text
stringlengths
332
578k
پنڈدادنخان کے علاقہ ڈنڈوت میں قائم پاکستان ٹیلی ویژن کا بوسٹرگزشتہ دو ماہ سے بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے پنڈداد نخا ن اور تحصیل بھرمیں پی ٹی وی چینل کی نشریات صاف دکھائی نہیں آ رہی اور کہیں نشریات آ ہی نہیں رہیں۔ عوام کی طرف سے بار بار شکایات کے باوجود ابھی تک نشریات بحال نہیں ہوئیں اور نہ ہی پی ٹی وی کی اعلیٰ انتظامیہ نے کوئی نوٹس لیا ہے، پنڈدادنخان کی عوام میں نشریات کی بندش پرشدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس دور میں واحد سستی تفریح پی ٹی وی کی نشریات ہیں ہرشہری ڈش،پی ٹی سی ایل کیبل نیٹ ورک اورموبائل وائی فائی کی سہولت حاصل نہیں کر سکتا، ہرماہ بجلی کے بلوں میں 35 روپے ٹیلی ویژن فیس وصول کی جا رہی ہے لیکن پنڈدادنخان اور گردونوح میں پی ٹی وی کی نشریات کی سہولت نہیں دی جارہی ہے۔ عوامی وسماجی حلقوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پنڈدادنخان تحصیل بھرمیں پی ٹی وی کی نشریات کوفوری طورپربحال کیا جائے۔ ویب ڈیسکستمبر 26, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Facebook Twitter LinkedIn Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Line ای میل کے ذریعے شیئر کریں پرنٹ کریں
اس سے قبل بھی حاجی علی درگاہ میں خواتین کی حاضری کا مسئلہ اخبار کی سرخیوں میں جگہ پا چکا ہے، اُس وقت ہم نے کچھ لکھا نہ کہنا، پر اب ایک بار پھر چوں کہ بحث نے زور پکڑا ہے اس لیے ضروری خیال کیا کہ چند صاف صاف باتیں اپنے قارئین سے کر ہی لی جائیں۔ پہلے یہ واضح کر دیں کہ ’حاجی علی‘ ممبئی کے ورلی علاقے میں واقع ایک ’درگاہ‘ہے، جسے شاہ راہ سے لگ بھگ400 میٹر دُور، ایک چھوٹے سے ٹاپُو پر،سیّد پیر حاجی علی شاہ بُخاری کی یاد میں سن1431ء میں بنایا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس درگاہ میں ہندو مسلم سب ’عقیدت‘ کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں، جب کہ اگر آپ کہنے کی اجازت دیں تو ہمارا ماننا ہے کہ ہندو و مسلم سب کے لیے یہ ایک معروف تفریح گاہ ہے، جہاں بلا تفریق و مذہب بے پردہ عورتیں، لڑکپن سے اٹھلاتے لڑکے اور شور و غوغہ کرتے بچّے ہر وقت نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آج ایک ولی کی قبر کو تفریح گاہ بنا لیا گیا ہے، جس پر وہاں کا ماحول شاہد ہے۔ اطلاع کے مطابق ’حاجی علی‘ اُزبیکِستان کے بُخارا سے ہندوستان آئے تھے۔ درگاہ حضرت حاجی علی کے مرکزی احاطے میں خواتین کو داخلے کی اجازت کا مطالبہ رہ رہ کر کیا جا رہا ہے جس کے لیے اب عوامی تحریک شروع ہو گئی ہے۔گذشتہ دنوں تقریباً 20 سے زائد این جی اوز، تنظیموں اور حقوقِ انسانی کے کارکنوں نے ’حاجی علی سب کے لیے‘ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اطلاعات کے مطابق تروپتی دیسائی نے 28اپریل کو درگاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا انتباہ ممبئی کے مراٹھی پترکارسنگھ میں منعقد پریس کانفرنس میں کیا۔ گویا کہ تمام مسائل کو چھوڑ کر یہی ایک مسئلہ ان کی نگاہ میں ا یسا ہے جس میں انھیں اپنا رول ادا کرنے کی سوجھی کہ حقوقِ انسانی و حقوقِ نسواں سب سے زیادہ یہیں پامال کیے جا رہے ہیں، نہ ان کے سامنے دلتوں کو زندہ جلا دیا جانا اتنا اہم ہے اور نہ کسی مسلمان کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا۔بہ طور تجاہلِ عارفانہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خدا جانے کیوں اس طرح کے مسائل کو اس قدر حسّاس بنا دیا جاتا ہے! جو لوگ 15 ویں صدی کی اس قدیم درگاہ کے مرکزی احاطے میں خواتین کے داخلے پر امتناع کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، ممکن ہے ان میں ایسے موقع پرست بھی ہوں جو سوچتے ہوں کہ کچھ نہ ہوا تو کم از کم مسلمانوں میں تفریق تو کسی نہ کسی درجے میں کرائی ہی جا سکے گی کہ بعض ان کے مخالف ہوئے تو بعض طرف دار بھی ضرور نکل آئیں گے۔ ایک پریس کانفرنس میں مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جہاں ایک گروپ نے اسے خلافِ شریعت قرار دیا، نیز کنوینر جاوید آنند نے کہا کہ فورم کا یہ احساس ہے کہ درگاہ میں خواتین کا داخلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق قدیم روایات سے ہے۔ لہٰذا فورمدرگاہ کے ٹرسٹیان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ خواتین کے داخلے پر عائد پابندی کو فوری برخواست کریں۔ عجیب بات ہے کہ کیا کسی بات کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس کا سرا ’قدیم روایات‘ سے جوڑ دیا جائے!نیز کیا واقعی یہ دعویٰ کرنے سے پہلے کسی اسلامی اسکالر سے گفتگو کی گئی ہے؟کیا کہنے والے نے خود مستند و معتبر اسلامی کتب میںاس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر نہیں تو مسلمانوں کے مذہبی مسائل کو یوں سرِ عام کیوں اچھالا جا رہا ہے؟ہمیں قوی امید ہے کہ ٹھنڈے دماغ سے اگر کوئی بھی سمجھ دار اس معاملے میں غور و فکر کرے یا کسی بھی ایسے شخص کے سے استفادہ کریں جس کے اندر خوفِ خدا و آخرت میں جواب دہی کا احساس ہو اور وہ صحیح معنوں میں دینی علوم سے مسّ بھی رکھتا ہو تویہ مسئلہ چند لمحوں میں حل ہو جائے گا، ورنہ آپ اسی طرح کے مسائل میں الجھے رہییاور دیکھیے گا’ کرنے والے اپنا کام کر گزریں گے‘۔یہ بھی واضح رہے کہ ممبئی ہائی کورٹ بھی اس معاملے میں ایک درخواست کی سماعت کررہی ہے جس میں خواتین کے درگاہ کے احاطے میں داخلے پر امتناع کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ہمیںیہ شکوہ ایک زمانے سے ہے کہ موجودہ سیاست میں عوام کو مذہبی وجذباتی مسائل میںاُلجھا کر اپنا الّو سیدھا کرنے کی روایت رواج پا گئی ہے، جس میں عوام مہرہ بنتے ہیں، اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اس میں جتنے قصور وار وہ سیاست داں ہیں، اتنے ہی وہ عوام بھی ذمّے دار ہیں جو ایک کے بعد ایک ایسے مسائل میں الجھ کر اصل مسائل سے غفلت برقرار رکھتے ہیں۔مسئلہ ’بابری‘ کا ہو یا ’دادری‘ کا،’بیف‘ کا ہو یا ’بھارت ماتا کی جے‘کا، آخر کب تک اسلامی تشخص اور انسانی احترام نیز جمہوریت کی دھجیاں اڑانے سے صَرفِ نظر کرکے جزوی مسائل کو موضوعِ بحث بنایا جاتا رہے گا؟ سوچو آخر کب سوچوگے!
ہچکیاں ایک ایسی پراسرار بیماری یا عادت ہے جس کے بارے میں ڈاکٹرز بھی تاحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے البتہ اب تک ہونے والی تحقیقات میں یہ بات ضرور سامنے آئی تھی کہ ہچکیاں بچوں کی نشو و نما کے لیے مفید اور نوجوانوں کے لیے پریشان کُن ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ ہچکی آنے کا مطلب ہے کہ آپ کو کوئی شخص یاد کررہا ہے البتہ یہ بات سرا سر بے بنیاد ہے اور ڈاکٹرز بھی اس تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ چین کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع یونیورسٹی فن برگ کے پروفیسر کھاریلا کا کہنا ہے کہ بچوں کو ہچکیاں آنا فائدے مند اور نوجوانوں کے لیے بے کار بات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دماغ سے ایک سگنل نکل کر مسلز (خلیات) کی طرف جاتا ہے اور جب یہ رابطہ نہیں ہوپاتا تو اس کے نتیجے میں ایک ہوا بنتی ہے جو ہچکی کی صورت میں باہر آتی ہے۔ پرفیسر کھاریلا کا کہنا تھا کہ ہچکیوں کو ردعمل یا ناکامی کا عمل بھی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ جب دماغ اور خلیات کا رابطہ بحال نہیں ہوتا تو ہوا کا گولا غذا کی نالی میں آتا ہے اور پھر یہ ایک جھٹکے کی صورت باہر نکلتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شیر خوار یا کمسن بچوں کو ہچکیاں اس وجہ سے آتی ہیں کہ اُن کے اندورنی اعضا اور مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ پروفیسر کھاریلا کا کہنا تھا کہ ہم نے جو تحقیق کی اُس میں یہ بات سامنے آئی کہ ہچکیوں کا تعلق دماغ سے ہے، یعنی جن لوگوں کو بار بار ہچکیاں آتی ہیں اُن کا دماغ اچھے انداز سے پیغام کو آگے نہیں پہنچاتا۔
ممبئی: بالی ووڈ کے دبنگ اداکار سلمان خان نے اپنی نئی فلم ’ریس تھری‘ کے لیے رومینٹک گانا لکھ ڈالا جسے وہ اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کریں گے۔ بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان کا شمار انڈسٹری کے نامور اداکاروں میں تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ اداکاری کے ساتھ گلوکاری کے بھی شوقین ہے اور وہ متعدد فلموں میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا ہے جب کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر فلم میں مداحوں کے لیے کچھ نیا لے کر آئیں یہی وجہ ہے کہ سلو میاں نے فلم’ ریس تھری‘ کے لئے نہ صرف گیت لکھا بلکہ وہ اسے اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کریں گے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بالی ووڈ کے دبنگ اداکار سلمان خان نے تھرل اور ایکشن سے بھرپور فلم ’ ریس ‘کے تیسرے سیکوئل کے لئے گیت لکھ دیا ہے جس کو پوری ٹیم کے سامنے پڑھ کر بھی سنایا جو سب کو بہت پسند آیا اور وہ اسے اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کروائیں گے۔ رپورٹس کے مطابق سلمان خان کے لکھے گئے گیت کو مزید رنگ بھرنے کے لئے موسیکار وشال مشرا کی خدمات حاصل کرلی گئی ہے اور فلم کے ہدایت کار خود اس گیت پر کوریوگرافی کریں گے جب کہ اس گیت کو سلمان پر ہی فلمایا جائے گا۔ فلم ’ریس تھری ‘کے پروڈیوسر نے سلمان کے لکھے گئے گیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ گیت انتہائی خوبصورت الفاط کے ساتھ لکھا گیا ہے اور یہ بلکل ویسا ہی گیت ہے جس کی ہم تلاش کر رہے تھے۔
ایرانی پولیس ہیڈکوارٹر میں مہساامینی نامی لڑکی کی موت مظاہروں کو جنم دینے کا ایک بہانہ بنا جو اب تک جاری ہیں جبکہ موت کی وجہ ابھی تک نامعلوم ہے جب تک کہ طبی معائنہ کار کے ذریعہ اس کا تعین نہیں کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں پہلے تو سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اسے پولیس نے مارا ہے لیکن ایران ٹی وی نے اس کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں دکھایا گیا کہ وہ محکمہ پولیس میں اس کے ساتھ معمول کا مطابق برتاؤ کیا جاتا ہے لیکن اچانک اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور اسے ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے جس کے بعد لڑکی کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی بالکل صحت مند تھی جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا نے ایسی دستاویزات شائع کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اکثر نیورولوجسٹ کے پاس جاتی تھی یہاں تک کہ 8 سال کی عمر میں اس کا دماغی آپریشن بھی ہوا تھا،قابل ذکر ہے کہ مہساامینی کے خاندان کی جانب سے بات کرنے والوں میں اس کا خالہ زاد بھائی بھی شامل ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اس عسکری گروپ کا رکن ہے جو کردستا ولایت پورٹل:مہسا امینی کی پراسرار موت ایران میں حزب اختلاف کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے درکار ہر چیز موجود ہے، یہ کرد اور سنی اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان لڑکی ہے۔ پہلے تو اسلامی جمہوریہ کے کچھ مسلح اور غیر مسلح مخالفین نے کچھ لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر احتجاج شروع کیا اور وہ سوشل میڈیا میں پروپگنڈوں کے ذریعے کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئے لیکن بہت ہی جلد مہسا کی موت کے خلاف مظاہروں نے ایک الگ رنگ اختیار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ریڈیکل شکل اختیار کر لی، یہیں سے احتجاج کی اصل شکل ظاہر ہوئی، کچھ لوگ جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ ان کے احتجاج کی وجہ انسانی حقوق کے مسائل یا خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے، ایسے اقدامات کیے جو ان کے دعووں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں جیسے قرآن کو جلانا، مذہبی اور دینی علامات جیسے مساجد کو جلانا اور خواتین کے سروں سے حجاب اتارنے جیسی حرکتیں۔ متذکرہ مظاہرین کے ساتھ، علیحدگی پسند ملیشیا، تکفیری گروہوں کے ارکان، - مجاہدین خلق گروپ کے بعض کارندوں کی موجودگی - جو ایران کے مخالف اور غیر مخالف دونوں میں مقبول نہیں ہیں - نے تشدد کو کئی گنا بڑھا دیا، احتجاج کی تازہ ترین مثال میں سیستان و بلوچستان کے مرکز زاہدان میں "جنداللہ" گروپ کی فوجی کارروائی میں صرف ایک رات میں 19 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوئے جس کے بعد مولوی عبدالحمید سمیت علاقے کے سنی عمائدین نے بھی اس حملے کی مخالفت کی۔ دریں اثناء امریکی حکومت کی جانب سے اس معاملے کی اعلانیہ حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، نیویارک ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے کہ صدر بائیڈن نے فوری طور پر ایران میں مظاہرین کی حمایت کی،یاد رہے کہ ایران کو 13 سال پہلے بھی جب اسی طرح کی بدامنی کا سامنا کرنا پڑا تھا تو امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ اس طرح کا زبردست طریقہ کار الٹا جواب دے گا، نیویارک ٹائمز نے 2009 کے فسادات میں سی آئی اے کے کردار پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ سی آئی اے نے خفیہ طور پر بدامنی کو ہوا دی تھی، اب جبکہ امریکی صدر اس بار کھلے عام حمایت کر رہے ہیں تو اس ملک کی جاسوسی کے کردار کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ اس تناظر میں جب ایران نے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے جواب میں ان کے ٹھکانوں پر حملے کیے تو امریکی حکومت نے ان حملوں میں اپنے ایک شہری کی ہلاکت کی تصدیق کی تاہم اس کی شناخت نہیں بتائی، اس کے علاوہ اس معاملے میں اسرائیل کے قدموں کے نشانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں، صیہونی وزیر اعظم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو "ہزار زخموں سے موت" کی حکمت عملی کی شکل میں کمزور کرنے کے درپے ہیں، اس اعلان کے پس منظر میں عراقی کردستان میں اسرائیلی ایجنٹوں کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا، حالانکہ دو مواقع پر ایران نے اعلان کیا کہ اس نے اسرائیلی حکومت سے متعلق اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جس کی تصدیق بعض امریکی میڈیا نے باخبر ذرائع کے حوالے سے کی۔ قابل ذکر ہے کہ میں احتجاج کے لیے امریکہ کی حمایت پابندیوں تک جا پہنچی ہے، تاہم اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایران کو اپنے لوگوں کو مرنے سے روکنے کے لیے ویکسین کی اشد ضرورت تھی یا پابندیوں کی وجہ سے خاص بیماریوں والے افراد مشکل سے دوچار تھے تو امریکہ نے پابندیوں میں نرمی نہیں کی لیکن ایران میں بدامنی کے دوران امریکہ نے انٹرنیٹ کمپنیوں کو چھوٹ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح آزادی اظہار کے بہانے تشدد کی سطح کم نہ ہونے پائے، اس کے بدلے میں امریکی حکومت نے ایران کی کچھ فوجی قوتوں پر پابندیاں لگا دیں۔ لیکن برطانوی وزیر خارجہ کے مؤقف نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بہانے شروع ہونے والے احتجاج کی نوعیت پر سوالیہ نشان لگا دیا، AFP نے لکھا کہ برطانیہ کے خارجہ سکریٹری نے ایران کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ ایک اور راستہ کا انتخاب کریں جیسے جوہری معاہدے کو قبول کرلیں کیونکہ ایرانی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی ایک نوجوان لڑکی کی موت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ایران میں تشدد کی حقیقت سے واقف لوگوں کے مشاہدوں کے مطابق بہت سے شہروں میں لوگ اپنی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں، ایران کے سوشل میڈیا میں ایک لطیفہ ہے کہ سوشل میڈیا میں ہر رات اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے جبکہ حقیقی دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ تشدد اور احتجاج عموماً چند سڑکوں تک محدود ہوتا ہے،مبصرین حتیٰ وہ لوگ جو ایران کے خلاف ہیں، کا خیال ہے کہ یہ احتجاج ختم ہو جائیں گے، تل ابیب یونیورسٹی کے سینئر مشرق شناس پروفیسر ایال زیسر کہتے ہیں کہ یہ معاشرے کے اہم حصوں میں ایرانی حکومت کی گہری مخالفت ہے، شاید یہاں اکثریت نہ ہو اور شاید وہ نہ ہوں جو حکومت میں تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہوں لیکن یہ اہم ہیں۔ حصے، وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران میں ابھی تک ایک عوامی احتجاج نہیں ہے، یہ ابھی تک پھیل نہیں سکا ہے اس لیے حکومت کچھ طریقوں سے پرسکون ہو سکتی ہے۔
پشاور (نیا ٹائم) سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے اسحاق ڈار این آر او کے تحت ڈیل کر کے پاکستان آئے ہیں ۔ نہ تو ہمارا نظام انصاف اسحاق ڈار کا راستہ روک سکا ہے لیکن آپ کا بھائی عمران خان اسحاق ڈار کا راستہ روکے گے ۔ پشاور میں تقریب سے خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہ ہو ، انصاف نہ ہو ، وہ جانوروں کا معاشرہ ہوتا ہےاورجانوروں کے معاشرے میں انصاف نہیں پایا جاتا ، جس قوم میں انصاف نہ ہو وہ تباہ ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدل و انصاف دیکھنا ہے تو سوئٹزر لینڈ چلے جائیں وہاں نہ تو کوئی وسائل ہیں لیکن خوشحالی دیکھنے والی ہے ۔ مسلم ممالک میں رول آف لاء 20 فیصد بھی نہیں ہوتا ، تاہم سوئٹزر لینڈ میں رول آف لاء 100 فیصد ہے ۔ آج آپ کو فلاحی ریاست دیکھنا ہے تو آپ سوئیڈن اور برطانیہ کو دیکھیں ۔ نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک مفرور باہر بیٹھ کر پاکستانی قوم کے فیصلے کر رہا ہے ، اربوں روپے چوری کر کے بیرون ملک رہنے والا ملک کے فیصلے کرتا ہے ، مغربی دنیا میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا خزانہ اس شخص کے حوالے کیا جا رہا ہے جو پانچ سال تک مفرور رہا ، اسحاق ڈار این اڑ او کے تحت پاکستان آیا ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا نظام انصاف اسحاق ڈار کا راستہ نہ روک سکا ، آپ کا بھائی عمران خان اس کا راستہ روکے گا ۔ انہوں نے مزید کہا جب حکومت میں آیا اس وقت ریاست مدینہ کی بات کی ، حکومت میں آنے سے قبل کبھی ریاست مدینہ کی بات نہیں کی ، کہ کہیں لوگوں یہ نہ سمجھیں کہ ووٹ لینے کیلئے ایسی بات کر رہا ہوں ۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ زاہد حفیظ چوہدری نے پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو بریفنگ میں کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتا ہے۔ رکن کمیٹی خرم دستگیر نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ سیز فائر لائن کا معاملہ ہاٹ لائن پر اچانک کیسے حل ہوگیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
19 ہفتہ کا پہلا دن تھا اسی دن شام میں سب شاگرد جمع تھے۔ دروازوں کو یہودیوں کے ڈر سے بند رکھا تھا۔ تب یسوع آکر ان کے درمیان کھڑا ہوا۔ 20 اور کہا تم پر سلامتی ہو یہ کہہ کر اس نے شاگردوں کو اپنا ہاتھ اور بازو دکھا یا پس شاگردوں نے خداوند کو دیکھا اور بہت خوش ہو ئے۔ 21 یسوع نے دوبارہ کہا ، “تم پر سلامتی ہو باپ نے مجھے یہاں بھیجا ہے اسی طرح اب میں تم سب کو بھیجتا ہوں۔” 22 یسوع نے ان پر پھو نکا اور کہا، “روح مقدس لو۔ 23 جن لوگوں کا گناہ تم معاف کرو انکا گناہ معاف اور جنہیں معاف نہ کرو ان کا گناہ معاف نہ ہو گا۔” یسوع تھو ما پر ظا ہر ہوا 24 تو ما جسے توام بھی کہتے ہیں۔ یسوع کے آنے کے وقت دوسرے شاگردوں کے ساتھ نہ تھا۔ تھو ما ان بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ 25 دوسرے شاگردوں نے تھو ما سے کہا ، “ہم نے خدا وند کو دیکھا” تب تھو ما نے کہا ، “میں جب تک اسکے ہا تھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں اور ان سورا خو ں میں اپنے ہا تھ نہ ڈالوں اور جب تک میں اپنا ہاتھ اسکے بازو پر نہ رکھوں میں یقین نہیں کر تا۔” 26 ایک ہفتہ بعد دوبارہ شاگرد گھر میں جمع تھے اور تھو ما بھی انکے ساتھ تھا اس وقت دروازہ بند تھا۔ یسوع وہاں آکر انکے درمیان کھڑے ہو گئے یسوع نے کہا ، “سلامتی ہو تم پر۔” 27 تب یسوع نے تھو ما سے کہا ، “اپنی انگلی یہاں رکھو اور اپنے ہاتھ میرے بازو میں رکھو اور مزید شک میں نہ پڑو اور اعتقاد رکھو”۔ 28 تھو ما نے یسوع سے کہا ، “اے میرے خدا وند، اے میرے خدا۔” 29 یسوع نے اس سے کہا ، “تم نے مجھے دیکھا اور ایمان لا ئے لیکن جن لوگوں نے مجھے بغیر دیکھے ایمان لا ئے وہ قابل مبارک باد ہیں۔” یوحنا کی کتاب کا مقصد 30 یسوع نے اور کئی معجزے دکھا ئے جو اسکے شاگردوں نے دیکھے وہ تمام معجزے اس کتاب میں نہیں لکھے گئے۔ 31 لیکن یہ اس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لا ؤ کہ یسوع ہی مسیح ہے جو خدا کا بیٹا ہے تا کہ اس طرح ایمان لاکر تم اسکے نام سے زندگی پا ؤ۔ یسوع کا سات شاگردوں پر ظا ہر ہو نا 21 اس کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبر یاس کی جھیل کے پاس اپنے شاگردوں پر ظا ہر کیا وہ اس طرح کیا۔ 2 چند شاگرد وہا ں جمع تھے جن میں شمعون پطرس، تو ما ،نتن ایل،جو قانا گلیل کا تھا اور زبدی کے دو بیٹے اور دوسرے دو شاگردتھے۔ 3 شمعون پطرس نے کہا ، “میں مچھلی کے شکا ر پر جا رہا ہوں” دوسروں نے کہا، “ہم بھی تمہا رے ساتھ چلیں گے” پھر سب ملکر کشتی پر سوار ہوئے۔ اس رات انہوں نے کچھ بھی شکار نہ کیا۔ 4 صبح یسوع کنا رے پر آکر کھڑے ہو گئے مگر شاگردوں نے پہچا نا نہیں کہ یہ یسوع ہے۔ 5 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا ، “دوستو کیا تم نے مچھلی کا شکا ر کیا؟” شاگردوں نے جواب دیا ، “نہیں” 6 یسوع نے کہا ، “اپنے جال کشتی کے دائیں جانب پھینکو اس طرف تمہیں مچھلیاں ملیں گی” چنانچہ شاگردوں نے ویسا ہی کیا پھر شاگردوں نے جال میں اتنی مچھلیا ں پائیں کہ اس جال کو کھینچ نہ سکے۔ 7 تب اس شاگرد نے جو یسوع کو عزیز تھا پطرس سے کہا ، “یہ تو خداوند ہے” اور پطرس نے اس سے یہ کہتے ہو ئے سن کر کہ “وہ آدمی خدا وند ہے” اپنا کرتا کمر سے باندھ کر (پطرس کام کر نے کے لئے اپنے کپڑے اتار چکے تھے ) پانی میں کود پڑا 8 دوسرے شاگرد کشتی میں سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہو ئے آئے کیوں کہ وہ کنارے سے زیادہ دور نہ تھے صرف لگ بھگ سو گز کی دوری پر تھے۔ 9 جب شاگرد کشتی سے باہر آئے تو انہوں نے کوئلوں کی آ گ دیکھی جس پر مچھلی اور روٹی رکھی ہو ئی تھی۔ 10 تب یسوع نے کہا ، “کچھ مچھلیاں جو تم ابھی پکڑے ہو لے آؤ۔” 11 شمعون پطرس کشتی میں جاکر مچھلیوں کے جال کو کنارے پر لے آیا جو بہت سی بڑی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں تقریباً ۱۵۳ مچھلیاں تھیں اس کے با وجود وہ نہ پھٹا۔ 12 یسوع نے ان سے کہا ، “آؤ کھا نا کھا ؤ لیکن کو ئی بھی شاگرد نہ پو چھ سکا کہ وہ کون ہے ؟” وہ جان گئے کہ وہ خداوند ہے۔ 13 یسوع نے آکر انہیں روٹی اور مچھلی دی۔ 14 یہ تیسرا موقع تھا جب یسوع مر کر جی اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کے سامنے ظا ہر ہوا۔ یسوع کا پطرس سے گفتگو کر نا 15 جب وہ کھا نا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون! کیا تو ان لوگوں سے زیا دہ مجھ سے محبت کر تا ہے ؟”پطرس نے جواب دیا ، “ہاں! اے خداوند تم جانتے ہو کہ آپ مجھے کتنے عزیز ہیں۔” تب یسوع نے پطرس سے کہا ، “میرے میمنوں کی دیکھ بھال کر۔” 16 دوبارہ یسوع نے پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟” پطرس نے جواب دیا ، “ہاں اے خدا وند تم جانتے ہو کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں۔” تب یسوع نے پھر پطرس سے کہا، “میری بھیڑوں [a] کی نگہبا نی کر۔” 17 تیسری مرتبہ یسوع نے پطرس سے پوچھا ، “اے یوحناّ کے بیٹے شمعون! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو؟” “پطرس بہت رنجیدہ ہوا کیو ں کہ یسوع نے تین بار یہ پوچھا ، “کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو؟”پطرس نے کہا ، “اے خدا وندتم ہر بات جانتے ہو تم یہ بھی جاتے ہو کہ میں تمہیں عزیزرکھتا ہو ں۔ یسوع نے پطرس سے کہا ، “تو میری بھیڑوں کی نگہبانی کر۔ 18 میں تم سے سچ کہتا ہو ں جب تم جوان تھے اپنی کمر کس کر جہاں چاہتے جاتے تھے مگر جب تو بوڑھا ہو گا تو دوسرا آدمی تیری کمر کسے گا اور جہا ں تو نہ جا سکے گا وہا ں لے جائے گا۔” 19 یسوع نے ان باتو ں کے ذریعہ بتایا کہ پطرس کی کس قسم کی موت سے خدا کا جلا ل ظاہر ہوگا “اتنا کہہ کر اس نے کہا ، “میرے پیچھے آ۔” 20 پطرس نے پلٹ کر اس شاگرد کو پیچھے آتا ہوا دیکھا جس کو یسوع عزیز رکھتے تھے اور اس نے شام کے کھانے کے وقت اس کے سینہ پر سر رکھ کر پوچھا تھا! “خداوند آپ کا مخا لف کون ہوگا ؟” 21 جب پطرس نے دیکھا کہ وہ شاگرد پیچھے ہے تب یسوع سے پوچھا، “خداوند اس کا کیا حال ہوگا ؟” 22 یسوع نے جواب دیا، “ہو سکتا ہے میں آنے تک اسے رہنے دو ں لیکن تجھے اس سے کیا تو میرے پیچھے آ۔” 23 پس دوسرے بھا ئیوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ یہ شاگرد جسے یسوع عزیز رکھتا ہے نہیں مریگا۔ لیکن یسوع نے ایسا نہیں کہا کہ وہ نہیں مریگا اس نے صرف یہی کہا ، “ہو سکتا ہے میرے آنے تک اسے رہنے دوں لیکن تجھے اس سے کیا۔” 24 یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں کو کہتا ہے اور جس نے اسکو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسکا کہنا سّچا ہے۔ 25 اور کئی کام ہیں جو یسوع نے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر بات کو لکھا جائے تو ساری دنیا بھی ان ساری کتابوں کے لئے جسے لکھی جا ئے نا کا فی ہو گی۔ لوقا کا دوسری کتاب تحریر کرنا 1 عزیزتھِیُفِلس، پہلی کتاب میں جو میں نے بیان کیا تھا اس میں وہ سب کچھ تھا جو یسوع نے شروع میں کر نے کی تعلیم دی۔ 2 میں نے اس میں ابتداء سے اس دن تک کے واقعات درج کيا ہے جب یسوع کو آسمان میں اٹھا ليا گيا تھا۔اس واقعہ سے پہلے یسوع نے ان رسولوں سے بات کی جسے اس نے چنا تھا۔اس نے روح القدس کے ذریعے رسولوں کو کہا کہ اسے کیا کر نا ہے۔ 3 یسوع نے خود رسولوں کو بتا یا کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ تھے۔ یسوع نے بہت سے طریقے سے اس کو ثابت کیا ہے وہ کیا کرنا چاہتے تھے۔ یسوع موت سے جی اٹھنے کے بعد بھی اپنے رسولوں کو چالیس دن تک نظر آتے رہے ،اور یسوع خدا کی بادشاہت کے متعلق رسولوں سے کہتے رہے۔ 4 ایک دن جب وہ ان کے ساتھ کھا رہے تھے تو اس نے انہیں کہا تھا، “وہ یروشلم کو چھوڑ کر نہ جا ئے گا۔ یسوع نے کہا تھا کہ باپ نے تم سے کچھ وعدہ کیاہے جو میں پہلے تم سے کہہ چکا ہوں کہ تم یروشلم میں ہی رہو تا کہ وعدہ پو را اور سچ ہو جا ئے۔ 5 یوحناّ نے تم کو پانی سے بپتسمہ دیا تھا لیکن اگلے چند دنوں میں تمہیں مقدس روح کے ذریعہ سے بپتسمہ ملے گا۔” یسوع کا آسما نوں پر لیجایا جانا 6 تما م مسیح کے رسولوں نے وہاں جمع ہو کر یسوع سے پوچھا، “خداوند! کیا اسی وقت آپ یہودیوں کو پچھلی بادشاہت عطا کر رہے ہیں؟” 7 یسوع نے جواب دیا، “صرف با پ کو اختیار ہے کہ وہ تاریخ اور وقت کا تعین کرے اور تم انہیں نہیں جا نتے۔ 8 لیکن مقدس رُوح تم پر آئے گا تب تم قوت پا ؤگے۔ تم لوگوں کو میرے متعلق گواہی دوگے۔ تم لوگوں کو سب سے پہلے یروشلم میں کہو گے اور پھر یہو داہ اور سامریہ کے لوگوں سے کہوگے اور دنیا کے ہر خطے میں کہو گے۔” 9 یہ سب باتیں کہنے کے بعد یسوع آ سمان پر اٹھا لئے گئے۔ ان کے رسو لوں نے اس کی طرف دیکھا تو اسے بادلوں نے اپنے اندر لے لیا اور وہ اسے دیکھ نہ سکے۔ 10 جب یسوع اوپر آسمان میں جا رہے تھے تو وہ آسمان کو دیکھتے رہے اچا نک دو آدمی جو سفید کپڑے پہنے ہو ئے تھے اس کے پہلو میں آئے۔ 11 دو آدمیوں نے رسولوں سے پوچھا، “اے گلیل کے مر دو!تم کھڑے رہ کر آسمان کی طرف کیا دیکھتے ہو ؟” تم نے دیکھا نہیں یسوع کوآسمان کی طرف اٹھا لیا گیا یہی یسوع ہیں اور اسی طرح پھر دوبارہ واپس آئیں گے۔ اور تم ا نکو اسی طرح دیکھو گے جس طرح جا تے ہو ئے دیکھا ہے۔
کراچی: وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے امور نوجوانان شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کی لیپ ٹاپ اسکیم دوبارہ شروع کی جا رہی ہے جس میں ایک لاکھ نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ نئے شہریوں کو روزگار چاہیے ہوتا ہے لیکن مارکیٹ میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ ان سب کو سمو سکے جبکہ گریجویشن کرنے والوں میں سے 30 فیصد لوگوں کو ملازمت نہیں مل پاتی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ گریجویٹس کو ملازمت کرنے والا نہیں بنانا بلکہ ملازمت فراہم کرنے والا بنانے میں معاونت دینی ہے تاکہ وہ خود انٹرپرینیور بن کر ابتدائی طور پر کچھ لوگوں کو ملازمت فراہم کرے تاکہ وہ اپنے خاندان اور نزدیک کے لوگوں کا سہارا بن سکے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اوجھا کیمپس میں کراچی بھر کی جامعات کے گرین یوتھ موومنٹ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈائریکٹر/انچارج ریجنل سینٹر کراچی و اسپورٹس اینڈ کو کری کیولم ڈویژن، انجینئر جاوید علی میمن اور ڈاکٹر سنبل شمیم نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر رجسٹرار ڈاؤ یونیورسٹی ڈاکٹر اشعر آفاق، ڈاکٹر کاشف شفیق، ڈاکٹر نور جہاں سمیت اساتذہ و طلبا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریب سے خطاب میں معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ حکومت 12 ہزار روپے ماہانہ پر انڈرگریجویٹ نوجوانوں کے لیے سرکاری اور نجی ادارے میں انٹرن شپ پروگرام کا آغاز کر چکی ہے۔ اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ نوجوانوں کے سامنے دنیا کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا میں فری لانس سروس پرووائڈرز میں چوتھا بڑا ملک ہے، اس کا گروتھ ریٹ 74 فیصد ہے اور یہ سروس دینے والے 2 ارب ڈالر سالانہ کما رہے ہیں۔ 25 سال سے کم عمر 15 کروڑ نوجوان اب ڈیجیٹل پورٹل کے ذریعے ایک پلیٹ فارم پر آ سکتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلرپروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی دنیا بھر کی بہترین 600 جامعات اور ایشیائی 400 جامعات میں شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے یہاں مون سون کی شدت کے نتیجے میں سیلاب آرہے ہیں جس سے فصلیں تباہ ، لوگ بے گھر ، اور مویشی مر رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی نوجوانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔
Worldometers.info کی طرف سے جاری کئےگئے اعداد و شمار کے مطابق تمام دنیا میں اب تک کے کنفرمڈ کیسز کی تعداد 1,083,211؍ہےاور اس وباء کے نتیجہ میں وفات پانے والے58,149؍ اور 227,738؍ افراد Covid-19 میں مبتلا ہو کر صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ذیل میں بعض ممالک کی ایک مختصر فہرست دی جا رہی ہے جو کہ اس وائرس سے زیادہ متاثر ہیں۔ (www.worldometers.info) (ویب سائٹ پر نظر آنے والایہ چارٹ ہوسکتا ہے کہ آپ کو تازہ ترین اعدادوشمار نہ دکھا رہا ہو۔) خطبہ جمعہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امام جماعت احمدیہ عالم گیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مسجد مبارک اسلام آباد (ٹلفورڈ، سرے) سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں بسنے والے کروڑوں احمدی حضورِ انور کا خطبۂ جمعہ ایم ٹی اے کے توسّط سے براہِ راست سنتے اور اس سے ہدایت و راحت پاتے ہیں۔ اس طرح گویا دنیا کے ممالک میں نافذ العمل لاک ڈاؤن کے باوجود احمدی افراد خلافتِ احمدیہ کے ہاتھ پر جمع ہو گئے اور جمعے کا ایک مقصد پورا ہوا۔ یاد رہے کہ حضورِ انور نے گذشتہ جمعے کے روز Covid-19 سے بچاؤ کی حکومتی احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کی بجائے ایک خصوصی پیغام سے جماعت احمدیہ کو نوازا تھا۔ حضورِ انور نے خطبہ جمعہ میں بدری اصحابِ نبویﷺ کے اوصافِ حمیدہ کے بیان کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کو بیان فرمایا۔ نیز وباؤں کے ایام میں حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض زرّیں ارشادات بیان فرمائے۔ حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حکومت کی ہدایات پرعمل بھی کریں۔گھروں کوبھی صاف رکھیں۔ دھونی بھی دینی چاہیے۔ڈیٹول وغیرہ کے اسپرے بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پرفضل فرمائےاوررحم فرمائے۔ ان دنوں میں دعاؤں پرخاص زوردیں۔اللہ سب کواِس کی توفیق دے۔ فرانس فرانس میں جمعرات کے روز Covid-19 سے 1,355؍افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اسی طرح سپین میں 961؍اموات ہوئیں۔ دنیا بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی اموات کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار ہے۔ (VOAاردو) برطانیہ طلباء کے امتحانات موجودہ حالات کے پیش نظر تعلیمی اداروں کے غیر معینہ مدت تک بند رہنے کی وجہ سے برطانیہ میں کوشش کی جارہی ہے کہ اساتذہ GSCE اور A-level کے طلباء کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر نمبر دیں۔ اساتذہ کو یہ نمبر 29؍مئی تک جمع کروانے ہوں گے۔ (بی بی سی) وڈیو لنک کے ذریعہ ہسپتال کا افتتاح برطانیہ کے پرنس چارلس نے سکاٹ لینڈ میں اپنے گھر سے وڈیو لنک کے ذریعہ Nightingale ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ وہ Covid-19 میں مبتلا ہونے کے بعد سکاٹ لینڈ میں اپنے گھر میں رہ رہے ہیں اور اب مکمل صحت یاب ہیں۔ 4,000 بستروں پر مشتمل یہ عارضی ہسپتال Covid-19 کے مریضوں کے لئے لندن کے Excel سنٹر میں قائم کیا گیا ہے۔ (بی بی سی) ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم اتوار کے روز عوام سے کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں خطاب کریں گی۔ یہ ریکارڈڈ خطاب اتوار کو برطانوی وقت کی مطابق آٹھ بجے نشر کیا جائے گا۔(بی بی سی) Another quick update from me on our campaign against #coronavirus. You are saving lives by staying at home, so I urge you to stick with it this weekend, even if we do have some fine weather.#StayHomeSaveLives pic.twitter.com/4GHmJhxXQ0 — Boris Johnson #StayHomeSaveLives (@BorisJohnson) April 3, 2020 برطانوی وزیرِ اعظم Boris Johnson ابھی تک مکمل صحت یاب نہیں ہوئے ہیں اور وہ ابھی کچھ اور وقت تک علیحدگی میں رہیں گے۔ (سی این این) آج کی Covid-19 اَپ ڈیٹ دیتے ہوئے وزیرِ اعظم ہاؤس سے برطانوی سیکرٹری صحت Matt Hancock نے عوام کو اس ویک اینڈ پر گھروں میں رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ ان سے ’درخواست‘ نہیں کی جا رہی بلکہ حکومتی انتظامیہ کی طرف سے عوام کو ایک ’ہدایت‘ ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں برطانیہ کا موسم خوشگوار رہے گا، اسی لیے زیادہ لوگوں کے گھروں سے نکلنے کا خدشہ ہے۔ پری بریفنگ کے مطابق آئندہ آنے والے ایام میں اس وبا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اب سکولوں میں مفت کھانا نہیں ملے گا Covid-19 کی وجہ سے برطانیہ کے خاندان روزگار کے ذرائع ختم ہونے کے بعد دوہری پریشانی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس وبا کو بہانہ بناتے ہوئے حکومت نے خاموشی سے Universal Free School Meals کو ختم کردیا ہے۔ اور ایک Free Lunch Vouchers کا طریقۂ کار شروع کیا ہے۔ لیکن اس سے تمام متأثرہ خاندانوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس وجہ سے ایجوکیشن سیکرٹریGavin Williamsonکو شدید تنقید کا سامنا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ (Huffpost) جرمنی کل سے جرمنی کے سب سے بڑے فٹ بال سٹیڈیم کو عارضی طور پر کورونا وائرس کے علاج کے مرکز میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ (سی این این) اینجلا مرکل تنہائی سے باہر آگئیں دو ہفتے تنہائی میں گزارنے کے بعد جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل تنہائی سے باہر آگئی ہیں۔ انہوں نے اپنا کام معمول کے مطابق دوبارہ شروع کردیا ہے۔ وہ ایک ایسے ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں تھیں جس کا Covid-19 کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ (سی این این) امریکہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ انھوں نے Covid-19 کا ایک دوسرا ٹیسٹ بھی کروایا تھا۔ اور پریس کانفرنس کے دوران ہی انھوں نے صحافیوں کو اس کا رزلٹ بھی بتایا کہ ان کا ٹیسٹ نیگیٹو آیا ہے۔ اور اس سب کام میں 14-15منٹ لگے۔ (سی این این) کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجوہات سائنسدانوں کے ایک پینل نے وائٹ ہاؤس کو بتایا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق Covid-19 نہ صرف کھانسی اور چھینکوں سے پھیلتا ہے بلکہ بولنے اور سانس لینے سے بھی پھیلتا ہے۔ (سی این این) امریکی کمانڈر اپنی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیے گئے امریکہ کی بحری فوج کی انتظامیہ نے امریکی طیارہ بردار جہاز USS Theodore Roosevelt کے کمانڈرBrett Crozier کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا ہے۔ یہ طیارہ بردار جہاز جس میں 4,800 افراد موجود ہیں اس وقت Guam کے پاس موجود ہے اور اس میں 70 کے قریب عملہ انفیکشن کا شکار ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کمانڈر کے طریقہ کار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے اہل نہیں ہیں۔ (سی این این) امریکہ کے صدارتی انتخابات امریکہ میں چند ہی مہینوں میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مگر کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں اس بارہ میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ یہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہو پائیں گے کہ نہیں۔ (VOA اردو) امریکہ کی سینٹ کے34؍ارکان نے ایک خط کے ذریعہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ Covid-19 کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے تحت ایران سے پابندیاں اٹھالی جائیں۔ ایران میں متاثرین کی تعداد47 ہزار سے زائد ہے جبکہ اب تک 3 ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ (ڈان اردو) نیویارک کے گورنر اور ہیلتھ کمشنر کا کہنا ہے کہ ماسک پہننا ،Social Distancing کا متبادل نہیں ہے۔ نیویارک کے میئر کا کہنا ہے کہ اگلا ہفتہ امریکہ کے لیے بہت ہی مشکل ہو گا۔ (سی این این) پاکستان پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان مکمل لاک ڈاؤن کرکے 22 کروڑ پاکستانیوں کو قید نہیں کر سکتا۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کورونا اور بھوک کے درمیان ایک توازن تلاش کرنا ہے۔ (ڈان) پاکستان Covid-19 کا پہلا مریض صحت یاب یحیٰ جعفری Covid-19 سے متأثر ہونے والے پاکستان کے پہلے مریض تھے۔ ان میں اس مرض کی تشخیص ایران سے واپسی پر ہوئی۔ گزشتہ روز وہ اس مرض سے صحت یاب ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنا Blood Plasma بھی عطیہ کیا ہے جو Covid-19 کے مریضوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ (ڈان) سندھ میں کرفیو پاکستان کے صوبہ سندھ کی انتظامیہ نے Covid-19 کی موجودہ صورتحال کے پیش نظرنماز جمعہ کے اوقات میں ساڑھے تین گھنٹے کے لئے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا۔ پاکستان میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد35ہے۔ مساجد میں اعلان بھی کئے گئے ہیں کہ لوگ نمازیں گھروں میں پڑھیں۔ (VOAاردو) انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ پاکستان میں Covid-19 کے پیش نظر لاک ڈاؤن اور لوگوں کے گھروں تک محدود رہنے کے باعث، انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی موبائل کمپنیوں کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کے استعمال میں حالیہ دنوں میں 15 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔(VOAاردو) عالمی بینک Covid-19سے جنگ کے لئے پاکستان کو 200؍ملین ڈالرز کی امداد دے گا۔ (ڈان) افریقہ سیرالیون حکومت سیرالیون نے تمام سرکاری ملازمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ 6؍ اپریل بروز سوموار سے جب دفاتر میں آئیں تو چہرے پر ماسک پہنیں۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر حکومت سیرالیون نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 8,500 لیونز سے کم کر کے 7,000 لیونز فی لیٹر کر دی ہے۔ اور ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ اس کے مطابق کرایوں میں کمی کردیں۔ سیرالیون کی ڈاکٹروں اور ڈینٹسٹ کی ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن کی مدّت کو تین دن سے بڑھا کر 14؍دن کردیا جائے۔ ورلڈ بینک Covid-19 کے خلاف جنگ کے لئے سیرالیون کو 7.5ملین ڈالرز کی امداد فراہم کرے گا۔ مشرق وسطی شام کی حکومت نے ان سب علاقوں میں جو اس کے کنٹرول میں ہیں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رات 12؍ بجے سے صبح6؍ بجے تک، جمعہ اور ہفتہ کے دن کسی کو بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شام میں Covid-19 کے16 کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور اب تک دو اموات ہوئی ہیں۔ (بی بی سی) اردن میں بھی انتظامیہ نے 24؍ گھنٹے کے کرفیو کا اعلان کیا ہے۔ کرفیو کا مقصد ان لوگوں تک پہنچنا اور ان کے ٹیسٹ کرنا ہے جو Covid-19 کے مریضوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اردن میں مصدقہ کیسوں کی تعداد 299 ہے اور پانچ اموات ہوئی ہیں۔ (بی بی سی) کھیل امام الحق نے بھی کیا چیلنج کو قبول Next up @ImamUlHaq12. Let's see how he handles this challenge? pic.twitter.com/lBCZ8C82q4 — Pakistan Cricket (@TheRealPCB) April 2, 2020 پاکستان کے بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اوپنر بلے باز امام الحق نے بھی کپتان اظہر علی کا چیلنج قبول کرلیا اور ڈنڈ بیٹھکیں لگا کر وڈیو شیئر کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ساتھی بلے باز بابر اعظم کو بھی بیٹھکیں لگانے کا چیلنج کیا ہے۔ دلچسپ بھارت میں نافذ العمل لاک ڈاؤن کے دوران ایک جوڑے کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ چھتیس گڑھ کے گاؤں رائے پور میں 27 سالہ پریتی ورما کے ہاں 27؍مارچ کو جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی تو انھوں نے پیدائش کے اس دن کو یادگار بنانے کے لئے اپنی بیٹی اور بیٹے کا نام Corona اور Covid رکھ دیا۔ (VOAاردو) متفرق رات دس بجے اذان پاکستان کے شہر کراچی میں کچھ دنوں سے یہ رواج دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ رات دس بجے اپنے گھروں کی چھت پر چڑھ کر اذان دے رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ توبہ کی ٖغرض سے کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کام کے لئے لاؤڈ سپیکر بھی استعمال کرنے شروع کردئے ہیں۔ اس کے علاوہ شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئےبعض لوگوں نے اپنی چھتوں پر سفید جھنڈے بھی لگائے ہوئے ہیں۔ (ڈان) Boeing اور ملازمین مشکلات کا شکار Covid-19 کی وجہ سے دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں نے اپنی فلائٹس منسوخ کر دی ہیں اور اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کی یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی۔ اس صورتحال کی وجہ سے لوگوں کے گھروں تک محدود ہوجانے کے باعث فیکٹریوں میں بھی کام بند ہے۔ مشہورِ زمانہ طیارہ ساز کمپنی Boeing بھی اس وقت کام نہیں کر رہی۔ کمپنی نے اپنے ملازمین کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے لیں۔ کمپنی ان کو اس کے بدلہ میں تنخواہ اور مالی معاونت فراہم کرے گی۔ (Forbes) سائبر کرائم کی شرح میں اضافہ Europol کی رپورٹ کے مطابق آج کل کے حالات میں جبکہ لوگ گھروں تک محدود ہیں اور کرنے کو بہت کم کام ہیں اور انٹرنیٹ کا استعمال کافی بڑھ گیا ہے بعض سائبر کرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ والدین کو اس ضمن میں اپنے بچوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے۔ (بی بی سی) فلپائنی صدر فلپائین کے صدر Rodrigo Duterte نے لوگوں کو خبر دار کیا ہے کہ Luzon جزیرہ میں ایک ماہ کے لاک ڈاؤن کے دوران اگر لوگوں نے کسی قسم کی بدنظمی کی تو وہ پولیس اور فوج کو یہ حکم دے دیں گے کہ ایسے لوگوں کو گولی ماردیں۔ (الجزیرہ) چند مفید ایپلیکیشنز Covid-19 کی وجہ سے لوگ اپنے دفتری کام بھی گھروں میں بیٹھ کر کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق مختلف ایپس کا استعمال کر رہے ہیں۔ آج کل جو ایپس ان کاموں کے لئے زیادہ استعمال ہو رہی ہیں وہ درج ہیں۔Skype, Whatsapp, Zoom, Daywise, Slack, Trello, Teams ۔ (VOAاردو) موجودہ حالات میں سری لنکا جماعت کی خدمات تمام دنیا میں کرونا وائرس کی وبا پھیل رہی ہے۔ سری لنکا میں بھی فی الحال 152 کیسز ہیں جن میں سے 24 لوگ صحت یاب اور 4 فوت ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے سری لنکا میں بھی باقی ملکوں کی طرح لاک ڈاوٴن ہے۔ حکومت نے آرمی کو پورا اختیار دیا ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلے۔ سری لنکا جماعت کے تحت خدمتِ خلق کا پروگرام آج کل جاری ہے۔ لوگوں کی خاطر داری کے لیے پولیس سے خاص طور پر اجازت لی گئی ہے۔ چونکہ بڑی تعداد میں راشن خریدنے پر حکومت کی طرف سے پابندی لگادی گئی ہے اس لیے ان حالات کے پیشِ نظر خشک راشن کی بجائے لوگوں کی رقم سے بھی مدد کی جارہی ہے۔ اسی طرح سری لنکا میں مقیم پاکستانی اسائلم سیکرز کی بھی خصوصاً مدد کی جارہی ہے۔ عوام الناس میں راشن یا رقم تقسیم کرنے میں بعض اوقات دقت ضرور پیش آرہی ہے چونکہ حکومت نے باہر نکلنے سے عمومی طور پر منع کیا ہے۔تاہم جہاں تک ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جماعت خدمت خلق کے کام سر انجام دے رہی ہے۔ سری لنکا کی عوام کی سہولت کے لیے حکومت نے بعض دکانوں اور سپر مارکیٹوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ڈلیوری کا سسٹم شروع کریں تاکہ لوگ گھر بیٹھے اپنی ضروریات کے سامان پا سکیں ۔ (رپورٹ: جاوید رحیم۔ نمائندہ الفضل انٹرنینشل) مارشل آئی لینڈز ٭ جماعت احمدیہ مارشل آئی لینڈز کی طرف سے صابن کی ڈونیشن Environmental Protection Agency کو دی گئی ہے۔ یہ اسکولوں میں تقسیم ہوں گے تاکہ بچے اپنے ہاتھ صاف رکھ سکیں۔ ٭کچھ مارشلیز احمدیوں نے Youtube پر وڈیوز بنانی شروع کی ہیں جن میں وہ لوگوں کو sanitization کے مختلف طریق سکھا رہے ہیں۔ ٭ Ministry of Health نے تمام مذہبی لیڈرز کے ساتھ میٹنگ کی تاکہ ان کی مدد سے لوگوں کو احتیاط کے مختلف طریق سکھا سکیں۔ ٭ اسی طرح جماعت Social Media کے ذریعہ لوگوں کو صفائی کی اہمیت کے بارہ میں آگاہ کر رہی ہے۔ ٭ مزید بر آں جماعت احمدیہ مارشل آئی لینڈز نے Ministry of Health کو خط لکھا ہے کہ اگر گورنمنٹ کو کسی بھی قسم کی مدد درکار ہے تو جماعت احمدیہ حاضر ہے۔ (رپورٹ: ساجد اقبال۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)
س1048: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟ ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔ س1049: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ س1050: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟ ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔ س1051: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟ ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ س1052: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟ ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر حرام معاملات شطرنج اور آلات قمار موسیقی اور غنا موسیقی اور غنا پرنٹ ; PDF موسیقی اور غنا س 1128: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو، وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1129: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟ ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لذا فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ اور لہوی حرام موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ س 1130: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔ س 1131: کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت،بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟ ج: وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی،راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو ۔ البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام،محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔ س 1132: کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔ غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے۔ س1133: غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟ ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔ س 1134: کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1135: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ س 1136: کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔ س 1137: بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟ ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ۔ہاں اگر موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی نہ ہو اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تا ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ س1138: موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟ ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو، غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی، آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1139: میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتا ہے کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا،راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔ س1140: وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟ ج: حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے چونکہ امام (قدس سرہ) ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہو۔ موضوع کی تشخیص موسیقی کے نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کو تشخیص دے تو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔ س 1141: ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے کہ جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے۔ کیا میرے لئے ایسی موسیقی سے اجتناب کرنا اور دوسروں کو بھی منع کرنا واجب ہے؟ ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی طرح حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔ س 1142: وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے انکے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔ س1143: مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میں گانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہو یا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیں یا نہ۔ س 1144: جائز اور معقول مقاصد کے لیے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔ س 1145: آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ س 1146: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟ ج: اگر خاتون کی آواز راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا ہو یا اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ ہو یا اس پر کوئی دوسرا مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جایز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1147: کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔ س 1148: عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے،آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟ ج: اگر عرف میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی شمار ہوتا ہو تو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔ س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟ ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1150: موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟ ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔ س 1151: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟ ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع (آواز کو گلے میں گھمانا) پر مشتمل ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔ س1152: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟ ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔ س 1153: اگر حرام غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: زوجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا،حرام غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔ س1145: عورتوں کے جمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟ ج: اگر کنسرٹ کا اجرا راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی، ترجیع کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو حرام ہے۔ س1155: اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کو نہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں؟اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟ ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں غنا یا حرام لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔ س1156: آیا شادی شدہ مرد اپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لے جایز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔ ج: حرام غنا(اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو)کو سننا مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد، غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔ س1157: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟ ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔ س1158: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔ ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ س 1159: ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1160: آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟ ج: غنا اور لہوی حرام موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔ س 1161: کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟ ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔ س1162: محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلات موسیقی کو اس طرح استعمال کرنا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو ،مطلقاً حرام ہے ۔ س 1163: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلباء استفادہ کرتے ہیں ؟ ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو تو حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں صرف لہو جو راہ خدا سے منحرف کرنے والے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں، انکا استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1164: کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟ ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔ س 1165: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟ ج: وہ آلات جو عام طور پر راہ خدا سے منحرف کرنے والی آواز میں استعمال ہوتا ہو جو فکر اور عقیدے میں انحراف کا سبب بنے یا گناہ کا سبب بنے اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔ س 1166: جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟ ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ رقص رقص پرنٹ ; PDF رقص س 1167: آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1168: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س 1169: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔ س 1170: مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔ س 1171: اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟ ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔ س 1172: آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟ ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1173: آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔ ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔ س 1174: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟ ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔ س1175: دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگر راہ خدا سے منحرف کرنے والا لہوی ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔ س 1176: ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔ س 1177: رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔ س 1178: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟ ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1179: آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔ س 1180: دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو) ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔ تالی بجانا تالی بجانا پرنٹ ; PDF تالی بجانا س1181: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔ س 1182: معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔ نامحرم کی تصویر اور فلم نامحرم کی تصویر اور فلم پرنٹ ; PDF نامحرم کی تصویر اور فلم س1183: بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟ ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔ س1184: ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1185: کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟ ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔ س1186: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوں اور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟ ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کے لئے زحمت و مشقّت ہو تو آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1187: ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔ ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ س1188: کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟ ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔ س 1189: کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟ ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔ س 1190: آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟ ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔ س 1191: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟ ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔ س 1192: بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1193: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔ س1194: ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟ ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔ س1195: اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔ س1196: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔ س1197: ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟ ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ س1198: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟ ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔ س1199: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟ ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1200: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا ان کا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ س 1201: شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟ ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔ س 1202: مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔ س1203: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟ ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔ س1204: آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟ ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔ س1205: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔ س1206: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟ ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔ س1207: ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟ ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔ س١٢٠۸: ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟ ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفا غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔ س 1209: زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟ ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔ س 1210: کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟ ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔ س 1211: فحش ویڈیو فلمیں اور وی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور ایسی لہوی موسیقی پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔ س 1212: غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔ ڈش ا نٹینا ڈش ا نٹینا پرنٹ ; PDF ڈش ا نٹینا س 1213: کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔ س1214: آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔ س1215: ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟ ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س1216: علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟ ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔ س1217: میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ تھیٹر اور سینما تھیٹر اور سینما پرنٹ ; PDF تھیٹر اور سینما س1218: کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟ ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔ س1219: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ س1220: اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔ س1221: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟ ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔ مصوری اور مجسمہ سازی مصوری اور مجسمہ سازی پرنٹ ; PDF مصوری اور مجسمہ سازی س1222: گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1223: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟ ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔ س1224: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔ س1225: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1226:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟ ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔ س1227: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟ ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔ س1228: جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟ ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔ س1229: ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟ ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا قسمت آزمائی قسمت آزمائی پرنٹ ; PDF قسمت آزمائی س1237: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟ ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا بنابرا احتیاط واب حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ س1238: وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟ ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ س1239: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی بیچنا شرعاً جائز ہے؟ ج: بنابر احتیاط ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔ س1240: کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟ ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔ س1241: کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟ ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش بنابر احتیاط واجب حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔ رشوت طبی مسائل تعلیم و تعلم اور ان کے آداب تعلیم و تعلم اور ان کے آداب پرنٹ ; PDF تعلیم و تعلم اور ان کے آداب س 1319: کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟ ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔ س1320: اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟ ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ س1321: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟ ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔ س1322: حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟ ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1323: اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔ س1324: اسلامی جمہوری (ایران) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟ ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔ س1325: آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟ ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔ س1326: گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟ ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔ س1327: حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟ ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1328: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟ ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔ س1329: آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟ ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔ س1330: کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟ ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔ س1331: حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟ ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔ س1332: گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟ ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔ س1333: بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟ ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1334: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟ ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ س1335: استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟ ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔ حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر پرنٹ ; PDF حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر س1336: وه کتب اور مقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامیه جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر ان کی اشاعت کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ س1337: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟ ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔ س1338: اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔ س1339: اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟ ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔ س1340: اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟ ج: احتیاط واجب کی بنا پر مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ س1341: آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1342: تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔ س1343: آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔ س1344: آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟ ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1345: بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟ ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔ س1346: بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کو ختم کردینا کافی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو ختم کرنا کافی ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ تجارت غیر مسلموں کے ساتھ تجارت پرنٹ ; PDF غیر مسلموں کے ساتھ تجارت س1347: آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔ س1348: کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔ س1349: آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔ س1350: آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟ ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔ س1351: آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینیڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں؟ ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔ س1352: اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟ ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔ س1353: اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔ س1354: اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔ س1355: امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟ ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ س1356: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟ ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔ ظالم حکومت میں کام کرنا ظالم حکومت میں کام کرنا پرنٹ ; PDF ظالم حکومت میں کام کرنا س1357: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟ ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔ س1358: ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟ ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔ س1359: امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟ ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1360: آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟ ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔ لباس کے احکام لباس کے احکام پرنٹ ; PDF لباس کے احکام س1361: لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟ ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔ س1362: اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔ س1363: آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔ س1364: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟ ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ س1365: آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟ ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔ س1366: آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟ ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔ س1367: آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟ ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔ س1368: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟ ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ س1369: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟ ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1370: آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟ ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س1371: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟ ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1372: مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔ مغربی ثقافت کی پیروی جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا پرنٹ ; PDF جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا س1388: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟ ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔ س1389: بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟ ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔ س1390: کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟ ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔ س1391: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟ ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔ س1392: مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟ ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔ س1393: کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔ س1394: کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟ ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔ س1395: نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟ ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔ س1396: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔ س1397: بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال پرنٹ ; PDF سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال س1398: عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔ س1399: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟ ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔ س1400: آیا انفیه کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔ س1401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1402: آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔ س1403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟ ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔ س1404: کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟ ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1405: خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔ س1406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟ ج: جائز نہیں ہے۔ س1407: آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟ ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔ س1408: آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔ س1409: ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔ داڑھی مونڈنا داڑھی مونڈنا پرنٹ ; PDF داڑھی مونڈنا س1410: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟ ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ س1411: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟ ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔ س1412: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1413: بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔ س1414: کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟ ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔ س1415: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟ ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔ س1416: ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟ ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1417: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔ س1418: اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟ ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔ س1419: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟ ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔ س1420 :کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟ ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔ س1421:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔ ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔ س1422: کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟ ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔ س1423 :بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔ س1424: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟ ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔ محفل گناہ میں شرکت کرنا محفل گناہ میں شرکت کرنا پرنٹ ; PDF محفل گناہ میں شرکت کرنا س1425: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔ س1426:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟ ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔ س1427: ١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟ ٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟ ٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکاان پر کوئی اثر نہ ہو؟ ٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی لہوی موسیقی کا سننا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے س1428:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س1429: آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟ ج: غنا اور لہوی موسیقی کی ایسی محفل میں جانا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو اگر اسکے سننے کا باعث ہو یا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔ س1430: ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟ ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔ س1431: بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوں میں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔ دعا لکھنا اور استخارہ دعا لکھنا اور استخارہ پرنٹ ; PDF دعا لکھنا اور استخارہ س1432: آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟ ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1433: ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1434: آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔ س1435: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟ ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔ س1436: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟ ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔ س1437: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔ س1438: آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟ ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔ س1439: بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ دینی رسومات کا احیاء ذخیرہ اندوزی اور اسراف ذخیرہ اندوزی اور اسراف پرنٹ ; PDF ذخیرہ اندوزی اور اسراف س1468: کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟ ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔ س1469: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟ ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار هوتا ہے، جو بات صحیح ہے وہ رسول اللہؐ(صلی الله علیه و آله و سلم) سے منقول یہ کلام ہے کہ آپ فرماتے هیں«لاسَرَف فی خیر» کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔ تجارت و معاملات سود کے احکام سود کے احکام پرنٹ ; PDF سود کے احکام س1619: ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا حقیقی قصد و ارادہ رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔ س1620: قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟ ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اس کے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔ س1621: سودی معاملے﴿لین دین﴾ کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہےجبکہ کسی دوسرے معاملے میں نہیں ہوتا؟ ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے ﴿لین دین﴾ میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اس کی ہم جنس شے کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔ س1622: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کے لئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ،اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اس کے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔ ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہوتی کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔ س1623: بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں،مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔ س1624: کیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی ﴿ذاتی حیثیت رکھنے والے﴾ اور حقوقی ﴿بحیثیت منصب یا عہدہ﴾ افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے کہ جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔ س1625: اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن طرفین اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے طور پر مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟ ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر اتفاق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔ س1626: اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟ ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کے لئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔ س1627: میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا: میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردے گا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔ س1628:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔ س1629: ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن فنڈ یا جی پی فنڈ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اس کے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اس کی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اس کی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔ س1630: بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کے لئے جُعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟ ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کے لئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام یا جُعل (عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام یا جُعل(عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔ س1631: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟ ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان اختلاف سود شمار نہیں ہوگا۔ س1632: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لہذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسخ کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کے لئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اس کی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اس کے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اس کی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔ حقِ شفعہ حقِ شفعہ پرنٹ ; PDF حقِ شفعہ س1633: اگر ایک چیز دو اشخاص کے نام پر وقف ہو جبکہ ان میں سے ایک شخص اپنے حصے کو بیچنے کا حق بھی رکھتا ہو اور کسی تیسرے شخص کو اپنا حصہ بیچنا چاہے تو کیا پہلا شخص شفعہ کا حق رکھتا ہے؟ اسی طرح اگر دو اشخاص مل کر کسی جائیداد یا وقف شدہ جگہ کو کرائے پر لیں پھر ان میں سے ایک شخص صلح یا کرائے کے ذریعے اپنا حق کسی تیسرے شخص کو دے دے تو کیا کرائے پر لی گئی جائیداد پر شفعہ کا حق بنتا ہے؟ ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین(خارجی اشیاء) کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کے لئے کوئی شئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز بھی ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی شئے میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔ س1634: شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور شہری قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے یا واضح طور پر کہے کہ اگر وہ خریدار اسکے شریک کا حصہ خریدے تو وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا ساقط ہونا شمار ہوگا؟ ج: محض ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے پر ابھارنا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت ہونے سے ٹکراؤ نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملہ انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا۔ س1635:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی واقع نہیں ہوئی (اسقاط ما لم یجب)ہے۔ ج: جب تک حق شفعہ واقع نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ عملی نہ ہو جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے تحت اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔ س1636: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادا نہیں کر رہے اس طرح کہ کرایہ دار کے لئے حق تقاص(ادھار کے بدلے کوئی چیز قبضے میں لینا) ثابت ہوجاتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے۔ اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار کے برابر اس گھرکا کچھ حصہ اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقی ماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟ ج: سوال کی مفروضہ صورت میں حق شفعہ کا موضوع نہیں ہے اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہو، تاہم اس شخص کو حق شفعہ حاصل نہیں جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ایں اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں بلکہ صرف دو شخص شریک ہوں۔ س1637: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترکہ ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے۔ تقسیم کے ایک ،سادہ اشٹام کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ جائیداد معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اگر ایک شریک تقسیم کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترکہ ہے حق شفعہ حاصل ہے؟ ج: فروخت شدہ حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترکہ ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔ اجارہ ضمانت ضمانت پرنٹ ; PDF ضمانت س 1682: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟ ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔ س 1683: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا، چنانچہ اس کے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا ،اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں۔ اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اس وقت مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟ ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔ رہن رہن پرنٹ ; PDF رہن س 1684: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اس کے پاس گروی رکھا پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اس کے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے۔ نتیجتاً بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور ان کے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟ ج: جن مقامات میں مرتہن (جس کے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کے لئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے فروخت کرنا جائز ہے، وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اس کے شرعی مالک کو لوٹا دے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔ س1685: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کے لئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اس کے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کے لئے کرایہ پر لے لے؟ ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے، اس کے علاوہ اس قسم کے معاملات، سودی قرض حاصل کرنے کے لئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔ س 1686: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی ایک زمین دوسرے شخص کے پاس گروی رکھی۔ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن(گروی رکھوانے والا) اور مرتہن(گروی لینے والا) دونوں انتقال کرگئے ہیں اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے ان کے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں ان کے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔ س 1687: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟ ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1688: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کےلئے اپنا مکان اس کے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اس کے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کے لئے کیا حکم ہے ؟ ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائے گا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔ س1689: میرے والد نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن انہوں نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا ۔پھر میں نے اپنے والد کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ والد کے قرض کو ادا کرنا یا انہیں برئ الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھ دوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کے لئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا ۔اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے؟ اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ والد کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں تھا، کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟ ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اس کا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اس کے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔ س1690: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑوانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟ ج: جب تک پہلا رہن چھڑوا نہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔ س1691: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں ان کے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے۔میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔ شراکت شراکت پرنٹ ; PDF شراکت س1692: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمایے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعاً حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1693: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جس کے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اس کی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔ س1694: دو افراد نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اس کے شریک کو اس کا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اس کا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟ ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔ س 1695: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کے لئے پیش کردیتاہے، در نتیجہ اس کی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی۔ اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی مالیت خود حصص کی قدر و قیمت کی بنیاد پر اور ان کی قدر و قیمت کا تعین ایسے شخص کے ذریعے انجام پایا ہو جو یہ کام کرنے کا مجاز ہو تو ان کے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان حصص کی مالیت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا ان کے سرمایہ کی بنیاد پر ہو، چونکہ حصص میں سے ہر ایک اس قیمت کی ایک مقدار (جزء) کو نمایاں کرتا ہے لہذا ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ حصص کے ہر حصے کی مالیت معلوم اور معین ہو۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔ س1696: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اس کے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ ذبح خانہ اور اس کی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کے لئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس و قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟ ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کےلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔ س 1697: ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اس کی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا لیکن اس کی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے ،کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟ ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔ س1698: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ۔ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اس کی کوئی بات قبول نہیں کرتا۔ نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ در نتیجہ پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا ۔عدالت کے ماہر نے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اس کی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کے لئے پیش کردیا اور مکان بیچنے کے بعد اس کی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1699:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟ ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لئے یا اپنی بیوی کے لئے خریدا ہو اور اس کی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اس کی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اس کی یا اس کی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں ان کا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے۔ س 1700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا ان کے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟ ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔ س1701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ ان کی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اور اگر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔ ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اس کے ساتھ مکان کی تعمیر میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے سلسلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا ۔ اب مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آجانے کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اور اس کی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے، اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟ ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اس کے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔ س 1703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں کارو بار کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی کہ انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے : ١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟ ٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟ ٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود رکھ لے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ ٢۔شرکاء میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔ ٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔ س 1704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کے لئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اس کا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔ س1705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟ ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور ان کا علیحدہ کرنا ممکن ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کے لئے کسی شریک کو اس کا حصہ بیچنے پر مجبور کرنے کا حق نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے درختوں والے باغ کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ جائیداد تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جاسکتا ہے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اس کا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔ س 1706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں، چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور ان کی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ، در نتیجہ دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے ان کا مشترکہ مال ان کے مابین کس طرح تقسیم ہوگا؟ ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا ۔ در نتیجہ انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دی جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔ س1707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کے لئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟ ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے اور تقسیم کرنے کے لئے چائے ان کی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر ان کے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1708: کیا کسی کمپنی کے مینیجر کے لئے کمپنی کی آمدنی کو شیئر ہولڈرز کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اس کے خرچ کرنے کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے اجازت اور وکالت لئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی کیوں نہ خرچ کیا ہو۔ س 1709: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اس کا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟ ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار کے عوض اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔ س 1710: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور شیئرز ہولڈرزکے نمائندے اس کے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینیجر اور دیگر ملازمین کے لئے اس کے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرنا جائز ہے؟ ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب شیئر ہولڈرز یا ان کے نمائندے اس کی اجازت دیں۔ س 1711: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ کمیٹی جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے 51 فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اس لئے وہ اس کمیٹی کو تشکیل نہیں دے رہے ۔کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان حصص کے مالکان کے حقوق کی حفاظت کے لئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس کمیٹی کے تشکیل دینے میں حصہ ڈالیں۔ ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں فیصلہ کمیٹی کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ فیصلہ کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔ س 1712: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جس کی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں ۔حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اس وقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اس کے شریک نے اپنے لئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟ ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اس کا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔ س 1713: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اس کا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟ ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کرے گا اس کے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے، اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔ س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ ہبہ ہبہ پرنٹ ; PDF ہبہ سوال 1715:کیا نابالغ یتیم کی طرف سے ہدیہ کردہ مال میں تصرف کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: اس کے شرعی ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔ سوال 1716: دو بھائی زمین کے ایک قطعے میں برابر شریک ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اپنا حصہ بڑے بھائی کے بیٹے کو ہبہ معوضہ کے طور پر بخشا اور تحویل میں دے دیا ؛ کیا ہبہ کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی وفات کے بعد زمین کے مذکورہ حصے میں ارث کا دعوی کرسکتے ہیں؟ جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ مرنے والے بھائی نے اپنی حیات میں اس زمین میں سے اپنا حصہ اپنے بھتیجے کو بخشا اور تحویل میں دے کر اس کے اختیار میں دے دیا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔ سوال 1717: اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زمین پر اس کے لئے کوئی گھر بنائے اور اس کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اپنے لئے ایک منزل تعمیر کرے؛ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ باپ کی وفات کے کئی سال بعد وہ شخص بھی مرجائے اور ہبہ یا اس میں تصرف کی کیفیت پر دلیل کے طور کوئی سند یا وصیت نامہ موجود نہ ہو؛ کیا دوسری منزل اس کی ملکیت ہوگی اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجائے گی؟ جواب: اگر بیٹے نے اپنے تصرف میں موجود دوسری منزل بنانے کے اخراجات ادا کئے ہوں اور باپ کی حیات میں کسی تنازع کے بغیر اس کے اختیار میں رہی ہو تو شرعی طور پر اس کی ملکیت کے حکم میں ہوگی اور وفات کے بعد بھی اس کا ترکہ شمار کیا جائے گا اور ورثاء کا ہوگا۔ سوال 1718: جب میں گیارہ سال کا تھا تو میرے باپ نے رسمی طور پر ایک گھر کو میرے نام پر کردیا؛ ایک زمین اور ایک مکان کا آدھا حصہ میرے بھائی کے نام اور دوسرا آدھا حصہ میری ماں کے نام کردیا۔ میرے باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء نے دعوی کیا کہ جو مکان والد نے میرے نام کردیا ہے وہ شرعا میرا نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ باپ نے قبضے سے بچانے کے لئے گھر میرے نام پر کردیا ہے حالانکہ جن املاک کو میرے بھائی اور ماں کے نام پر کردیا ہے ان پر ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ میرے باپ نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس بات پر کوئی ثبوت بھی نہیں ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: باپ نے اپنی حیات میں جن املاک کو بعض ورثاء کو ہبہ کرکے تحویل دیا ہو اور اس کے لئے ثبوت کے طور پر رسمی سند بھی اس کے نام پر کردی ہو تو شرعا اس کی ملکیت ہوگی اور دوسرے ورثاء اس کے ساتھ تنازع کا حق نہیں رکھتے، مگر یہ کہ معتبر طریقے سے ثابت کریں کہ ان کے باپ نے املاک کو اسے نہیں بخشا ہے اور رسمی سند (حقیقی نہ ہو بلکہ صرف) دفتری ہو۔ سوال 1719: جب میرا شوہر گھر کی تعمیر میں مصروف تھا تو میں بھی اس کی مدد کرتی تھی اور یہی تعمیراتی اخراجات میں کمی اور گھر کی تکمیل کا باعث بنی۔ اس نے خود کئی مرتبہ کہا کہ میں بھی گھر میں اس کے ساتھ شریک ہوں اور کام مکمل ہونے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ میرے نام پر کردے گا لیکن وہ اس کام کے انجام سے پہلے فوت ہوگیا اور میرا دعوی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کوئی سند اور وصیت نامہ میرے پاس نہیں ہے؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: گھر میں شریک کرنے کے فقط وعدے پر اس کی تعمیر میں صرف مدد کرنا ملکیت میں شراکت کا باعث نہیں ہےاس بنا پر جب تک معتبر طریقے سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آپ کے شوہر نے اپنی حیات میں گھر کا ایک حصہ آپ کو بخش دیا ہے ،اپنے ارث کے علاوہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سوال1720: میرے شوہر نے جب اس کی عقل صحیح و سالم تھی، بینک کے ذمہ دار شخص کو بلایا اور اپنے اکاونٹ میں موجود پیسے مجھے ہبہ کیا اور سند پر دستخط بھی کیا کہ پیسے نکالنے کا حق مجھے ہوگا جس پر ہسپتال کے سربراہ اور بینک کا مسئول گواہ بھی تھے۔ اسی بنیاد پر بینک نے مجھے چیک جاری کیا اور پورے مہینے میں، میں نے کچھ رقم نکال لی۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد شوہر کو اس کے بیٹے نے بینک لے گیا جب کہ اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے (شوہر سے) پوچھا کہ کیا یہ مال تیری بیوی کا ہے؟ اس نے سر کے ذریعے ہاں میں جواب دیا۔ دوبارہ سوال کیا کہ کیا یہ تیرے بچوں کا نہیں ہے؟ اسی طرح اثبات میں جواب دیا۔ کیا یہ مال میرا ہے یا میرے شوہر کے بچوں کا ہے؟ جواب: چونکہ ہبہ میں ملکیت حاصل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے اور فقط سند پر دستخط کرنا اور پیسے نکالنے کے لئے متعلقہ بینک سے چیک ملنا کافی نہیں ہے لہذا صرف دستخط اور چیک دریافت کرنا اس ہبہ کے صحیح ہونے کا باعث نہیں ہے لذا جو رقم شوہر کی ذہنی سلامتی کے دوران اس کی اجازت سے بینک سے نکالی ہے وہ آپ کا مال ہے اور بینک میں آپ کے شوہر کا باقی ماندہ مال اس کی وفات کے بعد ترکہ اور ورثاء کا ہوجائے گا اور اس اقرار کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس نے بے شعوری کے عالم میں کیا ہے اور اگر اس میں کوئی قانون موجود ہے تو اس کی رعایت کی جائے گی۔ سوال 1721: ماں کی حیات میں بچے اس کے استعمال کے لئے جو اشیاء خریدتے ہیں کیا اس کے ذاتی اموال ہوں گے کہ اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار کیا جائے؟ جواب: اگر بچوں نے مذکورہ اشیاء ماں کو بخش دیا اور اس کے اختیار میں رکھا ہو تو ماں کی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو گا۔ سوال 1722: شوہر اپنی بیوی کے لئے طلائی زیورات خریدے تو کیا شوہر کا مال شمار ہوگا کہ وفات کے بعد اس کا ترکہ سمجھا جائے اس طرح ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور بیوی بھی اس سے اپنا حصہ لے لے یا بیوی کا مال شمار ہوگا؟ جواب: اگر جواہرات بیوی کے اختیار اور تصرف میں ہوں اس طرح کہ مالک کی حیثیت سے تصرف کا حق رکھتی ہو تو جواہرات کی ملکیت بیوی کو مل جائے گی مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے۔ سوال1723: ازدواجی زندگی کے دوران میاں بیوی کو ملنے والے تحفے کیا شوہر کے ہوں گے یا بیوی کے یا دونوں کے؟ جواب: مذکورہ تحفے شوہر کے ہیں یا بیوی کے یا دونوں کے، تحفے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے مسئلہ بھی فرق کرتا ہے۔ جو تحفہ دونوں میں سے کسی کے لئے خصوصی طور پر ملا ہو تو اسی شخص کا ہوگا اور جو تحفہ دونوں کے لئے مشترک ملا ہو وہ دونوں میں مشترک ہوگا۔ سوال 1724: اگر مرد بیوی کو طلاق دے تو کیا بیوی شادی کے دوران ماں باپ کے گھر سے ساتھ لایے ہوے اموال (مثلا قالین، بیڈ، لباس وغیرہ) کا شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ایسی چیزیں ہوں جو بیوی نے اپنے گھر والوں سے لی ہوں یا ذاتی ہوں جس کو اپنے لئے خریدا ہو یا ذاتی طور پر اس کے لئے ہبہ کیا گیا ہو تو اس کی ملکیت ہوگی اور اگر موجود ہو تو شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن ایسی اشیاء جو بیوی کے خاندان یا قبیلے والوں نے داماد کو ہدیہ کردیا ہو تو شوہر سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے بلکہ ایسے اموال پر ہدیہ کرنے والے کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ ہدیہ باقی ہو اور شوہر اس کا رشتہ دار نہ ہوتو ہدیہ کرنے والا ہبہ کو فسخ کرکے واپس لے سکتا ہے۔ سوال 1725: میں نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد سونا،زیورات اور ان چیزوں کو اس سے واپس لے لیا جو میں نے ازدواجی زندگی کے دوران اس کو دی تھیں؛ کیا اب میرے لئے ان میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر ان چیزوں کو عاریہ کے طور پر بیوی کو دیا ہو تاکہ وہ استعمال کرے یا اس کو ہبہ کردیا ہو اور اسی حالت میں اب بھی اس کے پاس موجود ہوں اور وہ عورت اس کی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ہبہ کو فسخ کرکے مال واپس لے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائز ہے کہ مذکورہ چیزوں میں تصرف کرےجن کو اس سے واپس لیا ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ سوال 1726: میرے باپ نے زمین کا ایک قطعہ مجھے بخش دیا اور رسمی طور پر اس کی سند بھی میرے نام کردیا لیکن ایک سال کے بعد پشیمان ہوا؛ کیا اس زمین میں تصرف کرنا میرے لئے جائز ہے؟ جواب: اگر زمین کو آپ نے تحویل میں لے کر قبضہ کرلیا اس کے بعد باپ ہبہ سے پیشمان ہوا اور رجوع کرے تو اس کا رجوع صحیح نہیں ہے اور شرعی طور زمین آپ کی ہے لیکن آپ کی طرف سے زمین کو قبضے میں لینے سے پہلے وہ پشیمان ہوجائے تو ہبہ سے منصرف ہونے کا حق رکھتا ہے اور اس کے بعد آپ زمین پر کوئی حق نہیں رکھتے اور فقط سند کا آپ کے نام پر اندراج ہونا ہبہ میں معتبر قبضہ ثابت ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ سوال 1727: میں نے کسی شخص کو زمین بخش دی اور اس نے زمین کے ایک گوشے میں رہائشی گھر بنا لیا؛ کیا میرے لئے جائز ہے کہ مذکورہ زمین یا بخشے جانے والے حصے کی قیمت کا مطالبہ کروں؟ اور کیا جائز ہے کہ جس حصے میں عمارت تعمیر نہیں کی ہے اس کو واپس لے لوں؟ جواب: جب اس شخص نے آپ کی اجازت سے زمین پرقبضہ کیا اور عمارت تعمیر کرکے اس میں تصرف کیا تو اس کے بعد ہبہ کو فسخ کرنےاور زمین یا اس کی قیمت لینے کا آپ کو حق نہیں ہے اور زمین کی مساحت اتنی ہو کہ اس کے ایک حصے میں گھر بنانا محلے والوں کی نظر میں عرفا پوری زمین پر تصرف سمجھا جاتا ہو تو اس کا کچھ بھی حصہ واپس لینے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ سوال 1728: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے تمام اموال کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے لئے ہبہ کرے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے؟ جواب: اگر یہ کام فتنے اور بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔ سوال 1729: کسی شخص نے اپنے گھر کو ہبہ معوضہ کے طور پر رسمی سند کے ساتھ پانچ افراد کو ہبہ کردیا تاکہ اس کی زمین پر حسینیہ (عزاخانہ) تعمیر کریں اس شرط کے ساتھ کہ تعمیر کے بعد دس سال تک حبس رکھیں اور اس کے بعد اگر چاہیں تو وقف کریں اس کے نتیجے میں انہوں نے عوام کی مدد سے حسینیہ کی تعمیر شروع کی اور مذکورہ مدت گزرنے اور متولی اور نگران کی تعییناتی کے بعد انتظامات اور نگرانی اور وقف کی شرائط سے مربوط امور کا اختیار اپنے پاس رکھا اور اس سے متعلق سند کا بھی اہتمام کرلیا؛ کیا اس صورت میں جب محبوس حسینیہ کو وقف کرنے کا قصد رکھتے ہوں، نگران اور متولی کے انتخاب میں ان لوگوں کی رائے کی پیروی واجب ہے؟ اور کیا ان شرائط پر کاربند نہ رہنا شرعامشکل ہے(یعنی ان کی رعایت ضروری ہے)؟ اگر مذکورہ پانچ افراد حسینیہ کو وقف کرنے کی مخالفت کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: ان پر واجب ہے کہ ہبہ کرنے والے نے عقد ہبہ معوضہ کے ضمن میں جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل کریں اور اگر اس کی حفاظت یا وقف کی کیفیت کے بارے میں عائد شرائط کی مخالفت کریں تو ہبہ کرنے والا یا اس کے ورثاء ہبہ معوضہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔لیکن جو شرائط ان پانچ افراد نے حفاظت اور اس کی نگرانی کے بارے میں رکھی ہیں اور اسی طرح وقف اور متولی و نگران کے بارے میں مقرر کرکے اندراج کی ہیں اگر ہبہ کرنے والے کے ساتھ عقد ہبہ میں ہماہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہو اس طرح کہ اس کے تمام امور کو ان افراد کے حوالے کردیا ہو تو اس صورت میں ان کی پابندی اور عمل کرنا واجب ہے اور ان میں سے بعض حسینیہ کو وقف کرنے سے اجتناب کریں چنانچہ ہبہ کرنے والے کی رائے یہ ہو کہ وقف کے حوالے سے یہ لوگ مل کر وقف کے معاملے میں فیصلہ کریں تو باقی افراد وقف کرنے میں پہل اور اقدام نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1730:کسی شخص نے اپنے گھر کا ایک تہائی حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے اور ایک سال کے بعد پورے گھر کو پندرہ سالوں کے لئے کرائے پر دے دیا اس کے بعد مرگیا؛ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ کیا یہ ہبہ حالانکہ ہبہ کرنے کے بعد گھر کو کرائے پر دیا ہے، صحیح ہے اور اگر مقروض ہو تو کیا اس کو پورے گھر سے ادا کرنا ضروری ہے یا دو تہائی حصے سےاور اس کے بعد باقی حصے کو ارث کے قانون کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا؟ اور کیا قرض خواہوں پر کرائے کی مدت پوری ہونے تک صبر کرنا واجب ہے؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے نے جو حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے پورا گھر کرائے پر دینے سے پہلے اپنی بیوی کے قبضے میں دیا ہو اگرچہ پورے گھر کو تحویل میں دینے کے ضمن میں ہی کیوں نہ ہو، اور بیوی اس کی رشتہ دار ہو یا ہبہ معوضہ ہو تو اس حصے کا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اجارہ فقط باقی حصے کی نسبت صحیح ہے اس صورت کے علاوہ چونکہ پورا گھر اس کے بعد کرائے پر دیا گیا ہے لہذا ہبہ باطل ہےالبتہ کرائے پر دینا ہبہ سے پلٹنے کی نیت سے ہو تو فقط وہ اجارہ صحیح ہے کہ جو ہبہ کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ میت کا قرض بھی اس مال سے ادا کرنا ضروری ہے جس کا وفات کے وقت تک وہ مالک تھا اور جس چیز کو اس کی حیات میں ایک مدت کے لئے کرائے پر دیا گیا ہو اس مدت کے دوران اس کا فائدہ کرائے دار کو ملے گا اور وہ چیز ترکہ شمار کی جائے گی اور اس کا قرضہ اسی سے منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ ورثاء کی میراث ہے اور اجارے کی مدت پوری ہونے تک اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1731۔ کسی شخص نے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ اس کے تمام غیر منقولہ اموال اولاد میں سے کسی ایک کے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جب تک زندہ ہو ہر سال ان اموال کے بدلے میں چاول کی ایک خاص مقدار وہ (وصیت کرنے والے) اور اس کے گھر والوں کو دے۔ایک سال کے بعد تمام اموال اس کو بخش دیا؛چونکہ وصیت پہلے ہے لہذا کیا وصیت اب بھی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ایک تہائی حصے میں صحیح اور اس کے مرنے کے بعد باقی ماندہ اموال ورثاء کو ارث میں ملیں گے؟ یا ہبہ وقوع پذیر ہونے کے بعد وصیت باطل ہوگی؟ (یاد رہے کہ مذکورہ اموال اس شخص کے قبضے میں ہیں جس کو ہبہ کیا گیا ہے) جواب: اگر وصیت کے بعد ہبہ کیا جائے تو چونکہ ہبہ کرنے والے کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اس مال پر قبضہ اور تسلط قطعی اور یقینی ہوگیا تھا لہذا وصیت جوکہ ہبہ سے پہلے کی گئی ہے، باطل ہے کیونکہ ہبہ وصیت سے انحراف شمار ہوتا ہے نتیجے میں ہبہ کیا ہوا مال فرزند کا ہوگا اور دوسرے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے، اس صورت کے علاوہ جب تک وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت سے انحراف ثابت نہ ہوجائے وصیت کا اعتبار برقرار رہے گا۔ سوال 1732: جس وارث نے باپ سے ملنے والی ارث سے اپنا حصہ اپنے دو بھائیوں کو بخش دیا ہو کئی سال کے بعد کیا اس کو ان سے طلب کرسکتا ہے؟ اور اگر دونوں بھائی اس کے حصے کو واپس کرنے سے گریز کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر قبضے میں لینے کی وجہ سے ہبہ ثابت ہونے کے بعد اس سے پلٹنا چاہے تو اس کا حق نہیں ہے لیکن اگر قبضہ مکمل ہونے سے پہلے پلٹے تو صحیح ہے اور کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال 1733: میرے ایک بھائی نے رضایت کے ساتھ ارث میں سے اپنا حصہ مجھے بخش دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد ارث کو ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ گیا؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر ارث میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ جائے تو صحیح ہے اور آپ کو اس حصے میں کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر اس حصے کو آپ نے قبضے میں لینے کے بعد ہبہ سے پلٹ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو حصہ آپ کو بخش دیا ہے اس میں اس کو کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1734: ایک عورت نے اپنی زرعی زمین کسی شخص کو بخش دیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں حج کا فریضہ ادا کرے اس گمان کے ساتھ کہ اس پر حج واجب ہوا ہے لیکن اس کے قبیلے والے اس کے ساتھ متفق نہیں ہیں اس کے بعد دوسری مرتبہ زمین کو اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو ہبہ کردیا اور دوسری مرتبہ ہبہ کرنے کے ایک ہفتے کے بعد مرگئی؛ پہلا ہبہ صحیح ہے یا دوسرا؟ پہلی مرتبہ جس کو ہبہ کیا گیا تھا حج کی ادائیگی کے بارے میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟ جواب: اگر پہلا شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار ہو اور اس کی اجازت سے مذکورہ مال کو قبضے میں لیا ہو تو پہلا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اس عورت کی نیابت میں حج کرنا واجب ہے اور دوسرا ہبہ فضولی ہے اور پہلے جس شخص کو ہبہ کیا گیا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہے لیکن اگروہ شخص اس عورت کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہو یا مذکورہ مال کو قبضے میں نہیں لیا ہو تو دوسرا ہبہ صحیح ہے اور ایسا سمجھا جائے گا کہ پہلے ہبہ سے پلٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں پہلا ہبہ باطل ہوگا لذا پہلے شخص کو زمین میں کوئی حق نہیں اور ہبہ کرنے والی عورت کی طرف سے حج انجام دینا بھی واجب نہیں ہے۔ سوال 1735: کیا حق ثابت ہونے سے پہلے ہبہ کرسکتے ہیں؟ اگرعورت مستقبل میں خود کو ملنے والے مالی حقوق (تنخواہ) کو عقد کے دوران اپنے شوہر کو بخش دے تو صحیح ہے؟ جواب: اس طرح کا ہبہ صحیح ہونے میں اشکال بلکہ منع ہے اس کے نتیجے میں اگر مستقبل میں عورت کے حقوق (تنخواہ) کا شوہر کو ہبہ کرنا صلح یا ثابت ہونے کے بعد ان کو ساقط کرنے کی طرف پلٹتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سوال 1736: کافروں کو تحفہ دینے یا ان سے لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: ذاتا اشکال نہیں رکھتا ہے۔ سوال 1737: کسی شخص نے اپنی حیات میں اپنے تمام اموال اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو بخش دیا تو کیا یہ ہبہ اس کے تمام اموال حتی مرنے کے بعد کفن اور دفن وغیرہ کے امور کی نسبت بھی نافذ العمل ہوگا؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے کی طرف سے ہبہ کرنے کے بعد اس کی حیات میں ہی مذکورہ اموال کو اس کی اجازت سے قبضے میں لیا ہو تو جتنے اموال قبضے میں لیا ہے ان میں ہبہ نافذ العمل ہوگا۔ سوال 1738: جو اموال جنگ میں زخمی ہونے والوں کو دئے جاتے ہیں ان کو تحفہ شمار کیا جائے گا؟ جواب: ہاں؛ مگر جو کسی کام کے بدلے بعض لوگوں کو ادا کیا جاتا ہے وہ اس کام کی اجرت شمار کی جائے گی۔ سوال 1739: اگر کسی شہید کے گھر والوں کو کوئی تحفہ دیا جائے تو ورثاء کا مال شمار ہوگا یا کفیل یا ان کے ولی کا؟ جواب: ہبہ کرنے والے کی نیت سے وابستہ ہے۔ سوال 1740: بعض کمپنیوں یا افراد کی طرف سے وکیلوں اور ایجنٹوں کو اشیاء کی خرید و فروخت یا صنعتی معاہدوں کے دوران تحفے دیئے جاتے ہیں اس احتمال کے ساتھ کہ تحفہ لینے والا تحفہ دینے والے کے فائدے میں کام کرے یا اس کے حق میں فیصلے کرے تو کیا ان تحفوں کو اس سے قبول کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: خرید و فروخت یا معاملے میں بننے والے ایجنٹ یا وکیل کو معاملے کے بدلے طرف مقابل سے کوئی ہدیہ نہیں لینا چاہئے۔ سوال 1741: جو ہدیہ کمپنیوں اور لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہےاس ہدیہ کے مقابلے میں ہو جو بیت المال سے ان کو دیئے جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر بیت المال سے ملنے والے تحفے کے بدلے میں دیا جائے تو بیت المال کو ہی دینا چاہئے۔ سوال 1742: اگر تحفہ وصول کرنے والے پر اس تحفے کا اثر پڑجائے اور غیر مناسب تعلقات یا امن و امان کے لحاظ سے مشکوک روابط کا باعث بنے تو کیا ایسا تحفہ لینا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: ایسے تحفے وصول کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ سوال 1743: اگر احتمال ہو کہ تحفہ دینے کا مقصد تحفہ وصول کرنے والے کو تحفہ دینے والے کے حق میں تبلیغ کرنے پر تشویق اور ترغیب دینا ہے تو اس کو وصول کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر مذکورہ تبلیغات شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز ہوں تو کوئی اشکال نہیں اور ان تبلیغات کے بدلے تحفہ وصول کرنے میں کوئی منع نہیں ہے البتہ دفتری دائرہ کار میں ایسا کام متعلقہ قوانین و ضوابط کا تابع ہے۔ سوال 1744: اگر کسی کام کو انجام دینے کے لئے افسر کو تیار کرنے یا مخالفت سے باز رکھنے یا تغافل اور چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے تو تحفہ قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اس طرح کے تحفے قبول کرنے میں اشکال ہے بلکہ ممنوع ہے کلی طور پر اگر شریعت اور قانون کے مخالف ہدف تک رسائی یا قانونی افسر کو ایسے کام سے اتفاق کرنے پر مائل کرنے کے لئے جس سے اتفاق کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ہو، تحفہ پیش کیا جائے تو اس تحفے کو وصول کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرے اور متعلقہ افسران پر واجب ہے ایسے کاموں کی روک تھام کریں۔ سوال 1745: کیا دادا کی طرف سے اپنی حیات میں اپنے تمام یا بعض اموال کو اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی اور بچوں کو بخش دینا جائز ہے؟ کیا اس کی اپنی بیٹیاں اس کام میں اعتراض کرنے کا حق رکھتی ہیں؟ جواب: اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی حیات میں جتنا چاہے اپنی اولاد کے بچوں یا بہو کو بخش دے اور اس کی بیٹیوں کو اس کام میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1746: کسی شخص کی نہ اولاد ہے نہ بھائی نہ بہن اور نہ ماں باپ ہیں اور اپنے اموال کو اپنی بیوی یا اس کے قبیلے والوں کو ہبہ کرنا چاہتا ہے؛ کیا شرعا اس کے لئے یہ کام جائز ہے؟ کیا اس ہبہ کی مقدار مشخص اور معین ہے یا تمام اموال کو ہبہ کرسکتا ہے؟ جواب: مالک اپنی حیات میں اپنے تمام اموال یا کچھ مقدار کو اپنے ورثاء اور غیر ورثاء میں سے جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ سوال 1747: شہید فاونڈیشن کی طرف سے میرے شہید بیٹے کی برسی اور مجلس ترحیم کے لئے کچھ پیسے اور غذائی اجناس میرے حوالے کیا ہے؛ کیا ان اشیاء کو وصول کرنے کے اخروی اثرات ہیں؟ کیا یہ شہید کے ثواب اور اجر میں کمی کا باعث بنے گا ؟ جواب: شہداء کے خاندان کی طرف سے اس طرح کے امدادی سامان کو قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شہید اور اس کے خاندان کے اجر و ثواب میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سوال 1748: ہوٹل کے ملازمین اور چوکیداروں نے ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا تاکہ ان کو انعام کے طور پر ملنے والی چیزوں کو اس میں جمع کریں اور آپس میں مساوی تقسیم کریں لیکن ان میں سے بعض افراد جو صدر یا نائب صدر کا عہدہ رکھتے ہیں، دوسروں سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں یہ امر ہمیشہ سے فنڈ کے ممبران کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: یہ مسئلہ اس شخص کے قصد سے وابستہ ہے جس نے مال کو انعام کے طور پر انہیں دیا ہے اس کے نتیجے میں جو انعام کسی مخصوص فرد کو دیا گیا ہے اس کا اپنا مال ہے اور جو سب کواجتماعی دیا گیا ہے ان کے درمیان مساوی تقسیم کرنا چاہئے۔ سوال 1749: جو چیز مثلا چھوٹے بچے کو عیدی کے طور پر تحفے میں ملتی ہے کیا بچے کی شمار کی جائے گی یا اس کے ماں باپ کی ہوگی؟ جواب: اگر باپ چھوٹے بچے کا ولی ہونے کے طور پر اس چیز کو قبضے میں لے تو بچے کی ہوگی۔ سوال 1750: کسی عورت کی دو بیٹیاں ہیں اور اپنی پراپرٹی کو جو کہ زرعی زمین کا ایک قطعہ ہے، بیٹیوں کی اولاد (یعنی بیٹیوں میں سےایک کے بیٹے) کو ہبہ کرنا چاہتی ہے اس کے نتیجے میں دوسری بیٹی ارث سے محروم ہوجائے گی کیا اس کا یہ ہبہ صحیح ہے یا دوسری بیٹی ماں کی وفات کے بعد زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ماں نے اپنی حیات میں اپنے نواسے کو اپنی پراپرٹی بخشی اور تحویل میں دی ہو تو اس صورت میں اس کا مال شمار ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر وصیت کی ہو کہ اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی نواسے کو دی جائے تو ایک تہائی کے برابر اس کی وصیت نافذ العمل ہوگی اور اضافی مقدار میں ورثاء کی اجازت سے وابستہ ہے۔ سوال 1751: کسی شخص نے اپنی زرعی زمین کا کچھ حصہ اپنے بھتیجے کو اس شرط پر ہبہ کردیا کہ اپنی دو ربیبہ ( زیر پرورش لڑکی جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو) کی شادی ہبہ کرنے والے کے دونوں بیٹوں سے کردے۔ لیکن بھتیجے نے ایک ربیبہ کی شادی ایک بیٹے سے کرادی لیکن دوسری ربیبہ کی شادی سے گریز کیا تو کیا مذکورہ شرائط کے ساتھ انجام پانے والا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے یا نہیں؟ جواب: یہ ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے لیکن شرط باطل ہے کیونکہ غیر حقیقی باپ ربیبہ پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ باپ اور دادا نہ ہونے کی صورت میں ان کی شادی ان کی اپنی مرضی سے وابستہ ہے۔ ہاں اگر مذکورہ شرط کا مطلب یہ ہو کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بھتیجا اس شخص کے بچوں سے شادی کرنے کے لئے لڑکیوں کی رضایت حاصل کرے تو یہ شرط صحیح اور پورا کرنا لازم ہے اگر اس شرط پر عمل نہ کرے تو ہبہ کرنے والا اس کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سوال 1752: میرا ایک رہائشی اپارٹمنٹ ہے جس کو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے نام کردیا۔ اس کی ماں کو طلاق دینے کے بعد میں ہبہ سے پلٹ گیا اور اس لڑکی کے اٹھارہ سال پورے ہونے سے پہلےاس کو اپنی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے کے نام پر کردیا؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر پراپرٹی کو حقیقت میں ہی اپنی بیٹی کو ہبہ کردیا ہو اور اس کی ولایت میں اس پر قبضہ کیا ہو تو ہبہ نافذ العمل ہے اور قابل فسخ نہیں ہے لیکن حقیقی معنوں میں ہبہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو بلکہ فقط اس کی سند اپنی بیٹی کے نام کردی ہو تو یہ ہبہ ثابت ہونے اور اس بیٹی کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپارٹمنٹ آپ کا ہے اور اس کا اختیار بھی آپ کے پاس ہوگا۔ سوال 1753: میں نے ایک سخت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی پوری جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کردی اور اس کے متعلق سند بھی ان کے لئے لکھ دی اور ٹھیک ہونے کے بعد ان سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ میرے اموال میں سے کچھ حصہ مجھے دیں لیکن انہوں نے اس سے اجتناب کیا اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: صرف سند لکھنا بچوں کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے نتیجے میں اگر اپنے اموال اور جائیداد ان کو ہبہ کیا ہو اور اس طرح تحویل میں دیا ہو کہ ان کے اختیار اور مالکانہ تصرف میں ہوں تو رجوع کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے لیکن اگر بالکل ہبہ واقع نہ ہوا ہو یا ہبہ کرنے کے بعد قبضے میں نہیں دیا گیا ہو یا قبضے میں نہیں لیا گیا ہو تو وہ اموال آپ کی ملکیت اور اختیار میں باقی ہیں ۔ سوال 1754: کسی شخص نے اپنے وصیت نامے میں گھر میں موجود اشیاء اپنی بیوی کو بخش دیا اور گھر میں وصیت کرنے والے کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب ہے کیا اس کی بیوی اس کتاب کی ملکیت کے علاوہ طباعت اور نشر یاتی حقوق وغیرہ کی بھی مالک ہوگی یا باقی ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہوں گے؟ جواب: تالیف شدہ کتاب کی طباعت اور نشر کا حق اس کی ملکیت کا تابع ہے لذامولف نے اپنی حیات میں جس کو کتاب ہبہ کرکے تحویل دی ہے یا جس کے لئے وصیت کی ہے، مولف کی وفات کے بعد کتاب اس شخص کی ہوگی اور تمام حقوق اور امتیازات بھی اسی شخص سے مخصوص ہوں گے۔ سوال 1755: بعض ادارے اور دفاتر مختلف مواقع پر اپنے ملازمین کو تحفے دیتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے؛ کیا ملازمین کے لئے ان کو قبول کرنا اور تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر تحفہ دینے والا حکومتی قوانین کے مطابق اس کی صلاحیت اور اختیارات کا حامل ہو تو اس صورت میں حکومتی اموال میں سے تحفہ دینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور اگر وصول کرنے والے کو احتمال ہو کہ تحفہ دینے والا ان صلاحیتوں اور اختیارات کا حامل ہے یہ احتمال قابل توجہ ہو تو اس سے تحفہ قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال1756: ہبہ کرنے والے سے قبضے میں لینے میں صرف وصول کرنا کافی ہے یا اس کے علاوہ ہبہ کو خصوصی طور پر بعض موارد میں مثلا گاڑی، گھر اور زمین وغیرہ میں اس شخص کے نام اندراج کرنا بھی ضروری ہے؟ جواب: ہبہ میں قبضہ، شرط ہونے سے مراد معاہدے کو لکھنا اور دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مال حقیقت میں ہی اس کے اختیار اور تصرف میں چلا جائے اور ہبہ واقع ہونے اور ملکیت حاصل ہونے کے لئے یہی کافی ہے اور ہبہ کئے جانے والے اموال میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ سوال 1757: ایک شخص نے شادی، ولادت یا دیگر امور کی مناسبت سے کسی کو مال ہبہ کردیا اور تین یا چارسال گزرنے کے بعد اس کو واپس لینا چاہے تو ہبہ وصول کرنے والے پر اس کو واپس کرنا واجب ہے؟ اور اگر کسی نے عزاداری یا میلاد کی محفل کے لئے کوئی مال دیا تو اس کے بعد کیا مذکورہ مال کو واپس لے سکتا ہے؟ جواب: جب تک وہ ہدیہ اس شخص کے پاس موجود ہے، ہبہ کرنے والا اس کا مطالبہ کرکے واپس لے سکتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار نہ ہو اور ہبہ بھی معوضہ نہ ہو لیکن اگر ہدیہ تلف ہوا ہو یا پہلے کی نسبت جس وقت اس کو ہبہ کیا گیا تھا، اس میں تبدیلی رونما ہوچکی ہو تو اس صورت میں ہدیہ یا اس کا متبادل طلب کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح جس پیسے کو انسان نے قصد قربت اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا ہو، واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ دین و قرض دین و قرض پرنٹ ; PDF دین و قرض س 1758: ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کےلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اس کی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کا لینا جائز ہے ؟ ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔ س 1759: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض دینے والا چیک کی رقم وصول کرنے کےلئے اس کے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اس کی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجرا کے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاً اس کا ذمہ دار ہے؟ ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1760: میرا بھائی میرا کچھ مقروض ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دی جسے میں نے ہدیہ تصور کیا لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دی ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟ ج: قالین یا اس کے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جو قرض کی گئی جنس میں سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی تک اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آپس میں صلح کرلیں۔ س 1761: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔ س 1762: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کا تیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک ضمانت کے طور پر اسے ایک چیک دے دیا۔ اب جبکہ فریقین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور ان کے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھر کا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردینا کافی ہے؟ ج: قرض دینے والے کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کےلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اس کا قرض ادا کرنے کےلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے اختلاف کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔ س 1763: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھار لی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اس کے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔ س 1764: قرض دینے والا عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کےلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض دینے والے نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ س1765: اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اس کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض دینے والا اس کا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟ ج: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض دینے والا اس کے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض دینے والا کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض دینے والا کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔ س 1766: کیا میت کا مقروض ہونا حق الناس میں سے ہے کہ ورثاء پر اس کی میراث سے اس کا ادا کرنا واجب ہو؟ ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض دینے والے یا اس کے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اس کا قرض ادا نہ کردیں انہیں اس کے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔ س 1767: ایک شخص کی ایک زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کےلئے ضبط ﴿قرق﴾ کرلیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: انہیں اس چیز کی ضبطی ﴿قرقی﴾ کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔ س 1768: کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اس کے اہل و عیال کو رہائش کے لئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟ ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کےلئے جن چیزوں کا محتاج ہے جیسے گھر اور اس کا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اس کی زندگی کا جزء اور اس کی شان کے مطابق ہو وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔ س 1769: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کے بوجھ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کےلئے پیش کردیا ہو لیکن اس کے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتا ہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتا ہو توکیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض آہستہ آہستہ ادا کرے؟ ج: اگر وہ عمارت اس کا اور اس کے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کےلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کےلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض دینے والے اسے اس کےلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کےلئے صبر کریں تاکہ وہ اس کے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔ س 1770: کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟ ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔ س 1771: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے تو کیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اس کا عوض دے؟ ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے اسے اس کا عوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کی ادا کردہ رقم اسے دے۔ س 1772: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض دینے والا قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟ ج: قرض دینے والا شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ س 1773: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اس کے منافع کے طور پر ادا کرتارہا اور قرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض منافع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ کیا وہ رقم جو منافع کے طور پر ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اور قرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟ ج: اس فرض کے پیش نظر کہ حقیقت میں اسے یہ رقم قرض کے طور پر دی گئی تھی لہٰذا جو پیسہ اصل رقم کے منافع کے طور پر ادا کیا گیا ہے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا وہی رقم یا اس کا بدل قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اس کے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔ س 1774: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے منافع دریافت کرے؟ ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں منافع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا منافع ، سود اور حرام ہے۔ س 1775: ایک شخص نے کسی معاشی منصوبے کےلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اس کےلئے نفع بخش ہو تو کیا اس کےلئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض دینے والے کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض دینے والا اس کا مطالبہ کرے ؟ ج: قرض دینے والا اس تجارت کے منافع میں جو مقروض نے قرض والے مال کے ذریعہ حاصل کیا ہے؛ کوئی حق نہیں رکھتا اور نہ وہ اس حاصل شدہ منافع سے کچھ مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض دینے والے کو دے کر اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔ س 1776: ایک شخص نے تین مہینے کےلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کرےگا کیا ان دونوں کےلئے یہ جائز ہے ؟ ج: یہ زائد رقم سود ہے اور حرام ہے ۔ س 1777: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اس کی شرائط کو ان کےلئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جس کا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ ان کے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹر میں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی ان کے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اس کا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جس کی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اس کی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اس کے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اس کا کام بھی حرام ہے ؟ ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اس کی انجام دہی یا تکمیل یا مقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتا ہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔ س 1778: بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟ ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔ س1779: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کےلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کرےگا کیا ان کےلئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔ س 1780: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1781: ایک کو آپریٹو کمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟ ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کےلئے باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جس کی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔ س 1782: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے کہ جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں، زمینیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں سے متفق نہیں ہوتے، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان سے خرید و فروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟ ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اس لئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیے گا تو اس صورت میں جائیداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اس کے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائیداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1783:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع اور سود کی شرط لگانا باطل ہے اور یہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اس کا لینا جائز نہیں ہے ۔ س 1784: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟ ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اور اس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اس کےلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں ان کے اختیارات کی حدود کے تابع ہے ۔ س 1785: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے ان کی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟ ج: ادارے کےلئے اس رقم سے عمارت خریدنا جو اسے قرض دی گئی ہے اگر ادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو معاملہ فضولی ہوگا اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔ س 1786: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اور اس کی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اس کے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1787: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کو قرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کےلئے شرط لگاتا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کےلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گا اور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ادارے میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارے کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دے گا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کےلئے صحیح ہے۔ س 1788: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دینے کےلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اس کی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟ ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کےلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھولنے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔ س 1789: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کےلئے کوئی راستہ ہے ؟ ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے ان کی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔ س 1790 :وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کےلئے مختلف افراد کو دیتا ہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1791:اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کےلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اس طرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کےلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کےلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اس کی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔ صلح صلح پرنٹ ; PDF صلح س 1792: ایک شخص نے اپنی تمام جائیدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ماں باپ، کو اس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح سے کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کےلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو ان کی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اس کی زندگی میں اس کی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔ س 1793: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اس وقت اس کے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟ ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کےلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔ س 1794: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اس کے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اس کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کےلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جس کے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اس کا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔ س 1795: ایک صلح کی دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟ ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو اس وقت تک یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اس کی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اس کے شرعی طور پر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔ س 1796: میرے سسر نے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اس کے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔ س 1797: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ ان کی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویز پر دستخط کردیئے، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لیئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟ ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ س 1798: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟ ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اس کی اولاد کے درمیان فتنہ و فساد اور نزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔ س 1799:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے وہ یہ مال اسی استفادے کےلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا کسی شخص کو صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر استفادہ کرنے میں شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟ ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔ س 1800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیر وہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟ ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جس کا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔ س 1801: ماں کی جائیداد اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اس کی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اس کے اور اس کے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اس کی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی اس وقت ماں کا پورا ترکہ لینا چاہتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی زندگی میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور صرف صلح کی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اس کی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔ س 1802: ایک باپ نے اپنی جائیداد صلح کے ساتھ اپنی اولاد کو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیز کے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟ الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟ ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائے گا ؟ اور اگر بالفرض یہ صلح سے عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائے گا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟ ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ ج: الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔ ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر موقوف ہے۔ ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اور نہ کسی دوسرے کو اموال منتقل کرنے کا حق۔ وکالت حوالہ کے احکام حوالہ کے احکام پرنٹ ; PDF حوالہ کے احکام س 1819: ایک شخص نے معین رقم کے ساتھ زمین خریدی اور ایک تیسرا شخص زمین کی قیمت کے برابر اس کا مقروض ہے چنانچہ وہ زمین بیچنے والے کو اپنے مقروض کی طرف حوالہ دیتاہے تا کہ وہ زمین کی رقم اس سے وصول کرلے لیکن وہ تیسرا شخص جو مقروض ہے اور جس کی طرف حوالہ دیا گیا ہے اس نے خریدار کو اطلاع دیئے بغیر زمین بیچنے والے کو زمین کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے لئے خرید لیا۔ کیا پہلا معاملہ کہ جس میں زمین فروخت کرنے والے نے رقم کی وصولی کے لئے تیسرے شخص کی طرف حوالہ پر اتفاق کیا تھا صحیح ہے یا دوسرا معاملہ ؟ ج: دوسرا معاملہ فضولی ہے جو پہلے خریدار کی اجازت پر موقوف ہے مگر یہ کہ دوسرا معاملہ پہلے معاملے کے شرعی طور پر فسخ کے بعد انجام پایا ہو ۔ صدقہ صدقہ پرنٹ ; PDF صدقہ س 1820: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کےلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقامات پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچا سکیں کیا جائز ہے کہ اس ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد انعام (Reward) کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں؟ ج: ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم انعام (Reward) کے طور پر دینے میں اشکال ہے بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے یہ کام جائز نہیں ہے تاہم ان لوگوں کو جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اجرۃ المثل (اس جیسے کاموں کے لئے دی جانے والی اجرت)کے طور پر اس میں سے کچھ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں ان کی امداد کی ضرورت ہو، اور ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کرے ورنہ ان رقوم کو فقرا ء پر خرچ کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسرے کام میں مصرف میں لانا اشکال سے خالی نہیں ہے۔ س 1821: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1822: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟ ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔ س1823: میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اور مخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لئے اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ ان کی طرف سے آپ پر ایک نیکی ہے لہذا آپ کے لئے حلال ہے اور اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ عاریہ اور ودیعہ عاریہ اور ودیعہ پرنٹ ; PDF عاریہ اور ودیعہ س 1824: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک ان کا ضامن ہے یا مینیجر ؟ ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔ س 1825: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اس کی وفات کے بعد اس کے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اس کا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟ ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔ س1826: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کے لئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا ان کی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟ ج: وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود ان کا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر ان کی نگہداشت و حفاظت میں آپ کی کوتاہی کی وجہ سے تلف ہوگئی ہوں اگرچہ ایسا واپس کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہوا ہو تو فوج کو ان کی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ س 1827: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کے لئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟ ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔ س 1828: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کے لئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اس کے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج : اگر آپ نے اس کی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔ وصیّت وصیّت پرنٹ ; PDF وصیّت س1829: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کے لئے صرف کیا جائے اب جبکہ ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال ان کے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔ س1830: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اس کے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگ زدہ مہاجرین کے لئے صرف کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگ زدہ مہاجر موجود نہیں ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگ زدہ مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحال اس شہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اس کا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگ زدہ مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ فی الحال وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔ س 1831: کیا کسی شخص کے لئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کے لئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟ ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اس کے لئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت اس کے ترکہ کے صرف ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔ س 1832: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گناہ کا مرتکب ہوگا ؟ ج : اگر اس کے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اس کے ذمے حقوق العباد اورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو ان کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں ہے ۔ س1833: ایک شخص نے اپنے اموال کا ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کی وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم حصے میں ہو تو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔ س1834: اگر ورثاء ، وصیت کا سرے سے ہی انکار کردیں تو اس صورت میں کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت کا دعوی کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔ س 1835: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اس کے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اس کے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ان کی ادائیگی کے لئے اس کی بعض املاک اس کے ترکہ سے الگ کر لی جائیں لیکن اس کے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟ ج : وصیت کے شرعی دلیل یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ املاک جن کی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوں تو ورثا کو اس کی تقسیم کے مطالبے کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جو مالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جن کی میت نے وصیت کی ہے ان کی ادائیگی میں خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ متوفی لوگوں کا مقروض ہے یا اس کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اس کے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کے پورے واجب الاداء امور اس کے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ ان کے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔ س1836: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے، نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اس کے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے۔ کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس زمین کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟ ج: اگر وصیّت کا مضمون یہ ہو کہ خود زرعی زمین کو بیچ کر اس کی قیمت مسجد کی تعمیر میں صرف کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س1837: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب بھی کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1838: کیا جائز ہے کہ کچھ مال کو ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اس کی وفات کے بعد خود اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟ ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کے لئے اس کے دوبرابر مال باقی رہے۔ س 1839: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی جو قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں ان کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنا دے، اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اس کے باپ پر واجب ہے کہ وہ اس کی قضا نما زوں اور روزوں کے لئے کسی کو اجیر بنائے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اس کی طرف سے اس کی قضا نمازوں اورروزوں کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔ س1840: میرے والد نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟ ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ان کا ارادہ خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اس کی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔ س 1841: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اس کی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کے لئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟ ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور سے کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔ س 1842: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پر دے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں میت کے بدن سے جدا کرنا اس کی بے حرمتی شمار نہ کیا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1843: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی زندگی میں ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کے لئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے انتقال کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟ ج :وصیت کرنے والے کی زندگی میں ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کے لئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1844: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی ہے لیکن اس کا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اس کے نابالغ بچوں کے لئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اس کے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اس کا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اس کا تیسرا حصہ اس کی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔ س 1845: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کے لئے موصیٰ لہ(جس کے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟ ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔ س1846: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو نگراں کے طور پر منتخب کیا ہے لیکن اس کے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اس کی نگرانی سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں رائے کا مالک ہے اور وصی کے کاموں کا اس نگراں کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پانا ضروری ہے اس صورت میں نگراں کے اختیارات کیا ہیں؟ ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کے امور میں نگراں کے ساتھ مشاورت کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور نگراں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کے لئے نگرانی کرے۔ س 1847: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر نگراں بناکر فوت ہو گیا پھر اس کا بیٹا بھی وفات پاگیا اور اس کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کا واحد ذمہ دار میں بن گیا لیکن اس وقت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے میرے لئے اس کے وصیت کردہ امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ کیا میرے لئے وصیت کردہ امور کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اس کے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے؟ ج : نگراں بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد نگراں کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1848: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اس کے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کے لئے خرچ کرنا ممکن ہو تو واجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔ س1849: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں ان کا سونا جمعراتوں میں نیک کاموں میں صرف کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہا ہوں لیکن بیرون ممالک کے سفر کے دوران کہ جن کے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ صرف کرنے سے ان کی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا تو واجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں پر بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کے لئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر صرف کرے۔ س 1850: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اور نیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گا کیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اس کی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور نگراں کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے؟ ج: ورثاء کے لئے وہ زمین اپنے لئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اس کی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اس کی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور نگراں بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اس طرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔ س1851: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں سے وصی اور نائب وصی کے طور پر وصیت کی لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر کے وصیت کو باطل کر دیا اور وصی اور اس کے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اس کا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کریں تو کیا ان کا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟ ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اس کے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔ س1852: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اس کی جائیداد میں سے ایک ملک اس کے بیٹے کی ہے پھر دو سال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ کیا اس کا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ اس صورت میں کہ جب یہ شخص بیمار ہو اور اسے خدمت و نگہداری کی ضرورت ہو ، کیا یہ ذمہ داری اس کے مقرر کردہ وصی یعنی اس کے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ یہ ذمہ داری اس کے تمام بچوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کا اپنی وصیت سے عدول کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی لحاظ سے صحیح اور معتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کے لئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو بیمار کی خدمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے ان تمام بچوں پر بطور مساوی ہے جو اس کی نگہداری کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ س1853: ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے. کیا میں اس کی وصیت کو پورا کرنے کے لئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟ ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اس کی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اس کی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔ س1854: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور نگراں کو معین کرے، لیکن ان کے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور ان کے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے تو اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اس کے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کر کے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟ ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔ س 1855: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلائی شدہ اور غیر سلائی شدہ کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اس کے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتے اور اس جیسی چیزیں؟ ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اس کی مراد معلوم نہ ہوجائے اور کسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اس کی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔ س1856: ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کے ترکے کے ایک تہائی مال سے اس کی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے دو سال کی نمازوں کے لئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذ جنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟ ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کے لئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔ س 1857: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی وفات کے بعد جو کچھ وصیت نامہ میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھا ہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اس کے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اس کا ایک تہائی حصہ جدا کر کے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥ اور ٦ کے مطابق خرچ کیا جائے، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اس کے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اس کی وفات سے لے کر اس مدت کے ختم ہونے تک اس کے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کے لئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکا ہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اس کی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک ان کی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ س 1858: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور ان کے نام ملکیت کی دستاویز جاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اس کے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں۔ کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟ ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے تو وقت گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس کے وصیت کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔ س 1859 : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا فروخت کر کے اس کی نیابت میں حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ اس دوران ایک تیسرا شخص سامنے آیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور نگران کی اجازت کے بغیر اس کی نیابت میں حج انجام دے دیا ہے۔ اب وصی فوت ہوچکا ہے اور نگران زندہ ہے کیا نگران کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی نیابت میں فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟ ج: اگر میت پر حج واجب ہو او وہ نائب کے ذریعے حج کی انجام دہی کی وصیت کر کے بریٴ الذمہ ہونا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی نیابت میں حج بجا لے آئے تو اس کے لئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے بصورت دیگر نگران اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو نگراں پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔ س 1860: کیا ورثاء، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کے لئے کوئی مخصوص رقم ادا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج: میت کی وصیتوں پر عمل کرنا وصی کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اور ضروری ہے کہ جس مصلحت کو تشخیص دے اسی کی بنیاد پر عمل کرے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1861: تیل کے ذخائر پر بمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اس کے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اس کے متن اور مضمون سے آگاہ نہیں ہے۔ اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اس کی ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔ س 1862: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے اس کام کی مخالفت کرے ؟ ج : ان افراد کے درمیان میں سے وصی کو منتخب اور مقرر کرنے کا دار و مدار کہ جنہیں وصیت کرنے والا اس کام کے لائق سمجھتا ہے خود اس کی رائے پر ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اس کے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1863: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے طور پر اس کے لئے انفاق کریں ؟ ج: اگر اس کام سے ان کی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اس کے لئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔ س 1864: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اس کا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پر اس کے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اس کا وصی ہے؟ ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اس کے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔ س1865: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟ ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔ س 1866: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر ان کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن انہوں نے وصیت کی ہو کہ ان کے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اس کے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بنانا جائز ہے اور اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جس کی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر ان کا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کے لئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔ س 1867: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اس کی اراضی میں سے ایک مخصوص ٹکڑا فروخت کر کے اس کی رقم سے اس کی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجا لائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اس وقت ناممکن ہوگیا ہے او وہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے اس کے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اس کا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟ ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔ س1868: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اس کے ترکہ سے اس کے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟ ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اس کے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لہذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار میں حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اس کے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ س 1869: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اس کی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کر اس کی رقم اس کے لئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اس کے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اس کے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟ ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اس کے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اس کے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟ س 1870: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جس کی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اس کی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اس کے شوہر کی وفات کے وقت سے اس کے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ کیا اسکی بنا پر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کو جسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اس کی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟ ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اس کے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لے کر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اور بیٹی کو اس کا حصہ دیتے وقت اور اس کا اپنے حصے کو کسی دوسرے کو فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔ اس کے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اس کا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔ س 1871: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اس کے قرض کی ادائیگی اس کا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو مکان بیچ دے اور اس کی رقم سے قرض ادا کرے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اس کے ماموں کو دی جائے اور اس کی ماں کو حج پر بھیجے اور کچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کی طرف سے بجالائے جائیں پھر اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے۔ شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اس کا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟ ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس کے تمام مالی واجب الاداء امور اسی سے ادا کرنے کے بعد ، اس کے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اس کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اس کی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اس کی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے ورثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اس کے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے بصورت دیگر وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔ س1872: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس کے تمام اموال جو تین ایکڑ پھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اس کی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہو اور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگا اور ایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟ ج : جب تک اس کی طرف سے اس کی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے -کہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے- اس وقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اس کی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی میراث ہے ۔ س 1873: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہر بہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اس کی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہیں تھی لہذا وہ اپنا حق نہ لے سکی۔ جب وہ اس شہر میں واپس آئی تو اس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا۔ اب جب کہ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اس کے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اس کا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1874: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک ٹکڑا مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اور چونکہ ان کی وفات کے بعد ان کے پاس نقد رقم نہیں تھی لہذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی۔ کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔ ج: جو کچھ آپ نے میت کے لئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اس کے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 1875: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اس کی بیوی اس کے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اس کی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اور دیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جس کی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اس کی بیوی کو دے دیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔ س1876: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کا ارادہ کیا جو انہیں اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اس کی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ کیا ان کا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب کریں۔ س 1877: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اس وقت اگر اس کی وصیت پر عمل کے ممکن ہونے تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھنا چاہیں تو اس کے تلف ہونے کا خوف ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟ ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔ س 1878: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی بعض جائیدادوں کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری جائیدادیں غصب ہوگئی ہیں اور ان کے غاصب سے واپس لینے کے لئے بہت سے اخراجات ہوئے ہیں۔ کیا ان اخراجات کا اس کی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیا صرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟ ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کے لئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔ س1879: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کے لئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟ ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اس کی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔ غصب کے احکام غصب کے احکام پرنٹ ; PDF غصب کے احکام س 1880: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اس کے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ ان کے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ کیا اس صورت میں ورثا دوسرے خریدار کے لئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟ ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اس کی ملکیت کی دلیل نہیں ہے اس لئے اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اس کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کےلئے رکاوٹ پیدا کرے یا اس سے زمین چھینے۔ س 1881: زمین کا ایک قطعہ جسے چند خریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اس کی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اس کے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اس کے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟ ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خریدنا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کےلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔ س 1882: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اس کی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اس کے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کےلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟ ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اس کی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اس کے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔ س1883: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جس کا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اور ان دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اس کی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اس کی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اس کے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔ س 1884: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہو کیا اس میں اس کے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟ ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کےلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس پر تصرف کےلئے ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔ س 1885: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اس کے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟ ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اس کی ملکیت یا اس کے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔ بالغ ہونے کے علائم اور حَجر بالغ ہونے کے علائم اور حَجر پرنٹ ; PDF بالغ ہونے کے علائم اور حَجر س 1886:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اس کے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟ ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔ س 1887: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟ ج : قمری سال معیار ہے۔ س 1888 : اس امر کو تشخیص دینے کےلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟ ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اس کی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ س 1889: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟ ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔ س1890: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟ ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کےلئے کافی نہیں ہے۔ س 1891: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہوتا ہے اور اس کے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہو جاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اس کے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس طرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟ ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتا ہے لہذا بلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کےلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔ س 1892: ہمارے اسکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن ان کے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے ان کا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ ان کی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل ہیں کہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کےلئے ایک معیار ہے؟ ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں ان کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1893: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ اچھے اور برے کو پہچانتا ہو " اچھے اور برے سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟ ج: اچھے اور برے سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف اچھا اور برا سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اور مقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔ س 1894: کیا لڑکی کےلئے نو سال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اس کے بالغ ہونے کی علامت ہے؟ ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کا حکم نہیں رکھتا ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔ س 1895 جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کو خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اور وہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اس کی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاجائز ہے کہ عدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرے؟ ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت ہو تو شرعی طور پر اسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کےلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو اس سے وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔ مضاربہ کے احکام مضاربہ کے احکام پرنٹ ; PDF مضاربہ کے احکام س 1896: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟ ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اس کے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔ س 1897: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟ ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔ س 1898: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے طور پر ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گا۔ کیا یہ کام صحیح ہے ؟ ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کریں گے مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے۔ تاہم اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملکیت قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اس کی روشنی میں یہ اس کے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔ س 1899: ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاہدے کے تحت ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں۔ کیا حکم رکھتاہے ؟ ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔ س1900: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اس کے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟ ج: اگر یوں طے کریں کہ اس کے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اس کے منافع میں سے اس کے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔ س 1901: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟ ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اس کے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لئے حلال ہے۔ س1902: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کے لئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے علی الحساب کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟ ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدار لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کے لئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اور اس کے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔ س 1903: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟ ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔ س1904: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اس کے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان ان کی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟ ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اس کا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اس کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ ان کے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اس کے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔ س 1905: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی طور پر مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا۔ کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟ ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میں شرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔ س1906: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کو دی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتا ہے اور نقصان نہیں اٹھاتا، کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ، میں اس کے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہو تو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟ ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہو لہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اس کے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔ س1907: ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اس کا منافع اس کے اور صاحبان اموال کے درمیان ان کی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اس کے مالکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1908: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اس کے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟ ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اس کے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔ س1909: ایک تاجر نے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے طور پر اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا۔ در نتیجہ اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟ ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو لہذا اگر عقد مضاربہ اس کی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1910: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لے کر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کو حق ہے کہ اپنی رقم لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے؟ ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لہذا وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے ۔ س 1911: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہو یا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جو انھوں نے اس کے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عُدوانی) شمار کیا جائے گا ؟ ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اس کی نسبت اس کی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔ بینک بیمہ (انشورنس) بیمہ (انشورنس) پرنٹ ; PDF بیمہ (انشورنس) س 1952:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1953: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کارڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟ ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔ س1954: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اس کی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کرے گی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اس کا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟ ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔ سرکاری اموال وقف قبرستان کے احکام قبرستان کے احکام پرنٹ ; PDF قبرستان کے احکام س 2101: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائےگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویز اپنے نام کرا لینا نہ تو اس کی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اس کے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہر کے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کے لئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لئے وقف ہوا ہے تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔ س 2102: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اور پچھلی حکومت کے زمانے میں اس کے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟ ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اور مؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کےلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س 2103: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف کی گئی ہے اور اس کے بیچ میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کےلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟ ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہدا کی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ س 2104: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟ ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کی لئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2105: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟ ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کی لئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔ س 2106: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اس کے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اس کے مالک سے ضبط کر کے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟ ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اس کا شرعی مالک شمار ہوتا ہے تو اس میں اس کی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2107: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کےلئے عمومی قبرستان قرار دے دیا۔کیا جائز ہے کہ اس کی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟ ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کی لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2108: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کےلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگر اس کام کےلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟ ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا مسلمانوں کی قبریں کھودنے یا ان کی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2109: ہم نے دیہات میں مدفون شہدا کی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟ ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگار بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو تو دوسروں کےلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2110: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کےلئے اس کی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کےلئے منتخب کی گئی ہے اس کے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کےلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کےلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتا ہوا ور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 2111: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اس کے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کےلئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کےلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کےلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟ ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کےلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کےلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2112: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کےلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کےلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: وہ پرانی قبریں کہ جن کے مردے خاک بن چکے ہیں ان کے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور اگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔ س 2113: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہو کیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کےلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کےلئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2114: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟ ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اس کے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کےلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتا ہے۔ س 2115: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اس کی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2116: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جس کا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کےلئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اور انہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2117: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار ہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کےلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہرحال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔ س 2118: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ اسکول کی زمین مردوں کے دفن کےلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جس کی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کےلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے اسکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کےلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس مقدس مہینہ کی برکتوں اور رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں: یہ قرآن کریم کا مہینہ ہے، اس میں قرآن کریم کی تلاوت اور سماع کی عجیب بہار ہوتی ہے اور پوری دنیا میں چوبیس گھنٹے اس کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ یہ روزوں کا مبارک مہینہ ہے جس میں مسلمان صبح سے شام تک اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کھانا پینا ترک کر کے برکتوں کے حصول اور نفس کے تزکیہ کا سامان کرتے ہیں۔ اور یہ سخاوت اور صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال سخی ہوتے تھے اور آپ کے دروازے سے کوئی ضرورتمند خالی نہیں جاتا تھا، مگر رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت کا ماحول ایسا ہو جاتا تھا جیسے شدید گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا کی لہر چھا گئی ہو۔ اس ماہ مبارک اور اس کی فضیلت و برکت کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت آج بھی قابل رشک ہے اور کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں میں کسی اور مذہب کے پیروکار اس معاملہ میں مسلمانوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اس مبارک مہینے میں مسلمان روحانی طور پر ’’ری چارج‘‘ ہو کر اگلے سال کے معمولات کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں اور زندگی کا یہ نظام اسی تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ’’الصوم لی وانا اجزی بہ‘‘ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا اجر اپنی مرضی سے دوں گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ واحد عبادت ہے جس کا زبان سے اظہار نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہیں ہوتا، اس لیے اس میں ریاکاری کا احتمال سب سے کم ہے، اس وجہ سے اس کا اجر و ثواب نہ صرف یہ کہ زیادہ ہے بلکہ اس ماہِ مبارک میں دوسری عبادات اور اعمالِ خیر کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ تقویٰ اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے جس میں مسلمان کو اپنے گناہوں کے دھونے اور نفس کی صفائی و طہارت کا موقع ملتا ہے اور اصحابِ ذوق اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ صبر و استقامت کے ساتھ شکرگزاری کا مہینہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں پر مسلمانوں کو اپنے رب کی کسی نہ کسی طرح شکرگزاری کا ماحول مل جاتا ہے۔ یہ سب رمضان المبارک کی برکات ہیں اور اس کا فیض ہے مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہو گا۔ جس کی سنگین ترین صورت قرآن کریم میں ہی ان الفاظ میں مذکور ہے کہ ’’لا تکونوا کالذین نسوا اللّٰہ فانساھم انفسھم‘‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔ آج ہم مسلمان پوری دنیا میں جس صورتحال سے دوچار ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ خدانخواستہ ہم اس کیفیت سے دوچار ہو گئے ہیں، اپنے نفع نقصان سے بے خبر ہو جانا اور سود و زیاں سے غافل ہو جانا خدائی عذاب کی سب سے سنگین صورت ہے۔ اور آج ملتِ اسلامیہ اسی ماحول میں غیروں کی دریوزہ گر ہو کر باہم دست و گریبان ہے۔ اس لیے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ذاتی گناہوں سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ملِّی اور اجتماعی طور پر بھی توبہ و استغفار کا اہتمام کریں، اور رمضان المبارک کو دین کی طرف امت کی اجتماعی واپسی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
لاہور: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ انکریمنٹ ختم کرنا ظلم کی انتہاءہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جب وزیر اعظم کا 2 لاکھ میں گزارا نہیں تو سرکاری ملازم چند ہزار میں کیسے گزارا کرے؟ حکومت پورے پاکستان کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کرچکی ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ سرکاری ملازمین اور عوام کےخلاف حکومت ظالمانہ اقدامات واپس لے، ثابت ہوگیا ہے کہ یہ عوام کی نہیں بلکہ ا?ئی ایم ایف کی غلام حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام پر ظلم ڈھانے والوں نے کہا تھا کہ خودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، آئی ایم ایف کی شرائط قوم کے گلے کا پھندا بن چکی ہیں۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت سرکاری ملازمین سمیت معاشرے کے ہر طبقےکے لیے بری خبر ہے، سرکاری ملازمین کے خلاف ظالمانہ اقدامات برداشت نہیں کریں گے۔
چشم فلک نے پہلی مرتبہ حق و باطل کو آمنے سامنے پایا ۔ ۱۷؍ رمضان المبارک کو وادی بدر میں ۳۱۳ نہتے بے سروسامان مسلمانوں نے ایک ہزار کے لشکر جرار کا رُخ موڑ دیا ۔ ایسے جیالے بھی تھے ، جن کو اپنے قبیلوں پر ناز تھا ، اپنے بازوؤں پر گھمنڈ تھا ، جو اپنی حیثیت کے برابر کسی اور کو نہیں سمجھتے تھے ۔ غرض دولت اور کثرت سے ان کی گردنیں تنی ہوئی تھیں ۔ ابوجہل بھی اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں حق پر سمجھتا تھا ۔ جنگ پر جانے سے پہلے خانۂ کعبہ کے غلاف کو تھامے ہوئے دعاء کر رہا تھا کہ جو حق پر ہو کامیابی اسے عطا کر ۔ در اصل کفار مکہ چاہتے تھے کہ مدینۃ النبی میں پروان چڑھنے والی یہ مسلمانوں کی جماعت ترقی نہ کرنے پائے ، بلکہ پہلے ہی ان کو ختم کردینا چاہئے۔ مسلمان ظلم و ستم سہتے ہوئے مکہ کی سرزمین پر گزر بسر کرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم سے نجات کے لئے حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یہ نبوت کا پانچواں سال تھا۔ حبشہ کی سرزمین مسلمانوں کے لئے سازگار ثابت ہوئی، وہاں کا بادشاہ اصحمہ جس کو ہم نجاشی کے نام سے جانتے ہیں، مسلمانوں کی گفتگو اور فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سن کر نہ صرف بیحد متاثر ہوا، بلکہ وہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ اہل مکہ کی ساری کوشش اس کے ملک سے مسلمانوں کو نکالنے میں ناکام رہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یثرب کی راہ مسلمانوں کے لئے ہموار کردی کہ یہی یثرب مدینۃ النبی بننے والا تھا۔ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بحکم اللہ تعالیٰ ہجرت کرتے ہوئے مکہ معظمہ کو چھوڑکر مدینۃ النبی کو اپنا دارالہجرت بنایا تو کفار مکہ کو یہ بات کھلی اور وہ انتقام کی آگ میں جھلسنے لگے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے کے بعد مجاہدین کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بناکر راستے کی خبر لیا کرتے، تاکہ دشمن مسلمانوں کو غافل نہ سمجھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ بنو عبد الشہل کے سردار تھے، خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے اپنے دوست امیہ بن خلف کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ ابو جہل نے کہا کہ اگر تم امیہ بن خلف (حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا مالک) کے ساتھ نہ ہوتے تو میں تمھیں حرم کعبہ کی زیارت سے روکتا۔ حضرت سعد بن معاذ نے جواباً کہا اگر خانہ کعبہ کی زیارت سے روکو گے تو ہم تمہارا کوئی تجارتی قافلہ ملک شام نہ جانے دیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تم نے جن کو اپنے ملک سے نکالا ہے، وہی تم کو ختم کردیں گے ۔ پوچھا کیا یہاں آکر؟، تو کہا ’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمیوں کو ایک بند لفافہ کے ساتھ حکم دیا کہ بطن نخلہ میں پہنچو۔ وہاں ان لوگوں نے عمرو حضرمی کے ایک قافلہ کو رکا ہوا پایا۔ مسلمان سوچ میں پڑ گئے کہ ان کے سامنے دو راستے تھے، یا تو ان کو ختم کرنا یا احترام کے مہینے میں جنگ کرنا، ورنہ یہ لوگ مکہ جاکر دوسروں کو بھیج کر اس چھوٹی سی ٹکڑی کا خاتمہ کردیں گے۔ جب کہ یہ رجب کا آخری دن تھا۔ واقد تمیمی کے ایک تیر نے عمرو حضرمی کا خاتمہ کردیا، دو گرفتار ہوئے اور دو بھاگ گئے ۔ مسلمانوں نے واپس مدینہ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت پیش کیا، جسے حضور نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ تم کو حرمت والے مہینہ میں جنگ کے لئے کس نے حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات آئے کہ ’’اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم) یقیناً حرمت والے مہینوں میں جنگ و جدال بری بات ہے، لیکن حرم کعبہ کے طواف سے لوگوں کو روکنا اس سے بڑھ کر بری بات ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت منگواکر تقسیم فرما دیا۔ غزوۂ بدر کا سبب کفار مکہ کے پاس عمرو حضرمی کا قتل تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آگئے، جن کا مال و اسباب، زمین اور گھر وغیرہ کفار مکہ نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، اس کے لئے ابو سفیان کے قافلہ کو روک کر جو ملک شام سے آرہا ہے، ایک معاہدہ کرلیں۔ اسی غرض سے چند مجاہدین کے ساتھ جن کی تعداد تین سو سے زائد تھی نکلے۔ وادی زعفران میں قافلہ جانے اور ایک لشکر جرار آنے کی اطلاع دیتے ہوئے مشورہ طلب کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے جنگ کرنے کی بات کی۔ حضرت مقداد بن عمرو الاسودی رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اے اللہ کے رسول! ہم وہ نہیں جو قوم موسیٰ کی طرح کہیں کہ اے موسیٰ! تم اور تمہارا خدا جاکر لڑو، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ ہم تو آپ پر ایمان لائے ہیں، لے چلئے اسی جانب جہاں اللہ نے حکم دیا ہے، ہم تیار ہیں‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہ کی۔ حضرت سعد نے کہا کہ ’’یا رسول اللہ! آپ حکم دیں تو ہم سمندروں میں چھلانگ لگادیں گے، ہم کو حکم دیں، ہم برگ الغمار تک پہنچ جائیں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء دی اور نصرت خداوندی کی خوش خبری سنائی۔ میدان کارزار میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مدد فرمائی۔ بڑے گھمنڈی تہہ تیغ ہوئے اور مسلمانوں کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار نعمتیں انسان کو دی ہیں ان میں ایک بنیادی اور عظیم و بیش قیمت نعمت ’وقت‘ہے۔وقت اور زمانہ وجودِ انسانی کا محل ،اس کی بقا وسرگرمی اورافادے واستفادے کا میدان ہے۔قرآن مجید نے بھی اس بنیادی انعام کی عظمت اور دیگر انعامات کے مقابلے میں اس کی برتری کی طرف اشارہ کیا ہے۔چناں چہ معتدبہ آیا ت سے وقت اور زمانے کی قدر وقیمت کا پتہ چلتا ہے۔دیکھیے: سورہ ابراہیم:32-34، سورہ نحل:12، سورہ حم سجدہ:37، سورہ بنی اسرائیل:12، سورہ انعام:13وغیرہ۔(تفصیل کے لیے دیکھیے قیمۃ الزمن عند العلما)نیز اسلام میں بعض خصوصیات کی بنا پر بعض اوقات میں فضیلت وبرکت کو تو بیان کیا گیا ہے،لیکن کسی زمانے اور وقت کی نحوست کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔رسول اللہ حضرت محمد ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال،قال رسول اللّٰہ ﷺ ، قال اللّٰہ عزوجلّ:یؤذینی ابن آدم،یسب الدہر،بیدی الأمر،أقلب اللیل والنہار۔ (بخاری، مسلم)اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، (وہ اس طرح کہ) وہ زمانے کو برا کہتا ہے، حالاں کہ زمانہ میں ہی ہوں۔ (یعنی) تمام کام میرے دستِ قدرت میں ہیں (جو کہ زمانے میں واقع ہوتے ہیں)۔ میں رات اور دن کو (جو کہ زمانے کے حصے ہیں) گردش دیتا ہوں (جس کی طرف آدمی واقعات کو منسوب کرتا ہے۔ سو زمانہ تو مع ان چیزوں کے جو اس میں رونما ہوتے ہیں، خود میرے قبضے میں ہے۔ پس یہ سب تصرفات میرے ہی ہیں، تو اس کو برا کہنے سے درحقیقت مجھ کو برا کہنا لازم آتا ہے)۔ ( شریعت وطریقت)نیزرسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی’ہائے زمانے کی بدبختی ‘نہ کہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے’زمانہ میں(بناتا)ہوں،رات اور دن کو میں چلاتا ہوں،اور جب چاہوں انھیں روک دوں۔عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال:لا یقل أحدکم:یا خیبۃ الدہر۔قال اللّٰہ عزوجل:أنا الدھر،أرسل اللیل والنہار، فاذا شئت قبضتہما۔(الادب المفرد) کوئی وقت، مہینہ یا زمانہ منحوس نہیں اس لیے کسی وقت ، مہینے یا زمانے کو برا کہنا یا منحوس سمجھنا ہرگز درست نہیں۔نحوست وقت میں نہیں ہوتی بلکہ اگر نحوست ہوتی ہے تو انسا ن کے اپنے اعمال میں ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جو نیک کام کرے گاتو اپنے لیے،اور جو برے کام کرے گا،ان کا ضَرر اسی کو ہوگا اور تمھارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ من عمل صالحاً فلنفسہ ومن أساء فعیلہا،وما ربک بظلام للعبید۔( فصلت)یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہر قسم کی بدشگونی سے سختی سے منع فرمایا اور توکل سے کام لینے کا حکم فرمایا ہے۔آپ ﷺ نے ایک ساتھ تین مرتبہ ارشاد فرمایا:بد شگونی لینا شرک ہے!بدشگونی لینا شرک ہے! بد سگونی لینا شرک ہے!اور ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیںہے جس کے دل میں اس طرح کی کوئی بات نہ آتی ہو،مگر اللہ پر توکل سے یہ دور ہوجاتی ہے۔عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ ﷺ قال:الطیرۃ شرک،الطیرۃ شرک ثلاثاًوما منا الا ،ولکن اللہ یذہبہ بالتوکل۔(ابو داود،ترمذی)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں،جس نے بد شگونی لی ہو یا اس کے لیے بد شگونی لی گئی ہو۔عن عمران ابن حصین أنہ رأی رجلاً فی عضدہ حلقۃ من صفر فقال لہ:ما ہذہ؟قال:نعتت لی من الواہنۃ،قال:أما ان مت وہی علیک وکلت الیہا ،قال رسول اللّٰہﷺ:لیس منا من تطیر ولا تطیر لہ ولا تکہن ولا تکہن لہ، (أظنہ قال:)أوسحر أو سحر لہ۔(معجم کبیر طبرانی) تین چیزوں میں نحوست کی حدیث بعض لوگ ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ تین چیزوں میں تو نحوست خود حدیث شریف سے ثابت ہے:(۱)گھر(۲)عورت (۳)گھوڑا۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہ؛ ایک گھر،دوسرے عورت اور تیسرے گھوڑے میں۔عن عبد اللّٰہ بن عمر أن رسول اللّٰہ ﷺ:ألشوم فی الدار والمرأۃ والفرس۔(ابوداؤد، بخاری،مسلم)حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہ ہامہ ہے،نہ عدویٰ ہے اور نہ نحوست کوئی چیز ہے۔اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی؛ایک گھوڑے میں،دوسرے عورت میں اور تیسرے گھر میں۔عن سعد بن مالک أن رسول اللّٰہ ﷺ کان یقول :لا ہامّۃ ولا عدویٰ ولا طیرۃ،وان تکن الھیرۃ فی شیٔ ففی الفرس والمرأۃ والدار۔(ابوداود) یہ استدلال درست نہیں یہ استدلال چند وجوہ سے درست نہیں۔یہ چیزیں بہ ذاتِ خود منحوس نہیں ہوتیں،بلکہ اگر ان سے انسان کو نقصان پہنچتا ہو تو ہی انھیں منحوس کہا جا سکتا ہے۔ مثلاًعورت اگر نافرمان وبدکار ہو تو وہ منحوس ہے،ورنہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:دنیا محض استعمال کی ایک چیز ہے،لیکن دینا کی عمدہ ترین نعمت نیک عورت(بیوی)ہے۔عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ ﷺ :الدنیا متاع،وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ۔ (مسلم)یعنی خوش نصیب ہے وہ شخص،جسے دین کے کاموں میںاعانت لرنے والی بیوی ملے۔اور یہ حال تو مرد کا بھی ہے۔ مختلف مطالب فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ سے کسی نے مذکورہ بالا حدیث میں نحوست کے متعلق استفسار کیا تو آپ ؒ نے ارشاد فرمایا:فتح الباری (کتاب الجہاد،باب ما یذکر من شؤم الفرس)میں اس حدیث کی بہت طویل تقریر کی ہے۔اسی طرح ملّا علی قاری ؒ نے مرقاۃشرح مشکوٰۃ(کتاب النکاح)میں (اس کے) بہت سے مطلب بیان کیے ہیں اور حضرت مجدِّد الف ثانی ؒ نے مکتوبات (258و1/278)میں فرمایا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی بعثت سے قبل (تک)ان تینوں چیزوں میں نحوست کے اثرات تھے اور لوگوں کو نقصان بھی پہنچتے تھے،مگر آں حضرت ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو وہ نحوست کے اثرات بھی آپ ﷺ کی برکت سے ان اشیا میں سے اٹھا لیے گیے۔(فتاویٰ محمودیہ جدید محقق) نیک فالی کی فضیلت حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:کسی چیز سے بدشگونی لینا درست نہیں ہے ۔ ہاں اچھا شگون لینا جائز ہے ۔ صحابہؓ نے پوچھا :اچھا شگون کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ اچھے بول جو تم میں کوئی سنتا ہے۔أن أبا ہریرۃ ؓ قال: سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول :’’ لا طیرۃ ، وخیرہا الفأل ۔ قالوا: وما الفأل ؟ قال:کلمۃ صالحۃ یسمعہا أحدکم۔ ( الادب المفرد) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام بخاریؒ نے نیا ترجمۃ الباب قایم کیا ہے’ باب فضل من لم یتطیر ‘ یعنی اس شخص کی فضلیت جو بدشگونی نہیں لیتا اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں -حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:میرے سامنے حج کے موسم میں میری امت پیش کی گئی ۔ میں نے اپنی امت کی کثرت کو دیکھ کر تعجب کیا۔ان سے پہاڑی اور نشیبی جگہیں پُر ہو گئی تھیں ۔ لوگوں نے کہا : اے محمدﷺ ! کیا آپ ان سے راضی ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں، خدا کی قسم۔فرمایا گیا: ان لوگوں میں سے ستر ہزار لوگ جنت میں بغیر حساب کے داخل کر دیے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے ، نہ داغ دلواتے ہیں ، نہ بدشگونی لیتے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔ عکاشہ نے کہا: آپ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ مجھے انھیں لوگوں میں رکھے! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللّٰہم اجعلہ منہم۔اے اللہ ! اسے انھیں لوگوں میں شامل فرما لے۔ایک اور شخص نے کہا: میرے لیے بھی دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما لے ! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔ عن عبد اللّٰہ بن مسعود ؓ عن النبیﷺ قال : عرضت علی الأمم بالموسم أیام الحج ، فأعجبنی کثرۃ أمتی ، قد ملأ والسہل والجبل ، قالوا : یا محمد ! أرضیت ؟ قال : نعم ، أی رب ! قال : فان مع ہؤلاء سبعین ألفاً یدخلون الجنۃ بغیر حساب ، وہم الذین لا یسترقون ، ولا یکتوون ، ولا یتطیرون ، وعلی ربہم یتوکلون ‘‘ قال عکاشۃ : فادع اللّٰہ أن یجعلنی منہم ، قال : اللّٰہم اجعلہ منہم ۔ فقال رجل آخر : ادع اللّٰہ أن یجعلنی منہم ، قال: سبقک بھا عکاشۃ ۔( الادب المفرد)
حال ہی میں بھارت میں پدماوتی کے کردار پر بنائی جانے والی فلم ’’پدمات ‘‘ کے نام سے ریلیز کی گئی۔جس پر ہندوستان میں راجپوت برادری کی طرف سے احتجاج اور ہنگامہ رائی کی گئی۔ ان کے مطابق اس فلم میں رانی پدمنی کے کردار کو لیکر مبالغہ آرائی کی گئی ہے اور علاؤ الدین خلجی کو اس کےراجہ عشق میں گرفتار دکھایا گیا ہے۔ جب کے ہندوں کے ہاں ایک طرح سے پدمنی کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جب کے فلم پدماوتی میں اصل ناانصافی خلجی کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس فلم میں علاؤ الدین خلجی کو ایک ایسے وحشی حکمران کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو خوف کی علامات ، علاؤ الدین خلجی اور اس کے خاص غلام ملک کافور (غفور) کے ساتھ جنسی تعلق دیکھایا گیا ہے۔آئیں اس فلم اور پھر حقیقی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں۔ پدماوت فلم پر مختصر تبصرہ کرتے ہیں کیونکہ اصل موضوع تو حقیقی کہانی ہے۔ پدماوت سنجے لیلا بھنسالی نے بنائی ہے اس سے پہلے بھی کئی تاریخی موضوعات پر فلم بنا چکے ہیں ، کہانی اپنے مرکزی کردار رانی پدماوتی کے گرد گھومتی ہے۔ جس کردار کو ’’ دیپیکا ‘‘ نے کیا اور رانی کے شوہر رتن سنگھ کا کردار شاہد کپور اور علاو الدین خلجی کا کردار رنبیر سنگھ نے نبھایا ہے، ۔رانی پدماوتی کا تعلق سنگھیال خاندان سے ہوتا ہے، جن کے ملاقات ایک جنگل میں دوران شکار چتوڑ کے راجہ رتن سن سے ہوتی ہے۔ ان دونوں میں پیار اور پھر شادی ہو جاتی ہے۔ علاو الیدین خلجی ، بادشاہ ہندوستان جلال الدین خلجی کا بھتیجا ہے جو کہ بہت بڑا جنگجو ہے تو سکندر بننے کا خواب دیکھتا ہے، علاو الیدین خلجی کو نایاب چیزیں حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ علاو الیدین ایک نایاب شترمرغ لا کر بادشاہ ہندوستان کو پیش کرتا ہے جس کے صرف ایک پنکھ کی خواہش جلال الدین خلجی بادشاہ ہندوستان کی بیٹی نے کی ہوتی ہے۔ بدلے میں علاو الیدین اس کی نایاب بیٹی سے شادی کرتا ہے۔ پھر ایک فتح کے موقع پر سارا مال غنیمت کے بدلے میں بادشاہ ہندوستان اس کو ایک نایاب غلام پیش کرتے ہیں اسی موقع پر علاو الیدین خلجی بادشاہ ہندوستان کا قتل کرکے بادشاہ ہندوستان کا تخت حاصل کرتا ہے۔ اور اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، دوسری طرف راجہ رتن سن کے دربار سے نکالا گیا ایک بہت خاص رکارندا علاو الیدین خلجی کے پاس پہنچتا ہے اور اس کو ایک بہت ہی نایاب رانی پدماوتی کے حسن کے بارے میں بتاتا ہے۔ جس کے لئے علاو الیدین خلجی ایک جنگ حسن کے نام شروع کر دیتا ہے۔ علاو الیدین خلجی کے خلاف جنگ کے لئے کوئی بھی دوسری ریاست راجی رتن سن کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ اپنی جنگ خود ہی لڑتے ہیں۔ علاو الیدین خلجی صلح کے نام پر اکیلا ہی نہتا چتوڑ قلعہ میں چلا جاتا ہے راجہ رتن سے ملاقات کے دوران رانی پدمانی سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ اجپوت روایات کے مطابق خواتین کو غیر مردوں کے سامنے نہیں کیا جاتا تھا۔۔ مگر خلجی کی طاقت دیکھتے رتن پدماوتی سے درخواست کرتے ہیں پدماوتی اس شرط پر راضی ہوتی ہیں کہ آئینہ رکھ کر خلیجی انکو دیکھ سکتے ہیں۔ بعض جگہ آئینہ کا ذکر نہیں ہے کچھ اور طرز کی ملاقات ہے جس میں پانی میں رانی کا عکس نظر آتا ہے۔ ملاقات ہے جس میں پانی میں رانی کا عکس نظر آتا ہے۔ کہانی بھی کچھ مختلف ہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ خلجی رانی پدماوتی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔۔ اور کی نیت ہو جاتی ہے رانی کو ساتھ لجانے کی۔۔۔ اسی لیے رتن سن کو کسی بہانے یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔۔۔ اپنے شوہر کو چھڑانے کے لیے رانی پدماوتی ایک گیم کرکے چھڑانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔۔ جس کے بعد خلجی کی طرف سے ایک بڑا حملہ ہوتا ہے۔۔ چتوڑ قلعہ کو گھیر لیا جاتا ہے۔۔رتن سن سمیت راجپوت مرد آہستہ آہستہ مارے جاتے ہیں جس کے بعد اپنی پکڑ سامنے دیکھ کر، رانی پدماوتی دیگر خواتین کے ساتھ راجپوت رویات کے مطابق آگ میں کود کر خود کشی کر لیتی ہیں۔۔۔۔ اور نتیجہ یہ نکالا گیا کہ، خلجی کو باوجود راجپوتوں کو شکست دینے کے ناکام لوٹنا پڑتا ہے ۔۔ کیونکہ جنگ چھڑی ہی رانی پدماوتی کو حاصل کرنے کو تھی۔ کہانی جو بھی ہو، اس کا مرکزی خیال سیم ہی ہے۔۔۔ جس میں علاؤ الدین خلجی کو رانی کی طلب کرتے، اور رانی کو آخری دم تک یہ خواہش پوری نہ کرتے دیکھایا گیا ہے۔ فلم کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک بہت ہی کمال فلم بنائی گئی ہے۔ اس فلم کا تاریخ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے بلکہ تاریخ کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے، اصل میں تو رانی پدماوتی کا کردار تاریخ میں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ ’’پدماوت ‘‘ نظم پدماوت پر بنائی ہے جو مالک محمد جیاسی نے 1540 میں لکھی تھی۔ ہندو نے اس کردار کو ہی مذہبی روپ دیا ہوا ہے۔ محمد مالک جیاسی کی نظم جس میں اس نے راجپوتانہ ریاست کی فرضی کہانی بنائی تھی ، اسی میں ایک رانی کا کردار تخلیق کیا جس نے علاؤ الدین خلجی کی قید میں آنے کے بجائے آگ میں کود کر جان دینا پسند کیا . یہ ویسا ہی فرضی کردار ہے جیسا انگریزوں کی نظموں اور کہانیوں میں رابن ہڈ ہے یا پھر ہمارے ہاں سوہنی ماہیوال ہیں۔دراصل راجپوت ہندوؤں کو یہ گوارا نہیں ہے کہ ، نئی بھارتی جنریشن یہ دیکھے کہ کس طرح ایک ہندو راجپوت کو مسلمان راجہ سے شکست ہوئی تھی۔ خیر یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ، شکست کے بعد خلجی کو بدنام کرنے کے لیے ہی کسی راجپوت نے رانی پدماوتی کا ذکر چھیڑا ہو تاکہ شکست کو چھپاتے، علاؤ الدین خلجی کو ولن ثابت کیا جا سکے۔ اور اسی سنے سنائے واقعہ پر جیاسی صاحب نے پدماوت لکھ دی ہو۔۔ یا پھر سرے سے ہی یہ ساری کہانی بشمول رتن سنگھ خود ساختہ ہو۔۔۔علاؤ الدین خلجی کو ہم جنس پرست بھی قرار دیا جاتا ہے۔۔ اکثریت تحقیقدانوں نے اسے (پدماوت) من گھڑت خود ساختہ قرار دیا ہے۔ اس فلم میں علاء الدین خلجی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ کوئی وحشی، سفاک، جنگلی اور ظالم حکمراں ہو، نوچ نوچ کر کھاتا ہو، عجیب و غریب کپڑے پہنتا ہو۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے دور کے بہت مہذب شخص تھے جنھوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات آج تک نظر آتے ہیں۔’ ‘جلال الدين خلجی کے دہلی کا سلطان بننے کے ساتھ ہی ہندوستانی لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسے خلجی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ علاء الدین خلجی نے اس کام کو آگے بڑھایا اور مقامی لوگوں کے حکومت میں شمولیت کے پیش نظر یہ صرف ترکوں کی حکومت ہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ ہندستانیوں کی حکومت بھی تھی۔ جس گنگا جمنی تہذیب کے لیے ہندوستان مشہور ہے اور جسے بعد میں اکبر نے آگے بڑھایا اس کی ابتدا علاء الدین خلجی نے ہی کی تھی۔’ علاء الدین خلجی کی اشیا اور چیزوں کی قیمت پر کنٹرول کرنے کی پالیسی اس دور کا انقلابی قدم تھا اور کسی کرشمے سے کم نہیں۔ علاء الدین خلجی نے بازار میں فروخت ہونے والی ہر شے کی قیمت طے کر دی تھی۔ کسی بھی کسان، کاروباری یا آڑھتی کو مقررہ حد سے زیادہ خوراک رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی مقررہ قیمت سے زیادہ پر فروخت کرنے کی اجازت تھی۔ خلجی نے زمینوں میں بھی اصلاح کی تھی۔ ہندوستان پر باہر سے سب سے بڑے حملے منگولوں کے تھے۔ منگولوں نے وسطی ایشیا اور ایران پر قبضہ کر لیا تھا اور ہندوستان پر وہ بار بار حملے کر رہے تھے۔ علاء الدین خلجی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کامیابی کے ساتھ ان کے ساتھ جنگ کی۔ خلجی طاقتور سلطان تھے۔ ہر بڑے حکمران کے سامنے دو چیلنج ہوتے ہیں۔ پہلا اپنی سلطنت کو بیرونی حملے سے تحفظ فراہم کرنا اور دوسرا اندرونی استحکام فراہم کرنا اور اسے بڑھانا یعنی نئی نئی ریاستوں کو اپنے زیر نگيں لانا اور اقتدار کو قائم رکھنا اور اس کے فوائد نچلی سطح تک پہنچانا ۔ جنگ میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں، خلجی کی جنگ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ مرے۔خلجی نے کئی منگول حملے ناکام کیے تاہم انھوں نے بہت سے منگول فوجیوں کو دہلی میں رہنے کی اجازت بھی دی اور بہت سے منگول فوجی یہیں کے باشندے ہو گئے تھے۔جب یہیں رہنے والے منگول فوجیوں نے بغاوت کر دی تو خلجی نے شکست خوردہ منگول فوج کے فوجیوں کے کٹے ہوئے سر کی وار ٹرافی کے طور پر نمائش کی اور منگولوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے انھوں نے کٹے سر دیواروں چنوا دیے۔تاہم علاءالدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے چچا اور دہلی کے سلطان جلال الدین خلجی کو قتل کروا کر دہلی کا تاج حاصل کیا تھا۔ علاؤ الدین خلجی اور اس کے خاص غلام ملک کافور (غفور) کے ساتھ جنسی تعلق دیکھایا گیا ہے۔ کافور دراصل دلی کے سلطان علاؤ الدین خلجی کے غلاموں کے فوجی کمانڈر تھے ۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ خلجی کے جنرل نصرت خان نے گجرات پر چڑھائی کے دوران ملک کافور کو پکڑ کر غلام بنا لیا تھا اس کے بعد وہ ترقی کرتے گئے۔ ایک غلام کی اتنی ترقی کرنے کی کیا وجہ تھی؟ کیا کافور ہم جنس پرست تھے اور کیا واقعی خلجی اور کافور کے جسمانی تعلقات تھے؟ اس دور میں غلاموں کا اتنی ترقی کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں، اس زمانے میں غلام کے معنی آج جیسے نہیں تھے۔ غلاموں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا مرد ہونا ہوا کرتی تھی کہ وہ کتنے بہادر سپاہی اور کتنے وفادار ہیں۔ کافور میں یہ دونوں خصوصیات تھیں۔ کافور بہت اہم ہو گئے تھے کیونکہ انہوں نے ہی خلجی کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور جیتیں۔ ہربنس مکھیا کا کہنا ہے کہ وہ ہم جنس پرست نہیں تھے۔ نہ تو کافور ہم جنس پرست تھے اور نہ ہی خلجی سے ان کا جسمانی تعلق تھا‘۔ اس فلم پر راجپوتوں کی طرف سے احتجاج ہوا ۔جو میرا خیال بھارتی مسلمانوں کی طرف سے ہوتا تو سمجھ میں بھی آتا لگتا۔ پدماوت میں فکشن کی بنیاد پر ایک مسلمان حکمران کو ولن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ علاؤ الدین خلجی کو ملک کافور سے منسلک کر کے ہم جنس پرست بھی دیکھایا جاتا ہے۔۔ جس کے رد میں بھارت کے چوٹی کے تحقیق دانوں نے لکھا ہے کہ علاؤ الدین ہم جنس پرست نہیں تھے۔فلم دیکھنے والوں کے تاثرات سن کر معلوم ہوا کہ فلم میں ہم جنس پرستی کے بابت زیادہ نہیں دیکھایا گیا۔ مگر ایک آدھ جگہ ایسا اشارہ ضرور دیا گیا ہے۔ آخر بات یہ کہ اس فلم کو تاریخ کی بجائے صرف ایک فلم ہی سمجھا جائے۔ جس میں کچھ فرضی کردار ہیں اور کچھ کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کا تاریخ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ علاؤ الدین خلجی جن کا خواب تھا سکندر بننا ۔ تاریخ آج بھی ان کو سکندرِ ثانی کے نام سے جانتی ہے۔
ایم ڈبلیوایم کے زیر اہتمام شہید قائد عارف حسینیؒ کی 34 ویں برسی ،شیعہ سنی علماء و اکابرین سمیت ہزاروں عاشقان حسینی کی شرکت  Print this page ایم ڈبلیوایم کے زیر اہتمام شہید قائد عارف حسینیؒ کی 34 ویں برسی ،شیعہ سنی علماء و اکابرین سمیت ہزاروں عاشقان حسینی کی شرکت 25 جولائی 2022 وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام کنونشن سینٹراسلام آباد میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی 34ویں برسی کی مناسبت سے منعقدہ مہدی ع برحق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اہل حرم پاکستان کے سربراہ مفتی گلزار احمد نعیمی نے کہا یہ تاریخی حقیقت ہے کہ استعماری طاقتیں قوموں کوٹکروں میں تقسیم کر کے انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس شیطانی حکمت عملی کے خلاف ایسا گروہ بھی موجود رہتا ہے جو استعماری مقاصد کے خلاف ڈٹا رہتا ہے۔ہم ان شا اللہ ہمیشہ ان ظالموں کے خلاف تاحیات ڈٹے رہیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور نے کہاشہدا کا ہم پر قرض ہے اور ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اسلامی و جمہوری نظام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے ظلم کے خلاف ہم کل بھی کھڑے تھے اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ظلم و ستم کاکوئی راستہ ہمیں حق سے نہیں ہٹا سکتا۔ ہم حسینی ہیں۔کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔پاکستان معاشی طور پر ڈوب رہا ہے۔ تاریخ میں پاکستان کے ایسے حالات کبھی نہیں ہوئے۔ماڈل ٹاون کا قاتل آج ملک کا وزیر داخلہ بنا ہوا ہے۔ ظلم کا یہ نظام چلنے نہیں دیں گے۔ امام خمینی ٹرسٹ کے چیئرمین علامہ افتخار حسین نقوی نے کہا کہ مہدی ؑ برحق کانفرنس ہمیں شہداء اور اس قافلے کے سالار شہید قائد عارف حسینی کی یاد دلاتی ہے۔شہید قائد نے پوری قوم کو اس وقت بیدار کیا جب سب غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔شہید قائد نے ڈنکے کی چوٹ پر امریکہ کو پاکستان کی مشکلات کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس وقت پاکستان سنگین ترین دور سے گزر رہا ہے جس میں علماء پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ شہید قائد سے عقیدت کا اظہار ہمارے لیے سعادت ہے۔ایک ایسا الہی انسان جو اخلاص و تقوی کا پیکر تھا۔قائد شہید نے ملت جعفریہ کو ایک انقلابی پلیٹ فارم دیا۔انہوں نے اس فکر کا پرچار کیا جس کا مقصد تشیع کے حقوق اور وطن عزیزکا دفاع تھا۔شہید قائد نے ضیائی آمریت کے مقابلے میں تمام جمہوری قوتوں کو یکجا کیا۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر شیرازی نے کہا کہ ارض پاک میں ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ ہم تم ایسے تنہا کریں گے کوئی تم سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔آج وہ تکفیری آ کر دیکھ لیں تمام مکاتب فکر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ خود تنہا ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ مردو باد کا نعرہ یزید مردہ باد کا تسلسل ہے۔ یہ کسی ملک یا مکتب کا نعرہ نہیں بلکہ ظلم اور ظالموں کے خلاف حق پرستوں کا نعرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے ۔عزاداری ہمارا آئینی حق ہے کس کو اس پر پابندی لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ شہید قائد نے جہاں عالم استکبار کے خلاف آواز اٹھائی وہاں وہ اپنے ملت کے ساتھ بھی جڑے رہے۔مجلس وحدت مسلمین اپنے عظیم قائد شہید عارف حسین کے ہر عمل کی تائید کرتے ہوئے میدان عمل میں کھڑی نظر آئے گی۔انہوں نے کہا کہ جبر کے ذریعے پاکستان کے سات کروڑ شیعہ پر کوئی نصاب تعلیم نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ آج کے حکمران ضیائی آمریت کے ساتھی تھے۔انہوں نے ہر دور میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی۔انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے جس امریکہ کو شیطان بزرگ کہا تھا آج پوری دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ عالم اسلام کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے رہنما ڈاکٹر ثاقب اکبر نے کہا کہ مہدی ؑ برحق کا نعرہ پوری دنیا مٰں عدل کا نعرہ ہے۔ ہم اس ملک میں اہل حق کے اتحاد کے خواہاں ہیں۔ ہم ظالمین کا اتحاد نہیں چاہتے۔علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ دین اسلام کی تبلیغٖ اور دفاع کے لیے سب کو ہر وقت تیار رہنا چاہئیے۔ دین کے لیے کب کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ بابصیرت قیادت کرتی ہے۔قائد شہید ایک بابصیرت رہنما تھے ۔انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ امریکی کی دوستی اور دشمنی دونوں خطرناک ہیں۔ مجلس علمائے شیعہ کے صدر علامہ سید حسنین گردیزی نے کہا کہ روز مباہلہ مسیحیت کے مقابلے میں اسلام کی فتح کا دن ہے۔سچوں کے ساتھ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا کردار آپ کی گفتار کی تصدیق کرے۔ انہوں نے کہا امریکی مداخلت کے مکمل خاتمے کے بغیر پاکستان کی ترقی و استحکام ممکن نہیں ۔ ممبر صوبائی اسمبلی سیدہ زہرا نقوی نے کہا کہ شہید قائد کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔شہید قائد کے مطابق باپردہ خواتین سے عالمی استکباری قوتیں سخت خائف ہیں۔باپردہ خواتین امام برحق ؑ کے ظہور کے لیے زمینہ سازی میں مصروف رہیں۔ پاراچنار کے تحصیل چیئرمین آغا مزمل حسین نے کہا نوجوان ہماری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں ان کے جوش و ولولے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں.گلگت بلتستان کے وزیر میثم کاظم نے کہاقائد عارف حسین الحسینی کو ان استعماری قوتوں نے شہید کرایا جو قائد و اقبال کے پاکستان کے مخالف تھیں۔ہم شہدائے پاکستان اور شہید قائد سے یہ عہد کرتے ہیں کہ خط شہید سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کے معاون خصوصی الیاس صدیقی نے کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا مقصد انہیں قتل عام کادوبارہ موقع فراہم کرنا ہے۔کانفرنس سے چیئرمین ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس جعفری، چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا، سابق صوبائی وزیر قانون آغا محمد رضا ،ملک اقرار حسین، علامہ اقتدار حسین نقوی، علامہ ولایت حسین جعفری، علامہ جہانزیب جعفری، علامہ آغا اعجاز بہشتی،عارف الجانی نے بھی خطاب کیا۔تقریب میں سابق وفاقی وزیر ذلفی بخاری سمیت معروف شخصیات بھی موجود تھیں۔
جہلم: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پنجاب کے اضلاع پر ان سے لیے جانے والے ٹیکس کے مطابق پیسا خرچ کیا جائے۔ وزیرِ اطلاعات نے ڈومیلی میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہلم کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں دیتا ہے لیکن اس پر اس حساب سے پیسا نہیں خرچ کیا جا رہا۔ blockquote#bsq-5131.bs-quote.bsq-t1:after { background-color: #dd3333; } blockquote#bsq-5131.bs-quote.bsq-t1 a{ color: #dd3333; } میں جب کہتا ہوں کہ ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑنا تو اپوزیشن واک آؤٹ کر جاتی ہے۔ فواد چوہدری وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ اربوں کھربوں کا روپیا جو دس سال میں آیا وہ کہاں گیا، ہمیں یہاں دو اہم چیزیں سوچنی ہیں، اربوں روپے کہاں گئے، اور یہ کہ سرکار کا خزانہ عام آدمی تک پہنچ جائے گا؟ انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان عام آدمی کی بات کرتے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا ہے جس میں پیسا عام آدمی کے لیے لگ سکے، ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو انگریزی پڑھانے والے استاد موجود نہیں، عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں اور گزشتہ حکمران میٹرو بناتے رہے۔ یہ بھی پڑھیں: معافی کے بغیر فواد چوہدری کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی ختم فواد چوہدری نے کہا ’میں جب کہتا ہوں کہ ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑنا تو اپوزیشن واک آؤٹ کر جاتی ہے، جب کرپشن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو اپوزیشن واک آؤٹ کر جاتی ہے۔ جب ہم ان سے سوال کرتے ہیں تو یہ سر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں، کہتے ہیں میں پارلیمنٹ نہیں چلنے دے رہا، اگر اس طرح پارلیمنٹ چلائی تو ملک نہیں چلے گا۔‘ وزیرِ اطلاعات نے کہا ’جہلم اور چکوال کے لوگ پاکستان کی سرحدوں پر پہرا دیتے ہیں، ہم اپنا حق لاہور اور اسلام آباد سے لے کر آئیں گے، چوروں اور ڈاکوؤں سے پاکستان کا پیسا واپس لیں گے، عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کریں گے۔‘
Sydney, Melbourne, Brisbane, Perth, Adelaide, Gold Coast, Canberra, Newcastle, Logan City, Geelong, Hobart, Townsville, Cairns, Toowoomba, Darwin اور State of Queensland : Brisbane, Gold Coast, Logan City, Townsville, Cairns, Toowoomba, Mackay, Bundaberg, Caloundra, Gladstone, Mount Isa, Maryborough, Woodridge, Narangba, Yeppoon میں Telstra 3G / 4G / 5G موبائل نیٹ ورک کوریج کو بھی دیکھیں۔ Brisbane, Gold Coast, Logan City, Townsville, Cairns, Toowoomba, Mackay, Bundaberg, Caloundra, Gladstone, Mount Isa, Maryborough, Woodridge, Narangba, Yeppoon ۔ NPerf پروجیکٹ کا حصہ بنیں ، ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں! nPerf نقشے کیسے کام کرتے ہیں ؟ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟ یہ اعدادوشمار nPerf ایپ کے صارفین کے ذریعہ کئے گئے ٹیسٹوں سے جمع کیا گیا ہے۔ یہ ایسے میدان ہیں جو براہ راست میدان میں واقع حالتوں میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ کو بس اپنے اسمارٹ فون پر nPerf ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا ہے۔ مزید اعداد و شمار جتنے زیادہ ہوں گے ، نقشے اتنے ہی جامع ہوں گے! اپ ڈیٹس کس طرح کی گئی ہیں ؟ نیٹ ورک کوریج کے نقشے ہر گھنٹہ بوٹ کے ذریعہ خود بخود اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں۔ رفتار کے نقشے ہر 15 منٹ میں اپڈیٹ ہوتے ہیں۔ ڈیٹا دو سال کے لئے ظاہر کیا جاتا ہے. دو سال بعد ، سب سے قدیم ڈیٹا کو ماہ میں ایک بار نقشوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ کتنا قابل اعتماد اور درست ہے؟ ٹیسٹ صارفین کے آلات پر کئے جاتے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع کی جانچ پڑتال کے وقت GPS سگنل کے استقبال کے معیار پر منحصر ہے۔ کوریج ڈیٹا کے لیے ، ہم صرف زیادہ سے زیادہ 50 میٹر جغرافیائی مقام کے ساتھ ٹیسٹ برقرار رکھتے ہیں۔ بٹریٹ ڈاؤن لوڈ کے لیے ، یہ چوکھٹ 200 میٹر تک جاتا ہے۔ میں خام ڈیٹا کا ہولڈ کیسے حاصل کر سکتا/سکتی ہوں ؟ کیا آپ CSV فارمیٹ میں نیٹ ورک کوریج ڈیٹا یا nPerf ٹیسٹ (بٹریٹ ، لیٹینسی ، براؤزنگ ، ویڈیو اسٹریمنگ) ان کو اپنی پسند کے مطابق استعمال کرنے کے کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی مسئلہ نہیں! ہم سے رابطہ کریں کیا کوریج کے نقشے کے نقطہ نظر کے لئے ایک پرو آلہ موجود ہے ؟ جی ہاں. یہ آلہ بنیادی طور پر موبائل آپریٹرز کے لئے ہے۔ اس کو ایک موجودہ کاک پٹ میں ضم کردیا گیا ہے جس میں پہلے ہی کسی ملک میں موجود تمام آپریٹرز کے انٹرنیٹ پرفارمنس کے اعدادوشمار شامل ہیں ، نیز اسپیڈ ٹیسٹ کے نتائج اور کوریج ڈیٹا تک رسائی بھی شامل ہے۔ ان ڈیٹا کو ٹکنالوجی کے ذریعہ (کوئی کوریج ، 2 جی ، 3 جی ، 4 جی ، 4 جی + ، 5 جی) فلٹر لگانے سے کسی قابل ترتیب مدت میں (مثال کے طور پر صرف آخری 2 ماہ) نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی تعیناتی ، حریفوں کی نگرانی اور ناقص سگنل کوریج والے علاقوں کی نشاندہی کرنے کا یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ nperf.com کو براؤز کرنے سے ، آپ ہماری رازداری اور کوکیز کے استعمال کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہمارے nPerf ٹیسٹ صارف کا لائسنس کا آخری معاہدہ ۔ OK
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی مقابلہ پاکستان نے جیت لیا ہے۔ میچ دیکھنے کے لیے شائقینِ کی بڑی تعداد لاہور کے قذافی اسٹیڈیم پہنچی جن میں کئی افراد بنگلہ دیش کی ٹیم کو بھی سپورٹ کر رہے تھے۔ 1 لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کے دوران تماشائی بڑی تعداد میں اسٹیڈیم پہنچے اور اپنی پسندیدہ ٹیم کو سپورٹ کیا۔ 2 قذافی اسٹیڈیم کے کئی اسٹینڈز لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ 3 میچ کے دوران قذافی اسٹیڈیم کا ایک منظر۔ 4 کرکٹ کے شوقین پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پہلا مقابلہ دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم پہنچے۔
’دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مندروں کی جتنی بڑی تعداد کو اورنگ زیب کے دور میں گرانٹ دی جاتی تھی اتنی بڑی تعداد میں مندروں کو اکبر کے دور میں بھی گرانٹ نہیں دی گئی تھی۔‘ ظہور حسین صحافی @ZahoorJourno اتوار 5 جون 2022 17:15 اورنگ زیب کے زمانے میں دشمن کی عبادت گاہیں گرانا معمول تھا (اے پی/ انڈپینڈنٹ گرافکس) بھارت میں ان دنوں سخت گیر ہندو قوم پرست مغل دور میں تعمیر کی جانے والی مسجدوں اور شہرہ آفاق یادگاروں پر اپنا دعویٰ پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مغل حکمرانوں بالخصوص چھٹے فرمانروا اورنگ زیب نے کئی مسجدیں مندر توڑ کر تعمیر کروائی تھیں۔ جن مسجدوں پر دعویٰ پیش کیا گیا ہے ان کی فہرست میں بنارس (موجودہ نام وارانسی) کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سرفہرست ہیں۔ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے دو بڑے شہروں میں واقع ان مسجدوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور عدالتیں جس سرعت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہی سنایا جا سکتا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو سخت گیر ہندو تنظیموں کے ہزاروں کارکنوں نے اسی ریاست کے شہر ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور پھر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کے ہندوؤں کے حق میں فیصلے کے بعد اب اس جگہ پر ایک بڑے رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’دی پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کی موجودگی کے باوجود بھارت کی عدالتیں مساجد کو توڑنے کے لیے دائر کی جانے والی عرضیاں سماعت کے لیے قبول کر رہی ہیں۔ کانگریس حکومت کی جانب سے 1991 میں منظور کیے جانے والے اس خصوصی قانون کی رو سے بھارت میں 15 اگست 1947 کو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں ان کی وہ شکل و حیثیت برقرار رہے گی۔ تاہم ایودھیہ تنازعے کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا کیوں کہ یہ معاملہ تب عدالت میں زیر سماعت تھا۔ اورنگ زیب نے واقعی مندر تڑوائے مگر۔۔۔ جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال مغلیہ سلطنت کی تاریخ کے ماہرین سے پوچھا تو ان کا جواب ’ہاں‘ میں تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور مغلوں کی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی نے بتایا: ’اورنگ زیب نے بے شک مندر تڑوائے مگر ایسے علاقوں میں جہاں بغاوت زوروں پر تھی۔ ’جب راٹھوروں نے بغاوت کی تو ان کے مندر تڑوائے۔ سسودیوں نے بغاوت کی تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ جب جاٹوں نے بغاوت کی تو متھرا اور بنارس میں چیزیں (مندر) توڑی گئیں۔ لیکن جن علاقوں میں کوئی بغاوت نہیں تھی اور سکون تھا ایسے علاقوں میں نہ صرف مندروں کو دی جانے والی گرانٹ برقرار رکھی بلکہ اس فہرست میں مزید مندر بھی شامل کروائے۔ ’دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مندروں کی جتنی بڑی تعداد کو اورنگ زیب کے دور میں گرانٹ دی جاتی تھی اتنی بڑی تعداد میں مندروں کو اکبر کے دور میں بھی گرانٹ نہیں دی گئی تھی۔‘ نئی دہلی میں واقع معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آج کل کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے مندر تڑوائے۔ مان لیا یہ سچ ہے لیکن اس کے بھی ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ انہوں نے کئی مندروں کو زمین فراہم کی۔ انہوں نے بنارس کے جنگم واڑی میں ایک مندر کو 178 ہیکٹر زمین عطیہ کی۔ ’ایک مرتبہ اورنگ زیب فرمان جاری کرتے ہیں کہ نئے مندر بنائے گئے تو توڑے جائیں گے۔ متھرا کے مندر کو اسی فرمان کے تحت توڑا گیا تھا۔ لیکن اسی اورنگ زیب نے کئی مرتبہ ایسے بھی فرمان جاری کیے جو مندروں کی گرانٹ اور زمین کی فراہمی سے متعلق تھے۔‘ ’عبادت گاہیں توڑنا ایک دستور تھا‘ ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ قرونِ وسطیٰ یا عہد وسطیٰ میں اور اس سے پہلے کے ادوار میں ایک دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ کی سلطنت پر قبضہ کرتا تھا یا جنگ میں اسے ہراتا تھا تو وہ اس (ہارنے والے بادشاہ) کی عبادت گاہیں تڑوا کر اپنی بنواتا تھا۔ ’یہ دستور ہندوؤں میں بھی تھا اور مسلمانوں میں بھی۔ یہ ترکی، یورپ، ہندوستان اور دوسرے علاقوں میں بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب کے وقت کے ہندو تاریخ دانوں جیسے ایشورداس ناگر اور بھیم سین سکسینہ نے مندر توڑنے کی کارروائیوں کو زیادہ اہمیت دی نہ ہی اس پر واویلا کیا ہے۔ ’رچرڈ ایم ایٹن نے بھی اپنی کتاب ’ٹیمپل ڈیسیکریشن اینڈ مسلم سٹیٹس ان میڈیول انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ جو جہاں جیتتا تھا یا قابض ہوتا تھا وہ وہاں پر اپنی عبادت گاہیں بنواتا تھا۔‘ سینٹرل یونیورسٹی آف کرناٹک کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اورنگ زیب نے بنارس اور متھرا میں مندر ہندو راجپوتوں کی سفارش پر تڑوائے تھے۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ بنارس اور متھرا کے راجپوت، جو چھتری ذات کے ہندو ہیں، انہیں برہمنوں سے بدلہ لینا تھا۔ ان مندروں کے توڑے جانے پر اس وقت کسی نے بھی واویلا نہیں کیا۔ ان کی فوج میں کافی تعداد میں ہندو تھے۔ وہ تو مخالفت بھی کر سکتے تھے؟ مگر نہیں کی۔ ’اورنگ زیب کے علاوہ کسی دوسرے مغل شہنشاہ کے دور میں مندر توڑے جانے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔‘ ’عبادت گاہیں ہر دور میں توڑی گئیں‘ ڈاکٹر عبدالمجید کہتے ہیں کہ عبادت گاہیں صرف مغلوں کے دور میں نہیں بلکہ ہر دور میں توڑی گئیں۔ ’جنوبی ہندوستان میں بدھسٹوں اور جینوں کی عبادت گاہوں کی بھرمار تھی لیکن ان کو توڑا گیا یا ہندو مندروں میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بارے میں آج بدھسٹ بات کرتے ہیں نہ جین مت کے پیروکار۔‘ ڈاکٹر عبدالمجید کا کہنا ہے کہ عبادت گاہوں کو توڑنے اور جلانے کی حمایت میں بیانات ہندو شہنشاہوں کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔ ’جنوبی ہندوستان میں ہندو چالوکیہ خاندان کے شہنشاہ سومیشورا سوم نے ’مناسلاسا‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کسی علاقے کو فتح کرنے والے بادشاہ کو اس علاقے (جس کو انہوں نے جیتا ہے) کے شہنشاہ سے منسلک عمارتوں جیسے محلوں اور عبادت گاہوں کو جلا دینا چاہیے۔‘ ہندو انتہاپسندوں نے 1992 میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا (اے ایف پی) دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاریخ کی مستند کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح بدھسٹوں اور جینوں کی عبادت گاہیں توڑی گئیں۔ ’معروف ہندو راہب، دانشور اور مصنف سوامی وویکانند نے لکھا ہے کہ جگناتھ مندر ایک پرانا بدھ مندر تھا۔ ہم نے اسے اور اس جیسے دوسرے مندروں کو واپس ہندو مندر بنا دیا۔ ہمیں ابھی اس طرح کے بہت سے کام کرنے ہوں گے۔ ’آریہ سماج کے بانی مہارشی دیانند سرسوتی نے شنکر آچاریہ کے گن گان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دس سال تک انہوں (شنکر آچاریہ) نے پورے ملک کا دورہ کیا، جین مت کی تردید کی اور ویدک (ہندو) مذہب کی وکالت کی۔ وہ تمام ٹوٹی ہوئی تصویریں جو آج کل زمین کی کھدائی کے دوران مل رہی ہیں جینوں نے توڑے جانے کے خوف سے دفن کر دی تھیں۔ درحقیقت یہ جو بادشاہ ہوا کرتے تھے چاہے وہ چندر گپت موریہ ہوں یا مغلوں کے اکبر یا اورنگ زیب ان کے لیے نہ کوئی رشتہ دار ہوتا تھا نہ ان کا کوئی مذہب ہوتا تھا۔ اپنی سلطنت کی توسیع اور مضبوطی ان کا مقصد ہوتا تھا۔ ’اسی طرح مستند ذرائع اور بدھ مت کی تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 184 قبل مسیح میں موریہ سلطنت پر قابض ہو کر شنگا سلطنت نامی ہندو حکومت قائم کرنے والے پشیہ مترا شنگا نے بڑی تعداد میں بدھسٹوں کی عبادت گاہیں تڑوائیں اور راہبوں کو قتل کروایا۔‘ اورنگ زیب کے عہد میں ہندو پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جتنی بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اعلیٰ منصبوں پر فائز کیا گیا تھا اس کی نظیر باقی مغل شہنشاہوں کے دور میں نہیں ملتی ہے۔ ’انہی کے دور میں پورے دکن کے صوبیدار ایک ہندو راجپوت مرزا راجہ جے سنگھ تھے۔ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے 1665 میں شیواجی کو ہرایا۔‘ ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جو لوگ بڑے عہدوں پر فائز تھے وہ ہندو تھے یا راجپوت۔ ’اورنگ زیب کے وزیر خزانہ ایک ہندو تھے جن کا نام راجا رگھوناتھ سنگھ تھا۔ گجرات اور دکن جیسے اہم صوبوں کا انتظام و انصرام بالترتیب جسونت سنگھ اور مرزا راجا جے سنگھ کے حوالے تھا۔ ’درحقیقت یہ جو بادشاہ ہوا کرتے تھے چاہے وہ چندر گپت موریہ ہوں یا مغلوں کے اکبر یا اورنگ زیب ان کے لیے نہ کوئی رشتہ دار ہوتا تھا نہ ان کا کوئی مذہب ہوتا تھا۔ اپنی سلطنت کی توسیع اور مضبوطی ان کا مقصد ہوتا تھا۔ ’جب اورنگ زیب نے بیجاپور اور گولکنڈہ کی شاہی سلطنوں کے خلاف جنگ کی تو شیعوں کے خلاف بیانات دیے وہ بھی باوجود اس کے کہ ان کی ماں (ممتاز محل) ایک شیعہ خاتون تھیں۔ جب ہندوؤں اور راجپوتوں کے خلاف جنگیں ہوئیں تو ان کے خلاف بیانات دیے۔‘ ڈاکٹر عبدالمجید کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب کی حکومت میں ہندو منصب داروں یا عہدیداروں کا تناسب 33 فیصد سے زیادہ تھا۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا تھا کہ ماضی کے حکمراں یا شہنشاہ بھی صلاحیت کی بنیاد پر ہی ملازمت دیتے تھے۔ ’وہ اس معاملے میں مذہبی تعلق نہیں دیکھتے تھے۔ راجہ مان سنگھ کے پاس صلاحیت تھی تو اکبر نے انہیں اپنے دربار میں ملازمت پر رکھا۔‘ پروفیسر رامیشور نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اورنگ زیب کی فوج نے مراٹھا سلطنت کے بانی چھترپتی شیواجی کے بیٹے سمبھاجی کو قتل کرنے کے بعد ان کے کمسن لڑکے ساہوجی کو مغل دربار میں لا کر انہیں ایک ہندو راج کمار کی طرح پالا پوسا۔ ’شہنشاہ اورنگ زیب نے فرمان جاری کیا اس بچے کی ایسے ہی پرورش کی جائے جیسے ایک ہندو راج کمار کی کی جاتی ہے۔ اس فرمان کے عین مطابق ساہوجی کو مغل دربار میں ایک ہندو راج کمار کی طرح تعلیم دی گئی اور ہر ایک سہولت فراہم کی گئی۔ بعد میں یہی ساہوجی اپنے باپ دادا کی مراٹھا سلطنت کا شہنشاہ بنا۔‘ پروفیسر رامیشور کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جب اقتدار کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوتا تھا تو انہیں اس وقت جو اچھا لگتا تھا وہ وہی کرتے تھے۔ ’اورنگ زیب نے جہاں ایک طرف گرو تیغ بہادر یا گرو گوبند سنگھ کے بیٹوں کے ساتھ غلط برتاؤ کیا تو دوسری طرف یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں اور بیجاپور و گولکنڈہ کے حکمرانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ سکھوں کے ایک رہنما رام رائے تھے۔ ان کو تو اورنگ زیب نے دہرادون میں جاگیر دی۔‘ ’تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھے جن کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتے تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟‘ پرویز اشرفی اپنی کتاب ’اورنگ زیب عالمگیر‘ میں لکھتے ہیں: ’اورنگ زیب کا دور اقتدار تقریباً 50 سال رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے وہ پکے مسلمان تھے، لیکن اس کے ساتھ وہ ایک حکمراں بھی تھے۔ ’اورنگ زیب ایک دوراندیش بادشاہ تھے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ملک کا اکثریتی طبقہ اپنے مذہب کا سختی سے عامل ہے۔ تلوار کے زور سے ان کو اسلام کا پیروکار نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر وہ اکثریتی طبقہ کو نقصان پہنچاتے تو ایک وسیع سلطنت کے مالک نہ بنتے۔ ’تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھے جن کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتے تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟‘ پرویز اشرفی نے لکھا ہے کہ ہندی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے ایک ڈکشنری تیار کروائی تھی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکتا تھا۔ ’ہندی نظموں و غزلوں کے متعلق قواعد و اصولوں کو رائج کرنے کے لیے اس نے ایک خاص کتاب ترتیب دی جس کے مخطوطے خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہیں۔‘ پھر تو انگریزوں سے بھی بدلہ لینا بنتا ہے پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا کا کہنا ہے کہ عہد وسطیٰ کا موجودہ دور سے تقابل نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ تب کے مسئلے اور ان کو حل کرنے کا طریقہ کار آج سے بالکل مختلف تھا۔ ’تب کی سوچ الگ تھی اور آج کی الگ ہے۔ آج ہم ایک جمہوری نظام میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ کیوں نہیں کہتے کہ انگریزوں نے ہمیں دو سو سال تک غلام بنایا لہٰذا ہم بھی انہیں دو سال تک غلام بنائیں گے۔ ’یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ کو پڑھیں اور سمجھیں لیکن یہ کوشش نہ کریں کہ ہمیں ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اس کا بدلہ لینا شروع کریں۔ پھر بدھسٹ بھی سامنے آ کر کہیں گے کہ ہندوؤں نے ہماری عبادت گاہیں کیوں توڑیں؟ ’کل دراوڑی قوم کہہ سکتی ہے کہ پورا ہندوستان تو ہمارا تھا باقی لوگ سب باہر سے آئے ہیں۔ دلت بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے صدیوں تک ہمارے ساتھ چھوا چھوت کا کھیل کھیلا لہٰذا اب ہماری باری ہے۔‘ ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ جب سلطانوں اور مغلوں کی بات ہوتی ہے تو ان کے ادوار ایسے تھے کہ جب کوئی جمہوریت تھی نہ قوم کا کوئی تصور۔ ’شروع میں تو اشوک نے بھی بدھسٹوں کو مارا تھا۔ گپتا دور آتے آتے ہندوستان میں بے چارے بدھسٹوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔ وہ وسطی ایشیا میں پھیل گئے لیکن ہندوستان سے غائب ہو گئے۔ اگر آج ہندو کسی جگہ پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں تو کل بدھسٹ آ کر نصف ہندوستان پر اپنا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔‘ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ اگر حکومت کی حمایت یافتہ تنظیموں اور ان سے جڑے لوگوں کو ماضی میں ہی جانا ہے تو صرف مغلوں کے نہیں بلکہ دیگر حکمرانوں کے ادوار پر بھی بات ہو۔ ’یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مغلوں کا دور اسلامی راج تھا تو آج اس ملک میں ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد کیسے ہے؟ مگر یہ سوالات کوئی نہیں اٹھایا۔ دہلی میں لال قلعے کے سامنے ہی سینکڑوں سال قدیم جین مندر اور گوری شنکر مندر واقع ہیں۔ ان کو کیوں نہیں توڑا گیا؟‘ اکبر کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ سب سے غیر متعصب مغل حکمران تھا (پبلک ڈومین) کیا مغل متعصب تھے؟ پروفیسر رامیشور پرساد کہتے ہیں کہ وہ اس بات کو بالکل نہیں مانتے کہ مغل حکمراں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں متعصب تھے۔ ’شہنشاہوں اور سلطانوں کی پالیسیاں بہت پیچیدہ ہوتی تھیں۔ اس پیچیدگی کے سبب کبھی لگتا تھا کہ وہ ٹالرنٹ (برداشت کرنے والے) ہیں تو کبھی لگتا تھا کہ وہ ان ٹالرنٹ ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑی ترجیح اقتدار کی بقا تھی۔ ’شہنشاہ اکبر اپنے عہد کے آغاز میں کافی ان ٹالرنٹ نظر آئے۔ جب اکبر نے چتوڑ کے قلعے کو فتح کیا تو فتح نامہ جاری کر کے کہا کہ یہ کفر پر اسلام کی فتح ہے۔ اس وقت اکبر کی عمر بمشکل 25 سال تھی۔ پھر اکبر ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرے۔ ’عبادت خانہ‘ اور ’صلح کل‘ کی پالیسیاں آئیں۔ 1570 کے بعد کا اکبر انتہائی ٹالرنٹ نظر آتے ہیں۔ وہ ہر مذہب کی آرتھوڈوکسی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ’یہی اکبر متھرا ورنداون کے علاقے میں کئی مندروں کو زمین فراہم کرتے ہیں۔ کئی مندر اپنے دست راست اور سپہ سالار راجہ مان سنگھ کی نگرانی میں تعمیر کرواتے ہیں۔‘ پروفیسر رامیشور کا ماننا ہے کہ مغلوں کی ہندوستان کو ’دارالاسلام‘ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’ان کی اگر کسی چیز میں دلچسپی تھی تو وہ یہ تھی کہ ان کی سلطنت بنی رہے۔ اس کو بنائے رکھنے کے لیے وہ تمام مذاہب کے لوگوں سے تعاون چاہتے تھے۔ لیکن جب کسی نے بغاوت کی تو انہوں نے اسے بخشا نہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ’مغلوں کے دور میں ہندوؤں سمیت سبھی مذاہب کے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملا۔ مغلوں کی ناک کے نیچے خطہ برج میں بھگتی پھیلی لیکن انہوں نے اسے روکا نہیں۔ لہٰذا آج جو بھی باتیں کی جاتی ہیں میں ان سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔‘ ڈاکٹر رضوی کے مطابق مغلیہ سلطنت کے قیام میں ہندوؤں کا ایک کلیدی کردار تھا اور مغل شہنشاہوں کو روزِ اول سے ہی اکثر ہندوؤں کا تعاون حاصل رہا۔ ’مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر دو لوگوں کی دعوت پر ہندوستان آئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام علاء الدین اور دوسرے کا نام رانا سنگرام سنگھ ہے۔ ’مغلوں اور ہندوؤں کے درمیان قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب شیر شاہ سوری نے شہنشاہ ہمایوں کو ہرایا تو سندھ کے راجپوت گھرانے آخر الذکر کے ساتھ کھڑے تھے۔ ’یہاں تک کہ جب ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے اپنے نوزائیدہ بچے کو امر کوٹ کے راجہ کے حوالے کیا تھا۔ وہ اس بچے کی کئی ماہ تک پرورش کرتے ہیں۔‘ ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ آج کہا جاتا ہے کہ مغل باہر سے آئے تھے لیکن کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ جس وقت انہوں نے یہاں حکومت چلائی تب ’فارن‘ یا ’پردیسی‘ کا تصور ہی نہیں تھا۔ ’فارن کا تصور تب ہوتا ہے جب قوم کا تصور پہلے سے موجود ہو۔ لہٰذا نہ کوئی باہر کا تھا نہ کوئی اندر کا۔ اس لیے اگر رانا سنگرام سنگھ بابر کو ہندوستان کو فتح کرنے کے خط لکھ رہے تھے تو وہ کسی پردیسی کو نہیں بلکہ ایک طاقت کو بلا رہے تھے۔ ’سنگرام سنگھ اور بابر کا مقابلہ کرنے والوں میں حسن خاں میواتی اور ابراہیم لودھی کے فرزند محمود لودھی شامل تھے۔ بابر نامہ میں دونوں کو کفار کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔‘
فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل پھر جب قیامت کو قریب دیکھ لیں گے تو جنہوں نے انکار کیا ہے ان کے چہرے بگڑ جائیں گے اور اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ قیامت ہے جس کا تم مطالبہ کرتے تھے تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی کفار کی تکذیب اور اس بنا پر ان کے فریب کا محل ومقام اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس دنیا میں ہیں ،جب جزاوسزا کا دن ہوگا اور وہ عذاب کو ﴿ زُلْفَةً ﴾ اپنے قریب دیکھیں گے تو یہ انہیں بہت برا لگے گا اور انہیں خوف زدہ کردے گا، ان کے چہرے بدل جائیں گے، ان کی تکذیب پر انہیں زجر وتوبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا:” یہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔ آج تم نے اسے عیاں دیکھ لیا ہے اور تمام معاملہ تمہارے سامنے ظاہر ہوگیا ہے، تمہارے تمام اسباب منقطع ہوگئے ہیں اور اب عذاب بھگتنے کے سوا کچھ باقی نہیں۔ “ چونکہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، آپ کی ہلاکت اور آپ کے بارے میں گردش زمانہ کے منتظر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اگر تمہاری آرزو پوری ہو بھی جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے تو یہ چیز تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور تم عذاب کے مستحق بن گئے۔ پس اب تمہیں دردناک عذاب سے کون بچا سکتا ہے جس کا تم پر واقع ہونا حتمی ہے؟ تب میری ہلاکت کے بارے میں تمہاری مشقت اور حرص غیر مفید ہے اور وہ تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ انہوں نے اپنے اس قول کا۔۔۔کہ وہ ہدایت پر ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گمراہی پر ہیں۔۔ اعادہ کیا، اس کے اظہار میں جرأت دکھائی، اس پر جھگڑا اور لڑائی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنے حال اور آپ کی پیروی کرنے والوں کے حال سے آگاہ کردیں جس سے ہر شخص پر ان کی ہدایت اور تقوٰی واضح ہوجائے اور وہ یہ کہنے کا حکم تھا :﴿اٰ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا﴾” ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس پر توکل کیا۔“ اور ایمان، باطنی تصدیق اور اعمال باطنہ وظاہرہ کو شامل ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا وجود اور ان کا کمال توکل پر موقوف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال میں سے توکل کا خاص طور پر ذکر کیا ورنہ توکل، ایمان اور اس کے جملہ لوازم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾( المائدۃ:5؍23)”اور اللہ ہی پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کا یہ حال ہے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ ایسا حال ہے جو فلاح کے لیے متعین ہے اور جس پر سعادت موقوف ہے۔۔۔۔ اور آپ کے دشمنوں کا حال اس کے متضاد ہے، پس ان کے پاس ایمان ہے نہ توکل تب اس سے معلوم ہوگیا کہ کون ہدایت پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ وہ نعمتیں عطا کرنے میں اکیلا اور متفرد ہے، خاص طور پر پانی کی نعمت جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ،چنانچہ فرمایا :﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا﴾ ” کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے۔“ یعنی گہرا چلا جائے ﴿ فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ﴾ ” تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہالائے۔“ جس کو تم خود پیتے ہو، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہو اور اپنے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو؟ یہ استفہام بمعنی نفی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس پر قادر نہیں۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
اسلام آباد : صدر عارف علوی نے اسلامی نظریاتی کونسل ارکان کو کل ایوان صدر مدعو کرلیا ، صدر مملکت ارکان سے ریاست مدینہ کے مجوزہ روڈ میپ پر رہنمائی لیں گے۔ تفصیلات کے مطابق ریاست مدینہ کے روڈمیپ پر مشاورت کے لئے صدر عارف علوی نے اسلامی نظریاتی کونسل ارکان کو کل ایوان صدر بلا لیا، صدر ریاست مدینہ پروژن کونسل کے ارکان کے سامنے پیش کریں گے اور ریاست میں ترجیحات پر مشاورت کریں گے۔ صدر مملکت ارکان سے ریاست مدینہ کے مجوزہ روڈ میپ پر رہنمائی لیں گے۔ یاد رہے جنوری میں اسلامی نظریاتی کونسل نے جدید دور میں ریاست مدینہ کے قیام کے حوالے سے عملی اقدامات کیلیے حکومت سے ٹاسک فورس تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے متعلق سفارشات تیار کیں تھیں ، جس میں سب سے پہلے سودی نظام کے خاتمے کی متفقہ تجویز دیدی گئی۔ نظام حکومت اور نظام عدل کو اسلامی بنیادوں پراستوار کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس سے قبل زیر مذہبی امور نورالحق قادری کا کہنا تھا حکومت اسلامی نظریاتی کونسل سے بھرپور رہنمائی لینے کی خواہشمند ہے، کونسل کی قابل عمل سفارشات پر فی الفور عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے مدینہ ریاست کے فلسفے پر اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات پیش کرے گی، مذہبی امور، قانون انصاف، داخلہ، تعلیم اور پارلیمانی امور کی وزارتیں مسلسل اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی لیتی رہیں گی۔ واضح رہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا لوگوں سے عہد کیا ہے پاکستان کو مدینہ کی ریاست بناؤں گا۔
وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے خلاف عالمی کارروائیوں میں امریکہ عملی طور پر بدستور قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ویکسین کی تیاری اور زندگی کے بچاؤ کے آلات کی مینوفیکچرنگ کا کام تیز کر دیا ہے اور بین الاقوامی پیمانے پر ویکسین کی تقسیم کے میکنزم مثلاً کوویکس میں مدد کر رہے ہیں اور ہم نے 100 سے زیادہ ملکوں اور اداروں کو 23 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ خوراکیں عطیے کے طور پر دی ہیں۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ جب کہ یہ کوششیں اہم اقدامات ہیں مزید کارروائیاں ابھی کی جانی باقی ہیں۔ کووڈ 19 کے بارے میں حالیہ وزارتی اجلاس کے دوران انہوں نے تین نئے منصوبوں کا اعلان کیا۔ اول تو یہ کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ویکسین ضرورت مند لوگوں تک پہنچ سکے۔ عالمی کووڈ کور جو بڑی نجی کمپنیوں کا اتحاد ہے مہارت، آلات اور دوسری سہولتیں مہیا کرے گا تاکہ کم اور متوسط آمدن والے ملکوں میں ساز و سامان اور ٹیکے لگانے کی سہولتوں میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ اس کوشش کے تحت ، جس میں امریکہ اور بعض بڑی اور ساتھ ہی امریکہ میں موجود کثیر قومی کارپوریشنیں شامل ہیں، مل کر کام کریں گی اور سپلائی کے انتظام، ضروری ساز و سامان کی رسد، ویکسین کے نیٹ ورک کے ڈھانچے اور ویکسین کے مراکز کو وسعت دینے میں مختلف ملکوں کی مدد کی جائے گی۔ دوسرے منصوبے کے تحت شفافیت کے مقاصد اور احتساب کو فروغ دیا جائے گا اور پیش رفت پر نظر رکھی جائے گی۔ اس سلسلے میں وزیرِ خارجہ بلنکن نے کووڈ 19 کے عالمی پروگرام تک رسائی کا پتہ رکھنے کے لیے شرو ع کیے جانے والے منصوبے کا خیر مقدم کیا۔ یہ پروگرام آئی ایم ایف، صحت کی عالمی تنظیم، عالمی تجارتی تنظیم، عالمی بینک اور ایکٹ ایکسلیریٹر کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے اور کووڈ 19 گلوبل ٹریکر ڈاٹ او آر جی پر اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس پر مستقل بنیاد پر تازہ معلومات مہیا کی جاتی رہیں گی تاکہ ہر ایک شخص ویکسی نیشن کی شرح سے لے کر آئی سی یو میں بھرتی اور خوراکوں کے وعدوں اور قومی، علاقائی اور عالمی سطحوں پر ان کی ترسیل کے بار ے میں معلومات سے آگاہی رکھ سکے۔ اور تیسری بات یہ کہ ٹیکے ہر ایک کو دستیا ب ہو سکیں اس سے قطع نظر کہ انہیں کیا حالات درپیش ہیں۔ امریکی حکومت نے جانسن اینڈ جانسن اور کوویکس کے درمیان ایک معاہدہ طے کرایا ہے تاکہ جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کی خوراکوں کی ان لوگوں تک ترسیل میں آسانی پیدا کی جائے جو تنازعے کے شکار علاقوں اور ایسے دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انسانی مسائل درپیش ہیں۔ آخری بات یہ کہ حالیہ وزارتی اجلاس میں ویکسین اور دوسری اہم طبی سپلائیز کی عالمی پیداوار کو وسعت دینے کی ضرورت پر توجہ دی گئی۔ اس معاملے میں امریکہ نے کافی معاونت فراہم کی ہے اور اسے جاری رکھے گا اور ساتھ ہی صحت کی سیکیورٹی کے مؤثر اور دیرپا عالمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور اس کے انتظام کے لیے جو بھی ضروری ہوا وہ مہیا کرتا رہے گا۔ امریکہ تعاون اور جدت پسندی کا عمل جاری رکھے گا تاکہ اس عالمگیر وبا کو ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے ختم کیا جاسکے۔
ادارہ بتول کے تحت شائع ہونے والی تمام تحریریں طبع زاد اور اورجنل ہوتی ہیں۔ ان کو کہیں بھی دوبارہ شائع یا شیئر کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ساتھ کتاب اور پبلشر/ رسالے کے متعلقہ شمارے اور لکھنے والے کے نام کا حوالہ واضح طور پر موجود ہو۔ حوالے کے بغیر یا کسی اور نام سے نقل کرنے کی صورت میں ادارے کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔ اغراض و مقاصد ادارہ بتول (ٹرسٹ) کے اغراض و مقاصد کتابوں ، کتابچوں اور رسالوں کی شکل میں تعلیمی و ادبی مواد کی طباعت، تدوین اور اشاعت ہیں تاکہ معاشرے میں علم کے ذریعےامن و سلامتی ، بامقصد زندگی کے شعوراورمثبت اقدار کا فروغ ہو ہمارے رسالے ماہنامہ بتول زندگی بخش ادب کا ترجمان، اور ادب کے ذریعے معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ خواتین کا ایک ایسا رسالہ جسے مرد حضرات بھی دلچسپی سے پڑھ سکتے ہیں! ماہنامہ نور بارہ سال تک کے بچوں کے لیے آسان اور سبق آموزکہانیوں ،نظموں اور لطائف پر مبنی ایک ہر دلعزیز رسالہ ہے جسے پڑھنے والی تین نسلیں آج میدان عمل میں روشنی پھیلا رہی ہیں
پاکستان ایٹمى توانائى کمیشن (پی اے ای سی) نے قومی توقعات پر پورا اترتے ہوئے کورونا کى وبا کے تناظر میں ملکی وسائل سے تیار کردہ پہلا آئی سی یو وینٹى لیٹر آئی لیو (i-Live)کے نام سے متعارف کرا دیا ہے، ڈریپ نے اس وینٹى لیٹرکے استعمال اور تیاری کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے ۔ بدھ کو پی اے ای سی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق یہ وینٹى لیٹر پاکستان ایٹمى توانائی کمیشن کے سائنسدانوں اور انجینئرز نے مقامى وسائل سے تمام تر مروجہ طبى معیارات کے مطابق تیار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان ایٹمى توانائی کمیشن کے ہسپتالوں کے ڈاکٹرزنے بھى قابل قدر رہنمائی فراہم کى۔ بہت سى سائنسى جانچ کے علاوہ یہ وینٹی لیٹر پاکستان انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی سنٹر (پی آئی ٹی سی) اور پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی)کے معیارات پر بھى پورا اترا ہے۔ اس وینٹی لیٹر مشین پر جناح ہسپتال لاہور میں بھى جانچ کى گئى۔ اس جانچ میں بہت سے ماہرین جن میں طبى ماہرین، بائیو ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیکل انجینئرز شامل تھے، نے اس کو کامیاب قرار ديا ہے۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ترجمان شاہد ریاض خان نے بتایا کہ ڈریپ نے ایٹمی توانائی کمیشن کے تیار کردہ اس وینٹى لیٹرکے استعمال اور تیاری کی با قاعدہ منظوری دے دی ہے اور اس طرح یہ ملک میں تیار کردہ پہلا وینٹی لیٹر ہے جسے ڈریپ نے منظور کیا ہے۔ اس موقع پاکستان ایٹمى توانائی کمیشن کے سربراہ محمد نعیم نے سائنسدانوں اور انجینئرز کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ ڈریپ کی اس فائنل منظورى کے بعد I-Live نامى اس وینٹى لیٹر کى بڑے پیمانے پر تیارى شروع کردى جائے گى تاکہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں مریضوں کو جلد از جلد یہ سہولت مہیا کى جاسکے۔ 0Like 0Dislike 50% LikesVS 50% Dislikes Tags: ImportantNews, latest, PAKISTAN, PakistanScientist, Scientist, urdu, UrduNews, UrduNewsMag, UrduNewsMagazine, UrduNewspaper, UrduPoint, Ventilator, اردو نیوز, اردو نیوز میگ, اردو نیوز میگزین, اہم خبر, تازہ ترین
باوثوق ذرائع کا بتایا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کر کے انہیں کابینہ میں شامل ہونے پر رضامند کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ کے بعض رہنماؤں نے بھی ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ موجودہ صورت حال میں کابینہ کا حصہ بن کر ملک کو بحران سے نکالنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی رہنماؤں نے ایم کیو ایم قیادت کو معاہدے کے تحت تمام نکات پر عمل در آمد کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کو وفاق میں دو وزارتوں کے علاوہ دو مشیر بھی ان کی جماعت سے ہوں گے جبکہ سندھ میں گورنر شپ مسلم لیگ ن کو دی جائے گی، اس کے علاوہ سندھ میں ایم کیو ایم کو کم از کم 5 وزارت دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جلد پی پی اور ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ملاقات ہوگی جس میں صوبائی کابینہ کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ پیر کو ایم کیو ایم کی جانب سے سابق وفاقی وزیر سید امین الحق پہلے مرحلے میں وزیر کا حلف اٹھائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں سینیٹر سید فیصل سبز واری وفاقی کابینہ کا حصہ بنیں گے۔
ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر مرکز اراکین JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
پیارے بچو! ایک تھا بادشاہ۔ بہت ہی رحمدل، نیک اور سب سے زیادہ اﷲ کے بندوں سے پیار کرنے والا۔ اس بادشاہ کو اﷲ تعالیٰ نے حکومت کے لیے وسیع مملکت عطا فرمائی تھی مگر بچو! اس بادشاہ کے حکومت کرنے کے ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ وہ بادشاہ تو تھا مگر نہ بادشاہوں جیسے قیمتی کپڑے پہنتا اور نہ ہی بڑے بڑے محلات میں رہتا بلکہ اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتا۔ مگر اس کے دربار کی شان و شوکت دوسرے بادشاہوں کے دربار کی شان و شوکت سے کہیں زیادہ تھی۔ دوسرے بادشاہوں کے درباری اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل اس ڈر سے کرتے کہ کہیں ان کا بادشاہ ناراض نہ ہوجائے جبکہ اس بادشاہ کے درباری ڈرتے صرف اﷲ سے تھے اور اپنے بادشاہ سے نہایت محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ یہ محبت ہی تھی کہ بادشاہ کوئی کام کو کہتا توہر ایک کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ پہلے اس کام کو انجام دے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو خدمت خلق کا بھی بے حد جذبہ عطا کیا تھا اور وہ اپنا سارا وقت اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرنے میں یا اﷲ کا شکر ادا کرنے میں صرف کرتا تھا۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے دور کہیں دیکھا کہ ایک غلام چکی میں آٹا پیس رہا ہے اور ساتھ ہی درد سے کراہ بھی رہا ہے۔ بادشاہ اس غلام کے قریب گیا اور پوچھا:’’ بھائی خیریت تو ہے تم چکی بھی پیستے ہو اور کراہ بھی رہے ہو آخر کیا وجہ ہے؟‘‘ غلام نے انتہائی بے بسی سے جواب دیا:’’ مجھے بخار ہے اسی وجہ سے جسم میں درد بھی ہے اور مجھے کام کرنا مشکل ہو رہا ہے مگر میرا مالک بہت ظالم ہے۔ وہ مجھے چھٹی نہیں دیتا کہ میں کچھ آرام کرسکوں۔‘‘ بادشاہ تو تھا ہی رحم دل اس نے غلام کو تسلی دی اور اسے آرام سے لٹا دیا پھر خود سارا آٹا پیس دیا یہی نہیں بلکہ آتے وقت غلام سے کہہ آیا کہ تمہیں جب بھی آٹا پیسنا ہو مجھے بلوا لیا کرو۔ غلام نے بادشاہ کی طرف احسان مند نظروں سے دیکھا۔ اسی طرح ایک دن بادشاہ کا گزر ایک ایسے راستے سے ہوا جہاں اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو ایک بڑا بوجھ اٹھائے اپنا فاصلہ طے کررہی تھی۔ بادشاہ نے جو یہ دیکھا تو اس کے سر کا بوجھ اتار کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا۔ پھر بڑھیا کی بتائی ہوئی جگہ پر جا کر وہ بوجھ پہنچا آیا۔ ایک دفعہ بادشاہ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی مہم پر جانا پڑا۔ دوران مہم بادشاہ اور اس کے ساتھی سفر کرتے کرتے تھک گئے تو ایک جنگل میں رک گئے تاکہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے اور کچھ کھا پی لیا جائے۔ کھانا پکانے کے لیے ساتھیوں نے آپس میں مختلف کام بانٹ لیے کہ ایک جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لے آئے۔ ایک پانی بھر کر لے آئے۔ ایک چولھا تیار کرے اور اس میں آگ جلائے اور ایک کھانا پکائے۔ بادشاہ وہیں موجود تھا۔ اس نے لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لانے کی ذمہ داری خود لے لی۔ ساتھیوں نے کہا:’’ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپ آرام فرمائیں ہم ہیں کام کرنے کے واسطے۔‘‘ مگر بادشاہ نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ آرام کرے اور اس کے ساتھی کام کریں۔ لہٰذا باقی کام ساتھیوں کو سونپ کر بادشاہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا اور کھانا پکانے میں مدد کی۔ ایک مرتبہ تو حد ہی ہو گئی کہ ایک پاگل عورت بادشاہ کے پاس آئی اور بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:’’ میرے ساتھ چلو مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘ بادشاہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس عورت کے ساتھ چل دیا کچھ دور جا کر عورت نے اس سے کچھ کام کہا۔ بادشاہ نے وہ کام کچھ کہے بغیر کردیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عورت پاگل ہے اور یونہی کہہ رہی ہے۔ جب بادشاہ وہ کام کرچکا تب عورت نے اسے جانے کی اجازت دی۔ بادشاہ لوگوں کی خدمت کرتے وقت یہ نہیں خیال کرتا تھا کہ وہ جس کی خدمت کررہا ہے وہ اس کا اپنا ہے یا کوئی غیر ۔ امیر ہے یا غریب مالک ہے یا غلام، دوست ہے یادشمن کیونکہ بادشاہ یہ جانتا تھا کہ جو شخص اﷲ کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور کسی غرض کے بغیر ان کی خدمت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مقام بہت اونچا ہے۔ ایک جگہ چند عورتیں اپنی بکریوں کے لیے پریشان کھڑی تھیں۔ بادشاہ کا گزر جب ان عورتوں کے پاس سے ہوا تو اس نے رک کر ان عورتوں سے پوچھا:’’ کیا بات ہے تم لوگ کیوں پریشان کھڑی ہو؟‘‘ ان عورتوں نے جواب دیا:’’ ہمارے گھر کے مرد دوسرے علاقے میں گئے ہیں اور ان کی واپسی کچھ دنوں بعد ہو گی۔ اس وقت ہمیں دودھ کی ضرورت ہے اور ہمیں دودھ دوہنا نہیں آتا۔ ہمارے مرد ہی ان بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے کچھ ہی دیر میں ان کی یہ مشکل آسان کر دی کہ ان بکریوں کا دودھ دوہہ دیا اور یہ خدمت اس دن تک انجام دی۔ جب تک ان کے مرد واپس نہیں آگئے۔ ایک دن بادشاہ نے بازار میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا۔ جو بہت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ نابینا بھی تھی۔ وہ بیچاری عورت اپنی لاٹھی زمین پر ٹیکتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک اسے کسی پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ بوڑھی عورت گر پڑی۔ پاس ہی چند شریر لڑکے پیچھے تھے جو نابینا بڑھیا کو گرتا دیکھ کر ہنسنے لگے مگر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر بڑھیا کو اٹھایا اور سہارا دے کر گھر تک چھوڑ آئے۔ اس دن کے بعد اس اندھی بڑھیا کو کھانا بھی بادشاہ خود ہی اس کے گھر پہنچا آتا۔ ایک دفعہ دشمن نے حملے کا منصوبہ بنایا مگر بادشاہ کے جاسوسوں نے بروقت بادشاہ کو اس حملے کی اطلاع دے دی۔ بادشاہ نے فوراً اعلان جنگ کروایا اور اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں دشمن کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی دشمن سے مقابلے کے لیے ان سے راے لی، ہر ایک نے اپنی اپنی راے دی۔ مگر ان میں سے ایک ساتھی کی راے کو بادشاہ اور اس کے تمام ساتھیوں نے بہت پسند کیا۔ وہ راے تھی کہ شہر کے گرد خندق کھود کر دشمن کو شہر کے باہر ہی روکا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔ اب بادشاہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وقت بہت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔ مقابلہ اگرچہ سخت ہے مگر محنت سے اور مستقل لگن سے کیا جائے تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور فتح ہمارا مقدر ہوگی۔ اب ایک مناسب جگہ چن لی گئی اور وہیں بادشاہ کا کیمپ بنایا گیا تاکہ بادشاہ اپنے کیمپ میں بیٹھ کر جنگی حالات کا بہتر طریقے سے جائزہ لے اور جنگ سے متعلق احکامات دے سکے۔ خیمہ نصب کرنے کے بعد بادشاہ کے سپاہی خندق کھودنے کے لیے گئے تو بادشاہ کو باقی سپاہیوں کے ساتھ خندق کی کھدائی کرتے پایا اور اس حال میں دیکھا کہ جسم پر مٹی جم گئی تھی اور اپنے کرتے کے دامن میں خندق کے پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔ اس طرح اس خندق کی وجہ سے دشمن باوجود کوششوں کے اس علاقہ میں داخل نہ ہوسکا۔ بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو فتح نصیب ہوئی۔ بادشاہ نے اپنی فتح پر بجاے اکڑنے اور غرور کرنے کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اﷲ کا شکر ادا کیا جس نے انہیں فتح و عزت نصیب کی۔ ان تمام باتوں کے باوجود بادشاہ ہر روز لوگوں کی خدمت اسی طرح کیا کرتا، کبھی کسی کو سہارا دے کر گھر پہنچا دیا اور کبھی کسی غلام کے حصے کا کام انجام دے دیا۔ بادشاہ کو اس طرح تمام لوگوں کی طرح کام کرتے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے دیکھ کر ایک مغرور آدمی نے بادشاہ سے کہا:’’ اس طرح لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرکے آپ نے اپنے خاندان کا نام بدنام کر دیا ہے۔‘‘ مگر مغرور آدمی کی بات سن کر بادشاہ نہ ہی غضب ناک ہوا اور نہ ہی شرمندہ ہوا۔ بلکہ انتہائی فخر سے بادشاہ نے یہ بات کہی۔ ’’میں ہاشم کا پوتا ہوں ۔جو امیروں اور غریبوں کی یکساں مدد کرتا تھا۔ جو اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو حقیر نہیں جانتا تھا۔‘‘ پیارے بچو! اب تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ یہ عظیم بادشاہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنہیں اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی بادشاہی عطا کی مگر انہوں نے کبھی اس بات پر غرور کیا نہ دوسرے لوگوں سے خود کو الگ سمجھا بلکہ عام لوگوں کی طرح انہی لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے تھے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کردیتے۔ کبھی کوئی سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہ کرے اور نہ مصیبت میں ڈالے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اﷲ اس کی قیامت میں سختیوں کو دور کرے گا۔‘‘ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ: ’’اے بنی نوع انسان بلاشبہ تمہارے لیے رسول خدا کی ذات میں بہتر (زندگی کا) طریقہ موجود ہے۔‘‘ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرز کی تبدیلی لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے آپؐ خود اس کا عملی نمونہ بنے۔ آج اگر ہم بھی ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنا ہوگا۔ Facebook Comments Share This Tweet Share Plus one Share Email متعلقہ تحریر کامیابی کا زمانہ نظر زیدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر زیدی کی بچوں کے لئے لکھی گئی سیرت ’’سب سے بڑا… مابہ کا سفر فریال یاور ............................................. حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم… سرد رات کا سفر فریال یاور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’حذیفہ رضی اللہ عنہ جاؤ یہ کام تم کرو لیکن خبردار کسی…
21 ذوالحجہ 1440ھ بمطابق 23/08/2019 کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد صافی کی امامت میں ادا کی گئی ۔ نماز جمعہ کے خطبہ میں علامہ سید احمد صافی نے نفسیاتی مشکلات کو موضوع سخن قرار دیا کہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن سے ہمیں روزانہ گزرنا رہتا ہے اور یہی بیماریاں ذاتی مشکلات کا سبب بنتی ہیں جن میں سے ایک فراغت ہے اور اسے ایک مرض کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سے مراد انسان کا بلا مصروفیت رہنا چاہے بدنی ہو یا روحی ہو خود کو ایسے محسوس کرتا ہے کہ جیسے ضائع ہوگیا ہو ۔ بالکل اس مرض کی دوا موجود ہے ۔۔۔ اس وقت ہمارا موضوع دینی فراغت یا روحی طور پر فراغت نہیں ہے مگر یہ نہیں کہ اس موضوع کی اہمیت نہیں ہے بلکہ اس وقت موضوع سخن ہدف کا ضیاع اور مشکلات میں اضافے کے باعث فراغت کی طرف مائل ہونا ہے اور مشکلات کے حلول کی بجائے ان سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ فراغت کے انسانی طبیعت پر منفی اثرات ہیں جب انسان فارغ ہوتا ہے تو خود نفسیاتی طور پر سوال کرتا ہے کہ کیا کوئی ایسی ذمہ داری جسے ادا کر سکتا ہے اس فراغت میں ؟ مگر کوئی عمل بجا نہیں لاتا جوکہ ایک انتہائی منفی پہلو ہے اور انسان اعمال کی عدم ادائیگی کے باعث پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتا ہے اور ایک طویل مدت تک ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی دوسرے افراد کے لئے بھی ضرر کا باعث بنتی ہے ۔۔۔کیوں؟ کیونکہ ان حقوق کی عدم ادائیگی دوسرے افراد کو بھی اسی راہ پر گامزن کرے گی اور جہاں ایک چھوٹی سی ذمہ داری ایک بہت بڑی مشکل کی صورت اختیار کر جائے گی ۔ انسان کو چاہیئے ایسے مواقف کی اصلاح کرے اور اپنے عم عصر افراد کے لئے باعث ضرر نہ ہو کیونکہ یہ نہ صرف اہداف کا ضیاع بلکہ انسانی زور بازو کا ضیاع جس کا استعمال کر کے معاشرے کو فائدہ پہنچایا جاسکتا تھا مگر اس فراغت کے منفی اثرات نے افراد معاشرہ کو دیگر بے ثمر افعال میں مشغول کردیا ۔
Two-factor تصدیق (یا "2FA") جو ایک صارف کو دو مختلف تصدیقی طریقوں کے ایک ملاپ کی مانگ کے ذریعے ایک خدمت مہیا کار سے اپنی تصدیق کروانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ جزوئیات شاید ان میں سے ہوں جو ایک صارف جانتا ہو (جیسے ایک شناختی لفظ یا پِن)، یا کوئی ایسی شے جو صارف اپنے پاس رکھتا ہو ( جیسے ایک کلیدی جیب یا موبائل فون)، یا کوئی ایسی شے جو صارف سے جڑی ہو یا صارف سے جدا نہ ہو سکتی ہو ( جیسے آپ کے فنگر پرنٹس)۔ آپ نے شاید اپنے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کبھی Tow-factor تصدیق کا کبھی استعمال کیا ہو۔ جب آپ بنک سے نقدی نکلوانے کیلئے ATM کارڈ کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کے پاس دو طرح کی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ایک توآپ کا کارڈ (جو آپ کی ملکیت ہوتا ہے) اوردوسرا آپ کا پِن کوڈ ( وہ جو آپ کو یاد ہوتا ہے)۔ تاہم حال حاضر میں بہت سی آن لائن خدمات ایسی بھی ہیں جنہیں صرف بائی ڈیفالٹ ایک ہی قسم کی تصدیق چاہئے جو ایک پاس ورڈ کی صورت میں ہوتی ہے۔ 2FA آن لائن کیسے کام کرتا ہے؟ anchor link گزشتہ کئی سالوں کے دوران بہت سی آن لائن خدمات بشمول Facebook, Google اور Twitter نے محض شناختی الفاظ پر مبنی تصدیق کے متبادل کے طور پر 2FA کو پیش کیا ہے۔ ایک بار یہ فیچر واضح ہوجائے تو صارفین کو اپنے شناختی الفاظ اور ایک ماتحت تصدیقی طریقہ کار کیلئے حوصلہ افزائی ملے گی، روائتی طور پر یا تو یک وقتی کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجا جائے گا یا کسی رضاکارانہ موبائل ایپ کے ذریعے ایک یک وقتی کوڈ بنا دیا جائے گا جو ایک راز محفوظ رکھتا ہے ( جیسے Google Authenticator, Duo Mobile, the Facebook app, یا Clef)۔ کسی بھی صورت میں کوئی ایسی چیز جو عام طور پر صارفین کی ملکیت میں ہو جیسے موبائل فون، دوسرا factor ہوتے ہیں۔ بعض ویب سائٹس بھی ( بشمول Google)بھی صرف ایک استعمال کے بیک اپ کوڈز مہیا کرتے ہیں جنہیں ڈاؤن لوڈ، صفحات پر پرنٹ کر کے اور ایک اضافی بیک اپ کے طور پر کسی محفوظ جگہ حفاظت سے رکھ لیتے ہیں۔ ایک بارآپ 2FA استعمال کرنا ہو توآپ کواپنے اکاؤنٹ تک رسائی فون کے ذریعے سے حاصل کرنے کیلئے ایک پاس ورڈ ڈالنےاورایک فی الوقتی کوڈ کی ضرورت ہوگی 2 چلانے کیلئے FA مجھے 2FA کیوں چلانا چاہئے؟ anchor link 2FA آپ کو آپ کی شناخت کی کئی طریقوں سے تصدیق کی مانگ کر کے بہتر حفاظتی اکاؤنٹ فراہم کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے بنیادی شناختی لفظ کو ہتھیا بھی لے تب بھی وہ آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی نہ حاصل کرسکے جب تک کہ اس کے پاس آپ کا موبائل فون نہ ہو، یا پھر جب تک اس کے پاس تصدیق کا اور کوئی ماتحت ذریعہ نہ ہو۔ کیا 2FA استعمال کرنے کے کوئی منفی پہلو بھی ہیں؟ anchor link اگرچہ 2FA تصدیق کا ایک بہترین حفاظتی ذریعہ متعارف کرواتی ہے، لیکن صارفین کیلئے ایک بہت بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اپنے اکاؤنٹ تک رسائی ہی نہ کھو دیں، مثلاً، اگر صارف اپنا فون کہیں کھو دے یا اپنا سِم کارڈ تبدیل کرتا ہے یا رومنگ چلائے بغیر کسی دوسرے ملک سفر کرتا ہے۔ کئی 2FA خدمات فی الوقت استعمال "backup" یا "recovery" کوڈز کی ایک چھوٹی سی تفصیل مہیا کرتی ہیں۔ ہر کوڈ آپ کے اکاؤنٹ میں ایک بار لاگ اِن ہونے کیلئے صحیح کام کرتا ہے اور بعدازاں وہ کام نہیں کرتا ۔ اگر آپ کو اپنے فون یا دوسری تصدیقی مشین تک رسائی کھو دینے کا خدشہ ہو تو ان کوڈز کا پرنٹ نکال کر اپنے پاس رکھ لیں۔ جب تک آپ کے پاس وہ کاپی رہے گی آپ اس کا استعمال کر سکتے ہیں اور اس کاپی کا بہت ہی خیال رکھیں۔ یاد رکھئے کہ ان کوڈز کی بہت حفاظت کرنی ہے اور تسلی کرلیں کہ کوئی بھی انہیں دیکھ نہ سکے اور کسی بھی وقت ان تک کوئی بھی رسائی نہ حاصل کر پائے۔ اگر آپ ان بیک اپ کوڈز کو کھو دیتے ہیں تو فوری طور پر ایک نئی لسٹ بناکر اگلی بار ان کا استعمال اپنے اکاؤنٹ کے لاگ ان ہونے میں کیجئے۔ 2FA نظام کیساتھ ایک اور مسئلہ ایس ایم ایس پیغامات کا استعمال ہے کیونکہ ایس ایم ایس پیغام رسانی بالکل محفوظ نہیں ہے۔ ایک گھاگ حملہ آور (جیسے کوئی انٹیلی جنس ادارہ یا ایک منظم مجرمانہ کارروائی ) کیلئے ممکن ہے کہ ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجے گئے کوڈز کا استعمال کرے یا ان میں دخل اندازی کرے کیونکہ وہ فون نیٹ ورک تک رسائی رکھتے ہیں ۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں کہ جب ایک کم گھاگ حملہ آور (جیسے کوئی شخص) ایک نمبر کیلئے مختص ٹیکسٹ پیغامات یا کالوں کا بندوبست کر کے اپنے نام سے آگے بھیجے ، یا ٹیلی فون کمپنی کی وہ خدمات جو ٹیکسٹ پیغامات دکھاتی ہیں ان تک رسائی حاصل کرکے وہ پیغامات، فون رکھے بغیر کسی فون نمبر کو بھیج دے۔ اگر آپ اس سطح کے حملے سے متعلق پریشان ہیں تو ایس ایم ایس کی تصدیقی خدمت کو بند کریں اور صرف Google Authenticator یا Authy جیسی تصدیقی ایپ کا استعمال کریں۔ بدقسمتی سے یہ فیچر ہر 2FA خدمت کیساتھ دستیاب نہیں ہے۔ مزید برآں، 2FA آپ کو کسی خدمت تک مزید معلومات، جتنا آپ بہتر محسوس کرتے ہوں اس سے زیادہ دینے کا کہہ سکتا ہے۔ فرض کریں آپ ایک Twitter صارف ہیں اور آپ کسی فرضی نام کیساتھ اپنا اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں۔ تو چاہے آپ پورے ہوش و حواس کیساتھ Twitter کو اپنی شناختی معلومات دینے سے گریز کریں اور یہاں تک کہ اس خدمت کے استعمال کیلئے آپ Tor یا کسی VPN کا استعمال کرتے ہوں، اگر آپ 2FA ایس ایم ایس چلاتے ہیں تو Twitter لازمی آپ سے آپ کا موبائل نمبر مانگے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے اگر کبھی عدالت کی جانب سے پوچھا جائے تو Twitter اس بات کی اہلیت رکھتا ہو کہ آپ کے فون نمبر کے ذریعے آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی ہو۔ آپ کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا خصوصاً اگر آپ دی گئے خدمت پر پہلے سے ہی اپنا قانونی نام استعمال کرتے ہوں لیکن اگر نام ظاہر نہ کرنا آپ کیلئے زیادہ اہم ہے تو آپ کو 2FA ایسی ایم ایس استعمال کرنے کے متعلق کئی بار سوچنا چاہئے۔ آخرکار، ریسرچ نے یہ بتایا کہ بعض صارفین 2FA چلانے کے بعد کمزور پاس ورڈز کا انتخاب اس لئے کریں گے کہ وہ ساتھ میں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ دوسرا factor انہیں حفاظت فراہم کرے گا۔ صارفین کو اس بات کی تسلی کرلینی چاہئے کہ 2FA چلانے کے بعد بھی مضبوط پاس ورڈز کا انتخاب کرنا چاہئے۔ تجاویز کیلئے ہماری رہنمائی :مضبوط پاس ورڈز کا قیام دیکھئے۔ میں 2FA کیسے چلاؤں؟ anchor link اصطلاحات کے استعمال کی طرح یہ بھی ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کیلئے مختلف ہوتی ہیں۔ 2FA کے زمرے میں مدد لینے کیلئے سائٹس کی ایک وسیع لسٹ یہاں دستیاب ہے:https://twofactorauth.org/. بہت زیادہ عمومی خدمات کیلئے آپ ہماری 12 دن کی 2FAپوسٹ کا حوالہ دے سکتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ Amazon, Bank of America, Dropbox, Facebook, Gmail اور Google, LinkedIn, Outlook.com اور Microsoft, Paypal, Slack, Twitter اور Yahoo Mail پر 2FA کس طرح چلانا ہے۔ اگر آپ پاس ورڈز کے چوری ہوجانے سے ان کی بہتر حفاظت چاہتے ہیں تو اس لسٹ کو ضرور دیکھیں اور جن تمام ویب اکاؤنٹس کا آپ حفاظتی استعمال کرنا چاہتے ہیں ان پر 2FA ضرور چلائیں۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی اعلیٰ کمان تبدیل ہونے کے باوجود ڈکیتی کرنے والے گینگز کی سرکوبی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر ڈکیتیوں اور دیگر وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد پولیس نے سینکڑوں کے حساب سے مقدمات کا اندراج کیا ہے جن میں ڈکیتی کی متعدد وارداتیں بھی شامل ہیں۔ نئی پولیس انتظامیہ کی جانب سے کمان سنبھالنے کے بعد ایف الیون، آئی نائن اور کورال کے علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے دو واقعات میں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ مزید پڑھیں کیا اسلام آباد میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے؟ Node ID: 528501 انسداد پولیو ٹیم پر دو دن میں دوسرا حملہ، پولیس اہلکار ہلاک Node ID: 626476 اسلام آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں دو ڈاکو ہلاک، تین اہلکار زخمی Node ID: 628106 پولیس اہلکاروں کی جانب سے ڈکیتی کی ایک واردات کو ناکام بھی بنایا گیا اور مبینہ پولیس مقابلے میں دو ڈاکو مارے گئے جو مبینہ طور پر اسلام آباد میں مسلم لیگی سینیٹر نزہت صادق کے گھر ڈکیتی میں ملوث تھے۔ تازہ ترین وارداتوں میں سے ایک میں گزشتہ اتوار کو تھانہ انڈسٹریل ایریا کے سیکٹر آئی نائن کی ایک بیکری میں ڈکیتی کے دوران تین نقاب پوش ڈاکوؤں نے وہاں موجود گاہکوں کو یرغمال بنا لیا اور کاؤنٹر پھلانگ کر دراز سے نقدی نکال لی۔ ڈکیت بیکری میں موجود افراد کے موبائل فون بھی لوٹ کر لے گئے۔ اس سے ایک روز قبل تھانہ کھنہ کے علاقے سوہان میں مسلح ملزمان نے ماں بیٹی اور کم سن بیٹے سے 14 تولے سونا اور نقدی اس وقت لوٹ لی جب وہ رابی سینٹر سے ٹیکسی بک کروا کر سوہان اپنےگھر کے قریب پہنچے تھے۔ اسلام آباد پولیس تاحال تمام ڈکیتیوں کا سراغ لگانے میں کامیاب تو نہیں ہوئی تاہم چند گرفتاریوں کے بعد ان گینگز کے طریقہ واردات کے بارے میں کچھ آگاہی ضرور حاصل ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اعلٰی پولیس افسران تاحال غیر یقینی کا شکار ہیں اور ان گینگز کے بارے میں بات کرنے سے مسلسل کتراتے ہیں۔ افغانستان کا غنی گینگ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس افسر نے اردو نیوز کو ان گینگز کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں ڈکیتی کی بڑی وارداتوں میں دو بڑے گینگز ملوث ہیں جن میں ایک غنی گینگ ہے جس کا تعلق افغانستان سے ہے اور اس میں شامل تمام ڈکیت بھی افغان شہری ہیں۔ یہ گینگ تاوان کے لیے کالیں بھی کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں ڈکیتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ نومبر میں عروج کو پہنچا۔ فوٹو اے ایف پی پولیس حکام کے مطابق غنی گینگ ہمہ وقت سرگرم نہیں رہتا بلکہ کوئی بھی ایک بڑی واردات کرنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے اور زیادہ تر امکانات بھی یہی ہیں کہ وہ افغانستان چلے جاتے ہیں اور ایک دو ماہ گزارنے کے بعد واپس آکر پوش سیکٹرز میں ریکی کرنے کے بعد پھر کوئی بڑی واردات کرتے ہیں۔ پولیس کو چیلنج دے کر ڈکیتی کرنے والا بلال ثابت گینگ پولیس افسر کے مطابق دوسرا بڑا گینگ بلال ثابت ہے۔ پولیس کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بلال ثابت گینگ ہی ہے کیونکہ اس نے نہ صرف پولیس کی ناک میں دم کر رکھا ہے بلکہ یہ بعض اوقات پولیس کو چیلنج کرکے ڈکیتی کرتے ہیں۔ یہ گینگ شبلی فراز، ڈاکٹر قدیر خان کی بیٹی کے گھر اور آئی جی کے گھر کے سامنے ڈکیتی کی کروڑوں روپے کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ یہ گینگ اسلام آباد سے گاڑیاں بھی چوری کرتا ہے جنہیں پھر ٹیمپر کر کے مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کی گاڑی بھی چرا لی تھی اور جب وہ گاڑی پولیس کو ملی تو اس پر جو فنگر پرنٹس تھے وہ ارشد نامی ڈکیت کے تھے جسے 18 دسمبر کو بحریہ ٹاؤن ڈکیتی کے دوران اس کے ساتھی ذاکر کے ہمراہ مار دیا گیا تھا۔ اس پولیس مقابلے میں ڈاکوؤں نے جو بندوق استعمال کی وہ سینیٹر نزہت صادق کے گھر سے چوری کی گئی تھی جو پولیس نے گولیوں سمیت برآمد کی۔ ڈکیتوں کی پولیس افسران کو قتل کی براہ راست دھمکیاں پولیس افسر کے مطابق بلال ثابت گینگ اعلیٰ پولیس افسران کو خود فون کرکے قتل کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ ان بڑے گینگز کے علاوہ اسلام آباد میں ڈکیتی کی درمیانے اور چھوٹے درجے کی وارداتوں میں پنڈی کے گینگز جن میں ڈھوک کھبہ اور چوہڑ کے علاقوں کے گینگز پولیس کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اسلام آباد میں واردات کرنے کے بعد راولپنڈی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ یہ وارداتیں متعلقہ پولیس افسران کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر علاقوں میں بظاہر کامیاب رہنے والے افسران اسلام آباد پہنچ کر اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق غنی گینگ ہمہ وقت سرگرم نہیں رہتا۔ فوٹو پکسابے نومبر 2021: ڈکیتیوں کا مہینہ اسلام آباد میں ڈکیتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ نومبر میں عروج کو پہنچا جب ایک ہی مہینے میں ڈکیتی کی دس بڑی وارداتیں ہوئیں۔ جن میں کیش وین سے تین کروڑ روپے کی ڈکیتی، سینیٹر نزہت صادق کے گھر سے 10ہزار ڈالر، 14لاکھ پاکستانی روپے، 18تولے سونا اور ہیروں کی ڈکیتی شامل ہے۔ سینیٹر دلاور کے کزن کے گھر سے 50 تولے سونے کی ڈکیتی، تھانہ سہالہ کی حدود میں بلیو ہلز کے دفتر سے تین کروڑ دس لاکھ روپے کی چوری، اور سابق آئی جی اسلام آباد کے گھر کے قریب 35 لاکھ روپے کے طلائی زیورات اور لاکھوں روپے نقدی کی ڈکیتی شامل ہے۔ ڈکیتوں نے پوری پولیس انتظامیہ بدلوا ڈالی ان پے در پے وارداتوں کے بعد اعلٰی حکام نے اسلام آباد پولیس کی کمان تبدیل کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد جمیل الرحمان کی جگہ احسن یونس کو نیا آئی جی تعینات کر دیا۔ ان کی تعیناتی کے بعد متعدد افسران نے ان کے ماتحت کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے تبادلے کی درخواستیں دے دیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر تبادلے ہوئے اور اسلام آباد پولیس کے مکمل ڈھانچے میں ہی تبدیلیاں کر دی گئیں۔ اسلام آباد پولیس نے ڈکیتوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔ فوٹو فیس بک آئی سی ٹی پولیس پولیس انتظامیہ تبدیل ہونے اور آئی جی اسلام آباد کی جانب سے پولیس کا تشخص بہتر بنانے کے لیے افسروں کا جوانوں کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں اور عوام کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہریوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن وارداتوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ڈاکوؤں کو پکڑنے کی نئی حکمت عملی اس حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ نئے آئی جی نے ڈکیتوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر بحریہ ٹاؤن میں چھپے ڈکیتوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔ اس وقت ان وارداتوں اور اسلام آباد میں امن و امان کے حوالے سے اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے اور نئے تعینات ہونے والے افسران صورتحال کا جائزہ لے کر نئی حکمت عملی پر کام شروع کریں گے تو ہی حالات میں بہتری نظر آئے گی۔
متی 21:28۔32 ’’تُم کیا سمجھتے ہو؟ ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ اُس نے پہلے کے پاس جا کر کہا بیٹا جا آج تاکِستان میں کام کر۔ اُس نے جواب میں کہا مَیں نہیں جاؤں گا مگر پِیچھے پچھتا کر گیا‘‘۔(آیات 28،29) ہمارے ذہن کو بدلنے کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی کیفیت کو ایمان کہتے ہیں اور یہ ایسی کیفیت ہے جس کے باعث ہم خدا کے وعدوں کا انتخاب کرتے ہیں یروشلم کے نواحی لوگوں نے جلدی سے یسوع کے بارے میں اپنی سوچ بدل لی اور اس کی قسمت پر مہر لگا دی۔ ہمارے فیصلوں کے نتائج اکثر اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جس کی ہم اصل میں توقع کرتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے غور کرنا چاہیے کیونکہ اکثر ہم اپنے ارد گرد کی ثقافت کے قیدی ہوتے ہیں۔ آج لاشعوری یا غیر ارادی تعصب کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جاتی ہے جو خودکار تشخیص ہم ہر روز کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے اتوار کی صبح 11 بجے اپنے ملک امریکہ میں سب سے وقت کے بارے بیان کیا۔ جس کے متعلق کچھ سال پہلے اپنے آبائی شہر میں کئی گرجا گھروں کا دورہ کرتے ہوئے مجھے ایک ایسی ہی تصویر ملی۔ یہاں یسوع المسیح اس بات کو واضح کرتا ہے کہ فریسیوں کی اپنے پیروکاروں اور شاگردوں کے متعلق تنقید دراصل ان کے تصور کا اظہار تھی ۔ ہمیں کبھی بھی اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ کسی کو محظ غلط ثابت کرنے کے لئے اس کے فہم کے متعلق بات چیت کریں کیونکہ وقت ہی ہماری حیثیت کا تعین کرتا ہے مگر مسیحیت نے اپنی ضرورت کے متعلق بہت خوبصورتی سے دریافت کیا ۔ تاہم یہ بہت ضروری ہے کہ سوچیں کہ ہم خدا کو اپنی زندگی میں کیسے جگہ دیتے ہیں یہی سوچ ہمارے تصورات اور تعصبات کو اجاگر کرے گی ۔یہ فعل ہمیں اس بات میں مضبوطی فراہم کرے گا جو ہم پہلے سے جانتے ہیں ۔ہمیں یہ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کس قدر ہمیں وسیع پیمانے پر سامیعن سے رابطے میں رہنا ہے ہمیں اس بات کے لئے شکرگزار رہنے کی ضرورت ہے کہ اس بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ ہمارا تعلق ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ ناکامی ہے اور صرف ریاکاری کو جنم دیتی ہے غور طلب حوالہ جات:خروج 13:17۔22؛یرمیاہ 34:8۔17؛اعمال 28: 1۔6؛گلتیوں 3:23۔29 عملی کام: لاشعوری تعصب صرف اس وقت سامنے آئے گا جب ہم اپنے موجودہ سماجی سیاق و سباق کے متعلق جانیں گے اور دوسروں کو تلاش کرنے کی ہمت کریں گے۔ آپ اس سب کے متعلق کس کے ساتھ بات چیت شروع کر سکتے ہیں؟ دُعا: اے میرے خدا مجھے سب کے ساتھ مثبت انداز ِ گفتگو رکھنے کی ہمت عطا فرما۔ آمین۔‘‘ بوبہال وکیمیڈیاکومنز سے۔
مختلف ممالک میں گزشتہ تین سال میں31ہزار سے زائد بھارتی شہریوں کی موت واقع ہوئی، مختلف ممالک کی جیلوں میں ساڑھے پندرہ ہزار بھارتی شہری بند ہیں ، بھارتی حکومت کی طرف سے یہ اعداد وشمار پارلیمان میں پیش کیے گئے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ بھارتی مسلح افواج کے2014 سے اب تک گیارہ ہیلی کاپٹرز سمیت 35طیارے حادثات کا شکار ہوکر تباہ ہوئے جن میں14پائلٹ مارے گئے۔ اگر بھارتی فوج،بحریہ اور فضائیہ کے طیاروں کو پیش آنے والے حادثات کے اعدادو شمار کا جائزہ2011سے لیا جائے تو مجموعی طور پر 70طیارے اور ہیلی کاپٹر تباہ ہوئے جن میں80افراد ہلاک ہوئے ۔ ان تباہ ہونے والے طیاروں میں30سے زائد جنگی طیارے تھے جن میں5 ٹوئن انجن سخوئی طیارے بھی شامل ہیں۔ملٹری طیاروں کے حادثات کی یہ شرح غیرمعمولی ہے، ان طیاروں کی تباہی کی دو اہم وجوہات ’تکنیکی خرابی‘ اور’انسانی غلطی‘ کوقرار دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلح افواج ستر کی دہائی کے پرانے چیتا ہیلی کاپٹرز کو فوری تبدیل کرکے ان کی جگہ نئے484لائٹ ہیلی کاپٹر لینا چاہتی ہےمگر بھارت اور روس کے درمیان تقریباً ایک ارب ڈالر کے200ہیلی کاپٹرز کامعاہدہ طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے۔دیگر ممالک سے197ہیلی کاپٹرز کے معاہدے بھی تین بار منسوخ کیے گئے۔ لوک سبھا میں ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ2014سے غیر ممالک میں31318بھارتی شہریوں کی موت ہوئی۔ ایک سو چھ ممالک میں بھارتی شہریوں کی اموات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بھارتیوں کی سب سے زیادہ اموات سعودی عرب میں ہوئیں جن کی تعداد دس ہزار ہےجبکہ متحدہ عرب امارات میں چھ ہزار اور پاکستان میں8 بھارتی شہریوں کی اموات ہوئیں۔ دنیا بھر کی جیلوں میں بھارتی قیدیوں کی تعداد کے بارے میں بتایا گیا کہ 2015سے دنیا کی مختلف جیلوں میں15405بھارتی شہری بند ہیں۔سب سے زیادہ بھارتی قیدی سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں جن کی تعداد5590جبکہ پاکستان میں قید بھارتیوں کی تعداد1132ہے۔
وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل انہوں نے فرشتوں کو جو الرّحمان کے خاص بندے ہیں، عورتیں قرار دے لیا ہے کیا ان کی تخلیق کے وقت وہ موجود تھے ان کی گواہی لکھ لی جائے گی ہر صورت انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی قدامت پرستی ف 1: مکہ والوں میں ایک بہت بڑا نقص یہ تھا کہ ان میں جمود تقلید کا مرض عام ہوچکا تھا ۔ اس سے غوروفکر کی تمام صلاحتیں چھن چکی تھیں ۔ ان کے ذہن مفلوج تھے اور ان کے سامنے اسلام کے حقائق لامعہ پیش کئے گئے ۔ تو انہیں محض اس لئے مان لینے میں قائل ہوا کہ ان کے آبائی علم ان کی تائید تمہیں کرتے تھے ۔ کہ ہم تو باپ دادا کے مسلک پر قائم رہینگے ۔ اور قطعاً یہ جرات نہیں کرینگے ۔ کہ ان آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے گویا ان کے نزدیک یہ کا برحق وصداقت کا مجموعہ تھے ۔ اور ذہنی وفکری ارتقاء کا ایسا کامل نمونہ تھے کہ ان کی مخالفت عقل وخرد کی مخالفت کرنا تھا ۔ ان کے سامنے ہزار دلائل پیش کئے جاتے ۔ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ۔ معجزات خوارق دکھائے جاتے مگر وہ یہی کہے جاتے ۔ کہ یہ سب کچھ درست ہے کہ ہم کیا کریں ۔ کہ ہمارے اجداد ان باتوں کے قائل نہیں تھے ۔ حالانکہ محض قدامت پرستی کوئی معقول دلیل نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ اس کو ٹھکرادیا جائے ۔ اور بہتر قسم کی زندگی اختیار کی جائے ۔ یا بیش قیمت اجزا سے مرکب غذا یقینا پھینک دیا جاتا ہے ۔ جب کپڑا گہنہ اور اور بیگانہ ہوجائے ۔ تو اسے ایسی سیدردی سے اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور قطعاً خیال نہیں کیا جاتا ۔ کہ کتنے دنوں اس لباس نے ہمارا ساتھ دیا ہے ۔ اسی طرح کہنہ اور بوسید خیالات ناکارہ اور متعفن ہوجاتے ہیں ۔ تو چونکہ یہ ذہن کو خوراک اور لباس ہوتے ہیں ۔ اس لئے جس قدر جلدی ہوسکے ان سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے ۔ اور نئے اور تازہ افکار کو قبول کرلینا چاہیے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ صداقت کبھی کہنہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صادقت کا ظن کہنہ ہونے پر اور نکھرتا ہے ۔ اس لئے اصل معیار کسی چیز کا پرانا اور نیا ہونا نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی مقبولیت پر ہے *۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
صنفی مطالعات (انگریزی: Gender studies) ایک بین شعبہ جاتی مطالعہ ہے جس کا مقصد صنفی شناخت اور صنفی نمائندگی کا تجزیہ ہے۔ اس میں مطالعہ نسواں (جس میں خواتین، نسوانیت، صنف اور سیاست کے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے)، مردانہ مطالعہ اور ہم جنس پسندی کا مطالعہ شامل ہے۔[1] اس کا مرکزیت پر چھانا، خصوصًا مغربی جامعات میں 1990ء کے بعد عدوم تعمیم (deconstructionism) کی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا ہے۔[2] کبھی کبھار صنفی مطالعات جنسیت کے مطالعے کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ ان شعبہ جات کا، جن کا کہ تعلق صنف اور جنسیت سے ہے، جیسے کہ ادب، لسانیات، انسانی جغرافیہ، تاریخ، سیاسیات، آثار قدیمہ، معاشیات، نفسیات، انسانیات، فلم، موسیقیات، ذرائع ابلاغ کے مطالعات، انسانی ترقی[3]، قانون، عوامی صحت اور طب سے مربوط ہے۔[4] اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح نسل، مقام وقوع یا مقام پیدائش، سماجی طبقہ، قومیت اور معذوری کس طرح صنف اور جنسیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔[5][6] بڑھتی اہمیتترميم صنفی مطالعات کی اہمیت جدید دور میں کافی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی کردار بدل رہے ہیں۔ جہاں ماضی میں زیادہ تر خواتین گھر کی چار دیواری میں محدود رہی ہیں، وہ جدید دور میں ہر طرح کے پیشے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ آسان تدریسی پیشے کے علاوہ مشکل سمجھے جانے پیشے جیسے کہ سیاست اور ہوا بازی میں بھی عورتیں داخل ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جگہوں پر ادارہ جات اور کاروبار چلانے کا کام عورتیں ہی کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے اندرون خانہ کی زندگی کی کیفیت بھی بدل رہی ہے۔ گھریلو کام کے علاوہ گھر کے فیصلوں میں بھی عورتیں زیادہ دخیل اور فیصلہ ساز بن رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ حلقوں سے یہ مطالبے بھی زور پکڑنے لگے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں صنفی مطالعات کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچے کم عمری سے ہی ہر صنف کا احترام کرنا سیکھیں اور ان کے تئیں حساس ہو۔[7] مزید دیکھیےترميم جنسی مطالعہ حوالہ جاتترميم ↑ "Gender Studies". Whitman College. 12 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 1 مئی 2012. الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date=, |archive-date= (معاونت) ↑ Gottschall, Marilyn (2002). "The Ethical Implications of the Deconstruction of Gender". Journal of the American Academy of Religion. 70 (2): 279–299 – JSTOR سے. ↑ Krijnen، Tonny؛ van Bauwel، Sofie (2015). Gender And Media: Representing, Producing, Consuming. New York: Routledge. ISBN 978-0-415-69540-4. ↑ "About – Center for the Study of Gender and Sexuality (CSGS)". یونیورسٹی آف شکاگو. اخذ شدہ بتاریخ 1 مئی 2012. تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت) ↑ Healey, J. F. (2003). Race, Ethnicity, Gender and Class: the Sociology of Group Conflict and Change. ↑ "Department of Gender Studies". انڈیانا یونیورسٹی (IU Bloomington). 10 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 1 مئی 2012. الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
ازروئے قرآن ریاست و حکومت کی تشکیل سے مقصودِ خداوندی زمین پر ایک ایسے انسانی معاشرہ کا قیام ہے جس میں انسان اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت پر مبنی نظام نافذ کرے (یعنی اقامتِ صلوٰۃ و ایتائے زکوٰۃ ) اور افراد معاشرہ کی تربیت و اصلاح (نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے) کا فریضہ انجام دے۔ چنانچہ اسی مقصدِ الٰہیہ کے حصول کے لئے آغاز کار کے طور پر رسول اللہ ﷺنے مدینے کی پہلی اسلامی ریاست و حکومت قائم کی اور اس کے زیرِ اثر ایک ایسے اسلامی انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل فرمائی ،جس میں اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے ساتھ افرادِ معاشرہ کی تربیت و اصلاح حکمرانوں کا بنیادی فریضہ اور اولین ذمے داری قرار پائی ۔ آپﷺ کے بعد اس کام کو خلفائے راشدین ؓ نے بڑی جاں فشانی و سرفروشی کے ساتھ نہ صرف جاری رکھا، بلکہ اسے ترقی و عروج کی رفعتوں اور استحکام کی راہوں پر گامزن رکھتے ہوئے نئی منزلوں کی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔خلافت راشدہ کے بعد وہ حکومت و نظام جو زمین پر نیابت ِ الہٰی کی جیتی جاگتی تصویر تھا اپنے عروج کی طرف چلتے ہوئے یک دم’’صراطِ مستقیم‘‘ سے ہٹنا شروع ہو گیا، جس کا سفر وہاں جاکر ختم ہوا، جہاں اجتماعی تنظیم، نظامِ خلافت کے بجائے شخصی عظمت کے مینار تعمیر کرنے لگی ،شخصی اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں اسیر ہو کر جب خلافت ملوکیت اور حاکمیت ِالٰہیہ ذاتی حکومت میں تبدیل ہوئی تو مسلمان حکمرانوں نے’’احکامِ خداوندی کی اطاعت کرتے ہوئے افراد معاشرہ کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح‘‘کے اصل فرض اور ذمہ داری کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اس غفلت اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کے بنیادی اسلامی ادارے صلوٰۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف نہی عن المنکر جمودو تعطل کا شکار ہوگئے ۔ ان حالات میں اس وقت کے علماء و صلحائے امت کے ایک گروہ (جس میں مفسرین، محدثین ، فقہاء، فلاسفہ اور معلمین اخلاق سب شامل تھے ) نے اصلاح معاشرہ اور تزکیہ و تربیتِ افراد کی حکومتی وریاستی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے ایک عملی و معاشرتی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا، تا کہ مسلمانوں کو فکر و عمل کی گمراہی و بے دینی کے سیلاب ِبلا خیز سے بچایا جا سکے۔قیامِ واحیائے دین اور غلبۂ اسلام کی ایسی ہی ایک معاشرتی اصلاحی تحریک کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں عباسی دورِ حکومت میں عالمِ اسلام کے بطلِ جلیل جید صوفی اور با کمال ولی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے کیااور عباسی دور حکومت میں شخصی حکمرانی کی پیدا کردہ معاشرتی خرابیوں اور دینی بگاڑ اور فکر و عمل کے انحطاط کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جس دور میں اصلاحِ معاشرہ اوردعوتِ دین کا فریضہ لے کر اٹھے،وہ مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش اور اسلام کے لئے بڑی ابتلاء کا زمانہ تھا ۔ ایسے پُر فتن، معاشرتی بگاڑ، اخلاقی زوال اور دینی انحطاط کے دور میں آپؒ نے مسلمانوں کی معاشرتی و اخلاقی اصلاح اور احیائے دین کا عظیم فریضہ انجام دیا۔ آپ کے دور میں یہ فکر بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی کہ ’’آیا انسان کو ایسا مسلک دینی اختیار کر لینا چاہئے کہ وہ دین کی طرف سے بے پروا ہو جائے اور محض رسمی اور رواجی طور پر مسلمان کہلائے یا ایسا دینِ عقل پرست اختیار کرنا چاہئے جو اہلِ دین کے مسلّمات و عقائد سے متصادم ہو؟‘‘ اس فکر سے اسلامی معاشرے کا ہر فرد متاثر ہو رہا تھا۔ ملت ِ اسلامیہ کا سیاسی و فکری انحطاط اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ خلقِ قرآن، اعتزال، فلسفۂ الحاد اور باطنیت کے فتنوں نے مسلمانوں کے اہلِ علم طبقہ میں تشکیک و الحاد اور عام لوگوں میں عملی بے راہ روی کے بیج بو دئیے تھے۔ان حالات میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے محسوس کیا کہ حکمرانوں کی عدم توجہی اور لاپروائی کے باعث ملتِ اسلامیہ زوال کی زدپر ہے جس سے بچاؤ کے لئے کوئی دوسری قوت عالمِ اسلام میں سرگرم عمل نہیں ،آپ کا یہ احساس اس جذبے میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ عالمِ اسلام کے مرکز بغداد میں کھڑے ہو کر کم از کم ایک صدائے درد تو بلند کی جائے ۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور احیائے دین کے لئے اپنے مواعظ حسنہ کا آغاز کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’’رسول اللہ ﷺکے دین کی دیواریں پے درپے گررہی ہیں اور اس کی بنیادیں بکھری جاتی ہیں۔ اے باشندگانِ زمین آؤ اور جو گر گیا ہے، اسے مضبوط کردیں اور جو ڈھے گیاہے، اسے درست کردیں، یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی ، سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہیے، اے سورج، اے چاند اور اے دن تم سب آؤ۔‘‘ (فتح ربانی)۔ آپ ؒنے پانچ عباسی خلفاء کا دور دیکھا اور ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا اوراُن کی غیر اسلامی روشِ حکمرانی اور اندازِ زندگی پر انہیں کھلے عام اور برسرِ منبر للکارتے ہوئے ایک مؤثر حزب اختلاف اور زبردست قوت ِ احتساب کا کردار ادا کیا، خلفاء وامراء سے سرزد ہونے والی لغزشوں پر اُن کی بیبا کانہ گرفت اور اصول دین سے انحراف کے رجحان پر سزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر عنان گیری کی ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکو اللہ نے دین اور فکر ِ دین کی دولت کے ساتھ مال و دولت ِ دنیاسے بھی خوب نوازا تھا، مگر دنیا اور اس کے مال ودولت کی حیثیت آپ کے نزدیک رائی برابر بھی نہیں تھی۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی حقیقت میری ہتھیلی پر رائی کے دانے کی طرح ہے۔‘‘ آپ کے سلسلۂ امر بالعروف و نہی عن المنکر اور وعظ کی مجالس کے اثرات عظیم تحریکوں سے بڑھ کر ہوئے ہر مجلس میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں اور بے عملی سے تائب ہوجانے والوں کا تانتا بندھ جاتا ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ قلم کے ذریعہ بھی احیائے اسلام اور اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دیا اور اس سلسلے میں کئی کتابیں تحریر فرمائیں۔ آپ کی سب سے معروف کتاب غنیۃ الطالبین ہے ۔یہ آپ کے افکار پر مبنی مرکزی تصنیف ہے جس میں آپ نے ارکانِ شریعت، آدابِ مجلس ، امربالمعروف ، بدعت و ضلالت، نفس و روح و قلب کی تشریح جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ اس کتاب میں شریعت و طریقت کا اصل لب لباب بیان کرتے ہوئے مسلمانوں میں ایمان و عمل کے احیاء کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ طریقت و تصوف کے ضمن میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فنی اور اصطلاحی پیچیدگیوں سے ہٹ کر تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب دیا ،ان کی تالیفات اس اعتبار سے صوفیانہ ادب میں بڑا اہم مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے تصوف کی زبان کو بھی عام فہم بنایا اور تصوف کے ساتھ وابستگی کے دروازے بھی عام آدمی کے لئے کھول دیئے ۔ بحیثیت صوفی مبلّغ کے آپ نے چالیس سال تک وعظ و نصیحت کا کام کر کے عملاً ثابت کر دیا کہ تصوف و طریقت پر صرف اہلِ خلوت کی اجارہ داری درست نہیں۔ آپ طریقت کو شریعت کے ساتھ ہم آہنگ اور کھلی شاہراہ کی طرح کشادہ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے بیعت اور خانقاہی تربیت کے طریقوں کو بھی مرکز توجہ بنایا اور مروجہ طریقہ خانقاہی کو وسعت اور تازگی بھی دی اور نظم و ضبط بھی بخشا ۔ آپ کا جاری کردہ سلسلۂ قادریہ لاکھوں انسانوں کے مُردہ دلوں کو حیاتِ جاوداں عطا کرنے اور احیائے اسلام و اصلاح معاشرہ کی ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر گیا،جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور لاکھوں نفوس اس سے براہِ راست مستفید و مستفیض ہو رہے ہیں۔
اللھم صل علی محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید…اللہ تعالیٰ سے مدد اور نصرت کا سوال ہے… رسول اقدس ﷺ سے ’’محبت‘‘ کے موضوع پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں… اتنا چھوٹا انسان اور اتنا عظیم موضوع… دل حیران ہے، قلم عاجز ہے ، علم لاچار ہے… یا اللہ مدد، ابھی جب لکھنے کے لئے استخارہ کر رہا تھا تو دل میں آیا کہ… بسم اللہ کرو… اور کچھ نہ لکھ سکے تو درود شریف ہی لکھتے رہنا… چکور چاند تک نہیں پہنچ سکتا مگر ہمت کر کے اس کی طرف اُڑتا ہے… اور پھر جب پر ٹوٹ جاتے ہیں تو گر جاتا ہے… پہنچ نہیں سکتا مگر چاند سے محبت کرنے والوں میں اپنا نام تو لکھوا لیتا ہے… پروانہ شمع کی روشنی سمیٹ نہیں سکتا مگر کوشش تو کرتا ہے اور اسی کوشش میں جان دے دیتا ہے… حضرت آقا محمد مدنیﷺ سے ’’محبت‘‘ ایمان ہے… یہ محبت ایمان کی بنیاد ہے… یہ محبت ایمان کا اہم ترین تقاضا ہے… اس ’’محبت‘‘ کا مقام بہت اونچا ہے … اس محبت کی قیمت بہت بھاری ہے… اس محبت کا معیار بہت وزنی ہے… یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے… اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی اُمت پر شفقت کہ… آپ ﷺ سے ’’محبت‘‘ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے… یہ مست مے خانہ قیامت تک آباد ہے… اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر… اس موضوع پر لکھ رہا ہوں… اللہ تعالیٰ آسان فرمائے، قبول فرمائے… اور سرمایہ آخرت بنائے… سبحان اللہ! محبت رسول ﷺ …حبُّ النبی ﷺ … عشق مصطفی ﷺ… عباسی دور کے مشہور شاعر ابو فراس الحمدانی نے کہا تھا من مذھبی حب الدیار لاھلہا وللناس فیما یعشقون مذاہب میرا طریقہ یہ ہے کہ گھروں سے ان گھروں کے رہنے والوں کی وجہ سے محبت رکھتا ہوں… اور ’’محبت‘‘ میں لوگوں کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں… بندہ اس شعر میں ترمیم کر کے اس طرح پڑھتا ہے من مذہبی حب النبی وجہادہ وللناس فیما یعشقون مذاہب میرا طریقہ… نبی کریم ﷺ اور آپ کے جہاد سے محبت ہے… اور محبت میں لوگوں کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں… اللہ کرے ایسا ہو… مجھے اور آپ سب کو حضرت محمد ﷺ سے… سچی پکی محبت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نصیب ہو جائے… ہم نے ’’محبت‘‘ کا دعویٰ کر دیا … ہر دعوے کے بعد دلیل ہوتی ہے … مگر ہمارے اس دعوے کے بعد… دلیل کوئی نہیں …بلکہ دعوے کے بعد ’’دعائ‘‘ ہے کہ یا اللہ اس دعوے میں سچا بنا دے… ہمارے دل کو اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی سچی محبت کے قابل بنا دے… اور یہ دعاء ہم اس لئے مانگتے ہیں کہ… محبت کا یہ دروازہ قیامت تک کھلا ہے… ٹھیک ہے کہ… ’’صحابیت‘‘ کا دروازہ بند ہو گیا… اب کوئی شخص صحابی نہیں بن سکتا… مگر محبت رسول اور عشق رسول ﷺ کا دروازہ تو کھلا ہے… حضرت آقا مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا: من اشد امتی لی حبا ناس یکونون من بعدی یود احدہم لو رآنی باھلہ ومالہ ( صحیح مسلم) مجھ سے بہت زیادہ محبت رکھنے والے میرے وہ امتی ہیں جو میرے بعد آئیںگے اور وہ چاہیں گے کہ اپنا سارا مال اور اپنے سارے اہل و عیال کو قربان کر کے میری زیارت کر سکیں ( صحیح مسلم) یعنی حضور اقدسﷺ کی ایک جھلک اور ایک زیارت کی قیمت کے طور پر وہ اپنی ہر محبوب چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے… سبحان اللہ ! جن لوگوں کی محبت کو حضور اقدس ﷺ نے ’’شدید محبت‘‘ پکی محبت اور سچی محبت قرار دیا ہے… اور بشارت دی ہے کہ یہ لوگ میرے بعد بھی آئیں گے… آپ ﷺ نے جب فرما دیا ہے کہ ایسے لوگ میرے بعد آئیں گے تو پھر ایسے لوگوں نے ضرور آنا تھا… وہ ماضی میں بھی آئے … حال میں بھی موجود ہیں اور مستقبل میں بھی آتے رہیں گے… حضور اقدس ﷺ کے سچے اور پکے عاشق … آپ ﷺ کی خاطر ہر قربانی خوشی سے پیش کرنے والے… اور آپ ﷺ کی محبت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے… حدیث شریف کا یہ مضمون کئی روایات میں کثرت سے آیا ہے… اور یہی ہمیں اس بات کی ہمت دلاتا ہے کہ ہم بھی… اللہ تعالیٰ سچی سے محبت مانگیں… کیونکہ اس محبت کا دروازہ آج بھی کھلا ہے… اس لمحے بھی کھلا ہے … یہ رحمۃ للعالمین ﷺ کی اس امت پر شفقت ہے کہ … وہ لوگ جو آپ ﷺ کے زمانہ کو نہ پا سکے … جو آپ ﷺ کے رُخِ انور کی زیارت نہ کر سکے… جو آپ ﷺ کی مبارک و معطر مجالس کو نہ سمیٹ سکے … مگر وہ آپ ﷺ کے پکے وفادار،پکے جانثار ہیں … اُن کے لئے آپ ﷺ نے بڑی بڑی خوشخبریاں اور بشارتیں ارشاد فرمائی ہیں… آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: طوبی لمن رآنی وآمن بی مرۃ وطوبی لمن لم یرنی وآمن بی سبع مرات جس نے میری زیارت کی اور مجھ پر ایمان لایا اس کے لئے ایک بار خوشخبری ہے… اور جس نے میری زیارت نہیں کی اور مجھ پر ایمان لایا اس کے لئے سات بار خوشخبری ہے ( صحیح الجامع) اس کا یہ مطلب نہیں کہ… زیارت کرنے والے پیچھے رہ گئے… زیارت والوں نے تو وہ کچھ پا لیا جس کے برابر اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا… مگر زیارت نہ کرنے والے بھی محروم نہیں…اُن کے لئے زیادہ خوشخبری اس لئے ہے کہ … وہ دور رہ کر بھی قریب ہو گئے…اور بن دیکھے سچے عاشق بن گئے… اور پھر درود وسلام کا تحفہ… آنحضرت ﷺ نے ایسا عطاء فرما دیا کہ جو… قیامت تک کے سچے عاشقوں کی پیاس اور اُمید دونوں کو سیراب کرتا ہے … ارشاد فرمایا: اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علی صلوۃ قیامت کے دن میرے زیادہ قریب وہ ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا… ہم جمعہ کے دن… جو درود و سلام کی کثرت کا مقابلہ رکھتے ہیں… اسے ’’مقابلہ حسن‘‘ کہتے ہیں … کیونکہ یہ درود شریف … ہمیں حسن والے نبیﷺ کے قریب کرتا ہے… اور حقیقی حسن سے محبت انسان کو حسین بنا دیتی ہے… سراپا حسن بن جاتے ہیں جس کے حسن کے عاشق بتا اے دل حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں دل بھی عجیب چیز ہے… اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ملے تو یہ خشک اور سخت ہونے لگتا ہے… یہ خود غرضی اور مادہ پرستی سے بھر جاتا ہے… تب اس میں ’’سچی محبت‘‘ نہیں اُتر سکتی… درود شریف میں رحمت ہی رحمت ہے… ایک بار پڑھو تو دس رحمتیں …اور پچاس نعمتیں… اس لئے درود شریف کو بہت ادب اور احترام سے پڑھنا چاہیے … بہت اہمیت اور توجہ سے پڑھنا چاہیے… اور کبھی ناغہ نہیں کرنا چاہیے… افسوس کہ… ہم حضور اقدس ﷺ کے بارے میں بہت کم سوچتے ہیں… بہت کم پڑھتے ہیں،بہت کم جانتے ہیں اور بہت کم بولتے ہیں… حالانکہ ہمیں آپ ﷺ کے بارے میں بہت سوچنا چاہیے… بہت پڑھنا چاہیے…بہت جاننا چاہیے اور بہت بولنا چاہیے … آپ ﷺ کا نام مبارک بھی رحمت… آپ کا کلام مبارک بھی رحمت … آپ کی ہر سنت رحمت … آپ کا تذکرہ بھی رحمت … اور آپ کی سیرت بھی رحمت … اللہ تعالیٰ کا اتنا عظیم احسان کہ ہمیں کلمہ طیبہ میں… ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘ عطاء فرمایا …اور یوں ہم مخلوق میں سب سے افضل ، سب سے اعلیٰ، سب سے اکمل، سب سے حسین اور سب سے زیادہ باکمال اور باجمال ذات سے جڑ گئے… ہمیں وہ ہستی مل گئی کہ… جس کو پائے بغیر اب نہ ہدایت مل سکتی ہے نہ ترقی ، نہ کامیابی مل سکتی ہے… اور نہ حقیقی عزت… ہمیں وہ شخصیت مل گئی کہ… جس سے تعلق اور محبت میں ہم جس قدر ترقی کرتے جائیں گے اُسی قدر اونچے ہوتے چلے جائیں گے … اُسی قدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے چلے جائیں گے…اب اس نعمت کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ … ہم ذات محمد ﷺ کو سمجھیں… ہم صفات محمدﷺ کو سمجھیں… اور ہم سنت محمد ﷺ کو سیکھیں اور اپنائیں… اگر ہم ایسا کریں گے تو ہماری زندگی نور اور خوشبو سے بھر جائے گی… ایک مسلمان کا کوئی دن ایسا نہ گذرے کہ جس میں اس نے… آپ ﷺ کی کوئی سنت نہ سیکھی ہو… کوئی حدیث شریف نہ سنی ہو… یا آپ ﷺ کی کچھ سیرت نہ پڑھی ہو… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ …ہم حضور اقدس ﷺ کو ہی …’’معیار‘‘ بنائیں … عقل کا معیار، تہذیب کا معیار، ترقی کا معیار، حسن کا معیار، عزت کا معیار، کامیابی کا معیار… یعنی آپ ﷺ نے جو کیا اور جو فرمایا بس وہی عقلمندی ہے… وہی تہذیب ہے، وہی ترقی ہے، وہی عزت ہے… وہی کامیابی ہے اور وہی حسن ہے… ہمارے لئے نہ سائنس بڑی دلیل ہو… اور نہ دنیا کے معروف دانشوروں کے اقوال دلیل ہوں… ہمارے لئے بڑی دلیل … بس حضور اقدسﷺ کا فرمان اور آپ ﷺ کا عمل ہو… پھر سائنس اس کی تائید کرے یا نہ کرے… دنیا کی نام نہاد تہذیب اس کی تائید کرے یا نہ کرے … دانشوروں کے اقوال اس کے مطابق ہوں یا مخالف… ہمیں اس سے کوئی فرق نہ پڑے… ہم سائنسی تحقیقات کو حرف آخرنہ سمجھیں… یہ تحقیقات ہر دس سال بعد تبدیل ہو رہی ہیں… سائنسدانوں کی مثال اس چیونٹی جیسی ہے جو سمندر اور زمین کو ناپ اور دیکھ رہی ہے… یہ چیونٹی چند سال کی محنت سے جتنا سمندر اور جتنی زمین دیکھ سکتی ہے… وہ اسے بیان کر دیتی ہے… مگر جب آگے بڑھتی ہے تو اسے اپنی سابقہ تحقیق پر شرم آنے لگتی ہے… اور وہ اس سے دستبردار ہو جاتی ہے…کائنات بہت بڑی ہے…اور سائنسدانوں کے آلات بہت چھوٹے… جبکہ حضرت محمد ﷺ کے لئے اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو مسخر فرما دیا تھا … آپ نے زمین بھی دیکھی اور آسمان بھی … اور آسمانوں کے بعد والے جہان بھی ملاحظہ فرمائے … اس لئے آپﷺ جو فرماتے ہیں وہی سچ ہوتا ہے… آج کل یہ وباء چل پڑی ہے … اور یہ بڑی خطرناک ہے کہ… لوگ آنحضرت ﷺ کے فرامین کو سائنس پر تولتے ہیں… وہ سائنس کے مطابق نظر آئیں تو خوشیاں مناتے ہیں… اور اگر سائنس کے خلاف نظر آئیں تو احساس کمتری میں مبتلا ہو کر طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں… کاش یہ لوگ سورہ حجرات کو پڑھ لیتے… جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح تنبیہ فرما دی کہ… اپنی بات اور آواز کو نبی کریم ﷺ کی بات اور آواز سے اونچا نہ کرو… اور اُن کی باتوں کے ساتھ عام انسانوں کی باتوں والا رویہ نہ رکھو… اگر تم نے یہ جرم کیا تو تمہارے سارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں علم تک نہ ہو گا… جو لوگ سائنسدانوں اور حکمرانوں کی آواز کو … نعوذ باللہ نعوذ باللہ حضور اقدس ﷺ کے فرامین سے اونچا کر رہے ہیں… اُن کی تحقیقات کو معیار بنا کر… اُن پر حضور اقدس ﷺ کے فرامین کو جانچ رہے ہیں… وہ کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں… ہاں بہت بڑا ظلم… ارے یہ وہ محبت نہیں جو سستی ہو یہ بہت قیمتی ’’محبت‘‘ ہے… اور مکمل ادب… اس محبت کی پہلی شرط ہے…
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام نامی علی،کنیت ابوالحسن، ابو تراب ہے۔ آپ کے والد حضور سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب ہیں۔ آپ نوعمروں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اسلام لانے کے وقت آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف کیا تھی اس میں چند اقوال ہیں:ایک قول میں آپ کی عمر پندرہ سال کی، ایک میں سولہ کی، ایک میں آٹھ کی،ایک میں دس کی،اگرچہ عمر کے باب میں چند قول ہیں مگر اس قدر یقینی ہے کہ ابتدائے عمر میں بلوغ کے متصل ہی آپ دولت ایمان سے مشرف ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی بت پرستی نہیں کی جس طرح کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی بت پرستی کے ساتھ ُملَوَّث نہ ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں جن کے لیے جنت کا وعدہ دیا گیا اور علاوہ چچا زاد ہونے کے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور ِاکرم نبئ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عزت مُواخات بھی ہے ۔اور سید ۂ نساء عالمین خاتون جنت حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ کا عقد نکاح ہوا۔ آپ سابقین اولین اور علماء ِربانیین میں سے ہیں۔ جس طرح شجاعت بَسالَت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نامِ نامی شہر ۂ عالم ہے، عرب و عجم بروبحر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زورو قوت کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہیبت و دبدبہ سے آج بھی جوان مردانِ شیر دل کانپ جاتے ہیں اسی طرح آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ز ہدو ریاضت اَطراف واَکنافِ عالم میں وظیفۂ خاص وعام ہے۔ کروڑوں اولیا رحمہم اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینۂ نور گنجینہ سے مستفیض ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد ہدایت نے زمین کو خدا پرستوں کی طاعت و ریاضت سے بھر دیاہے۔ خوش بیان فصحا اور معروف خطبا میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند پایہ ہیں۔ جامعینِ قرآنِ پاک میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانام نامی نورانی حرفوں کے ساتھ چمکتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنی ہاشم میں پہلے خلیفہ ہیں اور سبطین کریمین حسنین جمیلین سعیدین شہیدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد ِماجد ہیں۔ سادات کرام اور اولادِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ پروردگار عالم عزوجل نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاری فرمایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تبوک کے سوا تمام مَشاہِد میں حاضر ہوئے۔ جنگ ِتبوک کے موقع پر حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ پر خلیفہ بنایا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ تمہیں ہماری بارگاہ میں وہ مرتبہ حاصل ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں حضرت ہارون کو۔ (1)(علیہ الصلوٰۃ والسلام) (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے چند مقاموں میں آپ کو لوا(جھنڈا) عطا فرمایا خصوصاً روز ِخیبر اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی کہ ان کے ہا تھ پر فتح ہوگی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روز قلعۂ خیبر کا دروازہ اپنی پشت پر رکھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کیا۔ اس کے بعد لوگوں نے اسے کھینچنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اس کو نہ اٹھا سکے۔ جنگوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے بہت ہیں۔(1) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ناموں میں ابو تراب بہت پیارا معلوم ہوتا تھا اور اس نام سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش ہوتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد شریف کی دیوار کے پاس لیٹے ہوئے تھے۔ پشتِ مبارک کو مٹی لگ گئی تھی، حضور ِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آ پ کی پشتِ مبارک سے مٹی جھاڑ کر فرمایا:اِجْلِسْ اَبَا تُرَابٍ۔(2)یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عطافرمایا ہوا خطاب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہرنام سے پیارا معلوم ہوتا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نام سے سلطانِ کو نین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم کے مزے لیتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و محامد بہت زیادہ ہیں۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ طیبہ میں اہل بیت کی حفاظت کیلئے چھوڑا حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بناتے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم راضی نہیں ہوکہ تمہیں میرے دربارمیں وہ مرتبت حاصل ہو جو حضرت ہارون کو دربار حضرت موسیٰ میں تھی (علیہما الصلوٰۃ و السلام) بجز اس بات کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔(1) (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے روز ِخیبر فرمایا کہ میں کل جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح فرمائے گا اور وہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کو محبوب رکھتے ہیں۔ اس مثردۂ جانفزانے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو تمام شب امید کی ساعتیں شمار کرنے میں مصروف رکھا۔ آرزو منددلوں کو رات کاٹنی مشکل ہوگئی اور مجاہدین کی نیندیں اڑگئیں۔ہردل آرزومند تھا کہ اس نعمت عظمیٰ وکبریٰ سے بہرہ مند ہو اور ہر آنکھ منتظر تھی کہ صبح کی رو شنی میں سلطان دارین فتح کاجھنڈا کس کو عطا فرماتے ہیں۔صبح ہوتے ہی شب بیدارتمنائی امیدوں کے ذخائر لئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ کریم ذرہ پرورکا دستِ رحمت کس سعادت مند کو سرفراز فرماتاہے۔ محبوب ِخدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لب ِمبارک کی جنبش پر ارمان بھری نگاہیں قربان ہورہی تھیں، رحمتِ عالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اَیْنَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍعلی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟عرض کیا گیا :وہ بیمار ہیں، ان کی آنکھوں پر آشوب ہے۔ بُلانے کاحکم دیا گیا اور علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم حاضر ہوئے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دہن مبارک کے حیات بخش لعاب سے ان کی چشمِ بیمار کا علاج فرمایا اور برکت کی دعا کی، دعا کرناتھا کہ نہ درد باقی رہا نہ کھٹک نہ سرخی نہ ٹپک ، آن کی آن میں ایسا آرام ہوا کہ گویا کبھی بیمار نہ ہوئے تھے اس کے بعد ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔(1) ترمذی ونسائی وابن ماجہ نے حبشی بن جنادہ سے روایت کی،حضورسیّدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: عَلِیٌّ مِّنِّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ (2)(علی مجھ سے ہے اور میں علی سے) اس سے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا کمالِ قرب بارگاہِ رسالت مآب سے ظاہر ہوتا ہے۔ امام مسلم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس کی قسم کہ جس نے دانہ کو پھاڑ ا اور اس کو روئید گی عنایت کی اور جانوں کو پیدا کیا بے شک مجھے نبی امی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بتایاکہ مجھ سے ایماندار محبت کریں گے اور منافق بغض رکھیں گے۔(3) ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض رکھنا منافق کی علامت تھی اسی سے ہم منافق کو پہچان لیتے تھے۔(4) حاکم نے حضرت مولیٰ علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے روایت کی فرماتے ہیں: مجھے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا، میں نے عرض (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); کیا: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں کم عمر ہوں قضا جانتانہیں،کام کس طرح انجام دے سکوں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنادستِ مبارک میرے سینہ میں مار کر دعا فرمائی، پروردگارعزوجل کی قسم! معاملہ کے فیصل کرنے میں مجھے شبہہ بھی تو نہ ہوا۔ (1) صحابۂ کبارعلیہم الرضوان حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اَقضا جانتے تھے۔ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فیض ہے کہ حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینہ میں دست مبارک لگایا اور وہ علمِ قضا میں کامل اور اقران میں فائق ہوگئے۔ جسکے ہاتھ لگانے سے سینے علوم کے گنجینے بن جائیں اس کے علوم کا کوئی کیا بیان کرسکتا ہے۔ ابن عسا کرنے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے حق میں بہت سی آیتیں نازل ہوئیں۔(2) طبرانی وحاکم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کو دیکھنا عباد ت ہے۔ (3) ابو یعلی و بزار نے حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:جس نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی۔(1) بزار اور ابو یعلی اور حاکم نے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کی ، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسیٰ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک مناسبت ہے ان سے یہود نے یہاں تک بغض کیا کہ ان کی والدہ ماجدہ پر تہمت لگائی۔ نصاریٰ محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے مُعْتَقِد ہوگئے۔ ہوشیار ہوجاؤ میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ایک محب مُفْرِط جو مجھے میرے مرتبہ سے بڑھائے اور حد سے تجاوز کرے، دوسرا مُبْغِض جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے۔ (2) حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ رافضی و خارجی دونوں گمراہ ہیں اور ہلاکت کی راہ چلتے ہیں، طریق قویم اور صراط مستقیم پر اہلسنت ہیں جو محبت بھی رکھتے ہیں اور حد سے تجاوز بھی نہیں کرتے۔
جولیا چائلڈ نے نہ صرف امریکہ میں فرانسیسی پاک مہارت کا تعارف کرایا ، بلکہ وہ ایک جذباتی کاروباری بھی تھیں۔ 32 سال کی عمر میں ، بچے نے فرانسیسی باورچی خانے سے متعلق سیکھنا شروع کیا۔ 40 سال کی عمر میں ، اس نے ایک باورچی خانے کا اسکول ، ایل ایکول ڈیس گورمیٹیس کھول لیا تھا۔ لیکن بچوں کی کامیابی کا راستہ ہمیشہ آسان نہیں تھا۔ باورچی خانے میں اس کی ابتدائی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں ، اور اشاعت کی دنیا میں اس کے جوش و خروش سے ہمیشہ ملنے کو نہیں ملتا تھا۔ تاہم ، انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ایک کامیاب مصنف اور ٹیلی ویژن کی ایک پسندیدہ میزبان بن گئیں۔ زبردست ترکیبیں کے علاوہ ، آپ جولیا چائلڈ سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ، اس میں ایک بہتر کاروباری اور رہنما بننے کے طریقوں سمیت۔ اس کی سوانح عمری سے حاصل کردہ کچھ اسباق یہ ہیں: میری زندگی فرانس میں . 1. تنقید کو ایک چٹکیئے نمک کے ساتھ قبول کریں: بچے کا تعی workن کرنے والا کام ، فرانسیسی باورچی خانے سے متعلق فن میں عبور حاصل ہے ، اصل میں ایک 800 صفحات پر مشتمل پیار تھا جو ہفٹن - مِفلن کے لئے تخلیق کیا گیا تھا۔ جب چائلڈ نے نسخہ پیش کیا تو ، ایڈیٹرز تفصیلی حجم سے لطف اندوز ہوئے ، لیکن یہ نتیجہ اخذ کیا ، 'امریکی کوئی انسائیکلوپیڈیا نہیں چاہتے ہیں ، وہ آمیزش کے ساتھ کچھ جلدی پکانا چاہتے ہیں۔' پہلے تو ، بچ outہ مشتعل تھا۔ اس نے معاہدہ ختم کرنے کے لئے کہا ، '' یہ بہت برا ہے کہ ہماری انجمن کو باضابطہ طور پر قریب آنا چاہئے۔ '' اگلی صبح ، اس نے اپنا ناراض خط پھینک دیا اور کتاب کا نیا ، آسان ورژن تخلیق کرنے پر راضی ہوگئی۔ بچے نے کتابیں دوبارہ لکھیں تو یہ ایک وسیع تر سامعین کے لئے اپیل کرے گی ، لیکن ایک بار پھر اسے اس بنیاد پر مسترد کردیا گیا کہ یہ 'امریکی گھریلو خاتون کے لئے اچھی طرح سے قابل ثبوت ثابت ہوگی'۔ تاہم ، بچوں کی نظر ثانی نے نوف میں ایڈیٹرز کو اپیل کی ، اور باقی تاریخ ہے۔ کاروباری سبق: ضرورت سے زیادہ بڑھنے سے بچو ، اور اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کرو۔ 2. اس میں الجھنا ٹھیک ہے: بچے کے پیشہ ور شیف بننے کے مبہم منصوبے تھے ، لیکن اسے بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ اس کے بارے میں کس طرح چل پائے گی۔ وہ صرف اتنا کرنا چاہتی تھی کہ 'لوگوں سے پیسوں کی اشاعت کی بجائے کھانا پکانا'۔ ایک دن ، ایک دوست نے اس سے کھانا پکانے کے اسباق پوچھے۔ پھر دوسرا ، اور پھر دوسرا۔ بچے اور اس کے دوستوں کے پاس کوئی مینو ، کوئی سبق کا منصوبہ ، اور نہ ہی کوئی باورچی خانہ تھا ، لیکن وہ ایک کلاس منظم کرنے پر راضی ہوگئے۔ انہوں نے ایک باورچی خانہ کرایہ پر لیا اور فورا. ہی تعلیم دینا شروع کردی۔ جب کورس آگے بڑھا تو ، انہوں نے نوٹ لیا اور اپنی غلطیوں اور طلباء کی غلطیوں سے سبق حاصل کیا۔ یہ نوٹ بعد میں تیار ہوئے فرانسیسی باورچی خانے سے متعلق فن میں عبور حاصل ہے . کف دور اور بہت کم طریقہ کار کے ساتھ کلاسوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بچہ مقامی قصابوں ، پکانے والوں ، اور کسانوں سے بات کرنے کو کہتے اور وہ اکثر ایسا مفت کرتے۔ یہاں تک کہ جب بچے کے شوہر نے فرانسیسی شراب کو پسند نہیں کیا تو اسے پتہ چلا کہ بچے کے شوہر نے فوری طور پر شراب سمینار کا انعقاد کیا۔ کاروباری سبق: ایک نیا پروجیکٹ شروع کرنے کے لئے سب کچھ بالکل منظم ہونے تک انتظار نہ کریں۔ آپ کو راستے میں سیکھنا ہوگا۔ 3. دوسروں کے ایجنڈوں کا اندازہ لگائیں: بچہ پیرس کے لی کارڈن بلو میں تعلیم حاصل کرتا تھا اور تمام حسابات کے مطابق ایک عمدہ ، پرعزم طالب علم تھا۔ تاہم ، وہ اپنے آخری امتحان میں ناکام رہی! اس کی توقع تھی کہ اس نے باطنی فرانسیسی ترکیبوں پر جانچ کی تھی - لیکن اس کے بجائے اسے لی کورڈن بلو کے پروموشنل پمفلیٹس میں پائی جانے والی ترکیبیں لکھنے کو کہا گیا تھا۔ بچے نے بیٹھے ، لیکن اس نے اپنا غرور نگل لیا ، اسکول کے ایک چھوٹے سے کتابچے کا مطالعہ کیا ، امتحان واپس لیا ، اور بالآخر اس کا آخری امتحان پاس کیا۔ کاروباری سبق: یہ آپ کا ہوم ورک کرنے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے - آپ کو دوسروں کے ایجنڈوں کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اندازہ لگائیں کہ وہ کیا سننا چاہتے ہیں۔ 4. مدد کے لئے دوسروں پر بھروسہ کریں: بچے اور اس کے شوہر ، پال ، کا ایک مقصود تھا جو انہوں نے سفارت کاروں کی حیثیت سے کام کرنے پر وضع کیا تھا ، 'یاد رکھنا: لوگوں سے زیادہ اہم کوئی نہیں ہے۔' بچوں کی کامیابی کا اصل ان لوگوں میں تھا جن کو وہ جانتے تھے۔ اس کے سرپرست ، شیف میکس بگنارڈ ، نے اسے کھانا پکانا سکھایا ، اور اس کے لکھنے کے ساتھی ، سائمن بیک نے اس کی تالیف میں مدد کی فرانسیسی باورچی خانے سے متعلق فن میں عبور حاصل ہے اور اس کی کلاسیں پڑھائیں۔ فہرست جاری ہے ، لیکن بات یہ ہے کہ بچہ اکیلے نہیں گیا۔ اس کے پاس لوگوں کا نیٹ ورک تھا جنہوں نے اپنا شوق شیئر کیا اور اسے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔
Home » Everyday News » گرانہ ڈاٹ کام کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں اوپن ہاؤس کا انعقاد، بڑی تعداد میں سرمایہ کاروں کی شرکت گرانہ ڈاٹ کام کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں اوپن ہاؤس کا انعقاد، بڑی تعداد میں سرمایہ کاروں کی شرکت Posted on نومبر 20, 2021 اسلام آباد: امارات گروپ کے زیرِ انتظام جدید طرزِ تعمیر اور اعلیٰ معیار کے رہاءشی اور کمرشل پراجیکٹس میں شہریوں کی دلچسپی کے مدِ نظر گرانہ ڈاٹ کام نے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ایمزون مال میں گرینڈ اوپن ہاوس کی شانداسر تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اوپن ہاوس کی اس تقریب میں جڑواں شہروں سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے سرمایہ کاروں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کے شرکاء نے امارات گروپ کے زیرِ انتظام پراجیکٹس ایمیزون مال، گالف فلوراز، فلارنس گیلریا، امارات بلڈرز مال، جی الیون ہوٹلز، امارات ریزیڈینسیز اور مال آف عریبیہ میں سرمایہ کاری کے حوالے سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ معیاری تعمیرات، مقررہ وقت میں ڈیلیور کردہ پراجیکٹس اور محفوظ اور آسان سرمایہ کاری کے اعلیٰ مواقع دینے کی وجہ سے امارات گروپ کو مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ دیگر پراجیکٹس کے علاوہ امارات ریزیڈنسز امارات گروپ کا اگلا پراجیکٹ ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا رہائشی منصوبہ ہے. گرانہ ڈاٹ کام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے برانڈ پورٹ فولیو کو مُلک گیر بنایا جائے تاکہ مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں معیاری پراجیکٹس کا فروغ ہوسکے۔ اعلیٰ شہرت کی حامل ریئل اسٹیٹ کی مارکیٹنگ کمپنی گرانہ ڈاٹ کام پُرتعیش اور جدید سہولیات سے آراستہ رہائشی اور کمرشل منصوبوں کو بہترین انداز میں مارکیٹ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ گرانہ ڈاٹ کام ان تمام لگژری ہاؤسنگ اور کمرشل پراجیکٹس کی سیلز سے متعلق امور میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر رہائشی منصوبوں کی تعمیر میں محفوظ سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جا سکے۔
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنظِرُونِ ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی کیا ان (بتوں) کے پیر ہیں کہ ان سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں ، جن سے دیکھیں ، یا ان کے کان ہیں ، جن سے وہ سنیں تو کہہ کہ تم کہ تم اپنے شریکوں کو بلاؤ پھر مجھ سے مکر کرو اور مجھے کچھ فرصت نہ دو ۔ تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی [١٩٣] جو بت مشرکوں نے بنا رکھے تھے ان کے ہاتھ، پاؤں، ناک، کان، آنکھیں وغیرہ سب کچھ ہوتا تھا اللہ تعالیٰ مشرکوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان بتوں کے جو تم نے پاؤں بنا رکھے ہیں کیا یہ ان کے ساتھ چل بھی سکتے ہیں کیونکہ پاؤں بنانے کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ان سے چلا جا سکے پھر جب یہ پاؤں اپنی غرض اور مقصد پورا نہیں کرسکتے تو ایسے پاؤں بنانے کا فائدہ کیا ہے؟ اسی طرح ان کے جو تم نے ہاتھ بنا رکھے ہیں ان سے یہ پکڑ بھی نہیں سکتے۔ تمہاری بنائی ہوئی آنکھوں سے یہ دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ کانوں سے سن سکتے ہیں تو ایسے مصنوعی اعضاء بنانے کا فائدہ کیا ہے جو اپنی غرض پوری نہیں کرتے۔ شرک کی مختلف صورتیں :۔ مشرکوں کے شرک میں تین صورتیں پائی جاتی ہیں مثلاً ایک شخص سورج پرست ہے تو شرک کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ بالخصوص سورج کے نکلتے وقت اور غروب ہوتے وقت اس کی طرف منہ کر کے اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہوجائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ ان ستاروں کی روح کی پوجا کی جاتی ہے اور انہیں عند الضرورت پکارا جاتا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ ان ارواح کی خیالی صورتیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنا کر عبادت خانوں میں یا آستانوں میں رکھے جاتے ہیں پھر ان کی پوجا کی جاتی ہے اور تصور یہ ہوتا ہے کہ اس مجسمے کے ساتھ اس کی روح کا تعلق قائم رہتا ہے لہٰذا ان مجسموں کی جو پوجا پاٹ کی جاتی ہے وہ ان مجسموں کی نہیں بلکہ ان کی ارواح کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں بھی یہ مرض عام ہے وہ مجسموں کی بجائے اولیاء اللہ کی قبروں سے یہی تمام تر عقائد وابستہ کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں شرک کی ان سب اقسام کا رد فرما دیا ہے۔ [١٩٤] مشرکوں کا اپنے معبودوں سے ڈرنا :۔ مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی بے ادبی کرنا چھوڑ دو ورنہ یہ معبود تم پر کوئی نہ کوئی آفت نازل کردیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر میں فرمایا:﴿وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ﴾(39 : 36)اسی کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے کہ آپ ان مشرکین سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے تمام معبودوں سے درخواست کرو کہ وہ میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہیں اس میں کچھ بھی کسر نہ چھوڑیں اور مجھے مہلت بھی نہ دیں جو کرسکتے ہیں فوراً کریں اور میں دیکھوں گا کہ وہ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
رشیا الیوم نیٹ ورک کی ویب سائٹ سے نقل کرتے ہوئے، ہیبرون کے تعلیم و ثقافت کے ڈائریکٹر جنرل عاطف الجمال نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوجیوں نے الهاجریہ پرائمری اسکول پر دھاوا بول کر اور کلاسوں پر حملہ کرکے طلباء کو دہشت زدہ کیا۔ شیئرینگ : اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے میں ایک سات سالہ فلسطینی بچے کو ہلاک کرنے کے چند گھنٹے بعد الخلیل میں ایک اسکول پر حملہ کر دیا۔ رشیا الیوم نیٹ ورک کی ویب سائٹ سے نقل کرتے ہوئے، ہیبرون کے تعلیم و ثقافت کے ڈائریکٹر جنرل عاطف الجمال نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوجیوں نے الهاجریہ پرائمری اسکول پر دھاوا بول کر اور کلاسوں پر حملہ کرکے طلباء کو دہشت زدہ کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ قابض حکومت کے فوجیوں نے مذکورہ اسکول پر حملہ کرنے کے بعد اساتذہ اور متعدد طلباء کو زدوکوب کیا اور اس حملے میں اسپرے بھی استعمال کیا۔ الجمال نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس حملے میں ایک استاد زخمی اور دو طالب علموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب جمعرات کے روز صہیونی فوج کے حملے میں سات سالہ فلسطینی بچہ "ریان یاسر سلیمان" شہید ہو گیا۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع گاؤں تقوا میں صیہونی حکومت کی افواج کے فلسطینی طلباء کے تعاقب کے بعد یہ بچہ بھاگتے ہوئے بلندی سے گرا اور شہید ہوگیا۔ فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا کہ بچہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا اور اسے بچانے کی ڈاکٹروں کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ فلسطینی ذرائع نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ جمعرات کے روز مغربی کنارے کے جنوب میں واقع شہر دورہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے دوران 12 فلسطینی زخمی یا دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔ ہلال احمر کمیونٹی کے فلسطینی ذرائع نے مزید کہا کہ اس کمیونٹی کے ریسکیورز نے ہیبرون کے جنوب میں واقع شہر دورہ میں جھڑپوں کے دوران 12 زخمیوں کو امداد فراہم کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق زخمیوں میں سے سات افراد کو گولیاں لگیں اور پانچ افراد آنسو گیس کی وجہ سے دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
پنجاب کی تاریخ میں شاید پہلی باریہ واقع پیش آیا ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر کو اس کے اپنے ہی ضلع کی عدالت کے سربراہ نے گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہو۔ یہ بڑا ہی غیر معمولی واقع ہے جس کے پس منظر میں کئی محرکات ہیں جن کو سامنے لائے بغیرافسر شاہی کی زوال پذیری کے اسباب جاننا شاید مشکل ہوگا۔ اکثر دیکھا گیا ہےکہ مختلف اداروں کے لوگ اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ منڈی بہائوالدین کیس سیدھا سادہ معاملات کی ہینڈلنگ کا ایشو ہے، لیگل ایشو تو اس میں تھا کوئی نہیں۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ جب سیاسی سفارشوں پر یا پھر پیسے دے کر ڈپٹی کمشنر تعینات ہوتے ہیں تو بعض نالائقوں کی وجہ سے حکومت کو تو پھر شرمندگی اٹھانا ہی پڑتی ہے۔ مجھے کئی سینئر افسران نےبتایا کہ جب وہ کہیں ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تو انہیں بھی بعض اوقات بالکل ایسے ہی واقعات کا سامنا کرناپڑا، لیکن سیشن جج کوبھی عزت چاہیے ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامیہ سارے کام اپنی مرضی سے ہی کرتی ہے لیکن بعض اوقات منڈی بہائوالدین کیس جیسی صورتحال میں ڈپٹی کمشنر خودسیشن ججز کے پاس چلے گئے اور معاملہ فہمی سے چیزوں کو اچھے طریقے سے حل کیا ۔ ویسے تو ہر ادارے کو ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے جو بدقسمتی سے ایسی سوچ سے بعض اوقات عاری ہوتے ہیں۔ افسر شاہی کے زوال میں بڑا کردار سیاسی لوگوں کا تو ہے ہی لیکن بیورو کریسی خودبھی اس کی کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ افسران کی صحیح جگہوں پر اہلیت کے مطابق تعیناتیاں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ سیاسی مداخلت سے ایس اینڈ جی اے ڈی ایک پوسٹ آفس بن کر رہ گیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے کافی حد کوشش کی ہے کہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتیاں دیکھ بھال کر دیانتدار اور اہل افسران کی فہرستوں کو اچھی طرح کھنگال کر کی جائیں لیکن شاید کئی مصلحتوں کے سامنے بسا اوقات وہ غیر ضروری مزاحمت سے گریز کرتے ہیں۔ فوج میں جب کسی لیفٹیننٹ کرنل کو یونٹ کمانڈ کرنے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو جو افسر بطور کیپٹن جی تھری یا پھر کسی بریگیڈ کا بریگیڈ میجر رہا ہو ،کو بطور کمانڈ افسر ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی ایسے بندے کو کمانڈ دے دی جائے جو اس کا اہل نہ ہو۔ ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ پر گریڈ 19 کا افسر تعینات ہونا چاہیے اور خاص طور پر ای ڈی او ریونیو، ایڈیشنل کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کوآرڈینشن سمیت ایسی جگہوں پر کام کر چکا ہو جس میں اس نے کئی موقعوں پر فائر فائٹنگ کی ہو۔ 39 ویں اور 40 ویں کامن کے جونیئر افسر جن میں بعض نہ کبھی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) نہ کبھی اے ڈی سی (ہیڈ کوارٹر) اور نہ کبھی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) رہے کو آپ نےسیاسی سفارشوں پر ڈپٹی کمشنر لگا دیا۔میں نے کئی کمشنروں کے دفتروں میں سیشن ججوں کو آ کربیٹھے دیکھا ہے جوبعض اوقات افسروں سے مشورے کر رہے ہوتے ہیں،جس کی وجہ تجربہ، عقل اور معاملات کی سوجھ بوجھ ہے۔ سنیارٹی نہ ہو اور اعلیٰ افسران کے ساتھ کام کرنےکا تجربہ نہ ہو تو پھر حالات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ سیاسی سفارشوں پر کئی اہم ترین اضلاع کے ڈپٹی کمشنر جونیئر افسران لگائے گئے ہیں۔ لاہور جو کہ صوبائی ہیڈ کوارٹر ہے کے گریڈ 18 کے ڈپٹی کمشنر عمر شیر چٹھہ 39ویں کامن سے ہیں جبکہ یہاں کم از کم گریڈ 19 اور آئیڈیل طور پر گریڈ 20 میں ہونا چاہیے۔ یہ میانوالی میں ڈپٹی کمشنر رہے جہاں سے ہمارے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔اسی طرح خانیوال کے ڈپٹی کمشنر آغا ظہیر عباس شیرازی بھی 18 ویں گریڈ کے افسر ہیں جنہیں پنجاب کے ’’سرپرست اعلیٰ‘‘ کے سسرال کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بھی تفویض کی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے سابق پی ایس او علی اعجاز بھی گریڈ 18 کے جونیئر افسر ہیں جنہیںپہلے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان لگایا گیا اب وہ اوکاڑہ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر محمد علی بھی جونیئر افسر ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے پی ایس او رہے جس کے بعد انہیں پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کا ڈپٹی کمشنرلگایا گیا اور اب وہ راولپنڈی جسے (گیریژن سٹی) کہا جاتا ہے کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ لاہور،فیصل آباد اور راولپنڈی بڑے میٹروپولیٹن شہر ہیں۔ وہاں کم از کم گریڈ 19 کا ڈپٹی کمشنر ہونا چاہیے جس نے سینئر مینجمنٹ کورس پاس کر رکھا ہو اور گریڈ 20 میں پروموشن کا منتظر ہو۔ 18 ویں گریڈ کے ہی ایک اور افسر عامر کریم جو کہ وزیر اعلیٰ کے پی ایس او رہے کو جنوبی پنجاب کے ہیڈ کوارٹر ملتان کا نامعلوم وجوہات کی بنا پر ڈپٹی کمشنر تعینات کردیا گیا۔ پنجاب کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز والے اہم اضلاع کے ڈپٹی کمشنر سینئر افسر لگنے چاہئیں جنہوں نے سینئر مینجمنٹ کورس کر رکھے ہوں۔ ڈپٹی کمشنر منڈی بہائوالدین طارق علی بسرا کی بھی سفارش تگڑی لگتی ہے۔ وہ اس سے قبل تگڑی پوسٹوں پر تعینات رہے ہیں جن میں ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل اسسٹنٹ، پھر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (پی ایچ اے) رہے ہیں۔ انکے پاس ڈی جی پی ایچ اے کا چارج بھی رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ملتان عامر کریم کے خلاف ہائوسنگ سوسائٹیوں کی طرف رنگ روڈ کا رخ موڑنے کی شکایت بھی ہےجس پر انکوائری ہو رہی ہے۔ سابق ڈپٹی کمشنر وہاڑی مبین الٰہی کمیٹی میں اپنا بیان بھجوا چکے ہیں کہ انہوں نے بوریوالہ رنگ روڈ کی الاٹمنٹ کچھ اور دی تھی۔ اسکے علاوہ بھی کئی ہوشربا چیزیں عامر کریم کیخلاف ہیں جو بہرحال (MANAGE) ہو چکی ہیں۔ 18 ویں گریڈ کے افسر ہیں اور ان کے پاس 19ویں گریڈ کا آفیشٹنگ چارج ہے لیکن پھر بھی ڈپٹی کمشنر ملتان ہیں۔ یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ اہم تعیناتیوں میں سیاسی مداخلت سے تباہی ہو رہی ہے۔ سفارش سے تعینات ہونے والا بیورو کریٹ سیاسی طور پر اپنی الاٹمنٹ کرالیتا ہے جو افسر شاہی میں انحطاط کی بڑی وجہ ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل ” اور اس نے تمہاری خاطر رات، دن، سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور ستارے اس کے حکم کے ساتھ تابع کردیے گئے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینابہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔“ (١٢) تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے فہم القرآن : ربط کلام : نباتات، کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار میں رات اور دن، چاند اور سورج کا بڑا دخل ہے اسی لیے دانشور حضرات کو ان کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن، سورج، چاند اور ستاروں کو اپنے حکم سے لوگوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی نشانیاں اور دانشوروں کے لیے ہدایت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ رات اور دن، چاند، سورج اور ستاروں کو لوگوں کے لیے مسخر کرنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان کسی وقت اس قدر ترقی کر جائے گا کہ وہ رات دن کی گردش، سورج اور چاند کی آمدورفت اور ستاروں کی چمک دمک میں دخل انداز ہو سکے گا۔ یہ پورے کا پورا نظام اور اس کا کنٹرول صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس میں سائنس اور کسی کی ولایت کو دخل کا اختیار نہیں ہوسکتا۔ تسخیر سے مراد یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ رات لوگوں کے سکون کے لیے ہے اور دن کام کاج کے لیے۔ اے انسان ذرا سوچ کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے مطابق رات اور دن کا آنا جانا، سورج کا صبح کے وقت طلوع ہو کر مغرب کے وقت غروب ہونا، چاند اور ستاروں کا رات کو اپنے اپنے وقت میں نمودار ہونا یقینی بنا دیا ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو نہ صرف یہ اپنے اپنے مقام پر جامد ہوجائیں گے بلکہ یہ بے حرکت ہو کر زمین پر گر پڑیں گے۔ اس نظام کی طرف اشارہ کرنے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ا انسان! تیرے لیے سوچنے کی بات ہے کہ یہ چیزیں وجود کے اعتبار سے تجھ سے کروڑوں گنا بڑی ہونے کے باوجود اپنے رب کے حکم کی بجا آوری اور تیری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ تیرا وجود ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی سے نہیں چوکتا۔ تجھے اپنے فکر و عمل پر غور کرنا چاہیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو انسان کے لیے مسخر کردیا۔ 2۔ نظامِ کائنات میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج اور ستاروں کو اپنے حکم سے مسخر کردیا۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
طالبعلم/طالبہ کی صحت اور تحفظ سکول کے مکمل پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے اور سٹاف اس پر عمل کرے گا۔ سکولوں/SACC میں صحت کی خدمات کو کاؤنٹی کی دیگر ایجنسیوں کے تعاون سے پیش کیا جائے گا جو سمجھ کی الگ یاد داشتوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ سکول/SACC ہر وقت ہمہ گیر احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے۔ یہ پرنس ولیئم کاؤنٹی پبلک سکولز (PWCS) کی پالیسی ہو گی کہ صحت سے متعلق کونسلنگ کی خدمات سمیت صحت کی تمام خدمات کو انتظامی عملہ کے اہل اور بااختیار افراد ہی انجام دیں گے اور قابل اطلاق پالیسیوں، قوانین، اور اخلاقی معیارات کے حدود کے اندر عمل کیا جائے گا۔ درج ذیل رہنما اصولوں کا اطلاق سکول کے تمام سٹاف، نرسوں، باہر کی ایجنسیوں کے سٹاف، اور دیگر ان افراد پر ہو گا جن کا طلباء کے ساتھ رابطہ ہے، جب وہ افراد سکول املاک پر ہیں یا سکول کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ کوئی استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔ I. طلباء کی اسقاط حمل سے متعلقہ مسائل پر مشاورت نہیں دی جائے گی۔ جن طلباء کو اس قسم کی مدد چاہیے انہیں ان کے والدین، خاندان کے ڈاکٹر، یا وضاحت کے لیے کاؤنٹی یا ریاست کی مناسب ایجنسیوں کے پاس بھیجا جائے گا۔ II. کوئی مانع حمل اشیا تقسیم نہیں کی جائیں گی۔ III. کسی قسم کی حمل کی جانچ نہیں کی جائے گی۔ IV. صحت سے متعلق خدشات جیسے متعدی بیماریاں، دیکھ بھال کے شدید مسائل، دیکھ بھال کے دائمی مسائل، اور سکرینگ پر PWCS کے قائم کردہ ضوابط کے تحت بات کی جائے گی۔ V. تمام نان-اسکول ڈویژن سٹاف سکول بورڈ پالیسیوں اور قواعد و ضوابط، اور رہنما اصولوں پر عمل کرے گا جن میں سکول سے طلباء کو لینا شامل ہے مگر اس تک محدود نہیں۔ ایسوسی ایٹ سپرنٹنڈنٹ برائے خصوصی تعلیم اور سٹوڈنٹس سروسز (یا نامزد کردہ) اس پالیسی کو نافذ کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کے لئے ذمہ دار ہے۔ اس پالیسی اور متعلقہ ضابطوں کا کم از کم پانچ سالوں میں جائزہ لیا جائے گا اور ضرورت کے مطابق دہرایا جائے گا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت خواتین کے ساتھ کیے جانے والے متنازع سلوک اور خواتین کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے سخت بدنام اور کڑی تنقید کا شکار ہے۔ افغان خواتین کو درپیش عالمی میڈیا میں رپورٹ ہونے والے مشکل حالات میں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے افغانستان جانا جہاں ایک زبردست، متاثر کن اقدام کے طور پر دیکھا گیا وہیں اس طرح کی قدامت پسند حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ایک خاتون کی جانب سے پاکستان کی نمائندگی کرنے کو انٹرنیٹ صارفین بھی ایک انتہائی مثبت، متاثر کن، انقلابی اقدام قرار دیے بغیر نہ رہ سکے۔ گزشتہ روز حنا ربانی کھر نے کابل کا اپنا ایک روزہ دورہ مکمل کیا جہاں انہوں نے افغان طالبان کی قیادت کے ساتھ سیکیورٹی معاملات پر تبادلہ خیال اور معاشی تعاون پر تفصیلی بات چیت اور مذاکرات کیے۔ حنا ربانی کھر کے دورہ افغانستان کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہیں اور ہر طرف سے بے انتہا تعریفیں سمیٹ رہی ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کی صاحبزادی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری نے بھی خاتون وزیر کی تصاویر کو شیئر کیا، اس کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے اور اداکار عدنان ملک نے بھی انہیں شیئر کرتے ہوئے ان مناظر کو شاندار قرار دیا۔ ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ حکومت پاکستان کا زبردست کارنامہ، پاکستان نے افغانستان میں مضبوط خاتون کا تاثر اور تشخص اجاگر کیا۔ This is powerful, very powerful. State minister @HinaRKhar in #Afghanistan where the government is of Taliban. Pakistan portraying an image of a “strong woman” in Afghanistan where the independence of women is almost zero. Good job Pakistan Govt 🇵🇰pic.twitter.com/S0oGgHiW5A — Saad Kaiser 🇵🇸 (@TheSaadKaiser) November 29, 2022 ایک صارف نے ملاقات کی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے اسے طاقتور منظر قرار دیا۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ پاکستان کی خواتین بہادر، باہمت ہیں، خودمختار خواتین ہی خودمختار پاکستان کی ضمانت ہیں، پاکستان کی خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان کی خواتین بہادر اور باہمت ہیں خودمختار خواتین ہی خودمختار پاکستان کی ضمانت ہیں پاکستان کی خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے یکساں مواقع فراہم کرنا ضروری ہیں@HinaRKhar so proud of you pic.twitter.com/EB3BXorZe5
مکہ مکرمہ: عازمین حج نے منٰی میں قائم کی گئی خیمہ بستی میں رات گزاری۔ دنیا بھر کے 10 لاکھ اور پاکستانی قریباً 80 ہزار عازمین نے نماز فجر تک منیٰ میں قیام کیا اور عبادت میں مصروف رہے۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد عازمین حج قافلوں کی شکل میں عرفات کی جانب روانہ ہوئے۔ اور عرفات میں حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کیا گیا۔ اللہ کے مہمانوں نے میدان عرفات میں عبادات، توبہ استغفار اور تلبیہ بلند کرنے کے علاوہ ظہر اور عصر کی نمازیں جمع تقدیم کرتے ہوئے ایک ساتھ ادا کیں۔ دونوں باجماعت نمازوں کے لیے ایک ہی اذان دی گئی جب کہ نماز کے لیے دونوں نمازوں کی اقامت الگ الگ دی گئی۔ حجاج کرام میدان عرفات میں نماز مغرب تک قیام کے بعد مزدلفہ روانہ ہوں گے جہاں وہ نماز مغرب اور عشا جمع کر کے ادا کریں گے اور رات بھر مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کے دوران عبادت اور دعائیں کریں گے۔ مزدلفہ کی حدود ہی سے حجاج کرام رمی جمرات کے لیے کنکریاں جمع کریں گے۔ اس کے بعد حجاج کرام اگلے روز جمرات کے مقام پر کنکریاں مارنے کا عمل یعنی رمی جمرات کا آغاز کریں گے، جس کے بعد قربانی کی تصدیق کے بعد حجاج کرام حلق کروانے کے بعد اپنا احرام کھول دیں گے۔ سعودی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 53 ہزار حجاج کرام نے طبی امداد طلب کی جبکہ ایک ہزار سات سو چھتیس حجاج کرام کوطبی امداد فراہم کی گئی۔ حجاج کرام میں کورونا یا منکی پاکس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
صدر جنرل پرویز مشرف کے پرسنل سیکرٹری اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جناب طارق عزیز کے حوالے سے ایک بار پھر قادیانیت کا مسئلہ منظر عام پر آیا ہے اور لاہور کے بعض علمائے کرام کی طرف سے اس مطالبہ نے اب تک زیر لب ہونے والی باتوں کو باقاعدہ خبر کی زبان دے دی ہے کہ جناب طارق عزیز کے والد بزرگوار کا جنازہ پڑھنے والے مسلم حکام کو تجدید ایمان کرنی چاہیے کیونکہ وہ قادیانی تھے۔ اس کے جواب میں طارق عزیز صاحب کے فرزند شعیب عزیز کا بیان آیا ہے کہ ان کی فیملی کا قادیانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور انھیں قادیانیت کے ساتھ ملوث کرنا افسوسناک ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کے پردادا قادیانی ہو گئے تھے لیکن ان کے دادا عزیز احمد نے، جن کے جنازے کے حوالے سے علماء کا مذکورہ بیان شائع ہوا ہے، قادیانیت سے توبہ کر لی تھی۔ یہ کم و بیش ہر حکومت کے دور میں ہوتا رہا ہے کہ حکومت یا اس کے پس پردہ کام کرنے والے اہم حکام کے بارے میں اس قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ وہ قادیانی ہیں اور ان میں سے بہت سے حضرات کو اپنی پوزیشن کی کھلے بندوں وضاحت کرنا پڑی ہے۔ بعض حضرات کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا صرف قادیانیت کے بارے میں کیوں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔ اصولی طور پر تو یہ مسئلہ سب اقلیتوں کے بارے میں ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں کسی کلیدی منصب پر، جس کا تعلق پالیسی سازی سے ہو، کسی غیر مسلم کو مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی پالیسیوں کی بنیاد قرآن و سنت پر ہوتی ہے اور غیر مسلموں کے لیے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ نیز کسی غیر مسلم کو اس کے عقیدہ اور دین کے خلاف پالیسی سازی کے عمل میں شریک کرنا خود اس کی مذہبی آزادی کے منافی اور اس پر مذہبی جبر کے مترادف ہے، اس لیے اسلام نے انھیں کسی بھی ایسی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جس میں انہیں اپنے مذہب اور عقیدہ کے خلاف دوسرے دین اور عقیدہ کی بنیاد پر کام کرنا پڑے۔ اسی لیے پاکستان میں دینی حلقوں کی طرف سے مسلسل یہ مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ ملک کی کلیدی آسامیوں پر غیر مسلموں کے تقرر کو ممنوع قرار دیا جائے۔ یہی صورتحال فوج اور دفاع کی بھی ہے کہ اسلامی ریاست میں جنگ، دفاع اور فوج کا تعلق اسلام کے فریضہ جہاد سے ہے حتیٰ کہ پاکستانی فوج کا ماٹو بھی ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا دینی فریضہ تو صرف مسلمان پر لاگو ہوتا ہے، کسی غیر مسلم کو اس کے لیے بھرتی کیا جائے گا تو یہ اس سے اس کے عقیدہ کے خلاف کام لینے کے مترادف ہوگا اور اسلام اس کا روادار نہیں ہے، اس لیے اسلام نے اسلامی ریاست کے تمام غیر مسلم باشندوں کو ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے ایک معمولی سے ٹیکس کے عوض ہر قسم کی فوجی ذمہ داری سے مستثنیٰ کر دیا ہے اور فوجی ڈیوٹی سے استثنا پر عائد کیا جانے والا ٹیکس شرعی اصطلاح میں ’’جزیہ‘‘ کہلاتا ہے۔ مگر اس اصولی مسئلہ اور موقف سے قطع نظر پاکستان میں بہت سے کلیدی عہدوں حتیٰ کہ فوج میں بھی غیر مسلم افسران کو ہر دور میں قبول کیا جاتا رہا ہے اور علمائے کرام نے اصولی موقف کے اظہار کے باوجود سول یا فوج کے کسی غیر مسلم افسر کو شخصی طور پر کبھی اپنی مہم اور مطالبات کا ہدف نہیں بنایا۔ البتہ قادیانیوں کا معاملہ اس سے الگ ہے اور پاکستان بننے کے بعد سے ہی اس مہم اور جدوجہد کا آغاز ہو گیا تھا کہ کسی قادیانی کو ملک کے کسی اہم منصب پر برداشت نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں دینی حلقوں کی تنقید کا سب سے پہلا ہدف وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان تھے جو کھلم کھلا قادیانی تھے بلکہ قادیانیت کے پرچارک تھے اور ۱۹۵۳ء کی مشہور تحریک ختم نبوت میں دینی حلقوں کے مطالبات میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ سے ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کی اس حساسیت کی بہت سی وجوہ ہیں: مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا اور نئی وحی اور نبوت کا ڈھونک رچایا بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں ایسی ایسی گستاخیاں کی ہیں کہ کوئی مسلمان ان سے واقف ہوتے ہوئے کسی قادیانی کو اپنے افسر کے طور پر قبول نہیں کر سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کو قبول نہیں کیا اور ان کے تیسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی یہ پیشین گوئی اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان ختم ہوگا اور دوبارہ اکھنڈ بھارت قائم ہوگا، چنانچہ اس وصیت یا پیشین گوئی کی موجودگی میں پاکستان کی سالمیت اور وجود کے ساتھ قادیانیوں کی دلچسپی اور وفاداری مشکوک ہو جاتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ متعدد اہم مواقع پر قادیانی افسران کا یہ کردار قومی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے ہمیشہ بیرونی وفاداریوں اور ہدایات کو ترجیح دی ہے۔ اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قادیانیوں کا کردار پاکستان میں بلکہ اس کے قیام سے پہلے بھی استعماری قوتوں کے آلہ کار کا چلا آ رہا ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے اپنے بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور منتخب پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو قبول کرنے سے صراحتاً انکار کر رکھا ہے جس میں انھیں عالم اسلام کے تمام دینی حلقوں کے مشترکہ فتویٰ کی رو سے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، اور اس طرح قادیانی جماعت وہ واحد گروہ ہے جو دستور پاکستان کو تسلیم کرنے سے صاف طور پر منحرف ہے۔ ان کے علاوہ اور وجوہ بھی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کے عوام بالخصوص دینی حلقے قادیانیوں کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں اور وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ فوج یا سول کے کسی بھی اہم عہدے پر کسی قادیانی کی موجودگی اسلامیان پاکستان کے دینی جذبات کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سالمیت اور قومی خود مختاری کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کرنے کے مترادف ہے اور خاص طور پر موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال میں اس قسم کے خطرہ اور رسک کا ملک کسی طرح بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ جناب طارق عزیز صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے پرسنل سیکرٹری ہیں، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری بھی ہیں، انھیں عملی طور پر صدر پاکستان کے دست راست کی حیثیت حاصل ہے اور قومی معاملات میں ان کا متحرک کردار سب واقفان حال کے سامنے ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب ان کا نام پنجاب کے نئے گورنر کے طور پر لیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے یہ خبر آ چکی ہے کہ جناب طارق عزیز، جنرل خالد مقبول کی جگہ پنجاب کے آئندہ گورنر ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک ان کے قادیانی ہونے کا تعلق ہے، اب تک ہمارا سامنا صرف افواہوں اور قیاس آرائیوں سے تھا اور اسی وجہ سے ہم نے اس سلسلہ میں ابھی تک کچھ عرض نہیں کیا، حتیٰ کہ گزشتہ دنوں لاہور اور اسلام آباد کی بعض محافل میں کچھ ذمہ دار دوستوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا کہ جناب طارق عزیز کا قادیانی ہونا قطعی بات ہے، لیکن ہم نے گزارش کی کہ جب تک اس کا ثبوت فراہم نہیں ہوگا ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن اب طارق عزیز کے فرزند شعیب عزیز نے اپنے وضاحتی بیان میں یہ کہہ کر معاملہ کو خود مشکوک بنا دیا ہے کہ ان کے پردادا قادیانی ہو گئے تھے مگر دادا نے قادیانیت سے توبہ کر لی تھی۔ پھر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بات طارق عزیز کی ہو رہی ہے اور وہ خود اس کی وضاحت کرنے کے بجائے بیٹے کا سہارا لے رہے ہیں، اس لیے ہمارے خیال میں شعیب عزیز کے وضاحتی بیان سے مسئلہ صاف ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا ہے اور طارق عزیز صاحب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے صاف طور پر بتائیں کہ قادیانیوں کے بارے میں خود ان کا عقیدہ کیا ہے؟ یہ بات کوئی نئی نہیں ہے، اس سے قبل صدر محمد ایوب خان مرحوم، صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو عوامی مطالبہ پر اپنے قادیانی نہ ہونے کی وضاحت کر چکے ہیں اور انھوں نے اپنے اوپر قادیانی ہونے کا الزام نہ لیتے ہوئے کھلے بندوں اپنے عقیدہ کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا جناب طارق عزیز بھی اگر اپنے عقیدہ کی خود وضاحت کریں گے تو اس سے ان کی عزت اور اعتماد میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ علماء، مشائخ اور بزرگوں کی عزت و تکریم معمولی عمل نہیں ہے۔ آج کل عموماً یہ دیکھا جاتا ہے... معروف برطانوی باکسر ٹائسن فری نے اسلام قبول کر لیا لندن، ۱۵ نومبر(ایجنسیاں/ماہنامہ اللہ کی پکار): معروف برطانوی باکسر ٹائسن فری نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام تبدیل کرکے ”ریاض ٹائسن محمد... یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے خواجہ مجذوبؒ یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے یہ کس نے کردیا سب دوستوں سے مجھ کو بیگانہ ... اعجازِ قرآن - مفتی شفیع عثمانیؒ مفتی شفیع عثمانیؒ Inimitability of the Qur'an وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِس... رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات ”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶) محسن اقبال ﷾ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین ... ہاں! جمہوری نظام اسلام کے خلاف ہے؛ لیکن.......... ”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶) مولانا آفتاب اظہر صدیقی اگر ہم دنیا کے جمہوری نظام کا موازنہ اسلامی نظام سے کریں تو دونوں کے درم... بریلوی عقیدہ ”علمِ غیب“ (قسط۔۱) شمشیرِ دیوبند { عقیدہ علم غیب پر رضاخانی خانہ جنگی } بسم اللہ الرحمٰن الرحیم!! محترم قارئین!جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ رضا خانی آ... سب سے عظیم نیکی .... تقویٰ اور اسکے10 انعامات عبد الرحمٰن صدیقی ﷾ (فیض آباد، یو پی، الہند) اللہ پاک نے قرآن مجید میں بار بار تقویٰ اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو ... فضائلِ اعمال پر اعتراضات کا جواب فضائلِ اعمال سے ”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶) عبد الرحمٰن بجرائی شافعی ﷾ بسم اللہ الرحمن الرحیم فضائلِ اعمال حضرت شیخ الحدیث کی لکھی ہوئی مختلف ک... یا رسول اللہ ؟؟؟ مخلوق کو غائبانہ ندا - ایک غلط فہمی کا ازالہ مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی﷾(کراچی، پاکستان) اہل بدعت حضرات سادہ لوح عوام کو مغالطہ دینے کیلئے علماء دیوبند کی چند عبارات پیش کرتے ہی...
ج: نماز پنجگانہ شریعت اسلامیہ کے اہم واجبات میں سے ہیں، بلکہ یہ دین کا ستون ہیں اور ان کا ترک کرنا یا سبک سمجھنا شرعاً حرام اور عذاب کا موجب ہے۔ س 339: اگر کسی کو پانی یا ایسی چیز کہ جس پر تیمم صحیح ہے میسر نہ ہو (فاقد الطہورین) تو کیا اس پر نماز واجب ہے؟ ج: بنابر احتیاط وقت میں نماز پڑھے اور وقت کے بعد وضو یا تیمم کے ساتھ قضا کرے۔ س 340: آپ کی نظر میں واجب نماز میں کن موقعوں پر عدول کیا جا سکتا ہے؟ ج: مندرجہ ذیل موارد میں عدول کرنا واجب ہے۔ ١۔ عصر کے مخصوص وقت سے پہلے عصر کی نماز سے ظہر کی طرف، اگر نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔ ٢ ۔ عشاء کے مخصوص وقت سے پہلے عشاء کی نماز سے مغرب کی نماز کی طرف، اگر نماز عشاء کے اثنا میں متوجہ ہوجائے کہ اس نے نماز مغرب نہیں پڑھی بشرطیکہ اس نے محل عدول سے تجاوز بھی نہ کیا ہو ۔ ٣۔ جن دو نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب ضروری ہے (مثلاً ایک دن کی نماز ظہر و عصر کی قضا) اس کے ذمے واجب ہو چانچہ بھول کر بعد والی نماز کو پہلے شروع کر دیا ہو۔ اور مندرجہ ذیل صورتوں میں عدول کرنا جائز ہے: ١۔ ادا نماز سے واجب قضا نماز کی طرف (البتہ ا گر صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قضا نماز کی طرف عدول کرے مخصوصا ًاگر اسی روز کی قضا نماز ہو۔) ٢ ۔ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے واجب نماز سے مستحب نماز کی طرف عدول کرنا۔ ٣ ۔ جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورۂ جمعہ کے بجائے بھول کر دوسرا سورہ شروع کر دیا ہو اور نصف یا اس سے کچھ زائد پڑھ چکا ہو۔ س 341: جمعہ کے دن جو نمازی جمعہ اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنا چاہتا ہے، کیا وہ دونوں نمازوں میں صرف "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گا یا ایک میں "واجب قربة ً الی اللہ" اور دوسری میں فقط "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گایا دونوں میں "واجب قربةً الی ﷲ" کی نیت کرے؟ ج: دونوں میں قربت کی نیت کرنا کافی ہے اور کسی میں وجوب کی نیت ضروری نہیں ہے۔ س 342: اگر نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت کے قریب تک منہ یا ناک سے خون جاری رہے تو ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر بدن کے پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت نماز کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھے گا۔ س 343: نماز میں مستحبی ذکر پڑھتے وقت کیا بدن کو پوری طرح ساکن رکھنا واجب ہے یا نہیں؟ ج: خواہ ذکر واجب ہو یا مستحب، دوران نماز میں دونوں کی قرائت کے وقت جسم کا مکمل سکون و اطمینان کی حالت میں ہونا واجب ہے۔ہاں مطلق ذکر کے قصد سے حرکت کی حالت میں ذکر پڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔ س 344: ہسپتالوں میں مریض کو پیشاب کے لئے نلکی لگا دی جاتی ہے جس سے غیر اختیاری طور پر سوتے جاگتے یہاں تک کہ نماز کے دوران بھی مریض کا پیشاب نکلتا رہتا ہے، پس یہ فرمائیں کہ کیا اس پر کسی اور وقت میں دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے یا اسی حالت میں پڑھی جانے والی نماز کافی ہے؟ ج: اگر اس نے اس حال میں اپنی نماز اس وقت کے شرعی فریضہ کے مطابق پڑھی ہو تو صحیح ہے اور اس پر نہ تو اعادہ واجب ہے اور نہ قضا۔ اوقات نماز اوقات نماز پرنٹ ; PDF اوقات نماز س 345: مذہب شیعہ پنجگانہ نماز کے وقت کے بارے میں کس دلیل پر اعتماد کرتا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل سنت کے نزدیک وقت عشاء کے داخل ہوتے ہی نماز مغرب قضا ہو جاتی ہے، ظہر و عصر کی نماز کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔ اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ جب وقت عشاء داخل ہو جاتا ہے اور پیش نماز، نماز عشاء پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو ماموم اس کے ساتھ مغرب کی نماز نہیں پڑھ سکتا، تاکہ اس طرح وہ مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں پڑھ لے؟ ج: شیعہ کی دلیل، آیات قرآن اور سنت نبویہ کا اطلاق ہے، اس کے علاوہ بہت سی روایات موجود ہیں جو خاص طور سے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور اہل سنت کے یہاں بھی ایسی احادیث موجود ہیں جو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کر کے ادا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ س 346: اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا آخری وقت مغرب ہے اور نماز ظہر کا آخری وقت مغرب سے اتنا پہلے تک ہے کہ جتنی دیر میں صرف نماز عصر پڑھی جا سکے۔ یہاں میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب سے کیا مراد ہے؟ کیا غروب آفتاب مراد ہے یا اس شہر کے افق کے اعتبار سے اذان مغرب کا شروع ہونا ہے؟ ج: نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے ۔ س 347: غروب آفتاب اور اذان مغرب میں کتنے منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے؟ ج: بظاہر یہ فاصلہ موسموں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ س 348: میں تقریباً گیارہ بجے رات ڈیوٹی سے گھر پلٹتا ہوں اورکام کی خاطر رجوع کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ڈیوٹی کے دوران نمازمغربین نہیں پڑھ سکتا، تو کیا گیارہ بجے رات کے بعد نماز مغربین کا پڑھنا صحیح ہے؟ ج: کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نصف شب نہ گزرنے پائے لیکن کوشش کیجئے گیارہ بجے رات سے زیادہ تاخیر نہ ہو بلکہ جہاں تک ممکن ہو نماز کو اول وقت میں پڑھیے۔ س 349: نماز کی کتنی مقدار اگر وقت ادا میں بجالائی جائے تو نیت اداصحیح ہے ؟ اور اگر شک ہو کہ اتنی مقدار وقت میں پڑھی گئی ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز کی ایک رکعت کا وقت کے اندر انجام پانا نماز کے ادا شمار ہونے کے لئے کافی ہے، اور اگر شک ہو کہ کم از کم ایک رکعت کے لئے وقت کافی ہے یا نہیں، تو پھر ما فی الذمہ کی نیت سے نماز پڑھے ۔ س 350: مختلف ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف سے بڑے شہروں اور ممالک کے دار الحکومت کے لئے نماز کے شرعی اوقات کے نقشے شائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان نقشوں پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ج: معیار یہ ہے کہ انسان کو اطمینان حاصل ہو جائے اور اگر اسے ان نقشوں کے واقع کے مطابق ہونے کا اطمینان نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ احتیاط کرے، اور انتظار کرے یہاں تک کہ اسے وقت شرعی کے داخل ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔ س 351: صبح صادق اور صبح کاذب کے مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اس سلسلہ میں نمازی کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: نماز اور روزے کے وقت کا شرعی معیار، صبح صادق ہے اور اسکی تشخیص خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ س 352: دو شفٹ والے ایک ہائی سکول کے ذمہ دار حضرات ظہرین کی جماعت کو دو بجے ظہر کے بعد اور عصر کی کلاسیں شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے منعقد کراتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی شفٹ کے دروس اذان ظہر سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور ظہر شرعی تک طلباء کو ٹھہرانا مشکل ہے، لہذا اول وقت میں نماز ادا کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر نماز کے اول وقت میں طلاب حاضر نہیں ہیں تو نماز گزاروں کی خاطر نماز جماعت کی تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ س 353: کیا اذان ظہر کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا اور وقت نماز عصر کے شروع ہونے کے بعد نماز عصر کا پڑھنا واجب ہے؟ اور اسی طرح کیا نماز مغرب و عشاء کو بھی اپنے اپنے وقت میں پڑھنا واجب ہے؟ ج: دونمازوں کے وقت کے داخل ہونے کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھے یا ہر ایک کو اسکے فضیلت کے وقت میں پڑھے۔ س 354: کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح کے لئے ١٥ منٹ سے ٢٠ منٹ تک کا انتظار کرنا واجب ہے؟جبکہ آجکل گھڑیوں کی فراوانی کی وجہ سے طلوع فجر کا یقین حاصل کرنا ممکن ہے؟ ج: طلوع فجر جو نماز صبح اورروزہ شروع ہونے کا وقت ہے کے سلسلے میں چاندنی راتوں یا اندھیری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ اس سلسلہ میں احتیاط اچھا ہے۔ س 355: صوبوں کے درمیان افق کے اختلاف کی وجہ سے اوقات شرعیہ کی مقدار میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے کیا وہ یومیہ واجب نمازوں کے تین اوقات میں ایک جیسا ہے؟ مثال کے طور پر اگر دو صوبوں میں ظہر کے وقت میں ٢٥ منٹ کا اختلاف ہو تو کیا دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی اور اسی مقدار میں اختلاف ہو گا یا صبح، مغرب اور عشاء میں یہ مختلف ہو گا؟ ج: فقط طلوع فجر، زوال آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت کے فرق کی مقدار کے ایک جیسا ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات میں بھی اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہو، بلکہ مختلف شہروں میں غالباً تینوں اوقات کا اختلاف متفاوت ہوتا ہے۔ س 356: اہل سنت نماز مغرب کو مغرب شرعی سے پہلے پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ایام حج و غیرہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اسی نماز پر اکتفا کر لینا جائز ہے؟ ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نماز وقت سے پہلے ہوتی ہے، اور ان کی جماعت میں شرکت کرنے اور ان کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کافی ہے، لیکن وقت نماز کا درک کرنا ضروری ہے، مگر یہ کہ وقت بھی تقیہ کے موارد میں سے ہو۔ س 357: گرمیوں میں ڈنمارک اور ناروے میں صبح کے چار بجے سورج نکلتا ہے اور ۲۳ بجے غروب کرتا ہے لذا مشرقی سرخی کے زوال اور طلوع و غروب کی رعایت کرتے ہوئے تقریباً ۲۲ گھنٹے کا روزہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز پنجگانہ اور روزے کے اوقات کے لحاظ سے انسان کے لئے اسی جگہ کے افق کا خیال رکھنا واجب ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہے اور اگر دن کے طولانی ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا غیر مقدور یا حرج پر مشتمل ہو تو اس وقت ادائے روزہ ساقط ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔ س 358: سورج کی شعاعیں تقریباً سات منٹ میں زمین تک پہنچتی ہیں تو کیا نماز صبح کے وقت کے ختم ہونے کا معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کی شعاعوں کا زمین تک پہنچنا؟ ج: طلوع آفتاب کا معیار اس کا نمازگزار کے افق میں دیکھا جانا ہے۔ س 359: ذرائع ابلاغ ہر روز، آنے والے دن کے شرعی اوقات کا اعلان کرتے ہیں، کیا ان پر اعتماد کرنا جائز ہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے والی اذان کو وقت کے داخل ہوجانے کا معیار بنایا جا سکتا ہے؟ ج: اگر اس سے مکلف کو وقت کے داخل ہوجانے کا اطمینان حاصل ہوجائے تو اعتماد کرسکتاہے ۔ س 360: کیا اذان کے شروع ہوتے ہی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے یا اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز شروع کی جائے اور اسی طرح کیا اذان کے شروع ہوتے ہی روزہ دار کیلئے افطار کرنا جائز ہے یا یہ کہ اس پر اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرنا واجب ہے؟ ج: اگر اس بات کا یقین ہو کہ وقت داخل ہو جانے کے بعد اذان شروع ہوئی ہے تو آخر اذان تک انتظار کرنا واجب نہیں ہے۔ س 361: کیا اس شخص کی نماز صحیح ہے جس نے دوسری نماز کوپہلی نماز پر مقدم کر دیا ہو، جیسے عشاء کو مغرب پر مقدم کیا ہو۔ ج: اگر غلطی یا غفلت کی وجہ سے نماز کو مقدم کیا ہو اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو تو وہ نماز باطل ہے۔ س 362: ماہ رمضان مبارک کی آمد آمد ہے؛ شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کے وقت کی حتمی تشخیص ممکن نہ ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے نماز صبح اور اختتام سحری کے کے بارے میں اپنی رائے بیان فرمائیے۔ ج: ضروری ہے کہ مومنین روزے اور نماز صبح کے وقت میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے ریڈیو اور ٹی وی سے اذان صبح شروع ہوتے ہی کھانا چھوڑ دیں اور اذان کے شروع ہونے سے تقریباً دس منٹ کے بعد نماز صبح ادا کریں۔ س363: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟ نیز نماز عشاء اور منیٰ میں رات بسر کرنے ( بیتوتہ ) کیلئے شرعی طور پر آدھی رات کو نسا وقت ہے ؟ ج: نماز عصر کا آخری وقت غروب آفتاب تک ہے اور آدھی رات کو معلوم کرنے کیلئے اول غروب سے طلوع فجر تک رات شمار کریں۔ س364: جوشخص نمازعصر کے اثناء میں متوجہ ہے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو اسکی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اگر اس خیال سے نماز عصر میں مشغول ہو کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور پھر نماز کے دوران متوجہ ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی اور ہو بھی ظہر و عصرکے مشترکہ وقت میں تو فوراً اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا لے اور نماز کو مکمل کرے اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے لیکن اگر ایسا نماز ظہر کے مخصوص وقت(1) میں ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا لے اور نماز کو مکمل کرے اور اس کے بعد ظہر و عصر کی دونوں نمازوں کو ترتیب کے ساتھ انجام دے۔ نماز مغرب و عشاء کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، البتہ اس صورت میں کہ جب چوتھی رکعت کے رکوع میں داخل نہ ہوا ہو۔ تاہم اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو احتیاط کی بناپر نماز کو پورا کرے اور اس کے بعد مغرب اور عشاء کو ترتیب کے ساتھ ادا کرے۔ 1 ۔ ظہر کا مخصوص وقت اول ظہر سے لے کر اتنا وقت ہے کہ جس میں نماز پڑھی جاسکے یعنی جس میں غیر مسافر چار رکعتیں اور مسافر دورکعتیں پڑھ سکے ۔ قبلہ کے احکام قبلہ کے احکام پرنٹ ; PDF قبلہ کے احکام س 365: درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔ ١ ۔ بعض فقہی کتابوں میں ذکر ہے کہ خرداد کی ساتویں اور تیر کی پچیسویں تاریخ بمطابق ۲۸مئی اور۱۶ جولائی کو سورج عمودی طور پر خانہ کعبہ کے اوپر ہوتا ہے، تو کیا اس صورت میں جس وقت مکہ میں اذان ہوتی ہے اس وقت شاخص نصب کر کے جہت قبلہ کو معین کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر مسجدوں کے محراب کے قبلہ کی جہت، شاخص کے سایہ سے مختلف ہو تو کس کو صحیح سمجھا جائے گا؟ ٢۔ کیا قبلہ نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے؟ ج: شاخص اور قبلہ نما کے ذریعہ اگر مکلف کو جہت قبلہ کا اطمینان حاصل ہو جائے تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے،بصورت دیگر جس طرف زیادہ گمان ہوجائے، اس طرف رخ کرکے نماز پڑھے مثلاً مسجد کے محراب سے گمان حاصل ہوجائے۔ س 366: جب جنگ میں شدید لڑائی جہت قبلہ کی تعیین سے مانع ہو تو کیا کسی بھی طرف رخ کر کے نماز کا پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اگر کسی طرف کا گمان نہ ہو اور وقت بھی ہو تو بنا بر احتیاط چاروں طرف نماز پڑھی جائے، ورنہ جتنا وقت ہو اس کے مطابق جس سمت میں قبلہ کا احتمال ہے اسکی طرف نماز پڑھے۔ س367: اگر کرۂ زمین کی دوسری سمت میں خانہ کعبہ کابالکل مقابل والا نقطہ دریافت ہو جائے، اس طرح کہ اگر ایک خط مستقیم زمین کعبہ کے وسط سے کرۂ ارض کو چیرتا ہوا مرکز زمین سے گزرے تو دوسری طرف اس نقطہ سے نکل جائے تو اس نقطہ پر قبلہ رخ کیسے کھڑے ہوں گے؟ ج: قبلہ رخ ہونے کا معیار یہ ہے کہ کرۂ زمین کی سطح سے خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرے، یعنی جو شخص روئے زمین پر ہے، وہ اس کعبہ کی طرف رخ کرے جو مکہ مکرمہ میں سطح زمین پر بنا ہوا ہے اس بنا پر اگر وہ زمین کے کسی ایسے نقطے پر کھڑا ہو جہاں سے چاروں سمتوں میں کھینچے جانے والے خطوط مساوی مسافت کے ساتھ کعبہ تک پہنچتے ہوں تو اسے اختیار ہے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے، لیکن اگرکسی سمت کے خط کی مسافت اتنی کمترہوکہ اسکی بناپر عرفی لحاظ سے قبلہ رخ ہونا مختلف ہوجائے تو انسان پر واجب ہے کہ تھوڑے فاصلے والی سمت کا انتخاب کرے۔ س 368: جس جگہ ہم جہت قبلہ کو نہ جانتے ہوں اور کسی جہت کا گمان بھی نہ ہو تو ایسی جگہ پر ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی کس سمت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ؟ ج: بنابر احتیاط چاروں طرف رخ کر کے نمازپڑھیں اور اگر چار نمازوں کا وقت نہیں ہو تو جتنی نمازوں کا وقت ہے اتنی ہی پڑھیں۔ س369: قطب شمالی اور قطب جنوبی میں قبلہ کی سمت کو کس طرح معین کیا جائے گا؟ اور کس طرح نماز پڑھی جائے گی؟ ج: قطب شمالی و جنوبی میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا معیار نماز گزار کی جگہ سے کعبہ تک روئے زمین کے اوپر سب سے چھوٹا خط ہے اور اس خط کے معین ہو جانے کے بعد اسی رخ پر نماز پڑھی جائے گی۔ نماز کی جگہ کے احکام نماز کی جگہ کے احکام پرنٹ ; PDF نماز کی جگہ کے احکام س 370: وہ مقامات جن کو ظالم حکومتوں نے غصب کر لیا ہے، کیا وہاں بیٹھنا، نماز پڑھنا اور گزرنا جائز ہے؟ ج: اگر غصبی ہونے کا علم ہو تو ان مقامات کا حکم، غصبی چیزوں جیسا ہے۔ س 371: اس زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو پہلے وقف تھی اور پھر حکومت نے اس پر تصرف کر کے اس میں اسکول بنا دیا ہو؟ ج: اگر اس بات کاقابل اعتنا احتمال ہو کہ اس میں مذکورہ تصرف شرعی لحاظ سے جائز تھا تو اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ س 372: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ س 373: اگر کوئی شخص ایک مدت تک غیر مخمس جا نماز یا لباس میں نماز پڑھے تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اب تک اس میں جو نمازیں پڑھی ہیں، وہ صحیح ہیں۔ س 374: کیا یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں مردوں کا عورتوں سے آگے ہونا واجب ہے؟ ج: احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو اور اس صورت میں اگر مرد اور عورت عرض میں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوں یا عورت آگے ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔ س375: مسجدوں میں امام خمینی اور شہدائے انقلاب کی تصویریں لگانے کا کیا حکم ہے، جبکہ امام خمینی مساجد میں اپنی تصویروں کے لگانے پر راضی نہ تھے، اور اس کی کراہت کے بارے میں بھی کئی مطالب موجود ہیں؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر یہ تصویریں مسجد کے هال کے اندر ہوں تو بہتر ہے کہ نماز کے وقت انہیں کسی طریقے سے ڈھانپ دیا جائے۔ س 376: ایک شخص سرکاری مکان میں رہتا ہے، اب اس میں اس کے رہنے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور مکان خالی کرنے کیلئے اس کے پاس نوٹس بھیجا گیا ہے، لہذا خالی کرنے کی مقررہ تاریخ کے بعد اس مکان میں اس کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مقررہ تاریخ کے بعد متعلقہ حکام کی طرف سے اس مکان میں رہنے کی اجازت نہ ہو تو اس کے لئے اس میں تصرف کرنا غصب کے حکم میں ہے۔ س 377: جس جائے نماز پر تصویریں اور سجدہ گاہ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہوں، کیا ان پر نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ ج: بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس سے شیعوں پر تہمت لگانے والوں کے لئے بہانہ فراہم ہوتا ہو تو ایسی چیزیں بنانا اور ان پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر اس سے توجہ ہٹ جائے اور نماز میں حضور قلب نہ رہے تو مکروہ ہے۔ س 378: اگر نماز پڑھنے کی جگہ پاک نہ ہو، لیکن سجدہ کی جگہ پاک ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟ ج: اگر اس جگہ کی نجاست لباس یا بدن میں سرایت نہ کرے اور سجدہ کی جگہ پاک ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س379: ہمارے دفتر کی موجودہ عمارت پرانے قبرستان پر بنائی گئی ہے۔ تقریباً چالیس سال سے اس میں مردے دفن کرنا چھوڑ دیا گیا تھا اور تیس سال پہلے اس عمارت کی بنیاد پڑی ہے۔ اب پوری زمین پر دفتر کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور اس وقت قبرستان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ کیا ایسے دفتر میں اس کے ملازمین کی نمازیں شرعی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں؟ ج: اس میں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ شرعی طریقے سے ثابت ہو جائے کہ یہ جگہ جہاں مذکورہ عمارت بنائی گئی ہے، میت دفن کرنے کے لئے وقف کی گئی تھی اور اس میں غیر شرعی طریقے سے تصرف کر کے عمارت بنائی گئی ہے۔ س 380: مؤمن نوجوانوں نے امر بالمعروف کی خاطر ہفتے میں ایک یا دو دن سیر گا ہوں میں نماز قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے، لیکن بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ سیر گاہوں کی ملکیت واضح نہیں ہے، لہذا ان جگہوں پر نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: موجودہ سیر گاہوں و غیرہ کو نماز قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غصب کے فقط احتمال کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔ س 381: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ س 382: ہمارے شہر میں دو ملی ہوئی مسجدیں تھیں جن کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، کچھ دنوں پہلے بعض مؤمنین نے دونوں مسجدوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے درمیانی دیوار کے اچھے خاصے حصے کو گرا دیا ہے، یہ اقدام بعض لوگوں کے لئے شک و شبہ کا سبب بن گیا ہے اور اب تک وہ اس بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ فرمائیں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ ج: دونوں مسجدوں کے درمیان کی دیوار کو گرانے سے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ س 383: شاہراہوں پر ہوٹلوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی بھی جگہ ہوتی ہے، پس اگر کوئی شخص اس ہوٹل میں کھانا نہ کھائے تو کیا اس کیلئے وہاں نماز پڑھنا جائز ہے یا اجازت لینا واجب ہے؟ ج: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کی جگہ ہوٹل والے کی ملکیت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے نماز پڑھنے کیلئے ہے جو اس ہوٹل میں کھانا کھائیں، تو اجازت لینا واجب ہے۔ س 384: جو شخص غصبی زمین میں نماز پڑھے، لیکن اس کی نماز، جائے نماز یا تخت پر ہو تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا صحیح؟ ج: غصبی زمین پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہے خواہ وہ جائے نماز یا تخت پر ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔ س385: وہ ادارے اور کمپنیاں جو آجکل حکومت کے اختیار میں ہیں ان میں بعض افراد ایسے ہیں جو یہاں پر قائم ہونے والی نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے مالکوں سے شرعی عدالت کے فیصلہ پر ضبط کی گئی ہیں۔ براہ مہربانی اس سلسلے میں آپ اپنے فتوے سے مطلع فرمائیں؟ ج: اگر یہ احتمال ہو کہ ضبط کرنے کا حکم ایسے قاضی نے دیا تھا جس کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس نے شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تو شرعاً اس کا عمل صحیح تھا، لہذا ایسی صورت میں اس جگہ میں تصرف کرنا جائز ہے اور اس پر غصب کا حکم نہیں لگے گا۔ س 386: اگر امام بارگاہ کے پڑوس میں مسجد ہو تو کیا امام بارگاہ میں نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے؟ اور کیا دونوں جگہوں کا ثواب مساوی ہے؟ ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے سے زیادہ ہے لیکن امام بارگاہ یا دوسری جگہوں پر نماز جماعت قائم کرنے میں بذات خود شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔ س 387: جس جگہ حرام موسیقی بج رہی ہو کیا وہاں نماز پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اگر وہاں نماز پڑھنا حرام موسیقی سننے کا سبب بنے تو اس جگہ ٹھہرنا جائز نہیں ہے، لیکن نماز صحیح ہے اور اگر موسیقی کی آواز نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے تو اس جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ س 388: ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جن کو کشتی کے ذریعہ خاص ڈیوٹی پر بھیجا جاتا ہے اور سفر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور اگر وہ اسی وقت نماز نہ پڑھیں تو پھر وہ وقت کے اندر نماز نہیں پڑھ سکیں گے؟ ج: مذکورہ صورت میں ان پر واجب ہے کہ جس طرح ممکن ہو نماز پڑھیں اگر چہ کشتی میں ہی۔ مسجد کے احکام مسجد کے احکام پرنٹ ; PDF مسجد کے احکام س 389: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے، کیا اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے شہر کی جامع مسجد جانے میں کوئی اشکال ہے؟ ج: اگر اپنے محلہ کی مسجد چھوڑنا دوسری مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کے لئے ہو خصوصاً شہر کی جامع مسجد میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 390: اس مسجدمیں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جس کے بانی یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہم نے اپنے لئے اور اپنے قبیلہ والوں کے لئے بنائی ہے؟ ج: مسجد جب مسجد کے عنوان سے تعمیر کی جائے تو قوم ، قبیلہ اور اشخاص سے مخصوص نہیں رہتی بلکہ اس سے تمام مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں۔ س391: عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ ج: مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ س 392: دور حاضر میں مسجد الحرام اور صفا و مروہ کی سعی والی جگہ کے درمیان تقریباً آدھا میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی دیوار ہے یہ مسجد اور سعی والی جگہ کے درمیان مشترک دیوار ہے ، کیا وہ عورتیں اس دیوار پر بیٹھ سکتی ہیں جن کے لئے ایام حیض کے دوران مسجد الحرام میں داخل ہونا جائز نہیں ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر جب یقین ہوجائے کہ وہ مسجد کا جز ہے ۔ س 393: کیا محلہ کی مسجد میں ورزش کرنا اور سونا جائز ہے ؟ اور اس سلسلہ میں دوسری مساجد کا کیا حکم ہے؟ ج: مسجد ورزش گاہ نہیں ہے اور جو کام مسجد کے شایان شان نہیں ہیں انہیں مسجد میں انجام دینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسجد میں سونا مکروہ ہے ۔ س 394: کیا مسجد کے ہال سے جوانوں کی فکری ، ثقافتی اور عسکری ( عسکری تعلیم کے ذریعے ) ارتقاء کیلئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کاموں کے مراکز کم ہیں انہیں مسجد کے ایوان میں انجام دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ ج: بعض امور مثلاً تعلیمی کلاسیں رکھنا اگر مسجد کی شان کے منافی نہ ہو اور نماز جماعت اور نمازیوں کے لئے کسی مزاحمت کا باعث نہ بنے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 395: بعض علاقوں ، خصوصاً دیہاتوں میں لوگ مساجد میں شادی کا جشن منعقد کرتے ہیں یعنی وہ رقص اور گانا تو گھروں میں کرتے ہیں لیکن دوپہر یا شام کا کھانا مسجد میں کھلاتے ہیں ۔ شریعت کے لحاظ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ ج: مہانوں کو مسجد میں کھانا کھلانے میں فی نفسہ کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س396: پرائیوٹ کوآپریٹیو کمپنیاں رہائش کے لئے فلیٹ اور کالونیاں بناتی ہیں ۔ شروع میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ ان فلیٹوں میں عمومی مقامات جیسے مسجد و غیرہ ہوں گے لیکن اب جب گھر اس کمپنی کے حصص کے مالکان کو دے دیئے گئے ہیں کیا ان میں سے بعض کے لئے جائز ہے کہ وہ اس معاہدہ کو توڑدیں اور یہ کہہ دیں کہ ہم مسجد کی تعمیر کے لئے راضی نہیں ہیں ؟ ج: اگر کمپنی اپنے تمام ممبران کی موافقت سے مسجد کی تعمیر کا اقدام کرے اور مسجد تیار ہوجانے کے بعد وقف ہوجائے تو اپنی پہلی رائے سے بعض ممبران کے پھرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ لیکن اگر مسجد کے شرعی طور پر وقف ہونے سے قبل بعض ممبران اپنی سابقہ موافقت سے پھر جائیں تو ان کے اموال کے ساتھ تمام ممبران کی مشترکہ زمین میں ان کی رضامندی کے بغیر مسجد تعمیر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کمپنی کے تمام ممبران سے عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط کرلی گئی ہو کہ مشترکہ زمین کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لئے مخصوص کیا جائے گا اور تمام ممبران نے اس شرط کو قبول کیا ہو اس صورت میں انہیں اپنی رائے سے پھر نے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ان کے پھرنے سے کوئی اثر پڑسکتا ہے ۔ س 397: غیر اسلامی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مسجد میں ابتدائی اور مڈل کلاسوں کے تیس لڑکوں کو گروہ ترنم کی شکل میں جمع کیا ہے اس گروہ کے افراد کو عمرو فکری استعداد کے مطابق قرآن کریم ،احکام اور اسلامی اخلاق کا درس دیا جاتا ہے ۔ اس کام کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ لوگ آلہ موسیقی جسے "ارگن" کہا جاتا ہے ، استعمال کریں تو اس کا کیاحکم ہے ؟ اور شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں اس کی مشق کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: مسجد میں قرآن کریم ، احکام اور اسلامی اخلاق کی تعلیم دینے اورمذہبی و انقلابی ترانوں کی مشق کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن بہر حال مسجد کے شان و مقام اور تقدس کی رعایت کرنا واجب ہے اور مسجد کی شان اور مقام سے منافات رکھنے والے کاموں سے پرہیز کیا جائے اور نمازیوں کے لئے مزاحمت پیدا کرنا جائزنہیں ہے ۔ س398: کیا مسجد میں ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کے لئے شرکت کرتے ہیں ، ایسی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج ہے جن کو ایران کی وزارت ثقافت نے جاری کیا ہو؟ ج: مسجد کو فلم دکھانے کی جگہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن ضرورت کے وقت اور مسجد کے پیش نماز کی نگرانی میں مفید اور سبق آموزمذہبی اور انقلابی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 399: کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت کے موقع پر مسجد سے فرح بخش موسیقی کے نشر کرنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ ج: واضح رہے کہ مسجد ایک خاص شرعی مقام رکھتی ہے،لذا اس میں موسیقی نشر کرنا اگر اس کی حرمت اور احترام کے منافی ہو تو حرام ہے،اگر چہ حلال موسیقی ہی کیوں نہ ہو۔ س 400: مساجد کے لاؤڈاسپیکر ، جس کی آواز مسجد کے باہر سنی جاتی ہے، کا استعمال کب جائز ہے؟ اور اذان سے قبل اس پر تلاوت اور انقلابی ترانے نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: جن اوقات میں محلہ والوں اور ہمسایوں کے لئے تکلیف و اذیت کا سبب نہ ہو ان میں اذان سے قبل چند منٹ تلاوت قرآن نشر کرنے میں اشکال نہیں ہے۔ س 401: جامع مسجد کی تعریف کیا ہے؟ ج: وہ مسجد جو شہر میں تمام اہل شہر کے اجتماع کے لئے بنائی جاتی ہے اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی ۔ س 402: تیس سال سے ایک مسجد کا چھت والا حصہ ویران پڑا تھا اس میں نماز نہیں ہوتی تھی اور وہ کھنڈر بن چکا تھا ، اس کا ایک حصہ سٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے رضا کاروں نے کہ جو تقریبا پندرہ سال سے اس چھت والے حصے میں مستقر ہیں اس میں کچھ تعمیراتی کام کیا ہے کیونکہ اسکی حالت بہت ہی غیر مناسب تھی اور اسکی چھت گرنے کے قریب تھی اور چونکہ یہ لوگ مسجد کے شرعی احکام سے ناواقف تھے اور جو لوگ جانتے تھے انہوں نے بھی ان کی راہنمائی نہیں کی ۔ لہٰذا انہوں نے چھت والے حصے میں چند کمرے تعمیر کرائے کہ جن پر خطیر رقم خرچ ہوئی اب تعمیر کا کام اختتام پر ہے۔ براہ مہربانی درج ذیل موارد میں حکم شرعی سے مطلع فرمائیں: ١۔ فرض کیجئے اس کام کے بانی اور اس پر نگران کمیٹی کے اراکین مسئلہ سے ناواقف تھے تو کیا یہ لوگ بیت المال سے خرچ کئے جانے والی رقم کے ضامن ہیں ؟ اور وہ گناہگار ہیں؟ ٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے ۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ جب تک مسجد کو اس حصہ کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں نماز قائم نہیں ہوتی ان کمروں سے مسجد کے شرعی احکام و حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآن و احکام شریعت کی تعلیم اور مسجد کے دیگر امور کے لئے استفادہ کیا جائے یا ان کمروں کو فوراً گرادینا واجب ہے؟ ج: مسجد کے چھت والے حصے میں بنے ہوئے کمروں کو منہدم کر کے اس کو سابقہ حالت پر لوٹا نا واجب ہے اور خرچ شدہ رقم کے بارے میں اگر افراط و تفریط نہ ہوئی ہو اور جان بوجھ کر اور کوتا ہی کرتے ہوئے ایسا نہ کیا گیا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کا کوئی ضامن ہو اور مسجد کے چھت والے حصے میں قرائت قرآن ، احکام شرعی ، اسلامی معارف کی تعلیم اور دوسرے دینی و مذہبی پروگرام منعقد کرنے میں اگر نماز گزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو اورامام جماعت کی نگرانی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور امام جماعت ، رضاکاروں اور مسجد کے دوسرے ذمہ دار حضرات کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تا کہ مسجد میں رضا کاروں کا وجود بھی مستمر رہے اور مسجد کے عبادی فرائض جیسے نماز و غیرہ میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ س 403: ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے میں متعدد مساجد آتی ہیں۔ منصوبے کے اعتبار سے بعض مسجدیں پوری منہدم ہوتی ہیں اور بعض کا کچھ حصہ گرایا جائے گا تا کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں آسانی ہو براہ مہربانی اس سلسلے میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟ ج: مسجد یا اس کے کسی حصہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے مگر ایسی مصلحت کی بناء پر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہ ہو ۔ س 404: کیا مساجد کے وضو کے لئے مخصوص پانی کو مختصر مقدار میں اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے مثلا دوکاندار پینے، چائے بنانے یا موٹر گاڑی میں ڈالنے کے لئے اس سے استفادہ کریں واضح رہے کہ اس مسجد کا واقف کوئی ایک شخص نہیں ہے جو اس سے منع کرے؟ ج: اگر معلوم نہ ہو کہ یہ پانی صرف نماز گزاروں کے وضو کے لئے وقف ہے اور اس محلہ کے عرف میں یہ رائج ہو کہ اس کے ہمسائے اور راہ گیر اس کے پانی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔ س 405: قبرستان کے پاس ایک مسجد ہے اور جب بعض مومنین قبور کی زیارت کے لئے آتے ہیں تو وہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر پانی چھڑکنے کے لئے اس مسجد سے پانی لیتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف ہے یا عمومی استفادہ کیلئے ہے اور بالفرض اگر یہ مسجد کے لئے وقف نہ ہو تو معلوم نہیں ہے کہ یہ وضو اور طہارت کے ساتھ مخصوص ہے یا نہیں ۔ تو کیا اسے قبر پر چھڑکنا جائز ہے؟ ج: ان قبور پر پانی چھڑکنے کیلئے مسجد کے پانی سے استفادہ کرنا کہ جو اس سے باہر ہیں اگر لوگوں میں رائج ہو اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور اس بات پر کوئی دلیل نہ ہو کہ پانی صرف وضو اور طہارت کے لئے وقف ہے تو اس استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 406: اگر مسجد میں تعمیراتی کام کی ضرورت ہو تو کیا حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ضروری ہے؟ ج: اگر مسجد کی تعمیر اہل خیر افراد کے مال سے کرنا ہو تو اس میں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ س 407: کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے محلہ کی اس مسجد میں دفن کیا جائے :جس کے لئے میں نے بہت کوششیں کی تھیں کیونکہ میں چاہتا ہوں مجھے اس مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں دفن کیا جائے؟ ج: اگر صیغۂ وقف جاری کرتے وقت مسجد میں میت دفن کرنے کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں آپ کی وصیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ س 408: ایک مسجد تقریباً بیس سال پہلے بنائی گئی ہے اور اسے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام مبارک سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مسجد کا نام صیغہ ٔ وقف میں ذکر کیا گیا ہے یا نہیں تو مسجد کا نام مسجد صاحب زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بجائے بدل کر جامع مسجد رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف مسجد کا نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 409: جن مساجد میں مومنین کے عطیوں اور مساجد کی خاص نذور سے بجلی اور ائرکنڈیشننگ کے سسٹم کا انتظام کیا جا تا ہے جب محلہ والوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ان میں اس کے فاتحہ کی مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مجلس میں مسجد کی بجلی اور ائرکنڈیشنر و غیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجلس کرنے والے اس کا پیسہ ادا نہیں کرتے شرعی نقطہ نظر سے یہ جائز ہے یا نہیں؟ ج: مسجد کے وسائل سے فاتحہ کی مجلس و غیرہ میں استفادہ کرنا وقف و نذر کی کیفیت پر موقوف ہے۔ س 410: گاؤں میں ایک نئی مسجد ہے جو پرانی مسجد کی جگہ بنائی گئی ہے موجودہ مسجد کے ایک کنارے پرکہ جس کی زمین پرانی مسجد کا جزہے ، مسئلہ سے نا واقفیت کی بنا پر چائے و غیرہ بنانے کے لئے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا ہے اور اسی طرح مسجد کے نیم چھت جو کہ مسجد کے ہال کے اندر ہے پر ایک لائبریری بنائی گئی ہے، براہ مہربانی اس سلسلہ میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟ ج: سابق مسجد کی جگہ پر چائے خانہ بنانا صحیح نہیں ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد کی حالت میں بدلنا واجب ہے اور مسجد کے ہال کے اندر کی نیم چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے اور اس پر مسجد کے تمام شرعی احکام و اثرات مترتّب ہوں گے لیکن اس میں کتابوں کی الماریاں نصب کرنا اور مطالعہ کے لئے وہاں جمع ہونے میں ، اگر نمازگزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 411: اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک گاؤں میں ایک مسجد گرنے والی ہے لیکن فی الحال اسے منہدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ راستہ میں رکاوٹ نہیں ہے کیا مکمل طور پر اس مسجد کو منہدم کرنا جائز ہے؟ اس مسجد کا کچھ اثاثہ اور پیسہ بھی ہے یہ چیزیں کس کو دی جائیں ؟ ج: مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور کلی طور پر مسجدکو گرانے سے وہ مسجد کے حکم کے خارج نہیں ہوگی ، اور مسجد کے اثاثہ و مال کو اگر اسکی خود اس مسجد کو ضرورت نہیں ہے تو استفادہ کے لئے دوسری مسجدوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ س 412: کیا مسجد کی عمارت میں کسی تصرف کے بغیر، مسجد کے ہال کے ایک گوشے میں میوزیم بنانے میں کوئی شرعی حرج ہے جیسا کہ آج کل مسجد کے اندر لائبریری بنادی جاتی ہے؟ ج: اگر مسجد کے ہال کے گوشہ میں لائبریری یا میوزیم بنانا مسجد کے ہال کے وقف کی کیفیت کے منافی یا مسجد کی عمارت میں تغیر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔ مذکورہ غرض کے لئے بہتر ہے کہ مسجد سے متصل کسی جگہ کا انتظام کیا جائے۔ س 413: ایک موقوفہ جگہ میں مسجد ، دینی مدرسہ اور پبلک لائبریری بنائی گئی ہے اور یہ سب اس وقت کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ سب بلدیہ کے توسیع والے نقشہ میں آرہے ہیں کہ جن کا انہدام بلدیہ کے لئے ضروری ہے ، ان کے انہدام کے لئے بلدیہ سے کیسے تعاون کیا جائے اور کیسے ان کا معاوضہ لیا جائے تا کہ اس کے عوض نئی اور اچھی عمارت بنائی جاسکے؟ ج: اگر بلدیہ اس کو منہدم کرنے اور معاوضہ دینے کے لئے اقدام کرے اور معاوضہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی ایسی اہم مصلحت کے بغیر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے موقوفہ مسجد و مدرسہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔ س 414: مسجد کی توسیع کے لئے اس کے صحن سے چند درختوں کو اکھاڑنا ضروری ہے ۔ کیا ان کو اکھاڑنا جائز ہے ، جبکہ مسجد کا صحن کا فی بڑا ہے اور اس میں اور بھی بہت سے درخت ہیں؟ ج: اگر درخت کاٹنے کو وقف میں تغیر و تبدیلی شمار نہ کیا جاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 415: اس زمین کا کیا حکم ہے جو مسجد کے چھت والے حصے کا جز تھی ، بعد میں بلدیہ کے توسیعی دائرے میں آنے کی وجہ سے مسجد کے اس حصہ کو مجبوراً منہدم کرکے سڑک میں تبدیل کردیا گیا؟ ج: اگر اس کی پہلی حالت کی طرف پلٹنے کا کوئی احتمال نہ ہو تو مسجد کے شرعی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ س 416: ایک مسجد منہدم ہوچکی ہے اور اسکے مسجد والے آثار محو ہوچکے ہیں یا اسکی جگہ کوئی اور عمارت بنادی گئی ہے اور اسکی تعمیر نو کی کوئی امید نہیں ہے مثلاً وہاں کی آبادی ویران ہوگئی ہے اور اس نے وہاں سے نقل مکانی کر لی ہے کیا اس ( مسجد والی) جگہ کو نجس کرنا حرام ہے؟اور اسے پاک کرنا واجب ہے؟ ج: سوال کے مذکورہ فرض میں اس جگہ کو نجس کرنا حرام نہیں؛ اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ اسے نجس نہ کیا جائے۔ س 417: میں عرصہ سے ایک مسجد میں نماز جماعت پڑھاتا ہوں ، اور مسجد کے وقف کی کیفیت کی مجھے اطلاع نہیں ہے، دوسری طرف مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں بھی مشکلات در پیش ہیں کیا مسجد کے سرداب کو مسجد کے شایان شان کسی کام کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے؟ ج: اگر سرداب پر مسجد کا عنوان صادق نہیں آتا ہے اور وہ اس کا ایسا جز بھی نہیں ہے جس کی مسجد کو ضرورت ہو اور اس کا وقف بھی وقف انتفاع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 418: مسجد کے پاس کوئی املاک نہیں ہیں که جن سے اس کے اخراجات پورے کئے جاسکیں اور مسجد کے ٹرسٹ نے اسکے چھت والے حصے کے نیچے مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ایک تہ خانہ کھود کراس میں ایک چھوٹی سی فیکٹری یا دوسرے عمومی مراکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ ج: فیکٹری وغیرہ کی تسیس کے لئے مسجد کی زمین کو کھودنا جائز نہیں ہے۔ س 419: کیا مسلمانوں کی مساجد میں کفّار کا داخل ہونا مطلقاً جائز ہے خواہ وہ تاریخی آثار کو دیکھنے کیلئے ہی ہو؟ ج: مسجد حرام میں داخل ہو نا شرعاً ممنوع ہے اور دیگر مساجد میں داخل ہونا اگر مسجد کی ہتک اور بے حرمتی شمار کی جائے تو جائز نہیں ہے بلکہ دیگر مساجد میں بھی وہ کسی صورت میں داخل نہ ہوں۔ س 420: کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے جو کفّار کے توسط سے بنائی گئی ہو؟ ج: کوئی حرج نہیں ہے۔ س 421: اگر ایک کافر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر کے لئے پیسہ دے یا کسی اور طریقہ سے مدد کرے تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے۔ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 422: اگر ایک شخص رات میں مسجد میں آکر سوجائے اور اسے احتلام ہوجائے لیکن جب بیدارہو تو اس کیلئے مسجد سے نکلنا ممکن نہ ہو تو اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: اگر وہ مسجد سے نکلنے اور دوسری جگہ جانے پر قادر نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ فوراً تیمّم کرے تا کہ اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا جواز پیدا ہوجائے۔ دیگر مذہبی مقامات کے احکام دیگر مذہبی مقامات کے احکام پرنٹ ; PDF دیگر مذہبی مقامات کے احکام س 423: کیا شرعی نقطۂ نظر سے امام بارگاہ کو چند معین اشخاص کے نام رجسڑڈ کرانا جائز ہے ؟ ج: دینی مجالس برپا کرنے کے لئے موقوفہ امام بارگاہ کو کسی کی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ کرانا جائز نہیں ہے اور معین اشخاص کے نام وقف کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بعض معین افراد کے نام بطور وقف رجسٹرڈ کرانے کیلئے بہتر ہے کہ ان تمام افراد کی اجازت لی جائے جنہوں نے اس عمارت کے بنانے میں شرکت کی ہے۔ س 424: مسائل کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ مجنب شخص اور حائض عورت دونوں کے لئے ائمہ (علیہم السلام) کے حرم میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف قبہ کے نیچے کی جگہ حرم ہے یا اس سے ملحق ساری عمارت حرم ہے؟ ج: حرم سے مراد وہ جگہ ہے جو قبۂ مبارکہ کے نیچے ہے اور عرف عام میں جس کو حرم اور زیارت گاہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن ملحقہ عمارت اور ہال حرم کے حکم میں نہیں ہیں لہذا ان میں مجنب و حائض کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ان میں سے کسی کو مسجد بنادیا گیا ہو۔ س425: قدیم مسجد کے ساتھ ایک امام بارگاہ بنائی گئی ہے اور آج کل مسجد میں نمازگزاروں کیلئے گنجائش نہیں ہے، کیا مذکورہ امام بارگاہ کو مسجد میں شامل کر کے اس سے مسجد کے عنوان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟ ج: امام بارگاہ میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امام بارگاہ کو شرعاً صحیح طریقہ سے امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنا اور اسے ساتھ والی مسجد میں مسجد کے عنوان سے ضم کرنا جائز نہیں ہے۔ س 426: کیا اولاد ائمہ میں سے کسی کے مرقد کے لئے نذر میں آئے ہوئے سامان اور فرش کو محلہ کی جامع مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ج: اگر یہ چیزیں فرزند امام کے مرقد اور اس کے زائرین کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 427: جو عزا خانے حضرت ابوالفضل العباس اور دیگر شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں کیا وہ مسجد کے حکم میں ہیں؟ امید ہے کہ ان کے احکام بیان فرمائیں گے۔ ج: امام بارگاہیں اور عزاخانے مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔ نماز گزار کالباس نماز گزار کالباس پرنٹ ; PDF نماز گزار کالباس س 428: جس لباس کی نجاست کے بارے میں شک ہے کیا اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے؟ جس لباس کے نجس ہونے میں شک ہو اور حالت سابقہ نجاست نہ ہو تو وہ پاک ہے اور اس میں نماز صحیح ہے۔ س 429: میں نے جرمنی میں چمڑے کی ایک بیلٹ خریدی تھی کیا اس کو باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ اگر مجھے یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا مصنوعی کی اور یہ کہ یہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال کی ہے یا نہیں تو میری ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو میں نے اس میں پڑھی ہیں؟ ج: اگر یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا نہیں تو اسے باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر طبیعی کھال ثابت ہونے کے بعد یہ شک ہو کہ وہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال ہے یا نہیں؟ تو وہ نجس نہیں ہے لیکن اس میں نماز صحیح نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں جو اس حکم سے ناواقفیت کی بناپر پڑھی ہیں انکی قضا نہیں ہے۔ س 430: اگر نماز گزار کو یہ یقین ہو کہ اس کے لباس و بدن پر نجاست نہیں ہے اور وہ نماز بجالائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اگر نماز کے دوران میں کوئی نجاست لگ جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اسے اپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا بالکل علم نہ ہو اور نماز کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ یا قضاء واجب نہیں ہے لیکن اگر اثنائے نماز میں نجاست عارض ہوجائے[1] اور وہ نجاست کو بغیر ایسا فعل انجام دینے کے جو نماز کے منافی ہے، دور کر سکتا ہو یا نجس لباس کو اتار سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نجاست دور کرے یا نجس لباس اتار دے اور اپنی نماز تمام کرے لیکن اگر نماز کی حالت کو باقی رکھتے ہوئے نجاست دور نہیں کرسکتا اور وقت میں بھی گنجائش ہے تو نماز توڑ کر پاک لباس اور بدن کے ساتھ نماز بجالانا واجب ہے۔ س 431: اگر کوئی ایک عرصے تک ایسے حیوان کی کھال پہن کر نماز پڑھتا رہا کہ جس کا شرعی طریقے سے ذبح ہونا مشکوک تھا تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: جس حیوان کاذبح مشکوک ہو وہ گوشت کھانے کی حرمت اور اسکی کھال میں نماز کے عدم جواز کے لحاظ سے مردار کے حکم میں ہے لیکن نجس نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں اگر اس حکم سے ناواقفیت کی بنا پر پڑھی ہوں توصحیح ہیں۔ س 432: ایک عورت نماز کے درمیان متوجہ ہوتی ہے کہ اس کے کچھ بال نظر آ رہے ہیں اور فوراً چھپا لیتی ہے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے یا نہیں؟ ج: مذکورہ صورت میں چونکہ بلافاصلہ خود کو چھپایا ہے، دوبارہ پڑھنا واجب نہیں۔ س 433: ایک شخص پیشاب کے مقام کو مجبوراً کنکری ، لکڑی یا کسی اور چیز سے پاک کرتا ہے اور جب گھر لوٹتا ہے تو اسے پانی سے پاک کر لیتا ہے تو کیا نماز کے لئے اندرونی لباس ( انڈرویئر)کا بدلنا یا پاک کرنا بھی واجب ہے؟ ج: اگر لباس پیشاب کی رطوبت سے نجس نہ ہوا ہو تو اس کا پاک کرناواجب نہیں ہے۔ س 434: بیرون ملک سے جو بعض صنعتی مشینیں منگوائی جاتی ہیں وہ ان غیر ملکی ماہرین کے ذریعہ نصب کی جاتی ہیں جو اسلامی فقہ کے اعتبار سے کافر اور نجس ہیں اور یہ معلوم ہے کہ ان مشینوں کی فٹنگ گریس اور دوسرے ایسے مواد کے ذریعے انجام پاتی ہے کہ جسے ہاتھ کے ذریعے ڈالا جاتاہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ مشینیں پاک نہیں رہ سکتیں اور کام کے دوران ان مشینوں سے کاریگروں کا لباس اور بدن مس ہوتا ہے اور نماز کے وقت مکمل طور سے لباس و بدن کوپاک نہیں کرسکتے تو نماز کے سلسلے میں ان کا فریضہ کیا ہے؟ ج: اس احتمال کے پیش نظر کہ مشینوں کو فٹ کرنے والا کافر، اہل کتاب میں سے ہو کہ جنکے پاک ہونے کا حکم لگایا گیاہے یا کام کے وقت وہ دستانے پہنے ہوئے ہو ۔صرف اس بناء پر کہ مشینوں کو کافر نے نصب کیا ہے ان کے نجس ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر مشینوں کی نجاست اور کام کے دوران میں کاریگر کے بدن یا لباس کے سرایت کرنے والی رطوبت کے ساتھ ان مشینوں کے ساتھ مس ہونے کا یقین ہوجائے تو نماز کے لئے بدن کا پاک کرنا اور لباس کا پاک کرنا یا بدلنا واجب ہے۔ س 435: اگر نمازی خون سے نجس رومال یا اس جیسی کوئی نجس چیزا ٹھائے ہوئے ہو یا اسے جیب میں رکھے ہوئے ہو تو اس کی نماز صحیح ہے یا باطل ؟ ج: اگر رومال اتنا چھوٹا ہو جس سے شرم گاہ نہ چھپائی جاسکے تو اس کے نماز کے دوران ہمراہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 436: کیا اس کپڑے میں نماز صحیح ہے جو آج کل کے ایسے پرفیوم سے معطّر کیا گیا ہو جس میں الکحل پایا جاتا ہے؟ ج: جب تک مذکورہ پرفیوم کی نجاست کا علم نہ ہو اس سے معطر کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 437: حالت نماز میں عورت پر بدن کی کتنی مقدار کا چھپانا واجب ہے؟ کیا چھوٹی آستین والے لباس پہننے اور جوراب نہ پہننے میں کوئی حرج ہے؟ ج: عورتوں پر واجب ہے کہ وہ چہرے کی اتنی مقدار جس کا وضو میں دھونا واجب ہے اور ہاتھوں کو کلائی تک اور پاوں کو ٹخنوں کے جوڑ تک کا حصہ چھوڑ کر پورے بدن اور بالوں کو ایسے لباس کے ساتھ چھپائیں کہ جو مکمل طور پر بدن کو ڈھانپ لیتا ہے اور اگر کوئی نامحرم ہو تو پیروں کو بھی چھپائیں۔ س 438: کیا حالت نماز میں عورتوں پر پاؤں کے اوپر والے حصے کو چھپانا بھی واجب ہے یا نہیں؟ ج: اگر نامحرم نہ ہوتو پاوں کو ٹخنوں کے جوڑ تک چھپانا واجب نہیں۔ س439: کیا حجاب پہنتے وقت اورنماز میں ٹھوڑی کو مکمل طور پر چھپانا واجب ہے یا اس کے نچلے حصے ہی کو چھپانا کافی ہے اور کیا ٹھوڑی کا اس لئے چھپانا واجب ہے، کہ وہ چہرے کی اس مقدار کے چھپانے کا مقدمہ ہے جو شرعاً واجب ہے؟ ج: ٹھوڑی کا نچلا حصہ چھپانا واجب ہے نہ کہ ٹھوڑی کا چھپانا کیونکہ وہ چہرے کاجزء ہے۔ س 440: کیا ایسی نجس چیز جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے کے ساتھ نماز کے صحیح ہونے کا حکم صرف اس حالت سے مخصوص ہے جب انسان اس کے حکم یا موضوع کے سلسلے میں نسیان یا ناواقفیت کی بنا پر اس میں نماز پڑھ لے یا پھر یہ شبہۂ موضوعیہ اور شبہۂ حکمیہ دونوں کو شامل ہے؟ ج: یہ حکم نسیان یا جہل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایسی نجس چیز ،کہ جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے، میں علم کی صورت میں بھی نماز صحیح ہے ۔ س 441: کیا نمازی کے لباس پر بلّی کے بال یا اس کے لعاب دہن کا وجود نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے؟ ج: جی ہاں نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔ 1. ان صورتوں کے علاوہ جو فقہی کتابوں میں مثلا اسی سائٹ پر موجود نماز اور روزے کے رسالوں میں استثناء کیا گیا ہے. سونے چاندی کا استعمال سونے چاندی کا استعمال پرنٹ ; PDF سونے چاندی کا استعمال س442: مردوں کے بارے میں سونے کی انگوٹھی خصوصاً نماز میں پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ج: کسی حالت میں مرد کیلئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناپر اس میں اس کی نماز بھی باطل ہے۔ س443: مردوں کے لئے سفید سونے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟ ج: جسے سفید سونا کہا جاتاہے اگر یہ وہی زرد سونا ہو کہ جس میں کوئی مواد ملا کراسکے رنگ کو تبدیل کردیا گیا ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس میں سونے کی مقدار اتنی کم ہو کہ عرف عام میں اسے سونا نہ کہا جائے تو اشکال نہیں ہے اور پلاٹینم کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ س 444: کیا اس وقت بھی سونا پہننے میں کوئی شرعی اشکال ہے جب وہ زینت کے لئے نہ ہو اور دوسروں کو نظر نہ آئے؟ ج: مردوں کے لئے ہر صورت میں سونا پہننا حرام ہے چاہے وہ انگشتر ہو یا کوی دوسری چیز اور چاہے اسے زینت کے قصد سے نہ پہنا جائے یا دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جائے۔ س 445: مردوں کا تھوڑے سے وقت کے لئے سونا پہننا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیونکہ ہم بعض لوگوں کو یہ دعوی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم مدت کے لیے جیسے عقد کے وقت سونا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ ج: مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے، اور تھوڑے یا زیادہ وقت میں کوئی فرق نہیں ہے س 446: نماز گزارکے لباس کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اس حکم کے پیش نظر کہ مردوں کے لئے سونے سے مزین ہونا حرام ہے، درج ذیل دو سوالوں کے جواب بیان فرمائیں؟ ١۔ کیا سونے سے زینت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لئے مطلق طور پر سونے کا استعمال حرام ہے خواہ وہ ہڈی کے آپریشن اور دانت بنوانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟ ٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے شہر میں رواج ہے کہ نئے شادی شدہ جوان زرد سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں یہ چیز انکی زینت میں سے شمار نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس شخص کے لئے ازدواجی زندگی کے آغاز کی علامت سمجھی جاتی ہے، تو اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: ١) مردوں کے سونا پہننے کے حرام ہونے کا معیار زینت کا صادق آنا نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قصد سے سونا پہننا حرام ہے، چاہے وہ سونے کی انگوٹھی ہو یا ہار یا زنجیر و غیرہ ہو، لیکن زخم میں بھرنے اور دانت بنوانے میں مردوں کے لئے سونے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ٢) سونے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لئے ہر صورت میں حرام ہے۔ س 447: سونے کے ان زیورات کو بیچنے اور انہیں بنانے کا کیا حکم ہے جو مردوں سے مخصوص ہیں اور جنہیں عورتیں نہیں پہنتیں؟ سونے کے زیورات بنانا اگر صرف مردوں کے استعمال کے لئے ہو تو حرام ہے اور اسی طرح انہیں اس مقصد کے لئے خریدنا اور بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔ س 448: ہم بعض دعوتوں میں دیکھتے ہیں کہ مٹھائی چاندی کے ظروف میں پیش کی جاتی ہے، کیا اس عمل کو چاندی کے ظروف میں کھانے سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ ج: کھانے کے قصد سے چاندی کے برتن میں سے کھانے و غیرہ کی چیز کا اٹھانا اگرکھانے پینے میں چاندی کے برتنوں کا استعمال شمار کیا جائے تو حرام ہے۔ س 449: کیا دانت پر سونے کا خول چڑھوانے میں کوئی اشکال ہے؟ اور دانت پرپلاٹینم کا خول چڑھوانے کا کیا حکم ہے؟ ج: دانت پر سونے یا پلاٹینم کا خول چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اذان و اقامت اذان و اقامت پرنٹ ; PDF اذان و اقامت س 450: ماہ رمضان المبارک میں ہمارے گاؤں کا مؤذن ہمیشہ صبح کی اذان، وقت سے چند منٹ پہلے ہی دے دیتا ہے تاکہ لوگ اذان کے درمیان یااسکے ختم ہونے تک کھانا پینا جاری رکھ سکیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟ ج: اگر اذان دینا لوگوں کو شبہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ہوتو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 451: بعض اشخاص وقت نماز کے داخل ہونے کا اعلان کرنے کیلئے اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے کے سلسلے میں بڑا اثر ہوا ہے اور عام لوگ خصوصاً جوان حضرات اول وقت میں نماز پڑھنے لگے ہیں؟ لیکن ایک صاحب کہتے ہیں : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نہیں ہوا اور بدعت ہے، ہمیں اس بات سے شبہ پیدا ہو گیا ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: اذان یومیه نمازوں کے شروع هونے کا ایک اعلان هے اور اس کے سننے والوں کا تکرار کرنا شرعی لحاظ سے مستحب موکد هے اور اذان کا عام راستوں میں اجتماعی طور پر دینا اگر راسته بند هونے اور لوگوں کی اذیت کا سبب نه هو تو کویی اشکال نهیں هے. س 452: چونکہ بلند آواز سے اذان دینا عبادی، سیاسی عمل ہے اور اس میں عظیم ثواب ہے لہذابعض مؤمنین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر، واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل پر بعض ہمسائے اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: متعارف طریقے سے چھت پر اذان دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 453: ماہ رمضان المبارک میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کیا حکم ہے تا کہ سب لوگ سن لیں؟ ج: جہاں پر اکثر لوگ، رمضان المبارک کی راتوں میں تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذہبی پروگراموں میں شرکت کے لئے بیدار رہتے ہیں، وہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر یہ مسجد کے ہمسایوں کی تکلیف کا موجب ہو تو جائز نہیں ہے۔ س 454: کیا مساجد اوردیگر مراکز سے لاؤڈا سپیکر کے ذریعے اتنی بلند آواز میں کہ جو کئی کلومیٹر تک پہنچے، اذان صبح سے قبل قرآنی آیات اور اس کے بعد دعاؤں کا نشر کرنا صحیح ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ سلسلہ کبھی کبھار آدھے گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے؟ ج: رائج طریقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ہو جانے کے اعلان کیلئے لاؤڈ اسپیکر سے اذان نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد سے آیات قرآنی اور دعاؤں و غیرہ کا نشر کرنا اگر ہمسایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو تو جاپز نہیں ہے۔ س 455: کیا نماز میں مرد، عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ہے؟ ج: مرد کیلئے عورت کی اذان پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔ س 456: واجب نماز کی اذان اور اقامت میں شہادت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء (حضرت علی علیہ السلام ) کے امیر و ولی ہونے کی گواہی دینے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: " اشہد ان علیا ً ولی اللہ" شرعی لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے، لیکن اسے مذہب تشیع کے شعار کے عنوان سے کہا جائے تو بہت اچھا اور اہم ہے اور ضروری ہے کہ اسے مطلق قصد قربت کے ساتھ کہا جائے۔ س 457: ایک مدت سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں اور بعض اوقات تو اتناشدید ہوجاتا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس چیز کے پیش نظر اگر اول وقت میں پڑھوں تو حتماً بیٹھ کر پڑھوں گا لیکن اگر صبر کروں تو ہوسکتا ہے آخری وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکوں اس صورتحال میں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: اگر آخر وقت میں کھڑے ہوکر پڑھ سکنے کا احتمال ہو تو احیتاط یہ ہے کہ اس وقت تک صبر کیجئے لیکن اگر اول وقت میں کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی اور آخر وقت تک وہ عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز پڑھی ہے وہی صحیح ہے اور اسکے اعادے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اول وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہ تھی اور آپ کو یقین تھا کہ آخر وقت تک یہ ناتوانی برقرار رہے گی پھرآخر وقت سے پہلے وہ عذر زائل ہوجائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو دوبارہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا واجب ہے۔ قرأت اور اس کے احکام قرأت اور اس کے احکام پرنٹ ; PDF قرأت اور اس کے احکام س 458: اگر نماز میں قرأت جہری (بلند آواز سے) نہ کی جائے تو ہماری نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مردوں پر واجب ہے کہ وہ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھیں لیکن اگر بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے آہستہ پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے تاہم اگر جان بوجھ کر اور حکم کو جانتے ہوے آہستہ پڑھیں تو نماز باطل ہے۔ س 459: اگر ہم صبح کی قضا نماز پڑھنا چاہیں تو کیا اسے بلند آواز سے پڑھیں گے یا آہستہ؟ ج: صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوںمیں چاہے وہ ادا ہوں یا قضا، مردوں پر حمد و سورہ کو ہر حال میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے اگرچہ ان کی قضا دن میں بھی پڑھی جائے اور اگر جان بوجھ کر بلند آواز سے نہ پڑھی جائیں تو نماز باطل ہے۔ س 460: ہم جانتے ہیں کہ نماز کی ایک رکعت: نیت، تکبیرة الاحرام، حمد و سورہ اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے، دوسری طرف مغرب کی تیسری رکعت اورظہر و عصر اورعشاء کی آخری دورکعتوں کو آہستہ پڑھنا واجب ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے جو نماز جماعت براہ راست نشر کی جاتی ہے اسکی تیسری رکعت میں امام جماعت رکوع و سجود کے ذکر کو بلند آواز سے پڑھتا ہے جبکہ رکوع و سجود دونوں ہی اس رکعت کے جزء ہیں جس کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں حکم کیا ہے؟ ج: مغرب و عشاء اور صبح کی نماز میں بلند آواز سے اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف حمد و سورہ سے مخصوص ہے، جیسا کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ باقی رکعتوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف سورہ حمد یا تسبیحات (اربعہ) سے مخصوص ہے، لیکن رکوع و سجود کے ذکر نیز تشہد و سلام اور اسی طرح نماز پنجگانہ کے دیگر واجب اذکار میں مکلف کو اختیار ہے کہ وہ انہیں بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز سے۔ س 461: اگر کوئی شخص، روزانہ کی سترہ رکعت نمازوں کے علاوہ، احتیاطاً سترہ رکعت قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے تو کیا اس پر صبح اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ آوازسے بھی پڑھ سکتا ہے؟ ج: نماز پنجگانہ کے اخفات و جہر کے واجب ہونے میں ادا اور قضا نماز کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، خواہ وہ قضا نماز احتیاطی ہی کیوں نہ ہو۔ س 462: ہم جانتے ہیں کہ لفظ " صلوة " کے آخر میں " ت ' ' ہے لیکن اذان میں "حی علی الصلاہ" ، "ھائ" کے ساتھ کہتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ ج: لفظ "صلوة" کو وقف کی صورت میں "ھا" کے ساتھ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہی متعین ہے۔ س 463: تفسیر سورۂ حمد میں امام خمینی کے نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر میں لفظ "مَلِکِ" کو "مالکِ" پر ترجیح دی ہے تو کیا واجب و غیر واجب نمازوںمیں اس سورۂ مبارکہ کو احتیاطاً دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اس مقام میں احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س464: کیا نماز گزار کے لئے صحیح ہے کہ وہ "غیر المغضوب علیھم"پڑھنے کے بعد فوری عطف کے بغیر وقف کرے اور پھر "ولاالضآلین" پڑھے اور کیا تشہد میں اس جملے "اللھم صل علی محمد" میں "محمد" پر وقف کرنا اور پھر "و آل محمد" پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اس حد تک وقف اور فاصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک وحدت جملہ میں خلل پیدا نہ ہو۔ س 465: امام خمینی سے درج ذیل استفتاء کیا گیاہے : تجوید میں حرف "ضاد" کے تلفظ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں، آپ کس قول پر عمل کرتے ہیں؟ اس کا جواب امام خمینی نے یوں لکھا : علماء تجوید کے قول کے مطابق حروف کے مخارج کی شناخت واجب نہیں ہے بلکہ ہر حرف کا تلفظ اس طرح ہونا واجب ہے کہ عرب کے عرف کے نزدیک اس حرف کا ادا ہونا صادق آجائے۔ اب سوال یہ ہے: اولاً۔اس عبارت کے معنی کیا ہیں "عرب کے عرف میں اس حرف کا ادا ہونا صادق آ جائے"۔ ثانیاً۔کیا علم تجوید کے قواعد، عرف عرب اور ان کی لغت سے نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ صرف و نحو کے قواعد بھی انہیں سے بنائے گئے ہیں؟ پس کس طرح ان دو کے درمیان فرق کا قائل ہونا ممکن ہے؟ ثالثاً ۔ اگر کسی کو معتبر طریقے سے یقین ہوجائے کہ وہ قرأت کے وقت حروف کو صحیح مخارج سے ادا نہیں کرتا یا بطور کلی حروف و کلمات کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا اور اسے سیکھنے کیلئے ہر لحاظ سے موقع فراہم ہے مثلا اسے سیکھنے کیلئے اچھی استعداد یا مناسب فرصت رکھتا ہے تو کیا استعداد کی حد تک صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے کوشش کرنا واجب ہے؟ ج: قرأت کے صحیح ہونے میں معیار یہ ہے کہ وہ اہل زبان کہ جن سے تجوید کے قواعد و ضوابط لئے گئے ہیں، انکی قرأت کی کیفیت کے موافق ہو۔ اس بنا پر حروف میں سے کسی حرف کے تلفظ کی کیفیت میں علمائے تجوید کے اقوال میں جو اختلاف ہے اگر یہ اختلاف اہل زبان کے تلفظ کی کیفیت کو سمجھنے میں ہو تو اس کا مرجع خوداہل لغت کا عرف ہے، لیکن اگر اقوال کے اختلاف کا سبب خود انکا تلفظ کی کیفیت میں اختلاف ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان اقوال میں سے جس قول کو چاہے اختیار کرے اور جو شخص اپنی قرأت کو صحیح نہیں سمجھتا اس کیلئے امکان کی صورت میں صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے اقدام کرنا ضروری ہے۔ س466: جو شخص ابتداء سے یا اپنی عادت کے مطابق(نماز میں) حمد اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے کا قصد رکھتا تھا، اگر وہ" بسم اللہ "پڑھے لیکن بھول کر سورہ کو معین نہ کرے تو کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے سورہ معین کرے اس کے بعد دوبارہ بسم اللہ پڑھے؟ ج: اس پر بسم اللہ کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے، بلکہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کیلئے اس بسم اللہ پر اکتفا کرسکتا ہے۔ س 467: کیا واجب نمازوں میں عربی الفاظ کو کامل طور پر ادا کرنا واجب ہے؟ اور اگر کلمات کا تلفظ مکمل طور پر صحیح عربی میں ادا نہ کیا جائے تو بهی یه نماز؛ صحیح نماز کا حکم رکهتا هے؟ ج: نماز کے تمام واجب اذکار جیسے حمد و سورہ کی قرأت و غیرہ کا صحیح طریقہ سے ادا کرنا واجب ہے اور اگر نماز گزار عربی الفاظ کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کیفیت کو نہیں جانتا تو اس پر سیکھنا واجب ہے اور اگر وہ سیکھنے سے عاجز ہو تو معذور ہوگا اور ضروری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے۔ س468: نماز میں قلبی قرأت یعنی حروف کو تلفظ کئے بغیر دل میں دہرانے پر قرأت صادق آتی ہے یا نہیں؟ ج: اس پر قرأ ت کا عنوان صادق نہیں آتا اور نماز میں واجب ہے کہ کلمات کو اس طریقے سے ادا کیا جائے کہ اس پر قرأت صادق آئے۔ س469: بعض مفسرین کی رائے کے مطابق قرآن مجید کے چند سورے جیسے سورہ فیل و قریش اور انشراح و ضحی کامل سورے نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان سوروں میں سے کوئی ایک سورہ مثلا سورہ فیل پڑھے تو اس پر اس کے بعد سورہ قریش پڑھنا واجب ہے، اسی طرح سورہ انشراح و ضحی کو بھی ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ پس اگر کوئی شخص مسئلہ سے نا واقف ہونے کی وجہ سے نماز میں فقط سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر اس نے مسئلہ سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو تو گذشتہ نمازوں کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائیگا۔ س 470: اگر اثنائے نمازمیں ایک شخص غافل ہوجائے اور ظہر کی تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد و سورہ پڑھ لے اور نماز تمام ہونے کے بعد اسے یاد آئے تو کیا اس پر اعاد ہ واجب ہے؟ اور اگر یاد نہ آئے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟ ج: مفروضہ صورت میں نماز صحیح ہے۔ س 471: کیا عورتیں صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھ سکتی ہیں؟ ج: بلند بھی پڑھ سکتی ہیں اور آہستہ بھی لیکن اگر نامحرم انکی آواز سن رہا ہو تو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔ س472: امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر میں آہستہ پڑھنے کا معیار، عدم جہر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ دس حروف کے علاوہ باقی حروف آواز والے ہیں، لہذا اگر ہم نماز ظہر و عصر کو آہستہ اور بغیر آواز کے (اخفات کی صورت میں ) پڑھیں تو اٹھارہ جہری حروف کا تلفظ کیسے ہوگا؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ ج: اخفات کا معیار جوہر صدا کو ترک کرنا(یعنی بالکل بے صدا پڑھنا) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جوہر صدا کا اظہار نہ کر نا ہے اور جہر کا معیار آواز کے جوہر کا اظہار کرنا ہے۔ س473: غیر عرب افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں جو اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے تو وہ اپنے دینی واجبات یعنی نماز وغیرہ کو کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ اور بنیادی طورپرکیا اس سلسلہ میں عربی زبان سیکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ ج: نماز میں تکبیرة الاحرام ، حمد و سورہ، تشہد، سلام اور ہر وہ چیز جس کا عربی ہونا شرط ہے اس کا سیکھنا واجب ہے۔ س 474: کیا اس بات پر کوئی دلیل ہے کہ جہری نمازوں کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھا جائے اور اسی طرح اخفاتی نمازوں کے نوافل کو آہستہ آواز سے پڑھا جائے، اور اگر جواب مثبت ہو تو کیا جہری نماز کے نوافل کو آہستہ آواز میں اور اخفاتی نماز کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھنا کافی ہے؟ ج: جہری نمازوں کے نوافل میں قرأت کو بلند آواز سے پڑھنا اور آہستہ پڑھی جانے والی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر اس کے بر عکس عمل کرے تو بھی کافی ہے۔ س475: کیا نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک کامل سورہ کی تلاوت کرنا واجب ہے یا قرآن کی تھوڑی سی مقدار کا پڑھنا بھی کافی ہے؟ اور پہلی صورت میں کیاسورہ پڑھنے کے بعد قرآن کی چند آیتیں پڑھنا جائز ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ روز مرہ کی واجب نمازوں میں حمد کے بعد ایک کامل سورہ پڑھا جائے اور کامل سورہ کے بجائے قرآن کی چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے، لیکن مکمل سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کے عنوان سے بعض آیات کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س476: اگر تساہل کی وجہ سے یا اس لہجہ کے سبب جس میں انسان گفتگو کرتا ہے حمد و سورہ کے پڑھنے یا نماز میں اعراب اور حرکات کلمات کی ادائیگی میں غلطی ہوجائے جیسے لفظ "یولَد"کے بجائے "یولِد"لام کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس نمازکا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ جان بوجھ کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر جاہل مقصر ہو(جو سیکھنے پر قدرت رکھتا ہو) تو بھی بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے بصورت دیگر نماز صحیح ہے۔ البتہ جو گزشتہ نمازیں اسی طریقے سے پڑھ چکا ہے اس نظر یے کے ساتھ کہ یہ صحیح ہے ان کی قضا کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہے۔ اور اگر جاہل قاصر ہواور گذشتہ نمازوں کو صحیح سمجھتے ہوئے مذکورہ طریقے سے پڑھا ہوتو اس کی نماز پر صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا؛ ان کی نہ قضا ہے اور نہ اعادہ۔ س477: ایک شخص کی عمر ٣٥ یا ٤٠ سال ہے، بچپنے میں اس کے والدین نے اسے نماز نہیں سکھائی تھی، یہ شخص اَن پڑھ ہے اس نے صحیح طریقہ سے نماز سیکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ نماز کے اذکار اور کلمات کو صحیح طرح ادا کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ بعض کلمات کو تو وہ ادا ہی نہیں کر پاتا تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟ ج: جس کے تلفظ پر قادر ہے اگر اسے انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ س478: میں نماز کے کلمات کا ویسے ہی تلفظ کرتا تھا جیسا میں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا اور جیسا ہمیں ہائی اسکول میں سکھایا گیا تھا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کلمات کو غلط طریقہ سے پڑھتا تھا، کیا مجھ پر۔امام خمینی طاب ثراہ کے فتوے کے مطابق۔ نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ یا وہ تمام نمازیں جو میں نے اس طریقہ سے پڑھی ہیں صحیح ہیں؟ ج: مفروضہ صورت میں چونکہ اشتباہ کا احتمال نہیں تھا اور صحیح ہونے کے اعتقاد سے پڑھا تھا لہٰذا گزشتہ تمام نمازوں کی صحت کا حکم لگایا جائے گا، نہ ان میں اعادہ ہے اور نہ ہی قضا۔ س479: کیا اس شخص کی نماز اشاروں کے ساتھ صحیح ہے جو گونگے پن کی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بولنے پر قادر نہیں ہے، لیکن اس کے حواس سالم ہیں؟ ج: مذکورہ فرض کے مطابق اس کی نماز صحیح اور کافی ہے۔ ذکرنماز ذکرنماز پرنٹ ; PDF ذکرنماز س 480: کیا جان بوجھ کر رکوع و سجود کے اذکار کو ایک دوسرے کی جگہ پڑھنے میں کوئی حرج ہے؟ ج: اگر انہیں للہ تعالیٰ کے مطلق ذکر کے عنوان سے بجا لائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور رکوع و سجود اور پوری نماز صحیح ہے لیکن اس کے مخصوص ذکر کو بھی پڑھنا ضروری ہے۔ س481: اگر کوئی شخص بھولے سے سجود میں رکوع کا ذکر پڑھے یا اس کے برعکس، رکوع میں سجود کا ذکر پڑھے اور اسی وقت اس کو یاد آجائے اور وہ اس کی اصلاح کر لے تو کیا اس کی نماز باطل ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔ س 482: اگر نماز گزار کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد یا اثنائے نماز میں یاد آجائے کہ اس نے رکوع یا سجود کا ذکر غلط پڑھا تھا تو حکم کیا ہے؟ ج: اگر رکوع و سجود کے بعد متوجہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ س483: کیا نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا کافی ہے؟ ج: کافی ہے، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ پڑھے۔ س484: نماز میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص بھولے سے چار مرتبہ پڑھ لے تو کیا خدا کے نزدیک اسکی نماز قبول ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س485: اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس نے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھی ہیں یا کم یا زیادہ؟ ج: ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے اور وہ بری الذمہ ہے اورجب تک رکوع میں نہیں گیا کم پر بنا رکھتے ہوئے تسبیحات کا تکرار کرسکتا ہے تا کہ اسے تین مرتبہ پڑھنے کا یقین ہوجائے۔ س486: کیا نماز میں حرکت کی حالت میں "بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد"کہنا جائز ہے نیزکیا یہ قیام کی حالت میں صحیح ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ا صولی طور پر اسے نماز کی اگلی رکعت کے لئے قیام کی حالت میں کہا جاتا ہے۔ س487: ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں نبی کریمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھی شامل ہے؟ ج: جو بهی عبارت اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو وہ ذکر ہے اور محمد و آل محمد(علیھم السلام) پر صلوات بھیجنا بہترین اذکار میں سے ہے۔ لیکن رکوع اور سجدے کا واجب ذکر ایک دفعه « سبحان ربی العظیم و بحمده» کا رکوع میں پڑهنا اور ایک دفعه «سبحان ربی الاعلی و بحمده» کا سجدے میں یا تین مرتبه «سبحان الله» پڑهنا اور اسی طرح دوسرے اذکار جیسے «الحمد لله»، «الله اکبر» و غیره کو اسی مقدار میں پڑهنا کافی هے. س488: جب ہم نماز وتر میں کہ جو ایک ہی رکعت ہے، قنوت کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور خداوند متعال سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں تو کیافارسی میں اپنی حاجات طلب کرنے میں کوئی اشکال ہے؟ ج: قنوت میں فارسی میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ قنوت میں ہر دعا کو ہر زبان میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سجدہ اور اس کے احکام سجدہ اور اس کے احکام پرنٹ ; PDF سجدہ اور اس کے احکام س489: سیمنٹ اور پتھر کی ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: ان دونوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ ان پر تیمم نہ کیا جائے۔ س 490: کیا حالت نماز میں اس ٹائل پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوں؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے۔ س491: کیا اس سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے جو چکنی اور کالی ہوگئی ہو اس طرح کہ ایک چکنی تہ نے اس کے اوپر کے حصے کو ڈھانپ رکھا ہو اور وہ پیشانی کے سجدہ گاہ پر لگنے سے مانع ہو؟ ج: اگر سجدہ گاہ پر اس قدرچکنامیل ہو جو پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان حائل ہو تو اس پر سجدہ باطل ہے اورنماز بھی باطل ہے۔ س492: ایک عورت سجدہ گاہ پر سجدہ کرتی تھی اور اس کی پیشانی خاص کر سجدہ کی جگہ، حجاب سے ڈھانپی ہوئی ہوتی تھی تو کیا اس پر ان نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ ج: اگر وہ سجدہ کے وقت اس حائل کی طرف متوجہ نہ تھی تو نمازوں کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے۔ س493: ایک عورت سجدہ گا ہ پر اپنا سر رکھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی پیشانی مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہوئی ہے، گویا چادر یا دوپٹہ حائل ہے جو مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہونے دے رہاہے، لہذا و ہ اپنا سر اٹھاتی ہے اور حائل چیز کو ہٹا کر دوبارہ سجدہ گاہ پر اپنا سر رکھ دیتی ہے، اس مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس عمل کو مستقل سجدہ فرض کیا جائے تو اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اس پر واجب ہے کہ سر کو زمین سے اٹھائے بغیر پیشانی کو حرکت دے یا پیشانی کے نیچے سے مانع کو ہٹادے تاکہ کم از کم انگلی کے پورے کے برابر پیشانی سجدہ گاہ کے ساتھ مس ہوجائے اور اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے زمین سے پیشانی کا اٹھانا لاعلمی یا بھولے سے ہو اور یہ کام وہ ایک رکعت کے دو سجدوں میں سے ایک میں انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اعادہ (دوبارہ پڑھنا) واجب نہیں ہے، لیکن اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے علم کے ساتھ اور جان بوجھ کر سر اٹھائے یاایک ہی رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس پر نماز کا اعادہ(دوبارہ پڑھنا) واجب ہے۔ س494: حالت سجدہ میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھنا واجب ہے لیکن یہ عمل ہمارے لئے مقدور نہیں ہے، کیونکہ ہم ان جنگی زخمیوں میں سے ہیں جو ویلچیئر سے استفادہ کرتے ہیں۔ لہذا نماز کے لئے ہم یا سجدہ گاہ کو پیشانی تک لاتے ہیں یا سجدہ گاہ کو کرسی کے دستہ پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں توکیا ہمارا یہ عمل صحیح ہے یا نہیں؟ ج: اگر آپ کرسی کے دستے، اسٹول اور تکیے و غیرہ پر سجدہ گاہ رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتے ہیں تو ایسا ہی کریں اور آپ کی نماز صحیح ہے، بصورت دیگر سجدہ گاہ کو ہاتھوں میں اٹھائیں اور پیشانی کو اس پر رکھیں اور اگر کسی بھی طریقے سے جھکنا ممکن نہ ہو تو سجدہ کرنے کے بجائے سر سے اشارہ کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو آنکھوں سے اشارہ کریں ۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مزید توفیق عنایت فرمائے۔ س495: مقامات مقدسہ میں زمین پر بچھائے گئے سنگ مرمر پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: سنگ مرمر پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س596: سجدہ کی حالت میں انگوٹھے کے علاوہ پیر کی بعض دیگر انگلیوں کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س497: حال ہی میں نماز کے لئے ایک سجدہ گاہ بنائی گئی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نماز گزار کی رکعتوں اور سجدوں کو شمار کرتی ہے اور کسی حد تک شک کو دور کرتی ہے واضح رہے کہ جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو وہ نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے کیونکہ سجدہ گاہ کے نیچے لوہے کی اسپرنگ لگی ہوئی ہے، کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے؟ ج: اگر پیشانی رکھنے کی جگہ ان چیزوں میں سے ہو کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور پیشانی رکھنے کے بعد وہ ایک جگہ ٹھہر جاتی ہو تو اس پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س498: سجدوں کے بعد بیٹھتے وقت ہم کس پیر کو دوسرے پیر کے اوپر رکھیں؟ ج: مستحب ہے کہ بائیں پیر پر بیٹھے اور داہنے پیر کے ظاہری حصہ کو بائیں پیر کے باطنی حصہ پررکھے۔ س499: رکوع و سجود میں واجب ذکر پڑھنے کے بعد کون سا ذکر افضل ہے؟ ج: اسی واجب ذکر کا تکرار اور بہتر یہ ہے کہ وہ طاق پر تمام ہواور سجود میں اس کے علاوہ صلوات پڑھنا اور دنیوی و اخروی حاجات کیلئے دعاکرنا بھی مستحب ہے۔ س500: اگر ریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کے ذریعہ ایسی آیات نشر ہورہی ہوں جن میں سجدہ واجب ہے تو ان کو سننے کے بعد شرعی فریضہ کیا ہے؟ ج: سجدہ کرنا واجب ہے۔ مبطلات نماز مبطلات نماز پرنٹ ; PDF مبطلات نماز س501: نماز کی تشهد میں ذکر شهادت ولایت امیر المؤمنین(علیه السلام) پڑهنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟ ج: نماز اورتشہد کو اسی طریقے سے پڑھیں جومراجع عظام کی توضیح المسائل میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ نہ کریں اگر چہ وہ بذات خود حق اور صحیح بھی ہو۔ س502: ایک شخص اپنی عبادتوں میں ریا کاری میں مبتلا ہے اور اب وہ اپنے نفس سے جہاد کر رہا ہے تو کیا اسے بھی ریا کاری سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور وہ ریاء سے کس طرح اجتناب کرے؟ ج: قربةً الی اللہ کے قصد سے جو عبادات بجالائی جائیں اور انہیں میں ایک ریا کے مقابلے میں جہاد ہے وہ ریا نہیں ہیں اور ریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے چاہئے کہ وہ عظمت و شان خدا وندی اور دوسروں کے ضعف اور خدا کی طرف محتاج ہونے کو نظر میں رکھے نیز اپنی اور دیگر انسانوں کی اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت کے بارے میں غور کرے۔ س 503: برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت، امام جماعت کے سورۂ حمد پڑھنے کے بعداجتماعی صورت میں بلند آواز سے لفظ "آمین" کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: اگرتقیہ "آمین" کہنے کا اقتضا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 504: اگر ہم واجب نماز کے اثناء میں بچے کو کوئی خطرناک کام کرتے ہوئے دیکھیں تو کیا سورۂ حمد یا دوسرے سورہ یا بعض اذکار کے کچھ کلمات کو بلند آواز سے پڑھنا ہمارے لئے جائز ہے تا کہ بچہ متنبہ ہو جائے، یا اس بارے میں موجود کسی اور شخص کو متوجہ کریں تا کہ خطرہ دور ہو جائے؟ نیز اثنائے نماز میں ہاتھ کو حرکت دے کر یا بھنووں کے ذریعہ، کسی شخص کو کوئی کام سمجھانے یا اس کے کسی سوال کے جواب دینے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر آیات و اذکار پڑھتے وقت، دوسروں کو خبردار کرنے کے لئے آواز بلند کرنا نماز کو اپنی ہیئت (حالت) سے خارج نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ قرأت اور ذکر کو، قرأت و ذکر ہی کی نیت سے انجام دیا جائے۔ حالت نماز میں ہاتھ ، آنکھ یا ابرو کو حرکت دینا اگر مختصر ہو اور سکون و اطمینان یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ س505: اگر اثنائے نماز میں کوئی شخص کسی مضحکہ خیز بات کے یاد آنے یا کسی ہنسانے والے سبب کے پیش آنے سے ہنس پڑے توکیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ ج: اگر ہنسی جان بوجھ کر اور آواز کے ساتھ یعنی قہقہہ ہو تو نماز باطل ہے۔ س 506: کیا قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے؟ اور اگر یہ باطل ہونے کا باعث ہے تو کیا اسے معصیت و گناہ بھی شمار کیا جائے گا؟ ج: مکروہ ہے لیکن نماز کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔ س 507: کیا حالت نماز میں دونوں آنکھوں کا بند کرنا جائز ہے، کیونکہ آنکھیں کھلی رکھنے سے انسان کی فکر نماز سے ہٹ جاتی ہے؟ ج: حالت نماز میں آنکھوں کو بند کرنے میں شرعی ممانعت نہیں ہے اگرچہ رکوع کے علاوه دیگر حالات میں مکروہ ہے ۔ س 508: میں بعض اوقات اثنائے نماز میں ان ایمانی لمحات اور معنوی حالات کو یاد کرتا ہوں جو میں ایران و عراق جنگ کے دوران رکھتا تھا اس سے نماز میں میرے خشوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟ ج: اس سے نماز کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ س509: اگر دو اشخاص کے درمیان تین دن تک دشمنی اور جدائی باقی رہے تو کیا اس سے ان کا نماز روزہ باطل ہو جاتا ہے؟ ج: دو اشخاص کے درمیان دشمنی اور جدائی پیدا ہونے سے نماز روزہ باطل نہیں ہوتا اگر چہ یہ کام شرعاً مذموم ہے ۔ جواب سلام کے احکام جواب سلام کے احکام پرنٹ ; PDF جواب سلام کے احکام س510: جو تحیت (مثلا آداب وغیرہ) سلام کے صیغہ کی صورت میں نہ ہو تو اس کا جواب دینے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: اگر انسان نماز میں ہے تواس کا جواب دینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر حالت نماز میں نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کلام ہو جسے عرف میں سلام شمار کیا جاتا ہوتو جواب دے۔ س511: کیا بچوں اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ ج: لڑکے اور لڑکیوں میں سے ممیز بچوں کے سلام کا جواب دینا اسی طرح واجب ہے جیسے مردوں اور عورتوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ س512: اگر کسی شخص نے سلام سنا اور غفلت یا کسی دوسری وجہ سے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ تھوڑا فاصلہ ہوگیا تو کیا اس کے بعد سلام کا جواب واجب ہے؟ ج: اگر اتنی تاخیر ہوجائے کہ اس کو سلام کا جواب نہ کہا جائے تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔ س513: اگر ایک شخص چند لوگوں پر اس طرح سلام کرے :"السلام علیکم جمیعا"اور ان میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو توکیا نماز پڑھنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ اگرچہ حاضرین سلام کا جواب دے دیں۔ ج: اگر کوئی دوسرا جواب دے دے تو نمازی جواب نہ دے۔ س514: اگر ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی بار سلام کرے یا متعدد اشخاص سلام کریں تو کیا سب کا ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے؟ ج: پہلی صورت میں ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے اور دوسری صورت میں ایسے صیغہ کے ذریعہ جواب دینا جو سب کو شامل ہو اور سب کے سلام کا جواب دینے کی غرض سے ہو تو کافی ہے۔ س515: ایک شخص "سلام علیکم"کے بجائے صرف "سلام"کہتاہے۔ کیا اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ ج: اگر عرف میں اسے سلام و تحیت کہا جاتا ہو تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔ احتیاط کی بناپر اس طرح جواب دینا چاہئے کہ سلام کا لفظ پہلے ادا کرے مثلا ً"سلام علیکم" یا "السلام علیکم" کہے۔ "علیکم السلام" نہیں کہنا چاہئے۔ شکیات نماز شکیات نماز پرنٹ ; PDF شکیات نماز س516: جو شخص نماز کی تیسری رکعت میں ہو اور اسے یہ شک ہو کہ قنوت پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی نماز کو تمام کرے یا شک پیدا ہوتے ہی اسے توڑ دے؟ ج: مذکورہ شک کی پروا نہیں کی جائے گی اور نماز صحیح ہے اور اس سلسلہ میں مکلف کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ س 517: کیا نافلہ نمازوں میں رکعات کے علاوہ کسی اور چیز میں شک کی پروا کی جائیگی؟ مثلاً یہ شک کرے کہ ایک سجدہ بجا لایا ہے یا د و؟ ج: نافلہ کے اقوال و افعال میں شک کی پروا کرنے کا وہی حکم ہے جو واجب نمازوں کے اقوال و افعال میں شک کا ہے، یعنی اگر انسان محل شک سے نہ گزرا ہوتو شک کی اعتناء کرے اور محل شک کے گزر جانے کے بعد شک کی پروانہ کرے۔ س518: کثیرالشک اپنے شک کی پروا نہیں کرے گا، لیکن اگر نماز میں وہ شک کرے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اس کا فریضہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اس کے بجا لانے پر بنا رکھے، مگر یہ کہ اس کا بجالانا نماز کے بطلان کا سبب ہو تو اس صورت میں اسے بجانہ لانے پر بنا رکھے اس سلسلہ میں رکعات، افعال اور اقوال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ س 519: اگر کوئی شخص چند سال کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس کی عبادتیں باطل تھیں یا وہ ان میں شک کرے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: عمل کے بعد شک کی پروا نہیں کی جاتی اور باطل ہونے کے علم کی صورت میں قابل تدارک عبادتوں کی قضاء واجب ہے۔ س 520: اگر بھول کر نماز کے بعض اجزاء کو دوسرے اجزاء کی جگہ بجا لائے یا اثنائے نماز میں اس کی نظر کسی چیز پر پڑ جائے یا بھولے سے کچھ کہہ دے تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اس پر کیا واجب ہے؟ ج: نماز میں بھولے سے جو اعمال سرزد ہو جاتے ہیں وہ باطل ہونے کا سبب نہیں ہیں ہاں بعض موقعوں پر سجدہ سہو کا موجب بنتے ہیں، لیکن اگر کسی رکن میں کمی یا زیادتی ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ س 521: اگر کوئی شخص اپنی نماز کی ایک رکعت بھول جائے اور پھر آخری رکعت میں اسے یاد آجائے مثلاً پہلی رکعت کو دوسری رکعت خیال کرے اور اس کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت بجا لائے، لیکن آخری رکعت میں وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟ ج: سلام سے قبل اس پر اپنی نماز کی چھوٹی ہوئی رکعت کو بجا لانا واجب ہے، اس کے بعد سلام پھیرے، اور اس صورت میں چونکہ واجب تشہد کو اس کے مقام پر بجا نہیں لایا لہٰذا واجب ہے کہ بھولے ہوئے تشہد کے لئے دوسجدے سہو انجام دے اور احتیاط یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا کرے۔ اور اگر تیسری رکعت کے دوران آخری رکعت کے خیال سے سلام کہہ لے تو احتیاط واجب کی بناپر مزید دو سجدہ سہو بجالائے اور یہ دونوں سجدہ سہو تشہد کی قضا بجالانے کے بعد انجام دیناہوں گے۔ س 522: مکلف شخص کے لئے نماز احتیاط کی رکعات کی تعداد کا جاننا کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک رکعت ہے یا دو رکعت؟ ج: نماز احتیاط کی رکعتوں کی تقدار اتنی ہی ہو گی جتنی رکعتیں احتمالی طور پر نماز میں چھوٹ گئی ہیں۔ پس اگر دو اور چار کے درمیان شک ہو تو دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور اگر تین اور چار کے درمیان شک ہو تو ایک رکعت کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط واجب ہے۔ س523: اگر کوئی شخص بھولے سے یا غلطی سے اذکار نماز، آیات قرآن یا دعائے قنوت کا کوئی لفظ غلط پڑھے تو کیا اس پر سجدۂ سہو واجب ہے؟ ج: واجب نہیں ہے۔ قضا نماز قضا نماز پرنٹ ; PDF قضا نماز س 524: میں سترہ سال کی عمر تک احتلام اور غسل و غیرہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور ان امور کے متعلق کسی سے بھی کوئی بات نہیں سنی تھی، خود بھی جنابت اور غسل واجب ہونے کے معنی نہیں سمجھتا تھا، لہذا کیا اس عمر تک میرے روزے اور نمازوں میں اشکال ہے، آپ مجھے اس فریضہ سے مطلع فرمائیں جس کا انجام دینا میرے اوپر واجب ہے؟ ج: ان تمام نمازوں کی قضا واجب ہے جو آپ نے جنابت کی حالت میں پڑھی ہیں، لیکن اصل جنابت کا علم نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جو روزے جنابت کی حالت میں رکھے ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں اور ان کی قضا واجب نہیں ہے۔ س 525: افسوس کہ میں جہالت اور ضعیف الارادہ ہونے کی وجہ سے استمناء کیا کرتا تھا جس کے باعث بعض اوقات نماز نہیں پڑھتا تھا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنی مدت تک نماز ترک کی ہے،میرا نماز نہ پڑھنا مسلسل نہیں تھا بلکہ صرف ان اوقات میں نماز نہیں پڑھتا تھا جن میں مجنب ہوتا تھا اور غسل نہیں کر پاتا تھا میرے خیال میں تقریبا چھ ماہ کی نماز چھوٹی ہوگی اور میں نے اس مدت کی قضا نمازوں کو بجا لانے کا ارادہ کر لیا ہے، کیا ان نمازوں کی قضا واجب ہے یا نہیں؟ ج: جتنی پنجگانہ نمازوں کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ ادا نہیں کی ہیں یا حالت جنابت میں پڑھی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔ س 526: جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں یا نہیں اگر بالفرض اس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں تو کیا اس کی مستحب اور نافلہ کے طور پر پڑھی ہوئی نمازیں، قضا نمازیں شمار ہو جائیں گی؟ ج: نوافل اور مستحب نمازیں، قضا نمازیں شمار نہیں ہوں گے، اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں تو ان کو قضا کی نیت سے پڑھنا واجب ہے۔ س527: میں تقریباً چھ ماہ قبل بالغ ہوا ہوں اور بالغ ہونے سے چند ہفتے پہلے تک میں یہ سمجھتا تھا کہ بلوغ کی علامت، صرف قمری حساب سے پندرہ سال کا مکمل ہونا ہے۔ مگر میں نے اب ایک کتاب کا مطالعہ کیا ہے جس میں لڑکوں کے بلوغ کی دیگر علامات بیان ہوئی ہیں،جو مجھ میں پائی جاتی تھیں، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ علامتیں کب سے شروع ہوئی ہیں، کیا اب میرے ذمہ نماز و روزہ کی قضا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ میں کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا اور گزشتہ سال ماہ رمضان کے مکمل روزے میں نے رکھے ہیں لہذا میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: ان تمام روزوں اور نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے شرعی طور پر بالغ ہونے کے بعد، چھوٹ جانے کا یقین ہو۔ س528: اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں تین غسل جنابت انجام دے، مثلاً ایک غسل بیس تاریخ کو، دوسرا پچیس تاریخ کو اور تیسرا ستائیس تاریخ کو انجام دے، اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ ان میں سے ایک غسل باطل تھا، تو اس شخص کے نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟ ج: روزے صحیح ہیں، لیکن احتیاط کی بنا پر نماز کی قضا اس طرح واجب ہے کہ اسے بری الذمہ ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔ س 529: ایک شخص نے ایک عرصہ تک حکم شرعی سے لاعلمی کی بنا پر غسل جنابت میں ترتیب کی رعایت نہیں کی تو اس کی نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر غسل اس طرح انجام دیا ہو جو شرعاً باطل ہو تو جو نمازیں اس نے حدث اکبر کی حالت میں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے، لیکن اس کے روزوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا اگر وہ اس وقت اپنے غسل کو صحیح سمجھتا تھا ۔ س 530: جو شخص ایک سال کی قضا نماز یں پڑھنا چاہتا ہے اسے کس طرح قضا کرنی چاہیے؟ ج: وہ کسی ایک نماز کو شروع کرے اور پھر انہیں نماز پنجگانہ کی ترتیب سے پڑھتا رہے؟ س531: اگر کسی شخص پر کافی عرصے کی قضا نمازیں واجب ہوں توکیا وہ درج ذیل ترتیب کے مطابق ان کی قضا کر سکتا ہے؟ ١) صبح کی مثلا بیس نمازیں پڑھے۔ ٢) ظہر و عصر میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے۔ ٣) مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے اور سال بھر اسی طریقہ پر عمل پیرا رہے۔ ج: نمازوں کی قضا کو مذکورہ طریقے سے یعنی ظہر کی نمازوں کو عصر سے پہلے اور مغرب کو عشاء سے پہلے بجالائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س532: ایک شخص کا سر زخمی ہو گیا ہے اور یہ زخم اس کے دماغ تک جا پہنچا ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ، بایاں پیر اور زبان شل ہو گئی ہے چنانچہ وہ نماز کا طریقہ بھول گیا ہے اور وہ اسے دوبارہ سیکھ بھی نہیں سکتا ہے، لیکن کتاب سے پڑھ کر یا کیسٹ سے سن کر نماز کے مختلف اجزاء کو سمجھ سکتا ہے، اس وقت نماز کے سلسلہ میں اس کے سامنے دومشکلیں ہیں: ١) وہ پیشاب کے بعد طہارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی وضو کر سکتا ہے۔ ٢) نماز میں قرأت اس کے لئے مشکل ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح تقریبا چھ ماہ سے اس کی جو نماز یں چھوٹ گئی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر وضو یا تیمم کر سکتا ہوخواہ دوسروں کی مدد سے ہی تو واجب ہے کہ وہ جس طرح نماز پڑھ سکے، نماز پڑھے، چاہے کیسٹ سن کر یا کتاب میں دیکھ کر یاکسی اور طریقہ سے۔ اور اگر بدن کا پاک کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے حتی کہ کسی دوسرے کی مدد سے بھی تو اسی نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھے اور اسکی نماز صحیح ہے اور گزشتہ فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے، مگر جس نماز کے پورے وقت میں وہ بے ہوش رہا ہو تو اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ س533: جوانی کے زمانہ میں مغرب و عشاء اور صبح کی نماز سے زیادہ میں نے ظہر و عصر کی نمازیں قضا کی ہیں، لیکن نہ میں ان کے تسلسل کو جانتا ہوں نہ ترتیب کو اور نہ ان کی تعداد کو، کیا اس موقع پر اسے نماز "دور" پڑھنا ہوگی؟ اور نماز "دور" کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ ج: قضا نمازوں میں ترتیب کی رعایت کرنا واجب نہیں ہے سوائے ایک دن کی ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے اور جتنی نمازوں کے فوت ہونے کا آپ کو یقین ہو انہی کی قضا بجا لانا کافی ہے اور ترتیب کے حصول کے لئے آپ پر دوریعنی اس طرح نمازوں کا تکرار کرنا کہ انکے در میا ن ترتیب کا علم ہوجائے واجب نہیں ہے۔ س 534: شادی کے بعد کبھی کبھی مجھ سے ایک قسم کا بہنے والا مادہ نکلتا تھا، جسے میں نجس سمجھتا تھا۔ اس لئے غسل جنابت کی نیت سے غسل کرتا اور پھر وضو کے بغیر نماز پڑھتا تھا، توضیح المسائل میں اس بہنے والے مادہ کو "مذی" کا نام دیا گیا ہے، اب یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ جو نمازیں میں نے مجنب ہوئے بغیر غسل جنابت کر کے بغیر وضو کے پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ تمام نمازیں جو آپ نے بہنے والے مادہ کے نکلنے کے بعد غسل جنابت کر کے وضو کئے بغیر ادا کی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔ س 535: کافر اگر بالغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد اسلام لائے تو کیا اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہے؟ جو اس نے ادا نہیں کیے ہیں؟ ج: واجب نہیں ہے۔ س 536: بعض اشخاص نے کمیونسٹوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کے زیر اثر کئی سال تک اپنی نماز اور دیگر واجبات ترک کر دئیے تھے، لیکن امام خمینی کی طرف سے سابق سوویت یونین کے حکمرانوں کے نام تاریخی پیغام کے آنے کے بعد انہوں نے خدا سے توبہ کر لی ہے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ چھوٹ جانے والے تمام واجبات کی قضا نہیں کر سکتے، ان کا کیا فریضہ ہے؟ ج: جتنی مقدار میں بھی ممکن ہو ان پر چھوٹ جانے والی نماز اور روزوں کی قضا کرنا واجب ہے اور جس مقدار پر قادر نہیں ہیں اسکی وصیت کرنا ضروری ہے۔ س537: ایک شخص فوت ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے اور قضا نمازیں ہیں اور اس کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے لیکن اس نے کچھ مال چھوڑا ہے کہ جو نماز اور روزوں میں سے صرف ایک کی قضا کیلئے کافی ہے تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے؟ ج: نماز اور روزہ میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے،اور وارثوں پر واجب نہیں ہے کہ اسکے ترکہ کو اسکی نماز اور روزوں کی قضا کے لئے خرچ کریں مگر یہ کہ اس نے اسکی وصیت کی ہو تو اسکے ایک تہائی تر کہ سے اسکی جتنی نمازوں اور روزوں کی قضا کیلئے کسی کو اجیر بنانا ممکن ہے اجیر بنائیں۔ س 538: میں زیادہ تر نمازیں پڑھتا رہا ہوں اورچھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کرتا رہا ہوں۔ یہ چھوٹ جانے والی نمازیں وہ ہیں جن کے اوقات میں، میں سو رہا تھا یا اسوقت میرا بدن و لباس نجس تھا کہ جن کا پاک کرنا دشوار تھا، لہذا نماز پنجگانہ، نماز قصر اور نماز آیات میں سے اپنے ذمے میں موجود نمازوں کا حساب کیسے لگاؤں؟ ج: جتنی نمازوں کے چھوٹ جانے کا یقین ہو انہی کی قضا بجالاناکافی ہے اور ان میں سے جتنی مقدار کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ وہ قصر ہیں یا نماز آیات، تو انہیں اپنے یقین کے مطابق بجا لائیے اور باقی کو نماز پنجگانہ کے طور پر پڑھیے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ ماں باپ کی قضا نمازیں ماں باپ کی قضا نمازیں پرنٹ ; PDF ماں باپ کی قضا نمازیں س 539: میرے والد فالج (برین ہیمبرج) کا شکار ہوئے اور اس کے بعد دو سال تک مریض رہے، اس مرض کی بنا پر وہ اچھے برے میں تمیز نہیں کر پاتے تھے یعنی ان سے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب ہو گئی تھی، چنانچہ دو برسوں کے دوران انہوں نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی نماز ادا کی۔ میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، لہذا کیا مجھ پر ان کے روزہ اور نماز کی قضا واجب ہے؟. جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ مرض میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی قضا مجھ پر واجب تھی۔ اس مسئلہ میں آپ میری راہنمائی فرمائیں۔ ج: اگر ان کی قوت عاقلہ اتنی زیادہ کمزور نہیں ہوئی تھی کہ جس پر جنون کا عنوان صادق آ سکے اور نماز کے پورے اوقات میں وہ بے ہوش بھی نہیں رہتے تھے تو ان کی چھوٹ جانے والی نمازوںاور روزوں کی قضا واجب ہے ورنہ اس سلسلے میں آپ پر کچھ واجب نہیں ہے۔ س 540: اگر ایک شخص مر جائے تو اس کے روزہ کا کفارہ دینا کس پر واجب ہے؟ کیا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں پر یہ کفارہ دینا واجب ہے؟ یا کوئی اور شخص بھی دے سکتا ہے؟ ج: جو کفارہ باپ پر واجب تھا اگر وہ کفارۂ مخیرہ تھا یعنی وہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت رکھتا تھا تو اگر اسکے ترکہ میں سے کفارہ کا دینا ممکن ہو تو اس میں سے نکالا جائے، ورنہ واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹا روزے رکھے۔ س 541: ایک سن رسیدہ آدمی بعض معلوم اسباب کی بناپر اپنے گھروالوں سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کیلئے ان سے رابطہ رکھنا مقدور نہیں ہے اور یہی اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا بھی ہے، اسی زمانے میں اس کے والد کا انتقال ہو جاتاہے اور وہ باپ کی قضا نمازوںو غیرہ کی مقدار نہیں جانتا ہے اور اس کے پاس اتنا مال بھی نہیں ہے کہ وہ باپ کی نماز اجارہ پرپڑھوائے۔ نیز بڑھاپے کی وجہ سے خود بھی باپ کی قضا نمازیں بجا نہیں لا سکتا اسکی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: باپ کی صرف انہی نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے چھوٹ جانے کا بڑے بیٹے کو یقین ہو اور جس طریقے سے بھی ممکن ہو بڑے بیٹے پر باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ اور اگر اس کی انجام دہی سے عاجز ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ س542: اگر کسی شخص کی اولاد میں سے سب سے بڑی بیٹی ہو اور دوسرے نمبر پر بیٹا ہو تو کیا ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے اس بیٹے پر واجب ہیں؟ ج: معیار یہ ہے کہ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا ہو اگر اس کے والدکے اور بیٹے بھی ہوں لہذا مذکورہ سوال میں باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا اس بیٹے پر واجب ہے جو باپ کی اولاد میں سے دوسرے نمبر پرہے اور ماں کی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا بھی بنا بر احتیاط واجب ہے۔ س 543: اگر بڑے بیٹے کا باپ سے پہلے انتقال ہو جائے ۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ۔ تو کیا باقی اولاد سے باپ کی نمازوں کی قضا ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟ ج: باپ کے روزہ اور نماز کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے، جو باپ کی وفات کے وقت زندہ ہو خواہ وہ باپ کی پہلی اولاد یا پہلا بیٹا نہ بھی ہو۔ س 544: میں اپنے باپ کی اولاد میں بڑا بیٹا ہوں، کیا مجھ پر واجب ہے کہ باپ کی قضا نمازوں کی ادائیگی کی غرض سے ان کی زندگی میں ان سے تحقیق کروں یا ان پر واجب ہے کہ وہ مجھے ان کی مقدار سے با خبر کریں، پس اگر وہ با خبر نہ کریں تو میرا کیا فریضہ ہے؟ ج: آپ پر تحقیق اور سوال کرنا واجب نہیں ہے، لیکن اس سلسلہ میں باپ پر واجب ہے کہ جب تک اسکے پاس فرصت ہے خود پڑھے اور اگرنہ پڑھ سکے تو وصیت کرے بہر حال بڑے بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کے ان روزوں اور نمازوں کی قضا کرے کہ جن کے چھوٹ جانے کا اسے یقین ہے۔ س 545: ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اور اس کا کل اثاثہ وہ گھر ہے جس میں اس کی اولاد رہتی ہے، اور اس کے ذمہ روزے اور نمازیں باقی رہ گئے ہیں اور بڑا بیٹا اپنی روزمرہ مصروفیات کی بنا پر انہیں ادا نہیں کر سکتا، پس کیا ان پر واجب ہے کہ وہ اس گھر کو فروخت کر کے باپ کے روزے اور نمازیں قضاکروائیں؟ ج: مذکورہ فرض میں گھر بیچنا واجب نہیں ہے لیکن باپ کی نمازوں اور روزوں کی قضا بہر صورت اس کے بڑے بیٹے پر ہے، لیکن اگر مرنے والا یہ وصیت کر جائے کہ اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے اجرت پر نماز اور روزہ کی قضا کرائیں اورایک تہائی ترکہ بھی اس کی تمام نمازوں اور روزوں کی قضا کے لئے کافی ہو تو ترکہ میں سے ایک تہائی مال اس کام میں صرف کرنا واجب ہے۔ س 546: اگر بڑا بیٹا جس پر باپ کی قضا نماز یںواجب تھیں، مر جائے تو کیا اس قضا کو بڑے بیٹے کے وارث ادا کریں گے یا یہ قضا اسکے دوسرے بڑے بیٹے پر واجب ہو گی؟ ج: باپ کی جو قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب تھے، باپ کے فوت ہوجانے کے بعد اس بڑے بیٹے کے فوت ہوجانے کی صورت میں اسکے بیٹے یابھائی پر واجب نہیں ہیں۔ س 547: اگر باپ نے کوئی نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس کی ساری نمازیں قضا ہیں اور بڑے بیٹے پر ان کا بجا لانا واجب ہے؟ ج: بنا بر احتیاط اس کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ س 548: جس باپ نے جان بوجھ کر اپنے تمام عبادی اعمال کو ترک کر دیا ہو تو کیا بڑے بیٹے پر اسکی تمام نمازوں اور روزوں کا ادا کرنا واجب ہے کہ جن کی مقدار پچاس سال تک پہنچتی ہے؟ ج: اس صورت میں بھی احتیاط ان کی قضا کرنے میں ہے۔ س 549: جب بڑے بیٹے پر خود اس کی نماز اور روزوں کی بھی قضا ہو اور باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا بھی ہو تو اس وقت دونوں میں سے کس کو مقدم کرے گا؟ ج: اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ جس کو بھی پہلے شروع کرے صحیح ہے۔ س 550: میرے والد کے ذمہ کچھ قضا نمازیں ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہیں ہے اور میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، کیا یہ جائز ہے کہ میں ان کی چھوٹ جانے والی نمازیں بجا لاؤں یا کسی شخص کو اس کا م کے لئے اجیر کروں جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں؟ ج: زندہ شخص کی قضا نمازوں اور روزوں کی نیابت صحیح نہیں ہے۔ نماز جماعت نماز جماعت پرنٹ ; PDF نماز جماعت س 551: امام جماعت نماز میں کیا نیت کرے؟ جماعت کی نیت کرے یا فرادیٰ کی؟ ج: اگر جماعت کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ امامت و جماعت کا قصد کرے اور اگر امامت کے قصد کے بغیر نماز شروع کر دے تو اس کی نماز میں اور دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 552: فوجی مراکز میں نماز جماعت کے وقت۔کہ جو دفتری کام کے اوقات میں قائم ہوتی ہے۔ بعض کارکن کام کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے، حالانکہ وہ اس کام کو دفتری اوقات کے بعد یا دوسرے دن بھی انجام دے سکتے ہیں تو کیا اس عمل کو نماز کو اہمیت نہ دینا شمار کیا جائے گا؟ ج: اول وقت اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ دفتری امور کو اس طرح منظم کریں جس سے وہ لوگ اس الٰہی فریضہ کو کم سے کم وقت میں جماعت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ س 553: ان مستحب اعمال، جیسے مستحب نماز یا دعائے توسل اور دوسری دعاؤں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو سرکاری اداروں میں نماز سے پہلے یا بعد میں یا اثنائے نماز میں پڑھی جاتی ہیں کہ جن میں نماز جماعت سے بھی زیادہ وقت صرف ہوتا ہے؟ ج: وہ مستحب اعمال اور دعائیں جو نماز جماعت کہ جو الہی فریضہ اور اسلامی شعائر میں سے ہے، کے ساتھ انجام پاتے ہیں، اگر دفتری وقت کے ضائع ہونے اور واجب کاموں کی انجام دہی میں تاخیر کا باعث ہوں تو ان میں اشکال ہے۔ س 554: کیا اس جگہ دوسری نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے جہاں سے قریب ہی نماز گزاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ ایک اور نماز جماعت بر پا ہو رہی ہو اس طرح کہ اس کی اذان اور اقامت کی آواز بھی سنائی دے؟ ج: دوسری جماعت کے قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن مؤمنین کے شایان شان یہ ہے کہ وہ ایک ہی جگہ جمع ہوں اور ایک ہی جماعت میں شریک ہوں تاکہ نماز جماعت کی عظمت کوچار چاند لگ جائیں۔ س 555: جب مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے تو اس وقت بعض افراد فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں، اس عمل کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ عمل نماز جماعت کو کمزور کرنا اور اس امام جماعت کی اہانت اور بے عزتی شمار کیا جائے کہ جس کے عادل ہونے پر لوگ اعتماد کرتے ہیں تو جائز نہیں ہے۔ س 556: ایک محلہ میں متعدد مساجد ہیں اور سب میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور ایک مکان دو مسجدوں کے درمیان واقع ہے اس طرح کہ ایک مسجد اس سے دس گھروں کے فاصلہ پر واقع ہے اور دوسری دو گھروں کے بعد ہے اور اس گھر میں بھی نماز جماعت بر پا ہوتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ ج: سزاوار ہے کہ نماز جماعت کو اتحاد و الفت کے لئے قائم کیا جائے نہ کہ اختلاف و افتراق کی فضا پھیلانے کا ذریعہ بنایا جائے اور مسجد کے پڑوس میں واقع گھر میں نماز جماعت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اختلاف و پراگندگی کا سبب نہ ہو۔ س 557: کیا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ مسجد کے مستقل امام ـکہ جس کو امور مساجد کے مرکز کی تائید حاصل ہے۔ کی اجازت کے بغیر اس مسجد میں نماز جماعت قائم کرے؟ ج: نماز جماعت قائم کرنا امام راتب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام راتب مسجد میں موجود ہو تو اس کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کی جائے، بلکہ اگر یہ مزاحمت فتنہ و شر کے بھڑک اٹھنے کا سبب ہو تو حرام ہے۔ س 558: اگر امام جماعت کبھی غیر شائستہ انداز سے بات کرے یا ایسا مذاق کرے جو عالم دین کے شایان شان نہ ہو تو کیا اس سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے؟ ج: اگر یہ شریعت کے مخالف نہ ہوتو اس سے عدالت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ س 559: کیا امام جماعت کی کما حقہ پہنچاں نہ ہونے کے با وجود اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے؟ ج: اگر ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقہ سے امام کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی اقتداء جائز ہے اور جماعت صحیح ہے۔ س 560: اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو عادل و متقی سمجھتا ہو اور اسی لمحہ اس بات کا بھی معتقد ہو کہ اس نے بعض موقعوں پراس پر ظلم کیا ہے تو کیا وہ اسے کلی طور پر عادل سمجھ سکتا ہے؟ ج: جب تک اس شخص کے بارے میں ۔جس کو اس نے ظالم سمجھا ہے۔ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے وہ کام علم و اختیار سے اور کسی شرعی جواز کے بغیر انجام دیا ہے تو اس وقت تک وہ اس کے فاسق ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا۔ س 561: کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرنا جائز ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن نہیں کرتا؟ ج: صرف امر بالمعروف نہ کرنا جو ممکن ہے مکلف کی نظر میں کسی قابل قبول عذر کی بنا پر ہو، عدالت کو نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی اس کی اقتداء کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ س562: آپ کے نزدیک عدالت کے کیا معنی ہیں؟ ج: یہ ایک نفسانی حالت ہے جو باعث ہوتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایسا تقوا رکھتا ہو جو اسے واجبات کے ترک اور شرعی محرمات کے ارتکاب سے روکے اور اس کے اثبات کے لئے ا س شخص کے ظاہر کا اچھا ہونا ہی کافی ہے۔ س563: ہم چند جوانوں کا ایک گروہ عزاخانوں اور امام بارگاہوں میں ایک جگہ جمع ہوتا ہے، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو اپنے درمیان میں سے کسی ایک عادل شخص کو نماز جماعت کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں، لیکن بعض برادران اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی نے غیر عالم دین کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے، لہذا ہمارا فریضہ کیا ہے؟ ج: اگر عالم دین تک دسترسی ہو تو غیر عالم دین کی اقتدا نہ کریں۔ س564: کیا دو اشخاص نماز جماعت قائم کرسکتے ہیں؟ ج: اگر مراداس طرح نمازجماعت کی تشکیل ہے کہ ایک امام ہو اور دوسرا ماموم تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س565: اگر مأموم ظہر و عصر کی نماز باجماعت پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کو متمرکز رکھنے کیلئے حمد و سورہ خود پڑھے جب کہ حمد وسورہ پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: ظہر و عصر جیسی اخفاتی نمازوں میں، احتیط واجب کی بنا پر ماموم حمد اور سوره نه پڑھے،چاہے اپنے ذہن کو متمرکز کرنے کی غرض ہی سے ہو اور مستحب یه هے که حمد اور سوره کی بجای کوئی ذکر پڑهے. س566: اگر کوئی امام جماعت ٹریفک کے تمام قوانین کی رعایت کرتے ہوئے سائیکل کے ذریعہ نماز جماعت پڑھانے جاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اس سے عدالت اور امامت کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ س567: جب ہم نماز جماعت سے نہیں مل پاتے اور ثواب جماعت حاصل کرنے کی غرض سے تکبیرة الاحرام کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں اور امام کے ساتھ تشہد پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور پہلی رکعت پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت کے تشہد میں ایسا کرنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ طریقہ، امام جماعت کی نماز کے آخری تشہد سے مخصوص ہے تا کہ جماعت کا ثواب حاصل کیا جا سکے۔ س 568: کیا امام جماعت کے لئے نماز کے مقدمات کی اجرت لینا جائز ہے؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 569: کیا امام جماعت کے لئے عید یا کوئی سی بھی دو نمازوں کی ایک وقت میں امامت کرانا جائز ہے؟ ج: نماز پنجگانہ میں دوسرے مامومین کی خاطرنماز جماعت کو ایک بار تکرار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز عید کا تکرار کرنے میں اشکال ہے۔ س 570: جب امام نمازعشاء کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری رکعت میں ہو تو کیا ماموم پر واجب ہے کہ حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے؟ ج: واجب ہے کہ دونوں کو آہستہ آواز سے پڑھے۔ س 571: نماز جماعت کے سلام کے بعد نبی اکرمؐ پر صلوات کی آیت (ان اللہ و ملائکتہ…) پڑھی جاتی ہے۔ پھر نمازگزار محمد و آل محمد(علیہم السلام) پر تین مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور اس کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور اس کے بعد سیاسی نعرے لگاتے ہیں۔ یعنی دعا اور برائت کے جملے کہے جاتے ہیں جنہیں مؤمنین بلند آواز سے دہراتے ہیں کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ ج: آیت صلوات پڑھنے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ مطلوب ہے اور اس میں ثواب ہے اور اسی طرح اسلامی نعرے اور اسلامی انقلاب کے نعرے، (تکبیر اور اس کے ملحقات)کہ جو اسلامی انقلاب کے عظیم پیغام و مقاصد کی یاد تازہ کرتے ہیں، بھی مطلوب ہیں۔ س572: اگر ایک شخص مسجد میں نماز جماعت کی دوسری رکعت میں پہنچے اور مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد و قنوت کہ جن کا بجا لانا واجب تھا نہ بجا لائے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟ ج: نماز صحیح ہے لیکن بنابر احتیاط تشہد کی قضا اور تشہد چھوڑنے کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بجا لانا واجب ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا بجالائے۔ س 573: نماز میں جس کی اقتداء کی جا رہی ہے کیا اس کی رضامندی شرط ہے؟ اور کیا ماموم کی اقتداء کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ ج: اقتداء کے صحیح ہونے میں امام جماعت کی رضا مندی شرط نہیں ہے اور ماموم جب تک اقتدا کر رہا ہے اسکی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔ س 574: دو اشخاص، ایک امام اور دوسرا ماموم جماعت قائم کرتے ہیں، تیسرا شخص آتا ہے وہ دوسرے (یعنی ماموم) کو امام سمجھتا ہے اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام نہیں بلکہ ماموم تھا پس اس تیسرے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: ماموم کی اقتداء صحیح نہیں ہے، لیکن جب وہ نہ جانتا ہو اور اس کی اقتداء کر لے تو اگر وہ رکوع و سجود میں اپنے انفرادی فریضہ پر عمل کیا هو یعنی عمداً اور سہواً کسی رکن کی کمی اور زیادتی نہیں کیا هو تو اس کی نماز صحیح ہے۔ س 575: جو شخص نماز عشاء پڑھنا چاہتا ہے، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز مغرب کی جماعت میں شریک ہو؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 576: مامومین سے امام کی نماز کے مقام کے بلند ہونے کی رعایت نہ کرنے سے، کیا ان کی نماز باطل ہوجاتی ہے؟ ج: اگر امام کی جگہ، مامومین کی جگہ سے اس حد سے زیادہ بلند ہو کہ جس کی شرعاًاجازت ہے ( یعنی ایک بالشت یا اس سے زیادہ ہو) تو ان کی جماعت کے باطل ہونے کا سبب ہوگی۔ س577: اگر نماز جماعت کی ایک صف میں تمام وہ لوگ نماز پڑھیں کہ جن کی نماز قصر ہے اور اس کے بعد والی صف ان لوگوں کی ہو جن کی نماز پوری ہے تو اس صورت میں اگر اگلی صف والے دو رکعت نماز تمام کرنے کے فوراً بعد اگلی دو رکعت کی اقتداء کیلئے کھڑے ہو جائیں تو کیا بعد کی صف والوں کی آخری دو رکعت کی جماعت باقی رہے گی یا ان کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی؟ ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں وہ فوراً اقتدا کر لیتے ہیں تو جماعت باقی رہے گی۔ س578: کیاوہ ماموم جو نماز کی پہلی صف کے آخری سرے پر کھڑا ہو ان مامومین سے پہلے نماز میں شامل ہو سکتا ہے جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں؟ ج: جب وہ مامومین کہ جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں، امام جماعت کے جماعت شروع کرنے کے بعد، نمازمیں اقتدا کے لئے مکمل طور پر تیار ہوں اورتکبیر کہنے کے قریب ہوں تو وہ جماعت کی نیت سے نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔ س579: جو شخص یہ سمجھ کر کہ امام کی پہلی رکعت ہے اس کی تیسری رکعت میں شریک ہو جائے اور کچھ نہ پڑھے تو کیا اس پر اعادہ واجب ہے؟ ج: اگر وہ رکوع میں جانے سے پہلے ہی اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس پر قرأئت واجب ہے اگر وقت نه هو تو فقط حمد پڑهے اور رکوع میں امام سے ملے اور اگر رکوع کی حالت میں متوجہ ہو جائےتو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ سہواً قرأئت ترک کرنے کے سبب دو سجدہ سہو بجا لائے۔ س580: سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں نماز جماعت قائم کرنے کیلئے امام جماعت کی اشد ضرورت ہے اور چونکہ میرے علاوہ اس علاقہ میں کوئی عالم دین نہیں ہے، اس لئے میں مجبوراً مختلف مقامات پر ایک واجب نماز کی تین یا چار مرتبہ امامت کراتا ہوں۔ دوسری مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے تو سارے مراجع نے اجازت دی ہے، لیکن کیا اس سے زائد کو احتیاطاً قضا کی نیت سے پڑھایا جا سکتا ہے؟ ج: مذکوره سوال کے مطابق نماز قضای احتیاطی کی نیت سے امامت صحیح نهیں هے. س581: ایک یونیورسٹی نے اپنے اسٹاف کے لئے یونیورسٹی کی ایسی عمارت میں نماز جماعت قائم کی ہے جوشہر کی ایک مسجد کے نزدیک ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ عین اسی وقت مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے، یونیورسٹی کی جماعت میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟ ج: ایسی نماز جماعت میں شرکت کرنے میں کہ جس میں ماموم کی نظر میں اقتداء اور جماعت کے صحیح ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ جماعت اس مسجد سے قریب ہی ہورہی ہو جس میں عین اسی وقت نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔ س582: کیا اس امام کے پیچھے نماز صحیح ہے جو قاضی ہے لیکن مجتہد نہیں ہے؟ ج: اس کا تقرر اگر ایسے شخص نے کیا ہے جس کو اس کا حق ہے تو اس کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ س583: جو شخص نماز مسافر میں امام خمینی کا مقلد ہے، کیا ایک ایسے امام جماعت کی اقتداء کرسکتا ہے جو اس مسئلہ میں کسی اور مرجع کا مقلد ہو خصوصاً جبکہ اقتداء نماز جمعہ میں ہو؟ ج: تقلید کا اختلاف اقتداء کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے، لیکن اس نماز کی اقتداء صحیح نہیں ہے جو ماموم کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق قصر ہو اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق کامل ہو یا اسکے برعکس ہو۔ س584: اگر امام جماعت تکبیرة الاحرام کے بعد بھولے سے رکوع میں چلا جائے تو ماموم کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر ماموم نماز جماعت میں شامل ہونے کے بعداور رکوع میں جانے سے پہلے اس طرف متوجہ ہوجائے تو اس پر فرادیٰ کی نیت کر لینا اور حمد و سورہ پڑھنا واجب ہے۔ س585: اگر نماز جماعت کی تیسری یا چوتھی صف کے بعد اسکولوں کے نابالغ بچے نماز کیلئے کھڑے ہوں اور ان کے پیچھے بالغ اشخاص کھڑے ہوں تو اس حالت میں بالغ افراد جو پیچهلی لائن میں کهڑے هیں، کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر(بالغ اشخاص) جانتے هوں ان(نا بالغ بچوں) کی نماز صحیح هے تو اقتدا اور جماعت کے ساته نماز پڑه سکتے هیں. س586: اگر امام جماعت نے معذور ہونے کے سبب غسل کے بدلے تیمم کیا ہو توکیایہ نماز جماعت پڑھانے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟ ج: اگر وہ شرعی اعتبار سے معذور ہو تو غسل جنابت کے بدلے تیمم کرکے امامت کرا سکتا ہے اور اس کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے پرنٹ ; PDF اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے س587: کیا قرأت صحیح ہونے کے مسئلہ میں فرادیٰ نماز نیز ماموم یا امام کی نمازکے درمیان کوئی فرق ہے؟ یا قرأت کے صحیح ہونے کا مسئلہ ہر حال میں ایک ہی ہے؟ ج: اگر مکلف کی قرأت صحیح نہ ہو اور وہ سیکھنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اسکی نماز صحیح ہے، لیکن دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ س588: حروف کے مخارج کے اعتبار سے، بعض ائمہ جماعت کی قرأت صحیح نہیں ہے توکیا انکی اقتداء ایسے لوگ کرسکتے ہیں جو حروف کو صحیح طریقہ سے ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوں؟ بعض لوگ کہتے ہیں تم جماعت سے نمازپڑھ سکتے ہو لیکن اس کے بعد نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، لیکن میرے پاس اعادہ کرنے کا وقت نہیں ہے، تو میرا کیا فریضہ ہے؟ اور کیا میرے لئے یہ ممکن ہے کہ جماعت میں شریک تو ہوجاؤں لیکن آہستہ طریقے سے حمد و سورہ پڑھوں؟ ج: جب ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء اور نماز جماعت باطل ہے اور اگر وہ اعادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اقتداء نہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، لیکن جہری نماز میں آہستہ سے حمد وسورہ پڑھنا کہ جو امام جماعت کی اقتداء کے ظاہر کرنے کیلئے ہو صحیح اور کافی نہیں ہے۔ س589: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند ایک ائمہ جمعہ کی قرأت صحیح نہیں ہے، یا تو وہ حروف کو اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح وہ ہیں یا وہ حرکت کو اس طرح بدل دیتے ہیں کہ جس سے وہ حرف نہیں رہتاکیا ان کے پیچھے پڑھی جانے والی نمازوں کے اعادہ کے بغیر ان کی اقتداء صحیح ہے؟ ج: قرائت صحیح ہونے کا معیار حروف کی حرکات اور سکنات اور ان کے مخارج سے ادائیگی کی رعایت ہے اس طرح کہ عربی زبان والے اس کو (کوئی دوسرا حرف نہیں بلکہ) وہی حرف سمجھیں اور تجوید کے محاسن کی رعایت لازمی نہیں ہے؛ اگر ماموم، امام کی قرأت کو قواعد کے مطابق نہ پائے اور اس کی قرأت کو صحیح نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے اور اس صورت میں اگر وہ اس کی اقتداء کرے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ س590: اگر امام جماعت کو اثنائے نمازمیں کسی لفظ کو ادا کرنے کے بعداس کے تلفظ کی کیفیت میں شک ہوجائے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہوکہ اس نے اس لفظ کے تلفظ میں غلطی کی تھی تو اس کی اور مامومین کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز صحیح ہے۔ س591: اس شخص اور خاص کر قرآن کے مدرس کا شرعی حکم کیا ہے جو تجوید کے اعتبار سے امام جماعت کی نماز کو یقین کے ساتھ غلط سمجھتا ہے، جبکہ اگر وہ جماعت میں شرکت نہ کرے تو اس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں؟ ج: علم تجوید کے خوبصورت قرأت کے معیارات کی رعایت ضروری نہیں ہے لیکن اگر مموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو اور نتیجةً اس کی نظر میں اس کی نماز بھی صحیح نہیں ہے، ایسی صور ت میں وہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا، لیکن عقلائی مقصد کے لیے نماز جماعت میں ظاہری طور پر شرکت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ معذور کی امامت معذور کی امامت پرنٹ ; PDF معذور کی امامت س592: اُن معذور افراد کی اقتدا کرنے کا کیا حکم ہے کہ جن کا ہاتھ یا پاؤں مفلوج ہوچکا ہو؟ ج: احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے۔ س593: میں ایک دینی طالب علم ہوں، آپریشن کی وجہ سے میرا دایاں ہاتھ کٹ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم ہو اکہ امام خمینی کامل کے لئے ناقص کی امامت کو جائز نہیں سمجھتے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ان مامومین کی نماز کا حکم بیان فرمائیں جن کو ابھی تک میں نے امامت کرائی ہے؟ ج: مأمومین کی گزشتہ نمازیں کہ جنہوں نے حکم شرعی سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کی اقتداء کی ہے، صحیح ہیں۔ ان پر نہ قضا واجب ہے اور نہ اعادہ۔ س 594: میں دینی طالب علم ہوں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ جنگ میں میرا پیر زخمی ہوا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا اور اس وقت میں ایک امام بارگاہ میں امام جماعت ہوں۔ کیا اس میں کوئی شرعی اشکال ہے یا نہیں؟ ج: امام جماعت میں اس قدر نقص، امامت کیلئے مضر نہیں ہے ہاں اگر پورا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو امامت کرنے میں اشکال ہے۔ نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت پرنٹ ; PDF نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت س 595: کیا شارع مقدس نے عورتوں کو بھی مسجدوں میں نماز جماعت یا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی اسی طرح ترغیب دلائی ہے جس طرح مردوں کو دلائی ہے، یا عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے؟ ج: عورتوں کے جمعہ و جماعت میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ان کو جماعت کا ثواب ملے گا۔ س 596: عورت کب امام جماعت بن سکتی ہے؟ ج: عورت کا فقط عورتوں کی نماز جماعت کے لئے امام بننا جائز ہے۔ س 597: استحباب و کراہت کے لحاظ سے مردوں کی طرح عورتوں کی نماز جماعت میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو اس وقت ان کا کیا حکم ہے؟ کیا جب وہ مردوں کے پیچھے نماز جماعت کے لئے کھڑی ہوں تو کسی حائل یا پردے کی ضرورت ہے؟ اور اگر نماز میں وہ مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو حائل کے لحاظ سے کیا حکم ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جماعت ، تقاریر اور دیگر پروگراموں کے دوران عورتوں کا پردے کے پیچھے ہونا ان کی توہین اور شان گھٹانے کا موجب ہے؟ ج: عورتوں کے نماز جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردے اور حائل کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو نماز میں مرد کے برابر عورتوں کے کھڑے ہونے کی کراہت کو دور کرنے کے لئے سزاوار ہے کہ ان کے درمیان حائل ہو یہ توہم کہ حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل لگانا عورت کی شان گھٹانے اور اس کی عظمت کو کم کرنے کا موجب ہے محض ایک خیال ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، مزید یہ کہ فقہ میں اپنی ذاتی رائے کو دخل دینا صحیح نہیں ہے۔ س 598: حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردے اور حائل کے بغیر اتصال اور عدم اتصال کی کیا کیفیت ہونی چاہیے؟ ج: عورتیں فاصلہ کے بغیر مردوں کے پیچھے کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اہل سنت کی اقتداء اہل سنت کی اقتداء پرنٹ ; PDF اہل سنت کی اقتدا س 599: کیا اہل سنت کی اقتدا میں نماز جائز ہے؟ ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کے لئے ان کے پیچھے نماز جماعت پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔ س 600: میں کُردوں کے علاقہ میں ملازمت کرتا ہوں، وہاں ائمہ جمعہ و جماعات کی اکثریت اہل سنت کی ہے ان کی اقتداء کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا ان کی غیبت کرنا جائز ہے؟ ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کیلئے ان کے ساتھ ان کی جماعت اور جمعہ کی نمازوں میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور غیبت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ س 601: اہل سنت کے ساتھ معاشرت اور ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر نماز پنجگانہ میں شرکت کے دوران بعض موقعوں پر ہم بھی ان ہی کی طرح عمل کرتے ہیں مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا، وقت کی رعایت و پابندی نہ کرنا اور جائے نماز پر سجدہ کرنا، تو کیا ایسی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے؟ ج: اگر اسلامی اتحاد ان تمام چیزوں کا تقاضا کرے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے یہاں تک کہ جائے نماز پر سجدہ و غیرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔ س602: ہم مکہ اور مدینہ میں، اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھتے ہیں اور ایسا کام ہم امام خمینی کے فتوے کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے ظہر و مغرب کی نماز کے بعد، عصر و عشاء کی نمازیں بھی ہم اہل سنت کی مساجد میں سجدہ گاہ کے بغیر فرادیٰ پڑھتے ہیں، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ فرض میں اگر تقیہ کے خلاف نہ ہو تو ایسی چیز پر سجدہ کرے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔ س 603: ہم شیعوں کیلئے دوسرے ممالک کی مساجد میں اہل سنت کی نماز میں شرکت کرنا کیسا ہے؟جبکہ وہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں؟ اور کیا ان کی طرح ہاتھ باندھنا ہمارے اوپر واجب ہے یا ہم ہاتھ باندھے بغیر نماز پڑھیں؟ ج: اگر اسلامی اتحاد کی رعایت مقصود ہو تو اہل سنت کی اقتداء جائز ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہی نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔ س 604: اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت قیام کی حالت میں دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص کے پیروں کی چھوٹی انگلی سے انگلی ملانے کا کیا حکم ہے جیسا کہ اہل سنت اس کے پابند ہیں؟ ج: یہ واجب نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس سے نماز کی صحت پر اثر انداز نهیں هوتا۔ س 605: حج کے زمانے میں یا اس کے علاوہ برادران اہل سنت ہماری (شیعہ) اذان مغرب سے قبل مغرب کی نماز پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ان کی اقتداء کرنا اور اس نماز پر اکتفاء کرنا صحیح ہے؟ ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے ہیں، لیکن اگر مکلف کے لئے وقت کا داخل ہونا ثابت نہ ہوا ہو تو اس کا نماز میں شامل ہونا صحیح نہیں ہے۔ مگر یه که تقیے کی خاطر هو ۔ نماز جمعہ نماز جمعہ پرنٹ ; PDF نماز جمعہ س 606: نماز جمعہ میں شریک ہونے کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ جبکہ ہم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں، اور اگر بعض اشخاص امام جمعہ کو عادل نہ مانتے ہوں تو کیا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی ذمہ داری ان سے ساقط ہے یا نہیں؟ ج: نماز جمعہ اگرچہ دور حاضر میں واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے، لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد و اہمیت کے پیش نظر، صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا دیگر کمزوربہانوں کی بنا پر مؤمنین خود کو ایسی نماز کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔ س 607: نماز جمعہ میں واجب تخییری کے کیا معنی ہیں؟ ج: اس کے معنی یہ ہیں کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ وہ نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔ س 608: نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟ ج: عبادی و سیاسی پہلو رکھنے والی نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے ناپسندیده ہے۔ س 609: کچھ لوگ کمزوراور عبث بہانوں کی بنا پر نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور بعض اوقات نظریاتی اختلاف کے باعث شرکت نہیں کرتے، اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟ ج: نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی طور پر ناپسندیده ہے۔ س 610: نماز ظہر کا عین اس وقت جماعت سے منعقد کرنا، جب نماز جمعہ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک اور مقام پر برپا ہو رہی ہو، جائز ہے یا نہیں؟ ج: بذات خود اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور اس سے مکلف جمعہ کے دن کے فریضہ ٔ ظہر سے بری الذمہ ہو جائے گا، کیونکہ دور حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے، لیکن چونکہ جمعہ کے دن، نماز جمعہ کے مقام سے قریب با جماعت نماز ظہر قائم کرنا ممکن ہے کہ مومنین کی صفوں میں تفرقہ کا باعث بنے ،بلکہ اسے عوام کی نظر میں امام جمعہ کی توہین اور بے حرمتی اور نماز جمعہ سے لاپروائی کا اظہار شمار کیا جائے بنابرایں مناسب یہ ہے کہ مومنین اس کو انجام دینے کا اقدام نہ کریں بلکہ اگر اس سے مفاسد اور حرام نتائج بر آمد ہوتے ہوں تو اس سے اجتناب واجب ہے۔ س 611: کیا نماز جمعہ و عصر کے درمیانی وقفہ میں نماز ظہر پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور شخص نماز عصر پڑھائے تو کیا عصر کی نماز میں اس کی اقتداء کرنا جائز ہے؟ ج: نماز جمعہ، نماز ظہر سے بے نیاز کر دیتی ہے، لیکن نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر کو جماعت سے پڑھنا مقصود ہو تو کامل احتیاط یہ ہے کہ نماز عصر اس شخص کی اقتداء میں ادا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر بھی پڑھی ہو۔ س 612: اگر نماز جمعہ کے بعد امام جماعت نماز ظہر نہ پڑھے تو کیا ماموم احتیاطاً نماز ظہر پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ ج: اس کے لئے نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔ س 613: کیا امام جمعہ کیلئے واجب ہے کہ وہ حاکم شرع سے اجازت حاصل کرے؟ اور حاکم شرع سے کیا مراد ہے؟ اور کیا یہی حکم دور دراز کے شہروں کے لئے بھی ہے؟ ج: نماز جمعہ کی امامت کا اصل جواز اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن امامت جمعہ کے لئے امام کے نصب کے احکام کا مترتب ہونا ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے پر موقوف ہے۔ اور یہ حکم ہر اس سرزمین اور شہر کے لئے عمومیت رکھتا ہے کہ جس میں ولی فقیہ کی اطاعت کی جاتی ہو اور وہ اس میں حاکم ہو۔ س 614: کیا منصوب شدہ امام جمعہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بغیر کسی مانع اور معارض کے اس جگہ نماز جمعہ قائم کرے جہاں اسے منصوب نہ کیا گیا ہو؟ ج: بذات خود نماز جمعہ قائم کرنا اس کے لئے جائز ہے، لیکن اس پر جمعہ کی امامت کے لئے نصب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔ س 615: کیا موقت اور عارضی ائمہ جمعہ کے انتخاب کے لئے واجب ہے کہ انہیں ولی فقیہ منتخب کرے یا خود ائمہ جمعہ کو اتنا اختیار ہے کہ وہ امام موقت کے عنوان سے افراد کو منتخب کریں؟ ج: منصوب شدہ امام جمعہ کسی کو اپنا وقتی اور عارضی نائب بنا سکتا ہے۔ لیکن نائب کی امامت پر ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔ س 616: اگر انسان منصوب شدہ امام جمعہ کو عادل نہ سمجھتا ہو یا اس کی عدالت میں شک کرتا ہو تو کیا مسلمین کی وحدت کے تحفظ کی خاطر اس کی اقتدا جائز ہے؟ اور جو شخص خود نماز جمعہ میں نہیں آتا، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ و ہ دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دے؟ ج: اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے جس کو وہ عادل نہ سمجھتا ہو یا جس کی عدالت میں شک کرتا ہو اور نہ ہی اس کی نمازجماعت صحیح ہے، لیکن وحدت کے تحفظ کی خاطر جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہر حال اسے دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت سے روکنے اور دوسروں کو اس کے خلاف بھڑکانے کا حق نہیں ہے۔ س 617: اس نماز جمعہ میں شریک نہ ہونے کا کیا حکم ہے کہ جس کے امام جمعہ کا جھوٹ مکلف پر ثابت ہو گیا ہو؟ ج: جو بات امام جمعہ نے کہی ہے اس کے بر خلاف انکشاف ہونا اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے غلطی یا توریہ کے طور پر یہ بات کہی ہو، لہذا صرف اس خیال اور توہم سے کہ امام جمعہ کی عدالت ساقط ہو گئی ہے خود کو نماز جمعہ کی برکتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ س 618: جو امام جمعہ، امام خمینی یا عادل ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہو، کیا ماموم کیلئے اس کی عدالت کا اثبات و تحقیق ضروری ہے، یا امامت جمعہ کیلئے اس کا منصوب ہونا ہی اس کی عدالت کے ثبوت کے لئے کافی ہے؟ ج: امام جمعہ کے عنوان سے اس کے منصوب ہونے سے اگر ماموم کواس کی عدالت کاوثوق و اطمینان حاصل ہوجائے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہے۔ س 619: کیا مساجد کے ائمہ جماعت کا ثقہ علماء کی طرف سے معین کیا جانا یا ولی فقیہ کی جانب سے ائمہ جمعہ کا معین کیا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ عادل ہیں یا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق واجب ہے؟ ج: اگر امام جمعہ یا جماعت کے طور پر منصوب کئے جانے سے ماموم کو ان کی عدالت کا اطمینان و وثوق حاصل ہو جاتا ہو تو ان کی اقتداء کرنا جائز ہے۔ س620: اگر امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو یا خدا نخواستہ اس کے عادل نہ ہونے کا یقین ہو تو کیا اس کی اقتداء میںپڑھی جانے والی نمازوں کا اعادہ واجب ہے ؟ ج: اگر اس کی عدالت میں شک یاعدم عدالت کا یقین نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہو تو جو نمازیں آپ نے پڑھ لی ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کا اعادہ واجب نہیں ہے۔ س 621: اس نماز جمعہ میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جو یورپی ممالک و غیرہ میں وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسلامی ممالک کے طلباء قائم کرتے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے اکثر افراد اور امام جمعہ بھی اہل سنت ہوتے ہیں؟ کیا اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا ضروری ہے؟ ج: مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی خاطر اس میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز ظہر پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔ س 622: پاکستان کے ایک شہر میں چالیس سال سے ایک جگہ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے اور اب ایک شخص نے دو جمعوں کے درمیان شرعی مسافت کی رعایت کئے بغیر دوسری نماز جمعہ قائم کر دی ہے جس سے نماز گزاروں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ شرعاً اس عمل کا کیا حکم ہے؟ ج: کسی ایسے عمل کے اسباب فراہم کرنا جائز نہیں ہے جس سے مؤمنین کے درمیان اختلاف اور ان کی صفوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے، بالخصوص نماز جمعہ کہ جو شعائر اسلامی اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔ س 623: راولپنڈی کی جامع مسجد جعفریہ کے خطیب نے اعلان کیا کہ تعمیری کام کی بنا پر مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ نہیں ہوگی، جب مسجد کی تعمیر کا کام ختم ہوا تو ہمارے سامنے یہ مشکل کھڑی ہو گئی کہ یہاں سے چار کلو میٹر کے فاصلہ پر دوسری مسجد میں نماز جمعہ قائم ہونے لگی، مذکورہ مسافت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ ج: دو نماز جمعہ کے درمیان اگر ایک شرعی فرسخ[1] کا فاصلہ نہ ہو تو بعد میں قائم ہونے والی نماز جمعہ باطل ہے اور اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو اکٹھا قائم کیا جائے تو دونوں باطل ہیں۔ س 624: کیا نماز جمعہ، جو جماعت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے، کو فرادیٰ پڑھنا صحیح ہے؟ اس طرح کہ کوئی شخص نماز جمعہ کو ان لوگوں کے ساتھ فرادیٰ پڑھے جو اسے جماعت سے پڑھ رہے ہوں؟ ج: نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جماعت سے پڑھا جائے، لہذا فرادیٰ صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہے۔ س 625: جس شخص کی نماز قصر ہے کیا وہ امام جمعہ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے ؟ ج: مسافرماموم کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اسے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ س 626: کیا دوسرے خطبہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کا اسم گرامی مسلمانوں کے ایک امام کے عنوان سے لینا واجب ہے یاآپ کا نام لینے میں استحباب کی نیت ضروری ہے؟ ج: ائمہ مسلمین کا عنوان حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیھا کو شامل نہیں ہے اور خطبۂ جمعہ میں آپکا اسم گرامی لینا واجب نہیں ہے، لیکن برکت کے طور پر آپ کے نام مبارک کو ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ پسندیدہ امر ہے اور موجب ثواب ہے س 627: کیا ماموم، امام جمعہ کی اقتداء کرتے ہوئے جبکہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہا ہو کوئی دوسری واجب نماز پڑھ سکتا ہے؟ ج: اس کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔ س 628: کیا ظہر کے شرعی وقت سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے دینا صحیح ہے؟ ج: نماز جمعه کا خطبه زوال سے پہلے دینا جائز ہے. س 629: اگر ماموم دونوں خطبوں میں سے کچھ بھی نہ سنے بلکہ اثنائے نماز جمعہ میں پہنچے اور امام کی اقتداء کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے؟ ج: اس کی نماز صحیح اور کافی ہے، خواہ نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے رکوع سے ایک لحظہ پہلے امام کے ساتھ شامل ہوا ہو۔ س 630: ہمارے شہر میں اذان ظہر کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز جمعہ قائم ہوتی ہے تو کیا یہ نماز، نماز ظہر سے کافی ہے یا نماز ظہر کا اعادہ ضروری ہے؟ ج: شروع زوال آفتاب کے ساتھ نماز جمعہ کا وقت ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ زوال عرفی کے اوائل سے زیادہ تاخیر نہ هو۔ س 631: ایک شخص نماز جمعہ میں جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیا وہ اوائل وقت میں نماز ظہر و عصر پڑھ سکتا ہے؟ یا نماز جمعہ ختم ہونے کا انتظار کرے اور اس کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھے؟ ج: اس پر انتظار واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اول وقت میں نماز ظہرین پڑھنا جائز ہے۔ س 632: اگر منصوب امام جمعہ صحیح و سالم ہو اور وہاں پر حاضر بھی ہو تو کیا وہ عارضی امام جمعہ کو نماز جمعہ پڑھانے کے لئے کہہ سکتا ہے؟ اور کیا وہ عارضی امام جمعہ کی اقتداء کر سکتا ہے؟ ج: منصوب امام جمعہ کے نائب کی امامت میں نماز جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی منصوب امام کے لئے اپنے نائب کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال ہے۔ 1. ایک فرسخ تقریباً 5125 میٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ نماز عیدین نماز عیدین پرنٹ ; PDF نماز عیدین س 633: آپ کی نظر میں نماز عیدین اور جمعہ، واجبات کی کونسی قسم میں سے ہیں؟ ج: عصر حاضر میں نماز عیدین واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔ س 634: کیا نماز عیدین کے قنوت میں کمی اور زیادتی اس کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے؟ ج: اگر اس سے مراد قنوت کو لمبا یا مختصر پڑھنا ہو تو اس سے نماز عید باطل نہیں ہوتی لیکن اگر مراد انکی تعداد میں کمی بیشی کرنا ہو تو ضروری ہے کہ نماز عید اسی طرح پڑھے جیسے فقہی کتب میں مذکور ہے۔ س 635: ماضی میں رواج یہ تھا کہ امام جماعت ہی مسجد میں عیدالفطر کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ کیا اب بھی ائمۂ جماعت کے لئے نماز عیدین پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ ج: ولی فقیہ کے وہ نمائندے جن کو ولی فقیہ کی طرف سے نماز عید قائم کرنے کی اجازت ہو نماز عید پڑھا سکتے ہیں اسی طرح وہ ائمہ جمعہ بھی دور حاضر میں نماز عید، جماعت سے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہے، لیکن ان کے علاوہ باقی افراد کے لئے احوط یہ ہے کہ نماز عید فرادیٰ پڑھیں، اور رجاء کی نیت سے جماعت کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ورود(یعنی اس نیت سے کہ اس کا حکم شریعت میں آیا ہے) کے قصد سے نہیں۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک ہی نماز عید قائم کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے ولی فقیہ کے منصوب کردہ امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور نہ پڑھائے۔ س 636: کیا نماز عید فطر کی قضا کی جا سکتی ہے؟ ج: اس کی قضا نہیں ہے۔ س 637: کیا نماز عید فطر میں اقامت ہے؟ ج: اس میں اقامت نہیں ہے۔ س 638: اگر نماز عید فطر کیلئے اما م جماعت، اقامت کہے تو اس کی اور دیگر نماز گزاروں کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اس سے امام جماعت اور دیگر مامومین کی نماز کے صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نماز مسافر نماز مسافر پرنٹ ; PDF نماز مسافر س 639: مسافر کے لئے ہر نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے یا بعض نمازوں کو؟ ج: قصر کا وجوب پنجگانہ نمازوں کی صرف چار رکعتی یعنی "ظہر و عصر اور عشائ" کی نمازوں سے مخصوص ہے، صبح اور مغرب کی نماز قصر نہیں ہوتی۔ س 640: مسافر پر چار رکعتی نمازوں میں وجوب قصر کے شرائط کیا ہیں؟ ج: یہ آٹھ شرطیں ہیں: ١۔ سفر کی مسافت آٹھ شرعی فرسخ ہو یعنی صرف جانے کا فاصلہ یاصرف آنے کا فاصلہ یا دونوں طرف کا مجموعی فاصلہ آٹھ شرعی فرسخ ہو، بشرطیکہ صرف جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم نہ ہو۔ ٢۔ سفر پر نکلتے وقت آٹھ فرسخ کی مسافت کو طے کرنے کا قصد رکھتا ہو۔ لہذا اگرابتدا سے اس مسافت کا قصد نہ کرے یا اس سے کم کا قصد کرے اور منزل پر پہنچ کر دوسری جگہ کا قصد کر لے اور اس دوسری جگہ اور پچھلی منزل کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر نہ ہو، لیکن جہاں سے پہلے چلا تھا وہاں سے شرعی مسافت ہو تو نماز پوری پڑھے۔ ٣۔ سفر کے دوران شرعی مسافت طے کرنے کے ارادے سے پلٹ جائے، لہذا اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے ارادہ بدل دے یا اس سفر کو جاری رکھنے میں متردد ہو جائے تو اس کے بعد اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا، اگر چہ ارادہ بدلنے سے قبل اس نے جو نمازیں قصر پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں۔ ٤۔شرعی مسافت کو طے کرنے کے دوران اپنے سفر کو اپنے وطن سے گزرنے یا ایسی جگہ سے گزرنے کے ذریعے کہ جہاں دس روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنا چاہتاہے قطع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ ٥۔ شرعی اعتبار سے اس کا سفر جائز ہو، لہذا اگر سفر معصیت کاہو، خواہ وہ سفر خود ہی معصیت و حرام ہو جیسے جنگ سے فرار کرنا یا غرضِ سفر حرام ہو جیسے ڈاکہ ڈالنے کے لئے سفر کرنا، تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور نماز پوری ہوگی۔ ٦۔ مسافر، ان خانہ بدوشوں میں سے نہ ہو کہ جن کا کوئی معین مقام (وطن) نہیں ہوتا بلکہ وہ صحراؤں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں انہیں پانی، گھاس اور چراگاہیں مل جائیں وہیں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ ٧۔ سفر اس کا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور اور ملاح و غیرہ اور یہ حکم ان لوگوں کا بھی ہے جن کا شغل سفر میں ہو۔ ٨۔ حد ترخص تک پہنچ جائے اور حد ترخص سے مراد وہ جگہ ہے کہ جہاں پر شہر کی اذان نہ سنی جا سکے۔ جس شخص کا پيشہ يا پينشے کا مقدمہ سفر ہو جس شخص کا پيشہ يا پينشے کا مقدمہ سفر ہو پرنٹ ; PDF جس شخص کا پیشہ یا پیشے کا مقدمہ سفر ہو س 641: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، کیا وہ سفر میں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے، یا یہ حکم (پوری نماز پڑھنا) اس شخص سے مخصوص ہے جس کا خود پیشہ سفر ہو اور مرجع دینی، امام خمینی(قدس سره) کے اس قول کے کیا معنی ہیں"جس کا پیشہ سفر ہو" کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کا پیشہ سفر ہو؟ اس لئے کہ چرواہے، ڈرائیور اور ملاح و غیرہ کا پیشہ بھی چرانا، ڈرائیونگ کرنا اور کشتی چلانا ہے، اور بنیادی طور پر ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا کہ جس نے سفر کو پیشے کے طور پر اختیار کیا گیا ہو. ج: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، اگر وه سفر کو اس حد تک جاری رکهنے پر بنا رکهے که عرفا اس کا سفر پیشے کا لازمه حساب هوتا هو مثلا وه یه اراده رکهتا هے که آٹھ یا نو مهینے یا آئنده ایک سال کے دوران هفتے میں ایک دن پیشے کی خاطر سفر کرے گا تو ان ایام میں اس کی نماز پوری اور روزه صحیح هوگا اور اسی طرح وه اپنے وطن یا غیر وطن میں دس دن ٹهر جائے تو اس دس دن کے بعد والے پهلے سفر میں نماز قصر هوگی. اور فقہاء (رضوان اللہ علیھم) کے کلام "جس کا شغل سفر ہو" سے مراد وہ شخص ہے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ہو جیسے وہ مشاغل جو سوال میں ذکر هوا یے۔ س642: ان لوگوں کے روزے اور نماز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو ایک شہر میں کام کرنے کے لئے ایک سال سے زائد مدت تک قیام کرتے ہیں یا وہ رضاکار جو کسی شہر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ہیں، کیا ان پرہر سفر کے بعد دس روزکے قیام کی نیت کرنا واجب ہے تاکہ وہ روزہ رکھ سکیں اور پوری نماز پڑھ سکیں یا نہیں؟ اور اگر وہ دس روز سے کم قیام کی نیت کریں تو ان کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں اس شہر میں نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س643: جنگی طیاروں کے پائلٹ، جو اکثر ایام میں فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور شرعی مسافت سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ہیں، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے۔ ج: اس سلسلہ میں ان کا حکم وہی ہے جو ڈرائیوروں، کشتیوں کے ملاحوں اور جہازوں کے پائلٹوں کا ہے یعنی سفر میں انکی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س644: وہ قبائلی جو تین یا چار ماہ کیلئے گرم علاقے سے سرد علاقے کی طرف یا برعکس نقل مکانی کرتے ہیں لیکن سال کا باقی حصہ اپنے ہی علاقے میں گزارتے ہیں تو کیا انکے دو وطن شمار ہوں گے ؟ نیز ان میں سے ایک مقام پر رہائش کے دوران میں جو دوسرے مقام کی طرف سفر کرتے ہیں اس میں انکی نماز کا قصر یا تمام ہونے کے لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ ج: اگر وہ ہمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف نقل مکانی کا قصد رکھتے ہوں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام دوسری جگہ گزاریں اور انہوں نے دونوں جگہوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو دونوں جگہیں ان کیلئے وطن شمار ہوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ہوگا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کا فاصلہ، شرعی مسافت کے برابر ہو تو ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کے راستے میں ان کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔ س645: میں ایک شہر (سمنان)میں سرکاری ملازم ہوں اورمیری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریبا ٣٥ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پہنچنے کے لئے طے کرتا ہوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شہر میں چند راتیں ٹھہرنے کا ارادہ کرلوں تو میں اپنی نماز کیسے پڑھوں گا؟ کیا مجھ پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سمنان جاؤں تو کیا مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا نہیں؟ ج: اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کیلئے نہیں ہے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ہیں تو اس پر شغل والے سفر کا حکم عائد نہیں ہوگا، لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کیلئے ہو لیکن اسکے ضمن میں دیگرکا موں، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات و غیرہ کو بھی انجام دیں اور بعض اوقات وہاں پر ایک رات یا چند راتیں ٹھہر جائیں تو کام کے لئے سفر کا حکم ان اسباب کی وجہ سے نہیں بدلے گا، بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ہوگی اور روزہ رکھنا ہوگا۔ س646: اگر ملازمت کی جگہ پر کہ جس کیلئے میں نے سفر کیا ہے، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں، مثلاً صبح سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: دفتری کام کو انجام دینے کے بعد ذاتی کاموں کو انجام دینا " کام کیلئے سفرکرنے" کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔ س647: ان رضاکاروں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ دس دن سے زائد ایک جگہ قیام کریں گے، لیکن اس کا اختیار خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ امید ہے امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟ ج: مفروضہ سوال میں اگر انہیں دس دن یا اس سے زائد ایک جگہ رہنے کا اطمینان ہوتو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے، اور یہی فتوی امام خمینی کا بھی ہے۔ س648: ان سپاہیوں کے روزے اور نمازکا کیا حکم ہے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ہیں اور دس دن سے زیادہ چھاؤنیوں میں اور دس دن سے زیادہ سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں؟ براہ مہربانی امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں؟ ج: اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جانتے ہوں کہ دس دن یا اس سے زیادہ وہاں رہنا ہوگا تو وہاں پر انکی نماز پوری ہوگی اور انہیں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور امام خمینی کا فتوی بھی یہی ہے۔ س 649: امام خمینی کی توضیح المسائل کے باب "نماز مسافر" ،"ساتویں شرط" میں آیا ہے: "ڈرائیور پر واجب ہے کہ پہلے سفر کے بعد پوری نماز پڑھے، لیکن پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہے خواہ سفر طویل ہی کیوں نہ ہو" تو کیا پہلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ہے یا نہیں بلکہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جانے سے پہلا سفر مکمل ہوجائیگا؟ ج: اگر اس کی آمد و رفت عرف عام میں ایک سفر شمار ہوتی ہے مثلاً ایک ڈرائیور کسی شہر میں مال پہنچا کر واپس آتا ہے تو اس صورت میں اس کی رفت و آمد کو پہلا سفر شمار کیا جائے گا اور اگر عرف عام میں ایک سفر شمار نہ کیا جائے جیسے کہ وہ ڈرائیور جو سامان اٹھانے کیلئے ایک منزل کی طرف سفر کرتاہے اور پھر وہاں سے کسی دوسری جگہ مسافر سوار کرنے یا دوسرا سامان اٹھانے کیلئے سفر کرتاہے یا شروع میں ہی ایسا قصد رکھتا ہے اور اس کے بعد اپنے وطن کی طرف پلٹ آتاہے تو اس صورت میں پہلی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد اس کا پہلا سفر مکمل ہوجائے گا۔ س 650: وہ شخص جس کا مستقل پیشہ ڈرائیونگ نہ ہو، بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیونگ کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہو، جیسے چھاؤنیوں و غیرہ میں فوجیوں پر موٹرگاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے، کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ہے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے؟ ج: اگر عرف عام میں گاڑی کی ڈرائیونگ کو اس مدت میں ان کا پیشہ سمجھا جائے تو اس مدت میں ان کا وہی حکم ہے جو تمام ڈرائیوروں کا ہے۔ س 651: جب کسی ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پرزے خریدنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے دوسرے شہر جائے تو کیا اس طرح کے سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر، جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نہیں ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں بھی اس کا سفر شغل والا ہے اور نماز پوری ہے۔ طلبہ کا حکم طلبہ کا حکم پرنٹ ; PDF طلبہ کے احکام س 652: یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کا کیا حکم ہے جو ہفتہ میں کم از کم دو دن تحصیل علم کیلئے سفر کرتے ہیں یا ان ملازمین کا کیا حکم ہے جو ہر ہفتہ اپنے کام کے لئے سفر کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ وہ ہر ہفتہ سفر کرتے ہیں لیکن کبھی یونیورسٹی یا کام کی جگہ میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے وہ ایک ماہ تک اپنے اصلی وطن میں رہتے ہیں اور اس ایک ماہ کی مدت میں سفر نہیں کرتے تو جب وہ ایک ماہ کے بعد پھر سے سفر کا آغاز کریں گے تو کیا اس پہلے سفر میں انکی نماز قاعدے کے مطابق قصر ہو گی اور اس کے بعد وہ پوری نماز پڑھیں گے اور اگر اس کام والے سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو حکم کیا ہوگا؟ ج: حصولِ علم کے لئے سفر میں نماز اور روزے کا حکم احتیاط پر مبنی ہے(1)، خواہ ان کا سفر ہفتہ وار ہو یا روزانہ ہو، لیکن جو شخص کام کے لئے سفر کرتا ہے خواہ وہ مستقل کام کرتا ہو یا کسی دفتر میں اگر وہ دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے وطن اور کام کرنے کی جگہ یا اپنی رہائش کے مقام کے درمیان رفت و آمد کرتا ہو تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ رکھنا بھی صحیح ہو گا اور جب وہ کام والے دو سفروں کے درمیان اپنے وطن میں یا کسی اور جگہ پر دس دن کا قیام کرے تو ان دس دنوں کے بعد کام کے لئے کئے جانے والے پہلے سفر میں نماز قصر پڑھے گا اور روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اگر اپنے کام والے اس سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو اس ذاتی سفر کے دوران نماز قصر اور اس کے بعد کام والے سفر کے دوران یہ احتیاط کہ "نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے" ترک نہ کی جائے۔ س 653: میں رفسنجان کے قریب سکول میں ٹیچر ہوں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے پر بھی مامور ہوں چنانچہ ہفتے کے پہلے تین دن کرمان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوتا ہوں اور باقی دن اپنے شہر میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتاہوں میری نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے کیا مجھ پر طالب علم و الا حکم عائد ہوگا یا نہیں ؟ ج: اگر آپ تعلیم حاصل کرنے پر مأ مور ہیں تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ بھی صحیح ہے ۔ س 654: اگر دینی طالب علم یہ نیت کرے کہ وہ تبلیغ کو اپنا مشغلہ بنائے گا تو مذکورہ فرض کے مطابق وہ سفر میں پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور روزہ بھی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس شخص کا سفر تبلیغ، ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس کے روزے نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تبلیغ و ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو عرف عام میں اس کا شغل اور کام کہا جاتا ہو تو ان چیزوں کے لئے اس کے سفر کا حکم وہی ہے جو شغل کے لئے سفر کرنے والوں کا ہے اور اگر کبھی ان کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے سفر کرے تو دیگر تمام مسافروں کی طرح نماز قصر پڑھے اور اس کا روزہ صحیح نہیں ہے ۔ س 655: جو لوگ غیر معینہ مدت کے لئے سفر کرتے ہیں جیسے حوزہ علمیہ کے طالب علم یا حکومت کے وہ ملازمین جو کسی شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے مامور کئے جاتے ہیں، ان کے روزوں اور نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں اگر وہاں ایک سال ٹھیرنے کا ارادہ ہو تو نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 656: اگر دینی طالب علم اس شہر میں رہتا ہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور وہاں دس روز قیام کی نیت کرنے سے قبل وہ جانتا تھا یا یہ قصد رکھتا تھا کہ شہر سے باہر واقع مسجد میں ہر ہفتے جائے گا۔ آیا وہ دس دن کے قیام کی نیت کر سکتا ہے یا نہیں؟ ج: قصد اقامت کے دوران شرعی مسافت سے کم اتنی مقدار باہر جانے کا ارادہ کہ جسے عرف میں ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کے ساتھ منافی شمار نہیں کیا جاتا، قصد اقامت کو ختم نہیں کرتا مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران دو تین دفعہ اور ہر دفعہ حد اکثر آدها دن شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا۔ 1. ایسی صورت حال رکھنے والے افراد شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی دوسرے مجتہد کے فتوا کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اگر رجوع نہ کریں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پوری بھی پڑھیں اور قصر بھی اور ماہ رمضان میں ضروری ہے کہ احتیاطاً روزہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضا بھی کریں۔ قصد مسافرت اور دس دن کی نیت قصد مسافرت اور دس دن کی نیت پرنٹ ; PDF قصد اقامت اورمسافتِ شرعی س 657: میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے، لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تا کہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ پر دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز کے دوران میں یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا، پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے؟ ١۔ جب میں اچانک یا کسی کام سے دس دن کامل ہونے سے پہلے اس شہر میں جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد اپنے کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔ ٢۔ جب میں دس روز کامل ہونے کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلے میں جاؤں اور میرے وہاں تک جانے کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اورایک رات ، وہاں قیام کر کے میں اپنی قیامگاہ کی طرف واپس آجاؤں۔ ٣۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلہ کے قصد سے نکلوں، لیکن اس محلہ میں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں ایک اور محلے میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیامگاہ سے شرعی مسافت سے زیادہ دور ہے؟ ج: 1۔٢۔ اگر شروع سے ہی نکلنے کا قصد نہ رکھتا ہوت و کسی جگہ ٹھہرنا ثابت ہونے کے بعد وہاں سے ایک دن یا کئی دن[1] شرعی مسافت سے کم فاصلے تک باہر نکلنے سے قصد اقامت کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ اس صورت میں کوئی فرق نہیں ہے کہ خارج ہونا دس دن پورے ہونے سے پہلے ہو یا اس کے بعد، جب تک نیا سفر پیش نہ آئے نماز اور روزہ قصر نہیں ہیں۔ ٣۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شرعی سفر واقع ہی نہیں ہوا اس لیے قصد اقامت ختم نہیں ہوگا۔ س 658: مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی اذان کی آوازسنائی دے، یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی دیں تو کیا اس سے مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ ج: اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے شرعی مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس سے سفر کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، لیکن جب تک وہ اپنے وطن اور حد ترخص کے درمیان والے مقام میں ہے اس پر مسافر والا حکم جاری نہیں ہوگا۔ س 659: جہاں میں ملازم ہوں اور فی الحال جہاں میرا قیام ہے، وہ میرا اصلی وطن نہیں ہے اور اس جگہ اور میرے وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہاں فقط چند سال رہوں، میں بعض اوقات وہاں سے دفتری کاموں کے لئے مہینے بھر میں دو یا تین دن کے سفر پر جاتا ہوں لہذا جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں، میں رہائش پذیر ہوں مسافت شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟ اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں؟ ج: مذکورہ صورت میں اس جگہ آپ مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 660: ایک شخص چند سال سے اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہر ہفتہ گھر جاتا ہے لہذا اگر یہ شخص اس مقام کی طرف سفر کرے کہ جس کا اس کے وطن سے ٢۱ کلو میٹر کا فاصلہ ہے، لیکن جس جگہ وہ چند سال تعلیم حاصل کرتا رہاہے وہاں سے اس کا فاصلہ ٢۰ کلومیٹر ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اپنے وطن سے اس جگہ تک سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی۔ س 661: ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصدکیا، لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس سفر کے دوران ایک خاص کام کی انجام دہی کیلئے ایک چھوٹے راستے سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آجائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس مسافر کے روزہ اور نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اس پر مسافر کا حکم جاری ہو گا اور شرعی مسافت کو پورا کرنے کے لئے اصلی راستے سے نکل کر دوبارہ اس پر لوٹ آنے کا شرعی مسافت کی تکمیل کے لئے اضافہ کرنا کافی ہے۔ س 662: امام خمینی کے (اس) فتویٰ کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر کرے تو نماز قصر پڑھے اور روزہ نہ رکھنا واجب ہے، اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جو چھ فرسخ سے زیادہ ہو تو اس صورت میں نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر جانا چار فرسخ سے کم ہو اور فقط واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔ س 663: جو شخص اپنی قیام گاہ سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو اور ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے، اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر وہ گھر سے نکلتے وقت شرعی مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور اس کی پہلی منزل اور ان دوسری جگہوں کے درمیان کا فاصلہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ تھا تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا۔ س 664: اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ اِدھر اُدھر گھومتا رہے تو کیا اس کا یہ اِدھر اُدھر گھومنا اس مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے؟ ج: منزل مقصود پر ادھر ادھر گھومنا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔ س 665: کیا قصد اقامت کے وقت قیام گاہ سے چار فرسخ سے کم فاصلے کی جگه پر جانے کی نیت کی جاسکتی ہے؟ ج: اقامت گاہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے کا قصد اگر دس دن کے قیام کے صادق آنے کو ضرر نہ پہنچائے جیسے کہ اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران دو تین دفعہ اور ہر بار زیاده سے زیاده آدها دن کی مدت شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا تو ایسی نیت قصد اقامت کے صحیح ہونے کے لئے مضر نہیں ہے۔ س 666: اس بات کے پیش نظر کہ اپنی قیامگاہ سے اپنی جائے ملازمت تک آنا جانا کہ جن کے درمیان ٢٤کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے، اگر میں اپنی ملازمت کے شہر کے حدود سے باہر نکلوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں کہ جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد اپنی ملازمت کی جگہ واپس آجاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہوگی؟ ج: ملازمت کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے سے اگرچہ اس کا آپ کے کام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، جائے ملازمت پر آپ کے روزہ اورنماز کا حکم نہیں بدلے گا، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر ظہر سے قبل واپس آئیں یا اسکے بعد۔ س667: ایک شخص اپنے وطن سے کسی دوسرے شہر کی طرف سفر کرتا ہے جس کی ابتدا تک شرعی مسافت نہیں بنتی لیکن اس مقام تک جو اس کی منزل ہے شرعی مسافت بنتی ہے تو کیا شرعی مسافت کا حساب لگانے کے لئے شہر کی ابتداء معیار ہوگی یا وہ مقام جو اس شہر میں اس کی منزل ہے؟ جواب: اگر کسی شخص کی منزل خود شہر نہ ہو بلکہ شہر کے گرد ونواح میں کوئی مخصوص اور مستقل جگہ ہو اس طرح کہ عرف کی نظر میں شہر میں پہنچنا اس منزل پر پہنچنا شمار نہ ہوتا ہو بلکہ شہر میں پہنچ کر وہاں سے عبور کرنا منزل کی طرف راستہ شمار ہوتا ہو مثلاً ایسی یونیورسٹیاں، چھاؤنیاں یا ہسپتال جو شہر کے گردونواح میں ہوتی ہیں تو شہر کا ابتدائی حصہ مسافت کی انتہا شمار نہیں ہوگا بلکہ وہی جگہ مسافت کی انتہا ہوگی۔ س668: میں ہر ہفتہ حضرت سیدہ معصومہ "علیہا السلام "کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجالانے کی غرض سے قم جاتا ہوں، اس سفر میں مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا قصر؟ ج: اس سفر میں آپ کا حکم وہی ہے جوتما م مسافروں کا ہے اور آپ کی نماز قصر ہے ۔ س669: شہر"کا شمر" میری جائے ولادت ہے اور١٩٦٦(١٣٤٥ ہجری شمسی)سے ١٩٩٠ (١٣٦٩ ہجری شمسی) تک میں تہران میں مقیم رہاہوں اور اسے میں نے اپنا وطن بنا رکھا تھا اور اب تین سال سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ادارے کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر اپنے وطن تہران لوٹ جاؤں گا، اس بات کے پیش نظر کہ میں جب تک بندر عباس میں ہوں ہر لحظے امکان ہے کہ مجھے بندرعباس کے ساتھ ملحق شہروں میں ڈیوٹی کیلئے جانا پڑے اورکچھ مدت مجھے وہاں ٹھہرنا پڑے اور ادارے کی طرف سے میری جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اسکے وقت کا بھی پہلے سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ براہ مہربانی سب سے پہلے میرے روزہ و نماز کا حکم بیان فرمائیں؟ دوسرا یہ کہ میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے،جبکہ وہ خانہ دار ہے، اسکی جائے پیدائش تہران ہے اور وہ میری وجہ سے بندر عباس میں رہتی ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں آپ اُس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتے اور آپ اور آپ کی بیوی کی نماز وہاں پوری ہے اور روزہ صحیح ہے۔ س670: ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا ہے، کیونکہ اسے علم تھا کہ وہاں دس دن ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا عزم کررکھا تھا، پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس پر پوری نماز پڑھنے کا حکم لاگو ہوگیا۔ اب اسے ایک غیر ضروری سفر پیش آگیا ہے تو کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے؟ ج: اس کے سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔ س671: اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام کرے گا، لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا دس دن ٹھہرنے کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی نیت کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ وہاں نماز قصر پڑھے گا۔ س672: غیر مقامی ملازم پیشہ لوگ جو اپنے کام والے شہر میں کبھی بھی دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہوتا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟ ج: مفروضہ صورت میں اگر ملازمت کی جگہ میں دس دن قیام نہ کرے تو اس کا سفر شغل والا سفر شمار ہوگا اور رہائش گاہ، ملازمت کی جگہ اور ان دو کے درمیان نماز پوری ہوگی۔ س673: اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے، دس روز یا اس سے کم تو وہ کس طرح نماز پڑھے؟ ج: مردد شخص کی ذمہ داری یہ ہے کہ تیس دن تک نماز قصر پڑھے اور اسکے بعد پوری پڑھے اگرچہ اسے اسی دن واپس پلٹنا ہو۔ س674: جو شخص دومقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد بھی رکھتا ہے تو اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر عرف عام میں یہ دو علاقے شمار ہوں تو وہ نہ دونوں مقامات میں قصد اقامت کرسکتا ہے اور نہ ہی ایک مقام پر، جبکہ وہ دس روز کے اندر دوسرے مقام تک رفت و آمد کا قصد رکھتا ہو۔ [1] ۔ دن کے تعیین میں ملاک عرف ہےکہ جو سورج کے طلوع ہونے سے غروب تک ہوگا. حد ترخص حد ترخص پرنٹ ; PDF حد ترخص س675: جرمنی اور یورپ کے بعض شہروں کا درمیانی فاصلہ (یعنی ایک شہر سے نکلنے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کے سائن بورڈ کی مسافت) ایک سو میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا حتی کہ دو شہروں کے بعض مکانات اور سڑکیں تو ایک دوسرے سے متصل ہوتی ہیں، ایسے موارد میں حد ترخص کیسے ہوگی؟ ج: جہاں دو شہر ایک دوسرے سے اس طرح متصل ہوں جیساکہ مذکورہ سوال میں ہے تو ایسے دو شہر، ایک شہر کے دو محلوں کے حکم میں ہیں یعنی ایک شہر سے خارج ہونے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کو سفر شمار نہیں کیا جائے گا تاکہ اسکے لئے حد ترخص معین کی جائے۔ س 676: حد ترخص کا معیار شہر کی اذان سننا اور شہر کی دیواروں کو دیکھنا ہے، کیا (حد ترخص میں) ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے یا دونوں میں سے ایک کافی ہے؟ ج: حد ترخص وه جگه هے جهاں شهر کی متعارف آذان کی آواز لاؤٹ اسپیکر کے بغیر نهیں سنی جاسکتی هے. س 677: کیا حد ترخص میں شہر کے ان گھروں ۔ کہ جہاں سے مسافر شہر سے خارج ہوتاہے یا اس میں داخل ہوتا ہے۔ کی اذان کا سنائی دینا معیار ہے یا شہر کے وسط کی اذان کا سنائی دینا؟ ج: شہر کے اس آخری حصے کی اذان سننا معیارہے کہ جہاں سے مسافر شہر سے نکلتا ہے یا اس میں داخل ہو تا ہے۔ س 678: ہمارے یہاں ایک علاقہ کے لوگوں کے درمیان شرعی مسافت کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں شہر کے آخری گھروں کی وہ دیواریں معیار ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شہر کے گھروں کے بعد جو کارخانے اور متفرق آبادیاں ہیں، ان سے مسافت کا حساب کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ شہر کا آخر اس کا کون سا حصہ ہے؟ ج: شہر کی آخری حدود کی تعیین عرف عام پر موقوف ہے اگر عرف عام میں کارخانوں اور متفرق آبادیوں کو شہر کا حصہ شمار نہ کیا جائے تو مسافت کا حساب شہر کے آخری گھروں سے کیا جائیگا۔ سفر معصیت سفر معصیت پرنٹ ; PDF سفر معصیت س 679: جب انسان یہ جانتا ہو کہ وہ جس سفر پر جا رہا ہے، اس میں وہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہو گا تو کیا اس کی نماز قصر ہے یا پوری؟ ج: اگر اس کا سفر اور اس کا مقصد گناه نه هو لیکن سفر کے دوران حرام کام انجام پائے تو یه سفر، سفر معصیت کا حکم نهیں رکهتا هے. مگر یه که حرام کام سفر کے شروع سے آخر تک (مگر کچه گهنٹے) اس طرح انجام پاتے رهے که سفر معصیت کے زمرے میں آجائے تو اس صورت میں احتیاط یه هے که نماز جمع(کامل اور قصر) بجا لائے. س 680: وه شخص جو گناہ کی غرض کے بغیر سفر کرے، لیکن راستے میں اس نے معصیت کی غرض سے اپنے سفر کو تمام کرنے کی نیت کرے، تو کیا یه شخص نماز پوری پڑھے یا قصر؟ اور اثنائے سفر میں جو قصر نمازیں پڑھ چکا ہے کیا وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ ج: جس وقت سے اس نے اپنے سفر کو گناہ و معصیت کی غرض سے جاری رکھنے کی نیت کی ہے اس وقت سے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور اگر مسافت شرعی تک پهونچنے سے ہھلے تغییر نیت کی ھو تو تغییر نیت سے پھلے یا بعد میں جو نمازیں بطور قصر پڑهی ہیں ان کو دوبارہ پوری پڑھنا واجب ہے. اور اگر تغییر نیت مسافت شرعی تک پهنچنے کے بعد هو تو صرف ان نمازوں کو دوباره پڑهے جن کو تغییر نیت کے بعد بطور قصر پڑهی هیں۔ س 681: اس سفر کا کیا حکم ہے جو تفریح یا ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے کیا جائے اور اس سفر میں نماز اور اس کے مقدمات کے لئے جگہ میسر نہ ہو؟ ج: اگر وہ جانتا ہے کہ اس سفر میں اس سے بعض وہ چیزیں چھوٹ جائیں گی جو نماز میں واجب ہیں تو احوط یہ ہے کہ ایسے سفر پر نہ جائے مگر یہ کہ سفر ترک کرنے میں اس کیلئے ضرر یا حرج ہو۔ بہر حال کسی بھی صورت میں نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ احکام وطن احکام وطن پرنٹ ; PDF احکام وطن س 682: میری جائے پیدائش تہران ہے، جبکہ میرے والدین کا وطن "مہدی شہر" ہے، لہذا وہ سال میں متعدد بار "مہدی شہر" جاتے ہیں، ان کے ساتھ میں بھی جاتا ہوں، لہذا میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں " مہدی شہر"کو رہائش کے لئے اپنا وطن نہیں بنانا چاہتا، بلکہ میرا ارادہ تہران ہی میں رہنے کا ہے؟ ج: مذکورہ فرض میں آپ کے والدین کے اصلی وطن میں آپ کے روزہ و نماز کا حکم وہی ہے جودیگر مسافروں کے روزہ و نماز کا ہوتاہے۔ س 683: میں ہر سال چھ ماہ ایک شہر میں اور چھ ماہ دوسرے شہر میں رہتا ہوں جو کہ میری جائے پیدائش ہے اور یہی شہر میرا اور میرے گھر والوں کا مسکن بھی ہے، لیکن پہلے شہر میں بطور مستمر نہیں ٹھہرتا، مثلاً دو ہفتے، دس روز یا اس سے کم وہاں رہتا ہوں پھر اس کے بعد اپنی جائے پیدائش اور اپنے گھر والوں کی رہائش گاہ میں لوٹ آتا ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں پہلے شہر میں دس روز سے کم ٹھہرنے کی نیت کروں تو کیا میرا حکم مسافر کا ہے یا نہیں؟ ج: اگر آپ اُس شہر میں اتنا رہتے ہیں کہ عرف میں مسافر شمار نہیں ہوتے تو اس جگہ آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س 684: جو شخص محدود تک کسی جگہ رہنا چاہتا ہے کتنی مدت تک وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہوگا؟ ج: اگر کسی جگہ کم از کم ایک سال رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وه جگه عرفا اس کا وطن بهی شمار نهیں هوگا اور اس پر مسافر بهی صدق نهیں آئیگا اسی لئے دس دن کے قصد اقامت کے بغیر اُس جگہ اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 685: ایک شخص کا وطن تہران ہے اور اب وہ تہران کے قریب ایک دوسرے شہر کو اپنے لئے وطن بنانا چاہتا ہے، اور چونکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تہران میں ہے، لہذا وہ دس روز بھی اس شہر میں نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ چھ ماہ تک رہے بلکہ وہ روزانہ اپنے کام پر جاتا ہے اور رات کو اس شہر میں لوٹ آتا ہے۔ اس شہر میں اس کے نمازو روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: نئے شہر کو وطن بنانے کی یہ شرط نہیں ہے کہ انسان اسے وطن بنانے کا ارادہ کرنے اور اس میں سکونت اختیار کرنے کے بعد مسلسل کچھ مدت اس جگہ رہے، بلکہ جب اسے نئے وطن کے طور پر انتخاب کرلے اور اس قصد کے ساتھ کچھ مدت "اگر چہ صرف راتیں" وہاں رہائش رکھے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا اسی طرح اگر ایسے کام انجام دے کہ جنہیں عام طور پر انسان کسی جگہ کو وطن بنانے کیلئے انجام دیتا ہے جیسے گھر تیار کرنا، کاروبار کی جگہ کا انتخاب کرنا "اگرچہ وہاں رہا نہ بھی ہو" تو وطن بن جائے گا۔ س 686: میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش "کاشمر" ہے، لیکن جب سے میں سرکاری ملازم ہوا ہوں اس وقت سے میں نیشاپور منتقل ہو گیا ہوں اگر چہ ماں باپ اب بھی کاشمر میں ہی رہتے ہیں۔ نیشاپور کی طرف ہجرت کے آغاز میں ہی ہم نے اصلی وطن (کاشمر) سے اعراض کر لیا تھا، مگر ١٥ سال گزر جانے کے بعداب ہم نے اپنا ارادہ پھر بدل لیا ہے۔ مہربانی فرماکر درج ذیل سوالات کے جواب بیان فرمائیں: ١۔ جب ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ہیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ہے؟ ٢۔ ہمارے والدین کے وطن (کاشمر) میں جاکر وہاں چند روز قیام کے دوران، ہمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ہے جو ہماری موجودہ رہائش گاہ نیشاپور میں پیدا ہوئے اور اب بالغ ہو چکے ہیں؟ ج: جب آپ نے اپنے اصلی وطن "کاشمر" سے اعراض کر لیا تو اب وہاں آپ دونوں کیلئے وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کیلئے دوبارہ وہاں لوٹ جائیں اور همیشه یا کچھ طولانی مدت(اگر چه سال میں کچه مهینے هی کیوں نه هو) یا مدت معین کیے بغیر وهاں رهے اس شرط کے ساته که ضروریات زندگی وهاں پر فراهم کرے یا کچه مدت وهاں پر ٹههر جائے. اور یہ شہر آپ کی اولاد کا وطن بھی نہیں ہے، بلکہ اس شہر میں آپ سب لوگ مسافر کے حکم میں ہیں۔ س 687: ایک شخص کے دو وطن ہیں اوردونوں میں وہ پوری نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے توکیا اس کے بیوی بچوں پر کہ جن کی وہ دیکھ بھال اور کفالت کرتا ہے، اس مسئلہ میں اپنے ولی اور سرپرست کا اتباع واجب ہے؟ یا اس سلسلہ میں وہ اپنا مستقل عمل کر سکتے ہیں؟ ج: زوجہ یہ کرسکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے نئے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے، لیکن بچے جب تک چھوٹے ہیں اور اپنی کمائی اور ارادے میں مستقل نہیں ہیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ہیں تو باپ کا نیا وطن ان کے لئے بھی وطن شمار ہو گا۔ س 688: اگر ولادت کا ہسپتال (زچہ خانہ) باپ کے وطن سے باہر ہو اور وضع حمل کی خاطر ماں کو چند روز اس ہسپتال میں داخل ہونا پڑے اور بچے کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ہونے والے بچے کا وطن کو نسا ہو گا؟ ج: صرف کسی شہر میں پیدا ہونے سے وہ شہر اس بچے کا وطن نہیں بن جاتا، بلکہ اس کا وطن وہی ہے جو اس کے والدین کا ہے کہ جہاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ہوتا ہے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ س 689: ایک شخص چند سال سے اہواز شہر میں رہتا ہے، لیکن اسے اپنے لئے وطن ثانی نہیں بنایا ہے، تو اگر وہ اس شہر سے شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جائے اور دوبارہ اس شہر میں واپس آجائے تو وہاں واپس آنے کے بعد اس کے نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں چونکہ اُس جگہ عرفاً مسافر شمار نہیں ہوتا اس لیے اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 690: میں عراقی ہوں اور اپنے وطن عراق کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ہوں؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ہوں جہاں میں ساکن ہوں؟ یا اپنے لئے وطن بنانے کے لئے گھر خریدنا ضروری ہے؟ ج: نئے وطن کے لئے شرط ہے کہ کسی مخصوص اور معین شہر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور اس میں اتنا عرصہ زندگی بسر کرے کہ عرف عام میں کہا جائے یہ شخص اس شہر کا باشندہ ہے، لیکن اس شہر میں گھر و غیرہ کا مالک ہونا شرط نہیں ہے۔ س691: جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور وہ ترک وطن کے مسئلہ کو نہیں جانتاتھا اور اب وہ بالغ ہوا ہے تو وہاں اس کے روزہ و نما زکا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اس نے باپ کے ساتھ اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کرے اور اس کا باپ دوباره اس جگه نه لوٹنے کا قصد کیا هو تو وہ جگہ اس کیلئے بهی وطن نہیں ہوگی۔ س692: اگر انسان کا ایک وطن ہو اور وہ فی الحال وہاں نہ رہتا ہو، لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ہمراہ وہاں جاتا ہو تو کیا شوہر کی طرح زوجہ بھی وہاں پوری نماز پڑھے گی یا نہیں؟ اورجب زوجہ اکیلی اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف کسی جگہ کا شوہر کا وطن ہونا سبب نہیں ہے کہ وہ زوجہ کا بھی وطن ہو اور وہاں پر اس کے لئے وطن کے احکام جاری ہوں۔ س693: کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ہے؟ ج: کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نہیں بنتی ہے، لیکن اگر وہاں اس کی رہائش ہو اور کم از کم ایک سال وہاں رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اس کا حکم، مسافر والا نہیں ہوگا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س694: کسی شخص کے اپنے وطن کو چھوڑنے کے کیا معنی ہیں؟ اور کیا عورت کے شادی کر لینے اور شوہر کے ساتھ چلے جانے سے وطن چھوڑنا ثابت ہوجاتا ہے یا نہیں؟ ج: وطن چھوڑنے سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں نہیں پلٹے گا اسی طرح اگر اسے اپنے نہ پلٹنے کا علم یا اطمینان ہو، اور عورت کے صرف دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے اصلی وطن سے اعراض کر لیا ہے۔ س695: گزارش ہے کہ وطن اصلی او روطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں ج: اصلی وطن : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان اپنی ابتدائی زندگی (یعنی بچپن اور لڑکپن) کا بیشتر حصہ وہاں رہ کر نشو و نما پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ وطن ثانی : اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں مکلف ہمیشہ یا طویل مدت (اگرچہ سال میں کچھ مہینے) یا کوئی مدت معین کئے بغیر وہاں زندگی گزارنے کا یقینی قصد رکھتا ہو۔ س696: میرے والدین شہرِ"ساوہ" کے باشندے ہیں، دونوں بچپنے میں تہران آگئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بعد شہر چالوس منتقل ہو گئے کیونکہ میرے والد وہاں ملازمت کرتے تھے، لہذا اس وقت میں تہران اورساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں؟ واضح رہے میری پیدائش تہران میں ہوئی ہے، لیکن وہاں کبھی نہیں رہا ہوں۔ تهران اور ساوه میں میری نماز کیسی هوگی؟ ج: مذکورہ صو رت میں وہاں آپ کا حکم دیگر مسافروں والا ہے ۔ س697: جس شخص نے اپنے وطن سے اعراض نہیں کیا ہے لیکن چھ سال سے کسی اور شہر میں مقیم ہے، لہذا جب وہ اپنے وطن جائے تو کیا وہاں اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے یا قصر؟ واضح رہے کہ وہ امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے۔ ج: اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نہیں کیا ہے تو وطن کا حکم اس کے لئے باقی ہے اور وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔ س 698: ایک طالب علم نے تبریز شہر کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے تبریز میں چار سال کیلئے کرایہ پر گھر لے رکھا ہے، علاوہ از ایں اب اس کا ارادہ ہے کہ اگر ممکن ہو ا تو وہ دائمی طور پر تبریز ہی میں رہے گا آج کل وہ ماہ رمضان مبارک میں کبھی کبھار اپنے اصلی وطن جاتا ہے تو کیا دونوں جگہوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا؟ ج: اگر مقام تعلیم کو اس وقت وطن بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نہیں ہے لیکن مذکورہ صورت میں اس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے نیز اس کا اصلی وطن، حکم وطن پر باقی ہے جب تک اس سے اعراض نہ کرے۔ س 699: میں شہر "کرمانشاہ"میں پیدا ہوا ہوں اور چھ سال سے تہران میں مقیم ہوں، لیکن اپنے اصلی وطن سے اعراض نہیں کیا ہے، اور تہران کو بھی وطن بنانے کا قصد کیا ہے لہذا جب ہم ایک سال یا دو سال کے بعد تہران کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں منتقل ہوتے ہیں تواس میں میرے روزے ونماز کا کیا حکم ہے؟ اور چونکہ ہم چھ ماہ سے زائد عرصہ سے تہران کے نئے علاقے میں رہتے ہیں تو کیا ہمارے لئے یہاں پر وطن کا حکم جاری ہوگا یا نہیں؟ اور جب ہم دن بھر میں تہران کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے ہیں تو ہماری نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر آپ نے موجودہ تہران یا اس کے کسی ایک محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ہو تو پورا تہران آپ کا وطن ہے اور اس میں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے اور تہران کے اندر ادھر ادھر جانے پر سفر کا حکم نہیں لگے گا۔ س700: ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے آج کل اس کی ملازمت اور رہائش تہران میں ہے اور اس کے والدین گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر انکی زمین و جائداد بھی ہے، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور امداد کے لئے وہاں جاتا ہے، لیکن وہاں پر سکونت اختیار کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے واضح رہے کہ وہ گاؤں اس شخص کی جائے پیدائش بھی ہے، لہذا وہاں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اس شخص کا اس گاؤں میں واپس جا کر زندگی بسر کرنے کا اراده نه هو بلکه وهاں واپس نه جانے کا اراده هو تو وه جگه اس کا وطن نهیں هوگی اور اس پر وطن کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ س701: کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ہونے والا وہاں نہ رہتا ہو؟ ج: اگر کچھ عرصہ(یعنی بچپن اور لڑکپن کا زمانہ) تک وہاں زندگی گزارے اور وہیں نشوو نما پائے تو جب تک وہ اس جگہ سے اعراض نہیں کرے گا اس وقت تک وہاں اس پر وطن کا حکم جاری ہوگا، ورنہ نہیں۔ س702: اس شخص کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے جو ایک سرزمین میں کہ جو اس کا وطن نہیں ہے طویل مدت (٩سال)سے مقیم ہے اور فی الحال اس کا اپنے وطن میں آنا ممنوع ہے، لیکن اسے یہ یقین ہے کہ ایک دن وطن واپس ضرور جائے گا؟ ج: سوال کی مفروضہ صورت میں اس شخص پر مسافر صدق نہیں کرتا اور اُس جگہ اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س703: میں نے اپنی عمر کے چھ سال گاؤں میں اور آٹھ سال شہر میں گزارے ہیں اورحال ہی میں تعلیم کیلئے مشہد مقدس آیا ہوں، لہذا ان تمام مقامات پر میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ گاؤں جو آپ کی جائے پیدائش ہے اگر اُسے عرف میں آپ کا وطن شمار کیا جاتا ہے تو آپ کی نماز اُس جگہ پوری اور روزہ صحیح ہے اور اگر وطن کے صدق کرنے میں شک ہو تو محل احتیاط ہے اور اگر وہ گاؤں آپ کی جائے پیدائش نہیں ہے تو اُس پر وطن کے صدق میں شک ہونے کی صورت میں آپ کیلئے وطن کے احکام نہیں رکھتا اور جس شہر میں آپ نے کئی سال گزارے ہیں اگر آپ نے اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک آپ وہاں سے اعراض نہ کریں لیکن مشہد کو جب تک آپ وطن بنانے کا قصد نہ کریں وہ آپ کا وطن شمار نہیں ہوگا لیکن اگر کم از کم ایک دو سال تک وہاں رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ بیوی بچوں کی تابعیت بیوی بچوں کی تابعیت پرنٹ ; PDF بیوی بچوں کی تابعیت س704: کیا وطن اور اقامت کے سلسلے میں زوجہ شوہر کے تابع ہے؟ ج: صر ف زوجیت، جبری طورپر شوہر کے تابع ہونے کی موجب نہیں ہے، لہذا زوجہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قصد اقامت اور وطن اختیار کرنے میں شوہر کے تابع نہ ہو، ہاں اگر زوجہ اپنا وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں شوہر کے تابع ہو توا اس کے شوہر کا قصد اس کے لئے کافی ہے، پس اس کا شوہر جس شہر میں وطن کی نیت سے دائمی اور مشترکہ زندگی کیلئے منتقل ہوا ہے وہی اس کا بھی وطن شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر شوہر اس وطن کو چھوڑدے جس میں وہ دونوں رہتے تھے اور کسی دوسری جگہ چلا جائے تو یہ زوجہ کا بھی اپنے وطن سے اعراض شمار ہوگا اور سفر میں دس دن کے قیام کے سلسلے میں اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شوہر کے قصد اقامت سے آگا ہ ہو بشرطیکہ وہ اپنے شوہر کے ارادہ کے تابع ہو، بلکہ اگر وہ اقامت کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتو بھی اس کا یہی حکم ہے ۔ س705: ایک جوان نے دوسرے شہر کی لڑکی سے شادی کی ہے، تو جس وقت یہ لڑکی اپنے والدین کے گھر جائے تو پوری نماز پڑھے گی یا قصر؟ ج: جب تک وہ اپنے اصلی وطن سے اعراض نہ کرے اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گی۔ س706: کیا بیوی یا بچے، امام خمینی کی توضیح المسائل کے مسئلہ "1284"کے زمرے میں آتے ہیں؟یعنی کیا انکے سفر کے صدق کرنے کیلئے خود انکا سفر کی نیت کرنا شرط نہیں ہے ؟ نیز کیا باپ کے وطن میں ان سب کی نماز پوری ہوگی جو اسکے تابع ہیں ؟ ج: اگر سفر میں خواہ جبری طور پر ہی سہی وہ باپ کے تابع ہوں تو سفر کے لئے باپ کا قصد ہی کافی ہے، بشرطیکہ انہیں اس کی اطلاع ہو۔ تاہم وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں اگر وہ اپنے ارادہ اور زندگی میں خود مختار نہ ہوں، یعنی طبیعی اور فطری طورپر باپ کے تابع ہوں تو وطن سے اعراض کرنے اور نیا وطن اختیار کرنے کے سلسلے میں کہ جہاں باپ زندگی گزارنے کے لئے ان کے ساتھ منتقل ہوا ہے، باپ کے تابع ہوں گے۔ بڑے شہروں کے احکام بڑے شہروں کے احکام پرنٹ ; PDF بڑے شہروں کے احکام س707: بڑے شہروں کو وطن بنانے کے قصد اور ان میں دس دن اقامت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: بڑے اور عام شہروں میں، احکام مسافر، وطن اختیار کرنے اوردس روز قیام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بڑے شہرکو اس کے کسی خاص محلہ کو معین کئے بغیر وطن بنانے کا قصد کرنے اور کچھ مدت اس شہر میں زندگی گزارنے سے اس پورے شہرپر وطن کا حکم جاری ہو گا، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے شهر میں دس دن رهنے کا اراده کرے تو اس شهر کے تمام محلوں میں نماز پوری پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ خواه اس وطن یا قصد اقامت کے لئے ان میں سے کسی محلے کو انتخاب کیا هو یا نهیں کیا هو. س708: ایک شخص کوامام خمینی کے اس فتوے کی اطلاع نہیں تھی کہ تہران بڑے شہروں میں سے ہے ، انقلاب کے بعد اسے امام خمینی کے فتوے کا علم ہواہے، لہذا اس کے ان روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے جو عادی طریقہ سے اس نے انجام دیئے ہیں؟ ج: اگر ابھی تک وہ اس مسئلہ میں امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے تو اس پر ان گذشتہ اعمال کا تدارک واجب ہے جو امام خمینی کے فتوے کے مطابق نہیں تھے چنانچہ جو نمازیں ا س نے قصر کی جگہ پوری پڑھی تھیں ان کو قصر کی صورت میں بجا لائے اور ان روزوں کی قضا کرے جو اس نے مسافرت کی حالت میں رکھے تھے۔ البته اس مسئله میں وه کسی زنده مجتهد کی طرف رجوع کر سکتا هے جس میں گذشته نمازوں کی قضا واجب نه هو. نماز اجارہ نماز اجارہ پرنٹ ; PDF نماز اجارہ س709: مجھ میں نماز پڑھنے کی طاقت نہیں ہے، کیا میں کسی دوسرے شخص کو نائب بنا کر اس سے اپنی نمازیں پڑھوا سکتا ہوں؟ اور کیا نائب کے اجرت طلب کرنے اور نہ کرنے میں کوئی فرق ہے؟ ج: ہر شخص جب تک زندہ ہے جیسے بھی ممکن ہو اپنی واجب نماز کو خود ادا کرے، نائب کا اس کی طرف سے نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ وہ اجرت لے یا نہ لے ۔ س710: جو شخص اجارہ کی نماز پڑھتا ہے: ١۔ کیا اس پر، اذان و اقامت کہنا، تینوں سلام پڑھنا اور مکمل طور پر تسبیحات اربعہ پڑھنا واجب ہے؟ ٢۔ اگر ایک دن ظہر و عصر کی نماز بجا لائے اور دوسرے دن مکمل طور پر پنجگانہ نمازیں پڑھے، توکیا اس میں ترتیب ضروری ہے؟ ٣۔ نماز اجارہ میں کیا میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ ج: میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری نہیں ہے اورصرف ایک دن کی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کے درمیان ترتیب کی رعایت ضروری ہے اور جب تک عقد اجارہ میں اجیر کے لئے خاص کیفیت کی شرط نہ رکھی گئی ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے ضروری ہے کہ نماز کو واجبات کے ساتھ بجا لائے۔ نماز آیات نماز آیات پرنٹ ; PDF نماز آیات س٧۱۱: نماز آیات کیا ہے اورشریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ ج: یہ دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں، شریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب یہ ہیں : سورج گرہن اور چاندگرہن خواہ ان کے معمولی حصے کو ہی لگے، اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ غیر معمولی چیز جس سے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجائیں، جیسے سرخ، سیاہ یا پیلی آندھیاں کہ جو غیر معمولی ہوں یا شدید تاریکی، یا زمین کا دھنسنا ، پہاڑ کا ٹوٹ کر گرنا،بجلی کی کڑک اور گرج اور وہ آگ جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔ سورج گہن ،چاند گرہن اور زلزلہ کے علاوہ باقی سب چیزوں میں شرط ہے کہ عام لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائیں لذا اگر ان میں سے کوئی چیز خوفناک نہ ہو یا اس سے بہت کم لوگ خوف زدہ ہوں تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔ س٧۱۲:نماز آیات پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ ج: اسے بجا لانے کے چند طریقے ہیں : ١۔ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اورحمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہوکر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے، پھر سر اٹھا ئے اور حمد وسورہ پڑھے اور اسی طرح اس رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دوسجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح عمل کرے پھر دو سجدے بجالائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔ ٢۔ ہر رکعت میں فقط ایک مرتبہ سوره الحمد اور سورہ پڑھی جاتی ہے اس طرح کہ سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے اور نیت اور تکبیرہ الاحرام کے بعد سوره الحمد اور سورے کا ایک حصہ (ایک آیت ہو یا اس سے کم یا زیادہ) پڑھے اور رکوع میں جائے (البتہ احتیاط واجب کی بناپر «بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحیمِ» کو سورے کا ایک حصہ شمار کرکے رکوع میں نہیں جاسکتا ہے) رکوع کے بعد الحمد پڑھے بغیر سورے کا بعد والا حصہ پڑھے اور اس کے بعد دوسرا رکوع کرے؛ اسی طرح جاری رکھے یہاں تک کہ آخری رکوع سے پہلے سورہ پورا ہوجائے، اس کے بعد پانچواں رکوع بجالائے اور سجدے میں چلا جائے؛ دونوں سجدوں کے بعد دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور تشہد اور سلام کہے. ٣۔ مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک رکعت کو ایک طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقے سے بجا لائے۔ ٤۔ وہ سورہ جس کا ایک حصہ پہلے رکوع سے قبل قیام میں پڑھا تھا، اسے دوسرے ، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے والے قیام میں ختم کردے تو اس صورت میں واجب ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام میں سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ یا اس کا ایک حصہ پڑھے اور اس صورت میں واجب ہے کہ اس سورہ کو پانچویں رکوع سے پہلے مکمل کرے ۔ س٧۱۳: کیا نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں ہے کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے یا ہر اس شخص پر واجب ہے جسے اس کا علم ہوگیا ہو، خواہ وہ اس شہر میں نہ ہو کہ جس میں نہ ہو کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے؟ ج: نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو حادثے والے شہر میں ہو۔ س٧۱۴: اگر زلزلہ کے وقت ایک شخص بے ہوش ہو اور زلزلہ ختم ہو جانے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا اس پر بھی نما زآیات واجب ہے؟ ج: اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز پڑهی جائے۔ س٧١۵: کسی علاقہ میں زلزلہ آنے کے بعد مختصر مدت کے درمیان بہت سے چھوٹے چھوٹے زلزلے اور زمینی جھٹکے آتے ہیں، ان موارد میں نماز آیات کا کیا حکم ہے؟ ج: ہر جھٹکا جسے مستقل زلزلہ شمار کیاجائے اسکے لئے علیحدہ نماز آیات واجب ہے خواہ شدید ہو یا خفیف۔ س٧١۶: جب زلزلے درج کرنے والا مرکز اعلان کرے کہ فلاں علاقہ میں جس میں ہم رہتے ہیں زلزلہ کے کئی معمولی جھٹکے آئے ہیں اور جھٹکوں کی تعداد کا بھی ذکر کرے، لیکن ہم نے انہیں بالکل محسوس نہ کیا ہوتو کیا اس صورت میں ہمارے اوپر نماز آیات واجب ہے یا نہیں؟ ج: اگر اس طرح ہو کہ کوئی اُسے محسوس نہ کرے اور صرف مشینوں کے ساتھ قابل ادراک ہو تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔ نوافل نوافل پرنٹ ; PDF نوافل س٧١۷: کیا نافلہ نمازوں کوبلند آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ آواز سے ۔ ج: مستحب ہے کہ دن کی نافلہ نمازوں کو آہستہ اور شب کی نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھا جائے۔ س٧١۸: نماز شب جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے کیا اسے دو مرتبہ چار چار رکعت کر کے، ایک مرتبہ دو رکعت اور ایک مرتبہ ایک رکعت (وتر)پڑھ سکتے ہیں؟ ج: نمازشب کو چار چار رکعت کرکے پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ س٧١۹: جب ہم نماز شب پڑھتے ہیں تو کیا واجب ہے کہ کسی کو اسکی خبر نہ ہو اور واجب ہے کہ ہم تاریکی میں نماز شب پڑھیں؟ ج: تاریکی میں نماز شب پڑھنا اور اسے دوسروں سے چھپا نا شرط نہیں ہے ہاں اس میں ریا جائز نہیں ہے۔ س٧۲۰: نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد اورخود نافلہ کے وقت میں، کیا نافلہ ظہر و عصر قضا کی نیت سے پڑھے جائیں یا کسی اور نیت سے؟ ج: احتیاط یہ ہے کہ اس وقت قربةً الی اللہ کی نیت سے پڑھے جائیں، ادا اور قضا کی نیت نہ کی جائے۔ س٧۲۱: براہ مہربانی ہمیں نماز شب کے طریقہ سے تفصیل کے ساتھ مطلع فرمائیں؟ ج: نماز شب مجموعی طور پر گیا رہ رکعات ہیں، ان میں سے آٹھ رکعتوں کو، جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہیں، نماز شب کہتے ہیں اور انکے بعد دو رکعت کو نماز شفع کہتے ہیں اور یہ نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی آخری ایک رکعت کو نماز وتر کہتے ہیں اس کے قنوت میں مومنین کے لئے استغفار و دعا کرنا اور خدائے منان سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے، اس کی ترتیب دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ س٧۲۲: نماز شب کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی اس میں کونسا سورہ، استغفار اور دعا پڑھی جائے؟ ج: نماز شب میں کوئی سورہ، استغفار اور دعا اسکے جز کے عنوان سے شرط نہیں ہے، بلکہ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اگر چاہے تو اسکے بعد دو سر ا سورہ پڑھے پھر رکوع و سجوداور تشہدو سلام بجالائے۔ نماز کے متفرقہ احکام نماز کے متفرقہ احکام پرنٹ ; PDF نماز کے متفرقہ احکام س723:وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر والوں کو نماز صبح کیلئے بیدا ر کیا جائے؟ ج: اس سلسلے میں گھر کے افراد کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔ س 724: ان لوگوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور بلا سبب ایک دوسرے سے بغض ، حسد اور حتی دشمنی رکھتے ہیں ؟ ج: انسان کیلئے دوسروں کے بارے میں بغض وحسداور عداوت کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ روزہ و نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے۔ س725: اگر محاذ جنگ پر جہاد کرنے والا شدیدحملوں کی وجہ سے سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے یارکوع و سجود انجام نہ دے سکے تو وہاں پر کیسے نماز پڑھے؟ ج: اس کیلئے جس طرح نماز پڑھنا ممکن ہو پڑھے اور جب رکوع و سجود کرنے پر قادر نہ ہو تو دونوں کو اشاروں سے بجا لائے ۔ س 726: والدین اولاد کو کس سن میں احکام و عبادات شرعی کی تعلیم دیں؟ ج: ولی کے لئے مستحب ہے کہ جب بچہ سن تمیز (اچھے برے کو پہچاننے کی عمر) کو پہنچ جائے تو اسے شریعت کے احکام و عبادات کی تعلیم دے۔ س 727: شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے بعض ڈرائیور مسافروں کی نماز کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کے کہنے پر بس نہیں روکتے تاکہ وہ لوگ اتر کر نماز پڑھ سکیں، لہذا بسا اوقات ان کی نماز قضا ہو جاتی ہے، اس سلسلہ میں بس ڈرائیور کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور ایسی حالت میں اپنی نماز کے سلسلہ میں سواریوں کا کیا فریضہ ہے؟ ج: سواریوں پر واجب ہے کہ جب انہیں نماز کے قضا ہو جانے کا خوف ہو تو کسی مناسب جگہ پر ڈرائیور سے بس روکنے کا مطالبہ کریں اور ڈرائیور پر واجب ہے کہ وہ مسافروں کے کہنے پر بس روک دے، لیکن اگر وہ کسی معقول عذر کی بنا پر یا بلا سبب گاڑی نہ روکے تو سواریوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تواسی وقت چلتی گاڑی میں نماز پڑھیں اور ممکنہ حد تک قبلہ، قیام اور رکوع و سجود کی رعایت کریں۔ س728: یہ جو کہا جاتا ہے "چالیس دن تک شراب خور کا نماز و روزہ نہیں ہے" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں اس پر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے؟ اور پھر وہ اس مدت کے بعد فوت ہوجانے والی نمازوں کی قضا بجا لائے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر قضا اور ادا دونوں واجب ہیں؟ یا پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے، بلکہ ادا ہی کافی ہے، لیکن اس کا ثواب دوسری نمازوں سے کم ہوگا؟ ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب پینا نماز اور روزہ کی قبولیت میں رکاوٹ ہے،[1] نہ کہ اس کی وجہ سے شراب خور سے نماز اور روزہ کا فریضہ ہی ساقط ہوجائے اور ان کی قضا واجب ہو یا ادا اور قضا دونوں لازم ہوں۔ س729: اس وقت میرا شرعی فریضہ کیا ہے جب میں کسی شخص کو نماز کے کسی فعل کو غلط بجا لاتے ہوئے دیکھوں؟ ج: چنانچہ اگر ایسے اجزاء اور شرائط کے بارے میں بارے میں جاہل ہو کہ جن اجزاء اور شرائط میں جہالت کی وجہ سے خلل واقع ہونا نماز کو کوئی نقصان نہ پہنچائے تو اس کو آگاہ کرنا واجب نہیں لیکن اگر وہ اجزاء اور شرائط ایسے ہوں جن میں حتی کہ جہالت کی وجہ سے خلل پڑے تو بھی نماز باطل اور دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہو مثلا ًوضو، غسل، وقت، رکوع اور سجدے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ اس کو صحیح حکم سے آگاہ کرے۔ س730: نماز کے بعد نماز گزاروں کے آپس میں مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اس بات کی وضاحت کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض بزرگ علماء کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، پس مصافحہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن واضح ہے کہ مصافحہ کرنے سے نماز گزاروں کی دوستی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے؟ ج: سلام اور نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کلی طور پر مومنین کا آپس میں مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ [1] نماز کی قبولیت میں رکاوٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کا کوئی ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر صحیح طریقے سے انجام دے تو تارک نماز شمار نہیں ہوگا اور نماز ترک کرنے کا عذاب نہیں ملے گا اگرچہ اس کوکوئی ثواب بھی نہیں ملے گا۔ احکام روزہ خمس کے احکام جہاد جہاد پرنٹ ; PDF جہاد س1048: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟ ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔ س1049: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ س1050: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟ ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔ س1051: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟ ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ س1052: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟ ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر حرام معاملات شطرنج اور آلات قمار موسیقی اور غنا موسیقی اور غنا پرنٹ ; PDF موسیقی اور غنا س 1128: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو، وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1129: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟ ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لذا فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ اور لہوی حرام موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ س 1130: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔ س 1131: کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت،بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟ ج: وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی،راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو ۔ البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام،محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔ س 1132: کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔ غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے۔ س1133: غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟ ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔ س 1134: کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1135: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ س 1136: کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔ س 1137: بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟ ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ۔ہاں اگر موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی نہ ہو اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تا ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ س1138: موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟ ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو، غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی، آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1139: میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتا ہے کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا،راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔ س1140: وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟ ج: حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے چونکہ امام (قدس سرہ) ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہو۔ موضوع کی تشخیص موسیقی کے نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کو تشخیص دے تو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔ س 1141: ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے کہ جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے۔ کیا میرے لئے ایسی موسیقی سے اجتناب کرنا اور دوسروں کو بھی منع کرنا واجب ہے؟ ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی طرح حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔ س 1142: وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے انکے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔ س1143: مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میں گانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہو یا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیں یا نہ۔ س 1144: جائز اور معقول مقاصد کے لیے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔ س 1145: آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ س 1146: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟ ج: اگر خاتون کی آواز راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا ہو یا اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ ہو یا اس پر کوئی دوسرا مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جایز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1147: کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔ س 1148: عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے،آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟ ج: اگر عرف میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی شمار ہوتا ہو تو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔ س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟ ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1150: موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟ ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔ س 1151: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟ ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع (آواز کو گلے میں گھمانا) پر مشتمل ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔ س1152: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟ ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔ س 1153: اگر حرام غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: زوجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا،حرام غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔ س1145: عورتوں کے جمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟ ج: اگر کنسرٹ کا اجرا راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی، ترجیع کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو حرام ہے۔ س1155: اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کو نہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں؟اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟ ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں غنا یا حرام لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔ س1156: آیا شادی شدہ مرد اپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لے جایز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔ ج: حرام غنا(اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو)کو سننا مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد، غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔ س1157: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟ ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔ س1158: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔ ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ س 1159: ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1160: آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟ ج: غنا اور لہوی حرام موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔ س 1161: کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟ ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔ س1162: محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلات موسیقی کو اس طرح استعمال کرنا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو ،مطلقاً حرام ہے ۔ س 1163: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلباء استفادہ کرتے ہیں ؟ ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو تو حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں صرف لہو جو راہ خدا سے منحرف کرنے والے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں، انکا استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1164: کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟ ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔ س 1165: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟ ج: وہ آلات جو عام طور پر راہ خدا سے منحرف کرنے والی آواز میں استعمال ہوتا ہو جو فکر اور عقیدے میں انحراف کا سبب بنے یا گناہ کا سبب بنے اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔ س 1166: جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟ ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ رقص رقص پرنٹ ; PDF رقص س 1167: آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1168: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س 1169: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔ س 1170: مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔ س 1171: اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟ ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔ س 1172: آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟ ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1173: آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔ ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔ س 1174: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟ ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔ س1175: دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگر راہ خدا سے منحرف کرنے والا لہوی ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔ س 1176: ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔ س 1177: رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔ س 1178: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟ ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1179: آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔ س 1180: دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو) ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔ تالی بجانا تالی بجانا پرنٹ ; PDF تالی بجانا س1181: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔ س 1182: معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔ نامحرم کی تصویر اور فلم نامحرم کی تصویر اور فلم پرنٹ ; PDF نامحرم کی تصویر اور فلم س1183: بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟ ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔ س1184: ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1185: کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟ ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔ س1186: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوں اور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟ ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کے لئے زحمت و مشقّت ہو تو آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1187: ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔ ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ س1188: کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟ ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔ س 1189: کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟ ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔ س 1190: آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟ ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔ س 1191: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟ ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔ س 1192: بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1193: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔ س1194: ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟ ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔ س1195: اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔ س1196: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔ س1197: ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟ ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ س1198: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟ ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔ س1199: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟ ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1200: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا ان کا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ س 1201: شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟ ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔ س 1202: مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔ س1203: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟ ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔ س1204: آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟ ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔ س1205: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔ س1206: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟ ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔ س1207: ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟ ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔ س١٢٠۸: ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟ ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفا غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔ س 1209: زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟ ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔ س 1210: کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟ ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔ س 1211: فحش ویڈیو فلمیں اور وی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور ایسی لہوی موسیقی پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔ س 1212: غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔ ڈش ا نٹینا ڈش ا نٹینا پرنٹ ; PDF ڈش ا نٹینا س 1213: کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔ س1214: آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔ س1215: ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟ ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س1216: علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟ ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔ س1217: میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ تھیٹر اور سینما تھیٹر اور سینما پرنٹ ; PDF تھیٹر اور سینما س1218: کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟ ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔ س1219: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ س1220: اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔ س1221: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟ ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔ مصوری اور مجسمہ سازی مصوری اور مجسمہ سازی پرنٹ ; PDF مصوری اور مجسمہ سازی س1222: گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1223: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟ ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔ س1224: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔ س1225: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1226:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟ ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔ س1227: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟ ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔ س1228: جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟ ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔ س1229: ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟ ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا قسمت آزمائی قسمت آزمائی پرنٹ ; PDF قسمت آزمائی س1237: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟ ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ س1238: وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟ ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ س1239: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی کو عرضہ کرنا اور پیش کرنا شرعاً جائز ہے؟ ج: احتیاط کی بنا پر ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔ س1240: کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟ ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔ س1241: کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی صرف بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟ ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔ رشوت طبی مسائل تعلیم و تعلم اور ان کے آداب تعلیم و تعلم اور ان کے آداب پرنٹ ; PDF تعلیم و تعلم اور ان کے آداب س 1319: کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟ ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔ س1320: اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟ ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ س1321: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟ ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔ س1322: حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟ ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1323: اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔ س1324: اسلامی جمہوری (ایران) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟ ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔ س1325: آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟ ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔ س1326: گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟ ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔ س1327: حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟ ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1328: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟ ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔ س1329: آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟ ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔ س1330: کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟ ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔ س1331: حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟ ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔ س1332: گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟ ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔ س1333: بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟ ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1334: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟ ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ س1335: استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟ ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔ حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر پرنٹ ; PDF حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر س1336: وه کتب اور مقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامیه جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر ان کی اشاعت کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ س1337: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟ ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔ س1338: اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔ س1339: اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟ ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔ س1340: اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟ ج: احتیاط واجب کی بنا پر مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ س1341: آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1342: تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔ س1343: آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔ س1344: آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟ ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1345: بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟ ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔ س1346: بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کو ختم کردینا کافی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو ختم کرنا کافی ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ تجارت غیر مسلموں کے ساتھ تجارت پرنٹ ; PDF غیر مسلموں کے ساتھ تجارت س1347: آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔ س1348: کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔ س1349: آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔ س1350: آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟ ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔ س1351: آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینیڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں؟ ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔ س1352: اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟ ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔ س1353: اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔ س1354: اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔ س1355: امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟ ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ س1356: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟ ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔ ظالم حکومت میں کام کرنا ظالم حکومت میں کام کرنا پرنٹ ; PDF ظالم حکومت میں کام کرنا س1357: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟ ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔ س1358: ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟ ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔ س1359: امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟ ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1360: آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟ ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔ لباس کے احکام لباس کے احکام پرنٹ ; PDF لباس کے احکام س1361: لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟ ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔ س1362: اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔ س1363: آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔ س1364: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟ ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ س1365: آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟ ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔ س1366: آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟ ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔ س1367: آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟ ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔ س1368: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟ ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ س1369: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟ ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1370: آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟ ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س1371: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟ ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1372: مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔ مغربی ثقافت کی پیروی جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا پرنٹ ; PDF جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا س1388: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟ ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔ س1389: بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟ ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔ س1390: کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟ ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔ س1391: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟ ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔ س1392: مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟ ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔ س1393: کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔ س1394: کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟ ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔ س1395: نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟ ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔ س1396: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔ س1397: بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال پرنٹ ; PDF سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال س1398: عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔ س1399: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟ ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔ س1400: آیا انفیه کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔ س1401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1402: آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔ س1403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟ ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔ س1404: کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟ ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1405: خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔ س1406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟ ج: جائز نہیں ہے۔ س1407: آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟ ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔ س1408: آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔ س1409: ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔ داڑھی مونڈنا داڑھی مونڈنا پرنٹ ; PDF داڑھی مونڈنا س1410: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟ ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ س1411: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟ ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔ س1412: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1413: بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔ س1414: کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟ ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔ س1415: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟ ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔ س1416: ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟ ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1417: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔ س1418: اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟ ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔ س1419: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟ ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔ س1420 :کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟ ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔ س1421:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔ ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔ س1422: کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟ ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔ س1423 :بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔ س1424: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟ ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔ محفل گناہ میں شرکت کرنا محفل گناہ میں شرکت کرنا پرنٹ ; PDF محفل گناہ میں شرکت کرنا س1425: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔ س1426:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟ ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔ س1427: ١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟ ٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟ ٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکاان پر کوئی اثر نہ ہو؟ ٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی لہوی موسیقی کا سننا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے س1428:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س1429: آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟ ج: غنا اور لہوی موسیقی کی ایسی محفل میں جانا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو اگر اسکے سننے کا باعث ہو یا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔ س1430: ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟ ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔ س1431: بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوں میں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔ دعا لکھنا اور استخارہ دعا لکھنا اور استخارہ پرنٹ ; PDF دعا لکھنا اور استخارہ س1432: آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟ ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1433: ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1434: آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔ س1435: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟ ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔ س1436: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟ ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔ س1437: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔ س1438: آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟ ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔ س1439: بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ دینی رسومات کا احیاء ذخیرہ اندوزی اور اسراف ذخیرہ اندوزی اور اسراف پرنٹ ; PDF ذخیرہ اندوزی اور اسراف س1468: کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟ ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔ س1469: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟ ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار هوتا ہے، جو بات صحیح ہے وہ رسول اللہؐ(صلی الله علیه و آله و سلم) سے منقول یہ کلام ہے کہ آپ فرماتے هیں«لاسَرَف فی خیر» کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔ تجارت و معاملات سود کے احکام سود کے احکام پرنٹ ; PDF سود کے احکام س1619: ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا حقیقی قصد و ارادہ رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔ س1620: قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟ ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اس کے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔ س1621: سودی معاملے﴿لین دین﴾ کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہےجبکہ کسی دوسرے معاملے میں نہیں ہوتا؟ ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے ﴿لین دین﴾ میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اس کی ہم جنس شے کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔ س1622: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کے لئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ،اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اس کے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔ ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہوتی کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔ س1623: بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں،مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔ س1624: کیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی ﴿ذاتی حیثیت رکھنے والے﴾ اور حقوقی ﴿بحیثیت منصب یا عہدہ﴾ افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے کہ جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔ س1625: اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن طرفین اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے طور پر مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟ ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر اتفاق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔ س1626: اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟ ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کے لئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔ س1627: میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا: میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردے گا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔ س1628:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔ س1629: ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن فنڈ یا جی پی فنڈ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اس کے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اس کی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اس کی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔ س1630: بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کے لئے جُعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟ ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کے لئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام یا جُعل (عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام یا جُعل(عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔ س1631: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟ ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان اختلاف سود شمار نہیں ہوگا۔ س1632: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لہذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسخ کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کے لئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اس کی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اس کے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اس کی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔ حقِ شفعہ حقِ شفعہ پرنٹ ; PDF حقِ شفعہ س1633: اگر ایک چیز دو اشخاص کے نام پر وقف ہو جبکہ ان میں سے ایک شخص اپنے حصے کو بیچنے کا حق بھی رکھتا ہو اور کسی تیسرے شخص کو اپنا حصہ بیچنا چاہے تو کیا پہلا شخص شفعہ کا حق رکھتا ہے؟ اسی طرح اگر دو اشخاص مل کر کسی جائیداد یا وقف شدہ جگہ کو کرائے پر لیں پھر ان میں سے ایک شخص صلح یا کرائے کے ذریعے اپنا حق کسی تیسرے شخص کو دے دے تو کیا کرائے پر لی گئی جائیداد پر شفعہ کا حق بنتا ہے؟ ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین(خارجی اشیاء) کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کے لئے کوئی شئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز بھی ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی شئے میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔ س1634: شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور شہری قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے یا واضح طور پر کہے کہ اگر وہ خریدار اسکے شریک کا حصہ خریدے تو وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا ساقط ہونا شمار ہوگا؟ ج: محض ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے پر ابھارنا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت ہونے سے ٹکراؤ نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملہ انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا۔ س1635:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی واقع نہیں ہوئی (اسقاط ما لم یجب)ہے۔ ج: جب تک حق شفعہ واقع نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ عملی نہ ہو جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے تحت اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔ س1636: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادا نہیں کر رہے اس طرح کہ کرایہ دار کے لئے حق تقاص(ادھار کے بدلے کوئی چیز قبضے میں لینا) ثابت ہوجاتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے۔ اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار کے برابر اس گھرکا کچھ حصہ اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقی ماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟ ج: سوال کی مفروضہ صورت میں حق شفعہ کا موضوع نہیں ہے اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہو، تاہم اس شخص کو حق شفعہ حاصل نہیں جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ایں اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں بلکہ صرف دو شخص شریک ہوں۔ س1637: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترکہ ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے۔ تقسیم کے ایک ،سادہ اشٹام کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ جائیداد معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اگر ایک شریک تقسیم کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترکہ ہے حق شفعہ حاصل ہے؟ ج: فروخت شدہ حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترکہ ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔ اجارہ ضمانت ضمانت پرنٹ ; PDF ضمانت س 1682: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟ ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔ س 1683: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا، چنانچہ اس کے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا ،اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں۔ اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اس وقت مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟ ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔ رہن رہن پرنٹ ; PDF رہن س 1684: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اس کے پاس گروی رکھا پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اس کے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے۔ نتیجتاً بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور ان کے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟ ج: جن مقامات میں مرتہن (جس کے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کے لئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے فروخت کرنا جائز ہے، وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اس کے شرعی مالک کو لوٹا دے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔ س1685: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کے لئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اس کے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کے لئے کرایہ پر لے لے؟ ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے، اس کے علاوہ اس قسم کے معاملات، سودی قرض حاصل کرنے کے لئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔ س 1686: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی ایک زمین دوسرے شخص کے پاس گروی رکھی۔ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن(گروی رکھوانے والا) اور مرتہن(گروی لینے والا) دونوں انتقال کرگئے ہیں اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے ان کے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں ان کے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔ س 1687: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟ ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1688: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کےلئے اپنا مکان اس کے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اس کے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کے لئے کیا حکم ہے ؟ ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائے گا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔ س1689: میرے والد نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن انہوں نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا ۔پھر میں نے اپنے والد کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ والد کے قرض کو ادا کرنا یا انہیں برئ الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھ دوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کے لئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا ۔اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے؟ اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ والد کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں تھا، کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟ ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اس کا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اس کے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔ س1690: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑوانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟ ج: جب تک پہلا رہن چھڑوا نہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔ س1691: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں ان کے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے۔میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔ شراکت شراکت پرنٹ ; PDF شراکت س1692: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمایے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعاً حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1693: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جس کے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اس کی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔ س1694: دو افراد نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اس کے شریک کو اس کا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اس کا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟ ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔ س 1695: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کے لئے پیش کردیتاہے، در نتیجہ اس کی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی۔ اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی مالیت خود حصص کی قدر و قیمت کی بنیاد پر اور ان کی قدر و قیمت کا تعین ایسے شخص کے ذریعے انجام پایا ہو جو یہ کام کرنے کا مجاز ہو تو ان کے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان حصص کی مالیت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا ان کے سرمایہ کی بنیاد پر ہو، چونکہ حصص میں سے ہر ایک اس قیمت کی ایک مقدار (جزء) کو نمایاں کرتا ہے لہذا ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ حصص کے ہر حصے کی مالیت معلوم اور معین ہو۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔ س1696: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اس کے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ ذبح خانہ اور اس کی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کے لئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس و قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟ ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کےلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔ س 1697: ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اس کی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا لیکن اس کی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے ،کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟ ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔ س1698: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ۔ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اس کی کوئی بات قبول نہیں کرتا۔ نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ در نتیجہ پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا ۔عدالت کے ماہر نے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اس کی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کے لئے پیش کردیا اور مکان بیچنے کے بعد اس کی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1699:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟ ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لئے یا اپنی بیوی کے لئے خریدا ہو اور اس کی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اس کی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اس کی یا اس کی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں ان کا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے۔ س 1700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا ان کے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟ ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔ س1701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ ان کی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اور اگر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔ ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اس کے ساتھ مکان کی تعمیر میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے سلسلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا ۔ اب مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آجانے کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اور اس کی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے، اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟ ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اس کے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔ س 1703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں کارو بار کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی کہ انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے : ١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟ ٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟ ٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود رکھ لے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ ٢۔شرکاء میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔ ٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔ س 1704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کے لئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اس کا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔ س1705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟ ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور ان کا علیحدہ کرنا ممکن ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کے لئے کسی شریک کو اس کا حصہ بیچنے پر مجبور کرنے کا حق نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے درختوں والے باغ کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ جائیداد تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جاسکتا ہے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اس کا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔ س 1706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں، چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور ان کی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ، در نتیجہ دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے ان کا مشترکہ مال ان کے مابین کس طرح تقسیم ہوگا؟ ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا ۔ در نتیجہ انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دی جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔ س1707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کے لئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟ ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے اور تقسیم کرنے کے لئے چائے ان کی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر ان کے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1708: کیا کسی کمپنی کے مینیجر کے لئے کمپنی کی آمدنی کو شیئر ہولڈرز کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اس کے خرچ کرنے کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے اجازت اور وکالت لئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی کیوں نہ خرچ کیا ہو۔ س 1709: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اس کا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟ ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار کے عوض اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔ س 1710: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور شیئرز ہولڈرزکے نمائندے اس کے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینیجر اور دیگر ملازمین کے لئے اس کے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرنا جائز ہے؟ ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب شیئر ہولڈرز یا ان کے نمائندے اس کی اجازت دیں۔ س 1711: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ کمیٹی جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے 51 فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اس لئے وہ اس کمیٹی کو تشکیل نہیں دے رہے ۔کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان حصص کے مالکان کے حقوق کی حفاظت کے لئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس کمیٹی کے تشکیل دینے میں حصہ ڈالیں۔ ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں فیصلہ کمیٹی کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ فیصلہ کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔ س 1712: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جس کی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں ۔حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اس وقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اس کے شریک نے اپنے لئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟ ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اس کا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔ س 1713: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اس کا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟ ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کرے گا اس کے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے، اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔ س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ ہبہ ہبہ پرنٹ ; PDF ہبہ سوال 1715:کیا نابالغ یتیم کی طرف سے ہدیہ کردہ مال میں تصرف کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: اس کے شرعی ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔ سوال 1716: دو بھائی زمین کے ایک قطعے میں برابر شریک ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اپنا حصہ بڑے بھائی کے بیٹے کو ہبہ معوضہ کے طور پر بخشا اور تحویل میں دے دیا ؛ کیا ہبہ کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی وفات کے بعد زمین کے مذکورہ حصے میں ارث کا دعوی کرسکتے ہیں؟ جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ مرنے والے بھائی نے اپنی حیات میں اس زمین میں سے اپنا حصہ اپنے بھتیجے کو بخشا اور تحویل میں دے کر اس کے اختیار میں دے دیا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔ سوال 1717: اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زمین پر اس کے لئے کوئی گھر بنائے اور اس کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اپنے لئے ایک منزل تعمیر کرے؛ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ باپ کی وفات کے کئی سال بعد وہ شخص بھی مرجائے اور ہبہ یا اس میں تصرف کی کیفیت پر دلیل کے طور کوئی سند یا وصیت نامہ موجود نہ ہو؛ کیا دوسری منزل اس کی ملکیت ہوگی اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجائے گی؟ جواب: اگر بیٹے نے اپنے تصرف میں موجود دوسری منزل بنانے کے اخراجات ادا کئے ہوں اور باپ کی حیات میں کسی تنازع کے بغیر اس کے اختیار میں رہی ہو تو شرعی طور پر اس کی ملکیت کے حکم میں ہوگی اور وفات کے بعد بھی اس کا ترکہ شمار کیا جائے گا اور ورثاء کا ہوگا۔ سوال 1718: جب میں گیارہ سال کا تھا تو میرے باپ نے رسمی طور پر ایک گھر کو میرے نام پر کردیا؛ ایک زمین اور ایک مکان کا آدھا حصہ میرے بھائی کے نام اور دوسرا آدھا حصہ میری ماں کے نام کردیا۔ میرے باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء نے دعوی کیا کہ جو مکان والد نے میرے نام کردیا ہے وہ شرعا میرا نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ باپ نے قبضے سے بچانے کے لئے گھر میرے نام پر کردیا ہے حالانکہ جن املاک کو میرے بھائی اور ماں کے نام پر کردیا ہے ان پر ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ میرے باپ نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس بات پر کوئی ثبوت بھی نہیں ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: باپ نے اپنی حیات میں جن املاک کو بعض ورثاء کو ہبہ کرکے تحویل دیا ہو اور اس کے لئے ثبوت کے طور پر رسمی سند بھی اس کے نام پر کردی ہو تو شرعا اس کی ملکیت ہوگی اور دوسرے ورثاء اس کے ساتھ تنازع کا حق نہیں رکھتے، مگر یہ کہ معتبر طریقے سے ثابت کریں کہ ان کے باپ نے املاک کو اسے نہیں بخشا ہے اور رسمی سند (حقیقی نہ ہو بلکہ صرف) دفتری ہو۔ سوال 1719: جب میرا شوہر گھر کی تعمیر میں مصروف تھا تو میں بھی اس کی مدد کرتی تھی اور یہی تعمیراتی اخراجات میں کمی اور گھر کی تکمیل کا باعث بنی۔ اس نے خود کئی مرتبہ کہا کہ میں بھی گھر میں اس کے ساتھ شریک ہوں اور کام مکمل ہونے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ میرے نام پر کردے گا لیکن وہ اس کام کے انجام سے پہلے فوت ہوگیا اور میرا دعوی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کوئی سند اور وصیت نامہ میرے پاس نہیں ہے؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: گھر میں شریک کرنے کے فقط وعدے پر اس کی تعمیر میں صرف مدد کرنا ملکیت میں شراکت کا باعث نہیں ہےاس بنا پر جب تک معتبر طریقے سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آپ کے شوہر نے اپنی حیات میں گھر کا ایک حصہ آپ کو بخش دیا ہے ،اپنے ارث کے علاوہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سوال1720: میرے شوہر نے جب اس کی عقل صحیح و سالم تھی، بینک کے ذمہ دار شخص کو بلایا اور اپنے اکاونٹ میں موجود پیسے مجھے ہبہ کیا اور سند پر دستخط بھی کیا کہ پیسے نکالنے کا حق مجھے ہوگا جس پر ہسپتال کے سربراہ اور بینک کا مسئول گواہ بھی تھے۔ اسی بنیاد پر بینک نے مجھے چیک جاری کیا اور پورے مہینے میں، میں نے کچھ رقم نکال لی۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد شوہر کو اس کے بیٹے نے بینک لے گیا جب کہ اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے (شوہر سے) پوچھا کہ کیا یہ مال تیری بیوی کا ہے؟ اس نے سر کے ذریعے ہاں میں جواب دیا۔ دوبارہ سوال کیا کہ کیا یہ تیرے بچوں کا نہیں ہے؟ اسی طرح اثبات میں جواب دیا۔ کیا یہ مال میرا ہے یا میرے شوہر کے بچوں کا ہے؟ جواب: چونکہ ہبہ میں ملکیت حاصل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے اور فقط سند پر دستخط کرنا اور پیسے نکالنے کے لئے متعلقہ بینک سے چیک ملنا کافی نہیں ہے لہذا صرف دستخط اور چیک دریافت کرنا اس ہبہ کے صحیح ہونے کا باعث نہیں ہے لذا جو رقم شوہر کی ذہنی سلامتی کے دوران اس کی اجازت سے بینک سے نکالی ہے وہ آپ کا مال ہے اور بینک میں آپ کے شوہر کا باقی ماندہ مال اس کی وفات کے بعد ترکہ اور ورثاء کا ہوجائے گا اور اس اقرار کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس نے بے شعوری کے عالم میں کیا ہے اور اگر اس میں کوئی قانون موجود ہے تو اس کی رعایت کی جائے گی۔ سوال 1721: ماں کی حیات میں بچے اس کے استعمال کے لئے جو اشیاء خریدتے ہیں کیا اس کے ذاتی اموال ہوں گے کہ اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار کیا جائے؟ جواب: اگر بچوں نے مذکورہ اشیاء ماں کو بخش دیا اور اس کے اختیار میں رکھا ہو تو ماں کی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو گا۔ سوال 1722: شوہر اپنی بیوی کے لئے طلائی زیورات خریدے تو کیا شوہر کا مال شمار ہوگا کہ وفات کے بعد اس کا ترکہ سمجھا جائے اس طرح ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور بیوی بھی اس سے اپنا حصہ لے لے یا بیوی کا مال شمار ہوگا؟ جواب: اگر جواہرات بیوی کے اختیار اور تصرف میں ہوں اس طرح کہ مالک کی حیثیت سے تصرف کا حق رکھتی ہو تو جواہرات کی ملکیت بیوی کو مل جائے گی مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے۔ سوال1723: ازدواجی زندگی کے دوران میاں بیوی کو ملنے والے تحفے کیا شوہر کے ہوں گے یا بیوی کے یا دونوں کے؟ جواب: مذکورہ تحفے شوہر کے ہیں یا بیوی کے یا دونوں کے، تحفے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے مسئلہ بھی فرق کرتا ہے۔ جو تحفہ دونوں میں سے کسی کے لئے خصوصی طور پر ملا ہو تو اسی شخص کا ہوگا اور جو تحفہ دونوں کے لئے مشترک ملا ہو وہ دونوں میں مشترک ہوگا۔ سوال 1724: اگر مرد بیوی کو طلاق دے تو کیا بیوی شادی کے دوران ماں باپ کے گھر سے ساتھ لایے ہوے اموال (مثلا قالین، بیڈ، لباس وغیرہ) کا شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ایسی چیزیں ہوں جو بیوی نے اپنے گھر والوں سے لی ہوں یا ذاتی ہوں جس کو اپنے لئے خریدا ہو یا ذاتی طور پر اس کے لئے ہبہ کیا گیا ہو تو اس کی ملکیت ہوگی اور اگر موجود ہو تو شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن ایسی اشیاء جو بیوی کے خاندان یا قبیلے والوں نے داماد کو ہدیہ کردیا ہو تو شوہر سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے بلکہ ایسے اموال پر ہدیہ کرنے والے کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ ہدیہ باقی ہو اور شوہر اس کا رشتہ دار نہ ہوتو ہدیہ کرنے والا ہبہ کو فسخ کرکے واپس لے سکتا ہے۔ سوال 1725: میں نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد سونا،زیورات اور ان چیزوں کو اس سے واپس لے لیا جو میں نے ازدواجی زندگی کے دوران اس کو دی تھیں؛ کیا اب میرے لئے ان میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر ان چیزوں کو عاریہ کے طور پر بیوی کو دیا ہو تاکہ وہ استعمال کرے یا اس کو ہبہ کردیا ہو اور اسی حالت میں اب بھی اس کے پاس موجود ہوں اور وہ عورت اس کی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ہبہ کو فسخ کرکے مال واپس لے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائز ہے کہ مذکورہ چیزوں میں تصرف کرےجن کو اس سے واپس لیا ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ سوال 1726: میرے باپ نے زمین کا ایک قطعہ مجھے بخش دیا اور رسمی طور پر اس کی سند بھی میرے نام کردیا لیکن ایک سال کے بعد پشیمان ہوا؛ کیا اس زمین میں تصرف کرنا میرے لئے جائز ہے؟ جواب: اگر زمین کو آپ نے تحویل میں لے کر قبضہ کرلیا اس کے بعد باپ ہبہ سے پیشمان ہوا اور رجوع کرے تو اس کا رجوع صحیح نہیں ہے اور شرعی طور زمین آپ کی ہے لیکن آپ کی طرف سے زمین کو قبضے میں لینے سے پہلے وہ پشیمان ہوجائے تو ہبہ سے منصرف ہونے کا حق رکھتا ہے اور اس کے بعد آپ زمین پر کوئی حق نہیں رکھتے اور فقط سند کا آپ کے نام پر اندراج ہونا ہبہ میں معتبر قبضہ ثابت ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ سوال 1727: میں نے کسی شخص کو زمین بخش دی اور اس نے زمین کے ایک گوشے میں رہائشی گھر بنا لیا؛ کیا میرے لئے جائز ہے کہ مذکورہ زمین یا بخشے جانے والے حصے کی قیمت کا مطالبہ کروں؟ اور کیا جائز ہے کہ جس حصے میں عمارت تعمیر نہیں کی ہے اس کو واپس لے لوں؟ جواب: جب اس شخص نے آپ کی اجازت سے زمین پرقبضہ کیا اور عمارت تعمیر کرکے اس میں تصرف کیا تو اس کے بعد ہبہ کو فسخ کرنےاور زمین یا اس کی قیمت لینے کا آپ کو حق نہیں ہے اور زمین کی مساحت اتنی ہو کہ اس کے ایک حصے میں گھر بنانا محلے والوں کی نظر میں عرفا پوری زمین پر تصرف سمجھا جاتا ہو تو اس کا کچھ بھی حصہ واپس لینے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ سوال 1728: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے تمام اموال کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے لئے ہبہ کرے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے؟ جواب: اگر یہ کام فتنے اور بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔ سوال 1729: کسی شخص نے اپنے گھر کو ہبہ معوضہ کے طور پر رسمی سند کے ساتھ پانچ افراد کو ہبہ کردیا تاکہ اس کی زمین پر حسینیہ (عزاخانہ) تعمیر کریں اس شرط کے ساتھ کہ تعمیر کے بعد دس سال تک حبس رکھیں اور اس کے بعد اگر چاہیں تو وقف کریں اس کے نتیجے میں انہوں نے عوام کی مدد سے حسینیہ کی تعمیر شروع کی اور مذکورہ مدت گزرنے اور متولی اور نگران کی تعییناتی کے بعد انتظامات اور نگرانی اور وقف کی شرائط سے مربوط امور کا اختیار اپنے پاس رکھا اور اس سے متعلق سند کا بھی اہتمام کرلیا؛ کیا اس صورت میں جب محبوس حسینیہ کو وقف کرنے کا قصد رکھتے ہوں، نگران اور متولی کے انتخاب میں ان لوگوں کی رائے کی پیروی واجب ہے؟ اور کیا ان شرائط پر کاربند نہ رہنا شرعامشکل ہے(یعنی ان کی رعایت ضروری ہے)؟ اگر مذکورہ پانچ افراد حسینیہ کو وقف کرنے کی مخالفت کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: ان پر واجب ہے کہ ہبہ کرنے والے نے عقد ہبہ معوضہ کے ضمن میں جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل کریں اور اگر اس کی حفاظت یا وقف کی کیفیت کے بارے میں عائد شرائط کی مخالفت کریں تو ہبہ کرنے والا یا اس کے ورثاء ہبہ معوضہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔لیکن جو شرائط ان پانچ افراد نے حفاظت اور اس کی نگرانی کے بارے میں رکھی ہیں اور اسی طرح وقف اور متولی و نگران کے بارے میں مقرر کرکے اندراج کی ہیں اگر ہبہ کرنے والے کے ساتھ عقد ہبہ میں ہماہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہو اس طرح کہ اس کے تمام امور کو ان افراد کے حوالے کردیا ہو تو اس صورت میں ان کی پابندی اور عمل کرنا واجب ہے اور ان میں سے بعض حسینیہ کو وقف کرنے سے اجتناب کریں چنانچہ ہبہ کرنے والے کی رائے یہ ہو کہ وقف کے حوالے سے یہ لوگ مل کر وقف کے معاملے میں فیصلہ کریں تو باقی افراد وقف کرنے میں پہل اور اقدام نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1730:کسی شخص نے اپنے گھر کا ایک تہائی حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے اور ایک سال کے بعد پورے گھر کو پندرہ سالوں کے لئے کرائے پر دے دیا اس کے بعد مرگیا؛ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ کیا یہ ہبہ حالانکہ ہبہ کرنے کے بعد گھر کو کرائے پر دیا ہے، صحیح ہے اور اگر مقروض ہو تو کیا اس کو پورے گھر سے ادا کرنا ضروری ہے یا دو تہائی حصے سےاور اس کے بعد باقی حصے کو ارث کے قانون کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا؟ اور کیا قرض خواہوں پر کرائے کی مدت پوری ہونے تک صبر کرنا واجب ہے؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے نے جو حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے پورا گھر کرائے پر دینے سے پہلے اپنی بیوی کے قبضے میں دیا ہو اگرچہ پورے گھر کو تحویل میں دینے کے ضمن میں ہی کیوں نہ ہو، اور بیوی اس کی رشتہ دار ہو یا ہبہ معوضہ ہو تو اس حصے کا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اجارہ فقط باقی حصے کی نسبت صحیح ہے اس صورت کے علاوہ چونکہ پورا گھر اس کے بعد کرائے پر دیا گیا ہے لہذا ہبہ باطل ہےالبتہ کرائے پر دینا ہبہ سے پلٹنے کی نیت سے ہو تو فقط وہ اجارہ صحیح ہے کہ جو ہبہ کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ میت کا قرض بھی اس مال سے ادا کرنا ضروری ہے جس کا وفات کے وقت تک وہ مالک تھا اور جس چیز کو اس کی حیات میں ایک مدت کے لئے کرائے پر دیا گیا ہو اس مدت کے دوران اس کا فائدہ کرائے دار کو ملے گا اور وہ چیز ترکہ شمار کی جائے گی اور اس کا قرضہ اسی سے منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ ورثاء کی میراث ہے اور اجارے کی مدت پوری ہونے تک اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1731۔ کسی شخص نے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ اس کے تمام غیر منقولہ اموال اولاد میں سے کسی ایک کے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جب تک زندہ ہو ہر سال ان اموال کے بدلے میں چاول کی ایک خاص مقدار وہ (وصیت کرنے والے) اور اس کے گھر والوں کو دے۔ایک سال کے بعد تمام اموال اس کو بخش دیا؛چونکہ وصیت پہلے ہے لہذا کیا وصیت اب بھی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ایک تہائی حصے میں صحیح اور اس کے مرنے کے بعد باقی ماندہ اموال ورثاء کو ارث میں ملیں گے؟ یا ہبہ وقوع پذیر ہونے کے بعد وصیت باطل ہوگی؟ (یاد رہے کہ مذکورہ اموال اس شخص کے قبضے میں ہیں جس کو ہبہ کیا گیا ہے) جواب: اگر وصیت کے بعد ہبہ کیا جائے تو چونکہ ہبہ کرنے والے کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اس مال پر قبضہ اور تسلط قطعی اور یقینی ہوگیا تھا لہذا وصیت جوکہ ہبہ سے پہلے کی گئی ہے، باطل ہے کیونکہ ہبہ وصیت سے انحراف شمار ہوتا ہے نتیجے میں ہبہ کیا ہوا مال فرزند کا ہوگا اور دوسرے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے، اس صورت کے علاوہ جب تک وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت سے انحراف ثابت نہ ہوجائے وصیت کا اعتبار برقرار رہے گا۔ سوال 1732: جس وارث نے باپ سے ملنے والی ارث سے اپنا حصہ اپنے دو بھائیوں کو بخش دیا ہو کئی سال کے بعد کیا اس کو ان سے طلب کرسکتا ہے؟ اور اگر دونوں بھائی اس کے حصے کو واپس کرنے سے گریز کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر قبضے میں لینے کی وجہ سے ہبہ ثابت ہونے کے بعد اس سے پلٹنا چاہے تو اس کا حق نہیں ہے لیکن اگر قبضہ مکمل ہونے سے پہلے پلٹے تو صحیح ہے اور کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال 1733: میرے ایک بھائی نے رضایت کے ساتھ ارث میں سے اپنا حصہ مجھے بخش دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد ارث کو ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ گیا؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر ارث میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ جائے تو صحیح ہے اور آپ کو اس حصے میں کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر اس حصے کو آپ نے قبضے میں لینے کے بعد ہبہ سے پلٹ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو حصہ آپ کو بخش دیا ہے اس میں اس کو کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1734: ایک عورت نے اپنی زرعی زمین کسی شخص کو بخش دیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں حج کا فریضہ ادا کرے اس گمان کے ساتھ کہ اس پر حج واجب ہوا ہے لیکن اس کے قبیلے والے اس کے ساتھ متفق نہیں ہیں اس کے بعد دوسری مرتبہ زمین کو اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو ہبہ کردیا اور دوسری مرتبہ ہبہ کرنے کے ایک ہفتے کے بعد مرگئی؛ پہلا ہبہ صحیح ہے یا دوسرا؟ پہلی مرتبہ جس کو ہبہ کیا گیا تھا حج کی ادائیگی کے بارے میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟ جواب: اگر پہلا شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار ہو اور اس کی اجازت سے مذکورہ مال کو قبضے میں لیا ہو تو پہلا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اس عورت کی نیابت میں حج کرنا واجب ہے اور دوسرا ہبہ فضولی ہے اور پہلے جس شخص کو ہبہ کیا گیا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہے لیکن اگروہ شخص اس عورت کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہو یا مذکورہ مال کو قبضے میں نہیں لیا ہو تو دوسرا ہبہ صحیح ہے اور ایسا سمجھا جائے گا کہ پہلے ہبہ سے پلٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں پہلا ہبہ باطل ہوگا لذا پہلے شخص کو زمین میں کوئی حق نہیں اور ہبہ کرنے والی عورت کی طرف سے حج انجام دینا بھی واجب نہیں ہے۔ سوال 1735: کیا حق ثابت ہونے سے پہلے ہبہ کرسکتے ہیں؟ اگرعورت مستقبل میں خود کو ملنے والے مالی حقوق (تنخواہ) کو عقد کے دوران اپنے شوہر کو بخش دے تو صحیح ہے؟ جواب: اس طرح کا ہبہ صحیح ہونے میں اشکال بلکہ منع ہے اس کے نتیجے میں اگر مستقبل میں عورت کے حقوق (تنخواہ) کا شوہر کو ہبہ کرنا صلح یا ثابت ہونے کے بعد ان کو ساقط کرنے کی طرف پلٹتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سوال 1736: کافروں کو تحفہ دینے یا ان سے لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: ذاتا اشکال نہیں رکھتا ہے۔ سوال 1737: کسی شخص نے اپنی حیات میں اپنے تمام اموال اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو بخش دیا تو کیا یہ ہبہ اس کے تمام اموال حتی مرنے کے بعد کفن اور دفن وغیرہ کے امور کی نسبت بھی نافذ العمل ہوگا؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے کی طرف سے ہبہ کرنے کے بعد اس کی حیات میں ہی مذکورہ اموال کو اس کی اجازت سے قبضے میں لیا ہو تو جتنے اموال قبضے میں لیا ہے ان میں ہبہ نافذ العمل ہوگا۔ سوال 1738: جو اموال جنگ میں زخمی ہونے والوں کو دئے جاتے ہیں ان کو تحفہ شمار کیا جائے گا؟ جواب: ہاں؛ مگر جو کسی کام کے بدلے بعض لوگوں کو ادا کیا جاتا ہے وہ اس کام کی اجرت شمار کی جائے گی۔ سوال 1739: اگر کسی شہید کے گھر والوں کو کوئی تحفہ دیا جائے تو ورثاء کا مال شمار ہوگا یا کفیل یا ان کے ولی کا؟ جواب: ہبہ کرنے والے کی نیت سے وابستہ ہے۔ سوال 1740: بعض کمپنیوں یا افراد کی طرف سے وکیلوں اور ایجنٹوں کو اشیاء کی خرید و فروخت یا صنعتی معاہدوں کے دوران تحفے دیئے جاتے ہیں اس احتمال کے ساتھ کہ تحفہ لینے والا تحفہ دینے والے کے فائدے میں کام کرے یا اس کے حق میں فیصلے کرے تو کیا ان تحفوں کو اس سے قبول کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: خرید و فروخت یا معاملے میں بننے والے ایجنٹ یا وکیل کو معاملے کے بدلے طرف مقابل سے کوئی ہدیہ نہیں لینا چاہئے۔ سوال 1741: جو ہدیہ کمپنیوں اور لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہےاس ہدیہ کے مقابلے میں ہو جو بیت المال سے ان کو دیئے جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر بیت المال سے ملنے والے تحفے کے بدلے میں دیا جائے تو بیت المال کو ہی دینا چاہئے۔ سوال 1742: اگر تحفہ وصول کرنے والے پر اس تحفے کا اثر پڑجائے اور غیر مناسب تعلقات یا امن و امان کے لحاظ سے مشکوک روابط کا باعث بنے تو کیا ایسا تحفہ لینا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: ایسے تحفے وصول کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ سوال 1743: اگر احتمال ہو کہ تحفہ دینے کا مقصد تحفہ وصول کرنے والے کو تحفہ دینے والے کے حق میں تبلیغ کرنے پر تشویق اور ترغیب دینا ہے تو اس کو وصول کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر مذکورہ تبلیغات شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز ہوں تو کوئی اشکال نہیں اور ان تبلیغات کے بدلے تحفہ وصول کرنے میں کوئی منع نہیں ہے البتہ دفتری دائرہ کار میں ایسا کام متعلقہ قوانین و ضوابط کا تابع ہے۔ سوال 1744: اگر کسی کام کو انجام دینے کے لئے افسر کو تیار کرنے یا مخالفت سے باز رکھنے یا تغافل اور چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے تو تحفہ قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اس طرح کے تحفے قبول کرنے میں اشکال ہے بلکہ ممنوع ہے کلی طور پر اگر شریعت اور قانون کے مخالف ہدف تک رسائی یا قانونی افسر کو ایسے کام سے اتفاق کرنے پر مائل کرنے کے لئے جس سے اتفاق کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ہو، تحفہ پیش کیا جائے تو اس تحفے کو وصول کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرے اور متعلقہ افسران پر واجب ہے ایسے کاموں کی روک تھام کریں۔ سوال 1745: کیا دادا کی طرف سے اپنی حیات میں اپنے تمام یا بعض اموال کو اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی اور بچوں کو بخش دینا جائز ہے؟ کیا اس کی اپنی بیٹیاں اس کام میں اعتراض کرنے کا حق رکھتی ہیں؟ جواب: اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی حیات میں جتنا چاہے اپنی اولاد کے بچوں یا بہو کو بخش دے اور اس کی بیٹیوں کو اس کام میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1746: کسی شخص کی نہ اولاد ہے نہ بھائی نہ بہن اور نہ ماں باپ ہیں اور اپنے اموال کو اپنی بیوی یا اس کے قبیلے والوں کو ہبہ کرنا چاہتا ہے؛ کیا شرعا اس کے لئے یہ کام جائز ہے؟ کیا اس ہبہ کی مقدار مشخص اور معین ہے یا تمام اموال کو ہبہ کرسکتا ہے؟ جواب: مالک اپنی حیات میں اپنے تمام اموال یا کچھ مقدار کو اپنے ورثاء اور غیر ورثاء میں سے جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ سوال 1747: شہید فاونڈیشن کی طرف سے میرے شہید بیٹے کی برسی اور مجلس ترحیم کے لئے کچھ پیسے اور غذائی اجناس میرے حوالے کیا ہے؛ کیا ان اشیاء کو وصول کرنے کے اخروی اثرات ہیں؟ کیا یہ شہید کے ثواب اور اجر میں کمی کا باعث بنے گا ؟ جواب: شہداء کے خاندان کی طرف سے اس طرح کے امدادی سامان کو قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شہید اور اس کے خاندان کے اجر و ثواب میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سوال 1748: ہوٹل کے ملازمین اور چوکیداروں نے ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا تاکہ ان کو انعام کے طور پر ملنے والی چیزوں کو اس میں جمع کریں اور آپس میں مساوی تقسیم کریں لیکن ان میں سے بعض افراد جو صدر یا نائب صدر کا عہدہ رکھتے ہیں، دوسروں سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں یہ امر ہمیشہ سے فنڈ کے ممبران کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: یہ مسئلہ اس شخص کے قصد سے وابستہ ہے جس نے مال کو انعام کے طور پر انہیں دیا ہے اس کے نتیجے میں جو انعام کسی مخصوص فرد کو دیا گیا ہے اس کا اپنا مال ہے اور جو سب کواجتماعی دیا گیا ہے ان کے درمیان مساوی تقسیم کرنا چاہئے۔ سوال 1749: جو چیز مثلا چھوٹے بچے کو عیدی کے طور پر تحفے میں ملتی ہے کیا بچے کی شمار کی جائے گی یا اس کے ماں باپ کی ہوگی؟ جواب: اگر باپ چھوٹے بچے کا ولی ہونے کے طور پر اس چیز کو قبضے میں لے تو بچے کی ہوگی۔ سوال 1750: کسی عورت کی دو بیٹیاں ہیں اور اپنی پراپرٹی کو جو کہ زرعی زمین کا ایک قطعہ ہے، بیٹیوں کی اولاد (یعنی بیٹیوں میں سےایک کے بیٹے) کو ہبہ کرنا چاہتی ہے اس کے نتیجے میں دوسری بیٹی ارث سے محروم ہوجائے گی کیا اس کا یہ ہبہ صحیح ہے یا دوسری بیٹی ماں کی وفات کے بعد زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ماں نے اپنی حیات میں اپنے نواسے کو اپنی پراپرٹی بخشی اور تحویل میں دی ہو تو اس صورت میں اس کا مال شمار ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر وصیت کی ہو کہ اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی نواسے کو دی جائے تو ایک تہائی کے برابر اس کی وصیت نافذ العمل ہوگی اور اضافی مقدار میں ورثاء کی اجازت سے وابستہ ہے۔ سوال 1751: کسی شخص نے اپنی زرعی زمین کا کچھ حصہ اپنے بھتیجے کو اس شرط پر ہبہ کردیا کہ اپنی دو ربیبہ ( زیر پرورش لڑکی جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو) کی شادی ہبہ کرنے والے کے دونوں بیٹوں سے کردے۔ لیکن بھتیجے نے ایک ربیبہ کی شادی ایک بیٹے سے کرادی لیکن دوسری ربیبہ کی شادی سے گریز کیا تو کیا مذکورہ شرائط کے ساتھ انجام پانے والا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے یا نہیں؟ جواب: یہ ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے لیکن شرط باطل ہے کیونکہ غیر حقیقی باپ ربیبہ پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ باپ اور دادا نہ ہونے کی صورت میں ان کی شادی ان کی اپنی مرضی سے وابستہ ہے۔ ہاں اگر مذکورہ شرط کا مطلب یہ ہو کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بھتیجا اس شخص کے بچوں سے شادی کرنے کے لئے لڑکیوں کی رضایت حاصل کرے تو یہ شرط صحیح اور پورا کرنا لازم ہے اگر اس شرط پر عمل نہ کرے تو ہبہ کرنے والا اس کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سوال 1752: میرا ایک رہائشی اپارٹمنٹ ہے جس کو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے نام کردیا۔ اس کی ماں کو طلاق دینے کے بعد میں ہبہ سے پلٹ گیا اور اس لڑکی کے اٹھارہ سال پورے ہونے سے پہلےاس کو اپنی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے کے نام پر کردیا؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر پراپرٹی کو حقیقت میں ہی اپنی بیٹی کو ہبہ کردیا ہو اور اس کی ولایت میں اس پر قبضہ کیا ہو تو ہبہ نافذ العمل ہے اور قابل فسخ نہیں ہے لیکن حقیقی معنوں میں ہبہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو بلکہ فقط اس کی سند اپنی بیٹی کے نام کردی ہو تو یہ ہبہ ثابت ہونے اور اس بیٹی کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپارٹمنٹ آپ کا ہے اور اس کا اختیار بھی آپ کے پاس ہوگا۔ سوال 1753: میں نے ایک سخت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی پوری جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کردی اور اس کے متعلق سند بھی ان کے لئے لکھ دی اور ٹھیک ہونے کے بعد ان سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ میرے اموال میں سے کچھ حصہ مجھے دیں لیکن انہوں نے اس سے اجتناب کیا اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: صرف سند لکھنا بچوں کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے نتیجے میں اگر اپنے اموال اور جائیداد ان کو ہبہ کیا ہو اور اس طرح تحویل میں دیا ہو کہ ان کے اختیار اور مالکانہ تصرف میں ہوں تو رجوع کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے لیکن اگر بالکل ہبہ واقع نہ ہوا ہو یا ہبہ کرنے کے بعد قبضے میں نہیں دیا گیا ہو یا قبضے میں نہیں لیا گیا ہو تو وہ اموال آپ کی ملکیت اور اختیار میں باقی ہیں ۔ سوال 1754: کسی شخص نے اپنے وصیت نامے میں گھر میں موجود اشیاء اپنی بیوی کو بخش دیا اور گھر میں وصیت کرنے والے کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب ہے کیا اس کی بیوی اس کتاب کی ملکیت کے علاوہ طباعت اور نشر یاتی حقوق وغیرہ کی بھی مالک ہوگی یا باقی ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہوں گے؟ جواب: تالیف شدہ کتاب کی طباعت اور نشر کا حق اس کی ملکیت کا تابع ہے لذامولف نے اپنی حیات میں جس کو کتاب ہبہ کرکے تحویل دی ہے یا جس کے لئے وصیت کی ہے، مولف کی وفات کے بعد کتاب اس شخص کی ہوگی اور تمام حقوق اور امتیازات بھی اسی شخص سے مخصوص ہوں گے۔ سوال 1755: بعض ادارے اور دفاتر مختلف مواقع پر اپنے ملازمین کو تحفے دیتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے؛ کیا ملازمین کے لئے ان کو قبول کرنا اور تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر تحفہ دینے والا حکومتی قوانین کے مطابق اس کی صلاحیت اور اختیارات کا حامل ہو تو اس صورت میں حکومتی اموال میں سے تحفہ دینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور اگر وصول کرنے والے کو احتمال ہو کہ تحفہ دینے والا ان صلاحیتوں اور اختیارات کا حامل ہے یہ احتمال قابل توجہ ہو تو اس سے تحفہ قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال1756: ہبہ کرنے والے سے قبضے میں لینے میں صرف وصول کرنا کافی ہے یا اس کے علاوہ ہبہ کو خصوصی طور پر بعض موارد میں مثلا گاڑی، گھر اور زمین وغیرہ میں اس شخص کے نام اندراج کرنا بھی ضروری ہے؟ جواب: ہبہ میں قبضہ، شرط ہونے سے مراد معاہدے کو لکھنا اور دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مال حقیقت میں ہی اس کے اختیار اور تصرف میں چلا جائے اور ہبہ واقع ہونے اور ملکیت حاصل ہونے کے لئے یہی کافی ہے اور ہبہ کئے جانے والے اموال میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ سوال 1757: ایک شخص نے شادی، ولادت یا دیگر امور کی مناسبت سے کسی کو مال ہبہ کردیا اور تین یا چارسال گزرنے کے بعد اس کو واپس لینا چاہے تو ہبہ وصول کرنے والے پر اس کو واپس کرنا واجب ہے؟ اور اگر کسی نے عزاداری یا میلاد کی محفل کے لئے کوئی مال دیا تو اس کے بعد کیا مذکورہ مال کو واپس لے سکتا ہے؟ جواب: جب تک وہ ہدیہ اس شخص کے پاس موجود ہے، ہبہ کرنے والا اس کا مطالبہ کرکے واپس لے سکتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار نہ ہو اور ہبہ بھی معوضہ نہ ہو لیکن اگر ہدیہ تلف ہوا ہو یا پہلے کی نسبت جس وقت اس کو ہبہ کیا گیا تھا، اس میں تبدیلی رونما ہوچکی ہو تو اس صورت میں ہدیہ یا اس کا متبادل طلب کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح جس پیسے کو انسان نے قصد قربت اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا ہو، واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ دین و قرض دین و قرض پرنٹ ; PDF دین و قرض س 1758: ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کےلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اس کی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کا لینا جائز ہے ؟ ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔ س 1759: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض دینے والا چیک کی رقم وصول کرنے کےلئے اس کے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اس کی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجرا کے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاً اس کا ذمہ دار ہے؟ ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1760: میرا بھائی میرا کچھ مقروض ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دی جسے میں نے ہدیہ تصور کیا لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دی ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟ ج: قالین یا اس کے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جو قرض کی گئی جنس میں سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی تک اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آپس میں صلح کرلیں۔ س 1761: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔ س 1762: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کا تیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک ضمانت کے طور پر اسے ایک چیک دے دیا۔ اب جبکہ فریقین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور ان کے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھر کا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردینا کافی ہے؟ ج: قرض دینے والے کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کےلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اس کا قرض ادا کرنے کےلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے اختلاف کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔ س 1763: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھار لی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اس کے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔ س 1764: قرض دینے والا عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کےلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض دینے والے نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ س1765: اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اس کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض دینے والا اس کا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟ ج: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض دینے والا اس کے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض دینے والا کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض دینے والا کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔ س 1766: کیا میت کا مقروض ہونا حق الناس میں سے ہے کہ ورثاء پر اس کی میراث سے اس کا ادا کرنا واجب ہو؟ ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض دینے والے یا اس کے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اس کا قرض ادا نہ کردیں انہیں اس کے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔ س 1767: ایک شخص کی ایک زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کےلئے ضبط ﴿قرق﴾ کرلیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: انہیں اس چیز کی ضبطی ﴿قرقی﴾ کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔ س 1768: کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اس کے اہل و عیال کو رہائش کے لئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟ ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کےلئے جن چیزوں کا محتاج ہے جیسے گھر اور اس کا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اس کی زندگی کا جزء اور اس کی شان کے مطابق ہو وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔ س 1769: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کے بوجھ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کےلئے پیش کردیا ہو لیکن اس کے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتا ہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتا ہو توکیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض آہستہ آہستہ ادا کرے؟ ج: اگر وہ عمارت اس کا اور اس کے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کےلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کےلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض دینے والے اسے اس کےلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کےلئے صبر کریں تاکہ وہ اس کے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔ س 1770: کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟ ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔ س 1771: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے تو کیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اس کا عوض دے؟ ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے اسے اس کا عوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کی ادا کردہ رقم اسے دے۔ س 1772: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض دینے والا قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟ ج: قرض دینے والا شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ س 1773: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اس کے منافع کے طور پر ادا کرتارہا اور قرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض منافع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ کیا وہ رقم جو منافع کے طور پر ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اور قرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟ ج: اس فرض کے پیش نظر کہ حقیقت میں اسے یہ رقم قرض کے طور پر دی گئی تھی لذا جو منافع ادا کیا گیا ہے وہ پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ کے برابر ہو تو اشکال نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ جو رقم بھی پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ سے ذیادہ منافع کے طور پر ادا کیا گیا یے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا باقی رقم، قیمت میں آنے والی گراوٹ کو حساب کرکے قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اس کے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔ س 1774: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے منافع دریافت کرے؟ ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں منافع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا منافع ، سود اور حرام ہے۔ س 1775: ایک شخص نے کسی معاشی منصوبے کےلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اس کےلئے نفع بخش ہو تو کیا اس کےلئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض دینے والے کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض دینے والا اس کا مطالبہ کرے ؟ ج: قرض دینے والا اس تجارت کے منافع میں جو مقروض نے قرض والے مال کے ذریعہ حاصل کیا ہے؛ کوئی حق نہیں رکھتا اور نہ وہ اس حاصل شدہ منافع سے کچھ مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض دینے والے کو دے کر اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔ س 1776: ایک شخص نے تین مہینے کےلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کرےگا کیا ان دونوں کےلئے یہ جائز ہے ؟ ج: یہ زائد رقم سود ہے اور حرام ہے ۔ س 1777: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اس کی شرائط کو ان کےلئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جس کا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ ان کے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹر میں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی ان کے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اس کا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جس کی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اس کی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اس کے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اس کا کام بھی حرام ہے ؟ ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اس کی انجام دہی یا تکمیل یا مقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتا ہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔ س 1778: بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟ ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔ س1779: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کےلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کرےگا کیا ان کےلئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔ س 1780: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1781: ایک کو آپریٹو کمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟ ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کےلئے باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جس کی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔ س 1782: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے کہ جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں، زمینیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں سے متفق نہیں ہوتے، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان سے خرید و فروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟ ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اس لئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیے گا تو اس صورت میں جائیداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اس کے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائیداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1783:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع اور سود کی شرط لگانا باطل ہے اور یہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اس کا لینا جائز نہیں ہے ۔ س 1784: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟ ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اور اس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اس کےلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں ان کے اختیارات کی حدود کے تابع ہے ۔ س 1785: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے ان کی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟ ج: ادارے کےلئے اس رقم سے عمارت خریدنا جو اسے قرض دی گئی ہے اگر ادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو معاملہ فضولی ہوگا اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔ س 1786: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اور اس کی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اس کے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1787: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کو قرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کےلئے شرط لگاتا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کےلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گا اور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ادارے میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارے کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دے گا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کےلئے صحیح ہے۔ س 1788: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دینے کےلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اس کی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟ ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کےلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھولنے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔ س 1789: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کےلئے کوئی راستہ ہے ؟ ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے ان کی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔ س 1790 :وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کےلئے مختلف افراد کو دیتا ہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1791:اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کےلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اس طرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کےلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کےلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اس کی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔ صلح صلح پرنٹ ; PDF صلح س 1792: ایک شخص نے اپنی تمام جائیدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ماں باپ، کو اس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح سے کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کےلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو ان کی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اس کی زندگی میں اس کی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔ س 1793: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اس وقت اس کے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟ ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کےلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔ س 1794: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اس کے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اس کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کےلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جس کے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اس کا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔ س 1795: ایک صلح کی دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟ ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو اس وقت تک یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اس کی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی، البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اس کے شرعی طور پر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔ س 1796: میرے سسر نے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اس کے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔ س 1797: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ ان کی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویز پر دستخط کردیئے، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لیئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟ ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ س 1798: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟ ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اس کی اولاد کے درمیان فتنہ و فساد اور نزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔ س 1799:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے وہ یہ مال اسی استفادے کےلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا کسی شخص کو صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر استفادہ کرنے میں شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟ ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔ س 1800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیر وہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟ ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جس کا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔ س 1801: ماں کی جائیداد اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اس کی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اس کے اور اس کے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اس کی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی اس وقت ماں کا پورا ترکہ لینا چاہتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی زندگی میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور صرف صلح کی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اس کی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔ س 1802: ایک باپ نے اپنی جائیداد صلح کے ساتھ اپنی اولاد کو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیز کے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟ الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟ ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائے گا ؟ اور اگر بالفرض یہ صلح سے عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائے گا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟ ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ ج: الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔ ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر موقوف ہے۔ ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اور نہ کسی دوسرے کو اموال منتقل کرنے کا حق۔ وکالت صدقہ صدقہ پرنٹ ; PDF صدقہ س 1820: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کےلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقامات پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچا سکیں کیا جائز ہے کہ اس ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد انعام (Reward) کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں؟ ج: ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم انعام (Reward) کے طور پر دینے میں اشکال ہے بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے یہ کام جائز نہیں ہے تاہم ان لوگوں کو جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اجرۃ المثل (اس جیسے کاموں کے لئے دی جانے والی اجرت)کے طور پر اس میں سے کچھ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں ان کی امداد کی ضرورت ہو، اور ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کرے ورنہ ان رقوم کو فقرا ء پر خرچ کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسرے کام میں مصرف میں لانا اشکال سے خالی نہیں ہے۔ س 1821: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1822: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟ ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔ س1823: میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اور مخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لئے اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ ان کی طرف سے آپ پر ایک نیکی ہے لہذا آپ کے لئے حلال ہے اور اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ عاریہ اور ودیعہ عاریہ اور ودیعہ پرنٹ ; PDF عاریہ اور ودیعہ س 1824: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک ان کا ضامن ہے یا مینیجر ؟ ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔ س 1825: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اس کی وفات کے بعد اس کے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اس کا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟ ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔ س1826: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کے لئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا ان کی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟ ج: وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود ان کا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر ان کی نگہداشت و حفاظت میں آپ کی کوتاہی کی وجہ سے تلف ہوگئی ہوں اگرچہ ایسا واپس کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہوا ہو تو فوج کو ان کی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ س 1827: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کے لئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟ ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔ س 1828: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کے لئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اس کے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج : اگر آپ نے اس کی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔ وصیّت وصیّت پرنٹ ; PDF وصیّت س1829: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کے لئے صرف کیا جائے اب جبکہ ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال ان کے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔ س1830: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اس کے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگ زدہ مہاجرین کے لئے صرف کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگ زدہ مہاجر موجود نہیں ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگ زدہ مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحال اس شہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اس کا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگ زدہ مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ فی الحال وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔ س 1831: کیا کسی شخص کے لئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کے لئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟ ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اس کے لئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت اس کے ترکہ کے صرف ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔ س 1832: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گناہ کا مرتکب ہوگا ؟ ج : اگر اس کے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اس کے ذمے حقوق العباد اورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو ان کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں ہے ۔ س1833: ایک شخص نے اپنے اموال کا ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کی وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم حصے میں ہو تو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔ س1834: اگر ورثاء ، وصیت کا سرے سے ہی انکار کردیں تو اس صورت میں کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت کا دعوی کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔ س 1835: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اس کے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اس کے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ان کی ادائیگی کے لئے اس کی بعض املاک اس کے ترکہ سے الگ کر لی جائیں لیکن اس کے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟ ج : وصیت کے شرعی دلیل یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ املاک جن کی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوں تو ورثا کو اس کی تقسیم کے مطالبے کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جو مالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جن کی میت نے وصیت کی ہے ان کی ادائیگی میں خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ متوفی لوگوں کا مقروض ہے یا اس کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اس کے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کے پورے واجب الاداء امور اس کے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ ان کے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔ س1836: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے، نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اس کے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے۔ کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس زمین کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟ ج: اگر وصیّت کا مضمون یہ ہو کہ خود زرعی زمین کو بیچ کر اس کی قیمت مسجد کی تعمیر میں صرف کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س1837: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب بھی کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1838: کیا جائز ہے کہ کچھ مال کو ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اس کی وفات کے بعد خود اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟ ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کے لئے اس کے دوبرابر مال باقی رہے۔ س 1839: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی جو قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں ان کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنا دے، اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اس کے باپ پر واجب ہے کہ وہ اس کی قضا نما زوں اور روزوں کے لئے کسی کو اجیر بنائے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اس کی طرف سے اس کی قضا نمازوں اورروزوں کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔ س1840: میرے والد نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟ ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ان کا ارادہ خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اس کی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔ س 1841: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اس کی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کے لئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟ ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور سے کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔ س 1842: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پر دے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں میت کے بدن سے جدا کرنا اس کی بے حرمتی شمار نہ کیا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1843: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی زندگی میں ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کے لئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے انتقال کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟ ج :وصیت کرنے والے کی زندگی میں ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کے لئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1844: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی ہے لیکن اس کا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اس کے نابالغ بچوں کے لئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اس کے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اس کا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اس کا تیسرا حصہ اس کی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔ س 1845: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کے لئے موصیٰ لہ(جس کے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟ ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔ س1846: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو نگراں کے طور پر منتخب کیا ہے لیکن اس کے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اس کی نگرانی سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں رائے کا مالک ہے اور وصی کے کاموں کا اس نگراں کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پانا ضروری ہے اس صورت میں نگراں کے اختیارات کیا ہیں؟ ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کے امور میں نگراں کے ساتھ مشاورت کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور نگراں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کے لئے نگرانی کرے۔ س 1847: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر نگراں بناکر فوت ہو گیا پھر اس کا بیٹا بھی وفات پاگیا اور اس کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کا واحد ذمہ دار میں بن گیا لیکن اس وقت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے میرے لئے اس کے وصیت کردہ امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ کیا میرے لئے وصیت کردہ امور کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اس کے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے؟ ج : نگراں بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد نگراں کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1848: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اس کے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کے لئے خرچ کرنا ممکن ہو تو واجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔ س1849: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں ان کا سونا جمعراتوں میں نیک کاموں میں صرف کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہا ہوں لیکن بیرون ممالک کے سفر کے دوران کہ جن کے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ صرف کرنے سے ان کی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا تو واجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں پر بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کے لئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر صرف کرے۔ س 1850: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اور نیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گا کیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اس کی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور نگراں کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے؟ ج: ورثاء کے لئے وہ زمین اپنے لئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اس کی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اس کی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور نگراں بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اس طرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔ س1851: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں سے وصی اور نائب وصی کے طور پر وصیت کی لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر کے وصیت کو باطل کر دیا اور وصی اور اس کے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اس کا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کریں تو کیا ان کا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟ ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اس کے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔ س1852: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اس کی جائیداد میں سے ایک ملک اس کے بیٹے کی ہے پھر دو سال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ کیا اس کا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ اس صورت میں کہ جب یہ شخص بیمار ہو اور اسے خدمت و نگہداری کی ضرورت ہو ، کیا یہ ذمہ داری اس کے مقرر کردہ وصی یعنی اس کے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ یہ ذمہ داری اس کے تمام بچوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کا اپنی وصیت سے عدول کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی لحاظ سے صحیح اور معتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کے لئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو بیمار کی خدمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے ان تمام بچوں پر بطور مساوی ہے جو اس کی نگہداری کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ س1853: ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے. کیا میں اس کی وصیت کو پورا کرنے کے لئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟ ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اس کی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اس کی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔ س1854: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور نگراں کو معین کرے، لیکن ان کے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور ان کے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے تو اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اس کے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کر کے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟ ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔ س 1855: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلائی شدہ اور غیر سلائی شدہ کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اس کے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتے اور اس جیسی چیزیں؟ ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اس کی مراد معلوم نہ ہوجائے اور کسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اس کی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔ س1856: ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کے ترکے کے ایک تہائی مال سے اس کی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے دو سال کی نمازوں کے لئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذ جنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟ ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کے لئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔ س 1857: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی وفات کے بعد جو کچھ وصیت نامہ میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھا ہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اس کے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اس کا ایک تہائی حصہ جدا کر کے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥ اور ٦ کے مطابق خرچ کیا جائے، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اس کے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اس کی وفات سے لے کر اس مدت کے ختم ہونے تک اس کے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کے لئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکا ہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اس کی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک ان کی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ س 1858: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور ان کے نام ملکیت کی دستاویز جاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اس کے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں۔ کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟ ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے تو وقت گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس کے وصیت کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔ س 1859 : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا فروخت کر کے اس کی نیابت میں حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ اس دوران ایک تیسرا شخص سامنے آیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور نگران کی اجازت کے بغیر اس کی نیابت میں حج انجام دے دیا ہے۔ اب وصی فوت ہوچکا ہے اور نگران زندہ ہے کیا نگران کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی نیابت میں فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟ ج: اگر میت پر حج واجب ہو او وہ نائب کے ذریعے حج کی انجام دہی کی وصیت کر کے بریٴ الذمہ ہونا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی نیابت میں حج بجا لے آئے تو اس کے لئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے بصورت دیگر نگران اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو نگراں پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔ س 1860: کیا ورثاء، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کے لئے کوئی مخصوص رقم ادا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج: میت کی وصیتوں پر عمل کرنا وصی کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اور ضروری ہے کہ جس مصلحت کو تشخیص دے اسی کی بنیاد پر عمل کرے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1861: تیل کے ذخائر پر بمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اس کے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اس کے متن اور مضمون سے آگاہ نہیں ہے۔ اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اس کی ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔ س 1862: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے اس کام کی مخالفت کرے ؟ ج : ان افراد کے درمیان میں سے وصی کو منتخب اور مقرر کرنے کا دار و مدار کہ جنہیں وصیت کرنے والا اس کام کے لائق سمجھتا ہے خود اس کی رائے پر ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اس کے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1863: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے طور پر اس کے لئے انفاق کریں ؟ ج: اگر اس کام سے ان کی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اس کے لئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔ س 1864: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اس کا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پر اس کے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اس کا وصی ہے؟ ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اس کے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔ س1865: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟ ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔ س 1866: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر ان کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن انہوں نے وصیت کی ہو کہ ان کے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اس کے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بنانا جائز ہے اور اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جس کی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر ان کا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کے لئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔ س 1867: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اس کی اراضی میں سے ایک مخصوص ٹکڑا فروخت کر کے اس کی رقم سے اس کی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجا لائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اس وقت ناممکن ہوگیا ہے او وہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے اس کے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اس کا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟ ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔ س1868: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اس کے ترکہ سے اس کے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟ ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اس کے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لہذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار میں حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اس کے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ س 1869: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اس کی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کر اس کی رقم اس کے لئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اس کے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اس کے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟ ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اس کے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اس کے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟ س 1870: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جس کی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اس کی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اس کے شوہر کی وفات کے وقت سے اس کے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ کیا اسکی بنا پر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کو جسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اس کی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟ ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اس کے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لے کر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اور بیٹی کو اس کا حصہ دیتے وقت اور اس کا اپنے حصے کو کسی دوسرے کو فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔ اس کے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اس کا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔ س 1871: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اس کے قرض کی ادائیگی اس کا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو مکان بیچ دے اور اس کی رقم سے قرض ادا کرے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اس کے ماموں کو دی جائے اور اس کی ماں کو حج پر بھیجے اور کچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کی طرف سے بجالائے جائیں پھر اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے۔ شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اس کا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟ ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس کے تمام مالی واجب الاداء امور اسی سے ادا کرنے کے بعد ، اس کے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اس کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اس کی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اس کی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے ورثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اس کے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے بصورت دیگر وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔ س1872: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس کے تمام اموال جو تین ایکڑ پھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اس کی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہو اور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگا اور ایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟ ج : جب تک اس کی طرف سے اس کی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے -کہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے- اس وقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اس کی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی میراث ہے ۔ س 1873: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہر بہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اس کی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہیں تھی لہذا وہ اپنا حق نہ لے سکی۔ جب وہ اس شہر میں واپس آئی تو اس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا۔ اب جب کہ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اس کے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اس کا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1874: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک ٹکڑا مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اور چونکہ ان کی وفات کے بعد ان کے پاس نقد رقم نہیں تھی لہذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی۔ کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔ ج: جو کچھ آپ نے میت کے لئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اس کے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 1875: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اس کی بیوی اس کے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اس کی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اور دیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جس کی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اس کی بیوی کو دے دیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔ س1876: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کا ارادہ کیا جو انہیں اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اس کی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ کیا ان کا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب کریں۔ س 1877: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اس وقت اگر اس کی وصیت پر عمل کے ممکن ہونے تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھنا چاہیں تو اس کے تلف ہونے کا خوف ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟ ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔ س 1878: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی بعض جائیدادوں کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری جائیدادیں غصب ہوگئی ہیں اور ان کے غاصب سے واپس لینے کے لئے بہت سے اخراجات ہوئے ہیں۔ کیا ان اخراجات کا اس کی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیا صرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟ ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کے لئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔ س1879: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کے لئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟ ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اس کی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔ غصب کے احکام غصب کے احکام پرنٹ ; PDF غصب کے احکام س 1880: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اس کے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ ان کے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ کیا اس صورت میں ورثا دوسرے خریدار کے لئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟ ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اس کی ملکیت کی دلیل نہیں ہے اس لئے اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اس کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کےلئے رکاوٹ پیدا کرے یا اس سے زمین چھینے۔ س 1881: زمین کا ایک قطعہ جسے چند خریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اس کی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اس کے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اس کے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟ ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خریدنا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کےلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔ س 1882: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اس کی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اس کے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کےلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟ ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اس کی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اس کے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔ س1883: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جس کا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اور ان دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اس کی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اس کی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اس کے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔ س 1884: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہو کیا اس میں اس کے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟ ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کےلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس پر تصرف کےلئے ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔ س 1885: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اس کے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟ ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اس کی ملکیت یا اس کے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔ بالغ ہونے کے علائم اور حَجر بالغ ہونے کے علائم اور حَجر پرنٹ ; PDF بالغ ہونے کے علائم اور حَجر س 1886:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اس کے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟ ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔ س 1887: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟ ج : قمری سال معیار ہے۔ س 1888 : اس امر کو تشخیص دینے کےلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟ ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اس کی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ س 1889: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟ ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔ س1890: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟ ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کےلئے کافی نہیں ہے۔ س 1891: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہوتا ہے اور اس کے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہو جاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اس کے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس طرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟ ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتا ہے لہذا بلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کےلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔ س 1892: ہمارے اسکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن ان کے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے ان کا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ ان کی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل ہیں کہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کےلئے ایک معیار ہے؟ ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں ان کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1893: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ اچھے اور برے کو پہچانتا ہو " اچھے اور برے سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟ ج: اچھے اور برے سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف اچھا اور برا سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اور مقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔ س 1894: کیا لڑکی کےلئے نو سال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اس کے بالغ ہونے کی علامت ہے؟ ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کا حکم نہیں رکھتا ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔ س 1895 جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کو خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اور وہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اس کی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاجائز ہے کہ عدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرے؟ ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت ہو تو شرعی طور پر اسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کےلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو اس سے وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔ مضاربہ کے احکام مضاربہ کے احکام پرنٹ ; PDF مضاربہ کے احکام س 1896: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟ ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اس کے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔ س 1897: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟ ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔ س 1898: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے طور پر ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گا۔ کیا یہ کام صحیح ہے ؟ ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کریں گے مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے۔ تاہم اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملکیت قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اس کی روشنی میں یہ اس کے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔ س 1899: ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاہدے کے تحت ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں۔ کیا حکم رکھتاہے ؟ ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔ س1900: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اس کے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟ ج: اگر یوں طے کریں کہ اس کے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اس کے منافع میں سے اس کے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔ س 1901: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟ ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اس کے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لئے حلال ہے۔ س1902: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کے لئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے علی الحساب کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟ ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدار لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کے لئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اور اس کے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔ س 1903: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟ ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔ س1904: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اس کے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان ان کی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟ ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اس کا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اس کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ ان کے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اس کے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔ س 1905: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی طور پر مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا۔ کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟ ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میں شرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔ س1906: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کو دی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتا ہے اور نقصان نہیں اٹھاتا، کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ، میں اس کے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہو تو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟ ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہو لہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اس کے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔ س1907: ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اس کا منافع اس کے اور صاحبان اموال کے درمیان ان کی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اس کے مالکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1908: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اس کے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟ ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اس کے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔ س1909: ایک تاجر نے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے طور پر اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا۔ در نتیجہ اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟ ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو لہذا اگر عقد مضاربہ اس کی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1910: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لے کر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کو حق ہے کہ اپنی رقم لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے؟ ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لہذا وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے ۔ س 1911: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہو یا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جو انھوں نے اس کے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عُدوانی) شمار کیا جائے گا ؟ ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اس کی نسبت اس کی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔ بینک بیمہ (انشورنس) بیمہ (انشورنس) پرنٹ ; PDF بیمہ (انشورنس) س 1952:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1953: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کارڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟ ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔ س1954: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اس کی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کرے گی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اس کا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟ ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔ سرکاری اموال وقف قبرستان کے احکام قبرستان کے احکام پرنٹ ; PDF قبرستان کے احکام س 2101: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائےگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویز اپنے نام کرا لینا نہ تو اس کی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اس کے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہر کے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کے لئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لئے وقف ہوا ہے تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔ س 2102: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اور پچھلی حکومت کے زمانے میں اس کے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟ ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اور مؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کےلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س 2103: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف کی گئی ہے اور اس کے بیچ میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کےلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟ ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہدا کی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ س 2104: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟ ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کی لئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2105: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟ ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کی لئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔ س 2106: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اس کے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اس کے مالک سے ضبط کر کے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟ ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اس کا شرعی مالک شمار ہوتا ہے تو اس میں اس کی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2107: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کےلئے عمومی قبرستان قرار دے دیا۔کیا جائز ہے کہ اس کی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟ ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کی لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2108: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کےلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگر اس کام کےلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟ ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا مسلمانوں کی قبریں کھودنے یا ان کی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2109: ہم نے دیہات میں مدفون شہدا کی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟ ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگار بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو تو دوسروں کےلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2110: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کےلئے اس کی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کےلئے منتخب کی گئی ہے اس کے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کےلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کےلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتا ہوا ور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 2111: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اس کے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کےلئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کےلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کےلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟ ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کےلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کےلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2112: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کےلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کےلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: وہ پرانی قبریں کہ جن کے مردے خاک بن چکے ہیں ان کے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور اگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔ س 2113: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہو کیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کےلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کےلئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2114: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟ ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اس کے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کےلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتا ہے۔ س 2115: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اس کی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2116: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جس کا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کےلئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اور انہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2117: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار ہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کےلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہرحال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔ س 2118: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ اسکول کی زمین مردوں کے دفن کےلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جس کی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کےلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے اسکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کےلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔
ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی بری افواج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اعلان کیا ہے کہ عراق کے شمالی علاقے (کردستان) میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کے باقی ماندہ ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملوں کے نئے دور کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بری افواج کے شعبہ تعلقات عامہ نے آج پیر کے روز ایک اعلان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حمزہ سید الشہداء فوجی بیس کیمپ سے عراقی کردستان کے علاقے پر نئے میزائل اور ڈرون حملوں کے آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ عراق کے ان شمالی علاقوں میں قائم ایران مخالف علیحدگی پسند دہشت گردوں کے باقی ماندہ کیمپوں اور ٹھکانوں کو تباہ کیا جاسکے۔ سپاہ پاسداران کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ سپاہ پاسداران کی بری افواج کے حمزہ سید الشہداء بیس کیمپ سے آج پیر کے روز شمالی عراق میں سرگرم ایران مخالف علیحدگی پسند دہشت گرد گروہوں پر ایک مرتبہ پھر میزائل اور ڈرون حملے کئے گئے ہیں۔ حملوں کا مقصد ان دہشت گرد گرہوں کی طرف سے سازشوں، اپنے ٹھکانوں کو مضبوط کرنے کی کوشش اور مسلح تربیت کا قلع قمع کرنے کا تسلسل ہے تا کہ عالمی استکبار کے ان کرائے کے فوجیوں کے باقیماندہ کیمپوں اور ٹھکانوں کو تباہ کیا جاسکے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آج کے میزائل اور ڈرون حملے شمالی عراق کے گہرے علاقوں اور اندر تک کیے گئے، جن میں جژنیکان، زرگوئیز، اور کوئے سنجق کے علاقے شامل ہیں۔ سپاہ پاسداران کے بیان کے مطابق آج کے حملوں کے دوران مطلوبہ اہداف کو تباہ کیا گیا ہے اور دہشتگردوں کو بھاری نقصان سے دوچار کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اتوار کے روز سپاہ پاسداران نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ وہ خطے میں علیحدگی پسند دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت سے نمٹنے کے لیے ایران کے شمال مغربی علاقے میں اپنی افواج کو تقویت دے رہے ہیں۔ حمزہ سید الشہداء بیس نے مزید کہا تھا کہ وہ اپنی کاروائیوں کے جغرافیہ کے دائرہ کار میں اپنی افواج کو مضبوط بنا کر اور بہادر مقامی لوگوں کے تعاون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں عدم تحفظ کے عوامل کا مضبوطی سے مقابلہ کرنا شروع کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہم خطے کی سلامتی اور شمال مغرب کے سرحدی صوبوں کے معزز اور بہادر لوگوں کو اپنی ریڈ لائن سمجھتے ہیں، عالمی استکبار کے مسلح بدمعاشوں اور کرائے کے دہشت گردوں کو سختی سے متنبہ کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی بدمعاشی کو مزید جاری رکھا اور لوگوں میں عدم تحفظ اور افراتفری پیدا کی تو حمزہ سید الشہداء بیس کے جانباز سپاہی اور دیگر سیکورٹی فورسز ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں گی۔ بیان میں کہا گیا کہ ایرانی قوم کے دشمن کئی بار آزما چکے ہیں کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بہادر افواج نے علاقے کے بہادر عوام کے ساتھ مل کر عالمی استکبار کے کرائے کے گروہوں کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور دیرپا سلامتی اور استحکام کا تحفظ کیا ہے۔
اسلام آ باد (گوادر پرو)حالیہ برسوں میں چین کی اقتصادی ترقی میں تیزی کے ساتھ چینی زبان نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ 2015 میں جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آغاز ہوا، پاکستان میں بھی چینی زبان سیکھنے والوں کی تعداد بڑی ہے۔پاکستان میں چینی سفارتخانے کی طرف سے ''سی پیک 2021 کے شاندار پاکستانی اسٹاف'' کا ایوارڈ جیتنے والے قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) فیز-II حویلیاں -تھاکوٹ کے آفس اسسٹنٹ یوسف کریم چینی سیکھنے ولے ان چند 'سرخیلوں ' میں سے ایک ہو سکتے ہیں جنہوں نے تقریبا بیس سال پہلے ابتدائی طور پر چینی زبان سیکھنا شروع کی۔ یوسف نے گوادر پرو کو بتایا میں نے 2007 میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے مینڈارن میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ میں ان پہلے چند طلباء میں شامل تھا جنہوں نے چینی زبان سیکھنے کا انتخاب کیا۔ سی پیک مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے بڑے مواقع لے کر آیا ہے۔ اس نے مجھے ڈپلومہ مکمل کرنے پر براہ راست نوکریوں کی پیشکش کی ۔ یوسف نے 2008 میں چینی زبان کے مترجم کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ 2010 میں، اس نے چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن (سی آر بی سی) میں کے کے ایچ فیز-I پراجیکٹ پر ایک مترجم کے طور پر شمولیت اختیار کی، اور اس کے بعد 2016 میں کے کے ایچ فیز-II پروجیکٹ میں منتقل ہو گئے۔ چین پاکستان سرحد اور حسن ابدال کے درمیان 887 کلو میٹر طویل فاصلہ قراقرم ہائی وے دونوں لوگوں کی نظروں میں چین پاکستان دوستی کی علامت ہے۔ فیز I کے تحت کے کے ایچ کے خنجراب-رائیکوٹ سیکشن کی اپ گریڈیشن سی پیک کا ایک اہم حصہ ہے، اور رائے کوٹ سے اسلام آباد تک کے بقیہ حصے کو تین ذیلی حصوں یعنی رائے کوٹ-تھاکوٹ، تھاکوٹ-حویلیاں اور حویلیاں -اسلام آباد میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔. اب تک، 120 کلومیٹر کی لمبائی کے ساتھ حویلیاں -تھاکوٹ سیکشن پہلے ہی فیز-II کے تحت CRBC کے ذریعے مکمل ہو چکا ہے۔ کے کے ایچ کی اپ گریڈیشن سے خوبصورت گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی مقامی لوگوں کے لیے معاشی سرگرمیاں بھی پیدا ہوں گی۔ یوسف نے کہا کہ اتنی تیز رفتاری سے سڑکوں کے نیٹ ورک کی تعمیر پاکستان کی دانشمندانہ پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، جو نہ صرف شمال-جنوبی رابطے کو بہتر کرتی ہیں بلکہ ہمسایہ ملک چین کو ہر موسم کے لیے رابطے فراہم کرتی ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے تک یوسف نے شاہراہ قراقرم کے ساتھ ہنزہ سے حویلیاں تک مختلف علاقوں /اسٹیشنز میں اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دیں۔ اتنے لمبے عرصے سے اس کام پر رہنے کے بعد میں نے ذاتی طور پر نہ صرف چینی زبان کو بہتر بنایا ہے، بلکہ سرکاری محکموں کے ساتھ انتظامی اور سرکاری ہم آہنگی اور رابطہ کا عمل بھی سیکھا ہے۔ میرے دو بچے ہیں، دونوں معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں،میں مستقبل میں اپنے خاندان کے معیار زندگی کو مزید بہتر کرنے کی توقع رکھتا ہوں فی الحال اگرچہ یوسف روزمرہ کے کام میں مصروف ہیں، پھر بھی وہ چینی زبان سیکھنے کے لیے وقت نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے چینی پسند ہے۔ چینی بہت مشکل ہے، تاہم استقامت اور محنت کا نتیجہ نکلا ہے۔ اب تنظیم کے اندر اور باہر مختلف سطحوں پر روزانہ کی بات چیت بہت آسان ہو گئی ہے، ۔ وہ یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ پاکستانی نوجوان جو پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں جیسے انجینئرنگ، میڈیسن، اکاؤنٹنگ وغیرہ، چینی زبان سیکھ کر وہ سی پیک پر ملازمتیں کرنے میں زیادہ موثر ثابت ہوں گے۔ مستقبل میں یوسف ہمیشہ کی طرح سی پیک کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے بعد میں اس باوقار کمپنی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کی خواہش رکھتا ہوں جب تک کہ مجھے سی پیک کا حصہ بننے کا موقع ملے۔
محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ بیان عالمی میڈیا میں آنے والی ان رپورٹوں کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے جن میں ریمنڈ ڈیوس کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا جاسوس قرار دیا گیا تھا امریکی دفترِ خارجہ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستا نی حکام کی تحویل میں امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے جس کی بنیاد پر اُسے فوری رہا کیا جانا چاہیے۔ محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ بیان عالمی میڈیا میں آنے والی ان رپورٹوں کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے جن میں ریمنڈ ڈیوس کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا جاسوس قرار دیا گیا تھا۔ امریکی و برطانوی خبر رساں ایجنسیوں نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا تھا کہ لاہور میں گرفتار ہونے والا ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی اہلکار سی آئی اے کے سیکیورٹی کنٹریکٹر کی حیثیت سے پاکستان میں تعینات تھا۔ تاہم، محکمہٴ خارجہ کے ترجمان پی جے کرولی نے پیر کے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی موقف کا اعادہ کیا ور کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی اہلکار ہےاور اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ ریمنڈ ڈیوس کی سلامتی سے متعلق تشویش کا شکار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی اتنظامیہ کو یقین ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے اپنے دفاع میں دو پاکستانیوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ برطانوی روزنامے گارجین اور ایک فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ ریمنڈ ڈیوس امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ کا ملازم ہے۔ تاہم ، محکمہٴ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کی جانب سے مذکورہ خبر پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو لاہور کی مزنگ چورنگی پر دو پاکستانی شہریوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردینے کے الزام میں گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتار امریکی کا کہنا ہے کہ دونوں مقتولین اُسے لوٹنے کا ارادہ رکھتے تھے جس پر اس نے انہیں ذاتی دفاع میں گولیوں کا نشانہ بنایا۔ تاہم ابتدائی تحقیقات کے بعد مقامی پولیس نے ڈیوس کے دعوے کی نفی کرتے ہوئے اسے دانستہ قتل کا ملزم ٹہرایا ہے۔ امریکی حکام کا اصرار ہے کہ گرفتار شہری ان کے سفارتی عملہ کا رکن ہے جسے عالمی قوانین کے تحت فوجداری مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ ڈیوس کے خلاف مقدمے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں جاری ہے اور عدالت ہی اسے حاصل استثنیٰ کے معاملے کا فیصلہ کرے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایران مخالف ایکشن گروپ کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ ہم ایران کی غیر متعدد صلاحیتوں کو ختم نہیں کرسکے ہیں۔ ولایت پورٹل:امریکی وزات خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ، امریکی محکمہ خارجہ کے ایران ایکشن گروپ کے سربراہ ، برائن ہک نے نامہ نگاروں سے ملاقات کے دوران اپنے ایران مخالف الزامات کا اعادہ کیا۔ پریس کانفرنس میں امریکی سفارت کار نے دعوی کیا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے ذریعہ دنیا سے "لگان"وصول کررہا ہے اور اس مہم نے بے مثال طریقوں پر ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اور اس کا مقابلہ کیا ہے نیز ہم نےایران کا مالی نظام تباہ کردیا ہے۔ ہک نے یہ بھی دعوی کیا کہ امریکہ زیادہ سے زیادہ دباؤ جاری رکھے گا اور ایران کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ بات چیت کرے گا یا معاشی بحران کو جاری رکھے گا۔ ہک کے مطابق امریکہ تل ابیب اور اس کے بہت سارے عالمی شراکت داروں کے ساتھ کھڑا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ، برائن ہک نے بھی اراک ری ایکٹر کے مرکزی ڈیزائن کو ایران کے لئے وقتی استعمال اور مہنگا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافے کے بارے میں بہت محتاط رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایران سلامتی کونسل کی پابندیوں اور بین الاقوامی معاشی دباؤ کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے باقی ممبروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا ہے۔ امریکی نمائندہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدہ کے بارے میں یورپ اور امریکہ کے مابین پائے جانے والے اختلاف کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب میں کہا کہ میں یورپی ٹروکا شراکت داروں سے مستقل رابطے میں ہوں۔ ایران کے بارے میں امریکی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی عہدیدار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم نے کبھی بھی ایران کی غیر متعدد صلاحیتوں کو ختم کرنے کا دعوی نہیں کیا ہے ، لیکن ہم صرف کئی سالوں تک ایران کی کارروائیوں کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اسلام آباد : وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان کو شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 ملکوں میں شامل ہے، رواں سال پاکستان کو شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیرخارجہ نے کہا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو اس وقت متعدد چیلنجز درپیش ہیں، مستحکم افغانستان خطے کی سلامتی اور ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ کورونا وبا سےدنیا بھرکی معیشت متاثر ہوئی، پاکستان کو درپیش معاشی و دیگر مسائل پر قابو پانے کیلئے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
وہ اس کی اکلوتی اولاد تھا ، چپ چپ رھنے والا اپنی الگ دنیا کا باسی ، لوگ اسے ابنارمل سمجھتے تھے مگر ماں جانتی تھی کہ وہ ابنارمل نہیں ھے – بس سادا ھے اور سادگی اج کل abnormality ھی سمجھی جاتی ھے ،، ماں اس سے ٹوٹ کر پیار کرتی تھی ، اگرچہ شوھر اس کو سمجھاتا رھتا تھا کہ یہ پرائی امانت ھے تو اس میں اتنی زیادہ انوالو مت ھو جا کہ کل الگ ھوتے ھوئے جان نکل جائے ،،،،،،،،،،،، مگر کسی نے کسی ماں سے پوچھا تھا کہ آپ کو کونسا بچہ زیادہ پیارا لگتا ھے تو اس نے جواب دیا تھا ،، بیمار بچہ جب تک کہ شفایاب نہ ھو جائے ، غریب بچہ جب تک کہ امیر نہ ھو جائے ،، جب اس کی شادی کی بات چیت چل رھی تھی تب بھی ماں ھی صبح اس کے منہ میں لقمے ڈالتی تھی اور سمجھتی تھی کہ اس کے سوا کوئی اس کے بیٹے کو ھینڈل نہیں کر سکتا ،، اس قدر ممی ڈیڈی بچے کو کوئی رشتہ دینے کو تیار نہیں تھا ،،آخر اس کی بہن نے اپنی بیٹی دینے کا وعدہ کر لیا ،جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ھو گیا ،، شادی والے دن وہ سہما سہما سا تھا ،، ماں کا ھاتھ پکڑ کر اپنے سینے سے لگاتا ، تو کبھی اس کو چومتا تو کبھی اس کو سر پہ رکھ لیتا ، وہ بھی اسے دلاسے دیتی رھی اور اس کے دوستوں سے کہتی کہ اس کا خیال رکھنا ، یہ بہت نروس ھے ، مگر کوئی جیسے اس کے اندر سرگوشیاں کر رھا تھا کہ ،، ؎ آج کی بات پھر نہیں ھو گی یہ ملاقات پھر نہیں ھو گی ! ایسے بادل تو پھر بھی آئیں گے ! ایسی برسات پھر نہیں ھو گی ! دلہن ڈولی میں بٹھائی جانے لگی تو وہ اپنی ماں سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار رھی تھی تو کبھی ابو کے قدموں میں لوٹیں لگا رھی تھی ، ادھر دولہا حواس باختہ چاروں طرف دیکھے جا رھا تھا کہ کہیں کوئی لڑکی کے رونے کا سبب اس کو نہ سمجھ لے ، اس نے تو سنا تھا کہ شادی خوشی کا موقع ھوتی ھے مگر اس قدر خلوص سے پھوٹ پھوٹ کر رونا تو اس نے کسی میت پہ بھی نہیں دیکھا تھا ، آخر اس نے بھی ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا ،، دوست جتنا ہاتھ دباتے اس کی آواز مزید بلند ھو جاتی آخر لڑکی کے باپ نے ھی گلے لگا کر اسے چپ کرایا ،، ڈولی گھر میں اتری تو وہ ڈرا ڈرا سا کن اکھیوں سے ڈولی کی طرف دیکھ رھا تھا کہ کہیں دلہن اترتے ھی اس کے پاؤں پڑ کے رونا شروع نہ ھو جائے ،، احتیاطاً اس نے جا کر اپنی امی کا ھاتھ پکڑ لیا ،،، ماں نے سہمے سہمے اور ہلکا ہلکا کانپتے اپنے بچے کو دیکھا تو اسے دلاسہ دیا ،، وہ سوچ رھی تھی کہ نئ لڑکی اس بدھو لڑکے کو کیسے ٹیون کرے گی ،،،،،،،،،،،،،،،،، ساون کا مہینہ تھا اور سب کی چارپائیاں صحن میں تھیں جبکہ دولہا دلہن کو چھت پہ چارپائیاں ڈال دی گئیں تھیں ،، سارے دن کی مشقت کے مارے مہمان پڑتے ھی سو گئے تھے مگر ماں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ،،،، وہ کروٹیں بدل رھی تھی اور کسی انہونی کے ھونے کے انتظار میں تھی،،، غالباً تیسرا پہر تھا جب نعرہ مستانہ گونجا ” ھائے او بے جی ” اس فلک شگاف نعرے کے ساتھ پاس ورڈ تبدیل ھو گیا تھا ،، ماں نے دل پہ ہاتھ رکھ لیا ،،” بے جی صدقے کریں کھنڈی چھری نال کہوئی شوڑیا ایس ” ماں صدقے کند چھری سے ذبح کر دیا ھے اس نے ” صبح وہ ماں سے آنکھ نہیں ملا رھا تھا ، ماں نے حسبِ معمول اس کے لئے پراٹھا بنایا اور اسے ھاتھ سے کھلانے کی کوشش کی مگر اس نے طبیعت خراب ھونے کا کہہ کر کچھ کھانے سے انکار کر دیا ،، ماں نے دلہن کو چائے کے ساتھ رس رکھ کر دے دیئے اور خود مہمانوں کو نمٹانے میں لگ گئ ، اچانک اس نے جو گھوم کر دیکھا تو وہ ساد مرادا بیٹا دلہن کے ھاتھ سے رس کھا رھا تھا اور ھلکے ھلکے مسکرا کر باتیں کر رھا تھا ،، وہ سکتے کی کیفیت میں یہ سب دیکھے جا رھی تھی کہ پیچھے سے شوھر کی آواز آئی ،،،،،،،، مجھے اپنا پہلے دن کا ناشتہ یاد آ گیا ھے ،، یہ اس دنیا کی رِیت ھے ، اس میں تعجب کی کیا بات ھے ؟
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے (ن) لیگ کی رہنما مریم نواز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ براڈ شیٹ پڑھ لیں، ان کیخلاف پاناما ٹو کھلنے جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتظامیہ، پولیس اور ایف سی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، نتیجہ سب نے دیکھ لیا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ خود میڈیا کہہ رہا تھا کہ جلسے میں ڈھائی یا تین ہزار لوگ تھے، جھنڈے اور لیڈر بہت تھے لیکن کارکن نہیں تھے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب دینی طلبہ نے گن اٹھائی تھی، آپ پرویز مشرف کے ساتھ تھے، آپ بچوں کو ورغلا رہے ہیں لیکن کوئی نہیں آیا۔ یہ اقتدار کے بھوکوں کا جمعہ بازار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ پاک فوج کے خلاف زبان بھی استعمال کر رہے ہیں۔ فوج کے خلاف غیر اخلاقی بات کرنے والوں کو قیمت چکانا پڑے گی۔ انہوں نے دوبارہ پی ڈی ایم قیادت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر محمود خان اچکزئی کی تقریریں ہوئیں تو پھر حالات شاید ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو براڈ شیٹ کو پڑھے بغیر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان نے تو چالیس ہزار لوگوں کا ڈیٹا دیا، آپ لوگ چالیس لوگوں کا ڈیٹا دیدیں۔ وزیر داخلہ نے پی ڈی ایم کو پیشکش کی کہ حکومت آپ کے لانگ مارچ کو بھی خوش آمدید کرے گی۔ لانگ مارچ کل کے بجائے آج کرو۔
بالی وڈ کے بے تاج بادشاہ شاہ رخ خان کی شخصیت کی طرح ممبئی میں واقع ان کا عالیشان گھر ‘منت’ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے لیکن آج کل اس گھر کے باہر لگی نیم پلیٹ (نام کی تختی) بھی سوشل میڈیا صارفین کی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چمچماتی نیم پلیٹ ہیروں سے تیار کی گئی ہے اور اس کے اوپر اداکار کے گھر کا نام ‘منت’ درج ہے۔ View this post on Instagram A post shared by Instant Bollywood (@instantbollywood) ‘منت’ کی یہ نیم پلیٹ تقریباً 2 ماہ بعد تیار کرکے لگائی گئی ہے جو کہ مکمل طور پر ہیروں سے بنی ہوئی ہے۔ اس سے قبل شاہ رخ کے گھر کی نیم پلیٹ براؤن رنگ کی تھی جو کہ سونے سے بنی ہوئی تھی تاہم اب اسے ہیروں سے بنایا گیا ہے۔ اس نیم پلیٹ کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبر آئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اسے شاہ رخ کی اہلیہ گوری خان نے خود ڈیزائن کیا ہے۔ Latest ⚡HQ & tagless video & pics of #Mannat’s diamond nameplate 💎 which perfectly symbolises ThePalaceOfTheLastOfTheStars🌟 & reminds us of those lyrics Dil Ka Ye Kamal Khile..Sone Ka Mahal Mile..Barasne Lage Heere Moti✨ RT if u can't wait to click a 🤳 with it!#ShahRukhKhan pic.twitter.com/fufgJLt8qz — Shah Rukh Khan Universe Fan Club (@SRKUniverse) November 19, 2022 واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز پر اس نیم پلیٹ کو عارضی طور پر اتار لیا گیا تھا ایسا اس لئے کیا گیا کہ اس میں نصب ایک ہیرا نیچے گرگیا تھا جس کی وجہ سے اسے نکالا گیا۔ تاہم اسے اتار کر اس کی مرمت کی گئی اور گرنے والے ہیرے کو دوبارہ نصب کیا گیا اور جیسے ہی یہ کام مکمل ہوا تو اسے اب دوبارہ سے لگادیا گیا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں جب بھی رومانوی فلم یا محبت بھری داستان کا تذکرہ ہوتا ہے تو ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے اور وہ ہے ‘کنگ خان’ کا، ان میں وہ صلاحیت ہے جو اپنے مخصوص انداز سے ناظرین کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔انہوں نے اپنے کیریئر میں کئی ہٹ، سپرہٹ اور بلاک بسٹر فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں ،’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’کبھی خوشی کبھی غم‘ اور ’چنئی ایکسپریس‘ جیسی کئی فلموں میں رومانوی ہیرو راہول کا کردار ادا کیا جب کہ ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ اور ‘چلتے چلتے’ میں انہوں نے ‘راج’ کا کردار ادا کیا جو ان کی پہچان بن گئے۔ شاہرخ خان نے اب تک 80 سے زیادہ ہندی فلموں میں کام کیا ہے اور انہیں صرف ہیرو ہی نہیں بلکہ منفی کرداروں میں بھی پسند کیا گیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ 14 بار فلم فیئر ایوارڈ جیت چکے ہیں جو کسی بھی اداکار کے لیے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ جبکہ ان کا شمار بالی ووڈ کے مہنگے ترین اداکاروں میں ہوتا ہے، شاہ رخ نے کمائی کے معاملے میں ٹام کروز، ٹام ہینکس اور ایڈم سینڈلر جیسے فنکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ آئی پی ایل ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے مالک ہیں۔ خان فلموں کے لیے 40 سے 50 کروڑ جب کہ اشتہارات کے لیے 22 کروڑ وصول کرتے ہیں۔ اگر ان کی نجی زندگی پر نظر ڈالیں تو انہوں نے شادی اپنی پنجابی ہندو گرل فرینڈ گوری چھیبر سے چھ سال تک محبت کرنے کے بعد روایتی ہندو رسم و رواج کے مطابق کی تھی۔ ان کا بیٹا آریان 1997 میں اور بیٹی سہانا 2000 میں پیدا ہوئی جبکہ 2013 میں ان کا تیسرا بیٹا ہوا جس کا نام ابرام رکھا گیا۔
پیرکے روز نئے آرمی سربراہ کے تقرری کا عمل شروع ہونے کے بعد یہ سامنے آیاہے جب پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی وزرات دفاع کو ممکنہ امیدواروں کی تفصیلات کے متعلق خط لکھا تھا۔ اسلام آباد۔لفٹنٹ جنرل عاصم منیر کو جمعرات کے روز پاکستان کانیاچیف آف آرمی اسٹاف(سی اواے ایس) مقرر کیاگیاہے‘ جس کے بعد ملک میں سیاسی زور آزمائی اور بڑھتی قیاس آرائیوں کااختتام ہوگیاہے۔ پاکستان کے انفارمیشن منسٹر مریم اورنگ زیب نے ٹوئٹ کیاکہ”پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز ریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ا لفٹنٹ ساحر شمشاد مرزا کو مشترکہ چیفس آف اسٹاف چیرمن اور لفٹنٹ جنرل سید عاصم منیر کو ائینی اختیار کااستعمال کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیاہے“۔ اورنگ زیب نے کہاکہ پاکستان کے صدر عارف علوی کو بھی یہی تفصیلات روانہ کردئے گئے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز حکومت پاکستان نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں وزرات دفاع کی جانب سے نئے سی او اے ایس کے تقرر کے لئے ”پینل ناموں“ پر مشتمل تفصیلات وصول ہوئی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم دفتر نے بھی ایک بیان میں کہا تھاکہ ”چیفس آف اسٹاف چیرمن اور چیف آف آرمی اسٹاٹ کے تقررکیلئے ناموں پرمشتمل کی تفصیلات وزرات دفاع کی جانب سے حاصل ہوئی ہے۔ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے تقرری کا فیصلہ وزیراعظم کریں گے“۔ تین سال کی توسیع کے بعد 61سالہ جنرل باجوا اگلے ہفتہ ریٹائر ڈ ہونے والے ہیں۔ منگل کے روز پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاتھا کہ پی ایم اجو وزرات دفاع کی جانب سے ایک سمری بھیجی جاچکی ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کیاتھا کہ ”آگے کے اقدامات بہت جلد مکمل کرلئے جائیں گے“۔ پاکستان کے وزیردفاع نے اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت ان کے ساتھ نئے آرمی چیف کے تقرر کا عمل پورا ہوجانے کے بعد نمٹے گی۔ ایکسپرس ٹربیون نے پاکستان کے وزیردفاع کے حوالہ سے کہا ہے کہ ”دو تین دن میں یہ عمل پورا ہوجائے گا۔ تجسس ختم ہوجائے گا اس کے بعد عمران خان سے نمٹاجائے گا“۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں انہوں نے یہ تبصرے کرتے ہوئے اگلے تین روز کے اندر کلیدی تقرر کے رسمی اعلان کا اشارہ دیاتھا۔ پیرکے روز نئے آرمی سربراہ کے تقرری کا عمل شروع ہونے کے بعد یہ سامنے آیاہے جب پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی وزرات دفاع کو ممکنہ امیدواروں کی تفصیلات کے متعلق خط لکھا تھا۔ Tags Appointed, Lt Asim Muneer, New Chief of Army, Pakistan, Prime minister, Shahbaz Shareef مشہور خبریں جمعہ کے دن کی فضیلت و اہمیت غزوہ ٔاُحد اور صحابہ کرام ؓکی جاں نثاری تلنگانہ میں مسلم عہدیدار ناانصافی کا شکار، اہم عہدوں پر 4 فیصد نمائندگی بھی نہیں حج 2023 کے سفری اخراجات میں ایک لاکھ روپئے کی کمی کا امکان : محمد سلیم حلالہ کی حقیقت/🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اگر مسلمان مخالفت کرتے تو مغل دور کے دوران ہندوستان میں ایک بھی ہند و باقی نہیں رہتا۔ کرناٹک کے سابق جج
پاکستان میں اپوزيشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کے پیش نظر پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف " پی ٹی آئي " نے اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان میں اپوزيشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کے پیش نظر پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف " پی ٹی آئي " نے اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اپوزیشن کے حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبوں کے دوران حکمران اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو شامل کرکے وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے کچھ مرکزی رہنماؤں سے بھی کہا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے خطرے سے بہتر طریقے سے نمٹنے کے لیے پارٹی کی تنظیم نو اور اسے مضبوط بنانے پر توجہ دیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ وزیراعظم عمران خان جلد وفاقی اور پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کریں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان دو ہفتوں کے اندر وفاقی کابینہ میں اہم تبدیلیاں کریں گے۔ پاکستانی وزیر اعظم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان دفاع، منصوبہ بندی، تعلیم، توانائی اور سمندر پار پاکستانیوں کی وزارتوں میں 5وزرائے مملکت کا تقرر کریں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر توانائی حماد اظہر اور وزیر تعلیم شفقت محمود سے کہا ہے کہ وہ پارٹی معاملات کو سنبھالیں اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ واضح رہے کہ اپوزیشن رہنما وزیراعظم خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) سے بھی ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔
لیل و نہار کی بہت سی کروٹیں بدلتے ہوئے بالآخر ہم ایک اور نئے سال، ۲۰۱۹ میں قدم رکھ رہے ہیں، گردش ایام نے اس سے قبل نئے سال کی کتنی ہی جھلکیاں دکھائی ہیں، جو وقت کے پیرہن میں سمو کر میلے ہوگئے، کتنے ہی نئے سال نے کتنی مرتبہ رنگ برنگ کے خواب دکھائے، طلسماتی دنیا جو اپنے اندر بے مثال وافر مقدار میں مقناطیسیت رکھتی ہے ‘کتنے ہی خواب دکھائے، جو شر مندہ تعبیر ہوگئے، ایک بار پھر نیا سال آنے کو ہے، ہعر طرف سے نئے سال کی نوید پردہ سماعت سے ٹکرارہی ہے، اور یہ احساس دلا رہی ہے کہ ایام گذشتہ کے خول سے باہر نکل یہ نیا سال ہمارے لئے بےانتہاء مسرت و شادمانی لےکر آئےگا گویا کہ مدتوں سے اپنی منزل کے واسطے منتظر پیادہ پا کو کوئی جادہ میسر آجائے، منزل اور خواہشوں کی تلاش میں مفقود ہونے والی بینائی کو دوبارہ چشم بینا نصیب ہوجائے، روٹھے ہوئےیار اور معشوق پھر اس دل کے قریب ہوجائیں، محفل رقیباں میں پھر ہمارا ذکر جلوہ گر ہوجائے ‘یہ وہ خیالات اور تصورات ہیں جو اس دل کے احساسات کو زبان پر لانے کے لئے مہمیز کا کام کررہی ہے، یہ بات بھی عیاں ہے کہ خیالات اور تصورات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، تصورات می عارضی رنگینوں میں جاکر کوئی حقیقی متاع مسرت حاصل نہیں کرسکتا ‘ لیکن یہ خیالات ہی تو ہیں، جو انسان کو احساس کمتری سے باہر نکالتے ہیں، یہ احساس ہی تو ہے جو اپنے آپ میں ایک بڑا اور کامیاب انسان بننے کے خواب دیھکتا ہے ” یوں تو کوئی دن اور کوئی سال نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایام کی گردش ہے جو گزرتا ہے اور آتا ہے، سال گذشتہ بھی دسمبر آیا تھا، اور ہم نے نئے سال میں قدم رکھا تھا، گویا کہ ایک عرصئہ دراز سے ایام گردش کررہے ہیں اور ہر بار پلٹ کر ہمارا سامنا کرتے ہیں، اگر واقعی یہ نیا سال اور نئے ایام ہیں تو کیا یہ سال ہمارے گزرے ہوئے سال کا مداوا کرےگا، میری شمولیت کے ساتھ نہ جانے کتنے لوگ پریشان حال زندگی سے گزرتے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں کتنے ہی خانہ بدوش، اپنا مسکن ومتاع، اپنے سروں پر اٹھائے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں، کتنے ہی معصوم بچے یتیمی اور بے کسی کے عالم میں نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں، کتنی ہی بن بیاہی مفلس لڑکیاں شادی کے ارمان سجاتے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہی ہیں، کیا یہ نیا سال ان زخموں اور فکروں کا مداوا کرپائےگا ” تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی، ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی، یہ بات عیاں ہے اور مشاہدہ کے پیمانے پر ثابت ہے، کہ محض ایام اور سال کے گزرنے سے حالات اور کردار نہیں بدلتے، پھر اس نئے سال کی اتنی خوشی کس بات کی، عنقریب کچھ ہی دنوں میں پوری دنیا میں happy newyear کی صدائیں سنائی دینگی، ایک دوسرے کو مبارک باد دی جائےگی، انٹرنیٹ اور معاشرتی ویپ سائیٹس، نئے سال کے مراسلاتسے لبریز ہوجائیں گے، اور پھر ایک دن کے بعد ہر شخص اسی طرح کام اور مشغولیات میں مصروف ہوجائےگا، جیسا کہ پرانے سال میں تھا پھر یہ نیا سال کیسا ‘خیر میں اس نئے سال میں، پوری انسانیت کی ہدایت، اقوام عالم میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی فلاح و بہبود، بین المذاہب اور بین المسالک، نفرتوں کے خاتمے کا خواہاں ہوں ‘کاش کہ یہ نیاسال ملک میں امن و امان لےکر آئے، مسلمانوں کی فلاح ساتھ لےکر آئے ظلم و سفاکی کا خاتمہ ہو، امن امان پیارو محبت کی ہوئیں چلیں، نفرتوں کی مسموم ہوائیں، بند ہو، اور معاشرہ کے افراد ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ پیارو محبت سے پیش آئیں ‘
آیت مقدسہ کی تشریح کے پیش نظر آسمان اور زمین روشنی ہے یعنی آسمان اور زمین میں موجود ہر شئے کا قیام نور (روشنی) پر ہے۔ کائنات میں کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو روشنی کے ہالے سے باہر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔۔ ’’کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجر۔ آیت ۲۱) روشنی کی یہ الگ الگ مقداریں انفرادیت پیدا کرتی ہیں۔ روشنی جب دماغ پر نزول کر کے بکھرتی ہے تو اس میں رنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ رنگوں کی یہ لہریں تخلیق میں وولٹیج (Voltage) کا کام کرتی ہیں۔ کوئی انسان سنکھیا کھا کر اس لئے مر جاتا ہے کہ سنکھیا کے اندر کام کرنے والے برقی نظام کا وولٹیج (Voltage) انسان کے اندر کام کرنے والے وولٹیج (Voltage) سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ نگینہ یا پتھر کے اندر بھی روشنی دور کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی انسان کی روشنیاں اور پتھر کی روشنیاں باہم مطابقت رکھتی ہیں تو جواہرات انسان کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ جواہرات کی روشنیاں اور انسان کے اندر دور کرنے والی روشنیاں باہم دیگر مل کر ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ پتھر (جواہرات) میں کام کرنیوالی روشنیاں براہ راست دماغ کو تقویت دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کی بہت سی چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ کوئی محلول جسم پر لگانے سے کھال جل جاتی ہے اور کوئی دوسری چیز جسم پر ملنے سے ہمیں راحت ملتی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارے جسم پر کوئی چیز رکھی جاتی ہے تو ہمارا ہاتھ کسی چیز سے چھوتا ہے تو اس چیز کے اندر کام کرنے والی لہریں ہمارے دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔ یہی صورت نگینہ اور پتھر کی ہے۔ انگوٹھی میں کوئی نگینہ یا پتھر انگلی میں ہوتا ہے تو جواہرات کے اندر کام کرنے والی روشنیاں دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 183 تا 185 آگہی کے مضامین : ِ انتساب ِ پیش لفظ ِ 1 - روحانی اسکول میں تربیت ِ 2 - با اختیار بے اختیار زندگی ِ 3 - تین سال کا بچہ ِ 4 - مرید کی تربیت ِ 5 - دس سال۔۔۔؟ ِ 6 - قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ ِ 7 - موت حفاظت کرتی ہے ِ 8 - باہر نہیں ہم اندر دیکھتے ہیں ِ 9 - اطلاع کہاں سے آتی ہے؟ ِ 10 - نیند اور شعور ِ 11 - قانون ِ 12 - لازمانیت اور زمانیت ِ 13 - مثال ِ 14 - وقت۔۔۔؟ ِ 15 - زمین پر پہلا انسان ِ 16 - خالق اور مخلوق ِ 17 - مٹی خلاء ہے۔۔۔ ِ 18 - عورت کے دو رُخ ِ 19 - قانون ِ 20 - ہابیل و قابیل ِ 21 - آگ اور قربانی ِ 22 - آدم زاد کی پہلی موت ِ 23 - روشنی اور جسم ِ 24 - مشاہداتی نظر ِ 25 - نیند اور بیداری ِ 26 - جسمِ مثالی ِ 27 - گیارہ ہزار صلاحیتیں ِ 28 - خواتین اور فرشتے ِ 29 - روح کا لباس؟ ِ 30 - ملت حنیف ِ 31 - بڑی بیگمؓ، چھوٹی بیگمؓ ِ 32 - زم زم ِ 33 - خواتین کے فرائض ِ 34 - تیس سال پہلے ِ 36 - کہکشانی نظام ِ 37 - پانچ حواس ِ 38 - قانون ِ 39 - قدرِ مشترک ِ 40 - قانون ِ 41 - پچاس سال ِ 42 - زندگی کا فلسفہ ِ 43 - انسانی مشین ِ 44 - راضی برضا ِ 45 - زمانے کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے(حدیث) ِ 46 - مثال ِ 47 - سائنس اور روحانیت ِ 48 - مادی دنیا اور ماورائی دنیا ِ 49 - چاند گاڑی ِ 50 - تین ارب سال ِ 51 - کائناتی نظام ِ 52 - تخلیق کا قانون ِ 53 - تکوین ِ 54 - دو علوم۔۔۔ ِ 55 - قانون ِ 56 - ذات کا عرفان ِ 57 - روحانی شاگرد ِ 58 - ذات کی نفی ِ 59 - پانچ کھرب بائیس کروڑ! ِ 60 - زندگی کا تجزیہ ِ 61 - عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ِ 62 - دین فطرت ِ 63 - عید ِ 64 - ملائکہ اعلان کرتے ہیں ِ 65 - بچے اور رسول اللہﷺ ِ 66 - افکار کی دنیا ِ 67 - مثال ِ 68 - تحقیق و تلاش ِ 69 - Kirlian Photography ِ 70 - قرآن علوم کا سرچشمہ ہے ِ 71 - روشنی سے علاج ِ 72 - روشنی کا عمل ِ 73 - چھ نقطے ِ 74 - قانون ِ 75 - امراض کا روحانی علاج ِ 76 - مشق کا طریقہ ِ 77 - نور کا دریا ِ 78 - ہر مخلوق عقل مند ہے ِ 79 - موازنہ ِ 80 - حضرت جبرائیل ؑ ِ 81 - ڈائری ِ 82 - ماں کی محبت ِ 83 - حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ ِ 84 - اکیڈمی میں ورکشاپ ِ 85 - زمین اور آسمان ِ 86 - ورد اور وظائف ِ 87 - آواز روشنی ہے ِ 88 - مثال ِ 89 - نگینوں سے علاج ِ 90 - تقدیر کیا ہے؟ ِ 91 - مثال ِ 92 - حضرت علیؓ کا ارشاد ِ 93 - فرشتے، جنات اور آدم ؑ ِ 94 - انسان اور موالید ثلاثہ ِ 95 - سلطان ِ 96 - مثال ِ 97 - دو رخ ِ 98 - سیاہ نقطہ ِ 99 - قانون ِ 100 - کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالی۔۔۔ ِ 101 - تین کمزوریاں ِ 102 - عفو و درگذر ِ 103 - عام معافی ِ 104 - توازن ِ 105 - شکر کیا ہے؟ ِ 106 - قافلہ سالار ِ 107 - ٹیم ورک ِ 108 - سلسلہ عظیمیہ کے ارکان کی ذمہ داری ِ 109 - چھوٹوں کی اصلاح ِ 110 - ایک نصیحت ِ 111 - صبحِ بہاراں ِ 112 - دنیا مسافر خانہ ہے ِ 113 - روح کیا ہے؟ ِ 114 - سانس کی مشقیں ِ 115 - من کی دنیا ِ 116 - بے سکونی کیوں ہے؟ ِ 117 - غور و فکر ِ 118 - روحانی علوم ِ 119 - ہمارے بچے ِ 120 - اللہ تعالیٰ بہت بڑے ہیں ِ 121 - اللہ ھُو ِ 122 - اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو ِ 123 - قربت ِ 124 - ہر مخلوق باشعور ہے ِ 125 - کامیاب زندگی ِ 126 - انا کی لہریں ِ 127 - صدقۂ جاریہ ِ 128 - ادراک یا حواس
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے آج منگل کے دن اپنے بیان میں یوکرین جنگ میں صہیونی رجیم کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے آج منگل کے روز انٹرنیشنل جیوش ایجنسی کی روس میں سرگرمیاں معطل کرنے متعلق کہا کہ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے جس کا فی الحال جائزہ لیا جارہا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے نے حالیہ مہینوں کے دوران اور خاص طور پر یوکرین کی جنگ کے حوالے سے صہیونی رجیم کے غیر تعمیری موقف اور تل ابیب کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے افسوس ناک قرار دیا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے مشخص طور پر صہیونی رجیم کی یوکرین کو امداد کا ذکر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ رات صہیونی رجیم کے سرکاری چینل ﴿کان﴾ نے ایک رپورٹ میں منتشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تل ابیب نے یوکرین میں امدادی رسانی کے قالب میں اپنی سرگرمیوں میں توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صہیونی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پہلی بار سرکاری بجٹ کو یوکرین میں سرگرم غیر عسکری امدادی تنظیموں کے حوالے کیا ہے۔ اب تک صہیونی رجیم کی وزارت خارجہ اس سلسلے میں براہ راست خود ہی سرگرم رہی ہے، تاہم اب اس نے فیصلہ کیا ہے یوکرین میں سرگرم ۹ سول تنظیموں سے جا ملے گی اور ریاستی بجٹ کو براہ راست ان کے حوالے کرے گی۔ صہیونی وزارت خارجہ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انٹرنیشنل جیوش ایجنسی کی سرگرمیوں کی معطلی کے معاملے میں ماسکو اور تل ابیب کے مابین جاری سیاسی کشیدگی شدت اختیار کر رہی ہے۔ گزشتہ رات عبری ذرائع نے خبر دی تھی کہ لائیر لپیڈ روس کے حالیہ اقدام کے سلسلے میں جوابی اقدامات اور جیوش ایجنسی کے دفتر کی ماسکو سے تل ابیب منتقلی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انسان سچا ہو تو اللہ ساتھ نہیں چھوڑتا، اللہ تعالی نے حق کو فتح دلا کر پوری دنیا کو دکھا دیا—فوٹو: فائل لندن: سابق وزیراعظم نواز شریف نے مریم کی بریت پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے کئی سال پہلے کہہ دیا تھا کہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انسان سچا ہو تو اللہ ساتھ نہیں چھوڑتا، اللہ تعالی نے حق کو فتح دلا کر پوری دنیا کو دکھا دیا۔ مریم کی بریت احتساب کے نظام پر طمانچہ ہےجو شریف خاندان کے خلاف استعمال کیا گیا: شہباز عدالت سے بری ہونے کے بعد مریم نواز کی اپنے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی ، وزیراعظم نے بھتیجی کو گلے لگاکر مبارک باد دی خیال رہے کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کر دیا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد کیس کا مختصر فیصلہ سناتے مریم نواز کی 7 سال کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ یاد رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو 7 سال اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی، مریم نواز کو جرم میں معاونت کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
اس وقت جہلم میں 73 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض جن میں کرونا وائرس بیماری کی کوئی علامات نہیں ہیں ان افراد کو گھروں میں آئسولیٹ کیا گیا ہے اور 11 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کرونا وائرس کے 6 (Suspected) ممکنہ مریض ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ تمام مریضوں کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ محکمہ صحت جہلم نے گزشتہ روز تک کورونا کے مشت 85360 افراد کے نمونے لے کر لیبارٹری بھجوائے ہیں جن میں سے 2235 افراد کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔ آج مزید 10 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض صحت یاب ہوئے ہیں۔ اب تک کل 2089 کرونا وائرس سے متاثرہ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اس وقت کل کرونا وائرس سے 62 اموات ہوئی ہیں۔ کرونا وائرس کی تیسری لہر میں محکمہ صحت جہلم نے یکم مارچ 2021 سے اب تک کل کرونا وائرس کے مشتبہ 24199 افراد کے نمونے لے کر لیبارٹری بھجوائے ہیں جن میں 754 افراد کی رپورٹ مثبت موصول ہوئی کرونا وائرس کی تیسری لہر میں اب تک 21 اموات ہوئی ہیں۔ جہلم میں اب تک 70 میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کرونا وائرس سے متاثر ہوا ہیں۔ اب تک 2246 فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اور 13532 پچاس سال سے زائد عمر کے شہریوں کو کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسینیشن کر دی گئی ہے۔
عراق کی سرکاری فورسز نے ملک کے ایک شہر اور کئی ملحقہ دیہاتوں کو شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے واگزار کروا لیا ہے یہ کامیابی انہیں اسی دن حاصل ہوئی جس دن شامی حزب مخالف کے کارکنوں کے مطابق داعش نے شامی قصبے البوکمال پر قبضہ کیا۔ عراق کی فورسز کے ایک کمانڈر عبدالعامر یاراللہ نے کہا کہ رمانہ قصبے اور اس کے نواح میں واقع دس دیہاتوں کو ہفتہ کو داعش سے آزاد کروا لیا گیا۔ کمانڈر نے کہا کہ دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع رمانہ قصبے پر سرکاری فورسز اور ان کی اتحادی فورسز کی ایک بڑی مشترکہ کارروائی کے بعد عراق میں شدت پسند تنطیم کے آخری ٹھکانے کو واگزر کروا لیا گیا۔ دوسری طرف شامی حزب مخالف کے دو سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ شام کی سرحد کے پار واقع شامی شہر البوکمال پر اطلاعات کے مطابق ہفتہ کو داعش نے قبضہ کر لیا۔ برطانیہ میں قائم شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے گروپ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے کارکن رامی عبدالرحمن نے کہا شام کی سرکاری فورسز اور ان کے اتحاد "اب شہر کی حدو د سے باہر ایک یا دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہیں۔" شامی فوج نے 9 نومبر کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے شام میں داعش کے آخری مضبوط گڑھ "البوکمال کو آزاد کروا " لیا ہے۔ تاہم داعش کے جنگجوؤں نے شہر سے نکل جانے کے بعد گزشتہ دو روز کے دوران شہر پر جوابی حملہ کیا۔ یورپ میں مقیم شامی حزب مخالف کے ایک کارکن عمر ابو لیلیٰ نے کہا کہ داعش کے جنگجوؤں نے ایک بار پھر شہر پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
Real Numbers In Urdu | What is Real Numbers | حقیقی اعداد حقیقی اعداد ا۔ایک عدد جس کو کی شکل میں لکھا جاتا ہے جہاں پر p اور q صحیح اعداد ہیں اور q ≠ 0 کو ناطق عدد کہتے ہیں۔ 2۔ایسے اعداد جن کو کی شکل میں لکھا نہیں جاسکتا جہاں پر P اور q صحیح اعداد ہیں اور q ≠ 0 کو غیر ناطق اعداد کہتے ہیں۔ 3۔ناطق اعداد کی اعشاری شل نہ تو مختتم ہے اور نہ ہی غیر مختتم ہے۔ 4۔غیر ناطق عدد کی اعشاری شکل غیر مختتم اور غیر متوالی ہوتی ہے۔ 5۔ناطق اور غیر ناطق اعداد کا مجموعہ حقیقی اعداد کہلاتا ہے۔ 6۔عددی خط پر ہر حقیقی عدد کیلئے منفرد حقیقی عدد کا نقطہ ہوتا ہے ۔ 7۔اگر p ایک ناطق عدد ہے اور s ایک غیر ناطق عدد ہے تب q+s,q-s,qs اور ناطق اعداد ہو ں گے۔ 8۔اگر n ایک طبعی عدد ہے لیکن کامل مرع نہ ہوتب ایک غیر ناطق عدد ہے۔ 9۔مندرجہ ذیل مساوات تمام مثبت حقیقی اعداد a اور b پر صادق آتی ہیں۔ Square And Square Roots, Cube And Cube Roots In Urdu | مربعے اور جذرلمربع، مکعب اور جذرالمکعب Square And Square Roots, Cube And Cube Roots In Urdu | مربعے اور جذرلمربع، مکعب اور جذرالمکعب ٭ اگر کسی عدد کو خود اسی عدد سے ضرب دینے پرمربع کہلاتا ہے۔ مخصوص اعداد کےمربعے اور جذرالمرابعے مربعے جزرالمرابعے مکعب جزرالمکعب 1 2 =1 2 2 =4 3 2 =9 4 2 =16 5 2 =25 6 2 =36 7 2 =49 8 2 =64 9 2 =81 10 2 =100 11 2 =121 12 2 =144 13 2 =169 14 2 =196 15 2 =225 16 2 =256 17 2 =289 18 2 =324 19 2 =361 20 2 =400 2 1 2 =441 22 2 =484 23 2 =529 24 2 =576 25 2 =625 26 2 =676 27 2 =729 28 2 =784 29 2 =841 30 2 =900 √1=1 √4=2 √9=3 √16=4 √25=5 √36=6 √49=7 √64=8 √81=9 √100=10 √121=11 √144=12 √169=13 √196=14 √225=15 √256=16 √289=17 √324=18 √361=19 √400=20 √441=21 √484=22 √529=23 √576=24 √625=25 √676=26 √729=27 √784=28 √841=29 √900=30 1 3 =1 2 3 = 8 3 3 = 27 4 3 = 64 5 3 = 125 6 3 = 216 7 3 = 343 8 3 = 512 9 3 = 729 10 3 =100 0 ∛1=1 ∛8=2 ∛27=3 ∛64=4 ∛125=5 ∛216=6 ∛343=7 ∛512=8 ∛729=9 ∛1000=1 Find Any Number Square, Square Root, Cube & Cube Root ٭عدد 9-1کے مربعوں میں ہندسوں کی تعداد(اقل ترین-1،اعظم ترین LCM and GCD Exercise in Urdu | LCM and GCD Practice Questions In Urdu | ع-ا-م اور ذ-ا-م پر مشق LCM and GCD Exercise in Urdu | LCM and GCD Practice Questions In Urdu | ع-ا-م اور ذ-ا-م پر مشق مشق 1۔تین اشخاص روزانہ ایک دودھ کی ڈائری میں بلترتیب 12 لیٹر ، 20 لیٹر ، 20لیٹر دودھ جمع کرتے ہیں تب بتائیے کہ دودھ کی ڈائری کے مینجر کو کونسا بڑے سے بڑا دودھ ناپنے کا پیمانہ استعمال کرے تاکہ تینوں کے دودھ کو اس سے ناپ سکے۔( 4لیٹر/ع۔ا۔م معلوم کرنا ہوگا) 2۔ ایک گھنٹی ہر 15 سکنڈ میں بجتی ہے اور دوسری گھنٹی ہر 10 سکنڈ میں بجتی ہے اور تیسر گھنٹی ہر 12 سکنڈ میں بجتی ہے اگر صبح 10 بجے یہ تینوں ایک ساتھ بجتی ہیں تب بتاؤکہ پھر یہ کتنے بجے ایک ساتھ بجے گی۔( 10 بجکر ایک منٹ/ ز۔ا۔م معلومکرنا ہوگا) 3۔ ایک گھر میں ماں اپنے تیں بیٹوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ پہلا بیٹا اپنی ماں کو ہر 15 دن میں اپنی کمائی دیتا ہے اور اسکا دوسرا اور تیسرا بیٹا ترتیب وار ہر 18 دناور 27 دن میں اپنی کمائی دیتے ہیں اگر یہ تینوں آج کے دن ایک ساتھ کمائی دیئے تب دوبارہ وہ ایک ساتھ کمائی کتنے دن بعد دینگے۔( 270 دن ) 4۔ ایک گھر میں ماں اپنے تیں بیٹوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ پہلا بیٹا اپنی ماں کو ہر 4 دن میں اپنی کمائی دیتا ہے اور اسکا دوسر
ميرى منگيتر كا والد فوت ہو گيا ہے اور اس كےگھر والے غمزدہ ہيں والدہ عدت گزار رہى ہے، عقد نكاح كے وقت والدہ كى عدت كے تين ماہ گزرے ہونگے، كيونكہ عقد نكاح كے ايام والد كى زندگى ميں طے ہوئے تھے كيا ميرے ليے بغير خوشى كے مظاہر عقد نكاح كرنا جائز ہے يا كہ اسےمؤخر كر دوں، يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنے ملك سے دور ہوں اور ملازمت كى بنا پر آئندہ وقت ميں عقد نكاح كا وقت مقرر كرنا مشكل نظر آتا ہے ؟ جواب کا متن متعلقہ الحمد للہ. اس لڑكى كے ساتھ آپ كا نكاح كرنا جائز ہے چاہے لڑكى كى ماں عدت ميں ہى كيوں نہ ہو، اس ليے كہ شريعت مطہرہ ميں اس كى ممانعت نہيں آئى، اور پھر عقد نكاح كے ليے خوشى و فرحت كے امور كرنا شرط نہيں، كيونكہ عقد نكاح كے ليے لڑكى كا ولى اور دو عادل گواہ اور ايجاب و قبول ہونا ہى كافى ہيں. ليكن اس ميں آپ كو لڑكى كےگھر والوں كے جذبات كا خيال كرنا ہوگا، اگر تو انہيں اس وقت عقد نكاح كرنے سے كوئى اذيت و تكليف نہيں ہو گى تو الحمد للہ، وگرنہ آپ اتنى دير تك عقد نكاح كو مؤخر كرديں جب تك ان كا غم ہلكا نہ ہو جائے، اور لڑكى كى والدہ عدت ختم ہونے اگر وہ رغبت ركھے تو خود بھى زينت اختيار كر سكے. يہ سب كو معلوم ہے كہ جس عورت كا خاوند فوت ہو چكا ہو تو وہ دوران عدت نہ تو زيور پہن سكتى ہے اور نہ ہى بناؤ سنگھار كر سكتى ہے، اور نہ ہى خوشبو استعمال كر سكتى ہے. مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 13966 ) كے جواب كا مطالعہ كريں. حاصل يہ ہوا كہ: اگر لڑكى كےگھر والے راضى ہوں اور ايسا كرنے سے انہيں كوئى تكليف اوراذيت نہ ہوتى ہو تو شرعى طور پر اس طرح كى حالت ميں عقد نكاح كرنے ميں كوئى مانع نہيں.
کیا آپ کو PFCOLORS فائل کھولنے میں دشواری ہو رہی ہے یا آپ سوچ رہے ہیں کہ ان میں کیا شامل ہے؟ ہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ فائلیں کن چیزوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور آپ کو ایسا سافٹ ویئر دکھاتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ آپ کی فائلوں کو کھول سکتے ہیں یا دوسری صورت میں ہینڈل کر سکتے ہیں۔ PFCOLORS فائل کیا ہے؟ A .PFCOLORS فائل ایک Pixelformer Colors فائل ہے۔ ہم نے ابھی تک تفصیل سے تجزیہ نہیں کیا ہے کہ ان فائلوں میں کیا ہے اور ان کا استعمال کیا ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ PFCOLORS فائلوں کو کیسے کھولیں۔ اہم: مختلف پروگرام PFCOLORS فائل ایکسٹینشن والی فائلوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، لہذا جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ کی PFCOLORS فائل کا فارمیٹ کون سا ہے، آپ کو کچھ مختلف پروگرام آزمانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہم نے ابھی تک ونڈوز کے لیے کسی ایسے پروگرام کی تصدیق نہیں کی ہے جو اس مخصوص فائل فارمیٹ کے ساتھ کام کرتے ہوں۔ اگر آپ کسی کو جانتے ہیں، تو براہ کرم ذیل میں 'پروگرام تجویز کریں' کا لنک استعمال کریں۔ شکریہ! آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 13 جولائی 2020 فائل ایکسٹینشن کیا ہے؟ فائل کی توسیع فائل کے نام میں آخری ڈاٹ کے بعد کے حروف ہیں۔ مثال کے طور پر، فائل کے نام 'myfile.pfd' میں، فائل کی توسیع pfd ہے ۔ یہ ونڈوز کو فائل کھولنے کے لیے صحیح پروگرام کا انتخاب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ EN - AR - BG - BN - CS - DA - DE - EL - ES - FI - FR - HI - HR - HU - ID - IT - IW - JA - JW - KO - LT - MS - NL - NO - PL - PT - RO - RU - SK - SV - TH - TR - VI - ZH-CN
پاکستان ویمنز فٹبال ٹیم کا دورہ سعودی عرب، شیڈول جاری پنڈی ٹیسٹ کا تیسرا دن ختم، پاکستان کے 7 وکٹوں پر 499 رنز مکمل خواجہ سراؤں کو بینظیر کفالت پروگرام کا حصہ بنانے کا فیصلہ خیبر پختونخوا کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کے فیصلے کی توثیق کردی ارشد شریف قتل کیس: عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا ترکش ایئرلائن کی استنبول، تھائی لینڈ پرواز کی کراچی میں ہنگامی لینڈنگ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ غلط تھا، اسد قیصر اسمبلی تحلیل، عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں، پرویز الہٰی امریکی مذہبی آزادی کمیٹی پاکستان آکر حقائق کا مشاہدہ کرے، طاہر اشرفی سندھ حکومت نے سیلاب میں بہترین کارکردگی دکھائی، شرجیل میمن کابل: پاکستانی سفارتکار پر حملے کا ملزم گرفتار، سفارتی ذرائع آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ، ووٹوں کی گنتی جاری آپ سے ملک نہیں چل رہا، دونوں وزیر خزانہ آپس میں لڑ رہے ہیں، فواد چوہدری شاہد خاقان کا شہباز گل کیخلاف 2 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ مادھوری نے بھی ’میرا دل یہ پکارے آجا‘ پر ڈانس کی ویڈیو شیئر کردی نئی فلم میں سلمان کیسے دکھائی دیں گے؟ تصویر سامنے آگئی کینیڈین ٹک ٹاکر میگھا ٹھاکر کی 21 برس کی عمر میں اچانک موت اُروشی روٹیلا نے ریشبھ پنت کے معاملے پر خاموشی توڑ کر سب کچھ واضح کردیا امریکا نے جدید بمبار طیارے ’بی 21 ریڈر‘ کی رونمائی کردی وہاڑی پولیس کے 25 سب انسپکٹرز کی انسپکٹر کے عہدے پر ترقی ڈی پی او وہاڑی محمد ظفر بزدار کی ترقی پانے والے انسپکٹرز کو مبارکباد کراچی سے شارجہ جانے والی نجی ایرلائن کی پروازحادثے سے بچ گئی مری: ہوٹل میں بے ہوشی کی حالت میں پائے گئے 3 افراد انتقال کرگئے میانوالی یونیورسٹی کے وی سی کی صفائی والے سے بدسلوکی کی ویڈیو وائرل عمران اسماعیل نے سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کو جھوٹا قرار دے دیا صوبائی اسمبلیاں اسی مہینے توڑ دیں گے، عمران خان پنجاب، خیبرپختونخوا نے وفاق سے شکایتوں کے انبار لگا دیے خان صاحب! اسمبلیاں توڑیں تو بے آسرا آپ ہوں گے ہم نہیں، خواجہ سعد رفیق فضل الہٰی کی گرفتاری سے متعلق ڈپٹی اسپیکر کو خط سینیٹ کی نشست سے ایم کیوایم کے امیدوار دستبردار ادبی و ثقافتی تنظیم و جدان کا خوبصورت شاعر ہ ناصرہ زبیری کے اعزاز میں مشاعرہ کراچی سے شارجہ کیلئے اڑان بھرنے کے 15 منٹ بعد آکسیجن کامسئلہ ایمرجنسی لینڈنگ علی بابا ڈاٹ کا م کا لاہور میں کاروباری افرادکے لیے ای کامرس کے ممکنہ مواقعوں پر تبادلہ خیال کر نے کے لیے ہائبرڈ ایونٹ کا اعلان راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں گیند چمکانے کا نیا طریقہ دریافت گرل فرینڈ کے 35 ٹکڑے کرنے والے کی جیل میں زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ آپ لوگ صرف پیٹ بھرنے کیلئے نوکری کرتے ہیں، عدالت ایس بی سی اے پر برہم پی پی رہنما وقار مہدی بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگئے مریم اورنگزیب کی خالہ سابق سینیٹر نجمہ حمید کا انتقال، پارٹی رہنماؤں کا اظہار تعزیت روزنامہ سدید ہفتہ 3دسمبر 2022 جدہ، فلمی میلے میں سجل علی کے چرچے بنگلادیش اور روہنگیا مہاجرین کیخلاف تقریر پر پریش راول کیخلاف مقدمہ درج نیو یارک، لا تعداد چوہے ختم کرنے کیلئے ملازمت کا اشتہار عمران خان سے وی سی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ملاقات ہم الیکشن ایسا کرانا چاہتے ہیں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، مراد علی شاہ سابق باکسر عامر خان کی حضرت علیؓ کے روضے پر حاضری راولپنڈی ٹیسٹ، عبداللّٰہ شفیق اور امام الحق نے ریکارڈ بنالیا پنڈی ٹیسٹ: پاکستان کی انگلینڈ کیخلاف تیسرے روز بیٹنگ جاری شدید اسرائیلی دباؤ کے باوجود فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی فلم ریلیز کرسٹیانو رونالڈو کا جنوبی کوریا کے کھلاڑی کے ساتھ جھگڑا آسٹریلیا کے مارنس لبوشین نے ڈبل سنچری کے بعد پھر سنچری بنا ڈالی رکی پونٹنگ صحت یاب، واپس گراؤنڈ پہنچ گئے 7 شیئر کریں دورۂ پاکستان، انگلینڈ کے اہم کھلاڑی فٹنس مسائل سے دوچار admintutorp نومبر 24, 2022 نومبر 24, 2022 0 تبصرے ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان آنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی لیام لیونگسٹن فٹنس مسائل سے دوچار ہوگئے۔ آل راؤنڈر لیام لیونگسٹن ٹخنے کی انجری سے مکمل صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں، وہ اگست میں ٹخنے کی انجری کا شکار ہوئے تھے۔ لیام لیونگسٹن پاکستان کے خلاف پنڈی ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے کے مضبوط امیدوار ہیں۔ برطانوی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے لیام لیونگسٹن نے کہا کہ میں سو فیصد فٹ نہیں ہوں۔ لیام لیونگسٹن نے انکشاف کیا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران بھی میں مکمل فٹ نہیں تھا، ایونٹ جیتنے کے بعد تمام کوششوں اور محنت کا پھل مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے انجری سے نجات کے لیے 12 ہفتے درکار تھے، ورلڈ کپ کے پہلے میچ تک سات ہفتے اور چار دن ہوئے تھے۔ انگلش کرکٹر کا کہنا ہے کہ میں نے سخت محنت کی اور والدین کو گولڈ میڈل کے ساتھ واپس جانے کا موقع دیا، میں پر امید ہوں کہ راولپنڈی ٹیسٹ سے قبل مکمل فٹ ہو جاؤں گا۔
اصلی لکڑی کا فرش براہ راست قدرتی لکڑی کے ساتھ کاٹنے کے بعد پروسیسنگ ہے اور خوبصورت قدرتی ٹھوس لکڑی اور ساخت کے ساتھ آرائشی نمونہ کو برقرار رکھتا ہے ، کیونکہ عام طور پر ماحولیاتی تحفظ کا موازنہ کرنے کے لئے چپکنے والی ایجنٹ کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ عام طور پر انسٹال کرتے وقت اصلی لکڑی کے فرش کو الٹ بچھانے کی ضرورت ہوتی ہے ، اس میں شامل کریں اصلی لکڑی کی تکلیف خود بھی بہتر ہوتی ہے ، لہذا اصلی لکڑی کے فرش کا کرال احساس بہت آرام دہ ہوتا ہے۔ اصلی لکڑی کا فرش استعمال پر زیادہ نازک ہے ، اگر یہ خراب لکڑی ہے تو ، بہت خشک یا بہت نم ماحول اس کی خرابی کو توڑ سکتا ہے۔ اس کا لباس مزاحمت کرنے والی ڈگری بھی کم ہے ، اس پر فرنیچر نہیں کھینچ سکتا ہے ، بہتر یہ بھی تھا کہ باہر کا جوتا اصلی لکڑی کے فرش میں عمدہ کے قریب جانے کے لئے نہ پہنیں ، شاید اس کے لباس کو ایسا بنائیں۔ اصلی لکڑی کے فرش کی سطح کی سطح کو برقرار رکھنے کے لئے شاندار ہے ، اس میں 3 ماہ یا اس سے زیادہ مارا گیا تھا۔ اصلی لکڑی کے فرش کا فائدہ صوتی موصلیت اور گرمی کی موصلیت ٹھوس لکڑی کا فرش مواد سخت ، محتاط لکڑی کے ریشہ کا ڈھانچہ ، کم تھرمل چالکتا ، مسدود کرنے والی آواز اور گرمی کا اثر ، سیمنٹ ، سیرامک ​​ٹائل اور اسٹیل سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس لکڑی کے فرش میں آواز جذب کرنے والا ، صوتی موصلیت کا حامل ہے ، صوتی دباؤ کو کم کرنا ہے ، بقایا وقت کے کام کو مختصر کرنا ، شور عوامی نقصان کے آلودگی کے اثر کو کم کرنا۔ نمی کو ایڈجسٹ کریں اصلی لکڑی کے فرش کی لکڑی کی خصوصیت یہ ہے ، آب و ہوا خشک ہے ، لکڑی کے اندرونی نمونے کی نمی؛ مرطوب آب و ہوا میں لکڑی ہوا سے نمی جذب کرتی ہے۔ لکڑی کا فرش جذب ہوجاتا ہے اور نمی کو چھوڑ دیتا ہے ، کیونکہ یہ لکڑی کا فرش اندرونی درجہ حرارت ، نمی کو خود بخود ایڈجسٹ کرسکتا ہے ، رمیٹی بیماری کی موجودگی کو کم کرسکتا ہے ، اور کیونکہ اس کی گرمی کی ترسیل کا گتانک چھوٹا ہے ، گرم سردی اور ٹھنڈی گرمی کے ساتھ اثر پڑتا ہے (گرمی کے تحفظ کا اثر ہے) بہت اچھا). کوئی فرق نہیں تمام سال کسی بھی وقت ، اگر وہ شخص لکڑی کے فرش کے اوپر بیٹھا ہے ، بہت آرام دہ محسوس کرسکتا ہے ، اسے سردی ، سردی محسوس نہیں ہوگی ، خاص طور پر اس خاندان میں جس کا گھر میں بچہ ہے۔ سائنسی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لکڑی کے مکانوں میں طویل مدتی رہنا اوسطا 10 سال تک کی زندگی کو بڑھا سکتا ہے۔ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا سردیوں میں ، لکڑی کے ٹھوس فرش کا سطحی درجہ حرارت سیرامک ​​ٹائل سے 8 ~ ~ 10 ℃ زیادہ ہوتا ہے ، اور لوگ لکڑی کے فرش پر ٹھنڈے احساس کے بغیر چلتے ہیں۔ موسم گرما میں ، اصلی لکڑی کے فرش کا سونے کے کمرے کا درجہ حرارت 2 ℃ ~ 3 ying بچھائے جانے والے سیرامک ​​ٹائل کے کمرے کے درجہ حرارت سے کم ہونا چاہئے۔ سبز بے ضرر اصلی لکڑی کا فرش مواد کے ساتھ قدیم جنگل سے لیا گیا ہے ، لباس مزاحم پینٹ کی کوٹنگ کا استعمال کریں جس میں اتار چڑھاؤ نہیں ہوتا ، پودوں کو رنگین کرنے کے لئے مٹی سے پودوں کو ہرے اور بے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، تابکاری ہونے کے لئے سیرامک ​​ٹائل سے مشابہت نہیں رکھتے ، بڑھتے ہوئے مشابہت سے بھی مشابہت نہیں رکھتے ہیں۔ منزل فارمیڈہائڈ رکھنے کے لئے ، یہ قدرتی سبز اور بے ضرر زمینی عمارت کا سامان ہے۔
اس بات کا انحصار آپ کے ایک دن یا چوبیس گھنٹوں پر منحصر ہے اگر آپ ہر دن میں ہر گھنٹے اور منٹ کا استعمال بہترین انداز میں کرتے ہیں‘ کوئی لمحہ ضائع نہیں جانے دیتے اور ہر ضروری کام کو ٹالنے کی بجائے بروقت نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو پھر ایک سال گزرنے کے بعد آپ اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیں گے۔ جس طرح ایک مکان میں ایک اینٹ ایک اکائی کی حیثیت رکھتی ہے‘ اسی طرح ایک سال میں ہر دن کی اپنی اہمیت ہے۔ جس طرح آپ مکان بناتے وقت اچھی اینٹ کا استعمال کرتے ہیں‘ ہر اینٹ کو مناسب انداز میں لگاتے ہیں اور ایک دن انہی اینٹوں پر مکان کھڑا کر لیتے ہیں‘ اسی طرح اگر آپ ہر دن کو اچھی طرح مینج کریں گے‘ اپنی تعلیم‘ صحت‘ نوکری‘ کاروبار‘ مذہب‘ فیملی اور اپنی ذات پر برابر توجہ دیں گے تو نہ صرف آپ درست ٹریک پر چل پڑیں گے بلکہ زندگی کے من پسند شعبوں میں بے پناہ ترقی بھی کر لیں گے۔ ٹیکنالوجی انسان کیلئے بنی ہے‘ انسان ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا وغیرہ کیلئے نہیں بنا۔ یہ بات ہمیں خود سمجھنا اور بچوں کو بھی سمجھانا پڑے گی۔ اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کر کے اپنے اہداف جلد اور موثر طریقے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ ہم اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال نہیں کر رہے۔۔۔ جدید ممالک میں کتاب کی اہمیت ابھی تک کم نہیں ہو سکی ۔۔۔ کتابوں کی بڑی بڑی موبائل ایپس حتیٰ کہ ٹیبلٹ متعارف کرائے گئے لیکن آج بھی امریکہ میں کوئی کتاب یا ناول شائع ہوتا ہے تو اس کی لاکھوں کاپیاں ابتدائی دنوں میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایک ہزار کا ایڈیشن بھی بمشکل بکتا ہے۔ چند ایک بڑے ناموں کے سوا کتابیں اب فروخت نہیں ہو رہیں۔ لوگ ہر چیز ہر مزا ہر دکھ اور ہر سُکھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ جیسے ہی ایک منٹ کی فراغت ملتی ہے تو موبائل فون اٹھا لیتے ہیں‘ جیسے ان کے ہر غم کا علاج یہی ہو۔ اب جو قوم چوبیس گھنٹوں میں سے آٹھ‘ نو یا دس گھنٹے روزانہ سوشل میڈیا پر ضائع کرے گی اس سے یہ کیسے امید کیا جا سکتی ہے کہ وہ نئے سال کے لئے اپنے طے کردہ مثبت اہداف بروقت حاصل کر لے۔ آپ سکیورٹی گارڈ سے لے کر ٹریفک وارڈن اور ایک نجی ورکر سے لے کر سرکاری افسر تک ملاحظہ کر لیں‘ ہر کوئی تازہ وائرل ویڈیوز کے بارے میں ہی بات کرتا ملے گا۔ سوشل میڈیا کا کمال دیکھیں کہ ہم بچپن میں یہ سوچتے تھے کہ فلاں کولڈ ڈرنک کا سب کو پتہ چل چکا ہے ہم روز پیتے ہیں اور ہر دکان میں پڑی بھی ہوتی ہیں لیکن بار بار اس کی اتنی تشہیر کیوں کی جاتی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مہم برین واشنگ کا حصہ ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کو ایک چیز اتنی زیادہ مرتبہ دکھا دی جائے کہ اس کے لا شعور میں اس چیز کی معلومات اور عکس کندہ ہو جائے۔ وہ جب بھی کچھ کھانے لگے تو اس کے سامنے فلاں کولڈ ڈرنک کی طلب آ جائے۔ اب سوشل میڈیا پر جس طرح سے وائرل ویڈیوز کا ٹرینڈ چل پڑا ہے تو لوگوں کو اس کی لت پڑ گئی ہے بلکہ یہ عادت اب نشے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ کامیابی کے حوالے سے جہاں ہم بہت سے منصوبے بنا رہے ہیں وہاں ہمیں اپنے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظرثانی بھی کرنی چاہیے بالخصوص بچوں کے بارے میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی پلاننگ میں زیادہ سے زیادہ آؤٹ ڈور سرگرمیاں شامل کریں‘ اس سے موبائل کا استعمال خودبخود کم ہو جائے گا ۔۔۔ باقی جب تک آپ خود وہ کام نہیں چھوڑیں گے جس سے بچوں کو منع کروانا چاہتے ہیں‘ تب تک آپ کو مرضی کے نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔۔۔۔۔۔ اگر آپ خود نماز کے وقت موبائل پر فیس بک دیکھنے میں لگے ہوں گے‘ خود کھانے کے ساتھ لازمی ویڈیو دیکھیں گے تو بچوں کو کیسے ان چیزوں سے باز رکھ سکیں گے۔ جب بچہ آپ کے ہاتھ میں زیادہ وقت کتاب دیکھے گا تو خود بخود اس میں بھی جستجو پیدا ہو گی۔ آپ روزانہ ورزش کریں گے تو اس میں بھی یہی عادت پیدا ہو گی۔ ویسے بھی بچے اچھل کود جیسی سرگرمیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی کے سیلاب میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی بہتے جا رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنی پلاننگ میں سوشل میڈیا اور موبائل کے استعمال کو مینج نہیں کریں گے ۔۔۔ ہماری ساری کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اگر آپ کا ہر دن پچھلے سال کی طرح گزر رہا ہے۔۔۔ تو سنبھل جائیں ابھی موقع ہے۔۔۔ آپ نے اپنے روشن مستقبل کے لیے جو پلان بنائے ہوئے ہیں یا کہیں لکھے ہوئے ہیں تو ان پر توجہ دیجئے ۔۔۔۔ اگر آپ اسی طرح سے وقت ضائع کرتے رہے تو اپنے مقرر کردہ اہداف کیسے حاصل کریں گے۔
یورپ میں سب سے زیادہ ہندو برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۲ء۴ فی صد عیسائی، ۱۸ء۶ فی صد مسلمان، ۱۵ء۲ فی صد ہندو، ۴ء۴ فی صد سکھ، لیسٹر میں رہتے ہیں۔ باقی دیگر مذاہب یا لامذہبیت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے ہندو اس شہر میں کافی منظم اور متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیسٹر سٹی کونسل کی بلدیہ کے منتخب اراکین میں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے، اور اسی لحاظ سے کافی اثر و رسوخ بھی ہے۔ یورپ میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر بھی لیسٹر میں ہے۔ جیساکہ بتایا گیا ہے، یہاں پر مسلمان بھی کافی ہیں، جن کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات سے ہے۔ پھر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دیگر کمیونٹی کے باشندے بھی یہاں بستے ہیں، لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اس شہر میں اس سے قبل کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے تھے۔ جون ۲۰۲۲ء میں جب بھارت میں نبی اکرمؐ کی شان میں حکومتی شخصیت نوپور شرما نے گستاخانہ کلمات کہے تھے، تو فطری طور پر لیسٹر کے مسلمانوں میں بھی اضطراب پایا گیا۔ کچھ دردمند مسلمانوں نے سوچا کہ موقعے کی مناسبت سے انتہا پسند ہندوؤں کی منفی سرگرمیوں کو برطانوی معاشرے کے سامنے لایا جائے۔ عین انھی دنوں بھارت کے ایک بڑے عالمِ دین برطانیہ آئے ہوئے تھے۔ جو جگہ جگہ مساجد میں جا کر بھارتی مسلمانوں کو تلقین کر رہے تھے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جن سے ہندو مسلم تعلقات خراب ہوں، کیونکہ اس کے اثرات بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر پڑتےہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں نے انتہا پسند ہندوؤں کی ہرزہ سرائی کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ ستمبر۲۰۲۲ء کے دوران لیسٹر میں ہندو مسلم کشیدگی عروج پر رہی ہے۔ اگرچہ اس کشیدگی کی جڑیں تین ماہ گہری پائی جاتی ہیں، مگر پھر یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اسے کرکٹ میچ سے منسلک کر رہے ہیں، لیکن ممتاز محقق اور یونی ورسٹی میں استاد ریاض خاں کے مطابق: ’’اس تنائو کا آغاز تقریباً تین چار ماہ قبل ہو گیا تھا، جب انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ نے ایک مسلمان لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، مگر مقامی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا‘‘۔ لیکن یہ کشیدگی اس وقت بہت بڑھ گی جب ۲۸؍ اگست کو دوبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والےمیچ میں پاکستان کو بھارتی ٹیم کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس وقت بہت سے ہندوؤں نے جیت کی خوشی میں بھارتی جھنڈے لہراتے ہوئے ’پاکستان مُردہ باد‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اپنی ٹیم کی جیت پر خوشی میں نعرے بلند کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن مخالف ٹیم کے خلاف نعرے بازی کا مقصد اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان مخالف نعروں سے کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ میچ کے شائقین اپنی ٹیم کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن مخالفانہ نعروں سے گریز کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ پاکستان مخالف نعروں کے ردِ عمل میں پاکستانیوں کے ایک گروپ نے بھی ہندوؤں کے علاقے میں ایک مظاہرہ کیا اور پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بازی کی۔ چونکہ پولیس بڑی تعداد میں موجود تھی، اس لیے حالات کنٹرول میں رہے۔ مگر حالات اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے، جب ۱۷ ستمبر کو۳۰۰ ہندوانتہاپسندوں پر مشتمل ایک منظم جلوس مختلف راستوں کے چکر لگاتا ہوا، مسلمانوں کے علاقے گرین لین روڈ پر آگیا۔ ان مشتعل نوجوانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اور یہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی دکانوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے۔ ان مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بلائی گئی۔ اگلے روز ہندوؤں نے دوبارہ ایک مظاہرہ بلگریوو روڈ پر کیا، اس کی اطلاع پولیس کو نہیں تھی، مگر جب پولیس وہاں پہنچی تو مظاہرین نے ان پر بوتلیں پھینکیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کے ۲۵ آفیسر اور پولیس کا ایک کتا بھی زخمی ہوا۔ پولیس نے اس ہنگامہ آرائی کے جرم میں ۴۷؍ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تب انکشاف ہوا کہ ان میں نصف سے زیادہ تعداد دوسرے شہروں سے آئے ہوئے انتہا پسندوں کی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نسل پرست بھارتی طلبہ جو آر ایس ایس سے منسلک ہیں، وہی ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ یہ مختلف شہروں سے لیسٹر پہنچے تھے اور منظم ہو کر مسلمانوں کو ہراساں کررہے تھے۔ گرین لین روڈ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ’’لوگ خوف زدہ ہیں، کیونکہ جب انتہا پسند گزر رہے تھے تو وہ مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے، جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں نے گھروں کی روشنیاں بند کیں اور پردے وغیرہ گرا دئیے تھے‘‘۔ ممتاز امریکی صحافی سلیل ترپاٹھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’جن لوگوں نے اپنے چہرے ڈھانپ کر مسلمانوں کی دکانوں پر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ وہ بھارتی نسل پرست سیاست کو برطانیہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’برطانوی سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس نہیں۔ حکومت کو آر ایس ایس جیسے سخت گیر نظریات کو پروان چڑھنے سے روکنا چاہیے‘‘۔ بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کا کہنا ہے کہ ’’لیسٹر کے ہندوؤں کی اکثریت امن پسند تھی، لیکن کچھ عرصے سے مغربی انڈیا کے جزیرے دمن اور دیپ سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آنے والے ہندو جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، انھوں نے برطانیہ میں بھی انتہاپسندی شروع کر دی ہے‘‘۔ اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہندو انتہا پسند کافی متحرک ہوگئے ہیں۔ ۱۵؍ اگست بھارت کا یومِ آزادی ہے۔ کشمیری اور سکھ اسے ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ کشمیری اور سکھ اس روز بھارتی ہائی کمشنر اور کونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال ۱۵؍ اگست کو جب برمنگھم میں کشمیریوں اور سکھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا تو اسے منتشر کرنے کے لیے کچھ ہندو انتہا پسند بھی آگے تھے،جنھیں سکھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور بھاگنے پر مجبور کیا۔ بظاہر یہ ایک برطانوی شہر میں رُونما ہونے والا بدنما اور افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برہمنیت کے علَم بردار اور ’ہندوتوا‘ کے فسطائیت نواز طائفے نے اب یورپ و مغرب کو اپنی نئی چراگاہ بنانے کے لیے قدم اُٹھایا ہے۔ اگر یہاں کے حکام نے اس کا بروقت تدارک نہیں کیا تو یہ چیز یہاں کی عام شہری زندگی کے لیے ایک مستقل کینسر بن جائے گی۔ اس فسطائیت کے جواب میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جوابی کارروائی کرنے اور سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے یہاں کے قانون کو حرکت میں آنے دیں، اور اپنی جانب سے کوئی منفی قدم نہ اُٹھائیں۔
آڈیو لیکس پر وفاقی کابینہ کا بڑا فیصلہ ، سابق وزیراعظم عمران خان، ان کے ساتھی وزرا اور سابق سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دے دی گئی ۔ وفاقی کابینہ نے ‘ڈپلومیٹک سائیفر’ سے متعلق آڈیو لیک پر ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات اور قانونی کارروائی کی منظوری دے دی ۔ کابینہ نے 30 ستمبر کو عمران خان کی سائیفر سے متعلق آڈیو لیک پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ آڈیو لیکس پر وفاقی کابینہ کا بڑا فیصلہ ، سابق وزیراعظم عمران خان، ان کے ساتھی وزرا اور سابق سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دے دی گئی ۔#PTI #PMLN #PPP #CABNITDESSION pic.twitter.com/HxPBocgPob — Dais Urdu (@daisurdu1) October 2, 2022 کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی ۔ کابینہ کمیٹی کی سفارشات کو سمری کی شکل میں کابینہ کی منظوری کے لئے پیش کیاگیا ۔ وفاقی کابینہ نے ‘سرکولیشن’ کے ذریعے کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی۔کمیٹی نے سفارش کی کہ”یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین مضر اثرات ہیں، قانونی کارروائی لازم ہے ،”ایف آئی اے سینیئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے، ایف آئی اے انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو ٹیم میں شامل کر سکتی ہے۔ سمری میں کابینہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ایف آئی اے کی ٹیم جرم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ واضح رہے کہ ڈپلومیٹک سائیفر سے متعلق عمران خان کی پہلی آڈیو 28 ستمبر کو منظر عام پر آئی تھی ۔ ڈپلومیٹک سائیفر سے متعلق عمران خان کی دوسری آڈیو 30 ستمبر کو منظر عام پر آئی ۔ آڈیو لیکس میں عمران خان، اعظم خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر سائفر تبدیل کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں۔
وسط ایشیائی ریاست کرغزستان میں سیاسی بحران اوررواں ماہ ہونے والے ہلاکت خیز نسلی فسادات کے باوجود اتوار کو آئین میں تبدیلی کے لیے ریفرنڈم میں بظاہر بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ اس ریفرنڈم کا مقصد آئین میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے لوگوں کی حمایت حاصل کرنا ہے تاکہ صدارتی اختیارات کو ایک منتخب پارلیمان کو منتقل کیا جائے۔ اس عمل سے ملک میں اکتوبر میں عام انتخابات کے لیے راہ ہموار ہو گی اور کرغزستان کی عبوری حکومت کو بین الاقوامی برادری کی سفارتی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ اِس موقع پر دارالحکومت بشکک، جنوبی شہر اوش اور جلال آباد میں سخت حفاظتی اقداما ت کیے گئے جہاں کرغز اور اقلیتی اُزبک برادری کے درمیان 10 جون کو شروع ہونے والے نسلی فسادات میں حکام کے مطابق 275 افرا د ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم کچھ حکام کے خیال میں مرنے والوں کی تعداد کم از کم دو ہزار ہے۔ ُ ملک کی خاتون عبُوری سربراہ روزا اُتانبائیوا نے تشدد کے حالیہ واقعات کے پیشِ نظر ریفرنڈم ملتوی کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ اُنھوں نے 7 اپریل کو ایک خونریز بغاوت کے ذریعے صدر کُرمان بک بکایف کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا تھا۔ معزول صدر اِن دنوں بِلا روس میں مقیم ہیں۔ مس اُتانبائیوا نے جنوبی شہر اوش کی یونیورسٹی میں جا کر اپنا ووٹ ڈالا۔ روس اور امریکہ نے ریفرنڈم کی حمایت کی ہے جس کے حتمی نتائج پیر کو متوقع ہیں۔ ریفرنڈم کے تحت اُتانبائیوا 2011 تک ملک کی عبوری صدر ہو نگی، عام انتخابات ہر پانچ سال بعد منعقد کیے جائیں گے اور ملک کے صدر کے عہدے کی مدت چھ سال رکھی گئی ہے۔ عُبوری کرغز حکومت نے سابق صدر پر ملک میں نسلی فسادات کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے کیونکہ اوش اور جلال آباد شہر اُن کے مضبوط گڑھ مانے جاتے ہیں۔ نیویارک میں قائم بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ریفرنڈم کرانے کا حکومت کا فیصلہ ملک میں مزید نسلی فسادات کا باعث بن سکتا ہے۔ تنظیم نے کرغزستان میں ہونے والے اُزبک کرغز فسادات کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ یہ قتل وغارت ایک انتہائی منظم انداز سے کی گئی۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اقلیتی اُزبک برادری کی اکثریت نے ریفرنڈم پر عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عبُوری حکومت کی سربراہی میں منعقد ہونے والا یہ عمل شفاف اور غیرجانبدار ہوگا۔
اسلام آباد : اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہبازشریف کی میڈیکل رپورٹ میں بلڈکینسرکی علامات ظاہر ہونے کا انکشاف ہوا، ڈاکٹروں نے شہبازشریف کا فوری سی ٹی اسکین کرانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولی کلینک اسپتال کے 3رکنی بورڈ نے شہبازشریف کا طبی معائنہ کیا، شہبازشریف کے خون کے تجزیہ کی رپورٹ میں بلڈکینسر کی علامات ظاہر ہونے کا انکشاف ہوا، گلے میں تکلیف پر ان کا معائنہ کرایا گیا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے شہبازشریف کا فوری سی ٹی اسکین کرانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ گذشتہ روز اپوزیشن لیڈرشہبازشریف کو پروازپی کے1852کےذریعے لاہور سے اسلام آباد لایا گیا، ایئرپورٹ سے منسٹرز انکلیو منتقل کیا گیا ،شہبازشریف کو لینے کے لئے نیب راولپنڈی کی 5رکنی ٹیم اسلام آباد ایئرپورٹ پر موجود تھی، نیب ٹیم کی سربراہی ڈپٹی ڈائریکٹرنیب اسد مسعود جنجوعہ کررہے ہیں۔ مزید پڑھیں : شہباز شریف منسٹرز انکلیو پہنچ گئے، میڈیکل بورڈ بھی روانہ انتظامیہ نےپہلےہی شہباز شریف کی سرکاری رہائشگاہ سب جیل قرار دےرکھی ہے۔ شہباز شریف کےطبی معائنے کے لئے تین رکنی میڈیکل بورڈ پولی کلینک اسپتال کے ڈاکٹرز پر مشتمل ہے، کنسلٹنٹ فزیشن ڈاکٹر آصف عرفان میڈیکل بورڈ کے سربراہ ہیں، کارڈک فزیشن ڈاکٹر حامد، نیب کے ڈاکٹر امتیاز بورڈ کا حصہ ہیں، خصوصی میڈیکل بورڈ نیب کی درخواست پرتشکیل دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ شہباز شریف کو قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد لایا گیا ہے، گزشتہ اجلاس میں شرکت کے وقت بھی نیب کی درخواست پر میڈیکل بورڈ ترتیب دیا گیا تھا۔ یاد رہے 5 نومبر کو ہونے والے معائنے میں میڈیکل بورڈ نے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہبازشریف کو میڈیکلی فٹ قرار دیا تھا اور میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ نیب کو فراہم کر دیا تھا۔
حضرت شاہ رکن الدینابو الفتح ملتانی (1251-1335) کو شیخ نظام الدین اولیاء سے بہت محبت تھی اور آپ اپنی حیات میں پانچ بار دہلی تشریف لے گئے. ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنے خانقاہ کی عمارت تعمیر کروا رہے تھے کہ اچانک شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی کی آمد آمد کا شور بلند ہوا، آپ نے اسی وقت کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے دوست احباب کو جمع کرلیا، اتنے میں شیخ رکن الدین پالکی میں سوار ہوکر آپ کے ہاں تشریف لے آئے____(بوقت ملاقات بھی) غالباً وہ مرض اور خاص عذر کی بناء پر پالکی ہی میں بیٹھے رہے، خواجہ نظام الدین اولیاء اور آپ کے دیگر تمام ساتھی بھی پالکی کے اردگرد بیٹھ گئے باتیں ہو نے لگیں اور مجلس خوب گرم تھی کہ اتنے میں شیخ رکن الدین ابوالفتح کے چھوٹے بھائی شیخ عمادالدین اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آج بزرگوں کا اجتماع ہے، بہترین موقع ہے لہٰذا اس کو غنیمت تصور کرتے ہوئے آپ حضرات سے کچھ استفادہ کرنا چاہتا ہوں، سوگزارش یہ ہے کہ عرصہ دراز سے میرے دل کے اندر ایک شبہ ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے میں راز کیا تھا ؟ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس میں غالباً یہ حکمت ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ کمالات و درجات جو ابھی تک مقدر اور پوشیدہ تھے ان کی تکمیل ہجرت مدینہ پر موقوف تھی یعنی عملی طور پر اصحاب صفہ پر فیضان ظاہر کرنا مقصود ہوگا____اس کے بعد خواجہ نطام الدین نے اپنے حلقہ بگوش لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ فقیر کے خیال میں ہجرت کا راز یہ ہے کہ مدینہ کے وہ فقراء جو مکہ میں آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کرسکتے تھے ان کو اس نعمت عظمیٰ سے مشرف کرنا مقصود تھا غرض یہ کہ ہر دو بزرگوں کے بیان کا مقصد ایک دوسرے کی عظمت کا اعتراف اور خاطر و تواضع تھی، شیخ رکن الدین کا مطلب یہ تھا کہ ہماری آمد کا مقصد طلب کمال اور حصول فائدہ ہے اور حضرت سلطان جی کا مطلب تکمیل اور فائدہ رسانی تھی، یہ واقعہ سیرالاولیاء میں بھی لکھا ہے۔ شیخ عبد الحق لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال جو اصحاب صفہ پر موقوف تھا وہ ارشاد و تکمیل ہی تھا جو موجب ثواب اور باعث عالی درجات تھا ان کا اپنا ذاتی کوئی کمال نہ تھا، غرض یہ کہ مطلب دونوں بزرگوں کی باتوں کا ایک ہی ہے۔ واللہ اعلم اس کے بعد کھانا لایا گیا، کھانے سے فراغت کے بعد محبوب سبحانی نے چند عمدہ قسم کے کپڑوں کے ساتھ سو اشرفیاں ایک ایسے باریک کپڑے میں جس میں سے اشرفیوں کا رنگ باہر سے چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا باندھ کر شیخ رکن الدین کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں، شیخ رکن الدین نے اس تحفہ کو دیکھ کر فرمایا کہ استٌر ذھبک ( اپنے سونے کو ڈھک لو) محبوب سبحانی نے جواب میں فرمایا ذھابک مزھبک (سونا میرا مذہب ہے) یعنی مال و زر باعث ستر مذہب ہے اور گودڑی درویش کا حال ہے تاکہ وہ (ان دونوں کے ذریعہ) عوام سے پوشیدہ رہ سکے۔ (اس کے بھی) شیخ رکن الدین نے تحفہ قبول کرنے سے پس و پیش کیا تو شیخ نظام الدین اولیاء نے ان کے بھائی شیخ عماد الدین اسماعیل کے حوالہ کردیا۔ اتفاق سے جب محبوب الٰہی بیمار پڑ گئے تو عیادت کے لیے شیخ رکن الدین آپ کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا کہ ہر شخص حج کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش اور سعی کرتا ہے اور یہ عشرہ ذی الحجہ ہے میں سعی کرکے شیخ المشائخ کی زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہوا، شیخ نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد آپ کی نماز جنازہ بھی شیخ رکن الدین ابو الفتح ملتانی نے پڑھائی، بعدہٗ فرمایا کہ تین سال تک ہم کو دہلی میں رکھنے کا راز یہی تھا کہ ہم کو یہ سعادت حاصل کرنی تھی اس کے تھوڑے عرصہ بعد شیخ رکن الدین ابوالفتح اپنے اصلی وطن (ملتان) واپس ہوگئے رحمتہ اللہ علیہم اجمعین اخبار الاخیار و سیر الاولیاء وغیرہ Share on Facebook Tweet Follow us Share this Post on : ← Barkatullah Bhopali, who formed the ‘Government of India in Exile’ with Raja Mahendra Pratap, as its President and himself as the Prime Minister. حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی, حضرت مولانا فخرالدین چشتی دہلوی اور حضرت مرزا جان جاناں رحمة اللہ علیہم اجمعین کا ایک دلچسپ واقعہ → Khalid Bin Umar Khalid Bin Umar is a history buff, a voracious reader of history and literature with an interest in heritage, Sufism and biographies. Endowed with command over languages he loves to explore and write primarily on the micro historical accounts.
لوقا 11 باب 9 آیت: ” پس میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا "۔ آج کا کلام خدا سے دعا کے بارے میں ہے. آج کی اس آیت میں دعا کے تین مضامین نظر آتے ہیں: مانگو، ڈھونڈو اور کھٹکھٹاؤ۔ مانگو پاک کلام کی اس آیت میں خدا کہتا ہے کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا. جب تک ہم خدا سے نہیں مانگیں گیں تو ہم کیسے پائیں گیں. بعض اوقات ہم خدا سے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ چیز نہیں یا ہمارے پاس اچھا گھر نہیں ہے. مسیحی پیارو شکایت کرنے سے بہتر ہے کہ خدا سے دعا کرو اُس سے مانگو کیونکہ اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپکو دے گا. پاک کلام میں ایک جگہ لکھا ہے کہ تو منہ کھول کر مانگ تو میں تیرا منہ برکتوں سے بھردوں گا. اپنے خدا سے مانگیں وہ آپکو برکتوں سے بھر دے گا یہ اُسکا وعدہ ہے۔ ڈھوںڈو پاک کلام میں لکھا ہے ڈھونڈو گے تو پاؤ گے. بے شک خدا ہر جگہ موجود ہے پھر بھی ہم دنیاوی رنگ و رونق میں اس سے بہت دور ہو جاتے ہیں. خدا کی شفقت و رحمت کے بغیر ہماری زندگی بے رنگ ہے. ہمیں اسے ڈھونڈنا ہے تاکہ ہم اسے اور اسکی رحمتوں کو پا سکیں۔ کھٹکھٹاؤ اس آیت میں لکھا ہے کھٹکھٹاؤ گے تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا. بعض اوقات ہم مانگے بغیر یا کھٹکھٹائے بغیر یہ بول دیتے ہیں کہ خدا سنتا نہیں ہے. میرے پیارے عزیزو خدا سے مانگ کر تو دیکھو اور اس کہ در پر ایمان سے کھٹکھٹا کر تو دیکھو وہ جلالی خدا تمہیں اپنی برکتوں سے مالا مال کر دے گا کیوںکہ یہ خدا کا اپنے مانگنے والوں سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیں دے گا. لہٰذا دعا کریں اور اسکی برکتوں سے مالا مال ہوں. مایوسی اور ناشکری سے پرہیز کریں خدا انکو بلکل نا پسند کرتا ہے جو ناشکری کرتے ہیں. آمین!
میٹا کی ملکیت والا میسجنگ پلیٹ فارم واٹس ایپ ایک نئے فیچر، میسج ری ایکشن پر کام کر رہا ہے اور WABetainfo نے اب اطلاع دی ہے کہ اس فیچر میں کچھ اور بھی ہے۔ ری ایکشن بٹن کے ذریعے کسی میسج پر ری ایکٹ کرنے کے آپشن کے علاوہ، واٹس ایپ جلد ہی اس کے ساتھ ایک نیا اینیمیشن اثر متعارف کرائے گا۔ تاہم، یہ کوئی بہت اہم بات نہیں ہے، لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی اس فیچر کو جاری کرنے سے پہلے چھوٹی تفصیلات کو مدنظر رکھ رہی ہے۔ واٹس ایپ نیوز ٹریکر نے وضاحت کی کہ نیا فیچر ویڈیو کے ذریعے کیسے کام کرے گا لیکن ہم آپ کو اس سے لیے گئے اسکرین گریبس کے ذریعے دکھائیں گے۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، جب واٹس ایپ چیٹ میں کوئی پیغام منتخب ہوتا ہے تو متعدد ردعمل کے اختیارات کے ساتھ ایک ٹیب پاپ اپ ہوتا ہے۔ جب صارفین ان میں سے کسی ایک آپشن کو ٹیپ کریں گے تو ردعمل ایک اینیمیشن کی صورت میں بھیجا جائے گا۔ یہ فیچر اینڈرائیڈ اور آئی او ایس اور واٹس ایپ ویب ورژن دونوں پر واٹس ایپ بیٹا کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن : امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکا کے فوجی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تفصیلات کے مطابق پینٹاگون کے ڈائریکٹرآپریشنزپریس کرنل راب میننگ نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امریکا کا اہم اتحادی ہے۔ کرنل راب میننگ کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کے فوجی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، خطے میں پاکستان اورامریکا کے مشترکہ مفادات ہیں۔ پینٹاگون کے ڈائریکٹرآپریشنزپریس کا مزید کہنا تھا کہ پرامن اورمستحکم افغانستان کے لیے پاکستان کا کرداراہم ہے۔ پاکستان نے امریکا کے لیے کچھ نہیں کیا، امریکی صدر ٹرمپ کا الزام خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کی امداد اس لیے بند کی کیونکہ پاکستان نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا، امریکا نے پاکستان کو سالانہ 1.3 بلین ڈالر کی امداد دی۔ بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر کے غلط بیانات زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں، امریکی جنگ کا خمیازہ مالی ومعاشی عدم استحکام کی شکل میں بھگتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو تاریخی حقائق سے آگاہی درکار ہے، امریکی جنگ میں پہلے ہی کافی نقصان اُٹھا چکے ہیں، اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہوگا۔ یہ پڑھیں: ہم نے امداد دی، پاکستان نے دھوکا دیا، اب ایسا نہیں ہوگا: امریکی صدر کی ہرزہ سرائی یاد رہے کہ رواں سال کے شروع میں بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان امریکا کو ہمیشہ دھوکا دیتا آیا ہے، پاکستان نے امداد کے بدلے امریکا کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا، مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔
بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں پاکستان میں نومولود بچوں کی اموات کے لحاظ سے بدترین ملک ہے۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ غریب ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح میں کمی لانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ادارے کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور نے کہا ہے کہ اگرچہ دنیا میں گذشتہ 25 برس میں پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی موت کی تعداد میں پچاس فیصد کمی ہوئی ہے تاہم ایک ماہ سے کم عمر کے بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کہ یہ واضح ہے کہ ان ہلاکتوں میں سے اکثریت کو روکا جا سکتا تھا ہم دنیا کے غریب بچوں کی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پاکستان، افغانستان اور سنٹرل افریقن رپبلک وہ تین ممالک ہیں جہاں نوزائیدہ بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات سب سے کم ہیں جبکہ اس کے برعکس جاپان، سنگاپور اور آئس لینڈ میں پیدا ہونے والے بچے اس معاملے میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت پیدا ہونے والے 22 بچوں میں سے ایک پیدائش کے پہلے ہی ماہ میں ہلاک ہو جاتا ہے جبکہ سنٹرل افریقن رپبلک میں یہ شرح 24 میں ایک جبکہ افغانستان میں 25 میں ایک ہے۔ اس کے برعکس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جاپان میں ہر ایک ہزار ایک سو گیارہ، آئس لینڈ میں ہر ایک ہزار جبکہ سنگاپور میں ہر 909 میں سے ایک بچہ ہی ایک ماہ سے کم عمر میں موت کے منہ میں جاتا ہے۔ یونیسیف کی عہدیدار ولیبالڈ زیک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جاپان کے مقابلے میں پاکستان کو نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتوں کے معاملے میں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اہم چیز دیکھ بھال کا معیار ہے اور ایک اور چیز نجی شعبے میں ترقی کا ہونا اور نہ ہونا ہے۔ شہروں میں منتقلی کا رجحان ایک اور ایسا معاملہ ہے جو بہت چیلنجنگ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم جاپان کو دیکھیں تو حالات مختلف ہیں کیونکہ وہ زیادہ آمدن والا ملک ہے لیکن وہ زیادہ آمدن والے ممالک میں بھی بہت اوپر ہے اور میرے خیال میں اس کی وجہ سیاسی عزم اور تجربہ کار عملہ اور ڈاکٹر بھی ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غریب ممالک میں ماؤں کو چاہیے کہ وہ کچھ بنیادی اقدامات خود بھی کریں کیونکہ یہ بھی شرحِ اموات میں کمی لانے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ ولیبالڈ زیک نے کہا کہ مائیں ’نوزائیدہ بچوں کو گرم کپڑے میں لپیٹ کر رکھیں۔ اپنے جسم سے انھیں گرمائش دیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ انھیں اپنا دودھ پلائیں کیونکہ یہ بھی ان کی بقا کے لیے اہم ہے۔‘
Amso شمسی توانائی کمپنی ، لمیٹڈشمسی پینل تیار کرنے والا ادارہ ہے جو 12 سالوں میں تیار ہوا ہے۔ ہمارے پاس OEM اور ODM دونوں خدمات پر مکمل تجربات ہیں۔ پچھلے سالوں میں ، ہم نے بہت سارے برانڈز اور ٹیر ون مینوفیکچررز کے ساتھ سخت کارپوریشنز قائم کیں۔ ہم اپنے سرکاری برانڈ: آمسو شمسی لانے کے لئے باضابطہ طور پر 2017 میں قائم ہوئے تھے۔ ہماری فیکٹری خوبصورت ہانگ زی جھیل سے متصل ہے ، جو چین کے شہر جیانگ سو میں ہوائن میں ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں آمسو شمسی شمسی خلیوں اور شمسی پینل کی تیاری میں مہارت حاصل ہے جو ہماری 25 سال کی وارنٹی کی ضمانت ہے۔ ہمارے شمسی پینل کی پیداواری لائنیں 5BB اور 9BB سیریز ، 5W سے 600w تک وسیع پیمانے پر بجلی کی حد ہوتی ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق شمسی پینل کا نتیجہ اخذ کرتی ہیں ، شمسی پینل اور آدھے سیل شمسی پینل کو معیاری بناتے ہیں۔ سیل کے سائز کے تناظر میں ، ہم شمسی پینل کی تیاری میں تین اہم شمسی خلیوں کا اطلاق کرتے ہیں: M2 156.75 ملی میٹر ، G1 158.75 ملی میٹر ، اور M6 166 ملی میٹر۔ صارفین کے ون اسٹاپ شاپنگ کے تجربے کو پورا کرنے کے ل we ، ہم نے شمسی نظام کے اجزاء جیسے پی ڈبلیو ایم اور ایم پی پی ٹی کنٹرولر ، لیڈ ایسڈ ، جیل اور لیتھیم بیٹری ، آف گرڈ اور آن گرڈ انورٹر ، بڑھتے ہوئے کٹس کی فراہمی کے لئے مزید کاروبار تیار کیا ہے۔ دریں اثنا ، ہم پورے پیشہ ورانہ ڈیزائن اور گرڈ بندھے ہوئے اور آف گرڈ شمسی توانائی کے نظام کی خدمت تقسیم کرتے ہیں۔ عالمی منڈی کو تلاش کرنے کے ل we ، ہم نے قابلیت کی مختلف ضروریات جیسے سی ای ، ٹی یو وی ، سی کیو سی ، ایس جی ایس ، سی این اے ایس کو پورا کرنے کے لئے کچھ سرٹیفکیٹ حاصل کرلیے ہیں۔ ہم مادوں کے انتخاب کا ایک اعلی معیاری معیار رکھتے ہیں ، عالمی سطح پر جدید آلات متعارف کرواتے ہیں ، اور امسو شمسی سے ہر ایک مصنوعات کو اہل بناتے ہیں کو یقینی بنانے کے لئے کوالٹی کنٹرول سسٹم کو سختی سے انجام دیتے ہیں۔ ہماری سالانہ ماڈیولز کی گنجائش 1 0 0 میگاواٹ تک پہنچتی ہے۔ ہماری بڑی منڈیوں میں گھریلو ، جنوب مشرقی ایشیاء ، یورپ اور مشرق وسطی شامل ہیں۔ ہمارا وژن شمسی توانائی کے استعمال کو پھیلانا ہے اور اس قابل تجدید وسائل کے استعمال کو ممکن بنانا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ کاروباری تعاون کو باہمی فوائد لانا ہوں گے اور انہیں طویل مدتی تعاون کی تلاش کرنی چاہئے۔ آمسو شمسی خلوص دل سے آپ کی انکوائری تلاش کریں اور تکنیکی شمسی توانائی کے حل فراہم کرنے کے لئے تیار ہوں۔
لاہور: ٹی 20 ورلڈ کپ میں انٹرنینشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کے لئے قومی ٹیم کے باؤلر شاہین شاہ آفریدی اور آل راؤنڈر شاداب خان کو شارٹ لسٹ کرلیا گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے نو غیر معمولی کارکردگی دکھانے والوں کو ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔ شاداب میگا ٹورنامنٹ میں 10 وکٹوں کے ساتھ پاکستان کے شاہین کے ساتھ مشترکہ طور پر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں۔ آئی سی سی نے شاہین کی بھی تعریف کی جنہوں نے گھٹنے کی انجری سے صحت یاب ہونے کے بعد ٹورنامنٹ میں شاندار واپسی کی۔ شائقین آئی سی سی کی آفیشل ویب سائٹ پر فاتح کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ شاداب خان اور شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ دوسری ٹیموں میں سے بھارت کے ویرات کوہلی، سوریا کمار یادیو، انگلینڈ کے سیم کرن، انگلینڈ ہی کے کپتان جوز بٹلر اور انگلینڈ ہی کے الیکس ہیلز کا نام شامل ہے۔ دیگر شارٹ لسٹ کئے گئے کھلاڑیوں میں زمبابوے کے آل راؤنڈر سکندر رضا، سری لنکا کے وانندو ہاسارنگا کا نام بھی شامل ہے۔ Who does your vote go to? 🌟 #T20WorldCup pic.twitter.com/ZJaf7Iy7Mv — ESPNcricinfo (@ESPNcricinfo) November 11, 2022 کیٹاگری میں : تازہ ترین، کھیل Tagged ٹی 20 ورلڈ کپ: شاداب اور شاہین آفریدی پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کیلئے شارٹ لسٹ
لاڑکانہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ این آئی سی وی ڈی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا امراض قلب کا اسپتال ہے، ملک بھر میں ایسے دل کے اسپتال بنا سکتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے لاڑکانہ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) کا افتتاح کیا۔ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کے اندر 30 بیڈ سے 60 بیڈ تک کھول دیا، سندھ حکومت کا ایک اور کارنامہ ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ترقی کسی اور صوبے میں نہیں ہو رہی ہے، سندھ حکومت نے پورے ملک کو دکھایا ہم کر سکتے ہیں۔ این آئی سی وی ڈی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا امراض قلب کا اسپتال ہے، پنجاب، بلوچستان کے عوام یہاں دل کا علاج کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ میں صحت کے سیکٹر میں بڑا کام کیا، پیپلز پارٹی نے مختلف شہروں اور علاقوں میں اسپتال کھولے۔ وزیر اعلیٰ سے درخواست ہے ہر صوبے کے ہیلتھ منسٹر کو خط بھیجیں، ہم دیگر صوبوں کو تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔ بلاول کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں ایسے دل کے اسپتال بنا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہر چیلنج کے سامنے ڈٹ جاتی ہے، ماضی میں پیپلز پارٹی کو کئی مرتبہ چیلنج کیا گیا ہے۔ امریکا میں بھی جس ریاست میں کیس ہوتا ہے وہیں اس کی سماعت ہوتی ہے، عجیب قانون بنایا جا رہا ہے بھٹو کے خلاف ہمیشہ کیس پنڈی میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی احتجاج بھی جمہوری حدود میں رہ کر کرے گی، 10 سال ہوگئے ہیں ہم نے کوئی خاص احتجاج نہیں کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اویس مظفر سے میرا ایک دو سال سے کوئی رابطہ نہیں ہے، پہٹرول قیمتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اویس مظفر کی جھوٹی خبر چلائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے ملک بھر میں کام کیا۔ معاشی استحکام پیدا نہیں کریں گے تو ہمیشہ بھیک مانگنا پڑے گی۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ابھی کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔
عزیز مہمانوں ، ہم پیش کرتے ہیں ایک ویڈیو چیٹ کر سکتے ہیں کہ اجنبیوں کے ساتھ چیٹ کریںاس سائٹ پر آپ کو مل جائے گا سب سے زیادہ مقبول ویڈیو چیٹ سے یوکرین ، روس ، امریکہ ، جرمنی ، فرانس اور دیگر ممالک. صرف منتخب کریں آپ کی مطلوبہ ویڈیو چیٹ اور بات یہاں. چیٹ فہرست ہے ہمیشہ اپ ڈیٹ تازہ ترین خبروں کے ساتھ. یہاں آپ کو ہمیشہ ایک اچھا تلاش ویڈیو چیٹ اور ویڈیو چیٹ کے تجربے ، کیونکہ یہاں تمام ویڈیو چیٹ ہے کہ آپ استعمال کر سکتے ہیں مفت کے لئے. سبسکرائب کرنے کے لئے جانے کے ٹویٹر حاصل کرنے کے لئے کے بارے میں خبر نئی چیٹ. سب سے پہلے ، یہ ایک راستہ تلاش کرنے کے لئے نئے تعلقات ، دوستی اور یہاں تک کہ سے محبت کرتا ہوں. اگر آپ کے پاس ہے سب کچھ آپ کی ضرورت ہے کے لئے انٹرایکٹو آن لائن مواصلات ، یہ بہت اپنی زندگی کو بہتر بنانے. سادہ ٹیکسٹ چیٹ کی ایک بڑی تعداد ہے واضح خرابیوں. دیکھنے میں ایک دوست کے ساتھ ایک ویڈیو چیٹ جو ایک دوست ہے ، میں حصہ لینے ، ایک حقیقی بات چیت. سب کے بعد ، اس کے لئے بہترین طریقہ ہے کے ساتھ بات چیت کسی اور دنیا کا اختتام ایک مسئلہ نہیں ہے. بے ترتیب آن لائن ویڈیو چیٹ کے ساتھ بات چیت ایک نامعلوم شخص دنیا میں کہیں سے. آپ منتخب کر سکتے ہیں کچھ ترجیحات, لیکن آپ اب بھی نہیں جانتے جو دوسرے شخص ہو جائے گا. سب سے زیادہ ویڈیو چیٹ کر رہے ہیں مفت, لہذا آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں پیسے کے بارے میں. صرف ایک بات چیت شروع کی باری پر کیمرے ، اور بات کے طور پر زیادہ سے زیادہ آپ چاہتے ہیں کے طور. کسی بھی ویڈیو چیٹ کی ویب سائٹ میں اصل وقت ملنہ کے لئے ہمیشہ کھلا ہے آپ کو ہماری ویب سائٹ پر ، ہم نے جمع کیا ہے تقریبا تمام بہترین فاسٹ ویڈیو ملنہ خدمات. کا نام کیا ہے جس کے نتیجے میں تقریر ، کیونکہ آپ کو سیکھنے شروع کر سکتے ہیں بہت تیزی سے. میں ایک ویڈیو چیٹ, آپ کو پورا کر سکتے ہیں کی طرف سے ایک شخص کی کم از کم تعداد لائنوں. اس طرح کے اجلاسوں میں عام طور پر آخر میں کے ساتھ ایک تبادلے کے رابطے کی معلومات فون نمبر, لنکس کی وجہ سے سوشل میڈیا پروفائلز ، ایک حقیقی اجلاس میں ممکن ہے. تو ، ہو رہی ہے جاننے کے لئے ویڈیو چیٹ تبدیل کر سکتے ہیں ، آپ کی ذاتی زندگی. اور ذہن میں رکھیں کہ ویڈیو چیٹ میں مواصلات کے ساتھ عمل کرنا ہوگا مخصوص آداب. جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں, ٹھیک ہے, کی کوشش کرنے کے لئے اچھا نظر آئے. کرنے کی کوشش کریں مسکراہٹ اور استقبال کریں گے, اس میں آپ کی مدد کا بہترین طریقہ تلاش کرنے کے لئے خوش تک آپ مذاکرات اور ہر کسی کو. لیکن میں چیٹ رومز, آپ کو پورا کر سکتے ہیں کرنا چاہتے ہیں جو لوگوں کے لئے آپ کو پریشان. اس طرح کے معاملات میں ، کچھ ویڈیو چیٹ ہے بھیجنے کے لئے کی صلاحیت کی طرف سے شکایات اس طرح صارفین کو. آپ کو یاد کرے گا, میں کسی بھی رولیٹی بات چیت, آپ دیکھیں گے آپ کے ساتھی فوری طور پر منسلک کرنے کے بعد. آپ کی ضرورت نہیں نہیں غلط استعمال کا استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کو اور زیادہ دکھا کے لوگ کیا چاہتے ہیں کو دیکھنے کے لئے مجھے امید ہے کہ آپ ہم کیا مطلب سمجھنے کے. لہذا ، اس کی سختی سے سفارش کرنے کے لئے شروع واضح مقصد ہے جس کے لئے شریک حیات کے لئے لگ رہا ہے کے بارے میں معلومات. ویڈیو چیٹ رولیٹی ایک مجازی چیٹ جو سب کے لئے Gratis sejarah Dengan Taizhou بہترین ویڈیو ملنہ چیٹ رولیٹی آن لائن سے آپ کے فون کے لئے مفت رولیٹی چیٹ مفت بات چیت کے بغیر ویڈیو ملنہ مفت کے لئے رجسٹریشن کے بغیر تصاویر کے ساتھ ویڈیوز آن لائن بات چیت مفت آن لائن متن مفت رولیٹی آن لائن شہوانی ، شہوت انگیز ویڈیو چیٹ کے لئے دو چیٹ متن کے علاوہ ویڈیو چیٹ سال کے
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کو لندن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان نے گھیر لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ لندن میں موجود وفاقی وزیر مریم اورنگزیب ماربل آرچ پر ایک کافی شاپ میں کافی لینے کے لیے رکی تھیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کے مرد اور خواتین نے مریم اورنگزیب کو گھیر لیا اور اُن پر پاکستان کے عوام کا پیسہ لندن میں لٹانے کا الزام لگایا۔ پی ٹی آئی کی خواتین نے کافی شاپ میں کھڑی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پر غلیظ الزامات لگائے۔ پی ٹی آئی خواتین نے مریم اورنگزیب کو چور قرار دیا اور دعویٰ سے کہا کہ وہ پاکستان کے عوام کا پیسہ لندن میں لٹا رہی ہے۔
کراچی: شارع فیصل، کارساز کے مقام پر تیز رفتار گاڑی الٹنے سے 2 دوست جاں بحق اور تیسرا زخمی ہوگیا۔ مرنے والوں میں شامل فرقان والدین کی اکلوتی اولاد اور ایک بچے کا باپ تھا ۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اہل کار موقع پر پہنچے اور لاشوں و زخمی کو اسپتال منتقل کیا۔ جاں بحق نوجوانوں کی شناخت 20 سالہ فرقان ولد حیدر اور 25 سالہ باسم شیخ کے نام سے کی گئی جب کہ زخمی عباد اسپتال میں زیر علاج ہے۔ متوفی فرقان کے ماموں فہیم نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ، اپنے والدین کی اکلوتی اولاد اور نجی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کررہا تھا۔ فرقان کے دوست کلفٹن کے علاقے سی ویو کے قریب فلیٹ سے اُسے لینے آئے تھے۔ دوسری جانب متوفی باسم شیخ کے ورثا نے بات چیت کرنے سے انکار کردیا۔ پولیس کے مطابق گاڑی حادثے کے نتیجے میں مکمل تباہ ہو گئی، جسے لفٹر کے ذریعے تھانے منتقل کرے تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔ دوسری جانب نارتھ کراچی میں گھر کے اندر سے خاتون کی لاش ملی۔سسرالیوں نے دعویٰ کیا کہ خاتون نے جراثیم کش دوا پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ پولیس نے خاتون کے اہل خانہ کی پنجاب سے کراچی آمد تک لاش سرد خانے میں رکھوادی ۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب سرسید ٹاؤن کے علاقے میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سسرالیوں نے بتایا کہ مرنے والی خاتون حمیرا زوجہ ندیم، عمر تقریباً 35 برس نے شوہر سے جھگڑے کے بعد جراثیم کش دوا پی کر زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔شوہر ندیم اور اس کے گھر والوں کے بیانات تبدیل ہونے پر اسپتال حکام نے پولیس کو اطلاع کی۔ پولیس کے مطابق خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ ان کا اور اس کی اہلیہ کا آبائی تعلق پنجاب سے ہے ، وہ لوگ کچھ عرصہ قبل ہی کراچی منتقل ہوئے ۔رات ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا جس کے بعد دل برداشتہ ہوکر حمیرا نے گھر میں رکھی جراثیم کش دوا پی لی اور اس کی حالت غیر ہوگئی اور اسپتال پہنچنے سے قبل دم توڑ گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حمیرا کے والدین کی کراچی آمد کے بعد ان کی مشاورت سے پوسٹ مارٹم کیا جائے گا ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ہی موت کی اصل وجہ معلوم ہوسکے گی ۔ دریں اثنا ائرپورٹ اسٹار گیٹ کے قریب نوجوان نے تیز دھار آلے کے وار اپنا گلا کاٹ لیا جسے شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔پولیس کے مطابق 16 سالہ محمد سلمان اختر نے پہلے خود کو مارنا شروع کیا اور پھر تیز دھار آلے سے اپنا گلا کاٹ لیا، جس سے وہ لہولہان ہو کر سڑک پر گر گیا۔ فوری طور پر اقدام خودکشی کی وجہ کا تعین نہیں ہو سکا۔ اس کے قبضے سے ملنے والے شناختی کارڈ پر درج پتا تحصیل میران شاہ ضلع شمالی وزیرستان کا ہے۔ پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہے۔
اسلام آباد: اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کپاس کی درآمد پرعائد 3 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی، خام کپاس درآمد کرنے کی اجازت سے متعلقہ قوائد میں ترامیم کی بھی منظوری دے دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مشیر خزانہ ڈاکٹرعبد الحفیظ شیخ کی زیرصدارت ای سی سی کا اجلاس ہوا جس میں اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن نارتھ کے لیے 6 ارب 21 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ منظور کی گئی۔ اجلاس میں کمیونٹی بنکرز کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی گئی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارت تجارت کے دو کیسز کی منظوری دی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں طورخم بارڈر سے 15جنوری سے خام کپاس کی درآمد کی اجازت دے دی گئی، وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان سے خام کپاس درآمد کی جاسکے گی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کپاس کی درآمد پرعائد 3 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی، خام کپاس درآمد کرنے کی اجازت سے متعلقہ قوائد میں ترامیم کی بھی منظوری دے دی گئی۔ رواں سال کپاس کی پیداوار15ملین کے بجائے10.20 ملین گانٹھیں رہیں گی۔ اجلاس میں پی پی ایل کنسورشیم کو ابوظبی میں ایک بلاک میں سرمایہ کاری کے لیے بولی کی اجازت دی گئی، پی پی ایل کنسورشیم اوجی ڈی سی ایل،ایم پی سی ایل اورجی ایچ پی ایل پر مشتمل ہے۔
ڈومیسٹک کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کے اعلان کے ساتھ ہی ڈومیسٹک سیزن 22-2021 کے لیے 191 کھلاڑیوں کے لیے ڈومیسٹک کنٹریکٹس کا اعلان کردیا ہے۔چیئرمین کے اعلان کے مطابق پی سی بی نے ڈومیسٹک کنٹریکٹ کی پانچ مختلف کٹیگریز میں شامل کھلاڑیوں کے ماہوار وظیفے میں ایک لاکھ روپے کا اضافہ کردیا ہے۔157 میچز پر مشتمل یہ سیزن 15 ستمبر سے 30 مارچ تک جاری رہے گا۔ پیر کوکیے گئے اعلان کے بعد اے پلس کٹیگری میں شامل 10 کھلاڑیوں کی ماہوار تنخواہ اب اڑھائی لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ اے کٹیگری میں شامل 40 کھلاڑی اب ماہوار ایک لاکھ 85 ہزار روپے ملیں گے۔ بی کٹیگری میں شامل 40 کھلاڑی اب ایک لاکھ 75 ہزار روپے ، سی کٹیگری میں شامل 64 کھلاڑی اب 1لاکھ 65 ہزار روپے اور ڈی کٹیگری میں شامل 37 کھلاڑی اب ایک لاکھ 40 ہزار روپے ماہوار وصول کریں گے۔لہٰذا، اے پلس کٹیگری کے کرکٹرز اب سالانہ تقریباً پانچ ملین روپے تک کمائیں گے۔اور کٹیگری ڈی میں شامل کھلاڑی 3.75 ملین روپے کمار تک کمائیں گے ۔جن کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کنٹریکٹ کی پیشکش نہیں کی گئی ، وہ اپنی ایسوسی ایشن کے انتخاب کے لیے دستیاب رہیں گے اور وہ گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی میچ فیس ، ڈیلی الاؤنس اور انعامی رقم میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ اہلخانہ نہیں،کرکٹ کی فکر کریں چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے کہا کہ بہت ضروری ہےکہ ہم اپنے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو اچھی تنخواہ دیں تاکہ وہ اپنےکیرئیر اور اہلخانہ کی فکر کی بجائے تمام تر توجہ اپنی مہارت اور فٹنس میں بہتری لانے پر مرکوز کریں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا فرض ہے کہ وہ ملک کے کرکٹرز کی دیکھ بھال کرے اور وہ اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہے تھے۔رمیز راجہ کاکہنا ہے کہ کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ ہمارے ڈومیسٹک نظام کو مضبوط کرے گا۔ یہ ہمارے کرکٹرز کی فلاح و بہبود سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کا بھی باعث بنے گا پی سی بی نے 191 کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک سیزن 22-2021 کے لیے کنٹریکٹ پیش کیے ہیں، جس میں سی سی اے ٹو ڈے ٹورنامنٹس کے 20 کرکٹرز شامل ہیں۔ ان 20 کرکٹرز میں سے 11 کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں سے ہے کیونکہ پی سی بی نہ صرف ان علاقوں کے ٹیلنٹ کو آزمانے کے لیے پرعزم ہے بلکہ انہیں قومی فریم ورک میں شامل کرنے میں بھی مصروف ہے۔ کھلاڑیوں کی تفصیلات بلوچستان – عبدالحنان (قلعہ عبداللہ) ، آفتاب احمد (لورالائی) ، فہد حسین (جعفر آباد) ، محمد ادریس (کوئٹہ) ، محمد جاوید (پشین) ، ثناء اللہ (لورالائی) ، سید زین اللہ (پشین) اور طارق جمیل (لورالائی) سینٹرل پنجاب-حسیب الرحمن (لاہور) ، محمد عرفان جونیئر (شیخوپورہ) ، محمد طبریز (سیالکوٹ) اور محمد وحید (لاہور) خیبر پختونخوا – محمد ابراہیم (صوابی) ، وقار احمد (لوئر دیر) اور یاسر خان (بنوں) ناردرن – اسد رضا (فیصل آباد) سندھ – خزیمہ بن تنویر (کراچی) ، مشتاق احمد کلہوڑو (سکھر) اور جنید الیاس (کراچی) سدرن پنجاب – محمد شرون سراج (ساہیوال) عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے متعلق پالیسی کے تحت پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹر آف دی ایئر 2020 کا ایوارڈ حاصل کرنے والے کامران غلام اور آف اسپنر ساجد خان کو بالترتیب سی اور اے کٹیگری سے ترقی دے کر اے پلس کٹیگری میں شامل کرلیا ہے۔کامران غلام نےگزشتہ سیزن میں قائداعظم ٹرافی فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا 36 سالہ پرانا ریکارڈ توڑ ا تھا۔انہوں نے گزشتہ سیزن میں 1249 رنز بنائے تھے جبکہ آف اسپنر ساجد خان ایونٹ کے سب سے کامیاب باؤلر قرار پائے تھے۔ انہوں نے 67 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ Continue Reading پاکستان ڈومیسٹک کرکٹپلیئرز کنٹریکٹسپی سی بیکرکٹ سیزن 2021-22کرکٹ کی بریکنگ نیوزکرکٹ کی تازہ ترین خبریں
بیریاں قدرت کا بہترین خزانہ ہیں اور ان میں بلیو بیری کسی نعمت سے کم نہیں۔ جس طرح سیب ہمیں بیماریوں سے بچاتے ہیں عین اسی طرح بلیو بیری ہمیں کئی امراض سے دور رکھتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم امراضِ قلب ہیں جو برق رفتاری سے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ لوگ بلیو بیری کو دلیے میں ملاکر کھاتے ہیں اور دہی میں ڈبو کر نوش کرتے ہیں۔ لیکن اسے عام بیری کی طرح بھی کھایا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹی آف سرے نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ بلیو بیری کا باقاعدہ استعمال بلڈ پریشر کےلیے مفید ہے اور امراضِ قلب کو دور کرتا ہے۔ پاکستان کی طرح دنیا بھر میں امراضِ قلب کی شرح بہت تیزی سے بلند ہورہی ہےاور بلیو بیری اس کیفیت کو دور کرتی ہے۔ بلیو بیری میں اینتھوسائنائن کی بھرمار ہوتی ہے جو سرخ، جامنی اور بلیو بیریوں میں عام پائے جاتے ہیں۔ اینتھوسائنائن ایک جادوئی غذائی جزو ہے جو دل کی بھرپور حفاظت کرتا ہے۔ دوسری جانب جرنل آف گیرنٹولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلیو بیری میں موجود اجزا شریانوں اور خون کی رگوں کو منظم رکھتے ہیں۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بلیوبیری کھانے سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے۔ اگر بلیوبیری کا شربت بنا کر پیا جائے تو اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے خون کی شریانیں کھلتی ہیں اور پورے نظام کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس طرح دل اور دیگر اعضا تک خون کا بہائو بہتر ہوتا ہے۔ ایک اور ماہر رونالڈ سمتھ کہتے ہیں کہ بلیوبیری میں کئی اقسام کے بہترین اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں۔ یہ سرطان کا خطرہ کم کرتے ہیں، ان سے بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور اندرونی جسمانی سوزش کم ہوجاتی ہے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف آج 3روزہ سرکاری دورے پر ترکی روانہ ہوں گے، ترک صدررجب طیب اردوان سے ملاقات میں دوطرفہ... ویب ڈیسک شائع 31 مئ 2022 09:49am پاکستان Facebook Twitter Whatsapp Comments اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف آج 3روزہ سرکاری دورے پر ترکی روانہ ہوں گے، ترک صدررجب طیب اردوان سے ملاقات میں دوطرفہ تعلقات سمیت دیگر امورپر تبادلہ خیال ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف آج ترکی کے 3روزہ دورے پر روانہ ہورہے ہیں، وفاقی وزراء، معاون خصوصی اوراعلیٰ سطح وفد بھی ان کے ہمراہ ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف صدررجب طب اردوان سے ملاقات کریں گے جس میں دوطرفہ تعلقات سمیت علاقائی اورعالمی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ون آن ون ملاقات کے بعد وفود کی سطح پربات چیت بھی ہوگی، وزیراعظم شہبازشریف کے اعزاز میں ترک صدر عشائیہ بھی دیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے ترک وزرائے خارجہ ، تجارت اورصحت بھی الگ الگ ملاقات کریں گے جبکہ وزیراعظم معروف ترک کمپنیوں کے سربراہ سے بھی ملاقات کریں گے۔ دوسری جانب وزیرخارجہ بلاول بھٹوزرداری پہلے ہی ترکی میں موجود ہیں، انقرہ پہنچنے پر گورنر واصب شاہین نےایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔
پرسیفون رضوی ایک پارٹی گرل تھی۔ ان کے ویک اینڈ کلبوں میں پارٹی کرتے گزرتے تھے۔ لیکن وہ اس زندگی سے خوش نہیں تھی۔ بی بی سی تھری کی ڈاکومینٹری میں وہ بتاتی ہیں کہ کیسے قبولِ اسلام نے ان کو ایک نئی اور بامقصد زندگی عطا کی ہے۔ جب میں نوجوان تھی تو میں ایک بہت لاپرواہ اور بے ہنگم انسان تھی۔اختتام ہفتہ بس پارٹی ہوتی تھی۔ دن اس میں گزر جاتے تھے کہ کلب میں گھسنے کے لیے کس کی شناخت استعمال کرنی ہے، کونسا لباس زیب تن کرتا ہے۔ پھر پارٹی پر جانے سے پہلے شراب نوشی ۔ کلب میں پارٹی صبح چار پانچ بجے تک چلتی۔ جب وہاں سے نکالا جاتا تو کسی کے گھر میں جا کر پارٹی ہوتی۔ رات بھر پارٹی کرنے کے بعد اگلے روز سو کر اٹھتی تو سر درد ہو رہا ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے میری کئی بار لڑکیوں سے لڑائی ہوئی اور مجھ پر جلتے ہوئے سگریٹ بھی پھینکے گئے۔ لیکن جب یہ سب کچھ حد سے بڑھ گیا تو پھر اسے رکنا ہی تھا۔میں ایسے حالات سے گزر رہی تھی جو جذباتی طور پر بہت تھکا دینے والے تھے۔ میں ان حالات سے فرار کے لیے شراب کا سہارا لے رہی تھی۔میری زندگی بے مقصد تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ پھر میں مسلمان ہو گئی۔ یونیورسٹی جانے سے ایک سال پہلے میں نے ایک کال سنٹر میں نوکری کی۔ وہاں میری ایک مسلمان سہیلی تھی جس کا نام حلیمہ تھا۔ میں نے حلیمہ کے ساتھ پہلی بار روزہ رکھا۔ یہ مذہب اسلام سے میری پہلی مڈبھیڑ تھی۔جب میں نے پہلی بار روزہ رکھا تو میں اسلام قبول کرنے کے بارے نہیں سوچ رہی تھی ۔ روزہ تو میں نے خود کو چیلنج کرنے کے طور لیا تھا۔ میں نے سوچا روزے صرف 30 ہی تو ہیں، میں بھی روزہ رکھ سکتی ہوں۔جب میں نے روزے رکھنے شروع کیے تو میں اس وقت بھی شراب نوشی کر رہی تھی، پارٹیوں میں بھی جاتی تھی لیکن پھر مجھ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ پھر مجھ میں ایسے خیالات ابھرنے لگے، ’کہ میں اس سے بہتر ہوں‘ جو میں اب ہوں۔ ایک مہینے کے روزوں نے مجھے میں اخلاص اور تشکر کے جذبوں کو جنم دیا ۔ روزوں کے تجربے نے مجھے ذاتی تحفظ کا ایک ایسا پیکج فراہم کیا جس کی مجھے اشد ضرورت تھی۔یہ وہ موقع تھا جب میں اسلام کی طرف راغب ہوئی۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو ہم باقاعدگی سے سنڈے سکول جاتے تھے۔ میرے والدین اور میری بڑی بہن چاہتی تھیں کہ مجھے اپنے عقیدے کا پتہ ہو۔ میرے والد ایک سیاہ فام برطانوی شہری ہیں جو ہمیشہ چرچ جاتے تھے۔ میری والدہ چاہتی تھیں کہ مجھے اپنے عقیدے کے بارے میں معلومات ہوں لیکن انھوں نے مجھے کبھی مجبور نہیں کیا۔والدین کو ڈر تھا کہ ان کی بیٹی بدل جائے گی لیکن ان کی بیٹی پہلے سے زیادہ مؤدب اور ہمدرد ہو گئی ہے- یونیورسٹی کے پہلے سال میں اسلام کے بارے میں تحقیق کر رہی تھی اور میں سنجیدگی سے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب میں یونیورسٹی سے واپس سیلفورڈ میں اپنے والدین کے پاس آتی تھی تو وہ اسلام کے بارے میں میری دلچسپی سے لا علم تھے۔ میں نے اس کو تقریباً چھپائے رکھا اور پھر ایک روز سکارف پہنے گھر میں داخل ہوئی کہ میں اب مسلمان ہوں چکی ہوں۔میرے والدین حیران و پریشان ضرور تھے لیکن وہ ناراض نہیں تھے۔ انھوں نے میرے انتخاب کے بارے سوالات اٹھائے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں صحیح فیصلہ کروں۔میرے والد کا خیال تھا کہ میں بہت جذباتی ہو رہی ہوں۔ اور جب اب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں زیادہ معتدل نہیں تھی۔میں قرآنی احکامات کی صحیح تشریح کو سمجھے بغیر ہر چیز کتابی انداز میں کرنا چاہتی تھی۔ میں ہر چیز عقیدے کے مطابق کرنا چاہتی تھی۔اب مرد مجھے تنگ نہیں کرتے، میں حجاب پہنتی ہوں-میں نے ایسے لباس پھینک دیئے جنھیں میں اب نامناسب سمجھتی تھی۔ میں نے نقلی ناخن اتار پھینکے اور سوشل میڈیا پر اپنا نام تبدیل کر لیا۔ میں نے ایسی تمام تصاویر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیا جو میرے خیال میں نامناسب تھیں اور فیس بک کا نیا پیچ تیار کیا۔ میں نے سوچا کہ مغربی لباس حرام ہے۔ میں سوچتی تھی کہ میں ایسے لوگوں کے قریب نہیں رہ سکتی ہوں جو شراب نوشی کر رہے ہوں۔ میں نے ایسی جگہوں پر جانا ختم کر دیا جہاں مرد اور عورت دونوں ہوتے تھے۔اس وقت میں اپنے مذہبی رجحانات کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتی تھی اور کوئی مجھ سے اس بارے میں سوال کرتا تو میں مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔لیکن اب مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر کوئی دوست شراب نوشی کرنا چاہتا ہے تو میں اسے مسئلہ نہیں بناتی۔ مسلمان کیمونٹی میں ہر فرد کی اپنی رائے ہے اور ان کی اپنی حدود ہیں۔ لیکن جب بھی نیا سکارف پہنتی ہوں تو وہ ایسا ہوتا ہے جس سے میرا سینہ ڈھانپ جائے۔جب سے میں اپنا لباس تبدیل کیا ہے تو میں بڑی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہوں، مجھے کوئی نہیں روکتا۔ پہلے جب میں یونیورسٹی جا رہی ہوتی تھی مجھے دس منٹ کی واک کے دوران پانچ بار روکا جاتا تھا۔ اب مرد مجھے بالکل تنگ نہیں کرتے۔میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ میرے فیصلے غلط تھے لیکن فیصلے یقیناً اچانک تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے میں نے محسوس کیا کہ میں اپنی دنیا میں فٹ نہیں ہوں، میں سوچتی تھی کہ میں مسلمان ہوں اور ایک مخصوص قسم کا لائف سٹائل اپنانے کی کوشش کر رہی ہوں اور میرے دوست ایسا نہیں کر رہے تھے۔ میں ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی جب میں نے باقاعدہ طور پر اسلام قبول کیا۔ میں نے اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ میں ایک روز سیلفورڈ کی مسجد میں امام کے لیے کچھ سوالات لے کر گئی۔ امام نے میرے تمام سوالوں کے جواب دیئے اور کہا کہ جو میں پڑھ رہا ہوں، وہ تم بھی ادا کرو۔ جب میں نے ایسا کیا تو امام نے کہا :” مبارک ہو اب آپ مسلمان ہیں۔ میں بہت جذباتی ہو گئی، لیکن خوش تھی کہ آخر کار یہ ہو گیا۔ مسلمان کیمونٹی نے میرا خیر مقدم کیا۔ میں کچھ ایسے دوستوں سے ملی جو اب میرے زندگی بھر کے دوست ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ بہناپا (سسٹرہڈ) کیا ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بغیر کسی جھجک سے بات کر سکتے ہیں۔ مشکل وقت میں ہم ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے ہیں۔ میرے دوست میرے سب سے مضبوط سہارا ہیں۔ ہم نے یہ سیکھا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے گرد کون لوگ ہیں۔ میں نے ہمیشہ سب کچھ ٹھیک نہیں کیا۔ میں کئی بار واپس پرانے راستے پر چلی گئی۔ جب میری ذہنی صحت خراب ہوئی تو میں نے شراب نوشی بھی کی لیکن وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ایک لمبے عرصے سے میرے ساتھ یہ نہیں ہوا ہے۔ میرے پختہ عزم نے ہمیشہ واپس آنے میں مدد کی اور اب تو میں اس راستے پر چلنے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ہوں۔ ہر کام ٹھیک نہیں ہوتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اسلامی عقیدے سے مخلص نہیں ہوں۔ میرے والدین میرے بہت مددگار ہیں۔ انھوں نے کئی بار میرے ساتھ روزہ بھی رکھا ہے۔ ان کا واحد خدشہ یہ تھا کہ ان کی بیٹی شاید وہ نہ رہے جسے وہ جانتے تھے۔ لیکن اب وہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی وہی ہے، لیکن دوسرے روپ میں جو پہلے سے زیادہ مؤدب، پرسکون اور اپنے آپ پر مہربان اور اس حقیقت سے آگاہ کہ آپ کے اقدام سے آپ کے ارگرد کے لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں میری ماں میرے لیے ایسا لباس تیار کرنے کا چیلنج قبول کرتی ہے جو میرے لیے قابل قبول ہو۔ میری ماں میری پرسنل سٹائلسٹ ہے۔ میرے مسلمان دوستوں کو یقین نہیں آتا کہ میں اپنی ماں کی الماری سے ایسا لباس نکال کر پہن لیتی ہوں جو میرے لیے مناسب ہو۔ میں ہڈرزفیلڈ کے گرین پارک کو دوبارہ دیکھنے گئی ہوں جہاں میں نے بہت اچھا وقت اور کچھ بہت ہی برا وقت دیکھا ہے۔ جب میری ذہنی صحت کے مسائل عروج پر تھے تو میں نے اسی پارک میں اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ شراب کے نشے میں دھت ہو کر میں نے بہت ہی تاریک جگہوں کو دیکھا ہے۔ایک بار جب میں کچن کے فرش پر ننگے سوئے رہنے کے بعد جب اٹھی تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں شراب کے نشے میں بہت آگے چلی گئی تھی۔ یہ میرے لیے جنہم بن چکا تھا۔ میں اسی لیے کہتی ہوں کہ اسلام نے میری زندگی بچائی ہے۔ اب میں تاریک لمحات سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہوں۔ اگر میں مسلمان نہ ہوتی تو میں اس طرح اپنی ذہنی، جسمانی صحت کے مسائل پر قابو نہ پا سکتی۔ (بشکریہ ‘بی بی سی 19 نومبر 2021)
22 جولائی کو لاہور میں عظیم الشان عزاداری کانفرنس منعقد ہوگی، جبکہ شہید قائد کی برسی میں مثالی شرکت ہوگی  Print this page 22 جولائی کو لاہور میں عظیم الشان عزاداری کانفرنس منعقد ہوگی، جبکہ شہید قائد کی برسی میں مثالی شرکت ہوگی 15 جولائی 2022 وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کی ورکنگ کمیٹی کا لاہور کے چاروں اضلاع کےساتھ مشترکہ اجلاس صوبائی سیکریٹریٹ لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینٹرل پنجاب کے آرگنائزر ملک اقرار حسین ،آصف رضا ایڈوکیٹ ، علامہ حسن رضا ہمدانی، حسنین زیدی سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں اضلاع کی تنظیمی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالےسے فیصلہ جات کیئے گئے، 22 جولائی بروز جمعہ لاھور کی سطح پرعظیم الشان عزاداری کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ،جبکہ برسی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی پراسلام آباد اجتماع میں بھرپور شرکت کی جائے گی ۔
واشنگٹن: مخالفین پر تنقید اور اپنی کارکردگی کی تعریفوں میں بڑی بڑی باتوں کے لیے مشہور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط اور بے بنیاد دعووں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایک امریکی اخبار نے صدر ٹرمپ کے بڑے بڑے اور گمراہ کن دعووں پر رپورٹ جاری کر دی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ دعوے کرنے میں چھ سو ایک دن لگے، اس طرح انھوں نے ہر روز آٹھ جھوٹے دعوے کیے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی فیکٹ چیکر رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت کے آٹھ سو اٹھاسی دنوں میں دس ہزار ایک سو گیارہ ایسے دعوے کیے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں امیگریشن، میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے، امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات پر بیانات، امریکا کو تجارتی خسارے، امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس کٹوتیوں کا قانون بنانے اور امریکیوں کے لیے ملازمتوں میں اضافے جیسے دعوے شامل ہیں۔ اپنے دور صدارت کے پہلے سو دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اوسطاً روزانہ پانچ سے کچھ کم جھوٹے دعوے کیے، اس حساب سے انھیں اپنے چار سال مکمل ہونے تک سات ہزار اس قسم کے دعوے مکمل کرنے تھے مگر انھوں نے تو چار سال مکمل ہونے سے تقریباً پونے دوسال قبل ہی (828دنوں میں) دس ہزار 111دعوے کرڈالے۔ ان دعووں کی بڑھتی تعداد کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے 25اپریل کو امریکا کے ٹی وی کے سین ہنیٹی کے ساتھ 45 منٹ کے انٹرویو کے دوران پینتالیس دعوے کرڈالے، جبکہ اگلے روز دیگر صحافیوں سے آٹھ منٹ گفتگو کی اور آٹھ وہاں بھی کرڈالے۔
ترکی کی ایک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کرونا وائرس کا ایسا فوری ٹیسٹ تیار کر لیا ہے کہ جو 99 فیصد درست نتائج دیتا ہے، وہ بھی صرف 10 سیکنڈز میں۔ بلقند یونیورسٹی کی تیار کی گئی Diagnovir ڈائیگنوسٹک کِٹ کسی بھی شخص میں کووِڈ-19 کا سراغ لگانے کے لیے نینو ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہے۔ اس میں سب سے پہلے مریض کے منہ سے نمونہ حاصل کیا جاتا ہے، ناک میں نہیں جیسا کہ ابھی عام طور پر رائج ٹیسٹ میں کیا جاتا ہے۔ پھر اس نمونے کو ایک محلول میں شامل کر کے اس میں ایک پیتھوجن ڈٹیکشن چِپ ڈالی جاتی ہے۔ نیشنل نینوٹیکنالوجی ریسرچ سینٹر (UNAM) کے محقق علی ایتاج سیمان نے کہا کہ پوری نینو چپ پوری درستگی کے ساتھ پیتھوجنز کی موجودگی کا پتہ چلاتی ہے۔ "بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے پولیمریز چین ری ایکشن (PCR) ٹیسٹ کے برعکس کہ جس میں نمونے میں جینیاتی مواد تلاش کیا جاتا ہے، Diagnovir جدید آپٹیکل طریقوں کا استعمال کر کے وائرس کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتہ چلاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مریض کو پانچ سے 10 سیکنڈز میں مثبت نتیجہ مل جاتا ہے البتہ اگر نتیجہ منفی ہو تو اس میں 20 سیکنڈز تک لگ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس PCR ٹیسٹ میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ محققین اب ترک حکام سے اس کِٹ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ اگلے دو مہینوں میں ان کی بڑے پیمانے پر تیاری کا کام شروع کیا جا سکے۔ انہیں امید ہے کہ یہ PCR ٹیسٹ کی جگہ لے لے گی۔ بلقند یونیورسٹی کے ریکٹر عبد اللہ عطالر نے کہا کہ کسی بھی کووِڈ-19 سے متاثرہ شخص کی فوری تشخیص اور اسے قرنطینہ منتقل کرنا وباء کو قابو میں کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ یہی ٹیکنالوجی دیگر کرونا وائرسز کی تشخیص کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا نینو ٹیکنالوجی اس سے پہلے بھی کرونا وائرسز کی تشخیص کے لیے استعمال میں لائی گئی ہے؟ جی ہاں! اور دنیا کے دیگر ماہرین بھی کووِڈ-19 کے لیے فوری ٹیسٹ کے لیے تحقیق میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس 150 نینومیٹرز کا قطر رکھتا ہے اور عطالر کہتے ہیں کہ UNAM کے محققین سالوں سے نیٹو پارٹیکلز پر کام کر رہے ہیں۔ "یہ ہمارا شعبہ ہے۔ ترکی میں پہلا کیس سامنے آتے ہی ہم نے اس منصوبے پر کام شروع کر دیا تھا۔” 2019ء میں جنوبی کوریا کے سائنس دانوں نے MERS-CoV کا پتہ چلانے کے لیے گولڈ نینو پارٹیکلز کا استعمال کیا تھا، یہ وہ کرونا وائرس تھا جس سے MERS نے جنم لیا تھا۔ اس کے ٹیسٹ سے نتائج آنے میں 10 منٹ لگتے تھے۔ اس طرح یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول آف میڈیسن اور یونیورسٹی اور ناپولی فریڈریکو II نے بھی کووِڈ-19 کے لیے ایک ٹیسٹ بنانے کے لیے اپنی تحقیق کی ہیں۔ اس وقت کون سے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں؟ کووِڈ-19 کے لیے اس وقت PCR کو معیار سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے نتائج ان نمونوں سے لیے جاتے ہیں کہ جنہیں تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیجنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں lateral flow ٹیسٹ پر تجربات بھی کیے جا رہے ہیں، جو مریض کو 30 منٹ میں نتائج دیتا ہے لیکن اس کی درستگی یقینی نہیں ہے۔
سرسبزدرختوں، خوب صورت راہداریوں، شاندار کیفے ٹیریاز اور پرشکوہ درسگاہوں پر مشتمل یہ دنیا کی ایک خوب صورت یونیورسٹی”سول نیشنل یونیورسٹی“ہے جو کہ جنوبی کوریا میں واقع ہے۔رینکنگ کے لحاظ سے دنیا بھرمیں یہ 36ویں نمبر پر ہے۔یہ یونیورسٹی جہاں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے طلبہ کواپنی جانب متوجہ کرتی ہے وہیں ایک وجہ اور بھی ہے۔اکیڈمیہ بلڈنگز کے پیچھے ایسی گلاس ہاؤس بلڈنگز بھی بنی ہوئی ہیں جو کہ یونیورسٹی کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں۔یونیورسٹی میں آنے والا طالب علم پہلے دن حیران ہوتاہے کہ کچھ فاصلے پر واقع ان بلڈنگز کا کیا مقصد ہے لیکن کچھ ہی عرصے میں وہ ان کی اہمیت سے واقف ہوجاتاہے۔ یہ دراصل ساؤتھ کورین انڈسٹری کی مختلف کمپنیوں کے دفاتر ہیں جن میں ایکسپرٹ بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ ماہرین یونیورسٹی میں آنے والے طلبہ کو سبجیکٹ کے انتخاب کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کے تقاضوں سے متعارف کراتے ہیں۔یہ انھیں بتاتے ہیں کہ آج کل انڈسٹری کوکن قابلیتوں کی ضرورت ہے اور اگر آپ فلاں موضوع پر ریسرچ کرلیں تو آپ کے لیے بہترین مواقع نکل آئیں گے اور مستقبل میں آپ شاندار کامیابیاں حاصل کرلیں گے۔چنانچہ طلبہ پہلے دن ہی جب یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ کا آغاز کرتے ہیں تو انڈسٹری کے ساتھ ان کا لنک بن جاتاہے۔طالب علم یہ جان جاتاہے کہ آج کے دور کے تقاضے کیا ہیں اور ہم کس طرح اپنی قابلیت کی بدولت ان تقاضوں کوپوراکرکے اپنامستقبل روشن بناسکتے ہیں۔یہ طلبہ جب فائنل ائر میں پہنچ جاتے ہیں تو انڈسٹری کے ماہرین انھیں ایک بار پھر یہ آفر دیتے ہیں کہ اگر آپ یہ پراجیکٹ ہمارے ساتھ کرلیں توہم آپ کو بہترین سہولیات کے ساتھ ساتھ فنڈز بھی فراہم کریں گے۔زمانہ طالب علمی میں طلبہ کو ایک بڑا مسئلہ معاش کاہوتاہے، چنانچہ جب ان کی یہ ضرورت پوری کرلی جاتی ہے تو وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور ایسی چیزیں تخلیق کرلیتے ہیں جن کی بدولت انھیں انڈسٹری میں ہاتھوں ہاتھ لے لیاجاتاہے۔یوں انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے مضبوط تعلق سے ایسی قابلیتیں پروان چڑھتی ہیں جو تخلیق اور ایجادکے میدان میں اپنے ملک کا نام روشن کردیتی ہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج جنوبی کوریا ایجادات کے میدان میں دنیا کو لیڈ کررہاہے۔2021ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریاایجادات کے اعتبار سے ایشیا ء کا سب سے زیادہ رینک لینے والا ملک بن چکا ہے اور تاریخ میں یہ پہلی بار ہواہے کہ اس نے جاپان کو پیچھے چھوڑدیا ہے جبکہ ”گلوبل اینوویشن انڈیکس“ میں یہ نویں سے پانچویں پوزیشن پر آچکا ہے۔ اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف،جہاں ہم لاکھوں کی تعداد میں ہر سال ڈگری یافتہ فوج تو تیار کررہے ہیں لیکن نہ ہم ایجادات کی دنیا میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی روز بروز بڑھتی بے روزگاری کی شرح پر قابو۔جس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے درمیان ایک وسیع خلا پایاجاتاہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قومی سطح پر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں کی گئیں۔اس صورت حال نے کئی سارے نقصانات کو جنم دیا ہے۔پہلا نقصان یہ ہے کہ ایک نوجوان جب ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھتاہے تواس کو وہاں کے حالات بدلے ہوئے ملتے ہیں۔کیوں کہ اس کوجوپڑھایاگیا ہوتاہے وہ وہاں ہوتانہیں اور جو ہوتاہے وہ اس کو پڑھایانہیں گیا ہوتا، نتیجتاً وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے اور اس کی نظر میں اپنی ڈگری کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں پڑھ کر اپنا وقت ہی ضائع کیا۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب اس کو نوکری نہیں ملتی تو پھر وہ کسی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اوریوں معاشرہ اچھے خاصے ”ٹیلنٹ“ سے محروم ہوجاتا ہے۔تیسرا نقصان انڈسٹری کے لیے ہے۔وہ یہ کہ اُس کو انسانی وسائل کی ضرورت تو رہتی ہے، ایسے میں جب اس کے پاس پریکٹیکل نالج سے محروم ڈگری یافتہ نوجوان آتا ہے تو انڈسٹری کواس پر دوبارہ سے محنت کرنا پڑتی ہے اور ایک لمباعرصا اس پر خرچ ہوتاہے۔ انڈسٹری اور اکیڈمیہ کے درمیان فاصلہ اس وقت ہمارا ایک قومی ایشو بن چکا ہے، جس کاذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ تینوں طبقات (انڈسٹری، اکیڈمیہ اور طلبہ) ہیں اوران تینوں طبقات کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ مسئلہ پید ا ہواہے۔آئیے، ایک نظر ان کمزوریوں پر ڈالتے ہیں۔ اکیڈمیہ کی کمزوریاں ▪️ تعلیمی اداروں میں سب بچوں کوایک ہی ترازو میں تولاجاتاہے۔یہ نہیں دیکھاجاتا کہ اللہ نے ہر بچے کو الگ شخصیت اور الگ قابلیت دی ہے۔اس پہلو پر غور نہ کرنے اور قابلیتوں کے تنوع(Diversity)کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے طلبہ کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور وہ نکھر کر سامنے آنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ▪️ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو کتاب سے پڑھایاجاتاہے۔ مضمون کے بارے میں ذوق و شوق، سوچنے کی دعوت یاپھر تحقیق وجستجو کی ترغیب نہیں دی جاتی،جس کی وجہ سے بچے بھی کتاب تک ہی محدودرہ جاتے ہیں اور ان کے علم و شعور میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ▪️ یہاں تخلیقی صلاحیت کو پروا ن نہیں چڑھایا جاتا۔بچوں نے جو سیکھاہے اس سے کچھ تخلیق کرنے کا ماحول موجود نہیں۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بچے کے پاس اگر کوئی احمقانہ آئیڈیا بھی ہو توادارہ اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔جس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے اندرجستجو کامادہ برقرار رہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگریہ بچہ ناکام ہوگیاتواپنی غلطی سے سیکھ ضرو ر جائے گا۔ ▪️ تعلیمی ادارے اپنے نصاب اور اپنے اساتذہ کو اپ گریڈ نہیں کرتے، جبکہ انڈسٹری وقت کے ساتھ ساتھ اپ گریڈ ہوتی ہے کیوں کہ اس نے منافع کماناہوتاہے اور زمانے کے تقاضوں کے ساتھ چلنا اس کی مجبوری ہوتی ہے۔نصاب کے اپڈیٹ نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب طلبہ ڈگری لے کر باہر نکلتے ہیں تو انھیں لگتاہے ہم نے کچھ پڑھاہی نہیں ہے۔ ▪️ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کیرئیر کاؤنسلنگ اور شخصیت شناسی نہیں کی جاتی۔طلبہ کومعلوم ہی نہیں ہوتاکہ میری شخصیت کی قسم(MBTI type) کیاہے اور میرے ٹیلنٹ کے اعتبار سے میرے لیے کون ساکیرئیر بہتر رہے گا۔ طلبہ کی کمزوریاں ▪️ طلبہ کورس کے علاوہ خارجی مطالعہ نہیں کرتے اورنہ ہی کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔کتاب پڑھنا انھیں وقت کا ضیاع لگتاہے۔ ▪️ ان میں اعتماد کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے وہ نیا قد م اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ▪️ وہ تبدیلی کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کمفرٹ زون سے نکلناپسند نہیں کرتے اور نہ ہی بھرپور محنت کاجذبہ رکھتے ہیں۔ ▪️ ان کی سوچ محدود ہے۔تعلیم کے بعد وہ صرف نوکری حاصل کرنے تک سوچتے ہیں۔زندگی میں کچھ نیا کرنے کاعزم ان میں نہیں ہوتا۔ ▪️ وہ معاشرے کے ٹرینڈز کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔اللہ نے انھیں جن صلاحیتوں سے نواز رکھا ہوتاہے، ان کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ انڈسٹری کی کمزوریاں ▪️ انڈسٹری میں براجمان ماہرین کے آپس میں مقابلہ بازی کی فضا قائم ہے۔جس کی وجہ سے وہ نئی نسل کی رہنمائی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ▪️ طلبہ کو انڈسٹری سے متعارف کروانے،سیکھنے کے مؤثر مواقع پید اکرنے اور انھیں نئے دور کے تقاضو ں سے آگاہ کرنے کے لیے انڈسٹری کی طرف سے کوئی منظم پروگرام موجود نہیں ہے۔ ▪️ انڈسٹری کے ماہرین اپنا تجربہ اوراپنا علم اپنی ذات تک ہی محدود رکھتے ہیں۔وہ دوسروں کے ساتھ آزادانہ طورپر شیئر نہیں کرتے۔ آنے والادور آئی ٹی کا ہے یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ آنے والا دور مکمل طورپر آئی ٹی کا ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد انسانی وسائل کی اہمیت بڑھ گئی تھی لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے روبوٹک مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی ہے اورمستقبل میں اس کی شرح مزید بھی بڑھے گی جس سے لاکھوں انسان بے روزگارہوجائیں گے۔اب ایسے میں وہی شخص کامیاب ہوگا جو آئی ٹی کی مہارت رکھتاہو۔دنیا ٹوجی، تھری جی اور اب فور جی کے بعد فائیو جی کی طرف بڑھ رہی ہے۔میٹاورس کی تشکیل تیزی سے جاری ہے جواگرچہ انسان کو فطرت سے دورلے کر جائے گااور اس کی وجہ سے انسانی رویوں اور تعلقات میں دراڑیں پڑجائیں گی لیکن اس کے باجود بھی آج اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔اس تخیلاتی دنیا میں جائیداد کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کمپنیوں کاقیام اور کاروباری میٹنگزسرانجام دی جائیں گی۔ اب ایسے میں ہر وہ قوم جو خو د کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ اپ ڈیٹ نہیں کرے گی اور آئی ٹی میں مہارت پیدا نہیں کرے گی وہ ان ترقی یافتہ اقوا م میں اپنی جگہ کیسے بناپائے گی؟ اس صورت حال میں ہم اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 1فی صد(3.5بلین ڈالرز)آئی ٹی کو دے رہا ہے۔گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں ڈگری رکھنے والے صرف 10فی صدطلبہ کو نوکریوں کا اہل سمجھاجاتاہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں سے ہر سال 25ہزار طلبہ آئی ٹی کی ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں جن میں صرف پانچ ہزار کو اچھی کمپنیوں میں ملازمت ملتی ہے۔اسی سروے میں لوگوں کی ایک کثیرتعداد نے ”وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی“ کویہ تجویز دی ہے کہ آئی ٹی کے نصاب کو از سرنو تشکیل دیا جائے کیوں کہ یہ Updatedنہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ایجادات میں ہمارا نمبر117واں ہے،جبکہ ہماراپڑوسی ملک 49ویں سے 46ویں نمبر پر آچکاہے اور اس کے آئی ٹی کے ماہرین آج بین الاقوامی کمپنیوں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے آج سے کئی دہائیاں پہلے اپنے لیے حکمت عملی بنائی تھی جن پر عمل پیراہوکروہ آج ہم سے کئی گنا آگے بڑھ چکے ہیں۔ یہاں پران پاکستانی نوجوانوں کو داد دینی چاہیے جنھوں نے فری لانس مارکیٹ پلیس میں اپنی قابلیتوں کے جوہردکھائے اور پوری دنیا سے کلائنٹس کی ایک بڑی تعداد پاکستان لائے۔انھی کی بدولت آج پاکستان فری لانس خدمات دینے میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے اور اس میدان میں ہم اپنے پڑوسی ملک کوبھی ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔البتہ یہاں بھی ہمیں ایک مسئلے کا سامنا ہے۔Techانڈسٹری میں ایسےCEO’sبھی آرہے ہیں جن کی عمر 32,30سال ہے اور ان کے پاس مینجمنٹ کاتجربہ نہیں ہے۔اسی طرح دوسری اہم قابلیتوں میں بھی وہ کمزور ہیں۔اب ان نوجوانوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے تربیتی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں انھیں انتظامی امور کی صلاحیتیں، پیشہ ورانہ اخلاقیات، کمیونیکیشن اسکلز اور شخصیت سازی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ بہترین انداز میں اپنی کمپنی چلاسکیں اور پاکستان کی Techانڈسٹری کو فروغ دے سکیں۔ اس وقت ہماراملک کئی سارے بحرانوں کی زد میں ہے جن میں سے ایک بڑابحران ”اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے درمیان خلا“ کا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہاہے۔ ساتھ ہی ساتھ آئی ٹی انڈسٹری کی بے تحاشا ترقی اور اس میدان میں ہماری کمزوریوں نے بھی ہمارے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔”قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن“ اس اہم مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اکیڈمیہ و انڈسٹری کے درمیان خلاکو پُرکرنے کے لیے”Let’s Pay Back“ کے نام سے ایک کمپین چلارہی ہے جس میں مختلف طرح کی سرگرمیاں کرواکر اس خلا کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ارباب اختیار سے بھی ہماری یہی گزار ش ہے کہ سرکاری سطح پر نئی نسل کے لیے ایسے اقدامات اٹھائیں جن کی بدولت نوجوان نسل کوکیرئیر کاؤنسلنگ کے ساتھ ساتھ شخصیت شناسی کی آگاہی ملے۔تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ٹرینڈز کے پیچھے بھگانے کے بجائے ان کی قابلیتوں کو نکھاراجائے۔ ان کی کاوشوں کو سراہاجائے اور اکیڈمیہ اور انڈسٹری کے ماہرین کو ایک جگہ بٹھاکر ان کے درمیان واقع خلا کو ختم کیا جائے۔ اگرہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کیے گئے توپھر ہم بھی جنوبی کوریا کی طرح آئی ٹی کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑسکتے ہیں۔
قطر میں فیفا ورلڈ کپ سے قبل دنیا کے سب سے بڑے فٹبال بوٹ کی رونمائی ہوئی جس کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق دنیا کے سب سے مقبول کھیلوں فٹبال کے عالمی کپ کے بڑے ایونٹ کی رنگا رنگ تیاریاں جاری ہیں۔ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل شائقین میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے فٹبال بوٹ کی رونمائی ہوئی ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے فٹبال جوتے کی اونچائی 7 فٹ اور لمبائی 17 فٹ ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فٹبال بوٹ کی رونمائی کے لیے جیسے ہی جوتے سے سرخ پردہ ہٹایا گیا تو فضا میں غبارے چھوڑے گئے جب کہ موجود افراد نے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ تقریب رونمائی میں قطر کے کھیلوں سے وابستہ حکام، آرگنائزرز سمیت شائقین کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے خوب تصاویر اور سلفیاں بھی بنائیں۔ واضح رہے کہ دنیا کا سب سے مقبول کھیل فٹبال کے عالمی کپ جو فیفا ورلڈ کپ کے نام سے معروف ہے پہلی بار مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ 22 ویں فیفا ورلڈ کپ کا باقاعدہ آغاز 20 نومبر سے میزبان قطر اور ایکواڈور کے مابین میچ سے ہوگا۔ میچ سے قبل رنگا رنگ افتتاحی تقریب بھی منعقد ہوگی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بدگمانی کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ بہت سی بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں، جاسوسی نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں کوئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے ؟ تم اسے برا سمجھتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے بارے میں بدگمانی سے روکا ہے، اس لئے کہ ﴿ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ ” بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔“ اس سے مراد وہ ظن و گمان ہے جو حقیقت اور قرینے سے خالی ہے مثلاً وہ بدگمانی جس کے ساتھ بہت سے اقوال بد اور افعال بد مقرون ہوتے ہیں۔ کیونکہ دل کے اندر بدگمانی کے جڑ پکڑ لینے سے بدگمانی کرنے والا شخص صرف بدگمانی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے بارے میں باتیں اور ایسے کام کرتا رہتا ہے جس کا کرنا مناسب نہیں، نیز یہ چیز مسلمان کے بارے میں بدگمانی، اس کے ساتھ بغض و عداوت کو متضمن ہے جس کے برعکس معاملے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿ وَلَا تَجَسَّسُوا ﴾ یعنی مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کی ٹوہ لگاؤ نہ ان کا پیچھا کرو۔ مسلمان کو اس کے اپنے حال پر چھوڑدو اور اس کی ان لغزشوں کو نظر انداز کردو جن کی اگر تفتیش کی جائے تو نامناسب امور ظاہر ہوں۔ ﴿ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ﴾ ” اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔“ غیبت کا معنی یہ ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” تو اپنے بھائی کی کسی ایک خامی کا ذکر کرے جس کے ظاہر کرنے کو وہ ناپسند کرتا ہو۔۔۔ خواہ وہ خامی اس کے اندر موجود ہو۔ “ [صحیح المسلم، البروالصلة، باب تحریم الغیبة۔۔۔حدیث:2589] پھر اللہ تعالیٰ نے غیبت سے نفرت دلانے کے لئے مثال دیتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ﴾ ” کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ پس اس سے تم نفرت کرو گے۔“ اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے، جو نفوس انسانی کے لئے انتہائی ناپسندیدہ چیز ہے۔ پس جس طرح تم اپنے بھائی، خاص طور پر بے جان اور مردہ بھائی کا گوشت کھانا ناپسند کرتے ہو اسی طرح تمہیں اس کی غیبت کرنا اور زندہ حالت میں اس کا گوشت کھانے کو ناپسند کرنا چاہیے۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰـهَ إِنَّ اللّٰـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ (تواب) وہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو توبہ کا حکم دے کر اسے توبہ کی توفیق سے نوازتی ہے، پھر اس کی توبہ قبول کرکے اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے کہ اس نے ان کو اس چیز کی طرف بلایا جو ان کے لئے فائدہ مند ہے اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں غیبت سے نہایت سختی سے ڈرایا گیا ہے، نیز یہ کہ غیبت کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
گوجرانوالہ: وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل نے دعویٰ کیا ہے کہ باجی اس لیے چھٹی پر گئی ہیں کہ ایک اور آڈیو آرہی ہے۔ ٹی وی ٹوڈے کے مطابق انہوں نے یہ بات گوجرانوالہ میں منعقدہ اوورسیز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ واضح رہے کہ ن لیگ کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے گزشتہ روز سے آئندہ 15 روز کے لیے سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔ اس ضمن میں ن لیگ کے میڈیا سیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اپنے بیٹے جنید صفدر کے ولیمے کے حوالے سے انتظامات میں مصروفیت کے باعث سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی۔ ٹی وی ٹوڈے نیوز کے مطابق شہباز گل نے کہا کہ پرانی فلم پٹنے کے بعد باجی پندرہ دن کی چھٹی پر گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آڈیو پندرہ دن کے اندر آگئی تو چھٹی زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی محنت کرکے سارا پیسہ ملک میں بھیجتے ہیں، وزیراعظم عمران خان کو ان کی تکلیف کا احساس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 90 لاکھ اوورسیز پاکستانی ہیں اور گزشتہ سات دیہائیوں سے انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا جا رہا تھا۔ شہباز گل نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگلا بلدیاتی انتخاب بھی ای وی ایم کے ذریعے کرائیں گے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ عمران خان ایسا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں جو حقیقی طور پر شفاف ہو گا، عوامی نمائندہ صرف نام کا نمائندہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے پاس اختیار ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ووٹنگ سے متعلق جو وعدہ کیا وہ پورا کیا۔ ٹی وی ٹوڈے نیوز مطابق کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل نے کہا کہ ن لیگ نے پانچ سالوں میں 682 کلومیٹر سڑکیں بنائیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے صرف تین سالوں میں 2300 کلومیٹر سڑکیں تعمیر کیں۔