text
stringlengths
332
578k
کراچی: آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد انٹر بینک میں ڈالر 2 روپے 19 پیسے سستا ہوکر 173.05 روپے پر آگیا۔ تفصیلات کے مطابق انٹر بینک میں آئی ایم ایف کی خبر آنے کے فورا بعد ہی روپے کی قدر میں ڈالر ڈھائی روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں 2 روپے 19 پیسے کمی ریکارڈ کی گئی ، جس کے بعد ڈالر 175.24 روپے سے کم ہوکر 173.05روپے پر آگیا۔ فاریکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر173 روپے 80 پیسے پر فروخت ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹر مارکیٹ کھلتے ہی پینک سیلنگ دیکھنے میں آئی اور پھر ڈالر دوبارہ مضبوط ہونا شروع ہو گیا۔ فاریکس ڈیلرز کا کہنا تھا کہ جمعہ کو انٹر بینک میں ڈالر 175 روپے 24 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک 175 روپے10 پیسے پربند ہوا تھا۔ یاد رہے پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی اگلی قسط جاری کی جائے گی۔ آئی ایم ایف 6 ارب ڈالرکاقرض پروگرام بحال کرنے پر آمادہ ہوگیا اور کہا ہے کہ کورونا وبا کے خلاف پالیسی اقدامات سے مضبوط معاشی بحالی ہوئی، ایف بی آرکےٹیکس محاصل مضبوط رہے۔
نامور ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی 12 مارچ 1932ء کو کانپور میں پیدا ہوئے۔ کشفی صاحب نے ایک ایسے خانوادے میں آنکھ کھولی جو پشتوں سے علم و ادب اور شعر و سخن کا گہوارہ رہا ہے۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر ایک عالم دین بزرگ تھے جو عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر مکمل قدرت رکھتے تھے۔ ان کے والد سید ابو محمد ایک نامور شاعر تھے اور ثاقب تخلص کرتے تھے۔ کشفی صاحب کے تایا سید محمد ہاشم جامعہ عثمانیہ میں دینیات کے پروفیسر تھے۔ وہ بھی شاعر تھے اور رسواؔ تخلص کرتے تھے۔اس دور کے بڑے بڑے نامور شاعر، ادیب جب بھی کانپور آتے تو اکثر ثاقب کانپوری کے مہمان ہوتے تھے اور اس طرح ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی صاحب کو بھی ایسے علمی ادبی لوگوں کی صحبت میسر آئی۔ کشفی صاحب کی تعلیم و تربیت گھر کے ماحول میں ہوئی۔ 1947ء میں انہوں نے حلیم مسلم کالج سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اسی زمانے میں ملک تقسیم ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہاں آکر انہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ 1952ء میں انہوں نے جامعہ کراچی سے پہلی پوزیشن میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ 1967ء میں نیویارک سے ’’ انگریزی کی تدریس بحیثیت غیر ملکی زبان‘‘ کے موضوع پر ایک اور ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ 1971ء میں انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’اردو شاعری کا تاریخی و سیاسی پس منظر 1707ء سے1857ء‘‘ تھا۔ ایم اے کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب تدریس کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ ابتدا میں وہ اسلامیہ کالج کراچی میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ اس کے بعد 1959ء میں وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے۔اس شعبہ میں ڈاکٹر صاحب نے دو مرتبہ بحیثیت سر براہ اپنی خدمات انجام دیں۔ کشفی صاحب تین سال جاپانی یونیورسٹی میں بھی پروفیسر رہے۔ 18 فروری 1992ء کو جامعہ کراچی کی باقاعدہ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا۔ وہ کانپور کے زمانے ہی سے متعدد علمی و ادبی رسالوں کی مجلس ادارت میں شامل رہے ہیں مثلاً ’’ مضراب‘‘ کانپور،’’ قومی زبان‘‘ کراچی، ’’ مہر نیمروز‘‘ کراچی، ’’منزل نیویارک‘‘ اور ’’اردوئے معلی‘‘ جاپان۔ مجلس مطبوعات و تحقیقات اردو کراچی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے تقریباً بارہ کتابوں کی تالیف و اشاعت کی نگرانی کی۔ تنقید و تحقیق ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر تقریباً بتیس کتابیں تالیف یا مرتب کر چکے ہیں۔ ابو الخیر کشفی ایک بلند پایہ تنقید نگار ہیں۔ وہ تنقید نگاری کی اعلیٰ روایت کے پاسدار ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے ایک منفرد راستہ منتخب کرتے ہیں۔ وہ ادب میں آفاقیت کے متلاشی تھے اور اسی کو ادب عالیہ پر محمول کرتے تھے جو زمان و مکان کی حدود اور قیود سے آزاد ہو۔ کشفی صاحب کی تنقیدیں تخلیق کا اعلیٰ نمونہ ہیں جو زبان کی شگفتگی اور محاورات کی برجستگی کے ساتھ ساتھ سلاست اور روانی کا ایک نادر نمونہ ہیں اور قاری کے ذہن پر جمالیاتی تاثر چھوڑتی ہیں۔ ابوالخیر کشفی اسلام او ر شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ وہ اسلام کو محض ایک دین ہی نہیں بلکہ ایک آفاقی حقیقت مانتے تھے اور اس کے اصولوں کو صداقتوں کا بہترین معیار مانتے تھے۔ —— یہ بھی پڑھیں : ساحر لدھیانوی کا یومِ پیدائش —— کشفی صاحب اردو کی تعلیم دینے کے سلسلے میں ٹوکیو ( جاپان) تشریف لے گۓ ۔ ان کے ایک شاگرد "تاکا سان” کراچی تشریف لاۓ اور کشفی صاحب کے ہاں قیام فرمایا ۔ وہ کشفی صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ عمل سے اتنے متاثر ہوۓ کہ اسلام قبول کر لیا۔ کشفی صاحب کی کوشش سے "اتاکاسان” کی شادی بھی ان کی اپنی بھانجی سے ہوئی اور اتاکاسان کو کشفی صاحب کا ایک فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈاکٹر احمد مرزا جمیل صاحب لکھتے ہیں : چین میں ” نوری نستعلیق” کا چرچا ہوا ہے ۔ یہ خوش خبری ایک صاحب نے سنائی کہ جب ریڈیو بیجنگ میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ نے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی سے پوچھا کہ اردو کے سلسلے میں آپ کے پاس سب اہم خبر کیا ہے تو انھوں نے بے ساختہ کہا ” نوری نستعلیق”۔ اس طرح 1981ء میں کشفی کے نام سے واقف ہوا ۔ کراچی آۓ تو ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا،اور میں نے انھیں کمپوٹری کتابت کے عشق میں مبتلا پایا ۔ انھوں نے اس ایجاد کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کرانے کا خود ہی ذمہ لے لیا ۔ کہنے لگے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو علم کے نور سے روشن کرنا چاہتے ہیں اور نظر اور خبر کی دنیا میں دنیا کی امامت کے خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں تو ہمارا راستہ ” نوری نستعلیق” سے ہو کر گزرے گا۔ پھر جب اپنے چاروں طرف انھیں کوئی خاص ردِعمل نظر نہیں آیا ، بلکہ بیشتر مقامات پر انا اور کبرِ ذات کے صنم ملے تو کشفی صاحب نے کمر کس لی ، خطوط لکھے ، اکابر و مشاہیر کو جگایا ، بہت سوں کو تو علم ہی نہ تھا کہ اردو کو کمپوٹر کی سواری مل گئی ہے ۔ پلک جھپکنے میں کتاب چھپ سکتی ہے۔ کشفی صاحب کو شعر و سخن سے بھی بڑا لگاؤ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے پابند اور آزاد دونوں قسم کی شاعری کی ہے۔ علمی و تصنیفی کاوشوں کے صلے میں 1975ء میں ڈاکٹر صاحب کو ان کی کتاب ’’شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر‘‘ پر داؤد ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 1991ء میں صدر پاکستان کی طرف سے ’’حیات محمدی: قرآن مجید کے آئینے میں‘‘ قومی سیرت ایوارڈاور نشان عظمت ایوارڈ اور 1993ء میں قائداعظم ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
www.adilabbasi.com پہ ہماری ایک بنیادی ترجیح ہمارے زائرین کی رازداری ہے۔ رازداری کی اس پالیسی دستاویز میں معلومات کی اقسام ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعہ اکٹھا اور ریکارڈ کی جاتی ہیں اور ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اضافی سوالات ہیں یا ہماری رازداری کی پالیسی کے بارے میں مزید معلومات کی ضرورت ہے تو ہم سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ نہ کریں۔ رازداری کی یہ پالیسی صرف ہماری آن لائن سرگرمیوں پر لاگو ہوتی ہے اور ہماری ویب سائٹ پر آنے والے زائرین کے لئے وہ معلومات قابل اعتبار ہے جس میں انہوں نے اس ویب سائٹ میں اشتراک کیا اور / یا اکٹھا کیا۔ یہ پالیسی آف لائن یا اس ویب سائٹ کے علاوہ کسی اور چینل کے ذریعے جمع کی جانے والی کسی بھی معلومات پر لاگو نہیں ہے۔ رضامندی ہماری ویب سائٹ کا استعمال کرکے آپ اس کے ذریعہ ہماری رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں اور اس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ معلومات جو ہم جمع کرتے ہیں آپ کو جو ذاتی معلومات فراہم کرنے کے لئے کہا جاتا ہے اور اس کی وجوہات آپ کو کیوں فراہم کرنے کے لئے کہا جاتا ہے اس وقت آپ کو واضح کردیا جاتا ہے جب ہم آپ سے اپنی ذاتی معلومات فراہم کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر آپ ہم سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں تو ہم آپ کے بارے میں اضافی معلومات موصول کرسکتے ہیں جیسے آپ کا نام ، ای میل پتہ ، فون نمبر ، پیغام کے مندرجات اور / یا ملحقات جو آپ ہمیں بھیج سکتے ہیں ، اور کوئی دوسری معلومات آپ فراہم کرسکتے ہیں۔ جب آپ کسی اکاؤنٹ کے لئے اندراج کرتے ہیں تو ، ہم آپ سے رابطے سے متعلق معلومات طلب کرسکتے ہیں ، بشمول آئٹمز جیسے نام ، کمپنی کا نام ، پتہ ، ای میل ایڈریس ، اور ٹیلیفون نمبر۔ ہم آپ کی معلومات کو کس طرح استعمال کرتے ہیں ہم جو معلومات اکٹھا کرتے ہیں اسے مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں ، بشمول: ہماری ویب سائٹ چلائیں اور اس کو برقرار رکھیں ہمارے ویب سائٹ کو بہتر بنائیں ، منفرد بنائیں اور اسے وسعت دیں سمجھیں اور تجزیہ کریں کہ آپ ہمارے ویب سائٹ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں نئی مصنوعات ، خدمات ، خصوصیات اور فعالیت کو تیار کریں آپ سے براہ راست یا ہمارے شراکت داروں میں سے کسی کے ذریعہ ، بشمول کسٹمر سروس کے ذریعے ، آپ کو ویب سائٹ سے متعلق تازہ کاریوں اور دیگر معلومات فراہم کرنے کے لئے ، اور مارکیٹنگ اور تشہیری مقاصد کے لئے بات چیت کریں۔ آپ کو ای میل بھیجیں دھوکہ دہی تلاش کریں اور اس سے بچیں لاگ فائلیں ہماری ویب سائٹ لاگ فائلوں کو استعمال کرنے کے ایک معیاری طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ جب یہ ویب سائٹ ملاحظہ کرتے ہیں تو یہ فائلیں زائرین کو لاگ ان کرتی ہیں۔ تمام ہوسٹنگ کمپنیاں یہ کام کرتی ہیں اور ہوسٹنگ سروسز کے تجزیات کا ایک حصہ۔ لاگ فائلوں کے ذریعہ جمع کردہ معلومات میں انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریس ، براؤزر کی قسم ، انٹرنیٹ سروس پرووائڈر (آئی ایس پی) ، تاریخ اور وقت کا ڈاک ٹکٹ ، حوالہ / خارج ہونے والے صفحات اور ممکنہ طور پر کلکس کی تعداد شامل ہے۔ یہ کسی ایسی معلومات سے منسلک نہیں ہیں جو ذاتی طور پر قابل شناخت ہیں۔ معلومات کا مقصد رجحانات کا تجزیہ ، سائٹ کا انتظام ، ویب سائٹ پر صارفین کی نقل و حرکت سے باخبر رہنے اور آبادیاتی معلومات جمع کرنا ہے۔ گوگل ڈبل کلک ڈارٹ کوکیز گوگل ہماری سائٹ پر تیسرا فریق فروش ہے۔ یہ کوکیز ، جسے ڈارٹ کوکیز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، کا استعمال ہماری سائٹ کے ملاقاتیوں کے اپنے ویب سائٹ اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر سائٹوں کے اشتہار پیش کرنے کے لئے کرتا ہے۔ تاہم ، زائرین درج ذیل یو آر ایل پر گوگل اشتہار اور مواد کے نیٹ ورک کی رازداری کی پالیسی ملاحظہ کرکے ڈارٹ کوکیز کے استعمال کو رد کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں – https://polferences.google.com/technologies/ads اشتہاری شراکت داروں کی رازداری کی پالیسیاں آپ اس ویب سائٹ کے ہر اشتہاری شراکت دار کی رازداری کی پالیسی تلاش کرنے کے لیے اس فہرست سے رجوع کرسکتے ہیں۔ تھرڈ پارٹی کے اشتہار سرورز یا اشتہاری نیٹ ورکس کوکیز ، جاوا اسکرپٹ ، یا ویب بیکن جیسی ٹکنالوجی استعمال کرتی ہیں جو اپنے متعلقہ اشتہارات اور ہماری ویب سائٹ پر دکھائے جانے والے لنک میں استعمال ہوتی ہیں ، جو براہ راست صارفین کے براؤزر پر بھیجے جاتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ خود بخود آپ کا IP پتہ وصول کرتے ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کا استعمال ان کی اشتہاری مہمات کی تاثیر کی پیمائش اور / یا اشتہاری مواد کو ذاتی نوعیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو آپ اپنی ویب سائٹوں پر دیکھتے ہیں۔ نوٹ کریں کہ ہماری ویب سائٹ کی ان کوکیز تک رسائی یا ان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جو تیسرا فریق مشتھرین استعمال کرتے ہیں۔ تیسری پارٹی کی رازداری کی پالیسیاں ہماری ویب سائٹ کی رازداری کی پالیسی کا اطلاق دوسرے مشتہرین یا ویب سائٹوں پر نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح ، ہم آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مزید مفید معلومات کے لئے ان تیسری پارٹی کے اشتہار سرورز کی متعلقہ پرائیویسی پالیسیوں سے رجوع کریں۔ اس میں ان کے طریق کار اور ہدایات شامل ہوسکتی ہیں کہ کچھ اختیارات سے آپٹ آؤٹ کیسے کریں۔ آپ اپنے انفرادی براؤزر کے اختیارات کے ذریعہ کوکیز کو غیر فعال کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ مخصوص ویب براؤزرز کے ساتھ کوکی مینجمنٹ کے بارے میں مزید تفصیلی معلومات جاننے کے ل it ، یہ براؤزر سے متعلقہ ویب سائٹ پر پایا جاسکتا ہے۔ سی سی پی اے رازداری کے حقوق (میری ذاتی معلومات مت بیچیں) دیگر حقوق کے علاوہ ، سی سی پی اے کے تحت ، کیلیفورنیا کے صارفین کو یہ حق حاصل ہے: درخواست کریں کہ وہ کاروبار جو صارف کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے وہ صارفین کے بارے میں جمع کردہ ذاتی اعداد و شمار کے زمرے اور مخصوص ٹکڑوں کا انکشاف کرے۔ درخواست کریں کہ کاروبار کے ذریعہ کاروبار کے ذریعہ کوئی ذاتی ڈیٹا حذف ہوجائے جو کاروبار نے اکٹھا کیا ہے۔ درخواست کریں کہ ایسا کاروبار جو صارف کا ذاتی ڈیٹا بیچتا ہو ، صارف کا ذاتی ڈیٹا فروخت نہ کرے۔ اگر آپ کوئی درخواست کرتے ہیں تو ، ہمارے پاس آپ کو جواب دینے کے لئے ایک مہینہ ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی بھی حق کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ، براہ کرم ہم سے رابطہ کریں۔ جی ڈی پی آر ڈیٹا پروٹیکشن رائٹس ہم یہ یقینی بنانا چاہیں گے کہ آپ اپنے کوائف سے متعلق سبھی حقوق سے باخبر ہیں۔ ہر صارف درج ذیل کا حقدار ہے: رسائی کا حق – آپ کو اپنے ذاتی ڈیٹا کی کاپیاں طلب کرنے کا حق ہے۔ اس خدمت کے لیے ہم آپ سے تھوڑی سی فیس وصول کرسکتے ہیں۔ تصحیح کا حق۔ آپ کو یہ درخواست کرنے کا حق ہے کہ ہم کسی بھی ایسی معلومات کو درست کریں جس کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ غلط ہے۔ آپ کو یہ درخواست کرنے کا بھی حق ہے کہ ہم ان معلومات کو مکمل کریں جو آپ کے خیال میں نامکمل ہیں۔ مٹانے کا حق۔ آپ کو یہ درخواست کرنے کا حق ہے کہ ہم کچھ مخصوص شرائط کے تحت آپ کے ذاتی ڈیٹا کو مٹادیں۔ پروسیسنگ پر پابندی لگانے کا حق۔ آپ کو یہ درخواست کرنے کا حق ہے کہ ہم کچھ مخصوص شرائط کے تحت آپ کے ذاتی ڈیٹا کی کارروائی پر پابندی لگائیں۔ پروسیسنگ پر اعتراض کرنے کا حق – آپ کو کچھ شرائط کے تحت اپنے ذاتی ڈیٹا کی ہماری پروسیسنگ پر اعتراض کرنے کا حق ہے۔ ڈیٹا پورٹیبلٹی کا حق۔ آپ کو یہ درخواست کرنے کا حق ہے کہ ہم کچھ شرائط کے تحت جو ڈیٹا ہم نے اکٹھا کیا ہے اسے یا کسی اور تنظیم کو منتقل کیا ہے۔ اگر آپ کوئی درخواست کرتے ہیں تو ، ہمارے پاس آپ کو جواب دینے کے لئے ایک مہینہ ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی بھی حق کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ، براہ کرم ہم سے رابطہ کریں۔ بچوں کی معلومات ہماری ترجیح کا ایک اور حصہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہم والدین اور سرپرستوں کو ان کی آن لائن سرگرمی کی مشاہدہ ، حصہ لینے ، اور / یا نگرانی اور رہنمائی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ جان بوجھ کر 13 سال سے کم عمر بچوں سے کوئی ذاتی پہچاننے والی معلومات جمع نہیں کرتی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے نے ہماری ویب سائٹ پر اس قسم کی معلومات فراہم کیں تو ہم آپ کو فوری طور پر ہم سے رابطہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ہم فوری طور پر اپنی پوری کوشش کرینگے۔ ایسی معلومات ہمارے ریکارڈوں سے ہٹائیں۔
حق وہی ہے جو نبی علیہ السلام اسلام کے پیغام کے ساتھ لے کر آئے، جو تمام انسانیت کے لئے رحمت، بھلائی، امن وامان ،ہم آہنگی اور سلامتی کا پیغام ہے ۔ حق،بھلائی اور وسطیت کا ساتھ دینا، اسلامی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے اور بھلائی اور امن کے معاون بین الاقوامی معاہدات کے عالمی حمایت میں معاونت کرتاہے۔ امت میں منہجِ اعتدال کی نشر واشاعت اور امت کے نوجوانوں کی فکری انحراف سے حفاظت ،علماء پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کانفرنس کی سفارشات ،دنیا میں اسلام کی ساکھ بہتر بنانے کی طرف پہلا قدم ہے۔ Wednesday, May 29, 2019 - 14:43 متعلقہ موضوعات جامعہ کولمبیا نیویارک کی جانب سے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد العیسی کے لئے نفرت کے خاتمے کے موضوع پر عالمی سمپوزیم کی میزبانی رابطہ عالم اسلامی کاجامعہ کولمبیا نیویارک کے ساتھ شراکت داری معاہدے پر دستخط اور عالمی بین المذاہب تجربہ گاہ کا افتتاح
یومِ دفاع اور شہداء کی تقریب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا اعتراف کیا تو دوسری جانب ایک بار پھر آئندہ اس مداخلت سے دور رہنے کا اعلان بھی کیا۔ آرمی چیف کے اس بیان کو غلطیوں کا اعتراف قرار دے کر قابل تحسین اقدام کہا جارہا ہے۔ آج نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی اور پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ کی میزبان عاصمہ شیرازی کہ فوج کو مداخلت کا احساس ہونا اچھی بات ہے، امید ہے غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد جو ہائبرڈ رجیم بنایا گیا اس کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر گرایا جاتا رہے گا، جو صورتِ حال بنائی جا چکی ہے اس کے اثرات قائم رہیں گے۔ اپنے خطاب میں آرمی چیف نے 1971 کی جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ”سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔“ آرمی چیف کے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ”اس موقع پر یہ بات نہ کرتے تو زیادہ مناسب تھا۔“ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ”71 میں جو انہوں نے تقسیم کی ناکامی سیاسی لوگوں پر ڈال دی تو میرے خیال سے فیکچوئلی بھی اس پر بہت سارے اعتراضات موجود ہیں، کیونکہ جنرل ایوب کے دور اور اس کے بعد سے جو پالیسیز رہیں، اور ون یونٹ کا فال آؤٹ، فال آف بنگال اور فال آف مشرقی پاکستان کی صورت میں نکلا تھا، یہ ملٹری کی ناکامی سمجھی جاتی ہے اور خود بڑے بڑے ایڈیٹوریلز نے اس پر لکھا ہے، ہسٹوریکلی (تاریخی طور پر) بھی یہ غلط ہے، اس طرح اس موقع پر اس کو بیان کرنا بھی مناسب نہیں تھا۔“ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ مداخلت کی بات ہے تو پاک فوج کو اس بات کا احساس ہے اور ان کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ ان کو ”سیاست سے بالاتر ہوکر بیرکس میں رہنا چاہئیے“ یہی ان کا آئینی کردار ہے۔ آرمی چیف نے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے تمام سٹیک ہولڈر اپنی ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔“ اس بیان کے حوالے سے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ جنرل باجوہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملکی معاشی صورتِ حال کو ایک اور میثاقِ جمہوریت اور میثاق معیشت کی ضرورت ہے اور سب کو دوبارہ ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کو شرپسندی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ امریکا جب تک خباثت اور رذالت جاری رکھےگا ایرانی عوام بھی امریکا مردہ باد کا نعرہ لگاتے رہیں گے۔ آٹھ فروی انیس سو اناسی کو ایرانی فضائیہ کے افسران و جوانوں نے تہران کے علوی کالج میں قیام پذیر رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکے آپ سے وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کی مناسبت سے آج جمعہ آٹھ فروری کو فضائیہ کے سربراہ، اعلی افسران اور جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی خدمت میں حاضری دی اور اسلامی انقلاب اور اس کی اقدار سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے عہد کی تجدید کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کو شرپسندی اور تشدد کا مظہر قرار دیا ۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا نے آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ بحران اور جنگ و خونریزی کا بازار گرم کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا نے اپنے مفادات کے لئے ہمیشہ دوسروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور وہ مجسم شرپسندی ہے، اورپھر بھی گلہ کرتا ہے کہ لوگ امریکا مردہ باد کا نعرہ کیوں لگاتے ہیں؟ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ میں عام امریکیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا مردہ باد کا مطلب ہے، ٹرمپ مردہ باد، مائیک پمپئو مردہ باد، جان بولٹن مردہ باد – آپ نے فرمایا کہ امریکا مردہ باد کا مطلب اس دور کے امریکی حکام مردہ باد ہے اس کا امریکی قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ جب تک امریکا خباثت اور رذالت جاری رکھے گا ایرانی قوم کا امریکا مردہ باد کا نعرہ بند نہیں ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی حکام کو نصیحت کی کہ وہ امریکیوں کے ساتھ ساتھ یورپ والوں پر بھی اعتماد نہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ یورپ والوں سے رابطہ رکھیں لیکن ان پر اعتماد نہ کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرانس میں مظاہرین کے ساتھ پولیس کے تشدد آمیز رویئے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فرانس کی پولیس پیرس کی سڑکوں پرمظاہرین پر حملہ کرتی ہے، انہیں اندھا کردیتی ہے اور فرانسیسی حکام کمال بے شرمی کے ساتھ ہم سے انسانی حقوق کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ نے یورپ والوں کو مخاطب ہو کرفرمایا کیا تم انسانی حقوق سے واقف ہو؟ آپ نے فرمایا کہ یورپ والے نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق سے واقف نہیں ہیں بلکہ تاریخ میں کبھی بھی انہوں نے انسانی حقوق کو نہیں سمجھا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نہ ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ قابل احترام ہیں۔ آپ نے اسی کے ساتھ فرمایا کہ البتہ ہم بعض ملکوں کو چھوڑ کے سبھی سے روابط برقرار رکھنے کے قائل ہیں، لیکن اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ ہم کس کے ساتھ کس بات کا معاہدہ کر رہے ہیں۔
آپ کو بچانے کے کر سکتے ہیں آپ کے صفحے کی ویب سائٹ پر مکمل طور پر چارج کی مفتآپ کی تصدیق کر سکتے ہیں تلاش کرنے کے لئے ایک فون نمبر اور نئی تاریخوں میں انقرہ کے سٹی انقرہ اور آپ کو بات چیت کر سکتے ہیں لائیو چیٹ کے ذریعے اور کمیونٹی کی بات چیت بغیر کسی پابندی کے. کو پورا کرنے کے لئے ایک لڑکے یا ایک لڑکی انقرہ میں. پر ہمارے ڈیٹنگ ویب سائٹ پر کوئی پابندی نہیں بات چیت اور خط و کتابت اور اکاؤنٹس اور پابندیوں. لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو تلاش, اپ سے ملنے ، اور میں ایک سنگین تعلقات. آپ کو بچانے کے کر سکتے ہیں آپ کے صفحے کی ویب سائٹ پر مکمل طور پر چارج کی مفت. آپ کے لئے تلاش شروع کی تصدیق کے فون نمبر اور نئی تاریخوں میں انقرہ کے سٹی انقرہ اور آپ کو بات چیت کر سکتے چیٹ کے ذریعے اور کمیونٹی کے کسی بھی بغیر کسی پابندی اور پابندیوں. ڈیٹنگ ایک مفت رجسٹریشن کی ویب سائٹ کے لئے سنگین La Información sobre, La entrada Es gratuita Y no registrado. ویڈیو ملنہ خواتین ویڈیو ملنہ بہترین چیٹ رولیٹی ویڈیو چیٹ مفت رجسٹریشن í چلیں رجسٹریشن کے بغیر فونز کے ساتھ تصویر ویڈیو ڈیٹنگ لڑکی کے ساتھ بات چیت رجسٹریشن کے بغیر اشتھارات چلیں دریافت میرا صفحہ چیٹ متن کے ساتھ لڑکیوں کے علاوہ
قائد اعظم بذریعہ ٹرین فرنٹئیر میل لاہور پہنچتے ہیں ۔لاہور کے منٹو پارک میں ہر طرف سر ہی سر نظر آ رہے ہیں ۔یہ اجتماع مسلمانوں کے اخوت اور بھائی چارے ،تہذیب و تمدن کا جاوداں ثبوت ہے ۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی آمد کا منظر نگاہوں کے لیے خیرہ کن ہے ۔ دونوں نے شیروانیاں زیبِ تن کر رکھی ہیں ،صدیق علی خان کی قیادت میں مسلم لیگ کے چاق چوبند گارڈ انہیں اپنے جلو میں لیکر ڈائس تک پہنچتے ہیں ۔اے کے فضل الحق،چوہدری خلیق الزماں ،بہادر یار جنگ ،مولانا ظفر علی خان بھی اس اہم ترین تاریخی موڑ پہ موجود ہیں ۔بیگم مولانا محمد علی جوہر سر تا پا کالے برقعے میں موجود اس بات کا احساس کے ساتھ کہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قدم بہ قدم ہیں ۔اس اجلاس کا آغاز ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ سے ہوتا ہے ۔ابتدا میں میاں بشیر احمد کی نظم ،ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح ۔ملت ہے جسم و جاں ہے محمد علی جناح ۔بزبان غیاث غازی کی گونج مجمع میں جوش پیدا کر دیتی ہے ۔گو مسلمانوں کو اپنی منزل قریب ترین دکھائی دے رہی ہے ۔لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ اس کا تیر، ایسی کڑی کمان ہے محمد علی جناح۔کے فقرے ایک نئی امنگ جگا دیتے ہیں ۔قائد کے مسکراتے لب گویا اس بات کی تائید کر رہے کہ ان کا حوصلہ بلند ہے اور وہ ان کچلے ہوئے محکوم عوام کو آزادی کی نوید سنا کے دم لیں گے۔ قائد نے ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے کی فی البدیہہ تقریر کی ۔ان کی تقریر انگریزی میں ہے مگر الفاظ اور آواز کا کرشمہ ملاحظہ ہو کہ انگریزی سے نا بلد افراد پر بھی سکوت طاری ہے ۔گویا قائد کے الفاظ ان کے دل کی ترجمانی کر رہے ہوں ۔انہوں نے فرمایا ” مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ۔ہندو اور مسلمان مذہبی،روحانی اور سماجی فلسفے کے لحاظ سے الگ الگ قوم ہیں ۔یہ نہ آپس میں شادی کر سکتے نہ اکٹھے کھا پی سکتے ،ان کی تہذیبیں الگ ہیں جو اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں ۔ہندو اور مسلم تاریخ کے مختلف زرائع سے ہدایت حاصل کرتے ان کے ہیروز اور قصے کہانیاں الگ الگ ہیں ،اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے ۔سو یہی حال ان کی فتو حات اور شکستوں کا بھی ہے لہذا دونوں کا ایک ریاست میں رہنا جبکہ ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں ہو ۔ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ۔سو مسلمان ایک الگ قوم ہیں ان کے پاس اپنا علاقہ اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں وہ اپنی تہذیب روایات اور مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں ” اب ذرا پسِ منظر کا جائزہ لیں ۔برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار قوم کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں ۱۹۳۷ اور ۱۹۳۶ میں جو انتخاب ہوئے ان میں مسلمانوں کو بری طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور اس دعوے کو شدید زک پہنچی کہ مسلم لیگ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے لہذا مسلمانوں کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کی بے بسی کا عجب عالم تھا غرض ہندوستان کے کسی صوبے کا اقتدار نہ ملا ۔اٹھارویں صدی میں مغرب میں قوم اور قومی ریاستوں کے تصور کے ظہور سے قبل ہی ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں مگر ۱۸۵۸ میں تاج برطانیہ نے دونوں کو ایک قوم قرار دے کر حکمرانی شروع کی تو ہندوستان کے مسلمان اپنے تشخص کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے (مسلم وقف الاولاد قانون کی برطانوی ہند میں منسوخی اور قائد اعظم کی ۱۹۳۱ میں اس کی بحالی اس امر کی مثال ہے اور یہی اصل میں قراردادِپاکستان کی بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کے مستقبل کا تعین کیا ۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی وہ در حقیقت علامہ اقبال کی کاوشِ کاملہ کا نتیجہ تھی ،جو انہوں نے مئی۱۹۳۶ سے نومبر ۱۹۳۷ کے عرصے میں قائد اعظم سے بذریعہ خط وکتابت گفت وشنید کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں اور جلد از جلد مسلم اکثریتی علاقے لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں ۔آل انڈیا مسلم لیگ کا ستایئسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک میں منعقد ہوا جو ۲۲ مارچ سے ۲۴ مارچ تک جاری رہا ۔اس جگہ یادگارِ پاکستان تعمیر ہے ۔اور بالاآخر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو وہ تاریخی لمحہ آگیا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مغربی جہاں مسلم اکثریت تھی ان پہ مشتمل الگ ریاست کا مطالبہ کیا ۔اسے قائد اعظم اور سکندر حیات نے تیار کیا اور ۲۲ مارچ کو پیش کیا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور اسے صوبہ بنگال کے اے ۔کے فضل الحق نے کھلے اجلاس میں پیش کیا۔ قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقسیم قبل ہی 1941سے ہی23مارچ کو بطورِ یوم پاکستان منانا شروع کر دیا گیا تھا۔ قرار داد بعد ازاں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943میں قائد نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کا لفظ قبول کر کے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پہ وہ تاریخی قرار داد منظور ہو گئی اور سات برس بعد پاکستان قرارداد کی حقیقی شکل میں سامنے آیا ۔یہ کہانی کوئی عام کہانی نہیں ایک جہدِمسلسل اور قربانیوں کی لمبی داستان ہے کہ ایک مردِ مجاہد کی قیادت نے ہمیں ایک آزاد وطن دیا ۔اور آج جب ہم اس وطن میں آزادی سے سانس لے رہے تو ہم سوچتے ہیں کس دن کو منائیں کس کو نہ منائیں ہم ویلنٹائن ڈے تو منا سکتے مگر اپنے قائد کے ڈے کو نہیں کوئی تجدیدِ عہد نہیں فقط واویلا تو محض کہ شکر ہے کل کی چھٹی ہے ۔
آپ کو ابھی تک ان لوگوں کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ جن لوگوں نے آپ کی زندگی میں بہت مشکلات پیدا کر دیں تھیں۔ آج فوری ان سے دور رہنے کا مشور ہے ورنہ۔ برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی پرانی باتیں اگر اب سامنے نا آئیں تو بہتر ہے آپ ان کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور آج کا دن کچھ غصے اور مایوسی والی کیفیت سے بھی گزر رہا ہے۔ برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون اللہ نے چاہا تو روز گار میں اب مسلسل بہتری کا سامنا رہے گا آپ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں وہ اب بہتری کی جانب لے کر جائے گی اور آپ کے لئے نیا راستہ بن سکتا ہے۔ برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی خود کو نارمل کریں جو ماضی میں ہو چکا ہے اب اس کو بدل تو نہیں سکتے مگر ذکر الٰہی سے خود کو سکون تو دے سکتے ہیں ابھی صدقہ بھی دے دیں تو بہتر ہے۔ برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست آپ کے لئے روز گار کا جو سلسلہ بن نہیں رہا تھا اب صورتحال کچھ نئے انداز سے آپ کا ساتھ دے کر آپ کو ان شاءاللہ ہر مشکل سے نکال دے گی بس جلد بازی نہ کریں برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے22 ستمبر کچھ اضافی بوجھ اخراجات کا برداشت کرنا پڑے گا اور گھر میں جاری کشیدگی قدرے بڑھ سکتی ہے۔ غصے سے نہیں البتہ پیار سے معاملات حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر اب خود کو بدلیں اور کچھ اہم فیصلے لے لیں زندگی کے حوالے سے تو بہتر ہے اب پرانے والے حالات نہیں رہے۔ آپ کو نئے انداز سے زندگی گزرنے کے لئے قدم تو اٹھانا ہے۔ برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر جو لوگ کسی بھی پریشانی کو محسوس کر رہے ہیں میرے اللہ نے چاہا تو وہ جلد اس سے نکل جائیں گے اور آج ایک رکا ہوا کام بھی غیر متوقع انداز سے ہو سکتا ہے۔ برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر کسی بھی معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے بس اپنے کام سے کام رکھیں اور جائیداد کے امور میں خاص طور پر آپ نقصان میں جا سکتے ہیں ادھر توجہ دیں۔ برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری جن لوگوں نے نیا کام شروع کرنا ہے وہ کر سکتے ہیں اس وقت صورتحال بڑی اچھی ہے ان کو ان شاءاللہ فائدہ ہوگا اور کچھ راز بھی آپ کے سامنے آ سکتے ہیں۔ برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری آپ خود کو بے بس محسوس نہ کریں میرا اللہ ہے نا وہ ان شاءاللہ آپ کو مشکل سے نکال دے گا اور پریشانیاں بھاگ جائیں گی بس اب صبر کرنا ہے ہر معاملے میں۔ برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ جن لوگوں نے اپنے گھر میں خرابیاں دیکھی ہیں وہ تھوڑی حکمت عملی اختیار کریں اور کچھ معاملے میں توبہ کر کے اللہ پاک سے مدد لینا سب سے ضروری بھی ہے۔
پاکستان ٹیم کے کوچ میتھیوہیڈن نے بلے بازوں کی شاندار بیٹنگ کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ گرین شرٹس کی ‏بیٹنگ دیکھ کر بہت مزہ آیا۔ آسٹریلیا کے خلاف ورلڈکپ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں پاکستانی بیٹنگ پر گفتگو کرتے ہوئے میتھیوہیڈن نے ‏کہا کہ رضوان میچ سے ایک رات پہلےاسپتال میں تھا بابر اعظم کی طرح رضوان فائٹر ہے بہت زبردست کھیلا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نےپلان کےحساب سےبیٹنگ کی پاکستانی ٹیم کےپاس ایک زبردست موقع ہے گرین ‏شرٹس کےساتھ کام کر کےبہت مزہ آ رہا ہے۔ میتھیوہیڈن نے کہا کہ ورلڈ کپ کےتمام میچوں میں پاکستان نے بہترین بیٹنگ کی ہے بابراعظم اور رضوان کی ‏بیٹنگ قابل تعریف ہے۔ میڈیکل پینل نے تفصیلی معائنے کے بعد شعیب ملک اور محمد رضوان کو مکمل فٹ قرار دیتے ہوئے انہیں آج کا ‏میچ کھیلنے کی اجازت دی۔ ‏ گذشتہ روز دونوں کھلاڑیوں نے فلو اور بخار کے باعث ٹریننگ سیشن میں حصہ نہیں لیا تھا، جس کے بعد چہ ‏مگوئیاں شروع ہوگئی تھی کہ شعیب ملک اور محمد رضوان کینگروز کے خلاف سیمی فائنل کا حصہ نہیں ہونگے ‏تاہم دونوں کھلاڑی آج مکمل طور پر فٹ تھے اور انہوں نے آج کے اہم ترین میچ کے لئے اپنی دستیابی کے لئے ‏ٹیم مینجمنٹ کو آگاہ کیا تھا۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت بڑھانے کی ضرورت ہے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ڈیجیٹل تعاون تنظیم کے وفد سے ملاقات میں گفتگو وزیر اعظم عمران خان آج سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے ڈیجیٹل پورٹل کا آغاز کریں گے ، پورٹل سے پاور آف اٹارنی کی تصدیق ہو سکے گی اپوزیشن اصلاحات کیلئے عدالت کی بجائے سپیکر آفس آئے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، یہ ہمارا انتخابی وعدہ تھا، چوہدری فواد حسین مستحق افراد کو آٹے، دالوں اور گھی پر سبسڈی ملے گی، جمعہ سے 8171 میسج سروس بحال ہوجائے گی، ڈاکٹر ثانیہ نشتر وزیراعظم سے ڈی جی ISI لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی الواداعی ملاقات ’اسٹیبلشمنٹ مغربی دنیا کی خوشنودی کیلئے انتخابی نتائج کنٹرول میں رکھتی ہے‘ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے سے سزا یا ٹرائل پرکوئی فرق نہیں آئے گا: اٹارنی جنرل شیئر کریں مسائل‘ حق مہر اور معاشرے پر اس کے اثرات جولائ 31, 2021 July 31, 2021 (۲)بعض لوگ شوہر کو دبائو میں رکھنے یااپنی ناموری کے لیے بھاری مہر مقرر کرتے ہیں، اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ مہر ادا تو کرنا نہیں ہے، یہ سوچ غیر شرعی ہے ، شریعت نے مہر ادا کرنے ہی کے لیے مقرر کیا ہے اور جب تک مہر ادا نہ ہو، وہ دَین (واجب الوصول) کہلاتا ہے۔مہر بیوی کا حق ہے اور یہ نکاح کے واجبات میں سے ہے، مہر بیوی کے احترام کی علامت ہے، اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دیا کرو ، (النساء: 4)‘‘۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص مہر نہ دینے کی شرط پر نکاح کر لے، تب بھی عورت مہر مثل کی حق دار ہوگی اور امام مالک کے نزدیک اس صورت میں نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ لڑکے کی مالی حیثیت اوروقت و حالات کے مطابق باوقار اور مناسب مہر مقرر کیا جائے، یعنی نہ اتنا زیادہ ہو کہ لڑکاادا ہی نہ کرسکے اورنہ اتنا کم ہو کہ لڑکی والوں کے لیے خِفّت کا باعث بنے۔ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ مہر بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ مہرکی ادائی شوہر کی وفات یا بیوی کو طلاق کی صورت میں ہی لازم ہوتی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے، مہر کا طلاق یا موت سے کوئی تعلق نہیںہے، نکاح کے بعدازدواجی تعلق قائم ہوتے ہی بیوی کو مہر اداکرنابہرحال واجب ہو جاتا ہے اوربہتر یہ ہے کہ مہر نکاح کے وقت ہی ادا کر دیا جائے۔ عہدِ صحابہ اور بعد کے ادوار میں نکاح کے وقت ہی مہر اداکرنے کا معمول تھا، یہ روایت اسلامی عربی معاشرے میں اتنی راسخ تھی کہ فقہاء نے لکھا ہے :’’ اگر کوئی عورت دعویٰ کرے کہ شوہر کے ساتھ اُس کی خَلوت ہوچکی ہے، اس کے باوجود شوہر نے مہر ادا نہیں کیا ، تو یہ بات قابل قبول نہیں ہے ،کیونکہ یہ ظاہرِ حال کے خلاف ہے‘‘۔ بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں نکاح کے وقت مہر ادا کرنے کا رواج نہیں رہا اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا مہر ادا کردیا جائے تو وہ خوف زدہ ہوجاتی ہے کہ کہیں شوہر کا ارادہ طلاق دینے کا تو نہیں ہے۔ بعض صورتوں میں مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی، محض رسمی طور پر مہر مقرر کر لیا جاتا ہے، رسول اﷲؐکا ارشاد ہے:’’جس نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں یہ ہے کہ وہ مہر ادانہیں دے گا، تو اس نے دھوکہ بازی کی، اگر اس نے مرتے دم تک مہرادا نہیں کیا، تو قیامت کے دن اﷲتعالیٰ سے ایک زانی شخص کی حیثیت سے اس کی ملاقات ہو گی، (المعجم الاوسط:1851)‘‘، مہر اداکرنے کو غیر اہم سمجھنے والوں کے لیے یہ بہت بڑی وعید ہے۔ اس لیے نکاح کے وقت پوری دیانت داری کے ساتھ مہر ادا کرنے کی نیت ہونی چاہیے اور نکاح کے بعد مقرر ہ مہر بیوی کواداکردینا چاہیے، افسوس کی بات یہ ہے کہ شادی کے موقع پر غیر شرعی رسوم پر تو پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، لیکن مہر،جو شریعت کا تقاضا ہے، ادا نہیں کیا جاتا۔ سو ہم نے شریعتِ الٰہی پر شریعتِ رسوم کوغالب کردیا ہے۔
مصر کے ایک چرچ میں آتشزدگی سے 41 افراد شہید روس یوکرین جنگ بندی کے لیے مسیحیوں کا 25مارچ کو یوم دعا منانے کا اعلان سکھر: ’زبردستی شادی‘ سے انکار پر ہندو لڑکی قتل پوپ فرانسس نے ویٹیکن کے نئے اصلاحاتی دستور کی منظوری دے دی کراچی سے اغوا ہونیوالی مسیحی بچی کو پولیس نے بازیاب کرا لیا مسیحی برادری ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کررہی ہے: آرمی چیف قمر باجوہ اوکاڑہ : نابالغ مسیحی لڑکی اغوا کے بعد زیادتی کی شکار مسیحی مشنری اہل خانہ سمیت اغوا، تاوان مانگ لیا گیا مسیحی مشنری کے اہل خانہ سمیت 17 افراد کا اغوا صوبائی وزیر اقلیتی امور اعجاز عالم کا دورہ ساہیوال شیئر کریں ایران میں مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن حکومت کے دنیا بھر میں مذہبی آزادی سے متعلقہ امور کے نگران عہدیدار مارکوس گرُوئبل نے آج بدھ کے روز کہا کہ ہر انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا مذہب کا انتخاب کر سکے اور اس پر عمل بھی کر سکے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے مارکوس گرُوئبل نے کہا کہ ایران میں صوفی مذہبی برادری اور بہائیوں کی حالت خاص طور پر باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں صوفی، بہائی اور دیگر اقلیتی مذہبی برادریوں کے ارکان کا ان کے عقیدے کی وجہ سے تعاقب کیا جاتا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس جرمن حکومتی عہدیدار نے مطالبہ کیاکہ ایران میں ایسے تمام زیر حراست افراد کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ مارکوس گرُوئبل کے بقول، ”میں یہی مطالبہ ایسے ایرانی شہریوں کے حوالے سے بھی کرتا ہوں، جنہیں تبدیلی مذہب کے بعد کوئی دوسرا عقیدہ اختیار کر لینے، مثلاﹰ مسیحی عقیدے کے پیروکار بن جانے کی وجہ سے تعاقب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر گرفتار کر لیا جاتا یے۔‘‘ عالمی سطح پر مذہبی آزادی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اس جرمن حکومتی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ بڑی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے سے متعلق ہونے والی کسی بھی نئی بات چیت میں عالمی برداری کو ایران میں ایسے اقلیتی باشندوں کی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی نئے معاہدے کو واضح طور پر وہاں انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ ایران میں مسیحیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کو تو باقاعدہ تسلیم شدہ مذہبی اقلیتوں کی حیثیت حاصل ہے، مگر اس حیثیت سے صوفی اور بہائی برادریوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ ان مذہبی اقلیتی گروپوں کو شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران میں ‘بدعتی گروہ‘ قرار دے کر ان کا منظم انداز میں تعاقب کیا جاتا ہے۔
مری میں پھنسے تمام سیاحوں کو ریسکیو کرلیا گیا ‘ 90 فیصد سڑکیں کھل گئیں، یہ بات چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے بتائی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ برف باری میں پھنسے تمام سیاحوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا گیا ہے ، 371 افراد کو آرمی ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا ، جس کے لیے ریسکیو کا کام پاک فوج اور سول اداروں سب نے مل کر سرانجام دیا جب کہ سیاحوں کی منتقلی میں مقامی افراد نے بھی مدد کی ، جس کی بدولت سیاحوں کو رات سے قبل ہی محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ کلڈانہ باڑیاں روڈ کھولنے کا کام جاری ہے ، اس سڑک پر 77 گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں تاہم جو گاڑیاں پھنسی ہیں ان میں سیاح نہیں ہیں، وہ گاڑیاں چھوڑ کر خود ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے، اب کلڈانہ باڑیاں کے علاوہ تمام سڑکیں کھول دی گئی ہیں۔ برف باری میں پھنسے تمام سیاحوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا گیا ہے‘ 371 افراد کو آرمی ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کی گفتگو دوسری طرف سانحہ مری کے بعد کاغان، ناران اور شوگران میں سیاحوں کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی ، خیبرپختونخواہ کے سیاحتی مقامات شوگران، ناران، کاغان ویلی میں ہر قسم کی ٹریفک اور سیاحوں کے داخلے پر شدید برفباری کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے ، اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر مانسہرہ کی طرف سے جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ علاقوں مین سیاحوں کے داخلے پر شدید برفباری کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے، تاہم ریسکیو یا ایمرجنسی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہو گی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کمشنر ہزارہ کو ہدایت کی ہے کہ گلیات اور آس پاس کے علاقوں میں شدید برفباری کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال پر کڑی نظر رکھی جائے اور کسی بھی ناخوشگوار اور ہنگامی صورتحال سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے متعلقہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو ہائی الرٹ کیا جائے اور مری سمیت گلیات کے آس پاس علاقوں میں پھنسے سیاحوں کو ریسکیو کرنے کے لئے ضروری کاروائیوں کا عمل تیز کیا جائے۔
وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا (١) اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے (٢) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہوجائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔ تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے فہم القرآن : ربط کلام : دین کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ انہی کا بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا۔ جس کے بڑے بڑے اصول یہ ہیں، جن کی پاسداری کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ لہٰذا یہود و نصاریٰ کو انہی پر ایمان لانا چاہیے۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی اٹھارہ باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوہ طور کو ان کے سروں پر منڈلایا گیا اور ان کے قبائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں بارہ 12نقیب مقرر کیے۔ نقیب کا معنیٰ ہے کڑی نگرانی اور دوسرے کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا۔ ان نقباء کی تعیناتی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو تعینات فرمایا تھا۔ جن باتوں کا بنی اسرائیل سے بار بارعہد لیا گیا ان کا خلاصہ اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر ان باتوں پر سختی سے عمل پیرا ہوجاؤ تو نہ صرف اللہ کی دستگیری اور معیت تمہیں حاصل ہوگی۔ بلکہ گناہوں کی معافی اور تمہارا جنت میں داخلہ یقینی ہوگا۔ جس نے اس عہد کی خلاف ورزی کی وہ ہماری دستگیری سے محروم اور صراط مستقیم سے گمراہ تصور ہوگا۔ ” سواء السبیل“ سے مراد شریعت کا متوازن اور معتدل راستہ ہے جو ہر قسم کی افراط و تفریط سے پاک ہے۔ عہد کی بنیادی شرائط اور اہمیت : 1۔ نماز قائم کرنا : ہر دین میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہایت ہی پسندیدہ عبادت رہی ہے۔ جو فکر وعمل کی پاکیزگی کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے حقوق کی ترجمان ہے۔ 2۔ زکوٰۃ : یہ غرباء سے عملی ہمدردی کا مظہر، بخل کا علاج اور تزکیۂ مال کے ساتھ غریبوں کے حقوق کی محافظ ہے۔ 3۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی تکریم و معاونت کرنا کیونکہ انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے ترجمان اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرکے دکھلانے والے ہیں۔ لہٰذاان کی تکریم اور تابعداری فرض ہے۔ ایمان لانے اور تکریم کرنے میں بدرجۂ اولیٰ نبی آخر الزمان (ﷺ) شامل ہیں۔ کیونکہ ہر نبی اور رسول آپ (ﷺ) کی آمد کا اعلان کرتا رہا۔ اور سب انبیاء سے نبی (ﷺ) پر ایمان لانے اور آپ (ﷺ) کی تائید کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ صدقہ سے مراد عام صدقہ بھی ہے اور زکوٰۃ بھی : صدقہ کرنے کی یہ کہہ کر تلقین فرمائی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے قرض کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا تاکہ دینے والے کے دل میں حوصلہ اور امید پیدا ہو کہ مجھے اس سے زیادہ ملنے والاہے۔ عہد کی پاسداری کا صلہ : اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے عہد کی پاسداری کرتے رہو اس سے تمہیں اللہ تعالیٰ کی دستگیری اور تائید حاصل ہوگی تمہاری بشری کوتاہیوں کو معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی شرائط : 1۔ ﴿ لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ﴾۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ 2۔ ﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ إِ حْسَاناً﴾۔ والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ 3۔ ﴿وَذِی الْقُرْبٰی﴾۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ 4۔ ﴿وَالْیَتَامٰی﴾۔ یتیموں کے ساتھ 5۔﴿وَالْمَسَاکِیْنِ﴾۔ اور غریبوں کے ساتھ احسان کرنا۔ 6۔﴿وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا﴾۔ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ 7۔ ﴿وَأَقِیْمُوا الصَّلاَۃَ﴾۔ نماز قائم کرنا۔ 8۔﴿وَآتُوا الزَّکٰوۃَ﴾۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ:83) 9۔﴿ لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَاءَ کُمْ﴾۔ آپس میں خون نہ بہانا۔ 10۔﴿ وَلاَ تُخْرِجُوْنَ أَنْفُسَکُم مِنْ دِیَارِکُم﴾۔ کمزوروں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔ (البقرۃ:84) 11۔ ﴿خُذُوْا مَا آتَیْنَاکُم بِقُوَّۃٍ﴾۔ اللہ کے احکام کو پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا۔ 12۔﴿ وَاسْمَعُوْا﴾۔ اللہ کے احکام سننا۔ (البقرۃ:93) 13۔﴿ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاس﴾۔ انھیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا۔ 14۔ ﴿وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ﴾۔ انھیں ہرگز نہ چھپانا۔ (اٰل عمران :187) 15۔ ﴿آمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ﴾۔ اللہ کے انبیاء پر ایمان لانا۔ 16۔ ﴿وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ﴾۔ ان کی تعظیم کرنا۔ 17۔ ﴿وَأَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾۔ اللہ کو قرض دینا یعنی صدقہ کرنا۔ (المائدۃ:12) مسائل : 1۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اور بارہ سردار تھے۔ 2۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اللہ مددگار ہوتا ہے۔ 3۔ نیکی کے کام کرنے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ 4۔ اللہ کے عہد کی پاسداری نہ کرنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ 5۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
سوال: کچھ لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ جن فرقوں سے دور رہنے کا حکم حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دیا گیا وہ سلفی، اخوانی، اور تبلیغی جماعتیں ہی ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب کا متن الحمد للہ. نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت میں شر کے ساتھ تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عنائت فرمائی، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) حذیفہ نے کہا: تو کیا اُس شر کے بعد خیر ہوگی؟ آپ نے فرمایا: (ہاں، لیکن ساتھ میں کچھ دھواں بھی ہوگا) میں نے کہا: دھوئیں سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: (ایسی قوم جو میری راہنمائی سے ہٹ کر ہدایات دینگے اور میری سنت سے ہٹ کر طریقے وضع کرینگے، انکی کچھ باتوں کو تم پہچان لوگے اور کچھ تمہارے لئے اوپری ہونگی) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ نے فرمایا: (ہاں! وہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہونگے، جو بھی انکی بات مان لے گا اسے وہ جہنم میں ڈال دینگے) حذیفہ نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمیں انکی صفات بتلادیں۔ آپ نے فرمایا: (وہ ہماری ہی نسل سے ہونگے، اور ہماری ہی زبان بولیں گے) یعنی عرب میں سے ہونگے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس وقت کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کو لازمی پکڑنا) میں نے کہا: اگر اس وقت کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی امام ہو؟ آپ نے فرمایا: (تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ تھلگ ہوجانا، چاہے تمہیں موت کے آنے تک درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، تم ان سے الگ ہی رہنا) بخاری و مسلم اس عظیم حدیث میں ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہے، اور ان کے ساتھ تعاون کرے، چاہے یہ جماعت کسی بھی جگہ جزیرہ عرب میں یا مصر، شام، عراق، امریکہ، یورپ یا کسی اور جگہ ۔ چنانچہ جب کسی مسلمان کو ایسی جماعت ملے جو حق کی طرف بلاتی ہو، تو انکی مدد کرے اور انکے شانہ بشانہ چلے، اور انکی ہمت باندھے، اور حق و بصیرت پر قائم رہنے کی تلقین کرے، اور اگر اسے کوئی جماعت نظر ہی نہ آئے تو حق پر اکیلا ہی ڈٹ جائے، وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ نے عمرو بن میمون سے کہا تھا: "جماعت اسے کہتے ہیں جو حق کے مطابق ہو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نہ ہو" اس لئے ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ تلاشِ حق کیلئے سرگرداں رہے، اور جیسے ہی یورپ، امریکہ یا کسی بھی جگہ پر حق یعنی کتاب و سنت اور صحیح عقیدہ کی دعوت دینے والے اسلامی مرکز ، یا جماعت کے متعلق علم ہو تو ان کے ساتھ مل جائے اور حق سیکھے ، پھر اہل حق میں شامل ہوکر اس پر ڈٹ جائے۔ ایک مسلمان کیلئے یہی واجب ہے، چنانچہ اگر اسے کوئی جماعت، حکومت ایسی نظر نہیں آتی جو حق کی طرف دعوت دے تو اکیلا ہی حق پر کاربند رہے اور اس پر ثابت قدم ہوجائے، اس وقت وہ اکیلا ہی جماعت ہوگا، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرو بن میمون کیلئے کہا تھا۔ اور آجکل الحمد للہ ایسی بہت سی جماعتیں پائی جاتی ہیں جو حق کی طرف دعوت دیتی ہیں، جیسے کہ جزیرہ عرب میں ۔۔۔، یمن، خلیج، مصر، شام، افریقہ، یورپ، امریکہ، ہندوستان، پاکستان وغیرہ ساری دنیا میں ایسی جماعتیں اور اسلامی مراکز موجود ہیں جو حق کی دعوت دیتی ہیں اور حق کی خوشخبری لوگوں تک پہنچاتی ہیں، اور مخالفتِ حق سے خبردار کرتی ہیں۔ چنانچہ حق کے متلاشی مسلمان کوچاہئے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کھوج لگائے، اور جب کوئی جماعت، یا ایسا مرکز ملے جو قرآن کی دعوت دے، اور سنت رسول اللہ کی طرف بلائے تو ان کے پیچھے چل پڑے، اور انہی کا ہو کر رہ جائے، مثال کے طور پر مصر اور سوڈان میں انصار السنہ، اور جمعیت اہل حدیث پاکستان اور ہندوستان میں، اور بھی ان کے علاوہ جماعتیں ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دیتے ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ کسی قبر والے یا کسی اور کو نہیں پکارتے. ماخذ: یہ اقتباس : " مجموع فتاوى ومقالات" از سماحة الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله . 8/ 179" سے لیا گیا ہے۔
