text
stringlengths
332
578k
اہور:معروف پاکستانی اداکار حسن نیازی اپنی نئی آنے والی فلم ’شیردل‘ میں بھارتی پائلٹ کا کردار نبھانے پر بول پڑے۔ حسن نیازی کا اپنے کردار کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’میں فلم ’شیر دل‘ میں بھارتی پائلٹ ارون ویرانی کا کردار ادا کررہا ہوں لیکن اس فلم کی تشہیر کے دوران اکثر لوگ مجھ سے ایک سوال پوچھا کرتے ہیں کہ ارون ویرانی کا کردار بھارتی رہا کیے گئے پائلٹ ابھی نندن سے متاثر ہوکر بنایا گیا ہے تو بطور حسن نیازی میں کس طرح محسوس کرتا ہوں ؟جس پر میراجواب یہی ہوتا ہے کہ فلم کا یہ اسکرپٹ ہم بہت پہلے تیار کر چکے تھے‘۔ حسن نیازی نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی اچھی فلم کو بنانے میں کم از کم ڈیڑھ سے دو سال کاعرصہ درکار ہوتا ہے اور ہم اپنی فلم کی لاؤنچنگ کے قریب تر تھے لیکن یہ قدرت کی طرف سے محض ایک اتفاق ہی تھا کہ پاکستان میں بھارتی پائلٹ کا واقعہ رونما ہو گیا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو ہم اپنی اس فلم کو لے کر کافی مطمئن ہیں۔ ارون ویرانی کا کردار ادا کرنے والے حسن نیازی نے کہا کہ اس فلم پر ہمیں یقین اس وجہ سے بھی ہے کہ ان دنوں پاک فضائیہ کا جذبہ اور مورال بلند ترین ہے اور ہم نے بھی اس فلم میں کچھ اسی طرح کی عکاسی کی ہے جس میں پاکستانی پائلٹ اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے دشمن کو مزہ چکھاتا ہے پرنٹ یا ایمیل کریں More in this category: « محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 13 برس بیت گئے کامیڈی فلم’ٹوائے اسٹوری 4‘کا نیا ٹریلر جاری »
علاقائی تجارتی معاہدہ ان ممالک کو ، جو زیادہ تر ایک ہی جغرافیائی خطے میں واقع ہیں ، کے مابین غیر ملکی تجارت میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرکے تجارت کو باہمی آزاد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آج کی کچھ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد و ضوابط اور نئی منڈی کے آغاز کے سلسلے میں کثیرالجہتی تجارتی آرڈر کی ناکافی کے باعث ممالک باہمی اور علاقائی تجارتی معاہدے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) نیٹ ورک کی توسیع کے ساتھ ، بہت سے ممالک نے اپنا سامان ایف ٹی اے کے شراکت داروں سے فراہم کیا ہے ، اور ایف ٹی اے نیٹ ورک سے باہر کے ممالک کو تجارت کے کچھ ترجیحی مواقع سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومتوں نے ایف ٹی اے نیٹ ورک تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ اس تناظر میں ، ترکی بین الاقوامی تجارت میں اور کسٹم یونین کے دائرہ کار میں ایف ٹی اے نیٹ ورک بنانے کے رجحان کے مطابق ، ان ممالک کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی اسی طرح کے معاہدوں پر اتفاق کرتا ہے جس کے ساتھ یورپی یونین نے آزادانہ تجارت کے معاہدے طے کیے ہیں۔ ترکی نے 38 ایف ٹی اے پر دستخط کیے ہیں ، جن میں سے 11 وسطی اور مشرقی یوروپی ممالک کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے ہیں کیونکہ وہ ان کی یورپی یونین کی رکنیت کی وجہ سے ختم کردیئے گئے ہیں۔ بقیہ 22 ایف ٹی اے (ای ایف ٹی اے ، اسرائیل ، مقدونیہ ، بوسنیا اور ہرزیگوینا ، فلسطین ، تیونس ، مراکش ، مصر ، البانیہ ، جارجیا ، مونٹینیگرو ، سربیا ، چلی ، ماریشیس ، جنوبی کوریا ، ملائشیا ، مالڈووا ، جزیرے سنگاپور ، کوسوو ، وینزویلا ، اور برطانیہ) فی الحال لاگو ہیں۔ ای ایف ٹی اے ، سربیا ، بوسنیا ہرزیگوینا ، اور مونٹی نیگرو کے ساتھ موجودہ ایف ٹی اے کے دائرہ کار کو اپ ڈیٹ کرنے اور بڑھانے کے لئے نظرثانی کے انتظامات پر دستخط کیے گئے ہیں۔ سربیا کے ساتھ دستخط کیے گئے انتظامات 1 جون 2019 کو نافذ ہوگئے۔ اس کے علاوہ ، اس کا مقصد جارجیا ، ملائشیا اور مالڈووا کے ساتھ ایف ٹی اے کو جلد اپ ڈیٹ کرنے کے لئے مذاکرات کو ختم کرنا ہے۔ منظوری کے عمل میں ایف ٹی اے داخلی منظوری کے عمل کی تکمیل کے بعد لبنان ، سوڈان اور قطر کے ایف ٹی اے نافذ ہوجائیں گے۔ مذاکرات کے عمل میں ایف ٹی اے ایف ٹی اے مذاکرات کے دائرہ کار کے اندر یوکرائن ، جاپان ، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے ساتھ بات چیت فعال طور پر جاری ہے جو 17 ممالک کے ساتھ باضابطہ طور پر شروع کی گئی ہے۔ میکسیکو ، پیرو ، کولمبیا ، میرکوسور ، ایکواڈور ، کیمرون ، چاڈ ، خلیج تعاون کونسل ، جمہوری جمہوریہ کانگو ، سیچلس ، جبوتی ، اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو تیز کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان مذاکرات کے دائرہ کار میں ، اجناس کی تجارت کے علاوہ ، یوکرین کے ساتھ سروس تجارت ، خدمت تجارت اور پیرو اور میکسیکو کے ساتھ بات چیت میں سرمایہ کاری ، خدمت تجارت ، سرمایہ کاری اور جاپان کے ساتھ عوامی خریداری پر بھی تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔
ویب ڈیسک : سرچ انجن ویب سائٹ گوگل نے اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز صارفین کے لیے موبائل اسٹوریج کو زیادہ سے زیادہ 60 فیصد تک کم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گوگل نے اینڈرائیڈ فونز کے لیے آرکائیونگ نامی نئے فیچر کا اعلان کیا ہے جسے صارفین رواں برس میں ہی اپنے زیرِ استعمال لا سکیں گے۔ اس فیچر کے تحت گوگل کسی ایپ کو مکمل ان انسٹال یا ڈیلیٹ کرنے کی بجائے یہ فیچر اس کے کچھ حصوں کو عارضی طور پر روک دے گا اور ایک نئے قسم کے اینڈرائیڈ پیکج کو شکل دے گا جسے 'آرکائیو اے پی کے' کا نام دیا جائے گا۔یہ پیکج ڈیٹا کو اس وقت تک کے لیے محفوظ کرے گا جب تک صارفین ایپ کو مکمل طور پر ری اسٹور نہ کردیں۔ امریکی سائفر کیس:عمران خان کیلئے نئی مشکل کھڑی ہو گئی اسی طرح صارفین کسی بھی ایپلیکیشن کو موبائل اسپیس یعنی میموری اسٹورج کا مسئلہ حل کرنے کےلیے ڈیلیٹ کرنے بجائے آرکائیو میں ڈال سکتے ہیں۔
ننی امل، جو شام سے تعلق رکھنے والی ایک پناہ گزین ہے، ناممکن معلوم ہونے والا سفر شروع کرتی ہے، فائدہ مند حالات میں ایک نئی زندگی کا۔ یہ خصوصی سفر کیسا نظر آسکتا تھا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے «دی واک» آئی ہے۔ دی واک امیر نیزار زوابی کی فنی ہدایت کے تحت حرکت کرنے والا ایک عالمی ثقافتی تہوار ہے، جو دنیا کی مشہور کمپنی ہینڈ اسپرین پپیٹ کے تعاون سے فرانسیسی تھیٹر گروپ «گڈ چانس» کے طرف تعمیر کردہ ایک ننی امل، ایک 3.5 میٹر کٹھ پتلی گڑیا کے سفر کی پیروی کرتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد پناہ گزینوں کے مسئلے اور لاکھوں بے گھر ہونے والے نابالغ بچوں کی مہم جوئی اور ان کی ضروریات کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ پوری دنیا کے فنکار، ثقافتی اور انسان دوست تنظیمیں شام سے برطانیہ تک امل کے 8.000 کلومیٹر کے سفر میں تعاون اور مدد کررہی ہیں، جوکہ ایک بہتر زندگی کی تلاش میں پوری دنیا سے بے گھر ہونے والے بچوں کے سفر کی علامت ہے۔ خاص طور پر، جہاں بھی امل پہنچے گی، وہاں مختلف ثقافتی تقریبات ہوں گی، جیسے تھیٹر ڈرامے، ڈانس شوز، محافل موسیقی اور دیگر انٹرایکٹو سرگرمیاں۔ اس طرح، آرٹ کی طاقت کے ذریعے، جو سرحدوں کو نہیں دیکھتی اور لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، دی واک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے: «ہمیں مت بھولیں!» اس کے علاوہ، اساتذہ کرام – دی واک کے تعاون کاروں کی مدد سے، مختلف مقامات پر اسکولوں میں مختلف سرگرمیوں کو منظم کرنے کی اہلیت حاصل ہوگی۔ لہذا، طلباء کو لہذا، طلبا کو ہجرت، ماحولیاتی تبدیلی، ثقافتی تبادلہ، تاریخ اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے متعدد مسائل سے وابستہ رہنے کا موقع ملے گا۔ دی واک یونان میں ننی امل 9 اگست کو یورپ کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے خیوس جزیرے پہنچتی ہے، جہاں ایک میوزک گروپ اس کا خیرمقدم کرتا ہے، جبکہ اگلے دن خیوس میں مقیم پناہ گزین بچوں کی طرف سے بنائی گئی مختصر فلموں کی عوامی نمائش بھی ہوتی ہے۔ پھر، ننی امل یونیننا، کالاباکا، تریکالا، لاریسا سے ہوتی ہوتی ہوتی یکم ستمبر کو اتیکا پہنچتی ہے۔ اس دورے کے دوران، ننی امل کے ٹھہرنے والے مقامات پر، روایتی میوزک شوز اور مقامی افراد اور پناہ گزین برادریوں کی شراکت کے ساتھ انٹرایکٹو پروگرام منعقد ہوں گے۔ اس کے بعد، یکم ستمبر سے 5 ستمبر تک ننی امل الیفسینا، ایتھنز اور پیریاس میں رہے گی۔ کینیتیرس نیٹ ورک برائے پرفارمنگ آرٹس، یو این آئی ایم اے ہیلس اور ایتھنز کے شہر کے مابین باہمی تعاون کے ساتھ، ایتھنز میں رونما ہونے والے سب سے بڑی تقریبات میں سے ایک «شہر اور اس کا بھولبلییا» جگہ لے گا۔ 2 ستمبر کو شہر کے تمام لوگ ننی امل کے دھاگے کو تیکنوپولس کی طرف گامزن کرنے کے بعد ایک مارچ کریں گے، تاکہ مشہور اسرار افسانوی مخلوق امل کی مدد کریں۔ واک کے بارے میں مزید معلومات کے لئے، تقریبات اور اس میں شرکت کے لیے ملاحظہ کریں: www.walkwithamal.org
کراچی کے علاقے گلبرگ بلاک 12 میں ڈکیتی کی نیت سے گھر میں داخل ہونے والے ملزمان مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔ گلبرگ میں واقع دو منزلہ بنگلے میں 4 مسلح ملزمان واردات کی نیت سے صبح 10 بجے اندر داخل ہوئے اور گھر والوں کو یرغمال بنایا ساتھ ہی مارنے کی دھمکی دی۔ بنگلے کے اوپر موجود بچے نے شور شرابے کی آواز سنی، تو فوری طور پر پولیس کو کال کرکے اطلاع دی۔ پولیس نے پہنچتے ہی ملزمان سے مقابلہ کرتے ہوئے اِنہیں ہلاک کردیا جبکہ پولیس کی کاروائی سے گھر والوں کی جان و مال دونوں بچ گئی۔ ملزمان نے بنگلہ کے رہائشی حامد رضا، اصغر اور ان کی بھابی کو یرغمال بنایا تھا اور گن پوائنٹ پرانہیں گاڑی تک گلی میں گھسٹتے ہوئے لے آئے تھے لیکن پولیس کو دیکھتے ہی ملزمان نے بھی فائرنگ شروع کر دی تھی۔ جوابی فائرنگ کے نتیجے میں سلور کار گینگ کے تینوں ملزمان کو پولیس نے مقابلے کے بعد ہلاک کردیا اور ملزمان کے قبضے سے اسلحہ اور گاڑی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
انڈونیشیا میں جی 20 سربراہی اجلاس کا آغاز ہو گیا ہے امریکی اور چینی صدور، کینیڈین وزیراعظم اور سعودی ولی عہد بھی شریک ہیں۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں دنیا کے بڑے معاشی ممالک پر مشتمل گروپ جی 20 کا سربراہی اجلاس کا آغاز ہوگیا ہے جس میں امریکی صدر جو بائیڈن، چین کے صدر شی جن پنگ، کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، ترک صدر طیب اردوان سمیت گروپ کے دیگر رکن ممالک کے قائدین شرکت کر رہے ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تین تجاویز پیش کر دی ہیں۔ انہوں نے سب کو مل کر عالمی ترقی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مختلف ممالک نے یوکرین میں روس کی جارحیت کی مذمت کی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی اجلاس سے قبل ترک اور چینی صدور سے ملاقات ہوئی ہے جس میں عالمی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے قبل جی 20 سربراہی اجلاس میں انڈونیشیا کے صدر نے عالمی رہنماؤں کا استقبال کیا۔ واضح رہے کہ جی 20 ممالک کے گروپ میں امریکا، چین، کینیڈا، سعودی عرب، ترکیہ، آسٹریلیا، انڈونیشیا، ارجنٹائن، بھارت، برازیل، فرانس جرمنی، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، اسپین، جنوبی افریقہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ اس میں یورپی یونین میں شامل ممالک انفرادی طور پر رکن نہیں ہیں۔
مجلسِ فروغِ اُردو ادب،دوحہ ۔ قطر کے عہدیداران،(دائیں سے بائیں) فرتاش سید(صدر)، ۔فرقان احمد پراچہ(جنرل سیکرٹری)،امین موتی والا(جوائنٹ سیکرٹری) اور جاوید ہمایوں(نائب صدر)۔ دوحہ،۲۵؍اکتوبر۔ عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم ’مجلسِ فروغِ اُردو ادب دوحہ۔قطر ‘کے زیرِاہتمام’’بیسواں (۲۰) عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ ۲۰۱۶ء‘‘ پاکستان سے نامور شاعر،ڈراما نگار اورکالم نگار امجداسلام امجدؔ اور ہندوستان سے شاعرو نغمہ نگار اور کہانی نویس جاوید اخترکو پیش کیا جائے گا۔۱۹۹۶؁ء سے تاحال تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر سال ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی ادیب کی خدمت میں مشترکہ طور پر پیش کیا جانے والا ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘ ایک لاکھ پچاس ہزارروپے کیش اور طلائی تمغہ پر مشتمل ہے۔قبل ازیں ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘احمد ندیم قاسمی اور پروفیسر آلِ احمد سرور سے لے کر اب تک ۱۹پاکستانی اور۱۹ ہندوستانی نثر نگاروںکی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ بائیسویں (۲۲)عالمی مشاعرہ بیادِ احمد ندیم قاسمی اور بیسویں (۲۰)عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ ۲۰۱۶ء کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے مجلسِ فروغِ اُردو ادب دوحہ۔قطر ‘کی مجلسِ انتظامیہ کا اجلاس چیئرمین مجلس محمد عتیق کی صدارت میں ہوا،جس میں فرتاش سیّد (صدر) ، جاوید ہمایوں،شادؔ اکولوی(نائب صدور)،فرقان احمد پراچہ(جنرل سیکرٹری) امین موتی والا،رضا حسین رضا(جوائنٹ سیکرٹریز) فرزانہ صفدر،روئیس ممتاز(میڈیا سیکرٹریز ) ،قمر الزمان بھٹی اور رضا نقوی نے شرکت کی۔گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے محمد عتیق نے گذشتہ کئی سالوں سے مجلس کی سرپرستی کرنے پر’’وزارتِ ثقافت و اسپورٹس، ریاستِ قطر‘‘کے حسنِ تعاون کا شکریہ اداکیا۔اجلاس میں ’’بیسویں (۲۰)عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ ۲۰۱۶ء‘‘ کے انتخاب پر پاک و ہند کی جیوریزکے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی اور پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور اراکین ِ جیوری کا بھی شکریہ اداکیا گیا۔مزید برآں پاک و ہند میںجیوریز کے اجلاسوں کے بطریقِ احسن انتظامات پر مجلس کے کوآرڈی نیٹرز دا ؤد احمدملک اورکفایت دہلوی کی تعریف بھی کی گئی۔ فرتاشؔ سید نے اب تک ہونے والے انتظامی امور کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ مجلس کے جملہ عہدیداران و اراکین، پروگرام کے کامیاب انعقاد کے لیے پرجوش انداز میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس موقع پر ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی جس کے مطابق امجد اسلام امجدؔ اور جاوید اختر کی خدمت میں مشترکہ طور پر’ ’’بیسواں (۲۰)عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ ‘‘، ’’الجیوانا ہال‘‘ ریڈیسن بلو ہوٹل دوحہ میںبتاریخ۲۸/ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو ہونے والے ’’بائیسویں (۲۲) عالمی مشاعر ہ ببا دِ احمد ندیم قاسمی ‘‘ کے موقع پرپیش کیا جائے گا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی ڈائریکٹر شعبۂ تعلقاتِ عامہ وزاتِ داخلہ ریاستِ قطر بریگیڈئیر عبداللہ خلیفہ المفتاح ،مہمانانِ اعزازی پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور محترمہ شبانہ اعظمی ہوں گے جب کہ ایوارڈ کی تقریب کی نظامت کے فرائض فرتاشؔ سیّد اور فرقان احمد پراچہ سرانجام دیں گے۔ چوں کہ امسال مجلس(۱۹۹۱ء۔۲۰۱۶ء)کی سلور جوبلی تقریبات ہیں ،اِس لیے اُن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا گروپ کو بھی اعزازات پیش کیے جائیں گے جنھوں نے اُردو ادب کے فروغ کے لیے مجلس کی تقریبات کو حسنِ ادارت سے نوازا۔ایوارڈ پانے والوں میں ای۔اُردو ٹی۔وی ،میٹرو نیوز 1ٹی۔وی چینل،ایف۔ایم ۔ریڈیو قطر (اُردو)، دوحہ سے نکلنے والے انگریزی روزنامے گلف ٹائمز ، قطر ٹریبیون،پینن سولا ،معروف صحافی اشرف صدیقی اورروزنامہ سیاست حیدرآباد۔روزنامہ سیاست حیدرآباد کے چیف ایڈیٹر عامر علی خان ایوارڈ وصول کرنے کے لیے بہ نفسِ نفیس تشریف لا رہے ہیں۔ ایوارڈز کی تقسیم کے بعد بائیسویں سالانہ عالمی مشاعرہ کی صدارت جاوید اختر کریں گے جب کہ نظامت کے فرائض ایوب خاور سرانجام دیں گے۔دیگر شعرأ و شاعرات میں پاکستان سے امجد اسلام امجدؔ،پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،خالد مسعود خان اور قیصر وجدی۔ہندوستان سے ڈاکٹرمظفرعلی شہ میری،حسن کاظمی، خورشید عالم اور علینا عترت۔برطانیہ سے احسان شاہد،جرمنی سے شازیہ نورین ، امریکہ سے ناہید ورک، ابوظہبی سے ظہورالاسلام جاویدؔ جب کہ قطر کی نمائندگی فرتاشؔ سیّد، محمد رفیق شادؔ اکولوی اور رضا حسین رضاؔ کریں گے۔
فلسطینی عہدیداروں نے صیہونی حکومت کی جانب سے مسجد اقصی کو نمازیوں اور اس کے خادموں سے خالی کروانے کے لئے ایک نئی پالیسی سے متعلق انتباہ دیا ہے۔ ولایت پورٹل:القدس العربی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یروشلم میں فلسطینی عہدیداروں اور مذہبی حکام کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کے ملازمین نے بھی اسرائیلی غاصبانہ حکومت کی جانب سےمسجد اقصی سے منظم طریقے سے انخلا کرنے کی پالیسی کے علاوہ رہائشیوں پر روزانہ ہونے والے حملوں کے بارے میں متنبہ کیا۔ بیت القدس اسلامی اوقاف کے ایک سینئر اہلکار نے العربی الجدید نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حال ہی میں قابض حکومت کی طرف سے مسجدالاقصی کے نمازیوں اور خادمین کے خلاف اپنائی گئی نئی پالیسی ایک خطرناک اور بےسابقہ ہے کیونکہ یہ منظم طریقے مسجد کے صحن میں موجود خادمین، عہدیداروں اور صحافیوں کو ایک ساتھ نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران قریب 10 افراد صہیونی حکومت کی پالیسی کا شکار ہوئے ہیں جن میں یروشلم میں سپریم اسلامی کمیٹی کے سربراہ شیخ عکرمہ صابری ، اور سندس عویس اور رائده سعیدجیسے فوٹوگرافروں اور صحافیوں شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے متعدد خادم اور محافظ اور متعدد گروہوں کے کارکنان ، جن میں فتح تحریک کے ایک رہنماناصر قوس جو یروشلم میں فلسطینی قیدیوں کے کلب کے صدر بھی ہیں ، مسجد اقصیٰ میں جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی پولیس نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی چھاپے کے دوران مسلمان نمازیوں کو حراست میں لینے کی دھمکی دی ہے اور بچوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ قبه الصخره کے صحن میں نہ کھیلیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی دستوں نے مسجد اقصیٰ پر چھاپے کے دوران صحافیوں اور فوٹوگرافروں کی فلم بندی پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔
68،800 مربع کلومیٹر (26،560 مربع میل) پر پھیلی ہوئی یہ جھیل براعظم افریقہ اور استوائی علاقے کی سب سے بڑی اور سطحی حجم کے اعتبار سے دنیا میں تازہ پانی کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہے۔ جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 84 میٹر (276 فٹ) اور اوسط گہرائی 40 میٹر (131 فٹ) ہے۔ جھیل وکٹوریہ حجم کے اعتبار سے دنیا میں تازہ پانی کی ساتویں سب سے بڑی جھیل ہے جس میں 2،750 مکعب کلومیٹر (22 لاکھ ایکڑ فٹ) پانی ہے۔ یہ جھیل دریائے نیل کی بڑی شاخ نیل ابیض کا منبع ہے۔ جھیل افریقہ میں تنزانیہ، یوگینڈا اور کینیا کے درمیان وادی صدع العظیم (Great Rift Valley) کے مغربی حصے میں ایک سطح مرتفع پر واقع ہے۔ جھیل کے ساحلوں کی لمبائی 3،400 کلومیٹر (2138 میل) ہے جبکہ اس میں تین ہزار سے زائد جزیرے بھی ہیں جن میں سے اکثر غیر آباد ہیں۔ جھیل کے شمال مغرب میں واقع کئی جزائر کا مجموعہ مشہور سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جھیل میں قائم ایک خوبصورت جزیرہ تاریخ میں جھیل کے بارے میں پہلی باقاعدہ معلومات عرب تاجروں کی جانب سے ملتی ہے جو سونے، ہاتھی دانت اور دیگر اشیاء کے حصول کے لیے افریقہ کے اندرونی راستوں پر جاتے تھے۔ معروف مسلمان جغرافیہ دان ادریسی نے 1160ء کی دہائی میں جو نقشہ ترتیب دیا اس میں جھیل وکٹوریہ کو دکھایا گیا ہے اور اسے دریائے نیل کا منبع بھی قرار دیا گیا۔ یورپیوں نے پہلی مرتبہ 1858ء میں اس جھیل کو دیکھا جب برطانیہ کے مہم جو جون ہیننگ اسپیک اس کے جنوبی ساحلوں پر پہنچے۔ انہوں نے اس جھیل کو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ جھیل 20 ویں صدی سے یوگینڈا، تنزانیہ اور کینیا کے درمیان بحری سفر میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ 21 مئی 1996ء کو ایک بحری جہاز کے ڈوبنے سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جو افریقہ کی تاریخ کے بدترین بحری حادثات میں سے ایک ہے۔ مزید دیکھیےترميم عظیم جھیلیں بیرونی روابطترميم جھیل وکٹوریہ کا ڈیٹاآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ilec.or.jp (Error: unknown archive URL) آبی ذخائر اور بین الاقوامی قوانینآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ppl.nl (Error: unknown archive URL)
روم، اٹلی: پہلی مرتبہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ چمگادڑیں حملہ آور الوو ¿ں سے بچنے کے لیے اپنی آواز بدل کر ڈنک دار مکھیوں یا تتّیوں کی بھنبھناہٹ جیسی نقل اتارتی ہیں۔اگرچہ آواز یا شکل بدل کر دشمن کو ڈرانا یا اس سے بچنے کا ہنر اب تک کیڑے مکوڑوں میں ہی سامنے آیا ہے لیکن پہلی مرتبہ یہ خاصیت کسی ممالئے میں دریافت ہوئی ہے۔ اٹلی میں واقع نیپلس فیڈریکو دوم یونیورسٹی کے سائنسداں ڈینیلو ریوسو نے کئی برس قبل چمگادڑ کی انوکھی بھنبھناہٹ سنی تھی جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ جب جب وہ باہر نکلتی مکھیوں جسی آواز نکالتیں۔ اب انہوں نے اس مظہر کا بغور جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے چوہے جیسے کان والی ایک مشہور چمکادڑ(مایوٹِس مایوٹِس) کی ریکارڈنگ سنیں جو (شہد کی) مکھیوں اور تتّلیوں جیسی تھیں۔ جب جب چمگادڑ کی آواز کسی الو سے ٹکرا کر واپس ا?ئی تو وہ ا?واز مکھیوں کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے دو اقسام کے الوو ¿ں کو مختلف آوازیں سنائیں جن کی تعداد 16 کے قریب تھی۔ ان میں سے نصف جانور براہِ راست ماحول میں تھے اور بقیہ آٹھ تجربہ گاہ میں رکھے گئے تھے۔ اسپیکر قریب لاکر ہر الو کو چار مختلف آوازیں سنائی گئیں۔ اول، چمگادڑ کی اصل آواز، دوسری آواز جس میں وہ مکھیوں کی نقل کر رہی تھی، سوم یورپی تتّیئے (ہارنیٹ) کی صدا اور چہارم شہد کی مکھی کی آواز سنائی گئی۔ تینوں اقسام کی بھنبھناہٹ سن کر سارے الو ایک دم پیچھے ہٹ گئے اور جیسے ہی انہوں نے چمگادڑ کی اصل آواز سنی وہ اسپیکر کے قریب آگئے۔ان میں سے کچھ الوو ¿ں کا ردِ عمل مختلف بھی تھا اور وہ بھنبھناہٹ سن کر بہت زیادہ ڈرے تھے شاید ماضی میں انہیں کسی مکھی یا ڈنک دار کیڑے نے کاٹا ہوگا یا ان کی یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ تازہ ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق سے ایک سوال پیدا ہوا کہ جب ایک قسم کی چمگادڑ نے خود کو بچانے کے لیے یہ حربہ سیکھا ہے تو بقیہ اقسام کے چمگادڑوں نے اسے اختیار کیوں نہیں کیا؟ اب ماہرین اس جواب کی کھوج کر رہے ہیں۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی اور جس دن ہم ہر امت میں انہیں میں کا ایک گواہ ان پر کھڑا کریں گے اور تجھے (اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان دلائل پر گواہ لائیں گے ، اور ہم نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں ہر شے کا بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت (ہے) مسلمانوں کے لئے (ف ١) ۔ تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی [٩٠] آپ کا دوسرے صحابہ سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’مجھے قرآن سناؤ‘‘ میں نے عرض کی۔ بھلا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سناؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ہے، مگر دوسرے سے سننا مجھے اچھا لگتا ہے‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰوُلاَءٍ شَھِیْدًا﴾(۴:۴۱) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بس کرو‘‘ میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی :۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٤١ اور سورۃ نحل کی اس آیت کا مضمون ایک ہی ہے۔ البتہ الفاظ کا اختلاف اور تقدیم وتاخیر ضرور ہے ان دونوں آیات میں ھولاء کا مشار الیہ دوسرے انبیاء بھی ہو سکتے ہیں۔ اور گواہی یہ دینا ہوگی کہ آیا واقعی ان سابقہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ اس مطلب کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوئی اور اسی فرط مسرت و انبساط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے کہ یہ آپ پر اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور اگر ھولاء کا مشارٌ الیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو سمجھا جائے جو اس وقت موجود تھے تو یہ ایک بڑی گرانبار ذمہ داری بن جاتی ہے کہ آپ ان کے اچھے اور برے سب اعمال پر گواہی دیں خصوصاً اس صورت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بڑے مہربان تھے۔ اسی خیال سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نیز ھٰوُلاَءِ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گے۔ اور ان لوگوں پر آپ گواہی دیں گے کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن کو محض ایک عملیات کی کتاب سمجھ رکھا تھا۔ جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے ہوتا تھا اس کے بعد انھیں قرآن کے احکام سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآنی آیات واحکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے تھے۔ ان سب لوگوں کے خلاف اللہ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ جیسا کہ سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے واضح ہے۔ [٩١] قرآن میں تفصیل کس قسم کی ہے :۔ چونکہ قرآن کریم کا موضوع بنی نوع انسان کی ہدایت ہے لہٰذا یہاں ہر چیز سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہو۔ یعنی اس میں تمام اچھے اور برے اعمال اور ان کی جزا و سزا کی خبر دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا جہان کے علوم و فنون اس میں آگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی تفصیلات بھی موجود ہیں جیسا کہ اکثر حضرات اپنے اپنے علوم و فنون کو بہ تکلف قرآن کریم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اگر کوئی بات طب، جغرافیہ یا تاریخ یا ہیئت کی آگئی ہے تو وہ ضمناً ہے ایسے علوم بیان کرنا قرآن کا اصل مقصد نہیں۔ نیز قرآن میں جو چیزیں مذکور ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی تو تفصیل بھی قرآن میں آگئی ہے۔ بعض اجمالاً بیان ہوئی ہیں۔ ان کی تفصیل قرآن کے بیان یا آپ کی سنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ بیشتر ارکان اسلام تک قرآن میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ اور ان کی پوری تفصیل احادیث میں مذکور ہے اور ان قرآنی احکام پر عمل صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ احادیث سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ احادیث کے منکر ہیں یا حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت صرف حدیث کے نہیں بلکہ قرآن کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ پھر جو مسائل نئے پیدا ہوں اور کتاب و سنت میں مذکور نہ ہو۔ علمائے امت کا فرض ہے کہ وہ کتاب و سنت کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد و استنباط کے ذریعہ ایسے مسائل کا حل دریافت کریں اور اجتہاد کرنا بھی سنت نبوی ہے اور سنت نبوی سے ثابت ہے اور یہ دونوں چیزیں بھی قرآن کے تبیان میں شامل ہیں اس طرح قرآن سے ہر شرعی مسئلہ میں تاقیامت رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ [٩٢] قرآن کے تین فائدے :۔ قرآن کریم مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق تفصیلی احکام و ہدایات موجود ہیں حتی کہ مابعد الطبیعات کے متعلق بھی ہمیں بیش قیمت معلومات بہم پہنچاتا ہے اور ان ہدایات و احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی دنیوی زندگی بھی قلبی اطمینان و سکون سے بسر ہوتی ہے اور اخروی زندگی بھی سنور ہوجاتی ہے اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے کہ فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل اور جنت کی دائمی اور لازوال نعمتوں کی بشارت دیتا ہے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک)مریم نواز کی لندن میں ایک ماہ قیام متوقع ہے۔خاندان کے ذرائع کے مطابق، امکان ہے کہ وہ اپنے والد سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ پاکستان واپس آئیں گی۔ لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے لندن کے لیے روانہ ہونے سے کچھ دیر قبل مریم نے کہا کہ وہ اپنے والد نواز شریف سے ملنے کا انتظار نہیں کر سکتیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے لندن قیام کے دوران میڈیکل چیک اپ کروائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے خلاف کوئی چارج شیٹ یا ٹرائل نہ ہونے کے باوجود وہ تقریباً چار سال سے اپنے بنیادی حقوق کا استعمال نہیں کر سکیں۔ اس نے استدعا کی تھی کہ اسے اپنے بیمار والد کی عیادت اور ان کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانے کی اشد ضرورت ہے، عدالت سے درخواست کی کہ وہ ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کو انصاف کے مفاد میں اس کا پاسپورٹ واپس کرنے کی ہدایت کرے۔ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ لندن روانگی سے قبل کہنا تھا کہ مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا کہ کب جہاز لینڈ کرے اور کب میں اپنے والد سے ملو۔@MaryamNSharif pic.twitter.com/ZHHtBOLEjf
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے دفتر (پی ایم او) نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ انہیں وزارت دفاع کی طرف سے افواج پاکستان کے نئے سپہ سالار اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کے لیے "ناموں کے پینل” کے ساتھ سمری موصول ہوگئی ہے۔ آج صبح سویرے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تقرریوں کا جلد فیصلہ کریں گے۔ The PM Office has received the summary from the Ministry of Defence with a panel of names for the appointment of Chairman Joint Chiefs of Staff Committee and Chief of the Army Staff. The Prime Minister will take a decision on the appointments as per the laid down procedure. — Prime Minister's Office (@PakPMO) November 23, 2022 وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے منگل رات گئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے سمری پی ایم او کو بھجوا دی گئی ہے جبکہ بقیہ اقدامات جلد مکمل کر لیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ وزیر دفاع کی یہ ٹویٹ فوج کی طرف سے وزارت دفاع کو سمری بھیجے جانے کے اعلان کے بعد سامنے آئی۔ اگرچہ گذشتہ روز متعدد وزراء وزیر اعظم آفس کو کوئی بھی سمری وصول ہونے کی تردید کرتے رہے، لیکن انٹر سروسز پبلک ریلیشنز( آئی آیس پی آر) کی جانب سے ایک پیغام میں صرف اتنا کہا گیا "جی ایچ کیو نے افواج پاکستان کے نئے سپہ سالار اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کے لیے سمری کو آگے بھیج دیا ہے، جس میں چھ سینئر ترین افسران کے نام شامل ہیں۔ اگرچہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن چھ ناموں کو آگے بڑھایا گیا ہے، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت فوج کے اگلے سربراہ بننے کی دوڑ میں شامل چھ افراد (سینیارٹی کے لحاظ سے) لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود ، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامرکے نام شامل ہیں۔ GHQ has forwarded the summary for Selection of CJCSC and COAS, containing names of 6 senior most Lt Gens to MoD. — DG ISPR (@OfficialDGISPR) November 22, 2022 اس سے قبل ایک ٹی وی شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ فوج اور حکومت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ یاد رہے کہ ایک روز قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان سمیت مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں نے اشارہ دیا تھا کہ فوج اس عمل میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف آئندہ دنوں میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کے جانشین کے انتخاب پر جمعرات کو مشاورت کریں گے۔ یہ ایک روایت ہے کہ وزیر اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ نئے آرمی چیف کے تعین کے لیے مشاورت کا اہتمام کرتے ہیں۔ تاہم اسے "غیر رسمی مشاورت” کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق تقرریوں پر غور کے لیے جمعرات کو وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کی جانب سے واضح اعلان سامنے آگیا ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلہ کو متنازع بنانے سے گریز کریں گے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے بادلوں ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی۔ ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب بادل مرحلہ وار پتلے دھوئیں جیسے بادل اول اول تو قدرت الٰہی سے اٹھتے ہیں پھر مل جل کر وہ جسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر جم جاتے ہیں پھر ان میں سے بارش برستی ہے ۔ ہوائیں چلتی ہیں ، زمین کو قابل بناتی ہیں ، پھر ابر کو اٹھاتی ہیں ، پھر انہیں ملاتی ہیں ، پھر وہ پانی سے بھر جاتے ہیں ، پھر برس پڑتے ہیں ۔ پھر آسمان سے اولوں کو برسانے کا ذکر ہے اس جملے میں پہلا «مِنِ» ابتداء غایت کا ہے ، دوسرا تبعیض کا ہے ، تیسرا بیان جنس کا ہے ۔ یہ اس تفسیر کی بنا پر ہے کہ آیت کے معنی یہ کئے جائیں کہ اولوں کے پہاڑ آسمان پر ہیں ۔ اور جن کے نزدیک یہاں پہاڑ کا لفظ ابر کے لیے بطور کنایہ ہے ان کے نزدیک «مِنِ» ثانیہ بھی ابتداء غایت کے لیے ہے لیکن وہ پہلے کا بدل ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد کے جملے کا یہ مطلب ہے کہ بارش اور اولے جہاں اللہ برسانا چاہے ، وہاں اس کی رحمت سے برستے ہیں اور جہاں نہ چاہے نہیں برستے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ اولوں سے جن کی چاہے ، کھیتیاں اور باغات خراب کر دیتا ہے اور جن پر مہربانی فرمائے انہیں بچالیتا ہے ۔ پھر بجلی کی چمک کی قوت بیان ہو رہی ہے کہ قریب ہے وہ آنکھوں کی روشنی کھودے ۔ دن رات کا تصرف بھی اسی کے قبضے میں ہے ، جب چاہتا ہے دن کو چھوٹا اور رات کو بڑی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے رات کو بڑی کر کے دن کو چھوٹا کر دیتا ہے ۔ یہ تمام نشانیاں ہیں جو قدرت قادر کو ظاہر کرتی ہیں ، اللہ کی عظمت کو آ شکارا کرتی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لِآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ» ۱؎ (3-آل عمران:190) ’ آسمان و زمین کی پیدائش ، رات دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ‘ ۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
روس نے سیٹلائٹ شکن میزائل کا خود اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کے خلاف جو تباہ کن تجربہ کیا ہے ، امریکہ نے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ اس تجربے سے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ ٹکڑے جن کا پتا چلایا جا سکتا ہے خلا میں بکھر گئے۔ ایک بیان میں وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس جانب توجہ دلائی کہ اس قسم کے تجربے سے خلا نوردوں اور خلا بازوں کو جو خطرات درپیش ہوتے ہیں ان کے علاوہ، اس ملبے سے اب سیٹلائٹ اور دوسری خلائی تنصیبات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ جو آئندہ کئی عشروں کے لیے ہمارے تمام ملکوں کی سیکیورٹی اور اقتصادی اور سائنسی مفادات کے نقطۂ نظر سے اہمیت کے حامل ہیں۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود پانچ خلا بازوں اور دو خلا نوردوں کو جن میں چار امریکی ایک جرمن اور دو روسی ہیں، ہنگامی طریقۂ کار اختیار کرنا پڑا اور انہوں نے اسٹیشن سے جڑے اپنے کیپسول میں پناہ لی۔ ناسا کے منتظم بل نلسن نے روسی کارروائِی کو غیر ذمہ دارانہ اور عدم استحکام کا موجب قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انسان بردار خلائی پرواز کی اپنی اتنی طویل تاریخ کے پیشِ نظر یہ بات نا قابلِ تصور ہے کہ روس نہ صرف خلائی اسٹیشن میں موجود امریکی اور بین الاقوامی شراکت دار خلا بازوں کو خطرے میں ڈال دے گا بلکہ خود اپنے خلا بازوں کو بھی خطرات سے دو چارکر دے گا۔ ان کی کارروائیاں بغیر سوچی سمجھی اور خطرناک ہیں جن سے چینی خلائی اسٹیشن اور اس پر موجود عملے کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ امریکہ نے اس نوعیت کے سیٹلائٹ کے تجربے پر روس سے بارہا تشویش کا اظہار کیا ہے ، جس سے مدار میں عرصے تک قائم رہنے والا ملبہ بھی جنم لیتا ہے۔ وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ پندرہ نومبر 2021 کے واقعات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ روس اپنے ان دعوؤں کے باوجود کہ وہ بیرونی خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی مخالفت کرتا ہے، خلا کو طویل ا لمیعاد عرصے تک قائم و دائم رکھنے کے عمل کو خطرے سے دوچار کر رہا ہے اور ساتھ ہی بغیر سوچے سمجھے اختیار کیے جانے والے اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے تمام ملکوں کی جانب سے بیرونی خلا میں تجربات اور اس کے استعمال کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اور شراکت دار اس غیر زمہ دارانہ حرکت کا جواب دیں گے۔ ہم خلائی سر گرمیوں میں شامل تمام ذمہ دار ملکوں سے کہیں گے کہ وہ ذمہ دارانہ طرز عمل کے اصولوں کو اپنانے اور روس کی مانند ایسے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ تباہ کن تجربات سے احتراز کے لیے ہماری کوششوں میں شریک ہو جائیں۔
کاروباری ہفتے کے تیسرے روز بھی انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں بڑی کمی سامنے آئی ہے جبکہ پاکستانی روپے کی قدر میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری رہا۔ گزشتہ دنوں اونچی اڑان بھرنے والے امریکی ڈالر کی قیمت میں ٹھہراؤ آگیا۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کاروباری ہفتے کے مسلسل تیسرے روز انٹر بینک میں ڈالر مزید 1 روپے 79 پیسے سستا ہو کر 232 روپے 12پیسے کا ہوگیا۔ Interbank closing #ExchangeRate for todayhttps://t.co/v4VsDNfLah pic.twitter.com/kdHo1MFlF2 — SBP (@StateBank_Pak) September 28, 2022 فاریکس ڈیلرز کے مطابق انٹربینک میں ڈالر 233.91 سے کم ہو کر 232.12 روپے پر بند ہوا۔ کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد سے اب تک 13 روپے 50 پیسے سستا ہو چکا ہے۔ چار روز کے دوران ڈالر کی قیمت میں 8.21 روپے کمی ہوئی جبکہ بیرونی قرضوں کے بوجھ میں ایک ہزار 50 ارب روپے کمی کا امکان ہے۔ اس حوالے سے مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ حکومتی اقدامات سے مارکیٹ میں ڈالر کے طلب گاروں کی ڈیمانڈ بھی رک گئی ہے جبکہ بینکوں کی سخت مانیٹرنگ اور غیرقانونی منی چینجرز کے خلاف کریک ڈاؤن بھی روپیہ کے استحکام کا باعث ہے۔ اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ عالمی بینک سے دو ارب ڈالر کا فنڈ ملنے کی توقع اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے تناظر میں بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مؤخر کرنے کی حکومتی کوششوں سے بھی ڈالر کی مسلسل اڑان رکنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
ویسے تو ڈاکٹرز ہمیشہ لوگوں کو نیند پوری کرنے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ صرف سات یا آٹھ گھنٹے سونا ہی ضروری نہیں اگر ٹھیک وقت پر سونے کی تیاری کرلی جائے تو اس کے اور بھی زیادہ فوائد ہیں۔ اس حوالے سے88ہزار رضاکاروں کے ساتھ اپنی تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق سونے کے لئے بہترین وقت رات 10 سے 11 بجے کے درمیان ہوتا ہے جو دل کی بہتر صحت سے منسلک ہے۔ رات10سے 11 بجےکے درمیان سونے سے دل کی بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ میڈیکل ڈیٹا بیس "بائیو بینک یوکے” کی تخلیقی ٹیم نے تجویز پیش کی ہے کہ نیند کو انسانی جسم سے منسلک کرنے سے دل کے دورے اور فالج کے کم خطرے کے راز کی وضاحت ہو سکتی ہے۔24 گھنٹے میں انسانی جسم کے لئے آرام قدرتی طور پر صحت اور چوکنا رہنے کے لیے بہت اہم ہے اور یہ بلڈ پریشر جیسی دیگر چیزوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یورپی ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے پیچھے محققین نے سات دنوں کے دوران نیند اور جاگنےکے اوقات کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کیا۔ انہوں نے چھ سال کے عرصے میں دل کی دھڑکن اور خون کی گردش کے حوالے سے مختلف افراد کی پیشرفت کا بھی جائزہ لیا۔ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ مطالعے کے نمونے میں سے صرف 3000افراد کو دل کی بیماریاں تھیں اوراس تعداد میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو سونے کے لیے موزوں وقت کے بعد یا اس سے پہلے سوتے ہیں جس کا مطالعہ کے ذریعے شام کے دس سے گیارہ بجے تک کا تعین کیا گیا تھا۔ مطالعہ نے جوتعلق تجویز کیا ہے وہ اس مدت کے دوران نیند اور دل کی صحت کے درمیان ان حالات کو دوبارہ ترتیب دینے کے بعد مضبوط ہوا جس میں نمونے کے ارکان نیند کے دورانیے اور خلل کے مطابق رہتے تھے۔ مطالعہ کئی دیگر عوامل کی نشاندہی کرنے میں بھی کامیاب رہا جو امراض قلب کے بڑھتے ہوئے خطرے میں کردار ادا کرتے ہیں جن میں عمر، وزن اور کولیسٹرول کی سطح شامل ہیں لیکن محققین نے زور دیا کہ وہ اسباب اور اثرات کو ثابت نہیں کر سکے۔ اس تحقیق کے لیے تیار کی گئی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ بلینز نے کہا کہ اگرچہ ہم اس تحقیق سے اسباب کااندازہ نہیں لگا سکتے لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ جلدی یا دیر سے سونا انسانی جسم اور دل کی صحت پر منفی اثرات میں خلل پیدا کرنے کے لیے بڑی حد تک ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "سب سے خطرناک سونے کا وقت آدھی رات کے بعد ہوتا ہے کیونکہ یہ صبح کی روشنی کو دیکھنے کے امکانات کو کم کر سکتا ہے جو جسم کی اندرونی گھڑی کو دوبارہ ترتیب دیتا ہے۔ ” برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی سینئر کارڈیو ویسکولر نرس، ریجینا گبلن نے کہا کہ "یہ بڑی تحقیق بتاتی ہے کہ رات10 سے 11 بجے کے درمیان سونا زیادہ تر لوگوں کے لیے بہترین وقت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں دل کی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ مطالعہ صرف دونوں کے درمیان تعلق پر روشنی ڈال سکتا ہے جبکہ ہم اس کے ساتھ وجہ اور اثر ثابت نہیں کر سکتے۔ دل کے لیے خطرے کے عنصر کے طور پر نیند کے وقت پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی صحت اور خون کی گردش کے لیے اس کی اہمیت کے علاوہ اچھی نیند ہماری صحت کے لیے بھی اہم ہے اور زیادہ تر بالغ افراد کو ہر رات سات سے نو گھنٹے کی نیند لینا چاہیے۔ گبلن نے کہا کہ لیکن نیند واحد عنصر نہیں ہے جو دل کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے طرز زندگی کا خیال رکھیں۔ اپنے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی سطح کو جان کر اپنی صحت کی دیکھ بھال کریں۔ اس کے علاوہ عمر اور قد کے لحاظ سے وزن کو برقرار رکھیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں، نمک اور الکوحل والے مشروبات کی مقدار کو کم کریں، متوازن غذا کے حصے کے طور پر کھانا اور دیگر عوامل جو صحت مند دل کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں کو زندگی کا جزو بنا لیں۔
میرے ایک عزیز دوست ہیں انہوں نے کہا کہ ان کا ایک بھتیجا ہے بیروزگار ہے اس کے گھر کے حالات کافی خراب ہیں اس کو کام سکھانا ہے اپنے ساتھ کام پر لگائیں۔۔۔ انہوں نے لڑکے کے گھر کےتشویش ناک حالات بتائے تومیں نے فوراً حامی بھری کہ ابھی ہی اسے بھیج دیں چار پانچ ماہ میں سکل سیکھ کر کمانے کے لائق ہوجائے گا ان شاء اللہ۔۔۔ دوست نے کہا کہ اگر یہ اس فیلڈ میں سنجیدگی دکھائے تو میں 80،90 ہزار تک کا لیپ ٹاپ بھی لے کر دوں گا انہوں نے دو دن بعد اپنے بھتیجے کو میرے پاس بھیج دیا اپنے ساتھ رہائش کھانے پینے کا انتظام کیا ۔۔۔ 25 سال کے اس لڑکے کا سٹائل، چال ڈھال، اور کسی طرح بھی نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کسی غریب اور ضرورت مند گھرانے کا لڑکا ہے۔۔۔ بہترین برینڈیڈ لباس، مہنگی گھڑی، جوتا اور چال ڈھال سے وہ کسی امیر گھرانے کا چشم و چراغ لگتا تھا۔۔۔ اس کے پاس 2 عدد اچھے والے سمارٹ فون تھے ایک اوپو رینو 5 اور دوسرا ریئل می کا کوئی موبائل تھا۔۔۔ میں نے دیکھا کہ وہ مسلسل پب جی پر گیم کھیل رہا تھا گیم کھیلتے ہوئے اس کی ہدایات اور اپنی ٹیم کے ساتھ کنوریسیشن دیکھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی واقعی کرنل لیول کا کمانڈو ہے۔۔۔ ٹک ٹاک پر اس کا اکاؤنٹ اوریڈیوز دیکھی اس کی ایکشن اور سٹائلش سے بھرپورویڈیوز دیکھ کر یقین ہی نہیں آیا کہ یہ واقعی یہی لڑکا ہے ۔۔۔ میں نے 3 دن اس کا جائزہ لیا تقریبا 7،8گھنٹے سونے کے علاوہ 13،14 گھنٹے گیم اور ٹک ٹاک پر ضائع کر رہا تھا۔۔۔ 3 دن بعد اس کے ساتھ بیٹھے گپ شپ ہوئی میں نے پوچھا کہ آپ پب جی کب سے کھیل رہے ہیں اس نے بتایا کہ 3 سال سے اور وہ پرو لیول پب جی گیمر ہے۔۔۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ اس پر کتنا نیٹ استعمال ہوتا ہے اس نے بتایا کہ جاز کا ہفتے والا 25 جی بی کا پیکج کرتا ہوں جس کی قیمت 300 سے زیادہ ہے ہر دو دن بعد دوسرا پیکج لگانا پڑتا ہے۔۔۔ تو یہ نیٹ پیکج کے پیسے کہا سے آتے ہیں اس نے بتایا کہ والد، والدہ اور بہنوں سے لیتا ہوں۔۔۔ میں نے حساب لگایا تو اس کے پاس کم سے کم ایک لاکھ مالیت سے زائدکے دو موبائل تھے۔۔۔ ہر ماہ کم سے 4،5 ہزار کا تو صرف انٹرنیٹ استعمال ہوتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ اس کی چال ڈھال سٹائل کا تخمینہ لگایا تو اندازاً 15،20 ہزار روپے تو اس کا بھی خرچہ تھا۔۔۔ خیر لڑکے کو بیسک کمپیوٹر اچھے سے آتا تھا، مائیکروسافٹ وغیرہ سیکھا ہوا تھا میں نے ایک عدد لیپ ٹاپ اس کے حوالے کیا چند ویڈیوز ڈال کر دیں کہ اس کو دیکھیں اور پریکٹس کریں جو بات سمجھ نہ آئے پوچھیں۔۔۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ کا اسے پرسنل دینا چاہا مگر وہ مسلسل نظرانداز کر رہا تھا اور پریکٹس یا کام سیکھنے میں اس کی دلچسپی اور محنت زیرو تھی۔۔۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد اندازا ہوگیا کہ ذہنی طور پر یہ لڑکا کسی طور پر بھی تیار نہیں پب جی اور ٹک ٹاک کی وجہ سے اس کا دل لگ ہی نہیں رہا کسی اور کام میں۔۔۔ کافی سمجھانےکے بعد اس پر کسی قسم کی نصیحت اور بات نے اثر نہیں کیامیں نے دوست کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیااور ایک ہفتے بعد اسے والد نے واپس بلا لیا۔۔۔ اس لڑکے کےوالد نے سعودیہ میں پچیس، چھبیس سال مزدوری کی، پھر کسی بات پر کفیل کے ساتھ لڑائی ہوگئی، کفیل کو زخمی کیا اور کیس بن گیا، اچھے خاصے پیسے لگ گئے اور حکومت نے بھی سعودیہ سے نکال دیا کچھ عرصہ تو جیسے تیسے کر کے گھر کے حالات چلتے رہے پھر والد نے ایک جگہ چوکیداری کی نوکری شروع کی، والدہ ایک سکول میں نوکری کر رہی ہے اور بہنیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کاج کر کے گھر کا چولہا جلا رہی ہیں۔۔۔ لیکن یہ مرد اورگھر کا واحد کفیل ہے مگر اس کونہ تو کسی چیز کی فکر ہے اور نہ ہی اس کو احساس ہے۔۔۔ کئی جگہوں پر اس کو نوکری پر لگوایا مگر دو دن سے زیادہ کہیں نہیں ٹکتا بہت زیادہ سمجھانے بجھانے کے باوجود بھی اس پر اثر نہیں ہوتا۔۔۔ گھر والوں کے بار بار سمجھانے کے باوجود بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔۔۔ گھر میں غریبی اور قرضے میں ڈوبے ہوئےہیں مگر اس لڑکے کے سٹائل اور رہن سہن کا اپنا سٹائل ہے۔۔۔ اس کو کسی کی فکر نہیں بس اپنی ذات میں مست ہے۔۔۔ ایک طرف سے والد مقروض ہے گھر کے حالات تشویش ناک حد تک مایوس کن ہیں مگر اس کے پاس مہنگے موبائل، لباس، اورامیروں جیسا رہن سہن ہے۔۔۔ کوئی خواہش پوری نہ ہو تو دھمکیاں دیتا ہے مجبوراً والدہ اور بہنیں لاڈلے بھائی کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پوری کرتی ہیں۔۔۔ ــــــــــــــــــــ ہمارے ہاں اکثر لوگ پردیس میں نوکری کے لئے جاتے ہیں سعودیہ، دبئی، کویت، یورپ وغیرہ میں سخت محنت مزدوری کرتے ہیں۔۔۔ اوسطاً یہ لوگ پردیس میں 20،25 سال لگا دیتے ہیں۔۔۔ بہترین مستقبل کے لئے ڈبل ڈبل ڈیوٹیاں کرتے ہیں سخت سے سخت مزدوری کرتے ہیں کہ اچھا گھر بن جائے، اولاد اچھا پڑھ لکھ لے، اور ان کا اچھا مستقبل بن جائے مگرزیادہ تر والدین کی مراد اور امید پوری نہیں ہوتی۔۔۔کیوں کہ اولاد باپ کے سایہ اور تربیت کے بغیر ہی پروان چڑھتی ہے۔۔۔ والدہ کب تک پیچھے بھاگےاور کیسے نگرانی کرے۔۔۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر ایسے والدین کی اولاد انتہائی بے کار اور ناکارہ ہوجاتی ہے۔۔۔ان کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔۔۔ ان کو شہزادوں کی طرح پالتے ہیں۔۔۔ دنیا کی ہر نعمت ان کو مہیا کرتے ہیں۔۔۔تعلیم کے لئے بہتر سے بہتر سکول و کالج کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ بچے اچھا پڑھ لکھ لیں۔۔۔ چونکہ والد کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے باپ کی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اولاد انتہائی خراب ہوجاتی ہے۔۔۔ اولاد کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز تو باپ نے پیدا کر کے دینی ہے۔۔۔ ہر طرح کی عیاشی باپ نے مہیا کرنی ہے۔۔۔ ایسی اولاد کو کسی قسم کی فکر تو ہوتی نہیں کیوں کہ ان کو معلوم ہے پردیس میں باپ کا بنک کھلا ہوا ہے اس کے پاس پردیس میں پیسوں کا درخت موجود ہے جس چیز کی ضرورت ہوگی باپ درخت سے پیسے اتار کر بھیج دے گا۔۔۔ ایسی اولاد والدین کے پیسوں سے خوب عیاشی کرتی ہیں۔۔۔ اور یہی عیاشی ان کی عادت بن جاتی ہے۔۔۔ اور عموماً ایسی اولاد کسی کام کی نہیں رہتی۔۔۔ والدین سے گزارش ہے کہ اپنی اولاد کو کوئی ہنر یا کام ضرور سکھائیں۔۔۔ آپ کے جیسے بھی حالات ہیں جتنی بھی خوشحالی ہو مگر اولاد کو ہنر مند بنائیں۔۔۔ ان کو کام کی عادت ڈالیں۔۔۔ محنت کی عظمت سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ آپ کی اولاد ہی آپ کا سرمایہ ہے اور اولاد کی بہترین ترتیب والدین کے لئے بہترین مستقبل کی ضامن ہوتی ہے۔
پاکستان میں پہلی بار نوزائیدہ اور قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کو آکسیجن لگانے سے متعلق گائیڈ لائن تیار کرلی گئی ہے، چھوٹے بچوں کو زیادہ آکسیجن دینے سے بینائی متاثر ہو رہی ہے، پاکستان میں اس سے قبل بچوں کو لگائی جانے والی آکسیجن بغیر گائیڈلائن کے دی جارہی تھی جس کے طبی نقصانات اور تحقیقی کا جائزہ لے کر پہلی بار تحقیقی گائیڈلائن تیار کی گئی ہے جس کی تفصیلات تین روزہ عالمی کانفرنس میں پیش کی جائیں گی۔ یہ بات پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پاکستان کے پروفیسر سید جمال رضا، چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی، ڈاکٹر محمدخالد شفیع، ڈاکٹر وسیم جمالوی، چیف کوآرڈینیٹر، آرگنائزنگ کمیٹی اور ڈاکٹر تاج محمد لغاری اور این آئی سی ایچ کے ڈاکٹر صلاح الدین نے بدھ کو کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کی۔ کانفرنس 26 اکتوبر سے شروع ہوکر 30 اکتوبر تک جاری رہے گی جس میں ملک بھر سے 3000 سے زائد ماہرین شرکت کریں گے جبکہ امریکا، سعودیہ عرب، قطر، ملائیشا سمیت دیگر ممالک کے ماہرین بھی شرکت کریں گے۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کانفرنس میں 100 زائد پری کانفرنس ورکشاپ، 9 آن سائٹ پری کانفرنس ورکشاپ اور 24 سائنسی سمپوزیم بھی منعقد کیے جائیں گے۔ کانفرنس میں نوجوان محققین کی جانب سے 70 سے زائد تحقیقی مقالے اور 50 پوسٹرز بھی پیش کیے جائیں گے۔ دریں اثنا پروفیسر جمال رضا اور ڈاکٹر خالد شفیع اور ڈاکٹر وسیم جمالوی نے بتایا کہ پاکستان میں شرح پیدائش سالانہ 3 اعشاریہ دو ہے جو بہت زیادہ ہے، جس کے وجہ سے پاکستان میں بچوں کی اموات بھی زیادہ ہورہی ہیں۔ ان نے کہا کہ پاکستان میں ویکسینیشن کہ شرح 60 فیصد ہے ہے جس کی وجہ سے بچے کم عمری میں مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی بھی پانچ سال تک کی عمر ایک ہزار میں 52 بچے سالانہ جان بحق ہوجاتے ہیں جبکہ نوزائیدہ بچون کی شرح اموات ایک ہزار میں سے 42 ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کی شرح پیدائش اور شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے بچوں میں ہولناک بیماریاں سامنے آرہی ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی بیماریوں کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بچوں کی بیماریاں تیزی سے پھیلیں گی۔ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پاکستان کی 26ویں تین روزہ عالمی کانفرنس جمعہ 28 اکتوبر کو شروع ہوگی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کانفرنس کا افتتاح کریں گے۔ عالمی کانفرنس میں امریکا سمیت خلیجی ممالک کے ماہرین خصوصی مقالے پیش کرئیں گے۔
نارووال:باباگرونانک کےجنم دن کی تقریبات میں شرکت کیلئے نوجوت سنگھ سدھوکرتارپور پہنچ گئے اور کہا دعا ہے امن بھائی چارہ قائم رہے، ماؤں کی گودیں آباد رہیں۔ تفصیلات کے مطابق بابا گرو نانک کے552ویں یوم پیدائش کی تقریبات جاری ہے ، سابق بھارتی کرکٹراور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کرتارپور پہنچ گئے۔ اس موقع پر نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ بابادیوجی کےدرپرپہنچنےپرخوش ہوں، بابا گرونانک کےدرپرامن کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ سابق بھارتی کرکٹر کا کہنا تھا کہ دعا ہے باباگرونانک کی تعلیمات کے مطابق امن بھائی چارہ قائم رہے اور ماوں کی گودیں آباد رہیں۔ خیال رہے بابا گرو نانک کی جنم دن تقریبات کیلئے خاطر خواہ تعداد میں یاتریوں کی دربارصاحب آمد ہوئی ، تقریبات میں شریک سکھ یاتریوں کی کرتارپور راہداری کے انتظامات کی تعریف کی۔ یاد رہے پاکستان سکھ یاتریوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی آسان بنانے کیلئے کوشاں ہے اور سکھ یاتریوں کی سہولت کیلئے 30نومبرتک 10دن کی پیشگی اطلاع کی شرط میں نرمی کردی ہے۔
گزشتہ دن ایم اپی اے اورڈی سی چترال کے درمیان ایک مہینے سے جاری چپقلش کو جب افہام وتفہیم سے ختم کردیا گیا تب سے بعض فیس بکی بہن بھائی ایک اورایشو کو دوبارہ ایم پی اے اورانتظامیہ کے ساتھ جوڑکرحالات کو دوبارہ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جوانتہائی نامناسب ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ہمارے ایک بھائی کو شیڈول فور میں ڈالدیا ہے بلکہ ان کے ساتھ چترال سے 22افراد اوربھی شیڈول فور میں رکھے گئے ہیں جوکہ انتظامی معاملہ اورشاید انتظامیہ نے تمام قانونی تقاضوں کو پوراکرنے کے بعد ہی ان لوگوں کو شیڈول فور میں رکھا ہوگا، ورنہ چترال کی پانچ لاکھ آبادی میں سے بائیس افراد کو چنا معنی خیز ہے۔ یہاں پر ہمارے جذبات، خواہشات اوراحساسات اپنی جگہ مگرموقع سے فائدہ اُٹھاکر ایک انتظامی ایشو کو ایم پی اے کے ساتھ جوڑنا انتہائی نامناسب ہے، ایم پی اے اورضلعی انتظامیہ خصوصا ڈی سی کا اپس میں چوڑی دامن کا رشتہ ہے۔ ضلع کے اندر تمام ترقیاتی کاموں ودیگرعوامی مسائل کے حل کیلئے ڈپٹی کمشنر کا تعاون انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ جس کا احساس آپ سب کو ہوا ہوگا۔ اگر ہم ان کو لجھائے رکھیں گے توحسب اختلاف میں بھیجے گئے ایم پی اے سے مذید ترقیاتی کاموں ودیگرامورکی انجام دہی کیلئے توقع رکھنا عقلمندی کا کام نہیں ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے ساحل بھائی کو ایم پی اے کی وجہ سے شیڈول فور میں ہرگز نہیں رکھا گیا ہے جب ہم نے اس سلسلے میں متعلقہ اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ مذکورہ سوشل میڈیا یوزر کو گزشتہ ایک سال سے ذائد عرصے سے مونٹیرکیا جارہا تھا، اورکافی مراحل سے گزرنے کے بعد ایک شخص کو شیڈول فورمیں رکھا جاتا ہے۔ یہاں میری ذاتی گزارش یہ ہے کہ بیشک ہم سب ساحل بھائی کیلئے آواز اُٹھائیں ہماری ہمدریاں ان کے ساتھ ہیں مگر ان کو ایم پی اے کے ساتھ جوڑکر مذید حالات کو خراب نہ کیا جائے، کیونکہ ہم ایک انتہائی پسماندہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں اس کی پسماندگی کو دورکرنے میں ہم سب کوکردار اداکرنا ہے، دوسرے علاقوں کی طرح سوشل میڈیا ئی اتفاق کو چترال کی ترقی کیلئے استعمال کرناہے نہ کہ دو ہاتھیوں کو لڑاکر علاقے کو نقصان پہنچانا ہے۔ افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ ہمارے بعض دوست فیس بکی دانشور سے بڑھ کر سقراط بقراط بننے کی کوشش میں انکھیں بند کرکے ایک وال سے بیغیر تحقیق مواد اُٹھا کر دوسرے وال میں کاپی پیسٹ کے ماہر بن گئے ہیں۔ خدارا یہی فیز بک ہی تھا جو مردان یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا ناحق خون کروایا۔لاہور میں گھر اُجاڑدیا،اسی طرح ملک میں روزانہ کئی ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جوصرف اورصرف غلط فہمی کی بنیاد پر ہی رونما ہوتے ہیں۔ لہذا اب بھی وقت ہے خو د کو سنبھالئے بیغیر تحقیق کے کاپی پیسٹ سے گریز کریں۔آزادی رائے کی بھی ایک حد ہے، بے لگام آزادی حق کو لگام دینے کیلئے انتظامیہ قانون کا سہارالے سکتی ہے۔لہذاشریف ہونے کے ساتھ باشغور ہونیکا بھی ثبوت دیں۔
پیانگ یانگ/ماسکو : شمالی کوریا کے رہنما اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان اہم ملاقات ہوئی، ملاقات کے دوران روسی صدر کا کہنا تھا کہ جزیرہ نما کوریا میں مثبت پیشرفت کی حمایت کرتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن ان دنوں روس کے تاریخی دورے شہر ولادیوسٹوک میں پہنچ ہیں، جہاں انہوں نے صدر ولادی میر پیوٹن سے بھی اہم ملاقات کی، ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اورعالمی امورپرتبادلہ خیال کیا۔ کریملن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہوں نے جوہری ہتھیاروں کے ختم یا کرنے پر گفتگو کی، لیکن کم جونگ اُن امریکا سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد روسی حمایت کی توقع کررہے تھے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریائی رہنما کے دورہ روس کے حوالے سے بہت پُر امید ہیں، روس باہمی دلچسپی کے ساتھ کورین پیننسولا کے معاملے کا حل نکال سکتے ہیں‘۔ دوسری جانب کم جونگ اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ موجودہ ملاقات دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے خوشگوار ثابت ہوگی، ہماری دوستی طویل اور تاریخی ہے جو مزید مضبوط ہوگی‘۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان روس کے اہم تاریخی دورے پر اپنی مسلح ٹرین کے ذریعے گزشتہ روسی شہر ولادیوسٹوک پہنچے تھے جہاں ان کا پُر تپاک استقبال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ کم جانگ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے روس کا پہلا دورہ ہے، دونوں ملکوں کے درمیان آخری سربراہی ملاقات 8 سال قبل ہوئی تھی جب کم جانگ اُن کے والد کم جانگ اِل نے اس وقت کے روسی صدر دیمیتری میدویدیف سے ملاقات کی تھی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روس کے شمالی کوریا سے نسبتاً اچھے تعلقات ہیں اور ماسکو، پیانگ یانگ حکومت کو خوراک اور دیگر امداد بھی دیتا آیا ہے۔
یہ جمہوری عمل امن وامان برقرار رکھنے کے حوالے سے جنگ سے متاثرہ عراق کی صلاحیتوں اور 2003 ء میں امریکہ کی قیادت میں حملے کے بعد انتقال اقتدار کی کوششوں کے لیے ایک کڑاامتحان سمجھا جار رہا ہے۔ کم سے کم 25 افراد کی ہلاکت کے باوجود اتوار کے روزعراق میں لوگ بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے۔ ملک میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً 2 کروڑ ہے جو پارلیمان کی 325 نشستوں کے لیے چھ ہزارسے زائد اُمیدوارں میں سے اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ وزیر اعظم نوری المالکی بھی انتخابات میں ایک اہم امیدوار ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کے لیے غیر معمولی سخت اقداما ت کیے گئے ہیں جبکہ عسکریت پسندوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیےلاکھوں عراقی فوجی اور پولیس اہلکار سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ دارالحکومت بغداد کا ہوائی اڈہ بند اور سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدو رفت پر پابندی لگانے کے علاوہ ایران اور شام کے ساتھ ملک کی سرحدوں پر بھی سکیورٹی سخت کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ووٹنگ کا عمل شروع ہوتے ہی بغداد میں حکام نے تشدد کے مختلف واقعات میں ہلاکت کی اطلاعات دی ہیں۔ ان میں زیادہ ہلاکتیں اُس وقت ہوئیں جب ایک عمارت کو مارٹر گولوں سے نشانہ بنایا گیا۔ حملے مختلف عمارتوں پر کئے گئے جن میں برطانوی اور امریکی سفارت خانے اور گرین زون شامل ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ووٹر اکژیتی شیعہ برادری کی نمائندگی کرنے والے تین بڑے سیاسی اتحادوں کے اُمیدواروں میں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ ان میں وزیر اعظم کی قیاد ت میں سٹیٹ آف لا اتحاداور سابق وزیراعظم ایاد علاوی کے عراقیہ بلاک نے ملک کے سنی ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کوبھی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا۔ تیسرا سیاسی اتحاد عراقی نیشنل الائنس ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ا س کے علاوہ امریکہ مخالف مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے پیروکاربھی اس سیاسی اتحاد کی حمایت کر رہے ہیں۔ دنیا کے14ممالک میں مقیم لاکھوں عراقیوں کے علاوہ عراقی فوجی، پولیس، طب کے شعبے سے وابستہ عملہ، مریض اور قیدی پہلے ہی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔ 2003 ء میں امریکی قیادت میں عراق پر ہونے والے حملے میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اتوار کو ہونے والے ملک کے دوسرے پارلیمان انتخابات ہیں۔ اقوام متحدہ، عرب لیگ اور دوسری بین الاقوامی تنظیمیں ان انتخابات کی نگرانی کر رہی ہیں۔ 2005 ء کے انتخابات کے برعکس اس مرتبہ کئی سنی عراقیوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سنی تنظیموں نے اُس وقت عراق میں ہونے والے انتخابات کابائیکاٹ کیا تھا جس نے شیعہ تنظیموں کوفتح اور اقتدار سنبھالنے کو موقع فراہم کیا۔ لیکن اس کی وجہ سے ملک میں سنی شورش پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے اور ملک میں تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
آپ نے اکثر جڑواں بچے پیدا ہونے کی خبر تو ضرور سنی ہوگی لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جڑواں بچے کیسے پیدا ہو جاتے ہیں؟ یہ میاں بیوی ایسا کونسا عمل کرتے ہیں جس سے جڑواں بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ سائنس کی ترقی نے بہت سے رازوں سے پردا ہٹا لیا ہے طبی ماہرین نے بھی اس عمل کی وضاحت کر دی ہے جس سے یقینا آپ کے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔ مرد کے سیمن میں 40 سے 200 ملین سپرم ہوتا ہے. جبکہ ہر مہینہ عورت کے آوری سے صرف ایک آوہ نکلتا ہے. معمولی طور پر مرد کے سیمن سے صرف ایک سپرم اس عورت کے اس ایک آوہ سے ملتا ہے اور ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے. لیکن بعض اوقات اس ایک آوہ سے مرد کے ایک سپرم کے بجائے 2 یا 3 سپرم کی ملاپ ہوتی ہے اور اس طرح جڑوا بچوں کی پیدائش ہوتی ہے. اسی طرح کبھی کبھار عورت کے آوری سے ایک آوہ کے بجائے 2 یا 3 آوہ نکلتا ہے، اور ہر آوہ الگ الگ سپرم سے ملاپ کرتا ہے. ایسی صورت میں بھی جڑوا یا ٹرپلٹ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے. جڑوا بچے کیسے پیدا کیے جائیں؟ جڑوا بچے پیدا کرنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے. یہ ایک قدرتی عمل ہے اور صرف و صرف خدا کی رضامندی سے ہی جڑوا بچے پیدا ہوسکتے ہیں.
