیف “احیاء العلوم الدین” کا خلاصہ ہے جو پہلے اکسیر ہدایت کے نام سے عربی زبان میں لکھی گئی تھی بعد میں خود امام غزالی ہی نے اس کا ترجمہ فارسی میں “کیمیائے سعادت” The Alchemy of Happiness کے نام سے کیا۔ اس عظیم کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور یہ حسب ذیل چار عنوانات اور چار ارکان پر مشتمل ہے : نفس کی پہچان اللہ تعالی کی پہچان دنیا کی پہچان آخرت کی پہچان ارکان: عبادات معاملات مہلکات(ہلاک کرنے والی اشیاء) منجات( نجات دینے والی اشیاء) اس کتاب کا موضوع اخلاقیات ہے اور اس کی بنیاد دین پر ہے۔ غزالی مشکل سے مشکل بات کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی سہولت سے سمجھادیتے ہیں۔ استدال کی غرض سے غزالی نے قرآنی آیات اور حدیث نبوی سے اپنے کلام کو زینت بخشی ہے۔ کبھی کبھی فلسفانہ نکتے کو واضح کرنے کے لیے اس کی تشریح بھی کردیتے ہیں لیکن تفصیل میں غیر ضروری چیزیں شامل نہیں آنے دیتے ہیں۔ محمد الغزالی کی تخلیقات نے مغربی تصوّرات و خیالات کو بڑی شدّت سے متاثر کیا ہے، مغربی مزاج کی تبدیلی میں اُن کا بڑا حصہ ہے۔ ابوحامد محمد الغزالی کو مغرب کے علما اور اسکالر الغازل (Algazel) کہتے تھے۔ منطق، فلسفہ، فقیہ، مذہب اور رُوحانیت کے مسائل پر الغزالی کے کارنامے عظیم ہیں۔ دمشق، یروشلم، اسکندریہ، ّمکہ اور مدینہ وغیرہ کے سفر میں اُنھوں نے اپنے مطالعے کو بڑی وسعت بخشی تھی۔ اپنے عہد کے رُوحانی مسائل پر اُن کے خیالات بہت قیمتی ہیں۔ دینیات کی جدلیات، تصوّف اور مذہب، فیثاغورث اور عوامی فلسفہ، نوافلاطونی فلسفیانہ خیالات وغیرہ ایسے موضوعات تھے کہ جن پر اُنھوں نے اظہارِ خیال کیا۔ ان کا ہر تجزیاتی مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ الغزالی عالم اسلام کے ایک روشن خیال مفکر ہیں۔ آپ مسلمان مفکروں میں انتہائی ممتاز درجہ رکھتے ہیں۔ غزالی کے نزدیک تجربہ، عقائد اور مذہبی اصولوں سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ اُن کی دیگر تصنیفات میں احیاء العلوم ، معیار العلوم ، محک النظر ، موحۃ الالغار اور شکوۃ الانوار وغیرہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد الغزالی نے اسلام میں قدامت پسند نظریے کی مخالفت کی اور تصوّف کی لچک اور اُس کے جمال کا احساس گہرا کیا۔ ان کی تصانیف کے مطالعے سے یہودی اور عیسائی مذہبی رہنماؤں اور اسکالرز نے اسلام کی داخلی معنویت کو سمجھنے میں کامیابی حاصل کی۔ خود مسلمان قدامت پسندوں نے الغزالی کی تحریروں کی روشنی میں اسلام کی سچائی کو پانے کی اپنے طور پر کوشش کی۔ الغزالی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کے صوفیانہ افکار و خیالات نے عیسائی مسٹی سیزم کو بڑی شدّت سے متاثر کیا۔ غزالی کا نظریہ مغرب کے فلسفیوں کے دل میں اُتر گیا اور وہ اسلامی تصوّف کے مطالعے کی جانب آہستہ آہستہ بڑھے اور پھر اپنے مطالعے سے قرآن حکیم کے ارشادات کی خوشبوؤں سے آشنا ہوئے۔ مغرب میں اسلامی دینیات سے دلچسپی بڑھی اور ساتھ ہی الغزالی کے خیالات کی روشنی میں اسلامی تصوّف کے جمال کو سمجھنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مشہور شاعر چوسر (Chaucer) نے مولانا رومی، فریدالدین عطاّر اور محمد الغزالی کی علامتوں سے بڑی روشنی حاصل کی۔عہد وسطیٰ کے مسیحی پوپ توما ایکویناس ، یہودی فلاسفر موسیٰ بن میمون سے لے کر راجر بیکن، رینے ڈیکارٹ کے فلسفے کی تحریروں پر امام غزالی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ امام غزالی کی تصنیف کیمیائے سعادت کا ترجمہ ترکی، اردو، آذربائجانی، انگریزی اور جرمن سمیت کئی یورپی زبانوں میں ہوا ہے۔ امام غزالی کا کلام نو سو سال گذر جانے کے باوجود آج بھی مقبول ہیں۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] دل کا آئینہ آدمی کا دِل آئینے کی طرح ہے۔ جو کوئی اِس میں غور کرے گا، خدا کو دیکھے گا، اور بہت سے لوگ اپنے میں غور کرتے ہیں مگر خدا کو نہیں پہچانتے۔ تو جس اعتبار سے دِل کی معرفت کا آئینہ ہے، اُس لحاظ سے دِل کو جاننا ضروری ہے۔ [کیمیائے سعادت، امام غزالی؛ باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔مطبوعہ لاہور۔ 1999ء][/box] مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے! منطق الطیر شیخ فرید الدین عطارؒ نیشاپور (ایران )کے مشہور فارسی شاعر شیخ فرید الدین عطار کا شمار صوفی اکابرین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نظم اور نثر میں کمال پیدا کیا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ عطر اور ادویات ساز تھے۔ آپ فارسی شاعر، صوفی اور ماہر علوم باطنی بھی تھے۔ آپ کی کتاب ‘‘منطق الطیر’’ The Conference of the Bird تصوف کی ہر دلعزیز کتاب ہے اس کے علاوہ آپ نے ایک کتاب ‘‘تذکرہ اولیا’’ بھی لکھی۔ حضرت فرید الدین عطار کا علمی خاصہ اور اثر آج بھی فارسی شاعری اور صوفیانہ رنگ میں نمایاں ہے۔یہاں تک کے مولانا رومی بھی آپ سے متاثر تھے، کہا جاتا ہے کہ مثنوی لکھے جانے کا آغاز تب ہوا جب ایک روز مولانا روم کے خادم حسام الدین چلبی نے آپ سے کہا کہ اگر وہ شیخ حکیم ثنائی کے “الہی نامہ” کی طرز پر اور فرید الدین عطار کی “منطق الطیر” کی بحر میں ایک کتاب تحریر کریں تو یہ آنے والی نسلوں کی یاداشت میں ایک زندہ رہنے والی تحریر ہو گی اور اس سے اللہ سے محبت کرنے والوں اور غم زدہ دلوں کو سکون میسر آئے گا- اور یوں مثنوی رومی وجود میں آئی۔ مولانا رومی عطار کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ہفت شہر عشق را عطار گشت ماہنوز اندر خم یک کوچہ ایم (عطار نے عشق کے ساتھ سات شہروں کی سیرکی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ابھی گلی کے موڑ پرہیہیں)۔ شیخ فرید الدین عطار کی فارسی زبان میں لکھی ہوئی مثنوی ‘‘منطق الطیر’’جو چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ مثنوی کی کہانی میں انسانی کردار کے بجائے پرندے مثلاً ہدہد، طوطی،مرغ، فاختہ، قمری، بلبل، باز وغیرہ ہیں ، یہ پرندوں کے سات وادیوں میں ایک تصوفانہ سفر کی کہانی ہے جو اُن کے افسانوی شاہ سیمُرغ کی تلاش میں کیا گیا۔ سیمُرغ ایرانی لوک کہانیوں کا ایک آفاقی پرندہ ہے۔ کتاب منطق الطیر میں یہ سب پرندے ایک جگہ یکجا ہوکر اپنا بادشاہ منتخب کرنے پر بحث کرتے ہیں، ہدہد بادشاہت کے لیے سیمرغ کا نام تجویز کرتا ہے، اس بات پر چند پرندے معترض ہوتے ہیں جن کی اعتراض و سوالات سن کر ہدہد باری باری سب کا جواب دیتا ہے، سوالات وہی ہوتے ہیں جو عموماً ہر طالب و سالک کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات سلوک و طریقت کے مختلف مقامات ہوتے ہیں۔ آخرکار اپنے اس رہبر و مرشد (ہدہد) کی تبلیغ و تفہیم سے تمام پرندے شاہ سیمرغ کی اطاعت میں آجاتے ہیں اور ہدہد کی رہنمائی میں سات وادیوں کا سفر کرتے ہیں۔ عطار کی مثنوی میں پرندوں کے سفر کے اس استعارے کا استعمال دراصل انتہائی شاعرانہ اور تصوفانہ طرز میں روح کے اپنے خالق تک پہنچنے کے سفر کو بیان کیا گیا ہے۔ مثنوی میں ہفت وادی،میں ایک مشکل سفر کا بیان جو سات وادیوں سے گزرنے کا بے حد مشکل عمل ہے۔ یہ سات وادیاں، وادیٔ تلاش(طلب و جستجو)، وادیٔ الفت (عشق)، وادیٔ تفہیم (معرفت)، وادیٔ آزادی اورترکِ دنیا (استغنا)، وادیٔ یک جہتی(توحید)، وادیٔ حیرت و سراسیمگی (حیرت) اور وادیٔ محرومی (فنا ) کے نام سے مسموم ہیں۔ تیس پرندے جب ہدہد کی رہنمائی میں یہ ساتواں وادیاں عبور کر لیتے ہیں تو انہیں وادی فنا میں سیمرغ کی بارگاہ دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ سیمرغ کو دیکھتے ہیں تو انہیں اس میں اور اپنے میں کوئی فرق دکھائی نہیںدیتا۔ سیمُرغ کوئی خارجی عنصر نہیں بلکہ خود اُن کی اپنی ذات ہے!….گویا وہ تیس پرندے علاماتی طور پر اپنی تلاش ہی میں چلے تھے اور اپنی دریافت و خود شناسی پر ان کا سفر ختم ہوا۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] عقل و عشق عشق اینجا آتش است و عقل دود عشق کامد در گریزد عقل زود عقل در سودای عشق استاد نیست عشق کار عقل مادر زاد نیست ‘‘عشق یہاں آگ ہے اور عقل دھواں، جب عشق آتا ہے تو عقل جلد ہی رخصت ہو جاتی ہے…. عقل عشق کی راہ کا استاد نہیں ہے ، دیکھو!عشق عقل والوں کا کام نہیں..’’ (ماخوذ از منطق الطیر، باب وادی عشق) [/box] مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے! فتوح الغیب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب Revelations of the Unseenسلسلہ قادریہ کے امام حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے آغاز میں ارشاد وتلقین اور اصلاح احوال کا جو معرکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے بر پا کیا بعد میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ امام غزالی نے تصوف کو ایک فن کا درجہ دیا تو حضرت شیخ عبد القادرجیلانی نے عملی طور پر اس میں جان ڈال دی۔آپ کے وعظ انتہائی پر تاثیر ہوتے تھے۔ آپ نے جس وقت وعظ کی یہ محفلیں شروع کیں تو لوگ چاروں طرف سے آنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگ اس زندگی بخش اوریقین وایمان بخشنے والی آواز کو سننے کیلئے منتظر اور بیتاب تھے۔ حضرت سید عبد القادر جیلانی ؒ نے کھلے عام وعظ نصیحت کا طریقہ اخیتار کر کے لوگوں کے اعتقاد عمل میں جو انقلاب برپا کیا ،صوفیاء کے سلاسل میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے وعظ کے بنیادی مضامین تو حید ،انسانی تخلیق کی غرض وغایت، خوفخدا، عبادت وعمل پر ابھارنے کا جذبہ ، شفقت ، محبت اپنے تمام احوال وافعال میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع ،تعلق خد ا وندی اور حقائق ومعارف کے بیان پر مبنی ہوتے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے تبلیغی اثرات پوری دنیا ئے اسلام پر پڑے۔آپ کے تجدیدی کارنامے اور اسلام کی دعوت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت بخشی کہ دنیائے اسلام میں آپ شیخ الشیوخ اور پیر پیراں کے معزز القاب سے یادکئے گئے۔حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے کتاب و سنت کی حاکمیت، شریعت کی بالادستی اور تما م معاملات میں رضائے الہیٰ کے لیے فلسفیانہ مباحث، منطقی طرز استدلال اور عقلی موشگافیوں کے برعکس قرآن کا سادہ، فطری اور دلنشین طریقہ اختیار کیا۔ یونانی علوم کی کلامی بحثوں میں الجھے ہوئے معاشرے کیلئے یہ آواز پیغام ورحمت ثابت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے ملت اسلامیہ کو پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ فتوح الغیب مضامین قرآنی اور اسرار طریقت ، علم تصوف و معرفت سے معمور یہ معرکۃ الاراء کتاب کئی مقالات پر مشتمل ہے، ہر مقالہ معرفت و حقیقت کا آئینہ دار ہے، اس کتاب میں علم تصوف و معرفت اور اسرارِ حقیقت و معارف قرآنی کے غوث اعظم کے بیان کردہ اٹھتر 78 وعظ ہیں جو آپ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے ۔ جن میں آپ نے اصلاح نفس ، تزکیہ قلب پر زور دیا ہے اور شریعت کی پیروی اور سنت پر کار بند رہنے کا درس دیا ہے۔ اور ا حکام دین کی بجا آوری کی تلقین کی ہے۔ اس کے سا تھ ساتھ سلوک و طریقت کے رموز و حقائق بتاۓ ئے ہیں۔ ان مقالات کا مطالعہ ایمان میں حرارت پیدا کرتا ہے اور صحیح اعمال و عقائد کی عکاسی کرتا ہے ۔ فتوح الغیب کا ہر وعظ معرفت وحقیت کی کان ہے، اس کی ایک ایک سطر خداشناسی ،خشیت الٰہی،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی اور انسان کو انفرادی و اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ مفید اور کار آمد بنانے کا وہ درس دیتی ہیں جس سے انسان سینکڑوں کتابوں، وعظوں،مجلسوں اور صحبتوں سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ فتوح الغیب میں کئی مقالے ہیں اور ہرمقالہ پر قرآن اور حدیث حوالوں کے ساتھ نہایت ہی پر اثر انداز میں نصیحت فرمائی گئی ہے۔ فتوح الغیب کا ایک ایک لفظ کتاب وسنت پر عمل کی دعوت ہے۔ اس کتاب میں تعلق باللہ،رضائے الٰہی اور دنیا کی بے ثباتی کے مضامین کو اس خوبصورتی سے لایا گیا ہے جس سے انسان کے دل میں خود بخو د عمل کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم اور شرحیں ہوئے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں کتنی زبردست نصحیت وہدایت فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں ۔‘‘ قرآن وحدیث کو اپنا امام بنالو اور غوروفکر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرلیا کرو،ادھر ادھر کی بحث و تکرار اور حرص وہوس کی باتوں میں نہ پھنس جاؤ۔صرف کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ پرعمل کرو ۔اور یہ حقیقت سمجھ لو کہ قرآن کے علاوہ ہمارے پاس عمل کے قابل کوئی کتاب نہیں اور محمد ﷺ کے سوا ہمارا کوئی رہبر نہیں۔ کبھی قرآن وحدیث کے دائرے سے باہر نہ ہوجانا ورنہ خواہش نفسانی اور اغوائے شیطانی تمہیں سیدھے راستے سے بھٹکادیںگے۔ شیخ عبد القادر جیلانی نے اپنی کتاب فتوح الغیب میں کہا ہے بندے کے لیے ضروری ہے کہ جو حکم اسے ملا ہو اسے بجا لائے اور جس سے روکا گیا ہو اس سے رک جائے اور جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہو اس پر صبر کرے۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] وصیت میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈر و اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ ظاہر شریعت کی پابندی کرو ۔سینہ کو پاک، نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو۔جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو۔ایذادہی سے باز رہو۔تکالیف پر صبر کرو۔ بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو۔ برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آؤ۔ احباب سے جھگڑانہکرو۔ قربانی وایثار کا جذبہ اپناؤ۔ مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو۔ [فتوح الغیب] [/box] مزید پڑھے کے لیے کلک کیجیے! کشف المحجوب سید علی بن عثمان ہجویری ، دانا گنج بخشؒ کشف المحجوب کے معنی ہیں اسرار سے پردے اُٹھانا Unveiling the Hidden حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی یہ شہرہ آفاق تصنیف فارسی زبان میں لکھی گئی تصوف کی قدیم ترین کتاب مانی جاتی ہے۔ تصوّف کے موضوع پر ہزاروں کتب تحریر کی جاچکی ہیں لیکن جو اثر پذیری اور مقبولیت حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب کے حصہ میں آئی وہ بے مثال ہے۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ ؒ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً ہزار برس کی گزر گئے ہیں لیکن ان کی بلند پایہ تصنیف آج بھی کروڑوں سالکین کے لیے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ قریباً ایک ہزار سال سے ہر عہد اور ہر مقام کے بزرگان کرام، صوفیائے عظام اور اولیائے بلند مرتبت سے اس نے خراج تحسین حاصل کیا ہے ۔ ہر زمانہ کے بزرگانِ.دین اولیاء اللہ نے اس کتاب کی دل کھول کر تعریف کی ہے اور اسے ہمیشہ اپنے مطالعہ کا لازمی حصہ قراردیا ہے۔ آج بھی بندگان خدا اس تصنیف سے روحانی فیض حاصل کرنا اپنے لیے باعث تکریم سمجھتےہیں۔ کشف المحجوب، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی آخر عمر میں تصنیف کی، یہ کتاب چونتییس ابواب پر مشتمل ہے۔ مضامین کے اعتبار سےاسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ چھ ابواب پر مشتمل ہے جس میں علم، فکر، تصوف وغیرہ کی شرعی حیثیت کو بیان کیاہے۔ دوسرا حصہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے اس میں صحابہ.کرام سے اپنے دور تک کے صوفیا کا احوال بیانکیاہے۔ آخری حصہ بیس ابوب پر مشتمل ہے جس میں تصوف کی پینسٹھ اصطلاحات کی تشریح قلمبند کی۔ کشف المحجوب میں تقریباً دوسو چوہتّر آیاتِ قرآنی،ایک سو پینتیس احادیث، اٹھہتّر معروف عربی اشعار، تقریباْ تین سو اقوالِ صوفیا اور بیس سے زائد کتابوں کی عبارتیں بطور اقتباس نقل فرمائی ہیں۔ کشف المحجوب حقیقت میں علمِ تصوف کا جامع انسائیکلوپیڈیا ہےاور دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں کی زینت ہے، اس عظیم کتاب کے اس وقت تک بیس سے زیادہ تراجم صرف اردو زبان میں شائع ہوچکےہیں۔ مستشرق پروفیسر نکلسن نے 1901ء میں کشف المحجوب کا وقیع اور جامع انگریزی ترجمہ شائع کیا ، ایک روسی ادیب پروفیسر زوکو فنکی نے کشف المحجوب کے ایک قدیم نسخہ کا روسی ترجمہ 1926 ء میں لینن گراڈ سے شائع کیا جو بعد میں 1956 ءمیں تہران سے شائع ہوا…. حضرت داتا گنج بخشؒ کی یہ کتاب راہِ سلوک کے مسافروں کے لیے مینارۂ نور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اسلامی تصوّف کے اسرار ورموز دلکش پیرائے میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیے ، اس کے علاوہ غیر اسلامی تصوف و نظریات جو امتِ مسلمہ کے عقائد میں در آئے تھے، اُن کی بھی نشاندہی فرمادی تاکہ راہِ.سلوک کا مسافر بھٹک نہ جائے۔ حضرت شیخ عثمان بن علی ہجویری کی عظمت و بزرگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بارگاہِ داتا گنج بخش پر چلہ کشی فرمائی اور وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا تھا۔ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں راپیر کامل کاملا را رہنما آپ کی معرکتہ الآرا تصنیف’’ کشف المحجوب ‘‘ کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں: ‘‘کشف المحجوب حضرت شیخ علی ہجویری کی تصنیف ہے۔ اگر کسی کا پیر نہ ہو تو جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو یہ کتاب اس کے پیر کا کام دے گی۔’’ حضرت داتا گنج بخش خود تحریر فرماتے ہیں کہ یہ کتاب راہِ حقیقت کو نمایاں کرتی ہے۔ تحقیقِ امور کی شرح کرتی ہے اور شریعت کے پردوں کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نام کشف المحجوب ہی ہونا چاہئے تھا اور حقیقت میں کشف، محجوب کی ہلاکت ہے۔’’ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] ظاہر و باطن ‘‘علم کی دو اقسام ہیں ایک علم الہٰی (روحانی علوم ) دوسرا علم ظاہر ، اور بندہ کا علم الہٰی کے مقابلے میں لاشی ٔ محض ہوتا ہے کیونکہ علم الہٰی اللہ کی صفت قدیم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کی صفتوں کے لیے انتہا نہیں اور ہمارا علم ہماری صفت ہے جو ہمارے ساتھ قائم ہے اور ہمارے اوصاف متناہی ہیں۔’’ ‘‘ظاہر سے مراد معاملات ہیں اور باطن سے تصحیح نیّت۔ ان میں سے ایک وجود بغیر دوسرے کے محال ہے۔ ظاہر بغیر امتزاج باطن کے منافقت ہے اور باطن بغیر شمولِ ظاہر کے زندقہ۔ شریعت کا ظاہر بلا باطن نقص ہے اور باطن بلا ظاہر ہوس۔’’ [کشف المحجوب] [/box] مسلم صوفیاء کے علمی کارناموں اور معاشرے پر ان کے اثرات کے متعلق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر فرماتےہیں: ‘‘خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد رُشدوہدایت، تلقین اور تبلیغ کاکام اہلِ بیت صحابہ ؓ اور صحابہ کرام ؓ کے بعد اولیاء اللہ نے سنبھال لیا اور اِن قدسی نفس حضرات نے لوگوں تک اللہ اور رسول کا پیغام پہنچایا۔ عباسی خلفاء کے دور میں یونانی فلسفیوں کے تراجم کے بعد جب اسلامی معاشرے میں فکری انتشار پیدا ہوگیا، قرآنی علوم، معجزات، آخرت اور معراج جیسی حقیقت کو یونانی فلسفہ کی عینک سے دیکھا جانے لگاتو اس طوفانِ بدتمیزی کے آگے مشہور صوفیاء حضرات بایزید بسطامیؒ، خواجہ حبیب عجمیؒ، شیخ داؤد طائیؒ، ذوالنّون مصریؒ، رابعہ بصریؒ، بشرحافی۔ؒ، ابوبکر شبلیؒ، سری سقطیؒ، جنید بغدادیؒ اور سلسلہ چشتیہ کے امام حضرت ممشاد دینوریؒ نے بندباندھا…. اولیاء اللہ نے تزکیہ قلب، سکون، مشاہدہ اور باطنی اسرار کے لئے کتابیں تصنیف کیں۔ حضرت سیدعلی ہجویری داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب تحریر فرمائی…. امام غزالیؒ نے معاشرے کے اخلاقی زوال کی اصلاح کے لئے احیاءُ العلوم اور کیمیائے سعادت جیسی کتابیں لکھیں۔ سلسلہ قادریہ کے امام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے لوگوں کی اصلاح اور تزکیہ قلب کے لئے روحانی مشن کو فروغ دیا۔ سلسلہ سہروردیہ کے امام شیخ نجیب الدین ابوالقاہر سہروردیؒ نے بھی اسی دور میں روحانی اصلاح کا کام کیا۔ خواجہ عثمان ہارونیؒ نے حضرت ممشاد دینوریؒ کے قائم کردہ سلسلہ چشتیہ کو تقویت دی، آپؒ کے شاگرد رشید سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ تھے، خواجہ غریب نواز ؒ نے ہندوستان میں اسلام کی ترویج اور روحانی قدروں کے فروغ میں بے مثال کوششیں کیں۔آپؒ کے ملفوظات انیس الارواح اور دلیل العارفین کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ نے خالق ومخلوق کے درمیان ربط وتعلق کی نشاندہی کی۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے تصوف پر 150کتابیں تحریر کیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے عوارف المعارف تصنیف فرمائی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ اس کا درس دیا کرتے تھے۔ اسی دور میں یکے بعد دیگرے بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ، ابوالحسن رفاعیؒ، سلطان سخی سرورؒ، قطب الدین بختیار کاکیؒ، علاؤ الدین صابر کلیریؒ، ابوالحسن شازلیؒ، بو علی شاہ قلندر پانی پتی ؒ، صدر الدین عارفؒ، شیخ حمیدالدین ناگوریؒ، خواجہ نظام الدین اولیاء، ابو الفتح رکن الدینؒ، مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ، بندہ نواز گیسودرازؒ، شرف الدین پانی پتیؒ، اشرف جہانگیر سمنائیؒ، عبدالقدوس گنگوہیؒ، سعدی شیرازیؒ، شمس تبریزؒ، جلال الدین رومیؒ، امیرخسروؒ اور حافظ شیرازیؒ نے باطنی حقائق کی پردہ کشائی کی۔ سلسلہ نقشبندیہ کے امام بہاؤ الحق نقشبند خواجہ باقی باﷲؒ، ابوالمعالیؒ، میاں میرقادریؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے عرفانِ نفس اور عرفانِ الٰہی کی تلقین کی۔ سلطان باہوؒ، رحمن باباؒ، بابا بلّھے شاہؒ، شہباز قلندرؒ، شاہ لطیف ؒاور سچل سرمتؒ نے بھی رسول اللہ ﷺ کے روحانی مشن کے فروغ میں اپنا کردار اد ا کیا۔ [صدائے جرس] Like 0 Liked Liked 5 Comments شیریں فاطمی : کشف المحجوب پہلے خود سے پڑھنے کی کوشش کی ہے لیکن سمجھ نہیں آئی میرے خیال سے استاد کی رہنمائی… syednajibuddinahmed : اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ برائے مہربانی حضرت فرید الدین عطار رحمت اللہ علیہ کی شاہ… روحانی ڈائجسٹ : https://archive.org/download/mantiq-ut-tair-urdu/00483_Hikayat_e_Fariduddin_Attar.pdf syednajibuddinahmed : اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ برائے مہربانی حضرت فرید الدین عطار رحمت اللہ علیہ کی شاہ… syednajibuddinahmed : اسلام علیکم و رحمت اللہ و بر کا تہ۔ آپکی نوازش کے لئے بندہ آپکا بہت شکر گزار ہے۔ واسلام۔
آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کا دوسرا سیمی فائنل آج پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ابوظہبی میں کھیلا جارہا ہے ایسے میں شعیب ملک سوشل میڈیا پر اپنی ناساز طبیعت کی وجہ سے موضوع بحث رہے تاہم اب پی سی بی نے انہیں صحتیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ آج کے میچ کے لیے دستیاب ہوں گے۔ دوسری جانب شعیب ملک نے اداکارہ ہانیہ عامر کے ساتھ فوٹو شوٹ کی تصاویر بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کیں جو کچھ ہی دیر میں وائرل ہوگئیں جب کہ یہی تصاویر اداکارہ ہانیہ عامر نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کی ہیں تاہم مداحوں کو ان کا یہ انداز پسند نہ آیا اور دونوں پر تنقید شروع کردی۔ Photo: File شعیب ملک نے اداکارہ ہانیہ عامر کے ساتھ فوٹو شوٹ ‘ہیلو پاکستان’ کیلئے کروایا ہے جس کی تصاویر ہیلو پاکستان کے آفیشل پیچ سے بھی شیئر کی گئیں جس میں کرکٹر اور اداکارہ کو مختلف لباس میں الگ الگ پوز کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ Photo: file اس سے قبل شعیب ملک کا اداکارہ عائشہ عمر کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی خوب وائرل ہوا تھا اور صارفین نے عائشہ عمر اور شعیب ملک سے طرح طرح کے سوالات پوچھنے شروع کردیے تھے۔
جدہ: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نائیجیرین ہم منصب سے ملاقات کے دوران نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی۔ تفصیلات کے مطابق جدہ میں سائنس ڈپلومیسی ورکشاپ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے شرکت کی۔ ورکشاپ میں مختلف مسلم ممالک کے سائنسدانوں اور سائنسی منتظمین نے شرکت کی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر فواد چوہدری کی نائیجیریا کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر بات چیت ہوئی۔ Had discussions on the sidelines of the @TWASnews and @isdb_group Event,hosted to a meeting by Minister of Sc & Tech of Pakistan @fawadchaudhry, @FawadPTIUpdates,agreed on an STI collaboration and synergy between the two countries, @barristerhadi of @FmstNg in attendance. pic.twitter.com/aKni7t4OhS — Mohammed H. Abdullahi (@MohdHAbdullahi) December 16, 2019 وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کے تعاون کی پیشکش کی، پاکستان نے نائیجیریا میں سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ نائیجیریا کے وزیر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی۔ نائیجیرین وزیر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے، پاکستان سے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے سائنس کے شعبے میں پاکستان کی ترقی کو بھی سراہا۔
(24 نیوز)وزیر اطلاعات سندھ ناصر شاہ کاکہناہے کہ نالائق ، نا اہل وفاقی حکومت کو سندھ کی زراعت اور صنعتوں کی تباہی کی پرواہ نہیں۔ ناصر شاہ نے اپنے بیان میں کہاہے کہ رینی کینال کو ابھی تک سندھ حکومت اور محکمہ آبپاشی سندھ کے حوالے نہیں کیا گیا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں رینی کینال کیلئے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ وزیر اطلاعات سندھ کاکہناتھا کہ رینی کینال واپڈا کا پروجیکٹ ہے،جسے کئی سالوں سے مکمل نہیں کیا گیا،پانی چوری کر کے سندھ کی زراعت کو تباہ کیا گیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہاکہ کشمور سے کینجھر تک کاشتکار اور کسان سراپا احتجاج ہیں لیکن پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے ایک نہ سنی، سندھ میں کئی اضلاع میں پینے کی شدت قلت کے باوجود فلڈ کینال کھولے ہوئے ہیں،ارسا صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کا آلہ کار بن گیا ہے۔ ناصر شاہ کاکہناتھا کہ اب ملک کی معاشی رگ پر وار کیا گیا ہے اور سندھ کے حصہ کی گیس منقطع کر دی گئی ہے،گیس کی بندش سے کراچی میں سینکڑوں کارخانوں کو تالے لگ گئے ہیں،ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں اور ملک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ نے کہاکہ لیکن ان کے وزرا ترقی اور معیشت کی بہتری کا الاپتے پھرتے ہیں،ایک کروڑ نوکریاں دینے والوں کسانوں اور مزدوروں سے روٹی چھین لی ہے،ہم تو کہتے تھے، ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے یہ اے ٹی ایم بھرنے آئے ہیں۔
اگست ۱۹۴۷کے بعد پاک بھارت تعلقات میں ہمیشہ کشیدگی رہی کئی بار دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کی کوششیں کی گئی لیکن ہر مرتبہ کچھ نادیدہ طاقتیں او ر مخصوص واقعات حالات کا رخ بدل دیتے ہیں ۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر کے اندرونی سطح پر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کئی دفعہ بلوچستان ،کراچی اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی پھیلانے میں کامیاب بھی ہوا ،جس کی ایک زندہ مثال حال ہی میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے مبینہ اعترافات بھی ہیں ۔ بھا رت نے کئی مرتبہ پاکستان کو مفلوج کرنے کیلئے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا، جس کے جواب میں اس کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ۔ خاص طور پر ۱۹۶۵کی جنگ میں بھارت اپنی کثیر تعداد فوج ،بھاری اسلحہ اور امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ حملہ آور ہوا ، لیکن پاکستانی فوج کے جوانوں نے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ بڑی جراٰت اور بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے اسے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا ۔اور دوسری طرف بھارت جموں و کشمیر میں کشمیریوں کی آواز اور ان کا حق خود ارادیت دبانے کیلئے مسلسل تشدد کا راستہ اپنائے ہوئے ہے ۔ جبکہ پاکستان کی حکومت نے بھی ہر دور میں کبھی بھی کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ ہمیشہ سفارتی حدتک بیانات او ر سیاسی ووٹ بینک بڑھانے کے لئے صرف سیاسی گرما گرم بیانات سے آگے نہیں جا سکی۔ موجودہ حالات میں جموں وکشمیر میں آزادی کے لئے زور پکڑتی تحریکوں کے بعد پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے خاص طور پر اڑی حملے کے بعد اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ دونوں ملکوں کے سربراہان اپنی عوام کو مطمئن کرنے کیلئے دھمکی آمیز بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کرتے، اور دونوں ملکوں کی عوام کا رد عمل بھی سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کے سربراہان کو جنگ سے بہر صورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے حالت جنگ میں ہے ۔ مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر حالات بہت کشیدہ ہیں پاکستا ن اب مزید جنگ کا متحمل نہیں ہے ۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس عظیم ریاست کے حکمرانوں کو اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطا لعہ کرنا چاہیے کہ اسلام نے ہمیشہ امن پر زور دیا ہے اور اسلام اس بات پے زور دیتا ہے کہ حتی الوسع جنگ سے گریز کیا جائے اور صلح اور معافی سے ہی معاملات حل کر لئے جائیں ہاں جنگ آخری آپشن ہے اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو ڈٹ کے مقابلہ کرنا چاہیے تا کہ حق غالب ہو ۔ ا س موقع پر دونوں ملکوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاک بھارت جنگ کس کے مفاد میں جا رہی ہے ۔کہیں پاک بھارت جنگ کے پیچھے کسی تیسری قوت کا ہاتھ تو نہیں ۔تاریخ شاید ہے کہ انسانی تاریخ میں سب زیادہ خونریزی سیکو لرازم ،کیپٹل ازم ،اور لبرل ازم نے کی ،پوری انسانی تاریخ میں جتنے بھی لوگ مرے اس کے اٹھتر (۷۸) فیصد پچھلے پانچ سو (۵۰۰) سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں جن میں سر فہرست جنگ عظیم اول ۱۹۱۴ تا ۱۹۱۸ اور جنگ عظیم دوم ۱۹۳۹ تا ۱۹۴۵ ہیں جن میں مجموعی طور پر ۱۱ کروڑ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے اور یہ سب جنگیں امریکہ ،یورپ اور مغرب نے اپنے مفاد کے لئے مسلط کیں ۔جبکہ اسلام کی پندرہ سو (۰۰ ۱۵) سال کی تاریخ میں دس (۱۰) لاکھ بھی قتل نہیں ہوئے ۔ امریکہ میں آنے والے جمہوری انقلاب میں امریکیوں نے ۵۰ سال میں ۱۰ کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کیا ۔ امریکہ آج جس بنیاد پر کھڑا ہے اس میں ۱۰ کروڑ انسانوں کا خون ہے ۔ مجموعی اعتبار سے امریکہ کے سر پر ۱۷۱ ملین لوگوں کا قتل بلا شک و شبہ ثابت ہے ۔ جاپان پے ایٹمی حملہ کر کے لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا اعزاز بھی اسی امریکہ کو حاصل ہے ۔ امریکی دانشوروں کے اندر اگر انسانیت کی ذرہ برابر بھی رمق ہوتی تو وہ جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد جوہری ہتھیار تلف کردیتے لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا کیو نکہ امریکہ نے اپنی پوری دنیا میں چوہدراہٹ بھی برقرار رکھنی ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ پاک بھارت مسئلے پر بھی ہمیشہ کی طرح امریکہ کی چالبازی سب پر عیاں ہے ایک طرف دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بات، اور دوسری طرف جنگ جاری رکھنے کے لئے بھارت کی پشت پناہی، تا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کر پاک چائنہ اقتصادی راہداری سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان کی ترقی کا راستہ روکا جا سکے ، اور پاکستان کو ماضی کی طرح مزید غیر مستحکم کیا جا سکے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک بھارت اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر ہر قسم کی جنگ سے گریز کریں۔ او ر ایک دوسرے پر جنگ مسلط کر کے معصوم لوگوں کی جانوں کو ضائع کرنے کے بجائے آپس میں کشمیر سمیت دیگر مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کر کے غریب عوام کو آگے بڑھنے کا مو قع دیں ۔ اور اپنے ملکوں میں صحت ،تعلیم ،روزگار اور دیگر مسائل کی طرف توجہ دیں ۔
