text
stringlengths
332
578k
مجھے فخر ہے میرا لیڈر عمران خان ہے جو نا کبھی مافیا کے آگے جھکے گا اور نا مافیا کے آگے رکے گا عمران خان چوروں کو مت… twitter.com/i/web/status/1… 2 years ago پوسٹ شیئر کریں اور ہمارا پیج لائیک کرلیں شکریہ #PTI #PTIFamily #iSupportPTI #Pakistan pic.twitter.com/GNLY9n7n27 2 years ago سوشل میڈیا پہ ہم آپکی سپورٹ جاری رکھیں گے انشاللہ پوسٹ شیئر کریں #PTI #PTIFamily #iSupportPTI #Pakistan pic.twitter.com/rpzvFKATkq 2 years ago "It always seems impossible until it is done." Nelson Mandela and at #AbmaSoft we can make impossible possible. 😄… twitter.com/i/web/status/1…
یونیورسٹی آف گجرات سب کیمپس منڈی بہاؤالدین میں قائد اعظم کے یوم پیدائش کے سلسلہ میں تقریری مقابلے کا انعقاد www.mbdinnews.com دسمبر 24, 2020 December 24, 2020 0 تبصرے 192 مناظر فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ یونیورسٹی آف گجرات سب کیمپس منڈی بہاؤالدین میں قائد اعظم رحمت اللہ علیہ کے یوم پیدائش کے سلسلہ میں تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت ڈائریکٹر کیمپس جناب میاں ظہیرالدین بابر صاحب نے کی۔ مقابلے کی میزبانی کے فرائض محمد سمیع اللہ ، لیکچرار شعبہ کمپیوٹر سائنس نے ادا کیے۔ مقابلے کے ججز کے فرائض صاحبزادہ محمد ابوبکر ہاشمی، محمد عثمان علی، نازش شبیر اور نمرہ زاہد، جو کہ شعبہ انگلش میں لیکچرار ہیں ، نے ادا کیے۔ مزید براں مقابلے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر یاسر عرفات دھدرا، سینئر کلرک ملک قمر عباس ، آ ئی ٹی سپورٹ سے شاہد جاوید اور الیکٹریکل سپورٹ سے محمد طیب نے شرکت کی۔ تقریری مقابلے میں سولہ طلباء و طالبات نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے مقابلے میں آن لائن شرکت کی۔ مقابلے میں پہلی پوزیشن فائزہ اعجاز، شعبہ کمپیوٹر سائنس، دوسری پوزیشن حرا بتول، شعبہ کمپیوٹر سائنس اور تیسری پوزیشن مریم آصف، شعبہ فزکس نے حاصل کی۔ مقابلے کے اختتام پر ڈائریکٹر کیمپس نے میزبان، ججز، ایڈمنسٹریشن اور طلبہ و طالبات کا شکریہ ادا کیا اور طالب علموں سے کہا کہ وہ ملک و قوم کا اثاثہ ہیں اور ملک و قوم کی ترقی ان سے وابستہ ہے لہذا وہ جدید علوم حاصل کریں اور ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ اس کے بعد انہوں نے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سے مثالیں طلبا اور طالبات کے سامنے پیش کی اور ان کو تلقین کی کہ اپنی زندگی کو قائداعظم کے افکار سے آراستہ کریں-
قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد اس نے کہا تمھارے پاس وہ کھانا نہیں آئے گا جو تمھیں دیا جاتا ہے، مگر میں تمھیں اس کی تعبیر اس سے پہلے بتا دوں گا کہ وہ تمھارے پاس آئے۔ یہ اس میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا۔ بے شک میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے ساتھ بھی کفر کرنے والے ہیں۔ تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین جیل میں قیدیوں کو دین کے اصول سمجھانا: سیدنا یوسف علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ خواب کی تعبیر تو میں تمھیں بتاہی دوں گا اور جس وقت تمھارا کھانا آیا کرتا ہے اس سے پہلے ہی بتا دوں گا۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے تو یہ مجھ پر اللہ کا خاص احسان ہے۔ اور اللہ کا فضل و احسان ان لوگوں پرہی ہوتا ہے۔ جو اسی کے ہو کر رہتے ہیں اسی کی عبادت کرتے ہیں اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ میں ان لوگوں (مصریوں) کا دین ہرگز قبول نہیں جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر بلکہ میں تو اپنے بزرگوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دین پر ہوں اور یہ بزرگ خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے کسی کو اس کا شریک نہیں کرتے تھے اور ایسا دین اختیار کر لینا ہی اللہ کا بہت بڑا فضل و احسان ہے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
چین میں کورونا وائرس سےہلاک افراد کی تعداد813 ہوگئی جس کے بعد یہ تعداد سارس وائرس سے دنیا بھر میں ہوئی اموات سےبڑھ گئی ہے۔ کورونا وائرس سے چین میں متاثر افراد کی تعداد 36 ہزار 693 ہوگئی ہے، یہ بیماری ووہان شہر میں دسمبر میں پھیلی تھی جس کے بعد اس نے چین کے مختلف حصوں اور دنیا کے 2 درجن سے زائد ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔ 2002ءسے 2003ء کے درمیان سارس بیماری کے سبب774 افراد ہلاک اور 8ہزار 100بیمار ہوئے تھے، یہ صورت حال 8 ماہ کےدوران 26 ملکوں میں پیش آئی تھی، جبکہ 45 فیصد اموات چین میں ہوئی تھیں۔ کورونا سے صرف ہوبے صوبے میں 780 افراد ہلاک اور 27 ہزار 100 بیمار ہوئے ہیں تاہم ہوبے میں نئے کیسز کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور آج صرف 2 ہزار 139 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جو پچھلے ایک ہفتے کے دوران سب سے کم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے امکان ظاہر کیا ہے کہ خطے میں کورونا وائرس کی صورتحال اب مستحکم ہوناشروع ہوگئی ہے، تاہم سنگاپور میں مزید 7 کیسز رپورٹ ہونے سے وہاں تعداد 40 ہوگئی ہے جبکہ فرانس کے پہاڑی مقام میں چھٹیاں گزارنے والے 5 برطانوی شہری بھی کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔
مسلمان تو وہ ہے جن کو کسی انسان کو کھلا کر فاقہ کرنے میں وہ لطف ومزہ آتاہے،جس پر کھانوں کی ہزار لذتیں قربان،جن کا یقین ہے کہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی شرف اور عزت واحترام کی چیزنہیں،وہ انسانیت کی تعمیر کا خواب دیکھتے ہیں،اور اپنے اندر اس کا عزم وحوصلہ پیدا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں،جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی پیدا کرنے والاہے،ہمیں اپنی اور دوسرے انسانوں کی زندگی کو اسی کی مرضی اور حکم کے سانچے میں ڈھالناہے،ایسا نہیں کہ دوسری تمام مخلوق کی طرح ہم مرکر مٹی میں مل جائیں گے؛بلکہ ہمیں اپنے مالک کے سامنے حاضری دینی ہے،اور اس مالک نے ہم کو جو عظیم صلاحیتیں عطاکی ہیں،ان کا حساب دیناہے کہ ہم نے ان صلاحیتوں کوصرف ایجادات،اور سامان عیش وعشرت کو بڑھانے میں لگائی،یا اس کے حکموں کی تابعداری کرنے اور دوسروں کو تابع بنانے کی فکر وکوشش کی،اسی میں راز پوشیدہ ہے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا،اور اسی میں راز پوشیدہ ہے:’’اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ‘‘اور’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ، ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہ‘‘(وہ لوگ ہیں ساری مخلوق سے بہتر،اللہ ان سے راضی اور وہ ان سے راضی،یہ ملتا ہے اس کو جوڈرا اپنے رب سے)۔ اس کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اور تاریخ اسلامی کی بے شمار شخصیتوں میں وہ مثالیں ملتی ہیں جو مسلمان کے لیے روشنی کے مینار کا کام دیتی ہیں؛لیکن ’’وَجَعَلْنَا مَا عَلَی الْأرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ أیُّھُمْ أحْسَنُ عَمَلاً ‘‘کے دھوکہ میں اکثر مسلمان اس فانی دنیا ہی کے پر فریب جال اور زیب وزینت کے اسباب حاصل کرنے میں اپنی صلاحیتیں لگاتے ہیں،جن کی ساری جدوجہد ،تگ ودو،کاوش وکوشش کا مدعااولاً بھی اور آخراًبھی یہی دنیا اور اس کی لذتیں رہتی ہیں۔ بینک کے بڑے بڑے کھاتے ،اونچے اونچے عہدے اور خطابات،نام ونمود،شہرت واعزاز،علمی ترقیاں،معاشی فلاح یابیاں ہی ہوتی ہیں،اور محض اپنے غلط خیال اور خواہش نفس کے موافق اپنی روش کو بہتر سمجھتے ہیں،افسوس آج ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کی صبح و شام،رات ودوپہر،سب اسی دنیا کے فریب میں پڑے ہوئے ہیں،اور زندگی رضائے مولیٰ سے بالکل منہ موڑے ہوئے گزررہی ہے۔ مسلمانوں کو تو کتاب ہدایت ملی ہے،جس سے انسانی آداب واخلاق نے تکمیل کا درجہ پایا،عدل وانصاف اور اخوت ومساوات کے نمونے سامنے آئے،دنیا کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آیا جس کو انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا،کاش کہ مسلمان اپنی زندگیوں کاا زسرنو جائزہ لیتے،اور اس کھوئی ہوئی دولت کو پھر سے حاصل کرتے جس سے پوری دنیا کے انسانوں کو روشنی ملتی،خلیفہ راشدحضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں: ’’علم دین بہترین میراث ہے،ادب وتربیت کا مشغلہ بہترین کام ہے،زہدو تقویٰ بہترین توشہ ہے،جو سفرآخرت میں کام آتا ہے، خلوص دل کے ساتھ اللہ کی بندگی میں متاع ِگراں مایہ ہے،عمل صالح ایمان کی منزل کی طرف بہترین رہنمائی کرنے والا ہے،اخلاق فاضلہ بہترین ساتھی ،اورتحمل وبردباری بہترین معاون ومددگار ہے،قناعت سے بڑھ کر کوئی تونگری نہیں ہے،اور توفیق الٰہی سے عمدہ کوئی یارو مونس نہیں،اہل بصیرت کے لیے موت سے زیادہ کوئی عبرتناک شے نہیں ہے،خبر مرگ قافلۂ عمر کے لیے بانگ رحیل ہے‘‘۔
سندھ ہائی کورٹ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خلاف جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومت نے جواب جمع کرنے کے لیے مہلت طلب کر لی۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو 22 اگست کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ دورنِ سماعت پی ٹی آئی کے وکیل راج علی واحد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے 24 جولائی کے بلدیاتی انتخابات جان بوجھ کر ملتوی کیے۔ سیاسی ایڈمنسٹریٹر ہٹانے، بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کیلئے ہائیکورٹ میں درخواست کراچی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان... چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس دن شہر میں موسلادھار بارش ہوئی، بارش کے دوران انتخابات ہوتے تو آپ ووٹ کاسٹ کرنے جاتے؟ پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ اس دن عدالتیں کھلی ہوئی تھیں، ووٹنگ ہوتی تو ضرور ووٹ کاسٹ کرنے جاتا، الیکشن کمیشن نے پہلے خود کہا کہ بہت اخراجات ہو چکے ہیں، انتخابات ملتوی نہیں کرا سکتے۔ جماعتِ اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی سیاسی مفادات کے لیے سرکاری مشینری استعمال کر رہے ہیں، مرتضیٰ وہاب کو سرکاری مشینری استعمال کرنے سے روکا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ میں 15 اگست کو سماعت ہو گی۔ جماعتِ اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اب 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے جماعتِ اسلامی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں؟ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ، الیکشن کمیشن کا فوج و رینجرز کی تعیناتی کیلئے خط کراچی صوبائی الیکشن کمیشن آف سندھ نےسندھ میں... جماعتِ اسلامی کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم تو فوری بلدیاتی انتخابات چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران کو بھیج دیے تھے۔ تحریکِ انصاف کے وکیل نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کو محفوظ بنانے کا حکم دیا جائے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ نے کہا کہ فریقین کا جواب آنے دیں، ہر چیز کا تفصیلی جائزہ لیں گے، بیلٹ پیپرز کی نگرانی کے لیے ہم ناظر تو مقرر کرنے سے رہے۔
دفعہ۱:اس جماعت کا نام ’’جماعت اسلامی پاکستان‘‘ اور اس دستور کا نام ’’دستور جماعت اسلامی پاکستان‘‘ ہوگا۔ تاریخ نفاذ: دفعہ ۲: یہ دستور یکم جون ۱۹۵۷ء مطابق ۲ ذی القعدہ ۱۳۷۶ھ سے نافذ العمل ہوگا۔ ۱؎ عقیدہ: دفعہ۳: جماعت اسلامی پاکستان کا بنیادی عقیدہ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہو گا۔ یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الہٰ ہے، اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تشریح: اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الہٰ ہونے اور کسی دوسرے کے الہٰ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ زمین اورآسمان میں ہے، سب کا خالق، پروردگار، مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ: (۱) انسان اللہ کے سوا کسی کو ولی و کار ساز، حاجت روا اور مشکل کشا، فریاد رس اور حامی و ناصر نہ سمجھے، کیونکہ کسی دوسرے کے پاس کوئی اقتدار ہی نہیں ہے۔ (۲) اللہ کے سوا کسی کو نفع و نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے، کسی سے تقویٰ اور خوف نہ کرے، کسی پر توکل نہ کرے، کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے کیونکہ تمام اختیارات کا مالک وہی اکیلا ہے۔ (۳) اللہ کے سوا کسی سے دعا نہ مانگے، کسی کی پناہ نہ ڈھونڈے، کسی کو مدد کے لیے نہ پکارے۔ کسی کو خدائی انتظامات میں ایسا دخیل اور زور آور بھی نہ سمجھے کہ اس کی سفارش قضائے الٰہی کو ٹال سکتی ہو، کیونکہ اللہ کی سلطنت میں سب بے اختیار رعیت ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء۔ (۴) اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائے، کسی کی پرستش نہ کرے، کسی کو نذر نہ دے اور کسی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں، کیونکہ تنہا ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے۔ (۵) اللہ کے سوا کسی کو بادشاہ، مالک الملک اور مقتدر اعلیٰ تسلیم نہ کرے، کسی کو بہ ا ختیارِ خود حکم دینے اور منع کرنے کا مجاز نہ سمجھے، کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز نہ مانے اور ان تمام اطاعتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دے جو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اس کے قانون کی پابندی میں نہ ہوں، کیونکہ اپنے ملک کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو مالکیت اور حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا۔ نیز اس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ: (۶) انسان اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہو جائے، اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی چھوڑ دے اور اللہ کا بندہ بن کر رہے جس کو اس نے الہٰ تسلیم کیا ہے۔ (۷) اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک و مختار نہ سمجھے، بلکہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان، اپنے اعضاء اور اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو بھی اللہ کی مِلک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے۔ (۸) اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتاؤ اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اسے قیامت کے روز اللہ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے۔ (۹) اپنی پسند کا معیار اللہ کی پسند کو اور اپنی ناپسندیدگی کا معیار اللہ کی ناپسندیدگی کو بنائے۔ (۱۰) اللہ کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے۔ (۱۱) اپنے لیے اخلاق میں، برتائو میں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت تسلیم کرے اور ہر اس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔ اس عقیدے کے دوسرے جزو یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سلطان کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو جس آخری نبیؐ کے ذریعے سے مستند ہدایت نامہ اور ضابطہ قانون بھیجا گیا اور جس کو اس ضابطے کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر مامور کیا گیا، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ: (۱)انسان ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ (۲) اس کو کسی حکم کی تعمیل پر آمادہ کرنے کے لیے اور کسی طریقے کی پیروی سے روک دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس چیز کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسولؐ اللہ سے ثابت ہے۔ اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔ (۳) رسولؐ اللہ کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے۔ دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد۔ (۴) اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کو حجت اور سند اور مرجع قرار دے، جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے اختیار کرے، جو اس کے خلاف ہو اُسے ترک کردے، اور جو مسئلہ بھی حل طلب ہو اُسے حل کرنے کے لیے اسی سرچشمۂ ہدایت کی طرف رجوع کرے۔ (۵) تمام عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے خواہ وہ شخصی ہوں یا خاندانی، یا قبائلی و نسلی، یا قومی و وطنی، یا فرقی و گروہی۔ کسی کی محبت یا عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ رسولؐ اللہ کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر وہ غالب آجائے یا اس کی مدّ مقابل بن جائے۔ (۶) رسولؐ اللہ کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو اللہ کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجے میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے۔ (۷) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے کسی دوسرے انسان کا یہ منصب تسلیم نہ کرے کہ اس کو ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا فیصلہ ہو۔ نصبُ العین: دفعہ۴: جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الہٰیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الہٰی اور فلاح اخروی کا حصول ہوگا۔ تشریح: ’’الدین‘‘، ’’حکومتِ الہٰیہ‘‘ اور ’’اسلامی نظام زندگی‘‘ تینوں اس جماعت کی اصطلاح میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے جس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ’’اقامتِ دین‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اسی مفہوم کو یہ جماعت اپنی زبان میں ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ یا ’’اسلامی نظامِ زندگی‘‘ کے قیام سے ادا کرتی ہے۔ ان تینوں کا مطلب اس کے نزدیک ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسانی زندگی کے جس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے اس میں وہ برضا و رغبت اسی طرح اللہ کی تشریعی حکومت تسلیم کرے جس طرح دائرۂ جبر میں کائنات کا ذرہ ذرہ چار و ناچار اس کی تکوینی حکومت تسلیم کر رہا ہے۔ اللہ کی اس تشریعی حکومت کے آگے سر جھکانے سے جو طریقِ زندگی رونما ہوتا ہے وہی ’’الدین‘‘ ہے، وہی ’’حکومت الہٰیہ‘‘ ہے اور وہی ’’اسلامی نظام زندگی‘‘ ہے۔ اقامتِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصّے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگرچہ مومن کا اصل مقصد رضائے الہٰی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصبُ العین اقامتِ دین اور حقیقی نصبُ العین وہ رضائے الہٰی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہو گی۔ طریق کار: دفعہ۵: جماعت کا مستقل طریق کار یہ ہو گا کہ: (۱)وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے؟ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش ہوگی۔ (۲)اپنے مقصد اور نصبُ الّعین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ (۳)جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔ (۴)جماعت اپنے نصبُ الّعین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وہ بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا نکلے گا بالکل سفید (١) اور خوف سے (بچنے کے لئے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے (٢) پس یہ دونوں معجزے تیرے لئے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، یقیناً وہ سب کے سب بے حکم اور نافرمان لوگ ہیں (٣)۔ تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین یدبیضا: یہ دوسرا معجزہ تھا جو انھیں عطا کیاگیا۔ لاٹھی سے اژدھابن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاحق ہوتا تھا اس کا حل بتلادیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملالیا کر یعنی بغل میں دبا لیا کر، جس سے خوف جاتارہے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتدامیں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم ازکم ہلکا ہوجائے گا،ا ن شاء اللہ۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ اور یدبیضا ء دے کر اللہ نے فرمایاکہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزے پیش کرو، اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
پاکستان کی ابھرتی ہوئی اداکارہ اور مرحوم عامر لیاقت حسین کی سابقہ اہلیہ سیدہ طوبیٰ انور نے شوبز انڈسٹری میں آنے اور خود پر ہونے والی سوشل میڈیا ٹرولنگ سے متعلق گفتگو کی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں سیدہ طوبیٰ نے بتایا کہ شادی سے قبل ہی وہ شوبز انڈسٹری سے منسلک تھیں اور بطور پروڈیوسر کام کر رہی تھیں۔ طوبیٰ کے مطابق انہوں نے 18 برس کی عمر سے ہی شوبز میں کام کا آغاز کردیا تھا تاہم اداکاری میں شادی کے دو سال بعد قدم رکھا، انہوں نے کہا کہ شادی کے دو سال گزرنے کے بعد سوچا کہ کیوں نہ زندگی میں کچھ نیا کیا جائے۔ یہ بھی پڑھیں عامر لیاقت کی وفات پر سابقہ اہلیہ طوبیٰ انور کا ردعمل بھی سامنے آگیا طوبیٰ سے کوئی مسئلہ نہیں، واپس آئیں تو بڑی بہن سمجھوں گی: دانیہ شاہ عامر لیاقت سے علیحدگی سے متعلق طوبیٰ کا مؤقف سامنے آگیا انہوں نے بتایا کہ اس دوران وہ اپنے میڈیا ہاؤس جاتی تھیں مگر ساتھ میں گھریلو زندگی بھی چل رہی تھی، شادی کے دو سال بعد اُنہوں نے باقاعدہ آڈیشن دیا تھا۔ اداکارہ نے عامر لیاقت کے انتقال کے بعد خود پر ہونے والی ٹرولنگ کے بارے میں کہا کہ ہم اپنی زندگی میں شاید بہت سارے لوگوں کو پسند نہیں کرتے لیکن اگر آپ اپنے ناپسندیدہ شخص کے لیے سوشل میڈیا پر کچھ منفی لکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ خود بہت ہی منفی شخصیت کے مالک ہیں اور آپ بغض سے کتنا بھرے ہوئے ہیں۔ طوبیٰ انور کا مزید کہنا تھا کہ پہلے مجھے خود پر ہونے والی تنقید سے بہت تکلیف ہوتی تھی کیونکہ ہم بھی انسان ہیں اور ہمیں بھی تو بُرا لگتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے آپ کو اس معاملے میں بہت مضبوط کر لیا۔ دوران انٹرویو اداکارہ نے اپنی ذاتی زندگی سے متعلق کہا کہ ہر معاملے اور ہر مسئلے پر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہوں، میں نے آج تک تحمل سے کام لیا ہے کیونکہ تنقید اور نفرت ایک آگ ہے جس میں آپ مواد ڈالتے رہیں گے تو وہ بھڑکتی رہے گی، یہ کبھی بھی ختم نہیں ہو گی، اور میں نہیں چاہتی کہ میں اپنے ذاتی معاملات کو ایک سرکس بناؤں۔ خیال رہے کہ معروف ٹی وی میزبان عامر لیاقت نے 2018 میں سیدہ طوبیٰ انور سے دوسری شادی کا اعلان کیا تھا تاہم رواں برس کے آغاز میں طوبیٰ نے طلاق کی تصدیق کی تھی۔ بعدازاں جون میں عامر لیاقت حسین کے انتقال کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر اداکارہ کو دل کھول کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ صارفین نے طوبیٰ پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے محض اپنی کامیابی اور شوبز میں جگہ بنانے کی خاطر عامر لیاقت کا استعمال کیا۔
آپ ایک مستحکم رشتے میں ہیں لیکن آپ کو ایسا لگتا ہے کہ وہ کبھی بھی بس نہیں کرے گا کیونکہ اس نے کبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں جانتا ہوں کہ انتظار کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ غلط فیصلے نہ کریں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا آدمی کبھی بھی اگلے قدم کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ وہ کرے گا - آپ کو صرف صبر کرنا ہوگا کیونکہ مردوں کے لیے آباد ہونا آسان نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک بار ان کی زندگی بدل جائے گی۔ یہ انہیں خوفزدہ کرتا ہے کیونکہ یہ بہت ساری ذمہ داریاں لاتا ہے۔ جب آباد ہونے کی بات آتی ہے تو، خواتین ہمیشہ اس کے بارے میں زیادہ سمجھدار اور براہ راست ہوتی ہیں۔ مرد دھیرے دھیرے جانے کو ترجیح دیتے ہیں (سچ پوچھیں تو ان کی حیاتیاتی گھڑی ہماری گھڑی کی طرح تیز نہیں ٹک رہی ہے)۔ جب آپ آباد ہونے کی بات آتی ہے تو آپ کا آدمی کبھی بھی براہ راست نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے، وہ کچھ نشانیاں دکھانا شروع کر دے گا کہ وہ آپ کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہے۔ ان علامات پر دھیان دیں اور اگر آپ کا آدمی ان میں سے کسی کو دکھاتا ہے، تو وہ غالباً آپ کے خیال سے جلد آپ کے ساتھ آباد ہونا چاہے گا۔ مشمولات دکھائیں 1 1. آپ اس کی ترجیح بن گئے ہیں۔ دو 2. وہ آپ کے سامنے کھلتا ہے۔ 3 3. وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی پرواہ کرتا ہے۔ 4 4. اس نے آپ کو اپنے خاندان سے ملوایا ہے۔ 5 5. وہ آپ کے خاندان کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ 6 6. وہ آپ کی چیزوں کو اپنی جگہ پر چھوڑ کر آپ کے ساتھ ٹھنڈا ہے۔ 7 7. وہ مسائل سے نہیں بھاگتا 8 8. وہ مستقبل کے بارے میں بات کرتا ہے۔ 9 9. 'پیسے کی بات' 10 10. وہ بچوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ گیارہ سمیٹنا 1. آپ اس کی ترجیح بن گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے مرد دوست رکھنا اور جب بھی ہو سکے ان کے ساتھ باہر جانا پسند کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ رشتے میں ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا ان کے لیے اولین ترجیح ہے۔ لیکن جب ایک آدمی فیصلہ کرتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بس جائے، تو یہ بدل جاتا ہے۔ وہ اس کی ترجیح بن جاتا ہے اور اس کے ساتھ گھومنا ہی وہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ آپ کو اپنے دوستوں کی وجہ سے کبھی نہیں چھوڑے گا – بالکل اس کے برعکس – وہ انہیں چھوڑ دے گا کیونکہ وہ آپ کے ساتھ گھومنے کو ترجیح دیتا ہے۔ آپ اس کے تمام منصوبوں میں ہیں – چھٹیوں کے لیے، گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے… وہ آپ کو اپنے کاروباری دوروں یا کچھ اہم سماجی تقریبات میں بھی مدعو کرے گا۔ وہ آپ کی ضروریات کو پہلے رکھتا ہے۔ آپ کی ضروریات کو پورا کرنا اس کے لیے سب سے اہم چیز بن جاتی ہے کیونکہ اسے آخر کار احساس ہو گیا ہے کہ آپ اس کی زندگی کے سب سے اہم فرد ہیں۔ 2. وہ آپ کے سامنے کھلتا ہے۔ مرد اپنا کمزور پہلو دکھانا پسند نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے کھلنا بہت مشکل ہے۔ وہ ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے عادی نہیں ہیں جو انہیں اپنے دوستوں کے ساتھ پریشان کرتی ہیں جیسے ہم ہیں۔ اگر وہ آپ کے سامنے کھلنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آپ پر بھروسہ کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے راز آپ کے پاس محفوظ ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ آپ اسے کبھی بھی اس طرح دھوکہ نہیں دیں گے جس طرح اس کی زندگی میں زیادہ تر لوگ کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اس کا اعتماد حاصل کر لیا ہے اور یہ صحت مند تعلقات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ آپ شاید اس کی زندگی میں واحد شخص ہیں جسے وہ اپنے تمام گہرے خیالات اور تاریک ترین راز بتا سکتا ہے۔ 3. وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی پرواہ کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ الفاظ کافی نہیں ہیں اور اسے آپ کو دکھانا ہوگا کہ کتنے ہیں۔ وہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے آپ سے پیار کرتا ہے۔ . مثال کے طور پر: آپ کام پر دن کے وسط میں پھولوں کی ترسیل سے حیران ہوسکتے ہیں۔ جب آپ تاریخ چیک کرتے ہیں، تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ آپ کی سالگرہ یا سالگرہ نہیں ہے… جیسے ہی آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ ضرور کسی قسم کی غلطی ہے، آپ کو گلدستے میں ایک محبت کا نوٹ ملتا ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ صرف آپ کو حیران کرنا چاہتا ہے اور آپ کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ سے کتنا پیار کرتا ہے۔ 4. اس نے آپ کو اپنے خاندان سے ملوایا ہے۔ جب کوئی رشتہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے تو یہ سب سے اہم اقدامات میں سے ایک ہے۔ خاندان اس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے۔ اس طرح وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ سنجیدہ رشتہ چاہتا ہے کیونکہ وہ ہر گرل فرینڈ کو اپنے والدین سے ملنے گھر نہیں لاتا۔ اور وہ آپ کو اپنے گھر والوں سے اس وقت تک متعارف نہیں کرائے گا جب تک اسے یقین نہ ہو کہ آپ ہی ہیں۔ اس کا خاندان وہ لوگ ہیں جن سے وہ سب سے زیادہ پیار اور بھروسہ کرتا ہے۔ اس لیے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ان سے ملیں۔ اور آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ایک اچھا تاثر چھوڑیں اور انہیں آپ کو پسند کریں۔ 5. وہ آپ کے خاندان کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح اس کا خاندان اس کے لیے اہم ہے، اسی طرح وہ جانتا ہے کہ آپ کا خاندان آپ کے لیے اہم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ والد کی چھوٹی لڑکی ہیں اور اسی لیے وہ آپ کے والد کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ وہ آپ کے خاندان کو بھی دکھانا چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ اس کے ارادے ایماندار ہیں۔ وہ اپنے کیریئر اور مستقبل کے اپنے منصوبوں کے بارے میں آپ سے زیادہ بات کرے گا کیونکہ وہ انہیں دکھانا چاہتا ہے کہ آپ اچھے ہاتھوں میں ہیں۔ 6. وہ آپ کی چیزوں کو اپنی جگہ پر چھوڑ کر آپ کے ساتھ ٹھنڈا ہے۔ ابتدائی چند بار جب آپ نے اس کی جگہ پر رات گزاری، اس نے آپ کو یہ بتانے کے لیے ایک متن لکھا کہ آپ اس کی جگہ پر اپنی کچھ چیزیں بھول گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے پاس وہ چیزیں لے آئے جب آپ اگلی بار باہر گئے یا وہ آپ کے پاس آئے۔ تاہم، اب، وہ آپ کو کچھ چیزوں کو اپنی جگہ پر چھوڑنے کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ وہ آپ کو اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لیے چاہتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ گھر کے آس پاس عورت کا ہونا کیسا لگتا ہے۔ اس کے سامان کو اپنی جگہ پر چھوڑنے کے ساتھ بھی یہی بات درست ہے۔ اس نے اپنا کچھ سامان آپ کی جگہ پر چھوڑنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا آپ اس کے ساتھ ٹھیک ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ کو اپنی چیزیں پیک کرنا شروع کر دیں۔ یہ صرف وقت کی بات ہے اس سے پہلے کہ وہ آپ کو اپنی جگہ پر جانے کو کہے۔ 7. وہ مسائل سے نہیں بھاگتا اس کی محبت غیر مشروط ہے اور اس کا مطلب ہے کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ آپ کو برے وقت میں بھی اسی طرح پیار کرے گا۔ وہ آپ کی زندگی کے ہر لمحے آپ کے ساتھ رہے گا کیونکہ وہ آپ کے لئے پرعزم ہے . وہ آپ کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا اور اسی لیے وہ آپ کے لیے لڑے گا چاہے کچھ بھی ہو۔ آپ کی بہت سی لڑائیاں ہوں گی اور ہر جوڑے کی طرح اپنے رشتے میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔ کوئی چیز اسے جانے پر مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ اگر کچھ بھی ہے تو، ایسا لگتا ہے کہ ہر لڑائی کے بعد وہ آپ سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اس سے پہلے اس کے لیے یہ کہنا بہت مشکل تھا کہ وہ معذرت خواہ ہیں، لیکن اب اگر اس نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے معافی مانگنے میں زیادہ فخر نہیں ہوگا۔ 8. وہ مستقبل کے بارے میں بات کرتا ہے۔ آپ کے تعلقات کے آغاز میں، وہ مستقبل کے بارے میں بات چیت سے بھاگ جائے گا. اس کے پاس ہمیشہ اس کے بارے میں بات نہ کرنے کا بہانہ تھا۔ اب، وہی ہے جو ان مذاکرات کا آغاز کرتا ہے۔ وہ آپ کے بغیر نہیں رہنا چاہتا۔ ابھی نہیں، کبھی نہیں۔ اس نے اسے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا جو وہ آپ کے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ مستقبل کے لیے آپ کے کیا منصوبے ہیں۔ . نیز، وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا وہ آپ کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا مستقبل کے بارے میں آپ کے خیالات اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ وہ اسے پسند کرتا ہے جب آپ ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو آپ ایک ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ وہ کس قسم کا گھر خریدنا چاہتا ہے، وہ کتنے بچے رکھنا چاہتا ہے، اور آپ دیکھیں گے کہ جب وہ ان سب چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہے تو اس کی آنکھیں کیسی چمک اٹھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ اپنی زندگی بانٹنے کا منتظر ہے۔ 9. 'پیسے کی بات' آپ کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے بعد مالیات کے بارے میں ناگزیر بات آتی ہے۔ ایک چیز یقینی ہے، ایک آدمی پیسے کے بارے میں کبھی بات نہیں کرے گا اگر اسے یقین نہیں ہے کہ آپ کا رشتہ سنجیدہ ہے۔ وہ آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ کتنی رقم کماتے ہیں یا آپ کے سیونگ اکاؤنٹ میں کتنی رقم ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ چیزیں بہت ذاتی ہیں اور وہ ان کے بارے میں بات کرنے میں آرام محسوس نہیں کرتا ہے۔ لیکن آپ کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے بعد، وہ آپ کو خود بتائے گا کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے کتنا کماتا ہے۔ 10. وہ بچوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے آپ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ لوگ کبھی بھی بچے پیدا کرنے کا مذاق نہیں کرتے اور یہ حقیقت ہے! ہر آدمی جانتا ہے کہ یہ ایک بڑا، سنجیدہ عزم ہے اور اگر وہ تیار محسوس نہیں کرتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں کبھی بات بھی نہیں کریں گے۔ اگر وہ کبھی آپ کا موازنہ اپنی ماں سے کرتا ہے یا آپ کو بتاتا ہے کہ آپ ایک دن ایک عظیم ماں بنیں گی، بس، وہ سوچتا ہے کہ آپ ہی 'ایک' ہیں۔ وہ آپ کے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس طرح وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آیا آپ بچوں کے لیے تیار ہیں - اور وہ آپ کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ اچھا ہے۔ سمیٹنا اگر آپ نے مندرجہ بالا میں سے کسی کو دیکھا ہے، تو یہ ایک بہت بڑی علامت ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا اہم دوسرا مستقبل قریب میں آباد ہونا چاہتا ہے۔ لیکن، اگر آپ کو یقین نہیں ہے کہ آپ کے بوائے فرینڈ نے ان میں سے کوئی علامت ظاہر کی ہے، تو گھبرائیں نہیں۔ اسے مزید وقت دو۔ بدقسمتی سے، جب بات بسانے کی بات آتی ہے تو کچھ لوگ بہت زیادہ آرام سے رہتے ہیں اور اگر آپ ان سے پیار کرتے ہیں، تو آپ کو صبر اور انتظار کرنا ہوگا۔
لاہور : عدالت نے عمران خان کو چیئرمین تحریک انصاف کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو چیئرمین تحریک انصاف کے عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ جسٹس ساجد محمود سیٹھی نےگزشتہ سماعت کا 3 صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ تحریری حکم میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق نااہل پارٹی کاعہدہ نہیں رکھا سکتا، درخواست گزار نے اہم قانونی نقطے اٹھائےہیں۔ عدالت نے تحریری حکم میں کہا فریقین آئندہ سماعت پر اپنے جوابات جمع کرائے ، عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کومعاونت کیلئے نوٹسز جاری کردیے۔
ہردرد اور خوف کے دورکرنے میں آنحضرت کی دعاحسین بن علی بن یقطین کہتا ہے: میں نے اس تعویذ کو امام رضا علیہ السلام سے لیا ہے اور آپ نے فرمایا: یہ تعویذ جامع اور مانع ہے۔ اس میں ہر درد و خوف سے حفاظت اور امان ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ خدا کے نام کے ساتھ اس جگہ پر رہ اور خاموش رہ۔ تجھ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ نیک ہو یا نہ ہو۔ خدا کے کان اور آنکھ کے ذریعے سے تیری آنکھ اور کان کو میں نے باندھ لیا ہے۔ تیری طاقت کو میں نے خدا کی قوت کے ذریعے لگام ڈال دی ہے۔ تو فلاں کے بیٹے فلاں پر اور اُس کی اولاد پرقدرت نہیں رکھتا۔ تیرے اور اُس کے درمیان میں نے اپنے آپ کو اُس پردہ کے ذریعے سے چھپا لیا ہے جس کے ذریعے سے انبیاء اپنے آپ کو فرعونوں کے حملوں سے بچاتے تھے۔ جبرائیل تیرے دائیں طرف، میکائیل بائیں طرف اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیرے آگے قرار دیا ہے۔ عظیم خدا تیرا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ خدا اُس کو ، اُس کی اولاد کو، مال اور اُس کے خاندان کو تم سے اور شیاطین سے دور رکھے گا۔ خدا جو چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ قوت اور طاقت عظیم و بلند خدا کے ارادہ کے سوا نہیں ہے۔ اے پروردگار! اُس کی بربادی تیرے صبر پر غالب نہیں ہے۔ کوشش اُس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ میں نے تجھ پر بھروسہ کیا ہے اور تو بہترین مولیٰ اور بہترین مددگار ہے۔ خدا تجھے اور تیری اولاد کو اے فلاں اُس کے ذریعے محفوظ فرمائے جس کے ذریعے سے اپنے اولیاء کی حفاظت کرتا ہے۔ محمد و آلِ محمد پر خدا کا درود ہو۔ آیۃ الکرسی کو (ھوالعلی العظیم تک) لکھے اور پھرلکھے: طاقت اور قدرت سوائے عظیم خدا کے ارادہ کے نہیں ہے۔ خدا سے پناہ صرف اُسی کے ساتھ ہے۔ وہ ہمارے لئے کافی ہے اور بہترین سرپرست ہے، دل سام فی رأس السھباطا لسلسبیلانیھا۔ (طب الآئمہ علیہم السلام:۴۰)۔
جے پور-راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ نے اشوک گہلوت کو وزیر اعلی اور سچن پائلٹ کو نائب وزیر اعلی کے عہدے کا حلف دلایا۔ البرٹ ہال میں منعقدہ حلف برداری کے شاندار تقریب میں کانگریس کے قومی صدر راہل گاندھی سمیت متعدد سینئر لیڈروں کی موجودگی میں مسٹر گہلوت اور مسٹر پائلٹ نے ہندی زبان میں حلف لیا۔ مسٹر پائلٹ صافے کے ساتھ اپنے دیسی انداز میں نظر آئے ۔ حلف برداری سے قبل اور بعد میں دونوں رہنماؤں کے حق میں زوردار نعرے بازی ہوئی۔ اسٹیج پر موجود مسٹر گاندھی سے ملنے کے لئے رہنماؤں کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندر بابو نائیڈو، سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ اور دیوگوڑا، جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ، ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن، بہار کے سابق وزیر اعلی جیت رام مانجھی، جے ڈی یو کے لیڈر شرد یادو، نیشنلسٹ کانگریس کے شرد پوار سمیت کئی لیڈر حلف برداری کے گواہ بنے ۔ مسٹر گاندھی نے سابق وزیر اعلی وسندھرا راجے سمیت متعدد لیڈروں سے ملاقات کی۔ Categories Top Stories, ہندوستان Tags Ashok Ghelot, Congress, Formed Government, Rajisthan, Sachin Pilot
اسلام آباد: ملک بھر میں کرونا وائرس کے کیسز میں کمی دیکھی جارہی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے نئے رپورٹ کیسز کی تعداد 25 رہی۔ تفصیلات کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی، کرونا وائرس سے ہونے والی مجموعی اموات کی تعداد 30 ہزار 630 ہے۔ این آئی ایچ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 25 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک میں کووڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 15 لاکھ 74 ہزار 938 ہوگئی۔ ملک میں کرونا وائرس سے صحت یاب مریضوں کی مجموعی تعداد 15 لاکھ 43 ہزار 564 ہوچکی ہے۔ این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے 3 ہزار 478 ٹیسٹ کیے گئے، اب تک ملک میں 3 کروڑ 9 لاکھ 84 ہزار 61 کووڈ 19 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ این آئی ایچ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 0.72 فیصد رہی، ملک بھر کے 631 اسپتالوں میں کرونا وائرس کے 46 مریض تشویشناک حالت میں ہیں۔ ویکسی نیشن کی صورتحال ملک میں اب تک 13 کروڑ 95 لاکھ 99 ہزار 826 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 13 کروڑ 22 لاکھ 8 ہزار 520 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔
اکاؤنٹ کی معلومات کی درخواست کرنے کی خصوصیت آپ کو اپنے WhatsApp اکاؤنٹ کی معلومات اور سیٹنگز کی رپورٹ کیلئے درخواست جمع کرنے اور اس رپورٹ کو برآمد کرنے کی سہولت دیتی ہے۔ رپورٹ میں آپ کے میسجز شامل نہیں ہوں گے۔ اگر آپ ایپ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اپنے میسجز تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بجائے اپنی پرانی چیٹس برآمد کر سکتے ہیں۔ براہ کرم نوٹ کر لیں کہ یہ خصوصیت WhatsApp ویب اور ڈیسک ٹاپ پر دستیاب نہیں ہے۔ رپورٹ کی درخواست کریں WhatsApp کی ترتیبات > اکاؤنٹ > اکاؤنٹ کی معلومات کی درخواست کریں پر جائیں۔ رپورٹ کی درخواست کریں پر ٹیپ کریں۔ اسکرین اپ ڈیٹ ہو کر درخواست بھیج دی گئی ہے دکھائے گی۔ آپ کی رپورٹ عام طور پر درخواست کرنے کی تاریخ کے تین دن بعد دستیاب ہوگی۔ آپ اپنی رپورٹ کا انتظار کرتے وقت تیار ہونے کی تاریخ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ نوٹ: رپورٹ کی درخواست کرنے کے بعد، آپ اپنی زیر التواء درخواست کو کالعدم یا منسوخ نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اپنا فون نمبر تبدیل کرنا یا پھر اپنا اکاؤنٹ حذف کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی زیر التواء درخواست کالعدم ہو جائے گی اور آپ کو دوسری رپورٹ کی درخواست کرنی ہوگی۔ رپورٹ ڈاؤن لوڈ اور برآمد کریں جب رپورٹ ڈاؤن لوڈ کیلئے دستیاب ہو گی تو آپ کو اپنے فون پر WhatsApp کی اطلاع موصول ہو گی جس میں لکھا ہوگا کہ 'آپ کے اکاؤنٹ کی معلومات کی رپورٹ اب دستیاب ہے’۔ WhatsApp میں اکاؤنٹ کی معلومات کی درخواست کریں اسکرین پر آپ کو بتا دیا جائے گا کہ رپورٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے آپ کے پاس کتنا وقت ہے جس کے بعد اسے ہمارے سرورز سے حذف کر دیا جائے گا۔ چونکہ اس رپورٹ میں آپ کی معلومات شامل ہیں لہذا اسے کسی اور سروس پر اسٹور کرنے، بھیجنے یا اپ لوڈ کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ WhatsApp کی سیٹنگز > اکاؤنٹ > اکاؤنٹ کی معلومات کی درخواست کریں پر جائیں۔ رپورٹ ڈاؤن لوڈ کریں پر ٹیپ کریں۔ ایک ZIP فائل آپ کے فون میں ڈاؤن لوڈ ہو جائے گی جس میں HTML اور JSON فائلز شامل ہوں گی۔ فائل ڈاؤن لوڈ ہونے کے بعد، رپورٹ برآمد کریں > برآمد کریں یا رپورٹ برآمد کریں پر ٹیپ کریں۔ آپ ڈاؤن لوڈ کردہ رپورٹ کو WhatsApp میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ ظاہر ہونے والی شیئر ٹرے میں، اس بیرونی ایپ پر ٹیپ کریں جس پر آپ اپنی رپورٹ برآمد کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً، آپ رپورٹ کی ایک کاپی خود کو ای میل کر سکتے ہیں۔ جب آپ رپورٹ اپنے فون میں ڈاؤن لوڈ کر لیں گے تو آپ کے پاس اپنے فون سے ڈاؤن لوڈ کردہ کاپی کو ہمیشہ کیلئے حذف کرنے کا آپشن ہوگا۔ حذف کرنے کیلئے اکاؤنٹ کی معلومات کی درخواست کریں اسکرین پر رپورٹ حذف کریں > حذف کریں یا رپورٹ حذف کریں پر ٹیپ کریں۔ رپورٹ کو حذف کرنے سے آپ کے WhatsApp اکاؤنٹ کا ڈیٹا حذف نہیں ہو گا۔
قنوطیت (pessimism) ایک ایسے رجحان یا رویۓ کو کہا جاتا ہے کہ جس میں وہ شخصیت، زندگی کے کسی بھی انفرادی یا اجتماعی پہلو کے بارے میں سوداویت پسند (malencholic) خیالات رکھتی ہو۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا اہم ہے کہ قنوطیت اور سوداویت ایک دوسرے کے متبادل ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے عام اور کسی حد تک طبی مفہوم کے لحاظ سے، قنوطیت اصل میں ایک قسم کے مایوس، یاس پسند، نا امید اور منفی سوچ کے حامل رویئے کو کہا جاتا ہے جو لازمی نہیں کہ کسی شدید طبی یا نفسیاتی مرض کی وجہ سے ہی ہو بلکہ بسا اوقات تو یہ لفظ یعنی قنوطیت یا اس کے متبادلات جیسے یاس پسندی، منفی رویہ اور مایوس وغیرہ بلا کسی طبی تشخیص کے بھی ادا کیے جاتے ہیں؛ اس کے برعکس سوداویہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس کو ماضی میں بھی ایک شدید نفسیاتی کیفیت میں شمار کیا جاتا تھا اور آج بھی اس کو کبیر اكتِئابی اضطرابات (major depressive disorders) میں شمار کیا جاتا ہے۔[1] قنوطیت کا لفظ، قنوط سے بنا ہے جس کے معنی یاس اور مایوسی کے ہوتے ہیں اور اسی سے قنوطی اور قنوطیت کے الفاظ اخذ کیے جاتے ہیں۔ قنوطیت کا تلفظ، ق اور ن پر پیش اور ی پر تشدید کے ساتھ قُنُو + طی + یَت ادا کیا جاتا ہے۔[2] قنوطیت (pessimism) کا مذکورہ بالا شخصی رجحان والے نفسیاتی مفہوم کے علاوہ ایک فلسفیانہ مفہوم بھی ہوتا ہے جس کے تحت قنوطیت سے مراد اس مسلک یا doctrine کی ہوتی ہے کہ جس کے عقیدے کے مطابق یہ دنیا، منفیت اور برائی سے بھری ہوئی ہے اور یہ کہ تمام چیزیں، بدی یا برائی کی جانب مائل ہیں؛ اس فلسفیانہ مسلک کو، رجائیت (optimism) کا متضاد کہا جاسکتا ہے۔[3] حوالہ جاتترميم ↑ ایک آن لائن طبی لغت میں سوداویہ کا اندراج۔ ↑ ایک اردو لغت میں لفظ قنوطیت کا اندراج۔ ↑ ایک انگریزی لغت پر pessimism کا اندراج آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bartleby.com (Error: unknown archive URL)۔
موٹر وے پولیس ذرائع کے مطابق شہباز گل لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے کہ حادثہ پیش آیا جس کے باعث ان کی گاڑی الٹ گئی۔ حادثے کے وقت جابر نامی شخص سمیت 2 افراد بھی شہباز گِل کے ہمراہ گاڑی میں تھے، یہ دونوں افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔ موٹر وے پولیس نے موقع پر پہنچ کر شہباز گِل اور ان کے ساتھیوں کو گاڑی ابتدائی طبی امداد دی۔ شہباز گِل سمیت تینوں افراد کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آئی ہیں۔ شہباز گِل کے ساتھی نے الزام لگایا ہے کہ انہیں کسی گاڑی نے ٹکر ماری ہے جو کافی دیر سے ان کا پیچھا کر رہی تھی اور حادثے کے بعد وہ گاڑی غائب ہو گئی۔ More More Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email Print With Product You Purchase Subscribe to our mailing list to get the new updates! Lorem ipsum carrots, Minneapolis. Enter your Email address Decade of intervention by Army Chief Paralyzed Governor is not an open rebellion against the Constitution? Irfan Siddiqui
فرانسیسی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ ایمانوئل میکرون نے 58.55 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ میرین لی پین کو 41.45 فیصد ووٹ ملے۔ ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد ملک کی وزارت داخلہ کے اعلان کے مطابق، موجودہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 58.55 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ میکرون کی حریف، انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی کی رہنما، مارین لی پین کو 41.45 فیصد ووٹ ملے۔ فرانسیسی آئینی کونسل ہفتے کے وسط میں حتمی نتائج کا خلاصہ کرے گی۔ لی پین نے پہلے ہی شکست تسلیم کر لی تھی، لیکن فرانسیسیوں کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ خاص طور پر لی پین نے کہا کہ ان کی سیاسی تحریک پارلیمانی انتخابات میں بڑی لڑائی شروع کرے گی۔ مزید پڑھ میکرون نے ووٹروں کے ‘غصے’ کو دور کرنے کا وعدہ کیا کیونکہ مظاہرین کے ساتھ پولیس کی جھڑپ ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق 20:00 بجے ختم ہوئی۔ ٹرن آؤٹ 73.07% تھا، جسے صدارتی انتخابات کے دوسرے دور کے لیے بہت کم اعداد و شمار سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف 1969 میں تھا جب یہ اسکور کم تھا، صرف 68.9% کے ساتھ۔ فرانس کے صدر کا انتخاب پانچ سال کے لیے ہوتا ہے۔ تقریباً 49 ملین شہری ووٹنگ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پہلا راؤنڈ 10 اپریل کو ہوا جس میں بارہ امیدواروں نے حصہ لیا۔ میکرون اور لی پین دوسرے راؤنڈ میں پہنچ گئے۔ پہلے دور میں، موجودہ سربراہ مملکت نے 27.84% ووٹ حاصل کیے، جب کہ قومی ریلی کے رہنما کو 23.15% ووٹ ملے۔
لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کی ایک کشتی بحیرہ روم میں ڈوبنے سے کم ازکم 100 افراد لاپتا ہو گئے ہیں۔ سمندر میں امدادی کارروائیوں میں شریک اطالوی ساحلی محافظوں کے مطابق اب تک آٹھ افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ اتوار کو کوسٹ گارڈ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ” آٹھ لاشوں کو پانی سے نکالا گیا، چار افراد کو زندہ بچا لیا گیا جنہوں نے بتایا کہ کشتی پر 107 سے لگ بھگ لوگ سوار تھے۔” لیبیا کے ساحل سے تقریباً 50 کلومیٹر دور پیش آنے والے اس واقعے میں امداد کے لیے علاقے میں گشت کرنے والے ایک فرانسیسی جنگی بحری جہاز نے بھی حصہ لیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پانی سے نکالا جب کہ یہیں سے گزرنے والی دو تجارتی کشتیان بھی جائے وقوع کی طرف روانہ کر دی گئیں۔ فرانسیسی جنگی بحری جہاز یورپی یونین کے “فرنٹیکس سرحدی آپریشن” کے تحت علاقے میں گشت کر رہا تھا۔ اس آپریشن میں شامل ایک ہوائی جہاز اور اطالوی بحریہ کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ جمعہ کو بھی بحیرہ روم میں ہی مختلف چھوٹی کشتیوں پر سفر کرنے والے تقریباً 550 پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو اطالوی ساحلی محافظوں کی کشتیوں، بحری جہاز، امدادی تنظیم کی کشتی اور ایک تجارتی بحری جہاز کی مدد سے یہاں سے نکالا گیا تھا۔ غربت، شورش پسندی اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے لاکھوں افراد نے گزشتہ دو سالوں میں یورپ کا رخ کیا اور ان کی اکثریت بحیرہ روم کا خطرناک سفر کر کے یورپ جانے کی کوشش کر چکی ہے۔
غیر ملکی خبرایجنسی کے مطابق استنبول کے مشرق میں تقریباً 210 کلومیٹر (130 میل) دور ترکیہ کے مغربی علاقے میں 6 شدت زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں 22 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ یورپی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی گہرائی 2 کلو میٹر زیر زمین ریکارڈ کی گئی جب کہ زلزلے کا مرکزصوبہ ڈوزے کے شہر آئیدن پنار سے 15 کلومیٹر دور ریکارڈ کیا گیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق ترکیہ میں استنبول اور انقرہ کے علاوہ بلغاریہ، قبرص، یونان، رومانیہ، برطانیہ اور یوکرین میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جب کہ 18 آفٹر شاکس بھی محسوس کیے گئے ہیں۔ زلزلے کی وجہ سے استنبول شہر کی بجلی بھی معطل رہی جب کہ علاقے میں بجلی منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ رہائشیوں کے بالکونیوں سے چھلانگ لگانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ترک وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے کہا کہ جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں، بعدازاں وزیر صحت فرحتین کوکا نے کہا کہ کم از کم 22 زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک اونچائی سے چھلانگ لگانے کے بعد شدید زخمی ہوا۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ فاسٹ بولر جسپریت بمراہ انجری کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں ٹی 20 ورلڈ کپ: پونٹنگ نے کن دو کرکٹرز کو بابر اور شاہین سے بہتر قرار دیا؟ ایشیا کپ: بھارتی ٹیم کو دھچکا، اہم کھلاڑی ایونٹ سے باہر ہو گیا ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے بھارتی ٹیم کا اعلان،جسپریت بمراہ اسکواڈ سے باہر رپورٹ کے مطابق بمراہ کمر میں درد کی شکایت کر رہے تھے جس کے باعث انہیں بھارت اور جنوبی افریقا کے درمیان گزشتہ روز کھیلے جانے والا پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں کھلایا گیا۔ بعدازاں پریکٹس سیشن کے دوران بمراہ نے پھر سخت درد کی شکایت کی جس کے بعد ان کی ٹریننگ روک دی گئی لیکن انجری کے باعث ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ فاسٹ بولر کو 4 سے 6 ماہ آرام کروایا جائے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بمراہ کمر کے فریکچر کا شکار ہیں جس کے باعث وہ بار بار تکلیف کی شکایت کر رہے ہیں۔
كئى ايك بار ايسا ہوا كہ ميں نماز فجر كے وقت يا نماز سے قبل بالكل بيدار ہوا اور دوبارہ سو گيا، مجھے ياد ہے كہ دو بار تو ميں بالكل نماز فجر كے وقت بيدار ہوا ليكن پھر سو گيا، پھر ميں نے شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا قول سنا كہ: ايسا كرنے والا شخص كافر ( اور مرتد ) ہے، كيا يہ صحيح ہے، اور اس مسئلہ ميں اہل سنت و الجماعت كے عقيدہ كے مطابق صحيح كيا ہے ؟ ( اور اگر يہ ( كفر يا مرتد ہونا ) صحيح ہے تو مجھے كيا كرنا ہو گا ؟ ايك اور سوال يہ ہے كہ: اگر ميرى نماز عصر رہ جائے( نماز وقت نكل جائے ليكن ميں نماز ادا نہ كروں ) تو كيا اس بنا پر ميں كافر ہو جاؤنگا ( حالانكہ ميں روزانہ نماز پنجگانہ ادا كرتا ہوں ) ؟ مجھے علم ہے كہ صحيح بخارى كى روايت كے مطابق ميرے اس روز كے سارے اعمال ضائع ہو جائينگے، ليكن ميرا مندرجہ بالا سوال اس ليے ہے كہ ميں آپ كو حق اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر خيال كرتا ہوں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے. جواب کا متن الحمد للہ. 1 - اگر آپ نماز فجر كے وقت بيدار ہوں اور پھر آپ پر نيند كا غلبہ ہو جائے، ليكن آپ كى نيت اور عزم يہ ہو كہ كچھ دير بعد ـ نماز كا وقت نكلنے سے قبل ـ بيدار ہو جائينگے، ليكن آپ نماز كا وقت نكل جانے سے قبل بيدار نہ ہو سكيں تو آپ بيدار ہوتے ہى فورى طور پر نماز ادا كر ليں، اور آئندہ يہ عہد كريں كہ شيطان آپ كے ساتھ يہ كھيل نہيں كھيل سكے گا، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو معاف فرمائے. 2 - ليكن اگر آپ كا يہ ارادہ اور عزم ہو كہ نماز كا وقت نكلنے كے بعد نماز ادا كرونگا ـ يا پھر اس ميں آپ كو شك اور تردد ہو ـ تو يہ ايسا فعل ہے جس كى بنا پر بعض اہل علم كے ہاں وہ كافر ہو جاتا ہے. چنانچہ اگر آپ سے يہ فعل سرزد ہوا ہے تو آپ اللہ تعالى كے ہاں ابھى سے ہى توبہ و استغفار كريں، اور پختہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا نہيں ہو گا، اگر آپ كو فوت شدہ نمازوں كى تعداد كا علم ہے تو اسے قضاء كر كے ادا كريں، اللہ تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرتا ہے، اس كا كفارہ يہى ہے، اور نماز عصر كے متعلق كلام بھى بالكل نماز فجر كى طرح ہى ہے.
وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے حالیہ اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ کا اعلان نہ صرف ملک کی اندرونی سیاست کو متاثر کرتا ہے، جس میں قومی اسمبلی کے آنے والےانتخابات شامل ہیں، بلکہ اس تجربہ نے دانشوروں کے درمیان ایک دلچسپ بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ ایک طرف خلائی ماہرین کی توجہ اس جانب مرکوز ہے کہ یہ تجربہ کس طرح بھارتی خلائی اثانوں کو نشانہ بنانے سے مخالفین کو روکنے کی بھارتی صلاحیت کی نشاندہی کرتا ہے۔دوسری طرف جوہری تجزیہ نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ تجربہ بھارت کے بیلسٹک میزائیل ڈیفنس کی صلاحیت کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ بلاشبہ، ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے تیار کردہ زمینی بیلسٹک میزائل انٹر سیپٹر جو کہ بھارت کے بی۔ ایم۔ڈی پروگرام کا حصہ ہے، نچلے مدار میں موجود ایک بھارتی سیٹیلائٹ کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوا۔ اگرچہ یہ تجربہ بھارت کی خلائی ڈیڑنس اور بی۔ایم۔ڈی صلاحیت دونوں پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ لیکن بھارت کی بی۔ایم -ڈی کی صلاحیت کو بڑھانے کا حوالہ، جس سے بھارتی حکومت نے قطعی طور پر گریز کیا ہے، ایک بہت ہی غیر مستحکم صورتحال پیش کرتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تجربے کا اعلان ہندی زبان میں قوم سے خطاب کے دوران کیا،اس خطاب میں ان کا تمام تر زور اس بات پر تھا کہ کس طرح یہ تجربہ بھارت کے خلائی اثاثے،جو کہ ملک کی ترقیاتی اور دفاعی ضروریات کیلئے نہایت اہم ہیں، کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔ حکومت نے زور دیا ہے کہ یہ تجربہ ان تمام مخالفین کو ڈرانے کیلئے ہے جو کہ کسی لڑائی میں بھارت کے خلائی اثاثوں پر حملہ کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ یہ عنصر وزیر ِ خزانہ ارون جیٹلی کے اظہار رائے میں بھی نمایاں تھا،جس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ہماری جوہری صلاحیت کی طرح یہ بھی ایک دفاعی صلاحیت ہے۔ اگرچہ مودی سرکار نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ تجربہ کسی خاص ملک کے خلاف نہیں ہے،لیکن واضح طور پر چین ہی وہ ملک ہے جس کے خلاف بنیادی طور پر یہ تیاری کی کیونکہ چین نے ۲۰۰۷ میں اینٹی سیٹیلائٹ صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جیسا کہ بھارت کے خلائی تجزیہ نگار راجیشوری راجگو پالن نے واضح کیا کہ چین کے اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ نے بھارت کی آنکھیں کھول دیں،چین کے اس اقدام کے بعد بھارت کے ڈی آر ڈی او اور خلائی تحقیقاتی ادارے نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے خلائی اثاثوں کو محفوظ کیا جا نا چاہیے۔ جبکہ بھارتی حکومت اور خلائی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ تجربہ بھارت کی خلائی ڈیٹرنس کو قائم کرتا ہے، جوہری حکمت عملی کے ماہرین نے دلیل پیش کی ہے کہ یہ تجربہ بھارت کی بلیسٹک مزائل ڈیفینس کی ترقی کی طرف جاری کوششوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ دلیل اس بات کو بھی نقویت دیتی ہے کہ بھارت،بالخصوص پاکستان کے خلاف انسدادی قوت کے حصول کی کوششیں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر میسا چوسٹس انسیٹٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگا ر وپن نارنگ نے ٹویٹ کی کہ “آج کا اینٹی سیٹیلائٹ تجربہ بھارت کی استدادی قوت کے حصول کی کوششوں کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے جس کے بارے میں میں نے اور کرسٹوفرکلیری نے لکھا ہے-اس کا ایک پہلو جوہری ہتھیاروں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ دوسرا اس کی باقیات کا سراغ لگاتا ہے۔لہذا نشانہ کا کامل ہونا ضروری نہیں۔ آج کاتجربہ بلیسٹک مزائل ڈیفینس کے حوالے سے تھا۔ جیٹلی کی تقریر میں دئیے گئے ایٹمی حوالے کو بھی نارِنگ نے اپنی دلیل کو ثابت کرنے کیلئے استعمال کیا اور کہا کہ بھارت پاکستان کے دوسرے حملے کی صلاحیت کو ختم کرنے کیلئے نقصان کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان دلائل کے باوجود یہ دو نکات اس تجربے کے بارے میں مختلف توجیحات پیش کرتے ہیں۔اس تجربہ کو چین کے ۲۰۰۷ کے تجربہ کے نتیجہءصریح کے طور پر دیکھنا زیادہ ذمہ دارانہ توجیح ہے۔جس کے مطابق بھارت اپنے خلائی اثاثوں کو چین کے اینٹی سیٹیلائٹ کے خطرے سے ممکنہ جوابی حملہ کی دھمکہ کے ذریعے محفوظ رکھتا ہے،خواہ یہ دھمکی جتنی بھی غیر معتبر یا ناقابل ِ بھروسہ ہو۔ دوسری طرف بعض ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بلیسٹک مزائل ڈیفینس کی صلاحیت کو بڑھا کر بھارت کی جانب سے پہلے حملے میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی ایک بہت ہی غیر مستحکم تصویر پیش کرتی ہے۔یہ نکتہ اس تجربے کو پاک بھارت باہمی مقابلے سے منسلک کر دیتا ہے۔تا ہم ان دونوں نکات کے پیچھے بھارت کے بیرونی خطرات اور ان سے نبردآزما ہونے کی بھارتی کوششیں کارنر ما ہیں۔ لیکن بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے اپنے مختصر خطاب کے دورن ہندی کا ایک لفظ تین مرتبہ استعمال کیا جس کا ترجمہ ” فخر” ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں صرف تین ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔اس تجربہ کے نتیجے میں بھارت ،امریکہ،روس،اور چین کی صف میں شامل ہو گیا ہے انہوں نے اس کامیابی پر بھارتی سائنسدانوں کی بھی تعریف کی۔ مودی کی تقریر سے قومی سلامتی کو انتخابی ایجنڈا میں ترجیح دینے کی حکومتی کوشش عیاں ہے۔” فخر” کے عنصر پر زور دینے سے بیرونی خطرات کو اس تجربہ کی بنیادی وجہ قرار دینے کہ دلیل کمزور پڑھ جاتی ہے- مودی کے خطاب کے مطابق ملکی وقار اس تجربہ کی بنیادی وجہ تھی۔ اگرچہ یہ تجربہ الیکشن کے نتائج کو مودی کے حق میں کرنے پر جزوی طور پر ہی اثر انداز ہو گا، لیکن یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ملکی فخر اور وقار بھارت کی حکمت عملی پر اثر انداز ہونے والے طویل مدتی عناصر ہیں،خواہ یہ جوہری یا خلائی دائرہ کار ہو۔ *** بھارت کا اینٹی سیٹلائٹ تجربہ: ایک اندھا اقدا سفیان اللہ اور ارتضی ٰ امام فروری میں پاک بھارت تعلقات ایک بد ترین نہج پر پہنچ گئے جب دنیا نے دیکھا کہ یہ دونوں قومیں ۱۹۷۲ء کے بعد پہلی بار ایک فضائی جنگ میں مشغول ہوئیں۔اگرچہ صورتحال میں اب کچھ بہتری آئی ہے،تا ہم کشیدگی نے ابھی تک خطے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ۲۷ مارچ کی صبح کو اس صورتحال میں ایک نئی پیچیدگی کا اضافہ ہواجب بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ بھارتی سائنسدانوں نے زمین کے نچلے مدار میں واقع ایک مصنوعی سیارے کو تباہ کر کے ملک کی اینٹی سٹیلائٹ صلاحیت کا مظاہر کیا ہے ۔ بھارت کی اس صلاحیت کا مظاہرہ نہ صرف تکنیکی اور دفاعی لحاظ سے اہم ہے بلکہ اس میں فخر اور امتیاز کا عنصر بھی شامل ہے، جیسا کہ اس کا ذکر بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کیا۔ اس حوالے سے اس تجربہ کے پیچھے کارفرما سیاسی خواہشات کی تو کسی حد تک سمجھ آتی ہے، لیکن اس کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور فوجی استدلال کافی غیر واضح ہیں۔ اگرچہ بھارت کیلئے چین کے ساتھ تکنیکی برابری اور پاکستان کے مقابل تکنیکی فوقیت حاصل کرنا نہایت اہمیت کا حامل ہے،تا ہم اینٹی سیٹلائیٹ کی صلاحیت سے خطے کے استحکام پر دور رس نتایج بر آمد ہوں گے۔ جب ہم اینٹی سیٹلائیٹ کے بطور محافظ کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہمیں اس طرح کے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے ایک بحران کے اضافے کا خطرہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ کہ یہ امن کے دنوں میں امن کی یقین دہانی کا دعویٰ کرتا ہے، اینٹی سیٹلائٹ بنیادی طور پر ایک جارحانہ ہتھیار ہے، جو کہ ایک ریاست کو اپنے مخالف کے کسی بھی کمانڈ،کنٹرول،انٹیلی جنس،معلومات،نگرانی اور تشخیص کی صلاحیتوں کو خراب اور غیر مو ٗثر کر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی بھی بحران کو ہوا دے سکتا ہے۔ دشمن کے جوابی حملہ کی صلاحیت کو یقینی طور پر ختم کرنے کی صلاحیت رکھنے کی بنا پر اینٹی سیٹلائیٹ کو ایک انسدادی قوت کا حامل ہتھیار کہا جا سکتا ہے۔خاص طور پر جوہری دائرہ کار میں۔بحرانی کیفیت میں کسی بھی سیٹلائیٹ کو نشانہ بنانا،خواہ وہ فوجی ہو یا سول، یقینی طور پر جوہری انتباہ کو بڑھالے گا اور کسی ایسے ردِعمل کی طرف لے جا سکتا ہے جو کہ شائد تناسب کے قوانین کی پابندی سے آزاد ہو۔ دیگر تمام فوجی صلاحیتوں کی طرح اینٹی سیٹلائٹ کے کردار اور اہمیت کو علیحدہ طور پر ماپا نہیں جا سکتا۔ بھارت جیسے ممالک کیلئے جو کہ خلا میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، خلائی اثانوں نے بے شمار مواقع کھول دیتے ہیں،جیسا کہ مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم، سمت شناسی اور مواصلاتی نظام۔ بھارت کا اینٹی سیٹلائٹ تجربہ جوہری ہتھیاروں کو پرواز کے دوران روکنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے، جس سے اس کے کشیر درجہی اور کشیر جہتی بلیسٹک میزائل ڈیفنس پروگرام کو بھی تقویت ملتی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ صلاحیت اس بات کو بھی تقویت فراہم کرتی ہے کہ بھارت انسادی قوت کی ہدف بندی کی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ پہلو اس موقع پر ظاہر ہو رہا ہے جب دفاعی تجربہ نگار پہلے ہی بھارت کی ”نو فرسٹ یوز” پالیسی کی سنجیدگی سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔یہ پہلو پاکستان کے سیکورٹی کے خدشات میں مزید اضافہ کر رہا ہے کیونکہ بھارت کی بڑھتی ہوئی انسادی فورسز کی صلاحیت اس کی ”نو فرسٹ یوز“ پالیسی کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے،اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑشروع ہو سکتی ہے۔ تاہم بھارتی اینٹی سیٹلائٹ صلاحیت اس کے مخالفین کو ممکنہ انٹیلی جنس اور اس کے ابتدائی انتباہ کی صلاحیتوں سے مکمل طور پر محروم کرنے کیلئے طاقتور آلہ نہیں بن سکتا ۔ایسا کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے خاص طور پر سے جب دیگر ممالک صرف خلائی اثاثوں پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ انہیں ہوائی اور زمینی نظام کی بھی مدد حاصل ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ دیکھا گیا جب پاکستانی بحریہ کے ایک جاسوسی جہاز نے مبینہ طور پر بھارتی آبدوز کا سراغ لگا لیا۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی اینٹی سٹیلائٹ صلاحیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممالک قطعی طور پر سیٹلائٹ پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کیلئے فضائی اور زمینی نظام قائم کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے۔ چین-بھارت اسٹر یجٹک مساوات میں جہاں دونوں ممالک اپنی خلائی صلاحیتوں کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں، اس کے اثرات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک بار ائنٹی سیٹلائٹ کا آغاز ہو جانے کے بعد پرواز کی مدت جوابی کاروائی کیلئے زیادہ وقت فراہم کرتی ہے۔جس کے نتیجے میں دشمن کی جوابی کاروائی صرف اسی دائرہ کا ر تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ وہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں دیگر ذرائع کا بھی استعمال کر سکتا ہے جو کہ صورتحال کو مذید خرابی کی طرف لے جائے گا۔ جیسا کہ کرٹ گو ٹفرائیڈ اور رچرڈ-این-لیباؤ نے تین دہائیوں قبل اس حوالے سے دلائل پیش کیے کہ اگر دو دشمن ممالک کے درمیان سیٹلائیٹ پر انحصار اور اینٹی سیٹلائیٹ صلاحیتوں میں غیر ہم آہنگی بڑھتی جائے تو اس کے نتیجے میں باہمی تسدید کی امید کمزور پڑ جائے گی۔ اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اس موقع پر یہ تجربہ فائدہ کے بجائے مزید نقصان کا موجب بنے گا۔حکمران حماعت کو بھی اس حوالے سے مخالف جماعتوں اور سوشل میڈیا کی تنقید کا سامنا ہے، جن کے مطابق یہ تجربہ درحقیقت ایک سیاسی کرتب ہے۔ خلائی ملبہ کے مسلۂ کی وجہ اس مریکہ کو بھی اس صورتحال پر بیان جاری کرنا پڑا،تاہم یہ بات اہم ہے کہ اس بیان میں حقیقی تنقید نہ ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بلاواسطہ طور پر بھارتی عزائم کی حمایت کر رہا ہے۔ خلائی عزائم رکھنے والی تمام ریاستوں اور تجارتی اداروں کیلئے خلائی ملبہ ایک اہم مسلۂ ہے اور یہ تمام متعلقین کے مفاد میں ہے کہ وہ بیرونی خلا کو ایک عالمی آثاثہ کے طور پر محفوظ اور پر امن رکھیں
کے اشتراک سے پاکستان میں سرگرم عمل پاپولیشن کونسل کے میڈیا کولیشن کا دوسرا سہ ماہی اجلاس شہر اقتدار اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں پروجیکٹ ڈائریکٹر مس سامیہ علی شاہ نے پاکستان میں بڑھتی آبادی کے ہولناک نتائج سے پردہ اٹھایا جس کی اجلاس میں موجود ورلڈ بنک کے سینئر اکنامسٹ حاند مختار نے بھی تصدیق کی ۔ ملک بھر سے آئے ہوئے ورکنگ جرنلسٹس اجلاس میں پیش کردہ پاپولیشن کونسل کے تازہ ترین اعدادوشمار ملاحظہ کرکے انگشت بدنداں رہ گئے۔ سونے کی فی تولہ قیمت میں اضافہ پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی کو اگر نظر انداز کیا گیا تو یہ ایک قومی مجرمانہ غفلت ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ تیزی سے بڑھتی آبادی ملکی وسائل کو تیزی سے ٹھکانے لگارہی ہے۔اگر فوری قومی سطح پر اس حوالہ سے اقدامات نہ کئے گئے تو یہ قومی المیہ بھی بن سکتا ہے مگر انہوں نے ایک حوصلہ افزاء خبر بھی سنائی کہ اگر ابھی سے اس پر جامع منصوبہ بندی اور مؤثر عملدرآمد کیا جائے تو مستقبل کے ان خدشات سے چھٹکارہ پانا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کئی ممالک پاکستان سے بری صورتحال سے نبردآزما ہوکر بڑھتی آبادی کے بحران سے کامیابی سے نکل چکے ہیں۔ کچھ حلقے عبوری حکومت کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں، فواد چوہدری 2022ء کے اعداد وشمار مستقبل کے سنگین خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں ۔پاپولیشن کونسل کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ کا مطلب خوراک ، تعلیم ،صحت ، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے ۔جس کی وجہ سے محدود وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ اپنی آبادی کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کرسکے ۔اس وقت پاکستان کا شمار 22 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کے پانچویں بڑے ملک کے طورپر ہورہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے اسد عمر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اعداد وشمار کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی رفتار یہی رہی تو 2040 تک مزید ایک کروڑ90 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی ۔اور11 کروڑ 70 لاکھ سے زائد نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔85 ہزار سے زائد پرائمری اسکول بنانے ہوں گے ۔جبکہ 2040تک پانی کی کمی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پہلے تین ممالک میں شامل ہوگاجہاں فی کس 780مکعب فٹ پانی دستیاب ہوگا جو کہ بنیادی ضرورت کے لیئے انتہائی کم ہوگا۔ پاپولیشن کونسل کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2040تک مزید 70 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور اس آبادی کے لیئے 6 کروڑ 60 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوگی جبکہ 35 ہزار سے زائد نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے ۔اسی طرح صوبہ سندھ میں اٹھارہ سال بعد 2040تک مزید 50لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور اڑھائی کروڑ سے زائد نئی نوکریاں پیدا کرنی ہوں گی جبکہ 25 ہزار نئے پرائمری سکولز بنانے ہوں گے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 2040تک مزید 23لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی ۔اس آبادی کے لیئے مزید ایک کروڑ 40لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوگی جبکہ 14ہزار نئے پرائمری اسکولز بنانے ہوں گے۔ صوبہ بلوچستان میں 2040تک مزید 10 لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوگی اور 65 لاکھ نئی نوکریوں کے ساتھ ساتھ 7 ہزار سے زائد نئے پرائمری اسکولز بنانے ہوں گے ۔ پی ٹی آئی کا ’الیکشن کرواؤ، ملک بچاؤ‘ مہم چلانے کا فیصلہ پاپولیشن کونسل کے اس تخمینے کے بعد ایک سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض 18سال بعد 2040تک پاکستان کے وسائل اتنی بڑی آبادی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں ۔کیا ہمارا انفراسٹرکچر کم وبیش دوکروڑ نئے گھراور 11کروڑ سے زائد نوکریوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے ۔کیا ہم اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں؟‘ کیا تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے ؟۔تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے ۔ ہماری قابل کاشت زرعی زمین روز بروز کم ہوتی جارہی ہے ۔گاؤں شہروں میں بدلتے جارہے ہیں سرسبز کھیت مہنگی ہاؤسنگ سوساٹیز میں تبدیل ہورہے ہیں ۔ واٹرلیول گرتا جارہا ہے زیرزمین پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں زرعی مقاصد کے لیئے زیرزمین پانی کے بے دریغ استعمال نے پانی کو مزید کم کردیا ہے ۔اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں اناج باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور اگر یہی صورتحال 2040 میں بھی ہوئی تو سوچا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر اناج منگوانا پڑے گا اور اس پر کتنا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ شعیب ملک بیٹے کیساتھ اکیلے، پر سوشل میڈیا پر ثانیہ اور شعیب کی علیحدگی پر پھر بحث ہونے لگی آج صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں ہوسکا آج بھی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ گندا پانی پینے پر مجبور ہے اور 2040 میں تو پینے کے پانی کی طلب اس قدر زیادہ ہوگی کہ یہ دریا بھی کم پڑجائیں گے اور زرعی مقاصد کے لیے ان دریاؤں کے پانی کا استعمال تو عیاشی تصور ہوگا۔ پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی اور وسائل کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے نیا قومی بیانیہ تشکیل دیا جانا چاہیے ۔خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور معلومات کی فراہمی میں بہتری کے لیے محکمہ صحت کے تمام مراکز کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے تمام طبی مراکز پر خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات فراہم کی جانی چاہیں تاکہ آبادی کے خطرناک حدتک پھیلاؤ کو کم کرکے وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو بھی کم کیا جاسکے ۔ضرورت اس امر کی ہے حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر آبادی کے پھیلاؤ کوکم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ آبادی میں کمی کا نیا بیانیہ ترتیب دیں اور پھرمستقل پالیسی بناکر اس پرذمہ داری کے ساتھ عمل کیا جائے تب جاکر کچھ مدت بعد اس کے مثبت نتائج ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر نسیم شاہ نے بالی وڈ اداکارہ اروشی روٹیلا کی جانب سے انسٹاگرام اسٹوری پوسٹ کرنے پر ردعمل دیا ہے۔ دبئی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا مجھے ایسا کچھ نہیں پتہ، میں تو گراؤنڈ میں کھیلتا ہوں، لوگ ویڈیوز وغیرہ بھیجتے ہیں ،جن کا دل کرتا ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں اور جو بھی میچ دیکھنے آتے ہیں ان کی مہربانی ہے۔ نسیم شاہ نے کہا جو لوگ میرے لیے آتے ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میرے اندر کچھ خاص نہیں ہے، نہ ہی میں آسمان سے اترا ہوا ہوں، لوگ پیار کرتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ فاسٹ بولر نے کہ مجھے نہیں پتا اروشی کون ہے، میں اپنے کھیل پر فوکس رکھتا ہوں، مجھے تو معاملے کا علم ہی نہیں اور فی الحال میرا ارادہ صرف اچھی کرکٹ کھیلنے کا ہے۔ یہ بھی پڑھیں جس بیٹ سے 2 چھکے لگے وہ حسنین نے نسیم کو گفٹ کردیا، نسیم شاہ اس کا کیا کریں گے؟ افغانستان کیخلاف تاریخی 2 چھکے، مومن ثاقب کا نسیم شاہ کو اپنا ’گردہ ‘ دینے کا اعلان اللہ کے بعد خود پر یقین تھا کہ کر سکتا ہوں: نسیم شاہ انہوں نے کہا اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میچ جیتے، آصف علی جب آؤٹ ہوئے تو اس کے بعد یقین تھا کہ چھکے لگ جائیں گے، ٹیپ بال کھیلتا تھا اس میں بھی چھکے لگائے اور چھکوں کی پریکٹس بھی کرتا ہوں، پاکستان میں سب بولرز بہترین ہیں، میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ ریڈ بال اور وائٹ بال میں پرفارمنس دوں۔ نسیم نے کہا کہ سخت محنت کر رہا تھا اور اچھے وقت پر وائٹ بال میں ڈیبیو ہوا، ابھی سے زیادہ توقعات رکھیں گے تو بعد میں یہ نہ ہو کہ لوگ کہیں میچ ہروا دیا، آپ کو اتنی بیٹنگ آنی چاہیے کہ دوسرا بیٹر کھیل رہا ہو تو اس کو سپورٹ دو، بیٹنگ میں جتنی محنت کرو وہ کم ہے ، بولنگ کے ساتھ بیٹنگ پر بھی محنت کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کوشش ہوتی ہے جس سے سیکھنے کو ملے اس سے کچھ سیکھ لوں،کوچز جو پلان دیتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وقار یونس کے ساتھ میسج پر بات کرتا رہتا ہوں اور ان سے سیکھتا بھی ہوں۔ 'افغانستان کیخلاف جب نو آؤٹ ہوئے تو تمام لوگ دل چھوڑ گئے تھے' دوران انٹرویو نسیم نے کہا کہ افغانستان کے خلاف جب ہمارے 9 کھلاڑی آوٹ ہوئے تو تمام لوگ دل چھوڑ گئے تھے اور سوچ رہے تھے میچ ہاتھ سے نکل گیا ہے، مجھے خود بھی نہیں پتا لگا کہ میں میچ جیتنے کے بعد کیا کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بیٹ کی نیلامی کر رہا ہوں، جو زیادہ پیسوں پر اس کو خریدے گا اس کو دوں گا۔ نسیم کا کہنا تھا کہ کیرئیر میں سب سے زیادہ سپورٹ آپ کی فیملی کرتی ہے، میری فیملی نے بہت سپورٹ کیا، میرے علاقے کے لوگ بہت پیار کرتے ہیں اور انہوں نے کافی جشن منایا، بہت خوشی ہوتی ہے جب آپ کے علاقے کے لوگ نکلتے اور جشن مناتے ہیں۔ فاسٹ بولر کے مطابق جب چھوٹا ہوتا تھا تو جب پاکستان بھارت سے ہارتا تھا تو میں روتا تھا، اللہ نے میرے سے وہ کام کروا دیا جس سے پاکستان کا نام بلند ہوا۔
اگر آپ اردو منظر فورم پر پہلی بار تشریف لائے ہیں، اور آپ شرکت کرنا چاہتے/چاہتی ہیں تو سب سے پہلے سوال اور جواب ضرور پڑھ لیں۔ آپ کو فورم میں مختلف سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے لئے رجسٹر ہونا پڑے گا۔ لہٰذا براہِ مہربانی شمولیت اختیار کریں کے بٹن پر کلک کر کے فورم میں رجسٹر ہوں تاکہ آپ فورم پر مختلف سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں۔ شکریہ! وی بلیٹن پيغام آپ لاگ ان نہيں ہيں يا آپ کو اس صفحہ تک رسائی کی اجازت نہيں ـ ايسا مختلف وجوہ کي بنا پر ہو سکتا ہے : آپ لاگ ان نہيں ہو سکے صفحہ کے زيريں حصہ پر موجود فارم بھر کے دوبارہ کوشش کريں ـ شکريہ! آپ کو اس صفحہ تک رسائی کے حقوق حاصل نہیں، کہیں آپ کسی اور کے مراسلہ میں ترمیم، کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ؟ یا آپ انتظامی امور میں مداخلت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟؟ اگر آپ پيغام ارسال کرنے کي کوشش ميں ہيں اور نہيں ہو پا رہا تو ہو سکتا ہے کہ ایڈمن نے آپ کا کھاتہ بند کر ديا ہو يا آپ کا کھاتہ فعال کيے جانے کا منتظر ہو
اسلام آباد: اپوزیشن نے سینیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا اور ایوان میں فوری بحث کرانے کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں شروع ہوا تو اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر احتجاج کرتے ہوئے فوری بحث کروانے کا مطالبہ کیا، جس پر چیئرمین نے ریمارکس دیئے کہ پہلے وقفہ سوالات کرلیں، اس کے بعد اس پر بات کرلیں گے۔ ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اور پی پی رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہر ماہ عوام پر قیمتوں کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے، یہ پہلی بار نہیں بڑھائی گئیں، آئے دن قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ہم قیمتوں میں اضافے کو مسترد کرتے ہیں۔ قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گزشتہ دو ماہ میں عالمی مارکیٹ میں 35 فیصد اضافہ ہوا، آج عالمی مارکیٹ میں 93 ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت ہے، حکومت نے لیوی ٹیکس میں کمی اور سیلز ٹیکس کو صفر کیا، حکومت جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے وہ اٹھا رہی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلی بار کم یا زیادہ نہیں ہو رہیں، ن لیگ کا دور ہو یا پیپلز پارٹی کا دور ہو، ایسے حالات آتے رہے ہیں، عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی ہوگی تو پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہونگی، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کہا تھا پٹرول مہنگا ہے ہم کیا کریں ؟ ہم بالکل یہ نہیں کہتے کہ ہم کیا کریں۔ 0 Reviews Write a Review Submit Review Tags: 92 news headlines 92 news headlines today a1 tv a1tv a1tv pakistan breaking news latest news pakistan news
لاہور(ویب ڈیسک): نوجوان نسل میں سیلفی کے بعد ٹک ٹاک نامی موبائل بڑی تیزی سے مشہورہورہی ہے جسے نہ صرف نوجوان لڑکے لڑکیاں بلکہ بڑی عمرکے افراد بھی کثیرتعدادمیں استعمال کررہے ہیں. سیلفی تو اب تک ہزاروں لوگوں کی جان لے چکی ہے لیکن اب ٹک ٹاک موبائل ایپ کی وجہ سے نوجوان لڑکے کی […] تنہائی دور کرنے والا روبورٹ تیار لاہور(ویب ڈیسک)اگر آپ تنہائی کا شکار ہیں یا پھر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا کوئی ساتھی نہیں رہا تو ایسی صورت میں کسی بھی انسان سے دوستی یا پالتو جانور پالنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین ‘ساتھی روبوٹ’ متعارف کروا دیا گیا ہے۔خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جاپانی […] ماہرین کا شہد کی مکھیوں کو ڈرون بنانے کا تجربہ واشگٹن: شہد کی مکھیاں بہت طویل فاصلہ طے کرتی ہیں۔ ان کی پیٹھ پر ہلکے برقی آلات لگا کر ایک وسیع علاقے کے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ذرائع کےمطابق : یونیورسٹی آف واشنگٹن میں پال ایلن اسکول آف کمپیوٹر سائنس اینڈ انجینئرنگ کے شیام گولکاٹا اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ […] فیس بک استعمال کرنا انتہائی غیر محفوط ہوگیا، لاکھوں صارفین کاحساس ڈیٹاچوری لاہور(ویب ڈیسک): دنیا کی مشہورترین سوشل ویب سائٹ فیس بک صارفین کے استعمال کے لیے دن بدن انتہائی غیرمحفوظ ہوتی جارہی ہے. تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فیس بک سے ایک بارپھر لاکھوں صارفین کا حساس ڈیٹاچوری ہوگیا ہے. فیس بک کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں ایک بار پھر لاکھوں صارفین کی پرائیویسی […] مصنوعی ذہانت، فنگر پرنٹ سیکیورٹی سسٹم کو ناکام بنا سکتی ہے:ماہرین نیویارک: کمپیوٹر سیکیورٹی ماہرین نے کہا ہے کہ نیورل نیٹ ورک پر مبنی مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جنس یا اے آئی) سسٹم فنگرپرنٹ سیکیورٹی سسٹم کو بھی ناکام بناسکتی ہے جو اب تک دنیا میں سب سے قابلِ اعتبار سیکیورٹی نظام تصور کئے جاتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق :نیویارک یونیورسٹی میں وقع ٹینڈن اسکول […] روسی کمپنی کے دعوے نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ھلچل مچا دی لاہور(ویب ڈیسک) روسی کمپنی نے سب سے زیادہ وزن اٹھانے والے ڈرون کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا بنایا ہوا ڈرون پیٹرول انجن اور برقی موٹروں سے پرواز کرتا ہے اور مسلسل 8 گھنٹے تک 220 کلوگرام وزن اٹھاسکتا ہے۔ اب یہ کمپنی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سے رابطہ کررہی […] رواں سال گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیاہوا؟تفصیلات جاری لاہور(ویب ڈیسک )گوگل نے دنیا کی سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات اور ایونٹس کی تفصیلا ت جاری کردی ہیں . تفصیلات کے مطابق ٹیکنالوجی جائنٹ گوگل نے رواں برس کے دوران کی جانے والی سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات اور ایونٹس کے متعلق تفصیلات جاری کر دی ہیں ۔فہرست […] انسٹاگرام نے نیا فیچرایپ میں شامل کر دیا لاہور(ویب ڈیسک )مشہورفوٹو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام میں بھی ’واکی ٹاکی‘ کا نیا فیچر شامل کردیا گیا ہے، جس کے ذریعے سے صارفین اپنے دوستوں سے وائس نوٹ کے ذریعے بات چیت کرسکیں گے۔ ذرائع کےمطابق :انسٹا کا ‘واکی ٹاکی’ فیچر واٹس ایپ، فیس بک، میسنجر ایپ اور دیگر ایپس کی طرح نقل کردہ آواز والے […] فیس بک کے مقابلے میں لانچ کی گئی سروس گوگل پلس بند کرنے کا فیصلہ لاہور(ویب ڈیسک )گوگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے مقابلے میں لانچ کی گئی اپنی سوشل میڈیا سروس گوگل پلس کو طے شدہ شیڈول سے چار ماہ قبل ہی آئندہ برس اپریل میں بند کرنے کا اعلان کردیا، کیونکہ ایک بار پھر صارفین کا ڈیٹا متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع […] سورج اور ہوا سے بننے والی بجلی کو جمع کرنے والا نظام ڈیزائن لاہور(ویب ڈیسک )امریکی ماہرین نے سورج اور ہوا جیسے قابلِ تجدید (رینیوایبل) ذرائع سے بننے والی بجلی کو مو ¿ثر انداز میں جمع کرنے والا ایک نظام ڈیزائن کیا ہے جسے ’ڈبے میں سورج‘ کا نام دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ قابلِ تجدید ذرائع توانائی کو جمع کرنے کا مو ¿ثر نظام دنیا میں کہیں موجود نہیں […]
تفصیلات کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے اب اس کو یہ کام ختم کردینا چاہئے۔ میئر کراچی نے کہا کہ آرٹیکل 66 کی سارا ملک مخالفت کررہا ہے، مشرف کے خلاف فیصلے کی سیاسی جماعتیں، طلبا، عوام سب مذمت کررہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وسیم اختر نے کہا کہ نیب کو دعوت دیتا ہوں کہ کے ایم سی کے تمام محکموں کا احتساب کریں۔ مزید پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان کا پرویز مشرف کے حق میں ریلی نکالنے کا اعلان وسیم اختر کا کہنا تھا کہ کراچی چڑیا گھر میں 1960 میں مغل گارڈن کا افتتاح کیا گیا تھا، برطانوی ملکہ اور دلیپ کمار بھی مغل گارڈن آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغل گارڈن کے ایم سی فنڈز سے نہیں بلکہ انتظامیہ نے خود بنائی ہے، مغل گارڈن کو عام عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم پاکستان نے 22 دسمبر کو مشرف کے حق میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل میئر کراچی وسیم اختر اور حیدر عباس رضوی نے دبئی میں پرویز مشرف سے ملاقات کی تھی اور ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی تھی۔
اسلامی ہجری تقویم کے لحاظ سے سال کا آٹھواں مہینہ ’’شعبان المعظم‘‘ کہلاتا ہے۔ اس مبارک مہینے کو یہ اعزاز اور شرف حاصل ہے کہ رسولِ رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ شعبان میرا مہینہ ہے جبکہ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘۔ (الجامع السیر)۔۔۔۔۔ شعبان کی پندرہویں شب گناہ گاروں کی بخش کی رات ہے۔ اس رات خداوندتعالیٰ کی خصوصی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمتیں اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے اس مبارک رات کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے۔ ترجمہ: ’’حم ، قسم ہے واضح کردینے والی کتاب کی! یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے ۔ بیشک ہم لوگوں کو آگاہ کردینے والے تھے ۔ اس رات میں ہرمحکم کام کافیصلہ صادر کیاجاتا ہے۔ وہ فیصلے ہمارے ہوتے ہیں اور ہم ہی بھیجنے والے ہیں‘‘۔ (سورۂ دخان۔ آیت 2 تا 5) مفسرین کرام کی رائے کے مطابق اس آیت مبارکہ میں جس رات کا ذکر ہے وہ شعبان کی 15 ویں شب ہے اور اِسے شب برأت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات حضور پاکﷺ کو بستر پر نہ پایا تو میں پریشان ہوگئی اور آپ ﷺ کی تلاش میں جنت البقیع پہنچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ دعا میں مشغول ہیں۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! اتنی رات گئے آپ قبرستان میں کیوں تشریف فرماہیں؟‘‘۔۔۔۔۔ تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! آج شعبان کی پندرہ تاریخ ہے آج کی رات اللہ تعالیٰ آسمان ِدنیا میں نزول فرماتا ہے اور اس کی بخشش و عطا اس کے بندوں پر اس قدر ہوتی ہے کہ قبیلہ بنوکلب کی بکریوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیا جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی حدیث نمبر672) اس واقعہ کی بناء پر علمائے کرام پندرھویں شب کو قبرستان جانے اور مومنین کی ارواح کو ایصال ثواب پہنچانے کو افضل عمل قرار دیتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اس رات کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اس رات کئی قبریں کھدیں، اور قبروالا اپنے عیش و سرور میں مست ہے، اس رات کئی کفن دھل گئے اور کفن والا بازار میں بے خبر گھوم رہا ہے۔ اس رات کئی مکان بن گئے اور مکان والے کی موت قریب آگئی۔ اس رات کئی آدمی ملک و حکومت چاہتے ہیں مگر ان کی تباہی و بربادی کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ رات ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہو اللہتعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت کروا لیں‘‘۔ روایات کے مطابق اس رات اللہ پاک کے احکام کے مطابق کائنات کے انتظامی ارکان سال بھر کے لئے تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کی زندگی اور موت، تندرستی اور بیماری، خوشمالی اور تنگدستی یعنی تمام مخلوقات کے لیے وسائل کی فراہمی کا بجٹ تیار کرتے ہیں۔ شعبان کی پندرہویں شب گناہ گاروں کی بخش کی رات ہے۔ اس رات خداوندتعالیٰ کی خصوصی تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔ آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمتیں اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ اس شب میں للہ رب العزت اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور معافی چاہنے والوں کو معاف کرتا ہے اور رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور بغض رکھنے والوں کو اِن کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ (بہیقی شریف) حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورسرورِکائناتﷺ شعبان المعظم میں کثرت سے روزے رکھتے اور فرماتے تھے کہ اپنی جانوں کو پاک کرو۔ اپنے سینوں کو صاف کرو، کیوں کہ اس مبارک مہینہ میں رب العزت کے حضور اعمال پیش ہوتے ہیں۔ (شمائل ترمذی۔صفحہ نمبر177) اس ماہ میں روزے رکھنے اور اس رات کثرت سے توبہ واستغفار کرنے کو پسندیدہ طریقہ قرار دیا گیا ہے۔ توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا، واپس آجانا، بچھڑ کر مل جانا اور شرمسار ہو کر خدا کی جانب متوجہ ہونا، ہمارے پالنے والے کو، ہمیں زندگی عطا کرنے والے کو اور ہمارے رب کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اظہار ندامت کے ساتھ عجزوانکساری کے ساتھ اللہ کے حضور جھک جاتا ہے۔ یہ رات کثرت سے استغفار کرنے کی ہے۔ اس رات ہمیں چاہیئے کہ اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہمارا نام مشرک، کینہ پروریاقطع رحمی یا حقوق العباد میں حق تلفی کرنے والوں کی فہرست میں تو شامل نہیں۔ اگر ہم میں بہت سی برائیاں یا خرابیاں موجود ہیں تب بھی اس بے پناہ فضیلت والی رات میں جس میں اللہ کی رحمت پکار رہی ہے کہ جیسے بھی ہو، آؤ! پلٹ آؤ، اپنے رب کی جانب۔ یہ دربار نا امید ی کا دربار نہیں ہے اگر سوبار بھی توبہ توڑ چکے ہو تو تب بھی آجاؤ کیوں کہ اس رات رحمن و رحیم کا خصوصی فضل ہر مانگنے والے کی طلب کو پورا کرنے والا ہے۔ علامہ شامی اپنی سیرت کے ’’باب الصلوٰۃ والسلام‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’سورۂ الاحزاب کی یہ آیت کہ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اپنے پیارے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں اور اے ایمان والو! تم بھی اپنے نبیؐ کی بارگاہ میں اس طرح درودوسلام عرض کیا کرو جس طرح اس کا حق ہے (یعنی خوب محبت اور کامل ادب کے ساتھ)۔ ہجرت کے دوسرے سال شعبان المعظم ہی کے مقدس مہینے میں نازل ہوئی۔۔۔۔۔صلی اللہ علی حبیبہ محمد وسلم۔۔ لہٰذا اس مہینے میں پہلے سے بھی زیادہ درود پاک پڑھنے کی کثرت کرنی چاہئے اور جو درود و سلام آسانی سے یاد ہو، وہ پڑھنا چاہئے‘‘۔ اس مبارک شب میں ذکرِ الٰہی کے ذریعے سے لوگوں کے دلوں کی صفائی ہوتی ہے اور دلوں سے زنگ اُترتے چلے جاتے ہیں۔ تلاوت قرآن پاک کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ درود وسلام پورے ذوق اور صدقِ دل سے پڑھنا اور سننا چاہئے کہ رضائے رب کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ قبرستان جاکر مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی و ایصالِثواب کرنا چاہئے کہ یہ سنتِ نبویؐ ہے۔ حضور اقدسﷺ خود اس مبارک شب میں ایسا کرتے تھے۔ صلوٰۃ قائم کرنی چاہئے۔ سورہ یٰسین کی کثرت اور دعا سے ترقیٔ رزق اور درازیٔ عمر، گیارہ سو مرتبہ استغفار سے گناہوں کی معافی اور فاتحہ کے بعد سات مرتبہ ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھ کر 50 رکعت دو، دو رکعت کرکے پڑھنے اور پھر ایک سو گیارہ مرتبہ آیت الکرسی کا ورد کرنے سے دل کی ساری آرزوئیں اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور رحمت کے دروازے اس بندے کے لئے کُھل جاتے ہیں۔ عذابِ قبر سے نجات کے لئے دو رکعت نفل میں فاتحہ کے بعد سورہ ملک اور پھر دو رکعت نفل نماز میں فاتحہ کے بعد سورہ مزمل پڑھیں، کیونکہ سورہ مزمل اور سورہ ملک عذابِ قبر سے نجات کا ذریعہ ہیں۔ اس رات نوافل میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات پرغور و فکربھی کریں۔ قرآنِ پاک کی تلاوت اور مفہوم میں غور کرنے سے اطمینان قلبی نصیب ہوتا ہے۔ شب برأ ت کی مقدس رات میں ہمیں چاہیئے کہ نیک اعمال کا عہد کریں اپنے مسلمان بھائی کی عزت و آبرو کی حفاظت کا وعدہ اپنے رب سے کریں۔ اپنے دلوں میں رحم دلی کے جذبات پیدا کریں۔ باہمی منافقتوں کو ختم کریں اور اپنے اہل وعیال ، قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ اللہ کے پسندیدہ طریقہ پر معاملات کو استوار کرنے کی کوشش کریں۔ اس رات کی عبادات کے سلسلہ میں اولیائے کرام اور بزرگانِ دین نے مختلف طریقہ بتائے ہیں۔ شرح احیاء العلوم میں تحریر ہے کہ ’’شعبان کی پندرہویں شب میں مشائخ نے بعد نماز مغرب چھ رکعت تین سلاموں کے ساتھ ادا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے۔ دو رکعت کی نیت باندھے اور دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص چھ مرتبہ پڑھے۔ دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر سورۂ یٰسین پڑھے اس کے بعد خیر و عافیت اور دارزیٔ عمر کی دعا مانگے۔ دوبارہ پھر اسی ترکیب سے دو رکعت پڑھے اور سورہِ یٰسین پڑھ کر وسعتِ رزق کی دعا مانگے پھر تیسری مرتبہ اس طرح دو رکعت پڑھے اور سورۂ یٰسین پڑھنے کے بعد ایمان پر خاتمہ کی دعا مانگے‘‘۔ بعض علماء نے اسی شب میں غسل کے بعد مندرجہ ذیل ترکیب سے نماز پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب بیان کیا ہے۔ پہلے دو رکعت نماز تحیتہ الوضو اس ترکیب سے پڑھے کہ دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیتِالکرسی ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھے۔ دو دو رکعت کے بعد ہر رکعت میں سورۂ قدر ایک مرتبہ اس کے بعد سورۂ اخلاص پچیس مرتبہ پڑھے۔ بزرگانِ دین نے ذکر و اذکار کے اور بھی کئی طریقے بتائے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں۔ *۔۔۔ سورۂ دخان کی تلاوت کریں اور معنی و مفہوم پر غور کریں۔ *۔۔۔چودہ شعبان کی شام بعد نماز مغرب چالیس مرتبہ لاحول ولا قوۃ اِلاَ با للہ العلی العظیم پڑ ھیں۔ *۔۔۔کثرت کے ساتھ استغفار پڑھے اور اپنے پچھلے گناہوں پر اللہ رحمن و رحیم سے مغفرت طلب کرے اور آئندہ ان غلطیوں اور گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] شبِ برأت کی عبادات، اعمال اور اوراد و وظائف شبِ برأت کے موقع پر مندرجہ ذیل اورادو وظائف کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں عجز و انکسار کے ساتھ خود کو پیش کریں۔ 1- سورۂ الدّخان ایک مرتبہ۔ باترجمہ معنی و مفہوم پر تفکر کے ساتھ 2- سورہ کوثر 21مرتبہ۔ باترجمہ، معنی و مفہوم پر تفکر کے ساتھ 3- استغفار 100 مرتبہ استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ 4- کلمہ طیبہ 300 مرتبہ 5- یا کریم 101 مرتبہ 6- رات کو دو بجے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق نماز تہجد ادا کریں۔ اس کا طریقہ یہ ہے دو دو رکعت کرکے 12 رکعات ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ اخلاص (قل ھو اللہ) ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ دوسری رکعت میں دو مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھیں اس طرح ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ اخلاص بڑھاتے جائیں۔ بارہویں رکعت میں سورۂ اخلاص بارہ مرتبہ پڑھی جائے گی۔ 7- نماز تہجد کے بعد یاحی یاقیوم 100 مرتبہ 8- درود خضری 100مرتبہ صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم 9- نماز کے فوراً بعد مراقبہ کریں۔ مراقبہ میں یہ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ بیس منٹ مراقبہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ 10– پوری رات میں کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے یاحی یاقیوم کو اسمِ اعظم قرار دیا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ یاحی یاقیوم کثرت کے ساتھ پڑھنے سے غیبی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ [/box] Like 0 Liked Liked No Comments Uncategorized شب برات مغفرت ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو روحانی ڈائجسٹ ⋅ Mart 2021 مغفرتـ ڈھونڈتی پھرتی ہے کنہگاروں کو [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] شبِ برأت میں اللہ تعالیٰ ہر مانگنے والے کو عطا کرتا ہے اورگنہگاروں کی بخشش فرماتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو مشرک ہوں، ناحق قتل کرتے ہوں، نشہ میں مبتلا ہوں، دلوں میں بغض اور خونی رشتوں کا لحاظ نہ کرتے ہوں۔ غیبت ، والدین کی نافرمانی اورتکبر کرنے والے بھی اس رات اللہ کی رحمت سے محروم رہتے ہیں۔ [/box] ماہِ شعبان کی چودہ تاریخ کی شب ایسے ہی مبارک ومسعود اوقات میں ہے جن میں ربِ کائنات کی شانِ کریمی ورحیمی کا خصوصی ظہور ہوتا ہے اور اپنے اطاعت شعار بندوں کی طرف اس کی رحمتِ عام متوجہ ہوتی ہے۔ شب کے وقت یوں بھی عام طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے برکت کا نزول اور اس کا انعام واکرام زیادہ ہوتا ہے۔ شبِ برأت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی کیا ہے، ارشاد ہوتا ہے ’’اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام‘‘۔ [سورۂ دخان: آیت 2] شبِ برأت ایک ایسی اہم رات ہے جس میں فرد، قوم، ملک اور سلطنت کی تقدیروں میں آئندہ سال کے دوران یعنی شعبان سے شعبان تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ اور جس دن، جس گھڑی، جس جگہ اور جس وجہ سے ہونے والا ہے ان سب کی تفصیلات مع جزئیات، کاتب تقدیر لوحِ محفوظ سے ظاہر کرکے فرشتوں کو عملدرآمد کی غرض سے دے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ حالات یا تو بدستور برقرار رکھے جاتے ہیں یا ان میں بہتر یا ابتر تبدیلی کردی جاتی ہے۔ گویا آج کی رات تاریخ سازی اور تقدیر سازی کی رات ہے۔ اللہ کے وسائل اس کی نعمتیں ،رحمتیں لامحدود ہیں اس کا اپنا فرمان ہے وَرَحْـمَتِىْ وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ [سورۂ اعراف: آیت156] ’’میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے‘‘ اللہ کے اس رات کو Disclose کرنے کی حکمت اصل میں ’’ترغیب و ترہیب‘‘ ہے، جب اللہ نے یہ بتادیا کہ آج کی رات سب احکامات نافذ کرنے کے لیے سپرد کیے جارہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بتادیا کہ اگرچہ یہ میرا طے شدہ بجٹ ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ میں نے ناصرف لوحِ محفوظ تخلیق کیا ہے بلکہ لوح محفوظ کا مالک بھی ہوں، اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو میں لکھا ہوا مٹابھی دیتا ہوں اور نہ لکھا ہو تو لکھ بھی دیتا ہوں۔ یعنی اگر ردو بدل کا امکان نہ ہوتا تو اس رات کاذکر نہ کیا جاتا ۔ حضورپاکﷺ نے فرمایا ہے کہ دو چیزیں تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔ ارشادِ اقدس ہے: لَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ ’’تقدیر نہیں بدلی جاتی مگر دعا سے اور عمر نہیں بڑھائی جاسکتی مگر نیکی سے‘‘۔(مسلم) گویا اس رات کو بنایا جانا اللہ کے کرم کی بدولت ہے۔ شعبان سے پہلے ماہ رجب شروع ہوتے ہی رسول اکرمﷺاہتمام فرمانے لگتے۔ چنانچہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رجب آتا تو رسول اللہﷺ دعا کرنے لگتے کہ ’’ایِاللہ ! ہمارے لیے رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہِرمضان تک پہنچا‘‘۔ (بیہقی ومشکوٰۃ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی ماہ میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے’’ تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ ! اس میں کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟آپﷺ نے ارشاد فرمایا’’ اس شب میں اس سال کے پیدا ہونے والے اولادِ آدم لکھ دیے جاتے ہیں اور اس شب میں اس سال کے مرنے والے سبھی انسان لکھ دیے جاتے ہیں اور اس شب میں ان کے اعمال اُٹھائے جاتے ہیں اور اس شب میں ان کا رزق اُتارا جاتا ہے‘‘۔ (بہیقی و مشکوٰۃ) حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) آئے تو ذکر وعبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس شب میں غروب آفتاب ہوتے ہی آسمانِ دنیا کی طرف توجہ و التفات فرماتا ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے طلب مغفرت کرے تو میں اس کی مغفرت کردوں۔۔۔۔۔؟ کون ہے جو طلب رزق کرے تو میں اسے رزق دے دوں۔۔۔۔۔؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دے دوں۔۔۔۔۔؟ صبح تک اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے بیان کیا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف جلوہ گری فرماتا ہے اور مشرک وکینہ پرور کے سوا ہر مسلمان کی مغفرت فرمادیتا ہے‘‘۔ (بیہقی و ابن ماجہ بروایت حضرت ابو موسیٰ اشعری) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تبارک وتعالیٰ شبِنصف شعبان میں اپنی مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور ناحق قتل کرنے والوں اور بغض وکینہ رکھنے والوں کے علاوہ سارے مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے‘‘۔ (مسند احمد ومشکوٰۃ ومجمع الزوائد) حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بیان کردہ ایک طویل حدیث کے مطابق یہ لوگ بھی محروم مغفرت رہتے ہیں یعنی ناطہ توڑنے والے ، تکبرکرنے والے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے اور شراب نوشی کرنے والے۔ (شعب الایمان للبیہقی) حضرت عثمان بن محمدؓ نے بیان کیا۔ رسولِاللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ایک شعبان سے دوسرے شعبان کے درمیان لوگوں کی موت کا وقت اس شب میں لکھ دیا جاتا ہے اور انسان نکاح کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں، حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔(شعب الایمان للبیہقی والجامع الاحکام القرطبی) یہ رات ہمارے لیے عملی زندگی میں کیا پیغام لاتی ہے اس کے لیے ہمیں حضور نبی کریمﷺ کے اس ارشاد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آپﷺ فرماتے ہیں ’’اس رات اللہ تعالیٰ بے شمار انسانوںکی بخشش فرماتا ہے قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لیکن پھر چند لوگوں پر اس کے نظرکرم نہیں پڑتی ‘‘ پوچھا گیا کہ ’’وہ بد نصیب کون ہیں؟‘‘۔ فرمایا’’مشرک جو خدا کی صفات میں دوسروں کو شریک کریں، کینہ پرور جن کے سینے بغض اور عداوت سے بھرے پڑھے ہیں۔ رشتہ داروں سے صلح رحمی نہ کرنے والے، مغرور اور متکبر لوگ اور والدین کے نافرمان وغیرہ‘‘۔ اگر اس بات میں ہم اس واضح ہدایت کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں تو ہماری معاشرتی زندگی میں کیسا انقلاب آجائے۔۔۔۔۔! شہر شہر، بستی بستی اور قریہ قریہ جنت کا سماں پیش کرنے لگیں خصوصا ً ہمارے ملک میں جہاں تفرقہ و انتشار پھیلتا جارہا ہے۔ اس کے برعکس اگر آج ہم دین اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے تمام مسائل ختم نہ ہوجائیں۔ یہ رات لالچی، حرص پرست اور دولت کے پیچھے جان دینے والوں کو ایک واضح سبق دیتی ہے آخرت کی فکر اور دنیا کی بے ثباتی کی طرف ہماری توجہ مرکوز کراتی ہے جو لوگ اس دنیا کو دائمی سمجھ بیٹھے ہیں، ان کے لیے یہ رات ایک خاص علامت ہے وہ چشمِ بصیرت سے اس رات کا جائزہ لیں آج ہمیں کدورت دور کرنے ، حقوقِالعباد کا احساس کرنے اور فسق وفجور سے اجتناب برتنے کا عہد کرنا چاہیے۔ یہی اس مبارک رات کا تحفہ ہے اس کا پیغام ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کرسکتے ہیں اور رمضانِالمبارک جو تزکیۂ نفس اور قرآن پاک کے نزول کا مہینہ ہے اسے صحیح طور پر منانے کے لیے خود کو استقبالیہ انداز میں تیار کرسکتے ہیں، جس طرح آمد بہار سے سوکھی اور خزاں رسیدہ ٹہنیوں میں جان پڑ جاتی ہے مردہ پودوں میں بھی زندگی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں اسی طرح گنہگاروں کے دل ماہشعبان المعظم میں روشنی پکڑتے ہیں مردہ دل بیدار ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک میں یہی دل انوارِخداوندی کا مرکز بن جاتے ہیں اور بے شمار مصیبت زدہ لوگ شعبان اور رمضان کے مقدس مہینوں میں اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ حضور نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اندازہ کیجیے کہ جس چیز کو حضور اکرم ﷺ اپنے تعلق کا شرف بخشیں اس کے تقدس و فضلیت کا معیار کیا ہوگا اسی مبارک اور پرتقدس ماہ کی پندرھویں شب کو شبِ برأت کا نام دیاگیا ہے جس کے معنی نجات کی رات کے ہیں۔
برطانوی سپریم کورٹ نے 16فبروری تک فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی مہلت دی ‘ بصورت دیگر انہدام کی کاروائی کا آغاز ہوجائے گا لندن۔مشرقی لندن میں واقع مسجد ’ ابے ملز‘ جو ’ مسجد الیاس‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اس مسجد کو یوروپ کے سب سے بڑی مسجد بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ‘ تاہم اب اسے انہدام کا سامناہے۔ منگل کے روزبرطانیہ سپریم کورٹ نے مسجد کو مہندم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ جس ممینم پر مسجد کی گئی بدلیہ کے مطابق وہ کسی اور مقصد کے لئے مخصوص تھی۔ مشرقی لندن کے علاقے اسٹرفورڈ میں واقع اس مسجد میں ہفتہ وار نمازیوں کی اوسط تعداد دوہزار کے قریب ہے۔ اسکی تعمیر ایک عارضی اسلامی مرکز کے طو رپر جس اراضی پر ہوئی اسے 1992میں تبلیغی جماعت سے وابستہ کارکنا ن نے خریدا تھا۔ اس سے قبل یہاں ایک کمیکل فیکٹری قائم تھی۔ مسجد کے انہدام سے تعلق عدالتی حکم کی خبر کو متعد د مقامی ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔ ان میں’ دی ٹائمز‘ اخبار نے بدھ کی اشاعت میں بتایا کہ تبلیغی جماعت نے مسجد کی تعمیرکے وقت ہی اس کی توسیع کا منصوبہ بندی کرلی تھی تاکہ یہاں ہزاروں افراد نماز ادا کرسکیں۔ لہذا للچائی نظر اس عظیم الشان مسجد کے منصوبے پر لگادیں ‘ بہر کیف اندیشوںں او رتشویش کو کم کرنے کے لئے تبلیغی جماعت نے مسجد کی گنجائش 9310نمازیوں تککم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ادھر بیو ہم ٹاؤن کونسل نے اٹھارہ ہزار مربع میٹر کی اراضی پر مسجد کی توسیع کی اجازت دینے سے انکارکردیا۔ اس لیے کہ یہ اراضی در حقیقت ہاوزنگ او ر تجارتی مقاصد کے لئے مختص کی گئی تھی۔ سال2015میں توسیع کو مسترد کرنے کے حوالے سے سرکاری حکومتی تائید بھی جاری کردی گئی۔ تبلیغی جماعت کو تین ماہ کی مہلت دی گئی تاکہ وہ اس اراضی کو مسجد کے واسطے مخصوص کرنے سے رک جائیں۔ تاہم جماعت نے فیصلے کے خلاف اپیل کردی او ریہ سلسلہ دوبرس سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ آخر کار برطانیہ کی سپریم کورٹ نے مسجد کے انہدام کا فیصلہ جاری کیااور اس پر عمل درآمد اختیار بلدیاتی کونسل کو مل گیا۔
ڈرامہ سیریل ’کیسی تیری خود غرضی‘ میں دانش تیمور (شمشیر)، درفشاں سلیم (مہک)، لائبہ خان (ندا)، نعمان اعجاز (بابا صاحب)، شہود علوی (اکرم مہک کے والد)، لیلیٰ واسطی، عتیقہ اوڈھو (مہوش، شمشیر کی والدہ)، حماد شعیب (احسن) ودیگر مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔ View this post on Instagram A post shared by Danish Taimoor (@danishtaimoor16) 28ویں قسط میں شمشیر کہتے ہیں کہ ’مجھے معاف کردو، مہک کہتی ہیں کہ کس بات کے لیے معافی مانگ رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے احسن کے ساتھ تمہیں دیکھا تو روکنے کی ہمت نہیں ہو، مہک کہتی ہیں کہ ’میں بیوی ہوں تمہاری روک سکتے تھے۔‘ View this post on Instagram A post shared by Danish Taimoor (@danishtaimoor16) شمشیر کہتے ہیں ’ہاں روک سکتا تھا لیکن اس وقت میرے ذہن میں بہت سارے خیالات آگئے۔‘ ’وہ گاڑی میں تھا میرے پاس دوست کی دی ہوئی بائیک ہے، وہ تمہارا کزن ہے، میرے ساتھ میرا ماضی جڑا ہوا ہے بس ہمت نہیں ہوئی۔‘ مہک کہتی ہیں کہ ’شمشیر میں ماضی بھول چکی ہوں اور مجھے ماضی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور بیوی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے شوہر کے پاس گاڑی ہے یا بائیک۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بیوی کے لیے اس کا شوہر سب سے محفوظ انسان ہوتا ہے چاہے اس کے ساتھ پیدل ہی کیوں نہ چلنا پڑے۔‘ یہ سن کر شمشیر کہتے ہیں کہ ’مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب تم کہتی ہو کہ میں تمہارا ہوں۔‘ مہک کہتی ہیں کہ ’تم بہت بدل گئے ہو پہلے مجھے تم سے خوف آتا تھا، تمہارے ساتھ سے ڈر لگتا تھا مگر آج ایسا نہیں ہے ایسے ہی رہنا۔ کیا شمشیر، بابا صاحب سے مہک کو بچالیں گے، کیا شمشیر اور مہک کے درمیان کزن احسن سے متعلق غلط فہمیاں دور ہوگئیں؟ کیا ندا کا شک دور ہوپائے گا؟ یہ جاننے کے لیے اگلی قسط ہر بدھ کی رات 8 بجے دیکھیں۔
سائٹ کے اس حصہ میں شیعہ سائٹس کے موجودہ مطالب کو باعتبار موضوع فھرست کیا گیا ہے اور چند حصوں میں تقسیم بندی کرکے اردو ، انگلش، عربی، فارسی اور فرینچ زبانوں میں پیش کیا گیا ہے ۔ تقسیم بندی: 1- مذھب شیعہ کی سب سے بڑی لائبریری و آڈیو ویڈیوز اور سافٹ ویئرز جو اس حصہ میں پیش کیے گئے ھیں وہ تمام شیعہ سائٹس میں ماخوذ اس ترتیب سے مندرج ھیں :کتب، مقالات، مجلات، سافٹ ویئرز، آڈیوز، ویڈیوز اور تصاویر۔ 2- دوسری تقسیم بندی میں مطالب کو موضوع کے اعتبار سے فھرست کیا گیا ہے تاکہ وزیٹر آسانی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرسکے۔ اس تقسیم بندی میں بعض عناوین اس طرح سے ہیں : قرآن، حدیث، پیغمبراکرم(ص)، اھل بیت(ع)، دعاو زیارت، تاریخ، عقائد، فقہی احکام، اخلاق، گوشہ ادب و ۔ ۔ ۔ 3- علماء سے رابطہ، مراجع تقلید سے استفتاء کا امکان، کتابوں کی ڈاؤنلوڈ و ۔ ۔ ۔ تقسیم بندی کے اس حصہ میں شخصیتوں کے بارے میں، شیعہ سائٹس ، مراکز و ادارہ جات، امکانات و خدمات، گفتگو و مناظرے، لائبریریز اور سوال و جواب کو پیش کیا گیا ہے۔ 4- آخری تقسیم بندی میں جنسیت کے اعتبار سے ان کے سن و سال کو مدنظر رکھتے ہوئے مفید و حذاب مطالب کو بچوں، جوانوں اور خواتین کے پیش کیا گیا ہے ۔اس حصے میں عناوین اس طرح سے ھیں: بچوں کا صفحہ ، جوانوں کا صفحہ، خواتین کا صفحہ۔ اس حصے کی اس طرح ہر صنف سے مخصوص مطالب کو پیش کیا گیا ہے کہ وزیٹر کمترین وقت میں بہت زیادہ مطالب کو حاصل کرلیتا ہے ۔ Shiasearch.com کی جانب پوری دنیا سے وزیٹرز کا ہر روز کا استقبال خصوصا عربی ممالک ، امریکا و یورپی ممالک کی جانب سے بہت زیادہ استقبال اور اسی طرح نویں عالمی انفارمیشن فسٹیوال (انفارمیشن و کلچر) میں سب سے پھلا رتبہ حاصل کرنے کے سبب اس کی اھمیت اور مختلف جھات سے انفارمیشن جیسے کاموں کو بھتر و مفید تر بنانے کی ضرورت زیادہ نظر آنے لگی ہے ۔ امید ہے کہ انفارمیشن میں خصوصی اھمیت کے مدنظر اس کو آگے بڑھاتے اور تکراری امور سے اجتناب کرتے ہوئے بنیادی اور اساسی کاموں میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں گے ۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل اے نبی کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد 1۔ قُلْ ....: سورت کی ابتدا سے یہاں تک مختلف طریقوں سے شرک کی تردید اور مشرکین کو وعید کا ایک لمبا سلسلہ چلا آ رہا ہے، جس کی پروا بظاہر کافر و مشرک لوگ نہیں کرتے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس قدر پرزور کلام سے ان کے دلوں میں خوف کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جو حد سے بڑھ جائے تو نتیجہ یاس اور ناامیدی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہر جگہ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا بیان بھی ضرور فرماتا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے بندے ناامید ہو کر اس کی جناب میں آنے کی جرأت ہی نہ کریں، اور بشارت اور ترغیب کے ساتھ ترہیب اور ڈرانے کا بیان بھی فرماتا ہے، تاکہ وہ بے خوف نہ ہو جائیں، جیسا کہ جراح نشتر بھی لگاتا ہے اور مرہم بھی رکھتا ہے، پھر پرہیز کی تاکید کرتا ہے اور بد پرہیزی کے انجام سے ڈراتا ہے، فرمایا : ﴿نَبِّئْ عِبَادِيْ اَنِّيْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (49) وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ﴾ [ الحجر : ۴۹، ۵۰ ] ’’میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ [ الرعد : ۶ ] ’’اور بے شک تیرا رب یقیناً لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بڑی بخشش والا ہے اور بلاشبہ تیرا رب یقیناً بہت سخت سزا والا ہے۔‘‘ یہاں بھی وعید کے لمبے سلسلے کے بعد اپنے بندوں کو ’’ لَا تَقْنَطُوْا ‘‘ کے ساتھ اپنی رحمت کی امید دلائی اور بعد کی آیات میں انھیں جلد از جلد توبہ کی تلقین فرما کر وقت ہاتھ سے نکلنے سے ڈرایا ہے۔ 2۔ يٰعِبَادِيْ: بندے مومن ہوں یا کافر، سب اللہ کے بندے ہیں، اس لیے قرآن مجید میں ’’عِبَادِيْ‘‘ کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ مومن و کافر دونوں فریقوں کو اپنے بندے قرار دیا : ﴿اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اٰمَنَّا﴾ [ المؤمنون : ۱۰۹ ] ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے۔‘‘ اور کفار کو اپنے بندے کہا : ﴿وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ﴾ [ الفرقان : ۱۷ ] ’’اور جس دن وہ انھیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، اکٹھا کرے گا، پھر کہے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا وہ خود راستے سے بھٹک گئے تھے؟‘‘ اور دیکھیے سورۂ زمر (۱۶) مگر اس کا اکثر استعمال اللہ کے مخلص اور مومن بندوں کے لیے ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ﴾ [ الحجر : ۴۲ ] ’’بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں۔‘‘ 3۔ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ : اس آیت میں ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ سے مراد قرآن مجید کے اکثر استعمال کے خلاف کفار و مشرکین ہیں، اس کی دلیل اس کے بعد کی آیات ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ﴾ [الزمر : ۵۴ ] ’’اور اس کے مطیع ہو جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ جائے، پھر تمھاری مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘ اور ان کا یہ کہنا : ﴿وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ﴾ [ الزمر : ۵۶ ] ’’اور بے شک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔‘‘ اور یہ آیت : ﴿بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَ اسْتَكْبَرْتَ وَ كُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ الزمر : ۵۹ ] ’’کیوں نہیں،بے شک تیرے پاس میری آیات آئیں تو تو نے انھیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ یہ آیات کچھ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، چنانچہ انھوں نے فرمایا : (( أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ كَانُوْا قَدْ قَتَلُوْا وَ أَكْثَرُوْا، وَ زَنَوْا وَ أَكْثَرُوْا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا إِنَّ الَّذِيْ تَقُوْلُ وَ تَدْعُوْ إِلَيْهِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا كَفَّارَةً، فَنَزَلَ : ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ﴾ [الفرقان : ۶۸] وَ نَزَلَ : ﴿ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾ [الزمر : ۵۳] )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿یا عبادی الذین أسرفوا....﴾ : ۴۸۱۰ ] ’’مشرکین میں سے کچھ لوگ جنھوں نے قتل کیے تھے اور بہت کیے تھے اور زنا کیا تھا اور بہت کیا تھا، پھر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں یقیناً وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں بتائیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟‘‘ تو یہ آیت اتری : ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا يَزْنُوْنَ ﴾ [ الفرقان : ۶۸ ] ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔‘‘ (یعنی اس کے بعد کی آیات میں ہے : ﴿ اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾ [ الفرقان : ۷۰ ] ’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا نیک عمل، تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘) اور یہ آیت اتری : ﴿قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾ ’’کہہ دے اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔‘‘ 4۔ ’’اسراف‘‘ کا معنی کسی بھی چیز میں حد سے گزرنا ہے، عموماً اس کا استعمال خرچ کرنے میں ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا﴾ [ الفرقان : ۶۷ ] ’’اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں۔‘‘ یہاں اس سے مراد کفر و شرک کرکے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی ہے۔ ’’ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تمھاری زیادتی کا نقصان تم ہی کو ہے، اللہ تعالیٰ کو یا کسی اور کو نہیں، اس لیے اس زیادتی کے مداوے کی فکر بھی تمھی کو ہونی چاہیے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰى اَنْفُسِكُمْ ﴾ [ یونس : ۲۳ ] ’’اے لوگو! تمھاری سرکشی تمھاری جانوں ہی پر ہے۔‘‘ 5۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ : ’’قَنِطَ يَقْنَطُ قُنُوْطًا‘‘ (ع، ض) ناامید ہونا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کئی طرح سے گناہوں کی بخشش کی امید دلائی ہے۔ تفسیر رازی نے وہ دس وجہیں بیان کی ہیں : (1) ’’ يٰعِبَادِيْ ‘‘ (اے میرے بندو!) بندہ غلام کو کہتے ہیں۔ غلام بے چارہ مسکین، عاجز اور محتاج ہوتا ہے، اس کی مسکنت اور بے چارگی اسے مالک کے رحم و کرم کا حق دار بناتی ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ (اے میرے بندو!) کہہ کر ان کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور جسے اللہ تعالیٰ اپنا کہہ دے اس کے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ (3) ’’ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ ‘‘ كا مطلب يہ ہے كہ انهوں نے جو گناه کیے ان كا نقصان انھی كو ہے، الله تعالی كا اس سے کچھ نهيں بگڑا، اس ليے كوئی وجہ نہيں كہ وہ ان کی توبہ قبول نہ کرے۔ (4) ’’ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ میں صریح الفاظ کے ساتھ ناامید ہونے سے منع فرمایا۔ (5) ’’ يٰعِبَادِيْ‘‘ (اے میرے بندو!) کے ساتھ خطاب کے بعد کلام کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا : ’’لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ‘‘ (کہ میری رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ) مگر ’’مِنْ رَّحْمَتِيْ‘‘ کے بجائے فرمایا : ’’ مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ) کیونکہ لفظ ’’اللّٰهِ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سب سے بڑا اور اس کی تمام صفات کا جامع نام ہے۔ تمام صفات کمال کی جامع ہستی سے ناامید ہونا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ (6) اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا : کہنا تو یہ تھا کہ ’’إِنَّهُ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ‘‘ ( بے شک وہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) مگر دوبارہ اپنا نام لے کر فرمایا : ’’ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ‘‘ (کہ بے شک اللہ تعالیٰ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) دوبارہ اپنا گرامی قدر نام ذکر کرنے اور ’’ اِنَّ ‘‘ کے ساتھ اس کی تاکید سے مغفرت کے وعدے میں مبالغے کا اظہار ہو رہا ہے۔ (7) جَمِيْعًا : ’’ الذُّنُوْبَ ‘‘ میں الف لام استغراق کے لیے ہے، اس لیے تمام گناہوں کی مغفرت کے وعدے کے لیے ’’ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ ‘‘ ہی کافی تھا، مگر ’’ جَمِيْعًا ‘‘ کے ساتھ مزید تاکید فرما دی کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے ساتھ تمام گناہ، حتیٰ کہ شرک جیسے اکبر الکبائر کو بھی بخش دیتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ’’اَنِيْبُوْا ‘‘ اور ’’ اَسْلِمُوْا ‘‘ وغیرہ الفاظ کے ساتھ وضاحت آ رہی ہے۔ (8) اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ:’’ الْغَفُوْرُ ‘‘ ’’غَفَرَ يَغْفِرُ‘‘ کا اصل معنی پردہ ڈالنا ہے اور ’’ الْغَفُوْرُ ‘‘ اس سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں پر بہت زیادہ پردہ ڈالنے والا ہے۔ یہ عذاب کا باعث بننے والی چیزوں کو دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ (9) ’’ الرَّحِيْمُ ‘‘ ’’رُحْمٌ‘‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے کہ وہ بے حد رحم کرنے والا ہے۔ یہ مغفرت کے بعد مزید رحمت کے نتیجے میں عطا ہونے والی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان دونوں کا فرق شعراوی نے ایک مقام پر ایک مثال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ یہ مکمل نہیں ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی چور کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیتا ہے، اب وہ اسے سزا دے یا دلوا سکتا ہے، مگر وہ اس کی منتوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے وعدے کی وجہ سے اس کی چوری پر پردہ ڈال دیتا ہے اور کسی کو اس کی اطلاع نہیں دیتا، یہ مغفرت ہے۔ پھر وہ اس کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دے کر کاروبار میں کھڑا کر دیتا ہے، یہ اس پر رحم ہے۔ (10) ’’ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ میں ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر فصل اور خبر ’’ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہو گیا۔ یعنی اس کے سوا کوئی نہ غفور ہے نہ رحیم، اس سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ تمام وجوہ اللہ تعالیٰ کی کمال مغفرت و رحمت پر اور بندوں کے اس سے کسی حال میں بھی ناامید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان میں سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ (آمین) 6۔ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ....: ’’ وَ اَنِيْبُوْا اِلٰى رَبِّكُمْ ‘‘ اور بعد کی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ وعدہ صرف ان لوگوں سے ہے جو توبہ کریں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے، کیونکہ اگر وہ کافر و مشرک ہے تو کفر و شرک سے توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کے بغیر اس کی بخشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر وہ مسلمان ہے تو اس کے تمام گناہوں کی معافی کا وعدہ توبہ یا اس کے قائم مقام اعمال کے ساتھ ہے، ورنہ اس کی بخشش اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر موقوف ہے، وہ جسے چاہے گا بخش دے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ [ النساء : ۱۱۶ ] ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ اگر یہ کہا جائے کہ ہر مسلمان کے تمام گناہ توبہ کے بغیر معاف ہو جائیں گے تو شریعت کے احکام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اس بات میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے گناہ چاہے گا سزا دیے بغیر معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا، مگر آخر کار ہر موحّد مسلمان کو جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس وقت کفار خواہش کریں گے کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے، خواہ کسی درجے کے ہوتے، کیونکہ کفار پر اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔ دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۲) کی تفسیر۔ اگر بخشش کا یہ معنی کیا جائے کہ آخر کار تمام مسلمان جنت میں جائیں گے تو ’’ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ‘‘ (بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) سے صرف کافر مستثنیٰ ہوں گے کہ ان کے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔ 7۔ اس آیت اور بعد کی آیات سے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کو کس قدر معاف فرمانے والا ہے۔ سورۂ فرقان (۶۹، ۷۰) میں شرک، قتل ناحق اور زنا کرنے والوں کے ساتھ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد ان کی گزشتہ برائیوں کو نیکیوں میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لیے کسی بندے کو اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کے گناہوں سے زمین و آسمان بھرے ہوئے ہوں۔ صرف اللہ کی طرف پلٹنے اور اس کے سامنے اعتراف کے بعد توبہ کی ضرورت ہے، وہ سب گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ اسے اپنے بندوں کی توبہ بہت ہی محبوب ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : ﴿ اَلَمْ يَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ ﴾ [ التوبۃ : ۱۰۴ ] ’’کیا انھوں نے نہیں جانا کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾ [ النساء : ۱۱۰ ] ’’اور جو بھی کوئی برا کام کرے، یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے وہ اللہ کوبے حد بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔‘‘ منافقین کے متعلق فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًا (145) اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا﴾ [ النساء : ۱۴۵، ۱۴۶ ] ’’بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۳ ] ’’بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بے شک اللہ تین میں سے تیسرا ہے، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو یقیناً ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انھیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ پھر انھی کے متعلق فرمایا : ﴿ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۴ ] ’’توکیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ’’ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ‘‘ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی مغفرت کی دعوت دی جنھوں نے کہا مسیح خود اللہ ہے اور جنھوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ فقیر ہے اور جنھوں نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ تین میں تیسرا ہے، ان سب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۷۴ ] ’’توکیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ پھر اسے بھی توبہ کی دعوت دی جس نے ان سے بھی بڑی بات کہی : ﴿ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ﴾ [ النازعات : ۲۴ ] ’’میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں۔‘‘ اور جس نے کہا : ﴿مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ﴾ [ القصص : ۳۸ ] ’’میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔‘‘ چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ اِنِّيْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ﴾ [ طٰہٰ : ۸۲ ] ’’اور بے شک میں یقیناً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’جو شخص اس کے بعد بھی اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے اس نے اللہ کی کتاب کا انکار کیا، لیکن بندہ توبہ نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی فرمائے۔‘‘ مسلمانوں کو آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں ڈالنے والوں (اصحاب الاخدود) کے متعلق فرمایا : ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَ لَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ﴾ [ البروج : ۱۰ ] ’’ یقیناً وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالا، پھر انھوں نے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اس جود و کرم کو دیکھو! ان لوگوں نے اس کے دوستوں کو قتل کیا اور وہ انھیں توبہ اور مغفرت کی دعوت دے رہا ہے۔‘‘ (ابن کثیر) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی بہت سی آیات ہیں۔ احادیثِ صحیحہ میں ننانوے آدمیوں کے بعد سوویں آدمی کے قاتل کی توبہ کا ذکر معروف ہے، جسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں موت آ گئی۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل، إن کثر قتلہ : ۲۷۶۶ ] اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بندے کی توبہ پر اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہونے کا ذکر ہے جو اپنی گم شدہ اونٹنی ملنے پر خوشی کی شدت میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے : ’’یا اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب‘‘ اور خوشی کی شدت میں خطا کر جاتا ہے۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في الحض علی التوبۃ والفرح بھا : ۲۷۴۷ ] اسی طرح اس بندے کا ذکر ہے جس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ وہ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کچھ پانی میں بہا دیں اور کچھ ہوا میں اڑا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کرکے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے کہا : ’’یا اللہ! تیرے ڈر سے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ....: ۲۷۵۶ ] پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی کرم ہے کہ بندہ جتنی بار بھی گناہ کرے، پھر اس کے بعد جتنی بار توبہ کرے وہ معاف فرما دیتا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ! اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ يَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ )) [ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب....: ۲۷۵۸ ] ’’ایک بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا، پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب!مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے ایک گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔‘‘ پھر ایک بار اور اس نے گناہ کیا اور کہا : ’’اے میرے رب! مجھے میرا گناہ بخش دے۔‘‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ’’میرے بندے نے گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ (میرے بندے!) تو جو چاہے کر، میں نے تجھے بخش دیا۔‘‘ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
سیئول : جنوبی کوریا میں مخصوص ڈش کیمچی بنانے والے ان دنوں پریشانی کا شکار ہیں جس کے سدباب کیلئے جنوبی کوریا کی حکومت بند گوبھیوں کو ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ بند گوبھی سے بنائی جانے والی ڈش کیمچی جنوبی کوریا کے عوام کی سب سے پسندیدہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بند گوبھی کی کاشت میں کمی کے باعث اس سال قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ کوریائی باشندوں کی بڑی تعداد اس مصالحہ دار اچار والی ڈش کو یومیہ کی بنیاد پر اپنے کھانوں کا حصہ بناتی ہے، آج کل بند گوبھی کی کمی کے باعث اس ڈش کی تیاری میں کافی حد تک کمی آگئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جنوبی کوریا کی حکومت نے حال ہی میں بند گوبھی ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں بند گوبھی کو ذخیرہ کرنے کیلئے دو بڑے گودام تعمیر کیے جائیں گے،یہ گودام 9ہزار 900 مربع میٹر پر قائم گوسان اور ہینم کے علاقوں میں بنائے جائیںگے۔ مذکورہ گوداموں کا سائز 3 فٹبال میدانوں کے برابر ہوگا جہاں یومیہ بنیادوں پر 10ہزار ٹن بند گوبھی اور 50ٹن گوبھی کا اچار ذخیرہ کیا جائے گا۔ ان گوداموں کی تعمیر پر تقریباً 58 بلین وون ($40 ملین)لاگت آئے گی۔جو سال 2025تک مکمل ہوں گے۔ کیمچی بنانے والی کمپنی چیونگون آرگینک کے چیف ایگزیکٹیو آہن اک جن کا کہنا ہے کہ ہم ماہ جون میں گوبھی کی خریداری کرتے تھے پھر بعد میں گوبھی کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر اسے ذخیرہ کرتے تھے لیکن اس سال ہمارے پاس موجود ذخیرہ پہلے سے ہی ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم روزانہ 15 ٹن کیمچی پیدا کرتے تھے لیکن اب ہم صرف 10 ٹن یا اس سے کم پیدا کر رہے ہیں۔ کمپنی کو اپنی کیمچی کی قیمت میں دو تہائی اضافہ کرکے 5,000 ون ($3.5) فی کلوگرام کرنا پڑا ہے۔ کیمچی ڈش بنانے والے مقامی لوگوں کیلئے سستی قیمت پر بند گوبھی سپلائی کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔ حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی شدید بارشوں نے گوبھی کی فصلوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے جس کے سبب سپلائی میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے بعض فارغین ایک جذباتی مضمون "کاش میں مولوی نہ ہوتا" کو بہت جذبے کے ساتھ اس خیالِ خام میں نشر کیے جارہے ہیں کہ صورت حال گویا واقعی ایسی ہی ہے. لیکن لگتا ہے اس فکر کے پیچھے چند وہ عناصر کارفرما ہیں جو خود مدارس میں پڑھنا نہیں چاہتے تھے. یا پھر دوران تعلیم فضولیات کے علاوہ کسی اور قابل ذکر مشغلے سے دور تھے. اس مضمون میں جو رونا رویا گیا ہے، اس سے دور حاضر میں متعلم طلبا کا حوصلہ پست ہو سکتا ہے. سب سے پہلے یہ فکر ہی غلط ہے کہ پڑھ لکھ کر فارغ ہونے کے بعد اس تعلیم کو ہی ذریعۂ روزگار بنانا ضروری ہے. بہت سی مثالیں ملیں گی کہ فرد ایک خاص شعبے کا ماہر ہے لیکن اس نے معیشت کے لیے اس شعبے کو اختیار ہی نہیں کیا. معیشت کے ذریعے کا اختیار ماحول اور حالات کے تقاضے کے مطابق کیا جاتا ہے. اور جب آپ تعلیم شروع کر رہے ہوتے ہیں، یا جب ثانویہ کے بعد کسی خاص شعبے کو آپ چنتے ہیں اس وقت آپ کے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ آج سے پانچ سال بعد جب آپ بیچلرس کی ڈگری لے کر میدان میں اتریں گے اس وقت اس موضوع کا ڈیمانڈ کیا ہوگا؟ یا معیشت کے لیے یہ ہنر کتنا کارآمد ہوگا؟ اس لیے اس تعلیم کو یا شعبے کو کوسنا ایک طرح سے حماقت اور فضول ہے. مدارس کے فارغین کا موازنہ کالج سے ڈگری لیے ہوئے افراد سے کریں تو زیادہ تر مدارس کے فارغین برسرِ روزگار ملیں گے. جب کہ مدارس کی فراغت عموماً انٹرمیڈیٹ کے مساوی ہوتی ہے. احساس کمتری ایک مہلک بیماری ہے. اسے ختم کرکے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے. اور اس احساسِ کمتری کی وجہ بعض مدارس کے داخلی حالات ہیں. جہاں اساتذہ سے بدسلوکی کی وجہ سے مدارس کے فارغین اس میدان کو ہی کراہت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں. میرے اپنے محدود سروے میں بھی میں نے یہ پایا ہے کہ مدارس کے شعبۂ حفظ کا فارغ ایک اچھا حافظ و قاری بھی آج 8 سے 10 ہزار ماہانہ تنخواہ دیہی علاقوں میں پارہا ہے. جب کہ پوسٹ گریجویٹ کے کئی فارغین کو 10 ہزار کے مشاہرے پر شہروں کے مارکیٹ میں شاپنگ سینٹر اور شو روم وغیرہ میں کام کرتے ہوئے پایا جاتا ہے. تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑی تعداد انٹرمیڈیٹ، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی ہے. جب کہ مدارس کے فارغین بہت کم ہی بے روزگار پائے گئے. ایک ریکروٹمینٹ ایجینسی کے پاس علماء اور حفاظ کے لیے ادارے والے رابطہ کرتے ہیں تو وہاں بھی علماء اور حفاظ کی خاطر خواہ تعداد نہیں ہے. تنخواہ ایک الگ مسئلہ ہے. اور واقعی قابل غور مسئلہ ہے. لیکن میں یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوں کہ مدارس کے فارغین کا کوئی مستقبل نہیں ہے. اور میں بہت خوش ہوں کہ الحمد للہ میں مولوی ہوں. کہ کئی افراد کو یہ حسرت کرتے دیکھا ہوں کہ "کاش میں بھی مولوی ہوتا! اس تحریر کو اسلامیات, حالاتِ حاضرہ, کل تحریریں, میرے قلم سے, نثر کے موضوع کے تحت شائع کیا گیا ہے اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو اس کے متعلق اپنے دوستوں کو بھی بتائیں 0 تبصرے: Post a Comment <<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>> پسندیدہ تحریریں مختار احمد ندوی- تنہا ایک امت مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ==تعلیم اور خدمات== ... آفت عام انسانوں کی زندگی میں "آفتیں" اور عاشق مزاجوں کی زندگی میں "عورتیں" کبھی بول کر نہیں آتیں !!! زندگی بھلی چ... ان سے آیا نہ گیا ہم سے بلایا نہ گیا فیس بک گروپ "قوسِ قزح" میں 30 اگست 2016 کو عالمی سطح پر ایک فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرہ میں میر تقی میر کی مشہور... کاش میں مولوی ہوتا! 15 جون 2019 بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے بعض فارغین ایک جذباتی مضمون "کاش میں مولوی نہ ہوتا" کو بہت جذبے کے ساتھ... جملے باز 17 ستمبر 2017 ہند کی سیاست میں لفظ "جملہ" ایک اصطلاح بن چکا ہے۔ اور یہ اصطلاح اس وقت "ایجاد" ہوئی جب حالیہ حکومت ن... شیر شاہ آبادی ہا تحریر: ظفر شیرشا ه بادی، کٹیہار ملاحظہ :اس مضمون میں شیر شاہ آبادیوں کے تعلق سے کچھ معلومات میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں... #رافضی_رضاکار ایک عرصے سے سلمان و بن سلمان پر جو لوگ ستّو پانی باندھ کر طوفان بدتمیزی کا محاذ کھولے ہوئے ہیں، آج رافضیت کے ہاتھوں بہت معمولی قیمت پر صحا... غلامی کئی روز سے مسلسل مختلف گروپوں میں یہ پیغام نشر ہورہا ہے کہ بابری مسجد فیصلے کی وجہ سے کسی قسم کا بیان آگیا تو ہماری واٹ لگ جائے گی! اس لیے... #10YearsChallenge سال 2019کی شروعات ہوتے ہی سوشل میڈیا میں گزشتہ دس سالوں کی ایک جھلکی دکھانے کے لیے ایک ہیش ٹیگ چلا۔ تو مجھے بھی دس سال قبل کی ا... عزت عزت اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے! جو دیگر نعمتوں کی طرح ہی ہے۔ اگر اس کی ناقدری ہوئی تو یہ کسی بھی لمحے چھن سکتی ہے! اس لئےعقل مندوں کے...