مہدوی معاشرے میں اخلاقی اقدار بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ امام علی رضا علیہ السلام نے مختلف مقامات پر امام مہدی عج اور مہدوی معاشرے کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ امام مہدی عج کے ظہور پر عقیدہ رکھنے والے منتظرین ظہور ان کی روشنی میں اپنے عمل اور کردار کی اصلاح کر سکیں۔ امام علی رضا علیہ السلام سمیت تمام ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے عمل اور سیرت کے ذریعے بھی ان اخلاقی اقدار کو واضح کیا ہے۔ پیغمبر اکرم ص کی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی اسی الہی اخلاق کے ذریعے انسانوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا ہے۔ ہم نے تحریر حاضر میں امام علی رضا علیہ السلام کی احادیث کی روشنی میں مہدوی معاشرے پر حکمفرما اخلاقی اقدار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ 1)۔ عدل و انصاف مہدوی معاشرے میں اہم ترین اخلاقی قدر عدالت اور انصاف ہے۔ متعدد احادیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امام مہدی عج عالمی سطح پر حکومت تشکیل دینے کے بعد دنیا کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جیسے اس سے پہلے ظلم کے اندھیروں میں گھری ہوئی تھی۔ امام علی رضا علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "جب امام کا ظہور ہو گا تو خدا کی زمین نورانی ہو جائے گی اور عوام میں انصاف برقرار ہو جائے گا۔ پس کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔" (بحارالانوار، جلد 52، صفحہ 321)۔ یعنی امام مہدی عج کی حکومت میں عدل و انصاف صحیح اور حقیقی معنوں میں جلوہ گر ہو جائے گا اور تمام انسان اس کا مشاہدہ کریں گے۔ 2)۔ انتظار فرج امام مہدی عج کے ظہور کا انتظار کرنے کو انتظار فرج کہا جاتا ہے۔ چونکہ ایسا انتظار معاشرے کو متحرک اور سرگرم بنا دیتا ہے اور جمود اور تحجر کو زائل کر دیتا ہے لہذا اخلاقی ترقی کا اہم ترین سبب سمجھا جاتا ہے۔ تمام معصومین ع نے اس پر تاکید فرمائی ہے۔ رسول خدا ص اور امام علی علیہ السلام نے انتظار فرج کو بہترین اور برترین عمل قرار دیا ہے۔ انتظار فرج کے اثرات میں سے ایک صبر و تحمل ہے جو اعلی اخلاقی فضائل میں شمار ہوتا ہے۔ انتظار فرج درحقیقت مصیبت پر بھی صبر ہے اور عبادت کے دوران بھی صبر ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "انتظار فرج بہترین صبر ہے، پس صبر کرو کیونکہ اس سے مایوسی دور ہوتی ہے۔" تاریخ میں بیان ہوا ہے کہ جب بھی امام علی رضا علیہ السلام قائم آل محمد عج کا نام سنتے تو اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور سر پر ہاتھ رکھ کر فرماتے: "خدایا، ان کے ظہور میں تعجیل فرما اور ان کے قیام میں آسانی پیدا کر۔" لہذا انتظار فرج، امام مہدی عج سے عقیدت اور محبت رکھنے والے افراد کی اہم ترین اور خوبصورت ترین خصوصیت ہے۔ جب ایک مومن امام مہدی عج کے ظہور کا انتظار کرتا ہے تو خود کو ان خصوصیات سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو امام عج کی نظر میں مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔ بزرگ علمائے دین نے بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے اور اسے حقیقی شیعہ کی نشانی قرار دیا ہے۔ شہید مرتضی مطہری نے انتظار کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک تعمیری انتظار اور دوسرا تخریبی انتظار۔ تعمیری انتظار یہ ہے کہ فردی اور اجتماعی سطح پر اسلامی اقدار نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ 3)۔ سادہ طرز زندگی سادہ انداز میں زندگی بسر کرنا انبیاء علیہم السلام کی اہم خصوصیت رہا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی اپنی سیرت اور احادیث میں اس پر خاص تاکید کی ہے۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی حکمرانی کے زمانے میں سادہ ترین زندگی بسر کر کے تمام مسلمان حکمرانوں کیلئے اعلی مثال قائم کر دی ہے۔ ایک بار جب امام علی ع کو خبر ملی کہ بصرہ میں ان کے والی عثمان بن حنیف انصاری نے ایسی محفل میں شرکت کی ہے جہاں سب امیر اور بڑے لوگ تھے تو اسے خط لکھ کر شدید تنبیہ کی اور فرمایا: "میں ہر گز گمان نہیں کرتا تھا کہ تم ایسی دعوت میں شرکت کرو گے۔" امام علی رضا علیہ السلام بھی عام سطح کے فرد کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ جب آپ مامون کے ولیعہد تھے تب بھی بہت ہی سادہ انداز اختیار کر رکھا تھا اور اپنا دروازہ ہمیشہ عام لوگوں کیلئے کھلا رکھتے تھے۔ 4)۔ عجز و انکساری عجز و انکساری کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود کو دیگر انسانوں سے برتر نہ سمجھے۔ امام علی رضا علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "وہ (امام مہدی عج) خدا کی خاطر عجز و انکساری کرنے میں سب انسانوں سے آگے ہیں۔" (بحارالانوار، جلد 25، صفحہ 116)۔ عجز و انکساری ایسی اخلاقی فضیلت ہے جو دیگر اخلاقی فضائل پیدا ہونے کا باعث بنتی ہے۔ لہذا امام علی علیہ السلام نے عجز و انکساری کو بہترین اخلاقی فضیلت قرار دیا ہے۔ متعدد آیات میں بھی خداوند متعال نے عجز و انکساری کو اپنے حقیقی بندوں کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ یہ خصوصیت اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے جب معاشرے میں اعلی مقام رکھنے والا شخص جیسے حکمران اس کا حامل ہوتا ہے۔ لہذا مسلمان حکمرانوں میں اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔
عجیب Derinkuyu, Phrygians, اخمینونیہ سلطنت, اوستا وندیداد, بازنطینی, پھائرو گینز, ترکی, دیرینکویو, زیر زمین شہر, کائے ماکلی, مئی 2014ء, یما زیر زمین پراسرار جنات کا شہر روحانی ڈائجسٹ ⋅ December 2019 دنیا میں پراسرار اور تباہ شدہ شہروں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں، ترکی میں ‘‘دیرینکویو ’’ نامی ایک زیرِ زمین شہر کے آثار ملے ہیں۔ ماہرین نصف صدی تک تحقیق کے باوجود اس زیرِ زمین شہر کی پراسراریت سے پردہ نہیں اٹھاسکے۔ ترکی کے صوبہ نو شہر Nevşehirکے وسطی علاقے دیرنکو یو Derinkuyuمیں واقع زیر زمین پراسرار شہر پر دنیا بھر کے ماہرین کی ٹیم نے طویل عرصہ تحقیق کی ہے۔ لوگوں کو امید تھی کہ ماہرین کی تحقیق کے نتیجے میں اس پراسرار شہر کے رازوں سے پردہ اٹھ جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ترکی میں ‘‘جنات کے شہر’’ کے نام سے موسوم یہ زیر زمین شہر دنیا کا سب سے عجیب و غریب اور پراسرار علاقہ ہے، جسے 1963ء میں دریافت کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیرنکو یو کا زیر زمین شہر اہرام مصر سے بھی زیادہ پراسرار ہے۔ اس شہر کو کس طرح تعمیر کیا گیا، اس بارے میں ماہرین کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ اس پراسرار شہر کی دریافت اس طرح ہوئی کہ ایک مقامی شخص اپنے گھر کی تعمیر کے لیے کھدائی کر رہا تھا کہ یہاں بہت بڑا پتھر نکل آیا۔ اس پتھر کو ہٹایا گیا تو اس کے نیچے ایک سیڑھی بنی ہوئی تھی، جو زمین کی گہرائی تک جارہی تھی۔ اس شہری کو خود اس سیڑھی سے اندر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس نے مقامی حکام کو اس کے بارے میں بتایا تو حکام کی جانب سے اس شخص کو دوسری جگہ زمین الاٹ کرکے اس مقام کو سرکاری قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں جب مقامی ماہرین سیڑھیوں سے نیچے اترے، تو ان کی حیرت و استعجاب کی اس وقت کوئی حد نہ رہی جب انہیں ایک وسیع و عریض شہر دیکھنے کو ملا۔ اس شہر کی دریافت کے بعد سے اب تک اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ دیرنکو یو کا زیر زمین شہر ترکی کے جس صوبے میں واقع ہے، اسی صوبے میں کبھی ماضی کی معروف اناطولیہ سلطنت واقع تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیرنکویو ایک حیرت کدہ ہے۔ جدید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس شہر کو ساتویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس شہر میں سطح زمین سے گیارہ منزل نیچے تک بھی عمارتیں موجود ہیں۔ سب سے نچلی منزلیں پچیاسی میٹر گہرائی میں واقع ہیں۔ اس متروکہ شہر میں لائیو اسٹاک، اصطبل، عبادت خانے، گودام، مارکیٹیں اور شراب کی فیکٹری بھی تھی۔ اس شہر کے باسیوں نے زندگی کے تمام لوازمات کا بھرپور طریقے سے اہتمام کیا تھا۔ ہر منزل میں چھوٹے چھوٹے عبادت خانوں کے علاوہ ایک مرکزی عبادت گاہ بھی تھی، جو سیڑھیوں سے نیچے جاتے ہوئے دوسری منزل پر بنائی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پینتیس سے پچاس ہزار افراد منظم طریقے سے اس شہر میں رہائش پذیر تھے۔ شہر میں ہوا کی آمدورفت کے لیے مختلف جگہوں پر بڑے بڑے ہوا دان بنائے گئے تھے۔ جب ماہرین نے اس شہر کے مختلف گوشوں کی چھان پھٹک کی تو انہیں گیارہ مقامات پر ہوا کے لیے کھودی گئی بڑی سرنگیں ملیں، جن کے دہانوں کو بڑے بڑے پتھر رکھ کر اندر سے بند کردیا گیا تھا۔ پچپن میٹر سے زائد طویل ان سرنگوں کے دہانے ایسے مقامات پر واقع ہیں، جو ہوا کے رخ پر ہیں تاکہ ہوا بآسانی اندر داخل ہوسکے۔ ان گیارہ بڑی سرنگوں کے علاوہ اب ماہرین کو تہہ سے باہر کو نکلے ہوئے پندرہ ہزار سوراخ بھی ملے ہیں۔ ہوا اور روشنی کے لیے نکالے گئے ان سوراخوں کو بھی بھاری پتھر رکھ کر بند کردیا گیا تھا۔ ابتداء میں تو اس شہر میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ دریافت ہوا تھا، تاہم بعد میں تلاش کے بعد مزید کئی دروازے ملے۔ ان تمام دروازوں کو ایک سے ڈیڑھ میٹر طویل اور تیس سے پچاس سینٹی میٹر چوڑے پتھروں سے بند کیا گیا تھا۔ جن کا وزن دو سے پانچ سو کلو گرام ہے۔ پتھر کے یہ دروازے سب اندر سے بند کیے گئے تھے۔ تاہم انہیں ایسے عجیب طریقے سے بنایا گیا تھا کہ انہیں کھولنا نہایت آسان تھا۔ تحقیق کے دوران ایک ہی فرد کے معمولی دھکے سے بھاری پتھروں کے یہ دروازے کھل گئے۔ زیر زمین شہر کی تعمیر کے لیے جس علاقے کو منتخب کیا گیا ہے، اس کا اندرونی حصہ مضبوط چٹانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پتھر چٹانوں سے کاٹ کر شہر بسانا بظاہر انسانی بساط سے باہر ہے۔ اس بات سے مقامی افراد کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اس شہر کو جنات نے تعمیر کیا تھا، اس لیے مقامی افراد اسے ‘‘جنات کا شہر’’ کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس شہر کی تعمیر کا آغاز ساتویں صدی قبل مسیح میں ہوا تھا۔ پھائرو گینز Phrygians نامی قبیلے کے دیوقامت افراد سے یہ کام کرایا گیا تھا جو اس زمانے میں ترکی میں آباد تھے۔ پھر اس کی تعمیر کا کام بازنطینی Byzantine اور اخمینونیہ سلطنت Achaemenid empireکے دور میں مکمل ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اور بھی زیر زمین شہر آباد تھے اور انہیں آپس میں سرنگوں کے ذریعے ملایا گیا تھا۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دیرنکو یو سے مغرب کی جانب ایک اور زیر زمین شہر واقع تھا۔ دیرنکو یو سے آٹھ کلو میٹر طویل ایک سرنگ بھی ملی ہے۔ جو اس نئے دریافت شدہ شہر تک پہنچتی ہے۔ جس کا نام ماہرین نے کائے ماکلی Kaymakli بتایا ہے۔ اس پر بھی تحقیق کا کام جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا زندگی گزارنا حیرت انگیز ہے۔ جبکہ ماہرین کو اس سے زیادہ ششدر کرنے والی بات اس شہر کی تعمیر ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ شہر دسویں صدی عیسویں تک آباد تھا، جس کے بعد اسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ طویل عرصے تک رومن افواج اور دیگر قبائل حملہ آوروں سے بچنے کے لیے لوگ اس علاقے میں چھپتے رہے، گمان غالب ہے کہ ان افراد نے ہی زیر زمین یہشہر تعمیر کیا تھا۔ یونان کے مشہور تاریخ دان اور ارسطو کے شاگرد زینوفون نے 4 قبل مسیح میں اپنی کتاب ‘‘اناباسیس’’ میں بھی اس زیرِ زمین شہر کا ذکر کیاہےکہ : ‘‘اناطولیہ میں رہنے والے لوگ زیر زمین گھروں میں رہتے ہیں، جسکے راستے تو کنوئیں کی طرح ہیں۔ لیکن وہ نیچے جاکر وسیع ہوجاتے ہیں۔ جانوروں کو لانے لے جانے کے لیے زمین میں سرنگیں کھودی گئی ہیں البتہ انسانوں کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں ان زیر زمین شہر میں بکریوں ، بھیڑ، گائے اور پولٹری کے جانور رکھے گئے ہیں …’’ زرتشتی تاریخ کی کتاب اوستا وندیداد Vendidad میں بھی اس خطے میں کسی ایسے زیر زمین شہر کا ذکر ہے، جسے پناہ گزینوں کو ٹھہرانے کے لیے فارس کے بادشاہ یما Yima نے بنایا گیا تھا۔ تاہم ماہرین کو اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ شہر کی مختلف دیواروں میں عجیب و غریب تحریریں بھی کندہ کی گئی ہیں، تاہم یہ زبان سب کے لیے اجنبی ہے۔ ماہرین کو اس بات پر بھی تعجب ہے کہ اتنے بڑے شہر میں کوئی قبرستان ہے اور نہ کسی انسانی باقیات ملی ہیں۔
ز ۝۱ حوائجِ اصلیہ (زکوٰۃ کے باب میں) کیاہیں؟ فی زماننا کون سی چیزیں حوائجِ اصلیہ میں داخل ہوںگی؟ عام فہم زبان میں سمجھائیں۝۲ ایک آدمی نوکری کرتا ہے، اس کو مثلاً ۵/ہزار روپیہ وظیفہ (Salary) ملتا ہے، اس میں سے تقریباً ۴/ہزار روپئے خرچ ہوجاتے ہیں، ایک ہزار یا کبھی اس سے کم روپئے بچتے ہیں۔ پورا سال اسی طرح ہوتا ہے، اس شخص کے پاس ایک تولہ سونا بھی ہے، تو کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟۝۳ ایک شخص کے پاس صرف پانچ سو (۵۰۰) روپئے ہیں اور دو تولہ سونا ہے، تو کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ ۝۴ ایک شخص کی دُکان ہے تو مالِ تجارت پر وہ زکوٰۃ کس حساب سے دے گا، خریدکی قیمت پر یا فروخت کی قیمت پر؟ اگر فروخت کی قیمت ہوتو اگر یہ شخص ایک ہی چیز تیس روپئے میں بیچتا ہے، بعینہ وہی کبھی ۷۰/روپئے میں بیچتا ہے، مطلب کوئی قیمت فکس نہیں ہے، تو زکوٰۃ کیسے دے گا؟۝۵ تاجر کے پاس جو نقد روپئے ہوتے ہیں اس میں روزانہ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے- کبھی لاکھ، کبھی دس ہزار، کبھی ہزار، کبھی سو- تو وہ زکوٰۃ کے لیے حساب کیسے لگائے گا؟۝۶ چاندی ۲۹/ہزار روپئے کلو ہوتو کتنے روپئے پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟۝۷ ایک شخص ظاہراً تندرست جوان ہے، ایسے شخص کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ اداہوجائے گی؟۝۸ بہت سے بھیک مانگنے والے صاحبِ نصاب ہوتے ہیں یا غیر مسلم ہوتے ہیں، بظاہر ان کی یہ حالت زکوٰۃ دینے والے کو پتہ نہیں ہوتی تو، کیا ان کو زکوٰۃ دے دی تو ادا ہوگی یا نہیں؟۝۹ ایک شخص ہے (مردہویاعورت) اس کے پاس بڑا گھر ہے، سامانِ راحت ہے، اس کے بچّے کماتے ہیں اور اس کو پالتے ہیں، بظاہر خود یہ شخص کچھ نہیں کررہا ہے، تو اس کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟۝۱۰ ایک آدمی نے ۱۰۰/روپئے کے حساب سے ۵۰۰/شیئرز (حصص) لیے تھے، ایک سال کے بعد اس کی قیمت ۳۰/روپئے ہوگئی، تو اس پر زکوٰۃ کس حساب سے واجب ہوگی؟ ل۝۱ حوائجِ اصلیہ میں وہ اشیا داخل ہوتی ہیں جن کے بغیر انسان کو ہلاکت کا خطرہ ہو۔ مثلاًضروری نفقہ، رہائشی مکانات، اخراجات، آلاتِ جنگ اور سردی گرمی کے وہ کپڑے جن کی اپنے موسم کے اعتبار سے ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ نیز وہ اشیا جن کے بارے میں انسان ہر وقت صحیح معنی میں متفکر رہتا ہے، مثلاًواجب الادا قرضہ، پیشہ اور کاریگری کے اوزار وآلات اور گھر کے ضروری اثاث وسامان اور سواری کے جانور اور علماء کے لیے دینی کتابیں۔ یہ سب حوائجِ اصلیہ میں شامل ہیں۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس نقد رقم موجود ہے لیکن اس پر قرض بھی ہے، تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ حضرات فقہائِ کرام کی بیان کردہ جزئیات سے اتنی بات تو ظاہر ہے کہ حاجتِ اصلیہ کی کوئی ایسی تحدید نہیں جس میں کمی زیادتی کی گنجائش نہ ہو بلکہ وسعت ہے، البتہ لفظ ’حاجت‘اور ’اصلی‘ کے مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے اس کے دائرے میں جائز حد تک نمائش سے بچتے ہوئے توسع کی گنجائش ہے۔ مثلاًکچے مکان کی جگہ پختہ مکان، نل کی جگہ پر ٹنکی، سواری کے جانور کی جگہ پر موٹر سائیکل اور جیپ کار، تیر کمان کی جگہ رائفل اور بندوق وغیرہ، آلاتِ صنعت وحرفت میں دست کاری کی جگہ مشینیں۔ اسی طرح ضروریاتِ زندگی میں بڑے مکانات میں لفٹ، ٹیلیفون، فریج، کولر، موسم کے اعتبار سے ہیٹر، اے سی، پنکھا، اسی طرح نوکر چاکر یا لونڈی، ڈرائیور وغیرہ جو موٹر چلا سکے، اگر گھرانہ خوش حال ہو۔ اسی طرح بچوں کی پڑھائی یا تربیت کا سامان۔ الغرض اس طرح کی جدید چیزیں جو روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی میں داخل ہیں اور جن کی اصل تصریحات فقہ میں بنیادی حیثیت سے موجود ہیں، وہ سب حاجتِ اصلیہ میں داخل ہیں، البتہ ٹی وی، وی سی آر جیسی فحش اور ناجائز چیزیں حاجتِ اصلیہ میں داخل نہیں۔ (ملخص از جدید فقہی مباحث ۶/۲۹۲، ۲۹۶ ادارۃ القرآن، وایضاح النوادر حصہ دوم ۳۳،۳۴ وامداد الفتاوی۲/۴۲)اولاد کا نکاح حوائجِ اصلیہ میں داخل نہیں ہے کیوں کہ اگر وہ بالغ ہیں تو نکاح کی ذمہ داری اولاد پر ہے اور نابالغ ہیں تو نکاح ضروری نہیں۔ باپ پر صرف نابالغ اولاد کا نفقہ واجب ہوتا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ مبوب ومرتب ۹/۳۴۳)نیز ذاتی مکان کا ہونا بھی حاجتِ اصلیہ میں داخل نہیں ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے کرایے کا مکان بھی کافی ہے اور مکان کے لیے جمع کردہ رقم پر سال گزرجائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا ۳/۱۱۵،۱۱۶ سے ماخوذ)۝۲ اس کے پاس نقد روپیہ جو بھی موجود ہو اور ایک تولہ سونے کی بازار میں جو قیمت ہے وہ دونوں ملاکر ۳۵۔۶۱۲گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۝۳ اگر پانچ سو روپئے اور ساتھ میں دو تولہ سونے کی قیمت ملا کر ۳۵۔۶۱۲ گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجاتی ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۝۴ زکوٰۃ کی ادائیگی میں قیمتِ فروخت کا اعتبار ہوگا، زکوٰۃ دیتے وقت بازار میں اس مال کی جو قیمت ہوگی وہ معتبر ہے۝۵ جس تاریخ کو زکوٰۃ کا سال پورا ہورہا ہے اس روز جو نقد اس کے پاس موجود ہے، اس کو حساب میں جوڑ لے۝۶چاندی کا نصاب ۳۵۔۶۱۲گرام ہے، ایک گرام چاندی کی جو قیمت ہو اس کو اس میں ضرب دے دیاجائے، صورتِ مسئولہ میں 17758.15روپئے ہوتے ہیں۝۷ اگر اس کے پاس چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر حوائجِ اصلیہ سے زائد مال موجود نہ ہو،تو اس کو زکوٰۃ دینے سے ادا ہوجائے گی۝۸ زکوٰۃ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق کرلے، ظاہری قرائن سے مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دے دی، بعد میں اس کا صاحبِ نصاب ہونا معلوم ہوا تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور اگر بعد میں اس کا غیر مسلم ہونا معلوم ہوا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، دوبارہ زکوٰۃ ادا کرے۝۹ اگر اس کی ملکیت میں حوائجِ اصلیہ کے علاوہ اتنا مال موجود ہو جس کی قیمت ۳۵۔۶۱۲گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہے، اگرچہ وہ مال تجارت کا نہ ہو، توایسے آدمی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۝۱۰ زکوٰۃ کا سال جس روز ختم ہورہاہے اس روز شیئرز کی جو قیمت ہوگی اس کے مطابق حساب لگائے۔ شادی کے زیورات پر زکوۃ زکسی صاحب نصاب نے اپنی بیٹی کے لیے زیور کا ایک سیٹ ۵/تولہ کا خرید کر رکھا ہے، اس کی شادی پر اس کو دیںگے۔ تو اس ۵/تولہ پر زکوۃ ہوگی؟
عرفات:امام کعبہ شیخ بندربن عبدالعزیز نے خطبہ حج میں کہا ہے کہ اللہ زمین پر فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ،اُمت کو چاہیئے ایک دوسرےسےشفقت کامعاملہ رکھے۔ امام کعبہ شیخ بندربن عبدالعزیز نے میدان عرفات میں مسجد نمرہ سے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے فرمایا میرے سوا کسی کو نہ پکارو اور کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، رسول ﷺنے فرمایا، تم زمین والوں پر رحم کرو، اللہ تم پر رحم فرمائے گا، امت کو چاہیئے ایک دوسرے سے شفقت کا معاملہ رکھے، اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے جو گمراہ ہو چکا ہو، اللہ کریم نے کہا میری رحمت میرے عذاب پر غالب ہے ،رسول ﷺنےفرمایا، جنت میں اللہ کے رحم و فضل کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو گا۔ امام کعبہ نے خطبہ حج میں کہا کہ اللہ نے جیسے تم پر احسان کیا ویسے تم لوگوں پر کرو، اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے، اللہ نے والدین کے ساتھ بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا، اللہ کا حکم ہے کہ والدین کے بعد رشتے داروں سے اچھا رویہ اختیار کرو، رسول ﷺنے فرمایا اپنے ملازمین کے ساتھ احسان کا معاملہ اختیار کرو، خادموں پران کی طاقت سے زیادہ بوجھ مت ڈالنا۔ شیخ بندربن عبدالعزیزنے مزید کہا کہ اللہ نے فرمایا اپنے حقوق اوروعدوں کو پورا کرو، تمارے لئے کتاب کو بھیجا گیا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ اور اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے، اپنے نفس کا تزکیہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو، اپنے رب کی ایسے عباد ت کرو جیسے اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ امام کعبہ نے کہا کہ اللہ زمین پر فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو، آپس میں ہمدردی کے تعلقات قائم کرو اور عداوت و نفرت کو ختم کرو، معاشرے میں مساوات قائم کرو، اللہ کی رضا کیلئے ایک دوسرے کو معاف کرو۔ امام کعبہ کا کہنا تھا کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور اپنے وعدوں کو اللہ کی رضا کے لیے پورا کرو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان تمہیں گمرا ہ کرنے کی کوشش کرے گا، اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو سب شیطان کی ہی اتباع کرتے، رسول ﷺنےفرمایا، جنت میں اللہ کے رحم و فضل کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو گا۔ امام کعبہ نے مزید کہا کہ احسان یہ ہے کہ گویا تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور ایسا ممکن نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اللہ کا فرمان ہے جو بندہ اپنےنفس پر ظلم کرتاہے تو اس کیلئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اللہ نے فرمایا اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے تو وہاں مت جاؤ اور وہاں کے لوگ باہر نہ نکلیں، تمام حجاج اپنے اپنے شہروں کیلئے دعا کریں، جب آپ دعا کرتے ہیں تو فرشتے فخر کرتے ہیں۔ خطبہ حج میں کہا گیا کہ اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ نے بندوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمایا، اللہ نے فرمایا میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا،ہمیں اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیئے جس کےسوا کوئی معبود نہیں،رسول کریمؐ آخری نبیؐ ہیں، اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص نماز عصر کی، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرو، بےشک اللہ صبر کرنےوالوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ دوسری جانب غروب آفتاب کے ساتھ عازمین میدان عرفات سے مزدلفہ کیلیے روانہ ہو جائیں گے،یہاں مغرب اور عشا کی نماز قصر کرکے نماز مغربین ادا کی جائے گی حجاج کرام رات کھلے آسمان تلے عبادت میں گزاریں گے،عازمین نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جمرات میں رمی یعنی سب سے بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں گے۔ عازمین اللہ کی راہ میں جانور کی قربانی کے بعدسرمنڈوا کر احرام کی حالت سے باہر آ جائیں گے۔ کورونا کی وبا کے باعث رواں سال 60ہزار عازمین حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں ،جن میں سعودی شہری اور سعودیہ میں ہی مقیم غیرملکی شامل ہیں۔
نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔ کنیت آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ س اپنے والد بزرگوار حضرت محمد مطفی ص کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ سلام اللہ علیہا ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔ والدین آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ (س) بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ(س) بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ رض زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں حضرت:" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔ " پھرحضرت عائشہ رض کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا : "خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ س سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر حضرت عائشہ رض کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔ ولادت حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔ بچپن اور تربیت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری س کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ ص کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براہ راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی خبر ملتی کہ دشمنون نے بابا ص کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ام ابیہا یعنی باپ کی ماں کہہ کر پکارا۔ حضرت فاطمہ(س) کی شادی یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔ مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، ہاں ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب رض کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی رض سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب رض کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔ حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار حضرت فاطمہ زھرا س اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ س کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔ فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔ حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل حضرت فاطمہ زہرا س نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ س لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا س کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول ص نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ س اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ س نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا س انجام دیتی تھیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ سیدہ عالم س نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ ص سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن و حسین علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول ص کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر ص نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ زہرا س کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول ص کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا . "کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔" حضرت زہرا(س) اور جہاد اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا س نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر ص میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ س اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک حکم خداوندی اور پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول ص کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی کہ" اے رسول ص اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور اللہ کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے اللہ کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں .» "عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول اللہ اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا س جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے . فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا س سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا س سے ملنے کے لئے جاتے تھے . اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول ص کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا س کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا . حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں.ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثل" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "" آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول ص کو ایذا دی"۔اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں . فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں افسوس ہے کہ وہ فاطمہ(س) جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے رسول کے جانے کے بعد اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا ۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔ انتہا یہ کہ خود کو امت رسول ص کہنے والے شکی ترین افراد نے سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کر دیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ س کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی رحلت و وصال کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانها صبّت علی الایّام صرن لیالی یعنی "مجھ پر اپنے بابا ص کے وصال کے بعد اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ دن بھی تاریک راتمیں تبدیل ہو جاتے"۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس رٖض نے سبب دریافت کیا تو آپ س نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں اور پیغمبر ص کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ س کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا س کی تھی۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دئے ہیں ۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اولاد حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب س اور ساتویں سال حضرت امِ کلثومس ۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام بطن میں تھے جب ھی وہ ناگوار مصائب در فاطمہ س پر آگ لگا کر دروازے کو شکم خاتون جنت پر گرانا پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں . جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مختصر لیکن برکتوں سے سرشار سیرت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھا ہے۔ اٹھارہ سال کی مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار سیرت و ذندگی، اس قدر زیبا، پر شکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے محققین قلمبند کرچکے ہیں پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدۃ النساء العالمین س کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہوسکا ہے۔ آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین (ع) کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہا ہے ۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا دراصل سورہ کوثر کی عملی تفسیر ہے، حضور اکرم(ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم(ص) کو خدا نے کوئی بیٹا کیوں عطا نہیں فرمایا جو بھی بیٹے دیئے بچپنے میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے ۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو «ابتر» اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کردیا اور کہنے لگے آپ تو «بے جانشین» اور «بے چراغ» ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا(س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام(ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل کردی ۔"اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے"سورہ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھا ہے سورہ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے ایک قاری نے آیت فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔ کی تلاوت کی میں نے سوال کیا : اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں ؟ حضرت نے جواب میں فرمایا : " انبیا(ع) کے گھر ہیں پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا ۔" مورخین نے جیسا کہ لکھا ہے : جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سدباب کیا ہے ۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کرسکتا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتا ہے ۔ معصومہ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام(ص) نے کہ جن کی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ(س) کی حیات کو دنیا بھر کی عورتوں کے لئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیا ہے ۔ حضرت عائشہ رض سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ(س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے سفر سے جب بھی پلٹٹے بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ(س)کی احوال پرسی کرتے تھے ۔ وصال و رحلت خاتون جنت فاطمتہ الزھرا س سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3 مہینے بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار یاسر(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا . آپ کے دفن کی اطلاع بھی عام طور پر سب لوگوں کو نہیں ہوئی، جس کی بنا پر یہ اختلاف رہ گیا کہ اپ جنت البقیع میں دفن ہیں یا اپنے ہی مکان میں جو بعد میں مسجد رسول کا جزو بن گیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن ۱۳۴۴ھجری قمری میں بغض اہل بیت ع رکھنے والے نجدی و ہابی حکمران ابن سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ منہدم کرا دیا۔
یوں تو تقسیم ہند انگریز، ہندو اور مسلمانوں کے مشترکہ معاہدہ کی رُو سے عمل میں آئی تھی، لیکن ہندو اور انگریز دونوں کے دل پر کیا گذری تھی، اِس کا اندازہ اِن اعلانات سے لگائیے، جس سے اِنہوں نے اِس معاہدہ کی رسمِ افتتاحیہ ادا کی تھی۔ یہ معاہدہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین ہوا تھا۔ 3جون1947کو اِس پر دستخط ہوئے اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے 14جون کو قرار داد پاس کی کہ ”آل انڈیا کانگریس کمیٹی کو پورا پورا یقین ہے کہ جب موجودہ جذبات کی شدت میں کمی آجائے گی تو ہندوستا ن کے مسئلہ کا حل صحیح پس منظر میں دریافت کرلیا جائے گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو الگ الگ قومیں ہونے کا باطل نظریہ مردود قرار پاجائے گا۔“ پنڈت جواہر لعل نہرو ایک طرف اِس معاہدہ پر دستخط کررہا تھا اور دوسری طرف قوم سے کہہ رہا تھا کہ ”ہماری سکیم یہ ہے کہ ہم اِس وقت جناحؔ کو پاکستان بنا لینے دیں اور اِس کے بعد معاشی طور پر اور دیگر انداز سے، ایسے حالات پیدا کرتے جائیں جن سے مجبور ہو کر مسلمان گھٹنے کے بل جھک کر ہم سے درخواست کرے کہ ہمیں پھر سے ہندوستان میں مدغم کرلیجئے۔“یہ قوم پرستوں کے نیتاؔ تھے۔ ہندو مہا سبھا کے سرپنچ، ڈاکٹر شیاما پرشاد مکر جی، اپنی جاتیؔ کو یہ تلقین کررہے تھے کہ ”ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کو پھر سے ہندوستان کا حصہ بنالیا جائے، اِس حقیقت سے متعلق میرے دل میں ذرا سا بھی شبہ نہیں کہ ایسا ہو کر رہے گا، خواہ یہ معاشی دباؤ سے ہو یا سیاسی دباؤ سے، یا اِس کے لیے دیگر ذرائع استعمال کرنے پڑیں۔“ انگریز کی کیفیت بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ جب تقسیم ِ ہند کا بل پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش ہوا تو برطانیہ کے وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے (جو اِس وقت میجر ایٹلی تھے) اپنی تقریر میں کہا کہ ”ہندو ستان تقسیم ہورہا ہے لیکن مجھے امید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکے گی اور یہ دونوں مملکتیں جنہیں ہم اِس وقت الگ کررہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی“ راجہ مہندر پرتاپ نے1950میں لاگ گزنی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جب تک پاکستان کا وجود ختم نہیں ہوجاتا ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ حالات اِس طرح بدل رہے ہیں کہ مجھے یقین ہوتا چلا جارہا ہے ہندوستان اور پاکستان میں جنگ، لانیفک ہوگئی ہے۔ بنا بریں میں حکومت ہند کو مشورہ دوں گا کہ وہ افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان کو ختم کردے“۔ دسمبر1947سے لے کر 2022تک بھارت، پاکستان کے خلاف حملے کرنے اور سازشیں رچانے میں تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے لیے جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ پاکستان مخالفین کے بیانات، تقاریر پڑھنے کے بعد، اِس کا تقابلی جائزہ موجودہ حالات سے لینے پر محسوس ہوتا ہے کہ مملکت کو قیام پاکستان کے دور سے دیرینہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اہل وطن میں ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار ریاست کے چند اداروں کو دیتے ہیں لیکن تحمل سے سوچنا ہوگا کہ کیا قیام پاکستان کے وقت کوئی اور ادارہ یا منصوبہ سازتھا جو مہاجرین، دفاع اور معاشی چیلنجوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ کیا سیاسی جماعتوں نے قیام پاکستان کے بعد’قوم‘ بننے کے لیے اپنے قدم بڑھائے تھے یا ہر اُس تانگہ میں سوار ہوجاتے تھے جو انہیں اقتدار کی کرسی کے قریب کردیتا تھا۔ بھارت قیام پاکستان سے پہلے کہہ رہا تھا کہ ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر اِتنا دباؤ کا شکار کیا جائے گا کہ وہ ”مجبور“ ہوجائے گا۔ بھارت پاکستان کو مجبور تو نہ کرسکا لیکن اِس نے چھوٹے چھوٹے گروپوں کو لسانیت، صوبائیت، نسل پرستی اور فرقہ وارانہ جھنڈوں تلے اکٹھا ضرور کردیا ہے۔ بعض احباب بیزاری ظاہر کرتے ہیں کہ ہر معاملہ میں بھارت کو لانا غلط ہے۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ بھارت کی تاریخ ہمیں یہی بتا رہی ہے کہ وہ پاکستان کو سُکھ سے رہنے نہیں دے گااور روز اوّل سے جس پالیسی پر کاربند تھا، وقت ثابت کرتا رہا ہے کہ اِس میں اِس کا ہاتھ ہی نہیں بلکہ پورا بھارت ملوث تھا اور ہے۔ ہمارے ہاں غداری کے سرٹیفکیٹ دیئے جانا اور سیاسی مخالفین کو بھارت سے جوڑنے کی روایت نئی نہیں، سیاسی بنیادوں پر اِس قسم کے عمل سے مملکت کے اصل غدار قوم سے چھپ بیٹھ جاتے اور اِن کی سازشوں سے ریاست کو مشکل اہداف کا سامنا رہتا ہے۔ آج دیکھ لیں کہ جواہر لعل نہرو سے لے کر مودی سر کار، پاکستان کے خلاف کیا کچھ کہتے ہی نہیں بلکہ کرتے رہے اور اَکھنڈ بھارت کا خواب ابھی تک ہندو توا کے پیروکاروں کو چھچھڑے دکھا رہا ہے۔ اِس سے انکار ممکن نہیں کہ اِس وقت مملکت کو معاشی اور سیاسی دباؤ کے ساتھ ساتھ داخلہ و خارجہ سطح پر دفاعی پوزیشن کا سامنا ہے۔ اِن حالات کی زیادہ تر ذمے داری کسی ایک ادارے پر نہیں بلکہ اُن تمام پر عائد ہوتی ہے جو اقتدار میں رہے۔ آج تک کوئی ایسا دور نہیں گذرا، جب کسی مالیاتی ادارے یا ملک سے قرض نہ لیا ہو اور مہنگائی عروج پر نہ ہو۔ معاشی اشاریئے مسلسل ہر دور میں مد و جزر رہے، کبھی کم تو کبھی زیادہ، لیکن سب یکساں اِس کے ذمے دار اِس لیے ہیں کہ انہوں نے معیشت کی مضبوطی کو کبھی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔ قرض لیتے رہے، سود ادا کرتے رہے، پھر قرض لیا اور سود ادا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جارہا ہے، جس کا ادارک کسی عام شہری کو اِس صورت میں ملا کہ اِس کا سیاسی مستقبل تو درخشاں تھا ہی نہیں اب معاشی تحفظات خوف و بے حواسی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یاد رکھیئے کہ جب معاشی عدم تحفظ یا سیاسی دباؤ سے دباؤ میں لاکر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والوں کی سازشیں اُس وقت تک ناکام نہیں ہوسکتیں جب تک ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے نوجوان نسل کو ’بابو صاحب‘ کے بجائے معمار ِ پاکستا ن بننے کی درست سمت پر گامزن نہیں کیا جاتا۔ ماضی میں کیا ہوا، ہم جیسے تیسے سب جانتے ہیں، لیکن مستقبل میں کیا ہوگا، اِس پر قوم کے نوجوانوں کو سوچ فکر اور عملی قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ ماضی پیچھے جاچکا، حال بدتر ہے اور مستقبل مخدوش ہوسکتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کو سندھ حکومت میں شمولیت دعوت دیتے ہوئے دو صوبائی وزارتوں سمیت ایک معاون خصوصی کیا عہدہ دینے پیش کش کردی، جس پر رابطہ کمیٹی نے سوچ بچار کے بعد جواب دینے کا عندیہ دے دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات اور ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت کی حمایت مزید جاری رکھنے کی دھمکی کے بعد جمعرات کوا ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان بلدیاتی ایکٹ اور معاہدے کے حوالے سے بڑا بریک تھرو ہوا اور دونوں جماعتوں کے اعلیٰ سطح کے وفد کی اہم ملاقات ہوئی۔ اس اہم بیٹھک کی وجہ سے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے شیڈول اجلاس میں بھی تاخیر ہوئی۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور بلدیاتی قانون میں آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت ترامیم کرنے پر بات چیت ہوئی ، ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیاتی قانون میں ترمیم کے لیے دیئے گئے نکات کو بلدیاتی قانون کی سمری میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے سنیئر رہنما عامر خان، سابق مئیر کراچی وسیم اختر، رکن سندھ اسمبلی محمد حسین، صادق افتخار اور رابطہ کمیٹی کے بعض دیگر ارکان بھی شامل تھے جبکہ پی پی کی جانب سے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ، ایڈ منسٹریٹر بلدہ کراچی مرتضی وہاب اور دیگر شریک ہوئے۔ ملاقات میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم اور پیپلز پارٹی کی منظور سمری پر تحفظات کا اظہار کیا اور معاملے کو حل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں مزید بات چیت کا بھی فیصلہ کیا۔ اجلاس میں پی پی قیادت کی جانب سے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی بھی دعوت دی گئی اور دو صوبائی وزارتوں ایک وزیر اعلیٰ کے معاون کے عہدے کی پیش کش بھی کی گئی۔ ’اہم کیو ایم کا حصہ ہوں، کسی سے کوئی اختلاف نہیں‘ بعد ازاں بہادر آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کا کہنا تھا وہ ایم کیو ایم کا حصہ ہیں اور جو بھی بات ہوتی ہے وہ پارٹی کے اندر کرتے ہیں کسی سے اختلاف نہیں ہوتا ،،انکا کہنا تھا کہ انکے دو بھائیوں کو سرکاری عہدوں سے ہٹایا گیالیکن وہ کسی کے پوسٹننگ کے معاملے میں کبھی نہیں بولتے۔ ’ہم نے پی پی کے سامنے کراچی کی بدحالی کا مقدمہ بھرپور طریقے سے پیش کیا‘ اجلاس کے بعد ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رکن اسمبلی اور ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونیئر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 140 اے کی روح کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے کیونکہ سپریم کورٹ بھی اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے صوبے میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، چھ ماہ کے طویل عرصے کے بعد پی پی کے ساتھ بیٹھک میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے، اس میں ہم نے کراچی کی بدحالی کا مقدمہ بھرپور طریقے سے پیش کیا۔ خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں تجاویز کو بغور پڑھا گیا، ابھی اُن پر کام ہوگا، اس پر مزید کام کر کے پی پی کو سفارش بھیجیں گے اور امید ہے کہ پی پی ان پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کرے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں سے معاہدے میں بااختیار بلدیاتی نظام کی بات کی ہے۔ ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ کراچی کے معاملے پر تقاریر تو سب کرتے ہیں مگر انہیں حل کرنے کیلیے ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی اور سنجیدہ نہیں ہے۔ ’ایم کیو ایم میں واپسی کا فیصلہ فاروق ستار کو خود کرنا ہے، ہم متعدد بار دعوت دے چکے ہیں‘ ایم کیو ایم کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو متعدد بار پارٹی میں واپسی کی دعوت دی ہے، اب یہ فیصلہ اُن کے ہی ہاتھ میں ہے، ہم نے گورنر سندھ کیلیے صدر پاکستان کو پانچ نام ارسال کیے تھے، پھر ہم نے اُن کو فون تک نہیں کیا۔
پولیس تحقیقات کررہی ہے کہ کس طرح درجنوں مسلم خواتین کو جعلی “نیلامی” میں بغیر کسی علم کے ان کو فروخت کے لئے پیش کیا گیا ، ایک ایسے معاملے میں متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا کی مثال ہے۔ مبینہ طور پر 80 سے زیادہ خواتین کی تصاویر حالیہ ہفتوں میں “آج کے سلی ڈیل” کے عنوان سے ایک کھلا سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پلیٹ فارم ، گٹ ہب پر اپ لوڈ کی گئیں۔ “سلی” مسلم خواتین کے لئے طعنہ زنی ہے۔ حنا محسن خان ، ایک ایئرلائن کے پائلٹ ، کو گذشتہ ہفتے ایک دوست نے الرٹ کیا تھا جس نے اسے ایک ایسی لنک کی ہدایت کی تھی جس کی وجہ سے خواتین کی تصاویر کی ایک گیلری بھی موجود تھی۔ خان نے اے ایف پی کو بتایا ، “چوتھی تصویر میری تھی۔ وہ لفظی طور پر مجھے دن کے غلام کے طور پر نیلام کررہے تھے۔” انہوں نے کہا ، “اس سے میری ریڑھ کی ہڈی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک ، میں مستقل طور پر غصے کی حالت میں ہوں۔” گٹ ہب نے کہا کہ اب اس نے صارفین کے اکاؤنٹس کو معطل کردیا ہے ، اور کہا ہے کہ انہوں نے ہراساں کرنے ، امتیازی سلوک اور تشدد کو بھڑکانے سے متعلق اس کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ دہلی پولیس نے الزامات عائد کردیئے ہیں – لیکن نامعلوم افراد کے خلاف کیونکہ وہ قصورواروں کی شناخت نہیں جانتے ہیں۔
کیا آپ کو پتہ ہے ہماری زمین بھی ایک بڑے مقناطیس کی طرح ہے اور دیگر مقناطیسوں کو اپنے شمالی قطب کی جانب کھینچتی ہے۔ آپ اس تجربے سے یہ معلوم کرسکتے ہیں۔ کرنے کے کام پانی سے بھرے پیالے میں کاغذ کا ٹکڑا رکھیں۔ اس پر ایک مقناطیسی سوئی بھی رکھ دیں۔ اب جس جگہ وہ رخ کررہی ہے، پیالے پر مارکر سے نشان لگائیں۔ یہی کام کاغذ کا ایک اور ٹکڑا رکھ کر کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ دونوں سوئیاں ایک ہی جانب رخ کررہی ہیں جو کہ شمال اور جنوب کی لکیر میں ہے۔ شمال کی سمت کیسے معلوم کریں یہ معلوم کرنے کے لیے شمال کس طرف ہے آپ قطب نما بھی استعمال کرسکتے ہیں اور اپنے سایے سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ آدھے دن میں دھوپ میں آئیں۔ اگر آپ دنیا کے اس حصے میں رہتے ہیں جو خط استوا کے شمال کی طرف ہے تو پھر سایہ شمال کی جانب ہوگا۔ جب کہ خط استوا کے جنوب کی طرف رہنے والوں کا سایہ جنوب کی طرف ہوگا۔ مقناطیسی قطب شمالی اور جغرافیائی قطب شمالی کا فرق پندرہویں صدی کے دوران یہ معلوم ہوا کہ مقناطیس بالکل زمین کے قطب شمالی کی طرف رخ نہیں کرتا۔ یعنی جغرافیائی اور مقناطیسی قطب شمالی میں تھوڑا سا فرق موجود ہے۔ درحقیقت مقناطیسی قطب شمالی زمین پر موجود قطب شمالی سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ قطب نما میں ان دونوں کے درمیان بننے والے زاویے کو “انحراف” کہا جاتا ہے
بختاور بھٹو زرداری اور ان کے شوہر محمود چوہدری کے گھر ننھے مہمان کی آمد رواں ماہ کی 10 تاریخ کو ہوئی__فوٹو فائل پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی ہمشیرہ بختاور بھٹو نے اپنے بیٹے کی تصویر شیئر کر دی ہے۔ بختاور بھٹو زرداری نے کچھ دیر قبل انسٹاگرام پوسٹ پر بیٹے 'میر حاکم محمود چوہدری' کی تصویر شیئر کی ہے جس پر بڑی تعداد میں صارفین نوزائیدہ کیلئے دعائی کلمات کہہ رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں بختاور بھٹو نے اپنے بیٹے کا نام کن دو شخصیات کے ناموں پر رکھا؟ بختاور بھٹو کے ہاں بیٹے کی ولادت، آصف زرداری نانا اور بلاول ماموں بن گئے بختاور نے اپنی پوسٹ میں بتایا کہ یہ تصویر اس وقت کی ہے جب حاکم ایک ہفتے کا تھا۔ خیال رہے کہ بختاور بھٹو زرداری اور ان کے شوہر محمود چوہدری کے گھر ننھے مہمان کی آمدگذشتہ ماہ کی 10 تاریخ کو ہوئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے بتایا تھا کہ بیٹے کا نام مرحوم ماموں کی نسبت سے 'میر 'جب کہ دادا کی نسبت سے 'حاکم' رکھاہے۔
دنیا کی تاریخ پراسرار لوگوں کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے کارنامے عام انسانوں سے مختلف تھے۔ ان کے انداز مختلف تھے اور ان کی زندگی مختلف تھی۔ ان میں اکثر ایسے تھے جن کی شناخت بھی نہیں ہوسکی۔ مونسیر چوچانی(Monsieur Chouchani) ایسا ہی ایک حیرت انگیز کردار تھا۔ اس کی موت 1968ء میں ہوئی، یعنی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اس کے باوجود اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کون تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فزکس کے چند طالب علم ایک پارک میں بیٹھے فزکس کے کسی فارمولے میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک دبلا پتلا لیکن روشن آنکھوں والا بوڑھا ان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ ‘‘میرے بچو! تم لوگ کس مسئلے میں الجھے ہوئے ہو۔’’ اس نےدریافت کیا۔ ‘‘بڑے میاں، ہم ایک مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں جو تمہارے بس کا روگ نہیں ہے۔’’ ایک لڑکے نے کہا۔ ‘‘چلو کم از کم بتا ہی دو۔’’ لڑکوں نے اس پراسرار شخص کو فزکس کی وہ پرابلم بتا دی۔ اس نے ذرا سی دیر میں وہ مسئلہ حل کردیا۔ وہاں بیٹھے ہوئے فزکس کے سارے طالب علم حیران رہ گئے۔ ‘‘آپ کون ہیں جناب!’’ اب لڑکوں نے بہت احترام سے دریافت کیا۔ ‘‘چوچانی!’’ اس نے اپنا نام بتایا ‘‘کل تم لوگ پھر مل جانا، میں تمہیں فزکس پڑھا دیا کروں گا۔’’ پھر وہ پارک کے گیٹ سے باہر نکل گیا۔ دوسرے دن وہ طالب علم پھر اسی پارک میں جمع ہوگئے۔ چوچانی اپنے وقت پر نمودار ہوا اور اس نے فزکس کے کچھ اور مسائل ان لڑکوں کو سمجھا دیے۔ اس مرتبہ ایک لڑکے نے اس سے کہا ‘‘جناب، آپ اپنا ایڈریس بتا دیں تاکہ آپ کو آنے کی زحمت نہ ہو، ہم خود آپ کے پاس پہنچ جایا کریں۔’’ ‘‘میرا کوئی ایڈریس نہیں ہے۔’’ چوچانی نے مسکرا کر کہا ‘‘اب میں دو دن کے بعدآؤں گا۔’’ اتفاق سے دو دنوں کے بعد فلسفے کا ایک طالب علم بھی فزکس کے طلبہ کے ساتھ چلا آیا تھا۔ جب اس نے چوچانی کو بتایا کہ وہ فلسفے کا طالب علم ہے تو چوچانی نے اسے فلسفے پر بھی ایک لیکچر دے دیا اور اس وقت پتا چلا کہ یہ شخص تو فزکس کے ساتھ ساتھ فلسفہ بھی جانتا ہے۔ چوچانی پورے تین برسوں تک طالب علموں کو فزکس، فلسفہ، نفسیات، لٹریچر اور تاریخ پڑھاتا رہا۔ اس سے پڑھنے والوں میں اس وقت کے مشہور لوگ بھی تھے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے…. کئی مرتبہ اس کا تعاقب کر کے اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر کوشش ناکام رہی۔ وہ تعاقب کرنے والوں کو غچہ دے کر غائب ہو جاتا تھا۔ کسی کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا خاندان کہاں ہے۔ آیا کہ وہ دنیا میں اکیلا ہے یا اس کے گھر والے بھی ہیں۔ اگر ہیں تو وہ کون لوگ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چوچانی کے ہزاروں شاگرد تھے اور کئی علوم میں اسے دسترس حاصل تھی۔ وہ کسی سے ایک پائی بھی معاوضے کے طور پر نہیں لیتا تھا۔ وہ یہودی اور اسرائیل کا شہری تھا جس کی موت کا سال لوگوں کو اس طرح یاد رہ گیا تھا کہ اس کی لاش اسی پارک میں پڑی ہوئی ملی تھی جہاں وہ پہلی مرتبہ فزکس کے طالب علموں کے سامنے نمودار ہوا تھا۔
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب اور مدین کی طرف (١) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو (٢) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (٣) تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ 1- مدین حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا۔ ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلہ مدین کی طرف حضرت شعیب (عليہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط (عليہ السلام) کی بستی کے قریب ہی تھا۔ 2- اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لیے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لیے کہ وہ اسے فراموش کیے ہوئے تھے اور معصیتوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فراموش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔ 3- ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا، یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں بھی انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
(24 نیوز ) پاکستان کا پہلا قومی شناختی کارڈ 1973ء میں متعارف کرایا گیا تھا جو کہ سب سے پہلے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاری کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق سب سے پہلا قومی شناختی کارڈ ذوالفقار علی بھٹوکو جاری کیا گیا تھا، 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس کارڈ کا فارمیٹ متعارف کروایا تھا جسے 1973ء میں سب سے پہلے اُنہیں ہی جاری کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل قیامِ پاکستان کے چھبیس برسوں تک پاکستان میں کسی قسم کا کوئی حتمی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ View this post on Instagram A post shared by Graduate Talks (@graduatetalks.pk) 2000 میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے قیام کے بعد ملک میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) کا آغاز ہوا۔ #Pakistan's 1st NIC card .The new ID card format was introduced by ZAB himself in 1972. So his was the first id card pic.twitter.com/kHRfDklg8K
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے یوکرین میں موسم سرما کے باعث لاکھوں افراد کی زندگیوں کو لاحق خدشے سے آگاہ کردیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق عالمی ادارہ صحت اور یورپ کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہنس کلوگ کا کہنا ہے کہ یوکرین میں موسم سرما کا آغاز ہوگیا ہے جہاں کچھ علاقوں میں منفی 20 ڈگری تک درجہ حرارت گرنے کا امکان ہے۔ ایسے میں یوکرین کی توانائی کا آدھا انفرااسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایک کروڑ لوگ سرد موسم میں بجلی سے محروم ہیں۔ یہ بھی پڑھیں یوکرین: توانائی کمپنی کے سربراہ کا بجلی کی بچت کیلئے عوام کو ملک چھوڑنے کا مشورہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے یوکرینی جوہری پلانٹ پر روسی دعویٰ کو تشویش ناک قرار دے دیا ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق روس نے یوکرین کے صحت کے مراکز سمیت توانائی کے انفرااسٹرکچر پر بھی 703 حملے کیے ہیں جس کی وجہ سے اسپتال ناصرف بجلی سے محروم ہیں بلکہ وہاں صحت کی سہولیات بھی موجود نہیں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ موسم سرما میں لاکھوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کو محفوظ مقامات پر پناہ حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے بھی روس نے یوکرین کے بجلی گھروں اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ (1888-1965) کا نظریۂ روایت اور انفرادی صلاحیت نے نئی تنقید کے ساتھ ساتھ مابعد جدید تھیوری پر بھی اثرات مرتب کیے۔ وہ شاعری کو غیر شخصی قرار دیتا ہے کہ وہ شخصی جذبات نہیں رکھتی۔ وہ شاعر کے ذہن اور اس کی شخصیت کو الگ الگ حیثیت میں بیان کرتا ہے۔ وہ شاعر کی شخصیت (جو محسوس کرتی ہے) اور شاعر کے ذہن (جو تخلیقی عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جذبات کو نئے امتزاجی رشتوں میں ڈھالتا ہے) میں فرق سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں شاعری شخص کو ذریعہ بناتی ہے۔ اس لیے ادب کو شخصی حوالے سے یا سوانحی حوالے سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے۔ وہ پوری دنیا کے ادب کو ایک نظام میں منسلک قرار دیتا ہے۔ وہ نظام جو اس کے خیال میں مثالی ہے۔ شاعر اسی مثالی نظام سے وابستہ ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے تصورِ روایت نے نئی تنقید کے علمبرداروں کو تحریک دی کہ شعر کی تفہیم کے لیے فن پارے سے باہر مت جھانکیں بلکہ شعریات پر توجہ دیں۔ ایلیٹ اپنے نظریات میں فنکار کی انفرادیت کے بجائے شخصیت کی نفی کرتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کے نظریے نے بیسویں صدی میں ادبیت پر زور دیا۔ نئی تنقید بھی ادب کی ادبیت کو قائم رکھتی ہے۔ (’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ از ’’ڈاکٹر محمد اشرف کمال‘‘، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، اشاعت دسمبر 2019ء، صفحہ نمبر 82 اور 83 سے انتخاب)