دنیا منتقلی کے دور میں ہے۔ عالمگیریت ، قومی حدود میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت ، ماحولیاتی چیلنجز ، مذہبی تنازعات ، ابھرتی ہوئی معیشتیں اور ایک کثیر قطبی دنیا ، تمام عمر کے انسانی مخمصے اور پریشانیوں کے حل کے لئے سوچ میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ آج کے چیلنجوں کو حل کرنے کے لئے پیش کردہ بہت سارے حل ، تھکے ہوئے ، تاریخ اور ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ ان اور ان کے فروغ کے لئے بنائے گئے ادارے بنیادی طور پر مغرب کے عالمی نقطہ نظر سے ہیں ، جو تقریبا half نصف ہزار سال سے عالمی امور میں غالب رہا ہے۔ اس عالمی نقطہ نظر کو یوروپ اور امریکہ کی تاریخ ، خرافات ، دانشورانہ روایات اور مذہبی عقائد نے گہرا شکل دی ہے۔ چونکہ ایک بار پھر ایشیا کی طرف لپک پڑتا ہے اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اور طاقتیں اپنی ثقافتی آواز کو ہلچل مچا رہی ہیں اور ہمیں تلاش کرتے ہیں ، ہم موقع کے لمحے پر کھڑے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ دنیا کی مختلف آوازوں کو مسترد کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم عادت ہیں – خاص کر جب وہ دیرینہ عقائد کو چیلنج کرتے ہیں۔ یا ہم نئی مثال قائم کر سکتے ہیں ، جو خلل ڈالنے والے ہیں ، یہ مغرب کے مراعات یافتہ مقام کی حیثیت سے ہوسکتے ہیں ، اس کے باوجود وہ نہ صرف مغربی ممالک کے مفاد کے لئے ، بلکہ پوری انسانیت کے لئے دنیا کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی اپنی صلاحیتوں کا وعدہ کر رہے ہیں۔ ایک پرانی بات جو ہم سب نے سنا ہے ، عیسائیوں کے استعمال کردہ “خوشخبری” کے فقرے میں ہے۔ (“خوشخبری” کا لفظ انجیل کا لفظی ترجمہ ہے ، جو بائبل میں یسوع کی زندگی کے بیانات سے مراد ہے۔) عیسائی خوشخبری عام طور پر اس کی صلیب پر قربانی کے ذریعے خدا کی بچت کے کاموں سے وابستہ ہوتی ہے اکلوتا بیٹا ، یسوع مسیح ، انسانیت کے گناہوں کے کفارہ کے لئے۔ پھر بھی ہندوؤں کو اس طرح کا کفارہ غیر ضروری لگتا ہے۔ کیونکہ انسان قطعا sin گنہگار نہیں ہے ، بلکہ الہی ہے۔ اور ہم ، ہم میں سے ہر ایک کو ، عیسیٰ جیسی صلاحیت کا حامل ہے ، یہاں اور اب اپنے اندر اس الوہیت کو ننگا کرنا – کسی اور کی ماضی کی قربانی کی ضرورت کے بغیر۔ اس بااختیار بنانے والے خیال کی وضاحت کے لئے ہم نے “ہندو خوشخبری” term کی اصطلاح تیار کی ہے اس طرح کی خوشخبری ہندو خوشخبری کی صرف ایک جھلک ہے man جو انسان کی اپنی صلاحیتوں کو سرفراز کرتی ہے ، خدا ، انسان اور کائنات کے لازمی اتحاد پر زور دیتی ہے اور اصرار کرتی ہے کہ یکسانیت کے بجائے تنوع حقیقت کی سچی تفہیم ہے۔ اس طرح کے ورلڈ ویو کے کچھ اہم وعدوں میں درج ذیل شامل ہیں: عام عیسائی معنوں میں اصل گناہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم سب اصل میں آسمانی ہیں جیسا کہ سنسکرت اصطلاح ، ست چیت آنند نے بیان کیا ہے مسیحی اور بیشتر ابراہیمی مذاہب کی طرح تاریخی نبی اور مسیحا روحانی سچائی تک رسائی پر قابو نہیں رکھتے ہیں۔ یوگا اور اس سے وابستہ روحانی مشقیں ہمیں تاریخ سے آزادی کی ریاست حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہیں – جس میں تاریخی طور پر فرقہ وارانہ شناخت ، نسلوں ، بلڈ لائنز اور کچھ منفرد تاریخی واقعے پر مبنی مذہبی اخراج کے دعوے شامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ، ہم تاریخی انبیاء ، یا اقتدار کے ان اداروں پر انحصار نہیں کرتے ہیں جو ان کے بعد تیار ہوئے ہیں۔ دھرم اور سائنس کے مابین کوئی بنیادی تصادم نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں اس کا کوئی تنازعہ ہوا ہے۔ “انتشار” کا کوئی خدشہ نہیں ہے جیسا کہ زیادہ تر مغربی کائنات اور افسانہ کلام میں ہے۔ منفی معنوں میں جو چیز اکثر افراتفری سمجھی جاتی ہے وہ حقیقت کا فطری اور معمول کا مظہر ہے۔ یہ صرف انسان کے ادراک کی حدود ہیں جو فطرت کی پیچیدگی کی غلط تشریح کرتی ہیں ، اسے خوفناک اور برائی کے طور پر دیکھتے ہیں ، اور فنا کے لائق ہیں۔ فطرت کا احترام کرتے ہوئے خوشگوار انسانی زندگی ممکن ہے۔ “پیش قدمی” اور “پیشرفت” کرنے کے لئے قدرت کو تباہ و برباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے – واقعی ہمارا اپنا ارتقاء باہمی رابطے کے جال کی خلاف ورزی کے بغیر تیز ہوجاتا ہے جو ہمیں برقرار رکھتا ہے۔ ہمیں کسی حتمی صلاحیت کی طرف لے جانے کے لئے کسی بھی مرکزی مذہبی اتھارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ماضی کے تقلید کاروں کی دریافتوں اور اوزار کو بطور رہنما خطوط استعمال کرکے کسی کا اپنا راستہ استعمال کرسکتا ہے۔ ہندو مذہب میں تمام عقائد اور روایات کے مابین باہمی احترام اصول کا معاملہ ہے ، نہ کہ ” سیاسی درستگی ” کے لئے جھکاؤ اور نہ ہی کسی مسخ شدہ ضرورت کا۔ یہ دوسروں کے ل mere محض “رواداری” سے بالاتر ہے جو مختلف راستوں پر چلتے ہیں۔ ہم دوسروں کو اپنے مذہب میں تبدیل کرنے کے لئے ممتازیت اور مینڈیٹ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ https://beingdifferencesbook.com ہندو خوشخبری کی چھتری تلے ، ایسے تمام خیالات ، مفروضوں اور طریقوں کی ایک وسیع رینج پر مضامین اور مباحثے پیش کرتا ہے۔ ان اشاعتوں میں ہندومت ، بدھ مت ، سکھ اور جین مت کی تمام ہندوستانی مذہبی روایات کے فلسفیانہ اور مابعدالطبیعات کے نظریات شامل ہیں اور ان کی عکاسی ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا ہمارے رہنما خطوط کی حیثیت سے اور جاری گفتگو و مباحثے کے ذریعے ، ہم بین المذاہب تعلقات ، ایمان اور سائنس کے مابین تعلقات ، اور انسانیت اور فطرت کے مابین تعلقات کے ایک نئے دور کی شروعات کی امید کرتے ہیں۔ حالیہ کتاب ، بیجنگ ڈائیفرنٹ: انڈین چیلنج ٹو ویسٹرن یونیورسلزم (ہارپرکولنس ، 2011) ، جائزہ لیتی ہے کہ یہ عالمی نظریہ کس طرح مرکزی دھارے میں شامل مغربی افکار سے مختلف ہے ، بشمول یہودو کرسچن اقسام ، یوروپی روشن خیالی پر مبنی سیکولر اقسام ، اور مابعد جدیدیت پسند افکار
تفصیلات کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے مولانا عبدالغفور حیدری سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور عمرہ ادائیگی پر انہیں مبارکباد دی۔ ملاقات میں ٹرانسجینڈر بل سے متعلق گفتگو ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اس بل پر تمام مذہبی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔ ملاقات میں ملکی مجموعی سیاسی و بلوچستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ ٹرانسجینڈر بل: ’اسلامی نظام کیخلاف کوئی کام نہیں کریں گے‘ دونوں رہنماوں نے جےیوآئی کی بلوچستان حکومت میں شمولیت پر مشاورت کی۔ واضح رہے کہ چیئرمین صادق سنجرانی نے دو روز قبل کہا تھا کہ ٹرانسجینڈر بل پر سیاسی جماعتوں نے ترامیم جمع کروائی ہے پیر کو کمیٹی اجلاس ہو گا ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو اسلامی نظام کےخلاف ہو ہم مل بیٹھ کر وہ کام کریں گےجو آئین پاکستان، اسلامی اصولوں پرمبنی ہوگا۔
بغداد ایک بار پھر ’’سقوط‘‘ کے گھاٹ اتر گیا ہے اور امریکہ اور برطانیہ کی اتحادی فوج نے عراق کے عوام کو صدام حسین کی مبینہ طور پر جابرانہ حکومت سے آزادی دلانے کے اعلان کے ساتھ بغداد پر قبضہ کر لیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فوجیں ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی عراق میں قیام نہیں کریں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ’’ضرورت‘‘ کا تعین خود امریکہ اور برطانیہ کے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جس طرح اب سے گیارہ برس قبل خلیج میں امریکی اتحاد کی فوجیں کویت کو عراق کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے آئی تھیں اور اس وقت بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اتحادی فوجیں ضرورت سے زیادہ خلیج عرب میں نہیں رکیں گی۔ مگر کویت سے عراقی فوج کے انخلا کو ایک عشرہ سے زیادہ وقت گزر گیا ہے اور اب تو خود عراقی فوج بھی قصہ پارینہ بن گئی ہے لیکن یہ ضرورت ابھی باقی ہے۔ ایسے ہی عراق میں امریکہ اور برطانیہ کی فوجوں کی موجودگی کی ضرورت بھی اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس خطہ کے حوالہ سے خود امریکہ اور برطانیہ کی ضروریات پوری نہیں ہو جاتیں۔ اس لیے گبھرانے کی کوئی بات نہیں، جب تک ’’ضرورت‘‘ باقی ہے عراق میں امریکی اتحاد کی فوجیں موجود رہیں گی اور تب تک عراقی عوام کی ’’آزادی‘‘ بھی قائم رہے گی۔ یہ سب کچھ خلاف توقع نہیں ہوا بلکہ جب سے اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی تب سے یہ کھٹکا موجود تھا کہ کسی لمحہ بھی یہ کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ خلاف توقع نہیں ہے بلکہ اس سے اگلے کئی مراحل ہیں جو بظاہر انہونے سے لگتے ہیں لیکن اس منصوبہ بندی اور پیش قدمی کا منطقی نتیجہ ہیں، اس لیے ہم ان کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔ البتہ ہمارے لیے یہ بات خلاف توقع ہے کہ صدام حسین کی حکومت اور ان کی فوج نے مسلسل تین ہفتے تک امریکی اتحاد کی فوجوں کے مقابلہ میں مزاحمت کی اور اس قدر حوصلے سے کی کہ درمیان میں بعض مراحل پر خود اتحادی فوجوں کی کمان کو بھی سوچنا پڑا کہ کہیں ان سے غلطی تو نہیں ہوگئی؟ عراق پر گزشتہ دس سال سے اقتصادی پابندیاں تھیں اور ہمارے خیال میں صرف اس لیے تھیں کہ اسے معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ کسی حملے کا بوجھ برداشت نہ کر سکے۔ عراق پر کیمیکل اسلحہ تیار کرنے اور آج کی ضرورت کے جدید ہتھیار بنانے پر پابندی تھی اور اس حوالہ سے اس قدر دباؤ تھا کہ اسے وہ ہتھیار خود اپنے ہاتھوں تباہ کرنا پڑے جو ممنوعہ رینج کی زد میں آتے تھے لیکن حملہ آور فوجوں کے خوفناک ہتھیاروں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ عراق کی قیادت کو سیاسی محاذ پر بھی دنیا بھر کے دباؤ کا سامنا تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود جبکہ امریکہ اور برطانیہ نے جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے خوفناک ہتھیاروں سے مسلح افواج کے ساتھ عراق پر ہلہ بول دیا تو صدام حسین اور ان کی فوج مسلسل تین ہفتے تک ان مسلح افواج کے سامنے کھڑے رہے اور جب تک ان کا بس چلا انہوں نے اتحادی فوجوں کا مقابلہ کیا۔ ہمیں صدام حسین اور ان کی فوج کی شکست پر افسوس ہے، ہم اس غم میں ان کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ انہوں نے میدان میں شکست قبول کی ہے مگر فکری اور ذہنی دستبرداری کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ عملی میدان کی شکست قوموں کی زندگی میں مستقل نہیں ہوتی اور کبھی نہ کبھی دوبارہ کامیابی میں بدل ہی جایا کرتی ہے لیکن ذہنی اور فکری شکست قوموں کے لیے موت کا پروانہ ہوتی ہے، اس کے بعد قومیں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوجایا کرتی ہیں جہاں سے دوبارہ اٹھنے کا اس دنیا میں کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ ہمارے بعض دانشور دوستوں کا خیال ہے کہ صدام حسین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، انہیں اپنے عوام کو مروانے کے بجائے حملہ آوروں کا مطالبہ اور الٹی میٹم تسلیم کرتے ہوئے اقتدار سے دستبردار ہو جانا چاہیے تھا، اس طرح ان کی جان بھی بچ جاتی اور ان بہت سے عراقیوں کی جان بھی بچ جاتی جو اس جنگ میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں بلکہ ان بہت سے سفید فام ’’مقدس لوگوں‘‘ کی جانیں بھی ضائع نہ ہوتیں جنہیں اپنے حکمرانوں کی ہوس ملک گیری کی خاطر جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ مگر جب ’’دانش‘‘ کسی دماغ میں اس قدر ’’اوورلوڈ‘‘ ہوجائے کہ ضمیر، غیرت اور احساسات و جذبات کی جگہ اسی کی بھرتی ہو تو پھر اسی قسم کے مشورے اس قسم کے دماغوں سے برآمد ہوا کرتے ہیں۔ یہ مشورے نئے نہیں، اس سے قبل ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کو بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا، میسور کے شیر دل حکمران سلطان ٹیپو شہیدؒ نے اسی قسم کے مشورہ کے جواب میں کہا تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ بلکہ اگر تھوڑا سا اور پیچھے کی طرف جائیں تو حضرت امام حسینؓ کو بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ حالات کے بہاؤ کے خلاف اڑنے اور خوامخواہ بچوں کی جانیں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حملہ آوروں کی شرط منظور کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچا لیجئے۔ ہمارے لیے تو ان خدامست لوگوں کی صداقت اور حقانیت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ انصاف کے لیے لڑ رہے تھے اس لیے ان کے فیصلے ظاہری مصلحتوں کے خلاف ہونے کے باوجود درست تھے لیکن جن دوستوں کا ان باتوں پر یقین نہیں تھا انہیں تاریخ کے فیصلے پر نظر ڈال لینی چاہیے کہ تاریخ نے کس کے فیصلے کی تصدیق کی ہے اور کس کو غلط ٹھہرایا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں سلطان ٹیپو شہیدؒ کو ہی دیکھ لیجئے کہ وہ اگر لڑنے اور مرنے کے بجائے حیدرآباد دکن کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی بالادستی تسلیم کر لیتے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مطالبات مان کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں بچا لیتے تو نہ صرف ان کی ریاست قائم رہتی بلکہ ان کے داخلی اختیارات بھی موجودہ دور کے بہت سے مسلم حکمرانوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر سایہ ہمارے دور کے بہت سے عرب حکمرانوں سے زیادہ طاقتور حکمران کے طور پر باقی رہتے۔ لیکن پھر حریت فکر اور تحریک آزادی کا کہیں دور دور تک نشان نہ ملتا، نہ بالاکوٹ کا معرکہ ہوتا، نہ ۱۸۵۷ء کا میدان حریت گرم ہوتا، نہ تحریک خلافت چلتی اور نہ ہی تحریک آزادی کا کسی دل میں جوش اٹھتا۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ اس خطہ میں آزادی کی جتنی تحریکیں اٹھی ہیں اور جن کے نتیجے میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش آزاد مملکتوں کی صورت میں دنیا کے نقشے میں موجود ہیں یہ سب ان دو مسلم حکمرانوں کے خون کا صدقہ ہے جنہوں نے اپنے اقتدار اور جانوں کا تحفظ کرنے کے بجائے ملی غیرت و حمیت کے تقاضوں کو ترجیح دی اور برطانوی استعمار کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ ایک بنگال کے سراج الدولہ شہیدؒ اور دوسرے میسور کے سلطان ٹیپو شہیدؒ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنی حکومتوں کا تیاپانچہ کرا لیا مگر آنے والی نسلوں کے دلوں میں اپنے مقدس خون کے ساتھ حریت فکر اور آزادی کے جذبات کے چراغ روشن کر دیے۔ ہم آج اگر کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان کہلاتے ہیں اور کسی حد تک آزادی سے بھی بہرہ ور ہیں تو یہ نتیجہ ہے سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کے ان جرأتمندانہ فیصلوں کا جنہیں آج کے اوورلوڈ دانشوروں کی عینک سے دیکھا جائے تو وہ بھی اسی طرح کی حماقت دکھائی دیں گے جس طرح کی حماقت کا ارتکاب ہمارے ان دانشوروں کے بقول ملا عمر، اسامہ بن لادن اور اب صدام حسین نے کیا ہے۔ ہمارے ان دانشوروں کو کون سمجھائے کہ ذہنی شکست اور چیز ہوتی ہے اور جسمانی شکست اس سے بالکل مختلف چیز ہوتی ہے۔ جن کے نزدیک جسم ہی سب کچھ ہو اور اسی کا تحفظ اور آسائش ہی زندگی کی معراج قرار پا جائے ان کے لیے واقعی اس فرق کو سمجھنا ممکن نہیں ہے لیکن جو لوگ ذہن، عقیدہ، فکر اور احساس جذبہ سے بھی کسی درجہ میں آشنا ہیں وہ اس فرق کے ادراک سے بہرہ ور ہیں اور اسی وجہ سے ان کے ذہنوں میں سراج الدولہ شہید و سلطان ٹیپو شہید اور میر جعفر و میر صادق کے درمیان فرق کے دائرے بھی ابھی تک قائم ہیں۔ ہمیں صدر صدام حسین کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اس کے عقیدہ و فکر سے کوئی مناسبت ہے۔ وہ ایک سیکولر عرب نیشنلسٹ پارٹی کا لیڈر ہے، ہمارے نزدیک اس کا دور حکمرانی بھی مختلف حوالوں سے ناقابل ستائش ہے کہ اس کے داخلی مظالم ہمارے علم میں ہیں لیکن ان تحفظات کے باوجود اگر یہ بات درست ہے کہ اس نے ہتھیار ڈال کر ذہنی شکست اور فکری پسپائی قبول کرنے کی بجائے جسمانی شکست پر اکتفاکیا ہے اور فکر و عقیدہ کی کشمکش کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو یہ کردار لائق تحسین ہے۔ اور اب جبکہ چاروں طرف سے لعنت و ملامت او رطعن و تشنیع کی توپوں کا رخ اس کی طرف مڑ گیا ہے، ہم اس کی اس جرأت رندانہ کو ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ:
“اپنے لئے جینا کیا جینا۔اگر جینا ہے تو دوسروں کے لئے جیو۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس پر پورہ اتر نا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہو تی اس کر دار کے حامل افراد جو معاشرے کے اندرخا ل خال ملتے ہیں اس دنیا سے ان کا نا تہ ٹوٹے کے بعد بھی یا د کئے جا تے ہیں۔ چونکہ انسان فطرتاََ خود عرض اور مطلب پر ست واقع ہوا ہے اور صرف اپنے اور اپنی اولاد کی دنیا سنوارنے میں مگن ہو نے کی بنا ء پر آوروں کی طرف رعبت اور دھیان دینے کے معاملے میں سر گرمی اور دلچسپی نہیں دکھا تا حالانکہ عبادات کی ادائیگی کی اہمیت سے قطع نظر جو درجہ، مقام اور رب کائینات کی رضا انسانیت کی خدمت گذاری کو حاصل ہے اس کا کوئی متبادل نہیں۔ بقول اقبال درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ اطاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں اس مسلمہ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسانی زندگی کا ایک دن اختتام یقینی ہے اس کے بعد کے طویل سفر کے لئے گرانقدر توشے کی حیثیت صرف اس عمل کو حاصل ہو تا ہے جو انسان زندگی کے سفر کے دوران دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کی صورت میں کر تا ہے کیونکہ مجبور انسانوں کی طرف سے کسی کے لئے دعا کے واسطے اٹھنے والے ہاتھ فیوص و بر کات سے خالی نہیں ہو تے اور زبان خلق نقار ۂ خدا کے مصداق درد دل رکھنے والے انسانوں کی نیا پار کر نے کا سبب بننے میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ عہد رفتہ میں دوسروں کی غمخواری معاشرے میں بدرجہ اتم مو جود تھی اور اس صفت کی وجہ سے ہماری معاشرتی زندگی لذتوں سے لبریز ہو تی تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے اقدار کی طرح یہ صفت بھی سرد مہری کا شکار ہو تی جا رہی ہے اور آج مفاد پر ستی اور خود عرضی کی وبا نے ان معاشرتی اوصاف کو مکمل طور پر دبوچ لی ہے، پھر بھی اللہ رب العزت کی یہ دنیا مکمل طور پر بھلائیوں سے محروم نہیں ہو گی اور انسانیت کی فلاح اور غمخواری میں سر گردان افراد کے تذکرے زبان زد عام ہو تے رہتے ہیں۔ چترال کی سطح پر اس قسم کے درمند اور بے لوث خدمتگار انسانوں میں جہاں اویر سے تعلق رکھنے والے کراچی میں مقیم شخصیت محترم قاری فیض اللہ صاحب کے اسم گرامی کو قلم کی نوک پر لا تے ہو ئے دل میں بہار کی کیفیت پیدا ہو تی ہے وہاں حال ہی میں ہم سے بچھڑنے والی دختر چترا ل محترمہ ڈاکٹر سلطانہ کی آوروں کے لئے جینے کی صفت کی مہک سے ہمارا معاشرہ معطر رہیگا۔ اپنی پوری زندگی ضرورتمندوں کے لئے سہارا بنے کے لئے وقف کر نے والی یہ مثالی خاتوں ڈاکٹر ی کے مقدس پیشے سے وابستگی کی بنیاد پر مسیحا کا کر دار ادا کر تی ہوئی خود اجل کے سامنے ہتھیار ڈال دی۔ آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کر ئے۔ آپ کی اس نا گہانی موت سے نہ صرف انکی دست شفقت سے مستفید ہو نے والے افراد ہی نہیں بلکہ سر زمین چترال کو ایک مثالی بیٹی سے محرومی کے صدمے سے دو چار ہو نا پڑا اور ساتھ ساتھ محکمہ صحت چترال کو ایک ہو نہار اور فرض شناس ڈاکٹر سے محرومی کا خلا پر کر نا ممکن نہیں۔ بحرحال اس فانی دنیا میں آنے اورجا نے کا سلسلہ جاری رہیگا اور اس سرائے میں قیام کی میعاد بھی معین ہے۔ عمر دراز گذار کر یہاں سے جانے والے بھی یہ ہی تصور لے کر جا ئے گا۔ آتے ہو ئے ازان تو جاتے ہو ئے نماز اس مختصر سے وقت میں آئے چلے گئے اس لئے عقل و خرد کے مالک انسان کو دنیا کے اس سٹیج پر اس ڈھنک سے اپنا کر دار ادا کر نا چاہئے جس سے یہ تصور ابھر تا ہوا نظر آئے۔
صدرِ پاکستان عارف علوی نے ترکی کی برّی افواج کے کمانڈر جنرل امید دوندار کو پاکستان کے ایک اعلیٰ اعزاز ‘نشانِ امتیاز’ سے نوازا ہے۔ ایوانِ صدر میں ہونے والی خصوصی تقریب میں کئی اہم سوِل اور فوجی شخصیات نے شرکت کی کہ جن میں پاکستان کے لیے ترکی کے سفیر احسان مصطفیٰ یرداکل بھی شامل تھے۔ جنرل امید دوندار، جو اِس وقت پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں، نے 1985ء میں آرمی وار کالج، 1991ء میں رائل آرمی اسٹاف کالج برطانیہ اور 1994ء میں آرمڈ فورسز کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 2001ء سے 2004ء تک وزارتِ قومی دفاع کے شعبہ تعمیرات، املاک اور نیٹو انفرا اسٹرکچر میں سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 2004ء سے 2005ء تک 28 ویں میکنائزڈ انفنٹری بریگیڈ کے کمانڈر رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے افغانستان میں کثیر القومی بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے بھی خدمات پیش کیں۔ انہیں 2005ء میں میجر جنرل اور 2009ء میں لیفٹینٹ جنرل اور 2013ء میں جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ امید دوندار نے دو سال تھرڈ آرمی کے اور پھر فرسٹ آرمی کے کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 2016ء میں مختصر دورانیے کے لیے قائم مقام چیف آف جنرل اسٹاف کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ 2016ء سے 2018ء کے دوران ترک صدر نے انہیں ترکی کی برّی افواج کے کمانڈر کی حیثیت سے نامزد کیا تھا۔ اس خصوصی تقریب کے دوران جنرل دوندار کو پاکستان کا مخلص اور قریبی دوست قرار دیا گیا، جنہوں نے پاک ترک تعلقات کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر مرکز اراکین JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
4 جولائی 1977ء کو گزرے چالیس برس بیت چکے لیکن آ ج بھی ا س ر ا ت ہو نے و ا لے فو جی کُو کے ز خم رس رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت پاکستانی تاریخ کی سب سے ظالم حکومت تھی جس کے ہاتھوں سماج کو جبر، دہشت گردی، غربت، بیماری، ذلت، مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد میں جھونک دیا گیا۔ فوجی جرنیلوں نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف، گرفتار اور پھر 4 اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ لیکن پس پردہ اس سب کے پیچھے امریکی سامراج کا ہاتھ تھا اور انہوں نے ہی اسلامی بنیاد پرست جنرل ضیا کو اس کام کے لیے تیار کیا تھا۔ پاکستان کے محروم طبقات پر ظلم و بربریت کے اَن دیکھے پہاڑ تو ڑ دیے گئے۔ ہزاروں کو سر عام کوڑے مارے گئے اور سینکڑوں تختہ دار پر جھولے او ر ریاست کے بدنا م زمانہ زندانوں میں تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ اس کا نشانہ زیادہ تر بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے جیالے، ٹریڈ یونین کارکنان، محنت کش، غریب کسان، محروم قومیتیں، خواتین، مذہبی اقلیتیں اور سماج کے دوسرے محکوم حصے بنے۔ 1978ء میں ملتان میں کالونی ٹیکسٹائل مل میں محنت کشوں کے قتل عام سے لے کر 1983ء میں سندھ میں ہونے والی عوامی بغاوت میں کسانوں اور نوجوانوں کے قتل عام تک ظلم و ستم کی کئی داستانیں رقم کی گئیں۔ در حقیقت یہ ظلم اور جبر پاکستانی حکمران طبقات کا ملک کے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں سے انتقام تھا کہ جنہوں نے تقریباً ایک دہائی قبل اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی جرات کی تھی اور ملکیت، دولت، زمین اور ذرائع پیداوار کے رشتوں کو چیلنج کیا تھا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں بھٹو کی جانب سے کی جانے والی نیشنلائزیشن نے حکمران اشرافیہ کے کچھ حصوں پر ضرب لگائی تھی جس کی پاداش میں اس کا عدالتی قتل کیا گیا۔ کال کوٹھڑی سے بھٹونے لکھا کہ ’’ میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلاہوں کہ میں نے دومتضاد مفادات کے حامل طبقات میں آبرو مندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، مگر موجودہ فوجی بغاوت ثابت کرتی ہے کہ متضاد طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے، جس میں کوئی ایک طبقہ ہی فتح یاب ہوگا۔ ‘‘ ضیا حکومت اور اس کی کارندہ فاشسٹ رجحانات رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے قدامت پرست جبر نے فن، ادب، موسیقی، ثقافت، سینما اور بحیثیت مجموعی سماجی زندگی کا دم گھونٹ دیا۔ صنعتکار اور زمین دار جشن منا رہے تھے۔ انہیں نہ صرف بھٹوکی طرف سے قومی تحویل میں لی گئی صنعتیں بمعہ تلافی واپس مل گئیں بلکہ فوجی آمریت نے محنت کشوں کو کچلنے کی خاطر سفاک سرمایہ دارانہ قوانین بھی لاگو کیے۔ اوریہ سب اسلام کے نام پر کیا گیا۔ امریکی اور یورپی سامراج اس ظالمانہ آمریت کی حمایت میں تھے اور ان عوام دشمن پالیسیوں سے فائدے اٹھا رہے تھے۔ آج ان کی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے بھاشن، منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کا سب سے بڑا جرم افغانستان اور اس خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ضیا حکومت کی سرپرستی میں اسلامی بنیاد پرستوں کی دہشت گردی کو فروغ دینا تھا۔ بائیں بازو اور انقلابی قوتوں کے خلاف اس نام نہاد جہاد میں جماعت اسلامی آمریت کی معاون تھی۔ وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی مخبری کرتے اور ان کی گرفتاری، تشدد اور قتل میں شریکِ جرم تھے۔ ضیا نے پیٹی بورژوازی (درمیانے طبقے) اور سماج کے پسماندہ حصوں کی حمایت حاصل کر نے کے لیے سماج میں اسلام کے نفاذ کو ماشل لا کا جواز بنایا اور انتہائی سفاکی سے پاکستان کو زمانہ قدیم کی ایک مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کی۔ 1981ء میں اس نے کہا کہ ’’پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اسرائیل سے یہودیت کو نکال دیا جائے تو وہ ریت کے گھروندے کی طرح گر جائے گا۔ پاکستان سے اسلام کو نکال کر سیکولر ریاست بنا دیا جائے، تو یہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘ مغربی سامراجی ضیا کی اِن رجعتی وارداتوں میں اس کے ساتھ تھے۔ ماضی کے بادشاہو ں کی طرح ریاستی طاقت اور مذہبی جنون نے ضیا کو پاگل کر دیا اور وہ اپنے سامراجی آقاؤں سے سرکشی کرنے لگا۔ اس کا طاقت کا یہ نشہ امریکیوں کے لیے وبال جان بننے لگا۔ اعلیٰ جرنیلوں، امریکی سفارتکاروں اور فوجی اہلکاروں سے بھرے سی ون تھرٹی طیارے کے ’حادثے‘ نے سامراجیوں کی ضرورت پوری کر دی۔ آج چالیس برس بعد بھی ضیا کی مہلک وراثت ریاست، سماج، اخلاقیات اور سیاست پر حاوی ہے۔ اس کا متعارف کروایا ہوا کلاشنکوف کلچر، منشیات کی سمگلنگ اور استعمال، دہشت گردی، رجعتی سماجی رویے، خواتین کے خلاف امتیازی سلوک، مذہبی اور فرقہ وارنہ منافرتیں سماج میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ضیا کے بر سر اقتدار آنے پر پاکستان میں ’متوازی‘ یا کالی معیشت کا حجم صرف5 فیصد تھا۔ آج یہ73 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ منشیات کے تاجروں، دہشت گرد ملاؤں، پراپرٹی ڈیلر سیٹھوں، ریاستی اداروں کے حکام، سیاست دانوں اور نو دولتی سرمایہ داروں کی بے پناہ دولت ہی وہ کالا دھن ہے جو ایک ناسور کی طرح پاکستان کی معیشت اور سماج کو کھائے جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں، ریاستی ادارے، مافیا نیٹ ورک اور مذہبی فرقہ وارنہ جھتے سب اس سے کنٹرول ہوتے ہیں اور اشرافیہ مذہب کے نام پر پرہیز گاری کے لائسنس اور تحفظ حاصل کرلیتی ہے۔ سارے ملک اور بالخصوص پاکستانی پرولتاریہ کے گڑھ کراچی میں ایم کیو ایم جیسی نسلی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کو محنت کشوں کی طبقاتی جڑت توڑنے کے لیے پروان چڑھایا گیا۔ تمام مسلم لیگی لیڈر ضیا کے بغل بچے تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ضیا کے کئی سیاسی خدمتگار مثلاً رحمان ملک اور یوسف رضا گیلانی وغیرہ آج پیپلز پارٹی کے نامور لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال محض افراد کا نہیں، بلکہ اس جابر حکمران کی پالیساں آج بھی سماج کو برباد کر رہی ہیں۔ قانونِ توہین، حدود آرڈیننس اور دیگر ایسے قوانین کے ذریعے خواتین اور اقلیتوں پر جبر جاری ہے۔ بعد کی کوئی بھی نام نہاد جمہوری حکومت ان قوانین کو ختم نہیں کر سکی اور نہ ہی وہ اس سماجی و معاشی نظام میں رہتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت پسند 73ء کے آئین کا ورد تو کرتے ہیں لیکن ضیا کی جانب سے اس میں کی گئی تبدیلیوں پر خاموش ہیں۔ افغانستان کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے ضیا الحق کی مذہبی دہشت گردی کو امریکی سامراج اور خلیجی بادشاہتوں کی پشت پناہی اور مالی معاونت حاصل تھی۔ آج چالیس سال بعدبنیاد پرست دہشت گردی کا یہ دیو ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بربادی پھیلا رہا ہے اور اب کئی دوسرے خطوں تک پہنچ رہا ہے۔ ضیا کی میراث بنیادی طور پر مذہبی جنونیت اور ابتدائی کالے سرمائے کے ارتکاز کا گٹھ جوڑ ہے اور اس رجعت اور بربادی کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے پر جبر، طبقاتی جڑت کو تقسیم اور سرمائے کی حکومت کے خلاف ہونے والی طبقاتی جدوجہد کو تشدد کے ذریعے کچلنا ہے۔ آج بھی حکمران طبقہ محنت کش عوام کو مجبور اور محکوم رکھنے کے لیے انہی طریقوں کا استعمال کر رہا ہے۔ ضیا کی موت کے بعد طبقاتی جدوجہد کو زائل اور بے سمت کرنے کے لیے پیسے کی جمہوریت کو استعمال کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا کردارکسی سے کم نہیں۔ فرسودہ پاکستانی سرمایہ داری نے ایک کہنہ پرست ریاست تشکیل دی ہے جس میں ضیا کی باقیات اور میراث جاری و ساری ہیں۔ سماجی، معاشی، ثقافتی اور اخلاقی رجعت اس کی پیداوار ہیں۔ اس نظام کا خاتمہ اور اسے تبدیل کیے بغیر اس جبر سے سماج کی نجات ممکن نہیں ہے۔ چار دہائیوں سے جاری یہ بھیانک خواب اب صرف سوشلسٹ انقلاب کے سرخ سویرے سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔ آرکائیوز آرکائیوز مہینہ منتخب کریں مئی 2019 اپریل 2019 مارچ 2019 فروری 2019 جنوری 2019 دسمبر 2018 نومبر 2018 اکتوبر 2018 ستمبر 2018 اگست 2018 جولائی 2018 جون 2018 مئی 2018 اپریل 2018 مارچ 2018 فروری 2018 جنوری 2018 دسمبر 2017 نومبر 2017 اکتوبر 2017 ستمبر 2017 اگست 2017 جولائی 2017 جون 2017 مئی 2017 اپریل 2017 مارچ 2017 فروری 2017 جنوری 2017 دسمبر 2016 نومبر 2016 اکتوبر 2016 ستمبر 2016 اگست 2016 جولائی 2016 جون 2016 مئی 2016 اپریل 2016 مارچ 2016 فروری 2016 جنوری 2016 دسمبر 2015 نومبر 2015 اکتوبر 2015 ستمبر 2015 اگست 2015 جولائی 2015 جون 2015 مئی 2015 اپریل 2015 مارچ 2015 فروری 2015 جنوری 2015 دسمبر 2014 نومبر 2014 اکتوبر 2014 ستمبر 2014 اگست 2014 جولائی 2014 جون 2014 مئی 2014 اپریل 2014 مارچ 2014 فروری 2014 جنوری 2014 دسمبر 2013 نومبر 2013 اکتوبر 2013 ستمبر 2013 اگست 2013 جولائی 2013 جون 2013 مئی 2013 اپریل 2013 مارچ 2013 فروری 2013 جنوری 2013 دسمبر 2012 نومبر 2012 اکتوبر 2012 ستمبر 2012 اگست 2012 جولائی 2012 جون 2012 مئی 2012 اپریل 2012 مارچ 2012 فروری 2012 جنوری 2012 دسمبر 2011 نومبر 2011