فرانس کی نسل پرست پولیس نے سڑک عبور کرنے والی دو مسلمان باحجاب خواتین کو بہیمانہ اور مجرمانہ تشدد کا نشانہ بناڈالا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فرانسیسی نسل پرست پولیس نے سڑک عبور کرنے والی دو مسلمان باحجاب خواتین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناڈالا۔ ٹوئیٹر پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فرانسیسی پولیس اہلکاروں کی جانب سے سڑک کے بیچوں بیچ باحجاب دو خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ہاتھا پائی کے دوران انہیں زمین پر بھی گرانے کی کوشش کی گئی۔ فرانسیسی پولیس اہلکاروں کی جانب سے جب ایک خاتون کو گھونسا مارا گیا تو ویڈیو فوٹیج ریکارڈ کرنے والی خاتون یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’میں ریکارڈنگ کر رہی ہوں، اسے جانے دو‘۔ جس پر پولیس افسر کی جانب سے ڈھٹائی بھرے لہجے میں کہا کہ ’’ہاں، میں نے اسے مارا، میرے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے‘‘۔ فرانس میں پولیس اہلکارو کی مسلم خواتین کی ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں فرانسیسی پولیس کو اسلاموفوبک کہا جارہا ہے۔ ادھر پیرس پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پولیس کی گشتی ٹیم نے قانون کی خلاف ورزی اور پولیس اہلکاروں کی بےعزتی کرنے پر خواتین کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ پولیس ترجمان نے مزید کہا کہ ہجوم کے اکٹھا ہونے کے باعث صورتحال قابو سے باہر ہوئی جس کے بعد دونوں خواتین کے خلاف شکایت درج کی جائے گی۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ مختلف آزاد امیدواروں کے انتخابی نشان "جیپ" کو جو رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ ہمارا رنگ ہی نہیں۔ ہر چیز کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں۔ اسلام آباد — پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ مسلح افواج کی کوئی پسندیدہ جماعت یا سیاسی وابستگی نہیں ہے اور فوج 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں مکمل طور پر غیر جانب دار رہے گی۔ منگل کو راولپنڈی میں صحافیوں کو عام انتخابات میں فوج کے کردار پر بریفنگ دیتے ہوئے جنرل آصف غفور نے کہا کہ عوام کے ووٹوں سے الیکشن جیت کر جو بھی وزیرِ اعظم آئے گا، وہ قبول ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی مخلوق ہیں۔ وقت بتائے گا کہ خلائی مخلوق جیسے القابات کا کیا اثر ہوسکتا ہے۔ خلائی مخلوق سیاسی نعرہ ہے۔ عوام کے لیے ڈیوٹی کرتے رہیں گے۔ عوام جسے چاہیں منتخب کریں۔ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات سے قبل سیاسی شخصیات کو خطرہ ہے اور اس سلسلے میں ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ان شخصیات کو خود بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فون کال پر کوئی اپنی پارٹی بدل دے؟ سیاسی عمل کو سیاسی ہی رہنے دیں۔ سپاہی ہمارے حکم پر جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اسے کسی غلط کام کا نہیں کہہ سکتے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو الیکشن سے منسلک نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کون سے الیکشن ہیں جن سے پہلے سیاست دانوں نے جماعتیں نہ بدلی ہوں۔ ہر الیکشن سے پہلے سیاست دانوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ مختلف آزاد امیدواروں کے انتخابی نشان "جیپ" کو جو رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ ہمارا رنگ ہی نہیں۔ ہر چیز کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج گزشتہ 15 سال سے ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور کچھ لوگوں کا مقصد مختلف الزامات لگا کر فوج کی توجہ بٹانا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کو سول عدالت سے سزا ہوئی ہے اور جب وقت آئے گا تو آرمی کے رولز کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ الیکشن سے متعلق شکوک و شبہات دم توڑ گئے اور انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 25 جولائی کو عوام جمہوری عمل آگے بڑھائیں گے۔ جمہوری تسلسل کا یہ تیسرا الیکشن ہوگا۔ الیکشن میں فوج کا براہ راست کوئی کردار نہیں۔ افواجِ پاکستان کا کردار صرف الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج الیکشن کمیشن کی پہلے بھی مدد کرتی آئی ہے اور یہ پہلا موقع نہیں جب فوج انتخابات کے دوران سکیورٹی کی ذمہ داریاں نبھائے گی۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بلا خوف ہونی چاہیے اور بیلٹ باکس میں 100 ووٹ ڈالے گئے ہیں تو 100 ہی نکلنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے پاس اختیار نہیں کسی بے ضابطگی کو دور کرے۔ بے ضابطگی دور کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ جنرل آصف غفور کا مزید کہنا تھا کہ 25 جولائی کو عوام جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار منتقل کریں گے۔ انتخابی عمل کے دوران پر امن ماحول کے لیے فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق پر مکمل عمل درآمد کرائیں گے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ الیکشن ڈیوٹی میں ایئرفورس اور پاک نیوی کے دستے بھی مدد کریں گے۔ الیکشن کے عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی۔ غیر سیاسی اور غیر جانب دار ہو کر الیکشن کمیشن کی مدد کریں گے۔ انہوں نے کہا 45 ہزار 800 سے زائد عمارتوں میں پولنگ اسٹیشنز ہوں گے۔ تین پرنٹنگ پریسوں میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی جاری ہے جو 21 جولائی تک مکمل ہو جائے گی۔ بیلٹ پیپرز کی زیادہ تر ترسیل بذریعہ روڈ ہوگی۔ ترجمان پاک فوج نے خفیہ ادارے 'آئی ایس آئی' کے ایک حاضر سروس افسر جنرل فیض پر بعض حلقوں کی جانب سے الیکشن میں مداخلت سے متعلق الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض کا نام لینے والوں کو پتا ہی نہیں کہ ان کا کیا کام ہے۔ ان سے متعلق بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ انتخابات کے دوران سائبر حملوں کے معاملے پر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ خطرہ سب کو ہوتا ہے لیکن اس کے تحفظ پر کام کیا جارہا ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ہم کنٹرول نہیں کرسکتے اور کسی سے ڈنڈے کے زور پر کوئی کام نہیں کراسکتے۔ لیکن اگر کوئی ایسا کام ہو جو ملک کے خلاف ہو تو اسے نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ ملتان میں مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار پر مبینہ تشدد اور اس کی وفاداری تبدیل کرانے سے متعلق الزامات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملتان کے واقعے میں 'آئی ایس آئی' کا کوئی کردار نہیں تھا۔
لاہور : شہر اور اس کے مضافات میں شدید دھند کا راج ہے، حدنگاہ 100 میٹرتک محدود ہوگئی جبکہ قومی شاہراہ پر حد نگاہ 20میٹر رہ گئی جس کے باعث ٹریفک کی روانی بھی بہت متاثر ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ ایئرپورٹ اور اطراف میں حد نگاہ 250 میٹر رہ گئی ہے، دھند کے پیش نظر محکمہ موسمیات نے سول ایوی ایشن کو بھی متنبہ کردیا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ صبح تک دھند کےباعث حد نگاہ میں مزید کمی کا امکان ہے، اس کے علاوہ پتوکی شہر اور گردونواح میں شدید دھند ہے،حدنگاہ 50 میٹر سے بھی کم رہ گئی، ملتان روڈ بھی شدید دھند کی لپیٹ میں ہے، اوس کی وجہ سے پھسلن کے باعث سڑکوں پر موٹر سائیکل سوار گر پڑے۔ اس حوالے سے ترجمان موٹروے پولیس کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ پر رینالہ، اوکاڑہ، ساہیوال اور چیچہ وطنی میں شدید دھند چھائی ہوئی ہے، میاں چنوں، خانیوال، ملتان، لودھراں اور بہاولپور میں بھی دھند کا راج ہے۔ ترجمان موٹروے پولیس کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ پرحدنگاہ 40میٹر تک ہے، لاہور سے کالاشاہ کاکو موٹروے پرحدنگاہ20میٹر رہ گئی،ترجمان نے مسافروں کو ہدایت کی ہے کہ شہری گاڑیوں میں فوگ لائٹس کا استعمال کریں اور دھند کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور موٹر وے پر سفر سے قبل موٹر وے ایپلی کیشن ایف ایم 95 ریڈیو اور ہیلپ لائن 130 سے مدد لیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز اور آج بھی دھند نے لاہور شہر کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، جس کے نتیجے میں لاہور کے شہریوں میں گلے اور آنکھوں کے امراض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بھارت سمیت جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں جس کے باعث متعدد ممالک اس کے سدباب کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
1528ء کوایودھیا ضلع فیض آباد اودھ کے مقام پر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی جانب سے اودھ کے گورنر میر باقی کے زیر اہتمام تعمیرکی گئی ۔ تنازعہ کا آغاز : 15 جنوری 1885ء کو سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھُبیر داس نام کے ایک شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت مانگی جو رد ہوگئی ۔ مسجد کو نقصان : 1936ءکے فرقہ وارانہ فسادات میں مسجد کو کچھ نقصان پہنچا ۔ ناجائز قبضہ : 22،23 دسمبر 1949ء کی درمیانی سرد رات میں کچھ لوگوں نے اندھیرے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد میں رام للا کی مورتیاں رکھ دیں ۔ 23دسمبر کو فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ یوپی پنڈت گووند ولبھ پنت چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام اس مضمون کا تار روانہ کیا ۔ 23 دسمبر کی رات میں جب مسجد میں کوئی نہ تھا اچانک کچھ لوگ وہاں گھس گئے اور غیر قانونی طور سے ایک مورتی وہاں نصب کردی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ نے فوراً ہی جائے واردات پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا ۔ یہ بیان ایک کانسٹبل ماتا دین کی عینی شہادت پر مبنی تھا ۔ وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیر اعلیٰ کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ ناانصافی کو ختم کیا جائے ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا ۔ ضلع فیض آباد کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اکشے برہمچاری نے اس زیادتی پر سخت احتجاج کیا ۔ 1950ء میں انہوں نے مسجد پر ناجائز قبضہ کے خلاف دو مرتبہ برت بھی رکھا ۔ 29دسمبر 1949 ء ایک ضلع مجسٹریٹ نے حالات کو جوں کا توں برقراررکھتے ہوئے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لینے کا حکم دیا اور اس کا ایک رسیور مقرر کردیا ۔ مسلمانو ں پر مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی اورپوجا کے لئے چار پجاری مقرر کردیئے ۔ 1950ء میں مسجد میں تالا لگا دیا گیا مگرمحدود پیمانے پر پوجا ہوتی رہی 16جنوری 1950ء کو گوپال سنگھ وکیل کی درخواست پر سول جج نے فیصلہ سناتے ہوئے وہاں حسب سابق مورتیاں رکھی رہنے اور پوجا کے عمل کو جاری رہنے کا حکم دیا ۔ 17اکتوبر 1984ء کو رام جنم بھومی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور 1985ء کے آغاز میں تالا کھولنے کی تحریک کو وشو ہندو پریشد نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ 25 ؍جنوری 1986ء کووکیل نے منصف کی عدالت میں تالا کھولے جانے کیلئے درخواست دی منصف نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا ۔ 31 جنوری 1986ء کو وکیل نے ڈسٹرکٹ جج ایم کے پانڈے کی عدالت میں اپیل کی جج نے سرسری سماعت کے بعد یکم فروری 1986ء کو تالا کھلوا کر عام پوجا کی اجازت دے دی صدر دروازہ کا تالا کھول دیا گیا اور پھر اس جگہ رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑتا گیا ۔ وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے دور میں 31 اکتوبر اور2 نومبر 1990ء کو کارسیوکوں کی ایک بھیڑ نے مسجد پر حملے کئے ، سی آر پی ایف نے گولی چلائی کچھ شرپسند ہلاک ہوئے ۔ مسجد کو کچھ نقصان پہنچا اور کلیان سنگھ کی وزارت کے دور میں بھی ایک بار 31 اکتوبر کو حملہ کرکے مسجد کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا یا گیا ۔ شہادت : 6دسمبر 1992ء کو دوپہر میں مسجد پر منظم حملہ کیا گیا اور افسوس کہ اس دن شام تک 464 سالہ یہ قدیم تاریخی مسجد زمین بوس ہوگئی ۔ آثار قدیمہ : اپریل 2002ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کے حق ملکیت سے متعلق مقدموں کی سماعت شروع کی ۔ عدالت کے حکم پر ماہرین آثار قدیمہ نے یہ پتہ لگانے کے لئے کھدائی شروع کی کہ آیا اس جگہ کبھی رام مندر تعمیر تھا یا نہیں ۔ غیر واضح : اگست 2003ء میں ماہرین نے کہا ، انھیں مندر کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں لیکن کوئی پختہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے ، مسلمانوں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ۔ لبراہن کمیشن : جون 2009ء میں لبراہن کمیشن نے جانچ شروع کرنے کے 17سال بعد اپنی رپورٹ پیش کی ۔ فیصلہ محفوظ : 26 جولائی 2010ء الہ آباد کی لکھنؤ بنچ نے مقدمہ پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا فیصلہ سنانے کی تاریخ 24 ستمبر رکھی ایک رٹ دائر ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کو مؤخر کردیا اور سماعت کی تاریخ 28 ستمبر طے کی ۔ 28 ستمبر کو عدالت عالیہ نے رٹ کو خارج کردیا اور فیصلہ سنانے کی تاریخ 30 ستمبر قرار پائی ۔ تین حصوں میں تقسیم : 30 ستمبر 2010ء الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ، متنازعہ حصہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔
(24 نیوز)چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہاہے کہ تنازعات کے حل کیلئے متبادل نظام کا قیام ضروری ہے، تنازعات کے حل کے متبادل نظام کے مکمل نفاذ میں 5 سے 15 سال کا وقت لگے گا۔ اسلام آباد میں نویں جوڈیشل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کانفرنس عدلیہ کو مستقبل کا فریم ورک دینے میں کامیاب رہی،کانفرنس کے پانچ تھیمز میں سے کچھ آئیڈیاز سامنے آئے ہیں، ان کا کہناتھا کہ تنازعات کے حل کیلئے متبادل نظام کا قیام ضروری ہے، تنازعات کے حل کے متبادل نظام کے مکمل نفاذ میں 5 سے 15 سال کا وقت لگے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت نے وڈیو لنک کے ذریعے ٹیکنالوجی کی جانب قدم بڑھائے پر آج معلوم ہوا دنیا بہت آگے ہے، ہم نے پچھلے سات ماہ میں 33 سو سے زائد مقدمات کی سماعت ویڈیو لنک سے کی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے قومی تنازعات کمیٹی کا قیام کیا ہے جس سے تنازعات کے حل کا ڈیش بورڈ عمل میں آئے گا۔ جوڈیشل کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ پولیس اور پراسیکیوشن کو فراہمی انصاف کیلئے مزید تربیت کی ضرورت ہے،آبادی میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر مسائل کا حل ضروری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسلام کی روح سے مسائل کے حل کی طرف توجہ مبذول کرائی، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ٹھیک کہا کہ ہمیں بھولی ہوئی روایات کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
ویب ڈیسک:پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان ان دنوں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں،اسی تناظر میں عمران خان گزشتہ روز لاہور آئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت پنجاب کے وزراء کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں پنجاب کابینہ نے سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی گرفتاری میں پولیس کی ایف آئی اے کی معاونت پر شدید ردعمل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنڈی ٹیسٹ میں شکست پر شاہد آفریدی کا ردعمل سامنے آگیا ذرائع نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے آئی جی پنجاب پولیس سے پولیس معاونت پر وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے، رات گئے پنجاب حکومت نے کابینہ ارکان کے فیصلے کی روشنی میں وضاحتی خط لکھ دیا ہے۔ چیف سیکرٹری کامران علی کا پنجاب میں کام کرنے سے ایک بار پھر انکار ذرائع کے مطابق پنجاب کابینہ نے کہا کہ آئی جی پولیس تحقیق کریں، ایف آئی اے نے کیا ایکشن کی اجازت لی، پولیس نے ایف آئی اے کے ساتھ بلا اجازت کیسے گرفتاری، غیرقانونی کام میں معاونت کی۔ پنجاب کابینہ نے سوال کیا کہ ایلیٹ فورس کی گاڑیاں غیرقانونی آپریشن میں بلااجازت کیسے استعمال ہوئیں۔ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب کابینہ نے آئی جی سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا، پنجاب کابینہ نے کہا کہ پولیس کا کوئی ماورائے آئین و قانون ایکشن قابل قبول نہیں۔
وحدت نیوز(لاہور) خیرالعمل ویلفیئر اینڈ ویویلپمنٹ ٹرسٹ شعبہ فلاح وبہبود مجلس وحدت مسلمین ضلع لاہور کی جانب سے ماہ مبارک رمضان میں قرب الہی کی خاطر مخیر مومنین ومومنات کے تعاون سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے لاگت کے 144راشن بیگز لاہور کے مختلف علاقوں کے ضرورت مندخاندانوں میں تقسیم کردیئے گئے۔ اس کے علاوہ پروجیکٹ انچارج سیدسجاد نقوی نے اس کار خیر میں حصہ لینے والے تمام مخیر مومنین ومومنات اور تمام والنٹیئرز کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جن کے تعاون سے یہ کار خیر پایہ تکمیل تک پہنچا۔ مماثل خبریں ارض پاک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا مقصد سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا اور ایشیا کی جانب طاقت کی منتقلی کے عمل کو روکنا ہے، علامہ راجہ ناصرعباس 12دسمبروہ سیاہ دن ہے جب نائیجیرین فورسز نے شیخ زکزاکی کے 6 فرزندوں سمیت سینکڑوں بےگناہ مسلمانوں کو شہید کیا ، علامہ مقصودڈومکی ملیر کی پولیس اسٹریٹ کرائمز کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے،احسن عباس رضوی ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹریٹ میں اجتماعی مجلس ترحیم برائے مرحومین کا انعقاد، مولانا علی اکبر کاظمی کا خطاب حقوق انسانی کے عالمی اداروں اور دنیا بھر کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ شیخ ابراہیم زکزاکی کی بلاجواز گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں،علامہ مقصودڈومکی
ہر پال جیو ٹی وی ڈرامہ جو بیچارے 1971 کی پاک بھارت جنگ کی تاریخ کے گرد گھومتا ہے۔ کہانی دو خواتین کی پیروی کرتی ہے جو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس تاریخی ڈرامے میں وہاج علی اور مایا علی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ جیو پر جمعہ کی رات 8 بجے نشر کیا جائے گا۔ یہ سال کے سب سے زیادہ متوقع ڈراموں میں سے ایک ہے۔ اسے ناقدین اور ناظرین کی طرف سے ملے جلے جائزے ملے ہیں۔ ڈرامہ مشرقی پاکستان کی تقسیم کے بعد کے واقعات پر مبنی ہے۔ اس میں مایا علی اور وہاج علی کے کردار ہیں۔ مرکزی کردار دونوں سفید لباس میں ملبوس ہیں۔ فلم کا ٹریلر ایک سفید رنگ کا جوڑا ہے اور یہ یقینی ہے کہ آپ فلم دیکھنا چاہتے ہیں۔ شو کے شائقین فلم کی 16 دسمبر کو ریلیز کی توقع کر رہے ہیں۔ اسے 100 سے زیادہ ممالک میں دیکھا جا رہا ہے، اور اسے ناظرین کی جانب سے اچھے جائزے ملے ہیں۔ کاسٹ بھی باصلاحیت ہے۔ اس میں مایا علی، وہاج علی، طلحہ چہور اور عدنان جعفر شامل ہیں۔ یہ فلم 1971 کی پاک بھارت جنگ کے حقیقی واقعات پر مبنی ہے اور اس تنازعے میں فوجی افسران کے کردار پر مرکوز ہے۔ کاسٹ میں کرنل زیڈ آئی فرخ، عدنان جعفر اور فضل حسین شامل ہیں۔ یہ جیو پر 12 دسمبر 2021-2022 کو نشر ہوگا۔ جو بچار گئے میں مرکزی کردار مایا علی اور وہاج علی ہیں۔ ان اداکاروں نے پہلے کبھی ایک ساتھ کام نہیں کیا لیکن ان کے کرشمے اور اداکاری کی مہارت نے ناقدین کو متاثر کیا۔ اس ڈرامے میں عدنان جعفر، ساجد شاہ، فضل حسین، رانا ماجد اور احمد عباس بھی ہیں۔ اصل میں جیو ٹی وی پر پریمیئر ہونا تھا، یہ اسی نیٹ ورک پر نشر کیا جائے گا جس میں جیو ہے۔ مایا علی کے علاوہ جو بچار گئے کی کاسٹ میں وہاج اور مایا علی بھی ہیں۔ ابتدائی طور پر دونوں اداکار ایک ساتھ فلم میں نظر آنے والے تھے۔ تاہم اب اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اداکار آئندہ ڈرامے میں ایک ساتھ کام کریں گے۔ یہ شو 12 دسمبر کو جیو ٹی وی پر نشر ہونے کی توقع ہے۔ یہ سال کی سب سے زیادہ منتظر فلموں میں سے ایک ہے۔ آپ اسے جیو ٹی وی پر اتوار کو رات 8 بجے دیکھ سکتے ہیں۔ فلم ایک متنازعہ فلم ہے۔ اگرچہ اس کا موضوع ایک اہم تاریخی واقعہ ہے، شو کے مواد نے اس سے متعلق ہونا آسان بنا دیا ہے۔ اس کے گہرے مناظر کرداروں کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنا آسان بناتے ہیں، اور کہانی کی لکیر دلکش اور دلکش ہے۔ ڈرامے کا مرکزی موضوع پاکستان بنگلہ دیش کی تقسیم ہے اور یہ کرنل فرخ کے ایک ناول پر مبنی ہے۔ اسکرپٹ کتاب کی ایک بہترین موافقت ہے، اور یہ دیکھنے کے قابل ہے۔ فلم کی کاسٹ دلچسپی کا ایک مضبوط نقطہ ہے۔ یہ دونوں ممالک کی سیاست کو تلاش کرتا ہے اور ملک کی کثیر ثقافتی کو فروغ دینے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس میں ان لوگوں کی زندگیوں کی بھی جھلک ملتی ہے جو ملک کی تقسیم کے وقت رہتے تھے۔ جو بچار گئے میں اداکاری کرنے والے اداکار وہاج علی، مایا علی اور طلحہ چاہور ہیں۔ فلم ایک انتہائی تفریحی ٹکڑا ہے اور اس میں ایک طاقتور پیغام ہے۔ سیاسی شوز کا جائزہ لینا اور ان پر تبصرہ کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہ ڈرامہ اپنے تاریک مناظر کے باوجود کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے مرکزی کرداروں میں مایا علی اور وہاج علی کے علاوہ طلحہ چہور شامل ہیں۔ شو کی بہت سی خرابیوں کے باوجود اس کی کہانی اب بھی ایک بہترین فلم ہے۔ اس کی کاسٹ شو کی ایک طاقت ہے، اور شو کی کہانی شروع کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش تقسیم کو متعارف کرانے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ ڈرامہ سیریل کے طور پر، جو بیچار گئے 2021 کے بہترین شوز میں سے ایک ہے۔ اداکار اپنے آغاز کے بعد سے چینل کا ایک اہم مرکز رہا ہے اور اس نے پہلے ہی ناظرین کے دل جیت لیے ہیں۔ اگر آپ کو اسے دیکھنے میں دشواری ہو رہی ہے تو، غور کرنے کے لیے کچھ چیزیں یہ ہیں۔ سب سے پہلے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی شو ہے۔ آپ کو اس میں ہلکے سے نہیں جانا چاہئے۔ اگر آپ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو آپ یہ بتا سکیں گے کہ آیا یہ دیکھنے کے قابل ہے یا نہیں۔ فلم کی کاسٹ کافی متنوع ہے۔ جہاں کہانی پاکستان کی مغرب اور مشرق میں تقسیم کے گرد گھومتی ہے، وہیں پلاٹ برطانوی راج کے دور میں ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ دورانیہ ڈرامہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں ترتیب دیا گیا ہے۔ کاسٹ بنیادی طور پر مرد ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کے اداکار شامل ہیں۔ ڈرامہ 7th Sky Entertainment کی طرف سے تیار کیا گیا ہے اور 12 دسمبر کو ریلیز کیا جائے گا۔ یہ دیکھنے کے لیے ایک بہترین فلم ہے، جس میں اداکارائیں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
پائیدار ترقی کے حصول کے لئے بنیادی طور پر کاسمیٹک بیگ ، لانڈری بیگ ، کاسمیٹک بیگ ، گفٹ بیگ ، پیکیجنگ بیگ ، پروموشنل بیگ ، شاپنگ بیگ ، بیچ بیگ وغیرہ تیار کریں۔ ہماری مصنوعات میں زیادہ سے زیادہ ماحول دوست مواد بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔ یونیسیکس ٹریول کے لئے قدرتی فیبرک دوبارہ پریوست کاسمیٹک میک اپ بیگ پیکیجنگ انناس کے تانے بانے ، انناس کے پتے کے ریشہ کو عام طور پر انناس کے ریشہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، انناس کی پتیوں سے نکالا جانے والا ریشہ ہے جو رگ ریشہ سے تعلق رکھتا ہے ، جو کیمیائی ، حیاتیاتی اور مکینیکل طریقوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ مکینیکل طریقہ کے ذریعہ نکالا جانے والا ریشہ اچھے معیار کا اور قدرتی اور آلودگی سے پاک ہے۔ انکوائریتفصیل انناس فیبرک بیگ آلودگی مفت قدرتی کاسمیٹک میک اپ بیگ پیکجنگ برائے یونیسیکس برائے سفر انناس کے تانے بانے ، انناس کے پتے کے ریشہ کو عام طور پر انناس کے ریشہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، انناس کی پتیوں سے نکالا جانے والا ریشہ ہے جو رگ ریشہ سے تعلق رکھتا ہے ، جو کیمیائی ، حیاتیاتی اور مکینیکل طریقوں سے نکالا جاسکتا ہے۔ مکینیکل طریقہ کے ذریعہ نکالا جانے والا ریشہ اچھے معیار کا اور قدرتی اور آلودگی سے پاک ہے۔
پاکستان کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی بازگشت اب اکثر سُنائی دینے لگی ہے جس سے اساتذہ اور والدین دونوں ہی پریشان ہیں۔ اکثر والدین تو اس وجہ سے پریشان ہیں کہ کہیں اُن کے بچے اس بُری عادت میں مبتلا نہ ہو جائیں اور اکثر اپنے بچوں کے منشیات کے عادی ہو جانے کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ پریشان کُن بات یہ ہے کہ 76 لاکھ لوگوں کی بڑی تعداد 24 سال سے کم عُمر افراد کی ہے۔ پاکستان کے ایوان بالا میں بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا معاملہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بھی اُٹھایا گیا۔ یہ بات کس حد تک درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہے، اس بات میں صداقت کا تب علم ہوا جب پاکستان کی ایک نامور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے اسلم (فرضی نام) نے آئی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ وہ لمبے عرصے سے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں انہیں شراب اور چرس باآسانی یونیورسٹی میں ہی مہیا کر دی جاتی ہے۔ اسلم کا کہنا ہے کہ ’میں اس عادت کو چھوڑنا چاہتا ہوں مگر میرے دوست مُجھے اس سے دور نہیں جانے دیتے۔’ اسلم یونیورسٹی میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت کے ایک نامور کالج میں پڑھاتے بھی ہیں۔ اسلم کی طرح فرھان (فرضی نام) بھی لاہور کے ایک کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پہنچے تو انھیں بھی اُن کے چند دوستوں نے نشے کا عادی بنا دیا۔ پہلے چرس اور پھر ہیروئین کی عادت پڑ گئی۔ تاہم جب انھوں نے اس لت کے بارے میں اپنے بھائی کو بتایا تو انھوں نے نشہ چھڑوانے میں ان کی مدد کی۔ آئی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا: ’اب مُجھے زندگی اچھی لگتی ہے، مُجھے دھوپ اچھی لگتی ہے، مُجھے اپنے والدین کی خوشی سے خوشی محسوس ہوتی ہے۔’ فرھان کے بھائی اجمل (فرضی نام) نے آئی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب اُنھیں فرھان نے اپنی اس عادت کے بارے میں بتایا تو اُنھیں بہت غصہ آیا اور کئی دن تک اُنھوں نے فرھان سے بات نہیں کی مگر جب اُنہیں یہ احساس ہوا کہ اُن کا ایسا رویہ فرھان کی مدد نہیں بلکہ اُنھیں مزید مُشکل میں مبتلا کر دے گا تو اُنھوں نے اس فاصلے کو ختم کر کے فرھان سے بات کی اور اُن کی مدد کی۔ مُلک کے تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح سے ہیں؟ اس بارے میں طلبہ کا کہنا ہے کہ اُن کے کالج اور یونیورسٹی کے گارڈز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلکہ اس بارے میں تو فرھان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن کی یونیورسٹی کے گارڈ کو منشیات فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اُن سے منشیات برآمد بھی ہوئیں اور اُنھیں اپنے ملازمت سے بھی ہٹا دیا گیا، مگر ایک ہفتے کے بعد وہ گارڈ دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا۔ کُچھ تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے چند ٹیکسی چلانے والے بھی یہ کام کرتے ہیں۔ معلومات حاصل کرتے ہوئے یہ بھی پتہ چلا کہ اس کام میں تعلیمی اداروں کے قریب موجود ہوٹل میں کام کرنے والے اور چند ایک جرنل سٹور بھی ملوث ہیں۔ سیینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے حقائق پیش کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساسی کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سُلطان نے کہا کہ ’18 ماہ کے سروے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے بچے بالعموم اور نجی تعلیمی اداروں کے بچے بالخصوص کسی نا کسی صورت میں منشیات کے عادی ہیں اور اگر بات کی جائے شرح کی تو یہ شرح 43 سے 53 فیصد ہے۔’ ماریہ سُلطان کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ایسی بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں کہ جن کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس سارے معاملے میں کہیں نہ کہیں ضرور قصور وار ہے۔ کہیں تو یہ بھی سُنا گیا کہ تعلیمی ادارے کا سکیورٹی پر مامور گارڈ ہی بچوں کو یہ زہر فراہم کرتا ہے اور اگر وہ یہ موت کا سودا کرتا پکڑا بھی جائے تو چند دن کے وقفے کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔
اسلام آباد: ملک میں مہنگائی 21 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ بات وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔ ٹی وی ٹوڈے نیوز کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماہ اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 9.2 فیصد تھی جب کہ گزشتہ سال نومبر میں مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق شہروں میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد اور دیہاتوں میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے اعشاریے 18.1 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جب کہ ہول سیل پرائس انڈیکٹر کی مہنگائی 27 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران گھی کی قیمت میں 58.29 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ خوردنی تیل کی قیمت 53.59 فیصد بڑھی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دالیں، سبزیاں، پھل اور آٹا مہنگے ہوئے ہیں جب کہ بجلی کی قیمت میں 47.87 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹی وی ٹوڈے نیوز کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران 40.81 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ادویات کی قیمتوں میں اسی مدت کے دوران 11.76 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دیناطلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ طلاق بدعی کوئی سی بھی ہو، یہ طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ ہمارا بھی اس حوالے سے یہی موقف ہے کہ حیض ونفاس کی طلاق واقع نہیں ہوتی، اور ایک وقت میں ایک سے زائد طلاق واقع نہیں ہوتیں یعنی صرف ایک ہی واقع ہوتی ہے، اور جس طہر میں بیوی سے تعلق زوجیت قائم کر لیا ہو، اس طہر میں اگر طلاق دی ہو تو وہ طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ، اور اسی طرح اگر ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کیا ہو اور دوسری طلاق دے دی ہو، چاہے کسی دوسری مجلس میں، یا دوسرے طہر میں، تو یہ بھی واقع نہیں ہوتی کہ دوسری طلاق سے پہلے رجوع کرنا سنت ہے ۔ چونکہ طلاق کی یہ سب صورتیں بدعت ہیں اور بدعت ہمارے دین میں ثابت نہیں ہے لہذا بدعت کی بنیاد پر شرعی حکم بھی جاری نہیں ہو سکتا ہے۔ کتاب وسنت میں طلاق کا جو طریقہ بیان ہو چکا، اسی طریقے کے مطابق طلاق ہو گی تو طلاق واقع ہو گی جس طرح کہ کتاب وسنت میں نکاح کا جو طریقہ بیان ہو چکا، اسی طریقے کے مطابق نکاح ہو گا تو نکاح ہو گا۔ لہذا یہ کہنا کہ کتاب وسنت میں طلاق کا ایک طریقہ مقرر ہے لیکن اس طریقے سے ہٹ کر طلاق دی جائے تو طلاق بدعی تو ہو گی لیکن پھر بھی ہو جاتی ہے، یہ نہ سمجھ آنے والی بات ہے کہ دین میں بدعت کیسے دینی حکم بن کر واقع ہو سکتی ہے۔ اس طرح تو نکاح بھی کتاب وسنت کے طریقے سے ہٹ کر کر لیں تو منعقد ہو جانا چاہیے۔ تو یا تو اسے بدعت نہ کہیں لیکن جب اسے بدعت مان لیا تو اس بدعت کا دین ماننے کا معنی کیا ہےسوائے کنفیوژن کے۔ تو شریعت نے طلاق کا ایک وقت مقرر کیا ہے، اس وقت میں طلاق ہو گی جس طرح کہ نماز کا ایک وقت ہے، اگر فجر کے وقت ظہر کی نماز پڑھ لیں گے تو نماز نہیں ہو گی جیسا کہ ایک طلاق کا وقت ایک طہر ہے تو دوسری طلاق کا وقت دوسرا طہر ہے لہذا اسے پہلے طہر میں دے دینا، اسے اپنے وقت سے پہلے لے آنا ہے۔ اور اسی طرح زوال کے وقت نماز پڑھنے سے بھی نماز نہیں ہو گی کہ یہ نماز کے لیے ممنوع اوقات ہیں تو حیض ونفاس، طلاق کے لیے ممنوع اوقات ہیں۔ اور شریعت نے تین طلاق کے لیے جو تین طہر کے متعین اوقات مقرر کیے ہیں تو ان میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں جو طلاق بدعی کو نافذ کر دینے سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس بارے مزید تفصیل ہماری کتاب ’’مکالمہ‘‘ میں موجود ہے جو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے۔ تو جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تویہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : 228) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں : 1) چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔ 2) اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔ طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلا تک بھی ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتله (سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعة ومافیه من التغلیظ) محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بار خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گے اور آپ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟ اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے : الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ (البقرۃ : 229) طلاق دو مرتبہ ہے۔ اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب) ایک وقت کی تین طلاقوں کاشرعی حکم ایک وقت کی تین طلاقوں کے بارے اہل علم میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور پاکستان میں عام طور حنفی علما کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا طلاق بدعی ہے اور ایسا کرنے والا گنا گار ہے لیکن تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جبکہ اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ، طلاق بدعی ہیں اوراس کا مرتکب گناہ گار ہو گا لیکن یہ تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔ پاکستان میں بعض حنفی علما اور عام طور اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے۔ ہماری رائے میں دوسرا موقف ہی راجح ، کتاب وسنت اور مقاصد شریعت کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’عن ابن عباس قال طلق رکان بن عبد یزيد أخو بن مطلب امرأته ثلاثا فی مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا، قال : فسأله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیف طلقتھا؟ قال : طلقتھا ثلاثا، قال : فقال : فی مجلس واحد؟ قال : نعم، قال : فانما تلک واحدۃ، فارجعھا ان شئت، قال : فرجعھا، فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر۔‘‘ (مسند احمد : 4/215، مؤسسة الرسالة، بیروت) حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور اس پر شدید غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی سے دریافت فرمایا : تم نے اپنی بیوی کو کیسے طلاق دی ہے؟ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا ایک ہی وقت میں تین طلاقیں ؟ رکانہ نے عرض کی : جی ہاں ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صرف ایک ہی طلاق ہے۔ پس اگر تو چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کر لے۔ پس رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق ہو گی۔ (یعنی خاوند نے اگر تین طلاقیں دینی ہو تو ایک ساتھ دینے کی بجائے ہر طہر میں ایک طلاق دے گا یعنی ایک ایک مہینے کے وقفے کے ساتھ دوسری اور تیسری طلاق دے گا)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جبکہ شریعت نے سختی سے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایاکہ ایسے شخص کی سزا یہ ہے اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم وأبي بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدۃ۔ فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر، کانت لھم فیه أناۃ، فلو أمضیناہ علیھم، فأمضاہ علیھم ۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلدی کی ہے(یعنی ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے لگے ہیں) حالانکہ انہیں اس بارے مہلت دی گئی تھی( کہ وہ تین طہر یا تین مہینوں میں تین طلاقیں دیں)۔ پس اگر ہم ایسے لوگوں پر تین طلاقیں جاری کر دیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقوں کے طور جاری کر دیا۔ پس اس وقت سے اہل علم میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی یا تین۔ حنفی اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ (judgement)اگرچہ سیاسی اور قانونی نوعیت کا تھا لیکن چونکہ اس میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت کی مشاورت بھی شامل تھی لہذا ہمارے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حجت (binding)ہے جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سیاست و قضا سے تعلق رکھتا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے لیے تو بطور قانون لازمی امر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بعد میں آنے والے علما، مفتیان کرام اور جج حضرات کے لیے اس فیصلے کی حیثیت ایک عدالتی نظیر (precedent)سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور جب یہ عدالتی فیصلہ اصل قانون (primary source of Islamic law)سے ٹکرا رہا ہو گا تو اس صورت میں اصل قانون کو ترجیح دی جائے گی یعنی حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ کو ترجیح ہو گی۔ اور اس فیصلہ(judgement) کی یہ توجیح کی جائے گی کہ یہ فیصلہ ضرورت کے نظریہ کے تحت عبوری اور وقت دور کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس (ordinance)کی حیثیت رکھتا تھا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس، زبیر بن عوام، عبد الرحمن بن عوف، ایک روایت کے مطابق حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتوی ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاؤس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داؤد بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہاہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔ (إعلام الموقعین: 3/44، إغاثة اللھفان : 1/339-341) یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او رحنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانونا ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستا ن میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص 219، مطبع دار السلام، لاہور) ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمارکرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی(انڈیا)،مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر) ، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی شافعی (دمشق، شام) ، شیخ جمال الدین قاسمی ،شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل اعلم کے تفصیلی فتاوی جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں: (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل ، حافظ صلاح الدین یوسف، مشیر وفاقی شرعی عدالت، پاکستان، مطبع دار السلام، لاہور) حلالہ کی شرعی حیثیت ضمنی فائدہ کے طور پر ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک ہی وقت کی تین طلاقوں کی صورت میں پہلے سے طے شدہ حلالہ کا مروجہ طریق کار یا حیلہ ،شرعاً ناجائز اور نکاح باطل (void)ہے کیونکہ یہ وقتی نکاح ہے اور وقتی نکاح اسلام میں جائز نہیں ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’عقبة بن عامر قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ألاأخبرکم بالتیس المستعار؟ قالوا : بلی یا رسول اللہ ! قال : ھو المحلل، لعن اللہ المحلل والمحلل له۔‘‘ (سنن ابن ماجة، کتاب النکاح، باب المحلل والمحلل له) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے خبر نہ دوں۔ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ٓپ نے فرمایا : وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائے۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ’’ لا أوتى بمحلل ولا محلل له إلا رجمتها ۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الرد علی ابی حنیفة، باب لعن المحلل) اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے والے کو لایا گیا تو میں انہیں سنگسار کر دوں گا۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہماری رائے میں اہل علم کے راجح اور صحیح موقف کے مطابق شریعت اسلامیہ میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔
وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کا کہنا ہے کہ بہارہ کہو بائی پاس منصوبے کے فلائی اوور سیکشن پر تعمیراتی کام شروع کر دیا گیا ہے۔ سی ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کام کے دوران، موٹرسائیکلوں کو زیادہ ٹریفک کی بھیڑ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ موجودہ مری روڈ دو لین ہے اور ٹریفک کے بوجھ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تاہم، حکام نے کہا کہ ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیے پوری کوشش کی جائے گی۔ حکام کے مطابق بائی پاس روڈ کی کُل لمبائی 5.33 کلومیٹر ہے جس میں گریڈ روڈ کی لمبائی 4 کلومیٹر جبکہ فلائی اوور 1.33 کلومیٹر ہے۔ سی ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے احکامات کے مطابق ساڑھے چھ ارب روپے لاگت پر مشتمل منصوبہ چار ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ سی ڈی اے حکام نے بتایا کہ سڑک کے دو بڑے حصوں یعنی فلائی اوور اور انٹر چینج پر پوری رفتار سے تعمیری کام جاری ہے۔ ان دونوں حصوں کا کام اگلے دو ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔ حکام کے مطابق سی ڈی اے چیئرمین کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس اس منصوبے کی براہِ راست نگرانی کر رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً سائٹ کے دورے بھی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 30 ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف نے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا، جس میں منصوبے کی تعمیراتی کمپنی این ایل سی کو ہدایت کی گئی تھی کہ منصوبے کو معینہ مدت سے ایک ماہ قبل یعنی 3 ماہ میں مکمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
(ویب ڈیسک) پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ریاض میں خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی)کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نایف فلاح ایم الحجراف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان خلیج کے برادر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ پاکستان خلیج تعاون کونسل کو خطے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے۔ جی سی سی پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جنرل قمرجاوید باجوہ کی قیادت میں آرمی نے مثالی خدمات انجام دیں،وزیراعظم وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اور سیکرٹری جنرل نے جی سی سی اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ پاکستان تعلقات اور تعاون کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وزیر خارجہ نے تعلقات کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس رفتار کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان، جی سی سی آزاد تجارتی معاہدوں پر جاری مذاکرات کو جلد حتمی شکل دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدر مملکت سے الوداعی ملاقات وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دونوں اطراف کی تکنیکی ٹیموں سے کہا کہ وہ اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان جی سی سی اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ ادارہ جاتی روابط کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے،پاکستان اور جی سی سی کے درمیان اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے لیے مشترکہ ایکشن پلان کے مطابق روابطہ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔باہمی مشاورت سے طے شدہ تاریخ پر پاکستان سٹریٹجک ڈائیلاگ کے اگلے دور کی میزبانی کے لیے تیار ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا فوجی فاؤنڈیشن کا دورہ اس موقع پر وزیر خارجہ اور سیکرٹری جنرل نے علاقائی اور عالمی مسائل بشمول مقبوضہ جموں و کشمیر ، افغانستان اور یمن پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو ان مسائل پر پاکستان کے موقف اور جائزے سے آگاہ کیا ۔ وزیر خارجہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان اور جی سی سی ممالک کے مشترکہ مفادات کے تمام مسائل پر مفادات اور موقف یکساں ہے۔
گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس اور پنجاب سرکار نے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے قیام کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کئے Posted On: 11 SEP 2019 3:20PM by PIB Delhi نئی دہلی،11ستمبر2019:کامرس اور صنعت کی وزارت کے کامرس محکمے کے تحت گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس اور پنجاب سرکار نے ریاست میں گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس آرگنائزیشنل ٹرانسفار میشن ٹیم پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے قیام کے لئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کئے ہیں۔ اس مفاہمت نامے پر دستخط گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس کے ایڈیشنل سی ای او، ایس سریش کمار نے کئے، جبکہ پنجاب سرکار کی طرف سے صنعتوں کے ڈائریکٹر سی سیبنت چنڈی گرہوں نے کئے۔یہ دستخط 10 ستمبر 2019ء کو کئے گئے۔ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جو نیشنل پبلک پروکیورمنٹ پورٹل ہے، اگست 2016ء میں شروع کی گئی تھی۔ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس نے شفافیت، شمولیت اور صلاحیت کے ساتھ ملک میں سرکاری خریداری کے منظر نامے کو تبدیل کیا ہے۔اس نے مختلف سرکاری محکموں ، اداروں اور پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ(پی ایس یوز ) کے ذریعے سامان اور خدمات کی خریداری کو آسان کیا ہے۔یہ خریداری 34,000 کروڑ روپے مالیت کی ہے۔ مارکیٹ پر مبنی خریداری کی سمت سرکاری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لئے حکومت ہند کی مالیت کے وزارت کے اخراجات کے محکمے نے وزارتوں اور مرکز وریاستی سرکاروں کے محکموں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نتیجے کی بنیاد پر سیلف سسٹیننس ماڈل سے متعلق آرگنائزیشنل ٹرانسفارمیشن ٹیم کی خدمات پر غور کریں۔آرگنائزیشنل ٹرانسفارمیشن ٹیم(جی او ٹی ٹی)خریدار ایجنسی کی مدد اور تعاون کرے گی، تاکہ وہ خریداری کے عمل کو پھر سے تشکیل دے سکے اور آن لائن مارکیٹ پلیس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے استداد بڑھا سکے۔ پنجاب کی حکومت ایسی پہلی ریاست ہے جو شمولیت والی با صلاحیت اور شفاف خریداری کی سمت اس ٹرانسفارمیشنل پہل کا مؤثر ڈھنگ سے استعمال کرنے کے لئے جی او ٹی ٹی ، پی ایم یو قائم کرے گی۔ سی پی ایس یوز میں سیل نے پہلے ہی پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ(پی ایم یو) کے قیام کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کردیئے ہیں۔ دیگر کئی ریاستوں اور سی پی ایس یوز جی او ٹی ٹی، پی ایم یوز کے قیام کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جی او ٹی ٹی ، پی ایم یو کے پہل قدمی کے ذریعے حکومت پنجاب پہلے سال میں جی ای ایم پلیٹ فارم پر سالانہ گروس مرچنڈائز ویلیو جی ایم وی کے اعتبار سے تقریباً 1700کروڑ روپے کا لین دین کرسکے گی اورپھر ایک مدت کے دوران وہ 3000ہزار کروڑ کا سالانہ لین دین کرسکے گی۔ ******** م ن۔ ۔ج U: 4111 (Release ID: 1584742) Visitor Counter : 105 Read this release in: English , Hindi کامرس اور صنعت کی وزارتہ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس اور پنجاب سرکار نے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے قیام کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کئے Posted On: 11 SEP 2019 3:20PM by PIB Delhi نئی دہلی،11ستمبر2019:کامرس اور صنعت کی وزارت کے کامرس محکمے کے تحت گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس اور پنجاب سرکار نے ریاست میں گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس آرگنائزیشنل ٹرانسفار میشن ٹیم پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے قیام کے لئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کئے ہیں۔ اس مفاہمت نامے پر دستخط گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس کے ایڈیشنل سی ای او، ایس سریش کمار نے کئے، جبکہ پنجاب سرکار کی طرف سے صنعتوں کے ڈائریکٹر سی سیبنت چنڈی گرہوں نے کئے۔یہ دستخط 10 ستمبر 2019ء کو کئے گئے۔ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جو نیشنل پبلک پروکیورمنٹ پورٹل ہے، اگست 2016ء میں شروع کی گئی تھی۔ گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس نے شفافیت، شمولیت اور صلاحیت کے ساتھ ملک میں سرکاری خریداری کے منظر نامے کو تبدیل کیا ہے۔اس نے مختلف سرکاری محکموں ، اداروں اور پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ(پی ایس یوز ) کے ذریعے سامان اور خدمات کی خریداری کو آسان کیا ہے۔یہ خریداری 34,000 کروڑ روپے مالیت کی ہے۔ مارکیٹ پر مبنی خریداری کی سمت سرکاری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لئے حکومت ہند کی مالیت کے وزارت کے اخراجات کے محکمے نے وزارتوں اور مرکز وریاستی سرکاروں کے محکموں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نتیجے کی بنیاد پر سیلف سسٹیننس ماڈل سے متعلق آرگنائزیشنل ٹرانسفارمیشن ٹیم کی خدمات پر غور کریں۔آرگنائزیشنل ٹرانسفارمیشن ٹیم(جی او ٹی ٹی)خریدار ایجنسی کی مدد اور تعاون کرے گی، تاکہ وہ خریداری کے عمل کو پھر سے تشکیل دے سکے اور آن لائن مارکیٹ پلیس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے استداد بڑھا سکے۔ پنجاب کی حکومت ایسی پہلی ریاست ہے جو شمولیت والی با صلاحیت اور شفاف خریداری کی سمت اس ٹرانسفارمیشنل پہل کا مؤثر ڈھنگ سے استعمال کرنے کے لئے جی او ٹی ٹی ، پی ایم یو قائم کرے گی۔ سی پی ایس یوز میں سیل نے پہلے ہی پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ(پی ایم یو) کے قیام کے لئے مفاہمت نامے پر دستخط کردیئے ہیں۔ دیگر کئی ریاستوں اور سی پی ایس یوز جی او ٹی ٹی، پی ایم یوز کے قیام کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جی او ٹی ٹی ، پی ایم یو کے پہل قدمی کے ذریعے حکومت پنجاب پہلے سال میں جی ای ایم پلیٹ فارم پر سالانہ گروس مرچنڈائز ویلیو جی ایم وی کے اعتبار سے تقریباً 1700کروڑ روپے کا لین دین کرسکے گی اورپھر ایک مدت کے دوران وہ 3000ہزار کروڑ کا سالانہ لین دین کرسکے گی۔
"میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، مجھے چاہت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے خلق کو تخلیق کیا” یہ ایک معروف حدیثِ قدسی کے الفاظ ہیں۔ تاریخِ فکرِ انسانی میں غایتِ تخلیقِ کائنات کی بابت یہ پہلا کلام ہے جو حضرتِ انسان کو میسر آیا ہے۔ اس میں خالقِ کائنات نے خود وجہ تخلیق بیان کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ خالقِ کائنات نے خود کو کنزِمخفی، گنجِ مخفی، چھپا ہوا خزانہ کیوں کہا؟ دراصل کسی چیز کی قدر و قیمت اس کے پہچان لیے جانے میں ہے۔ قدر بقدرِ طلب ہوتی ہے اور طلب بقدرِ عرفان۔ جوہر کی قدر جوہری جانتا ہے، عارف کی قدر عارف اور درویش کی قدر ایک درویش ہی پہچانتا ہے۔ چھپے ہوئے خزانے کو مخفی رکھنے کا ایک انتظام یہ بھی کیا گیا کہ اسے اتنا ظاہر کر دیا گیا کہ عوام کی نظر چندھیا گئی، وہ ظاہر کی روشنی میں گم ہوگئی اور باطن پھر مخفی کا مخفی رہا۔ باطن صرف اپنے طالب پر عیاں ہو گا — بقدرِ طلب، بمطابقِ اخلاص اور بمعیارِ ایمان ظاہر ہوگا۔ عالمِ ظاہر میں ہر مقدمہ گواہوں پر کھڑا ہوتا ہے، گواہ اگر قائم نہ رہے تو مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے، گواہ اگر مر جائے تو مقدمہ بھی گویا اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ گواہی کے باب میں یہ بات سند ہے کہ گواہ ہمیشہ صادق اور امین ہونا چاہیے، بے عیب اور بلند کردار کا حامل ہونا چاہیے— گواہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی صداقت اور دیانت پر اپنے کیا اور غیر کیا سب آنکھ بند کر کے گواہی دے سکیں۔ گواہی کے باب میں یہ بھی درج ہے کہ گواہ عینی گواہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے زبانی کلامی گواہی اس درجہِ استناد تک نہیں پہنچ سکتی جس درجہ پر عینی گواہی ہوتی ہے۔ گویا یہاں شاہد عینی شاہد ہوگا۔ بابِ علمِ توحید و عرفان میں اگرچہ شاہد و مشہود دونوں کی اصل ایک ہے لیکن اپنے اظہار کے لیے انہیں ایک پردہ درکار ہوتا ہے۔ یہ پردہ حجاب بھی ہے اور مقامِ اعراف بھی— یعنی کچھ کے لیے حجاب اور کچھ کے لیے رابطہ، واسطہ اور وسیلہ!! اس پردے کو پردۂ میم کہیں یا رسالت— ایک ہی بات ہے۔ اپنا اپنا مقامِ تفہیم ہے۔ عرفاء اسے پردۂ میم کہتے ہیں اور فقہائے اْمت اسے پردۂ رسالت!! وحدت الوجود کا مشاہدہ کرنے والوں نے، بحرِ توحید کے شناوروں نے اسے برزخِ کبریٰ کہا، تعینِ اوّل جانا —یعنی عالمِ تعین میں مراتبِ وجود کا ظہورِ اوّل سمجھا۔ احدیت کے بعد یہ پہلا مرتبہ ہے جو مرتبہ واحدیت کہلاتا ہے۔ عارفانِ نْورِ محمدیؐ اس مرتبہِ وجود کو حقیتِ محمدیہؐ کے طور پر مانتے، جانتے اور پہچانتے ہیں۔ توحید پر رسالت شاہد ہے اور رسالت پر ولایت! گواہ پر گواہ اس طرح کھڑا ہے کہ مقدمہ معرفت ابھی تک قائم ودائم ہے۔ توحید پر رسالت اور رسالت پر توحید گواہ ہو تو بھی دونوں حقیقتوں کو عالمِ ظاہر میں ظہور کرنے کے لیے انہیں ایک تیسرا گواہ درکار ہے۔ آیت مبارکہ (قُل کفیٰ باللہ ِبینی و بینکم شھیداً) گواہ ہے کہ ایک گواہ ایسا ہے جو دونوں حقائقِ کبریٰ پر گواہ ہے۔ آئینے کا برزخ لازم ہے، وگرنہ اصل اور عکس کے درمیان تفریق ممکن نہ ہوتی۔ یہ آئینہ یا میڈیم ولایتِ کبریٰ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ولایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے — ہر دور میں سچے گواہ، عینی گواہ موجود رہے ہیں اور تاقیامت موجود رہیں گے، اس لیے مقدمہ معرفت کمزور نہ ہو پائے گا۔ اِس نے اْس کو دیکھا، پھر اْس نے اْس کو دیکھا، اور بالوجود دیکھا— یہ سلسلہ در سلسلہ ہے۔ سلاسل کی اہمیت گواہ سے گواہ ملانے کی بات ہے۔ کہی سنی باتیں، خواب اور خیال کی باتیں حقائق کے میدان میں ہوا ہو جاتی ہیں۔ اولیائے امتِ محمدیؐ کو وجودِ محمدیؐ کی زیارت بالوجود ہوتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں: میں منّیا نال یقین دے میں ویکھیا اکّھاں نال اوہدے ہتھ کھنڈی یٰسین دی اوہدے گھنگھر والے وال آج بھی اولیائے عظام کی خانقاہوں میں مقاماتِ مشاہدہ وجودِ محمدیؐ موجود ہیں — پاکپتن میں بابا فریدالدین گنج شکرؒ اور لاہور میں حضرت مادھو لال حسینؒ کے مزاراتِ عالیہ میں سرکارِ دو عالم کی بالوجود تشریف آوری کے نشانات صدیوں سے محفوظ ہیں۔ جب روایت سینہ بہ سینہ اور راوی در راوی محفوظ ہو سکتی ہے تو جلوہ چہرہ بہ چہرہ کیسے محفوظ نہ ہو گا؟ مرشدی حضرت واصف علی واصف کا ایک نعتیہ شعر ہے: جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت بہرطور حدیثِ قدسی کی طرف واپس چلتے ہیں اور اسے مزید سمجھنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔ اگر دل مقامِ تسلیم پر ہو تو عقل عقلِ سلیم بن جاتی ہے اور نْورِ عقل کہلاتی ہے۔ عقل جب رفاقت کی بجائے رقابت میں اْترتی ہے تو نْور سے نکل کر ظلمت میں داخل ہوجاتی ہے، لطافت کی بجائے کثافت میں جگہ پاتی ہے اور معاونت کی جگہ مخاصمت کے منصب پر براجمان ہو جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا تھا” خالق اتنا مخفی ہے کہ ہر ظاہر اس کا اپنا ہے اور وہ اتنا ظاہر ہے کہ ہر مخفی اس کا اپنا ہے” جیسا پہلے بیان کیا گیا ہے کہ خزانے کو چھپانے کا ایک پْرپیچ و پْرکیف طریق یہ بھی ہے کہ اسے سرِراہ چھوڑ دیا جائے، اور جا بجا چھوڑ دیا جائے۔ غافل اسے دیکھنے کے باوجود آنکھ بند کر کے گزر جائے گا۔ وہ اسباب کے جہان میں الجھ کر رہ جائے گا،اس کے شعور کا سورج صفات کی دنیا میں طلوع ہو کر صفات ہی کی دنیا میں غروب ہو جائے گا۔ دوسری طرف صاحبانِ ہوش و گوش ہر آن متوجہ ہوتے ہیں، انکے لیے کوئی واقعہ عام نہیں ہوتا، ان کے لیے احساس کا در وا کر دیا جاتا ہے، ان کے لیے کوئی واقعہ عمومی نہیں ہوتا، کوئی فرد عام نہیں رہتا، یہی زندگی ان کے لیے مقامِ مشاہدہ بن جاتی ہے۔ وہ ہر طرف حسن دیکھتے ہیں اور خوب دیکھتے ہیں —مجاز اور حقیقت میں، عین اور غین میں ان کے ہاں کچھ فرق نہیں رہتا!! کْن کے بعد کا منظر بقدرِ ہمت و ظرف ہر کوئی دیکھ سکتا ہے— لیکن اْن کے لیے فضائے ورائے کْن بھی کھول دی جاتی ہے۔ عارفانِ الٰہی درحقیقت عارفانِ نورِ محمدیؐ ہوتے ہیں۔ وہ حقیقتِ مطلق کو بالواسطہ دیکھتے ہیں اور پھر اس مشاہدے کے کارن خود ایک واسطہ بن جاتے ہیں۔حقیقتِ محمدیہؐ کے عارف جب ربیع الاول کے موقع پر سرکارِ دوعالمؐ کی آمد کا ذکر کرتے ہیں تو اْن کی نظر صرف تاریخ کے چودہ سو برس تک محدود نہیں رہتی بلکہ روزِ کْن سے ورا انکشافِ رازِ کائنات اور وجہ تخلیقِ کائنات پر مرکوز ہو جاتی ہے— وہ دیکھتے ہیں کہ ہر جہاں میں وہی ایک جلوہ کارفرما ہے— وہ نْورِ محمدیؐ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں:
فیصل آباد : گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور کا کہنا ہے کہ ہماری اتحادی جماعت کے جو گلے شکوے ہیں وہ ہم سنیں گے، ہم اوراتحادی جماعتیں ایک خاندان کے طرح ہیں۔ تفصیلات کے مطابق فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا کہ جادو کی چھڑی نہیں کہ 70سال کا مسئلہ فوری ٹھیک کردیں۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے تک ملک خوشحال نہیں ہوسکتا، ہم سب اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار ہی طاقت کا مرکز ہے، پنجاب کے ہر حلقے میں جاتا ہوں۔ چوہدری محمد سرور نے کہا کہ نعیم ورائچ کو سپورٹ کرنے کے لیے ان کے حلقےمیں گیا تھا، نعیم ورائچ کا حلقہ طارق بشیرکے حلقے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیملی میں بھی باتیں ہوجاتی ہیں، کوئی ایسا طوفان نہیں گرا، چوہدری برادران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ چوہدری محمد سرور نے کہا کہ ہماری اتحادی جماعت کے جو گلے شکوے ہیں وہ ہم سنیں گے، ہم اوراتحادی جماعتیں ایک خاندان کے طرح ہیں۔ پرویز الہیٰ اور چوہدری سرور میں رابطہ، ساتھ چلنے پر اتفاق یاد رہے کہ گزشتہ روز اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالہیٰ اورگورنرپنجاب چوہدری محمد سرور میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا، جس میں دونوں‌ رہنماؤں نے ساتھ چلنے پر اتفاق کیا تھا۔
دنیا بھر کے طبی ماہرین صحت مند رہنے اور بیماریوں سے بچنے کے لیے ورزش پر زور دے رہے ہیں ۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید سہولتوں نے انسانی زندگی میں آسانیاں تو پیدا کی ہیں لیکن انسان کی صحت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔وہ دن بہ دن پُر آسائش زندگی گزارنے کا عادی اور غیر متحرک ہورہا ہے جس کے باعث اسے نہایت ہی سنگین قسم کے عارضے گھیر رہے ہیں ۔ جدید طرززندگی موٹاپے کا باعث بھی بن رہا ہے ۔ماہرین کہتے ہیں کہ ورزش نہ صرف موٹاپے سے نجات دلاتی ہے بلکہ عمر کے ہر حصے میں حتی کہ بڑھاپے میں بھی انسان کو صحت مند رکھتی ہے ۔ورزش کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور عمر رسیدگی کے نقصانات کم کرتی ہے ۔باقاعدہ ورزش کرنے والے لوگ عمر کے ہر حصے میں اپنے ہم عمروں سے بہتر زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کی میں آپ کو سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ بچے ہر وقت کھیلتے کود تے رہتے ہیں اور کبھی چین سے نہیں بیٹھتے۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف توانا دکھائی دیتے ہیں بلکہ تندرست بھی رہتے ہیں ۔بڑے ہو کر یہی بچے سست پڑجاتے ہیں کھیلنے کود نے کی عادت جاتی رہتی ہے ۔انسان اپنے اوپر بڑھاپا خود طاری کرتا ہے ۔جس طرح کسی مشین کو استعمال کرتے ہیں تو وہ چلتی رہتی ہے لیکن جب بند کردیں تو اس میں زنگ لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح جب تک انسان چلتا پھرتا رہتا ہے متحرک رہتا ہے اور تندرست رہتا ہے ۔ ورزش کے لیے رہنمائی بھی ضروری ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو اپنے موٹاپے سے نجات چاہتے ہیں یا پھر خود کو جسمانی طور پر قابل رشک بنانا چاہتے ہیں ۔ ایک عام صحت مند فرد چہل قدمی،باغبانی،تیراکی یاسائیکلنگ وغیرہ سے خود کو صحت مند رکھ سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ ورزش کو عارضی طور پر نہ اپنایا جائے ۔ چہل قدمی بھی شروع کی جائے تو معالج یا تربیت یافتہ شخص کے مشورے سے ۔کچھ لوگ ادھیڑ عمری میں چہل قدمی شروع کرتے ہیں اور ابتداء ہی میں انتہائی فاصلہ طے کرکے ناصرف خود کو تھکالیتے ہیں بلکہ پیدل نہ چلنے کی عادت کے باعث اپنے پیروں کو اکڑالیتے ہیں ۔ورزش ہمیشہ مرحلہ وار شروع کرنی چاہیے۔ اگر معالج نصف گھنٹے روز چہل قدمی کا مشورہ دے تو ا س پر عمل ضرور کریں لیکن اس چہل قدمی کو مشقت نہ بنائیے،بلکہ ذہن کو ہلکا پھلکا رکھ کر چہل قدمی سے لطف اندوز ہوں ۔ ضروری نہیں کہ آپ پہلے ہی دن نصف گھنٹہ چہل قدمی کریں ۔اگر آپ پندرہ سے بیس منٹ میں تکان محسوس کرنے لگیں تو چہل قدمی کا سلسلہ بند کردیں ۔طویل عرصہ تک ورزش نا کرنے والوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی ورزش کا وقت رفتہ رفتہ بڑھائیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ورزش کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائیں تو اس سے ناصرف آپ تندرست وتوانار ہیں گے بلکہ جسمانی نقصان کا احتمال بھی نہیں رہے گا۔ پاؤں کی جانب جھکیں اور اپنے دونوں ہاتھ زمین پر لگائیں ۔پھر سیدھے کھڑے ہوں اور بائیں طرف یہ عمل دہرائیں۔ خیال رہے کہ دونوں گھنٹے نہ مڑیں اور کہنیاں بھی نہ مڑنے پائیں۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو زمین پر لگانے کی کوشش کریں ۔پیٹ کے لیے یہ ورزش بہت اچھی ہے ۔ عموماً خواتین کو بڑھے ہوئے پیٹ کے بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں اور وہ اس سے نجات کے لیے طرح طرح کے ٹوٹکے استعمال کرتی رہتی ہیں ۔ بڑھے ہوئے پیٹ کو کم کرنے کے خواہش مندافراد کے لیے یہ ورزشیں مفید ہو سکتی ہیں ۔ زمین پر بائیں طرف کی کروٹ پر لیٹ جائیں اور اپنا وزن بائیں کہنی پر ڈال لیں ۔اپنا دایاں گھٹنا پیٹ کے ساتھ لگائیں اور اب بائیں ٹانگ کو اٹھا کرسیدھا کریں ۔جہاں تک ہو سکے اپنا دایاں ہاتھ بھی دائیں ٹانگ کی طرف کھینچیں یہ عمل ایک سائیڈ پر تین مرتبہ دہرائیں پھر دوسری طرف بھی یہی عمل کریں ۔ بائیں طرف لیٹ کر اپنا وزن بائیں کہنی پر ڈالیں اور دائیں ٹانگ اور دایاں ہاتھ دونوں اوپر کی طرف اٹھائیں اور کھنچاؤ محسوس کریں پھر دائیں طرف کی کروٹ پر لیٹ کربائیں ٹانگ اور ہاتھ اوپر اٹھائیں ۔ زمین پر بالکل سیدھا لیٹیں ۔پھر کمر کو اٹھا کر دونوں ہاتھوں پر رکھیں اور ٹانگوں کو اندر کی طرف کھینچ کر انگو ٹھوں پر توازن قائم کریں ۔ زمین سے صرف کہنیوں تک بازو اور پاؤں کی انگلیاں چھونی چاہئیں ۔ یہ ورزش رانوں اور پیٹ کے لیے مفید ہے ۔زمین پر سیدھا لیٹیں ،کمر کو ہاتھوں پر رکھیں اور اپنا سارا جسم اوپر کو اٹھالیں ۔صرف کندھے زمین کو چھوئیں ۔بائیں ٹانگ کو سیدھا رکھیں اور دائیں ٹانگ کو موڑ کر پیٹ تک لائیں اور پاؤں کا رخ بائیں ٹانگ کے گھٹنے کی طرف رکھیں ۔اسی طرح دوسری ٹانگ کے ساتھ بھی یہی عمل ددہرائیں ۔ یہ ورزش کمر،بازو اور رانوں کے لیے مفید ہے ۔اگر چہ ذراسی مشکل ہے ۔دونوں ٹانگیں فاصلے پر رکھ کر زمین پر لیٹ جائیں ۔بایاں بازو سر کے اوپر لے جا کردائیں طرف کو مڑ جائیں کہ کمر میں کھنچاؤ محسوس ہو ۔پھر دوسرا بازو اوپر لا کر بائیں طرف مڑجائیں ۔ پٹھوں کے لیے مفید ورزش یہ ورزش پیٹ کے پٹھوں کے لیے مفید ہے ۔زمین پر لیٹ جائیں پھر ہاتھ اور پاؤں دونوں کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کریں ۔ پاؤں کے انگوٹھے اور ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک ہی رخ کی طرف کھینچیں ۔دو سیکنڈ تک رکیں پھر لیٹ جائیں اب دوبارہ رکیں ۔پہلے بائیں طرف کو شش کریں پھر دائیں طرف ․․․․․․! اپنی بائیں طرف پر لیٹیں ،سر اور کندھوں کو سیدھا رکھیں ۔اپنے جسم کا وزن بائیں ہاتھ پر رکھیں اور ہاتھ کو منہ کے سامنے رکھیں ۔اب اپنی سیدھی ٹانگ کو جہاں تک جا سکے اوپر لے جائیں اسی طرح دس بارہ مرتبہ کریں ۔ یہی عمل دوسری طرف بھی دہرائیں ۔ زمین پر الٹا لیٹیں ،سر کو اٹھائیں اور دونوں بازوؤں کو آگے کی طرف باندھ لیں ۔اب کندھے سیدھے رکھیں ۔دونوں ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھائیں ۔اس کے ساتھ اپنا اگلاجسم بھی تھوڑا سااوپر اٹھائیں۔ ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر اوپر نیچے ہلائیں ۔یہاں تک کہ آپ کچھ دنوں بعد دو مرتبہ بغیر ٹانگیں لگائیں انکو ہلاسکیں ۔یہ ورزش کو لہوں کے لیے مفید ہے ۔اگر چہ اسے کرنے کے لیے شروع میں آپ کو تھوڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ Disclaimer: All information is provided here only for general health education. Please consult your health physician regarding any treatment of health issues.
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف 10 سے 15 سیٹیں جیت رہی تھی لیکن آر ٹی ایس کی وجہ سے ہار گئی۔ فیاض الحسن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جہاں جہاں آر ٹی ایس بیٹھا وہاں سے تحریک انصاف الیکشن ہاری، ریجیکٹڈ لوگ حکومت پر سلیکٹڈ کا الزام لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے خود ایک دوسرے کے ساتھ دھاندلی کی اور الزام حکومت پر لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں 289 پٹیشن میں سے 95 قومی اسمبلی کے حلقوں کی تھیں جس میں سے مسلم لیگ ن نے صرف 15 پٹیشنز جمع کرائیں جب کہ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں دھاندلی کی درخواستیں جمع کرائیں۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ آل شریف پر جھوٹ بولنا ختم ہے، میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں سے ان کے جھوٹ شروع ہوئے، ان کی کرپشن کی دم پر نیب کا پاؤں آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا بنیادی ایجنڈا خود کو اور اپنے اہلخانہ کو بچانا ہے، اپوزیشن کا سلوگن ہے ابو بچانے نکلے ہیں، آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ لاہور کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کے حوزیر جیل خانہ جات پنجاب کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن کیا کر رہی ہے۔
سرکاری ویب سائٹ پر شائع کیے گئے فرمان کے تحت ایڈورڈ سنوڈن ان 75 غیرملکیوں میں شامل ہیں جن کو روس کی شہریت سے نوازا گیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو منگل 27 ستمبر 2022 11:45 امریکہ کی قومی سلامتی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر اور وسل بلوور ایڈورڈ سنوڈن 15 مارچ، 2019 کو مشرقی فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں کونسل آف یورپ میں ’وسل بلوئرز کے تحفظ کو بہتر بنانے‘ کے موضوع پر ایک گول میز اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے روس سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کر رہے ہیں(اے ایف پی) روسی صدر ولادی میر پوتن نے سابق امریکی سکیورٹی کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کو روس کی شہریت دے دی ہے۔ روسی رہنماؤں کی طرف سے دستخط کیے گئے اعلان اور سرکاری ویب سائٹ پر شائع کیے گئے فرمان کے تحت ایڈورڈ سنوڈن ان 75 غیرملکیوں میں شامل ہیں جن کو روس کی شہریت سے نوازا گیا ہے۔ 49 سالہ ایڈورڈ سنوڈن امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق کنٹریکٹر ہیں جو امریکہ میں سرکاری نگرانی کے پروگراموں کی تفصیلات سے متعلق خفیہ دستاویزات لیک کرنے کے بعد امریکہ کو مطلوب ہیں۔ وہ امریکی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے 2013 سے روس میں مقیم ہیں۔ العربیہ اردو کے مطابق لیک ہونے والی دستاویزات میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی طرف سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کی گئی کارروائیوں کا اعتراف کیا گیا تھا جس میں القاعدہ کے خلاف کارروائی کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ قبل ازیں ایڈورڈ سنوڈن کو روس میں 2020 میں مستقل رہائش فراہم کی گئی تھی اور اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی شہریت ترک کیے بغیر روسی شہریت کے لیے درخواست دینے کا سوچ رہے ہیں۔ سنوڈن نے بعد میں ایک پیغام جاری کیا، جو بنیادی طور پر نومبر 2020 کی ٹویٹ کا ایک تازہ ترین ورژن ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا خاندان ساتھ رہے۔ ٹوئٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’والدین سے برسوں کی علیحدگی کے بعد، میری بیوی اور میں اپنے بیٹوں سے الگ ہونے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ دو سال کے انتظار اور تقریباً دس سال کی جلاوطنی کے بعد، تھوڑا سا استحکام میرے خاندان کے لیے فرق لائے گا۔ میں ان کے لیے اور ہم سب کے لیے رازداری کی دعا کرتا ہوں۔‘ After years of separation from our parents, my wife and I have no desire to be separated from our SONS. After two years of waiting and nearly ten years of exile, a little stability will make a difference for my family. I pray for privacy for them—and for us all. https://t.co/24NUK21TAo pic.twitter.com/qLfp47uzZ4 — Edward Snowden (@Snowden) September 26, 2022 اسی سال ایک امریکی عدالت میں ثابت ہوا تھا کہ ایڈورڈ سنوڈن نے جس پروگرام کو بے نقاب کیا تھا وہ غیرقانونی تھا اور عوامی سطح پر اس پروگرام کا دفاع کرنے والے امریکی انٹیلی جنس سربراہ جھوٹ بول رہے تھے۔ دوسری جانب امریکی حکام برسوں سے اس کوشش میں ہیں کہ ایڈورڈ سنوڈن کو ملک میں واپس لایا جائے تاکہ وہ جاسوسی کے الزامات پر امریکہ میں مجرمانہ کارروائی کا سامنا کر سکیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس کی طرف سے ان کو شہریت دینے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا ہے جب روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات شدید بگاڑ کا شکار ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن کے وکیل اناتولی کچرینا نے روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نووستی کو بتایا کہ سابق امریکی کنٹریکٹر کی امریکی اہلیہ لنزسے ملز اس وقت ان کے ساتھ روس میں مقیم ہیں اور وہ بھی روسی پاسپورٹ کے لیے درخواست دیں گی۔ ایڈورڈ سنوڈن اور ان کی اہلیہ لنزسے ملز کے ہاں دسمبر 2020 میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی تھی، اور ان کے بچے کو پہلے ہی روسی پاسپورٹ مل چکا ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ایڈورڈ سنوڈن روس میں زیادہ سرگرام نظر نہیں آتے تاہم کبھی کبھار وہ سوشل میڈیا پر روسی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے 2019 میں کہا تھا کہ اگر انہیں منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دی جاتی ہے تو وہ امریکہ واپس جانے کو تیار ہیں اور اس وقت انہوں نے روسی شہریت ملنے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ روسی صدر ولادی میر پوتین نے2017 میں کہا تھا کہ ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی خفیہ دستاویزات لیک کیے تھے مگر وہ ’غدار‘ نہیں ہیں۔ روسی صدر نے گذشتہ ہفتے یوکرین میں جاری لڑائی کے لیے فوج کی تعداد میں اضافے کے لیے روسی مردوں کو متحرک کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ایڈورڈ سنوڈن کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا بشرط یہ کہ ان کے پاس روسی فوج میں کوئی پیشگی تجربہ نہ ہو۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے خبر رساں اداروں کو بتایا تھا: ’ایڈورڈ سنوڈن کو ان کی درخواست پر روس کی شہریت دی گئی ہے۔‘ ایڈورڈ سنوڈن امریکہ سے فرار ہونے والے سابق فوجی کنٹریکٹر ہیں اور وہ امریکی تاریخ میں سکیورٹی راز افشا کرنے کے سب سے بڑے واقعے میں ملوث تھے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ این ایس اے غیر ملکی رہنماؤں اور ممالک کی جاسوسی کے لیے کس طرح ڈیٹا چھانتی ہے اور ان پر نظر رکھتی ہے۔
لکھنؤ- آل انڈیا مسلم مجلس کی کونسل کا اجلاس پارٹی دفتر تکیہ پیرجلیل قیصر باغ لکھنؤ پارٹی کے قومی کارگزار صدر جناب وصی احمد ایڈوکیٹ کی صدارت میں منعقد ہوا اجلاس میں ریاستی صدر کے انتخاب کی کاروائی الیکشن انچارج جناب غیاث احمد شیروانی کے زیر نگرانی شروع ہوئی۔ محمد عرفان قادری صاحب نے جناب محمد ندیم صدیقی ایڈووکیٹ کا نام ریاستی صدر کے لیے پیش کیا جس کی شرکاء اجلاس نے تائید کیا اجلاس میں ریاستی صدر کے لیے کسی اور کا نام پیش نہ ہونے پر الیکشن انچارج صاحب نے محمد ندیم صدیقی ایڈووکیٹ کو بلا مقابلہ آل انڈیا مسلم مجلس اترپردیس کا صدر منتخب ہونے کا اعلان کیا۔ اجلاس میں حزب مخالف جماعتوں کی یوم دستور کے موقع پر آگامی ۲۶؍ نومبر کو دہلی میں ہونے والی ریلی میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں کارکنان مجلس کی شرکت کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں سابقہ کونسل کے اجلاس کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لئے منڈل و ضلع سطح پر پارٹی کو متحرک و فعال بنانے کے لئے دورہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آخر میں اجلاس میں مجلس کے سابق صدر ڈاکٹر خان محمد عاطف صاحب کے ماموں زاد بھائی احمد سعید ملیح آبادی شہر یونٹ کے صدر نصیح اللہ خان صاحبان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحومین کے حق میں دعا کی مغفرت کی گئی۔ اجلاس میں سید توفیق علی جعفری ، محمد جنید، سید محمد مصطفی منصوری، قاری محمد محسن،ناوید احمد، شعیب بن حبیب، نوشاد احمد ،محمد عاکف ایڈووکیٹ، کمال احمد ایڈوکیٹ ایک محمد رامق ایڈووکیٹ ، حافظ صلاح الدین ،محمد عرفان قادری شامل تھے۔
راولپنڈی : پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ آج راولپنڈی میں کھیلا جائے گا، تاہم بارش کی پیش گوئی کے بعد میچ کا انعقاد متاثر ہوسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں، پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کا میلہ سج گیا، سری لنکا اور پاکستان کرکٹ ٹیم دو میچوں پر مشتمل ٹیسٹ سیریز آج سے شروع ہوگی، اور پہلا میچ آج راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔ اس حوالے سے شائقین کرکٹ 10 سال کے طویل عرصے بعد ملکی میدان پر ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی پر انتہائی پرجوش ہیں۔ تاہم محمکہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ راولپنڈی میں 11 دسمبر کو تو موسم ابرآلود رہے گا اور کم سے کم درجہ حرارت 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہنے کا امکان ہے لیکن اگلے روز یعنی 12 دسمبر کو وقفے وقفے سے بارش کا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق دوپہر کے وقت تیز بارش بھی ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ 13 اور 14 دسمبر کو بھی وقفے وقفے سے بارش کا امکان ہے جس کے باعث میچ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ مزید پڑھیں : پاکستان سری لنکا ٹیسٹ سیریز، کمنٹری پینل کا اعلان کردیا گیا یاد رہے کہ گیارہ دسمبر سے شروع ہونے والے افتتاحی میچ میں تماشائیوں کو اسٹیڈیم لانے کے لیے صرف پچاس روپے کا ٹکٹ رکھا گیا ہے، اس حوالے سے سیکورٹی کا پلان بھی جاری کر دیا گیا۔
شادی نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی طور پر بھی اہمیت کا حامل ایک فریضہ ہے۔ نسل کی بقا او ارتقا، گناہوں میں رکاوٹ اور ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں اس کا بنیادی کردار ہے۔ وہ ممالک جہاں نکاح اور شادی کو نظر انداز کر کے تعلقات بنائے جاتے ہیں ان معاشروں میں بے، چینی، ہیجان، ذہنی دباؤ اور خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔ کیونکہ شادی محض ایک بندھن نہیں ہے کہ جائز اور حلال طریقے سے اپنی فطری خواہشات پوری کر لی جائیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ اور ایک ذمہ داری ہے۔ شادی انسانی معاشرت کا نقطہ آغاز ہے، شوہر اور بیوی مل کر ایک خاندان کی ابتدا کرتے ہیں۔ لیکن آج کل مناسب رشتوں کا نہ ملنا یا شادی میں تاخیر جیسے مسائل عام ہیں۔ جن کی چند ایک وجوہات یہ ہو سکتی ہیں۔ عمر کی زیادتی کم عمر لڑکیاں ہر دور میں لڑکے والوں کی ترجیح رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی لڑکیوں میں ہر طرح کے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ زمانے کے چال چلن سے زیادہ واقف نہ ہونے اور کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کی خواہشات اور ترجیحات بھی کم ہوتی ہیں۔ اور وہ نئے گھر اور نئے لوگوں میں جلدی گھل مل جاتی ہیں۔ اگر لڑکی اعلی تعلیم اور اس کے بعد نوکری کر کے معاشی طور پر مضبوط ہونے کی خواہش رکھتی ہو تو اس مقام تک پہنچتے پہنچتے اس کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے۔ جس وجہ سے رشتہ کی تلاش میں مشکلات آتی ہیں۔ معاشی طور پر کمزور خاندان اگر لڑکی کا خاندان معاشی طور پر زیادہ مضبوط نہ ہو تو اس وجہ سے بھی اس کی شادی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لڑکے والوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات اور خاندان میں اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلتی چلی جاتی ہے۔ معاشی بحران کے اس دور میں جہیز کی تیاری جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جہیز کی وہ مقدار جو معاشرے میں بلا مطالبہ ایک معیار کے طور پر رائج ہو چکی ہے وہ متوسط اور نچلے طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ جہیز جمع کرنے اور شادی کے دیگر اخراجات کی بڑھتی ہوئی فہرست لڑکی کے بالوں میں چاندی کے تار لے آتی ہے۔ رشتوں کا محدود دائرہ ذات پات، برادری اور قومیت آج بھی کچھ خاندانوں کے لیے اصل معیار ہیں۔ ان سے باہر کتنے ہی اچھے رشتے مل رہے ہوں لیکن لوگ اس دائرہ سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے۔ جن دو خاندانوں میں رشتہ ہونے جا رہا ہوتا ہے ان کا رہن سہن ہم آہنگ ہونے سے لڑکی اور لڑکے کے لئے مشکلات نسبتاً کم ہو جاتی ہیں۔ اور یہ بات قابلِ اعتراض بھی نہیں۔ خوشگوار مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے ایسا کرنا ایک درست عمل مگر یہ چیز اس وقت قابل مذمت ہوجاتی ہے جب اسے رشتے کا معیار قرار دے دیا جائے اور دوسری سب باتوں کو نظر انداز کر کے صرف ذات، برادری اور قومیت کی بنیاد پر کسی رشتہ سے انکار کیا جائے۔ چاہے اس کا نتیجہ شادی کی عمر نکل جانے یا بے جوڑ شادیوں کی صورت ہی کیوں نہ نکلے۔ بڑھتے مطالبات معاشی طور پر مستحکم خاندان میں بیٹی کا رشتہ طے کرنا معاشرے میں قابلِ ترجیح صورت اختیار کر چکا ہے۔ لڑکا کم عمر بھی ہو اور اچھی ملازمت یا کاروبار کا مالک بھی، یہ شرائط صرف متمول خاندانوں کے چشم و چراغ ہی پوری کرسکتے ہیں۔ ایک عام شخص کو کسی بلند مقام تک پہنچنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے، نتیجہ یہ کہ نوجوانی کی عمر گزر جاتی ہے۔ دوسری طرف لڑکے والوں کو بھی خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے کم عمر، تعلیم یافتہ، خوشحال خاندان کی خوبصورت لڑکی چاہئیے ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کمی پر بھی وہ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان باتوں کی وجہ سے نوجوان نسل میں نفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ شادی سے متعلق غلط تصورات ہمارے معاشرے میں نکاح کو اس کے فطری مقام سے ہٹادیا گیا ہے۔ اللہ نے غذا، پانی اور لباس کی طرح نکاح کو بھی انسان کی ایک بنیادی ضرورت بنایا ہے۔ یہ ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کی فطری ضرورت ہے جس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دی جانی چاہئے۔ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر اولاد کا نکاح والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں شادی سے متعلق جو چند غلط تصورات فروغ پا گئے ہیں ان کا تدراک بھی ضروری ہے۔ جیسے کہ عمومی خیال ہے اگر لڑکی پڑھ رہی ہے تو اس کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے شادی نہیں ہو سکتی۔ لیکن تعلیم مکمل ہونے تک کچھ لڑکیوں کی عمر زیادہ ہو جاتی ہے جو بیشتر لڑکے والوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔ یا جس گھر میں ایک سے زیادہ بیٹیاں موجود ہیں تو جب تک بڑی بیٹی کی شادی نہ ہو جائے چھوٹی بیٹیوں کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑی کے لئے رشتے کے انتظار میں چھوٹی بیٹیوں کی شادی کی عمر بھی نکل جاتی ہے۔ کچھ خاندانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تک گھر میں موجود بیٹیوں کی شادی نہ ہو جائے ، بیٹے کی شادی نہیں کی جاتی۔ اور یوں بیٹیوں کے رشتے اور رخصتی ہو جانے تک لڑکے کی شادی بھی موخر کر دی جاتی ہے۔ آن لائن شادی ویب سائٹ اور شادی دفاتر سے استفادہ نہ کرنا معاشرہ جتنی بھی ترقی کر جائے لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں لوگوں کی سوچ روایتی ہی رہتی ہے۔ شادی جیسے معاملات میں بھی وہ شادی دفتر یا آن لائن خدمات سے استفادہ نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ اب بہت سے با اعتماد ادارے اور پرخلوص لوگ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں لیکن اکثریت ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ اور شادی بیاہ کے لئے وہی روایتی طریقے اپناتی ہے۔ جس کی وجہ سے دستیاب رشتوں کا دائرہ کار محدود ہو جاتا ہے۔ آج کل معاشرے میں غیر ضروری تعیشات، بڑھتے مطالبات اور رسم و رواج غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ نکاح کی اہمیت اور ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اچھی ملازمت، روپیہ پیسہ اور دیگر اشیائے تعیشات کو ہی معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ان تعیشات کے پیچھے بھاگتے بھاگتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک پاکیزہ، مستحکم پر لطف زندگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ اور بےچینی پیدا ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ مصنوعی طرز زندگی اور غیر ضروری رسوم و رواج کو ترک کر دیا جائے اور مناسب عمر میں نکاح کو فروغ دیا جائے۔ جب لوگ اس بات کو سمجھ لیں گے تو شادی اور رشتوں کے سلسلے میں درپیش مسائل کا خود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق جہاں سب گھرانے اورکچھ حالات میں بہت سے ادارے اس کام کو انجام دے رہے ہیں وہیں سپمل رشتہ بھی والدین کواس ذمہ داری سے بخوبی نبرد آزما کرنے کا عزم لئے کوششیں کر رہا ہے۔ جس کا ثبوت ان کا پر اعتماد عملہ، جدید طریقہ کار سے رشتوں کی تلاش اور سب سے بڑھ کر مکمل تصدیق شدہ رشتے فراہم کرنا ہے۔
یہ بات 1980کی ہے جب میں کلکتہ کے محمد جان ہائی اسکول کاطالب علم تھا۔نویں جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے ہم سب اس بات سے دکھی تھے کہ بہت سارے ٹیچروں کی غیر حاضری کی وجہ سے ہماری پڑھائی برباد ہورہی تھی۔ ایک دن ہم نے اپنے چند ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ یار ہمیں اب کچھ کرنا پڑے گا اور پھر چند دوستوں کے مشورے کے بعد ہم سب نے ٹیچر کی غیر حاضری کے خلاف ایک دن کلاس کا بائیکاٹ کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ابھی ہم احتجاج کر ہی رہے تھے کہ اچانک شیر کی طرح چنگھاڑتے ہوئے ہیڈ ماسٹر مرحوم اختر حسین ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہم سب پر دھاوا بول دیا۔ مارے خوف ہم سبھی کلاس میں واپس چلے گئے لیکن مرحوم اختر حسین کا غصہ تب کم ہوا جب انہوں نے طلباپر اندھا دھند ڈنڈے برسائے۔مجھے بھی کچھ ڈنڈے کھانے پڑے۔ لیکن ظلم تو تب ہوا جب ہیڈ ماسٹر اختر حسین تمام طلبا کو مارتے ہوئے پوچھنے لگے کہ بتاؤ، کون ہے تمہارا لیڈر جس نے احتجاج کے لیے اکسایا ہے۔ خیر ایک میر جعفر تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔پوری کلاس مار کھا ہی رہی تھی کہ ہمارے ایک ساتھی نے ہیڈماسٹر اختر حسین کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا لیڈرہے۔ بس جناب زندگی میں پہلی بار اتنے ڈنڈے میرے جسم پر پڑے کہ میں حواس باختہ ہوگیا اور اس دن سے آج تک میں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور حق کی خاطر تن تنہا لڑتا جارہا ہوں۔ تاہم1987 میں جب میں مولانا آزاد کالج کلکتے کے اسٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری بنا تو مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ جس لڑکے نے اسکول میں میر جعفر بن کر مجھے “لیڈر”بتا یا تھا اس کی بات سچ نکلی اور ہم نے اپنی زندگی کا سیاسی کئیریر کا آغاز شان و شوکت سے کرتے ہوئے اپنے دور میں اپنے حقوق کے لیے اور ظلم و زیادتی کے خلاف بے شمار حتجاج کئے جو کہ ہمارا بنیادی حق تھا۔ احتجاج اپنی نوعیت کے اعتبار سے اکثر جھنجھلاہٹ اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ عام زندگی گزارنے میں جو رکاوٹیں ہیں اس میں یہ مسائل کی طرف توجہ دلاتی ہے اور عوامی بحث کومتحرک کرتی ہے۔آج ہم جن حقوق اور آزادیوں کو قبول کرتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے اقدامات کے ذریعے محفوظ کیے گئے ہیں جو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے خاصی پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے۔بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں احتجاج کے حق کے واضح الفاظ موجود ہیں۔ ایسے معاہدوں میں 1950کا یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 9سے 11شامل ہیں۔ 1966کا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 18سے 22ہے۔آرٹیکل 9 ’فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق‘ کی وضاحت کرتا ہے۔ آرٹیکل 11 ’دوسروں کے ساتھ وابستگی کی آزادی کا حق بشمول اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق‘۔ تاہم ان اور دیگر معاہدوں میں اجتماع کی آزادی کے حقوق، انجمن کی آزادی، اور تقریر کی آزادی کچھ حدود کے تابع ہیں۔ مثال کے طور پر شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں ’جنگ کے پروپگنڈے اور قومی، نسلی یا مذہبی منافرت‘ کی وکالت پر پابندیاں شامل ہیں۔ اور یہ اجتماع کی کی آزادی پر پابندی کی اجازت دیتا ہے۔ اگر یہ ضروری ہو جمہوری معاشرے میں قومی سلامتی یا عوامی تحفظ، امن عامہ، صحت عامہ یا اخلاقیات کے تحفظ کے لیے ہے۔ تاہم، ضروری نہیں کہ احتجاج پر تشدد ہو یا قومی سلامتی یا عوامی تحفظ کے مفادات کے لیے خطرہ ہو۔ ہندوستانی آئین کاآرٹیکل 19آزادی اظہار رائے، ریاست کے خلاف اپنے شہری کو دیا گیا ایک بنیادی حق ہے، جس میں پر امن عوامی مظاہرے کرنا بھی شامل ہے۔جدوجہد آزادی کے دوران ہندوستانیوں نے بڑی حد تک پر امن احتجاج کے ذریعے آزادی کی بنیاد رکھی۔ 1915 میں گاندھی جی نے ستیہ گرہ متعارف کرایا، جو کہ ایک ایسی تحریک تھی جو مضبوطی سے عدم تشدد کی مزاحمت پر مبنی تھی اور سچائی کو اپنی طاقت بناتی تھی۔ اور بعد میں برسوں تلک متعدد تحریکیں عدم تشدد پر مبنی پر امن مارچ تھیں جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کی غلامی ختم ہوئی۔ حال ہی میں ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو ارکان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے دوران تشدد میں دو نوجوان مارے گئے۔14سالہ مدثر اور 19سالہ ساحل انصاری کے اہل خانہ نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال کیا جنہوں نے مشرقی جھاڑکھنڈ ریاست کے دارالحکومت رانچی میں جمعہ کی نماز کے بعد بی جے پی کے دو عہدیداروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اس کے علاوہ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھی کئی مقامات پر مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی کیونکہ پولیس نے احتجاج روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ سہارنپور میں پولیس چند مظاہرین کو ایک کمرے میں لاٹھی سے بے رحمی سے پیٹ رہی ہے۔اس کے علاوہ پولیس اور حکومت ظلم یہاں بھی نہیں ٹھہرا اور حکومت نے بولڈوزر کے ذریعے مطاہرین کے مکانات کو نیست نابود کردیا۔ اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں ہندوستانی حکومت کی خاموشی اوراتر پردیش کی پولیس کی بربریت اور ظلم پر حیرانی جتائی جارہی ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ہندوستانی پولیس کو احتجاجیوں کو ہٹانے کے لیے لاٹھی اور بندوق کی ضرورت کیوں آپڑی۔ اس کا جواب تو یہی ہوگا کہ احتجاجی مسلمان تھے۔اگر ہم پچھلے چند برسوں میں ہندوستان کی انتہا پسند ہندو تنظیموں کا جائزہ لیں تو اس وقت ہندوستانی پولیس تو انہیں ہٹانے کے لیے بات چیت کرتی دکھا ئی دیتی ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی پولیس کو شاید حکومت کا صاف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے احتجاج میں صرف لاٹھی یا بندوق کا استعمال کیا جائے جس سے نسل پرسی کی بو آتی ہے جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔ پر امن احتجاج کا حق جمہوری غبارے کا ایک گرہ ہے۔ جس طرح گرہیں غبارے کے اندر ہوا کو روکتی ہیں،اسی طرح یہ جمہوریت کی روح کو برقرار رکھتی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم ہندوستان کی مثال لیں تو ہندوستان میں کئی برسوں سے اختلاف رائے کوڈ ی کوڈ کرنے کے لیے پر امن احتجاج کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک جن کی اولین فکر اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود، انسانی حقوق کی تحفظ، جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنا اور اپنے لوگوں کی سالمیت اور وقار کی وکالت کرنا ہے، وہی وہ ہمیشہ احتجاج کرنے والے سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں پوری دنیا میں عام طور پر انسانی حقوق اور انسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج کے حق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اجتماعی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور مضبوط اور متحرک جمہوریتوں کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔احتجاج لوگوں اور مسائل کو آواز دینے اور اداروں کو ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔احتجاج کا حق جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے۔ پر امن احتجاج،آزادی یا اپنے مقصدیا زیادتی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہمیں ہمیشہ اسے اپنے تحفظ اور مشقت کا ایک طاقتور ہتھیار سمجھنا ہے۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کیے بغیر اور دوسروں کے زندگی اور جذبات کو متزلزل کیے بغیر اپنی قوم کے لیے کھڑے رہیں چاہے وہ آپ کے حق میں ہو یا نہ ہو۔
24نیوز پی کے:پاکستان اور انگلینڈ ٹی20 سیریز کی ٹرافی کی کراچی میں رونمائی کردی گئی۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے کپتانوں کی موجودگی میں سیریز کی ٹرافی کی رونمائی ہوئی۔پاکستان اور انگلش ٹیم کے کپتانوں نے ٹرافی کے ہمراہ تصاویر بھی بنوائیں۔پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 7 ٹی20 میچز پر مشتمل سیریز کا آغاز کل سے کراچی میں ہورہا ہے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سات ٹی20 میچ کھیلے جائیں گے۔پہلے چار ٹی ٹونٹی میچ کراچی میں کھیلے جائیں گے جبکہ باقی تین لاہور میں کھیلے جائیں گے۔ پہلا ٹی 20 میچ آج نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا۔میچ شام ساڑھے سات بجے شروع ہوگا۔ 24 News PK: Pakistan and England T20 series trophy was unveiled in Karachi. The trophy of the series was unveiled in the presence of the captains of the Pakistan and England teams at the National Stadium Karachi. The captains of the Pakistan and England teams also took pictures with the trophy. The series between Pakistan and England consisting of 7 T20 matches started from tomorrow. It is happening in Karachi. Seven T20 matches will be played between Pakistan and England. The first four T20 matches will be played in Karachi while the remaining three will be played in Lahore. The first T20 match will be played today at National Stadium Karachi. The match will start at 7:30 PM.
سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب آن پہنچا۔ سیاسی صف بندیاں واضح ہو رہی ہیں۔ آج کچھ بات پاکستان پیپلز پارٹی کی ہو جائے۔ کھوج لگائی جائے کہ پیا رنگ میلا کیوں ہوا؟ وہ چولا جو شہیدوں کی نسبت سے بسنتی کہلاتا تھا، وہ جھنڈا جسے لشکر کا علم سمجھا جاتا تھا، کوچہ و بازار میں دھجی دھجی کیوں ہو رہا ہے؟ یہ ایک گمبھیر سوال ہے لیکن آپ کی اجازت سے آج اپنی پہلی محبت کا بھی کچھ ذکر کروں گا۔ ہمارے ملک میں صحافیوں پر مہریں لگانے کا رواج ہے۔ جیسے اچھے وقتوں میں محکمہ صحت کے اہلکار قصاب خانے میں لٹکتی راسوں پہ نیلی مہر لگایا کرتے تھے۔ صحافت کے بازار میں اب کسی صحافی پر لفافہ خور کی مہر لگائی جاتی ہے تو کسی کو حوالدار کا خطاب دیا جاتا ہے۔ الحمدللہ! درویش خط تنصیف کے دونوں طرف یکساں طور پر نیک نام ہے۔ ترقی پسند سرمایہ داروں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں، اسلام پسندوں کی اپنی شکایات ہیں۔ ہمیں حسن سے بھی لگاؤ تھا، ہمیں زندگی بھی عزیز تھی۔ مئی 2000ء میں ڈاکٹر اقبال احمد کا انتقال ہوا تو ایڈورڈ سعید کے تعزیتی مضمون میں کلیدی جملہ تھا، ‘‘اقبال احمد کی ساری زندگی آزادی اور انصاف میں توازن کی جستجو میں گزر گئی۔’’ سوجھوان لوگ کیسے چند لفظوں میں انسانی تاریخ کا نچوڑ سمیٹ لیتے ہیں۔ آزادی انتخاب کا منطقہ ہے اور انصاف اس منطقے میں مداخلت روکنے کا بندوبست ہے۔ اقبال احمد اس ملک کا نابغہ روزگار ذہن تھا۔ لیکن آزادی اور انصاف کی جدلیات نے اقبال احمد ہی کو امتحان میں نہیں رکھا۔ یہ سوال تو وہ بھاری پتھر ہے جسے ہر صاحب ضمیر کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس مشق میں دیوتا سسی فس کامیاب نہیں ہو سکا لیکن فانی انسان اسی امتحان سے گزرتے ہیں تو امر ہو جاتے ہیں۔ جیسے ابھی ہمارے بیچ سے عاصمہ جہانگیر اٹھ گئیں، ہراول کا مورچہ مسمار ہو گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے جانے کے بعد گویا محاذ جنگ پر خاموشی طاری ہے لیکن یہ خاموشی امن کا سندیسہ نہیں۔ اس میں یہ جانکاہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگلے مورچوں پر لڑنے والی ہمیشہ کے لئے خاموش ہو چکی ہے۔ وہی جو ناصر کاظمی نے کہا تھا، ترا دیا جلائے کون؟ ایسے میں جام ساقی بھی چلے گئے۔ جام ساقی کا شمار دھرتی کے ان بیٹوں میں ہوتا ہے جنہیں بائبل مقدس میں زمین کا نمک کہا گیا ہے۔ 1981ء کی وہ تصویر میری نسل کے ذہنوں پر ہمیشہ کے لئے مرتسم ہو چکی جس میں بے نظیر بھٹو فوجی عدالت میں جام ساقی کی حب الوطنی کی گواہی دینے پیش ہوئی تھیں۔ سفید شلوار قمیص میں ملبوس جام ساقی کی ہتھکڑی کھول کر گلے میں آویزاں کر دی گئی تھی۔ پاکستان کی تاریخ یہی ہے۔ بندوق عدالت لگاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو سچ کی گواہی دیتی ہے، جام ساقی اپنے لہو سے اس گواہی کا اثبات کرتا ہے اور عدالت کا فیصلہ قانون کے لفظ کی بجائے اقتدار کی خواہش سے برآمد ہوتا ہے۔ وعدہ تو یہ تھا کہ آج پہلی محبت کو یاد کیا جائے لیکن آنکھ کے اس تالاب کو کیسے پار کیا جائے جس کی ایک ایک لہر میں ہمارے کچے گھڑے غرق ہوئے ہیں۔ جب لکھنے والے پر مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کی حمایت کا الزام رکھا جاتا ہے تو وہ اس دکھیاری طوائف کی طرح پھیکی ہنسی ہنستا ہے جسے پہلی محبت کی کج ادائی باغ سے بازار تک لے آئی ہے۔ پاکستان کے جمہور پسندوں کی پہلی محبت وہ سیاسی جماعت تھی جسے دو دسمبر 1956 کو خان عبدالغفار خان، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی، جی ایم سیّد اور میاں افتخار الدین نے قائم کیا تھا۔ اسے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کہتے تھے۔ اس پارٹی نے پاکستان میں مقتدر قوتوں کے خلاف حزب اختلاف کی سیاسی روایت قائم کی۔ یہ جماعت جمہوریت ، مظلوم طبقات اور وفاق کی محکوم اکائیوں کے حقوق کا پرچم لے کر اٹھی تھی۔ نیپ کو جنرل یحییٰ خان نے 26 نومبر 1971 کو خلاف قانون قرار دیا۔ پھر 10 فروری 1975 کو بھٹو نے غداری کا الزام لگا کر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی۔ اس ملک کی تاریخ میں شاید ہی کوئی جمہوری کارکن ایسا ہو جس نے نیپ کی درسگاہ سے فیض نہ اٹھایا ہو۔ کہتے ہیں کہ اے این پی نام کی ایک جماعت نیپ ہی کا تسلسل ہے۔ اے این پی کے خرابے میں اب بھی میاں افتخار حسین، افراسیاب خٹک، بشیر احمد بلور اور لالہ افضل خان جیسے موتی مل جاتے ہیں لیکن نیپ اور اے این پی میں وہی فرق ہے جو ظفر علی خان اور ان کے صاحب زادے اختر علی خان میں تھا۔ صاحبو، یہ درویش تو قافلوں سے بچھڑی وہ ابابیل ہے جو اپنے شہزادے کے برباد مجسمے کے قدموں میں مردہ پائی گئی۔ جمہوری ذہن سیاسی راہنماؤں کو یزداں اور شیطان کے خانوں میں بانٹ کے نہیں دیکھتا۔ وہ تاریخ کے دھاروں کو پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کب کسی سیاسی رہنما نے سرگم سے ہٹ کر تان پلٹا لیا اور کیوں؟ پیپلز پارٹی جمہوری پاکستان کا اجتماعی اثاثہ ہے۔ اس جماعت نے گڑھی خدا بخش بھٹو کا قبرستان ہی آباد نہیں کیا کم از کم دو نسلوں کے جمہوری خوابوں کی آبیاری بھی کی ہے۔ پاکستان کا دستور پیپلز پارٹی نے دیا۔ میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے۔ آصف علی زرداری نے صرف پاکستان کھپے کا نعرہ ہی نہیں لگایا، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کا پارلیمانی تشخص بھی بحال کیا۔ پیپلز پارٹی میں اب بھی جمہوریت کی وہ بوند موجود ہے جو کرشنا کوہلی کو اقلیتوں یا عورتوں کی نشست پر نہیں بلکہ جنرل سیٹ پر سینیٹر بناتی ہے۔ آصف علی زرداری ستمبر 2013 کو صدر مملکت کے منصب سے رخصت ہوئے تو ایک مدبر کا مقام رکھتے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ وہ اس بلندی سے نیچے اتر کر چوٹی زیریں کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہیں رضا ربانی سے شکوے ہیں۔ انہیں یہ قبول نہیں رہا کہ فرحت اللہ بابر ان کی ترجمانی کریں۔ مگر یہ حرف شیریں ترجمان تیرا ہے یا میرا؟ آصف علی زرداری اس کھیل سے شاید کوئی ہنگامی مہم سر کر لیں لیکن وہ لڑائی ہار رہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری لڑائی کا حقیقی نقشہ وہی ہے جس میں بے نظیر بھٹو اور جام ساقی وردی والے کے سامنے سینہ سپر ہوئے تھے۔ آصف علی زرداری کی مشکلات قابل فہم ہیں۔ آصف علی زرداری قومی سیاست میں پیپلز پارٹی کا مقام بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس کوشش میں پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ داؤ پر لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی میراث جمہور دوستی اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت ہے۔ اب پرچہ لگا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو ادارے کہا جائے گا۔ لغت ہائے حجازی کے قارون مقننہ اور انتظامیہ کو اداروں میں شمار نہیں کرتے۔ اللہ کی قدرت ہے کہ عائشہ گلالئی نامی ایک خاتون آصف علی زرداری کی تعریف کرتی ہیں کہ زرداری صاحب اداروں کی تضحیک نہیں کرتے۔ محترمہ عائشہ گلالئی تو تازہ واردان بساط دل ہیں۔ انہیں کیا یاد ہو گا کہ 15 جون 2015 کو آصف علی زرداری نے کیا تقریر کی تھی جس کے بعد انہیں دسمبر 2016 تک ملک سے باہر رہنا پڑا۔ رضا ربانی نے ایوان بالا کی سربراہی ایسے نبھائی ہے کہ محمد علی جناح اور عطا ربانی کی لاج رکھ لی۔ اگر کسی وجہ سے رضا ربانی قابل قبول نہیں رہے تو حاصل بزنجو، پرویز رشید اور شیری رحمان موجود ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کرشنا کوہلی کی علامت کو معنی بخشنا چاہتی ہے تو اسے واضح کرنا چاہئے کہ فرحت اللہ بابر کے سینیٹ میں الوداعی خطاب میں کون سے نکات پیپلز پارٹی کی پالیسی اور روایت سے انحراف تھے۔ فرحت اللہ بابر نے میثاق جمہوریت کی ترجمانی کی ہے، آصف علی زرداری ان دنوں میثاق جمہوریت کا ذکر نہیں کر رہے۔ اس سے پیپلز پارٹی کے شہیدوں کا بے داغ کفن میلا ہو رہا ہے۔ سیاست میں داؤ پیچ کھیل کا حصہ ہیں لیکن اگر حتمی نصب العین کو نظر انداز کیا جائے تو پینتالیس برس پہلے خلاف قانون قرار پانے والی نیپ کی محبت جوش مارتی ہے، جام ساقی کی گواہی دینے والی بے نظیر احترام پاتی ہے لیکن… نواز شریف کے احتسابی ساتھی سیف الرحمان اور آصف علی زرداری کے وزیر قانون بابر اعوان کا کہیں نشان نہیں ملتا۔
کیمپنگ کوک ویئر ، سلیپنگ بیگ ، کیمپنگ ٹینٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے ، براہ کرم ہمیں اپنا ای میل چھوڑیں اور ہم 24 گھنٹوں کے اندر رابطہ میں رہیں گے۔ تازہ ترین خبریں بیرونی خیموں کی اقسام کیا ہیں؟2021/08/18 سہ رخی خیمے ہیرنگ بون لوہے کے پائپوں کو سامنے اور پیچھے سپورٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، اور اندرونی پردے کو سہارا دینے اور بیرونی پردے کو نصب کرنے کے لیے درمیان میں ایک کراس بار منسلک ہوتا ہے۔ اپنا سلیپنگ بیگ کیسے خریدیں؟2021/08/18 جب رات کا کم سے کم درجہ حرارت 25 ڈگری سے زیادہ ہو تو اس وقت اونی سلیپنگ بیگ لے جانا ٹھیک ہے۔ ایک پتلا لفافہ سلیپنگ بیگ بھی ٹھیک ہے۔ کاپی رائٹ © 2021 ننگبو چنہون انٹرنیشنل ٹریڈنگ کمپنی ، لمیٹڈ - ٹریکنگ پولز ، آؤٹ ڈور لائٹ ، کیمپنگ کرسی ، کیمپنگ کوک ویئر ، سلیپنگ بیگ ، کیمپنگ ٹینٹ - تمام حقوق محفوظ ہیں۔
نذر محمد راشد ہمارے عہد کے ایک اہم نظم نگار ہیں۔ان کی تخلیقات سے اردو نظم کی دنیا میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔اقبال تک پہنچتے پہنچتے نظم کا رنگ اور روپ خاصہ بدل گیا تھا۔اقبال کے بعد بھی یہ تبدیلیاں جاری رہیں اور نظم میں نئے نئے تجربات کیے گئے۔جس سے نظم کا دامن وسیع ہوا اور اس کے اسالیب میں تنوع پیدا ہوا۔ لیکن راشد کی نظمیں بڑی ہنگامہ خیز اور انقلاب آفرین ثابت ہوئیں۔ ن۔م۔ راشد کے تخلیقی ذہن نے اردو نظم کے مروجہ سانچوں کو قبول نہیں کیا اور انہیں توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ان کا طرز احساس، ان کی نظموں کی ہیت اور تکنیک اردو قاری کے لئے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی۔اور اسکا گرفت میں لینا آسان نہیں تھا۔راشد کے زمانے تک جو نظمیں لکھی گئیں ان میں ایک اکہرا پن تھا۔عام طور پر تو عنوان سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ نظم میں کیا کہا گیا ہوگا لیکن راشد کی نظموں میں اس کے برعکس پیچیدگی اور ابہام ہوتا ہے۔وہ فرانس اور انگلستان کے نظم نگاروں سے متاثر تھے۔ Advertisement راشد کی نظموں میں قارئین کو چونکا دیا۔ان کی نظمیں سادہ اور بیانیہ نظموں سے قطعی مختلف تھیں۔اس میں افسانوی اور ڈرامائی انداز گل مل گئے تھے۔نظم کی تعمیر کا انداز نیا تھا۔مطلب یہ کہ ہمارے قارئین تو اس کے عادی تھے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ سلسلہ وار ایک منطقی انداز سے کہا جائے۔پہلے ابتداء ہو، پھر وسط اور اس کے بعد اختتام ہو۔لیکن ان کی نظموں میں ایسا نہیں تھا۔کہیں بات درمیان سے شروع ہوجاتی تھی اور کہیں بالکل آخر سے۔گویا اکثر فلیش بیک کی تکنیک اختیار کی جاتی تھی۔یہ تکنیک وہ ہے جو ناول میں اختیار کی جاتی رہی ہے۔ Advertisement ہماری نظموں میں جب واحد متکلم کا صیغہ استعمال ہوتا تھا مطلب یہ کہ شاعر ‘ میں’ کہہ کر کوئی بات کہتا تھا تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ شاعر اپنے بارے میں کچھ کہہ رہا ہے۔لیکن راشد کی اکثر نظموں میں واحد متکلم کہیں کوئی ایک کردار ہے اور کہیں مل کر کئی کردار۔بہت غور و فکر کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کون بول رہا ہے۔نتیجہ یہ کہ ان کی نظموں کا سمجھنا عام قارئین کے لیے مشکل ہو گیا۔ Advertisement راشد کی نظموں کے قاری جب معنی و مفہوم کی تہہ کو نہیں پہنچ سکے تو سرسری مطالعے کے بعد اور کبھی کبھی تو نظم کے بعض ٹکڑوں کو سامنے رکھ کر عجیب طرح کے فیصلے صادر کر دیے۔انہیں غیرسماجی، مردم بیزار،فراری، شکست خوردہ ذہنیت کا مالک،مریض،جنس زدہ اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔فحاشی اور عریانی کا الزام تو ان پر پے در پے لگایا گیا۔ راشد نے مغربی شاعری کے علاوہ فارسی اور اردو کی شعری روایت کا اثر قبول کیا۔ان کا زمانہ اقبال سے کچھ ہی بعد کا ہے۔ذہنی طور پر وہ اقبال کے بہت نزدیک نظر آتے ہیں۔اقبال اور راشد دونوں کی شاعری کا مرکز مشرق اور مشرق کی روح ہے۔اقبال اور راشد دونوں کو یکساں عالمی مسائل کا سامنا تھا۔لیکن دونوں کا رویہ مختلف رہا۔اپنے مضمون “راشد کا ذہنی ارتقاء” میں خلیل الرحمان اعظمی لکھتے ہیں: Advertisement “راشد کی شاعری پر جب جب میں نے غور کیا ہے اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی شاعری دراصل اقبال کی شعری شخصیت کا تسلسل یا اس کی تشکیل نو ہے۔راشد کے یہاں جو چیز اقبال سے مختلف ہے وہ ان کا زاویہ نگاہ ہے۔جو ان کی اپنی شخصیت اور ذاتی وجدان کی دین ہے” شعری مجموعے “ماورا” “ایران میں اجنبی” اور “لاانسان” راشد کی نظموں کے مجموعے ہیں۔تسلسل کے ساتھ ان کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کی فنی پختگی اور سیاسی بصیرت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ایمائیت اور تہہ در تہہ علامات سے نظموں میں زیادہ گہرائی پیدا ہوتی گئی۔معنی میں زیادہ وسعت آتی گئی اور ان کا اسلوب بیان آخرکار ایسا منفرد ہو گیا کہ چند مصرعوں سے انکا شناخت کر لینا دشوار نہیں رہا۔راشد کی شاعری سے دانشور طبقہ ہی پوری طرح لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ Advertisement مشہور نظمیں دریچے کے قریب، رقص، گناہ، انتقام، پہلی کرن، من سلویٰ،یہ دروازہ کیسے کھلا، اسرافیل کی موت، گداگر، انکی بہت ہی کامیاب نظمیں ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی طرح ن۔ م۔ راشد بھی آج کے نہیں آنے والی کل کے شاعر ہیں۔جس توجہ کے وہ مستحق ہیں آج نہیں تو کل ان کی طرف متوجہ ضرور ہوگی۔
وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ معیشت صرف بیمار نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھی لیکن قرضوں کے ریکارڈ انبار کو ہم نے واپس کیا۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور معیشت کو ترقی کی ٹریک پر لگایا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن دیوالیہ ہونے کے قریب معیشت چھوڑ کر گئی تھی۔ ہم نے ان کی کوویڈ کی مشاورت کو رد کر کے صحیح راستہ اپنایا اور کوویڈ کے دوران ہماری معیشت نے 4 فیصد ترقی کی۔ ایل این جی کی ڈیل ہم نے کی اور اسی کمپنی سے جس سے انہوں کی تھی لیکن ہم نے کم ریٹ پر ڈیل کی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے اور یہ مہنگائی سپلائی چین بند ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے دور میں امپورٹ کا سیلاب آیا تھا اور امپورٹس نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا۔ ہمارے دور میں گنا 250 سے 300 روپے فی من فروخت ہوا اور گزشتہ سالوں سے زیادہ 2021 میں یوریا کی فروخت ہوئی۔ ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے یوریا کی کمی کا سامنا ہوا۔ حماد اظہر نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار ن لیگ دور سے زیادہ ہوئی ہے اور اس سال ایکسپورٹ کو 30 ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ ہم نے صرف 3 سو ارب روپے کی ٹیکسز لگائے ہیں جو ایڈجسٹیبل ہیں۔ امیر لوگ جتنا ٹیکس دیتے ہیں انہیں اس سے زیادہ ٹیکس دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈر کے اکاؤنٹ سے 4 ارب روپے نہیں نکلتے لیکن منظور چپڑاسی کے اکاؤنٹس سے کیسے 4 ارب روپے نکلے ؟ ایل این جی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے نومبر، دسمبر اور جنوری میں ایل این جی کے 10 کارگو امپورٹ کیے جس میں سے ایک ایل این جی کا کارگو 10 ارب روپے کا ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور میں تین مہنگی ایل این جی کے پلانٹ لگائے گئے تھے۔ حماد اظہر نے کہا کہ قطر حکومت کے ساتھ مہنگی ایل این جی کے سودے کیے گئے تھے جس کی وجہ سے بجلی گھروں کو ساڑھے 800 ارب روپے سالانہ کرایہ دیا جا رہا ہے۔ بجلی لیں یا نہ لیں ہمیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔ سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں ریاست کا نظام کمزور ہو چکا ہے اور عدالت کے ریمارکس ہیں کہ سندھ میں کوئی حکومت ہے ہی نہیں۔ سندھ کے عوام کو بھی صحت کارڈ دینا چاہتے ہیں لیکن سندھ حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی آئے گی تو پاکستان میں بھی چیزیں سستی ہوں گی۔ اس وقت پاکستان میں یوریا کی قیمت دنیا کے مقابلے میں 5 گنا کم ہے۔ ← شہباز شریف نے FIA کی منی لانڈرنگ تحقیقات چیلنج کر دیں → کراچی: کلفٹن میں فائرنگ سے زخمی شخص دم توڑ گیا
ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی ٹی وی ناظرین کے 63 فیصد اب نیوز چینل چھوڑ کر انٹر ٹینمنٹ چینلز ، اسپورٹس اور ترکش سوپ دیکھ رہے ہیں ۔ صرف 37 فیصد ناظرین کی دلچسپی نیو ز چینلز میں برقرار ہے ۔ ان 37 فیصد میں سے بھی 16 فیصد لوگ جیو نیوز دیکھتے ہیں جبکہ بقیہ 21 فیصد باقی سارے چینلز کا طواف کرتے ہیں ۔ پاکستانی ناظرین کی نیوز چینلز میں دن بہ دن کم ہوتی دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ خراب ہوتی نیوز اسکرین ہے ۔ جو دیکھنے والوں میں ایک ھیجانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے ۔ نیو ز رپورٹ کرنے کے بجائے نیوز تخلیق کرنے کے فروغ پاتے نئے رجحان نے پیشہ صحافت اور پیشہ ورصحافیوں کیلئے نت نئے چیلیجنز کو جنم دیا ہے ۔ بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو روکنے اور اسے کنٹرول کرنے کیلئے دریاوں پہ بند بنائے جاتے ہیں ، بیراج اور ڈیم تعمیر کرکے سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کیونکہ اگر سیلابی پانی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ بستیوں کو تہہ و بالا کر دیاتا ہے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ۔ اور سیلابی پانی پی کر قوم بیمار ہوجاتی ہے بعینہ اسی طرح اس وقت ملک میں انفارمیشن اور معلومات کا ایک سیلاب ہے جو پرنٹ میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے زریعے ہر لمحہ تیز سے تیز تر ہو تا جا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ ایک ایک منٹ میں ہمارے واٹس اپ پہ اتنی انفرامیشن موصول ہو رہی ہوتی ہے کہ ہم اسے دیکھنے اور پڑھنے سے قا صر ہو جاتے ہیں ۔ انفارمیشن کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کیلئے نیوز رومز میں ۔ ڈیسک کا کام ، کوالٹی کنٹرول پرو ڈیوسرز ، وڈیو ایڈیٹنگ ڈیسک دراصل وہ بیراج اور ڈیم اور بند ہیں جن کے زریعے سے انفارمیشن کے اس سیلاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے ، خبر کو ٹریٹ کیا جاتا ہے اور ایڈیٹنگ اور چیک کےمراحل سے گذارا جاتا ہے ۔ لیکن میڈیا ھاوسز میں کمزور اور دن بدن معدوم ہوتا ایڈیٹوریل انسٹیٹیوتشن اس سیلاب کو کنٹرول کرنے اس کے آگے بند باندھنے سے قاصر ہے ۔ جسکے نتیجے میں ان ٹریٹڈ اور ان ایڈیٹڈ انفارمیشن قوم تک پہنچا کر قوم کو ذھنی مریض بنا دیا گیا ہے ۔ ھیجانی کیفیت میں ٹی وی اسکرین دیکھنے والی قوم کو بیمار بنا دیاگیا ہے ۔ اسیے حالات میں جب ایک اور کھلونا ہر رپورٹر کو تھمایا جا رہا ہے ۔ کہ اپنے موبائل فون سے شوٹ بھی خود کرو ، اسکرپٹ خود لکھ کر اسی موبائل فون سے وائس اور بھی خود کرو اور اسی اسمارٹ فون سے وڈیو ایڈیٹنگ کرکے خبر ی پیکج ر ڈائریکیٹ نیوز روم کو بھیج دو ۔ اسکے نتیجے میں مستقبل قریب میں ٹی وی اسکرین مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ٹی وی دیکھنے ولاے ناظرین کی تعداد 37 فیصد سے بھی مزید کم ہو جائے گی ۔ ایسے حالات میں پاکستان میں پیشہ صحافت اور صحافیوں کو 7 بڑے چیلنج درپیش ہیں جن کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ 1۔ اس وقت پاکستانی میڈیا دو حصوں میں منقسم ہے ، جسمیں سے ایک خود ساختہ مین اسٹریم میڈیا ( قومی میڈیا ) کہلاتا ہے ، جبکہ دوسرے کو ریجنل میڈیا یا لوکل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے ۔ خود مین اسٹریم میڈیا بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہے ۔ غیر جانبدار قومی بیانیہ کی بحث جو کہ مین اسٹریم میڈیا کا اہم کام ہے ۔ مین اسٹریم میڈیا اپنا وہ فرض نبھاتا ہوا نظر نہین آتا ۔ کشمیر مین اسٹریم میڈیا میں صرف تب نظر آتا ہے جب زلزلہ آتا ہے ۔۔۔۔ خیبر ایجنسی مین اسٹریم میڈیا یں تب نظر آتی ہے جب وہاں کوئی خود کش بمبار پھٹتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بلو چستان مین اسٹریم میڈیا میں تب نظر آتا ہے جب وہاں کوئی دہشت گردی کا وقعہ ہوتا ہے ۔۔۔۔جبکہ دوسری جانب یہہی مین اسٹریم میڈیا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا ٹوہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ جسکا اظہار اسکی نیوز فارمیٹنگ اور پرو گرامنگ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ 2۔دوسری جانب یہی مین اسٹریم میڈیا لوکل میڈیا یا ریجنل میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے ان عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے جو واقعی عوامی مسائل اور عوامی اشوز ہیں ۔ بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا کی تمام کی تمام ھیڈلائنز صرف سیاسی بیانات اور پولیٹیکل پارٹیز کے بیانات کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے نے عوام الناس کو نیوز چینل سے بد ظن کرکے انٹرٹینمنٹ چینل دیکھنے پر مجبور کیا ہے ۔ جسکی واضح مثال اس دن کی ہے جب کراچی میں ملیر کے ایس پی راو انوار کو معطل کیا گیا ۔ دوسری جانب اسی دن خیبر ایجنسی کی مسجد میں بم دھماکے میں درجنوں لوگ جاں بحق ہو گئے ۔ لیکن مین اسٹریم میڈیا کیلئے راو انوار کی معطلی کی خبر اہم تھی ، کئی گھنٹوں تک اہم قومی چینلز کی ھیڈ لائن اسٹوری تھی ۔ جبکہ خیبر ایجنسی میں انسانی جانوں کا ضیاع اس نام نہاد قومی میڈیا میں جگہ نہیں بنا پایا ۔ یعنی عوام جسے خبر سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ مین اسٹریم میڈیا اسے خبر ہی نہیں گردانتا ۔۔۔۔ نہ مین اسٹریم میڈیا میں اس اشو کیلئے کوئی جگہ ہوتی ہے ۔ محسن بھوپالی نے ایسے ہی میڈیا کیلئے کہا تھا ۔ جو دل کو ہے خبر ۔ نہیں ملتی کہیں خبر ہر روز اک عذاب ہے اخبار دیکھنا 3۔ دنیا بھر میں ( ھارڈ پوسٹنگ ) کی ایک اصطلاح رائج ہے ۔ کہ جہاں جس علاقے میں خظرات ذیادہ ہوں ، کنفلکٹ زون ہو وہاں پر متعین صحافی کے پرکس اور اسکو ملنے والی سہولیات اور مراعات عام صحافی کی بنسبت زیادہ ہوتی ہیں ۔ مثلا نیویارک میں کام کرنے والے سی این این کے ایک رپورٹر کی تنخواہ اور اور اسکی مراعات اس روپرٹر سے کم ہونگی جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ کابل میں خدمات دینے والے صحافی کا معاوضہ اور اسکی مراعات عام صحافیوں سے ہر حال میں ذیادہ ہونگی ۔ لیکن بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا میں اسکے بلکل برعکس ہے ۔ بلوچستان اور فاٹا کے کنفلکٹ زون ہوں ، یا سندھ کے ریگستانی علاقے ہوں وہاں کام کرنے والے صحافیوں کی اجرات اور اسکی مراعات بلکل معمولی ہوتی ہیں ۔ جبکہ اسکے مقابلے میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے ائر کنڈیشننڈ نیوز روم میں کام کرنے والے صحافی کی مراعات اس ھارڈ پوسٹنگ والے صحافی سے ذیادہ ہوتی ہیں ۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں اس تصور کو بدلنا ہوگا ۔ یہی ا س وقت کا تیسرا بڑا چیلنج ہے ۔ 4۔ پاکستانی میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کیمرہ ڈومنیٹڈ میڈیا ہو گیا ہے ۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس کے پاس کیمرہ نہیں شاید وہ صحافی نہیں اسکی اب کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ جبکہ ایک پروفیشنل رپورٹر یا ایک پریزینٹر کی حیثیت سے اگر کیمرہ اآپ پر ہے ، تو اآپ کی کوشش ہونی چاہئیے کہ اپ جتنا جلدی ممکن ہو کیمرہ سے جان چھڑائیں ۔ کیونکہ جتنی دیر آپ کیمرہ پہ رہینگے آپ کی شخصیت ایکسپوز ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ آپ کی کمزوریاں اور کوتا ہیاں لوگوں پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ ۔ کیمرہ پہ آنے والے رپورٹرز کے ھاتھ میں کبھی نوٹس نہیں ہوتے ۔ یہ نوٹس ایک رپورٹر کی خبر کو رپورٹ کرنے میں بہترین مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن بغیر نوٹس کے بولے چلے جانے کی روش نے بھی عام ناظر کو نیوز چینل سے دور کیا ہے ۔ 5۔ پاکستانی صحافت کو ایک بہت بڑا چیلنج یہ بھی درپیش ہے کہ اسے اب فوری طور پر ایک اینکر پرسن ، پریزینٹر اور ایک صحافی کی کیٹیگری کو الگ کرنا ہو گا ۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک صاحب جسکا صحافت سے دور دراز سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا ،۔ جس نے کبھی زندگی میں بنیادی رپورٹنگ نہیں کی ہوتی ۔۔۔۔ٹی وی اسکرین پر دو چار پروگرام پریزنٹ کرکے اپنے آپکو صحافی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ اور پوری قوم اسے ہی صحافی گردان رہی ہوتی ہے ۔اور یہی وہ نام نہاد صحافی ہوتا ہے جو مرنے والے کے لواحقین سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ اپ کیسا محسوس کررہے ہیں ۔۔۔۔ اور اس سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہ سب اہل صحافت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں ۔ ااکستان کے صحافیوں کو اب بہت جلد یہ کیٹیگریز بنانا ہونگی کہ آیا کوئی شخص صحافی ہے یا اینکر اور پریزنٹر ۔ ۔۔۔۔ اینکر پریزنٹر اور صحا فی کی کیٹیگریز الگ الگ کرنا ہوں گی. 6۔ یہ اب ایک عام معملول بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک افواہ کچھ ہی دیر میں نیوز چینل کی اسکرین پر خبر کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ لوگ جب کسی صحافی کو سوشل میڈیا پہ فالو کرتے ہیں تو وہ آپ سے کسی نیوز کی توقع کر رہے ہوتے ہیں افواہ کی نہیں ۔ اور اگر اسکے بدلے انہیں ایک افواہ ملے تو وہ بد ظن ہو جاتے ہیں ۔ لہذا افواہ کو نیوز چینل کی خبر میں بدلنے کے رجحان کو ختم کرنا ہو گا ۔۔۔ 7۔ لائیو نیوز کے کلچر کے بعد نیوز رومز کے اندر اب لازما یہ کیٹیگریز بننی چاہییں کہ کون سا رپورٹر لائیو نیوز کور کریگا اور کون نہیں ۔۔۔۔ کون سا رپورٹر لائیو بیپر دیگا اور کون نہیں ۔ ۔۔۔۔ کونسا رپورٹر حساس رپورٹنگ اور اشوز کو کور کریگا اور کون نہیں ۔۔۔۔۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہر صحافی کو بذات خود صحافتی ضابطوں اور اقدار کی پیروی کرنی ہوگی ۔ 8۔ ریٹنگ کے دور میں اب پاکستانی میڈیا اس انتہا پہ پہنچ گیا ہے کہ وہ خبرکو رپورٹ کرنے کے بجائے خبر کو تخلیق کرنے پر تل گیا ہے ، جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ اس خطرناک رجحان نے صحافت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔۔۔۔نیوز روم سے ایک رپورٹر سے یہ فرمائش کی جاتی ہے کوئی خبر بناو ۔۔۔۔ کسی خبر میں مصالحہ لگاو ۔۔۔۔ اس خبر میں کچھ ڈالو ۔۔۔۔۔ خبر کو تخلیق کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں اور میڈہیا مینیجرز کو اپنی اس روش کو اب بدلنا ہوگا ۔ 9۔ ہمیں تو بیس سالوں تک استادوں نے نیوز رومز مین یہی سکھایا کہ سارا جرنلزم کرنٹ افیئر کا کھیل ہے ۔۔۔ لیکن ہمارے ہاں نئے رجحان یہ ہیں کہ کرنٹ افیئر صرف سیاست ہے ۔ جو کسی طور درست نہیں ۔۔۔۔ کرنت افیئر کے سارے پروگرام صرف سیاسی بیان بازی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہمیں ایسے میڈیا مینیجر ز کیلئے ایک نئی کھڑکی بنا کر انہیں دکھانا اور سمجھانا ہوگا کہ جو کچھ ہماری روز مرہ کی زندگیوں کو افیکٹ کر رہا ہے ۔ وہی کرنٹ افیئر ہے ۔ اس رجحان کو نئے سرے سے دیکھنے اور بدلنے کی ضرورت ہے ۔ 10۔ ایک اور بڑا اور خطرناک رجحان جو پروان چڑھ رہا ہے ۔ جسے چیلنج سمجھ کر بدلنا ہے وہ ہے خواہشات کو زرائع بنانا۔ رپورٹر ٹی وی اسکرین پہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ زرائع کا یہ کہنا ہے ۔۔۔ یا مبصرین کا خیال ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی زرائع اور مبصرین نہیں ہوتے یہ رپورٹر کی خواہشات ہوتی ہیں جسے وہ خبر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ۔۔۔ ( ہم سمجھتے ہیں کہ زرائع اور سورس بہت مقدس ہیں لیکن خواہشات کو زرائع کہنا ۔ یا مبصر کا لبادہ اڑھانا کسی طور قابل قبول نہیں ۔ یہ وہ چیدہ چیدہ چیلینجز ہیں جن سے نبرد آزما ہو کر ہم صحافت کو اور ٹی وی اسکرین کو کسی حد تک عوام کیلئے قابل قبول بنا سکتے ہیں ۔
یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب دے کر مار دیا اور انہیں بائبل کے مطابق لعنتی ثابت کر دیا کیونکہ لکھا ہے ”جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں 3/13) قرآن کریم ان کی تردید فرماتا ہے۔ عیسائیوں کا نظریہ عیسائی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب تو دی تھی مگر وہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے تین دن دوزخ میں رہے۔ پھر واپس دنیا میں آئے اور جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے۔ اب وہ قیامت سے قبل دوبارہ واپس آئیں گے اور ساری دنیا کو عیسائی بنا دیں گے۔ اب وہی نجات یافتہ ہو گا جو ان کے کفارے پر ایمان لائے یعنی اس عقیدے پر کہ دوزخ میں جا کر انہوں نے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ قرآن کریم اس کی بھی تردید فرماتا ہے۔ غیر احمدی مسلمانوں کا نظریہ اور اسکی تردید غیر احمدی مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود صلیب دینے کے لئے لے جارہے تھے تو انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے رات کے اندھیرے میں روشن دان کے ذریعے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک یہودی دشمن کی شکل تبدیل کر کے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل بنا دی جسے کمرے میں بند کر دیا۔ صبح یہودیوں نے اس شخص کو جس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی تھی ،کو صلیب پر لٹکا دیا مگر دراصل وہ انہی کا ایک یہودی بھائی تھا جس کو صلیب دی گئی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر بیٹھے ہیں ۔ اس جگہ اس تیسرے نظریہ پر غور کرنا مقصود ہے۔ پس واضح ہو کہ اس کہانی کا نہ قرآن میں ذکر ہے نہ احادیث میں یہ ایک من گھڑت کہانی ہے جونہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ خدا کی شان کے بھی خلاف ہے۔ مثلاً… 1۔ اس یہودی نے شور کیوں نہ ڈالا کہ میں تو یہودی تمہارا بھائی ہوں میرا یہ نام ہے میرا فلاں جگہ گھر اور بیوی بچے ہیں۔ کوئی دنیا کا عقل مند انسان اسے قبول نہیں کر سکتا کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا گیا اورصلیب پر لٹک کر نہایت دردناک طریق پر مارا گیا اور اُف تک نہ کی۔ اگروہ شور ڈال دیتا تو یہودی کبھی بھی اسے صلیب پر نہ لٹکاتے بلکہ اصلی مسیح کی تلاش میں نکل پڑتے۔ اور اسے مسیح کا جادو سمجھ لیتے۔ 2۔ اگر خداتعالیٰ نے اٹھانا ہی تھا تو رات کی تاریکی میں کیوں اٹھایا دن کے اجالے میں کیوں نہ اٹھایا تاکہ سب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی۔ 3۔ کیا ہم اس بات کو گوارا کر سکتے ہیں کہ ہماری شکل فرعون یا ابوجہل یا یزید کے چہرے پر لگ جائے اور وہ ہمارا ہم شکل ہو جاتا اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ نے کیوں اپنے مقدس نبی کی شبیہ یہود پر ڈال دی؟ 4۔ عیسائی اسی واقعہ کو جواز بنا کر ثابت کرتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت عیسیٰ ؑ کی شان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھی کہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی گئی جبکہ آنحضورؐ نے طائف میں پتھر بھی کھائے اور احد میں آپؐ کے دانت تک شہید ہوئے۔ 5۔ اگر یہ قصہ مان لیں تو گویا قیامت تک کے لئے نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو گمراہ کر دیا کیونکہ وہ قیامت کے دن کہہ دیں گے کہ اے خدا تو نے بائبل میں تعلیم نازل کی تھی کہ جسے صلیب دی جائے وہ لعنتی ہوتا ہے ہم اسے جھوٹا سمجھتے تھے اور تیری تعلیم کے مطابق اسے صلیب دے کر لعنتی ثابت کر دیا پھر ہم کیوں اس پر ایمان لاتے؟ جماعت احمدیہ کا نظریہ اور اسکے دلائل جماعت احمدیہ کے نزدیک اگر چہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے صلیب پر لٹکایا ضرور تھا مگر وہ بے ہوشی کی حالت میں زندہ صلیب سے اتار لئے گئے تھے۔ اس کے بعد وہ لمبا سفر کر کے افغانستان کے راستے ہندوستان اور کشمیر میں پہنچے اور وہاں0 12 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آج بھی ان کا مزار کشمیر کے محلہ خانیار میں یوز آصف کے نام سے مشہور ہے۔ (ذیل میں تصویر ملاحظہ کریں۔) 1۔ جمعہ کے روز سہ پہر انہوں صلیب پر لٹکایا گیا۔ تقریباًدو اڑھائی گھنٹے بعد اُنہیں اتار لیا گیا۔ اس دوران انسان صلیب پر جان نہیں دیتا بلکہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے کیونکہ صلیب میں دونوں ہاتھوں اور پاؤں کی ہڈیوں کے درمیان میخیں گاڑی جاتی ہیں۔ اس سے اتنا خون نہیں نکلتا کہ انسان مر جائے۔ 2۔ اتارنے سے قبل جب وہ بے ہوش ہو چکے تھے ایک رومن سپاہی نے ان کی پسلی میں بھالا ماراجس سے خون اور پانی فی الفور بہہ نکلا (یوحنا 19/34)۔ یہ بات قطعیت سے ثابت کرتی ہے کہ وہ اس وقت زندہ تھے اور دل کی دھڑکن جاری تھی اور خون رگوں میں گردش کر رہا تھا۔ورنہ مردہ جسم سے خون تیزی سے نہیں نکلتا کیونکہ دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور خون جم جاتا ہے۔ 3۔ صلیب سے اتارنے کے بعد ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں تب صلیب کا عمل مکمل ہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دو چوروں کو بھی صلیب دی گئی۔ ان دونوں چوروں کی تو ہڈیاں توڑی گئیں مگر حضرت عیسیٰ ؑ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔ 4۔ صلیب سے اتارنے کے فوراً بعد انہیں حواری لے گئے اور ایک خفیہ تہہ خانے میں جا کر رکھا۔ ان کے جسم پر مرہم لگائی گئی جو اس وقت سے آج تک طب کی کتابوں میں ”مرہم عیسیٰ” کے نام سے مشہور ہے۔ جو زخموں کو بہت جلد ٹھیک کرتی ہے۔ جسم پر ایک چادر لپیٹ دی گئی۔ تین دن تک عیسیٰ ؑ اسی تہہ خانے میں رہے۔ اس کے بعد وہ نکلے اور رات کے وقت ایک حواری کے گھر جا کر سب حواریوں سے ملے۔ اورپھر ایک لمبے سفر کا آغاز کر دیا ۔ 5۔ جو چادر ان پر لپیٹی گئی جسے کفن مسیح کہا جاتا ہے وہ آج بھی اٹلی کے ایک گرجا گھر میں موجود ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی تصویر (image) بنی ہوئی ہے۔ کیمرے کی ایجاد کے بعد جب اس کی تصویر لی گئی تو وہ ڈارک روم میں negative کی بجائے positive بن کر ابھری اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے پر ان کی تصویر کا negative بنا ہوا ہے جو اس بات کو قطعیت سے ثابت کرتا ہے کہ یہ تصویر جعلی نہیں اصلی ہے۔ اس تصویر میں بہت سے زخموں کے نشانات ہیں جن سے خون نیچے کی طرف رستا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کپڑے میں لپٹے جانے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے اور ان کے زخموں سے خون رِس رہا تھا۔ 6۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے افغانستان ، ہندوستان اور کشمیر کی طرف سفر اس لئے اختیار کیا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے 12 قبائل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف 2 قبائل فلسطین میں آباد تھے باقی 10 قبائل 300 سال قبل ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ کر آباد ہوگئے تھے۔ چنانچہ مورخ اس بات پر قریباً متفق ہیں کہ ان علاقوں میں بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل آ کر آباد ہوئے تھے۔ اسی لئے آج بھی یہاں کے قبیلوں کے نام موسیٰ خیل عیسیٰ خیل وغیرہ ملتے ہیں۔آپ کی ہجرت اور کشمیر میں آنے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ فرمایا وَاٰوَیْنٰھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ (المومنون:51) (ترجمہ:۔ اور ان دونوں کو ہم نے ایک مرتفع مقام کی طرف پناہ کی جوپُر امن اور چشموں والا تھا)اور کشمیر کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ اس وقت کا راجہ شالباھن سے حضرت عیسیٰ کی ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے جس میں عیسیٰ ؑنے بتایا میں بنی اسرائیل کا نبی ہوں اور کنواری کے بطن سے پیدا ہوا اور میری تعلیم محبت کی ہے ۔ میں اپنی قوم کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ 7۔ سری نگر کے محلہ خانیار میں آپؑ کا مزار یوز آصف کے نام سے مشہور ہے۔ ” یوز ‘‘ یسوع سے بگڑا ہوا لفظ ہے اور آصف کے معنی ہیں متلاشی یعنی آپ اپنی قوم کی تلاش میں یہاں پہنچے۔ قبر کے پاس پتھر کی تختی ہے جس پر دو قدموں کے نشان بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سوراخ یعنی زخموں کے نشان دکھائے گئے ہیں ۔ یہ بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اس قبر میں مدفون ہونے والے کے قدموں میں کیل لگائے گئے تھے جو صلیبی واقعہ پر دلالت کرتا ہے۔
1)اور وہ دونوں فرشتے شام کو سدوم ہیں آئے اور لوط سدوم کے پھاٹک پر بیٹھا تھا اور لوط اُنکو دیکھ کر اُن کے استقبال کے لیے اُٹھا اور زمین تک جُھکا۔ (2) اور کہا اے میرے خداوند اپنے خادم کے گھر تشریف لے چلے اور رات بھر آرام کیجئے اور اپنے پاﺅں دھویئے اور صبح اُٹھکر اپنی راہ لیجئے اور اُنہوں نے کہا نہیں ہم چوک ہی میں رات کاٹ لینگے۔ (3) لیکن جب وہ بہت بجِد ہوا تو وہ اُسکے ساتھ چل کر اُسکے گھر میں آئے اور اُس نے اُنکے لیے ضیافت تیار کی اور بے خمیری روٹی پکائی اور اُنہوں نے کھایا۔ (4) اور اِس سے پیشتر کہ وہ آرام کرنے کے لیے لیٹیں سدوم شہر کے مردوں نے جوان سے لیکر بڈھے تک سب لوگوں نے ہر طرف سے اُس گھر کو گھیر لیا۔ (5)اور انہوں نے لوط کو پکار کر اُس سے کہا کہ وہ مرد جو آج رات تیرے ہاں آئے کہاں ہیں؟ اُنکو ہمارے پاس باہر لے آ تاکہ ہم اُن سے صحبت کریں۔ (6) تب لوط نکل کر اُنکے پاس دروازہ پر گیا اور اپنے پیچھے کواڑ بند کردیا۔ (7) اور کہا کہ اے بھائیو! ایسی بدی نہ کرو۔ (8) دیکھو! میری دوبیٹیاں ہیں جو مرد سے واقف نہیں۔ مرضی ہو تو میں اُنکو تمہارے پاس لے آوں اور جو تمکو بھلا معلوم ہو اُن سے کرو۔ مگر ان مردوں سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ اسی واسطے میری پناہ میں آئے ہیں۔ (9) پھر کہنے لگے کہ یہ شخص ہمارے درمیان قیام کرنے آیا تھا اور اب حکومت جتاتا ہے۔ سو ہم تیرے ساتھ اُن سے زیادہ بد سلوکی کرینگے۔ تب وہ اُس مرد یعنی لوط پر پل پڑے اور نزدیک آئے تاکہ کواڑ توڑ ڈالیں۔ (10) لیکن اُن مردوں نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لوط کو اپنے پاس گھر کھنیچ لیا اور دروازہ بند کردیا۔ (11) اور اُن مردوں کو جو گھر کے دروازہ پر تھے کیا چھوٹے کیا بڑے اندھا کردیا۔ سو وہ دروازہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے۔ (12) تب اُن مردوں نے لوط سے کہا کیا یہاں تیرا کوئی ہے؟ داماد اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں اور جو کوئی تیرا اس شہر میں ہوسب کو اس مقام سے باہر نکال لے جا۔ (13) کیونکہ ہم اس مقام کو نیست کرینگے اسلئے کہ اُنکا شور خدا کے حضور بہت بلند ہوا ہے اور خداوند نے اُسے نیست کرنے کو ہمیں بھیجا ہے۔ (14) تب لوط باہر جا کر اپنے دامادوں سے جنہوں نے اُسکی بیٹیاں بیاہی تھیں باتیں کیں اور کہا کہ اُٹھو اور اس مقام سے نکلو کیونکہ خداوند اس شہر کو نیست کریگا۔ لیکن وہ اپنے دامادوں کی نظر میں مُضحک سا معلوم ہوا۔ (15) جب صبح ہوئی تو فرشتوں نے لُوط سے جلدی کرائی اور کہا کہ اُٹھ اپنی بیوی اور اپنی دونوں بیٹیوں کو یہاں ہیں لے جا۔ ایسا نہ ہو کہ تو بھی اس شہر کی بدی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو جائے۔ (16) مگر اُس نے دیر لگائی تو اُن مردوں نے اُسکا اور اُسکی بیوی اور اُسکی دونوں بیٹیوں کو ہاتھ پکڑا کیونکہ خداوند کی مہربانی اُس پر ہوئی اور اُسے نکال کر شہر سے باہر کردیا۔ (17) اور یوں ہوا کہ جب وہ اُنکو باہر نکال لائے تو اُس نے کہا اپنی جان بچانے کو بھاگ ۔ نہ تو پیچھے مُڑ کر دیکھنا نہ کہیں میدان میں ٹھہرنا۔ اُس پہاڑ کو چلاجا۔ تا نہ ہو کہ تو ہلاک ہو جائے۔ (18) اور لُوط نے اُن سے کہا کہ اے میرے خداوند ایسا نہ کر۔ (19) دیکھ تو نے اپنے خادم پر کرم کی نظر کی ہے اور ایسا بڑا فضل کیا کہ میری جان بچائی۔ میں پہاڑ تک جا تک جا نہیں سکتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر مصیبت آپڑے اور میں مر جاوں۔ (20)دیکھ یہ شہر ایسا نزدیک ہے کہ وہاں بھاگ سکتا ہوں اور یہ چھوٹا سا بھی ہے۔ اِجازت ہو تو میں وہاں چلا جاﺅں۔ وہ چھوٹا سا بھی ہے اور میری جان بچ جائیگی۔ (21)اُس نے اُس سے کہا کہ دیکھ میں اِس بات میںبھی تیرا لحاظ کرتا ہوں کہ اس شہر کو جسکا تونے ذکر کیا غارت نہیں کرونگا۔ (22) جلدی کر اور وہاں چلا جا کیونکہ میں کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ تو وہاں پہنچ نہ جائے۔ اسی لئے اُس شہر کا نام ضُفر کہلایا۔ (23)اور زمین پر دھوپ نکل چُکی تھی جب لُوط ضُفر میں داخل ہوا۔ (24)تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی ۔ (25) اور اُس نے اُن شہروں کو اور اُس ساری ترائی کو اور اُن شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگاتھا غارت کیا۔ (26) مگر اُس کی بیوی نے اُسکے پیچھے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستُون بن گئی۔ (سورة الاعراف 7:80-84) اور ( اسی طرح جب ہم نے ) لوط کو( پیغمبر بنا کر بھیجا تو) اس وقت اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسی بیحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہلِ عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا۔ یعنی خواہشِ نفسانی پورا کرنے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں پر گرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو۔ تو اُن سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا اور بولے تو یہ بولے کہ ان لوگوں ( یعنی لوط اور ان کے گھر والوں ) کو اپنے گاﺅں سے نکال دو ( کہ) یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں۔ تو ہم نے اُنکو اور اُن کے گھر والوں کو بچا لیا مگر اُنکی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی۔ اور ہم نے اُن پر ( پتھروں کا) مینہ برسایا سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا۔ (سورة ھود 11: 77-83) اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ اُن (کے آنے) سے غمناک اور تنگدل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے۔ اور لوط کی قوم کے لوگ ان کے پاس بے تحاشا دوڑتے ہوئے آئے اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعل شنیع کیا کرتے تھے لوط نے کہا اے قوم! یہ (جو) میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں یہ تمہارے لئے (جائز اور) پاک ہیں۔ تو خدا سے ڈرو اور میرے مہمانوں ( کے بارے ) میں میری آبرو نہ کھوﺅ۔ کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں۔ وہ بولے تم کو معلوم ہے کہ تمہاری ( قوم کی) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں۔ اور جو ہماری غرض ہے اُسے تم ( خوب ) جانتے ہو۔ لوط نے کہا اے کاش مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا۔ فرشتوں نے کہا کہ لُوط ہم تمہارے پروردگار کے فرشتے ہیں یہ لوگ ہر گز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے پھر کر نہ دیکھے۔ مگر تمہاری بیوی کہ جو آفت اُن پر پڑے والی ہے وہی اس پر پڑے گی۔ اُن کے (عذاب) وعدے کا وقت صبح ہے اور کیا صبح کچھ دور ہے۔ تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اُس ( بستی ) کو (اُلٹ کر) نیچے اُوپر کردیا۔ اور اُن پر پتھر کی تہ بتہ ( یعنی پے درپے ) کنکریا برسائیں۔
اللہ نے انسان کو اس لئے تخلیق کیا تاکہ آزمائے کہ کون بہترین عمل کرنے والا ہے۔جب میں نے بہترین کاموں پر غور کیا تو سب سے بہتر کام کسی کافر کو اسلام میں داخل کرنا پایا۔کیونکہ مجھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دن رات پر غور کرنے کے بعد ان کے درد کی وجہ سمجھ آگئی کہ وہ امت کی فکر ہے۔اسی امت کیلئے آپ روتے تھے، پریشان رہتے تھے ، دعائیں کرتے تھے اور اسی امت کو جہنم سے بچانے کی خاطر آپ نے کافروں کو اسلام کی دعوت دی ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہایا گیا، بیٹیوں کو طلاق دی گئی،ان کے شاگردوں پر انتہا سے بڑھ کر ظلم کے پہاڑ توڑ دئے گئے، ان پرگالیاں، طنز ، الزام تراشیاں اور نہ جانے کیا کچھ کیا گیا اور آج بھی دنیا بھر میں ان کے خلاف ناجانے کیا کیا بکواس غیرمسلم اور ملحدین کررہے ہیں۔ لہذا میرے نزدیک پوری دنیا میں اس سے افضل کام کوئی نہیں کہ دنیا کے تمام ( تقریباً پانچ ارب)کافروں کو اسلام میں داخل کرنےپر کوشش کی جائے اور اس کیلئے تمام تر جسمانی، روحانی اور جدید مادی وسائل کو استعمال کیا جائے ۔ تمام انسانوں میں افضل ترین انسان انبیاء کرام ہیں اور کفر سے اسلام کی طرف دعوت دینا انبیاء کا کام رہا ہے۔انبیاء میں سب سے افضل اور اللہ کے محبوب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ اپنی امت کی فکر رہی اور وہ سب سے زیادہ خوش اس وقت ہوتے تھے جب کوئی کافر مسلمان ہوتا تھا اور ہمیشہ کیلئے جہنم جانے سے نجات پاتا تھا۔ کسی کافر کا ہدایت پا جانا ایک مسلمان کیلئے کروڑوں روپے حاصل کرنے سے بہتر ہے اور اس سے بڑھ کر بہترین بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے؟جب اللہ نے زندگی اور موت اس لئے بنائی تاکہ بہترین عمل کرنے والے انسانوں کو دیکھے تو پھر سب سے افضل اور سب سے بہترین کام اربوں کافروں کو دین اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرنا ہے بجائے یہ کہ صرف مسلمانوں کی اصلاح پر کام کیا جائے جس پر بہت سی مذہبی جماعتیں صدیوں سے کام کررہی ہیں مگر اسلام پھر بھی مغلوب ہوگیا اور اکثر مسلمان تب بھی بے عمل ہی رہے تو نتیجہ ناکامی ملا۔ ہزاروں علماء اور کئی جماعتوں کے ہونے کی بنا پر میرا مقصد صرف دین اسلام کی سچائی تمام کافروں پر ثابت کرنا ہےاور اسی نیت، جدوجہد کی وجہ سے اللہ نے میرے سپرد یہ کام کیا اور ایسے ناقابل شکست دلائل مہیا کردئیے جن کے ذریعہ یہ کام سرانجام دیا جاسکے۔ اس وقت میرے پاس کروڑوں روپے نہیں کہ اس کام کی مارکیٹنگ دنیا بھر تو دور صرف پاکستان بھر میں کرواسکوں۔لہذا اگر ایک بھی مالدار مسلمان صرف دو کروڑ پاکستانی روپے دین اسلام کے لیے ہدیہ کردےتو وہ اللہ سے خصوصی درجات حاصل کرجائے گا ان شاء اللہ ۔
ویب ڈیسک :وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمو د خان نے یونیورسٹی آف شانگلہ کا باضابطہ افتتاح کیا ہے اور کہا ہے کہ صوبائی حکومت شانگلہ کو ترقی دینے کا اپنا وعدہ پورا کر رہی ہے ۔ شانگلہ یونیورسٹی میں مائن ورکر ز کے بچے مفت تعلیم حاصل کریں گے ، خواہش ہے کہ یہاں کے نوجوان کوئلے کی مزدوری کی بجائے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ، صوبائی حکومت شانگلہ کے مغوی کان کنوں کی بازیابی کیلئے بھی بلوچستان حکومت کیساتھ رابطے میں ہے اور امید ہے کہ انہیں جلد بازیاب کرالیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت فنڈز کی کمی کو ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں آڑے نہیں آنے د ے گی ۔ ہم وفاقی حکومت کیساتھ رابطے میں ہیں ، اپنا حق نہ ملا تو قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے۔ خیبرپختونخوا سے حقیقی آزادی مارچ ہفتے کے روز راولپنڈی کی طرف روانہ ہوگا ۔ صوبائی وزراء او ر اراکین اسمبلی اپنے اپنے حلقوں سے قافلوں کی قیادت کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے بدھ کے روز ضلع شانگلہ کا مختصر دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے یونیورسٹی آف شانگلہ کا افتتاح کیا اور عوامی اجتماع سے خطاب بھی کیا ۔ یونیورسٹی میں ابتدائی طور پر چار شعبہ جات میں بی ایس پروگرام شروع کئے گئے ہیں ۔ اس وقت یونیورسٹی میں 556 طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ کمپیوٹر سائنس کو یونیورسٹی کا فلیگ شپ پروگرام ڈکلیئر کیا گیا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو اور جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شانگلہ یونیورسٹی کا قیام اربوں روپے کا منصوبہ ہے جس سے ضلع شانگلہ کی تعلیمی پسماندگی دور ہوگی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع خصوصاً پسماندہ اضلاع میں یونیورسٹی موجود ہو تاکہ نوجوانوں کو معیاری تعلیم وتحقیق کے مواقع میسر آسکیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کے سرکاری کالجز میں مفت تعلیم کی فراہمی کیلئے مقامی سطح پر ایجوکیشن کارڈ متعارف کرا رہے ہیں ۔صوبائی حکومت نا صرف معیار ی تعلیم کے فروغ کیلئے کوشاں ہے بلکہ سیاحت و صنعت کو ترقی دے کر روزگار کے مواقع بھی پید ا کر رہی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو روزگار کیلئے دیگر صوبوں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔ ضلع شانگلہ میں ترقیاتی منصوبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ 27 کلومیٹر طویل چکیسر اور کروڑہ تا اجمیر روڈز کے منصوبوں کو ایشیائی ترقیاتی بنک کے پورٹ فولیو میں شامل کیا گیا ہے جس کی تکمیل سے ٹریفک کے مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ضلع شانگلہ میں کانا تحصیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جو لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ علاوہ ازیں چکیسر سپورٹس گرائونڈزکی تعمیر پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر صوبائی حکومت کی ترقیاتی منصوبہ بندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صوبائی حکومت کو وفاق کی طرف سے حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے تاہم صوبائی حکومت نے اپنی منصوبہ بندی کررکھی ہے۔ ہم صوبے میں جاری ترقیاتی اور فلاحی اقدامات کی تکمیل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ ہم وفاق سے اپنا حق لینے کیلئے ہر قانونی راستہ اختیار کریں گے اور ضرورت پڑنے پر قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں 62 ارب روپے وفاقی حکومت کے ذمہ بقایا ہے ۔ اس کے علاوہ ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز اور صوبے کا این ایف سی میں شیئر بھی نہیں دیا جارہا۔ انہوں نے آزادی مارچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے عوام آزادی مارچ میں بھر پور انداز میں شرکت کریں گے ۔ یہاں کے لوگ پہلے بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ راولپنڈی جلسے میں عمران خان جو لائحہ عمل دیں گے اس پر عمل کریں گے۔ پاکستان جس مقصد کیلئے بنا ہے عمران خان کی قیادت میں حاصل کرکے رہیں گے۔ دریں اثناء بلدیاتی نمائندوں کے وفد نے میئر مردان حمایت اللہ مایار کی سربراہی میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے ملاقات کی جس میں بلدیاتی حکومتوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے ۔ ملاقات کے بعد میئر مردان حمایت اللہ مایار نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے بعد انہوں نے پشاور میں مجوزہ احتجاج کرنے کی کال واپس لے لی۔
جہلم : وزیراعظم عمران خان آج اسلام آباد میں للہ تاجہلم روڈ کا سنگ بنیاد رکھیں گے، یہ منصوبہ 16ارب روپےکی لاگت سے 30ماہ میں مکمل ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ایک اور وعدے کی تکمیل، وزیراعظم آج شام اسلام آباد میں للہ تاجہلم روڈ کا سنگ بنیاد رکھیں گے، 128کلومیٹردورویہ طویل سڑک16ارب کی لاگت سے تعمیر ہوگی ، للہ تاجہلم روڈ 30 ماہ کی مدت میں مکمل ہوگی۔ ایک اور وعدے کی تکمیل وزیر اعظم عمران خان آج شام اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں للہ تا جہلم روڈ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ 128 کلومیٹر دو رویہ طویل سڑک 16 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہوگی اور 30 ماہ کی مدت میں مکمل ہوگی ۔ @ImranKhanPTI @fawadchaudhry pic.twitter.com/DeRC4cnt3b — Fawad Chaudhry (Updates) (@FawadPTIUpdates) November 16, 2021 سڑک کے سنگ بنیاد کی تقریب وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہو گی ، منصوبے کا 4فیزسےبیک وقت کام شروع ہوگا ، خوشاب ، چکوال ، منڈی بہاؤالدین اور میرپورکے لوگ مستفید ہوں گے۔ وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری کی خصوصی کاوشوں سےمنصوبےکی منظوری ہوئی اور ضلع بھر میں مختلف ترقیاتی منصوبےتکمیل کے مراحل میں ہیں، دورویہ سڑک کی تعمیرسےترقی کی نئی راہوں کاتعین ہو گا۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پنڈدادن خان کی پسماندگی کاخاتمہ اولین ترجیح ہے ،پہلی بارپنڈدادن خان میں میگا پراجیکٹس مکمل کئے جارہے ہیں۔
اسلام آباد ۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف پاکستان کے23ویں وزیر اعظم منتخب ہو گئے جبکہ انکے مخالف امیدوار پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے قائد ایوان کے انتخاب کے عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے پارٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ شہباز شریف 342ارکان پر مشتمل ایوان میں سے 174ووٹ لیکر وزیر اعظم منتخب ہوئے،قائمقام سپیکر قاسم خان سوری نے قائد ایوان کے انتخاب کے عمل کے دوران ایوان کی صدارت سے انکار کرتے ہوئے پینل آف چیئر کے رکن سردار ایاز صادق کو ذمہ داری سونپی،جس کے بعد سردار ایاز صادق نے قائد ایوان کے انتخاب کا عمل مکمل کروایا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وزارتِ عظمیٰ کے لیے شہباز شریف سے حلف نہ لینے کا فیصلے اور مختصر چھٹی پر چلے جانے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ان سے بحیثیت وزیراعظم پاکستان کا حلف لیا۔ذرائع کے مطابق ایوان صدر میں نومنتخب وزیراعظم کی تقریب حلف برداری ہوئی، تقریب میں اعلیٰ سول و عسکری قیادت، مریم نواز، حمزہ شہباز، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی و دیگر شریک ہوئے۔حلف لینے کے بعد قائم مقام صدر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیراعظم شہباز شریف کو مبارکباد دی۔ نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے ممنوعہ ’خط‘ پر ان کیمرا بریفنگ اور سازش کا حصہ ثابت ہونے پر استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس خط میں کیا ہے، اگر پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت اور ترقی کو آگے بڑھانا ہے تو ڈیڈلاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں تفہیم سے کام لینا ہوگا، نہ کوئی غدار تھا ہے نہ کوئی غدار ہے، ہمیں احترام کے ساتھ قوم بننا ہوگا۔ یکم اپریل سے کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے ہوگی، یکم اپریل سے سول اور ملٹری ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوگا، ملک بھر کے بازاروں میں رمضان پیکج کے تحت سستا آٹا فراہم کیا جائے گا،نوجوانوں کو مزید لیپ ٹاپس دیے جائیں گے،بینظیر کارڈ دوبارہ لے کر آئیں گے، پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے بھی اس موقع پر استعفیٰ دے دیا بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق نے سپیکر کی نشست سنبھالی اور قائد ایوان کا انتخابی عمل شروع کر دیا ۔ پانچ منٹ تک کے لئے لابیوں میں گھنٹیاں بجائیں گئیں ، چار بج کر پندرہ منٹ پر رائے شماری کا عمل شروع کرایا گیا ۔ متحدہ اپوزیشن اراکین نے باری باری اپنا نام درج کراتے ہوئے بائیں لابی میں جاتے رہے 4:45 منٹ پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ۔ سردار ایاز صادق نے پانچ بجے نتائج کا اعلان کیا ۔ میاں شہباز شریف نے 174 ووٹ لیے ۔ سردار ایاز صادق نے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے شہباز شریف کے نام کا اعلان کیا ۔ شہباز شریف نے پانچ بج کر تین منٹ پر قائد ایوان کی نشست سنبھالی۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو ان کے پاس بیٹھے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کے مشکور ہیں متحدہ اپوزیشن اور کروڑوں عوام کی دعاﺅں سے پاکستان بچ گیا ہے ۔ تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور باطل کو شکست ہوئی ۔ آج عظیم دن ہے ، سلیکٹڈ وزیر اعظم کو گھر بجھوا دیا ۔ روپیہ کی قدر آٹھ روپے سے بڑھ گئی ہے ۔ 190 سے گر کر 182 روپے ہو گیا ہے ۔ آئین شکنی کے بعد اسمبلی بحال کرنے پر سپریم کورٹ کے شکر گزار ہیں ۔ اب نظریہ ضرورت دفن ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے آئین سر بلند کر دیا ۔ قوم ایک ہفتے سے ڈر کر دیکھ رہی ہے ۔ خط کا جھوٹ بولا گیا مجھے تو ابھی تک خط نہیں دکھایا گیا ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی اب ہو جانا چاہیے ۔ زرداری اور بلاول سے میری ملاقات مارچ کے شروع میں ہوئی ۔ تین مارچ کو ن لیگ کی سنٹرل ایگزیکٹو میٹنگ ہوئی تب ہی تحریک کا فیصلہ ہو گیا تھا اور آٹھ مارچ کو قرارداد جمع کرائی ۔ خط کاڈرامہ 7 مارچ کو رچایا گیا۔ پوری قوم اور پارلینٹ خط جاننا چاہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی سلامتی کمیٹی میں یہ خط لایا جائے گا اور متعلقہ سفیر کی طلبی بھی ہو گیا ۔ سروسز چیفس بھی کمیٹی میں بیٹھیں گے ۔ اگر رتی برابر بیرونی سازش ثابت ہو جائے تو استعفیٰ دے دوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں ان کی سازش اور امداد ثابت ہو چکی ہے ۔ اپنے قائد نواز شریف کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ صحافیوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے آئین کا ساتھ دیا ۔ وکلاءبرادری کا بھی مشکور ہوں ۔ شہباز شریف نے کہا کہ قرض کی زندگی کوئی زندگی نہیں ۔ اسلام کا بھی یہی پیغام ہے ۔ اپوزیشن پر چرس اور بھنگ تک کے مقدمات بنائے گئے کہا کہ یہ نیا پاکستان تھا۔ ہماری ماﺅں بہنوں نے جیلیں کاٹیں نہ کوئی غدار ہے نہ تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ کریں گے ۔ مزاحمت نہیں مفاہمت کریں گے ۔ تبدیلی باتوں سے نہیں آتی۔ عجیب تبدیلی ہے معیشت تباہ ہو گئی ۔ معاشرے کو تقسیم کر دیا گیا ، اتحاد وقت کی ضرورت ہے ۔ معیشت گھمبیر حالات میں ہے سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان ملا ہے ۔ ہمیں انتھک محنت کرنا ہو گی ۔ بغیر اتحاد اور محنت کے ڈوبتی کشتی نہیں بچا سکتے صورتحال بہت خراب ہے مگر ہمیں خدا تعالیٰ پر امید ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے سابق حکومت کو میثاق معیشت کی پیشک کی تھی مگر تکبر میں ٹھکرا دیا گیا ۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں رواں مالی سال پاکستان کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ سر پر کھڑا ہے ۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ اور مہنگائی عروج پر ہے 60 لاکھ لوگ بیروزگار ، دو کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے جا چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کا گزارہ مشکل ہو چکا ہے ۔ پونے چار سال میں کھربوں کے قرضے لیے گئے ۔ 2018 تک قرض 25 ہزار ارب تھا عمران خان نے اس میں 20 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا ہے جو 80 فیصد ہے ۔ حکومت نے گندم اور یوریا کی اسمگلنگ کی ۔ آٹا 35 سے 100 روپے کلو مہنگا ہو گیا ، صنعتیں بند ہو گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ترقی کے نئے دور کا آغاز کریں گے ۔ ہم ہمت نہیں ہاریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھٹو نے رکھی ۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے پانچ ارب ڈالر ٹھکرا دیئے ۔ زرداری کے دور میں 18 ویں ترمیم منظور کی گئی ۔ ہم سی پیک میں 30 ارب ڈالر لے کر آئے ۔ آخری این ایف سی ایوارڈ 2010 میں آیا ۔ ہم معیشت کا چھ فیصد چھوڑ کر گئے تھے ۔ ہم اجناس برآمد کرتے تھے آج درآمد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کم از کم ماہانہ اجرت بڑھا کر 25 ہزار روپے کر رہے ہیں ۔ ہم ملک کو سرمایہ کاری کے لئے جنت بنائیں گے ۔ انہوں نے نجی شعبے سے دس فیصد تنخواہوں میں اضافے کی درخواست کی ۔ یکم اپریل سے پنشنرز حضرات کو دس فیصد پنشن اضافی ملے گی ۔ رمضان المبارک میں سستا پیکج کے تحت آٹا دیں گے ۔ ہم صرف پنجاب نہیں پورے پاکستان کی ترقی کریں گے ۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ بطور خادم پاکستان اعلان کرتے ہیں کہ بے نظیر کارڈ دوبارہ لے کر آئیں گے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دیں گے اس کو تعلیم سے وابستہ کریں گے ۔ طلبہ کو لیپ ٹاپ دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ محاذ پر ہم تنہا ہو گئے چین ہمارے دکھ سکھ کا ساتھی ہے ۔ چین کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا اور سی پیک میں رکاوٹ ڈالی گئی ۔ اب سی پیک پاکستان سپید سے چلے گا ۔ سعودی عرب سے بھی تعلقات بہتر کریں گے ۔ سابق وزیر خارجہ کے سعودی عرب بارے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں ۔ ترکی سے بھی تعلقات بڑھائیں گے ۔ یو اے ای اور دیگر خلیجی ممالک سے اچھے تعلقات بنائیں گے ۔ ایران ہمسایہ برادر ملک ہے ۔ یورپی یونین ہمارا تجارتی شراکت دار ہے ۔ برطانیہ نے ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کی ہے ۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے مگر تعلقات بگاڑ نہیں سکتے ۔ امریکہ سے برابری کی بنیاد پر تعلقات سنواریں گے ۔ امریکہ ہمارا تجارتی شراکت دار ہے ۔ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں ، مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے ظلم و ستم کیا اور عمران حکومت خاموش رہی ۔ صرف سری نگر ہائی وے کا نام بدلا ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگر مسئلہ کشمیر کے حل تک پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ کشمیریوں کی مدد کریں مودی کو خطے کی غربت کا احساس کرنا چاہیے ۔ آئیں مل کر مسئلہ کشمیر حل کریں ۔ ٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ: قلب نیوز ڈاٹ کام ۔۔۔۔۔ کا کسی بھی خبر اورآراء سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی قلب نیوز ڈاٹ کام پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کر نا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل qualbnews@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ قلب نیوز ڈاٹ کام
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن نے اس بارے میں سوال پر بتایا کہ عام اصطلاح سموگ ہی چل رہی ہے اور میڈیا پر بھی سموگ کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ اس لیے شاید انہوں نے بھی اس بات کا خیال نہیں کیا، آج انہیں اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔ ارشد چوہدری @ArshdChaudhary جمعرات 7 نومبر 2019 16:00 محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ صاحب زاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں ان دنوں فضا کو دھندلانے والی سموگ نہیں بلکہ دھواں موجود ہے جس کے سموگ سے کم نقصانات ہیں۔(اے ایف پی) پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ان دنوں سموک کا راج ہے جسے سموگ سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ محکمہ موسمیات حکام کے مطابق فضا میں پھیلا دھواں ہوا کا دباؤ کم ہونے کی وجہ سے ٹھہرا ہوا ہے جس میں سانس لینے سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر حکومت پنجاب نے آج جمعرات کے روز سرکاری ونجی سکول بند رکھنے کا اعلان کیا تاکہ بچوں کی صحت کو دھویں کے نقصان سے بچایا جا سکے۔ بارش سے فضا میں دھویں کی مقدار وقتی طور پہ کم ہوئی ہے جو ہوا نہ چلنے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ شہریوں کو گھروں سے بلاوجہ نہ نکلنے اور کھلی فضا میں ماسک پہننے کا ہدایت کی گئی ہے۔ سموگ اور سموک میں فرق کیا ہے؟ محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ صاحب زاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور میں ان دنوں فضا کو دھندلانے والی سموگ نہیں بلکہ دھواں موجود ہے جس کے سموگ سے کم نقصانات ہیں۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ سموک اور سموگ میں کیا فرق ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’فضا میں پارٹیکیولیٹ میٹر (پی ایم ) کی مقدار2.5 ہونے کا مطلب سموگ ہوتا ہے اس صورت میں انتہائی خووردینی ذرات فضا میں معلق رہ جاتے ہیں اور ہوا کا دباو کم ہونے پر فضا میں ٹھہر جاتے ہیں۔‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ’نظر نہ آنے والے ان ذرات کا انسانی جسم میں داخل ہونا خطرناک ہوتا ہے اس صورت میں دھندلاہٹ زمین سے فضا تک پھیلی ہوتی ہے۔ جب کہ سموک یعنی دھویں سے دھندلاہٹ زمین کی سطح سے چند فٹ اوپر سے شروع ہوتی ہے کیوں کہ دھواں ہلکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دنوں لاہور کی فضا کو دھندلا کرنے والا دھواں ویسے تو موجود ہی رہتا ہے کیوں کہ گاڑیوں فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں اور درختوں کی شدید کمی سے فضا آلودہ ہی رہتی ہے لیکن ان دنوں اس میں چاول کی فصل کی باقیات جلانے کے باعث اضافہ ہوجاتا ہے۔‘ انہوں نے کہا ’سموک اور سموگ دونوں ہی انسانوں کے لیے خطرناک ہیں۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب لاہور میں بارش کے باعث ہوا کا دباؤ کم ہوا اور سموک عارضی طور کم ہوگیا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ کیوں کہ ہوا کا دباؤ کم ہونے پر اردگرد کی ہوا اس علاقہ میں داخل ہوتی ہے۔‘ جنوب مشرقی ہوائیں انڈین بارڈر سے داخل ہو رہی ہیں جن سے دوبارہ دھندلاہٹ میں اضافے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک درختوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اور فیکٹریاں بند نہیں ہوتیں اور فصلوں کی باقیات جلانے پر قابو نہیں پایا جاتا صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ ایئر کوالٹی انڈیکس میں اتار چڑھاؤ: محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نسیم الرحمٰن نے بھی محکمہ موسمیات کے سربراہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں فضائی دھندلاہٹ سموگ نہیں بلکہ سموک ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فضا میں دھویں کے باعث گذشتہ روز ایئر کوالٹی انڈیکس 262 جب کہ رات کے وقت بڑھ کر 323 تک چلا گیا تھا لیکن رات گئے بارش کے باعث آج ریکارڈ کیا گیا ہوا کی کوالٹی کا انڈیکس کم ہوکر 176 ہو گیا ہے۔‘ 000_U439V.jpg ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں کے لیےکس حد تک ایئر کوالٹی انڈیکس انتہائی خطرناک ہوتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’300 تک انسانوں کے لیے قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اس سے اوپر چلاجائے تو انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے جس سے پھیھڑوں کا مرض لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔‘ کیا وزیر اعلی عثمان بزدار اور صوبائی وزیر تعلیم کو سموک اور سموگ میں فرق نہیں بتایا گیا؟ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وزیر اعلی عثمان بزدار اور صوبائی وزیر تعلیم کو سموک اور سموگ میں فرق نہیں بتایا گیا کیوں کہ انہوں نے سکولوں کی بندش سے متعلق اپنے ٹویٹس میں ’سموگ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے؟ ان میڈیم ٹرم اقدامات کے ساتھ ہم لاہور اور گردونواح میں #Smog کو کنٹرول میں رکھنے کےلیے zigzag ٹیکنالوجی پر شفٹ نا ہونےوالے بھٹوں کو 15نومبر سے بند کر رہےہیں، ٹائر جلانےوالی فیکٹریاں سیل کر رہےہیں اور کھیتوں میں فصلیں جلانے والوں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پربھی جرمانےکر رہےہیں — Usman Buzdar (@UsmanAKBuzdar) November 5, 2019 انہوں نے کہا کہ ’اس بارے میں وہ صرف اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ عام اصطلاح سموگ ہی چل رہی ہے اور میڈیا پر بھی سموگ کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ اس لیے شاید انہوں نے بھی اس بات کا خیال نہیں کیا۔ تاہم ہماری آج جمعرات کو ان سے اجلاس میں ملاقات ہوگی تو ضرور ان کے علم میں لائیں گے کہ یہ دھواں ہے سموگ نہیں۔‘ واضح رہے سابقہ اور موجودہ حکومت گذشتہ کئی سال سے ماہ نومبر میں شروع ہونے والے اس دھندلے موسم کو حکومتی سطح پر چیلنج کے طور پر لینے کا دعوی کیا جاتاہے لیکن موثر اور ٹھوس حکمت عملی فضا سےدھندلا پن ختم ہوتے ہی دھندلا جاتی ہے۔
ممبئی :معروف بھارتی ٹیلی ویژن اداکارہ کے چہرے پر کتے نے کاٹ لیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ٹی وی چینل کے ڈرامے کیا حال مسٹر پنچل میں پریما کا کردار نبھانے والی اداکارہ رینا اگروال کے چہرے پر کتّے نے کاٹ لیا ٗوہ کتّے کے ساتھ شوٹنگ میں مصروف تھیں۔ ذرائع کے مطابق ایک سین کی شوٹنگ کے دوران کتّے کو اچانک غصہ آگیا اور اس نے اداکارہ کے چہرے پر کاٹ لیا تاہم جیسے ہی انہیں کتّے نے کاٹا تو انہیں فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق کتّے نے انہیں سیدھی آنکھ سے ذرا سی نیچے کی جانب کاٹا ہے ٗجب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے انہیں ٹانکے لگوانے کا مشورہ دیا۔ انہیں اب تک 5 انجکشن لگ چکے ہیں ٗ ابھی کچھ اور لگنا باقی ہیں۔رپورٹ کے مطابق واقعہ رونما ہونے کے بعد سے رینا اب شوٹنگ نہیں کررہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہیں صحت یاب ہونے میں 20 سے 30 دن لگ سکتے ہیں۔ رینا نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنی کچھ تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔رینا سے جب اس حادثے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود کچھ سمجھ نہ آیا کہ کتّے کو اچانک کیا ہوا اور اس نے میرے چہرے پر کاٹ لیااس نے میری دائیں آنکھ کے نیچے کاٹا۔ مجھے فوراً ہسپتال لے جایا گیا جہاں ٹانکے لگوانے کا مشورہ ملا۔ مجھے اب تک 5 انجکشن لگ چکے ہیں اور ابھی کچھ لگنا باقی ہیں ٗ 4 دن گزر چکے ہیں میں شوٹنگ پر نہیں جا پارہی ہوں اور اس انجری کو ٹھیک ہونے میں تقریباً ایک ماہ لگ جائیگا۔
وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد اور بدویوں میں سے بہانے بنانے والے آئے، تاکہ انھیں اجازت دی جائے اور وہ لوگ بیٹھ رہے جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا۔ ان میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، جلد ہی درد ناک عذاب پہنچے گا۔ ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب جہاد اور معذور لوگ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آ آ کر اپنی کمزور ضعیفی ، بےطاقتی بیان کر کے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں ۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں « وَجَاۤءَ الْـمُ۔عْزِرُوْنَ» ہے یعنی اہل عذر لوگ ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے ۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے اسی لیے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے ۔ لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے ، واللہ اعلم ۔ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا وعدہ ان ہوا جو بیٹھے رہی رہے ۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے قوم سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے دل کھول کر امداد فراہم کرے۔ 3مہا پہلے لاہور24اگست 2022ء امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے قوم سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے دل کھول کر امداد فراہم کرے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے انجام نہیں دے رہیں، لاکھوں لوگ بارشوں کے دوران کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں، بچوں اور بچیوں کے کھانے کے لیے راشن، پینے کے لیے دودھ نہیں، بچوں میں دست، قے کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، ادویات موجود نہیں، متاثرین کو فوری طور پر ٹینٹس کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلان کردہ فنڈز لوگوں تک نہیں پہنچ رہے۔ حکومتوں نے راشن اور ٹینٹ سیلاب زدہ علاقوں میں اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فراہم کر دیے ہیں، متاثرین کو سیاسی سپورٹ کی یقین دہانی کرانے پر اورجاگیردار وں اور وڈیروں کے ڈیروں کا طواف کرنے پر امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ظالم حکمران مصیبت کے وقت بھی سیاست کر رہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا پروسیجر اتنا سست ہے کہ قیامت گزر جانے کے بعد ہی متاثرہ فرد کو کچھ نہ کچھ امداد پہنچتی ہے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو کہتا ہوں کہ امدادی سرگرمیوں کی خود نگرانی کریں، ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز متاثرہ علاقوں سے بھاگ گئے ہیں۔ جماعت اسلامی دکھ کی اس گھڑی میں اپنے تمام وسائل مصیبت زدگان کی مدد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار جگہ جگہ موجود ہیں، قوم ہماری مدد کرے، مخیر اور درددل رکھنے والے لوگ اپنے تئیں بھی جس قدر ممکن ہوسکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر بے سہارا لوگوں کی امداد کے لیے آگے بڑھیں۔ وہ جیکب آباد، شکارپور، کندھ کوٹ اور بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد سکھر میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ قبل ازیں انھوں نے تین روز جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں گزارے۔ سیلاب متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے امیر جماعت نے چند روز قبل بلوچستان کے مختلف اضلاع کا بھی دورہ کیا۔ بدھ کو دورہ سندھ اور جعفرآباد کے موقع پر امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی اور امیر جماعت اسلامی بلوچستان عبدالحق ہاشمی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جماعت اسلامی کی مقامی رہنماعبدالمجید بادینی، علامہ حزب اللہ جھکر و اور زبیر حفیظ نے بھی امیر جماعت کے ہمراہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ امیر جماعت نے متاثرہ علاقوں کی آنکھوں دیکھی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کا 90فیصد علاقہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہے۔ متاثرین کے مطابق انھوں نے اپنی زندگیوں میں اس طرح کی تباہی نہیں دیکھی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جو محفوظ ہو، بستیوں کی بستیاں تباہ ہو گئیں۔ شدید بارشوں میں لوگ سڑک کنارے بغیر چھت کے بیٹھے ہیں۔ ہزاروں مویشی جو دیہی علاقوں میں لوگوں کی روزی کا واحد ذریعہ ہیں ہلاک ہو گئے یا بھوکے مر رہے ہیں۔ متاثرین نے جگہ جگہ روڈ بلاک کیے ہوئے ہیں اور ان کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ انھیں سرچھپانے کے لیے ٹینٹ فراہم کر دیے جائیں لیکن حالات یہ ہیں کہ کرپشن عام ہے، حکومتوں نے جن فنڈز کا اعلان کیا ہے وہ گراؤنڈ پر موجود نہیں اور دوسری جانب چالیس روپے فی گز فروخت ہونے والی پلاسٹک آٹھ سو روپے فی گز تک بیچی جا رہی ہے، یہ اخلاقی زوال اور اللہ کے قہر کو متوجہ کرنے کی نشانی ہے۔ ملکی قیادت اسلام آباد میں چھپی بیٹھی ہے یا غیرملکی دوروں میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ بچوں اور بچیوں کی آہ و بکا آسمان تک پہنچ رہی ہے جو انھیں لے بیٹھے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کڑی آزمائش کا وقت ہے ہمیں مل کر اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کی دعا کرنی چاہیے لیکن دکھ اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشگی اطلاعات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لوگوں کو بچانے کے اقدامات نہیں کیے۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی قیادت اوروفاقی اور صوبائی حکومتیں مہربانی فرما کر سیزفائر کریں، یہ وقت سیاسی لڑائی کا نہیں متاثرہ افراد کا بوجھ اٹھانے کا ہے۔ لوگوں کو بھیک نہیں ان کا حق چاہیے اور حکومتیں عوام کو ان کا حق یقینی بنائیں، جماعت اسلامی عوامی حقوق پر کسی کو ڈاکا ڈالنے نہیں دے گی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت بڑھانے کی ضرورت ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ڈیجیٹل تعاون تنظیم کے وفد سے ملاقات میں گفتگو وزیر اعظم عمران خان آج سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ڈیجیٹل پورٹل کا آغاز کریں گے ، پورٹل سے پاور آف اٹارنی کی تصدیق ہو سکے گی اپوزیشن اصلاحات کیلئے عدالت کی بجائے سپیکر آفس آئے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، یہ ہمارا انتخابی وعدہ تھا، چوہدری فواد حسین مستحق افراد کو آٹے، دالوں اور گھی پر سبسڈی ملے گی، جمعہ سے 8171 میسج سروس بحال ہوجائے گی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیراعظم سے ڈی جی ISI لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی الواداعی ملاقات ’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے سزا یا ٹرائل پرکوئی فرق نہیں آئے گا: اٹارنی جنرل شیئر کریں نیوزی لینڈ سنسنی خیز مقابلے کے بعد انگلینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا نومبر 10, 2021 November 10, 2021 آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2021 کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ سے یقینی جیت چھین کر پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ ابوظبی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر انگلینڈ کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔ انگلش بلے بازوں نے مقررہ 20 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 166 رنز بنائے تھے۔ انجری کے شکار جیسن رائے کے ٹیم سے باہر جانے کا اثر انگلینڈ کی بیٹنگ کے ٹاپ آرڈر پر واضح نظر آیا، جہاں جونی بیئرسٹو صرف 13 رنز ہی بناسکے۔ ایونٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے جوز بٹلر نے 29 رنز بنائے، لیکن انہوں نے اس کے لیے 24 گیندیں کھیلیں۔ ورلڈ رینکنگ میں دوسرے نمبر کے بلے باز ڈیوڈ ملان نے 30 گیندوں پر41 رنز اور معین علی نے ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 37 گیندوں پر 51 رنز کی اننگز کھیل کر ٹیم کے رنز کو آگے بڑھایا۔ اختتامی لمحات میں لیام لونگسٹن کے قیمتی 17 رنز کے ساتھ نیوزی لینڈ کی ٹیم 166 کے مجموعے تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔
ممبئی: رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جہاں پوری دنیا کے مسلمان روزہ رکھتے اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہیں بھارتی ٹی وی کے مسلمان اداکار بھی شوٹنگ اور کام کے دوران روزہ رکھتے اور خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ تاہم اس بار وبائی بیماری کووڈ 19 کی وجہ سے یہ رمضان تھوڑا مختلف ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے شوٹنگ نہیں ہورہی اور فنکار رمضان کے مقدس ماہ کو اپنے گھر والوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ بھارتی فنکاروں کا کہنا ہے کہ کووڈ بحران کے دوران اس رمضان المبارک میں ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ آئیے دیکھتے ہیں بھارتی ٹی وی کے مسلمان اداکار اس سال رمضان المبارک کس طرح گزار رہے ہیں۔ اقبال خان اقبال خان بھارتی ٹی وی کے معروف اداکار ہیں اور کئی کامیاب ڈراموں میں کام کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اس مقدس ماہ میں دیگر کاموں کے لیے وقت نکالنا آسان ہے۔ مثلاً ضرورت مندوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ اقبال خان نے بتایا رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں میرا دوست منیش پال ہمارے لیے افطاری کا اہتمام کرتا تھا اور ہم سب بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ لیکن اس سال ہم سب گھر پر ہیں۔ اقبال خان نے بتایا کہ وہ ہر سال رمضان میں ہر جمعہ کو حاجی علی کے مزار پر جایا کرتے تھے لیکن اس بار کووڈ کی وجہ سے وہ وہاں نہیں جاسکتے۔ سارہ خان ایک اور معروف ٹی وی اداکارہ سارہ خان نے بتایا کہ اس سال روزے رکھنا آسان ہے کیونکہ اس بار میں اپنے گھر والوں کے ساتھ روزے رکھ رہی ہوں۔ موجودہ حالات میں ہم نے اپنے گھر میں اشیائے خورونوش کا ذخیرہ کرلیا ہے۔ جب سے میں شوٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے گھر پر ہوں افطاری اور سحری میں ہی بناتی ہوں۔ اور میں یہ وقت اپنے والد اور والدہ کی دعا سننے میں گزارتی ہوں۔ علی گونی ڈراما سیریل ’’یہ ہیں محبتیں‘‘ اور ’’بگ باس‘‘ سے مشہور ہونے والے اداکار علی گونی کا کہنا ہے کہ وہ یہ رمضان اپنے گھروالوں کے ہمراہ جموں میں گزار رہے ہیں۔ گزشتہ برس میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ممبئی میں پھنس گیا تھا لیکن اس بار میں خوش ہوں کہ رمضان کا یہ مقدس مہینہ میں والدین اور بہنوں کے ساتھ گزار رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب ڈراما سیریل ’’یہ ہیں محبتیں‘‘ کی ٹیم رمضان المبارک میں پھلوں اور مٹھائیوں کا اہتمام کرتی تھی۔ تاہم اس سال میں اپنی والدہ کے ساتھ کھانا بنارہاہوں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزار رہاہوں۔ زان خان بھارتی ٹی وی کے ایک اور اداکار زان خان نے بتایا کہ میں 7 برس کی عمر سے روزے رکھ رہا ہوں۔ بہرحال میں گزشتہ 5 برسوں سے رمضان المبارک کے دوران بھی شوٹنگ کررہا ہوتا تھا لیکن اب میں گھر پر ہوں۔ اس پورے مہینے نہ صرف جسمانی صفائی کرنے کا وقت ہے بلکہ دماغ بھی صاف کرنے کا وقت ہے۔ میں نے اس بار رمضان المبارک میں توانائی بچانے کے لیے کم بولنے اور گھر پر رہ کر خدا کی عبادت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آمنہ شریف اداکارہ آمنہ شریف نے کہا کہ اپنے جسم کا خیال رکھنا اور مدافعتی نظام کو بہتر بنانا اہم ہے۔ میں اس بار رمضان المبارک کے دنوں میں غذائیت سے بھرپور کھانے کھاتی ہوں۔ اور میرا زیادہ تر وقت دنیا سے کورونا وبا کے خاتمے کے لیے دعا کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ خالد صدیقی اداکار خالد صدیقی نے بتایا کہ انہوں نے کبھی روزہ نہیں چھوڑا شوٹنگ کے دوران سیٹ پر بھی باقاعدگی سے روزہ رکھا۔ اکثر افطاری سیٹ پر ہوتی تھی اور پوری ٹیم مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہوتی تھی۔ لیکن یہ سال مختلف ہے۔ میں ابھی ابھی کورونا وائرس سے صحت یاب ہوا ہوں لیکن ابھی بھی میرے اندر بیماری کی وجہ سے کمزوری ہے۔ اداکار خالد نے بتایا کہ وہ اس رمضان گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں اور اپنی صحت اور تندرستی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کا دورہ کریں گے، دورہ ملائیشیا میں اپنے ہم منصب مہاتیر محمد سے ملاقات کریں گے۔ تفصیلات کے مطابقوزیراعظم عمران خان رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کا دورہ کریں گے، ان کا دورہ ملائیشیا 3روز پر مشتمل ہوگا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر خزانہ اسد عمر ، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مشیر تجارت عبد الرزاق بھی ساتھ ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم دورہ ملائیشیا میں اپنے ہم منصب مہاتیر محمد سے ملاقات کریں گے ، ملاقات میں اقتصادی تعاون کے فروغ پرتبادلہ خیال کریں گے جبکہ ملائیشیا کی ترقی کے تجربات سے استفاده پر بات چیت کریں گے۔ اس سے قبل عمران خان کو 28 اکتوبر کو ملائشیا کے دورے پر روانہ ہونا تھا، بعد ازاں دورہ ملائیشیا کی تاریخ تبدیل کردی گئی تھی۔ مزید پڑھیں : وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا کی تاریخ تبدیل خیال رہے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی ذمہ داری وزیراعظم نے خود سنبھال لی اورغیرملکی دوروں کا آغاز کیا تھا، اب تک عمران خان سعودی عرب اور چین کا دورہ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے 5 روزہ دورہ چین میں چینی صدر شی جن پنگ کے علاوہ دیگر اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور ملکی معیشت پر تبادلہ خیال کیا جبکہ 15 معاہدوں اور یاداشتوں پر بھی دستخط کئے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورے میں سعودی عرب نے پاکستان کو مشکل وقت سے نمٹنے کیلئے بڑا پیکج دے کر پی ٹی آئی حکومت اعتماد کا اظہار کیا اور پاکستان کیلئے بارہ ارب ڈالر کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا تھا۔ جس کے مطابق پاکستان کو تین ارب ڈالر ایڈونس دئیے جائیں گے ، تین ارب ڈالر کا ادھار تیل تین سال تک دیا جائے گا، بیلنس آف پیمنٹ کے لیے ایک سال تک تین ارب ڈالرپاکستان کے اکاؤنٹ میں بھی رکھے جائیں گے۔
ج۔ کوئٹہ میں صرف ہماری کمپنی آن لائن سوٹ سلائی کی سروس دے رہی ہے۔ اور صرف ہم ہی 24 گھنٹے میں سوٹ سی کر دیتے ہیں۔ س۔ آن لائن سلائی سروس کا کیا طرقہ کار ہے ؟ ج۔ یہ انتہائی آسان تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ آپ آن لائن ہماری ویب سائٹ سے آرڈر کریں۔ ہمارا نمائندہ آپ کے گھر آ کر سوٹ کا سائز اور آپ کی ڈیماند نوٹ کریگا اور آپ کے سوٹ کا کپڑا آپ سے لے جائے گا۔ ایک دن کے اندر سوٹ سل جائیگا اور ہمارا نمائندہ آپ کے گھر آکر آپ کو سوٹ دیگا اور ہماری سلائی کے چاجز کیش لیگا۔ س۔ ہماری سلائی دوسروں سے بہتر کیوں ہے ؟ ج۔ ہمارے ٹیلرز انتہائی ماہر اور تجربہ کار ہیں۔ سلائی کے بعد سوٹ کی جانچ پڑتال کے لئے کوالٹی چیکنگ ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں سلائی کا معیار، سوٹ کا سائز وغیرہ چیک کیا جاتا ہے۔ یہ ڈیپارٹمنٹ ہمارے علاوہ کوئٹہ میں کسی سلائی کرنے والے ادارے کے پاس نہیں ہے۔
سال ۲۰۱۲ء بھی گزر گیا۔ پچھلی صدی کو اس کے وسط میں منٹو جیسا تیسا چھوڑ گیا تھا، ویسی ہی تاریک رہی، اور آنے والی صدی کا پہلا عشرہ ہی ہم نے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور تاریک تر بنا لیا۔ حبس پہلے سے سوا ہوتا گیا اور کھڑکیاں ہوا بند ہی رہیں۔ منٹو "کھول دو، کھول دو!” چلاتا رہا لیکن ہم نے تازہ ہوا کو راستہ دینے کے دریچے وا کرنے کے بجائے، فسادات میں پامال ہوئی سہمی ہوئی سکینہ کی طرح اپنے ازار بند کھول ڈالے۔ حالات بدلنے سے بہت پہلے ہم نے اسے منٹو کا سال قرار دے دیا، دیر کرنے پر معذرت بھی کی، لیکن منٹو کے لیے یہ ایک بہت قبل از وقت انتساب، بلکہ شاید ایک نہایت بھونڈے مذاق سے کم نہ ہو۔ پینسٹھ سال سے واہگہ پار سے کوئی جاتری، ایک پیر پر کھڑے بشن سنگھ کی خیر خبر لینے نہیں آیا۔ ہلالی شمشیروں نے کرپانوں اور ترشولوں کو تو بھگا دیا، مختون اور غیر مختون کے دنگے میں ایک رنگ کے لوگوں نے ختنے کو نشانی رکھ کے دوست دشمن کی پہچان کی اور چن چن مارا، لیکن پھر بدعت و رفع بدعت کے شور میں یہی امت مختون آپس میں وہ جھگڑی کہ اسی ہلالی شمشیر نے کبھی سیاہ کپڑے نشانی طے کی اور کبھی اخضری عمامے۔۔ پکڑ پکڑ مارا۔۔۔ یوں منٹو کی نصیباں ماری سلطانہ کی کالی شلوار، جان کے خوف سے کھونٹی پر ہی ٹنگی رہ گئی۔ وہ اب امام باڑے جانے کے تصور سے ہی ڈرتی ہے۔ ٹوبے کے پاگل خانے کی توسیع آئے روز، اور زور شور سے ہو رہی ہے۔ عماموں ڈاڑھیوں والے، کوٹ پتلون والے کلین شیو، اور بڑی بڑی مونچھوں اور واسکٹوں والے نیم خواندہ جنونی۔۔ جوق در جوق بھرتی کیے جا رہے ہیں۔ کوئی کاندھے پر کدال رکھے سب سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ تن تنہا سلطنت ترکیہ کو اکھاڑ لائے گا اور یہاں بو دے گا، ایک طرف کوئی چھت پر چڑھ کر خدا ہونے کا دعوی کرتا ہے، ادھر کوئی پاگل ہونے کا سرٹیفیکیٹ ہاتھ میں لیے کلاشنکوف سے اسے مار گراتا ہے اور قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ وہ موسی نبی کا اوتار ہے۔۔۔ ایک طرف کوئی ناک پر چشمہ اور سر پہ قضاوت کی کلاہ رکھ کر سب کو بری کرنے کا اعلان کر دیتا ہے۔ خوب رونق لگی ہے۔ لیکن بھائی بشن سنگھ اب بھی کونے پر کھڑا، کچھ نئی گالیوں کے اضافے کے ساتھ "اوپڑ دی گڑ گڑ۔۔۔” والا مہمل منتر لگاتار بڑبڑا رہا ہے۔ اپنے منٹو صاحب کی بیشتر بدبودار کہانیوں کی سکہ بند ٹکسال، اور اپنے غلام عباس صاحب کی "آنندی” یعنی شہر کے کوٹھے جو تمدن کا نقطہ آغازقرار پائے تھے، اب بحمداللہ تطہیر کے عمل نیک کے ذریعے ہمارے شہر ان سے پاک تر ہو گئے ہیں۔ کراچی اور پشاور کا علم نہیں کہ وہاں سے بجز بارود اور تاڑ تڑاخ کے کچھ خبر نہیں پہنچتی۔ لاہور کا بہرحال جانتا ہوں کہ یہاں سماج کا یہ ناسور دبا دیا گیا ہے، پیپ ہر چند کہ ہر رگ میں پھیل گئی ہے لیکن خدا کے فضل سے پھوڑا چھپ ہی گیا ہے۔ زینت المعروف زینو جیسی کئی کشمیری کبوتریاں جو بیسوائی مزاج نہ ہونے کے باوجود دھندے میں جھونکی گئی تھیں، اور طوائفانہ عشوے نہ سیکھ پانے کے کارن اندھیر گلی میں ناکام رہیں، اب اندھیر گلی میں ایمان کے قمقمے جل اٹھنے کے بعد گرہستی کو پلٹی ہیں تو منٹو کے قلم سے ان کے سر لکھی نیک نیت بدنامیاں ہی ان کے ماتھے کا کلنک بن گئی ہیں۔ حیدر آباد کے کسی محمد حسین کے گھر میں کوئی بھی ان کے ہاتھ پر پکی روٹی نہیں کھاتا۔ باہر مردوں کی دنیا میں آج ہر اونچے رنگلے کلس کے ساتھ رحیم سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی جیسے طفیلیے پہلے سے ذیادہ چپکے دکھائی دیتے ہیں، رہا بابو گوپی ناتھ، وہ بیچارہ احساس اور آدمیت کا دھڑن تختہ ہوتے ہی یہاں سے ہجرت کر گیا ہے۔ جی میں تو یہ بھی آتا ہے کہ نیلی آنکھوں والی نٹ کھٹ گوری موذیل کے لب و رخسار کے احوال بھی دو جملوں میں کہے جائیں، لیکن وہ سالی تو یہودن ہے۔ اس کے بارے میں مزید ایک بھی جملہ اور اضافہ کرنا، عین ممکن ہے یار لوگوں کے لیے غیر آئینی حرکت اور موساد کی حمایت کے مترادف ہو۔ منٹو کی”آخری سلیوٹ” والی کہانی جب بھی پڑھتا ہوں تو مجھے اپنی سپاہیانہ زندگی میں ڈرل ماسٹروں کا وہ سبق بہت یاد آتا ہے کہ دنیا میں خون کے رشتے سے بڑا سانگا اگر کوئی ہے، تو وہ "پلٹن کا رشتہ” ہے۔ سن ۴۷ء میں ۶/۹ رجمنٹ دولخت ہو گئی، پھر سن ۴۸ء میں دونوں ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے کشمیر چھیننے بھیج دیا گیا۔صوبیدار رب نوازاور رام سنگھ جیسے ٹولی وال پیٹی بندوں نے منٹو کی مخبری کے مطابق جو غدارانہ یار باشی دکھائی تھی، جنگ کا خاتمہ بھی ایسا ہی بیہودہ ہوا۔ برما اور سوڈان میں ایک ساتھ لڑنے والے پیٹی بند شناہوں نے کشمیر آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیا اور لاشیں سمیٹ کر دوسرے چوتھے محاذ سنبھال لیے۔متحدہ فوج کا وہ آخری ٹولہ باعزت ریٹائر ہوا ہے اور ان کی آخری پنشنیں ان کی تجہیز و تکفین پر کفایت سے پوری آئی ہیں۔اگلے بَیچز نے ایک کامل اور اجلے قومی شعور کے ساتھ محاذ سنبھالا ہے، بات کشمیر سے سیکڑوں فٹ اوپر تک پہنچ گئی ہے۔ قوم پر عزم ہے کہ فتح کا پرچم اور پھوٹ کی باڑھ ہمالہ کی بلند ترین چوٹی تک لے جائیں گے، برفانی ریچھ اور پہاڑی بکرے بھی موسمی ہجرتوں کے لیے ویزے کروانے اسلام آباد اور دلی جائیں گے۔ طرفین کے فاقہ کش برف پر گندم اگا کر اپنی بھوک مٹائیں گے۔ استاد منگو کی جگہ اب اس کا بیٹا، باپ کا اکّا بیچ کر یادگار سے شاہ عالمی تک، پیلا چنگ چی چلاتا ہے۔ وہ آئے روز یادگار چوک کے جلسوں میں شریک ہونے والی نیلی پیلی جھنڈیوں والی سواریاں یہاں سے وہاں ڈھوتا ہے، اس کے کان، ان سواریوں کی زبانی نئے پرانے دساتیر کی باتیں سن سن کر سُن ہو گئے ہیں۔۔ لیکن وہ ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرتا کہ اس نے اپنے باپ کا قصہ سن رکھا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اب اقتدار اعلی میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بات نئے دستور کے محضر پر لکھ دی گئی ہے۔ خیر، ہمارا مقصد یہاں منٹو کے کرداروں کو آگے بڑھانا یا ان کے امروزی احوال سنانا نہیں تھا، کہ منٹو کی تو سبھی کہانیاں ابھی ناتمام اور جاری ہیں۔ اور منٹو کا سال۔۔ ایک سراسر معذرت خواہانہ اور کھسیانہ سا انتساب ہے احباب! اس برس ایسا کچھ نہیں تھا کہ جوپچھلے چونسٹھ برس سے ہٹ کر تھا۔ وہی پاگل خانہ ہے، وہی گنجے فرشتے اور ان کے ہاتھ میں مصالحت کی کنگھیاں ہیں۔ ویسا ہی خلق خدا پر بنامِ خدا تلواروں کا سونتنا۔۔ ویسا ہی خلوت کدوں میں مجبور کسبیوں کی شلواروں کا نوچنا۔۔ منٹو کے ساتھ ایک اور سرکاری مذاق! منٹو کا سال ابھی سالوں دور ہے، منٹو کی صدی ابھی صدیاں آگے ہے۔۔ شرمندہ باد!!۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ و ماڈل نادیہ حسین اور کومل میر نے شوٹنگ کے دوران رونے کا طریقہ بتادیا۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں ڈرامہ سیریل ’بے نام‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکاراؤں نادیہ حسین اور کومل میر نے شرکت کی اور میزبان ندا یاسر کے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔ اداکارہ کومل میر نے بتایا کہ اگر میک اپ کے دوران کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میک اپ آرٹسٹ اسے دور کردیتی ہیں۔ کومل میر نے کہا کہ میں نے شوٹنگ کے دوران لینس پہننا اسی لیے چھوڑا ہے کہ میں اصلی آنسو آجائیں۔ ندا یاسر نے کہا کہ لوگ بام کی طرح کوئی چیز آنکھوں کے قریب لے جاتے ہیں اس سے بھی آنسو آجاتے ہیں اس پر کومل میر نے کہا کہ یہ طریقہ بھی ہے لیکن شوٹنگ کے دوران کتنی بار بام کو قریب لے کر جائیں گے۔ View this post on Instagram A post shared by Komal Meer (@komallmeer) اداکارہ و ماڈل نادیہ حسین نے بتایا کہ آنکھوں میں گلیسرین ڈالنے سے آنسو آجاتے ہیں اس کے علاوہ نہیں آتے، بام کا طریقہ مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ View this post on Instagram A post shared by Nadia Hussain Khan (@nadiahussain_khan) واضح رہے کہ اداکارہ کومل میر اور نادیہ حسین اے آر وائی ڈیجیٹل کے نئے ڈرامہ سیریل ’بے نام‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں، ڈرامے کی پہلی قسط گزشتہ روز شام 7 بجے نشر کی گئی تھی۔ ڈرامے کی دیگر کاسٹ میں انوشے عباسی، شازیل شوکت، وسیم عباس، بابر علی، نور حسن، سعد قریشی، عمران اسلم، غنا علی، حمیرا بانو ودیگر شامل ہیں۔ ڈرامہ سیریل ’بے نام‘ کی ہدایت کاری کے فرائض مسعود سید نے انجام دیے ہیں جبکہ اسے طاہر نذیر اور سیما شیخ نے تحریر کیا ہے۔
منگل کو فوج نے کہا کہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہونے سے کم از کم آٹھ اقوام متحدہ کے امن دستے بشمول چھ پاکستانی فوج کے افسران اور سپاہی شہید ہو گئے۔ "پاکستان ایوی ایشن یونٹ اقوام متحدہ کے مشن کانگو میں 2011 سے امن کی ڈیوٹی پر تعینات ہے۔ 29، 22 مارچ کو کانگو میں جاسوسی مشن کے دوران، 1 PUMA ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا،” فوج کے میڈیا ونگ، انٹر سروسز پبلک کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں پڑھا گیا۔ تعلقات (آئی ایس پی آر)۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حادثے کی اصل وجہ کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے اور جہاز میں موجود اقوام متحدہ کے آٹھ امن فوجیوں سمیت چھ پاکستانی فوج کے افسران/ سپاہیوں نے شہادت کو گلے لگا لیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شہید اہلکار کی شناخت لیفٹیننٹ کرنل آصف علی اعوان (پائلٹ)، میجر سعد نعمانی (کو پائلٹ)، میجر فیضان علی، این/سب سمیع اللہ خان (فلائٹ انجینئر)، حوالدار محمد اسماعیل (کریو چیف) کے نام سے ہوئی ہے۔ L/Hav محمد جمیل (گنر)۔ اس سے پہلے دن میں، DR کانگو میں اقوام متحدہ کے استحکام مشن (MONUSCO) نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اس کا اپنے ایک ہیلی کاپٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے جو خطے میں جاسوسی کے مشن پر تھا۔ یہ بھی پڑھیں: قیام امن میں پاکستان کا طویل سفر؟ مشن نے کہا کہ "اس لاپتہ ہونے کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ تحقیق جاری ہے۔” وزیر اعظم عمران خان نے اپنے "صدمے اور غم کے گہرے احساس” کا اظہار کیا، ان کے دفتر نے ملک کی مسلح افواج کی طرف سے عالمی امن کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔ علاقے میں سول سوسائٹی کے گروپوں کے ذرائع نے بتایا کہ منگل کی صبح سرکاری فوجیوں اور M23 کے باغیوں کے درمیان لڑائی دوبارہ شروع ہوئی، جسے کانگولیز ریولوشنری آرمی بھی کہا جاتا ہے۔ M23 کو 2013 میں فوج نے شکست دی تھی لیکن نومبر کے بعد سے وہ دوبارہ سامنے آیا ہے اور اس پر روتشورو کے آس پاس فوجی ٹھکانوں پر کئی چھاپے مارنے کا الزام ہے۔
ایم کیو ایم کے مطالبات پر سندھ کی حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مشاورتی اجلاس آج وزیراعلیٰ ہاؤس میں طلب کرلیا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس سہ پہر 3 بجے ہوگا جس میں نثار کھوڑو، مرتضیٰ وہاب، سعید غنی سمیت دیگر پارٹی رہنما شرکت کریں گے۔ اجلاس میں ایم کیوایم کے مطالبات پر عمل کی صورت قانونی پیچیدگیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور یہ بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کے تین مطالبات میں سے کون سے مطالبے مانے جا سکتے ہیں اور کون سے مطالبے ناقابل قبول ہیں۔ میٹنگ کی سفارشات حتمی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی کی اعلیی قیادت کو بھیجی جائیں گی۔ یاد رہے کہ ایم کیوایم نے بلدیاتی حلقہ بندی تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے، متحدہ قومی موومنٹ بلدیاتی اداروں میں اپنے تجویز کردہ ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری بھی چاہتی ہے۔ اس سے قبل خبر آئی تھی کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعلیٰ سندھ کو با اختیار بلدیاتی نظام منظوری کی ہدایت دیدی ہے جس کے پیپلز پارٹی نے بلدیاتی ترمیمی بل کا مسودہ ایم کیو ایم پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی بلدیاتی ادارے میئر کراچی کے ماتحت کرنے پر رضامند ذرائع نے بتایا تھا کہ پی پی بلدیاتی اداروں کا سربراہ میئر کراچی کو بنانے پر راضی ہوگئی ہے، نئے بل کے مطابق کے ڈی اے، واٹر بورڈ، ایم ڈی اے کا سربراہ میئر کراچی ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی ڈیجیٹل نے مقبول ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے، ڈرامے کی گزشتہ قسط بھی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی تھی۔ ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو نے ریٹنگ کے اعتبار سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور 105 جی آر پی ریٹنگ حاصل کرلی ہے۔ Greatest of All Time! Thank you 🙏🏻 so much audiences for your never-ending love for #ZeeraPlus presents #MerayPaasTumHo! Keep watching ARY Digital!@iamhumayunsaeed @adnanactor #ARYDigital pic.twitter.com/XSA9v3YL9N — ARY Digital (@arydigitalasia) December 16, 2019 واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈرامے کی کاسٹ ہمایوں سعید، عائزہ خان اور حرا مانی ڈولمین مال کلفٹن پہنچے تھے جہاں مداحوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ #Danish’s dialogue from #ZeeraPlus presents #MerayPaasTumHo that won MILLIONS of hearts‼️Look at the crowd cheering while #HumayunSaeed says the dialogue once again in front of them at the meet and greet here at #DolmenMall Clifton@iamhumayunsaeed @nadeembaigg pic.twitter.com/w2OF6ziwfC — ARY Digital (@arydigitalasia) December 15, 2019 اداکار ہمایوں سعید نے ڈرامے کا ٹائٹل سانگ گنگنایا تھا جسے مداحوں کی جانب سے بہت پسند کیا گیا تھا۔ ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کی 18 قسطیں نشر ہوچکی ہیں اور ہر قسط کو ناظرین کی جانب سے زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔ گزشتہ قسط میں شہوار کے جیل جانے اور مہوش کو ماہم کی جانب سے گھر سے نکالے جانے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کیے گئے تھے۔ The cast of #ZeeraPlus presents #MerayPaasTumHo had a wonderful interactive session with the audiences here at the meet and greet session at #DolmenCityMall Karachi!!#HumayunSaeed #AyezaKhan #HiraMani #FurqanQureshi #MusaddiqMalik #SheesSajjad@iamhumayunsaeed @nadeembaigg pic.twitter.com/mO0jFSicTI — ARY Digital (@arydigitalasia) December 15, 2019 سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا یہ ممکن ہے کہ دانش مہوش کو دوبارہ قبول کرلے گا۔ "Faqat aik mulaqat mangi hai tumse, mila ker nazar ko guzar jaeyega…" Watch #ZeeraPlus presents #MerayPaasTumHo Saturday at 8:00 PM only on #ARYDigital pic.twitter.com/MzAxDo9TAl — ARY Digital (@arydigitalasia) December 16, 2019 ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو شاندار کہانی، عدنان صدیقی، عائزہ خان اور ہمایوں سعید کی جاندار اداکاری کی بدولت شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، مداح ہفتے کی رات 8 بجے ڈرامہ دیکھنے کے لیے بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
ممبئی : بالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار رشی کپور سے متعلق گزشتہ برس سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ وہ کینسر جیسے خطرناک مرض میں مبتلا ہیں اور امریکا میں اس کا علاج کرارہے ہیں۔ بھارتی میڈیا میں گزشتہ برس سے یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ رشی کپور کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اُن کی بیماری اب آخری اسٹیج پر پہنچ چکی ہے۔ افواہوں یا مبینہ جھوٹی خبروں کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اداکار یا اُن کے اہل خانہ نے بیماری سے متعلق مکمل طور پر خاموشی اختیار کی اور بالخصوص گھر والوں کو اداکار نے تاکید کی کہ وہ اس ضمن میں میڈیا کو کچھ بالکل بھی آگاہی نہ دیں۔ بالی ووڈ کے نامور اداکار رشی کپور گزشتہ برس ستمبر کے آخر میں خاموشی سے علاج کی عرض سے امریکا روانہ ہوئے تھے جس کے باعث انہوں نے اپنی والدہ کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کرسکے تھے۔ مزید پڑھیں: رشی کپور نے اپنی بیماری سے متعلق خاموشی توڑ دی بھارتی میڈیا میں گردش کرنے والی افواہوں پر رشی کپور کی اہلیہ، بھائی اور بیٹی نے بھی سخت ردعمل دیا تھا البتہ نیتو کپور نے سال نو کے موقع پر ایک پوسٹ کے ذریعے لیجنڈری اداکار کی بیماری کے حوالے سے اشارہ ضرور دیا تھا۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رشی کپور نے رواں سال کے آغاز پر اپنی بیماری سے متعلق اشارہ دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ امریکا میں اُن کا علاج جاری ہے اور اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو وہ اپریل میں وطن واپس لوٹ جائیں گے۔ اداکار کا کہنا تھا کہ ’میرا علاج جاری ہے جو کافی طویل اور تکلیف دہ ہے جس کے لیے تحمل اور صبر کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے یہ سب کچھ مجھ میں موجود نہیں، اگر اوپر والے کی مرضی ہوئی تو میں واپس لوٹ جاؤں گا‘۔ رشی کپور کا مزید کہنا تھا کہ ’میں اپنے علاج پر فوکس کررہا ہوں اچھی بات یہ ہے کہ مجھے فلموں کے بارے میں کچھ نہیں سوچنا پڑ رہا بلکہ ذہن خالی اور پرسکون ہے، یہ وقفہ میرے لیے اچھا ہے کیونکہ اب میں تازہ دم ہوں‘۔ اب کی بار فلم ساز راہول راویل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لیجنڈری اداکار کے ساتھ اپنی بنائی گئی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’رشی کپور (چنٹو) نے کینسر کو شکست دے کر اس مرض سے نجات حاصل کرلی‘۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت بڑھانے کی ضرورت ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ڈیجیٹل تعاون تنظیم کے وفد سے ملاقات میں گفتگو وزیر اعظم عمران خان آج سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ڈیجیٹل پورٹل کا آغاز کریں گے ، پورٹل سے پاور آف اٹارنی کی تصدیق ہو سکے گی اپوزیشن اصلاحات کیلئے عدالت کی بجائے سپیکر آفس آئے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، یہ ہمارا انتخابی وعدہ تھا، چوہدری فواد حسین مستحق افراد کو آٹے، دالوں اور گھی پر سبسڈی ملے گی، جمعہ سے 8171 میسج سروس بحال ہوجائے گی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیراعظم سے ڈی جی ISI لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی الواداعی ملاقات ’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے سزا یا ٹرائل پرکوئی فرق نہیں آئے گا: اٹارنی جنرل شیئر کریں مرتضی وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی مقرر کردیا گیا اگست 5, 2021 August 5, 2021 کراچی: مشیر وزیراعلیٰ سندھ مرتضی وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی مقرر کردیا گیا ہے۔ واقعہ ٹائم کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر مرتضی وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ لئیق احمد سے عہدے کا چارج واپس لے لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مرتضی وہاب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مشیر کی بھی ذمہ داریاں ادا کریں گے، اس کے علاوہ قانون اور ساحلی ترقی کے قلمدان بھی انہی کے پاس رہیں گے تاہم ماحولیات کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے۔
اسلام آباد:ملک بھر میں آنے والا سیلاب اپنے پیچھے تباہی چھوڑ گیا، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں ہرطرف تباہی سے اموات کی تعداد 1545 ہوگئی ہے، 24 گھنٹے میں مزید 10 افراد زخمی ہوئے ہیں، 19 لاکھ سے زائد مکانات تباہ، 12 ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے، سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں، متاثرین بے یارو مدد گار کسی مسیحا کے منتظر ہیں، دوسری جانب انفراسٹرکچربھی تباہ ہوچکا، دوردراز دیہات تک امداد پہنچانا بڑا امتحان بن گیا ہے۔ بلوچستان میں بھی بپھری موجوں نے ہر چیز تہس نہس کردی ہے، اربوں روپے کی املاک تباہ ہوچکی، غذائی قلت کی وجہ سے متاثرین کو نئی آفت نے آن لیا ہے، پنجاب کے جنوبی علاقوں میں بھی صورتحال انتہائی ابتر ہے، بے گھری کا دکھ جھیلنے والے مسیحا کے منتظر ہیں۔ ادھر بلوچستان کا سیلابی پانی مسلسل منچھر جھیل میں داخل ہونے سے مشکلات کا سامنا ہے، دو مقامات سے کٹ لگانے کے باوجود بھی پانی کی سطح 121.5 آر ایل برقرار ہے، سیہون کی 10 یونین کونسل میں 15 روز سے سیلابی صورتحال، لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، متاثرین بے یارومددگار دو وقت کھانے کیلئے پریشان ہیں، وزیراعلیٰ سندھ سے مدد کی اپیل کی گئی ہے۔ شدید بارشوں کے بعد سندھ میں بھی سیلاب کی تباہ کاریاں سے لاکھوں گھر تباہ اور سڑکیں کھنڈر بن گئی ہیں، کھیت کھلیان بھی بربادی کی داستان بن گئے، کھڑی فصلیں خراب ہوچکی، جمع پونجی سے محروم کسانوں کو مستقبل کی فکر ستانے لگی، کھلے آسمان تلے پڑے متاثرین پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بھی بارشوں اور سیلاب سے بڑی تباہی ہو چکی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، بنوں میں بارش نے پھر قیامت ڈھادی ہے، نواحی علاقے غوری والا میں مکان کی چھت گرنے سے دو کم سن بھائی جاں بحق ہوگئے ہیں، لواحقین غم سے نڈھال ہیں۔ دوسری جانب حاليہ بارشوں و سيلاب سے انفراسٹرکچر کی تباہی پراین ڈی ایم اے نے یومیہ رپورٹ جاری کردی ہے، گزشتہ 24 گھنٹے میں ملک بھر میں 8958 گھروں کو جزوى نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 13 ہزار سے زائد گھروں کو مکمل نقصان پہنچا، اب تک 11 لاکھ 44 ہزار 787 گھروں کو جزوى طور پر نقصان ہوا، بارشوں اور سيلاب سے 778560 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے رپورٹ میں کہا گیا کہ دريائے سندھ میں کوٹرى کے مقام پر تاحال درميانے درجے کا سيلاب ہے، گزشتہ چوبيس گھنٹے میں بارشوں اور سيلاب سے کوئى موت نہیں ہوئى، ملک بھر میں اب تک ہونے والى اموات کى کل تعداد 1545 ہے، 24 گھنٹے میں مزید 10 افراد زخمی ہوئے ،تعداد 12ہزار860 ہوگئی۔
انسان اپنی ترجیحات طے کرتا ہے پھر ان پر عمل کرنے کیلئے کمر بستہ ہوتا ہے ۔ بھوک افلاس دنیا کا سب سے بڑا مسلئہ ہے اور نا معلوم کب سے ہے ،شائد یہ مسلئہ تاریخ کی تاریکی سے جڑا ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،انسان کی بھوک بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ دنیا اکیسویں صدی سے گزر رہی ہے جسے جدید ترین ایجادات کی صدی کہا جاسکتا ہے۔ اتنی جدت کے بعد بھی دنیا میں بھوک اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ دنیا عدم توازن کے باعث بھوک جیسے گھمبیر مسلئے کو حل نہیں کر پائی اور توازن میں بہتری لانے کیلئے کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات بھی نہیں کئے گئے۔ بظاہر تو ساری دنیا میں غیر سرکاری تنظیمیں غربت کے خاتمے کیلئے کام کر رہی ہیں مگر غربت میں کمی ہوتی نہیں دیکھائی دے رہی بلکہ دنیا میں دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کی مد میں یہ غربت بہت تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ ہم پاکستان کے شہر کراچی کی بات کرلیتے ہیں جہاں مختلف فلاحی ادارے مختلف مقامات پر کھانا کھلانے کا انتظام باقاعدگی سے کر رہے ہیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کوبغیر کسی معاوضے کے کھانا کھلارہے ، کھانے والا کوئی بھی ہوسکتا ہے کسی سے کوئی شناخت نہیں پوچھی جاتی کسی کی کوئی حیثیت نہیں دیکھی جاتی ۔ کھانے کا میعار پر بھی کسی لحاظ سے کم نہیں ہوتا ۔ پاکستان دنیاکی آٹھ ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے ، یہ وہ ملک ہے جو اگر وجود میں آنے والے دن مشکلات میں نا گھرا ہوتا تو یقینا پاکستان دنیا میں سپر پاور کی حیثیت رکھتا گوکہ اپنی افواج کے بل بوتے پر تو ہم آج بھی کسی سپر پاور سے کم نہیں ہیں۔ دنیا میں عدم توازن طاقتور اور کمزور کے درمیان حائل خلیج کا ہے ، یہ وہ خلیج ہے جو کبھی بھی نہیں بھر سکتی کیونکہ اسکو کبھی بھرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی اور نا ہی کی جائے گی جب تک دنیا میں رہیگی یہ مسلئہ بڑھتا ہی چلا جائیگا۔گوکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے سدِ باب کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ دنیا کا ایک طبقہ تو اپنے آپ کو معیشت کی دوڑ سے الگ تھلک کر کے بیٹھ گیا ہے اور وہ یاتو مار رہے ہیں اور موت بہت شرمندگی کیساتھ ان سے انکی زندگی خاموشی سے لے جاتی ہے۔ ساری دنیا کا تجزیہ کرلیں سب طرف سے ہر سطح پر اسی بات کا شور سنائی دے گا کہ اپنی بقاء کیلئے معیشت کا استحکام بہت ضروری ہے ۔ اس معیشت کو استحکام اور دوام دینے کیلئے ہم نے اپنی نسلوں کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ۔ علم صرف اس لئے حاصل کیا جانے لگا کہ کسی ایسے پیشے سے وابسطہ ہوا جائے جہاں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ علم سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ آہستہ آہستہ محو ہوتا چلا گیا اور صرف علم پر خرچ کئے جانے والی رقم کی واپسی اہمیت اختیار کرتی چلی گئی۔ ہر فرد اپنی اپنی دانست میں اسی تگودو میں مصروف ہے بلکہ دھت ہے کہ کسی بھی طرح سے اپنے معاشی حالات اچھے کروںاور جن کے اچھے ہیں وہ اور اچھے کرنے میں مگن ہیں۔ ہر دن زندگی کی کوئی نئی آسائش گھر میں اپنی کمی کا احساس دلانے لگتی ہے اور پھر اسکے حصول کیلئے حلال حرام سے مبرا تگ و دو میں نکل پڑتے ہیں، اس آسائش کے حصول تک دن رات کا فرق بھول بیٹھتے ہیں اور یہاں تک کے اپنے اہل خانہ اپنے بچوں سے ملاقات کو ہفتوں گزر جاتے ہیں۔ محنت میں تو عظمت ہے لیکن عظمت حرام سے ملنی مشکل ہوتی ہے ۔ جب افزائش نسل کی ترکیب میں آمیزش کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو پھر معاشرہ اسی طرح ادب و آداب سے عاری ہوتا چلا جائے گا جیسا کہ آج کل ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ مشرق اور مغرب کی تفریق روحانیت تھی جو مشرق کا خاصہ تھی اب ہم نے روحانیت کو چھوڑ دیا اورمادیت (جو مغرب کا خاصہ ہے) سے دل لگا لیا جو ہماری جسمانی ضروریات کی تسکین کا باعث بنتی گئیں اور ہمیں اپنا عادی بنا لیا۔دنیا کی ہر آسائش کا تعلق معیشت سے اور اس معیشت پر دنیا کے مخصوص طبقے کا قبضہ ہے جو اپنی دولت میں روز بروز اضافہ کئے جا رہے ہیں اسکے برعکس ایک محنت اور مشقت کرنے والا شخص بڑی مشکل سے اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ کسی خاص وجہ سے کسی کا کوئی کام نہیں ، کام جاری و ساری رہتے ہیں چاہے اس کا م کو کرنے والا بدلی ہی کیوں نا ہوجائے۔ معیشت کے استحکام کی کوششیں ہمیں اخلاقی اور معاشرتی قدروں سے دور سے دور کرتی چلی جا رہی ہیں اور ہم بہت بے فکری سے دور ہوئے جا رہے ہیں، اب ہم وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ان کی حدیں ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد گھریلوناچاکیوں کی شکایت کرتا سنائی دیتا ہے بچوں کے نافرمان ہونے کا رونا روتا دیکھائی دیتا ہے مگر اس نہج پر پہنچنے کا سبب جاننے کا اسکے پاس وقت نہیں ہے اور نا ہی وہ اس مسلئے کو حل کرنے کیلئے بہت زیادہ سنجیدہ نہیں دیکھائی دے رہے۔ ساری کی ساری سنجیدگی اور دھیان معیشت کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے ۔ ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے والوں نے اپنی معیشت ٹھیک کرلی اور کرتے ہی جار ہے ہیں ان کی مرہون منت ملک کی معیشت تباہ ہوتی جا رہی ہے اور اس تباہ شدہ معیشت کا بہانہ بنا کر ہر ایک فرد اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے میں مگن ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے اور ملک کے معززین خود کو اشرافیہ کہنے والے جن پر ملک کی معیشت کو تباہ کرنے اور عوام کا پیسہ کھانے کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں اور مجرم قرار پانے والے اپنی کرپشن سے بنائی شان و شوکت سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ملک میں کرپشن کرکے معیشت کو تباہ کرنے والے ہی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے لوگ ہیں ۔ انکا جرم ناقابل تلافی ہے انکی وجہ سے معاشرے میں بگڑنے والا توازن اب سنبھلتے دیکھائی نہیں دے رہا۔ ہم اپنی رہی سہی تہذیب اور تمدن جدید تعلیم کی بھینٹ ہنسی خوشی چڑھا رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آنے والے کل کو تباہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس تفریق کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر ذرا دھیان دیجئے ہم اپنے کل کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ .fb-background-color { background: !important; } .fb_iframe_widget_fluid_desktop iframe { width: 100% !important; } WhatsApp Share FacebookTwitterWhatsAppPinterestLinkedinReddItدوستوں کوارسال کریں Prev Post بدعنوانی اوربدانتظامی نے شعبہ صحت کوبیمار کردیا:محمدناصراقبال خان Next Post بلا سود قرض کی فراہمی کا مقصد ہنر مند افراد کے کاروبار میں وسعت اور آمدنی میں اضافہ کرنا ہے: سید احسان اللہ وقاص
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت بڑھانے کی ضرورت ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ڈیجیٹل تعاون تنظیم کے وفد سے ملاقات میں گفتگو وزیر اعظم عمران خان آج سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ڈیجیٹل پورٹل کا آغاز کریں گے ، پورٹل سے پاور آف اٹارنی کی تصدیق ہو سکے گی اپوزیشن اصلاحات کیلئے عدالت کی بجائے سپیکر آفس آئے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، یہ ہمارا انتخابی وعدہ تھا، چوہدری فواد حسین مستحق افراد کو آٹے، دالوں اور گھی پر سبسڈی ملے گی، جمعہ سے 8171 میسج سروس بحال ہوجائے گی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیراعظم سے ڈی جی ISI لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی الواداعی ملاقات ’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے سزا یا ٹرائل پرکوئی فرق نہیں آئے گا: اٹارنی جنرل شیئر کریں مارکیٹ میں ایرانی ٹماٹر کی انٹری، جس کی قیمت بھی زیادہ اور ذائقہ بھی نہیں نومبر 6, 2021 November 6, 2021 مارکیٹ میں آج کل ایرانی ٹماٹر آئے ہوئے ہیں جو قیمت میں بھی زیادہ ہے اور ان میں وہ ذائقہ بھی نہیں۔ یہ ٹماٹر دیکھنے میں تو خوبصورت ہے لیکن دیسی ٹماٹر سے مہنگا اور اس میں ذائقہ بھی نہیں ہے۔ اس ٹماٹر کو استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں ذائقہ کم ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ آج کل بازار میں ایرانی ٹماٹر آئے ہوئے ہیں جو خود بھی لال ہیں اور ان کی قیمت پوچھنے والے بھی قیمت سن کر لال ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں گرفت کمزور ہو جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے، ملک میں قیمت کا انتظام اپنی گرفت کھو رہا ہے اور نتیجے میں بازار میں بکنے والی اشیاء کے نرخ بغاوت پر اتر آئے ہیں، چینی کے روگ کا ابھی سوگ پورا نہیں ہوا کہ ٹماٹر نکل آئے ہیں میدان میں۔اس موسم میں بدین کا ٹماٹر تیار ہورہا ہے، کوئٹہ کا ٹماٹر ختم ہے، اس لیے ملکی ضرورت ایرانی ٹماٹر پوری کر رہا ہے۔ دیکھنے میں تو یہ خوبصورت ہے، لالی بھی سرخ گلاب کی سی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ذائقہ مگر کراچی کی بریانی کے ساتھ میچ نہیں کرتا، رہی بات قیمت کی تو وہ کلو کے 200 روپے ہیں۔ اب بدین کے ٹماٹر مارکیٹ میں آنے سے قبل ایرانی ٹماٹر ہی لوگوں کو خریدنا ہوگا، یہ ہر سال کی کہانی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی پیشگی انتظام نہیں کیا جاتا۔
اِس سلسلے میں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دو وزراٴاور کشمیر کونسل اوسلو کے سربراہ واشنگٹن پہنچے ہیں، جو ’سالانہ دعائیہ ناشتے‘ کی تقریب میں بھی شریک ہوں گے آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 05.02.2015 02:23 واشنگٹن— امریکہ میں مسئلہٴکشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کشمیری نژاد امریکیوں نے لندن میں ’ملین مارچ‘ کی طرز پر واشنگٹن میں ریلی کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اِس سلسلے میں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دو وزراٴاور کشمیر کونسل اوسلو کے سربراہ واشنگٹن پہنچے ہیں، جو ’سالانہ دعائیہ ناشتے‘ کی تقریب میں بھی شریک ہوں گے۔ پاکستان زیر انتظام کشمیر کے وزیر پانی و بجلی، مرتضیٰ درانی کے بقول، امریکہ میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جانا نہایت ضروری ہے، ’کیونکہ یہ واحد سپر پاور ہے، اور جنوبی ایشیاء میں امن و امان صرف خطے کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی ضرورت ہے‘۔ بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، انھوں نے بتایا کہ وہ دعائیہ ناشتے کی تقریب میں شرکت کے موقع پر یہاں آنے والے مندوبین سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اُن کے الفاظ میں، ’مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیاٴمیں امن کی واحد راہ ہے۔۔۔ ہم کشمیری اپنی خودمختاری سے کم کسی صورت مطمئن نہیں ہوں گے‘۔ وفد میں شامل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اطلاعات، مرتضیٰ درانی کا کہنا تھا کہ، ’اگر کشمیریوں کو ان کا حق نہ ملا تو خطے میں انتہاپسندی کی روک تھام کی تمام کوشیشں ناکام ہوں گی‘۔ سالانہ دعائیہ ناشتے میں شرکت کے لئے یہاں پہنچنے والے کشمیر کونسل اسکنڈینوین ممالک کے سربراہ، علی شاہنواز خان کا کہنا ہے کہ لندن میں ملین مارچ منعقد کرنے سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مدد ملی، اور اسی طرز پر، اب واشنگٹن میں ملین مارچ نکالا جائے گا۔
’’یومِ آزادی‘‘ پر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ طلباء اسلام اور خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر کے زیراہتمام تقریب سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ طلباء اسلام گوجرانوالہ اور خلافتِ راشدہ اسٹڈی سنٹر کا شکر گزار ہوں کہ یومِ آزادی اور قیامِِ پاکستان کے دن اس تقریب کا اہتمام کیا اور ہمیں باہمی ملاقات اور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر خوشی اور شکر کے اظہار کے لیے اکٹھے مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھتے ہوئے وطن، دین اور ملت کے لیے اپنے سفر کو صحیح بنانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔ تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کی بنیاد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے فتوٰی پر ہے جو فتاوٰی عزیزی میں آج بھی موجود ہے۔ اصل فارسی زبان میں تھا، اس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں، آزادی کی تحریکیں چلائی گئیں۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ جنہوں نے یہ فتوٰی دیا تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے جانشین اور اپنے والد محترمؒ کے بعد برصغیر میں امتِ مسلمہ کے امام تھے۔ فتوٰی پر بات کرنے سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ جب ہم اپنی علمی و دینی تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں دو بڑے نام آتے ہیں، پہلا نام حضرت مجدد الف ثانیؒ کا، اور دوسرا نام حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ہے۔ ان دونوں کی جدوجہد دراصل شاہ صاحبؒ کے فتوے کا تاریخی پس منظر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تحریک کیا تھی؟ حضرت مجدد الف ثانیؒ سے پہلے برصغیر میں اکبر بادشاہ نے اس دور کے سیکولرازم کا نفاذ چاہا تھا کہ کسی مذہب کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے اور سارے مذہب ٹھیک ہیں، ہندو بھی، عیسائی بھی، یہودی بھی، سکھ بھی۔ تمام مذاہب کی اچھائیاں اکٹھی کر کے اتحاد بین المذاہب کا خلط ملط شدہ ایک ملغوبہ پیش کیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں یہ سیکولرازم کہ کسی ایک مذہب کی فوقیت نہیں ہے سارے مذاہب ایک جیسے ہیں، اس کا پہلا داعی اکبر بادشاہ تھا۔ کچھ اسلام کی خوبیاں، کچھ یہودیت اور عیسائیت کی اچھائیاں، کچھ ہندو ازم اور سکھ ازم کی باتیں خلط ملط کر کے ایک نیا دین تشکیل دیا تھا جسے تاریخ میں ’’دینِ الٰہی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ جس مذہب کی جو بات اچھی لگے وہ اس سے لے لو۔ اکبر بادشاہ کے مذہب میں اللہ کا سجدہ بھی تھا، سورج کا سجدہ بھی تھا اور بت کا سجدہ بھی تھا۔ یہاں سے اس دین کا آغاز ہوتا ہے، میں تفصیلات میں نہیں جاتا، لیکن بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ سارے مذہب ٹھیک ہیں، آپس میں لڑو نہیں! آج کا سیکولرازم بھی یہ کہتا ہے کہ کسی مذہب کی دوسرے پر برتری نہیں ہے، سارے مذاہب یکساں ہیں اور کسی ایک مذہب کی بنیاد پر کوئی معاشرتی نظام قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو اس دور کے سیکولرازم یعنی اکبر بادشاہ کے دینِ الٰہی سے جنگ درپیش تھی، چنانچہ حضرت مجدد صاحبؒ نے وہ جنگ لڑی۔ ایک ہتھیاروں کی جنگ ہوتی ہے، ایک علم و فکر کی جنگ ہوتی ہے، اور ایک دانش و تدبر کی جنگ ہوتی ہے۔ ہر جنگ کا اپنا موقع ہوتا ہے۔ جب ہتھیاروں کی جنگ کا موقع ہو تو ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، اور جب علم و فکر کی جنگ کا موقع ہو تو وہ جنگ بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہ موقع محل کے مطابق ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کو علم، فکر، دانش، حکمت کی جنگ درپیش تھی، اس کو لابنگ کہا جاتا ہے کہ سامنے آنے کی بجائے ایک ایک فرد پر محنت کی جائے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکبر بادشاہ کے بعد جب اس کا جانشین جہانگیر تخت پر بیٹھا تو اس کا پہلا دور اپنے باپ اکبر کے ساتھ تھا، لیکن اس کی زندگی کا آخری دور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ساتھ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی محنت کا یہ خلاصہ ہے کہ اکبر کے سارے فلسفے کو جہانگیر نے الٹ کر رکھ دیا تھا، جس کے پیچھے حضرت مجدد الف ثانی کی محنت کارفرما تھی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی محنت کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہم نے اپنا مذہب، دین، عقیدہ، تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات اور تہذیبی تشخص قائم رکھنا ہے، اسے خلط ملط نہیں ہونے دینا، اور وہ اس تحریک میں کامیاب رہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے تعارف میں علامہ محمد اقبالؒ کا ایک شعر ہی کافی ہے ؎ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان یہ پس منظر ہے شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے فتوے کا۔ ان کے فتوے کا دوسرا پس منظر ان کے والد گرامی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی جدوجہد ہے۔ باقی ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت صرف یہ عرض ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ یہ شمار کیا جاتا ہے، اور اسی کی بنیاد پر حضرت شاہ صاحبؒ پر ایک بڑا الزام بھی لگتا ہے، اس لیے یہ حضرت شاہ صاحب کا کریڈٹ بھی ہے، اور کچھ لوگوں کے ہاں وہ ان کا ڈِس کریڈٹ بھی ہے۔ وہ یہ تھا کہ اس دور میں دہلی میں مغل بادشاہ بالکل بے حیثیت ہو گئے تھے، صرف نام کے بادشاہ تھے۔ جبکہ جنوبی ہند سے ہندو مرہٹے بڑھتے چلے آ رہے تھے اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر انہوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تو مسلمان بالکل مغلوب اور بے بس ہو کر جائیں گے، اقتدار مرہٹوں کے پاس چلا جائے گا اور جنوبی ایشیا کے مسلمان مرہٹوں کے رحم و کرم پر ہوں گے، وہ دہلی کی طرف بڑھ رہے تھے اور دلی والوں میں مقابلے کی ہمت نہیں تھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے جب دیکھا کہ معاملہ زیادہ بگڑ جائے گا تو پہلے اپنے لوگوں کو متوجہ کیا۔ فقہاء، نوابوں، جرنیلوں، وزیروں اور مختلف طبقات کے راہنماؤں کو خطوط لکھ کر متوجہ کیا کہ اکٹھے ہو جاؤ،۔ لیکن جب شاہ صاحبؒ کو اندازہ ہوا کہ بات نہیں بن رہی اور ہم رکاوٹ نہیں ڈال سکیں گے تو انہوں نے افغانستان کے والی احمد شاہ ابدالیؒ سے رابطہ کیا کہ ہم سے یہ طوفان نہیں رکتا، تم مہربانی کر کے ہماری مدد کو آؤ۔ احمد شاہ ابدالیؒ آئے اور آ کر پانی پت کی لڑائی لڑی، جو پانی پت کی تیسری لڑائی کے عنوان سے معروف ہے۔ پانی پت کے مقام پر خوفناک جنگ ہوئی جس میں احمد شاہ ابدالیؒ نے جنوبی ہند کے مرہٹوں کا راستہ روکا اور انہیں شکست دے کر دہلی بچایا۔ لیکن پھر حالات کا تقاضا تھا یا جو بھی وجہ بنی وہ حکومت انہی نا اہلوں کے حوالے کر کے وطن واپس چلے گئے جن کی نااہلی کی وجہ سے آنا پڑا تھا۔ پھر جو ہوا سو ہوا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی جنگ اپنے دین، عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی جدوجہد تھی، جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی جنگ مسلمانوں کے وجود کی حفاظت کی جنگ تھی۔ احمد شاہ ابدالیؒ کی جنگ مسلمانوں کی اجتماعیت اور قوت کی جنگ تھی۔ اسی بنا پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ پر اعتراض بھی ہوتا ہے کہ باہر کی حکومت بلا کر یہاں جنگ کروائی، لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اور کیا کرتے؟ مرہٹوں کے ہاتھوں ذبح ہو جاتے؟ اگر شاہ صاحب یہ نہ کرتے تو عالمِ اسباب میں اس خطہ کا کوئی شخص شاید خدا کا نام لینے والا نہ ہوتا۔ بعض مورخین کہتے ہیں پانی پت کی تیسری لڑائی کے اختتام پر ہی پاکستان قائم ہو گیا تھا۔ یعنی یہ طے ہوگیا تھا دہلی سے ادھر کا علاقہ مسلمانوں کا ہے، اور ادھر کا علاقہ ہندوؤں کا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی یہ دو تحریکیں گزر چکی تھیں۔ اب آئیے حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے کی طرف۔ میں اکثر علماء سے کہتا ہوں کہ یہ فتوٰی پڑھو۔ ہر دفعہ بہت سے حضرات مجھ سے وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی بھی نہیں پڑھتا۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوٰی کا پس منظر دیکھیں۔ برصغیر میں انگریز کی آمد ۱۷۵۷ء میں ہوئی، ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کی غرض سے آئی، جو اس زمانے کی ’’آئی ایم ایف‘‘ تھی۔ ملٹی نیشنل کمپنی یہاں تجارت کے لیے آئی تھی۔ وہ اجازت نامے اور شرائط پر یہاں تجارت کرتے تھے۔ ان کا پہلا جھگڑا بنگال کے بادشاہ نواب سراج الدولہؒ سے ہوا ٹیکسوں کے مسئلہ پر، نواب نے سختی کی، جس پر کمپنی نے بغاوت کر دی، یہ لڑائی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس بغاوت میں نواب سراج الدولہؒ کو شکست ہوئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ یہ ۱۷۵۷ء کی بات ہے۔ ۱۸۰۱ء میں ایک اور جنگ ہوئی۔ میسور کے حکمران سلطان ٹیپو تھے۔ میسور کا نام ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ تھا، جیسا کہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یعنی وہ سلطنت بھی اللہ کے نام پر بنی تھی۔ سلطان حیدر علی اور پھر سلطان ٹیپو سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی لڑائی ہوئی۔ لڑائی اس بات پر ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک فرانس کی تھی اور ایک برطانیہ کی تھی۔ ان دونوں کی آپس میں بھی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ دشمن کی دو کمپنیوں کی لڑائی میں سلطان ٹیپو نے ایک سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ سلطان نے اپنی فوج کے لیے ایک فرانسیسی جرنیل سے خدمات حاصل کیں، برطانیہ کی کمپنی نے مطالبہ کیا کہ اس جرنیل کو نکالو۔ جس پر ٹیپو سلطان نے کہا کہ نہیں نکالتا، اس بات پر لڑائی شروع ہوئی۔ لڑائی میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی آگے بڑھتی گئی۔ پھر ۱۸۲۱ء اور ۱۸۲۲ء میں ایک اور لڑائی ہوئی۔ یہاں کے حریت پسندوں نے، روہیلوں نے اور احمد خان روہیلہ نے مقابلہ انگریزوں کا کیا، اس لڑائی میں بھی شکست ہو گئی۔ ان سب شکستوں کی ایک وجہ یہ تھی کہ انگریز کے پاس جدید ہتھیار تھے اور ہمارے پاس وہ ہتھیار نہیں تھے۔ اسباب کی دنیا تو اسباب کی دنیا ہے۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں دشمن نے حملہ کر دیا تو ایک تاریخی روایت کے مطابق پاپائے روم نے کہا سب سجدے میں پڑ جاؤ اللہ پاک شکست دے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں میں شکست دیتا ہوں لیکن ایسے شکست نہیں دیتا، خود بھی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ مقابلہ کے لیے برابر کے ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے اور دیگر بہت سے اسباب کے باعث بنگال، میسور اور بکسر تینوں جنگوں میں مسلمان شکست کھا گئے۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس وقت شاہ عالم ثانی دہلی کے تخت پر تشریف فرما تھے، جن کا لقب تھا شاہِ عالم۔ اس پر ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا شاہ عالم سے معاہدہ ہوا کہ سارے ملک کے مالیاتی نظام کو ایسٹ انڈیا کمپنی چلائے گی اور دہلی سے پالم تک (اب پالم دہلی کا ایئر پورٹ ہے) چند میل کا علاقہ شاہ عالم کے زیر تسلط ہوگا۔ اس معاہدے پر ایک محاورہ مشہور تھا ’’سلطنت شاہِ عالم، از دہلی تا پالم‘‘۔ شاہ عالم کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ ہوا، جس میں یہ تھا کہ ہمیں کچھ نہ کہو، باقی جو مرضی ہے کرو۔ معاہدہ ریکارڈ پر ہے، اس میں یہ طے ہوا کہ پورے برصغیر کے مالی معاملات کو ایسٹ انڈیا کمپنی کنٹرول کرے گی، اور بادشاہ سلامت تخت پر بیٹھ کر نذرانے وصول کیا کریں گے، یہ اس معاہدے کا خلاصہ یہ تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے برصغیر کے محصولات، ٹیکسز اور تمام معاشیات پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، ساری معیشت قبضے میں لے لی تھی، اور دہلی پر ان کا نمائندہ بیٹھ گیا تھا۔ ادھر بادشاہ سلامت سے کہا کہ آپ آرام فرمائیں، نذرانے وصول کریں اور روزانہ نیا لباس پہن کر تشریف لایا کریں۔ یہ معاہدہ تھا کہ دہلی کے تخت پر شاہ عالم بیٹھیں گے لیکن نظام ایسٹ انڈیا کمپنی چلائے گی۔ اور اس کا ٹائٹل یہ تھا کہ معیشت کو ایسٹ انڈیا کمپنی کنٹرول کرے گی جیسا کہ آج کل آئی ایم ایف اور اس جیسے عالمی ادارے کر رہے ہیں۔ اس کے دور میں یہ اعلان ہوا، ’’زمین خدا کی، سلطنت بادشاہ کی، اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘۔ ۱۸۲۲ء کے لگ بھگ اس اعلان کے بعد شاہ عبد العزیزؒ نے یہ فتوٰی دیا کہ پورے برصغیر پر نصارٰی کا غلبہ ہو گیا ہے، اور ہمارے قوانین منسوخ کر کے انہوں نے اپنے قوانین نافذ کر دیے ہیں، اس لیے یہ ملک دارالحرب ہے اور جہاد فرض ہو گیا ہے۔ اسی فتوے کی بنیاد پر بالا کوٹ کی جنگ لڑی گئی، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیرؒ نے جنگ لڑی، جنوبی پنجاب میں سردار احمد خان شہیدؒ نے جنگ لڑی، سرحدی علاقہ میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ نے جنگ لڑی، بیسیوں جنگیں ہوئیں۔ وہی جنگیں جب آگے بڑھیں تو پھر حضرت شیخ الہندؒ کے زمانے میں آخری جنگ کا منصوبہ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا جو ناکام ہوئی، اس کے بعد ہم عسکری جنگ سے سیاست کی طرف منتقل ہوئے۔ ایک عسکری جنگ ہوتی ہے، ایک علمی فکری جنگ ہوتی ہے، اور ایک سیاسی جنگ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کر کے عوامی قوت کی بنیاد پر انقلاب لایا جائے جسے سٹریٹ پاور اور لابنگ کی جنگ کہا جاتا ہے، اس کا آغاز ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ تک عسکری جنگیں رہی ہیں، بیسیوں جنگیں ہوئیں، لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جنگوں کا رخ بدلا کہ ہم عسکری لڑائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے، اب ہمیں سیاست، پولٹیکل جنگ، سٹریٹ پاور کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا۔ شیخ الہندؒ کے بعد اس کا رخ بدلا اور اب تک ہم اسی ٹریک پر ہیں۔ آخر میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ شاہ عبد العزیزؒ کے جس فتوے کی بنیاد پر تحریکیں چلیں، بیسیوں جنگیں ہوئیں، اور ڈیڑھ سو سال تک ہم گتھم گتھا رہے۔ اس فتوے میں دو جملے تھے کہ برصغیر پر نصارٰی کا تغلب ہو گیا ہے اور ان کے قوانین بلا روک ٹوک جاری ہیں اس لیے جہاد فرض ہے۔ اس فتوے کا اگر تجزیہ کریں تو اس کا پہلا جز یعنی نصارٰی کا تغلب تو اب ختم ہو گیا ہے، اب کوئی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نہیں ہے، لیکن فتوے کا دوسرا جز کہ انگریزوں کے قوانین بلاروک ٹوک جاری ہیں، اس کے متعلق اب دیکھنا ہو گا کہ یہ صورتحال ختم ہو گئی ہے یا اب بھی باقی ہے؟ اہل علم کے سامنے یہ میرا سوال ہے کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قوانین کس کے چل رہے ہیں؟ صرف قوانین نہیں، عدالتی اور انتظامی سسٹم کس کا ہے؟ انگریزوں کے قبضے سے پہلے یہاں شرعی قوانین ایک ہزار سال تک نافذ رہے ہیں۔ مغلوں، تغلق، شمس الدین التمش اور محمود غزنوی کے دور میں ایک ہزار سال ہماری حکومت رہی ہے، ان ادوار میں شریعت کے قوانین نافذ رہے ہیں، اور عدالتی نظام قضا کا رہا ہے۔ لیکن اب عدالتی سسٹم بھی وہی ہے، قوانین بھی وہی انگریزوں کے ہیں، اس لیے اہل علم سے میرا سوال رہتا ہے کہ کیا شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے پر عمل مکمل ہو گیا ہے یا ادھورا ہے؟ جب تک یہاں برطانوی عدالتی و انتظامی سسٹم ختم نہیں ہوتا اور جب تک برطانوی قوانین ختم نہیں ہوتے اس وقت تک وہ فتوٰی باقی ہے۔ ہاں طریقہ کار کی بات الگ ہے کہ عسکری جنگ نہ لڑیں لیکن جدوجہد ضرور کریں۔ ہتھیار نہ اٹھائیں لیکن نعرہ لگائیں۔ قتل قتال نہ کریں لیکن لابنگ کریں۔ اپنے موقف کو نہ چھوڑیں۔ میں جدوجہد کے طریقہ کار پر بات نہیں کر رہا، وہ جو آپ طے کر لیں، لیکن جدوجہد کے مقصد پر بات ضرور کروں گا کہ جب تک انگریزوں کے قوانین یہاں جاری ہیں اور جب تک ان کا انتظامی و عدالتی سسٹم قائم ہے، شاہ عبد العزیزؒ کا فتوٰی ہم سے جدوجہد جاری رکھنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ الحمد للہ! پاکستان بن گیا ہے، ہمارا آدھا کام ہو گیا ہے، اللہ تعالیٰ اسے سلامت رکھیں، استحکام بخشیں، برکات و ترقیات سے نوازیں۔ لیکن اس فتوے کی رو سے ہمارا آدھا کام ابھی باقی ہے کہ ہم نے نظام بدلنا ہے، قانون بدلنا ہے، شریعت کا قانون اور نظام لانا ہے۔ جب تک یہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا فتوٰی سٹینڈ کرتا ہے، اور ہمیں اس ملک کی خیر مناتے ہوئے، اس کے استحکام اور ترقی کے لیے کوشش کرتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، قربانیاں دیتے ہوئے اس فتوے کی تکمیل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
سال 2020 جہاں کھیل کی سرگرمیوں کے لیے برا رہا، وہاں کھیلوں سے وابستہ کئی شخصیات کی زندگیوں کا بھی آخری سال ثابت ہوا۔ ان کھلاڑیوں میں عظیم فٹ بالر ڈیاگو میراڈونا، پاکستان ہاکی ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی رشید جونئیر اور اولین پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑ ی وقار حسن بھی شامل تھے۔ معروف باسکٹ بال کھلاڑی کوبے برائنٹ کی موت ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہوئی، جب کہ آسٹریلین کرکٹر ڈین جونز دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ 2020 کھیلوں سے وابستہ کن اہم شخصیات کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ کوبے برائنٹ، 26 جنوری رواں سال کا آغاز ہی افسوس ناک خبر سے ہوا۔ جب 41 سالہ امریکی باسکٹ بال اسٹار اور سابق کھلاڑی کوبے برائنٹ اور ان کی تیرہ سالہ بیٹی جیانا ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ کوبے برائنٹ نے اپنے کریئر کے دوران امریکہ کی نمائندگی تو کی ہی، لیکن ان کی وجہ شہرت امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کی ٹیم 'لاس اینجلس لیکرز' کے ساتھ کریئر تھا۔ جس کے دوران انہوں نے کئی فتوحات اپنے نام کیں۔ وہ 'لیکرز' کی جانب سے پانچ ٹرافیاں جیتنے والی ٹیم کا حصہ بھی تھے۔ محمد مناف، 28 جنوری ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے فاسٹ بالر محمد مناف 84 سال کی عمر میں یورپی ملک ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں انتقال کر گئے۔ دائیں ہاتھ سے تیز بالنگ کرنے والے کھلاڑی نے نومبر 1959 میں آسٹریلیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ سے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کیا اور اپنے انٹرنیشنل کریئر کے دوران صرف چار میچز ہی کھیل سکے۔ وقار حسن، 10 فروری پاکستان کے لیے اولین ٹیسٹ میچ کھیلنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر وقار حسن بھی سال کے آغاز میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے 1952 میں بھارت کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا۔ 87 سالہ کرکٹر نے 21 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے ایک سینچری اور چھ نصف سنچریوں کی مدد سے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک ہزار رنز کا سنگِ میل بھی عبور کیا۔ ایورٹن ویکس، یکم جولائی مایہ ناز ویسٹ انڈین بیٹسمین اور مشہورِ زمانہ 'تھری ڈبلیوز' میں سے ایک سر ایورٹن ویکس، اس سال جولائی میں 95 سال کی عمر میں چل بسے۔ SEE ALSO: سال 2020 میں بچھڑنے والے پاکستانی فن کار کئی دنوں تک علیل رہنے والے کھلاڑی کے کارنامے آج بھی کرکٹ کے متوالوں کو یاد ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں مسلسل پانچ سینچریاں اسکور کرنے کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے۔ چیتن چوہان، 16 اگست بھارت کے سابق اوپننگ بیٹسمین چیتن چوہان کرونا کے باعث 73 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اپنے کریئر کے دوران انہوں نے زیادہ تر سنیل گواسکر کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا۔ سن 1969 سے 1981 کے درمیان انہوں نے 40 ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی نمائندگی کی اور بغیر کوئی سینچری بنائے 2237 رنز اسکور کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔ ڈین جونز، 24 ستمبر سابق آسٹریلوی بلے باز اور معروف کرکٹ کمنٹیٹر ڈین جونز 59 سال کی عمر میں بھارتی شہر ممبئی میں انتقال کر گئے۔ جہاں وہ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں کمنٹری کے لیے موجود تھے۔ 52 ٹیسٹ اور 164 ون ڈے میچز میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے والے ڈین جونز 1987 میں ورلڈ کپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ وہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں بھی کوچنگ کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی ٹیم ‘کراچی کنگز’ نے پہلی بار ٹائٹل اپنے نام کر کے یہ اعزاز ان سے منسوب کیا۔ رشید الحسن جونیئر، 5 نومبر سن 1968 اور 1972 کے اولمپک گیمز میں ٹاپ اسکورر رہنے اور 1984 میں پاکستان کو آخری بار اولمپکس میں سونے کا تمغہ جتوانے والے رشید جونیئر بھی رواں سال انتقال کرگئے۔ وہ 79 سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد اسلام آباد میں چل بسے۔ وہ اولین ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے رکن تو تھے ہی، جب انہوں نے کھیل کو خیرباد کہا تو اس وقت سب سے زیادہ 96 گول اسکور کر چکے تھے۔ کسی اور پاکستانی کھلاڑی نے اتنے گول اسکور نہیں کر رکھے تھے۔ ڈیاگو میراڈونا، 25 نومبر دنیائے فٹ بال کے عظیم کھلاڑی اور ارجنٹائن کو 1986 میں ورلڈ کپ جتوانے والے ڈیاگو میراڈونا رواں سال حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کر گئے۔ ساٹھ سالہ فٹ بالر نے 1986 میں ٹیم کو ورلڈ کپ میں کامیابی دلائی جب کہ انہی کی قیادت میں چار سال بعد ارجنٹائن کی ٹیم ورلڈ کپ فائنل میں پہنچنے میں بھی کامیاب رہی۔ پاؤلو روسی، 9 دسمبر اٹلی کو 1982 کا فٹبال ورلڈکپ جتوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے کھلاڑی پاؤلو روسی 64 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اسپین میں ہونے والے ایونٹ میں پاؤلو روسی نہ صرف بہترین کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے بلکہ ایونٹ کے ٹاپ اسکورر بھی رہے۔ وہ طویل عرصے سے بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد چل بسے۔ شاہد محمود، 13 دسمبر پاکستان کی انٹرنیشنل لیول پر نمائندگی کرنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر شاہد محمود امریکی ریاست نیو جرسی میں انتقال کر گئے۔ 81 سالہ آل راؤنڈر نے اپنا واحد ٹیسٹ میچ 1962 میں انگلینڈ کے خلاف ناٹنگھم کے مقام پر کھیلا تھا۔ وہ پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کی ایک ہی اننگز میں 10 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔
شب قدر وہ عظیم رات ہے جس رات میں کی جانے والی عبادت او رنیکیاں 83سال کی عبادتوں او رنیکیوں کے مماثل ہونگی۔ لہذا رمضان کے آخری دہے میں یہ پانچ عمل ضرورکریں۔ پہلا ہر رات کچھ نہ کچھ خیر خیرات کریں چاہئے ایک روپئے ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر یہ شب شب قدر ہے تو ثواب 83سال کا ملے گا۔ ہر رات میں قرآ ن مجید کی تلاوت کریں ۔ اگر یہ شب قدر ہے 83سال تک قرآن شریف کی تلاوت کا اجر ملے گا۔ رمضان کے آخری دس راتوں میں ذکر اللہ کا سلسلہ جاری رکھیں اگر یہ رات شب قد ر رہی تو 83سال کے ذکر کا اجر ملے گا۔ہر رات نماز تہجد کا اہتمام کریں‘ ہروہ شب شب قدر ہے تو 83سال تک نماز تہجد ادا کرنے کا موقع مل جائے۔ یہ دعا ”اللهم إنك عفو تحب العفو فاعفو عنى” ہر رات بے شمار مرتبہ پڑھیں‘ اللہ کے رسول ؐ نے شب قدر کے موقع پر اس دعاء کا ورد کرنے کی تلقین کی ہے۔
ڈسپوزایبل چہرے کے تولیے استعمال کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، جو چہرے کو دھونے، جلد کی دیکھ بھال، میک اپ ہٹانے وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ آپ ڈسپوزایبل چہرے کے تولیے کو کمپریس کو گیلا کرنے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں، جلد کی مدد کے لیے لوشن سے بھگونے کے بعد چہرے کو صاف کریں۔ ثانوی صفائی اور ایکسفولیئشن کے لیے، آپ چہرے کو تھپتھپانے کے لیے چہرے کے تولیے کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ لوشن لگانے کے بعد جذب ہونے میں مدد ملے۔ 1. جلد کی دیکھ بھال کے لیے ڈسپوزایبل چہرے کے تولیے استعمال کریں۔ ڈسپوزایبل چہرے کے تولیوں میں بہتر سختی ہوتی ہے اور ان کو درست کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ان میں پانی جذب کرنے کے اچھے اثرات بھی ہوتے ہیں اور مناسب سائز کے ہوتے ہیں۔انہیں بغیر فلوکیشن کے اپنی مرضی سے کاٹا جا سکتا ہے۔وہ گیلے کمپریسس کے لئے بہت اچھے ہیں.اور یہ چہرے کا ٹشو جلد کے لیے زیادہ موزوں ہے۔یہ چہرے کی جلد پر نرم ہے، اور روئی کے پیڈ کے گیلے کمپریس کو تبدیل کرنا بہت اچھا ہے۔ 2. ایکسپوزایبل چہرے کے تولیے کو ایکسفولیئٹ کرنے کے لیے استعمال کریں۔ چہرے کے تولیے کو ایکسفولیئٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔آپ ڈسپوزایبل چہرے کے تولیے پر لوشن ڈال سکتے ہیں، اور پھر چہرے کی جلد کو صاف کر سکتے ہیں، جس سے جلد کو ثانوی صفائی اور ایکسفولیئشن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔جلد کو کھینچنے سے روکنے کے لیے ہلکے سے مسح کرتے وقت عمل پر توجہ دیں۔ 3. لوشن لگانے کے لیے ڈسپوزایبل چہرے کا تولیہ استعمال کریں۔ جلد کی دیکھ بھال کے لیے چہرے کا تولیہ استعمال کرنا روئی کے پیڈ سے زیادہ بہتر ہے۔لوشن لگاتے وقت، آپ چہرے کے تولیے کا استعمال جلد کو چھونے کے لیے کر سکتے ہیں، تاکہ جلد کو ہاتھ سے جذب کرنے میں آسانی ہو اور یہ جلد کو مزید چمکدار بھی بنائے۔ 4. اپنا چہرہ دھوئیں اور ایک بار استعمال کے ساتھ میک اپ کو ہٹا دیں۔ روئی کے پیڈ پانی میں ڈوبنے کے بعد گانٹھ اور گرنے کا خطرہ رکھتے ہیں۔جب ہم اس طرح کے کاٹن پیڈ استعمال کرتے ہیں، تو یہ چھیدوں کو بلاک کر دیتا ہے اور ہماری جلد کو ثانوی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔خشک تولیہ میں مضبوط پانی جذب، خشکی نہ ہونے اور بڑے سائز کی خصوصیات ہوتی ہیں، جو روئی کے پیڈ کی خامیوں سے بالکل بچ جاتی ہیں۔مزید برآں، ایک خشک تولیہ کی قیمت کم از کم 6-8 سوتی پیڈ ہو سکتی ہے، جو کہ سستا اور استعمال میں آسان ہے۔
آسڑیلیا کے شہر سڈنی میں ایلس ریور برج کے قریب سائمنڈ کی کار بے قابو ہوکر الٹ گئی۔ سائمنڈز کی عمر 46 سال تھی۔ انہوں نے 1998 سے 2009 کے درمیان آسٹریلیا کے لیے 26 ٹیسٹ سمیت 238 میچ کھیلے۔ پولیس نے بتایا کہ حادثہ ہفتہ کی رات ٹاؤنس وِل سے 50 کلومیٹر دور ہیروے رینج میں پیش آیا۔ پولیس کے ایک بیان کے مطابق سائمنڈز جو کار چلا رہے تھے وہ بے قابو ہوکر پلٹ گئی۔ کوئنز لینڈ پولیس نے کہا کہ حادثے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ پولیس کے بیان میں کہا گیا، “ایمرجنسی سروسز نے 46 سالہ ڈرائیور اور واحد مکین کو زندہ بچانے کی کوشش کی، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔” کرکٹ آسٹریلیا (سی اے) کے چیئرمین لیچلان ہینڈرسن نے کہا کہ آسٹریلوی کرکٹ نے “اپنا ایک اور بہترین کھلاڑی” کھو دیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، “اینڈریو ایک نسل کا ٹیلنٹ تھا جس نے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی کامیابی اور کوئنز لینڈ کی کرکٹ تاریخ کے حصے کے طور پر اہم کردار ادا کیا۔” “آسٹریلوی کرکٹ کی جانب سے ہماری گہری ہمدردیاں اینڈریو کے اہل خانہ، ٹیم کے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ ہیں۔” سائمنڈز 2003 اور 2007 میں آسٹریلیا کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں کے رکن تھے اور 14 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے علاوہ 198 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں نظر آئے۔ اپنی دھواں دار بیٹنگ اور الیکٹرک فیلڈنگ کے لیے جانے جاتے تھے، وہ آف اسپن اور میڈیم پیس دونوں گیندیں کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ٹیم کے سابق ساتھی مارک ٹیلر نے چینل نائن کو بتایا کہ “ہر ایک نے اسے وائٹ بال کھلاڑی کے طور پر نامزد کیا تھا۔” وہ دنیا کو ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتا ہے اور اس نے ایسا کیا۔ سائمنڈز کی موت اس وقت ہوئی جب آسٹریلوی کرکٹ اب بھی ہمہ وقت کے عظیم کھلاڑی راڈ مارش اور شین وارن کے گزرنے کے صدمے سے دوچار تھی جو مارچ میں چل بسے تھے۔ سائمنڈز کا کیریئر کا سب سے زیادہ ٹیسٹ سکور 162 ناٹ آؤٹ بھارت کے خلاف ہے جو 2008 کے سڈنی میچ میں بنایا، اس میچ کے دوران وہ نسل پرستی تنازعہ کا شکار بنے۔ انیل کمبلے کی زیرقیادت کھیلنے والی بھارتی ٹیم نے اس سیریز کو چھوڑنے کی دھمکی دی تھی جب باؤلر ہربھجن سنگھ کو ایک میچ ریفری نے سائمنڈز کے ساتھ نسل پرستانہ بدسلوکی کرنے سے روکا تھا۔ بھارتی کرکٹر ہربھجن نے ٹویٹ کیا کہ “اینڈریو سائمنڈز کے اچانک انتقال کے بارے میں سن کر صدمہ ہوا، وہ بہت جلد چلا گیا۔ اہلخانہ اور دوستوں سے دلی تعزیت کرتا ہوں۔ کمبلے نے بھی ٹویٹر پر اظہار تعزیت کیا۔ پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر نے بھی اپنے دوست کی موت پر افسوس کا اظہار کیا۔ شعیب نے ٹویٹ کیا، “آسٹریلیا میں کار حادثے میں اینڈریو سائمنڈز کے انتقال کے بارے میں سن کر بہت مایوسی ہوئی۔” “ہم نے میدان کے اندر اور باہر ایک بہترین رشتہ شیئر کیا۔ ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔” کیٹاگری میں : اہم خبریں، بین الاقوامی، تازہ ترین، حادثات، کھیل Tagged آسٹریلوی کرکٹر، اینڈریو سائمنڈز، ٹریفک حادثہ، ہلاک
ترک شماریاتی مرکز کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوران بھی ایرانی شہری ترکی میں جائیداد خریدتے رہے اور مجموعی طور پر ڈھائی ہزار سے زائد گھر خریدے۔ ثمانہ قدر خان جمعہ 31 جولائی 2020 17:30 ایران میں ایک ایرانی شہری تقریباً 50 کروڑ تومان میں بھی مکان نہیں خرید سکتا جبکہ ترکی میں وہ اس رقم سے ایک مکان کا مالک ہوسکتا ہے اور یہاں کی شہریت بھی اختیار کر سکتا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی) 2020 کے پہلے چھ ماہ میں ایرانی شہریوں نے دوسرے غیر ملکیوں کے مقابلے میں ترکی میں سب سے زیادہ جائیداد خریدی جبکہ ایرانیوں کے بعد حالیہ برسوں میں عراقی بھی ترکی میں جائیداد کے سب سے زیادہ خریدار رہے ہیں۔ ترکی کی اناطولیہ خبر رساں ایجنسی نے ترک شماریاتی مرکز کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران بھی ایرانی شہری ترکی میں جائیداد خریدتے رہے۔ ترکی میں سرمایہ کاری اور امیگریشن کے ایک مشیر نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ کرونا بحران کے دوران ایرانی شہریوں کی جانب سے ملک میں جائیداد کی خریداری میں اضافہ نمایاں تھا۔ مشیر نے بتایا: ’کرونا کے پھیلاؤ اور وائرس پر قابو پانے کے لیے ترک حکومت کی بہترین کارکردگی نے ایرانیوں بہت متاثر کیا ہے جس کے بعد ان کی جانب سے ملک میں جائیداد کی خریداری میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔‘ دوسری جانب ترکی کے مقابلے میں ایران میں جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافے سے ترکی میں ایرانی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں رہائش کے لیے قرض پر شرح سود ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ترک مشیر کے مطابق: ’ایران میں ایک ایرانی شہری تقریباً 50 کروڑ تومان میں بھی مکان نہیں خرید سکتا جبکہ ترکی میں وہ اس رقم سے ایک مکان کا مالک ہوسکتا ہے اور یہاں کی شہریت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ دوسری طرف طلب میں اضافے اور ترکی میں تعمیرات میں اضافہ بھی اس ملک کی رہائشی مارکیٹ میں خوشحالی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانیوں کے اس ملک میں جائیداد خریدنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔‘ ایک ماہر کے مطابق 2020 کے بعد سے سیاحوں کے ملٹی پل ویزوں کی تجدید پر پابندی کو ایرانیوں کی ترکی میں جائیداد کی خریداری میں اضافے کی ایک اہم وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’ترک حکومت کے نئے قانون کے مطابق 2020 سے سیاح صرف ایک سال کے لیے ترکی میں مکان کرائے پر لے سکیں گے اور دوسرے سال سے انہیں اس ملک میں مکان کرائے پر لینے کا حق نہیں ہوگا۔‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) حالیہ برسوں کے دوران ایران میں ترکی اور دبئی جیسے ممالک میں پراپرٹی کی خریداری کے حوالے سے اشتہارات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایران میں سیٹلائٹ نیٹ ورکس سے لے کر اخبارات اور پرنٹ میگزین تک سب ایسے اشتہاروں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن حال ہی میں سائبر سپیس میں ایسے اشتہاروں میں اضافہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ترکی کے لیے شہریت حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں جن میں ملک میں کم سے کم ڈھائی لاکھ ڈالر مالیت کی جائیداد خریدنا، ترکی کے سرکاری ملکیت والے بینکوں میں پانچ لاکھ ڈالر ڈپازٹ کرانا اور کاروبار شروع کرنا یا ایک فیکٹری تیار کرنا جس میں 50 ترک شہریوں کو ملازمت دینا شامل ہے۔ ایسے غیر ملکی افراد کو تین سال تک ترکی میں رہنا پڑے گا اور اس عرصے کے بعد وہ اپنا مکان، ڈپازٹ کی گئی رقم اور فیکٹری واپس لے سکتے ہیں اور اس کے باوجود وہ ترک پاسپورٹ اور اپنی ترک شہریت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ نے بھی ایرانیوں کو ترکی میں سرمایہ کاری کرنے سے نہیں روکا ہے۔ ترکی کے اعدادوشمار کے مرکز کے مطابق اس عرصے کے دوران ایرانی ترک جائیدادیں خریدنے والا سب سے بڑا غیر ملکی گروہ تھا جنہوں نے دو ہزار 628 مکانات خریدے تھے۔ اس کے بعد عراق، چین، آذربائیجان اور روس کے شہریوں نے ترکی میں سب سے زیادہ جائیدادیں خریدیں۔ ترکی کی خوشحال صورت حال کے باعث ایرانیوں کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک کے لوگ بھی اس ملک میں جائیداد خرید رہے ہیں۔ ماہر کے مطابق: ’ہمارے پاس ایک گاہک تھا جو سات لاکھ ڈالر میں ایک پراپرٹی خریدنے میں ہچکچا رہا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد ایک عراقی سرجن نے یہ پراپرٹی زیادہ قیمت پر خریدی لی۔ لبنانی، سعودی اور روسی شہری بھی ترکی میں جائیداد کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔‘ دوسری جانب اناطولیہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں کرونا پھیلنے کے بعد غیر ملکیوں کی ملک میں جائیداد خریدنے کی خواہش کم ہوئی ہے۔ شماریاتی ادارے کے مطابق 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں مجموعی طور پر ترک رہائش اور شہریت حاصل کرنے کے مقصد کے لیے غیر ملکیوں کی گھروں کی خریداری میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 29 فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ترکی میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش میں کمی کا اطلاق ایرانی شہریوں پر نہیں ہوتا جہنوں نے وبا کے دوران ترکی سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ترکی کے شماریات ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق استنبول غیر ملکیوں میں مکانات خریدنے کے لیے سب سے زیادہ باعث کشش شہر ہے اور اس عرصے میں چھ ہزار 902 مکان اسی شہر میں خریدے گئے۔ استنبول کے بعد انتالیا اور انقرہ غیر ملکیوں کے لیے سب سے پسندیدہ شہر ہیں۔ استنبول میں 36 شہری اور دیہی علاقے ہیں، جن میں 25 علاقے یورپی حصے اور 14 علاقے ایشیائی حصے میں واقع ہیں۔
اسلام آباد: صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسلٹ (پی ایف یو جے) نے مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں میڈیا اشتہار روکنے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اسے آزادی صحافت پر قدغن قرار دے دیا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے میڈیا کو اشتہارات دینے سے متعلق انکشاف پر ہر طرف ہنگامہ برپا ہے۔ اب صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جےنے ن لیگ دور میں میڈیا کو اشتہا رروکنےکی کوششوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ پی ایف یو جے کے صدر صدرشہزادہ ذوالفقار، نائب صدر لالا اسدپٹھان، سیکریٹری جنرل ناصرزیدی نے مشترکہ بیان اعلامیے کی صورت میں جاری کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ناپسندیدہ چینلز کے اشتہارروکنےکا مریم نواز کا اعتراف افسوسناک ہے، مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں پریس کی آزادی کمزورکرنےکی کوشش کی گئی، پی ایف یوجے پریس کی آزادی روکنےکے اقدامات کی مخالف ہے۔ مزید پڑھیں: ن لیگ کے دور حکومت میں‌ دیئے جانے والے اشتہارات کی تفصیلات جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پریس کی آزادی روکنےکیلئے کسی میڈیا آؤٹ لیٹ کےاشتہار روکنےکا اقدام قبول نہیں کیونکہ یہ میڈیا کو معاشی طور پر کمزور کرنے کا اقدام ہے۔ پی ایف یو جے نے کہا کہ سیاسی جماعتیں، حکومت کو اشتہارات کو روکنےکےاقدامات نہیں کرنے چاہیئں، حکومتوں، سیاسی جماعتوں کو اپنی ماضی کی غلطیوں سےسیکھناچاہیے۔ صحافی تنظیم نے مطالبہ کیا کہ حکومتیں،سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے کے لیے میڈیا پر دباؤنہ ڈالیں، میڈیا پر غلطیوں کی نشاندہی سے حکومتوں، سیاسی جماعتوں کو تصیح کا موقع ملتا ہے۔
اسلام آباد: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بِلوں کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دونوں بلز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیے۔ انسداد عصمت دری سے متعلق بل پیش کرنے سے قبل ان کا کہنا تھا کہ یہ بل ملک میں عصمت دری کے واقعات میں کمی لانے کے انتہائی موثر ثابت ہوگا۔ بل پر بحث کے دوران وزیر قانون زاہد حامد نے انکشاف کیا کہ اس بل کے قانون میں تبدیل ہونے کے بعد عصمت دری کے مقدمات میں ملزم کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ لازم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عصمت دری کے مقدمات کا 3 ماہ میں فیصلہ سنایا جائے گا، جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق 6 ماہ تک ہوگا۔ زاہد حامد نے مزید کہا کہ عصمت دری کے مقدمات میں پولیس اسٹیشن متاثرہ خاتون کو ان کے قانونی حقوق سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ اس بات کو لازم بنایا گیا ہے کہ ایسے مقدمات میں مجرم کو کم از کم 25 سال کی سزا سنائی جائی۔ وزیر اعظم کا بل پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ وزیر اعظم نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور ہونے پر پارلیمنٹ اور قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے بل پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل منظور ہونے پر پارلیمنٹ، این جی اوز، سول سوسائٹی، میڈیا اور ان تمام افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس حوالے سے قانون سازی کے لیے ہماری حمایت کی۔‘ نواز شریف نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل ان اہم مسائل میں سے ہے جن کا ملک کو سامنا ہے، تاہم حکومت معاشرے سے اس داغ کو مٹانے کے لیے ہم ممکن اقدام اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہم اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوئے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں۔‘ واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بل اتفاق رائے سے منظور کیے تھے۔ اجلاس کے بعد زاہد حامد نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے، تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہوگی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہوسکے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اب انسداد عصمت دری کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا، جبکہ انسداد عصمت دری کے واقعات میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی، جبکہ جیل میں عصمت دری کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔ زاہد حامد نے بتایا کہ بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ اس کی رضامندی سے جبکہ ملزم کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگا۔ خاندان کی عزت کی خاطر خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث، حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کے لیے سخت دباؤ کا سامنا تھا۔ دونوں ایوانوں کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے ان بِلوں کی منظوری معروف ماڈل قندیل بلوچ کے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے بعد دی گئی تھی۔ قندیل بلوچ کو رواں سال 16 جولائی کو ان کے بھائی وسیم نے غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔ ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) کے مطابق قندیل بلوچ گذشتہ ایک ہفتے سے ملتان کے علاقے گرین ٹاؤن، مٖظفرآباد میں رہائش پزیر تھیں، جہاں ان کے بھائی نے انھیں مبینہ طور پر گلا دبا کر قتل کیا، تاہم ان کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود نہیں تھے۔
Peshawar(94 news) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم میں عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تھا۔ پشاور میں تقدس حرم نبوی ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے جبراََ اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے کئی عرب ممالک کو آمادہ کیا،اس مہم میں عمران خان نے ٹرمپ کا ساتھ دیا،کراچی کی کانفرنس نے ان کی زبان بندی کی جس کے بعد آج تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا ہے کہ مسجد نبوی میں بے حرمتی کے واقعے کے وقت پی ٹی آئی کے انیل مسرت اور صاحبزادہ جہانگیر کس نیت سے وہاں موجود تھے، برطانیہ میں پی ٹی آئی کا صدر ہنگامہ کروانے کیلئے مدینہ منورہ آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنی شکل دیکھو پھر ریاست مدینہ کی بات کرو،مجھے گالی دیتے رہتے ہو برداشت کرتا ہوں، ناموس رسالتﷺ پر برداشت اور تحمل کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمیعت علماء اسلام والے تمہیں پاکستان سے نکالیں گے،مانتا ہوں کہ واقعہ سعودی عرب میں ہوا ہوا لیکن دل آزاری پاکستان اور پوری دنیا کی ہوئی۔دل آزاری کرنے والا پاکستانی تھا، پاکستانی کی حیثیت سے میری دل آزاری ہوئی میں فریاد کہاں لے کر جاؤ۔اس سے قبل کارکنون سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک مخصوص لابی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں تھی، آپ کی آواز پر پاکستان میں کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اجرت نہ کرسکا، ہماری کاوشوں نے اس لابی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مؤقف سے پیھچے ہٹنے پر مجبور کردیا، پاکستان میں یہودیوں کے ایجنٹوں کو کراچی کے سمندر میں دفن کردیں گے۔ پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اسی لابی کے حامیوں نے مسجد نبوی ﷺ کی بے حرمتی کرائی، ناموس رسالت ﷺ پر جانیں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے پاکستان کی سیاست بدنام ہوگئی، کارکردگی کے لحاظ سے نااہل ثابت ہوئے اور دماغی طور پر بیمار ظاہر ہوئے۔انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان اچھا ہوا تم اقتدار میں آئے سب کے سامنے بے نقاب ہوئے، ہمیں ان کے جلسوں سے نہیں ڈرنا چاہیے، میری شرافت مجھے اس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی، پاکستان کی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ مراسلہ جھوٹ ہے۔ More More Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email Print