HomeHealth-and-Beautyکورونا وائرس کے دوران اپنے مدافعتی نظام کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹاپ وٹامنز اور معدنیات | Coronavirus کورونا وائرس کے دوران اپنے مدافعتی نظام کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹاپ وٹامنز اور معدنیات | Coronavirus urdunom April 12, 2021 کورونا وائرس کے دوران اپنے مدافعتی نظام کو بڑھاوا دینے کے لیے ٹاپ وٹامنز اور معدنیات Coronavirus مدافعتی نظام کیمیکلز ، عمل اور خلیوں کا ایک پیچیدہ ذخیرہ ہے جو حملہ آور پیتھوجینز کے خلاف جسم کا مستقل دفاع کرتا ہے ، جس میں بیکٹیریا ، زہریلا اور وائرس شامل ہیں۔ کیا کوویڈ 19 سے لڑنے کے لئے مدافعتی نظام کو فروغ دیا جاسکتا ہے؟ یہ سوال ابھی سب کے ذہن پر ہے کیونکہ دنیا کو صحت کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ کوئی بھی نہیں جانتا ہے کہ کس طرح وائرس سے ہونے والے نقصان کو پوری طرح سے سنبھالنا یا اس سے بچانا ہے ، اس کے باوجود ، چونکہ کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی بیماری انسانوں کے لئے نیا ہے۔ تاہم ، عام طور پر بیماری اور انفیکشن سے بچنے کے لئے مدافعتی نظام کو صحت مند رکھنا ضروری ہے۔ مدافعتی نظام کو تقویت دینے کے ل A ایک شخص کو ورزش کرنے ، کافی نیند لینا ، اور متناسب غذائیں کھا کر صحت مند طرز زندگی کے انتخاب کرنا پڑتے ہیں۔ کچھ جڑی بوٹیاں ، معدنیات ، اور وٹامنز مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے اور جسم کو بیماریوں سے بچانے کے لئے بھی مدد کرسکتے ہیں۔ تاہم ، اس مشکل وقت میں ، آس پاس کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ فنڈز کو محفوظ کرنا ضروری ہے جب دنیا اس وبائی بیماری سے ٹھیک ہوجائے گی۔ ان لوگوں کے لئے جو اپنے بجٹ میں سختی کر رہے ہیں اور ان وٹامنز اور معدنیات کی خریداری میں پیسہ بچانا چاہتے ہیں ، آپ کو دستیاب ڈیلوں کا استعمال کرکے ایسا کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ تو ، کورونا وائرس کے دوران آپ کے مدافعتی نظام کو بڑھانے کے ل for کون سے اعلی وٹامن اور معدنیات ہیں؟ انہیں نیچے دریافت کریں۔ زنک اس معدنیات کو عام طور پر سپلیمنٹس کے ساتھ ساتھ ہیلتھ کیئر کی دیگر مصنوعات میں بھی شامل کیا جاتا ہے جو آپ کے مدافعتی نظام کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنک ایک معدنیات ہے جو انسانی قوت مدافعت کے نظام کے کام کرنے کے لئے ضروری ہے۔ مدافعتی سیل کی نشوونما اور مواصلات کو زنک کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اشتعال انگیز ردعمل کے دوران بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ زنک غذائیت کی کمی کا مدافعتی نظام کی صحیح طریقے سے کام جاری رکھنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر متاثر کرتا ہے۔ یقینا ، اس کے نتیجے میں نمونیا سمیت انفیکشن اور بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زنک کی اونچی کھانوں میں گری دار میوے ، گوشت ، شیلفش ، لیگیز ، بیج ، دودھ کی مصنوعات ، انڈے ، ڈارک چاکلیٹ شامل ہیں وٹامن ڈی مدافعتی نظام کی صحت اور کام کرنے کے لئے یہ چربی گھلنشیل غذائیت ضروری ہے۔ وٹامن ڈی لڑنے والے پیتھوجینز میں میکروفیجز اور مونوکیٹس کے اثرات کو بڑھاتا ہے۔ میکروفیجز اور مونوکیٹس سفید خون کے خلیات ہیں جو مدافعتی دفاع کے ضروری حصوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وٹامن ڈی سوجن کو بھی کم کرتا ہے ، جو مدافعتی ردعمل کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ ایسی حالت مناسب قوت مدافعت کے نظام کے کام کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ در حقیقت ، وٹامن ڈی کی کم سطح الرجک دمہ ، انفلوئنزا ، اور دوسرے اوپری سانس کی نالی کے انفیکشن کے نمایاں طور پر بڑھتے ہوئے خطرے سے وابستہ ہیں۔ کسی شخص کے خون کی سطح پر انحصار کرتے ہوئے ، کہیں بھی ہر روز ایک ہزار سے چار ہزار بین الاقوامی یونٹوں میں وٹامن ڈی کی فراہمی پہلے ہی بیشتر افراد کے لئے کافی ہے۔ تاہم ، جن میں زیادہ سنگین کمی ہے ان کو زیادہ مقدار میں خوراک کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ وٹامن ڈی کے لیے ٹاپ فوڈز میثاق جمہوری تیل ، انڈے کی زردی ، مشروم ، تیل مچھلی وغیرہ ہیں۔ وٹامن اے وٹامن اے فوڈ کے لئے رنگین بنیں جس میں رنگین مرکبات شامل ہیں جن میں کیروٹینائڈز کہتے ہیں ، جس میں اسکواش ، کینٹالپ ، کدو ، میٹھے آلو ، اور گاجر سب اچھی اختیارات ہیں۔ انسانی جسم ان کیروٹینائڈز کو وٹامن اے میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے وٹامن میں اینٹی آکسیڈینٹ اثر ہوتا ہے اور انفیکشن کے خلاف آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ وٹامن اے کا بہترین ذریعہ بیف لیور ، سویٹ آلو ، کوڈ لیور آئل ، گاجر ، ٹونا ، بٹرنٹ اسکواش ، پالک ، کینٹالپ وغیرہ ہیں۔ وٹامن سی مختلف قسم کے انفیکشن سے بچانے کے لئے جو مقبول ترین ضمیمہ لیا جاتا ہے ان میں سے ایک وٹامن سی ہے۔ اس قسم کا وٹامن انسانوں کی مدافعتی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وٹامن سی مختلف مدافعتی خلیوں کے کام کی حمایت کرتا ہے ، اور انفیکشن سے جسم کی حفاظت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ وٹامن سی سیل کی موت کے لیے بھی ضروری ہے ، پرانے خلیوں کو صاف کرکے اور ان کی جگہ بالکل نیا رکھ کر مدافعتی نظام کو مستحکم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ چونکہ یہ ایک طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ ہے ، لہذا یہ وٹامن جسم کو آکسیڈیٹیو تناؤ سے ہونے والے نقصانات سے بچانے میں بھی کام کرتا ہے۔ آکسیڈیٹیو تناؤ کے نتیجے میں تعاملاتی انووں کے جمع ہوجاتے ہیں ، جنھیں فری ریڈیکلز بھی کہا جاتا ہے۔ آکسیڈیٹو دباؤ مدافعتی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے اور متعدد بیماریوں سے وابستہ ہے۔ عام سردی سمیت بالائی سانس کی نالی میں انفیکشن کی شدت اور مدت کو کم کرنے میں وٹامن سی لینے سے پتہ چلتا ہے۔ وٹامن سی میں اعلی غذائیں کھانے میں امرود کی کچی ، کاکادو پلوز ، میٹھی سرخ مرچ ، ایسروولا چیری ، ٹماٹر کا رس ، اورینج کا رس ، گلاب کولہے ہیں۔ whi وٹامن ای وٹامن سی کی طرح یہ وٹامن بھی ایک طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ ہے۔ یہ جسم کو انفیکشن سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔ سورج مکھی کے بیج ، ہیزلنٹ ، مونگ پھلی اور بادام وہ غذا ہیں جن میں وٹامن ای کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ نمکین کے بجائے کھانے کے ذریعہ اپنے وٹامن ای کی مقدار کو بڑھانا پسند کرتے ہیں تو ، آپ بروکولی اور پالک کو آزما سکتے ہیں۔ وٹامن ای ایک اہم وٹامن ہے۔ یہ جسم میں تقریبا 200 بائیو کیمیکل رد عمل کا حصہ ہے اور مدافعتی نظام کے کام میں اہم ہے۔ وٹامن ای میں اعلی کھانے کی اشیاء میں گندم کے جراثیم کا تیل ، مونگ پھلی ، سورج مکھی کے بیج ، کچھ تیل ، بادام ، ایوکاڈوس ، بیٹ کی گرین اسپینچ ، ٹراؤٹ وغیرہ شامل ہیں۔ آخری خیالات یہ معدنیات اور وٹامن انسانوں کی مدافعتی صحت کے لیے فوائد پیش کرسکتے ہیں ، لیکن انہیں صحت مند طرز زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ 2021کے کورونا وائرس وبائی مرض کے ساتھ ، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہاں کوئی غذا ، اضافی خوراک ، یا طرز زندگی کی کوئی دوسری دوائی نہیں ہے جو کسی کوویڈ 19 سے محفوظ رکھ سکتی ہے جس میں کسی کو حفظان صحت کے مناسب طریقوں اور معاشرتی فاصلے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس مضمون نے جو کچھ فراہم کیا ہے وہ وہ معلومات ہے جو عام طور پر آپ کے دفاعی نظام کے دفاع کو تقویت بخش سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس وقت حکومت اور حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اس سلسلہ میں عدالت میں پیشی سے صدر اور وزیراعظم کی استثنا پر ملک بھر میں بحث و تمحیص جاری ہے۔ ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی روایات و تعلیمات کے مطابق حاکم وقت بھی اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہونے کا پابند ہے جس طرح رعیت کے دوسرے لوگ پابند ہیں، جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف سے اس بات پر دلائل دیے جا رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ کی عدالت میں پیشی سے استثنا ضروری اور مستحسن ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عمرؓ عدالت میں اس لیے پیش ہو گئے تھے کہ اس وقت صرف قرآن تھا اور کوئی دستور موجود نہیں تھا۔ اب چونکہ دستور موجود ہے اس لیے صدر اور وزیر اعظم عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ ہیں۔ اس پر اخبارات میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے جس میں دن بدن تیزی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہم اس وقت اس مسئلہ کے صرف ایک پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری خیال کر رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم خود کسی اسلامی ریاست کے لیے دستور کی حیثیت نہیں رکھتا اور کیا قرآن کریم کو ریاست و مملکت کے تمام معاملات میں بالادستی حاصل نہیں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو قرآن کریم کے مطابق چلاتا رہے‘‘ (ما یقودکم بکتاب اللہ) تو یہ قرآن کریم کی اسی حیثیت کا اعلان تھا کہ وہ اسلامی ریاست کا دستور ہے اور ریاست و حکومت کے تمام معاملات کا اسی دستور کے دائرے میں رہنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطبے (پالیسی خطاب) میں فرمایا تھا کہ میں تم سے کتاب و سنت کے مطابق چلنے کا وعدہ کرتا ہوں، جب تک میں کتاب و سنت کے مطابق حکمرانی کروں، تم پر میری اطاعت واجب ہے، اور اگر میں قرآن و سنت کی اطاعت سے ہٹ جاؤں تو تم پر میری ضروری نہیں ہے۔ خلیفہ اول نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر اس سے ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ اعلان قرآن و سنت کی دستوری حیثیت کا اعلان تھا اور خلافتِ راشدہ کا آغاز قرآن و سنت کو اپنا دستور اور بالاتر قانون تسلیم کرنے کے ساتھ ہوا تھا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنے پہلے خطبے میں یہی اعلان کیا تھا اور اس میں یہ اضافہ فرمایا تھا کہ میں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ کی روایات بھی قائم رکھوں گا۔ جبکہ خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ کی خلافت کا فیصلہ کرتے وقت اس کی مجاز اتھارٹی حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے امیر المومنین کی حیثیت سے حضرت عثمان بن عفانؓ کی بیعت ہی اس شرط پر کی تھی کہ ’’ابایعک علی سنۃ اللہ و رسولہ و الخلیفتین من بعدہ‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام) یعنی میں آپ کی بیعت اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ کتاب و سنت کی پیروی کریں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو خلفاء حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی روایات کی پاسداری کریں گے۔ ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنی حکومت کی بنیاد اسی اصول کو قرار دیا تھا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن و سنت اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کو اسلامی ریاست میں صرف راہنما اصول یا Source of Law (ماخذ قانون) کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ یہ خود قانون اور دستور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور قرآن و سنت کی اسی اصولی حیثیت سے انکار آج کے دستور سازوں اور قانون سازوں کے ہاتھ میں قرآن و سنت سے انحراف کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہمارے ہاں قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی یہ بحث جاری ہے کہ قرآن و سنت خود قانون ہیں یا انہیں صرف ’’سورس آف لا‘‘ کی حیثیت حاصل ہے؟ اور محترمہ فوزیہ وہاب کے اس بیان کے پس منظر میں بھی ہمیں اسی تردد اور ابہام کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن جب ہم بانیٔ پاکستان قائد اعظم جناب محمد علی جناح مرحوم کے ان بیانات و اعلانات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمائے تھے تو ان میں ہمیں اس قسم کا کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔ چنانچہ انہوں نے اگست ۱۹۴۴ء میں کانگرسی راہنما جناب گاندھی کو جو تفصیلی خط تحریر کیا، اس میں کہا کہ: ’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوج داری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ وہ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک ہر ایک فعل، قول، حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔‘‘ جبکہ اس سے قبل ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم یہ فرما چکے تھے: ’’مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔‘‘ قائد اعظم کے بیان کردہ دونوں نکتوں پر غور کر لیجیے: مسلمانوں کا طرز حکومت تیرہ سو قبل قرآن کریم نے طے کر دیا تھا۔ پاکستان کا طرز حکومت طے کرنا پاکستان میں رہنے والوں کا کام ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ دستوری حیثیت قائد اعظم کے ذہن میں بے غبار اور واضح تھی اور پاکستان کے رہنے والوں نے بھی طویل دستوری جدوجہد کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں یہ بات طے کر دی تھی کہ قرآن و سنت کو ملک میں بالاتر حیثیت حاصل ہوگی اور دستور و قانون دونوں کو ان کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ اس لیے محترمہ فوزیہ وہاب اور ان کے ہمنواؤں سے ہماری گزارش ہے کہ وقتی اور گروہی سیاسی مفادات کے لیے قرآن و سنت کی بالاتر اور دستوری حیثیت کو زیربحث لانے سے گریز کریں۔ قرآن و سنت کو خلافتِ راشدہ میں بالاتر درجہ حاصل تھا اور پاکستان کا دستور بھی انہیں بالاتر تسلیم کرتا ہے، اس لیے قرآن و سنت کی اس اصولی حیثیت کے بارے میں تردد اور ابہام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان، دونوں سے انحراف کے مترادف تصور ہوگی۔
اسلام آباد : نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں کورونا کی موجودہ صورتحال پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کورونا پابندیوں پر عملدرآمد کرنے پر شہریوں کی تعریف کی اور فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیراسد عمر، میجر جنرل ظفر اقبال کی زیرصدارت این سی او سی کا اجلاس ہوا، جس میں معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے شرکت کی۔ اجلاس میں این سی او سی نے ملک میں کورونا ویکسین کی دستیابی ویکسینیشن مہم پر غور کیا اور ملک میں کورونا کی موجودہ صورتحال پر اظہار اطمینان کیا۔ این سی او سی نے کورونا پابندیوں پر عملدرآمد کرنے پر شہریوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کورونا وبا کے دوران شہریوں نےانتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، شہریوں کے ذمہ دار کردار کی بدولت وباکا پھیلاوؤروکنے میں مدد ملی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس نے زندگیاں داؤپرلگاکرڈیوٹی کی، کورونا کے دوران فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز نے بے شمار انسانی زندگیاں بچائیں۔ این سی اوسی کا کہنا تھا کہ کورونا کے دوران معاشرے کے تمام طبقات نے مثبت کردار ادا کیا، وباکے دوران ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیز سمیت فریقین کا مثبت کرداررہا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق کورونا وباکے دوران علما اور اکیڈمیوں نے ذمہ داریاں بخوبی پوری کی اور ملکی میڈیا نے مثبت، ذمہ دارانہ کردار ادا کیا، میڈیا نے کورونا سےمتعلق معلومات کی آگاہی میں اہم کردار ادا کیا۔
صورتحال میں آج غیر متوقع اور اچھی تبدیلی آ رہی ہے ایک بڑا کام آپکی سوچ کے مطابق ہوگا اور ضرورت کے تحت رقم کا حصول بھی آسان ہوا دکھائی دیتا ہے۔ برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی آپ جس فیصلے کا شکار ہیں وہ آپ کا اپنا پیدا کردہ ہے اب آپ نے خود ہی اپنی غلطیوں کو دور کرنا ہے اور آج اپنے تمام معاملات کا بھی ازسر نو جائزہ ضرور لیں۔ برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون گھرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے آپ کو آج اپنے تمام معاملات میں بہتری کا ہی سامنا ہے اور جو بھی امید دوسروں سے وابستہ کر رکھی ہے وہ بھی پوری ہو جائے گی۔ برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی آج کسی جانب سے اچانک رکاوٹ ملنے کا خطرہ ہے اور آپ جو بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سوچ سمجھ کر اس کو شروع کریں ورنہ مایوس والی کیفیت ہو گی۔ برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست جو لوگ پہلے کافی دنوں سے مالی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں وہ فکر نہ کریں اور غیر متوقع ذریعے بن جانے کے امکانات روشن ہیں۔ شام تک ہی بہتری آ جائے گی۔ برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے 22 ستمبر انجان شخص پر بالکل بھروسہ نہ کریں آپ کے لئے وہ مشکل پیدا کر سکتا ہے اور کسی بڑی رقم سے محروم بھی کر سکتا ہے۔ آج ویسے بھی دوست بے وفائی پوزیشن میں ہے۔ برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر صحت کا صدقہ ضرور دیں اور دوسروں کے سامنے صرف بات کریں جس پر آپ پورا اتر سکتے ہیں۔ جھوٹ سے دور رہیں اور آجکل غصہ بھی قابو میں ضرور رکھیں۔ برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر بندش ہے اور کسی سخت چیز کی ہے آپ اگر سورة قلم کی آخری دو آیات صبح و شام پڑھنا شروع کر دیں تو اس کے ٹوٹنے کے امکانات روشن ہیں آج صدقہ دیں۔ برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر جس کام میں ہاتھ ڈالنے میں ناکامی ملتی ہے ستاروں کی چال ان دنوں رجعت کا شکار ہے۔ اس لئے آپ نماز پر توجہ دیں اور روزانہ 1000 مرتبہ اللہ اور درود شریف پڑھیں۔ برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری آپ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے معاملات خود خراب کر رہے ہیں فوری طور پر واپسی کا راستہ اختایر کریں تو بہتر رہے گا۔ آج کا دن صرف روزگار کے حصول کے لئے ہے۔ برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری ایک بند سلسلہ دوبارہ ملنے کا امکان ہے۔ آج آپ کی گھریلو زندگی میں اہم فیصولں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ناراض لوگوں سے بھی صلح کا امکان ہے پرانی دشمنی ختم ہو گی۔ برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ آج کا دن اچھا اور روحانی حوالے سے خاص طور پر مہربان ہے آپ کی بڑی کوشش بھی کامیابی سے ہمکنار کرے گی اولاد کا سلسلہ بھی اب بہتری کی جانب جا رہا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ شیطان ہمیشہ ہمیں ہرانے آتا ہے، ہمیں برائی کی راہ پر چلانے آتا ہے اور ہمیں دکھ دینے آتا ہے. آج میں آپکو ان پانچ طاقتوں کے بارے میں بتاؤں گا جو یسوع المسیح نے ہمیں شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے بخشی ہیں. یسوع المسیح ہمیں جیون دینے آئے ہیں. پانچ چیزیں جو مسیحیت میں بہت خوبصورت ہیں میں آپکو اُن کے بارے بتانا چاہتا ہوں۔ پانچ کا ہندسہ انجیل میں بہت بار آیا ہے. پانچ سے مراد ہم اپنے ہاتھ کی پانچ انگلیوں کو لیتے ہیں. ان پانچ انگلیوں سے انسان بہت کچھ کر سکتا ہے. یہی پانچ انگلیاں خدا سے دعا مانگتے وقت ہم اٹھاتے ہیں. ہماری زندگیوں میں ان پانچ انگلیوں کا بہت بڑا کام ہے. ہم اِن ہاتھوں کو لوگوں کی خدمت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہی ہاتھ کسی کے لیے دعا میں اٹھتے ہیں. یہی ہاتھ ہم خدا کے آگے اپنے دل پر رکھ کر اپنی مرادیں اسکو بتاتے ہیں اسی طرح یسوع المسیح نے انہیں ہاتھوں سے بہت سارے معجزے کیے، بڑے بڑے کام کیے. جیسا کہ یسوع مسیح نے کہا کہ تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو وہ شفا پائیں گے. ہمارے گناہوں کے لیے یسوع المسیح نے انہیں ہاتھوں کے اوپر کیل کھائے. جیسے پانچ انگلیاں ہیں اسی طرح خدا نے ہمیں پانچ طاقتیں دی ہیں اور وہ پانچ طاقتیں زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہیں. مسیحی ہونے کے ناطے ہمیں ان پانچ چیزوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ سب سے پہلی چیز ہے خدا. 1 کرنتھیوں 3 باب 16 آیت: “کیا تم نہیں جانتے کے تم خدا کے مقدس ہو اور خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے؟”۔ ہمارا جسم پاک روح کا مقدس ہے۔ دوسری بات یسوع مسیح ہیں۔ متی 28 باب 20 آیت: “اور انکو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں”۔ اگر ہم یہ طاقت ہمیشہ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں کبھی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ تیسری طاقت ہے روح القدس۔ یوحنا 14 باب 16-18 آیت: “اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے. یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی اور نہ جانتی ہے. تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا. میں تمہیں یتیم نہ چھوڑونگا. میں تمہارے پاس آؤنگا”. پاک روح کی طاقت ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ کبھی ہمیں اکیلا اور یتیم نہ چھوڑے گا۔ چوتھی طاقت ہے یسوع المسیح کا لہو. افسیوں 2 باب 13 آیت: “مگر تم جو پہلے دور تھے اب مسیح یسوع میں مسیح کے خون کے سبب سے نزدیک آگئے ہو”. ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی ہے کہ یسوع المسیح کا خون ہمارے لیے بہت بڑی طاقت ہے کیونکہ اس کے لہو نے ہمیں گناہوں سے آزاد کروایا۔ اسکے لہو میں شفا ہے. یسوع کا لہو ہمارے لیے برکت والا ہے. اور یہ ہمارے لیے بہت بڑی طاقت ہے۔ پانچویں طاقت خدا کے فرشتے. عبرانیوں 1 باب 13 آیت: “لیکن اس نے فرشتوں میں سے کسی کے بارے میں کب کہا تو میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے کی چوکی نہ کردوں؟ کیا وہ سب خدمتگار روحیں نہیں جو نجات کی میراث پانے والوں کی خاطر خدمت کو بھیجی جاتی ہیں؟”۔ یہی فرشتے خدا کی طرف سے ہم سب کی مدد اور حفاظت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ آمین Share Facebook Twitter email Tags:خدا,خدا کے فرستے,روح القس,مسیحیت میں پانچ طاقتیں,مسیحیوں کی طاقت,پانچ طاقتیں,یسوع مسیح,یسوع کا لہو
انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی وی حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو ڈھائی بجے سنایا جائے گا۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کے خلاف 2014 کے دھرنے کے دوران دائر چار مقدمات کی سماعت کی۔ عدالت کے طلب کیے جانے پر عمران خان آج پانچویں مرتبہ پیش ہوئے اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فاضل جج نے چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان سپریم کورٹ میں مصروفیت کے باعث آج عدالت نہیں آئے ، اُن کی جگہ معاون وکیل شاہد گوندل عدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان کےخلاف پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سمیت سابق ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو پر تشدد کا کیس بھی شامل ہے۔ 13 دسمبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں ان چاروں مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 2 جنوری تک توسیع کی گئی تھی۔
بائسیکل بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر موجودہ شکل کو پہنچی ہے۔لیکن آج سے ہزاروں سال پہلے مصر میں بائسیکل سے ملتی جلتی ایک سواری استعمال کی جاتی تھی جو دو پہیوں پر چلتی تھی اور اسے بھی پاؤں کی مدد سے چلایا جاتا تھا۔ 1817ءمیں جرمنی کے ایک شخص بیرن فان ڈریس (Baron Fon Drais) نے ایک بائیسکل ایجاد کی جسے لکڑی سے بنایا گیا تھا۔تاہم اس کے ساتھ پیڈل نہیں تھےبلکہ اسے چلانے کے لیے زمین کو پیروں سے دھکیلنا پڑتاتھا۔اگلے پہیے پر ایک ہینڈل لگایا گیا تھا جو موڑ کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔اس بائسیکل کا نام اس کے موجد کے نام پر ڈریسن (Draisine) رکھا گیا تھا۔بعد میں اس کا نام ڈینڈی ہارس (Dandy Horse) پڑ گیا۔کہا جاتا ہے کہ انگلستان کا شاہ جارج چہارم ڈریسن پر سفر کرنا بہت پسند کرتا تھا۔ 1840ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک شخص میکملن (Macmillan) نے ایک پرانا ڈینڈی ہارس لے کر اس کے اگلے پہیے کےساتھ پیڈل اور پچھلے پہیے کےساتھ گردانے (Cranks)لگادیے اور پیڈلوں اور گردانوں کو سلاخوں کی مدد سے جوڑدیا۔یہ بائیسکل ڈینڈی ہارس کی نسبت زیادہ تیز چلتی تھی اور اسے چلانے کے لیےزمین پر پاؤں بھی نہیں مارنے پڑتے تھے۔ میکملن قدرے جوشیلی طبیعت کا مالک تھا اور عموماً بائسیکل بہت تیز چلاتا تھا۔وہ راہ گیروں سے چھوتا ہوا گزر جاتا اور وہ بے چارے دیکھتے رہ جاتے ۔آخر کار اسے خطرناک ڈرائیونگ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ بائسیکل کا لفظ سب سے پہلے 1865ء میں استعمال کیا گیا۔ایک فرانسیسی شخص لیل منٹ (lallement)نے پرانی طرز کی بائسیکل لے کر اس کے اگلے پہیے کے ساتھ پیڈل اور گردانے لگادیے۔اس طرز کی بائسیکل کو ’’ہڈی توڑ‘‘ (Bone Shaker) کہا جاتا تھا کیوں کہ ان کے ڈھانچے بہت بھاری بھرکم تھےاور ان میں لوہے کے ٹائر استعمال کیے جاتے تھے۔1868ء میں ربڑ کے ٹائر والے ہلکے دھاتی پہیے استعمال کیے جانے لگے۔ کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی طرز کی بائسیکل منظر عام پر آئی جس کا نام آرڈنری (Ordinary) تھا۔اب تک بائسیکل کے دونوں پہیے ایک ہی قطر کے ہوتے تھےلیکن آہستہ آہستہ اگلا پہیہ پچھلے پہیے کی نسبت بڑا ہوتا چلا گیا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ پیڈل کو چکر کو دینے سے بائسیکل زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرے۔ اس دور میں بائیسکلوں کے عجیب و غریب نمونے سامنے آئے۔ایک پہیہ چھوٹا سا اور دوسرا آسمان کو چھوتا ہوا۔سائیکل چلانے والا اگلے پہیے کی چوٹی پر بیٹھتا تھا اور اسے بہت سنبھل سنبھل کر بائیسکل چلانا پڑتی تھی۔ذراسا توازن بگڑا اور وہ اوندھے منہ زمین پر! موجودہ طرز کی بائیسکل 1885ء میں بننا شروع ہوئی اس میں برابر قطر کے پہیے استعمال کیے جاتے ہیں۔دونوں پہیوں کے درمیان پیڈل ہوتے ہیں۔پیڈلوں کے ساتھ ایک گراری لگی ہوتی ہے۔اسے بڑی گراری کہتے ہیں۔چھوٹی گراری پچھلے پہیے کے محور کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ان گراریوں کو ایک زنجیر (Chain) کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔جب کے پیڈلوں پر قوت لگائی جاتی ہے تو بڑی گراری زنجیر (Chain) کے ذریعے اس قوت کو پچھلے پہیے پر لگی چھوٹی گراری تک منتقل کردیتی ہےاور پہیہ گھومنے لگتا ہے۔
کراچی کے علاقے لانڈھی کے حلقہ این اے 240 میں متحده قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی کی وفات کے بعد خالی ہونے والی نشست پر صبح سے پولنگ کا عمل جاری تھا۔ تقریبا 11 بجے کے قریب لانڈھی نمبر پانچ میں صورت حال خراب ہوئی۔ کارکنان نے دیگر پارٹیوں پر بوگس ووٹ ڈالنے کا الزام لگایا جس کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی ہوئی، پولنگ بوتھ کے باکس پھینکے گئے، نعرے باری کی گئی اور بوتھ نمبر 71 میں پولنگ کا عمل بند گیا۔ اس حوالے سے ڈی آر او نے ندیم حیدر کا کہنا تھا کہ ’کہا جارہا ہے کہ بوتھ نمبر 71 سے پولنگ باکس باہر لے جائے گئے دھاندلی کے لیے۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ یہ انتہائی حساس پولنگ سٹیشن ہے جہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے۔ مگر اسے کے بابر والے کمرے میں جہاں کیمرہ نہیں تھا ادھر پولنگ بوتھ لگائے گئے۔ ہم ان بوتھس کو واپس کیمرے والے کمرے میں شفٹ کر رہے تھے اس لیے بوتھ کو اپنی جگہ سے ہلایا گیا تھا۔‘ دوسری جانب لانڈھی گوشت مارکیٹ پر بنے پولنگ اسٹیشن نمبر ایک میں پی ایس پی کے کارکنان نے ایم کیو ایم پر جعلی ووٹ ڈالوانے کا الزام عائد کیا اور انہیں بیلٹ باکس پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جانے سے روکا۔ تقریبا دو بجے کے قریب جناح سکول 36 بی زمان آباد کے قریب بنے پولنگ سٹیشن میں ٹی ایل پی کے کارکنان نے ایم کیو ایم کے کارکنان پر بیلٹ پیپر چوری کرنے کا الزام لگایا۔ وہیں جی ڈی اے نے این اے 240 کے الیکشن کو جعلی قرار دے دیا۔ جی ڈی اے کے رہنما اور اس ضمنی الیکشن کے امیدوار تنویر چودھری نے کہا کہ ’ووٹر فہرستوں میں کچھ اور 8300 کی سروس پر ووٹ کا اندراج کچھ اور ہے۔ پولنگ اسٹیشن کو اچانک تبدیل کی وجہ سوائے دھاندلی کے کچھ نہیں۔ جی ڈی اے مطالبہ کرتے ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس زیادتی کا نوٹس لے اور اس معاملے میں ملوث لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دے۔‘ ترجمان ٹی ایل پی کے مطابق تقریبا چار بجے کے قریب لانڈھی نمبر چھ پر ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنان پر حملہ ہوا۔ ان کی گاڑی پر شدید فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی کا ایک کارکن زخمی ہوگیا۔ پی ایس پی ترجمان کے مطابق اسی دوران ان کے چیئرمین مصطفیٰ کمال پر فائنرنگ کی مد میں جان لیوا حملہ ہوا۔ پی ایس پی رہنما جوائنٹ سیکرٹری افتخار عالم بھی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہوئے تھے اور انہیں دو گولیاں لگی تھیں۔ اس کے علاوہ پی ایس پی کے متعدد کارکنان گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ اس حوالے سے ڈسٹرک ریٹرننگ افسر ندیم حیدر کا کہنا تھا کہ ’لانڈھی کے کچھ علاقوں سے فائرنگ اور کشیدگی کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ رینجرز اور پولیس سے رابطہ کیا گیا تھا۔ صورتحال پر قابو پالیا گیا تھا اور مظاہرین منتشر ہوچکے تھے۔ اس کے نتیجے میں رینجرز اور پولیس کے گشت میں اضافہ بھی کردیا گیا تھا۔‘ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق لانڈھی نمبر چھ کے قریب فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے دوران کے زخمیوں کو اٹھانے کے لیے جانی والی ایدھی ایمبولینسس پر فائرنگ کی گئی۔ البتہ تمام رضاکار محفوظ رہے۔ اسی دوران تقریبا ساڑھے پانچ بجے کے قریب پولنگ سٹیشن نمبر 51 پر حملہ ہوا اور جس کے نتیجے میں بیلٹ باکس توڑے گئے اور کئی بیلٹ پیپر ضائع ہوگئے۔ سعد ایدھی کے مطابق لانڈھی نمبر چھ کے قریب فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا جسے فوری طور پر ایدھی ایمبولینس کے ذریعے جناح ہسپتال روانہ کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت سیف الدین کے نام سے کی گئی جس کی عمر 60 سال ہے۔ این اے 240 کے ضمنی الیکشن میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ ’آئی جی سندھ کو وزیراعلی نے ہدایت کی ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جائے۔‘ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ہنگامہ آرائی میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ پولیس حکام کے مطابق پانچ سے چھ لوگ زخمی ہیں جنہیں اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ کراچی کو کسی صورت میں پرانے طرز عمل پر نہیں جانے دیں گے۔‘ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 240 کے ضمنی الیکشن میں 25 امیدوار شریک تھے۔ سات امیدواروں کا تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے جب کہ 18 امیدوار آزاد تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے محمد ابوبکر، پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے شبیر احمد قائم خانی جبکہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے شہزادہ شہباز، مہاجر قومی موومنٹ کی جانب سے سید رفیع الدین، پاکستان مسلم لیگ کی جانب سید فیضان انیس، گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس کی جانب سے تنویر احمد جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ناصر رحیم اس ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ اس سے قبل اس حلقے میں مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اس حلقے سے ایم کیوایم کے امیدوار اقبال محمد علی 60 ہزار سے زائد ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔
مائنڈ پاور کے الفاظ سن کر عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم، مستقبل بینی، سائیکوکینیسز ، مائنڈ کنٹرول اور سائیکومیٹری جیسی ماورائی اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کا نام آتا ہے ، جنہیں حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عرصے صبر آزما ریاضتیں کرنا پڑتی ہیں، ہفتوں ، مہینوں اور برسوں مستقل مزاجی کے ساتھ ارتکازِ توجہ، یکسوئی، شمع بینی اور سانس کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ تب کہیں جاکر ان مشقوں سے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور اس کے اندر خوابیدہ قوتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔ جس کے بل بوتے پرانسان مافوق الفطرت کارنامے سرانجام دینے لگتا ہے۔ لوگ اسے اتنا ہی مشکل تصور کرتے ہیں جتنا پانی پر چلنا…. لیکن مائنڈ پاور پر کام کرنے والے سائنس دان ، ماہرین نفسیات اور نیورولوجسٹ کہتے ہیں کہ ، مائنڈپاور محض آپ کی سوچ اور احساس کا نام ہے۔ ہم زندگی میں ہر لمحہ کسی نہ کسی احساس سے گزرتے رہتے ہیں۔ خوشی، غم، محبت، نفرت، انتقام، بے چارگی، بے بسی، مایوسی یا پھر اس کے برعکس عزم، حوصلہ، مشکلات میں ہار نہ ماننے کا ناقابلِ شکست جذبہ، یہ سب احساسات اور جذبات انسانی سوچ کی پیداوار ہیں اور مائنڈ پاور انہی احساسات اور سوچ پر زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے۔ امریکی نیوروسائنٹسٹ اور کتاب مالیکیولز آف ایموشن Molecules of Emotionکی مصنفہ ڈاکٹر کینڈیس پرٹ Candace Pert کی تحقیق کے مطابق انسانی احساسات اور جذبات، جسم میں نیوروپیپٹائیڈ Neuropeptide کے نام سے ایک مالیکیول خارج کرتے ہیں۔ یہ نیورو پیپٹائیڈ پورے جسم میں سفر کرتا ہے ، اور ہر ریسپٹر سیلز Recepter cells کے پاس جاتا ہے،جو اس سے پیغام (سگنلز)لے کر اس کو متعلقہ کیمیکل یا یارمونز میں بدل دیتا ہے۔ اس طرح سے پورے جسم تک ایک پیغام پہنچتا ہے۔ یہ پیغام وہی احساس اور جذبہ ہے جو انسانی ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ خوشی، غم، اداسی۔ ڈر،خوف، نفرت یا کچھ بھی ہو ۔ اگر آپ یہ سوچیں گے کہ میرا دِل اداس ہے تو اس لمحے یقینا آپ کا جسم ایسے مالیکیولز کے زیر اثر ہو گا جو اداسی اور مایوسی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جب لوگ پُر امید، ہائی مورال اور خوشی کی ذہنی حالت میں ہوں تو اُمید کے نیوروپیپٹائیڈ خون میں انٹرفرون interferon اور انٹرلیوکن interleukin جیسے ہارمون پیدا کرتے ہیں جنہیں سائنسدانوں کے نزدیک کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے اور قوت مدافعت کے لیے طاقتور اور پراثر دوا مانا جاتا ہے۔ انہی حقائق کی بنیاد پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک ہی بیماری میں مبتلا افراد جو ایک ہی جیسی دوائیں کھا رہے ہوں وہ دو مختلف نتائج کیسے سامنے لے کر آتے ہیں۔ سارا کمال سوچ کا ہے۔ ایسے مریض جوسخت بیماری کے باوجود پُرامید رہیں، خود کو مثبت سوچ کے ساتھ جوڑے رکھیں، وہ ان مریضوں کی نسبت جلد صحت کی طرف لوٹ آتے ہیں جو بیماری میں مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہو جائیں۔ آپ کی سوچ آپ کی معالج ابھی تک تو ریسرچرز ہی یہ کہتے تھے مگر ہمیں یقین ہے کہ اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد آپ بھی یہی کہیں گے کہ انسان بیمار جسم سے نہیں بلکہ اپنے دماغ یعنی سوچ سے بیمار ہوتا ہے۔ مشہور مصنف اورمقرر مورس گڈمین Morris Goodman کو دنیا کا کرشماتی آدمی کہا جاتا ہے ۔اس کی وجہ ایک ہوائی حادثہ ہے جس میں وہ بالکل مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ 35 سالہ مورس گڈ مین اس وقت سوائے پلکیں جھپکانے کے اور کوئی معمولی سی حرکت کرنے سے بھی قاصر تھا۔ اس کا جسم ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں کا مجموعہ بن گیا تھا۔ ڈاکٹروں کاخیال تھا کہ مورس اب سوائے آنکھیں جھپکنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا ۔او ر ان ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں کی بدولت سانس کی آمدورفت بھی شاید چند مہینے باقی رہے ۔ مورس خود کہتے ہیں کہ ‘‘پورے جسم میں بس میرا ایک دماغ ہی تھا جوٹھیک کام کررہا تھا۔ اس وقت بھی میں نے خود کو بطورمفلوج قبول نہیں کیا تھا۔ ہسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے میں اپنے آپ کو صحت مند سالم ہڈیوں کے ساتھ دیکھتا تھا۔ بس یہی ایک خیال میری آنکھوں کے سامنے رہتاتھا کہ میں مکمل طور سے صحت مند ہو گیا ہوں۔ بالآخر خود کو پھر سے چلتاپھرتا دیکھنے کی میری خواہش پوری ہوگئی۔ اس لگن میں کی گئی جدوجہد رنگ لے آئی اور پانچ ماہ بعد میں نے ڈاکٹرز کو ہکا بکا چھوڑ کر اپنے پیروں پر چلتے ہوئے اسپتال کوخیر بادکہہ دیا ۔‘‘ آج مورس پوری دنیا میں سیمینار کرتے ہیں ۔ لوگوں کو لیکچرز دیتے ہیں تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ لوگ اپنی سوچ کی ناقابلِ یقین قوتوں کو کس طرح بروئے کار لا سکتے ہیں۔ کیا واقعی مورس گڈمین کے ساتھ کوئی کرشمہ ہوا تھا یا ہم اپنی سوچ کی پوشیدہ صلاحیتوں سے نا واقف ہیں؟ …. اگر واقعی ایسا ہے تو ہم کس طرح سے ان دماغی صلاحیتوں کو اپنی صحت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب ہمیں ڈاکٹر لیزا رینکن نے دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق ہم ڈاکٹرز اپنے کلینک میں دن رات لاتعداد کیسز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔وہاں آنے والے مریضوں سے نہ صرف انٹرویو کرتے ہیں ۔ بلکہ انہیں صحتمندی کی جانب رواں رکھنے کے لیے کئی طرح کی وضاحت بھی دی جاتی ہے۔لیزا رینکن کہتی ہیں کہ ہم روز اپنے کلینک میں وہ سب دیکھتے ہیں جسے سائنس واضح نہیں کرسکتی۔ کبھی بھی اچانک سے ایک مریض اپنی بیماری کو شکست دے کر شفایاب ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی اسی بیماری کے ہلکے سے اثر سے موت کے دہانے پہنچ جاتاہے ۔ چلیے اس حوالے سے چند دلچسپ کہانیاں سنتے ہیں۔ یہ کہانیاں امریکی ڈاکٹر اور مصنفہ لیزا رینکن Lissa Rankin کی کتاب Mind over medicine سے لی گئی ہیں۔ اسٹیمٹس موراٹس Stamatis Moraitis یونان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو برسوں پہلے امریکہ آ کر آباد ہو گیا۔ ادھیڑ عمری میں اسے کینسر تشخیص ہوا جو آخری سٹیج پر تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب اس کے پاس زندگی کے صرف نو مہینے ہیں۔ اس کے جسم میں کینسر پھیل چکا تھا اور ان نو مہینوں میں اس کے علاج کی کوئی امید نہ تھی۔ کچھ عرصہ وہ تکلیف دہ علاج سے گزرتا رہا، بالآخر موراٹس اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ وہ زندگی کے اس مشکل مرحلے پر اپنے آبائی وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ موراٹس بھی یہی چاہتا تھا کہ اب زندگی کے جو دن باقی ہیں وہ اپنے آبائی گھر میں گزارے۔ یوں انہوں نے واپس یونان جانے کا ارادہ کر لیا۔ یونان کے صحت بخش اور خوبصورت جزیرے ائیکاریا Ikareaکا باسی اپنے آبائی گھر آ کر ذہنی طور پر بہت مطمئن ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس کے پرانے دوست اسے ملنے آنے لگے۔ اکثر احباب اور رشتہ دار اس کے پاس محفل جمائے بیٹھے رہتے۔ موراٹس کی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی تو اس نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اُگانا شروع کر دیں۔ اب دِن بھر وہ اس کام میں مشغول رہنے لگا۔ شام کو دوستوں کے ساتھ بورڈ گیمز کھیلتا۔ اس کے اندر امید اور خوشی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔ مثبت سوچ نے بیمار جسم کو صحت بخش پیغامات دیئے اور موراٹس کی بیماری کی شدت معجزانہ طور پر کم ہوتی گئی۔ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے نو ماہ کب کے گزر گئے۔ اپنی بیماری کی تشخیص کے 25 سال بعد موراٹس واپس امریکہ گیا اور اپنے ٹیسٹ کروائے۔ ڈاکٹرز حیران تھے کہ ایک شخص جو کینسر کی آخری سٹیج پر تھا اور جسے ڈاکٹرز نے زندگی کے گنے چنے مہینے بتائے تھے وہ صحت یاب ہوچکا ہے۔ پھر موراٹس واپس اپنے آبائی گھر آ گیا۔ زندگی کی وہ صحت بخش مثبت روٹین جاری رہی۔ وہ 102 سال زندہ رہا۔ 1957ء میں جنرل آف پازیٹیو ٹیکنیکس میں برونو کلوفر Bruno Klopfer کی جانب سے ایک کیس رپورٹ کیا گیا ، ڈاکٹر ویسٹ کے ایک مریض مسٹر رائٹMr. Wright کینسر لمفوساکوما lymphosarcoma میں مبتلا تھے ، ڈاکٹر علاج میں ناکام تھے، اور وقت ختم ہو رہا تھا۔ مسٹر رائٹ کی گردن، سینے، پیٹ، بغلوں میں ٹیومر بھرچکے تھے۔ ان کی تلّی اور جگر بھی بڑھ رہے تھے۔ کینسر کی وجہ سے ان کا سینہ سیال مادہ سے بھر گیا تھا جس کے کا باعث انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ ڈاکٹر ویسٹ کے مطابق ان کے ایک ہفتے تک جینے کی توقع نہیں تھی لیکن مسٹر رائٹ جینا چاہتے تھے۔ انہی دنوں لمفوساکوما کے علاج کے لیے ایک نئے دوا سامنے آئی تھی ، مسٹر راٹ کو امید تھی کہ اس نئی دوا سے وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ انہوں نے نئی دوا کے ساتھ علاج کرنے کے لئے ڈاکٹر کی منت بھی کی ، لیکن یہ دوا صرف ان مریضوں کو دی جاتی تھی جن کا کینسر کم از کم تین مہینے کی اسٹیج میں ہو جبکہ مسٹر رائٹ کا کینسر آخری اسٹیج پر پہنچ چکا تھا۔ مسٹر رائٹ نے ہار نہیں مانی۔ ڈاکٹر ویسٹ نے انہیں اس نئی دوا کا انجیکشن دے دیا۔ ڈاکٹر ویسٹ کو اُمید نہیں تھی لیکن تیسرے دن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا مریض نہ صرف بستر سے اُٹھ گیاہے بلکہ چہل قدمی بھی کرنے لگا ہے۔ ٹیسٹ کیے تو معلوم ہوا کہ ان کے ٹیومر کا سائز تیسرے دن ہی پہلے کےمقابلے کمہوگیاہے۔ ڈاکٹر ویسٹ دو مہینوں تک علاج کرتے رہے۔ ان کے ٹیومرز ختم ہونے لگے تھے۔ دو مہینے بعد ایک سائنسی جنرل میں اس نئی دوا کے بارے میں ریسرچ شائع ہوئی کہ وہ اتنی کارگر نہیں جتنی سمجھی جارہی تھی۔ اس خبر کا سنناتھا مسٹر رائٹ ڈپریشن میں مبتلا ہوگئے اور چند دنوں کے بعد ان کے ٹیومر دوبارہ بڑھنے لگے۔ اس بار، ڈاکٹر ویسٹ نے اپنے مریض کو بچانے کا عزم کیا اور انہیں بتا یا کہ یہ ریسرچ غلط ہے دراصل دوائیں شپنگ کے دوران خراب ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے خاص ان کے لیے ایک نئی کھیپ منگوائی ہے اور ان کا علاج دوبارہ شروع کیا گیا۔ ڈاکٹر ویسٹ کے دوبارہ علاج سے مسٹر رائٹ کے مرض میں دوبارہ بہتری آنے لگی مزید دو ماہ بعد ان کی ٹیسٹ رپورٹ بھی ٹھیک آئی۔ لیکن ایک بار پھر اس دوا کے متعلق امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی تحقیق سامنے آئی کہ یہ دوا بالکل کارگر نہیں ہے۔ اس خبر پر اس بار مسٹر رائٹ نے تمام اُمید یں کھو دیں ، ان کا کینسر دوبارہ بڑھ گیا، اور وہ دو دن بعد انتقال کر گئے۔ کتابUnlimited Power کے مصنف انتھونی روبنز Anthony Robbins ایک نفسیاتی مریض کا کیس بیان کرتے ہیں جو دوہری شخصیت Split Personality کا مریض ہے۔ اس کی شخصیات میں سے ایک ذیابیطس کی مریض ہے۔ حیرت انگیز طور پر جب اسے دورہ پڑتا تو اس کے خون میں شکر کی مقدار غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی، اس دوران کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ میں اس کے خون میں شکر پائی جاتی تھی لیکن جب وہ نارمل ہوتا تو اس کے خون میں شکر کی مقدار بھی نارمل ہوجاتی تھی۔ کتاب The Treatment of Multiple Personality Disorder کے مصنف اور ماہر نفسیات بنیٹ براؤن Bennett Braun بھی ایک دوہری شخصیت کے مریض ٹمی Timmy، کی صورتحال بیان کرتے ہیں کہ اس کی ایک شخصیت کو اورنج جوس سے الرجی ہے۔ حیرت انگیز طور پر جب اس پر الرجک شخصیت غالب ہوتی ہے ، اس دوران اسے اورنج جوس پلادیا جائے تو اس کی حالت خراب ہوجاتی ہے اور اس کے حلق میں آبلے پڑجاتے ہیں جیسے کسی شہد کی مکھی یا بھڑ نے کاٹ لیا ہو ، تاہم جب وہ غیر الرجک شخصیت پر واپس منتقل ہوتا ہے تواس کے آبلے غائب ہو جاتے ہیں اور وہی اورنج جوس وہ آرام سے پیتا ہے۔ لیزا رینکن کہتی ہیں کہ ہمارے سامنے ایسے ہزار کیسز ریکارڈ میں موجود ہیں۔ جن میں انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریض اچانک سے اپنی بیماری کو شکست دے کر شفایاب ہو جاتے ہیں۔ ان تمام مریضوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ صحت یاب ہو کر رہیں گے ۔انہوں نے اپنی بھر پور ول پاور یعنی قوتِ ارادی اور مثبت سوچ کا استعمال کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیال کی طاقت مہلک بیماریوں کے خلاف خطرناک اسلحوں کا کام سر انجام دیتی ہے ۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] The body Atlas of willpower قوتِ ارادی کا جسمانی نقشہ ہماری سوچ ہی سب کچھ ہے۔ سوچ کی یہ پوشیدہ قوت بنا دوا کے استعمالdrug free اور پلاسیبو placebos اور جیسے تجربات میں بھر پور طریقے سے سامنے آئی ہے۔ جن میں سر درد سے لے کر کینسر جیسے موذی مرض کا بھی علاج کیا گیا ہے ۔ آپ نے دنیا کا نقشہ یعنی اٹلس تو دیکھاہوگا ۔ اپنے جسمانی نظام کا یہ معلوماتی اٹلس بھی یاد کیجئے۔ یہ آپ کو بتائے گا کہ مائنڈ پاور سے کون کون سے جسمانی نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔اور وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جن کا علاج محض آپ کی سوچ میں پنہاں ہیں ۔ دمہ سے نجات : امریکی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق 50 فیصد مریضوں میں دمہ کے بڑھنے یا زیادہ ایکٹو ہونے کی وجہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور منفی سوچ ہوتی ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ منفی سوچ میں نفرت، حسد اور غصہ بھی آتا ہے۔ ڈاکٹرز نے ان مریضوں کے لئے بطورِ علاج ریلیکس سیشن تیکنک اور یوگا مشقوں کو تجویز کیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق ریلیکس سیشن ایکٹیوٹیز دماغ کے بائیں فرنٹل لوب کی سرگرمی کو بڑھا تیں ہیں ۔دماغ کا یہ حصہ ہمارے اچھے یا خوش مزاج ، یعنی اچھے موڈ اور ہوا کے نظام کو کنٹرول کرتاہے ۔اس کی سرگرمی بڑھنے سے مزاج میں واضح تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور ہوا یعنی آکسیجن کی سپلائی میں پیدا ہونیوالی رکاوٹ بھی دور ہوتی ہے ۔ دردِ شقیقہ یا مائگرین: آپ کی قوتِ ارادی آپ کو درد شقیقہ یعنی مائگرین Migrainesکے درد اور اس کے لئے کھائی جانے والی ادویات سے نجات دلاسکتی ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے ماہرین جب مائگرین کے مریضوں کو دوائی کے نام پر پلاسیبو placebo(مریض کے اطمینان کے لیے دی جانے والی فرضی دوا ) دی گئی اور انہیں اعصابی طور سے خود کو یہ باور کرانے پر زور دیا گیاکہ وہ ان دوائیوں کے ٹھیک ہو جائیں گے ۔ تو ہزاروں کیسسز میں مریضوں نے اپنی تکلیف میں کافی حد تک کمی محسوس کی ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ پلاسیبو لینے کے بعد ان مریضوں کے خون میں قدرتی پین کلر مارفین کے ذرات پائے گئے ۔جن کی مقدار آٹھ ملی گرام کے قریب تھی ۔ دل کے بند والو کھولیں: امریکی کارڈیولوجسٹ اور ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر ڈین آرنش Dean Ornishنے اپنے ایک مریض کو رضا کارانہ طور پر ایک مراقبہ کروایا۔ اس سے کہا گیا کہ وہ مسلسل یہ تصور قائم کرے کہ ا س کے دل کے بند والو کھل گئے ہیں اور خون کا بہاؤ پھر سے بحال ہو گیا ہے ۔اس دوران سی ٹی سکین کے ذریعے اس کے دل کی دھڑکن اور اور پروگریس کو بھی جانچا جاتارہا ، اسے اورنیش وِل پاور تیکنک کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق دل کے والوکھولنے کے لئے محض یہ ایک تصو ر قائم کرلینا ہی کافی ہے ۔اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دل ایک ایسا عضو ہے جو خود کو صحت یاب کرنے اور نئے خلیے بنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور یہ تیکنیک دراصل اسی اہلیت کو مزید متحرک کرنے کا ایک طریقہ ہے ۔ بدہضمی اور بایو فیڈبیک میتھڈ: لئیژ Liège یونیورسٹی بیلجئم کی ریسرچ کے مطابق بدہضمی کا آپ کی سوچ سے گہر اتعلق ہوتا ہے۔ اس کے طریقہ علاج کو انھوں نے بایو فیڈ بیک میتھڈ کا نام دیا ہے۔اس میتھڈ میں الیکٹروڈز مریض کی انگلیوں کے حساس پوروں سے کنیکٹ کئے جاتے ہیں جو منسلک کمپیوٹر کو سگنل بھیجتے ہیں۔ مونیٹر پر دل کی دھڑکن، درجہ حرارت، سانس کی آمدورفت اور بلڈ پریشر ظاہر ہونے لگتا ہے ، جس سے پتا چل جاتا ہے مریض اس وقت اسٹریس کی حالت میں ہے یا نارمل ہے۔ مریض کے ذہنی دباؤ کی شرح کو جانچتے ہوئے ڈاکٹرز ریلیکس سیشن مشقیں بتاتے ہیں۔مریض کو اس کے اعضاء اور جسمانی نظام سے ذہن سے فوکس کرنا سکھایا جاتا ہے ۔اس تھراپی میں ان برین ویوز کو کنٹرول کیا جاتاہے جواس بدہضمی، معدے کے شدید درد میں ابنارمل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح سے مریض اپنی ذہنی حالت کے ساتھ اس تکلیف یا درد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ تھرا پی عموما ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ ایک کمپیوٹر پروگرامنگ ہے جس میں بایو فیڈ سینسر کو مریض اپنے ذاتی کمپوٹر سے کنیکٹ کرکے خود اپنی مانیٹرنگ بھی کر سکتا ہے ۔ ہائی بلڈ پریشر اور مثبت سوچ: ہائی بلڈ پیشر کے لئے بھی پلاسیبو یا میٹھی گولیوں نے حیرت انگیز نتائج دئیے ۔ امریکی ڈاکٹر جیفری کوچ Jeffrey Koch نے ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے ایک مخصوص گروپ کو پلاسیبو کو بطور دوائی کے اس اعلان کے ساتھ استعمال کروایا کہ یہ دوسروں کے لئے بہت اچھے کام کرچکے ہیں۔ کامیاب نتائج کے بارے میں ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ احساس کہ وہ دوسروں کے لئے بہت اچھے ثابت ہوئے پلاسیبو کو ٹریگر کرنے اور جسم کے خودکار شفایابی نظام کو متحرک کرنے لئے بہت اہم اور کافی ثابت ہوا اور 60 فیصد مریضوں میں بہتری نظر آئی۔ کمر کے درد سے نجات: جارجیا Georgia یو نیورسٹی میں ہونے والے ایک تجربے میں لوگوں کے ایک گروپ کو پندرہ پندرہ منٹ کے دو سیشن کروائے گئے ۔جس میں انہیں پندرہ منٹ کے لئے میڈیٹیشن روزانہ طویل عرصے تک کروائیں گئیں۔ ان ریلیکسیشن میڈیٹیشن کے بعد 50 فیصد سے زائد لوگوں کی کمر درد کی شکایت ختم ہو گئی۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کمر درد کی بنیادی اور عمومی وجوہات میں اسٹریس اور روز مرہ کا ڈپریشن ہوتا ہے۔ 70 فیصد سے زائد لوگوں میں ارتکازی مشقوں کے ذریعے کارٹیسل Cartisol ہارمون کے اخراج کو معمول پر لے آتی ہیں ۔جو کمر درد سے نجات کا باعث بنتا ہے ۔ نیورو پلاسٹیسٹی اور آرتھرائیٹس: ایک تجربے میں جوڑوں کے درد میں مبتلا 180 مریض آپریشن تھیٹر میں لائے گئے ۔ان میں سے نصف سے زائد مریضوں کا آپریشن سر ے سے کیا ہی نہیں گیا ۔یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ فرضی آپریشن کئے گئے ۔ یہ مریض بالکل اسی طرح رو بہ صحت ہوئے جس طرح اصلی آپریشن والے مریض تھے ۔یا شاید ان سے بھی زیادہ تیزی سے ۔اس کی وجہ ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ ان مریضوں کو آپریشن تھیٹر ضرور لایا گیا۔ چونکہ ان کے گھٹنوں پر ہلکاسا کٹ لگایا گیا ۔جس سے ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو گیاکہ ان کے گھٹنوں کی سرجری ہو رہی ہے ۔اس احساس کے پیدا ہوتے ہی اعصابی خلیوں یا نرو سیلز میں زخم کو ہیل کرنے کا شفایابی کا ابتدائی مدافعتی نظام متحرک ہو گیا ۔ اس طریقہ علاج کو نیورو پلاسٹیسٹی کہا جاتا ہے۔ آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر بروس موسلے Bruce Moseley کا کہنا ہے کہ مریضوں پر کیے جانے والے غیر حقیقی آپریشنز بھی اتنے ہی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ جتنے کہ حقیقی آپریشنز ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ ان کے یقین کا اس قدر مضبوط ہو جانا ہے کہ آپریشن کے بعد یہ تکلیف باقی نہیں رہتی ۔ انہوں نے بتایا کہ آرتھرائیٹس کے ایسے مریض جو گھٹنوں کے شدید درد میں مبتلا تھے۔ جب انہوں نے یہ سوچ لیا کہ انھیں اس مرض سے نجات پانی ہے تو انہوں نے نجات پا لی۔ [/box] منفی سوچ بیماری کی جڑ ہے لیزا رینکن کہتی ہیں کہ اسٹریس یعنی ذہنی دباؤ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہمارے جسم کا خودکار شفایابی کا نظام یا نیچرل سیلف ریپئیر میکینزم Natural Self-Repair Mechanismsکام کرنابند کردیتا ہے۔ ہمارے جسم کا یہ قدرتی خود کار نظام اسی وقت کام کرتاہے جب ہم اسٹر یس اور منفی سوچ سے دور ہوتے ہیں ۔ یہ بات بھی اب قابلِ تصدیق ہے کہ ہماری سوچ ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے جسے ناپا جا سکتا ہے، جانا جا سکتاہے ۔ بہت سارے ڈاکٹرز کے خیال میں مورس گڈمین کے ساتھ کوئی کرشمہ نہیں ہوا تھا بلکہ یقینی طور پر جسم کے پیچیدہ ری جنیریشن سسٹم Regeneration System کو مائنڈپاور سے کنٹرول کیا گیا ہے۔ ہارڈوڈ میڈیکل اسکول کے ماہر آنکولوجسٹ جیروم گروپمین Jerome Groopman ، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنس کی زبان میں جذبات کی تعریف مختلف ہارمونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز کے خارج ہونے والی کیمیائی مادے ہیں۔ مثال کے طور پر ایپی نیفرین Epinephrine ڈر، ناراضی او ردل جوئی جیسی کیفیات پیدا کرتاہے ۔تو نارایپی نیفرین Norepinephrine کا کام اچانک کسی صدمے میں ردعمل کا اظہار کرنا ہے۔ خطرے کی حالت میں انسان وہاں سے بھاگتا دوڑتا ہے۔خون کادباؤ بڑھاتا ہے ۔دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ۔جسم گرم ہوجاتا ہے۔ سوچتے سوچتے آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے ۔دل کی رفتار سست پڑنے لگتی ہے۔ شریانوں میں اکڑن ہونے لگتی ہے۔مطلب رنج و غم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔تو اس کا مطلب ایسیٹالکولین Acetylcholine سر گرمِ عمل ہے۔ اس کے برعکس سیراٹونِن Serotonin ذمہ دار ہے کہ وہ آپ کو خوش رکھے ، مطمئن رکھے ۔ پھر یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب آپ کسی بھی چیز کے بارے منفی سوچ رکھتے ہیں یا کوئی منفی جذبہ پیدا ہوتاہے ۔چاہے آپ اس وقت اس منفی سوچ کے دباؤ کا شکار نہ ہوں ۔مگر اس جذبے یا سوچ کے تحت خارج ہونے والے کیمیائی مادے جسمانی نظام کے ساتھ اعصابی نظام پر بھی پر اثر انداز ہو جاتے ہیں ۔نتیجے میں غیر محسوس طریقے سے آپ ذہنی دباؤ اسٹریس یا ڈپریشن کے مریض بنتے چلے جاتے ہیں یا پھر جسمانی نظام کا آپ کا کوئی نہ کوئی حصہ اس کا شکار ہوکر بیماری کی صورت میں سامنے آتاہے ۔ مائنڈ پاور سے کینسر کا علاج جی ہاں ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہی مائنڈ پاور ہمیں کینسر کے بہت سے مریضوں میں بھی نظر آتی ہے۔ جن کے جسم میں بڑھتے ہوئے ٹیومرز اچانک سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور مریض کینسر جیسے مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ریسرچرز کے مطابق کینسر کا ٹیومر اپنے اندرNerve Fiber رکھتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ اور سنٹرل نروس سسٹم حصہ بن جاتا ہے اور ا سے حاصل ہونے والی توانائی کوجذب کرکے خود کو ضرب دیتا رہتا ہے۔ ریسرچرز کا ماننا ہے کہ مریض کی منفی سوچ اور اس موذی بیماری کے بارے میں خدشات، موت کا خوف ان ٹیومرز کی تعداد بڑھانے اور قوتِ مدافت کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو مریض اس بات پر پختہ یقین کر لیں کہ وہ صحت مند ہو سکتے ہیں ۔وہ یقیناً اپنی بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یعنی ان کا یقین جتنا پختہ ہوتا ہے وہ اتنے ہی زیادہ دفاعی خلیے یعنی Immune Cells بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کارل اسٹونئیر Carl Stonierجنہوں نے حال ہی میں کینسر جیسے موزی بیماری کی شفایابی میں جسمانی اور نفسیاتی تعلق پر اپنا ڈاکٹریٹ کیا ہے کاکہناہے کہ ‘‘ جب کوئی کینسر پیشنٹ میرے پاس آتا ہے تو میں اس سے باتیں کرتاہوں ۔اس کے لئے ایک خیالی دنیا آباد کرتا ہوں۔اسے انہیں زندگی کے اس خیالی مقام تک لے جاتا ہوں جہاں وہ خود کو سب سے زیادہ مطمئن اور خوش محسوس کرتاہے ۔ اسی طرح کے کم سے کم دو سیششن کرنے کے بعد ۔ ڈاکٹر کا رل ان کو خیالی کنٹرول روم میں لے جاتے ہیں ۔جہاں وہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی سوچ پر قابو پائیں اور کینسر سیلز کے سگنلز اور پروڈکشن کا بٹن آف کریں۔ اوہایو یونیورسٹی Ohio Universityکے ریسرچرز نے اسی بنیاد پر ایک ایسا طریقہ علاج نکالا ہے۔ جس میں ناکارہ یا مفلوج پٹھوں Musclesکو اپنی سوچ کے ذریعے Regenerate کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اس طریقہ علاج میں کوئی ٹیکنالوجی درکار نہیں ہے۔ بلکہ اس طریقہ علاج میں 12 ہفتوں کے لیے مریض کو روزانہ 15 منٹ کی ایک مشق کرائی جاتی ہے۔ اس مشق کے دوران مریض اپنے مفلوج اعضاء کو حرکت کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جس کا مقصد دماغ کو اس ناکارہ عضو یا پٹھے کو حرکت کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ سوچ جینٹک کوڈ کو بدل سکتی ہے جی ہاں ! کو ئی بھی اچانک صدمہ یا پھر ایسا منفی ماحول جہاں ذہنی دباؤ کے سوا کچھ نہ ہو جینز پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے ۔سیل بایولوجسٹ بروس لپٹن Bruce Lipton کا کہنا ہے کہ خلئے اپنی تقسیم کے دوران ما حول کا اثر قبول کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ آپ کے لائف اسٹائل اور تجربات کی چھاپ رہ جاتی ہے۔ میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار سائیکیٹری Max Planck Institute for Psychiatryنے پہلی بار جذبات و کیفیات اور جین کے درمیان ربط پر اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسٹریس چاہے ماحول کا ہو ، مزاج کا ہو یا کسی اچانک صدمے کا یہ براہ راست خلیوں کی بایو کیمیائی خصوصیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثبت سوچ اور اچھی کیفیات ہمارے ڈی این اے کوتبدیل بھی کیا جاسکتا ہے….؟ یہ سوال تھا یونیورسٹی آف کیلگری University of Calgaryکینیڈا کے ریسرچرز کا ، جس کے جوا ب حاصل کرنے کے لئے انہوں نے میڈیٹیشنز تیکنکس کے ساتھ 90 منٹ روزانہ 12 ہفتے کا ایک پروگرام منعقد کیا۔ مراقبے کی مختلف تیکنکس کے ذریعے ڈی این اے میں بایو کمییکل تبدیلیوں کو جاننے اور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لئے جب مراقبہ کرنے والے افراد کا بلڈ ٹیسٹ کیا گیا تو ان کے کرموسوم کے آخری سرے ٹیلو مر کنٹرول گروپ کے مقابلے میں زیادہ لمبے پائے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سیل کی تقسیم کے بعد اس کا سائز کم ہوتا جاتا ہے ۔لہذا جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے ۔اس کے سائز میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے اور جیسے جیسے اس کے سائز میں کمی ہوتی ہے ویسے ویسے زندگی بھی کم ہوتی جاتی ہے ۔اور اس کا لمبا ہونا اچھی، صحتمند اور درازی عمری کی نشانی ہے۔ [box type=”success” align=”” class=”” width=””] 6 Mind Power Tricks مائنڈ پاور ایکٹیو کرنے کے 6 فارمولے ریسرچ کے مطابق جو لوگ نفسیاتی طور پر مطمئن، پرسکون اور مثبت سوچ رکھتے ہیں وہ کم بیمار پڑتے ہیں اور جو لوگ منفی خیالات رکھتے ہیں اور ذرا سی بات پر اسٹریس لے لیتے ہیں وہ جلد بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اینڈوکرائنولوجسٹ Endocrinologist کرسٹوفر برگر Christopher Berger کہتے ہیں کہ ‘‘ بیماری میں نفسیاتی عوامل اہم ا کردار ادا کرتے ہیں’’۔ اپنے ذہن کو نااُمیدی سے اُمید کی طرف کس طرح لائیں اور اپنے منفی خیالات پر کیسے قابو پائیں اس کے لیے 6 فارمولے بنائے گئے ہیں۔ 6 Hour Formula جب آپ سو رہے ہوتے ہیں ، تو ہمارا جسم فی سیکنڈ 50 ارب خلیات کی مرمت کر سکتا ہے، سیل کی بحالی کا یہ rejuvenation programme پروگرام، جسم اور ذہن دونوں کے لئے بھی کام کرتا ہے ۔ چنانچہ آپ روزانہ کم از کم 6 گھنٹے بھرپور نیند لینے کے بعد زیادہ تر چیلنجز کا بہت آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کم سونے سے آپ کا کنسنٹریشن لیول بھی کم ہوسکتا ہے۔ 90 Degree Formula جرمن ماہر نفسیات ساشا ٹوپولنسکی Sascha Topolinski کہتے ہیں کہ جسم کا ڈھیلا ڈھالا اور خم دار انداز Slumped Posture ناصرف منفی خیالات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ ان کو تخلیق بھی کرتا ہے، جبکہ چست رہنے والے افراد زیادہ پر اُمید، حوصلہ افزاء اور مضبوط ہوتے ہیں۔ لہٰذا نشست کے دوران جسم کو اتنا چست رکھیں کہ وہ 90 ڈگری زاویہ سئ نہ کم ہو نہ زیادہ۔ 15+ Formula جب ہم ہنستے اور مسکراتے ہیں ہیں، تو ہمارے چیرے کے وہ 80مسلز ایکٹیو ہوتے ہیں جن سے ہمارا دماغ ایک خاص کیمیکل سیروٹونن خارج کرتا ہے۔ یہ کیمیکل ہمارے اندر اطمینان اور سکون کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات فرٹز اسٹراک Fritz Strack کے مطابق آپ مسکرا کر اپنے ذہن کو مطمئن اور وِل پاور کو مضبوط بناسکتے ہیں چاہے وہ مسکراہٹ مصنوعی Symmetrical Smile کیوں نہ ہو، بس آپ نے روزانہ کم از کم 15 مرتبہ مسکرانا ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بچہ دن میں 400 مرتبہ مسکراتا ہے۔ 3 Question Formula کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ تمام پریشانیاں، مسائل اور بیماریاں ان کی قسمت میں ہی لکھ دی گئی ہیں اور ان کا زندگی پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ، یہی نااُمیدی اُن کی قوت مدافعت کو بھی کمزور کرنے لگتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے لوگ روزانہ 3 مرتبہ یہ سوال خود سے پوچھیں کہ ‘‘اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے میں آج کیا کر سکتا ہوں؟ ’’ اور ان 3 جملوں سے خود کو دور رکھیں ، ‘‘کاش میں یہ کرسکتا’’، ‘‘کاش میرے پاس یہ ہوتا’’، ‘‘اگر میں یہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا، شاید ایسا ہی ہونا تھا’’…. یہ مشق آپ کے اندر مثبت سوچ اُجاگر کردے گی۔ 12 Week Formula کیلگری یونیورسٹی کینیڈا میں سینے کے سرطان میں مبتلا لوگوں کو 12 ہفتے تک ہر روز مائنڈ فلنیس بیسڈ مراقبہ اور ہاتھا یوگا مشق کرائی گئی تو ان کے کروموسوم میں ٹیلومرس telomeres دوسروں کی نسبت زیادہ صحت مند پائے گئے، جن کا تعلق بیماریوں کے خلاف مدافعت اور عمر بڑھنے کی رفتار سے ہوتا ہے۔ صحت مند ٹیلومرس رکھنے والے لوگ دوسروں کی نسبت دیر سے بوڑھے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جسم اور دماغ کے درمیان اس ‘‘کیمیائی لائن’’ کو تندرست کرنے کے لیے 12 ہفتے تک روزانہ 90 منٹ یوگا یا پھر مائنڈ فلنیس بیسڈ مراقبہ تکنیکس کی جائیں۔ 200 millisecond Formula اعصابی و نفسیاتی قوت اور وِل پاور کو مضبوط بنانے کے لیے نیورولوجسٹ ایک ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جسے نیورو فیڈ بیک NeuroFeedback کہا جاتا ہے۔ نیور فیڈ بیک میں کسی بھی شخص کے سر پر الیکٹروڈ سینسر منسلک کیے جاتے ہیں، یہ الیکٹروڈ ذہنی لہروں Brain Waves کو کمپیوٹر اسکرین پر ظاہر کرتے ہیں اور پھر جیسے ہی نیورو فیڈ بیک آلہ منفی سوچ کے متعلق خبردار کرتا ہے کمپیوٹر کے ذریعے ذہن کو پر سکون لہریں بھیجی جاتی ہیں اس طریقہ کو ‘‘سیلف ریگولیشن ’’کہا جاتا ہے۔ یہ تکنیک ذہن و خیالات پر براہ راست عمل کرتی ہے اور اس عمل میں صرف 0.2 سیکنڈ یعنی 200 ملی سیکنڈ کا وقت لگتا ہے اور اس عمل کو کسی بھی اوقات میں سینکڑوں بار کیا جاسکتا ہے ، اس سے دماغ پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑتے اور دماغ سوچ کو زیادہ مثبت سطح پر قائم رکھنا سیکھ سیکھ جاتا ہے۔ [/box] خواب ایک قدرتی ایکسرے مشین جہاں ایک طرف جین ریسرچرز مائنڈ پاور اور میڈیٹیشن کے ذریعے اس کے جینز پر اثرات اور تبدیلیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔تو دوسری جانب ڈریم ریسرچرزDream Researchers تحت الشعور کی طاقت اور ا س میں چھپے اسرار سے پردہ اٹھانے میں ہم تن مصروف ہیں۔ خواب کیا ہیں ؟اور خوابوں کا ہماری اس چلتی پھرتی شعوری زندگی سے کتنا گہرا تعلق ہے ؟ روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے لئے یہ بالکل بھی نئی بات نہیں اوران کے لئے اسے سمجھنا قطعی مشکل نہیں کہ خوابوں کی دنیا ہماری زندگی کا نصف حصہ ہے۔ مگر مغربی دنیا میں محققین اور سائنسدانوں کاخوابوں کی دنیا کے اس حیرت کدہ کے بارے میں کہنا ہے کہ ‘‘خواب کسی ایکسر ے مشین کی طرح ہماری روح اور جسم کو چھان لیتے ہیں۔ نیند کے حواس میں نظر آنے والی کوئی بھی چیز کوئی بھی واقعہ کوئی نہ کوئی معنی ضرور رکھتا ہے۔ یہ نا صرف ہمارے خیالات اور خواہشات کے آئینہ دار ہوتے ہیں بلکہ ہمارے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اورساتھ ساتھ کسی بھی طرح کی چھپی ہوئی بیماری کا بھی عندیہ دے دیتے ہیں ’’۔وہ کہتے ہیں کہ : ‘‘آپ اپنے خوابوں کو سنجیدہ لیجئے ۔یہ آپ کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں کہ بلکہ ایک قدرتی خطرے کا الارم ہے ۔جو وقت سے پہلے ہوشیار کرنے کے لئے بج پڑتا ہے ’’۔ اس کی ٹھوڑی میں کوئلوں سی دہکنے والی آگ لگی ہو ئی تھی ۔وہ انگاروں کی طرح سرخ ہورہی تھی۔ اتنی زیادہ کے برانڈن ٹینر Brandon Tanner کے لئے اس درد کو برداشت کرنا ناممکن ہو رہا تھا ۔درد کی شدت اور جلن ایسی تھی کہ برانڈ ٹینر کی آنکھ جب اس ڈراؤنے خواب کے بعد کھلی تو ا سکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر سب کچھ نارمل تھا۔نہ درد تھا نہ جلن ۔اور پھراسی طرح وقفے وقفے سے اسے یہ ڈراؤ ناخواب آنے لگا۔ جس میں وہ اپنی تھوڑی میں آگ لگی دیکھتا۔ اور جب آنکھ کھلتی تو نہ آگ ہوتی نہ کوئی درد۔ چھتیس سالہ ٹینر کو جب یہ خواب زیادہ پریشان کرنے لگا تو ایک دن اس نے یہ خواب اپنے ڈاکٹر کو بتایا۔ ڈاکٹر بیرن ہارڈ سیگل Bernhard Siegel نے ا س کا مکمل میڈیکل چیک اپ کو کرنا مناسب سمجھا۔فوری طور سے کئی ٹیسٹ کروائے۔ پتا چلا کہ ٹینر کو تھائرائیڈ کینسر ہے۔مگر یہ بھی اس کی خوش قسمتی تھی کہ کینسر ابھی بالکل ابتدائی اسٹیج پر تھااور جس کا بروقت علاج کامیابی کے ساتھ کروا لیا گیا۔ ایسا کس طرح ہوتا ہے…. ؟ ہمارے خواب ہماری بیماری جو کہ ابھی سامنے بھی نہیں آئی۔ اس کا پتہ کیسے دیتے ہیں….؟ محقیقن ابھی اس کے بارے میں انجان ہیں۔اور تحقیق کا میدان یہ راز جاننے میں سر گرمِ عمل ہے کہ ہماری بیماری کا ظاہر ہونے سے پہلے ہی ہمارے تحت الشعور یا سب کانشیس مائنڈ Subconscious Mindکو کس طرح پتاچل جاتاہے۔ اب تک کی حالیہ تحقیقات کی بنیاد پر یہ کہتے ہی کہ اگر آپ کے خواب اچانک سے ڈراؤنے ہو جائیں یا آپ خوابوں میں لڑائی معرکہ ، خون ریزی دیکھنے لگیں توانہیں سنجیدگی سے لیجئے ۔ آپ کے ڈراؤنے خواب شدید اعصابی دباؤ کے ساتھ ساتھ کسی خطرناک اعصابی بیماری جیسے سکلیروسزSclerosis، تورت tourette یارعشہ یا اعضاء کا تشنج ، پارکنسن اور اعصاب میں پیدا ہوانے والا کوئی نقص بھی ہو سکتا ہے۔ روسی ماہر نفسیات اور کتاب A Theory of Dreamsکے مصنف ویسلے کیسٹکن Vasily Kasatkinنے خواب اور بیماری کے آپس میں تعلق کو سمجھنے کے لئے تین ہزار کیس سٹڈی کئے۔ ویسلے کیسٹکن کے مطابق اسٹڈی کے نتائج حیران کن تھے ۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ پچیاسی فی صد لوگوں میں بیماری از خود اپنے آنے کا پتا دیتی ہے۔ اور اس سے متعلقہ واضح علامات اور درد کو لوگوں نے اپنے خوابوں میں دیکھا اور محسوس کیا۔ جیسے کہ ایک آرمی آفیسر نے خواب میں دیکھا کہ لڑائی کے دوران اس کے معدے کے نچلی دائیں جانب شدید زخم آیا ہے اور دوسرے ہی دن اسے اپنڈکس کے شدید درد کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ویسلے کیسٹکن کی تحقیق کے مطابق دنیاوی طور پر علامات ظاہر ہونے اور بیماری کے سامنے آنے میں چند گھنٹے سے لے کر سال دو سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اس لئے خواب میں حیرت انگیز طور پر نظر آنے والی پہلی علامتوں کو ہی اگر سنجیدگی سے لیا جائے اور ڈاکٹرسے رجوع کیا جائے تو بہت زیادہ تکلیف اور درد سے بچا جا سکتا ہے ۔ مائنڈ پاور یا انسانی ذہن کی طاقت، ایک حیران کن موضوع ہے۔ آپ جتنا اس پر پڑھتے جائیں حیرت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مائنڈ پاور کی اہمیت جاننے اور تسلیم کرنے والے اب اسے متبادل طریقہ علاج Alternative Medicine کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔ صرف ذہن کی طاقت کو استعمال کرنے والے برسوں کے بیمار افراد اپنے جسم کے اندر ہی صحت کے سرچشمے کو متحرک کر کے بیماریوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔ مائنڈ پاور کو استعمال کر کے صرف بیمار افراد ہی اپنی زندگی کو صحت اور خوشی سے نہیں بھر سکتے بلکہ زندگی میں کامیابی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھی مائنڈ پاور، انسانی سوچ کی طاقت مثبت نتائج سامنے لارہی ہے۔
ایک برطانوی ٹیکنیکل رنگ کی جاسوس فلم ، جیمز بانڈ سیریز میں تیسری اور افسانوی MI6 ایجنٹ جیمز بانڈ کے طور پر اداکار شان کونری کی تیسری۔ یہ ایان فلیمنگ کے اسی نام کے ناول پر مبنی ہے۔ اس فلم میں بونڈ گرل بلی گیلور کے طور پر آنر بلیک مین اور گیرٹ فریبی کے عنوان کے کردار اورک گولڈ فنگر کے ساتھ ، شیرلی ایٹن کے ساتھ بانڈ کی لڑکی جل ماسٹرسن کے طور پر بھی ہیں۔ گولڈ فنگر کو البرٹ آر بروکولی اور ہیری سالٹزمان نے پروڈیوس کیا تھا اور وہ گائڈ ہیملٹن کے زیر ہدایت چار بانڈ فلموں میں پہلی فلم تھی۔ فلم کے پلاٹ میں بونڈ سونے کی اسمگلنگ اورک گولڈ فنگر کے ذریعہ سونے کی اسمگلنگ کی تحقیقات کررہا ہے اور آخر کار فورٹ ناکس میں ریاستہائے متحدہ کے بلین ڈپوزٹری کو آلودہ کرنے کے گولڈ فنگر کے منصوبوں کو ننگا کرتا ہے۔ گولڈ فنگر پہلا بانڈ کا بلاک بسٹر تھا ، جس میں بجٹ کے ساتھ دو پیشگی فلموں کے برابر بجٹ ملا تھا۔ پرنسپل فوٹوگرافی جنوری سے جولائی 1964 تک برطانیہ ، سوئٹزرلینڈ اور امریکی ریاستوں کینٹکی اور فلوریڈا میں ہوئی۔ فلم کی ریلیز کے نتیجے میں متعدد پروموشنل لائسنس یافتہ ٹائی ان آئٹموں کا باعث بنی ، جس میں کورگی کھلونے کی ایک کھلونا آسٹن مارٹن ڈی بی 5 کار بھی شامل ہے جو 1964 کی سب سے بڑی فروخت ہونے والی کھلونا بن گئی۔ اس پروموشن میں جِل کے طور پر سونے سے پینٹ والی شرلی ایٹن کی تصویر بھی شامل تھی۔ زندگی کے سرورق پر ماسٹرسن۔ فلم میں متعارف کرائے گئے بہت سارے عناصر بعد کی بہت سی جیمز بانڈ فلموں میں نظر آئے ، جیسے بانڈ کے ذریعہ ٹکنالوجی اور گیجٹ کا وسیع استعمال اور ایک پہلے سے متعلق کریڈٹ تسلسل جو مرکزی کہانی کا حصہ نہیں تھا۔ گولڈ فنگر اکیڈمی ایوارڈ جیتنے والی پہلی بانڈ فلم تھی اور بڑے پیمانے پر سازگار تنقیدی استقبال کے لئے کھولی۔ فلم ایک مالی کامیابی تھی ، جس نے اپنے بجٹ کو دو ہفتوں میں بحال کیا اور اسے بونڈ کینن کی اتفاقی قسط قرار دیا گیا۔ ایکشن کو زندہ کریں اور ذیل میں گولڈ فنگر کا عنوان تسلسل دیکھیں پلاٹ لاطینی امریکہ میں منشیات کی لیبارٹری کو تباہ کرنے کے بعد ، جیمز بونڈ — ایجنٹ 007 Mi میامی بیچ کا سفر کرتا ہے جہاں اسے سی آئی اے کے ایجنٹ فیلکس لیٹیر کے ذریعہ بلین ڈیلر اورک گولڈ فنگر کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہدایات موصول ہوتی ہیں ، جو بونڈ جیسے ہی ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ . ایجنٹ گولڈ فنگر کو جن رم پر دھوکہ دہی کرتا ہوا دیکھتا ہے اور اسے اپنے ملازم ، جِل ماسٹرسن کی طرف راغب کرکے اور گولڈ فنگر کو ہارنے میں بلیک میل کرکے اسے روکتا ہے۔ بانڈ اور جِل نے اپنے نئے تعلقات کو پورا کیا۔ تاہم ، اس کے نتیجے میں بونڈ کو گولڈ فنگر کے کوریائی مانسرنٹ اوڈجوج نے دستک دے دی۔ جب بانڈ دوبارہ ہوش میں آجاتا ہے ، تو اسے جل مردہ حالت میں ملتا ہے ، جسے سونے کے رنگ میں چھایا جاتا ہے ، 'ایپیڈرل دم گھٹنے' سے مر گیا تھا۔ لندن میں ، بانڈ کو معلوم ہوا کہ اس کا مقصد یہ طے کررہا ہے کہ گولڈ فنگر سونے کو بین الاقوامی سطح پر کس طرح اسمگل کرتے ہیں۔ بانڈ نے گولڈ فنگر کو معاشرتی طور پر پورا کرنے کا انتظام کیا اور اس کے خلاف ایک اعلی داؤ پر لگنے والا گولف کھیل جیت لیا ، جس سے بازیافت نازی گولڈ بار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بانڈ اس کے پیچھے سوئٹزرلینڈ چلا گیا ، جہاں جل ماسٹرسن کی بہن ، ٹلی ، گولڈ فنگر پر رائفل فائر کرکے انتقام لینے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔ بانڈ نے گولڈ فنگر کے پلانٹ میں گھس لیا اور پتہ چلا کہ وہ سونے کو پگھلا کر اور اسے اپنی کار کے باڈی ورک میں شامل کرکے اسمگل کرتا ہے ، جب بھی وہ سفر کرتا ہے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ بانڈ نے مسٹر لنج کے نام سے ایک سرخ چینی ایجنٹ سے 'آپریشن گرانڈ سلیم' کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھیں بھی سنا۔ چھوڑتے وقت ، بانڈ کا سامنا ٹلی سے ہوا جب وہ دوبارہ گولڈ فنگر کو مارنے کی کوشش کرتی ہے ، لیکن اس عمل میں خطرے کی گھنٹی طاری کرتی ہے۔ Oddjob نے اس کی ٹوپی سے ٹلی کو مار ڈالا۔ بانڈ پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور گولڈ فنگر نے بانڈ کو صنعتی لیزر کے نیچے کاٹنے کی میز سے جوڑ دیا ہے ، جو سونے کی چادر کو آدھے حصے میں ٹکرانے لگتا ہے ، بانڈ اس کے ساتھ پڑا ہے۔ بانڈ کا گولڈ فنگر سے جھوٹ ہے جسے MI6 گرینڈ سلیم کے بارے میں جانتا ہے ، جس کی وجہ سے گولڈ فنگر بانڈ کی زندگی کو MI6 کو گمراہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور یہ ماننے میں کہ بانڈ کے پاس چیزیں ہیں۔ اب ڈیوڈ کیسیڈی کہاں ہے؟ بانڈ کو گولڈ فنگر کے نجی جیٹ کے ذریعہ ، ان کے ذاتی پائلٹ بلی گیلور کے ذریعہ ، کینٹکی کے فورٹ ناکس کے قریب اپنے جڑنا فارم میں پہنچایا گیا ہے۔ بانڈ فرار ہوگیا اور گواڈ فنگر کی امریکی مافیوسی سے ملاقات ، جس نے آپریشن گرینڈ سلیم کے لئے درکار وہ مواد لایا ہے۔ جب کہ ان میں سے ہر ایک کو million 10 ملین دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے ، گولڈ فنگر نے ان کو آزمایا کہ وہ 'آج ہی دس لاکھ ، یا کل دس لاکھ ہوسکتے ہیں'۔ وہ گولڈ فنگر کا فورٹ ناکس پر ڈاکہ ڈالنے کے منصوبے کو سنتے ہیں اس سے پہلے کہ گولڈ فنگر ان سب کو ہلاک کردے اس سے قبل وہ کچھ 'ڈیلٹا 9' اعصابی گیس کا استعمال کر رہے ہیں جس کا وہ فورٹ ناکس پر چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بانڈ کو چھپاتے ہو rec دوبارہ قبضہ کر لیا گیا ہے اور گولڈ فنگر کو وہ وجوہ بتاتا ہے کہ اس کے سونے کے ذخیرے پر ڈاکہ ڈالنے کے منصوبے کام نہیں کریں گے۔ گولڈ فنگر نے اشارہ کیا کہ اس کا سونا چوری کرنے کا ارادہ نہیں ہے ، اور بانڈ نے تخمینہ لگایا ہے کہ گولڈ فنگر والٹ کے اندر ایٹمی ڈیوائس کوبلٹ اور آئوڈین پر مشتمل دھماکے کرے گا ، جو 58 سال تک یہ سونے کو بیکار سمجھے گا۔ اس سے گولڈ فنگر کے اپنے سونے کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور چینیوں کو ممکنہ معاشی افراتفری سے فائدہ ملے گا۔ اگر حکام کو چوکس کردیا جائے تو وہ بم کسی بڑے شہر یا نشانے میں بس پھٹا دیتا۔ آپریشن گرینڈ سلیم کا آغاز بلی گیلور کے فلائنگ سرکس سے فورٹ ناکس پر گیس چھڑکنے کے ساتھ ہوا۔ تاہم ، بونڈ نے گیلور کو 'بہکایا' کیا ، اور اسے اس بات پر راضی کیا کہ وہ عصبی گیس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی مادے سے تبدیل کردے اور امریکی حکومت کو گولڈ فنگر کے منصوبے سے آگاہ کرے۔ فورٹ ناکس کے فوجی اہلکار یقین سے مرے ہوئے کھیلتے ہیں یہاں تک کہ انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مجرموں کو بم کے ذریعے اڈے سے فرار ہونے سے روک سکتے ہیں۔ فوجی قوتوں کو غیرجانبدار ہونے کا یقین رکھتے ہوئے ، گولڈ فنگر کی نجی فوج فورٹ ناکس میں گھس گئی اور جوہری ڈیوائس والے ہیلی کاپٹر میں پہنچتے ہی والٹ تک پہنچ گئی۔ والٹ میں ، اوڈجوج ہتھکڑیاں بانڈ سے منسلک ہوتا ہے۔ امریکی فوجیوں کا حملہ؛ گولڈ فنگر نے امریکی فوج کے ایک کرنل کی وردی ظاہر کرتے ہوئے اپنا کوٹ اتار لیا ، اور فرار ہونے سے پہلے مسٹر لنگ اور والٹ کھولنے کے خواہاں فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ بانڈ خود کو ہتھکڑیوں سے نکال دیتا ہے ، لیکن اوڈجوج اس سے پہلے کہ وہ اسلحے کو اسلحے سے پاک کردے ، حملہ کردے۔ وہ لڑتے ہیں اور بانڈ الیکٹروسٹیٹ اوڈ کام کو سنبھالتے ہیں۔ بانڈ بم کو تالا بند کرنے پر مجبور کرتا ہے ، لیکن اسے اسلحے سے پاک کرنے میں ناکام ہے۔ ایک جوہری ماہر جو لیئٹر کے ساتھ تھا گھڑی کے ساتھ آلہ بند کر دیتا ہے '0:03' (دوبارہ جاری ہونے والے پرنٹس میں '0.07' پر منجمد)۔ فورٹ ناکس سیف کے ساتھ ، بونڈ کو صدر کے ساتھ ملاقات کے لئے وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا گیا ہے۔ تاہم ، گولڈ فنگر نے بونڈ لے جانے والے طیارے کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ گولڈ فنگر کے ریوالور کی جدوجہد میں ، بندوق خارج ہوجاتی ہے ، ایک کھڑکی کو گولی مار کر ایک دھماکہ خیز مواد کو ختم کرتی ہے۔ گولڈ فنگر کو ٹوٹے ہوئے ونڈو کے ذریعے کیبن سے باہر اڑا دیا گیا۔ طیارے کے قابو سے باہر ہوکر ، بونڈ نے گیلور کو بچا لیا اور وہ بحری جہاز میں گرنے سے پہلے ہی طیارے سے بحفاظت پیراشوٹ لیتے ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق کورونا وائرس کی وباء نے عوامی نفسیاتی مسائل کو بری طرح متاثر کیا ہے، کورونا کی وباء کے دوران کراچی کے نوجوانوں کے ڈپریشن اور اضطرابی کیفیت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے جہاں دنیا بھر میں بے چینی پیدا کی ہے وہیں پاکستان بالخصوص کراچی کے نوجوانوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ NED یونیورسٹی کی 3 ہزار افراد پر تحقیقاین ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے لوگوں میں کورونا وائرس کی وباء سے ہونے والی دماغی تبدیلیوں پر تحقیق کی گئی جس میں 3 ہزار سے زائد افراد کو اس کا حصہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کراچی کے نوجوانوں میں ڈپریشن اور اضطرابی کیفیت میں وباء کے دوران مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ کورونا سے نفسیاتی مسائل 40 فیصد بڑھے کورونا وائرس کی وباء نے انسانی نفسیاتی صورتِ حال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جس سے نفسیاتی مسائل میں 40 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی دماغی کیفیت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ رپورٹ کی تیاری میں غیرملکی یونیورسٹیز کا تعاونبائیو میڈیک ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ابوالحسن کے مطابق ڈپریشن کے کیسز میں 28 فیصد جبکہ ذہنی دباؤ کے کیسز میں 22 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، ساتھ ہی 27 فیصد نوجوانوں میں بے چینی یا اضطرابی کیفیت بھی پائی گئی ہے۔ یونیورسٹی آف گلاسگو، اسٹینفورڈ یونیورسٹی، موناش یونیورسٹی آسٹریلیا اور ڈنمارک کے تعاون سے تیار کی گئی یہ رپورٹ پاکستانی محققین کی ایک بڑی کامیابی ثابت ہو گی۔
لاہور: (یواین پی) وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال نے کہا ہے کہ 1131 پرائس مجسٹریٹس اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی نگرانی کرینگے، شہری گوگل سے قیمت ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے زیادہ نرخوں کی شکایت کر سکتے ہیں۔اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کے حوالے سے شکایا ت کانوٹس لیتے ہوئے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گوگل قیمت ایپ پوری طرح سے فعال، شہریوں کی شکایات پر فوری ایکشن لے رہی ہے، اب تک 4 لاکھ چالیس ہزار شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ مختلف دکانداروں کو 15 کروڑ 48 لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔ وزیر صنعت و تجارت نے بتایا کہ گراں فروشی پر پنجاب بھر میں 4 ہزار 578 ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں، قیمت ایپ پر شہریوں کی طرف سے حوصلہ افزاء ریسپانس ملا ہے۔ پنجاب میں مقرر کردہ نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائیں گے، آٹا، چینی اور چاول سمیت 18 روزمرہ کی اشیاء شارٹ لسٹ ہو چکی ہیں۔ :اسی سے منسلک خبریں جو آپ پڑھنا چاہیں گے کیپٹن راجہ سرور شہید کا 73 واں یوم شہادت ”آج“ منایا جائے گا ہارون آبادپولیس 13سالہ فیصل بی بی کو بازیاب کروائے۔ بہاولنگراین جی اونیٹ ورک کامطالبہ مسلم لیگ ن تاجرونگ پنجاب کی طرف سے ’’یوم تکبیر ‘‘ایوان اقبال منعقد ہوئی ، حمزہ شہبا ز مہمان خصوصی تھے
ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کا اسپیشل جے آئی ٹی بنانے کا حکم آرمی چیف کا دورہ کراچی، مزار قائد پر حاضری، پھولوں کی چادر چڑھائی اسمبلیوں کی تحلیل پر عمران خان الیکشن کرا کے کیا کرے گا امریکا اور یورپ سے دوستی کریں گے، غلامی نہیں: مولانا فضل الرحمان سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کی سماعت، والدہ آبدیدہ ہو گئیں اسلام آباد: اتوار بازار میں آتشزدگی، 150 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ، رانا ثنا کا نوٹس پی ٹی آئی اجلاس، اسمبلیوں سے استعفے اور تحلیل کے حوالے سے مشاورت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سرکاری دورے پر انڈونیشیا پہنچ گئے پشاور:قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائی، 4 دہشتگرد گرفتار عمران خان نے اگلے چند روز میں صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ کرلیا ہے 72 شیئر کریں بہت سے سینیٹرز کو نیب کے پیغامات، نوٹس اور فون آئے ہیں، شاہد خاقان عباسی admin مارچ 11, 2021 March 11, 2021 0 تبصرے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ سینیٹر حافظ عبدالکریم پر پہلے نیب کے مقدمات بنانے کی کوشش کی گئی، پنجاب کی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ شروع ہوگئی ہے، بہت سے سینیٹرز کو نیب کے پیغامات، نوٹس اور فون آئے ہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومتی اداروں کو سینیٹ الیکشن میں مداخلت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، ہمارے ارکان نے بتایا ہے کہ ٹیلی فون پر ووٹ بدلنے کو کہا گیا ہے، سینیٹرز کو فون آتے ہیں کہ ایوان میں نہ آئیں تو پھر مایوسی ہوتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کیا ہم یہ بھی قبول نہیں کرسکتے کہ چیئرمین سینیٹ جمہوری طریقے سے بن جائے، آج پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کو متنازع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، لگا تھا جو 2018 میں ہوا پھر نہیں ہوگا، آج پھر بہت سے شہادتیں سامنے آئی ہیں۔ رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ 70 کروڑ روپے کا پٹہ، عوام کے منہ پر تھپڑ ہے، 2018 میں ایک روایت سے چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اور سینیٹ متنازع بنے، ایسا شخص چیئرمین سینیٹ بنایا گیا جس کی جماعت کا وجود بھی نہیں تھا۔
17 مئی، 2007 کی اس تصویر میں ایک شخص کراچی میں عدالت کے باہر بیٹھا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھرمیں نومبر 2021 تک زیر التوا کیسوں کی تعداد 21 لاکھ سے زائد تھی(اے ایف پی فائل) کیا آپ جانتے ہیں کہ حکومت نے عدالتوں میں مختلف نوعیت کے کیس دائر کرنے کی فیس اتنی ہی مقرر کر رکھی ہے جتنی کچہری میں کسی ڈھابے پر ایک پیالی چائے کی قیمت ہوتی ہے؟ لیکن اپنے حقوق کی غرض سے عدالت جانے والے کے تجربے کو اکثر لوگ مضحکہ خیز طور پر ایک ہی جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’خدا کسی کو بھی کچہری کا منہ نہ دکھائے۔‘ آخرعدالتوں میں ان کے ساتھ ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ انصاف کے لیے لڑائی لڑنے سے پناہ مانگتے ہیں۔ 58 سال کی سائلہ شبانہ بی بی یہ وجہ کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں۔ ’پانچ سے چھ مہینے عدالتوں کے چکروں نے مجھے خون کے آنسو رلا دیا۔‘ شبانہ نے اپنے گھر کی فروخت رکوانے کے لیے 2018 میں اپنے سابقہ شوہرکے خلاف کراچی کی ایک دیوانی عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہیں سے ایک ایسی قانونی جنگ کا آغاز ہوا جسے وہ بمشکل چند مہینوں تک جاری رکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’اگر آپ (عدالت میں ) کیس کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ سمجھیں کہ اپنے گھر اور بچوں کے اخراجات کو ایک طرف رکھ کر آپ کو محض کیس کے اخراجات، سرکاری عملے کے ’چائے پانی‘ اور وکیلوں کی فیس ادا کرنے سے ہی فرصت نہیں ملے گی۔‘ کہانی کچھ یوں ہے کہ شادی کے بعد شبانہ بی بی اور ان کے شوہر نے مشترکہ طور پر سرجانی کے علاقے میں ایک 200 گز پر محیط مکان خریدا تھا۔ بقول شبانہ کے مکان کی 90 فیصد رقم خود انہوں نے اپنی ماہانہ آمدنی سے ادا کی تھی جبکہ ان کے شوہر نے صرف 10 فیصد رقم شامل کی تھی۔ لیکن طلاق کے اپنے حصے کی رقم کی وصولی کی خاطر ان کے سابق شوہر نے جب مکان کو بیچنے کا ارادہ کیا تو شبانہ اپنے بچوں کے سر کی چھت بچانے کے لیے عدالت جا پہنچیں۔ وہ کہتی ہیں ان کا یہ تجربہ بہت تلخ رہا۔ ’پہلے تو یہ ہوا کہ یکے بعد دیگرے تین وکیلوں نے میرا کیس لیا اور اپنی طے شدہ فیس ایڈوانس میں وصول کر لی۔ ’لیکن پیسے لینے کے بعد وہ عدالت میں دکھائی ہی نہیں دیے۔ انہوں نے مجھ سے ساڑھے چھ لاکھ روپے اینٹھے بغیر کوئی کام کیے۔ ’بالآخر میں نے چوتھا وکیل کیا جس سے کیس کی فیس ڈھائی لاکھ روپے طے ہوئی۔ آخرکار مجھے میرے گھر کی فروخت کے خلاف عدالت سے عارضی حکم امتناعی مل گیا۔‘ اس کے باوجود چند ماہ بعد شبانہ بی بی نے کیس کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے اپنے سابق شوہر کے ساتھ ’عدالت سے باہر سمجھوتہ‘ (آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ) کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ ’کیس کے اخراجات مزید برداشت کرنا مشکل تھا اس لیے میں نے عدالت سے باہر ہی معاملے پر سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ تاہم تین برس گزر چکے ہیں اور گھر کی ملکیت کا معاملہ اب بھی کھٹائی میں پڑا ہے کیونکہ سابقہ میاں بیوی تاحال کسی باہمی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکے جس مقصد کے لیے انہوں نے خود عدالتی کارروائی رکوا دی تھی۔ کیا کیس دائر کرنے کی کوئی فیس ہوتی ہے؟ ہرسال کراچی بارایسوسی ایشن سالانہ ڈائری چھپوا کر وکیلوں کو فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے کیسوں کی روزانہ کی بنیاد پر یادداشت درج کر سکیں۔ میری نظر سے اس ڈائری کے کچھ صفحات گزرے جن پر حیرت انگیز طور پر دلچسپ معلومات تحریر تھیں۔ یہ تھا مختلف نوعیت کے کیس دائرکرنے کی فیسوں کا میزانیہ جسے حکومت نے مقرر کر رکھا ہے۔ کورٹ فیس کا میزانیہ میزانیے کے مطابق چھوٹی عدالتوں (یعنی کچہری میں قائم) دیوانی اورفوجداری عدالتوں میں پسند کی شادی سے لے کر طلاق اور زمین کی ملکیت کا دعویٰ دائر کرنے کی فیس جو ایک سائل خرچ کرتا ہے وہ محض 17 روپے ہے، جس میں 15 روپے دعوے کی فیس اور دو روپے حلف نامے کی ہے۔ اسی طرح عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) میں آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 100 روپے ہے جبکہ اضافی طور پر وکیل کے وکالت نامے کی فیس پانچ روپے اورسائل کی جانب سے حلف نامے کی فیس 30 روپے ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ملک کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ آف پاکستان) میں بھی کیس دائر کرنا بہت مہنگا نہیں۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کرنے کی فیس 200 روپے مقرر ہے جبکہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی فیس 15 ہزار روپے ہے۔ ’ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے‘ سینیئر کریمنل وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ برطانوی کریمنل جیورس پروڈنس میں لکھا ہے کہ ’ملزم عدالت کا چہیتا بچہ ہے۔‘ انہوں نے بتایا ’چونکہ پاکستان میں برطانوی طرز کا آئین اور قانون آج تک نافذ ہے اسی لیے پاکستانی حکومت کے قوانین کے مطابق کسی کریمنل کیس میں ملوث ملزمان کواپنے دفاع کا کیس دائرکرنے کی کوئی فیس حکومت کو ادا نہیں کرنی پڑتی کیونکہ کریمنل کیس دراصل ریاست کے ہی خلاف لڑا جاتا ہے۔‘ مسکراتے ہوئے وکیل محمد فاروق مزید کہتے ہیں کہ ’اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی ملزم کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا تو عدالت اسے سرکاری خرچے پرایک وکیل فراہم کرنے کا حکم دیتی ہے جو اس کا دفاع کرے۔‘ اس کے برعکس دیوانی کیسز کی طرح فوجداری کیس میں بھی جو چیز سائل/ ملزم کے آڑے آتی ہے وہ ہے وکیل کی پروفیشنل فیس۔ وکیل کی جیب اس کی پشت پر؟ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج فیصل احمد صدیقی بتاتے ہیں کہ روایات کے مطابق صدیوں پہلے انگلستان میں بادشاہ کی طرف سے چند پڑھے لکھے لوگوں کو مقرر کیا گیا تھا کہ وہ عوامی شکایات دربار میں پیش کر سکیں۔ وہ لوگ یہ فرائض مقدس جان کر بغیر کسی فیس کے رضاکارانہ طور پر سرانجام دیتے تھے۔ بعد میں عوام کی سہولت اور ایسے افراد کو معاوضہ ادا کرنے کی غرض سے طے پایا گیا کہ ایک تھیلی نما جیب ان کے کوٹ (یا پوشاک) کی پشت پر لٹکا دیا جائے تاکہ سائل اپنی حیثیت کے مطابق معاوضہ (سکے) اس میں ڈال دیا کریں جسے بغیر دیکھے قبول کر لیا جائے گا۔ جب قانون کا باقاعدہ شعبہ قائم ہوا تو عدالتیں قائم کی گئیں اور قانون کی تعلیم کے لیے لندن میں سکول آف لا سے بیرسٹرز پیدا ہوئے تو جج اور وکیل کے لیے کالے رنگ کا یونیفارم متعارف کرایا گیا۔ جبکہ وکلا کے کوٹ یا ’گاؤن‘ کی پشت پرایک ڈوری کے ساتھ چھوٹی سی ’علامتی جیب‘ بھی لٹکا دی گئی تاکہ یہ روایت اوراحساس زندہ رہے کہ عوام کے لیے انصاف کے حصول کی کاوش ایک مقدس پیشہ تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج بھی وکلا، خصوصاً وہ جو اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، کے گاؤن کی پشت پرایک چھوٹی سی جیب لٹک رہی ہوتی ہے۔ اگر گذشتہ صدیوں میں وکالت کے شعبے میں جدت توآئی ہے لیکن یہ جیب محض ایک ’علامت‘ ہی بن کررہ گئی ہے۔ کیا وکلا کی فیس مقرر ہے؟ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھرمیں نومبر 2021 تک زیر التوا کیسوں کی تعداد 21 لاکھ سے زائد تھی۔ ان میں اعلیٰ عدالتوں میں دائر آئینی نوعیت کے کیسوں کی تعداد کم جبکہ ماتحت عدلیہ میں دائر دیوانی اور فوجداری نوعیت کے کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان بارکونسل اورسپریم کورٹ بارایسوسی ایشن ملک میں وکالت کے شعبے کے لیے ضابطہ اخلاق اور ججوں کی تعیناتی سمیت مختلف فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں اعلیٰ ادارے گذشتہ 70 سالوں میں وکلا کی پروفیشنل فیس مقرر کرنے کے معاملے پر اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے موجودہ صدر احسن بھون کہتے ہیں کہ ’یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ ’کسی کیس کی 10 ہزار فیس بھی ہوتی ہے، کسی کیس کی 10 کروڑ بھی فیس ہوتی ہے۔ جتنا کوئی ٹائم دے گا اتنی فیس ہو گی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’جتنا آپ کسی سے کام لیتے ہیں اتنی ہی فیس دینی پڑتی ہے۔ کسی کیس پر مہینوں لگتے ہیں کسی پر سالوں۔‘ ’کیس جینے کے بجائے زندگیاں ہار جاتے ہیں‘ کراچی میں 18 دسمبر، 2018 کی ایک سرد صبح تھی جب 54 سالہ رحمت اللہ شیخ زمین کی ملکیت سے متعلق اپنے کیس کی شنوائی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ چند افراد نے مبینہ طور پر سرجانی میں ان کی 25 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ فاضل عدالت کے جج کیس کی شنوائی کرتے رحمت اللہ کو اچانک کمرہ عدالت میں دل کا دورہ پڑا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کے وکیل شاہ محمد میتلو نے بتایا کہ ’رحمت اللہ دو تین سالوں کے دوران وکیلوں کی فیسیں اور دیگر عدالتی اخراجات کی مد میں تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ کر چکے تھے۔‘ ’جب وہ میرے پاس آئے تو ان کے پاس عدالت میں ہونے والے روزمرہ اخراجات کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ’یہاں تک کہ چھوٹے موٹے خرچے میں خود اپنی جیب سے کرتا تھا کیونکہ میں ان کا کیس انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر لڑ رہا تھا۔‘ 22 مارچ 2009 کی اس تصویر میں پاکستانی وکلا کو وکلا تحریک کے رہنما اعتزاز احسن کے ہمراہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رہائش گاہ کے باہر دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی) ’سستے عدل کی تحریک مہنگی پڑ رہی ہے‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) نومبر2007 میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور وکلا نے وقت کے فوجی آمر صدر جنرل پرویز مشرف کی ملک میں آئین کو معطل کرنے کے خلاف تاریخی ملک گیر تحریک شروع کی۔ 13 مہینوں تک وکلا ہر جمعرات کو ملک بھرمیں عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کرتے، اس کے نتیجے میں ملک بھر میں زیر التوا کیسوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ اگرچہ معزول ججوں اور وکلا نے بارہا وعدہ کیا کہ اگر عوام ’آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی‘ کی تحریک میں ان کا ساتھ دیں تو مستقبل میں بینچ اور بار مل کر انہیں سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ کیا سستا اور فوری انصاف ممکن ہوا؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے عدلیہ کی بحالی کے دوران سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے عوام سے کیے جانے والے وعدے وفا نہیں کیے گئے۔‘ نتیجتاً ایک طرف لاکھوں سائل بحالت مجبوری انصاف حاصل کرنے کی خاطر بھاری رقم خرچ کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دوسری طرف شبانہ بی بی جیسے لوگ مزید پیسے نہ ہونے کے باعث ’آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ‘ پر مجبور ہیں۔ یا پھر کمرہ عدالت ہی میں دنیا سے گزر جانے والے رحمت اللہ کے خاندان کی طرح وکلا کی فیسیں نہ ادا کر سکنے کی وجہ سے کیس مزید نہ چلنے کے صورت میں انصاف کی فراہمی کی امید کھو چکے ہیں۔
خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی (KPRA)، کارپوریٹ ادارے کے طور پر، خیبر پختونخوا فنانس ایکٹ، 2013 کے تحت قائم کیا گیا تھا، جس کا مینڈیٹ سروسز اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر سیلز ٹیکس کا انتظام اور جمع کرنا تھا۔ KPRA کا انتظام ہے، متعلقہ خود مختاری کے ساتھ، اسے حکومت کے ساتھ انٹرفیس کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کے تحت رکھا گیا ہے۔ جبکہ کونسل پالیسی ساز ادارے کے طور پر کام کرتی ہے جس کی صدارت عزت مآب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کرتی ہے اور اس میں تین (03) کابینہ کے وزراء برائے خزانہ، قانون اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، چیف سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ، قانون، ایکسائز، ٹیکسیشن شامل ہیں۔ اور نارکوٹکس کنٹرول کے محکمے اور حکومت کی طرف سے نجی شعبے سے نامزد کردہ چار نمائندے۔ خیبرپختونخوا میں ٹیکس کا نظام مختلف محکموں کے ذریعے ایک تنگ بنیاد اور منقسم ریونیو ایڈمنسٹریشن کی عکاسی کرتا ہے: ریونیو اینڈ اسٹیٹ اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وغیرہ۔ KPRA خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی کے طور پر ابھری ہے، اس نے کل صوبائی ملکیتی رسیدوں میں 33% اور سال 2016-17، 2017-18-2018 اور 2018-2017 کے کل صوبائی ٹیکس ریونیو میں 56.42%، 61% اور 51% کا حصہ ڈالا ہے۔ بالترتیب 19۔ KPRA کا تصور صوبے میں سماجی ترقی کے لیے مالیاتی گنجائش کو بڑھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اتھارٹی نے مجموعی طور پر 2000000 روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔ اپنے قیام سے اب تک 60 بلین۔ KPRA نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک کئی چیلنجوں کا سامنا کیا ہے جس میں اعلیٰ انتظامیہ میں متواتر تبدیلیاں شامل ہیں۔ اس کے باوجود، اس نے خدمات کے لیے ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دے کر، باخبر تعمیل اور خودکار نظام اور عمل کو متعارف کروا کر نمایاں آمدنی حاصل کی ہے۔ تاہم، تاخیر سے آپریشنلائزیشن نے ممکنہ ریونیو کو ٹیپ کرنے کے مطلوبہ اہداف کو منفی طور پر متاثر کیا۔ مذکورہ بالا کے باوجود، سال 2017 نہ صرف صوبائی حکومت کے مقرر کردہ محصولات کے اہداف کو حاصل کرنے کے لحاظ سے نتیجہ خیز ثابت ہوا؛ بلکہ اپنی حقیقی روح میں ادارہ جاتی ترقی پر بھی ترقی کی۔ اتھارٹی فنانس ایکٹ 2013 کے تحت ضروری ضمنی قوانین بنانے میں کامیاب رہی، انسانی وسائل کی تشخیص کی بنیاد پر تنظیمی ڈھانچہ وضع کیا۔ اس کے علاوہ، قابل انسانی وسائل کو ملازمت دے کر بھرتی کے عمل کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنا۔ مزید برآں، KPRA نے باخبر تعمیل پر زیادہ زور دینے کے لیے وسیع مواصلاتی حکمت عملی سمیت متعدد حکمت عملی بھی وضع کی۔ KPRA کی ٹرانزیشن ٹیم گورننس ریفارمز میں مدد کے لیے متعدد ترقیاتی شراکت داروں کی تکنیکی مدد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی۔ شفافیت اور تنظیمی سالمیت KPRA کے نئے مالیاتی ادارے کی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ ایک موثر مالیاتی انتظامی نظام موجود ہے جو کھاتوں کے مالیاتی گوشواروں کی تیاری کو یقینی بناتا ہے، محصولات کی وصولیوں کا بیان، اکاؤنٹنٹ جنرل، خیبر پختونخوا کے ساتھ اس کی مفاہمت؛ اور ٹیکس دہندگان کا اعتماد بڑھانے اور KPRA کے اسٹریٹجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بیرونی اور اندرونی آڈٹ کا باقاعدہ انعقاد، خطرات کا انتظام، اور اندرونی عمل کی مسلسل نگرانی۔ اولین مقصد خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی خدمات پر سیلز ٹیکس کی موثر انتظامیہ اور انتظام کے ذریعے خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کی معاشی اور سماجی بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے وقف ہے۔ فنکشن خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں فراہم کردہ، فراہم کردہ، پیش کردہ، شروع کی گئی، شروع کی گئی، عمل میں لائی گئی، وصول کی گئی، ڈیلیور کی گئی یا استعمال کی جانے والی خدمات پر سیلز ٹیکس عائد کرنا، عائد کرنا، وصول کرنا اور ان کا انتظام کرنا ہے۔ 2013 میں اپنے قیام کے بعد سے، KPRA KP کے اپنے ذریعہ آمدن میں سب سے بڑا حصہ دار بن گیا ہے، جس نے گزشتہ 3 سالوں میں KP کی آمدنی کا 30% سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ KPRA ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے وقف ہے اور اس نے تمام خطوں میں ٹیکس کی سہولت کے مراکز قائم کیے ہیں اور ٹیکس دہندگان کو باخبر انتخاب کرنے میں مدد کرنے کے لیے باقاعدگی سے میڈیا مہم چلائی جاتی ہے۔
Report Error! لائیوفوبک، پاشیدگی گریز : لسونتی ذرات اور تعلیقی مادے (suspension medium) میں کمزور تعلق کا مظہر ۔ 293 LYOPHOBIC COLLOIDS R Report Error! پاشیدگی گریز کولائیڈ ۔ ایسے کولائیڈز جن کے ذرات انتشار کے مرحلہ میں انتشاری ذریعہ اور کو لائیڈ کے لیے کوئی رغبت یا کشش نہیں رکھتے ۔ 294 LYOTROPIC SERIES R Report Error! لائیوٹرا پک سیریز ۔ ایک اصطلاحی جولسونتی محلولوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور نمک کے مختلف این آیونز کی ترتیب ظاہر کر سکتی ہے ۔
سندھ کے جنوب مشرق کی طرف بھارتی سرحد سے متصل 22 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط صحرا تھر پاکستان کا سب سے بڑا صحرا سمجھا جاتا ہے۔ صحراءتھر کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 15 لاکھ کے قریب ہے اور یہاں کے مکین غربت کی وجہ سے سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ اکثر لوگ گھاس سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جسے مقامی زبان میں چونرا کہتے ہیں۔ یہاں نہ چوری کا ڈر اور نہ ہی ڈکیتی کا خوف، نہ ماحول کی آلودگی کی پریشانی اور نہ ہی اجنبیت کا احساس۔ یہ ہے پاکستان کے صوبہ سندھ کا صحرائے تھر جہاں ثقافت، روایت اور اقدار آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں۔ تھر کا شمار دنیا کے بڑے صحراو ¿ں میں ہوتا ہے، اس کو دوست صحرا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دیگر صحرائی علاقوں کے مقابلے میں یہاں رسائی آسان ہے۔ تھر کا ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے، یہ شہر ایک خاتون کے نام پر آباد ہے۔ بعض روایات کے مطابق یہاں مائی مٹھاں نامی خاتون کا کنواں تھا جس میں سے مسافر پانی پیا کرتے تھے۔ تھرپارکر کی ثقافت دنیا بھر بے حد مقبول اور ایک خاص پہچان رکھتی ہے اور دنیا بھر میں تھر میں ہاتھ کی محنت سے بنی چیزیں دوسرے شہروں کی خواتین اور مرد اپنے لباس اور گھر کو سجانے کے لیے تھر پارکر کی منفرد لباس اور روایتی زیورات کا استعمال کرتی ہیں یہاں کی ہاتھ کی بنی اشیا لوگ اپنے دوست، احباب اور رشتے داروں کو تحفے تحائف کی صورت میں دیتے ہیں۔ تھر پارکر میں ہینڈیکرافٹس کا کام دیہات میں کیا جاتا ہے جہاں پر مرد اور خواتین دونوں یے کام کرتے ہیں اور مختلف شہروں ساں دکاندار آ کر خریدتے ہیں۔ تھر میں ہاتھ پرچیزیں بنائی جاتی ہیں اس میں رلی، گج، چادر، تکیہ، رومال، بیڈ کے چادر، مختلف قالین اور دیگر اشیا شامل ہیں جن کی الگ ہی پہچان ہے۔ یہاں کے لوگ ہاتھ کے ہنر پر اپنا وقت اور محنت تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کا فائدہ ان محنت والوں کو نہیں ہوتا ہے جتنا دکاندار کو ہوتا ہے دیہات کے لوگوں کے دوسرے شہروں تک پہنچ نہ ہونے سے یہ کم قیمت میں اپنی چیزیں یہاں کے مقامی تاجروں کو دیتے ہیں جو اشیا یہاں سے 3 سو سے ہزار تک خریدتے ہیں وہ آگے مارکیٹ میں 5 سے 10 ہزار بیچتے ہیںیعنی ان محنت کشوں کی قیمت وہ وصول کرتے ہیں اور کھا جاتے ہیں۔ تھر کے محنت کش خواتیں اور مردوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی سطح پر اشیا کو بیچنے کے لیے مدد مل سکے اور ہنر کی انڈسٹری کو یہاں پر سرگرم کیا جائے تو ہم اچھے طریقے سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں کچھ لوگ جو تھر کے لیے اپنے جذبات رکھتے ہیں وہ بھی محنت کررہے ہیں تاکہ وہ تھر کو ان کے حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ تھر کارپیٹس اور ہینڈی کرافٹس ایک آرگنائزیشن ہے جو اس کے لیے سرگرم ہے۔ اس آرگنائزیشن کے بانی اور سی ای او مشتاق سنگراسی ہیں اور اندرون سندھ کے باشندوں کو ان کے موجودہ حالات اور معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کا وژن رکھتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے اکنامکس اور فنانس میں گریجویشن کرنے کے بعد، IBA سے انٹرپرینیور اسکلز میں ڈپلوما اور پریسٹن یونیورسٹی میں وزٹنگ فیکلٹی ہونے کا تجربہ رکھتے ہوئے ۔ وہ 10 سے زائد سالوں کے اپنے علم اور مہارت کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کے عزائم رکھتے ہیں اور ان کا مقصد تھر واسیوں کو بہتر اور اچھی زندگیاں فراہم کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں تھر کے ایک وزٹ کے موقع پر مشتاق سنگراسی سے ملاقات ہوگئی، جب تک ہم نہیں جانتے تھے کہ تھر میں ایسے جذبات بھی موجود ہیں جو تھر کے بہتر مستقبل کے لیے خود کو سرگرم رکھے ہوئے ہیں۔ مشتاق احمد سنگراسی ایک ملنسار اور بہت مشفق بندے ہیں۔ ان سے ملاقات اتفاقا تھی مگر وہ بے مثال صلاحیتوں کے مالک اور خوش اخلاق ٹھہرے۔ اپنی صحافتی ذمے داریوں کو ادا کرتے ہوئے ہمیں لگا کہ کیوں نہ تھر سے متعلق معلومات لی جائے۔ پھر سلسلہ شروع ہوا اور گفتگو بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مقامی کمیونٹی کی بہتری کے لیے ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور کاروباری تجزیات میں بہتری کے خواہاں ہیں، مقاصد میں تھر کی دستکاری کو پوری دنیا میں لے کر جانا اور تھر واسیوں کو ان کا جائزہ منافع دلانا ہے۔ مشتاق احمد کو اپنے والد سے یہ مقصد ملا، ان کے والد بھی ایک سماجی کاروباری شخصیت تھے، کئی فلاحی کاموں کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔ گاو ¿ں میں پہلا پرائمری اور سیکنڈری اسکول کھولنے میں ان کاکردار اہم رہا۔ مشتاق احمد کا خیال ہے کہ کاشتکاری اور جانوروں کے علاوہ بھی آمدن کے ذرائع کا ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بارش کی عدم دستیابی کے باعث فصلیں تباہ اور جانور مرنے لگتے ہیں جس سے تھر واسی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ مشتاق احمد جو کہہ رہے تھے وہ اس کا عملی نمونہ بھی تھے، وہ 10 سال اپنا کام بھی کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہزاروں تھر واسی جو بے روزگار اور غریب لوگ تھے ان کو بھی ہیلپ آﺅٹ کررہے ہیں اور یہ جذبہ ہر کسی میں نہیں ہوتا۔ باتوں باتوں میں اندازہ ہوا کہ وہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ انہیں بین الاقوامی اور قومی شہرت حاصل ہے، وہ پی سی ایم ای اے (پاکستان کارپٹ مینوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن) کی ایگزیکٹو کمیٹی کا حصہ رہے ہیں اور ایف پی سی سی آئی کے پاک امریکی بزنس کونسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل رہے ہیں اور اس سال تھر کے قالین اور دستکاری سے متعلق اقوام متحدہ کے تحت ڈبلیو ایس آئی ایس کے 2021ء کے ایوارڈ میں انہیں نامزد بھی کیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک بڑی کامیابی اور ان کے کام سے اخلاص کی بدولت ہے۔ انہوں نے بتایاکہ تھر کے قالینوں اور دستکاری کی پیداوار میں بہتر سے بہتر کو ترجیح دی جاتی ہے،کیوں کہ یہ ایک تھر کی پہچان کا سبب ہے اور اس کے لیے جتنا اچھا ہو وہ کرتے ہیں، ان کی خواتین باصلاحیت ہیں اور وہ کام پر مکمل مہارت رکھتی ہیں۔ خواتین کو کڑھائی، سلائی، ڈیزائننگ اور بہت سے کاموں کی تربیت حاصل ہے۔ ہم جو وہاں کی خواتین کے بنائی ہوئی مصنوعات کو لے کر آتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے ان کو زیادہ سے زیادہ منافع فراہم کیا جائے اور یہی کام ہم باقی سندھ کے علاقوں میں بھی کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تھر سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں محنت کش طبقے کو بااختیار بنایا جائے اور وہ خود ہی اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو منڈی تک رسائی حاصل کرتے ہوئے بیچے اور منافع حاصل کرے۔ یہ بھی منصوبہ ہے کہ ٹیکنیکل طریقون سے موجودہ پیداواری عمل کو بہتر کیا جائے اور مارکیٹنگ کی وسیع حکمت عملیوں اور موجودہ مارکیٹ کے معیار پر پورا اترتے ہوئے اسے وسیع پیمانے پر لے جایا جائے۔ کسٹمر کو جب دیگر جگہوں کی نسبت زیادہ اور بہتر مال میسر ہوگا تو یقینا اس سے ہمارے کاروبار میں بھی اضافہ ہوگا اور ہم ایک بہتر پوزیشن پر کھڑے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مشتاق احمد اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ نئی صنعتوں کو شامل کیا جا سکے، مقامی لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے پانی صاف کرنے کی سہولیات دی جائیں۔ مشتاق اپنے طور پر جو تھر کی ترقی کے لیے کرسکتے ہیں وہ یقینا کررہے ہیں اور یہ بہت ضروری ہے کہ آپ جو کرسکتے ہیں آپ وہ کریں کیوں کہ آپ سے اسی کا سوال کیا جائے گا۔ تھر کی دست کاری کراچی، اسلام آباد سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں دستیاب ہے۔کئی چادریں کھڈی پر بنائی جاتی ہیں جو مشین کی بنی ہوئی چادروں سے زیادہ پائیدار ہوتی ہیں۔ تھر میں لوگوں کی اکثریت اگلو نما کچے کمروں میں رہتے ہیں، ان کی چھتیں گھاس سے بنی ہوئی ہوتی ہیں جو گرمی میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔ ہر سال یا دو سال کے بعد ان پر تازہ گھاس لگائی جاتی ہے۔ یہاں پانی عام طور پر کنویں سے حاصل ہوتا ہے جس کے لیے گدھے، اونٹ یا بیل کا استعمال ہوتا ہے۔ کنوو ¿ں سے پانی نکالنے کی ذمہ داری مردوں کی ہے جبکہ گھروں تک پانی خواتین پہنچاتی ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ کئی دیہاتوں میں اب ٹیوب ویل آ گئے ہیں اس لیے سروں پر پانی کے دو سے تین مٹکے رکھ کر چلنے والی خواتین بہت کم نظر آتی ہیں۔ تھر میں قحط ہو یا بارشوں کے بعد کی خوشحالی یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں۔ اگر آپ کہیں گائوں کے قریب رک گئے ہیں تو مسافروں کی مدد کرنا اور ان کی مہمان نوازی مقامی لوگوں کی روایت میں شامل ہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار کی جگہ پاج فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی قیادت کیلئے حیران کن طور پر الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرنگ کور سے انتخاب کیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ’قبل از وقت ریٹائرمنٹ‘ لے لی نئی تعیناتیوں سے قبل ہی فیض حمید کا استعفیٰ قبول کرلیا گیا، نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر آج اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ فلم ریویو ضرار: ٹریلر جتنا عمدہ تھا کاش فلم بھی ویسی ہی ہوتی! فلم کو دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ اس کی پوسٹ پروڈکشن کا کام ایسے عالمی شہرت یافتہ اسٹوڈیو میں ہوا ہے ، جہاں جیمز بونڈ سیریز جیسی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ بھارت: دوران کلاس ’دہشت گرد‘ کہنے پر مسلمان طالب علم نے پروفیسر کو کھری کھری سنا دی کیا اپنے بیٹے کو دہشت گرد کے نام سے پکاریں گے؟ معذرت کرنے سے آپ کی سوچ نہیں بدل سکتی، مسلمان طالب علم ملائیکا اروڑا کے حاملہ ہونے کی رپورٹ پر ارجن کپور نے خاموشی توڑ دی یہ وہ نچلی ترین سطح ہے جس پر آپ جاسکتے تھے اور آپ نے ایسا انتہائی غیر اخلاقی خبر شائع کرکے کیا ہے، بولی وڈ اداکار چین اپنی طاقت کی نمائش کیلئے پاکستان پر انحصار کرتا ہے، امریکا بیجنگ نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مشن کی تکمیل میں اسلام آباد کی مدد کے علاوہ اسے جدید فوجی ساز و سامان بھی فراہم کیا، پینٹاگون فیفا ڈائری (13واں دن): ایران اور امریکا کے میچ کا ماحول لفظوں میں بیان نہیں ہوسکتا اگر ایران کل کا میچ جیت جاتا تو یہ زیادہ بڑی خبر ہوتی، خصوصاً اس وقت کہ جب ایران اندرونی مسائل کا شکار ہے، اگر ایران پہلی بار راؤنڈ آف 16 میں رسائی حاصل کرلیتا تو حالات کچھ مختلف ہوتے۔ وہ تاریخی ٹیسٹ جب میڈیا نمائندگان کو بطور متبادل کھلاڑی میدان میں اترنا پڑا آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا کہ جب ایک انٹرنیشل ٹیسٹ میچ میں صحافیوں اور کومنٹیٹرز کو میدان میں متبادل کے طور پر اترنا پڑا۔ گروپ سی کے ڈرامائی مقابلوں نے ناخن چبانے پر مجبور کردیا اب جب آپ پورے منظر نامے سے واقف ہوچکیں ہیں تو اب آپ کو کل رات کا ڈراما نہ صرف سمجھ آئے گا بلکہ یہ قصہ سننے میں مزا بھی آئے گا۔
سابق پاکستانی آف اسپنر ثقلین مشتاق بطور اسپن بولنگ کوچ فاتح انگلش ٹیم کا حصہ رہے، انھوں نے بتایاکہ ورلڈکپ جیتنے پر انگلینڈ میں جشن کا سماں ہے، میچ کے بعد رات گئے تک کھلاڑی لارڈز میں جشن مناتے رہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی لانگ روم میں موجود رہی جہاں انگلش کرکٹرز نے انھیں جوائن کیا، کھلاڑیوں کے والدین، بیگمات اور دیگر فیملی ممبرز بھی جشن میں شریک ہوئے، کوچ نے تقریر کی اور پلیئرزکو عمدہ کارکردگی کا سلسلہ ایشز سیریز میں بھی جاری رکھنے کا کہا، بعض پلیئرز نے گانا تیار کیا جسے سب مل کر گاتے رہے،سب نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ انگلش ٹیم کی خاص بات یہ ہے کہ سب کے مذہبی عقائد کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ مجھ سمیت معین علی اور عادل رشید کے حوالے سے مکمل احتیاط برتی گئی کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی ہمیں ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا، دورانِ میچ ڈریسنگ روم میں پلیئرز انشااﷲ بھی کہتے رہے اور کپتان ایون مورگن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’فائنل میں اﷲ ہمارے ساتھ تھا‘‘۔ ثقلین مشتاق نے کہا کہ انگلش ڈریسنگ روم کا ماحول بہت زبردست اور تمام کھلاڑی ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے ہیں، میچ ٹائی ہوا تو سب لارڈز کی بالکونی سے نیچے گئے اور میچ کی حکمت عملی پر بات کی، ٹیم یکجا اور سب کا ایک ہی مقصد ٹائٹل جیتنا تھا، یہی وجہ ہے کہ فتح کے بعد وہ کھلاڑی بھی جشن میں پیش پیش رہے جو میچ میں شامل نہیں تھے، ایک دوسرے کی کامیابی سے خوش ہونا ہی چیمپئن ٹیم کی پہچان ہے، کوچ ٹریور بیلس نے سب کا بہت اچھے انداز میں خیال رکھا، انگلینڈ کی فتوحات میں ان کا اہم کردار ہے، وہ ایشز سیریز کے بعد عہدہ چھوڑ دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ میں آسٹریلیا سے میچز کے دوران مزید 55 دن تک انگلش ٹیم کیساتھ رہوں گا، پاکستان کو اگر میری ضرورت ہوئی تو خدمات ہمیشہ حاضر ہیں۔
ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر مرکز انجمنیں رد رسائل و اخبارِقادیانیہ JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding.
ولایت پورٹل:فلسطینی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی کھدائیوں اور یہودی آبادکاری کے امور کے ماہر فخری ابو دیاب نے بتایا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی مشرقی سمت میں اسرائیل کی العاد نامی تنظیم نے خطرناک نوعیت کی کھدائیاں کی ہیں۔ ابو دیاب کا کہنا تھا کہ حالیہ ایام میں عین العذرا کے مقام پر بابِ رحمت میں مسجد اقصیٰ کی مشرقی دیوار کے نیچے 100 سے 150 میٹر کے فاصلے پر نئی کھدائیاں کی گئی ہیں، یہ کھدائیاں ایک سرنگ کی شکل میں ہیں جو مسجد اقصیٰ کی مشرقی دیوار کی بنیادوں کے قریب ہیں۔ واضح رہے کہ جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے یہ ایک اہم مقام ہے، جہاں پر کنعانی، عثمانی اور دیگر گزشتہ ادوار کی باقیات اور ہزاروں سال کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر قدیم دور کے پتھر ہیں، جن میں سے بعض کئی ہزار ٹن وزنی ہیں، بعض 10 میٹر لمبے اور ایک میٹر چوڑے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس شہر مسلمانوں کی تاریخی میراث ہے۔ مبصرین مسجد الاقصی کے نيچے کھدائی کے پھر سے آغاز کو عرب حکام کی جانب سے اسرائیل کی خود ساختہ حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے جانے کا نتیجہ سمجھتے ہيں، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش نے قدس کی غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کرلئے ہيں جبکہ سعودی عرب صیہونی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے نئے سال کے جشن میں شرکت کے لئے 50 ہزار صیہونیوں کو ویزہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برطانوی شہزادہ ہیری کی اہلیہ میگھن مارکل نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے بطور تحفہ دیے گئے جھمکے پہن لیے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مصنف ویلنٹائن لو نے اپنی ایک کتاب میں بکنگھم پیلس کے اندر میگھن مارکل پر بدمعاشی کے الزامات کے بارے میں لکھا ہے۔ کتاب میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ میگھن مارکل نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے دیے گئے جھمکے پہنے تھے۔ جھمکے سعودی شہزادے کی جانب سے شادی کا تحفہ تھے۔ میگھن مارکل کے دوسری بار جھمکے پہننے پر ایک معاون نے ان کے شوہر ہیری کو بتایا جس پر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ جھمکے کس نے دیے؟
کیا آپ آئینےمیں دیکھتے ہوئے چہرے پرپڑنے والی جھریوںاور جلد کے دیگر مسائل پر نظر ڈالتی ہیں؟ کیا آپ ہر بار یہ خواہش کرتی ہیں کہ آپ کی جلد بھی خوبصورت اور بے داغ ہوجائے؟ اگر ایسا ہے تو آپ اس خواہش میں اکیلی نہیں ہیں، تمام خواتین کی خواہش ہوتی ہےکہ وہ خوبصورت، بے داغ، نرم وملائم اور چمکدار جلد کی مالک ہوں۔ یہ کوئی ایسی خواہش نہیں جسے پورا ہوتے دیکھنا ممکن نہ ہو۔ چہرے کی مناسب دیکھ بھال اور روزمرہ معمولات میں تبدیلی لاکر آپ ایسی جلد کا حصول آسان بنا سکتی ہیں۔ اس کے لیے لازمی نہیں ہےکہ مہنگے بیوٹی پروڈکٹس اور سخت بیوٹی روٹین پرہی عمل درآمد کیا جائے۔ محدود بجٹ میں رہتے ہوئےوہ کون سے معمولات ہیں جن کو اپناکر آپ اپنی جلد کو نکھار سکتی ہیں، اس کا بہترین خلاصہ آپ کی نظر کررہے ہیں۔ کلینزرسے صاف اورہموارجلد ہمیشہ ایسا کلینزراستعمال کریں جو کہ آپ کی جلد کے لیے موزوںاور معیاری ہو۔ کسی بھی طرز کی جلد کے لیے دن میں دو مرتبہ کلینزنگ کرنا کافی ہے۔ اگر زیادہ کلینزنگ کی جائے تو جلد قیمتی اور قدرتی چکنائیوں سے محروم ہو کر سوکھ جاتی ہے۔ خشک جلد کے لیے اگر کلینزر میں قوت بخش جڑی بوٹیاں اور تیل شامل ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے، خاص طور پر ایسی جڑی بوٹیاں جو جلد سے پیدا ہونے والے تیل کا توازن برقرار رکھ سکیں اور صفائی کے عمل میں مدد کریں۔ آئلی جلد رکھنے والی خواتین کو چاہیے کہ آئل فری کلینزر کا استعمال باقاعدگی سے کریں، اس کے لیے وہ قدرتی اجزاء پر مبنی ایسا کلینزر خرید یں، جس میں چکنی جلد کے لیے موزوں جڑی بوٹیاں استعمال کی گئی ہوں۔ متوازن غذا کا استعمال اگر آپ صحت مند اور خوشنما جلد کی خواہشمند ہیں تو اس کے لیے متوازن غذا ضروری ہے۔ وٹامن، معدنیات اور پروٹین کے علاوہ فیٹ یعنی چربی سے بھرپورغذا جلد کو شوخ اور چمکدار رکھتی ہے۔ جرمن ڈرماٹولوجسٹ کرسٹیانے بیئرل کے مطابق،’’جو لوگ متوازن غذا استعمال نہیں کرتے وہ جِلد سے متعلق مسائل سے دوچار رہتے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق وٹامن اے جلد کی تازگی، وٹامن سی چہرے کی رطوبت جبکہ وٹامن ای اور بی بھی جلد کی تازگی میں غیر معمولی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صبح اور رات موئسچرائزر کرنا کلینزنگ، موئسچرائزنگ اور ٹوننگ کو جِلد کی خو بصورتی کا فارمولا قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی ڈرماٹولوجسٹ جینٹ پرسنوکسٹی کے مطابق موئسچرائزنگ کے لیے بہترین وقت صبح شاورلینے کے بعد جبکہ رات کو اپنے بسترپر جانے سے پہلے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موئسچرائزنگ کے لیے زیادہ مہک والے لوشنز استعمال نہ کیے جائیں۔ چہرے کی نمی برقرار رکھنے کے لئے اس کی موئسچرائزنگ بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس طرح جلد نرم و ملائم رہتی ہےاور اس میں قدرتی لچک پیدا ہو تی ہے ۔ پانی کی کثیر مقدار اگر جسم میں پانی کی مقدار مناسب سطح پر برقرار رکھی جائے تو جلد پر جھریاں پڑنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، لہٰذا دن بھر میں مناسب مقدار میں پانی کا استعمال کرنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جم سے آنے کے بعد یا صرف تیز پیاس لگنے کی صورت میں ہی پانی پیاجائے۔ ایکس فولی ایٹ آلودہ ہوا اور دن بھر کی مصروفیات نہ جانے کتنی دھول مٹی کو ہمارے چہرے پر جمانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ دھول مٹی جلد پر مردہ جلد کی ایک تہہ بنا دیتی ہے، جس سے چہرہ میلا کچیلا نظر آتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، جِلد کے خلیوں کا پروسیس سست ہوتا چلا جاتا ہےاور مردہ خلیے جِلد میں خرابی پیدا کرتے ہیں، اس طرح جِلد میں جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے اپنی جلد کی مناسبت سے کسی معیاری اسکرب سے چہرے کا مساج کریں یا ایسا ایکس فولی ایٹر استعمال کریں جس میں کلینزر کی خصوصیات موجود ہوں۔ چہرےکو ہرگز نہ چھوئیں زیادہ تر خواتین بار بار چہرے پر ہاتھ لگاتی ہیں۔ ایسے میں اگر کیل مہاسے ہوجائیں تو انھیں کھرچ کھرچ کر نکالتی ہیں۔ امریکی ڈرماٹولوجسٹ جولیا کے مطابق،صحت مند جلد کےلیے ضروری ہے کہ خواتین چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں۔ ہاتھ، جراثیم کی منتقلی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور یہ جراثیم ہمارے ہاتھوں کے ذریعے ہی جسم میں منتقل ہوتے ہیں جو کسی بھی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ 365دن ’سن اسکرین‘ اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ صرف موسمِ گرما میں دھوپ میں نکلتے وقت سن اسکرین لگانا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم ڈرماٹولوجسٹ ڈیبی پالمرکے مطابق درحقیقت سال کے 365دن سن اسکرین استعمال کرنا چاہیے۔ یہ نہ صرف آپ کی جلد کو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچاتا ہے بلکہ اس میںموجود پروٹین، کیراٹن اور ایلاسٹن جِلد کی حفاظت کرتے ہوئے اسے نرم وملائم اور صحت مند بناتا ہے۔ میک اَپ برش صاف رکھیں میک اَپ کرتے ہوئے برش کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ میک اَپ ایکسپرٹس کے مطابق بہترین اور بے داغ جلد کے لیے برشز کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائےنا کہ انھیں ایک طرف ڈال دیا جائے۔ میک اَپ برشز کو ہفتے میں ایک بار صاف کرناضروری ہے، نہیں تو ہر پندرہ دن میں لازمی ان کی صفائی کریں۔ Home Remedies For Glowing Skin How to Get Glowing Skin Home Remedies For Glowing Skin How to Get Glowing Skin Do you look at facial wrinkles and other skin problems when looking in the mirror? Do you want your skin to look beautiful and spotless every time? If so, you are not alone in this desire. All women desire that they own beautiful, spotless, soft skin and soft skin. It is not a desire that is not possible to see fulfilled. By having proper facial care and daily routine changes you can make it easier to achieve such skin. It is not necessary to implement expensive beauty products and strict beauty routines. While on a limited budget, here are some of the best practices that you can look for in your skin. Clean and smooth with a cleanser Always use a cleanser that is suitable and standard for your skin. Cleansing twice a day is enough for any type of skin. If more cleaning is done, the skin will lose valuable and natural gums and dry out. For dry skin, it is better if the cleanser contains strong herbs and oils, especially herbs that can balance the skin’s oils and help with the cleansing process. Women with oily skin should regularly use an oil-free cleanser, so they should buy a cleanser based on natural ingredients in which herbs suitable for greasy skin are used. The use of a balanced diet Home Remedies For Glowing Skin How to Get Glowing Skin A balanced diet is essential if you want healthy and well-rounded skin. In addition to vitamins, minerals, and proteins, fat-rich nutrients keep the skin bright and shiny. According to German dermatologist Christiane Bierle, “People who don’t use a balanced diet are suffering from skin problems”. According to him, vitamin A skin refreshment, vitamin C facial moisture while vitamin E and B also plays an unusual and important role in skin freshness. Moisturizing morning and night Cleansing, moisturizing and toning are termed as skin irritation formulas. According to American dermatologist Janet Persnoxti, the best time for moisturizing is after the shower in the morning and before going to bed at night. They say that lotions that are too fragile should not be used for moisturizing. Moisturizing is very important to maintain moisture in the face as it keeps the skin soft and supple and adds natural elasticity. A large amount of water If the amount of water in the body is maintained at a reasonable level, it is less likely to cause wrinkles on the skin, so using the right amount of water throughout the day is beneficial. It should not be that you should drink water after coming to the gym or only if you feel thirsty. X Folly Eight How much dust does not clog the soil and cause us to get busy throughout the day can cause dust to creep into our faces. This dust creates a layer of dead skin on the skin, making the face look sloppy. As age increases, the cells of the skin become slower and the dead cells produce defects in the skin, thus reducing the ability of the skin to absorb. To avoid this problem, do a facial massage with a standard scrub to suit your skin, or use an exfoliator that has cleanser properties. Never touch the face Most women repeatedly touch their faces. If there are nail acne, it can scratch them out. According to American dermatologist, Julia, healthy skin requires that women not touch their face. Hands are a great source of bacterial transfer, and these germs pass through our hands to the body, which can cause any disease. 365 days ‘sunscreen’ Most people think that sunscreen is essential only when it is out in the summer. However, according to dermatologist Debbie Palmer, sunscreen should actually be used 365 days a year. It not only protects your skin from the sun’s ultraviolet rays, but also protects the protein, keratin, and elastin skin contained in it, making it soft, supple and healthy. Keep the make-up brush clean It is also important to use brushes well when doing make-up. According to Make Up Experts, special care must be taken to clean brushes for the best and spotless skin, putting them aside. Make-up brushes need to be cleaned once a week, otherwise, they must be cleaned every fortnight.
آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ٹائی ٹینک کا وہ منظر شاید کوئی نہیں بھلا سکتا جب جہاز میں پانی بھر جاتا ہے اور اس کا ڈوبنا یقینی ہوجاتا ہے۔ ہر طرف لوگ جان بچانے کی فکر میں بھاگ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں تین فنکار سکون سے ایک جانب کھڑے ہوکر وائلن بجاتے رہتے ہیں۔ گویا انھوں نے قسمت کا لکھا قبول کرلیا تھا اور آخری لمحات کو اپنی پرفارمنس سے یادگار بنانا چاہتے تھے۔ کچھ اسی قسم کا منظر لاس اینجلس میں دیکھنے کو ملا جب دو خواتین فنکاروں نے ایک سپر سٹور میں کھڑے ہوکر وائلن بجانا شروع کردیا۔ انھیں دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ اس پرفارمنس کا لطف اٹھائیں یا حالات پر آنسو بہائیں۔ بونی وون ڈائیک اور ایمر کنسیلا شوقیہ نہیں، پیشہ ور کل وقتی فنکار ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ان کے ذہن میں ٹائی ٹینک جیسے حالات کا خیال آیا۔ انھوں نے اپنی پرفارمنس کے لیے سوپر سٹور کے اس مقام کا انتخاب کیا جو ٹوائلٹ پیپرز کے لیے مخصوص ہے لیکن پینک شاپنگ کی وجہ سے خالی پڑا ہے۔ یہی نہیں، انھوں نے لائف جیکٹس بھی پہنیں اور وہی دھن بجانا شروع کی جو ٹائی ٹینک میں پیش کی گئی ہے۔ یہ دھن 19ویں صدی کی دعا نئیرر مائی گاڈ ٹو دی پر مبنی ہے۔ وون ڈائیک نے اپنی ویڈو یو ٹیوب پر پیش کی جس کے بعد یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ انھوں نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ موجودہ حالات میں بہت سے موسیقار اور فری لانسر کام سے محروم ہورہے ہیں۔ کانسرٹس اور تقریبات منسوخ کی جارہی ہیں۔ ایک فری لانس فنکار کی حیثیت سے میں ہمت نہیں ہار رہی۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ سماجی فاصلے کے اس دور میں میری خدمات سے آگاہ رہیں۔ ٹائی ٹینک کے موسیقار کی طرح وون ڈائیک بھی اپنی ویڈیو کے اختتام پر کہتی ہیں، حضرات! آج شب آپ کے ساتھ فن کا مظاہرہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل بن اِسحاق علیہ رحمۃاللہ الرزاق سے منقول ہے کہ” حضرت سیِّدُناعَافیہ قاضی علیہ رحمۃاللہ الہادی بہت بڑے عابدوزاہدتھے۔خلیفہ مَہْدِی نے انہیں ایک علاقے کاقاضی مقررکردیا۔ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ دوپہرکے وقت خلیفہ کے پاس گئے ۔خلیفہ نے اپنے پاس بلا کرحال دریافت کیا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے سرکاری کاغذات سے بھراہوا تھیلا خلیفہ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ”اے خلیفہ!میں عہدۂ قضاء سے اِسْتِعْفٰی دیتاہوں،آپ میری جگہ جسے چاہیں قاضی مقررکردیں،اب میں یہ ذمہ داری نہیں سنبھال سکتا۔”خلیفہ نے سُناتو سمجھاکہ شاید کسی سرکاری نمائندے یا صاحب ِ اَثرشخص نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو تنگ کیا ہو گا۔ خلیفہ نے پوچھا: ”آپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کوکس نے تنگ کیا؟کون ہے !جوآپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کے معاملات میں دخیل ہوکرآپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)کوتنگ کررہاہے کہ آپ(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ)استعفیٰ دینے کوتیارہوگئے ہیں؟” قاضی عافیہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”اے خلیفہ!ایسی کوئی بات نہیں۔اصل بات کچھ اورہے۔ہوایوں کہ دوشخصوں کا مقدمہ تقریباًدوماہ سے میرے پاس تھا۔وہ مقدمہ ایسامشکل وحیران کُن تھاکہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ان میں سے ہرایک ثبوت وگواہ پیش کرچکاہے۔دونوں کے پاس اپنے اپنے دعویٰ پردلائل وگواہ موجود ہیں۔مجھے سمجھ نہیں ارہاتھاکہ ان کافیصلہ کس طرح کروں۔دوماہ تک یہی سلسلہ جاری رہا۔بالآخرمیں نے ان سے کہا،تم دونوں اپنے اپنے دعویٰ پردلائل وگواہ پیش کرچکے ہو، تمہارا فیصلہ کچھ دن بعدفلاں تاریخ کو ہو گا،میں تمہارے معاملے میں غوروفکرکروں گا۔جاؤ،فلاں دن آجانا۔وہ دونوں چلے گئے اورمیں غوروفکرکرنے لگا۔میں نے یہ مقدمہ اس لئے مؤخرکیاتھاکہ شایدیہ دونوں آپس میں صلح کرلیں گے ورنہ کم ازکم مجھے ان کے مقدمے میں غوروفکرکاموقع مل جائے گا۔مجھے تازہ اور عمدہ کجھوریں بہت پسندتھیں ان دونوں میں سے ایک شخص کومیری اس پسندکے بارے میں معلوم ہوگیا۔ابھی کھجوریں پکناشروع ہی ہوئی تھیں اورتازہ کھجوریں ان دنوں بڑے بڑے روساء وامراء کوبھی بڑی مشکل سے میسرآتی تھیں۔ وہ شخص نہ جانے کہاں سے اعلیٰ قسم کی تازہ کھجوروں سے بھراتھال لے آیا۔اس نے میرے خادم کو چند درہم رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ کھجوروں کا وہ تھال مجھ تک پہنچا دے۔ اس نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ میں یہ کھجوریں واپس کر دوں گا۔ اس نے کھجوروں کا تھال مجھے بھجوا دیا ،میں نے ان میں سے ایک کھجور بھی نہ لی اور خادم سے کہا کہ جہاں سے لائے ہو وہیں واپس لے جاؤ ۔میں ہر گز قبول نہ کروں گا ۔ چنانچہ، وہ شخص اپنی کھجوریں لے کر واپس چلا گیا ۔دوسرے دن وہ اپنے مخالف فریق کے ساتھ میرے پاس آیا۔ آج ان کا فیصلہ ہونا تھا جب وہ دونوں میرے سامنے آئے ، میری نظر اور میرے دل میں وہ دونوں برابر کی حیثیت سے نہ آئے ۔مجھے ایسا لگا کہ میری توجہ اس شخص کی طرف زیادہ ہور ہی ہے جو کھجوریں لے کر آیا تھا۔ا ے خلیفہ! مجھے اپنی یہ کیفیت ہر گز ہر گز قبول نہیں۔ میں نے وہ کھجوریں قبول نہ کیں تب میری یہ حالت ہے۔اگر خدا نخواستہ قبول کر لیتا تو میرا کیا بنتا؟ میں نہیں چاہتا کہ کسی وجہ سے میں دینی معاملات میں رکاوٹ وفسادکاباعث بنوں اورہلاکت میرامقدَّربن جائے۔مجھے یہ بات باکل پسند نہیں کہ میری وجہ سے لوگوں میں فساد وبدامنی پھیلے۔ خدارا! مجھے معاف فرمائیں اور میری جگہ کسی اور کو قاضی مقرر کر دیں ،آپ کا مجھ پر احسان ہو گا۔” خلیفہ نے جب ان کی اخلاص بھری باتیں سنیں تو اِستِعْفٰی قبول کر کے ان کی جگہ کسی اور کو قاضی بنا دیا۔اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے اس طرح واپس ہوئے جیسے بہت بڑا بوجھ آپ کے سر سے اُتر گیا ہو ۔” (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
پاکستان کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر شاہد آفریدی نے محمد شامی کی متنازع ٹوئٹ پر بھارتی کرکٹر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں نفرت نہیں پھیلانا چاہیے۔ ہوا کچھ یو کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں شکست کے بعد سابق کرکٹر شعیب اختر نے اپنےٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوٹے ہوئے دل کا ایموجی بناکر ٹیم کی ہار پر دکھ کا اظہار کیا۔ شعیب اختر کی ٹوئٹ کے جواب میں بھارتی کرکٹر محمد شامی نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے ایک متنازع ٹوئٹ کی جس پر انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ Sorry brother It’s call karma 💔💔💔 https://t.co/DpaIliRYkd — Mohammad Shami (@MdShami11) November 13, 2022 محمد شامی نے شعیب اختر کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ سوری برادر اسے ’کرما‘ کہتے ہیں۔ ٹی وی شو میں شامی کی متنازع ٹوئٹ پر بات کرتے ہوئے شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ بطور کرکٹرز ہم سفیر اور رول ماڈلز ہیں، ہمیں یہ سب ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ ہم پڑوسی ہیں، ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں جس سے لوگوں کے بیچ نفرت پھیلے، اگر ہم ایسا ہی کریں گے تو عام آدمی سے ہم کیا امید رکھیں گے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ ریٹائرڈ بھی ہیں تو بھی آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر آپ تو موجودہ ٹیم کا حصہ ہیں اس لیے آپ کو ایسی چیزیں کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے فائنل میں انگلینڈ نے پاکستان کو 5 وکٹ سے شکست دیکر دوسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عراقی نوجوانوں کے نام ایک خط تحریر کر کے انکے ساتھ اظہار محبت کرتے ہوئے انہیں ایک تابناک مستقبل کی نوید سنائی ہے۔ عراق کے السیاسہ ٹیلیگرام چینل نے قائد انقلاب اسلامی کا یہ خط شائع کیا ہے جو ۲۱ جنوری کو تحریر کیا گیا تھا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عراقی نوجوانوں کے نام ایک خط تحریر کیا ہے۔ خط کا متن درج ذیل ہے: عراق کے پیارے نوجوانوں کے نام! میں آپ لوگوں سے بڑی عقیدت رکھتا ہوں اور آپ کے لئے دعاگو ہوں۔ خداوند عالم سے میری التجا ہے کہ وہ آپ کو دنیا و آخرت کی سعادت و خوشنصیبی کے حصول کی راہ میں کامیابی و کامرانی اور راہ مستقیم میں ثبات قدم عنایت فرمائے۔ میں آپ کو عراق کے لئے ایک تابناک مستقبل کی نوید دیتا ہوں، وہی مستقبل جسکی تعمیر خود آپ کے ہاتھوں اور آپ کے اعلیٰ عزم کے ساتھ ہوگی۔
صدائے دل (مولانا آزاد کی ایک زندہ اور جھنجھوڑ دینے والی تحریر جو موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔) Donate ہمارے بارے میں ماہ نامہ حجاب اسلامی خواتین اور لڑکیوں کا مقبول رسالہ ہے جس کا مشن اسلامی اخلاقیات اور تعلیمات پر مبنی لٹریچر کو سماج کے اس طبقے تک پہنچانا ہے جو اس کے نصف کی نمائندہ ہے۔ حجاب کی داغ بیل رام پور میں 1970 میں مائل خیرآبادی مرحومؒ نے ڈالی تھی، جسے 1996 میں ڈاکٹر ابن فرید صاحبؒ کو منتقل کردیا گیا۔ دو سال تعطل میں رہنے کے بعد نومبر 2003 سے اس کا نقشِ ثالث ‘حجاب اسلامی’ کے نام سے دہلی سے شمشاد حسین فلاحی کے زیرِ ادارت شائع ہو رہا ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع ہونے والا تمام مواد قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہے۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حضرت امام خمینی (رح) نجف اشرف میں پورے قیام کے دوران سال میں چند بار امام حسین (ع) کی خصوصی زیارتوں کی مناسبت سے کربلائے معلی جاتے تھے اور وہاں پر کویت کے رہنے والے نے آپ کے حوالہ ایک معمولی سا مکان کیا تھا، وہی میں قیام کرتے تھے۔ کربلا میں مغربین کی نمازیں مرحوم آیت اللہ بروجردی (رح) کے حسینیہ میں اور ظہرین اسی مکان میں امام خمینی (رح) کی اقتدا میں جماعت سے پڑھی جاتی تھیں۔ گھر پر ہونے والی نماز جماعت زیادہ تر معدود چند احباب کی شرکت سے باہر کے کمرہ میں ہوا کرتی تھی اور جب کبھی نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی تو اس گھر کے صحن میں ہوا کرتی تھی۔ آنگن تقریبا 50/ میٹر کا تھا اور فرش بھی بقدر ضرورت نہیں تھا۔ اس لحاظ سے لوگ اپنی اپنی عبائیں تہہ کرکے مصلی کے عنوان سے اس پر نماز پڑھتے تھے۔ جب امام (رح) اندرونی کمرہ سے جو پشت بہ قبلہ تھا۔ نماز پڑھانے کے لئے آنگن میں آتے تھے مجمع تک پہونچنے کے لئے جماعت کی صفوں کے درمیان سے جانا پڑتا تھا۔ وہاں پر موجود سارے لوگ اس بات سے افتخار کرتے تھے کہ ان کی عباؤں پر امام کے مبارک قدم پڑرہے ہیں اور قاعدتا حضرت امام (رح) بھی اس نکتہ سے واقف تھے۔ اس کے باوجود امام عبور کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے اور کچھ اس طرح قدم اٹھاتے تھے کہ پیچھے کے صفوں سے جہاں پشت پر جوتے اور چپل رکھے جاتے یا جہاں عبائیں بچھی ہوتی تھیں کہ نہ کسی کے جوتوں گر قدم پڑے اور نہ ہی کسی کی عبا پر۔ اس طرح سے آپ نے اپنے مقلدین اور ماننے والوں کو دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنے کا درس دیا۔ یہ بھی منقول ہے کہ ایک دن نجف اشرف میں امام خمینی (رح) نماز جماعت کے لئے باہر کے کمرہ میں جانا چاہتے تھے لیکن کمرہ کے سامنے نمازیوں کے جوتے اور چپلیں تھیں اور اتنی زیادہ کے قدم رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ امام جب جوتوں اور چپلوں کے رکھنے کی جگہ پر پہونچے اور یہ صورتحال دیکھی تو رک گئے۔ اور لوگوں کے جوتوں پر قدم رکھنے سے اجتناب کیا۔ یہاں تک کہ راستہ سے ہٹا دیئے گئے اور راستہ کھل گیا اس وقت امام کمرہ میں داخل ہوئے۔ ایسے ہی لوگ اپنے ائمہ (ع) کی سیرت کو زندہ کرتے اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور احادیث میں حق الناس کے متعلق آیات و روایات ہیں۔ کیونکہ حق الناس کی رعایت نہ کرنے والے کو خدا بھی اس وقت معاف نہیں کرے گا جب تک کہ صاحب حق معاف نہ کرے لیکن بات ایک دو موقع کی نہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر شعبہ میں اس بات کا خیال رکھنا کہ کسی کا حق پامال نہ ہو۔ایسے ہی علماء کی سیرت قابل اطاعت اور اتباع ہوتی ہے جو اپنی زبان کے ساتھ اپنے عمل سے حق الناس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ امام خمینی (رح) کی سیرت طیبہ کا جائزہ لینے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں حق الناس کا بیحد خیال رکھا اور حتی الامکان کسی کا حق پامال ہونے نہیں دیا۔ آپ نے عملی طور پر دین اسلام کی تبلیغ کی ہے اور لوگوں زبان سے پہلے عمل سے دعوت دی ہے اور تبلیغ دین کی ہے۔ یہی وجہ ہی کہ آج گھر سے لیکر باہر اور ملک سے بیرون ملک لوگ آپ کے اخلاق و کردار کا گن گاتے اور چرچا کرتے ہیں۔ فرانس کے دیہات نوفل لوشاتو میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ آپ کا اخلاق و کردار کچھ اس طرح تھا کہ جب آپ وہاں سے ایران آنے لگے تو لوگوں کے لئے آپ کی جدائی سخت تھی۔ آپ اپنے پڑوسیوں کے لئے مختلف مناسبتوں پر تحفے و غیرہ بھیجتے تھے، ان کے حق کی مکمل رعایت کرتے تھے اور جب آپ ایران آگئے تو وہ لوگ آپ کو تحفے بھیجتے اور نامہ و پیغام لکھتے اور جواب دینے کی گذارش کرتے اور آپ کے جواب کا شدت کے ساتھ انتظار کرتے تھے۔
امریکہ میں کووڈ۔19 کی ویکسین کی دستیابی کا عمل توقع سے زیادہ سست روی کا شکار ہو گیا ہے اور متعدد ریاستوں نے ویکسین کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کیلئے یہ لازمی ہو گا کہ وہ ویکسین دستیاب ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر لوگوں کو فراہم کریں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اسپتالوں پر ایک لاکھ ڈالر تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور انہیں ویکسین وصول کرنے والے اداروں کی فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ اسپتالوں کو تین ہفتے سے ویکسین فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم انہوں نے اب تک فراہم کردہ ویکسین کا صرف 46 فیصد استعمال کیا ہے۔ جب کہ نیو یارک میں اسپتالوں میں کرونا مریضوں کی آمد دسمبر کے شروع سے دوگنا ہو چکی ہے۔ فلوریڈا میں ویکسین حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کی لمبی لائنیں دکھائی دے رہی ہیں، جہاں طبی عملے اور 65 برس سے زائد عمر کے افراد کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ کیلی فورنیا میں گورنر گیون نیوسم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 14 روز کے دوران کیلی فورنیا میں 4,000 کے لگ بھگ شہری کرونا وائرس کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس تاریخ کا ہلاکت خیز ترین وائرس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین کی فراہمی کا عمل تیز تر کیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو جانز ہاکپنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد منگل کے روز دو کروڑ آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ملک بھر میں اب تک ویکسین کی 46 لاکھ خوراکیں فراہم کی جا چکی ہیں۔ دوسری جانب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو 21 سے 28 روز کے درمیان فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین دو خوراکیں لینا ہوں گی۔ اس وقت بہت سے ملکوں سے کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم جو زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سٹرٹیجک ایڈوائزری گروپ آف ایکسپرٹس آن امیونائیزیشن یعنی سیج کے چیئرمین الیجینڈرو کراوی اوٹو نے ایک آن لائن نیوز بریفنگ میں کہا کہ سیج نے 21 سے 28 دنوں کے اندر اندر ویکسین کی دو خوراکیں لینے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ہائی رسک گروپ میں شامل نہیں تو وہ مسافروں کیلئے فائزر کی ویکسین کی سفارش نہیں کریں گے، کیونکہ اس وقت اینٹی کووِڈ ادویات کی سپلائی بہت محدود ہے اور اس کی زیادہ ضرورت ہائی رسک کے افراد کو ہے۔
گرفتار کارکنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق قوم پرست کشمیری جماعتوں سے ہے، جن کی رہائی کے لیے ضلع پونچھ کے سات الگ الگ مقامات پر کئی روز سے دھرنے جاری ہیں۔ جلال الدین مغل @jalalmughal اتوار 7 اگست 2022 12:00 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اٹھمقام کے مقام پر لوگ مجوزہ 15ویں ترمیم، ٹورازم اتھارٹی اور دیگر معاملات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (فوٹو: جلال الدین مغل) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں دو جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ دیگر اضلاع تک پھیل گیا ہے اور ہفتے کو پونچھ ڈویژن کے تینوں اضلاع کے علاوہ ضلع نیلم، میرپور اور کوٹلی کے کئی علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال رہی۔ یہ احتجاج بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین میں ممکنہ طور پر 15ویں ترمیم کے خلاف ہو رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے گروہوں کو خدشہ ہے کہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے خطے کو 2018 میں دیے گئے اختیارات واپس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سلسلہ یکم جولائی کو وزارت امور کشمیر کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے اس خط کے بعد شروع ہوا جس میں آئین میں مجوزہ ترمیم کے لیے کشمیر حکومت سے تین ممبران کی نامزدگی طلب کی گئی تھی۔ ضلع پونچھ سے شروع ہونے والے اس احتجاج کے ابتدائی دنوں میں پولیس کی جانب سے سخت کریک ڈاون کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان کئی جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں اور مظاہرین سمیت درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔ مظاہرین کے خلاف اب تک پولیس کی جانب سے درج کیے گئے نو مقدمات سامنے آئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی، کار سرکار میں مداخلت اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج ان مقدمات میں 400 سے زائد سیاسی کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں سے 22 کے لگ بھگ لوگوں کی گرفتاری کی تصدیق ہوئی ہے۔ گرفتار کارکنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق قوم پرست کشمیری جماعتوں سے ہے۔ ان کارکنوں کی رہائی کے لیے پونچھ کے سات الگ الگ مقامات پر کئی روز سے دھرنے جاری ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے راولاکوٹ پولیس سٹیشن میں گرفتار مظاہرین سے ملاقات کی اور ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ (فوٹو: راجہ فاروق حیدر فیس بک اکاؤنٹ) اگرچہ یہ واضح نہیں کہ وزارت امور کشمیر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آئین میں کس طرح کی تبدیلیاں چاہتی ہے تاہم اس خط کے فوراً بعد سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کمیٹی کا تیار کردہ آئینی مسودہ بھی دوبارہ سے گردش کرنے لگا، جو 2020 میں تیار کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کے اختیارات کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے ’ریاست‘ کے لفظ کو عبوری آئین سے نکالنے کی تجویز دی گئی تھی۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی کسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے جس سے خطے کی خصوصی شناخت میں رد و بدل یا انتظامی اور مالیاتی اختیارات میں کمی کا شائبہ ہو۔ تاہم گرفتار مظاہرین کے حوالے سے حکومت شروع دن سے سخت گیر موقف کی حامل ہے۔ وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر عرفان پونچھ میں احتجاجی تحریک کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی سے جوڑ چکے ہیں۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے موقف میں تبدیلی اس وقت آئی جب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی حالانکہ پی ٹی آئی 2021 کے انتخابات سے قبل اور بعد میں آزاد جموں و کشمیر کونسل کے اختیارات کی بحالی کی حامی رہی ہے اور حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس معاملے میں کافی سرگرم رہی ہے۔ 15 ویں ترمیم کا تنازع کیا ہے؟ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین 1974 میں 2018 میں ہونے والی 13 ویں ترمیم کے نتیجے میں ٹیکسوں کی وصولی سمیت کئی ایسے اختیارات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو منتقل ہوئے جو پہلے وزارت امور کشمیر کے تحت قائم ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ نامی ادارہ استعمال کرتا تھا۔ 13 ویں ترمیم کے نتیجے میں بیشتر انتظامی، مالیاتی اور قانون سازی کے اختیارات اسلام آباد سے مظفرآباد منتقلی کے بعد ان اختیارات کی واپس اسلام آباد منتقلی کے لیے اب تک تین سے زائد مجوزہ ترمیمی مسودے تیار کیے جا چکے ہیں۔ تاہم اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی مسودہ قانون ساز اسمبلی میں پیش نہیں ہو سکا۔ جون 2020 میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم تین رکنی کمیٹی نے آئین میں مجوزہ ترمیم کا ایک مسودہ تیار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو ارسال کیا۔ ہفتے کو پونچھ ڈویژن کے تینوں اضلاع کے علاوہ ضلع نیلم، میرپور اور کوٹلی کے کئی علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال رہی (فوٹو: جلال الدین مغل) انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود اس مسودے میں عبوری آئین میں موجود لفظ ’ریاست‘ کو ’آزاد جموں و کشمیر‘ سے تبدیل کرنے کے علاوہ اس علاقے میں کشمیر کی خود مختاری کی حامی سیاسی جماعتوں پر بندشیں اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی بھی شامل ہیں۔ مسودے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 12 نشستوں کے اضافے اور ان نشستوں کو بھارت کے زیر انتظام علاقوں جموں، کشمیر اور لداخ میں اس طرح تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے کہ جموں اور کشمیر کے لیے پانچ پانچ جبکہ لداخ کے لیے دو نشستیں مختص ہوں۔ تاہم ان علاقوں کی ’آزادی‘ تک ان نشستوں پر انتخاب نہ کروانے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد یہ سلسلہ وقتی طور پر رک گیا۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت ختم ہونے کے بعد، مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود، حالیہ دنوں میں وزارت امور کشمیر کی جانب سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری کو لکھے گئے ایک خط کے بعد سے یہ تنازع ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔ ایک حکومتی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ وہی پرانا مسودہ ایک مرتبہ پھر مظفرآباد بھیجا گیا ہے تاکہ اس پر مشاورت کے بعد اسے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا جائے تاہم عہدیدار کے مطابق وزیراعظم تنویر الیاس سمیت کابینہ کے کسی رکن نے اس مسودے سے اتفاق نہیں کیا۔ کنڈل شاہی کے مقام پر احتجاج میں شریک افراد۔ ضلع پونچھ میں دو جولائی سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ دیگر اضلاع تک پھیل گیا ہے (فوٹو: جلال الدین مغل) وفاقی مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر الزمان کائرہ نے گذشتہ دنوں اپنے دورہ مظفرآباد کے دوران پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ابھی تک آئینی ترمیم کے حوالے سے صرف مشاورت کی جا رہی ہے اور کوئی بھی مسودہ قانون حتمی نہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی صوبوں اور اکائیوں کو اختیارات دینے والی جماعت ہے۔ ہمارے ہوتے ہوئے مظفرآباد سے کوئی مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی یا واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کے قانون سازی کے اختیارات ختم ہونے سے جو ابہام اور مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کا حل نکالنے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔ ان کے بقول: ’وہی مسودہ حتمی ہوگا، جسے یہاں کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گی اور وہ قانون ساز اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی حمایت سے ہی پاس ہو سکے گا۔‘ قمرالزمان کائرہ کی وضاحت اپنی جگہ مگر مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان جاری خط و کتابت اور گردش کرتے مختلف مجوزہ مسودے کئی خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر حکومتِ پاکستان نے طے کر لیا ہے کہ اس خطے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانا اور صوبے کا درجہ دینا ہے تو آئیں بیٹھ کر ہمارے ساتھ بات کریں۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ اسلام آباد سے حکم جائے اور ہم اسے من و عن قبول کر لیں۔‘ راجہ فاروق حیدر نے اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کر رکھی ہے اور کہتے ہیں کہ ’انتظامی، مالیاتی اختیارات یا خطے کی خصوصی شناخت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، چاہے اس کے لیے مجھے اپنی جماعت کی حکومت کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘
(زاہد چوہدری)وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سیاسی محاذ پر متحرک ، صوبائی وزرا ، مشیروں سمیت 35 سے زائد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ، وزرا اور اراکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے صوبائی وزرا، مشیران سمیت 35 سے زائد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں -صوبائی وزراء، مشیران اور منتخب نمائندوں نے وزیر اعلی عثمان بزدار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ، اراکین نے کہا کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے ، آپ نے ہمیشہ ہماری بات سنی ہے اور آپ نے ہمیں عزت دی ہے اور حلقوں کے مسائل کے حل میں ذاتی دلچسپی لی ہے۔ پنجاب میں ہمیں اکثریت حاصل،عدم اعتماد لانا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں،پرویز الٰہی وزیر اعلی عثمان بزدار نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب نے وزیراعظم عمران خان کی ٹیم کے طور پر صوبے کی عوام کی خدمت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔سازشیں کرنے والے بے نقاب ہو چکے ہیں،سازشی عناصر کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔اپوزیشن کی جانب سے سیاسی انتشار پیدا کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی دیوار پر لکھی نظر آ رہی ہے ۔ ملاقات کرنے والوں میں صوبائی وزراء سردار آصف نکئی، ہاشم ڈوگر، تیمور بھٹی، مشیر فیصل حیات جبوانہ، سابق وزیر ایم پی اے مہر اسلم بھروانہ،اراکین قومی و صوبائی اسمبلی خرم شہزاد، کرنل (ر) غضنفر عباس شاہ، غضنفر عباس چھینہ، غلام علی اصغر، تیمور لالی، منیب سلطان چیمہ، سردار محی الدین کھوسہ اور دیگر شامل تھے- ایم پی اے سید عباس علی شاہ بھی اس موقع پر موجو د تھے۔
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) منپریت کؤر 27 برس کی تھیں، جب اس کی شادی ہوئی لیکن یہ شادی نہ چل سکی۔ اور منپریت کور ایک سال کے اندر واپس اپنے والدین کے گھرپہنچ چکی تھیں۔ منپریت کور کی طلاق کو اب 10 برس بیت چکے ہیں، اور وہ دوبارہ شادی کی خواہش میں 40 سکھ مردوں سے مل چکی ہیں لیکن کوئی ان سے شادی پر رضامند نہیں۔ کیونکہ وہ ایک طلاق یافتہ عورت ہیں جب میں اپنے شوہر کو چھوڑ رہی تھی۔ تو اس نے چیخ کر کہا،اگر تم مجھے طلاق دو گی تو پھر تم کبھی شادی نہیں کر پاؤ گی۔ اس نے ایسا مجھے تکلیف پہچانے کے لیے کہا تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ مجھے بھی یہ معلوم تھا۔ سکھ کمیونٹی میں طلاق بلخصوص عورتوں کی طلاق کو بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔ مجھے خود پر بھی شرم آ رہی تھی میں خود کو گندی اور استعمال شدہ عورت محسوس کرتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ میں دوسرے مردوں کا کیسے سامنا کروں گی جب اسے معلوم ہوگا کہ میں استعمال شدہ ہوں۔ معاشرے کے دوسرے لوگوں نے میرے اس احساس کو تقویت دی لندن میں میری دادی نے کہا کہ مجھے اپنی شادی کو نبھانا چاہیے تھا۔ حالانکہ دادی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مجھے کن حالات کا سامنا تھا۔ انڈیا میں میرے والد کےخاندان کا بھی میری طلاق پر ایسا ہی ردعمل تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے باعث شرم ہے اور میں نے انھیں مایوس کیا ہے۔ البتہ میرے ماں باپ نے میری سو فیصد مدد کی لیکن مجھے احساس ہوتا تھا۔ کہ میں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہےسکھ مذہب میں عورت اور مرد کو برابر تصور کیا جاتا ہے۔ پانچ برس تک میں کم ہی گھر سے باہر نکلی لیکن 2013 کے بعد میں نے ایک بار پھر شوہر کی تلاش شروع کی۔ جب میں لوگوں سے کہتی ہوں کہ میرے لیے کوئی رشتہ تلاش کریں تو وہ خوشی خوشی حامی بھر لیتے ہیں۔ اور سوالات کرنے لگتے کہ میری عمر کتنی ہے، میں کہاں رہتی ہوں، کہاں کام کیا ہے، لیکن جوں ہی میں ان کو بتاتی ہوں کہ میں طلاق یافتہ ہوں تو ان کے چہرے کےتاثرات بدل جاتے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے وہ اکثر یہ کہہ کر گفتگو ختم کر دیتے کہ ہم آپ کو بتائیں گے۔میری شادی کسی حد تک اریجنڈ تھی۔ لوگ مجھے کہتے تھے کہ میں بوڑھی ہو رہی ہوں اور مجھ پر دباؤ ڈالتے، لہذا میں نے ساؤتھ ہال کے ایک گرودوارہ کے شادی رجسٹر میں نام لکھوایا تھا۔ طلاق کے بعد جب میں نے نئے شوہر کی تلاش شروع کی تو میں ہونسلو (لندن) کے ایک گرودوارہ کے شادی رجسٹر میں اپنا نام لکھوانے گئی۔ مجھ معلوم تھا کہ گرودوارہ مجھے اپنی ذات کے مردوں سے ہی میرا تعارف کروائے گا حالانکہ ذات میرے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن جس چیز کا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرا صرف طلاق یافتہ مردوں سے ہی تعارف کروایا جائے گا۔جوں ہی گرودوارہ رضا کار نے میری معلومات دیکھیں تو مجھے کہا یہ دو طلاق یافتہ ہیں، یہ آپ کے لیے مناسب ہیں۔ لیکن میں کم ازکم دو گرودواروں میں طلاق یافتہ سکھ مردوں کی کنواری سکھ لڑکیوں سے تعارف ہوتا دیکھ چکی ہوں۔ تو پھر طلاق یافتہ سکھ عورتوں کو ایسے مردوں سے تعارف کیوں نہیں کروایا جا سکتا جن کی پہلے شادی نہیں ہوئی ہے۔یہ تو ایسا ہے کہ مرد تو طلاق کے ذمہ دار ہو ہی نہیں سکتے۔میں نے ہانسلو گرودوارے کے انچارج مسٹر گریوال سے کہا کہ ایسا کیوں ہے تو ان کا جواب تھا کہ یہ میرا فیصلہ نہیں ہے بلکہ شادی کے خواہشمند مرد اور ان کے والدین کا فیصلہ ہے۔مسٹر گریوال نےمجھے بتایا، وہ طلاق یافتہ عورت کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر ہم اپنے دھرم پر عمل کریں تو سکھ معاشرے میں طلاق نہیں ہونی چاہیے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، سکھ کمیونٹی میں بھی دوسرے کمیونٹیز کی طرح طلاقیں ہوتی ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ برٹش سکھ رپورٹ کے مطابق چار فیصد سکھ طلاق یافتہ ہیں اور جبکہ ایک فیصد علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ کچھ ایسے سکھ لوگ ہیں جو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی طلاق ہو چکی ہے اور ان کی دوبارہ شادی بھی ہو چکی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ زیادہ لوگ اس کو چھپاتے ہیں کیونکہ یہ بدنامی کی ایک وجہ ہے۔نوجوان لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ طلاق ان کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن میری جنریشن میں ایسے لوگ جن کی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو طلاق ہو چکی ہے، وہ بھی خاندان سے باہر طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں۔مجھ سے لوگ کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں: تم اب بچے پیدا کرنے کی عمر سے گذر چکی ہو، اب تمھیں کوئی شوہر ملنا مشکل ہے، تم نے بہت دیر کر دی، جو بھی ملے بس شادی کر لو۔ دراصل میں 38 برس کی ہوں اور میری بچےپیدا کرنے کی عمر ابھی گذری نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک اور قسم کا تعصب ہے۔ کئی دفعہ مجھے کہا گیا،منپریت تمھارے لیے برطانیہ میں شوہر ڈھونڈنا مشکل ہوگا، بہتر ہے انڈیا میں کوشش کرو۔جب ایک بار میری ماں نےاپنی دوست کے بیٹے سے میرے رشتے کے حوالے سے بات کی تو انھوں نے میری ماں کو کہا تمھاری بیٹی ایک کھرج زدہ کار کی ماند ہے۔ میں مانتی ہوں کہ میں نے صرف پگڑی والے سکھ شوہر کی شرط لگا کر اپنے لیے حالات خود ہی مشکل بنائے ہیں۔ ہانسلو میں 22 ہزار سکھ آبادی ہے، جن میں آدھے مرد ہوں گے اور ان میں تھوڑے سے شادی کی عمر کے لوگ اور ان میں سے بھی بہت کم پگڑی پہنتے ہیں۔میرے لیے پگڑی بہت اہم ہے، دھرم بھی اہم ہے جو کہتا ہے کہ سکھ دھرم میں عورتیں اور مرد برابر ہیں اور ہمیں دوسروں کے بارے رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ میں ایسے مردوں سے نہیں ملنا چاہتی جو آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں زندگی نہیں ۔ لیکن ایسےمردوں سے بھی نہیں ملنا چاہتی جو عورت کو صرف ایک گھریلو چیز سمجھتے ہیں اور پہلی ملاقات میں پوچھتے ہیں’ کھانا پکانا بھی آتا ہے۔’ میں ایک آزاد منش انسان ہوں اور میں زندگی بھر کے پارٹنر کی تلاش میں ہوں۔ گذشتہ ماہ بھی ایک دوست کی وساطت سے میری ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ بھی پرانی کہانی ثابت ہوئی۔ اس نے کہا کہ مجھے طلاق یافتہ عورت میں دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ خود 40 برس کا تھا لیکن وہ ایسی عورت کی تلاش میں ہے ، جس کا کوئی ماضی نہ ہو۔ میں نے پچھلے دس برسوں میں 40 کے قریب مردوں سے ملنے کے بعد یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ میں بغیر پگڑی والے سکھ حتکہ غیر سکھ شوہر کو بھی قبول کر سکتی ہوں۔ میری کئی دوست پہلے ہی یہ قدم اٹھا چکی ہیں۔میں اس امید پر اپنی کہانی بیان کر رہی ہوں کہ میں طلاق کی بدنامی ختم کرنے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔ شاید اس سے میری جیسی صورت حال کا شکار عورتوں کو بولنے کا حوصلہ ملے۔ اگر عورتیں طلاق کی بدنامی کے ڈر سے کسی نامناسب شادی میں پھنسی ہوئی ہیں تو انھیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے اور اپنے آپ اس صورت حال سے باہر نکالنا ضروری ہے۔ ہم بھی انسان ہیں اور برابری کی مستحق ہیں۔
اسی ماہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیا، اب حکومت سے بات نہیں ہوگی: عمران خان نے کل کے بیان سے یوٹرن لے لیا موجودہ حکومت کٹھ پتلی ہے: عمران خان ،پی ٹی آئی کیخلاف کارروائیوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیدیا ابھی مذاکرات کو لٹکایا جائے،عمران خان سیاست کر رہا ہے، ہمیں بھی سیاست کرنی چاہیے: ن لیگ کے اجلاس کی اندرونی کہانی کوئٹہ: ایڈیشنل سیشن جج کچلاک نے اعظم سواتی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست سماعت کےلیے منظورکرلی اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی امین گنڈا پور کیخلاف مقدمات کے اخراج کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا دامن میں 2 ، ایک گولی شلوار کے پائنچے میں گھسی دوسری طرف سے نکل گئی، جسم پر خراش تک نہ آئی، پولیس نے کہا معجزہ ہوگیا: عمران اسماعیل کا حیرت انگیز ... خصوصی افراد معاشرے کا حصہ اور خاص توجہ کے حقدار ہیں،صدرمملکت عارف علوی مسلم لیگ ن نے عمران خان کی مشروط مذاکرات کی پیش کش مسترد کردی اسپیشل افراد ہر معاشرے کیلئے خاص اہمیت کے حامل ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب پنڈی ٹیسٹ کا تیسرا دن : پاکستانی اوپنرز کی سنچریاں مونس الہٰی کے بیان سے فوج کے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے موقف پر شبہات بڑھ گئے، وضاحت ہونی چاہیے: رانا ثنا عمران خان ہزار یوٹرن لے چکے ، ان کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا : اعظم نذیر تارڑ عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش ، وزیر اعظم نے ن لیگ کا اہم اجلاس لاہور میں طلب کرلیا عمران خان کو اندازہ ہے کہ اسمبلی توڑنا مسئلہ نہیں معیشت بچانا اصل مقصد ہے: شیخ رشید مانتا ہوں حکومت مہنگائی ختم نہیں کرسکی، عمران خان نے جو تباہی کی ہے 6 ماہ میں ٹھیک نہیں ہوسکتی : رانا ثنا پاکستانی سفارتخانے پر حملے کے بعد مولوی امیر متقی کا بلاول بھٹو کو فون، سفارتی عملے کی مکمل حفاظت کی یقین دہانی سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ پاکستانیوں کیلئے خوشخبری، یواے ای ویزا پالیسی میں نرمی ، سپانسر کی ضرورت نہیں ہوگی متفرق خبریں بین الاقوامی 04:46 PM, 6 Oct, 2022 نیوویب ڈیسک شیئر کریں ! سورس: File ابوظہبی : متحدہ عرب امارات نے اپنی ویزا پالیسی میں جن تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا اُن کا اطلاق اکتوبر سے ہو گیا ہے۔ ملک کی امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کے بعد نافذ کیے گئے نئے ویزا قوانین کے تحت سیاحت کے ویزے میں قیام کی مدت بڑھا دی گئی جبکہ ہنرمند افراد کے لیے طویل قیام کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ تاجروں، سرمایہ کاروں اور ہنرمند افراد کے لیے دس سالہ گولڈن ویزا سکیم میں تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔ ویزا پالیسی میں ہونے والی یہ تبدیلیاں پاکستان کے لیے اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ نیم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 16 سے 17 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ ملک میں استحکام کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہے ،سراج الحق نئی ویزا پالیسی کو حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات کے پالیسی فیصلوں میں بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے مطابق ملک میں مزید سرمایہ کاروں، سیاحوں اور پیشہ ور افراد کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی ویزا پالیسی بھی متعارف کروائی گئی ہے۔ روزگار کے علاوہ ہر سال بڑی تعداد میں پاکستانی سیاح بھی متحدہ عرب امارات کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحتی ویزے پر متحدہ عرب امارات جانے والے افراد اب 60 روز تک قیام کر سکیں گے اور ملٹی پل انٹری کی آپشن موجود ہو گی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ گرین ویزا پالیسی تین اکتوبر سے نافذ العمل ہو گئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ویزا پانچ سال کی مدت کے لیے دیا جائے گا اور اس میں توسیع ممکن ہو گی۔ کوئٹہ ،کسٹم حکام کی بڑی کارروائی ، گاڑی سے 11کروڑ روپے مالیت کی منشیات برآمد کر لی پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر آرگنائزیشن کے ترجمان محمد عدنان پراچہ کہتے ہیں کہ گرین ویزا پالیسی میں سابق ویزا کیٹیگریز کے برعکس کچھ آسانیاں ہیں اور یو اے ای میں رہائش کی مدت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس پالیسی کے تحت کسی کو متحدہ عرب امارات سے کسی قسم کی سپانسر شپ کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اپنی سرمایہ کاری، صلاحیت، قابلیت، تعلیم، ہنر کے ذریعے کوئی بھی فرد اپنے آپ کو اس ویزے کا اہل ثابت کر سکتا ہے۔ اس ویزا کے لیے ہنر مند افراد، سرمایہ کار، فری لانسر، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد درخواست دینے کے اہل ہیں۔ جو کچھ اعظم سواتی کے ساتھ ہوا میرے ساتھ ہوتا تو میں خود کش حملہ کردیتا : عمران خان محمد عدنان پراچہ کے مطابق اس ویزا کے حامل افراد اپنے ساتھی (شوہر یا بیوی) کو اپنے ساتھ یو اے ای میں ٹھہرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 سال کی عمر تک کے بچے، قریبی عزیز بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم غیر شادی شدہ بیٹیوں اور معذور بچوں کو اس سے استثنی ہو گا۔ اس ویزا کے حامل افراد کو ویزا کے اختتام پر چھ ماہ کی توسیع بھی مل سکتی ہے اور پانچ برس کے لیے ویزا دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ویزے میں بہتر بات یہ ہے کہ اس کے حامل افراد کو متحدہ عرب امارات کے کسی بھی شہری کی ویزا کے لیے اسپانسر شپ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی ماہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیا، اب حکومت سے بات نہیں ہوگی: عمران خان نے کل کے بیان سے یوٹرن لے لیا گولڈن ویزا سکیم 2020 میں نافذ کی گئی تھی تاکہ بہترین ٹیلنٹ کو متحدہ عرب امارات کی جانب راغب کیا جا سکے۔ تاہم اب اس ویزے میں تبدیلی کرتے ہوئے گولڈن ویزا سکیم کے تحت دیے گئے ویزے کی مدت دس سال کر دی گئی ہے۔ گولڈن ویزا کاروبای حضرات، محققین، طبی شعبے سے منسلک افراد، سائنس اور متعلقہ شعبوں میں کام کرنے والے ماہرین، متحدہ عرب امارات میں سرمایہ لگانے والوں اور انتہائی باصلاحیت طلبا اور گریجویٹس کو دیا جاتا ہے۔ گولڈن ویزا رکھنے والوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ اس ویزے کے حامل افراد کو اپنے کاروبار کی سو فیصد ملکیت حاصل ہو گی۔ اس سے قبل چھ ماہ تک یو اے ای سے باہر رہنے والوں کا حق ختم کر دیا جاتا تھا لیکن دس سالہ گولڈن ویزا سکیم میں یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ اس سکیم کے تحت تارکین وطن کے گھریلو مددگاروں کی تعداد کی حد کو ہٹا دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کٹھ پتلی ہے: عمران خان ،پی ٹی آئی کیخلاف کارروائیوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیدیا نئی سکیم کے تحت گولڈن ویزا رکھنے والے اپنے شریک حیات اور کسی بھی عمر کے بچوں کی یو اے ای میں کفالت کر سکتے ہیں۔ اگر گولڈن ویزا ہولڈر کی موت ہو جاتی ہے، تب بھی اس کے خاندان کے افراد ویزا کی مدت ختم ہونے تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ گولڈن ویزا کے تحت سائنس، انجینئرنگ، میڈیسن، آئی ٹی، بزنس، ایڈمنسٹریشن اور ایجوکیشن سے متعلقہ ہنر مندوں کو متحدہ عرب امارات میں رہائش کی اجازت ہو گی۔ اس سے پہلے ایسے پیشہ ور افراد کو وہاں رہنے کے لیے ہر ماہ 50 ہزار درہم کمانا ضروری ہوتا تھا تاہم اب اس کو کم کر کے 30 ہزار درہم کر دیا گیا۔ ابھی مذاکرات کو لٹکایا جائے،عمران خان سیاست کر رہا ہے، ہمیں بھی سیاست کرنی چاہیے: ن لیگ کے اجلاس کی اندرونی کہانی
ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے 50 ویں قومی دن کی سرکاری تقریب 2 دسمبر کو دبئی کے علاقے حتا میں منعقد ہوگی جو 12 دسمبر تک جاری رہے گی۔ مقامی ویب سائٹ کے مطابق امارات کی گولڈن جوبلی تقریبات کی کمیٹی کے اعلان کے مطابق متحدہ عرب امارات کے عوام 2 دسمبر کو شام ساڑھے 5 بجے متحدہ عرب امارات کے قومی دن کی آفیشل ویب سائٹ اور تمام مقامی ٹی وی چینلز پر اس شو کو براہ راست دیکھ سکیں گے۔ شاندار تھیٹر شو ناظرین کو ملک کی تاریخ سے آگاہی کے سفر پر لے جائے گا جو 4 دسمبر سے 12 دسمبر تک عوام کے لیے کھلا رہے گا۔ ساتوں امارات سے مساوی فاصلے پر واقع، حتا ایک قابل ذکر تاریخی اور متحرک اور دلچسپ سیاحتی مقام ہے۔ یہ شہر قدرتی عجائبات اور تاریخی یادگاروں سے مزین ڈیموں، جھیلوں اور وادیوں کے قدرتی مناظر کا حامل ہے۔ اس علاقے میں حالیہ برسوں میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں جن میں سے 6 صرف رواں سال میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ 50 ویں سال کی تخلیقی حکمت عملی کے سربراہ شیخہ الکتبی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے 50 ویں قومی دن کی سرکاری تقریب میں لوگوں، فطرت اور ٹیکنالوجی کے درمیان گہرے روابط کو اجاگر کرنے کے لیے ایک شاندار شو پیش کیا جائے گا۔ گزشتہ مہینے کے شروع میں، قومی دن کی تقریبات کا آغاز متحدہ عرب امارات کے قومی دن سے 50 دن پہلے ملک کے گولڈن جوبلی کے سنگ میل کو منانے کے لیے کیا گیا تھا۔
ریاض: سعودی عرب میں ٹریفک کے نگراں سرکاری ادارے نے واضح کیا ہے کہ گاڑی میں سفر کے دوران ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا مسافر موبائل فون استعمال کر سکتا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں محکمہ ٹریفک نے بتایا کہ دوران سفر گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھے مسافر کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی نہیں ہے، دوران صرف یہ ممانعت صرف ڈرائیور کے لیے ہے۔ تنفيذ #حملة_80 في منطقة المدينة المنورة التزام بقواعد السير، وارتفاع في الوعي المروري، معًا يومًا بيوم سنصنع القدوات.#المرور_السعودي pic.twitter.com/YYgzys68Zs — #المرور_السعودي (@eMoroor) December 6, 2019 صارف کی جانب سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا مسافر بھی موبائل کے استعمال پر پابندی کے زمرے میں آتے ہیں؟ جس پر محکمے نے قانونی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پابندی کا قانون ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے شخص پر لاگو نہیں ہوتا۔ محکمے کا کہنا ہے کہ دوران سفر اگر ڈرائیور موبائل استعمال کرے تو اس پر 150 ریال جرمانہ عائد کیا جائے گا جب کہ عدم ادائیگی پر جرمانہ ڈبل ہو کر 300 ریال ہو جائے گا۔
پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیں گے، قبائلی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان نے شمالی وزیرستان کے متاثرہ تاجروں میں امدادی چیک تقسیم کیے۔ انہوں نے 25 تاجروں میں 50 کروڑ روپے کے چیک تقسیم کیے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے تاجروں کو سہولت دے رہے ہیں، قبائلی عوام کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیں گے۔ قبائلی عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ 10 دن میں قبائلی نمائندگان کو کابینہ میں شامل کیا جائے گا، نقصانات کے ازالے کے لیے 7 ارب 76 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ نقصانات کے ازالے کے لیے 2 ارب روپے پہلے سے جاری ہوچکے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ میران شاہ بازار میں 5 ہزار 654 دکانوں کے لیے 1 ارب 69 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، 69 پٹرول پمپس کے نقصانات کے ازالے کے لیے 33 کروڑ روپے مختص ہیں۔ میر علی بازار کی 3 ہزار 307 دکانوں کے لیے 2 ارب 80 کروڑ مختص ہیں۔ 100 کنال پر ترقیاتی کاموں کے لیے 2 ارب 92 کروڑ روپے مختص ہیں۔ انہوں نے سانحہ اے پی ایس شہدا کے والدین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی شہادت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ قیام امن کے لیے معصوم بچوں کی قربانی سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ناقابل تلافی نقصان پر ان کے صبر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ دنیا گواہ ہے دہشت گردی کے خلاف نونہالوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت آزمائش کی گھڑی میں والدین کے ساتھ ہے۔ ماضی میں بھی ان کی ہر طرح دلجوئی کی، آئندہ بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
wazifa for Love Teer se muhabbat ka amal Aksar ye hota he k wazifa amaliyat Me kamyabi nahi milti Wazaif or Amaliyat parhne me kuchh zaruri baton ka khayal zarur rakhe is se aap k amal or wazaif me jald hi kamyabi milegi inshaallah 1)Sab se pehle Namazo ki pabandi zarur kare is se behad faida hasil hoga or is se bara koi wazifa yaa is se behtar koi bhi amal meri nazar se nahi guzra 2)jis Aayate qurani ya allah k naam ya ki kisi or arbi ka wird diya ho use sahi talaffuz k saath parhe ye amal teer or kamaan k zariye se kiya jata he is vidio ko dekhe وظیفہ فور لو تیر سے محبت کا امال اکسار یہ ہوتا ہے کے وظیفہ امالیت میں کامیابی نہیںمیلتی وظائف اور امالیت پارحنی میں کچھ ضروری باتوں کا خیال ضرور رکھے اِسسی آپ کے عمل اور وظائف میں جلد ہی کامیابی ملے گی انشااللہ 1 ) سب سے پہلے نامازو کی پابندی ضرور کرے اِس سے بے حد فائدہ حاصل ھوگا اور اِس سے بڑا کوئی وظیفہ یا اِس سے بہتر کوئی بھی عمل میری نظر سے نہیں گزرا 2 ) جس آیتی قرآنی یا اللہ کے نام یا کی کسی اور عربی کا ورد دیا ہو یوز سہی تلفظ کے ساتھ پارحی یی عمل تیر اور کمان کے ذریعے سے کیا جاتا ہے اِس vیدیو کو دیکھے
اسلام آباد: تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے، دنیا دیکھے گی ہم سب متحد ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سینیٹر فیصل جاوید نے اپنے پیغام میں کہا کہ نشان عبرت ان کو بنانا چاہیے جو بچوں سے زیادتی، قتل کرتے ہیں، ایسے درندوں کو الٹا لٹکانا چاہیے۔ فیصل جاوید نے کہا کہ زینب الرٹ بل عرصے سے بلاول زرداری کی قومی اسمبلی کمیٹی میں پڑا ہے، کمیٹی بل کو جلد ہاؤس میں بھیجے تا کہ بل پاس ہو۔ تحریک انصاف کے سینیٹر نے مزید کہا کہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے، دنیا دیکھے گی ہم سب متحد ہیں۔ نشان عبرت ان کو بنانا چاہیے جو بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ریپ کرتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں-ایسے درندوں کو الٹا لٹکانا چاہئے- زینب الرٹ بل کافی دنوں سے بلاول زرداری کی نیشنل اسمبلی کی کمیٹی میں پڑا ہوا – کمیٹی اس کو جلدی ہاؤس میں بھیجے تاکہ یہ پاس ہو – — Faisal Javed Khan (@FaisalJavedKhan) December 19, 2019 جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جائے گا، فروغ نسیم اس سے قبل وفاقی وزیر فروغ نسیم کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ آج کے فیصلے میں پیرا 66 بہت اہم ہے، جس میں لکھا ہے مشرف کو گرفتارکریں اور قانون کے مطابق سزائیں دی۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پیرا 66 میں لکھا ہے کہ مشرف انتقال کر گئے ہیں تو لاش ڈی چوک پر3 دن لٹکائی جائے، معلوم نہیں اس قسم کی آبزرویشن جج صاحب کو دینے کی کیا ضرورت تھی۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے عوامی مقام پر لاش لٹکانا آئین اور اسلام کے خلاف ہے، آئین میں بھی اس قسم کی سزا کا ذکر نہیں ہے، جسٹس وقار کی آبزرویشن کو دیکھتے ہوئے حکومت سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرے گی، ہماری رائے ہے ایسے جج کو کسی ہائی کورٹ کا جج نہیں ہونا چاہیے۔
سورج کی کرنیں کھڑکی پر پڑے پردوں میں چھید کرتیں کمرے کی ہر چیز کو سنہری حسن بخشنے کو بیتاب تھیں۔ کھڑکی کے پاس آرام کرسی پہ بیٹھا وہ کمزور اور لاغر شخص سورج کی مغرور اداؤں کو رشک سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے جیسے سورج طلوع ہو رہا تھا، اس کی روشنی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ کاش! اذیت کی بھٹی میں سلگتے دل بھی اس سورج کی طرح حکومت کر سکتے۔ انہوں نے کرسی سے ٹیک لگا کر دل میں سوچا اور پھر آنکھیں میچ لیں۔ وہ زندگی کے بارے میں سوچنے لگاکہ دو سوالیہ نظریں اسے اپنے وجود میں پیوست ہوتی محسوس ہوئیں۔ وہ خود کو ماضی میں جانے سے روک رہے تھا لیکن ماضی سے پیچھا چھڑانا اتنا سہل نہیں تھا۔ اس نے خود کو ماضی کے دریا میں بہنے دیا۔ روشن سنہرا منظر سیاہ دھند میں تبدیل ہونے لگا۔ جہاں نصف صدی پہلے چند ہندو ہاتھوں میں تلواریں لئے ایک گھر کا دروازہ زور زور سے بجا رہے تھے۔ اندر ڈری سہمی ماں اپنے بچوں کو لئے پچھلے دروازے سے نکل رہی تھی کہ 18 سالہ احمد ماں کا ہاتھ چھوڑ کر اندر کی جانب اپنے باپ کی آخری نشانی لینے دوڑا تھا۔ ماں پیچھے سے آوازیں دے رہی تھی، ”احمد پتر! وہ لوگ آ رہے ہیں۔“ احمد جب ماں کے پاس آیا تو اس کے ہاتھ میں عطر کی شیشی تھی لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ دروازہ ٹوٹ چکا تھا اور وہ لوگ انہیں گھر سے باہر جاتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ ایک لمحے کی تاخیر نے انہیں مصیبت میں ڈال ڈال دیاتھا۔ ماں، احمد اور دو جوان بیٹیوں کو لئے ان درندوں سے بچنے کی تگ ودو میں اندھا دھند بھاگ رہی تھی اور ساتھ بیٹے سے مخاطب تھی، ”پتر! بھائی بہنوں کے محافظ ہوتے ہیں، میرے بعد تْو اپنی بہنوں کا محافظ بننا۔“ اندھیرا ہونے کے باعث کسی شے سے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے ماں اوندھے منہ زمین پر گری پڑی تھی۔ خون کسی فوارے کی مانند کنپٹی سے بہنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ لٹیرے مسلسل ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ بیٹیاں ماں کا بہتا خون دیکھ کر ماں کی طرف لپکیں تھیں۔ اس نے زور دار دھاڑ پر مڑ کر دیکھا تو وہ لوگ ہتھیار پکڑے ان کی طرف آرہے تھے۔ درد کی شدت سے ماں کا چلنا محال تھا۔ بچوں کی خاطر ہمت کر کے اٹھی لیکن چکرا کرگر گئی۔ ایک ان کے سر پر کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس کے ہاتھ بیٹی کے ڈوپٹے تک جاتے ماں اس کی ٹانگوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر چیخی تھی، ”احمد! پتر بہنوں کو لے کر بھاگ جا۔“ بیٹیاں آنسوؤں سے تر چہرہ لیے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ ”بھاگ جا پتر! تجھے تیری ماں کی قسم بھاگ جا!“ ماں کے الفاظ سنتے ہی احمد نے دونوں بہنوں کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنا شروع کر دیا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ انہیں چیخ سنائی دی پیچھے مڑ کر دیکھاتو ماں کا خون میں لتھڑا وجود اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ماں کی سوالیہ نظریں احمد پر ٹکی تھیں جیسے اس سے پوچھ رہی ہوں کہ کیا تم اپنی بہنوں کو ان ظالموں کی درندگی سے بچا پاؤ گے؟ احمد اپنی ماں کو آخری بار چھونا چاہتا تھالیکن وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل رہا تھا۔ وہ بہنوں کو لیے تھک کر جھاڑیوں میں چھپ گیا، اچانک بہن کی نظر احمد کے ہاتھ میں پکڑی عطر کی شیشی پر پڑی تھی۔ کسی نے گھسیٹ کر جھاڑیوں سے باہر نکالا۔ احمد نے درخت سے بندھا بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں اور اس کی بہنیں اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود کو لیے کنویں میں چھلانگ لگا چکی تھیں۔ احمد نے اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ماں کی سوالیہ نظریں آج تک اسے اپنے وجود کے آرپار ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔جیسے اس سے پوچھ رہی ہوں کہ میری بیٹیاں سسک سسک کر کیوں مر گئیں؟ تم ان کی حفاظت کیوں نہ کر سکے؟ بالآخر ماں کی سوالیہ نظروں کا تعاقب ان کی سانسوں کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا۔
لاہور: علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے مرکزی رن وے کا کام تاحال مکمل نہ ہوسکا جس کے باعث سردیوں میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ایئرپورٹ کا مرکزی رن وے کی مرمت کا کام ڈیڑھ سال میں مکمل ہونا تھا، ایئرپورٹ مکمل نہ ہونے سے رواں ماہ سردیوں میں فلائٹ آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ایئرپورٹ کے سیکنڈری رن وے 36 ایل کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیکنڈری رن وے پر دھند میں طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کیلئے کیٹ آئی تھری سسٹم موجود نہیں ہے۔ آئی ایل ایس سسٹم نہ ہونے سے طیارے شدید دھند میں لاہور ایئرپورٹ پر لینڈنگ نہیں کرسکیں گے۔ مرکزی رن وے کی مرمت کی وجہ سے ایئرپورٹ پر لانگ رینج اور وزنی طیاروں کی لینڈنگ کی اجازت نہیں ہے۔ ایئرپورٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مرکزی رن وے کی تعمیرات کا کام تیزی سے جاری ہے، مرکزی رن وے کی مرمت سے متعلق تمام ایئرلائنز کو آگاہ کردیا گیا ہے۔
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ (١) یقیناً وہ سننے جاننے والا ہے تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین اسلام امن پسند دین ہے: یعنی اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی صلح پر مائل ہو تو صلح کرلینے میں کوئی حرج نہیں، اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں یقینا اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہو، مسلمان قو ت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور اور ہزیمت خوردہ ہوں تو اس صورت میں صلح کی بجائے کافروں کی قوت و شوکت کو توڑنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْا اِلَى السَّلْمِ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ يَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ﴾ (محمد: ۳۵) ’’پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اُترآؤ جبکہ تم ہی بلندو غالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ﴾ (الانفال: ۳۹) ’’اور تم ان سے اس حد تک لڑوکہ ان میں فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے اور اگر یہ باز آجائیں تو جو کچھ یہ کریں گے اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
سعودی عرب کے جیولوجیکل سروے کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ مملکت کے جنوب مغرب میں الباحہ میں بدھ کی صبح آنے والے زلزلے سے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔ اتھارٹی نے کہا کہ ارضیاتی خطرات کے مرکز میں نیشنل نیٹ ورک کے اسٹیشنوں نے آج صبح 9:34 بجے زلزلے کا پتہ لگایا۔ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 3.62 ڈگری تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کا معائنہ کرنے کے لیے ایک خصوصی تکنیکی ٹیم بھیجی گئی تھی۔ سعودی جیولوجیکل سروے کے سرکاری ترجمان طارق ابا الخیل نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ سعودی جیولوجیکل سروے کے جیولوجیکل ہیزرز سینٹر میں قومی نیٹ ورک کے اسٹیشنوں کو بدھ کی صبح 9:34 پر زلزلے کا پتہ چلا۔ اس کا مرکز الباحہ کے جنوب مغرب میں تھا اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 3.62 تھی۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے کے بعد ایک خصوصی ٹیم جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے اور اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے روانہ کردی گئی ہے تاکہ زلزے کی وجوہات کا پتا چلا یا سکے۔
یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی پارلیمانی الیکشن میں باہمی اتحاد کی بات سامنے آتے ہی بی جے پی چراغ پا ہو گئی۔ بلاشبہ اِس اتحاد نے سیکولر قومی سیاست میں نئے امکانات پیدا کئے ہیں۔ ایک طرف ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پر اتفاق کی خبر آئی اور دوسری طرف غیر قانونی طور پر ریت نکالنے کے تعلق سے آئی اے ایس افسر بی چندرکلا کی رہائش گاہ سمیت یوپی کے بارہ مقامات پر چھاپوں کے بعد سی بی آئی نے ایک پرانے معاملہ میں اکھلیش یادو سے بھی پوچھ تاچھ کرنے کی بات کہی۔ سی بی آئی نے اعلان کیا کہ وہ مبینہ گھپلہ میں سابق وزیراعلی اکھلیش یادو کے رول کی بھی جانچ کرے گی۔ ویسے تو یہ جانچ الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ہو رہی ہے جس کے تحت سی بی آئی ریاست کے پانچ اضلاع شاملی، ہمیرپور، فتح پور، دیوریا، سدھارتھ نگر میں اِس معاملہ میں جانچ کر رہی ہے۔ لیکن اتحاد کی خبروں کے آتے ہی جس طرح جانچ میں تیزی آئی ہے اُس سے اِس کارروائی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ ویسے ہندوستان میں اپوزیشن پارٹیوں کو ڈرانے کیلئے سی بی آئی کا استعمال کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جانچ کی ٹائمنگ پر تو سوال اٹھیں گے ہی لیکن اِس سے اکھلیش یادو کو کوئی سیاسی نقصان نہیں ہونے والا ہے کیونکہ اب یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ اتحاد کے سبب ہی جانچ میں تیزی آئی ہے۔لہٰذاالٹا اکھلیش کو ہی سیاسی فائدہ حاصل ہو گا۔ دراصل سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے انتخابی میدان میں آنے سے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھرنا یقینی ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ دونوں پارٹیوں کا اپنا اپنا ووٹ بینک ہے۔ لیکن اتحاد میں کانگریس کو شامل نہیں کرنے سے ایس پی، بی ایس پی کو بہت زیادہ نقصان کی امید نہیں ہے۔ کانگریس کو اتحاد میں شامل نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تسلسل کے ساتھ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو عوام نے کانگریس کی مخالفت ہی میں ووٹ دیا ہے۔ ورنہ جہاں جہاں بی جے پی کا مقابلہ کسی اور پارٹی سے ہوا ہیوہاں بی جے پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ بنگال، تلنگانہ، کیرالا، میزورم اور تامل ناڈو اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔ کہیں نہ کہیں اِسی صورتحال کو بخوبی سمجھتے ہوئے اکھلیش یادو اور مایاوتی کو یہ حوصلہ ملا ہے کہ وہ کانگریس کی مدد کے بغیر ہی انتخابات میں حصہ لیں۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد کتنا کارگر ہوتا ہے؟ اور جہاں تک سی بی آئی کا سوال ہے، اِس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ اِس خودمختار اور پُروقار ادارہ کی ساکھ مجروح ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سی بی آئی کے کام میں حکومت کی بیجا مداخلت ہے۔ سی بی آئی کا سیاسی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہر کس و ناکس یہ محسوس کرتا ہے کہ سی بی آئی مرکزی حکومت کے اشارے پر کام کرتی ہے اور حکومت سی بی آئی کے ذریعہ اپنے مخالفین سے سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ مایاوتی اور اکھلیش کے اتحاد کا اعلان ہوتے ہی سی بی آئی چھ سال پرانے معاملہ میں اچانک متعدد ایس پی، بی ایس پی لیڈروں کے گھروں پر چھاپہ مارتی؟ سماج وادی سربراہ نے سی بی آئی کے چھاپوں کو ایس پی بی ایس پی اتحاد کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بی جے پی کو متنبہ کیا کہ سی بی آئی کا سیاسی استعمال کر کے وہ جو روایت قائم کر رہی ہے، مستقبل میں خود بھی اُس کا شکار ہو سکتی ہے۔ زعفرانی پارٹی یوپی میں اِس اتحاد سے بری طرح گھبرا گئی ہے۔ مایاوتی نے اپنی پارٹی کی بقاء کیلئے بہت سوچ سمجھ کر سماج وادی پارٹی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اگر ایس پی، بی ایس پی کے ساتھ کانگریس بھی اِس اتحاد میں شامل ہو جاتی ہے تو یوپی میں بی جے پی کو اور مظبوطی سے روکا جا سکتا ہے کیونکہ کانگریس کے بغیر بی جے پی مخالف ووٹوں کو اکٹھا کرنا ذرا مشکل ہے۔
بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے 110 سال بعد اس سے ملنے والی ایک پوسٹل کلرک کی پاکٹ واچ (گھڑی) برطانیہ میں نیلام کردی گئی۔ نیویاک ٹائمز کے مطابق یہ پاکٹ واچ ٹائی ٹینک میں ہلاک ہونے والے پوسٹل کلرک آسکر اسکاٹ ووڈی کی تھی جسے 1 لاکھ 16 ہزار ڈالر ( یعنی ڈھائی کروڑ پاکستانی روپے سے زائد) میں نیلام کیا گیا۔ اپنے وقت کا سب سے بڑا اور مشہور بحری جہاز ٹائی ٹینک 1912ء میں ایک برفانی چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تھا جس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ جب بحرِ اوقیانوس میں ٹائی ٹینک ڈوبا تو یہ گھڑی پانی میں جا کر جم گئی تھی جسے بعد میں نکال کر آسکر کی اہلیہ کو دی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں نیلامی کے موقع پرٹائی ٹینک جہاز سے جڑی دیگر اشیا کی بھی نیلامی کی گئی، جس میں جہاز کے فرسٹ کلاس کا مینیو 50 ہزار ڈالرز میں نیلام کیا گیا ۔ اس کے علاوہ فرسٹ کلاس مسافروں کی فہرست 41 ہزار پاؤنڈز،میٹھے کی ایک پلیٹ 20 ہزار پاؤنڈزاور ایک ریسٹورنٹ کا مینیو 23 ہزار پاؤنڈز میں بیچا گیا۔
ٹی بی کے عالمی دن کے حوالے سے منڈی بہاؤالدین میں محکمہ صحت کے زیر انتظام آگاہی سیمینار اور واک کا انعقاد www.mbdinnews.com مارچ 27, 2021 March 27, 2021 0 تبصرے 139 مناظر فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ ٹی بی کے عالمی دن کے حوالے سے منڈی بہاؤالدین میں محکمہ صحت اور مرسی کور پاکستان( نجی تنظیم) کے زیر انتظام آگاہی سیمینار اور واک کا انعقاد ، کورونا ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے کیا گیا. منڈی بہاوالدین ( ایم.بی.ڈین نیوز 27 مارچ 2021) محکمہ صحت اور مرسی کور پاکستان (نجی تنظیم) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا گیا جس کی سعادت سجاد کھوکھر ڈسپنسر نے حاصل کی. ڈاکٹر محمد افتخار ڈسٹرکٹ ٹی بی کوآرڈینیٹر اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر پروینٹیو سروسز نے اس موقع پر ٹی بی کے خاتمے کے لئے محکمہ صحت اور مرسی کور پاکستان کے کردار کو سراہا. انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر ٹی بی کو شکست دینی ہے اور اپنے ملک سے اس مرض کا خاتمہ کرنا ہے. انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کے ہم نے لوگوں کو اس مرض کے متعلق مزید آگاہ کرنا ہے اور معاشرے کو باور کروانا ہے کہ ٹی بی کا علاج 100 فیصد ممکن ہے اور ٹی بی کا علاج بالکل مفت ہے. گورنمنٹ ہسپتالوں کے علاوہ منتخب نجی لیبارٹریز اور ہسپتالوں میں بھی ٹی بی کی تشخیص اور علاج مرسی کور، ڈبلیو ایچ او، گلوبل فنڈ اور نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام پاکستان کے تعاون سےمفت کیا جا رہا ہے. اس موقعہ پر ابوالحسن مدنی ڈسٹرکٹ پاپولیش آفیسر، سید فیاض حسین شاہ ڈسٹرکٹ لیب سپروائزر،مظہر اقبال سینئر لیب ٹیکنیش،مس اندلیب زینب لیڈی ہیلتھ سپروائزر اور مرسی کور پاکستان کے ڈسٹرکٹ فیلڈ سپروائزرز عبدالسلام،ارشد محمود، عمر اختر اور ندیم عباس نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا. بعدازاں، سیمینار کے اختتام پر کورونا ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے ٹی ایم اے ہال سے کمیٹی چوک منڈی بہاؤالدین تک ٹی بی سے متعلق آگاہی واک کا بھی اہتمام کیا گیا.
لاہور: پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک اور آڈیو آنے والی ہے جس میں مریم نواز اپنے والد سے کہہ رہی ہیں فکر نہ کریں الیکشن کمیشن توشہ خان میں عمران خان کو نااہل کرنے والے ہیں۔ عمران خان نے جس سی یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرکے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر شریف خاندان کے گھر کا نوکر ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سے فری اینڈ فیئر الیکشن ہو سکتا ہے،چیف الیکشن کمشنر نے نوازشریف اور زرداری کے کہنے پر ای وی ایم نہیں آنے دی۔عمران خان نے کہا کہ آڈیو لیکس میں شہباز شریف، مریم نواز کو طریقے بتا رہے ہیں، مریم نواز کا داماد بھارت سے مشینری منگوا رہا ہے۔آڈیو لیکس کے بعد تھوڑی سی بھی شرم ہو تو یہ مستعفی ہو جائیں۔ان میں شرم نہیں ہے تو ہمیں ان کو مستعفی کرانا ہو گا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اشرافیہ ملک اور عوام کی نہیں اپنے فکر میں رہتی ہے۔عمران خان نے مزید کہا کہ ہماری حکومت سازش کے تحت ہٹائی گئی۔امریکی نمائندہ ہمارے سفیر سے ناراضی کا اظہار کرتاہے،امریکی نمائندہ کہتا ہے کہ آپ نے عمران خان کو ہٹانا ہوگا۔سفیر کو کہا گیا آپ نے عمران خان کو نہیں ہٹایا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ڈونلڈ لو نے کہا کہ اگر چیری بلاسم کو لے آئے تو پھر ہم پاکستان کو معاف کر دیں گے۔ سائفر کے بعد قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے ،20 لوٹے نکل آتے ہیں۔سندھ ہاوس میں چھوٹے لوٹوں میں بڑوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ہمارے اتحادی بھی ہمیں چھوڑ کرنا جانا شرو ع ہو جاتے ہیں۔علامہ اقبال اپنے شاعری میں ہندوستان کے نوجوانوں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب تک آپ غلامی کی زنجیریں نہیں توڑیں گے تب تک آپ اقبال کے شاہین نہیں بن سکتے۔اقبال کا شاہین تو وہ بنتا ہے جو اپنی ضمیر کی زنجیریں توڑتا ہے۔ہماری پرواز تب تک اوپر نہیں جا سکتی جب تک ہم آزاد نہ ہوں، انگریزوں سے غلامیاں دے کر آزادی حاصل کی۔ میں تو روس جا کر بات چیت کرکے آیا تھا کہ سستا تیل اور گندم لیں گے لیکن امپورٹڈ حکومت کو روس سے تیل نہ خریدنے کاحکم دیا جاتا ہے
یہ بہترین قول ’’ہیلن کیلر‘‘ کا ہے۔ہیلن کیلر وہ خاتون تھی جوکہ پیدائشی طورپر بہری اور اندھی تھی۔آپ انداز لگائیں،بچپن کی عمر جو سیکھنے کی عمر ہوتی ہے، اس میں بچہ دیکھنے اور سننے کی بدولت ہی سیکھتاہے لیکن بدقسمتی سے ہیلن کے پاس یہ دونوں نعمتیں نہیں تھیں،جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ زندگی بھر کچھ سیکھ نہیں سکے گی۔والدین اس کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے لیکن پھر کچھ ایسا ہوگیا کہ جن پر دنیا حیران رہ گئی۔لیکن کی زندگی میں ایک ٹیچر آئی اور اس ٹیچرنے اپنا وژن بنالیا کہ اس نے ہیلن کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ پڑھ اور لکھ سکے۔لیکن سب سے مشکل کام یہ تھا کہ ہیلن کے دماغ تک یہ بات کیسے پہنچائی جائے کہ کس چیز کا کیا مطلب ہے۔ وہ لگاتامحنت کرتی رہی اور مختلف طریقوں سے ہیلن کوسمجھانے کی کوشش جاری رکھی۔شاید قدرت کو ٹیچر کی محنت پر رحم آگیا، ہیلن کے دماغ میں جھماکاہوااور وہ آہستہ آہستہ چیزوں اور الفاظ کو سمجھنا شروع ہوگئی، یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ہیلن کی کامیابی میں خود اس کی اپنی ہمت بھی شامل تھی۔سب سے پہلے اس نے اپنی معذوری کو تسلیم کیااو ر پھر اپنی محرومی پر رونے دھونے کے بجائے اس نے اس نعمت کو استعمال کرناشروع کیا جو اس کے پاس موجود تھی۔وہ لمس کی طاقت تھی۔اس نے چیزوں کو سمجھنا شروع کیا اور پھر اس قدرماہر ہوگئی کہ کسی شخص کے ہونٹوں یاگلے پر ہاتھ رکھ بتادیتی تھی کہ یہ انسان کیا بول رہاہے۔اسی حس کی بدولت انھوں نے اپنا سفر آگے بڑھایا، گریجویشن تک تعلیم مکمل کی اور ایک بہترین لیکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی بن گئی۔ میرے دفتر میں روزانہ کئی سارے لوگ آتے ہیں۔جن میں میرے دوست بھی ہوتے ہیں اور شاگرد بھی۔مجھے جوانوں کی اکثریت کی طرف سے یہ شکایت ملتی ہے کہ زندگی بہت مشکل ہے، ہمارے سامنے کئی سارے مسائل اور رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے ہم آگے نہیں بڑھ پارہے۔میں انھیں یہی کہتاہوں کہ یہ زندگی غمی اورخوشی، مواقع اور مشکلات کاایک مکمل پیکج ہے۔ان سب کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے آپ نے آگے بڑھنا ہے۔اگر آپ اپنی زندگی میں صرف مشکلات کو ہی دیکھتے رہیں گے اور ان کے حل ہونے کاانتظار کرتے رہیں گے تو پھرسالوں بعد بھی آپ اسی مقام پر ہوں گے۔ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں 80فی صد کام اچھے ہورہے ہوتے ہیں اورصرف 20فیصد حالات ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں پریشان کردیتے ہیں لیکن ہمارا نفس ہمیں صرف یہی 20فیصد مسائل ہی دکھاتاہے اور اسی وجہ سے ہم پوری زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ جب میں کسی فرد کو خاندان، شہر یا زمانے کی شکایت کرتے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے تاریخ کے کئی چہرے آجاتے ہیں جو ایک معمولی جگہ، عام سے خاندان اور ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جوبنیادی سہولیات سے بھی محروم تھالیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ روس اور چین کے درمیان منگولیانامی ایک ملک ہے جو کہ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہے۔یہاں سال کے بیشتر اوقات درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے رہتا ہے اورپورا سال برفانی طوفان آتے رہتے ہیں۔اسی ملک میں آج سے نو سوسال پہلے ایک منگول سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام تموجن رکھا گیا۔آنے والے وقتوں میں اس بچے نے تاریخ کا دھارابدل کررکھ دیا۔ گیارہ سال کی عمر میں اس کے باپ کو قتل اور اس کو قیدی بنالیا گیا۔لیکن وہ نہ صرف اس قید سے فرار ہوا بلکہ اس نے آپس میں لڑنے والے قبیلوں کو متحد کیا اور ایک مضبوط فوج کی بنیاد رکھی جس نے دنیا کی بڑی افواج کو شکست دیتے ہوئے اس وقت کے تہذیبی اور علمی مراکز سمرقند، بخارا اور بغداد کوبھی فتح کرڈالا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ دشوار گزار مقام اورمشکل حالات انسان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتے۔اگرکوئی کچھ کرنا چاہتاہے تو وہ کرگزرتاہے۔ زندگی کی دوسری بڑی حقیقت ہماراجسم ہے جس کو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔آپ کی صحت اچھی ہے یا بری۔آپ کا رنگ کالا ہے یا گورا۔آپ کا قد لمباہے یا چھوٹا۔ان چیزوں پر آپ کا اختیار نہیں۔آپ جیسے بھی ہیں آپ نے خود کو قبول کرناہوگااور اسی جسم کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھناہوگا۔جیسے ہیلن کیلر نے کردکھایا۔اسی طرح نک وائے چچ نے اپنے بونے پن کو مجبوری نہیں بنایااور آج دنیا کا بہترین موٹیویشنل اسپیکر، کئی کتابوں کامصنف اور ایک مالدارترین انسان ہے۔تیمور لنگ نے ٹانگ کی معذوری کے ساتھ دنیا کے بہترین افواج کامقابلہ کیا۔نپولین نے اپنے چھوٹے قد کو اپنے راستے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ اور جدید فرانسیسی ریاست کی بنیاد رکھی۔ زندگی کی تیسری بڑی حقیقت ناموافق حالات کو قبول کرناہے۔اگرہم اسی انتظار میں بیٹھے رہیں گے کہ حالات ٹھیک ہوں گے پھر میں کچھ کروں گاتویقین کیجیے کہ آپ کا انتظار کبھی ختم نہیں ہوگا۔کیوں کہ زندگی کبھی انسان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتی۔اچھے دنوں کاانتظار اکثر ضائع چلاجاتاہے۔جو بھی ہے ابھی کرنے کاہے۔مشہور کہاوت ہے کہ ’’ابھی نہیں توپھر کبھی نہیں‘‘۔ دشوارگزار حالات کے باوجودخود کوکامیاب ثابت کرنے والے لوگوں میں سے ایک بڑانام ’’اسٹیوجابز‘‘ کاہے۔بچپن میں اس کا باپ اسے چھوڑ گیا تھا، اس کی ماں اسے پال نہیں سکتی تھی لہٰذا اس نے بھی اسٹیوکوچھوڑدیااور ایک اورخاندان نے اس کو گود لیالیکن ان ساری محرومیوں اور مشکلات کے باوجود بھی اسٹیوجابز نے اپنے شوق کو ماند نہیں ہونے دیا۔وہ اپنے مقصد میں لگارہا۔دن بدن اس کا جنون بڑھتاجارہا تھا اورپھر ا س نے ایسی ایمپائر کھڑی کردی کہ آ ج وہ دنیا بھرکے لیے ایک مثال ہے۔ زندگی کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ لگے بندھے اصولوں پر نہیں گزاری جا سکتی۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص نے اس طرح کیا تومیں بھی ایساہی کروں گا۔زندگی میں ہمیشہ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔انسان کو ہمیشہ لچک کامظاہرہ کرنا چاہیے۔بہت ساری چیزوں کو برداشت کرناپڑتاہے۔اکثر اوقات جواب دینے کے بجائے خاموش رہناپڑتاہے۔درگزر سے کام لینا ہوتاہے اور کبھی کبھار چیزوں کو چھوڑنا بھی پڑتاہے۔ زندگی کی اس حقیقت کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی کام کوشروع کرنے کا کوئی بہترین وقت نہیں ہوتا۔ اکثرلوگ کسی کام کو شروع کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جس وقت آ پ کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں تووہی اس کام کے کرنے کابہترین وقت ہوتاہے۔اگر آپ اپنے کاموں کو پیچھے دھکیلتے رہیں گے تو وہ کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوگیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے اردگرد منافق لوگ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں زندگی میں دھوکا بازی اور منافقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آپ نے ایسے لوگوں کے درمیان رہ کر خود کو ایمان دار ثابت کرنا ہے تب ہی آپ ان سے ممتاز بنیں گے اوراسی میں آپ کی کامیابی ہے۔ ایک اصول یہ بھی یادرکھیں کہ جیت ہمیشہ آپ کی نہیں ہوتی، کبھی کبھار آپ کو ہارنا بھی پڑتاہے۔شاہراہ زندگی پر چلتے ہوئے کبھی کبھار انسان گربھی جاتاہے لیکن گرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ کھیل ختم ہوگیا بلکہ یہ تو کھیل کاحصہ ہے۔آپ نے اٹھنا ہے، خود کو جھاڑنا ہے اورمستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنا ہے۔ زندگی کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر انسان کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ہم چاہے جتنے بھی جتن کرلیں سب کوراضی نہیں کرسکتے۔کوئی نہ کوئی شخص ہم سے ضرور گلہ رکھے گا اور ناراض ہوگا۔اسی لیے سب کو راضی کرنے کی فکر چھوڑئیے اور رب کو راضی کرنے کی فکرشروع کیجیے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ دوسروں کی ناراضی کے ڈر سے ہم انھیں انکار نہیں کرسکتے لیکن انکار نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے اپنے کئی سارے کام تاخیر کاشکار ہوجاتے ہیں۔آپ کواپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑے گااورانکار کرناسیکھناہوگا۔وگرنہ آپ کی ترجیحات دوسرے لوگ طے کریں گے اور آپ اپنی منزل سے بہت دورچلے جائیں گے۔ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم وہی زندگی بسر کرتے ہیں جو اپنے لیے منتخب کرتے ہیں۔اسی منتخب شدہ زندگی میں اگرہم کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں تو ناکامیاں بھی ہمیں تسلیم کرنی ہوں گی اور اور دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ان کابوجھ خود ہی اٹھانا ہوگا۔ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا کہ زندگی کا یہ راستہ ہم نے خود منتخب کیاہے اور ہم ہی اس کے مکمل طورپر ذمہ دار ہیں۔ یہ زندگی کے وہ حقائق ہیں جس سے ہر انسان کو واسطہ پڑتاہے۔آپ نے زندگی کی شاہراہ پر چلنا ہے تو ان سپیڈ بریکرز کا سامنا کرناہوگا اور ان حقائق کو جواز بناکر آپ اپنی ناکامیوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیوں کہ ماضی میں جولوگ کامیا ب ہوئے ہیں وہ آپ سے زیادہ مشکل حالات میں تھے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ان حقائق کو ہنسی خوشی قبول کیاجائے اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو منفرد اور ممتاز بنایاجائے۔تب ہی آپ کی زندگی ایک کامیاب اور خوش حال زندگی بن سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار پی ٹی آئی کے رہنما رکن پنجاب اسمبلی چوہدری ظفر اقبال نے عبدالرحمن شوکت کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون عدم اعتماد اور لانگ مارچ کی صورت میں علیٰحدہ علیٰحدہ کھیل میں مصروف ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ان کا مقصد اپنے ادوار میں کی گئی کرپشن پر این آر او حا صل کرنا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں اور سیاست کو سیاسی طریقے سے کھیلیں۔ انہوں نے کہا کہ جہلم میں ڈیڑھ ارب روپے کے تعمیراتی منصوبے مکمل کروایے جا رہے ہیں جن میں سڑکیں، وچلا بیلہ کا پل، ڈی ایچ کیو میں ٹراما سنٹر کے ساتھ ساتھ دیگر منصوبے شامل ہیں۔ جبکہ عوام کو ریلیف دینا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے جسے ہم پورا کر رہے ہیں۔ ویب ڈیسکمارچ 7, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Facebook Twitter LinkedIn Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Line ای میل کے ذریعے شیئر کریں پرنٹ کریں
پاکستان میں ووٹ کے تقدس کی بات کرنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ہمارے لےؑ سب سے پہلے اللہ ، رسول ﷺ اور قرآن کے بعد پاکستان کا تقدس سب سے پہلے ہے اور جسے آپ نے کبھی را کے اجینٹوں کے زریعے ہمارے ان گنت لوگوں کو قتل کروایا ہے اور اب بھی مودی اور امریکہ کی جھولی میں بیٹھ کر ہمارے پاک وطن میں حالات خراب کر کے خود عوام کا پیسہ ہڑپ کر جانے کا سوچ رہے ہو لیکن شاید تم اللہ پاک کو بلکل بھول چکے ہو اور وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں تمیاری کتنی اونچی اڑانیں ہو جایؑں آخر تم کو نیچے ہی آنا ہے تم نے اپنا محل جو تعمیر کیا ہے وہ فرعون کے محلات سے کیا کم ہے؟ یہ اقتدار جس کو بھی ملتا ہے وہ نمرود و فرعون اور شداد کی ہی سنت پوری کر کے دونوں جہان برباد کر کے اس دنیا سے چلا جاتا ہے اگر تم میں ذرہ برابر اب بھی ایمان ہے تو یہ سب عوام کی دولت ہے جس پر تم جیسے بہت سارے سانپ بیٹھے ہیں یہ سب عزت سے واپس کر کے اللہ پاک سے توبہ کر لو تو وہ بہت مہربان ہیں بہت معاف کر دینے والے ہیں لیکن اگر تم سب ان سب ہٹ دھرمیوں میں اسی طرح ڈٹے رہو گے تو تم کو یہ زمین دفن بھی نہیں ہونے دے گی میں کویؑ عالم ہوں نہ ہی کویؑ بزرگ ہوں نہ ہی کویؑ اولیا اللہ ہوں ، ایک پاکستانی ہوں جس کے دل میں اس ملک کی عزت و وقار اتنا ہے کہ میں اس کی سلامتی کے لےؑ دعا کرتا ہوں اور مجھے اپنے خالق پر پورا یقین ہے کہ وہ اس پاک وطن کو ہمیشہ سلامت رکھیں گے ، ان شا اللہ لیکن تم سب کا کیا ہو گا ، اب بھی وقت ہے کہ سمجھ جاؤ اور استغفار کر لو اس دجّالی ٹولے کے ہاتھوں سے نکل جاؤ وہ تمہاری آنے والی نسلوں کو بھی برباد کرنے میں لگے ہیں تم سب کے نام اسلامی تاریخ کے عظیم غدّاروں میں ہی لکھا جاےؑ گا اور تم سب لوگ رہتی دنیا کے لےؑ ایک بدبودار مثال ہو کر رہ جاؤ گے پھر سواےؑ پچتاوے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ، یہ ہی سچ ہے کہ پاکستان کی ترقّی کو تم سب نے اپنے گھروں کی ترقّی میں لگا دیا ہے تم سب کو عوام پر ذرا برابر بھی ترس نہیں آیا اور اللہ پاک کے عزاب سے ڈر جاؤ وہ وقت دور نہیں جب یہ سب محلات تمہارے سامنے یہ عوام خود گرا دے گی جسے تم لوگ حقیر سمجھتے ہو بھوکا جان بوجھ کر رکھتے ہو جان بوجھ کر مرواتے ہو ایک دن اس سب کا حساب تم سب کو دینا ہو گا اس وقت سے ڈرو اللہ عزت دے تو عزت کو سمبھال کر رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی ، جو اللہ پاک عزت سے نوازتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر کے بے عزت بھی کر سکتے ہیں یہ سب تم سب لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہو ، میرا کام تھا سچ بول دینا اب جیسے تم لوگ چاہوں اپنے لےؑ پسند کر لینا ویسے ہی اللہ پاک کے کرم سے آپکو مل کر رہے گا ،
لندن: برطانیہ میں چیلتن ہیم کے مکینوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ غلط دن کچرا دان گھر سے باہر رکھنے پر 50 ہزار پاؤنڈ جرمانہ ہوگا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چیلتن ہیم کے مکینوں کو کہا گیا ہے کہ مقررہ تاریخوں کے علاوہ گھر کے باہر کچرا دن رکھنے پر 50 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد ہوگا، اس حوالے سے نوٹس آویزاں کردئیے گئے ہیں۔ یہ نوٹس اس جگہ پر آویزاں کیے گئے ہیں جہاں کچرے کا ڈھیر لگا رہتا تھا، وارننگ میں کہا گیا ہے کہ کچرے کے تھیلے مکھیوں کی افزائش کے مترادف ہے۔ مذکورہ نوٹس چیلتن ہیم، گلاس ریڈز اور دیگر ہائی اسٹریٹس پر آویزاں کیے گئے ہیں، چیلتن ہیم میں کچرا منگل اور جمعہ کو اُٹھایا جاتا ہے۔ مزید پڑھیں: کوؤں کو کچرا چننے کی نوکری مل گئی پیر کی رات 9 بجے سے منگل کی صبح 7 بجے اور منگل کو رات 9 بجے سے بدھ کی صبح 7 بجے کے دوران رکھے گئے کچرا دان مکھیوں کی افزائش گاہ تصور کیے جائیں گے اور 50 ہزار پاؤنڈ تک جرمانہ کیا جائے گا۔
عادل کبھی باہر آکر سب کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو۔ نور نے اندر آتے ہی اپنی فل سپیڈ بولنا شروع کر دیا۔ نور جاؤ یہاں سے کبھی تو دستک دے کر آیا کرو میرے کمرے میں کوئی ادب و آداب سیکھ لو اب تو۔ نور نے گھور کر عادل کو دیکھا اور زیر لب بہت آہستا سے بولی جیسے تم دستک دے کر آے دل میں میرے مگر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی۔ عادل جیسے آپنے ہی خیالوں میں گم تھا وہ نور کی بات سن ہی نہ پایا تھا۔ عادل نیچے سب بلا رہے ہیں اور اب تم نہ آئے تو تمھیں لینے کو بابا ہی آیئں گے۔ اتنا کہ کر پیر پٹختی ہوئی نور نیچے چلی گئی۔ بڑے بابا اوہ نہیں ان کو یہاں نہیں آنا چاہئے یہ ہی سوچ کر عادل نے بستر سے چھلانگ لگا دی اور منہ ہاتھ دھو کر نیچے چلا آیا ۔ عادل ایک بائیس سال کا لڑکا تھا جس کے والد کا انتقال عادل کی پیدائش کے دن ہی ہو گیا تھا۔ تب سے لے کر وہ اپنے ماموں کے ساتھ ہی رہ رہا تھا عادل کی ماں کے نام عادل کے ابا نے شادی کے بعد شہر کے پوش علاقے میں دو دکانیں خرید کر اپنی پیاری بیوی کے نام کر دی تھی تا کہ بیوی کو کبھی بھی کسی سےبھی مانگنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ چاہئے یہ مںگنا ایک بیوی کا شوہر سے ہی کیوں نہ ہو۔ گھر کے جس حصہ میں عادل اور اس کی امی رہتے تھے وہیں ان کے ساتھ عادل کی نانی بھی رہتی تھیں،اپنی بیٹی اور نواسے کی تنھائی میں ایک بہت اہم ہستی جو ہمیشہ سے دونوں ماں بیٹے کی دلجوئی کرتی تھی۔ آج ان کے چہلم کی دعا تھی،نور اس لیے ہی تو عادل کو بلانے کو نہ چاہتے ہوئے بھی چلی آئی تھی۔ پھلوں سے بھری ٹرے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے کچن سے برامدے تک آتے جاتے عادل نور سے دو مرتبہ ٹکرانے سے بچا تھا اور ادھر نور کے پائوں جیسے زمین پہ ٹک نہیں پا رہے تھے۔۔۔ عادل اور نور کی یوں تو بہت دوستی تھی مگر بس ایک کزن کی طرح سے مگر نور کے لیے عادل کچھ خاص تھا اور ہمیشہ ہی سے رہا بھی تھا۔ عادل یوں تو سب کو ہی پیارا تھا مگر اس کی خاموشی کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ جب بھی خاموش ہوتا گھر بھر میں جیسے قبرستان کا سا گماں ہونے لگتا تھا۔ عادل میں بھی مارکیٹ جاؤں گی پلیز رکنا، نور ‎سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نیچے آرہی تھی وہ نیلے جوڑے میں کوہ قاف کی پریوں جیسی لگ رہی تھی نیلا رنگ عادل کی کمزوری تھا،نیلا جیسے آسمانوں کی وسعت جیسے اجلا ذہن جیسے پاکیزگی۔ ایک لمحہ کو عادل کی سانس اور دھڑکن جیسے دونوں ہی تھم چکی تھی،وہ ہوش میں واپس اپنی ماں کی آواز سن کر آیا جو بار بار سامان کی لسٹ میں کسی نہ کسی چیز کا اصافہ ہی کر رہی تھی۔ عادل: امی ایک ہی بار کیوں نہیں بتاتی آپ،منہ بسورتے ہوئے دہپ سے صوفہ پہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں نور بھی آچکی تھی اور اپنی پھوپھی کی وکالت کرتے ہوئے کاغذ اور قلم عادل کے ہاتھوں سے لے کر بولی، نور:زرینہ پھوپھی آپ ان ماھراج کو کام ہی کیوں کہتی ہیں میں ہوں نا! آپ بس مجھے ایک آواز دیں میں نہ آئی تو نام بدل دیں ہاں نہیں تو اور ڈائنگ ٹیبل پہ رکھے خشک میواجات کو کھانے لگی۔ عادل: جی جی شیطان کو یاد کریں وہ فوراً سے آجاتا ایسے ہی تم بھی، اس سے پہلے کے عادل کی بات مکمل ہوتی کچن سے زرینہ بیگم کی غصہ سے بھری آواز سنائی دی۔ اب جاؤ دونوں دیر مت کرنا اور گاڑی آہستہ چلانا اور عادل میرا بچہ نور کو تنگ بھی نہیں کرنا، زرینہ بیگم جتنی دیر میں یہ سب باتیں کرتی اور دوپٹہ کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی کرتی باہر آئیں تو دیکھتی ہی رہ گئی،ارے یہ کہاں چلے گئے اففف خدایا یہ دونو بھی نا۔۔ عادل کو اپنی ماں کی گاڑی کے معاملے میں روک ٹوک کبھی بھی اثر نہیں کرتی تھی،وہ ڈرئیونگ کرتے ہوئے گاڑی کو جہاز سمجھ کرچلاتا تھا ۔ اور ایک تھی نور جسے چلتے پنکھے کے پڑوں کو دیکھ کر بھی چکڑ آنے لگتے تھے۔ عادل تم کو کبھی کسی سے دوستی کرنے کی خواہش ہوئی ہے؟ نور نے جہجکتے ہوئے آخر سوال کر ہی دیا۔ ہوں مجھے،،،،،،،،نہ نہیں نو کبھی بھی نہیں۔ مختصر سے جواب کے بعد عادل گاڑی سے باہر دیکھنے لگا اور اشارہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا اور دل ہی دل میں وہ یہ دعا بھی کر رہا تھا ( اللہ جی پلیز اب یہ کوئی بات نہ کرے میں اسکو دیکھتا نہ جانے کیا ہو رہا ہے آج پلیز بچا لیں نا،،،،، نور اس روکھے سے جواب کے بعد بھلا کب خاموش رہنے والی تھی۔ غصہ سے جل بھن کر رہ گئی اور بولی،،،، ہاں ہاں بہت سپر ہیومن ہو نا تم! جو دوستی نہیں کی کسی سے، قسم سے کر لیتے نا تو کریلے جیسے تو نہ ہوتے نا کم از کم۔۔۔۔ کیا کیا کیا کہا تم نے م ممم نیں اور کریلا؟ پھر سے کہنا ذرا ایک بر بس، وہ اپنی تمام تر کوشش کر کے غصہ چھپانے کی کی تگدو کر رہا تھا اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر چکا تھا ۔۔۔ ہاں تو وہ ہی تو ہو آنکھیں نچاتے ہوئے بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ بولی۔ اس سے پہلے کے نور کا یہ وار پورا ہوتا گاڑی کو جیسے کسی نے حوا کے دوش پہ سوار کر دیا تھا ایک زار دار جھٹکا اور نور کی چیخ،،،،،،،، عادل آہستی پلیز وہ جیسے رو دینےکو تھی۔۔۔۔ ہاں میں کرتا آہستہ میں تو کریلا ہوں نا؟ یہی کہ رہی تھی نا؟ اب بول بچووو، عادل بھی اپنی ضد کا پکا تھا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین رکھتا تھا۔۔۔۔۔وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا نور کی بےبسی پہ، وہیں ساتھ میں نور کی نمناک آنکھیں آج پھلی بار بے چین کر رہی تھی۔ ۔۔ عادل نے گھر قریب آتے ہی گاڑی کی رفتار کم کر دی تھی۔۔۔۔ عادل:چلو اب اتر بھی جاؤ گھر آگیا ہے۔عادل نے لاپروائی کے ساتھ کہا۔ نور: آپ جائیں میں آجاؤں گی تھوڑی دیر میں۔نور نے سر جھکا کر جواب دیا۔ مجھے گاڑی لاک بھی کرنی ہے کھلی تو نہیں چھوڑ سکتا اب، ویسے ہوا کیا ہے؟ ابھی تک تو ٹھیک تھی،عادل نے بےزاری سے سوال کیا۔ نور: آپکو کیا فرق پڑتا ہے،کوئی کیا ہے اور کیا نہیں،،،،نور آنکھوں میں آنسو لیے لبوں پہ پھیکی سیی مسکان لیے گاڑی سے اتری اس کی ٹانگوں میں شدید کپکپاہٹ ہو رہی تھی وہ اب تک نارمل نہیں ہو پائی تھی اس کو چکر آرہے تھے مگر وہ ہمت کر کے گھر ک اندر دیواروں کا سہارا لیے چلی گئی۔ عادل ڈرئیونگ سیٹ سے سر ٹکائے اوسکو دیکھتا رہا،وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی مدد کرنے کو باہر نہیں نکلا تھا، گاڑی سے سامان نکال کر پہلے بڑے ماموں کی طرف چھوڑنے کے بعد وہ اپنا سامان لیے گھر کی پچھلی طرف ماں کے پاس جا رہا تھا وہ بیچین ہو رہا تھا آنسو جو کسی بھی مرد کی کمزوری ہوتے ہیں وہ اپنا وار کر چکے تھے مگر ایسا پہلی بار ہو رہا تھا کہ عادل کو اپنے کیے پہ پشیمانی ہو رہی تھی ۔۔ عادل زیادہ دیر تک ندامت محسوس کرنے والو میں سے نہیں تھا اس کا ذہن چکی کے پاٹ تھا جو بس گھومتا ہی رہتا تھا۔ نور بیٹی باہر آجاو اور اپنی پھوپی زرینہ کی طرف جا کر کہ آو بیٹی کہ فاروقی صاحب کے بھائی کی ڈیتھ ہو گئی ہے وہاں چلنا ہے جلدی سے آجائیں۔ نور جو کل شام سے اپنے کمرے ہی میں بند تھی،رو رو کر آنکھیں لال بھبوکہ ہو چکی تھی۔ نور کی دل کی دھڑکنیں اب تک نارمل نہیں ہوئی تھیں وہ اب تک شام ہونے والے اس حادثے کو نہیں بھول پائی تھی۔ کوئی کیسے اتنا پتھردل ہو سکتا ہے،ضد میں وہ یہ تک بھول گیا تھا کہ اس کے ساتھ سفر کرنے والی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ امی کتنا تیل لگائیں گی سر میں میرے،امریکہ مجھ پہ حملہ کر دے گا اتنا تیل دیکھ کر۔ عادل بیٹا اگر تم خود سے خیال رکھو نا اپنا تو یہ سب کام مجھے نہ کرنے پڑیں۔ میں تو کہتی ہوں اپنے ماموں کے ساتھ ان کے کاروبار میں ہی شرکت کر لو کچھ سرمایہ تو سیونگ آکاونٹ میں رکھا ہی ہے نا اور کل کو پھر نور کو بھی تو تمھارے،،،،، اس سے قبل زرینہ بیگم کی بات مکمل ہوتی عادل نے بات کاٹ دی۔ امی بڑے ماموں کے ساتھ تو سوچیں بھی نہیں نا کہ میں کاروبار کروں گا وہ سیدھے منہ بات بھی کب کرتے ہیں آپکو تو چھوٹے ماموں کی اور نانو کی وجہ سے انہوں نے یہاں رہنے دیا تھا ورنہ ہم نہ جانے کہاں دھکے کھاتے رہتے،ویسے بھی امی مجھے سی ایس ایس میں ایک بار کوشش کرنے دیں اگر میں کامیاب نہ ہوا تو بڑے نہیں مگر چھوٹے ماموں کے ساتھ کاروبار کر لوں گا ، اور امی یہ نور والا قصہ تو رہنے ہی دو آپ ۔ نور کے ہاتھ کانپنے لگے روہانسی ہو کر بولی پھوپھی جان یہ امی نے بھجوایا ہے حلواہ اور کہ رہی ہیں کہ فاروقی صاحب کے بھائی کی ڈیتھ ہو گئی ہے آپ آجائیں تو چلتے ہیں۔ نور پھپو کے جواب سے بیشتر ہی وہاں سے چلی آئی اس کی آنکھیں برسات کی مانند برسنے لگی تھی وہ دیوار کا سہارا لے کر کھری ہو گئی اور خود کو سمبھالنے لگی۔ زرینہ: کیا ہو گیا میری بچی کو؟یہ کیا حالت کر رکھی ہے نہ مجھ سے ملنے آئی ہو اتنے دنوں سے۔ نور:پھپو بس ایسے ہی دل نہیں کرتا اب میں تو بس یوں ہی وہ سمسٹر ختم ہوا ہے جب سے کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا،(نور اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھنے لگی)۔ خدیجہ (نور کی ماں) پاس آکر بیٹھیں اور چاول صاف کرتے ہوئے بولیں، زرینہ عادل کب تک آئے گا واپس نور کے ابا تو ہاتھوں پہ سرسوں جمانے لگے ہیں وہ تو نور کی،،،،،،ایسےکیسے کر سکتے ہیں بھائی صاحب اماں یہ فیصلہ کر گئی تھی تو بھائی کیسے یہ سب،زرینہ بیگم کو تو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ نور: میں بابا کی مرضی کے خلاف نہیں جاؤں گی امی یہ بات یاد رکھیں آپ۔ عادل چار دن بعد جب واپس آیا تو گھر میں لگی لایٹنگ دیکھ کر حیران ہی رہ گیا۔ امی یہ کیا ہو رہا ہے کس کی شادی ہو رہی ہے؟ وہ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حیران رہ گیا،امی آپ رو کیوں رہی ہو؟ میں آگیا ہوں نا واپس آپ رو نہیں نا پلیز کیا ہوا ہے میں ابھی تو بس داخلہ اور اکیڈمی کے لیے گیا اور آپ کی یہ حالت ہے اگلے چھے ماہ کیسے رہیں گی؟ زرینہ: بیٹا مجھے تمھاری جدائی کیا دکھ دے گی جو دکھ ایک بار پھر سے میرے بھائی مجھے دے رہے ہیں،میرے بچے تم ہمیشہ سے مصیبتوں میں ہی رہے ہو میرا بچہ۔ فاروقی صاحب کے بھائی کے مرنے کے بعد ان کی بھابھی اپنے بیٹے کی جلد از جل شادی کر دینا چاہتی تھی،فاروقی صاحب کی بیٹی ارج جو ان کے بھتیجے علی سے منسوب تھی وہ گزشتہ برس ٹرین کے حادثے میں مر گئی تھی۔اس خاندان نے ایک ہی سال میں دو جنازے اٹھائے تھے وہ خوشیوں کو ترس رہے تھے ایسے میں فارقی صاحب کو اپنے دوست کی بیٹی سے اچھا دوسرا کوئی رشتہ نظر نہ آیا۔ نور کے والد خاور ملک اور اسد فاروقی کالج کے زمانے سے دوست تھے اور دونوں کا ایک دوسرے کے گھر میں بھی بہت آنا جانا تھا اس لیے یہ دونوں دوست اپنے آپ کو بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اور یہ چراغاں بھی گھر بھر میں نور اور علی کی منگنی کے سلسلے میں تھا۔ علی پاک آرمی میں بطور کپتان دو سالوں سے کام کر رہا تھا علی کی بہن جو فاروقی صاحب کی بہو تھی اور خاور ملک کی بہو کی دوست بھی اس کا اس ہونے والے رشتہ میں بے حد دخل تھا۔ زرینہ: عادل بیٹا ہاتھ منہ دھو لو پھر ماموںکی طرف بھی تو چلنا ہے نا مہمان آگئے ہوں گے اور ہم گھر کے فرد ہو کر دیر سے جائیں اچھا تو نہیں لگتا نا بیٹا، زرینہ بیگم اپنے چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائے ہوئے بیٹے سے نذریں چراتے ہوئے جلدی جلدی تیار ہو رہی تھی وہ جانتی تھیں اگر انکی آنکھواں میں عادل کو کوئی بھی آنسو نظر آگیا وہ یہ منگنی تو ایک طرف وہ خود نور سے آج ہی نکاح کر لے گا،وہ اب تک خاموش تھا تو صرف اپنی ماں کے لیے۔۔۔ عادل صوفہ پہ اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا، مجھے کس بات کی الجھن ہے میں کون سا نور کے پیار میں پاگل تھا میں تو آج تک اس کو دہتکارتا ہی رہا اور آج جب وہ کسی اور کی ہو رہی ہے تو مجھے کیں گھٹن ہو رہی ہے، اگر میں کرتا بھی ہوں پیار تو کوئئی بھی سکھ اوپر والے نے میری زندگی میں کیوں نہیں رکھا۔ پیدا ہوتے ہی میرے بابا کی موت اور اب میری سب سے عزیز نانوں اور دل میں کہیبں تھوڑی سی جگہ تھی تو وہ نور کے لیے مگر ایسی کچھ خاص بھی تو نہیں لیکن ہے تو،،،،،،اب عادل اپنی ماں کی خوشی کے لیے تیار ہو کر باہر آچکا تھا وہ کالے رنگ کے کرتہ پاجامہ میں کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں لگتا تھا وہ دیکھنے میں اپنے مرحوم والد چوہدری جہان کا عکس تھا ان کے جیسا قد کاٹھ اور چہرے پہ داڑھی کے ساتھ کالی گھنی مونچھیں جن کو وہ اکثر تاؤ دیے رکھتا تھا۔ منگنی کی تقریب میں عادل کے آتے ہی خاندان کے سبھی لوگوں کی نظریں عادل پر تھی،جیسے وہ لوگ کسی ہنگامے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔عادل اپنی اسی لاپرواہی کے ساتھ چلتا ہوا صوفہ پہ نور کے پہلو میں بیٹھے ہوئے علی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔عادل کا چہرہ تاثرات سے عاری تھا،جو کچھ بھی تھا وہ بس عادل کے دماغ میں تھا جس کو پڑھنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں تھا کم سے کم آج تک ایسا کوئی نہ ملا تھا جو عادل کے دماغ میں چلنے والی بات کو جان سکتا۔ عادل: مبارک ہو علی، گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر عادل نے مبارک دی اور نور کی جانب بڑھ گیا۔ نور چپ چاپ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو عادل کے مبارک دینے پہ جیسے چونک گئی تھی وہ اپنے خیالوں سے نکل آئی تھی اور عادل کے چہرے کو دیکھ کر جیسے نور کا دل بھر آیا تھا وہ دل کی بات کو نظروں سے پڑھ لیے جانے سے ڈرتی تھی،اس نے یک دم اپنا سر جھکا لیا اور فقت سر کو ہلانے میں مصلحت جانی، عادل اپنے ماموں اور ممانی کو مبارک دینے کے بعد واپس سے لان میں چلا آیا،عادل کا دماغ پرسکون تھا وہ جانتا تھا کہ ایسا ہی کرنا ہے ماموں نے لکیں اس بات کے پیچھے کون سی ایسی بات ہے جس کا علم عادل کو نہیں۔۔۔ تمام مہمانوں کت جانے کے بعد عادل اپنی امی کےکمرے میں داخل ہوا،،،امی سو رہی ہیں کیا؟ اور یہ کمرا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے۔ عادل نے کافی کے مگ میز پہ رکھے اور لائٹ آن کر دی، زرینہ بیگم عادل کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور آنسو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئیں،، بیٹا بس تمھارے بارے میں سوچ کر اداس ہو گئی تھی،بیٹا آج بھی جو کچھ ہوا ہتے یہ بھی تو،،،،ماں بس کریں چھوڑ دیں میں کون سا نور کے عشق میں گھل رہا تھا،لیکن ایک بات ہے امی۔ عادل نے کافی کا مگ ماں کے ہاتھوں میں دیا اور خود ماں کے پاؤں گود میں رکھ کر دبانے لگا، امی بڑے ماموں ہمیشہ سے ہی ایسے سخت مزاج کے ہیں، میں نے جب سے ہوژ سنبھالا ہے تب سے خاور ماموں کو ایسا ہی پایا جبکہ یاور ماموں تو اپنے بچوں اور ہمارےساتھ بھی بہت پیار سے پیش آتے ہیں،مگر خاور ماموں اس کے بلکل برعکس ہیں وہ ہم سے تو دور اپنے بچوں سے بھی ایسے پیش آتے ہیں جیسے اولاد ان کی نہیں مامی اپنے ساتھ میکے سے لائی ہوں۔۔۔ عادل کے آخری جملہ کو سن کر زرینہ بیگم کے لبوں پہ ایک بہت پھیکی سی مسکان آئی اور وہیں دم توڑ گئی ۔۔ عادل بیٹا تمھاری اس کیوں کے پیچھے بہت لمبی کہانی ہے،تھارے نانا اور دادا کی آپس میں بہت دوستی تھی جس کو انہوں نے رشتہ میں بدلنے کے لیے اپنے بچوں کی منگنیاں تہ کر دی،میری تمھارے بابا کے ساتھ اور خاور بھائی کی تمھاری پھوپی فلک کے ساتھ۔ یہ رشتہ تہ جب ہوا تب میں ابھی اسکول میں تھی اور خاور بھائی اس وقت پڑھائی ختم کر کے بزنس کا آغاز کرنے لگے تھے،تب اچانک ایک دن خبر ملی کے جہان کی بہن نے کسی سے شادی کر لی ہے اور تمھارے دادا نے ان کو گھر سے نکال دیا ہے،یہ خبر خاور بھائی کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی لے کر آئی۔ انہوں نے بابا پر زار دے کر میری اور جہان کی منگنی بھی ختم کروا دی،منگنی سے لے کر منگنی ختم ہونےکے دوران میں جہان اور میں ایک دوسرے کو دل دے چکے تھے ہم نے عہد کیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم شادی کریں گے تو آپس میں ورنہ جان دے دیں گے۔ عادل جو سب کچھ توجہ سے سن رہا تھا اور ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا،ماں کے رکنے سے عادل نے سوال کیا۔ امی تو آپ کی منگنی ختم کرنے سے ماموں کو کیا ملا؟ وہ ضد میں آکر یہ سب کر رہے تھے بیٹا کیوں کہ وہ جہان سےحسد کرتے تھے وہ دونوں ہم عمر تھے اور ہمیشہ سے ایک مقابلہ تھا جو چلا آرہا تھا وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے اور گئے بھی، مگر تمھارے یاور ماموں دونوں خاندانوں میں وہ واحد شخص تھے جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور تمھارے بابا کی ڈیتھ کے بعد واپس گھر لے آئے کیوں کہ تمھارے دادا نے بھی اپنے بیٹے کو معاف نہیں کیا تھا وہ شرمندہ تھے کہ میرا دوست کیا سوچے گا،مگر تب تک ابا میاں کا انتقال ہو چکا تھا تو تمھارے چھوٹے ماموں مجھے گھر لے آئے، خاور بھائی نہیں جانتے کہ ہم ان کی کمائی پہ نہیں بلکہ تمھارے بابا جو کچھ ہمارے نام کر گئے تھے یہ سب ہم وہ استعمال کر رہے ہیں۔۔۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے متعلق درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہوا تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ جمعرات کو جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سینیٹر کامران مرتضی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ قانون کے دائرے کے تحت کرنے اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بینچ نے عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو حکم دیا کہ وہ آدھے گھنٹے میں انتظامیہ سے پوچھ کر بتائیں کہ پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں کس مقام پر احتجاج کرے گی۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت میں پیش ہو کر بینچ کو بتایا کہ وزیرآباد میں فائرنگ کے واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا، اور انتظامیہ نے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے بینچ کو بتایا کہ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت سے متعلق کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں، وفاق نے 5 نومبر کو بھی صوبہ پنجاب کو آرٹیکل 149 کے تحت خط لکھا ہے۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیا نے ریمارکس دیے کہ ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں، ایسا حکم نہیں دینا نہیں چاہتے جو قبل از وقت ہو۔ بینچ نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کا موقف سننے کے بعد درخواست غیرمثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی۔ عدالت نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل کے موقف کے بعد سپریم کورٹ کے حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل کامران مرتضی نے بینچ کو بتایا کہ فواد چودھری کے مطابق جمعہ یا ہفتے کو لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا، اس سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں۔ لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی حیثیت میں عدالت سے رجوع کر رہے ہیں، اور بظاہر لگتا ہے کہ انتظامیہ صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کامران مرتضی سے سوال کیا کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بنچ میں زیر التوا ہے، کیا وہ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔ تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دود بھیجو ف 1: اس سے قبل کی آیتوں میں یہ بتایا تھا ۔ کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رتبہ اور مقام کس درجہ رفیع ہے ۔ اور کیونکر وہ اور اس کی ازواج مطہرات بدرجہ غایت احترام کی مستحق ہیں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ پیغمبر کا احترام صرف عالم ادنیٰ یا عالم تاسوت تک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ ملاء اعلیٰ تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وبرکات کا تحفہ بھیجتے ہیں ۔ اس لئے تم پر بھی واجب ہے کہ اس کا احترام کرو ۔ اور اس پر رحمت اور سلام بھیجو *۔ اس آیت میں لفظ صلوٰۃ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ صلوٰۃ کے معنے برکت کے ہیں یعنی خدا اپنی برکات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھیجتا ہے اور فرشتوں کے درود کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے رحمت اسلامی کی دعا کرتے ہیں ۔ اور مسلمانوں سے مطالبہ ہے ۔ کہ وہ بھی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجیں ۔ نیز لفظ صلوٰۃ کے معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں کوشاں ہے ۔ فرشتے بھی یہی چاہتے ہیں ۔ اور تمہارا فرض بھی یہی ہے کہ قول وعمل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ۔ بہترین اور زیادہ اجروثواب کا حامل وہ درود ہے ۔ جو ہم نمازوں میں پڑھتے ہیں *۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
پانچ برس کی جفا کش محنت ، اربوں روپے اخراجات ، عدلیہ ، میڈیا، مقننہ ، اور عسکریہ، ایک صفحہ پر ہونے کے بعد بھی نو دسمبر کا کراچی ایسا لگا جیسے کہ تھا ۔ یعنی جیسا بائیس اگست سے بھی پہلےتھا ، غضب ہو گیا یہاں تو سب کچھ ویسا ہی ہے ۔ ، بس اداروں کی انتھک محنت، اربوں روپے ، نیشنل ایکشن پلان اور ہر دلعزیز منصوبہ مائنس ون وغیرہ سب کے سب ‘تھے ” ہو گئے ۔ پتہ نہیں یہ “تھے ” والی بد دعا بھی کس فقیر نے دی تھی اب تک ہر بات ہی سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اگر آپ نے ہالی ووڈ کی مشہور فلم سیکوئل فلم “دی پرج” دیکھ رکھی ہے تویاد ہوگا کہ اس میں شہریوں کو صدر امریکہ کی جانب سے ایک دن کی کھلی چھوٹ دی جاتی تھی جس میں وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ یعنی اگر کسی کو جان سے مارنے کا دل چاہ رہا ہے تو اس کی بھی قانونی طور پر اجازت تھی۔ یہی صورتِ حال کراچی کی لگی۔ یومِ شہدا نو دسمبر کی فاتحہ خوانی پر اپنے پیاروں کے ایصالِ ثواب کے لئے مرد ، عورت بچے ، بزرگ سبھی بلا خوف نکل آئے، البتہ یہاں مارنے کا نہیں وہ مرنے کا خوف دل میں ضرور لئے ہوئے تھے۔ ان کی یہ خواہش ویسے پوری نہیں ہونے دی گئی، بڑی آئی سڑکوں پر احتجاج کرنے والی پُر امن، آئین کے دائرے میں رہ کر جدو جہد کرنے والی ڈرپوک کہیں کی پڑھی لکھی باشعور ٹیکس ادا کرنے والی عوام۔ یہ بے چارے سمجھ رہے تھے کہ مووی Purge چل رہی ہے اور وہ بھی باقی شہروں کی عوام کی طرح اپنی ہر آئینی اور مذہبی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔ انہیں پتہ نہیں کہ سوائے ان کے باقی ملک کے شہریوں کو یہ فوائد حاصل ہیں ان پر کسی شِق کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ متفقہ طور پر ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے مل کر نیکٹا کے تحت صرف ان کے لئے ہی طے کر دیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کوئی مذاق نہیں ہے۔ لیکن یہ کیا ؟ان لوگوں نے تو زمین پر جائے نماز بچھا کر وہیں قرانِ پاک کی تلاوت شروع کر دی، ایصال میں مصروف خواتین کو جب لاٹھیاں پڑِیں اور ڈنڈے کھانے کو ملے تو سب کچھ لپیٹ کر موٹر سائیکل پر شوہر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بچے گو د میں لئے گھر روا ہو گئیں۔ ہنگامہ آرائی پھر بھی نہ ہوئی۔ ایک پولیس افسر البتہ پیچھے پیچھے بہادری سے ڈنڈا لئے نستعلیق سی گالیاں “اِن لوگوں” کو دیتے سنائی دیے۔ لیکن مکتی باہنی یا پھر را کی ان ایجنٹ خواتین کو بھی جلدی تھی گھر جا کر سالن چولہے پر چڑ ہانا تھا اور پھر وہی معمولی کی زندگی۔ ہاں البتہ ایک دہشت گرد کی ویڈیو واٹس ایپ پر دیکھنے کو ملی ، جس کے ہاتھ زخمی تھے اور وہ رو رہا تھا، عمر یہی کوئی دس بارہ سال کی ہوگی ، اپنے لاپتہ ابا، ماموں اور بڑے بھائی کو تلاش کر رہا تھا کہ شاید وہ کہیں نظر آجائیں۔ اب تو لوگوں کو بھی عادت نہیں رہی نا اس طرح کے مناظر کی،ایک عرصہ سے میڈیا اور لوگوں نے ” دیکھو کراچی کیسا پُر امن ہو گیا ہے ” کا اتنا راگ الاپا ہے کہ یقین ہو چلا تھا کہ اب اس شہر میں وہ والے حالات پھر نہ ہوں گے۔ ہم تو کیا ، ‘ہم نہ ہوں ہمارے بعد بھی’۔اس لئے ایک لمحے کو تو ایسا لگا جیسے بہت سے را کے ایجنٹس شہر میں گھوم رہے ہیں اور کسی بھی لمحے شہر تاج محل ممبئی کی طرح ، اچانک مشین گنوں ، ڈائنامائٹ اور بم دھماکوں سے گونج اٹھے گا،۔ لیکن ان میں سے ایک بھی اجمل قصاب ، احسان اللہ احسان اور ملا عمر نہیں نکلا ۔ ہاں البتہ ایک دہشت گرد کی ویڈیو واٹس ایپ پر دیکھنے کو ملی ، جس کے ہاتھ زخمی تھے اور وہ رو رہا تھا، عمر یہی کوئی دس بارہ سال کی ہوگی ، اپنے لاپتہ ابا، ماموں اور بڑے بھائی کو تلاش کر رہا تھا کہ شاید وہ کہیں نظر آجائیں۔ ویسے اس بات پر مجھے پورا یقین ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ بہت برا بھلا کہنے والے ہیں ، لیکن جب اُسامہ بن لادن بھرے شہر میں ایک چھاونی میں یادِ الہی میں زندگی بِتا سکتا تھا تو یہ بھی ممکن سا ہی لگاکہ اتنے سارے را کے ایجنٹس عائشہ منزل ، عزیز آباد، نمائش، سخی حسن ، نیو کراچی،وغیرہ میں گُھس آئے ہیں ۔ ویسے بھی اس وقت ملک میں زیادہ ترشریف لوگ یا تو ایجنٹس ہیں یا لاپتہ ۔ باقی لوگ کیمپ لگا کر اپنا فارغ وقت وہاں گزارتے ہیں، بچیوں نے تو اسکول تک چھوڑ کر کیمپ میں ہی، پڑھائی جاری رکھی ہوئی ہے، اُدھرحکومتی وزرا لندن اور امریکہ کے دوروں میں کوئی انتہائی “اہم” معاملات طے کرنے میں مصرو ف ہیں۔ برطانیہ میں پروفیسروں کی قلت کے باعث آکسفورڈ نے کرائے کے عالم فاضل ہم سے اُدھار مانگ لئے ہیں۔ اللہ کرے کسی ملک میں وزیر خزانہ کی قلت ہو تو ہمارے پاس اس کے لئے بھی ایک بندہ نظر میں ہے کہیں گے تو پارسل کر دیا جائے گا۔ پوچھنا یہ تھا کہ ، بروغ گردن راوی، شہری سندھ کے کروڑوں عوام نے تو جولائی والے انتخابات میں خالد مقبول اور عامر کو اپنا متفقہ ہردلعزیز رہنما چن لیا تھا ، اوراِن بہادرآبادی رہنماوں کا راوی تو چین ہی چین لکھتا تھا ، تو یہ کون لوگ بچ گئے تھے اٹھائے جانے سے، وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں، شاید یہ چین نہیں تھا بلکہ کچھ لوگ تو یوں بھی کہتے ہیں کہ راوی چِین ہی چِین زیر لگا کے لکھتا ہے آجکل۔ ہر شے میڈاِن چائنا تو یہ رہنما بھی کچھ دن کے لئے چائنا سے اُدھار منگوائے گئے تھے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں اِن ایجنٹو ں کو دیکھ کر میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اِن لوگوں نے کسی بھی نتیجے کی پرواہ کئے بغیر، ہالی ووڈ کی فلم کے جیسے اس دن کو بھی بہادری سے منالیا۔ یا پھر ان کے میڈ اِن چائنا والوں کی معیاد ختم ہو چلی تھی، اور بالاخر اصلی پری کے دھاگے والے اشتہار کے مانند، میڈ اِن لنڈن والے اصلی پیر فقیرکے ُمریدانِ نے اپنارخ اُسی آستانے کی جانب رکھا ہوا ہے جو انہیں عزیز آباد کی طرح عزیز ہے۔ ریاست نےسبق سکھانے کے لئے ، خواتین ، بزرگوں ، اور لڑکوں کو گرفتار کیاہے جن کی رہائی جلد از جلد ہونی چاہیے کیونکہ عوام تو اپنا آئینی حق مانگنا بھول چکے ہیں، دنیا نہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِ س سے قبل کے معاملہ انسانی حقوق کے اداروں کی دہلیز تک پہنچے ان بے گناہ شہریوں کو فوری رہا کر دیا جائے گا۔ ہاں البتہ پکڑے گئے کچھ شرارتی لڑکے لاک اپ سے جب زندہ باہر آئیں گے انہیں ربڑ والی ہرے رنگ کی پانی کی بوتل میں گرم پانی کی سِکائی کی ضرورت جسم کے مختلف علاقوں میں محسوس ہو گی جو انہیں اگلے نو دسمبر تک یاد لائے گی کہ اپنے ہی بنائے گئے وطن کے جس شہر میں وہ رہتے ہیں اس شہر کے کچھ علاقوں میں بانیانِ پاکستان کی اولادوں کا ابھی بھی جانا شجرِ ممنوع جیسا ہے۔
listen shakir qureshi live interviewشاکر قریشی کا لائیو انٹرویو ادارہ آپ کی آواز پر لیا گیا سُننے کیلئے آپ فوٹو پر کلک کریں انہوں نے کیا کہا۔ 14/10/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in Aap ka Pakistan listen fasael rehman interview:کنزرویٹو پارٹی کے سٹی کونسلر فیصل رحمان نے ادارہ آپ کی آواز کو لائیو انٹرویو دیتے ہوئے کیا کہا ۔۔تصویر پر کلک کریں۔ 08/09/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in World News ڈنمارک آپکی آواز برطانیہ۔۔۔ہیومن رائٹس موومنٹ انٹرنیشنل برطانیہ کے صدرانا بشارت علی خاں نے کہا ہے کہ برماحکومت کی بربریت بے نقاب ہوگئی ، مقتدرقوتوں کوبرما کے بیگناہ مسلمانوں کیخلاف بدترین ظلم روکنا ہوگا۔مختلف مہذب ملکوں کی طرف سے برما حکومت کی مذمت کافی نہیں، اس دہشت گردریاست کی شدیدمرمت کرناہوگی۔کوئی انسان اس قدر درندگی کے ساتھ دوسرے انسان کی زندگی نہیں چھین سکتا ،برماکے حکمران شیطان ہیںاورکوئی شیطان قابل رحم نہیں ہوسکتا۔اگراقوام متحدہ مجرمانہ طورپرخاموش ہے تواوآئی سی نے بھی برمامسلمانوں کے زخم پر مرہم لگانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔امن اورانسانیت کی بقاءکیلئے برماحکومت کیخلاف جنگ کا نقارہ بجاناہوگا۔یذیر اورفرعون موت کی آغوش میں چلے گئے مگران کی باقیات انسانیت کوملیامیٹ کرنے کے درپے ہیں۔کیا برما کے حکمران اقوام متحدہ کوجوابدہ نہیں،اقوام متحدہ مسلمانوں کے انفرادی واجتماعی حقوق کی حفاظت کیوں نہیں کرتا ۔ 08/09/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in Aap ka Pakistan ڈنمارک۔۔سٹیٹ منسٹر مسلم لیگ ن چوہدری جعفر اقبال نے ادارہ آپکی آواز کو خصوصی طور پر لائیو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کیا کہا تصویر پر کلک کریں اور مکمل انٹرویو سُنیں۔ 10/08/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in Aap ka Pakistan مسلم لیگ ن یوتھ ونگ ایڈوائزری کونسل کے چیئرمین چوہدری شمروزالہی گھمن جو کہ میاں نواز شریف کے جیالے ہیں،انہوں نے ادارہ آپکی آواز کو خصوصی لائیو انٹرویو میں کیا کہا ، تصویر پر کلک کریں۔ 05/08/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in World News اوسلوآپکی آواز(عقیل قادر) اس سال پاکستان کو معرض وجود میں آئے ستر سال ہو جائیں گے۔ اس موقع پر سفارتخانہ پاکستان کی جانب سے ”ہم سب کا پاکستان” کے عنوان سے مختلف پاکستانی تنظیمات کے ساتھ مل کر آزادی میلے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔جس میں پاکستان کی ثقافت کو متعارف کیا جائے گا۔میلے میں کبڈی، نیزہ بازی اور کرکٹ کے مقابلے ہوں گے اور اسکے علاوہ مختلف کھانوں اور کپڑوں کے سٹالز لگائے جائیں گے۔ پاک ناروے فورم نے پاکستانی سفیر رفعت مسعو د کی طرف سے یوم پاکستان کے موقع پر تمام تنظیمات کے ساتھ مل کرپہلی بارایسا پروگرام منعقد کرنے کو سراہا ہے۔پاک ناروے فورم کے صدر چوہدری اسماعیل سرور نے کہا ہے پاک ناروے فورم کا یہ مشن ہے کہ پاکستان کی ترقی اور یکجہتی کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لائی جائیں اور پاکستان کے کلچر کو فروغ کو دینے کے لیے ایسے پروگرامز کو سپورٹ کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے وہ سفارتخانہ پاکستان کے پروگرام کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ آزادی میلہ ایک فیملی پروگرام ہے جس میں انہوں نے تمام پاکستانیوں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ 01/08/2017 · by Raja Ghafoor Afzal · in Aap ka Pakistan آپکی آواز ڈنمارک ۔ حکومت اور اورسیز کے درمیان پُل کا کردار ادا کروں گا،او پی ایف کو فعال بناﺅں گا۔ ڈنمارک کے پاکستانیوں کو جلد دوہری شہریت ملے گی ،میں اپنی پوری کوشش کرﺅں گا، یہ بات چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے ادارہ آپکی آواز کو لائیو انٹرویو کے دوران گئی۔ ملک صاحب کا پورا انٹرویو سُننے کیلئے فوٹو پر کلک کریں
حضرت امام سجاد علیہ السلام مورخہ 5 شعبان المعظم سن 38 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ گرامی جناب شہربانو شاہ ایران کی بیٹی تھیں۔امام سجاد علیہ السلام جب نماز میں کھڑے ہوتے تھے آپ کا پورا بدن لرزنے لگتا تھا اور چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا امام سجاد علیہ السلام کی یوں تو بہت سی خصوصیات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے لیکن آپ کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے ہمیشہ اپنے عمل سے دین اسلام کی تبلیغ کا فریضۃ سرانجام دیا اور آپ عفو الہی کے مظہر اتم و اکمل تھے آپ نے سادگی میں زندگی بسر کی اگرچہ حکومت بنی امیہ نے اہل بیت(ع) کی شأن منزلت کو گھٹانے کے لئے اور لوگوں کے دلوں کو آپ سے موڑنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا لیکن آپ کا عمل اتنا قوی تھا کہ بنی امیہ کی پوری حکومت اور اس کے نمک خواروں کے لاکھ پیروپگنڈوں کے باوجود بھی وہ حضرت کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے محو کرنے ناکام رہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ ہمیشہ ضرورتمندوں کی ضرورت اور محتاجوں کی مدد فرماتے تھے چنانچہ آپ رات کے سناٹے میں اپنے دوش مبارک پر کچھ کھانے اور ضرورت کا سامان لیکر ضرورتمندوں تک پہونچایا کرتے تھے اور مدینہ کے محتاج و تنگدست ہمیشہ رات ڈھلتے ہی آپ کا انتظار کیا کرتے تھے۔(1) امام سجاد علیہ السلام کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ غلاموں کو خریدتے اور انہیں تعلیم دین دیتے اور پھر آزاد کردیتے تھے چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں 1000 غلام خرید کر آزاد کئے۔(2)اور آپ نے کسی بھی غلام کو ایک برس سے زیادہ اپنے پاس نہیں رکھا۔(3) امام سجاد(ع) ان تمام غلاموں کو دین اسلام کے احکام سکھاتے اور انہیں اسلامی اخلاق و آداب سے آراستہ کرتے تھے اور جب وہ اہل بیت عصمت و طہارت(ع) کی تعلیمات سے آشنا ہوجاتے تو انہیں آزاد کردیتے تھے ۔اور یہ غلام بھی آزادی پانے کے بعد اپنا رابطہ امام سجاد(ع) سے قطع نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے محسن کی یاد میں رہتے تھے اور یہ تعلقات اور روابط بہت سے دیگر لوگوں کو امام کے دامن عافیت و امن میں کھینچ کر لانے کا سبب بنتا تھا اور اس طرح معارف الہی اور تعلیمات محمد و آل محمد(ص) کا سلسلہ قائم و دائم رہتا تھا۔ جب امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔ امام علی ابن الحسين عليہ السلام جو سجاد ، زين العابدين ، اور سيد الساجدين ، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔ 11 محرم کو عمر ابن سعد ملعون نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنا دیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔ عمر سعد نے کوفہ کی طرف حرکت کا حکم دیا۔ عرب اور کوفے کے قبیلوں کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور خداوند کی لعنت حاصل کرنے کے لیے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کر کے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لیے تیار ہوئے اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بے چادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔ حضرت علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب (ع) ولید ابن عبد الملک کی بادشاہی کے زمانے میں شہید ہوئے۔ چنانچہ عمر ابن عبد العزیز بادشاہ بنا تو کہا: ولید ایک جابر و ظالم شخص تھا جس نے خدا کی زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا تھا۔ اس شخص کے دور میں پیروان آل محمد (ص)، خاندان رسالت اور بالخصوص امام سجاد (ع) کے ساتھ مروانیوں اور امویوں کا رویہ بہت ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔ گو کہ مدینہ کا والی ہشام ابن اسماعیل مروان کے زمانے سے مدینہ منورہ پر مسلط تھا لیکن ولید کے دور میں اس کا رویہ بہت ظالمانہ تھا اور اس نے امام سجاد (ع) کے ساتھ شدت آمیز برتاؤ روا رکھا۔ اس نے اہل مدینہ پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ولید ابن عبد الملک نے اس کو منصب سے ہٹا دیا اور اپنے باپ مروان کے گھر کے دروازے کے ساتھ رکھا تا کہ لوگ اس سے اپنا بدلہ لے سکیں۔ یہ شخص خود کہا کرتا تھا کہ امام سجاد (ع) سے خوفزدہ ہے اور اس کو ڈر تھا کہ امام سجاد (ع) اس کی شکایت کریں گے، امام سجاد (ع) اپنے اصحاب کے ہمراہ مروان کے گھر کے سامنے سے گزرے جہاں ہشام ابن اسماعیل کی شکایتیں ہو رہی تھیں لیکن امام اور آپ کے ساتھیوں نے ایک گرے ہوئے منکوب شخص کی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی : بلکہ روایت میں ہے کہ امام سجاد (ع) نے معزول مروانی گورنر کو اس کے تمام مظالم اور جرائم بھلا کر پیغام بھیجا کہ اگر تم تنگدست ہو تو ہم تمہاری مدد کے لیے تیار ہیں۔ مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ امام سجاد (ع) ولید ابن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ آپ کو ولید کے بھائی ہشام ابن عبد الملک نے مسموم کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ ہشام ہی امام کا قاتل کیوں نہ ہو، وہ یہ کام ولید کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ولید ابن عبد الملک ابن مروان ابن العاص رو سیاہ ہی امام سجاد (ع) کا قاتل ہے۔
Nov 1, 2022 attorney, automobile, beauty tips, breaking news, business, computer, conference call, cosmetics, credit, cricket, daily jang, degree, donate, drama, electricity, entertainment, fashion, flights, foods, foreign exchange, gas, geo drama, geo entertainment, health, hosting, insurance, jang news, jang newspaper, latest news, lawyer, loans, Long March, mobile, mortgage, Nasir Hussain Shah, pakistan news, Pharmaceuticals, Pti Long March, smartphone, software, sports, tablet, technology, today’s news, trading, urdu news, urdu newspaper, video, world وزیرِ بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ—فائل فوٹو وزیرِ بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ لانگ نہیں الون مارچ ہے۔ ناصر شاہ نے سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب ادارے نیوٹرل ہو رہے ہیں تو یہ چاہتے ہیں کہ ادارے نیوٹرل نہ ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اداروں اور ملک کو بدنام کرتے ہیں، ڈکٹیٹرز کی اولاد اور مشرف کی ٹیم ان کے ساتھ ہے، اسی لیے مارشل لاء کا خواب دیکھتے ہیں۔ سندھ کے وزیرِ بلدیات نے کہا کہ یہ حصولِ اقتدار کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں، عمران خان کا ٹھکانہ اڈیالہ جیل یا پاگل خانہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے پیر پگارا سے پرانے مراسم ہیں، پیر پگارا ایک اہم شخصیت ہیں، ان سے ملنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ وزیرِ بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں صحافی خاتون کے حادثے والے واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔
عبدالحق بونیری کی خطاطی نہ صرف بین الاقوامی مقابلوں میں پیش ہوتی ہے بلکہ شارجہ کے سلطان شیخ کو بھی ان کی خطاطی پسند آئی اور ان کے دیوان کی زینت بنی۔ عبدالستار بدھ 25 اگست 2021 7:15 عبدالحق بونیری کی خطاطی سلطان شیخ کو بھی ان کی خطاطی پسند آئی (انڈپینڈنٹ اردو) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے بس ڈرائیوڑ عبدالحق بونیری متحدہ عرب امارات کے شارجہ کلچرل سینٹر میں مشہور خطاط کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ عبدالحق بونیری کی خطاطی نہ صرف بین الاقوامی مقابلوں میں پیش ہوتی ہے بلکہ شارجہ کے سلطان شیخ کو بھی ان کی خطاطی پسند آئی اور ان کے دیوان کی زینت بنی۔ عبدالحق بونیری شارجہ کلچرل سینٹر میں بس ڈرائیورکے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور آج کل اپنی چھٹی کے دن گزارنے اپنے آبائی گاؤں بھائی کلے بونیر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 1998میں پاکستان سے دبئی گئے تھے اور وہاں پر مزدوری کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنی ٹیکسی خریدی لیکن قانون میں تبدیلی سے ٹیکسی کا روزگار بھی خراب ہوگیا اور کام کی تلاش میں تھے کہ 2006میں محکمہ ثقافت شارجہ میں بس ڈرائیور کی نوکری مل گئی۔ یہاں مخلتف ممالک کے طالب علم خطاطی کے رموز سیکھ رہے تھے جنہیں دیکھ کر عبدالحق بونیری کو بھی یہ کام بہت پسند آیا۔ وہ بتاتے ہیں: ’اس دوران کیلیگرافی سینٹر کے استاد محترم الفاروق الخداد کی مجھ پر نظر پڑی اور کہا کہ آپ طالب علموں کے آنے تک موجود ہوتے ہیں تو اس دوران آپ آیا کریں تاکہ میں آپ کو خطاطی سکھاؤں تو مجھے بھی شوق پیدا ہوا۔‘ ’تقریباً ایک سال بعد ہم نے ایک مقامی مقابلے میں حصہ لیا اور شارجہ کے کراؤن پرنس آئے اور انہوں نے حوصلہ آفزائی کی، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ سات سال بعد میں اس قابل ہوا کہ شارجہ انٹرنیشنل کیلیگرافی ایگزیبیشن، جس میں دنیا بھر کے خطاط، آرٹسٹ اور پینٹرز وغیرہ حصہ لیتے ہیں، اس کے لیے میرا کام پسند کیا گیا اور جیوری میں پاس ہوگیا۔‘ انہوں نے مزید بتایا: ’جب ایگزیبیشن کا دن تھا تو محترم شیخ سلطان محمد بن القاسمی تشریف لائے تو سب آرٹسٹ اپنے اپنے کام کے ساتھ کھڑے تھے، میں بھی اپنے کام کے ساتھ کھڑا تھا۔ شیخ کو ہمارے مدیر نے کہا کہ محترم شیخ یہ ہمارے مرکز کے بس ڈرائیور ہیں اور انہوں نے محنت کرکے یہ کام کیا ہے تو محترم شیخ سلطان نے میری بہت ہی حوصلہ افزائی کی اور اپنے پیچھے لوگوں کو بلایا کہ آؤ دیکھو ایک بس ڈرائیورنے ایسا کام کیا ہے اور خطاط کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ’انہوں نے مجھے شاباش دی۔ شیخ سلطان ایگزیبیشن میں پسند آنے والی لوح خرید لیتے تھے تو میرا کام بھی پسند کیا گیا اور شیخ نے دو ہزار پانچ سو امریکی ڈالر پر وہ خریدا۔‘ کیا اس کے علاوہ شاہی خاندان کے لئے کوئی کام کیا ہے؟ خطاط عبدالحق بونیری نے کہا کہ اگر کوئی کام آتا ہے تو وہ بخوشی کرتے ہیں۔ مثلاً ایک بار محترم شیخ سلطان کی کتاب کی لانچنگ کے دن ان کے خصوصی مہمان آئے تھے توشیخ کی طرف سے مہمانوں کو ایک ایک کتاب تحفے میں دینی تھی تو اس کے پہلے صفحے پر مجھ سے لکھوایا گیا۔ ’میں نے محنت کی، اس کا ثمرمجھے مل گیا ہے، میں ڈرائیور اور خطاط بن گیا ہوں، عربی میں ایک محاورہ ہے کہ ہر محنت کرنے والے کو صلہ ملتا ہے۔‘ وپ بتاتے ہیں کہ وہ ہاتھ سے بنے کاغذ پر جرمنی کی سیاہی سے لکھائی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہینڈ میڈ پیپر میں کوئی کیمیکل نہیں ہوتا، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی ایک سے دو صدی نہیں بلکہ تین صدیوں تک ہوتی ہے۔ ’ہر خطاط کو کم سے کم تین گھنٹے پریکٹس کرنا پڑتا ہے۔ جب گاؤں چھٹی پر آتا ہوں تو میں پریکٹس ہی کرتا ہوں اور بچوں کو پتہ ہے کہ ابا جی کو خط معلوم ہے تو ادھر اُدھر سے نام لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خط میں ہمارے لیے پرندے بناؤ، بس ان کے ساتھ مشغول رہتا ہوں۔‘ کیا پاکستان میں کسی نمائش میں اپنے فن پارے شامل کیے؟ انہوں نے کہا: ’2017 میں الحمرا لاہورمیں ایک بین الاقوامی ایگزیبیشن میں حصہ لیا تھا اور میرا کام لگا تھا ۔‘ اس کے علاوہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں بھی ایک نمائش میں حصہ لیا اور لوگوں نے ان کا کام بہت پسند کیا تو توصیفی سرٹیفیکیٹ بھی ملا، جب کہ اسلام آباد میں پی این سی اے میں ایک بین الاقوامی نمائش تھی جس میں ان کے کام کی نمائش ہوئی۔ عبدالحق کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی حکومت اس فن کو سکولوں میں رائج کرے، یہ ہماری اسلامی ثقافت کا حصہ ہے اسے آگے لانا چاہیے۔
پاکستان سپر لیگ سیزن فائیو میں شرکت کے لیے غیر ملکی کھلاڑی پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے ہیں جب کہ کچھ غیر ملکی کھلاڑیوں نے ٹوئٹر پر جلد آمد کی نوید بھی سنا دی ہے۔ پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی گزشتہ رات پاکستان پہنچ گئے تھے۔ وہ پی ایس ایل کے گزشتہ چاروں ایڈیشنز کا حصہ رہے ہیں۔ پشاور زلمی 2017 میں پی ایس ایل جیت کر ٹرافی بھی اپنے نام کر چکی ہے۔ پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی نے ڈیرن سیمی کی پاکستان آمد کا خیر مقدم کیا ہے۔ ڈیرن سیمی نے اس بار گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے اردو میں ٹوئٹ کیا ہے۔ مشینی اردو ترجمے کے سبب یہ پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ پشاور زلمی کے ہی ایک اور کھلاڑی ٹام بینٹن نے جاوید آفریدی کے نام ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ڈیرن سیمی کے بعد وہ بھی جلد کراچی پہنچنے والے ہیں۔ ٹام بینٹن کا تعلق انگلینڈ سے ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے شین واٹسن نے بھی اپنے پیغام میں پاکستان آنے کی نوید سنائی ہے۔ وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اپنے ویڈیو پیغام میں شین واٹسن نے پاکستان آنے پر خوشی کے اظہار کے ساتھ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو سپورٹ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ لیام ڈاؤسن نے بھی جلد پاکستان آمد کا اعلان کرتے ہوئے اردو زبان میں ٹوئٹ کیا ہے اور خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیام بھی پشاور کی جانب سے پی ایس ایل سیزن فور میں کھیل چکے ہیں۔ اپنے پیغام میں انہوں نے پشاور میں پاکستانی کھانوں چپلی کباب اور دم پخت کا بھی ذکر کیا ہے۔ پی ایس ایل کھیلنے والے دیگر غیر ملکی کھلاڑیوں میں کرس گیل، اے بی ڈی ویلیئرز، کمار سنگا کارا، کیون پیٹرسن، آندرے رسل، برینڈن میکولم، شکیب الحسن، سنیل نارائن، کارلوس بریتھ ویٹ، مارلن سیمویلز، ایون مورگن، ڈیون براوو اور تمیم اقبال وغیرہ شامل ہیں۔
صورت:اپنے گجرات دورے کے موقع پر پیر کے روز وزیراعظم نریندر مودی نے چارسال کی بچی سے ملنے کے لئے قافلہ روک کر اپنا سکیورٹی پروٹوکال توڑا۔ کرن اسپتال سے سرکٹ ہاوز جانے والے راستے کے دونوں جانب وزیراعظم کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ہزاروں لوگ کھڑے ہوئے تھے جبکہ نیسی گونڈالیہ نامی یہ لڑکی وزیراعظم کی کار کی طرف بڑھتی ہے۔ جب یہ معصوم لڑکی وزیراعظم کی کار کی طرف بڑھتی ہے تو ایس پی جی کمانڈوز اس روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر سب لوگ اس وقت حیرت زدہ ہوگئے جب مودی نے باضابطہ اپنے قافلے کو روک اور کمانڈوز سے اس بچی کو ملاقات کے لئے آنے کی اجازت دینے کو کہا۔ مودی نے اس بچی سے کچھ بات کی جس کے بعد اسے اس کے والد کے پاس واپس بھیج دیاگیا۔سارے معاملے کیمرے میں قید اور کچھ ہی لمحوں میں سوشیل میڈیا پر وائیر ل ہوگیا۔نینسی ہیرا کاٹنے والے ورکر پرکاش گونڈالیا کی بیٹی ہے جو واڈوڈ را کے رہنے والے ہیں۔ Categories Top Stories, ہندوستان Tags Break, Convey, Gurjrath, Narendar Modi, Prime minister, Protocol, Security, Stopped, Tour
ایک دن شرما کر جےشری نے مجھے بتا دیا اور تب مجھے ہوش آیا کہ انجانےمیں ہی میں کہاں الجھتا چلا جا رہا ہوں! اپنے عہد پر قائم شانتارام نے اسے جواب دیا، "لیکن میں شادی شدہ ہوں، بال بچوں والا ہوں۔ اور دوسری شادی میں کبھی نہیں کروں گا!” "کوئی بات نہیں، میں بنا بیاہ کیے ہی آپ کے ساتھ رہ لوں گی!” میں حیران ہو گیا۔ اسے سمجھانے کے لیے بولا، "بات سنو۔ میں کوئی بھی بات چوری چھپے نہیں کرتا۔ جو بھی کرنا ہو کھلم کھلا کرتا ہوں!” اس پر جوش سے اس نے کہا، "تب تو اور بھی اچھا۔ ہم دونوں کھلم کھلا ساتھ رہیں گے۔” میں کشمکش میں پڑا۔ کیا جواب دوں، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس لیے کہہ دیا، "تم چلی جاؤ بھلا یہاں سے!” وہ اٹھی، کچھ روٹھ کر ہی ٹھٹھکی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ رات کو بستر پر لیٹا تو دوپہر کا وہ سین پھر یاد آ گیا۔ باتوں کا منظر ہی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگا: ‘پڑوسی’ اور ‘شیجاری’ بمبئی میں ریلیز کر میرے پُونا لوٹ آتے ہی جےشری مجھ سے ملنے کمپنی آئی تھی اور اس نے مجھے دلی مبارکباد دی تھی۔ اس دن چونکہ مجھے خاص کام وام نہیں تھا، میں اس کے ساتھ کافی دیر تک باتیں کرتا رہا تھا۔ اس کے ساتھ باتیں کرنے سے میری ساری تھکان دور ہو گئی تھی۔ دھیرے دھیرے ہماری میل ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ کبھی کبھی شام کو کمپنی سے میں اس کے گھر جانے لگا، اگرچہ میں لُک چھپ کر نہیں جاتا تھا۔ میری سفید سٹوڈی بیکر کار اس کے گھر کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ اس طرح میرا جےشری کے گھر جانا کمپنی میں کافی چرچا کا موضوع بن گیا۔ ایک بار تو داملے جی، فتے لال جی بھی اس راستے کی سیر کر آئے تاکہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ واقعی میری گاڑی اس کے گھر کے سامنے کھڑی ہے۔ جےشری کی صحبت میں میری شامیں اچھی طرح کٹنے لگیں۔ باتیں کرنے کے لیے نئے نئے موضوعات آرام سے ہی سوجھنے لگے۔ اپنی موٹی موٹی کجراری آنکھوں اور ابھری ہوئی جوانی سے وہ مجھے موہنے کی پوری کوشش کرنے لگی۔ جےشری کی آواز بہت ہی مدھر اور ادا من بھاون تھی۔ گائیکی بہت ہی میٹھی تھی۔ یہ باتیں میرے تھکے من کو رِجھانے لگیں۔ ‘سواڈمیین گیتین، یوتیناں چ لیلیا۔ یسیہ نہ مودتے چتم س وے مکتوتھوا پش۔۔۔’] اگر کوئی شخص شعر و ادب، سنگیت اور جوان عورت کی اداؤں سے خوش نہیں ہوتا تو وہ مکتی پا چکا ہے یا جانور ہے۔[ پتنی، بال بچے، گھر گرہستی کے ہوتے ہوے بھی میں بھلا آزاد کیسے؟ اور جانور؟ وہ تو میں کبھی تھا ہی نہیں۔ میرا من جےشری کی جوانی کے کارن خوش ہونے لگا۔ لیکن اس کی سزا؟ آج تک تو میں ایسے موہ سے بچتا رہا ہوں۔ اسی لیے میرے رابطے میں آئے لوگ مجھے دیوتا آدمی سمجھتے رہے ہیں۔ اپنی اس مورتی کو مجھے قائم رکھنا ہے۔ مورتی قائم کرنا ہے؟ کیا جیون بھر؟ تب تو کیا یہ خود کو دھوکہ دینا نہیں ہے؟ تمھارا من جےشری کی صحبت میں رم جاتا ہے۔ اس کی تمھیں کشش ہے، ایک طرح کا لگاؤ ہو گیا ہے۔ — تو اب اس کا کیا حل ہے؟ —نہیں، یہ ناممکن ہے! آج تک ایسے سبھی منظروں سے میں بےداغ، بےلاگ نکل آیا ہوں۔ اس بار بھی ویسا ہی نکل جاؤں گا، مجھے پورا یقین ہے! —پورا یقین؟ جس سمے آدمی ‘یقین ہے’ کے پہلے ‘پورا’ لفظ زور دے کر استعمال کرتا ہے، تب یقین جانیے اس کا یقین کچھ ڈگمگا گیا ہوتا ہے۔ نہیں!— میں جےشری کو بُھلا دینے والا ہوں اور اس کی پہلی علامت کے طور پر اب گہری نیند سونے والا ہوں۔ میں نے کروٹ بدلی۔ پاس ہی میں وِمل شانت نیند میں کھوئی تھی، میرے من میں اٹھے طوفان سے بےخبر۔ میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ وہ نیند میں ہی بڑبڑائی، "اجی، یہ کیا نا وقت ہی؟” میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سویرے سویرے میری آنکھ لگی۔ اس کے بعد میں گہری نیند سو گیا۔ دوسرے دن جےشری میرے آفس میں آئی۔ میں نے اسے کچھ رکھائی سے ڈانٹ کر کہا، "سنو جےشری، میرے بلائے بِنا تم میرے کمرے میں مت آیا کرو۔” ‘ٹھیک ہے، نہیں آؤں گی! لیکن دوپہر میں تو آپ مجھے بُلوا لیں گے نا؟” ٹھٹھولی بھری مسکان بکھیر کر اس نے پوچھا۔ میں نے اس پر ایک ٹک نظر گڑائی۔ وہ چلی گئی۔ ‘شیجاری’ اور ‘پڑوسی’ بھارت بھر میں ریلیز ہو گئیں اور دونوں فلموں نے ‘پربھات’ کے حسن میں چار چاند لگا دیے، اس میں کوئی شک نہیں! لیکن دس بارہ ہفتے بعد تماشائیوں کی بھیڑ دھیرے دھیرے کم ہونے لگی۔ اصل میں یہ میرے لیے غیرمتوقع نہیں تھا۔ اس فلم میں وِلن ٹھیکیدار کا کردار برٹش راج کے نمائندے کے روپ میں فلمایا کیا گیا تھا اس لیے سنسر کی قینچی کے ڈر کے کارن اسے حقیقی کرنا ممکن نہ ہو پایا تھا۔ اس کے علاوہ ان دنوں ہندو مسلمانوں میں اتنا زیادہ تناؤ تھا کہ میں ان دونوں سماجوں کا اصل دکھاتا تو کیا ہندو، کیا مسلمان، دونوں مجھ پر چیل سے جھپٹ پڑتے۔ کرداروں کے فلماتے سمے اس الجھن سے نپٹنے کی جھنجھٹ کا دھیان زیادہ رکھنا ضروری تھا۔ اسی لیے ان شخصی خاکوں میں جیون کی حقیقت کا درشن کرانے والا انتہائی ڈرامہ نہیں آ پایا تھا۔ جیوبا پاٹل کا شخصی خاکہ دیکھ کر کچھ ہندو تو آگ بگولا ہو گئے تھے۔ ممبئی کی ایک ہندو دھرم عقیدے کے کچھ افراد نے تو ایک اعلان بھی جاری کیا تھا کہ ‘ہر سچا ہندو بھائی بند اس فلم کا بائیکاٹ کر کرے۔’ اس طرح کی دوستانہ، غیردوستانہ تنقید کے کارن ‘شیجاری’ اور ‘پڑوسی’ نے سارے دیسں بہت ہی کھلبلی مچا دی۔ لیکن آدرشوں پر مبنی فلم کو معاشی یا کاروباری نظر سے ہمیشہ کم ہی کامیابی ملتی تھی۔ اس کارن میرے ساتھی ایسی فلموں کے حق میں زیادہ جوش نہیں دکھاتے تھے۔ وہ آپس میں بیٹھ کر اس پر کافی ہنسی مذاق کیا کرتے کہ: "اجی چھوڑیے ان آدرشی اور وقار دلانے والی فلموں کی بات! ان سے تو ہماری ‘تکارام’، ‘گوپال کرشن’، ‘گیانیشور’ نے ہی زیادہ آمدنی دی ہے۔” اس سوچ کی حمایت کرنے والے داملے جی، فتے لال جی کے گروپ میں راجہ نےنے، کیشوراؤ بھولے وغیرہ لوگ بھی شامل ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کا یہ ہنسی مذاق، میرے کسی کام سے اچانک جا پہنچتے ہی یکایک بند ہو جاتا۔ ایسا اکثر ہونے لگا۔ ‘پربھات’ اب فلم میکنگ کی جگہ نہ رہ کر جگت بازی کا اکھاڑا بن گیا۔ من کو لگاتار یہی وچار پریشان کرنے لگا کہ کیسے اس آلودہ ماحول کو ٹھیک کیا جائے؟ میں خود تو ہمیشہ کام میں مصروف رہتا تھا۔ سوچا کہ ان لوگوں کو بھی اسی طرح کسی نہ کسی کام میں جٹائے رکھا جائے، تو شاید ماحول آہستہ آہستہ اپنے آپ صاف ہو جائے گا۔ حال ہی میں سُکھٹنکر نامی ایک لیکھک نے ایک اچھی پرجوش کہانی لا کر دی تھی۔ کہانی پیشوا دور کے جج ‘رام شاستری’ کے جیون پرمبنی تھی۔ اس کے ہر سین کے بارے میں سُکھٹنکر جی کے ساتھ میں نے چرچا کی اور ان کی کہانی پر آخری نظر ڈالنے لگا۔ فتے لال جی کے ساتھ بیٹھ کر سیٹس اور پوشاکوں وغیرہ کے ideas انھیں دیے۔ اس کے مطابق وہ سکیچز بنا کر بڑھئی کو دینے لگے اور رنگ ساز ڈیپارٹمنٹ میں بھی سین کھڑے ہونے لگے۔ پیشواکالین (پیشوا زمانے کی) پوشاکیں بھی بننے لگیں۔ ایک دن اچانک ‘گیانیشور’ اور ‘تکارام’ فلم کے سکرین پلے لیکھک شِورام واشیکر مجھے کمپنی میں مل گئے۔ میں نے سہجتا سے پوچھا، "کہیے واشیکر، پُونا کب آئے آپ؟” "ہو گئے ہوں گے دس ایک دن، داملےجی نے بلوایا تھا ‘سنت سکھو’ پر سکرین پلے لکھنے کے لیے۔” "ارے! اور مجھے اس کی کوئی جانکاری تک نہیں!” اس پر واشیکر جی بولے، "دیکھیے، میں نے داملے ماما سے اس بارے میں کہا بھی تھا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ اس بار کہانی کے انتخاب سے لے کر بالکل آخر تک ہم کو ہی فلم بنانا ہے۔ شانتارام بابو کو اس معاملے میں تھوڑی بھی زحمت نہیں دینی ہے۔‘‘ داملے کی بات کا ارادہ میری سمجھ میں برابر آ گیا۔ داملے، فتے لال کی نظر سے سوچ کر دیکھا۔ ان کی کوئی غلطی تو اس میں مجھے دکھائی نہیں دی۔ لیکن کلیجے میں ایک ٹیس ضرور اٹھی۔ آج تک ان دونوں کی فلموں کے موضوع، مکالمے اور کئی بار تو کئی منظروں کا سنیریو بھی میں ہی لکھ کر دیتا رہا۔ کسی مشکل سین کو فلمانے کی ذمہ داری بھی یہ لوگ بِنا جھجھک مجھے سونپتے رہے۔ لیکن آج۔۔۔ وچاروں کی ادھیڑبن کو من کے کسی کونے میں رکھ کر میں نے واشیکر سے کہا، "چلو، ٹھیک ہی ہوا ایک لحاظ سے۔ آپ اچھا سکرین پلے لکھیے گا۔” اتنا کہہ کر میں کمپنی کے کسی اور ڈیپارٹمنٹ میں جانے کو بڑھا۔ جاتے جاتے وچاروں نے پھر مجھے گھیر لیا : سچ پوچھا جائے تو داملے، فتے لال جی نے آج تک ایک دم خودمختاری سے کوئی فلم بنائی نہیں تھی۔ آج تک وہ میری مدد لیتے رہے۔ کیا اب اس مدد کے بِنا وہ ایک اچھی فلم واقعی بنا سکیں گے؟ کاش ایسا ہو پائے! تب تو میں اپنی فلم بنانے پر زیادہ دھیان دے سکوں گا۔ اس نتیجے پر پہنچتے ہی من کا سارا غبار اتر گیا۔ کافی ہلکا ہلکا سا لگنے لگا۔ چلتے چلتے میں ایسے ہی کمپنی کے کارپینٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ گیا۔ جوش سے میں ‘رام شاستری’ کی سیٹنگ دیکھنے کو مڑا۔ وہاں فتے لال جی اکیلے ہی تھے۔ سیٹنگ کے بارے میں باتیں ہو جانے کے بعد فتے لال مجھ سے داملے کے بارے میں شکایتیں کرنے لگے، "اس ‘سنت سکھو’ کے بارے میں انھیں میں نے چند بہت اچھے سجھاؤ دیے، پر داملے جی نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں، پھر قبول کرنا تو دور کی بات ہو گئی۔ ایسے پیش آتے ہیں، جیسے میں نِرا بُدھو ہوں، بےوقوف ہوں۔ لیکن کیا کروں، اُن واشیکر اور داملے کے بھانجے راجہ نےنے کے سامنے مجھے چپ ہی بیٹھنا پڑتا ہے!” حقیقت میں داملے کے مقابلے فتے لال کہیں زیادہ امیجنیٹیو (پُرتخیل) تھے۔ ایسے ہی مجھے ‘گیانیشور” کی میکنگ کے سمے ان دونوں میں ہوے اختلاف کا سین یاد آ گیا۔ فلم کا آخری سین تھا: گیانیشور سمادھی لینے کے لیے آہستہ آہستہ سمادھستھان کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں طرف گانے والوں کی بھیڑ جمع ہو گئی ہے۔ سب ہاتھ جوڑے ہوے ہیں۔ اس سین کو فلماتے سمے فتے لال نے داملے کو سجھاؤ دیا کہ اس سین میں ایسا منظر لیا جائے کہ بال بچوں والی ایک ماتا بھیڑ میں سے آگے آتی ہے اور اپنے بچے کو گیانیشور کے چرنوں پر رکھتی ہے۔ واقعی میں اس چھوٹے سے منظر کے کارن سارا سین بہت ہی جاندار اور دل چُھو جانے والا ہو جاتا۔ لیکن داملے اور راجہ نےنے دونوں نے اس سجھاؤ کو ایک دم ٹھکرا دیا۔ شام کو فتے لال جی نے اپنے دل کی چوٹ بہت ہی ٹھیس لگے لفظوں میں مجھے سنائی۔ مجھے بھی بُرا لگا۔ دوسرے دن اس واقعے کے بارے میں میں نے داملے سے خود بات چیت کی۔ انھیں بتا دیا کہ فتےلال جی کا سجھاؤ واقعی اچھا ہے۔ آخر داملے اس منظر کو لینے کے لیے تیار ہو گئے۔ اب بھی فتے لال کی گئی شکایتوں کے کارن میرے من میں اس سین کے ساتھ ہی دیگر بیتی باتیں ابھر آئیں۔ میں نے فتے لال سے دل سے کہا، "داملے ماما کو ‘سنت سکھو’ کو جیسی مرضی ہو فلمانے دیں۔ آپ خودمختار روپ سے دوسری فلم کی ڈائرکشن کیجیے۔ ‘رام شاستری’ کے سکرین پلے کو میں نے بہت ہی پُراثر بنوا لیا ہے، اس کے مکالمے بھی تیار ہیں۔ آپ ہی لیجیے ‘رام شاستری’ کو۔” "کیا میں لوں؟ اکیلے؟” فتے لال جی کچھ جھجک سے کہنے لگے۔ "جی ہاں۔ اس میں کیا حرج ہے؟ آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ میں جو ہوں آپ کی مدد کے لیے! آپ کا معاون بن کر کام کروں گا!” "معاون؟” کہہ کر فتے لال زور سے قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ ‘رام شاستری’ کی میکنگ کا کام فتے لال لیں، تو مجھے اپنے لیے کسی نئی کہانی کی کھوج کرنی ہو گی۔ مشہور لیکھک اور ڈائیلاگ رائٹر خواجہ احمد عباس اور فلم ‘انڈیا’ ماہانہ میگزین کے ایڈیٹر بابوراؤ پٹیل دونوں نے مل کر عمر خیام کے شاعرانہ جیون پر ایک بہت ہی شاندار کہانی لکھی تھی۔ میں نے ان دونوں کو فوراً پونا بُلوا لیا، ان کی نئی کہانی پر ہم لوگوں کی چرچائیں کافی رنگ پر آ گئیں۔ بابوراؤ پٹیل اور خواجہ احمد عباس دونوں مشہور لیکھک تھے، قلم کے دھنی تھے۔ عمر خیام کے جیون کے کچھ منظروں کا ذکر وہ اتنے پُربہار ڈھنگ سے کرتے کہ سنتے سنتے میں جذباتی ہو جاتا اور میری آنکھیں بھر آتیں۔ کبھی کبھی تو آنسو پھوٹ پھوٹ کر بہہ نکلتے۔ شروع میں تو میرے آنسو دیکھ کر ان دونوں کو کچھ حیرانی ہوتی۔ ‘شانتارام روتا ہے’ کے عنوان سے اس سمے انھوں نے ایک مضمون میں ان چرچاؤں کا ذکر بھی کیا تھا۔ عمر خیام کی کہانی کا موٹا خاکہ تیار ہو جانے پر میں نے فتے لال جی کو کہانی اس کے بیک گراونڈ، اس کے لیے ضروری کپڑے اور سیٹس وغیرہ کا آئیڈیا سمجھا کر بتایا۔ یہ شاعرانہ موضوع انھیں بہت ہی پسند آیا اور وہ ہمیشہ کی طرح جوش سے کام میں جٹ گئے۔ "سکھی تم ہو، تمھارا پاس ہو شباب اور ساتھ دینے کو ہو صراحی میں شراب” عمر خیام کی اس مشہور رباعی میں بیان کردہ سکھی کے کردار کے لیے جےشری ہی سب سے مناسب اداکارہ ہو گی، فتے لال جی نے بِلاجھجک کہہ دیا۔ یہی نہیں انھوں نے کاسٹیوم ڈیپارٹمنٹ میں مسلم کاسٹیوم کے جو بھی کپڑے تھے، اسے پہنا کر اس کی طرح طرح کے پوز میں تصویریں بھی اتاریں۔ ان تصویروں کے لیے انھوں نے اُسے اپنے سکیچز میں دکھائے گئے ڈھنگ سے کھڑا کیا تھا۔ مختلف جذباتی تاثرات میں انھوں نے جےشری کے فوٹوز لیں۔ فتے لال جی کو یہ شاندار کہانی اتنی راس آ گئی کہ اس موضوع پر بننے والی فلم کی ڈائرکشن خود کرنے کا وچار ان کے من میں اٹھنے لگا۔ عمر خیام ایک ایسا موضوع تھا، جس کی ڈائرکشن بہت ہی ٹیڑھی کھیر تھی۔ لیکن میں اگر صاف صاف ویسا کہہ دیتا، تو شاید ان کے دل کو پھر ٹھیس پہنچتی۔ لہٰذا میں نے ان سے کہا، "ہم لوگوں نے ‘پڑوسی’ میں جیسا کیا تھا، ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس میں جس طرح ہندو پڑوسی کا کام مسلمان اداکار کو اور مسلمان پڑوسی کا ہندو اداکار کو سونپا تھا، اسی طرح ہماری آئندہ فلموں کی ڈائرکشن کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں، لہذا پیشوا دور کی کٹر براہمن ماحول والی ‘رام شاستری’ کی ڈائرکشن آپ کیجیے، اور اس فارسی بھاشا مسلمان شاعر پر مبنی فلم میں ڈائرکٹ کرتا ہوں۔ اس میں ہم دونوں کے ڈائرکشن سٹائل کا امتحان ہو جائے گا۔ کیوں، کیسا لگا یہ چیلنج؟” "یہ چیلنج مجھے قبول ہے،” فتے لال نے ایک دم زور سے کہا۔ کچھ دنوں بعد واشیکر ‘سنت سکھو’ کی کہانی اور مکالموں کی کاپی لے کر میرے پاس آئے۔ کہنے لگے، پڑھ کر بتائیے کیسا لگا۔ میں نے انھیں دو دن بعد ملنے کے لیے کہا۔ میں یہی نہیں جان پایا کہ ‘سنت سکھو’ کی کہانی واشیکر جی خود مجھے دکھانے کے لیے لے آئے تھے یا داملے کے کہنے پر۔ میں نے کہانی پورے دھیان سے پڑھی مجھے وہ قطعی پسند نہیں آئی۔ کہانی کی رچنا میں کسی بھی طرح کا نیاپن نہیں تھا۔ میں نے کہانی کو دوبارہ پڑھا اور کہاں پر کیا کیا سدھار کرنے کی ضرورت ہے، نوٹ کیا۔ دوسرے دن جب واشیکر رائے پوچھنے کے لیے آئیں گے، تو انھیں اپنی رائے ایک دم صاف صاف اور دوٹوک لفظوں میں کہہ دینے کا بھی میں نے من ہی من طے کر لیا۔ آخر پربھات’ کے نام پر وہ فلم ریلیز ہونے والی تھی۔ دوسرے دن واشیکر آئے۔ بات کس طرح شروع کی جائے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر ادھرادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بعد میں واشیکر نے ہی معاملہ سیدھے اٹھایا، "کیسی لگی کہانی آپ کو؟” کہانی کی کاپی سامنے ہی پڑی تھی۔ میں کچھ پل من ہی من کچھ سوچتا رہا۔۔۔۔ کہانی ٹھیک سے جمی نہیں کہہ دوں، اور داملے جی نے کہیں یہ سوچ لیا کہ ایسا میں اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے ہی جان بوجھ کر کہہ رہا ہوں تو؟ میں نے کاپی وشیکرن جی کے سامنے کھسکاتے ہوے کہا، "ٹھیک ہے۔” میرا خیال تھا کہ میرے اس بےرخی بھرے جواب کا مطلب ان کے دھیان میں آ جائے گا، لیکن وہ کچھ نہ بولے۔ تھوڑی دیر اور اِدھراُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنی کاپی اٹھا کر چلتے بنے۔ میرا من غصے سے بھر گیا۔ کیوں نہ میں نے صاف گوئی سے کام لیا؟ کیا اس لیے کہ داملے کو غلط فہمی ہوتی؟ یہ تو سچ ہے کہ وہ میری بات نہ مانتے تو مجھے بُرا لگتا، لیکن پھربھی مجھے ایمانداری سے اپنی رائے دے دینی چاہیئے تھی۔ کاش! میں ایسا کر پاتا۔ ‘پربھات’ کے لیے اپنے فرض کی ادائیگی کرنے سے میں چوک گیا ہوں! ‘سنت سکھو’ کا پہلا شاٹ شروع ہونے کی اطلاع دینے والا بھونپو بج اٹھا۔ اپنے آفس میں بیٹھے جب اس کی آواز مجھے سنائی دی، تو ایسا لگا جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ یہ تو مان لیا کہ انھیں خود مختار روپ سے فلم بنانی تھی، لیکن معمولی مہورت کی بات بھی مجھ سے چھپائے رکھنا کہاں تک مناسب تھا؟ آج تک ہر فلم کے مہورت کے سمے ہم سبھی حصہ دار سٹوڈیو میں برابر حاضر رہتے آئے تھے۔ ہر مہورت ایک تقریب بن جاتا تھا ہمارے لیے۔ ایک تہوار سا مناتے تھے ہم سب۔۔۔ فلم ان کی تھی تو، میں دور کونے میں کھڑا رہتا اور فلم کا مہورت دیکھ لیتا۔۔۔ کیا میں اِن لوگوں سے اتنا اکیلا پڑ گیا ہوں؟ الگ تھلگ رہ گیا ہوں؟ ان کے کندھے سے کندھا لگا کر پچھلے بارہ سالوں سے لگاتار ‘پربھات’ کی ایک ایک اینٹ جوڑنے کی خواہش سے دن رات ایک کرتا رہا۔۔۔ میں کیا ان لوگوں کے لیے آج اچانک بیگانہ ہو گیا ہوں؟ ماتھا ایسا ٹھنکا کہ مانو کوئی اندر گھن چلا رہا ہو۔ اپنے آفس کے کمرے میں اکیلا ادھر سے ادھر بےچینی سے چکر کاٹتا رہا۔ بیچ بیچ میں شوٹنگ کے بھونپو کی آواز سنائی دیتی رہی۔ لگتا کہ سب چھوڑچھاڑ کر کہیں دور بھاگ جاؤں۔ غضب کی گھٹن محسوس ہوتی رہی۔ پھر بھی میں کمپنی میں ہی سارا دن بیٹھا رہا۔ سٹوڈیو کی گھڑی نے چھ بجنے کا گھنٹہ بجایا اور میں بھاری قدموں سے کمپنی سے باہر آیا۔ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ وِمل بچوں کو لے کر مہابلیشور ہواخوری کے لیے گئی تھی۔ کھانا تیار تھا، لیکن میں نے نوکر سے کہہ دیا کہ بھوجن نہیں کروں گا۔ آخر میں نے نوکر کے ہاتھوں اپنا ٹھنکتا ماتھا زور زور سے دبوا لیا۔ تبھی جےشری نے چٹھی بھجوائی: ”آج رات بھوجن کے لیے دعوت دے رہی ہوں۔ آپ پدھاریں، تو مجھے بےحد خوشی ہو گی۔ میرا ممیرا بھائی بمبئی گیا ہے۔ گھر میں اکیلی ہوں۔” چٹھی لانے والے کو میں نے اسی قدم لوٹا دیا۔ لیکن گھر میں بیٹھنے کو من نہیں مان رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید ذرا ٹھنڈی ہوا میں گھوم آؤں تو اُکھڑا ہوا من اور بھبھکا ہوا ماتھا شانت ہو جائے گا، میں باہر نکلا۔ اپنی ہی غنودگی میں کھویا ہوا، پتا نہیں کہاں چلا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک رُکا تو پایا کہ جےشری کے گھر کے سامنے کھڑا ہوں۔ دروازے پر دستک دی۔ وہ میرا انتظار ہی کر رہی تھی۔ اس نے پوچھا، "بھوجن کریں گے نا؟” میں ایک دم مکمل گونگا بنا بیٹھا رہا۔ وہ دو تھالیاں لگوا کر لے آئی۔ بھوجن ختم ہوا۔ پھر اس نے اپنی سریلی آواز میں گوا میں گائے جانے والے دو ایک کونکنی گیت گا کر سنائے۔ آہستہ آہستہ من کا بوجھ اترتا گیا۔ تکلیف دینے والے وچار چھٹ گئے۔ ہم دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔۔۔ اور۔۔۔ وہ ساری رات ہم نے باہمی صحبت میں بِتا دی۔ تڑکے پانچ بجے کے لگ بھگ میری آنکھ کھلی۔ میں اٹھ بیٹھا۔ من بھی ہوش میں آ گیا۔ کل رات میں یہ کیا کر بیٹھا ! کیا من کا بوجھ اتارنے کے لیے؟ یا جےشری سے مسحور ہو گیا اس لیے؟ منھ اندھیرے ہی جےشری کے گھر سے میں واپس اپنے گھر آنے کے لیے تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا پربھات نگر کی طرف چل پڑا۔ من میں وچاروں کا طوفان اٹھا تھا۔۔۔ ــــ آخر آج میں نے ایسا طرزِعمل کیوں اختیار کیا؟ سینما جیسے کاروبار میں رہ کر بھی آج تک بےداغ سنبھالا ہوا اپنا کردار اپنے ہی ہاتھوں میں نے اس طرح کیوں لٹا دیا؟ کیوں؟ آخر کس لیے؟ جےشری کے پاس مجھے نرالا کیا ملا؟ — نرالا؟ کیا تھا نرالا؟ صرف چہرہ، ایک آزاد سائنس دان کی طرح گذشتہ رات کے تجربے کا خشک تجزیہ میں کیے جا رہا تھا۔ ـــ تو پھر تم نے ایسا کیوں کیا؟ ـــ ہو سکتا ہے، کل سٹوڈیو میں ہوے واقعات کے کارن من کچھ اُکھڑا اُکھڑا سا تھا اور اسی حالت میں اپنی تلخی کو مٹانے کے لیے ہوش نہ رہا ہو۔۔۔۔ لیکن اپنے اس طرز عمل کے کارن تم نے ایک اور شخص کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے — یہ تم نے کیا کیا؟ من میں اٹھے اس طوفان کے کارن کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ اب اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ایک ہی۔۔۔ دوسری شادی! دوچار دنوں بعد وِمل مہابلیشور سے لوٹی۔ معاملے کی بھنک شاید اس کےکانوں میں بھی پڑ گئی۔ لیکن اس بچاری نے کبھی اس بارے میں مجھ سے پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ شاید ایک کڑوی سچائی وہ میرے منھ سے سننا نہیں چاہتی تھی۔ اسے ڈر لگتا ہو گا کہ کہیں اس نے پوچھ لیا اور میں نے ‘ہاں’ کہہ دیا تو؟ کمپنی کا کام ختم ہونے پر شام کو میں جےشری کے گھر جاتا۔ وِمل ہمارے گھر کی چھت پر کھڑی ہو کر دور سے دکھائی پڑنے والے جےشری کے گھر کا کھلا زینہ چڑھتے ہوے مجھے دیکھا کرتی۔ یہ بات اسی نے کچھ سالوں بعد مجھے بتائی۔ ظاہر تھا کہ وہ من ہی من بہت ہی پریشان رہتی ہو گی۔ لیکن اس بات کا احساس اس نے مجھے کبھی ہونے نہیں دیا۔ ایک اتوار کی صبح جےشری نے ہمارے گھر فون کیا۔ فون وِمل نے لیا۔ اس نے مجھے بتایا، "فون آیا تھا—” "کس کا؟” "تمھاری مہارانی کا!” "مہارانی؟ کون مہارانی؟” "جےشری! میں نے اسے صاف صاف کہہ دیا، پھر تمھیں یہاں فون نہ کرے۔ پتہ ہے اس نے اس پر کیا کہا؟” ”کیا کہا؟” "کہہ رہی تھی، میرا بھی حق ہے ان پر!” اتنا کہہ کر وِمل وہاں سے سسکتی ہوئی چلی گئی۔ آج تک بڑے صبر سے روک رکھے اس کے احساسات ایک دم امڈ آئے تھے۔ اس طرح یہ معاملہ اجاگر ہو جانے کے بعد تو ہم دونوں میں اس کو لے کر باربار جھڑپیں ہونے لگیں۔ بیچ بیچ میں خبریں سنائی پڑتیں کہ کمپنی میں ‘سنت سکھو’ کا کام جاری ہے۔ شوٹنگ کے سمے کبھی کبھار ناخوشگوار واقعات ہو جانے کی بھی خبریں ملتیں تو من کو بڑی تکلیف ہوتی۔ شوٹنگ کرتے سمے ان لوگوں میں کافی کنفیوژن پیدا ہو جاتا۔ تب تو ایسا لگتا، جاؤں اور سب کچھ ٹھیک سے سنوار دوں۔ لیکن یہ انھیں بالکل نہ بھاتا۔ یہی سوچ کر میں بڑی کوشش سے اپنے آپ پر قابو پا لیتا۔ کمپنی میں کام ختم ہونے کے بعد میں حسب معمول ہر شام جےشری کے یہاں ہو آتا۔ اس کے لیے میں نے ایک بڑا مکان کرائے پر لے لیا۔ وہاں میرا سمے مزے سے کٹتا۔ ہم دونوں کے رشتے کے بارے میں اخباروں میں بھی کافی چٹپٹی خبریں چھپتیں۔۔۔ ”شانتارام کا پاؤں پھسلا”۔۔۔ "وشوامتر کی تپسیا مینکا کے ہاتھوں بھنگ”۔۔۔۔ "جےشری نے شانتارام کی تپسیا توڑ دی”۔۔۔ "جےشری دوارہ شانتارام کلین بولڈ”، ”مٹی کے چرنوں والا دیوتا!”۔۔۔ کئی بار تو یہ خبریں اتنی نوکیلی ہوتیں کہ جےشری کے آنسو نکل آتے۔ ایسے سمے میں اسے سمجھاتا، "اچھا ہو کہ تم ایسے اخباروں کو پڑھنا ہی بند کر دو، پھر تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔” طنزبھری ایسی مخالفت کا منھ توڑ جواب ایک ہی تھا: جےشری کے ساتھ قاعدے سے شادی! لیکن ایسی باقاعدہ شادیوں کے سمے موت دینے والے منتروں پر میرا یقین نہ تھا۔ دُلہا یا دلہن دونوں میں سے کسی کو، یہاں تک کہ ان کے سگے رشتوں اور پنڈت پروہتوں کو بھی جن منتروں کے معانی معلوم نہیں ہوتے، ایسے ایسے منتروں کے پڑھنے سے عورت اور مرد میں جنم جنم کا ناتا بندھ جاتا ہے، میں یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ میں اتنا پران پنتھی کبھی نہ تھا۔ اس طرح کی لمبی مذھبی رسموں کی ادائیگی کے بعد شادی کے دھاگے میں بندھے اور بڑی دھوم دھام سے بارات لے آئے دُلہوں کی بربادی میں نے خود دیکھی تھی۔ یہ ضروری بھی نہیں تھا کہ اتنا سب کچھ کر لینے کے بعد پتی پتنی میں پیار کا ناتا پیدا ہو ہی جائے، پیار کی پہلی بہار کی پت جھڑ ہوتے ہی زیادہ تر جوڑے اپنے جیون ساتھی کو اپنا غلام ماننے لگ جاتے ہیں۔ ایسی رسمیں ایک بار پوری ہو جائیں، تو جیون بھر کے لیے دونوں کو باندھ دیتی ہیں۔ اس بندھن سے پھر رہائی کہاں؟ ان دنوں علیحدگی کا قانون نہیں بنا تھا۔ آج وہ بنا ہے۔ لیکن اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ بیاہتوں کے سامنے ایک ہوّا بن کر موقع کی تلاش میں کھڑا رہتا ہے۔ میری تو پکی رائے تھی کہ پرانے سات پھیروں کی رسم کے بجاے ہم دونوں باہمی محبت سے جڑے ہیں، وعدے سے جڑے ہیں۔ ان سات لفظوں میں ظاہر ہونے والی گندھرو طریقے کی شادی ہی کہیں معتبر ہے۔ اس کے کارن عورت اور مرد دونوں کے بیچ نرم بندھن رہ سکیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ہاتھ بنٹا سکیں گے۔ پرانے زمانے میں دُشینت اور شکنتلا نے گندھرو بیاہ ہی تو کیا تھا اور سماج اور کنو جیسے مہان تپسوی نے بھی انہیں آشیرواد عطا کیا تھا۔ یہی سب سوچ کر میں نے فیصلہ کیا: روایتی طریقہ سے بیاہ کرنے کے بجاے جےشری کےساتھ سپت (سات) شبدوں میں بندھ کر رہوں گا۔ میں نے اپنا ارادہ جےشری کو بتایا۔ اس کو تو اسی بات کی خوشی تھی کہ میں اس کے محبت کے بندھن میں بندھ گیا ہوں۔ میں جو بھی کہتا، وہ بِنا سوچے سمجھے قبول کر لیتی۔ میرے اس سجھاؤ پر بھی اس نے اسی طرح ‘ہاں’ بھر دی۔ لیکن کیا آج کا یہ سماج اس بات کو قبول کرے گا؟ کچھ ماہ بیت گئے، ایک دن شام بابوراؤ پینڈھارکر سٹوڈیو میں ملے، انھیں اس طرح اچانک پُونا آیا دیکھ کر کچھ حیرانی سے میں نے پوچھا، "کہیے؟ آج یہاں کیسے پدھارے آپ؟ کوئی خاص بات؟” "خاص بات نہیں تو اور کیا ہے؟ اجی، آج ‘سنت سکھو’ کی ٹرائل ریلیز جو ہے۔” "چھوڑو بھی، آپ کو بھی اچھا مذاق سوجھا ہے یہ!” "مذاق نہیں، مجھے بمبئی فون آیا تھا۔” میں سن کر دیکھتا ہی رہ گیا۔ "آپ کو بمبئی فون کر کے بلوا لیا گیا اور یہاں مجھے خبر تک نہیں لگنے دی!” ایسے ہی میرے منھ سے بات نکل گئی، "کی ماں کو، کتنے نالائق لوگ ہیں یہ!” اسی جھلاہٹ میں تنک کر اپنے آفس میں جا بیٹھا۔ من میں کہیں ایک دھندھلی سی امید تھی کہ ہو سکتا ہے، وہ ٹھیک سمے پر مجھے بلاوا بھیجیں گے۔ اسی لیے کافی دیر تک آفس کی بتیاں جلائے رکھ کر مَیں انتظار میں بیٹھا رہا۔ لیکن میری امید، ناامیدی میں بدل گئی۔ آفس بوائے نے آ کر اطلاع دی کہ تھئیٹر میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔ دوسرے دن سٹوڈیو آنے پر معلوم ہوا کہ ‘سنت سکھ’ کے بمبئی میں ریلیز کی تاریخ بھی پکی ہو گئی ہے۔ اس خواہش سے کہ ہمارے بیچ بڑھتے جا رہے اس اختلاف کی بات اجاگر نہ ہو، میں نے ساری باتیں پی کر جان بوجھ کر ہی ‘سنت سکھو’ کی ریلیز کے سمے بمبئی جانا طے کیا۔ شام کو میں نے جےشری کو بتایا کہ بمبئی جا رہا ہوں۔ وہ کافی دیر چپ ہی بیٹھی رہی۔ میں نے پوچھا، "بات کیا ہے؟ اس طرح چپ سادھے کیوں ہو؟” وہ کچھ رک رک کر بولی، "آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔” "تو کہو بھی۔۔۔” "شاید میں ماں بننے جا رہی ہوں۔۔۔” میں نے ہنس کر پوچھا، "بیٹی کی یا بیٹے کی؟” لیکن فوراً ہی میں سنجیدہ ہو گیا۔ یکایک دماغ میں بجلی سی کوندھ گئی: —اب اس کی کوکھ سے دنیا میں آنے والا یہ بچہ سماج میں کیا جگہ پائے گا؟ یہ بچہ کس کا ہے؟ جےشری آخر تمھاری کون ہے؟ جےشری میری محبوبہ ہے۔ میں نے من سے اس کے ساتھ بیاہ کیا ہے۔ گندھرو بیاہ سے بندھی وہ میری اپنی پتنی ہے۔۔۔ —پتنی؟ کبھی نہیں! سماج تو اسے تمھاری ‘رکھیل’ (داشتہ) ہی مانےگا اور اب پیدا ہونے والے بچہ کو ‘رکھیل کا بچہ’ کہے گا! —رکھیل؟ گندھرو بیاہ سے دشینت سے بیاہی شکنتلا کو کسی نے دشینت کی رکھیل نہیں کہا تھا۔۔۔ سیدھے ان دونوں کے ملن کے کارن جنمے بھرت کے نام پر آریہ ورت کا نام بھی بھارت ہو گیا۔ —لیکن آج وہ زمانہ کہاں رہا؟ نہ ہی آج رہے اُس طرح کے ترقی پسند وچاروں کے لوگ۔ آج کا سماج ترقی پسندانہ وچاروں والا سماج نہیں ہے، تمھارے ارادوں کے کارن اس نوزائیدہ بچے کے ساتھ ناانصافی ہونے جا رہی ہے۔ ان سبھی کٹھنائیوں سے پار ہونے کا راستہ ایک ہی ہے: جےشری کے ساتھ پرانی روایت کے مطابق شادی! ـــ لیکن آدرشی بیاہ کے بارے میں میری اپنے یقین کا، میرے اپنے وچاروں اور اصولوں کا کیا ہو گا؟ ـــ تمھارے ان نظریات کو، ان وچاروں اور اصولوں کو اپنے ہی من کے دائرے میں رکھو! سماج میں آج کے رائج اصولوں کی پناہ لینے کے علاوہ تمھارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ ـــ میں سماجی بندھنوں سے ہار گیا۔ من ہی من طے کیا کہ جےشری سے قانونی بیاہ کروں گا۔ میں نے اس سے کہا، "دیکھو، میرے ساتھ تم بھی ممبئی چلنے کی تیاری کرو۔” بمبئی میں ‘سنت سکھو’ ایک دم فیل ہو گئی۔ ‘پربھات’ کی آج تک یہ خاصیت رہی تھی کہ کسی بھی موضوع پر مبنی فلم ایک دم نئے خیالات کا استعمال کر کے فنکارانہ بنائی جاتی ہے۔ اس فلم میں کہیں پر بھی اس خاصیت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ‘سنت سکھو’ کو ملی ناکامی کے کارن مجھے دلی دکھ ہوا اور اسی کے ساتھ یہ بھی خیال آ گیا کہ ممکنہ طور پر اس ناکامی کے کارن داملے، فتے لال کی جھوٹی خوداعتمادی کا غبارہ پھٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ہم حصہ داروں کے من میں جو بے وجہ ہی غبار سا بھر آیا ہے، وہ بھی ہٹ کر ‘پربھات’ کا ماحول پھر پہلے جیسا صاف اور ملنساری کا ہو جائے گا۔ دو چار دنوں کے بعد میں نے بابوراؤ پینڈھارکر سے کہا، "کسی تنہا جگہ پر شادی کا بندوبست کیجیے۔ پروہت پنڈت کو بلوا لیجیے۔ میں جےشری کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں!” سن کر بابوراؤ کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ وہ بیٹھے تھے، ایک دم اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ جےشری کی خوشیوں کا تو ٹھکانہ نہ رہا۔ بابوراؤ مجھے ایک طرف الگ لے جا کر پوچھنے لگے، "آخر اس کے ساتھ شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو آپ کے ساتھ ویسے بھی رہ لے گی۔” "لیکن میں جیسے ویسے رکھنا نہیں چاہتا!” "تب تو آپ ہم پر بات چھوڑ دیجیے ہم جےشری بائی کو پُونا چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور کر دیں گے اور بمبئی میں ہی کسی دوسری فلم کمپنی میں انھیں کام بھی دلوا دیں گے۔ اس طرح آپ سبھی جھنجھٹوں سے آزاد ہو جائیں گے اپنے آپ!” "اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ اسے دھوکا دیا جائے اور پھر ایسا ہو جائے جیسے اسے جانتے بھی نہیں؟ یہ مجھے قطعی منظور نہیں!” مجھے اپنے ارادے سے منھ پھیر لینے کے لیے مجبور کرنے کے ارادے سے بابوراؤ ایک کے بعد ایک ترپ کی چالیں چلنے لگے۔ "اجی، داملے، فتےلال جی کیا کہیں گے؟” "وہ دونوں کون سے دودھ کے دھوئے ہیں، جو مجھ سے آنکھیں اٹھا کر بات کر سکیں۔ اور میں تو کھلم کھلا سب کے سامنے بیاہ کرنے جا رہا ہوں!” "لیکن آپ نے کیا یہ بھی کبھی سوچا ہے کہ وِمل بائی کیا سوچیں گی؟” اس بات پر میں لاجواب ہو گیا۔ آہستہ آہستہ تتلاتے ہوے بولا، "بچاری وِمل پر تو آسمان ٹوٹ پڑے گا۔۔ وہ بہت ہی رونا دھونا کرے گی، لیکن وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور اسی محبت کے سہارے اس اگنی پریکشا (آگ کے امتحان) کو بھی پار کر جائے گی۔۔۔ مجھ سے یہ غلطی ہو رہی ہے، مجھے قبول ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری اس بھول کے نتیجے ان سبھی کو بھگتنے پڑیں گے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔۔۔” کتنا خودغرضانہ وچار تھا یہ! پُونا لوٹنے کے بعد آہستہ آہستہ میں نے وِمل کو بتا دیا کہ میں جےشری سے بیاہ کر چکا ہوں، وِمل کے لیے یہ ٹوٹنا ناقابل برداشت تھا۔ اس نے خوب رونا رو لیا۔ جےشری کے ساتھ انصاف کرنے کی دھن میں وِمل کے ساتھ میں نے بڑی بھاری ناانصافی کی تھی۔ میں نے اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کی، "دیکھو، جےشری کے ساتھ بیاہ کرنے کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میں تمھیں دور کر رہا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں تمھیں اور اپنے بچوں کو کسی بات کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا!” اس پر تلملا کر ومل گڑگڑائی، "ہمیں کسی بات کی کمی ہو جائے تو بھی چلے گا، لیکن آپ اس دوسری شادی سے فوراً آزاد ہو جائیے۔” "یعنی تمھاری نظروں میں تو میں مجرم ہو ہی گیا ہوں اور اب اس دوسری شادی سے آزاد ہو کر جےشری کی نظروں میں بھی گناہ گار ہو جاؤں؟ سب لوگ تھوکیں گے مجھ پر، وہ کیا تمھیں اچھا لگے گا؟” اس پر وِمل بےچاری کیا کرتی! اُن دنوں میرا من ہمیشہ اکھڑا اکھڑا سا رہتا تھا۔ من کی ایسی ہی ایک کمزور حالت میں کسی جوتش کا بتایا گیا ایک مستقبل یاد آیا: ‘تمہاری قسمت میں دوسری پتنی کا یوگ ہے۔’ یاد آتے ہی من حمایت کرنے لگا کہ بھاگ میں لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ میرے بھاگ میں یہی بات لکھی تھی۔ تبھی تو یہ دوسری شادی ہو گئی۔ اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ —اپنی اس سوچ کی کمینگی پر مجھے بھاری غصہ آیا اور اپنے آپ پر غصہ ہو کر اپنے ہاتھوں اپنے ہی منھ پر میں نے ایک زور سے طمانچہ دے مارا۔ — آدمی کے جیون میں سبھی واقعات اس کے اپنی کرنی کے کارن ہی ہوتی ہے، ایسا سب کو بار بار جتانے والا تو اب اپنی غلطی کی حمایت کرنے کے لیے ‘جوتش’ اور ‘قسمت’ کی باتوں کا سہارا کب سے لینے لگا ہے؟ سٹوڈیو میں تو ہم پر تنقید کی بوچھار ہونے لگی تھی۔ تنقید کی آندھی سی آ گئی تھی۔ پُونا لوٹتے ہی ہم نے ایک کام کیا۔ جےشری نے فوراً ہی کمپنی سے استعفٰیٰ دے دیا۔ کلاکاروں کا ڈیپارٹمنٹ چونکہ میں خود ہی سنبھالتا تھا، میں نے اس کا استعفٰیٰ لگے ہاتھ قبول بھی کر لیا۔ اس کے سات آٹھ دنوں بعد داملے جی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا، یہاں فتے لال اور سیتارام پنت کلکرنی پہلے سے ہی موجود تھے۔ داملےجی، فتے لال جی ‘سنت سکھو’ کی ناکامی کے کارن ان دنوں مایوسی سے گِھرے تھے اور عادتاً کچھ چڑچڑے بھی ہو گئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی داملے جی نے کہا، "ہم لوگوں نے جےشری بائی کے گلے میں منگل سوتر دیکھا۔” "پھر؟” "اب ان کا کمپنی میں رہنا مناسب نہیں!” ان کی آواز تیز ہو چلی تھی۔ ان کی باتوں کو ہنسی میں لے کر میں نے سوال کیا، "بھلا وہ کیوں؟” میرے سوال کا کیا جواب دیں، ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ہنستے ہوے میں نے ہی بات آگے بڑھائی، "پہلے پربھات کے قیام کے سمے سے ہی کافی سال تک صاحب ماما کی گلاب بائی ہماری کمپنی میں اداکارہ کے روپ میں کام پر تھیں۔ شروع شروع کی چند فلموں میں انھوں نے اہم کردار بھی کیے تھے۔ پھر جےشری نے ہی کسی کا کیا بگاڑا ہے؟” "یہی کہ اس نے آپ کے ساتھ بیاہ کیا ہے!” "اچھا؟ تو اس کا مطلب یہ کہ گلاب بائی کی طرح وہ میرے ساتھ بِنا شادی کیے رہ لیتی، تو آپ اسے کمپنی میں کام پر رہنے دیتے!” "جی ہاں۔ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔” ”تو کیا کمپنی کی زنانہ فنکاروں کے لیے شادی کرنا جرم ہے؟ اگر ہاں، تو ہم لوگوں نے درگا کھوٹے جیسی شادی شدہ اداکارہ کو لے کر ایک دو نہیں، تین فلمیں بنائیں، تب کیوں نہیں آپ نے اس بات کی مناہی کی؟” میرے دوٹوک سوال کے کارن سبھی لاجواب ہو گئے۔ میں نے ہی آگے کہا، "میں آپ لوگوں کو ایک بات صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں۔ سن کر آپ کی جان میں جان آ جائے گی۔ میں جانتا تھا کہ آپ اس طرح کا مدعا اٹھائیں گے، اسی لیے میرے کہنے پر جےشری نے پچھلے ہفتے ہی کمپنی سے استفعیٰ دے دیا ہے۔ اب وہ پربھات کی نوکر نہیں ہے۔ پچھلے ہفتے آپ لوگوں نے جےشری کے گلے میں منگل سوتر دیکھا، تب وہ آپ لوگوں سے یہی کہنے آئی تھی کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن اس سمے ہچکچاہٹ کے مارے وہ کچھ کہہ نہ سکی۔ اب وہ پھر کبھی سٹوڈیو کے احاطے میں پاؤں نہیں رکھے گی، آپ لوگ بےفکر رہیں!” نجمِ اسود اور ننھی کائناتیں: قسط نمبر 5 (سائنس کی جانب عمومی رویہ) مد و جزر (از آرزو خوشنام) About The Author Farwa Shafqat فروا شفقت گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی کی سکالر ہیں۔ فضائیہ کے ایک کالج میں مدرس ہیں۔ عالمی ادب اور زبانوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
عرب خطے میں جاری شورش کے فرقہ وارانہ اور سیاسی رحجانات کے تناظر میں لکھا گیا این بلیک کا یہ مضمون دی گارڈین اخبار کی ویب سائٹ پر 5 اپریل 2015 کو شائع کیا گیا تھا۔ عرب خطے میں ایک زمانے تک کسی عرب سے اس کاعقیدہ یا مسلک پوچھنا نامناسب خیال کیا جاتا تھا، اگرچہ اس کے نام، لہجے، جائے رہائش ،عبادت گاہ یا دیوار پر آویزاں تصاویر سے اس کا سنی، شیعہ یا عیسائی العقیدہ ہونا عیاں ہو۔نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد کے ایام تفاخر میں تمام تر توجہ ایک مشترکہ عرب اور قومی شناخت کی تشکیل پر تھی۔ سنی، علوی، دروز اور کئی عیسائی قومیتوں پر مشتمل شام "عرب قومیت کادھڑکتا دل”بن کر نمایاں ہوا،حتی کہ لبنان میں بھی جہاں شراکت اقتدار کی بنیاد مسلک پر تھی عقیدہ ایک نجی معاملہ تھا۔ عرب خطے میں بین المسالک شادیاں عام تھیں۔دمشق اور بغداد میں حکومت کرنے والی جماعت بعث پارٹی کی بنیاد ایک عیسائی عرب قومیت پرست مشیل عفلق نے رکھی، دو اہم فلسطینی انقلابی رہنما جارج حبش اور نایف حواتمہ سمیت عرب قوم پرستی کے مورخ جارج انطونیوس بھی عیسائی تھے۔ شام میں گزشتہ چار برس سے جاری خونریز جنگ میں علویوں کو بحیثیت مجموعی بشارالاسد کا طرفدار جبکہ حزب مخالف کو سنی العقیدہ قرار دینے سے بھی فرقہ وارانہ جذبات کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ شیعہ اکثریت، سنی اقلیت اورکردوں پر مبنی عثمانی خلافت کے ایک صوبے پر مشتمل برطانیہ کا تشکیل دیا غریب، دیہی عراق جہاں سنی صدام حسین نے سب گروہوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں سبھی پر جبر کیا۔اس صورت حال میں تبدیلی 1979میں ایران کے اسلامی انقلاب سے آئی جس سے مشرق وسطی کی تاریخ پرشدید اثرات مرتب ہوئے اور پورے عرب خطے میں پسماندہ رہ جانے والے شیعہ مسلمانوں کو تقویت اور مہمیز ملی۔1980 میں صدام حسین کی ایران کے خلاف جارحیت کو سنی عرب اور خلیجی ریاستوں کی مالی معاونت حاصل رہی اور اسے عرب اور عجم کی جنگ قرار دیا گیا۔ 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کا جشن منانے والے شیعہ مسلمانوں نے اس واقعے کو 680ء میں سنی امویوں کے ہاتھوں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے تناظر میں دیکھا۔ اگرچہ فرقہ بندی مذہبی اختلافات کی مظہر ہے اور "غیریت” کی بنیاد ہے لیکن یہ ہمیشہ طاقت، وسائل اور علاقائی اقتدارسے جڑی رہی ہے۔ بحرین کی سنی العقیدہ بادشاہت اقتدار اور نظام حکومت میں اپنے جائز حصے سے محروم شیعہ اکثریت کی مزاحمت کو ہمیشہ تہران کی پشت پناہی کی پیداوار قرار دیتی آئی ہے۔ سعودی عرب بھی اسی طرح اپنے شرقی حصوںمیں شیعہ اقلیت کی جدوجہد کو ایرانی سازش قرار دیتا آیا ہے۔ بحرین اور سعودی عرب دونوں جگہ مقامی سیاسی مسائل کو چھپانے کے لیےفرقہ وارانہ رنگ دیا گیاہے۔ دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر بغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کی جانب سے اہل تشیع کے بے دریغ قتل عام کی بجائے عراق اور شام کی شیعہ نواز اورصفوی حکومتوں پر حملے کرنے کی استدعا کو نظر انداز کیاہے۔ شام میں گزشتہ چار برس سے جاری خونریز جنگ میں علویوں کو بحیثیت مجموعی بشارالاسد کا طرفدار جبکہ حزب مخالف کو سنی العقیدہ قرار دینے سے بھی فرقہ وارانہ جذبات کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ بشارالاسد کو ایرانی حمایت یافتہ شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کی حمایت ملنےسے بھی اس تاثر میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ فرقوں کےمابین بھی تنازعات موجود ہیں اور ایسےتنازعات بھی ہیں جہاں مسئلہ مذہبی شناخت سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب اور کویت میں مقیم سنی شدت پسند مبلغین مخصوص وہابی اندازبیان کے مطابق اہل تشیع کی تضحیک انہیں "بت پرست” کہہ کرکرتے ہیں۔ ایرانیوں کی ہتک کے لیے انہیں سولہویں صدی کی ایرانی صفوی بادشاہت کے حوالے سے”صفوی” بھی پکارا جاتا ہے۔ بنیاد پرست جہادی اپنے تکفیری نظریات کی بنا پر (ایسے) "کفار” کا قتل جائز سمجھتے ہیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں القاعدہ اپنے "دورافتادہ” دشمنوں خصوصاً امریکہ کو ہدف بناتی رہی لیکن دولت اسلامیہ نے رد تشیع کو اپنے زہریلے نظریات میں بنیادی حیثیت دی ہے۔ دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر بغدادی نے اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کی جانب سے اہل تشیع کے بے دریغ قتل عام کی بجائے عراق اور شام کی شیعہ نواز اورصفوی حکومتوں پر حملے کرنے کی استدعا کو نظر انداز کیاہے۔ بااثر سنی عالم یوسف القرضاوی نے الجزیرہ ٹی وی پر حزب اللہ کے حسن نصراللہ کو حزب الشیطان کا سربراہ قرار دیا تھا۔ فرقہ واریت نے گزشتہ چند برس کے دوران جڑ پکڑ لی ہے لیکن اس امر میں بہت سے لوگوں کی کوششوں کا حصہ ہے، خاص طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے عدم برداشت پر مبنی زہریلا پراپیگنڈا پھیلانا خاصا آسان کردیا ہے۔ اس کے باوجود فرقہ واریت مشرق وسطی میں تنازعات کی بنیادی وجہ نہیں۔ شیعہ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود زیدی فرقے کے حوثی باغی یمن کے شدت اختیار کرتے بحران میں اپنے ملک کی سنی اکثریت کے قریب ہیں۔ سعودی مداخلت کے باعث حوثی باغیوں کو ایران سے حاصل ہونے والی مدد محض اتحادیوں کے حصول اور اپنی طاقت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ امریکی دانشور اور مشرق وسطی کے مبصر”ہوان کول” کے مطابق یہ کہنا کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد مذہبی بنیادوں پر کر رہاہے ایسا ہی ہے جیسے "یہ مان لیا جائے کہ سکاٹش پریسبیٹیرین ہمیشہ جنوبی بپٹسٹ عیسائیوں کی مدد کریں گے کیوں کہ دونوں پروٹسٹنٹ مسلک سے ہیں۔ ” یمن تنازعہ کافرقہ وارانہ انگ شیعہ سنی مخاصمت کی بجائے اس خطے کے سیاسی اور جغرافیائی سیاق و سباق کے باعث ہے۔ مصر کی واضح طور پر سنی العقیدہ آبادی کے باوجود2011 کے انقلاب اور اس کے استبدادی اور متنازعہ نتائج کے باعث قبطی عیسائی اقلیت کو شدت پسندوں کی طرف سے سابق حکومت کا حمایتی قرار دے کر نشانہ بنایا جانا بھی( اسی نوعیت کی )ایک مثال ہے۔ عربوں کا ہر گروہ اپنی مذہبی یا علاقائی شناخت کی بنیاد پر دوسرے عرب گروہوں سے ایک ایسی بے مصرف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سب کی ہار یقینی ہے مغرب(شمالی افریقہ) میں جہاں تیونسی انقلاب کے دوران عرب بہار کا آغاز ہوا تھا ؛شامی خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے ظہور کے باعث شدت پسندی میں اضافے کے باوجود فرقہ وارنہ مسائل موجودنہیں ہیں۔ لیبیا، مراکش اور الجیریا کو(مختلف العقیدہ) بربر قوم کے حقوق سے متعلق مسائل کا سامنا ضرور ہے تاہم یہ کسی بحران کا باعث نہیں بن پائے۔ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ہر جگہ بہار عرب کا آغاز کسی بھی مذہب، عقیدے یا مسلک کے برعکس سیکولر اصلاحات کے مطالبے کے تحت ہوا تھا، جیسا کہ طلال سلمان نے لبنانی اخبارالسفیر میں لکھا،”کسی بھی قبیلے، خاندان، عقیدے یا مسلک سے قبل تمام شہریوں نے "احترام” کا مطالبہ کیا۔ ” وہ لکھتے ہیں کہ "(بہار عرب کے نتیجے میں) انتقال اقتدار کے باوجود بھی حالات جوں کے توں رہنے کے باعث وقت کے ساتھ فرقہ وارانہ رحجانات واضح ہونا شروع ہو گئے اورزیادہ تر لوگوں نے خود کو سیاسی خطوط پر منظم کرنے کی بجائے قبائلی اور مذہبی وابستگی کو شناخت بنانا شروع کر دیا۔” طلال سلمان کے مطابق "آج عرب بیک وقت بھائی بھی ہیں اور دشمن بھی، عربوں کا ہر گروہ اپنی مذہبی یا علاقائی شناخت کی بنیاد پر دوسرے عرب گروہوں سے ایک ایسی بے مصرف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سب کی ہار یقینی ہے۔۔۔مختصراً مشترکہ عرب قوم پرستی کا خاتمہ بھائیوں کے درمیان ایک ایسی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا جس سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کب اور کیوں کر ہوگا ۔”
خادم حرمین شریفین مکہ مکرمہ دستاویز وصول کرتے ہوئے : ہم ان شاء اللہ امت مسلمہ کی یکجہتی، اس کے علماء کے اتحاد اور دھڑے بندیوں کی خطرات جواتحاد کے بجائے تفرقہ کا سبب بنتی ہیں، ان پر قابو پانے کے لئے ہمیشہ پُر امید رہیں گے۔ Thursday, May 30, 2019 - 14:50 متعلقہ موضوعات جامعہ کولمبیا نیویارک کی جانب سے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد العیسی کے لئے نفرت کے خاتمے کے موضوع پر عالمی سمپوزیم کی میزبانی رابطہ عالم اسلامی کاجامعہ کولمبیا نیویارک کے ساتھ شراکت داری معاہدے پر دستخط اور عالمی بین المذاہب تجربہ گاہ کا افتتاح
جکارتہ: انڈونیشیا میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، حادثات میں آٹھ افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہو گئے، متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ دارالحکومت جکارتہ کے مشرق میں واقع جزیرے سولاویسی زلزلے کی زد میں آ گیا۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس کرتے ہوئے ہزاروں افراد گھروں سے باہر نکل آئے۔ زلزلے کے بعد ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ سے تین سو سے زائد گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے، متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ دس ہزار سے زائد افراد عارضی کیمپوں میں منتقل کر دیئے گئے۔ حکام کے مطابق بہت سے افراد تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ زلزلے کا مرکز مجین شہر سے 6 کلو میٹر شمال مشرق میں تھا، امریکی جیو لوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت چھے اعشاریہ دو ریکارڈ کی گئی۔ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا ہے، ماضی میں بھی یہ علاقہ زلزلوں اور سونامی کی زد میں رہا ہے۔
گزشتہ دو سال سے ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے سربراہ سویڈن کے کئی شہروں میں قرآن کریم کے نسخہ جات کو جلانے کی مذموم حرکات کر رہے ہیں۔ اس انتہائی ناپسندیدہ حرکت کو انہوں نے جنوبی سویڈن کے شہر مالمو سے شروع کیا اور پھر ملک کے دوسرے شہروں تک اس کو پھیلا دیا۔ اس کی ان حرکات کی وجہ سے سویڈن کے کئی ایک شہروں میں پرتشدد ہنگامے بھی ہوئے جن کی مثال سویڈن کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سلسلہ میں جماعت سویڈن کو ازراہ شفقت ہدایات سے نوازا اور ہر شہر اور قصبے میں اسلام کی حقیقی اور پُرامن تعلیمات کو متعارف کروانے کی تلقین فرمائی۔ حضو ر انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی انہی ہدایات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سویڈن کو مئی 2022ء ایک پانچ روزہ تبلیغی دورے کی توفیق ملی۔ جماعت احمدیہ سویڈن کے تین مبلغین کرام نے ان علاقوں کا دورہ کیا جہاں یہ پرتشدد فسادات ہوئے تھے۔ اس دورے کے دوران جہاں غیر مسلموں کو اسلام کی حقیقی پر امن تعلیم متعارف کروانے کا موقع ملا وہاں مسلمانوں کو بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اس قسم کے واقعات کے موقع پر اسلا م کس قسم کے ردعمل کی رہمنائی کرتا ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے اس سربراہ نے ستمبر 2022ء میں سویڈن کے شمالی علاقہ جات میں بھی قرآن کریم جلانے کے لیے کئی شہروں کا دورہ کیا۔ سویڈن میں ستمبر کے مہینہ میں ہی ملکی انتخابات ہوئے ہیں اور ان انتخابات کے موقع پر بھی دائیں بازو کی جماعتوں نے مسلمانوں کی طرف سے پرتشدد مظاہروں کو اپنی تقریروں میں جگہ دی اور آزادئ اظہار کے خلاف عمل کے طور پر اس ردعمل کو پیش کیا۔ مکرم آغا یحییٰ خان صاحب مبلغ انچارج سویڈن اور مکرم عطا الٰہی صاحب نیشنل سیکرٹری تبلیغ نے مکرم وسیم ظفر صاحب امیر جماعت سویڈن کی اجازت سے سویڈن کے شمالی علاقہ جات میں تبلیغی سٹال لگانے کا پروگرام ترتیب دیا جہاں قرآن کریم جلانے کی نئی کوششیں کی گئی تھیں۔ اس دورے کا موضوع بھی Ask a Muslim رکھا گیا۔ اس تبلیغی دورے میں مکرم کاشف ورک صاحب مبلغ سلسلہ اور خاکسار (مبلغ سلسلہ) شامل ہوئے۔ یہ دورہ مورخہ 27؍ستمبر تا 06؍اکتوبر 2022ء ہوا۔ سفرکےآغازمیں خاکسار 27ستمبر کی صبح گاتھن برگ سے سٹاک ہالم کے لیے روانہ ہوا۔ اسی دوپہر سٹاک ہالم سے مکرم کاشف ورک صاحب مبلغ سلسلہ کے ہمراہ باقاعدہ یہ سفر دعا کے ساتھ شروع ہوا۔ اس سفر کے دوران تقریباً 3600کلومیٹر کا سفر طے کیا گیا۔ سفر میں گاڑی کے پیچھے جماعتی ٹریلر بھی نصب کیا گیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی تصویر، ’مسیح آگیا‘ کی سویڈش میں تحریر نیز جماعتی ویب سائٹ اور ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ نمایاں طور پر لکھا گیا ہے۔ اسی طرح ٹریلر کی ایک طرف Ask a Muslim لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی بعض عناوین بھی لکھے گئے جو کہ عموماً میڈیا میں آتے رہتے ہیں۔ اس سارے سفر کے دوران ہزاروں گاڑیاں اس کاروان کے پاس سے گزریں اور اس طرح ہزاروں لوگوں تک یہ پیغام پہنچا کہ جس موعود مسیح کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ آچکا ہے۔ لوکل پولیس کی اجازت سے اس ٹریلر اور ٹینٹ کو 7مختلف شہروں کی مرکزی شاہراہوں پر چھ چھ گھنٹوں کے کیے کھڑا کیا گیا اور زائرین سے گفتگو ہوئی۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب ایک طرف ان شہروں میں قرآن کریم جلانے کی مذموم حرکت کی گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بہت سے سوالات تھے تو دوسری طرف حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ہونے والے واقعات بھی معاشرے میں موضوع بحث بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ ہمارے سٹالز پر اللہ کے فضل سے ایک بڑی تعداد میں مقامی لوگوں نے آکر اسلام کے بارے میں اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات پائے۔ بہت سے لوگوں نے آزادی اظہار کے بارے میں گفتگو کے بعد قرآن جلانے کے عمل کی مذمت کی اور کہا کہ اس قسم کے کاموں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ لوگوں کو مسلمانوں کے ردعمل پر بھی بہت سے تحفظات تھے۔ کئی لوگ جو بہت ہی غصے میں سٹال پر آئے اورگفتگو کے بعد جاتے ہوئے مسکراتے ہوئے قرآن کریم کا تحفہ خوشی سے لے کر گئے۔ دورہ کے دوران کئی دلچسپی لینے والوں کو قرآن کریم بطور تحفہ دیا گیا۔ اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ کے لیکچرز اور خطوط پر مشتمل کتاب پاتھ وے ٹو پیس اور لائف آف محمد ﷺ بڑی تعداد میں تقسیم کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے سے گفتگو کے بعد ان کا اسلام کے بارے میں جو نظریہ تھا وہ مثبت ہو گیا ہے اور ان کے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ اکثر لوگوں نے جماعت کے اس اقدام اور مہم کو بہت اچھے الفاظ میں سراہا اور اس قسم کی مزید کوششوں کو جاری رکھنے کی درخواست کی۔ ان شہروں کے نام جہاں تبلیغ سٹال لگاSundsvall, Östersund, Örnsköldsvik, Umeå, Skellefteå, Piteå اور Luleå ہیں۔ اس دورے کے متعلق اطلاع متعلقہ علاقوں کےمیڈیا کو بھی کی گئی۔ جس پر دو اخبارات نے ہمارے دورے سے قبل ہی اخبارات میں ہمارے آنے کی خبر شائع کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےدورہ کے دوران بھی لوکل میڈیا میں اس دورہ کی خوب تشہیر ہوئی۔ اس طرح کُل آٹھ اخباروں، 2صوبائی ریڈیو سٹیشنز اور ایک نیشنل ریڈیو اسٹیشن نے انٹرویز کیے جن کے ذریعہ جماعت کا پیغام سارے علاقے میں پھیلا۔اخبارات نے اپنے آن لائن شماروں میں بھی انڑویوز شائع کیے اور پرنٹڈ اخبارا ت میں بھی تصاویر کے ساتھ انڑویوز کو شائع کیا گیا۔ تین اخبارات نے ہمارے انٹرویوز کو اپنے اخبار کے فیس بک پیج پر بھی شائع کیا۔ تمام سات شہروں کے اپنے فیس بک گروپس میں بھی ہم نے اس وزٹ کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا۔ ان میں سے ہر ایک گروپ میں ہزاروں ممبر ہیں۔ اسی طرح جماعتی اور ذاتی Facebook, Twitter, Instagram اکاؤنٹس کے ذریعہ بھی اس دورے کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کو پھیلانے کی کو شش کی گئی۔ ان اخباروں نے دورہ کا مقصد تفصیل سے لکھا اور خاص طور پر دورے کے Theme کو جو کہ Ask a Muslim تھا نمایاں طور پربیان کیا گیا قرآن جلانے کے حوالے سے آزادی ظہار کے کے کردار پر ہمارے نقطہ نظر کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اسی طرح پردے سے متعلق اسلام کی تعلیم اور مذہبی آزادی کے بارے میں اسلام کی راہمنائی۔ امن سے متعلق اسلام کی حقیقی تعلیم۔ جماعت کی مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے قیام سے متعلق کاوشیں وغیرہ امور ان اخبارات میں بیان ہوئے۔اس طرح اخبارات، ریڈیو اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اس دورہ کی خبر اور جماعت کا تعارف تقریباً چار لاکھ افراد تک پہنچا۔ الحمد للہ سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو ہم نے مشاہدہ کیا۔ سفر سے قبل جب ان شہروں کا موسم دیکھا تو تقریباً ہر جگہ ہی ہمیں بارش کا موسم ملنے کی Forcastنظر آئی۔ حضور انور ایدہ اللہ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کے فضل سے جس بھی شہر میں ہم پہنچے اس دن اس شہر کا موسم ابر آلود ہونے کے باوجود اچھا رہا۔ کسی جگہ بوندا باندی ہوئی مگر بارش نہ ہوئی جس سے اسٹال بہت کامیا ب رہے الحمد للہ۔ دورہ کے دوران وزٹ کیے جانے والے شہروں کے احمدی احباب نے اس سفر کو کامیاب بنانے میں اپنا خوب کردار ادا کیا۔ ہر شہر میں بہت شوق اور دلچسپی سے سٹالز پر ڈیوٹی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ دعا کی غرض سے ان دوستوں کے نام پیش ہیں۔ مکرم ڈاکٹر محمود شرما صاحب، مکرم ظہیر احمد منصور صاحب، مکرم صفوان احمد صاحب، مکرم ڈاکڑ احمد عبد اللہ صاحب، مکرم آغا بلال خان صاحب، مکرم حافظ طلحہ صاحب، مکرم اجمل شاہد صاحب،مکرم محمد جاہدخان صاحب،مکرم ندیم احمد بابر صاحب مکرم احمد کمال ماجد صاحب و فیملی اور مکرم نایاب احمد صاحب(صدر جماعت لولیو) و فیملی۔ مکرم ڈاکڑ افراز شبیر صاحب و فیملی، مکرم ڈاکڑ شاہد صاحب و فیملی۔ اللہ تعالیٰ ان سب احباب کو بہترین جزا عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ آمین قارئین الفضل کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس سفر کے مثبت نتائج کو تادیر قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے پر امن دفاع کی توفیق عطا فرماتا رہے تا لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچیں اور وہ اسلام احمدیت کے ذریعہ حضرت محمد ﷺ کے مقام کو سمجھیں اور انہیں قبول کرنے کی سعادت پائیں۔ آمین
پنجاب کے وزیر انڈسٹریز میاں اسلم اقبال کی جانب سے اطلاعات کے محکمہ کی اضافی ذمہ داریوں سے معذرت کے باعث صوبائی وزیر کالونیز فیاض الحسن چوہان کو دوبارہ وزارت اطلاعات کا قلمدان بھی دے دیا گیا ہے۔ میاں اسلم اقبال کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حلقے کی مصروفیات کے باعث دو وزارتوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا، اطلاعات کے محکمے کی اضافی ذمہ داریاں چھوڑنے کے بارے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آگاہ کر دیا ہے۔ میاں محمد اسلم کی جانب سے وزارت اطلاعات کی ذمہ داریوں سے معذرت کے بعد فیاض الحسن چوہان کو وزیر اطلاعات بنانے کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران فیاض الحسن چوہان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس دوران انہوں نے ہندو برادری کے خلاف بھی توہین آمیز جملہ کہا تھا۔ فیاض الحسن چوہان نے ہندو برادری کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے جس کا وزیراعظم عمران خان نے سختی سے نوٹس لیا تھا اور انہیں وزرات سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔
کراچی : 1971 کی جنگ کے ہیرو سوار محمد حسین شہید کا 48 واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے، پاک فوج کےعظیم سپوت کو جرات وبہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرنے پرنشان حیدرعطا کیا گیا، وہ پہلے سپاہی ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ تفصیلات کے مطابق سوارمحمد حسین شہید 18 جون 1949 کو پنجاب کے علاقے گوجرخان کے قریب ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے، سترہ برس کی عمر میں انھوں نے پاکستان آرمی میں ڈرائیورکی حیثیت سے شمولیت اختیارکی اور ڈرائیور ہونے کے باوجود 1971 کی عملی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ 1971کی جنگ میں سیالکوٹ میں ظفر وال اور شکر گڑھ کے محاذ جنگ پر مسلسل پانچ دن تک دشمن کی گولہ باری کے باوجود اگلے مورچوں تک اسلحہ پہنچاتے رہے، ان کی نشاندہی پر ہی پاک فوج نے ہندوستان کی فوج کے 16 ٹینک تباہ کیے۔ 10 دسمبرشام چار بجے سوارحسین نے دشمن کی مشین گن سے نکلنے والی گولیاں سوارحسین کے سینے میں جا لگیں جس سے وہ بھی شہداء کے قافلے میں شامل ہوگئے، شہادت کے وقت سوار محمد حسین کی عمر محض 22 سال اور 6 ماہ تھی۔ ان کی اسی بہادری کے اعتراف میں پاک فوج نے انہیں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا، سوار محمد حسین وہ پہلے سپاہی ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا، اس سے قبل نو اعزاز پانے والے تمام فوجی افسران تھے۔
کراچی : بلال کالونی پولیس نے کامیاب کی کارروائی کرتے ہوئے موٹرسائیکل لفٹنگ گینگ کے5ملزمان کو گرفتار کرلیا، ملزمان کے قبضے سے 16 مسروقہ موٹر سائیکلیں برآمد کرلی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں موٹر سائیکلوں کی چھینا جھپٹی اور رہزنی کی وارداتوں میں اضافے کے بعد کراچی پولیس نے ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلال کالونی پولیس نے موٹرسائیکلیں چوری کرنے والے گروہ کے 5 کارندوں کو حراست میں لے لیا۔ پولیس حکام کے مطابق گرفتار ملزمان کے قبضے سے16موٹرسائیکلیں،اسلحہ، ماسٹرچابی اور کٹر برآمد کرلیے گئے۔ ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے عمل میں آئی۔ دوارن تفتیش ملزمان نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ انہوں نے اب تک 50سے زائد موٹرسائیکلیں چھینی اور چوری کی وارداتیں کرچکے ہیں۔ گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ موبائل فون کے بدلے آئس اور ہیروئین لیتے تھے، ملزمان 10منٹ میں پوری موٹرسائیکل کھولنے کے ماہرہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گروہ میں ایک مکینک بھی شامل ہے جو موٹرسائیکل کھولنے میں مدد کیا کرتاتھا، مکینک سے چوری شدہ موٹرسائیکل کھول کر بھی بیچتے تھے۔ مزید پڑھیں : مسروقہ موٹر سائیکلیں کہاں اور کتنے میں فروخت ہوتی ہیں، ملزم کا انکشاف یاد رہے گذشتہ ہفتے اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل نے کراچی سے موٹرسائیکل چوری کرکے بلوچستان فروخت کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا تھا۔ ایس ایس پی طارق نواز نے بتایا تھا کہ ملزمان بلوچستان سے کراچی آکرموٹر سائیکل چوری و چھینتےتھے اور ساکران میں موٹر سائیکل فروخت کرتےتھے, ملزمان سے چوری شدہ موٹرسائیکلیں بھی برآمد کرلیں۔
روس نے یوکرین میں کئی علاقوں میں پسپائی پر فوجی کمان نئے جرنیل کو سونپ دی، یوکرین میں کریملن کی جنگ آٹھویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق روس کی وزارت دفاع نے ہفتے کے روز ایئر فورس کے جنرل سرگئی سورو وِکِن کو یوکرین میں لڑنے والی روسی افواج کا مجموعی کمانڈر مقرر کر دیا ہے، یہ ایک ہفتے کے دوران ماسکو کی تیسری اعلیٰ فوجی تعیناتی ہے جنرل سرگئی سورو وِکِن روس کی فضائیہ کی نگرانی بھی کرتے ہیں، اس سے قبل وہ شام میں روسی افواج کی قیادت کر چکے ہیں، ان کی نئی ذمہ داریوں میں، متعدد ناکامیوں کے بعد روسی فوجیوں کو ایک بار پھر سے متحرک کرنا، فوجیوں اور ساز و سامان کے بھاری نقصانات کو کم کرنا، اور ہزاروں مربع میل کے مقبوضہ علاقے کو پھر سے حاصل کرنا شامل ہیں۔ یوکرین، روسی بمباری سے 12 ہلاک دوسری طرف یوکرین کے جنوب مغربی شہروں میں روسی بم باری سے 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں، جب کہ ممتعدد افراد ملبے تلے دب گئے روسی صدر پیوٹن نے ضم ہونے والے یوکرینی علاقے کریمیا کو روس سے ملانے والے پُل پر دھماکے کو دہشت گردی قرار دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دھماکے کے منصوبہ ساز اور معاون یوکرینی خفیہ ایجنسی کی مدد سے آئے۔ یاد رہے کہ روس کریمیا روڈ اور ریل رابطہ پُل پر ٹرک دھماکا ہوا تھا، دھماکے میں 3 افراد ہلاک اور 7 آئل ٹینکرز میں آگ لگی گئی تھی