واشنگٹن: امریکا کے صدر جوبائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے انتہاپسند حامیوں کو جمہوریت کے لیے خطرہ ٹھہرادیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے فلاڈیلفیا میں خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی میک امریکا گریٹ اگین (میگا) مہم کے حامیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 2 سال قبل ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے 7 کروڑ امریکی شہریوں پر تنقید نہیں کررہے، مگر آج کی ری پبلکن پارٹی میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا غلبہ ہے جو اس ملک کے لیے خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرصے سے ہم خود سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا میں جمہوریت کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، ہمیں اس کا دفاع کرنا ہوگا، اس کے لیے ہم سب کو کھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی آئین یا قوانین کا احترام نہیں کرتے اور سیاسی تشدد کو بھڑکاتے ہیں۔ امریکا میں نومبر میں وسط مدتی انتخابات ہورہے ہیں، جو واشنگٹن میں طاقت کے توازن کا فیصلہ کریں گے اور جوبائیڈن کا خطاب اسی حوالے سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ میگا کے حامی امریکا کو پیچھے لے جارہے ہیں، یعنی اس امریکا کی طرف جہاں انتخاب کا کوئی حق نہیں تھا، پرائیویسی کا کوئی حق نہیں تھا، اسقاط حمل کا حق نہیں تھا، اپنی پسند سے شادی کا حق نہیں تھا۔
اسلام آباد: عائشہ فاروقی کو ترجمان دفتر خارجہ مقرر کردیا گیا جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہیوسٹن میں پاکستان کی سابق قونصل جنرل عائشہ فاروقی کو ترجمان دفتر خارجہ مقرر کردیاگیا، انہوں نے بطور ترجمان دفتر خارجہ عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ عائشہ فاروقی امریکی شہر ہیوسٹن میں پاکستان کی قونصل جنرل رہ چکی ہیں اور انہیں ڈاکٹر فیصل کی جگہ ترجمان دفتر خارجہ تعینات کیا گیا ہے۔ عائشہ فاروقی بطور سفارتکار فرانس، مصر، برطانیہ، ترکی اور امریکا میں خدمات انجام دے چکی ہیں اس کے علاوہ وہ وزارت خارجہ میں بھی ذمہ داریاں نبھا چکی ہیں۔ مزید پڑھیں: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل جرمنی میں پاکستانی سفیر نامزد واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان نے 21 ممالک کے سفیروں، ہائی کمشنروں اور قونصل جنرلز کے تبادلے کیے تھے، ڈاکٹر فیصل کو جرمنی میں پاکستان کا سفیر نامزد کیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ کے مطابق رحیم حیات قریشی ایران میں پاکستان کے سفیر جبکہ شفقت علی خان روس میں پاکستانی سفیر کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ اس کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری محمد ندیم خان کو یونان، جرمنی میں سفیر جوہر سلیم کو اٹلی، ڈی جی یورپ ملک محمد فاروق کو پولینڈ، برلن میں موجود مریم مدیحہ آفتاب کو بلغاریہ جب کہ ترکی میں تعینات منسٹر سید علی اسد گیلانی کوازبکستان میں سفیر تعینات کیا گیا تھا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو خبردار کرتے ہوئےکہاہے کہ خان صاحب آپ کی الٹی گنتی شروع ہوچکی۔ بلاول بھٹوزرداری کہتے ہیں دنیا کی تاریخ میں بےنظیر بھٹوجیساکردار نہیں ملتا۔دھمکیوں کے باوجود عوام کےلئےپاکستان آئیں۔بےنظیربھٹواپنےملک اور قوم کےلئےپاکستان آئی تھیں۔ حملےکےباوجود بےنظیربھٹو اور جیالےنہیں ڈرے۔ انہوں نےکہاشہیدبی بی نےعوام کوامیددلائی کہ مستقبل محفوظ ہوگا۔عوام کوروٹی،کپڑاور مکان دیناہمارابنیادی منشورہے۔بی بی شہید نےروزگاردینےکاوعدہ پورا کیا۔مشہور تھا کہ بےنظیر آئےگی روزگار لائےگی۔ بلاول بھٹوزرداری کا کہنا تھاموجودہ کٹھ پتلی نظام میں بھی آمریت ہے۔کہاں گئیں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر؟پی ٹی آئی حکومت نے عوام سے روزگار چھینا۔ کہتے تھے مہنگائی بڑھے تو وزیراعظم چور ہے،آج تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔عمران خان نے صرف تباہی کا بندوبست کیا۔ بلاول بھٹو نےدعویٰ کیاپیپلزپارٹی کی حکومت آنے والی ہے،حکومت بناتےہی تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ کریں گے۔ شہدائے کارساز کی یاد میں پیپلزپارٹی نے باغ جناح کراچی میں جلسہ کیا۔ جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا تاریخ میں بینظیر جیسی کوئی مثال نہیں ملتی،وہ دھمکیوں کے باوجود عوام کےلئے پاکستان آئیں۔حملے کے باوجود بے نظیربھٹو نہیں ڈریں۔ بلاول نےکہا موجودہ کٹھ پتلی نظام میں بھی آمریت ہے،کہاں گئیں ایک کروڑ نوکریاں،50لاکھ گھر؟پی ٹی آئی حکومت نے عوام سے روزگار چھینا۔کہتے تھے مہنگائی بڑھے تووزیراعظم چورہے۔آج سب سے زیادہ مہنگائی ہے،پٹرول،گیس،بجلی سمیت جینااورمرنابھی مہنگاہوگیا۔ بلاول بھٹونےمزید کہا عمران خان ہرادارے کو اپنی ٹائیگرفورس بناناچاہتے ہیں۔ہم خان صاحب کو خبردار کر رہے ہیں کہ آپ کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔پیپلزپارٹی والوں کےنام پاناما اورپینڈورا پیپرزمیں نہیں آئے، اس کے باوجود پی پی رہنماجیل کاٹ رہےہیں۔ بلاول نے دعویٰ کیا کہ آئندہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی۔عوام پروپیگنڈے پریقین نہ کریں،حکومت بناتے ہی تنخواہوں اورپنشن میں اضافہ کریں گے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا حکومت کو ہٹانے تک احتجاج جاری رہےگا۔ ملک بھرمیں جیالوں کےاحتجاجی مظاہرےکامیاب رہےہیں۔تمام ایم این ایزاورایم پی ایزاپنےحلقوں میں بھی احتجاج کریں گے۔ 30 اکتوبرسےخیبرپختونخوا میں احتجاج کیاجائےگا۔پیپلزپارٹی اپنا یوم تاسیس خیبرپختونخوامیں منائےگی۔ ان کاکہناتھاآصف زرداری کوجھوٹےالزامات پرباربارطلب کیاجاتاہے۔آصف زرداری بزرگی اوربیماری کےباوجودپیش ہوتےہیں۔خورشیدشاہ2سال سےقیدہیں،چوہدری یاسین کو گرفتارکرلیاگیاہے۔گرفتاریوں کےباوجودپیپلزپارٹی اپنےمؤقف سےپیچھےنہیں ہٹی۔پیپلزپارٹی والوں کےنام پاناما اورپینڈورا پیپرزمیں نہیں آئے۔نام نہ آنےکے باوجود پیپلزپارٹی کےرہنماجیل کاٹ رہےہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھاعمران خان ہرادارےکواپنی ٹائیگرفورس بناناچاہتےہیں۔میڈیا کوبھی اپنا ٹائیگرفورس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگانےکی کوشش کی جارہی ہے۔پورےملک کو ٹائیگر فورس بنانےکی کوشش کی جارہی ہے۔
ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترک وزیر کے خلاف ناروا رویے پر ترک سفارت خانے کے قریب ترک تارکین وطن نے احتجاج کیا جس دوران ڈچ پولیس نے انہیں کتوں کی مدد سے پُر تشدد طریقے سے منتشر کیا۔ اس دوران زخمی ہونے والا ترک شہری واپس ترکی پہنچ چکا ہے اور اسے وزارت صحت کے تحت طبی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ فوٹو: اناطالیہ نیوز وزیر خارجہ چاوش اوغلو نے کہا ہے کہ حسین کرت کو بہتر طبی سہولیات کے لیے استنبول لایا گیا ہے۔ Hüseyin Kurt, our citizen brutally attacked by the police dog in Rotterdam was transferred to İstanbul to be given better medical treatment. — Mevlüt Çavuşoğlu (@MevlutCavusoglu) March 22, 2017 11مارچ کو ہالینڈ نے سب سے پہلے وزیر خارجہ جاوش اوغلو کی فلائٹ کو داخلہ سے روک کر کینسل کر دیا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن وزیر خاندانی امور فاطمہ بتول کایا کے وفد کو ترک سفارت خانے میں داخل ہونے سے روک کر ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد نہ صرف ترکی بلکہ ہالینڈ میں رہنے والے ترک شہریوں میں غم و غصہ کی لہر دور گئی تھی۔ ہالینڈ میں موجود ترک شہریوں کی بڑی تعداد ترک سفارت خانے کے قریب جمع ہو گئی جسے منتشر کرنے کے لیے ڈچ پولیس نے کتوں کی مدد لی۔ اس دوران کئی ترک تارکین کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ کرت کی تصاویر کو بڑے پیمانے پر میڈیا میں دکھایا گیا تھا۔
عورت اکیس سے پچیس سال کی عمر میں ایک سایہ دار درخت ہے اس کے جذبے شبنم کے قطروں کی طرح پاکیزہ ہوتے ہیں سراپا محبت ہے عورت چھبیس سے تیس سال کی عمر میں پھولوں سے بھری ہوئی ایک شاخ کی مانند ہے جس سے گھر کی آرائش ہوتی ہے یہ ویرانوں کو زندگی بخشتی ہے اس کی محبت چاند کی روشن کرنوں کی طرح دلکش ہوتی ہے یہ سراپا زندگی ہے اکتیس سے پینتیس سال کی عورت اس باغباں کی مانند ہے جو گلستانِ حیات میں خوش رنگ پھول لگاتا ہے اور پھر ان کی نشوونما کرتا ہے اس عمر میں عورت اولادِ آدم کی تعمیر کے لیے کوشاں رہتی ہے سراپا جدوجہد ہے چھتیس سے چالیس سال کی عمر میں عورت ایک ایسی چٹان ہے جو طوفان سے ٹکرا جانے کی ہمت رکھتی ہے اس کے چہرے پر کامرانی کے نقوش واضح ہوتے ہیں یہ اس فاتح کی مانند ہے جو زندگی کی بیشتر مہمات کو سر کر چکا ہو سراپا عزم ہے عورت اکتالیس سے ساٹھ سال کی عمر میں ایک ایسی کتاب ہے جو سنہری تجربات سے بھری ہو یہ دوسروں کے لیے راستے کا ٹھیک تعین کر سکتی ہے یہ ایک ایسی روشنی ہے جو منزل کا ٹھیک پتہ دیتی ہے سراپا شفقت ہے
تفصیلات کے مطابق 2013 میں انتقال کرنے والے ملا عمر کی قبر افغان صوبے زابل کے ضلع سیوری میں ہے، ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ویڈیو جاری کر دی۔ ویڈیو میں طالبان وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند اور افغان کابینہ کے اراکین کو قبر پر فاتحہ خوانی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ افغان عوام کے محسن امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی قبر زیارت عام کے لیے منکشف کی گئی ہے، عوام نے بھی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور دعا مانگی۔ ژوندی به وي ترعمره ستا یاد لویه رهبره pic.twitter.com/UUo3TZZcgu — Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 6, 2022 ختم قرآن اور دعائیہ تقریب میں وزیر اعظم ملا محمد حسن، وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی اور ملا عمر کے خاندان کے افراد نے شرکت کی۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ سی پیک کے دائرہ کارمیں وسعت آرہی ہے۔گوادرسی پیک کےلےچ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔سی پیک ہمسایہ ملک کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ اسلام آباد میں چیئرمین سی پیک اتھارٹی خالد منصورکے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہاکہ آئی ٹی جوائنٹ ورکنگ گروپ شروع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیرنےکہاداسو پراجیکٹ سےمتعلق سیکیورٹی کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اورکوشش ہےداسو معاملےمیں ملوث ملزمان کوجلدگرفتار کرکےسزا دی جائے۔ سیکیورٹی کے نظام کو وسعت دینے کےلےو حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔ داسو سی پیک پراجیکٹ نہیں ہے اور نہ ہی سی پیک کی سیکیورٹی میں داسو شامل تھا۔سی پیک ہمسایہ ملک کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ کراچی کوسٹل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پر دستخط ہوئے ہیں اورسی پیک کے دائرہ کارمیں وسعت آتی جا رہی ہے۔انڈسٹریل زون بن رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا ایم ایل ون منصوبے پر بھی میٹنگز چل رہی ہیں۔ وزیراعظم بہت جلد کے سی آرپراجیکٹ کے انفرا اسٹرکچر کا افتتاح کریں گے۔
عبید اللہ سندھی صاحب کی کتاب ’’شعور و آگہی‘‘ اُن کے اور اُن کے رہنما شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب کے افکار کے حوالے سے ایک مختصر، دلچسپ اور مفید کتاب ہے۔ اس کے مطالعے کی بنیاد پر مجھے مذکورہ حضرات کے مکتبِ فکر کی کچھ باتیں بہت پسند آئیں جو آپ سے شیئر کرتا چلوں۔ پہلی بات یہ کہ جہاں تک میرا مطالعہ اور مشاہدہ ہے، ہمارے ہاں رائج باقی مکاتبِ فکر کے مقابلے میں اس حلقہ نے زیادہ حقیقت پسندی اور فراخ دلی سے یورپ کی مادی اور فنی ترقی کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اپنے ہاں بھی اسی نوعیت کی ترقی کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ کسی حوالے سے کامیاب قوم کے ساتھ بغض و عناد رکھ کر اور اس کی ترقی سے انکار کر کے اس قوم کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ اُلٹا اس کو مزید سبقت لینے کے لیے آسانی فراہم ہو جاتی ہے۔ محض دنیا کو فانی قرار دے کر مادی ترقی کی اہمیت سے انکار کرنا اسلامی تعلیمات اور حقیت پسندی کا نہیں بلکہ نااہلی اور کاہلی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ کھلے دل سے دوسروں کی کامیابیوں اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرلیا جائے اور اس کے بعد اپنی توانائیاں بھی اچھی جگہ پر مرکوز کر لی جائیں۔ ہمارے دانشور اور تاریخ دان، ہماری تاریخ کے مختلف کرداروں کی زندگیوں کے انتہائی ذاتی پہلوؤں کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے آئے ہیں کہ اجتماعیت کا تصور کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم تاریخ کی وادی میں جھانکتے ہیں، تو ہماری نظروں کے سامنے مختلف ادوار میں رائج اجتماعی نظاموں کی بجائے چند گنے چنے افراد کی زندگیوں کی وہ جھلکیاں گھومنے لگتی ہیں جن کا اجتماعی نظم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نظام اور انقلاب برپا کرنے میں بے شمار انسانوں کا خون پسینا شامل ہوتا ہے لیکن سہرا صرف چند افراد کے سر سجا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس شاہ ولی اللہ صاحب اجتماعیت پر بڑا زور دیتے ہیں۔ ان کی دلچسپی یہ جاننے میں ہوتی ہے کہ ایک فرد کی وجہ سے معاشرے اور رائج الوقت نظام پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ ان کے نزدیک اسلام ایک بین الاقوامی انقلاب برپا کرنے کے لیے آیا ہے اور اس کا دامن بہت وسیع ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان ہر ذی روح کی انتہائی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندگی کے تسلسل کا دار و مدار ان ہی اشیا پر ہے۔ یہ نہ ہوں، تو زندگی کا سفر ہی رک جائے۔ اسی لیے جب تک ان لوازمات کی تکمیل نہیں ہوجاتی، انسان زندگی کے مقصد اور اس میں کچھ کر گزرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ معیشت وہ شے ہے جس کے ذریعے ان سہولیات کی فراہمی ممکن ہو جاتی ہے۔ شاہ ولی اللہ منصفانہ اقتصادی نظام کے نفاذ پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک ایک ریاست کا اقتصادی نظام ٹھیک نہیں ہوجاتا، تب تک وہاں کے لوگوں سے اعلا انسانی اقدار کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جس ریاست میں کمانے والے اور ہوں اور کھانے والے اور، وہاں انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کارل مارکس کی پیدائش شاہ ولی اللہ کی وفات کے 55 سال بعد ہوئی تھی۔ دونوں کے نظریات میں بنیادی اختلافات ہیں لیکن دونوں چوں کہ اقتصادی امور پر خاص توجہ دیتے ہیں، اس لیے اگر آپ مکمل یا کسی حد تک مارکسسٹ ہیں اور یا ویسے ہی اقتصادیات میں دلچسپی لیتے ہیں تو میرا یقین ہے کہ آپ کو یہ کتاب اور شاہ ولی اللہ صاحب کے افکار دلچسپ لگیں گے۔ ……………………………………. لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] یا [email protected] پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ Share: Rate: Previousبارہ ربیع الاول، عید میلادالنبیؐ Nextجنگلات ماحول دوست ہی نہیں انڈسٹری بھی ہیں About The Author ظہیر الاسلام شہاب ظہیر الاسلام شہاب کمیونی کیشن سٹڈیز لاہور میں زیرِ تعلیم ہیں۔ شانگلہ کے رہائشی ہیں۔ کتب بینی کے شوقین ہیں۔ رابطے کی سماجی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی نگارشات شیئر کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹی سی عمر میں بلا کا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔
Islam Abad (94 news) President Arif Alvi dismissed DG Pemra in harassment case 25 لاکھ روپے جرمانے کا حکم دے دیا۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے جرمانہ بڑھا کر 20 From 25 لاکھ روپے کر دیا۔ صدر پاکستان کا کہنا ہے کہ ثابت ہو چکا خاتون ملازم کو زبانی، فحش، جنسی، توہین آمیز تبصروں اور ناجائز مطالبات سے ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ایسے کیس بلاشک و شبہ ثابت ہو جاتے ہیں تو قانون کی پوری طاقت کا استعمال کرتا ہوں۔ صدرِ مملکت کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے محفوظ ماحول یقینی بنانے کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہراسیت کے خوف کے باعث خواتین کی دب جانے والی اقتصادی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں۔ More More Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email Print
ڈیرہ بابا نانک کے قریب میں واقعہ پراچی گاؤں کے پڑوس میں رہنے والا خاندان اپنے تقسیم ہند کے دوران بیٹے اور بیٹی کی تشدد میں لاپتہ ہوجانے کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے تھے پنچاب۔ تین بھائی بہن جس میں د و مسلم بہنیں اور ایک سکھ بھائی کے درمیان ڈیرہ بابانانک کے قریب گاؤں میں اتوار کے روزگردوارہ جنم آستھان میں جذباتی ملاقات ہوئی۔ سات دہوں کے بعد ملاقات کرنے والے الفت بی بی اور معراج بی بی نے اپنے بھائی بنت سنگھ سے ملاقات کرکے بغلگیر ہوئے۔ڈیرہ بابا نانک کے قریب میں واقعہ پراچی گاؤں کے پڑوس میں رہنے والا خاندان اپنے تقسیم ہند کے دوران بیٹے اور بیٹی کی تشدد میں لاپتہ جانے کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔ مذکورہ بچوں کی ماں اللہ راکھی نے بعد ازاں اپنے ایک سابق پڑوسی سے ربط قائم کرتے ہوئے جاننے کی کوشش کی کہ ان کے بیٹا بنت سنگھ کہاں پر ہے۔اس کے بعد سے بنت سنگھ اپنی بہنوں سے بذریعہ فون اور لیٹر رابطے میں تھے۔ مگر اس مرتبہ ہندوستان سے جانے والے سکھ جتھے کے حصہ بن کر وہ کسی طرح اپنی بہنوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کے اخبارایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے الفت بی بی انہیں اپنی بھابھی اور ان کے بچوں سے ملاقات کے لئے ہندوستان کی سفر کی اجازت ملنی چاہئے۔ الفت او رمعراج نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نام پر ایک اپیل جاری کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیاکہ ان کے بھائی کے ویزاکی مدت میں توسیع کی جائے۔ سکھ عقیدت مندوں کے لئے پاکستان کے کرتار پور میں مقیم گرونانک جی کے گردوراہ جانے کے لئے ہندوستان او رپاکستان نے کرتار پور کواریڈار کھولنے کا فیصلہ کیاہے۔ دیربابانانک سے چار کیلومیٹر کے فاصلے پر گردوارہ ہے‘ او رہندوستان کی طرف سے وہ صاف طور پر دیکھائی بھی دیتا ہے۔
لیڈا انٹیگریٹڈ کیمپ ہاؤس بڑے پیمانے پر عمومی معاہدے کے منصوبوں ، تیل اور گیس کے میدانوں کے منصوبوں ، پن بجلی کے منصوبوں ، فوجی منصوبوں ، کان کنی کے شعبوں کے منصوبوں ، اور اسی طرح کے لیبر اور فوجی مقاصد کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے ، جن کا مقصد قلیل اور طویل مدتی سائٹ کو متحرک کرنا ہے۔ لیڈا پری فابریکٹڈ آئل اینڈ گیس فیلڈ لیبر کیمپ ہاؤس توسیع پذیر ہے اور خاص طور پر زیادہ سے زیادہ افادیت اور راحت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ لیڈا تیار شدہ لیبر کیمپ بنانے والا فوری ، آسان ، سستی اور توانائی سے موثر عارضی افرادی قوت ہاؤسنگ حل فراہم کر سکتا ہے۔ انکوائریتفصیل فلیٹ پیک کنٹینر ہاؤس اور ورکر کیمپ۔ LIDA فلیٹ پیک کنٹینر ہاؤس مثالی طور پر تعمیراتی مقامات ، تعمیراتی کیمپوں اور ڈرلنگ کیمپوں کے لیے موزوں ہے ، جہاں وہ فائدہ مند طور پر دفاتر ، رہائشی رہائش گاہیں ، کمرے بدلنے اور ٹوائلٹ کی سہولیات میں تبدیل ہو جائیں گے۔ LIDA فلیٹ پیک کنٹینر ہاؤس قدرتی مواد سے بنا ہے اور تقریبا almost 100٪ ری سائیکل ہے۔ وہ بڑے ماحولیاتی فوائد فراہم کرتے ہیں LIDA فلیٹ پیک کنٹینر ہاؤس کو جمع کر کے بھیجا جا سکتا ہے یا ٹرانسپورٹ کی لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے ، فلیٹ پیکڈ کو سائٹ پر انسٹالیشن کے لیے صرف کم از کم ٹولز کے ساتھ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ LIDA فلیٹ پیک کنٹینر ہاؤس کو بھی استعمال کے بعد آسانی سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نئی جگہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس پاکستان نے 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘یہ کام کس نے کیا ہے’ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا ہم خود اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنا کیا کوئی عام بات ہے، ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈال سکتے ہیں، کل کو آپ کا اور چیئرمین نیب کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران کہا مجھے تو اس سارے معاملے پر حیرت ہوئی ہے کیسے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، وفاقی حکومت اس کی کیسے وضاحت دے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جواب گزاروں کو جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب داخل کرنے کا کہا اور حکومت نے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے۔ کیا ایسے ہی نام اٹھا کر ای سیل ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں: چیف جسٹس عدالت نے حکم دیا کہ متعلقہ وزیر 15 منٹ میں عدالت میں پیش ہوں جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا ایسے ہی نام اٹھا کر ای سیل ایل میں ڈال دیے جاتے ہیں، متعلقہ وزیر کو کہیں سمری بھی ساتھ لے کر آئیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کیسے لیک ہو گئے جس پر تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ احسان صادق نے کہا ہمارے سیکرٹریٹ سے کوئی چیز لیک نہیں ہوئی، میڈیا نے سنی سنائی باتوں پر خبریں چلائیں۔ اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے فاروق ایچ نائیک اب پیش نہیں ہوسکتے، ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے اور جے آئی ٹی نے فاروق ایچ نائیک کو بھی ملزم بنا دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا فاروق ایچ نائیک کو پیش ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا قانون کو اپڈیٹ کرنا اسمبلیوں کا کام ہے، وزراء رات کو ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی کارکردگی بتارہے ہوتے ہیں، تمام سیاستدان سن لیں، ہم نے قانون بنا کر اسمبلی کو بھجوائے ہیں۔ ساری کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کررہے ہیں، ان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے: چیف جسٹس چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تاحال توثیق نہیں کی، رپورٹ کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے، ساری کابینہ اور وکلا جے آئی ٹی رپورٹ پر تبصرے کررہے ہیں، ان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے۔ سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جعلی آڈیو وائرل کر کے ٹی وی پر چلائی گئی جس پر چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا اور کہا کہ ایف آئی اے سے پتہ کرتا ہوں کس نے غلط ٹیپ چلائی۔ سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا اور کہا کہ جواب کے لیے 4 دن کا وقت دے دیں۔ عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ہفتے کے آخر تک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کھوسہ صاحب اپنےموکل کوبھی بتادیں انصاف ہوگا، جس نے کچھ غلط کیا ہے اسے بھگتنا ہوگا، نہ تکبر سے بات کریں گے نہ ہی ناانصافی کریں گے، یہاں صرف انصاف ہوگا اور کسی کے ساتھ غلطی یا ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔ یاد رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے 20 دسمبر کو جعلی اکاؤنٹس کیس کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس کے بعد حکومت نے رپورٹ کی روشنی میں پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے جس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ عدالت نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، پارٹی صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر سے جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب طلبی کے لیے نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے ملزمان کے خلاف 16 ریفرنسز دائر کرنے کی سفارش کی ہے جب کہ ملزمان انور مجید اور عبدالغنی مجید نے اپنے جواب میں خود کو معصوم قرار دے کر جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں جب کہ تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں۔ ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں ‘ٹریڈ اکاؤنٹس’ کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہیں۔ اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور پیش ہوچکے ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جس کی روشنی میں حکومت نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پارٹی صدرآصف علی زرداری، فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سمیت 172 افراد کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
آپ کوکیز کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں جو ہم اس سیکشن میں استعمال کرتے ہیں: کوکیز کی پالیسی دیگر ویب سائٹس سے ایمبیڈڈ مواد اس سائٹ کے مضامین میں سرایت شدہ مواد (مثال کے طور پر ، ویڈیو ، تصاویر ، مضامین وغیرہ) شامل ہوسکتے ہیں۔ دوسری ویب سائٹوں سے ملنے والا مواد بالکل ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسے وزیٹر دوسری ویب سائٹ پر گیا ہو۔ یہ سائٹس کوکیز استعمال کرتے ہوئے آپ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرسکتے ہیں، اضافی تیسری پارٹی سے باخبر رکھنے کی سرایت، اور سرایت مواد کے ساتھ آپ کی بات چیت سے باخبر رہنے کے آپ کو ایک اکاؤنٹ ہے اور آپ کی ویب سے منسلک کر رہے ہیں تو بھی شامل ہے کہ سرایت مواد کے ساتھ آپ کی بات چیت کی نگرانی. کتنی دیر تک ہم آپ کے ڈیٹا کو برقرار رکھتے ہیں اگر آپ کوئی تبصرہ چھوڑتے ہیں تو ، تبصرے اور اس کا میٹا ڈیٹا غیر معینہ مدت کے لئے رکھا جاتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ ہم اعتدال پسند قطار میں رکھنے کے بجا. بعد کے تبصروں کو خود بخود پہچانیں اور منظور کرسکیں۔ ان صارفین میں سے جو ہماری ویب سائٹ پر رجسٹر کرتے ہیں (اگر کوئی ہے)، ہم ان کی ذاتی پروفائل کو بھی ان کی صارف پروفائل میں فراہم کرتے ہیں. تمام صارفین اپنی ذاتی معلومات کو کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں، ترمیم یا حذف کرسکتے ہیں (اس کے علاوہ کہ وہ اپنا صارف نام تبدیل نہیں کرسکتے ہیں). ویب منتظمین اس معلومات کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور اس میں ترمیم کرسکتے ہیں. آپ کے ڈیٹا کے بارے میں کیا حقوق ہیں؟ اگر آپ کے پاس ایک اکاؤنٹ ہے یا اس ویب سائٹ پر تبصرے چھوڑ چکے ہیں تو، ہم آپ کے بارے میں ذاتی معلومات کے ایک برآمد فائل وصول کرنے کے لئے درخواست کر سکتے ہیں، بشمول کسی بھی معلومات سمیت ہمیں آپ کو فراہم کی گئی ہے. آپ اس درخواست کی بھی درخواست کرسکتے ہیں جو ہم آپ کے بارے میں کسی بھی ذاتی معلومات کو ہٹا دیں. اس میں کوئی بھی ڈیٹا شامل نہیں ہے جو ہمیں انتظامی، قانونی یا سیکورٹی مقاصد کے لۓ رکھنے کی ضرورت ہے.
وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل تابع لوگ بڑوں سے کہیں گے کہ ہماری گمراہی کا سبب تمہاری شب وروز کی مکّاری تھی جو تم ہم سے کیا کرتے تھے تاکہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرائیں، یہ لوگ جب عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پچھتائیں گے اور ہم منکرین کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی اور بدلہ دیا جا سکتا ہے؟ جیسے ان کے اعمال تھے ویسی ہی جزا پائیں گے تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین اب عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں سے یوں مخاطب ہوں گے کہ تمہارے دن رات کے پروپیگنڈے سے ہی ہم متاثر ہو جاتے تھے۔ تم ہمیں پھانسنے کے لیے ہر روز کوئی نئے سے نیا جال لاتے رہے۔ تم لوگ نام تو اسلام کا لیتے رہے مگر حقیقتاً تم اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی چودھراہٹ چاہتے تھے تمہارے جھوٹے پروپیگنڈے نے ہماری مت مار دی تھی۔ اور ہم تمہیں مخلص سمجھ کر تمہارا ساتھ دیتے رہے۔ لہٰذا ہماری گمراہی کا باعث تم ہی لوگ ہو۔ دونوں ایکد وسرے پر الزام بھی دیں گے براءت کا اظہار بھی کریں گے لیکن دل میں اپنے کیے پر پچھتا رہے ہونگے۔ ان سب کے ہاتھوں کو گردن سے ملا کر طوق و زنجیر سے جکڑ دیا جائے گا۔ اب ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ ملے گا۔ گمراہ کرنے والوں کو بھی اور گمراہ ہونے والوں کو بھی۔ ہر ایک کو پورا پورا عذاب ہو گا۔ رسول اللہ.فرماتے ہیں جہنمی جب ہنکا کر جہنم کے پاس پہنچائے جائیں گے تو جہنم کے ایک ہی شعلے کی لپٹ سے سارے جسم کا گوشت جھلس کر پیروں پر آ پڑے گا۔ (ابن حاتم، ابن کثیر) تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
اکثر اوقات ہم گھروں میں طرح طرح کی سبزیاں پکاتے اور کھاتے ہیں لیکن ہم تصور نہیں کر سکتے کہ دنیا میں ایسی سبزیاں بھی ہیں جو دیکھنے والے کو حیران کردیتی ہیں۔ یہ سبزیاں کبھی کبھار کتنی مختلف نظر اتی ہیں، محققین نے تحقیق کی اور دنیا بھر میں سب سے عجیب سبزیوں کو پایا۔ ان میں سے ایک ہے” رنگین کارن” ( Glass Gem Corn) یہ مکئی کا بھٹا رنگا رنگ اناج کے ساتھ امریکی کسان کارل بارنس کی طرف سے اگایا گیا، اسے گلاس جم کہا جاتا ہے. یہ مکئی ابلے ہوئے بھٹے کی مانند نہیں ہوتی اور یہ کھانے میں بھی سخت ہوتی ہے. یہ پاپ کارن اور مکئی کا آٹا بنانے کے کام بھی نہیں آتی۔ گلاس جم مکئی دیکھنے میں تو لگتا ہے کہ شاید یہ کسی فوٹو شاپ کے ماہر کا نتیجہ ہے مگر منفرد شکل اور رنگ برنگے دانوں پر مشتمل یہ مکئی حقیقت میں وجود رکھتی ہے۔ گلاس جم مکئی کا تعلق امریکہ سے ہے۔ یہ مکئی انتہائی نایاب ہے اور اس کی بیجوں کی قیمت ہی 500 ڈالرز کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اس بھاری قیمت کے باوجود بھی گلاس جم مکئی کھانے کے لیے مناسب نہیں کیونکہ اس کا ذائقہ ناخوشگوار سا ہوتا ہے۔ اسے محض آرائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نامور صحافی ستونت کور کی رپورٹ کے مطابق گلاس جم مکئی قدرتی نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست "اوکلاہوما” کے ایک کسان محقق "کارل برنس” کی طرف سے سلیکٹو بریڈنگ کے تجربات کے دوران حادثاتی طور پر اگ گئی، پہلی مرتبہ اسے2012 میں اگایا گیا تھا۔
ویب ڈیسک (اسلام آباد)رحمت اللعالمینۖ اتھارٹی کےقیام کااعلان کرتےہوئےوزیراعظم عمران خان نےکہا ہےکہ ہم سیرت النبیۖ بچوں اوربڑوں کوپڑھانےکاطریقہ کارطےکریں گے،اسکولوں کےنصاب کی نگرانی کی جائیگی،اس اتھارٹی کی نگرانی میں خودکروں گا۔ اسلام آبادمیں رحمت اللعالمینۖ کانفرنس سےخطاب کرتےہوئےوزیراعظم نےکہاکہ ہم نےاتھارٹی کےچیئرمین کی تلاش شروع کردی ہے،دنیا کےبہترین مذہبی سکالرکوچیئرمین بنایاجائےگاجواسلام سےمتعلق دنیاکوآگاہ کرےگا۔ انہوں نےکہاکہ کمزورانسان انصاف اورطاقتوراین آراوچاہتا ہے، مدینہ کی ریاست کےاصولوں پرچلیں گےتوملک ترقی کریگا، انہوں نےکہاکہ حکومت نہیں معاشرہ کرپشن کےخلاف لڑتاہےوہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتاجہاں کرپشن ختم نہ ہومیں جنہیں رول ماڈل سمجھتاتھاان کی زندگی کوقریب سےدیکھا،ہمارےرول ماڈلزاورسیدھےراستےمیں زمین آسمان کافرق تھا۔ ان کا کہناتھاکہ عشرہ رحمت اللعالمینۖ کی تقریبات کا آغاز کرکے فخر محسوس کررہا ہوں۔ نبی کریم ۖساری انسانیت کیلئے رحمت بن کرآئے، جومعاشرہ حضرت محمدۖکےاصولوں پر عمل کرے گا وہ اوپرچلا جائےگا۔ پاکستان میں جنسی جرائم تیزی سےبڑھ رہےہیں،مغرب کاخاندانی نظام ہمارےسامنے تباہ ہوا،مغربی کلچراپنانے سے ہمارامعاشرہ کیسے بچ سکتاہے۔ وزیراعظم عمران خان کاکہناتھاکہ میں ہمیشہ سےاپنی زندگی کاجائزہ لیتاہوں،موجودہ دورمیں نوجوان نسل انتہائی دبائو کاشکار ہے۔ دنیامیں سب سےبڑاانقلاب 625سے 635 کےدرمیان آیا۔ چھوٹےتھےتوسونےسےپہلےیہی دعا کرتےتھے کہ اللہ ہمیں سیدھےراستےپرلگا۔اللہ ہمیں نبی کریمۖ کی زندگی سےسیکھنےکاحکم دیتا ہے،ایک راستہ ناجائزدولت کمانےکاہےاوردوسراراستہ نبی کریمۖ کی سیرت کا ہے۔ وزیر اعظم نےکہاکہ جب اقتدارمیں آیاتوآئی جی سےپوچھاکون سےجرائم میں اضافہ ہورہاہےتوانہوں نےبتایاکہ جنسی جرائم میں اضافہ ہورہاہے،بچوں کیساتھ زیادتی معاشرے میں سرایت کرچکی ہے۔ مزید دیکھیں : قبائلی ٹی ایم ایز اور ویلج کونسلوں کو نومبر کیلئے ایک کروڑ 72لاکھ جاری جنسی جرائم سےسارے معاشرے کو مقابلہ کرناپڑتاہے۔ جس معاشرے کی اخلاقیات تباہ ہوجائیں وہ کبھی اوپرنہیں جاسکتا۔
ریاست چھتیس گڑھ کے بستر ضلع میں واقع این ایم ڈی سی کا نگرنار اسٹیل پلانٹ جمعہ کے. روز 28 اکتوبر 2022 کو اس وقت اپنی کمیشننگ سے ایک قدم .اور نزدیک ہوگیا جب جناب سومناتھ نندی، ڈائریکٹر ٹیکنیکل، این ایم ڈی سی کوک بیٹری نمبر 1 کا افتتاح کیا۔ ناگرنار اسٹیل پلانٹ .کے ای ڈی انچارج جناب کے پروین کمار اور دیگر سینئر افسران اس موقع پر موجود تھے۔ کوک کی پہلی کھیپ جمعہ کی. دوپہر کو جاری کی گئی تھی جس سے بعد کے اہم یونٹوں کی ترتیب وار کمیشننگ کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ گرین فیلڈ انٹیگریٹڈ اسٹیل پلانٹ ہونے کی وجہ سے کئی بڑی اکائیوں کو ترتیب وار .شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ناگرنار اسٹیل پلانٹ .میں ان کا باہمی انحصار آسانی سے قائم کیا جاسکے۔ بیٹری نمبر 2 اگلے چند دنوں میں کمیشن ہونے والی ہے .اور یہ عمل آنے والے مہینوں میں ہاٹ اسٹرپ مل اور پتلی سلیب کاسٹر کے کمیشن پر اختتام پذیر ہوگا۔ نگرنار اسٹیل پلانٹ نگرنار اسٹیل پلانٹ کا مقصد ہر سال 2.89 ملین ٹن اعلی معیار کا ایچ آر، کوائلز، پلیٹیں اور شیٹس سالانہ، جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے. اور توانائی کی کارکردگی کی اعلی ترین سطح حاصل کرنا ہے۔ این ایم ڈی سی کے سی ایم ڈی جناب سمت دیب نے اجتماعی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے. اس پیش رفت کو نگرنار اسٹیل پلانٹ کی تاریخ کا ایک اہم دن اور 3 ایم ٹی پی اے انٹیگریٹڈ اسٹیل پلانٹ کی شروعات میں. ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ. “پلانٹ کو شروع کرنے کے آخری سنگ میل کو. حاصل کرنے کے لیے ایک ٹیم کی حیثیت سے ہمہ جہت کوششیں کی جائیں۔ این ایم ڈی سی کے ڈائرکٹر ٹیکنیکل جناب سومناتھ نندی نے. اس کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ. اسٹیل پلانٹ کو شروع کرنے کی سمت میں یہ پہلا بڑا قدم ہے۔ آج کی ترقی سے یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہم جلد ہی بستر. میں اسٹیل پلانٹ کے خواب کو پورا کریں گے۔ ناگرنار اسٹیل پلانٹ کے. ای ڈی انچارج جناب پروین کمار نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ ماحول دوست کوک .اوون بیٹریاں بغیر کسی زہریلے دھوئیں کے کوکنگ کوئلہ پیدا کریں گی۔ انہوں نے آج کے کمیشن کو ‘ٹیم کے عزم کی تصدیق’ قرار دیا اور اس اعتماد کا اظہار کیا. کہ اسٹیل پلانٹ کمیشننگ بھی جلد ہی عمل میں آئے گی ۔ مرکز کا بینہ میں بڑے پیمانے پر ردو بدل، وزرا کے قلمدانوں کا اعلان Tags: نگرنار اسٹیل پلانٹ Recommended ہمارے بارے میں India Narrative, a news and views website, impactfully captures a new phase in aspirational India’s rise as an influential player on the global stage.
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نیب مریم نواز کو ویسے ہی ٹریٹ کرے جیسے دیگر ملزمان کو کرتا ہے، سینیٹ الیکشن کے بعد سے ن لیگ والوں کا منہ بنا ہوا ہے، اگر انتخابی اصلاحات ہو جاتیں تو سینیٹ الیکشن مذاق نہیں بنتا، استعفیٰ استعفیٰ کھیل لیا اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، پیر سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت سیاسی جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔ فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کی بات مانتی تو آج ان کا مذاق نہ بنتا، ہم نے دو ڈھائی سال استعفی استعفی کھیل لیا آب آگے چلیں، الیکشن اصلاحات سے متعلق ن لیگ نے ہماری بات مانی ہوتی توآج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کل جو ہوا اس کو پی ڈی ایم میں لے کر جارہے ہیں، فضل الرحمٰن کی سربراہی میں پی ڈی ایم کا ہنگامی اجلاس بلانے کا سوچ رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ ن ایک بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن آج کل بچوں کو دی ہوئی ہے، اپوزیشن جماعتوں کو عمران فوبیا سے نکل کر اپنی خامیوں پر توجہ ڈالنی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ جب بھی ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو یہ حکومت کو کمزور سمجھتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہمارے پاس نوکریاں نہیں دوسری جانب لوگ نہیں جنہیں نوکریاں دے سکیں۔ فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ پارلیمانی پارٹی سے کہتا ہوں مریم نواز کی سیاست آپ کو کہیں نہیں لے جائے گی، نواز شریف سے اور کوئی امید نہیں لندن کے ریستورانوں پر کتاب ہی لکھ دیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ کا ختم ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں، ن لیگ کا سینٹرل پنجاب کے باہر کوئی اثر و رسوخ نہیں رہا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی جماعتوں کا ختم ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں، آئیں انتخابی اصلاحات کی طرف بڑھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ہر ضلع کا علیحدہ ترقیاتی پیکیج تیار کیا گیا ہے اور وہ جلد ہی فیصل آباد اور اٹک کا دورہ کریں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو کمزور سمجھ کر آپ نے ہمیشہ منہ کی کھائی، اپوزیشن کو اپنی سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ سینیٹ الیکشن کا جس طرح مذاق بنا سب کے سامنے ہے، چیئرمین نیب جاوید اقبال کے آنے کے بعد نیب کا ادارہ بحال ہوا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے تشدد کی تربیت کے لیے بلوچی قیدی کو استعمال کرنے کا انکشافہندوستانی میزائل کا مبینہ غلطی سے پاکستانی حدود میں گرنے کا واقعہ: امریکہ کی طرف سے متعصب جبکہ چین کی جانب سے نصیحت آمیز ردعملمیٹا آسٹریلوی سیاستدانوں کو سائبر حملوں اور جھوٹی خبروں سے بچنے کی تربیت دے گییوکرین: مغربی ممالک سے آئے 180 سے زائد جنگجو ہوائی حملے میں ہلاک، روس کی مغربی ممالک کو تنبیہ، سب نشانے پر ہیں، چُن چُن کر ماریں گےاسرائیل پر تاریخ کا بڑا سائبر حملہ: وزیراعظم، وزارت داخلہ اور وزارت صیہونی بہبود کی ویب سائٹیں ہیک اور تلفروس اور یوکرین کے مابین جلد امن معاہدہ طے پا جائے گا: روسی مذاکرات کاریوکرینی مہاجرین کی تعداد 50 لاکھ سے بڑھ گئی: اقوام متحدہفیس بک اور انسٹاگرام کی شدید متعصب پالیسی کا اعلان: روسی صدر اور فوج کیخلاف نفرت اور موت کے پیغامات شائع کرنے کی اجازت، نتیجتاً مغربی ممالک میں آرتھوڈاکس کلیساؤں اور روسی کاروباروں پر حملوں کی خبریںترکی کا بھی روس کے ساتھ مقامی پیسے میں تجارت کرنے کا اعلانمغرب کے دوہرے معیار: دنیا پر روس سے تجارت پر پابندیاں، برطانیہ سمیت بیشتر مغربی ممالک روس سے گیس و تیل کی خریداری جاری رکھیں گے قاسیم سلیمانی کا قتل: وہ مشورے جن پر ٹرمپ نے عمل نہیں کیا ستمبر 14, 2020 ستمبر 14, 2020 by مخبر واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر باب ووڈورڈ نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ رپبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے امریکی صدر کو اس فیصلے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا نتیجہ ‘ایک مکمل جنگ’ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ کوئی دوسرا صحافی تحقیقی صحافت کرنے والے امریکی صحافی باب وڈورڈ کی طرح دنیا کی سانس نہیں روک سکتا۔ جب کہ ہر کوئی ‘ریج’کے عنوان سے ان کی نئی کتاب کے منظرعام پر آنے کے انتظار میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں اس کتاب کے کچھ حصے انٹرنیٹ پر پہلے ہی شائع کردیے گئے ہیں۔ باب وڈورڈ 1972 میں 29 سال کے تھے اور وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کے ایک کام نے انہیں عالمی شہرت اور اہمیت دی۔ وہ واٹرگیٹ سکینڈل کو منظرعام پر لائے جس پر بالآخر امریکی صدر رچرڈنکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار وائٹ ہاؤس کے سربراہ مستعفی ہوئے، ایسا اس کے بعد دوبارہ کبھی نہیں ہوا۔ وڈورڈ نے کئی سال تک ہمیشہ اپنی ساکھ کو وائٹ ہاؤس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بہت سے امریکی صدور نے کئی بار ان کے ساتھ تب بھی نجی نوعیت کی گفتگو کی جب انہوں نے امریکی صدور کے خلاف لکھا۔ مثال کے طور پر سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے وڈورڈ کے ساتھ ان کی چار کتابوں پر بات کی۔ باراک اوباما نے بھی کئی مرتبہ وڈورڈ کی بات سنی۔ وہ امریکی صدر جو ملکی سیاسی اشرافیہ کے باہر سے آئے، ان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ ان سے بات کریں، اور اپنا مؤقف پیش کریں۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ اب تک 18 مرتبہ وڈورڈ سے بات کر چکے ہیں۔ اپنی گزشتہ کتاب خوف میں ووڈ ورڈ نے لکھا کہ بظاہر اس کا مقصد تعلقات کو بڑھانا اور منفی انداز میں پیش ہونے سے بچنا ہو سکتا ہے۔ ووڈورڈ کے مطابق ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے انہیں 19ویں دفعہ فون کیا اور آئندہ آنے والی کتاب میں متحدہ عرب امارات، اسرائیل امن معاہدے کی روداد شامل کرنے کے لیے کہا، لیکن صحافی کا جواب تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی اور کتاب شائع ہونے والی ہے۔ اس لحاظ سے وڈورڈ کی کتاب تاریخی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں ٹرمپ کے فیصلوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ انہوں نے کرونا (کورونا) وائرس کے بحران کی جو تفصیل بیان کی ہے اس پر امریکی شہریوں نے زیادہ توجہ دی ہے۔ مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ ٹرمپ کو وائرس کے حوالے سے دنیا میں خراب ہوتی صورت حال کا پتہ تھا لیکن انہوں نے اس معاملے پر شہریوں کو خاطرخواہ خبردار نہیں کیا۔ تاہم اس کتاب میں ایرانیوں کے لیے اہم ترین حصہ ٹرمپ کے فیصلے کی وہ تفصیل ہے جس کے تحت تین جنوری کو پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی کمانڈر ابومہدی المہندس اور دیگر آٹھ افراد کے ساتھ ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس فیصلے کے بارے میں کتاب میں شامل حصے مغربی اور اسرائیلی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔ سینیٹر کا خبردار کرنا ہم نے وڈورڈ کی کتاب میں پڑھا ہےکہ رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیت نے جنرل سلیمانی کے قتل کے حوالے سے سب سے زیادہ خبردار کیا۔ یہ شخصیت جنوبی کیرولینا سے ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم تھے۔ گراہم رپبلکن پارٹی کے سمجھ دار لوگوں میں سے ایک ہیں، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کے ساتھ نمٹنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی جائے۔ صدر اوباما کے دور میں (نومبر 2010 میں ہیلی فیکس انٹرنیشنل سکیورٹی سربراہ کانفرنس) سے خطاب میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایران پر پیشگی فوجی حملہ کردیا جائے۔ یمن میں سعودی فوجی مداخلت کے آغاز پر گراہم نے کہا: ‘میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات چاہتا ہوں۔ وہ ہمارے سٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ وہ ایران کے سخت دشمن ہیں۔’ اس بار اگرچہ سینیٹر گراہم تشویش میں مبتلا تھے۔ 30 دسمبر کو ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ گولف کھیلتے ہوئے انہوں نے انہیں حملے کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا۔ یہ ٹرمپ کے دفتر کے اس وقت کے سربراہ مک ملوینی تھے، جنہوں نے گراہم سے کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں ٹرمپ سے بات کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کچھ دیر تک سلیمانی کے ممکنہ قتل پر غور کرتے رہے تھے۔ 30 دسمبر کو ہونے والی گفتگو خاص تھی۔ تین دن پہلے (27 دسمبر کو) ایران سے قربت رکھنے والی عراقی ملیشیا نے کرکوک کے قریب فوجی اڈے پر حملہ کرکے ایک امریکی ٹھیکے دار کو ہلاک کر دیا تھا۔ دو دن بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکہ نے عراق میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو فوجی حملے کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی اس وقت جب ٹرمپ اور گراہم گولف کھیل رہے تھے، عراق میں بدر تنظیم کے سربراہ اور ایران سے قربت رکھنے والے ہادی عامری اور عسکری تنظیم اہل الحق امریکی سفارت خانے پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ اگلے روز بغداد میں امریکی سفارت خانے کے خلاف مظاہرے کیے گئے جن میں ایران کے قریبی ان شخصیات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ چند روز بعد جب قاسم سلیمانی بغداد گئے تو امریکی ڈرونز نے انہیں طیارے سے اترنے کے چند منٹ بعد ہلاک کر دیا۔ تاہم 30 دسمبر کو گراہم نے خبردار کیا کہ سلیمانی کو مارنے کا مطلب ‘ایک نیا کھیل’اور ایک ‘بڑا قدم’ ہوگا، جس کا نتیجہ تقریباً ‘ایک مکمل جنگ’ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ گراہم نے تجویز دی کہ سلیمانی کی بجائے کسی چھوٹے افسر کو مارا جائے، جسے برداشت کرنا ہر کسی کے لیے زیادہ آسان ہو گا۔ امریکہ کے جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے ٹرمپ سے جوئے خانےکی زبان میں بات کی اور کہا کہ سلیمانی کا قتل ‘بلیک جیک کے 10 ہزار ڈالر کے داؤ کے مقابلے میں بلیک جیک کا 10 ڈالر کا داؤ کھیلنے جیسا ہے۔’ تاہم آخر میں ٹرمپ نے گراہم اور دوسرے لوگوں کی بات نہیں سنی۔ ان کے خیالات امریکی خفیہ ادارے (سی آئی اے) کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل کے قریب تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس سلیمانی کو ختم کرنے کا موقع ہے۔ سلیمانی کو ختم کر دیا گیا اور بالآخر جنگ نہیں ہوئی۔ جوئے میں کامیابی بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو کہانی وڈورڈ نے بیان کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے درست داؤ لگایا اور گراہم غلطی پر تھے۔ سینیٹر گراہم کی پیش گوئی کے برعکس کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ عراق میں امریکی فوجیوں پر ایرانی حملے میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی (اگرچہ اس رات ایرانی پاسداران انقلاب کے 176 میزائلوں نے تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کیف جانے والے مسافر طیارے کا مار گرایا) اور ٹرمپ نے جوابی کارروائی نہیں کی۔ اسرائیلی اخبار’یروشلم پوسٹ’کے کالم نگار سیتھ فرنٹزمن نے شہ سرخی جمائی: ‘نئی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلیمانی پر ٹرمپ کے جوئے نے ‘جنگ’کے خوف کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔’ فرنٹزمن لکھتے ہیں: ‘ٹرمپ نے درست جوا کھیلا تھا کہ بڑی جنگ ایران کے بس کی بات نہیں ہے اور وہ سلیمانی کے قتل کا جواب نہیں دے گا۔’ انہوں نے اپنے تجزیے میں لکھا: ‘ایران کے ساتھ جنگ کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ یہ ایران کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایران امریکی اتحادیوں کو مشتعل کرنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ ہم نے ستمبر میں سعودی عرب پر ڈرونز اور کروز میزائلوں کے حملے سے دیکھا کہ ایران کا مقصد میزائل، ڈرون اور بارودی سرنگیں استعمال کرنا تھا اور وہ امریکہ کے ساتھ معمول کی جنگ نہیں چاہتا تھا۔ جنوری میں ٹرمپ کا جوا یہ تھا کہ ایران حقیقی جنگ شروع نہیں کرے گا اور اب تک یہ بات درست ثابت ہوئی ہے۔ مہمان تحریر – عرش عزیزی مزید پڑھیں دوست و احباب کو تجویز کریں Posted in معاون مواد/مہمان تحریریں Tagged قاسم سلیمانی، ایران، صدر ٹرمپ، باب ووڈورڈ، نصنیف خوف، امریکہ ایران جنگ، امریکی سیاست، القدس فورس، ایرانی پاسدران انقلاب، امریکی حملہ، ایرانی جواب، کامیاب جوا، ریج، Prevٹک ٹاک مائیکروسافٹ کو نہیں بیچی جائے گی، چینی کمپنی کا اعلان Nextکورونا: مقبوضہ فلسطین آبادی کے لحاظ سے یومیہ متاثرین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ، 3 ہفتوں کی تالہ بندی کا اعلان
عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ اس قدر گہرے فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور ابلاغی امراض میں مبتلا ہے، کہ ان امراض نے ملّت کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہ امت زندہ ہے! یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان امراض کی کثرت اور ہلاکت آفرینی کے باوجود یہ امت کسی نہ کسی طرح اپنا وجود رکھتی ہے، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ امراض تو ایسے ہیں کہ جو امتوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہیں، چاہے وہ قومیں کتنی ہی بڑی آبادی یا کتنے ہی وافر وسائل رکھتی ہوں۔ امت کی اس شدید خستہ حالی کے باوجود، شاید آج تک اس کی بقا کا سبب کتاب الله اور سنت ِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے ایک نسبت رکھنا اور اس کے نیک و صالح کرداروں کا توبہ و استغفار کرتے رہنا ہے: وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳ (الانفال ۸: ۳۳) اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا، جب کہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دے دے۔ امت مسلمہ کو چمٹی ان خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام ’اختلاف‘ یا ’باہم دشمنی‘ ہے۔ یہ متعدی مرض ہر میدان، ہر شہر اور ہر مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس جان لیوا مرض کا دائرہ: فکروعقیدہ، تصورات و خیالات، آراء، سلوک وعمل، اخلاق و کردار، رہن سہن کے طریقوں، آپس کے میل جول، انداز گفتگو، اور اہداف و مقاصد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اُمت کے اندر ایسے گروہوں نے جنم لیا جو باہم برسر پیکار ہیں؛ گویا کہ اس امت کے پاس اختلاف اور جھگڑنے کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے بعد سب سے زیادہ زور امت کے اتحاد و اتفاق میں وسعت اور اختلاف سے بچنے پر دیا ہے، اور ہر اس چیز سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، جو مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہو، یا دینی بھائی چارے میں رخنہ ڈالتی ہو۔ یقیناً اسلام کے اصول و مبادی میں شرک باللہ کے بعد سب سے زیادہ برائی امت کے اختلاف اور آپس کے جھگڑوں سے منسوب ہے۔ نیز ایمان باللہ کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ ابھارا اور ترغیب دی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے احکامات واضح طور پر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے، دلوں کو جوڑنے اور متحد رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اسلام میں کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا ’کلمۂ توحید‘ اور باہمی اتحاد و اتفاق پر دیا گیا ہے۔ پہلی چیز، یعنی کلمۂ توحید اللہ پر ایسے خالص ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہو۔ اور دوسری چیز توحید کا عملی اظہار ہے۔ جس قوم کا ربّ ایک، نبی ایک، کتاب ایک، قبلہ ایک، اور تخلیق و حیات کا مقصد ایک ہو تو فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کی صفوں میں اتحاد ہو: اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۝۹۲﴾ (الانبیاء۲۱: ۹۲ ) یہ تمھاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے کلمۂ توحید کے تقاضے پورا کرنے میں کوتاہی کی، اور اتحادو اتفاق سے بے رُخی برتی۔ انھی امراض کی تشخیص اور ان امراض سے بچنے کی تدابیر کو وضاحت سے پیش کرنا مقصود ہے۔ جس کا مقصد اسلامی آگہی پیدا کرنا، اختلاف کی دراڑوں کو پُر کرنا، بحران کی جڑوں کی تشخیص کرنا اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی روح کو بیدار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ہمارے تعلقات کی استواری اور ان کو صحیح رخ دینے کی جانب سفر میں ہماری کمزور ایمانیات کے سبب کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی وجہ سے درست دینی فہم کے فقدان کے ہاتھوں، غلط طرزِ عمل اور غیراسلامی معاشروں کے دباؤ نے مسلم اُمہ کو شدید دبائو کی گرفت میں لے لیا ہے۔ تعلقات کے درست سمت میں ہونے کی حقیقی ضمانت، اختلافات کے خاتمے اور دلوں کی کدورتیں نکال پھینکنے کا اصل ذریعہ ایمان کی مضبوط بنیادوں اور تصورِ دین کا درست ہونا ہے۔ آج ہمارا اصل مسئلہ دین کے اہداف و مقاصد کے صحیح ادراک کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں درست سمت کی طرف رہنمائی کی ضرورت ہے، جو ہماری سلامتی کی ضامن ہو اور علم و معرفت سے درست طریقے سے استفادے کو یقینی بنائے۔ بہت سے دارالعلوم اور یونی ورسٹیوں سے ہم نے علم اور ڈگریاں تو حاصل کیں، لیکن اسلام کے عطا کردہ تصورِ اخلاقیات سے محروم ہیں۔ ہم نے بہت حد تک دُنیاوی اسباب حاصل کیے، مگر اہداف و مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ بارہا مستحب یا مباح امور پر اختلاف کی بنا پر ہم فرض و واجب یا اعلیٰ مقاصد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے مقابلے، دلیل بازی اور اختلاف کے فن میں تو مہارت حاصل کرلی، لیکن اس کے آداب و اخلاقیات کو کھودیا۔ نتیجتاً ہم اندرونی شکست و ریخت، باہمی تنازعات اور محاذ آرائی کا شکار ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہرقسم کی ناکامی ہمارے حصے میں آئی۔ ہماری شان و شوکت قصہٴ پارینہ ہو گئی، اور ہم بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ﴾ (الانفال ۸:۴۶) اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کرنے، اور عبرت حاصل کرنے کے لیے پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمائے ہیں، اور خبردار کیا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کونسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، نیز تفرقہ بازی، عناد و اختلاف، اور گروہ بندی کی بیماریوں میں مبتلا ہونے سے خبردار کیا: وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۳۱ۙ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ ( الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲) اور ان مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے۔ جو اختلاف انتشار و تفرقہ بازی کی طرف لے جائے، اس کو اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں: اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۝۰ۭ (الانعام ۶ :۱۵۹ ) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے، یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔ اہلِ کتاب علم کی کمی کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئے، بلکہ ان کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس علم کو آپس کے ظلم، ضد اور زیادتی کے لیے استعمال کیا: وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹) اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم کتاب کے بجائے اہلِ کتاب کی اخلاقی بیماریوں کے وارث بنے ہیں؟‘‘ بجائے اس کے کہ ہم علم اور معرفت حاصل کرتے، مگر بدقسمتی سے ہمارے حصے میں ضد اور عناد کا ورثہ ہی آیا ہے۔ یہی اختلاف ودشمنی اور دینی بنیاد پر تفرقہ بازی، اہلِ کتاب کے وہ امراض تھے، جن سے وہ ہلاک ہوئے اور ان کا دین منسوخ کیا گیا۔ کتاب و نبوت کی وارث بننے والی امت کے لیے ان کے قصے سبق حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر بیان کیے گئے۔ چونکہ مسلمان، آخری دین کے پیروکار ہیں، ان کے دین میں تغیر وتبدل اور نسخ کی کوئی گنجایش نہیں، اس لیے یہ امراض امت کے وجود کا کلّی خاتمہ نہیں کرسکتے، لیکن اگر یہ باقی رہیں گے تو امت ہمیشہ کمزور رہے گی، اور اگر ان کا علاج کر دیا جائے تو وہ صحت و عافیت اور عروج پالے گی۔ چیزوں کو سمجھنے اور ان پر حکم لگانے میں نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ اس کا تعلق بڑی حد تک فطری انفرادیت سے ہے، جو ہر شخص میں الگ الگ پائی جاتی ہے (جو کہ تنوع میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور انسانی معاشرے کی متوازن تشکیل کے لیے ضروری ہے)۔ اس لیے کہ لوگوں میں معاشرتی تعلق قائم کرنا ایسی صورت میں ناممکن ہے، جب وہ بالکل یکساں صلاحیتیں اور ایک جیسی ذہنی ساخت رکھتے ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی انفرادی مہارتوں،چاہے وہ فطری ہوں یا محنت سے حاصل ہوں، اور دنیا کے معاملات کے مابین کچھ بنیادی اتفاق و تعاون کے رشتے قائم ہوں، تاکہ زندگی کا پہیہ رواں دواں رہے اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں حصہ ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ کے حامل ہیں۔ نیز اہل ایمان کےبھی مختلف درجے ہیں؛ ان میں سے کوئی اپنے اوپر ظلم کرنے والا ہے، کوئی درمیانہ، اور کوئی نیکیوں میں سبقت لے جانے والا: وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ۝۱۱۸ۙ (ھود۱۱: ۱۱۸) تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔ اگر فطری اختلاف ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر رہتا تو وہ مسلمانوں کے ذہن کو جلا بخشتا اور فکری ارتقا کو تحریک دیتا۔ اختلاف رائے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر مثبت سرگرمی ہے، مگر افسوس کہ زوال و انحطاط کے دور میں یہ ایک لاعلاج مرض اور انتہائی جلداثر کرنے والے زہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس سے تفرقہ و نزاع اور نسلی و علاقائی کش مکش نے جنم لیا ہےاور مسلم تشخص شکست و ریخت اور انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ تو اختلاف رائے رکھنے والوں کی جان لینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ بعض اس حد تک انتہاپسندی کا شکار ہو گئے ہیں کہ دین کے دشمن، ان کے زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ان مسلمان بھائیوں کے جو ان سے رائے کا اختلاف رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عقیدہ اور خالص توحید کی نسبت سے ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ماضی اور حال کی تاریخ میں ہمیں اس کی بہت سی افسوس ناک مثالیں ملتی ہیں۔ امت کی بے پناہ صلاحیتوں، وسائل اور قوت و طاقت اختلافات کا ایندھن بنا کر ضائع کر دیے جانے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ انسان معاملات کو ان کے اصل زاویے اور درست تناظر میں نہیں دیکھ پاتا۔ اس طرح وہ کئی دور رس نتائج و مضمرات رکھنے والے مسائل کے بارے میں جامع اور متوازن تصور قائم کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کا ذہن ایک محدود ضمنی نقطے پرہی مرکوز ہو جاتا ہے، جسے وہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور پھر وہی اس کی سوچ اور فکر کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس حد تک کہ پھر وہ کسی چیز یا ایسے شخص کو خاطرمیں نہیں لاتا جو اسے غلطی پر خبردار کرتا ہے۔ وہ اسی ضمنی نقطے کی بنیاد پر تعلق رکھتا اور قطع تعلقی کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر محبت اور بغض رکھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والوں کے خلاف اُمت اور دین کے دشمنوں سے مدد حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ روایت کیا گیا ہے کہ واصل بن عطاء اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھا کہ خوارج سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’یہ تمھارا کام نہیں، تم الگ ہو جاؤ اور مجھے ان سے نمٹنے دو‘‘۔ سفر کی تھکاوٹ سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے کہا: ’’آپ کی مرضی‘‘۔ پھر وہ خوارج کے پاس گئے تو انھوں نے پوچھا: تم اور تمھارے ساتھی کون ہو؟ واصل نے جواب دیا: ’’مشرک ہیں، اور تم سے پناہ کے طالب ہیں تاکہ اللہ کا کلام سن سکیں اور اس کی حدود پہچان سکیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمھیں پناہ دی‘‘۔ واصل نے کہا: ’’پھر تم ہمیں پڑھاؤ‘‘۔ وہ اسے اپنے مسائل بتانے لگے، اور وہ جواب میں کہتا جاتا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے قبول کیا۔ انھوں نے کہا: ’’اب ہمارے ساتھی بن کر چلو کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو‘‘۔ واصل نے کہا: تمھارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۝۰ۭ (التوبہ ۹: ۶) [اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سُن لے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن (محفوظ مقام ) تک پہنچا دو]۔ اس لیے اب تم ہمیں ہمارے محفوظ مقام تک پہنچا دو‘‘۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر کہا: ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ پھر ان سب کو ساتھ لے کر چلے یہاں تک کہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختلاف کی شدت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ بعض مسلمان فرقے جو اپنے آپ کو ہی خالص حق کا علَم بردار سمجھتے تھے، ان کے ہاں مشرک کی جان اس مسلمان سے زیادہ محفوظ تھی جو ان سے فروعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رکھتا تھا۔ اس ماحول میں تشدد اور سزا سے بچنے کے لیے اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک ظاہر کرے۔ یہ مذموم اختلاف اور دل و دماغ کو ماؤف کر دینے والی ہوائے نفس ہے، جو مسلسل بڑھتی رہتی ہے، اور انسان کے ہوش و حواس اور عقل و خرد کو شل کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پہ وہ شریعت کی کلّی حکمتیں، عمومی اصول و مبادی، مسلمانوں کے مشترکات، اور اسلام کے بنیادی قواعد اور اہداف و مقاصد کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا شخص بصیرت و بصارت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی ابجد تک کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کے معیارات و تصورات میں بگاڑ آجاتا ہے۔ حق و باطل گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور دین کی ترجیحات نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ علم کے بغیر بولنا، بصیرت کے بغیر فتویٰ دینا، بلا دلیل اعمال کی انجام دہی اور مسلمانوں کی تذلیل و تکفیر اور ان پر بہتان طرازی اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ ایسا مریض اندھے تعصب کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے، اور اس کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ اس کی تاریک نفسیات کا عکس ہوتا ہے، جس میں علم کا نور بجھ جاتا ہے اور سمجھ بوجھ کا دِیا ماند پڑ چکا ہوتا ہے: وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ (النور۲۴:۴۰) ’’جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں‘‘۔ اجتہادی آراء، اور فقہی مکاتب فکر جو اہل نظرو اجتہاد کا میدان ہیں، نا تجربہ کار، اندھے پیروکاروں کے ہاتھ لگ کر مذہبی گروہ بندی اورسیاسی تعصب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے نہج کے مطابق آیات اور احادیث کی تاویل کرتے ہیں اور پھر وہ آیت یا حدیث جو ان کی مذہبی گروہ بندی سے مطابقت نہ رکھتی ہو، اس کی یا تو تاویل کی جاتی ہے یا وہ منسوخ قرار پاتی ہے۔ بسااوقات تعصب انتہائی شدت اختیار کرلیتا ہے۔ سلف صالحین رضوان اللہ علیہم کے مابین بھی اختلاف رائے موجود تھا، لیکن یہ اختلاف ان کے درمیان دوری اور تفرقے کی بنیاد نہیں بنا۔ ان میں اختلاف توہوا مگر تفرقہ پیدا نہیں ہوا، اس لیے کہ دلوں کی الفت اور اہدا ف و مقاصد کی یگانگت اس قدر راسخ تھی کہ کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ انھوں نے نفسانی عوارض سے چھٹکارا پا لیا تھا، اگرچہ ان میں سے بعض سے کچھ عملی کمزوریاں سرزد ہوگئی ہوں۔ سماجی سطح پر نیکوکاروں اور صالح افراد کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین مجلس کو یہ رہنمائی دی تھی کہ اب ان کے پاس فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ایک جنتی شخص آنے والا ہے۔ ایسے شخص کے معمولات اور طرز عمل کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ وہ کبھی اس حال میں نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ و کدورت ہو۔ اس کے برعکس آج ہمارا اصل مسئلہ ہماری ذات میں ہے۔ اتحاد و اتفاق کے بیش تر روپ اور رنگ محض دکھلاوا ہیں۔ اس کے حق میں دلیل بازی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے، اس نفاق اور کھلے تضاد میں ہم دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۝۰ۭ ( الانعام۶: ۱۲۰ ) تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چُھپے گناہوں سے بھی۔ عالم اسلام جو کبھی ایک متحدہ ملک تھا، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بالا دستی حاصل تھی، آج یہ ۵۷سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکا ہے، جن کے آپس میں گہرے تنازعات ہیں۔ مگر اس سے بڑا مذاق یہ بھی ہے کہ ہرمسلم ملک اتحاد کا نعرہ بھی بلند کرتا ہے، جب کہ ہر ملک کے اندر مزید تقسیم در تقسیم پائی جاتی ہے۔ بعض تنظیمیں جو اسلام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اوران پر امت کی نجات و فلاح کی ذمہ داری ہے،ان کا حال بھی سرکاری اداروں کے ملازمین میں پائے جانے والے حسد اور کدورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہمارا بحران دراصل فکری بحران ہے۔ ہمارا مسئلہ امت کے ساتھ سنجیدہ تعلق کا فقدان ہے۔ جب امت مسلمہ میں قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل تھی تو اس نے اپنا مشن بخوبی ادا کیا۔ انتہائی تنگ مادی حالات کے باوجود اس نے ایک اعلیٰ تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی، تب معاشی تنگی کے باوجود زندگی آسان تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب و سنت سے انحراف اور باہمی تنازعات ناکامی، ضعف اور ہوا اُکھڑنے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ اسلام نے تفرقہ بازی کا خاتمہ کیا، عربوں کا رخ پھیر کر ایک معبود بر حق کی طرف کر دیا اور ان تمام جھوٹے خداؤں کو مٹا دیا، جو ہر قبیلے نے اپنے لیے گھڑ رکھے تھے۔ آج مسلمانوں کو وسائل کی قلت اور معاشی تنگی کا سامنا نہیں، مگر وہ افکار و نظریات کا میدان ہو یا مادی ساز و سامان کا، ہر لحاظ سے صارف اقوام میں سر فہرست ہیں۔ ان کا اصل مرض یہ ہے کہ وہ مشترکہ مقاصد و اہداف، یکساں نصب العین اور اصل مقصدحیات فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس چیز سے ان کا بنیادی فکری ڈھانچا متاثر ہوا ہے۔ مسلم ذہن کو جو فکری اور اخلاقی بحران لاحق ہے، اس سے نکلنے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہیں کہ فکری بحران کی بنیاد اور سوچ اور فکر کے طریق کار کی اصلاح کی جائے، مناہج فکرکی ترتیب نو کی جائے، گم گشتہ ترجیحات کو از سر نو مرتب کر کے مسلمان نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کی جائے۔ یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم قرنِ اول کے اسلاف کے طرز عمل کے مطابق کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں، افکار و نظریات کو منضبط کرنے کے لیے قیاس و استنباط کے قواعد و ضوابط کا تعین کریں، علم و آگہی کو آداب و اخلاقیات کے ساتھ جوڑ دیں، نیز ایسی تحقیقات اور مطالعات کو پروان چڑھائیں جو اتحاد امت، مشترکہ عوامل، اور اعلیٰ اہداف و مقاصد کو تقویت پہنچائیں، تاکہ صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو، اور نقوش راہ نکھر کر سامنے آئیں، اور منظم انداز سے منزل کی طرف پیش قدمی ہو۔ اس سلسلے میں جب میں نے اپنے مشاہدات اور افکار بیان کرنے کی کوشش کی تو مختلف ردعمل سامنے آئے: مسئلے کی سنگینی کا گہرا احساس رکھنے والے ایک طبقے نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا جائے،اور ان معاصر اختلافات کا تجزیہ کیا جائے، جن کے باعث ایک مسلم ملک کی اسلامی تحریک سے درجنوں الگ الگ تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں۔ لیکن سچ بات ہے کہ غفلت کی دبیز تہہ، اور باطل اغراض و مقاصد کی دھند اس قدر گہری ہے کہ نرم الفاظ سے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچنا ممکن نہیں۔ تاہم، یہ بات قلبی راحت کا باعث ہے کہ آج کا مسلمان اختلاف کے اثرات سے چھٹکارا پانے کی خواہش رکھتا ہے، مگر ہرآن جاہلوں کی جہالت، دشمنوں کےشور و شغب، آستین کے سانپوں کی سازشوں اور شدت پسندوں کی بے جا سختی کا ڈر غالب رہتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آداب و اخلاقیات کا موجودہ صورت حال پر انطباق کرنا اور معاصر مسلم گروہوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنا، بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔ بعض احباب نے تجویز دی کہ ’’مخصوص فقہی اور علمی مزاج کے دائرے سے نکل کر اُمت کے تمام گروہوں کے مابین اختلاف رائے کے جملہ آداب و اخلاقیات سامنے لانے چاہییں۔ چاہے ان کا تعلق ان گروہوں سے ہو جو بجا طور پر اسلامی صف میں شمار ہوتے ہیں، یا ان سے جو خود کو جدیدیت سے منسوب کرتے ہیں، یا انھیں اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خاص طور پہ وہ گروہ کہ جنھوں نے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا ہے اور اسلام کو امت کے بنیادی عناصر میں شمار کرتے ہیں، اور اس صورتِ حال سے نبٹنے پر زور دیتے ہیں کہ جس دور میں یہ امت جی رہی ہے۔ بلاشبہہ اس میدان میں کوششیں کی جانی چاہییں، اس لیے کہ اختلاف رائے کی اخلاقیات کا شعور دینے اور امت کے تمام گروہوں کی ان اصولوں کے مطابق تربیت کرنے سے امت کو ایسی بڑی صلاحیتیں میسر آئیں گی، جو فضول باہمی چپقلش میں ضائع ہو رہی ہیں۔جب مسلم ذہن اپنے تہذیبی کردار کا شعور حاصل کر لے گا، تو یہ امت کے ان افراد کو واپس لانے کی کوشش بھی کرے گا، جو اجنبی بن گئے ہیں۔ اسلام کے شعوری فرزندوں پر امت کے اتحاد اوراس کی صحت و تندرستی بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس بنیاد کھڑی کرنے کے فوری کام اور پھر اسلامی تہذیب کو دوبارہ تعمیر کرنےکے ذمہ داری ہے۔ زندگی کو موت سے الگ کرنے والا ایک لمحہ ہی تو ہوتا ہے، اور اگر عزم مصمم کر لیا جائے توہمارے لیے کوئی چیز اپنے مسلمان بھائیوں کو شیطانوں کے اثرات سے نکال لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے جس روز اُمت کے تمام گروہوں کی تعمیری قیادت نے اتحاد کی اُمنگ اور اختلاف کی حدود کا پاس و لحاظ کرلیا،اُس روز اہلِ ایمان اللہ کی تائید و نصرت سے سرفراز ہوں گے اور وہ سب خائب و خاسر ہوں گے، جو حق کے ادراک سے محروم رہ کر اسے مٹادینے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی سامنے آیا: ’’مسلمانوں میں اختلاف ہونا ہی نہیں چاہیے، اور اگر ہوجائے تو اس پر زور دیا جائے کہ اختلاف حرام اور کفر ہے، اسے شدت سےکچل دینا چاہیے۔ اس کے بجائے آگے بڑھ کر اس کے آداب پر گفتگو کرنا، اختلاف کو مضبوط کرنے اور اسے گوارا کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دوستوں سے کیا کہا جائے؟ مگر تعجب ہے کہ سادگی انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ بنیادی اُمور کی حقیقت تک سے انکار کرنے لگتا ہے یا ان سے نظریں چُرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے مجھے امیر المومنین حضرت علیؓ کے کرب کا بھرپور احساس ہوا، جب انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب بھی مجھ سے اہلِ علم نے بحث مباحثہ کیا تو مجھے اس پر غلبہ حاصل ہوا، مگر جب کبھی کسی جاہل سے بحث ہوئی تو اس نے مجھے لاجواب کردیا!‘‘
ہر شخص یہاں مذاق پر تلا ہوا ہے، جسے دیکھو مذاق کیے جاتا ہے۔ اب دیکھئے ناں، ہمارے کتنے سنجیدہ سیاستدان ہیں سید خورشید شاہ۔۔ ان سے تو مذاق کی کوئی امید نہیں تھی لیکن وہ بھی ہمارے ساتھ مذاق کرنے پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں حکومت ملنے پر نوے روز میں کرپشن ختم کر دیں گے۔ اس پر خورشید شاہ صاحب کو بہترین لطیفہ کا ایوارڈ تو دینا چاہئے۔ کتنی اچھی بات کی ہے۔۔ بالکل اس طرح جیسے کسی ایک دوست نے کہا میں سگریٹ اس لیے زیادہ پیتا ہوں کہ پی پی کے اس برائی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح لگتا ہے شاہ جی نے بھی سوچ لیا ہے کہ وہ کرپشن اتنی کریں گے کہ ختم ہو جائے گی۔ اب اس پر کیا تبصرے کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی آپ اگر یہ اعلان فلپائن جا کے کرتے تو شاید وہاں لوگ اس لطیفہ کو سمجھ نہ پاتے لیکن یہاں سب لوگ تو اس سیاست کو سمجھ گئے ہیں اسی لیے تو جب بلاول کہتا ہے میں آئندہ وزیر اعظم بنوں گا اور زرداری صاحب پھر صدر بنیں گے تو یہ سوچ کر ہی مجھ ایسے لوگوں کی تو چیخیں ہی نکل جاتی ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ خواب ہی ڈراؤنا ہے جب پھر سے اس ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر حکومت ہو گی کیونکہ جب بھی ایسا نعرہ لگا ہے یہ تینوں چیزیں دسترس سے باہر ہوتی رہی ہیں۔ دل میں خیال آتا ہے وہ ہی ہونے والا ہے جب پھر پی آئی اے ، ریلوے، سٹیل ملز سمیت مختلف اداروں میں ہزاروں افراد کو بنا ضرورت بھرتی کر لیا جائے گا۔ نقصان پورا کرنے کے لیے عوام کو ملنے والے مختلف ریلیف ختم ہوتے جائیں اور اشیائے خورد و نوش کے دام بڑھتے جائیں گے۔ بیرونی قرضے بھی لیے جائیں گے مگر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوں گے۔ ایان علی ہی نہیں مزید کئی ماڈلز سامنے آئیں گی، اگر وزارت پٹرولیم میں مال ہوا تو ڈاکٹر عاصم حسین پھراسی وزارت میں نہیں تو کسی اور وزارت میں ہوں گے۔ راجہ پرویز اشرف نے وزارت پانی و بجلی سے تو توبہ کی ہے لیکن کسی کے نااہل ہونے پر وزیر اعظم بننے کے لیے وہ ابھی بھی تیارہیں، کہتے ہیں اس مرتبہ بھی مجھے وزارت عظمیٰ سونپی گئی تو میں ثابت کروں گا میں گوجر خان کا عظیم سپوت ہوں اور ملک بھر کے تمام تر ترقیاتی فنڈز یہاں اپنے علاقہ میں ہی خرچ کر سکتا ہوں بشرطیکہ میں الیکشن جیت سکوں، اگر الیکشن نہ جیت سکا تو سینیٹر بنوانا تو پارٹی کا کام ہے۔ میں تو یہ سوچ کر خوش ہوں کہ بلاول نے کہا ہے سندھ میں وزیر اعلیٰ بھی ہمارا ہوگا اور صدر بھی۔۔ یعنی آئندہ سے صدر کا عہدہ بھی چاروں صوبوں میں ہوگا اس سے صوبائی خودمختاری کا احساس پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ دوسری جانب بلاول کی یہ تیاریاں دیکھ کر شرجیل میمن نے بھی وطن واپسی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، معلوم ہوا ہے وہ لندن میں پی ٹی آئی کے یوتھیوں سے بہت تنگ آئے ہوئے ہیں کیونکہ جونہی وہ اپنا غم غلط کرنے کسی گورے قسم کے میکدے میں جاتے ہیں وہاں کوئی نہ کوئی اپنا موبائل فون لے کر غلط سلط انگریزی میں ٹھیک ٹھاک بہترین قسم کی ننگی ننگی گالیاں دے دیتا ہے ،نہ صرف گالیاں دیتا ہے بلکہ اس کی وڈیو بھی بنا لیتا ہے۔ شرجیل میمن کو اسی باعث جدید ٹیکنالوجی سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔ انہوں نے تہیہ کیا ہے کہ اقتدار میں آتے ہی کیمرہ والے اینڈرائڈموبائل فون عام آدمی کے خریدنے پر پابندی لگا دیں گے۔ کیا معلوم کوئی یہاں پاکستان پہنچ کر پنجابی، سندھی یا اردو زبان میں یہ گندی گالیاں نہ دے دے، ابھی تو گالیاں انگریزی میں ہونے کے باعث کم لوگوں کو معلوم ہوا ہے انہیں کن کن القابات سے نوازا گیا ہے۔ یہی گالیاں اگر اردو، پنجابی یا سندھی میں ہوئیں تو نئی والی وڈیو، اس پرانی وڈیو سے بھی زیادہ وائرل ہو جائے گی۔ دوسری جانب مظفر ٹپی نے بھی پرانا قلعہ سے چھریاں تیز کروا لی ہیں کہتے ہیں مفت میں کافی عرصہ سے فارغ رہنا پڑا ہے جس کے باعث بہت نقصان ہوا ہے، ہمارے سدا بہار نوجوان وزیر اعلیٰ (سابق) سندھ سید قائم علی شاہ بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ ٹپی صاحب جب بھی آتے تھے ڈھیر ساری فائلیں لے کر آتے تھے اور پھر شاہ جی کو سانس بھی مشکل سے لینے کی اجازت ملتی تھی، بس ہر فائل پہ پڑھے بغیر دستخط کرنے پڑتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شاہ جی کہا کرتے تھے بھائی میرے دستخط کی مہر بنوا کر اپنے ہی گھر رکھ لیں مجھے زحمت نہ دیا کریں ۔۔ جس پر ٹپی بھائی کہتے ابھی تو آپ نوجوان ہیں کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ بس یہی بات قائم علی شاہ صاحب کے لیے آکسیجن کا کام کرتی اور وہ پھر سے نوجوانوں کی طرح دستخط کرنا شروع کر دیتے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کرپشن کے خاتمہ کے خورشید شاہ کے اعلان پر زرداری صاحب بہت ناراض ہوئے کہنے لگے ہمارے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہے ہو، اس پر شاہ جی نے فوراً بتایا وہ صرف ایک سیاسی بیان تھا ورنہ اپنے پیٹ پر پتھر کون باندھتا ہے؟ جس پر زرداری صاحب بولے زرداری خوش ہوا۔ بلاول بھٹو نے بھی وزیر اعظم بننے کی یہ خوشخبری قوم کو سنانے کے بعد فیشن ڈیزائنر کو شیروانی کا آرڈر دے دیا ہے۔ مجھے تو سوچ کر ہی بہت مزا آ رہا ہے کیا کمبی نیشن ہو گا، بلاول وزیر اعظم ، زرداری صدر مملکت۔۔ مظفر ٹپی ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ سندھ۔۔ سبحان اللہ۔۔ منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے ۔سارے محکمہ ایک طرف لیکن اس مرتبہ وزیر داخلہ کے منصب پر ایان علی ہوں گی کیونکہ جمہوریت کے لیے انہوں نے بہت قربانی دی ہے،اتنی قربانی پر وزارت داخلہ تو بنتی ہے۔ ایسی ہی قربانیوں پر رحمان ملک کو بھی وزارت داخلہ ملی تھی لیکن اس مرتبہ ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں وزارت ثقافت کا قلمدان دیئے جانے کا امکان ہے۔اگر جے یو آئی فضل الرحمان حکومت کا حصہ نہ ہوئی تو ہاؤسنگ کی وزارت ملے گی مصطفی نواز کھوکھرکو ۔۔ پھر اسلام آباد کے بچے کچھے دیہی علاقوں پر بھی بحریہ کے منصوبے بنیں گے۔ اصلی بھٹو یعنی بلاول بھٹو زرداری کی ایک حالیہ تقریر سے جو سرخی نکلی ہے وہ کچھ یوں ہے : 2018 میں کوئی بھی شریف کہلانے والا ملک پر راج نہیں کرے گا، بلاول بھٹو۔۔ یعنی جو بھی حکومت میں آئے گا وہ شریف نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے صاحب آپ کے آنے کے بعد شرافت کی رخصتی تو یقینی ہے۔اس تقریر سے بلاول کے عزائم عیاں ہو گئے ہیں ۔۔ وہ شریفوں سے اتنا تنگ آ گئے ہیں کہ کہتے ہیں اب ہمیں دوبارہ آپ کی شکل نہیں دیکھنی۔۔ کچھ عرصہ کی بات ہے ہماری یادداشت تو ویسے ہی کمزور ہے ، ہم بھول جائیں گے اور بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی پھر رائے ونڈ محل میں یا بحریہ لاہور کے بلاول پیلس میں پھر ملیں گے ۔ کچھ لوگ انکلز کے احترام کرنے کے اپنے عزم پر کاربند رہنے کا اعلان بھی کریں گے اور میثاق جمہوریت کو قائم رکھنے پر اتفاق بھی ہو گا۔پھر راج کرے گی خلق خدا۔۔۔ اور یاد رہے خلق خدا کا مطلب صرف اور صرف سیاستدان ہے کوئی غلط نتیجہ اخذ نہ کرے۔ پتا نہیں کیوں اس پر مجھے یا د آ گیا ۔ ایک گھر میں ڈاکو داخل ہوئے اور سب کچھ لوٹ لیا، جب وہ گھر میں بچ جانے والی جائے نماز اٹھانے لگے تو صاحب خانہ بولے “گھر کا سارا سامان لوٹ کر لے جا رہے ہو۔یہ جائے نماز تو رہنے دو اس پر میں نماز پڑھتا ہوں۔ڈاکو نے تاسف بھرے لہجہ میں کہا : کیا میں مسلمان نہیں ؟کیا میں نماز نہیں پڑھتا، صرف تم نماز پڑھتے ہو؟ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب کی بار ہماری جائے نماز بھی نہ بچ پائے گی یعنی بقول شاعر ۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