جدید دور میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ چاند اور سورج کا گرہن ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ لوگوں کو اپنا جھوٹا علم پھیلانا پڑا۔ یہ برسوں تک جاری رہا ، لیکن جیسے ہی سائنسی دور شروع ہوا ، سائنسدانوں نے چاند گرہن کی اصل وجہ تلاش کرنا شروع کردی۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین سورج ہے اور چاند زمین ہے۔ چکر 29 دنوں کے بعد ، چاند زمین کے گرد ایک انقلاب مکمل کرتا ہے۔ ہر ماہ چاند سورج اور زمین کے درمیان اپنے چکر کے دوران گزرتا ہے اور اسی طرح زمین آدھے چکر میں سورج اور چاند کے درمیان ہوتی ہے۔ پھر ہر ماہ سورج اور چاند گرہن ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر سال four یا 5 گرہن ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ قمری مدار زمین کے مدار میں 5 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا ہے۔ اشیاء کے مداروں کے اس جھکاؤ کو فلکیاتی اصطلاحات میں “مداری جھکاؤ” کہا جاتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں مدار صرف دو جگہوں پر ملتے ہیں اور حیران کن طور پر اگر کوئی نیا چاند (جب چاند سورج اور زمین کے درمیان ہوتا ہے) ان جگہوں پر ہوتا ہے تو یہ سورج گرہن ہوگا اور اسی طرح پورا چاند (جب زمین) ہوگی۔ سورج اور چاند کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر یہ ان جگہوں پر ہوتا ہے تو ، یہ چاند گرہن کا سبب بنے گا۔ ان دونوں مقامات کو فلکیاتی اصطلاحات میں “نوڈس” کہا جاتا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ سائنسدان پہلے سے کیسے جانتے ہیں کہ زمین پر ان جگہوں پر چاند یا سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے اور اس وقت دیکھا جائے گا۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ریاضی کی مدد سے ہم آسانی سے یہ جان سکتے ہیں کہ چاند ، سورج ، سیارے اور ستارے اپنے مدار میں کہاں ہیں۔ لیکن 1503 میں امریکی عوام اسے نہیں جانتے تھے۔ کرسٹوفر کولمبس ، جنہوں نے 30 جون 1503 کو امریکہ دریافت کیا تھا ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشرقی ریاستہائے متحدہ کے ایک جزیرے جمیکا میں امریکہ کے لیے اپنے چوتھے سفر پر پھنسے ہوئے تھے کیونکہ ان کی کشتیاں سمندری کیڑے سے چھن گئی تھیں۔ وہاں کے لوگوں نے انہیں چھ ماہ تک کھانا اور رہائش فراہم کی ، لیکن پھر انہوں نے اچانک حالات کو مزید خراب کردیا۔ کیونکہ کرسٹوفر بھی ایک ملاح تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ایک کیلنڈر لے گئے ، جس کی مدد سے اس وقت کے ملاحوں نے ستاروں سے وقت اور سمت کا تعین کیا۔ اس کیلنڈر کی مدد سے کرسٹوفر نے حساب لگایا کہ جلد مکمل چاند گرہن آنے والا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا کہ آپ کا خدا آپ کے اس عمل سے بہت ناراض ہے اور وہ 1 مارچ 1504 کو چاند کی شکل بدل کر اپنے غصے کا اظہار کرے گا ۔29 فروری مئی کی رات غروب آفتاب کے بعد ، تمام لوگ جمع ہوئے اور چودھویں کے چاند کو چمکتا ہوا دیکھنے کے بجائے ، انہوں نے ایک سرخ گیند دیکھی ، تو وہ سب خوفزدہ ہو گئے اور کرسٹوفر کی بات مان لی۔ کرسٹوفر کی خوش قسمتی ہوگی کہ وہ اپنی زندگی بچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرے ، لیکن اسی طرح کے واقعات کئی دوسرے تضادات کا باعث بنے ، لیکن چاند گرہن کے وقت فلٹر کے بغیر ، عام آنکھ سے سورج تک۔ بینائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔ لہذا ، چاند گرہن کو دیکھنے کے لیے فلٹر کا استعمال بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ زیادہ تر لوگ ویلڈنگ گلاس یا ایکسرے پیپر استعمال کرتے ہیں جو کہ بہت خطرناک ہے اور آنکھوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جولائی اور اگست 2018 میں 2 سورج گرہن اور ایک چاند گرہن تھا۔ 13 جولائی کو انٹارکٹیکا اور جنوبی امریکہ میں جزوی سورج گرہن ہوا۔ 2018 میں ہونے والے چاند گرہن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ چاند گرہن 6 گھنٹے four منٹ لمبا تھا اور ساتھ ہی یہ چاند گرہن اس صدی کا سب سے لمبا چاند گرہن تھا۔ سیارہ مریخ بھی نظر آ رہا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ سورج کے گرد تمام سیاروں کے مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہوتے ہیں۔ کسی سیارے کا زمین کے قریب مدار تک پہنچنے کو فلکیاتی اصطلاحات میں “مخالفت” کہا جاتا ہے۔ مریخ کی طرح سیارہ مشتری کی مئی میں مخالفت کی گئی۔ ٹھیک ہے ، ہم آج اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں ، لیکن ہمیں اپنی روز مرہ زندگی سے کچھ وقت نکالنے اور فطرت کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، جو کہ بالکل نیا طریقہ ہے۔ اس سے نہ صرف جسم کے اعصاب سکون پائیں گے بلکہ دل کو سکون بھی ملے گا۔ سال میں کئی بار چاند زمین کا چکر اس طرح لگاتا ہے کہ زمین سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے ، جس کی وجہ سے سورج چاند پر بالکل نہیں چمکتا۔ نتیجے کے طور پر ، اس کی سطح سیاہ ہوجاتی ہے ، لیکن پھر چاند سرخ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جب سورج کی روشنی زمین کے ماحول سے گزرتی ہے تو سرخ روشنی نیلی روشنی سے زیادہ بدل جاتی ہے اور چاند ایک جزوی چاند ہوتا ہے۔ چاند گرہن کے وقت سرخ اور پھر چاند گرہن کے وقت پورا چاند۔
اسلام آباد: خاتون جج سے متعلق بیان کے کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر عبوری ضمانت منظور ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ نے چھٹی کے روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی خاتون جج کو دھمکیوں کے کیس میں 7 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا، عدالت نے عمران خان کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم بھی دے دیا۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے رابطہ کرنے پر اسلام آبادہائی کورٹ کے ڈائری برانچ کا عملہ فوری عدالت پہنچا جہاں عمران خان کی جانب سے بابر اعوان ایڈووکیٹ نے وارنٹ گرفتاری کی منسوخی اور عبوری ضمانت کے لیے درخواست دائر کی۔ درخواست میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف جج دھمکی کیس میں ابتدائی طور پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا، ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات ختم کیں تو کیس منتقل ہو گیا، مقدمے کا مقصد عمران خان کو گرفتار کر کے پرامن سیاسی جدوجہد کو روکنا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے کیس منتقل ہونے پر ضمانت بھی مسترد ہو گئی، سیاسی مخالف حکومت نے بدنیتی کے تحت مذموم مقاصد کے لیے جھوٹا مقدمہ بنایا، عمران خان کی آزادی اور جان کو خطرہ ہے، اس لیے ضمانت دی جائے۔ اسلام آبادہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد روک دیا اور عمران خان کو سات اکتوبر سے قبل ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری عدالت نے عمران خان کو 10 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے، خیال رہے کہ عمران کو بغیر پیش ہوئے آج دوسری بار عبوری ضمانت مل گئی۔ عمران خان کی جانب سے ان کی عبوری ضمانت کی درخواست کے ساتھ ساتھ وارنٹ منسوخی کی درخواست بھی تیار کی گئی ہے، عمران خان کی جانب سے بائیو میٹرک سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے عبوری ضمانت منظور کی، عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دے دیا گیا، سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کریں گے۔ واضح رہے کہ پولیس کا کہنا ہے کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری ان کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنانے کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے ملک لبنان کو شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے اس ملک میں مستحکم حکومت کو وجود تک نہیں۔ اس کی معیشت بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے کسی بھی وقت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے۔ https://p.dw.com/p/3vyif اشتہار گزشتہ چند مہینوں سے بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ملک لبنان سے پریشان کن کہانیاں اور خوف زدہ کر دینے واقعات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا تعلق سیاست، معاشرت اور معیشت سے ہے۔ ان تینوں معاملات نے لبنانی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے اور وہ ملک میں مستحکم حکومت اور کرپشن کے خاتمے کی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لبنان: آدھا لیٹر پٹرول کے لیے گھنٹوں انتظار کئی لبنانی شہروں میں مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ ان مسلح افراد نے شہروں کی سڑکوں کو بند کر کے اپنی انتطامیہ کھڑی کر لی ہے۔ ملکی فوج پیسہ بنانے کی خاطر سیاحوں کو ہیلی کاپٹر سے سیر کروانے کا پروگرام بھی شروع کیے ہوئے ہے۔ ایک رائڈ کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق لبنان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیںتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance افسوس ناک صورت حال محتاظ اندازوں کے مطابق لبنان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ستتر فیصد لبنانی گھروں میں مناسب خوراک موجود نہیں یا ان گھروں کے مکین خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عالمی بینک نے بھی حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں لبنان کو دنیا کے تین سنگین صورت حال کا سامنا کرنے والوں ممالک میں شمار کیا ہے۔ لبنان: ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہروں میں شدت سن 2018 سے لبنان کی سالانہ شرح پیداوار منفی ہے۔ اس تناظر میں عالمی بینک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی معاشی گراوٹ صرف جنگ زدہ حالات کے دوران پیدا ہوتی ہے۔ لبنانی کرنسی بےقدر ہو چکی ہے۔ بیشتر لبنانی شہری ان خراب حالات کا ذمہ دار ملکی سیاسی رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں۔ کئی برسوں سے حکومتی حلقے میں پیدا کرپشن نے اس ملک کو انہدام کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا علاوہ ملکی بینکنگ نظام بھی مکمل انہدام کے قریب ہے۔ لبنان کی اشرافیہ اور امیر افراد باقاعدگی سے یورپ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر اور دولت انہی ملکوں میں موجود ہیںتصویر: Fabian von Poser/imageBROKER/picture alliance ذمہ دار کون؟ لبنانی دارالحکومت بیروت کے ایک رہائشی گلبرٹ کفوری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرت ہوئے کہا، ''اس صورت حال کے ذمہ دار سیاستدان ہیں، ان کو کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کی وجہ سے اب لبنانی عوام دیوالیہ ہو چکی ہے، بجلی میسر نہیں اور بنیادی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ کفوری کا کہنا ہے کہ ملک میں قحط کی کیفیت ہے، تیل موجود نہیں اور کوئی سکیورٹی بھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی خراب صورت حال کے باوجود سیاستدان سارا دن کرسیوں پر بیٹھے گپ بازی کرتے ہیں کیونکہ احتساب کا عمل موجود نہیں۔ لبنانی عوام کی زندگیوں کو اجیرن ہے اور وہ ملک میں مستحکم حکومت اور کرپشن کے خاتمے کی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: Ahmad Abu Salem گلبرٹ کفوری سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اور بیروت کے رہائشی مصطفیٰ مراد نے واضح کیا کہ یورپی یونین کو لبنانی سیاستدانوں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں کیونکہ ان کی اکثریت بدعنوان ہے اور ان کا علاج سخت پابندیاں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ لبنان کی اشرافیہ اور امیر افراد باقاعدگی سے یورپ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر اور دولت انہی ملکوں میں موجود ہیں۔ لبنان: سعد حریری وزارت عظمی کے لیے دوبارہ نامزد دوسری جانب کئی یورپی سیاستدان مقامی افراد کے خیالات سے متفق ہیں۔ رواں برس مئی سے یورپی یونین کے اہلکار ممکنہ پابندیوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امکان ہے ایسے امیر افراد یورپی یونین کی پابندیوں میں جکڑے جا سکتے ہیں، خاص طور پر وہ، جن پر کرپشن کے الزامات عائد ہیں۔ ایک شہری کے مطابق لبنانی عوام دیوالیہ ہو چکی ہے، بجلی میسر نہیں اور بنیادی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہےتصویر: Houssam Shbaro/AA/picture alliance مایوسی اور تشویش یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوسیپ بوریل نے گزشتہ ماہ لبنان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس ملک کو مدد فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ ان کا اس دورے کے دوران کہنا تھا کہ مدد کی فراہمی کے بعد بھی رکاوٹیں کھڑی رہتی ہیں تو اس کثیر سمتی بحران کا حل نکالنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس وقت فرانس اور جرمنی پابندیوں کے اطلاق کے حامی ہیں۔ بیروت میں جرمن سفارت خانہ یونین کی جانب سے لبنانی سیاست دانوں پر ممکنہ پابندیوں کے نفاذ کی تصدیق کر چکا ہے۔ فرانس نے رواں برس اپریل میں کچھ تادیبی اقدامات اٹھاتے ہوئے بعض لبنانی اہلکاروں کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لبنان کے نامزد وزیر اعظم مصطفیٰ ادیب حکومت بنانے سے پہلے ہی مستعفی، بحران شدید تر یورپی کونسل کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے سربراہ جولین بارنس ڈیسی کا خیال ہے کہ لبنان کی صورت حال پر یورپی حکومتوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لبنان کے بنیادی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ لبنانی اشرافیہ افسوس ناک ملکی حالات پر پریشان نہیں بلکہ وہ اب بھی سیاست اور معیشت پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش میں ہے۔
سندھ میں موٹروہیکل رجسٹریشن بکس کی جگہ خصوصی سیکیورٹی خصوصیات کے حامل اسمارٹ MVR کارڈز متعارف کرانے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ موٹر وہیکل رجسٹریشن بکس کی جگہ سندھ میں ( ایم وی آر) کارڈز متعارف کرائے جارہے ہیں اس مقصد کے لیے محکمہ خزانہ سندھ نے250 ملین روپے اور456.150 ملین روپے مختص کردیے ہیں۔ ڈائریکٹر (ایڈمنسٹریشن؍ ایم وی آر) کی سربراہی میں پروکیورنمٹ کمیٹی نے بولیاں وصول کرنے کے عمل کو حتمی شکل دیدی جس کے نتیجے میں سب سے کم بولی697 روپے فی کارڈ وصول ہوئی یہ کامیاب بولی دینے والے ادارے میسرز( ان باکس) ٹیکنالوجیز اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے مابین معاہدہ ہوگیا ہے جس کے بعد اس ادارے کو کنٹریکٹ دے دیا گیا ہے۔ دوطرح کے کارڈز جاری کیے جائیں گے، ایم وی آر کارڈ کے لیے گاڑیاں چلانے والے شہریوں سے750 روپے اور800 روپے وصول کیے جائیں گے اور مالکان کو صرف ایک ہفتے کے اندر کارڈ مہیا کردیا جائے گا جبکہ نادرا قومی شناختی کارڈ کی ڈلیوری کے ٹائم کی مناسبت سے یعنی نارمل کارڈ750، ارجنٹ1500 اور ایگزیکٹو کارڈ لیے2500 روپے وصول کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں سالانہ84000 نجی گاڑیاں،60 ہزار کمرشل وہیکلز اور495000 موٹرسائیکلیں رجسٹرڈ کی جاتی ہیں جبکہ ایم وی آر اسمارٹ کارڈکے لیے750 سے800 روپے ہی وصول کیے جائیں گے،سندھ حکومت کے ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس ڈپارٹمنٹ نے1999ء میں سیکیورٹی خصوصیات کی حامل موٹرگاڑیوں کی رجسٹریشن بکس متعارف کرائی تھیں جو وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں چھاپی گئی تھیں، اس کے بعد2006ء میں’’ پرسنلائزڈ سیکیورٹی کی حامل رجسٹریشن بکس متعارف کرائی گئیں یہ بھی کراچی میں چھاپی گئیں۔ اب ایکسائز ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈپارٹمنٹ نے جدید اسمارٹ کارڈز متعارف کرانے کا عمل شروع کیا ہے، پہلے مرحلے میں ان کارڈٖز کو نئی رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں کے لیے جاری کیا جائے گا دوسرے مرحلے میں ان یہ کارڈ ز ان گاڑیوں کے لیے بھی جاری کیے جائیں گے جن کی ملکیت تبدیل ہورہی ہو ان گاڑیوں کو کارڈز ٹرانسفر کے مرحلے میں جاری کیے جائیں گے۔ وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش چاولہ نے کہا کہ اسمارٹ کارڈ کے اجرا کے بعد جرائم کی وارداتوں میں بھی کمی ہوگی اور اور جرائم کے لیے گاڑیوں کے استعمال کا فوری پتہ لگایا جاسکے گا۔
نو آگست کی رات کو چین کے ریاستی کانسلر اور وزیرخارجہ وانگ ای نے بیجنگ میں چین کے ہنگامی دورے پر آئے ہوئے پاکستان کے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے اپنے چینی ہم منصب کو تفصیلی طور پر کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے پاکستان کے موقف اور اقدامات سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے اور پاک چین دوستی پتھر کی طرح پختہ ہے۔یقین ہے کہ کشمیر کے معاملے پر چین انصاف کے ساتھ کھڑا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اہم امور پر چین کے مناسب موقف کی حمایت جاری رکھے گا۔پاکستان پاک-چین چار موسموں کے شراکت دار انہ تعلقات کو آگے بڑھائے گا۔ وانگ ای نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال پیچیدہ ہورہی ہے۔چین اس پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کے متعلقہ قرارداد اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق پرامن طریقے سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا چاہیئے۔چین کا یہ موقف رہا ہے کہ صورتحال کو یک طرفہ کاروائی کے ذریعےمزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیئے۔ چینی وزیرخارجہ نے پرزور الفاظ میں کہا کہ چین اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کرنے میں پاکستان کی مثبت حمایت جاری رکھے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کے لئے انصاف کی آواز اٹھائے گا۔ وانگ ای نے پاکستان اور بھارت سےقومی ترقی اور جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کی خاطر تاریخی مسائل کو حل کرنے کی اپیل کی۔
New York City, Los Angeles, Chicago, Houston, Philadelphia, Phoenix, San Antonio, San Diego, Dallas, San Jose, Indianapolis, Jacksonville, San Francisco, Austin, Columbus اور New York : New York City, Buffalo, Jamaica, Rochester, Yonkers, Syracuse, Amherst, Albany, West Albany, Greenburgh, New Rochelle, Cheektowaga, Mount Vernon, Schenectady, Utica میں Carolina West Wireless 3G / 4G / 5G موبائل نیٹ ورک کوریج کو بھی دیکھیں۔ New York City, Buffalo, Jamaica, Rochester, Yonkers, Syracuse, Amherst, Albany, West Albany, Greenburgh, New Rochelle, Cheektowaga, Mount Vernon, Schenectady, Utica ۔ NPerf پروجیکٹ کا حصہ بنیں ، ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں! nPerf نقشے کیسے کام کرتے ہیں ؟ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟ یہ اعدادوشمار nPerf ایپ کے صارفین کے ذریعہ کئے گئے ٹیسٹوں سے جمع کیا گیا ہے۔ یہ ایسے میدان ہیں جو براہ راست میدان میں واقع حالتوں میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ کو بس اپنے اسمارٹ فون پر nPerf ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا ہے۔ مزید اعداد و شمار جتنے زیادہ ہوں گے ، نقشے اتنے ہی جامع ہوں گے! اپ ڈیٹس کس طرح کی گئی ہیں ؟ نیٹ ورک کوریج کے نقشے ہر گھنٹہ بوٹ کے ذریعہ خود بخود اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں۔ رفتار کے نقشے ہر 15 منٹ میں اپڈیٹ ہوتے ہیں۔ ڈیٹا دو سال کے لئے ظاہر کیا جاتا ہے. دو سال بعد ، سب سے قدیم ڈیٹا کو ماہ میں ایک بار نقشوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ کتنا قابل اعتماد اور درست ہے؟ ٹیسٹ صارفین کے آلات پر کئے جاتے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع کی جانچ پڑتال کے وقت GPS سگنل کے استقبال کے معیار پر منحصر ہے۔ کوریج ڈیٹا کے لیے ، ہم صرف زیادہ سے زیادہ 50 میٹر جغرافیائی مقام کے ساتھ ٹیسٹ برقرار رکھتے ہیں۔ بٹریٹ ڈاؤن لوڈ کے لیے ، یہ چوکھٹ 200 میٹر تک جاتا ہے۔ میں خام ڈیٹا کا ہولڈ کیسے حاصل کر سکتا/سکتی ہوں ؟ کیا آپ CSV فارمیٹ میں نیٹ ورک کوریج ڈیٹا یا nPerf ٹیسٹ (بٹریٹ ، لیٹینسی ، براؤزنگ ، ویڈیو اسٹریمنگ) ان کو اپنی پسند کے مطابق استعمال کرنے کے کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی مسئلہ نہیں! ہم سے رابطہ کریں کیا کوریج کے نقشے کے نقطہ نظر کے لئے ایک پرو آلہ موجود ہے ؟ جی ہاں. یہ آلہ بنیادی طور پر موبائل آپریٹرز کے لئے ہے۔ اس کو ایک موجودہ کاک پٹ میں ضم کردیا گیا ہے جس میں پہلے ہی کسی ملک میں موجود تمام آپریٹرز کے انٹرنیٹ پرفارمنس کے اعدادوشمار شامل ہیں ، نیز اسپیڈ ٹیسٹ کے نتائج اور کوریج ڈیٹا تک رسائی بھی شامل ہے۔ ان ڈیٹا کو ٹکنالوجی کے ذریعہ (کوئی کوریج ، 2 جی ، 3 جی ، 4 جی ، 4 جی + ، 5 جی) فلٹر لگانے سے کسی قابل ترتیب مدت میں (مثال کے طور پر صرف آخری 2 ماہ) نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی تعیناتی ، حریفوں کی نگرانی اور ناقص سگنل کوریج والے علاقوں کی نشاندہی کرنے کا یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ nperf.com کو براؤز کرنے سے ، آپ ہماری رازداری اور کوکیز کے استعمال کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہمارے nPerf ٹیسٹ صارف کا لائسنس کا آخری معاہدہ ۔ OK
لاہور: عالمی شہرت یافتہ پاکستانی گلوکار عاطف اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی گلوکارہ آشا بھوسلے کی صاحبزادی ان کی مداح ہے۔ ‘سانس لینے میں دشوری کا سامنا تھا اس وجہ سے ناک کی سرجری کروانی پڑی ‘ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے گلوکار نے آشا بھوسلے کے ساتھ ماضی کے برے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک شو میں آشا بھوسلے ہمارے ساتھ تھیں اور وہاں میرا ان کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا عاطف اسلم کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک دوسرے سےاچھے تعلقات نہیں تھے اور ایسا کچھ عرصے تک چلتا رہا۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ آشا بھوسلے کی بیٹی میری مداح ہیں چناں چہ ایک دن بھارتی گلوکارہ نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ ہماری جھگڑے کی وجہ سے میری بیٹی شکوہ کررہی ہے۔ عاطف اسلم کا کہنا تھا کہ آشا بھوسلے نے اپنی بیٹی کی وجہ سے سب کچھ بھول کر مجھے معاف کردیا ہے اور یہ ایک طرح سے ان کا بڑا پن تھا جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھگڑے کی وجہ سے شو کی 4 سے 5 گھنٹے تک کے لیے ریکارڈنگ روکنی پڑی، البتہ، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی بہت سی درخواستوں کے بعد ریکارڈنگ دوبارہ شروع کردی گئی تھی۔
لائف سائنسز کے کاروبارمیں ہمارا بنیادی مشن زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔اس میں جسم کے اندر موجود وائرس اور بیکٹیریاسے مقابلہ کرنے سے لے کربڑے پیما نے پرمویشیوں کی دیکھ بھال اور فارمنگ کیلئے جدید ترین طریقوں کا استعمال شامل ہے۔ ہم ایسی پروڈکٹس فراہم کرنے میں کوشاں ہیں جو زندگی کے عملی امورکو ہر سطح پر بہتر بنائے۔ ہمارے پاس دو انتہائی مستحکم اور نہایت تحقیق شدہ نمایا ں ترین برانڈز کے پورٹ فولیوز ہیں اور ہم اپنی پروڈکٹ رینج میں مستقل طور پر بہتر سے بہتر بناتے رہتے ہیں ۔ لہذٰا چاہے آپ کوصحت کی ضروریات کیلئے ایڈوانسڈ فارماسیوٹیکلز درکار ہوں یا ضروری فصلوں کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اعلیٰ قسم کے بیج کی ضرورت ہو۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ آپ کو بہترین پروڈکٹ ملے گی۔ ہم جدّت اور اوّلیت کیلئے پرعزم ہیں جس کیلئے ہم تازہ ترین تحقیق اور جدیدترین ایڈوانسز کے ساتھ اپنی پروڈکٹس اور خدمات پیش کرتے ہیں۔ہم اپنے کسٹمرز کے اعتماد کوبرقرار رکھنے کے خواہشمند ہیں اور اپنے برانڈز کو معیار اور کسٹمر ز کے اعتماد کے عین مطابق رکھنا چاہتے ہیں۔ :ہمارے کاروبار کے تین مختلف حصے ہیں فارماسیوٹیکلز مویشیوں کی صحت زراعت Our name says it all: ours is the science of life – your life. Helping you maintain and improve the quality of life is a role we are proud of and take very seriously.
وسٹن: ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کھانے کے اوقات ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ امریکی ریاست میساچوسیٹس میں قائم بریگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل میں کی جانے والی تحقیق میں محققین نے شفٹوں کی نوکریوں کے شیڈول کا نمونہ بنایا جس میں انہوں نے بے وقت کھانا کھانے والے افراد میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ دیکھا۔ تحقیق کے شریک مصنف فرینک شیئر کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ہمارے جسم کی اندرونی گھڑی کی بے ترتیبی کا شکار افراد کے مزاج کو کھانے کے اوقات کے سبب پہنچنے والے نقصان سے ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے ایک منفرد طریقہ ہونے کے شواہد پیش کرتے ہیں۔ جیسے کہ وہ لوگ جو شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور وقتی نیند کے مسائل (جیٹ لیگ) کا شکار ہوتے ہیں۔ شیئر نے نیوز ریلیز میں کہا کہ شفٹ میں کام کرنے والے اور مطبی افراد میں مستقبل کے مطالعوں کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کھانے کے اوقات میں تبدیلی مزاج کی حساسیت سے بچا سکتی ہے۔ تب تک کے لیے یہ تحقیق ایک نیا عنصر سامنے لاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کھانے کے اوقات ہمارے مزاج کے لیے مسائل رکھتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق صنعتی معاشروں میں فیکٹریوں اور اسپتالوں جیسی جگہوں پرتقریباً 20 فی صد تک ملازمین شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ان ملازمین میں سے اکثر اپنے دماغ اور روزمرہ کے رویے میں اپنی مرکزی ’سِرکیڈین کلاک‘کے مابین بے ترتیبی شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سونے جاگنے اور بھوکے رہنے اور کھانا کھانے کے دورانیے شامل ہوتے ہیں۔ ان افراد کے ڈپریشن اور بے چینی میں مبتلا ہونے کے امکانات 25 فی صد سے 40 فی صدت بلند ہوتے ہیں۔ محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں 12 مرد اور سات خواتین کا انتخاب کیا گیا۔ شرکاء کو مدھم روشنی کے چار 28 گھنٹوں کے دنوں کو جبراً غیر مطابقتی ماحول میں رکھا گیا۔
(24 نیوز)چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نور عالم خان کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین جعلی دستاویزات کے ساتھ پاکستانی بن رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق چئیرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔اجلاس میں نور عالم خان نے کہا کہ افغان مہاجرین جعلی دستاویزات کے ساتھ پاکستانی بن رہے ہیں۔اس سارے عمل میں نادرا کے ملازمین بھی شریک ہیں، چئیرمین صاحب آپ نے کیا کاروائی کی۔ چیئرمین نادرا نے کہا کہ ‎377 ملازمین کو نوکریوں سے نکال چکے ہیں۔ نور عالم خان نے کہا کہ جب یہ لوگ پاکستانی پاسپورٹ پر دوسرے ممالک میں جاتے ہیں ہماری بدنامی ہوتی ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے نادرا کے جو افسران 3 سال سے زائد عرصہ سے ایک نشست پر ہیں، انکی تفصیلات سمیت نادرا ملازمین کی پروموشن اور بھرتی ہونے کی تفصیلات مانگ لیں۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بہت سارے افغانی ایمبیسی روڈ کے ساتھ گرین بیلٹ پر بیٹھے ہیں، افغانیوں نے جو شرٹس پہنی ہیں ان پر لکھا ہے kill us۔ چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ ڈی سی اسلام آباد کہاں ہیں، میٹنگ میں کیوں نہیں آئے، پانچ منٹ میں بلائیں۔ریڈ زون میں افغانیوں کے کیمپس سے متعلق سیکرٹری داخلہ کو ایکشن کرنے کی ہدایت۔ یہ بھی پڑھیں:ڈالر کے بعد سونے کی قیمت میں بڑی کمی سنیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ جب یہ لوگ سینکڑوں میں تھے تو ایکشن ہونا چاہیے تھا، اب ہزاروں میں ہیں۔ شاہدہ اختر علی کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا کہ افغانی ریڈ زون میں موجود ہیں اور ادارے خاموش ہیں۔
ہالی ووڈ کے اداکار و پروڈیوسر ایلک بالڈون اور ان کی دوسری اہلیہ اور یوگا انسٹرکٹر ہلیریا کے یہاں7ویں بچے کی پیدائش ہوئی۔ واضح رہے کہ 64 سالہ اداکار ایلک بالڈون کے یہاں یہ 8ویں بچے کی پیدائش ہے، ان کی پہلی اہلیہ سے انکی سب سے بڑی بیٹی آئرینا بالڈون ہیں جو کہ اس وقت 26 سال کی ہیں۔ فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ہلیریا نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو بیٹی کی پیدائش کی خوش خبری دی۔ انہوں نے پوسٹ میں لکھا کہ ’ہم آپ سب کو اپنی بیٹی Ilaria Catalina Irena سے ملواتے ہوئے بہت خوش ہیں، ہم دونوں بالکل خریت سے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بڑے بہن بھائی بھی ’الاریا کٹالینا آئرینا‘ کے آنے سے بہت خوش ہیں اور اس کا خیرمقدم اور بہت پیار کررہے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ اس شاندار خبر کو شیئر کرکے بہت خوش ہیں‘۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پارکر سولر پروب سورج کی کورونا نامی فضا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی، جہاں پہلے کبھی جایا نہیں جا سکا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس بدھ 15 دسمبر 2021 13:30 چھ جولائی 2018 کو حاصل کی گئی اس تصویر میں ایک آرٹسٹ کے ہاتھوں بنا پارکر سولر پروب کاتصور (اے ایف پی، ہینڈ آؤٹ، جانز ہاپکنز اے پی ایل، ناسا) ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے ایک خلائی جہاز نے باضاطبہ طور پر سورج کو ’چھو‘ لیا ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پارکر سولر پروب سورج کی ’کورونا‘ نامی فضا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی، جہاں پہلے کبھی جایا نہیں جا سکا ہے۔ خبر رساں دارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سائنسدانوں نے منگل کو امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس کے دوران اس خبر کا اعلان کیا۔ پارکر سولر پروب دراصل اپریل میں آٹھویں بار سورج کے قریب پہنچا اور اس کی فضا میں داخل ہوا۔ سائنسدانوں نے بتایا کہ اعداد و شمار حاصل کرنے میں کچھ ماہ لگے اور پھر تصدیق کرنے میں مزید کئی ماہ لگے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے پروجیکٹ سائنسدان نور راؤفی نے اسے ’سحر انگیز طور پر دلچسپ‘ قرار دیا۔ 2018 میں لانچ کیا گیا خلائی جہاز پارکر سورج کے مرکز سے اسی لاکھ میل (1.3 کروڑ کلومیٹر) دور تھا جب اس نے پہلی بار شمسی فضا اور باہر جانے والی شمسی ہواؤں کے درمیان ناہموار حد کو عبور کیا۔ سائنسدانوں کے مطابق خلائی جہاز کورونا میں کم از کم تین بار گیا اور باہر آیا، ہر بار منتقلی ہموار طریقے سے ہوئی۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے جسٹن کاسپر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’سب سے ڈرامائی وقت وہ تھا جب پہلی بار ہم فضا کے نیچے رہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’آپ سمجھیں گے کہ پانچ گھنٹے بہت کم وقت ہے، مگر، ان کے مطابق پارکر اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ اس نے اس دوران ایک بہت بڑا فاصلہ طے کیا۔ جہاز 62 میل (100 کلومیٹر) فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار پر چل رہا تھا۔ راؤفی کے مطابق کورونا توقع سے زیادہ دھول دار ثابت ہوا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) انہوں نے کہا کہ مستقبل میں کورونا کے مزید دوروں سے سائنسدان کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ شمسی ہواؤں کی شروعات کو کیسے ہوئی، یہ گرم کیسے ہوتی ہیں اور کس طرح خلا میں چھوڑی جاتی ہیں۔ سورج کی ٹھوس سطح نہیں ہے، اس لیے کورونا وہ جگہ ہے جہاں سارا ایکشن ہوتا ہے۔ اس شدید مقناطیسی خطے کی قریب سے کھوج سائنسدانوں کو سولر فلئرز کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ ابتدائی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پارکر اگست میں بھی سورج کے نزدیک سے نویں بار گزارتے ہوئے بھی کورونا میں داخل ہوا تھا۔
اسلام آباد: احساس راشن پروگرام کیلئے 8171 پر ‘ایس ایم ایس سروس’ کا آغاز کردیا گیا، گھرانے کا کوئی بھی فرد8171 پر اپنا شناختی کارڈ بھیج کر رجسٹریشن کراسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی ڈاکٹرثانیہ نشتر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر احساس راشن کی رجسٹریشن بذریعہ 8171 پر کرنے سے متعلق معلوماتی ویڈیو شیئر کی۔ ڈاکٹرثانیہ نے کہا کہ احساس راشن رجسٹریشن کیلئے8171سروس شروع ہوگئی ہے، گھرانے کا کوئی بھی فرد8171 پر اپنا شناختی کارڈ بھیجے، اپنا شناختی کارڈنمبر اس موبائل سم سے بھیجیں جو اس نام پر رجسٹر ہے۔ احساس راشن رعایت پروگرام میں گھرانوں کی رجسٹریشن کیلیئے8171سروس شروع ہوگئی ہے۔رجسٹریشن کیلیئےگھرکا کوئی ایک فرد اپناشناختی کارڈنمبر8171پر اس موبائل سم سےبھیجےجواسکےنام رجسٹرہو۔کریانہ دکانداروں کی رجسٹریشن بھی جاری ہےمگر وہ صرف ویب سائٹ سےہی رجسٹرہوسکتےہیں۔https://t.co/M3tCXALnUW pic.twitter.com/ET8E7NK4V4 — Sania Nishtar (@SaniaNishtar) November 23, 2021 معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ احساس راشن رعایت کیلئے ہر گھرانے کا ایک ہی فرداہل ہوگا، احساس راشن رعایت پروگرام سے 2کروڑ خاندان مستفید ہوں گےجبکہ کریانہ مالکان صرف احساس راشن ویب پورٹل پر ہی رجسٹر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ اہل ہوں گے تو آپ ہی رجسٹرڈ راشن رعایت حاصل کر سکیں گے، رجسٹریشن کے چار ہفتوں کے اندر گھرانوں کو ان کی اہلیت کے پیغامات 8171 سے بھجوا دئیے جائیں گے۔
Oct 5, 2022 Asif Ali Zardari, Asifalizardari, attorney, automobile, beauty tips, breaking news, business, computer, conference call, cosmetics, credit, cricket, daily jang, degree, donate, drama, electricity, entertainment, fashion, flights, foods, foreign exchange, gas, geo drama, geo entertainment, health, hosting, Imran Khan, Imrankhan, insurance, jang news, jang newspaper, latest news, lawyer, loans, mobile, mortgage, Nawaz Sharif, Nawazsharif, pakistan news, Pharmaceuticals, smartphone, software, sports, tablet, technology, today’s news, trading, urdu news, urdu newspaper, video, world فوٹو بشکریہ ٹوئٹر پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان آج 70 سال کے ہو گئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی سالگرہ گزشتہ روز سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈنگ میں موجود ہے، عمران خان کو پاکستان سمیت دنیا بھر سے سالگرہ کی مبارکبادیں دی جا رہی ہیں۔ عمران خان کو 70ویں سالگرہ کی مبارکباد دینے میں ہر خاص و عام شخصیات شامل ہیں۔ قومی سابق کپتان عمران خان کو اُن کی جماعت کی جانب سے اس موقع پر متعدد ویڈیوز کے ذریعے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے لیڈر کو 70 ویں سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے قائد کو 70 ویں سالگرہ مبارک ہو جس کی جدوجہد، طاقت، ہمت اور عزم واقعی متاثر کن ہے۔ دوسری جانب عمران خان کو سالگرہ کی مبارکباد دینے میں اُن کی جماعت کے نامور سیاست دان شامل ہیں۔ عمران خان کی 70 ویں سالگرہ کے سلسلے میں جہانیاں سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی کے زیر اہتمام کارکنان آج سالگرہ کی تقریبات کا اہتمام کریں گے۔ یاد رہے کہ عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے، وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کا رخ کیا۔ تعلیم کے حصول کے ساتھ عمران خان نے کرکٹ میں بھی خود کو منوایا اور اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم 1992 کے ورلڈکپ میں فتح یاب ہوئی۔ عمران خان نے 25 اپریل 1996ء کو اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ 2002 میں میانوالی سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 17 اگست 2018 ء کو عمران خان ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔
[box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] ستریویں قسط …. [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کے ایک نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاکر کہتا ہے کہ یہاں خزانہ ملے گا۔’’ خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ دو سال سے بھیڑیں اس کی دنیا تھیں لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں خانہ بدوش عورت سے ملتا ہے، جو خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ مدد کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں غائب ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشے کا سوداگر تھا، اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے کے کام کرنے پر سوداگر اسے کھانا کھلاتاہے۔ لڑکا اُسے بتاتا ہے کہ اسے مصر جاننے کے لیے کام چاہیے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ مگر لڑکا دکان میں کام کرنے لگتا ہے۔ لڑکے کو اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر کے پوچھنے پر لڑکا بتاتا ہے کہ اہرام دیکھنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا خواب مکّہ معظّمہ کا سفرکرنا تھا، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ وطن واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔ لڑکے کو سامان سے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ، اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اندلوسیا واپسی کبھی بھی ممکن ہے لیکن اہرام دیکھنے کا موقع دوبارہ نہ ملے گا۔ سوداگر کے پاس ایک شخص قافلہ کے ذریعہ سامان صحرا پار لے جانے آیاکرتا تھا، وہ اس کے گودام جاتا ہے، جہاں انگلستان کا ایک باشندہ ملتا ہے۔ جو کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا۔ عرب کے ریگستان میں مقیم ایک کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسے ملنے یہاں چلا آیا۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دوستی ہوگئی۔ گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو صرف کیمیاگر کی تلاش تھی۔ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قافلہ کا سردار اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلے نے شروع کیا، سورج کی تمازت پر سفر رک جاتا اور سہہ پہر میں شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں گزارتا۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی سفر خاموشی سے ہونے لگا۔ خوف کے اس دور میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں، لیکن کتابیں دقیق تھیں، لڑکے کے کچھ پلے نہ پڑا، اُس نےسب کتابیں یہ کہہ کر واپس کردیں، کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ آخر کارقافلہ الفیوم نخلستان پہنچ گیا۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو پہچانتا نہ تھا ۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کی وسعت دیکھ کر حیران تھے ۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ انگلستانی باشندہ لڑکے کے ساتھ مل کر کیمیاگر کی تلاش کرتا ہے لیکن وہ نہ ملا۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھتاہے، وہاں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے، جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے لڑکے نے عشق کے جذبات محسوس کیے اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی نے بتایا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں چل پڑا۔ لڑکا اس لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر دوبارہ پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزرا ، صحرا میں جنگ جاری رہی۔ لڑکی اُسے سفر آگے جاری کرنے کا کہتی ہے، لڑکی سے بچھڑنے کا سوچ کر لڑکا اداس ہوگیا۔ لڑکا انگلستانی باشندے کے پاس پہنچا، جو اپنے بھٹی بنا کر تجربات کررہا ہوتا ہے۔ انگلستانی باشندہ بتاتا ہے کہ کیمیاگر نے اسے کام دیا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ لڑکا اُس کے عمل کو دیکھتا رہا اور پھر صحرا میں نکل گیا۔ کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا اور پھر ایک پتھر پر مراقب بیٹھ گیا۔ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا نظر آیا۔ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو جھماکے سے ایک عکس نظر آیا کہ ایک فوج نخلستان میں داخل ہورہی ہے۔ وہ گھبراکر نخلستان کی جانب دوڑگیا اور ساربان کو بتایا، ساربان نے یقین کرلیا کیوں کہ وہ ایسے مستقبل شناس لوگوں سے مل چکا تھا، وہ ایک بزرگ سے ملا تھا جس نے اسے سمجھایا تھا کہ مستقبل کو کھوجنے سے بہتر ہےکہ حال پر غور کرو، حال ہی میں اصل راز پوشیدہ ہے۔ مستقبل صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے، البتہ قدرت کبھی کبھی مستقبل کو کسی پر منکشف بھی کردیتی ہے، ساربان سردار ِقبیلہ کو اطلاع دینےکا کہتا ہے۔ لڑکا ججھکتا ہے لیکن ساربان کے سمجھانے پر سردارِ قبیلہ کے خیمہ جا پہنچتا ہے۔ لڑکا خیمے کی سجاوٹ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے، لڑکا وہاں سب کو اپنا مکاشفہ بتاتا ہے، سردارانِ قبیلہ آپس میں بحث کرتےہیں۔ بڑا سردار یوسف اور خواب کی تعبیر کا قصہ سنا کر کہتا ہے کہ ہمیں صحرا کے پیغامات پر یقین کرنا چاہیے، پنچائت کی نشست ختم ہو تی ہے، سردار کہتا ہے کہ دشمن کے مارے جانے پر انعام ملے گا۔ لڑکے اپنے خیمہ لوٹتاہے ، اچانک ریت کے طوفان کے ساتھ ہاتھ ایک گھڑسوار آتاہے اور لڑکے پر تلوار سوت کر پوچھتا ہے کہ کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنے کی اس نے ہمت کیسے کی، لڑکا بتاتا ہے کہ اس طرح ہزاروں جانیں محفوظ ہوجائیں گی۔ اجنبی شہسوار کہتا ہے کہ وہ اس کی ہمت کا امتحان لینے آیا تھا، اپنے مقدر کی تلاش میں تم اتنا دور آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا، اس کے بعد کل ملنے کا کہہ کر اجنبی گھڑسوار چلا جاتا ہے، لڑکے کو خوشی ہوتی ہے کہ آج وہ کیمیاگر سے ملا ہے۔ دوسرے دن دوپہر کو شمال سے گھڑ سوار قبائلی نمودار ہوئے اور نخلستان پر حملہ آور ہو گئے ، مگر گھات لگائے مقامی جنگجو نے انہیں گھیر لیا اور سارے حملہ آور مار ڈالے گئے۔ فوجی پلٹن کا کماندار جس کو قتل نہیں کیا گیا سرداروں کے سامنے پیش ہوا، اُسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ قبیلے کے سردار نے لڑکے کو سونے کے سکے پیش کیے اور نخلستان کے مشیر کا عہدہ دیا۔ شام کو لڑکا اونٹ پر سوار جنوب کی سمت چل پڑا اور کیمیا گر کے خیمہ تک جاپہنچا۔ کیمیاگر نے اسے کھانے کی دعوت دیاور کہا کہ میں تو تمہیں وہ مقام بتاؤں گا کہ جس جگہ تمہارا خزانہ ملے ہے اور دوسرے دن گھوڑا ساتھ لانے کو کہا۔ اگلی رات وہ لڑکا گھوڑے پر سوار ہو کر کیمیاگر کے خیمے پر پہنچ گیا۔ کیمیاگر نے اسے سمجھایا کہ اہرام کے اردگرد ریت ہی ریت ہے، خزانہ وہی ہوگا جہاں زندگی ہوگی، اس کے لیے صحرا میں زندگی تلاش کرنا سیکھنا ہوگی۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں زندگی کے لئے کشش ہوتی ہے، لڑکا گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے اور گھوڑا سرپٹ دوڑکر ایک مقام پر پہنچتا ہے، جہاں پتھروں کے درمیان ایک سوراخ نظر آ تا ہے، کیمیاگر اپنا ہاتھ سوراخ میں ڈال کر سیاہ ناگ نکالتا ہے اور اسے حصار میں ڈال دیتا ہے۔ کیمیا گر کہتا ہے کہ وہ ریگستان سے باہر نکلنے تک میں راہنمائی کرے گا۔ لڑکا نخلستان میں رہنے پر بضد ہوتا ہے تو کیمیاگر بتاتا ہے کہ تمہارے اس فیصلے کے بعد کیا ہو گا….؟؟ …. اب آگے پڑھیں …. ………… [/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) لڑکے کو بضد دیکھ کر کیمیاگر اس سے مخاطب ہوا اور گھمگیر آواز میں کہنے لگا۔ ‘‘ایسی بات ہے تو چلو، میں تمہیں تمہارے مستقبل سے رُوبرو کراتا ہوں…. اور بتاتا ہوں کہ تمہارے اس فیصلے کے بعد کیا ہو گا….؟؟ ’’ ‘‘تم واپس جاؤ گے تو سرداروں کی جانب سے تمہیں نخلستان کا مشیر مقرر کر دیا جائے گا۔ تمہارے پاس پہلے ہی سے کافی سونا موجود ہے جس سے تم بہت سی بھیڑیں اور اونٹ خرید لو گے۔ اس صحرائی لڑکی سے تمہاری شادی ہو جائے گی اور پھر سال بھر تک تم دونوں خوب خوش و خرّم رہو گے۔ پھر تم صحرا سے بھی مانوس ہوجاؤ گے اور اس کو سمجھنے اور اُس سے محبت کر نے میں تم اور آگے بڑھو گے۔ پھر نخلستان کے ہر گوشے ہر درخت کے بارے میں تمہاری معلومات میں خوب اضافہ ہوتا جائے گا۔ تم اُن کو اُگتے بڑھتے دیکھو گے اور سمجھو گے کہ دنیا کیسے بدلتی ہے۔ مشاہدہ میں پختگی کے ساتھ ساتھے صحرا میں رہ کر کائناتی نشانیوں کو سمجھنے میں تمہاری صلاحیتوں میں روز افزوں ترقی ہوتی جائے گی۔ کیونکہ صحرا بذات خود ایک بہترین استاد ہے۔ ’’ تھوڑی توقف کے بعد کیمیاگر پھر بولا، ‘‘لیکن دوسرے سال میں ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہیں خزانے کاخیال آئے گا۔ علامات اور نشانیاں تم پر اکثر ظاہر ہوں گی ، تمہیں اشارے کریں گی اور اُس کے حصول کے لئے تمہیں اُکسائیں گی لیکن تم اُن نشانیوں صَرفِ نظر کرتے رہو گے۔ کیونکہ تم اپنے تجربہ اور علم کو نخلستان اور یہاں کے مکینوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرو گے۔ قبیلے کے سردار تمہارے کردار اور کارناموں کو سراہیں گے اور تمہارے ریوڑ، اونٹ کے قافلے، تمہاری دولت اور قوّت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ تیسرے سال بھی نشانیاں مزید شدت کے ساتھ تمہیں خزانہ اور مقدّر کی جستجو کے لئے اُکسائیں گی۔ تم رات رات بھر نخلستان میں اِدھر اُدھر گھومتے رہو گے، جس کی وجہ سے تمہاری بیوی ایک احساسِ جرم کا شکار رہنے لگے گی۔ اُسے یہ احساس ستانے لگے گا کہ اُس کی وجہ سے تم اپنی جستجو ختم کر بیٹھے تھے۔ حالانکہ تم بدستور ایک دوسرے سے محبت کرتے رہو گے۔ لیکن تمہیں کبھی کبھی یاد آئے گا کہ تمہاری بیوی نے تو تمہیں کبھی روکا نہ تھا اور وہ روکتی بھی کیسے کہ صحرا عورت تو اپنے مرد کا انتظار کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ یوں تو الزام تمہاری بیوی پر نہ آئے گا۔ مگر اکثر چلتے پھرتے تمہیں خیال آئے گا۔ ‘‘تم اپنی مہم جاری رکھ سکتے تھے…. تم اپنی بیوی کی محبت پر بھروسہ کر سکتے تھے….’’ کیونکہ اب بھی تو تمہارے دل میں رہ رہ کر یہی خیال آ رہا ہو گا کہ اگر چلا گیا تو نہ معلوم واپس بھی آ سکوں گا کہ نہیں۔ اور پھر ایک وقت آئے گا کہ کائناتی علامتیں اور نشانیاں یہ بتائے گی ‘‘خزانے تک پہنچنے کے تمام اسباب ختم ہوچکے ہیں، تمہارا خزانہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے۔ اب اس کی تلاش ناممکن ہے۔’’ پھر چوتھے سال میں کسی وقت یہ علامتیں نشانیاں بھی تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گی۔ اس لیے کہ تم نے اُنہیں سُننا اور سمجھنا ہی بند کر دیا ہو گا۔ پھر سردارانِ قبیلہ اِس تبدیلی کو محسوس کر لیں گے کہ کائناتی نشانیاں تمہارا ساتھ نہیں دے رہیں اور اس کے بعد تمہیں کسی کام کا نہ سمجھ کر اس اعلیٰ عہدے سے بر طرف کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ اور بات ہوگی کہ اُس وقت تم ایک اچھے اور امیر تاجر بن چکے ہو گے۔ تمہارے پاس بہت سے اونٹ اور وافر تجارتی سامان موجود ہو گا۔ لیکن پھر بھی زندگی کے بقیہ ایّام تم اِس افسوس میں گزار دو گے کہ تم مقدّر کی جدوجہد جاری نہ رکھ سکے اور اب وقت گزر چکا ہے۔’’ ایسا لگ رہا تھا کہ کیمیاگر اپنے سامنے اس کی آنے والی کی زندگی کی کتاب رکھ کر ورق در ورق پڑھ کر سُنا رہا ہو۔ کیمیاگر اُسے سمجھانے کے انداز میں کہنے لگا: ‘‘تم اچھی طرح سمجھ لو کہ عشق حصولِ مقصد کی جد و جہد سے روکتا نہیں۔ اگر کوئی اِس جدو جہد کو چھوڑ بیٹھے تو یہ سمجھ لو کہ عشق سچا نہیں تھا۔ وہ عشق نہیں تھا ، جس کی زبان لفظوں کی محتاج نہیں ہے، وہ کوئی اور جذبہ ہو گا، عشق نہیں۔’’ اب کیمیاگر نے جو دائرہ بنایا تھا اُسے مٹا دیا اور سانپ پتھروں میں کہیں غائب ہو گیا۔ لڑکا اُس کی باتوں پر غور کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُسے شیشے کا تاجر یاد آیا جسے مکّہ جانے کی شدید خواہش تھی، مگر وہ اپنی ترجیحات میں الجھ کر اسے پوری نہ کرسکا اور اسے تمام زندگی اس کا ملال رہا، پھر اسے انگلستانی باشندہ یاد آیا جو کیمیاگر سے ملنا چاہتا تھا اور اس کےلیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔ اور پھر وہ اُس لڑکی کے متعلق سوچنے لگا جو سب کچھ ریگستان ہی سے سیکھتی اور اُس کی محبت پر بھروسہ کرتی ہے اور اِس طرح اُس ریگستان پر اُس کی نظر دوڑ گئی جس کی بدولت ہی وہ اپنی محبوبہ سے مل سکا تھا۔ دونوں گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ اِس بار لڑکا کیمیاگر کے پیچھے پیچھے تھا، دونوں نخلستان ہی واپس جا رہے تھے۔ تیز چلتی ہوا کے ساتھ نخلستان کی آبادی سے اُبھرنے والی آوازیں اُن کے کانوں میں ٹکرائیں تو لڑکا سوچنے لگا کہ کاش میں اِنہیں آوازوں میں سلمیٰ کی آواز پہچان سکتا۔ وہ رات بھی عجیب تھی…. وہ کئی نئے تجربوں سے گزرا تھا۔ دائرہ کے حصار میں گرفتار کوبرا سانپ، عقابوں کو کندھے پر بٹھائے عجیب و غریب شہسوار اور محبت اور خزانہ کے بارے میں اُس کے پُراِسرار خیالات، صحرائی لڑکی اور مقدّر کے بارے میں اُس کی حکیمانہ باتیں جنہیں صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا تھا۔دونوں گھڑسوار ساتھ ساتھ چل رہے تھے، سفر کے دوران لڑکا کیمیاگر کی باتوں پر غور کرتا رہا اور آخر وہ ایک فیصلے پر پہنچ گیا، ‘‘ٹھیک ہے، میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔’’ فیصلہ کن لہجے میں لڑکے کی زبان سے نکلا اور جیسے اچانک اُس کے دل کو سکون سا مل گیا تھا۔ ‘‘ٹھیک ہے ہم لوگ کل طلوعِ آفتاب سے قبل نکلیں گے۔’’کیمیاگر نے مختصراً جواب دیا۔ *** اُس رات نیند کوسوں دور رہی۔ طلوعِ صبح سے کوئی دو گھنٹہ قبل اُس نے اپنے خیمے میں ساتھ رہنے والے ایک نو عمر عرب لڑکے کو جگایا تاکہ سلمیٰ کے خیمہ تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ اِس خدمت کے عوض بچہ کو سونے کے اتنے سکّہ دئے جو ایک بھیڑ خریدنے کے لئے کافی تھے۔ لڑکے نے اُس سے کہا کہ سلمیٰ کے خیمہ میں جاکر اُسے بتائے کہ میں باہر اُس کا منتظر ہوں۔ بچہ نے خوشی خوشی حکم کی تعمیل کی اور ایک بار پھر بچہ کو انعام سے نوازا گیا۔ ‘‘اب تم جا سکتے ہو، ’’ لڑکے نے عرب بچے سے کہا۔جو خوش تھا کہ نخلستان کے مشیر نے اِس سے خدمت لی جس کے عوض اُسے خاصا سونا مل چکا تھا۔ حکم سُن کر وہ خوشی خوشی اپنے خیمہ میں واپس اپنی نیند پوری کرنے چلا گیا۔ سلمیٰ خیمے کے دروازے پر نظر آئی تو دونوں ایک دوسرے سے ذرا دور رہ کر درختوں کے حصہ کی جانب بڑھ گئے۔ سلمیٰ نے کہا کہ ‘‘اچانک یہاں بیچ نخلستان میں اِس طرح کھلے عام ملنا ٹھیک نہیں، یہ ہماری روایت کے خلاف ہے’’۔ اِس بات کا احساس لڑکے کو بھی تھا، لیکن مجبوری یہ تھی کہ پھر کوئی اور موقع نہ تھا۔ ‘‘میں آج جا رہا ہوں۔’’ وہ بولا…. ‘‘یاد رکھنا کہ میں بہت جلد واپس آ جاؤں گا۔میں شاید تمہارے بغیر بہت عرصہ تک نہ رہ سکوں ۔ سنو ! میں تم سے بہت شدید محبت کرتا ہوں، کیونکہ….’’ ‘‘کچھ کہنے کی ضرورت نہیں’’ سلمیٰ نے بیچ میں لڑکے کی بات کاٹ دی۔‘‘کسی سے محبت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے محبت ہوتی ہے، محبت تو بس برائے محبت ہوتی ہے،محبت کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔’’ لیکن لڑکے نے اپنی بات جاری رکھی، ‘‘میں تمہیں سب کچھ بتا چکا ہوں۔ میرا خواب، بادشاہ سے ملاقات، شیشے کی دکان پر کام، ریگستان کا سفر، قبائلی جنگوں کی بنا پر میرا یہاں رکنا اور پھر کیمیاگر کی تلاش میں کنویں پر آنا اور تم سے ملنا جیسے یہ سب ایک سلسلہ کی کڑیاں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم سے ملنے کے لئے ہی یہ سب کچھ ہوا تھا، جیسے تمہیں ڈھونڈنے اور محبت کی آبیاری میں پوری کائنات میری معاون بن گئی ہو۔’’ جانے کب سلمیٰ کا کانپتا ہوا ہاتھ لڑکے کے دونوں ہاتھوں کے درمیان قرار پا چکا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جن دونوں نے ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کیا تھا۔ ‘‘میں واپس آؤں گا، میرا انتظار کرنا۔’’ لڑکا بولا۔ ‘‘آج سے پہلے ریگستان کو دیکھ کر میرے دل میں ایک انجانی سی تمنّا سر اُٹھا تی تھی۔’’ سلمیٰ کہہ رہی تھی، ‘‘لیکن اب اِس میں امید کی کرن بھی ہو گی۔ میرے والد ایک بار ماں کو چھوڑ کر گئے لیکن وہ واپس آ گئے۔اور اب وہ جب بھی جاتے ہیں واپس آ جاتے ہیں۔’’ پھر وہ دونوں کچھ نہ بولے۔ درختوں کے درمیان چلتے ہوئے آہستہ آہستہ سلمیٰ کے خیمہ تک واپس آ گئے اور لڑکے نے سلمیٰ کو خدا حافظ کہا۔ ‘‘جیسے تمہارے والد تمہاری والدہ کے پاس واپس آگئے، اُسی طرح یقین کرو کہ میں بھی واپس آؤں گا۔’’سلمیٰ کی خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہونے لگیں۔ ‘‘یہ کیا تم رو رہی ہو؟….’’ ‘‘میں ریگستان کی عورت ضرور ہوں ’’ سلمیٰ نے چہرا موڑ کر آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن بہرحال ایک عورت ہوں۔’’ سلمیٰ اپنے خیمہ میں واپس لوٹ گئی…. جب صبح ہوچکی تو وہ خیمے سے باہر آئی، برسوں سے جاری پانی بھرنے کا معمول میں مشغول ہوگئی ۔ لیکن آج سب کچھ بدل چکا تھا۔وہ لڑکا اب نخلستان سے جا چکا تھا۔ اُسے لگا کہ جو سکون کا احساس اُسے کل تک حاصل تھا، وہ اب کبھی نہ حاصل ہو سکے گی۔ نخلستان جس کی فضاؤں میں محبت و یگانگت کی آبیاری ہوئی وہ اپنی معنویت کھو چکا تھا۔ یہاں کے پچاس ہزار درخت اور تین سو کنویں جو طویل سفر سے واپس آنے والے قافلوں کے لئے جایہ سکون تھے، سلمیٰ کے لیے اُس دِن سے یہ بس ایک ویران جگہ ہو گی تھی، کیونکہ جس کی چند روز کی رفاقت میں اُسے وجود کا ادراک حاصل ہو ا تھا، اب یہاں نہیں تھا۔ جیسے اب کچھ نہ رہا ہو، سب خالی خالی تھا۔ آج کے بعد نخلستان نہیں بلکہ صحرا اُس کے لئے زیادہ اہم ہو جائے گا۔ وہ ہر نئے دن کا انتظار کرے گی، سوچے گی کہ وہ خزانے کی تلاش کا سفر کس ستارے کو دیکھ کر طے کر رہا ہو گا۔ وہ اپنی محبت اور جذبات کے پیغامات کو ہواؤں کے دوش پر بھیجے گی کہ یہ ضروراُس کے چہرے سے ٹکرا کر میری زندگی کا پیغام دیں گی اور یہ بتائیں گی کہ وہ اُس کی منتظر ہے۔ خزانے کے متلاشی ایک با ہمّت نوجوان کے لئے ایک عورت سراپا انتظار بنی ہوئی ہے۔ آج کے بعد یہ ریگستان محض اِس امید کی بناء پر اہم ہو گا کہ اُس کا آنے والا اِسی سے گزر کر واپس آئے گا۔ *** ‘‘جو کچھ تم پیچھے چھوڑ آئے ہو اُس کے لئے زیادہ فکر مند نہ ہو۔’’ کیمیاگر نے راستہ چلتے ہوئے لڑکے کو سمجھایا۔ ‘‘کائنات کی روح میں سب کچھ لکھا جاتا ہے جو اس میں ہمیشہ رہتا ہے، جو کچھ لکھا جا چکا اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔’’ ‘‘گھر واپسی کے خواب دیکھنا اور اُس کے تصوّر سے بے قرار رہنا انسانی کمزوری ہے اور گھر چھوڑنا اُس کے لئے درد انگیز۔ آدمی گھر چھوڑنے سے زیادہ گھر لوٹنے کے خواب دیکھتا ہے۔’’ لڑکا بولا۔ وہ صحرا کے سکوت کا پہلے سے عادی تھا۔ ‘‘جو کچھ تم نے پایا ہے اگر وہ حقیقی ہے تو سمجھ لو کہ وہ ختم نہ ہو گا اور تم واپس آ کر اُسے حاصل کر لو گے اور اگر تم محض ایک لمحاتی جذبہ کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو تو یہ ایک روشنی کے جھماکے کی طرح ختم ہو جائے گا اور واپسی پر کچھ نہ ملے گا۔’’ کیمیاگر صوفیانہ انداز میں اظہارِ خیال کر رہا تھا لیکن لڑکے کو اندازہ تھا کہ اُس کا یہ حوالہ سلمیٰ سے متعلق ہے۔ لڑکے کی مجبوری یہ تھی کہ وہ جو کچھ پیچھے چھوڑ آیا تھا اُسے بھُلا نہیں سکتا تھا۔ یہ نا ممکن تھا کہ سلمیٰ اُس کے خیالوں کی گرفت سے باہر رہ سکے۔ صحرا کی وسعت پذیری اور اُس کی لامتناہی یکسانیت اسے خواب دیکھنے پر مجبور کررہی تھیں۔ اور اب بھی نخلستان کے خوبصورت درخت جیسے اُس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ کنواں اور پانی بھرتے ہوئے سلمیٰ- جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ انگلستانی باشندہ جو اپنے تجربے میں مستغرق تھا اور وہ ساربان جس نے اُسے بہت سی باتیں سکھائی تھیں وہ ایسے محسوس کر رہا تھا جیسے اُن کے درمیان ہو۔ بھلا یہ سب کیسے نہ یاد آئیں گے اُن کو بھُلایا نہیں جا سکتا۔ لڑکا سوچنے لگا کہ کیمیاگر کو شاید عشق کا تجربہ کبھی نہیں ہوا۔ کیمیاگر کا گھوڑا آگے آگے تھا۔ عقاب اُس کے کاندھے پر سوار صحرا کی زبان سے اچھی طرح واقف تھا۔ جب بھی وہ کہیں رُکتے تو عقاب اشارہ پا لیتا اور کسی شکار کی تلاش میں اُڑ جاتا۔ پہلے دن ایک خرگوش کا شکار لایا اور دوسرے دن دو چڑیاں۔ رات ہوئی تو وہ اپنے بستروں کو کھول کر بچھا دیتے اور ضرورت کے تحت چھپا کر آگ روشن کرتے۔ ریگستان کی راتیں سرد تھیں اور اندھیری بھی۔ چاند کے گھٹنے کے ساتھ اُس اندھیرے میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ کوئی ایک ہفتہ تک وہ ایسے ہی سفر کرتے رہے، ضرورت پڑنے پرہی کوئی گفتگو کرتے اور وہ بھی زیاد ہ تر ایسی احتیاطی تدابیر سے متعلق ہوتی جو قبیلوں کی جنگ کی زد میں آنے سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری تھیں۔ جنگ جاری رہی اور بہنے والی خون کی بو کبھی کبھی ہوا کے دوش پر اُڑتی ہو ئی اُن کے حواس کو باخبر کر دیتی کہ جنگ شاید یہیں کہیں قریب ہی ہو رہی تھی۔ لڑکے کو یہ اندازہ تھا کہ جو چیزیں نظر نہ آسکیں گی وہ علامتوں کے ذریعہ معلوم ہو جائیں گی۔ ساتویں روز کیمیاگر نے اب تک کے معمول سے ذرا قبل ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عقاب شکار کی تلاش میں اُڑ گیا۔کیمیاگر نے اپنی پانی کی مشکیزہ لڑکے کو پیش کی۔ ‘‘ہمارا سفر اب خاتمہ کے قریب ہے۔’’ کیمیاگر کہنے لگا۔ ‘‘تم نے اپنی جستجو جس کامیابی سے جاری رکھی ہے وہ یقیناً قابلِ تحسین ہے۔’’ ‘‘لیکن راستہ میں تم نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا۔’’ لڑکے نے کہا: ‘‘میں سوچتا تھا کہ تم مجھے کچھ خاص خاص باتیں بتاؤ گے، یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے انگلستانی باشندے کے ساتھ ریگستان سے گزرتے ہوئے ہوا تھا ، مجھے سکھانے کے لیے اُس نے ڈھیر سی کتابیں دیں، لیکن وہ میرے لئے بے کار رہیں اور میں اُن سے کچھ نہ حاصل کر سکا۔’’ ‘‘جاننے اور سیکھنے کا ایک ہی طریقہ معتبر ہے۔’’ کیمیاگر لڑکے کو بتانے لگا۔ ‘‘اور وہ ہے عمل، جو کچھ تمہارے لئے ضروری تھا وہ سفر نے تمہیں سکھا دیا ہے۔ بس اب ایک چیز باقی ہے۔’’ لڑکا جاننا چاہتا تھا کہ وہ چیز کیا ہے؟…. لیکن کیمیاگر کی نظریں تو آسمان میں اُڑنے والے عقاب کو تلاش کر رہی تھی۔ ‘‘تمہیں کیمیاگر کیوں کہا جاتا ہے۔’’ ‘‘اِس لئے کہ میں کیمیاگر ہوں۔’’ ‘‘لیکن دوسرے بہت سے کیمیاگر جنہوں نے سونا بنانے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے؟ ’’ ‘‘کیونکہ اُن کا مطمع نظر صرف سونا تھا۔وہ اپنے مقدّر کی دولت یعنی اُس کے صرف ایک حصہ کو ہی چاہتے تھے، پوری تقدیر سے انہیں دلچسپی نہ تھی۔’’ ‘‘مجھے اب کیا سیکھنا باقی ہے؟’’ لڑکے نے پھر پوچھا۔ لیکن کیمیاگر کی نظر آسمان میں کچھ تلاش کر تی رہی۔ تھوڑی دیر میں عقاب شکار سے واپس آ گیا۔ اُنہوں نے ایک گڑھا کھود کر اُس میں آگ جلائی تاکہ باہر سے کسی کو وہ نظر نہ آسکے۔ ‘‘میں کیمیاگر ہوں اِس لئے مجھے کیمیاگر کہتے ہیں، بالکل سادہ سی بات ہے۔’’ وہ کھانا تیار کرتے ہوئے لڑکے سے کہنے لگا : ‘‘یہ عِلم میں نے اپنے دادا بزرگوار سے حاصل کیا تھا اور اُنہوں نے اپنے والد سے اور اِسی طرح یہ سلسلہ تخلیقِ کائنات سے جاری ہے۔ در اصل اُس زمانہ کا امتیاز اختصار تھا اور شاہکارِ تخلیق محض ایک زمرّد کی سطح پر تحریر کی جا سکتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سادگی ختم ہونے لگی تو رسالے تحریر کئے جانے لگے پھر اُن کی تشریحات ہونے لگیں اور پھر فلسیانہ مطالعات کا لمبا سلسلہ چل پڑا۔ اور پھر بعد کے آنے والوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ گزشتہ زمانہ کے لوگ ہمارے مقابلہ میں کم جانتے تھے۔ ہمارا عِلم اور ہمارا زمانہ زیادہ ترقی یافتہ ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ علم بالکل ختم ہو گیا۔ وہ آج بھی موجود اور لوحِ زمرّد آج بھی زندہ ہے۔’’ ‘‘زمرّد کی اُن لوحوں پر کیا تحریر ہوتا تھا ؟’’ لڑکے نے جاننا چاہا۔ کیمیاگر نے ریت میں کچھ آڑی ترچھی لکّیریں کھینچنی شروع کر دیں۔ تکمیل کرنے میں کوئی پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ اِس دوران لڑکا اُسے دیکھتا رہا۔ اُسے بوڑھا بادشاہ یاد آیا جس سے پلازہ کے سامنے ملاقات ہوئی تھی اور اس نے ریت پر لکھا تھا، ۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ملاقات برسوں پہلے ہوئی تھی۔ ‘‘لوحِ زمرّد پر یہ لکھا رہتا تھا۔ ’’ کیمیاگر لکھ چکا تو لڑکے سے مخاطب ہوا۔ لڑکے نے پڑھنے کی کوشش کی۔ ‘‘یہ تو کچھ اشارے ہیں۔’’ اُس کے انداز میں مایوسی تھی۔ ‘‘ایسا ہی کچھ اِس انگریز کی کتاب میں تھا۔’’ ‘‘نہیں ….’’ کیمیاگر نے جواب میں کہا ‘‘یہ اُن عقابوں کی اُڑان کی مانند ہے جو تم نے اُس روز دیکھے تھے، یہ سمجھنے کے لئے محض منطق اور استدلال ہی کافی نہیں ہے۔ لوحِ زمرّد در اصل ایک راستہ بتاتا ہے جس سے روحِ کائنات میں براہِ راست پہنچا جا سکتا ہے….’’ ‘‘دانا لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ نظر آنے والی دنیا تو محض ایک تصویر یا ایک عکس ہے، اُس اصل دنیا کا جو کہیں اور موجود ہے، آخرت کے بعد یعنی جنّت کی شکل میں …. ہم اس عکس *کو ہی اصل سمجھ رہے ہیں، یہ دنیا تو ہمارے اِس یقین کو پختہ کرنے اور یہ ضمانت دینے کے لیے ہے کہ عیبوں اور نقائص سے بالکل پاک ایک اور دوسری دنیا ضرور پائی جاتی ہے۔ خدا نے یہ کائنات اِس لیے بنائی ہے کہ انسان اُس کی تخلیقات پر غور و فکر کرتا رہے اور اُس کی حکمت و دانائی، اُس کی عظمت و بزرگی اور انسانوں کے تئیں اُس کی رحمت اور اُس کی باریک بینی پر تدبّر کرے اور اِس طرح اُس کی مخلوق کو سمجھ کر خدا کو پہچانے۔ دراصل اِس غور و فکر، تدبّر اور تفقہ کا نام ہی عمل ہے اور یہی عمل کرتے ہوئے انسان کے علم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * یہ دنیا ساری ایک دماغی فلم ہے جو اوپر سے چل رہی ہے۔ اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔اب ادھر پراجیکٹر چل رہا ہے ، ادھر فلم اسکرین ڈسپلے ہو رہی ہے۔ ایک آدمی پروجیکٹر سے واقف ہی نہیں تو وہ یہی کہے گا کہ بھائی میں نے فلم دیکھی ہے بس مگر کوئی دانشور ہے۔ سمجھدار ہے وہ یہ کہے گا کہ فلم کا فیتہ پروجیکٹر پر چل رہا ہے اور روشنی کے ذریعے اسکرین پر ڈسپلے ہو رہا ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں، تو جو کچھ آپ اسکرین پر دیکھ رہے ہیں وہ تابع ہے پروجیکٹر کے بعینہ یہ ساری کائنات ایک فلم ہے اللہ کی اور لوح محفوظ اس کا پروجیکٹر ہے۔تو اب ہم اس طرح کہیں گے کہ ایک لوح محفوظ ہے۔ اس پر کائنات کی فلم چل رہی ہے اور اس فلم کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ جب اس کائناتی فلم سے آپ واقف ہو جائیں گے یعنی لوح محفوظ سے واقف ہو جائیں گے تو تب آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ تو اس فلم سے واقف ہونے کیلئے روح کی حقیقت سے آشنا ہونے کیلئے روحانیت میں سب سے بڑی اہمیت جس عمل کو ہے وہ ہے محبت…. [ذات کا عرفان، خواجہ شمس الدین عظیمی] [/box] ‘‘پھر کیوں نہ میں بھی اس لوحِ زمردکو سمجھنے کی کوشش کروں ’’ لڑکے کی آواز میں شوق کی گونج تھی۔ ‘‘ہاں کیوں نہیں…. اگر تم اس وقت کیمیا کی لیبارٹری میں ہوتے تو لوح زمرد کو سمجھنے کا طریقہ جاننے کی کوشش کے لئے یہ مناسب وقت ہوتا، لیکن ابھی تم اِس وقت ریگستان میں ہو۔ اِس میں ڈوب جاؤ تو یہ خود ہی تم کو وہ سب کچھ دے گا اور اِس کائنات کی تفہیم کرا دے گا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اِس زمین کی سطح پر جو کوئی بھی چیز موجود ہے وہ اِس دنیا کو سمجھنے میں تمہاری مدد کر سکتی ہے۔ تمہیں پورے ریگستان کو سمجھنے کی ضرورت نہیں بلکہ محض اِس کے ریت کے ایک ذرّہ پر بھی تم غور کرو تو اِس عظیم تخلیق کی حیرت ناک باریکیاں اور اُن میں پنہاں حکمتیں تمہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیں گی۔’’ ‘‘ریگستان میں کیسے ڈوبا جائے۔’’ ‘‘اپنے من کی آواز سنو۔ اُسے قدرت کے رازوں تک رسائی حاصل ہے، تمہارا باطن سب کچھ جانتا ہے۔ وہ کائناتی روح سے منسلک ہے، وہ وہیں سے آیا یے ےاور اُسے بہر حال ایک دن اُسی کائناتی روح سے جا کر مل جانا ہے۔’’ (جاری ہے) *** تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی اپریل 2019ء Like 0 Liked Liked No Comments کیمیاگر (الکیمسٹ) پاؤلو, Alchemist, الکیمسٹ, پاؤلو کویلہو, کیمیاگر, مارچ 2019ء تلاش (کیمیاگر) قسط 16 روحانی ڈائجسٹ ⋅ جون 2020 [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] سولھویں قسط …. [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کے ایک نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ دو سال سے بھیڑیں ہی اس کی دنیا تھیں لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں خانہ بدوش عورت سے ملتا ہے، جو خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ مدد کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں غائب ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشے کا سوداگر تھا، اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ کام کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے کے کام کرنے پر سوداگر اسے کھانا کھلاتاہے۔ لڑکا اُسے بتاتا ہے کہ اسے مصر جاننے کے لیے کام چاہیے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ مگر لڑکا دکان میں کام کرنے لگتا ہے۔ لڑکے کو اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر کے پوچھنے پر لڑکا بتاتا ہے کہ اہرام دیکھنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا خواب مکّہ معظّمہ کا سفرکرنا تھا، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ وطن واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔ لڑکے کو سامان سے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ، اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اندلوسیا واپسی تو کبھی بھی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ نہ ملے گا۔ سوداگر کے پاس ایک شخص قافلہ کے ذریعہ سامان صحرا پار لے جانے آیاکرتا تھا، وہ اس کے گودام جاتا ہے، جہاں انگلستان کا ایک باشندہ ملتا ہے۔ جس نے زندگی کائناتی زبان کی جستجو میں وقف کر دی اور اب کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا۔ عرب کے ریگستان میں مقیم ایک کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسے ملنے یہاں چلا آیا۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دوستی ہوگئی۔ گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو صرف کیمیاگر کی تلاش تھی۔ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قافلہ کا سردار اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلے نے مشرق کی سمت سفر شروع کردیا، سورج کی تمازت پر سفر رک جاتا اور سہہ پہر میں دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں گزارتا۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر خاموشی سے ہونے لگا۔ انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں، لیکن کتابیں دقیق تھیں، لڑکے کے کچھ پلے نہ پڑا، اُس نےسب کتابیں یہ کہہ کر واپس کردیں، کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا، خوف کے اس دور میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ الفیوم نخلستان پہنچ گیا۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر ہورہے تھے۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ انگلستانی باشندہ لڑکے کے ساتھ مل کر کیمیاگر کی تلاش کرتا ہے لیکن وہ نہ ملا۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھتاہے، وہاں ایک نوجوان لڑکی آتی ہے، جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے لڑکے نے عشق کے جذبات کو محسوس کیا اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی نے بتایا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں چل پڑا۔ لڑکا اس لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر دوبارہ پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزرا ، صحرا میں جنگ جاری رہی۔ لڑکی اُسے سفر آگے جاری کرنے کا کہتی ہے، لڑکی سے بچھڑنے کا سوچ کر لڑکا اداس ہوگیا۔ لڑکا انگلستانی باشندے کے پاس پہنچا، جو اپنے بھٹی بنا کر تجربات کررہا ہوتا ہے۔ انگلستانی باشندہ بتاتا ہے کہ کیمیاگر نے اسے گندھک الگ کرنے کا کام دیا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ لڑکا اُس کے عمل کو دیکھتا رہا اور پھر صحرا میں نکل گیا۔ کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا اور پھر ایک پتھر پر مراقب بیٹھ گیا۔ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا نظر آیا۔ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو جھماکے سے ایک عکس نظر آیا کہ ایک فوج نخلستان میں داخل ہورہی ہے۔ اُسے لگا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ وہ نخلستان کی جانب دوڑگیا اور ساربان کو بتایا، ساربان نے یقین کرلیا کیوں کہ وہ ایسے مستقبل شناس لوگوں سے مل چکا تھا، وہ ایک بزرگ سے ملا تھا جس نے اسے سمجھایا تھا کہ مستقبل کو کھوجنے سے بہتر ہےکہ حال پر غور کرو، حال ہی میں اصل راز پوشیدہ ہے۔ مستقبل صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے، البتہ قدرت کبھی کبھی مستقبل کو کسی پر منکشف بھی کردیتی ہے، ساربان سردار ِقبیلہ کو اطلاع دینےکا کہتا ہے۔ لڑکا ججھکتا ہے لیکن ساربان کے سمجھانے پر سردارِ قبیلہ کے خیمہ جا پہنچتا ہے۔ پہرے دار کے کہنے پر سنہرے لباس پہنے ایک نوجوان باہر آتا ہے، لڑکا اسے سب کچھ بتادیتا ہے۔ خیمے میں گہماگہمی پیدا ہوئی، تاجر اور ہتھیاروں سے لیس جنگجو لوگ باہر نکلے، الاؤ بجھا دیا گیا اور نخلستان سنّاٹے کی زد میں آ گیا، لڑکا خیمے کے اندر گیا اور وہاں سجاوٹ دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ لڑکااپنا مکاشفہ بتاتا ہے، سردارانِ قبیلہ لڑکے کی بات سن کر آپس میں بحث کرنے لگے۔ بڑا سردار یوسف اور خواب کی تعبیر کا قصہ سنا کر کہتا ہے کہ ہمیں صحرا کے پیغامات پر یقین کرنا چاہیے، پنچائت کی نشست ختم ہو تی ہے، سردار لڑکے کو کہتا ہے کہ کل دشمن کے مارے جانے پر تمہیں انعام ملے گا۔ لیکن کل دشمن نہ آیا تو ہتھیار کا استعمال تم پر ہوگا۔ لڑکے اپنے خیمہ لوٹتاہے ، اچانک ریت کے طوفان کے ساتھ ہاتھ ایک گھڑسوار آتاہے اور لڑکے پر تلوار سوت کر پوچھتا ہے کہ کائناتی نشانیوں کو ظاہر کرنے کی اس نے ہمت کیسے کی، لڑکا بتاتا ہے کہ اس طرح ہزاروں جانیں محفوظ ہوجائیں گی۔ اجنبی شہسوار کہتا ہے کہ وہ اس کی ہمت کا امتحان لینے آیا تھا، اپنے مقدر کی تلاش میں تم اتنا دور آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا، اس کے بعد کل ملنے کا کہہ کر اجنبی گھڑسوار چلا جاتا ہے، لڑکے کو خوشی ہوتی ہے کہ آج وہ کیمیاگر سے ملا ہے۔ …. اب آگے پڑھیں …. ………… [/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) دوسرے دن صبح سویرے ہی تقریباً دو ہزار اسلحہ بردار جنگجو الفیوم کے نخلستان میں درختوں کے درمیان اِدھر اُدھر پھیل چکے تھے۔ دوپہر سے پہلے جب سورج اپنے عروج پر پہنچنے ہی والا تھا ، شمال کی جانب صحرا کے افق سے تقریباً پانچ سو کے قریب گھڑ سوار قبائلی نمودار ہوئے اور نخلستان میں داخل ہوگئے۔ بظاہر وہ لوگ پُرامن مسافر کی طرح گھوڑوں پر سوار نظر آرہے تھے لیکن سب نے اپنے لبادوں میں ہتھیار چھپا رکھے تھے۔ جب یہ لوگ نخلستان کے مرکزی علاقے میں بڑے سفید خیمہ کے قریب پہنچے تو اچانک تلوار اور بندوقیں نکال کر خیموں پر حملہ آور ہو گئے لیکن خیمے خالی تھے۔ نخلستان کے مقامی جنگجو جو درختوں میں چھپ کر گھات لگائے ان کے منتظر تھے، اب نکل آئے اور اُن حملہ آوروں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور پھر محض آدھے گھنٹے کی گھمسان لڑائی میں سوائے ایک کو چھوڑ کر سارے حملہ آور مار ڈالے گئے۔ نخلستان کے سب بچے پہلے ہی کھجور کے باغوں کی طرف پہنچا دئے گئے تھے، اُنہیں پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا۔ رہی ساری عورتیں تو وہ اکھٹا الگ خیموں کے اندر میں چھپی رہیں اور اپنے آدمیوں کی خیریت کے لیے دعا کرتی رہیں۔ اُنہیں بھی باہر جو کچھ ہوا اُس کا پتہ نہ چل سکا۔ اگر زمین پر اُن حملہ آوروں کی لاشیں بکھری نہ ہوتیں تو لوگ اُسے بھی نخلستان کا ایک عام دن ہی سمجھتے۔ جس آدمی کو قتل نہیں کیا گیا تھا وہ اِس حملہ آور فوجی پلٹن کا کماندار تھا۔ اُسی روز دوپہر کو جب اُسے سرداروں کے سامنے پیش کیا گیا تو سب سے پہلے اُنہوں نے یہی پوچھا کہ ‘‘آخر اُس نے صحرا کی صدیوں پرانی روایت توڑنے کی جرات کیوں کی۔ ’’ اُس نے جواب میں کہا تھا کہ ‘‘اُس کی بٹالین کے ساتھی طویل عرصہ سے جاری جنگ سے تھک گئے تھے۔ بھوک اور پیاس سے مر رہے تھے۔ ’’ انہوں نے سوچا کہ نخلستان پر قبضہ کر کے اُن کی یہ ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اِس طرح تازہ دم ہو کر وہ پھر جنگ میں کود پڑیں گے۔ اِس کی بات سُن کر نخلستان کے سردار نے اُن لوگوں کی حالت پر دکھ کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ‘‘ہمدردی کے باوجود صحرائی روایت کے تقدّس کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔’’ حملہ آور بٹالین کے کماندار کو بغیر کسی احترام و تعظیم کے موت کا حکم سنا دیا گیا اور گولی یا تلوار کے بجائے اُسے پھانسی کا حکم ہوا۔ درخت سے لٹکی ہوئی اُس کی لاش ریگستانی تیز ہواؤں کے دوش پر جھولتی رہی۔ قبیلے کے سردار نے لڑکے کو بُلایا اور اُسے پانچ سو دشمن مارے جانے کے عوض پچاس سونے کے سکے پیش کیے اور کہا ‘‘ایسا لگتا ہے کہ آج یوسف کی داستان پھر سے دہرائی گئی ہے، تمہارے مکاشفہ نے ہمیں بڑی تباہی سے بچایا ہے، اس لیے جو عزت افزائی اور سلوک یوسف کے ساتھ ہوا اسی طرح ہم بھی تمہیں ‘‘الفیوم’’ کے اس نخلستان کے مشیر کا عہدہ قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ’’ *** جب سورج غروب ہو ا اور پہلا تارہ آسمان پر نمودار ہوا تو لڑکا اپنے اونٹ پر سوار جنوب کی سمت چل پڑا۔ آخر کار وہ ایک ایسی جگہ جاپہنچا ،جہاں صحرا کے بیچوں بیچ بس ایک ہی خیمہ ایستادہ نظر آرہا تھا۔ اس راستہ پر چلتے وقت قریب گزرنے والے مقامی عربوں نے اسے خبردار بھی کیا تھا کہ وہ جگہ سحر زدہ ہے، اُس جانب جنّات کی بستی ہے۔ ، لیکن لڑکاے پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پھر بھی خیمے کے پاس جاپہنچا اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ چاند جب تھوڑا اور بلند ہو ا تو ایک جانب سے کیمیاگر اپنے گھوڑے پر سوار آتا نظر آیا۔ اُس کے کاندھے پر دو مردہ عقاب لٹک رہے تھے۔ ‘‘میں یہاں آگیا ہوں….’’ لڑکا بولا۔ ‘‘ویسے تو تمہیں اِس علاقے میں ہونا نہیں چاہیے۔’’ کیمیاگر نے اے دیکھ کرجواب دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن تمہارا مقدر ہی تمہیں یہاں کھینچ کر لے آیا ہے۔’’ ‘‘قبیلوں کی آپسی جنگ کی وجہ سے صحرا عبور کرنا ناممکن ہو گیا تھا، اِس لیے مجبوراً یہاں نخلستان میں ہی رُکنا پڑا….’’ لڑکے نے کہا۔ کیمیاگر اپنے گھوڑے سے اُتر آیا اور لڑکے کو اشارے سے خیمہ میں داخل ہونے کو کہا۔ یہ خیمہ نخلستان کے دوسرے خیموں کی مانند تھا۔ لڑکے نے خیمہ کے اندر کیمیاگری کی بھٹی اور کیمیائی تجربوں کے دوسرے آلات اور ظروف دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، جیسا اس نے پہلے انگلستانی باشندے کے خیمے میں دیکھا تھا، لیکن یہاں اُسے ایسی کوئی چیز نظر نہ آسکی۔ البتہ ایک طرف کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک جانب کھانا بنانے کا چولہا تھا اور ایک جانب چند غالیچے اور قالین تھے، جن پر کچھ عجیب و غریب خاکے اور نقشے پڑے ہوئے تھے۔ ‘‘بیٹھو!…. پہلے کچھ پئیں گے اور پھر اِن عقابوں کا گوشت کھایا جائے گا۔’’ کیمیاگر بولا۔ لڑکے کو ایسا لگا کہ یہ دو عقاب وہی ہیں جو اُس نے ایک روز قبل صحرا میں دیکھے تھے، لیکن اُس نے کچھ کہنے کی ہمّت نہیں کی۔ کیمیاگر نے آگ روشن کی اور تھوڑی ہی دیر میں خیمہ میں ایک نفیس اور خوش ذائقہ بو پھیل گئی۔ یہ خوشبو عام حُقّہ کی خوشبو سے واضح طور پر مختلف اور اچھی تھی۔ ‘‘تم مجھے سے کیوں ملنا چاہتے تھے….؟’’ لڑکے نے آخر اُس سے پوچھ ہی لیا۔ ‘‘کائناتی نشانیوں اور علامتوں کی وجہ سے۔’’ کیمیاگر نے جواب دیا۔ ‘‘ہواؤں سے مجھے یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ کوئی آنے والا ہے اور مجھے اس کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔’’ ‘‘آپ کو شاید ہواؤں نے میرے متعلق نہیں بلکہ ایک دوسرے غیر ملکی مسافر کے بارے میں بتایا ہو گا۔ وہ انگلستانی باشندہ…. وہ بھی تمہاری تلاش میں بہت دور سے سفر کرتا ہو ا آیا ہے۔’’ ‘‘ہاں….! مگر اُس کی خواہشات اور ترجیحات مختلف ہیں، لیکن اب میں نے اس کو صحیح راستہ دکھادیا ہے اور ابھی وہ صحرا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔’’ ‘‘اور میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟’’ ‘‘جب کوئی شخص کسی چیز کے حصول کا مصمم اراداہ کرلے اور اُسے پانے کے لئے واقعی یکسو ہو جاتا ہے تو پوری کائنات اُس کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اُس کی مدد کرنے لگتی ہے….’’ کیمیاگر کے ان الفاظ میں اُسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ کے الفاظ کی باز گشت سنائی دی۔ لڑکا سمجھ گیا کہ مقدّر کے حصول میں کائنات نے ایک اور شخص معاونت کے لئے بھیج دیا ہے۔لڑکے بھی تیار تھا اس نے سوال کیا، ‘‘تو اب کیا….؟ تم مجھے کوئی علم سکھاؤ گے؟؟’’ ‘‘نہیں !….’’ کیمیا گر بولا ۔ ‘‘تم تو پہلے ہی سے بہت کچھ سیکھ چکے ہو اور بہت کچھ جانتے ہو۔ میں تو تمہیں صرف وہ مقام بتاؤں گا کہ جس جگہ تمہارا خزانہ ملے ہے ۔’’ ‘‘لیکن ابھی تو صحرا میں قبیلوں کی جنگ جاری رہی ہے۔’’ لڑکے نے اپنی بات دہرائی ۔ ‘‘ہاں میں جانتا ہوں صحرا میں کیا ہورہا ہے۔’’ ‘‘مگر میرا خزانہ تو مجھے مل چکا ہے…. ایک اونٹ ہے، شیشے کی دکان پر کام کا تجربہ ہے، اس سے کمائی ہوئی رقم ہے اور پچاس سونے کے سکے بھی ہیں۔ اب میں وطن لوٹا تو وہاں کے لوگ مجھے امیر ترین آدمی سمجھیں گے۔’’ ‘‘ ہاں! یہ ٹھیک ہے …. لیکن اُن میں سے کوئی بھی چیز تمہیں اہرام سے تو حاصل نہیں ہوئی ناں۔’’ کیمیاگر بولا۔ ‘‘ہاں ! لیکن میرے خزانے میں اب سلمیٰ کا اضافہ بھی تو ہو گیا ہے، میری محبت…. جو باقی سب چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔’’ ‘‘وہ بھی تمہیں اہرام سے تو نہیں ملی….’’ پھر وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے۔ کھانے کے بعد کیمیاگر نے ایک بوتل اُٹھائی اور اس میں سے ایک سرخ خوش رنگ مشروب لڑکے کی پیالی میں اُلٹ دیا۔ ‘‘کیا تمہارے یہاں شراب پینا ممنوع نہیں ….؟’’ لڑکے نے پوچھا۔ ‘‘ یہ شراب نہیں ….’’ کیمیاگر نے کہا لڑکے پہلے تو جھجھک رہا تھا، لیکن کیمیاگر نے لڑکےکو تسلی دیتے ہوئے کہا، ‘‘یاد رکھو کہ اصل اہمیت اِس چیز کی نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کی تمہارے منہ سے کیا نکل رہا ہے۔ بُرائی یہ نہیں کہ بُری چیز تمہارے اندر داخل ہوجائے ، بلکہ اس کو باہر نکالنا برائی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے زمین اور سمندر نے دنیا بھر کی بُرائیوں اور خرابیوں کو اپنے اندر ایسے سمو کر رکھا ہے کہ باہر سے ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا….’’ کیمیاگر کو ناگوار نہ لگے ، لڑکے نے پیالی اُٹھائی اور وہ مشروب پی لیا، ایسا خوش ذائقہ شربت لڑکے نے آج تک نہیں پیا تھا۔ اس کے بعد دونوں کھانے سے فارغ ہو چکے تو خیمہ کے باہر چاند کی روشنی میں بیٹھ گئے۔چاندنی نے تاروں کی روشنی کو ماند کر دیا تھا۔ عمدہ کھانے اور لذیذ مشروب کا اچھا اثر اُس پر واضح تھا۔ کیمیاگر لڑکے سے بولا۔ ‘‘بس….! کھاؤ، پیو اور شکر ادا کرو۔’’ ‘‘آج رات تم آرام کرو، بالکل ایک جنگجو سپاہی کی طرح جو کسی جنگ میں جانے سے پہلے خودکو تیار کرنے لے لیے آرام کرتاہے…. ایک بات یاد رکھو تمہارا خزانہ وہیں ہو گا جہاں تمہارا دل گواہی دے گا …. خزانہ کی جستجو کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں ہے ، ورنہ جو کچھ تم نے اب تک سیکھا ہے اُس کی معنویت ہی ختم ہو جائے گی۔’’﷽ پھر کیمیا گر نے لڑکے کو ہدایات دیتے ہوئے کہا، ‘‘ایسا کرو کہ کل یہ اونٹ بیچ کر ایک گھوڑا خرید لو…. اونٹ بے وفا جانور کی طرح ہے۔ صحرا میں ہزاروں میل کا سفر کرتا رہے گا ، لیکن تمہیں پتہ بھی نہ چلنے دے گا کہ کب وہ تھک چکا ہے، اور پھر اچانک تھک کر چور ہوگا اور گر کر مرجائے گا…. رہی بات گھوڑے کی، تو تھکتے وہ بھی ہیں لیکن رُک رُک کر، دھیرے دھیرے، یوں مالک کو اندازہ رہتا ہے کہ یہ کب تک کام دیتے رہیں گے اور یہ بھی کہ یہ کب مرنے کے قریب ہیں ۔’’ *** اگلی رات وہ لڑکا گھوڑے پر سوار ہو کر کیمیاگر کے علاقے میں اس کے خیمے پر پہنچ گیا۔ کیمیاگر بھی تیار ہی تھا۔ کیمیاگر نے زین کسی ، گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے پالتو باز کو کو اپنے دائیں کندھے پر بٹھا لیا اور لڑکے سے بولا، ‘‘صحرا میں جہاں زندگی موجود ہو مجھے بھی بتانا، کیونکہ جو لوگ ایسی نشانیوں کو پہچان سکتے ہیں وہ خزانوں کی تلاش میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔’’ دونوں کے گھوڑے ریتیلی زمین پر چلنے لگے۔ چاند راستہ روشن کئے ہوئے تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کے آثار پہچان نہ پاؤں۔ میں ریگستان سے اتنا کب واقف ہوں۔ وہ کیمیاگر کو یہ بتایا چاہتا تھا لیکن ڈر سے خاموش رہا۔ چلتے چلتے وہ اُسی پتھریلے مقام تک پہنچے جہاں لڑکے نے دونوں عقابوں کو آسمان میں جھپٹتے دیکھا تھا لیکن اب وہاں گہرے سکوت اور تیز ہوا کی آواز کے سوا کچھ نہ تھا۔ ‘‘ریگستان میں زندگی کی تلاش کیسے کروں۔’’ لڑکا کہنے لگا۔ ‘‘یہ تو معلوم ہے کہ زندگی موجود ہے لیکن اُسے کہاں دیکھوں، یہ نہیں معلوم۔’’ ‘‘یہ اصول*یاد رکھو!!….زندگی میں زندگی کے لئے کشش ہوتی ہے…. اور زندگی، زندگی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے…. ’’ کیمیاگر نے جواباً کہا۔ لڑکا اُس کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ اُس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی، اب بے لگام گھوڑا کبھی ریت اور کبھی پتھر پر سرپٹ دوڑنے لگا۔ کوئی آدھ گھنٹے تک کیمیاگر بھی اپنا گھوڑا دوڑائے لڑکے کے پیچھے آتا رہا۔ اب نخلستان کے درخت اُن کی نظروں سے دور ہو چکے تھے۔ بس صحرا میں صرف چاند ہی اپنی تمام تر چاندنی کے ساتھ جگمگا تا نظر آرہا تھا اور ریت کے ذرّے چاند کی روشنی سے چمک رہے تھے۔اچانک گھوڑے کی رفتار کسی ظاہری وجہ کے بغیر کم ہونے لگی۔ ‘‘مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہیں کہیں زندگی موجود ہے۔’’ لڑکے نے کیمیاگر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اور پھر خود سے مخاطب ہوا ‘‘میں صحرا کی زبان تو نہیں جانتا، لیکن میرا یہ گھوڑا زندگی کی زبان سے ضرور واقف ہے’’۔ کیمیاگر نے کچھ کہا تو نہیں لیکن دونوں گھوڑوں سے اُتر آئے اور آہستہ آہستہ پتھروں کے درمیان کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ کیمیاگر اچانک رک گیا اور ایک جگہ جھک کر کچھ دیکھنے لگا۔ پتھروں کے درمیان ایک سوراخ نظر آ رہا تھا۔کیمیاگر نے اپنا ہاتھ اُس سوراخ میں ڈالا تو اس کا پورا ہاتھ کاندھے تک اُس سوراخ میں چلا گیا۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * *زندگی میں ہر چیز قانونِ کششLaw of Attraction کے تحت کام کر رہی ہے، اس قانون کے حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئیں، یہ عمل ایک مقناطیس کی طرح کام کرتا ہے، اس قانون کے مطابق آپ ان لوگوں کے لیے کشش کا باعث ہوتے ہیں جو لوگ آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں جس طرح ایک جیسے لوگ ایک دوسرے سے خود بخود مل جاتے ہیں، عقلمند افراد عقلمند افراد کی طرف ، نیک اور صالح لوگ اپنے جیسے صالح افراد کی جانب اور اچھے لوگ اچھے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ قانونِ کشش کا کام صرف آپ کی سوچ و خیالات کی پیروی کرنا اور آپ کے احساسات کے مطابق حالات کو رونما کرنا ہے۔ قانونِ کشش کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مثبت سوچ رکھتے ہیں یا منفی۔ انسانی سوچ اور احسات کی اپنی ایک روحانی طاقت ہوتی ہے۔ منفی خیالات کے نتائج منفی ہوتے ہیں اور مثبت خیالات کے نتائج مثبت ہوتے ہیں۔ قانون کشش ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ مثلاً ایک بہت ہی قریبی دوست کو آپ نے یاد کیا تو چند لمحوں بعد ہی اس کا فون بھی آ جاتا ہے۔ روحانی دنیا میں غیر اِرادی حرکت کا نام کشش اور اِرادی حرکت کا نام عمل ہے۔ کشش کیا ہے؟ خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں ، اس وقت ہمارے سامنے جو بھی شئے ہے، وہ خلا ہے۔ کائنات بھی ایک خلا ہے اور اس خلا کا محور ایک ایسی ذات ہے جو خلا کی رگِ جان ہے۔ جب خلا کے ٹکڑے یک جا ہو جاتے ہیں تو مٹی، لوہا، پتھر سونا چاندی بن جاتے ہیں۔ انہیں تقسیم کر دیا جائے تو ناقابل تقسیم عدد تک تقسیم ہو جاتےہیں۔ یہ جو ذرّہ ذرّہ خلا ہے، اس لیئے ہے کہ اس میں کوئی بستا ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ، اللہ نے اپنی شان کونمایاں کرنے کے لیئے ہر ذرّہ کو خلا بنا دیا اور اس میں خود براجمان ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے اور ذرّے کے درمیان ایک پردہ ڈال لیا ہے۔ ہر چیز پردے کے پیچھے اس من موہنی صورت کے دیدار کے لیئے بے قرار ہے۔ اور یہی بے قراری کشش ہے اور یہ کشش ہی تو ہے کہ آدمی اس کو پانے کے لیئے باد شاہتیں چھوڑ دیتا ہے۔ اور یہی وہ کشش ہے جس کو زینہ بنا کر آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں خد و خال (Dimensions) نہیں ہیں۔ یہ کشش ہستیِ مُطلق سے جس قدر قریب ہوتی ہے اسی قدر بندہ اللہ کی بادشاہی میں رُکن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کی سوچ بھی اپنے بادشاہ کی سوچ بن جاتی ہے۔ بادشاہوں کا با دشاہ اللہ خلا، ٹائم،اسپیس کے تانے بانے سے آزاد ہے۔ [کتاب آوازِ دوست از خواجہ شمس الدین عظیمی] [/box] سوراخ کے اندر کوئی چیز حرکت پذیر تھی۔کیمیاگر کی آنکھیں، لڑکے نے محسوس کیا کہ مشقّت کے سبب ترچھی ہوئی جا رہی تھیں، ایسا لگا کہ سوراخ میں گھسا ہوا ہاتھ اندر کسی چیز کو بڑی محنت سے پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر اچانک ہی بڑی حیرت ناک سرعت سے ہاتھ باہر نکالا اور کیمیاگر اپنے پیروں پر جھک گیا۔ سانپ کی دم اُس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں تھی۔ لڑکا بھی جھکا، البتہ اُس نے اپنے آپ کو کیمیاگر سے ذرا فاصلہ پر رکھا۔ وہ سانپ غضب ناک ہو رہا تھا اور چھوٹ جانے کی کوشش کر رہا تھا، اُس کی پھنکاروں سے ریگستان کی خاموشی پاش پاش ہو رہی تھی۔ یہ سیاہ ناگ Cobra کوبرا تھا جس کا زہر چند منٹوں ہی میں آدمی کو موت کی نیند سلا سکتا تھا۔ ‘‘دھیان سے کہیں تمہیں کاٹ نہ لے’’ لڑکا فوراً بول اُٹھا اور پھر سوچنے لگا کہ کیمیاگر تو اپنا ہاتھ ہی سوراخ میں ڈال چکا تھا اور سانپ نے جانے کتنی بار اُسے ڈسا ہو گا لیکن پھر بھی وہ پُرسکون تھا۔ انگلستانی باشندے نے اُسے بتایا تھا کہ ‘‘کیمیاگر کی عمر دو سو سال ہے۔’’، اتنے برسوں سے صحرا میں رہتے ہوئے یہ تو اُسے معلوم ہی ہو گا کہ صحرائی سانپوں سے کیسے نپٹنا چاہیے۔ کیمیاگر کی ہر حرکت کو لڑکا غور سے دیکھا رہا تھا۔ گھوڑے کی زین سے اُس نے جا کر ایک بڑی سی چھری نکالی اور اُس کے پھل سے ریت میں ایک دائرہ کھینچ کر اُس میں سانپ کو چھوڑ دیا۔ سانپ فوراً ہی پُر سکون ہو گیا۔ ‘‘فکر نہ کرو۔’’ کیمیاگر بولا۔ ‘‘یہ اب اِس حصار سے باہر نہ جا سکے گا۔ اب مجھے اطمینان ہوگیا ہے کہ تم نے سیکھ لیا ، اب تم صحرا میں زندگی کے وجود کو پہچان سکتے ہو۔’’ ‘‘کیا یہ سب سیکھنا اِتنا ہی ضروری تھا….؟’’ لڑکے نے سوال کیا۔ ‘‘ہاں !…. اِس لیے کہ اہرام کے اطراف میں صحرا ہی صحرا ہے۔ وہاں ہر طرف ریت ہی ریت ہوگی۔ ’’ کیمیاگر لڑکے کو اہرام کے متعلق سمجھانا چاہ رہا تھا، لیکن اُسے محسوس ہورہا تھا کہ لڑکا اہرام کے موضوع پر گفتگو کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ۔ گزشتہ شب سے ہی لڑکے کے دِل پر بڑا بوجھ سا تھا اور جب جب اہرام کا ذکر آتا اس پر اُداسی اور پژمردگی غالب ہوجاتی تھی۔ اُسے یہ خیال بار بار آتا کہ خزانہ کی تلاش کا مطلب ہے سلمٰی سے جدائی اور فراق کے اس خیال سے وہ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا۔ ‘‘ریگستان سے باہر نکلنے تک میں تمہارے ساتھ تمہاری راہنمائی کرتا رہوں گا۔ ’’ کیمیاگر کے یہ الفاظ اسے فکر کے سمندر سے کھینچ لائے، پھر لڑکا ہمت جُٹا کر بولا ‘‘لیکن میں تو یہیں نخلستان میں رہ جانا چاہتا ہوں…. مجھے میری سلمیٰ مل گئی ہے، اور جہاں تک میرا تعلق ہے وہ میرے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں ہے ۔’’ ‘‘وہ ریگستان کی بیٹی ہے….’’ کیمیاگر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا، ‘‘وہ جانتی ہے کہ مرد واپس آنے کے لئے ہی جایا کرتے ہیں۔اُسے تو اُس کا خزانہ یعنی تم مل گئے ہو اور اب وہ یہ توقع رکھے گی کہ تم بھی وہ خزانہ تلاش کر لو، جس کی جستجو تمہیں یہاں تک لائی ہے۔’’ ‘‘لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہوگا، اگر میں یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کر لوں تو۔’’ لڑکا کو بضد دیکھ کر کیمیاگر نے گھمگیر آواز میں مخاطب ہوا۔ ‘‘ایسی بات ہے تو چلو، میں تمہیں تمہارے مستقبل سے رُوبرو کراتا ہوں…. اور بتاتا ہوں کہ تمہارے اس فیصلے کے بعد کیا ہو گا….؟؟ ’’ (جاری ہے) *** تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی مارچ 2019ء Like 0 Liked Liked No Comments کیمیاگر (الکیمسٹ) فروری 2019ء, Alchemist, الکیمسٹ, پاؤلو کوئہلو, پاؤلو کویلہو, کیمیاگر تلاش (کیمیاگر) قسط 15 روحانی ڈائجسٹ ⋅ جون 2020 [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] پندرھویں قسط …. [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کے ایک نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ دو سال سے بھیڑیں ہی اس کی دنیا تھیں لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں ایک خانہ بدوش عورت سے ملتا ہے، جو خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ خزانہ کی مدد کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشے کا سوداگر پریشان تھا، اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے کے کام صفائی کرنے پر سوداگر اسے کھانا کھلاتاہے۔ لڑکا اُسے بتاتا ہے کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر کہتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے لگتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ یہ اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ نہ آ سکے گا۔ سوداگر کے پاس ایک شخص تجارتی سامان قافلہ کے ذریعہ صحرا لے جانے آیاکرتا تھا، وہ اس کے گودام جاتا ہے، جہاں انگلستان کا ایک باشندہ ملتا ہے۔ جس نے زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی اور اب کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا ۔ عرب کے ریگستان میں مقیم ایک کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسے ملنے کے لیے یہاں آیا ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دوستی ہوگئی۔ گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو صرف کیمیاگر کی تلاش تھی۔ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قافلہ کا سردار اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر رک جاتا اور سہہ پہر میں دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں گزارتا ۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں، لڑکے کے کچھ پلّے نہ پڑا۔ لڑکے نے سب کتابیں یہ کہہ کر واپس کردیں، کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ خوف کے اس دور میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ الفیوم نخلستان پہنچ گیا۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش کے سلسلے میں اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ دونوں کیمیاگر کو تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھنے لگا۔ ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔لڑکے نے عشق کے جذبات کو محسوس کیا اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی سے پوچھنے پر پتا چلا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ اگلے دن لڑکا پھر لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے جانے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن صحرا میں جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ لڑکی کے کہنے پر لڑکے نے سفر آگے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ لڑکی سے بچھڑنے کا سوچ کر لڑکا اداس ہوگیا۔ لیکن لڑکی اسے کہتی ہے کہ وہ اسے آزاد مرد دیکھنا چاہتی ہے اور وہ اس کا انتظار کرے گی۔ لڑکا انگلستانی باشندے کے پاس پہنچتا ہے جو اپنے خیمہ کے سامنے بھٹی بنا کر اس میں تجربات کررہا ہوتا ہے۔ انگلستانی باشندہ بتاتا ہے کہ کیمیاگر نے اسے گندھک الگ کرنے کا کام دیا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ لڑکا اُس کے عمل کو دیکھتا رہا اور پھر صحرا میں نکل گیا۔ کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا اور پھر ایک پتھر پر مراقب ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا نظر آیا۔ تنویمی حالت میں عقابوں کو دیکھتے اُس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو جھماکے سے ایک عکس نظر آیا کہ ایک فوج نخلستان میں داخل ہورہی ہے۔ اس عکس نے لڑکے کو جھنجھوڑ دیا۔ اُسے لگا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ وہ نخلستان کی جانب دوڑگیا۔ لڑکے نے ساربان کو اپنے مکاشفہ کے متعلق بتایا، ساربان نے یقین کرلیا کیوں کہ وہ ایسے لوگوں سے مل چکا تھا جو مستقبل جان لیتے ہیں۔ وہ بھی ایک بزرگ سے ملا تھا جس نے اسے سمجھایا تھا کہ مستقبل کو کھوجنے سے بہتر ہےکہ حال پر غور کرو، حال ہی میں اصل راز پوشیدہ ہے۔ مستقبل صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے، البتہ قدرت کبھی کبھی مستقبل کو کسی پر منکشف بھی کردیتی ہے، ساربان لڑکے کو سردار ِقبیلہ کو اطلاع دینےکا کہتا ہے۔ لڑکا ججھکتا ہے لیکن ساربان کے سمجھانے پر سردارِ قبیلہ کے خیمہ جا پہنچتا ہے۔ پہرے دار کے کہنے پر سنہرے لباس پہنے ایک نوجوان عرب باہر آتا ہے اور لڑکا اسے سب کچھ بتادیتا ہے۔وہ ٹھہرنے کا کہہ کر واپس خیمے میں چلا جاتا ہے …. اب آگے پڑھیں ………… [/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد سردار کے خیمے میں گہماگہمی پیدا ہوگئی ، لڑکے کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے کئی تاجر اور ہتھیاروں سے لیس جنگجو لوگ تیزی سے خیمہ میں داخل ہوئے ، جس سے نسبتاً پُرسکون ماحول میں گرمی پیدا ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ تاجر اور مسلح افراد ایک ایک کر کے باہر نکلے…. جلتے ہوئے الاؤ کی آگ بجھا دی گئی ۔ اب نخلستان بھی صحرا کی طرح پُر حول سنّاٹے کی زد میں آ گیا، سردار کے خیمے کے اندر کی روشنی البتہ باقی تھی۔ تنہائی میں کھڑے کھڑے لڑکا ، اپنی محبوبہ کے تصوّر میں کھویا رہا۔ آخری ملاقات میں دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی اُس کو ابھی تک وہ کوئی معنی نہ پہنا سکا تھا۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد آخر کار، پہرے دار نے اُسے خیمہ کے اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ اندر داخل ہوا تو خیمہ کی سجاوٹ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اُس کے گمان میں بھی نہ تھا یہاں ریگستان کے بیچ ایسا خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ خیمے کا فرش ایسے بیش قیمت قالینوں سے مزیّن تھا جن پر وہ آج تک نہ چلا تھا، خیمہ کی چھت سے سونے کے بنے شمع دان لٹک رہے تھے جن کی روشنی خیمہ کو منوّر کر رہی تھی۔ سردارانِ قبیلہ انتہائی قیمتی گدّوں پر نصف دائرے کی شکل میں بیٹھے چائے اور قہوہ سے محظوظ ہورہے تھے۔ متعدد غلام حُقّوں میں آگ سلگانے کے انتظام پر مامور تھے۔ خیمے کی فضا حُقّہ کے خوشبودار دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔ اس قبیلے کے کل آٹھ سردار تھے، سب یہاں موجود تھے، لیکن سب سے بڑے سردار کو پہچاننے میں لڑکے کو ذرا بھی دیر نہ لگی۔ وہ ان سب کے درمیان شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ اپنے قیمتی سفید اور سنہری لباسِ سے دوسروں سے ممتاز نظر آرہا تھا۔ سردارِ قبیلہ کے برابر میں سفید اور سنہری پوشاک میں وہی عرب جوان بیٹھا تھاجس سے لڑکا کچھ دیر قبل بات کر چکا تھا۔ ‘‘یہ اجنبی کون ہے…. جو غیبی علامتوں کی بات کرتا ہے۔ ’’ ایک سردار نے لڑکے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ ‘‘جی ! وہ میں ہوں ….’’ لڑکے نے جواباً کہا اور پوری بات دہرا دی۔ ‘‘صحرا ایک اجنبی لڑکے کو یہ غیبی اشارے کیوں بتانے لگا؟…. جبکہ ہم لوگ نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں ’’ دوسرے سردار نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ ‘‘میری آنکھیں ابھی تک اُس ریگستان کی عادی نہیں ہوئیں۔’’لڑکے نے جواب دیا۔ ‘‘میں وہ چیزیں یقیناً آسانی سے دیکھ سکتا ہوں جو عادی آنکھوں کو شاید نظر نہ آئیں….’’ اور شاید اِس لیے بھی کہ کائنات کی روح سے بھی میں واقف ہوں لیکن یہ آخری جملہ اس نے دل میں خود اپنے آپ سے کہا۔ ــ‘‘نخلستان کو ہمیشہ ایک غیر جانبدار علاقہ Neutral Territoriesمانا جاتا ہے اُس پر کوئی بھی حملہ نہیں کرسکتا۔ یہ صحرائی قبائل کی روایت اور قانون ہے’’ ایک تیسرے سردار نے لڑکے کی تردید کرتے ہوئے اپنا موقف رکھا۔ لڑکابولا ‘‘ دیکھیں! میں نے جو بھی دیکھا، وہ آپ سب کو بتا دیا…. اگر آپ لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو پھر آپ کی مرضی، آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’ باقی سردار آپس میں بحث کرنے لگے۔ یہ بحث خاصی پُر جوش اور مقامی عربی لہجے میں تھی جو لڑکے کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ لڑکے نے پلٹ کر واپس جانا چاہا تو پہرے دار نے اُسے روک دیا اور وہیں ٹہرنے کا کہا۔ اُس سے لڑکے کے دِل میں خوف کی ایک لہر اُبھر آئی۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں اِن لوگوں کو یہ بات بتا کر کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہو گئی۔ اسے خیال آیا کہ شاید ساربان کو بتا کر اُس سے غلطی ہوئی لیکن اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔ اچانک درمیان میں بیٹھا بڑا سردار بے خیالی میں مسکرا اُٹھا۔ لڑکے نے یہ دیکھ کر خاصا سکون اور اطمینان محسوس کیا۔ اُس بڑے سردار نے ابھی تک بحث میں حصّہ نہ لیا تھا۔ لڑکے کو کائناتی زبان کا فہم تھا۔ اُس نے محسوس کر لیا کہ خیمہ کے ماحول میں اب اطمینان کی لہر غالب ہوگئی ہے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ یہاں آکر اُس نے غلطی نہیں کی۔ بحث ختم ہوئی، سب لوگ خاموش ہو گئے۔ بوڑھا سردارِ قبیلہ جو کچھ کہنے والا تھا، اُسے سننے کے لیے سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ بوڑھے سردار کی آواز اُبھری۔ وہ لڑکے سے مخاطب تھا۔ اُس کے انداز میں بےرُخی اور سردمہری نمایاں تھی …. ‘‘کوئی دو ہزار برس پہلے کا قصّہ ہے۔ دور کی ایک سرزمین میں ایک نوجوان شخص ایسا گزرا جسے خوابوں پر یقین تھا، اسے ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا اور پھر اُسے بازار میں فروخت کر دیا گیا۔’’ وہ بوڑھا سردار اب ایسے عربی لہجے میں بول رہا تھا جسے لڑکا سمجھ سکتا تھا۔ ‘‘تاجروں نے اُس آدمی کو خرید لیا اور اُسے مصر لے آئے…. یہ تو ہم سب بھی جانتے ہیں کہ جو بھی خوابوں میں یقین رکھتا ہے، وہ اُن کی تعبیر بھی جانتا ہے۔’’ سردار نے اپنی بات جاری رکھی۔ ‘‘جب فرعونِ مصر نے ایک خواب دیکھا کہ کچھ گائیں موٹی ہیں اور کچھ دبلی ہیں تو اُس نوجوان نے جس کا میں ذکر کررہا تھا اس خواب کو سمجھ کر مصر کو ایک بڑے قحط سے بچا لیا۔ ’’ ‘‘اُس نوجوان کا نام یوسف * تھا اور وہ بھی ایک نئے ملک میں اجنبی تھا ۔’’ تھوڑی دیر کے لیے سردار رُکا۔ لیکن ابھی بھی سردار کا چہرہ سپاٹ اور نگاہوں میں اجنبیت تھی۔ لڑکے کو سردار کی آنکھوں میں اب بھی دوستی کی چمک اور اس کے چہرے پر دوستانہ تاثرات نظر نہیں آرہے تھے۔ ‘‘ہم لوگ ہمیشہ سے روایتوں کی پاسداری کرتے چلے آرہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انہی روایات پر عمل کر کے اُس زمانے میں مصر قحط سے محفوظ رہسکا تھا۔ اُسی کے نتیجہ میں مصر کی قوم ایک امیرترین قوم بن کر اُبھری۔’’ ‘‘ہماری یہ روایتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ زندگی کیسے گزاری جائے، دنیا سے کس نہج پر تعلق قائم کیا جائے۔ صحرا میں سفر کیسے کیا جائے، یہاں تک کہ بچوں کی شادیاں کس طرح کی جائیں۔ انہی روایتوں پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم نے نخلستان کو سب کے لیے ایک غیر جانب دار علاقہ قرار دیا ہے۔ نخلستان دوست اور دشمن دونوں کے علاقوں میں ہو سکتے ہیں۔ اگر اِس روایت پر عمل نہ کیا جائے اور معاہدہ قائم نہ رہے تو پھر ہر علاقہ غیر محفوظ ہے۔’’ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * حضرت یوسف علیہ السّلام کا زمانہ کم وبیش دو ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ قرآن اور تورات میں موجود حضرت یوسف ؑکے قصے میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ خواب مستقبل کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔ عام طور پر خواب کو حافظے میں جمع خیالات اور بے معنی تصوّرات کہا جاتا ہے لیکن خواب کے تجربات اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ خواب محض خیالات کا عکس ہیں۔ خواب ایسی ایجنسی ہے جس کی معرفت انسان کو غیب کا کشف حاصل ہوتا ہے اور رُویاء کی صلاحیت انسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔ [/box] سردار کی گفتگو کے دوران خیمے میں موجود سب افراد پر سکوت سا طاری تھا۔ ‘‘ہماری روایتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ صحرا اگر کوئی پیغام دے تو اُس پر اعتبار کرنا چاہیے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارا زیادہ تر عِلم اِس صحرا کا ہی مرہونِمنّت ہے۔’’ سردار نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد کوئی اشارہ کیا اور سب لوگ مؤدب ہوکر کھڑے ہو گئے۔ پنچائت کی یہ نشست ختم ہو چکی تھی۔ حُقّوں کی آگ بجھا دی گئی اور محافظ تن کر کھڑے ہو گئے۔ لڑکا بھی جانے کے لیے اُٹھنے لگا تو بوڑھا سرداراُس سے پھر مخاطب ہوا۔ ‘‘کل ہم لوگ اِس معاہدہ کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جس کے تحت کسی بھی شخص کو نخلستان میں ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہ تھی۔ کل کا پورا دن ہم دشمن کی آمد کے منتظر رہیں گے اور سورج غروب ہوتے ہی تمام مرد حضرات اپنے ہتھیار میرے پاس جمع کرا دیں گے۔ دشمن کے ہر دس افراد کے مارے جانے پر تمہیں سونے کا ایک ٹکڑا بطور انعام ملے گا۔’’ ‘‘لیکن خیال رہے کہ …. ہتھیار اُس وقت تک نہیں اُٹھائے جائیں گے جب تک جنگ نہ ہو۔ ہتھیاروں کی فطرت ایسی ہی متلوّن مزاج ہے جیسی صحرا کی۔ اگر اُنہیں استعمال نہ کیا جائے تو اگلی بار یہ دھوکہ دے سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ کل دن کے ختم ہونے تک اگر کوئی ایک ہتھیار بھی استعمال نہ کیا جاسکا تو ان کا استعمال تمہارے ہی اوپر ہوگا۔’’ لڑکا سردار کے خیمہ سے باہر آیا تو رات ہوچکی تھی البتہ پورے چاند کی روشنی نخلستان کو روشن کیے ہوئے تھی۔ اب لڑکے کا رُخ اپنے خیمہ کی طرف تھا جو یہاں سے کوئی بیس منٹ کی دوری پر تھا۔ جو کچھ ہو چکا تھا وہ خطرہ سے خالی نہ تھا۔ کائنات کی روح تک وہ پہنچا تو تھا لیکن یہاں تک پہنچنے کی قیمت بڑی بھاری ادا کرنی پڑ سکتی تھی۔ خود اُس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ شرط بڑی خطرناک تھی، لیکن اب وہ اِن خطروں کا عادی ہو چکا تھا۔ جب اُس نے بھیڑوں کو بیچ کر اپنی تقدیر کھوجنے کےسفر کا فیصلہ کیا تھا وہ بھی ایک بڑی خطرناک شرط تھی۔ اُسے ساربان کے الفاظ یاد آئے۔ اُس نے کہاتھا کہ : ‘‘آج اور کل میں کوئی فرق نہیں۔ موت آج آئے یا کل دونوں برابر ہی ہیں۔’’ یہاں ہر نیا دن محض یا تو اِس لیے ہے کہ دنیا کو کچھ دیا جائے یا اِس لیے کہ دنیا پر اپنا نقش چھوڑ کرواپسی کا اعلان ہو جائے۔ سب باتوں کا انحصار اِس پر ہے کہ قدرت نے دن کے بارے میں لکھا کیا ہے۔‘‘مکتوب’’…. وہ چاند کی روشنی میں اپنے خیمے کی جانب اکیلا محو ِسفر تھا۔ اُسے اپنے فیصلے پر کوئی ملال کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ اُس نے سوچا کہ کل اگر میں مارا بھی جاؤں تو میں یہ سمجھوں گا کہ قدرت کی منشا ہی نہیں تھی کہ میرا مستقبل تبدیل ہو۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ میں دنیا سے بالکل خالی ہاتھ جاؤں گا۔ میں نے کوشش کی، آبنائے پار کر کے اِس علاقہ میں آیا۔ شیشے کی اُس دکان پر کام کر کے خاصا تجربہ حاصل کیا۔ ایک صحرا کی تنہائی اور سکوت سے واقف ہوا ۔ اس لڑکی کی آنکھوں کی گہرائی نے بھی نئے تجربہ ، نئے جذبوں سے آگاہ کروایا۔ اُسے یاد آیا کہ اندلوسیا کو خیر باد کہنے کے بعد سے اُس کا ہر دن عزم و استقامت سے بھر پور گزرا ہے۔ اگر وہ کل کو مر بھی گیا تو وہ فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے دوسرے چرواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دنیا دیکھ لی ہے اور اُن سے کہیں زیادہ تجربہ اور علم سے اُس نے اپنا دامن بھر لیا ہے۔ اچانک ایک کڑاکے دار آواز ہوئی اور ہوا کا ایک اتنا تیز جھونکا آیا کہ وہ زمین پر گِر پڑا۔ اتنی تیز ہوا کا تجربہ اُسے آج تک نہ ہوا تھا۔ ریت کا ایک طوفان تھا۔ پورا علاقہ گرد و غبار سے بھر گیا تھا۔ چاند بھی اِس گہرے غبار میں نظر نہ آ رہا تھا۔ اچانک اُسے ایک انتہائی سفید گھوڑا نظر آیا جو بڑے خوف ناک انداز میں ہنہناتا چراغ پاہو کر اُس کے سامنے دو پاؤں پر کھڑا تھا۔ جب گرد و غبّار ختم ہوا تو لڑکا یہ دیکھ کر خوف سے لرز گیا کہ گھوڑے پر ایک سیاہ لباس پہنے سوار کھڑا تھا، اس کے بائیں بازو پر ایک ‘‘شکرا’’ پر پھیلائے بیٹھا تھا، سیاہ لباس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیاہ عمامہ باندھے تھا ، اس نے اپنا پورا چہرا سربند رومال نما مفلر میں لپیٹا ہوا تھا۔ اس کی دو آنکھوں کے سوائے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ بظاہر تو وہ صحرا کے ان خانہ بدوش پیغام رساں بدؤوں جیسا لگتا تھا لیکن اُس کی ہیت ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور رعب و جلال والی تھی۔ اجنبی شہسوار نے گھوڑے کی زِین سے لٹکی میان سے ایک بہت بڑی خمدار تلوار نکال کر سونتی تو اُس کے پھل کی چمک روشن رات میں بھی آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ وہ انتہائی کرخت آواز میں بولا۔ ‘‘عقابوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر اس کی نشانیوں میں معنی نکالنے کی ہمّت کس نے کی؟ اُس اجنبی شہسوار کی آواز اتنی بلند تھی کہ شاید نخلستان کے سب پچاس ہزار درختوں سے ٹکرا کر وہ اِس پورے علاقے میں گونج گئی۔’’ ‘‘‘میں نے…. یہ میں ہوں…. جس نے یہ ہمّت کی ہے۔’’ لڑکے نے کہا۔ لڑکے کے ذہن میں ہسپانوی جنگجو سان تیاگو ماتا مورس کی سفید گھوڑے پر سوار اُس تصویر کے خدوخال روشن ہو گئے جو وہ بچپن سے اپنے گھر میں لٹکی ہوئی دیکھتا رہا تھا۔ سامنے کھڑا شخص بالکل ویسا ہی لگرہاتھا۔ ‘‘میں نے یہ ہمّت کی تھی۔’’ لڑکے نے دوبارہ کہتے ہوئے اپنا سر خم کر لیا یہ سوچ کر کہ شاید تلوار کا وار اب ہونے ہی والا ہے۔ ‘‘میں مستقبل کو دیکھ پایا ہوں اور میں نے سوچا کہ اس طرح ہزاروں جانیں محفوظ ہوجائیںگی۔’’ تلوار لڑکے کی گردن پہ گری تو نہیں البتہ آہستہ آہستہ نیچے آتی گئی اور اُس کی پیشانی سے آ کر لگ گئی تلوار کی ہلکی سی چبھن سے خون کا ایک چھوٹا سا قطرہ بھی نکل پڑا۔ شہسوار بالکل ساکن رہا اور لڑکا بھی ، جیسے اُسے زمین نے جکڑ لیا ہو۔ بھاگ جانے کا خیال تک اس کے دل میں نہ آیا۔ بلکہ اس کے دل میں عجیب سی خوشی اور اطمینان کااحساس تھا۔ اُس نے سوچا کہ وقت نے بھی کیا کیا دکھایا ہے۔ مقدّر کی جستجو میں موت کے کتنا قریب پہنچ گیا تھا اور پھر سلمیٰ سے ملاقات۔ اُسے اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ اس نے کائنات کی زبان کو سمجھ لیا ہے اور علامت دیکھ کر اُس نے بالکل صحیح معنیٰ سمجھ لیے تھے۔ اس نے جو سوچا وہ سچ ہوا …. اُس وقت دشمن اس کے روبرو تھا البتّہ اُسے موت کا خوف نہ تھا کیونکہ اُس کے نتیجہ میں وہ بھی اس کائناتی روح کا حصہ بن جائے گا، جیسا کہ صحرائی لڑکی نے کہا تھا۔ ایک دن اس کا یہ دشمن بھی اِس کائناتی روح کا حصہ ہوگا ، کیونکہ جب نخلستان پر حملہ آور ہو گا تو اُس کا انجام بھی تو وہی ہونے والا تھا۔ اجنبی شہسوار تلوار کی نوک لڑکے کی پیشانی سے لگائے رہا ‘‘تم نے ان عقابوں کی اُڑان کی علامات کو پڑھنے کی کوشش کیوںکی….؟’’ ‘‘میں نے اِتنا ہی پڑھا جتنا عقابوں نے مجھے بتایا۔ شاید وہ نخلستان کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ اور ہاں کل جب تم نخلستان پر حملہ کرو گے تو تم لوگ ضرور مارے جاؤ گے کیونکہ تمہارے مقابلہ میں وہاں آدمی بہتزیادہ ہیں۔’’ تلوار کی نوک کا دباؤ بدستور قائم تھا۔ ‘‘قدرت کی لکھے ہوئے کو بدلنے والے تم کون ہوتے ہو….’’ ‘‘قدرت ہی نے فوجیوں کو پیدا کیا ہے اور وہی ان عقابوں کی خالق بھی ہے۔ اُسی نے مجھے کائناتی زبان کا فہم عطا کیا۔ سب کچھ اُسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔’’ لڑکے نے ساربان کی کہی باتوں کو یاد کرتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘اجنبی شہسوار نے تلوار جب لڑکے کی پیشانی سے ہٹائی تو اطمینان کی لہر اُس کے بدن میں دوڑ گئی لیکن وہ اب بھی وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش نہ کر سکا۔ ‘‘مستقبل کی باتیں ظاہر کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔’’ اس اجنبی نے لڑکے سے کہا ‘‘جو لکھا جا چکا اُسے بدلا نہیں جا سکتا۔’’ لڑکا بولا ‘‘میں نے بس ایک فوج دیکھی تھی…. جنگ کا انجام نہیں جانتا ۔’’ اجنبی شہسوار اِس جواب سے مطمئن نظر آ رہا تھا، لیکن تلوار ہاتھ میں اُسی طرح سونتے رہا۔ اجنبی شہسوار بولا ‘‘ایک اجنبی دیس کا مسافر اِس غیر علاقے میں کیا کرنے آیا ہے….؟’’ ‘‘میں تو وہی کر رہا ہوں جو میرے مقدّر میں لکھا ہے اور یہ ایسی چیزیں نہیں جو تمہاری سمجھ میںآجائیں….’’ شہسوار نے تلوار میان میں رکھ لی۔ لڑکے کی گھبراہٹ اطمینان میں بدل رہی تھی۔ ‘‘میں تمہاری ہمّت کا امتحان لے رہا تھا۔’’ اجنبی بولا۔ ‘‘ہمّت ہی وہ اصل صفت ہے جو کائناتی روح کی تفہیم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔’’ لڑکا یہ سن کر متعجب ہو اُٹھا، کیونکہ یہ اجنبی ایسی باتیں بتا رہا تھا جو کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ ‘‘اپنے مقدر کی تلاش میں تم اتنا دور تک آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا….’’ اجنبی نے اپنی بات جاری رکھی۔ ‘‘صحرا سے محبت ضرور کرو لیکن اُس کی ہربات پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ صحرا بھی قدرت کی طرح ہر ایک کا امتحان لیتا ہے۔ ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر کے یہ ایک طرح سے للکارتا ہے اور جو بہک جاتے ہیں اُن کو ختم بھی کر دیتا ہے۔’’ اجنبی شہسوار کی یہ باتیں سن کر لڑکے کو شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی یاد آنے لگی۔ وہ بھی ایسے ہی بات کرتا تھا۔ ‘‘کل اگر فوج حملہ کر دے اور تمہارا سر تمہارے کاندھوں پر سلامت رہے تو پھر مغرب بعد مجھے ضرور تلاش کرنا….’’ اجنبی نے لڑکے سے کہا۔ جس ہاتھ میں ابھی تک تلوار تھی اب اُس میں چابُک تھی۔ گھوڑے نے اگلی ٹانگیں پھر بلند کیں اور نظروں سے غائب ہونے لگا۔ آنکھوں کو اندھا کر دینے والی دھول نے ایک بار پھر لڑکے کو ماحول کو دھندلا دیا ۔ ‘‘تم رہتے کہاں ہو؟’’ لڑکا زور سے چلّایا۔ چابک تھامے ہاتھ جنوب کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔لڑکے کو خوشی ہورہی تھی کہ اسے آج کیمیاگر سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔ (جاری ہے) *** تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی فروری 2019ء Like 0 Liked Liked No Comments کیمیاگر (الکیمسٹ) Alchemist, الکیمسٹ, پاؤلو کویلہو, دسمبر 2018ء, کیمیاگر تلاش (کیمیاگر) قسط 13 Ibn Wasi ⋅ فروری 2020 [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] تیرہویں قسط …. [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے مانوس ہوچکا تھا لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو خوابوں کی تعبیر بتاتی ہے کہ خواب میں بتایا خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے بتایا کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ صفائی کا کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے مہینہ بیت جاتا ہے تو وہ اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ بوڑھا سوداگر دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہے، لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ گودام جاتا ہے۔ گودام کی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا پڑھ رہا ہوتا ہے ۔ اس نے پوری زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی تھی۔ اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الفیوم پہنچے کے لیے یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آتی ہے کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔ قافلہ کا سردار باریش عرب بوڑھا اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں۔ لڑکے نے سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا اور اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر لڑکے نے انگلستانی باشندے کو سب کتابیں واپس کردیں ، پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ ایسے میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ نخلستان پہنچ گیا ۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ صحرا کی خاموشی اور خوف کی جگہ اب نخلستان کی گہماگہمی نےلے لی ۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ لڑکے کو جس خیمہ میں جگہ ملی وہاں دوسرے نوجوان بھی تھے۔ اُنہیں لڑکاشہروں کے قصے سناتا رہا اتنے میں نے انگلستانی باشندہ اُسے ڈھونڈتا وہاں پہنچ گیا اور کیمیاگر کی تلاش کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ دونوں کیمیاگر کو تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھنے لگا۔ ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔لڑکے نے محسوس کیا کہ وہ اپنی زندگی سے وابستہ دنیا کی واحد عورت کے پاس کھڑا ہے اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی سے پوچھنے پر پتا چلا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ اگلے دن لڑکا پھر لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے جانے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن صحرا میں جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ لڑکی کے کہنے پر لڑکے نے سفر آگے جاری کرنے کا فیصلہ کیا…. اب آگے پڑھیں …………[/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) لڑکی کے چلے جانے پر لڑکا اس دن بہت اداس اور ذہنی کشمکش میں رہا۔ اُسے اندلوسیا کے اپنے وہ چرواہے دوست یاد آئے جن کی شادی ہوچکی تھی اور انہیں اپنی بیویوں کو یہ قائل کرنے میں کیسی مشکل پیش آتی تھی کہ انہیں چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں جانا ضروری ہے۔ لیکن یہ محبت ہے جو اُنہیں کھینچتی تھی اور اپنوں کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرتی تھی۔ اگلے روز کی ملاقات میں اُس نے لڑکی کو ان کے بارے میں بتایا ۔ وہ بولی : ‘‘ہمارے قبیلے کے آدمی اکثر کام کے لیے اس صحرا میں ہم سے دور چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان میں کچھ کبھی واپس نہیں آتے…. ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں لیکن ہم اُس کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے صحرائی قبیلوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ جو لوگ صحرا میں گم ہوجاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے وہ دراصل اسی صحرا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کا جسم اس صحرا کی ریت کا، وہاں زمین کے اندر رہنے والے جانوروں کا، ہواؤں اور بادلوں کا حصہ بن جاتا ہے …. اور ان کی روح اس کائنات کی روح میں شامل ہوجاتی ہے۔ وہ یہیں موجود ہوتے ہیں ۔ ہمارے آس پاس کی ہر چیز کا حصہ بن کر اور ہماری یادوں کا بھی ….’’ ‘‘اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ صحرا سے کامیاب و کامران واپس لوٹ آتے ہیں۔ جب وہ آتے ہیں تو ان کی عورتوں کی خوشی دیدنی اور قابلِ رشک ہوتی ہے ۔ انہیں دیکھ کر دوسری عورتیں بھی اس امید اور آس سے اپنا دامن بھر کر خوش ہو جاتی ہیں کہ ان کے مرد بھی ایک دن واپس آسکتے ہیں۔ یہ بتانے کے بعد اس نے کہا میں بھی ان عورتوں کو دیکھتی ہوں اور ان کی خوشیاں پر رشک کرتی ہوں۔ اب تم چلے جاؤ گے تو میں بھی دوسری عورتوں کی طرح تمہارے انتظار میں راہ تکوں گی….’’ پھر وہ بولی : ‘‘سنو ! میں ایک صحرائی لڑکی ہوں ۔ مجھے صحرائی ہونے پر فخر ہے ۔ میری بھی یہی خواہش ہوگی کہ میرا شوہر ایک آزاد زندگی گزارے ، رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرنے والا اور آزادی سے اپنی راہیں بنانے والا۔ صحرا کی ان ہواؤں کی طرح جو ریت کے ٹیلوں کو ایک سے دوسری جگہ اُڑاتی پھرتی ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ تم لوٹ کر نہیں آئے تو میں اِس حقیقت کو اُسی طرح تسلیم کروں گی کہ تم بھی اس صحرا کی ریت ، بادلوں، ہواؤں اور اس کائنات کی روح کا حصہ بن گئے ہو۔’’ *** لڑکا انگلستانی باشندے کی تلاش میں چل دیا۔ وہ اُس سے لڑکی کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ انگلستانی باشندے نے اپنے خیمہ کے سامنے ایک بڑی سی بھٹی بنا رکھی ہے۔ یہ بھٹی لوہاروں کی عام بھٹی سے الگ کچھ عجیب *سی تھی۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * قدیم دور میں کیمیا گر اپنے عملیات کے لیے ایک مخصوص بھٹی تیار کرتے تھے جسے Athanor کہا جاتا ہے، اس بھٹی میں نچلاحصہ آگ سلگانے کے لیے مخصوص ہوتا ، درمیانی حصہ میں کیمیائی آلات رکھے جاتے اور اوپری حصہ پر ایک ڈھکن نما شے رکھی ہوتی تھی۔ ماہرین کیمیاوی عملیات کے لیے مختلف آلات استعمال کرتے جن میں چیزوں کو جلانے کے لیےشیشے کی صراحی Flask، عرق کشید کرنے کے ٹونٹی نما برتن قرع انبیق Alembic، تصعید کے لیے شیشہ کی نلی الوثل Aludel، دھات پگھلانے کی کٹھالی یا بوتقہ Crucible اور پیسنے کے لیے ہاون یا کھرل Mortar شامل تھے۔ ان آلات کے ذریعے کیمیاگر عمل تبخیرEvaporation، عمل کشیدFiltration ، عمل تصعید Sublimation، عمل پگھلاؤ،Melting،عمل تکثیفDistillationاورعمل قلماؤ Crystallization جیسے طریقے اپناتے تھے۔ [/box] بھٹی کے نیچے لکڑیوں سے آگ سلگائی ہوئی تھی اور اوپر رکھی ہوئی شفاف شيشے کی تنگ گردن صراحی نما بوتل Flask میں کچھ گرم ہورہا تھا۔ انگلستانی باشندے کی ہمت اور لگن قابلِ دید تھی۔ لڑکا انگلستانی باشندے کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس نے سوچا کہ انگلستانی باشندے کی آنکھوں میں اپنی کیمیاگری کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران بھی اتنی چمک نہیں تھی جتنی آج اِس صحرا میں تجربہ کے دوران نظر آرہی ہے۔ ‘‘یہ پہلا مرحلہ ہے۔’’ انگلستانی باشندہ لڑکے کو دیکھتے ہوئے خوشی سے بولا۔ ‘‘پہلے مجھے گندھک الگ کرنا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔’’ ‘‘اِس سے قبل میری ناکامی کی وجہ شاید یہی تھی کہ میں ناکامی کے خوف سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ اب جس یقین سے میں جو کام میں کر رہا ہوں وہ مجھے اِس سے قبل ہی کرنا چاہیے تھا، لیکن ٹھیک ہے جو ہوا سو ہوا۔ میں خوش ہوں مجھے یہ سمجھنے کے لیے بیس سال انتظار نہیں کرنا پڑا ۔’’ وہ بھٹی میں آگ بھڑکانے کے لیے لکڑیاں جھونکتا رہا اور لڑکا اُس کے عمل کو اُس وقت تک دیکھتا رہا جب تک کہ غروبِ آفتاب کی شفق سے پورے صحرا کی رنگت گلابی نہ ہو گئی۔ غروب آفتاب کے اس منظر نے اُس کے اندر گداز کی سی کیفیت پیدا کردی۔ اس منظر نے اس میں یہ خواہش جاگ اُٹھی کے وہ صحرا کے اندر دور تک نکل جائے اور دیکھے کہ صحرا کی خاموشی میں اس کے اپنے سوالوں کے جواب ملتے ہیں یا نہیں ۔ *** کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ کبھی نخلستان میں دور دور تک پھیلے ہوئے کھجور کے درختوں کے نظاروں کو اپنی آنکھوں میں سموتا، کبھی ریگستانی ہواؤں کی سرگوشی سنتا۔ کبھی اپنے پیروں کے نیچے ریت میں آنے والے چھوٹے چھوٹے پتھر کے وجود کو محسوس کرتا۔ صحرا کی ریت میں اسے اِدھر اُدھر بہت سی سیپیاں بکھری ہوئی بھی ملیں جو اس بات کی گواہی دی رہی تھیں کہ شاید یہ صحرا ایک زمانہ میں سمندررہا ہو گا*’’ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * صحارا کا ریگستان افریقہ میں صدیوں سے قائم ہے لیکن یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی صحرا نہیں تھا، اس کے موسم میں مختلف ادوار میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ساؤتھ ہمپٹن میں نیشنل اوشینوگرافی سینٹر کی تحقیق کے مطابق افریقہ کا یہ صحرا 5 سے 6 ہزار سال پہلے ایک زرخیز خطہ تھا۔ صحارا کا موجودہ موسم 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہوا۔ صحارا کی ریت کے نیچے ایک بہت بڑے دریا Mega Lakeکے آثار موجود ہیں جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ وہاں کبھی پودے اور جانور رہا کرتے تھے۔یہ دریا مغربی صحارا میں بہتا ہوا اس حصے تک جاتا تھا جسے اب الجیریا کہا جاتا ہے۔اگر یہ دریا اس وقت فعال ہوتا تو دنیا کا بارہواں بڑا دریا ہوتا۔ [/box] کچھ دیر بعد تھک کر وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اُفق کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ جیسے وہ اُس کے طلسم میں ڈوب جانا چاہتا ہو۔ وہ اس تنویمی حالت میں مراقب ہو کر بیٹھ گیا۔ خیالوں کی رو بھٹکنے لگی…. عشق کیا ہے؟ …. وصل کیا ہے؟ …. فراق کیا ہے؟ …. کیا عشق کے لئے فراق ضروری ہے؟ یا عشق کے لیے وصل لازم ضروری ہے؟ یا عشق ملکیت کے تصور سے آزاد ہے…. کیا عشق محض پالینے کا نام ہے، یا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا …. ؟ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ اسے اب کہیں جاکر اپنے خوابوں کی لڑکی ملی ہے اور اس سے جدائی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ صحرا کی ایک لڑکی ہے۔ اگر کوئی چیز ہے جو اس صحرائی لڑکی کو سمجھنے میں اس کی مدد کرسکتی ہے تو وہ خود یہ صحرا ہے۔ اس کاخیال تھا کہ اُسے اپنے تمام سوالوں کا جواب اس صحرا کی خاموشی میں ہی ملے گا۔ وہ بیٹھا ہوا ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر کی جانب کسی حرکت کا احساس ہوا۔ سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو اُسے عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔ ہوا کے دوش پر اُڑتے ہوئے عقابوں کو وہ دیکھتا رہا ، اگرچہ اُن کی پرواز میں کوئی ترتیب نظر نہیں آرہی تھی لیکن پھر بھی لڑکا اُس میں ایک طرح کی معنویت محسوس کررہا تھا۔ مگر اُس معنویت کے احساس کو الفاظ کا روپ دینا اُس کے بس سے باہر تھا۔ پھر بھی وہ دونوں عقابوں کی پرواز کو بغور دیکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید کائناتی قوتیں ان عقابوں کی پرواز کے ذریعے ہی وصل وملکیت کے بغیر عشق کا تصور سمجھا سکیں۔ پلک جھپکائے بغیر وہ عقابوں کو محو پرواز دیر دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور اُس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ یہ ایسی کیفیت تھی کہ جس میں دل یہ بھی چاہ رہا تھا کہ وہ جاگا رہے اور یہ بھی کہ وہ سو جائے۔ وہ بیک وقت ہوش میں بھی تھا اور نیند میں بھی…. غنودگی و تنویم کی اس کیفیت میں وہ اپنے آپ سے بولا۔ ‘‘میں کائناتی زبان سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں اور میرے نزدیک اِس دنیا کی ہر شے ایک مفہوم رکھتی ہے، یہاں تک کہ عقابوں کی اس اُڑان میں بھی کوئی نہ کوئی پیغام چھپا ہے۔’’ اس نے سوچا کہ یہ ‘‘جذبۂ عشق کی ہی سرشاری ہے، محبت کا ہی کرشمہ ہے کہ اُسے ہر شے کہیں زیادہ با معنی اور بولتی معلوم ہونے لگتی ہے۔’’ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو ایک جھماکے کے ساتھ ایک عکس نظر آیا اور تیزی سے غائب ہوگیا۔ اس عکس میں اسے نظر آیا کہ شمشیرِ بے نیام سے لیس ایک شہسوار فوج کی ٹکڑی نخلستان میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ عکس تو فوراً ہی غائب ہو گیا لیکن لڑکے کو بری طرح جھنجھوڑ گیا۔ اُس نے لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ صحرا میں اکثر سراب نظر آتے ہیں۔ صحرا کے سفر کے دوران کئی بار وہ خود بھی صحرا کی ریت میں نظر کے دھوکے والے تجربوں سے گزرچکا ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ دراصل انسان کی وہ دبی ہوئی شدید خواہشیں ہوتی ہیں جو ریگستانی ریت کے اوپر آکر نظر آ جاتی ہیں …. لیکن میری تو ایسی کوئی خواہش نہیں کہ کوئی فوج اِس نخلستان پر حملہ کرے۔ لڑکے نے اُس کشفی عکس ذہن سے جھٹک کر دوبارہ اپنے اُسی مراقبہ میں واپس جانا چاہا اس نے اپنے خیالوں کو مرتکز کرنے اور ریگستان پر پھیلی گلابی شفق پر غور کرنے کی کوشش کرنا چاہی لیکن وہ اپنی اُس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ‘‘کائناتی علامتوں پر غور کرو’’ اُسے بوڑھے بادشاہ کا کہنا اچانک یاد آ گیا۔ لڑکے کو یاد آیا کہ جب اُس نے وہ عکس دیکھا تھا تو اُسے لگ رہا تھا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کھجور کے درختوں کی طرف واپس پلٹنے لگا۔ اُسے پھر لگا کہ اِدھر اُدھر بکھری ہوئی نشانیاں اپنی کائناتی زبان میں اُسے کچھ بتا رہی ہیں۔ شاید یہ کہ اِس بار صحرا تو محفوظ تھا لیکن نخلستان کو خطروں نے گھیر لیا ہے…. (جاری ہے) *** تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی دسمبر 2018ء Like 0 Liked Liked No Comments کیمیاگر (الکیمسٹ) الکیمسٹ, پاؤلو کویلہو, کیمیاگر, نومبر 2018ء تلاش (کیمیاگر) قسط 12 روحانی ڈائجسٹ ⋅ جنوری 2020 [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] بارہویں قسط [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے مانوس ہوچکا تھا لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو خوابوں کی تعبیر بتاتی ہے کہ خواب میں بتایا خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے بتایا کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ صفائی کا کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے مہینہ بیت جاتا ہے تو وہ اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ بوڑھا سوداگر دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہے، لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ گودام جاتا ہے۔ گودام کی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا پڑھ رہا ہوتا ہے ۔ اس نئ پوری زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی تھی اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الفیوم پہنچے کے لیے یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آتی ہے کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔ قافلہ کا سردار باریش عرب بوڑھا اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں۔ لڑکے نے سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا اور اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر لڑکے نے انگلستانی باشندے کو سب کتابیں واپس کردیں ، پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ ایسے میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ نخلستان پہنچ گیا ۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ صحرا کی خاموشی اور خوف کی جگہ اب نخلستان کی گہماگہمی نےلے لی ۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ لڑکے کو جس خیمہ میں جگہ ملی وہاں دوسرے نوجوان بھی تھے۔ اُنہیں لڑکاشہروں کے قصے سناتا رہا اتنے میں نے انگلستانی باشندہ اُسے ڈھونڈتا وہاں پہنچ گیا اور کیمیاگر کی تلاش کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ دونوں کیمیاگر کو تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے آنے والوں سے پوچھنے لگا۔ ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔ ….۔ …. اب آگے پڑھیں ………….[/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) لڑکے کا رُواں رُواں گواہی دے رہا تھا کہ یہ یقینی طور پر وہی کائناتی نشانی ہے جس کا انتظار وہ اپنی پوری زندگی کر رہا تھا…. یہی وہ نشانی ہے جس کے لیے وہ چرواہا بنا، جس کو وہ اپنی بھیڑوں اور کتابوں میں ، شیشے کی دوکان میں اور صحرا کی خاموشی میں تلاش کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن پھر بھی اُس کی روح بے قرار رہی ۔ یہ کائنات کی خالص زبان تھی، لاشعور کی زبان…. لفظوں سے ماور ااِس زبان کو سمجھنے کے لیے کسی تشریح اور وضاحت کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح کائنات کو وقت کے لازوال سفر میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ اِس لمحہ لڑکے نے محسوس کیا کہ وہ اپنی زندگی سے وابستہ دنیا کی واحد عورت کے پاس کھڑا ہے اور اسے یہ بھی لگ رہا تھا کہ وہ لڑکی بھی الفاظ کے وسیلہ کو بروئے کار لائے بغیر یہ اعتراف کررہی ہے کہ اس نے بھی اس احساسات کو محسوس کرلیا ہے اور اُس کے جذبات بھی مختلف نہیں ہیں اور اُسے دنیا کی کسی بھی چیز سے زیادہ اس بات پر یقین تھا۔ لڑکے کو یاد آیا کہ اُسے اُس کے بزرگ دادا اور والدین کہتے تھے کہ وہ ضرور ایک دن کسی کی محبت میں گرفتار ہوگا اور کسی سے وابستہ ہونے سے قبل وہ جان جائے گا کہ یہی ہے جسے اپنے جیون کا ساتھی بنانا ہے۔ لیکن پھر اُس نے سوچا ہوسکتا ہے کہ اس کے والدین ، باپ دادا اور ایسا کہنے والے لوگوں کو اُس کائناتی زبان کا بالکل بھی اندازہ نہ ہو ۔ کیونکہ اگر انسان کو کائناتی زبان معلوم ہوتی تو اس کے لیے یہ سمجھ لینا ذرا بھی مشکل نہ ہوتا کہ کوئی اس کا منتظر ہے ۔ پھر چاہے وہ کسی دور دراز صحرا میں ہو یا کسی بڑے شہر کے عالیشان مکان میں…. اور جب وہ دونوں اچانک مل جائیں اور نظریں چار ہو جائیں تو پھر نہ ماضی کی کوئی اہمیت رہتی ہے اور نہ مستقبل کی …. تمام تر حقیقت بس اُس لمحۂ موجود میں مرتکز ہوجاتی ہیں اور ساتھ ہی وہ یہ محیر العقل اور حتمی یقین موجود رہتا ہے کہ ‘‘اِس زمین کے اوپر اور سورج کے نیچے جو کچھ بھی وقوعہ پزید ہورہا ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی منصف اور خالق ہستی کا ہاتھ ہے۔ یہی ہستی ہے جو جذبۂ عشق کی تخلیق کرتی ہے اور اُسی نے ہر انسان کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے، ہر انسانی روح کے لئے ایک رفیق روح پیدا کی گئی ہے۔ اس جذبہٕ عشق کے بٖغیر ہر روح ادھوری اور ہر خواب لا یعنی اور بے حقیقت ہے۔ ‘‘شاید اسی کو مکتوبـ (پہلے سے لکھا ہوا یعنی تقدیر )کہتے ہیں’’ لڑکے نے سوچا۔ اتنے میں انگلستانی باشندے نے لڑکے کے ہاتھ کو جھنجھوڑا اور بولا۔ ‘‘کھڑے کیا ہو، چلو اس لڑکی سے پوچھو!’’ لڑکے نے ذرا قریب ہونے کے لئے قدم اُٹھایا تو لڑکی کے ہونٹوں پر حیا آمیز تبسّم کے سائے لہرا گئے۔ جواب میں لڑکا بھی مسکرادیا۔لڑکے نے پوچھا : ‘‘تمہارا کیا نام ہے؟’’ ‘‘فاطمہ’’ لڑکی نظریں چُراتے ہوئے بولی۔ ‘‘ارے! میرے وطن میں بھی بہت سی عورتیں یہ نام رکھتی ہیں۔’’ ‘‘رسول اللہ ؐ کی بیٹی کا نام ہے۔’’ فاطمہ بولی۔ ‘‘ہمارے فاتحین کے ساتھ یہ نام بھی دنیا کے ہر خطے میں پھیل گیا ہے۔’’ * مسلم فاتحین کا ذکر کرتے ہوئے اس لڑکی کی حسین آنکھوں میں فخر کا واضح احساس کی چمک نظر آرہی تھی۔ انگلستانی باشندہ نے لڑکے کو پھر سے ٹہوکا دیا کہ اس سے پوچھو کہ یہاں کے لوگ اپنی بیماریوں کا علاج کس سے کراتے ہیں ….؟ لڑکے کے پوچھنے پر فاطمہ نے بتایا کہ ‘‘ہاں!…. یہاں ایک آدمی ہے جو دنیا کے تمام رازوں سے آگاہی رکھتا ہے…. لوگ کہتے ہیں کہ وہ صحرا کے جنّات سے بھی بات چیت کر لیتا ہے۔’’ ‘‘جنّات کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ بھی خدا کی بنائی ہوئی نظر نہ آنے والی مخلوق ہیں اور نیک و بد دونوں قسم کے ہوتے ہیں۔’’ اس لڑکی نے جنوب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عجیب و غریب آدمی اُس طرف رہتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی لڑکی نے اپنے گھڑے میں پانی بھرا اور گھڑا اُٹھائے ایک طرف چلی گئی۔ لڑکا اُسے جاتے دیکھتا رہا، جب اس نے واپس مڑ کر انگلستانی باشندے کی جانب دیکھا تو وہ وہاں سے غائب تھا۔ انگلستانی باشندے کے لئے تو بس اس لڑکی کا اِتنا ہی اشارہ کافی تھا۔ وہ کیمیاگر کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ لڑکا اس کے انتظار میں دیر تک کنویں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔ وہ لڑکی اُس کے ذہن پر چھا ئی ہوئی تھی۔ اُسے یاد آیا کہ اُس روز طریفا کے قلعے پر بیٹھے مشرقی بحیرہ روم سے گزر کر آنے والی مشکبار افریقہ کی لیوانتر ہوائیں جو اُس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں شاید وہ اِسی لڑکی کا لمس پا کر خوشبو سے معطّر ہو گئی تھیں۔ اور اِسی روز سے ہی وہ اس محبت کو اپنے اندر محسوس کررہا تھا جب کہ اُسے اس وقت اس لڑکی کے وجود کا علم بھی نہ تھا۔ اُور وہ جانتا تھا کہ اِس کی اس محبت کی چاہ میں وہ توانائی اور قوت ہے کہ جو اُسے دنیا کا کوئی خزانہ بھی ڈھونڈنے کا اہل بنادے گی۔ [box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] * 700ء سے 1490ء تک تقریباً آٹھ سوسال مسلمان سیاسی اور تجارتی طور پر سپر پاور کی حیثیت پوری دنیا پر سے چھائے رہے، ان آٹھ سو سالوں میں عرب زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئے اور عربی زبان کو انٹرنیشنل لینگویج کا درجہ حاصل ہوا۔ اس دور میں دنیا بھر میں علوم وفنون کا بیشتر کام عربی زبان میں ہی ہوا، عرب فاتحین و محققین نے مشرق ومغرب میں عربی زبان کے اثرات چھوڑے۔ عربی زبان کے سینکڑوں الفاظ، اصطلاحات اور نام یورپ و امریکہ کی دیگر زبانوں میں اب تک رائج ہیں مثال کے طور پر فاطمہFatima، سلمہSelma، علیEli، عمرOmar، زیدہ Zaida، ثریا Soraya، مہر Maher ، مایاMaya، لیلیٰ leila، وغیرہ جیسے نام آج بھی لاطینی، فرانسیسی، ہسپانوی، پرتگالی اور میکسیکن زبانوں میں رکھے جاتے ہیں۔ [/box] vvv اگلے دن وہ لڑکا پھر اُس لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر پہنچا، لیکن وہاں انگلستانی باشندے کو دیکھ کر اُسے تعجب اور حیرانی ہوئی۔ انگلستانی باشندے کی نگاہیں صحرا کی جانب مرکوز تھیں اور وہ صحرا کی جانب جانے کسی جستجو میں مصروف تھا۔ پھر وہ لڑکے کو دیکھ کر بولا۔ ‘‘میں کل سہہ پہر سے شام تک اُس کیمیاگر کا انتظار کرتا رہا۔ وہ شام کے پہلے ستارے کی روشنی کے ساتھ ہی صحرا سے نمودار ہوا۔ میں نے اُسے اپنی تلاش کا مقصد اُسے بتایا تو اُس نے پہلے مجھ سے پوچھا کہ ‘‘کیا تم نے کبھی جست کو سونے میں تبدیل کیا ہے ؟’’ میں نے اس سے کہا کہ ‘‘یہی کچھ تو دریافت کرنے اور سیکھنے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں’’ اُس نے مجھ سے کہا کہ‘‘تمہیں مزید کوشش کرنا چاہیے’’۔ اور بس صرف اتنا ہی کہہ کرکہ ‘‘جاؤ اور دوبارہ کوشش کرو۔’’ وہ وہاں سے چلا گیا۔ لڑکے نے یہ سن کر کچھ نہ کہا لیکن وہ دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ یہ بے چارہ انگلستانی باشندہ اتنے طویل صحرا کا پُرخطر سفر کرکے اتنی دِقّتیں جھیل کر محض یہی سننے کے لئے آیا تھا کہ ‘‘جاؤ اور دوبارہ کوشش کرو۔’’ اِس تجربہ کو دہراتے رہو، حالانکہ وہ اِسے متعدّد بار کر چکا تھا۔ ‘‘ٹھیک ہے تو پھر کوشش شروع کردو۔’’ لڑکا انگلستانی باشندے سے بولا۔ ‘‘ہاں !میں یہی کرنے جا رہا ہوں۔ بس ابھی سے تیاری شروع کرتا ہوں۔’’ انگلستانی باشندہ یہ کہہ کر چل دیا ، تھوڑی ہی دیر بعد فاطمہ کنویں پر آ گئی اور اپنے گھڑے میں پانی بھرنے لگی۔ لڑکا پھر اس لڑکی کے پاس آیا اور اس سے مخاطب ہوکر بولا: ‘‘میں صرف ایک ہی بات تمہیں بتانے کے لئے یہاں آیا ہوں….’’ لڑکا لمحہ بھر توقف کے بعد بولا: ‘‘میں شدّت سے تمہارے عشق میں گرفتار ہو گیا ہوں، کیا تم میری بیوی بنو گی….؟ ’’ لڑکی کے ہاتھ سے برتن چھوٹ کر گرگیا اور پورا پانی زمین پر بہہ گیا۔ ‘‘میں تم سے بےپناہ محبت کرتا ہوں….میں یہاں ہر روز تمہارا منتظر رہا کروں گا۔ میں نے ایک خزانہ کی جستجو میں صحرا کا سفر کیا تھا جو کہیں اہرام کے قریب موجود ہے۔ لیکن اس جنگ کی بناء پر قافلہ کو یہاں رکنا پڑا ہے، ابھی تک میں اس جنگ کو کو ایک زحمت سمجھتا رہا تھا لیکن یہ تو میرے لئے ایک بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے کیونکہ اِسی کی وجہ سے میرے تم سے ملاقات ہوسکی ۔’’ ‘‘لیکن جنگ تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی اور تمہیں واپس لوٹنا پڑے گا۔’’ لڑکی بولی۔ لڑکے نے سوال کے پس منظر میں چھپے لڑکی کے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے کھجور کے درختوں پر نظر ڈالی اور سوچنے لگا کہ وہ تو پہلے بھی ایک چرواہا تھا، اور اب دوبارہ بھی چرواہا بن سکتا ہے۔ اس کی زندگی کے لیے خزانے کے مقابلہ میں فاطمہ کہیں زیادہ اہم ہے ۔ اُسے سوچتا دیکھ کر وہ لڑکی بولی: ‘‘قبیلوں کے لوگ ہمیشہ سے ہی خزانوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔’ شاید وہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکا کیا سوچ رہا ہے۔ ‘‘اور صحرا کی عورتیں ہمیشہ اپنے اُن مردوں پر فخر کرتی ہیں۔’’ اُس نے اپنا برتن دوبارہ بھرا اور چل دی۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارے فاطمہ سے ملنے جانے لگا۔ اُس نے اُسے اپنی زندگی کی پوری کتاب فاطمہ کے سامنے کھول کر رکھ دی کہ وہ کیسے چرواہا بنا، کس طرح اندلوسیا کی سرزمین گھومی، اس کاخواب اور شالیم کے بوڑھے بادشا ہے ملنا، افریقہ کا سفر اور شیشے کے سوداگر کی دُکان پر کام کرنا وغیرہ اس نے اپنے متعلق سب کچھ اُسے بتا یا۔ بہت جلد ہی وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست بن گئے تھے۔ وہ روز کنویں پر جاکر فاطمہ کے ساتھ باتیں کرتا ۔ فاطمہ کے ساتھ گزارے ان پندرہ بیس منٹ کے سوائے اس کے لیے پورا دن کاٹنا مشکل ہوجاتا۔ فاطمہ سے ملاقات کے انتظار میں گزارا ایک ایک لمحہ اسے پورے دن پر محیط محسوس ہوتا تھا۔ اس روز جب نخلستان میں قیام کو پوارا ایک مہینہ گزر گیا تو قافلے کے سردار نے تمام مسافروں کو بُلوا کر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ وہ تمام مسافروں کو کچھ ہدایات دینا چاہتا تھا۔ جب سب لوگ اکٹھا ہوگئے تو اس نے اعلان کیا: ‘‘اب تک ہم میں سے کو ئی یہ نہیں جانتا کہ یہ جنگ کب تک اختتام پزیر ہوگی اور اس حالت میں سفر جاری رکھنا بھی ممکن نہیں….’’ ‘‘ایسا لگ رہا ہے کہ یہ جنگ طوالت اختیار کرسکتی ہے اور ممکن ہے کہ یہ لڑائی کئی برس تک جاری رہے۔ کیونکہ دونوں ہی جانب کے فریقین طاقتور ہیں اور دونوں ہی قبائل میں جنگ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دونوں حریفوں کے یہاں بہادری اور شہہ زوری آن، شان، عزت وشرف کی علامت ہے۔ یہ جنگ نیکی اور بدی کی جنگ نہیں ہے بلکہ طاقت کے توازن کے لئے ہے۔ دونوں طرف ہی اللہ کو ماننے والے سپاہی ہیں، اور یہ اللہ کا قانون ہے کہ وہ زمین پر توازن برقرار رکھنے کے لیے کسی قوم کو بڑھاتا ہے، کسی قوم کو گھٹاتا ہے۔ ایک قوم کو دوسرے پر فوقیت دیتا رہتا ہے۔ اگر اللہ قوموں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہے، تو زمین فساد سے بھر جائے …. ایک ہی قوم کے مسلسل تسلّط کے باعث ظلم، فساد وبدامنی پیدا ہوتی اور زمین کا نظام بگڑ جاتا ….’’ ‘‘ایسی جنگیں قوموں کی فطرت کا حصہ ہیں اور زیادہ عرصے تک چلتی ہیں۔ ’’ تمام مسافر اپنے اپنے خیموں میں واپس لوٹ گئے۔اُس روز دوپہر میں لڑکے کو فاطمہ سے ملاقات کرنا تھی۔ اس نے فاطمہ کو صبح کے اجلاس کے بارے میں بتایا۔ فاطمہ اس سے بولی ‘‘اس دن جب تم ملے تھے….’’ اُس کی آواز میں جھجھک نمایاں تھی۔ وہ رک رک کر بولی…. ‘‘اور تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے بےپناہ محبت ہے اور پھر تم نے کچھ کائناتی زبان کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہ اس کائنات کی ایک روح بھی ہے، مجھے اس بارے میں کچھ زیادہ تو پتہ نہیں لیکن اب میں اتنا جان گئی ہوں کہ اسی کی وجہ سے میں شاید تمہارے وجود کا ایک حصہ بن گئی ہوں…. اب میں خود کو تم سے الگ محسوس نہیں کرتی۔’’ لڑکا یکسوئی سے اس کی بات سُن رہا تھا، لڑکی کی آواز کے ترنّم نے اُسے مسحور سا کر دیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس فاطمہ کی آواز اس کےلیے اس نغمگی سے بھی بہتر ہے جو ہوا چلنے سے کھجور کے پتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی ساری حسین موسیقی فاطمہ کی آواز کے سامنے کچھ نہیں، ہیچ ہے۔ اس کا دل یہ کررہا تھا کہ وہ ایسے ہی بولتی رہے اور وہ سنتا رہے۔ ‘‘ مجھے بھی ایسا لگتا ہے کہ میں جانے کب سے یہاں نخلستان میں تمہاری منتظر ہوں…. تم سے ملنے کے بعد میں سب کچھ بھول گئی ہوں، تمہارے بغیر گزارا اپنا ماضی مجھے بے وقعت نظر آتا ہے۔ میں نے اپنی قبائلی روایات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا ہے اور یہ بھی بھول گئی کہ میرے معاشرے کے یہ صحرائی لوگ اپنی عورتوں سے کس طرح کے رویوں اور برتاؤ کی امید رکھتے ہیں….’’ فاطمہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی : ‘‘تمہیں پتہ ہے کہ میں بچپن سے ایک خواب دیکھتی رہی ہوں کہ ایک روز صحرا سے مجھے کوئی انوکھا تحفہ ملے گا۔ اور اب مجھے یہ یقین ہے کہ میرا تحفہ مجھے مل گیا ہے…. اور وہ تم ہو….’’ لڑکے کا دل چاہا کہ وہ بے اختیار اُس کا ہاتھ تھام لے لیکن فاطمہ کے ہاتھ پانی سے بھرے بنادستے کے گھڑے کے گرد لپٹے ہوئے تھے ۔ ‘‘جیسا کہ تم نے مجھے اپنے خواب کے بارے میں بتا یا اور اس بوڑھا بادشاہ اور خزانہ کے بارے میں اور تم نے کائنات کی علامتوں اور نشانیوں کے بارے میں بھی بتایا …. ا مجھے کسی چیز کا خوف اور فکر نہیں ہے۔ کیونکہ اُنہی نشانیوں اور علامتوں کی بدولت تو تم مجھے ملے ہو۔ میں اب تمہارے خوابوں کا حصہ بن گئی ہوں اور جیسا کہ تم مقدر کے بارے کہتے شاید میں تمہارے مقدر کا حصہ بن گئی ہوں۔اور شاید اِسی بناء پر میں یہ چاہتی ہوں کہ تمہیں اپنے خواب کی تعبیر ، اپنے مقصد کی جستجو میں کوشاں رہنا چاہیے ۔ اگر تم جنگ کے خاتمہ کا انتظار کررہے ہو تو ٹھہر جاؤ، ورنہ اپنی تلاش کو میری وجہ سے ہرگز نہ روکو اور جنگ رکنے کے انتظار میں وقت برباد کیے بغیر اپنے مقصد کو پانے کے لیے نکل جاؤ۔ ’’﷽ ‘‘دیکھو! ریت کے یہ اُونچے اُونچے ٹیلے ہواؤں کے ساتھ یہاں سے وہاں جگہ بدلتے رہتے ہیں ، مگر صحرا اپنی جگہ ویسا ہی رہتا ہے اور رہے گا۔ یقین کرو کہ ہم دونوں کی محبت بھی اس صحرا کی طرح کبھی تبدیل نہیں ہو گی۔ ’’ ‘‘مکتوبـ!’’وہ لڑکے کی طرف الوداعی نظر ڈالتے ہوئے بولی اور واپس جانے کے لئے مڑی اور ایک لمحہ کے لئے اُس نے ٹھہرتے ہوئے کہا ‘‘اگر میں واقعی تمہارے خوابوں کا حصہ ہوں تو مجھے یقین ہےتم ضرور ایک دن میرے واپس واپس لوٹ کر آؤ گے….’’
اسحاق ڈاراپنے وکیل قاضی مصباح کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے اور ان کے وکیل نے وارنٹس مستقل طور پر منسوخ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ اسحاق ڈارکی جائیداد ضبطگی کاآرڈربھی ختم کیا جائے،اسحاق ڈار اب عدالت کے سامنے موجود ہیں۔ جج محمد بشیرنے پوچھا کہ کیا نیب نے خود بھی اسحاق ڈار کے کوئی وارنٹس جاری کیے تھے؟ جس پر تفتیشی افسرنے بتایا کہ وارنٹس جاری کئے تھے لیکن وہ معطل ہوگئے تھے۔ عدالت نے وارنٹس منسوخی سے متعلق نیب کا مؤقف پوچھا تو نیب پراسیکیوٹر نے وارنٹس منسوخی کی حمایت کردی۔ جس پراحتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے 10لاکھ روپے مچلکے کے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ اسحاق ڈار کی جانب سے جائیداد ضبطگی اورحاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواست دائرکی گئی۔ عدالت نے دونوں درخواستوں پرنیب کونوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی۔ ملک کے قرضوں میں 2600 ارب کی کمی ہوئی، اسحاق ڈار اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی معیشت سے متعلق کہا کہ ڈالر کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے پہلے بھی بطور وزیرخزانہ بہترکام کیا لیکن کرنسی کی قدرمستحکم کرنا بڑا چیلنج ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ موڈیزکوبتا دیا پاکستان کی ریٹنگ کم کرنا درست اقدام نہیں ہے، معیشت کی صورتحال چیلنجنگ ہے لیکن گھبرانا نہیں کیونکہ پچھلی حکومت فراڈ کے سوا کچھ نہیں تھی۔ مزید پڑھیں: موڈیز ریٹنگز کیا ہیں اور پاکستان کی تنزلی کیوں ہوئی؟ انہوں نے ڈالر کی قدر میں کمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت عوام کوریلیف دینے اور بہتری کے لئے دن رات کام کررہی ہے، ڈالرکی قدرمیں کمی سے 2600 ارب روپے قرض میں کمی آئی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، موجودہ پالیسیوں سے ایکسپورٹ انڈسٹری مطمئن ہے، اپٹما کے ساتھ گزشتہ روزمعاملات طے پاگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے لیا گیا قرض کسی کی جیب میں نہیں جاسکتا، دنیا کے برعکس پاکستان میں ڈالرکی قدرکم ہورہی ہے، ابھی ہمیں اپنے معاشی اشاریئے بہترکرنا ہے اور تمام جماعتیں عہد کریں گے معیشت پرسیاست نہیں ہوگی۔ کیس کا پسِ منظر قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسحاق ڈار کے خلاف 8 ستمبر 2017 کو آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس دائرکیا تھا جس کے بعد احتساب عدالت نے 27 ستمبر 2017 کو اسحاق ڈار پر فردِ جرم عائد کی تھی۔ عدالت نے اسحاق ڈار کو بیرون ملک ہونے کی وجہ سے 11 دسمبر2017 کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ لیگی رہنما اسحاق ڈارگزشتہ ماہ ستمبر میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ لندن سے اسلام آباد پہنچے تھے۔
کنٹریکٹرز آل رسکس پالیسی سول انجینئرنگ پروجیکٹس کے کنٹریکٹ ورکس ،تعمیراتی پلانٹ ، مشینری اور تعمیراتی مشینری کے نقصان یا ٹوٹ پھوٹ اور تعمیراتی پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران ہونے والے پراپرٹی کے نقصان یا جسمانی چوٹ سے متعلق تھرڈ پارٹی کلیمز کی صورت میں ایک جامع اور موزوں کوریج کی پیشکش کرتی ہے ۔ کنٹریکٹرز پلانٹ اینڈ مشینری پالیسی یہ پالیسی کنٹریکٹرز کے لئے وضع کی گئی ہے ۔یہ سالانہ بنیاد پر کنٹریکٹرز کے پلانٹ اور مشینری کے لئے ایک جامع تکافل کی پیشکش کرتی ہے۔ یہ کام کی جگہ پر، حالت سکون میں یا مینٹیننس کے دوران یا ایکوپمینٹ کی ترسیل کے دوران ہونے والے نقصان یا ٹوٹ پھوٹ کی پیشکش کرتی ہے اور یہ مخصوص تعمیراتی جگہ تک محدود نہیں ہے۔ اریکشن آل رسکس پالیسی اریکشن آل رسکس پالیسی مشینری ، پلانٹ اور کسی بھی قسم کے اسٹیل اسٹرکچرز کو کھڑا کرنے کے عرصے اور مراحل کے دوران ہونے والے نقصانات اور اس کے ساتھ ساتھ اریکشن پروجیکٹ کی تکمیل کے دوران ہونے والے ملکیتی نقصان یا جسمانی چوٹ کے خلاف ایک جامع اور موزوں تحفظ کی پیشکش کرتی ہے ۔ مشینری بریک ڈاؤن پالیسی اس کور کا مقصد پلانٹ اور ایکوپمینٹ کے نقصان کی صورت میں خواہ وہ کسی خارجی عوامل کے باعث ہوا ہو یا اپنی خرابی کی وجہ سے ، اس نقصان کا معاوضہ فراہم کرتا ہے ۔ الیکٹرانک ایکوپمینٹس پالیسی یہ مخصوص پالیسی الیکٹرانک ایکوپمینٹس کو آگ، آسمانی بجلی ، دھماکہ، شارٹ سرکٹ، چوری وغیرہ جیسے درپیش خطرات کے خلاف کور(تحفظ)فراہم کرتی ہے۔ بوائلراینڈ پریشر ویسل پالیسی بوائلر متعدد صنعتی پلانٹس کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔یہ ایک مہنگا ایکوپمینٹ ہے اور ہمیشہ دھماکے اور تباہی جیسے خطرات سے دوچار رہتا ہے ۔ دھماکے نتیجے میں نہ صرف بوائلر کو شدید نقصان پہنچتا ہے بلکہ ارد گرد کی املاک اور مشینوں کے لئے خوفناک تباہی کا باعث بنتا ہے ۔یہ پالیسی بوائلر ،پریشر والے ویسل اور ذیلی آلات اور ارد گرد کی عمارتوں، مشینری اور دیگر املاک کی مرمت پر ہونے والے اخراجات کا احاطہ کرتی ہے ۔
ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL208، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + فیبرک سطح سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال *تفصیلات اور ایپلی کیشنز: RAD-FL208 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ اور صاف سخت گلاس میں ہے۔اچھی گرمی کی کھپت کی تقریب اور اچھی روشنی ڈسپلے.روشنی کا ذریعہ SMD2835 سے بنا ہے، دستیاب واٹ 30W سے 200W تک ہے۔بہت سے مختلف اختیاری رنگ درجہ حرارت 2000-6500K اور RGB سے ہیں۔الگ تھلگ مستقل موجودہ ڈرائیور 85-265V، 30W کا ڈرائیور 2500V بجلی کا تحفظ ہے، 50W-200W کے لیے 4000V بجلی کا تحفظ۔دو سال کے ساتھ 50000 گھنٹے لائف ٹائم... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL206، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + فیبرک سطح سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال RAD-FL206 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ اور فیبرک سطح سخت گلاس میں ہے۔اچھی گرمی کی کھپت کی تقریب اور اچھی روشنی ڈسپلے.روشنی کا ذریعہ SMD3030 1W, CRI>80 سے بنا ہے، دستیاب واٹ 20W سے 150W تک ہے، بہت سے مختلف اختیاری رنگ درجہ حرارت 2000-6500K اور RGB کے درمیان ہیں۔الگ تھلگ مستقل کرنٹ ڈرائیور 85-265V، پاور فیکٹر PF>0.9۔20-30W کا ڈرائیور 2500V بجلی کا تحفظ ہے، 50W-150W کے لیے 4000V بجلی کا تحفظ ہے۔چھوٹے ایس پی کے لیے موزوں... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL207، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL207 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ اور صاف سخت شیشے میں ہے۔اچھی گرمی کی کھپت کی تقریب اور اچھی روشنی ڈسپلے.روشنی کا ذریعہ SMD2835، ہائی کلر رینڈر CRI>80 سے بنا ہے، دستیاب واٹ 30W سے 200W تک ہے، بہت سے مختلف اختیاری رنگ درجہ حرارت 2000-6500K اور RGB کے درمیان ہیں۔الگ تھلگ مستقل کرنٹ ڈرائیور 85-265V، پاور فیکٹر PF>0.9۔30W کا ڈرائیور 2500V بجلی کا تحفظ ہے، 50W-200W کے لیے 4000V بجلی کا تحفظ ہے۔50000 گھنٹے کی زندگی... انکوائریتفصیل LED فلڈ لائٹ، RAD-FL212، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + فیبرک سطح سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی *تفصیلات اور ایپلی کیشنز: RAD-FL212 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ اور فیبرک سطح سخت گلاس میں ہے۔اچھی گرمی کی کھپت کی تقریب اور اچھی روشنی ڈسپلے.روشنی کا ذریعہ SMD3030 1W, CRI>80 سے بنا ہے، الگ تھلگ مستقل کرنٹ 85-265V ڈرائیور، پاور فیکٹر> 0.9 دستیاب واٹ 50W سے 600W تک ہے، بہت سے مختلف اختیاری رنگ درجہ حرارت 2000-6500K اور RGB کے درمیان ہیں۔دو سال کی گارنٹی کے ساتھ 50000hours لائف ٹائم۔ماڈل RAD-FL212-50W RAD... انکوائریتفصیل سلم ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL202، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، PF>0.9، 220V/85-260V، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL202 فلڈ لائٹ انتہائی پتلی مربوط ڈیزائن میں ہے، سادہ اور خوبصورت۔ہاؤسنگ ڈائی کاسٹ ایلومینیم سے بنا ہے، بہترین گرمی کی کھپت کے فنکشن کے ساتھ۔ریفلیکٹر جدید نینو ٹیکنالوجی کو اپناتا ہے، جس کی عکاسی کی کارکردگی 99٪ تک پہنچ جاتی ہے۔ہائی برائٹ 2835LED، زیادہ گرم تحفظ کے ساتھ مسلسل کرنٹ ڈرائیو پاور سپلائی، زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد کارکردگی۔ہاؤسنگ پر سیاہ، سفید اور دیگر حسب ضرورت رنگ دستیاب ہیں۔ماڈل RAD-FL202-10W RAD-FL202-20W RAD-FL202... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL211A، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL211A فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ، سخت شیشہ اور سٹینلیس سٹیل کے پیچ ہے۔منفرد LED 2835 led انٹیگریٹڈ ماڈیول لائٹ سورس المونیم الائے فریم کے ساتھ، 50W فی ماڈیول، 8pcs ماڈیولز زیادہ سے زیادہ۔خصوصی ڈیزائن کردہ ایلومینیم ریفلیکٹر روشنی کی اچھی تقسیم پیش کرتا ہے۔یہ روشنی نہ صرف کھیلوں یا ایریا لائٹنگ کے لیے فلڈ لائٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے بلکہ عمارت کی روشنی کے لیے ایک بہترین luminaire کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ماڈل RAD-FL211A-50W RAD-FL211A-100W RAD-FL211A-150W RAD-FL211A-200W RAD... انکوائریتفصیل LED فلڈ لائٹ، RAD-FL211B، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL211B فلڈ لائٹ جدید اور سادہ ڈیزائن، ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ اور فریم ہے۔اچھی طرح سے ڈیزائن کردہ ڈبل سگ ماہی ربڑ اچھی پنروک وشوسنییتا کو یقینی بناتے ہیں۔دستیاب واٹ 10W سے 150W، 100-240V ان پٹ اور 50000h ریٹیڈ لائف ہے۔ہائی لیمن کی کارکردگی 130LM/W، ہائی پاور فیکٹر>0.9، ہائی CRI (>70)۔ماڈل RAD-FL211B-10W RAD-FL211B-20W RAD-FL211B-30W RAD-FL211B-50W RAD-FL211B-100W RAD-FL211B-150W RAD-FL211B-200W RAD-FL211B-200W RAD-FL211B-200W RAD-FL211B-RAD-FL211B-RAD-FL211B-200W RAD-FL211B-RAD-FL211B-RAD-FL211B-200W. .. انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL203، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL203 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ ہے جس میں بہترین گرمی کی کھپت کے فنکشن کے ساتھ امبیکیٹ ڈھانچہ ہے، سخت گلاس کو کلپ کے ذریعے فکس کیا گیا ہے، جو کھولنے اور برقرار رکھنے میں آسان ہے۔50W سے 200W تک سپر روشن ایل ای ڈی چپ خصوصی ڈیزائن کردہ ایلومینیم ریفلیکٹر روشنی کی اچھی تقسیم فراہم کرتا ہے۔ماڈل RAD-FL203-50W RAD-FL203-100W RAD-FL203-150W RAD-FL203-200W سسٹم واٹ 50W 100W 150W 200W سائز(ملی میٹر) 260*230*60 315*2750*2750*2750*350*350* 97 ان پٹ V... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL210، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL210 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ ہے جس میں بہترین حرارت کی کھپت کا کام ہے۔سخت گلاس، سٹینلیس سٹیل کے پیچ۔خصوصی ڈیزائن کردہ ایلومینیم ریفلیکٹر روشنی کی اچھی تقسیم پیش کرتا ہے۔اینٹی لائٹنگ، اینٹی سرج، کم درجہ حرارت کا آغاز، منفی 50 ڈگری سیلسیس۔سخت بیرونی ماحول کے لیے خاص طور پر موزوں ہے۔ماڈل RAD-FL210-30W RAD-FL210-50W RAD-FL210-100W RAD-FL210-150W RAD-FL210-200W سسٹم واٹ 30W 50W 100W 150W 2... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL101، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL101 فلڈ لائٹ ڈائی کاسٹ ایلومینیم ہاؤسنگ ہے جس میں بہترین گرمی کی کھپت کا کام ہے۔سخت گلاس، سٹینلیس سٹیل کے پیچ، منفرد ایل ای ڈی 2835 لیڈ انٹیگریٹڈ ماڈیول لائٹ سورس۔خصوصی ڈیزائن کردہ ایلومینیم ریفلیکٹر روشنی کی اچھی تقسیم پیش کرتا ہے۔ماڈل RAD-FL101-20W RAD-FL101-30W RAD-FL101-50W RAD-FL101-100W RAD-FL101-150W RAD-FL101-200W RAD-FL101-300W RAD-FL101-400W RAD-FL101-400W RAD-FL100W سسٹم Watt30W 50W 100W 150W 200W... انکوائریتفصیل منی ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL102، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، 220V/85-260V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL102 فلڈ لائٹ PIR سینسر کے ساتھ بطور اختیاری کام کر سکتی ہے۔انٹیگریٹڈ ڈیزائن، ذہین لائٹنگ، ایل ای ڈی لائٹ سورس کو انٹیگریٹ کرنا، انفراریڈ سینسر اور فوٹو سینسیٹو کنٹرول سسٹم۔"جب لوگ آتے ہیں تو لائٹ آن کرتے ہیں، جب لوگ جاتے ہیں تو لائٹ بند ہوتی ہے"۔جوابدہ، توانائی کی بچت اور ماحول کے لحاظ سے، یہ رات کے وقت یا جب روشنی اندھیرے میں ہو اور لوگ سینسنگ رینج کے اندر چل رہے ہوں تو یہ خود بخود آن ہو جائے گا، اور لوگوں کے جانے یا حرکت بند ہونے کے بعد یہ بند ہو جائے گا۔کسی دستی سوئچ کی ضرورت نہیں ہے... انکوائریتفصیل ایل ای ڈی فلڈ لائٹ، RAD-FL103، ڈائی کاسٹنگ ایلومینیم کیس + سخت گلاس، الگ تھلگ ڈرائیور 85-265V، PF>0.9، IP65، 2 سال کی گارنٹی RAD-FL103 فلڈ لائٹ مربع انتہائی پتلی مربوط ڈیزائن میں ہے، ہموار، سادہ اور ہموار۔ اعلی تحفظ کی سطح کے ساتھ اور زیادہ تر آؤٹ ڈور ایپلی کیشنز کے لیے موزوں، ایک سے زیادہ بڑھنے کا طریقہ، مثال کے طور پر دیوار، چھت، کھمبے، بریکٹ... وغیرہ۔ دستیاب واٹ۔ 10W سے 150W، 100-240V ان پٹ اور 50000h ریٹیڈ لائف ہے۔ہائی لیمن کی کارکردگی 130LM/W، ہائی پاور فیکٹر>0.9، ہائی CRI (>80)۔ماڈل RAD-FL103-10W RAD-FL103-20W RAD-FL103-30W RAD-FL103-50W RAD-FL103-100W RD-FL1606 ...
کراچی: غفلت کے سبب نو ماہ کی بچوں کو کوما میں پہنچانے والے دارالصحت اسپتال میں آگ لگ گئی، شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں واقع نجی اسپتال کی پہلی اور دوسری منزل پر آگ بھڑک اٹھی ہے، آگ بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں روانہ ہوگئی ہیں۔ فائر بریگیڈ حکام کے مطابق آگ عمار ت کی پہلی اور دوسری منزل پر لگی ہے جسے بجھانے کے لیے دو فائر ٹینڈر موقع پر پہنچ چکے ہیں جبکہ آگ کی شدت میں اضافے کے سبب مزید مدد روانہ کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ نشوہ نامی بچی جس کی عمر 9 ماہ ہے ، وہ دارالصحت اسپتال میں ڈائیریا کے مرض میں ایڈمت ہوئی تھی ، کہ اس کی حالت بگڑ گئی ، اسپتال نے تصدیق کی کہ بچی کو غلط انجکشن کی وجہ سے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ نشوہ ایک ہفتے تک وینٹی لیٹرپراسپتال میں ہی ایڈمٹ رہی اور گزشتہ رات جب وینٹی لیٹر ہٹایا گیا تو بچی پیرالائز ہوچکی تھی۔ بچی تاحال زیر علاج ہے اور اس کی حالت میں بہتری کی کوئی امید ظاہر نہیں کی جارہی ، واقعے کے ردعمل میں اہل علاقہ نے علاقے میں پوسٹرز لگاتے ہوئے دارلصحت اسپتال کو دارالموت قرار دیتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ یہاں علاج نہ کروائیں۔ واقعے کے ردعمل میں پاکستان ایئر لائنزنے اپنے اسٹاف کو ہدایات بھی جاری کی تھیں کہ وہ اپنے اور اہل خانہ کے علاج معالجے کے لیے دارلصحت نامی اسپتال جانے سے گریز کریں ۔ یاد رہے کہ کراچی کے دارالصحت اسپتال انتظامیہ نے انجیکشن کے اوور ڈوز کی غلطی تسلیم کر لی تھی ، انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کہ متعلقہ ملازم کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، بعد ازاں غفلت کے مرتکب ملازمین کو حراست میں بھی لیا گیا تھا تاہم اسپتال کے مالک عامر چشتی کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔ بچی کے والد قیصر علی پر ایس پی گلشن اقبال طاہر نورانی نے دھمکیاں بھی دی تھیں کہ وہ مقدمہ واپس لے لیں ، جس کی پاداش میں اے آئی جی کراچی امیر شیخ نے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ خیال رہے کہ نشوہ کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، لیاقت نیشنل کے ڈاکٹروں نے دعاکا کہہ دیا ہے۔واضح رہے کہ مجرمانہ غفلت پر غلطی کے اعتراف کے باوجود دارالصحت اسپتال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی، 9 ماہ کی نشوا بدستور لیاقت نیشنل اسپتال کے آئی سی یو میں زیر علاج ہے۔ گزشتہ روز دارالصحت اسپتال کے مالک عامر چشتی ایم کیو ایم کے ایک رہنما کو لے کر لیاقت نیشنل اسپتال پہنچ گئے تھے ، اس موقع پر عامر چشتی کے ہمراہ دارالصحت اسپتال کی انتظامیہ بھی موجود تھی۔ذرائع کے مطابق عامر چشتی اور دیگر نشوا کے والد قیصر علی سے صلح صفائی کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کررہے ہیں، عامر چشتی صلح صفائی کے معاملے پر معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے انہیں مزید 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے کردیا۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کی، شہباز گِل کے وکلا فیصل چوہدری اور سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے دن 3 بجے سنانے کا کہا گیا تھا۔ اس سے قبل آج کی سماعت میں پولیس نے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کی ہے، ایڈیشنل سیشن جج نے درخواست گزار کی عدم موجودگی پر سماعت میں وقفہ کیا، پولیس حکام نے بتایا کہ تفتیشی افسر کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ سماعت کے دوران اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو شہبازگل پر مقدمے کے الزامات بتاتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 روزکا جسمانی ریمانڈ دیا، تفتیشی افسرکی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی،ملزم بار بار جھوٹ بول رہا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے لیکن استدعا مسترد کر دی گئی، پیمرا سے انٹرویو کی مزید تفصیلات لے کرایف آئی اے کو بھیج دی ہیں، ڈیوٹی مجسٹریٹ نے کیسے فیصلہ دے دیا کہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ابھی ملزم کی مزید تفتیش مکمل کرنا ضروری ہے، ملزم پولیس کے سامنے اقرار کرچکے ہیں کہ ان کا ایک موبائل ڈرائیور کے پاس ہے، تفتیشی افسرنے واضح لکھا کہ محض ریکوری نہیں مختلف پہلوؤں پرتفتیش بھی کرنی ہے، کیا ملزم کو کہیں سے کال آئی یا انہوں نے فوراً بیپر پر ایسا بیان دیا؟ رضوان عباسی نے کہا کہ کس نے ملزم کے اسکرپٹ کی منظوری دی؟ ابھی تفتیش باقی ہے، پولیس نے ملزم شہباز گِل کا بیان سچ پرمبنی قرارنہیں دیا تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کے بیان کو حتمی کیسے مان لیا؟ یہ قانون شہادت کے مطابق درست نہیں، عاشورہ کی وجہ سے سگنل بند ہونے کا جوازبھی درست نہیں، معمولی نوعیت کے کیسزمیں آٹھ 10 روزکا جسمانی ریمانڈ دیا جاتا ہے، یہ تو مجرمانہ سازش کا کیس ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نےاسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسرکا تفتیش سے مطمئن ہونا لازمی ہے، تفتیشی افسر نے واضح کہا ہے کہ اسے مزید جسمانی ریمانڈ کیلئے وقت چاہیے،اسلام آباد پولیس نے ہردن ملزم کی تفتیش کیلئے نتیجہ خیز بنایا۔ رضوان عباسی نے کہا کہ پولیس جسمانی ریمانڈ کیلئے مزید وقت کی استدعا کر رہی ہے تو دی جانی چاہیے، کیس میں ابھی کئی پہلوؤں کا جواب لینا باقی ہے، کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ ملزم خود چینل پر آیا، خود اکسانے پر الفاظ ادا کیے، تفتیشی افسرنے یہ نہیں کہا کہ اس کی تفتیش مکمل ہوچکی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے تو مزید جسمانی ریمانڈ مانگا،تفتیشی افسرکی استدعا مسترد کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے،مجسٹریٹ نے تفتیشی افسرکی استدعا محض مفروضے کی بنیاد پر مانی ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے ماضی کے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے پڑھ کرسنائے اور کہا کہ تفتیشی افسرکہتا کہ ملزم کا موبائل ڈیٹا چاہیے تومیں جسمانی ریمانڈ کی حمایت نہیں کروں گا،یہاں الزام اُن الفاظ کا ہے جو ملزم نے نجی چینل پر کہے، ملزم سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کیلئے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے۔ رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ 12 اگست کو مجسٹریٹ کی جانب سے دیا گیا آرڈر غیر آئینی ہے، جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو ٹھیک طرح ہینڈل نہیں کیا گیا، پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو منظور کیا جائے۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں موجود شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ میں چند پہلوؤں کو خفیہ قرار دیا گیا ہے، پولیس کو ملزم شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟اس کا تعین ضروری ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہبازگِل کے خلاف درج مقدمہ بدنیتی پرمبنی ہے، ہمیں کیس کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا، شہباز گِل نے گرفتاری کے وقت اپنا موبائل جیب میں ڈالا جو ویڈیو میں واضح ہے، پولیس کے پاس ہی تو موبائل فون ہے، تو پھر موبائل کیوں مانگ رہے ہیں؟ سلمان صفدر کاکہنا تھا کہ کیس میں کمپلیننٹ کیا عدالت میں موجود ہے؟ مجھے محسوس نہیں ہو رہا، شہباز گِل کا کیس صرف الفاظ اور تقریر پر مبنی ہے اور تقریر تو پولیس کے پاس موجود ہے، پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی نے24 گھنٹوں میں تحقیقات بھیج دیں۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کیوں تفتیش مکمل نہیں کی؟ کمپلیننٹ ایک مجسٹریٹ ہے جس نے بیوروکریسی اور فوج کی طرف سے کیس فائل کیا، وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر بغاوت کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔ شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ عدالت پراسیکیوشن سے معلوم کرے کہ کیا وفاقی کابینہ کی اجازت لی گئی تھی؟ تقریر کا مخصوص حصہ مقدمے میں درج کیا گیا جو نامناسب ہے، ٹی وی اینکرنے سوال پوچھا جس پرجواب دیا گیا، اس میں پہلے سے کیسے کچھ پلان ہوسکتا ہے؟ وکیل صفائی نے کہا کہ مجسٹریٹ نے3 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا، فوراً استدعا مسترد نہیں کی تھی، ملزم نے تقریرمیں مریم نواز، نواز شریف، ایاز صادق سمیت 9 ن لیگی رہنماؤں کے نام لیے، صاف ظاہر ہے کہ کیس کے ذریعے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق شہباز گِل نے تقریر تسلیم کرلی، پھر باقی کیا رہا؟ پراسیکیوشن زیادہ زور دے رہی ہے کہ شہبازگِل نے کسی کے کہنے پر تقریر کی، کچھ چیزیں غلط تو ہوسکتی ہیں لیکن وہ بغاوت،سازش یا جرم میں نہیں آتیں۔ شہبازگل کی تقریرمحب وطن تقریر ہے، اس کے کچھ حصے نکال لیے گئے، شہبازگِل نے سوال کا لمبا جواب دیا،اس میں کچھ باتیں غلط کہہ دی گئیں، ملزم شہبازگل سیاسی رہنما ہیں لیکن بہت ووکل ہیں،اتنا ووکل نہیں ہونا چاہیے،پراسیکیوشن کو جسمانی ریمانڈ مبینہ شریک ملزم تک پہنچنے کیلئے چاہیے۔ وکیل صفائی نے کہا کہ شہبازگِل کے خلاف جو دفعات لگائی گئیں وہ سزائے موت اور عمر قید کی ہیں، آپ بتائیں، کیا اس تقریر پر سزائے موت کی دفعات بنتی ہیں؟ تفتیشی افسرنے کہا کہ حساس نوعیت کا مقدمہ ہے،ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، تفتیشی افسرنے کہا موبائل ریکوری کروانی ہے تاکہ وائس میچنگ کروائی جاسکے، تفتیشی نے کہا غیرملکی عناصرشامل ہیں اوربینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنا ہیں،جبکہ میرے موکل کا موبائل فون گرفتاری کے وقت ہی لے لیا گیا تھا۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر 3 دن میں تفتیش نہ کرپائے حالانکہ موبائل ان کے پاس تھا، لینڈ لائن سے فون کیا گیا، یوم عاشورہ پر موبائل فون ہی بند تھا، ساری چیزیں ملزم نے نہیں دینی،تفتیشی افسر نے بھی کچھ کرنا ہے، لینڈ لائن کو اکھاڑ کر نہیں لیجایا جاتا، جسمانی ریمانڈ کی اس میں کہاں ضرورت ہے؟ وکیل سلمان صفدر نے آج کی سماعت میں اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیس سائبر کرائم کا ہے ہی نہیں، یہ کیس 164 قانون شہادت کا کیس ہے، جسمانی ریمانڈ کا نہیں، ریکوری کسی دوسرے سے نہیں کی جاتی، پولیس نے شہباز گِل کے ڈرائیور سے موبائل لینے پر مقدمہ درج کر دیا، لیپ ٹاپ کی ریکوری کا تفتیش سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ فریقین کے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھی کہ اسے 3 بجے سنایا جائے گا۔
روس نے خیرسون سے پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیا ہے جسے یوکرین پر حملے کے بعد سے اس کے لیے اب تک کا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی واحد علاقہ تھا جس پر روس پوری طرح قبضہ کرسکا تھا۔ روس کو یوکرین میں بڑا دھچکا، خیرسون سے پیچھے ہٹنے کا اعلان Dw Published: 11 Nov 2022, 7:40 AM Engagement: 0 آٹھ ماہ سے جاری جنگ کے بعد روسی فوج نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے خیرسون علاقے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یہی وہ واحد علاقہ تھا جس پر روس کا پوری طرح قبضہ ہوسکا تھا لیکن یہ اعلان اس بات کا مظہر ہے کہ روس اس علاقائی دارالحکومت پر اپنا کنٹرول نہیں رکھ پا رہا ہے۔ حالانکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ ماسکو کا یہ اعلان گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگونے بدھ کے روز فوجیوں کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کے جنوبی شہر خیرسون سے پیچھے ہٹ جائیں۔ خیرسون شہر دریائے نیپرو کے شمال میں واقع ہے۔ وزیر دفاع شوئیگو اور جنرل سرگیئی سوروویکن کا کہنا ہے کہ روسی فوج دریا کے دوسری طرف مورچہ سنبھالے گی کیونکہ یوکرینی فوج پیش قدمی کر رہی ہے۔ 'یہ گمراہ کرنے کی کوشش ہے' روس کے سینیئر فوجی کمانڈر جنرل سوروویکن نے ٹیلی ویژن پر ایک خطاب کے دوران کہا، "موجودہ صورت حال کا نہایت جامع انداز میں جائزہ لینے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ فوج دریائے نیپرو کے مشرقی کنارے کے ساتھ مورچہ سنبھالے گی۔" انہوں نے ایک نقشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ خیرسون شہر اور دریا کے بائیں طرف کے دیگر علاقوں تک سپلائی پہنچانا ممکن نہیں رہ گیا ہے لہذا شوئیگو بھی فوج کے پیچھے ہٹنے اور دریا کے دوسری طرف مورچہ سنبھالنے کی تجویز پر راضی ہوگئے ہیں۔ شوئیگو نے سوروویکن سے کہا، "فوج کو پیچھے ہٹانے کی کارروائی شروع کردیں اور تمام فوجیوں نیز ہتھیاروں اور دیگر سازوسامان کو دریا کے دوسری طرف محفوظ منتقلی کو یقینی بنانے کے حوالے سے تمام اقدامات کریں۔" یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روسی خیرسون سے پیچھے ہٹنے کا دکھاوا کر رہے ہیں تاکہ یوکرینی فوج کو گمراہ کرکے شہر میں بلاسکیں اور پھر براہ راست لڑائی میں الجھا سکیں۔ خیرسون ایک اہم بندرگاہی شہر ہے اور روس کے قبضے والے کریمیا کا راستہ بھی اس سے ہو کر جاتا ہے۔ روس کے لیے بڑا دھچکا خیرسون سے واپسی روس کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ یہ واحد بڑا شہر ہے جس پر گزشتہ آٹھ ماہ میں روسی فوج پوری طرح قبضہ کرپائی تھی۔ جب کہ کئی حملوں کے باوجود وہ یوکرین کے قومی دارالحکومت کییف اور دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف پر قبضہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خارکیف سے بھی روس کو جلد بازی میں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ دریں اثنا یوکرین کے صدر کے مشیر میخائلوف پوڈلیاک نے ٹوئٹر پر کہا کہ فی الحال روس صرف ایسی باتیں کر رہا ہے، کوئی اقدام نہیں۔ انہوں نے لکھا، "کام بولتا ہے، ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ روس جنگ کیے بغیر خیرسون چھوڑ رہا۔ خیرسون میں یوکرین کے متعین کردہ گورنر یاروسلاف یانوسووچ نے شہریوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں "ابھی خوشی منانے کی ضرورت نہیں ہے۔" بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روسی فوج کو خیرسون میں جس طرح کی مزاحمت کا سامنا ہے اس کی وجہ سے وہ وہا ں سے واپسی کی تیاری بہت پہلے سے کر رہی تھی۔ یہ خارکیف سے پیچھے ہٹنے کے طریقہ کارکے یکسر برخلاف ہے، جہاں سے اسے اچانک پیچھے ہٹنا پڑا تھا اور وہ اپنا ہتھیار اور گولہ بارود بھی چھوڑ گئی تھی۔ جنرل سوروویکن نے گزشتہ ماہ ہی روسی فوج کے خیرسون سے واپسی کے اشارے دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا،"حالات خاصے مشکل ہیں۔" Follow us: Facebook, Twitter, Google News قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
محمد بن قاسم 695ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ اس کا تعلق ثقفی قبیلے سے تھا۔ جس کی ابتدا عرب کے شہر طائف سے ہوئی تھی۔ وہ اپنی ماں کی دیکھ بھال میں پلا بڑھا۔ وہ جلد ہی یمن کے گورنر اپنے چچا محمد ابن یوسف کے لیے بہت بڑا اثاثہ بن گیا۔ اس کے فیصلے، صلاحیت اور مہارت نے بہت سے دوسرے افسروں کو چھوڑ دیا اور حکمران کو مجبور کیا کہ وہ اسے ریاست کے محکمے میں تعینات کرے۔ وہ حجاج بن یوسف کا قریبی رشتہ دار بھی تھا، حجاج کے اثر و رسوخ کی وجہ سے نوجوان محمد بن قاسم کو نوعمری میں ہی فارس کا گورنر مقرر کیا گیا اور اس نے اس علاقے میں بغاوت کو کچل دیا۔ ایک مشہور روایت بھی ہے جو اسے حجاج بن یوسف کے داماد کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس نے اموی خلافت کے لیے دریائے سندھ کے ساتھ سندھ اور پنجاب کے علاقوں کو فتح کیا۔ ہندوستان کی فتح کے طویل اور قلیل مدتی دونوں اسباب ہیں۔ عربوں کی ہندوستان اور مشرقی ایشیا سے تجارت تھی۔ تجارت سمندری راستے سے ہوتی تھی۔ سندھ کے قزاقوں کی لوٹ مار کی وجہ سے راستہ غیر محفوظ تھا۔ عرب باغیوں کو بھی سندھ میں پناہ ملتی ہے۔ اس طرح بنو امیہ اپنی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے اور تجارتی راستے کو بھی محفوظ بنانا چاہتے تھے۔ حجاج کی گورنری کے دوران، دیبل کے بحری قزاقوں نے حجاج کو سیلون کے حکمران کے تحفے لوٹ لیے اور عرب کے بحری جہازوں پر حملہ کیا جو سری لنکا میں مرنے والے مسلمان فوجیوں کے یتیموں اور بیواؤں کو لے جا رہے تھے۔ اس طرح اموی خلافت کو ایک جائز مقصد فراہم کیا، جس نے انہیں مکران اور سندھ کے علاقوں میں قدم جمانے کے قابل بنایا۔ اموی خلافت نے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس نے 6000 شامی گھڑ سواروں کی قیادت کی اور سندھ کی سرحدوں پر اس کے ساتھ ایک پیشگی محافظ اور چھ ہزار اونٹ سوار اور پانچ کیٹپلٹس (منجانک) تھے۔ محمد بن قاسم نے سب سے پہلے دیبل پر قبضہ کیا، جہاں سے عرب فوج نے سندھ کے ساتھ ساتھ کوچ کیا۔ روہڑی میں اس کی ملاقات داہر کی افواج سے ہوئی۔ داہر جنگ میں مر گیا، اس کی فوجوں کو شکست ہوئی اور محمد بن قاسم نے سندھ پر قبضہ کر لیا۔ محمد بن قاسم 712ء میں دیبل میں داخل ہوا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں وہ دیبل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے، نیرون، قلعہ (جسے سکہ کہا جاتا ہے)، برہمن آباد، الور، ملتان اور گجرات میں اپنی فاتحانہ پیش رفت جاری رکھی۔ ملتان کی فتح کے بعد، اس نے اپنے ہتھیار کشمیر کی بادشاہی کی سرحدوں تک لے گئے، لیکن اس کی برطرفی نے مزید پیش قدمی روک دی۔ اب مسلمان پورے سندھ اور شمال میں کشمیر کی سرحدوں تک پنجاب کے ایک حصے کے مالک تھے۔ فتح کے بعد، اس نے ایک مفاہمت کی پالیسی اپنائی، جس میں مقامی باشندوں سے ان کے مذہبی اور ثقافتی طریقوں میں عدم مداخلت کے بدلے میں مسلم حکمرانی کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے ٹیکس کے مضبوط نظام کے ساتھ امن بھی قائم کیا۔ بدلے میں اس نے مقامی لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت فراہم کی۔ حجاج کا انتقال 714 میں ہوا۔ جب ولید بن عبدالملک کا انتقال ہوا تو اس کا چھوٹا بھائی سلیمان خلیفہ بنا۔ وہ حجاج کے خاندان کا سخت دشمن تھا۔ اس نے سندھ سے محمد بن قاسم کو واپس بلایا، جس نے ایک جرنیل کا فرض سمجھ کر حکم کی تعمیل کی۔ جب وہ واپس آئے تو 20 سال کی عمر میں 18 جولائی 715ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وہ اس کی مذہبی تعلیم کی خود نگرانی کرتی تھی، اور اس کی دنیاوی تعلیم کے لیے مختلف اساتذہ کی خدمات حاصل کرتی تھیں۔ یہ چچا حجاج بن یوسف تھے جنہوں نے اسے حکومت اور جنگ کا فن سکھایا۔ قاسم ایک ذہین اور تہذیب یافتہ نوجوان تھا جسے پندرہ سال کی عمر میں بہت سے لوگ اپنے چچا کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھتے تھے۔ اپنے بھتیجے کی صلاحیتوں پر اعتماد کے اظہار کے طور پر، حجاج نے اپنی بیٹی کی شادی قاسم سے کی۔ سولہ سال کی عمر میں انہیں عظیم جنرل قتیبہ بن مسلم کے ماتحت خدمت کرنے کو کہا گیا۔ ان کی کمان میں محمد بن قاسم نے مہارت سے لڑائی اور فوجی منصوبہ بندی کا ہنر دکھایا۔ ایک جرنیل کے طور پر قاسم کی صلاحیتوں پر حجاج کا مکمل اعتماد اس وقت اور بھی واضح ہو گیا جب اس نے اس نوجوان کو سندھ پر سب سے اہم حملے کا کمانڈر مقرر کیا، جب وہ صرف سترہ سال کا تھا۔ محمد بن قاسم نے حجاج کو درست ثابت کیا جب وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی تمام فوجی مہمات جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس نے دیبل، راوڑ، اوچ اور ملتان جیسے مقامات پر قبضہ کرنے میں اپنے دماغ اور فوجی مہارت دونوں کا استعمال کیا۔ تاریخ بہت سے دوسرے کمانڈروں پر فخر نہیں کرتی جنہوں نے اتنی کم عمر میں اتنی بڑی فتح حاصل کی۔ محمد بن قاسم ایک عظیم جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین منتظم بھی تھے۔ اس نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں امن و امان کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انتظامی ڈھانچہ بھی قائم کیا۔ وہ ایک نیک دل اور دین دار انسان تھے۔ وہ دوسرے مذاہب کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں ہندو اور بدھ مت کے روحانی پیشواوں کو وظیفہ دیا جاتا تھا۔ ملک کے غریب لوگ ان کی پالیسیوں سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اپنے پرانے مذاہب پر قائم رہنے والوں نے اس کی شان میں مجسمے بنائے اور ان کی سرزمین سے رخصتی کے بعد اس کی پوجا کرنے لگے۔ محمد بن قاسم اپنی فرمانبرداری کے لیے مشہور تھے۔ ولید بن عبدالملک کا انتقال ہوا اور اس کے چھوٹے بھائی سلیمان نے جانشین بنایاخلیفہ کے طور پر. سلیمان حجاج کا دشمن تھا اور اس نے قاسم کو واپس بادشاہی کا حکم دیا۔ قاسم کو ان دونوں کی دشمنی کا علم تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس دشمنی کی وجہ سے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ آسانی سے خلیفہ کا حکم ماننے سے انکار کر سکتا تھا اور سندھ میں اپنی آزادی کا اعلان کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کا خیال تھا کہ اپنے حکمران کی اطاعت ایک جنرل کا فرض ہے اس لیے اس نے مرکز میں واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں وہ پارٹی سیاست کا شکار ہو گئے۔ انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا جہاں وہ بیس سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ اگر اسے چند سال اور دیے جاتے تو وہ پورے جنوبی ایشیائی خطہ کو فتح کر لیتا۔ محمد بن قاسم کو لقب 'عماد الدین' کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ 'اموی خلافت' کے فوجی کمانڈر تھے الور کے ساتھ تنازعہ میں آخری ہندو حکمران راجہ داہر سے ملتان اور سندھ پر مسلمانوں کی فتح۔ وہ پہلا مسلمان تھا جس نے کامیابی سے ہندو علاقوں پر قبضہ کیا اور ابتدائی مسلم حکمرانی کا آغاز کیا۔ اس مضمون میں محمد بن قاسم کی تاریخ سمیت ان کے بارے میں تمام معلومات موجود ہیں۔ محمد قاسم کو نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین جرنیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اتنی کم عمر میں اتنا بڑا کام شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ اس کی فتوحات نے اسلامی سرحدوں کو مزید وسعت دی۔ ملتان کی فتح کے بعد وہ ہندوستان کو فتح کرنے کا ارادہ کر رہے تھے جب انہیں واپس جانے کا حکم دیا گیا۔ واپسی پر انہیں قید کیا گیا اور بعد میں جیل میں ہی شہید کر دیا گیا۔ اتنی وسیع سلطنت کو سنبھالنا آسان نہیں تھا۔ اس لیے قاسم کی واپسی کے بعد مفتوحہ علاقوں کو سندھ اور جنوبی پنجاب تک محدود کر دیا گیا۔ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی ذاتی ضد نے ایک فاتح اور عظیم جنرل قاسم کو قتل کر دیا۔ عالم اسلام ایک عظیم جرنیل اور فتوحات سے محروم ہو گیا۔ آج تیرہ سو سال بعد بھی لوگ انہیں سندھ کے نجات دہندہ اور محسن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کا تعلق ایک ابو عاقل خاندان سے تھا جس نے قاسم کے والد القاسم ابن کے پھوپھی زاد بھائی الحاج ابن یوسف کے ظہور سے شہرت حاصل کی۔ محمد بن الحکم۔ ان کے والد قاسم خاندان کے ممتاز افراد میں سے تھے۔ اموی خلیفہ عبدالملک ابن مروان کے دور خلافت میں جب حجاج ابن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے ثقفی خاندان کے ممتاز افراد کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد کے والد قاسم بھی تھے جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اس طرح ان کی ابتدائی تربیت بصرہ میں مکمل ہوئی اور وہ صرف 5 سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ پندرہ سال کے تھے تو انہیں ایران میں کردوں کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے 708 میں فوج کی کمان سونپی گئی۔ یہ ولید بن عبدالملک کا دور تھا، اموی حکمران اور عرقہ کی گورنری حجاج بن یوسف کے ہاتھ میں تھی۔ قاسم اس مہم میں کامیاب ہوا اور شیراز کو ایک چھوٹی چھاؤنی بنا دیا۔ اسی دوران اسے فارس کے دارالحکومت شیراز کا گورنر بنا دیا گیا۔ اپنی مہارت سے حکومت کر کے اس نے اپنی قابلیت اور ذہانت کو نشان زد کیا اور جب وہ سترہ سال کا ہوا تو اسے سندھ کا جنرل بنا کر بھیجا گیا۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ 711 میں شروع ہوا اور 713 تک جاری رہا۔ اس نے سندھ کے اہم علاقے فتح کیے اور ملتان کو فتح کر کے سندھ کی فتوحات مکمل کیں، لیکن شمالی ہند کی طرف پیش قدمی کی خواہش حالات کی وجہ سے پوری نہ ہو سکی۔ اس کی پہلی ذمہ داری فارس میں تھی، اور اسے کردوں کے ایک دھڑے کو شکست دینے کے لیے کہا گیا۔ اپنے مشن کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد، انہیں فارس کا گورنر نامزد کیا گیا۔ اس نے الحجاج کے بھائی محمد بن یوسف کی جانشینی کی، جو پہلے گورنر رہ چکے تھے۔ قاسم نے شیراز شہر کو زندہ کیا۔ اس نے اس شہر میں ایک فوجی کیمپ اور شاہی ولا تعمیر کیا۔ اسلام اور ہندو سندھ کے درمیان ربط الخلافہ راشدہ کے دوران مسلم مشنوں کے ذریعے قائم ہوا۔ الحکیم، جس نے 649ء میں مکران پر حملہ کیا، ابو طالب کا حامی تھا۔ علی کی خلافت کے دوران، سندھ کے بہت سے جٹ مذہب اسلام کے زیر اثر آئے، جن میں سے کچھ نے علی کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جان بھی لے لی۔ تیرہ سو سال قبل سندھ جس علاقے پر لاگو کیا گیا تھا وہ بہت لمبا اور چوڑا تھا۔ وہ ملک جو اسلام سے پہلے راجہ داہر کے دور میں سندھ کہلاتا تھا، مغرب میں مکران سے بحیرہ عرب اور جنوب میں گجرات، مشرق میں موجودہ مالوہ اور راجپوتانہ کے وسط تک اور شمال میں ملتان تک پھیلا ہوا تھا۔ جنوبی پنجاب کے اندرونی حصے تک جسے عرب مورخین سندھ کہتے ہیں۔ یہ ملک اتنا قدیم ہے کہ یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ کتنے عرصے سے قائم ہے اور اس کے نام سے کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ صرف تاریخ بتاتی ہے کہ جب آریہ اس ملک میں ہزاروں سال پہلے آئے تو انہوں نے اس کا نام ’سندھو‘ رکھا کیونکہ وہ اپنی زبان میں دریا کو ’سندھو‘ کہتے تھے۔ پہلے تو وہ اس ملک کو سندھو کہتے تھے لیکن رفتہ رفتہ سندھ کہنے لگے۔ یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ ہزاروں سال بعد بھی اس کا نام سندھ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں سندھ میں آریوں کی فتح کی گئی تمام زمینوں کا نام سندھ رکھا گیا؛ اسلام سے پہلے سندھ میں حکومت کرنے والے بادشاہوں کو رائے کہا جاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں رائے کی حکومت تھیvernment ایک سو سینتیس سال تک جاری رہی. اس حکومت کے پانچ بادشاہ ہو چکے ہیں جو بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ ان کے نام ہیں رائے ڈیونچ رائے سہارس رائے ساہ سی۔ رائے سحرس ثانی رائے ساہ سی ثانی سرندیپ کے حکمران نے جزیرہ یاقوت سے حجاج ابن یوسف کو کچھ قیمتی تحائف بھیجے۔ قافلے میں شامل کچھ مسلمان خواتین بیت اللہ کی زیارت کے لیے کشتیوں میں سوار ہوئیں۔ پھر جب یہ قافلہ قزرون کے علاقے میں پہنچا تو مخالف سمت سے آنے والی ہوائیں کشتیوں کو دیبل کے ساحل پر لے آئیں۔ جہاں نیکا مارا گینگ نے آٹھ جہازوں پر دھاوا بولا، املاک لوٹی اور مسلمان خواتین کو گرفتار کیا۔ سرندیپ کے لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ یہ تحفے بادشاہ کے لیے ہیں، اس لیے آپ کو فوراً سامان واپس کر دینا چاہیے۔ اغوا کاروں میں سے ایک فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچا اور حجاج کو بتایا کہ مسلمان عورتوں کو راجہ داہر نے قید کر رکھا ہے جو آپ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے، ان دنوں مسلمانوں نے ان کی قیادت میں اندلس، سپین اور ترکستان کے محاذ کھول رکھے تھے۔ موسیٰ بن ناصر اور قتیبہ ابن مسلم بالترتیب، اور تیسرا بڑا محاذ کھولنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ راجہ داہر نے سندھ کے حکمران کو خط لکھا اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ قاسم کی فوج اور انتظامی کارنامے ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کی تاریخ میں ایک قابل ذکر سنگ میل ہے۔ وہ ایک ہنر مند منتظم، قابل حکمران اور سیاسی شخصیت تھے۔ انہوں نے فتح کے بعد سندھ کا نظام تباہ نہیں کیا اور اندرونی معاملات مقامی لوگوں کے حوالے کر دیئے۔ برہمنوں نے ملک کے نظم و نسق میں داخلہ حاصل کر کے بہت خوشگوار ماحول پیدا کر دیا۔ مال وغیرہ کے احکام بنانے کا حق بھی ان لوگوں پر چھوڑ دیا۔ اس سے وہ نہ صرف خوش ہوئے بلکہ جگہ جگہ جا کر اس معافی اور خیر خواہی کی تبلیغ کرتے رہے جس سے ماحول اور بھی خوشگوار ہو گیا اور بہت سے لوگوں کو اطاعت پر مجبور کر دیا۔ قاسم کے برہمنوں اور مندروں کے ساتھ برتاؤ کو معاصر ہندو مورخین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے ہندو مندروں کو نہیں گرایا۔ راجہ داہر کے قتل کے بعد جب ہندوستان کے لوگ مسلمان ہوئے تو اس نے اگلے دن اعلان کر دیا کہ جو کوئی اسلام قبول کرنا چاہے یا اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے، ہم سے کوئی جارحیت نہیں کی جائے گی۔ برہمن آباد کی فتح کے بعد مندر کا پجاری قاسم کے پاس گیا اور کہا کہ ہندوؤں نے مسلمان سپاہیوں کے خوف سے مندروں میں مورتی پوجا کے لیے آنے والوں کی تعداد کم کردی ہے جس سے ہماری آمدنی میں فرق پڑا ہے۔ مندروں کی مرمت بھی نہیں ہوتی۔ آپ انہیں ٹھیک کریں اور ہندوؤں کو مندروں میں آکر پوجا کرنے پر مجبور کریں۔ یہ سن کر اس نے خلیفہ کو خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ وہ اپنے مندروں میں آزادی سے عبادت کریں۔ سرکاری اخراجات کا تین فیصد برہمنوں کے حصہ کے لیے الگ خزانے میں جمع کرایا گیا۔ لہٰذا وہ یہ رقم اپنے مندروں کی مرمت اور ضروری سامان کے لیے کسی بھی وقت خزانے سے لے سکتے ہیں۔ پھر اس نے سب سے بڑے پنڈت کو رانا کا خطاب دیا اور اسے مذہبی امور کا سپرنٹنڈنٹ اور افسر مقرر کیا۔ اس نے ہندوستان میں ایک مستقل سلطنت کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کی بستیاں اور مساجد تعمیر کیں۔ انہوں نے پہلی بار عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا۔ محمد بن قاسم ان کی جان، مال اور عزت کا محافظ بن گیا۔ قاسم نے سندھ کی فتح کا یہ عظیم کارنامہ اپنی زندگی کے اس حصے میں انجام دیا جو لوگوں کے لیے کھیل کود کا وقت ہے۔ دنیا کی کوئی اور قوم ایسے نوجوان اور قابل جرنیل کی مثال پیش نہیں کر سکتی‘ قاسم کے بعد سندھ کے لیے کوئی دوسرا حکمران نہیں مقرر ہوا۔ نتیجتاً مسلمانوں کی پیش قدمی رک گئی۔ تاہم ہندوستان میں اسلام سندھ کے ذریعے متعارف ہوا۔ سندھ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ قاسم کی سندھ اور عراق کی فتح کے تقریباً تین سو سال بعد، انھوں نے سائنسی اور ثقافتی بنیادوں پر عرب ہند تعلقات قائم کیے تھے۔ سندھ کے لوگوں کے علمی اور ثقافتی رشتے کو منقطع نہیں ہونے دیا گیا۔ سندھ کی فتح سیاسی، ثقافتی اور سائنسی لحاظ سے ایک جمہوری اور روشن خیال دور کا آغاز تھا؛ اس طبقے کا مسئلہ محمد ابن قاسم نہیں بلکہ محمد ابن عبداللہ کی شخصیت ہے۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے جو ان کے مغربی آقاؤں کے عالمی تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنا، تاریخ کو مسخ کرنا، تاریخی حقائق کو مسخ کرنا، سب کچھ جائز ہے، اگر چاہیں، اگر اس سے ان کے مذموم مقاصد پورے ہوں۔ یہ طبقہ مسلسل جھوٹی، من گھڑت کہانیوں اور مغربی پروپیگنڈے کو تاریخ بنا کر پیش کرتا ہے۔ ایک طرف یہ طبقہ انسانیت کا سب سے بڑا مذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ دوسری طرف، یہ قوم پرستی کو فروغ دیتا ہے اور اسلام اور پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان کے جسم سے روح محمد کو نکال دیا جائے۔ تب پاکستان کی تقسیم آسان ہو جائے گی، اور دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت کا خاتمہ ہو جائے گا، اور اس طرح ان کے مغربی آقاؤں کے مذموم عزائم کی تکمیل ہو جائے گی۔ یہ وہ واحد گروہ ہے جو مذہبی لبادے میں قاسم کی مخالفت کرتا ہے، اس کی وجہ سے نہیں، لیکن کی وجہ سےاسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں اختلافات اس گروہ کی اصل دلیل یہ ہے کہ عبدالملک اور اس کا نامزد گورنر عراق حجاج ابن یوسف ظالم اور جابر حکمران تھا جس کے ہاتھ شیعہ علی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، چونکہ ان کا تعلق بھی اسی اموی دور سے تھا، لہٰذا اس کی بھلائی ہے۔ بھی برا. اس طبقے نے نہ صرف مغرب نواز، لبرل سیکولر اور قوم پرست طبقات کے جھوٹے پروپیگنڈے کو فروغ دیا ہے بلکہ اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں میں ایک نئی تقسیم کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ ایک جھوٹ جو اس طبقے نے کثرت سے پھیلایا ہے وہ یہ ہے کہ سندھ میں اسلام نہ صرف قاسم سے بہت پہلے آیا تھا بلکہ سادات اور صوفیاء کے ذریعے بھی پھیلا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ قاسم کے دورہ سندھ کا اصل مقصد عبداللہ شاہ غازی جیسے سادات کو ختم کرنا تھا جنہوں نے سندھ کے لوگوں میں اپنی جڑیں جما رکھی تھیں۔ ہندو مت کے پیروکار داہر کے والد چچ نے سندھ میں بدھ مت راج کا تختہ الٹ کر برہمنی راج قائم کیا، لیکن یہ ظلم و ستم چند سال ہی چل سکا اور قاسم سندھ کے مظلوم طبقات کا نجات دہندہ بن گیا۔ اس سے سندھ میں ایک بار پھر مذہبی رواداری کو فروغ ملا اور انصاف کا نظام قائم ہوا۔ اس نے سندھی بدھسٹوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کو مسلمان بننے کی ترغیب دی، اس طرح سندھ میں برہمنی راج اور ہندو تسلط کا خاتمہ ہوا، اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ ہندو مت کے پیروکار، خاص طور پر برہمن، قاسم کو غاصب اور لٹیرا کہتے ہیں۔ محمد بن علی عبدالحسن ہمدانی کو جب رائے داہر مارا گیا تو قاسم نے اپنی بیٹیوں کو اپنے محل میں قید کر لیا اور پھر اپنے حبشی غلاموں کے ہاتھوں اپنے حکمران سلیمان بن عبدالملک کے پاس بھیج دیا۔ جب خلیفہ نے انہیں اپنے حرم میں بلایا تو راجہ داہر کی بیٹیوں نے خلیفہ سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیونکہ قاسم انہیں پہلے ہی استعمال کر چکا تھا۔ وہ بہت ناراض ہوا اور قاسم کو بیل کی کھال میں لانے کا حکم دیا۔ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی لیکن قاسم بیل کی کھال میں دم گھٹنے سے راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ بعد میں، خلیفہ کو راجہ داہر کی بیٹیوں کے جھوٹ کا پتہ چلا۔ برزن کے مطابق، اس خطے میں اموی مفادات سندھ کے راجہ داہر کی طرف سے مسلمانوں کے جہازوں پر حملوں اور ان کی طرف سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو قید کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔[1] انہوں نے اس سے قبل گندھارا کے ترک شاہیوں سے خیبر پاس کے راستے پر کنٹرول حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔[1] لیکن گندھارا کے جنوبی پڑوسی سندھ کو لے کر، وہ گندھارا کے خلاف دوسرا محاذ کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک ایسا کارنامہ جس کی انہوں نے پہلے بھی کوشش کی تھی۔ وِنک کے مطابق، اس خطے میں اموی کی دلچسپی میڈز اور دیگر کی کارروائیوں سے بڑھ گئی تھی۔[2] میڈز (سندھ میں رہنے والے سیتھیوں کا ایک قبیلہ) ماضی میں دجلہ کے منہ سے سری لنکا کے ساحل تک ساسانی جہاز رانی پر اپنے باواریج میں قزاق کرتے تھے اور اب وہ کچھ، دیبل میں اپنے اڈوں سے عرب جہاز رانی کا شکار کرنے کے قابل تھے۔ اور کاٹھیاواڑ۔ اس وقت، سندھ الہند کا جنگلی سرحدی علاقہ تھا، جس میں زیادہ تر نیم خانہ بدوش قبائل آباد تھے جن کی سرگرمیاں مغربی بحر ہند کے بیشتر حصے کو پریشان کرتی تھیں۔[2] مسلم ذرائع کا اصرار ہے کہ دیبل قزاقوں اور دیگر کی طرف سے بڑھتے ہوئے اہم ہندوستانی تجارتی راستوں کے ساتھ یہ مسلسل سرگرمیاں تھیں جنہوں نے عربوں کو اس علاقے کو مسخر کرنے پر مجبور کیا، تاکہ ان بندرگاہوں اور سمندری راستوں کو کنٹرول کیا جا سکے جن کا سندھ مرکز تھا، اور ساتھ ہی، زمینی گزرگاہ[3] حجاج کی گورنری کے دوران، دیبل کے وسط نے اپنے ایک چھاپے میں سری لنکا سے عرب کا سفر کرنے والی مسلمان خواتین کو اغوا کر لیا تھا، اس طرح اموی خلافت کی بڑھتی ہوئی طاقت کے لیے ایک کاس بیلی فراہم کی گئی تھی جس نے انہیں مکران، بلوچستان اور بلوچستان میں قدم جمانے کے قابل بنایا تھا۔ سندھ کے علاقے[2][4] اس مہم کی ایک وجہ عرب پیش قدمی سے فرار ہونے والے ساسانیوں اور ان کی حکمرانی کے اموی استحکام سے عرب باغیوں کو پناہ فراہم کرنے کی پالیسی بھی تھی۔ سندھ پر پہلے حملے کے لیے مندرجہ بالا تمام وجوہات کی اپنی اہمیت ہے۔ لیکن سندھ کی فتح کے فوری اسباب میں حجاج کو سیلون کے حکمران کے تحائف کی لوٹ مار اور عرب کے بحری جہازوں پر حملہ جو افریقہ کے خلاف جہاد میں مرنے والے مسلمان فوجیوں کے یتیموں اور بیواؤں کو لے جا رہے تھے۔ ان عربوں کو بعد میں گورنر دیبل پرتاب رے نے قید کر دیا۔ عرب سے فرار ہونے والی لڑکی کا لکھا ہوا خط جو پرتاب رے کی جیل میں بند ہے۔ اس نے حجاب بن یوسف سے مدد مانگی۔ جب حجاج نے داہر سے قیدیوں کی رہائی اور معاوضہ طلب کیا تو بعد میں اس نے اس بنیاد پر انکار کر دیا کہ ان پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ حجاج نے 711ء میں محمد بن قاسم کو اس عظیم مہم کے لیے بھیجا، یہ وہ دور تھا جب اسپین اور افریقہ اور وسطی ایشیا کے بہت سے علاقے مسلمانوں کے زیر تسلط تھے۔ اور جنگ جاری تھی اس لیے مسلمان کوئی نئی مہم شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس فتح کی واحد وجہ ان حاجیوں کو بچانا تھا جنہیں ہندو گورنر نے قید کر لیا تھا۔ موالی؛ نئے غیر عرب مذہب تبدیل کرنے والے؛ جو عام طور پر حجاج کے سیاسی مخالفین کے ساتھ اتحاد کرتے تھے اور اس وجہ سے اکثر اس میں شرکت پر مجبور ہوتے تھے۔سرحدوں پر ای جہاد - جیسے کابل، سندھ اور ٹرانسوکسینیا۔ فتح کے ذریعے، امویوں نے اپنے سمندری مفادات کا تحفظ کرنے کا ارادہ کیا، جبکہ باغی سرداروں کے فرار ہونے کے لیے پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ ساسانی رمپ ریاست کے لیے سندھی فوجی مدد کو بھی بند کر دیا۔ ان کے مشابہ جو فارس کی فتح کے دوران اس سے پہلے کی کئی بڑی لڑائیوں میں حاصل ہوئے تھے - جیسے سلسل اور قادسیہ اور آخر میں رسل کی جنگ میں۔ خلیفہ راشدین عمر بن خطاب کے زمانے سے عرب پالیسی کے طور پر خطے میں اصل دھکیلنا حق سے باہر تھا، جسے یہ اطلاع ملنے پر کہ یہ ایک غیر مہذب اور غریب سرزمین ہے، اس خطے میں مزید مہم جوئی روک دی تھی۔ بن قاسم کی مہم دراصل تیسری کوشش تھی، پہلی دو توقع سے زیادہ سخت مخالفت کے ساتھ ساتھ گرمی، تھکن کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھیں۔ حجاج نے بدیل بن طحفہ کے تحت پہلی مہم [5] کے مقابلے میں اس مہم میں زیادہ احتیاط اور منصوبہ بندی کی تھی۔ احکامات[5] محمد بن قاسم کی قیادت میں 710 عیسوی میں شیراز سے روانہ ہونے والی فوج میں 6,000 شامی گھڑسوار اور عراق کے موالیوں کے دستے تھے۔ سندھ کی سرحدوں پر اس کے ساتھ ایک پیشگی محافظ اور چھ ہزار اونٹ سوار تھے اور بعد میں مکران کے گورنر کی کمک پانچ کیٹپلٹس [5] ("منجانک") کے ساتھ براہ راست سمندر کے راستے دیبل منتقل ہوئی۔ جس فوج نے بالآخر سندھ پر قبضہ کر لیا وہ بعد میں جاٹوں اور مڈوں کے ساتھ ساتھ دیگر بے ضابطگیوں سے بھی بڑھے گی جنہوں نے سندھ میں کامیابیوں کے بارے میں سنا تھا۔ جب محمد بن قاسم فوجیں اٹھاتے ہوئے مکران سے گزرا تو اسے بنی اموی قصبوں فنازبور اور ارمان بیلہ (لسبیلہ) کو دوبارہ زیر کرنا پڑا۔ دیبل پر اس کے مکینوں یا پادریوں کو کوئی چوتھائی حصہ نہ دے کر اور اس کے عظیم مندر کو تباہ کر کے خونی انتقام لیا گیا۔ دیبل سے عرب فوج نے پھر شمال کی طرف نیرون اور سادوسن (سہون) جیسے قصبوں کو لے کر پرامن طریقے سے پیش قدمی کی۔[5] اکثر ان کے اجزاء کا استعمال کرتے ہوئے؛ اس کے علاوہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ غلاموں سمیت حجاج اور خلیفہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ ان شہروں کی فتح آسانی سے ہو گئی۔ تاہم، راجہ داہر کی فوجیں سندھ کے دوسری طرف تیار کی جا رہی تھیں[7] ابھی لڑنا باقی تھا۔ ان سے ملنے کی تیاری میں، محمد بن قاسم حجاج کی طرف سے بھیجی گئی کمک کو دوبارہ سپلائی کرنے اور وصول کرنے کے لیے واپس نیرون چلا گیا۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر ڈیرے ڈالے، قاسم نے سفیر بھیجے اور دریائے جاٹوں اور کشتی والوں سے سودا کیا۔ "جزیرہ بیت کے بادشاہ" موکا بسایاہ کی مدد حاصل کرنے کے بعد، محمد بن قاسم نے دریا کو عبور کیا جہاں اس کے ساتھ بھٹہ کے ٹھاکور اور مغربی جاٹوں کی فوجیں شامل ہوئیں۔ ارور (روہڑی) میں اس کا مقابلہ داہر کی فوجوں اور مشرقی جاٹوں نے لڑائی میں کیا۔ داہر جنگ میں مر گیا، اس کی افواج کو شکست ہوئی اور ایک فاتح محمد بن قاسم نے سندھ پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے نتیجے میں دشمن کے سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا - لیکن کاریگروں، تاجروں یا کسانوں کو نہیں - اور داہر اور اس کے سرداروں، "شہزادوں کی بیٹیاں" اور مال غنیمت اور غلاموں کا پانچواں حصہ حجاج کو بھیج دیا گیا۔ ] جلد ہی دوسرے صوبوں کے دارالحکومتوں، برہمن آباد، الور (اروڑ) اور ملتان کو دوسرے درمیانی قصبوں کے ساتھ ساتھ قبضہ کر لیا گیا جس میں صرف مسلمانوں کی ہلکی ہلاکتیں ہوئیں۔ عام طور پر چند ہفتوں یا مہینوں کے محاصرے کے بعد عربوں نے تجارتی گھرانوں کے سربراہوں کی مداخلت سے ایک شہر حاصل کر لیا جن کے ساتھ بعد کے معاہدے اور معاہدے طے کیے جائیں گے۔ لڑائیوں کے بعد تمام لڑنے والے مارے گئے اور ان کی بیویوں اور بچوں کو کافی تعداد میں غلام بنا لیا گیا اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ اور غلام حجاج کو بھیجے گئے۔ عام لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اپنی تجارت اور ٹیکسوں اور خراج تحسین کو جاری رکھیں۔ سندھ کے ساتھ قاسم نے سوراشٹر میں مہمات بھیجیں، جہاں اس کے جرنیلوں نے راشٹر کوٹا کے ساتھ پرامن معاہدہ کیا۔ محمد بن قاسم نے "ہند کے بادشاہوں" کو خطوط لکھے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور اسلام قبول کر لیں، اور بعد ازاں 10,000 گھڑ سوار دستے قنوج بھیجے گئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ اس کے اچانک واپس بلانے سے پہلے مہم ختم کر دیں اور خراج تحسین پیش کریں۔ محمد بن قاسم کو ایک خط بھیجا گیا:[8] میرا حکم یہ ہے کہ اہل حرب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو قتل کر دو، ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو یرغمال بنا کر گرفتار کر لو اور ان کو قید کر دو، جو ہم سے جنگ نہیں کرے گا، ان کو امان دے اور ان کا خراج ادا کر دو۔ (اموال) بطور ذمّہ (محفوظ شخص)..." عربوں کی پہلی تشویش یہ تھی کہ سندھ کی فتح کو کم سے کم جانی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ معاشی انفراسٹرکچر کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ قصبوں کو دو اختیارات دیے گئے تھے: پرامن طریقے سے اسلامی اتھارٹی کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے یا ان پر طاقت کے ذریعے حملہ کیا جائے، اس انتخاب کے ساتھ کہ قبضے کے بعد ان کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ قصبوں پر قبضہ عام طور پر دعوت کے ذریعے کیا جاتا تھا۔دشمن میں سے ایک جماعت کے ساتھ، جنہیں پھر خصوصی مراعات اور مادی انعامات سے نوازا گیا تھا۔ اس طرح کے معاہدوں کی دو قسمیں تھیں، "سلح" یا "احد وصیق" اور "امان (ہتھیار ڈالنا/امن)"۔ ان قصبوں اور قلعوں میں سے جن پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کیا گیا تھا، محمد بن قاسم نے اپنی فوجی حکمت عملی کے تحت سزائے موت دی تھی، لیکن وہ اہل حرب تک محدود تھے، جن کے زندہ رہنے والے افراد کو بھی غلام بنا لیا گیا تھا۔[9] جہاں مزاحمت مضبوط، طویل اور شدید تھی، جس کے نتیجے میں اکثر عربوں کو کافی ہلاکتیں ہوئیں، محمد بن قاسم کا ردعمل ڈرامائی تھا، جس نے راور میں 6,000، برہمن آباد میں 6,000 سے 26,000 کے درمیان، اسکلینڈہ میں 4,000 اور 6,0010 ملین کے درمیان ہلاکتیں کیں۔ اس کے برعکس، سلہ کے زیر قبضہ علاقوں میں، جیسے ارمبیل، نیرون، اور اروڑ، مزاحمت ہلکی تھی اور بہت کم ہلاکتیں ہوئیں۔ سلہ محمد بن قاسم کی فتح کا ترجیحی طریقہ معلوم ہوتا ہے، یہ طریقہ بالادھوری اور چچنامے کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے 60% سے زیادہ قصبوں اور قبائل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک موقع پر، حجاج کی طرف سے انہیں بہت زیادہ نرم مزاج ہونے کی وجہ سے برا بھلا کہا گیا۔ دریں اثنا، عام لوگوں کو اکثر معاف کر دیا جاتا تھا اور کام جاری رکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی؛ [9] حجاج نے حکم دیا تھا کہ یہ اختیار دیبل کے کسی باشندے کو نہ دیا جائے، پھر بھی قاسم نے اسے بعض گروہوں اور افراد کو عطا کیا۔ اپنی فتح کے ہر بڑے مرحلے کے بعد، محمد بن قاسم نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے فتح شدہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش کی اور حکمران طبقے - برہمنوں اور شرمانوں کو اپنی انتظامیہ میں شامل کیا۔ داہر ایک غیر مقبول ہندو بادشاہ ہونے کے ناطے جو بدھ مت کی اکثریت پر حکومت کر رہا تھا جس نے الور کے چچ اور اس کے رشتہ داروں کو رائے خاندان کے غاصب کے طور پر دیکھا۔ اس کی وجہ بدھ مت کے پیروکاروں کی مدد اور جاٹ اور میڈس کی گھڑسوار فوج میں قیمتی پیادہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے باغی سپاہیوں کو شامل کرنے کی وجہ سے قرار دیا جاتا ہے۔ برہمن، بدھسٹ، یونانی، اور عرب گواہی اگرچہ 7ویں صدی تک دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ تھے اعلی فوجی سازوسامان؛ جیسے محاصرہ کرنے والے انجن اور منگول کمان۔ دستے کا نظم و ضبط اور قیادت۔ حوصلے بڑھانے والے کے طور پر جہاد کا تصور۔ مذہب؛ مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی پر وسیع پیمانے پر یقین سامانیوں کو ہتھیار نہ اٹھانے اور ہتھیار نہ اٹھانے پر آمادہ کیا جا رہا ہے کیونکہ آبادی کی اکثریت بدھ مت کی تھی جو اپنے حکمرانوں سے غیر مطمئن تھی، جو ہندو تھے۔ لوہانہ جاٹوں کی معذوری کے تحت مزدوری داہروں کے سرداروں اور امرا کے درمیان سے انحراف۔ اس نے ایک مفاہمت کی پالیسی اپنائی، جس میں مقامی لوگوں سے ان کے مذہبی عمل میں عدم مداخلت کے بدلے میں مسلم حکمرانی کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا، جب تک کہ مقامی باشندے اپنا ٹیکس اور خراج ادا کرتے رہیں۔ اس نے علاقے کے لوگوں پر اسلامی شرعی قانون قائم کیا۔ تاہم، ہندوؤں کو اپنے گاؤں پر حکومت کرنے اور اپنے تنازعات کو ان کے اپنے قوانین کے مطابق حل کرنے کی اجازت دی گئی، اور گاؤں کے سربراہ (رئیس) اور سرداروں (دیہقان) سمیت روایتی درجہ بندی کے اداروں کو برقرار رکھا گیا۔ ایک مسلمان افسر جسے امیل کہا جاتا تھا گھڑسواروں کے دستے کے ساتھ موروثی بنیادوں پر ہر قصبے کا انتظام کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا ہر جگہ ٹیکس (مال) اور خراج (خراج) طے کیے گئے اور یرغمال بنائے گئے - کبھی کبھار اس کا مطلب مندروں کے متولی بھی ہوتا تھا۔ غیر مسلم مقامی باشندوں کو فوجی ملازمت اور زکوٰۃ کہلانے والے مسلمانوں پر عائد مذہبی طور پر عائد ٹیکس نظام کی ادائیگی سے معافی دی گئی، [13] اس کی بجائے ان پر عائد ٹیکس نظام جزیہ تھا - ایک ترقی پسند ٹیکس، جو اعلیٰ طبقے پر بھاری اور ہلکا ہے۔ غریبوں کے لیے[13] اس کے علاوہ، حکومتی محصول کا تین فیصد برہمنوں کو مختص کیا گیا تھا۔ چچنامہ سے عبارت (دیبل اور نیرون پر قبضہ کرنے کے بعد، محمد بن قاسم اس وقت) اشبہار کے قلعے کی طرف روانہ ہوا۔ محرم سنہ 93 ہجری کا مہینہ تھا کہ (وہ) اس قلعہ کے قریب پہنچے۔ اس نے قلعہ کا مشاہدہ کیا (جو) مضبوط اور ناقابل تسخیر تھا۔ قلعہ کے باشندے (ہساری) جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے اور قلعہ کے چاروں طرف گہری کھائی (خندقی زرت) بنا رکھی تھی۔ قلعہ میں مغربی سِڈ (پناہ) میں رہنے والے جاٹ اور دہاتی (رسٹاین) ایک ہفتہ تک محمد قاسم کے خلاف لڑتے رہے اور اپنی جنگ میں مہارت (استادقی) کا مظاہرہ کرتے ہوئے (اپنی حکمت عملی) کو پکڑنے اور پکڑنے کا مظاہرہ کرتے رہے۔ (داروگیر) اس کے بعد انہوں نے بن قاسم سے حفاظت (امن) کی درخواست کی۔ ان کے دور حکومت میں مذہبی پالیسی کے حوالے سے متضاد خیالات پائے جاتے ہیں۔ بعض تاریخ کے مطابقrians، کسی بھی اجتماعی تبدیلی کی کوشش نہیں کی گئی اور ملتان کے سن ٹیمپل جیسے مندروں کو تباہ کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ لین-پول لکھتے ہیں کہ "ایک اصول کے طور پر مسلم حکومت ایک وقت میں روادار اور اقتصادی تھی"۔ لیکن دوسرے مورخین جیسے ایلیٹ، کزن، مجمدار اور ویدیا کا خیال ہے کہ ان کے دور حکومت میں زبردستی ڈھانپے ہوئے تھے اور مندروں کی تباہی زیادہ بنیادی، مذہبی طور پر محرک عدم برداشت کی عکاسی تھی۔ ایک چھوٹی سی اقلیت جنہوں نے اسلام قبول کیا انہیں جزیہ سے مستثنیٰ مسلم زکوٰۃ کی ادائیگی کے بدلے میں دی گئی تھی۔[13] ہندوؤں اور بدھوں کو ذمی (محفوظ لوگ) کا درجہ دیا گیا تھا۔ سیکولر گورنروں کی نگرانی کے لیے ایک کلیدی دفتر، "صدرو اسلام الافل" بنایا گیا تھا۔[13] جب کہ کچھ پروسلائیزیشن واقع ہوئی، سندھ کی سماجی حرکیات دوسرے خطوں سے مختلف نہیں تھیں جنہیں مسلم افواج نے نئے فتح کیا تھا جیسے مصر، جہاں اسلام قبول کرنے میں سست روی تھی اور اس میں صدیوں کا عرصہ لگا تھا۔ محمد بن قاسم نے حجاج کی وفات کے بعد مزید توسیع کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ خلیفہ الولید اول، جس کا جانشین سلیمان بن عبد الملک نے کیا، جس نے پھر ان تمام لوگوں سے بدلہ لیا جو حجاج کے قریب تھے۔ سلیمان نے حجاج کے مخالفین کی سیاسی حمایت کی اور اسی لیے حجاج کے دونوں کامیاب جرنیلوں قتیبہ بن مسلم اور قاسم کو واپس بلا لیا۔ اس نے یزید بن المحلب کو بھی مقرر کیا، جسے ایک بار حجاج نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور المحلب ابن ابی صفرہ کے بیٹے کو فارس، کرمان، مکران اور سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ اس نے فوراً قاسم کو زنجیروں میں جکڑ دیا۔ قاسم کی قسمت کی تفصیلات کے بارے میں دو مختلف بیانات ہیں چچنامے کے بیان میں ایک کہانی بیان کی گئی ہے جس میں قاسم کی موت کو بادشاہ داہر کی بیٹیوں سے منسوب کیا گیا ہے جنہیں مہم کے دوران اسیر کر لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد انہیں خلیفہ کے حرم کے لیے تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ بیان بتاتا ہے کہ پھر انہوں نے خلیفہ کو یہ باور کرانے کے لیے دھوکہ دیا کہ محمد بن قاسم نے ان کو بھیجنے سے پہلے ان کی خلاف ورزی کی تھی اور اس تخریب کاری کے نتیجے میں محمد بن قاسم کو بیلوں کی کھالوں میں لپیٹ کر ٹانکا گیا تھا، [22] اور شام واپس چلے گئے تھے۔ راستے میں دم گھٹنے سے اس کی موت واقع ہوئی۔ یہ بیانیہ اس تخریب کاری کے ان کے مقصد کو اپنے والد کی موت کا انتقام لینے سے منسوب کرتا ہے۔ اس تخریب کاری کو دریافت کرنے پر، خلیفہ کو پچھتاوے سے بھرا ہوا تھا اور اس نے بہنوں کو دیوار میں زندہ دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم فارسی مورخ بالادھوری کا کہنا ہے کہ نیا خلیفہ اموی کے سابق گورنر الحجاج ابن یوسف، محمد بن قاسم کے چچا کا سیاسی دشمن تھا اور اس طرح اس نے ان تمام لوگوں کو ستایا جو حجاج کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے محمد بن قاسم کو شمال میں مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کی مہم کے دوران واپس بلایا گیا۔ آمد پر، تاہم، اسے فوری طور پر موصل، (جدید عراق میں) میں قید کر دیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔ جو بھی حساب سچ ہے، نامعلوم ہے۔ تاہم جو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ اس کی عمر 20 سال تھی جب اسے ان کے اپنے خلیفہ نے قتل کر دیا۔ کسی نے اس کی قبر کو نشان زدہ مقبرہ نہیں پڑھا کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے۔ محمد بن قاسم کا ایک بیٹا تھا جس کا نام عمرو بن محمد تھا جو بعد میں سندھ کا گورنر بنا۔سندھ کی فتح اور اس کے بعد تبدیلی کے حوالے سے تنازعہ ہے۔ یہ عام طور پر قاسم کے اعمال کو دیکھتے ہوئے دو مخالفانہ نقطہ نظر میں بیان کیا جاتا ہے اس کی فتح، جیسا کہ اسٹینلے لین پول نے بیان کیا ہے، قرون وسطی کے ہندوستان میں (1970 میں ہاسکل ہاؤس پبلشرز لمیٹڈ نے شائع کیا)، "آزاد خیال" تھا۔ اس نے حسب روایت پول ٹیکس لگایا، اچھے اخلاق پر یرغمال بنائے اور لوگوں کی جانوں اور زمینوں کو بچایا۔ یہاں تک کہ اس نے ان کی عبادت گاہوں کو بے حرمت چھوڑ دیا: 'مندروں؛، اس نے اعلان کیا، 'عیسائیوں کے گرجا گھروں، یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مجوسیوں کی قربان گاہوں کی طرح بے حرمتی کی جائے گی۔'[25] تاہم، اسی متن میں، یہ ذکر کیا گیا ہے کہ "کبھی کبھار ہندو پرستاروں کی بے حرمتی ہوئی... لیکن اس طرح کے مظاہرے شاید سرکاری ضمیر کے لیے نایاب ترغیب تھے۔" زبردستی تبدیلی کو ابتدائی مورخین جیسے ایلیٹ، کزن، مجمدار اور ویدیا سے منسوب کیا گیا ہے۔[10] ان کا موقف ہے کہ سندھ کی تبدیلی ضروری تھی۔ کہا جاتا ہے کہ قاسم کی عددی کمتری ظاہری مذہبی رواداری کی کسی بھی مثال کی وضاحت کرتی ہے، مندروں کی تباہی کو زیادہ بنیادی، مذہبی طور پر محرک عدم برداشت کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رضاکارانہ تبدیلی کو تھامس ڈبلیو آرنلڈ اور جدید مسلمان مورخین جیسے حبیب اور قریشی سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فتح بڑی حد تک پرامن تھی، اور تبدیلی مکمل طور پر اسی طرح تھی، اور یہ کہ عرب افواج نے لبرل، فراخدلانہ اور رواداری کی پالیسیاں نافذ کیں۔[10] یہ مورخین "عرب مسلمانوں کے قابل تعریف طرز عمل" کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے اعمال کو "اعلی تہذیبی کمپلیکس" سے منسوب کرتے ہیں۔ اس بحث میں اسلام، ہندومت اور بدھ مت کے مختلف سیاسی تصورات بھی جھلکتے ہیں۔[26] ایلیٹ نے اسلام کو "دہشت، تباہی، قتل و غارت" کے مذہب کے طور پر سمجھا جہاں فاتح عربوں کو "بے رحم متعصب" قرار دیا گیا۔اور "لُوٹ اور مذہب پرستی" سے محرک "غصے میں آنے والے"۔[10] قاسم کے دور حکومت کو U.T. ٹھاکر "سندھ کی تاریخ کا سیاہ ترین دور"، جس میں بڑے پیمانے پر جبری تبدیلی، مندروں کی تباہی، قتل و غارت اور نسل کشی کے ریکارڈ کے ساتھ؛ سندھ کے لوگوں کو، جنہیں ان کے ہندو/بدھ مت کے مذہبی رجحانات کی وجہ سے موروثی طور پر امن پسند کہا جاتا ہے، کو "وحشیانہ داخلے" کے حالات سے موافقت کرنا پڑی۔[27] ایک انتہا پر، عرب مسلمانوں کو مذہبی سختیوں کی وجہ سے سندھ کو فتح کرنے اور زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن دوسری طرف، وہ تبدیلی کے ساتھ غیر مسلموں کے احترام اور رواداری کو اپنے مذہبی فریضے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی مذہب کی جانفشانی، مساوات اور اخلاق کے ذریعے سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔[26] پرتشدد یا خونریزی سے لیے گئے قصبوں کے حوالہ جات، عرب سندھ کی معلومات جو بعد کی تاریخ سے متعلق ہیں اور مشکوک اکاؤنٹس جیسے دیبل میں برہمنوں کے زبردستی ختنے یا گائے کے ذبیحہ کو منع کرنے میں ہندو جذبات کا خیال رکھنے کے بارے میں مشتبہ واقعات کو مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایک خاص نقطہ نظر یا دوسرے کے لیے۔ کچھ مورخین یہ کہتے ہوئے درمیانی بنیاد ڈالتے ہیں کہ قاسم کو ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کے ساتھ صلح کرنے کی سیاسی مصلحت کے درمیان پھاڑ دیا گیا تھا۔ غیر مسلموں سے مطالبہ کرنا کہ وہ نئی فتح شدہ زمین کے انتظام کے لیے اپنے مینڈیٹ کے حصے کے طور پر اس کے ماتحت خدمت کریں۔ اور راسخ العقیدہ "کافروں" کا تعاون حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قاسم نے مقامی سندھیوں کو ذمی کا درجہ دیتے ہوئے اور انہیں اپنی انتظامیہ میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے درمیانی بنیاد پر حملہ کیا ہو گا، لیکن ان کے ساتھ "غیر شہری" (یعنی خلافت میں، لیکن اس میں سے نہیں) قاسم کی موجودگی کا برتاؤ کیا ہے۔ اور حکمرانی بہت مختصر تھی۔ امویوں کے لیے ان کی فتح نے سندھ کو مسلم دنیا کے مدار میں لے آیا۔ اگلے عرب گورنر کی آمد پر ہی موت ہو گئی۔ داہر کے بیٹے جیسیہ نے برہمن آباد پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور سی۔ 720، اسلام قبول کرنے کے عوض اسے معافی دے دی گئی اور انتظامیہ میں شامل کر لیا گیا۔ بعد میں امویوں نے جیسیہ کو قتل کر دیا اور اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا اس سے پہلے کہ اس کے جانشین ایک بار پھر اسے برقرار رکھنے اور رکھنے کے لیے جدوجہد کریں۔ عباسی خلافت اور اموی خلافت کے درمیان مشکلات کے دوران مقامی امیروں نے خلفاء سے تمام بیعتیں ختم کر دیں اور 10ویں صدی تک غزنی کے محمود نے اموی کنٹرول کو تباہ کر دیا۔ حبشیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ میں اپنی حکومت قائم کی۔ سومرا خاندان نے بغداد کے محاصرہ (1258) تک عباسی خلافت کے کارکن کے طور پر سندھ پر حکومت کی۔ منصورہ سومرا خاندان کا دارالحکومت تھا۔ ساحلی تجارت اور سندھ میں ایک مسلم کالونی نے ثقافتی تبادلے اور صوفی مشنریوں کی آمد کو مسلمانوں کے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کی اجازت دی۔ دیبل سے، جو 12ویں صدی تک ایک اہم بندرگاہ رہی، خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارتی روابط تیز ہو گئے کیونکہ سندھ "بحیرہ ہند کی تجارت اور زیر زمین گزرگاہ" بن گیا تھا۔ پاکستان اسٹڈیز کے نصاب کے مطابق محمد بن قاسم کو اکثر پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔ محمد علی جناح نے بھی محمد بن قاسم کی تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ پاکستان کی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب پہلے مسلمان نے سندھ کی سرزمین، ہندوستان میں اسلام کے دروازے پر قدم رکھا۔ پورٹ قاسم، پاکستان کی دوسری بڑی بندرگاہ کا نام محمد بن قاسم کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ باغ ابن قاسم کراچی، سندھ، پاکستان کا ایک سب سے بڑا پارک ہے جسے محمد بن قاسم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
توہین عدالت کے مقدمات میں پہلی سماعت پر ملزم معافی مانگتا ہے اس کے بعد بھی عدالت کا صوابدید ہے کہ معاف کرے یا نہیں، لیکن جو ہوتا ہے وہ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوتا ہے شائع 23 ستمبر 2022 04:34pm ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کی اندرونی کہانی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 'آپ کو پسند کے بندے چاہئیں؟ اگر فل کورٹ بنے تو فیصلہ ٹھیک ورنہ فیصلہ خراب ہے'۔ شائع 27 جولائ 2022 06:21pm اگر آج ایوانِ صدر کو 58 (2) بی کا اختیار حاصل ہوتا تو صورتحال کیا ہوتی؟ یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدرِ پاکستان وزیرِاعظم کی ایڈوائس کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ شائع 12 مئ 2022 05:44pm اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا آنکھوں دیکھا حال سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنے میں 5 دن ضرور لگا دیے لیکن اپنے فیصلے سے پارلیمانی جمہوریت، آئین اور قانون کا بول بالا کردیا۔ اپ ڈیٹ 09 اپريل 2022 01:35pm تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کیسے ہوگا؟ 2 امیدواروں کے ووٹ برابر ہوں تو اسپیکر تب تک بار بار ووٹنگ کروائے گا جب تک کسی ایک امیدوار کو ایک ووٹ کی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ اپ ڈیٹ 11 اپريل 2022 06:19pm پاکستان میں کب کب آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا گیا؟ ریفرنس کے ذریعے رائے لینے کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ملک میں صدر کا عہدہ موجود نہیں تھا اور نہ عدالت عظمی کو سپریم کورٹ کہا جاتا تھا۔ اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022 11:20am مشترکہ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا کچھ ہوتا رہا؟ جنرل ضیا سے لے کر جنرل مشرف کے اشاروں پر چلنے والی اسمبلی میں بھی سارجنٹ ایٹ آرمز کو یوں کبھی ممبران کے سامنے کھڑا نہیں کیا گیا۔ اپ ڈیٹ 19 نومبر 2021 09:59am سینیٹ انتخابات کے نتائج اور وزیرِاعظم کا قوم سے خطاب: آگے کیا ہوسکتا ہے؟ اعتماد کا ووٹ، مطالبات، سفارش، غصے، خوشی، جذبات اور شوقیہ بنیادوں پر نہیں لیا جاسکتا، بلکہ یہ ایک آئینی تقاضہ ہے۔ اپ ڈیٹ 05 مارچ 2021 11:40pm مشن ایکسٹینشن: 3 روزہ کارروائی کے دوران میں نے سپریم کورٹ میں کیا کچھ دیکھا؟ جب چیف جسٹس آرڈر لکھواتے ہوئے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد روکے جانے سےمتعلق جملےپر پہنچے تو عدالتی کمرے میں جیسے بھونچال آگیا اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2019 10:18am پیپلز پارٹی کا ’کھمبا‘ نتیجے کے دن گر گیا پیپلزپارٹی کے لیے یہ انتخاب ٹیسٹ کیس تھا جس میں شکست جمیل سومرو کو نہیں بلکہ نانا اور ماں کے وارث بلاول کو ہوئی ہے۔ اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2019 05:21pm ایک صدی میں داخل ہونے والے ضعیف العمر سکھر بیراج کی کہانی رواں برس ایک بڑے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اگر اس بار 12 لاکھ کیوسکس کا ریلہ آیا تو اس ضعیف بیراج کا کیا بنے گا؟ شائع 04 اپريل 2019 04:37pm سکھر کے ستین جو آستھان سے جڑی داستانیں ’میرے ساتھ مقامی صحافی نے مجھے کئی قصے سنا کر آخر میں مجھ سے تالی مارتے ہوئے کہا کہ صاحب سب جھوٹ ہے۔ ‘ شائع 18 مارچ 2019 07:47pm روایتی سیاستدان اور سرداروں سے جدا، میر ہزار خان بجارانی بھٹو صاحب کی بیٹی سے ناراض ہوئے تو کسی اور سیاسی دروازے پر دستک دینے کے بجائے بھٹو کے بیٹے مرتضی کی پارٹی کا انتخاب کیا اپ ڈیٹ 19 فروری 2018 12:34pm بھٹو کی آخری نشانی یعنی ’روح‘ پر بھی قبضہ ہوگیا بھٹو صاحب کا نعرہ تو موجود ہے، روح بھی آگئی لیکن جماعت میں نہ بھٹو کا منشور نہ فکر، نہ پروگرام اور نہ ہی اُن کی دانش۔ اپ ڈیٹ 27 جنوری 2018 08:57am ابوالکلام آزاد کی نصیحت ایسی یاد آئی کہ سب کچھ بھول بیٹھے آزاد صاحب کو ضرور یاد رکھیے مگر جی ایم سید کو مت بھولیں جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان سے آنے والے ہمارے بھائی ہیں اپ ڈیٹ 09 جنوری 2018 09:08am میاں صاحب نیلسن منڈیلا بھی تو نہیں ہیں ناں! میاں صاحب کی جماعت میں اب بھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروں کو تیل لگایا ہوا ہے۔ اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2017 06:08pm اب پیپلز پارٹی کی کون سی وکٹ گرنے والی ہے؟ پنجاب میں عام انتخابات اور پھر مقامی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد بھی پیپلز پارٹی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اپ ڈیٹ 30 جون 2017 06:34pm پاناما فیصلہ، فلم ابھی باقی ہے! پاناما فیصلے پر حکومت نعرے مارے یا مٹھائی بانٹے، وزیراعظم پر استعفے کے لیے دباؤ روزانہ بڑھتا جائے گا۔ شائع 21 اپريل 2017 12:13pm لاہور میں واقع دائی انگہ اور بدھو کے مقبروں کی پُراسرار کہانی وہ جس کے بٹھے سے شاہی محل بنتے تھے آج اس کے مقبرے کی اینٹیں نازک ہو چکی ہیں، کئی گر بھی چکیں ہیں۔ اپ ڈیٹ 15 مئ 2017 02:32pm میاں میر: شہنشاہوں کے روحانی استاد آج بھی سکھ مت کے پیروکار قلندر کی نگری کے اس بزرگ سے اپنے گروؤں جتنی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ اپ ڈیٹ 28 مارچ 2017 04:16pm
[box type=”shadow” align=”” class=”” width=””] انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔ کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. [/box] ساتویں قسط [box type=”Warning” align=”” class=”” width=””] گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہیہ کہانی اسپین کے صوبے اندلوسیا کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان چراوہا سان تیاگو کی ہے، ماں باپ اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت اور دنیا کو جاننے کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں رات گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سالوں سے ان بھیڑوں کے ساتھ پھرتے ہوئے ان سے مانوس ہوچکا ہے۔ لیکن اب اس کی دلچسپی کا محور تاجر کی بیٹی ہے، جسے وہ گزشتہ سال ملا تھا ، اس کا ارادہ تھا کہ دوبارہ اس لڑکی سے ملے اور اسے اپنے بارے میں بتائے ۔ لیکن اس سے پہلے وہ شہر طریفا جاکر خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے۔ جو بتاتی ہے کہ وہ خزانہ جس کی خواب میں نشاندہی کی گئی تھی اسے ضرور ملے گا۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر چلا آتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم شہر کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی ایک بوڑھے شخص سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب اس بوڑھے نے وہ باتیں بتائیں جو اس نے کسی کو نہیں بتائی تھیں، تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ۔ خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا شخص بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے ۔ جسے لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانہ اہرامِ مصر میں ہے اور اسے ڈھونڈنے کے لیے قدرت کے اشاروں کی زبان کو سمجھنا ہوگا۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ دونوں پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ لیکن بہتر یہی ہو گا کہ تم اپنے فیصلہ خود اپنی عقل سے کرنے کی کوشش کرو۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے بھیڑیں لے کر چلا جاتا ہے ۔ وہ لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی طنجہ شہر کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے کہ اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے اہرام مصر پہنچنے کے لیے مدد مانگتا ہے۔ وہ اجنبی بتاتا ہے کہ اس کے لیے کافی رقم درکار ہوگی۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے اُسے رقم کی پوٹلی دے دیتا ہے۔ اجنبی اُسے اپنے ساتھ بازار لے آتا ہے اور بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا خود کو بے یار و مددگار محسوس کرنے لگا، پھر وہ خود کو مایوسی سے باہر نکال کر مصمم ارادہ کرتا ہے کہ وہ پچھتاوے کی بجائے خزانہ کی تلاش میں مہم جو بنے گا۔ وہ سوچتے سوچتے بازار میں سوجاتا ہے اور صبح کوئی اُسے اُٹھاتا ہے۔ وہ بازار میں اِدھر اُدھر گھومتا ہے اور ایک حلوائی کی دکان لگانے میں مدد کرتا ہے ، حلوائی خوش ہوکر اسے مٹھائی دیتا ہے۔ لڑکا مٹھائی لے کر وہاں سے چلاجاتا ہے۔ اسی شہر میں ایک شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ اس دکان میں آیا اور بولا کہ وہ دکان کیے شیشے اور ظروف کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے اسے بتایا کہ اسے مصر کے اہرام جانا ہے جس کے لیے وہ اس کی دکان پر صفائی کا سارا کام کرنے کو تیار ہے۔ لڑکے کی بات سن کر سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکے کے مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا کہتا ہے کہ وہ دکان میں کام کرکے اتنی رقم کمائے گا جس سے بھیڑیں خرید سکے۔ لڑکے کو کام کرتے ہوئے ایک مہینہ بیت جاتا ہے سوداگر اس کا خوب خیال رکھتا ہے۔ لڑکا اندازہ لگاتا ہے کہ تو بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آتی ہے۔ ، کام خاصا بڑھ جاتا ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ اہرام محض چند پتھروں کے ڈھیرہیں وہ وہاں کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ شیشے کا سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی ، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرم موجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا کاروبار بڑھانے کے لیے دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے۔ سوداگر تھوڑی پش و پیش کے بعد یہ بات بھی مان جاتا ہے ۔ خوبصورت بلوری ظروف میں قہوہ پیش کرنے والی اس انوکھی دکان کی خبر بہت جلد پورے شہر میں پھیل گئی ، لوگ جوک در جوک آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے …. …. اب آگے پڑھیں ………… [/box] ….(گزشتہ سے پوستہ) لڑکا اس دن صبح فجر سے بھی پہلے جاگ گیا تھا۔ براعظم افریقہ کی اِس سرزمین میں قدم رکھے آج اُسے پورے گیارہ مہینے اور نو دن ہو رہے تھے۔ اُس نے سفید لینن کا ایک خوبصورت عربی لباس زیبِ تن کیا، جو اُس نے آج ہی کے دن کے لئے تیار کرایا تھا۔ سرپرعمامہ باندھ کر اُسے اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے حلقے سے سر پر جمایا اور پھر نئے سینڈل پہن کر و ہ آہستہ آہستہ سیڑھیوں سے اُتر کر نیچے آ گیا۔ پورا شہر ابھی تک سویا ہوا تھا۔ اپنے دکان میں موجود قہوہ کے اسٹال پر پہنچ کر اُس نے خود اپنے لیے ایک سینڈوچ تیار کیا اور خوبصورت کرسٹل کے گلاس میں چائے نکال کر پی اور پھر سورج نکلنے کی سمت دروازے کے پاس بیٹھ کر حقہ کے کشلینے لگا۔ وہ کچھ دیر وہیں خالی ذہن بیٹھا خاموشی سے حقے کے کش لیتا رہا۔ وہ صحراء سے آنے والی ہواؤں کی آواز اور اس کی معطّر خوشبو کو محسوس کررہا تھا جس نے حقہ کے لطف کو دوچند کر دیا تھا۔ جب وہ حقّہ پی چکا تو اس کے ہاتھ جیب کی جانب گئے اور وہ کچھ دیر تک جیب میں ہاتھ ڈل کر بیٹھا رہا۔ جب ہاتھ جیب سے باہر آئے تو اس میں نوٹوں سے بھری ایک گڈی تھی، اس کی اب تک کی کمائی، ان گیارہ مہینوں میں اس کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوچکی تھی، جس سے وہ ناصرف ایک سو بیس بھیڑیں اور ملک واپسی کا ٹکٹ خرید سکتا تھا بلکہ افریقہ سے اپنے ملک اشیا ء کی تجارت کرنے کے لیے درآمدی اجازت نامہ بھی خرید سکتا تھا۔ اتنے میں شیشے کا سوداگر بھی اٹھ کر نیچے آچکا تھا، دکان کھل جانے تک وہ وہیں دروازے پر سوداگر کا انتظار کرتا رہا پھر لڑکا اور شیشے کا سوداگر دونوں مزید چائے پینے کی غرض سے قہوہ اسٹال کی جانب چل دئیے ۔ لڑکا قہوہ اسٹال پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ ‘‘میں آج واپس جا رہا ہوں…. میرے پاس اتنی رقم جمع ہو چکی ہے کہ اپنی بھیڑیں واپس خرید سکوں اور تم بھی مکہ جانے کے لئے ضروری رقم کماچکے ہو….’’ بوڑھا سوداگر خاموش رہا۔لڑکے نے تھوڑی دیر رک کر کہا۔ ‘‘مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا۔’’ سوداگر چائے تیار کرتے ہوئے بولا ‘‘تم نے میری بڑی مدد کی ہے۔ ’’ پھر تھوڑا ٹھہرکر لڑکے کی جانب مڑا اور بولا۔ ‘‘مجھے تم پر فخر ہے۔تم نے میری دکان کا منظر ہی بدل دیا ہے…. لیکن میں شاید مکّہ نہیں جا سکوں گا اور یہ بات تم جانتے ہو ….لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم بھی شاید بھیڑیں نہیں خریدو گے۔’’ ‘‘آپ سے یہ کس نے کہا ؟….’’لڑکے بےحد تعجب سے بولا۔ ‘‘مکتوبـ(مقدّر میں یہی لکھا ہے)….’’ بوڑھے سوداگر نے مسکراتے ہوئے کہا اور لڑکے کے حق میں دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے۔ *** لڑکے نے اپنے کمرے میں جا کر سامان باندھنا شروع کیا جو تقریباً تین تھیلوں میں سمٹ آیا۔ کمرے سے نکلتے ہوئے اُس کی نظر کونے پر پڑی تو اُسے اپنا پرانا بیگ نظر آیا۔ ایک عرصہ سے اُسے اِس بیگ کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ بیگ میں جھانکا تو وہی ضخیم کتاب اور اپنی پرانی جیکٹ تھی جسے لے کر وہ اندلوسیا سے افریقہ آیا تھا۔ بیگ سے پُرانی جیکٹ نکال کر سڑک پر کسی فقیر کو دینے کے لئے اُس نے جیسے ہی جیکٹ بیگ سے باہر نکالی ، اس کے ساتھ ہی فرش پر دو بڑے ہی خوبصورت پتھر گِر پڑے۔ ‘‘اُوریم’’ اور ‘‘تُھومیم’’ اُن پتھروں کو دیکھتے ہی لڑکے کو شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی یاد آگئی ۔ اُسے تعجب ہوا کہ ایک طویل عرصہ سے اُس نے اِن پتھروں کے متعلق غور ہی نہیں کیا تھا، جیسے وہ انہیں بھول ہی چکا ہو۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے وہ رات دن محض پیسہ کمانے میں ہی مگن رہا تھا تاکہ بس اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوجائے کہ وہ اپنے ملک اندلوسیا عزّت و وقار کے ساتھ واپس جاسکے۔ اِن دونوں پتھروں کو دیکھتے ہی اُسے بوڑھے کی یہ بات یاد آئی کہ ‘‘خواب دیکھنا کبھی مت چھوڑنا…. قدرت کی نشانیوں کو سمجھنا اور اُن کے مطابق عمل کرنا’’ لڑکے نے دونوں پتھر ہاتھ میں اُٹھائے۔ ایک بار پھر اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے بوڑھا بادشاہ اُس کے قریب کھڑاہے۔ اس نے سال بھر بہت شدید محنت کی ہے اور اب غیبی نشانیاں کہہ رہی ہیں کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ یہاں سے کوچ کیا جائے ۔ لڑکا سوچنے لگا کہ ‘‘میں جو کام چھوڑ کر آیا تھا پھر وہی کرنے جا رہا ہوں’’۔ پھر اُس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ‘‘لیکن بھیڑوں کی صحبت میں رہ کر میں عربی تو نہ سیکھ سکا تھا …. البتہ بھیڑوں سے اُس نے اس سے بھی بہت اہم بات سیکھی تھی ، وہ یہ کہ ایک زبان ایسی بھی ہوتی ہے جسے دنیا میں ہر کوئی سمجھ لیتا ہے اور یہ وہی زبان تھی جو اس لڑکے نے افریقہ کی اجنبی سرزمین پر عربی جاننے سے قبل سوداگر کے ساتھ کام کرتے ہوئے اور اُس کی دکان کو بہتر بنانے اور نئی جہت سے روشناس کرانے کی اپنی جد و جہد کے دوران استعمال کی تھی۔ وہ زبان جس کے عناصرِ ترکیبی میں حروف و الفاظ شامل نہیں تھے۔ بلکہ یہ جذبات کی زبان تھی…. جو اخلاص اور محبت سے مقصد کو پیش نظر رکھ کر کام کو انجام دینے کے جذبہ، کچھ کر گزرنے کی تمنّا اور اس کے پورا ہونے کے یقین سے عبارت تھی۔ طنجہ اُس کے لئے اب کوئی اجنبی شہر نہیں رہا تھا، محض اپنی محنت سے اُس کا اپنا شہر بن گیا تھا۔ ‘‘شاید پوری دنیا کو اِسی طرح فتح کیا جا سکتا ہے’’ اُس نے سوچا پھر بوڑھے بادشاہ کا قول اُسے یاد آیا۔ ‘‘انسان جب کسی چیز کو پانے کی جستجو اور سعی کرتا ہے تو تو در اصل قدرت اور پوری کائنات اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے، کائنات اِس کوشش میں انسان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔’’ لیکن اُس نے سوچا کہ اس بوڑھے بادشاہ نے تفصیل سے تو کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس نے اُس بارے میں کچھ بھی نہ کہا تھا کہ اُسے کوئی لٹیرا بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اور یہ کہ اہرام تک پہنچنے کے لئے راستہ میں بہت طویل صحرا حائل ہے۔ نہ ہی ایسے لوگوں کے بارے میں کچھ بتایا تھا جو خواب تو بہت دیکھتے ہیں لیکن اُنہیں حقیقت کا روپ دینے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ اُس سے زیادہ اہم یہ بات بھی اس نے نہیں بتائی تھی کہ اہرام محض پتھروں کا ڈھیر ہیں اور کوئی بھی اُنہیں اپنے آنگن میں بنا سکتا ہے۔ اور ہاں !سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ بوڑھے نے اِس سلسلہ میں بھی کوئی رہنمائی نہیں کی تھی کہ اگر اتنی رقم اکٹھا ہوجائے کہ پہلے سے بھی بڑا ریوڑ خریدا جا سکے تو کیا کرنا چاہیے…. اِن سب باتوں کا جواب بوڑھے بادشاہ کی گفتگو میں موجود نہ تھا۔ وہ دیر تک یہی سوچتا رہا۔ پھر لڑکے نے پُرانا بیگ اُٹھاکر اُسے اپنے سامان کے ساتھ رکھا اور سیڑھیوں سے نیچے اُتر آیا۔ اس نے دیکھا کہ شیشے کا سوداگر کسی غیر ملکی جوڑے سے گفتگو کر رہا تھا اور دیگر گاہک چائے پینے میں مصروف تھے۔ صبح کے وقت عموماً بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔جہاں وہ کھڑا تھا اُسے بوڑھے سوداگر کا چہرہ اور سر صاف نظر آرہے تھے۔ اُسے لگا کہ بوڑھے سوداگر کے بال بالکل ایسے ہی تھے جیسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ کے تھے۔ طنجہ میں پہلے دن جب و ہ لُٹ چکا تھا اور نہ کچھ کھانے کے لئے تھا اور نہ ہی رہنے کے لئے، تو مٹھائی فروش کی مسکراہٹ میں بھی اُسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی جھلک نظر آتی تھی۔ یہ مشابہتیں بھی عجیب تھیں۔ یہ لوگ تو اُس سے کبھی نہ ملے ہوں گے۔ اُسے لگا کہ جیسے شالیم کا بوڑھا بادشاہ بھی یہیں کہیں رہا ہوگا اور اپنی یادگار چھوڑگیا ہوگا لیکن اُسے یاد آیا کہ گفتگو کے دوران بوڑھے بادشاہ نے بتایا تھا کہ ‘‘جو لوگ اپنے مقدر کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں اُن کی مدد کرنا اُس بوڑھے بادشاہ کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔’’ رخصت ہوتے ہوئے اس نے شیشے کے سوداگر کو الوداع نہیں کہا، کیونکہ لوگوں کے سامنے آنسو بہانا اُسے پسند نہیں تھا۔ اگر وہ سوداگر کے سامنے آ جاتا تو وہ شاید سِسک پڑتا اور اُس کی آنکھیں بھیگ جاتیں ، چنانچہ اس نے ہمت نہ کی۔ لوگوں کی موجودگی میں وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔ میں اس جگہ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ یہاں کے لوگوں کو اور ان سب نئی اور قیمتی باتوں کو جو میں نے یہاں رہ کر سیکھی تھیں، یہ سب باتیں اُسے یاد آئیں گی۔ اب اُس کی خود اعتمادی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوچکا تھا اور اسے یقین ہوچکا تھا کہ وہ دنیا فتح کرسکتا ہے۔ ‘‘لیکن مجھے تو واپس اندلوسیا کے میدانوں میں جاکر اپنی بھیڑوں کی نگرانی کرنا ہے، جو میرے لئے کوئی اجنبی کام نہیں ہے۔’’ اُس نے اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے سوچا ، لیکن اُس نے محسوس کیا کہ واپس جانے کے اِس فیصلے سے اُسے اپنے اندر کوئی خوشی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اس نے ایک برس تک یہاں بہت محنت کے ساتھ کام کیا تاکہ اپنے ایک خواب کو حقیقت میں بدل سکے، لیکن اب لمحہ بہ اس خواب کی اہمیت اور اسے پورا کرنے کی لگن اُس میں دھیمی پڑتی جارہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ خواب جو میں نے دیکھا تھا وہ میرے لئے تھا ہی نہیں۔ وہ پریشان ہو اُٹھا تھا۔ اُس کے خیالات بھٹکنے لگے۔ ‘‘کیا پتہ …. شاید یہی اس کے لیے بہتر ہو، جیسا کہ اس شیشے کے سوداگر نے کہا تھا، ‘‘جانے کی تمنّا اصل ہے۔ مکّہ جانے کا تصوّر اور خیال ہی ہے جو اُسے زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے اور خواہش اس کی زندگی کو حرارت بخشتی ہے۔ اِس کی اُمید ہی اُسے روزمرّہ کے مسائل سے نبردآزما ہونے کی قوّت عطا کرتی ہے۔ مقصد کے حصول کی تمنّا بے کیف اور یکسانیت بھری زندگی کو کسی قدر لطف میں بدلتی رہتی ہے۔ ’’ وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن وہ دونوں پتھر اُوریم اور تھومیم جو اس کے ہاتھ میں تھے نہ صرف اُسے بوڑھے بادشاہ کی باتوں اور اس کے وجود کا احساس دلارہے رہے بلکہ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ ان پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے بوڑھے بادشاہ کی تما م تر توانائیاں اس کے اندر منتقل ہو گئی ہیں۔ ساتھ میں اہرام پہنچنے کی خواہش بھی۔ ‘‘یہ محض اتفاق ہے یا کوئی غیبی اشارہ….؟’’ وہ چلتے ہوئے یہی سوچتا رہا ۔ راستہ میں وہ اُسی قہوہ کے ہوٹل سے گزرا جہاں افریقہ آمد کے پہلے روز وہ لُٹ گیا تھا۔ لیکن آج اُسے وہاں کوئی چور اُچکا نظر نہ آیا۔ قہوہ خانے کا وہی مالک اُس کے سامنے چائے کا ایک کپ رکھ گیا تھا۔ وہ پھر سوچنے لگا ‘‘کیا یہ محض ایک اتّفاق ہے یا پھر کوئی شگون، کوئی نشانی، کوئی غیبی اشارہ….؟’’ ‘‘اندلوسیا میں اپنی بھیڑوں کی دنیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے۔ بھیڑوں کو پالنا اور اُن کی رکھوالی کرنا میں نہ تو بھولا ہوں اور نہ ہی بھولنے کا امکان ہے، لیکن اگر یہ موقع میں نے گنوا دیا تو شاید اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ وہ بوڑھا بادشاہ ، اس نے چاہے لٹیروں، صحرا اور اہرام کے متعلق وہ سب کچھ نہیں بتایا جو میں نے یہاں آکر جانا لیکن وہ میرے ماضی سے آگاہ تھا۔ اُس نے جو کچھ کہا تھا صحیح تھا۔ اس کے سینہ پر لگی طلائی سینہ بند زرہ بتاتی ہے کہ وہ یقیناً بادشاہ رہا ہو گا، انتہائی ذہین اور دانا بادشاہ۔’’ لڑکا انہی خیالات میں ہی الجھا رہا۔ اس نے سوچا کہ ‘‘اندلس کی پہاڑیاں تو محض دو گھنٹہ کے فاصلے پر ہیں لیکن اہرام اور اُس کے درمیان ایک عظیم صحرا حائل ہے۔ البتّہ سوچنے کا ایک زاویہ نظر یہ بھی ہے کہ میں اہرام کے خزانے کے فاصلے سے دوگھنٹہ قریب ہوگیا ہوں…. یہ الگ علیحدہ بات ہے کہ یہ دو گھنٹے پھیل کر پورے ایک سال پر محیط ہو گئے ۔’’ ‘‘میں جانتا ہوں کہ مجھ میں اپنے بھیڑوں کے ریوڑ میں واپس جانے کی خواہش کیوں جنم لے رہی ہے….؟ اِس کا جواب مجھے معلوم ہے ۔ کیونکہ میں بھیڑوں کو سمجھتا ہوں اور مجھے ایک چرواہے کی زندگی کے خطرات اور امکانات معلوم ہیں۔ مجھے اس کام میں کوئی مشکلات نہیں ہوں گی۔ میں جانتا ہوں کہ بھیڑ ایک اچھی دوست بن سکتی ہے، لیکن دوسری طرف اس لق ودق صحرا کے متعلق میں بالکل نابلد ہوں۔ نہیں معلوم کہ وہ میرا دوست ثابت ہو گا یا نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خزانہ تک پہنچنا اُس عظیم صحرا سے گزر کر ہی ممکن ہے۔ بالفرض اگر مجھے خزانہ نہ بھی ملا تو کیا حرج ہے میرا اپنے گھر واپس جانا نا ممکن تو نہیں ہے۔ میرے پاس مطلوبہ رقم بھی ہے اور وقت بھی ہے۔ پھر کیوں نہ ایک بار کوشش کر لی جائے۔’’ اِس خیال نے اُسے یکایک خوشی سے معمور کر دیا۔ اس نے سوچا کہ اندلوسیا واپسی تو کسی وقت بھی ممکن ہے۔ و ہ جب چاہے چرواہا بن سکتا ہے یا شیشوں کے ظروف کی تجارت بھی وہ کبھی بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اور بھی بہت سی جگہوں پر نہ جانے کتنے ہی خزانے پوشیدہ ہوں، لیکن یہ بات اور ہے کہ اُس خزانے نے مجھے ہی چُنا ہے، اس کا خواب میں نے ہی دیکھا اور میں ہی ہوں جس سے اس بادشاہ نے ملاقات کی۔ ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا۔’’ جب وہ قہوہ خانہ سے اُٹھا تو اندلوسیا واپس جانے کے بجائے اُس کے ذہن میں اہرام تک پہنچنے کے مختلف منصوبے تشکیل پا رہے تھے۔ اُس نے دونوں پتھروں اُوریم اور تھومیم کو ہاتھوں میں تھاماہوا تھا ۔ اِنہی پتھروں کی وجہ سے آج پھر خزانہ کی جستجو انگڑائی لے رہی تھی۔ پھر اُسے یاد آیا کہ شیشے کے سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جو تجارتی سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہچانے کا کام کرتا تھا ۔ وہ شخص کسی قافلہ Caravan کے ذریعہ یہ تجارت کرتا تھا اور ایک مرتبہ اس نے سوداگر کے شیشوں کے ظروف کو بھی اس لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ اسے شالیم کے بوڑھےبادشاہ کی بات یاد آئی ‘‘میں ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کے لیے موجود رہتا ہوں جو لوگ اپنی تقدیر کی گتھی کو سکجھاکر اپنے مقصد کے حصول کے لئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں’’۔ کیوں نہ اُسی تجارتی مال لانے والے شخص کے گودام جاکر اس سے پوچھوں کہ اہرامِ مصر کتنی دور ہے اور اس کے لئے اس صحرا میں کتنا عرصہ گزارنا پڑتا ہے اور اس پر کیا لاگت آئے گی۔ *** گودام اور جانوروں کے باڑے سے متصل ایک زیر تعمیر ٹوٹی پھوٹی وضع قطع کی بے ترتیب عمارتی ڈھانچے میں رکھی ایک بینچ پر انگلستان کا ایک باشندہ (Englishman) بیٹھا کیمیاکے ایک انگریزی تحقیقی جرنل کی ورقگردانی کررہا تھا۔ جانوروں کے باڑے سے متصل ہونے کی وجہ سے اس عمارت کے ماحول میں دھول مٹی کے ساتھ اصطبل کی گھانس پھوس اور جانوروں کے پیشاب اور فضلے کی بو بھی بُری طرح بسی ہوئی تھی۔ ‘‘کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسی جگہ آ کر رہنا پڑے گا….’’ وہ انگلستانی باشندہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔ ‘‘کیا زندگی کے دس سال میں نے یونیورسٹی میں اس لیے تحقیق کرتے گزارے کہ اب یہاں جانوروں کے اصطبل میں ….کتنی عجیب بات ہے’’ ورق پلٹے ہوئے اُس نے خود سے کہا۔ ‘‘لیکن یہ تو ہونا ہی تھا…. میں نے جو سفر چنا ہے اس میں ایسے پڑاؤ آنے ہی تھے۔ میں غیبی اشاروں پر جو یقین رکھتا ہوں اور اُنہی کی رہنمائی میں اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتا ہوں۔ میں نے اپنی پوری علمی تحقیق اور زندگی کو ایک ایسی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دیا جو صحیح معنی میں کائنات کی زبان ہو۔ پہلے تومیں نے اسپرانتو * کا مطالعہ کیا اور پھر دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا علم حاصل کیا یہاں تک کہ اب میں کیمیا گری سیکھ رہا ہوں۔ اسپرانتو پر تو عبور حاصل کرلیا، بڑے مذاہب کے بارے میں بھی میں اچھی طرح جانتا ہوں لیکن ابھی تک ایک کیمیاگر نہ بن سکا تھا۔’’ ویسے کیمیا گری کے متعدد بنیادی سوالوں کے کے پیچھے چھپے سچ کو جاننے اور کئی اہم نکتوں سلجھانے میں وہ کامیاب تو ہو گیا تھا لیکن آخر کار وہ ایک ایسے مقام پر آکر رُک گیا تھا جہاں سے آگے جانا اُسے ممکن نظر نہ آ رہا تھا۔ اُس نے کئی بار الکیمیا **کے ماہروں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ اُن سوالات کا حل پوچھے لیکن ان سے ملاقات میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ‘‘یہ کیمیا گر لوگ بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ محض اپنی ذات میں مستغرق رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی ان علوم کو سیکھنے ان کے پاس جاتا ہے تو وہ مدد کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔’’ ‘‘کون جانے ، ممکن ہے کہ خود اُن کی جستجو میں اُنہیں ناکامی ہوئی ہو اور اِس وجہ سے وہ اپنی معلومات کو بتانے کے لئے تیار نہ ہوتے ہوں یا پھر ممکن ہے کہ پارس پتھر*** کا راز جاننے کی کوششوں میں ناکامی نے اُن کا یہ مزاج بنا دیا ہو۔’’ اُس نے خود کو تسلی دیتے ہوئی توضیح پیش کی۔ وہ خود بھی پارس پتھر کی ناکام تلاش میں اپنی دولت کا بڑا حصہ خرچ کر چکا تھا۔ باپ کے وراثت میں اُسے بڑی جائیداد ملی تھی۔ جس میں سے اچھی خاصی دولت تو اُس نے دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں اور انتہائی قیمتی کتابوں کی تلاش میں خرچ کر دی تھی۔ اِنہی کتابوں میں کہیں اُس نے پڑھا تھا کہ کئی برسوں پہلے عرب سے ایک مشہور کیمیاگر ایک مرتبہ یورپ کی سرزمین آیا تھا۔ مشہور تھا کہ اُس کی عمر دوسو سال سے بھی تجاوز کر چکی تھی اور پارس پتھر اور آبِ حیات کی تلاش میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ انگلستانی باشندہ اِس قصّہ کو پڑھ کر متاثر تو بہت ہوا تھا لیکن اُسے وہ ایک فرسودہ کہانی سے زیادہ اہمیت نہ دے سکا۔لیکن جب اُس کی ملاقات اپنے ایک دوست سے ہوئی جو عرب کے ریگستان میں آثار قدیمہ کی بھیجی ہوئی ایک مہم سے واپس آیا تھا، تو اس نے خود اپنا واقعہ سناتے ہوئے ایک بوڑھے عرب میں غیرمعمولی اور مافوق الفطرت طاقت ہونے کا تذکرہ کیا تھا۔ اس کے دوست نے اُسے بتایا کہ ‘‘وہ شخص الفیوم Al-Fayoumکے نخلستان میں رہتا ہے۔’’….‘‘لوگ کہتے ہیں کہ اُس کی عمر دو سو سال ہے اور اُسے کسی بھی دھات کو سونے میں بدلنے کا علم اُسے آتا ہے۔’’ یہ سُن کر انگلستانی باشندہ اس عرب سے ملنے کو بے قرار ہوگیا اور اپنے جوش و ولولہ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ اس نے یونیورسٹی کی نوکری سمیت اپنی تمام ذمہ داریوں اور مصروفیات کو منسوخ کیا اور ضروری کتابیں لے کر انگلستان سے رختِ سفر باندھا اور آج الفیوم پہنچے کے لیے وہ اس بدبو دار اصطبل میں قیام پذیر تھا۔ باہر کی جانب ایک طویل صحرائی قافلہ(کاروان )سفر کی تیاری کر رہا تھا، جسے افریقہ کے عظیم اور طویل ترین ریگستانِ صحارا کو پار کرتے ہوئے نخلستان ‘‘الفیوم’’ سے گزرنا تھا۔ ‘‘اب میں اِس عجیب کیمیا گر تک پہنچے ہی والا ہوں’’ انگلستانی باشندہ سوچتے ہوئے مسکرانے لگا، لیکن اب اصطبل سے اُٹھتی ہوئی بدبو کی لہریں اس کے لیے تھوڑی بہت قابلِ برداشت ہو گئی تھیں۔ اِسی اثنا میں عرب لباس پہنا ایک نوجوان اپنا سامان اُٹھائے عمارت کے اندر داخل ہوا ۔ اس نے انگریز کو سلام کیا اور اس کے قریب ہی ایک بینچ پربیٹھ گیا۔ ‘‘آپ کہاں جارہے ہیں ….؟ ’’، عرب لباس پہنے اس نوجوان لڑکے نے پوچھا۔ ‘‘صحارا کے ریگستان کی جانب….’’ اس انگلستانی باشندے نے مختصر سا جواب دیتے ہوئے اپنی توجہ پھر کیمیا کی اس کتاب پر مرتکز کر دی۔ شاید وہ اس وقت کسی قسم کی گفتگو کرنا نہیں چاہتا تھا اور کیمیا گر سے ملنے سے پہلے جتنا وقت بھی ملتا ہے ، اُس میں اب تک کی پڑھی ہوئی تمام معلومات کو تازہ کر لینا چاہتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ کیمیا گر سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنا علم سکھانے سے پہلے اُس کاسخت امتحان ضرور لے گا۔ ا س لیے کیمیا کے بارے میں ہر بات وہ ذہن نشین کرلینا چاہتا تھا۔ انگلستانی باشندے کے روئیے کو دیکھتے ہوئے اس لڑکے نے بھی مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔ کتاب ہسپانوی زبان میں تھی۔ ‘‘چلو یہ اچھا ہوا ….’’ انگریز نے لڑکے کے ہاتھ میں ہسپانوی زبان کی کتاب دیکھتے ہوئے سوچا، کیونکہ وہ عربی زبان کے مقابلے ہسپانوی زبان زیادہ بہتر بول اور سمجھ سکتا تھا۔ اُسے اطمئنان ہوا کہ اگر یہ لڑکا بھی سفر میں ساتھ جا رہا ہو گا تو اچھا رہے گا اور سفر کے خالی اوقات میں کم از کم کسی سے گفتگو تو ہو سکے گی۔ لڑکا اُسی کتاب کو پڑھنے میں لگا ہوا تھا ، جس کے آغاز میں رسمِ تدفین کا تذکرہ تھا اورجس بارے میں اس بوڑھے بادشاہ نے کہا تھا کہ یہ کتاب خشک اور الجھا دینے والی ہے۔ ‘‘عجب بات ہے….میں ایک سال سے اِس کتاب کو پڑھنے کی کوشش رہا ہوں لیکن اِس کے ابتدائی چند صفحات سے آگے بڑھ ہی نہیں پایا’’ پہلے جب اس نے کتاب پڑھنا شروع کی تھی تو اس بوڑھے بادشاہ نے آ کر دخل اندازی کی تھی اور وہ کتاب پر توجہ مرتکز ہی نہیں کر سکا تھا لیکن آج تو وہ بوڑھا بادشاہ بھی درمیان میں نہیں ہے، پھر آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کتاب سے اس کی توجہ بھٹکنے کی وجہ دراصل ایک الجھن تھی، مصر جانے کے اپنے اِس فیصلہ کے متعلق ابھی تک وہ تردّد میں مبتلا تھا۔ البتہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ کسی چیز کا فیصلہ کرنا تو محض اس سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ جب انسان کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ایک طرح سے وہ ایسی تیز طوفانی لہروں میں کود پڑتا ہے جن کے بارے میں اُسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ لہریں اُسے اُٹھا کر کہاں لے جائیں گی۔ یہ لہریں کبھی کبھی ایسے مقامات پر بھی پہنچادیتی ہیں جو اُسے خواب میں بھی کبھی نظر نہآئے تھے۔ اُس نے سوچا ‘‘میں نے بھی جب خزانہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو کیا مجھے یہ انداز تھا کہ مجھے کسی شیشوں کے ظروف کی دکان پر سال بھر کام کرنا پڑے گا۔’’ اور اب جب میں اُس صحرائی قافلے کے ساتھ مصر جانے کا فیصلہ کر بیٹھا ہوں۔ اس سفر کے آخر میں ، میں کہاں پہنچوں گا، یہ بھی میرے لیے ابھی ایک معما اور راز ہی ہے۔’’ قریب میں بیٹھا انگلستانی باشندہ اپنی کتاب کے مطالعہ میں غٖرق تھا۔ لڑے کو ابتداء سے ہی محسوس ہورہا تھا کہ اُس کا رویّہ غیر دوستانہ ہے، بلکہ جب لڑکا وہاں پہنچا تھا تو اُس کے رویّہ سے ناگواری ہی ظاہر ہورہی تھی۔ اگر انگلستانی باشندے نے خود بات چیت بند نہ کی ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ دونوں دوست بھی بن گئے ہوتے۔ پھر لڑکے نے یہ سوچ کر اپنی کتاب بند کر کے واپس اپنے بیگ میں رکھ دی کہ کہیں مجھے پڑھتا دیکھ کر انگلستانی باشندہ یہ نہ سوچ رہا ہو کہ میں اس کے جیسا بننے کا دکھاوا کررہا ہوں۔ اُس نے اپنی جیب سے وہ پتھر نکالے اور اُچھال کر اُن سےکھیلنےلگا۔ اس کے ہاتھوں میں وہ پتھر دیکھ کر وہ انگلستانی باشندہ چلّایا۔ ‘‘یہ تو اوریم اور تھُومیم ہیں’’۔ فوراً ہی لڑکے نے اُنہیں جیب میں ڈال کر چھُپا لیا اور بولا، ‘‘یہ بیچنے کے لیے نہیں ہیں۔’’ انگلستانی باشندہ بولا ‘‘ویسے بھی مجھے انہیں خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ پتھر اتنے زیادہ قیمتی بھی نہیں ہوتے ۔ ایسے پتھر لاکھوں کی تعداد میں اس زمین میں پائے جاتے ہیں۔ جنہیں اِن کی روایت کا علم ہے صرف اُنہیں ہی معلوم ہے کہ یہ اوریم اور تھُومیم ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہاں کے لوگوں کے پاس بھی یہ ملتا ہے۔’’ ‘‘مجھے تو یہ ایک بادشاہ نے بطور تحفہ دئیے تھے’’ لڑکا بولا۔ انگلستانی باشندے نے لڑکے کی بات سننے سے پہلے ہی اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اسی طرح کے دو پتھر نکال کردکھائے اور پھر تعجب سے لڑکے سے پوچھا۔ ‘‘کیا کہا تم نے…. بادشاہ نے۔’’ ‘‘کیوں تمہیں یقین نہیں…. مجھے لگتا ہے کہ تم شاید یہ سوچ رہے ہو گے کہ ایک بادشاہ مجھ جیسے معمولی سے چرواہے سے کیوں کر بات کرنے لگا۔’’ لڑکے نے گفتگو ختم کرنے کے اندازمیںکہا۔ ‘‘نہیں….ایسا بالکل نہیں ہے….’’انگلستانی باشندے نے لڑکے کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا ‘‘بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جب سب ہی نے بادشاہ کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو سب سے پہلے چرواہے ہی تھے جنہوں نے بادشاہ کو پہچانا تھا۔ چنانچہ اگر بادشاہ کسی چرواہے سے بات کرے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔’’ پھر انگریزی باشندہ یہ سوچ کر کہ کہیں اس لڑکے کو اس کی بات سمجھنے میں دِقّت نہ ہورہی ہو مزید تفصیلات بتانے لگا کہ ‘‘یہ بات در اصل بائیبل میں لکھی ہے اور اوریم اور تھومیم کے بارے میں بھی بائبل میں ہی لکھا ہوا ہے ۔ دراصل یہ پتھر ایک زمانہ میں خدا سے تعلق کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ ، اس کے ذریعے استخارہ کرنے والےپادری اُنہیں ایک سونے کی پلیٹ میں جَڑوا کر سینے سے لگائے رکھتے تھے۔’’ گودام میں بیٹھے ہوئے اس انگلستانی باشندے کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر لڑکے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ آخر کوئی تو ہے جو اس کی باتوں اور اس کے ساتھ ہوئے واقعات کی تصدیق اور یقین رکھتا ہے۔ ‘‘میرا تم سے ملنا شاید کوئی اچھا غیبی اشارہ ہے’’۔ انگلستانی باشندے نے زیرِ لب ذرا کم آواز میں کہا۔ ‘‘غیبی اشاروں کے بارے میں تمہیں کس سے معلوم ہوا’’ اب تو لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ انگلستانی باشندے نے الکیمیا کے اس جرنل کو بند کرتے ہوئے کہا ‘‘دراصل اس کائنات میں اور زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کے ہونے کا کوئی نہ کوئی غیبی اشارہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ کائنات میں ایک زبان ایسی بھی ہوا کرتی تھی جسے ہر کوئی سمجھ سکتا تھا، لیکن اب لوگ اُسے بھول گئے ہیں۔ میں اور بہت سی چیزوں کے علاوہ اِس کائناتی زبان کی تلاش میں ہوں۔ یہاں بھی میں اِسی لئے آیا ہوں۔ اب مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو شاید یہ زبان جانتا ہے۔ شاید وہ کیمیا گر ہے۔’’ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ایک موٹاسا عرب شخص، جو شاید اس گودام کا مالک تھا اندر داخل ہوا اور دونوں سے مخاطب ہوکر بولا: ‘‘آپ لوگ بہت قسمت والے ہیں…. آج ہی ایک صحرائی قافلہ ‘‘الفیوم ’’کے لیے روانہ ہونے جارہا ہے۔’’ ‘‘لیکن مجھے تو مصر کی طرف جانا ہے….’’ لڑکا فوراً بول اُٹھا۔ ‘‘الفیوم مصر میں ہی تو ہے۔’’ وہ عرب بولا، ‘‘تم کیسے عرب ہو اتنا بھی نہیں جانتے۔’’ لڑکے کو عربی لباس میں دیکھ کر وہ شاید اسے عرب ہی سمجھ رہا تھا۔ اتنا کہہ کر عرب چلا گیا۔ کچھ دیر بعد انگلستانی باشندہ بولا۔ ‘‘قسمت ہمارا ساتھ دے رہی ہے اور یہ بھی ایک اچھی علامت ہے…. یہ قسمت اور اتّفاق جیسے الفاظ بھی خوب ہیں…. اور میرے خیال میں یہ الفاظ کائناتی زبان میں ضرور شامل رہے ہوں گے۔ اگر وقت نے ساتھ دیا تو میں اس کائناتی زبان پر ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا ضرور لکھوں گا۔’’ پھر وہ انگلستانی باشندہ لڑکے سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ: ‘‘میرا خیال ہے کہ میری تم سے ملاقات وہ بھی اِس حال میں کہ اُوریم اور تھومیم تمہارے پاس ہیں۔ محض اتّفاق نہیں ہوسکتی۔ یہ قسمت ہے جو ہمیں ملا رہی ہے۔ ’’ پھر وہ کچھ سوچ کو بولا کہ ‘‘کیا تم بھی کسی کیمیاگر کی کی تلاش میں مصر جارہے ہو۔ ‘‘ نہیں …. میں تو دراصل ایک خزانہ کی تلاش میں ہوں۔’’ لڑکے کی زبان سے نکل تو گیا لیکن فوراً ہی اُسے غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ اندر ہی اندر افسوس کرنے لگا کہ اُس نے خزانہ کا تذکرہ کیوں کر دیا …. لیکن شاید انگریزی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسی لیے اس نے لڑکے کی بات کو اہمیت نہیں دی اور بولا ۔ ‘‘ایک طرح سے دیکھا جائے تو میں بھی ایک خزانہ کی تلاش میں ہی ہوں۔لیکن وہ ایک الگ طرح کا خزانہ ہے’’ ‘‘مجھے کیمیا گر سے کیا واسطہ ، مجھے تویہ بھی نہیں پتہ کہ کیمیا ہوتا کیا ہے ۔’’ لڑکا یہ کہہ ہی رہا تھا کہ گودام کے مالک کی آواز آئی جو سب کو باہر بلا رہا تھا۔ ‘‘حضرات….! صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے….’’ [box type=”info” align=”” class=”” width=””] * اسپرانتو Esperanto ایک مصنوعی بین الاقوامی زبان ہے ، جس کو ایک روسی فاضل زمن ہوف نے 1859ء میں مرتب کیا۔ اس کی ترویج کا مقصد بین الاقوامی رسل و رسائل میں آسانیاں بہم پہنچانا تھا۔ یہ زبان یورپ کی اہم زبانوں کے مصادر سے بنائی گئی تھی۔ اس کا لہجہ بھی صوتی اصولوں پر مبنی ہے۔ اسپرانتو کو ثقافتی، بین الاقوامی ادب، شاعری اور فلسفی مقاصد کے علاوہ ٹیلی وژن اور ریڈیو کی عام نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک مفید کوشش تھی مگر عالمی سطح پر اس زبان کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکی ، آج اسپرانتو دنیا کے کسی ملک کی سرکاری زبان نہیں ہے، البتہ ابھی بھی دنیا میں 20 لاکھ کے قریب لوگ اس زبان کو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ ** الکیمیا Al Chemyعربی لفظ ہے ، جو قدیم یونانی لفظ Chemeia سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کالا جادو۔ یونانی لوگ مصر کو Chemia یعنی سیاہ مٹی کی سرزمین کہتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ الکیمیا کی بنیاد مصر میں فرعونوں کے پروہتوں نے رکھی۔ وہ اس علم کے ذریعے آب حیاتElixir of Life اور پارس پتھر تیار کرنا چاہتے تھے۔ الکیمیا کے فلسفیوں کا دعویٰ تھا کہ کائنات بھر میں تمام چیزیں چار عناصر، ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنی ہیں ، مٹی کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ چونکہ دھاتیں مٹی سے بنی ہیں لہٰذا تانبے کو سونے میں بدلا جاسکتا ہے۔ زمانہ قدیم میں مصروبابل، چین، ہندوستان اور یونان و روم علم الکیمیا کے بڑے مراکز تھے۔ ان تہذیبوں میں سینکڑوں ماہرین کی سعی رہی کہ وہ ایسا جنتر منتر تلاش کرلیں جو انسان کو نہ صرف عمر جادواں عطا کردے بلکہ اسے مٹی سے سونا بنانے کا گر بھی بتادے۔یونانی و رومی فلاسفہ و حکما نے علم الکیمیا پر کئی کتب بھی تحریر کیں ۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں عربی کتب کے لاتعداد تراجم لاطینی زبان میں طبع ہوئے۔ یوں اہل یورپ نے بھی علم الکیمیا سے آگاہی پائی مگر یورپ میں بھی الکیمیا کے اس پہلو کو زیادہ شہرت ملی کہ عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن ہے۔ چنانچہ سیکڑوں لالچی اور پر تجسس یورپی علم الکیمیاکے اصول و قواعد سیکھ کر سونا بنانے کی کوششیں کرنے لگے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی تک بڑے بڑے سائنس دانوں کے کئی تجربات کا مقصد ‘‘پارس پتھر’’ اور ‘‘آب حیات’’ تلاش کرنا تھا۔ قدیم دور میں علم الکیمیا دیومالا، فلسفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نظریات کا مغلوبہ تھا لیکن جب مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات کے زیر اثر یورپی ماہرین بھی لیبارٹریوں میں تجربات کرنے لگے، تو ایک نئی سائنس سامنے آنے لگی جسے ‘‘کیمیا’’ یعنی کیمسٹری کا نام دیا گیا۔ انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر کی تلاش کے امکان کو مسترد کر دکے الکیمیا کے علم پر آخری مہر ثبت کردی ۔یوں آج الکیمیا محض ایک متروک علم اور مفروضہ کی حیثیت اختیار کرگیاہے۔ *** پارس پتھر (فلاسفر اسٹون Philosopher’s stone ) ماہرین الکیمیا کی اصطلاح میں ایک ایسی چیزہے جسے عام دھاتوں خصوصاً تانبے اور سیسے سے مس کیا جائے تو وہ سونا بن جاتی ہیں۔ [/box] (جاری ہے) *** تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی (جاری ہے) Like 0 Liked Liked No Comments غذائیت جون 2018ء, غذائیت, مشروبات, موسم گرما موسمِ گرما اور آپ کی ڈائیٹ روحانی ڈائجسٹ ⋅ Nisan 2019 موسمِ گرما کی شدّت غذائی تدابیر سے کم کی جاسکتی ہے گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں….؟ جی ہاں! ایسا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے آپ کو اپنی ڈائٹ پر خصوصی توجہ دینی ہوگی، اگر آپ صبح سویرے اٹھ کر گھی میں تلے ہوئے پراٹھے، فرائی انڈے یا اسی قسم کی دوسری اشیاء کھاتی ہیں اور ساتھ میں گرمی سے بچنے کی فرمائش بھی کرتی ہیں تو ایسا کم از کم ان حالات میں تو ناممکن ہے….! اس قسم کا ناشتہ صبح سے ہی ہمارے جسم میں زیادہ طاقتور کیلوریز پیدا کردیتا ہے جو گرمی کے موسم میں خرچ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ وہ غذائیں ہیں جو گرمی کی شدت میں مزید اضافہ کرتی ہیں اور ہضم ہونے میں تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے لگاتی ہیں۔ گرم موسم میں ناشتے کے طور پر ہلکا گرم دودھ کا گلاس اور کارن فلیکس بالکل مناسب رہیں گے۔ برسوں سے پراٹھوں اور انڈوں سے ناشتہ کرنے والی خواتین کے لیے اتنا بڑا چیلنج شاید جلد برداشت نہ ہوسکے اور وہ اس تبدیلی کے ابتدائی دنوں میں شدید پریشانی یا جلد بھوک لگ جانے کی مشکلات میں مبتلا ہوں، لیکن اگر ایک مرتبہ یہ روٹین آپ نے کامیابی سے اپنالی تو پھر آپ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ بہتر اور تیز گرمی کے دنوں میں بھی آرام محسوس کریں گی۔ اب آتے ہیں لنچ کی جانب! جسے ان دنوں میں ہلکا پھلکا اور غذائیت سے بھرپور ہونا چاہیے۔ گرمیوں میں تیز مرچ مسالوں والے کھانوں مثلاً بریانی، قورمہ یا تیل میں تلے ہوئے کوفتوں کی بجائے ٹھنڈی تاثر والی سبزیوں کو فوقیت دیں مثلاً ٹھنڈے، پالک اور گوبھی وغیرہ لینی چاہیے۔ دوپہر کے کھانے میں اور خاص طور پر گرمی کے دنوں میں کھانے کے ساتھ سلاد ہونا نہایت ضروری ہے۔ کھیرے، ککڑی، مولی اور گاجر سے بنائی گئی سلاد ان دنوں کے لیے نہایت مفید ہے۔ کھانے کے بعد پانی نہ پئیں۔ پانی کے بجائے لیمن جوس کو ترجیح دیں کیونکہ اس میں شامل وٹامن سی کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور گرمی ختم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے ایک گھنٹے بعد پانی پئیں اور جتنا زیادہ پی سکتی ہیں پئیں۔ جتنا زیادہ پانی جسم میں ہوگا آپ اتنی ہی کم گرمی محسوس کریں گی۔ دن میں دو یا تین مرتبہ لیموں پانی بنا کر پئیں۔ ٹھنڈی ٹھار لسی بھی اس سلسلے میں خاصی مدد دےسکتی ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں سب سے بڑا مسئلہ جسم میں پانی کی کمی کا ہونا ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا اور ہمارے جسم میں سے غیر محسوس انداز میں پانی کی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ گرمیوں میں پائے جانے والے فروٹ کا جوس بنا کر پئیں مثلاً فالسے، گاجر، لیموں اور سیب کے علاوہ کیلے کا جوس بھی گری کے اثرات کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتےہیں۔ دیسی مشروبات میں ستو اور لسی گرمی کے لیے مفید مانے جاتے ہیں اور یہ واقعی سچ ہے کہ ایک گلاس لسی گرمی ختم کرنے والی بہت سی ڈبہ بند مصنوعات سے بہتر ہے۔ کچھ دیسی مشروبات کی ترکیبیں خصوصی طورپر حاضر ہیں۔ ٹھنڈائی اشیاء: بادام کٹے ہوئے پچیس، خربوزے کے بیج پچیس، خشخاش کے بیج دس گرام، دودھ ڈیڑھ لیٹر، پانی ڈیڑھ لیٹر، چینی حسب ذائقہ، چند پتیاں گلاب کی، کیوڑہ کے چند قطرے۔ ترکیب: بادام، خربوزے اور خشخاش کے بیجوں کو رات بھر پانی میں بھگوئیں اور اگلے دن اسے تمام اشیاء کے ساتھ گرینڈر میں پیس لیں۔ بعد میں چینی اور کیوڑہ کے چند قطروں کا اضافہ کرلیں، مزیدار ٹھنڈائی تیار ہے۔ لسی اشیاء: دہی آدھا کلو، ٹھنڈا پانی ایک لیٹر، چینی یا نمک حسب ذائقہ۔ ترکیب: اچھی لسی بنانے کے لیے ٹھنڈے پانی میں چینی نہ ڈالیں۔ چینی ٹھنڈا پانی ڈالنے سے قبل ہی دہی میں گھول لیں آخر میں حسب ذائقہ نمک کا اضافہ کرلیں۔ سکنجبین اشیاء: لیموں ایک عدد، چینی تین کھانے کے چمچ، پانی ایک لیٹر، کالی مرچ حسب ذائقہ۔ ترکیب: پانی میں چینی ملالیں، اب لیموں کے جوس کو اس پانی میں شامل کرلیں۔ آخر میں کالی مرچ پسی ہوئی حسب ذائقہ ملا لیں۔ سکنجبین تیارہے۔ Like 0 Liked Liked No Comments روحانی ڈائجسٹ, گزشتہ شمارے جون 2018ء, فہرست جون 2018ء فہرست روحانی ڈائجسٹ ⋅ Haziran 2018 روحانی ڈائجسٹ جون 2018ء شمارے کی فہرست حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید شاعرِ بے مثال امیر خسرو کا تذکرہ جون میں پیدا ہونے والوں اور جون میں شادی کرنے والوں کے لیے چند اہم نکات 6 بڑی طاقتوں نے عالمی جنگوں میں جادو اور علم نجوم سے مدد لی۔ ہٹلر سے مقابلہ، پراسرار نیزے… This content is for One Year Subscription members only. Log In Register یہ مضمون صرف One Year Subscription ممبروں کے لیے ہے۔ اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے…. روحانی ڈائجسٹ آن لائن کی سالانہ سبسکرپشن صرف 1000 روپے میں حاصل کیجیے۔ یہ رقم ایزی پیسہ ، جیز کیش، منی آرڈر یا ڈائریکٹ بنک ٹرانسفر کے ذریعے بھجوائی جاسکتی ہے ۔ بذریعہ JazzCash رقم مندرجہ ذیل اکاؤنٹ میں جمع کی جاسکتی ہیں۔ JazzCash : Roohani Digest : 03032546050 بذریعہ Easypay رقم مندرجہ ذیل اکاؤنٹ میں جمع کی جاسکتی ہیں۔ Easypaisa : Roohani Digest : 03418746050 یا پھر اپنی ادائیگی براہ راست ہمارے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائیں. Roohani Digest : IBAN PK19 HABB0015000002382903 رقم ارسال کرکے اس ای میل یا فون نمبر پر میسج کردیں manageroohanidigest@gmail.com 03032546050 آپ کا گراں قدر تعاون ادارہ روحانی ڈائجسٹ کی طرف سے قارئین کی بہتر خدمت کے لیے معاون ہوگا۔ مزید رابطے کے لیے سرکیولیشن مینیجر 02136606329 Like 0 Liked Liked علم و معرفت, مستقل سلسلے جون 2018ء, صدائے جرس عید کا پیغام ۔ صدائے جرس روحانی ڈائجسٹ ⋅ Haziran 2018 عید کا پیغام میں نے ایک ہزار تنکے جمع کئے۔ میرا ایک دشمن تھا۔ دشمن پر کاری ضرب لگانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک ایک کر کے ہزار تنکے مارے جائیں تو دشمن ملیامیٹ ہو جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ سارے تنکے ٹوٹ گئے، میں ٹوٹے ہوئے ٹکڑے زمین پر جمع کرتا رہا۔ ہوا کا جھونکا آیا اور سارے تنکے تتر بتر ہو گئے کیونکہ میں دشمن کو اپنی دانست میں ملیامیٹ کر چکا تھا۔ اس نے یہ موقع غنیمت جانا اور مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ میں ابھی اس ناگہانی افتاد سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ میرا ہر ہر عضو بیکار ہو گیا۔ جیسے ہر عضو موت کی نیند سو گیا ہو۔ میں نے اپنی بکھری ہوئی توانائی کو سمیٹ کر اٹھنا چاہا تو اتنی دیر میں دشمن نے بچے کچھے تنکوں کو اکٹھا کر کے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ رسی سے باندھ دیا اور میرے سر پر دے مارا، میری آنکھوں کے سامنے ترمرے آئے اور میں نہیں معلوم کون سے عالم میں چلا گیا۔ میرے ارد گرد گدھ جمع ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب سانس کی ڈوری ٹوٹے اور وہ جسم کو نوچ کر اپنی غذا بنائیں۔ آنکھیں تو میری بند تھیں، سماعت بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی پتہ نہیں کس طرح میں دیکھ رہا تھا۔ میں سن رہا تھا۔ بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ باہر کی آنکھ کی طرح اندر بھی آنکھ ہوتی ہے۔ باہر کے کانوں کی طرح اندر بھی کان ہوتے ہیں۔ نظر آسمان کی طرف اٹھی تو مجھے فضا میں چیلیں اڑتی ہوئی نظر آئیں۔ کوئے کائیں کائیں کرتے سنائی دیئے۔ لمحے بھی نہیں گزرے تھے کہ چیلیں اور کوئے بھی میرے جسم کے پاس آ کر بیٹھ گئے، یہ بھی انتظار کے عالم میں تھے۔ شاید انہیں یہ انتظار ہو کہ جان کا رشتہ جسم سے ختم ہوتو ہماری بھوک رفع ہو۔ سرخ رنگ کے بڑے بڑے چیونٹوں کا قافلہ تیزی سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ کچھ چیونٹے میرے پیروں سے چمٹ گئے اور انہوں نے بڑی بے رحمی سے میرے پیروں کو زخمی کر دیا۔ خون رسنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اندر سے ایک اور ‘‘میں’’ نکلا اور سرہانے کھڑا ہو گیا، اس میری ‘‘میں’’نے مجھ سےسوال کیا۔ کیا کہتے ہو….؟ یہ جسم گدھوں، کوؤں، چیلوں، کتوں، بلیوں اور بھیڑیوں کی خوراک بنا دیا جائے یا ابھی اور تماشہ دیکھنا ہے….؟ ابھی اور مصیبت کی چکی پیسنی ہے….؟ میں نے بھیگی آنکھوں، روشن دماغ اور گداز دل سے کہا۔ میں نے جو تجربہ کر لیا ہے اس تجربے سے میں ایک اور تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔ افتراق و اختلاف کی جس بھٹی نے مجھے سوختہ کر دیا میں اس بھٹی کو ٹھنڈا کر دینا چاہتا ہوں۔ میری ‘‘میں’’نے مجھے جواب دیا۔ کیا پھر ایک ہزار تنکے جمع کرو گے اور ایک ایک تنکے سے دشمن پر کاری ضربلگاؤ گے….؟ میں نے کہا، نہیں۔ میں اپنے لوگوں کو جمع کر کے انہیں اپنی بے ثباتی کی کہانی سناؤں گا۔ انہیں یہ باور کراؤں گا کہ نفرادیت موت ہے۔ اجتماعیت زندگی ہے۔ انفرادیت بٹوارہ ہے، اجتماعیت استحکام ہے۔ انفرادیت محکوم ہے اور اجتماعیت حاکمیت ہے۔ میں گھر گھر دستک دوں گا۔ لوگوں کو بتاؤں گا کہ اے لوگو! ہم ایک ہیں، ہم امت ہیں، ہم ایک قوم ہیں، ہم ایک برادری ہیں، ہم ایک کنبہ ہیں اور ہم ایک خاندان ہیں۔ وحدت آبشار ہے۔ قوم بڑی بڑی نہریں ہیں، برادری ندی ہے۔ کنبہ واٹر کورس ہے اور خاندان وہ نالیاں یا وہ شریانیں ہیں جن سے پانی گزر کر ہماری زمین کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ میں اعلان کرتا پھروں گا کوئی سنے یا نہ سنے، پکارتا رہوں گا۔ انفرادیت ہلاکت ہے، انفرادیت عذاب ہے، اس عذاب سے ہمیں نجات دلانے کے لئے جنہوں نے ایک پیغمبرﷺ عطا کیا ہے، مسلمان کی ساری زندگی اجتماعیزندگی ہے۔ کوئی بھی بچہ جب زمین پر آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک نہیں، تین ہوتی ہے۔ ایک ماں، ایک باپ اور ایک وہ خود (بچہ)۔ معاشرے میں مقام حاصل کرنے اور باعزت زندگی گزارنے کے لئے جب ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا معاہدہ ‘‘نکاح’’ کیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ بھی اجتماعی ہوتا ہے۔ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ولیمے کی حیثیت اجتماعی نہیں ۔ محلے محلے مساجد میں پانچ وقت اکٹھے ہونا۔ شہر کی بڑی بڑی مساجد میں جمعہ کے لئے جمع ہونا۔ رمضان المبارک کے روزے اس طرح رکھنا کہ ایک آواز پر ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے اوپر جائز کھانا پینا حرام کر لیتے ہیں اور دوسری آواز پر سب اجتماعی طور پر کھانے پینے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ عید کی نماز میں لاکھوں فرزندان توحید ایک جگہ جمع ہو کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایک اللہ کی مخلوق اور ایک نبی کی امت ہیں۔ عید ، بقر عید میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر یہ شہادت دیتے ہیں کہ ہماری حیثیت من حیث القوم انفرادی نہیں ہے۔ ہم ایک نہیں پوری امت مسلمہ ایک ہے۔ حج کے ارکان پورے کر کے مسلمان قوم ہر سال یہ اعلان کرتی ہے کہ دین حنیف کے ماننے والے ایک ہی ہیں۔ ان میں کوئی تفرقہ نہیں۔ ان میں کوئی کالا نہیں، کوئی گورا نہیں، کوئی عجمی نہیں اور کوئی عربی نہیں۔ اے لوگو سنو! اگر مسلمان نے انفرادی حیثیت کو ختم نہیں کیا تو پوری قوم، ایک مردہ جسم یا لاش کی طرح ہے۔ جس کے چاروں طرف گدھ، کوے، چیلیں اس انتظار میں ہیں کہ اسکو اپنا لقمۂ تر بنا کر نگل لیں۔ نوچ نوچ کر گوشت کھا جائیں۔ جس طرح میرے اندر کے ‘‘میں’’ نے آگاہی بخشی ہے اسی طرح مسلمان قوم کے اندر ایک اور قوم ہے۔ ایک اور تشخص ہے، ایک روح ہے جو پکار رہی ہے، بتا رہی ہے کہ اگر مسلمان قوم نے انفرادیت کے عذاب سے نجات حاصل کر کے اجتماعیت کو اختیار نہ کیا تو زمین پر اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔ آیئے! عید کی مبارک باد اس طرح قبول کریں کہ ہمارے اندر نفرتوں کے جہنم بجھ جائیں۔ تفرقوں سے ہم آزاد ہو جائیں اور اللہ کی رسی کو متحدہو کر مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ مسلمان قوم کے لئے یہی عید کا پیغام ہے۔ خواجہ شمس الدین عظیمی Like 0 Liked Liked No Comments بچوں کی تربیت بچے, تفریح, جون 2018ء, گرمی بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں کارآمد بنائیں روحانی ڈائجسٹ ⋅ Haziran 2018 گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی بچوں کی آزادی اور بےفکری کے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف مائیں پریشان ہوجاتی ہیں کہ بچے دن بھر کیا کریں گے۔ زیادہ تر بچے اپنی چھٹیاں کھیل کود کر گزار دیتے ہیں، یوں ان کی چھٹیاں بےمصرف گزر جاتی ہیں۔ بھئی! بچے جب دن بھر گھر میں رہیں گے تو شرارتیں بھی کریں گے اور نت نئی فرمائشیں کرکے آپ کو پریشان بھی کریں گے۔ چھٹیوں کے دوران عموماً بچوں میں ایک خاص تبدیلی آجاتی ہے۔ ان کا رویہ کبھی کبھی جارحانہ سا ہوجاتا ہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر ماں کا رویہ بھی جارحانہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کا رویہ ٹھیک نہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ بچوں کی ان چھٹیوں سے پہلے ان کے لیے کچھ پروگرام ترتیب دیں لیں اور چھٹیوں کا آغاز ہوتے ہی ان پروگراموں کو عملی جامہپہنالیں۔ ٹائم ٹیبل بنائیں بچپن ہی سے وقت کی پابندی کا خیال بچوں کے ذہن میں بٹھا دیا جائے، تو وہ اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے، اس لیے جیسے ہی چھٹیاں شروع ہوں، بچوں کا ایک ٹائم ٹیبل بنالیں۔ بعض بچے چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتےہوئے صبح دیر سے سو کر اٹھتے ہیں اور پھر سارا دن سست رہتے ہیں۔ بعض اوقات مائیں بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور یہ کہہ کر بچوں کو دیر تک سونے دیتی ہیں کہ چھٹیاں ہیں، اگر دیر تک سوتے رہیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ کریں، بلکہ بچوں کو صبح سویرے اٹھنے اور ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں سمجھائیں کہ چھٹیوں کا مقصد صرف آرام کرنا ہی نہیں۔ بلکہ کام کرنا بھی ہے۔ ٹائم ٹیبل میں ان کے سونے، جاگنے، کھانے پینے اور کھیل کود وغیرہ مقرر کرکے اندراج کریں۔اس طرح آپ کا بچہ اپنے اس رجحان کو چھٹیوں کے بعد بھی برقرار رکھے گا۔ ہوم ورک بہت سے اسکولز بچوں کو گھر پر کرنے کے لیے ڈھیر سارا کام دے دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بچہ کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتا۔ چھٹیوں میں بچوں کو ہوم ورک بہت زیادہ نہیں دینا چاہیے۔ اصل میں چھٹیوں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی دلچسپیوں سے لطفاندوز ہوسکے۔ بہرحال چھٹیوں میں ہوم ورک ملتا ہے اگر مناسب منصوبہ بندی کرلی جائے تو وقت سے پہلے ہی کام ختم کیا جاسکتا ہے۔ روزانہ دو گھنٹے بچوں کی پڑھائی کے لیے مختص کریں۔ بچوں سے انگلش، اردو اور اپنی مادری زبان کے جملے بنوائیں۔ اس طرح بچوں کی لکھائی بہتر ہوگی۔ روزانہ دو گھنٹے اسکول کا کام کرانے سے بچوں پر بوجھ نہیں پڑے گا، ورنہ بعض بچے ڈیڑھ مہینہ ضائع کردینے کے بعد آخری ہفتے میں ہوم ورک کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس اسباق دہرانے کا بالکل وقت نہیں ہوتا، لہٰذا وہ اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کھیل کود جسمانی ورزش بچوں کے لیے ضروری ہے، لہٰذا روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بچوں کو مل جل کر کھیلنے دیں۔ بعض بچے انڈور گیمز جیسے لوڈو، کیرم وغیرہ پسند کرتے ہیں۔ لڑکیاں زیادہ تر گڑیاں سے کھیلنا پسند کرتی ہیں۔ بعض بچے تنہا اپنے کھلونوں سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں، انہیں تنہائی سے نکال کر ان کے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع فراہم کریں اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ اپنے کھلونے و دیگر چیزیں دوسرے بچوں کے ساتھ شیئر کرنا بھی سیکھیں گے۔ کرکٹ، فٹبال اور سائیکلنگ بچوں کے لیے بہترین کھیل ہیں۔ ویسے زیادہ تر بچے بیشتر وقت ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتے ہیں یا پھر کمپیوٹر گیم کھیل کر بہت سے بچے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو ٹیلی ویژن بھی کچھ دیر کے لیے دیکھنے دیں اور کچھ وقت کمپیوٹر گیمز کے لیے مقرر کردیں لیکن بہت زیادہ دیر تک نہ ٹی وی دیکھیں اور نہ کمپیوٹرگیمزکھیلیں۔ تفریح کچھ والدین گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی چاہتے ہیں کہ بچے ہر وقت پڑھتے رہیں، لیکن چھٹیوں میں بچوں کے لیے صرف لکھنا پڑھنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ پڑھائی کے علاوہ بھی کچھ ایسا تفریحی سامان فراہم کیا جاسکتا ہے، جن سے بچے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہر شخص گھر میں رہتے رہتے اُ کتا جاتا ہے۔ وہ اپنے لیے تفریح طبع کے مختلف سامان تلاش کرتا ہے۔ بچوں کو خاص طورپر گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی چھٹیوں کے دوران اپنے بجٹ کے مطابق بچوں کو مختلف پارکوں، پلے لینڈز، تاریخی مقامات وغیرہ لے کر جائیں، اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کے گھر بھی بچوں کو لے کر جائیں کیونکہ جب لوگوں سے میل ملاپ بڑھے گا تو بچے پر اعتماد ہوں گے۔ اس طرح انہیں بڑوں سے بات کرنے اور ان کے درمیان بیٹھنے کے آداب معلوم ہوں گے۔ بچوں اور بڑوں کے درمیان تعلقاتبڑھیں گے۔ اگر ہوسکے تو ہفتہ دو ہفتہ کے لیے دوسرے شہر جانے کا پروگرام بنالیں، دوسرے شہر جا کر بچے ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ انہیں سیر و تفریح کے بھرپور مواقع فراہم ہوں گے۔ دوسرے شہر کے تفریحی مقامات کی سیر کرنا بھی ایک خوشگوار عمل ہے جو ایک یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے خوشگوار ریت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بچے دوسرے شہروں کے بارے میں جان کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ہم فلاں شہر گئے تھے جہاں ہم نے بہت کچھ دیکھا۔ اگر ہوسکتے تو آپ بھی اس سال کسی تاریخی شہر کی تفریح کا پروگرام بنالیں۔ آرٹس اینڈ کرافٹس بچوں کو پڑھائی، کھیل کود اور تفریح کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی سکھائیں، مثلاً گھر میں موجود بیکار اشیاء سے کوئی کارآمد چیز تیار کرنا، جو ان کی پڑھائی میں بھی مددگار ثابت ہو۔ مثلاً فالتو اور پرانے کاغذات سے نئی ڈرائنگ بک تیار کرنا، گتے کا بکس بنانا، جس میں بچے اپنی کلر پینسلیں اور ربڑ وغیرہ رکھ سکیں۔ بچوں کو تحفے پیک کرنے کے مختلف طریقے بھی سکھائیں، تاکہ اپنے دوستوں کی سالگرہ یا عید کے موقع پر وہ تحفے اپنے ہاتھ سے پیک کرکے دیں۔ بچوں کو پینٹنگ کرنا بھی سکھائیں۔ مثلاً لڑکے اپنی پرانی ٹی شرٹس اور لڑکیاں اپنے سادہ فراک یا رومال وغیرہ پینٹ کرسکتی ہیں۔ شروع شروع میں بچوں سے غلطیاں بھی ہوں گی، مگر آپ انہیں ڈانٹنے کے بجائے پیار سے سمجھائیں، بچے تخلیقی ذہن کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہر کام مختلف انداز سے کریں گے، جس کے نتائج خوشگوار نکلیں گے۔ رنگوں سے کھیلنا بھی بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ بچوں کو رنگوں کا صحیح استعمال کرنا سکھائیں۔ اس سلسلے میں آپ کی پریشانی کو ہم دور کرتے ہیں۔ گھر میں شیشے کی خالی بوتلیں ہوں گی۔ آپ ان بوتلوں پر بچوں سے پینٹنگ کرائیں۔ بچوں کو ڈرائنگ میں بھی مہارت ہوجائے گی اور وہ برش سے رنگ آمیزی کا فن بھی سیکھ جائیں گے۔ آپ کے بچے یقیناً اس فن میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ بوتل پینٹنگ کے لیے چند اشیاء کی ضرورت ہوگی ایک عدد سفید خالی بوتل، ایک گلاس پانی، (یہ برش صاف کرنے کے لیے ہے) پینٹنگ برش نمبر دو۔ ایک عدد چھوٹا تولیہ، ایک عدد سنہری آؤٹ لائنر اور سنہری گلیٹر، سرخ اور نیلے رنگ کا پینٹ۔ بچوں سے کہیں کہ بوتل کو اچھی طرح صابن سے دھو کر خشک کرلیں۔ برش، سرخ رنگ کے پینٹ میں ڈبو کر بوتل پر اپنا پسندیدہ پھول بنائیں۔ چھوٹے اور ہلکے اسٹروک ڈالیں۔ چھوٹی اور بڑی پتیاں بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے، اب دوسرا پھول نیلے رنگ سے اس طرح بنائیں جیسے سرخ پھول بنایا تھا۔ بچے بوتل کی مناسبت سے جتنے پھول پتیاں بنانا چاہیں، بنا سکتے ہیں۔ پھر پھول کے وسط میں ایک ڈاٹ ڈالیں۔ بوتل آدھے گھنٹے خشک کرنے کے لیے رکھ دیں۔ اب ڈاٹ پر سنہری رنگ سے آؤٹ لائن بنائیں، پتیوں پر گلیٹر کا اسٹروک دیں۔ بچے بوتل پر اپنی پسند کا ڈیزائن بنا سکتے ہیں یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنے اچھے پھول پتے رنگوں سے مزین کرسکتےہیں۔ برش سادہ پانی سے دھو کر خشک کرکے ڈبے میں رکھ دیں۔
عن أَبي هريرة ؄عن النبيِّ ﷺقَالَ : إِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ ، فَأكَلَ ، أَوْ شَرِبَ ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ، فَإنَّمَا أطْعَمَهُ اللهُ وَسَقَاهُ۔(ریاض الصالحین:۱۲۴۲) حضرت ابوہریرہ؄سےمنقول ہےکہ نبیٔ کریمﷺنےارشاد فرمایا:تم میں کا کوئی آدمی بھول جائے کہ میراروزہ ہے،اوراس نے بھول سےکچھ کھاپی لیا؛تواپنا روزہ پورا کرلے( مطلب یہ ہےکہ بھول سے کھانے پینے کی وجہ سے روزہ نہیںٹوٹا) دراصل اللہ تعالیٰ نے اس کوکھلایااورپلایاہے۔ نوٹ:اگرکسی کے متعلق آپ کومعلوم ہے کہ اس کاروزہ ہے، اور آپ دیکھ رہےہیں کہ وہ بھول سے کھارہا ہے تو اس کویاد دلانا چاہیےیانہیں؟ تواگرکسی کے متعلق آپ کا یہ خیال ہے کہ وہ روزہ کی وجہ سے کمزور ہوچکا ہے،اس لیےیہ کچھ کھا لے توہی اچھا ہے، تو اس صورت میں آپ یاد نہ دلایئے،بلکہ اس کوکھالینے دیجئے، بعد میں اس سے کہہ دو کہ آپ کاروزہ ہے۔ اوراگر آپ کاخیال یہ ہے کہ اس کوروزہ کی وجہ سے کوئی کمزوری نہیں آئے گی تو شروع ہی میں بتادیجئے تا کہ وہ کھانے سے بچا رہے۔ بحالت ِ روزہ کلی اورناک میں پانی ڈالنا عن لَقِيط بن صَبِرَةَ ؄قَالَ : قُلْتُ : يَا رسول الله، أخْبِرْني عَنِ الوُضُوءِ؟ قَالَ: أسْبغِ الوُضُوءَ ، وَخَلِّلْ بَيْنَ الأَصَابِعِ ، وَبَالِغْ في الاسْتِنْشَاقِ ، إِلاَّ أنْ تَكُونَ صَائِماً۔ (ریاض الصالحین:۱۲۴۳) حضرت لقیط بن صبرہ؄سےمنقول ہے کہ میں نے نبیٔ کریمﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے وضو کے متعلق بتلایئے۔حضوراکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: وضوپورے طورپرکرو،اور انگلیوں کاخلال بھی کرو،اورناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ سے کام لو؛مگر یہ اس وقت جبکہ تم روزہ سے نہ ہو۔ اسباغ کامعنٰی ہے وضومیں تمام اعضاء کوآداب وسنن اور مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے پورے اطمینان سےاچھی طرح سے دھونا۔ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ سے کام لینایعنی جب ناک میںپانی چڑھاؤتو اچھی طرح سانس سےاندر کھینچو تاکہ ناک کابانسےاور نرم حصہ تک پانی پہنچ جائے،مگر یہ اس وقت جبکہ روزہ نہ ہو،اس لیے کہ روزہ کی حالت میں اگراتنا زیادہ کھینچوگےکہ پانی حلق تک پہنچ جائےتوروزہ ٹوٹ جائے گا۔اسی لیے لکھاہےکہ ویسے تو جنابت کےغسل میںغرغرہ کرنا چاہیے،لیکن روزہ کی حالت میں آدمی اگرغسل کرے تو غرغرہ نہ کرے۔ بحالت ِجنابت روزہ شروع کرنا عن عائشة؅ قالت : كَانَ رسول اللهﷺ يُدْرِكُهُ الفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أهْلِهِ ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيَصُومُ ۔(ریاض الصالحین:۱۲۴۴) حضرت عائشہ ؅ فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺکو فجر ایسی حالت میں پالیتی تھی کہ آپ کو غسل کی ضرورت ہوتی تھی( یعنی آپ اپنے اہل سے صحبت کئے ہوئے تھے) اس کے بعد آپ غسل کرتے تھے اورروزہ بھی رکھے ہوئےہوتے تھے۔ صحبت کے سلسلہ میں آپﷺ کامعمول یہ تھاکہ آپ رات کے آخری حصہ میں تہجد سے فارغ ہونے کے بعد صحبت کرتے تھے، اوروہی زیادہ نشاط کاوقت ہواکرتا ہے،پھر لیٹ جاتے تھے ،کبھی ایساہوتا تھا کہ صبحِ صادق ہوئی اورابھی غسل کرنا ہے تو آپ غسل کرتے تھے، اورآپ کاروزہ بھی رہتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں غسل کی حاجت ہوگئی ،یا رات کا غسل باقی تھااورصبحِ صادق کے بعدوہ فرض غسل کیا، تو اس کی وجہ سے روزہ پرکوئی زد نہیںپڑے گی، روزہ اپنی جگہ صحیح ہوجائے گا۔ عن عائشة وأم سلمة ؆قالتا : كَانَ رسول الله ﷺ يُصْبحُ جُنُباً مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ ، ثُمَّ يَصُومُ۔ (ریاض الصالحین: ۱۲۴۵) حضرت عائشہ اورحضرت امِّ سلمہ؆ فرماتی ہیں کہ نبیٔ کریمﷺ بغیراحتلام کےجنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے،پھرروزہ بھی رکھتے تھے۔ بغیر احتلام کامطلب یہ ہےکہ اپنی بیویوں کےساتھ صحبت کے نتیجہ میںآپﷺ کو غسل کی ضرورت پیش آتی تھی اورصبح ہوجاتی تھی توپھر آپﷺ غسل فرماتے تھےاورروزہ بھی رکھتے تھے،معلوم ہواکہ جس کوغسل کی حاجت ہو، توصبحِ صادق کے بعد غسل کرنے کی وجہ سے روزہ پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے، روزہ اپنی جگہ پر صحیح ہوجائے گا۔
بھوپال:اندور سے چالیس کیلومیٹر فاصلے پر واقع ضلع دیواس کے گاؤں سوتار کھیڈا 27سالہ جلیل کو آر ایس ایس کارکنوں نے تیزاب سے حملہ کرکے قتل کردیاتھا جبکہ ان کے والد 65سالہ عبدالرشید کو ڈسمبر30سال2007میں گلا گھونٹ کا قتل کردیاتھا۔ جنوری 11کو زخموں سے جلیل جانبر نہ ہوسکے اور اسپتال میں علاج کے دور دم توڑدیا‘ اس حملے میں ان کے دوبھائی بھی بری طرح زخمی ہوئے جن کاعلاج کیاگیا۔مبینہ طور پرسابق آر ایس ایس پرچارک سنیل جوشی کے قتل کے ردعمل کے طور پر کیاگیا ہے۔ جوشی کو دیواس کے چونا خاندان علاقے سے پکڑ کر 29ڈسمبرسال2007کی رات کو قتل کردیاگیا تھا۔ ہندوتوا تنظیموں نے جوشی کے قتل کو ملک دشمن طاقتوں جیسے سیمی کے کارکنوں کی کارستانی قراردیتے ہوئے ڈسمبر30کو بند اعلان کیا اوراسی روز رشید کے گھر والوں پر حملہ بھی کیاگیا ۔ تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جوشی کا قتل ان کے ہی لوگوں نے کیا ہے۔ این ائی اے اور پولیس نے ملزمین کی دوعلیحدہ فہرست تیار کی او ردونوں میں سادھو پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا نام سرفہرست تھا۔ تاہم مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی اندور بنچ نے دومسلمانوں کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزاء کاٹ رہے پانچ آر ایس ایس کارکنوں کو بری کردیا۔ جولائی 31سال2009میں جب جوشی کا قتل ایک معمہ بنا ہوا تھا دیواس کے سیشن کورٹ نے بھنوار سنگھ25‘مہیپال سنگھ21‘اوم پرکاش 23‘جسونت سنگھ24‘راجپال سنگھ 19کو متوفی کے بیان پر عمر قید کی سزاء سنائی۔آر ایس ایس سے ان کا تعلق ہونے کی وجہہ سے انہیں مورد الزام ٹھرانے کی کوشش پر زوردیتے ہوئے ملزمین نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو اندور بنچ میں چیالنج کیا۔ ملزمین کے وکیل پردیب گپتانے نے سنڈے ایکسپریس سے کہاکہ ’’ متوفی کے بیان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل میں وہ ملوث ہیں کیونکہ وہ اس وقت پچ ماری( مدھیہ پردیش کا پہاڑی علاقے) میں تھے ‘‘ Categories Top Stories, ہندوستان Tags Acid Attack, Acquit, Dewas, Five, Indore, Madhya Pradesh High Court, Murder Case, RSS, Session Court, Two Muslims, Workers
لاہور: معروف اداکار علی ظفر نے کہا ہے کہ وہ حق پر ہیں، ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، میشا شفیع کو ازالہ کرنا ہوگا. تفصیلات کے مطابق علی ظفر پر ہراسگی کا الزام لگانے والی میشا شفیع آج پھر عدالت میں پیش نہیں ہوئیں، علی ظفر اہلیہ کے ساتھ آئے. لاہور کی سول عدالت میں گلوکار علی ظفر کے ہتک عزت کے دعوے کی سماعت ہوئی، دو خاتون گواہان نے بیانات قلم بند کرائے. سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ میشا شفیع لابی کے ساتھ مل کر ذاتی فائدے کے لیے ان کی عزت اچھال رہی ہے، وہ حق پر ہیں، امید ہے عدالت سے انصاف ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ میشا شفیع کی جانب سے دائر جھوٹے کیسز خارج ہو چکے ہیں، وہ ایک سال سے ذہنی اور مالی اذیت سے گزر رہے ہیں، ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا اور وہ ازالہ چاہتے ہیں۔ مزید پڑھیں: سپر اسٹار علی ظفر نے انسان کے سب سے بڑے دشمن کا نام بتا دیا انھوں نے مزید کہا کہ پوری زندگی ملک اور قوم کی خدمت کی، جس کا صلہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بے شمار جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، وہ انصاف کے حصول تک قانونی جنگ جاری رکھیں گے، میشا شفیع کینیڈا کی امیگریشن کے بعد ملالہ یوسف زئی بننا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ میشا شفیع کے ہراسگی کے کیسز خارج کر دیے گئے ہیں، جب کہ علی ظفر کی جانب سے سو کروڑ کا ہتک عزت کا دعویٰ کیا گیا ہے.
’’محکمہ تعلیم حکومت پنجاب ‘‘ قائداعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ پنجاب‘‘نے پرائمری،ایلیمنٹری کلاسز کے امتحانات کے لیے نئی سکیم آف سٹڈ یز متعارف کرائی ہے، جس کے تحت تمام کلاسز کے امتحانات نئے پیپر پیڑن یعنی سولوٹیکسانومی پیڑن کے تحت لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس نئے پیٹرن کے مطابق تیاری کروانے کے لیے اساتذہ کرام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ درسی کتاب سوالات پر انحصار کرنے کی بجائے سبق کی تیاری کرواتے ہوئے کثیر الانتخابی اور اوپن اینڈڈسوالات میں یونی ،ملٹی اور ریلیشنل نیک اپنائیں۔اس نئے نظام میں یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ طلبا وطالبات کی صلاحیتوں کو کی روشنی میں جانچا جائے۔ اس سلسلے میں ’’کرن پبلیکیشنز ‘‘نے قائداعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ پنجاب‘‘کے جاری کردہ ماہوارسلیبس جو کہ لف ہذاہے کے مطابق کرن سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹر ماہرین تعلیم اور تجربہ کار اساتذہ سے تیار کروا کر شائع کیاہے۔ جو مندرجہ ذیل خصوصیات سے مزین ہیں۔ خصوصیات سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹرمیں ہر مضمون کا سلیبس (ماہ مارچ تا اگست) شامل کیا گیا ہے۔ تمام مضامین کا ہوم ورک مواد کی نوعیت اور طوالت کے لحاظ سے ایک ہفتہ، دس روزہ اور پندرہ روزہ دورانیے پر مشتمل ہے۔ ہر مضمون کے سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹرمیں سبق ، مکمل مشق اور سرگرمیوں سے سوالات تیار کیے گئے ہیں اور ہر سوال کے نیچے جواب لکھنے کے لیے خالی جگہ بھی چھوڑی گئی ہے۔ اُردو اور انگلش قواعد و انشا پردازی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ سلیبس کے مطابق درخواستیں، خطوط، کہانیاں، رسیدات اور مضامین بھی ہوم ورک رجسٹر میں شامل کیے گئے ہیں۔ سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹر میں اضافی کثیر الانتخابی سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ سیلف ٹیسٹ پیپرز سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹرکے میں ہر مضمون کے پنجاب ایجوکیشن کمیشن کے پرائمری سٹینڈرز ٹیسٹ کے پیٹرن کے مطابق تین تین سیلف ٹیسٹ پیپرز تیار کیے گئے ہیں۔ درج بالا اسیسمنٹ ٹیسٹ کی بدولت وہ تعلیمی ادارے جو ’’پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’پنجاب ایگزامینیشن کمیشن‘‘ سے وابستہ ہیں، اُن کے لیے کرن سمر وکیشن ہوم ورک رجسٹر انتہائی مفید ثابت ہو گا۔ امید کی جاتی ہے کہ کرن پبلی کیشنز کی یہ کاوش طلبہ و طالبات کو تعطیلاتِ موسم گرما کے دوران میں تعلیمی لحاظ سے مصروف رکھنے میں گریڈ حاصل کریں گے۔ A+سمروکیشن کے بعد ہونے والے فرسٹ ٹرم امتحان میں یقینا
کوئٹہ : ملک دشمنوں کی جانب سے قومی اداروں کو بدنام کرنے والے عناصر کا چہرہ کوئٹہ سنڈیمن سول اسپتال کی رپورٹ نے بے نقاب کردیا، ابراہیم لونی کی موت دل کے عارضے کی وجہ سے ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا ملک دشمن پروپیگنڈہ بے نقاب ہوگیا، ملکی اداروں کو بدنام کرنے کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی۔ پی ٹی ایم قیادت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم بلوچستان کے عہدیدار ابراہیم لونی کی موت کے ذمہ دار پاک فوج اور ریاستی ادارے ہیں، ملک دشمنوں کی اس سازش کا کوئٹہ سنڈیمن سول اسپتال کی رپورٹ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ مزید پڑھیں: مقتول متورکئی کے بھائی نے قتل کی ذمہ داری پی ٹی ایم رہنماؤں پر عائد کردی کوئٹہ سنڈیمن سول اسپتال کی منظرعام پر آنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابراہیم لونی کی موت دل کے عارضے کی وجہ سے ہوئی، ابراہیم لونی کی موت رواں سال دو فروری کو ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ پی ٹی ایم کی سازشیں اور جھوٹ اس سے پہلے بھی بےنقاب ہوچکے ہیں۔
اس ماہ ورلڈ کپ ہر طرف زوروں پر ہے چاہے بوڑھے ہوں یا نوجوان، تمام شہری جوش و خروش سے ان کرکٹ میچوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک طرف سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے نوجوان مرد و خواتین پاک سرزمین سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے تو دوسری جانب سبز و سفید کپڑوں میں ملبوس خواتین مطمئن نظر آرہی تھیں۔ خوش گویا وطن عزیز کا ہر گوشہ امن اور ہم آہنگی کے گیت گا رہا ہے۔ ورلڈ کپ کے میچوں میں پاکستان کی جیت سب کے لیے خوشی کا باعث تھی۔ پندرہ دن قوم کو خوش کرنے والی ہماری ٹیم فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی لیکن قوم کی دعائیں اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ہیں اور رہیں گی۔ اس طرح کے مصروف ماحول میں تعلیمی ادارے کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں اور جب کرکٹ کی بات آتی ہے تو اکثر چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ این ای ڈی یونیورسٹی کی سماجی تقریبات کو جاری رکھتے ہوئے کرکٹ گراؤنڈ میں فلڈ لائٹس کے افتتاح کے موقع پر کرکٹ میچ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں NED گریجویٹ سول انجینئر/ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ٹیم ND المنائی XI کی کپتانی کی۔ دوسری جانب ٹیم NED XI کی قیادت NED یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سوروش حشمت لودھی نے کی۔ اس دوستانہ کرکٹ میچ کا آئیڈیا بھی شیخ جامعہ کا تھا۔ ۔ ٹیم کے کپتان سید مراد علی شاہ کی قیادت میں المنائی کی جانب سے شہاب الدین، پروفیسر ڈاکٹر معز اختر، بابر ثانی، اعجاز قاضی، عبداللہ سلیم آرائیں، شایان لودھی، اسد، حسن، عثمان شہاب، خضر اور میرنے شاندر نے شرکت کی۔ این ای ڈی المنائی الیون۔ کارکردگی کا مظاہرہ کیا. ٹیم کی قیادت این ای ڈی الیون کے کیپٹن پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، رجسٹرار سید غضنفر حسین، ڈائریکٹر سروسز انجینئر روسی الدین، ڈاکٹر فرخ عارف، کنٹرولر اسٹوڈنٹ افیئرز ڈاکٹر علی حسن محمود، ڈپٹی رجسٹرار خالد مخدوم، قائم مقام منیجر اسپورٹس پروفیسر پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین نے کی۔ وائس چانسلر کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ دانش الرحمان خان، ڈائریکٹر اوریک ڈاکٹر ریاض الدین، سینئر آئی ٹی منیجر خرم مسعود، اعتکاف حسین، جنید اور پی اے ٹو وائس چانسلر عمر احمد نے بھی مقابلہ کیا۔ میچ ND کی آفیشل ویب سائٹ سے براہ راست نشر کیا گیا۔ میچ کی میزبانی کے فرائض عمران محمد نے انجام دیئے۔ ’’کھیل‘‘ کو امن کا پیامبر کہا جاتا ہے، اس طرح کھلاڑی امن کے پیامبر بن گئے۔ جی ہاں، کھیلوں کا فروغ کسی بھی ملک کے لیے اعزاز سمجھا جاتا ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں میں اس کا انعقاد ایک تعمیری سرگرمی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی اس سرگرمی کو تعلیم دوست اور درحقیقت ایک سماجی دوستانہ سرگرمی کہنا بے جا نہیں ہوگا اور اسی سماجی دوستی کے نظریے کے تحت این ای ڈی یونیورسٹی اپنے فیکلٹی، عملہ اور گریجویٹ طلباء کے ساتھ اس سرگرمی میں حصہ لیا. مہمان کھلاڑیوں شعیب محمد اور معین خان کی شرکت نے یونیورسٹی کے اس اقدام کو جاری رکھا۔ وائس چانسلر این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر سوروش حشمت لودھی نے کہا کہ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹی کھیلوں کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری یونیورسٹی نے قوم کو نامور کھلاڑی دیئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور ہم انہیں سہولیات فراہم کرتے رہیں گے۔ ہمارے دور میں کھیلوں کی سہولیات کا فقدان تھا۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ یونیورسٹی میں عالمی معیار کی کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 29 گیندوں پر چار چوکوں کی مدد سے 28 رنز بنائے اور دو کھلاڑیوں کو پول کی طرف لے گئے۔ چیف منسٹر کی ٹیم این ای ڈی المنائی الیون نے پہلے کھیلتے ہوئے 124 رنز کا ہدف دیا اور این ای ڈی الیون کو 77 رنز سے شکست دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مین آف دی میچ، بہترین باؤلر بابر ثانی اور بہترین بلے باز اعجاز قاضی رہے۔
انسٹاگرام کی جانب سے صارفین کے لیے زیادہ طویل اسٹوری ویڈیو کلپ اپ لوڈ کرنے کا فیچر متعارف کرایا جارہا ہے۔ میٹا کی زیرملکیت فوٹو شیئرنگ ایپ نے تصدیق کی ہے کہ 15 سیکنڈ کی بجائے صارفین اب 60 سیکنڈ طویل اسٹوری کلپ پوسٹ کرسکیں گے۔ کمپنی نے اس فیچر کی آزمائش 2021 کے آخر میں شروع کی تھی اور اب اسے دنیا بھر کے صارفین کے لیے متعارف کرایا جارہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں انسٹاگرام ریلز کو ٹک ٹاک سے مقابلے میں مشکلات کا سامنا انسٹاگرام میں ری پوسٹ نامی نئے فیچر کی آزمائش انسٹاگرام میں 'ڈو ناٹ انٹرسٹڈ' بٹن سمیت مختلف نئے فیچرز کی آزمائش میٹا کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہم ہمیشہ اسٹوریز کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے مختلف ذرائع پر کام کرتے رہتے ہیں، اب صارفین 60 سیکنڈ طویل اسٹوریز کو پوسٹ کرسکیں گے۔ یہ تبدیلی یقیناً صارفین کو پسند آئے گی کیونکہ ابھی کسی طویل کلپ کرنا ممکن نہیں بلکہ وہ ویڈیو مختلف سلائیڈز میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس تبدیلی کے بعد اسٹوریز اور ریلز لگ بھگ ایک جیسے ہوگئے ہیں کیونکہ دونوں میں اب 60 سیکنڈ کی ویڈیو کو پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ انسٹاگرام میں ویڈیوز کو بہت زیادہ ترجیح دی جارہی ہے۔ کچھ عرصے قبل کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ 15 منٹ سے کم دورانیے کی ویڈیو ریلز کے طور پر شیئر ہوگی۔ انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسری نے 2022 کے لیے ایپ کی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویڈیوز پر ہی سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ انسٹاگرام میں ویڈیو پراڈکٹس کو ریلز کے ارگرد اکٹھا کیا جائے گا اور مختصر ویڈیوز کو ترجیح دی جائے گی۔
منہاج سسٹرز جرمنی کے زیراہتمام میونخ گلڈ باخ میں محفل میلاد منعقد کی گئی، جس میں محترمہ عمرانہ مظفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالم ارواح میں جب حضور نبی مکرم ﷺ کے نور کو بنایا گیا تو عالم ارواح میں سب انبیاء علیھم السلام نے نور محمدی ﷺ کو دیکھا اور نور محمدی پر ایمان لائے۔ انہوں نے کہا کہ نور محمدی کو ماننا ہی حقیقت ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نور محمدی کی نسبت سے ہی کائنات میں اپنی رحمتوں کے نور کو تقسیم کیا۔ اس سے پہلے محفل نعت کا باقاعدہ آغاز محترمہ یاسمین شہزاد نے تلاوت قرآن پاک سے کیا۔ بعد ازاں سارہ شہزاد اور زینب مظفر نے خوبصورت آواز میں حمد باری تعالٰی پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد عظمی طارق اور دیگر خواتین نے اپنے خوبصورت انداز میں بارگاہ رسالت میں ہدیہ نعت پیش کیے۔ پروگرام کے آخر میں تاجدار کائنات پہ سلام پڑھا گیا۔ آخر میں منہاج ویمن لیگ جرمنی کی صدر محترمہ عظمی طارق نے دعا کروائی۔ تبصرہ ہمارے بارے بیرون ملک دنیا کے پانچ براعظموں میں اپنی آواز کو مؤثر انداز میں پہنچانے اور دعوتی و تنظیمی اور انتظامی امور کے لئے نظامت امور خارجہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نظامت امور خارجہ نے عظیم مصطفوی مشن کے فروغ کے لئے بیرون ملک مکینوں سے اپنے رابطوں کو استوار کرنا شروع کیا اور آج الحمدللہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کا عظیم پیغام، دعوتی اور تنظیمی نیٹ ورک دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں فروغ پاچکا ہے۔ 50 ممالک میں منہاج القرآن کی ممبر شپ جبکہ ان میں سے 45 ممالک میں 60 کمیونٹی، ایجوکیشنل اینڈ کلچرل اسلامک سنٹرز کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ جہاں سکول، مسجد، تنظیمی دفاتر، لائبریری کتب و کیسٹ، سیل سنٹرز اور کمیونٹی ہال کی سہولتیں موجود ہیں۔ خبریں ڈنمارک: منہاج سکول آف اسلامک سائنسز کی تقریب تقسیم انعامات برائے درسِ نظامی، شیخ حماد مصطفیٰ کی شرکت اور خطاب
سپریم کورٹ نے اوورسیزپاکستانیوں کی ووٹنگ سے متعلق درخواست پراعتراضات ختم کرتے ہوئے سماعت کیلئے مقررکرنے کا حکم دے دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کی دائر کردہ درخواست پرسماعت کی ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اوورسیزپاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالربھیجتے ہیں، جنہیں کہا گیا آپ ووٹ نہیں دے سکتے، ووٹ ڈالنا ہے تو ٹکٹ لیکر پاکستان آؤ۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہا کہ سمندر پارپاکستانی تو بغیر کسی شرط کے30 ارب ڈالربھیجتے ہیں۔ شیخ رشید احمد کے وکیل نے کہا کہ بظاہرالیکشن کمیشن نے خدشات پرووٹ کاحق ختم کیا ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انتخابات میں جعلی ووٹ اوردھاندلی تو یہاں بھی ہوتی ہے، جس کیخلاف قانون موجود ہے۔ ایکسیڈنٹ ہونے پر موٹروے بند نہیں کی جا سکتی, کیا دھاندلی کے خدشات پرانتخابات کرانا ہی بند کردیے جائیں گے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن دھاندلی روکنے کیلئے اپنے اختیارات استعمال کیوں نہیں کرتا؟ الیکشن کمیشن کے خدشات کودورکیا جانا ضروری ہے تاہم اوورسیزکے ووٹ کا ختم کرنا درست نہیں ہے۔ بنچ نے کہاکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا جائزہ بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر ہی لیں گے، بظاہر اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، عدالت متعدد باراوورسیزپاکستانیوں کے حقوق سے متعلق فیصلے دے چکی ہے۔ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ اسمبلی بنیادی حقوق کے حوالے سے ترامیم کرنے کی مجازہے؟اسمبلی میں اس وقت ارکان کی تعداد بہت کم ہے۔ پوری دنیا میں ماڈرن ڈیوائسز استعمال ہوتی ہیں، ہرکام میں جدید آلات استعمال ہوتے ہیں توووٹنگ میں کیوں نہیں؟ سپریم کورٹ نےشیخ رشید کی درخواست پر اعتراضات ختم کرتے ہوئے سماعت کیلئے مقررکرنے کا حکم دے دیا۔ دوسری جانب سماعت کے لیے سپریم کورٹ آنے والے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑ چکی ہے، مسلم لیگ ن اور ش آمنے سامنے آنے والی ہیں، 13 جماعتیں عمران خان کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں، اسی سال الیکشن ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ عدلیہ بھی محسوس کرتی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ہونا چاہئے، یہ حق ملنے سے آئندہ الیکشن کا نتیجہ اہم ہو گا،اس ملک میں دہشتگردی کو گلی ڈنڈے کا کھیل بنا دیا گیا ہے،جن جگہوں پرسیلاب نہیں آیا وہاں شہباز شریف کا عذاب آیا ہوا ہے۔
ایک شخص کی اولاد نہیں اوراس نے لاوارث بچوں کے ادارے سے ایک بچہ حاصل کرکے اس کی پرورش کی اوراسے تعلیم دلائي اوراس کے ساتھ حسن سلوک کیا ، اس کوشش اوراپنی جانب سے مہربانی کرتے ہوئے اس نے سرکاری اوراق میں بچہ اپنے نام سے اندراج کروایا ، اب اس کا حکم کیا ہوگا ؟ جواب کا متن الحمد للہ. شرعاجائز نہيں کہ کسی لاوارث بچے کولے پالک بنانے والا اپنے نسب میں شامل کرے اوراس بچے کو اس کے بیٹے اوراسے اس کے والد کانام دیا جائے اوراس کے قبیلے کی طرف منسوب کیا جائے ، جیسا کہ سوال میں وارد ہے ، اس لیے کہ اس میں دروغ بیانی اوردھوکہ اورنسب ناموں کا اختلاط پایا جاتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ عزتوں کو بھی خطرہ ہے ۔ اوراس میں وراثت کی تقسیم میں بھی تغییر پایا جاتا ہے کہ بعض مستحقین کو محروم اورغیرمستحق کو مستحق قرار دیا جاتا ہے اوراسی طرح حرام کوحلال اورحلال چيز کوحرام کرنا پایاجاتا ہے ، مثلا نکاح اورخلوت وغیرہ اوراسی طرح دوسری حرمتوں کوتوڑا جاتا اورحدوداللہ سے تجاوز کیا جاتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے بچے کی والدکے علاوہ کسی اورکی طرف نسبت کرنا حرام قراردیتے ہوئے فرمایا : { اورتمہارے لے پالک لڑکوں کوتمہارے حقیقی بیٹے نہيں بنایا ہے ، یہ توتمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں ، اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے ، اوروہ سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔ منہ بولے بیٹوں کوان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک مکمل انصاف تویہی ہے ، وہ تمہارے دینی بھائي اوردوست ہیں تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئي گناہ نہيں ، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ، اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 4-5 ) ۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ علم رکھتے ہوئے کسی اورکی طرف نسبت کی تو اس پر جنت حرام ہے ) اسے بخاری اورمسلم اور امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے : ( جس نے بھی اپنے والد کے علاوہ کسی اورکی نسبت کا دعوی کیا یا اپنے اولیاء کے علاوہ کسی اورکی طرف منسوب ہوا اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالی کی لعنت ہے ) ۔ لھذا فتوی لینے والے کا مذکورہ نام کے بارہ میں اجتھاد غلط ہے اوراس پرجمے رہنا جائز نہيں بلکہ اسے اس کی حرمت میں وارد شدہ نصوص کی بنا پر بدلنا اورصحیح کرنا ضروری ہے ، ان نصوص اوردلائل کواوپربیان کیا جاچکا ہے ۔ لیکن لاوارث بچے پر مہربانی اوراس کی حسن تربیت اوراس پراحسان کرنا ایک نیکی اوراچھا کام ہے ، اورشریعت اسلامیہ نے ایسا کرنے کی ترغیب بھی دلائي ہے ۔
انسٹاگرام اکاؤنٹ اپنے منفرد کام کی تصاویر شیئر کرنے والی 28 سالہ قیژن لیم جمالیات کو اپناتے ہوئے ایسا آرٹ تیار کرتی ہیں جو دلخراش ہونے کے باوجود بھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ نوجوان مصورہ مٹی سے بنے مجسموں کا ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا آرٹ تخلیق کرتی ہیں جسے کھایا بھی جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میرا آرٹ ہمیشہ اُس خیال کے بارے میں ہے جو لوگوں میں روایتی طور پر موجود ہے جس میں مشکل پیار، سیاہ موڑ اور گہرا عنصر پایا جاتا ہے‘۔ View this post on Instagram 🥢 A post shared by QIXUAN LIM (@qimmyshimmy) on Aug 16, 2019 at 11:50pm PDT قیژن کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس جمالیات کے حوالے سے اور بھی دلچسپ خیالات ہیں جن پر عمل کر کے میں اپنے آرٹ میں مزید خوبصورتی لانا چاہتی ہوں‘۔ View this post on Instagram Friends in #Tokyo, it is the last weekend to see my maki babies at @vanillagallery_jp ✨Please go say hi, and kiss them on their tiny little cheeks — For sale enquiries, please go directly to the gallery for more details! A post shared by QIXUAN LIM (@qimmyshimmy) on Dec 6, 2019 at 4:07pm PST نوجوان مصورہ تعلیم نیدرلینڈ سے حاصل کی اور پھر انہیں وہاں ایک کمپنی میں معلوماتی ڈیزائنر (انفارمیشن ڈیزائنر) کے عہدے پر ملازمت بھی ملی جسے وہ ختم کر کے اب دوبارہ سنگاپور آگئی ہیں، انہوں نے 2017 میں پہلی بار اپنا شاہکار متعارف کرایا تھا۔ انسٹاگرام پر منفرد کام شیئر کرنے کی وجہ سے انہیں ایک لاکھ سے زائد صارفین فالو کرتے ہیں اور وہ کام کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ View this post on Instagram Saying goodbye to this baby today 💕 A post shared by QIXUAN LIM (@qimmyshimmy) on May 13, 2019 at 11:08pm PDT مصوّرہ کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس باقاعدہ کوئی اسٹوڈیو موجود نہیں ہے، وہ آرٹ تیار کرنے کا کام اپنے کمرے میں کرتی اور باورچی خانے میں رکھے اوون کی مدد بھی حاصل کرتی ہیں۔ View this post on Instagram My pricelist for 一点心 A Little Heart is out! To all interested in acquiring my works from this little collection, please head over directly to @beinartgallery for sale enquiries! 🥟 (will also be posting a preview link up in my IG stories!)
کراچی والوں کے لیے بجلی پھر مہنگی کردی گئی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں 51 پیسے اضافے کی منظوری دے دی۔ ای سی سی اجلاس کی صدارت وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کی۔ جس میں ملک بھر میں یکساں ٹیرف کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ ایف بی آر کی کراچی سے ٹیکس وصولی اور بڑھ گئی پچھلے سال اسی مدت میں کراچی سے 371 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا۔ ای سی سی کے اجلاس میں 50 کلو گرام درآمدی یوریا بوری کی ڈیلر ٹرانسفر پرائس کی منظوری بھی دی گئی، 50 کلو درآمدی یوریا کے ڈیلر ٹرانسفر کی قیمت 2150 روپے مقرر کردی گئی۔
چلی: بسا اوقات کائنات کے عظیم اجرامِ فلکی کی غیرمعمولی تصاویر بھی خبر میں جگہ بنالیتی ہے۔ ایسی ہی ایک سو میگا پکسل کی تصویر مقبول ہے جس میں دو کہکشاؤں کے باہمی ادغام کو بہت تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے۔ چلی میں ڈارک انرجی دوربین پر لگے حساس کیمرے نے یہ غیرمعمولی کائناتی تماشہ ہمارے لئے ہی عکسبند کیا ہے جس کی تفصیل کو زوم کرکے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یوں اس شاندارمنظر کی جزیات کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر میں دو بڑی کہکشاؤں این جی سی 1512 اوراین جی سی 1510 کو ایک دوسرے سے ملتے یا ٹکراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسی تصاویر ہمیشہ ہی نایاب رہی ہیں کیونکہ کہکشاؤں کے ادغام کو اب تک سمجھا نہیں گیا ہے۔ لیکن خیال ہے کہ اس سے مزید بڑی کہکشائیں بنتی ہیں اور ساتھ ہی نت نئے ستارے وجود میں آتے ہیں اور یوں کائنات کا دامن پھیلتا رہتا ہے۔ چلی میں واقع وکٹربلانکو کی چار میٹر قطرپر نصب ڈارک انرجی کیمرے (ڈی کیم) سے یہ تصویراتاری گئی ہے۔ یہ دونوں کہکشائیں زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے جس میں بڑی کہکشاں مرغولے(اسپائرل) شکل کی ہے جبکہ دوسری چھوٹی کہکشاں اس کی جانب لپک رہی ہے۔ واضح رہے کہ دونوں کہکشائیں صرف جنوبی نصف کرے سے ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہم اس واقعے کی بہت پرانی تصویر دیکھ رہے ہیں اور خیال ہے کہ دونوں کا تصادم 40 کروڑ سال پہلے شروع ہوا ہوگا اور کوئی نہیں جانتا کہ آج وہاں کا منظر کیسا ہوسکتا ہے۔ تصویر کے دائیں جانب بڑی کہکشاں کا بازو چھوٹی کہکشاں کو اپنے قریب کھینچ رہا ہے۔ پھر دونوں اجرام کے درمیان لاتعداد ستاروں کی سفید دھواں دار لکیریں بھی موجود ہیں۔ یوں دونوں کہکشاؤں کے درمیان رابطہ پیدا ہوچکا ہے۔ فلکیات داں کہتے ہیں کہ خود ہماری ملکی وے کہکشاں بھی دو یا اس سے زائد کہکشاؤں کے ٹکرانے یا ملنے سے بنی ہے۔ اس کی ایک جھلک اس تصویر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے جس میں این جی سی 1512 ستاروں کی دھند جیسی شکل نمایاں ہے اور مادہ بھی نمایاں ہے۔ خیال ہے کہ ہمارے کہکشاں جو ساڑھے تیرہ ارب سال پرانی ہے کوئی نو ارب سال قبل گایا اینسلیڈس سوسیج نامی کہکشاں کے ٹکراؤ سے بنی تھی۔ خیال ہے کہ ریکارڈ پر یہ سب سے بڑا کائناتی تصادم بھی ہے۔
ز۝۱رمضان میں اعتکاف کی حالت میں نہانے کی حاجت ہوگئی- ٹھنڈے پانی سے نہانے میں طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہے- تو معتکف مسجد کے صحن میں پانی گرم کرنے تک ٹھہر سکتاہے؟۝۲ معتکف نے مسجد سے باہر کسی سے بات کرلی، یا سلام کا جواب دیا، تو کیا اعتکاف فاسد ہو گیا؟ ۝۳ معتکف اپنے کپڑے دھو سکتا ہے یا نہیں؟۝۴ معتکف جمعے کا غسل کر سکتا ہے یا نہیں؟ ل۝۱ دوسرے کو پانی گرم کرنے کے لیے کہہ دے اور وہاں تک خود تیمم کرکے مسجد میں ٹھہرا رہے۝۲ چلتے چلتے بات کرلی تو اعتکاف نہیں ٹوٹا، اگر اس غرض سے ٹھہر گیا تو ٹوٹ جاوے گا۝۳ کپڑا ناپاک ہوگیا ہوتو دھو کر پاک کرسکتا ہے۝۴ غسلِ جمعہ کے لیے مسجد سے باہر نہیں نکل سکتا البتہ جمعے سے قبل ضرورتِ شرعیہ وطبعیہ کے لیے باہر گیا تو واپسی میں غسلِ جمعہ کر سکتا ہے۔ جلدی غسل سے فارغ ہوکر مسجد آجائے۔ غسل/بیڑی یا جنازےمیں شرکت کے لیے نکلنا ز۝۱اعتکاف کی حالت میں غسل کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟ یہ جو مشہور ہے کہ استنجا کے بہانے سے جاکر غسل کرکے آئے، درست ہے یا نہیں؟ ۝۲یہ نیت کرکے اعتکاف کرے کہ اگر کوئی رشتے دار کا انتقال ہو تو میں جنازے میں شریک ہوںگا-وہ رشتہ دار اسی گاؤں میں یا دوسری جگہ رہتا ہو- تو جاسکتا ہےیا نہیں؟۝۳بیڑی، سگریٹ پینے کے لیے جانے کے متعلق کیا حکم ہے؟ ل۝۱حالتِ اعتکاف میں فرض غسل کے لیے نکل سکتا ہے۔ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنے کے واسطے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔ اگر چلا گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ غسلِ جمعہ کرنے کے لیے بھی معتکف کو مسجد سے باہر جانا جائز نہیں، البتہ غسلِ جمعہ سے قبل ضرورتِ طبعیہ مثلاً پیشاب، پاخانےکے لیے باہر گیا تو واپسی میں غسل کرسکتا ہے،لیکن جلدی غسل سے فارغ ہوکر مسجد میں آجائے۔ (فتاویٰ محمودیہ جدید۱۰؍۲۸۱)۝۲اس نیت سے کوئی فرق نہیں پڑے گااور جنازے میں شرکت کے لیے جائےگا تو اعتکاف فاسد ہوجاوے گا،البتہ نذر کے اعتکاف میں بوقتِ نذر یہ استثنا کیا ہو تو معتبر ہوگا۔ لوشرط وقت النذر أن یخرج لعیادة مریض وصلاةجنازة وحضور مجلس علم جاز.۔(درمختار مع رد الحتار۲؍۴۴۸) ۝۳اگر مجبور ہوجائے اور نہیں پینے کی صورت میں طبیعت خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہو تو نکل سکتا ہے، ورنہ نہیں۔(فتاویٰ محمودیہ جدید ۱۰؍۲۳۹) تراویح کے لیے مسجد سے باہر جانا زفتاوی محمودیہ ۱۰/۱۶۰ میں لکھا ہے- معتکف کو خارج از مسجد تراویح کی نماز کے لیے جانا جائز نہیں ہے-زید معتکف ہے اور تراویح کے لیے خارج از مسجد آتا ہے (جو کہ مسجد کا صحن بھی نہیں ہے)، ایسی صورت میں زید کا اعتکاف فاسد ہوا یا نہیں؟ اس کی قضا کرنی پڑے گی یا نہیں؟ لصورتِ مسئولہ میں زید کا اعتکاف فاسد ہوگیا۔ اگر اعتکاف مسنون ہے تو اس دن کی قضا روزے سمیت لازم ہے، البتہ احتیاطاً رمضان کے بعد دس دن روزے سمیت قضا کرے تو بہتر ہے۔ دورانِ اعتکاف مریضوں کو دیکھنا/ ووٹ دینے یا افسر کی طلب پر جانا زفتاویٰ محمودیہ ۱۲؍۱۵۰ مسائل اعتکاف میں نمبر ۵۴ یہ ہے حکیم صاحب معتکف ہیں، لیکن مسجد میں روزانہ صبح ایک گھنٹے کے قریب مریضوں کو دیکھ کر نسخے لکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت نے فسادِ اعتکاف کا حکم لگایا ہے، جب کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۶؍۵۰۱ خیر الفتاویٰ ۴؍۱۴۵ میں عدمِ فساد مرقوم ہے۔ آپ کے نزدیک جو صحیح ہو تحریر فرمائیں۔ اسی طرح معتکف کا ووٹ کے لیے اور حاکم وافسر کے طلب پر مسجد سے نکلنا مفسد ہے یا نہیں؟ لحکیم صاحب کے دورانِ اعتکاف مسجد میں روزانہ صبح ایک گھنٹے کے قریب مریضوں کو دیکھ کر نسخہ لکھنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوناچاہیے، اس سلسلےمیں فتاویٰ دارالعلوم اور خیر الفتاویٰ کے جوابات ہی صحیح اور درست ہیں۔ووٹ دینے کے لیے اوراسی طرح حاکم اور افسر کے طلب کرنے پر مسجد سے نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔٭٭
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے جمعہ کے روز خود کو حکومت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے "غیر ملکی سازش” کی تفصیلات پر مشتمل "خط” کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی۔ اپنے بیان میں جنرل خان نے کہا کہ کمیشن موجودہ حکومت کی مدت سے آگے نہیں چل سکتا، جس کے دو دن میں ختم ہونے کی امید تھی۔ مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط کی تحقیقات کے لیے پی ٹی آئی حکومت کے کمیشن کی قیادت ریٹائرڈ فوجی افسر کریں گے، فواد انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ – کل ہونے والی ہے – ایک نئی حکومت کو اقتدار میں لائے گی، جو "کمیشن کو تحلیل کر دے گی یا اس کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی، اور اسے غیر فعال کر دے گی”۔ ان کا یہ بیان وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جب ریٹائرڈ جنرل کی سربراہی میں کمیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام کے پیچھے تمام "کرداروں” کی تحقیقات کرے گا اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کرے گا۔ "یہ [the commission] یہ دیکھیں گے کہ آیا کمیونیک موجود ہے اور آیا اس میں حکومت کی تبدیلی کا خطرہ ہے۔ کمیشن ان مقامی ہینڈلرز کا بھی انکشاف کرے گا جو اس غیر ملکی سازش کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوئے تھے،‘‘ وزیر نے کہا تھا۔ "یقیناً، اپوزیشن کا ہر کوئی اس میں شامل نہیں تھا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو جانتے تھے کہ سازش کیا ہے، اس کے پیچھے کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن 90 دنوں کے اندر مذکورہ نکات کا جائزہ لے گا اور اپنی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے گا۔
حضر ت ابن سیر ین رحمتہ اللہ تعا لیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے خوب میں دیکھا کہ باز پکڑا ہے یا اس کو کسی نے دیا ہے تو وہ باز مطیع(وہ باز مطیع ہے:وہ باز فرمانبر دار اور پالتو ہے) ہے ۔ یعنی ہاتھ پربیٹھا ہے تو یہ عز ت اور مرتبے اور قد ر کی زیادتی کی دلیل ہے ۔ اور اگر دیکھے کہ سفید باز اس کے ہاتھ پربیٹھا ہے تو دلیل ہے کہ بادشاہ سے عزت اور مر تبہ پائے گا۔اور اگر دیکھے کہ باز اس کے ہاتھ سے گر ااور مر گیا ہے تو دلیل ہے کہ مرتبے سے گر کر تنگ دست ہوگا۔ حضرت ابر اہیم کرمانی رحمتہ اللہ تعا لیٰ علیہ نے فر مایا ہے کہ اگر خواب میں سفید باز پایا ہے۔ اگر بادشاہی ملا زمین (بادشاہی ملازمین میں سے ہے : بادشاہی نو کر وں میں سے ہے) میں سے ہے تو بادشاہ سے ولایت اور عز ت پائے گا۔ اور اگر رعیت مین سے ہے تو بہت ساما ل پائے گا۔ اور اگر دیکھے کہ اس کو کسی نے بازبخشا ہے تودلیل ہے کہ اس کے فرزند صا حب (فرزند صاحب مرتبہ حسین و جمیل آئے گا: خو بصورت اقبال والا لڑاکا ہو گا) مرتبہ اور حسین و جمیل ہوں گے۔اور اگر دیکھے کہ باز چھت پر بیٹھا ہے تو دلیل ہے کہ باز بھا گا ہے اور گھر میں گیا ہے اور عورت کے دامن کے نیچے چھپ گیا ہے تو دلیل ہے کہ اس کی عور ت کے ہا ں خو بصو رت لڑکا پید ا ہو گا۔ اور اگر دیکھے کہ باز کے پاؤں میں سو نے چاند ی کی جھانجر ہے تو دلیل ہے اس کی عورت کے ہاں لڑکی پید ا ہو گی۔ حضرت جابر مغر بی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ اس نے باز پایا ہے تو دلیل ہے کہ اگر یہ شخص بادشاہی لوگو ں میں سے ہے تو اپنے کام سے معز ول (معز ول ہو گا : ملازمت سے علیحد ہ کر دیا جائے گا) اور اگر ان میں سے نہیں ہے تو اہل خا نہ کی طر ف سے رنج و غم پائے گا۔اور اگر دیکھے کہ بازواپس آیا او ر اس کے ہاتھ پر بیٹھا تو دلیل ہے کہ ملک اور قد ر ت پائے گا۔ حضر ت جعفر صا دق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ اگر خو اب میں دیکھے کہ با ز اس کو مطیع ہے تو اس کی تاویل پانچ وجہ پر ہے ۔ اول ، تا بعد اری ۔دوم ، خو شی ، سوم ، بشار ت ۔ چہارم ،فرمان ۔ پنجم ، مراد کا پانا ۔ اور مال نقدر و قیمت باز پانا ۔ خا ص کر اگر باز سفید اور مطیع ہے تو دو ہز ار درہم ملیں گے ۔ اور اگر مطیع نہیں ہے تو اس کی تاویل چار وجہ پر ہے ۔ اول ، بادشاہ ظالم ۔ دوم، حا کم جو بد ی کی طر ف مائل ہو گا۔سو م ، خیا نت کرنے والا فقیہ ۔ چہارم ، فرزند جو مال باپ کانافرمان ہو گا۔
اقوام متحدہ سے وابستہ قرض دہندہ نے تنازعہ کے دوران یوکرین کی جی ڈی پی میں تقریباً نصف اور روس میں 11.2 فیصد کمی دیکھی ہے۔ ورلڈ بینک نے روس-یوکرین تنازعہ کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کا اندازہ لگایا ہے، دونوں ممالک میں دو ہندسوں کی جی ڈی پی میں کمی اور ہمسایہ ممالک بیلاروس اور مالڈووا میں کساد بازاری کی پیش گوئی کی ہے۔ یوکرین سب سے زیادہ متاثر ہوگا، 2022 میں اس کی معیشت 45.1 فیصد سکڑ جائے گی، اقوام متحدہ سے وابستہ بینک نے اتوار کو خطے کے لیے اپنی تازہ ترین پیش گوئی میں کہا۔ روس، جسے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے غیر معمولی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے، جی ڈی پی میں اندازاً 11.2 فیصد کمی دیکھے گا۔ واشنگٹن میں قائم بینک نے کہا کہ خطے کے کچھ ممالک اپنے موجودہ قرضوں میں نادہندہ ہونے سے بچنے کے لیے بیرونی مدد لینے پر مجبور ہوں گے۔ قرض دہندہ نے کہا کہ یورپ اور وسطی ایشیا کی ابھرتی ہوئی منڈیوں کو اس سال 4.1 فیصد کے معاشی سکڑاؤ کا سامنا کرنا پڑے گا، اس نے جی ڈی پی کی اوسطاً 3 فیصد شرح نمو کے تنازعات سے پہلے کی پیش گوئی کو تبدیل کیا۔ جنگ انسانی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے اور دونوں ممالک میں معاشی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا. اس نے پیشن گوئی کی۔ "یورپ اور وسطی ایشیا کے خطے اور باقی دنیا میں نمایاں اقتصادی نقصانات۔” بینک نے کہا کہ یوکرین کے دو قریبی پڑوسیوں کی طرح، کرغزستان اور تاجکستان اس سال کساد بازاری کی طرف بڑھیں گے کیونکہ بحران کے معاشی اثرات ختم ہو جائیں گے۔ خطے کا تخمینہ اقتصادی سنکچن 2020 میں جی ڈی پی میں ہونے والی کمی سے دوگنا شدید ہو گا، جب CoVID-19 وبائی امراض نے کاروباری سرگرمیوں میں خلل ڈالا تھا۔ نظرثانی شدہ پیشین گوئی کے مطابق، روس مخالف پابندیوں کے اثرات پوری عالمی معیشت پر پھیلیں گے اور سابق سوویت جمہوریہ کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچے گا کیونکہ تجارت میں خلل پڑ رہا ہے۔ "جنگ کے اثرات خطے کے مضبوط تجارتی، مالیاتی اور نقل مکانی کے روابط پر پڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کو کافی اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔” بینک نے کہا. قرض دہندہ نے بھی پیشکش کی "منزل منظرنامہ” جس میں تنازعہ آگے بڑھتا ہے، مزید پابندیاں عائد ہوتی ہیں اور اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں، روس کی جی ڈی پی ایک اندازے کے مطابق 20 فیصد گر جائے گی، جب کہ یوکرین کی شرح 75 فیصد تک گر جائے گی۔ بینک نے گزشتہ ماہ یوکرین کے لیے 925 ملین ڈالر سے زیادہ کی اضافی مالی امداد کا اعلان کیا تاکہ انسانی امداد فراہم کرنے میں مدد کی جا سکے۔ جمعہ کے روز، قرض دہندہ نے عالمی خوراک کے بحران سے خبردار کیا کیونکہ درجنوں ممالک اپنی سپلائی کو محفوظ رکھنے کے لیے برآمدی پابندیاں لگاتے ہیں۔ ماسکو نے فروری کے آخر میں یوکرین میں فوج بھیجی، کیف کی جانب سے 2014 میں منسک کے معاہدوں کی شرائط پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی، اور روس کی جانب سے ڈونیٹسک اور لوگانسک میں ڈون باس جمہوریہ کو حتمی طور پر تسلیم کرنے کے بعد۔ جرمن اور فرانسیسی بروکرڈ پروٹوکول یوکرائنی ریاست کے اندر ان علاقوں کی حیثیت کو معمول پر لانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ روس نے اب یوکرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ باضابطہ طور پر خود کو ایک غیر جانبدار ملک قرار دے جو کبھی بھی امریکی قیادت میں نیٹو کے فوجی بلاک میں شامل نہیں ہوگا۔ کیف کا اصرار ہے کہ روسی حملہ مکمل طور پر بلا اشتعال تھا اور اس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے دونوں جمہوریہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا AndroidPornGame? AndroidPornGame میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے AndroidPornGame دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے AndroidPornGame? AndroidPornGame کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر AndroidPornGame, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر AndroidPornGame? آپ ادا کر سکتے ہیں AndroidPornGame دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, AndroidPornGame بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ AndroidPornGame کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, AndroidPornGame فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے AndroidPornGame پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے AndroidPornGame? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے AndroidPornGame کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
Chandigarh: Indian Muslims offer prayers during Eid al- Adha outside the mosque in sector 20 in Chandigarh on Tuesday September 13, 2016.photo Dinesh Bhardwaj پالیٹکس مسلمانوں کے یہ لال بجھکڑ By admin On مئی 3, 2018 1,075 Share ہمارے یہاں لال بجھکڑوں کی کمی نہیں۔واقعتاً صورتحال ایسی ہے کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔۴ سال میں بی جے پی نے مسلمانوں کو اس طرح دھویا ہے کہ کم وبیش ہر لیڈر عقلی اعتبار سے دیوالیہ ہو گیا ہے۔اب مسلمانوں کا ہر لیڈر دوبارہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر آمادہ ہو گیا ہے جس کے سبب نوبت یہاں تک پہونچی ہے۔یہ ہے برہمنوں کا جادو۔ آجکل خبر گرم ہے کہ بعد از خرابیء بسیار ’ہمدرد قوم ،خادم ملت‘محترم جناب سلمان خورشید صاحب کو اپنے اور کانگریس کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے نظر آگئے ہیں۔یہ بہر حال تحقیق کا موضوع رہے گا کہ یہ خون کے دھبے کن پاک نفوس کے تھے جو تیسری نسل کے ہاتھوں پرنظر بھی آئے ہیں اورزبان خنجر کے چپ رہنے کے باوجود آستین کے لہو کی صورت جنھوں نے پکارا بھی ہے۔دراصل ہم نہیں سمجھتے کہ مسلم لیڈروں کو مسلمانوں کے خون کے دھبے اپنے ہاتھوں پر نظر آتے ہوں۔مگر یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں نظر بھی آتے ہوں راتوں کو خوابوں میں ڈراتے بھی ہوں مگر سب سے بڑا ڈر خدا کا ۔ارے نہیں جی ،پارٹی ہائی کمان کا ۔خدا تو جب سزا دے گا ،تب دے گاپارٹی ہائی کمان تو بالکل نقدا نقد سزا دیگی۔اب لیجئے ،سلمان خورشید کو ہی دیکھ لیجئے۔اخبارات میں سب سے پہلے تو یہ خبر آئی کہ پارٹی نے فوراً اپنے آپ کو ان کے بیان سے الگ کر لیا۔یہ وہ کم سے کم قدم ہے جو پارٹی فوراً اٹھا سکتی تھی ۔بعد میں جو تبصرے نظر سے گزرے وہ یہ کہتے ہیں کہ اب کانگریس میں جناب سلمان خورشید کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی۔یا تو انھیں پارٹی چھوڑنا ہوگی یا انھیں حاشیے پر ڈال دیا جائے گا۔ہم خود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سلمان خورشید نے یہ کارنامہ بغیر سوچے سمجھے تو انجام نہ دیا ہوگا؟اتنے بڑے سیاستداں نے انجام تو پہلے سوچا ہوگا۔یقیناً اب وہ کوئی اور در دیکھیں گے ۔مگر سیاستداں دنیا کی وہ مخلوق ہے جس کے تعلق سے کچھ بھی کہنا ایک مشکل امر ہے۔اگرہماری مانیں تو انھیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جانا چاہئے اور اللہ اللہ کرنا چاہئے۔کیونکہ وطن عزیز میں کوئی پارٹی ایسی دودھ کی دھلی نہیں جس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے داغ نہ ہوں ۔کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا ہونا ممکن ہے ۔مگر سلمان خورشید جیسابڑا لیڈر اتنی چھوٹی پارٹی میں سمائے گا کیسے؟دوسری طرف سیاست وہ سانپ ہے جسے پکڑ کر چھوڑا جائے تو عموماً وہ چھوڑنے والے کو ڈس لیتا ہے ۔بلکہ لالو یادو جیسے بھی کچھ بد نصیب ہیں جنھیں بغیر چھوڑے بھی ڈس لیا جاتا ہے۔ سلمان خورشید کو معلوم ہونا چاہئے کہ کانگریس کلچر کیا ہے ؟وہ تو خاندانی کانگریسی ہیں۔ان کے والد کانگریس کے مہارتھی رہے ہونگے ان کے نانا صدر جمہوریہء ہند اور بڑی توپ رہے ہونگے ۔کچھ بھی ہو مگر ہیں تو مسلمان ۔حیرت ہے کہ اتنے بڑے کانگریسیوں کی اولاد اور کانگریس کلچر سے نابلد ۔ارے، کانگریس میں تو سنیل دت جیسے ہندو کو برداشت نہ کیا گیا ۔سنیل دت کا قصور کیا تھا؟صرف اتنا کہ ۹۲؍۹۳کے ممبئی فسادات میں خود انکی پارٹی کانگریس کی انتظامیہ ان کے حلقہء انتخاب میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ریلیف کے کام میں مزاحم ہو رہی تھی۔پنجابی مرد آدمی تھا ۔یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اگر میں اپنے علاقے کے لوگوں میں ریلیف کا کام نہیں کر سکتا تو مجھے ایم پی بنے رہنے کا حق نہیں ۔اور انھوں نے یہ اس وقت کیا جب بڑ ے بڑے ایمان والے چوڑیاں پہنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔سنیل دت کی جراء ت رندانہ کا نتیجہ کیا نکلا؟اس کے لڑکے کو ایک معمولی کیس میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔اسے ضمانت تک کسی کانگریسی کی مدد سے نہ ملی۔بلکہ ضمانت کے لئے سنیل دت کو بال ٹھاکرے کے سامنے جھکنا پڑا۔مگر نہ کسی کانگریسی کو شرم آئی نہ ہائی کمان کو غیرت۔یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں جب سنجے دت انتہائی لا ابالی اور بچکانہ طرز عمل کا حامل شخص تھا۔اور اسی زمانے میں بڑے بڑے سیاستداں داؤد ابراہیم کے حلقہ بگوش تھے۔یہاں تک کہ اس کے آدمیوں کے فرار کروانے میں بلکہ لانے لے جانے میں بڑے فخر سے اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔یہ کوئی خفیہ معلومات نہیں۔انٹرنیٹ پر تمام تفصیلات نام اور پتوں کے ساتھ دستیاب ہیں۔مگر پکڑا گیا بے چارہ سنجے دت،کیوں ؟ کیونکہ اس کے باپ کو مسلمانوں کی مدد کرنے کی کھجلی تھی؟ بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔کانگریس میں ایک بڑے دگج مسلم لیڈر ہوا کرتے تھے عبدالرحمٰن انتولے۔ان کے سر یہ سہرا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد جب کانگریس کے بڑے بڑے مہارتھی اندرا گاندھی کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یہ اندرا گاندھی کا دامن پکڑے کھڑے تھے۔مگر صلہ کیا ملا سب سے پہلے اندرا گاندھی نے ہی انھیں کان پکڑ کر وزارت سے نکالا۔پھرابھی ۲۰۰۸ میں پارٹی ہائی کمان کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کے حق میں منہ کھولنے کی بنا پر انھیں درس عبرت بنا دیا گیا۔حالانکہ انھوں نے بات مسلمانوں کے حق میں نہیں آر ایس ایس کے خلاف کی تھی۔ ضیا ء الرحمٰن انصاری بھی کانگریس کے ایک بڑے مسلم لیڈر تھے ۔بانس پہ چڑھ گئے۔ہائی کمان کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ میں مسلم پرسنل کی حمایت میں کئی تقریریں کردیں۔بعد میں کانگریسیوں نے ان کی زندگی تو زندگی موت بھی حرام کردی۔ایسے ہی ایک لیڈر یونس سلیم بھی ہوا کرتے تھے قوم کی حمایت انھیں بھی بڑی مہنگی پڑی۔اور یہ سب اس وقت کی باتیں ہیں جب کانگریس کو بطور ووٹ بینک مسلمانوں کی ضرورت تھی ۔آج تو وطن عزیز میں مسلمانوں کی ووٹ بینک کی حیثیت بھی نہیں رہی۔راجیو گاندھی ہوں یا سنجے گاندھی،راہل گاندھی ہوں یا ورون گاندھی ،یہ بنیادی طور پر پارسی باپ کی اولاد ہیں مگر انھوں نے کبھی اپنے آپ کو پارسی نہ سمجھا ۔مگر دوسری طرف ہندوستانی سیاست کے ایک بڑے حصے نے ان کو کبھی ہندو(کم سے کم ظاہر یہی کیا)نہ سمجھا۔جو بھی ہو پرانے گاندھیوں نے کبھی اپنے آپ کو یوں نمایاں نہ کیا جس طرح آج راہل گاندھی اپنے جینؤکی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔آج مسلم ووٹ بینک نام کی کوئی چیز کہیں موجود نہیں اور یہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کی محنتوں کا ثمر ہے۔مسلمانوں کو اتنا توڑ دیا گیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی متحدہ ووٹنگ نہ کر سکیں۔دوسری طرف حلقہ انتخاب کو اس طرح کانٹا چھانٹا،حذف و اضافہ کردیا گیا ہے کہ اگر کہیں غلطی سے بھی مسلمان یک طرفہ ووٹنگ کر بیٹھیں تو بھی ان کا امیدوار جیت نہ سکے۔پھر سرحدی علاقوں میں تو ان کی شہریت ہی مشکوک بنائی جارہی ہے ۔غرض کہ مسلمانوں پر چو طرفہ حملے ہیں۔اور ہر حملے میں بنیادی ہاتھ کانگریس کا ہی ہے۔مسلمانوں کا کونسا مسئلہ ایسا ہے جس کی بنیاد کانگریس نے نہ رکھی ہو۔بابری مسجد کا مسئلہ ،بنیاد کانگریس نے رکھی۔مسلم پرسنل کا کا مسئلہ ،بنیاد میں کانگریس کا ہی ہاتھ نظر آئے گا۔یونیورسٹیوں کا اقلیتی کردار،وہاں بھی کانگریس کا ناٹک نظر آئے گا۔سرحدی مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ ۔اپنے مفادات کے مطابق کانگریس نے اسے استعمال کیا۔ٹاڈا اور پوٹا کو خاص مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر وجود میں لایا گیا تھا ۔ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرنا مقصد ہے۔مگر ان کالے قوانین کے تحت کشمیر پنجاب اور شمال مشرقی ریاستوں میں اتنی گرفتاریاں نہیں ہوئیں جتنی کانگریسی ریاست مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے اس کا استعمال کیا گیا۔جب بین الاقوامی سطح پر اس پر تنقید شروع ہوئی تو ۱۹۹۵ میں اسے مار دیا گیا۔مگر قارئین کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ وطن عزیز کی عدالتوں میں آج بھی مسلمان ان کالے قوانین کے تحت مقدمے بھگتارہے ہیں۔اس طرح یہ دونوں برہمن پارٹیاں دنیا میں دیش کا مذاق بناتی رہتی ہیں۔الغرض وطن عزیز کی آزادی کے بعد مسلمانوں سے کانگریس اور بی جے پی نے کھلونے کی طرح کھیلا ہے۔اور وہ لوگ بھی جو آج کانگریس کی چمچہ گیری کرتے پھر رہے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر آج کانگریس دوبارہ بر سر اقتدار آجائے تواپنا یہ کھیل مزید شدت سے کھیلے گی ۔کیونکہ اگر اب وہ جیتی تو مسلمانوں کی نام نہاد منہ بھرائی کے بل پر نہیں جینؤ کی نمائش کے بل پر جیتے گی ۔سوچئے کہ اب وہ مسلمانوں کی کیا حالت کرے گی؟ یہ وہ حالات ہیں جن میں کرناٹک میں ۱۲ مئی کو الیکشن ہونے والے ہیں۔کانگریس یہ چاہے گی کہ اس کا قبضہ برقرار رہے۔اس لئے مسلم ایمان فروشوں کو سرگرم کر دیا گیا ہے۔یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کانگریس یا بی جے پی کے سوا چارہ نہیں۔ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو کانگریس اور بی جے پی مکت بھارت کے لئے کام کرنا چاہئے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی بہت سے صحابہء کرامؓ مکہ میں رہ گئے تھے۔کیا انھوں نے اپنی زندگیاں ابو جہل اور ابو لہب کو سونپ دی تھیں۔اللہ ان کی طرح ہماری بھی حفاظت کا انتظام کر سکتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ براہیم کا سا ایماں ہو۔ پچھلی مرتبہ تو کانگریس ۱۲۲،بی جے پی۴۳۔اورجنتا دل ایس۲۹ نشستوں پر الیکشن جیتی تھیں۔اس بار بہوجن سماج پارٹی جنتادل ایس سے ہاتھ ملا کر الیکشن لڑ رہی ہے۔اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی بھی اس بار کرناٹک کے انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔یعنی مسلمانوں کے پاس کرناٹک میں تین اور سیاسی پارٹیاں ہیں جنھیں وہ ووٹ دے سکتے ہیں ۔وہ پوری نیک نیتی اور ایمانداری سے اپنا کام کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں ۔ویسے بھی اس ملک میں ان کا جود اللہ کا ہی رہین منت ہے ورنہ خود انھوں نے تو اپنے وجود کے خاتمے کے لئے سارے ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔
کہتے رہنے سے فرق یہ پڑا کہ مختلف ادبی حلقوں میں بچوں کا ادب بھی زیر بحث آنے لگا۔ ادبی کانفرنسوں میں بھی بچوں کے ادب پر بات ہونے لگی۔ کراچی آرٹس کونسل میں ہر سال عالمی ادبی کانفرنس منعقد ہوتی تھی اس میں بھی بچوں کے ادب کا سیشن ہونا شروع ہوا۔ حلقہ ارباب ذوق نے بھی بچوں کے ادب پر ایک سیشن کروایا۔ اسی طرح ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد نے ایک روزہ کانفرنس منعقد کی۔ ابھی حال ہی میں سندھی لینگوئج اتھارٹی کے تحت بھی بچوں کے ادب پر کانفرنس منعقد کی گئی ہے۔ یوں گزشتہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور اداروں کو بچوں کے ادب کی اہمیت کا احساس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ اس سلسلے کو مزید فروغ ملے گا۔ ہم ایک عرصے تک سرکاری سطح پر بچوں کے ادیبوں کے لیے بھی ایوارڈز کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ہر سال بچوں کے لیے بہترین کتابوں پر ایک لاکھ روپے مالیت کے ’’تسنیم جعفری ایوارڈ‘‘دینے شروع کیے۔ پاکستان میں غیر سرکاری سطح پر سب سے بڑے ادبی ایوارڈ’’یو بی ایل لٹریری ایوارڈ‘‘ دیے جاتے ہیں۔ یہ ایوارڈز اب بچوں کے ادب پر بھی دیے جارہے ہیں۔ حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی کانفرنس میں قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کے مشیر برائے وزیر اعظم انجینئر امیر مقام نے بچوں کے ادب پر دو ایوارڈز دینے کا اعلان کر کے ہمارا درینہ مطالبہ تسلیم کیا ہے۔ دو ایوارڈز بچوں کو بھی کتابیں لکھنے پر دیے جائیں گے۔ اب ہمارا مطالبہ سول ایوارڈز کے حوالے سے رہ گیا ہے کہ ہر سال ہر شعبے کے نمایاں افراد کو صدارتی ایوارڈز دیے جاتے ہیں تو اس میں بچوں کے ادب کا شعبہ بھی شامل کیا جائے اور بچوں کے ادیبوں کو سول ایوارڈز دیے جائیں۔ وفاق بجلی اور گیس کے معاملات پر ناانصافی کا ازالہ کرے. سندھ حکومت بات کا آغاز کیا تھا پاکستان میں بچوں کے ادب پر پہلی سرکاری ادبی کانفرنس کے انعقاد سے ۔ تو یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہی نہیں پوری باد نسیم تھی جس نے ملک بھر میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو سرشار کر دیا ہے۔ 31اکتوبرسے2نومبر تک جاری رہنے والی اسی تین روزہ کانفرنس میں بچوں کے ادیبوں کو وہ مقام سہولیات اور عزت و احترام دیا گیا جو بڑوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو دیاجاتا ہے۔ دور دراز سے آنے والوں کو ہوائی جہاز کا دو طرفہ ٹکٹ دیگر کو کرایہ آمدورفت، اچھے ہوٹلوں میں رہائش کے علاوہ بچوں کے ادب کی مختلف اصناف اور جہتوں پر مقالے پڑھنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ یوں تقریباً ڈیڑھ سو مقالے پیش کیے گئے جس کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے گا جو کہ اہم دستاویز بنے گی۔اس کے علاوہ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مطالبات و سفارشات کوحکومت کے اعلیٰ حکام تک پہنچایا جائے گا جس سے بچوں کے ادب کی بہتری اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کے کئی امکانات روشن ہوں گے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔ مئی میں جب یہ کانفرنس ہونا تھی تو پی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑی تھی۔ اس بار بھی جب کانفرنس کی تاریخوں کا اعلان کیا گیاتو پھر لانگ مارچ شروع ہو گیا لیکن اکادمی کی انتظامیہ نے ہمت نہیں ہاری اور اس بار کانفرنس منعقد کر ہی ڈالی۔ کانفرنس میں دیگر ممالک کے ادیبوں نے بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر یوسف خشک کے ہمراہ ان کی ٹیم کے ممبران اختر رضا سلیمی، میر نواز سولنگی، محمد ریاض عادل، عاصم بٹ، فضہ گل، محمد سعید اور دیگر ہمہ وقت مصروف رہے۔ اسرائیل نے سمندر سے قدرتی گیس نکالنے کیلئے قطری کمپنی کو اجازت دے دی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی مشیر وزیر اعظم برائے سیاسی و عوامی امور، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام اہل قلم کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدیدکہتا ہوں۔ یہ ایک یادگار تقریب ہے جس میں پاکستان اور مختلف ممالک سے بچوں کے ادب سے وابستہ سکالرز کی اتنی بڑی تعداد کو اکٹھا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اکادمی کے تحت بچوں کے ادب پر ہر سال کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے دو ادیبوں اور کتابیں لکھنے والے دو بچوں کو بھی ہر سال ایوارڈز دیے جائیں گے۔ ادیبوں سے میری گزارش ہے کہ ملک و قوم کی خاطر بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی روایت کو فروغ دیں۔ ہم اپنے بچوں کے اخلاق و کردار کی آج حفاظت کریں گے تو کل یہ پوری قوم کے کردار کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔ بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے اسلام کے اصولوں اور اپنی مشرقی اعلیٰ انسانی اقدار و روایات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔وفاقی سیکرٹری قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی یہ کانفرنس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت قوم کی تعمیروترقی میں ادب خاص طور پر بچوں کے ادب کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری قوم کو نبھانا ہوتی ہے اور آپ کی موجودگی اور آپ کی تخلیقات اور آپ کی یہاں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اس ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں جس پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ امریکی ریپر کین ویسٹ کا صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹریوسف خشک نے تمام ادیبوں کو خوش آمدید کہا۔ ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے انجینئر امیر مقام ، فارینہ مظہر اور ڈویژن کے تعاون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بچوں کے ادب کو فروغ دینا بھی ہمارے دائرہ کار میں شامل ہے۔ ہم نے سہ ماہی’’ادبیات اطفال‘‘ کے چار خصوصی شمارے شائع کیے ہیں اور پہلی سرکاری تین روزہ عالمی کانفرنس’’بچوں کا ادب، ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کا انعقاد کیا ہے۔ بچوں کے ادب کے فروغ اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ افتتاحی اور اختتامی تقریبات میں سینٹر عرفان صدیقی، محمود شام، امجد اسلام امجد اور اصغر ندیم سید نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے نئی نسل کا کتاب سے رشتہ جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔راقم نے ’’بچوں کے ادب اور ادیبوں کے مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور بچوں کے ادب کے حوالے سے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ اس کانفرنس نے ملک بھر کے ادیبوں کو مل بیٹھنے، ایک دوسرے کے ادبی کام اور نظریات کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد۔ اُ مید ہے کہ یہ سلسلہ ترجیحی بنیادوں پر جاری رہے گا۔
کسی مسلمان کی غمخو اری کرنا اور اس کے دکھ درد میں شریک ہونا ’’ہمدردیٔ مسلم‘‘ کہلاتاہے۔ہمدردیٔ مسلم کی کئی صورتیں ہیں، بعض یہ ہیں:(۱)بیمار کی عیادت کرنا (۲)انتقال پر لواحقین سے تعزیت کرنا (۳)کاروبار میں نقصان پر یا مصیبت پہنچنے پر اِظہارِ ہمدردی کرنا (۴)کسی غریب مسلمان کی مدد کرنا (۵)بقدرِ استطاعت مسلمانوں سے مصیبتیں دور کرنا اور اُن کی مدد کرنا(۶)علم دِین پھیلانا (۷)نیک اَعمال کی ترغیب دینا (۸) اپنے لیے جو اچھی چیز پسند ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیےبھی پسند کرنا۔ (۹)ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا (۱۰) مقروض کو مہلت دینا یا کسی مقروض کی مدد کرنا(۱۱) دکھ درد میں کسی مسلمان کو تسلی اور دلاسہ دینا۔ وغیرہ (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۳، ۲۳۴) آیت مبارکہ: اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ( وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ )(پ۲۸،الحشر:۹)ترجمہ کنزالایمان:’’اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو۔‘‘ صدرُالافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک بھوکا شخص آیا، حضور نے ازواجِ مطہرات کے حجروں پر معلوم کرایا کیا کھانے کی کوئی چیز ہے؟ معلوم ہوا کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے، تب حضور نے اصحاب سے فرمایا: جو اس شخص کو مہمان بنائے ، اللہ تَعَالٰی اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کھڑے ہوگئے اور حضور سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھر لے گئے ، گھر جا کر بی بی سے دریافت کیا: کچھ ہے ؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں، صرف بچّوں کےلئے تھوڑا سا کھانا رکھا ہے۔ حضرت ابوطلحہ نے فرمایا: بچّوں کو بہلا کر سُلادو اور جب مہمان کھانے بیٹھے تو چراغ درست کرنے اٹھو اور چراغ کو بجھادو تاکہ وہ اچھی طرح کھا لے۔ یہ اس لیے تجویز کی کہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہلِ خانہ اس کے ساتھ نہیں کھارہے ہیں کیونکہ اس کو یہ معلوم ہوگا تو وہ اصرار کرے گا اور کھانا کم ہے بھوکا رہ جائے گا۔ اس طرح مہمان کو کھلایا اور آپ ان صاحبوں نے بھوکے رات گذاری۔ جب صبح ہوئی اور سیّدِعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حُضورِ اَقدس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’رات فلاں فلاں لوگوں میں عجیب معاملہ پیش آیا، اللہ تَعَالٰی ان سے بہت راضی ہے۔‘‘ اور یہ آیت نازل ہوئی۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۴، ۲۳۵) (حدیث مبارکہ)مصیبت زدہ سے غمخواری کی فضیلت: حضرت سیدنا جابربن عبداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’جو کسی غمزدہ شخص سے غمخواری کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحو ں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے غمخواری کرےگا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے عطا کرےگا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔[2] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۵) ہمدردیٔ مسلم کا حکم: اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت، مُجَدِّدِدِین وملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ ہر فردِ اسلام کی خیرخواہی ہرمسلمان پرلازم ہے۔‘‘[3](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۵) ہمدردی کا ذہن بنانےاور ہمدردی کی عادت اپنانے کے(7)طریقے: (1)مسلمانوں سے ہمدردی کے فوائد کو پیش نظر رکھیے:فطری طور پرجب بندے کے سامنے کسی چیز کے فوائد ہوتے ہیں تو وہ اسے پانے میں جلدی کرتا ہے، مسلمانوں سے ہمدردی کرنے کے چند فوائد یہ ہیں: ٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کا حصول ٭دل جوئی ٭مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ٭ حوصلہ افزائی کرنا ٭حسن سلوک کرنا ٭خیر خواہی کرنا٭پریشان حال کی دعاؤں کی برکت سے تکالیف وپریشانی سے نجات ملنا٭رحمت الٰہی کے سبب حصولِ جنت۔وغیرہ وغیرہ (2)حُسن اَخلاق کوپیش نظر رکھیے: کسی مسلمان سے ہمدردی کرنا اس کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے اَخلاق کا مظاہرہ ہے۔فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’میزانِ عمل میں حسن اَخلاق سے وزنی کوئی اورعمل نہیں۔‘‘[4] (3) صلۂ رحمی کو پیش نظر رکھیے: عزیزواَقارِب، رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں آجائیں تو اُن کے دکھ درد میں شامل ہونا ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرنا ہے اوررشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ صلۂ رحمی کا مدنی ذہن بنائے اور جب بھی کوئی رشتہ دار تکلیف وپریشانی میں مبتلا ہوجائے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرکے صلۂ رحمی کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ اسلام میں صلۂ رحمی کے بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ (4)اِحترامِ مسلم کو پیش نظر رکھیے:ایک عام مسلمان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں احترامِ مسلم بھی ہے، اسلام میں ایک مسلمان مؤمن کی حرمت کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، لہٰذا اپنے اندر احترامِ مسلم کا جذبہ بیدار کیجئے، کسی مسلمان کےتکلیف وپریشانی میں مبتلا ہونے کا پتا چلے تو اسی جذبے کے تحت اس کی ہمدردی کی سعادت حاصل کیجئے۔ (5)حق مسلم کی ادائیگی کی نیت سے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پر چھ6حق ہیں: (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو(۳) جب وہ بلائے توحاضر ہو (۴)جب اس سے ملے تو سلام کرے (۵)جب چھینکے تو جواب دے اور (۶) موجودگی وغیر موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘[5] (6)بیمار کی عیادت کرکے ہمدردی کیجئے:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’جو کسی مریض کی عیادت کرتاہے یا رضائے الٰہی کے لئے اپنے کسی بھائی سے ملنے جاتاہے تو ایک منادی اسے مخاطب کرکے کہتاہے کہ خوش ہو جاکیونکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے ۔‘‘[6] (7)مریض کی دعائیں لینے کے لیے اس سے ہمدردی کیجئے: مریض کی دعا بھی مقبول ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: ’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہوتی ہے۔‘‘[7](نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۳۷تا۲۳۹)
برطانوی حکومت اور چرچ آف انگلینڈ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دیہی علاقوں میں موبائل اور براڈ بینڈ کوریج کو بڑھانے کے لیے گرجا گھروں کے میناروں کا استعمال کیا جائے گا۔ حکومت 2022 تک برطانیہ بھر میں بہترین موبائل کوریج فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جہاں اس معاہدے کے تحت گرجا گھروں کو اس میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے وہیں انھیں حسب معمول بلاننگ کے عمل پر بات کرنا ہوگی۔ ڈیجیٹل ماہرین نے اس کا خیرمقدم تو کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’مسلہ اس کی تفصیل میں ہوگا۔‘ ریسرچ فرم اسیمبلی کے پرنسپل اینالسٹ میتھیو ہوویٹ کا کہنا ہے کہ ’دیہی علاقوں میں موزوں مقامات تک رسائی حاصل کرنا موبائل آپریٹرز کے لیے ایک چیلنج رہا ہے، لہذا اس میں بہتری لانے کے لیے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کیا جائے گا۔‘ ’جو چیز واضح نہیں ہے وہ یہ کہ کمرشل تعلقات کیسے ہوں گے۔ ایسی بہت سی کہانیاں ہیں کہ دیہی علاقوں میں زمین مالکان آپریٹرز کو پیسوں کے لیے بعض مقامات تک رسائی نہیں دیتے، جس کی وجہ سے اسے پھیلانے کا عمل سست ہو جاتا ہے اور لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘ حکومت کا کہنا ہے کہ کمرشل معملات مقامی سطح پر پادری یا بشپ اور موبائل آپریٹرز اور براڈ بینڈ سہولیات فراہم کرنے والوں کے درمیان طے کیے جائیں گے، تاہم اس حوالے سے حکومت نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ سیکریٹری آف سٹیٹ میٹ ہینکاک کا کہنا ہے کہ ’چرچ آف انگلینڈ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا مطلب ہے کہ 15ویں صدی کی عمارت بھی برطانیہ کے لوگوں کو مستقبل کے لیے فٹ بنا دے گی اور مشکل ترین علاقوں تک رسائی کو بڑھا کر لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا دے گی۔‘
اسلام آباد (94 نیوز) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سوا تمام شہروں میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کردی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے کارکنوں کو عوامی مشکلات کے پیش نظر احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عمران خان نے احتجاج ختم کرنے کے فیصلے سے پارٹی قیادت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ وزیرآباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد سے پی ٹی آئی کارکنان ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کررہے تھے۔ مزید شیئر Facebook Twitter Google+ LinkedIn StumbleUpon Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Odnoklassniki Pocket Share via Email پرنٹ کریں
دیکھیں رج ایلیمنٹری پی ٹی اے کے زیر انتظام ہے اسٹینڈنگ رولز ہمارے مقامی باب کے لئے۔ یہ اصول خدا کے علاوہ ہیں واشنگٹن اسٹیٹ پی ٹی اے بائلوز اور مقامی ، ریاستی اور قومی غیر منافع بخش قوانین۔ اگر آپ کو کوئی سوالات ہیں تو ، براہ کرم ای میل کریں President@viewridgeschool.org. کچھ بانٹنا ہے؟ برائے کرم آرٹیکلز اور ایونٹس کو ویب سائٹ کے ذریعے بھیجا جاسکتا ہے لاگ ان کریں یا رجسٹر کریں جمع کرنے کے لئے ، براہ کرم یہ دیکھیں ہدایات ویب سائٹ پر مضمون پیش کرنے کا طریقہ منگل کو عام طور پر ہفتے میں ایک بار ہمارے ای میل نیوز لیٹر ، اوٹر جان ، میں بھی مضامین شامل ہوتے ہیں۔ جمعہ کے روز ضرورت پڑنے پر اوٹر نئ اپڈیٹ بھیجا جاتا ہے۔ منگل کی اشاعت سے پہلے جمعہ کو اوٹٹر جانکاری کے مضامین جمعہ کو ہونے والے ہیں۔
پچھلے سال خواتین کے عالمی دن پر ٹویٹر کی ایک سپیس چل رہی تھی۔ بلوچستان کی خواتین اپنے مسائل پر بات کر رہی تھیں۔ میں حیران تھا کہ ان کی گفتگو کی سطح اس قدر شان دار تھی کہ سپیس میں موجود مرد انہیں ٹوکنے لگے تھے۔ وہ یک طرفہ شدت سے پاک تھیں ، وہ بلوچ روایات کی پاس داری کرتے ہوئے اپنے لیے اور انسانی نسلوں کے لیے جدت اور بہتری کے سلیقے بتائے جا رہی تھیں کہ ایک دم سے ایک دو مردانہ آوازوں سے سپیس میں شور ہوا اور انہیں بہت واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ آپ خواتین جب تک علیحدگی پسند گفتگو کریں گی ہم میں بیٹھ سکتی ہیں اگر آپ نے اسلام آباد طرز پر جدید ترین خواتین کے مسائل ڈسکس کیے تو آپ کی آواز بلوچستان میں دبا دی جائے گی۔ یہ تھا وہ مکالمہ جو مجھے بلوچستان لے گیا۔ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ خواتین کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ جس صوبے کی روایات نے دیہی خواتین کی خواندگی کی شرح دوہندسوں تک نہ پہنچنے دی، وہاں کی خواتین ایک دم ایسی کیسے ہو سکتی ہیں۔ یہی وہ سوالات تھے کہ مجھے اپنے سوالات کے لیے بلوچستان کا رخ کرنا پڑا۔ میں ایک تصویر دیکھتا ہوں کہ ایک جرنیل اپنے جوان کی میت وصول کرتے ہوئے ڈبڈبا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بلوچستان کے طول و عرض سے آئی ہر میت وہ خود وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہر بار اس سے قبل اس کے آنسو وصول کر جاتے۔ ہم دوست نجی محافل میں ان کا تذکرہ مونس بلوچستان کے نام سے کرنے لگے تھے۔ مجھے ان واقعات میں بلوچستان اور جنرل سرفراز بڑے دلچسپ لگنے لگے تھے۔ تربت اس بات کی بہت بڑی مثال ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ تعلیم بڑھے ، روزگار چلے، یار کوئی پہیہ گھومے، سڑکوں تک کی تعمیر تک میں وہ ذاتی رسوخ برتتے۔بارڈر فینسنگ کا سلیقہ ان کا جدا تھا، جس علاقے میں فینسنگ ہوتی تھی وہیں وہ جرگے کرنے پہنچ جاتے۔باڑ لگانے کے دوران پیدا ہونے والے مقامی مسائل کو وہ موقع پر جرگوں کے ذریعے حل کرتے چلے جاتے اور باڑ روز بروز آگے بڑھتی جاتی۔ یوں سمجھیے کہ باڑ سرحد پہ لگ رہی تھی اور وہ باڑ کو پائیداری اپنے مکالمے سے دیے جا رہے تھے۔ جرگوں میں جنرل سرفراز کا سلیقہ بے حد مختلف تھا۔ وہ مکمل وینٹی لیشن پر یقین رکھتے تھے۔ اگر کوئی بزرگ کسی غصے میں ہیں ، ناراضی میں گفتگو کر رہے ہیں یا احتجاجی بات کرنا چاہ رہے ہیں ، وہ ماتھے پہ بل لائے بنا نہ صرف سنتے بلکہ انہیں مزید بولنے پر بھی اکساتے تا کہ ناراض آدمی خود کو مکمل وینٹیلیٹ کر سکے۔وجہ وہ جانتے تھے کہ دہائیوں سے اس صوبے نے محرومی اور قدامت پرست قبائلی نظام کی موجودگی میں جدت کی چکا چوند نہیں دیکھی ہے۔وہ صوبے کو جدید، آسان، امن اور رواداری کے ٹریک پر لانے کو بے چین تھے۔ یہ وہ عادت تھی جس نے ایک جانب انہیں عوام میں مقبول ترین بنا دیا تو دوسری جانب عوام کا اعتماد ریاستی میکنزم پر مضبوط ہونے لگا۔پھر ہر منصوبے میں شفافیت قائم رکھنے کے لیے لوکل لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ دیتے ۔کسی بھی منصوبے میں ان کے افعال کا محورو مرکز فقط عام آدمی تھا۔کسی جگہ سے گزرتے ہوئے انہیں جھونپڑی میں بچے کتابوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ وہیں رکے اور کچھ عرصے بعد وہ جھونپڑی ایک خوبصورت تعلیم گاہ میں ارتقا پا گئی۔ ایسے سیکڑوں تعلیم دان انہوں نے ذاتی توجہ سے اگائے جہاں ننھے ننھے پھول تعلیم کی خوشبو کما کر بڑے ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بحالی ان کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے ۔ پنجاب کے لوگ اگر اپنی بیٹیوں کو کیڈٹ کالج بھیجنا چاہیں تو ہمارے پاس دو آپشن بچتے ہیں، اپر پنجاب صوابی سے مستفید ہوتا ہے تو لوئر پنجاب کی بیٹیاں تربت کے گرلز کیڈٹ کالج میں جانا پسند کرتی ہیں۔ تعلیمی سطح پر انہوں نے بلوچستان کو جدید اور سماج کو تیز بہدف تبدیل کر دینے والی تکنیک کے حامل تعلیمی اداروں کے تحائف دیے۔یہ ان کی ذاتی کاوش ہی تھی کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تربت جیسا شہر آزاد میڈیا ذرائع کے مطابق 60 فیصد سے زیادہ ٹرن آئوٹ دیتا ہے۔ ٹرن آئوٹ کی یہ فیصد2018 کے الیکشن میں بھی 272 میں سے پندرہ بیس حلقوں کو ہی نصیب ہوئی تھی۔ جمہوریت پر بلوچ عوام کا اعتماد مضبوط کرنے اور آزادانہ شفاف اور منصفانہ انتخابات ان کا وہ کارنامہ تھا جو پاک سر زمین کے بدخواہوں کو لا مختتم ٹیسوں سے نواز گیا۔ یہ سب اس تعلیم کی بدولت ہوا جس کی بیج کاری انہوں نے پورے انہماک سے آئی جی ایف سی ہوتے ہوئے شروع کر رکھی تھی۔ ایک بہترین کمان دار کی ہر نشانی کے حامل لیفٹیننٹ جنرل سرفراز پیشہ ورانہ اصولوں پر نہایت سخت مگر عوام کے لیے نہایت ہی نرم دل واقع ہوئے تھے ۔ کسی بھی علاقے سے گزرتے ہوئے وہ اکثر مزدوروں اور بچوں کے پاس جا ٹھہرتے۔ چائے کے چھپر ان کی پسندیدہ جگہ اورغریب کان کن ان کے پسندیدہ لوگ تھے۔ کسی تصنع یا بناوٹ کے بنا ان میں گھل مل جاتے اور ہمیشہ گفتگو کے دوران ان کے زیادہ سے زیادہ مسائل کی کھوج میں رہتے۔ عوام کے ساتھ ان کا میل جول ایسا دوستانہ تھا کہ رسول بخش بگٹی جیسا سکول کا بچہ ان سے بے دھڑک اپنے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی فرمائش کر دیتا ہے اور پھر بستی کرکٹ کا میدان بن جاتی ہے۔ یہ ریشم کی نرمی یونہی انہیں عطا نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ رزم حق و باطل میں وہ فولاد صفتی ثابت کر چکے تھے، سوات آپریشن اور وزیرستان آپریشن میں آپریشن اور کمان اپنے ہڈوں پر سہی اور جنگ میں دو بار زخم کمائے ، گو کہ انہیں ہلال امتیاز اور تمغہ بسالت دہشت گردی کے خلاف سوات اور وزیرستان آپریشن میں اعلیٰ ترین بہادری پر دیے جا چکے تھے لیکن فوجی کی زندگی کے سب سے قیمتی تمغے ان کے پاس موجود تھے ۔جنگ کا زخم فوجی کی زندگی کا قیمتی ترین تمغہ ہوتا ہے جو انہوں نے دونوں بار دہشت گردی کے خلاف کمایا۔ جوانوں سے چار قدم آگے رہ کر ہر حملے میں شامل ہونا، ہر آپریشن میں موجود ہونا وہ خوبی تھی جو انہوں نے اپنی فطرت ثانیہ بنا رکھی تھی۔ دہشت گردوں کے صفائے کے ماہر کے طور پر پہچانے جانے والے سرفراز علی کی آنکھ نہایت تیکھی تھی۔ وہ دشمن کی بو کے ساتھ ساتھ اس کی متوقع چال تک کو جانچنے میں لمحہ نہیں لگاتے تھے۔ ان کے پیشہ ورانہ ساتھیوں کی یادیں ایسے واقعات سے اٹا اٹ ہیں کہ ان کے اچانک جاری ہو جانے والے احکامات آئے اور کچھ ہی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ یہ احکامات کس قدر بڑی تباہی کے نہایت قریب سے انہیں بچا لے گئے یا منصوبے میں کی گئی بالکل معمولی سی تبدیلی نے ان کے ہاتھ دہشت گردوں کی کھیپ لگوا دی۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس جیسے نازک اور تکنیکی ترین عہدے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی۔ امریکہ میں ملٹری اتاشی رہنے والا لائق ، قابل اور مہارتوں سے بھرا سرفراز علی ، دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سپیشلسٹ، آئی جی ایف سی کے طور پر بلوچستان تعینات ہوا۔ بلوچستان میں ملک دشمن ایجنسیوں کے مفادات کی بھرمار تھی اور سرفراز کو اب بہت سے میدانوں میں مختلف جتھوں اور ان کی نفسیات سمیت اپنے مقاصد حاصل کرنا تھے۔ وہ وقت پاک سر زمین کے بدخواہوں کی زندگی کا ایسا لمحہ بن گیا جس کی ٹیسیں پورے کرہ ارض کے بت خانوں میں آج بھی گونج رہی ہیں ، چاہے وہ بت خانہ' را' کا ہو یا موساد کا۔ خواتین کو قومیانے بلکہ ریاستانے میں ان کا سٹانس بہت سنجیدہ تھا۔ وہ اس بات پر اندھا یقین رکھتے تھے کہ بہن اور بیٹی اگر تعلیم سے مصافحہ کرتی ہے تو پھر شعور اور ترقی معانقہ کیے بنا نہ ٹلے گی۔ تعلیم کے شعبے میں انہوں نے خواتین کو ہمیشہ ترجیح دی۔ سماج اور روایت کی قدامت میں مکمل ملفوف عورت اب جاگ رہی تھی۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں انگڑائی لیتے اس انسان کو تھپکی اور شعور کی طاقت درکار تھی۔ تعلیمی اداروں میں ان کے لیے سہولیات بھرا ماحول مہیا کرنا بہت ضروری تھا۔ بدخواہوں پر یہ عمل کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ بہت روڑے اٹکانے کی کوششیں بھی ہوئیں مگر وومن ایمپاورمنٹ کی مثال قائم کرنے میں کامیابی لازم تھی۔ وہ بلوچ خواتین کے لیے پیراملٹری فورسز کے دروازے کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ اس ایک عمل سے خواتین سماجی، معاشی خود انحصاری کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی کی اس منزل کی طرف چل پڑی ہیں جس کا راستہ فقط آگے اور بہتری کی منزل کو ہی لیڈ کرتا ہے۔ سنجاوی زیارت کے نزدیک دراصل وہ گائوں تھا جہاں وہ ٹھٹھک کر رہ گئے۔ جونہی وہ شہر میں داخل ہوئے انہیں خود کو ہمہ دم دیکھتی ان گنت آنکھیں محسوس ہوئیں۔ انہیں لگا یہ قصبہ بہت انہماک اور بے حد احترام سے انہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک روٹین کا جرگہ تھا۔ وہاں کے عوام انہیں یوں دیکھنے لگے جیسے یاتری مقدس مقام کی یاترا کرتے ہیں۔ ذرا دیر ٹھہر کر جب وہ ان میں گھل مل گئے تو گائوں کے قدیم ترین بزرگ نے بڑے تیقن دار لہجے میں بتایا کہ پچھلے 75 سالوں میں کسی بھی کور کمانڈر کا ان کے گائوں میں یہ پہلا دورہ ہے۔ بظاہر تو وہ ان کے ساتھ بالکل گھل مل کر مسائل پر بات کرنے لگے لیکن وہ اس ایک واقعے سے کسی نتیجے پر پہنچ چکے تھے ۔ سو انہوں نے لگاتار جرگوں کا سلسلہ جاری کر لیا۔ ڈیرہ بگٹی، پنجگور ، پشین، خاران ، تربت ،جیکب آباد کے مضافات خبروں میں آنا شروع ہوئے۔ وہاں کے جھونپڑی سکول پکے ہونے لگے اور بچوں کو کتابیں ملنے لگیں ۔ عوام کا اعتماد بحال ہوتے ہی بلوچستان میں عوام بے خطر سفر کرنے لگے۔ معیشت کے سوئے اشاریوں میں ہل چل ہونے لگی۔ انہی کی موٹیویشنل اور عطا کردہ اعتماد تھا کہ 2021 اور 2022 میں پی ایم اے کاکول کی اعزازی شمشیر بلوچستان کے کیڈٹس نے حاصل کی۔ وہ نہ صرف اس پہ بہت خوش ہوئے بلکہ انہوں نے دونوں کیڈٹس سے ملاقات کی اور پیٹھ تھپتھپائی۔ وہ قیمتی اذہان کی ہمیشہ قدر کرتے چاہے وہ مخالف فکری نظریے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی زندہ مثال اس سال کے بلوچستان ایکسیلنسی ایوارڈ ہیں ۔ جن میں چن چن کر قیمتی افراد کو شامل کیاگیا۔ ڈاکٹر عبداللہ شاہ کاکڑ نسبتاً مخالف فکری نظام سے لیکن قیمتی پاکستانی ذہن کے پروفیسر ہیں جو بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔جب بلوچستان ایکیسلنس ایوارڈ دیا گیا تو بلوچ فکری، ادبی اور سماجی حلقوں میں حیرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ خود ڈاکٹر صاحب حیرت اور خوشی سے دوچار تھے ۔ کیوں نہ ہوں جنرل سرفراز بلوچستان ایکیسلنس کے انعام سے بلوچستان کے کسی قیمتی ذہن کو کیسے محروم رکھتے۔ یہی ان کا شعور تھا جو ان کے اندر مکالمے کی لچک، شعوری اختراع کے امکانات اور اپنے لوگوں سے پیار کا بآواز بلند عندیہ دیتا ہے۔
Oct 20, 2022 attorney, automobile, beauty tips, breaking news, business, computer, conference call, cosmetics, credit, cricket, daily jang, degree, donate, drama, electricity, entertainment, fashion, Fawad Chaudhry, flights, foods, foreign exchange, gas, geo drama, geo entertainment, health, hosting, insurance, jang news, jang newspaper, latest news, lawyer, loans, mobile, mortgage, pakistan news, Pharmaceuticals, smartphone, software, sports, tablet, technology, today’s news, trading, urdu news, urdu newspaper, video, world فائل فوٹو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر ملک کے حالات خراب ہیں۔ ایک بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ لوگ لانگ مارچ کی تاریخ مانگ رہے ہیں لیکن خان صاحب کو لانگ مارچ کے رسک کا پتہ ہے، اس لیے وہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیرِ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے بعد عدم استحکام ہو گا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ میں عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کو ختم کر دیا جائے یا بڑے کیسز نیب سے لے کر ایف آئی اے کے سپرد کر دیے جائیں، لیکن میری بات نہیں مانی گئی۔ واضح رہے کہ لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کب ہوگا؟ کسی کو تاریخ نہیں بتاؤں گا۔ عمران خان نے کہا کہ پارٹی کی ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے لیکن لانگ مارچ کی تاریخ میں نے اپنے تک رکھی ہوئی ہے۔
اخبارات و جرائد میں کسی نہ کسی بہانے مراسلے، بیانات، اجلاسوں کی رپورٹیں اور ہلکے پھلکے مضامین لکھنے کا ’’چسکہ‘‘ تو ۱۹۶۴ء میں ہی شروع ہوگیا تھا جب میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اپنی طالب علمی کے تیسرے سال میں تھا۔ حافظ سید جمیل الحسن مظلوم مرحوم ’’نوائے گوجرانوالہ‘‘ کے نام سے ہفت روزہ اخبار نکالتے تھے۔ گھنٹہ گھر کے قریب چوک غریب نواز میں دفتر تھا جو ہمارے مدرسہ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ مولانا عزیز الرحمن خورشید اور مولانا سعید الرحمن علویؒ بھیرہ کے حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ کے فرزند تھے اور نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا اور میرا مشترکہ ذوق یہ تھا کہ بیانات اور مضامین لکھ کر اخبارات میں شائع کرانے کی کوشش کرنا۔ اور پھر شائع شدہ بیان یا مضمون دوستوں کو پڑھانا۔ ’’نوائے گوجرانوالہ‘‘ کے علاوہ ہفت روزہ ’’قومی دلیر‘‘ اور سہ روزہ ’’تحفہ‘‘ بھی مقامی اخبارات تھے اور ہماری ابتدائی جولانگاہ یہی جرائد تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے آرگن ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور کو بھی مضامین بھجوائے جاتے تھے جن میں اکثر شائع ہو جاتے تھے۔ البتہ صحافتی زندگی میں میری باضابطہ انٹری ستمبر ۱۹۶۵ء میں ہوئی جب میں نے گکھڑ میں روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کے طور پر کام شروع کیا۔ ۶ ستمبر کو جنگ کے پہلے مرحلہ میں ہی صبح نماز کے وقت گکھڑ ریلوے اسٹیشن پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بمباری کی جس میں ہمارے ایک دوست صفدر باجوہ شہید ہوگئے۔ وہ ریلوے اسٹیشن کی دوسری جانب اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے کہ بھارتی طیارے کی بمباری کا نشانہ بن گئے۔ میں نے اس واقعہ پر ایک فیچر لکھا جو روزنامہ وفاق لاہور میں شائع ہوا تھا۔ یہ میری صحافتی زندگی کا عملی آغاز تھا اور اس کے بعد روزنامہ وفاق کے نامہ نگار کے طور پر کچھ عرصہ کام کرتا رہا۔ حافظ سید جمیل الحسن مظلومؒ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مجاز صحبت حضرت حافظ عنایت علی رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند تھے۔ انجمن صحافیان کے ضلعی صدر تھے اور قائد صحافت کہلاتے تھے۔ میری خبر نویسی کی حوصلہ افزائی میں ان کا بہت حصہ ہے۔ ’’نوائے گوجرانوالہ‘‘ میں ہی راشد بزمی مرحوم اور حافظ خلیل الرحمن ضیاء مرحوم سے تعارف ہوا۔ بزمی صاحب مرحوم ایک عرصہ تک روزنامہ جنگ کے نمائندہ خصوصی رہے جبکہ حافظ خلیل الرحمن ضیاء کا تعلق بھی جنگ اور وفاق سے رہا۔ حافظ صاحب مرحوم جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل اور میرے دورۂ حدیث کے ساتھی بھی تھے۔ اس وقت گوجرانوالہ میں مختلف اخبارات کے نمائندوں میں بذل احمد ایوبی مرحوم، کیف صہبائی مرحوم، اعجاز میر مرحوم، اکرم ملک، اور جی ڈی بھٹی نمایاں تھے۔ اور ان سب سے میرے دوستانہ مراسم تھے۔ ان کے ساتھ میری انڈر اسٹینڈنگ تھی کہ میں جمعیۃ علماء اسلام یا کسی دینی تحریک کے حوالہ سے کوئی خبر بھجواتا تو وہ نہ تو کسی لیٹر پیڈ پر ہوتی اور نہ ہی اس پر مہر اور دستخط موجود ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہاری بھجوائی ہوئی خبر پر کسی کمی بیشی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے سادہ کاغذ پر لکھ کر بھیج دیا کرو۔ وہ میری ہینڈ رائیٹنگ پہچانتے تھے اور اسے دیکھ کر اسی پر دستخط ثبت کر کے اپنے اپنے اخبارات کو بھجوا دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا۔ ہفت روزہ ’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور اور ہفت روزہ ’’خدام الدین‘‘ لاہور میں بھی وقتاً فوقتاً لکھنے کا کام جاری رہا جو آگے چل کر ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کی باقاعدہ ادارت سنبھالنے تک پہنچا، اور میں کئی برس جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ہفت وار آرگن کا ایڈیٹر رہا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کی سالہا سال تک رفاقت کا شرف حاصل رہا اور میں نے ان بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا جس سے میرے صحافتی شعور میں پختگی آئی۔ معروف احرار راہ نما جانباز مرزا مرحوم ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کے نام سے ایک عرصہ سے جریدہ شائع کر رہے تھے جس کی اشاعت میں ۷۷ ء / ۷۸ء کے دوران کچھ وقفہ آیا تو میری درخواست پر انہوں نے یہ جریدہ میرے حوالے کر دیا۔ اور میں نے اپنے رفیق مولانا صالح محمد حضروی کی رفاقت میں کئی ماہ تک اس کی اشاعت و ادارت کا اہتمام کیا۔ ۱۹۸۹ء کے آخر میں ’’الشریعہ‘‘ کے نام سے میں نے ایک مستقل جریدہ کا ڈیکلیریشن حاصل کیا جو گوجرانوالہ سے تب سے تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اس کا مدیر مسئول میں خود ہوں جبکہ مدیر کے طور میرا بڑا بیٹا پروفیسر حافظ محمد عمار خان ناصر کم و بیش دو عشروں سے خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ عمار خان ناصر جامعہ نصرۃ العلوم کا فاضل اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش ہے، اور اب پی ایچ ڈی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جبکہ گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں اسلامیات کے شعبہ ایم فل کا استاذ و نگران ہے۔ قومی اخبارات جنگ، نوائے وقت، مشرق اور وفاق میں وقتاً فوقتاً مختلف عنوانات پر لکھتا آرہا ہوں، مگر برادرم حامد میر اور مولانا اللہ وسایا قاسم شہیدؒ کی ترغیب پر میں نے باقاعدہ ’’کالم نگاری‘‘ کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ حامد میر صاحب ان دنوں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کے مدیر تھے اور وہیں سے میں نے کالم لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں وہ روزنامہ اوصاف میں گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہی اوصاف میں منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد مختلف اتار چڑھاؤ آئے مگر روزنامہ پاکستان لاہور، روزنامہ اسلام کراچی اور روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں میرے کالم الگ الگ عنوانات سے مسلسل چھپتے رہے ہیں جس کی تازہ ترین صورت یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک یا دو کالم لکھتا ہوں جو (۱) روزنامہ اوصاف (۲) روزنامہ اسلام اور (۳) روزنامہ انصاف میں بیک وقت شائع ہو جاتے ہیں۔ اور اس پر ملک بھر سے احباب کی دعائیں ملتی رہتی ہیں، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔ ستمبر ۲۰۱۵ء کے پہلے عشرہ میں میری باقاعدہ صحافتی زندگی کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں جس پر ’’تحدیث نعمت‘‘ کے طور پر چند سطور میں اپنی اس شعبہ کی کارگزاری قارئین کی خدمت میں پیش کر دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اور بزرگوں کی شفقتیں اور دعائیں ہیں کہ اللہ رب العزت تدریس، خطابت اور صحافت کے تینوں شعبوں میں کسی نہ کسی حوالہ سے دین کی کچھ نہ کچھ خدمت لیتے آرہے ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ خصوصی طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ زندگی بھر یہ خدمت لیتے رہیں اور ایمان و اعمال صالحہ پر خاتمہ نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مرکزی صفحہ/ اہم خبریں/ اسلام آباد/مفتاح اسماعیل مستعفی : وزیر اعظم نے اسحاق ڈار کو نیا وزیر خزانہ نامزد کر دیا اسلام آباداہم خبریں مفتاح اسماعیل مستعفی : وزیر اعظم نے اسحاق ڈار کو نیا وزیر خزانہ نامزد کر دیا رضی الدین رضی September 25, 2022 98 Facebook Twitter LinkedIn WhatsApp اسلام آباد : پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو نئے وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نوازشریف کی زیرصدارت لندن میں اہم پارٹی اجلاس مفتاح اسماعیل نے اپنا استعفی قائد محمد نوازشریف کو پیش کیا۔تحریری بیان کے مطابق ` قائد نواز شریف اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ کے لیے نامزد کر دیا۔‘پارٹی اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف، اسحاق ڈار، مریم اورنگزیب، مفتاح اسماعیل، ملک محمد احمدخان اور احد چیمہ بھی شریک ہوئے۔ اپنا استعفیٰ پیش کرنے کے موقع پر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ `وزارت آپ کی امانت تھی، آپ نے ہی وزیر بنایا تھا، چار ماہ میں اپنی بھرپور صلاحیت سے کام کیا، پارٹی اور ملک سے وفاداری نبھائی۔‘خیال رہے کہ دو روز قبل اسحاق ڈار نے لندن میں پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر وہ اگلے ہفتے کے اختتام پر پاکستان میں ہوں گے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے اور اسلام آباد میں ایک مقامی عدالت کے سامنے اپنے خلاف قائم مقدمے میں پیش بھی ہوں گے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ عدالت نے ہماری درخواست منظور کی اور وارنٹ معطل کرتے ہوئے کہا کہ 7 اکتوبر تک واپسی کرلیں۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کر دیے اور وطن واپسی پر ان کی گرفتاری سے روک دیا۔انھوں نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف جو بھی ڈیوٹی لگائیں گے ماضی کی طرح نبھاؤں گا۔
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ صوبے میں بجلی کے نئے منصوبوں کے لیے بھی بر وقت اقدامات اٹھائے جائیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے شرکت کی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی کے افسران اور اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا میں پاور جنریشن اورمینجمنٹ کے نظام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ پاورجنریشن کا نظام مزید مضبوط اورفعال بنایا جائے، صوبے میں بجلی کے نئے منصوبوں کے لیے بھی بر وقت اقدامات اٹھائے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی۔ حکومت نے 100روزمیں شانداراقدامات کیے‘وزیراعظم عمران خان یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ اجلاس میں دوٹوک اعلان کیا تھا کرپٹ عناصرکے لیے کوئی رعایت نہیں، حکومت نے 100 روزمیں شانداراقدامات کیے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیرکا منصوبہ انقلابی قدم ہے، ہرحال میں مکمل کریں گے، حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ثمرات جلد سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔
وکلاء اور وکلاء کافی حد تک ملتے جلتے ہیں۔ دونوں پیشہ ور افراد ہیں جو قانون کے مخصوص شعبوں، خاص طور پر دانشورانہ املاک اور ملازمت کے تنازعات سے متعلق معاملات کو نمٹانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ تاہم، دونوں پیشوں کے درمیان ایک بڑا فرق ہے: ان کا پیشہ ورانہ کردار۔ جب کہ ایک وکیل عام طور پر ایک شخص یا ہستی کی نمائندگی کرتا ہے، ایک وکیل عام طور پر دیے گئے پروجیکٹ کے دوران ایک ساتھ کئی کلائنٹس/صارفین کی جانب سے کام کرتا ہے۔ ایک وکیل لاء اسکول جاتا ہے، بار کا امتحان دیتا ہے، اور قانونی طور پر قانون پر عمل کرتا ہے۔ وکیل اور وکیل کے درمیان فرق یہ ہے کہ وکیل قانون کی ڈگری کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ وکیل نہیں ہوتا۔ وکیل کوئی بھی ہو سکتا ہے جو وکیل بننے کے عمل سے گزرا ہو اور بار کا امتحان پاس کیا ہو۔ وکلاء کو عدالت میں مقدمات پر بحث کرنے کی تربیت دی جاتی ہے، جب کہ وکلاء کو عدالت میں مقدمات پر بحث کرنے کی تربیت دی جاتی ہے یا نہیں۔ اٹارنی وہ ہوتا ہے جس نے لاء اسکول سے گریجویشن کیا ہو، بار کا امتحان دیا ہو اور اسے پاس کیا ہو، اور پھر اپنی ریاست یا دائرہ اختیار میں بطور وکیل پریکٹس کرنے کے لیے داخل ہونے سے پہلے کم از کم پانچ سال تک قانونی طور پر قانون پر عمل کیا ہو۔ وکلاء پریکٹیشنرز ہیں جنہوں نے بار کا امتحان پاس کیا ہے، انہیں اپنی ریاست میں قانون پر عمل کرنے کے لیے داخلہ دیا گیا ہے، اور عدالتوں کے سامنے پریکٹس کرنے کے لیے لائسنس یافتہ ہیں۔ وکلاء کے پاس عام طور پر قانون میں انڈرگریجویٹ ڈگریاں ہوتی ہیں، لیکن ضروری نہیں۔ لفظ “اٹارنی” ایک عام اصطلاح ہے جو کسی ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو قانونی مقدمہ پر بحث کر سکتا ہے یا لوگوں کو مشورہ دیتا ہے کہ قانونی طور پر کیسے کام کیا جائے۔ تاہم، اٹارنی کی بہت سی قسمیں ہیں، بشمول کارپوریٹ کونسل اور عوامی محافظ۔ اٹارنی جو اپنے ڈپلوموں کو اپنی پیشہ ورانہ شناخت کے حصے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اکثر عنوان “مسٹر” استعمال کرتے ہیں۔ یا “مسز” اپنے نام سے پہلے اور عدالت میں پیشی کے دوران اپنی مرضی کے مطابق مہنگے سوٹ یا گاؤن پہن سکتے ہیں۔ وہ وکیل جو اپنے آپ کو ماہر کے طور پر تشہیر کرنا چاہتے ہیں وہ دوسرے عنوانات جیسے “ڈاکٹر،” “محترمہ،” اور “بیرسٹر” استعمال کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں جو کہ برطانیہ اور دولت مشترکہ کے کچھ ممالک میں استعمال ہوتے ہیں۔ اٹارنی وہ شخص ہوتا ہے جسے قانون پر عمل کرنے اور قانونی معاملات پر مؤکلوں کی نمائندگی کرنے کا لائسنس حاصل ہوتا ہے۔ اگر کوئی وکیل ریاستہائے متحدہ میں قانون پر عمل کرتا ہے تو اسے “وکیل” کہا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ اصطلاح امریکہ سے باہر بہت سے دوسرے ممالک میں استعمال نہیں ہوتی ہے۔ ان ممالک میں، اٹارنی کو اکثر “قانون کے وکیل” کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں، دو قسم کے وکیل ہیں: -ایک “اعتراف شدہ” (یا “فعال”) اٹارنی کو بار کا امتحان پاس کرنا چاہیے اور اس سے پہلے کہ وہ کسی بھی ریاست میں قانون کی مشق کر سکے کچھ تقاضے پورے کرے۔ -ایک “غیر رہائشی” یا “غیر ملکی” اٹارنی کو اپنے ملک میں قانون پر عمل کرنے کے لیے داخل ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اسے اس ملک کے مساوی امریکن بار ایسوسی ایشن (اے بی اے) میں پریکٹس کرنے کا لائسنس حاصل کرنا ہوگا، جو بیرون ملک پریکٹس کرنے والے امریکی وکلاء کی نگرانی کرتی ہے۔ وکیل وہ ہوتا ہے جو لاء اسکول گیا ہو اور ڈگری حاصل کی ہو۔ وکیل وہ ہوتا ہے جو لاء اسکول گیا ہو اور ڈگری حاصل کی ہو۔ ایک وکیل اور وکیل کے درمیان فرق یہ ہے کہ ایک وکیل کو قانون پر عمل کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے لائسنس نہیں دیا جاتا ہے۔ ایک وکیل صرف عدالت میں مؤکلوں کی نمائندگی کر سکتا ہے، ان کے لیے فیصلے نہیں کر سکتا۔ ایک وکیل کسی قانونی فرم میں پارٹنر ہو سکتا ہے، لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لائسنس یافتہ ہوں۔ قانونی معاون وہ ہوتا ہے جو وکیل کے ساتھ کام کرتا ہے اور ان کے لیے اپنا کچھ کام کرتا ہے۔ قانونی معاونین کا اپنا لائسنس ہو سکتا ہے لیکن ان کے پاس “اٹارنی” کا عنوان نہیں ہوتا ہے۔ ایک وکیل اور وکیل کے درمیان فرق بنیادی طور پر تعلیم میں سے ایک ہے۔ وکیل وہ ہوتا ہے جو لاء اسکول گیا ہو اور ڈگری حاصل کی ہو۔ تاہم، ایک وکیل کو بار کا امتحان پاس کرنا ضروری ہے۔ اور ریاست کیلیفورنیا میں اٹارنی بننے کے لیے، آپ کو بار کا امتحان پاس کرنے کے بعد کم از کم سات سال کا قانونی تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔ زیادہ تر ریاستوں میں، اٹارنی بننے میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے لحاظ سے بہت زیادہ فرق نہیں ہیں۔ صرف اتنا بڑا فرق ہے کہ آپ کو قانون کی ڈگری کی ضرورت ہے یا نہیں۔ زیادہ تر ریاستوں کا تقاضا ہے کہ آپ بار کا امتحان دیں اور وہاں قانون پر عمل کرنے کے لیے اسے پاس کریں۔ وکیل وہ شخص ہوتا ہے جس نے ریاستی بار کا امتحان دیا ہو، اسے پاس کیا ہو، اور پریکٹس میں داخلہ لیا ہو۔ ایک وکیل ڈاکٹر، انجینئر یا استاد ہو سکتا ہے۔ ایک وکیل صرف کسی ایسے شخص سے زیادہ ہوتا ہے جو قانون کو جانتا ہو۔ یہ وہ شخص ہے جسے بحث کرنے کے فن میں تربیت دی گئی ہے اور مہارت سے قائل کرنے کے ذریعے وہ دوسروں سے جو چاہتا ہے اسے حاصل کرتا ہے۔ وکلاء کو یہ جاننا ہوگا کہ اپنے دلائل کیسے پیش کریں تاکہ وہ واضح اور قائل ہوں۔ انہیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ ایسے طریقے سے کیسے نمٹا جائے جس سے انہیں غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں وقت یا پیسہ ضائع کیے بغیر ان کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے۔ وکلاء کو بھی اچھی طرح لکھنے کے قابل ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے خیالات کو واضح اور مؤثر طریقے سے بیان کر سکیں۔ انہیں ایسا کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ وکلاء کے لکھے ہوئے طویل دستاویزات کو نہیں پڑھتے ہیں جب تک کہ انہیں قانون کے ذریعہ ایسا کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ ایک وکیل اٹارنی ہو سکتا ہے، لیکن تمام وکیل وکیل نہیں ہوتے۔ وکیل اور وکیل میں بڑا فرق ہے۔ اگرچہ الفاظ اکثر ایک دوسرے کے بدلے استعمال ہوتے ہیں، لیکن وہ مختلف پیشہ ورانہ کرداروں کو بیان کرتے ہیں۔ اٹارنی وہ شخص ہوتا ہے جس نے بار کا امتحان پاس کیا ہو، لیکن تمام وکیل وکیل نہیں ہوتے۔ اٹارنی وہ ہوتا ہے جس نے لاء اسکول مکمل کیا ہو، بار کا امتحان پاس کیا ہو، اور عدالت کے سامنے پریکٹس کے لیے داخلہ لیا ہو۔ وکلاء فوجداری اور دیوانی دونوں طرح کے قانون میں کام کرتے ہیں اور مختلف شعبوں جیسے کہ فوجداری دفاع، کارپوریٹ قانون، یا خاندانی قانون میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک وکیل اٹارنی ہو سکتا ہے، لیکن تمام وکیل وکیل نہیں ہوتے۔ آپ عام طور پر دیکھیں گے کہ لوگ اپنی مہارت کے لحاظ سے وکلاء کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ وہ قانونی معاونین یا پیرا لیگل کے ساتھ الجھن میں نہ پڑیں جنہیں “وکلاء” بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک وکیل اٹارنی ہو سکتا ہے، لیکن تمام وکیل وکیل نہیں ہوتے۔ امریکہ میں “وکیل” نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ “وکیل” کی اصطلاح پرانی انگریزی سے “سیکھے ہوئے آدمی” کے لیے آئی ہے۔ لفظ “اٹارنی” 18ویں صدی کے وسط کا ہے اور اس سے مراد ایک وکیل ہے جو عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ وکلاء کو ریاست کی سپریم کورٹ یا کامن ویلتھ کی ہائی کورٹ سے لائسنس دیا جاتا ہے اور انہوں نے اس ریاست میں بار کا امتحان پاس کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی ریاست کی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش کردہ امتحان بھی پاس کیا ہو گا۔ کچھ ریاستوں کو لائسنس یافتہ اٹارنی بننے کے لیے ایک سے زیادہ امتحان کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے نہیں کرتے. ایک لائسنس یافتہ وکیل کسی بھی ریاست میں قانون کی مشق کر سکتا ہے جہاں اسے بار میں داخل کیا جاتا ہے، لیکن اس پر پابندیاں ہیں کہ وہ اپنی آبائی ریاست سے باہر کہاں پریکٹس کر سکتے ہیں (جسے “بقیہ دائرہ اختیار” کہا جاتا ہے)۔ وہ کسی اور کو بتائے بغیر ریاستوں کے درمیان آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر سکتے ہیں کہ وہ قانون پر عمل کر رہے ہیں یا اپنی خدمات کے لیے رقم لے رہے ہیں، لیکن وہاں مشق کرتے وقت انہیں اپنی آبائی ریاست کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔ ایک وکیل جس کے پاس ریاست میں مناسب لائسنس نہیں ہے جہاں وہ پریکٹس کرتے ہیں اسے پھر بھی وکیل کہا جا سکتا ہے۔ ایک وکیل جس کے پاس ریاست میں مناسب لائسنس نہیں ہے جہاں وہ پریکٹس کرتے ہیں اسے پھر بھی وکیل کہا جا سکتا ہے۔ وکیل وہ شخص ہوتا ہے جسے اس ریاست میں قانون پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔ اٹارنی وہ ہوتا ہے جسے ان کی ریاست کی بار ایسوسی ایشن کے ذریعہ تربیت یافتہ اور لائسنس دیا گیا ہو، عام طور پر لاء اسکول مکمل کرنے کے بعد۔ اگر آپ کسی وکیل کی تلاش کر رہے ہیں، تو آپ ایک ایسے وکیل کو تلاش کرنا چاہیں گے جو آپ کی ریاست میں قانون پر عمل کرنے کے لیے لائسنس یافتہ ہو۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ آپ کے کیس کو مناسب اور منصفانہ طریقے سے ہینڈل کیا جائے گا۔ آپ کو اپنے وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے پہلے آپ سے قانونی مدد مانگنے والے شخص کی اہلیت کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اٹارنی وہ شخص ہوتا ہے جس نے قانون کے کسی خاص شعبے میں تربیت حاصل کی ہو اور اس نے کئی امتحانات پاس کیے ہوں۔ وکیل بغیر وکیل کے وکیل ہو سکتا ہے۔ ایک وکیل ریاستی بار ایسوسی ایشن کا رکن ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے ریاست میں قانون پر عمل کرنے کے لیے لائسنس یافتہ ہونا چاہیے جہاں وہ پریکٹس کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی وکیل کو کسی دوسری ریاست کی سپریم کورٹ نے لائسنس دیا ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس دوسری ریاست میں اٹارنی ہے۔ اگر آپ کسی وکیل کی تلاش میں ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں جس نے آپ کی ریاست میں بار کا امتحان پاس کیا ہو۔ آپ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیں گے کہ ان کے پاس اسی طرح کے کیسز کا تجربہ ہے اور یہ جان لیں کہ آپ کے کیس کو آگے بڑھانے سے پہلے کون سے سوالات پوچھے جائیں۔ اٹارنی وہ فرد ہوتا ہے جسے ریاست نے قانون پر عمل کرنے کا لائسنس دیا ہو۔ عام زبان میں استعمال ہونے والی اصطلاح “اٹارنی” سے مراد ہر وہ شخص ہے جس نے کسی تسلیم شدہ لاء اسکول میں کامیابی کے ساتھ چار سالہ پروگرام مکمل کیا ہو اور اس ریاست میں بار کا امتحان پاس کیا ہو۔ ایک وکیل وہ ہوتا ہے جس کے پاس قانون کی ڈگری ہو اور قانون پر عمل کرنے کا لائسنس ہو۔ ایک وکیل وکیل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پریکٹس کرتا ہے۔ وکیل کی پریکٹس قانون کے مخصوص شعبوں یا دیوالیہ پن، امیگریشن، رئیل اسٹیٹ وغیرہ جیسے مخصوص شعبوں تک محدود ہوسکتی ہے۔ کچھ وکلاء کے پاس دوسرے عنوانات بھی ہوتے ہیں جیسے کہ کونسلر (ایک قانونی مشیر جو مؤکلوں کو مشورہ دیتا ہے لیکن قانون پر عمل نہیں کرتا)، ثالث (وہ شخص جو فریقین کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد کرتا ہے) اور ثالث (کوئی ایسا شخص جو بغیر کسی مقدمے کے قانونی تنازعات کو حل کرتا ہے)۔ نتیجہ: وکیل وہ شخص ہوتا ہے جسے قانون کی تربیت دی جاتی ہے اور قانون پر عمل کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وکیل کو وکیل بھی کہا جاتا ہے۔ ایک وکیل ایک مؤکل یا فریقین کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، ایک وکیل کے پاس مناسب قانونی ڈگری ہونی چاہیے اور پھر اسے اپنی دلچسپی کے مخصوص شعبے کا امتحان پاس کرنا چاہیے۔ ملک ارجنٹائن نے بھی اس فرق کو ایک اصول کے طور پر نافذ کیا ہے۔ اصطلاح “وکیل” ایک فعل ہے، جبکہ اصطلاح “وکیل” سب سے زیادہ عام طور پر بطور اسم استعمال ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی تحریر کو مزید پیشہ ورانہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ کسی وکیل کو وکیل کے ساتھ تبدیل کرنے کی طرف مائل ہوں۔ یہ تکنیکی طور پر گرامر کے لحاظ سے درست ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضرورت سے زیادہ رسمی بھی لگ سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ فرضی قانونی صورت حال کی طرح کچھ لکھ رہے ہوں۔ اپنی تحریر کو پیشہ ورانہ بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ الفاظ اور جملے کی ساخت کا استعمال کریں، بجائے اس کے کہ خاص اصطلاحات کے بارے میں فکر کریں۔
اب بٹ کوئن کو ایک Paxful وینڈر کے طور پر فروخت کرنا آسان ہے۔ آپ کو اپنی قیمتیں خود طے کرنے کی آزادی ہے، اور آپ جو بٹ کوئن بیچتے ہیں اس کی ادائیگی کے لیے ادائیگی کے 300 سے زیادہ آپشن کی راحت بھی میسر ہے۔ چونکہ Paxful ایک پیئر ٹو پیئر مارکیٹ پلیس ہے، اس لیے آپ دنیا بھر میں 3 ملین سے زائد صارفین کو اپنا بٹ کوئن براہ راست فروخت کر سکتے ہیں۔ ہمارا پلیٹ فارم آغاز کاروں اور تجربہ کاروں کے لیے منافع کمانا انتہائی آسان بناتا ہے۔ بٹ کوئن کو فوری طور پر فروخت کرنے کے لیے، ایک Paxful اکاؤنٹ بنائیں یا اپنے موجودہ اکاؤنٹ میں لاگ ان کریں۔ ایک بار لاگ ان ہونے کے بعد، صرف ان مراحل پر عمل کریں: اپنے تقاضے مقرر کریں – اپنا ترجیحی ادائیگی کا طریقہ اور بٹ کوئن کی زیادہ سے زیادہ مقدار کا انتخاب کریں جسے آپ بیچنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنے مقام اور اپنی ترجیحی کرنسی کی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ کر لینے کے بعد، پیشکشیں تلاش کریں پر کلک کریں۔ منتخب کرنے کے لیے آپ کو متعلقہ پیشکشوں کی ایک فہرست نظر آئے گی۔ پیشکشوں کا جائزہ لیں – ایک پیشکش کو منتخب کرنے سے پہلے، خریدار کے بارے میں تمام اہم معلومات کی جانچ کرنا یقینی بنائیں، بشمول اس کا نام، ساکھ، تصدیق کا لیول، اور فی بٹ کوئن کی شرح تک، لیکن اسی تک محدود نہیں ہے۔ ایک بار جب آپ کو مناسب پیشکش مل جائے، تو فروخت کریں پر کلک کریں۔ یہ ابھی تک ٹریڈ نہیں کھولے گا، لیکن خریدار کی طرف سے مقرر کردہ پیشکش کی شرائط و ضوابط کو دیکھنے میں آپ کی رہنمائی کرے گا۔ ٹریڈ شروع کریں – اگر آپ خریدار کی شرائط سے مطمئن ہیں، تو وہ رقم درج کریں جس کے لیے آپ ٹریڈ کرنا چاہتے ہیں اور اب فروخت کریں پر کلک کریں۔ یہ ایک لائیو ٹریڈ چیٹ کھولے گا اور آپ کے بٹ کوئن کو ہمارے محفوظ ایسکرو میں منتقل کر دے گا۔ فراہم کردہ ہدایات کو احتیاط سے پڑھیں، اور ان پر عمل کریں۔ ایک بار جب آپ کا خریدار ٹریڈ کا اپنا اختتام مکمل کر لیتا ہے اور آپ کو ادائیگی موصول ہو جاتی ہے، تو آپ بٹ کوئن جاری کر سکتے ہیں۔ آپ ٹریڈ کے بعد ایک عوامی رسید ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ رائے دیں – اپنے بٹ کوئن کو کامیابی سے فروخت کرنے کے بعد، اپنے ٹریڈ پارٹنر کو رائے دینا نہ بھولیں۔ یہ ہمارے پلیٹ فارم کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ صارف کی ساکھ بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مزید معلومات کے لیے، بٹ کوئن کو تیزی سے فروخت کرنے کے طریقے کے بارے میں ہمارا تفصیلی ویڈیو ٹیوٹوریل دیکھیں۔ آپ Paxful پر پیشکش بنانے کے لیے ہمارے گائیڈ پر عمل کر کے بٹ کوئن فروخت کرنے کی پیشکش بھی بنا سکتے ہیں۔ Paxful پیئر ٹو پیئر مارکیٹ پلیس استعمال میں آسان، ایسکرو کے ذریعے محفوظ کردہ، اور پوری دنیا میں قابل رسائی ہے۔ آج ہی ٹریڈنگ شروع کریں!
