text
stringlengths
332
578k
ویب ڈیسک :ایک حقیر مکھی جو رعب حسن میں آئی نہ سپر پاورکا خیال کیا، وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی کو پریس کانفرنس کے دوران مکھی کے ہاتھوں پریشان، بار بار اڑانے کی کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس افغان طالبان کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کا جواب دے رہی تھیں کہ ایک مکھی یا پروانے نے ان کے چہرے کا طواف شروع کردیا ۔ سپر پاور امریکا کے ایوان اقتدار کی ترجمان جین ساکی نے مکھی کو پہلے بھگانے کی کوشش کی پھر لبھانے کی ۔ لیکن سیاہ اور حقیر مکھی نے ان کےسپر پاور کے ترجمان کی پوزیشن کا خیال کیا اورنہ ہی رعب حسن میں آئی ۔ ہم اور آپ، 01 دسمبر 2022 Jen Psaki VS. Aggressive Bug pic.twitter.com/Ac5Vbb6NHO — Amichai Stein (@AmichaiStein1) August 30, 2021 بالاخر ساکی نے مکھی کو بھگایا اور پھر صحافی سے معذرت کی۔ انہوں نے کہا کہ مکھی کا انداز جارحانہ تھا۔ اس موقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
امریکہ کے خلائی تحقیق ادارے ناسا نے نظام شمسی سے باہر ستاروں کے گرد گھومتے لگ بھگ 1,300 سیارے دریافت کیے ہیں جن میں سے نو ایسے ہیں جو اپنے ستاروں سے اتنے مناسب فاصلے پر ہیں کہ ان پر زندگی کے پنپنے کا امکان ہے۔ ناسا نے منگل کو اعلان کیا کہ کیپلر خلائی دور بین سے خلا میں 1,284 سیاروں کی موجودگی کی تصدیق کی۔ ناسا کے ایسٹروفزکس کے ڈائریکٹر پال ہرٹز نے کہا کہ دوسرے سیاروں پر زندگی کا کھوج لگانے کے لیے تحقیق بہت ضروری ہے۔ ’’اس سے ہمیں امید ملتی ہے کہ کہیں دور ہمارے سورج جیسے کسی ستارے کے گرد ہم بالآخر ایک اور زمین دریافت کر لیں گے۔‘‘ ہم زمین جیسے سیاروں کو ہی کیوں تلاش کریں؟ کیلیفورنیا میں ناسا کے ایمز ریسرچ سنٹر میں کیپلر مشن کی سائنسدان نیٹلی بٹلا نے کہا کہ ’’دریافت کے اس عمل میں حصہ لینا ہم سب کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ ہمارے اپنے سیارے سے دور کسی چیز کو دیکھنا انسانوں کو زمین پر اپنی زندگی کی قدر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں میں دوسرے افراد کے لیے زیادہ ہمدردی بھی پیدا کرتا ہے۔ نیٹلی نے کہا کہ چاند سے لی گئی زمین کی پہلی تصویر سے لوگ قومی سرحدوں سے آگے اور کرہ ارض اور اس کی آبادی کو ایک ہی دھرتی کے طور پر دیکھنے کے قابل ہوئے تھے۔ انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین نے اگست 2006 میں سیارے کی پہلی سائنسی تعریف کی منظوری دی تھی جس کے مطابق سیارہ کہلانے کے لیے تین خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ وہ کسی ستارے کے گرد گردش کر رہا ہو۔ دوسرا وہ اتنا بڑا ہو کہ کشش تقل سے اس کی شکل گیند جیسی ہو جائے اور تیسرا اس کی کشش ثقل میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اپنے مدار میں موجود دیگر اشیا کو صاف کر دے۔ دریافت کیے گئے ممکنہ سیاروں میں سے لگ بھگ 550 حجم کے لحاظ سے زمین کی طرح کے ہیں اور پتھریلے ہیں۔ زمین جیسے ان سیاروں میں سے نو اپنے ستاروں کے گرد اتنے فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جس سے ان پر مائع پانی جمع ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں ایسے حالات ہیں جن میں ایسی زندگی ہونا ممکن ہے جو زمین پر پائی جاتی ہے۔ کئی دہائیوں تک دیگر سیاروں پر زندگی کے آثار پانے کا خیال لوگوں میں بہت تجسس کا باعث رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں آنے والی فلمیں ’دی مارشیئن‘ اور ’انٹرسٹیلر‘ کا محور خلائی مخلوق سے ملاقات کی بجائے انسانوں کے لیے قابل رہائش دیگر سیاروں کی تلاش رہا ہے جنہوں نے زمین کے وسائل کو استعمال کر کے ختم کر دیا ہے۔ تاہم نیٹلی بٹلا کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ انسانوں کے لیے نئے گھر کی بجائے صرف زندگی کے آثار تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات پر انصار اللہ کے حملے کے بارے میں صہیونی میڈیا کا تجزیہ: […] کے ذرائع ابلاغ کے تجزیہ کار یارون فریڈمین کے مطابق، ابوظہبی پر انصار ا... nam64337flebno: mes64337ngkyt vfxc8to fynp CmuWubv... شام میں امریکا اور یورپ کو بہٹ بڑی شکست ہوئی ہے - سچ ٹائمز: […] کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی میں انہیں روس اور ایران کی [... امریکہ کی جانب سے ضبط شدہ ایرانی تیل بردار جہاز پُر اسرار طور پر ایران پہنچ گیا،پوری دنیا حیرت میں مبتلا: […] شہید جنرل قاسم سلیمانی کے پاس امریکا اور داعش کے درمیان… [... پاکستان عراق کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، جنرل باجوہ: […] شہید جنرل قاسم سلیمانی کے پاس امریکا اور داعش کے درمیان… [... جوہری معاہدہ کثیرالجہتی امید کی اساس ہے: سابق برطانوی سفیر: […] یہ بھی پڑھیں: امریکی بحری بیڑے میں دھماکہ […]... العربیہ ٹیلی ویژن چینل اسرا‏ئیل کے لیے جاسوسی کرتا ہے: حماس: […] امریکی بحری بیڑے میں دھماکہ […]... Irshad ali: Preshani ye nh k mulk kesy chalay ga preshani ye hy k !Mulk esy chalta rahyga... Irshad ali: Hm dekh rahy hein bin salman khud he jaal m phnsta ja raha an kreeb wo zameen p... سید عامر عباس زیدی: تمام شیعہ افراد اس سلسلے مین چندہ اکٹھا کریں اور یہاں سکیورٹی اور تعمیرات کریں۔... سید ذکی رضا: پاک و ایران کشیده صورت حال آنے والے مشکل وقت کی طرف ایک واضع اشاره ھے. پاکستان ک... ایران امریکہ پاکستان روس فلسطین عمران خان اسرائیل اسلامی جمہوریہ ایران چین کراچی کورونا وائرس یمن عراق ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان۔ ملک وزیراعظم تیل ٹیکنالوجی پنجاب پی ٹی آئی سعودی عرب دنیا حکومت افغانستان
حیدرآباد میں گزشتہ روز نجی بینک کی کیش وین سے مسلح ڈاکوؤں کے 15 کروڑ 29 لاکھ روپے لوٹنے کا انکشاف ہوا ہے پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے۔ حیدرآباد سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے زاہد کلہوڑو کے مطابق ڈکیتی کی یہ واردات گزشتہ روز ہوئی تھی جب کراچی سے مورو نجی بینک کا کیش لے جانے والی نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیشن وین کو حیدرآباد میں چھلگری تھانے کی حد قومی شاہراہ ٹندو سعید خان موڑ پر سات ڈاکو لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔ کیش وین میں 30 کروڑ روپے موجود تھے جب کہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکو 5 کروڑ روپے لوٹ کر فرار ہوگئے تاہم جب آج نجی سیکیورٹی کمپنی کا منیجر چھلگری تھانے مقدمہ درج کرانے آیا تو انکشاف ہوا ہے کہ ڈاکو 5 کروڑ نہیں بلکہ 15 کروڑ 29 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی کمپنی کے زونل منیجر کی مدعیت میں تھانہ چھلگری میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ ڈاکو گاڑی میں موجود نجی بینک کے 15 کروڑ 29 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ایف آئی آر کے مطابق لوٹی گئی رقم نجی بینک کی کراچی کی برانچ سے مورو برانچ بھیجی جانی تھی، ڈاکو رقم کے ساتھ 2 پستول، ایک عدد ریپیٹر، ایک گن اور وین کی چابی بھی لے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی سے مورو جانے نجی بینک کا کیش لے جانے والی نجی سیکیورٹی کمپنی کی گاڑی کو حیدرآباد میں چھلگری تھانے کی حدود میں 7 ڈاکوؤں نے بزور اسلحہ لوٹ لیا تھا اور باآسانی فرار ہوگئے تھے۔ واقعے کے بعد ایس ایس پی امجد شیخ کا کہنا تھا کہ نجی سیکیورٹی کمپنی کی 4 گاڑیاں کیش لیکر مورو جا رہی تھیں اور ہر گاڑی میں ایک کروڑ تک کے 4 باکس کیش موجود تھے، ڈاکوؤں نے ایک گاڑی میں لوٹ مار کی جب کہ کیش رقم والی دیگر 3 گاڑیاں محفوظ ہیں۔ پولیس کے مطابق چھلگری تھانے کی حدود میں سیکیورٹی کمپنی کی گاڑی خراب ہوگئی تھی، نامعلوم مسلح افراد کار اور موٹر سائیکل میں سوار ہو کر ڈکیتی کرنے پہنچے تھے۔ واردات کے بعد پولیس نے نجی سیکیورٹی کمپنی کے عملے کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیش شروع کردی تھی اور کہا تھا کہ وین کی فرانزک جاری ہے۔
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ تم جنت میں ایسے ہی داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں تنگیاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ جھنجھوڑ دیے گئے حتی کہ رسول اور اس پر ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو اللہ کی مدد قریب ہے تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو (مشرکین منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (رازی) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصائب وشدائد کچھ تم پر ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقرفاقہ۔ جانی ومالی نقصان اور سخت قسم کے خوف وہراس میں مبتا کردیے گئے تھے حتی کہ الرسول یعنی اس زمانے کا پیغمبر) اور اس کے متبعین متی نصر اللہ) پکار اٹھے تھے پھر جیسے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چنانچہ غزؤہ احراب میں جب یہ مرحلہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (دیکھئے سورت احرزاب آیت 10 تا 20) ان کا متی نصر اللہ " کہنا اعتراض وشکوہ کے طور پر نہ تھا بلکہ عالم اضطرار میں الحاح وزاری کی ایک کیفیت کا اظہار تھا اور نصر اللہ قریب فرماکر مومنوں کو بشارت دی ہے، (رازی، ابن کثیر) حضرت خباب بن ارت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلے لوگوں کے سروں پر آرہ چلا کر ان کو چیر دیا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت اور پوست کر نوچا گیا مگر یہ چیز ان کو دین سے نہ پھیر سکی۔ (بخاری ) تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
سعودی خبررساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق یمن کو پٹرول فراہم کرنے کی ہدایت خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جاری کی تھی۔ معاہدے کے بموجب سعودی عرب 200 ملین ڈالر مالیت کا پٹرول یمن کو فراہم کرے گا۔ ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن تیل فراہم کیا جائے گا۔ مزید پڑھیں یمن کو امداد فراہم کرنے میں سعودی عرب سرفہرست Node ID: 453506 سعودی پروگرام برائے یمن نے تیل عطیے کی پہلی کھیپ فراہم کرنے کی کارروائی کا آغاز کردیاہے۔ پہلی کھیپ 30 ملین ڈالر مالیت کی ہوگی۔ سعودی عرب کی جانب سے فراہم کردہ تیل سے یمن کے 70 سے زیادہ بجلی گھر چلائے جاسکیں گے۔ سعودی عرب یمن کی ترقی، امن و امان اور استحکام کے لیے مختلف پروگراموں پر عمل پیرا ہے۔ 4.2 ارب ڈالر کے عطیات پہلے پیش کرچکا ہے۔ نیا تعاون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یمن کے 70 بجلی گھر جو سعودی پٹرول سے چلیں گے وہ یمن کے ہسپتالوں، میڈیکل سینٹرز، سکولوں، سرکاری دفاتر، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور شاہراہوں کو آپریٹ کرنے میں معاون بنیں گے۔ اس کی وجہ سے یمن کی اقتصادی و تجارتی سرگرمیاں تیز ہوں گی۔
ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک)سعودی وزیر حج نے تاشقند میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعتمرنا ایپ کے ذریعے 4 کروڑ 34 لاکھ 32 ہزار 985 عمرہ پرمٹ جاری کیے گئے ، تاہم اب اس کی جگہ نئی ایپ ” نسک” پلیٹ فارم کے ذریعے آن لائن عمرہ و زیارت ویزوں کا اجرا آسان بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے عمرہ ویزے کا دورانیہ ایک ماہ ہوتا تھا ، اب دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والے عمرہ زائرین کو تین ماہ تک مملکت میں قیام کی سہولت دی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد دنیا بھر سے آنے والے عمرہ زائرین کو سہولت کی فراہمی، آن لائن زیارت اورعمرہ ویزوں کے اجرا میں آسانی نیز عمرہ زائرین کے سفر کو خوبصورت اور یادگار بنانا ہے۔ واضح رہے کہ نسک ایپ کو وزارت حج وعمرہ اور سیاحت اتھارٹی کے تعاون سے ڈیزائن کیا گیا ہے نیز اس میں مختلف قسم کے پیکیجز متعارف کرائے گئے ہیں ۔ نسک کے ذریعے عمرہ زائرین ویزے کے علاوہ سفر کے لیے تمام ضروری اشیا، پیکیجز، ہوٹل اور ٹیکسی وغیرہ کی بکنگ اور دیگر خدمات بک کرا سکتے ہیں۔ ایپ کے ذریعے عمرہ کمپنیاں بھی اپنی خدمات فراہم کریں گی جبکہ پہلے کام کرنے والی ویب سائٹ ’مقام‘ بھی وقتی طور پر کام کرتی رہے گی۔ یاد رہے کہ اعتمرنا ایپ دو برس قبل متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت 213 ممالک کے عمرہ زائرین کو عمرہ پرمٹ کے اجرا میں سہولت فراہم کی گئی۔ سعودی وزارت حج و عمرہ نے 27 ستمبر 2020 کو اعتمرنا ایپ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات کے تحت متعارف کرائی تھی ۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا FreeOnlineGaySexGames? FreeOnlineGaySexGames میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے FreeOnlineGaySexGames دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے FreeOnlineGaySexGames? FreeOnlineGaySexGames کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر FreeOnlineGaySexGames, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر FreeOnlineGaySexGames? آپ ادا کر سکتے ہیں FreeOnlineGaySexGames دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, FreeOnlineGaySexGames بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ FreeOnlineGaySexGames کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, FreeOnlineGaySexGames فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے FreeOnlineGaySexGames پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے FreeOnlineGaySexGames? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے FreeOnlineGaySexGames کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا اسپیشل جے آئی ٹی بنانے کا حکم آرمی چیف کا دورہ کراچی، مزار قائد پر حاضری، پھولوں کی چادر چڑھائی اسمبلیوں کی تحلیل پر عمران خان الیکشن کرا کے کیا کرے گا امریکا اور یورپ سے دوستی کریں گے، غلامی نہیں: مولانا فضل الرحمان سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کی سماعت، والدہ آبدیدہ ہو گئیں اسلام آباد: اتوار بازار میں آتشزدگی، 150 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ، رانا ثنا کا نوٹس پی ٹی آئی اجلاس، اسمبلیوں سے استعفے اور تحلیل کے حوالے سے مشاورت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سرکاری دورے پر انڈونیشیا پہنچ گئے پشاور:قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائی، 4 دہشتگرد گرفتار عمران خان نے اگلے چند روز میں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ کرلیا ہے 73 شیئر کریں حکومت و اپوزیشن بھنگڑوں میں مصروف، عوام آہ و بکا کررہے ہیں، شجاعت admin مارچ 13, 2021 March 13, 2021 0 تبصرے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہار جیت پر بھنگڑے ڈال رہی ہیں جبکہ عوام بھوک اور مہنگائی کی بگڑی ہوئی حالت پر آہ و بکا کر رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں چوہدری شجاعت نے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کسی کو ہار جیت کا فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے سیاسی متاثرین کو چاہیے کہ وہ اسمبلیوں کو چھوڑ کر عدالتوں کے احاطوں میں اپنا بوریا بستر لے کے چلے جائیں۔
حالی نے اپنی نظم ” شعر سے خطاب“ میں شعر کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی ہے اور اپنے زمانے کی شعری اصناف بالخصوص غزل اور قصیدہ کو جھوٹ، مبالغہ آمیز اور خوشامد کا دفتر بتایا ہے۔ دبستان لکھنؤ کے شعرا رعایت لفظی، نازک خیالی اور الفاظ کے الٹ پھیر سے ایسے شاعری کر رہے تھے جو پڑھنے والوں کو مسحور تو کر سکتی تھی لیکن انہیں حرکت و عمل کے لئے ہرگز آمادہ نہ کر سکتی تھی۔ اس لیے حالی نے شعر سے خطاب کرکے کہا کہ شعر دلفریب نہ ہو تو کوئی غم نہیں لیکن اس میں دل گدازی کی کیفیت نہ ہو تو وہ قابلِ افسوس ہے۔ حالی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک زمانہ پہلے شعراء نے جھوٹ کو اپنا ایمان شاعری بنایا تھا اور شعر کی تاثیر سے ناواقف لوگوں نے اسے حسن و آرائش کی چیز بنائی تھی، جس کی وجہ سے اہل نظر کے لئے اس کی وقعت ختم ہوگئی تھی۔ حالی نے شعر کو اپنی عمر بڑھانے کے لیے حقیقت اور سچائی کا استعمال ضروری قرار دیا اور شعر کو راہ میں درپیش رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لانے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ Advertisement حالی نے شعر کو یہ نصیحت بھی کی ہے کہ ناقدریوں کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ شعر کی قدر زمانہ ضرور کرے گا۔آخر میں حالی نے اپنے وجود کو غنیمت بتایا ہے کیونکہ وہ شعر کے صحیح قدردان ہیں اور شعر پر ناز کرتے ہیں اور شعر بھی ان پر جس قدر ناز کرے، کم ہے۔
جہلم: محکمہ اوقاف نے جہلم سمیت صوبہ بھر کے 12 ڈویژنز میں مجموعی طور پر نو ٹیفائیڈ 74 ہزار 1984 ایکٹر، ایک کنال 14 مرلہ وقف رقبہ کی تفصیلات سامنے آگئیں جو 1960 سے لیکر تا حال وقف کئے گئے مزارات مساجد، گھروں، دکانات ، کمرشل پلازوں، پٹرول پمپس، سائٹس، گودام ، فیکٹریز و دیگر املاک پر مشتمل ہیں۔ پنجاب میں اوقاف کے پاس 20 ہزار 9سو 17 ایکڑ5 کنال 11 مرلے رقبہ قابل کاشت اور 45 ہزار 56 ایکڑ 4 کنال 3 مرلہ رقبہ نا قابل کاشت ہے۔ محکمہ کے پاس پنجاب بھر میں 1426 مکانات ،6179 دکانیں اور 590 دیگر وقف املاک بھی موجود ہیں۔ جہلم پریس کلب کو موصول ہونیو الی تفصیلات کے مطابق دربار سلیمان پارس ، چونترہ، کھرالہ، بابا کر م شاہ سرکار، جلالپور شریف، چوآ سیدن شاہ، دینہ، لاہور ، بادشاہی مسجد زون میں 12 ایکڑ 2 کنال 7 مرلے وقف رقبہ موجود ہے جو قابل کاشت نہیں جبکہ اس زون میں ایک متفرق مد میں بھی املاک موجود ہے۔ داتا دربار زون میں 126 ایکڑ 1 کنال6مرلے وقف رقبہ میں سے 120ایکڑ 1 کنال 2 مرلے رقبہ قابل کاشت اور 36 ایکڑ 4 مرلے رقبہ نا قابل کاشت ہے ، اس زون میں 11 گھر اور 247 وقف دکانیں ہیں۔ داتا دربار ہسپتال زون میں6ایکڑ 6 کنال وقف رقبہ ہے جو قابل کاشت نہیں۔ لاہور زون میں 2139ایکٹر 3 کنال 14 مرے وقف رقبہ میں سے 1534 ایکڑ 4 کنال 9 مرے رقبہ قابل کاشت 604 ایکڑ7 کنال 5 مرلے رقبہ ناقابل کاشت ہے۔ اس زون میں 849 گھر، 1549 دکانیں اور 173 متفرق املاک بھی موجود ہیں۔ چوہدری عابد محمودنومبر 24, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Facebook Twitter LinkedIn Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Line ای میل کے ذریعے شیئر کریں پرنٹ کریں
شامی صحافی خلود وليد اپنی جان کو لاحق خطرے اور روپوش ہونے کے باوجود طویل خانہ جنگی میں اپنے ہم وطنوں کی مشکلات پر صحافت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 31 سالہ خاتون صحافی کو حکومت اور شدت پسندوں، دونوں جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے 2012 میں خواتین ساتھیوں کے ساتھ مل کر پوشیدہ رہ کر ایک اخبار شروع کیا جس میں وہ شام کے واقعات پر خبریں دیتی ہیں۔ بدھ کو انہیں شام کے لوگوں کو جنگ سے آگاہ رکھنے اور تشدد کے خلاف آواز اٹھانے پر اپنے کام کے لیے ’ریچ آل ویمن ان وار‘ تنظیم کی جانب سے سالانہ 'اینا پولٹکووسکایا ایوارڈ' دیا گیا۔ خلود ولید (جو ان کا اصل نام نہیں) نے روئیٹرز سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’شامی میڈیا میں ہمیشہ یہی کہا گیا کہ کوئی جنگ نہیں، کوئی تنازع نہیں، کوئی مظاہرے نہیں، کوئی شیلنگ اور بمباری نہیں، کچھ نہیں۔ حکومت کی جانب سے پیغام یہ ہے کہ ’سورج چمک رہا ہے، پرندے چہچہا رہے ہیں، شام میں کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘‘ تنظیم ان کے اخبار ’عناب بلادی‘ (ترجمہ: میرے ملک کے عناب) کو استعمال کر کے عالمی برادری کو بتانا چاہتی ہے کہ شام میں کیا ہو رہا ہے۔ اخبار ان جرائم کی خبریں دیتا ہے جو وہاں جاری ہیں۔ حکومت کی جانب سے اپنی کچھ ساتھیوں کو حراست میں لیے جانے اور تفتیش کیے جانے کے بعد ولید اب روپوش ہیں۔ ’’ہم نے بہت سے دوست کھو دیے۔ تین کو قتل کر دیا گیا، تین حراست میں ہیں، اور دیگر کو رہا کر دیا گیا ہے۔‘‘ ولید نے کہا کہ ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اور دنیا کو بتائیں کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو آزادی چاہتے ہیں مگر انہیں ہر قسم کی برائی کا سامنا ہے۔‘‘ خطرات کے باوجود وہ تمام جانب سے کی جانے والی زیادتیوں اور جنگ میں گھرے عام لوگوں کی زندگیوں پر رپورٹنگ جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہیں۔ یہ ایوارڈ روسی تحقیقیاتی رپورٹر اینا پولٹکووسکایا کی گیارہویں برسی پر دیا گیا جو ریاستی بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کرتی تھیں، خصوصاً چیچنیا میں۔ انہیں 48 سال کی عمر میں 7 اکتوبر 2006 کو ماسکو میں اپنے اپارٹمنٹ کی لابی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ’ریچ آل ویمن ان وار‘ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں اور دنیا بھر میں تشدد سے متاثر ہونے والی عورتوں کی مدد کرتی ہے۔
آنجہانی ملکہ الزبتھ کے حوالے سے حیران کن معلومات سامنے آئی ہیں جو کہ ان کے کالے رنگ کے ہینڈبیگ کے حوالے سے ہیں جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق ملکہ الزبتھ دوم جو چیزیں استعمال کرتی تھیں انہیں اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اکثر لوگوں کو اس کے بارے میںمعلوم ہی نہیں۔ غیرملکی میڈیا کے مطابقملکہ الزبتھ دوم کو کئی مواقع پر ہاتھ میں کالے رنگ کا ہینڈ بیگ لئے دیکھا جاچکا ہے۔ 1950ء سے 2022ء کے دوران ان کی کئی تصاویر اور ویڈیوز میں کالے رنگ کے بیگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ رپورٹس کے مطابقملکہ الزبتھ اپنا ہینڈبیگ اسٹاف کے ساتھ خفیہ باتیںکرنے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق کسی سے گفتگو کے دوران ملکہ برطانیہ جب بھی اپنا ہینڈبیگ بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر لیتیں تو اس کا مطلب ہوتا کہ وہ اس شخصسے گفتگو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ملکہ الزبتھ سپردخاک، تابوت سینٹ جارج چیپل کے نیچے شاہی والٹ میں اتارا گیا برطانیہ کی ملکہ الزبتھ آخری آرام گاہ منتقل،7دہائیوں پر مشتمل تاریخی عہد کا جذبات اور شان و شوکت کے ساتھ اختتام ہوگیا، شاہی گھرانے کے افراد کی موجودگی میں ونزر کاسل کے کنگ جارج ششم میموریل چیپل میں آخری رسومات ادا کی گئی۔ اسی طرح جب ملکہ برطانیہ گفتگو کے دوران اپنا بیگ زمین پر رکھتیں تو ان کے اسٹاف کے لئے یہ سگنل ہوتا کہ وہ اس شخص کے ساتھ بہتر محسوس نہیںکر رہیںاور وہاں سے جانا چاہتی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق کھانے کے دوران جب بھی ملکہ برطانیہ اپنا بیگ ٹیبل پر رکھتیں تو وہ اشارہ ہوتا کہ ملکہ اپنا کھانا 5 منٹمیں ختم کرلیںگی۔ شاہی خاندان نے ملکہ الزبتھ دوم کی نئی تصویر جاری کردی شاہی خاندان نے ملکہ الزبتھ کی سرکاری تدفین سے قبل ان کی نئی تصویر جاری کی ہے۔ شاہی خاندان کے بائیوگرافر نے میڈیا کو بتایا کہ ملکہ برطانیہ کے بیگ میںبھی عام خواتین کی طرح روزمرہ کی چیزیں ہوتی تھیں جن میں شیشہ، لپ اسٹک اور عینک وغیرہ شامل تھی۔
ترکی کے وزیر خارجہ میولوت چاوش اولو نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادی دیمر پوتن کا یوکرائنی فوج کو اپنی قومی قیادت کے خاتمے پر ابھارنا قابل قبول ہے۔ این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ""ہم مونٹریکس کنونشن کو اس کی تمام شقوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ ہم کوئی دوہرے معیار اپنائے بغیر، لفظ بہ لفظ اس کے مطابق اپنا پالیسی بیان دیتے ہیں”۔ روس کی جانب سے اپنے ہمسایہ ممالک پر فضائی اور زمینی حملے شروع کیے جانے کے بعد یوکرائن نے ترکی سے باسفورس اور آبنائے ڈارڈینیلس کو روسی بحری جہازوں کے لیے بند کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس درخواست نے نیٹو کے رکن ملک ترکی کو، جو بحیرہ اسود میں یوکرائن اور روس کے ساتھ مشترکہ سمندری حدود رکھتا ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بھی رکھتا ہے، کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ 1936ء کے معاہدے کے تحت، انقرہ کا ان آبناؤں پر کنٹرول ہے اور وہ کسی بھی جنگ کے وقت یا خطرے کی صورت میں جنگی جہازوں کے گزرنے کو محدود کر سکتا ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ انقرہ، ماسکو یا کیف کے ساتھ تعلقات ختم کیے بغیر بحران سے نمٹنے کی کوشش کرے گا، لیکن انہوں نے یوکرائن کے خلاف روسی اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ دفاع اور توانائی کے شعبوں میں روس کے ساتھ قریبی تعلقات اور معاہدوں کے ساتھ ساتھ، ترکی نے یوکرائن کو جدید ترین جنگی ڈرون بھی فروخت کیے ہیں اور روس کو ناراض کرتے ہوئے ان ڈرونز کی مزید مشترکہ پیداوار کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ ترکی، شام اور لیبیا میں روسی پالیسیوں، 2014ء میں کریمیا کے الحاق اور 2008ء میں جارجیا کے دو علاقوں کو تسلیم کرنے کی مخالفت کرتا چلا آ رہا ہے۔ یورپی یونین بلکہ پوری مغربی ذہنیت کوئی سنجیدہ اور پُرعزم موقف اختیار نہیں کر سکی۔ وہ فیصلہ سازی کی قوت سے محروم ہوچکےہیں۔https://t.co/kdKVVwbwIz pic.twitter.com/eaMY37JGsY
ٹوئٹر پول کے فورا بعد، ایلون مسک نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا ٹرمپ کا اکاؤنٹ دوبارہ بحال کیا جاتا ہے۔ ویب ڈیسک20 نومبر 2022 Facebook Twitter WhatsApp ای میل پر شئیر کیجئے پرنٹ google source 15 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ٹوئٹر کے نئے سی ای او ایلون مسک نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بحال کردیا ہے۔ ٹرمپ کا اکاؤنٹ 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل میں اشتعال انگیز تقریر کرنے اور تشدد پر بھڑکانے والی پوسٹ ٹوئٹر پر شیئر کرنے پر معطل کردیا گیا تھا۔ ایلون مسک ٹوئٹر کے نئے مالک اور سی ای او ہیں ، جنہوں نے حال ہی میں 44 بلین ڈالر میں مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم خریدا ہے۔ ہفتے کی شام ایک پول کے انعقاد کے بعد ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پول میں ٹوئٹر صارفین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ "ہاں” یا "نہیں” پر کلک کریں تاکہ طے کیا جاسکے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کیا جائے یا نہیں۔ پول کے دوران "ہاں” کے حق میں 51.2 فیصد ووٹ آئے تھے۔ یہ بھی پڑھیے زیادہ کام تھوڑے دام: ایلون مسک کاٹوئٹر ملازمین کو 12گھنٹے کام کرنیکا انتباہ ایلون مسک کا ٹوئٹر کی سبسکرپشن سروس رواں ہفتے بحال ہونے کا عندیہ ٹوئٹر پول کے فورا بعد، ایلون مسک نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بحال کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا ٹرمپ کا اکاؤنٹ دوبارہ بحال کیا جاتا ہے۔ ایلون مسک نے لاطینی زبان کو جملہ "Vox Populi، Vox Dei” لکھا ، جس کا تقریباً مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی آواز خدا کی آواز ہے۔ تھوڑی دیر بعد ٹرمپ کا اکاؤنٹ ان کی سابقہ ​​ٹویٹس کے ساتھ مکمل تفصیلات کے ساتھ دوبارہ ظاہر ہوگیا۔ اکاؤنٹ پر 59 ہزار سے زائد پوسٹس موجود ہیں۔ تاہم ان کے فالورز کی تعداد ابتدائی سطح پر آگئی ہے۔ جمعہ کے روز ایلون مسک نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کچھ دیگر لوگوں کے اکاؤنٹس کو بھی بحال کررہے ہیں جن میں مزاح نگار کیتھی گرفن اور مصنف و ماہر نفسیات اردن پیٹرسن سمیت کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔
تقسیم کے وقت دو نوزائیدہ ممالک کے درمیان فوج کی تشکیل اور تقسیم کا عمل کیسے مکمل کیا گیا اور پاکستان کے پہلے آرمی چیف کون تھے؟ سجاد اظہر صحافی، مصنف @Sajjadazhar99 جمعہ 25 نومبر 2022 8:30 جنرل میسروی نے دوسری عالمی جنگوں میں نمایاں کردار ادا کیا تھا (امپیریئل وار میوزیم) پاکستانی فوج دنیا کی 10 مضبوط ترین افواج میں نویں نمبر پر ہے۔ فوج کو جو برتری حاصل ہے اس کی وجہ سے اس کی معمول کی تقرریوں و تبادلے کے معاملات بھی قومی سطح پر بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایک ایسے موقعے پر جب موجودہ حکومت نے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ قارئین یہ جان سکیں کہ پاکستانی آرمی کی تشکیل کیسے ہوئی تھی اور اس کے پہلے چیف کون تھے؟ اس وقت دو نوزائیدہ ممالک کے درمیان فوج کی تشکیل اور تقسیم کا عمل کیسے مکمل کیا گیا تھا؟ فیلڈ مارشل کلاڈ آوچن لیک فوج کی تقسیم کے خلاف تھے تقسیم سے پہلے یکم جولائی 1947 کو برٹش انڈین فوج میں مقامی فوجیوں کی تعداد تین لاکھ 73 ہزار 570 تھی، جن میں ایک لاکھ 54 ہزار 780 ہندو، ایک لاکھ 35 ہزار268 مسلمان، 35 ہزار 390 سکھ جبکہ باقی مسیحی اور گورکھا تھے۔ ہندوؤں کا تناسب 41.4 فیصد اور مسلمانوں کا 36.2 فیصد تھا۔ دوسری جنگ عظیم تک ہندوستانی فوج کی تعداد 25 لاکھ تھی جس میں سے بیشتر کو غیر فعال کر کے گھروں میں بھیج دیا گیا تھا۔ تقسیم کے وقت ہندوستان میں انگریزی فوج کی تعداد چھ بٹالین پر مشتمل تھی۔ فوج کی کمانڈ فیلڈ مارشل آوچن لیک کے پاس تھی جو تقسیم کی صورت میں مشترکہ فوج کی حمایت میں تھے لیکن قائداعظم کسی صورت میں اس تجویز سے متفق نہیں تھے بلکہ لیاقت علی خان نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ’میں اور جناح اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ فوج کی موجودگی اور کنٹرول کے بغیر اقتدار نہیں سنبھالیں گے۔‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سربراہی میں جب پارٹیشن کمیٹی بنی، جس میں سول اور فوجی افسران کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے تو اس کمیٹی کے سامنے ایک چیلنج فوج کی منصفانہ تقسیم بھی تھا، جس کے لیے الگ ڈیفنس کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر جبکہ کانگریس کی سردار ولبھ بھائی پٹیل اور رجندر پرشاد نے کی تھی۔ 23 جون کو قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہا کہ مسلمانوں کو جنرل آوچن لیک پر مزید اعتبار نہیں ہے اور ان کی جگہ کسی اور کو کمانڈر ان چیف لگایا جائے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر جناح کا مطالبہ رد کر دیا کہ ان سے زیادہ بہتر اور کوئی فوجی افسر موجود نہیں ہے۔ 26 جون کو پارٹیشن کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں آوچن لیک نے شرکا کو بتایا کہ مسلح افواج کی تقسیم ہندوستان کی تقسیم سے پہلے عمل میں آجائے گی لیکن نیشنلائزیشن کے لیے انتظار کرنا ہو گا اور اس عمل کے دوران انگریز فوج کی بھی ضرورت پڑے گی۔ فوج کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک دونوں حصوں کی فوج ایک ہی ہیڈ کوارٹر اور ایک ہی کمانڈر ان چیف کے تحت رہے گی۔ جنرل آوچن لیک (تصویر: کریٹیو کامن) انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مسلم اکثریت والے فوجی یونٹ پاکستان کو جبکہ باقی مذاہب کی اکثریت والے دستے بھارت کو ملیں گے۔ برطانوی فوجی ہیڈ کوارٹر سے بھی یہ تجویز دی گئی کہ دونوں ممالک کم از کم دو یا تین سال کے لیے انگریز دستے اپنے ملکوں میں رہنے دیں تاکہ کسی بھی بیرونی جارحیت سے نمٹنے کے لیے منظم ہو سکیں۔ قائداعظم بھی اس بات پر رضا مند ہو گئے کہ پاکستان کا کمانڈر ان چیف اور کئی سینیئر فوجی افسر انگریز ہی ہوں گے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب ’پاکستان، عسکری ریاست‘ میں بڑی تفصیل سے ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے جو اس دوران رونما ہو رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’10 جولائی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 15 اگست 1947 سے دونوں آزاد ملکوں کے فوجی ہیڈ کوارٹرز اپنے علاقوں میں فوج کی نقل و حمل یا آپریشنل کنٹرول کے ذمہ دار ہوں گے۔ موجودہ آرمڈ ہیڈ کوارٹر برقرار رہے گا اور اسے سپریم ہیڈ کوارٹر کا درجہ مل جائے گا۔‘ بعد میں یہی عمل آزادی ہند ایکٹ 18 جولائی 1947 کی شقوں میں مزید واضح کر دیا گیا تھا کہ دو نئی ریاستوں کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے تک کمانڈ اور گورننس ایک ہی رہے گی۔ لندن میں بھی یہ رائے موجود تھی کہ دونوں نئی ریاستوں کو دولت مشترکہ کے رکن کے طور پر برطانیہ کے ساتھ دفاعی اور سکیورٹی انتظامات سے منسلک رہنا چاہیے۔ 24 جولائی کو برطانیہ کے وزیر برائے ہندوستان و برما ارل آف لیسٹو ویل وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ ’برطانوی فوجی کسی بھی بیرونی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے موجود رہیں گے اور برطانیہ کو جنگ کی صورت میں فوجی تعاون بھی فراہم کریں گے۔ البتہ باہمی تعاون کا فیصلہ کرنے میں دونوں ریاستیں آزاد ہوں گی۔‘ تاہم ارل آف لیسٹوویل نے یہ امکان نظر انداز کر دیا کہ کہ اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ ہو گئی تو کیا ہو گا؟ جنرل آوچن لیک نے یہ واضح کر دیا تھا کہ دونوں آزاد ملکوں کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپوں میں تو انگریز فوجی افسران اپنا کردار ادا کریں گے لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ گئی تو وہ کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ چیف آف جنرل سٹاف آرتھر سمتھ نے 29 جون کو ایک انتہائی خفیہ مراسلہ سینیئر انگریز افسران کو بھیجا کہ فرقہ وارانہ تصادم میں انگریزافسران استعمال نہیں ہوں گے بلکہ وہ صرف برطانوی شہریوں کی زندگی بچانے میں حصہ لیں گے۔ فوج کی تقسیم کا اصول کیا طے ہوا؟ اگرچہ برطانوی ہند کی فوج میں مسلمان فوجیوں کا تناسب ہندوؤں سے صرف پانچ فیصد کم تھا لیکن فوجوں کی تقسیم میں مذہبی تناسب کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ بری فوج میں 30-70، نیوی میں 60-40 اور ایئر فورس میں 70-30 کا تناسب رکھا گیا۔ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ اس فیصلے سے بھی مسلح افواج کی تشکیل نو سے متعلق کمیٹی میں بھارت کے نمائندے خوش نہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) اس سے پہلے انہوں نے وائسرائے کی یہ تجویز مسترد کر دی تھی کہ اگر پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) کے قبائلی علاقوں میں کوئی شورش ہو تو بھارت اپنی فضائیہ کے طیارے وہاں بھجوائے گا۔ البتہ ان نمائندوں نے اتفاق کیا کہ اگر افغانستان یا کسی اور ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحیت کی گئی تو بھارت اپنے سکواڈرن بھجوانے پر غور کرے گا، لیکن بعد میں بھارتی نمائندے اس سے بھی منکر ہو گئے کہ ایسا کرنے کا مطلب ہو گا کہ بھارت نے قبائلیوں کے خلاف لڑائی میں اپنی عسکری تنصیبات پاکستان کے حوالے کر دی ہیں۔ سردار پٹیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی تجاویز دے کر جنرل آوچن لیک اور دیگر سینیئر کمانڈر پاکستان نواز بن رہے ہیں۔ یہ ڈیفنس کونسل کے ذمہ تھا کہ مارچ 1948 تک دونوں ممالک میں طے شدہ فارمولے کے تحت اثاثے تقسیم ہو جائیں مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس فارمولے پر عمل در آمد کروانے میں ناکام رہے اور بھارت نے پاکستان کو دیے جانے والے ساز و سامان کی ترسیل روک دی۔ اس پر انہوں نے ڈیفنس کمیٹی تحلیل کر دی۔ آوچن لیک نے سازو سامان کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ جاری رکھا جس پر بھارتی حکومت نے انہیں سپریم کمانڈر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ آوچن لیک نے بھی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو آگاہ کر دیا کہ وہ 30 نومبر تک دہلی چھوڑ جائیں گے اور 31 دسمبر1947 تک سپریم ہیڈ کوارٹر بند کر دیا جائے گا۔ قائداعظم نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا اور جب 16 اکتوبر کو جوائنٹ ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا تو جناح نے آوچن لیک کے فیصلے کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ چوں کہ اثاثوں کی تقسیم کی ذمہ داری ابھی پوری نہیں ہوئی، اس لیے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ جو تقسیم رہ گئی ہے اسے دونوں ملکوں کے کمانڈر ان چیف مل کر کرلیں گے۔ دونوں ملکوں کے کمانڈر انگریز تھے۔ پاکستان کی کمان جنرل سر فرینک والٹر میزوری جبکہ بھارت کی سر رابرٹ میک گریگر میکڈونلڈ لاک ہرٹ کے پاس تھی۔ جنرل فرینک والٹر میسروی پاک فوج کے پہلے سربراہ پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ جنرل سر فرینک والٹر میسروی (پاکستان آرمی ویب سائٹ) پاکستان آرمی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جنرل سرفرینک والٹر میسروی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے چیف بنے۔ وہ 15 اگست 1947 سے 10 فروری 1948 تک چیف رہے۔ پاکستان کے قیام سے پہلے وہ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کی سربراہی کر رہے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں پاکستان فوج کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ وہ 1893 میں پیدا ہوئے اور 1913 میں انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے پہلی اور دوسری دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا۔ کشمیر کی پہلی جنگ میں انڈیا کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا کہ قبائلیوں کو ان کی منظوری کے بعد کشمیر بھیجا گیا تھا حالاں کہ جب قبائلیوں نے حملہ کیا تو میسروی اس وقت لندن میں تھے۔ جب وہ واپس آئے اور دہلی ایئرپورٹ پر اترے تو انڈین حکام نے انہیں روک لیا، جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یقین دہانی کروائی کہ کشمیر کی کارروائی ان کے علم میں نہیں تھی۔ 12 نومبر1947 کو انہوں نے ایک خط جاری کیا اور اس الزام کی تردید کی کہ کشمیر آپریشن میں پاکستانی فوج کا کوئی حاضر سروس آفسر ملوث ہے۔ پاکستان نے یہ خط ثبوت کے طور پر سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ جنرل میسروی کی ریٹائرمنٹ پر قائداعظم نے جنرل گریسی کو کمانڈر ان چیف کے عہدے پر ترقی دی، جو 11 فروری 1948 سے 16 جنوری 1951 تک فوج کے سربراہ رہے۔ انہوں نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں شرکت کی تھی۔ پاکستانی فوج کے سربراہ بننے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں چیف آف سٹاف کے عہدے پر تھے۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کا کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا بلکہ وہ یہ معاملہ سپریم کمانڈر جنرل کلاڈ آوچن لیک کے نوٹس میں لے آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں برطانوی فوجی غیر جانبدار رہیں گے، تاہم ڈاکٹر اشتیاق احمد نے لکھا ہے کہ قائداعظم جنرل گریسی کو کشمیر پر حملے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اپریل 1948 کے نصف میں پاکستانی دستے کشمیر میں داخل ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے 75 سال گزر چکے ہیں، پاکستان کی سٹریٹیجک پالیسیاں کشمیر کے گرد ہی گھوم رہی ہیں اور پاکستان اپنے ایک حصے سے محروم بھی ہو چکا ہے۔ کشمیر ابھی تک حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ دنیا پاکستان کو ایک عسکری ریاست کے حوالے سے جانتی ہے، جہاں سیاست سمیت تمام شعبوں کا محور پاکستان فوج ہی ہے۔
وادی قدرون (عبرانی؛ נחל קדרון‎، عربی: وادي الجوز، انگریزی: Kidron Valley) اسرائیل کے قدیم شہر یروشلم کے مشرق میں واقع ایک وادی جو کوہ زیتون اور کوہ حرم کو آپس میں جدا کرتی ہے۔ بیس میل طویل اور چار ہزار فٹ گہری یہ وادی صحرائے یہودا سے مغربی کنارے کی سمت بحیرہ مردار تک جاتی ہے۔ اس کے اوپری ایک ڈھلان پر واقع ایک آبادی قدر اسی کے نام سے موسوم ہے۔ پرانے شہر (یروشلم) سے وادی قدرون کا نظارہ۔ اس کا اوپری حصہ ہمسائیگی وادی الجوز کی وجہ سے عربی نام سے ہی موسوم ہے۔[1] عبرانی تورات میں بالائی علاقے کو عمق یہوسفط کہا گیا ہے جس کے معنی وادی یہوسفط کے ہیں۔ اس کا ذکر یہودی معادیات پیش بینی میں ملتا ہے جس میں ایلیاہ کی واپسی اور پھر ظہور مسیح، فتنہ جوج ماجوج اور قیامت کے دن کے بیانات ملتے ہیں۔[1] اشتقاقیاتترميم عبرانی نام قدرون کا مادہ و ماخذ لفظ ‘ قدر ‘ ہے، جس کے معنی ‘ اندھیرا ہونا ‘ یا ممکنہ طور پر ‘ سیاہی مائل ‘ اور ‘ دھندلایا ہوا’ کے لیے جاتے ہیں۔ [2] روایات مسیحیت میں، یونانی لفظ کیدرن برائے سدر، κέδρος (kedros) اور وادی کے یونانی نام Kedron جو سپتواجنتا سے اخذ کیا گیا ہے، ممکنہ طور پر وادی قدرون کو وادی سدرس کے غلط نام سے پکارنے کا باعث ہو سکتا ہے۔[3] وادی یہوسفطترميم عبرانی تورات کے مطابق وادی یہوسفط، عمق یہوسفط (عبرانی: עמק יהושפט) جس کے معنی “ وہ وادی جہاں خدا عدالت قائم کرے گا “ کے لیے جاتے ہیں۔ یعنی میدان قیامت۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تمام دانشور اس روایتی نظریے سے متفق نہیں ہیں کہ وادی قدرون جو یروشلم اور کوہ زیتون کے مابین مشرق میں واقع ہے دراصل مقام وادی یہوسفط ہے۔ حوالہ جاتترميم ^ ا ب Goffart, Walter. After Rome's Fall. Toronto: University of Toronto Press, 1998. ↑ "Qidron". Strong's Concordance and NAS Exhaustive Concordance, via BibleHub.com. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2017. الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت) ↑ D. A. Carson (1991). The Gospel According to John. Grand Rapids, Michigan: Eerdmans Publishing. صفحہ 576. ISBN 978-0-85111-749-2. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2017. الوسيط |url-status= تم تجاهله (معاونت); تحقق من التاريخ في: |access-date= (معاونت)
اسلام آباد/ کراچی: ملک بھر میں یومیہ رپورٹ ہونے والے کورونا کیسز میں کراچی میں سب سے زیادہ شرح ریکارڈ کی گئی۔ این سی او سی کے مطابق سندھ میں گزشتہ روز 508 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی اور صوبے میں مثبت کیسز کی شرح 10.53 فیصد رہی۔ این سی او سی کا بتانا ہے کہ کراچی میں گزشتہ روز کورونا کے 456 کیسز رپورٹ ہوئے اور مثبت کیسز کی شرح 20.61 فیصد رہی جب کہ حیدرآباد میں شرح 0.83 فیصد رہی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق پنجاب سمیت ملک کے دیگرصوبوں میں بھی کورونا مثبت کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ لاہور میں گزشتہ روزکورونا مثبت کیسزکی شرح 3.29 فیصد رہی، فیصل آباد میں 1.52، کوئٹہ میں 2.71، مردان 2.21، اسلام آباد 3.48 اور راولپنڈی 0.75 فیصد رہی۔ اس کے علاوہ پشاور میں کورونا مثبت کیسز کی شرح 4.51 فیصد رہی جب کہ میرپور آزاد کشمیر میں شرح 2.44 فیصد رہی۔ واضح رہے کہ پچھلے کچھ ایام سے ملک بھر میں کورونا کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور کراچی میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے اور شرح بھی سب سے بلند ترین ہے۔
بند ایئر پورٹس کو آپریشنل کرنے کا حکومتی منصوبہ تیار پاکستان کیساتھ تجارتی حجم 1ارب ڈالر ہوجائیگا، سربراہ ٹریڈ مشن ویتنام پی اے سی، پی ٹی اے میں التوا کے شکاراربوں کے کیسزکی تفصیلات طلب پاکستان نے ایک ارب ڈالر کے سکوک بونڈز کی ادائیگی کردی سعودی عرب نے پاکستان کیلئے 3 ارب ڈالر ڈپازٹ میں توسیع کردی گوگل پیڈ سروس بندش کا خدشہ ختم، پاکستان ادائیگی پر راضی کراچی کے پریشان حال تاجر بیرون ملک شفٹ ہورہے ہیں، گورنر سندھ ’’کے الیکٹرک‘‘ گھریلوصارفین کیلیے بجلی3.21 روپے فی یونٹ مہنگی پاکستان نے معاشی استحکام کے لیے بینک آف چائنہ سے مدد مانگ لی ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر منتقل کردیے شیئر کریں چھوٹے پیمانے کی کاروباری خواتین بینکوں کی توجہ سے محروم چھوٹے پیمانے کی کاروباری خواتین بینکوں کی توجہ سے اب تک محروم ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے کاروباری خواتین کے لیے اگست 2017ء میں قرضہ گارنٹی اسکیم شروع کی تھی۔ اس اسکیم کا مقصد کاروباری خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے کاروبار کے میدان میں مزید آگے بڑھیں۔ ابتدا میں قرض کی مالیت 15 لاکھ روپے تھے جسے تین سال بعد بڑھا کر 50 لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔ کریڈٹ گارنٹی اسکیم میں اسٹیٹ بینک کمرشل بینکوں کو یقین دہانی کراتا ہے کہ ٹارگٹڈ قرض دہندگان کو قرض دینے پر نقصان ہونے کی صورت میں مرکزی بینک بڑی حد تک اس کی تلافی کردے گا۔ تاہم خواتین میں کاروباری رجحان اور صنف نازک کے ذریعے چلائے جانے والے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اسکیم کے تحت بینک برانڈڈ کلوتھنگ، شوز اور بیوٹی پروڈکٹس اور اسی نوع کے دیگر کاروبار کے لیے قرضہ فراہم کررہے ہیں۔ تاہم کاروباری خواتین کاایک طبقہ جس کا حجم کہیں زیادہ وسیع ہے اسے بینکوں کی توجہ حاصل نہیں رہی۔ اس طبقے میں کورنگی، کیماڑی، نارتھ کراچی، نیوکراچی، اورنگی اور سرجانی اور مضافاتی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے ذریعے خاندان کی کفالت کرنے والی خواتین شامل ہیں۔ یہ خواتین روٹیاں، اچار اور مربے تیار کرتی، تیار کھانے فروخت کرتی، ٹیوشن سینٹر اور چھوٹے چھوٹے بیوٹی پارلر چلاتی، کپڑے سیتی اور جوتے وغیرہ تیار کرتی ہیں۔ بیشتر بینک بہت چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی ان خواتین کو نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خواتین کو مائیکرو فنانسنگ کی سہولت فراہم کی جائے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان ایک ٹی وی شو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں — اسکرین گریب بذریعہ دنیا نیوز اے جی پی خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ جیسا کہ آرٹیکل 95 میں ذکر کیا گیا ہے، ووٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ کہتا ہے کہ آرٹیکل 63 (A) صرف ووٹوں کو برخاست کرنے یا پارٹی کے رکن کو پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی وجہ سے نااہل قرار نہیں دے سکتا۔ کیا ہوگا اس سے متعلق بحث کا کہنا ہے۔ [course of action on this] ہونا ابھی باقی ہے. حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63(A) پر اس کی تشریح طلب کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے – جو پارلیمانی پارٹی سے انحراف پر قانون سازوں کی نااہلی سے متعلق ہے۔ حکومت، جیسے جیسے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کے دن قریب آرہے ہیں، اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ کیا اسپیکر پارٹی کی پالیسی کے خلاف جانے والے قانون سازوں کے ووٹوں کو نظرانداز کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے جب اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان پیش ہوئے۔ دنیا نیوزمنگل کو ٹاک شو میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے پاکستان کے آئین میں تحریک عدم اعتماد کی گنجائش رکھی گئی ہے، اس لیے انہوں نے حال ہی میں اس معاملے پر "کافی گہرائی سے” غور کیا ہے۔ "میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چونکہ قومی اسمبلی کے تمام اراکین آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں، اس لیے ووٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، چاہے نتائج کچھ بھی ہوں”۔ انہوں نے کہا. آئین کے آرٹیکل 63 (A) پر روشنی ڈالتے ہوئے – جو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈالتے وقت پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو نہ ماننے پر ایک ایم این اے کے منحرف ہونے کی بنیاد پر نااہلی کا مشورہ دیتا ہے – اے جی پی نے کہا، ان کے خیال میں ، کہ مذکورہ آرٹیکل آرٹیکل 95 کی موجودگی کی وجہ سے نااہلی کی بنیاد بنانے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ "کیا ہوگا اس سے متعلق ایک بحث [course of action on this] ابھی ہونا باقی ہے،” انہوں نے کہا۔ جب شو کے میزبان نے پوچھا کہ کیا AGP یہ کہہ رہا ہے کہ اختلاف رائے کا ووٹ ضائع نہیں کیا جائے گا، تو اس نے کہا کہ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن اصولی طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ ووٹوں کو ضائع نہیں کیا جا سکتا اور ان کی گنتی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا، "اگر آئین بنانے والے لوگوں نے کسی پارٹی کے رکن کو پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے سے روکنے کا انتخاب کیا ہوتا، تو وہ اسے آرٹیکل 95 میں آسانی سے شامل کر سکتے تھے۔” اے جی پی نے پہلے کیا کہا تھا؟ ایک دن پہلے، دوران خطاب کرتے ہوئے جیو نیوز‘ پروگرام "آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ،” اے جی پی نے کہا تھا کہ قانون سازوں کو تاحیات نااہل قرار دینے سے ہارس ٹریڈنگ کو روکا جا سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے بعد جب حکمران پی ٹی آئی کے ارکان کی بڑی تعداد میں انحراف اور پارٹی بظاہر کنٹرول کھو رہی ہے، ہارس ٹریڈنگ سے نمٹنے کے لیے، اے جی پی خان نے کہا کہ فلور کراسنگ نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی فعل بھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل 63A کو آرٹیکل 62 کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو فلور کراس کرنے کا جرمانہ ایک بار کی نااہلی نہیں ہونا چاہئے، انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 62 (1)(f) کے معیار پر پورا نہ اترنے والوں کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا جیسا کہ اس کی تشریح کی گئی ہے۔ ایس سی اے جی پی خان نے کہا تھا، لہذا، ایک پارلیمنٹیرین کراسنگ فلور کو آرٹیکل 63A کے آرٹیکل 62 (1) (f) میں بیان کردہ خصوصیات کو کھونے پر غور کیا جانا چاہئے، اے جی پی خان نے کہا تھا۔ اٹارنی جنرل کے مطابق، دو سوالات – کیا آرٹیکل 63A آئین کی الگ تھلگ شق ہے یا یہ اس بڑی اسکیم کا حصہ ہے جس میں آرٹیکل 62 (1)(f) شامل ہے – سپریم کورٹ میں حکومت کا مقدمہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب تک ان دونوں سوالوں کی کسی بھی صورت میں تشریح نہیں کی گئی، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تشریح نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ پورے سیاسی عمل کے لیے ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹیرین کا ضمیر جاگتا ہے تو وہ استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63A حکومت کے اتحادیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
کوئی لفظ یا اظہار خیال کے طریقہ توہین آمیز (انگریزی: Pejorative) یا ہجویہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا مقصد بنیادی طور پر منفی یا بد تمیزی بھرے لب و لہجے کا اظہار کسی شخص یا کسی چیز کے لیے کیا جائے۔ اس کا استعمال کئی بار تنقید، دشمنی یا عدم احترام کے اظہار کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔[1] کبھی کبھار کوئی لفظ یا اصطلاح کسی مخصوص نسلی یا سماجی گروہ کے نزدیک توہین آمیز ہو سکتا ہے، تاہم دیگر گروہوں کے نزدیک یہ شاید توہین آمیز نہ ہو۔ مثالیںترميم بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو انڈین نیشنل کانگریس نے حقارت آمیز انداز میں انتخابی مہموں کے دوران چائے والا کہا، تاہم اسی کو طرہ امتیاز بناکر بی جے پی الیکشن لڑتی بھی ہے اور جیت بھی جاتی ہے۔[2] نریندر مودی نے 2019ء میں جھارکھنڈ ریاست کے انتخابات کے دوران فرقہ وارانہ اور حقارت آمیز بیان جاری کیا کہ متنازع سی اے اے کے خلاف احتجاجیوں کی شناخت وہ کپڑوں سے کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ بیش تر احتجاجی مسلمان ہیں، جیساکہ دی وائر، اسکرول ڈاٹ ان اور کئی دیگر ذرائع ابلاغ نے تجزیہ کیا۔[3][4] [5] ایک اور کیرلا کے بی جے پی رہنما پی ایس سریدھرن نے مزید توہین آمیز تبصرہ اسی سال ایک اور موقع پر یہ کیا کہ مسلمانوں کو ان کی شناخت ان کے کپڑے ہٹاکر کی جا سکتی ہے۔[6] مغربی دنیا میں کسی غیر شادی شدہ جوڑوں کے یہاں مولود بچے کو محبت کا بچہ (love child) کہتے ہیں اور معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔[7] جب کہ کئی ترقی پزیر ممالک میں ایسے بچوں کے کیے حرامزادہ جیسے توہین آمیز اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مزید دیکھیےترميم ہتک عزت حوالہ جاتترميم ↑ "Pejorative | Define Pejorative at Dictionary.com". Dictionary.reference.com. اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2012. ↑ [https://www.business-standard.com/article/politics/congress-gets-slammed-over-youth-wing-s-chaiwala-jibe-at-pm-modi-117112101127_1.html Congress gets slammed over youth wing's 'chaiwala' jibe at PM Modi] ↑ 'Look at Their Clothes': Modi Plays Communal Card on CAA, Targets Muslim Protestors ↑ As Modi talks of identifying violent protesters by their clothes, what should Indian Muslims do? ↑ Modi's 'clothes of perpetrators of violence' remark strengthens communal actions of Delhi's police?
چھاتی کے کینسر کا شمار برطانیہ کے بہت عام کینسروں میں ہوتا ہے اور ہر سال 55 برس سے کم عمر کی پانچ ہزار خواتین میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔ 26 اگست کو سابق بینڈ ’گرلز الاؤڈ‘ کی گلوکارہ سارہ ہارڈنگ نے اعلان کیا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے جو بدن کے دوسرے حصوں تک پھیل چکا ہے۔ تنظیم ’بریسٹ کینسر ناؤ‘ کے مطابق برطانیہ میں ہر آٹھ میں سے ایک عورت زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر چھاتی کا سرطان کا شکار ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بہت سی عورتیں باقاعدگی سے اپنی چھاتی میں تبدیلیاں جانچنے کے لیے معائنہ نہیں کرتیں۔ بوپا اور ایچ سی اے ہیلتھ کیئر یو کے کے مطابق چار میں سے ایک عورت نے اعتراف کیا کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے آخری بار کب چھاتی کا معائنہ کیا تھا۔ ایچ سی اے ہیلتھ کیئر یو کے کی کنسلٹنٹ بریسٹ اینڈ آنکوپلاسٹک سرجن جوانا فرینکس کا کہنا تھا: ’چھاتی کے کینسر کی جلد تشخیص اتنی اہم ہے کہ یہ مریضوں کو پیچیدہ سرجری اور ادویات سے علاج سے بچا سکتی ہے۔ ’90 فیصد عورتوں، جن میں جلد تشخیص ہو جاتی ہے، وہ تشخیص کے پانچ سال بعد تک زندہ اور صحت مند رہتی ہیں۔ تاہم اگر تشخیص دیر سے ہو تو یہ شرح گھٹ کر 15 فیصد رہ جاتی ہے۔‘ اس مقصد کی خاطر یہ انتہائی ضروری ہے کہ خواتین خود اپنا معائنہ کریں، لیکن یہ کیسے کیا جائے اور اس دوران کیا دیکھنا چاہیے؟ ان سوالوں کے جواب حاضر ہیں: چھاتیاں کیسے محسوس ہونی چاہییں؟ چھاتی کے کینسر کی علامات کے بارے میں سوچنے سے پہلے یہ جاننا اہم ہے کہ آپ کی عام طور پر چھاتیاں محسوس ہوتی ہیں اور نظر آتی ہیں۔ اس طرح آپ ان میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی جلد معلوم کر کے ڈاکٹر سے مشورہ کر سکیں گی۔ ہر عورت کی چھاتیاں مختلف ہوتی ہیں اور ان کا سائز، شکل اور ٹھوس پن مختلف ہوتا ہے۔ برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس کے مطابق ایک چھاتی کا دوسری سے بڑا ہونا نارمل ہے۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماہواری کی وجہ سے مہینے کے مختلف اوقات میں چھاتیاں مختلف انداز میں محسوس ہوں گی۔ اسی طرح سن یاس (ماہواری ختم ہونے کی عمر کے بعد) میں بھی بعض عورتوں کی چھاتیاں نرم اور کم ٹھوس محسوس ہو سکتی ہیں۔ میں اپنی چھاتیوں کا معائنہ کیسے کروں؟ برطانوی محکمۂ صحت این ایچ ایس کا کہنا ہے کہ چھاتیاں چیک کرنے کے لیے آئینے کے سامنے کھڑا ہونا مفید ہو سکتا ہے۔ ادارہ کہتا ہے کہ پہلے دیکھیں کہ چھاتیوں میں کوئی نظر آنے والی تبدیلی تو نہیں آئی۔ پہلے بازو اپنے پہلو پر رکھ کر اور پھر انہیں اوپر اٹھا کر دونوں طریقوں سے چھاتیوں کا بغور جائزہ لیں۔ اس کے بعد ہر چھاتی کو چھو کر دیکھیں۔ ایسا کرتے وقت اس اس جگہ کو چھوئیں جہاں چھاتی کا ٹشو ہے، بشمول بغلوں میں اور ہنسلی کی ہڈی (کالر بون) تک۔ مجھے کیا چیز ڈھونڈنی چاہیے؟ کسی واضح گلٹی یا گومڑ کے علاوہ بھی چھاتی کے کینسر کی مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ این ایچ ایس کے مطابق اگر آپ مندرجہ ذیل میں سے کوئی تبدیلی دیکھیں تو اپنے ڈاکٹر کے علم میں لے آئیں: چھاتی کی شکل، آؤٹ لائن، یا شکل میں تبدیلی جلد کے دیکھنے اور چھونے میں تبدیلی، جیسے کھنچاؤ یا گڑھا پڑنا چھاتی یا بغل میں ایک نیا گومڑ، گلٹی یا ابھرا ہوا حصہ جو دوسری چھاتی کے اسی حصے سے مختلف ہو نپل سے دودھ کے علاوہ کسی اور مواد کا اخراج نپل سے خون بہنا نپل پر نم یا سرخ حصہ جو آسانی سے مندمل نہ ہو نپل یا اس کے اردگرد سرخ باد (ریش) چھاتی میں درد یا بےآرامی، خاص طور پر اگر یہ درد نیا ہے اور جانے کا نام نہیں لے رہا (البتہ درد چھاتی کے کینسر کی شاذ و نادر ہونے والی علامت ہے) مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) مجھے کب اور کتنی بار چھاتیوں کا معائنہ کرنا چاہیے؟ آپ دن میں کسی بھی وقت، کہیں بھی چھاتیوں کا معائنہ کر سکتی ہیں۔ چاہے صوفے پر بیٹھ کر معائنہ کریں یا پھر لباس تبدیل کرتے وقت۔ تاہم بعض خواتین کو شاور لیتے وقت صابن بھرا ہاتھ دونوں چھاتیوں اور بغلوں کے نیچے پھیر کر تبدیلیوں کا معائنہ کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ کتنی بار معائنہ کرنا چاہیے، اس کی کوئی واضح تعداد نہیں بتائی گئی، البتہ بریسٹ کینسر کے خیراتی ادارے کوپا فیل (CoppaFeel!) کے مطابق مہینے میں کم از کم ایک بار ایسا کرنا چاہیے۔ اس طرح آپ کو اعتماد سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کے لیے کیا نارمل ہے اور اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو آپ اسے فوراً پکڑ سکیں گی۔ کیا چھاتیوں میں گلٹی ہونا نارمل ہے؟ این ایچ ایس کے مطابق بہت سی عورتوں کی چھاتیوں میں گلٹیاں ہوتی ہیں، اور دس میں سے نو بار وہ سرطانی نہیں ہوتیں۔ تاہم اگر آپ کو کوئی ایسی گلٹی محسوس ہو جو آپ کے لیے نارمل نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ میموگرام کیا ہے اور کیا مجھے کروانا چاہیے؟ میموگرام چھاتیوں کا ایکس رے ہے اور عام طور پر اسے ہسپتال کے بریسٹ سکریننگ یونٹ میں لیا جاتا ہے۔ میموگرام چھاتیوں کے ٹشو میں چھوٹے چھوٹے ایسے حصوں کی نشان دہی کر سکتا ہے جن میں کیلشیئم ہو۔ اس کیلسی فیکیشن کہا جاتا ہے۔ کیلسی فیکیشن غیر سرطانی وجوہات کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے، تاہم یہ کینسر کی ابتدائی علامات میں بھی شامل ہے۔ تجربہ کار ٹیکنیشن اور ڈاکٹر بتا سکتے ہیں کہ کیلسی فیکیشن غیر سرطانی ہے یا نہیں اور آیا مزید ٹیسٹوں کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس وقت (برطانیہ میں) 50 سے 70 برس کی خواتین کا ہر تین سال بعد میموگرام کیا جاتا ہے۔ تاہم این ایچ ایس یہ پروگرام کو بطور ٹرائل توسیع دے رہا ہے، اور 47 سے 73 برس کی عمر کی بعض خواتین کو یہ سہولت فراہم کر رہا ہے۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے تعاون سے جاری لنکس ٹو لرننگ پروگرام کے تحت 26پاکستانی طلبا اور چار اساتذہ امریکہ روانہ ہورہے ہیں۔ ان میں چار طالبات بھی شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ہر سال منتخب پاکستانی طالب علموں اور اساتذہ کو مختصر دورانیہ کے تربیتی اور ثقافتی تبادلہ پروگراموں کے لیے امریکہ بھیجا جاتا ہے جس کا مقصد طلبا میں مل جل کر کام کرنا،قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارنا اور ثقافتی افہام وتفہیم کو فروغ دینا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں بدھ کے روز منعقدہ تقریب میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے سائنس و ٹیکنالوجی کے دو ہفتہ دورانیہ کے تبادلہ پروگرام کے لیے منتخب ہونے والے طلبا کو مبارکبا د پیش کی اور کہا کہ جس طرح امریکہ پاکستان میں ہولناک سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے کی جانے والی امدادی کارروائیوں میں حکومت پاکستان کی اعانت کررہا ہے اسی طرح وہ مستقبل کے پاکستانی رہنماؤں کے لیے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بھی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے ۔ امریکی سفیر نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ طالب علموں اور اساتذہ کے تبادلہ پروگرام مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں اور ان سے باہمی افہام وتفہیم کو فروغ مل سکتا ہے۔ امریکی حکومت مڈل اور ثانوی درجے کے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کی وزارت تعلیم کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے لیے امریکہ کا فل برائیٹ اسکالر شپ پروگرام اس وقت دنیا میں سب سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پروگرام ہے جس کے تحت پاکستانی طالب علموں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو امریکی اداروں میں حصول تعلیم کے لیے معاونت فراہم کی جاتی ہے۔
24 نیوز پی کے: ایشیا کپ 2022 میں افغانستان کے خلاف پاکستان کو آخری اوور میں یادگار جیت دلوانے والے نسیم شاہ نے کہا ہے کہ ابھی تو سب یہ بھول گئے ہوں گے کہ میں ایک بولر ہوں۔ پوسٹ میچ انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیٹنگ پر آیا تھا تو معلوم تھا کہ چھکے لگا سکتا ہوں۔نسیم شاہ نے کہا کہ کوشش کی اور کامیاب ہوگیا، یقین تھا کہ کرلوں گا کافی پریکٹس کرتے رہتے ہیں۔پاکستانی کرکٹر کا کہنا تھا کہ ان کے لیے یہ میچ یادگار رہے گا۔خیال رہے کہ جب قومی ٹیم کو آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے تو ایسے میں نسیم شاہ نے فضل حق فاروقی کی ابتدائی دو گیندوں پر چھکے لگا کر قومی ٹیم کو جیت سے ہمکنار کروایا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔پاکستان نے عمدہ بولنگ کروائی اور افغانستان کی ٹیم کو 20 اوورز میں 129 رنز تک محدود کر دیا۔پاکستان کے لئے دیکھنے میں بہت آسان حدف تھا لیکن افغانستان نے عمدہ بولنگ کروائی اور 130 رنز کا حدف بھی مشکل نظر آرہا تھا۔میچ آخری اوور تک اور آخری کھلاڑی تک چلا گیا لیکن نسیم شاہ نے آخری اوور میں دو چھکے لگا کر پاکستان کو کامیابی حاصل کروائی اور افغانستان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ 24Newspk: Naseem Shah, who gave Pakistan a memorable victory in the last over against Afghanistan in the Asia Cup 2022, has said that by now everyone must have forgotten that I am a bowler. Talking during the post-match interview, he said that when he came to bat, he knew that he could hit sixes. Naseem Shah said that he tried and succeeded, he was sure that he would do it. He keeps practicing. Pakistani cricketer. said that this match will be memorable for him. It should be remembered that when the national team needed 11 runs in the last over, Naseem Shah hit the first two balls of Fazal Haq Farooqi for sixes and made the national team win. done Let us tell you that Pakistan won the toss and decided to field first. Pakistan bowled well and restricted the Afghanistan team to 129 runs in 20 overs. It was a very easy target for Pakistan but Afghanistan played well. bowled and the target of 130 runs was also looking difficult. The match went to the last over and to the last man but Naseem Shah hit two sixes in the last over to give Pakistan victory and dash Afghanistan's hopes.
عورت کا تعدد یعنی ایک سے زيادہ شادیوں سے کراہت کرنے کا کیا حکم ہے کہ وہ یہ کراہت غیرت کی بنا پر کررہی حالانکہ عورت میں غیرت توایک طبعی چيز ہے ، ہم یہ پڑھتے رہتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اظہار کرتی تھیں ۔ تو ہمارے ساتھ کیوں نہ ہو ، اور میں نے کچھ کتب میں تویہاں تک پڑھا ہے کہ احکام شریعت میں سے کسی بھی حکم سے کراہت کرنا کفر شمار کیا جاتا ہے ؟ جواب کا متن الحمد للہ. عورت کا اپنے خاوند پر غیرت کھانا ایک طبعی اورفطری امر ہے ، اوریہ ممکن ہی نہیں کہ عورت سے یہ کہا جائے تم اپنے خاوند پر غیرت نہ کھاؤ ، اورانسان کا کسی چيز سے کراہت کرنا چاہے وہ مشروع ہی کیوں نہ ہو اسےاس وقت تک کوئي نقصان نہیں دیتا جب تک اس کی مشروعیت سے کراہت نہ کی جائے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : تم پر لڑائي اورجہاد فرض کیا گيا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے ، اورہوسکتا ہے تم کسی چيز کوناپسند اوراس سےکراہت کرتے ہوحالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اورہوسکتا ہے کہ تم کسی چيز سے محبت اوراسے پسند کرتے ہو اوروہ تمہارے لیے بری ہو ۔ اوروہ عورت جس میں غیرت ہے وہ اس سے کراہت نہیں کرتی کہ اللہ تعالی نےاس کےخاوند کےلیے ایک سے زيادہ شادیاں مباح کردی ہيں بلکہ وہ تو اس سے کراہت کرتی ہے کہ اس کے ساتھ کوئي اوربھی اس کے خاوند کی بیوی ہو ، اوران دونوں معاملوں میں فرق ظاہر ہے ۔ اس لیے میں سوال کرنے والے بھائي اوردسروں سے بھی یہ گزارش کرونگا کہ وہ معاملات میں غورو فکر کریں اورجلد بازي سے کام نہ لیں بلکہ انہيں ان دقیق اورباریک فرقوں کوبھی سامنے رکھنا چاہیے جن کی بنا پر احکام میں ظاہر طور پر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے ۔ .
مسعود بارزانی کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ خود اختیاری کا فیصلہ کیا جائے ناکہ اس بات کے لیے دوسروں کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ عراق کے خودمختار کرد خطے کے صدر نے اپنی پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ آزادی کے لیے ریفرنڈم کی تیاری کرے۔ مسعود بارزانی نے خطے کے قانون سازوں سے خطاب میں کہا کہ " یہ ہماری خود اختیاری کا فیصلہ کرنے کا وقت ہے اور اس کا انتظار نہ کیا جائے کہ دوسرے اس بارے میں فیصلہ کریں۔" وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں انھوں نے حق حکمرانی کو ایک "قدرتی حق قرار دیا جس کا حصول لازمی ہے۔ آزادی ضرور حاصل کی جائے۔ میرا اب ماننا ہے کہ اب حالات بھی آزادی کے حق میں ہیں۔" بارزانی نے قانون سازوں سے کہا کہ وہ ریفرنڈم کے انتظامات کے لیے کمیٹی بنائی جائے اور انتخاب کے لیے تاریخ طے کی جائے۔ اوباما انتظامیہ نے اسے فوری طورپر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت جب عراق دولت اسلامیہ فی عراق ولشام کے خلاف لڑائی میں مصروف ہے اسے متحدہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سنی شدت پسند گروپ نے اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں میں عراق کے شمال اور مغرب میں بہت سے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ "آئی ایس آئی ایل کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ عراق متحدہ رہے۔" بارزانی کی طرف سے کرد قانون سازوں سے اس درخواست سے پہلے عراق میں اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد رواں ہفتے پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جو کہ نئے رہنما کو منتخب کیے بغیر ہی ختم ہوگیا۔ اوباما انتظامیہ وزیراعظم نوری المالکی پر زور دیتی ہے آئی ہے کہ وہ تمام فریقوں کی شمولیت سے نئی حکومت بنانے کے اس موقع کا استعمال کریں اور وائٹ ہاوس نے متنبہ کیا ہے کہ مالکی کے لیے وقت ختم ہوتا جارہا ہے۔
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کاروبار کرنے میں آسانی کیلئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ہرممکن سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہ بات عمران خان نے ملاقات کیلئے آنے والے مشیر خزانہ شوکت ترین اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، ملاقات میں مشیر خزانہ نے وزیر اعظم کو مجموعی معاشی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ ملاقات میں مشیر تجارت نے وزیر اعظم کو اپنے حالیہ ترکمانستان دورے کے بارے میں آگاہ کیا اور متوقع ایران دورے کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ عمران خان نے خطے کے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط مستحکم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے برامدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت ایز آف ڈونگ بزنس پالیسی کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ اس سے قبل سماجی را بطےکی ویب سائٹ ٹو ئٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مقیم تمام ہندو شہریوں کیلئے دیوالی کے موقع پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اور مبارکباد دی۔
مالی حالات کافی خراب دکھائی دیتے ہیں اور فی الحال فوری طور پر ابھی کوئی سلسلہ بنتا ہوا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی صبر سے کام لیں اور آج جو مل رہا ہے شکر ادا کریں۔ برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی روزگار کا مسئلہ تنگ کر رہا ہے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں میں کافی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کہ بلاک ہو کر رہ گئے ہو۔ بعد نماز مغرب سورة واقعہ پڑھیں۔ برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون آپ ان دنوں اپنا زیادہ وقت فضول کاموں میں لگا کر ضائع کر رہے ہیں۔ حالاکہ زائچہ کھلا ہوا ہے آپ اگر زیادہ توجہ روز گار پر دی گے تو حالات بالکل مختلف ہو جائیں گے۔ برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی بندش لگتی ہے۔ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں ناکامی مل رہی ہے۔ ہر چیز جیسے بلاک ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ توبہ کریں کچھ ذاتی معاملات میں واضع گڑبڑ دکھائی دیتی ہے۔ برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست یاری دوستی میں کچھ نہیں رکھا ماسوائے خرابی اور بدنامی کے اس لئے آپ فوری طور رپ اس سے دور ہو جائیں ان دنوں اپنی عزت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے آپ کے لئے۔ برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے 22 ستمبر غلط سمت چل رہے ہیں سمجھ میں نہیں آ رہا تو آپ استخارے سے کام لیں اس سے آپ کو کافی کچھ معلوم ہو جائے گا اور دل لگی جیسے تمام معاملات سے ہر ممکن دور رہنا ضروری ہے۔ برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر صحت کا خانہ کافی کمزور ہے اس پر پوری وتجہ دیں اس حوالے سے صدقہ خیرات کا بھی انتظام کریں اور ہر اس کام سے دور رہیں جس بھی کوئی بھی خطرہ محسوس ہوتا ہو۔ برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر نظر میں آئے لگتے ہیں اس کا زیادہ اثر صحت پر پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور گھریلو ماحول میں بھی کشیدگی کا امکان ہے۔ صدقہ دیں اور ضرورت سے زیادہ اوپن نہ ہوں۔ برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر کسی بھی طرف سے فی الحال کوئی بڑا جیک لگنے کے امکانات نہیں ہیں آپ کو محنت ہی کرنا ہو گی اور گھریلو ماحول میں بھی اپنا رول ادا کر کے معاملات پر قابو پانا ہوگا۔ برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری عزت میں اضافہ ہوگا جو لوگ چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اب خودبخود واپس آنا شروع ہو جائیں گے آج کا دن آپ کو اپنے قریبی شخص سے ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری انجانی سی بندش کا سلسلہ معلوم ہوتا ہے جب ایسا ہو تو ذکر الٰہی میں جس قدر ممکن ہو تیزی لانا ضروری ہوتا ہے آپ کو آج نماز کی پابدی کرنے اور زیادہ وضو میں رہنے کا مشورہ ہے۔ برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ ایک وقت میں دو جگہ پر کام کرنے کی آفر یا سلسلہ بن سکتا ہے آج کا دن آپ کی مالی پوزیشن میں بھی بہتری لانے کا سبب بنے گا اور ان شاءاللہ بڑی ضرورت بھی پوری ہو گی۔
بیجنگ: امریکا کی تنقید کے جواب میں چین نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے دوست ملک پاکستان کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے پاکستان کا قرض معاف کرنے یا فی الحال اقساط معطل کرنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان نتیجہ خیز اقتصادی اور مالی تعاون رہا ہے اور پاکستانی عوام یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ وانگ وانگ وینبن نے کہا کہ جہاں تک سیلاب زدگان کا تعلق ہے تو چین اپنے دوست ملک پاکستان کے ساتھ کٹھن وقت میں پوری طرح کھڑا ہے اور اب تک سیلاب زدگان کے لیے 56 ملین ڈالر کی امداد کرچکا ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے معاملے میں تنقید کرنے کے بجائے امریکا پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے حقیقی اور سود مند امداد کرے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے واشنگٹن میں ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے 10 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی مشورہ دیا تھا کہ چین سے قرض معاف کرنے کی بات کریں۔ واضح رہے کہ پاکستان کو صرف چین کا 14.6 ارب ڈالر کا قرض اتارنا ہے جب کہ پیرس کلب کے ممالک کو تقریباً 1.1 بلین ڈالر اور امیر ممالک جیسے جاپان، فرانس، جرمنی، امریکا اور دیگر کو 10 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔
یہ کتاب ان عظیم عورتوں کی جدوجہد اور حالات زندگی کے متعلق ہے، جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں، پدر سری نظام، مذہب، فلسفے اور علم و ادب کی سطح پر عورت مخالف تصورات کو چیلنج کیا، عورتوں کی نجات اور آزادی کے لیے آواز اٹھائی، مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر نظریات تشکیل دئیے، تنظیمیں بنائیں اور تحریکیں منظم کیں۔ انہوں نے رائج الوقت نظریوں،ان کے مبلغین اور حکمرانوں کو بے خوفی کے ساتھ للکارا۔ انہوں نے نئے خیالات کی بنیاد رکھی۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہوں نے وہ نقطئہ نظر اختیار کیا، جسے بعد میں فیمنزم یا فیمنسٹ نقطئہ نظر کہا گیا۔ ان عورتوںنے اپنے زمانے اور آنے والے زمانوں کی عورتوں کے حقوق کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ انہوں نے تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں عورت کی آزادی کے چراغ جلائے اور عورتوں کی نئی تاریخ رقم کی۔ یہ انقلابی اور باغی عورتیں تھیں، اسلئے ان کو وہ سب صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، جن کا انقلابیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی کردار کشی کی گئی، ان کے راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، قید میں ڈالا گیا، قتل کیا گیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا، لیکن وہ اپنے نظریات پر پختہ اور ارادے میں ثابت قدم رہیں۔ ان عورتوں نے جنس، رنگ، نسل، ذات پات اور طبقہ کی بنیاد پر ہر طرح کی تفریق کی مزاحمت کی اور عورتوں کو ان کے قانونی حقوق، سماجی اور معاشی انصاف اور امن کی راہیں دکھائیں اور خود ان راہوں پر سب سے پہلے چل کر دکھایا۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد کے تین حصے ہیں۔ اس میںدس ابتدائی فیمنسٹ، اصلاح پسندفیمنسٹ اور عورتوں کے حق رائے دہی کی تحریک کی بانی عورتوں کے حالات زندگی اور جدوجہد شامل ہے۔ ان کا زمانہ یورپی نشا ء ۃ ِثانیہکی آمد سے لے کرہندوستان میں بیسیویں صدی کی پہلی دہائیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پہلی جلد کے نو ابواب میں شامل ہیں:کرسٹین دی پیزاں ازمنہ ء وُسطیٰ کے آخری دور کی اطالوی نژاد فرانسیسی مو ء رخ، ادیب اور شاعر تھی؛ اولیمپ دی گوژ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں کی فرانسیسی ڈرامہ نگار، صحافی، دانشور اور سیاسی کارکن تھی؛ میری وولسٹن کرافٹ اٹھارہویں صدی کی برطانوی فیمنسٹ مفکر، مصنف اور دانشور تھی؛ سوجرنر ٹروتھ انیسویں صدی میں غلامی کے خاتمے اور عورتوں کے حقوق کی ایک دلیر افریقی امریکی رہنما تھی؛ساوتری بائی پھلے انیسویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان کی پہلی ہندوستانی استاد اوربہادر سماجی اصلاح پسند رہنما تھی؛ رقیہ سخاوت حسین انیسویں اور بیسویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان کی بنگالی فیمنسٹ مصنف اوراصلاح پسند سماجی اور سیاسی کارکن تھی؛ ا لزبتھ کیڈی سٹینٹون اور سوزن بی انتھونی انیسویں صدی میں امریکا میں عورتوںکے حقوق اور بالخصوص ان کے ووٹ کے حق کی تحریک کی بانی تھیں؛ کلارا زیٹکن انیسویں صدی کی آخری اور بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں کی جرمن سوشلسٹ فیمنسٹ، انٹرنیشنل کمیونسٹ، جنگ اور فسطائیت دشمن رہنما تھی اور؛ ایمیلین پنکھرسٹ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں برطانیہ میںعورتوں کے ووٹ کی جنگجویانہ تحریک کی رہنما تھی۔ بلاشبہ حق و ظلم کے معرکوں اور اقتدار کی جنگوں کے حوالے سے تاریخ میں ایسی کئی نامور اور قابل احترام خواتین کے نام ملتے ہیں، جنہوں نے آزادی، حق اور انصاف کیلئے ڈٹ کر ظلم و جبرکا مقابلہ کیا۔ بعض سرخرو ہوئیں اور بعض نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان میں مشرق میںحضرت عائشہؓ، حضرت زینبؓ،حضرت خنساء کریمؒ،حضرت رابعہ بصریؒ ، رضیہ سلطانہ، رانی جھانسی، پنڈتا رامابائی، قرۃ العین طاہرہ اور ملالہ میوند کچھ نام ہیں اور مغرب میں اور بہت سے نام ہیں، جیسے جون آف آرک، سینٹ لوسی، این ایسکیو، روزا لکسمبرگ اور میرابل سسٹرز۔ ان کی ایمان کی قوت، اپنے نظریات پریقین، دلیری اور مزاحمت مثالی ہے اور تاریخ ان کو ہمیشہ تحسین، عقیدت و احترام سے یاد کرے گی۔ تاہم ،ہمار ی کتاب کا موضوع فیمنزم اور عورتوں کی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات ہیں۔ کئی فیمنسٹوں کا ذکر ہم نے مختلف ابواب میں انکی آراء کے حوالے سے کیا ہے،جن میں جین آسٹل، ورجینیا وولف، ایما گولڈ مین، سیمون دی بواراور گرڈا لرنر کے علاوہ کئی معاصرفیمنسٹ، جیسا کہ جولیٹ میچل، اینجلا ڈیوس،کمبرلے کرین شا، ڈاکٹر امرتیاسین، عائشہ جلال، بنگلہ دیش کی فیمنسٹ ادیب روشن جہاں، ارون دھتی رائے، چندرا تالپدے موہانتی ، کشور ناہید، ز۱ہدہ حنا اورحنا جیلانی شامل ہیں۔ پہلی جلد میں ہماری جانکاری اور تحقیق کا محور مغربی یورپ، امریکا اور غیر منقسم ہندوستان رہا ہے۔ ان خطوں کی ممتاز فیمنسٹوں کے کارناموں اور تحریروں کو تحقیق، تنقید، تبصرے اور انکی خدمات کے اعتراف کے مختلف حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان کے کام اور تحریروں کوان کے اپنے الفاظ میں کہیں کہیں طویل اقتباسات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کا نقطئہ نظر صراحت کے ساتھ قارئین تک پہنچ سکے۔کچھ ابواب میں بعض اہم تاریخی دستاویزات کے مکمل متن یا تفصیلی اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔یہ کتاب لکھنے کا ایک بڑا مقصدان عورتوں کی تحریروں اوران کے کارناموں کواردو زبان میںمحفوظ کرنا ہے ۔ مذکورہ کتاب لکھنے کا اصل محرک تو فیمنسٹ لٹریچر کے مطالعہ کے دوران ان عظیم شخصیات سے ملاقات اور ان کی تحریروں اور جدوجہد سے حاصل کردہ تحریک تھی، دوسرے اردو زبان میں ان پر زیادہ مفصل کام نظر نہ آیا۔پھر ایک سبب وہ مایوسی اور بے چینی بنی کہ کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں میں جدھر دیکھو ، ہر طرف اردو اور انگریزی میں ’مردوں کے کارناموں‘ پر کتابیں قطار در قطار سجی نظر آتی ہیں، جن میںبیشتر ان مرد ’فاتحین اور حملہ آوروں ‘ کے بارے میں ہیں ، جنھوںنے دنیا کو جنگ وجدل اور تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ کتاب کی دوسری جلد میںبیسویں صدی کی فیمنسٹوں، ان کی زندگی، جدوجہد اور نظریات پرابواب ہوں گے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ایک اہم واقعہ روس میں اشتراکی انقلاب تھا۔ تاریخ میں مزدوروں اور کسانوں کے اس پہلے انقلاب نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو عزم و ہمت کی ایک نئی سرشاری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس انقلاب کا آغاز 8 مارچ کو پیٹروگارڈ سے عورتوں نے کیا تھا۔نادژدا کونسٹنٹینوا کروپسکایا اور آلیکسنڈراکولونتائی انقلاب کے ہراول دستے میں شامل تھیں ۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے آخری دور اور کمال اتاترک کے جمہوری انقلاب کے دوران اور اس کے بعد فاطمہ علی خانم، نازیہ محی الدین اور خالدہ ادیب خانم نے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کے باب رقم کیے۔ ترکی میں 1926 میں کثرت ِازدواج پر پابندی لگائی گئی اور 1930 میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا، جو اس وقت تک کئی اہم یورپی ممالک میںعورتوں کو حاصل نہ تھا۔ مصر میں ہدیٰ شعراوی، مالک حفنی ناصف اور نبویہ موسیٰ نے 1923میں ’مصری فیمنسٹ یونین ‘ (Egyptian Feminist Union) کی بنیادرکھی۔انہوں نے عورتوں کے لیے تعلیم اور سیاسی حقوق کی تحریکیں شروع کیں۔ ایران میں 1910 کے آئینی انقلاب کے دوران اور اس کے بعد عورتیں بڑی متحرک تھیں۔ بی بی خانم استرآبادی، محترم اسکندری ، صدیقہ دولت آبادی اور زندوخ شیرازی اس دور کی اہم رہنما تھیں، جنہوں نے عورتوں کے لیے اسکول کھولے اور ’جمعیت نسوان وطنخواہ‘ اور’عورتوں کی انقلابی ایسوسی ایشن ‘ نامی تنظیمیں قائم کیں ۔ ہندوستان میں بھی لگ بھگ اسی دورمیں اصلاح پسند عورتوں نے عورتوں کی تعلیم کے لیے اقدامات اٹھائے اور اسکول کھولے۔ انہوں نے برطانوی راج کے خلاف بڑی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی اور عورتوں کی تنظیمیں تشکیل دیں، جن میں’ آل انڈیا ویمنز کانفرنس‘، ’ویمنز انڈیا ایسوسی ایشن ‘ اور ’انجمن خواتین ِاسلام‘ شامل تھیں۔ تارا بائی شندے، کامنی رائو، مس سوسی سہراب جی، چاند بیگم، شریفہ حامد علی، بیگم عطیہ فیضی، زہرہ بیگم فیضی، سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر رشید جہاںاور عبادی بانو بیگم (بی اماں) آزادی کی تحریکوں ، عورتوں کی تعلیم اور انکی انجمن سازی میں پیش پیش تھیں۔ تحریک ِپاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم ایم اصفہانی، بیگم عیسیٰ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین اور لیڈی ہارون سمیت کئی خواتین نے مسلم لیگ میں عورتوں کو منظم کیا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بیگم جہاں آراء شاہنواز اور بیگم شائستہ اکرام اللہ نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی۔ 1949 میں بیگم رعنا لیاقت علی نے آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد عورتوں کی سماجی فلاح و بہبود تھا۔اسی زمانے میں انجمن جمہوریت پسند خواتین وجود میں آئی، جو مارکسی رجحانات کی حامل تنظیم تھی ۔ اس کی قیادت طاہرہ مظہر علی خان کررہی تھیں۔ دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے کے بعد 1949 میں سیمون دی بوار کی ’’دوسری جنس‘‘ اور 1960 میں بیٹی فریڈین کی ’’نسوانی اسرار‘‘ نے فیمنزم کی پہلی لہر کا سیلابی دروازہ کھول دیا۔ 1980-1990 میں تیسری لہر آئی۔ ان دہائیوں میں فیمنسٹ عورتوں نے تحقیق، نظریہ سازی اور تحریکوں کے ذریعے لبرل فیمنزم، سوشلسٹ فیمنزم اور ریڈیکل فیمنزم کی آبیاری کی۔ اسی زمانے میں ’نجی دائرہ‘ ’سیاسی دائرے‘ (Personal is Political) میں مدغم ہوا۔فیمنزم کی تیسری لہر کے دوران 1990 میں مابعد نو آبادیاتی فیمنزم ماحولیاتی فیمنز م، اسلامک فیمنزم ، دلت فیمزم اور بلیک فیمنزم کے نظریات پھلے پھولے اوریورپ میں ـ’گھریلو کام کی تنخواہ‘ کی تحریک نے زور پکڑا۔ 1989 میں ’انٹرسیکشینیلٹی‘ (intersectionality) کے تصور نے فیمنزم کے عصری مباحث میں ایک انقلاب برپاکر دیا۔ ’فرق فیمنزم‘، ’شناخت فیمنزم ‘ اور کئی دوسرے تصورات کے ساتھ صنف (جینڈر) کی بحث عام ہوئی۔ صنف کی معاشرتی تشکیل نے پدر سری نظام، نظریے اور اسکی اقدار کو سمجھنے میں مدد کی۔ اسلامی تاریخ میں عورتوں کے کردار اور بالخصوص’عورتوں کے حقوق‘کے حوالے سے زیادہ تر تحقیقی کام بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہوا ہے۔مراکشی فیمنسٹ فاطمہ مرنیسی نے 1975 میں’حجاب سے پرے‘ لکھ کر مشرق ِوسطیٰ میں ’اسلامی فیمنزم‘ کے تناظر میں تہلکہ مچا دیا۔ مصری نژاد امریکی مفکر لیلیٰ احمد نے 1992میں لکھی جانے والی کتاب ’ عورت ، جینڈر اور اسلام‘ میں ماقبل اسلام کے عرب، مصری، رومن اور یونانی معاشروں اوربعد ازاں اسلامی دور میں عورت کی حیثیت پر تاریخی شواہد کی مدد سے سیر حاصل بحث کی۔2011 میں پاکستانی فیمنسٹ مفکر فریدہ شہید اور عایشہ لی شہیدکی کتاب ’’ہماری اجداد: مسلم تناظر میں عورتوں کی اپنے حقوق کی بازیابی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ میںآٹھویں صدی سے لے کربیسویں صدی تک دنیا کے تقریبا ًتمام خطوں سے مشہور عالم، ادیب، معلم اور مفکر عورتوں کی شخصیات کے حالات ِزندگی اوران کی خدمات کو محفوظ کرتی ہے۔گذشتہ صدی کے اواخر میں مصری مصنف، فعال سماجی کارکن اور ماہر نفسیات نوال السداوی نے مشرق ِوسطیٰ میں فیمنسٹ نظریات کی آبیاری کی۔انہوں نے 1972 میں’عورتیں اور جنس‘ سمیت کئی کتابیں لکھ کرمسلم معاشرے میں عورتوں کے مسائل پر بحث کی۔ مذکورہ کتاب کی تحقیق و تحریر کے دوران نظریے سازی کی کلیدی اہمیت کے علاوہ تنظیموں، اداروں اور مشترکہ پلیٹ فارموں کی تشکیل اور تحریکوں کی ناگزیر اہمیت کا احساس ایک بنیادی شرط کے طور پر ابھرا ہے۔ تحریک کے بغیر نظریہ محض ایک سوکھا درخت ہے۔ آج بھی ایسی رضاکار تنظیمیں اور مشترکہ پلیٹ فارم ہرخطے اورہر ملک میں موجود ہیں۔ افریقہ، لاطینی امریکا میں عورتوں کی تحریکیں اور نیٹ ورک بڑے مضبوط ہیں۔ پاکستان میں جدید فیمنسٹ تحریک کی بنیاد خواتین محاذ عمل (ویف۔ Women's Action Forum) نے 1981 میں رکھی۔ انجمن جمہوریت پسند خواتین اور سندھیانی تحریک کی عورتوں نے مختلف ادوارمیںآمریتوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔ سیاسی جماعتوں کی خواتین ، شاعر، ادیب، صحافی، وکیل اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی عورتیں ان کے شانہ بشانہ تھیں۔ جنو بی ایشیا کی سطح پر ’سنگت‘ (SANGAT) فیمنسٹ استعداد کاری کا متحرک پلیٹ فارم ہے۔عالمی سطح پر ویمنز لرننگ پارٹنر شپ (Women's Learning Partnership) فیمنسٹ پلیٹ فارم ہے۔ان کے علاوہ مساوہ (Musawah) اور AWID جیسے پلیٹ فارم ہیں۔ ان پلیٹ فارموں سے فیمنزم کی تحریکوں اور مشترکہ مقاصد کو جلا مل رہی ہے۔ عورت کی آزادی کی ایک نئی پر ُجوش لہر نے گذشتہ کچھ عرصہ سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کو فیمنزم کی ’چوتھی لہر ‘ بھی کہا جارہا ہے۔ عورتیںآج نئے فیمنسٹ نظریات اور تصوارات سے لیس اور نئی ہمت و توانائی کے ساتھ ہر سطح پر امتیازی قوانین اور پالیسیوں، گھریلو تشدد اورجنسی تشدد سمیت ہر قسم کے تشدد اور ناانصافی کے خلاف تحریکیں چلارہی ہیں اور قانون سازی میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ عالگیریت، غربت، سرمایہ داری، نسل پرستی اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف تحریکوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل ہیں۔انہوں نے روزگار، برابر کی اجرتوں اور زمین کے حقوق کے لیے اور سیاسی نمائندگی کے لیے کامیاب کوششیں کی ہیں ۔ عورتوں کے حقوق اگر آج سے ہزارپانچ سو برس پہلے کسی کو’ناقابل تصور‘ لگتے تھے یا دو سو برس قبل ان کا حصول ’ناممکن‘ تھا، تو کوئی مانے نہ مانے آج وہ ’ناگزیر‘ ہو چکے ہیں۔ یہ ناگزیریت مرہون ِمنت ہے ان عورتوں کی جنھوں نے ایسے ادوار میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جب ایسا کرنا ناقابل ِتصور اور ناممکن تھا، جب تعلیم، عدالت، سیاست سمیت سب اداروں کے دروازے ان کے لیے بند تھے۔ ہماری ان پیشرو عورتوں نے غلامی کی یہ زنجیریں توڑیں اور ہمیں نئی راہیں دکھائیں ۔ میں یہ کتاب اُردو قارئین اور نئی نسل،بالخصوص طالبات وطلباء کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ ماضی کی ان عورتوں کی جدوجہد ہماری مشتر کہ میراث ہے اور زادِسفربھی۔ شکریہ! نعیم مرزا اگست 2021 (اسلام آباد۔راولپنڈی) Title: Tareekh ki Azeem Feminist Auratein (Hayaat, Nazariye aur Tehreekein) - First Volume تاریخ کی عظیم فیمنسٹ عورتیں (حیات، نظریے اور تحریکیں) 1364 سے 1933 تک ایک عالمی مطالعہ Author: Naeem Mirza Subject: History, Feminism ISBN: 969353395X Language: Urdu Year: 2022 Number of Pages: 482 + 16 pictures Add to Wishlist Add to cart Notify Me When Available SKU: 969353395X Barcode: 9789693533958 Availability : In Stock In Stock Out of stock Categories: History, New Arrivals ASK ON WHATSAPP Description Description Author : Condition : Binding : Pages : Publisher : Language : Publication Year : پیش لفظ یہ کتاب ان عظیم عورتوں کی جدوجہد اور حالات زندگی کے متعلق ہے، جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں، پدر سری نظام، مذہب، فلسفے اور علم و ادب کی سطح پر عورت مخالف تصورات کو چیلنج کیا، عورتوں کی نجات اور آزادی کے لیے آواز اٹھائی، مقامی اور عالمی دونوں سطحوں پر نظریات تشکیل دئیے، تنظیمیں بنائیں اور تحریکیں منظم کیں۔ انہوں نے رائج الوقت نظریوں،ان کے مبلغین اور حکمرانوں کو بے خوفی کے ساتھ للکارا۔ انہوں نے نئے خیالات کی بنیاد رکھی۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے انہوں نے وہ نقطئہ نظر اختیار کیا، جسے بعد میں فیمنزم یا فیمنسٹ نقطئہ نظر کہا گیا۔ ان عورتوںنے اپنے زمانے اور آنے والے زمانوں کی عورتوں کے حقوق کیلئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ انہوں نے تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں عورت کی آزادی کے چراغ جلائے اور عورتوں کی نئی تاریخ رقم کی۔ یہ انقلابی اور باغی عورتیں تھیں، اسلئے ان کو وہ سب صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، جن کا انقلابیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی کردار کشی کی گئی، ان کے راستے میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، قید میں ڈالا گیا، قتل کیا گیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا، لیکن وہ اپنے نظریات پر پختہ اور ارادے میں ثابت قدم رہیں۔ ان عورتوں نے جنس، رنگ، نسل، ذات پات اور طبقہ کی بنیاد پر ہر طرح کی تفریق کی مزاحمت کی اور عورتوں کو ان کے قانونی حقوق، سماجی اور معاشی انصاف اور امن کی راہیں دکھائیں اور خود ان راہوں پر سب سے پہلے چل کر دکھایا۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد کے تین حصے ہیں۔ اس میںدس ابتدائی فیمنسٹ، اصلاح پسندفیمنسٹ اور عورتوں کے حق رائے دہی کی تحریک کی بانی عورتوں کے حالات زندگی اور جدوجہد شامل ہے۔ ان کا زمانہ یورپی نشا ء ۃ ِثانیہکی آمد سے لے کرہندوستان میں بیسیویں صدی کی پہلی دہائیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پہلی جلد کے نو ابواب میں شامل ہیں:کرسٹین دی پیزاں ازمنہ ء وُسطیٰ کے آخری دور کی اطالوی نژاد فرانسیسی مو ء رخ، ادیب اور شاعر تھی؛ اولیمپ دی گوژ اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں کی فرانسیسی ڈرامہ نگار، صحافی، دانشور اور سیاسی کارکن تھی؛ میری وولسٹن کرافٹ اٹھارہویں صدی کی برطانوی فیمنسٹ مفکر، مصنف اور دانشور تھی؛ سوجرنر ٹروتھ انیسویں صدی میں غلامی کے خاتمے اور عورتوں کے حقوق کی ایک دلیر افریقی امریکی رہنما تھی؛ساوتری بائی پھلے انیسویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان کی پہلی ہندوستانی استاد اوربہادر سماجی اصلاح پسند رہنما تھی؛ رقیہ سخاوت حسین انیسویں اور بیسویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان کی بنگالی فیمنسٹ مصنف اوراصلاح پسند سماجی اور سیاسی کارکن تھی؛ ا لزبتھ کیڈی سٹینٹون اور سوزن بی انتھونی انیسویں صدی میں امریکا میں عورتوںکے حقوق اور بالخصوص ان کے ووٹ کے حق کی تحریک کی بانی تھیں؛ کلارا زیٹکن انیسویں صدی کی آخری اور بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں کی جرمن سوشلسٹ فیمنسٹ، انٹرنیشنل کمیونسٹ، جنگ اور فسطائیت دشمن رہنما تھی اور؛ ایمیلین پنکھرسٹ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں برطانیہ میںعورتوں کے ووٹ کی جنگجویانہ تحریک کی رہنما تھی۔ بلاشبہ حق و ظلم کے معرکوں اور اقتدار کی جنگوں کے حوالے سے تاریخ میں ایسی کئی نامور اور قابل احترام خواتین کے نام ملتے ہیں، جنہوں نے آزادی، حق اور انصاف کیلئے ڈٹ کر ظلم و جبرکا مقابلہ کیا۔ بعض سرخرو ہوئیں اور بعض نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان میں مشرق میںحضرت عائشہؓ، حضرت زینبؓ،حضرت خنساء کریمؒ،حضرت رابعہ بصریؒ ، رضیہ سلطانہ، رانی جھانسی، پنڈتا رامابائی، قرۃ العین طاہرہ اور ملالہ میوند کچھ نام ہیں اور مغرب میں اور بہت سے نام ہیں، جیسے جون آف آرک، سینٹ لوسی، این ایسکیو، روزا لکسمبرگ اور میرابل سسٹرز۔ ان کی ایمان کی قوت، اپنے نظریات پریقین، دلیری اور مزاحمت مثالی ہے اور تاریخ ان کو ہمیشہ تحسین، عقیدت و احترام سے یاد کرے گی۔ تاہم ،ہمار ی کتاب کا موضوع فیمنزم اور عورتوں کی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات ہیں۔ کئی فیمنسٹوں کا ذکر ہم نے مختلف ابواب میں انکی آراء کے حوالے سے کیا ہے،جن میں جین آسٹل، ورجینیا وولف، ایما گولڈ مین، سیمون دی بواراور گرڈا لرنر کے علاوہ کئی معاصرفیمنسٹ، جیسا کہ جولیٹ میچل، اینجلا ڈیوس،کمبرلے کرین شا، ڈاکٹر امرتیاسین، عائشہ جلال، بنگلہ دیش کی فیمنسٹ ادیب روشن جہاں، ارون دھتی رائے، چندرا تالپدے موہانتی ، کشور ناہید، ز۱ہدہ حنا اورحنا جیلانی شامل ہیں۔ پہلی جلد میں ہماری جانکاری اور تحقیق کا محور مغربی یورپ، امریکا اور غیر منقسم ہندوستان رہا ہے۔ ان خطوں کی ممتاز فیمنسٹوں کے کارناموں اور تحریروں کو تحقیق، تنقید، تبصرے اور انکی خدمات کے اعتراف کے مختلف حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان کے کام اور تحریروں کوان کے اپنے الفاظ میں کہیں کہیں طویل اقتباسات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کا نقطئہ نظر صراحت کے ساتھ قارئین تک پہنچ سکے۔کچھ ابواب میں بعض اہم تاریخی دستاویزات کے مکمل متن یا تفصیلی اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔یہ کتاب لکھنے کا ایک بڑا مقصدان عورتوں کی تحریروں اوران کے کارناموں کواردو زبان میںمحفوظ کرنا ہے ۔ مذکورہ کتاب لکھنے کا اصل محرک تو فیمنسٹ لٹریچر کے مطالعہ کے دوران ان عظیم شخصیات سے ملاقات اور ان کی تحریروں اور جدوجہد سے حاصل کردہ تحریک تھی، دوسرے اردو زبان میں ان پر زیادہ مفصل کام نظر نہ آیا۔پھر ایک سبب وہ مایوسی اور بے چینی بنی کہ کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں میں جدھر دیکھو ، ہر طرف اردو اور انگریزی میں ’مردوں کے کارناموں‘ پر کتابیں قطار در قطار سجی نظر آتی ہیں، جن میںبیشتر ان مرد ’فاتحین اور حملہ آوروں ‘ کے بارے میں ہیں ، جنھوںنے دنیا کو جنگ وجدل اور تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ کتاب کی دوسری جلد میںبیسویں صدی کی فیمنسٹوں، ان کی زندگی، جدوجہد اور نظریات پرابواب ہوں گے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کا ایک اہم واقعہ روس میں اشتراکی انقلاب تھا۔ تاریخ میں مزدوروں اور کسانوں کے اس پہلے انقلاب نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو عزم و ہمت کی ایک نئی سرشاری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس انقلاب کا آغاز 8 مارچ کو پیٹروگارڈ سے عورتوں نے کیا تھا۔نادژدا کونسٹنٹینوا کروپسکایا اور آلیکسنڈراکولونتائی انقلاب کے ہراول دستے میں شامل تھیں ۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے آخری دور اور کمال اتاترک کے جمہوری انقلاب کے دوران اور اس کے بعد فاطمہ علی خانم، نازیہ محی الدین اور خالدہ ادیب خانم نے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کے باب رقم کیے۔ ترکی میں 1926 میں کثرت ِازدواج پر پابندی لگائی گئی اور 1930 میں عورتوں کو ووٹ کا حق ملا، جو اس وقت تک کئی اہم یورپی ممالک میںعورتوں کو حاصل نہ تھا۔ مصر میں ہدیٰ شعراوی، مالک حفنی ناصف اور نبویہ موسیٰ نے 1923میں ’مصری فیمنسٹ یونین ‘ (Egyptian Feminist Union) کی بنیادرکھی۔انہوں نے عورتوں کے لیے تعلیم اور سیاسی حقوق کی تحریکیں شروع کیں۔ ایران میں 1910 کے آئینی انقلاب کے دوران اور اس کے بعد عورتیں بڑی متحرک تھیں۔ بی بی خانم استرآبادی، محترم اسکندری ، صدیقہ دولت آبادی اور زندوخ شیرازی اس دور کی اہم رہنما تھیں، جنہوں نے عورتوں کے لیے اسکول کھولے اور ’جمعیت نسوان وطنخواہ‘ اور’عورتوں کی انقلابی ایسوسی ایشن ‘ نامی تنظیمیں قائم کیں ۔ ہندوستان میں بھی لگ بھگ اسی دورمیں اصلاح پسند عورتوں نے عورتوں کی تعلیم کے لیے اقدامات اٹھائے اور اسکول کھولے۔ انہوں نے برطانوی راج کے خلاف بڑی سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کی اور عورتوں کی تنظیمیں تشکیل دیں، جن میں’ آل انڈیا ویمنز کانفرنس‘، ’ویمنز انڈیا ایسوسی ایشن ‘ اور ’انجمن خواتین ِاسلام‘ شامل تھیں۔ تارا بائی شندے، کامنی رائو، مس سوسی سہراب جی، چاند بیگم، شریفہ حامد علی، بیگم عطیہ فیضی، زہرہ بیگم فیضی، سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر رشید جہاںاور عبادی بانو بیگم (بی اماں) آزادی کی تحریکوں ، عورتوں کی تعلیم اور انکی انجمن سازی میں پیش پیش تھیں۔ تحریک ِپاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم ایم اصفہانی، بیگم عیسیٰ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین اور لیڈی ہارون سمیت کئی خواتین نے مسلم لیگ میں عورتوں کو منظم کیا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں بیگم جہاں آراء شاہنواز اور بیگم شائستہ اکرام اللہ نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی۔ 1949 میں بیگم رعنا لیاقت علی نے آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد عورتوں کی سماجی فلاح و بہبود تھا۔اسی زمانے میں انجمن جمہوریت پسند خواتین وجود میں آئی، جو مارکسی رجحانات کی حامل تنظیم تھی ۔ اس کی قیادت طاہرہ مظہر علی خان کررہی تھیں۔ دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے کے بعد 1949 میں سیمون دی بوار کی ’’دوسری جنس‘‘ اور 1960 میں بیٹی فریڈین کی ’’نسوانی اسرار‘‘ نے فیمنزم کی پہلی لہر کا سیلابی دروازہ کھول دیا۔ 1980-1990 میں تیسری لہر آئی۔ ان دہائیوں میں فیمنسٹ عورتوں نے تحقیق، نظریہ سازی اور تحریکوں کے ذریعے لبرل فیمنزم، سوشلسٹ فیمنزم اور ریڈیکل فیمنزم کی آبیاری کی۔ اسی زمانے میں ’نجی دائرہ‘ ’سیاسی دائرے‘ (Personal is Political) میں مدغم ہوا۔فیمنزم کی تیسری لہر کے دوران 1990 میں مابعد نو آبادیاتی فیمنزم ماحولیاتی فیمنز م، اسلامک فیمنزم ، دلت فیمزم اور بلیک فیمنزم کے نظریات پھلے پھولے اوریورپ میں ـ’گھریلو کام کی تنخواہ‘ کی تحریک نے زور پکڑا۔ 1989 میں ’انٹرسیکشینیلٹی‘ (intersectionality) کے تصور نے فیمنزم کے عصری مباحث میں ایک انقلاب برپاکر دیا۔ ’فرق فیمنزم‘، ’شناخت فیمنزم ‘ اور کئی دوسرے تصورات کے ساتھ صنف (جینڈر) کی بحث عام ہوئی۔ صنف کی معاشرتی تشکیل نے پدر سری نظام، نظریے اور اسکی اقدار کو سمجھنے میں مدد کی۔ اسلامی تاریخ میں عورتوں کے کردار اور بالخصوص’عورتوں کے حقوق‘کے حوالے سے زیادہ تر تحقیقی کام بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہوا ہے۔مراکشی فیمنسٹ فاطمہ مرنیسی نے 1975 میں’حجاب سے پرے‘ لکھ کر مشرق ِوسطیٰ میں ’اسلامی فیمنزم‘ کے تناظر میں تہلکہ مچا دیا۔ مصری نژاد امریکی مفکر لیلیٰ احمد نے 1992میں لکھی جانے والی کتاب ’ عورت ، جینڈر اور اسلام‘ میں ماقبل اسلام کے عرب، مصری، رومن اور یونانی معاشروں اوربعد ازاں اسلامی دور میں عورت کی حیثیت پر تاریخی شواہد کی مدد سے سیر حاصل بحث کی۔2011 میں پاکستانی فیمنسٹ مفکر فریدہ شہید اور عایشہ لی شہیدکی کتاب ’’ہماری اجداد: مسلم تناظر میں عورتوں کی اپنے حقوق کی بازیابی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ میںآٹھویں صدی سے لے کربیسویں صدی تک دنیا کے تقریبا ًتمام خطوں سے مشہور عالم، ادیب، معلم اور مفکر عورتوں کی شخصیات کے حالات ِزندگی اوران کی خدمات کو محفوظ کرتی ہے۔گذشتہ صدی کے اواخر میں مصری مصنف، فعال سماجی کارکن اور ماہر نفسیات نوال السداوی نے مشرق ِوسطیٰ میں فیمنسٹ نظریات کی آبیاری کی۔انہوں نے 1972 میں’عورتیں اور جنس‘ سمیت کئی کتابیں لکھ کرمسلم معاشرے میں عورتوں کے مسائل پر بحث کی۔ مذکورہ کتاب کی تحقیق و تحریر کے دوران نظریے سازی کی کلیدی اہمیت کے علاوہ تنظیموں، اداروں اور مشترکہ پلیٹ فارموں کی تشکیل اور تحریکوں کی ناگزیر اہمیت کا احساس ایک بنیادی شرط کے طور پر ابھرا ہے۔ تحریک کے بغیر نظریہ محض ایک سوکھا درخت ہے۔ آج بھی ایسی رضاکار تنظیمیں اور مشترکہ پلیٹ فارم ہرخطے اورہر ملک میں موجود ہیں۔ افریقہ، لاطینی امریکا میں عورتوں کی تحریکیں اور نیٹ ورک بڑے مضبوط ہیں۔ پاکستان میں جدید فیمنسٹ تحریک کی بنیاد خواتین محاذ عمل (ویف۔ Women's Action Forum) نے 1981 میں رکھی۔ انجمن جمہوریت پسند خواتین اور سندھیانی تحریک کی عورتوں نے مختلف ادوارمیںآمریتوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔ سیاسی جماعتوں کی خواتین ، شاعر، ادیب، صحافی، وکیل اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی عورتیں ان کے شانہ بشانہ تھیں۔ جنو بی ایشیا کی سطح پر ’سنگت‘ (SANGAT) فیمنسٹ استعداد کاری کا متحرک پلیٹ فارم ہے۔عالمی سطح پر ویمنز لرننگ پارٹنر شپ (Women's Learning Partnership) فیمنسٹ پلیٹ فارم ہے۔ان کے علاوہ مساوہ (Musawah) اور AWID جیسے پلیٹ فارم ہیں۔ ان پلیٹ فارموں سے فیمنزم کی تحریکوں اور مشترکہ مقاصد کو جلا مل رہی ہے۔ عورت کی آزادی کی ایک نئی پر ُجوش لہر نے گذشتہ کچھ عرصہ سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کو فیمنزم کی ’چوتھی لہر ‘ بھی کہا جارہا ہے۔ عورتیںآج نئے فیمنسٹ نظریات اور تصوارات سے لیس اور نئی ہمت و توانائی کے ساتھ ہر سطح پر امتیازی قوانین اور پالیسیوں، گھریلو تشدد اورجنسی تشدد سمیت ہر قسم کے تشدد اور ناانصافی کے خلاف تحریکیں چلارہی ہیں اور قانون سازی میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ عالگیریت، غربت، سرمایہ داری، نسل پرستی اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف تحریکوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل ہیں۔انہوں نے روزگار، برابر کی اجرتوں اور زمین کے حقوق کے لیے اور سیاسی نمائندگی کے لیے کامیاب کوششیں کی ہیں ۔ عورتوں کے حقوق اگر آج سے ہزارپانچ سو برس پہلے کسی کو’ناقابل تصور‘ لگتے تھے یا دو سو برس قبل ان کا حصول ’ناممکن‘ تھا، تو کوئی مانے نہ مانے آج وہ ’ناگزیر‘ ہو چکے ہیں۔ یہ ناگزیریت مرہون ِمنت ہے ان عورتوں کی جنھوں نے ایسے ادوار میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جب ایسا کرنا ناقابل ِتصور اور ناممکن تھا، جب تعلیم، عدالت، سیاست سمیت سب اداروں کے دروازے ان کے لیے بند تھے۔ ہماری ان پیشرو عورتوں نے غلامی کی یہ زنجیریں توڑیں اور ہمیں نئی راہیں دکھائیں ۔ میں یہ کتاب اُردو قارئین اور نئی نسل،بالخصوص طالبات وطلباء کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ ماضی کی ان عورتوں کی جدوجہد ہماری مشتر کہ میراث ہے اور زادِسفربھی۔ شکریہ!
پاکستانی شائقین اورکرکٹ فینزکےلئے کرکٹ کے میدان سے اچھی خبر یہ ہے کہ ان کی ٹیم نے غیر ملکی دورے میں پہلی کامیابی کا مزا چکھ لیا ہے لیکن یہ خبر انگلینڈ سے نہیں بلکہ ویسٹ انڈیز سے آئی ہے جہاں بابر اعظم الیون نہیں بلکہ جویریہ الیون ایکشن میں ہیں اور خواتین ٹیم کو 6 بڑی ناکامیاں سہنے کے بعد کوئی کامیابی ملی ہے . پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم نے آخر کار فتح کا مزا چکھ لیا ہے،ویسٹ انڈیز کے دورے میں 6 مسلسل شکستوں کے بعد آخرکار گرین کیپس کو بھی فتح نصیب ہوگئی ہے،جمعہ کی علی الصبح خواتین ٹیم نے ویسٹ انڈین ٹیم کو چوتھے ایک روزہ میچ میں 4 وکٹوں سے شکست دے دی،ٹیم کی فتح میں مرکزی کردار عمیمہ سہیل کا رہا جنہوں نے 61رنزکی اہم اننگ کھیلی جب کہ سدرہ امین نے بھی قیمتی 41 رنزبنائے. نارتھ سائونڈ میں کھیلے گئے 5 ایک روزہ میچزکی سیریز کے چوتھے میچ میں میزبان ٹیم نے پہلے کھیل کر210رنزبنائے،پوری ٹیم 2 گیندیں قبل پویلین سدھار گئی.کیشونا نائٹ نے 88رنزکی سب سے بڑی اننگ کھیلی،پاکستان کی جانب سے فاطمہ ثنا نے 30اور نشرا سندھو نے 49رنزکے عوض4،4 وکٹیں لیں. پاکستان کے لئے 211رنزکا ہدف آسان نہیں تھا کیونکہ ٹیم اس سے قبل کھیلے گئے تین ایک روزہ میچز میں اتنے اسکور ہی نہیں کرسکی تھی بلکہ 120تک بھی آئوٹ ہوئی تھی ،میزبان سائیڈ مطمئن تھی لیکن یہ پاکستانی خواتین ٹیم کا دن تھا جس نے ویسٹ انڈیز کی بائولرز کا جم کر مقابلہ کیا اور سدرہ کے 41اور عمیمہ کے 61رنزکی مدد سے ہدف9 گیندیں قبل6 وکٹ پر پورا کرلیا.ٹیم اگر چہ سیریز پہلے ہی ہار چکی ہے لیکن چونکہ ابھی ایک ون ڈے میچ باقی ہے،اس لئے کلین سویپ سے بچائو کے ساتھ ساتھ طویل دورے میں مسلسل ناکامی کا شکار رہنے کے بعد یہ فتح نہایت ہی ضروری تھی.ندا ڈار اہم موقع پر بنائے گئے29رنزکے ساتھ ناقابل شکست واپس لوٹیں .پاکستان نے اس میچ کا ٹاس جیتا تھا اور پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کرلیا تھا.اس سیریز میں اب تک بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم ہی چاروں ایک روزہ میچ جیتی ہے. اس سے قبل قومی خواتین ٹیم 3 ٹی 20میچزکی سیریز میں کلین سویپ ہوچکی تھی اور اس کے بعد مسلسل 3 ون ڈے میچزبھی ہارچکی تھی،پاکستانی خواتین ٹیم نے اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ٹیم منیجمنٹ نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے،خوتین ٹیم نے اس فتح سے اپنی مردوں کی ٹیم کو بھی خاص پیغام دیا ہے کہ شکستوں سے گھبرانا نہیں ہے جو کہ انگلینڈ میں 3 ون ڈے میچز ہار کر شدید دبا ئو میں ہے اور اسے آج سے ٹی 20 سیریز کا چیلنج درپیش ہے. دوسری جانب پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق نے بھارت اور انگلینڈ کے پلیئرز کو اہم مشورہ دیا ہے اور ساتھ ہی انگلش کرکٹ میدانوں میں تماشائیوں کی کثیر تعداد پر اعتراض کردیا ہے،اپنے آفیشل یو ٹیوب چینل پر انضمام کہتے ہیں کہ میں تو پہلے ہی بول چکا تھا کہ انگلینڈ میں روزانہ 20 ہزار کووڈ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں اور ایسے میں بھارتی کرکٹرز کی کھلم کھلا آزادی خطرناک ہوگی،چنانچہ پھر وہی ہوا جس کا خوف تھا کہ بھارت کے ایک کرکٹر رشی پنت اور بائولنگ کوچ کو کورونا ہوگیا ہے اور اب وہ ٹیم سے الگ رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں.ابھی وہ 10 کووڈ ٹیسٹ کلیئر کرلیں لیکن ان کے لئے فوری کھیلنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ باڈی اتنے بڑے وائرس کا بوجھ اٹھانہیں سکتی ،کھیلنے کے لئے پوری پاور درکار ہے اور وہ اس کووڈ ٹیسٹ کے مثبت آنے پر فوری بحال نہیں ہوتی ہے. سابق کپتان و سابق چیف سلیکٹر نے بھارتی اور انگلش کھلاڑیوں کو مشورہ دیا ہے کہ انٹر نیشنل کرکٹ کے لئے احتیاط کریں،دنیا میں اگر کرکٹ کھیلی جارہی ہے تو انہیں خوشی ہے لیکن ایسے کیسز سے خطرات بڑھ رہے ہیں اور کھیل متاثر ہوسکتا ہے،ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ انگلینڈ اور بھارت کی ٹیسٹ سیریز کوئی معمولی کرکٹ نہیں ہوگی،سب کو اس کا انتظار ہے اور ایک دلچسپ کھیل دیکھنے کو ملے گا.انضمام نے پاکستان اور انگلینڈ کے لارڈز کے ایک روزہ میچ کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ گرائونڈ کا فل پیک ہونا اچھا لگا،تماشائیوں کا جم غفیرتھا لیکن کورونا کے دور میں یہ تھوڑی بے احتیاطی بھی تھی،اب انگلینڈ میں کرکٹ کے حوالہ سے کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں،اس کا نقصان ہوگا،تماشائیوں کو اس طرح اجازت ملنی چاہئے کہ احتیاط باقی رہے کیونکہ کھیل کا ہونا ضروری ہے. ادھر زمبابوے میں آج سے ایک روزہ کرکٹ سیریز شروع ہورہی ہے،بنگلہ دیش اور میزبان ملک کے مابین ہرارے میں پہلا ون ڈے میچ ہوگا،اس سے قبل واحد ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش نے 220 رنزسے کامیابی اپنے نام کی تھی،یہ سیریز کسی کے لئے دلچسپی والی نہیں ہے لیکن اگر زمبابوے نے کامیابی اپنے نام کرلی تو بڑی خبر ہوگی،ورلڈ کپ سپر لیگ پوائنٹس ٹیبل پر زمبابوے کی دوسری پوزیشن ہے. اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سیریز آئی سی سی ورلڈ کپ سپر لیگ کا حصہ ہے،بنگلہ دیش نے اگر یہ میچز جیت لئے تو وہ اپنی دوسری پوزیشن کو مزید مستحکم کرلے گا ،اس وقت انگلینڈ 95 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور بنگلہ دیش تینوں میچز جیت کر 80 پوائنٹس بنالےگا جس کا اسے آگے جاکر فائدہ ہوگا،اس کے مقابلہ میں پاکستان انگلینڈ میں سیریز ہارکر بدستور 40پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر چلا گیا ہے.آنے والے دنوں میں اب کی شسکستوں کا احساس زیادہ ہوگا جب ایک ایک میچ جیتنا ضروری ہوگا کیونکہ ورلڈ کپ سپر لیگ کی ٹاپ 8 ٹیموں نے 2023 ورلڈ کپ کی ٹکٹ لینی ہے اور باقی ٹیموں کو کوالیفائر میں جانا ہوگا. بھارت اور سری لنکا کے درمیان بھی ون ڈے سیریز 18 جولائی سے کھیلی جانی ہے اور یہ سیریز سری لنکا کے لئے اہم ہے جو مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے ٹیبل پر بہت نیچے ہے لیکن ساتھ میں بھارتی ٹیم بھی فتح حاصل کرکے اپنی پرواز آگے بڑھائے گی،اسی طرح آسٹریلیا کی ٹیم بھی ویسٹ انڈیز میں ایک روزہ سیریز کھیلنی والی ہے تو چاروں جانب سے میچز ہونے جارہے ہیں جس کے بعد پوائنٹس ٹیبل میں اچھی اکھاڑ پچھاڑ ہوگی،پاکستان کو اب ایک روزہ سیریز کے لئے ستمبر تک انتظار کرنا پڑے گا. یہ بھی پڑھیں : پاکستان کا آج ٹی 20میچ،ٹرینٹ برج سے ایک خاص مدد حاصل،فتح ممکن ؟ Continue Reading Babar AzamBangladesh Cricketcricseen newsEnglandFatima SanaInternational CricketInternational cricket newsInzamam ul haq
لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل ملٹری انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر29 مارچ 1987 تا 4 اکتوبر 1989ء تعینات رہے۔ انھیں مارچ 1987ء میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق نے جنرل اختر عبدالرحمان کی جگہ آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تھا۔ وہ دو برس تک اس عہدے پر فائز رہے اور یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں سوویت جنگ اپنے اختتامی مراحل میں تھی۔ آئی ایس آئی کی سربراہی کے زمانے میں ہی وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف دائیں بازو اور اس طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتوں کے سیاسی گروپ ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ کے تخلیق کاروں میں بھی شامل رہے۔ تصانیف ایفائے عہد ایک جنرل سے انٹرویو وفات 15 اگست 2015ء کو جنرل حمید گل اپنے اہل خانہ کے ساتھ مری گئے تھے، ان طبیعت خراب ہو گئی جس کے بعد ان کو ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہاں کچھ دیر کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کی وجہ دماغ کی شریان بتایا جاتا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس جنت کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب اسقامت اور اس کا انجام جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا ۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری ۔ چنانچہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کر کے پھر کفر کر لیا ۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3250،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں ۔ “ ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے اسے غلط سمجھایا ۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کر کے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کون سی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ” توحید اللہ پر تا عمر قائم رہنا “ ۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر “ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ یہ دعا مانگا کرتے تھے «اَللَّہُمَّ اَنْتَ رَبٰنـَا فَارْزُقْـنَا الْاِسْتِقَامَۃَ» یعنی ” اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما “ ۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلائیے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا } ۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:38) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ۔ ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بے خوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو ۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔ تمہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں ۔ حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف ۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں } } ۔۱؎ (مسند احمد:287/4:صحیح) یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے ۔ حضرت ثابت رحمہ اللہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ” ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے “ ۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا ۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہو گا ۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے ۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا ۔ جو خواہش ہو گی پوری ہو گی ، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے ۔ سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوتی ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے “ ۔ اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا ” کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے ؟ “ فرمایا ” ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی ۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہو گا ۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے “ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں دیکھو گے ۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ’ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ ‘ ،وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر ؟ کہے گا ہ’ اں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ‘ ۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی ۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ ’ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لیے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ‘ ۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں ۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہو گی ۔ بلکہ انعام ہو گا ۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں ۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہو گا ۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ تروتازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقیناً ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2549،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6507) یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں ۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
امریکہ اپنی بحریہ کے ایک تجربہ کارفوجی مارک فریریکس کی بحفاظت واپسی کا خیرمقدم کرتا ہے جنہوں نے ڈھائی سال سے زیادہ افغانستان میں قید میں گزارے۔ صدرجو بائیڈن نے کہا کہ ان کی رہائی، سرکاری اہل کاروں کی کئی برسوں کی محنت اورلگن، قطری حکومت سمیت دنیا بھر کے دیگر شراکت داروں کے اشتراک اور تعاون کا نتیجہ ہے۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے ان تمام امریکی شہریوں کو وطن واپس لانے کے امریکہ کے عزم پر زور دیا جنہیں دنیا میں کہیں بھی بلاجوازاور غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیا گیا یا یرغمال بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم ان کوششوں پراتنے ہی عزم اور توجہ سے کام کرتے رہیں گے جتنی کہ ہم نے مارک فریریکس کو قید سے نکال کر ان کے پیاروں کے پاس گھرواپس لانے کی کوششوں میں کی۔ امریکہ کے لیے ان امریکیوں کو جن کو بلاجواز اورغیرمنصفانہ طورپرحراست میں لیا گیا یا یرغمال بنایا گیا آزاد کرا کے ان کے اہلِ خانہ کے پاس لانے سے زیادہ کوئی ترجیح نہیں ہے۔ صدر بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی "انتظامیہ ان تمام امریکیوں کی محفوظ واپسی کو ترجیح دیتی ہے جنہیں یرغمال بنایا گیا ہے یا ناجائز طریقے سے بیرون ملک حراست میں لیا گیا ہے، اور ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک وہ ان کے اہل خانہ سے دوبارہ نہیں مل جاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ " ابھی بہت سے دیگر امریکیوں کو واپس لانے کا ہمارامشن جاری ہے، تاہم مارک کی رہائی ہمارے مستقل عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ برما، ہیٹی، روس، وینزویلا اور دیگر مقامات پر قید امریکیوں کو آزاد کرانا ہمارا فرض ہے، ہم اپنے لوگوں کو گھر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
لاٹری میں قسمت چلتی ہے اور ٹکٹ خریدنے والا شخص اگر جیت جائے تو اس کے پاؤں خوشی سے زمین پر نہیں ٹکتے ہیں ایسا ہی کچھ امریکی شہری کے ساتھ ہوا جس نے ایک دو نہیں بلکہ لاٹری کے تین ٹکٹ جیت لیے۔ امریکی ریاست نیو جرسی میں رابرٹ اسٹیورٹ نامی شخص نے ایک ساتھ لاٹری کے تین ٹکٹس جیت لیے جس کی مالیت پانچ ملین (36 کروڑ روپے سے زائد) بنتی ہے۔ مذکورہ شخص نے لاٹری کے تین ٹکٹ خریدے اور حیران کن طور پر اس کی ہی کا نمبر تیسری بار بھی نکلا۔ رپورٹ کے مطابق یہ حیران کن واقعہ 4 سال قبل سن 2018 میں ہوا جسے سوشل میڈیا پر دوبارہ شیئر کیا گیا تو صارفین کی انتہا نہیں رہی۔ گزشتہ سال ایک اور امریکی شہری جس کا تعلق ورجینیا سے بتایا گیا ہے انہوں نے 20 لاٹری ٹکٹ خریدے اور وہ تمام جیتے۔ ولیم نیویل نامی شخص نے بتایا کہ ’میں نے 20 ٹکٹ خریدے تھے اور ان میں سے تمام 20 جیت کر مجموعی طور پر ایک لاکھ ڈالر (74 لاکھ روپے) کا انعام حاصل کیا۔ اسی طرح حال ہی میں ایک 67 سالہ شخص نے اتفاقی طور پر ایک ہی لاٹری کے تین ٹکٹ خریدے اور ان سب کو جیت کر ایک لاکھ پانچ ہزار ڈالر (ساڑھے تین کروڑ سے زائد) کا جیک پاٹ حاصل کیا۔
مذہبی معاشروں میں پیشوائیت کے اندرونی تصادم اور عام آدمی کی ‘روح’ پر تسلط کے لیے تکفیر اور قتال کے ہتھیار استعمال کرنا ہر مذہبی معاشرے کا تاریخی تجربہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غیرمسلموں کے مرحلہ وار انخلاء کے بعد سیاسی اور مذہبی اکھاڑامسلمان قومیت کے رنگ برنگے پیشواؤں کے لیے خالی رہ گیا۔ ایسےمیں طاقت اور دہشت کی رسہ کشی ایک بالکل فطری اور قابل فہم عمل تھا۔ تقسیم کے وقت ہی مولانا ابوالکلام آزاد اور ایسے دیگر مفکرین نے اس نوزائیدہ مذہبی معاشرے میں جلد یا بدیر فرقہ وارانہ شورشوں کے برپا رہنے کی پیشین گوئی کر دی تھی۔ ترقی کے جدید زاویوں یامذہبی جذباتیت کو اپنا ہتھیار بنانے کے مابین انتخاب کرنے میں پاکستانی قوم ابتدائی تین سے چار عشروں تک کشمکش میں رہی۔ 70ء اور 80ء کی دہائیوں تک ریاستی ڈھانچے غالباًیہ طےکر چکے تھے کہ آنے والی دہائیوں میں لوگوں کے بے ضرر مذہبی عقائد کو گروہی نفرت کی شکل دے کر ریاستی مفادات کے حق میں ایک طاقت کے طور پر برتا جائے گا۔ خطے کا دوسرا اور ملک کا سب سے بڑا مذہب، اسلام گزشتہ بارہ تیرہ صدیوں سے خطے کی ثقافت، معاشرت اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اولیائے اسلام کے آفاقی توحید کے پیغام سے متاثر ہو کر اس خطہ کے صلح جو، محبت کیش اور فنون لطیفہ کے دلدادہ لوگوں نے جوق در جوق اسلام قبول کیا توصوفیاء کے آفاقی پیغام اور مقامی لوگوں کی طبع سلیم نے باہم مل کر توحید اور مقامی انسان دوست روایتوں کا ایسا امتزاج پیدا کیا جس سے دنیا بھر میں مسلمانان برصغیر شخصی خصائل، علوم اور فنون لطیفہ کے باب میں دنیا بھر کے لیے ایک عظیم حوالہ بنے رہے۔برصغیر میں مسلم اقتدارکے زوال کے بعد مسلمانان ہند کی سیاسی وفاداریاں باستثناء اگرچہ اپنی زمین سے وابستہ رہیں لیکن روحانی وابستگیاں اور بین الاقوامی معاملات کی فیصلہ سازی ترکی میں بچی کھچی اسلامی خلافت کے زیر اثر آ گئیں۔ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین علاقہ حجاز مقدس بھی خلافت عثمانیہ کا ہی ایک حصہ تھا جسے اٹھارہویں صدی میں عثمانیوں نے ناجدہ کی تحریک کو کچل کے حاصل کیا تھا۔ اس رنجش کے زیر اثر ناجدہ گزشتہ دو صدیوں سے مکہ اور مدینہ کو خلافت عثمانیہ سے چھیننے کی فکر میں رہے تاوقتیکہ پہلی عالمی جنگ میں انگریزوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور عرب میں خاندان سعود کو خلیفہ کے خلاف مسلح کرنا شروع کیا۔ بالآخر خلافت کا تختہ الٹ کر جزیرہ عرب کی بادشاہی آل سعود کو سونپ دی گئی۔دو صدیاں قبل ناجدہ کی اس تحریک نے اپنا آغاز بڑے پیمانے پر فروعی عقائد کے نام پر کشت و خون اور مقدس مقامات کے انہدام سے آغاز کیا تھا۔ عثمانیوں کے خلاف جنگ میں صحرائے عرب سے دیگر کئی بدوی قبائل بھی ان سے آن ملے تھے، جن کے مزاج میں روایتی قبائلی منتقم رجحانات پہلے سے ہی موجود تھے۔ جس وجہ سے آتے ہی یہ تحریک دہشت اور فرقہ وارانہ خونریزی کی ایک علامت بن گئی۔ ادھر برطانیہ کے زیر نگیں ہندوستان میں، جس کی اکثریت خلافت عثمانیہ کی روحانی سیادت کو تسلیم کرتی تھی، انگریزوں نےمسلمان برادری میں عثمانیوں کی حمایت اور تحریک خلافت کا اثر گھٹانے کے لیے سعودی فکر کےپنپنے کا پورا بند وبست کیا۔ جس سے صدیوں سے تفرقہ پروری اور گروہی خونریزی سے ناآشنا ہندوستانیوں میں اچانک ایک دوسرے کے لیے تکفیر اور نفرت کے نعرے گونجنے لگے۔ ہندوستان میں ایک ہزار سال سے آباد مسلمان قوم اس سے پہلے دو بنیادی رجحانات پر مشتمل تھی۔اکثریتی رجحان صوفیائے کرام کے عالمگیر محبت اورذات حق کا عرفان حاصل کرنے کے پیغا م کو بنیادی عقائد کا محور بنائے ہوئے اپنی مذہبی اور سماجی زندگی نہایت امن و رواداری سے گزار رہا تھا۔ جبکہ دوسرا بڑا مذہبی رجحان، انہی عقائد کے ساتھ ساتھ شہادتوں کےعظیم تر تقدس اور جمہوری احتجاج کو ناانصافی کے خلاف اپنی طاقت سمجھتا تھا۔ ان کی مذہبی رسوم اور اعمال اپنے پیروؤں کو درس دیتے تھے کہ ظلم کے جواب میں غارت گری ہی کا راستہ اپنانے کی بجائے اپنی مظلومیت کو اپنا ہتھیار بنانا خدا کے نزدیک برتر ہے۔ اس رجحان کی باقاعدہ ابتداء اسلامی تاریخ کے ایک نہایت نمایاں واقعہ، جنگ کربلا سے ہوئی تھی۔ لہذا یہ فرقہ شروع سے ظلم اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی اس فکر میں حضرت امام حسین اور یزید کو اپنی رسوم میں اچھائی اور برائی کے دو استعاروں کے طور پر یاد کرتا رہا ہے۔اس واقعہ کے ایک نمایاں پہلو کا یہاں ذکر کرنا نہایت برمحل ہے کہ روایتی عرب سماج میں خونیں انتقام کو ایک خاص تقدس حاصل تھا، جس کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں ایک قتل کے جواب میں قتل کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا تھا جو بسا اوقات پوری صدی سے ذیادہ طول پکڑ جاتا۔جبکہ اس جنگ کے بعد ظالمانہ قتل کے جواب میں انتقامی سلسلہ شروع کرنے کی بجائے عرب میں پہلی دفعہ جمہوری انداز میں احتجاجی جلوسوں کی روایت ڈالی گئی۔کوئٹہ کے حالیہ احتجاجی دھرنے، احتجاجیوں کے مطابق اسی روایت کا تسلسل اور بزرگداشت ہیں۔ پاکستان میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کا باقاعدہ آغاز 70ء اور 80ء کی دہائیوں سے ہوتا ہے۔تب تک معاشی اور فکری پس ماندگی کی شکار سعودی سلطنت نے تیل کے ذخائر کی دریافت کے بعد ایک بین الاقوامی معاشی طاقت کا روپ دھار لیاتھا اور سکّوں کی تازہ کھنک سے ان کے دل میں مسلم دنیا پر ثقافتی غلبے کی دبی خواہش پھر سے انگڑائیاں لینے لگی تھی۔ ادھر ایران میں بادشاہت کا تختہ الٹنے اور حریف مذہبی حکومت کے قیام نے ‘جلتی پر تیل’ کا کام کیا۔سعودی ثقافت مسلط کرنے کے لیے آسان ترین ہدف لامحالہ طور پر پاکستان تھا، جہاں 1978ء میں جمہوری حکومت کو الٹ کر مذہبی لبادے میں ایک فوجی آمریت آ چکی تھی۔ روس امریکہ جنگ میں پاکستان کی حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے جہادی عنصر کا فروغ، مذہب کے نام پر مار دھاڑ ایک اہم ریاستی ضرورت بن گیا تھا۔ ان عوامل نے پاکستانی مسلمانوں کی آنے والی زندگی پر سعودی خواہشات کے نفاذ کی راہ ایک دم ہموار کر دی۔ پاکستان جو کہ افغان سرحدوں پر امریکی سرمائے پر ایک پرائی جنگ اپنے سر لے رہا تھا، اب آل سعود نے بھی اپنے ارادوں کے تحت پاکستانی ریاست پر نوٹ نچھاور کرنا شروع کر دیے، جن سے آمرانہ حکومت اپنے ملک کے اندر فرقہ وارانہ نفرت کے دائمی بیج بوتی چلی گئی اور برابر نوٹ سمیٹتی رہی۔ قومی اور عوامی امن کے ساتھ اس ریاستی کھلواڑ سے آن کی آن میں پاکستان میں پھر سے تکفیر کے نعرے اور قتل کے فتوے گونجنے لگے۔ جگہ جگہ مخالف فرقوں کی نسل کشی کے لیے مسلح تنظیموں کے تربیت کیمپ کھلنے لگے اور محراب و منبر پر فروعی اختلافات کی ان ان باریکیوں پر دھواں دھار تقریریں ہونے لگیں جو عام مسلمانوں نے پچھلی تیرہ صدیوں میں نہ سنی تھیں نہ کبھی پڑھی تھیں۔ قومی پرچم کا سفید اقلیتی حصہ ادھیڑ پھینکنے کے بعد جھنڈے کا سبز مسلمانی ٹکڑا بھی چیتھڑے ہونے لگا۔ ہارے ہوئے پاکستانیوں نے پگڑیاں اچھال کر عربی رکاف سروں پر باندھ لیے، رمضان کو "رامادان” کہا جانے لگ گیا اور بہت سے شکست خوردہ ہم وطنوں نے اپنی چھتوں سے پاکستانی پرچم اتار پھینک کر اپنے ہاتھوں سے گھروں پر سعودی عرب کا جھنڈا گاڑ دیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاست پر نوٹوں کی بارش تھم گئی اور اپنے ہی پالے ہوئے جہادی عنصر کی ضرورت اچانک ختم ہو گئی۔ لیکن تب تک بچے بچے کے دماغ میں باہمی نفرتوں کا زہر سرایت کر چکا تھا اور قومی اتحاد تقریبا پارہ پارہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔حکومت نے فرقہ پرست قاتلوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا لیکن تب تک مسلح تنظیموں کے ہاتھ اس قدر لمبے ہو چکے تھے کہ انہیں بیرونی امداد کے لیے پاکستانی حکومت کے درمیانی ہاتھ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ موجودہ حالات میں جب فرقہ پرست جنگجوؤں کے راہ و رسم حکومت کے ساتھ ماضی جیسے نہیں رہے، انہیں اپنے محفوظ مستقر بنانے کے لیے ایک ایسا علاقہ چاہیے تھا جس میں ریاستی ڈھانچے کا کوئی عملی وجود نہ ہو۔ لہذا انہوں نے اپنا گولہ بارود سمیٹ کر بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقہ میں جا کر بسیرا کیا ہے۔ ہزارہ برادری بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور قریبی آبادیوں میں ایک بڑی اکثریت سے آباد ہے۔ یہ لوگ مذہبا ًشیعہ مسلمان اور اکثریتی طور پر فارسی بان ہیں۔ اس جغرافیائی، مذہبی اور لسانی قربت کی وجہ سے پڑوسی ملک ایران کی طرف ان کی آمد و رفت اورروابط بہت دوستانہ ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے ان شدت پسند تنظیموں نے بلوچستان کے شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی سے اپنے فرقہ وارانہ قتل عام کا سلسلہ از سر نو بحال کیا ہے۔ اس گروہ کے نمائندہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ ایران پاکستان زمینی راستے سے گزرنے والے مسافروں اور خاص طور سے شیعہ زائرین کو بڑے پیمانے پر مارنے کا سلسلہ پچھلے کئی عرصہ سے جاری تھا جس سے پاکستانی عوام ایران کے زمینی راستوں کو غیر محفوظ اور جان جوکھم کا سفر سمجھنے لگے۔ لیکن اس قتل عام پر قومی ذرائع ابلاغ کے ہاں ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کراچی اور کوئٹہ میں ایک سے لے کر دس بارہ افراد تک کو روزانہ قتل کیا جاتا رہا ہے لیکن ایسے ذیادہ تر سانحے قومی اخبارات میں ایک معمولی سی خبری سرخی جتنی جگہ کا بار بھی نہ پا سکے۔ مجبورا ظلم کا شکار شیعہ برادری نے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکشن ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے آزادانہ اور غیر روایتی خبری ذرائع قائم کر لیے تاکہ سنجیدہ حلقوں تک ان مظالم کے احوال ہر لمحہ پہنچتے رہیں، لیکن ارباب اقتدار نے کسی بھی سنجیدہ کوشش کو اپنی ترجیح نہیں سمجھا۔ پاکستانی عدلیہ جو پچھلے پانچ سالوں سے شہریوں اور سیاستدانوں کے فروعی مسئلوں پر دھڑا دھڑ ازخود نوٹس لے کر بلاناغہ قومی میڈیا کی شہ سرخیوں پر ہے، اس کے حضور متعدد بار اس قتل عام کے خلاف پٹیشنز دائر کی گئیں لیکن یہ سنجیدہ مسئلہ چونکہ سنسنی خیز مہم جوئی سے خالی تھا، اس لیے شہ سرخیوں میں رہنے کے شوقین ججوں نے اس "غیر اخباری” ایشو پر کسی بھی پٹیشن پر کوئی عملدرآمد کرنا اہم نہیں سمجھا۔ 12 جنوری کو جب پورے قومی ذرائع ابلاغ ایک نیم سیاسی لیڈر کے اسلام آباد کی طرف سیاسی مارچ کی کوریج میں مصروف تھے، کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کے رہائشی علاقے میں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔متاثرہ شیعہ برادری جو کہ اب تک صبر اور خاموشی کی حدوں کو عبور کیے بیٹھی تھی، انہیں اپنے حالیہ تجربات کی روشنی میں پورا خدشہ تھا کہ اتنا بڑا قومی سانحہ بھی اسلام آباد کی سیاسی گہما گہمیوں کے شور میں ماند پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی متاثرہ گروہ کا ماورائے قانون ہنگامے کھڑے کر دینا بالکل قرین از توقع تھا۔ لیکن کوئٹہ کے امن پسند ہزارہ شہریوں نے ردعمل کا وہی طریقہ اختیار کیاجو انہوں نے اپنی تیرہ صدیوں سے چلی آ رہی مقدس روایت سے سیکھا تھا۔ ذی شعور اور صابر ہزارہ برادری نے اپنے شہداء کے بیسیوں تابوت کاندھوں پر رکھ کر علمدار روڈ پر لا کر سجا دیے اور منفی آٹھ درجہ حرارت پر غیر معینہ مدت کا دھرنا دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تب تک اپنے ان لاشوں کو نہیں دفنائیں گے جب تک اس قتل عام سے آنکھیں موندے ہوئی حکومت، بلوچستان کی غیر ذمہ دار صوبائی حکومت کو برطرف کر کے قاتلوں کے خلاف قابل ذکر اقدامات نہیں کرے گی۔ بین الاقوامی میڈیا پھٹی آنکھوں سے ان غم سے نڈھال اور خاموش سوگوار مسلمانوں کا اچھوتا احتجاج دکھا رہا تھا۔ جن مسلمانوں کے بارے میں اب تک بین الاقوامی ذرائع پر محض یہی دکھایا اور بتایا جاتا تھا کہ مسلمان بات بے بات بگڑ کر اپنی سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ جیسا متشدد احتجاج کرنے والی قوم ہیں۔ دھرنا دینے والوں کی استقامت کے آگے ہتھیار ڈال کر بالآخر 72 گھنٹوں کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے کوئٹہ آ کر ان کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔ اس فرقہ وارانہ خونریزی کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستانی قوم کے بارے جو شرمناک تاثر پھیل رہا تھا، کوئٹہ کے ہزارہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی لازوال مثال قائم کیے جانے کے بعد ایک متبادل رائے کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے کہ پاکستانی عوام، جمہوری طرز عمل کے ذریعے بھی اپنے مطالبات منوانا، اپنا حق حاصل کرنا اور ظلم کو پچھاڑنا جانتے ہیں۔ گورنر راج کے سرکاری اعلان اور شدت پسندوں کے خلاف ایکشن لینے کے بعد کالعدم تنظیموں کے دو کے قریب مقامی کمانڈر مارے گئے ہیں۔ لیکن شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات دھرنا ختم ہونے کے دوسرے دن سے ہی، نسبتا کم قوت کے ساتھ مگر پھر سے شروع ہو گئے ہیں۔پچھلے تیس برسوں سے یہ مسلح کالعدم تنظیمیں جس قدر اندھی طاقت حاصل کر چکی ہیں، ان کی سرکوبی کے لیے نسبتا بڑے پیمانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سبھی اقدامات بھی صرف اس صورت کارگر ہو سکتے ہیں اگر عام لوگوں کی سطح پر آ چکے نفرت پسند خیالات اور عدم روادار رویوں کے خاتمے کے لیے ذرائع ابلاغ اور دانشور طبقہ کسی درجہ سنجیدگی دکھائے۔ اور اس سے بھی اہم امر یہ ہے کہ عوام از خود، نفرت اور پھوٹ کو ہوا دینے والے ہر دانشور، مُلا اور ہر سرکاری ادارے کی مذموم کاوشوں کو یک قلم مسترد کر دیں۔
اسلام آباد (گوادر پرو) پاکستانی حکومت نے جمعہ کو 727 بلین روپے کے ترقیاتی پروگرام کی نقاب کشائی کی، جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک )، سنٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (سی اے آر ای سی ) پروگرام اور خیبر پاس اکنامک کوریڈور (کے پی ای سی ) کے تحت نئے اور جاری رابطوں کے منصوبوں کے لیے 118 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سی پیک کی مغربی رووٹ میں سڑکوں کے منصوبوں کے لیے بہت سے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ملک کے شمالی اور مشرقی حصوں کو گوادر بندرگاہ سے ملانے کے لیے ان میں سے زیادہ تر منصوبے بلوچستان میں جاری ہیں۔ حکومت نے کے پی میں غلام خان پاک افغان سرحدی پوائنٹ کو سی پیک کی ایم -14 موٹروے سے جوڑنے کے لیے ایکسپریس وے منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے بھی فنڈز رکھے ہیں، جو کابل کے لیے گوادر بندرگاہ کے ساتھ مختصر ترین لنک ہے۔ سی پیک کے نمایاں منصوبوں میں کے پی کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے ضلع خضدار کے درمیان موجودہ قومی شاہراہ کو سی پیک کے ایم -14 اور ایم -8 موٹر ویز سے منسلک کرنے کے لیے دو رویا کیریج وے میں اپ گریڈ کرنے کے لیے 16 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ان منصوبوں سے اسلام آباد اور گوادر بندرگاہ کے درمیان سفر کے وقت میں بڑی حد تک کمی آئے گی۔ سی پیک کے تحت بلوچستان میں نوکنڈی ماش خیل روڈ کے لیے مزید 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے مکران اور قلات ڈویژن میں ایم 8 موٹروے کے دو سیکشنز کے لیے 7.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ کو گوادر سے ملانے والا ایم 8 اور اس ایسٹ ویسٹ موٹر وے کے کئی حصے پہلے ہی فعال ہیں ۔ اس کے علاوہ گلگت کو چترال سے ملانے کے لیے مختلف منصوبوں کے لیے 6 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں تاکہ ملک کے شمالی حصوں میں سی پیک فراہم کیا جا سکے۔ سی پیک کی ہزارہ موٹروے کی توسیع قراقرم ہائی وے کے حویلیاں-تھاکوٹ سیکشن کے لیے 1.4 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حکومت نے موجودہ این 25 ہائی وے کو ڈبل کیریج وے میں اپ گریڈ کرنے کے لیے بھی 6 ارب روپے رکھے ہیں۔ یہ سڑک کراچی کو گوادر، کوئٹہ اور بلوچستان میں پاک افغان سرحدی مقام چمن سے ملاتی ہے۔
اسلام آباد: سال 2019 پانی و پن بجلی کے وسائل کی ترقی کے لیے تاریخی سال ثابت ہوا، رواں برس نیشنل گرڈ کو ریکارڈ 34 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ یونٹ پن بجلی مہیا کی گئی۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی سال 2019 سے متعلق کارکردگی رپورٹ جاری کردی گئی۔ سنہ 2019 پانی و پن بجلی کے وسائل کی ترقی کے لیے تاریخی سال ثابت ہوا۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس نیشنل گرڈ کو ریکارڈ 34 ارب 67 کروڑ 80 لاکھ یونٹ پن بجلی مہیا کی گئی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں پن بجلی میں 6 ارب 32 کروڑ 10 لاکھ یونٹ اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2019 میں 51 سال کے تعطل کے بعد مہمند ڈیم پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے مشاورتی خدمات لی گئیں جبکہ ڈیم پارٹ کی تعمیر کے لیے بڈز کی جانچ مکمل کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے پر تعمیراتی کام اگلے 2 ماہ میں شروع ہوگا، رواں سال وزیر اعظم نے سندھ بیراج جیسے منصوبے کی منظوری بھی دی۔
آپ کی ویب سائٹ کے بارہ میں مجھے ایک دوست کے ذریعہ سے علم ہوا جب اسے دیکھا تو میرے لیے بہت زيادہ مفید ثابت ہوئي اورمیری بہت سی مشکلات حل ہوگئيں آپ کی کوششوں پر آپ کا شکر گزارہوں ۔ میرا یہ سوال شادی کے متعلق ہے : میرے والدین نے منگنی تو کردی ہے لیکن اب وہ شادی کرنے میں تاخیرکررہے ہيں حالانکہ ہر چيزتیار ہے اوردوسرے خاندان والے بھی تیار ہیں لیکن میرا خاندان اس میں دیر کررہا ہے ۔ ہر چيز تیار ہونے کے باوجود شادی میں تاخیرکرنے کا کیا حکم ہے ؟ جواب کا متن الحمد للہ. الحمدللہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ ہماری ویب سائٹ کے بارہ میں آپ کے خیالات اچھے ہیں ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اوراعمال صالحہ عطا فرمائے ۔ جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے والدین شادی پر موافق ہیں اور لڑکی والے بھی تیار ہیں اور شادی کے لیے سب کچھ تیار کیا جاچکا ہے تو اب شادی میں تاخیر کرنے کی کوئي وجہ نہيں ۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، اورجس میں استطاعت نہيں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4778 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے والدین کے پاس کوئي ایسے اسباب ہوں جو انہيں اس شادی میں تاخیر کرنے پر مجبور کررہے ہوں ، اورہوسکتا ہے کہ وہ ان اسباب کے بارہ میں آپ کوبتانا مناسب نہ سمجھتے ہوں ، تو اس لیے ضروری ہے کہ آپ صبر وتحمل سے کام لیں اورثواب کی نیت کریں ۔ اوروالدین کو اس کار خیر میں جلدی کرنے کی فضیلت کے بارہ میں بتائيں ، کہ اس میں آنکھیں نیچی ہوجاتی ہيں اورشرمگاہ کی بھی حفاظت ہوتی ہے ، چاہے وہ عقد نکاح کردیں اوررخصتی میں تاخیر کرلیں کیونکہ عقدنکاح کرنا اور رخصتی میں تاخیر منگنی سے بہتر ہے ۔ آپ کویہ بھی علم ہونا چاہیے کہ مرد اپنی منگیتر کے لیے اجنبی ہے ، اس کے صرف منگنی کے وقت اسے دیکھنا جائز ہے بعد میں وہ اسے نہیں دیکھ سکتا ، اوراگر اس کا عقد نکاح ہوچکا ہے تو وہ اس کی بیوی بن چکی ہے اب اس کے لیے وہ لڑکی حلال ہے جس طرح کہ خاوند کے لیے حلال ہوتی ہے ۔ لیکن افضل اوربہتر یہ ہے کہ وہ رخصتی سے قبل اس سے ہم بستری نہ کرے تا کہ فساد اورفتنہ سے بچا جاسکے ، اوراس میں جوعرف اورعادت بن چکی ہے اس کا خیال رکھا جاسکے ۔
ریاضت و تقوٰی میں آپؒ کا مقام بہت بلند ہے۔آپؒ ذہین اور ذکی ہونے کے ساتھ ساتھ مستجاب الدعوات بھی تھے۔آپؒ کے معاصرین نے جو آپؒ کے اوپر بحتان باندھے ہیں آپؒ کی ذات گرامی ان سے قطعًا مبراء ہے۔ آپؒ کے صاحبزادے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے۔ (اخمر طینیہ ادم بیدہ) یعنی اللہﷻ نے آدم کا خمیر اپنے ہاتھ سے گوندھا۔اور حدیث بیان کرتے وقت آپ نے اپنا ہاتھ دراز کر دیا۔لیکن امام احمد ابن حنبلؒ نے منع کرتے ہوۓ فرمایا کہ جب ید اللہ کا مفہوم بیان کیا کرو ہاتھ دراز کرکے نہ سمجھایا کرو۔ Advertisement امام صاحب نے بہت سے جلیل القدر بزرگوں سے شرف نیاز حاصل کیا تھا اور بشر حافیؒ کا قول تو یہ ہے کہ امام احمد ابن حنبلؒ مجھ سے بدر جہاں افضل ہیں۔کیونکہ میں تو صرف اپنے ہی واسطہ اکل حلال کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی اکل حلال حاصل کرتے ہیں۔ Advertisement آپؒ پر معتزلہ کاظلم:☜ حضرت سری سقطیؒ کا قول ہے کہ معتزلہ نے آپؒ کے اوپر جتنی طعنہ زنی کی ہے آپؒ موت کے وقت ان سے بالکل پاک تھے۔مثلًا بغداد کے معتزلہ نے ہنگامہ کھڑا کرکے یہ چاہا کہ آپؒ یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن ایک مخلوق ہے۔اور اس سلسلہ میں دربار خلافت میں بہت بڑی بڑی سزایں بھی سنائی گئیں۔حتٰی کہ جس وقت آپؒ کو ایک ہزار کوڑے لگائے جا رہے تھے تو اتفاق سے آپؒ کا کمر بند کھل گیا۔لیکن غیب سے دو ہاتھ نمودار ہوۓ اور کمر بند باندھ کر غائب ہو گئے۔مگر اتنی شدید اذیتوں کے بعد آپؒ نے قرآن کو مخلوق نہیں بتایا۔ اور جب آپؒ چھوٹ گئے تو لوگوں نے پوچھا کہ جن فتنہ پردازوں نے آپؒ کو اتنی اذیتیں دی انکے لئے آپؒ کی کیا رائے ہے؟؟؟فرمایا کہ وہ مجھے اپنے خیال کے مطابق گمراہ تصور کرتے ہیں۔اور اس لئے تمام تکلیفیں صرف خدا کے لئے دی گئی ہیں۔ اسلیے میں ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرونگا۔ Advertisement منقول ہے کہ ایک نوجوان کی ماں کے ہاتھ پیر شَلْ ہوگئے تھے۔اس نوجوان نے آپؒ سے دعا کے لئے کہا تو آپ نے وضو کرکے نماز شروع کر دی۔ جب وہ نوجوان گھر پہنچا تو اسکی ماں صحت یاب ہو چکی تھی۔اور خود آکر دروازہ کھولا۔ آپؒ کی تعظیم کا صلہ:☜ آپؒ دریاء کے کنارے وضوء کر رہے تھے اور ایک شخص بلندی پر بیٹھا ہوا وضوء کر رہا تھا۔لیکن آپؒ کو دیکھ کر تعظیمًا نیچے آ گیا۔پھر اسکے انتقال کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ کس حال میں ہو؟ اس نے کہا کہ خدا تعالی محض اس تعظیم کی وجہ سے جو میں نے امام احمد ابن حنبلؒ کی وضوء کرتے وقت کی تھی مغفرت فرما دی۔ Advertisement واقعات:☜ آپؒ فرمایا کرتے تھے میں جنگل میں راستہ بھول گیا۔جب ایک اعرابی سے راستہ معلوم کیا تو وہ پھوٹ، پھوٹ کر رونے لگا۔مجھے خیال ہوا کہ یہ شائد فاقہ سے ہے۔اور جب میں نے کھانا دینا چاہا تو بہت ناراض ہو کر کہنے لگا کہ اے امام حنبلؒ کیا تجھے خدا پر اعتماد نہیں جو خدا کی طرح مجھے کھانا دیتا ہے جبکہ تو خود گم کردہ راہ ہے۔ مجھے خیال آیا کہ اللہﷻ نے اپنے نیک بندوں کو کہاں کہاں پوشیدہ رکھا ہے۔وہ میری نیت کو بھانپ کر بولا کہ خدا کے بندے تو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ پوری سرزمین کو سونا بن جانے کے لئے کہہ دے تو پورا عالم سونے کابن جائے اور میں نے جب نگاہ اٹھائی تو پورا صحرا سونے کا نظر آیا۔اور غیب سے ندا آئی کہ میرا محبوب بندہ ہے اور اگر یہ کہہ دے تو ہم پورے عالم کو زیر وزبر کر دیں۔ لہذا تجھے شکر اداء کرنا چاہیئے کہ تیری ملاقات ایسے بندے سے ہو گئی۔لیکن آج کے بعد اسکو کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ Advertisement تقوٰی :☜ آپؒ کے صاحبزادے صالح، اصفہان کے قاضی تھے۔اور ایک مرتبہ امام حنبلؒ کے خادم نے حضرت صالح کے مطبخ میں سے خمیرے لیکر روٹی تیار کی اور جب روٹی امام صاحب کے سامنے پہنچی تو امام صاحب نے پوچھا کہ روٹی اس قدر گداز کیوں ہے۔خادم نے پوری کیفیت بتا دی۔آپؒ نے فرمایا کہ جو شخص اصفہان کا قاضی رہا ہو اس کے یہاں سے خمیرہ کیوں لیا۔لہذا یہ روٹی میرے کھانے کے لائق نہیں رہی۔اور یہ کسی فقیر کے سامنے پیش کرکے پوچھ لینا کہ اس روٹی میں خمیر تو صالح کا ہے اور اٹا امام احمد ابن حنبلؒ کا اگر تمہاری طبیعت گوارا کر لے تو لے لو۔لیکن چالیس یوم تک کوئی سائل نہیں آیا۔اور جب روٹیوں میں بو پیداء ہو گئی تو خادم نے دریا دجلہ میں پھینک دی۔لیکن امام صاحب کے تقوٰی کا یہ عالم تھا کہ آپؒ نے اس دن سے دریا دجلہ سے مچھلی نہیں کھائی۔اور آپؒ لوگوں سے فرماتے تھے کہ جسکے پاس چاندی کی سرمہ دانی ہو اسکے پاس بھی مت بیٹھو۔ ارشادات:☜ شرعی مسائل تو آپؒ خود بتا دیا کرتے تھے۔ لیکن مسائل طریقت کے سلسلے میں آپؒ لوگوں کو بشر حافیؒ کی خدمت میں بھیج دیتے تھے۔ اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خدا سے خوف طلب کیا ہے۔تو اس نے اتنا خوف عطا کر دیا کہ مجھے زوال عقل کا خوف پیدا ہو گیا۔ Advertisement فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھ سے فرمایا ہے کہ تجھے میرا قرب صرف قرآن سے مل سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اعمال کی مشقتوں سے چھٹکارے کا نام اخلاص ہے۔ اور خدا پر اعتماد ہی توکل ہے۔ اور تمام امور کو خدا کے سپرد کر دینے کا نام رضا ہے۔ زہد:☜ جب لوگوں نے محبت کا مفہوم پوچھا۔فرمایا کہ جب تک بشر حافی حیات ہیں ان سے دریافت کرو۔ پھر فرمایا کہ زہد کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ عوام کا زہد تو حرام اشیا ترک کر دینا ہے اور خواص کا زہد حلال چیزوں میں زیادتی کی طمع کرنا ہے۔اور عارفین کے زہد کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ Advertisement پھر سوال کیا کہ جاہل قسم کے صوفیاء مسجد میں متوکل بن کر بیٹھ جاتے ہیں انکے متعلق کیا راۓ ہے؟؟؟ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو غنیمت سمجھو کیونکہ علم کی وجہ سے انہوں نے توکل اختیار کیا اور جب لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو محض روٹیاں حاصل کرنے کا بہانہ ہوتا ہے۔تو فرمایا کہ دنیا میں کوئی جماعت بھی روٹی سے بے نیاز نہیں ہے۔ وفات:☜ انتقال کے وقت جب صاحبزادے نے طبیعت پوچھی تو فرمایا کہ جواب کا وقت نہیں ہے۔بس دعا کرو کہ اللہﷻ ایمان پر خاتمہ کر دے کیونکہ شیطان لعین مجھے سے کہہ رہا ہے کہ تیرا ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ملال ہے۔ اس لئے دم نکلنے سے قبل مجھے سلامتی ایمان کے ساتھ مرنے کی توقع نہیں ہے۔اللہﷻ اپنا فضل فرما دے یہ کہتے کہتے روح پرواز ہو گئی۔ انا للہ وان الیہ راجعون۔
دنیا کے سب سے چھوٹے باڈی بلڈر کا ریکارڈ بھارت سے تعلق رکھنے والے پراتک وتھل موہیت نے اپنے نام کرلیا —فوٹو: پراتک انسٹا گرام قد کے لحاظ سے دنیا کے سب سے چھوٹے باڈی بلڈر کا ریکارڈ بھارت سے تعلق رکھنے والے پراتک وتھل موہیت نے اپنے نام کرلیا۔ گنیز ورلڈ ریکارڈز نے 3 فٹ 4 انچ کے پراتک وتھل موہیت کو قد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے چھوٹا باڈی بلڈرقرار دے دیا ہے۔ View this post on Instagram A post shared by pratik mohite (@pratikmohite_official) 25 سالہ پراتک کا کہنا ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج کروانا ایک بڑا قدم ہے جس پر انہیں بے حد خوشی ہے۔ دنیا کی سب سے طویل القامت خاتون کا قد کتنا ہے ؟ گنیز ورلڈ ریکارڈز نے ترک خاتون کو 7 فٹ سے زائد قد پر دنیا کی قد آور خاتون قرار دے دیا ہے گنیز ورلڈ ریکارڈز کے مطابق پراتک وتھل کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2012 میں باڈی بلڈنگ شروع کی تو لوگوں نے سوچا کہ وہ کمزور ہیں لیکن جم میں گھنٹوں کی سخت محنت کے بعد انہوں نے لوگوں کو غلط ثابت کردیا اور 2016 میں پہلی بار ایک مقابلے میں شریک ہوئے۔ پراتک کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں ہر انسان کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس کوئی مقصد ہونا چاہیے۔
عموما ہر دین میں خوشیاں منانے اور اس کے اظہارکے لیے ایسے ایام مقررہے ہیں جو کسی اہم واقعہ یاشخصیت سے تعلق رکھتے ہیں، پھر ان خوشیوں کے منانے کے انداز بھی سب کے الگ الگ ہیں چونکہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد اسلام سب سے ممتازاور اللہ تبارک و تعالی کا پسندیدہ دین ہے اس کا ہر کام دیگر اقوامِ عالم سے جدا اور عمدہ ہے ،اسی طرح خوشیاں مننانے کے انداز و اطوار بھی مہذب طور طریقے کے ساتھ موجود ہیں۔ اسلام نے خوشی منانے کے جو مختلف مواقع ہمیں فراہم کیے ہیں ان میں عیدالفطر بھی انفرادی حیثیت سے موجود ہے۔رمضان المبارک کی ایک بہترین تربیتی مشق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان مشقتوں کے بدلے میں یہ خوشیوں بھرا دن مرحمت فرمایا ۔ لیکن دین اسلام میں خوشی منانے کا تصوریہ نہیں کہ محنت ومشقت سےکمایا ہوا حلال پیسہ فضولیات اور حرام کاموں میں ضائع اور صرف خوشی منانے کے نام پر خرچ کر دیا جائے۔ عید الفطرکے دن کی سعادتیں، برکتیں اور رحمتیں بجا ہیں مگر ان کا درست حقدار وہی ہے جس نے رمضان المبارک کے تقاضے پورے کئے ہوں گے اورجس نے اس کے نور سے اپنا دل منوّر کیا ہو گا ۔ عید الفطر کا سورج ویسے توسبھی مسلمانوں کے لیے خوشی لیکر طلوع ہوتا ہے ۔ لیکن اس دن کی جو چاشنی روزے دار محسوس کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے یہ خوشگوار دن روزے داروں ہی کو بطور بدلہ عطا فرمایا ہے۔ عید الفطر کا دن ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کیا جائے۔ اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، خاندان والوں، غریبوں اورمفلسوں کا خاص خیال رکھا جائے تا کہ عید الفطر کے تقاضے پورے ہوں ۔ افسوس کہ لوگ عید کے دن اپنے گھر والوں کا تو خوب خیال رکھتے ہیں مگر ان کے ارد گرد ایسے بے شمار لوگ رہتے ہیں جو عید کی مسرتوں سے محروم ہوتے ہیں ۔ اسی عید کے دن بہت سے گھروں پر چولہا تک نہیں جلتا، بچوں کی عیدی کے لیے پیسے تک نہیں ہوتے اور یوں ان کے پھولوں جیسے بچے عید کے دن بھی نہیں کِھل پاتے ۔ عید الفطر کا تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کریں،غریب و نادار بچوں کو عیدی ،تحفہ تحائف دیں ، ان کے گھروں پر سویّاں اور مٹھائیاں بھجوائیں، ان کو مبارک باد پیش کریں تا کہ وہ بھی عید الفطر کی خوشیاں مناسکیں۔ اس دن غرباء و مساکین کی امداد ، بیماروں کی مزاج پرسی ، بچوں سے شفقت و نرمی ، بڑوں کی تعظیم ، نرمی اور رواداری کا رویہ اپنانا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں جو نتائج برآمد ہوں گے ہم خود اپنی زندگی میں انکا اثر محسوس کریں گے۔ اجتماعی طور پر نہ ہوسکے تو انفرادی طور پر ہی سہی اگر مسلمان اس طرف توجہ کر لیں تو معاشرے میں یقیناً ایک عظیم انقلاب برپا کیا جا سکے گا۔
کراچی : شہر قائد کے مختلف علاقوں میں پولیس نے کارروائیاں کرتے ہوئے 11 ملزمان کو گرفتار کر کے اسلحہ اور مسروقہ سامان برآمد کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں لیاری کےعلاقے بغدادی میں پولیس نے مقابلے کے بعد زخمی حالت میں ملزم کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کرلیا۔ ملیر کے علاقے شاہ لطیف میں پولیس نے کاروائی کے دوران اسٹریٹ کرائم میں ملوث دوملزمان گرفتار کرلیے، ملزمان کے قبضے سےغیرقانونی اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں پولیس نے کارروائی کے دوران تین ڈکیت گرفتار کیے، ملزمان سے تین پستول اور مسروقہ موٹر سائیکل برآمد ہوئی۔ چاکیواڑہ پولیس نے جوا اورسٹا مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران چار افراد کو گرفتار کرلیا، ملزمان سے نقدی آلات کمار بازی کا سامان، پرچیاں برآمد کیں۔ گلستان جوہر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے منشیات فروش کو گرفتار کرکے ایک ہزار پچیس گرام چرس برآمد کی۔ ہائی وے کی حدود سیفل گوٹھ، نور محمد گوٹھ اور یثرب گوٹھ میں رات گئے سرچ آپریشن کیا گیا، گھر گھر تلاشی کی دوران 15 سے زائد مشکوک ومشتبہ افراد کو پولیس حراست میں لیا گیا۔ پولیس کے مطابق حراست میں لیے گئے تمام افراد کا ڈیٹا کلئیر ہونے پر انہیں رہا کر دیا گیا،کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس کی کارروائیاں‘ 13 ملزمان گرفتار یاد رہے کہ گزشتہ روزکراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس نے سرچ آپریشن کے دوران 14 ملزمان کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کیا تھا۔
وکی پیڈیا کے مطابق مصر کے نوبل پرائز حاصل کرنے والے مشہور مصنف نجیب محفوظ (Naguib Mahfouz) تیس اگست 2006ء کو انتقال کرگئے۔ آپ قاہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے 17 سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا لیکن جب آپ کی پہلی تصنیف شائع ہوئی، تو اس وقت آپ کی عمر 38 سال تھی۔ 1988ء میں آپ کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ایک مصنف کا کام ان حالات کی نقشہ کشی کرنا ہوتا ہے، جن میں وہ رہتا ہے اور اگر حالات تبدیل ہو جاتے ہیں، تو مصنف بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ آپ کے ناولوں میں قاہرہ کی زندگی کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ ابتدائی سالوں میں، نجیب محفوظ نے حافظ نجیب، طہ حسین اور سلمہ موسیٰ کو پڑھا اور ان سے متاثر بھی تھے۔ آپ نے کم از کم پچاس کے قریب ناول اور سیکڑوں کہانیاں لکھیں۔ اس کے علاوہ دو سو سے زیادہ مضامین لکھے، جن کی تفصیل کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہے۔ کچھ سال پہلے آپ کی کلیات پانچ جلدوں میں شائع ہوئی جو تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے، اور یہ آپ کا نصف کام بھی نہیں ہے۔ آپ کے پندرہ ناولوں پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، جو جبل الطارق سے خلیج فارس تک پھیلے ہوئے عرب ممالک میں اپنی شہرت رکھتی ہیں۔ "Adrift on the Nile” بنیادی طور پر عربی ناول ہے جسے فرانسس لیارڈیٹ نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ ’’آبِ نیل پہ آوارگی‘‘ نیئر عباس زیدی نے کیا ہے۔
قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب بستی والوں نے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، اور رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے، تم تو نرے جھوٹے ہو تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی ﴿ قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾” انہوں نے کہا : تم تو محض ہماری طرح کے آدمی ہو۔“ یعنی کس بنا پر تمہیں ہم پر فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے۔ دیگر رسولوں نے بھی اپنی امتوں سے کہا تھا : ﴿ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ (ابراہیم:14؍11) ” ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔ “ ﴿وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَـٰنُ مِن شَيْءٍ ﴾ ” اور رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی۔“ یعنی انہوں نے رسالت کی عمومیت کا انکار کیا، پھر انہوں نے اپنے رسولوں سے مخاطب ہو کر ان کا انکار کرتے ہوئے کہا : ﴿إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ﴾ ” تم تو جھوٹ بولتے ہو۔ “ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
صدر رجب طیب ایردوان نے آق پارٹی غاریسون کی صوبائی ایڈوائزری کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں آخری حد تک شائشتہ ہونا چاہیے، ہمارے وزراء میئرز اور ڈپٹیز کو عاجز ہونا چاہیے، جیسا کہ رومی نے کہا تھا ہماری عاجزی کو زمین کی مٹی کے برابر ہونا چاہیے جس میں ہمیں دفن ہونا ہےـ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے یہ دفاتر کوئی فائدہ نہیں دے سکتےـ ہمیں اپنے دفاتر سے حاصل ہونے والے فوائد کو مضبوط بنانا ہے نا کہ اپنے دفاتر کو مضبوط کرنا ہےـ اگر آپ اپنے دفاتر کی مضبوطی تک محدود ہو گئے تو عوام اسی طرح اٹھا کر آپ کو باہر پھینک دیں گے جیسے انہوں نے آپ کو ان دفاتر میں بٹھایا تھا”۔ جدوجہد کا ایک مشکل وقت ہمارا انتظار کر رہا ہے صدر رجب طیب ایردوان نے آق پارٹی کی 16 سالہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "خود کی تجدید اور اصلاح آق پارٹی کی سب سے بڑی خاصیت ہے اور جدوجہد کا ایک کٹھن دور ہمارا انتظار کر رہا ہے 2019ء میں ہونے والے انتخابات ترکی کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم 16 اپریل کے ریفرنڈم میں کامیاب ہوئے تھے تاہم 49.9 فیصد ووٹوں کی شرح ناکافی ہے 50 فیصد سے زائد کامیابی کے لیے لازم ہے” ہمیں ایسا کرنا چاہیے جسے ہمارے جانے کے بعد اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے انہوں نے مزید کہا: "ہمیں آخری حد تک شائشتہ ہونا چاہیے ہمارے وزراء میئرز اور ڈپٹیز کو عاجز ہونا چاہیے جیسا کہ رومی نے کہا تھا ہماری عاجزی کو زمین کی مٹی کے برابر ہونا چاہیے جس میں ہمیں دفن ہونا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے یہ دفاتر کوئی فائدہ نہیں دے سکتےـ ہمیں اپنے دفاتر سے حاصل ہونے والے فوائد کو مضبوط بنانا ہے نا کہ اپنے دفاتر کو مضبوط کرنا ہے اگر آپ اپنے دفاتر کی مضبوطی تک محدود ہو گئے تو عوام اسی طرح اٹھا کر آپ کو باہر پھینک دیں گے جیسے انہوں نے آپ کو ان دفاتر میں بٹھایا تھاـ ہم یہ بات ہمیشہ کہتا ہوتا ہوں کہ میرا صدر ہونا کون سی بڑی بات ہےـ کیا اس صورت کل میں مر نہیں سکوں گا؟ اور ہم سب کا آخر کار کسی جگہ جانے والے ہیں؟ ایک دو مکعب میٹر کی قبر! اور جب امام ہمارا نماز جنازہ پڑھے تو یہ نہیں کہے گا کہ صدر کی روح کے ثواب کے لیے بلکہ ایک انسان کی روح کے ایصال ثواب کے لیے بولے گاـ ہماری نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور ہمیں دفن کر دیا جائے گا، پھر تمام لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گےـ تاہم اگر ہم نے اس دنیا میں کوئی اچھی یادیں چھوڑیں تو لوگ ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کیا کریں گے اور دعاء دیا کریں گےـ جو شخص اپنے ذاتی مفادات کو پارٹی اور ملک کے مفادات سے عزیز رکھتا ہو وہ کسی صورت آق پارٹی میں قیادت کا اہل نہیں ہےـ ہمارے دل اور بازو ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں جو ہمارے مقصد اور ملک کے لیے کام کرنے کا عزم رکھتا ہو جس سے عوام کی فلاح ہو اور نئے منصوبے کھولنے میں معاون ہو”ـ
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سیاسی قیادت اپنے بنیادی کام کو چھوڑ کر باقی سارے کاموں پر توجہ دیتی ہے، اور ان کاموں میں سر فہرست یہ معاملہ ہے کہ مخالفین کو عوام کے سامنے گندا کیسے کیا جائے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور شاید ہی کوئی سیاست دان ایسا ہو جس کے مخالفین نے اسے ذلیل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام نہ کیا ہو۔ ان حالات میں کسی سدھار کی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ ہر سیاسی جماعت کی قیادت ان کاموں میں ملوث ہے خواہ اس کا تعلیمی پس منظر اور نظریاتی شناخت کچھ بھی ہو۔ الزام تراشی کو ہمارے ہاں سیاست میں فرضِ عین سمجھا جاتا ہے، لہٰذا ہر سیاست دان اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھال کر اپنے حامیوں کو مطمئن کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے حامی بھی اتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں اور اس سے یہ نہیں پوچھتے کہ جو کام آپ کے ذمے تھا وہ آپ نے کیا یا نہیں! سونے کی فی تولہ قیمت میں 750 روپے کا اضافہ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس معاملے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اس لیے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ رواں برس اپریل کے اوائل میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد انھوں نے یہ کام زیادہ شد و مد سے شروع کردیا۔ اس معاملے کو منفرد رنگ دینے کے لیے انھوں نے امریکی سازش کا ایک بیانیہ گھڑا اور اسے اپنے حامیوں کے سامنے تواتر سے پیش کیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دو روز پہلے ایک آڈیو منظرِ عام پر آئی ہے جس میں عمران خان بطور وزیراعظم اپنے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے گفتگو کررہے ہیں۔ یہ گفتگو اس مراسلے یا سائفر سے متعلق ہے جسے بنیاد بنا کر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے امریکی سازش کا بیانیہ تشکیل دیا تھا۔ 51ویں قومی دن پر یو اے ای میں ہزار درہم کا نیا نوٹ جاری لیک ہونے والی آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان سائفر کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس پر صرف کھیلنا ہے، کسی کا نام نہیں لینا، یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر ڈیٹ پہلے کی تھی۔ جواب میں اعظم خان کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سائفر کے معاملے پر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے استفسار کیا کہ اس میں کون شریک ہوںگے۔ اعظم خان نے کہا کہ میٹنگ کریں، شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری کے ساتھ۔ شاہ محمود قریشی وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں گے میں اسے منٹس میں شامل کر لوں گا پھر تجزیہ اپنی مرضی کے منٹس میں کرلیں گے۔ منٹس آفس کے ریکارڈ میں ہو پھر مرضی کا تجزیہ کرلیں گے۔ اعظم خان نے کہا کہ آپ کو یاد ہے آخر میں سفیر نے لکھا تھا کہ ڈیمارش کریں گے، جو بھی پڑھ کر سنائیں گے بس ان کا یہ کام ہوگا اسے کاپی میں بدل لیں گے، منٹس تو میرے ہاتھ میں ہیں اپنی مرضی سے ڈرافٹ کرلیں گے، تجزیہ یہ ہوگا کہ یہ دھمکی ہے، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔ وزیراعظم کی کابل میں پاکستانی ہیڈ آف مشن پر قاتلانہ حملے کی مذمت یقینا اس بات کی غیر جانبدارانہ اور جامع تحقیقات ہونی چاہئیں کہ یہ آڈیو کون منظرِ عام پر لایا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اگر یہ آڈیو اصلی ہے تو عمران خان اور اس معاملے میں شامل دیگر تمام لوگوں کی وجہ سے ملک کو بین الاقوامی سطح پر جو نقصان ہوا اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔ چیئرمین پی ٹی آئی ایک جذباتی اور جوشیلے شخص کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ کئی بار ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں ہوتیں۔ اب آڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آڈیو وزیراعظم شہباز شریف وغیرہ نے لیک کی ہے، اچھا ہے سائفر بھی لیک کردیں تاکہ سب پتا چل جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں ابھی تک تو کھیلا ہی نہیں ہوں، یہ ایکسپوز کریں گے تو کھیلوں گا اس کے اوپر۔ اسی حوالے سے فواد چودھری کا کہنا ہے کہ اب اس آڈیو کے بعد اور ضروری ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کروائے۔ کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ دوسری جانب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ آڈیو کا فرانزک معائنہ کرانے کے لیے عمران خان سپریم کورٹ میں درخواست دیں تو ہم اس کی تائید کریں گے۔ ادھر، وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں بدھ کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اہم اجلاس میں بھی آڈیو لیکس کے معاملے پر غور کیا گیا۔ حساس اداروں کے سربراہان نے اجلاس کے دوران وزیراعظم ہاﺅس سمیت دیگر اہم مقامات کی سکیورٹی، سائبرسپیس اور اس سے متعلقہ دیگر پہلوو¿ں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں مشاورت کے بعد سائبر سکیورٹی سے متعلق لیگل فریم ورک کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا۔ الیکشن نہیں کروائیں گے تو ہم پنجاب اور کے پی میں الیکشن کروالیں گے، فواد چوہدری ایوانِ وزیراعظم کی آڈیوز لیک ہونا بہت سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے لیکن اس صورتحال میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس مسئلے کو قومی سلامتی سے جوڑ کر دیکھنے کی بجائے سیاسی معاملے کے طور پر لے کر چل رہی ہے۔ اس موقع پر سیاست دانوں کو انفرادی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملکی مفادات کی فکر کرنا ہوگی اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اگر سیاسی قیادت کی طرف سے ایسے معاملات پر مسلسل غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو عوام اس سیاسی اور جمہوری نظام سے پوری طرح بیزار ہو جائیں گے۔
صدر ٹرمپ کے 17 ماہ طویل دورِ صدارت میں یہ دوسرا موقع ہوگا جب صدر سپریم کورٹ کے کسی جج کا تقرر کریں گے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج انتھونی کینیڈی نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ماہ کے اختتام پر اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ جج کینیڈی نے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ وفاقی عدلیہ میں 43 سالہ تک خدمات انجام دینا ان کے لیے ایک بڑا اعزاز اور قوم کی خدمات کرنے کا ایک موقع تھا جس پر انہیں فخر ہے۔ جج کینیڈی کی عمر 81 سال ہے اور وہ گزشتہ 30 سال سے سپریم کورٹ کے جج تھے۔ گزشتہ سال سے یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وہ خرابیٔ صحت کی وجہ سے جلد ریٹائرمنٹ لے لیں گے۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان بدھ کو عدالتی سال کے آخری روز کیا۔ جج کینیڈی کو 1987ء میں اس وقت کے ری پبلکن صدر رونالڈ ریگن نے نامزد کیا تھا اور انہوں نے 18 فروری 1988ء کو جج کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ جسٹس کینیڈی کی ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ کی نو رکنی سپریم کورٹ میں آزاد خیال اور قدامت پسند ججوں کی تعداد برابر ہوجائے گی۔ لبرل سمجھے جانے والے چاروں ججوں کو ڈیموکریٹ صدور جب کہ قدامت پسند تصور کیے جانے والے چار ججوں کو ری پبلکن صدور نے عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کیا تھا۔ امریکہ کی سپریم کورٹ ملک کی سب سے اعلیٰ آئینی اور فوجداری عدالت ہے جس کے فیصلے امریکی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد نو ہے جو تاحیات اس منصب پر فائز رہتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی جج کسی ذاتی وجوہ کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ لے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کو امریکہ کا صدر نامزد کرتا ہے جب کہ اس کی نامزدگی کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔ جسٹس کینیڈی کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد امکان ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد ان کے جانشین کا اعلان کریں گے جس کی توثیق کی صورت میں سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں ججوں کو حاصل 4-5 کی برتری دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ صدر ٹرمپ کے 17 ماہ طویل دورِ صدارت میں یہ دوسرا موقع ہوگا جب صدر سپریم کورٹ کے کسی جج کو نامزد کریں گے۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے نیل گورسک کو عدالتِ عظمیٰ کا جج نامزد کیا تھا جن کی سینیٹ کی جانب سے توثیق کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کو حاصل اکثریت برقرار رہی تھی۔ نیل گورسک سپریم کورٹ کے جج جسٹس انتونن اسکالیا کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پرعدالتِ عظمیٰ کے جج بنے تھے۔ ایک جائزے کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے حالیہ چند برسوں کے دوران تقریباً 20 فی صد مقدمات چار کے مقابلے میں پانچ ووٹوں کی اکثریت سے کیے ہیں جن میں جسٹس کینیڈی کا ووٹ اکثر فیصلہ کن ہوتا تھا۔ ایسا ہی ایک اہم فیصلہ منگل کو سامنے آیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے پانچ مسلمان ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر عائد کی جانے والی متنازع پابندی کو درست قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ بھی چار کے مقابلے میں پانچ ووٹوں کی اکثریت سے کیا تھا اور جسٹس کینیڈی سمیت پانچوں قدامت پسند ججوں نے پابندی کے حق میں رائے دی تھی۔
ینکاک (94 نیوز) تھائی لینڈ میں کورونا کے باعث خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کے حصول کیلئے جہاں انسان پریشان ہیں وہاں جانور بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بنکاک سے تقریبا 100 کلو میٹر کے فاصلے پر بندروں کے دو گروہ خوراک کے حصول کیلئے گتھم گتھا ہو گئے، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بندروں کا ایک گروہ سڑک کنارے خوراک کے حصول کیلئے پہلے سے موجود تھا جبکہ دوسرے گروہ نے اس پر دھاوا بول دیا ۔ خوراک کے لئے لڑتے بندر چار منٹ تک سڑک پر چلنے والی ٹریفک سے بے نیاز رہے ، اس گھمسان کے رن کے باعث کئی گاڑیاں رک گئیں ،کورونا کے باعث تھائی لینڈ میں غذائی قلت ہے جبکہ بندر بھی اس مسئلے کا شکار ہیں ۔ Wild? They're furious! Rival gangs of wild monkeys fight each other in front of shocked drivers in Thailand pic.twitter.com/edIL5kKQjn — CSTV_GH (@cstv_gh) July 27, 2021 مزید شیئر Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email پرنٹ کریں
لاہو(24 نیوز پی کے)انگلینڈ کرکٹ ٹیم 17سال بعد پاکستان کا دورہ کر گے گی،مہمان ٹیم کے استقبال کے لئے تیاریاں شروع ہ گئی ہیں ،انگلینڈ کرکٹ بورڈ کا چار رکنی سیکیورٹی وفد پاکستان پہنچ گیا ہے۔ چار رکنی سیکیورٹی وفد پاکستان آیا ہے جس میں کرکٹ آفیشلز اور پلیئرز ایسوسی ایشن سیکورٹی کے ممبران شامل ہیں۔ وفد کا پی سی بی کے ھکام نے اسلام آباد آمد پر استقبال کیا اور ان کو بریفینگ دی گئی۔ذرائع کے مطابق انگلینڈ کے سیکیورٹی وفد نے وزارتِ داخلہ میں بھی اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کی۔سیکیورٹی وفد کو کراچی لاہور اور ملتان کا دورہ بھی کرنا ہے۔وفد انگلینڈ کرکٹ بورڈ میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گا جس میں بورڈ ٹیم بھجوانے اور شیڈول کا حتمی فیصلہ ہوگا۔ انگلینڈ کرکٹ ٹیم اس سال ٹی 20 ورلڈ کپ سے پہلے سات ٹی 20 میچز کھیلنے پاکستان آئے گا جبکہ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ورلڈ کپ کے بعد ہوگی۔ٹی 20 میچز پاکستان میں دو وینیوز پر جس میں کراچی اور لاہور میں کرانے کا چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق انگلینڈ ٹیم رواں سال 15 ستمبر کو پاکستان آئے گی اور ٹی 20 میچز کا آغاز 20 ستمبر سے ہوگا۔پہلا میچ 20,دوسرا میچ 22,تیسرا میچ 23,چوتھا میچ 25 کو کراچی میں کھیلے جائیں گے۔جبکہ باقی تین میچ لاہور میں کھیلے جانے کا امکان ہے 30,28 اور 2 اکتوبر کو شیڈول کیے جانے کا امکان ہے۔یاد رہے کہ مہمان سائیڈ 2005کے بعد پاکستان کا دورہ کرے گی۔ Lahore (24 News PK) England cricket team will visit Pakistan after 17 years, preparations have started to welcome the visiting team, England Cricket Board's four-member security delegation has reached Pakistan. A four-member security delegation has arrived in Pakistan, including cricket officials and members of the Players' Association security. The delegation was received by the PCB authorities on arrival in Islamabad and was given a briefing. According to the sources, the security delegation of England also met high officials in the Ministry of Interior. The security delegation also visited Karachi, Lahore and Multan. The delegation will submit its report to the England Cricket Board in which the board will take the final decision on sending the team and the schedule. The England cricket team will come to Pakistan to play seven T20 matches before the T20 World Cup this year, while the series of three Test matches will be held after the World Cup. Board Ramiz Raja has already given an indication. According to sources, the England team will come to Pakistan on September 15 this year and the T20 matches will start from September 20. The first match will be on 20, the second match on 22, the third match on 23, the fourth match on 25 will be played in Karachi. While the remaining three matches are likely to be played in Lahore on October 30, 28 and 2. It should be noted that the visiting side will tour Pakistan after 2005.
ایڈیلیڈ: ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے آج کے دوسرے میچ میں آسٹریلیا نے افغانستان کو جیت کے لیے 169 رنز کا ہدف دیا ہے۔ ایڈیلیڈ میں کھیلے جارہے میچ میں افغانستان ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ Australia have set Afghanistan a target of 169 🎯 Can 🇦🇫 chase this down? #AUSvAFG | #T20WorldCup | 📝: https://t.co/p7lkYsES20 pic.twitter.com/0fxFeSBaRP — ICC (@ICC) November 4, 2022 آسٹریلین ٹیم کے بلے بازوں نے 8 وکٹوں کے نقصان پر 168 رنز اسکور کیے، جس میں آسٹریلوی ٹیم کے گلین میکس ویل نے نصف سنچری بنائی اور مچل مارش نے45 رنز اسکور کیے۔
کیا بیہوش ہونے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے؟ اگر معتکف کو احتلام ہو جائے تو کیا اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا؟فنائے مسجد کسے کہتے ہیں ، اور کیا معتکف فنائے مسجد میں جا سکتا ہے؟ کیا معتکف اعتکاف کے دوران مسجد کے اندر ضرورتاً دنیوی بات چیت کر سکتا ہے؟معتکف کن حاجات کی بنا پر مسجد سے نکل سکتا ہے؟ اگر کسی وجہ سے معتکف کا روزہ ٹوٹ گیا تو کیا اس کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا؟ اگر معتکف کسی حاجت کی بنا پر اعتکاف گاہ سے باہر نکلے تو کیا اسے کپڑے سے منہ چھپانا ضروری ہے؟اعتکاف کی کتنی قسمیں ہیں؟کیا معتکف مسجد میں خرید و فروخت کر سکتا ہے؟ جان بوجھ کر روزہ ٹوڑنے اور جماع کرنے سے صرف قضاء لازم ہے یا کفارہ بھی؟ قضا روزے کی نیت کا حکم روزہ ٹوڑنے کا کیا کفارہ ہے؟روزے کا کفارہ کس شخص پر ہے؟ مسافر بعد صبح کے ضحویٰ کبریٰ سے پہلے وطن کو آیا اور روزے کی نیت کر لی پھر توڑ دیا تو کیا کفارہ ہو گا؟ روزے کی نیت کا وقت کب تک ہوتا ہے؟ روزے کی نیت کس طرح کی جائے؟ کن صورتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے؟ رہن رکھے گئے زیور کی زکٰوۃ کا کیا حکم ہے؟زیور کی گذشتہ سالوں کی زکٰوۃ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ پہننے والے زیورات پر زکٰوۃ کا کیا حکم ہے؟ سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال کرنا کیسا؟ جہیز کی زکٰوۃ کا کیا حکم ہے؟ اور بیوی کے زیور کی زکٰوۃ کا کیا حکم ہے؟
بند ایئر پورٹس کو آپریشنل کرنے کا حکومتی منصوبہ تیار پاکستان کیساتھ تجارتی حجم 1ارب ڈالر ہوجائیگا، سربراہ ٹریڈ مشن ویتنام پی اے سی، پی ٹی اے میں التوا کے شکاراربوں کے کیسزکی تفصیلات طلب پاکستان نے ایک ارب ڈالر کے سکوک بونڈز کی ادائیگی کردی سعودی عرب نے پاکستان کیلئے 3 ارب ڈالر ڈپازٹ میں توسیع کردی گوگل پیڈ سروس بندش کا خدشہ ختم، پاکستان ادائیگی پر راضی کراچی کے پریشان حال تاجر بیرون ملک شفٹ ہورہے ہیں، گورنر سندھ ’’کے الیکٹرک‘‘ گھریلوصارفین کیلیے بجلی3.21 روپے فی یونٹ مہنگی پاکستان نے معاشی استحکام کے لیے بینک آف چائنہ سے مدد مانگ لی ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر منتقل کردیے شیئر کریں پاکستان میں سیلاب ،بارشوں سے 481 ارب روپے کی فصلیں اور اجناس تباہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث پاکستان میں فصلوں اور اجناس کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب تک 481 ارب روپے کی فصلیں و اجناس تباہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث ہر طرف تباہی اور قیامت صغرا کے مناظر دیکھنے کو نظر آرہے ہیں، ان کی تباہ کاریوں میں فصلوں اور اجناس کی تباہی بھی شامل ہے جو ملک میں غذائی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کے باعث اب تک 481 ارب روپے کی فصلیں اور اجناس تباہ ہوچکی ہیں جس سے متعلق ابتدائی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب ،بارشوں کے باعث اربوں روپے کی فصلیں،فروٹ ،سبزیاں اور اجناس تباہ ہوئیں۔ سیلاب کے باعث کپاس ،چاول ،مکئی ،دالوں ،آلو ،پیاز ،ٹماٹر سمیت دیگر سبزیوں نقصان پہنچا جب کہ گنے، گندم ، مرچ ،تمباکو ،سیب ،انگور ،لہسن، فروٹ ،تیل کی بیج ،انار ،جوار ،باجرہ ،خربوزے کی فصل کو بھی نقصان پہنچا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کے باعث اب تک 239 ارب41 کروڑ 64 لاکھ روپے کی کپاس تباہ ہوچکی ہےجب کہ 70 ارب 89 کروڑ 44 لاکھ روپے کی چاول کی فصل تباہ ہوئی۔ دستاویزات کے مطابق 31 ارب 91 کروڑ 46 لاکھ روپے کی پیاز کی فصل، 23 ارب 78 کروڑ 70 لاکھ روپے کی کھجور کی فصل، 12 ارب 56 کروڑ 56 لاکھ روپے کے انار کی فصل، 13 ارب 59 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ٹماٹر تباہ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث 20 ارب 56 کروڑ 26 لاکھ روپے کی گنے کی فصل،15 ارب 45 کروڑ 50 لاکھ روپے کی مرچ، 8 ارب 8 کروڑ 50 لاکھ روپے کی سبزیاں تباہ ہوئی جب کہ ایک ارب ایک کروڑ 51 لاکھ روپے کی دال مونگ تباہ ہوئی اور 75 کروڑ 51 لاکھ روپے کی دال ماش، اسی طرح 43 کروڑ 7 لاکھ روپے کی دال موٹھ کو نقصان پہنچا۔
اسکولوں کے لئے سال کی اجارہ داری کو ہلا دینے کے لئے روح کے دن ایک بہترین طریقہ ہیں۔ تاہم ، ایک مشکل تھیم منتخب کرنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے (اہ اوہ) صرف تین طلباء تیار اور حصہ لے سکتے ہیں۔ ان تفریحی موضوعات میں سے ایک منتخب کریں ، اور آپ ان تینوں شرمندہ طلبا کے ل therapy تھراپی کا بل ادا نہیں کریں گے! اسکریبل ڈے - دوستوں کی ایک بڑی جماعت کو اپنی قمیضوں پر خطوط کے استعمال سے ہجے کرنے کے لئے منظم کریں۔ یہ تفریحی ہوسکتا ہے کیونکہ اگر بہت سارے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ، آپ دن بھر مختلف الفاظ تشکیل دے سکتے ہیں! یوم سیاح - دن بھر دیکھنے کے لئے فینی پیک اور کیمرے نکالیں۔ کارٹون ڈے - طلبا پسندیدہ کارٹون کردار کے طور پر مل کر اپنے بچپن میں زندگی گزار سکتے ہیں۔ بورڈ کھیل ہی کھیل میں دن - اپنے پسندیدہ بورڈ گیم یا تاش کا کھیل کردار کے طور پر کپڑے۔ (جیسے ، ایک اولڈ نوکرانی ، دلوں کی ملکہ ، ایک ٹویسٹر بورڈ) اسکول کلرز ڈے - یقینا ، طلبا اسکول کی قمیضیں پہن سکتے ہیں ، لیکن یہ دیکھ کر اسے مزید تفریح ​​فراہم کریں کہ کون آپ کے اسکول کے رنگوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز لباس لے کر آتا ہے۔ جڑواں دن - ہر طالب علم اپنے دوست کو دن کے ساتھ میچ کے ل gra پکڑتا ہے - یہاں تک کہ اساتذہ بھی اس میں ملوث ہوسکتے ہیں! رسمی دن - ہر ایک نے نائنز پہننے کے بعد اسکول کی جماعت کرو۔ بمقابلہ دن - ایک مقبول دشمنی چنیں (مارول بمقابلہ ڈی سی ، 60 کی بمقابلہ 70 کی) اور طلباء کو اس طرح کے لباس کا انتخاب کرنے دیں۔ یوم پاجامہ - آپ اسکول میں پجاما پہننے میں غلطی نہیں کرسکتے ہیں - لوگوں کو تھوڑی زیادہ نیند لینے میں مدد کے لئے کچھ بھی۔ یوم جرسی - اپنی پسندیدہ اسپورٹس ٹیم کی مدد کے لئے اسکول کی جرسی پہنیں۔ مستقبل کا دن - طلباء اس پیشے کے مطابق تیار ہوسکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ وہ بڑے ہو جائیں۔ مشہور شخصیت کی طرح ایک جیسے دن - دن کی طرح کپڑے پہننے کے لئے کسی پسندیدہ مشہور شخصیت کا انتخاب کریں (براہ کرم ریاضی کی کلاس میں کوئی پیپرازی نہیں ہے)۔ ڈزنی کریکٹر ڈے - طلباء کو اپنے پسندیدہ ڈزنی کردار کے طور پر تیار کرکے اپنے اسکول کے دن کو ایک پریوں کی کہانی سے باہر کسی صفحے میں تبدیل کریں! یوم کالج - ہر طالب علم اس کالج سے ٹی شرٹ پہنتا ہے جس کی انہیں امید ہے کہ وہ / شرکت کرے گا۔ محب وطن یوم - سرخ ، سفید اور نیلے رنگ کو نکالیں اور اپنے امریکی فخر کو ظاہر کریں۔ یوم جانوروں کا دن - اسکول ویسے بھی ایک جنگل ہے ، کیوں نہیں کہ طلباء اپنی پسندیدہ مخلوق کی طرح لباس بنائیں؟ ہیٹ ڈے - طلباء کو ڈریس کوڈ توڑنے دیں اور ٹوپیاں پہننے دیں! گریڈ لیول ڈے - ہر گریڈ لیول کو ایک دن کیلئے رنگ دیں۔ آپ سب کو شرکت کے ل get تیار کریں گے - کسی کو بھی دوسرے درجے کے لئے غلطی نہیں کرنا چاہے گی۔ جینس ڈے اگر آپ کا ڈریس کوڈ جینز کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ایک دن کے لئے قواعد میں نرمی کریں۔ فلم کا دن - آپ کا اسکول ہالی ووڈ کے اسٹوڈیو کی طرح نظر آئے گا جب ہر ایک مشہور فلم کے کردار کی طرح ملبوس ہوگا۔ بیوکوف دن - کیا آپ کے طلبہ سب سے زیادہ ہوشیار ہیں؟ ثابت کرو! یوم عشر - ایک دہائی (50 ، 60 ، 70 ، 80 کی دہائی) چنیں اور دور کے فیشنوں کو یاد رکھنے میں ایک اچھا وقت گذاریں۔ تھروبیک ڈے - ماضی میں - ہر طالب علم کو خود اس کی طرح لباس بنائیں! چاہے وہ اپنے مڈل اسکول کے دنوں کی تقلید کریں یا پورے راستے میں بچے کی حیثیت سے چلیں ان کا انحصار کرنا ہے۔ آرام دہ دن - سب کو آرام کرنے اور دن کے لئے پسینے کی پتلون / سویٹ شرٹس پہننے کی ترغیب دیں۔ عالمی دن - ہر طالب علم کسی ایسے ملک (فرانس ، چین ، امریکہ) کا انتخاب کرتا ہے جہاں وہ جانا چاہتا ہو اور ایسے کپڑے پہننے والے لوگوں کی طرح جو وہاں رہتے ہیں۔ یوم مغربی دن - آپ کا اسکول ان سینکڑوں کاؤبایوں کے ل enough اتنا بڑا نہیں ہوگا جو دکھائے جائیں گے! مشکل دن - پاگل تفریح ​​کے اس دن کے لئے تمام فیشن کے اصولوں کو ترک کریں۔ یوم استاد یکساں - طلبا اس دن کے لئے اپنے پسندیدہ استاد کی طرح کپڑے پہنتے ہیں! یوم کتاب - ہر شخص اپنی پسند کی کتاب (ایک انتباہ: آپ کے پاس ہیری پوٹرس کی بہتات ہوسکتا ہے) کے کردار کی طرح کپڑے پہنتا ہے۔ وکی ساک ڈے - ملاحظہ کریں کہ کون سا طالب علم موزوں ترین موزے رکھتا ہے! یوم فندوم - اسٹار وار سے لے کر ایک سمت تک ، ہر ایک دن کے لئے ایک ساتھ مل کر جنون کرسکتا ہے۔ سپر ہیرو ڈے - کیا آپ بیٹ مین ، سوپر مین ، یا ٹیچر کی حیثیت سے لباس زیب تن کریں گے؟ (دیکھیں کہ ہم نے وہاں کیا کیا؟) نیین ڈے - ہر کوئی اپنے پسندیدہ رنگین لباس میں مل سکتا ہے۔ دھوپ کا مشورہ دیا! اسکواڈ ڈے - طالب علموں کو ملبوسات کے لئے گروپوں میں جانے کی ترغیب دیں! چاہے وہ کریون کے ایک پیک کے طور پر جائیں ، اسٹار وار کے کردار ہوں ، یا صرف ایک جیسے کپڑے پہنے ہوں ، یہ ایک دھماکا ہوگا۔ دن کے اندر - اپنے کپڑے باہر پہنیں۔ سینئر ڈے - ہر ایک کو کسی بزرگ کی طرح کپڑے پہننے دیں! یہ ایک گریجویشن سینئر کلاس کے لئے خاص طور پر تفریح ​​ہوسکتا ہے۔ چھٹی کا دن - اپنی پسندیدہ چھٹی کا لباس - چاہے سال کا کتنا وقت ہو! قرون وسطی کا دن - اگر آپ کے اسکول کا شوبنکر نائٹ ہے تو یہ خاص طور پر تفریحی ہوگا! ہر ایک کو قرون وسطی کے بادشاہوں اور خواتین کی طرح کپڑے پہنے کرو۔ یوم بحر کے تحت - چاہے وہ افسانوی یا اصلی چیز پہنے ہوئے ہوں ، طلباء کو اپنے دوستوں کے 'اسکول' میں تیراکی کا خوب وقت ملے گا۔ ہوم روم کی جنگیں - ہر گھر کا لباس تیار کرنے کے لئے ایک تھیم چنتا ہے اور سب سے زیادہ شرکت جیتنے والا ایک۔ بیچ ڈے - اگر یہ سردیوں کا مردہ ہو چکا ہے اور آپ کو سورج اور ریت یاد نہیں آرہی ہے تو ، ساحل سمندر کے لئے تیار کریں۔ چیریٹی ڈے - طلباء کو کسی خاص خیراتی ادارے (جیسے ، چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی کے لئے گلابی پہننے) کے لئے اپنی حمایت کا مظاہرہ کریں اور کچھ اچھا کریں۔ خرافات کا دن - جب آپ طلباء قدیم یونانی داستانوں میں سے کسی کی طرح لباس بناتے ہیں تو آپ کو کچھ ٹوگس اور مضحکہ خیز اپ دیکھنے کو یقینی بنتا ہے۔ رینبو ڈے - طلبا کو زیادہ سے زیادہ رنگ پہننے کے لئے کہتے ہیں ، اور دیکھیں کہ کون زیادہ سے زیادہ پہن سکتا ہے۔ یوم پیٹرن - زیادہ سے زیادہ تصادم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے! پاگل موسم کا دن - طلباء کو برف کے طوفان یا بارش کے طوفانوں کے لئے لباس بنائیں اور کچھ غذائی اجزاء دیکھیں۔ بھرے جانوروں کا دن - ہر ایک کو دن کے لئے بھرے جانور لانے کو ملتا ہے۔ یوم زندگی کا حلقہ - نوزائیدہ سے لے کر بوڑھے تک طلباء اپنی خواہش کی ہر عمر تک کپڑے پہن سکتے ہیں۔ میوزک ڈے - یہ آپ کے پسندیدہ بینڈ کے لئے ٹی شرٹ پہننے یا آپ کے پسندیدہ موسیقار کی طرح ڈریسنگ جتنا آسان ہوسکتا ہے۔ جوڑی کا دن - کسی دوست کو چنیں اور بدنام زمانہ جوڑی بنائیں (بونی اور کلیڈ ، مونگ پھلی کا مکھن اور جیلی ، بز اور ووڈی)۔ ولن ڈے - دن کے لئے اپنے اسکول کی اذی .ت کا رخ موڑ دیں اور سب کو اپنے پسندیدہ ولن کی طرح لباس بنائیں۔ کلٹ مووی ڈے - آپ کے پسندیدہ کلاسک اور غیر واضح فلمی کردار کو لباس کے طور پر منتخب کریں! بدصورت ٹائی ڈے - گروسسٹ ٹائی جیت - اپنے والد کو صرف یہ مت بتائیں کہ آپ کو اس کے کپڑے کیوں لینے کی ضرورت ہے۔ 90 کا ٹی وی ڈے - طلبا کو اپنی پسند کا 90 کا سیٹ کام منتخب کریں اور تیار کریں! یوم افلاس کے دن رہیں - ہر ایک کو ایک دن کے لئے اسکول کے ارد گرد فلوٹیز پہننا چاہ Have۔ یوم رجحان - بیوقوف بینڈ یاد ہے؟ تماگوٹچس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اپنے پسندیدہ پرانے رجحان کو منتخب کریں اور اسے ایک دن کے لئے واپس لائیں۔ کامو ڈے - رکو ... تمام طلباء کہاں جاتے ؟؟؟ سرکس ڈے - ہر طرح کے پرکشش مقامات کے ساتھ اپنے اسکول کو بڑے حصے میں تبدیل کریں۔ طلباء مسخروں ، ہاتھیوں ، تربیت دہندگان یا ایکروبیٹس کی طرح لباس پہن سکتے ہیں۔ اس عالمی دن سے باہر - خلائی تیمادیت تنظیموں کے ساتھ دیوانہ ہوجائیں! وائٹ آؤٹ / بلیک آؤٹ ڈے - طلباء تمام سیاہ یا تمام سفید رنگ کے لباس پہنتے ہیں۔ یہ فٹ بال کے کھیل کے دن کے لئے اچھا ہے ، کیونکہ طلباء دونوں کے لئے لباس پہن سکتے ہیں! یوم تاریخ - ہر ایک کو تاریخ کی ایک نمایاں شخصیت کے طور پر تیار کریں۔ تاہم ، یہ یقینی بنائیں کہ کوئی بھی جارحانہ لباس نہیں پہنے گا۔ ہائی اسکول دقیانوسی دن - ہائی اسکول میں ایک دقیانوسی طبقے کی طرح لباس بنائیں۔ (جیسے ایک جھک ، تھیٹر کا بچہ ، یا بیوقوف) ورک آؤٹ ڈے - ہر ایک کو دن کے ل exercise اپنے ورزش کے کپڑے پہنیں۔ چہرے کے بالوں کا دن - ہر ایک دن کے لئے چہرے اور جعلی چہرے کے بال پہن سکتا ہے۔ ہم آپ کو 'مونچھیں' (ضرور پوچھیں) ، کیا آپ اس دن کریں گے؟ کھلونا ڈے - ایک دن کے لئے کلاسیکی کھلونے کی طرح کپڑے پہنیں جو آپ کے اندرونی بچے کو نکلے۔ عجیب و غریب دن - ممکن جوتے کا سب سے مشکل جوڑا پہنو! چمڑے کا دن - آپ کے طلباء اس دن چکنائی کے ٹی پرندوں کی طرح نظر آئیں گے۔ یوم کسان - چوٹیوں کو باہر نکالیں اور ہر ایک کو کسان کی طرح لباس بنائیں۔ مثالی شخصیت - اس دن میں بہت زیادہ آزادی ہے۔ انتخاب بتا رہے ہوں گے۔ ٹائی ڈائی ڈے - آپ کا اسکول اس دن قوس قزح کی طرح نظر آئے گا! یوم والدین - جب وہ اسکول میں تھے تو اپنے والدین میں سے ایک کی حیثیت سے آئیں! ہائی اسکول یا کالج کی ٹی شرٹ لے کر شہر جاو۔ اسٹاپ لائٹ ڈے - طلبا سرخ رنگ کے ملبوس ہوتے ہیں اگر وہ لے جاتے ہیں ، اگر وہ کسی سے بات کر رہے ہیں تو پیلا ، اور اگر وہ اکیلے ہیں تو سبز۔ اس میں ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے اگر طلباء اس کی نشاندہی کرنے میں کم عمر ہوں کہ آیا بچہ ان کے کنبے میں سب سے بڑا ، درمیانی یا سب سے چھوٹا بچہ ہے۔ فلالین ڈے - اگر آپ جہاں رہتے ہیں وہاں سردی ہوتی ہے تو ، ہر ایک کے لئے گرم رہنے کا ایک اچھا طریقہ فلالین کا دن ہوسکتا ہے! پلٹائیں - اگر آپ کا ڈریس کوڈ عام طور پر پلٹائیں فلاپ کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ، طلبا کو انہیں ایک دن کے لئے پہننے دیں! یوم زومبی - اپنے طلباء کو ایک دن کے لئے غیر منقولہ طور پر آنے کی طرف سے نئے جنون میں پڑیں۔ اپنے روح القدس کے تمام رضاکاروں اور پروگراموں کو منظم کریں آن لائن سائن اپ کے ساتھ۔ انوکھے نظریات کی اس فہرست کے ساتھ ، آپ کے پاس ایک دن ، یا ایک ہفتہ ہوگا ، جو پورے جذبے اور مزے سے بھرے گا! سائن اپ جیینس اسکول کے انتظام کو آسان بناتا ہے۔ اسکول دلچسپ مضامین کال آف ڈیوٹی وارزون ٹپس اور ٹرکس - سنڈیکیٹ نے ماڈرن وارفیئر کے نئے 'فورٹناائٹ' گیم موڈ کو جیتنے کا طریقہ بتایا ٹیک ونڈوز 10 فائل ایکسپلورر میں فوری رسائی کے بجائے اس پی سی کو کھولیں۔ دیگر ایڈیٹر کی پسند Alpenglow Firefox تھیم (Radiance) ڈاؤن لوڈ اور انسٹال کریں Alpenglow Firefox تھیم (Radiance) کو ڈاؤن لوڈ اور انسٹال کرنے کا طریقہ فائر فاکس 81 میں ایک نئی Alpenglow تھیم ہوگی، جسے 'Radiance' بھی کہا جاتا ہے، لیکن آپ انسٹاگرام نے 'پوسٹس جو آپ نے دیکھی ہیں' فیچر شامل کیا جو آپ کی دیکھی گئی ہر تصویر کی فہرست دیتا ہے - اسے کیسے تلاش کیا جائے INSTAGRAM نے ایک نئی خصوصیت بنائی ہے جو آپ کو ان تمام پوسٹس اور پروفائلز کو ٹریک کرنے دیتی ہے جو آپ نے دیکھی ہیں۔ یہ آپ کو ان تصاویر کو کھونے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جن کی آپ نے جھلک دیکھی ہو گی اور وہ تلاش کرنا چاہتے ہیں… ونڈوز 10 میں اسٹارٹ مینو میں تمام ایپس میں آئٹمز شامل کریں۔ ونڈوز 10 میں اسٹارٹ مینو میں تمام ایپس میں آئٹمز کو شامل کرنے یا ہٹانے کا طریقہ یہاں ہے۔ آپ فائل ایکسپلورر کا استعمال کرکے تمام ایپس کی فہرست کو اپنی مرضی کے مطابق بنا سکتے ہیں۔ ونڈوز 10 میں ہائپر-وی ورچوئل مشین کی جنریشن تلاش کریں۔ آج، ہم سیکھیں گے کہ ونڈوز 10 میں ہائپر-وی ورچوئل مشین جنریشنز کیا ہیں، اور ورچوئل مشین کے لیے جنریشن کیسے تلاش کی جائے۔ اچھی اسپورٹ مین شپ میں اضافے کے 25 طریقے اچھی اسپورٹس مین شپ خود بخود نہیں ہوتی۔ اپنے بچے کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنے کے لئے تیار رہیں کیوں کہ وہ نوجوانوں کے کھیل کھیلنا منتخب کرتے ہیں۔ ٹیگ: Avast SafeZone کو ان انسٹال کریں۔ توتنخامون کی موت کا معمہ 'حل' ہوگیا کیونکہ تعلیمی دعویٰ کرتا ہے کہ ٹانگ کے فریکچر سے لڑکا بادشاہ ہلاک ہوگیا مصر کے ایک سرکردہ ماہر آثار قدیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بادشاہ توتن خامن کی موت سے جڑے معمہ کو حل کرنے کے قریب ہیں۔ لڑکا بادشاہ 3,000 سال پہلے صرف 19 سال کی عمر میں مر گیا تھا اور بظاہر ٹھیک تھا… اسکولوں، کھیلوں لیگ، کاروبار کے واقعات اور اس سے زیادہ کے لئے رجسٹریشن کی چادریں اور نظام الاوقات کے ساتھ وقت کی بچت!
لودھراں: وزیر پنجاب برائے ہاؤسنگ محمود الرشید کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے افراد کو سب سے پہلے چھت فراہم کی جائے گی۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت لودھراں میں 3 اور 5 مرلہ کے 800 پلاٹ دیے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیر پنجاب برائے ہاؤسنگ محمود الرشید اور تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے لودھراں میں اپنا گھر ہاؤسنگ اسکیم کی مختص اراضی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر میاں محمود الرشید کا کہنا تھا کہ عمران خان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوشاں ہیں، کم آمدنی والے افراد کو سب سے پہلے چھت فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسکیم میں 3 اور 5 مرلہ کے 800 پلاٹ دیے جائیں گے۔ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی بنا رہے ہیں، ہمارا کام مانیٹرنگ کا ہوگا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ لودھراں میں ہاؤسنگ اسکیم کا اجرا عمران خان کا بہترین تحفہ ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے شروع میں ملتان میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنائیں گے۔ جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو مسائل کے حل کے لیے لاہور نہیں جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں اپنا مؤقف سامنے رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط زیادہ ہیں، عوام پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔
انسانی حقوق کے معیار کے رکھوالے اقدار اور اصولوں سے زیادہ سیاسی، اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، شیریں مزاری - فائل فوٹو:یوٹیوب اسکرین گریب اسلام آباد: پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے سیاسی تحفظات پر مبنی اپنے دوہرے معیار کو ترک کرے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں، اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجائے ان کے اقدامات پر انہیں جوابدہ بنائے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے 46 ویں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے اعلیٰ سطح کے طبقے میں ایک ویڈیو بیان میں کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کرائی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ 'ایک انسانی حقوق کے مکمل بحران کا شکار ہے'۔ وزیر نے اپنے ریمارکس میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، آزادی اظہار رائے یا سیکولرازم کے بہانے سے ریاستی سرپرستی میں نفرت پھیلانے اور مظلوموں کے قتل عام پر بھی زور دیا۔ مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی انسانی حقوق کے معیار کے رکھوالوں کی مبینہ منافقت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 'انسانی حقوق کی اقدار اور اصولوں سے زیادہ سیاسی، اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں'۔ وزیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہاں تک کہ چند طاقتور اور 'دوستانہ' ریاستوں کے احتساب کا عوامی سطح پر مطالبہ بھی واضح طور پر غائب تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ 'دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپوں میں تقریباً 8 لاکھ کشمیری قید ہیں'۔ ان کا کہنا تھا کہ سخت قوانین کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فورسز نے سزائے موت، تشدد اور عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں شدت پیدا کر دی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ قابض افواج پرامن مظاہرین اور مذہبی اجتماعات پر پیلٹ گنز سمیت گولہ بارود کا آزادانہ استعمال کر رہی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: 'کشمیر صرف سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی خواہشات کا معاملہ ہے' انہوں نے یاد دلایا کہ بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، کارکنوں اور صحافیوں کو بھارتی حکومت نے بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'بھارتی فوجی مقامی میڈیا کی آواز دبانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انتقامی حملے کیے جا رہے ہیں'۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بھارتی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم اور مقامی آبادی کے خلاف طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ '1991 میں کنان اور پوش پورہ دیہات میں کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری سمیت مقبوضہ علاقے میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اب تک کسی بھی بھارتی فوجی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی'۔ مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب کو بدلنے اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ 'غیر معمولی' پیمانے پر کیا جارہا ہے اور 30 لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر کشمیری شہریت، مستقل آبادکاری کی اجازت، جائیدادوں اور زمینوں کی خریداری کی اجازت دی جا چکی ہے اور وہ مقبوضہ علاقے میں مقامی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔ مزید پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں منظور انہوں نے کونسل کو یاد دلایا کہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے دو کشمیری رپورٹس جون 2018 اور جولائی 2019 میں جاری کی گئی جس کی 50 سے زائد ریاستوں نے تائید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے رپورٹس میں جو سفارش کی گئی ہے کونسل کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر رپورٹنگ کے عمل کو جاری رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'مطمئن ہونا یا غیر عمل ہونا کوئی آپشن نہیں، ایسا کرنے سے زیادتی کرنے والے کو ہی حوصلہ ملے گا، ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے کی بجائے ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا'۔ Email نام* وصول کنندہ ای میل* Cancel 0 یہ بھی پڑھنا مت بھولیں جنوبی کوریا کا ایران کے منجمد مالی اثاثے جاری کرنے پر آمادگی کا اظہار براڈشیٹ کی شریف خاندان کو 20 ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی کووڈ 19: زیادہ ٹیسٹ کرنے والے 30 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 29 واں نمبر Desk Mrec Top video link Teeli ویڈیوز Filmstrip زیادہ پڑھی جانے والی خبریں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران آرمی چیف کے آخری خطاب کے بعد مایا علی ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ لوگوں نے اداکارہ سے سوال کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کون سی دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑی تھی؟ نئے آرمی چیف کو فوج پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کا چیلنج درپیش ہے، امریکی میڈیا عمران خان کی فوج پر شدید تنقید کی وجہ ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور سیاسی انتشار فوج کے اندر اختلافات کی وجہ بنے، امریکی اخبار پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے سپہ سالاروں کی فہرست پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف انگریز تھے، جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں ملک کا 16 واں آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ عمران خان ہمیں جزیرے پر چھوڑ کر خاتون کے ساتھ ’باتیں کرنے‘ گھر چلے گئے تھے، وسیم اکرم ہم تقریباً 7، 8 گھنٹے دریا میں کشتی پر گھومتے رہے، واپس آئے تو عمران خان جانے کے لیے تیار تھے، سابق فاسٹ باؤلر نئے سپہ سالار کی آمد: ’چین و امریکا سے پہلے پاکستان کو اہمیت دی جائے گی‘ جہاز وزیرِاعظم کا، سوار عارف علوی اور ملاقاتی عمران خان، گویا حکومت اور صدرِ پاکستان نے عمران خان کو فیس سیونگ کا موقع بر محل وقوع پذیر کردیا۔ عمران خان نے جس دن کہا اسی وقت پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی، مونس الہٰی 27 جولائی کو اللہ پاک نے ہمیں سرخرو کیا تھا اور چوہدری پرویز الہٰی وزیراعلیٰ بنے تھے، اس دن سے ہم بونس پر چل رہے ہیں، رہنما مسلم لیگ (ق) جو اپنی غلطی تسلیم نہ کرے وہ لیڈر ہی نہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ لیڈر مشکل فیصلے کرتا ہے، کبھی کامیاب، کبھی ناکام ہوتا ہے، ناکامی کی صورت میں غلطی تسلیم کرنی چاہیے، کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں عشائیے سے خطاب ’میرا دل یہ پکارے آجا‘ فیم ٹک ٹاکر کے ندا یاسر کے شو میں ڈانس کے چرچے عائشہ نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں ایک شادی کی تقریب میں لتا منگیشکر کے پرانے گانے ’میرا دل یہ پکارے آجا‘ پر ڈانس کیا تھا۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں ؟ وزیراعظم کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیجی جنہوں نے منظوری دے دی۔
کیا آپ کو PN فائل کھولنے میں دشواری ہو رہی ہے یا صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ ان میں کیا ہے؟ ہم وضاحت کرتے ہیں کہ یہ فائلیں کن چیزوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور آپ کو ایسا سافٹ ویئر دکھاتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ آپ کی فائلوں کو کھول سکتے ہیں یا دوسری صورت میں ہینڈل کر سکتے ہیں۔ پی این فائل کیا ہے؟ A .PN فائل ایک PokeyNoise Chiptune فائل ہے۔ ہم نے ابھی تک تفصیل سے تجزیہ نہیں کیا ہے کہ ان فائلوں میں کیا ہے اور ان کا استعمال کیا ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ PN فائلوں کو کیسے کھولیں۔ اہم: مختلف پروگرام PN فائل ایکسٹینشن والی فائلوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، لہذا جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ آپ کی PN فائل کا فارمیٹ کون سا ہے، آپ کو کچھ مختلف پروگرام آزمانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہم نے ابھی تک ونڈوز کے لیے کسی ایسے پروگرام کی تصدیق نہیں کی ہے جو اس مخصوص فائل فارمیٹ کے ساتھ کام کرتے ہوں۔ اگر آپ کسی کو جانتے ہیں، تو براہ کرم ذیل میں 'پروگرام تجویز کریں' کا لنک استعمال کریں۔ شکریہ! آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: دسمبر 12، 2010 فائل ایکسٹینشن کیا ہے؟ فائل کی توسیع فائل کے نام میں آخری ڈاٹ کے بعد کے حروف ہیں۔ مثال کے طور پر، فائل کے نام 'myfile.pna' میں، فائل کی توسیع pna ہے۔ یہ ونڈوز کو فائل کھولنے کے لیے صحیح پروگرام کا انتخاب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ EN - AR - BG - BN - CS - DA - DE - EL - ES - FI - FR - HI - HR - HU - ID - IT - IW - JA - JW - KO - LT - MS - NL - NO - PL - PT - RO - RU - SK - SV - TH - TR - VI - ZH-CN
اِس کالم کے عنوان میں مَیں نے گناہ کا لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کیوںکہ انسان نادانی میں حماقت اور غلطی کا مرتکب تو ہو جاتا ہے لیکن گناہ جانتے بوجھتے ہوئے کرتا ہے۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے مگر کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں تاریخ کبھی نہیں معاف کرتی۔ انسان بالخصوص کسی بھی حکمران کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کے اقدامات تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ جب وہ اقدامات کیے جا رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت حکمران کے اِرد گرد خوشامدی بھی موجود ہوتے ہیں اور اُسے گمراہ کرنے والے بھی۔ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں عوام کا ایک قابلِ قدر حصہ بھی لیڈروں کے خوف ناک اقدامات پر تالیاں بجا کر نعرے لگاتا رہا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے، حکومت کے دوران اور بالخصوص اِن آخری دنوں میں، ہر موقع پر عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اُن سے کچھ ایسے گناہ سرزد ہو گئے کہ تاریخ اُن کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عمران خان کا پہلا گناہ اقتدار کے حصول کیلئے پاکستان میں جمہوریت اور سول سپرمیسی کو نقصان پہنچانا ہے۔ پرویز مشرف کا دورِ آمریت ختم ہونے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں یہ بار دفعہ ہوا کہ منتخب جمہوری حکومت اور اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور ایک پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔ یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال کا دورانیہ پورا کیا، باوجود اِس کے کہ اُسکا وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا لیکن دوسری طرف عمران خان کی یہ کوشش رہی کہ 2013 میں جمہوری عمل سے بننے والی حکومت کسی نہ کسی طرح وقت سے پہلے ہی چلی جائے۔ نواز شریف کے دور میں عمران خان کا دھرنا دینا، کنٹینر پر کھڑے ہوکر امپائر کی باتیں کرنا، یہ سب چیزیں معاملات کو عدم استحکام کی طرف لے کر گئیں اور آہستہ آہستہ نظام کو کمزور کرتی گئیں اور آخر میں جو کسر رہ گئی تھی وہ 2018کے عام انتخابات سے پہلے بدترین پری پول ریگنگ اور Electables کے ردوبدل سے پوری ہو گئی اور عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم بن گئے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اُنہوں نے جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا سو پہنچایا، ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ مفروضہ بھی بیٹھا دیا کہ اُن کے علاوہ باقی سیاستدان یا تو کرپٹ ہیں یا نااہل۔ اُن کے دورِ حکومت میں احتساب کے نام پر جو بدترین مہم چلائی گئی، اسی میں ایک بھی کنووِکشن نا ہو سکی اور احسن اقبال جیسے ایمان دار اور قابل شخص کو بھی مہینوں نیب کے ذریعے جیل میں رکھا۔ اِیسی انتقامی کارروائیوں نے بھی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا۔ عمران خان، اُن کے ساتھیوں اور سوشل میڈیا ٹیم نے جو پاکستان میں جھوٹ اور فیک نیوز کی بنیاد رکھی اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے دوسروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، پھر یوٹرن کی افادیت سمجھائی گئی، بعد میں اپنی ناقص کارکردگی پر ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ میں ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے اور معیشت کو بھی سنبھال لیا گیا ہے۔ ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ پرانی حکومتوں پر ڈال کر عوام کو بار بار گمراہ کیا گیا جبکہ اپنی کابینہ میں موجود کچھ لوگوں کیخلاف کرپشن پر کوئی سخت ایکشن نہ لیا گیا اور اُنہیں صرف ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت پر لگا دیا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ احتساب کا استعمال بھی صرف ایسے لوگوں کیخلاف کیا گیا جو عمران خان کیلئے ناپسندیدہ تھے۔ پھر اسی جھوٹ اور فیک نیوز کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے پاکستان میں پولرائزیشن، فاشزم اور نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جس کی وجہ سے سیاست میں تہذیب ختم ہوئی اور گالم گلوچ کاچلن عام ہوا۔ یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ یہ عدم برداشت ملک کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہو گی۔ اِس عدم برداشت کی واضح مثال دیر میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں گزشتہ روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے امام مسجد کی داڑھی نوچی اور مسجد کی حدود میں سیاسی نعرہ بازی کی۔ آج ملک جن حالات سے دوچار ہے اُس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عمران خان صرف وزیراعظم بننا چاہتے تھے، اُن کی اِس منصب کیلئے نہ کوئی تیاری تھی اور نہ ہی انہیں گورننس کا کوئی تجربہ تھا۔ بہتر یہ ہوتا کہ وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بن کر گورننس کے حوالے سے کچھ سیکھ ہی لیتے۔ پنجاب میں اُنہوں نے عثمان بزدار اور کے پی میں محمود خان جیسے مہروں کو وزیراعلیٰ بنائے رکھا، جن کے حوالے سے شدید عوامی اور ادارتی تحفظات موجود ہونے کے باجود انہیں تبدیل نہ کیا گیا۔ اپنی حکومت کے آخری دِنوں میں عمران خان یہ جان چکے تھے کہ اُنہیں دوبارہ حکومت میں آنے کا موقع نہیں ملے گا اِس لیے اُنہوں نے اپوزیشن اور میڈیا دونوں کے خلاف پلان بنا لیا تھا کہ اِن کو خوب دبائیں گے تاکہ وہ عوام کیلئے خود کو واحد آپشن ثابت کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے اُنہوں میڈیا کے خلاف PECA قانون میں ترامیم کرکے ایک ایسا کالا قانون بنایا جس کے تحت وہ اپنے مخالف صحافیوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تو اپنے محسن، محسن بیگ کو بھی نہیں بخشا۔ ویسے تو انہوں نے اپنے کسی بھی محسن کو نہیں بخشا۔ اپوزیشن کو دوبارہ جیلوں میں بند اور کمزور کرنے کی منصوبہ بندی تیار تھی۔ اُنہوں نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین، جس پر ایک بیرونی کمپنی نے آڈٹ میں اعتراضات بھی اٹھائے تھے، کا استعمال کرکے الیکشن میں برتری حاصل کرنے کا پلان بنایا تھا۔ اِسی لیے اپوزیشن کو بھی عدم اعتماد لانا پڑی۔ البتہ یہ اپوزیشن کی خوش قسمتی تھی کہ عمران خان کی اپنی ضد کی وجہ سے اُن کا اداروں کیساتھ تصادم ہوا اور ادارے نیوٹرل ہو گئے۔ چیزیں جس طرف جا رہی تھیں، اُن کے پیش نظرمیں نے اپنے ذہن میں اس کالم کا خاکہ چند ماہ پہلے ہی بنا لیا تھا لیکن عدم اعتماد کے دوران آئین شکنی اور اِس کیساتھ ساتھ باقی جو کچھ ہوا اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے آخری وقت تک جمہوریت اور نظام کو خطرے میں ڈالے رکھا اور اقتدار نہ چھوڑنے پر بضد رہے۔ انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنے دیرینہ ساتھی کی قربانی دے دی۔ آج اپنی بنائی گئی پولرائزیشن، فاشزم اور جھوٹ کے ذریعے اُن کو عوام کے متمول طبقے کے ایک مخصوص حصے کی حمایت شاید حاصل ہو لیکن غریب عوام جو خان صاحب کے دور میں پس کے رہ گئے ہیں، اُن کے ساتھ نہیں۔ اب بھی عمران خان اقتدار اور انتقام کے لیے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، جس سے ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں اور ریاست کمزور ۔ اس ساری صورتحال میں ہماری عدالتیں اور ادارے ہیرو بن کر نکلے ہیں اور خان صاحب وِلن۔ جب ان کی بنائی ہوئی پولرائزیشن کی گھٹا چھٹ جائے گی اور اُن کے بولے ہوئی جھوٹ اور فیک نیوز پر سچ کو برتری ملے گی تو تاریخ خان صاحب کے نا قابلِ معافی گناہوں کی گواہی دے گی۔
ویب ڈیسک – پاکستان کے حکمرانوں کی ایک اور نا اہلی کا کیس سامنے آگیا، ملک کے تمام اثاثے برادر ملک ترکی کے قبضے میں جانے کو تیار، رینٹل پاور کیس میں 1 واٹ بجلی دیئے بغیر ترک کمپنی کا بل 1 ارب ڈالر بن گیا۔ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (سرمایہ کاری کے تنازعات نمٹانے کے بین الاقوامی ادارے) کی جانب سے ترک کمپنی کارکے کارادینز الیکٹرک ایوروتیم اے ایس (Karkey Karadeniz Elektrilk Uretim AS) کی شکایت پر اسلام آباد کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر ہرجانے اور یومیہ جرمانے کی مد میں عائد کردہ 950؍ ملین سے ایک ارب ڈالرز تک کی ادائیگی پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے اور پاکستان کی نگران حکومت کو یہ ادائیگی کرنے کا نہ تو اختیار حاصل ہے اور نہ ہی اس کے پاس فنڈ موجود ہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کرسکے جس کےمنفی اثرات دونوں ممالک پر مرتب ہوں گے۔ رینٹل پاور پروجیکٹس کے کیس کے 2012ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ترک کمپنی کارکے نے پاکستان کیخلاف آئی سی ایس آئی ڈی میں فروری 2013ء میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کارکے کو پاکستان میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے 560؍ ملین ڈالرز کا کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ کنٹریکٹ پانچ سال کا تھا۔ تاہم، سابق وزراء مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف نے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے اس معاہدے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 2012-13ء میں اس وقت کے نیب پراسیکوٹر نے کارکے کے ساتھ معاملہ طے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان کی کوششوں کو روک دیا اور ترک کمپنی کے ساتھ معاملہ نمٹانے کی صورت میں سخت کارروائی کا انتباہ جاری کیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک کی قیادت میں نگراں حکومت نے 800؍ ملین ڈالرز اور ساتھ ہی یومیہ جرمانے (جس سے کل ملا کر رقم ایک ارب ڈالرز تک جا پہنچے گی) کی ادائیگی کا فیصلہ کیا تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ عدالت عظمیٰ رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اور اگر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو رواں ہفتے میں ملک کو دیوالیہ قرار دیا جائے گا۔ ترک کمپنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کو ایک واٹ بجلی بھی نہیں ملی اورپاکستان کو ان کے حکمرانوں کی نا اہلی کی بدولت ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اگر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو دوست اور برادر ملک ترکی کی کمپنی کسی بھی وقت پاکستان کے اثاثوں پر قبضہ کرسکتی ہے۔ source متعلقہ خبریں عمران خان کے سر پر نئی تلوار۔۔۔۔۔توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی اسلام آباد(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے ہفتے تک جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی طرف…پڑھنا جاری رکھیں ایک اور پریس کانفرنس۔۔۔۔ کچھ لوگ نواز شریف کو ہٹانے کا اعتراف کرینگے، جاوید لطیف کا انکشاف لاہور(ویب ڈیسک) وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا ہےکہ نواز شریف کو ہٹانے کا اعتراف کچھ لوگ کریں گے کہ انہوں نے ہٹاکر اچھا کام نہیں کیا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ایسا فسادی کھڑا ہوگیا جس نےکوئی موقع ہاتھ…پڑھنا جاری رکھیں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا، کل ملک بھر میں ایک ہی دن پہلا روزہ ویب ڈیسک: رمضان مبارک۔۔۔ پاکستان میں رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا ہے۔ کل بروز بدھ پشاور سمیت ملک بھر میں پہلا روزہ رکھا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں ہوا۔ اجلاس کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے رمضان المبارک کا چاند نظر آنے…پڑھنا جاری رکھیں
یہ 29 اور 30 اگست کی درمیانی رات کی بات ہے جب کراچی کے علاقے سعدی ٹاؤن میں سابق رکنِ قومی اسمبلی نثار احمد پنہور کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ۔نثار پنہور کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گھر پر چھاپہ مارنے والوں میں سندھ رینجرز کے اہلکار اور بعض سول کپڑوں میں ملبوس لوگ شامل تھے جو سیڑھی لگا کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور 56 سالہ نثار پنہور کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ نثار پنہور کے بیٹے حسن پنہور کے مطابق ایک ماہ سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے والد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ انہیں اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے خاندان کو اس بارے میں کچھ آگاہ کیا گیا ہے کہ انہیں کس جرم میں قید رکھا گیا ہے۔ نثار پنہور سال 2003 میں پہلی بار کراچی کے علاقے عزیز آباد سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت تصور ہونے والی ایم کیو ایم نے انہیں سندھی ہونے کے باوجود اپنی جماعت کے گڑھ سے انتخابات میں کھڑا کیا تھا۔ وہ 53 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں وہ ملیر کے علاقے سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ صوبائی وزیر بھی رہے۔ الطاف حسین کے پُرجوش ساتھی نثار احمد پنہور کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین پُرجوش حامی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کھل کر الطاف حسین کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ رواں سال 14 اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کے دن انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو کراچی پریس کلب پر الطاف حسین کے حق میں احتجاج کرنے پرگرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف مقامی تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تاہم بعد میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔ بعدازاں نثار پنہور نے 27 اگست کو سندھ ہائی کورٹ میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی۔ الطاف حسین تین دہائیوں سے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں سے وہ ماضی میں اپنی جماعت کے سرگرمیوں کو کنٹرول کرتے رہےتھے اور ٹیلفون کے ذریعے سیاسی جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ریاست مخالف نعرے لگوائے تھے اور اپنے کارکنان کو قریبی واقع نیوز چینل اے آر وائی پر دھاوا بولنے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ SEE ALSO: لاپتا افراد کی لاشیں ملنے کا معاملہ، پاکستان میں یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا؟ اس اقدام کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا جب کہ حکومت نے الطاف حسین کی تقریروں، میڈیا پر ان کے بیانات اور تصویر دکھانے کرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ نثار پنہور نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں یہ بھی استدعا کی تھی کہ الطاف حسین پر عائد کردہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ انہوں نے درخوست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آئینِ پاکستان کے تحت ہر شہری کو اظہار، جماعت یا تنظیم بنانے کی آزادی حاصل ہے۔ ان کے مطابق الطاف حسین ہمیشہ پاکستان اور اس کے آئین سے وفادار رہے ہیں۔ انہوں نے درخواست میں یہ دعویٰ تھا کہ الطاف حسین نے کبھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا لیکن ان کی تقاریر کی غلط تشریح کو بنیاد بنا کر ان پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ نثار احمد پنہور کے اہلِ خانہ کا مؤقف نثار احمد پنہور کے بیٹے حسن پنہور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے والد نے جس دن الطاف حسین پر پابندیاں ختم کرنے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی تھی اسی رات سندھ رینجرز اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا۔ ان کے مطابق یہ اہل کار سیڑھی لگا کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور والد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔حسن پنہور کے بقول، ان کے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں رینجنرز اہل کار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار ان کے والد کو ساتھ لے کر جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس واقعے کی تفصیلات لے کر جب متعلقہ سچل تھانے گئے تو پولیس حکام نےواقعے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا گیا۔ جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں پنہور کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف آئینی درخواست دائر کی تھی۔ اگرچہ اس درخواست پر 13 ستمبر کو عدالت نے سندھ رینجرز اور سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کیا تھا لیکن اب تک وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے اس گمشدگی پر کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ SEE ALSO: بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ حسن پنہور نے الزام عائد کیا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ جان بوجھ کر یہ کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن ان کے والد یہی کہا کرتے تھے کہ الطاف حسین نے انہیں عزت دی ہےاور وہ بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے لیے چاہے مہاجر لڑیں یا نہ لڑیں، وہ ضرور لڑیں گے۔ احتجاج اور مظاہرے ادھر ایم کیو ایم کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مصطفیٰ عزیزآبادی کا کہنا ہے کہ نثار پنہور کی گرفتاری پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کی ایک اور مثال ہے اور یہ ناقابل برداشت عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نثار پنہور کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے الطاف حسین پر لگائی جانے والی غیر آئینی پابندی کو چیلنج کیا تھا جو کہ سراسر غلط ہے۔ نثار پنہور نے کوئی قانون نہیں توڑا لیکن اس کے باوجود انہیں 37 روز سے لاپتا رکھا گیا ہے۔ اگر ان پرکوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اور کارکنوں کو پاکستان میں سخت پابندیوں کا سامنا ہے جو ملک میں آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایم کیو ایم نے 2 اکتوبر کو لندن میں نثار پنہور کی جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کیا اور برطانوی وزیرِ اعظم کے دفتر میں یادداشت بھی پیش کی تھی۔ اس سے قبل لندن مین پاکستانی ہائی کمیشن اور کینیڈا اور امریکہ میں بھی نثار پنہور کی بازیابی کے مظاہرے کیے جاچکے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور کئی صحافیوں نے بھی نثار پنہور کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور وزیر اعظم سمیت دیگر حکام سے گمشدگی پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی نثار پنہور کی عدالت میں عدم پیشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بلا تاخیر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں اس کا جواب دینے کا پورا قانونی حق دیا جائے۔ پاکستان میں جبری گمشدگی کے واقعات ؛ حکومت کیا کہتی ہے؟ کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی سال 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایک سال میں جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 1108ہے۔ خیبرپختونخواہ میں جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات زیرِ التوا ہیں جن کی تعداد 1417 بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں اس نوعیت کے 170 کیسز زیر التواء ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی فوج سمیت ریاستی ادارے ملک میں جبری گمشدگی کے واقعات میں اپنے کردار کی سختی سے نفی کرتے آئے ہیں لیکن وزارت دفاع عدالتوں میں ایسے حراستی مراکز کا اقرار کرتی ہے جہاں سے بعض لاپتا افراد کا سراغ بھی ملا ہے۔ گزشتہ ماہ اپنے ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ریاست کے لیے یہ باعث شرمندگی ہے کہ لوگوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بجائے انہیں لاپتا کردیا جائے اور پھر ان کی لاشیں ملیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومتوں کی اس بارے میں رٹ کس حد تک ہے اس کا سب کو علم ہے۔ ان کے بقول، ہم تصادم کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مئی 2022 میں وفاقی حکومت نے کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد جبری گمشدگی کے وقعات کے تدارک کے لیے پالیسی سفارشات پیش کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کررہے ہیں جبکہ کمیٹی میں وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے وزراء بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کے کئی اجلاسوں میں انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں اور وکلاء نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں تاہم کمیٹی کی جانب سے اب تک حتمی سفارشات کابینہ کو ارسال نہیں کی گئی ہیں۔
مسجد نبوی (ص) میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے بازی کے واقعے کے بعد سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے پیش گوئی کی تھی کہ کابینہ کے ارکان جہاں جائیں گے عوام پر انڈے پھینکیں گے۔ "میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ یہ پانچ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں۔ [PM’s delegation] جاؤ، ان پر سڑے ہوئے انڈے اور ٹماٹر پھینکے جائیں گے،” سابق وزیر نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، "جو کچھ بھی روضہ رسول پر ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔” موجودہ حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے رشید نے کہا کہ جب وہ خود منتخب ہوتے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو "سلیکٹڈ” کہتے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی صورتحال خطرے میں ہے اور جمہوریت نیزے پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ایک دوسرے کے درمیان نفرت ایک تشویشناک صورتحال ہے اور میں اسے خاموش بیٹھ کر نہیں دیکھوں گا۔” سابق وزیر نے کہا کہ پارٹی وزیر اعظم شہباز کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کرتی، وہ صرف قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر عمران خان مجھے چاہیں تو میں انتخابات میں حصہ لوں گا،’ انہوں نے مزید کہا کہ نئی حکومت کا فیصلہ مئی میں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "حکومت جانتی ہے کہ قوم منصفانہ انتخابات چاہتی ہے۔” پی ٹی آئی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو برا وقت درپیش ہے، انہیں اس حال میں چھوڑنا غداری تصور ہوگا۔ سابق وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ’عمران خان کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور اس وقت انہیں چھوڑنا شرمناک ہوگا۔ "غیر ملکی سازش” اور مبینہ "امریکی حمایت یافتہ حکومت” کے بارے میں بات کرتے ہوئے رشید نے کہا کہ مداخلت کسی ملک کے خلاف ہے اور سازش سے زیادہ خطرناک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک فوج کے ساتھ تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو برقرار رکھیں گے۔ تاہم، میں نے ان سے کہا ہے کہ میں عمران خان کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ فوج یا چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) عمر عطا بندیال کے خلاف نہیں ہیں۔
پروگرام سپروائزر فُوجی ناگا کاؤرُو اور اِسومُورا کازُوہیرو، جاپانی زبان سے متعلق آپ کے سوالوں کے جواب دیں گے۔ اسباق کا لنک آسان جاپانی زبان کے تمام 48 اسباق تک پہنچنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ ان اسباق کے ذریعے آپ روزمرہ گفتگو سے لے کر سفر میں کام آنے والے جملوں تک، بنیادی جاپانی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ ان اسباق میں سیاحت اور ثقافت سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔ سائٹ کا طریقہ استعمال کل 48 اسباق کی آڈیو، کارٹون وڈیو اور ٹیکسٹ پر مبنی اس ویب سائٹ کے ذریعے، آپ بالکل ابتدا سے جاپانی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کا طریقہ استعمال یہاں درج ہے۔ مائی ہارُو سانآپ کی پڑھائی کا ریکارڈ اپنے مائی ہارُو سان پیج کے ذریعے آپ اپنی پڑھائی میں پیشرفت اور کوئز وغیرہ کا ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ یہاں پر آپ وہ الفاظ یا جملے بھی رجسٹر کر سکتے ہیں، جنہیں آپ آئندہ یاد کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاؤن لوڈ یہاں سے اسباق کی MP3 آڈیو فائلز، اور PDF ٹیکسٹ فائلز، مفت ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ (صرف ذاتی استعمال کے لیے)
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈار بھی خوار ہوگا اور الیکشن وقت سے پہلے ہی ہوں گے۔ شیخ رشید نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے حوالے سے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈار بھی خوار ہوگا اور الیکشن وقت سے پہلے ہی ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 15 اکتوبر سے 15 تک نومبر تک تمام اہم فیصلے ہو جائیں گے۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی، آٹا اور گیس عوام کا مسئلہ ہے جب کہ آڈیو ویڈیو انکی سیاست کو لے ڈوبے گی، جو آڈیو ویڈیو کا کام کرتے تھے وہ اب خود اس میں پھنس گئے ہیں۔ ڈار بھی خوار ہوگا۔الیکشن وقت سے پہلے ہونگے۔بجلی آٹا گیس عوام کا مسئلہ ہےآڈیو ویڈیو اِن کی سیاست کو لے ڈوبے گی۔جو آڈیو ویڈیو کا یہ کام کرتے تھے اُس میں خود پھنس گئے ہیں15 اکتوبر سے 15 نومبر تک تمام اہم فیصلے ہو جائیں گے۔آج 2 بجے مظفر آباد پریس کلب میں پریس کانفرس سےخطاب کروں گا
دو اکتوبر بروز اتوار، صبح کے وقت ایک خبر بار بار سننے اور پڑھنے کو ملی کہ "اسلام آباد عدالت اتوار کے روز بھی کھل گئی۔ "اتوار چھٹی کا دن ہے لیکن عمران خان کی قبل از گرفتاری ضمانت درخواست کی وجہ سے عدالت کھلی رہی۔ جج دھمکی کیس میں بروز ہفتہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے گئے۔ مگر عمران خان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست برائے عبوری ضمانت 10 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی گئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے عمران خان کی درخواست کی سماعت اپنے چیمبر میں کی، اور انہیں 7 اکتوبر سے پہلے متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ اب عدالتوں کو ایک نیا شیڈول بھی بنانا چاہیے کہ عدالتیں سات دن اور چوبیس گھنٹے سیاسی لیڈروں کے لیے دستیاب ہیں رات کا وقت ہو یا سرکاری تعطیل۔ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سیاسی لیڈر اور خاص طور پہ ملک کے مقبول ترین لیڈر کے لیے وقت اور دن کی کوئی قید نہیں۔ اور جب فیصلہ پسند نہ آئے۔ تو یہ ہی سیاسی لیڈر بلا خوف و خطر کہیں بھی، کبھی بھی عدالتوں پہ تنقید کرنے کے مجاز ہیں اور چونکہ ملک کے مقبول لیڈر کے لیے اصول بھی اس کی مرضی کے ہونے چاہیے تو جب تک وہ معافی مانگنے پہ نرمی نہ دکھائے تب تک تاریخ پہ تاریخ دیتے جاؤ۔ وارنٹ گرفتاری سزا کے طور پہ جاری ہو تو بارہ گھنٹوں تک پولیس انتظار کرے جب تک عدالت کی طرف سے عبوری ضمانت نہ مل جائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ تمام سہولیات ہم عام لوگوں کو کیوں میسر نہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ہر شے پہ عائد ٹیکس بھرتے ہیں حالانکہ سرکاری صاف پانی ہمیں دستیاب نہیں، اور پینے کا پانی ہم فلٹر سے بھرتے ہیں یا پھر خرید کے پیتے ہیں۔ بجلی کے بلوں پہ بھی دس سے بارہ ہزار بلکہ اس سے بھی کئی زیادہ فیول ٹیکس دیتے ہیں۔ اپنی محنت کا رزق کھاتے ہیں کبھی حکومت کی عنایات وہ چاہے بینظیر انکم سپورٹ ہو یا احساس پروگرام یا پھر شہباز شریف کے 2000 روپوں کی امداد، سفید پوشی نے کبھی ان عنایات پہ ہاتھ صاف کرنے نہیں دیا۔ نہ کبھی ہم عام شہریوں نے ریاستی اداروں کی برملا تذلیل کی اور نہ کبھی کسی عدالت کے فیصلے کے خلاف واویلا کیا۔ اس کے باوجود جب کبھی ہم عام شہریوں کے وارنٹ جاری ہوئے۔ پولیس نے بروقت پکڑا اور گرفتاری کے بعد بھی ناک رگڑنے پہ ضمانت ملی۔ کبھی عدالت ہمارے انتظار میں پانچ منٹ بھی اپنے وقتِ مقرر سے زیادہ دیر کھلی نہیں رہی۔ ہمیں صاف بتا دیا جاتا ہے کہ عدالت کا مقررہ وقت یہ ہے عدالتی اہکار کسی ایرے غیرے کے ملازم نہیں جو انتظار میں بیٹھے رہیں۔ ہم عام شہریوں کو کیوں عدالتوں کی طرف سے یہ سہولیت دستیاب نہیں۔ اور قانون پہ مضحکہ خیز نکتہ یہ بھی ہے کہ ضمانت کے حصول کے لیے درخواست گزار کو عدالت خود حاضری دینی پڑتی ہے درخواست گزار کا بائیو میٹرک کیا جاتا ہے۔ مگر اتوار کی صبح عمران خان صاحب خود پیش نہیں ہوئے بلکہ اپنے وکیل کو عدالت بجھوا دیا۔ اور یہ تمام مہربانیاں اس لیڈر پہ ہو رہی ہیں جو 25 سال سے جہاد کر رہا ہے کہ قانون عام و خاص سب کے لیے برابر ہو۔ ریاست مدینہ کے داعی کا مطالبہ ہے کہ اس ملک میں امیروں کے لیے الگ اور غریبوں کے لیے الگ قانون منظور نہیں۔ شائد اس لیے اسے قانون میں خاص رعایت دی جارہی ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی بنا پہ عوام میں مقبول ہو چکا ہے۔ کاش قانون ہم عام شہریوں پہ بھی ایسا مہربان ہو۔ تو ہمارے بھی کئی مسائل حل ہو جائیں ہمارے جیسے لوگ تو پولیس و عدالت کے نام سے ہی خوف کھا جاتے ہیں کہ ہم کمزور لوگ اگر اس جھنجھٹ میں پھنس گئے تو شائد پھر اس عذاب سے نکل ہی نہ سکیں۔ عدالتوں اور پولیس تھانوں کے سامنے سے گزرنے کی بجائے ہم راستہ بدل لیتے ہیں کیونکہ ہم عام شہری ہیں ہمیں نہ تو قانون کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ہمارے اردگرد سیکیورٹی گارڈز کی بھرمار ہے نہ تو ہم عام لوگوں کو سرکاری طور پہ تحفظ ملتا ہے نہ ہی سرکاری گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر۔ اس ملک پاکستان میں قانون امرا اور سیاست والوں کی رکھیل ہے اور عدالتیں ان کی محافظ۔ ہم ترسی آنکھوں سے مجبور اگر بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی بھی چراتے ہیں تو دس جوتیاں پڑتی ہیں اور پانچ سو روپے جرمانہ۔ اور اگر ہمارے گناہ بڑے ہوں تو پھر سزا بھی بڑی ملتی ہے مگر مجال ہے کبھی ہم عدالت اور قانون کے خلاف ایک لفظ بولیں۔ کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عام شہری ہیں۔ Check Also Magarmach Admi By Azhar Hussain Bhatti Video Blog Competition ویڈیو بلاگ مقابلہ! اس مقابلہ کے لئے وہ بلاگرز اہل ہیں جن کی پروفائل امیج موجود ہوگی۔ مزید براں وہ لوگ اہل قرار پائیں گے جو 4 بلاگز ارسال کریں گے۔ آپ کی ای میل میں بلاگ کی تحریر کے ساتھ بلاگ کی آڈیو بھی شامل ہونی چاہئے۔ تمام شرکاء ایسا بلاگ ارسال کریں گے جو کہیں اور شائع نہ ہوا ہو ورنہ بلاگر نااہل قرار پائے گا۔ ہر طرح کا کاپی/پیسٹ مواد نااہلی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مقابلہ ایک ماہ تک چلے گا، آپ ہفتہ وار ایک بلاگ ارسال کر سکتے ہیں۔ ای میل کے عنوان میں اس بات کی وضاحت ضرور کیجئے کہ یہ بلاگ برائے مقابلہ بلاگ نویسی ہے۔ اپنا بلاگ ہمیشہ ای میل میں پیسٹ کیجئے۔ کامیابی کے عوامل ویڈیو بلاگ کا مواد ویڈیوبلاگ کے مواد کی ادائگی سب سے ذیادہ دیکھا گیا ویڈیوبلاگ سب سے ذیادہ پسند کیا گیا ویڈیوبلاگ مقابلہ کا آغاز 20 نومبر 2022 سے ہوگا اور 20 دسمبر 2022 تک جاری رہے گا۔ نتائج کا اعلان 1 جنوری 2023 کو کیا جائے گا۔ مقابلہ کے فاتح تین افراد ہونگے، پہلے فاتح کو 5000 پاکستانی روپے، دوسرے کو 3000 روپے اور تیسرے زینے کے حامل کو 2000 روپے ملیں گے۔
اسلام آباد : فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر افغانستان سے تازہ پھلوں کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کردیا۔ تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے افغانستان سے پھلوں کی درآمد آسان کرتے ہوئے درآمدی پھلوں پر سیلز ٹیکس ختم کردیا۔ ایف بی آر نے پھلوں کی درآمد پر سیلزٹیکس خاتمے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نےجذبہ خیر سگالی کےتحت درآمد پر سیلزٹیکس ختم کیا ۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے درآمد پر رعایت کا فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا ، ایف بی آر نے اس تناظر میں پشاور اور کوئٹہ کے کسٹم کلکٹرز کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایف بی آر افغانستان سے تازہ پھلوں کی درآمد پر 20 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرتا تھا۔ گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے پانچ ارب روپے کی انسانی امداد کی فوری کھیپ کا حکم دیا تھا ، جس میں گندم، ہنگامی طبی سامان، موسم سرما میں پناہ گاہیں اور دیگر سامان افغانستان روانہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے تمام وزارتوں کو ہدایت کی کہ وہ افغانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں جب کہ اہم افغان برآمدات پر اصولی ٹیرف اور سیلز ٹیکس میں کمی کی بھی منظوری دی۔
امریکا کے صدر جوزف بائیڈن نے پاکستانی امریکن زاہد قریشی کو ڈسٹرکٹ کورٹ کا جج نامزد کردیا۔ نیوجرسی سے تعلق رکھنے والے زاہد قریشی کی توثیق کردی گئی تو وہ وفاقی ڈسٹرکٹ جج کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے پہلے مسلم امریکی ہوں گے۔ زاہد قریشی 3 سال سے مجسٹریٹ جج کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ گورنر مرفی، سینیٹر کوری بوکر اور سینیٹر Menendez کی جانب سے امریکی صدر کے اقدام کی ستائش کی گئی ہے۔ امریکا کے صدر بائیڈن کے اقدام پر امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی نے اظہار تشکر کیا۔ اے پی پیک کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ وہ کئی برسوں سے اس مہم میں پیش پیش تھے کہ مسلم امریکنز کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زاہد قریشی کی بحیثیت وفاقی جج نامزدگی تاریخی لمحہ ہے اور وہ صدر جو بائیڈن، سینیٹر بوکر، سینیٹر شومر اور دیگر کے شکر گزار ہیں جنہوں نے یہ اقدام ممکن بنایا۔ ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ 35 لاکھ مسلمان امریکا میں آباد ہیں، اب تاریخ میں پہلی بار ان کی نمائندگی ہوسکے گی۔
امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے اغیار سے وابستہ اور آلہ کار حکومت کا خاتمہ کرکے ایرانی عوام کو حکومت کا اختیار دے دیا: رہبر معظم انقلاب رہبر انقلاب: آج یورپی حکومتوں کے سربراہ بھی امریکا کو غیر قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں جبکہ امام خمینی نے سالہا قبل، فرمایا تھا: ” امریکا بڑا شیطان ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا “۔ امام خمینی(رح) کی برسی میں رہبر انقلاب اسلامی نے شریک سوگواروں اور عقیدت مندوں کے عظیم اجتماع سے جن میں ملکی شخصیات اور غیرملکی مہمان بھی موجود تھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: امام خمینی کی شخصیت اور اسلامی انقلاب کے متعلق، بار بار بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ امام خمینی(رح) کی شخصیت اور انقلاب کے بارے میں تحریف کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آج کے دور کے ایرانی نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: چونکہ آپ نے اسلامی انقلاب کی تحریک اور اس کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا اس لئے میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ امام خمینی کی قیادت میں جو اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا وہ صرف حکومت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ایک گہری تبدیلی تھی یہ تبدیلی سیاست کے میدان میں بھی تھی اور سماجی میدان میں بھی ایک بڑی تبدیلی تھی۔ اس انقلاب نے میدان سیاست میں اغیار اور دشمنوں سے وابستہ ایک پٹھو اور آلہ کار حکومت کا خاتمہ کرکے حکومت کا اختیار ایرانی عوام کو دے دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: سماجی تبدیلی کے اعتبار سے جو تبدیلی رونما ہوئی وہ یہ کہ ایران کے معاشرے کو جو ایک غیر متحرک اور مغرب زدہ معاشرے میں تبدیل کردیا گیا تھا، امام خمینی نے اس انقلاب کے ذریعے دوبارہ زندہ کیا اور ایران کی عظیم قوم کو اس کی شناخت دوبارہ عطا کی۔ انہوں نے امام خمینی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: امام خمینی ایک پرکشش شخصیت کے مالک تھے اور ان میں پائی جانے والی جذابیت اور صداقت کی وجہ، اللہ پر ان کا توکل تھا۔ امام خمینی نے کسی کی پروا کئے بغیر اصل اسلام کو پیش کیا جس میں آزادی اور خود مختاری کا نعرہ دیا گیا تھا، ایسا اسلام جس میں نہ تو رجعت پسندی تھی اور نہ ہی تنزلی تھی اور یہی چیز نوجوانوں کےلئے بہت ہی پرکشش تھی۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: امام خمینی نے جو نظریات پیش کئے ان میں آزادی و خود مختاری، سماجی انصاف کا قیام اور ایرانی عوام کا امریکا کے تسلط سے آزاد ہونا، تھا۔ دنیا کی ہر قوم کے نوجوان اغیار کے تسلط سے آزاد رہنا چاہتے ہیں؛ مثال کے طور پر آج سعودی عرب جیسے ممالک کے نوجوان بھی جن کی حکومتیں امریکا سے وابستہ اور طویل المیعاد معاہدے کئے ہوئے ہیں، آزادی اور اغیار کے تسلط سے رہائی کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ امام خمینی کی شخصیت اور ان کے ذریعے پیش کئے گئے نظریات انتہائی پرکشش ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کو مضبو ط اور مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: حکام کو چاہئے کہ وہ اقتصادی میدان میں ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیں اور بین الاقوامی مسائل کے تعلق سے بھی سب کا موقف اور نظریہ ایک ہونا چاہئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: ماہ مبارک رمضان میں یمن، لیبیا اور شام میں ہمارے بھائی سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔ سعودی حکام شب و روز یمن کے عوام پر بمباری کر رہے ہیں لیکن اگر وہ بیس سال تک بھی یہ اقدامات کرتے رہیں پھر بھی انہیں یمن کے عوام پر کامیابی نصیب نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے لئے انتقام الہی کو اور زیادہ سخت کر رہے ہیں۔ سعودی حکام اگر کسی قوم پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں تو ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکےگی بلکہ اس سے سعودی حکام مزید ذلیل ہوں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اب جبکہ شام اور عراق میں جو داعش کی جائے پیدائش ہے داعش کا خاتمہ کیا جا رہا ہے تو شام کے بحران کو سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں ایران کا موقف واضح اور شفاف ہے۔ آپ نے فرمایا: امریکی صدر عرب کے پست نظام حکومت کے ایوانوں میں جاتا ہے اور قبیلے کے سردار کے بغل میں کھڑے ہو کر رقص شمشیر کرتا ہے اور پھر ایران میں چار کرورڑ رائے دہندگان کی شرکت سے ہونے والے صدارتی انتخابات پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ سعودی حکومت امریکا کے نئے صدر کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کےلئے اپنے بجٹ کا آدھا حصہ امریکا کے حوالے کرنے پر مجبور ہے۔ امریکا کے متعلق امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: آج یورپی حکومتوں کے سربراہ بھی امریکا کو غیر قابل اعتماد قرار دے رہے ہیں جبکہ امام خمینی نے تیس پینتیس سال قبل فرمایا تھا کہ ” امریکا بڑا شیطان ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا”۔
امریکہ اور طالبان کے مابین ۲۹ فروری کو دوہا میں دستخط پانے والا امن معاہدہ کچھ بے یقینی بھی اپنے ہمراہ لایا ہے۔ معاہدے کے بعد سے، خطے کے ممالک ممکنہ امریکی انخلاء نیز افغان حکومت اور طالبان کے مابین اختیارات کی تقسیم سے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کیلئے اپنا کردار طے کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی پس منظر میں ایران جو کہ افغانستان کا ایک اہم ہمسایہ ہے، مستقبل قریب میں افغانستان اور خطے میں استحکام اور سلامتی کے تعین میں ممکنہ طور پر کلیدی کردار ادا کرے گا۔ ایران ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان سے تجارتی و ثقافتی اعتبار سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا۔ تاہم ایران ایک ایسے اہم دوراہے پر بھی کھڑا ہے کہ جہاں امن عمل کے نتائج یا اس میں پیش رفت ایران کی حکمت عملیوں کو اس کے بہترین مفاد کیلئے تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ ایران ، افغان حکومت کی اعلانیہ حمایت کی موجودہ حکمت عملی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے اپنے تعلقات کو برقرار رکھے گا تاکہ امریکی انخلاء کی صورت میں اس کیلئے تمام دروازے کھلے ہوں۔ الغرض یہ کہ تہران اس امر کو ترجیح دے گا کہ افغانستان جمہوریہ کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بشمول ایران کے علاقائی حریف پاکستان و سعودی عرب کے ان اثرات کو محدود کر سکے جو کہ وہ کابل پر ڈال سکتے ہیں؛ نیز وہ ملک میں ایران کے مفادات کے تحفظ کیلئے زیادہ سازگار ماحول تخلیق کرسکے۔ افغانستان میں تہران کا متوازن کردار افغان حکومت سے تعلقات تاحال ایران کی اولین ترجیح رہی ہے اور اس نے افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ دونوں سے ہی روابط رکھے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ماہ سے قلیل مدت کے دورانیئے میں ایران اور افغانستان کے مابین اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے ہوئے ہیں جس کے تحت بالترتیب دونوں ممالک کے نائب اور قائم مقام وزیر خارجہ نے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کیا۔ افغان قائم مقام وزیر خارجہ حنیف اتمر کے دورہ تہران کے بعد ۲۲ جون کو دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس کے تحت دونوں ممالک نے خطے میں تجارت اور ٹرانزٹ تعاون کیلئے چابہار بندرگاہ کے کردار کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا۔ دونوں ممالک نے سرحدی سیکیورٹی کو بہتر بنانے اور سرحد پر خالی افغان چوکیوں میں عملے کی تعیناتی پر تبادلہ خیال کیا۔ ۱۶ جولائی کو ایران کے نائب وزیر خارجہ سید اگراچی کے دورہ افغانستان کے دوران انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ”ایران اور افغانستان کے مابین جامع تزویراتی تعاون کیلئے جامع دستاویز“ پر کام کرچکے ہیں جس میں ”عدم مداخلت“ اور ”عدم جارحیت“ اس کے اہم مندرجات میں شامل ہیں۔ ایران بین الافغان مذاکرات کیلئے ایک مشترکہ کمیٹی کے قیام کیلئے بھی افغان سیاسی دھڑوں کو قائل کرنے میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے جو کہ افغان سیاسی منظرنامے پر موجود تمام کرداروں سے روابط کی وسیع تر حکمت عملی کے عین مطابق ہے۔ افغانستان کیلئے ایران کے خصوصی ایلچی محمد طاہریان افغان سیاسی راہنمائوں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں، جن میں افغانستان کی جمیعت اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی جیسے ثالث اور سیاسی جماعت تنظیم دعوت اسلامی افغانستان کے رہنما عبدالسیاف جیسے اسلام پسند بھی شامل ہیں۔ یوں ایران کو نہ صرف زیادہ امکانات میئسر آئیں گے بلکہ اس سے افغان حکومت کو بھی یہ پیغام ملے گا کہ تہران کلی طور پر کابل کے جذبہ خیر سگالی پر انحصار نہیں کررہا۔ گزشتہ برس افغانستان کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد تہران نے جامع حکومت کی تشکیل پر زور دیا تھا اور مبینہ طور پر انتخابی نتائج پر سوالات بھی اٹھائے۔ ایران کے موقف پر غنی حکومت واضح طور پر ناخوش تھی اور اس نے ایران پر طالبان اور دیگر ”دہشت گرد گروہوں“ کی عسکری معاونت کا الزام عائد کیا۔ تاہم غنی اور عبداللہ تہران سے تعلقات کو بڑھانے میں محتاط رہے ہیں۔ جنوری میں عراق میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ایران کی پاسداران انقلاب اسلامی کی شاخ قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) کے سربراہ قاسم سلیمانی کی موت پر دونوں سربراہوں نے اظہار افسوس اور مذمت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بطور اہم شراکت دار کردار کا اعتراف کیا۔ مزید یہ کہ افغانستان، امریکہ اور ایران کے مابین پراکسی لڑائی کیلئے میدان جنگ بھی نہیں بننا چاہتا کیونکہ ایران پہلے ہی ان الزامات کی زد میں ہے کہ وہ افغانستان میں امریکہ سے لڑائی کیلئے طالبان کے بعض دھڑوں کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ اگر افغانستان میں نئے سرے سے خانہ جنگی اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو ایسے میں ایران اور سعودی عرب کے مابین پراکسی لڑائی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ادھر ایران، شام سے لوٹنے والے ان افغان شیعہ جنگجو کی افغانستان میں قیادت اور/ یا ان کی بھاری پیمانے پر تعیناتی بھی کرسکتا ہے، جن کی مدد سے اس کی ۱۰ سے ۲۰ ہزار جوانوں پر مشتمل طاقتور لیوا فاطمیون ملیشیا تخلیق پائی تھی۔ ایران کے افغان حکومت میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے اقدامات کے امکانات اگرچہ فی الحال نہیں ہیں، تاہم مستقبل میں افغانستان کے پراکسی لڑائیوں کیلئے میدان جنگ بننے کی صورت میں ایرانی شمولیت شیعہ ہزارہ برادری اور سنی پشتونوں کی اکثریت کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایران کے طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت اور نچلی سطح دونوں پر روابط ہیں اور مبینہ طور پر اس نے طالبان کے مرکزی دھڑے اور اس سے علیحدہ ہونے والے چھوٹے حریف گروہ بشمول امن عمل کی مخالفت کرنے والے گروہ، تمام کو محدود عسکری مدد فراہم کی ہے۔ ایران کی طالبان کے ساتھ کشیدہ تاریخ اور نظریاتی اختلافات کو دیکھتے ہوئے طالبان سے اس کے موجودہ تعلقات باعث سہولت اور ایک نادر موقع ہونے کے ساتھ ساتھ دباؤ برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔ امریکی افواج کے خطے سے نکل جانے سے جڑے مشترکہ مفادات کے علاوہ ایران اور طالبان نے اسلامک سٹیٹ خراسان پروونس (آئی ایس کے پی) سے لڑائی میں تعاون بھی کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ایرانی سرحد سے متصل مغربی افغانستان میں اس کو قدم جمانے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ آئی ایس کے پی، ایک سنی انتہا پسند دہشت گرد گروہ ہونے کے ناطے ایران جو کہ شیعہ اسلامی قوت ہے، اس کا منطقی دشمن ہے۔ آئی ایس کے پی نظریاتی اور سیاسی وجوہات کی بناء پر طالبان کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ مزید براں طالبان کے اثر کو کم کرنے کیلئے خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے نجی سنی سرپرستوں کی جانب سے تنظیم کو حاصل مالی معاونت کے سبب اسے طالبان پر فوقیت بھی حاصل ہے جو کہ جزیرہ نما عرب میں موجود اپنے سنی مالی معاونین کے اثر سے کسی حد تک باہر آچکے ہیں۔ اور آخر میں یہ بھی کہ ایران، ۱۹۹۰ کے عشرے کی مانند افغانستان میں خالصتاً سعودی اور پاکستانی حمایت یافتہ طالبان کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار بھی رہا ہے۔ ایران کی تشویش کی بنیادی وجہ طالبان میں موجود ان سنی انتہا پسندوں سے لاحق خطرات ہیں جو سعودی مفادات کے زیادہ طابع ہیں۔ ان خدشات کو دیکھتے ہوئے ایران افغانستان میں طالبان کی مکمل فتح نہیں چاہے گا تاہم وہ افغانستان میں بطور اہم کھلاڑی اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے۔ ایران: کھیل بگاڑنے والا یا مددگار؟ افغانستان میں ایران کے مرکزی مفادات میں سے ایک افغان منڈیوں تک رسائی کو برقرار رکھنا ہے (خاص کر اب جب کہ وہ امریکی پابندیوں کا شکار ہے) نیز آسان آمد و رفت کے حامل ایران افغان بارڈر کے باعث ایران میں منشیات کی سمگلنگ کے خدشات کے سبب علاقے میں سیکیورٹی کی بہتر صورتحال ہے۔ ایران افغانستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور کابل ایران کے ساتھ وسیع تر روابط اور تجارت میں اضافے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں ایران پر عائد امریکی پابندیاں افغانستان کیلئے بھی منفی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ایران کی بندرگاہوں، ریل گاڑیوں اور سڑکوں تک رسائی افغانی معیشت کو بھرپور فائدہ دے سکتی ہے اورچاروں طرف سے خشکی سے گھرے ہونے کے سبب اس کے وسطی ایشیا و پاکستان (جس کے ساتھ کابل کے کشیدہ تعلقات ہیں) پر انحصار میں کمی لاسکتی ہے۔ ایران، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لحاظ سے بھی افغانستان کو متعدد امکانات مہیا کرتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر ایران کابل میں ایک مستحکم حکومت کو ترجیح دے گا اور افغان حکومت ایران سے اپنے تعلقات کو مضبوط رکھنا پسند کرے گی۔ حالیہ رپورٹس کی رو سے چین اور ایران ایک تجارتی و عسکری معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب ہیں۔ یہ معاہدہ ایران میں روابط و دیگر نوعیت کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا جس سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں چینی عسکری وجود کی موجودگی ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ صورتحال افغانستان میں رابطوں کے منصوبوں، تجارت اور بہتر سرحدی انتظامات کے ذریعے افغانستان میں ایران کے کردار کو بڑھا سکتی ہے نیز پاکستانی و ایرانی بندرگاہوں کو استعمال میں لاتے ہوئے افغانستان تک رسائی کے ذریعے سے یہ ایسے پاک ایران چین اتحاد کا ذریعہ بن سکتی ہے جس کا مرکز افغانستان ہو۔امریکہ چین تعلقات اور امریکہ ایران تعلقات کی موجودہ کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی انخلاء کی صورت میں اس قسم کی صورتحال کلی طور پر خارج از امکان بھی نہیں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب (اور غالباً بھارت) چین ایران اتحاد کے وجود میں اضافے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھیں گے اور یوں ان ممالک کی جانب سے یقینی طور پر بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آنے والے دنوں میں ایران، ماسوائے اس کے کہ اسکے امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید ابتری کا شکار ہوں، ممکنہ طور پر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا انتظار کرے گا۔ فی الوقت ایران کووڈ ۱۹ سے پیدا ہونے والے بحران سے سخت متاثر ہے اور اس کی جانب سے ایسے اقدامات کا امکان نہیں جو کہ امریکہ کی جانب سے جوابی کارروائی کو دعوت دیں۔ ایران امریکہ تعلقات میں مزید خرابی کی صورت میں ایران، افغانستان میں موجود ایران نواز طالبان دھڑوں یا پھر اپنی نیابتی ملیشیا کے ذریعے سے امریکی افواج پر حملوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سلیمانی کے پیش رو اسماعیل قانی ۱۹۹۰ کے عشرے سے افغانستان میں پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے ذریعے آپریشنز کا وسیع تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے قربت اور افغانستان کے ساتھ آمدو رفت کیلئے آسان سرحدوں کے باعث یہ صورتحال عین ممکن ہے اور اس حوالے سے ایران کو ممکنہ طور پر روس کی مدد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ تہران، خود کو امریکہ اور خلیج میں موجود اپنے حریفوں کے مقابلے میں طاقتور حیثیت دلوانے کیلئے افغانستان کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرے گا۔ جب تک افغانستان ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر وجود برقرار رکھتا ہے، ایران کی اس کے حوالے سے سوچ متوازن اور سودمند ہوگی تاہم اگر (تہران کے نقطہ نگاہ سے) کابل میں جارحانہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایسے میں ایران تشدد کے ذریعے عدم توازن کی مہم شروع کرسکتا ہے تاکہ اس کے حریف مشرقی سرحدوں پر مصروف رہیں۔ افغانی منظرنامے پر موجود متعدد کرداروں کے حوالے سے ایرانی کردار بہرآخر اس کی ضروریات اور خطرات کی نوعیت پر منحصر ہے۔ لہذا ایران کی امریکی انخلاء کے بعد کے افغانستان کے حوالے سے واحد حکمت عملی نہیں بلکہ کثیرالجہتی عملی نوعیت کی حکمت عملی ہے جس میں برترحیثیت اور متعلقہ فریقوں کے ہمراہ تعلقات کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد کیفیات جیسا کہ امن مذاکرات کی ناکامی اور طالبان کی جانب سے بذریعہ طاقت اقتدار پر قبضے جیسے امکانات کیلئے تیاریاں شامل ہیں۔ افغان امن عمل کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، ایران آنے والے برسوں میں افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے تیار دکھائی دیتا ہے۔
اسلام آباد : وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سو روز میں پاکستان میڈیا یونیورسٹی قائم کرنے کے منصوبے کو بڑا کارنامہ قرار دے دیا اور کہا میڈیا کے لیے پی ٹی آئی کا یہ سب سے بڑا حصہ ہے۔ 100تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے سو دن مکمل ہونے والے ہیں، وفاقی وزرا نے نامہ اعمال پیش کررہے ہیں ، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی وہب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا الحمد اللہ ! 100 دن میں پاکستان یونیورسٹی آف میڈیا سائنسز پروجیکٹ مکمل ہوچکا ہے، میڈیا کے لیے پی ٹی آئی کا یہ سب سے بڑا حصہ ہے۔ Alhamdolillah Pak University of media sciences project is ready in first 100 days of PTI Govt ,this ll be our biggest contribution to Pak media industry pic.twitter.com/NVPelTkqkP — Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 26, 2018 خیال رہے تحریک انصاف کی حکومت کےسودن پورے ہونے کے قریب ہیں، پی ٹی آئی کے پہلے سو دن کے بڑے اقدامات پر ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلے سو دن کی سمت متعین کرنے کیلئے بڑے اقدامات کیے، ماضی کے حکمرانوں کی ساری شاہ خرچیاں بند کرکے سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی کر دی۔ غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنانے کے لیے بڑی پیش رفت کی اور وزیراعظم سے براہ راست رابطے کے لیے بڑا قدم اٹھایا۔ یاد رہے حکومت نے 100 دن پورے ہونے پر کارکردگی رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، رپورٹ میں حکومت کے آئندہ 5 سال کے لائحہ عمل سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔
🕌کلمہ پڑھی ہوئی جمھوریت Web Content Writer: Zohair Abbas ﺩﻭﻟﮩﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ‎ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﭘﮭﺮﺗﯿﮟ ﮐﮧ [...]... آہ۔۔۔سانحہ سیالکوٹ۔۔۔ نہ خد ا ہی ملا اور نہ وصال صنم سیاست اور فوج یزید سے مراسم رکھ کر حُسین کو سلام کرنے والی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ تار تار زندگی کو کیسے رفو کیا جائے۔ آؤ گل سما رب کو دکھاؤ اپنے زخم یوں ہو جائے گا، ووں ہو جائے گا غربت اور غلامی کا خاتمہ کیسے ہو آزادی کیا ہے؟ کسے کہتے ہیں، آزادی کے بعد تم نے کیا کرنا ہے؟ جو اب نہیں کرسکتے؟ وطن سے محبت یا ریاست سے محبت زمینیں سب آرمی کی ہیں۔۔۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔۔۔۔ اُن سے کیا رکھے کوئی منصفی کی اُمیدیں ۔۔۔ اُنہوں نےتوقتل عام کو سانحہ بنا ڈالا ہم دراصل اندر سے ایک تماشبین قوم بن چکے ہیں ابھی تو ہم نے ایٹم بم چلانے ہیں۔۔ ہم سب
پاکستان کرکٹ بورڈ کے شعبہ ہائی پرفارمنس نے کوویڈ 19 کی غیرمعمولی صورتحال میں بھی پاکستان کپ پاؤرڈ بائی سروس ٹائرز کا کامیاب انعقاد کرکےدکھایا۔ کراچی میں کھیلے گئے ایونٹ میں کُل 33 میچز کھیلے گئے۔ ایونٹ کے فائنل میں خیبرپختونخوا نے سنٹرل پنجاب کو 7 وکٹوں سے ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ چیمپئن خیبرپختونخوا کی ٹیم نے اس سے قبل نیشنل ٹی ٹونٹی کپ میں سدرن پنجاب کو شکست دی تھی جبکہ قائداعظم ٹرافی کے فائنل میں سنٹرل پنجاب کے ساتھ ان کا مقابلہ برابر رہا تھا۔ پاکستان کے سابق آلراؤنڈر عبدالرزاق نےڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے کوچنگ کیرئیر کا شاندار آغاز کیا۔ خیبرپختونخوا کی ٹیم ان کی کوچنگ میں ڈومیسٹک سیزن 21-2020 کے تمام فرسٹ الیون ٹورنامنٹس کے فائنل میں پہنچی۔ شعبہ ہائی پرفارمنس اب تک ڈومیسٹک سیزن 21-2020 کے کُل آٹھ ٹورنامنٹس (نیشنل انڈر 19 ون ڈے اور تھری ڈے ٹورنامنٹس، نیشنل ٹی ٹونٹی کپ فرسٹ اور سیکنڈ الیون، قائداعظم ٹرافی فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون اور پاکستان کپ فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون)میں 204 میچوں کا کامیاب انعقاد کرچکا ہے۔ اس سیزن کا آخری ایونٹ، پی سی بی نیشنل انڈر 16 ون ڈے ٹورنامنٹ 13 سے 23 فروری تک راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔ٹورنامنٹ میں کُل 15 میچز کھیلے جائیں گے۔ اس دورن پی سی بی نے زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز، ایچ بی ایل پی ایس ایل کے بقیہ میچزاور جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کی میزبانی بھی کی۔ پاکستان کپ پاؤرڈ بائی سروس ٹائرز میں سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو ملے، جہاں بلے بازوں نے چھکے چوکوں کی برسات بھی کی ، وہاں باؤلرز نے بھی خوب وکٹیں گرائیں۔ ان 13 میچوں میں کُل 17783 رنز بنے اور کُل 498 وکٹیں گریں، 460 چھکے اور 1538 چوکے لگے۔میچ ایگریٹ کی اوسط 269 رہی جبکہ پہلی اننگز میں رنز بنانے کی اوسط 278 رہی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی ٹیمیں سب سےبڑا مجموعہ بنانے والی ٹیمیں رہیں۔ 12 جنوری کو کھیلے گئے ایونٹ کے ایک میچ میں خیبرپختونخوا نے 378 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف 8 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔دو ہفتوں بعد خیبرپختونخوا نے بلوچستان کے خلاف پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 369 رنز بنائے اور پھر کامیابی سے اس کا دفاع بھی کیا۔ان دونوں ٹیموں کے درمیان مذکورہ پہلے میچ میں کُل 755 رنز بنے جبکہ دوسرے میچ میں 717 رنز بنے۔ دلچسپ طور پر خیبرپختونخوا کی ٹیم ایونٹ کے لواسکورننگ میچز میں بھی نمایاں رہی ہے۔ خیبرپختونخوا نے ناردرن کو ایک میچ میں 112 پر ڈھیر کرکے 6 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ 23 دنوں پر مشتمل ایونٹ میں مجموعی طور پر 29 سنچریاں بنیں، جہاں سندھ کے خرم منظور اور خیبرپختونخوا کے صاحبزادہ فرحان نے تین تین سنچریاں بنائیں۔ سنٹرل پنجاب کے طیب طاہر نے ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز بنائیں۔ انہوں نے ایک سنچری اور چھ نصف سنچریوں کی مدد سے 666 رنز بنائے۔ سندھ کے خرم منظور 655 رنز بناکر دوسرے اور سدرن پنجاب کے مختار احمد 597 رنز بناکر تیسرے نمبر پر رہے۔ بلوچستان کے عمران فرحت نے 499، خیبرپختونخوا کے صاحبزادہ فرحان نے 487 اور سدرن پنجاب کے شان مسعود نے 472 رنز بنائے۔ صہیب مقصود کی 130 رنز کی اننگز میں سب سے زیادہ 10 چھکے شامل تھے آصف علی کی 127 رنز کی اننگز میں 98 رنز صرف باؤنڈریز سے حاصل کیے تھے، انہوں نے اس اننگز میں 17 چوکے اور 5 چھکے لگائے تھے۔ خیبرپختونخوا کے اسپنر آصف آفریدی نے ایونٹ میں سب سے زیادہ 25 وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے ایونٹ کے ایک میچ میں ہیٹ ٹرک بھی کی تھی۔ ایونٹ کے فائنل میں بھی انہوں نے 5 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا کر خیبرپختونخوا کو چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ایونٹ میں 19 وکٹیں حاصل کرنے والے زاہد محمود کو پاکستان کے ٹی ٹونٹی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ عثمان قادر نے ایونٹ میں 17، احمد بشیر نے 16 اور محمد عمر نے 15 وکٹیں حاصل کیں۔ ایونٹ میں پانچ مرتبہ ایسا موقع آیا کہ جب کسی باؤلر نے ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔ اس میں آصف آفریدی نے دو مرتبہ جبکہ عثمان قادر، عماد بٹ اور عمر خان نے ایک ایک مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا۔ ناردرن کے آلراؤنڈر حماد اعظم کو ایونٹ میں 443 رنز اور 13 وکٹیں حاصل کرنے پر پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز دیا گیا۔ وکٹوں کے پیچھے 13 شکار کرنے پر سندھ کے اعظم خان کو ٹورنامنٹ کا بہترین وکٹ کیپر قرار دیا گیا۔ ایونٹ کا سب سے دلچسپ مقابلہ ناردرن اور خیبرپختونخوا کے درمیان دوسرا سیمی فائنل رہا۔ میچ کا فیصلہ سپر اوور پر ہوا، جہاں خیبرپختونخوا نے ناردرن کو جیت کے لیے ایک اوور میں 16 رنز کا ہدف دیا مگر ناردرن کے دونوں بلے باز محض 2 رنز پر پویلین واپس لوٹ گئے۔ سنٹرل پنجاب کے خلاف ایک راؤنڈ میچ میں ناردرن کی 154 رنز کی فتح ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کی سب سے زیادہ مارجن کی فتح رہی۔ More Cricket News Wasim Akram Leads Pakistan’s NFT Revolution 17 Jun, 2021 Wasim Akram to launch limited-edition NFTs on June 24, 2021 in collaboration with BitBlaze, GAME and Binance on Binance’s new NFT platform Karachi Red Bull Campus Cricket to serve as Talent Hunt program for Peshawar Zalmi 08 Jun, 2021 The Pakistan Super League franchise Peshawar Zalmi has joined hands with the energy drink giant Red Bull in Pakistan for the first time as the off پشاور زلمی اور رہڈبل مل کر ٹیلنٹ ہنٹ کریں گے 08 Jun, 2021 پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز پشاور زلمی نے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے انرجی ڈرنک ریڈ بال سے ہاتھ ملالیا ہے۔ دونوں ادارے مل کر پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دیگر ک پشاور زلمی اور رہڈبل مل کر ٹیلنٹ ہنٹ کریں گے 08 Jun, 2021 پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز پشاور زلمی نے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے انرجی ڈرنک ریڈ بال سے ہاتھ ملالیا ہے۔ دونوں ادارے مل کر پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ دیگر ک PINK PAKISTAN LAUNCHES ITS FIRST EVER MOBILE APP IN PAKISTAN TO COMBAT BREAST CANCER 09 Mar, 2021 Pink Pakistan Trust is committed to the mission of ensuring the health and well-being of Pakistani women. We have launched the first ever digital ap عالمی شہرت یافتہ کمنٹیٹرز ایچ بی ایل پی ایس ایل 2021 میں کمنٹری کریں گے 17 Feb, 2021 • رمیز راجہ، بازید خان، ایلن ولکنز، ثناء میر، عروج ممتاز، ڈومنک کارک،سائمن ڈول، ڈینی موریسن،پومی ایمبینگوا،ڈیوڈ گاوراور جے پی ڈومنی کمنٹری پینل
گوا کے یوم آزادی کے موقع پر ہندوستانی بحریہ کے پروجیکٹ 15 بی کا دوسرا جہاز، مورموگاو پہلی سمندری آزمائش کے لیے روانہ Posted On: 19 DEC 2021 1:55PM by PIB Delhi نئی دہلی۔ 19 دسمبر مورموگاو، ہندوستانی بحریہ کے پروجیکٹ 15 بی کلاس کا دوسرا دیسی اسٹیلتھ ڈسٹرائر، جسے 2022 کے وسط میں سمندر میں اتارے جانے کا منصوبہ تھا ، آج اپنی پہلی سمندری سفر پر روانہ ہوا۔ شاید 19دسمبر جہاز کو سمندر میں اتارنے کی سب سے موزوں تاریخ ہے کیونکہ آج ملک پرتگالی حکمرانی سے گوا کی آزادی کے 60 سال کا جشن منا رہی ہے۔ ہندوستانی بحریہ نے اس آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا اور جہاز کا نام سمندری ریاست گوا کے نام وقف کرنے سے نہ صرف ہندوستانی بحریہ اور گوا کے لوگوں کے مابین رشتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ مستقل طور پرجہاز کی شناخت قوم کی تعمیر میں اہم کردار کرنے والی ہندوستانی بحریہ سے بھی وابستہ ہو جائے گا۔ مورموگاو کومزگاؤں ڈاکس شپ بلڈرس لمیٹیڈ (ایم ڈی ایس ایل) میں پروجیکٹ 15 بی ڈسٹرائرز کے حصے کے طور پرتیار کیا جا رہا ہے۔ اس جہاز میں کئی مخصوص دیسی ٹیکنالوجی شامل ہیں اور یہ خود انحصار ہندوستان کی ایک روشن مثال ہے۔ اس نے 'میک ان انڈیا' پہل کو تحریک فراہم کی ہے۔ مورموگاو ہندوستانی بحریہ کی جنگی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کرے گا۔ نومبر 2021 میں آئی این ایس وشاکھاپٹنم اور چوتھی پی 75 آبدوز آئی این ایس ویلا کے حالیہ آغاز کے ساتھ، مور موگاو کی سمندری آزمائشوں کا آغاز ایم ڈی ایس ایل کی جدید صلاحیتوں اور ایک جدید اور متحرک ہندوستان کی مضبوط دیسی جہاز سازی کی روایت کا ثبوت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ش ح ۔ رض ۔ ج ا ( U-14508 (Release ID: 1783236) Visitor Counter : 107 Read this release in: English , Hindi , Marathi , Tamil وزارت دفاع گوا کے یوم آزادی کے موقع پر ہندوستانی بحریہ کے پروجیکٹ 15 بی کا دوسرا جہاز، مورموگاو پہلی سمندری آزمائش کے لیے روانہ Posted On: 19 DEC 2021 1:55PM by PIB Delhi نئی دہلی۔ 19 دسمبر مورموگاو، ہندوستانی بحریہ کے پروجیکٹ 15 بی کلاس کا دوسرا دیسی اسٹیلتھ ڈسٹرائر، جسے 2022 کے وسط میں سمندر میں اتارے جانے کا منصوبہ تھا ، آج اپنی پہلی سمندری سفر پر روانہ ہوا۔ شاید 19دسمبر جہاز کو سمندر میں اتارنے کی سب سے موزوں تاریخ ہے کیونکہ آج ملک پرتگالی حکمرانی سے گوا کی آزادی کے 60 سال کا جشن منا رہی ہے۔ ہندوستانی بحریہ نے اس آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا اور جہاز کا نام سمندری ریاست گوا کے نام وقف کرنے سے نہ صرف ہندوستانی بحریہ اور گوا کے لوگوں کے مابین رشتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ مستقل طور پرجہاز کی شناخت قوم کی تعمیر میں اہم کردار کرنے والی ہندوستانی بحریہ سے بھی وابستہ ہو جائے گا۔ مورموگاو کومزگاؤں ڈاکس شپ بلڈرس لمیٹیڈ (ایم ڈی ایس ایل) میں پروجیکٹ 15 بی ڈسٹرائرز کے حصے کے طور پرتیار کیا جا رہا ہے۔ اس جہاز میں کئی مخصوص دیسی ٹیکنالوجی شامل ہیں اور یہ خود انحصار ہندوستان کی ایک روشن مثال ہے۔ اس نے 'میک ان انڈیا' پہل کو تحریک فراہم کی ہے۔ مورموگاو ہندوستانی بحریہ کی جنگی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کرے گا۔ نومبر 2021 میں آئی این ایس وشاکھاپٹنم اور چوتھی پی 75 آبدوز آئی این ایس ویلا کے حالیہ آغاز کے ساتھ، مور موگاو کی سمندری آزمائشوں کا آغاز ایم ڈی ایس ایل کی جدید صلاحیتوں اور ایک جدید اور متحرک ہندوستان کی مضبوط دیسی جہاز سازی کی روایت کا ثبوت ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے رہنماؤں کے ساتھ مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کی ملاقاتوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو جوابی کارروائی شروع کرنے اور مسلم لیگ (ق) کی ممکنہ حکمت عملی کا جائزہ لینے پر مجبور کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری بردران وفاق اور پنجاب میں حکومت کے اہم اتحادی ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی سے منحرف جہانگیر ترین گروپ بھی حرکت میں آگیا ہے اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس بھی کیا۔ یہ گروپ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی جیسی حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں سے ملنے کے آپشنز پر بھی غور کر رہا ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کرنے کے لیے پرجوش انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ ترین گروپ سے جلد ملاقات متوقع ہے۔ بدھ کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’تمام اپوزیشن جماعتیں احتساب اور سزا سے بچنے کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں اور اپوزیشن جماعتیں مجھ سے ڈرتی ہیں‘۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے رواں ہفتے کے اوائل میں آصف زرداری سے ملاقات کی میزبانی کی، اگلے ہی روز ایم کیو ایم-پاکستان کے رہنماؤں عامر خان اور وسیم اختر نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ان کی پارٹی اپوزیشن کے حمایت کے مطالبے پر رابطہ کمیٹی سے مشاورت کے بعد جواب دے گی۔ حکومت کے خلاف سیاسی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر لاہور پہنچے اور چوہدری شجاعت حسین اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقاتیں کیں۔ مسلم لیگ (ق) کے ذرائع نے بتایا کہ ’اسد قیصر، چوہدری شجاعت حسین سے متعلق پوچھنے کے لیے آئے تھے اور انہوں نے آصف زرداری سے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت اور مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر پرویز الہٰی سے ملاقات کے بارے میں پوچھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اسد قیصر کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے آصف زرداری کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور وہ چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ ’تحریک انصاف، چوہدری پرویز الہٰی کے اس بیان کے بعد پریشان ہو گئی تھی کہ کچن میں سامان اکٹھا کیا جا رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ اپوزیشن کی مشترکہ پارٹیاں کیا پکاتی ہیں، یہ اپوزیشن کے اپنے روڈ میپ سے متعلق یکسو ہونے کا واضح حوالہ تھا‘۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا کے اس بیان پر بھی ناراض ہے کہ ان کی پارٹی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ساتھ ہے۔
اسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا پچیس چھبیس سالہ نوجوان کھڑکی کے پار چہچہاتی چڑیوں کو درخت پر اچھل کود کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور لبوں پر اس کے یہ شعر تھا…. اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہے یہ نوجوان کینسر کے مرض میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹر تو اسے حوصلہ دے رہے تھے کہ جلد تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گے مگر شاید اسے یہ یقین ہوچلا تھا کہ اب زندگی زیادہ دنوں تک اس کا ساتھ نہیں دےسکےگی۔ آنکھیں بند کیے جب وہ ماضی میں جھانکتا ہے تو اسے اپنی بہت سی خرابیاں دکھائی دیتی ہیں۔ گرما گرم بار بی کیو، گرم گرم بریانی پر ٹھنڈی ٹھنڈی کولڈ ڈرنک، گٹکے اور پان کا بہت زیادہ استعمال یہاں تک کے بعض اوقات پان یا گٹکا رات کو منہ میں رکھ کر سو جانا، رات رات بھر دوستوں کے ساتھ مرچ مسالوں اور گھی میں تلے ہوئے کھانے کھانا، ساری رات موبائل پر باتیں کرنا اور دن بھر سونا۔ ماں میری ان حرکتوں پر روز ٹوکتی مگر میں مذاق میں اڑا دیا کرتا۔ آج میں اسپتال کے اس بیڈ پر لیٹے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کئی امراض کو دعوت انسان خود ہی دیتا ہے۔ کینسر دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا یہ مرض زیادہ تر غذائی خرابیووں اور لائف میں بےترتیبی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک مرد اور ہر چھ میں سے ایک خاتون کینسر میں مبتلا ہورہی ہے، ہر آٹھ میں سے ایک مرد جبکہ ہر گیارہ میں سے ایک خاتون کینسر کے باعث ہلاک ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں پھیپھڑوں اور بریسٹ کینسر کے کیسز سب سے زیادہ سامنے آتے ہیں جس کے بعد قولون کے کینسر کا نمبر آتا ہے، چوتھے پر مثانے اور پھر معدے اور منہ کا کینسر ہے۔ کینسر کی علامات، متاثرہ مقام کے لحاظ سے الگ الگ شکلیں اختیار کرتی ہیں۔ امریکن کینسر سوسائٹی نے سات نشانات یا خطرناک سگنلز کی نشاندہی کی ہے جو کینسر کی موجودگی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ نشانات یہ ہیں:ایسا پھوڑا جو مندمل نہ ہوتا ہو۔ آنتوں یا مثانے کی کیفیات میں تبدیلی۔غیر معمولی طور پر خون یا کوئی اور مواد بہنا۔ سینے میں رسولی۔ سینے یا کسی دوسرے مقام پر جلد موٹی ہوجانا یا گلٹی رونما ہوجانا۔ بدہضمی یا کوئی چیز نگلنے میں دشواری۔ کسی تل یا مہاسے کے سائز میں غیرمعمولی تبدیلی۔مسلسل کھانسی جو تکلیف دہ شکل اختیار کر جاتی ہے یا گلا بیٹھ جاتا ہے۔ کینسر کی دیگر علامات میں نامعلوم وجہ سے وزن کم ہوجانا (خاص طور پر معمر افراد کا) جلد کا رنگ تبدیل ہوجانا، خواتین کے ماہواری کے ایام میں تبدیلی یا خون زیادہ بہنا، شامل ہیں۔ کینسر کی وجوہات کینسر کی بنیادی وجہ تاحال نا معلوم ہے لیکن کلینیکل پریکٹس سے واضح ہوتا ہے کہ 90 سے 95 فی صد مریضوں میں انوائرمینٹل فیکٹرز کینسر کی بڑی وجہ ہے جبکہ پانچ سے دس فیصد مریضوں میں یہ مرض موروثی وجوہات سے ہوتا ہے۔ انوائرمینٹل فیکٹر میں غیر متوازن غذا، تمباکو نوشی، پان، چھالیہ، گٹکا اور ماوا کا بے جا استعمال،موٹاپا، انفیکشن اور ریڈیشن شامل ہیں۔ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے پرہیز ضروری ہے۔ غذا کے انتخاب میں محتاط رویہ اپنا کر کینسر سے محٖفوظ رہا جا سکتا ہے اگر درج ذیل غذاؤں سے پرہیز کیا جائے تو کینسر جیسی بیماری سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔ مصنوعی شکر مصنوعی یا سفید شکر جہاں خون میں شوگر لیول میں اضافے کا باعث بنتی ہے وہیں اس کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے دوسری جانب مصنوعی طریقے سے لی گئی شکر کینسر کے خلیات کے بڑھاوے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ ایک جرمن ماہر طب نے انکشاف کیا کہ کینسر کا باعث بننے والے ٹیومرز جو بعد میں کینسر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں دراصل مصنوعی شکر کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ خیال رہے شکر کی مناسب مقدار ہمارے روزمرہ کی خوراک میں موجود ہوتی ہے تاہم کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹس اور ان جیسی دیگر چیزوں میں مصنوعی مٹھاس کی زیادہ مقدار استعمال کی جاتی ہے جس سے کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ریفائنڈ چینی اور مصنوعی مٹھاس کے بجائے شہد، گڑ اور براؤن شوگر استعمال کی جائیں۔ ڈبے میں پیک شدہ گوشت عمومی طور پر گوشت میں ذائقے کی تبدیلی اور زیادہ عرصے تک استعمال کے لیے انہیں خاص قسم کے عمل سے گزارا جاتا ہے جس میں مختلف کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے بعد ازں مخصوص پیکنگ میں پیک کیا جاتا ہے جسے پروسیسڈ میٹ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ فیکٹریوں میں پیک شدہ گوشت کے بجائے تازہ گوشت کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں جو کسی بھی قسم کے کیمیکل پراسس سے نہ گزرا ہو۔ فارم ہاؤس کی مچھلیاں فارم ہاؤسز میں جہاں مچھلیوں کی افزائش تجارتی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ بعض فارم ہاؤسز میں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے مختلف کیمکل اور غیر قدرتی طریقوں کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ ان کیمیائی اشیاء سے مچھلیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوجاتا ہے لیکن وہ کئی طرح کی بیماریوں کا بھی باعث بنتی ہیں جن میں سر فہرست کینسر ہے۔ ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی افزائش میں غیر معمولی اضافے کے لیےمختلف قسم کی ادویات اور کیمیکل کا استعمال صحت کے لیےمضر ہے اس لیے قدرتی طریقے سے حاصل کی گئی مچھلیوں کو ہی اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ نائٹریٹ ملی غذا وہ کھانے جن میں نائٹریٹ زیادہ مقدار میں موجود ہوں ، ایسی غذائیں جسم میں غیر ضروری اور غیر معمولی خلیات کے اکٹھے ہونے میں مدد دیتی ہیں جو بعد میں ٹیومر میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے خورد و نوش کی ایسی اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے جن میں نائٹریٹ موجود ہوں۔ غیر معیاری تیل کا استعمال عمومی طور پر بازار میں ایسے تیل میں کھانے تیار کیے جاتے ہیں جن کی تیاری میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ فنگر چپس اور بعض دیگر اشیاء کی تیاری میں عام طور پر ناقص تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کو کینسر کے مرض سے محفوظ رکھنے کے لیے غیر معیاری تیل کے بجائے زیتون، ناریل اور پام آئل استعمال کیاجائے۔ چپس، پاپ کارن اور فاسٹ فوڈ چپس، پاپ کارن اور فاسٹ فوڈ سے پرہیز کیجیے جہاں ان غذاؤں کی تیاری میں معیاری تیل استعمال نہیں کیا جاتا وہیں جس پیکنگ میں یہ دستیاب ہوتے ہیں ان کی تیاری میں کمیکلز استعمال کیا جاتا ہے جو غذا کے ذریعے خون کا حصہ بن جاتے ہیں اور ٹیومرکا باعث بن سکتے ہیں۔ تمباکو نوشی تمباکو نوشی کم از کم پندرہ مختلف اقسام کے کینسر کا باعث بنتی ہے جبکہ ہر دس میں سے نو پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا افراد اسی کے باعث مہلک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ اسموکنگ تمباکو نوشی اس حد تک خطرناک ہے کہ برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کی سگریٹ کا دھواں بھی سگریٹ نہ پینے والے شخص کے لیے اتنا ہی نقصاندہ ہے جتنا پینے والے شخص کے لیے۔ سیگریٹ کا دھواں سینکڑوں زہریلے کیمیکلز خارج کرتا ہے اور ان میں سے ستر فیصد کیمیکلز کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس سیکنڈ ہینڈ دھویں کی کچھ مقدار بھی جسم کے اندر جانا نقصان دہ ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ موٹاپے میں مبتلا افراد جسم میں اضافی چربی ایسٹروجن سمیت دیگر ہارمونز کی سطح بڑھاتی ہے جو کہ خلیات کی نشوونما میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ موٹاپا شدید ورم کا باعث بھی ہوسکتا ہے جس سے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے اور کینسر کا مرض ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ موٹاپے سے آنتوں اور سینے سمیت دیگر اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ زیادہ وقت بیٹھنا دفتر میں ہر وقت بیٹھے رہنا یا گھر پر ٹیلی ویژن سے لطف اندوز ہوتے رہنے سے مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دو گھنٹے دن میں بیٹھنا آنتوں کے کینسر کا خطرہ آٹھ فیصد جبکہ پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ چھ فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق جو خواتین زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتی ہیں ان میں سینے کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ چہل قدمی نہ کرنا چہل قدمی آسان ورزش ہے جس کے لیے زیادہ محنت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ اگر ہفتے میں پانچ دن تیس منٹ تک معتدل رفتار سے چہل قدمی کی جائے تو کینسر کا خطرہ کافی حد تک کم ہوسکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ورزش کرنے کے نتیجے میں خواتین میں سینے کے کینسر کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوا۔ ٹی وی دیکھنا طبی سائنس کے مطابق رات کے وقت مصنوعی روشنی میں رہنا مخصوص کینسر کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ خاص طور پر خواتین میں سینے کے کینسر کا خطرہ بڑھنے کے شواہد سامنے آئے ہیں تاہم ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیاگیا ہے۔ کولڈ ڈرنکس کا زیادہ استعمال سافٹ ڈرنکس اور مصنوعی فروٹ جوسز کا زیادہ استعمال کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھادیتاہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوڈے اور مصنوعی جوسز کے استعمال کے نتیجے میں مثانے اور پتے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ مصنوعی جوس یا کولڈ ڈرنکس استعمال کرتے ہیں ان میں اس کینسر کا خطرہ ان مشروبات سے دور رہنے والے افراد کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔ کولڈ ڈرنکس کے شوقین افراد میں جگر کے کینسر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ علاج ڈاکٹر این و گمور (Dr. Ann Wigmore) بوسٹن امریکہ کی مشوہر و معروف نیچرو پیتھ ہیں اور زندہ نیوٹریشن کے فیلڈ کی پائینئر شمار ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے وہیٹ گراس (Wheatgrass) سے تیار کردہ مشروب سے لیوکیمیا (خون کے کینسر) کے متعدد مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جسم کو زندہ منرلز، وٹامنز اور کلوروفل فراہم کی جائے تو کئی نقصانات کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ ایک اور ماہر صحت نے انگور پر مبنی غذا کو کینسر کے علاج کے لیے مفید قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس مرض میں نو سال تک خود مبتلا رہیں۔ وہ خود پر اس غذا کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ باری باری انگور کھاتی اور اس کا رس پیتی رہیں۔ اس کے سوا کوئی چیز استعمال نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے تجویز کیا ہے کہ مریض اپنے جسم کو غذا کی تبدیلی کے لیے تیار کرنے کے سلسلہ میں دو یا تین روز فاقہ کریں۔ اس کا طریق کار انہوں نے یہ بتایا کہ مختصر فاقے کے بعد مریض کو صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک ہر دو گھنٹے کے بعد انگور کھانے چاہئیں۔ پھر ہر ہفتے دو دو ہفتے یا مہینے دو مہینے کے بعد اس عمل کو دہرانا چاہیے۔ آغاز میں 30، 60 یا 90 گرام کی مقدار میں انگور کھائے جائیں پھر رفتہ رفتہ مقدار کو دگنا کردیا جائے حتیٰ کہ 250 گرام تک بےجھجھک کھایا جاسکتاہے۔ حالیہ تحقیقی سے ہوا ہے کہ بعض وٹامنز کی مدد سے کینسر کا کامیاب مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ ان وٹامنز کو ایسے مریضوں پر بھی آزمایا گیا ہے جن کا مرض اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ اس طرح انہیں نئی زندگی مل گئی۔ سویڈن کے محققین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی کی بڑی خوراک (Dose) کو کینسر کے خلاف دفاع کے لیے موثر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جاپان کے معروف سائنس دان ڈاکٹر فکنیر موریشجی (Dr. Fuknir Morishge) اور ان کے رفقا نے جو تیس سال تک وٹامن سی کے اثرات پر تجربات کرتے رہے ہیں انکشاف کیا ہے کہ وٹامن سی اور کاپر کمپاؤنڈ کی مکسچر نے کینسر کی رسولیوں پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ اٹلی کی یونیورسٹی آف پیویا (Pavia) کے ڈاکٹر لیونیڈا سانتا ماریا اور ان کے رفقاء کو اپنی تحقیق کے دوران اس امر کے شواہد ملے ہیں کہ بیٹا کروٹین (Beta Carotene) کو جلد کے کینسر کے خلاف بڑی کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بیٹا کروٹین جسم کو آکسیڈیشن کے خلاف لڑنے میں مدد دیتی ہے۔ آکسیڈیشن کا عمل ہی کینسر کا باعث بنتا ہے۔ اگر کینسر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو …. جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ کینسر کا علاج مہنگا اور تکلیف دہ ہے لیکن کینسر سے بچاؤ نہایت آسان، سادہ اور سستا بھی ہے۔ بس اپنی زندگی کو فطرت کے قریب سے قریب تر کیجیے اور متوازن غذا فطرت سے حاصل کریں جو سستے بھی ہیں اور بآسانی دستیاب بھی ہیں علاوہ ازیں مصنوعی ذائقے، مصنوعی شوگر، باہر کے غیر معیاری کھانے اور پریزرویٹو (Preservatives) میں محفوظ کی گئی غذاؤں سے اجتناب کیجیے۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] گھر کے کچن میں موجود کینسر کا علاج…. آپ کے کچن میں رکھا ایک مسالہ دنیا کی بہترین دوا ہے جسے ہلدی کہتے ہیں کیونکہ اس میں موجود شفائی اجزا سینے کی جلن سے لے کر زہرخورانی (فوڈ پوائزننگ) تک کا علاج ہیں۔ ہلدی میں موجود بعض اجزا کئی طرح کے کینسر کو قبل از وقت روک سکتے ہیں۔ امریکہ میں ماہرین نے چوہوں پر تجربات کیے اور انہیں معمول سے زیادہ ہلدی کھلائی۔ تجربات سے واضح ہوا ہے کہ ہلدی میں موجود ایک عنصر ‘‘سرکیومن’’ چوہیا میں سینے کے کینسر پھیلنے میں اہم رکاوٹ بنا۔ ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ میں الزائیمر کی وجہ بننے والے اجزا کو ختم کرنے میں بھی ہلدی مفید ہے۔ اسی بنیاد پر ماہرین کھانے میں ہلدی کی زیادہ مقدار پر زور دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کالج لندن میں ایک اور دلچسپ تجربہ کیا گیا جس میں دیکھا گیا کہ آیا ہلدی ہمارے جین کو تبدیل کرسکتی ہے یا نہیں….؟ ہم جانتے ہیں کہ جینیاتی تبدیلیاں بہت سارے امراض کی وجہ بنتی ہیں۔ ہلدی کی وجہ سے دمے، ڈپریش، الرجی، کینسر اور دیگر امراض کی وجہ بننے والے جین میں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہلدی بیماریوں کی وجہ بننے والے جین کو بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ اس طرح اب ہلدی میں پہلی بار جین تبدیل کرنے والے خواص دریافت ہوئے ہیں ۔
Re: 2019-24 بروم، چینانگو، ڈیلاویئر، اوٹسیگو، ٹیوگا، اور ٹومپکنز کاؤنٹیز IFB میں خدمات سے انکار؛ 7/9/19 بولی کھلنا آپ کی بارگاہ میں عرض ہے: اوپر دی گئی بولی کے لیے دعوت نامہ 7/9/19 کو کھولا گیا تھا۔ اسے OPWDD کی صوابدید پر واپس لے لیا گیا ہے۔ بولی کے اس دعوت نامے سے کوئی ایوارڈ نہیں دیا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں ایک نیا IFB تقسیم کیا جائے گا، اور ہمیں امید ہے کہ آپ کی کمپنی اس پر بھی بولی لگانے پر غور کرے گی۔ OPWDD Broome DDSOO Refuse Services Bid پر بولی لگانے میں آپ کی دلچسپی کا شکریہ، اور ہم اگلے IFB پر آپ کے ساتھ کاروبار کرنے کے امکانات کے منتظر ہیں۔ متعلقہ دستاویزات: Refuse Removal and Recycling Services Broome Developmental Disabilities State Operations: Invite for Bid #BRM070919
وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے اور تمھارے لیے تمھارا عمل، تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔ تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ 1- یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو پھر آپ یہ کہہ دیں، مطلب یہ ہے کہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے، سو وہ میں کر چکا ہوں، نہ تم میرے عمل کے ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے یا برے عمل کی باز پرس ہوگی۔ یہ وہی بات ہے جو «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ» میں ہے اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) نے ان الفاظ میں کہی تھی ﴿إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ﴾ الآية ( الممتحنة: 4) ”بیشک ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد سے منکر ہیں“۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
اسلام آباد: معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ اداروں کی مضبوطی جمہوریت کے فروغ کے لیے ناگزیر ہے۔ تفصیلات کے مطابق فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر تازہ پیغام میں کہا ہے کہ بیرونی عناصر اور ان کے اندرونی آلہ کار ملک کو عدم استحکام اور اداروں کو کم زور کرنے کے مذموم عزائم میں ناکام ہوں گے۔ انھوں نے ٹویٹ میں لکھا ’ادروں کی مضبوطی ملکی ترقی، جمہوریت کے فروغ اور عوامی فلاح کے لیے ناگزیر ہے۔‘ فردوس عاشق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملک کے روشن مستقبل کے خلاف سازشی عناصر کو شکست دیں گے، ملک کے تمام اداروں میں ہم آہنگی اور باہمی اعتماد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بیرونی عناصر اور انکے اندرونی آلہ کار ملک کو عدم استحکام اور اداروں کو کمزور کرنے کے مذموم عزائم میں ناکام ہوں گے۔وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ملک کے روشن مستقبل کے خلاف سازشی عناصر کوشکست دیں گے۔ — Firdous Ashiq Awan (@Dr_FirdousPTI) December 20, 2019 معاون خصوصی نے مزید لکھا کہ وزیر اعظم عمران خان اور عسکری قیادت مل کر احسن انداز سے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکال رہے ہیں، ملک معاشی استحکام اور ترقی کی منزل پر گام زن ہے۔ خیال رہے کہ خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے فیصلے کے بعد ملک میں اداروں کے مابین ایک نیا تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔
‘خیبرپختونخوا میں کھلاڑیوں کو اتنا سپورٹ نہیں کیا جاتا جتنا کیا جانا چاہیئے جس کی وجہ سے ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے’ پشاور سے تعلق رکھنے والی ہاکی کی کھلاڑی مومنہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں کھلاڑیوں کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے پہلے تو انکو والدین کی جانب سے اجازت اور توجہ نہیں ملتی اور پھر اگر انکو گھر سے اجازت مل بھی جائے تو متعلقہ حکام انکو وہ سپورٹ نہیں دیتے جس کی کھلاڑیوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ مومنہ پچھلے گیارہ سال سے ہاکی کھیل رہی ہیں اور ابھی تک انٹرکالج، انٹر یونیورسٹی، نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر 28 میڈلز جیت چکی ہے۔ وہ موجودہ وقت میں بے نظیر وومن یونیورسٹی پشاور کی جانب سے کھیل رہی ہیں اور بی ایس کررہی ہیں ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں۔ ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کے لیے جو فنڈز آتے ہیں اس سے کھلاڑیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ‘بس جس دن گیم ہوتی ہے اس سے دو دن پہلے کھلاڑی کو بلاکر سمجھا دیا جاتا ہے کہ ایسے ایسے کھیلنا ہے کوئی طریقے سے بتایا نہیں جاتا کہ کیا کرنا ہے اور بس گاڑی میں بٹھا کر لے جاتے ہیں کھیلنے کے لیے’ مومنہ نے بتایا مومنہ نے کہا کہ انکو اپنے گھر والوں کی جانب سے مکمل تعاون حاصل ہے جسکی وجہ سے وہ آج اس مقام پر ہے تاہم جب انہوں نے سپورٹس کی دنیا میں قدم رکھا تو باقی خاندان والوں کی جانب سے انکو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ لڑکی ہے اس کو گھر بٹھاو لیکن وہ گھر نہیں بیٹھی اور آج سب خاندان والے بھی ان پہ فخر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکو بچین سے شوق تھا کہ وہ ایک سپورٹس ویمن بنے گی اور بہت آگے جائے گی اور اس کے لیے انہوں نے بہت محنت کی ہے۔ ‘ جب لاہور میں ٹرائلز چل رہے تھے نیشنل لیول کے تو وہاں میں گئی تھی، پشاور سے 40 لڑکیاں گئی تھی لیکن صرف میری سلیکشن ہوئی وہاں پرایچ اسی کی طرف سے کھیلا ہے اور پھر میں وہاں سے انٹرنیشنل لیول تک پہنچی’ مومنہ نے بتایا۔ مومنہ کے مطابق سلیکشن کے بعد انکو اسلام آباد میں ایک مہینہ تربیت دی گئی اور پھر وہاں سے تھائی لینڈ گئی جہاں دو ہفتے گزارے اور دوسری پوزیشن لے کر آئی۔ مومنہ نے بتایا کہ انکے والد خود ایک کرکٹ کھلاڑی تھے اور انکو بھی کرکٹ میں آنے کا شوق تھا لیکن کرکٹ میں چونکہ فیورٹزم زیادہ ہے اس لیے پھر وہ ہاکی کی طرف آئی ‘ میں کرکٹر بننا چاہتی تھی لیکن کرکٹ میں یہ ہوتا ہے کہ یہاں پر اپنی پسند کے لوگوں کو لیا جاتا ہے جبکہ ہاکی میں آپکی فٹنس اور پرفارمنس کو دیکھا جاتا ہے’ مومنہ نے کہا۔ مومنہ نے کہا کہ کورونا نے انکو بہت زیادہ خراب کیا ہے کوئی بھی گیم نیہں ہورہی دو سال ہوگئے ہیں وہ گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آخر میں پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کے پی میں جو لڑکیاں ہیں وہ آئے اپنی پرفارمنس دکھائیں وہ ان کو فٹنس اور فیزیکل ٹریننگ دیں گی، والدین کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کھیلنے دیں کیونکہ یہ برا شعبہ نہیں ہے اور اس میں لڑکیاں بہت آگے جاسکتی ہیں۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے خبر دار کیا ہے کہ اسلام آباد میں بلا اجازت احتجاج کرنے والوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے اسلام آباد آمد و رفت کے راستے مسدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں ، طلباء اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سفر شروع کرنے سے پہلے شاہراہوں کی تازہ ترین صورتحال جاننے کےلئے پکار 15 پر کال کریں۔⬇️ — Islamabad Police (@ICT_Police) November 6, 2022 اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ جن سیاسی کارکنان کی شناخت اور مقدمات درج ہیں ان کی گرفتاری کیلئے کارروائی کررہے ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کے راستے کھلے رکھے جائیں گے، قانون نافذ کرنے والے ادارے راستوں کی نگرانی کریں گے، سفر شروع کرنے سے پہلے شاہراہوں کی صورتحال جاننے کیلئے پکار 15 پر کال کریں۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے کہا کہ سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے اسلام آباد آمدورفت کے راستے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انتظامیہ سے اجازت کے ساتھ مختص مقام پر احتجاج کیا جائے، راستوں کی بندش سے اسلام آباد کے شہریوں، طلباء اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پی ایس ایل 2021 کی ٹکٹوں کی قیمتوں اور تماشائیوں کے لیے پروٹوکولز کا اعلان کردیا گیا تاہم کوالیفائر، دونوں ایلیمنٹرز اور فائنل کی ٹکٹوں کی قیمتوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، ایونٹ کے لیگ میچز 20 فروری سے 16 مارچ تک کراچی اور لاہور میں جاری رہیں گے جب کہ 18 سے 22 مارچ تک کھیلے جانے والے پلے آف مرحلے کے لیے ٹکٹوں کی تفصیلات ان میچز سے قبل جاری کردی جائیں گی۔ کرکٹ فینز کے لیے ایونٹ کے لیگ میچز کی ٹکٹیں www.bookme.pk پر دستیاب ہوں گی، ٹکٹنگ پارٹنر کی اس ویب سائٹ پر آن لائن ٹکٹوں کی فروخت بدھ کی صبح 10 بجے شروع ہوگی، بک می ڈاٹ پی کے نے فینز کی سہولت کے لیے ایک فون نمبر (03137786888) بھی مخصوص کردیا ہے، جہاں کوئی بھی شخص فون کال کر کے اپنا ٹکٹ خرید سکتا ہے۔ اس عمل کے لیےا پنا شناختی کارڈ نمبر اور فون نمبر دینا لازمی ہوگا جب کہ مذکورہ شخص کی ٹکٹ کنفرم کردی جائے گی تو اسے اپنے رجسٹرڈ کروائے گئے فون نمبر پر ایک ٹوکن نمبر بھیجا جائے گا، جس پر ایزی پیسہ یا جاز کیش کے ذریعے ٹکٹ کی رقم جمع کروائی جاسکے گی۔ رقم جمع کروانے پر مذکورہ شخص کو ایک ای ٹکٹ کوڈ بھجوایا جائے گا، جس کا پرنٹ یا ایس ایم ایس دکھا کر اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت ہوگی۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں فیملیز کے لیے مخصوص انکلوژرز حنیف محمد (وی آئی پی انکلوژر)، وسیم اکرم (پریمیئم انکلوژر)، ظہیر عباس، اقبال قاسم اور نسیم الغنی (فرسٹ کلاس انکلوژرز) اور انتخاب عالم انکلوژر (جنرل ) ہیں، قذافی اسٹیڈیم لاہور میں فیملیز کے لئے مخصوص انکلوژرز میں فضل محمود (وی آئی پی انکلوژر)، سعید انور (پریمیئم انکلوژر) ، عبد القادر (فرسٹ کلاس انکلوژر) اور نذر ، قائد ، ظہیر عباس اور ماجد خان (جنرل انکلوژر) شامل ہوں گے۔ ہفتے کے روز افتتاحی میچ میں کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیمیں شام 7 بجے مدمقابل آئیں گی۔ اس میچ کے لیے وی آئی پی اسٹینڈز (حنیف محمد اور جاوید میانداد انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ، جبکہ فرسٹ کلاس اسٹینڈز کی قیمت (ظہیر عباس ، آصف اقبال ، وقار حسن ، ماجد خان ، اقبال قاسم اور نسیم الغنی انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت چار ہزار روپےہوگی۔ اسی طرح ، پریمیئم اسٹینڈز(قائد ، وسیم اکرم اور عمران خان انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت تین ہزار روپے رکھی گئی ہے جبکہ جنرل اسٹینڈز (وسیم باری ، محمد برادرز اور انتخاب عالم انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت دوہزار روپے طے کی گئی ہے۔ اتوار کے روز ڈبل ہیڈر میں لاہور قلندرز اور پشاور زلمی، اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز کے مابین میچز بالترتیب دوپہر 2 بجے اور شام 7 بجے شروع ہوں گے۔ اس روز وی آئی پی اسٹینڈز (حنیف محمد اور جاوید میانداد انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت چار ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، جبکہ فرسٹ کلاس اسٹینڈز (ظہیر عباس، آصف اقبال، وقار حسن، ماجد خان، اقبال قاسم اور نسیم الغنی انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت تین ہزار روپے ہوگی۔ اسی طرح پریمیئم اسٹینڈ (قائد، وسیم اکرم اور عمران خان انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت دو ہزار روپے ہوگی جبکہ جنرل اسٹینڈز (وسیم باری، محمد برادرز اور انتخاب عالم انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار روپے ہوگی۔ پیر سے بدھ تک ہونے والے میچوں کے لئے وی آئی پی اسٹینڈز (حنیف محمد اور جاوید میانداد انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت تین ہزار روپے ہوگی جبکہ فرسٹ کلاس اسٹینڈز (ظہیر عباس، آصف اقبال، وقار حسن، ماجد خان، اقبال قاسم اور نسیم الغنی انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت دو ہزار روپے ہوگی۔ اسی طرح پریمیئم اسٹینڈز(قائد، وسیم اکرم اور عمران خان انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار روپے ہوگی جب کہ جنرل اسٹینڈز (وسیم باری، محمد برادرز اور انتخاب عالم انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت پانچ سو روپے ہوگی۔ لاہور لیگ کا پہلا میچ 10 مارچ کو ہوگا جہاں پشاور زلمی اور کراچی کنگز کی ٹیمیں مدمقابل آئیں گی۔ وی آئی پی اسٹینڈز (عمران خان اور فضل محمود انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت تین ہزار روپے ہوگی ، فرسٹ کلاس اسٹینڈز (عبدالقادر اور سرفراز نواز انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت دو ہزار روپے ہوگی، پریمیئم اسٹینڈز (اے ایچ کاردار، راجاز، جاوید میانداد اور سعید انور انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار روپے جب کہ جنرل اسٹینڈز( انضمام الحق، نذر، قائد، امتیاز احمد، ظہیر عباس، حنیف محمد، ماجد خان، سعید احمد انکلوژرز) کے ٹکٹ کی قیمت پانچ سو روپے ہوگی۔ پی سی بی نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی اور قذافی اسٹیڈیم لاہور میں فیملیز کے لیے چند انکلوژرز مخصوص کردیے ہیں جب کہ سماجی فاصلے سے متعلق تمام پروٹوکولز پر عملدرآمد کیا جائے گا، جس کی بنیاد پر ہی ایونٹ کے آخری چار میچز میں تعداد بڑھانے کا فیصلہ ہوگا۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق ماسک کے بغیر اسٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ اسٹیڈیم میں داخلے اور سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنے چہرے کو بھی ماسک سے ڈھانپے رکھنا ہوگا جب کہ کوئی بھی گروپ صرف ایک گھر میں رہنے والے افراد پر مشتمل ہوسکے گا۔ اس کے علاوہ فیملیز کے لیے مخصوص اسٹینڈز کی ٹکٹ ہی صرف فیملیز کو فروخت کی جاسکے گی، ٹکٹ خریدنے کے لیے ہر فرد کو اپنی درکار تمام تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ ٹریک اور ٹریسنگ ممکن ہوسکے، ٹکٹ صرف آن لائن فروخت ہوگی، سیکورٹی گارڈز تماشائیوں کے بیٹھنے میں ان کی رہنمائی کریں گے
پنجاب یونیورسٹی (پی یو) نے سائنس / آرٹس پارٹ اول اور پارٹ 2سالانہ امتحان 2021 میں ایسوسی ایٹ ڈگری کے لئے داخلہ فارم اور فیس کے آن لائن جمع کرانے کے لئے ایک جامع شیڈول جاری کیا ہے۔ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق پارٹ اول کے باقاعدہ امیدوار 25 جنوری سے 10 فروری تک ایک فیس کے ساتھ آن لائن فارم جمع کراسکتے ہیں۔ 11 سے 17 فروری تک باقاعدہ امیدواروں کے فارم بھی قبول کیے جائیں گے لیکن ڈبل فیس کے ساتھ۔ پارٹ اول کے نجی امیدوار 12 سے 29 جنوری تک ایک فیس کے ساتھ آن لائن فارم جمع کراسکتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نجی امیدواروں سے 30 جنوری سے 10 فروری کے درمیان فارم جمع کروانے کے لئے ڈبل فیس وصول کرے گی۔ جہاں پارٹ 2کا تعلق ہے ، باقاعدہ اور نجی دونوں امیدوار 12 سے 25 تک ایک ہی فیس کے ساتھ آن لائن فارم جمع کراسکتے ہیں۔ 26 جنوری سے 2 فروری تک فارم بھی قبول کیے جائیں گے لیکن ڈبل فیس کے ساتھ۔ پارٹ اول اور پارٹ 2 کے ضمنی امتحان 2020 کا آخری موقعہ رکھنے والے باقاعدہ اور نجی امیدوار سالانہ امتحان 2021 میں شرکت کے اہل ہیں۔ دریں اثنا ، پارٹ اول سالانہ امتحانات 2020 کے نتائج کا انتظار کرنے والے امیدوار بھی حصہ 2 کے سالانہ امتحانات 2021 میں شرکت کے اہل ہیں۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کمبوڈیا میں چینی ہم منصب وی فینگے سے ملاقات کی ہے، ملاقات کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پر قابو پانے کے لیے اہم اقدام کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا میں ہونے والی ملاقات دونوں رہنماؤں کے درمیان اگست کے بعد پہلی ملاقات ہے، دونون ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پرپہنچی جب امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا جس پر چین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جنگی مشقیں شروع کردی تھیں۔ پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل پیٹ ریڈر نے ملاقات کے بعد بیان میں کہا کہ رواں سال چینی وزیر دفاع جنرل وی فینگے کے ساتھ دوسری ون آن ون ملاقات کے دوران لائیڈ آسٹن نے خطے میں اسٹریٹجک خطرات کو کم کرنے اور آپریشنل سیفٹی میں اضافے کے حوالے سے مذاکرات کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان نے مزید بتایا کہ ملاقات کے دوران لائیڈ آسٹن نے چینی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے طیاروں کی جانب سے ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں بڑھتے ہوئے خطرت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب رواں سال جون میں آسٹریلوی محکمہ دفاع نے بیان میں کہا تھا کہ رواں سال مئی میں چینی لڑاکا طیارے نے جنوبی بحیرہ چین کے علاقے میں آسٹریلیا کے فوجی طیارے کو خطرناک طریقے سے روکا تھا۔ آسٹریلیا کا کہنا تھا کہ چینی جیٹ طیارہ نے ’آر اے اے ایف‘ طیارے کے انتہائی قریب سے اڑان بھری اور ایلومینیم کے چھوٹے ٹکڑوں کو آسٹریلوی طیارے کے انجن میں داخل کردیا۔ خیال رہے کہ امریکی وزیر دفاع اور چینی ہم منصب کے درمیان ملاقات کمبوڈیا کے شہر سیئم ریئپ میں وزرائے دفاع کی کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین نے اعلان کیا کہ ملٹری کمانڈر سمیت مختلف موضوعات پر امریکا کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے۔ سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لائیڈ آسٹن اور چینی وزیر دفاع جنرل وی فینگے کے درمیان تائیوان کے مسئلے پر طویل بات چیت ہوئی تھی اور نینسی پلوسی کے دورہ کے بعد منسوخ ہونے والے امور کو دوبارہ سے شروع کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ امید ہے کہ ایسے امور پر بھی بات چیت ہوسکتی ہے جن پر گزشتہ 6 ماہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان برف جمع ہوئی تھی۔ خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے انڈونیشیا میں امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی وزیر اعظم شی جن پنگ کے درمیان جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر3 گھنٹے کی طویل ملاقات ہوئی تھی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دنیا میں نئی سرد جنگ کے اثرات کو ختم کرنے کے حوالے سے گفتگو ہوئی تھی۔ امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی کے باوجود تنازعات کو ختم کرنے کے لیے امریکی فوجی حکام نے طویل عرصے سے چینی ہم منصب کے ساتھ رابطے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جون میں لائیڈ آسٹن اور چینی وزیر دفاع جنرل وی فینگے کے درمیان ملاقات کے بارے میں پینٹاگون نے کہا تھا کہ دونوں کے درمیان ملاقات بات چیت کو بہتر کرنے کی کوشش میں اہم قدم ہے۔ خیال رہے کہ نینسی پلوسی کے تائیوان کے دورے پر چین نے برہمی کا اظہار کیا تھا، چین اس دورہ کو اپنے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کوشش کے طور پر دیکھتا ہے جس کے بعد چین نے جنگی مشقیں شروع کردی تھیں۔ امریکا کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن وہ قانون کے تحت جزیرے کو اپنے دفاع کے ذرائع فراہم کرنے کا پابند ہے۔ Email نام* وصول کنندہ ای میل* Cancel 0 یہ بھی پڑھنا مت بھولیں ایرانی پولیس نے اسکارف اتارنے پر 2 معروف ادکاراؤں کو گرفتار کرلیا فیفا ورلڈکپ: ایرانی ٹیم کی مظاہروں کی حمایت، قومی ترانہ پڑھنے سے انکار 21 ممالک کا بھارت پر ’مذہبی آزادی‘ کو یقینی بنانے پر زور Desk Mrec Top video link Teeli ویڈیوز Filmstrip زیادہ پڑھی جانے والی خبریں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کمان میں تبدیلی کے دو ہی دن بعد آئی ایس پی آر کا سربراہ تبدیل میجر جنرل بابر افتخار کی جگہ پاج فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی قیادت کیلئے حیران کن طور پر الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرنگ کور سے انتخاب کیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ’قبل از وقت ریٹائرمنٹ‘ لے لی نئی تعیناتیوں سے قبل ہی فیض حمید کا استعفیٰ قبول کرلیا گیا، نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر آج اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ فلم ریویو ضرار: ٹریلر جتنا عمدہ تھا کاش فلم بھی ویسی ہی ہوتی! فلم کو دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ اس کی پوسٹ پروڈکشن کا کام ایسے عالمی شہرت یافتہ اسٹوڈیو میں ہوا ہے ، جہاں جیمز بونڈ سیریز جیسی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ بھارت: دوران کلاس ’دہشت گرد‘ کہنے پر مسلمان طالب علم نے پروفیسر کو کھری کھری سنا دی کیا اپنے بیٹے کو دہشت گرد کے نام سے پکاریں گے؟ معذرت کرنے سے آپ کی سوچ نہیں بدل سکتی، مسلمان طالب علم ملائیکا اروڑا کے حاملہ ہونے کی رپورٹ پر ارجن کپور نے خاموشی توڑ دی یہ وہ نچلی ترین سطح ہے جس پر آپ جاسکتے تھے اور آپ نے ایسا انتہائی غیر اخلاقی خبر شائع کرکے کیا ہے، بولی وڈ اداکار چین اپنی طاقت کی نمائش کیلئے پاکستان پر انحصار کرتا ہے، امریکا بیجنگ نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مشن کی تکمیل میں اسلام آباد کی مدد کے علاوہ اسے جدید فوجی ساز و سامان بھی فراہم کیا، پینٹاگون فیفا ڈائری (13واں دن): ایران اور امریکا کے میچ کا ماحول لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا اگر ایران کل کا میچ جیت جاتا تو یہ زیادہ بڑی خبر ہوتی، خصوصاً اس وقت کہ جب ایران اندرونی مسائل کا شکار ہے، اگر ایران پہلی بار راؤنڈ آف 16 میں رسائی حاصل کرلیتا تو حالات کچھ مختلف ہوتے۔ وہ تاریخی ٹیسٹ جب میڈیا نمائندگان کو بطور متبادل کھلاڑی میدان میں اترنا پڑا آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا کہ جب ایک انٹرنیشل ٹیسٹ میچ میں صحافیوں اور کومنٹیٹرز کو میدان میں متبادل کے طور پر اترنا پڑا۔ گروپ سی کے ڈرامائی مقابلوں نے ناخن چبانے پر مجبور کردیا اب جب آپ پورے منظر نامے سے واقف ہوچکیں ہیں تو اب آپ کو کل رات کا ڈراما نہ صرف سمجھ آئے گا بلکہ یہ قصہ سننے میں مزا بھی آئے گا۔
14 اگست 2021ء کو پاکستان کے قیام کو74 برس ہوجائیں گے قوموں کی زندگی میں 74 برس کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن ہمارا شمار اب تک ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے ،گر چہ مختلف شعبوں میں ہم نے ترقی کی ہے۔ ہمارے قدم بڑھے ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں ،ان ہی میں ایک شعبہ سائنس کا میدان ہے ۔ہم نے سائنس میں کیا کچھ کیا ہے، عالمی تناظر میں مختصراً جائزہ لیتے ہیں ۔ عالم اسلامی اور مغربی ممالک میں علمی قابلیت کے فرق کا اندازہ اس حیرت ناک اور افسوسناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 90 نوبل انعامات انگلستان کی صرف ایک ہی جامعہ، جامعہ کیمبرج کے فیکلٹی ممبران کو ملے ہیں اور 32 نوبل انعامات اس جامعہ کے ٹرینیٹی کالج (Trinity School) کے اساتذہ کو ملے ہیں۔ اس کےبرعکس سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسلامی دنیا کے کسی بھی سائنسدانوں کو تحقیقی خدمات کے سلسلے میں ایک بھی نوبل انعام نہیں ملا ہے۔ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک کم آمدن پیداوار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جو کہ بیشتر زرعی معیشت پر منحصر ہے۔ پاکستان کی 60 فی صد صنعتیں کپڑا سازی کی صنعتوں پر مشتمل ہیں اور اس کم آمدن صنعت کی برآمدات میں مصروف ہیں جب کہ عالمی منڈی میں مارکیٹ کے اعتبار سے یہ صنعت صرف 6فی صد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ گزشتہ 50 سالوں کی عالمی برآمدات اور مصنوعات سازی کے رجحانات پر ایک عام تجزئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل کی برآمدات اور کم ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی برآمدات میں عالمی منڈی میں تیزی سے کمی آئی ہے جب کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو ا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سائنس ہی وہ شعبہ ہے ،جس میں بے حد منافع ہے ۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کے نفاذ کے لئے حکمت عملی کی تیاری اورمستقل تجزیہ کے لئے ادارہ قائم ہونا چاہیے ۔ 2004 ء سے 2006 ء کے دوران ایک عملی پلان ماہرین کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا جسے اگست 2007 ء میں کابینہ نے منظور بھی کیا تھا۔ اس مسودے میں ان تمام کلیدی اقدامات کا ذکر ہے جن کے ذریعے پاکستان علم پر مبنی معیشت (data primarily based economic system) میں منتقل ہو سکتا ہے، مگر افسوس کہ اس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس کے نفاذکے لئے انتہائی ضروری ہے کہ قومی ترقیاتی منصوبوں میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کی پالیسیوں کے لئے مناسب فنڈز اور تحقیق و ترقی کے لئے ایک بڑی رقم مختص کی جائے جوملکی مجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) کا کم از کم 2 فی صد ہو۔ علم پر مبنی معیشت (Information Financial system)کا سب سے اہم عنصراس کے معیاری تعلیم یافتہ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس کارندے ہوتے ہیں۔لہٰذا اسکولوں ، کالجوں ، اور جامعات کا تعلیمی معیار اور تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی اشدضرورت ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ طلباء میں مسائل کو حل کرنے کی مہارت ، جدت طرازی اور تنقیدی سوچ اُجاگر کی جائے۔ بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پر زور دیا جائے ۔اس کے لیےمعیاری تعلیم کی فراہمی اور امتحانی نظام کے انداز میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمیں کم از کم اپنی GDP کا 6 فی صد حصّہ تعلیم کے لیے مختص کرنا چاہیے، جس کا ایک چوتھائی حصّہ اعلیٰ تعلیمی شعبے کے لئے مختص کیا جائے۔ یہ قدم عالمی معیار کے تحقیقی اداروں کے قیام اور اعلیٰ معیار کے پیشہ ور افراد (سائنسدان اور انجینئرز) تیکنیکی تربیت یافتہ افرادی قوت کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اس طرح معیاری ماہر اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس تحقیق و ترقی سے وابستہ افراد مناسب تعداد میں مہیا ہو سکیں گے۔ ان کی تعداد تقریباً 2500 سے 3000 افرا دفی دس لاکھ آبادی ہونی چاہیے ،تاکہ یہ دیرپا ترقی کا سبب بن سکیں۔ اسی طرح ملک کے نجی شعبوں کاعلمی معیشت (Information Financial system) کے قیام میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان کو اہم نجی شعبوں کو فروغ دینے کے لئےمناسب منصوبہ بندی ، صنعتی حلقوں میں سرمایہ کاری اور ترغیبات پر زور دینا چاہیے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم و سائنس کے فروغ کا مختصر جائزہ 2002 ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن(Increased Schooling Fee) قائم ہوا، بعدازاں جامعات اور تحقیقی اداروں میں بڑی تیزی سے ترقی رونما ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کمیشن نے بہت سے متحرک اقدامات اٹھائے ،تا کہ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر کیا جاسکے ،کیوں کہ آج کی دنیا علم کی دنیا ہے اور اس میں وہی ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جنہوں نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کو ا پنی ترقی کی بنیاد بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگاپور جیسے چھوٹے سے ملک میں کوئی قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود سالانہ بر آمدات 518 ارب ڈا لر ہیں ۔جب کہ پورے پاکستان کی بر آمدات 23 ارب ڈالر سالانہ پر محدود ہیں ۔اس کی اصل وجہ سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی قدرتی وسائل سے استفعادہ کیا گیا ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے شعبے میں ہونے والی چندجدید ایجادات کا سر سری جائزہ لے کے اپنا احتساب کریں کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کہاں جارہی ہے۔ جدید شعبوں میں تیزی سے ترقی کی جانب بڑھتا ہوا ایک شعبہ خود کار موٹر گاڑیو ں کا ہے ۔ خود کار گاڑیوں کے نمونے (Prototypes) تیار ہو چکے ہیں اور تجارتی بنیادوں پر دستیاب بھی ہیں۔ اگلے پانچ سے دس سالوں میں ڈرائیوروں کے بغیر گاڑیاں ، بسیں اور ٹرک ہمارے زیر استعمال ہوں گے اور سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں گی۔ یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پرتیار ہے، بس حفاظتی اقدامات ، بیمہ اور ٹریفک قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں ایک ایسی گاڑی بھی تیار کی گئی ہے ،جس کا ڈیش بورڈ فوراً تبدیل ہوکر ایک دفتر کی طرح بن جا تا ہے۔ اس کمپنی نے wagon 22ایک ایسی الٹرا سانک (ultrasonic) ٹیکنالوجی ایجا دکی ہے جو پارکنگ کے لئے موجود خالی جگہ کا اندازہ باآسانی لگا کر خود پارک ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک مشہور زمانہ موٹرگاڑیاں بنانے والی کمپنی نے گاڑی کا ایک نمونہ F 015 تیار کیا ہے، جس کے دروازے لچکدار بنائی گئی ہیں جو گاڑی کو ایک تھیٹر میں تبدیل کر دیتی ہیں اور اس میں سوشل میڈیا اور آئی سی ٹی کو استعمال کرنے کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ آئی سی سی بی ایس ، کراچی یونیورسٹی میں نصب ایکس رے کرسٹیلو گرافی سسٹم ایک اور جدید ٹیکنالوجی 3D چھپائی کے بے شمار استعمال’’ انفجار عظیم تہلکے‘‘ (huge bang disruption) سے کم نہیں ہیں ۔ ابتدائی طور پر اس ٹیکنالوجی کو صرف کثیر سالمی (polymeric) موادکے لئے استعمال کیا گیا لیکن حال ہی میں اس کا استعمال دیگر اجزاء مثلاً لوہے، پیتل ، چینی کے برتن، اور چونا پتھر کے ساتھ کامیابی سے کیا گیا ہے۔ پہلا مکمل دھات سے تیار کردہ جیٹ طیار ے کا انجن اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ سال آسٹریلیا کی جامعہ موناش (Monash College) کے سائنسدانوں نے 3D چھپائی کے ذریعے تیار کیا تھا۔ CoCoJet نامی کمپنی اس 3D چھپائی کے ذریعے چاکلیٹ کو مختلف ڈیزائینوں میں بنا رہی ہے ۔ ایک قلم جسے”3D Doodler” کا نام دیا گیاہے۔ اس میں سے پلاسٹک کا باریک تار نکلتا ہے جو کہ ٹھوس اجزاء کو 3D چھپائی کے عمل کے ذریعے بنانے میں مدد کرتا ہے ۔ 3D چھپائی کے ذریعے انسانی جسم کی مختلف ہڈیاں بھی تیار کی گئی ہے اور حا ل ہی میں انسانی گردوں اور جگر کے حصوںکو 3D چھپائی کے ذریعے تیار کیا ہے۔ ایک اور جدید ٹیکنالوجی ’’اشیاء کا انٹر نیٹ ‘‘ (Web of Issues ) ہے۔ جو ہمارے ارد گرد کی تمام چیزوں سے ہمار ا تعلق بناتا ہے۔ مثلاً ایسے چھوٹے آلات ہماری روز مرہ کی استعمال کی چیزوں کے اندر نصب ہوتے ہیں جنہیں ہم اسمارٹ آلات کہتے ہیں ۔ ایک بر وقتی ترجمہ (actual time translation) کا آلہ بھی تیار کر لیا گیا ہے جو کہ زبان سے ادا ہوتے ہی فقرے کے ساتھ ساتھ ترجمہ کر تے ہے یعنی اگر کوئی انگریزی میں کسی چینی سے بات کررہا ہو تو وہ چینی شخص انگریزی کی بجائے چینی زبان ہی میں سن رہا ہوگا اور یہی اگلے فرد کے ساتھ ہوگا کہ وہ انگریزی میں اس چینی کا جواب سن رہا ہوگا ۔ اس کے برعکس پاکستان کی صورت حال بالکل جد اہے۔پیرٹ (Parrot) نامی کمپنی نے ایک ایسا گملہ دریافت کیا ہے، جس میں درجۂ حرارت ، نمی، سورج کی روشنی، اور کھاد کی سطح کی پیمائش کے سینسر (sensors) لگے ہوئے ہیں۔ ان میں کسی بھی چیز کی مقدار میں کمی بیشی ہو گی تو فوراً آپ کے اسمارٹ فون پر اطلاع آجائے گی۔ اسی طرح اسمارٹ گھر بھی بنائے گئے ہیں جو کہ خود کار طریقے سے روشنی اورحرارت کی کارکردگی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک دماغ پڑھنے والی ٹوپی بھی تیار کی گئی ہے ،جس کے ذریعے سوچ کے احکامات کمپیوٹر سے منسلک ہوتے ہیں اور ان کے تحت گاڑی یا وہیل چیئر کو چلایا جاسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بر قی ملبوسات (E-textiles) بھی تیار کیا گیا ہے ۔جن میں بے شمار رنگ و ڈیزائنز نصب کیے گئے ہیں ۔محض ایک بٹن دبانے سے آپ کے لباس کا رنگ اور ڈیزائن فوراً تبدیل ہو جاتا ہے اور اب ایسے کپڑے بھی ایجاد ہوگئے ہیں جن کا رنگ آہستہ آہستہ چند گھنٹوں میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ ان 74 سالوں میں دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت ہی کم ترقی ہوئی ہے ،مگر تھوڑی بہت ایجادات ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے پا کستان نے ترقی کی راہ پر چند قدم بڑھائے ہیں ۔نینو ٹیکنا لوجی سائنس کی وہ شاخ ہے ،جس میں نینومصنوعات کی تخلیق کے لیے اربوں ڈالرز کی سر مایہ کاری ہورہی ہے ۔ نینوٹیکنالوجی کا شعبہ دو ابتدائی دریافتوں کی وجہ سے پروا ن چڑھا 1981 ء میں پہلا scanning tunneling microscope دریافت ہوا ،جس کے ذریعے جوہر (atoms)کے جوڑوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک اور دلچسپ دریافت 1985 ء میں ہوئی ،جس میں فٹ بال کی طرح کے کاربن کے سالمے جنہیں (buckyballs)کا نام دیا گیا،دریافت کیے گئے۔ان دریافتوں کے فورا بعد (carbon nano tubes) دریافت ہوئیں،جن کانئے مادّو ں کی تیّاری اور برقی آلات میں وسیع استعمال سامنے آیا۔ نینو ٹیکنالوجی کے شعبے کی افادیت کا اندازہ حال ہی میں اس تخمینہ سے لگایا گیا ہے کہ اس شعبےسے متعلق تقریباً دو ہزار سے زائد مصنوعات آج بازار میں موجود ہیں۔ لباسوں کی تیّا ری کے لئے بھی اس شعبے کو استعمال کیا جا رہا ہے ،تا کہ زیا دہ مضبوط اور پائیدار کپڑا تیار کیا جا سکے۔ٹینس کی گیندوں کو پائیدار بنانے کے لئے اس کی بیرونی سطح پر ایک مخصوص نینو مادّے کی تہہ چڑھائی جا تی ہے ۔جراحی کے آلات اور دیگر دھاتوں کو بھی نینو مادّے کی تہہ کے ذریعے مزید مضبوط کیا جاتا ہے ۔ وڈیو گیمز کے بیرونی ڈھانچے اور موٹر گاڑیوں کی بیرونی سطحوں پر بھی نینو مادّوں (nanomaterials) کی تہہ چڑھائی جاتی ہے، تاکہ انہیں خراشوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ ریشہ انجینئرنگ(tissue engineering ) کے شعبے میں بھی نینو ٹیکنالوجی بہت مفید ثابت ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں قومی کمیشن برائے نینو سائنس و ٹیکنالوجی(The Nationwide Fee of Nano Science and Know-how (NCNST) کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔ آج اس ادارے کی وجہ سے پاکستان کی کئی جامعات میں مادّی سائنس (materials science) کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے ۔ قومی نینو ٹیکنالوجی کا ایک بہت اہم مرکز بین الا قوامی مرکز برائے کیمیائی وحیاتیاتی سائنس ،جامعہ کراچی میں اپنی نوعیت کا سب سے زیادہ طاقت ور اسپیکٹر و میٹر نصب ہے ۔جسے چند سال قبل علاقائی یونیسکو مرکز (Regional UNESCO centre) کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ یہ پاکستان کے لئے بڑے فخر کی بات ہے، کیوں کہ اس شعبے میں اس خطے کا یہ واحد ادارہ ہے، جس کو یہ اعزاز ملا ہے ۔ اس وقت آئی سی سی بی ایس میں بہت اعلیٰ اور جدید ترین آلات نصب ہیں جن میں بارہ سپر کنڈکٹنگ جوہری مقناطیسی گونج اسپیکٹرومیٹر (superconducting nuclear magnetic resonance spectrometers)،اور پندرہ ماس اسپیکٹرومیٹر (mass spectrometers) شامل ہیں۔ جیول HX110 ماس اسپیکٹرومیٹر، جوہری ساخت کا تعین کرنے کے لئے بھاری مقدار میں برقی بمباری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں پیش رفت توانائی کے میدان میں برق رفتاری سے حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہو ہی ہیں اور جلد ہی ہم روایتی توانائی کے بجائے صاف اور قابل تجدید توانائی (renewable power) استعمال کررہے ہوں گے۔ قابل تجدید توا نائی کی بہت کم قیمت نے توانائی کے شعبے میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ بہت سے ممالک اس جانب تیزی سے آرہے ہیں، تقریباً بیس سال میںتیل کی حیثیت بہ طور زریعہء توانائی نہایت کم ہو جائے گی اور اس کی جگہ حیرت انگیز اورکم قیمت قابل تجدید توانائی کے ذرائع لے لیں گے۔ کچھ ممالک میں سمندر کے کناروں پر ہوائی چکیاں توانائی پیدا کرنے کے لیےاستعمال کی جارہی ہیں ۔اسی طرح شمسی فارمز (Photo voltaic farms) وجود میں آگئے ہیں جہاں آئینوں سے منعکس کردہ شمسی روشنی حرارت کی صورت میں حاصل کی جاتی ہے۔ یہ توانائی نمک کو گرم کر کے پگھلانے اور اس سے برقی چکیاں (Electrical energy Generators)چلانے کے کا م آتی ہے ۔ اس کے علاوہ کفایتی قیمت پر شعائی توانائی کوشمسی خلیوں (photo voltaic cells)کے ذریعے بھی بڑے پیمانے پر حاصل کیا جا رہا ہے ۔ توانائی کے میدان میں اس تیز پیش رفت کی بدولت وہ دن دور نہیں جب ہم شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے پینلزکے بجائے شمسی توانائی کے تابع دروازے اور کھڑکیاں استعمال کر رہے ہوں گے۔ تجارتی بنیادوں پر موجود شمسی خلیوں کی کار کردگی 14-18 فی صدہے جب کہ نئے multi-junction شمسی خلیوں کی کارکردگی 38- 42 فی صد ہے لیکن ان کی پیداوار زیادہ مشکل اور مہنگی ہے۔ ہمارے کرۂ ارض پر سب سے زیادہ مقدار میں پایا جا نے والا خام مال سیلیولوز (cellulose) ہے۔ سیلیولوز لکڑی، پودوں کی پتیوں، روئی اور پودوں کے دیگر اجزاء میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ سائنس دان کافی عرصے سے اس کوشش میں تھے کہ کو ئی ایسا بیکٹیریا مل جائے جو سیلیولوز (cellulose) کو بیوٹانول( Butanol) میں تبدیل کر سکے، کیوں کہ بیوٹانول موٹر گاڑیوں کے انجن کے لئے حیاتی ایندھن کے طور پر استعمال ہوسکے گا۔ اب اس کا حل مل گیا ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے حیاتی ایندھن پیدا کرنے والے بیکٹیریا کی صنف کو دریافت کر لیا ہےجوپرانے اخباروں میں پائے جانے والے سیلیولوز کو بیوٹانول میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ بیوٹا نول کے بہ طور ایندھن استعمال ایتھانول (ethanol) کی نسبت زیادہ فوائد ہیں ۔ بیوٹانول کوکسی ترمیم کے بغیر براہ راست گاڑیوں کے انجن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان حالیہ پیش رفتوں سے مستفید ہونے کے لئے پاکستان کو سا ئنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو اولین ترجیح دینی ہو گی۔ ہمیں فی الحال یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت توانائی کے میدان میں کیا پیش رفت ہو رہی ہیں اور ہم ان دریافتوں سے کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں ۔2000 ء سے 2002 ء کے دوران ملک میں مختلف مقامات پر 10 میٹر اور 30 میٹر کی بلندیوں پر ہوا کی رفتار کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لئے ملک میں محکمہ موسمیات کے ذریعے ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا ،جس کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ سندھ میں ایک بہت بڑی ہوائی راہداری کا انکشاف ہوا جو کٹی بند ر اور گھا رو کے درمیان ہے اور بلوچستان کے کچھ ساحلی علاقوں کے قریب بھی ہے ۔ یہاں ہوا سے 50,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ توانائی کی کمی کے شکار ملک میں یہ تیل کے ایک ہزار نئے ذخائر کی دریافت کے مترادف تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم تیزی سے ایک بہت بڑا ہوا سے توانائی حاصل کر نے کا منصوبہ تیار کرتے اور بہت سستی بجلی یعنی 2.5سے four روپے فی کلو واٹ کے حساب سے بجلی عوام کو فراہم کرتے، لیکن بدقسمتی سے پورا منصوبہ بدعنوانی کی نظر ہو گیا۔ حتیٰ کہ 100 میگا واٹ کی ہوائی چکیاں تک نصب نہیں کی جا سکیں۔ افسوس کہ ہمارے سربراہان نے کبھی خود انحصاری پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی بلکہ ہمیشہ غیر ملکوں کے رحم و کرم پر رہنے کی کوشش کی ۔ پاکستان کا پہلا نینو ٹیکنالوجی کا مرکز (heart on nanotechnology) بین الاقوامی ادارہ برائے حیاتی و کیمیائی سائنسز ، جامعہ کراچی میں قائم ہے،اسے حکومت کی سر پرستی سے عالمی معیار کا بہترین مرکز بنایا جاسکتا ہے ۔ ہم نے ان سطور میں سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے اہم کردار پر زوردیاہے۔ہمیںیہ یاد رکھنا چاہیےکہ مستحکم قومی معیشت کے قیام میں قدرتی وسائل کی اہمیت اب کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ اس کی جگہ تخلیقی صلاحیتوں سے لیس معیاری افرادی قوّت نےلےلی ہے ۔اسی لئے تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ترقی پزیر ممالک اپنا بجٹ دیگر شعبہ جات میں کم اور تعلیم ،سائنس اور جدت طرازی کے فروغ کے لیے زیادہ مختص کر رہے ہیں،تاکہ وہ نئے چیلنجز کا سامنا ڈٹ کرکر سکیں۔کسی بھی ملک کی بہتر سائنسی حا لت کا اندازہ وہاں کے سائنس دانوں یا مقامی کمپنیوں کی جانب سے پیٹنٹس (patents) حاصل کرنے کے لیے دائر کردہ درخواستوں سے ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہر سال اپنے سائنس دانوں کی جانب سے 6000 پیٹنٹ کی درخواستیںدائر کرتاہے جب کہ پاکستان کے سائنس دانوں کی جانب سے صرف چند سو پیٹنٹس کی درخواستیں ہی دائر ہوتی ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے۔آج کی دنیا میں حقیقت خوابوں سے زیادہ اجنبی بن گئی ہے۔ سائنس نے صنعتی شعبے کی کس طرح کا یا پلٹی ہے اور کس طرح ہماری زندگیوں کو تبدیل کررہی ہے اس کی چند مثالیں قارئین کے لئے پیش ہیں۔ دنیا کے پہلے انسانی جینوم کی مکمل ترتیب جاننے پر 6 کروڑ امریکی ڈالر کی لاگت آئی تھی اور تیرہ سالہ کاوش کے بعد مئی 2006 ء میں یہ ترتیب مکمل ہوئی تھی۔ پاکستان میں پچھلے9 سالوں میں اس میدان میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی ہے ۔ اس کی ایک بہترین مثال جامعہ کراچی میں جمیل الرّحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق(Jamil -Ur-Rehman centre for Genomics Reserach ) جوبین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز میں واقع ہے۔ وہاں ایک جدید آلہ نصب ہے۔ اس آلے کی مدد سے ایک انسانی جینوم کی مکمل ترتیب تقریباً دس دن میں معلوم کی جا سکتی ہے ،جس پر صرف 5,000 امریکی ڈالرز سے کم لا گت آتی ہے ۔ مز ید بہت سستی جینیاتی ترتیب جانچنے کی مشینیں ابھی ترقی کے مراحل میں ہیں جو کم وقت اور کم لاگت ، یعنی ہزار ڈالر تک میں انسا نی جینیاتی ترتیب معلوم کرسکیں گی ۔ اس میدان میں ایک اور ترقی یہ ہوئی ہے کہ ایک آسان سا جینیاتی تجزیہ، جس پر چند سو ڈالر کی لاگت آتی ہے ایک انسانی ڈی این اے (DNA) میں موجود نقائص کی معلومات فراہم کردیتا ہے، جس سے مستقبل میں ہونے والی بیماریوں کے سامنے آنے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ آج کی سائنسی دنیا میں تجارتی بنیادوں پر لاکھوں پودوں کی بیجوں کے بغیر پیداوار ممکن ہوگئی ہے ۔عالمی سطح پر ترقی کی یہ محض چند مثالیں تھیں جوعالمی معیشت پرمثبت انداز سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ہر روز بہت سی ایجادات سامنے آتی رہتی ہیںاور وہی ممالک اور ادارے اقتصادی ترقی میں پیش پیش ہیں جو سائنس اور جدت طرازی پر لاکھوں ، اربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس سائنسی دور نے دنیا کو دو قسم کے ممالک میں بانٹ دیا ہے ایک وہ جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور اسے بھاری منافعے کے عوض فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں اور دوسرے وہ غریب ممالک جو ہاتھوں میں کشکول لئے کھڑے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان کا شمار بھی ان غریب ممالک میں ہوتا ہے ،کیوں کہ یہاںاب تک مسلسل ا س ا ہم ترین شعبے کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے لئے حقیقی چیلنج ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو پاکستان کومو جودہ کم آمدن والی معیشت کے چنگل سے آزاد کرکے زیادہ آمدن والی ’’علمی معیشت ‘‘(Information Financial system) کی جانب لے جاسکے۔
حزب اللہ کے شدت پسند گروہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے ’المنار ٹی وی‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، مسٹر اسد نے کہا ہے کہ ’بین الاقوامی نگرانی میں انتخابات؟ نہیں۔ یہ شام کے اقتدارِ اعلیٰ میں مداخلت کے مترادف ہے‘ واشنگٹن — شام کے صدر بشار الاسد نے ملک کی چار برس کی خانہ جنگی کے دوران بیرونی مداخلت کی شکایت کرتے ہوئے، کہا ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات کے دوران وہ بین الاقوامی مبصرین کو آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مسٹر اسد نے یہ بات منگل کے روز ’المنار ٹی وی‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، جو حزب اللہ کے شدت پسند گروہ کی سرپرستی میں کام کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی نگرانی میں انتخابات؟ نہیں۔ یہ شام کے اقتدارِ اعلیٰ میں مداخلت کے مترادف ہے‘۔ ایسو سی ایٹڈ پریس نے اُن کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ ’وہ کون سا بین الاقوامی ادارہ ہے جو ہمیں یہ سرٹیفیکٹ دے کہ ہمارا طرزِ عمل اچھا ہے؟‘ مسٹر اسد کا انٹرویو دمشق کے صدارتی محل میں کیا گیا۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ شام کے تنازع کا حل صرف اُسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ غیر ملکی ممالک اُن کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ رائٹرز نے اسد کے حوالے سے کہا ہے کہ جب اس سطح پر پہنچیں گے جب شام کے خلاف کی جانے والی سازش میں ملوث ملک ایسا کرنا اور شام میں خونریزی کو بڑھکانا بند کریں گے، اور یہ ممالک دہشت گردی کے لیے رقوم فراہم کرنا بند کریں گے، پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم حل کی حتمی سمت پہنچ چکے ہیں۔ شام کے اہل کار عام طور پر ’دہشت گردی‘ کا لفظ اپنی حکومت کے تمام محالفیں کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس میں وہ لڑاکا باغی بھی شامل ہیں جو جاری خانہ جنگی کے دوران شامی افواج سے لڑتے رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں کل میلبورن کرکٹ اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گی۔ پاکستان اور انڈیا کلاش کے لیے کل تک موسم زیادہ اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اب بارش کی پیشن گوئی بدل گئی ہے۔ موسم کی کئی معتبر ویب سائٹس کے مطابق پاکستان اور بھارت کا میچ شیڈول کے مطابق ہوگا۔ شام 4 بجے تک بارش کے امکانات میلبورن میں کل مقامی وقت اب ختم ہو گیا ہے۔ بی بی سی کی موسمیاتی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے میچ کے دوران بارش کے امکانات صرف 30 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارش ہوتی ہے یہ گرج چمک یا بہت زیادہ بارش نہیں ہوگی۔ آئی فونز کی ان بلٹ ویدر ایپ کے مطابق میلبورن میں کل بارش کے امکانات اور اب ختم ہو گئے ہیں۔ سب کچھ ذہن میں رکھتے ہوئے بارش کے امکانات اب بھی برقرار ہیں لیکن میچ کے امکانات اب بہت روشن ہیں۔ ہم پرامید ہیں کہ بھارت بمقابلہ پاکستان میچ ہو گا چاہے بیضہ دانی کم ہو جائے۔ ابھی میلبورن میں موسم واقعی صاف ہے اور سورج نکل چکا ہے۔
وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد اور بے شک تم میں سے یقیناً کوئی ایسا بھی ہے جو ہر صورت دیر لگا دے گا، پھر اگر تمھیں کوئی مصیبت آپہنچی تو کہے گا بے شک اللہ نے مجھ پر انعام فرمایا، جب کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔ تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کمزور ایمان مسلمانوں کے بارے میں آگاہ فرمایا جو کاہلی کی بنا پر جہاد سے جی چراتے ہیں۔ ﴿وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ ﴾ ” اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ عمداً دیر لگاتا ہے۔“ یعنی اے اہل ایمان ! تم میں سے بعض لوگ کمزوری، سستی اور بزدلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ یہی تفسیر صحیح ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی ہیں، کہ وہ دوسروں کو جہاد کے لیے نکلنے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے منافق تھے لیکن پہلے معنی دو لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں۔ اول : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿مِنكُمْ ﴾” تم میں سے“ اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
مجھے فخر ہے میرا لیڈر عمران خان ہے جو نا کبھی مافیا کے آگے جھکے گا اور نا مافیا کے آگے رکے گا عمران خان چوروں کو مت… twitter.com/i/web/status/1… 2 years ago پوسٹ شیئر کریں اور ہمارا پیج لائیک کرلیں شکریہ #PTI #PTIFamily #iSupportPTI #Pakistan pic.twitter.com/GNLY9n7n27 2 years ago سوشل میڈیا پہ ہم آپکی سپورٹ جاری رکھیں گے انشاللہ پوسٹ شیئر کریں #PTI #PTIFamily #iSupportPTI #Pakistan pic.twitter.com/rpzvFKATkq 2 years ago "It always seems impossible until it is done." Nelson Mandela and at #AbmaSoft we can make impossible possible. 😄… twitter.com/i/web/status/1…
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈے اے) نے اسلام آباد میں ہندوؤں کے مندر کی تعمیر کے لیے مختص جگہ کی الاٹمنٹ کینسل کر دی ہے۔ اس حوالے سے سوموار کو سی ڈی اے کے وکیل جاوید اقبال وینس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کر دیا۔ واضح رہے کہ جسٹس عامر فاروق نے ایک شہری کی مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر سماعت کی تھی۔ دوران سماعت سی ڈی اے کے وکیل جاوید اقبال وینس نے عدالت کو بتایا کہ ’مندر کی تعمیر وفاقی کابینہ کی ہدایت پر کینسل کر دی گئی۔‘ ’وفاقی کابینہ نے ہدایت کی کہ گرین ایریاز میں جن بلڈنگز کی تعمیرات نہیں ہوئیں کینسل کر دیں۔‘ خیال رہے کہ 2017 میں نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے احکامات پر سی ڈی اے نے اسلام آباد کی ہندو پنچایت کی درخواست پر سیکٹر ایچ نائن ٹو میں چار کنال کا پلاٹ الاٹ کیا تھا۔ اس مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب بھی منعقد ہوئی تھی جس کے مہمان خصوصی تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال ملہی تھے۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حملے کو "نفرت پر مبنی جرم" قرار دیا جب کہ صدر روؤفین رفلین نے متنبہ کیا ہے کہ سماجی عدم برداشت اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یروشلیم میں ہم جنس پرستوں پریڈ میں شامل لوگوں پر ایک بنیاد پرست یہودی نے چاقو سے حملہ کر کے کم ازکم چھ افراد کو زخمی کر دیا جن میں دو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ پولیس نے حملہ آور کو گرفتارکر لیا اور اس کے بارے میں بتایا گیا کہ دس سال قبل بھی یہ شخص ایسے ہی حملے میں ملوث پایا گیا تھا اور اسے قید کی سزا دی گئی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا پریڈ میں لگ بھگ پانچ ہزار لوگ شریک تھے کہ بظاہر قریب واقع سپرمارکیٹ سے ایک شخص اس میں کودا اور چاقو سے شرکا پر حملہ کر دیا۔ حالیہ برسوں میں اس طرح کی کسی تقریب میں ہونے والا یہ بدترین واقعہ ہے۔ اس شہر میں اسرائیل کے دیگر علاقوں کی نسبت مذہبی رجحان رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حملے کو "نفرت پر مبنی جرم" قرار دیا جب کہ صدر روؤفین رفلین نے متنبہ کیا ہے کہ سماجی عدم برداشت اسرائیل کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ پولیس کی ترجمان لوبا سامری کا کہنا تھا کہ حملہ آور 2005ء میں بھی یروشلیم میں پریڈ میں شامل لوگوں پر چاقو سے وار کر کے تین افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ شخص حالیہ ہفتوں میں ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔ ہم جنس پرستی کے معاملے پر اسرائیل میں ایسی کشیدگی دیکھنے میں آچکی ہے جہاں بنیاد پرست یہودی، مسلمان اور مسیحی اسے اپنے عقائد کے منافی قرار دیتے ہیں۔
Runbo P5 ایک صنعتی ٹیبلٹ ہے جو سینٹی میٹر یا ملی میٹر لیول RTK GNSS کی درست پوزیشننگ اور پیمائش کو سپورٹ کرتا ہے۔یہ خاص طور پر سخت ماحولیاتی حالات میں درست پوزیشننگ ایپلی کیشنز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ گولی میں ملی میٹر لیول اور سینٹی میٹر لیول اختیاری ہیں۔یہ بہتر ملٹی سسٹم نیویگیشن اور پوزیشننگ ماڈیول، چھوٹے سے ہمہ جہتی ہیلیکل اینٹینا، آزاد کور ہائی پریزیشن الگورتھم کو اپناتا ہے، AGNSS معاون پوزیشننگ کو سپورٹ کرتا ہے، اور پوزیشننگ زیادہ درست ہے۔ انکوائریتفصیل 7 انچ 4G LTE اینڈرائیڈ رگڈ انڈسٹریل ٹیبلٹ RTK GNSS ٹیبلیٹ، IP67 واٹر پروف ٹیبلیٹ Runbo P2 ایک صنعتی ٹیبلیٹ ہے جو سینٹی میٹر یا ملی میٹر لیول RTK GNSS کی درست پوزیشننگ اور پیمائش کو سپورٹ کرتا ہے۔یہ خاص طور پر سخت ماحولیاتی حالات میں درست پوزیشننگ ایپلی کیشنز کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ گولی میں ملی میٹر لیول اور سینٹی میٹر لیول اختیاری ہیں۔یہ بہتر ملٹی سسٹم نیویگیشن اور پوزیشننگ ماڈیول، چھوٹے سے ہمہ جہتی ہیلیکل اینٹینا، آزاد کور ہائی پریزیشن الگورتھم کو اپناتا ہے، AGNSS معاون پوزیشننگ کو سپورٹ کرتا ہے، اور پوزیشننگ زیادہ درست ہے۔ انکوائریتفصیل ہماری مصنوعات یا قیمت کی فہرست کے بارے میں پوچھ گچھ کے لئے، براہ کرم ہمیں اپنا ای میل چھوڑیں اور ہم 24 گھنٹوں کے اندر رابطے میں رہیں گے۔انکوائری
کیا آپ نے خواب دیکھا ہے کہ شیر جنگل میں آپ کا پیچھا کر رہا ہے؟ کیا آپ ایسے خوفناک خوابوں کی تعبیر جاننا چاہتے ہیں جو درحقیقت ایک ڈراؤنا خواب تھا؟ خواب میں شیر دیکھنے کا مطلب شیر والے خواب کا مطلب ہے ہمت، طاقت، دلیری کی صفات۔ شیر طاقتور، سائز میں بڑا، پھر بھی ہنر مند اور چست جانور ہے۔ جب شیر آپ کے لاشعور میں چپکے سے جھانکتے ہیں۔ تو یہ یقینی طور پر ایک اہم پیغام ہے۔ بعض اوقات یہ پیغام دھمکی آمیز اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر خوابوں میں شیر کا مطلب مضبوط جذبات، حکمت، لچک اور زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتا ہے۔ خواب میں شیر آزادی، طاقت، ہمت، امید، آزاد روح اور تحفظ کی علامت ہے۔ یہ طاقتور جانور آپ کے لطیف جذبات اور روکھے رہنے کے احساس کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جب آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں۔ تو یہ آپ کو نڈر بننے اور اندرونی طاقت، ہمت اور ایمان کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی یاد دلاتا ہے۔ یہ جبلتوں اور وجدانوں کے پیغام کو پہنچاتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں۔ آپ میں اتنی مثبت توانائی ہے کہ آپ کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتے ہیں۔ اور کسی بھی منفی حالات میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ شیر ایک سنجیدہ اور وحشی جانور بھی ہے جو گہرے جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ بعض اوقات، کچھ لوک داستانوں میں، شیر کے خواب کا مطلب زندگی کے حالات پر غیر یقینی اور کنٹرول کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کو صرف چیزوں کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔ جو غلط ہوا اس سے کبھی نہ ڈریں۔ یہ آرام کرنے اور سوچنے اور عمل کرنے کے پرانے طریقوں کو چھوڑنے کا وقت ہے۔ بغیر کسی خوف کے اپنے چیلنجوں کا سامنا کریں اور اپنے مقاصد کو اپنے منفرد طریقوں سے حاصل کریں۔ خواب میں شیر دیکھنا اچھا ہے یا برا شیر نڈر اور بہادر مخلوق ہیں لیکن ایک ہی وقت میں ایک پیچیدہ جانور جو خواب میں نظر آنے پر اچھے اور برے دونوں معنی رکھتا ہے۔ چونکہ یہ مخلوق ناقابل یقین طاقت اور گہری نظر کی علامت ہے، شیر کے خواب کی وضاحت مختلف معنی کی علامت ہے اس پر منحصر ہے کہ وہ خواب کی حالت میں کیا کر رہے تھے۔ خواب میں شیر کی روحانی تعبیر خواب میں شیر آپ کو جرات مندانہ اور محفوظ رہنے کی دعوت دیتا ہے۔ آپ کو اپنی اندرونی طاقت کو طلب کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کو ایک آزاد وجود بناتا ہے جو رکاوٹوں کے باوجود مثبت نتائج ظاہر کرنے کے لیے طاقتور ہے۔ خواب میں شیر کا روحانی معنی آپ کو درج ذیل یاد دلاتا ہے۔ آپ مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ہمیشہ طاقتور ہوتے ہیں۔ شیر کے خواب کا مطلب آپ کو اپنے گہرے خوف سے لڑنے کی یاد دلاتا ہے۔ جب آپ کے خوابوں میں شیر نظر آتا ہے تو یہ تنہائی کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ آپ کو اپنی اندرونی حکمت سے جڑنا اور ایک اندرونی وژن تیار کرنا سکھاتا ہے۔ جو آسانی کے ساتھ تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔ شیر خواب کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ایک مقدس روح ہیں۔ آپ میں ایک دانشمندی ہےعلم ہے، اور آپ کے دل کے خفیہ جذبات کو محفوظ رکھتا ہے۔ جب شیر خواب میں نظر آتا ہے تو یہ جارحیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہندومت میں، خوابوں میں شیر سختی، طاقت، جذبہ، اور جنسیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے: یہ اپنی موروثی طاقتوں اور قوت کو سمجھنے کا وقت ہے۔ خود سے بات کریں اپنی موجودگی کو دنیا میں محسوس کرنے دیں۔ سوچنے اور برتاؤ کے پرانے طریقوں کو چھوڑ دیں۔ اپنے آپ کو لامحدود حدود میں چیلنج کریں اور ان مشکلات کو دور کریں۔ جو آپ کا پیچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اپنے منفی جذبات کو چھوڑ دیں اور شفا یابی اور پھر سے جوان ہونے کے راستے پر چلیں۔ اپنے اہداف کو کامیابی سے پورا کرنے کے لیے پیچھے نہ بیٹھیں اور ان پر عمل کریں۔ شیر کی آنکھ گہری مشاہدے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ آپ کو اپنے وجدان پر بھروسہ کرنے اور اس کے مطابق چیزوں کا فیصلہ کرنے کی یاد دلاتا ہے۔ اس نڈر جانور کی جنگلی فطرت آپ کو اپنی لاشعوری جبلتوں، پوشیدہ خواہشات اور نر اور مادہ کی جنسی خواہشات پر غور کرنے کی یاد دلاتی ہے۔ خواب میں ایک شیر آپ کو پرسکون رہنے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ کو اپنے غصے پر قابو پانے کی ضرورت ہے اور اسے صرف ضرورت کے وقت ہی دکھائیں۔ کبھی کبھی شیر جنگل میں درخت کے نیچے آرام کرتا ہے اور اپنی تنہائی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہ توقف کی علامت ہے۔ خواب میں شیر آپ سے کہتا ہے کہ ایک توقف کریں، کچھ وقت کے لیے ٹھہریں۔ اور عمل کرنے کرنے کے صحیح موقع کی آمد کا انتظار کریں۔ خواب میں شیر – عام تعبیرات خواب کی علامت میں، شیر بے خوفی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمت اور بہادری کے ساتھ غیر متوقع حالات کا سامنا کرنا۔ غیر یقینی وقت مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کی استقامت اور لچک کو جانچنا ہے۔ جب آپ شیروں کے بارے میں خواب دیکھتے ہیں، تو یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کو زندگی کے مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ اور آپ جس مقصد پر کام کر رہے ہیں اسے پورا کرنے کے لیے اسے دور کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنے طریقے سے کام کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ علامتی طور پر، خواب میں شیر مندرجہ ذیل کی نمائندگی کرتا ہے: ایک روحانی جانور کے طور پر، خواب کی علامت کے طور پر شیر کا مطلب طاقت اور ہمت ہے۔ جب بھی آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی اندرونی طاقت اور حوصلہ کھو رہے ہیں۔ جانور آپ کو یاد دلاتا ہے کہ آپ اپنی ذہنی قوت کو محسوس کریں اور ہمت اور عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ طاقت اور ہمت آپ کو مشکل وقت میں اپنی ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ محسوس ہو سکے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ خوابوں میں شیر طاقت اور بہادری کا مثبت پیغام لے کر آتا ہے۔ اگر آپ شیر کی جلد کا خواب دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب اچھی سماجی حیثیت، دولت اور خوشحالی ہے۔ شیر کی جلد طاقت، ترقی اور اثر و رسوخ کی علامت ہے۔ خواب میں دھاڑتے ہوئے شیر کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی بیدار زندگی میں کام کرنے کے لیے کچھ ذمہ داریاں کا سامنا ہے۔ گرجتا ہوا شیر ان اقدامات کی علامت ہے جو آپ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کے اردگرد منفی توانائی بھی رکھتا ہے جس سے آپ کو بچنے کی ضرورت ہے۔ اپنے عمل کے بارے میں چوکنا رہنا ایک انتباہی خواب ہے۔ تنہائی ایک شیر جنگل میں اکیلے رہ کر زیادہ وقت گزارتا ہے۔ جب یہ جانور خواب میں نظر آتا ہے۔ تو یہ آپ کو اپنی تنہائی اور اندرونی سکون سے لطف اندوز ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ کو اپنے نظریے اور حکمت کو فروغ دینے کے لیے اپنے ساتھ معیاری وقت گزارنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ساتھ وقت گزارنا خود سے محبت کی ایک شکل ہے جو ترقی اور مثبت ذہنیت کو فروغ دیتی ہے۔ آپ اپنے اندر کی گہرائیوں کو دیکھ سکتے ہیں اور اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ آپ کی تخلیقی خودی کمال میں بدل جائے گی جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ جسمانی طاقت شیر بے پناہ جسمانی توانائی اور طاقت کی علامت ہے۔ یہ ایک انتہائی چست جانور ہے۔ جب یہ خواب میں نظر آتا ہے تو شیر جسمانی توانائی اور تیز رفتاری کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ آپ کو یاد دلاتت ہیں کہ آپ اپنی جسمانی طاقت کو تیار کریں اور کامیاب ہونے کے لیے اپنی توانائی کی سطح کو بہتر بنائیں۔ اگر آپ خواب میں شیر کو دیکھتے ہوئے مثبت جذبات محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ حساس ہیں، اور اپنے جذبات اور اعمال میں تیز ہیں۔ غیر متوقعیت تمام جنگلی جانوروں میں شیر سب سے زیادہ غیر متوقع ہیں۔ آپ کبھی بھی ان کے اگلے اقدام کی پیشین گوئی نہیں کریں گے جب تک کہ ایسا نہ ہو۔ جب آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے جاگتے ہی زندگی کے حالات غیر متوقع ہونا شروع ہو جائیں گے۔ آپ کو اچانک پیدا ہونے والی لامتناہی پریشانیوں کا سامنا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ ان پر کوئی قابو نہیں رکھتے۔ یہ حقیقی زندگی کے حالات غصے ، مایوسی اور غم جیسے جذبات کو متحرک کرتے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ یہ غیر متوقع طور پر جلد بازی میں فیصلہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا احتیاط سے اپنے اگلے اقدام کی منصوبہ بندی کریں ورنہ آپ کی کوششیں ناکام بھی ہو سکتی ہیں۔ جارحیت اور پریشانی خواب میں شیر منفی معنی بھی رکھ سکتا ہے۔ یہ آپ کی حقیقی زندگی میں خطرے کی علامت ہے۔ چونکہ یہ جانور سخت اور جارحانہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ خوابوں میں آپ کی پرتشدد اور جارحانہ ذہنی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی اور چیز پر ناراض ہو اور آپ اس پر قابو نہ پا سکیں۔ خوابوں میں شیر آپ کو اپنے جارحانہ اور مشتعل جذبات پر قابو پانے اور اپنے منفی خیالات پر قابو پانے کے لیے کہتے ہیں۔ آپ اپنے جذبات سے مغلوب ہیں اور آپ کو خطرہ ہے۔ اور اگر آپ کو بے قابو رکھا جائے تو یہ آپ کے کیریئر، ذاتی تعلقات اور زندگی کے مقاصد کو تباہ کر سکتا ہے۔ خود پر قابو پانا شیروں کو بلی کے خاندان کی سب سے قابل مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ یہ اپنے طور پر کام کر سکتا ہے کیونکہ وہ خود مختار ہیں۔ شیر تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور محنت اور عزم سے ہی چیزوں کو ممکن بناتے ہیں۔ جب خواب میں شیر نظر آتے ہیں تو یہ خود پر قابو پانے کی علامت ہے۔ یہ آپ کو یاد دلاتا ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں۔ اور اپنے مقاصد کو خود ہی پورا کریں۔ آپ کو توجہ مرکوز اور کنٹرول میں رہنے کی بھی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ خود پر قابو پانے کا مطلب ہے اپنے ‘جنگلی’ جذبات کو کنٹرول کرنا جو آپ کے نقطہ نظر اور خیالات کو اونچا کر سکتے ہیں۔ خوابوں میں شیر خود پر قابو پانے اور آزادی کی علامت ہیں۔ قوت ارادی شیر مشکل کاموں کو آسانی کے ساتھ نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح، جب یہ روحانی جانور خواب میں نظر آتے ہیں۔ تو یہ آپ کو اپنے کاموں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم اور ثابت قدم رہنے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ کسی بھی صورتحال کو اپنے راستے پر موڑنے، اضافی پیدل چلنے اور ان کاموں کے لیے انصاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ مستقل مزاجی اور محنت آپ کی طاقت ہیں اور خوابوں میں شیر کی ظاہری شکل آپ کو بتاتی ہے کہ توجہ مرکوز رکھیں اور ہدف تک پہنچنے تک ہمت نہ ہاریں۔ عزت اور شہرت اگر آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں تو یہ اختیار، طاقت اور غرور کی علامت ہے۔ آپ ایک قابل ہستی ہیں اور آس پاس کے لوگ آپ کو عزت اور فخر سے دیکھتے ہیں۔ آپ جس صورتحال میں ہیں اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ایک لیڈر کرتا ہے۔ شیر قیادت اور ہر کام کو صحیح طریقے سے کرنے کی آپ کی صلاحیت کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ شیر کے بارے میں خواب آپ کی عزت نفس اور اعتماد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ آپ کو برتر محسوس کرواتا ہے اور اپنے اعمال پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس منفی شیر خواب کی علامت کا مطلب حسد، جارحیت، تکبر اور باطل ہو سکتا ہے۔ شیر پیدائشی حکمران کی علامت ہیں، جیسے کہ کالا شیر سردیوں کے موسم کی نمائندگی کرتا ہے اور پانی کے عناصر پر حکومت کرتا ہے۔ نیلے رنگ کا شیر زمینی عناصر کی علامت ہے اور موسم بہار کے آغاز کو ظاہر کرتا ہے۔ خواب میں شیر – منظرنامے اور تعبیریں شیروں کے حملہ کرنے کے خواب اگر آپ شیروں کے حملے کا خواب دیکھتے ہیں۔ تو یہ آپ کی جاگتی زندگی میں دشمنوں، رکاوٹوں، مسائل کی علامت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیدار زندگی میں کچھ اہم لوگ آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ وہ آپ کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور آپ کو پیچھے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ خواب آپ کی عزت نفس کو نقصان پہنچانے کی علامت ہے۔ کوئی آپ کے خلاف کوئی بدنیتی پر مبنی حرکت کر سکتا ہے۔ یہ خواب آپ کو چوکس اور ہوشیار رہنے کی یاد دلاتا ہے۔ اور اپنے اردگرد چلنے والی باریک چیزوں پر دھیان دینے کا بتاتا ہے۔ دوستانہ شیر خواب کی تعبیر دوستانہ شیر کا خواب غصے، غرور، طاقت اور دلیری کی علامت ہے۔ جب آپ خواب میں ایک دوستانہ شیر دیکھتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنے جذبات کو قبول کر لیا ہے جیسا کہ وہ ہیں۔ آپ اپنے آپ کے دوست بن گئے ہیں اور آپ اپنی جارحانہ فطرت کو دبا سکتے ہیں۔ اپنے موروثی وجود کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کو ایک طبقے سے الگ کرتا ہے۔ آپ کو اپنے آپ میں آرام دہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوستانہ شیر کے بارے میں خواب خود سے محبت، اعتماد، قدر اور فخر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خواب میں شیر دیکھنا جب آپ خواب میں شیر دیکھتے ہیں تو یہ متحرک توانائی اور طاقت کی علامت ہے۔ یہ توانائی مثبت ہو سکتی ہے جو آپ کی بیدار زندگی کے کچھ اہم پہلوؤں کی ترقی، تبدیلی، کامیابی کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے برعکس، خوابوں میں شیر کا مطلب بھی تکبر، غرور، خام توانائی ہے جو تباہ کن ہے اور تخلیقی مقصد کو پورا نہیں کرتی ہے۔ خواب میں شیر سے بچنا اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کسی مہلک درندے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی جاگتی زندگی میں منفی جذبات سے بھاگ رہے ہیں۔ کسی ایسی چیز سے بچنے کی لاشعوری ضرورت ہے جس سے جذباتی درد اور تکلیف ہو۔ آپ حقیقی زندگی میں غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ آپ کی ذہنی تندرستی کے لیے خطرہ ہے۔ جو آپ کا اندرونی سکون چھین رہے ہیں۔ حمل کے دوران خواب میں شیر جب آپ حاملہ ہوتے ہوئے شیر کے بارے میں خواب دیکھتی ہیں، تو یہ جانور اس بات کی علامت ہے کہ آپ روحانی بیداری کے راستے پر ہیں۔ آپ ایک منفرد وجود ہیں جو ہمیشہ طاقتور اور قابل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ایک شخص کے طور پر پختہ ہو چکی ہیں اور کسی اچھے فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اپنی جاگتی زندگی کے مسائل کا زیادہ عقلی طور پر تجزیہ کر سکتی ہیں۔ یہ تخلیقی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ جس میں آپ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح بچہ رحم میں پرورش پاتا ہے۔ آپ کو مشکلات میں پھلنے پھولنے کی تمام امیدیں ہیں۔ اگر کوئی عورت ایک بچے کو جنم دینے کا خواب دیکھتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی زندگی کا ایک شعبہ بڑھ رہا ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ شیر کے بچے کے خواب کی تعبیر شیر کے بچے کے بارے میں خواب ترقی، ہمت، طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں کی علامت ہے۔ آپ کو اپنی جاگتی زندگی میں ان خصوصیات کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح، آپ کو اپنی ذہنی طاقت پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے، ایسی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو آپ کی حقیقی زندگی میں کئی مواقع کے دروازے کھول سکیں۔ خواب میں شیر کا کسی پر حملہ کرنا جب آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ کسی پر شیر یا شیروں کا ایک ٹولہ حملہ کر رہا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا سب سے گہرا خوف لاشعوری ذہن میں پھیل رہا ہے۔ حقیقی زندگی میں، آپ کے حلقہ اثر میں کسی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ خواب آپ کی حقیقی زندگی کی بے یقینی، درد، تکلیف اور جذباتی مسائل کی علامت بھی ہے۔ آپ کا خوف خواب کی حالت میں ظاہر ہوتا ہے۔ شیر کا پیچھا کرنا تعاقب کیے جانے کے خواب خوف اور عدم تحفظ کی علامت ہیں۔ آپ اپنے ذاتی احساسات سے دور جانے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ کو بیدار زندگی میں پریشان کر رہے ہیں۔ تعاقب کرنے کا خواب دیکھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اپنی حقیقی زندگی میں کسی طاقتور ہستی سے ڈرتے ہیں جو آپ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ خواب میں شیر کا پیچھا کرنا بہت زیادہ تشویش کی علامت ہے۔ آپ جذباتی طور پر مغلوب ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔ خواب میں شیر کو سوتے ہوئے دیکھنا اگر آپ خواب میں شیر کو سوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی صلاحیتیں تاخیر کی حالت میں ہیں۔ اسے بیرونی دنیا پر ظاہر ہونے کا موقع نہیں مل رہا۔ کچھ خیالات آپ کی حقیقی زندگی میں رکاوٹ اور تخلیق کے عمل میں ہیں اور یہ صرف خوابوں میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اس قسم کا خواب ایک اچھی علامت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا تخلیقی عمل آپ کو ان مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ جو آپ نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں۔ آپ آسانی سے رکاوٹوں کو دور کرنے اور اس سے نمٹنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اگر آپ اچانک ایک شیر کو نیند سے جاگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں نئی پریشانیاں، تنازعات آپ کے راستے میں آ رہے ہیں۔ شکار پر جاتے ہوئے شیر خواب کی تعبیر یہ خواب کی علامت آپ کے مقصد پر مبنی ذہنیت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ آپ زندگی کے شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ جب آپ شیروں کو شکار کے لیے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنی حقیقی زندگی میں نئے مواقع تلاش کریں۔ آپ ہمیشہ نئی چیزیں سیکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے مثالی حالات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آپ کی یہ ترقی پسند ذہنیت لاشعوری ذہن میں ظاہر ہورہی ہے۔ خواب میں شیر کا دھاڑنا خواب میں دھاڑتے ہوئے شیر کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی بیدار زندگی میں کام کرنے کے لیے کچھ ذمہ داریاں کا سامنا ہے۔ گرجتا ہوا شیر ان اقدامات کی علامت ہے جو آپ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کے اردگرد منفی توانائی بھی رکھتا ہے جس سے آپ کو بچنے کی ضرورت ہے۔ اپنے عمل کے بارے میں چوکنا رہنا ایک انتباہی خواب ہے۔ خواب میں شیروں کو مارنا خوابوں میں شیر کو مارنا ایک عام خواب ہے۔ یہ خواب کی علامت حقیقی زندگی میں جیت کا پیغام دیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان رکاوٹوں پر قابو پالیا ہے جو آپ کو روک رہی تھیں۔ جانور کو مارنے سے، آپ کو اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور جلال کی یاد دلائی جاتی ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی مسئلے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ خواب ان پریشانیوں اور تناؤ پر فتح کی نمائندگی کرتا ہے جو اس وقت آپ کی حقیقی زندگی میں چل رہی ہیں۔ خواب میں شیروں کا بھاگنا شیروں کے بھاگنے کا خواب دیکھنے کا مطلب ہے آپ کے گہرے خوف، پریشانیوں اور عدم تحفظ پر فتح۔ مزید یہ کہ یہ خواب اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ خاندان کے افراد کے سامنے اپنی قابلیت ثابت کرنے میں کامیاب ہیں۔ جب لوگ آپ کی صلاحیتوں پر شک کرنے لگے۔ شیر آپ سے بھاگتا ہوا دیکھنا خواب کی تعبیر جب آپ خواب میں شیر کو بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب کامیابی اور فتح ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد کی تکمیل کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں تھیں وہ اب موجود نہیں ہیں۔ زندگی کی رکاوٹیں آپ سے دور ہو چکی ہیں یا دور ہو رہی ہیں۔ آپ نے بیک وقت اپنی ناکامیوں اور دشمنوں کو شکست دی ہے۔ خواب میں شیر سے لڑنا جب آپ شیر سے لڑنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، تو اس کے اچھے اور برے دونوں معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک طرح سے، اگر آپ لڑائی جیت جاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے آپ کی بیدار زندگی میں کامیاب کوششیں۔ لیکن اگر آپ خواب دیکھتے ہیں کہ آپ لڑائی ہار چکے ہیں، تو یہ ناکامی اور بد قسمتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ خواب میں شیر کی پیٹھ پر سوار ہونا اگر آپ شیر کی پیٹھ پر سوار ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد ہی آپ کی بیدار زندگی میں کوئی اچھی خبر سامنے آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس زندگی کی صورتحال میں ہیں اس پر آپ کا کنٹرول ہے اور آپ آسانی سے مسائل کو حل کر سکتے ہیں ۔ یہ خواب کامیاب کوششوں، مقصد کی تکمیل اور اختیار کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ خواب میں اپنے آپ کو شیر کے روپ میں دیکھنا اس خواب کی علامت کا مطلب کام پر آپ کے اعلیٰ افسران کے ساتھ اختلاف، تنازعات ہے۔ خواب آپ کی جارحانہ شخصیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ آپ بڑی بلی کی طرح بہادر اور دلیر ہیں لیکن آپ سماجی رابطے میں کمزور ہیں۔ اس خواب کا مطلب ہے روزمرہ کی زندگی میں زیادہ توانائی اور جانداری۔ آپ اکثر لیڈر کے طور پر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ دوسرے آرام دہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ شیر کے شکار کا خواب دیکھنا شکار کرنے والے شیر کے بارے میں خواب دیکھنا آپ کے راستے میں آنے والے نئے موقع اور اچھی قسمت کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ نے حقیقی زندگی میں اپنے لیے کچھ منافع بخش پایا ہے۔ یہ ایک منافع بخش کیریئر، یا ایک افزودہ محبت کی زندگی کی نشاندہی کرتا ہے. اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ نے کامیابی سے شیر کا شکار کیا ہے تو اس کا مطلب کامیابی ہے۔ لیکن اگر آپ شکار سے محروم رہتے ہیں، تو یہ وقتی طور پر ناکامی یا کامیابی کے موخر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ خواب میں ایک مشتعل شیر ایک مشتعل شیر کی علامت آپ کے اندرونی تنازعات اور بیدار زندگی کی مایوسیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی کی طرف سے چوٹ لگی ہو یا آپ پر حملہ کیا گیا ہو اس لیے آپ پریشان ہوں۔ یہ منفی جذبات کے لیے ایک جگہ پیدا کر رہا ہے کہ وہ بڑھتی جائیں اور آپ کا اندرونی سکون اور خوشی چھین لیں۔ حقیقی زندگی میں ناراضگی خواب کی حالت میں پیش کی جاتی ہے۔ آپ کو اپنے قریبی رشتوں میں غیر ضروری مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو آپ کو ذہنی طور پر بے چین کر سکتا ہے۔ خواب میں ایک جارحانہ شیر اگر آپ خواب میں ایک جارحانہ شیر دیکھتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے آپ کے لیے بیدار ہو نے کا وقت ہے۔ یہ آپ کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں تنازعات سے بچنے کی یاد دلاتا ہے۔ آپ کو اپنے اعلیٰ افسران کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یا کسی قریبی شخص کے ساتھ تعلقات کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ خواب کی علامت بیدار زندگی میں مایوسی اور اختلاف کی نشاندہی کرتی ہے۔ خواب میں شیر کا آرام کرنا اگر آپ خواب میں شیر کو آرام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ نیک شگون کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کے راستے میں پرامن لمحات آرہے ہیں۔ یہ خواب سکون، استحکام کے پہلو کی نمائندگی کرتا ہے۔ کام اور گھریلو زندگی دونوں میں۔ آپ اپنی حقیقی زندگی میں چیزوں کا انتظام کرنے کے قابل ہیں۔ آپ کے گھر میں شیر کا داخل ہونا خواب کی تعبیر جب آپ شیر کو اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھتے ہیں تو یہ خوش قسمتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ کے پاس کیریئر کا ایک امید افزا راستہ ہوسکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں کچھ اچھا ہونے والا ہے۔ شیر ہمت اور طاقت کی علامت ہے۔ لہذا، جب یہ طاقتور بلی آپ کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔ تو یہ آپ کو بیدار زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے دلیر اور بہادر رہنے کی یاد دلاتا ہے۔ مردہ شیر کی تعبیر مردہ شیر خواب کی تعبیر بُرے شگون کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ اچانک خطرے کی نمائندگی کرتا ہے، کسی کی طرف سے نقصان جب آپ اس کی توقع نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی اور تناظر میں، ایک مردہ شیر کو دیکھنا اس بات کی بھی علامت ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کی رکاوٹوں کو کامیابی سے دور کر لیا ہے۔ اور آپ کو بے حد خوشی اور ذاتی اطمینان حاصل ہوگا۔ خواب دیکھنا کہ شیر اپنے شکار کو پکڑ رہا ہے جب آپ خواب دیکھتے ہیں کہ شیر اپنے شکار کو پکڑ رہا ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔ یہ آپ کی فطری ہمت اور زندگی میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس خواب کا مطلب تحفظ بھی ہے۔ کوئی ہے جو آپ کو زندگی کی تمام برائیوں سے بچانے کا خواہاں ہے۔ خواب میں شیر کو گلے لگانا خواب میں شیر کو گلے لگانے کا مطلب ہے آپ کے گہرے جذبات۔ آپ کی روزمرہ کی زندگی میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہ مثبت اور منفی دونوں جذبات کے آمیزے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس خواب کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اپنے آپ میں آرام دہ ہیں۔ آپ اپنی طاقت اور اختیار کے کنٹرول میں ہیں۔ اس خواب کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے کوئی بھی اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خواب میں شیر کو قید دیکھنا اگر آپ قیدی شیر کا خواب دیکھتے ہیں۔ تو یہ قید اور حقیقی زندگی میں پریشان کن حالات میں پھنس جانے کی علامت ہے۔ ایسے خواب دبے ہوئے غصے، بے بسی اور مشکلات سے لڑنے میں ناکامی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ آپ منفی جذبات میں پھنسے ہوئے محسوس کر رہے ہیں اور اس سے باہر آنے سے قاصر ہیں۔ یہ خواب اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ کی جاگتی زندگی میں کوئی آپ کو اور آپ کے فیصلوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ پھنس گئے ہیں۔ آپ کے آس پاس دشمن ہیں اور یہ خواب آپ کو یاد دلاتا ہے کہ آپ اپنی موجودہ زندگی کی حالت کے بارے میں ہوشیار اور چوکس رہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔ خواب میں پالتو شیر کی تعبیر اگر آپ نے پالتو شیر کا خواب دیکھا ہے تو یہ ایک مثبت پیغام دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آپ کو پیچھے ہٹایا جائے تو آپ اپنی زندگی کے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایک پالتو شیر آپ کی زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو سمبھالنے کی آپ کی صلاحیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کنٹرول اور بااختیار بنانے کی علامت ہے۔ شیر کے کاٹنے کا خواب دیکھنا شیر کا کاٹنا ایک برا شگون رکھتا ہے کیونکہ یہ آپ کی جاگتی زندگی میں آپ کے بہت قریب کے کسی فرد کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی علامت ہے۔ ہو سکتا ہے، کوئی ایسا ہو جو آپ کے خلاف سازش اور غیبت کر رہا ہو۔ شیر کا کاٹنا آپ کے راستے میں آنے والے پوشیدہ خطرات اور مایوسیوں کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ خواب میں شیر نے آپ کو مارا جب آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ شیر آپ کو مار رہا ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کی زندگی کے ایک اہم پہلو کا خاتمہ۔ اس کا مطلب تعلقات کا خاتمہ، نوکری کھونا، کیریئر کے اہداف کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جو بھی ہو، یہ خواب جذباتی درد اور تکلیف کی علامت ہے۔ آپ اس سے خوش نہیں ہیں کہ آپ کی جاگتی زندگی میں چیزیں کس طرح کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ کچھ بڑا نقصان ہے جو آپ کے راستے میں آنا انتہائی دل دہلا دینے والا ہو سکتا ہے۔ خواب میں ایک شیر کتے کو کھا رہا ہے خواب میں جب شیر کسی کتے کا پیچھا کرتا ہے اور اسے مارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی نامعلوم دشمن آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے یا پیٹھ پیچھے نقصان کر رہا ہے۔ آپ کے خاندان یا دوستوں کے حلقے میں کچھ قریبی اور عزیز ہیں جو آپ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ جھوٹے اور ڈھونگ باز ہیں جو آپ کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں اور بلا وجہ آپ کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ خواب میں شیر کا دھاڑنا یہ خواب بھی ایک منفی چیز کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ آپ کی جاگتی ہوئی زندگی میں کوئی ہے جو دھمکی آمیز دکھائی دیتا ہے لیکن آپ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وہ صرف بھونک سکتا ہے اور آپ کو ڈرا سکتے ہے لیکن زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ یہ لوگ دراصل کمزور ہیں اور صرف بھونکنے والے کتے کی طرح کام کر سکتے ہیں۔ یہ خواب دھوکہ دہی، فریب، جھوٹ کی علامت ہے۔ خواب میں سفید شیر جب آپ سفید شیر کا خواب دیکھتے ہیں، تو اس کا مطلب حکمت، تخلیقی خیالات اور خاص صلاحیتیں ہیں جو آپ اپنی حقیقی زندگی میں رکھتے ہیں۔ چونکہ سفید شیر ایک نایاب نسل ہے، اس لیے خوابوں میں اس کی موجودگی نایاب اور خاص خصوصیات کی علامت ہے جو آپ کو غیر معمولی بناتی ہے۔ یہ آپ کو ان تحائف کی نشوونما اور پرورش کی یاد دلاتا ہے اور آپ میں ترقی اور جدت کو فروغ دیتا ہے۔ زخمی شیر خواب کی تعبیر ایک زخمی شیر حقیقی زندگی میں خفیہ دشمنوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ آپ کی بیدار زندگی میں کوئی ہے جو آپ کی ترقی سے خوش نہیں ہے۔ یہ خواب منفی معنی رکھتا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو چوٹ لگے اور زخمی ہو؛ آپ کے خلاف ناراضگی اور غصے کو پناہ دینا۔ کوئی لوگ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، آپ کو چوٹ پہنچا سکتے ہیں، یا آپ کو مار سکتے ہیں۔ یہ خواب حسد اور نفرت کے منفی جذبات کی نشاندہی کرتا ہے۔ خواب میں شیر کا گوشت کھانا یہ خواب بیدار زندگی میں مثبت نتائج کی علامت ہے۔ گوشت کھانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ زندگی میں تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے پراعتماد ہیں اور ہمت رکھتے ہیں۔ یہ خواب بااختیار بنانے، طاقت، ترقی، خوشحالی اور تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ بہترین ممکنہ طریقے سے بہتری لانے کے راستے پر ہیں۔ خواب میں شیر کے بچے کے ساتھ کھیلنا جب آپ یہ خواب دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب برا شگون ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی جاگتی زندگی میں ایک مسئلہ کو نظر انداز کر رہے ہیں جس کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ مسئلہ چھوٹا ہے۔ لیکن یہ کسی بھی وقت بڑا ہو سکتا ہے اور آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ خواب آپ کو یاد دلاتا ہے کہ جلد عمل کریں اور اسے کلی طور پر حل کریں۔ خواب کی تعبیر میں شیر آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر آپ خواب میں اس خوفناک جانور کو آپ کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی حقیقی زندگی میں منفی صورتحال آپ کے لیے باعثِ رحمت بن گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ایک زہریلا رشتہ چھوڑنے کا موقع ملے جو آپ کو طویل عرصے سے پریشان کر رہا تھا۔ یہ خواب ترقی اور زندگی میں نئے مواقع کی طرف متوجہ ہونے کی علامت ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ اپنے ساتھ صلح کریں اور زندگی کو بالکل نئے انداز میں دیکھیں۔ آپ کے سونے کے کمرے میں شیر خواب کی تعبیر جب آپ خواب گاہ میں شیر کے بارے میں خواب دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے جذباتی ہنگامہ آرائی۔ آپ کے گہرے بیٹھے ہوئے منفی جذبات دماغی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آپ اندرونی سکون اور سکون حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ بیڈروم آرام اور سکون کی ذاتی جگہ کی علامت ہے۔ جب آپ اس جگہ پر شیر دیکھتے ہیں تو اس کا منفی مطلب ہوتا ہے۔ آپ کا ذہنی سکون خطرے میں ہے۔ زندگی کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں اور آپ اپنی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔ خواب دیکھنا کہ شیرنی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے خواب کی یہ علامت ظاہر کرتی ہے کہ آپ اپنے خاندان کے افراد کو ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ آپ ہمیشہ انہیں محفوظ اور صحت مند رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب شیر اپنے بچوں کی حفاظت کرتا ہے تو اس کا مقصد انہیں چیلنجوں پر قابو پانا سکھانا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ خواب آپ کو بتاتا ہے کہ اس بے رحم اور غیرت مند دنیا میں اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ خواب میں شیر کو گولی مارنا اگر آپ شیر کو گولی مارتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب کامیابی ہے۔ یہ ایک اچھی علامت ہے جو مقصد کی تکمیل اور آپ کی خفیہ خواہشات کی تکمیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ آپ نے جو کچھ بھی چاہا وہ آپ نے حاصل کیا ہے۔ یہ خواب زندگی میں مشکل حالات کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی بدیہی صلاحیتوں پر اعتماد اور بھروسے کی علامت ہے۔ خواب میں شیر کی ثقافتی تشریحات ایک طاقتور جانور ہونے کے ناطے، خواب میں شیر آزادی، دلیری اور مضبوط قوت ارادی کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ، یہ زندگی میں مشکلات سے لڑنے کے لئے طاقت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ دنیا کی مختلف ثقافتیں شیروں کو مختلف طریقوں سے دیکھتی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں: اسلام میں شیر کے خواب کی تعبیر خواب میں شیر کے ساتھ لڑائی کا مطلب ایک گستاخ سے لڑنا ہے۔ خواب میں شیر کا کاٹنا ایسے شخص کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو ظاہر کرتا ہے۔ خواب میں شیر بھی مرد یا عورت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ فریب، بیماری، یا آنکھوں کی جلن کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ خواب میں شیرنی کا دودھ دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ خواب میں شیر دیکھنے کا مطلب گناہ سے توبہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک شیر ایک ظالم شخص، ایک ظالم حکمران، یا ایک کھلے دشمن کی نمائندگی کرتا ہے۔ خواب میں شیر کو مارنے کا مطلب ہے ایسے دشمن کو شکست دینا۔ خواب میں شیر کا گوشت کھانے کا مطلب پیسہ، منافع اور عزت ہے۔ خواب میں شیر پر سوار ہونے کا مطلب طاقت اور خودمختاری ہے۔ خواب میں کسی کے گھر کے اندر شیر ایک گستاخ شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی کے خاندان پر حملہ کرتا ہے۔ خواب میں شیر یا تیندوے کو دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی گستاخ یا فنکار سے پیسے وصول کرنا۔ خواب میں شیر کو شیر اور شیرنی کو شیرنی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، اس کے علاوہ، ایک شیر ایک غیر اخلاقی اور نفرت انگیز شخص کی علامت ہے جو اپنے دماغ کی بات نہیں کرتا، ایک چھپا ہوا اور غدار فرد، اور ایک دشمن جو اپنی دشمنی یا اپنے اثر و رسوخ کو نہیں چھپاتا ہے۔ چینی اور جاپانی ثقافت میں شیر مثبت توانائی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ اس طاقت کی علامت ہے جو آپ میں ہے۔ خواب کی علامت میں، یہ روحانی جانور آپ کو ایک اعلیٰ حکمران بننے اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے کہتے ہیں۔ بدھ مت کے عقیدے میں خواب میں شیر کا مطلب اعتماد اور قیادت ہے۔ ہندوستان میں شیر ایک قومی جانور ہے۔ خوابوں میں، یہ طاقت کی علامت ہے کیونکہ جانور کو اختیار اور دیانتداری کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں شیر کو جنگلوں کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ فخر اور عزت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ عیسائیت میں شیروں کے بارے میں خواب سختی، جارحیت اور ظلم کی علامت ہیں۔ یہ بہادری، صالح زندگی اور اندرونی طاقت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ امریکی ثقافت اس ثقافت میں، شیروں کا خواب دیکھنا قیادت، طاقت، جسمانی فضل اور وقار کی علامت ہے۔ یہ جاگنے والی زندگی میں پریشانیوں کو محسوس کرنے اور اس سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے ثابت قدمی اور مضبوط وجدان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ہم غورکرتے ہیں تویہ ناقابل انکار اورروزروشن کی طرح عیاں حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی کے دوپہلو ہیں ؛ ایک پہلو توپیدائشی اور فطری ہے جوہر انسان میں یکساں پایاجاتاہے اورازخوداس پہلو کواپنانے کاداعیہ پیداہوتاہے ،کسی تحریک وترغیب اوردعوت وتشویق کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں پیش آتی ،انسان اس کوازخود اپناتااوراس کے تقاضے کوپوراکرتاہے،بالکل اسی طرح جس طرح پانی ڈھال کی طرف بہتاہے یاپوداوپر کی طرف بڑھتاہے ،یہ پہلوہے انسان کی طبعی ضرورت وبشری تقاضوں کاجیسے کھانے پینے اورزندگی گزرانے کے دوسرے اسباب ووسائل کے حصول کافکرمندہونا اوراس کے لیے بلاکسی دعوت وترغیب کے کوشش کرنا،زندگی کایہ پہلو مومن وکافرسب کے لئے یکساں ہے،اس میں کفروا یمان کا کوئی فرق وامتیاز نہیں ،سارے طبعی تقاضے مومن وکافرسب میں یکساں پائے جاتے ہیں ،یہ وہ پہلو ہے کہ اس کے لیے کوئی ادارہ قائم کرنے ،لوگوں کو کمانے اورحصول رزق کے لیے دیگر اسباب معاش کواپنانے کے لیے کوئی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ،اس کااحساس وجذبہ انسان میں پیدائشی پایا جاتاہے،ہرانسان ازخود اس پرعمل کرتاہے،اوراس کی طرف اس کاذہن چلتاہے اورسب سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتاہے۔ دوسراپہلو ایمان کاپہلوہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اوررسولوں کوبھیجتااورانسانوں کی رہنمائی کاکام لیتاہے جس میں کسی شک اورغلطی کا امکان نہیں ہوتاخواہ انسانی عقل اس کوقبول کرے یانہ کرے یہ خاص ہے ان بندوں کے ساتھ جوان تعلیمات پریقین رکھتے ہیں اس پہلو کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق سے احکام لے اوراس پر عمل کرے ، انسان حلال وحرام میں تمیز کرے،معاش کے لیے حصول کاطریقہ کیاہو؟کن طریقوں سے جائزودرست ہے ؟اورکن طریقوں کواپنانے سے خالق کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ؟انسان کی زندگی کامقصداصلی کیاہے؟ایک انسان کا دوسرے انسان پرکیاحق ہے ؟وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیابرتاؤکرے،لین دین ،کاروبارگھراوربازارمیں کس طرح رہے ،باپ ہے تو اولاد کی تعلیم وتربیت کی اس پرکیاذمہ داریاں ہیں ؟اولادہے توماں باپ کے اس پرکیاحقوق ہیں ؟ شوہرہے توبیوی کیساتھ کیاسلوک کرے ،بیوی ہے تو شوہر کے حقوق کاکس طرح پاس ولحاظ کرے،حاکم ہے تومحکوم پرکیسی شفقت وعنایت کامعاملہ کرے ،محکوم ہے توآقاکے حکموں کی بجاآوری میں کیسا مستعدرہے ؟ غرض یہ کہ پورے نظام معاشرت میں اس کاکیاکردارہو،زندگی کے ہرہر عمل میں اپنے خالق ومالک کی رضاجوئی وخوشنودی کا کیسا خیال رکھے،انسانی حقوق کامعاملہ ہوتوجواپنے لیے پسندکرے وہی دوسروں کے لیے بھی ’’لایومن أحدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ‘‘دوسروں کے دکھ درد میں کام آئے ،محتاجوں اورضرورت مندوں کی خبرگیری کرے،یہ وہ انسانی قدریں ہیں جن کی دعوت وتبلیغ کی ضرورت ہوتی ہے ،اوراسی میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کاراز پوشیدہ ہے اس کی ذات سے اورقول وعمل سے کسی کوتکلیف نہ پہونچے’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ‘‘انبیاء کرام اس دوسرے ہی پہلو کاشعوربیدارکرنے اورجگ ریت میں بدمست وکھوئے ہوئے انسانوں کو ہوشیار کرنے کے لیے آتے ہیں ،کہ جب جب انسان زندگی کے پہلے رخ پرلگ کرایمان کے پہلو سے غافل ہواہے،دنیا میں بڑافسادوبگاڑپیدا ہوا ہے اوراس کی پاداش میں بڑی بڑی قومیں اورصاحب سطوت وجبروت باشاہتیں حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹادی گئی ہیں،قرآن کریم نے ایسے بہت سے واقعات بیان کئے ہیں کہ سجاسجایاملک چھوڑ کروہ آن کی آن میں غائب ہوگئے کسی وصیت وہدایت کابھی موقع نہ ملا،فرعون ونمر ود کا واقعہ سب جانتے ہیں ،قوم عادوثمودجیسی زبردست قوموں کی بربادی کاحال کسے نہیں معلوم کہ منٹومیں کھجورکے تنوں کی طرح ڈھیرتھے:’’کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُنَخْلٍ خَاوِیَۃٍ‘‘دوسرے پہلوکی طرف توجہ دینا اورانسانوں میں اس کاشعورپیداکرنااب یہ امت مسلمہ کے ذمہ ہے کہ سلسلۂ نبوت ختم ہونے کے بعد یہی امت دعوت ہے ،اگر یہ امت اپنے دعوتی کام کوچھوڑکردوسری قوموں کے ساتھ مادیت کی ریس میں شامل ہوجاتی ہے تونہ صرف اس کا اپنا وجودوتشخص ختم ہوجائے گابلکہ دنیا نہایت ہیبت ناک حالات سے دوچار ہوگی ، فکر و تشویش کی بات یہ نہیں کہ دنیا میں مادیت کاغلبہ بڑھ گیاہے اور اس کے نتیجہ میں اخلاقی انارکی اورافراتفری کاعالم بپاہے،بلکہ فکروتشویش کی بات یہ ہے کہ جوامت اس عالم کی محاسب ونگراں تھی اس کی بھی ایک بڑی تعداداپناکام چھوڑ کرمادیت کے سیلاب میں بہی چلی جارہی ہے ،غزوئہ بدرکے موقع پرانتہائی اضطراب کے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ’’اللّٰھم إن تھلک ھذہ العصا بۃ لن تُعبد‘‘(اے خداگرتونے اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردیاتوکبھی تیری عبادت نہ ہوگی)اس بات کا صاف اعلان ہیں کہ اس امت کا وجود قافلۂ انسانیت کی رہبری ورہنمائی کے لیے ہوا۔شورہے کہ مسلمان سار ے عالم میں مظلوم ومقہورہیں ، مسلمان قوم اس ظلم وقہر سے نہ مٹی ہے نہ مٹ سکتی ہے ، اس کی بقاء وفنا کاانحصا ر اس کے اپنے کیریکٹر اورتشخص وامتیاز پرہے ،اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس قوم کاسواداعظم اپنی اصل ذمہ داری یعنی زندگی کے ایمانی پہلو کے تقاضوں کوچھوڑ کردوسری قوموں کے ساتھ زندگی کے پہلے رخ پرچل پڑاہے ، خصوصاًاس کے لیڈراورسربراہ بری طرح اس کے پیچھے دوڑرہے ہیں اورہوش وخرداس حدتک کھوچکے ہیں کہ کچھ سننے سنانے کے لیے تیار نہیں ،وہ ہرسوداکرنے کے لیے تیارہیں ان کو عہدہ اورمنصب ملناچاہیے،اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دین مذہب توبڑی چیزہے ایک عام انسانی کرداراور رکھ رکھاؤجس کاخیال تمام سنجیدہ و باوقارلوگ خاندانی وبرادری ہی کے طورپرسہی رکھتے تھے اب صورت حال اتنی بگڑگئی ہے کہ جس طرح نیلام کی منڈی میں بولی بولی جاتی ہے ۔ اب تھوڑے سے فائدے یاعہدے اورمنصب کے لیے پارٹیاں بدلی جارہی ہیںخود اپنے مقررکیے ہوئے اصولوں اورپارٹی کے دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیںزندگی بھرکے کردارپر،زندگی بھرکی تاریخ پرپانی پھیراجارہاہے ،ایک کیمپ سے نکل کردوسرے کیمپ کی طرف چھلانگ لگائی جارہی ہے ، جن سے ساری عمردوستی رہی ان سے دوستی ختم کرکے دشمنی کی جارہی ہے ۔جن سے ساری عمردشمنی رہی جن کوساری عمربراکہتے رہے ان کو اچھا کہا جارہا ہے جن کوپاؤں تلے روندنے اورمسلنے کے لیے تیار تھے،ان کوگلے لگایاجارہاہے، اقتدارکی ہوس جس کے لیے فرعون قرآن میں معیاری انسان کے طورپرپیش کیاگیاہے ، دولت کی ہوس جس کے لیے قارون کو معیاری انسان کے طورپرپیش کیاگیا ہے ، امارت کاشوق جس کے لیے ہامان معیاری انسان کے طورپرپیش کیاگیاہے،یہ وہ تین جیتی جاگتی تصویریں ہیں ،فرعون، ہامان اورقارون ،جس کاسلسلہ ختم نہیں ہواہے ،موجودہ ماحول میں کتنے لوگ ہیں جن کے اندرفرعون بیٹھا ہوا ہے فرق یہ ہے کہ فرعون کوطاقت حاصل ہوگئی تھی ان کونہیں حاصل ،جس کوذیل کے شعرمیں اس طرح اداکیاگیا ؎ نفس ما را کمتر از فرعون نیست لیکن او را عون ما را عون نیست یہ وہ حقائق ہیں جن کاانکارنہیں کیاجاسکتا،اس بگڑی ہوئی صورت کواگرکوئی چیزدرست کرسکتی ہے تویہ انبیاء کرام کی وہ تعلیمات ہیں جن کوخالق نے زندگی کے دوسرے پہلوکودرست کرنے کے لیے اتاراہے، اب وہ طبقہ جس کوایمان کاکچھ بھی حصہ حاصل ہے وہ سوچے اورغورکرے کہ کس طرف جا رہا ہے؟ فرعون ،ہامان ،اورقارون کی طرف یاانبیاء کرام کی تعلیمات کی طرف ۔
واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے ریلی میں خطاب کے دوران بارک اوباما کو تنقید نشانہ بناتے ہوئے کہا وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ کی فتح ملکی معیشت کےلئے تباہ کن ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ریاست انڈیانا پولس میں وسط مدتی الیکشن کے سلسلے نکالی گئی انتخابی ریلی کے دوران جارحانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے سابق صدر باراک اوبامہ اور ڈیموکریٹ جماعت پر برس پڑے۔ مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باراک اوبامہ کے دور صدارت میں امریکا میں مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا، ہم وہ دن کبھی نہیں چاہیں گے جب ملازمین کی تنخوہوں قلیل ہوا کرتی تھیں۔ امریکی صدر نے انتخابی ریلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام کو وہ دن نہیں چاہیے جب بے روزگاری عروج پر تھی، سرحدوں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور جرائم کی شرح میں بے پناہ ہورہا تھا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیموکریٹ جماعت نے کوئی مثبت پالیسی رائج نہیں کی تھی، آئندہ ہفتے امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میرے لیے کسی ریفرنڈم سے کم نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس انتخابات میں امریکی عوام نے فیصلہ دینا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں یا ایسی جماعت کی حمایت کریں گی جو امریکی معیشت کےلیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ انڈیانا پولس میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ وسط مدتی انتخابات ثابت کردے گا کہ امریکی عوام ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے نعرے کے ساتھ ہیں۔
امریکہ میں کرونا وائرس کے مزید کیسز سامنے آنے کے بعد سختی سے احتیاطی تدابیر اپنائی جارہی ہیں۔ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیے جانے والے سخت اقدامات کے باعث کئی امریکی شہر ویران دکھائی دے رہے ہیں اور لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ 1 نیو یارک کے علاقے مین ہیٹن میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد لوگوں نے گھروں سے بلا ضرورت نکلنا بند کردیا ہے۔ صرف اشیائے خور و نوش کی خریداری کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں۔ خریدار سامان ذخیرہ کرنے کرنے پر بھی زور دے رہے ہیں جس کے باعث اسٹورز پر سامان کم ہے۔ 2 کرونا وائرس کے خوف سے لوگوں نے سیلون جانا بھی بند کیا ہوا ہے۔ 3 نیو یارک میں کرونا وائرس کے کیسز کی تصدیق کے بعد متعدد افراد احتیاطی تدابیر کے طور پر کسی بھی سطح کو ٹشو پیپر کے بغیر چھونے سے گریز کر رہے ہیں۔ 4 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹلانٹا میں بیماریوں کی روک تھام کے ادارے 'سی ڈی سی' کا بھی دورہ کیا ہے۔ ان کے ہمراہ جارجیا کے گورنر برائن کیمپ سمیت کئی اہم عہدے دار بھی موجود تھے۔
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے ڈرگ واچ ڈاگ نے جمعے کے روز انسداد کرونا کی گولی ’میرکس‘ کی ہنگامی صورت میں استعمال کی اجازت دے دی۔ یورپی یونین کے ماہرین نے امریکی کمپنی کی جانب سے تیار کی جانے والی اس گولی کے استعمال کی اجازت اُس وقت دی جب یورپ میں ایک بار پھر کرونا کیسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یورپین میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کا کہنا ہے کہ اس گولی کی منظوری نہیں بلکہ استعمال کی تجویز دی گئی تھی، جس کے بعد یورپی یونین میں شامل 27 ممالک اسے صورت حال دیکھ کر استعمال کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ مزید پڑھیں: کرونا سے بچاؤ کی گولی، قیمتوں سے متعلق اعلان ای ایم اے نے اس حوالے سے گائیڈ لائنز جاری کیں، جس کے مطابق حاملہ اور مانع حمل کی گولیاں کھانے والی خواتین کے لیے اس کا استعمال ممنوع اور خطرناک ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی دوا ساز کمپنی نے کرونا سے بچاؤ کے لیے دو گولیاں تیار کی ہیں، جسے ماہرین نے کرونا کے خلاف مؤثر قرار دیا اور بتایاکہ ان کے استعمال سے اموات کی شرح میں کمی آئی جبکہ تشویشناک حالت میں مبتلا مریض بھی شفا یاب ہوئے۔ یہ بھی پڑھیں: کورونا علاج کیلیے نئی دوا منظور یہ گولی عام دوا کی طرح منہ سے کھائی جا تی ہے، جو مدافعتی نظام کو متحرک کرتی ہے جس کے بعد کرونا کے اثرات کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ برطانیہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اس گولی کو منظور کی اجازت دی اور اب وہاں باقاعدہ اسے استعمال کیا جارہا ہے۔
لاہور (ویب ڈیسک )کراچی میں فائنل مگر کراچی فائنل میں نہیں، قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہونے والے دوسرے پلے آف میچ میں پشاور زلمی نے کراچی کنگز کو 13 رنز سے ہرا دیا۔ آج پشاور زلمی نے جب بیٹنگ شروع کی تو بارش کی وجہ سے میچ 16 اووروں تک محدود کر دیا گیا۔ کامران اکمل نے پی ایس ایل کی تیز ترین نصف سنچری سکور کی انہوں نے 17 گیندوں پر 50 رنز بنائے۔ کامران اکمل نے 77رنز بنائے اور اپنی ٹیم کو 16 اووروں میں 170 رنز کا بہترین سکور مہیا کیا۔ 171 کے تعاقب میں کراچی کنگز نے بہت عمدہ بیٹنگ کی مگر وہ اپنی ٹیم کا سکور 157 سے آگے نہ بڑھا سکے ۔ بابر اعظم نے 63 ڈینلی نے 79 رنز بنائے لیکن بدقسمتی سے وہ ٹیم کو فتح نہ دلوا سکے۔ پشاور زلمی اب اتوار کو کراچی میں ہونے والے فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ سے ٹکرائیں گے۔ متعلقہ خبریں نسیم شاہ پانچ وکٹیں لینے والے دوسرے کم ترین بائولر بن گئے اسلام آباد(ویب ڈیسک)قومی ٹیم کے نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ ٹیسٹ کرکٹ کی ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے دوسرے کم عمر ترین فاسٹ بولر بن گئے۔ نسیم شاہ نے سری لنکا کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 12 اعشاریہ 5 اوورز میں 31 رنز دیکر 5…پڑھنا جاری رکھیں فائنل میں اوورتھرو پر انگلینڈ کو 6 رنز دینا غلطی تھی، ایمپائر دھرماسینا نے اعتراف کر لیا ویب ڈیسک ۔ کرکٹ ورلڈکپ 2019 کے فائنل میں ایمپائرنگ کے فرائض دینے سری لنکن ایمپائر کمار دھرماسینا نے ورلڈکپ فائنل کے آخری اوور میں ایک متنازع فیصلہ کرتے ہوئے انگلینڈ کو اوورتھرو پر 6رنز دے دیئے تھے جس کے بعد انگلینڈ نے میچ برابر کرتے ہوئے سپر اوور میں میچ جیت لیا…پڑھنا جاری رکھیں کیا انگلینڈ کو ورلڈکپ زبردستی جتوایا گیا؟ اوور تھرو کے معاملے پر مایہ ناز ایمپائر سائمن ٹوفل نے اہم نقطہ اٹھا دیا ویب ڈیسک - گزشتہ روز انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد سپر اوور میں شکست دے کر پہلی مرتبہ ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ انگلینڈ میں کی جیت میں ایک اوور تھرو کے چوکے نے اہم کردار ادا کیا جسے اب ایمپائرنگ کے ایک متنازع فیصلے…پڑھنا جاری رکھیں
پردہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہے یا نہیں؟ اس سوال کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ پردہ ہے کیا چیز؟ کیوں کہ اس کے بغیر ہم اس کی غرض، اس کے فائدے اور اس کے نقصانات کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے بعد ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ ترقی کیا ہے، جسے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیوں کہ اسے طے کیے بغیر ہم یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ پردہ اس میں حائل ہے یا نہیں؟ ’پردہ‘ عربی زبان کے لفظ '’حجاب‘ کا لفظی ترجمہ ہے۔ جس چیز کو عربی میں ’حجاب‘ کہتے ہیں، اسی کو فارسی اور اردو میں ’پردہ‘ کہتے ہیں ۔ ’حجاب‘ کا لفظ قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے، جس میں الله تعالی نے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بے تکلف آنے جانے سے منع فرمایا تھا، اور حکم دیا تھا کہ اگر گھر کی خواتین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب (پردے) کی اوٹ سے مانگا کرو۔ اسی حکم سے پردے کے احکام کی ابتدا ہوئی۔ پھر جتنے احکام اس سلسلے میں آئے، ان سب کے مجموعے کو ’احکامِ حجاب‘ (پردے کے احکام) کہا جانے لگا۔ پردے کے احکام قرآن مجید کی چوبیسویں اورتینتیسویں سورت میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ _ ان میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنےگھروں میں وقار کے ساتھ رہیں۔ اپنے حسن اور اپنی آرائش کی نمائش نہ کرتی پھریں جس طرح زمانۂ جاہلیت کی عورتیں کرتی تھیں ۔ گھروں سے باہرنکلنا ہو تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال کر نکلیں اور بجنے والے زیور پہن کر نہ نکلیں۔ گھروں کے اندر بھی محرم مردوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان امتیاز کریں ۔ محرم مردوں اور گھر کے خادموں اور میل جول کی عورتوں کے سوا کسی کے سامنے زینت کے ساتھ نہ آئیں (زینت کے معنیٰ وہی ہیں، جو ہماری زبان میں آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگار کے ہیں۔ اسی میں خوش نما لباس، زیور اور میک اَپ تینوں چیزیں شامل ہیں)۔ پھر محرم مردوں کے سامنے بھی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال کر رکھیں اور اپنا ستر چھپائیں۔ گھر کے مردوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ماں بہنوں کے پاس بھی آئیں تو اجازت لے کر آئیں ، تاکہ اچانک ان کی نگاہ ایسی حالت میں نہ پڑے، جب کہ وہ جسم کا کوئی حصہ کھولے ہوئے ہوں۔ یہ احکام ہیں جو قرآن حکیم میں دیے گئے ہیں اور انھی کا نام ’حجاب‘ (پردہ) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرماتے ہوئے بتایا کہ عورت کاستر چہرے ، کلائی کے جوڑ تک ہاتھ اور ٹخنے تک پاؤں کے سوا اس کا پورا جسم ہے ، جسے باپ اور بھائی تک سے چھپا کر رکھنا چاہیے، اور ایسے بار یک اور چست کپڑے نہ پہننے چاہییں، جن کے اندر سے جسم نمایاں ہو۔ نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم مردوں کے سوا کسی اور مرد کے ساتھ تنہا رہنے سے عورتوں کو منع فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ گھر سے باہر خوش بُو لگا کر نکلیں ۔ مسجد کے اندر نماز باجماعت میں آپؐ نے عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ جگہ مقرر فرما دی تھی، اور اس بات کی اجازت نہ تھی کہ عورت مرد سب مل کر ایک صف میں نماز پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہوکر آپؐ اور سب مرد اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے ،جب تک عورتیں نہ چلی جاتیں۔ یہ احکام ، جس کا جی چاہے، قرآن مجید کی سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں اور حدیث کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتا ہے۔ آج جس چیز کو ہم ’پردہ‘ کہتے ہیں، اس میں چاہے عملی طور پر افراط وتفریط ہوگئی ہو ، لیکن اصول اور قاعدے سب وہی ہیں، جو الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پاک کی مسلم سوسائٹی میں جاری کیے تھے ۔ اگرچہ میں خدا اور رسولؐ کا نام لے کر کسی کا منہ بند کرنا نہیں چاہتی ، مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتی کہ آج ہمارے اندر یہ آواز اٹھنا کہ ’’پردہ ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے‘‘ ہماری دو رُخی ذہنیت کی کھلی علامت ہے ۔ یہ آواز خدا اور رسولؐ اللہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے، اور اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ ’خدا اور رسولؐ نے ہماری ترقی کے راستے میں روڑے اَٹکا دیے ہیں‘۔ اگر واقعی ہم ایسا سمجھتے ہیں تو آخر ہم کیوں خواہ مخواہ مسلمان بنے ہوئے ہیں؟ اور کیوں اس خدا اور رسول ؐ کو ماننے سے انکار نہیں کر دیتے، جنھوں نے ہم پر ایسا ظلم کیا ہے؟ اس سوال سے یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ خدا اور رسولؐ نے پردہ کا حکم ہی نہیں دیا ہے۔ میں ابھی عرض کر چکی ہوں کہ پردہ کس چیز کا نام ہے؟ اور اس کے تفصیلی احکام، جس کا جی چاہے، قرآن مجید اور احادیث کی مستند کتب میں نکال کر دیکھ سکتا ہے۔ _ حدیث کی صحت سے کسی کو انکار بھی ہو تو قرآن کے کھلے کھلے احکام کو آخر وہ کہاں چھپائے گا؟ حجاب کے مقاصد: ’حجاب‘ (پردے) کے احکام ، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں ، ان پر تھوڑا سا بھی غور کیجیے تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ان کے تین بڑے مقصد ہیں : اوّل یہ کہ عورتوں اور مردوں کے اخلاق کی حفاظت کی جائے، اور ان خرابیوں کا دروازہ بند کیا جائے، جو مخلوط سوسائٹی میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ عورتوں اور مردوں کا دائرہ عمل الگ کیا جائے، تاکہ فطرت نے جو فرائض عورت کے سپرد کیے ہیں انھیں وہ سکون کے ساتھ انجام دے سکے، اور جو خدمات مرد کے سپرد ہیں انھیں وہ اطمینان کے ساتھ بجالا سکے ۔ تیسرے یہ کہ گھر اور خاندان کے نظام کو مضبوط اور محفوظ کیا جائے ، جس کی اہمیت زندگی کے دوسرے نظاموں سے کم نہیں، بلکہ کچھ بڑھ کر ہی ہے ۔ پردے کے بغیر جن لوگوں نے گھر اور خاندان کے نظام کو محفوظ کیا ہے، انھوں نے عورت کو غلام بنا کر تمام حقوق سے محروم کرکے رکھ دیا ہے، اور جنھوںنے عورت کو اس کے حقوق دینے کے ساتھ پردے کی پابندیاں بھی نہیں رکھی ہیں، ان کے ہاں گھر اور خاندان کا نظام بکھر گیا ہے، اور روز بروز بکھرتا چلا جارہا ہے ۔ اسلام، عورت کو پورے حقوق بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ گھر کے اور خاندان کے نظام کو بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ پردے کے احکام اس کی حفاظت کے لیے موجود نہ ہوں۔ خواتین و حضرات! میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ٹھنڈے دل سے ان مقاصد پرغور کریں۔ اخلاق کا مسئلہ کسی کی نگاہ میں اہمیت نہ رکھتا ہو تو اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں، مگر جس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت ہو، اسے سوچنا چاہیے کہ مخلوط سوسائٹی میں ، جہاں بن سنور کر عورتیں آزادانہ پھریں اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام کریں ، وہاں اخلاق بگڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں اور کب تک بچے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں یہ صورت حال جتنی بڑھتی جارہی ہے ، جنسی جرائم بڑھتے جارہے ہیں اور ان کی خبریں آپ آئے دن اخبارات میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ کہنا کہ ’ان خرابیوں کا اصل سبب پردہ ہے ، جب پردہ نہ رہے گا تو لوگوں کا دل عورتوں سے بھر جائے گا ‘، بالکل غلط ہے۔ جہاں پوری بے پردگی تھی، وہاں لوگوں کے دل نہ بھرے اور ان کی خواہشات کے تقاضوں نے عریانی تک نوبت پہنچائی ۔ پھر عریانی سے دل نہ بھرے اور کھلی کھلی جنسی آوارگی تک نوبت پہنچائی اور اب اس کے کھلے لائسنس سے بھی دل نہیں بھر رہے ہیں، اور آج بھی کثرت سے جنسی جرائم ہورہے ہیں ، جن کی رپورٹیں امریکا و انگلستان اور دوسرے ممالک کے اخبارات میں آتی رہتی ہیں ۔ کیا یہ کوئی قابل اطمینان حالت ہے؟ یہ صرف اخلاق ہی کا تو سوال نہیں ہے ، ہماری پوری تہذیب کا سوال ہے۔ _ مخلوط سوسائٹی جتنی بڑھ رہی ہے، عورتوں کے لباس اور بناؤسنگار کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس کے لیے جائز آمدنیاں ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف رشوت، غبن اور دوسری حرام خوریاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ حرام خوریوں نے ہماری ریاست کے پورے نظام کو گھن لگا دیا ہے اور کوئی قانون ٹھیک طرح سے نافذ ہونے ہی نہیں پاتا ۔ پھر بھی یہ سوچنے کی بات ہے کہ جن کو اپنی خواہشات کے معاملے میں ڈسپلن کی عادت نہ ہو، وہ دوسرے کس معاملے میں ڈسپلن کے پابند ہو سکتے ہیں؟ جوشخص اپنے گھر کی زندگی میں وفادار نہ ہو، اس سے اپنی قوم اور ملک کے معاملے میں وفاداری کی توقع کہاں تک کی جاسکتی ہے؟ عورت اور مرد کا دائرۂ عمل الگ کرنا خود فطرت کا تقاضا ہے۔ فطرت نے ماں بننے کی خدمت عورت کے سپرد کرکے آپ ہی بتادیا ہے کہ اس کے کام کی اصل جگہ کہاں ہے؟ اور باپ بننے کا فرض مرد کے ذمے ڈال کر خود اشارہ کردیا ہے کہ اسے کن کاموں کے لیے مادریت کے بھاری بوجھ سے سبک دوش کیا گیا ہے۔ دونوں قسم کی خدمات کے لیے عورت اور مرد کو الگ الگ جسم دیے گئے ہیں ، الگ الگ قوتیں دی گئی ہیں، الگ الگ صفات دی گئی ہیں، الگ الگ نفسیات دیئے گئے ہیں۔ فطرت نے جسے ماں بننے کے لیے پیدا کیا ہے اسے صبر و تحمّل بخشا ہے، اس کے مزاج میں نرمی پیدا کی ہے، اسے وہ چیز دی ہے، جسے '’مامتا‘ کہتے ہیں ۔ وہ ایسی نہ ہوتی تو ہم اور آپ پَل کر بخیریت جوان نہ ہو سکتے تھے ۔ یہ کام جس کے ذمّے ڈالا گیا ہے، اس کے لیے وہ کام موزوں نہیں ہیں، جن کے لیے سختی اور سخت مزاجی کی ضرورت ہے۔ _ وہ کام اسی کے لیے موزوں ہیں، جسے ماں بننے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے اور جسے ان بھاری ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے جو ماں بننے کا لازمہ ہیں۔ آپ اس تقسیم کو مٹانا چاہتے ہیں تو پھر فیصلہ کر لیجیے کہ اب دنیا کو ماؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ تھوڑی ہی مدت نہ گزرے گی کہ انسان ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔ _ لیکن اگر یہ فیصلہ بھی آپ نہیں کرتے اور اس تقسیم کو بھی مٹانا چاہتے ہیں، تو یہ عورت کے ساتھ بڑی بے انصافی ہے کہ وہ اس پورے بوجھ کو بھی اٹھائے جو فطرت نے ماں بننے کے سلسلے میں اس پر ڈالا ہے، اور جس میں مرد ایک رتی برابر بھی اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لے سکتا ، اور پھر وہ مردوں کے ساتھ آکر سیاست اور تجارت، صنعت وحرفت اور لڑائی دنگے کے کاموں میں بھی برابر کا حصہ لے ۔ خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو، انسانیت کی خدمت میں آدھا حصہ تو وہ ہے جسے پورے کا پورا عورت سنبھالتی ہے ۔ کوئی مرد اس میں ذرہ برابر بھی اس کا بوجھ نہیں بٹا سکتا۔ باقی آدھے میں سے آپ کہتے ہیں کہ آدھا بار اس کا بھی عورت اٹھائے ۔ گویا تین چوتھائی عورت کے ذمے پڑا اور مرد کے ذمے ایک چوتھائی ۔ کیا یہ انصاف ہے؟ عورت بے چاری اس ظلم کو خوشی خوشی برداشت کرنے ، بلکہ لڑ جھگڑ کر اپنے اوپر لینے کے لیے اس وجہ سے مجبور ہوئی کہ آپ نے عورت ہوتے ہوئے اور عورت کی جگہ کام کرتے ہوئے اسے عزت دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے بچوں والی کا مذاق اڑایا ۔ آپ نے گھر گرہستی کو ذلیل قرار دیا۔ آپ نے ان ساری خدمات کو گھٹیا درجہ دیا جو وہ خاندان میں انجام دیتی تھی اور جن کی انجام دہی آپ کی سیاست ، معیشت اور جنگ سے کچھ کم ضروری یا مفید نہ تھی ۔ مجبوراً وہ غریب عزّت اور قدر و منزلت کی تلاش میں ان کاموں کے لیے آمادہ ہوگئی، جو مرد کے کرنے کے تھے ۔ کیوں کہ مرد بنے بغیر اور مردانہ خدمات انجام دیے بغیر آپ اسے عزّت دینے کو تیار نہ تھے۔ اسلام نے اس پر یہ مہربانی کی تھی کہ عورت رہتے ہوئے اور زنانہ خدمات ہی انجام دیتے ہوئے اس نے اسے پوری عزت مرد کے برابر ، بلکہ ماں ہونے کی حیثیت سے مرد سے کچھ بڑھ کر ہی دی تھی۔ اب آپ کہتے ہیں کہ یہ چیز’ترقی‘ میں حائل ہے ۔ آپ کو اصرار ہے کہ عورت ماں بھی بنے اور مجسٹریٹ بھی اور پھر ناچ گا کر مردوں کا دل بہلانے کے لیے بھی وقت نکالے۔ آپ اس پر اتنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ کسی خدمت کو بھی بہ کُلّی اور بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ آپ اسے وہ کام دیتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی ۔ آپ اسے اس میدان میں کھینچ لاتے ہیں، جہاں وہ مردکا مقابلہ نہیں کرسکتی ، جہاں مرد اس سے آگے رہے گا۔ جہاں عورت کو اگر داد ملے گی تو نسوانیت کی رعایت سے ملے گی ، یا پھر کمال کی نہیں، جمال کی ملے گی ۔ یہ آپ کے نزدیک ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔ گھر اور خاندان ، جن کی اہمیت کو آپ ’ترقی‘ کے جوش میں بھول گئے ہیں ، دراصل یہ وہ کارخانے ہیں جہاں انسان تیار ہوتے ہیں۔ یہ کارخانے جوتے اور پستول بنانے کی نسبت کچھ کم ضروری تو نہیں ہیں ۔ ان کارخانوں کے لیے جن صفات ، نفسیات اور قابلیتوں کی ضرورت ہے، وہ فطرت نے سب سے بڑھ کر عورت کو دی ہیں۔ ان کو چلانے کے لیے جن خدمات اور محنتوں اور مشقتوں کی ضرورت ہے، ان کا زیادہ سے زیادہ بوجھ فطرت نے عورت ہی پر ڈالا ہے، اور ان کارخانوں میں کرنے کے کام بہت ہیں۔ کوئی فرض شناسی کے ساتھ ان کاموں کو کرنا چاہے، جیساکہ ان کا حق ہے، تو اسے سر کھجانے کی مہلت نہ ملے، اور پھر ان کو جتنی زیادہ قابلیت ، سلیقے اور دانش مندی کے ساتھ چلایا جائے، اتنے ہی زیادہ اعلیٰ درجے کے انسان تیار ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ عمدہ تعلیم وتربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ان کارخانوں کو سکون و اطمینان اور اعتماد کے ساتھ چلانے کے لیے اسلام نے پردے کا ڈسپلن قائم کیا تھا ، تاکہ عورت یہاں پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے، اور اس کی توجہ غلط سمتوں میں نہ بٹے، اور مرد بھی پوری طرح مطمئن ہوکر زندگی کے اس شعبے کو اس کے ہاتھوں میں چھوڑ دیں۔ اب آپ ’ترقی‘ کی خاطر اس ڈسپلن کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اس کے ختم ہو جانے کے بعد، دوکاموں میں سے ایک کام آپ کو بہرحال کرنا ہوگا۔ یا عورت کو ہندو تہذیب اور پرانی عیسائی اور یہودی تہذیب کی پیروی کرکے غلام بنا دیجیے، تاکہ خاندانی نظام بکھرنے نہ پائے ، یا پھر اس کے لیے تیار ہوجائیے کہ انسان بنانے کے کارخانے تباہ و برباد ہوکر جوتے اور پستول بنانے کے کارخانے آباد ہوں۔ میں آپ سے صاف کہتی ہوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اسلام جو مکمل قانونی اور معاشی حقوق عورت کو دیتا ہے، ان کو برقرار رکھتے ہوئے آپ اسلام کے قائم کردہ ڈسپلن کو توڑ دیں اور آپ کا خاندانی نظام برباد ہونے سے بچارہ جائے ۔ لہٰذا ،’ترقی‘ کا جو معیار بھی آپ کے سامنے ہو اسے نگاہ میں رکھ کر سوچ لیجیے کہ آپ کیا کھونا چاہتے ہیں اور کیا پانا چاہتے ہیں؟ ’ترقی‘ بہت وسیع لفظ ہے ۔ اس کا کوئی ایک ہی مقرر مفہوم نہیں ہے ۔ مسلمان ایک زمانے میں خلیجِ بنگال سے لے کر بحراٹلانٹک تک حکمراں رہے ہیں۔ سائنس اور فلسفہ میں وہ دنیا کے استاد تھے۔ تہذیب وتمدن میں کوئی دوسری قوم ان کے ہم سر نہ تھی۔ معلوم نہیں اس چیز کا نام کسی لغت میں ترقی ہے یا نہیں؟ اگر یہ ترقی تھی تو میں عرض کروں گی کہ یہ ترقی اس معاشرے نے کی تھی، جس میں پردے کا رواج تھا۔ اسلامی تاریخ بڑے بڑے اولیا، مدبرین، علما ، حکما ، مصنّفین اور فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ عظیم الشان لوگ جاہل ماؤں کی گودوں میں پل کر تو نہیں نکلے تھے۔ خود عورتوں میں بڑی بڑی عالم و فاضل خواتین کے نام ہم کو اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں۔ وہ علوم وفنون اور ادب میں کمال رکھتی تھیں۔ پردے نے اس ترقی سے مسلمانوں کو نہیں روکا تھا۔ آج بھی اسی طرز کی 'ترقی ہم کرنا چاہیں تو پردہ ہمیں اس سے نہیں روکتا ۔ البتہ اگر کسی کے نزدیک ’ترقی‘ بس وہی ہو، جو اہل مغرب نے کی ہے تو بلاشبہ اس میں پردہ بری طرح حائل ہے۔ پردے کے ساتھ وہ ’ترقی‘ یقیناً ہمیں حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہ بات نہ بھول جایئے کہ مغرب نے یہ ترقی اخلاق اور خاندانی نظام خطرے میں ڈال کر کی ہے ۔ وہ عورت کو اس کے دائرۂ عمل سے نکال کر مرد کے دائرۂ عمل میں لے آیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے دفتر اور کارخانے چلانے کے لیے دگنے ہاتھ تو حاصل کر لیے اور بظاہر بڑی ترقی کرلی ، مگر گھر اور خاندان کا سکون کھودیا۔ آج بھی وہاں اگر گھر آباد ہیں تو صرف گھر گرہستن عورتوں کی بدولت ہی آباد ہیں ۔ مردوں کے ساتھ کمانے والی عورتیں کہیں بھی گھر کا نظام نہیں چلارہی ہیں اور نہ چلاسکتی ہیں۔ ان کے نکاح آج طلاقوں پرختم ہورہے ہیں ، ان کے بچے تباہ ہورہے ہیں ۔ ان کے لیے ٹھکانا اگر ہے تو کلب میں ہے یا ہوٹل میں ۔ گھر ان کے لیے سکون کی جنت نہیں رہے اور اپنی جگہ لینے کے لیے بہتر انسان تیار کرنے کا کام انھوں نے چھوڑ دیا ہے ۔ اس ’ترقی‘ پر اگر کوئی ریجھتا ہے تو ریجھے ۔
لندن(رپور ٹنگ آن لائن)قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان نے جوفرا آرچر کو پاکستان ٹیم کیلیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیدیا، بیٹنگ کوچ کا کہنا ہے کہ نوجوان انگلش پیسر مضبوط اعصاب کے حامل ہیں،مہمان بیٹسمینوں کو خطرناک ان سوئنگرز کو بیک فٹ پر کھیلنے کا مشورہ دوں گا، دورے میں پاکستانی بیٹنگ کی تکنیک اور اعصاب دونوں کا امتحان ہوگا، خشک موسم میں جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ زیادہ مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔تفصیلات کے مطابق پاکستانی بیٹنگ کوچ یونس خان نے ٹیم کو جوفرا آرچر سے خبردار کیا ہے،انھوں نے کہا کہ نوجوان پیسر خطرناک ہیں، ٹور میچ میں ان کا سامنا کر چکا، اس وقت بولنگ میں اتنی کاٹ نہیں تھی، البتہ ورلڈکپ فائنل کے سپر اوور میں انھوں نے ثابت کیا کہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں،ہائی آرم ایکشن کی وجہ سے آرچر کیلیے بیٹسمین کو دھوکا دینا آسان اور ان سوئنگر بھی خطرناک ہے،میں بیٹسمینوں کو مشورہ دوں گا کہ ان کو لائن میں آکر اور بیک فٹ پر کھیلیں، میرے خیال میں میچ ونر بولر پاکستان ٹیم کیلیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔یونس خان نے کہا کہ جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کی جوڑی بڑی تجربہ کار ہے، دونوں نے مل کر انگلینڈ کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے،انگلش کنڈیشز اس موسم میں خشک ہوتی ہیں، امید ہے کہ دونوں پیسرز پاکستانی بیٹنگ لائن کیلیے زیادہ مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ انگلش بولرز کو چیلنج دینے کیلیے ضروری ہے کہ مہمان بیٹسمین 300سے 350تک کا مجموعہ تشکیل دیں،کنڈیشنز ہمیشہ مشکل اورتکنیک و اعصاب دونوں کا امتحان ہوتا ہے،امید ہے کہ ٹیم اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کامیاب ہوگی۔ Share this: Twitter Facebook Like this: Like Loading... Related کیٹاگری میں : کھیلوں کی خبریں Tagged ،انگلش کنڈیشز، اسٹورٹ براڈ، بڑا خطرہ قرار، بیٹسمینوں، بیک فٹ، جوفرا آرچر، جیمز اینڈرسن، خشک موسم، خطرناک، سوئنگرز، قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ، مضبوط اعصاب کے حامل، نوجوان انگلش پیسر، پاکستان ٹیم، پاکستانی بیٹنگ، کھیلنے کا مشورہ، ہائی آرم ایکشن، یونس خان
Afrikaans Azərbaycan Dili Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ AdventurePornGames ساہسک فحش کھیل AdventurePornGames صارف کی درجہ بندی گرم ، شہوت انگیز ساہسک کھیل جس میں آپ کی محبت کی کہانی کے لئے ساہسک ویڈیو گیمز کی سربراہی کر رہے ہیں جنسی کہانی سنانے کے ساتھ مل کر دلچسپ آرپیجی سٹائل گیم پلے. آپ ہمیشہ کر سکتے ہیں امید ہے کہ کے لئے ایک اچھا وقت ہے کے لئے آتا ہے جب ان کے کھیل ، کیونکہ یہ عام طور پر نہ صرف مورھ ، اتارنا fucking کہ آپ کے پاس, لیکن اس کے بجائے یہ ایک کہانی ہے کہ آپ اصل میں کے ذریعے جانا اور اس کے سیاق و سباق اور آپ کو حاصل کرنے کے لئے سمجھ میں کیوں کر رہے ہیں آخر ان تمام گرم ، شہوت انگیز خواتین پہلی جگہ میں. اگر آپ مجھ سے پوچھیں, اس کے لئے بہترین طریقہ ہے کا تجربہ جنسی گیمز کے بعد سے وہ کھیل کے ایک معنی اور آپ کو لطف اندوز کر سکتے ہیں کی طرح ان کی ایک مناسب سٹڈ یہاں. تعمیر حرم کی گرم ، شہوت انگیز ایشیائی لڑکیاں جو آپ کو جمع کرنا چاہتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کس طرح ساہسک کھیل رہے ہیں بنانے کے گیمنگ کی دنیا میں ایک sexier کی جگہ, تو آپ کو صرف کرنے کی ضرورت پر نظر کی ان اقسام کے کھیل کے لئے پریرتا. مثال کے طور پر, آپ کو شروع کرنے جب ان میں سے ایک ٹرپل کھیل ہی کھیل میں ساہسک کھیل ہی کھیل میں, آپ کو کرنا پڑے گا ایک کلاسک کہانی کے لوگوں کو دیکھ کے آخر میں سب سے پہلے اور اس کے بعد آپ سب سے پہلے کتیا جو آپ کر رہے ہیں اصل میں ، اتارنا fucking ، پھر آپ دوسری سے ایک ہے, اور پھر ایک مکمل حرم کی گرم ، شہوت انگیز babes ویڈیو جس میں آپ کو بھاڑ میں کر سکتے ہیں بھی. وہاں ایک میں کھیل کی کرنسی, ایک توانائی کے نظام, اور کچھ دیگر gameplay میکینکس کے لئے آپ کی مدد کے ساتھ منتقل. مفت کھیل کے لئے ضرورت کے بغیر آپ کو کچھ بھی ادا کرنے کی کورس کے, ساہسک کھیل ہی کھیل میں کے ایک ذخیرے ہے مکمل طور پر مفت کھیل ہی کھیل میں, لیکن ہمیشہ ایک خفیہ قیمت ہے کہ آپ عام طور پر نہیں جانتے ہیں کے بارے میں. اس صورتحال میں, لاگت آئے گی کہ کیا کرنا ہے کے ساتھ ، حقیقت یہ ہے کہ آپ جا رہے ہیں کے لئے ادا کرنے کے لئے ہے توانائی کے لئے چاہتے ہیں تو آپ کے ذریعے ترقی کرنے کے ساہسک زیادہ فوری طور پر. کبھی کبھی لوگوں کو بے چین ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں جس کتیا وہ جا رہے ہیں جمع کرنے کے لئے اگلے ان کے حرم. اور اس کے بعد آپ کی ضرورت ہے ایک اکاؤنٹ بنانے کے لئے ایک کریڈٹ کارڈ کے ساتھ کھیلنے کے لئے اس کھیل میں ، یہ حاصل کرنے کے لئے آسان کے ساتھ بہہ پیسے خرچ پر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے. حیرت انگیز آرٹ ورک کے ساتھ رنگ 2D آرٹ کہانی میں پلاٹ اور آپ کو دوش نہیں کر سکتے ہیں لوگوں کے لئے ادائیگی, اس آرٹ ورک ہے بالکل حیرت انگیز اور آپ کو حاصل کرنے کے لئے کچھ سے لطف اندوز colorized 2D آرٹ ورک ہے کہ کوئی بھی پاگل ہو جائے گی ۔ اگر آپ کر رہے ہیں اس شخص کی قسم جو واقعی پسند کرتا ہے کو دیکھنے کے لئے اچھا ایشیائی آرٹ, پھر ساہسک کھیل ہی کھیل میں نے آپ کے لئے ایک آپشن بھی ہے. ساہسک حصہ شمار کیا ہے ، اگرچہ, تو آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے کا مطلب ہے کہ. یہ بنیادی طور پر مطلب ہے کہ آپ جا رہے ہیں کرنے کے لئے کی ضرورت ہے استعمال کرنے کے لئے اپنے وسائل کو احتیاط سے کر سکتے ہیں تاکہ آپ کو مکمل آپ کے حرم کے ساتھ تمام لڑکیوں کے آپ کر سکتے ہیں کبھی بھاڑ میں جاؤ. جبکہ ہو سکتا ہے کہ کی طرح لگ رہے ہو ، ایک آسان کام سب سے پہلے میں ، یہ حاصل کر سکتے ہیں ، بہت مشکل ہے کے بعد. کبھی کبھی microtransactions محسوس تھوڑا سا مجبور جب آپ کھیلیں اور یہ کہ میرا بنیادی مسئلہ کے ساتھ ساہسک کھیل ہی کھیل میں. یہ کھیل ہے تو بہت سی چیزیں آپ کر سکتے ہیں کہ ان میں, لیکن دن کے اختتام پر, آپ کے لئے جا رہے ہیں ایک مشکل وقت ہے کے وہاں ہو رہی ہے تو آپ کو رکھنے کے اخراجات آپ کے تمام وسائل اور آپ نے ان کے لئے انتظار کرنے ریچارج کرنے کے لئے. آپ کو انتظار کرنے کی ضرورت ہے ، پیسہ کمانے کے لئے آپ کو انتظار کرنے کے لئے توانائی حاصل, اور سب کے ساتھ انتظار کر رہا ہے کہ تم کبھی کبھی ادا کرنے کے لئے مجبور کرنے کے لئے صرف منتقل پلاٹ آگے کی وجہ سے یہ بہت دلچسپ ہے.
حالیہ تحقیق میں ہوٹلوں پر بننے والی کراچی کی کڑک دار دودھ پتی چائے کو محققین نے آلودہ قرار دے دیا ہے۔ خواتین کی نجی یونیورسٹی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی حالیہ تحقیق کے دوران کراچی کی دودھ پتی چائے میں بھی مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی پائی گئی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی تحقیق کے مطابق کراچی سے حاصل کیے گئے چائے کے نمونے مائیکرو پلاسٹک سے آلودہ پائے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق مائیکرو پلاسٹک 5 ملی میٹر سے چھوٹے ذرات کو کہا جاتا ہے، کراچی سے حاصل کردہ ایک ملی لیٹر دودھ پتی چائے میں 1سے 5مائیکرو پلاسٹک پائے گئے ہیں، اس طرح ایک شخص ہر ہفتے اوسطا تقریبا 1,769 مائیکرو پلاسٹک کے ذرّات اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ دودھ پتی چائے 100 سے 250 ملی لیٹر کی پیالیوں میں پی جاتی ہے۔ دودھ پتی چائےکی ایک پیالی میں تقریبا 100سے 1،250 مائیکرو پلاسٹک کےٹکڑےجسم میں جاتے ہیں۔ پروفیسر رعنا ہادی کے مطابق مائیکرو پلاسٹک کے زرات میں زیادہ تر مائیکرو فائبر پلاسٹک موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے حاصل شدہ نمونوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا۔ چائے میں مائیکرو پلاسٹک ناقص معیار کی پتی،دودھ اور چینی سے آتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تیکنکی مشیر معظم خان کا کہنا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک ذرّات پر جمع ہونے والےکیمیائی مادے انسانی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان کا خوراک میں شامل ہوناصحت کیلیے نقصان دہ ہے۔