۲۴ اکتوبر کو دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کا یوم تاسیس منایا گیا اور مختلف ممالک میں اس موقع پر تقاریب کا اہتمام ہوا۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ مسلسل سرگرم عمل ہے۔ اس سے قبل پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر ’’انجمن اقوام‘‘ کے نام سے ایک عالمی فورم قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد ممالک و اقوام کے درمیان تصادم کو روکنا اور ملکوں اور قوموں کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعہ حل کرانے کے لیے عالمی سطح پر پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے ’’انجمن اقوام‘‘ کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی تو ’’اقوام متحدہ‘‘ کے عنوان سے ایک نیا بین الاقوامی ادارہ وجود میں آیا ، اور اس کا بنیادی مقصد بھی یہی قرار دیا گیا کہ ممالک و اقوام کے درمیان جھگڑوں اور تنازعات کو جنگوں کی بجائے مصالحت کی میز پر حل کرانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اقوام متحدہ نے اس کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور بین الاقوامی امن کے لیے معاہدات اور مذاکرات کا نظام طے کر لیا، مگر رفتہ رفتہ اس نے اقوام و ممالک کے باہمی تنازعات میں ثالث اور مذاکرات کار کے کردار پر قناعت نہ کرتے ہوئے انسانی حقوق اور سولائزیشن کے نام پر قوموں کے مذہبی، تہذیبی، تعلیمی اور ثقافتی معاملات کو بھی اپنے دائرہ کار میں لانے کے لیے پیش رفت شروع کر دی۔ اور مختلف شعبوں میں ایسے بین الاقوامی معاہدات کا اہتمام کیا جو آج دنیا بھر کے لیے عملاً ’’ بین الاقوامی دستور و قانون‘‘ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں اور ان کے ذریعہ بین الاقوامی اَن دیکھی اسٹیبلیشمنٹ دنیا بھر پر حکومت کر رہی ہے۔ آج کے عالمی منظر کو اس حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس وقت دنیا پر صرف معاہدات کی حکومت ہے، کیونکہ کم و بیش سبھی حکومتیں ان معاہدات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں حکومت کا نظام چلانے کی پابند ہیں۔ ان بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی پر حکومتوں کو چارج شیٹ کیا جاتا ہے، ملکوں کی اقتصادی ناکہ بندی ہوتی ہے، ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، ان کے خلاف سلامتی کونسل کے فورم پر فیصلے کیے جاتے ہیں اور کوئی ملک ان معاہدات میں سے کسی بات کی خلاف ورزی پر اصرار کرتا دکھائی دے تو اس کے خلاف مختلف ممالک کی فوجوں کو ایک کمان کے تحت متحد کر کے متعلقہ ملک پر عسکری یلغار بھی کر دی جاتی ہے۔ اس طرح دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے ملک میں ان معاہدات کے دائرے سے ہٹ کر کسی بھی معاملہ میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے اور نہ ہی کسی ملک میں عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ بین الاقوامی معاہدات کی پابند حکومتیں اور منتخب اسمبلیاں کہنے کو خود مختار سمجھی جاتی ہیں اور ہر ملک میں ان کی خود مختاری اور بالادستی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے لیکن کوئی حکومت یا پارلیمنٹ بین الاقوامی معاہدات کی جکڑ بندی سے آزاد نہیں ہے اور عملاً دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں بین الاقوامی معاہدات کی حکومت ہے اور ان کی عملداری کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے اٹھا رکھی ہے۔ اقوام متحدہ اگر خود کو ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کے کردار تک محدود رکھتی تو بات کسی حد تک سمجھ میں آنے والی تھی لیکن آج ہماری یعنی مسلمانوں کی صورت حال یہ ہے کہ نکاح و طلاق، وراثت، دینی تعلیم، مذہبی اقدار، توہین رسالتؐ، ختم نبوت جیسے بنیادی عقیدہ کی تعبیر و تشریح اور میاں بیوی کے باہمی تعلق جیسے معاملات میں بھی ہم اقوام متحدہ کی ہدایات کے پابند ہیں۔ حتیٰ کہ کسی بھی اسلامی ملک میں قرآن و سنت کے کسی قانون کے نفاذ یا کسی مسلم معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی عملداری کی بات کی جاتی ہے تو یہ بین الاقوامی معاہدات مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اقوام متحدہ سمیت بہت سے عالمی ادارے بین الاقوامی معاہدات کا ڈنڈا اٹھائے اسلامی تعلیمات پر عمل کے خواہش مند مسلمانوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصہ میں مسلمان اپنے اکثریتی علاقہ اور خود مختار ملک میں بھی قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔ دوسری طرف ملکوں اور قوموں کے درمیان تنازعات کو حل کرانے میں اقوام متحدہ کی دوغلی پالیسی اور منافقانہ طرز عمل بھی ایک زندہ حقیقت ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل کرانے میں اقوام متحدہ ابھی تک ناکام ہے جبکہ سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک نئی مسیحی ریاست کا راستہ ہموار کرنے میں اقوام متحدہ کو زیادہ وقت نہیں لگا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں ایسٹ تیمور کے نام سے ایک مسیحی ریاست کی تشکیل کو اقوام متحدہ اپنے قابل فخر کارناموں میں شمار کرتی ہے، مگر جموں و کشمیر کے عوام کو آزادانہ رائے شماری کا تسلیم شدہ حق دلوانے میں اقوام متحدہ مسلسل بے بسی کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی اور ثقافتی معاملات میں مسلسل مداخلت اور فلسطین و کشمیر جیسے سنگین مسائل کو حل کرنے میں اس کی ناکامی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں اقوام متحدہ کے خلاف شکوک و شبہات کا ایک جنگل آباد کر رکھا ہے اور یہ جذبات نفرت اور غیظ و غضب کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ عالم اسلام کی طرف سے ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے دور میں اقوام عالم کو اس دھاندلی کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ مطالبہ کر کے پوری دنیائے اسلام کے جذبات کی ترجمانی کی تھی کہ بین الاقوامی معاہدات پر نظر ثانی کی جائے اور سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی فہرست میں مسلمانوں کی باضابطہ شمولیت کی کوئی عملی صورت نکالی جائے، مگر مہاتیر محمد کے اس جائز اور منصفانہ مطالبے کی طرف بین الاقوامی اسٹیبلیشمنٹ تو کجا خود مسلم حکمرانوں نے بھی توجہ نہیں دی تھی۔ آج اقوام متحدہ کے قیام کو سات عشرے مکمل ہونے کو ہیں مگر اس کے عملی کردار کا جائزہ لیا جائے تو ایک مسلمان کو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اس عالمی فورم نے عالم اسلام میں بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ نفاذِ اسلام کا راستہ روک رکھا ہے، فلسطین و کشمیر کے سنگین مسائل کو حل کرانے میں ناکامی بلکہ زیادہ واضح الفاظ میں انہیں ’’حل نہ کرانے میں کامیابی‘‘ کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا ہوا ہے۔ اور یہ بین الاقوامی پلیٹ فارم دنیا میں مغربی فکر و فلسفہ کی یلغار اور ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں کی سیاسی بالادستی کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پس منظر میں سعودی عرب کا سلامتی کونسل میں نشست قبول کرنے سے انکار زمینی حقائق کے صحیح ادراک کے ساتھ ساتھ اسلامیان عالم کے جذبات کی ترجمانی بھی ہے اور ہم سعودی عرب کے اس موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ: ’’گزشتہ ۶۵ برس سے مسئلہ فلسطین کا کوئی مستقل حل دریافت نہیں کیا جا سکا، اس مسئلہ نے مشرق وسطیٰ میں کئی جنگوں کو جنم دیا اور دنیا بھر کے امن اور سلامتی کے لیے یہ مسئلہ ایک خطرہ بنا رہا۔ سلامتی کونسل اب تک اس کا کوئی ایسا حل نہیں نکال سکی جو عدل و انصاف پر مبنی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کونسل اپنے اصل فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی ہے۔ سلامتی کونسل میں جس طرح کام ہوتا ہے، اس کے دوہرے معیار جس طرح کے ہیں وہ اس ادارے کو اپنے فرائض ادا کرنے سے روکتے ہیں اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی ذمہ داریاں نباہنے نہیں دیتے۔ اس بنا پر ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں کہ ہم سلامتی کونسل کی اس نشست کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور اس وقت تک اس نشست کو قبول نہ کریں جب تک اس روش کو بدلا نہیں جاتا اور جب تک سلامتی کونسل عالمی امن کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں نباہنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔‘‘ ہمیں خوشی ہے کہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر فرانس نے ہمدردانہ رد عمل کا اظہار کر کے اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ روزنامہ دنیا لاہور میں ۲۰ اکتوبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق فرانس کے دفتر خارجہ کے ترجمان رومین ندال نے کہا ہے کہ وہ سلامتی کونسل سے متعلق سعودی احساسات کو درست اور جائز سمجھتے ہوئے ان کی تائید کرتے ہیں کیونکہ سلامتی کونسل کے عملاً مفلوج ہو کر رہ جانے کے بعد ان احساسات کا پیدا ہو جانا بلا جواز نہیں ہے۔ فرانس کے دفتر خارجہ کے یہ ریمارکس سلامتی کونسل کے حقیقی کردار کی نشاندہی کر رہے ہیں جس پر ہمارے ذہن میں اردو شعر کا یہ مصرعہ گونجنے لگا ہے کہ
وائرلیس نیٹ ورکنگ 802.11 سٹینڈرڈ کا استعمال کرتے ہوئے ، جسے اس کے تجارتی نام ، وائی فائی سے بھی جانا جاتا ہے ، گھر میں عام ہو چکا ہے اور کارپوریٹ سیٹنگز میں اس کا اہم اور بڑھتا ہوا کردار ہے۔ لیکن موجودہ معیار ، 802.11g ، کی 2003 میں توثیق کی گئی اور اسے تیزی سے ناکافی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ایپلی کیشنز زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں اور زیادہ بینڈوتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوکے گوگل کیا آپ کو سری پسند ہے؟ مثال کے طور پر ، اسٹریمنگ ویڈیو-چاہے وہ گھر میں فیچر لمبائی والی فلم ہو یا کام پر ویڈیو کانفرنسنگ-802.11g کے ساتھ ایک نرالی تجویز ہے۔ نام نہاد 'جی' مصنوعات کی نظریاتی زیادہ سے زیادہ تھرو پٹ رفتار 54Mbit/سیکنڈ ہے۔ لیکن حقیقی دنیا کی رفتار آدھی یا اس سے بھی کم ، جو ویڈیو کے لیے کافی نہیں ہے۔ بچانے کے لیے ، آخر کار ، 802.11n ہو جائے گا۔ ، جو نمایاں طور پر زیادہ رفتار اور رینج کا وعدہ کرتا ہے۔ یہاں 802.11n کے ساتھ کیا توقع کی جائے اور اس کی کب توقع کی جائے اس کی کمی ہے۔ 802.11n وائی فائی کی موجودہ نسلوں سے کیسے مختلف ہے؟ 802.11n معیار کچھ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے اور وائی فائی کو زیادہ رفتار اور رینج دینے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجیز کو تبدیل کرتا ہے۔ سب سے قابل ذکر نئی ٹیکنالوجی کو ایک سے زیادہ ان پٹ ، ایک سے زیادہ آؤٹ پٹ کہا جاتا ہے ( کے باوجود ). MIMO ایک سے زیادہ ڈیٹا سٹریم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کئی اینٹینا استعمال کرتا ہے۔ ڈیٹا کی ایک ہی سٹریم بھیجنے اور وصول کرنے کے بجائے ، MIMO بیک وقت ڈیٹا کے تین اسٹریمز کو منتقل کر سکتا ہے اور دو وصول کر سکتا ہے۔ اس سے ایک ہی مدت میں مزید ڈیٹا منتقل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ یہ تکنیک رینج ، یا فاصلے کو بھی بڑھا سکتی ہے جس پر ڈیٹا منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ایک دوسری ٹیکنالوجی جو 802.11n میں شامل کی جا رہی ہے وہ چینل بانڈنگ ہے ، جو ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے بیک وقت دو الگ الگ نان اوورلیپنگ چینلز استعمال کر سکتی ہے۔ یہ تکنیک ڈیٹا کی مقدار میں بھی اضافہ کرتی ہے جو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ 802.11n میں ایک تیسری ٹیکنالوجی کو پے لوڈ آپٹیمائزیشن یا پیکٹ ایگریگیشن کہا جاتا ہے ، جس کا سادہ لفظوں میں مطلب ہے کہ ہر ترسیل شدہ پیکٹ میں زیادہ ڈیٹا بھرا جا سکتا ہے۔ تو ، 802.11n کے فوائد کیا ہیں؟ صارفین اس نئی اور بہتر وائرلیس ٹیکنالوجی کے بارے میں دو چیزیں دیکھیں گے: نمایاں طور پر زیادہ رفتار اور رینج۔ انٹیل کارپوریشن ، جو کہ 802.11n میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ یہ وائرلیس چپ سیٹ تیار کرتی ہے ، اور آزاد جائزے بتاتے ہیں کہ 802.11n کے لیے زیادہ رفتار اور حد کے دعوے سچ ہیں۔ خاص طور پر ، 802.11 گرام پروڈکٹس ، جن کی نظریاتی زیادہ سے زیادہ رفتار 54Mbit/سیکنڈ ہے ، عام طور پر 22Mbit/سیکنڈ کی حقیقی دنیا کی رفتار فراہم کرتی ہیں۔ 24Mbit/سیکنڈ تک اس کے برعکس ، انٹیل کا کہنا ہے کہ یہ 100Mbit/سیکنڈ کی حقیقی دنیا کی رفتار دیکھ رہا ہے۔ 140Mbit/سیکنڈ تک 802.11n آلات کے لیے۔ ان نتائج کی تصدیق حالیہ میں کی گئی۔ کمپیوٹر ورلڈ کئی وائی فائی مصنوعات کا راؤنڈ اپ جائزہ۔ 802.11n معیار کے مسودہ 2 پر مبنی ہے۔ رینج کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہ بہت سے متغیرات سے متاثر ہوتا ہے ، جیسے رکاوٹیں جو سگنل کو روک سکتی ہیں۔ تاہم ، انٹیل نے رپورٹ کیا ہے کہ 802.11n آلات عام طور پر 802.11g آلات کی رینج سے دگنی سے زیادہ فراہم کرتے ہیں ، کسی بھی تھرو پٹ رفتار سے۔ ان نتائج کی تصدیق حالیہ دنوں میں کی گئی۔ کمپیوٹر ورلڈ جائزہ کھلے میدان کے بالکل اختتام پر بغیر کسی مداخلت کے ، جہاں آپ 1Mbit/سیکنڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ 'جی' سامان کے ساتھ ، آپ 14Mbit/سیکنڈ خالص کریں گے۔ 16Mbit/سیکنڈ تک انٹیل پروڈکٹ منیجر اشیش گپتا کی رپورٹ کے مطابق 'این' آلات کے ساتھ۔ کاروباری صارفین کے لیے اس میں کیا ہے؟ بہترین پرنٹر جو کم سیاہی استعمال کرتا ہے۔ صارفین تیزی سے 802.11n کے مسودہ ورژن پر مبنی سامان خرید رہے ہیں۔ تاہم ، کچھ کاروبار 802.11n مصنوعات تعینات کریں گے جب تک کہ معیار کی مکمل توثیق نہ ہو اور کاروباری مرکوز دکاندار جیسے سسکو سسٹمز انکارپوریٹڈ تصدیق شدہ معیار کی بنیاد پر مصنوعات پیش کریں۔ جب ایسا ہوتا ہے ، تاہم ، کارپوریٹ سیٹنگز میں وائرلیس نیٹ ورکنگ کے کردار میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ بہت سی کمپنیوں میں وائرلیس نیٹ ورکنگ اکثر مخصوص جگہیں بھرتی ہے ، جیسے کانفرنس رومز ، لنچ رومز یا عارضی یا زیر تعمیر آفس میں نیٹ ورکنگ فراہم کرنا۔ وائرلیس کی مکمل تعیناتی کی کمی قابل فہم ہے بشرطیکہ ایتھرنیٹ زیادہ سے زیادہ وشوسنییتا اور رفتار (100Mbit/سیکنڈ کی نظریاتی زیادہ سے زیادہ) فراہم کرتا ہے اور سوئچ کیا جاتا ہے ، جبکہ وائرلیس LANs سست رفتار پیش کرتے ہیں اور بینڈوڈتھ شیئر کی جاتی ہے۔ نئی 802.11n ٹیکنالوجی کاروباری صارفین کے لیے تھرو پٹ کے مسئلے کو حل کرے گی ، جس سے کہیں زیادہ ایپلی کیشنز کا راستہ کھل جائے گا ، جیسے وائرلیس وائس اوور آئی پی اور زیادہ ویڈیو کانفرنسنگ۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہےکہ گھر بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضوں کے لیے آرڈیننس کل جاری کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ اسکیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ صفر اعشاریہ دو فیصد گھروں کے لیے فنانس ملتا ہے، صرف وہ لوگ گھرلے سکتے ہیں جن کے پاس پیسا ہو، پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ گھروں کی طلب ہے، تنخواہ دار طبقہ اور گریڈ 19 سے نیچے کے سرکاری ملازمین کے گھر بنانے کے وسائل نہیں۔ وزیراعظم نےکہا کہ آرڈیننس لا رہے ہیں جس سے گھر بنانے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ہوسکے گی، اسکیم کامقصد ہےلوگ رجسٹر کریں، بتا سکیں ہر مہینے کہ گھر کی کتنی قسط دے سکیں گے، اس سے پتا چل سکے گا شہریوں کے پاس گھر بنانے کے اپنے کیا وسائل ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہاؤسنگ سیکٹر میں بہت سے لوگ آنا چاہتے ہیں، یہ پہلی بار ہے کہ نچلے طبقے کو گھروں کی فراہمی میں ہاؤسنگ سیکٹر آرہا ہے، کوشش ہے گھر بنانے کے لیے چھوٹی چھوٹی کمپنیاں وجود میں آسکیں، نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم شروع ہونے پر 40 صنعتوں کا پہیہ چلنا شروع ہوجائےگا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ 10 ہزار گھروں کے لیے قرعہ اندازی کریں گے، انگوری کے پاس شہریوں کو ڈیڑھ سال میں گھر مل سکے گا، کوئٹہ،گوادر، لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہاؤ سنگ اسکیمیں شروع ہوجائیں گی، ڈیٹا اکٹھا کریں گے کہ لوگوں کو کتنے گھروں کی ضرورت ہے، گھر بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضوں کے لیے آرڈیننس کل جاری کیا جائے گا۔
اگر ایرانی قوم پر عائد پابندیاں کسی دوسرے ملک پر عائد ہوتی تو آج تک امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا لیکن ایرانی عوام نے اپنے ایمان سے امریکہ کی غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے اور دشمن کو عالمی سطح مایوس کیا ہے۔ جماران خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا امریکہ کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ صدر حسن روحانی پارلیمنٹ سے تعلیم اور سیاحت اور ثقافتی میراث کے وزراء کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ پہنچے جہاں انھوں نے پارلیمنٹ کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا امریکہ کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی برادری اس نتیجے تک پہنچ گئی ہےکہ ایرانی قوم کو دباؤ کے ذریعہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے کہا کہ آج ایرانی قوم کے دشمنوں کو عالمی سطح پر مایوسی کا سامنا ہے۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ دشمن کی طرف سے مسلط کردہ اقتصادی جنگ کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو 30 سال قبل مسلط کردہ فوجی جنگ کا نکلا تھا۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ آج بھی ایرانی قوم کو دشمن کی طرف سے سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی جنگ کا سامنا ہے۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ آج ایران اکیلا اور تنہا نہیں بلکہ ایران کی مدبرانہ سیاست اور پالیسی کے نتیجے میں امریکہ دنیا ميں تنہا ہوگیا ہے اور ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کی تمام پالیسیاں شکست اور ناکامی سے دوچار ہوگئی ہیں۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ ایران امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ حسن روحانی امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک سماج کو متحد بنانے اور معاشرے کو نفاق سے نجات دلانے کے لئے تھی انہوں کہا اگر ایرانی قوم پر عائد پابندیاں کسی دوسرے ملک پر عائد ہوتی تو آج تک امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا لیکن ایرانی عوام نے اپنے ایمان سے امریکہ کی غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے اور دشمن کو عالمی سطح مایوس کیا ہے۔ ایرانی صدر نے کہا یہ ایرانی قوم کے ایمان کی طاقت تھی جس نے عالمی سظح پر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے انہوں نے کہا ایرانی قوم نے سید الشھداء سے اسلام کی خاطر سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا سیکھا ہے جس طرح امام مظلوم نے یزید کو عالمی سطح پر رسوا کیا ہے اسی طرح ایرانی عوام نے بھی امریکہ اور اس کے حامیوں کو عالمی سطح پر رسوا کیا ہے۔ حسن روحانی نے کہا ایرانی عوام کی بصیرت اور حکیمانہ رفتار کی وجہ سے آج امریکہ تنہا ہو چکا ہے لیکن ایران تنہا نہیں ہے آج ایران کے ساتھ دوسرے ممالک کھڑے ہیں جو امریکہ کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاع کر رہے ہیں انہوں کہا آج ایرای قوم کے خلاف امریکہ کو عالمی سطح پر اپنی تمام پالیسیوں میں شکست کا سامانا کرنا پڑ رہا ہے اگر امریکہ نے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہوتا تو ہم بھی عمل کرتے۔
علی زے ایک بہت پیاری بچی ہے۔ اس کے پاس ایک گڑیا ہے۔ دیکھنے کے لائق۔ علی زے اپنی گڑیا سے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ میں اپنی گڑیا کی شادی کردوں۔ کل جمعہ ہے۔ جمعے کا دن اچھا رہے گا۔ سب سے پہلے علی زے اپنی آپا کے پاس گئی اور بولی: ”آپا! کل میری گڑیا کی شادی ہے۔ آپ ضرور آئیے۔“ آپا نے کہا: ”میں ضرور آتی مگر کل تو مجھے سچ مچ ایک شادی میں جانا ہے۔“ علی زے کے دونوں بھائی علی اور باچھو جب اسکول سے آئے تو علی زے نے ان سے کہا: ”کل میری گڑیا کی شادی ہے۔ آپ دونوں ضرور آئیے۔“ دونوں خوب ہنسے۔ بولے: ”بھئی، کل تو ہم کرکٹ کھیلنے جارہے ہیں۔“ علی زے نے اپنی سہیلیوں ربیعہ اور مریم سے کہا۔ وہ دونوں جمعہ کو اپنی خالہ کے گھر جارہی تھیں۔ پھر علی زے نے سوچا، چھوٹے شایان کو بلاؤں۔ شایان علی زے کا خالہ زاد بھائی تھا اور دوست بھی تھا۔ مگر شایان اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ اب تو علی زے بہت پریشان ہوئی۔ مگر کیا کرتی۔ صبح صبح اٹھ بیٹھی۔ اپنے تمام کھلونے سجائے۔ گڑیا کو اچھے اچھے کپڑے پہنائے اور خود ہی اپنی گڑیا کی شادی میں شامل ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتی ہے کہ اس کی گڑیا کی شادی میں بہت سے مہمان آرہے ہیں۔ بھالو، طوطا، گرگٹ، جھینگر اور جگنو میاں۔ یہ سب تحفے بھی لائے تھے۔ بھالو کے خالو بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ ایک بہت خوبصورت صندوق لائے تھے۔ گرگٹ بندے لایا تھا جو ہلانے سے چمکتے تھے اور تو اور جھینگر گڑیا کے لئے دو شالہ لایا تھا اور طوطا وہ اپنا پوتا ساتھ لایا تھا اور گڑیا کے لئے ایک چھوٹی سی بندوق لایا تھا۔ رہے جگنو میاں، تو ان کی کیا بات تھی۔ وہ چمک چمک کر گڑیا کے چاروں طرف ناچ رہے تھے اور گا رہے تھے۔ علی زہے بہت خوش ہوئی۔ ساری اداسی غائب ہوگئی۔ کیسی اچھی شادی ہو رہی تھی۔ یکایک دروازہ زور سے کھلا۔ علی زے کی آنکھ کھل گئی۔ آپا، دونوں بھائی، ربیعہ، مریم سب لوگ آگئے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنے اپنے تحفے تھے۔ آپا نے کہا: ”دیکھو، میں ان سب کو لے کر آئی ہوں جن کو تم بلانا چاہتی تھیں۔ تھوڑی دیر ضرور ہوگئی۔ یہ لو میں تمہاری گڑیا کے لئے صندوق لائی ہوں۔“ بھیا بولے: ”اور میں بندوق، یہ چھوٹی سی۔“ چھوٹے بھائی نے کہا:”یہ لو بندے، ہلانے سے چمکتے ہیں۔“ ربیعہ اور مریم بولیں:” ہم تمہاری گڑیا کے لئے دوشالہ لائے ہیں۔“ اتنے میں شایان بھاگتا ہوا آیا اور اس کے پاس ایک چھوٹی سی لالٹین تھی وہ گڑیا کے چاروں طرف ناچ ناچ کر گانے لگا:
MDI کیا مطلب ہے؟ مندرجہ بالا MDI معنی میں سے ایک ہے. آپ ذیل میں تصویر ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں یا ٹویٹر، فیس بک، گوگل یا پنٹرسٹ کے ذریعہ اپنے دوستوں کے ساتھ اسے پرنٹ کریں یا اشتراک کریں. اگر آپ ویب ماسٹر یا بلاگر ہیں تو، اپنی ویب سائٹ پر تصویر پوسٹ کرنے کے لئے آزاد محسوس کرتے ہیں. MDI دیگر تعریفیں ہوسکتی ہیں. براہ مہربانی انگریزی میں اس کی تعریفیں اور آپ کی زبان میں دیگر پانچ معنی کو دیکھنے کے لئے نیچے سکرال کریں. MDI کا مطلب مندرجہ ذیل تصویر کو انگریزی زبان میںMDI کی تعریف میں سے ایک پیش کرتا ہے.آپ کو تصویر آف لائن پی ایس جی فارمیٹ آف آف لائن استعمال کیلئے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں یا ای میل کے ذریعہ اپنے دوستوں کوMDI تعریف کی تصویر بھیج سکتے ہیں. MDI کے دیگر معنی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے،MDI دیگر معنی ہیں. براہ کرم جانتے ہیں کہ پانچ دیگر معنی ذیل میں درج ہیں.آپ بائیں پر لنکس پر کلک کر سکتے ہیں ہر تعریف کی تفصیلی معلومات کو دیکھنے کے لئے، بشمول انگریزی اور اپنی مقامی زبان میں تعریف شامل ہیں.
سنگھ انتظامیہ نے کہاکہ تنظیم کے سامنے’’ ہندوتہذیب کے خلاف سازش‘‘ کا نمونہ دیکھائی دے رہا ہے‘ جیسا کہ دیوالی کے دوران پٹاخے جلانے پر پابندی اور جلی کٹو فیسٹول میں بیلوں کی لڑائی پر روک ۔ گوالیار ۔ ایک روز قبل راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے جنرل سکریٹری سریش بھیاجی جوشی نے کہاکہ معاشرہ صرف ائین کے دائرکار میں نہیں چل سکتا کیونکہ اس میں روایت‘ تہذیب اور عقیدہ کی بھی کوئی جگہ ہے ۔ہندؤؤں سے متعلق سنائے گئے عدالت کے کچھ فیصلوں پر انہوں نے بات کی ۔مدھیہ پردیش کے گوالیار میں اکھیل بھارتیہ پرتیندھی پریشد کے آخری روز جوشی نے کہاکہ سنگھ نے ہندوؤں کے عقائد اورروایتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے متعلق ایک قرارداد منظوری کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ’’ میں تسلیم کرتاہوں کہ ائین کی اپنی طاقت او راختیارات ہیں‘ مگر سماج صرف ائین کے اصولوں کی بنیاد پر نہیں چل سکتا‘‘ ۔سنگھ انتظامیہ نے کہاکہ تنظیم کے سامنے’’ ہندوتہذیب کے خلاف سازش‘‘ کا نمونہ دیکھائی دے رہا ہے‘ جیسا کہ دیوالی کے دوران پٹاخے جلانے پر پابندی اور جلی کٹو فیسٹول میں بیلوں کی لڑائی پر روک ۔ سنگھ نے اعلی عدالت کے اس فیصلے کو بھی تسلیم کرلیا جس میں کیرالا کی سبرایملا مندر میں عورتوں کے داخلے پر صدیوں سے عائد پابندی کو برخواست کرنے کاحکم سنایاگیاتھا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنی قراردادمیں ان سے جو ہندؤ نہیں ہیں اس معاملے میں استفسار کیاہے۔
کھاد کی بلیک مارکیٹنگ بھی عروج پر پہنچ گئی،کسان گندم کی فصل لگانے کی خاطر کھاد لینے کے لیے لمبی قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں— فوٹو: فائل جنوبی پنجاب میں کسان کھاد کیلئے پریشان، رحیم یار خان، چونیاں، صادق آباد، لیاقت پور اور خان پور میں کھاد نایاب ہوگئی۔ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ بھی عروج پر پہنچ گئی،کسان گندم کی فصل لگانے کی خاطر کھاد لینے کے لیے لمبی قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ علی الصباح کھاد کے حصول کے لیے قطار لگاتے ہیں، طویل انتظار کے بعد یا تو ان کی باری ہی نہیں آتی، اگر باری آ بھی جائےتو 10 کے بجائے صرف 2 بوری کھاد ملتی ہے۔ کھادوں کو بلیک کرکے زائد قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے ، یوریا 500 روپے فی بیگ اضافے کے ساتھ دوہزار 300 میں فروخت کی جارہی ہے۔ ترجمان ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ چھاپے مار رہی ہے۔ ادھر راجن پور ضلع بھر میں بھی کھاد کی عدم دستیابی اور بلیک مارکٹینگ جاری ہے، سرکاری ریٹ پر کھاد لینے کے لیے کسانوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں، کسانوں کے مطابق سرکاری ریٹ پر صرف دو بوری ملتی ہے جو ہماری ضرورت پوری نہیں کرتی۔
کار کی سواری ، اِس آپ کے ذریعے دی جانی والی بہت سی سہولتوں میں سے ایک ہے . ہماری وسیع رینج میں سے آپ اپنے لیے فوری طور پر سواری حاصل کر سکتے ہیں ، یا اپنی مرضی کے مطابق پہلے سے ہی سواری بُک کروا سکتے ہیں . دوران سفر کریم کا معیار : معیاری سفر: آپ اپنے لیے کسی بی طرح کی کار کا انتخاب کریں ، آپ کو صاف سُتھری کار ، پیشہ ورنہ کیپٹن اور قابل استعمال AC ( اگر اتیلاق ہوتا ہے ) فراہم کیا جاتا ہے . پر سکون امڈ و رفت: کریم کے ساتھ آپ کا تجربہ اور بھی بہترین ہو جاتا ہے جب آپ اپنی منزل کا تعاون کرتے ہیں . ہمارے کیپٹن GPS کا استعمال کرتے ہوئے آپکو آپکی منزل تک لے جاتے ہے جبک آپ پرسکون سفر سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں . آپ کے پاس یہ سہولت بھی موجود ہے کے آپ اپنی مخصوص پک اپ لوکیشن کا بی انتخاب کر سکیں تا کہہ آپکا کیپٹن آپکو وہیں سے پک کرے . سفر کی ریٹنگ ( سفر کی درجہ بندی ): ہم اپنے صارفیں کی آرا کی قدر کرتے ہیں اور یسی لیے ہم اِس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کے آپ اپنے کیپٹن ( کریم کے ساتھ اپنے سفر کے تجربے ) کے ہوالے سے ہمیں آگاہ کریں . اگر کیپٹن کی فراہم کرداٍ خدمت بہترین تھیں تو آپ اسے 5 اسٹارز کے ساتھ کچھ انعام بھی دے سکتے ہیں . اور اگر یہ اتنا معیاری سفر نہں تھا تو ہمیں آگاہ کریں تا کے بہتری لائی جا سکے .