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ ریاست کے دارالحکومت سری نگر میں مسلسل تیسرے روز اتوار کو کرفیو کی پابندیاں نرم کر دی گئیں تاکہ لوگ عید الاضحیٰ منا سکیں۔ سری نگر شہر کے منتظم شاہد چوہدری کا کہنا ہے کہ شہر میں 250 سے زائد اے ٹی ایم مشینوں نے کام شروع کر دیا ہے اور بینکوں کی شاخیں بھی کھلی ہیں تاکہ لوگ پیر کے روز منائی جانے والی عید الاضحیٰ سے قبل پیسے نکلوا سکیں۔ کرفیو میں نرمی کے دوران سری نگر میں لوگ خریداری کر ہے ہیں تاہم حکام کی طرف سے اس بات کی غیر جانبدار ذرائع سے فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ لوگ مارکیٹوں میں عید کی خریداری کر رہے ہیں کیونکہ کشمیر میں تمام تر مواصلاتی رابطے اور انٹرنیٹ آج ساتویں روز بھی بند ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بھارتی ٹیلی ویژن چینلز نے جیپوں کی ویڈیو دکھائی ہے جن میں دوپہر کے وقت لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو فوراً واپس لوٹ جائیں اور دکانداروں سے بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی دکانیں فوری طور پر بند کر دیں۔ بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق اس اقدام کی وجہ سری نگر میں کرفیو کی پابندی نرم ہونے کے بعد ہونے والی اکا دکا جھڑپیں ہو سکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مکمل کرفیو کے باعث گذشتہ پیر کے روز سے اپنے گھروں میں محصور شہریوں کی طرف سے کسی رد عمل کے خدشے کے باعث حکام انتہائی محتاط رویہ اپنا رہے ہیں۔ کرفیو کی پابندیاں جمعہ کے روز نماز کی ادائیگی کیلئے مختصر وقت کیلئے اٹھائی گئی تھیں۔ تاہم نیوز ایجنسی رائیٹرز کا کہنا ہے کہ آج اتوار کے روز سری نگر میں پابندیوں اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی رابطے منقطع رہنے کے باوجود سیکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سری نگر میں شہری اتوار کے روز احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں جمعہ اور ہفتے کے روز پابندیوں میں قدرے نرمی کے باعث کچھ بیکریاں، میڈیکل سٹور اور پھل کی دکانیں کھل گئیں تاکہ عید الاضحیٰ سے قبل لوگ اشیا اور دوائیں خرید سکیں۔ تاہم اتوار کی دوپہر سے کرفیو کی پابندی دوبارہ عائد کر دی گئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کی واحد مسلم اکثریت والے اس علاقے کی آئین کی شقوں 370 اور 35A کے تحت دی گئی خود مختاری کو ختم کرتے ہوئے گذشتہ اتوار کے روز کرفیو عائد کر دیا تھا اور انرٹیٹ، سیل فون اور تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دئے تھے جس کی وجہ سے کشمیری شہریوں کے بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے۔ رائیٹرز کے مطابق اس دوران 300 کے لگ بھگ کشمیری رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ رائیٹرز نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے روز ظہر کی نماز کے بعد سری نگر کی مسجد ثور کے قریب بہت سے کشمیری اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف نعرے لگائے۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 80 لاکھ کی آبادی کی وادی کشمیر کے شہری پچھلا پورا ہفتہ مکمل طور پر نظر بند رہے اور بھارتی فوج ہزاروں کی تعداد میں مسلسل علاقے کی سڑکوں پر گشت کرتی رہی۔ سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، سکول بند رہے، فوجیوں نے عمارات کی چھتوں پر مورچے بنا رکھے تھے اور انٹرنیٹ، موبائل فون سروس اور لینڈ لائنیں بھی مکمل طور پر بند رہیں۔ یوں وادی کشمیر بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ تاہم نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے باوجود جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ نیو یارک ٹائمز نے ایک بھارتی فوٹوگرافر کی بنائی گئی چند تصاویر شائع کی ہیں جس نے پابندیوں کے باوجود وادی کشمیر کے مختلف حصوں سے تصاویر ارسال کی ہیں۔ ان تصویروں میں سری نگر میں فوج کا گشت، سڑکوں کی جگہ جگہ ناکہ بندی اور کرفیو کی نرمی کے دوران چند شہریوں کو خریداری کرتے دکھایا گیا ہے۔ سری نگر میں فوجی گشت کر رہے ہیں جبکہ دو خواتین خریداری کیلئے جا رہی ہیں نیوز ایجنسی ’دا وائر‘ نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ بہت سے کشمیری پیلٹ گن سے زخمی ہو کر سری نگر ہسپتال وارڈ میں علاج کیلئے پہنچے ہیں۔
شمالی شام اور شمالی عراق میں کرد عسکریت پسندوں کے 89 ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا ہے: ترک وزارت دفاع/ فوٹو بشکریہ ترک وزارت دفاع ترکیہ کی فورسز نے شام اور عراق میں کرد باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک ہوگئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتے ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے بم دھماکے میں ترک حکام نے کرد عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا تاہم کالعدم کرد گروپ پی کے کے نے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ ترک وزارت دفاع کے مطابق ترکیہ فورسز نے ان بم دھماکوں کے بعد کارروائیاں کرتے ہوئے شام اور عراق کے مختلف علاقوں میں فضائی حملے کیے جس میں کرد باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی پڑھیں ترکیہ نے استنبول دھماکے پر امریکی تعزیت کو مستردکردیا استنبول میں ہونیوالے دھماکے کا ملزم گرفتار، کردش تنظیم ملوث نکلی ترکیہ کے شہر استنبول میں دھماکا، 6 افراد ہلاک، متعدد زخمی شامی کرد ترجمان نے کہا کہ ترکیہ کی فورسز کے حملوں میں بڑی آبادی پر مشتمل دو گاؤں کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ترک وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق دہشتگردوں کے شیلٹرز، بنکرز، ٹنلز اور ویئر ہاؤسز کو کامیابی سے تباہ کیا گیا ہے جب کہ شمالی شام اور شمالی عراق میں کرد عسکریت پسندوں کے 89 ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ شام میں کام کرنے والے برطانوی انسانی حقوق تنظیم کا کہنا ہےکہ ترکیہ کے حملوں میں صرف شمالی شام میں 31 افراد ہلاک ہوئے جب کہ عراق میں حملوں کا ہدف واضح نہیں ہوسکا ہے۔ اس سے قبل اتوار کے روز ترکیہ کی سرحد کےساتھ شام سے ایک راکٹ بھی فائر کیا گیا تھا جس میں چند افراد زخمی ہوئے۔
ڈیلی دھرتی (ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق بدھ کو مارکیٹ کھلتے ہی، انٹربینک مارکیٹ میں انٹرا ڈے ٹریڈ کے دوران مقامی کرنسی 1.74 بڑھ کر 223.90 پر ٹریڈ ہوئی انٹربینک مارکیٹ مسلسل نویں روز پاکستانی روپے کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی برقرار رہی مارکیٹ کھلتے ہی مقامی کرنسی 1.74 روپے بڑھ گئی اور 223.90 روپے فی ڈالر پر ٹریڈ کر رہی تھی۔ گزشتہ روز، مقامی یونٹ نے 1.65 روپے، یا 0.73 فیصد اضافہ کیا، جو گرین بیک کے مقابلے میں 225.64 روپے پر طے ہوا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لانے کے وعدے کے بعد، ایک تاجر نے کہا کہ “روپے کی درستگی مارکیٹ کے کھلاڑیوں کے تیزی کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے”۔ جیو نیوز کے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ میں حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “پاکستانی روپے کی اصل قدر گرین بیک کے مقابلے میں 200 سے کم ہے اور اسے نیچے لایا جائے گا، جیسا کہ اس وقت اس کی قدر کم ہے۔” ڈار نے کہا کہ ڈالر بین الاقوامی سطح پر مضبوط ہے، لیکن “ہم اسے جلد ہی اپنی کرنسی کے مقابلے 200 سے نیچے لے آئیں گے۔” اس نے ملازمت میں پچھلے تین ادوار میں کرنسی مارکیٹوں میں مداخلت کی بھرپور حمایت کی ہے اور اس سے کرنسی کو مضبوط کرنے کی بھی توقع ہے جو منگل کو 225.64 روپے پر بند ہوئی۔
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، بخیل وہ ہوتا ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے۔ بحارالانوار کتاب الایمان والکفر باب136 حدیث27 چالیسویں دعا 40۔ موت کو یاد کرنے کے وقت کی دعا اے اللہ!محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں طول طویل امیدوں سے بچائے رکھ اور پرخلوص اعمال کے بجا لانے سے دامن امید کو کوتاہ کر دے تاکہ ہم ایک گھڑی کے بعد دوسری گھڑی کے تمام کرنے، ایک دن کے بعد دوسرے دن کے گزارنے، ایک سانس کے بعد دوسری سانس کے آنے اور ایک قدم کے بعد دوسرے قدم کے اٹھنے کی آس نہ رکھیں۔ ہمیں فریب، آرزو اور فتنۂ امید سے محفوظ و مامون رکھ اور موت کو ہمارا نصب العین قرار دے او رکسی دن بھی ہمیں اس کی یاد سے خالی نہ رہنے دے۔ اور نیک اعمال میں سے ہمیں ایسے عمل خیر کی توفیق دے جس کے ہوتے ہوئے ہم تیری جانب بازگشت میں دیری محسوس کریں اور جلد سے جلد تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کے آرزو مند ہوں۔ اس حد تک کہ موت ہمارے انس کی منزل ہوجائے جس سے ہم جی لگائیں اور الفت کی جگہ بن جائے جس کے ہم مشتاق ہوں اور ایسی عزیز ہو جس کے قرب کو ہم پسند کریں۔ جب تو اسے ہم پر وارد کرے اور ہم پر لا اتارے تو اس کی ملاقات کے ذریعہ ہمیں سعادت مند بنانا او رجب وہ آئے تو ہمیں اس سے مانوس کرنا اور اس کی مہمانی سے ہمیں بدبخت نہ قرار دینا اور نہ اس کی ملاقات سے ہم کو رسوا کرنا اور اسے اپنی مغفرت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اور رحمت کی کنجیوں میں سے ایک کلید قرار دے۔ اورہمیں اس حالت میں موت آئے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں گمراہ نہ ہوں۔ .فرمانبردار ہوں اور( موت سے) نفرت کرنے والے نہ ہوں۔ اے نیکو کاروں کے اجر و ثواب کا ذمہ لینے والے اور بدکرداروں کے عمل و کردار کی اصلاح کرنے والے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل شوبز جوڑیوں کے درمیان علیحدگی کی خبروں کے بعد لگتا ہے اب پیار کی ہوائیں چلنے والی ہیں کیونکہ پاکستان کے معروف ماڈل حسنین لہری نے اپنی محبت کا کُھلے عام اعلان کردیا ہے۔ حسنین لہری کا شمار پاکستانی فیشن انڈسٹری کے ٹاپ مرد ماڈلز میں ہوتا ہے جبکہ ان کی شاندار شخصیت کی وجہ سے ان کے مداحوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ حسنین لہری کا ماضی میں سپر ماڈل سبیکا امام کے ساتھ بھی قریبی تعلق رہا ہے لیکن کچھ سال قبل دونوں میں دوری ہوگئی تھی۔ تاہم اب حسنین نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کرکے اپنے مداحوں کو سرپرائز دیا ہے، انہوں نے اپنی اور ماڈل لوجین ادادا کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لبنانی ماڈل کے عشق میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کیپشن میں لکھا کہ لوجین سے ملنے سے قبل میں سوچتا تھا کہ پریوں کی کہانیاں سچ نہیں ہوتی۔ View this post on Instagram ان کی پوسٹ پر لبنانی ماڈل نے کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پریوں کی کہانیاں سچ ہوتی ہیں۔ حسنین لہری کی پوسٹ پر اداکارہ اُشنا شاہ، ثروت گیلانی، انوشے اشرف، فہد مرزا، ماڈل فاطمہ حسن اور مہرین سید سمیت دیگر شوبز شخصیات نے مبارکباد دی۔ لبنانی ماڈل لوجین ادادا سعودی عرب کے ارب پتی ولید احمد جفالی کی بیوہ ہیں، اس جوڑے کی عمر میں تقریباً 36 سال کا فرق تھا، جب ان کی شادی ہوئی تو لوجین کی عمر 21 برس اور اس کے شوہر کی عمر 57 سال تھی۔ ولید کا انتقال 61 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے ہوا جب کہ اس جوڑے کی دو بیٹیاں تھیں۔ لوجین اب اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں اور وہ نیٹ فلکس پر ریئلٹی سیریز دبئی بلنگ کا حصہ بھی بن گئی ہیں۔
امریکہ میں ہاٹ ایٹ ایجوکیشن اسٹارٹ اپ $ 700 ملین ڈالر کی کمپنی ہے جو پٹسبرگ میں گوئٹے مالا انجینئر کے ذریعہ تعمیر کی گئی ہے۔ ڈوولنگو ، جس نے ایک مفت ایپ پر ایک بڑا کاروبار بنایا تھا ، وہ 2020 میں عام ہونے کے لئے فائل کرسکتا ہے۔ اگر اور جب ایسا ہوتا ہے تو ، اسٹارٹ اپ پٹسبرگ کو آبائی علاقوں میں ایک بڑی کامیابی کی کہانی دے گا۔ یہ کاروباری شخص ایک ارب ڈالر کے جواہرات کی سلطنت (صرف Building 500 کے ساتھ) بنانے سے پہلے راک نیچے کو ہٹاتا ہے معروف زیورات کی کمپنی کینڈر اسکاٹ کے پیچھے ڈیزائنر کی دو بڑی اولاد کے ساتھ طلاق ہوگئی جب زبردستی کساد بازاری کا سامنا ہوا۔ لہذا اس نے ایک جرات مندانہ شرط لگایا: اپنا اسٹور کھولنے کے لئے۔ سیئٹل کے عروج کے آغاز کے منظر کے پیچھے 4 رجحانات 2020 میں شہر کی بہت سی ٹیک کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ ہوا۔ لیکن ہر ایک اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ میامی کی ٹیک اسٹارٹ اپ کا منظر گرم ہو گیا کاروباری افراد اور اسٹیک ہولڈرز اس بڑھتے ہوئے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کے فوائد کو سراہتے ہیں - اور دریافت کرتے ہیں کہ اس کے مستقبل کا ماڈل کیا ہونا چاہئے۔
جنوب مشرقی ایشیا کی حکومتوں نے داخلی بدامنی پیدا ہونے کے اندیشے کے پیش نظر انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں محتاط موقف اختیار کیا۔ ایک جانب انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے معمول کے سیاسی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے (انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کے سلسلے میں ) اپنے مسلمان عوام کی توقعات کسی حد تک پوری کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف دو طرفہ تعلقات کے کنٹرول کے ساتھ اپنے ملک کے مسلمانوں پر اسلامی انقلاب کے سیاسی اثرات کی راہ میں حائل ہوئیں ۔ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کا منفی پروپیگنڈا اور اس انقلاب کی تحریف، انقلاب اسلامی کے خلاف کارگر ہتھیار ثابت ہوئے۔اس کے علاوہ ان ممالک میں پیدا ہونے والی بعض داخلی مشکلات بھی حکومتی تشویش کے بڑھنے کا باعث بن رہی تھیں۔ انڈونیشیا کی حکومت کا نظریہ سیکولر آئیڈیالوجی "Pancasila" ہے اور اس میں ۱) خدائے واحد پر یقین؛ ۲) نیشنل ازم؛ ۳) انسانیت؛ ۴) سماجی انصاف؛ ۵) ڈیموکریسی کے پانچ نکات شامل ہیں ۔ انڈونیشیا کے سول اور فوجی حکام مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی سے کام لیتے ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کرتے ہیں ۔ بعض اوقات اس کو ’’اسلامی خوف‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مذکورہ حکومت ایک عرصے سے ’’ اسلام کو سیاست سے الگ رکھنے‘‘ کی کوشش کرتی رہی ہےاور ’’اسلامی حکومت کے خطرے‘‘ کا ذکر کرتی رہی ہے۔ اس بناپر ماضی میں اس حکومت کی فوجی شخصیات نے واضح طورپر اپنے ملک کے مسلمانوں میں انقلاب اسلامی اور امام خمینی (ره) کی قیادت کے نفوذ کے سلسلے میں اپنی تشویش اظہار کیا ہے اسی لئے شدت پسند مسلمانوں (جن پر شیعہ اور ایران کے حامی کا الزام ہے) کے ساتھ سخت رویہ روا رکھا گیا اور ان پر دہشت گردی ( ہوائی جہاز کے اغوا اور بدھ مت کی عبادت گاہوں میں دھماکوں وغیرہ) کے الزامات لگائے گئے۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات برقرار رہے اور مزید فروغ پا رہے ہیں ۔ ملائشیا کی حکومت نے بھی قوم پرست ہونے اور اپنے ملک کی سیاسی زندگی کیلئے اسلام کی اہمیت کے قائل ہونے کے باوجود شدت پسند اور بنیاد پرست اسلامی تنظیموں کے سر اٹھانے کے بارے میں اپنی تشویش کو چھپایا نہیں ہے۔ اس نے عموماً اپنے ملک کے مسلمان قائدین کی ایران آمد ورفت پر کڑی نگاہ رکھی ہے۔ اس ملک کی حکومتی شخصیات نے بارہا شیعہ شدت پسند نظریات کی ترویج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے (اگست ۱۹۹۴ء) میں ایک مذہبی فرقے ’’الارقم‘‘ کو ایک منحرف گروہ قرار دیا گیا اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی تاہم ایسے حالات میں حکومت نے صوبہ ’’کلانتان‘‘ کے امور چلانے کیلئے حزب اسلامی ’’پاس‘‘ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگرچہ حکومت اس صوبے میں احکام شرعی کے نفاذ کے سلسلے میں ’’پاس‘‘ کے بہت سے قائدین سے متفق نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود دونوں ممالک کے سرکاری وسفارتی تعلقات ہمیشہ برقرار رہے اور بہت سے بین الاقوامی مسائل کے بارے میں دونوں کا مشترکہ موقف، ان کے باہمی تعلقات میں مزید توسیع کا باعث بنا۔ جنوبی فلپائن کے مورو مسلمانوں کی علیحدگی کا مسئلہ بہت پرانا ہے جو ۱۹۷۰ ءکے عشرے میں اس وقت کی منیل کی حکومت کے خلاف مسلح تحریک پر منتج ہوا اور اس کی بعض اسلامی ممالک (مثلاً لیبیا) نے حمایت کی اور اسی طرح اسلامی کانفرنس تنظیم کی مداخلت کا باعث بنا۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی سالوں میں فلپائن میں مقیم ایرانی طلبا کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مورو کے قائدین کا دورۂ ایران، ایران کی جانب سے ان کی باضابطہ حمایت اور فلپائن کی حکومت کو تیل کی سپلائی کی روک تھام کی بناپر فلپائن کی حکومت کو داخلی بدامنی کی تشویش لاحق ہوگئی اور ایران کے اس کے ساتھ سفارتی روابط میں سرد مہری آگئی۔ مارکوس حکومت کی برطرفی کے کئی سال بعد دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے۔ جنوبی فلپائن کے مسلمانوں کا مسئلہ ان میں سے بعض گروپوں کی مسلح بغاوت کے باوجود اسلامی کانفرنس تنظیم کی سرگرم دلچسپی، قرارداد صلح پر دستخط اور خودمختاری کے قیام کے بعد اب مکمل طورپر حل ہونے کے قریب ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ کے مسلمان بھی علیحدگی کے جذبات سے عاری نہ تھے اور حکام نے ان کے درمیان بھی شیعہ نظریات کے نفوذ پر تشویش کا اظہار کیا۔ صوبہ ’’پتانی‘‘ میں ۱۹۹۰ء میں بیس ہزار مسلمانوں نے مسجد کروزہ کی دوبارہ تعمیر کیلئے مظاہرہ کیا جو مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو منوانے کی کوششوں کا ایک نمونہ ہے۔ اگرچہ ان مسلمانوں کا اصلی مقصد علیحدگی پسندی سے زیادہ اقتصادی وسماجی محرومیوں کو دور کرنا سمجھا گیا۔ تھائی لینڈ کی حکومت داخلی مسائل کے بارے میں حساسیت کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ معمول اور متوازن تعلقات قائم رکھے۔ لیکن ان حکومتی تعلقات کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے انقلاب اسلامی کا ایک اور زاویہ نگاہ سے مشاہدہ کیا جس کے آثار ان کی فکری اور معاشرتی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں ۔
فیس بک پر ابھی ایک پوسٹ نظر سے گذری جس سے پتہ چلا کہ کچھ علمائے کرام اور ایک بہت بڑے ”عالم“ نے طارق جمیل صاحب کے تصور خدا کو خلاف قرآن قرار دیا۔ اپنا تصور خدا تو اُنہوں نے بیان نہیں کیا مگر ہائی لائٹ ٹیکسٹ پڑھ کر پتہ چلا کہ طارق جمیل صاحب کی ایک دُعا میں سے الفاظ چن کر اسے اُن کا تصور خدا تسلیم کر لیا گیا۔ میرے نزدیک اس دعا میں طارق جمیل صاحب نے اگراللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کی ہے تو کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ اس پر پوسٹ بنائی جائے نا ہی کفریہ کلمات ہیں کہ اس پر فتویٰ جاری کیا جائے۔ اگر طارق جمیل صاحب نے غلط کہا ہے تو اس کا رد قرآن سے پیش جائے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دیکھا نہ دیکھ سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات بشریت کی حد تک انسان کو دی ہیں۔طارق جمیل صاحب نے اگر اللہ کے ہاتھ اور پاؤں کی بات کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ایسی کوئی بات کی ہے۔ اس کے لیے ہمیں قرآن کریم سےہی رہنمائی ملے گی۔ چند آیات پیش ہیں : ”اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا“(Al-Fath: 10) اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ خود اپنا ہاتھ بتا رہا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبی چنا تھا اس لیے ان کی بیعت اللہ کی بیعت کہلائے گی۔اب اگر اس آیت کے تناظر میں، میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر آپ کا ہاتھ تھا ، اسی طرح آج امت محمدی(ﷺ) پر بھی اپنا ہاتھ رکھ دے تو کیا خیال ہے کافر ہو جاؤں گا؟ ”میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو بے شک میرا رب سیدھی ر اہ پر ہے“ (Hud: 56) اس آیت کا مطلب بھی سب کو پتہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایک نبی کی زبان سے کہلوا رہے ہیں کہ ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے، جسے ہاتھ میں چوٹی ہونا کہا گیا، دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کےہاتھ میں سب کی لگام ہے۔ ”یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں باندھے گئے ان کے ہاتھ، اور لعنت پڑی اِن پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔۔“ (Al-Maaida: 64) اس آیت میں چند انسانوں نے اپنی زبان میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں(نعوذ باللہ)۔ جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر فرما رہے ہیں کہ نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہیں۔ انسانوں کی بات کا انسانوں کی بات میں ہی جواب دیا گیا۔اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کو بندھا ہوا کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوا ہے ۔ تو اس آیت سے میں یہ دعا کروں کہ یا اللہ آپ کے ہاتھ ہی دنیا میں سب سے کشادہ ہیں۔ اپنے کشادہ ہاتھوں سے مجھے خیر عطا فرما۔ کیا اس دعا سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا؟ ”اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔“ (Ar-Ra’d: 31) یہاں بھی اللہ کے ہاتھ سے مراد اللہ کا کنٹرول ہی ہے۔ ”وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے“ (۳۶: ۸۲) کن فیکون کے حوالے سے ااور بھی آیات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ کن فیکون۔ کیا اللہ تعالیٰ کی زبان ہے جو اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑتا ہے؟ اصل میں تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اوروہ چیز ہو جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمجھانے کے لیے انسانوں کی زبان میں بات کی ہے کہ سب سے کم مشقت زبان سے ”ہو جا“ کہنے سے ہوتی ہے کہ انسان سمجھ لے۔ درحقیت تو اللہ تعالیٰ کا ارادہ کرنا ہی کسی چیز کے ہو جانے کے لیے کافی ہے۔ ”وہ سب کچھ سننےاور جاننے والا ہے“ (۲۶: ۲۲۰) بہت سی آیات سمیع کی ہیں یعنی سننے والا، اگر اہم دعا کریں کہ یا اللہ سُن لے تو کیا کفر کا فتویٰ لگا دیا جائے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو سننے والا سمجھا جبکہ سنتا تو انسان ہے؟ ”تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے“ (۳۱: ۲۸) اب بصیر کو بھی دیکھ لیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ابصیر کہیں تو کیا وہ نعوذ باللہ انسانوں کی سطح پر آ جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ اسی طرح بات کی ہے جیسے انسان کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ڈائنو سار کا ذکر نہیں کیا کہ کفار کہیں پہلے ڈائنوسار دکھاؤ تو سہی کہ وہ ہوتے کیسے ہیں۔ اسی طرح اُن خطوں، علاقوں اور اُن کے انبیاء کا ذکر نہ کیا جن کو قریش جانتے نہ تھے کہ قریش کہتے پہلے وہ خطہ دکھاؤ تو سہی کہ ہے کہاں؟۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ پاؤں کا ذکر کیا تاکہ انسان اچھی طرح بات سمجھ لے۔ اب اگر طارق جمیل اللہ کے پاؤں پکڑنے کی بات کر رہا ہے تو اتنا عام بچے کو بھی پتہ ہے وہ ویسے ہی تمثیلی بات ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے کی۔پاؤں پڑنا یا پاؤں پکڑنا انتہائی عاجزی کے مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے پاؤں پکڑنے کی بات اپنی زبان میں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہیں اور اسے آئندہ نہ دہرانے کا عہد کر رہے ہیں۔اسے اگر حقیقی معنی میں لیا جائے تویہ تو بچہ بھی جانتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ ایک انسان پاؤں پکڑنے بیٹھ جائے۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق لین کاگنیٹو کی موت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب انھوں نے کچھ لمحے قبل ہی ڈرامے میں ہارٹ اٹیک سے متعلق مزاحیہ جملہ کہا تھا۔ لین کاگنیٹو اسٹیج ڈرامے میں براہ راست اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے کہ انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ آرام سے اسٹیج پر بیٹھ گئے اور انھوں نے اپنی بانھیں پیچھے کی جانب پھیلا کر آنکھیں بند کر لیں۔ رپورٹ کے مطابق لین کاگنیٹو کے اس عمل کو ناظرین نے ڈرامے کا منظر سمجھا اور اس پر ہنستے رہے۔ لین کاگنیٹو جب چند منٹ تک یوں ہی لیٹے رہے تو ان کے ساتھی اداکاروں نے اسٹیج پر آ کر انھیں اٹھایا اور انھیں احساس ہوا کہ ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟ نوجوان کا آپریشن کے دوران ڈاکٹروں سے سوال رپورٹ کے مطابق تھیٹر انتطامیہ اور اسٹیج اداکاروں نے ایمبولینس سروس اور میڈیکل عملے کو بلایا تاہم جب تک میڈیکل عملہ پہنچا تب تک کامیڈین چل بسے تھے، میڈیکل عملے نے تصدیق کی کہ لین کاگنیٹو کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ کامیڈین کی اسٹیج پر ہونے والی ڈرامائی موت پر ان کے ساتھ اداکاروں نے سوشل میڈیا پر انھیں خراج تحسین پیش کیا اورانھیں حقیقی فن کار قرار دیا۔ متعدد برطانوی اداکاروں نے لین کاگنیٹو کو عظیم کامیڈین قرار دیا اور ان کی جانب سے کی جانے والی شان دار کامیڈی کو بھی سراہا۔ واضح رہے کہ لین کاگنیٹو کا اصل نام پال باربیری تھا، اور وہ 1958 میں لندن میں پیدا ہوا، وہ 80 کی دَہائی سے اسٹیج پر پرفارمنس کر رہے تھے۔ لون وولف کامیڈی کلب کے مالک مسٹر برڈ کا کہنا تھا کہ آج کاگنیٹو کی طبیعت شروع ہی سے خراب تھی تاہم انھوں نے پرفارمنس پر اصرار کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ انسان اپنی عادات و اطوار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کامیاب لوگوں کی عادات اپنا لیں، کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی۔ اگر کہیں زندگی میں آپ کو محسوس ہورہا ہو کہ آپ کے خواب حقیقتوں کے راستے پر گامزن نہیں تو اپنی عادات پر نظر ڈالیں، آپ ضرور کچھ نہ کچھ مس آؤٹ کررہے ہونگے۔ آج کل کی سیلف ہیلپ کتب کا مطالعہ کرلیں یا مائنڈ سائنسز کے ماہرین کے سیمینار سن لیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ سارا کھیل ہی عادات و اطوار کا ہے۔ ریئل اسٹیٹ بھی عجب دنیا ہے۔ بظاھر چکا چوند میں لپٹی ہوئی، اس دنیا کے اپنے ہی راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ دنیا بھر میں ریئل اسٹیٹ ہی وہ سیکٹر ہے جہاں لوگ اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا کرتے ہیں۔ اس بات کا راز اسی میں ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جدید طرزِ زندگی کے تقاضے بدل رہے ہیں، ایسے میں زمین کی ویلیو نہ بڑھے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خیر بات عادات و اطوار کی ہورہی ہے تو اس سیکٹر میں بھی کامیابی چند عادات کے گرد گھومتی ہے۔ عادات کی یہ لسٹ ویسے تھوڑی تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ یہ فہرست اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اس سیکٹر میں کس کیٹیگری میں کام کررہے ہیں۔ یعنی آیا آپ انویسٹر ہیں، آپ ریئلٹر ہیں، بروکر ہیں، ایجنٹ ہیں یا ڈویلپر، کیونکہ سب کی کامیابی کیلئے اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں لیکن یہاں ہم عمومی بات کریں گے کہ وہ کونسی چند خصوصیات ہیں جو اگر آپ اپنا لیں تو پھر چاہے آپ جس بھی پوزیشن پر ہوں، آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ ہوم ورک پر یقین یہ سب سے بنیادی اور سب سے کلیدی صفت ہے۔ کسی بھی جگہ قدم رکھنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرنا یعنی اپنے آپ کو ذہنی طور پر اُس مرحلے کیلئے تیار کرنا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ ریئل اسٹیٹ سرمائے کا کھیل ہے، کہیں آپ بےخبری میں نقصان ہی نہ کروا بیٹھیں۔ ہوم ورک کرنے کا سب سے بہترین طریقہء کار یہ ہے کہ آپ ماہرین سے گفتگو کریں اور جس ڈومین میں آپ ہیں وہاں کے مخصوص لوگوں سے سیکھنے میں وقت لگائیں۔ ریئل اسٹیٹ میں آپ جس بھی پوزیشن پر کام کررہے ہوں، ہر پوزیشن کے اپنے اسرار و رموز ہوتے ہیں جن سے واقفیت صرف اُنہیں ہوتی ہے جو اس سیکٹر میں وقت اور توانائی لگا چکے ہوتے ہیں۔ ماہرین سے سیکھنے کے عمل کو اور اپنی سمجھ بوجھ بڑھانے کے عمل کو ہی ہوم ورک کہتے ہیں جس سے کسی صورت کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدے ہی کا سامان ہوتا ہے۔ کامیاب لوگ اپنی انویسٹمنٹ سٹریٹیجی بناتے ہیں، اُس میں مکمل ہوم ورک اور ہر ایک چیز کی مفصل جانکاری ہوتی ہے۔ وہ آن گراؤنڈ جاکر زمینی حقائق کو دیکھ کر ہی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اُن کا فیصلہ کسی کی کہیں گئی باتوں پر منحصر نہیں ہوتا، اُن کی اپنی حسیات کا ثمر ہوتا ہے۔ انویسٹمنٹ پورٹ فولیو کو بڑھانے کی لگن کسی بھی کامیاب ریئل اسٹیٹ انویسٹر کا پورٹ فولیو دیکھیں، آپ کو وہاں کسی ایک سرمایہ کاری پر قناعت نہیں نظر آئے گی، بلکہ آپ دیکھیں گے کہ ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ کی بہت سی اقسام ہیں اور بڑے سرمایہ کار انواع و اقسام کی سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔ کامیاب سرمایہ کاری کا تعلق مختلف جگہوں اور طرح طرح کی مارکیٹوں میں سرمائے کی ترسیل سے ہوتا ہے۔ ایک بڑا انویسٹر کبھی بھی گلشن میں تنگئ داماں کا علاج ہوتے ہوئے چند کلیوں پر قناعت نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی ایک یا دو کامیاب انویسٹمنٹس کے بعد رکتا نہیں ہے بلکہ مختلف مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ خطرات میں مواقع ڈھونڈنے کی عادت مانا کہ ریئل اسٹیٹ ایک چیلنجنگ احاطہ ہے۔ یہ ٹیلنٹ بھی مانگتا ہے اور تعلیم بھی۔ اس میں نیٹ ورکنگ بھی چاہیے ہوتی ہے اور صبر و تحمل بھی۔ یہاں کے کامیاب لوگوں رسک مینجمنٹ اور اسسمنٹ کرنے کا گر نمایاں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ خطرات کیا ہیں، اُن چیلنجز میں امکانات کتنے ہیں اور کب اُن کے ہاتھوں سے لگائے گئے چھوٹے چھوٹے پودے ایک تن آور درخت کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ اپنی مارکیٹ کو بھی جانتے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی ویلیو کو بھی۔ اُن کا ہاتھ گویا مارکیٹ کی نبض پر ہوتا ہے۔ یعنی کہیں بھی کچھ ہو، اُنھیں اُس کا سب سے پہلے علم ہوتا ہے۔ اُن سے مارگیج ریٹس پر گفتگو کرلیں، اُن سے بیروزگاری کے تناسب سے لے کر ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی ٹرانسفارمیشن پر بات کرلیں، اُن سے کسی ایک مخصوص اراضی کے معاشی پوٹینشل پر بات کرلیں یا مستقبل کے منظر نامے کی، اُنھیں ہر چیز کا مکمل علم و ادراک ہوگا۔ مطالعے کی عادت، قانون کی فہم و فراست اکثر ایسا دیکھنے میں ہے کہ اس سیکٹر میں نووارد قانونی معاملات پر اتنا غور نہیں کرتے۔ اُنھیں گمان ہوتا ہے جیسے جس کسی نے بھی اُنھیں کسی زمین کے بارے میں کوئی بات بتائی، گویا وہ اُس نے خدا لگتی کہی۔ ایسے لوگ عموماً یہ نہیں جانتے کہ ریئل اسٹیٹ میں قانونی کیا ہوتا ہے اور غیر قانونی کیا۔ این او سی یعنی نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی کیا اہمیت ہے، کون سا ادارہ ہے جس کے ہاتھ میں اراضی کی ریگولیشن ہے، کہیں رقم خرچ کرنے سے پہلے کون سی دستاویزات کی چیکنگ ضروری ہے اور کس تفصیل میں کتنا جانے کی ضرورت ہے۔ اؤنرشپ، اپروول، ڈیمانڈ اور ڈیلیوری کا فارمولا کیا ہے اور اس فارمولے کی چیکنگ کا عمل کیسے پورا کیا جائے، یہ وہ چند بنیادی سوال ہیں جن کا فہم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس سیکٹر میں کامیابی کیلئے جہاں بہت سے عادات و اطوار کی بات ہوئی، وہیں ایک عادت یہ بھی ہے کہ اپنی سمجھ اور فہم کو بڑھانے پر مسلسل زور دیا جائے۔
بہت سارے بیٹے اور بیٹیاں مشہور والدین کے ساتھ اپنی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور کارناموں سے اپنے لئے ایک نام بنانا چاہتے ہیں۔ ان مقاصد کا احترام کرتے ہوئے ، مداح مدد نہیں کرسکتے ہیں لیکن جہاں بھی موجود ہیں خاندانی مشابہت کو دیکھتے ہیں۔ اور یہ یقینی طور پر رومر ولیس اور اس کی والدہ ڈیمی مور کے درمیان موجود ہیں۔ یہ تازہ ترین سے بہت جلد واضح ہوجاتا ہے تصویر رومر کی اس میں ، رومر ایک باڈی سوٹ پہنتی ہے جو اس کی شکل کی تعریف کرتی ہے۔ یاہو تفریح درست طریقے سے نوٹ دوسرے عناصر جو واقعی میں مماثلت میں شراکت کرتے ہیں۔ کیا تم اسے دیکھ رہے ہو؟ رومر ولیس اپنے حالیہ پروجیکٹ میں ڈیمی مور کی طرح دکھائی دیتی ہیں https://www.instagram.com/p/CEmwMjalmlJ/؟utm_source=ig_web_copy_link حال ہی میں ، رومر ولیس نے ایک پروجیکٹ پر کام کیا جس میں کم کارداشیان کے ڈیزائن کردہ اسکیمز ، بوڈ سیوٹس شامل تھے۔ ایک انسٹاگرام تصویر میں کچھ حتمی نتائج دکھائے گئے۔ اس میں ، ولیس بلیک اسکیمس باڈسائٹ اور ہیلس پہنے کھڑا ہے۔ اس کے موقف کے ارد گرد مزید سکمز ماڈل کی تصاویر . متعلقہ: مائیکل ڈگلس پرانے اسکول کی تصویر میں بیٹی کیریوں کے لئے ایک جیسے نظر آتے ہیں رومر نے تصویر کے عنوان سے کہا ،مبارک ہو سالگرہ @ اسکیمز !!! ٹیآپ کو ٹیم میں شامل کریں اور مجھے پسند کرنے کے لئے اوہ اتنے پیارے @ کیمکارڈشیان۔ تم ایک جواہر ہو میرے پیارے' تین دن پہلے اس طرح سکمز کے لئے سنگ میل طے کرتا ہے۔ خون گاڑھا ہوتا ہے https://www.instگرام.com/p/BmoN1XKgR20/؟utm_source=ig_web_copy_link یاہو تفریح چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے شائقین حیرت زدہ ہیں کہ کیا تصویر نے حقیقت میں مور کو دکھایا ہے۔ ایک چیز کے لئے ، روومر ولیس اور اس کے کمرے دونوں کی تصویر میں ایک پرانی نظر ہے ، جس میں روٹری فون ، گھنے بالوں اور قابل توجہ میک اپ کی مدد ہے۔ یہ 90 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب ڈیمی مور ایک ایسا باکس آفس پاور ہاؤس بن گیا . رومر ولیس کے دونوں اطراف ہالی ووڈ کے مضبوط جین ہیں ، وہ مور اور اس کے سابق بروس ولیس کی بیٹی ہیں۔ سب سے عمر رسیدہ ہونے کے ناطے ، وہ سب سے بڑی بہن بھائی کا درجہ بھی حاصل کرتی ہے۔ اگرچہ تفریحی زندگی میں اس کا کیریئر چند فلمی کریڈٹ سے شروع ہوا تھا ، لیکن اس نے رقص کرنے میں بھی دلچسپی لی تھی ، اس طرح کے 20 کے سیزن کو جیتنے کے لئے ستاروں کے ساتھ رقص . براڈ وے پر وقت شکاگو اس کی زبانی صلاحیتوں کو بھی ثابت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنا راستہ کھینچ رہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک طرح سے دہرائے گی: وہ ، اس کے والدین کی طرح قابل تعریف کامیابی کا بھی تجربہ کریں گے .
لاہور :رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر مراد راس نے ایک تحریک التوائے کار پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نجی اخبار کی خبر کے مطابق بورڈ آف ریونیو شعبہ اشتمال کے پٹوار سرکل کاہنہ میں بڑے پیمانے پر صوبائی حکومت کی ملکیتی اراضی ہتھیانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کاہنہ پٹوار سرکل میں تعینات ریونیو سٹاف نے سینکڑوں فرضی افراد کو صوبائی حکومت کی زمین کا مالک بنادیا۔ضلعی انتظامیہ پنجاب حکومت کی ملکیتی زمین سے محروم ہونے کے حوالے سے لاعلم نظر آئی ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ پٹوار سرکل کاہنہ میں صوبائی حکومت کی سینکڑوں کنال سرکاری اراضی خورد بردکرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ پٹوار سرکل کاہنہ میں انتقال نمبر5181کے ذریعے مختلف علاقائی بااثر لینڈ مافیا اور ریونیو سٹاف کے قریبی رشتہ داروں نے سرکاری اراضی کی آپس میں بندر بانٹ کرلی ہے۔ گزشتہ دس سال کے دوران پٹوار سرکل کاہنہ میں تعینات رہنے والے ریونیو سٹاف ،پٹواری، قانونگو اور نائب تحصیلدار وں نے بھی اپنے اپنے حصہ لے کر سرکاری اراضی فروخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا اورسرکاری زمین کی خریدوفروخت کی لوٹ سیل لگادی۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بورڈ آف ریونیو پنجاب کے فرضی حوالوں کے ذریعے سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کی گئی اور باقاعد ہ منصوبہ بندی کے تحت پٹواریوں نے بیع دربیع انتقال کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
Nov 24, 2022 attorney, automobile, beauty tips, breaking news, business, computer, conference call, cosmetics, credit, cricket, daily jang, degree, donate, drama, electricity, entertainment, fashion, flights, foods, foreign exchange, gas, geo drama, geo entertainment, health, hosting, insurance, jang news, jang newspaper, latest news, lawyer, loans, mobile, mortgage, pakistan news, Pharmaceuticals, smartphone, software, sports, tablet, technology, today’s news, trading, urdu news, urdu newspaper, video, world فوٹو: فائل نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد ایوان صدر پہنچ گئے۔ نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد ایوان صدر پہنچ گئے، جہاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ان کی علیحدہ علیحدہ ملاقات ہوئی۔ یاد رہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تقرری کی سمری آج صدر کو موصول ہوئی تھی جس کے بعد صدر عارف علوی نے لاہور میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کی اور پھر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ بعد ازاں صدر مملکت عارف علوی نے سمری پر دستخط کردیے، صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت وزیراعظم کی ایڈوائس پر منظوری دی۔
نیویارک : عالمی مارکیٹ میں برینٹ خام تیل 85 ڈالر 80 سینٹ فی بیرل ہوگیا ، یہ تیل کی جنوری2022 کے بعد سب سے کم قیمت ہے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 9 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئیں۔ برینٹ خام تیل کی قیمت85 ڈالر 80سینٹ اور امریکی خام تیل ڈبلیو ٹی آئی کی قیمت 77 ڈالر ستاسی سینٹ فی بیرل ہوگئی۔ یہ تیل کی جنوری دو ہزار بائیس کے بعد سب سے کم قیمت ہے، غیرملکی میڈیا نے بتایا ہے عالمی معیشت سست روی کا شکار ہونے کے خدشے اورڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گر رہی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نومبر کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر 1.35 ڈالر یا 1.57 فیصد کم ہوکر 84.80 ڈالر فی بیرل ہوگیا جبکہ امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ میں خام تیل کی قیمت نومبر میں ترسیل کے لیے 1.15 ڈالر یا 1.46 فیصد کم ہو کر 77.59 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہےکہ ’آپ نے قوم کو تقسیم کردیا جس کا کوئی حد و حساب نہیں ہے، قومیں اس طرح نہیں بنتی، 4 سال ہم سے ہاتھ نہیں ملایا اور اب کہتے ہیں ہم سے آکر بات کریں، یہ دوغلا پن کب تک چلے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں طلبا و طالبات کو لیپ ٹاپ دینے کی اسکیم کو رشوت قرار دیا گیا، اگر نوجوانوں کو لیپ ٹاپ نہ دیتے تو کیا بندوق دیتے، نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر کھولنے کی کوشش کی جاری ہے جو ناکام ہوگی۔ اسلام آباد میں نوجوانوں کی ترقی کے لیے اقدامات کے آغاز کی تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ معاشرے میں تقسیم پیدا کرنا اور زہر گھولنا افسوسناک ہے. انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی طریقہ نہیں کہ میں ہوں تو سب کچھ ہوں اور میں نے تو کچھ نہیں، اس طرح ملک نہیں بنتے اور نظام نہیں چلتا، آج سب سے بڑا چیلنج نوجوان ہیں جنہیں نفرت نہیں علم کی ضرورت ہے‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں نوجوانوں کے لیے شاندار پروگرام ترتیب دیے گئے، نواز شریف کی قیادت میں ان کے پروگراموں کی کامیابی سے تکمیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یوتھ پروگرام کا اجرا پاکستانی قوم کی بڑی خدمت ہے، ہنرمند پروگرام کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کو روزگار میسر آیا.
وزیراعظم آج آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمان اورخالد مقبول صدیقی سے ملاقات علیحدہ علیحدہ کریں گے، جس میں نوازشریف سے ملاقات کا احوال بیان کریں گے۔ ویب ڈیسک شائع 16 مئ 2022 12:06pm پاکستان Facebook Twitter Whatsapp Comments ادھر لندن میں کیا طے پایا ، وزیراعظم شہبازشریف آج اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لیں گے، آصف زرداری ، مولانا فضل الرحمان اورخالد مقبول صدیقی سے ملاقات علیحدہ علیحدہ کریں گے، جس میں نوازشریف سے ملاقات کا احوال بیان کریں گے۔ وزیراعظم شہبازشریف اتحادیوں سربراہان سے لندن ملاقات پراعتماد میں لیں گے، ملاقات میں معاشی صورتحال اور آئندہ عام انتخابات کے شیڈول سے متعلق تبادلہ خیال ہوگاجبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی حکمت عملی بھی زیرغور آئے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف اتحادی جماعتوں کے اجلاس کی سربرہی منگل کو کریں گے، شہبازشریف وطن واپسی پر اتحادی جماعتوں کے قائدین سے اہم ملکی امور پر مشاورت کریں گے۔ آئی ایم ایف مذاکرات ، معاشی پالیسی ، آئندہ انتخابات سمیت تمام ملکی معاملات پرتبادلہ خیال کیا جائے گا ،مشاورت اوراتحادیوں کی منظوری کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی متوقع ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کا قوم سے خطاب بھی متوقع ہے ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، واجبات کے برپا ہونے، دین کی بقاء اور ظالم سے مظلوم کا حق لینے کا موجب بنتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، حقائق کو روشن کرکے بدعتوں کو ختم کرتا ہے اور بدعت گذاروں کو رسوا کرتا ہے اور دینی حقائق میں تحریف کے مانع بنتا ہے۔ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اُن چیزوں کے برعکس کہ جو اذہان میں بیٹھی ہوئی ہیں اور بعض کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں، فقط چند ایک مختصر موارد اور پند ونصیحت تک محدود خصوصی یاد دہانیوں پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ اس کی وسعتیں، حکومت حق کے برپا ہونے اور حکومت الٰہی کے غاصبوں اور ظالموں کے رسوا کرنے کیلئے امام حسین (ع) کے قیام، شہادت اور خاندان پیغمبر(ص) کی قید و اسارت تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ موجودہ صدی میں حضرت امام خمینی(رح) کو ان دو واجبات الٰہی (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کا احیاء کرنے والا قرار دیں کہ جنہوں نے قولاً وعملاً اسے زندہ کیا ہے۔ امام کی کتاب کشف الاسرار کا مسودہ کہ جو136ھجری قمری میں لکھا گیا ہے، عرصہ دراز سے ان دو واجبات الٰہی پر اُن کے عمل پیرا ہونے کا واضح ترین نمونہ شمار ہوتاہے۔ اسی طرح، انقلاب اسلامی کی تحریک بھی اس فریضہ الٰہی کے بارے میں اُن کے (عملی) اقدام کا روشن ترین مصداق ہے۔ امام خمینی (رح) اس موضوع کے بارے میں وسعت نظر رکھتے تھے اور اسے محدود مواقع پر چند خصوصی نصیحتوں اور یاد دہانیوں سے بالا تر جانتے تھے، اسی لئے اُنہوں نے اپنی فقہی کتابوں میں اور اپنے تمام انقلابی فرامین اور دستورات میں اور پھر اسلامی جمہوریہ میں ، امر ونہی کے احکام اور لوازمات کے ضروری موارد کو عوام اور اعلیٰ حکام کے گوش گذار کیا ہے۔ بنابریں ، اُن کی جانب سے اس موضوع کے بارے میں خصوصی عنوان کے طورپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے علاوہ بھی ہم اُن کے اس موضوع کے بارے میں نظریات اور افکار کو ان کی تقاریر، پیغامات اور دوسرے فرمودات سے اخذ کرسکتے ہیں ۔ موجودہ کتاب میں اسی نقطہ نظر سے اس موضوع سے متعلق مواد جمع کیا گیا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسے نکات، محققین اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے سامنے پیش کیئے جارہے ہیں کہ جن کی طرف فقہا کی فقہی کتابوں اور خود امام خمینی ؒ کی فقہی کتب میں بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ امر بالمعروف اور اُس کے ملحقات کی بحث اور اُن کے فتاویٰ کو امام ؒکی فقہی کتب میں سے ’’رسالہ تقیہ‘‘ ، ’’المکاسب المحرمہ‘‘ کی بحث ’’حکم المبیع اذا بیع ممن یصرفہ فی الحرام‘‘ اور ’’تحریر الوسیلہ‘‘ سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ بلا شک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں اُن کی اہم ترین بحث، تحریر الوسیلہ کی ’’کتاب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘ میں کی گئی ہے کہ جو ۱۳۸۴ ھ ق میں لکھی گئی ہے۔
انڈین ویب سیریز تانڈو کیخلاف تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سیریز کے تخلیق کاروں اور اداکاروں کی جانب سے معافی مانگنے کے باوجود عوام کو اس معاملے پر بھڑکایا جا رہا ہے۔ ویب سیریز تانڈو کیخلاف انتہا پسند ہندو جماعتوں نے اپنے کارکنوں کو بھڑکا دیا ہے جس کی وجہ سے ملک گیر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ اداکاروں نے ہمارے بھگوان کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے، ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے اور اس جرم کی سزا دیں گے۔ اور اب بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم "کرنی سینا" کے سربراہ اجے سینگر نے اپنے کارکنوں کو حکم دیا ہے کہ جو بھی ویب سیریز تانڈو کے کرداروں میں سے کسی کی بھی زبان کاٹ کر لائے گا اسے 1 کروڑ روپے انعام دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ اس مشہور ویب سیریز میں سیف علی خان، ڈمپل کپاڈیا سمیت دیگر ایکٹرز مختلف کرداروں میں جلوہ گر ہیں۔ انتہا پسند ہندو سیخ پا ہیں کہ اس ڈرامے میں ان کے بھگوان کی توہین کی گئی ہے۔ ادھر حکام نے بھی معاملے کو حل کرنے کی بجائے اس ویب سیریز میں کام کرنے والے اداکاروں اور ڈائریکٹرز کیخلاف مقدمات درج کرا دیئے ہیں۔ یہ معاملہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ سیف علی خان نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ گھر چھوڑ دیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے بھی انھیں سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارتی شہر جے پور میں بھی اس معاملے کیخلاف بھرپور احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نے گدھوں پر تانڈو کے اداکاروں کی تصاویر لٹکائی ہوئی تھیں جن پر وہ جوتیاں برسا رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر حقیقت میں یہ فنکار ان کے سامنے آ جائیں تو وہ انھیں ایسے ہی جوتیاں ماریں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں امریکا سے موصول ہونے والے سفارتی سائفر کے وزیر اعظم ہاوس سے غائب ہو جانے کے بعد انکشاف کے بعد مذکورہ سائفر کا سراغ بھی لگا لیا گیا۔ گزشتہ حکومت میں موصول ہونے والا سفارتی سائفر دفتر خارجہ میں موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دفتر خارجہ میں موجود امریکی سائفر باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، کابینہ اجلاس میں سیاسی امور اور آڈیو لیکس کے معاملے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کابینہ اجلاس میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کےآڈیو لیکس سے متعلق فیصلوں کی توثیق کی گئی، کابینہ نے آڈیولیکس کی تحقیقات کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی۔ کابینہ نے قرار دیا کہ آڈیو لیکس نے سابق حکومت اور عمران خان کی مجرمانہ سازش بے نقاب کردی، سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ سائفر کی وزیراعظم ہاوٴس سے چوری سنگین معاملہ ہے، سفارتی سائفر کو من گھڑت معنی دے کرسیاسی مفادات کیلئے قومی مفاد کا قتل کیا گیا۔ فراڈ جعلسازی اور فیبریکیشن کے بعد اس کو چوری کیا گیا، حلف متعلقہ قوانین ، قواعدوضوابط بالخصوص سیکرٹ آفیشل کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
'''محمد صلی اللہ علیہ وسلم: نعتیہ مجموعہ''' کھوار زبان میں یہ منظوم سیرت نگاری پر یہ پہلی کتاب ہے جسے چترال سے تعلق رکھنے والے ماہر لستانیات، شاعر، ادیب اور دانشور [[رحمت عزیز چترالی]] نے تحریر کیا ہے اور [[کھور اکیڈمی]] نے اسے ۲۰۱۵2015 میں شائع کیا۔ == منظوم سیرت نگاری == == گلہائے عقیدت == رحمت عزیز چترالی نے اس حضور پرنور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کرنے میں انتہائی ادب اور عاجزی کا خاص خیال رکھا ہے ۔<ref>محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جلد اول: تحریر: رحمت عزیز چترالی گولڈمیڈلسٹ و عالمی ریکارڈ یافتہ، عالمی اعزاز یافتہ(جرمنی) ص: ۱۲۰120</ref> صفحات پر مشتمل اس کتاب کو کھوار اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ == اعزازات == اس کتاب کو وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی حکومت پاکستان نے انٹرنیشنل سیرت النبی کانفرس منعقدہ لاہور میں سند امتیاز، سیرت النبی ایوارڈ ۲۰۱۶ء2016ء اور نقد انعام سے نوازا ہے اور سن ۲۰۱۶ء2016ء کا بہترین کتاب قرار دیا ہے
32 سال کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ان تنظیموں کو اخراجات کی مد میں ملنے والی رقم بھی روک دی۔ ذوالفقار علی ہفتہ 18 مئی 2019 8:30 پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وادی کشمیرمیں برسرِ پیکار عسکری تنظیموں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ میں شامل تمام 12 تنظیموں کے دفاتر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں سربمہر کر دیے گئے ہیں۔ پلوامہ حملے کے تناظر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد 32 سال کی مسلح تحریک کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے دفتری اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم مکمل طور پر روکتے ہوئے ان تنظیموں کے دفاتر بند کر دیے ہیں۔ اسلام آباد میں سرکاری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تمام دفاتر سکیورٹی اداروں نے سیل کیے جبکہ امداد حکومتِ پاکستان نے بند کی۔ ذرائع کے مطابق، ان تنظیموں کی تمام ’سہولیات‘ دنیا میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے لیے رقوم کی ترسیل بند کرنے کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی وجہ سے بند کی گئی ہیں۔ متحدہ جہاد کونسل کے ایک اہم عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے مجسٹریٹ کی موجودگی میں ان کے دفاتر سربمہر کیے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد شہر اور گردونواح میں موجود ان دفاتر پر تالے پڑے ہیں اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ پہلے یہاں عسکریت پسند دکھائی دیتے تھے لیکن دفاتر بند ہونے کے بعد اب یہاں کوئی نظر نہیں آتا۔ مظفرآباد میں ایک عسکری کمانڈر سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ دفاتر بند ہونے بعد شادی شدہ لوگ اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں جبکہ غیر شادی شدہ اپنے طور پر یا پھراپنے دوستوں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ایک اورعہدے دار نے ملاقات پر بتایا کہ ان کے دفاتر کی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی دفتر دوبارہ نہ کھولا جائے۔ ایک اور عہدے دار نے بتایا کہ ہر طرح کے اجتماع پر بھی پابندی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ مستقبل کے بارے میں کوئی صلاح مشورہ نہ کرسکیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر وقت گھروں میں ہی رہ رہے ہیں۔ ان عہدے داروں نے آگاہ کیا کہ حکومت پاکستان نے رواں سال مارچ سے متحدہ جہاد کونسل میں شامل تمام تنظیموں کے انتظامی اخراجات مکمل طور بند کردیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم دفتری اخراجات جن میں مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور ٹیلیفون بلوں کے علاوہ گاڑیوں کی مرمت، ایندھن اور دفتر میں موجود عسکریت پسندوں کے کھانے پینے کے لیے فراہم کی جاتی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کی وجہ سے انھیں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ متحدہ جہاد کونسل میں شامل ایک اہم تنظیم کے رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ 32 سال کی مسلح تحریک کے دوران پہلی مرتبہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم مکمل طور پر روک دی ہے اور دفاتر بند کردیے ہیں۔ حکومتی عہدیدار اس صورت حال پر خاموش ہیں البتہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین خان محسود نے چند ہفتے قبل ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ جن کالعدم تنظمیوں کے خلاف پاکستان میں کارروائی ہو رہی ہے، اگر وہ اس خطے میں موجود ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) دوسری جانب کشمیری عسکری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ان تازہ اقدامات سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ اب وہ کسی بھی صورت کشمیر کی مسلح تحریک کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت پاکستان کا مقصد ہوسکتا ہی کہ وہ ہندوستان کی تشویش کم کرے تاکہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہو اور بات چیت شروع ہو سکے۔ کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 میں پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں برسرِپیکار پاکستانی اور کشمیری عسکری تنظیموں پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں جن میں وادی میں سرگرمیوں کے لیے پیسے بند کرنا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار جانے پر پابندی لگانا شامل تھیں۔ مشرف کے دورِ حکومت میں ان تنظیموں کی مالی مدد بند کردی گئی تھی جو کبھی بھی بحال نہیں ہوئی۔ سنہ 2012 کے اوائل میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان دفاتر پر اٹھنے والے اخراجات کے لیے دی جانے والی رقم میں 50 فیصد کمی کر دی تھی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے کشمیری عسکریت پسندوں کی بحالی کے لیے دی جانے والی امداد بھی روک دی تھی۔ اس مرتبہ دفاتر کے علاوہ انتظامی اخراجات بھی مکمل طور پر بند کردیے گئے ہیں اور یہ مرحلہ وار ہوا ہے۔ اس سلسلے مین انسپکٹر جنرل پولیس سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ اس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہوا تھا، جس کے تحت کشمیری عسکریت پسندوں کو شادی کے لیے 50 ہزار دوپے دیے جاتے تھے اور اتنی ہی رقم کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی دی جاتی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد بظاہر کشمیری عسکریت پسندوں کو پُر امن زندگی شروع کرنے کے لیے موقع فراہم کرنا تھا، تاہم عسکری تنظیموں کے ذرائع سے گفتگو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عسکریت پسندوں کو ماہانہ جو 10 ہزار روپے دیے جاتے ہیں، وہ بدستور دیے جا رہے تھے۔ متحدہ جہاد کونسل 12 کشمیری تنظیموں پر مشتمل اتحاد ہے اور اس میں کوئی پاکستانی تنظیم شامل نہیں ہے۔ ان میں حزب المجاہدین ہی واحد ایسی تنظیم ہے جو اب بھی ایک موثر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ کشمیری تنظیمیں یہ اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان کی حکومتوں کے ان اقدامات کی وجہ سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکری تحریک پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ بھارت پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش کو ہوا دے رہا ہے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ بھارت سے آزادی کے خواہاں لوگوں کی صرف اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرتا رہا ہے۔