نوشہرہ: وزیر دفاع پرویز خٹک نےکہا ہے کہ بدھ تک چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرریوں کا فیصلہ ہوجائےگا۔ نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطاب اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر و ممبران سےمتعلق اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں سےرابطے ہوچکےہیں اور بدھ تک چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرریوں کا فیصلہ ہوجائےگا۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت سےمتعلق اپوزیشن سےابھی تک بات چیت نہیں ہوئی، تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد لیگل ٹیم کے ساتھ مل کر حکومت فیصلہ کرےگی۔ پرویز خٹک کا کہنا تھاکہ عمران خان سےکوئی رکن قومی اسمبلی نالاں نہیں، گلے شکوے ہوتےرہتےہیں ان ہاؤس تبدیلی کاکوئی امکان نہیں، عمران خان کی حکومت 5سال کی مدت پوری کرےگی۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ جس حالت میں حکومت ملی معاشی طورپردیوالیہ ہوچکا تھا، آصف زرداری اور نوازشریف نےدولت بیرونی ملک منتقل کی ، ان لوگوں نےملک کوقرضوں کےسہارےچھوڑا، بےشک کوئی ووٹ نہ دےکرپٹ لوگوں کونہیں چھوڑیں گے۔
رمضان اللہ کا دیا ہوا وہ تحفہ ہے جو مسلمانوں کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ رمضان عبادت کا مہینہ ہے جسے اللہ تعالی نے ہمارے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رمضان کا مہینہ پورا ہونے کی خوشی میں ہی عید منائی جاتی ہے۔ رمضان کا یہ ایک مہینہ بڑا ہی برکتوں والا ہوتا ہے۔ اس مہینے میں مسلمان دل کھول کر صدقہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی غریب بھوکا نہیں سوتا۔ Advertisement رمضان کے پہلے دن سے ہی شیطان کو قید کردیا جاتا ہے اور دوزخ کا ہر دروازہ بند کر دیا جاتا ہے- اور جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔رمضان میں ایک شخص آواز لگاتا ہے کہ اے لوگو! نیکی کے راستے پر چلو، اللہ کی عبادت کرو اور بدی پر چلنے والو! اب رک جاؤ اور گناہوں سے توبہ کرلو۔ Advertisement اس مہینے میں چاروں طرف اللہ کا نور برستا ہے اور رنگینی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت اور برکت کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالی خود ارشاد فرماتا ہے کہ “اے روزہ رکھنے والوں تم یہ روزہ میرے لئے رکھ رہے ہو جس کا اجر میں تمہیں دنیا میں بھی دونگا اور آخرت میں بھی”۔ Advertisement روضہ کی برکات روزہ رکھنے والوں سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے اور انکے ہزاروں سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ روزہ رکھنے سے لوگ گناہوں سے پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی انکی صحت بھی درست ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ سائنس نے بھی یہ بات مانی ہے کہ روزہ رکھنے سے انسان کئی بڑی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ایک شخص کو سائنس کی طرف سے کینسر کی بیماری کا علاج ڈھونڈنے پر ایوارڈ دیا گیا۔ جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے تو انہوں نے بتایا کہ “اگر انسان کچھ دنوں تک بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر کے سارے سڑے گلے حصوں کو ہمارا جسم کھانے لگتا ہے جسے Auto Faggy کہا جاتا ہے۔ ایسا ہونے سے کینسر کی بیماری کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد پوچھا گیا کہ سال میں کم سے کم کتنے دن بھوکا رہنا چاہیے؟ تو انہوں نے کہا “کم سے کم 20 سے 25 دن بھوکا رہنے پر کینسر کی بیماری سے بچا جا سکتا ہے”۔ Advertisement اللہ نے ہمارے لیے عبادتوں میں بھی ہماری حفاظت چھپا کر رکھی ہے۔ روزہ ہمارے اوپر فرض کیا تاکہ ہماری صحت بھی درست رہے۔ رمضان کے پاک مہینے میں اللہ تعالیٰ روزہ داروں کے لئے فرشتوں کو مقرر کر دیتا ہے جو اُنکے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے کہ روزہ دار کے منہ سے نکلنے والی بو بھی اُسے مشق کی بو سے زیادہ پسند ہے۔ روزہ دار جب روزہ کھولنے دسترخوان پر بیٹھتا ہے تو اللہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور شیطان سے کہتا ہے کہ “دیکھ ! یہ ہے میرا بندہ۔ تو کہتا تھا کہ میں تیرے بندے کو ایسا بہکاؤں گا کہ وہ تیرا نافرمان بن جائے گا۔ لیکن آج دنیا کی تمام نعمتیں اس کے سامنے رکھی ہیں لیکن وہ اس وقت تک کچھ نہیں کھائے گا اور نہ ہی پیئے گا جب تک میں حکم نہ دے دوں۔ جب تک میرا نام اس کے کانوں میں نہ چلا جائے-“ Advertisement شب قدر رمضان کی شبِ قدر والی رات کا بھی بڑا ثواب ہے۔ اللہ اس رات کو عبادت کرنے والوں کی ہر دعا قبول کرتا ہے اور رحمت نازل کرتا ہے۔ اسی مبارک مہینے میں حضور اکرم ﷺ پر قرآن پاک نازل ہوا۔ رمضان کا احترام جس طرح سے اللہ تعالی نے ہمارے لیے رمضان جیسی نعمت کو نازل کیا اسی طرح ہم سب کو اس مہینے کا احترام کرنا چاہیے اور روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ برے کاموں جیسے: جھوٹ٬ فریب٬ چوری٬ غیبت٬ سودخوری سارے غلط کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تبھی ہمارا خدا ہم سے راضی ہوگا اور ہمارے گناہ بخش دے گا۔ Advertisement بعض لوگ ز یادہ گرمیوں میں روزہ نہیں رکھتے ہیں جس کا مذاق کافر بھی بنانے لگتے ہیں۔ ہر شخص کو روزہ کا احترام کرنا چاہیے۔ گرمیوں کے روزه کی پیاس میں جتنی زیادہ شدت ہوگی خدا تعالیٰ اس کا اتنا ہی زیادہ اجر ہمیں دے گا۔ اس لیے جو لوگ کسی بھی بیماری میں مبتلا نہیں ہیں اور صحت مند ہیں انہیں ہر حال میں روزہ رکھنا چاہیے۔ اور اپنے اسلام کو آگے بڑھانا چاہیے۔
داستانیں ہوں یا ناول اور افسانہ کردار اساسی حیثیت رکھتا ہے۔کردار جس قدر توانا اور مضبوط ہو گا ، کہانی اسی قدر جان دار پختہ اور دلچسپ ہو گی۔ڈاکٹر میمونہ انصاری کی اس راۓ کی تائید میں کوٸ امر مانع نہیں کہ انیسویں صدی کے ناولوں میں غالب رجحان کردار نگاری کا ہے اور یہ رجحان۔۔۔فرد پرستی کی نفسیات سے ابھرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ انیسویں صدی کے ناولوں میں واقعہ اپنی جگہ پر بہت اہمیت نہیں رکھتا بلکہ واقعہ کردار کے تابع ہے۔۔۔(رسوا ایک مطالعہ ، ص٢٥)۔اس کے بالعکس ڈاکٹر احسن فاروقی کردار اور واقعہ کو برابر اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہ کردار واقعہ یا قصہ کا حامل ہوتا ہے۔” فردوسِ بریں” کی بنیادی شناخت اس کے کردار ہی ہیں اور یہ کردار بہت مضبوط ہیں،ان کے بر محل مکالموں نے ناول کے تاثر کو اور بہتر بنا دیا ہے۔مکالمے کہیں مختصر اور کہیں طویل ہیں مگر قصے کو آگے بڑھانے اور منطقی انجام تک پہنچانے میں بے حد معاون ہوتے ہیں۔ ناول نگار کی فنی چابک دستی کا ایک امتحان یہ ہوتا ہے کہ اس نے کہانی کے کرداروں کو کس حد تک جان دار بنایا ہے اور کس حدتک ان کی سیرت اور شخصیت میں کوٸ ایسا امتیازی پہلو ہے جس کی بنا پر وہ زندگی کے رنگ میں ڈوبے ہوۓ ہونے کے باوجود لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں جن سے ہمیں ہر وقت سابقہ پڑتا رہتا ہے، سید وقار عظیم نے ناول کی کہانی میں کرداروں کی دو صورتوں کی جانب اشارہ کیا ہے: ١ ۔ کردار ہمیں کہانی کے شروع میں جیسا نظر آتا ہے،وہ ماضی کے واقعات نے اسے بنایا ہے۔ماحولياتی کے گوناں گوں اثرات نے اس کی شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا ہے اور اس شخصیت کی انفرادی خصوصیتیں ہیں جو اس کے لیے خاص ہیں۔کہانی کے اگلے حصوں میں کردار جو کچھ کہتا اور کرتا ہے وہ اس کے مزاج کی اس مخصوص ساخت کے مطابق ہوتا ہے۔ ٢۔ ہماری شناسائی ان سے ان کی زندگی کے اس دورمیں ہوتی ہے جب ماحوليات نے ان پر پورا اثرنہیں کیا ہے۔ ماحول آہستہ آہستہ ان پر اپنا اثر ڈال رہا ہےاور آہستہ آہستہ ان کی سیرت کی تشکیل و تعمیرہو رہی ہے۔ایسے کرداروں کو ہم پوری کہانی میں برابر ایک سا رنگ قبول کرتا محسوس کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ کہانی ختم ہوتی ہے تو یہ کردار بھی اپنے پورے قدوقامت کو پہنچے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔”(مقدمہ۔فردوس بریں ،ص١٧)، سید وقار عظیم کا کہنا یہ ہے کہ ’’فردوس بریں‘‘ کے کرداروں کی ساخت دونوں طرح کے فنی عمل سے ہوئی ہے اور ناول نگار کی کامیابی یہ ہے کہ جس طرح پلاٹ کے کسی حصے کی طرف سے اس کے دل میں (بعض اوقات متحیرومتعجب ہو جانے کے باوجود) شبہ یا بے یقینی پیدا نہیں ہوتی،اسی طرح کردار بھی جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ان کے مزاج کی بنیادی خصوصیتوں سے ہم آہنگ ہے ۔(ایضاً ص١٧۔١٨)، وقار عظیم بعض خوببوں کی بنا پر زمرد کوحسین کے مقابلے میں زیادہ پر کشش کردار قرار دیتے ہیں وہ خوبیاں ان کے نزدیک اس کا حسن و جمال نہیں بلکہ اس کی مستقل مزاجی،دور اندیشی ،مصلحت بینی،ضبط ،تحمل،احتیاط اور پاک دامنی ہیں۔تاہم میری راۓ میں ” فردوسِ بریں” کا سب سے توانا کردارحسین کا ہے جو اپنی محبت کے حصول کے لیے تڑپتا ہے۔اس کی بے قراری اس ایک پل چین نہیں لینے دیتی۔وہ خواہش مند ہے کہ اسے زمرد کا قرب حاصل ہو جاۓ ۔اس مقصد کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے ،زمرد ایک جامد کردار ہے جب کہ حسین پارے کی طرح ایک متحرک اور فعال کردار ہے۔وصال کی لذتیں اپنی جگہ مگر وصال کے بعدفراق ایک سچے اور دردِ دل رکھنے والے محب کے لیے بہر حال ایک تکلیف دہ امر ہے۔ جنت میں حسیں کا قیام عارضی تھا۔اسے بتایا گیا کہ یہاں ہمیشہ کے لیے آنے والوں کو معاملات و متعلقاتِ حیات سے ناتا توڑنا پڑتا ہے۔حسین کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوتا ہے کہ اسے یہ حسین و جمیل مقام چھوڑ کر ایک بار پھر اپنی دنیا میں لوٹنا پڑے گا۔اس پر حسین آبدیدہ و ہو گیا اور نہایت ہی جوشِ دل سے ایک آہِ سرد کھینچ کر بولا: ” آہستہ ! روۓ گل سیر ندیدم و بہا ر آ خر شد ! مجھے تو ابھی تیرے وصال کا لطف نہیں حاصل ہوا مگر زمرد مجھ سے تو اب نہ جایا جاۓ گا۔اب اس وقت سے میں ہر وقت تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رہوں گا تاکہ کوٸ مجھے تجھ سے جدا نہ کرخ دے” یہ سن کر زمرد بھی آبدیدہ ہو گیی اور بولی:” حسین ! یہ امر تمہارے اختیار سے باہر ہے۔جب وقت آۓ گا خبر بھی نہ ہو گی اور ایک ادنیٰ غنودگی تمہیں سخت عالم میں پونچا دے گی۔۔۔” حسین (رو کر)” پھر تو مجھ سے تمہارے فراق کی مصیبت نہ برداشت کی جاۓ گی۔جاتے ہی اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالوں گا اور تم سے چھوۓ ایک گھڑی بھی نہ گزری ہو گی کہ پھر تمہارے پاس آ پہنچوں گا "( فردوسِ بریں ،ص١٢٣)، غمِ فراق کی ایکہ صورت داستان کے آغاز میں دکھائی گئی ہے جب زمرد اور حسین حج کے لیے گھر سے نکلتے ہیں مگر زمرد نے اچانک اس مقام پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا جہاں اس کے بھائی موسیٰ کی قبر تھی۔گھاٹیاں عبور کرتے بالآخر وہ قبر پر پہنچ جاتے ہیں ،فاتحہ خوانی کے معاً بعد زمرد کی حالت شدتِ غم کے باعث غیر ہونے لگتی ہے۔ حسین اسے دلاسا دیتا رہا مگر اپنی دگرگوں حالت کو دیکھ کر زمرد نے حسین سے کہا کہ حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں۔حسین بھیگی آنکھوں سے کہنے لگا: "میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری نہیں ہو گی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دباۓ گا ۔” (ص٥٤)، یعنی حسین کسی صورت اپنی محبوبہ کی جدائی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس کی خاطر وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے ۔۔حسین لذت ِ وصال کا قائل ہے۔حسین اسکے ساتھ مرنے کو تیارہے مگر زمرد اپنی پاک دامنی کی خبر لوگوں تک پہنچانے کے لیے اسے زندہ دیکھنا چاہتی تھی۔حسین اس سے وعدہ تو کر لیتا ہے مگر وہ افسردگی کی سخت گرفت سے خود کو آزاد نہیں کرا پاتا، حسین سمجھتا ہے کہ وہ جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے شیخ علی وجودی اس ضمن میں اس کا رہبر بن سکتا ہے۔وجودی اپنی مسحور کن شخصی اور ماورائی قوتوں کا حامل ہونے کی بنا پر حسین کو خود سے دور نہیں ہونے دیتا،اس لیے کہ وہ حسین کی جذباتی طبیعت سے خوب واقف تھانجم الدین نیشا پوری اور نصر بن احمد کے بعد وجودی سے اس کی عقیدت اور پھر نفرت دونوں انتہاٶں پر تھیں وہ ان کی اصلیت جان لینے کے بعد ان سے جو سلوک کرتا ہے وہ بھی ناولہ میں تجسس پیداکرنے کا وسیلہ ہے۔۔ ” فردو س بریں‘‘ کے جملہ کردار ناول کو وقت اور وسعت عطا کرنے کا موجب ہیں۔مذکورہ کرداروں کے ساتھ طور معنی،بلغان خاتون،ہلاکو خان بھی اہم ہیں۔شرر ایک ایسے ناول نویس ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں کا خام مواد تاریخ کے جھروکوں سے حاصل کیا اور اپنے تاریخی شعور کو بڑی ہنرمندی سے اپنے فکر و فن کا حصہ بنایا،وہ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ وہ تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ادب تخلیق کرنے جا رہے ہیں سو انھوں نے تاریخی حقائق کو ادب کی حساسیت اور لطافت پر حاوی نہیں ہونے دیا،اپنی منشا کے مطابق نتائج اخذ کرنے پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر یہ طے ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو موضوعاتی اعتبارسے آگے بڑھایا اور اس ضمن میں انھیں کردارسازی پر کامل عبوربھی حاصل تھا۔
غیرملکی خبررساں ادارےکی طرف سےدیےگئےاعدادوشمارکےمطابق سال 2020 میں خیبر پختونخوا کے مرج ایریا میں شدت پسند تنظیموں کی طرف سےکئےجانے والے حملو ں کی تعداد95تھی ۔اس سال 2021کےپہلے6ماہ میں44حملےہوئےجن کی ذمہ داری شدت پسندتنظیموں نےقبول کی جبکہ افغانستان کی بدلتی صورتحال کے بعد ڈھائی ماہ میں53حملے ہوچکے ہیں اور گزشتہ کچھ ہفتوں سےان حملوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہےجن میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔خاص طور پر وزیرستان میں دہشتگرد حملوں میں اضافےاور نامعلوم افراد کی طرف سے بھتے کی کالز کےمعاملہ کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں سےبات چیت کی بات نئی بحث کو جنم دینے کا باعث بن گئی۔ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اورہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔عمران خان نےکہا کہ 'ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے'۔ دہشتگردی اور بھتے کی کالز کا کیا کوئی لنک ہے ۔۔۔ کہانی شروع ہوئی ان علاقوں میں بڑھتےہوئے دہشتگردی کے واقعات سے جن میں ایک واقعہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک میں زیر تعمیر گرلز مڈل اسکول میں ہونے والا دھماکا تھا۔جس کی تحقیق سےپتہ لگاکہ ٹانک اور وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصےسےبھتےکےلئے آنے والی کالزمیں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کیا واقعی صورتحال ایسی ہی ہے یہ جاننے کے لئے ہم نے وزیرستان اور ٹانک میں کام کرنے والے ٹھیکداروں سے رابطہ کیا تاکہ معاملے کی اصلی حققیت تک پہنچا جائے لیکن یہاں ایک مشکل یہ پیش آئی کہ ٹھیکداراپنی شناخت کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے ۔ہم نے انکی شناخت محفوظ رکھنے کی شرط پر انٹرویو دینے کی درخواست کی تو کچھ اس طرح کے معاملات ہمارے سامنے آئے۔ ٹھیکدار نےبتایاکہ بھتہ خور 5 فیصدکمیشن لیتے ہیں،2007سےیہ سلسلہ چلا آرہا تھاجو ملٹری آپریشن کے بعد تھم گیا لیکن 2019 کے بعد سے یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوا ہے۔اس مقصد کےلئے الگ الگ بندے مقرر کیے گئے ہیں جوکہ مختلف ترقیاتی پراجیکٹ سے کمیشن جمع کرتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں ٹانک میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا جس میں ایک ڈاکٹر کے گھر پر بھتہ نہ دینے پر حملہ کیا گیااور ٹانک چونکہ وزیرستان کےقریب علاقہ ہےتویہاں بھی ایسےواقعات رپورٹ ہورہے۔ ٹانک کےملحقہ علاقے میں زیرتعمیر گرلز مڈل اسکول کے ٹھیکیدار کو بھتہ دینے کاکہا گیا تھا لیکن بھتہ نہ دینے پراسکول کی چار دیواری کو بموں سے نقصان پہنچایا گیا۔ ٹھیکدار نے بتایا جنوبی وزیرستان میں جہاں بھی کوئی پراجیکٹ شروع ہو،چاہےوہ بحالی کا کام ہو یا پھر سول گورنمنٹ کی طرف سے اس میں بھتہ لیا جاتا ہےاور اگرکوئی بھتہ نہیں دیتاتو اس کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور اکثر نقصان پہنچانے کےلئے اسکے بنائے گئے پراجیکٹ کوبم سے تباہ کردیا جاتا ہے۔ ٹھیکداروں کا کہنا ہےکہ جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی اداروں کی طرف سے تفتیش کی جارہی ہے کہ کن کن لوگوں نے بھتہ دیا ہے، لیکن ہم ٹھیکیدار کیا کریں کہ جب ہم کام کےلئے جاتے ہیں تب علاقے میں نامعلوم افراد بھتہ مانگتے ہیں اگر ہم نہ دیں تو کام نہیں کرسکتے ہیں اگر کبھی مطلقہ اداروں کو بتا بھی دیں تو کہتے ہیں کہ آپ لوگ کام کریں جیسے بھی ہو۔ ٹھیکداروں نے یہ بھی بتایا کہ اگر بھتہ مانگنے والے کو مقررہ لاگت سے کم بتا دیں تو ان کو پہلے سے اصل لاگت کا علم ہوتا ہے۔ جو کہ ہمارے لئے حیرانی کی بات ہوتی ہے۔ ٹھیکداروں کی پریشانیاں اور تحفظات یقیناًاہم ہیں انہی تحفظات کو آج نیوز نےڈی پی او ٹانک صاحبزادہ سجاداحمد کے سامنےرکھا توانویں نےاعتراف کیا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ بھتے کی کالزکچھ لوگوں کو موصول ہوئیں جن میں ڈاکٹرز اور ٹھیکدار شامل ہیں ۔بھتہ خوری کے واقعات کی پولیس نےکاونٹر ٹیرارزم کے ساتھ مل کرتحقیقات کیں۔ہمارے پاس چارکیسز آئے جس میں کچھ ملزمان بھی گرفتار بھی ہوئے۔ صاحبزادہ سجاد نےکہاکہ ہمارے پاس ایک کیس آیا کہ کسی ٹھیکدار کو بھتے کی دھمکی ملی ہے ہم نے اس کو کہا کہ وہ رپورٹ لکھوائےلیکن وہ ڈر کےمارے راضی نہیں تھا۔ جب ہم نے اس کی کونسلنگ کی اور اُسے اعتماد دلایا تو اس نے گل امام تھانے میں رپورٹ درج کروائی جس پر پولیس اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے کچھ گرفتاریاں کیں اورکافی تفصیلات بھی سامنے آگئیں کہ کس کیس میں کرمنل ہیں کس میں ملک دشمن عناصر شامل ہیں۔اسکول واقعے پر انوںں نے بتایا کہ اس پر انٹیلیجنس اداروں کی مدد سے کافی تحقیقات ہوئیں اور گرفتاری بھی ہو چکی ہے۔ ڈی پی او ٹانک نےواضح کیاکہ لوگ ایسے معاملات میں بتاتےنہیں۔وہ ڈرکی وجہ سےمسئلے کو چھپاتےہیں اور رپورٹ تک درج نہیں کرواتےجس کی وجہ سے کئی معاملات پس منظر میں ہی رہ جاتے ہیں جبکہ کچھ ایسےکیسزبھی سامنےآئےکہ جس میں لوگوں کے رقم کی لین دین پر تنازعات تھےاور دوسرے حریف نے رقم کی وصولی کےلئے کچھ کرمینلز کے ذریعے دھمکیاں بھیجیں اور معاملہ بھتے میں آگیا۔ صاحبزادہ سجاد نے کہا کہ ٹھیکدار کی تشویش کہ بھتہ خورروں کو ٹھیکے کی اصل رقم بھی معلوم ہوتی ہے تو اس کی وجہ ٹھیکوں کی ایک سے دوسرے کو منتقلی ہے جس سے اصل مالیت سامنےآجاتی ہے۔ ایسے وقت میں جب دہشتگردی کے واقعات کا بڑھ رہے ہیں تو بات چیت کیوں ؟؟؟؟ دہشتگردی کے واقعات کا بڑھنا اور وزیراعظم عمران خان کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں سےبات چیت کاعندیہ بھی کئی سوالات اٹھانےکاسبب بن رہا ہے۔کیونکہ اس سےقبل بھی2004میں حکومت نے جنوبی وزیرستان میں نیک محمد سےشکئی معاہدہ کیا گیالیکن معاملات کچھ اور طر ف چلے گئے۔دوسرا معاہدہ سراروغہ معاہدہ تھاجو حکومت اور بیت اللہ محسود کے درمیان ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد طالبان کے مزید پھیلاؤ کوروکنا تھا لیکن نتیجہ اس کےبرعکس ہوا۔تیسرا معاہدہ 2008 میں سوات میں ملا فضل اللہ کے ساتھ ہوا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل پایا۔اس کے علاوہ بھی کئی بار بات چیت ہوتی رہی لیکن بات بنی نہیں اور پاکستان کے عوام کو دہشتگردی کی ایک ایسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا جس کا خمیازہ 80ہزار جانوں کی قربانی اور قبائلی علاقوں کی تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور اب ایک بار پھر ان سے بات چیت کی ایک اورکہانی۔کیا ایساہونا چاہیےہاوراس کے کتنے امکانات ہیں کہ بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس پر ہم نے بات کی سابق بیوروکریٹ اور سفیر رستم شاہ مہمند سے کیونکہ رستم شاہ مہمند اس کمیٹی میں شامل تھےجو 2013 میں حکیم اللہ محسود کے ساتھ بات چیت کےلئےبنائی گئی۔ رستم شاہ مہمند کے سامنے جب ہم نے سوال رکھا کہ کیاٹی ٹی پی سے مذاکرات ہونے چاہیئں تو انومں نے کہاکہ ایک رائےتو یہ ہے کہ بالکل نہیں ہونے چاہیئں بلکہ ان کا قلع قمع کرنا چاہیےنلیکن دوسری طرف اگر طالبان کی بات سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ جس طرح آرمی بپلک اسکول واقعے سےقبل ان کے لوگوں کو مارا گیا۔ہیلی کاپٹروں سےپھینکا گیا۔کئی گھر تباہ ہوئے،بچے عورتیں مریں۔جسکا ردعمل آیا تو اس تناظر میں اگر وہ سرنڈر کرتے ہیں تو معافی دینی چاہیئےلیکن جو سرنڈر نہیں کرتے انہیں ختم کر دینا چاہیئے۔ لیکن معافی کی بات تو پہلے بھی ہوئی تھی اور آپ اس کمیٹی کا حصہ تھے ۔ اس سوال پر رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ گزشتہ معاہدے دونوں طرف سےبدنیتی پرمبنی تھےاگرچہ سویلین حکومت بات چیت کر کےمعاملات حل کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ تو اب ایسا کیسے ہوگا؟یہ سوال اہم تھا۔ جس کے جواب میں رستم شاہ نے کہا کہ یہ قبائلی عمائدین کے جرگے کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے ۔کچھ اہم قبائلی عمائدین پر مبنی ایک جرگہ بنایا جائے اور ان کی گارنٹی پر ہی معاملات آگے بڑھائے جائیں اور جو ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو ان کےلئے عام معافی کا اعلان کیا جائے ۔ کیا اس میں امارات اسلامی افغانستا ن کا بھی کوئی تعلق ہے؟ اس سوال پر رستم شاہ مہمند نے کہا کہ امارات اسلامی کے تعاون سے رابطے ہو سکتے ہیں لیکن وہ گارنٹر نہیں ہو ں گےوہ صرف سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کارکی رائے انتہائی اہم ہے خصوصا وہ جو ایسے پراسس کا ماضی میں حصہ رہ چکےہوں لیکن اہم نقطہ جس کی طرف رستم شاہ مہمند نے اشارہ کیا کہ ماضی میں بھی سویلین حکومت بات چیت کرکےمعاملات حل کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ہو نہیں سکااور ایسے کیا عوامل تھے جنومں نے ایسا ہونے نہیں دیا اب کی بار اس پر نظر رکھنی ہو گی۔
کالی کھانسی ایک سال سے کم عمر بچوں کے لیۓ آج بھی ایک خطرناک بیماری تصوّر کی جاتی ہے ۔لیکن خدا کا شکر ہےکہ سائنسی میدان میں ترقی کی بدولت یہ بیماری بہت حد تک کم ہو گئی ہے ۔ یہ بیماری ایک بیکٹیریا بنام (Bordetella pertussis ) سے وجود میں آتی ہے اور اس بیماری کی حالت میں بیمار کے ارد گرد کے افراد کو بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے ۔ اچھوتی بیماری ہونے کی وجہ سے بیمار کے گھر والوں کو چاہیے کہ وہ محتاط رہیں ۔ جن بچوں کو اس بیماری کی ویکسین ہو چکی ہو وہ بیمار کے نزدیک جانے پر اس بیماری سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ بیماری مختلف طریقوں سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے ۔ مثلا ٭ جب اس مرض کا شکارمریض کھانستا ہے تو بیماری کے جراثیم ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں اور اسی فضا میں سانس لینے والا کوئی بھی دوسرا فرد سانس لینے کے دوران نظام تنفس میں ان جراثیم کو لے جا سکتا ہے جو بعد میں بیماری کا باعث بن سکتے ہیں ۔ ٭ جن لوگوں نے اس بیماری کی ویکسین کروا رکھی ہو ،وہ اس بیماری سے بہت کم دچار ہوتے ہیں یا محفوظ رہتے ہیں ۔ ٭ اس بیماری کے جراثیم مریض کی پہلی چھینک سے لے کر آٹھ ہفتوں تک دوسرے افراد کے لیۓ بیماری کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اس بیماری کے دورانیے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ 1۔ catarrhal stage یہ دورانیہ تقریبا ایک سے دو ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس دورانیے میں علامتیں نظام تنفس کے بالائی حصے میں پائی جانے والی بیماریوں کی علامتوں کی طرح ہوتی ہیں مثلا ناک سے پانی بہنا ، ناک بند رہنا ،چھینکوں کا آنا ، ہلکی پھلکی کھانسی اور کم درجے کا بخار وغیرہ ۔ 2۔paroxysmal stage اس کا دورانیہ مختلف ہے ،یہ ایک سے چھ ہفتوں پر یا ایک سے دس ہفتوں پر مشتمل ہو سکتا ہے ۔ اس میں مریض زیادہ شدت کے ساتھ کھانستا ہے ۔ رات کے وقت بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے اور چوبیس گھنٹوں میں تقریبا 15 بار اس بیماری کا حملہ ہو سکتا ہے ۔ اس حالت میں مریض کا رنگ زرد یا نیلا بھی ہو سکتا ہے اور الٹی آنے کا بھی امکان ہوتا ہے ۔ 3۔ convalescent stage اس کا دورانیہ مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے ۔ اس مرحلہ میں مریض کا مرض پرانا اور کرونک ہو جاتا ہے ۔ کھانسی میں زیادہ شدت نہیں رہتی ہے ۔ احتیاطی تدابیر : ٭ بیمار کو دوسرے افراد سے علیحدہ کر دیں اور مریض کے قریب جاتے ہوۓ ماسک کا استعمال کریں ۔ ٭ اس بیماری کی حالت میں جسم میں پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے اس لیۓ مریض کو چاہیے کہ وہ پھل،زیادہ پانی ،جوس اور سوپ کا استعمال کریں ۔
کراچی : ایس این جی پی ایل نے صارفین کو ایل پی جی سلنڈر کی سپلائی کا آغاز کر دیا، موسم سرما میں سرکاری نرخوں پر سلنڈر فراہم کیے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے گیس کے بحران سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی تیار کرلی۔ سوئی ناردرن کا کہنا ہے کہ صارفین کو ایل پی جی سلنڈر کی سپلائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، موسم سرما میں سرکاری نرخوں پر سلنڈر فراہم کیے جائیں گے۔ کمپنی نے بتایا کہ ایل پی جی سلنڈرز گھریلو،کمرشل صارفین کوسپلائی کئےجائیں گے، ایل پی جی سلنڈرز پنجاب کے 5 بڑے شہروں میں سپلائی کئے جا رہے ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ایس این جی پی ایل اسلام آباد آفس کے 10 کلومیٹر ایریا میں فری ڈیلیوری میسر ہے۔ یاد رہے سوئی ناردرن کمپنی کی جانب کہا گیا تھا کہ موسم سرما میں گیس کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے، صارفین گیس بحران سےنمٹنے کی تیاری کر لیں۔ ذرائع سوئی ناردرن کمپنی نے کہا تھا کہ کہ مقامی گیس ساڑھے 750ملین کیوبک فٹ مل رہی ہے اور درآمدی آرایل این جی ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی کےلگ بھگ ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ گیس کی طلب میں اضافہ شروع ہوگیا ہے ، جس سے شارٹ فال اس سال بلند ترین سطح پرجائے گا۔
کراچی: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج بھی تیزی دیکھنے میں آئی، 100 انڈیکس 40 ہزار 641 پوائنٹس پر بند ہوا۔ تفصیلات کے مطابق کاروباری ہفتے کے چوتھے روز جمعرات کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ایک بار پھر تیزی دیکھی گئی۔ 100 انڈیکس میں 370 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس کے بعد دن کے اختتام پر انڈیکس 40 ہزار 641 پر بند ہوا۔ ایک دن میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 50.74 کروڑ شئیرز کا ریکارڈ لین دین کیا گیا، اسٹاک مارکیٹ میں 39.93 ارب سے بڑھ کر 20 ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سے اسٹاک مارکیٹ میں بے حد تیزی دیکھی جارہی ہے۔ رواں کاروباری ہفتے کے پہلے روز پیر کو 100 انڈیکس 40 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کر گیا تھا۔ پیر کے روز دن کے اختتام تک 100 انڈیکس میں 836 پوائنٹس کا اضافہ ہوا تھا جس کے بعد 100 انڈیکس 9 ماہ بعد 40 ہزار کی سطح عبور کر کے 40 ہزار 124 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔
غالب نے ایک بار کہا تھا کہ ہر مکان اپنے مکین سے شرف پاتا ہے۔ جبکہ ہر دونوں ایک دوسرے کی کیفیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ اگرچہ آرائش کا سلیقہ کسی پرشکوہ نشیمن کا محتاج نہیں، تاہم تعمیراتی زیبائشوں کو دنیا کی ہر ثقافت میں، آبادیاتی شناخت کے ظاہری اظہار کے ساتھ ساتھ تحدیثِ نعمت کی ایک ادا سمجھا جاتا ہے۔ خط اور خطاطی ایسی زیبائشوں میں ایک نمایاں شناختی نشان و بیان ہے۔ صدیاں پہلے کے متوسط آدمی کے رہن سہن کے دھندلے سے سراغ اُس کے وقت میں لکھی گئی محلاتی تاریخ سے کہیں کہیں ملتے ہیں، اور اب تک مٹی میں مل چکے اس کے گھر کے چہرے مہرے کی ہلکی سی جھلک اُس کے زمانے میں بنی اُن پرشکوہ عمارتوں سے کہیں کہیں منعکس ہوتی ہے، جن میں سے کچھ کے نام و نشان ابھی باقی ہیں۔ یہاں میں اُس آدمی کی شناخت، دائیں سے بائیں ایک مشترک رسم الخط میں لکھی گئی ایک سانجھی روایت سے کروں گا، جس کے اَن گنت نام ہیں لیکن میرے نزدیک وہ روایت ایک اُلوہی مکاشفے سے کہیں زیادہ ایک تاریخی و جغرافیائی سچائی کی طرح ہے۔ کہ جب وہ شعوری روایت گنگ و جمن کے دوآبے میں پھل پھول رہی تھی تو فتح پور سیکری والے لال پتھر میں بنی جھلملیوں سے لے کر آگرے کے سنگِ مرمر والے خواب میں پلے امانت خاں کے طغروں تک، عمارتیں دن بہ دن اپنے روپ اور رُوکار کو سنوارنے میں لگی ہوئی تھیں۔ جن کے آگے تغلقوں اور لودھیوں کے عہد میں کھردرے سنگِ سماق سے بنائی گئی عمارتوں کے چہرے یوں لگنے لگے جیسے کسی نوواردانہ جلدبازی میں بنے ہوں۔ لیکن عربانِ صقلیہ سے چلے آرہے زیبائشی آویزوں کے ذوق و شوق کا تواتر عہد سلاطین سے اِس منزل تک کبھی بھی معطل نہیں رہا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں باوجودِ زوال، صفدر جنگ اور بی‌بی کا مقبرہ بنا تو دلی میں اُن زیبائشوں کے چرچے گھر گھر پہنچے۔ اِس مقام تک، خطاطی کا فن ہر طرحدار عمارت کے حسن کا ایک لازمی جزو رہا۔ تنزل کی نوبت بجی تو یورپ سے آئے نیو-گاتھک اور نوکلاسیکی اسالیب، راجپوتی حویلیوں اور مغلئی محلات کے ساتھ ایک رومانویتی پیوند بنا کر اپنے سے عجائب کھڑے کرنے لگے۔ یہاں عمارتی نوشتوں کی بات کریں تو ایسا لگتا ہے کہ بلاغتی کتیبوں کا جو ذوق اہلِ یورپ کو بلادِ روم سے ملا تھا، یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس کی معنویت اور اعتبار شاید ماند پڑ گیا تھا۔ راج بدلا تو روایتی بنگالی گھر اور متوسط وکٹوریائی گھر کے امتزاج سے بننے والا "بنگلہ” ہر شخص کے لیے سپنوں کے گھر کے لیے ایک مترادف لفظ بن گیا۔ لیکن اب گھروں کی شان و شوکت کا معیار رنگ برنگی آرائشوں سے زیادہ جدید سہولیات تھیں۔ نئے تعمیری مواد اور تکنیکیں آ رہی تھیں اور ان ڈھانچوں کی رگوں میں بجلی کی طاقت دوڑ رہی تھی۔ صنعتی انقلاب نت نئے نعروں کو جنم دے رہا تھا اور بیسویں صدی کے اوائل سے ہیئت کا قبلہ پوری طرح مقصدیت کی طرف موڑ کے آرائش کو زور و شور کے ساتھ مطعون کیا جانے لگا۔ شہروں میں گھر اور دفتر دودھیا سفید رنگ کی سپاٹ مسطح دیواریں تھیں، کہیں کسی پیشانی پر کسی پھول کی استرکاری، شاذ کسی کگر پر کسی بیل بوٹے کی منبّت۔ مقصدیت کے فرمان پر اگر کسی نوشتے کے دم مارنے کی گنجائش تھی تو بس اتنی کہ دو چار بالشت کی مستطیل پر کوئی خبری کتیبہ اٹکا سکتے ہو۔ جس کے لیے نہ آرائش کی کچھ خاص حاجت ہے نہ ذوق سلیم کی کوئی حجت۔ کوئی طے شدہ نام، تاریخ یا عدد ہو۔ کتیبہ ہو، آویزہ نہ ہو۔ کتابت ہو، خطاطی نہ ہو۔ 1857ء کی شکست کا تاریخی ملبہ نوے سال بعد جس "ارض المیعاد” پر گرا تھا، اس کے مقامی باسیوں کا تاریخی تجربہ، گنگ و جمن میں پچھڑ کے آنے والوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ انہیں اُس صدی نے نوکلاسیکی اور جدیدی وضع کے جو در و دیوار دیے تھے، انہی میں پڑ رہے۔ 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں جدیدیت کے سفید دودھیا مقصدیت پسند ڈبے پھیلنے، پچکنے اور رنگوں میں ڈھلنے لگے۔ لیکن تنوّع اور رنگارنگی کے اثبات میں ابھرا نیا مابعدی طرزِ تعمیر یہاں تک آیا بھی تو گلوبلائزیشن کے ڈبے میں بند ہو کر۔ کہنے کو عمارتیں اب آنے جانے والوں سے کھل کر کلام کر رہی تھیں، لیکن ہمارے یہاں یہ بھی زبانِ غیر کا کلام ہی رہا۔ عمارتیں ایک دوسرے سے جتنی مختلف نظر آتی تھیں، اتنی ہی یکساں بھی تھیں۔ شہری پسار میں نت نئے رہائشی منصوبوں والے متوسط گھروں سے لے کر کام کاج کے کثیر منزلہ دفاتر تک، اب روکاروں پر سیاہ، سرمئی، بھورے خالی کینوس ابھر رہے تھے۔ ان نئی گنجائشوں سے اتنا تو ہوا کہ دیسی کلاسیکی عناصر سے کوئی جھروکا، کوئی شہتیر کہیں بیچ میں سمایا ہوا نظر آ گیا، لیکن شناخت کے بحران میں لپٹی شاید بہت کم ثقافتیں ایسی ہوں گی جو دیسی کلاسیکیت کی طرف سیدھی رجعت کیے بغیر ان گنجائشوں سے کچھ فائدہ اٹھا سکی ہوں۔ یہ طرز تعمیر، خطاطی سمیت بظاہر ایسی کسی زیبائش سے مانع نہیں ہے جو ایک خطے کو کسی خاص مشترک توارث سے متعلق کسی لڑی میں پرو سکتی ہو۔ لیکن اس گنجائش کے ہوتے ہوئے، عمیق تر فنی اظہار کے بلاغتی کتیبوں کی بات کریں تو زیبائشی غرض سے عمل میں لائے گئے کلاسیکی خطاطی کے بچ رہے اسالیب کے لیے خدا کے گھر کے سوا کوئی جائے امان بہت کم نظر آتی ہے۔ دنیاوی استعمال کی عمارت پر لکھنے کو کچھ رہا بھی تو نہیں۔ وحی و الہام یا مقدس اسماء سے سجاوٹ کریں تو حدّ محال تک مشکل بنا دیے گئے تقدیس کے امر و نواہی کا بوجھ کس گناہ‌گار کے کاندھے اٹھائیں۔ یا پھر کلاسیکی شاعری کو چنیں، جو گائیکی کی بندشوں سے لے کر تعمیراتی گنجائشوں تک، دوسرے فنون کے ساتھ سما جانے کے لیے، صنائع اور اوزان میں تشاکل و تناسب کے ہر ریاضیاتی میزان پر تو پوری اترتی ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس کے نفسِ مضمون میں سوائے حسرتِ تعمیر کے، باقی بیشتر مضامین ان مقاصد کے لیے فارغ از کار، کم متعلق اور قصۂ پارینہ سے لگتے ہیں۔ نئے زمانے کی سٹپٹاہٹ سے پھوٹنے والی جدید اصنافِ نظم کو اٹھائیں تو ایک مصرع ڈیڑھ اینٹ کے ماپ پہ لکھا جائے اور اگلا مصرع سمانے کے لیے پورے تعمیری منصوبے میں ہی چند کنال توسیع کرنی پڑے۔ ایسے میں کوئی سلام و پیام، کوئی نعرہ، کوئی واحد تحریری اصول، عہدِ رواں کی خانگی و عملی گتھیوں کو خط کشیدہ کرنے میں کافی نہیں لگتا۔ متوسط آدمی جس کے گھر اور کارگاہ کو عہدِ جدید نے اُن سہولیات سے آراستہ کر دیا ہے جو ماضی میں بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں، لیکن وہ اپنی زیرِ بحث اجتماعی شناخت میں رہ کر، ایسی کسی جدید آسائش کی اختراع کے عمل میں اپنی کوئی نمایاں عملی شمولیت نئی دنیا کے آگے نہیں جتا سکتا۔ بیدل دہلوی: سطرے نہ نوشتم کہ نہ کردم عَرَق از شرم مکتوبِ من از خجلتِ پیغام سفید است عام آرائشی مقاصد کے لیے بنے بلاغتی آویزوں میں "ما کَتَب” کا ایک اشکال یہ بھی ہے کہ سوچے سمجھے لسانی معنوں کا حامل مفہوم ابھارنے کا عمل دیگر سبھی مفاہیم کے لیے منہائیت کا امکان پیدا کرتا ہے۔ مثلاً صرف خدا کے فضل کا ذکر کیا تو گویا خدا کے قہر سے اغماض برتا، گل و گلزار کی توصیف لکھی تو ایک طرح سے خارِ خزاں سے نظر چرائی۔ پھر یوں بھی ہے کہ مستعمل رسم الخط نے ہمیشہ، اپنے دوائر، نقاط اور نزول و صعود کی مانوس جمالیات کے ساتھ ہمارے جغرافیائی حیطے میں بیسیوں مختلف لسانی اکائیوں کے لیے تاریخی و شعوری وحدت کا کام دیا ہے۔ تو منظرِ عام کی کسی خطی آرائش کو کسی ایک زبان میں مقید کیا ہی کیوں جائے۔ نیز یہ ایک جملۂ معترضہ سہی، لیکن میرا ماننا ہے کہ غلبے کی جدلیات میں خواندگی کا عمل اکثر و بیشتر، فطری اور بےساختہ کی سرکوبی کر کے اسے متمدن اور مصنوع میں ڈھالنے کا آلہ بنتا رہا ہے، جو کہ بجائے خود بہیمانہ ہے۔ عمارات کی زیبائشی خطاطی میں خواندگی کی ضرورت عنقا ہونے میں بیشتر شرق نگار مصوروں کی مشرقی عمارات کی تصویر کشی ایک مثال ہے۔ انیسویں صدی میں ایڈون لارڈ ویکس کی بنائی مشہور پینٹنگ "جمعہ مسجد – لاہور، انڈیا” کی مثال لیں جس میں مسجد وزیر خاں لاہور کے داخلی راستے کی رُوکار دکھائی گئی ہے۔ پیش‌تاق کے اوپر پیشانی پر کلمۂ طیبہ پر مشتمل عبارت ہے جسے ہو بہو نقل کیا گیا ہے۔ جبکہ دائیں طرف چوکھٹے پر جہاں تعمیر کی سرپرستی کرنے والوں اور تاریخِ تعمیر سے متعلق معلومات ہیں، وہاں متن کو نقل کرنے کی بجائے ایک ناخواندہ سے تجاہل کے ساتھ نستعلیق نما لکیریں سی کھینچ دی گئی ہیں۔ اسی رو میں نیچے دائیں طاقچے کی رباعی سے بھی یونہی صرفِ نظر کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مصور کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ وہاں خواندگی کے عنقا ہونے سے عمارت کے مجموعی حسن کے انعکاس میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اس کی ایک وجہ تو مصور اور فن‌پارے کے ممکنہ ہم‌وطن خریدار کا ایک خارجیانہ سا ان‌پڑھا پن بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک گمان یہ بھی ہے کہ پیشانی کی عبارت، جو کہ ایک بلاغتی کتیبہ ہے، اور عمارت کی اعلیٰ تر غایت و رتبہ سے متعلق ہے، اور افراد و حالات سے ماورا ہے۔ ہو سکتا ہے، جبھی اسے تصویر میں رکھ لیا گیا ہو، جبکہ دائیں کا چھوٹا چوکھٹا ایک خبری کتیبہ ہے اور اس میں دیے گئے افراد و حالات سے مصور کے وطن میں ایک متوقع خریدار کو شاید کوئی دلچسپی نہ ہو۔ لیکن یہاں موضوع کسی مذہبی عمارت کی محض تصویر کشی نہیں، بلکہ دنیاوی مقاصد کی ایک حقیقی عمارت ہے، جس کی وجہ سے ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خبری کتیبوں کے خانے میں ماکَتَب اور اس کی خواندگی سے کوئی اغماض نہیں۔ لیکن آرائشی خطاطی کی گنجائشوں میں ایک ایسے حال اور مستقبل کی کیفیت کے متعلق ایک لاادری بیان دینا یہاں مقصود ہے، جو معلوم اور متعین نہیں ہے۔ خط اور زبان کا ربطِ باہم برقِ راعد کی کڑک اور چمک کا سا ہے۔ جو آسمان پر بیک وقت صادر ہوتے ہیں لیکن مشاہدے کی منزل تک دونوں اپنی اپنی رفتاروں سے پہنچتے ہیں۔ زبان و خط کا صدور بھی ایک ہی تقاضے یعنی اظہار اور ابلاغ کی حاجت سے ہوا ہے، لیکن ارتقاء کی پگڈنڈی پر دونوں اپنی اپنی رفتاروں سے چلتے ہیں۔ قدیم اور متوسط تاریخ میں رسمی زبان اور خط ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ساتھ چلتے رہے ہیں، اور بامعنی الفاظ کی اقلیم سے پرے خط آرائی کا خالص اور مجرد اظہار پرانے وقتوں میں نہیں ملتا۔ تاہم انیسویں صدی میں ‘سیاہ مشق’ کا چلن نکلنے سے خطاطی میں خواندنی زبان کے پچھڑ جانے کی پہلی نمایاں جھلک ملتی ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یورپی نوآبادیات کے مکمل خاتمے کے ساتھ شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی نوآزاد شدہ اقوام کے ہاتھ اپنی تاریخ کا قلمدان واپس آیا، لیکن اپنی کہانی خود لکھنے میں ایک ایسا تحیر شامل حال تھا کہ لکھنا تو جانتے ہیں، لیکن یہ نہیں جانتے کہ کیا لکھا جائے۔ عرب دنیا میں حروفیہ تحریک سے وابستہ فنکاروں نے قومی جمالیاتی عناصر کی عکاسی پر زور دیا اور عربی رسم الخط کی بصری ردِتشکیل سے نیا آرٹ تخلیق کیا۔ بغداد سے ‘بُعد الواحد’ کے فنکاروں نے اپنے بیشتر آرٹ میں رسمی زبان کی جہت سے کُوچ کر کے لکھت کی بصری جہت سے باطنی کیفیات کے اظہار کا طریق اپنایا۔ ایسا ہی رجحان مکتبِ خرطوم کے ہاں بھی ملتا ہے۔ ایران میں سقاخانہ تحریک کے آغاز سے تجریدی خطاطی، جدید ایرانی آرٹ کی نمائندہ ترین شکلوں میں سامنے آئی جس کی بدولت خطاطی اور نقاشی کے امتزاجی تجربات نے ‘خطاشی’ کی روایت کو جنم دیا۔ آج تجریدی خطاطی ہمیں نقاشی سے لے کر مجسمہ سازی تک کئی ذرائعِ اظہار میں جلوہ نما نظر آتی ہے۔ ان نمونوں نے ملبوسات، زیورات اور ظروف سمیت بیشتر اشیائے زندگی کی تزئین میں اپنا اثر ثبت کیا ہے۔ تاہم عمارات کی حد تک اس کی نئی ہیئتیں، کیلی‌گرافٹی کی شکل میں ابھی تک آوارۂ کوچہ و خیابان ہیں، اور جدید عمارات کے ایک مجسم اور پیوستہ حصے کے طور پر تجریدی خطاطی کا عام آرائشی استعمال میں دخیل ہونا ابھی باقی ہے۔ تجریدی خطاطی کی تعریف کو میں صرف کلاسیکی خطاطی کے ہندسی نظاموں سے انحراف میں ہی نہیں بلکہ خواندنی الفاظ لکھنے کی تراکیب سے بھی کوچ میں پاتا ہوں۔ ایسی خطاطی کا ہر نمونہ، فی نفسہٖ، لفظوں میں نہ سما سکنے والی کیفیات اور احساسات کے ایک دقیق اور پُرپیچ اِیڈیوگرام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس طرزِ اظہار کے باطن میں فنکارانہ اظہارِ ذات کے متعلق ایک ویسا ہی لاادری لب و لہجہ ہمیں ملتا ہے، جو جدیدیت کے عروج سے ہماری زندگیوں میں آنا شروع ہوا تھا۔ سو مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ کلاسیکی خطاطی والے سخت گیر قواعد سے آزاد ہونے کی بدولت تجریدی خطاطی وہ کشادہ ترین دریچہ ہے، جس کے ذریعے معاصر طرزِ تعمیر میں اپنے خط اور اس کے ساتھ وابستہ اجتماعی حافظے کو ایک جدید، طرحدار اور پُر امکان گھر فراہم کیا جا سکتا ہے۔
"فلاں کی ناجائز اولاد ہے”؛؛؛ یہ وہ الفاظ ہیں جو آئے روز ہماری سماعت سے ٹکراتے ہیں. یہ وہ ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں پوری طرح اپنے قدم جمائے ہوئے ہے. کیونکہ ہمارے معاشرے میں "محبت "اور "سچی محبت "کا دعوی کرنے والے بہت سے افراد ہیں. جن کی محبت کے ثبوت کسی شاپر، کسی ڈبے کے اندر، کسی کچرا کنڈی، کسی گلی کی نکڑ، کسی سڑک کنارے، چیپا یا عیدی کے جهولے میں زندہ یا مردہ حالت میں نظر آتے ہیں. اس سے بڑھ کر لمحہ فکریہ کیا ہوگا؟ یہ تو چند کیسیز ہوتے ہیں جو ہماری نظر سے دو چار ہوتےہیں ورنہ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں یہ گناہ کبیرہ سر زد ہو رہے ہیں. اس ناجائز عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد اور تلخ الفاظ میں حرام زادے کہا جاتا ہے. درحقیقت ناجائز وہ خداکی فطرت پر پیدا ہونے والے معصوم پهول نہیں بلکہ ان دو غلیظ افراد کا تعلق ہوتا ہے جن کس عشق اس جملے سے بهڑک اٹهتا ہے کہ "محبت اور جنگ میں سب جائز ہے”. اور کچھ ہی عرصہ میں ان کا یہ جسمانی عشق کسی جهاگ کی سی صورت ختم ہو جاتا ہے. شاید وہ بد تہذیب لوگ یہ نہیں جانتے کہ محبت اور جنگ میں خود کو قربان کرنا اور اپنی قربانی سے دوسروں کو سکون اور خوشی دینا تو جائز ہے مگر کسی بےگناہ کی جان لینا، پیدائش سے قبل ختم کر دینا یا پیدا کر کے لوگوں کی شعلے اگلتی سوچ کی نظر کر دینا ہرگز جائز نہیں.اور تعجب کی بات تو ہہ ہے کہ جب تک معاشرہ اس حقیقت سے لاعلم ہوتا ہے اس وقت تک وہ بچہ جائز بهی ہوتا ہے اور انسان بهی… مگر جیسے ہیہم حقیقت سے سے آگاہ ہو جاتےہیں اس وقت وہ بچہ نہ تو انسان رہتا ہے اور نہ ہی جائز… اس وقت وہ صرف حرام زادہ ہوتا ہے جسے معاشرے میں عزت سے جینے کا کوئی حق نہیں. وہ لوگ جو خود غلیظ ہوتے ہیں وہ اس بچے کو پیدا کر کے ہا اس سے قبل ہی ختم کر کے دودھ میں سے مکهی کی طرح نکل کر صاف ہو جاتے ہیں… جب تک محبت کے اس کهیل میں ان کا یہ ناجائز تعلق برقرار رہتا ہے اس وقت تک سب ٹهیک ہوتا ہے مگر جیسے ہی انہیں جائز تعلق قائم کرنے کا کہا جائے تو انہیں اپنی ذات برادری، رنگ و نسل، مذہب، فرقہ، خاندانی رتبہ،ماں باپ کی محبت، عزت اور احساس یک دم کسی الہام کی سی صورت یاد آ جاتا ہے جو پہلے ان کے ضمیر کے ساتھ کہیں مر چکا ہوتا ہے. اس کار شر میں سب سے زیادہ قصور اور نقصان عورت کا ہوتا ہے. کیونکہ ہمارے ہاں ایک رواج یہ بهی ہے کہ مرد تو پهر مرد ہے… مرد کا گناہ بهی قابل معافی ہے اور عورت کی غلطی بهی واجب القتل… حیرت اس بات پر ہے کہ جو کم ظرف، کمزور اور ند تہذیب لوگ اپنی محبت کو پاکیزہ نام دینے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ناجائز تعلق قائم کر کے اولاد پیدا کرنے کی ہمت کہاں سے لاتے ہیں… شاید وہ سمجھتے ہیں کہ رات کی تاریکی اور اندھیرے میں چهپ کر انہیں کوئی نہیں دیکھ پائے گا… مگر کوئی تو ہے جو ان کے ہر عمل سے باخبر ہے.
جب انٹرنیٹ کا استعمال بڑھا، ساتھ ہی اِس کہاوت کا استعمال بھی زور پکڑنا شروع ہوا کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے۔ جیسا کہ عمومی خیال ہے گاؤں میں ہر شخص کو دوسرے کی زندگی، معاملات اور معمولات کی مکمل سُن گُن ہوتی ہے، ویسے ہی بذریعہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، دنیا میں بسنے والا ہر شخص دوسرے سے جُڑا ہوا ہے۔ کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں جو سب سے بڑا چیلنج پیش آیا وہ اسی میل ملاپ کو ختم کرنا تھا، شاید اسی لیے چین کے شہر ووہان سے نمودار ہونے والا یہ وائرس پوری دنیا میں دنوں کے حساب سے پھیلا کیونکہ دنیا واقعتاً ایک گلوبل ویلیج ہے۔ گلوبلائزیشن کے معنی کیا؟ آج کل یہاں مہنگائی کی جو توجیہات پیش کی جارہی ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہماری معیشت درآمدات پر زیادہ انحصار کرتی ہے لہٰذا عالمی سطح پر قیمتیں بڑھنے کا اثر پاکستان پر بھی ہوتا ہے۔ عالمی منڈی کا ذکر ہم خام مال، ادویات اور پیٹرولیم مصنوعات کے ذکر میں خصوصاً سنتے ہیں۔ ابتدائی چند سطور میں ہم یہ ذکر کر چُکے کہ گلوبلائزیشن کا یہ سفر کس طرح سے طے ہوا اور دنیا کے سبھی ممالک کیسے ایک اندیکھی لڑی میں پروے ہوئے ہیں جہاں ایک میں تبدیلی کا اثر دوسرے پر ضرور ہوتا ہے۔ آج کی تحریر میں مگر عالمی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں ہونے والی اونچ نیچ کے پاکستانی مارکیٹ پر اثرات کے بارے میں ہے۔ رکس گلوبل کمرشل پراپرٹی مانیٹر کا کہنا ہے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں عالمی طور پر تیزی اور مندی کے رجحانات کا اثر کسی نہ کسی حد تک تمام ممالک کے ریئل اسٹیٹ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح سے کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ریئل اسٹیٹ ٹرینڈز کی ایکسچینج بھی ہوتی رہتی ہے۔ کچھ عالمی حقائق کی روشنی میں اِس سیکٹر کی عالمی سطح پر اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگائیں کہ سال 2020 میں عالمی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کا حجم 326.6 ٹریلین ڈالر تھا۔ کچھ مزید چونکا دینے والے حقائق کے مطابق گلوبل ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کا 40 فیصد حصہ ایشیا پیسیفک ریجن کنٹرول کرتا ہے جبکہ مغربی یورپ کے پاس 24 فیصد مارکیٹ شیئر ہے۔ چین میں 1.4 ارب لوگ رہتے ہیں اور یہ گلوبل ریزیڈینشل مارکیٹ کا 30 فیصد حصہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ امریکہ اس ضمن میں دوسرے نمبر پر آتا ہے جو کہ 11 فیصد حصے پر قابض ہے۔ چین، امریکہ، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس، ساؤتھ کوریا، کینیڈا، اٹلی اور آسٹریلیا تقریباً 75 فیصد گلوبل ریزیڈینشل ریئل اسٹیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عالمی ریئل اسٹیٹ میں افریقہ کے پاس سب سے کم مارکیٹ ویلیو ہے۔ فی کس آمدن کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے تعلق رئیل اسٹیٹ میں قوتِ خرید ہی سب سے اہم پہلو ہے جس کا ڈائریکٹ تعلق فی کس آمدن یعنی جی ڈی پی کے ساتھ ہے۔ جہاں جہاں فی کس آمدنی زیادہ ہوگی اور لوگ خوشحال ہوں گے، ہمیں اس بات کے آثار وہاں کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے نظر آئیں گے۔ عالمی بینک کے مطابق کسی بھی ملک کی معاشی ویلیو کا 70 سے 80 فیصد حصہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر ہولڈ کرتا ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے مختلف ممالک کو کم لاگت ہاؤسنگ یونٹس کی کمی کا سامنا رہتا ہے تاہم اسی ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے نہ صرف مختلف ملکوں میں ہاؤسنگ شارٹ فال کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور معاشی نمو کیلئے درکار ماحول کا فروغ بھی ہوسکتا ہے۔ عالمی ٹرینڈز اور پاکستان کورونا وبا نے عالمی سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا تاہم ہم نے دیکھا کہ پاکستان سمیت مختلف ممالک نے لاک ڈاؤن کے بعد تعمیراتی سیکٹر کو کھول کر ہی کورونا وائرس کے معاشی اثرات کا مقابلہ کیا۔ عالمی سطح پر ہم نے دیکھا کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کوویڈ 19 کے دوران ریزیڈینشل فلیٹس اور چھوٹے یونٹس کی قدر و قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تو پاکستان میں بھی یہی پیٹرن نمایاں رہا۔ اسی طرح سے عالمی طور پر ورک فرام ہوم ماڈل کی وجہ سے کمرشل پراپرٹیز کی قیمتوں میں فرق ضرور پیدا ہوا اور یہی اثر پاکستان پر بھی رہا۔ اب لوگ اپنے گھروں کی تعمیر میں دفتری اُمور کو نمٹانے کیلئے ایک مخصوص جگہ ضرور رکھتے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران جہاں مختلف ممالک کی ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹس میں کمی ہوئی، وہیں متحدہ عرب امارات نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے دس سالہ ریزیڈنسی ویزا پروگرام شروع کیا اور قوانین میں نرمی لائی تاکہ ریئل اسٹیٹ سرمایہ کاری کا فروغ ہوسکے۔ پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی گزشتہ تین برسوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ون ونڈو آپریشن، ٹیکس مراعات، مارگیج فنانسنگ، کم لاگت ہاؤسنگ یونٹس کے وسیع پلانز، کیڈسٹرل میپنگ، ماسٹر پلانز کی از سر نو تیاری، قبضہ مافیا سے اراضی کا واگزار ہونا اور قوانین کو جدید خطوط پر لے کر آنا شامل ہے جو کہ سب اُس عالمی پیٹرن کا حصہ ہے جہاں ہم ریئل اسٹیٹ کے حقیقی پوٹینشل کے ادراک سے ملکوں کو خوشحالی کے منازل طے کرتا دیکھتے ہیں۔
٭… پیغمبرﷺ کے نعلین کی شبیہ کو سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر ’ایتھرا‘ میں نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔ ’ہجرت : رسول پاک ﷺ کےنقشِ قدم‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس نمائش کا بنیادی مقصد نبی مہربان ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت پر روشنی ڈالنا ہے۔ اس نمائش میں پیش کی جانے والی نبیﷺ کے نعلین کی شبیہ کو اندلس کے کاریگروں نے تیار کیا ہے۔ مراکش سے تعلق رکھنے والے 1287ء کے دور کے مشہور محدث ابن عساکر کے مطابق نعلین کی یہ نقل1300ء میں بنائی گئی تھی۔ ہجرت اسلامی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے اس کے دوران پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی پر روشنی ڈالنے والی یہ نمائش 9 ماہ تک جاری رہے گی جو ریاض، جدہ اور مدینہ میں منعقد کی جائے گی۔ ایتھرا کے ڈائریکٹر عبداللہ الراشد کے مطابق یہ صرف ایک نمائش نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل پراجیکٹ ہے جسے بے مثال اور جدید انداز میں پیش کیا گیا ہے، یہ ایک موبائل گلوبل شو ہے۔ ہجرت اسلامی قمری کیلنڈر کے آغاز کی علامت ہے، اس نمائش میں نوادرات کا ایک مجموعہ، 14 انٹرایکٹو اسٹاپز جسے مقامی اور غیر ملکی ماہرین نے شاندار طریقے سے ڈیزائن کیا ہے، ہجرت کی کہانی پر مبنی ایک کتاب اور دستاویزی فلم بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے۔ ٭… آسٹریلیا نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر مزید تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کسی بھی امن مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر اس مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔آسٹریلیا دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے۔ واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018ء کے فیصلے کے بعد آسٹریلیا کی سابق حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ ٭…بھارت کے شہر ممبئی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کونسل کے رکن کی حیثیت سے بھارت اقلیتی برادریوں سمیت تمام افراد کے حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی کونسل کے رکن کی حیثیت سے بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، طلبا اور اساتذہ کی آزادی اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔اپنے ملک میں انسانی حقوق کا احترام ہی بھارتی موقف کو عالمی فورم پر قابل اعتبار بنا سکتا ہے۔ خواتین کو آگے بڑھانے کےلیے بھارت کو مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ٭…روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین سے قبضے میں لیے گئے 4 الحاق شدہ علاقوں میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ روس نے یوکرین کے چار علاقوں کھیرسن، زپوریزہیا، ڈونیٹسک اور لوہانسک کے ساتھ الحاق کا دعویٰ کیا تھا۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں روس کے ان چار علاقوں میں مارشل لا کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔ ٭… امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ امریکی اور پاکستانی حکام باقاعدگی سے ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں، ایسی ملاقاتیں اسٹینڈرڈ پریکٹس ہیں۔ پاکستانی سفیر کی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میٹنگ پر ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔بہت کم ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کی طرح دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہوں، انسداد دہشت گردی ہمارے مشترکہ مفادات کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان جیسی تنظیمیں خطے کے لیے خطرہ ہیں، دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری چاہتے ہیں۔ عالمی اور علاقائی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کے ایکشن کی توقع رکھتے ہیں۔ ٭…امریکا کے سینئیر ڈیمو کریٹ سینیٹر کرس وان ہالن (Chris Van Hollen ) نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کا بیان بےساختہ تھا، امریکی پالیسی میں کوئی ردوبدل نہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی وضاحت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ صدارتی بیان جان بوجھ کر نہیں دیا گیا تھا، ہم پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات کے خواہاں ہیں۔ سینیٹر کرسوان ہالن نے مزید کہا کہ سیلاب اور اس سے نمٹنے کے اقدامات کے باعث دو طرفہ رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔امریکا مسلسل پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے کہ ان کی کس طرح مزید مدد کی جا سکتی ہے۔ ٭…امریکا نے کہا ہے کہ چین تائیوان کے ساتھ ضم ہونے کے منصوبے کو توقع سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھا رہاہے، امریکا نے تائیوان کے دفاع کے لیے حمایت کا اعادہ بھی کیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ بلنکن کا کہنا ہے کہ چین نے تائیوان کے معاملے پر اسٹیٹس کو، کو نہ ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین، تائیوان کے ساتھ پرامن طریقے سے ضم ہونے کےمنصوبے میں ناکامی پر ممکنہ طور پر طاقت کا استعمال بھی کرسکتا ہے۔ امریکا تائیوان کے دفاع کی حمایت جاری رکھے گا۔ ٭…ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز پریشان کن عناصر غیر قانونی طور پر برطانوی شہر مانچسٹر کے چینی قونصل خانے میں داخل ہوئے۔ یاد رہے کہ مانچسٹر میں چینی قونصل خانے کے سامنے گزشتہ روز ہونے والے مظاہرے میں شامل ایک شخص کو چینی قونصل خانے کے گراؤنڈ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارتی اداروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے احاطے کے امن اور وقار کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ٭… جرمن وزیر برائے معاشی امور سونجا شولز نےبرلن میں عالمی ادارہ صحت کے تحت ورلڈ پولیو سمٹ سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ اگر ہم نے پولیو کا مکمل خاتمہ نہ کیا تو دنیا میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ انہوں نے اس موقع پر جرمنی کی جانب سے عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے 23 ملین یورو کا اعلان کیا۔ سعودی عرب نے گلوبل پولیو کے خاتمے کے لیے ایک کروڑ ڈالر، بل گیٹس نے 1.2 ارب ڈالر آسٹریلیا نے 43.55 ملین ڈالر، فرانس نے 50 ملین یورو، جنوبی کوریا نے 3.2 ملین ڈالرز دینے کا اعلان کیا۔ ٭… برطانیہ کی وزیراعظم لز ٹرس نے ملک میں معاشی پلانز پر معافی مانگ لی۔ وزیراعظم کا ٹی وی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’میں غلطیوں کی ذمہ داری لیتی ہوں اور جو غلطیاں ہوگئیں ان پر معذرت کرتی ہوں‘۔ برطانیہ میں حالیہ اصلاحات کے باعث معاشی بدحالی پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم بہت تیزی سے بہت دور چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اس ملک کے لیے ڈیلیور کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہوں۔ گزشتہ ماہ کے منی بجٹ کے بعد برطانیہ کی مارکیٹس میں افراتفری دیکھنے میں آرہی تھی۔منی بجٹ میں عائد ٹیکس کٹوتیوں کے باعث وزیراعظم لِز ٹرس کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے وزیر خزانہ کواسی کواٹرنگ کو فارغ کر کے ان کی جگہ جیریمی ہنٹ کو نیا وزیر خزانہ مقرر کیا تھا۔ ٭… ویلز میں جرائم کے خلاف جنگ کے لیے پولیس نے رکشے حاصل کرلیے۔ گوونٹ پولیس نے نیو پورٹ اور ایبر گووینی میں 4 رکشوں پر گشت شروع کردیا۔600 سی سی شور مچانے والے رکشے 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتے ہیں۔ گوونٹ پولیس کا کہنا ہے کہ رکشے لوگوں کو جرائم سے بچانے میں مددگار ذریعہ ہیں۔ چیف انسپکٹر گوونٹ ڈامیان سویری کا کہنا ہے کہ رکشوں کے چلنے پر شہریوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ٭…مغربی جرمنی میں چاقو حملے میں دو افراد ہلاک اور ایک شدید زخمی ہوگیا۔ چاقو حملہ جرمنی کے مغربی شہر لودویگس ہافن میں پیش آیا۔ چاقو سے لیس حملہ آور نے شہر کے عام مقام پر لوگوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جرمن پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چاقو حملے کی اصل وجوہات تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔ مبینہ چاقو حملہ آور پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔ ٭…میانمار کے دارالحکومت ینگون کی انسین جیل کے باہر ہونے والے 2 بم دھماکوں میں 8 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے 5 افراد اور جیل کے عملے کے 3 ارکان شامل ہیں۔ دھماکے کے وقت جیل کے باہر قیدیوں کو سامان دینے آنے والے افراد جمع تھے۔ دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ ینگون کی انسین جیل میانمار کی سب سے بڑی جیل ہے جس میں تقریباً 10 ہزار افراد قید ہیں، جن میں سے زیادہ تر سیاسی قیدی ہیں۔ ٭… یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے روسی گیس میں کمی کے سبب یورپی یونین نے ہوا اور شمسی توانائی سے ریکارڈ بجلی بنالی۔ یورپی یونین نے بجلی کا 24 فیصد ریکارڈ حصہ ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کیا۔ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافے سے یورپی یونین کو مارچ اور ستمبر کے درمیان گیس کی درآمدات میں 97 بلین ڈالر کی بچت ہوئی۔ موسمیاتی تھنک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ یورپی بلاک کو قابل تجدید توانائی کی مکمل صلاحیت تک پہنچنے میں ابھی طویل سفر درکار ہے تاہم قابل تجدید توانائی افراط زر سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ٭… چاند پر پہلی مرتبہ پہنچنے والے خلائی مشنز میں اہم کردار ادا کرنے والے خلا نورد جیمز میک ڈیوٹ ریاست ایریزونا کے شہر ٹسکن میں 93 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ 1962ءمیں ناسا کا حصہ بنے، بعدازاں انہوں نے اپولو 9 اور جیمنی فور کی کمانڈ کی۔ انہوں نے اپولو 11 مشن کے دوران چاند پر پہلی بار انسان کے قدم رکھنے کے تاریخی ایونٹ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ٭… ریاست فلوریڈا کے شہر ٹمپا سے نیوجرسی جانے والی امریکی ایئرلائن فلائٹ کے بزنس کلاس کے مسافروں نے اختتامی لمحات میں جہاز میں سانپ دیکھ لیا جس کے بعد وہاں موجود لوگوں میں خوف اور افرا تفری پھیل گئی۔ متعلقہ حکام نے جہاز سے سانپ کو پکڑ کر جنگل میں چھوڑ دیا، اس دوران کوئی شخص زخمی نہیں ہوا اور آپریشنز بھی تعطل کا شکار نہیں ہوئے۔مسافروں نے جہاز میں لینڈنگ کے بعد سانپ کو دیکھا، اس وقت جہاز ٹیکسی کے مرحلے میں تھا۔ ٭… بچوں کے سچ، کھرے سچ اور رکھ رکھاؤ سمیت دوسرے لوگوں کا بھرم رکھنے کے لیے جھوٹ بولنے یا غلط بیانی کرنے سے متعلق کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ’برملا سچ‘ بولنے والے بچے ’بدتمیز‘یا خراب سمجھے جاتے ہیں۔جب کہ بعض اوقات واضح سچ بولنے والے بچوں کے والدین کو شرمساری کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرنل آف مورل ایجوکیشن میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے بچوں کے سچ اور جھوٹ بولنے کے سماجی زندگی پر پڑنے والے اثرات کے لیے 267 بچوں اور بالغ افراد پر تحقیق کی اور رضاکاروں کو مختلف ایک خاص طرح کی ویڈیوز دکھا کر ان سے سوال و جواب کیے گئے۔تحقیق میں شامل 171 افراد بالغ تھے، جن کی عمریں 18 سے 67 سال تک تھیں جب کہ دو درجن کے قریب رضاکاروں کی عمر 6 سے 15 سال تک تھی اور باقی رضاکار بھی درمیانی عمر کے نابالغ افراد تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں نے ’دو ٹوک الفاظ‘میں سچ بولا، انہیں زیادہ ’بدتمیز‘ اور خطرناک سمجھا گیا اور ایسے ہی بچوں کے لیے والدین نے بتایا کہ ان کے ایسے کھرے سچ بولنے کی وجہ سے انہیں بعض اوقات شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ٭… جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں 48 سالہ ماریا فاریاس نامی خاتون نقلی بتیسی نکالے بغیر ہی سو گئی۔ نیند میں خاتون کے دانت ان کے حلق میں جا پھنسے جس کے باعث مبینہ طور پر ان کا سانس رک گیا اور موت واقع ہوگئی۔ آنجہانی خاتون کے اہلِ خانہ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ سانس اچانک اکھڑ جانے کی صورت میں وہ بیدار ہوئیں، انہوں نے شور مچانے کی کوشش کی ان کے پاس جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ٭… ڈاکٹر مریم صالح بن لادن بحیرہ احمر عبور کر نے والی پہلی عرب خاتون تیراک بن گئیں۔وہ بحیرہ احمر میں چار گھنٹے تیراکی کر کے مصر کے ساحل پر پہنچیں۔ بحیرہ احمر اور بالخصوص آبنائے تیران خونخوار شارک کی وجہ سے مشہور ہے۔ واضح رہے کہ مریم بن لادن 2015ء میں یورپ سے ایشیا تیر کر پہنچی تھیں، وہ یہ راستہ تیر کر عبور کرنے والی پہلی عرب خاتون بھی ہیں۔ انہوں نے سال 2017ء میں دبئی کینال میں 24 کلومیٹر کا فاصلہ گیارہ گھنٹے 41 منٹوں میں طے کرکے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ مریم بن لادن نے جرمنی سے ڈینٹل سرجری میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
سعودی ہیلتھ انشورنس کونسل کے مطابق یکم جنوری 2020 سے میڈیکل انشورنس کارڈ کے بجائے شناختی کارڈ (اقامہ) انشورنس سروس حاصل کرنے کے لیے مؤثر ہو گا۔ مقامی شہریوں سے ان کا قومی شناختی کارڈ طلب کیا جائے گا۔ اخبار 24 کے مطابق ہیلتھ انشورنس کونسل کے سیکریٹری جنرل شباب الغامدی نے بتایا ’یکم جنوری 2020 سے ہسپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز علاج اور طبی معائنے کے لیے جانے والو ں کو ہیلتھ انشورنس کارڈ دکھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘ ہیلتھ انشورنس کونسل نے ’سھلناھا علیک‘ کے نام سے نئی سہولت کا آغاز کیا ہے۔ فوٹو:ٹوئٹر ’سعودی شہری قومی شناختی کارڈ اور مقیم غیر ملکی اپنے اقامے کی بنیاد پر میڈیکل انشورنس سہولت حاصل کرسکیں گے۔ شناخت کا واحد ذریعہ اقامہ یا قومی شناختی کارڈ ہوگا۔‘ الغامدی نے مزید کہا ’ہیلتھ انشورنس کونسل نے ’سھلناھا علیک‘ کے نام سے نئی سہولت کا آغاز کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں ’ہم نے سروس آپ کے لیے آسان کردی۔‘ ’اس مہم کے تحت انگریز، عربی، اردو، فلپائنی ، ہندی اور بنگالی چھ زبانوں میں سوشل میڈیا پر دو ماہ تک آگہی پیغامات بھیجے جائیں گے۔ ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔‘
پاکستانی صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سفاکانہ جرائم کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت پانے والے پانچ مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ مہر خبررسا٘ں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیاہےکہ پاکستانی صدر ڈاکٹر عارف علوی نے سفاکانہ جرائم کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت پانے والے پانچ مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ سربراہ مملک ڈاکٹر عارف علوی نے سزائے موت پانے والے مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کردیں، جن مجرموں کی رحم کی اپیلیں مسترد کی گئی ہیں ان میں محمد شعبان ولد محمد انور بھی شامل ہیں، محمد شعبان کو تین سالہ بچی سے زیادتی اور قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد عمران ولد فقیر محمد کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی جس نے گھریلو جھگڑے کے بعد اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کو ٹوکے سے قتل کیا تھا۔ صدر مملکت نے محمد افضل ولد محمد اصغر علی کی اپیل بھی مسترد کر دی، محمد افضل کو والدین اور 6 بہن بھائیوں سمیت اپنے خاندان کے 8 افراد کو قتل کرنے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دو افراد کو معمولی جھگڑے کے بعد قتل کرنے والے محمد اکبر اور محمد اصغر ولد محمد اکرم کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت ان اپیلوں کو مسترد کیا، واضح رہے کہ آئین کے تحت صدر مملکت کسی بھی عدالت، ٹریبونل یا دیگر اتھارٹی کی طرف سے دی گئی سزاؤں کو معاف، معطل یا کم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں،