text
stringlengths
125
200k
lang
stringclasses
1 value
افغانستان کے دارالحکومت میں سکھوں کی عبادت گاہ گردوارے میں دھماکے کے بعد مسلح افراد نے اندر گھس گئے جن کے ساتھ طالبان اہلکاروں کی گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل کے گردوارے میں زور دار دھماکا ہوا ہے، دھماکا اس وقت ہوا جب وہاں 30 سے زائد سکھ یاتری موجود تھے۔ دھماکے کے بعد درجن بھر مسلح افراد نے گردوارے میں داخل ہوکر 30 سے زائد افراد کو یرغمال بنالیا۔ گردوارے کے ایک دروازے سے 3 سکھ یاتری کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوگئے جن میں سے دو زخمی ہیں۔ زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جب کہ دھماکے میں گردوارے کی حفاظت پر مامور طالبان محافظ جاں بحق ہوگیا اور 2 سکھ یاتریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔ حملے کی اطلاع ملنے پر طالبان اہلکار گردوارے پہنچ گئے اور محاصرہ کرلیا۔ تاحال گردوارے میں موجود مسلح افراد اور طالبان اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والا سکھ یاتری 60 سالہ سویندر سنگھ ہے جس کا خاندان دہلی میں آباد ہے تاہم وہ خود غزنی میں مقیم ہے جب کہ طالبان محافظ کی شناخت احمد کے نام سے ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گردوارے کی عمارت سے سیاح دھواں نکل رہا ہے اور طالبان اہلکار نے گردوارے کو محاصرے میں لیا ہوا ہے۔ تاحال کسی گروپ نے حملے کہ ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ طالبان نے گردوارے میں دھماکے اور حملے کی تصدیق کی ہے تاہم ہلاکتوں سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
urd_Arab
حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گٹنے ٹیک دیئے، بجلی اور گیس مہنگا کرنے کی سخت شرائط بھی مان لیں - ڈیلی نیوز لاؤنج حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گٹنے ٹیک دیئے، بجلی اور گیس مہنگا کرنے کی سخت شرائط بھی مان لیں ویب ڈیسک ۔ اگر مجھے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو خودکشی کر لوں گا، یہ الفاظ تھے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حکومت میں آنے سے پہلے کے تاہم اب حالات اور پوزیشن بدل چکی ہے اپوزیشن میں رہتے ہوئے گرجنے برسنے والے عمران خان نے اب آئی ایم ایف کے سامنے گٹنے ٹیک دیئے ہیں اور بجلی اور گیس مہنگا کرنے جیسی سخت شرائط بھی مان لی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے آخر کار کئی مہینے کے ہیلے بہانوں کے بعد آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خاطر ان کی سخت شرائط مان لی ہیں جن میں عوام پر مزید بو بجلی اور گیس کی مد میں 340 ارب روپے تین سال میں صارفین کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔ حکومت نیپرا کو بجلی کی قیمت کے تعین کے لیے خود مختار بنانے کے لیے رضامند ہو گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے چھوٹے صارفین کے علاوہ سب کے لیے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد 29 اپریل 2019 کو پاکستان آیا تھا اور وزارت خزانہ کے حکام کیساتھ تکنیکی بنیادوں پر مذاکرات جاری تھے۔
urd_Arab
پین دی سری کا مغز : علامتی کہانی از، آدم شیر - aik Rozan ایک روزن 3rd December 2017 Rozan Postings جمالِ ادب و شہرِ فنون Comments Off on پین دی سری کا مغز : علامتی کہانی از، آدم شیر پین دی سری کا مغز علامتی کہانی از، آدم شیر اگلے وقتوں کی بات ہے کہ دُور پار کے ایک ملک، وہ ملک کہ جس کے خزانے بھرے ہوئے تھے، جس کی دھرتی سونا اُگلتی تھی، پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے تھے، صحراؤں میں نخلستان لبھاتے تھے، میدانوں میں شریر بچے اور کھلنڈرے بزرگ کنکوے اڑاتے، پتے گھماتے تھے، جس کے بازاروں کی چہل پہل کی چاپ دُور دیسوں تک جاتی تھی اورجس کے جوان زمین کا سینہ چیر کر یمنی لعل نکالتے تھے، فولاد ڈھالتے تھے اورشام ڈھلے پیڑوں کی چھاؤں میں گیت گاتے تھے، بانسری کی تانیں لگاتے تھے، مٹیاریں چوڑیاں کھنکاتی تھیں اور مائیں دانت بجاتی تھیں، اُس ملک پر ایک بادشاہ ، وہ بادشاہ کہ جس کا چہرہ مہرہ انسانوں جیسا، آواز بھی انسانوں جیسی لیکن کوئی حرکت انسانوں جیسی نہ تھی، نازل ہو گیا۔ بادشاہ نے نزول کے بعد ایک خبط پالا کہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ کہلائے مگر جہاں گیری کا حوصلہ اس میں نہ تھا سو اُس نے عجب راستہ نکالا کہ عالی شان محلات بنائے جنہیں دیکھنے دُور دُور دیسوں کے بادشاہ آتے اور منھ میں انگلیاں داب لیتے۔ اُس بادشاہ نے ایسی سپاہ تیار کی کہ ویسی دُور دُور کے دیسوں میں کہیں نہ تھی اور اُس کے پاس ایسے ایسے آلاتِ حرب تھے کہ سبھوں کو خوف آتا تھا۔ اُس بادشاہ نے دربار سے وابستہ وزیروں، مشیروں کو یوں نوازا کہ بادشاہوں کو شرم آتی جب وہ اُن کے سامنے جاتے اور اپنے بادشاہ کے قصیدے سناتے۔ درباری کارندوں کو بھی خُوب خُوب دیا کہ وفا دار رہیں اور احکام کی بجا آوری میں کبھی غفلت نہ کریں کہ ایسی نوازشیں اور کون کر سکے گا۔ بادشاہ کی بادشاہی بہت بہت قائم رہی لیکن ایک صورت خرابی کی یہ نکلی کہ سپاہ طاقتور اور وزیر مشیر مال دار اور عملدار تو خوشحال ہو گئے مگر رعایا کنگال ہو گئی اور بادشاہ کے محل اتنے اتنے بڑے تھے کہ رعایا کی آواز غلام گردشوں میں گم ہو جاتی اور بادشاہ تک جو پہنچ بھی جاتی تو بادشاہ کی جوتی کو پروا ہوتی کہ وہ تو بادشاہ تھا اور اُس کی بادشاہی قائم تھی مگر بُرا یہ ہوا کہ جس طرح وہ نازل ہوا تھا ، اسی طرح قحط بھی اتر آیا۔ اب جو آس پاس کے بادشاہوں کو خبر ہوئی تو وہ پہلے ہی جلے بیٹھے تھے سو وہ مل بیٹھ کر طے کر بیٹھے کہ اُس بادشاہ کی بادشاہی میں سے حصہ وصولنے کا وقت آن پہنچا۔ بادشاہ کو بھی بھنک پڑ گئی مگر وہ تو بادشاہ تھا کہ بڑی طاقتور سپاہ، ذہین فطین مال دار وزیر مشیر، اور جان ہتھیلی پر لیے کھڑے کارندے سو وہ کیوں ڈرتا۔ پھر کیا ہوا کہ حملہ ہو گیااورکنگال رعایا نے طاقتور سپاہ کے پیچھے کھڑے ہونے کے بجائے حملہ آوروں کو خوش آمدید کہہ دیا۔ پہاڑوں میں مرحبا کی بازگشت، صحراؤں میں مرحبا کی سرسراہٹ، جنگلوں میں مرحبا کی سائیں سائیں، بازاروں میں مرحبا کی گونج، میدانوں میں مرحبا کی ہوائیں اور کھیتوں، کھلیانوں، باغوں میں مرحبا کے پھل پھول ملے یہاں تک کہ بانسری کی تانیں بھی مرحبا مرحبا۔ اور وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور وہ زور آور سپاہ اور وہ شاہوں سے وزیر مشیر اور وہ نواب کارندے معلوم نہیں کیا ہوئے۔ شنید ہے کہ اُن کی پین دی سری ہو گئی۔ مجھے ایک روز کھجلی ہوئی کہ اُس بادشاہ کا مدفن ڈھونڈنے نکل پڑا، نہیں ملا۔ (حنا جمشید) ایک عمدہ ناول ایک تخلیق کار کے ذہنی و فکری ارتقاء کی باضابطہ تکمیل ہے اور اگر یہ فکراپنی ابتداء سے ہی پختہ' روشن اور بھرپور ہو تو پڑھنے والوں پر سوچ کے […]
urd_Arab
سعودی عرب میں گرفتاریوں کی ایک نئی لہر شروع جون 12, 2018 1,653 Views سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں، اور خاندانی اختلافات کھل کرسامنے آرہے ہیں، جسکا واضح ثبوت گزشتہ 21 اپریل کو الخزامی نامی علاقے میں واقع شاہی محل پر حملہ ہے، اس حملے کے حوالے سے یہ حتمی تھا کہ اس میں آل سعود خاندان کے کچھ افراد بھی ملوث ہیں اور واقعی میں ایسا ہی ہوا ہے، سعودی سکیورٹی اداروں نے سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے بیٹے اور سعودی نیشنل گارڈ کے سابق سربراہ متعب بن عبداللہ کو گرفتار کرلیا ہے، متعب کی گرفتاری سے بات ختم نہیں ہوتی کیونکہ آل سعود خاندان میں بن سلمان کے حامی کم اور مخالفین زیادہ ہیں اور آنے والے دنوں میں الخزامی حملوں میں ملوث اور بھی شہزادے گرفتار ہوں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی مزید سختی برتیں گے جس کے تحت جہاں شہزادے گرفتار ہوں گے وہیں بعض شہزادوں کو چپ چاپ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، سعودی عرب کے اندرونی حالات بالخصوص ہزاروں افراد پر مشتمل آل سعودخاندان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بےجا نہیں کہ بن سلمان کے لئے حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا اسکی جان کو ہر وقت خطرہ رہے گا کیونکہ اس خاندان کا ہرفرد اقتدار کا بھوکا ہے اور مناسب موقعے کا منتظر رہتا ہے اس صورتحال کا اختتام کیسےہوگا؟ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کےبعد ، اسے کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور ہربار وہ بچ نکلے ، اسی لئے بن سلمان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اقتدار اور تخت سعودی عرب سے صرف موت ہی جدا کرسکتی ہے، بن سلمان بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے خاندان والے اس کی جان لیکر ہی دم لیں گے لہٰذا یہ کہنا بےجا نہیں کہ سعودی عرب میں پھر سے پرانا دور شروع ہوچکا ہے، وہ دور جس میں بادشاہ یا ولی عہد کو قتل کرنے کے بعد اقتدار حاصل کیا جاتا تھا، اور کچھ سال بعد اقتدار حاصل کرنے والے کو بھی قتل کرکے کوئی اور اقتدار پر براجماں ہوجاتاہے۔
urd_Arab
جہانگیرترین نے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے، مصدق ملک کادعویٰ – Today News – Breaking News, Latest News, Pakistan News, Today Headlines جہانگیرترین نے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے، مصدق ملک کادعویٰ by Shaukat Shabbir April 9, 2021, 10:59 pm 1.6k Views مسلم لیگ ن کے رہنماء اور سینیٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس چینی اسکینڈل میں نہیں پرانے کیس میں منجمد کئے گئے ہیں، جہانگیر ترین نے حکومت اور وزیراعظم کو کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر آپ باز نہ آئے تو میں آپ کی حکومت کو الٹا دونگا۔ رہنماء مسلم لیگ ن مصدق ملک نے سماء کے پروگرام سوال میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں چل رہا کہ تحریک انصاف جہانگیر ترین کے ساتھ ہے یا مخالف، حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ ادارے آزاد ہیں، ادارے خاک آزاد ہیں کہ وزیر پہلے بتادیتے ہیں کہ فلاں پکڑا جائے گا اور وہ گرفتار ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیٹرول یا بجلی کا بحران ہو، آٹا یا ادویات کا، حکومت کا بیانیہ ہوتا ہے کہ یہ سب مافیا کروا رہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان کو کام نہیں آتا۔ مصدق ملک نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین کیخلاف کارروائی صرف وزیراعظم کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے ہورہی ہے، جب تک جہانگیر ترین وزیراعظم ہاؤس سے بے دخل نہیں ہوئے تھے تو عمران خان ان کا دفاع کیا کرتے تھے۔ ن لیگی سینیٹر کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس چینی اسکینڈل میں منجمد نہیں کئے گئے بلکہ انکے خلاف مہنگے شیئر خریدنے کا مقدمہ درج کیا گیا، جہانگیر ترین نے حکومت اور وزیراعظم کو کھلی دھمکی دی ہے کہ اگر آپ باز نہ آئے تو میں آپکی حکومت کو الٹا دوں گا۔ رہنماء تحریک انصاف عثمان ڈار نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چینی انکوائری کمیشن سے سب نے گزرنا تھا یہ نہیں ہوسکتا کہ احتساب صرف دوسروں کا ہو، جہانگیر ترین کا کیس عدالت میں ہے، عدالتیں آزاد ہیں، وہ خود کو کلیئر کرالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے وزیراعظم کو اشارہ ضرور کیا ہے کہ انہیں وزیراعظم سے دور کیا جارہا ہے، اپوزیشن کے لوگ جہانگیرترین کو وزیراعظم کا اے ٹی ایم کہتے تھے، آج ان کا دفاع کررہے ہیں، اپوزیشن کی حالت کتنی قابل رحم ہے کہ ان کو آج جہانگیرترین کا دفاع کرنا پڑرہا ہے۔ رہنماء پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ اگر جہانگیر ترین کا نام انکوائری کمیشن میں نہ ہوتا تو اپوزیشن کے لوگوں نے آج کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنے اے ٹی ایم کو بچالیا، جہانگیر ترین کے ساتھ جو لوگ کھڑے تھے وہ صرف اظہار یکجہتی کیلئے گئے تھے، اگر وہ اراکین اسمبلی عمران خان کے بغیر الیکشن لڑیں تو ان کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔
urd_Arab
چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا،تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، حکومت رابطے .. دبئی : ائر پورٹ روڈ پر نئے ڈائیورژنز بنائے جار ہے ہیں:آر ٹی اے ٹرمپ کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے،وائٹ ہائوس فحش فلموں میں لڑکیاں اپنی مرضی سے، پیسوں‌کیلئے کام کرتی ہیں، فحش فلموں‌کے کیمرہ مین کے انکشافات ریاض: اے ٹی ایم مشینوں میں چھ ماہ تک نئی سعودی کرنسی نہیں مل سکے گا پاک افغان سرحدی انتظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے،سینیٹرلیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان کراچی کچرا کنڈی بن گیا، حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں، مصطفی کمال ابوظہبی : ابو ظہبی صرف 100درہم اور تین شلوار قمیض میں آیا تھا ،معروف شخصیت جدوجہد کی کہانی کوئٹہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سی2افراد جاں بحق ،ملزمان فرار ہونے میں کامیاب عمان : صلالہ کے علاقے سے دو ہندوستانیوں کی لاشیں ملی ہیں : رائل عمان پولیس دبئی : اب ڈرائیوروں کو سگنل پر زیادہ دیر کھڑ ا ہونا نہیں پڑ گے گا مہاجروں کا ووٹ بینک تقسیم نہیں ہو سکتا،فاروق ستار دبئی :پاکستانی معذور بچے کی شاہ رخ سے ملنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی دبئی سے تقریباََ ڈی پورٹ ہونے والا غیر ملکی شہری کس طرح بڑے گروپ کا چئیر مین بنا کویت سٹی : احمدی کیمپ سے 25غیر حالت کی گاڑیاں ضبط مدینہ منورہ ائر پورٹ پر مسافر کے سامان سے 975گرام منشیات برآمد اتوار بازاروں میں خواتین کیلئے بھی اسٹال مخصوص کردیئے گئے ہیں ، حمیدہ وحیدالدین بحرین:236000بحرینی دینار کی منشیات رکھنے پر ایشائی شہری گرفتار سعودی عرب کا ترسیلات زر پر ٹیکس عائد نہ کرنے کا فیصلہ وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے بھرکے بڑے شہروں میں ایل ای ڈی سٹیمرز لگانے کی منظوری دیدی سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت شروع ریاض:یتیم خانے میں کام کرنے والی "نینی " کو یتیم بچوں کی محبت کھینچ لائی جازان کے امیر نے عین وقت پرخاتون کا سرقلم ہونے سے بچا لیا کویت سٹی :کویتی شہری نے اپنے دوست کو مذاق مذاق میں آگ لگا دی ، اسلام آباد ، چٹھا بختاور میں سلنڈر دھماکے میں خاتون اور اس کا بیٹا زخمی دبئی میں 20ملازمتیں ایسی جس میں 800,000درہم تک کمائے جا سکتے ہیں ایران نے عبدالستار ریگی کی حوالگی کیلئے وفد پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کرلیا وقت اشاعت: 08/03/2015 - 23:09:10 پاک بھارت سرحدی امورپر مذاکرات رواں ماہ کے آخرمیں نئی دہلی میں ہونگے ،پاکستان رینجرز کا اعلی سطحی وفد 25 مارچ کو نئی دہلی پہنچے گا،مذاکرات میں سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ ... مزید وقت اشاعت: ہمارے حکمران قومی خزانے کا اربوں روپیہ لوٹ کر سرمایہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں،ہم کرپٹ حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی جدوجہد کررہے ہیں، ملک میں 5فیصد کرپٹ ٹولے نے95فیصد عوام کو یرغمال بنا ... مزید وقت اشاعت: 08/03/2015 - 23:05:28 چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا،تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، حکومت رابطے کر رہی ہے جیت پیپلز پارٹی کی ہوگی، پاکستان میں خواتین کو 80 فیصد حقوق پیپلز پارٹی نے دلائے، پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات ... مزید وقت اشاعت: بلاول بھٹو زرداری نے مارچ کے آخر میں پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا، بلاول بھٹو 28 مارچ کو کراچی پہنچیں گے جس کے بعد ان کا ایک روزہ دورہ لاہور بھی متوقع ہے ، 3 اپریل کو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ... مزید وقت اشاعت: وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی (اتوار) کو کوئی ملاقات نہیں ہوئی، میڈیا وزیر اعظم سے متعلق خود ساختہ بیانات چلانے سے اجتناب کرے،ترجمان وزیر اعظم ہاؤس وقت اشاعت: 08/03/2015 - 23:01:43 اگر حکومت جوڈیشل کمیشن بنا دے تو چیئرمین سینیٹ کیلئے ووٹ دینے کیلئے تیار ہیں ، جمہوریت کو دھاندلی سے خطرہ ہے ، جوڈیشل کمیشن بنوا کے رہوں گا، (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے ملک کو تباہ کردیا ، سینیٹ انتخابات ... مزید وقت اشاعت: پاکستان ہمسایہ ممالک میں امن و ترقی کا خواہاں ہے، کاسا 1000اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کیلئے افغانستان کا تعاون اہمیت کا حامل ہے ، پاک افغان تجارتی معاہدے اور پاکستان ، افغانستان، تاجکستان ٹرانزٹ ... مزید وقت اشاعت: سندھ اور پنجاب حکومت میں گرما گرمی، صوبائی ترجمان بیانات داغنے لگے، پنجاب حکومت کارروائی کرتی تو کالعدم تنظیمیں کبھی پروان نہ چڑھتیں، شرجیل انعام میمن ،پیپلزپارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ ... مزید وقت اشاعت: افغان وزیر مہاجرین پاکستانی حکام سے مہاجرین کے مسائل پر مذاکرات کیلئے پاکستان پہنچ گئے،سید حسین بلخی کی افغان مہاجرین کے نمائندوں سے ملاقات ، مسائل سنے ، مسئلہ حکومت کے ساتھ اٹھانے کی یقین دہانی ... مزید وقت اشاعت: چیئرمین سینیٹ انتخاب ، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے رابطہ کیا ہے ، ن لیگ کو نظر انداز کریں گے : چوہدری شجاعت وقت اشاعت: 08/03/2015 - 22:22:24 ایئر چیفگو نواز گوشرجیل میمنجلسہریالوٹس ایپمونس الٰہیتعلیمگورنرمولانا حسن جانریاضملتانبرماڈرونزلزلہنجم سیٹھیبنوںمسلم لیگ نرینجرزجارج ڈبلیو بش چیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا،تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، حکومت رابطے کر رہی ہے جیت پیپلز پارٹی کی ہوگی، پاکستان میں خواتین کو 80 فیصد حقوق پیپلز پارٹی نے دلائے، پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات عام انتخابات کی طرح لڑے گی،پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی نائب صدر شیر ی رحمان کا تقریب سے خطاب ، میڈیا سے گفتگو کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔8 مارچ۔2015ء) پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی نائب صدر اور امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر شیر ی رحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ چیرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا،اس حوالے سے تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، حکومت بھی رابطے کر رہی ہے ، جیت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔اتوار کو خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحما ن نے کہا کہ سینیٹ چیرمین کےاس خبر کی تفصیل پڑھنے کیلئے یہاں پر کلک کیجئے
urd_Arab
مرکزی صفحہ/ اختصارئے/ملک مزمل عباس کا اختصاریہ : چندہ پاکستان اور چندا پاکستان اختصارئےلکھاریملک مزمل عباس جس ملک کے پرائم منسٹر سے لیکر این جی اوز تک اور مسجدوں مدرسوں تک گورنمنٹ اسکول سے لے کر گورنمنٹ ہسپتالوں تک محفل نعت مجالس ٹورنا منٹ اور سیاسی جلسوں تک صرف چندے پر بھروسہ کیا جاتا ہے اس ملک میں تعلیم کی روشنی کیسے پھیلے گی ہیلتھ آگے کیسے بڑھے گی ؟ ہم پاکستانی قوم کم لیکن مانگنے والی قوم زیادہ مشہور ہو چکے ہیں اگر الیکشن آگئے ہیں حکومت بنانے والا بھی اور اپوزیشن والے بھی دونوں چندے سے ہی گزارہ کر رہے ہیں اور جو لوگ ان لوگوں کو چندہ دیتے ہیں وہ آگے اپنے نیچے والوں کی خون پسینے کی کمائی چھین کر گزارہ کر رہے ہیں یہی سلسلہ نچلے طبقے تک جاری ہے اگر کوئی مسجد بنوا رہا ہے تو وہ پورے زور و شور کے ساتھ لوگوں سے چندہ وصول کر رہا ہے اگر گورنمنٹ اسکول کے کمرے بنوانے ہیں تو پھر بھی چندہ ضروری ہے اگر سرکاری ہسپتال کی بلڈنگ کا معاملہ ہے یا پھر مشینری کا معاملہ ہے تو بھی چندہ ضروری ہے اب تو کہنے کو دل کرتا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا نام چندہ پاکستان رکھنا چاہیے تھا تاکہ جو لوگ پاکستان سے واقف نہ تھے وہ اس کو خوبصورت پاکستان کا نام لکھا ہوا سمجھتے اور پاکستان کو چاند کے نام سے تشبیہ دی جاتی اور جو لوگ پاکستان کی حقیقت سے واقف ہوتے ان کو معلوم ہوتا یہ چاند پاکستان نہیں چندہ پاکستان ہے اور وہ کوئی میں ہمیشہ ڈوبتی ہیں جو دوسروں کی طرف دیکھ کر اپنے آپ کو بنانا چاہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر یورپ سے اتنے ڈالر ہمارے پاس آئیں گے تو ہمارا ملک اتنی ترقی کرے گا تو وہ ڈالر زکوۃ کے خیرات کے صدقے کے ہوتے ہیں مطلب دوسرے ملک اپنی مصیبت ٹالنے کے لیے وہ ڈالر ہم جیسے منگتوں کو دیتے ہیں اور ہم ان ڈالروں کو اپنی ترقی سمجھتے ہیں کوئی ملک ہمیں چاول کی صورت میں تو کوئی کھجور کی صورت میں ہمیں اپنی اترن دے کر اپنی مصیبت ٹالتا ہے اور ہم اس کو اپنی ترقی کا راز سمجھتے ہیں پاکستانی قوم کے لئے چندہ اتنا ہی ضروری ہوگیا ہے جتنا کہ ننگے جسم کے لئے کپڑا ضروری ہے اگر ننگے جسم والے کو کپڑا نہ دیا جائے تو وہ قید ہو کر رہ جاتا ہے اسی طرح اس ملک کو اگر چندا نہ ملے تو یہ اپنے آپ کو قید ہی نہیں بلکہ مردہ حالت میں تسلیم کرتے ہیں اب جا کر میرے ذہن نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے لیے چندہ بہت ضروری ہے اگر یہ چندہ نہ ملا تو پاکستان کی ترقی نہیں ہوگی پاکستان دنیا کے نقشے میں نظر نہیں آئے گا اور پاکستان کو کوئی کیسے پہچانے گا اب بھی وقت ہے قائداعظم محمد علی جناح کی روح سے معافی مانگ کر پاکستان کا نام چندہ پاکستان رکھ لو کیونکہ کچھ ہو نا ہو چندہ ضروری ہے
urd_Arab
قرآنِ پاک اورتازہ سائنسی پیغام,Ameer Hamza Column, Friday 12 2021- Roznama Dunya قرآنِ پاک اورتازہ سائنسی پیغام کائنات کی پیدائش کو مان لیا جائے تو پیدا کرنے والے کو بھی ماننا پڑے گا۔ بعض سائنس دان کائنات کی پیدائش کے منکر تھے' وہ کہتے تھے: کائنات ہمیشہ سے ہے' ہمیشہ رہے گی یعنی انہوں نے کائنات کو ہی خالق سمجھ لیا تھا۔ جب سائنس نے ہی ثابت کردیا کہ ''بِگ بینگ'' یعنی ایک بڑا دھماکہ ہوا اور پھر کائنات وجود میں آئی تو درحقیقت سائنس نے کائنات کی تخلیق کو تسلیم کر لیا مگر بعض سائنس دانوں نے خالق کو پھر بھی تسلیم نہ کیا۔ یہ رویہ صراحت کے ساتھ غیر سائنسی اور غیر علمی تھا کہ تخلیق کو تو تسلیم کر لیا جائے مگر خالق کو تسلیم نہ کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کبھی خالق کے وجود کا سائنسی ثبوت سامنے آیا تو ملحد سائنس دانوں نے اس ثبوت کو چھپانے کی کوشش کی۔ ایسے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت اب سامنے آیا ہے۔ تاریخی پس منظر یہ ہے کہ امریکا کے خلائی ادارے ''ناسا'' نے خلا میں ایک دوربین کو لانچ کیا۔ 3 جولائی 1999ء کو اسے خلا کی جانب چھوڑا گیا تھا۔ اس پر اُس وقت ایک ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی تھی۔ اس کا نام ''چندرا آبزر ویٹری'' رکھا گیا تھا۔ یہ نام انڈیاکے ایک ہندو سائنس دان کے نام پر رکھا گیا تھا، جسے 1983ء میں مسٹر ولیم کے ساتھ نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ مسٹر سبرامنین چندرا شیکھر 1910ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں وہ امریکا کے شہری بن گئے تھے۔ وہ فزکس کے نامی گرامی سائنس دان اور فلکیات کے ماہر تھے۔ ان کو عزت دینے کے نقطۂ نظر سے ان کے نام پر خلائی دور بین کا نام ''چندرا'' رکھا گیا۔ چندرا آبزرویٹری کی خصوصیت یہ ہے کہ آسمان کی وسعتوں میں جب کوئی ستارہ پھٹتا ہے تو اس کے بکھرے ہوئے ملبے میں جو عناصر ہوتے ہیں' یہ ان کی تصاویر اور فلم بناتی ہے اور زمین پر ناسا کے مرکز کو ارسال کرتی ہے۔ اس نے ایک (سٹار) سپر نووا کے ملبے کو دکھایا' اس میں خوبصورت رنگوں میں سلیکان، سلفر، کیلشیم اور آئرن وغیرہ کو دکھایا۔ اربوں سینٹی گریڈ درجے کی حرارت میں یعنی ایک آسمانی جہنم میں مذکورہ عناصر کا دکھانا بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس نے دیگر عناصر کو بھی دکھایا۔ چندرا کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ وہ X-Rays کرکے عناصر کی حقیقت کو کھول کر دکھا دیتی ہے۔ ان مناظر کو اپنے وقت کے معروف سائنسدانوں رابرٹ لاٹیمر، ڈاکٹر ٹورب جان اور المون لارش نے دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ عناصر پیدا کیے گئے ہیں۔ مسٹر ''Ethan Siegle'' نے BigThing.com میں 8 نومبر 2021ء کو جو تحریر لکھی' اس میں انہوں نے حوالہ دیا ہے Public Domain US Government کا' یعنی ایسے پرانے حقائق' جن کو شائع کرنے سے قبل حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ وقت زیادہ گزر جائے تو کئی سالوں کے بعد پرانے حقائق منظر عام پر آ جاتے ہیں۔ جی ہاں! مندرجہ بالا حقیقت کا مطلب یہ ہے کہ ستاروں میں وہ عناصر بنے جن سے بعد میں زندگی وجود میں آئی' یعنی یہ عناصر خود نہیں بنے۔ یہ بنائے گئے ہیں۔ جس نے زمین پر زندگی بنائی' وہی خالقِ کائنات ہے۔ مضمون نگار اس حوالے سے سائنسدانوں کے الفاظ واضح طور پر لکھتا ہے: Both natural and human are made۔ یعنی دونوں ہی بنائے گئے ہیں۔ قدرتی عناصر بھی اور (پھر ان عناصر سے) انسان بھی پیدا کیے گئے ہیں۔ مضمون نگار مزید لکھتا ہے: Each of these elements produces X- Rays within narrow energy ranges allowing maps of their location to be created. یعنی یہ جو عناصر ہیں' ان میں سے ہر عنصر توانائی کے حلقوں میں پتلی سی ایکس شعائیں پیدا کرتا ہے۔ ان کے نقشوں کی لوکیشن اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں کہ جب ہماری زمین ستارے سے ٹوٹ کر الگ ہوئی تو ٹھنڈا ہونے پر جن سے اس وقت خلیات وجود میں آئے جب ان کو پانی میسر ہوا اور یوں مردہ سے زندگی وجود میں آئی۔ اللہ اللہ! قارئین کرام! مندرجہ بالا تحریر ناسا کے اپنے سائنسدانوں کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ اس حقیقت سے اللہ کا قرآنِ مجید یوں پردہ اٹھاتا ہے، فرمایا: تم کیسے اللہ کا انکار کرو گے حالانکہ تم (عناصر کی صورت میں) مردہ تھے' اس نے تمہیں زندگی عطا فرمائی۔ (یاد رکھنا) وہ تمہیں پھر مارے گا اور پھر تمہیں (قبروں) سے زندہ کرے گا۔ تب تم اسی (اللہ) کی طرف واپس لوٹائے جائو گے۔ (البقرہ: 28)۔ قارئین کرام! ناسا کا وائیجر 1 ہو یا وائیجر 2' حبل سپیس دوربین ہو یا یورپی یونین کی خلائی دوربین، چندرا ہو یا دیگر سینکڑوں زمینی اور خلائی دوربینیں' سب کی تحقیقات کا حاصل یہ ہے کہ جو عناصر پھٹتے ستاروں میں نمایاں ہوتے ہیں' وہی زمین پر ہیں۔ یعنی اللہ ہی کائنات کا خالق ہے اور خالق ایک ہی ہے کیونکہ ہر جگہ تخلیق کی اساس ایک ہی ہے۔ وہ لاشریک ہے کہ اس تخلیق میں دوسرا کوئی نہیں اور یہی پیغام حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ ایک عرصہ سے سائنس دان ''ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی'' کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ اب یہ پیشگوئیاں سائنسی حقیقت میں ڈھل چکی ہیں؛ چنانچہ یکم اکتوبر سے 4 نومبر 2021ء تک کے پانچ دنوں کو سائنسدانوں نے باہم مل کر منایا اور اسے Global Celebration of dark matter (dark energy) day کے طور پر منایا گیا۔ سرن لیبارٹری میں زیر زمین 27 کلومیٹر کے دائرے پر مشتمل مخصوص دھاتوں سے بنی ہوئی سرنگ میںیہ تجربہ کیا گیا۔ ایٹم کے اندر جو ذرات ہوتے ہیں' ان کوزبردست بیم یعنی تیز رفتار باریک ترین لیزر نما شعاع سے توڑا گیا۔ اعلیٰ ترین کیمروں نے' جو بڑے تاروں کے اندر ہی فٹ تھے' فلم اور تصاویر بنائیں۔ ایک ذیلی ذرے (Subparticle) سے بے شمار دیگر ذرات سامنے آئے۔ ان سے پتا چلا کہ نظر آنے والی کائنات کے پیچھے ''ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی'' ہے جو اسے کنٹرول کر رہی ہے۔ آسمان میں بھی پھٹتی گلیکسی کا منظر سامنے آتا ہے تو پھٹنے سے ڈارک میٹر اور عام مادہ الگ ہو جاتے ہیں۔ مزید حقائق یہ سامنے آئے کہ ہمیں جو کائنات دکھائی دے رہی ہے' وہ 14 ارب سالوں سے روشنی کی رفتار سے پھیل رہی ہے۔ غور کریں یہ کتنی بڑی ہوگی اور مزید پھیلتی چلی جا رہی ہے مگر ہم اس کا صرف پانچ فیصد حصہ دیکھ پائے ہیں اور اتنا ہی دیکھیں گے۔ اب یہ جو 100 فیصد کائنات ہے' وہ کتنی بڑی ہو گی' یہ ہمارے تصور سے باہر ہے مگر وہ بھی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادے اور سیاہ انرجی کے مقابلے میں اتنی چھوٹی ہے کہ صرف 5 فیصد ہے باقی تقریباً 70 فیصد ڈارک انرجی ہے اور 25 فیصد ڈارک میٹر، اور موجودہ کائنات صرف 5 فیصد ہے۔ لوگو! بات بڑی ہی عظیم ہے کہ ایٹم کے ذرات کے علاوہ مزید ذرات 60 عدد تک معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں ''نیوٹرینو'' ایسا ذرہ ہے جو آسمانوں سے آتا ہے اور ہم آٹھ ارب انسانوں میں سے ہر انسان کے جسم سے ہر لمحہ نیوٹرینو اربوں کی تعداد میں گزرتے ہیں۔ کون کون سا ذرہ کیا کر رہا ہے' ہمیں کچھ پتا نہیں۔ وہ اپنے خالق کا نمائندہ ہے' کچھ نہ کچھ توکر رہا ہو گا۔ ہماری حرکتیں نوٹ کر رہا ہو گا۔ نجانے میرے رب کی یہ انٹیلی جنس کیا کیا کر رہی ہے اور اس کی فرشتوں کے علاوہ کیا کیا اقسام ہیں۔ ان ذرات کی سواریاں وہ چار کائناتی قوتیں ہیں جو مقناطیسی وغیرہ ہیں۔ ان کے پیچھے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہے۔ اس کی حقیقت کو پانے اور مستفید ہونے میں آئندہ کتنی صدیاں درکار ہوں گی' اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اب ایسی نئی ٹیکنالوجی مستقبل میں سامنے آئے گی کہ موجودہ دور فرسودہ نظر آئے گا۔ جی ہاں! یہ سارے نظام تہہ در تہہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں' جوڑا جوڑا ہیں۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ایک جوڑا ہے' ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ ان سب کا خالق ''اَللّٰہُ الصَّمَد'' ہے۔ وہ سب مخلوقات سے بے نیاز اور بے پروا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ہر جگہ کی سائنسی حقیقت یہی ہے۔ حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآنِ حکیم نے کیا خوب فرمایا ''وہ (اللہ) ایسی ذات ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی (وہی) معبود ہے۔ اور وہ حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے''۔ (الزخرف :84) لہٰذا اس سے بے خوف ہوکر چند روزہ زندگی گزارنے والا کس قدر نادان ہے؟
urd_Arab
لفظ ''خان'' کا تاریخی سفر اور سماجی قدر و منزلت | لفظونہ Posted by ساجد ابو تلتاند | جمعہ, اگست 28, 2020 | تاریخ | ''نام'' دُنیا کی ہر زبان میں کسی شخص کی پہچان ہے۔ لقب، کنیت، خطاب، عرف اور تخلص اس کا ذاتی امتیاز ہے۔ جب کہ شہرت، درجہ، یادگار، نیک نامی اور نسل سب ''نام'' رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ ترکی زبان کا لفظ ''خان'' وسطِ ایشیا کے سلاطین اور قبائلی سرداروں کالقب ہے۔ جب منگولیا کی تاتار قوم اُٹھی، تو اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔ چغتائیوں نے اسے شاہی خطاب کادرجہ دیا، تو ترکستان کے عوام و خواص نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہاں تک کہ خان کی تانیث''خانم''بھی اچھے خاندان کی خواتین کے لقب کے طور پر جانا جانے لگا۔ اب ''خان'' امیر یا بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جب غزنویوں کی لشکر میں پشتونوں نے غیر معمولی کارنامے سرانجام دیے، تو یہ پشتون مردوں کے ناموں کا جز قرار پایا۔ کہتے ہیں کہ پشتونوں کو پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے یہ نام دیا تھا۔ غوریوں کے زمانے میں پشتونوں کی اکثریت اُن کے ساتھ تھی۔ اس لیے یہ نام پشتونوں میں مزید اعلیٰ حیثیت کا حامل ہوا۔ یہاں تک کہ ایران اور ترکستان سے آئے فاتحین نے اُن کا یہی نام برقرار رکھا۔ وسطِ ایشائی حملیِ جن کا رُخ اکثر ہندوستان کی طرف تھا، ان میں پشتونوں کی بھی اکثریت ہوا کرتی تھی، جس کی وجہ سے بعض علاقے پشتونوں کی دسترس میں آگئے تھے۔ مثلاً سلطان پگھل کی ریاست جس میں (سوات سمیت) شمالی پختون خوا کے اکثر علاقے شامل تھے، میں کثیر تعداد میں پشتون آباد تھے۔ لہٰذا یہ نام پشتونوں میں مزید وقعت کا باعث بنا۔ اس طرح جب پشتونوں کی طاقت میں اضافہ ہوا اور دلہ زاک کی طرح نیازی، لودھی، سوری، یوسف زئی اور خٹک وغیرہ میدانِ حرب میں کود پڑے، تو ہندوستان میں شایانِ شان سرداروں اور پایۂ تختوں نے اُن کی سواگت کی۔ اب خان کا لفظ پشتونوں کے نام کا جزلاینفک بن گیا۔ داؤد خان (شیر شاہ سوری)، خان گجو (یوسف زئی) اور خوشحال خان (خٹک) وغیرہ جیسے تاریخی سرداروں اور بادشاہوں کے ساتھ ''خان'' کا لاحقہ لگایا جانے لگا۔ مغلوں نے یہ نام بڑے بڑے سپہ سالاروں اور سرداروں کو بطورِ خطاب عطا کیا۔ اکبر بادشاہ نے تو لفظ ''خان'' کو سرکاری حکم نامے کے بغیر جاری کرنے تک پر پابندی عائد کی تھی۔ جہانگیر جو خطابات اور القابات دینے کے لیے جانے جاتے تھے، وہ دیگر القابات کے ساتھ ساتھ شیر خان، لشکر خان، مقرب خان اور خان دوران وغیرہ جیسے خطابات بھی جاری کرتا تھا۔ مغلیہ دور میں''خان اعظم''بڑا خان یعنی خانوں کا خان اور خانِ خاناں یعنی سردار بھی عام تھے۔ انگریزوں نے اپنے وفاداروں کے لیے ''خان بہادر''کا لفظ متعارف کرایا، لیکن یہ نام پشتونوں کے علاوہ پارسیوں اور عام مسلمانوں کو بھی دیا جاتا تھا۔ پھر بھی پشتونوں میں اس نام کی وقعت کم نہ تھی۔ کیوں کہ پشتون اب بھی قبائلی نظام کے تحت سرداروں اور جاگیر داروں کے ماتحت تھے، جن کی معاشرتی درجہ بندی چھوٹے بڑے خانوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔ تاوقت یہ کہ ہندوستان آزاد ہو کر دو ریاستوں کی شکل میں نمودار ہوا۔ خود مختار ریاستیں ایک ایک کرکے اِن دو ملکوں میں ضم ہوئیں اور آئینی اور ملکی قوانین لاگو ہوئے۔ پھر بھی قبائلی نظام ایک حد تک مروج تھا۔ اس لیے قبائلی اختیارات جاری رکھنے کے لیے خان اور خان ازم چلتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ قبائلیت کمزور پڑ گئی اور معاشرہ سرمایہ داری نظام کی طرف مائل ہوگیا۔ جس سے انتظامی اُمور براہِ راست حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں آتے گئے۔ اب تھانیدار، خان جی، خان، مشر خان اور کشر خان وغیرہ کہلایا جانے لگا ہے۔ جب کہ عام لوگوں میں خان محض خاندانی حیثیت تک رہ گیا ہے اوراب تو بعض خاندانوں میں یہ نسلی روایت سا بن گیا ہے، جن کے آبا و اجداد کسی زمانے میں خان گزرے تھے۔ جیسا کہ ''خان خیل۔'' خانکی انتظامی اور سیاسی حیثیت اگرچہ ختم ہوچکی ہے، تاہم سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اور بڑی حد تک جاگیریں رکھنے کے باعث ''خانی'' ایک حد تک زندہ ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اگلے دو دہائیوں میں خان اور خانی فقط ایک تاریخ بن کے رہ جائے گی۔ رہا لفظ ''خان''تو یہ عوام میں اس قدر مانوس ہوگیا ہے کہ عام لوگ خواہ وہ کسی بھی نسل، قوم یا طائفے سے تعلق رکھتے ہیں، خان کو اپنے ناموں کے ساتھ بطورِ لاحقہ لاتے ہیں۔ جب کہ بچوں کو پیار کی وجہ سے''خان'' پکارا جاتا ہے۔ گویا یہ خطاب اور لقب کے ساتھ ساتھ عرف کی شکل بھی اختیار کرگیا ہے۔ موسیقی کے بڑے بڑے استادوں اور گویوں نے تو پہلے ہی ''خان''کا لقب پایا تھا۔ اسی طرح آغا خانی مسلک کے پیشواؤں کو بھی یہ نام بھا گیا تھا۔ اب اس میں کوئی حرج نہیں کہ عام لوگ بھی اسے استعمال کریں۔ عربی لفظ ''ملک'' کو بھی پشتونوں نے معاشرتی وقار کے طور پر استعمال کرکے اسے عام کیا ہے۔ پشتونوں کا یہی ایک خاصا ہے ورنہ میر، میرزا اور بیگ بھی ترکیوں کے خطابات اور القابات تھے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ نہ تو ان کو اس قدر پذیرائی ملی، اور نہ یہ نام اتنے مقبول ہی ہیں۔
urd_Arab
سپین: کاتالونیہ خطے میں‌لاکھوں‌افراد کا احتجاج اور پولیس سے جھڑپیں جاری، اسیران کی رہائی کا مطالبہ - Daily Mujadala ویب ڈیسک 19/10/2019 19/10/2019 8 تبصرے سپین کے کاتالونیہ خطے میں پانچویں روز بھی احتجاج جاری ہے جس کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ کاتالونیہ کے مختلف علاقوں میں جمعے کو لاکھوں افراد نے آزادی کے جھنڈے لہرائے اور 'سیاسی قیدیوں کے لیے آزادی' کے نعرے لگائے۔ سپین سے کاتالونیا کی آزادی کےلئے لاکھوں افراد کا بارسلونا میں احتجاج Posted by Daily Mujadala on Friday, October 18, 2019 کاتالونیا میں جاری احتجاج کے باعث کم سے کم 96 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ کاتالونیہ سپین کے شمال مشرق میں ایک خودمختار علاقہ ہے اور وہاں یکم نومبر سنہ 2017 کو ایک ریفرینڈم میں کاتالونیہ کے 90 فیصد ووٹروں نے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے تاہم اس ریفرینڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح صرف 43 فیصد تھی۔ اس ریفرینڈم کو سپین کی آئینی عدالت غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ سپین کی سپریم کورٹ نے کاتالونیہ کے نو علیحدگی پسند رہنماؤں کو ریفرنڈم میں ان کے کردار پر بغاوت کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور انھیں نو سے 13 سال کے درمیان قید کی سزا سنائی تھی۔ ہسپانوی فٹبال لیگ لا لیگا میں بارسلونا اور ریال میڈرڈ کلب کے مابین رواں ماہ ال کلاسیکو میچ کو سول بدامنی کے خدشے کے باعث ملتوی کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ میچ 26 اکتوبر کو کھیلا جانا تھا تاہم پیر کو کاتالونیہ کے نو علیحدگی پسند رہنماؤں کو جیل بھیجنے کے بعد سے بارسلونا میں احتجاج ہو رہا ہے۔ بارسلونا اور ریال میڈرڈ دونوں نے ہی اس میچ کو میڈرڈ منتقل کرنے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ بارسلونا کے مینیجر ارنسٹو والورڈے نے کہا تھا کہ بارسلونا میچ کو میڈرڈ منتقل کرنے کے خلاف ہے کیونکہ وہ 23 اکتوبر کو چیمپیئنز لیگ میں سلاویہ پراگ کا دورہ کرنے والے ہیں جو کہ ال کلاسیکو میچ سے تین روز پہلے کھیلا جائے گا۔ لیگ لا لیگا نے اس میچ کو ملتوی کرنے کی درخواست اس وجہ سے کی کہ 'ہمارے اختیار سے باہر کے غیر معمولی حالات' کی وجہ سے کی کیونکہ میچ کے دن بارسلونا میں مزید احتجاج کی توقع ہے۔ کیٹاگری میں : انٹرنیشنل، اہم خبریں Tagged Barcelona Protests، Catalonia، Protests in Barcelona، Protests in Spain، Spain، Spain Protest، بارسلونا، سپین، کاتالونیا، کاتالونیہ ورلڈ بنک نے پاک بھارت آبی تنازع پر ثالثی کرنے سے معذرت کر لی افغانستان:ہزاروں افغان لویا جرگہ میں چار سو طالبان کی رہائی سے متعلق فیصلہ کرینگے افغانستان: جذبہ خیرسگالی کے تحت مزید 500 طالبان قیدی رہا کر دیئے گئے 8 تبصرے "سپین: کاتالونیہ خطے میں‌لاکھوں‌افراد کا احتجاج اور پولیس سے جھڑپیں جاری، اسیران کی رہائی کا مطالبہ"
urd_Arab
کورونا ویکسین کا دوسرا بڑا فائدہ، سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی - کورونا ویکسین کا دوسرا بڑا فائدہ، سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکیسین انسان کو صرف کوویڈ سے ہی نہیں بچاتی بلکہ اس کا ایک اور بڑا فائدہ سامنے آیا ہے جسے محققین نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں محققین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کورونا ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 سے تحفظ ملتا ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔ سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کوویڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔ یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصدکورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے امریکا بھر میں 8 ہزار سے زیادہ افراد کو سروے فارم بھیجے گئے تھے تاکہ وبا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سرویز کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کو وبا کے باعث کسی حد تک ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوا۔ ابتدائی نتائج کے بعد محققین کی جانب سے ہر 2 ہفتے بعد ان افراد کو سروے فارم بھیج کر ذہنی صحت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔ تازہ ترین سروے میں ان افراد سے کوویڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ذہنی صحت پر مرتب اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پہلے بہت زیادہ ڈپریس تھے ویکسینیشن کے بعد اس کی شرح میں 15 فیصد جبکہ معمولی ڈپریشن کی شرح میں 4 فیصد تک کمی آئی۔ محققین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ممکنہ طور پر ویکسینیشن کے بعد 10 لاکھ افراد کی ذہنی پریشانی میں کمی آئی۔ محققین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانا محض لوگوں کو بیماری سے ہی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا بیماری کے شکار ہونے کے ذہنی ڈر اور بے چینی کو بھی نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔ محققین کے مطابق اس پراجیکٹ پر کام ابھی جاری ہے اور مزید عوامی آراء کے ذریعے تعین کیا جائے گا کہ کورونا کی نئی اقسام اور بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ان کی رائے کیا ہے۔ واضح رہے کہ تحقیق میں فی الحال یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ ویکسینیشن سے لوگوں کی ذہنی صحت میں کس حد تک بہتری آتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس ون میں شائع ہوئے۔
urd_Arab
کرناٹک ایک انجانے خوف کی ریہرسل - Punjnud.com دلی کیتھو لک چرچ کے پادری انیل میٹو نے ہندوستان کے تمام چرچ اور پادریوں کو خط لکھا ہے کہ مودی حکومت ہندوستانی جمہوریت کا خون کر رہی ہے .ہمیں اپنی عبادت میں حکومت کی تبدیلی کے لئے د عا کرنی چاہیے ..عیسائیوں کی طرف سے اٹھنے والی یہ بڑی آواز ہے .یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دلت ، مسلم ،عیسائ یہاں تک کہ سکھوں کے درمیان مودی حکومت کے لئے ناراضگی کس حد تک بڑھ چکی ہے . بغاوت کی یہ آگ یشونت سنہا ،ارون شوری ،شتروگھن سنہا سے ہوتی ہوئی شیو سینا تک پھیل چکی ہے . مودی اور امت شاہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی ناراضگی کو بھی کیش کر لیتے ہیں .ابھی حال میں مودی کی ایک گفتگو وائرل ہوئی .ایک گجراتی تاجر سے موبائل پر کی جانے والی گفتگو میں مودی ہنستے ہوئے جن سنگھ کا ذکر کرتے ہیں .گاندھی جی کے قتل کے بعد جب راشٹریہ سیوک سنگھ خلاف قانون قرار دی گئی تو اس کے لیڈروں نے ایک نئی سیاسی جماعت جن سنگھ قائم کر لی۔ ڈاکٹر شیاما پرشاد مکرجی اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے. غور کریں تو جن سنگھ کا عروج نہیں ہو سکا .جن سنگھ ہمیشہ ایک اقلیتی پارٹی کے طور پر رہی .ہندوؤں کی اکثریت نے بھی جن سنگھ سے فاصلہ قایم رکھا .1977ء کے عام انتخابات میں یہ اپنی علاحدہ حیثیت ختم کرکے جنتا پارٹی میں شامل ہو گئی۔ بھارتی جنتا پارٹی نے ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا.یعنی جن سنگھ کو ہندو اکثریت کا ساتھ اس وقت ملا جب یہ پوری طرح بھارتیہ جنتا پارٹی بن گی .مودی اس نفسیات سے واقف ہیں کہ جن سنگھ کیوں ناکام ہوئی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی اٹل بہاری باجپیی کی آئیڈیا لوجی کیوں ناکام رہی .٢٠٠٢ گجرات حادثے کے بعد ہندو اکثریت کو متحد کرنے کا ہر حربہ اس لئے کامیاب ہوا کہ مودی نے نام نہاد سیکو لرزم سے سمجھوتا نہیں کیا .نہ اٹل کے راستے پر چلے نہ اڈوانی کے .مسلم مخالفت کا کھلا اعلان کیا اور یہ راستہ اس لئے آسان ثابت ہوا کہ مودی ملک کی اکثریت کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ کانگریس نے مسلم ہمدردی کی تاریخ میں ہندوؤں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا .یہ تیر بہت حد تک اپنا کام کر گیا .لیکن کانگریس مکت بھارت کے ساتھ مودی مسلم مکت بھارت کا بھی خواب دیکھنے لگے .حکومت تو بن گیی .چار برس بھی پورے کر لئے .لیکن حکومت سازی سے قبل قرض کا بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ ادائیگی کرتے ہوئے ملک کی معیشت کھوکھلی ہوتی چلی گیی اور عوام بہت حد تک مودی کے ارادوں کو سمجھنے لگے .جو نہیں سمجھا تھا ،وہ کرناٹک کے چناؤ نے سمجھا دیا .کرناٹک انتخاب کے نتائج پر گفتگو کرنے سے قبل یہ تمہید اس لئے ضروری ہے کہ مودی اور امت شاہ کی منشا اور ارادوں کو سمجھنے میں آسانی ہو .کرناٹک کے نتائج نے بی جے پی کو اس حد تک حواس باختہ کر دیا ہے کہ اقتدار کی طاقت قایم رکھنے کے لئے یہ دونوں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرینگے اور اس کا خمیازہ بہت حد مسلمانوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے . کرناٹک میں خرید و فروخت کے کھلے کھیل کی جس طرح میڈیا نے ہمت افزائی کی ، اس سے صاف ہے کہ نیی صدی میں ہم نے ایک ایسے عجب غضب ہندوستان میں قدم رکھ دیا ہے جہاں مجرموں کے ہاتھ میں سیاست کی باگ ڈور ہے اور آپ ان مجرموں سے اخلاقیات کے بارے میں کویی گفتگو نہیں کر سکتے .کرناٹک کے ڈرامے پر پہلے کچھ بیانات پر غور کیجئے .. — کانگریسی اگر اپنے ایم ایل ایے کو ہوٹل میں بند نہیں کرتے تو جیت ہماری ہوتی ( امت شاہ ) اس سے پہلے راہل گاندھی نے پریس سے خطاب کرتے ہوئے بھی امت شاہ کو قاتل اور مجرم ٹھہرایا .لیکن امت شاہ نے اپنے بیان میں اس کا کویی ذکر نہیں کیا .راہل کا بیان آنے کے بعد مودی کی پوری کیبنٹ مل کر بے شرمی کے ساتھ امت شاہ کی طرف سے صفایی دینے کی مہم میں لگ گیی . ملک کے عوام کے سامنے پہلی بار بی جے پی ، آر ایس ایس ،مودی اور امت شاہ کا وہ چہرہ سامنے آیا ، جو آنے والے ٢٠١٩ کے الیکشن میں انکی خوش فہمیوں کو خاک میں ملانے کے لئے کافی ہے .لیکن اس خوش فہمی کے ختم ہونے کے بعد کا اندازہ آپکو نہیں ہے .ہر حال میں حکومت ، کے راستے پر چلنے والی بی جے پی کو دنیا کی کویی بھی اخلاقیات چیلنج نہیں کر سکے گی .اگلا ہر قدم بھیانک ہوگا . سوشل ویب سائٹ پر کرناٹک کے گورنر وجو بھائی والا کو وفادار کتا کہنے والوں کی کویی کمی نہیں تھی ..جہاں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے ، وہاں کے گورنر کو عوام اسی طرح کے ناموں سے یاد کر رہے ہیں .ابھی حال میں صدر جمہوریہ ہند اور انکے خاندان کو اجمیر کے برہما مندر کے اندر صرف اس لئے داخل نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ ایک دلت ہیں . ملک کی تاریخ میں صدر جمہوریہ ہند ، اور گوورنروں کی اس طرح بے عزتی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ..راہل گاندھی نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی صاف کیا کہ اس وقت ملک کی تمام بڑی ایجنسیاں مودی کے دباؤ میں اپنا وجود کھو چکی ہیں . امت شاہ کے بیان کی طرف واپس آتے ہیں .گورنر واقف تھے کہ پندرہ دن کے اندر خرید و فروخت ممکن ہے .بقول آنند شرما ، اس کے لئے چار ہزار کروڑ رکھے گئے تھے . کیا اسی لئے ایک ماہ قبل اے ٹی ایم سے پیسے غایب ہو گئے تھے ؟ یہ بھی سوال ہے . کیا امت شاہ کے بیان کے مطابق ہوٹل کے باہر روپیوں سے لدی وین کھڑی تھی کہ ایم ایل اے واپس نکلیں اور سو سے دو سو کروڑ میں انھیں خریدا جا سکے ؟ کیا دنیا کی کسی بھی جمہوریت ، کسی بھی ملک میں ایسی کویی مثال ملتی ہے جہاں لوٹ کھسوٹ اور رشوت خوری کو سر عام پریس کی موجودگی میں سچ اور جائز ثابت کیا جا رہا ہے .کیا سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن کو امت شاہ کے بیان میں کہیں کسی کھلے فراڈ کی جھلک نظر نہیں آیی .غور کریں تو یہ دن اور مودی حکومت کا ہر دن ہمارے لئے یوم سیاہ کی حقیقت رکھتا ہے کہ آیین اور قانون کو بالا ئے طاق رکھ کر مجرمانہ ذہن کی نمائش ، حوصلہ افزایی اور پرورش کی جا رہی ہے . الیکشن کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ تک کا اس بیان پر خاموش رہنا ایک بڑے سنگین جرم کی حوصلہ افزایی کرنا ہے . اب کرناٹک کے ڈرامے پر غور کیجئے . اخلاقیات کی بات کرنے والی بی جے پی نے میگھالیہ ،منی پور ،بہار ،گوا ہر جگہ سیاسی ہٹ دھرمی کے ساتھ حکومت بنایی ہے .میں خوفناک ماضی کو کھنگالنا نہیں چاہتا کیونکہ چار برسوں کی سیاست میں آیین اور قانون کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا . کانگریس دیر میں جاگی .وہ ہمیشہ دیر میں جاگتی ہے .اور اس نے وہی راستہ اپنایا جو مودی اور امت شاہ کا راستہ تھا . یہ راستہ اس نے ایک فرقہ پرست پارٹی کو حکومت بنانے سے روکنے کے لئے اپنایا جس کی موجودہ حالات میں ضرورت تھی .لیکن امت شاہ کی سیاسی فکر کو کانگریس کا حصہ بنا کر کانگریس نے اپنے پتے بھی صاف کر دئے کہ آنے والے وقت میں کانگریس بھی اب اسی غیر جمہوری راستے پر چلے گی .فرض کیجئے ، کمار سوامی نے حکومت بنا لی ، یہ سوال بھی ہے کہ یہ حکومت کب تک چلے گی ؟ کیا اس حکومت کا حشر آگے چل کر وہی ہوگا جو بہار کا ہوگا ؟ کیا جے ڈی ایس اپنے موقف پر قایم رھے گی ؟ کیا امت شاہ اس اتحاد کو ختم کرنے کے لئے وہی کھیل نہیں دہراینگے جو بہار میں نتیش حکومت کے ساتھ کھیلا گیا . کیا دیو گوڑا اور کمار سوامی جمہوریت اور سیکولرزم کی حفاظت کر پاینگے ؟ اس سے بھی بڑا سوال ہے کہ آگے کیا ہوگا ؟ کیا اس شکست کے بعد بی جے پی ،مودی ،آر ایس ایس اور امت شاہ خاموش رہ جایئنگے ؟ کیا ہو سکتا ہے ، کی مثالوں پر غور کیجئے تو اس جنگلی جانور کا چہرہ نگاہوں میں ابھرتا ہے جو زخمی ہو چکا ہے .زخمی درندے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں . ٢٠١٩ کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے اب یہ پوری ٹیم پہلے سے کہیں زیادہ سفاک ہو کر سامنے اے گی .اسکی شروعات گاؤ کشی کے شک میں مسلمانوں کی ہلاکت اور دلتوں کو سر عام موت کی سزا دے کر کی جا چکی ہے .اب جو ہوگا ،وہ اور بھیانک ہوگا . امت شاہ کرناٹک ڈرامے کو نیا موڑ اس وقت تک دیتے رہینگے جب تک حکومت گر نہیں جاتی .آگے راجستھان ، مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں .اس کے بعد ٢٠١٩ کا لوک سبھا الیکشن ہے .اگر تمام اپازیشن متحد ہو جاتا ہے تو ایک نیوز چینل کے مطابق بی جے پی کی شکست یقینی ہے .تو کیا مودی اور امت شاہ آرام سے شکست قبول کر لیں گے ؟ چار برسوں میں انتخاب کے نام پر ایک گھنونا کھیل کھلا گیا .میگھالیہ میں محض دو سیٹ جیت کر حکومت بنانے والی بی جے پی کانگریس اور متحدہ اپازیشن کو آرام سے جینے نہیں دے گی . کیا تمام پارٹیاں مل کر اس بات کے لئے تیار ہو جایئنگے کہ راہل گاندھی ہی اگلے پرائم منسٹر ہوں گے ؟ ممتا بنرجی ، مایا وتی اور دیو گوڑا بھی تو پرائم منسٹر کے امیدوار ہو سکتے ہیں ؟ سیکولرزم اور جمہوری اقدار کی حفاظت کرنے والی پارٹیوں کا اتحاد کتنے دنوں تک قایم رہے گا .؟ کیا پاسبان ،نتیش بی جے پی سے بغاوت کرینگے ؟ ہزاروں سوالوں کا ایک بڑا جواب یہ ہے کہ بی جے پی سب کچھ آسانی سے نہیں ہونے دے گی .کیا تمام پارٹیاں مل کر اس بات پر لڑ سکیںگی کہ انتخاب بیلٹ پیپر سے ہو ؟ ابھی بھی شیو سینا نے یہ بیان دیا ہے کہ کرناٹک میں بھی ای وی ایم کا جلوہ رہا .ای وی ایم کو نہیں روکا گیا تو تمام پارٹیوں کے ملنے کے باوجود بھی ٢٠١٩ کی فتح کو یقینی نہجی بنایا جا سکتا .یہ رہی ایک بات ، دوسری بات کا تعلق مسلمانوں سے ہے .ابھی گجرات اور کی ریاستوں میں ،دلتوں پر تشدد ہو رہے ہیں .پچھلی بار دلتوں نے یک مشت ووٹ بی جے پی کو دیا تھا . بی جے پی دلتوں کے ووٹ بینک کو نہیں توڑے گی . چار برسوں کی نا کامیوں کو بھلانے کے لئے ،اکثریت کو دوبارہ متحد کرنے کے لئے وہ سب سے بڑا ہندو کارڈ کھیلے گی .یہ کارڈ بابری مسجد کارڈ نہیں ہوگا .یہ کارڈ پوری طرح مسلمان قوم کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا کارڈ ہوگا .اس کارڈ میں مسلمانوں کو پوری طرح غدار ثابت کیا جائے گا . ابھی جے این یو کے نصاب میں اسلامی دہشت گردی پر ایک باب پڑھایا جا رہا ہے .اس پر مولانا انصار رضا نے آواز اٹھایی ہے . آپ غور کریں کہ کرناٹک ڈرامے کے بعد آگے کیا ہوگا تو ہندوستان کے مسلمان امت شاہ اور آر ایس ایس کے نرغے میں نظر آتے ہیں .جیت کے لئے امت شاہ کے پاس سب سے بڑا داؤ صرف مسلمان ہیں .اور امت شاہ جانتے ہیں کہ ہندو راشٹر کی تعمیر کے لئے اور بی جے پی کی فتح کے لئے صرف ایک ہی نسخہ کام آ سکتا ہے . کرناٹک میں بے شرمی کی تمام حدوں کو پار کرنے والے مسلمانوں کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں ، اسکے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے .
urd_Arab
معافی مانگنے لگے ۔اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو ۔ (۳۷)شَکَر رَنجی کے بعد معذِرت کی دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے ایک ذمّے دار اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ10جون 2012کو میری حاجی زم زم رضا عطاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الباری سے کسی کام کے سلسلے میں فون پر بات ہوئی ، دورانِ گفتگو تھوڑی سی شکررنجی ہوگئی تو کچھ ہی دیر بعد ان کا فون دوبارہ تشریف لایا اور بڑی عاجِزی کے ساتھ معذِرت طلب کرنے لگے کہ میری کسی بات سے آپ کا دل دکھ گیاہو تو مجھے مُعاف کر دیجئے ۔ (۳۸)مُعافی کے لئے سِفارش کروائی مبلغِ دعوتِ اسلامی ورکن شوریٰ، ابوبلال محمد رفیع عطاری مدظلہ العالی کا بیان ہے : حاجی زم زم رضاعطاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری کے وِصال سے کچھ عرصہ پہلے سردار آباد(فیصل آباد) میں خصوصی اسلامی بھائیوں کا تربیتی اجتماع ہوا ، جس کے اَخراجات کے حوالے سے کچھ تنظیمی مسائل تھے ۔اس سلسلے میں حاجی زم زم رضا عطاریعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الباری نے مجھے فون کیا ، میں نے کچھ اِشکالات بیان کئے اور ان کا حکم تسلیم کر لیا ۔ یہ سمجھے شایدمیں نے ان کی بات نہیں مانی اور انہوں نے دوبارہ فون کیا مگر میں نے مصروفیت کی وجہ سے فون کاٹ دیا۔کچھ دیر بعد شہزادہ عطَّار، حضرت مولانا الحاج ابو اُسید، عبید رضا عطَّار ی المدنی مدظلہ العالی کا فون تشریف لایا تو انہوں نے کچھ یوں فرمایا کہ'' زم زم بھائی سخت پریشان ہیں کہ آپ ان سے ناراض ہیں ، انہوں نے مجھ سے سفارش کرنے کے لئے کہا ہے کہ آپ انہیں معاف کردیں '' ، پھر حضرت مولانا عبید رضا مَدَنی مدظلہ العالی نے حاجی زم زم رضا عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الباری کو فون دے دیا تو انہوں نے خود بھی مُعافی مانگی ، میں نے اُسی وَقت وضاحت کردی کہ'' حضور! میں آپ سے ہرگز ناراض نہیں ہوا محض مصروفیت کی وجہ سے آپ کا فون رِسیو نہیں کر سکا تھا۔'' اس واقعہ سے ان کی عاجِزی اور ایذائے مُسلم سے بچنے کے بارے میں ان کے ذِہْن کاپتا چلتا ہے ۔ (۳۹) مسجِد کا ادب مدینۃ الاولیاء احمد آباد(الھند)کے اسلامی بھائی محمد امتیاز عطاری کے بیان کا لبِّ لباب ہے کہ جب حاجی زم زم رضا عطاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری احمد آباد مَدَنی انعامات کے حوالے سے ہماری تربیّت کے لئے تشریف لائے تھے تو ہم نے ان سے ایک بات یہ بھی سیکھی کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمسجد میں نماز ادا کرتے تو تازہ وضو کرنے کی صورت میں اپنی کتھئی چادر اس جگہ رکھتے جہاں سجدے میں داڑھی آتی ہے اور فرماتے کہ وضو کے بعد ہاتھ منہ صاف کرنے کے بعد بھی بعض اوقات داڑھی سے پانی کے قطرے ٹپکتے ہیں جبکہ فرشِ مسجد پر وضو کے قطرے ٹپکا نا مکروہِ تحریمی ہے، اب اگر وضو کے قطرے دورانِ نماز چادر پر گریں گے تومسجد کا ادب برقرار رہے گا ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے حاجی زم زم رضا عطاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بھی مغفِرت فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم (۴۰)نیلے رنگ کا لوٹا استِعمال نہیں کرتے تھے ایک مَدَنی اسلامی بھائی ابو واصف عطّاری کا بیان ہے کہ میں نے اپنے مکتب کے استنجا خانے کے لئے بازار سے بڑے سائز کا لوٹا منگوایا تو سمجھانے کے باوُجُود لانے والا نیلے رنگ کا لوٹا لے آیا اور بتایا کہ اس سائز میں صِرْف یِہی رنگ موجود تھا ، بَہَرحال مجبوراً ہم نے وہ لوٹا استِعمال کرنا شروع کردیا، سُرخ رنگ کا ایک چھوٹا لوٹا بھی استنجا خانے میں موجود تھا ، جب حاجی زم زم رضا عطاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری ہمارے مکتب میں تشریف لاتے اور ضَرورتاً استنجا خانے میں جاتے تومجھے قرائن سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ آپ سُرخ رنگ کا لوٹا استعمال کیاکرتے اور غالباً غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مزار شریف کے گنبد کے نیلے رنگ کی نسبت کی وجہ سے نیلا لوٹا استعمال نہیں کرتے تھے ، لیکن چونکہ استعمال کرنا ناجائز نہیں اس لئے کبھی مجھ سے اس کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی نیلے رنگ کا لوٹا استعمال کرنے سے منع کیا ۔ ع ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے (۴۱) مَدَنی انعامات کے تاجدار کی عاجِزی مرکز الاولیاء (لاہور) کے اسلامی بھائی نے بتایا کہ تقریباًچار یا پانچ سال پہلے ایک مرتبہ ہم امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکے درِدولت کے باہَرگلی میں کھڑے تھے کہ حاجی زم زم رضا عطاریعلیہ رحمۃُ اللہ الباری تشریف لائے تو میں نے عقیدت سے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لئے ۔ انہوں نے عاجِزی کرتے ہوئے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی کہ پیارے بھائی !آپ کی
urd_Arab
جمعرات اور جمعہ جس نے بھی یہ کلمہ پڑھ لیا اُس کی سب سے بڑی خواہش دو دن میں پوری ہو جا ئے گی۔ – Updatar Home/Uncategorized/جمعرات اور جمعہ جس نے بھی یہ کلمہ پڑھ لیا اُس کی سب سے بڑی خواہش دو دن میں پوری ہو جا ئے گی۔ soban April 15, 2021 Uncategorized Leave a comment 37 Views حدیث مبارکہ میں جمعرات کی رات کو روشن رات اور جمعہ کے دن کو مبارک دن کہا گیا ہے ان دونوں دنوں کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے تو یہ دو دن آپ نے ضائع نہیں کرنے آپ نے یہ مختصر وظیفہ کر نا ہے دو دن یہ عمل کرنے کی بر کت سے اللہ پاک آپ کی مانگی ہوئی دعاؤں کو رد نہیں فر ما ئیں گے اللہ پاک آپ کی مانگی ہوئی تمام دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشیں گے جو بھی حاجت آپ کے دل میں ہو گی وہ پوری ہو جا ئے گی جمعرات اور جمعہ کے دن کا ایک وظیفہ پیش کیا جا رہا ہے جس کے کرنے سے انشاء اللہ دنیا کی ہر چیز آپ سے محبت کر ے گی یہ ایک سپیشل جمعہ کے حوالے سے وظیفہ ہے۔ اس عمل کو کرنے سے اس کی بر کت سے چرند پرند یہاں تک کہ فرشتے بھی آپ سے محبت کرنے لگیں گے۔ یہ ایک آزمودہ عمل ہے اور اس عمل کی بہت زیادہ فضیلت ہے اس عمل کو آپ نے خود بھی کر نا ہے اور دوسرے مستحق لوگوں تک بھی پہنچانا ہے جمعہ کے دن کی بہت فضیلت ہے اور اس دن کو تمام دنوں پر فضیلت حاصل ہے اس دن کے بہت زیادہ فضائل ہیں اس دن تمام دعائیں قبول ہو تی ہیں اس میں قبیلت کی گھڑیاں بھی موجود ہوتی ہیں ان گھڑیوں میں آپ نے دعا مانگنی ہے انشاء اللہ جب آپ ان گھڑیوں میں دعا مانگ لیں گے تو آپ کی دعا ضرور قبول ہو گی جمعہ کی دن ہے ۔ آپ نے فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد اور فرض پڑھنے سے پہلے جو فجر کی چاررکعتیں ہیں دو سنت اور دو فرض جب آپ دو سنت ادا کر لیں اور فرض ابھی پڑھنے ہوں تو آپ نے تب یہ عمل کر نا ہے جب آپ سنت پڑھ لیں تو درمیان میں آپ نے سو مر تبہ اللہ کا یہ نام پڑھنا ہے یا اللہُ یا سمیعُ یہ آپ نے دونوں ایک ہی مر تبہ پڑھنے ہیں۔ جب آپ نے ایک مر تبہ پڑھنے ہیں تو آپ نے ایک مر تبہ اس کو کاؤنٹ کر نا ہے دونوں کو ایک ہی ساتھ کاؤنٹ کر نا ہے تو اسی طریقے سے آپ نے سو مر تبہ یہ نام پڑھنے ہیں۔
urd_Arab
آپریشن شفق دوئم، غبار ہفت؛ انسانی المیہ قریب ہے – امارت اسلامیہ افغانستان کابل حکومت نے آپریشن شفق دوئم کے نام سے سیکڑوں خاندانوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔ آپریشن کی آڑ میں عام شہریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ بے جا تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا جنا معمول کی بات ہے۔ اسی طرح اس آپریشن کی وجہ سے سیکڑوں خاندانوں کو بھاری مالی نقصان بھی پہنچا ہے۔ سردی کے اس موسم میں لوگوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور ان کے لیے بڑی مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کابل انتظامیہ نے صوبہ کاپیسا کے ضلع تگاب میں "غبار ہفت" نامی آپریشن پانچ کر کے علاوہ مکینوں کو اپنے گھر ترک کرنے اور سرد موسم میں صحرا میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ علاقائی عینی شاہدین اور قبائلی رہنماؤں کے مطابق اب تک 450 خاندان نقل مکانی پر مجبور کیے جا چکے ہیں، جو کھلے آسمان تلے ٹھنڈے دن اور اگر راتیں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی مدد کے لیے ابھی تک کسی نے ہاتھ نہیں بڑھایا ہے۔ گھر بدرافراد کو فوری طور پر خوراک اور ادویات کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ان کے ساتھ فوری طور لر تعاون نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ ان کے لیے وسیع ہلاکتوں کا خطرناک اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ایک جانب آئے روز افغانستان کے مختلف حصوں میں غیرملکی حملہ آوروں اور کابل انتظامیہ کی جانب سے رات گئے چھاپوں، فضائی حملوں اور میزائل حملوں میں شہریوں کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسری جانب کابل انتظامیہ اور زرخرید میڈیا ان جرائم کو مجاہدین کی کارروائی باور کرا کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی گھٹیا کوشش میں مصروف ہے۔ ہم نے کئی بار مشاہدہ کیا ہے کہ کابل انتظامیہ اپنی مسلح کارروائیوں میں اسکولوں، صحت کے مراکز اور پلوں کو تباہ کر کے الزام مجاہدین پر لگا دیتی ہے۔ مثلا انتظامیہ نے قندوز میں الچین پل کو تباہ کیا اور لوگر کے ضلع محمد آغا میں اسکول جلا کر اس کا الزام مجاہدین پر لگا دیا۔ اسی طرح چند روز قبل دجالی میڈیا نے کابل انتظامیہ کی فرمائش پر ایک من گھڑت رپورٹ شایع کی کہ صوبہ فاریاب میں مجاہدین کی پیش رفت اور کارروائیوں کے باعث لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ وہ یہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ جب کہ مجاہدین کی طرف سے ایسے کسی واقعے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کابل انتظامیہ نے قابض افواج کی حمایت میں افغانستان کے متعدد حصوں میں مختلف ناموں سے فوجی آپریشنز کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم بیشتر مقدمات پر ان آپریشنز کی کوئی جھلک بھی دکھائی نہیں دی ہے۔ صرف اس کا نمائشی اعلان کیا گیا ہے۔ جن علاقوں میں دشمن کا آپریشن محسوس کیا بھی گیا ہے، وہاں نہ صرف دشمن نے پیش رفت نہیں کر سکا ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر اس کو بھاری جانی و مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ بہت مشکک سے اپنے ٹھکانوں کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ ایک بات بہت واضح ہے کہ جب بھی دشمن نے آپریشن کا اعلان کیا ہے، عام شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں بھی منظرعام پر آجاتی ہیں۔ ابھی آپریشن "شفق دوئم" اور "غبار ہفت" اس کی زندہ مثال ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظمیوں اور خیراتی اداروں کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد نقل مکانی کرنے والے شہریوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خوراک اور ادویات کی فراہمی کا بندوبست کریں۔ کیوں کہ انسانی جانوں کے ضیاع کا ایک وسیع بحران پیدا ہونے کا امکان سامنے آ رہا ہے۔ جو یقینا انسانیت کے لیے شرم کی بات ہوگی۔
urd_Arab
کولمبو: سری لنکا میں جاری معاشی بحران ختم ہونے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اب حکومت کے پاس پیٹرول کی خریداری کیلئے ڈالرز بھی ختم ہوگئے ہیں۔ موجودہ دور میں جب گاڑیوں سے لے کر ٹرینیں، طیارے، بحری جہاز سفر کیلئے استعمال ہوتے ہیں، کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ کسی ملک کے پاس ان سب چیزوں کو چلانے کیلئے پیٹرول ہی دستیاب نہ ہوگا اور اسے سب کچھ بند کرنا پڑے گا، یقینا آپ کا جواب نہیں ہوگا، لیکن ایسا حقیقت میں ہوگیا ہے۔ کرونا وبا اور عالمی مہنگائی کی لہر نے سری لنکا کو سنگین معاشی بحران میں دھکیل دیا ہے، جہاں اب اس کے پاس پیٹرول خریدنے کیلئے بھی ڈالرز ختم ہوگئے ہیں، جس کے بعد اب سری لنکن حکومت مزید پیٹرول خریدنے سے قاصر ہیں، سری لنکن وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ ملک کے میں صرف ایمبولینس سروس کو جاری رکھنے کے لیے پیٹرول موجود رہ گیا ہے۔ سری لنکا کے وزیر برائے بجلی اور توانائی نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پیٹرول کا بہت کم ذخیرہ رہ گیا ہے اس لیے اب صرف ایمبولینس سروس کو جاری رکھنے کے لیے پیٹرول دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کولمبو کی بندرگاہ پر پیٹرول شپمنٹ 28 مارچ سے موجودہے لیکن سری لنکا کے پاس پیٹرول شپمنٹس کی ادائیگی کے لیے ڈالرز نہیں ہیں۔ وزیر توانائی نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ پیٹرول پمپمس پر قطاریں نہ لگائیں، اس ہفتے کے آخر تک پیٹرول دستیاب نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی خریداری کے لیے کریڈٹ لیٹرز کھولنا ہے جس کے لیے ڈالرز کی قلت ہے۔ ہم فنڈز تلاش کرنے کیلئے کام کررہے ہیں، جلد کوئی حل نکل آئے گا۔
urd_Arab
بھٹو اور ضیاء میں کردار کا فرق | | Related Pakistan ذولفقار علی بھٹو نے مادر ملت فاطمہ جناح کو اتنخابات میں ہرانے کے لیے ان پر تہمت تک لگا دی تھی اور انکے خلاف تقریر کرتے ہوئے یہ معنی خیز جملہ کہا تھا کہ " اس نے شادی کیوں نہیں کی ہے؟ " ۔۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو کا یہ شرمناک الزام سن کر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے کچھ غیر ملکی صحافی رو پڑے تھے کہ یہ کیسی قوم ہے جو اس خاتوں پر بہتان لگا رہی ہے جس کو یہ مادر ملت یعنی " قوم کی ماں " کہتے ہیں ۔ ایک طرف ایک مشہور جمہوری لیڈر جو بھرے مجمعے میں ایک ایسی عورت پر تہمت لگانے سے نہیں جھجکا جس کے کردار پر داغ تک نہیں تھا ۔۔ ان دو چھوٹے چھوٹے واقعات سے پاکستان کی ان دو نامور شخصیات کے ظرف اور کردار کا فرق معلوم کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ Previous articleپاکستان مخالف قوتیں تیزی سے پاکستان میں اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہیں جس کے ان کی عالمی رابطہ کاری میں تیزی آ چکی ہے Next articleفراڈ، دھوکہ دہی،خزانے کو بھاری نقصان اور ملکی سکیورٹی کو سنگین خطرات سے دوچار کرنیوالی کیوموبائل کمپنی اب دوبارہ سمگل شدہ موبائل فون مارکیٹ میں فروخت کرنے جا رہی ہے
urd_Arab
شام : داعش نے 30 کرد جنگجوؤں کو قیدی بنا لیا پہلی اشاعت: 22 فروری ,2016: 12:00 دن GST آخری اپ ڈیٹ: 22 فروری ,2016: 11:26 دن GST شام کے شمال مشرقی صوبے الحسکہ میں واقع علاقہ الشدادی صوبے میں داعش تنظیم کا اہم ترین گڑھ شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں گزشتہ کئی روز سے داعش تنظیم اور سیرئین ڈیموکریٹک فورسز (کردوں کے تحفظ کرنے والے یونٹوں) کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ اس دوران داعش کی جانب سے ڈیموکریٹک فورسز کے 30 جنگجوؤں کو قیدی بنالینے کی خبریں بھی ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کی رصدگاہ کے مطابق کرد یونٹوں سے لڑائی کے بعد داعش نے الشدادی شہر کے مغرب میں واقع گاؤں 47 پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ کرد یونٹوں نے دو روز قبل پیش قدمی کرتے ہوئے ٹاؤن 47 کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور وہ الحسکہ میں داعش کے مرکزی گڑھ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ فریقین کے درمیان جھڑپوں کے دوران اتحادی طیاروں نے علاقے میں داعش کے ٹھکانوں کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ شامی رصدگاہ نے 18 فروری کو یہ معلومات فراہم کی تھیں کہ داعش کے ارکان اور کمانڈروں نے گزرے دنوں میں اپنے گھروالوں کو الشدادی شہر اور اس کے نواح سے منتقل کرکے دیر الزور صوبے میں اپنے زیرقبضہ علاقوں میں پہنچا دیا ہے۔ یہ اقدام الشدادی پر اتحادی افواج کی بمباری اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے قبضے کے اندیشے کے تحت کیا گیا۔
urd_Arab
علامتی تصویر، فلم اری نئی دہلی: برصغیر میں تفریح، بالخصوص فلم اور کرکٹ ہمیشہ محبوب اور دلچسپ مشغلہ رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود فلم ڈائریکٹر موجودہ حالات کو بھنانا چاہتے ہیں۔ہفنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 14 فروری کو پلواما میں سی آر پی ایف کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے اور ہندوستان کی ایئر اسٹرائک کے بعد بڑی تعداد میں فلم ڈائریکٹرنے اس سے متعلق کئی ٹائٹل رجسٹر کروائے ہیں۔ ویب سائٹ نے ٹریڈمیگزین' کمپلیٹ سینما' کے حوالے سے بتایا ہے کہ 14 فروری کو رجسٹرڈ ہونے والے ٹائٹل میں پلواما : دی سرجیکل اسٹرائک، دی سرجیکل اسٹرائک، وار روم، ہندوستان ہمارا ہے، پلواما ٹیرر اٹیک، دی اٹیکس آف پلواما، ود لو فرام انڈیا اینڈ اے ٹی ایس-ون مین شو شامل تھے۔واضح ہو کہ ملک میں فلموں / ٹی وی سیریئل اور ویب سریز کے ٹائٹل رجسٹر کرنے کا کام انڈین موشن پکچرس پروڈیوسرس ایسوسی ایشن(آئی ایم پی پی اے) کرتا ہے۔ کوئی ٹائٹل رجسٹر کروانے کے لئے کسی ڈائریکٹر یا پروڈکشن ہاؤس کو ایک سادہ سا فارم بھرنا ہوتا ہے، جہاں ان کو ترجیح کی بنیاد پر چار سے پانچ ٹائٹل بتانے ہوتے ہیں، ساتھ ہی 18 فیصد جی ایس ٹی کے ساتھ 250 روپے جمع کرنے ہوتے ہیں۔اکثر ٹائٹل رجسٹر کروانے والے اس پر فلم، سیریئل یا ویب سریز نہیں بنانا چاہتے بلکہ ان کا مقصد اس کو بیچنا ہوتا ہے۔ وہ اس کو اس لئے لیتے ہیں کہ جب کوئی بڑا ڈائریکٹر یا پروڈکشن ہاؤس متعلقہ موضوع پر فلم بنانا چاہے تب وہ اس کو ان کو بیچ سکے۔ ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 27 فروری کو جب ان کے نامہ نگار نے ایک چھوٹے ڈائریکٹر کے طور پر آئی ایم پی پی اے سے ہندوستان پاکستان پر ویب سریز بنانے کے لئے ٹائٹل رجسٹر کروانے کی کوشش کی تب ان کو بتایا گیا کہ اس موضوع سے متعلق زیادہ تر ٹائٹل رجسٹر ہو چکے ہیں۔نامہ نگار نے بتایا ہے کہ وہاں موجود بالی ووڈ ڈائریکٹر پلواما : دی ڈیڈلی اٹیک، پلواما اٹیک ورسیز سرجیکل اسٹرائک 2.0، بالاکوٹ جیسے ٹائٹل پر غور‌کرہے تھے۔ 27 فروری کو ہندوستانی پائلٹ ابھینندن کے پاکستان کی حراست میں ہونے کی خبر آنے کے بعد جب آئی ایم پی پی اے سے رابطہ کیا گیا، تب پتا چلا کہ 'ابھینندن'نام کو لےکر بھی فلم ڈائریکٹروں میں ہوڑ مچی تھی۔کہا جا رہا ہے کہ اری فلم کی کامیابی کے بعد بالی ووڈ حب الوطنی کے جذبے کو بھنانے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ آئی ایم پی پی اے کے ایک نمائندہ نے 27 فروری کو اس بات کی تصدیق کی کہ گزشتہ ایک ہفتے میں پلواما حملے اور بالاکوٹ ایئراسٹرائک سے جڑے ٹائٹل کے لئے بڑی تعداد میں درخواست آئی ہیں۔ اس نمائندے نے ہفنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کچھ ٹائٹل کے لئے بڑی فلم پروڈکشن ہاؤس ابنڈینٹیا [Abundantia] اور ٹی سریز نے بھی درخواست کی ہے۔ Tagged as: Adil Ahmad Dar, America, Awantipora, Balakot, BJP, Bollywood, CCS, Cinema, CRPF, Films, Imran Khan, Jaish-e-Mohammed, Jammu-Kashmir, Kashmir, most favoured nation, Narendra Modi, Pakistan, pulwama, Pulwama Terror Attack, Rajnath Singh, Satyapal Malik, Terror Attack in Kashmir, Terror Attack on CRPF, The Wire, The Wire Urdu, Urdu News, Uri, اردو خبر, امریکہ, اونتی پورا, بی جے پی, پاکستان, پلواما, جموں و کشمیر, جیش محمد, دی وائر, دی وائر اردو, راجناتھ سنگھ, ستیہ پال ملک, سی آر پی ایف, سی سی ایس, عادل احمد ڈار, عمران خان, کشمیر, موسٹ فیورڈ نیشن, نریندر مودی
urd_Arab
'اسلام آباد میں ہندوؤں کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے سنجیدہ ہیں' صدیق الفارق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے عبادت گاہ کا انتظام کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹیوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر کے لیے ہندو برادری کو جگہ فراہم کرے۔ اسلام آباد میں ہندو برادری کے لگ بھگ 500 افراد مقیم ہیں لیکن یہاں باقاعدہ طور پر کوئی مندر واقع نہیں۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ہی واقع ایک تاریخی گاؤں سید پور جو کہ اب اسلام آباد کا ہی حصہ ہے، یہاں ایک مندر تو موجود ہے لیکن اس میں مذہبی رسومات کی ادائیگی نہیں ہوتی اور یہ صرف ایک تفریح گاہ کا حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ غیرمسلموں کے مقامات مقدسہ اور دیگر املاک کے نگران ادارے متروکہ وقف املاک بورڈ کے سربراہ صدیق الفارق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے عبادت گاہ کا انتظام کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ "سید پور میں جو مندر ہے میں نے کوشش کی ہے کہ جو مقامی ہندو پنچائیت ہے اسلام آباد کی تو ان کو اگر اس مندر سے متعلق کوئی مسئلہ ہے سکیورٹی وغیرہ کے حوالے سے تو دوسری جگہ وزیراعظم صاحب سے مل کر ہم ان کو لے دیں اور وہاں مندر بن جائے۔" وفاقی دارالحکومت میں مقیم اکثر ہندو اپنی عبادات کے لیے جڑواں شہر راولپنڈی جاتے ہیں جہاں دو قدیمی مندر واقع ہیں۔ اس برادری کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ان کے وفات پا جانے والوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد میں کوئی شمشان گھاٹ نہیں جب کہ راولپنڈی میں واقع ایک شمشان گھاٹ ہی ان کی اس ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس شمشان گھاٹ کے ساتھ مندر کو مبینہ طور پر مسمار کرنے کی کوشش سے نقصان پہنچا جس کی تعمیر کے لیے ہندو برادری مطالبہ کرتی آرہی ہے۔ ہندو سکھ ویلفیئر کونسل کے صدر اور ہندو برادری کے ایک سرکردہ رہنما جگموہن کمار اروڑا کہتے ہیں۔ "ہر شمشان گھاٹ کے ساتھ مندر ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں پر ایک ارتھی کو نذر آتش کرنے سے پہلے اور بعد میں جتنی مذہبی رسومات ہوتی ہیں وہ یہاں انجام دی جاتی ہیں۔ مندر کے بغیر شمشان گھاٹ ادھوری ہے۔" متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین صدیق الفاروق نے بتایا ہے اس مسئلے کے حل کے لیے بھی اقدام کر دیے گئے ہیں۔ "اس مندر کو ہم نے بحال کر دیا ہے شمشان گھاٹ کے لیے سات لاکھ روپے کی منظوری دی ہے اس کی بحالی کے لیے کام جاری ہے۔" ملک کے بعض دیگر حصوں سے بھی ہندو برادری کی طرف سے اپنی عبادت گاہوں سے متعلق مسائل اور شکایت سامنے آتی رہی ہیں لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ان مسائل کو حل کر کے وہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے آئینی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے گی۔
urd_Arab
چینی عہدے داروں نے بدھ کے روز کہاہے کہ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی اس اعتراض کا باضابطہ طور پر جائزہ لیں گے کہ ان کا ملک فولاد سازی سے لے کر الیکٹرانکس تک کے خام مال کی برآمدات محدود کرکے عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کررہاہے۔ ڈبلیو ٹی او نے منگل کے روز امریکہ، یورپی یونین اور میکسیکو کے حق میں فیصلے دیتے ہوئے بیجنگ کی یہ دلیل مسترد کردی ہے کہ یہ پابندیاں چین کے ماحول کے تحفظ کے لیے ضروری تھیں۔ اس فیصلے سے خام میگنیشیم ، سیلیکان، زنک، کوک اور باکسائٹ کی برآمدت پر اثر پڑے گا۔ چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے وزارت تجارت کے عہدے داروں کے حوالے سے بدھ کے روز کہا کہ یہ فیصلہ کئی لحاظ سے چین کے حق میں جاتا ہے تاہم حکومت ڈبلیو آئی او کے اخذکردہ ان نتائج پرمعذرت خواہ ہے کہ اس کے اقدامات عالمی ادارےکے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ چین عالمی تجارتی تنظیم کے فیصلے کے خلاف یا تو اپیل میں جاسکتا ہے یا پھر اسے اس پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اگر وہ عمل درآمد سے انکار کرتا ہے تو پھر اسےتجارتی پابندیوں کا سامناکرناپڑسکتاہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور میکسیکو نے پہلے پہل 2009ء میں چین کے خلاف یہ شکایت دائر کی تھی کہ اس کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث انہیں خام مال حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہورہاہے اوراس کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ شکایت میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ چین نے مذکورہ خام مال کے مقامی استعمال پر کوئی پابندی نہیں لگائی ۔
urd_Arab
میں کیوں لکھتا ہوں؟ - وجود دوستو،اکثر دوست احباب ملاقاتوں اور فون پر یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ آپ ''مزاح'' ہی کیوں لکھتے ہیں؟یہ سوال اب ہمارے لئے نارمل یا ایک عام سا سوال بن گیا ہے۔۔ ہمارا گزشتہ کالم''میرے ہیرو'' جو اپنے والد کے حوالے سے لکھا تھا، اور اس میں کیا لکھا تھا ،حلف اٹھوا لیں کچھ یاد نہیں۔۔ بس ذہن میں جو کچھ آتا گیا ، تحریر کرتا گیا۔۔ احباب کی اکثریت نے اپنے فیڈبیک میں اس کالم کی بے حد تعریف کی، ایک جملہ جو تمام احباب کے فیڈبیک میں مشترکہ تھا ، وہ یہ کہ۔۔ اس تحریر نے ان کی آنکھوں میں آنسو بھردیئے۔۔ کچھ لوگوں نے پھر وہی سوال دہرا دیا کہ آپ جب سنجیدہ اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو پھر ''مزاح'' میں اپنا سر کیوں پھوڑ رہے ہیں۔۔ یعنی سوال کرنے والے خود بتارہے ہیں کہ ہماری یہ اوٹ پٹانگ باتیں انہیں کتنا ''چبھتی'' ہیں۔۔ خیر پھر سے موضوع پر آجائیں،مزاح کیوں لکھتا ہوں؟سوال بظاہر تو عام سا ہے،جس کا جواب لیکن کچھ خاص ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ مزاح لکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کیلئے ہر تحریر لکھنے کے دوران دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بد صورت ، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤکی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں کیا بنیادی فرق ہوتا ہے؟ مذا ق اڑانے کی حدود تو ہم نے یہ طے کی ہیں کہ اگر مذاق کا مقصد متعین شخص کی تحقیر و تذلیل ہو یا یہ مذاق متعلقہ شخص کو برا لگے تو یہ مذاق اڑانے کا عمل ہے۔لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں ہورہی تو یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے بعد ہر قسم کا مذاق جائز ہے۔ کسی مذاق یا مزاح کے جائز ہونے کے لئے مزید کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ جائز مذاق '' وہ بات ، اشارہ یا عمل جو تفنن طبع اور تفریح کے لئے کیا جائے اور جس میں کسی مخصوص فردیا قوم کی تحقیر و تذلیل کی نیت نہ ہو اور نہ ہی اس میں جھوٹ، ایذارسانی، فحاشی، بدگوئی یا کسی غیر اخلاقی و غیر شرعی عنصر کی آمیزش ہو''۔ ہمارے پیارے دوست نے یہ بھی بتایا کہ صوبہ سرحد میں اگر شادی بیاہ میں کوئی ہنسنے ہنسانے والا آ بھی جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر کا مذاق تو کرتا ہے محفل میں بیٹھے خانوں پر کوئی جگت نہیں لگاتا۔کیا ہنسنا اتنی بری چیز ہے۔ کیا مولوی یا خان پر جگت لگانے سے ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے۔ کیا وہ خود پر ہنس بھی نہیں سکتے۔ اگر خود پر ہنسیں گے نہیں یا ہنسی برداشت نہیں کریں گے تو اپنی گھٹن کیسے کم ہو گی۔ چلیں جی کافی سنجیدہ باتیں کرکے آپ کا وقت ضائع کرڈالا۔۔ اب کچھ ہنسنے ہنسانے کی بات ہوجائے۔۔ابھی ہم نے مولوی کا ذکر کیا تھا۔۔مولویوں کے لاتعداد واقعات مشہور ہیں۔۔ایک بار ایک مولوی صاحب نے جماعت سے پہلے ہدایت کی کہ۔۔ تمام نمازی اگلی صفوں پر آجائیں۔۔تو پیچھے سے میرے جیسے ایک نمازی نے کہا۔۔کیوں مولوی صاحب پیچھے کیا جھٹکے لگتے ہیں؟اسی طرح ایک بار مولوی صاحب نے کہا کہ ۔۔صفیں سیدھی رکھنے کیلئے لائن سے باہر پیر نے جائے۔۔پیچھے سے کسی نے جگت لگائی۔۔کیوں مولوی صاحب کیا ''نوبال'' ہوجائے گی۔۔ہمارا دوست پپو تو اتنا سادہ ہے کہ جب جمعہ کے خطاب کے بعد مولوی صاحب نے کہا کہ ۔۔اپنے اپنے موبائل بند کردیں۔۔تو پپو بیچارہ موبائل آف کرنے کیلئے مسجد سے باہر آیا اور سیدھا گھر چلاگیاکیونکہ اس کا موبائل گھر پر چارجنگ کیلئے لگا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح ہمارے محلے کی جامع مسجد میں امام صاحب کی جماعت کے دوران باآواز بلند ہوا خارج ہوگئی۔۔لیکن امام صاحب نے نماز نہیں توڑی۔۔ سلام پھیرنے کے بعدکسی نمازی نے آواز لگائی۔۔ واہ امام صاحب۔۔ پہلا ڈرائیور دیکھا ہے جو ''پنکچر '' کے باوجود گاڑی کو کھینچ کر منزل کی طرف لے گیا۔ کسی نے پوچھا کہ جج صاحبان کسی کو پھانسی کی سزا دینے کے بعد پین کی نب کیوں توڑ دیتے ہیں توہماری طرح کا ہی کوئی عقل سے پیدل لیکن اندر سے پکا کوئی ''فیصل آبادی'' برجستہ بولا۔۔ کیوں کہ لاسٹ ٹائم جب ایک جج نے بھٹو کی پھانسی کی سزا دی تھی تو پین کی نب نہیں توڑی تھی اس لئے بھٹو آج بھی ''زندہ'' ہے۔۔ ویسے آپ لوگ یقین کریں نہ کریں، ہم بھٹو کو ایک بڑا لیڈر تسلیم کرتے ہیں، نوجوان نسل اچھی طرح ذہن میں بات بٹھا لے کہ لیڈر اور سیاست دان میں فرق ہوتا ہے۔۔ہر سیاست دان لیڈر نہیں ہوتا، لیڈر ہونا خداداد صلاحیت کا نام ہے۔۔بھٹو نے ایک بات کہا تھا،ہم گھاس کھالیں گے ایٹم بم بنائیں گے، نوازشریف نے کہا تھا، بھوکے رہ لیں گے ایٹمی دھماکے ضرور کریں گے اور ہمارا کپتان کہتا ہے، تو کیا حملہ کردوں؟؟؟ہمارے پیارے دوست نے بڑا معصومانہ سوال پوچھا ہے۔۔پوچھتے ہیں کہ۔۔بھارت ایک شخص (کلبھوشن یادیو) کو پھانسی سے بچانے کے لئے عالمی عدالت چلاگیا،ہم لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے قتل و غارت پر خاموش کیوں ہیں؟؟۔۔ ایک پٹواری نے تو سوشل میڈیا پر مودی کو للکارتے ہوئے لکھا ہے کہ، اوئے مودی ہمارے فوجی مارنا تو دور کی بات تم ہمارے یوتھیوں کا تبدیلی والا کیڑا بھی نہیں مارسکتے۔۔ایک اور دل جلے نے مشورہ دیا ہے کہ ۔۔نوازشریف کی موٹروے اگر جنگی طیاروں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے تو پشاور میٹرو کے کھڈے بھی بطور مورچہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ایک لاہوری نے بڑی دلچسپ بات لکھی ،کہتا ہے۔۔مودی سن لے اگر اس بار ہم نے جنگ شروع کی تو پشاور میٹرو کی طرح شروع تو کردیں گے پھر ختم کب ہوگی کوئی نہیں بتاسکے گا۔۔ پی ٹی آئی کے ایک سرگرم کارکن نے بھی لب کشائی فرمائی، کہتے ہیں کہ۔۔عمران خان انڈیا پر ایٹم بم بھی گرادے تو پٹواری کہیں گے میاں صاحب چلاتے تو آواز زیادہ آنی تھی۔۔ اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔کہتے ہیں کہ قہقہہ دو انسانوں کے درمیان سب سے کم فاصلہ ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے پر اور ان کے ساتھ، ہنسیں گے نہیں تو فاصلہ کیسے کم ہو گا۔ اور اگر فاصلہ نہیں کم ہو گا تو قربتیں کیسے بڑھیں گی۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ہنسنے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے تو کریڈٹ پر ہنس لیں۔ اس کی بات مان لیں، یقین کیجیئے کچھ نقصان نہیں بلکہ الٹا افاقہ ہو گا۔ تنے رہنے سے دماغی مسائل ہی بڑھتے ہیں۔ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کی طرف دیکھیئے جو تنے رہتے ہیں۔ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ' 'وہ میرے خواب پر ہنستی رہتی ہے اور میں اس کی ہنسی کے خواب دیکھتا رہتا ہوں''۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
urd_Arab
ہوم پیج (-) » ٹریول سیفٹی اور ہنگامی صورتحال » الجیریا میں سیاح: بیچ چھتری مافیا سے بچو الجیریا میں سیاح: بیچ چھتری مافیا سے بچو الجیریا بیچ-چھتری مافیا الجیریا کے سیاح اس چیز سے تنگ آچکے ہیں جسے بیچ امبریلا مافیا کہا جاتا ہے ، اور وہ سوشل میڈیا پر جا رہے ہیں۔ الجیریا میں سیاح اس چیز سے تنگ آچکے ہیں جسے بیچ امبریلا مافیا کہا جاتا ہے۔ یہ شہر سیاحوں کے استعمال کے ل beach ساحل سمندر کی چھتری مہیا کرتا ہے ، لیکن کچھ مقامی افراد چھتری جمع کر چکے ہیں تاکہ وہ سیاحوں کو کرایہ پر لینے کے ل charge ان سے چارج کرسکیں۔ یہ دھوکہ دہی سیاحوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے جو دریافت کرتے ہیں کہ انہیں چھتری مافیا نے دھوکہ دیا ہے۔ کیا شہر واقف ہے؟ سب سے زیادہ کے مطابق ، جواب ہاں میں ہے ، لیکن وہ دوسرے راستے پر نظر آتے ہیں جب تک کہ سیاح چھتریوں کی قیمت ادا کرنے پر مجبور نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن ساحل سمندر پر آنے والے سیاحوں اور اس سے لطف اٹھانے والے تفریح ​​کے ل they ، انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ انہیں ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی؟ ایک خاص واقعے میں ، مافیا نے سیاحوں کو بتایا کہ جب انہوں نے چھتریوں کی ادائیگی سے انکار کیا اور اس کے بجائے وہ ساحل سمندر کی اپنی چیزیں استعمال کرنا چاہتے تھے تو ساحل سمندر چھوڑنا پڑا۔ ایک اور تکلیف دہ تصادم میں ، ایک سیاح جو اپنے کنبے کے ساتھ ساحل سمندر پر آیا تھا ، پر غیرقانونی فروش نے ساحل سمندر کے سامان کرایہ پر لینے کی فیس کے بارے میں شکایت کے بعد اس پر حملہ کردیا اور اسے چھرا گھونپ دیا گیا۔ یہ اس طرح کے واقعات ہیں جو سیاحوں کو جعلسازی کے عمل کو منظرعام پر لانے کے لئے سوشل میڈیا پر گامزن ہیں۔ سیاحوں نے پولیس کو بلایا ہے ، تاہم ، مدد کی اس درخواست سے کچھ نہیں نکلا ہے۔ الجیریا کے وزیر داخلہ اور مقامی اجتماعی علاقوں نے ساحل کے انتظام کے لئے ذمہ دار ہے ، اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ آزاد ساحل سمندر پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی وزارت نے ساحل سمندر کے شہروں کی شہری حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک قانون بنائے جو کسی ایڈمنسٹریٹر کو ساحل سمندر کی نگرانی کے لئے پولیس فورس کی نگرانی کا ذمہ دار بنائے ، لیکن ابھی تک اس قانون کو عملی جامہ پہنایا نہیں جا سکا۔ الجیریا میں سیاحت کے شعبے میں اس کے بحیرہ روم کے ساحل کی بدولت زبردست صلاحیت موجود ہے ، تاہم ، اگر ساحل سمندر چھتری مافیا کے قریب جانے کے خوف سے سیاح وہاں جانا نہیں چاہتے ہیں تو۔
urd_Arab
کراچی کا موسم آج جزوی ابر آلود رہے گا SAMAA | Web desk - Posted: Jun 7, 2017 | Last Updated: 5 years ago اسلام آباد : پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جہاں ابر کرم رحمت بن کر برسا، وہیں یہ رحمت کچھے مکانوں پر زخمت بن کر ٹوٹ پڑی، مختلف حادثات میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے، دوسری جانب محکمہ موسمیات نے بالائی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش اور آندھی کی پیش گوئی کردی۔ ترجمان محکمہ موسمیات کے مطابق پنجاب کے مختلف علاقوں میں تیز بارش اور آندھی نے گرمی کا زور توڑ ڈالا، محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور، راول پنڈی، اسلام آباد، خیبر پختو نخوا، فاٹا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ بارش ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب کوئٹہ، ژوب، ملتان، ڈی جی خان اور ساہیوال میں چند مقامات پر تیز ہواؤں کے ساتھ آندھی کا امکان ہے، ملک کے دیگر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہے گا۔ میٹ آفس کے مطابق کراچی کا موسم آج جزوی ابر آلود اور گرم رہے گا، شہر کی فضاؤں پر بادلوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں گشت کررہی ہیں، گزشتہ روز بوندا باندی بھی ہوئی، لیکن آئندہ چوبیس گھنٹوں میں کراچی میں بارش کا کوئی امکان نہیں ہے، آج کراچی کا درجہ حرارت چھتیس ڈگری سینٹی گریڈ، جب کہ ہوا میں نمی کا تناسب انسٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ سماء
urd_Arab
محفوظ بیبی سٹرولر کا انتخاب کیسے کریں۔ بچوں کے ساتھ سفر کرتے وقت بیبی سٹرولرز والدین کے لیے بہت مددگار ہوتے ہیں۔ تاہم، صرف بیبی سٹرولر کا انتخاب نہ کریں۔ نہ صرف آرام اور عملییت کے لحاظ سے، بچے کے گھومنے والے کے انتخاب میں حفاظتی عنصر پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ گھومنے والا یا گھمککڑ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جن کی ضرورت بچے کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ سٹرولرز کا استعمال عام طور پر اس وقت تک کیا جاتا ہے جب تک کہ بچہ 3-4 سال کا نہیں ہو جاتا، اس سے پہلے کہ وہ خود کھڑا ہو اور آسانی سے چل سکے۔ آج، بازار میں بیبی سٹرولرز کے بہت سے انتخاب دستیاب ہیں۔ لہذا، الجھن میں نہ پڑنے اور غلط انتخاب نہ کرنے کے لیے، آپ کو ان چیزوں کو جاننے کی ضرورت ہے جن پر صحیح بیبی سٹرولر کا انتخاب کرتے وقت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بیبی سٹرولر کا انتخاب کرتے وقت جن چیزوں پر غور کرنا چاہیے۔ ظاہری شکل اور قیمت پر غور کرنے کے علاوہ، بہت سے عوامل ہیں جن پر آپ کو محفوظ بیبی سٹرولر کا انتخاب کرتے وقت غور کرنے کی ضرورت ہے، یعنی: 1. عملی بریک بیبی سٹرولرز میں دو قسم کی بریکیں پائی جاتی ہیں، یعنی ایک بریک سسٹم جو ایک ہی وقت میں دو پہیوں کو لاک کر سکتا ہے اور ایک بریک جو صرف ایک پہیے کو لاک کرتی ہے۔ آپ ان بریکوں کا انتخاب کر سکتے ہیں جو آپ کے خیال میں زیادہ عملی اور استعمال میں آسان ہیں۔ تاہم، یہ سفارش کی جاتی ہے کہ آپ ایک سٹرولر کا انتخاب کریں جو ڈسک بریکوں سے لیس ہو، تاکہ یہ اوپر یا نیچے کی طرف جاتے وقت اضافی حفاظت فراہم کر سکے۔ 2. سیٹ بیلٹ مزاحمت بیبی سٹرولرز میں عام طور پر سیٹ بیلٹ کے مختلف ماڈل ہوتے ہیں۔ تاہم، ایسی سیٹ بیلٹ کا انتخاب کریں جو کمر، کندھوں اور رانوں کے درمیان کے حصے کو ڈھانپے۔ اس سیٹ بیلٹ ماڈل کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان بچوں کی حفاظت کے لیے جن کے جسم کا سائز ابھی چھوٹا ہے۔ آپ کو استعمال میں آسانی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سائز بچے کے جسم کے مطابق ہو۔ 3. وزن کی حد پر توجہ دیں۔ نہ صرف سیٹ بیلٹ کے ماڈل، بچوں کے سٹرولرز کے وزن کی حد بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے سٹرولر کو بچے کے جسمانی وزن کے مطابق ایڈجسٹ کریں۔ اگر یہ مناسب نہیں ہے یا بہت بھاری ہے، تو یہ خدشہ ہے کہ گھومنے والا غیر مستحکم ہو جائے گا اور استعمال میں کم آرام دہ ہو جائے گا۔ 4. نقل و حرکت میں آسانی گھومنے والا کنڈا سامنے اور پیچھے پہیوں کے ساتھ یہ عام طور پر موڑنا آسان ہو جائے گا. یہ جاننے کے لیے، آپ ایک ہاتھ سے سٹرولر کو موڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر منتقل کرنا آسان ہے، تو گھمککڑ یہ آپ کے لیے بہترین انتخاب ہے۔ 5. اعلی یا کم ہینڈل گھمککڑ سٹرولر کے ہینڈل کو والدین یا بالغ کی اونچائی پر ایڈجسٹ کریں جو اسے دھکیلیں گے۔ ہینڈل گھمککڑ کمر کے ارد گرد یا تھوڑا سا نیچے ہونا چاہئے. آپ بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔ گھمککڑ سایڈست ہینڈل کے ساتھ. 6. سایڈست سیٹ اگر سٹرولر 6 ماہ سے کم عمر کے بچوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو یقینی بنائیں کہ سیٹ کو ایڈجسٹ کیا گیا ہے تاکہ یہ تقریباً ٹیک لگانے کی پوزیشن میں ہو، کیونکہ بچہ ابھی بھی سر کو سہارا دینے اور بالکل اٹھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس عمر سے اوپر، نیند کے دوران آرام فراہم کرنے کے لیے ایک کرسی کی پوزیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ 7. پاؤں ڈالنے کی جگہ فٹ ریسٹ والے ٹہلنے والوں سے پرہیز کریں جو بچے کے دائیں اور بائیں پاؤں کو الگ کرے۔ آپ کو انتخاب کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گھمککڑ بچے کے پیروں کو درمیان میں پھنسنے سے روکنے کے لیے غیر الگ کیے گئے پیروں کے ساتھ۔ 8. کینوپی فکسچر چھتری کے ساتھ سٹرولر کا انتخاب کریں جو اسے ہوا، دھوپ اور بارش سے بچا سکے۔ یہ بھی یقینی بنائیں کہ چھتری کو ہٹانا آسان ہے، جس سے اسے صاف کرنا آسان ہے۔ 9. فولڈ ہونے پر سائز گھومنے والاجو ہلکا اور چھوٹا ہوتا ہے جب تہہ کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر کار یا ہوائی جہاز کے کیبن کے ٹرنک میں ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، منتخب کریں گھمککڑ جسے صرف ایک پریس سے فولڈ کیا جا سکتا ہے، لہذا یہ زیادہ عملی ہے اور وقت کی بچت کرتا ہے۔ 10. خصوصی حالات میں ایڈجسٹ کریں۔ ایک خاص بیبی سٹرولر کے لیے، مثال کے طور پر جڑواں بچوں کے لیے گھومنے والا، آپ کو صلاحیتوں پر غور کرنے اور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ گھمککڑ دو بچوں کے وزن اور اس کی نقل و حرکت میں آسانی کو سہارا دینے کے لیے۔ آپ ایک ٹینڈم سٹرولر کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں جس میں سامنے کی طرف کی پوزیشن کے بجائے پیچھے کی پوزیشن ہو، کیونکہ یہ آپ کے لیے تنگ دروازے یا سڑک سے گزرتے وقت مشکل بنا سکتا ہے۔ اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ سفر کرتے وقت صحیح بیبی سٹرولر کا انتخاب آپ کے لیے آسان بنا سکتا ہے۔ لہذا، ایک سٹرولر کا انتخاب کریں جو آپ اور آپ کے چھوٹے کی ضروریات کے مطابق ہو۔ اگر آپ کے پاس کوئی بچہ یا بچہ ہے جو خاص حالات کے ساتھ ہے جس کے لیے استعمال شدہ سٹرولر کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے، تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
urd_Arab
غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کے خلاف تاخیر پر آسٹریلیا مایوس از فہد کیہر بوقت 1 اکتوبر 2014 آسٹریلیا نے اپنے اسپنرز کو "دوسرا" پھینکنے پر مجبور نہیں کیا: اسپن کوچ جان ڈیویسن (تصویر: Getty Images) آسٹریلیا آف اسپن گیندبازی کے معاملے میں بنجر سرزمین ہے، لیگ اسپن کے بادشاہ شین وارن تو اس کی تاریخ کا حصہ ہیں لیکن کسی ایسے آف اسپن باؤلر نے یہاں جنم نہیں لیا کہ جس کے قصیدے دنیا نے پڑھے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی دنیا بھر کے آف اسپنرز زیر عتاب آئے ہیں، سب سے زیادہ بغلیں بھی آسٹریلیا ہی میں بجائی جا رہی ہیں۔ جب ہیڈ کوچ سے لے کر (شاید) چپڑاسی تک سب کی باچھیں کھلی ہوئی ہوں تو آخر اسپن کوچ کیوں خاموش رہیں؟ وہ بھی اپنے چار آنے کے ساتھ حاضر ہیں اور کہتے ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کے خلاف کارروائی میں بہت تاخیر کردی ہے۔ کوچ جان ڈیویسن، جو کینیڈا کے سابق کپتان بھی رہے ہیں، آسٹریلیا سے طویل وابستگی رکھتے ہیں اور بچپن ہی میں یہاں منتقل ہونے کے بعد وکٹوریا اور ساؤتھ آسٹریلیا کی جانب سے کرکٹ کھیلی۔ اب وہ اسپن باؤلنگ کوچ کی حیثیت سے آسٹریلیا سے منسلک ہیں۔ آف اسپن گیندبازوں کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن پر ان کی رائے بظاہر تو بالکل معقول لگتی ہے لیکن آخر میں اس پر شکر ادا کرنا کہ آسٹریلیا نے اپنے اسپن گیندبازوں کو "دوسرا" پھینکنے پر مجبور نہیں کیا، ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی اس معاملے پر خاصے مطمئن ہیں۔ آسٹریلوی اخبار دی ایج سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیویسن کہتے ہیں کہ اب یہ عالم ہے کہ کئی نوجوان کھلاڑی ان ہیروز کے نقش قدم پر چل چکے ہیں جو اب پابندیوں کی زد میں آ رہے ہیں۔ اپنے دورۂ سری لنکا کا حوالہ دیتے ہوئے ڈیویسن نے کہا کہ میں نے وہاں جتنے بھی باؤلر دیکھے، ان میں سے 90 فیصد اسپنر تھے، جن میں سے اکثر کے باؤلنگ ایکشن کر میں غیر قانونی قرار دوں گا۔ یعنی برصغیر میں ایک پوری نسل ہوگی جسے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے باؤلنگ میں دشواری کا سامنا ہوگا۔ وہ اپنے جن ہیروز کے نقش قدم پر چلے ہیں، انہی کی پیروی انہیں آئندہ متاثر کرے گی۔ جان ڈیویسن نے کہا کہ اس وقت بھی بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے والے بیشتر اسپن باؤلرز کا ایکشن مشتبہ ہے، اب نوجوان بھی انہی کی نقل کریں گے جنہیں وہ بین الاقوامی سطح پر کھیلتا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے شکر ادا کیا کہ جاری کریک ڈاؤن کے آسٹریلیا پر بہت کم اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس نے کبھی اپنے اسپن باؤلرز پر دباؤنہیں ڈالا کہ وہ "دوسرا" گیند پھینکیں۔ "ہم نے اپنے روایتی گیندبازوں کو کبھی دوسرا باؤلرز میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اگر یہ معاملہ 20 سال پہلے اٹھایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ 20 سال کا حوالہ دے کر شاید جان ڈیویسن سری لنکا کے عظیم اسپنر مرلی دھرن کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ 1995ء کے دورۂ آسٹریلیا میں امپائر ڈیرل ہیئر نے ملبورن ٹیسٹ کے دوران ان کی 7 گیندوں کو یہ کہہ کر نو-بال قرار دیا تھا کہ ان کا باؤلنگ ایکشن درست نہیں۔ یہ معاملہ بعد میں کافی آگے بڑھا یہاں تک کہ بایومکینک تجربات کے بعد مرلی دھرن کے ایکشن کو درست قرار دیا گیا۔ لیکن چند حلقے آج بھی مرلی دھرن کو اس "بدعت" کو جاری کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ کئی سالوں تک گیندبازوں کو کھلی چھوٹ دینے کے بعد اب بین الاقوامی کرکٹ کونسل ایک مرتبہ پھر سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ چند ہفتے قبل اس نے ایک روزہ کرکٹ کے بہترین گیندباز سعید اجمل پر یہ کہہ کر پابندی عائد کی کہ ان کا باؤلنگ ایکشن قانونی حدود کے اندر نہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں نصف درجن سے زائد گیندبازوں کے باؤلنگ ایکشن مشتبہ قرار دیے گئے ہیں جن میں سے تین پر پابندی بھی لگائی گئی ہے۔ آسٹریلیا کے لیے یہ تو خوش آئند بات ہے ہی کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا کوئی ایسا آف اسپنر موجود نہیں جو اس کریک ڈاؤن کی زد میں آئے، ساتھ ساتھ یہ امر بھی راحت بخش ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف آئندہ سیریز میں سعید اجمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
urd_Arab
کورسس – the university of spoken english زمرہ: کورسس (سپوکن یونیورسٹی میڈیا سیل رپورٹ)دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ حصولِ رزق اور سماج میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے پیسہ ضروری ہوگیا ہے اور پیسہ کمانے کے لئے انسان مشین بن گیا ہے۔ اِس مشینی زندگی نے وقت مزید پڑھیں محمد ابوبکر ساجد: آمنہ اور رابعہ دونوں بہنیں تھیں۔آمنہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا جبکہ رابعہ اپنا سارا وقت کھیل کود میں گزارتی۔اُسے پڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا۔سکول میں جب اُسکا ٹیسٹ ہوتا تو وہ نکل کرکے دیتی مزید پڑھیں کیٹاگری میں : Uncategorized، ڈاریکٹر Tagged featuredتبصرہ بھیجیں (سپوکن یونیورسٹی میڈیا سیل رپورٹ) تفصیلات کے مطابق سُپرکڈ پروگرام کے ہیڈ حماد صافی رواں ماہ چائینہ کے چھ روزہ دورے پرچایئنہ جائینگے.جہاں پروہ چائینہ کے بڑے کاروباری شخصیات سے ملاقات بھی کرینگے ملاقات میں وہ پاکستان چائینہ اکنامک کوریڈورکے مزید پڑھیں (سپوکن یونیورسٹی میڈیاسیل رپورٹ)عرصہ دراز سے دنیا بھر سے طلبا آن لائن کلاسز کے حوالے اپنی خواہش کا اظہار کررہے تھےلوگوں کی جانب سے پیغامات اور روز بروز سپوکن یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی شہرت اور دوردراز ممالک میں مقیم طلبا مزید پڑھیں کیٹاگری میں : Uncategorized ایک تبصرہ اپنی قوم سے وعدہ کیا ہے لہذا کسی دوسرے ملک سکونت اخیتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں….سباؤن اسلام و علیکم میں اپنی پوری افغان قوم اور اپنے نوجوانوں کا انتہائی شکرگزار ہوں جہنوں نے مجھے اتنی محبت دی مجھے یاد رکھا اوردور سے میرا اتنا حوصلہ بڑھایا.میں افغانستان کی ترقی اور روشن مستقبل کے لیے اپنی ہر مزید پڑھیں
urd_Arab
ہیئر سپنج: کس طرح کرگل اور موڑ سپنج | ATH امریکہ - آرٹیکل اہم آرٹیکل اپنے بالوں کو بالوں والی سپنج سے اسٹائل کرنے کا طریقہ سیکھیں اپنے بالوں کو اسٹائل کرنے کا ایک نیا ، آسان طریقہ ڈھونڈ رہے ہیں؟ یہ معلوم کریں کہ ہیئر اسپنج کو کس طرح استعمال کیا جا. ، اور اس طرز کو بنانے کے ل you آپ اسے کس طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ اس ٹول کو لازمی استعمال کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ مشیل ٹیمز | 10 نومبر ، 2020 کیا آپ نے بالوں کے اسفنج کے بارے میں سنا ہے؟ ہیئر اسپنج ایک ایسا آلہ ہے جو قدرتی خواتین اور مردوں کے لئے بہت اچھا ہے چھوٹے قدرتی بال اور قسم 3 اور کے لئے بھی بہترین ہے 4 بالوں کی بناوٹ . پچھلے کچھ سالوں میں ، ماضی میں قدرتی ہیئر کمیونٹی میں اس نے مقبولیت حاصل کی ہے ، وہ صرف ہیئر شوز میں خریداری کے لئے دستیاب تھے ، لیکن اب یہ بہت سارے خوردہ اسٹوروں اور خوبصورتی کی فراہمی والے اسٹوروں پر دستیاب ہیں۔ مزید جاننے اور حاصل کرنے کے ل reading پڑھتے رہیں حوصلہ افزائی خود کو آزمانے کے لئے: ہیئر سپنج کیا ہے؟ بالوں کا اسفنج ایک ہاتھ سے تھامنے والا آلہ ہے جس میں سوراخ یا چھلکیاں ہوتی ہیں اور قدرتی بالوں کو کرلنگ کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔چھوٹے بالوں والے افراد کے ل smaller ، چھوٹے سوراخ والے آپشن بہترین ہیں کیونکہ وہکریں گےآپ کو بہت سخت ، چھوٹی چھوٹی کوائل اور / یا curls دیتے ہیں۔اگر آپ کے لمبے لمبے بال ہیں تو ، ایک بڑا آپشن بڑے بڑے curls اور کنڈلی پیدا کرے گا۔ جب آپ فیصلہ کر رہے ہیں کہ آپ کے لئے کون سا بہتر ہے تو ، یہ یقینی بنائیں کہ آپ سوراخ کا سائز چیک کریں۔ اس سے آپ کو یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ کونسا آپ کے بالوں کے لئے بہترین کام کرے گا۔ ایشیائی بالوں کی ساخت حاصل کرنے کا طریقہ بال سپنج کیسے کام کرتا ہے؟ curl sponges آپ کے قدرتی بالوں کو کرل کرتے ہیں۔ اس آلے کو استعمال کرنے کے ل you ، آپ اسے سرکلر موشن میں اپنے بالوں میں گھساتے ہیں تاکہ curls ، coils اور یہاں تک کہ مروڑ پیدا کریں۔ آپ اپنے ہاتھوں سے جو سوراخ اور حرکات بناتے ہیں وہ آپ کے بالوں کے حصوں کو گھماتا اور گھما دیتا ہے۔ ہیئر اسپنج کا استعمال کرنے سے اس سے کم وقت لگتا ہے جو ہاتھ سے اس انداز کو تخلیق کرتا ہے۔ بالوں کا اسفنج نم بالوں پر بھی بہترین کام کرتا ہے۔ اسٹائل سے پہلے اپنے پسندیدہ جیل یا کریم یا پانی کو لگائیں تو بہتر ہے۔ ہیئر سپنج کا استعمال کیسے کریں نم بالوں سے شروع کریں۔ نم بالوں پر اسٹائل لگانا بہتر ہے کیونکہ خشک بالوں پر ہیئر اسپنج استعمال کرنے سے نقصان ہوسکتا ہے چھٹی میں کنڈیشنر لگائیں ایک رخصت کنڈیشنر آپ کے بالوں کو اسٹائل میں مدد کے ل moisture نمی دینے میں مدد کرے گا۔ شی مائسچر 100 Vir ورجن ناریل آئل ڈیلی ہائیڈریشن لیو ان ٹریٹمنٹ حیرت انگیز ہے اور آپ کے curls کو نمی بخش رکھیں گے! درمیانی لمبائی کے قدرتی بالوں کے لئے حفاظتی شیلیوں پانی ، جیل یا کریم اسٹائلر لگائیں اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ آپ زیادہ تر مصنوع کا استعمال نہ کریں۔ کوشش کریں TRESemme TRES دو میگا سکوپلٹنگ جیل .آپ کے curls پاپ ہو جائے گا!
urd_Arab
سربیا: ہزاروں افراد کی شرکت سے احتجاجی مظاہرے سربیا: ہزاروں افراد ... مظاہرین ملک کے مختلف شہروں سے بلغراد میں آئے اور قومی اسمبلی کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے جہاں پولیس نے سخت حفاظتی اقدامات کر رکھے تھے 14.04.2019 ~ 16.04.2019 سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں کل ہزاروں افراد نے " 5 ملین میں سے صرف ایک" کے سلوگن کے ساتھ منعقدہ حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرین ملک کے مختلف شہروں سے بلغراد میں آئے اور قومی اسمبلی کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے جہاں پولیس نے سخت سکیورٹی اقدامات کر رکھے تھے۔ سابق صدر بوریس تادچ نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا اور کہا کہ صدر الیگزینڈر ووجچ کی روح تاجر اور جمہوریت دشمن ہے۔ پورے احتجاجی مظاہرے کے دوران 100 سے زائد پولیس اہلکاروں نے قومی اسمبلی کی عمارت کو گھیرے میں لئے رکھا۔ اس سے متعلق جاری کردہ بیان میں سربیا کے وزیر داخلہ نیبوژسا سٹیفانووچ نے کہا ہے کہ پولیس کی وہاں موجودگی کا مقصد مظاہرین کے خلاف قوت کا استعمال کرنا نہیں بلکہ اسمبلی کی عمارت کو نقصان پہنچانے والوں کو روکنا تھا۔ سٹیفانو نے کہا ہے کہ مظاہرے میں تقریباً 7 ہزار 500 افراد نے شرکت کی۔ دیگر علاقوں سے آنے والی بسوں کو روکے جانے کا دعوی کیا جا رہا ہے لیکن دن بھر میں تقریباً 700 بسیں بلغراد پہنچی ہیں شرکت کا خواہش مند ہر کوئی مظاہرے میں شریک ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ سربیا میں حکومت مخالف مظاہرے 19 ہفتہ قبل حزب اختلاف " سربیا سولو" نامی پارٹی کے لیڈر بورکو سٹیفانووچ پر حملے کے بعد سے شروع ہوئے۔ ماہِ دسمبر کے آغاز سے لے کر اب تک ہر ہفتے کے روز دارالحکومت بلغراد سمیت مختلف شہروں میں جمع ہونے والے ہزاروں مظاہرین صدر، اسمبلی اسپیکر اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے جاری کردہ بیان میں مطالبات کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو 13 اپریل تک کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں پورا سربیا سڑکوں پر نکل آئے گا۔
urd_Arab
ملی یکجہتی کونسل کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ وہ قوم جو مرجعیت اور عظیم مکتب فکر کی پروردہ ہو وہ کبھی بھی حق اور سچائی کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور مزاحمت کے راستے کو پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھے گی۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ آج امریکا امت مسلمہ پر حملہ آور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسلامی ممالک ایران کے ساتھ ہوتے اور تسلط کو قبول نہ کرتے تو حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک کے حکام دوسروں کی خشنودی حاصل کرنے اور اس فانی دنیا کی زندگی کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے مرجع دینی آیت اللہ مکارم شیرازی سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تفسیرنمونہ کو بیش قیمتی اور اہم تفسیر قرآن قرار دیا۔ انہوں نے تاکید کی کہ اس تفسیر قرآن سے تمام شیعہ اور سنی استفادہ کرتے ہیں اور اس کی اہمیت کے قاتل ہیں۔ انہوں نے اسی طرح مرجع دینی کی جانب سے جاری ہونے والے فتوؤں کو بھی نہایت ہی اہم قرار دیا ۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اسلامی جمہوریہ ایران، رہبر انقلاب اسلامی، مراجع تقلید اور ایرانی عوام کی جانب سے پاکستانی عوام کی ہونے والی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔اسی طرح انہوں نے کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت پر بھی اسلامی جمہوریہ ایران، قائد انقلاب اور مراجع کرام کی قدردانی کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستانی عوام اسلامی جمہوریہ ایران سے محبت کرتے ہیں اور دونوں ممالک مل کر دنیا میں امت اسلامی کے لئے اتحاد و بھائی چارے کی ایک انمول مثال پیش کر سکتے ہیں۔
urd_Arab
ايقاظ - ترس کیسا؟ مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑنا ہو گا ترس کیسا؟ مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑنا ہو گا ترس کیسا؟ مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑنا ہو گا ہماری اِس فصل کا اصل مضمون پر آنے سے پہلے... ''دین'' کا مطلب جان لینا ضروری ہے: ہمارے اِس مضمون کے کئی ایک اشارات کو پانا اِس بات پر منحصر رہے گا کہ آدمی ''دین'' کے اُس مفہوم سے واقف ہو جو مسلمانوں کے علمی وتاریخی مصادر میں صدیوں سے معلوم اور معروف رہا ہے اور جس کا دائرہ قلبی اَعمال سے لے کر بدنی عبادات، روزمرہ معاملات، سماجی تعلقات اور امورِ ریاست بشمول سیاست و معیشت، دیوانی و فوجداری مسائل و امورِ صلح وجنگ سب کو محیط ہے اور اِس پورے دائرہ میں غیر اللہ کی عبادت سے کنارہ کش رہتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنا ''اسلام'' ہے۔ ''دین'' کے اِسی دائرہ کو واضح کرنے کےلیے اِس فصل میں آگے چل کر آپ ایک طویل حاشیہ دیکھیں گے جس میں مسلمانوں کی حدیث اور فقہ کی ایک ایک کتاب کی فہرست دکھائی گئی ہے تاکہ اندازہ ہو مسلمان چودہ صدیوں سے جس ''دین'' سے واقف ہیں اس کا دائرۂ نفوذ درحقیقت ہے کہاں تک، اور تاکہ یہ بھی معلوم ہو کہ مسلمانوں کے تمام کے تمام علمی مصادر ''دین'' کا جو مفہوم بتاتے ہیں وہ زندگی کے ''روحانی'' شعبوں کو نہیں بلکہ دین کے سب کے سب شعبوں کو محیط ہے۔[1] البتہ یہاں ایک اور اصطلاح بھی رائج ہے جو ضرور کسی وقت ''دین'' کا ہم معنیٰ بھی استعمال ہو جاتی ہو گی مگر اِس کا جو استعمال عمومی طور پر ذہنوں کے اندر پایا جاتا ہے وہ ''دین'' کی نسبت بے حد محدود ہے۔ یہ اصطلاح ہے: ''مذہب''۔ ظاہر ہے یہ اصطلاح ہمارے دین کے مصادر میں کہیں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ نہ کہیں قرآن میں، نہ حدیث میں، نہ فقہ میں اور نہ کتبِ عقیدہ میں، باوجود اِس کے کہ ''دین'' بھی عربی ہی کا لفظ ہے اور ''مذہب'' بھی عربی ہی کا ایک لفظ! پھر بھی ہم اس بات کے قائل نہیں کہ آدمی لفظوں اور اصطلاحوں میں الجھ کر رہ جائے۔ ''لا مشاحۃ فی الاصطلاح''۔ تاہم چونکہ لفظِ ''مذہب'' سے عموماً جو چیز ذہنوں میں آتی ہے وہ انگریزی کے لفظ religion کی ہم معنیٰ ہے اور جس میں کچھ روحانیات، کچھ اخلاقیات، کچھ رسوم، نکاح طلاق کے کچھ مسئلے، کھانے پینے کے کچھ کوڈز اور چند مذہبی تہوار آتے ہیں اور یہیں پر اس کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے.. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں سیکولر زبانیں، زیر لب، لفظِ ''مذہب'' کو رواج دلاتی ہیں اور اس کے ''احترام'' کی بھی ایک باقاعدہ یقین دہانی کراتی ہیں۔ البتہ کسی کسی وقت یہ اپنے اُس ''مفہوم'' سے بھی پردہ اٹھاتی ہیں جو یہ ''مذہب'' سے مراد لیتی ہیں اور جوکہ عین وہی ہے جو کہ یورپ میں ''ریلیجئن'' سے مراد لی جاتی ہے اور جو کہ کچھ مافوق الفطری تصورات metaphysical dogmas اور ''پوجا پاٹ کے کچھ مراسم'' rituals سے بڑھ کر نہیں اور جس سے کہ زندگی کے اجتماعی شعبے مانند سیاست، معیشت، تہذیب، ثقافت، امورِ دیوانی و فوجداری، معاملات صلح وجنگ اور اقوام عالم کے ساتھ تعامل سب کچھ باہر رکھا جاتا ہے.. اور جو کہ اسلام میں ''دین'' کے دائرہ کے اندر ہی آتا ہے اور جس کو کہ ''دین'' اور ''خدا کی اطاعت'' سے باہر کرنا کفرِ بواح ہے۔ یہاں سے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ''دین'' کی تفصیلات ہی نہیں، ''دین'' کا تصور بھی اپنے ہی شرعی وتاریخی مصادر سے لیں اور اس کے اُس تصور کو قبول کرنے سے جو ''مذہب'' اور ''ریلیجئن'' کے تحت اِس وقت ہمارے ذہن نشین کرائی جا رہی ہے اور جس کے بل پر ہمارے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی واردات ہونے جا رہی ہے، صاف اِباء کریں اور قوم کو بھی اس سے خبردار کریں۔ اب آئیے فصل کے اصل مضمون پر: 'مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑنا ہو گا'! یہ قوم بلاشبہ اپنا سب کچھ ہاتھ سے دے چکی، کوئی اور چیز بچی ہی نہیں جو اِس کے ہاتھ سے لے لی جائے۔ دشمن بھی جانتا ہے، اِس کے پاس صرف اِس کا دین اور اِس کا نبیؐ بچ گیا ہے جسے اُس کے خیال میں اِس قوم کے ہاتھ سے اب لازماً لے لیا جانا چاہیے؛ کیونکہ یہ اِس کے پاس ہے تو گویا سب کچھ ہے؛ یہ ایک ایسی ثروت ہے جس سے کام لے کر یہ قوم جب چاہے اپنی ملت کو از سر نو تعمیر کر سکتی ہے.. اور اپنی کھوئی ہوئی ایک ایک چیز اپنے دشمن کے ہاتھ سے واپس لے سکتی ہے.. بلکہ اِس کی مدد سے یہ اپنی اس عمارت کو دنیا میں جس قدر چاہے اونچا لے جا سکتی ہے اور جس قدر چاہے جہانِ انسانی کے اندر پیش قدمی کر سکتی ہے۔ اس کے دشمن کی بدبختی کہئے یا کیا... اب وہ اِس امت کے ہاتھ سے اس کا دین چھیننے کا فیصلہ کر چکا ہے! اِس معنیٰ میں نہیں کہ وہ ہمارے یہاں سے ہمارے دین اور ہماری شریعت کی حکمرانی ختم کروا دے؛ کیونکہ یہ کام تو وہ ایک صدی پہلے کامیابی کے ساتھ انجام دے چکا ہے۔ بلکہ اِس معنیٰ میں کہ یہ امت اعتقاداً ہی اب اللہ، اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے اپنا ناطہ توڑ لے اور اپنے ایمان کے اِن نازک ترین اور بنیادی ترین مقامات پر بھی ''غیرت'' اور ''حمیت'' ایسے الفاظ کو اپنی لغت سے ہمیشہ کےلیے خارج کرا دے۔ اِن کی کتاب اور ان کے نبیؐ کو برسرعام گالیاں پڑیں اور ان کی شریعت میں وارد ہونے والی حدود اور شعائر کا دنیا کی بڑی بڑی سکرینوں اور فل اسکیپ کے صفحات پر مذاق اڑا لیا جائے تو بھی عالمی دجالی شریعت پر اپنے ایک غیر متزلزل ایمان کا ثبوت دیتے ہوئے اور اِس دجالی شریعت سے وجود میں آنے والے ''بین الملل رشتوں'' کی عظمت و تقدس کا پاس رکھتے ہوئے ان پر لازم ہو گا کہ تب بھی یہ ''مسکراہٹوں کے تبادلہ'' کی ایک ایسی استعداد سامنے لائیں جو کسی بھی صورت میں اور کسی بھی موقعہ پر اِن کی باچھوں کا ساتھ نہ چھوڑتی ہو۔ چنانچہ جنگ اب صرف ایک بات پر ہے : ''مسلمانوں کو اپنا دین چھوڑنا ہو گا''... ''اپنا 'مذہب' بے شک اسلام رکھیں، مگر ''دین''[2] ہمارا قبول کرنا ہو گا''... 'خبردار، ہم مذہب کے کوئی مخالف نہیں مگر اِس سے پہلے ضروری ہے آپ سیکولرزم کے معنیٰ اور مفہوم سے ذرا آگاہ ہو لیں، جی ہاں ''سیکولرزم'' جو کہ زمانے کا دین ہے اور جس کو اِس گلوبل ولیج کے ہر شہری پر مسلط کر نے کےلیے ہر قسم کا اِکراہ اور زبردستی بھی نہ صرف جائز بلکہ انسانیت کی بھلائی کےلیے حد سے بڑھ کر ضروری ہو چکی ہے۔ ''دین'' کے طور پر اگر آپ ہمارا سیکولرزم قبول کر لیں تو ''مذہب'' کے طور پر آپ اپنے اسلام کو جی بھر کر گلے لگائیں اور جہان بھر میں نشر کریں! مسلمان اپنا ''دین'' چھوڑ کر حلقہ بگوشِ سیکولرزم ہو جائیں تو ان کو اپنے ''مذہب'' (اسلام) پر چلنے کی نہ صرف اجازت ہو گی بلکہ ''ریاست'' اس کی باقاعدہ ضمانت دے گی کہ ان کی مسجدوں اور اذانوں اور قرآنی مصاحف کی طباعت اور عید کی چھٹیوں (البتہ 'جمعہ' کی آدھی چھٹی بمقابلہ ''اتوار'' کی پوری چھٹی، کیونکہ ریاست ''اسلام'' کا اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی!)، حج انتظامات، رمضان کے احترام (جوکہ بھارت کے 'مسلم اکثریتی' علاقوں میں بھی ان کو وافر طور پر دستیاب ہے) اور اسی قبیل کے کچھ دیگر 'مذہبی شعائر' کو مکمل پروٹیکشن حاصل ہو گی۔ نیز اسلام کی جو جو بات ہمارے اِس اینگلوسیکسن دین کے مطابق نکلے اس کا 'اسلامی حوالہ' دینے کی بھی پوری آزادی ہو گی، بلکہ خاص حالات میں اِس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں، آپ ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کرنا چاہیں اور تا عمر 'مذہبِ اسلام' پر عمل پیرا رہنا چاہیں یا کسی وقت اسلام چھوڑ کر ہندومت اختیار کرنا چاہیں یا اِن دونوں کی جگہ کوئی اور 'مذہب' قبول کرنا چاہیں یا سب 'مذاہب' کو چھوڑ کر دہریہ جا بنیں، یہ سب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی آپ کا بال بیکا کرنے کا مجاز نہیں '! جس طرح قرآن نے کسی وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اللہ کے نزدیک دین ایک ہے اور وہ ہے اسلام*۔ البتہ ساتھ فرمایا تھا کہ اس کے قبول کرنے پر ہرگز کوئی دھونس زبردستی نہیں ہے*، کیونکہ فیصلے خدا کے ہاں قیامت کو جا کر ہونے ہیں*...۔ اسی طرح آج کے اِس عالمی دجالی چارٹر نے صاف صاف اور واشگاف یہ اعلان کر دیا ہے کہ ''دین'' اس کے نزدیک ایک ہے اور وہ ہے سیکولرزم، البتہ اِس ''دین'' کے اندر رہتے ہوئے ''مذہب'' آپ جونسا مرضی اختیار کریں۔ ہاں البتہ ''دین'' جو ایک ہے، اور سیکولرزم ہے، اس کو قبول کرنے پر ہر ہر قسم کا اکراہ اور ہر ہر انداز کی زبردستی لازماً روا رکھی جائے گی۔ نیز یہ سب فیصلے آج ہی اور اِسی زمین پر ہوں گے۔ اور کوئی رحم اور ترس کھانے کی اِس بار گنجائش نہیں۔ اب یہ چیز ایک اندھا بھی دیکھ چکا ہے کہ اِس پوری جنگ کا ایجنڈا اِسی ایک نکتے پر مشتمل ہے۔ یہاں کا لاعلم سے لاعلم شخص بھی جان گیا ہے کہ کرۂ ارض کی یہ مہنگی ترین جنگ نہ تو یہاں کے کچھ مٹھی بھر 'دہشت گردوں' کی گوشمالی کی خاطر ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ کسی ایک خطے تک محصور کر رکھی گئی ہے؛ بلکہ یہ جنگ صرف اور صرف ایک نکتے پر ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے اندر پھیلا دی گئی ہے؛ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو اب اپنا ''دین'' چھوڑنا ہو گا۔ اسلام کو رکھنا ہے تو ''مذہب'' کے طور پر رکھیں، ''دین'' البتہ صرف سیکولرزم ہے۔ اور چونکہ مسلمان چودہ سو سال تک اسلام کو ''دین'' ہی مانتے چلے آئے ہیں اور ان کے سب علمی ذخیرے، ان کے سب فقہاء، ان کی سب فقہیں اور ان کے سب علمی مراجع جگہ جگہ اِس 'گمراہی' میں الجھے رہے ہیں جو اسلام کا تعارف معاشرے کے جملہ امور پر حاکم بن کر رہنے والے ایک ''دین'' کے طور پر کرواتی ہے...، لہٰذا جب تک مسلمان اپنی اِن فقہوں، اپنے اِن علمی ذخیروں اور اپنے اِن فنی و تکنیکی مراجع سے ہی برگشتہ نہیں کرا لئے جاتے تب تک پیر پیر پر یہ اُن ''گمراہیوں'' اور اُن ''مغالطوں'' کا شکار ہوں گے جو صدیوں تک اسلام کو ''دین'' کے طور پر لینے کے ہی عادی چلے آئے ہیں اور اس کے علاوہ اسلام کی کسی تعریف سے واقف ہی نہیں رہے! لہٰذا جب تک مسلمانوں کو اُس پورے فقہی و تاریخی تسلسل سے ہی کاٹ کر نہیں رکھ دیا جاتا اور اُس سارے فقہی ورثے پر ہی اِن کے بچے بچے کی زبان پر ایک سوالیہ نشان نہیں کھڑا کروا دیا جاتا تب تک یہ اسلام کی اِس جدید 'مذہبی تعبیر' پر بھی یکسوئی نہ پا سکیں گے؛ اور نہ چاہتے ہوئے بھی 'اکیسویں صدی کی چیزوں' کو 'پرانی چیزوں' کے ساتھ خلط کرتے رہیں گے... 1) پس مسلمانوں کو اِس نئے دین (سیکولرزم) پر لانے کےلیے دو محوروں پر کام ہونا ضروری ہے: اسلام کا تعارف 'مذہب' کے طور پر کروانا، اور میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اسی کو یہاں کا سب سے زیادہ مقبول اور رائج اور معروف حوالہ بنا دینا۔ اسلام کے 'مذہبی' تصور کو اِس حد تک نمایاں کروانا کہ اسلام بالفعل 'مذہب' کے اندر محصور ہو کر رہ جائے۔ 2) دوسری جانب.. اسلام کے اُس تصور کو بلڈوز کروانا جو اپنا تعارف ''دین'' کے طور پر کرواتا ہے اور جو مسلمانوں کے یہاں طویل صدیوں تک معروف رہا ہے۔ جس کےلیے ضروری ہے کہ اسلامی فقہ اور فقہاء کو بیچ سے 'ڈراپ' کروا دیا جائے۔ وہ خوب جانتے ہیں، دورِ آخر کے مسلم معاشروں کو اپنے مصادرِ شریعت (کتاب و سنت) کے ساتھ جڑنے کےلیے دورِ سلف کی فقہ اور فقہاء کا ایک مضبوط ٹانکہ لازماً درکار ہے... لہٰذا مسلمانوں کو اِس نئے دین پر لانے کےلیے اشد ضروری ہے کہ: علمی زوال کا شکار اِن مسلم معاشروں اور ان کے مصادرِ شریعت کے مابین لگے ہوئے اِس ٹانکے کو توڑ دیا جائے۔ اور جب ایسا ہو جائے تو پھر ان کو 'دلیل بازی' کی ایک نئی مہم پر روانہ کرایا جائے۔ ایک ایسے دور اور ماحول میں جہاں علم اور علماء نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہوں.. ایک ایسے کورے معاشرے پر استعمار کے ہونہار شاگردوں کے غول چھوڑ دیے جائیں، جو مسلم امت کے اجماع کا مذاق اڑاتے پھریں، فقہائے امت کے علمی معیاروں کا 'بوداپن' ثابت کرتے پھریں، دین کے بنیادی ترین امور کو ایک تفسیر نو کا ضرورتمند جانیں، یہاں تک کہ 'کتاب' اور 'سنت' کی ایک نئی تعریف امت کو جاری کرکے دیں۔ پس جہاں ایک نئی تصویر بنائی جا رہی ہو، وہاں پرانی تصویر مٹائی بھی جا رہی ہو! لہٰذا یوں تو کسی قوم کے 'مذہبی امور' میں مداخلت صحیح نہیں اور خود ''سیکولرزم'' کے اصول بھی اس کے متحمل نہیں، لیکن اِس خاص خدشے کے پیش نظر جوکہ اوپر ذکر ہوا، اور حفظ ما تقدم (pre-emptive measure) کے طور پر، اور عالم اسلام میں اِس نئے دین __ ''سیکولرزم'' __ کا مستقبل محفوظ بنانے کےلیے، یہ ضروری ہے کہ فقہ کے یہ سب مراجع مسلمانوں کے ہاتھ سے لے کر رکھوا دیے جائیں۔ وحی کے فہم اور استنباط کے سلسلہ میں وہ سب مسلمات اور وہ سب طے شدہ باتیں جو چودہ سو سال سے اِس امت کے تمام علمی حلقوں کے یہاں محکّم مانی گئی ہیں، ان سے ترک کروا دی جائیں۔ یہاں تک کہ ''تواتر'' اور ''اجماع'' ایسے الفاظ اور اصطلاحات بھی ان کی زبانوں سے کھرچ کھرچ کر اتار دیے جائیں۔ رہ گئی ''سنت''، تو اس کی تعریف ہی پر اس قدر دھول اٹھا دی جائے کہ یہاں ہر چوراہے پر یہ دنگل ہو رہا ہو کہ وہ سنت جو اس امت کا نبیؐ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے اور جس کو اِن کا نبیؐ ''ڈاڑھوں سے پکڑ کر رکھنے'' کی نہایت زوردار تاکید کر گیا ہے وہ ''سنت'' خیر سے ہوتی کیا ہے!؟ اور امت میں سے آج تک آیا وہ کسی کو سمجھ بھی آئی ہے یا اِس امت کو لاحق اتنا بڑا ابہام دور کرنے کےلیے ''سنت'' کی اسٹینڈرڈ تعریف اکیسویں صدی کے کچھ نابغاؤں کو ہی جاری کر کے دینا ہو گی؟ اور حسب ضرورت اس میں ''ترمیمات'' بھی کرتے رہنا ہو گا؟! سنت سے یوں فارغ ہوئے۔ رہ جاتی ہے کتاب اللہ، تو وہ جانتے ہیں کہ کتاب اللہ کو سنت اور صحابہؓ کی راہ سے ہٹ کر سمجھنے والا خود ہی کہیں ''خوارج'' کے گڑھے میں جا کر گرے گا، تو کہیں ''معتزلہ'' تو کہیں ''قدریہ'' تو کہیں ''جبریہ'' تو کہیں ''نیچرسٹ'' تو کہیں ''لبرل'' تو کہیں ''سیکولر''۔ ان گھاگ مستشرقین سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ کتاب اللہ کو سنت اور صحابہؓ کی راہ سے ہٹ کر سمجھنے سمجھانے کی ریت چلا دی جائے تو یہاں کی ہر 'ذاتی لائبریری' میں ایک 'نئی تحقیق' ہو رہی ہو گی اور ہر گلی کے کونے میں کئی کئی 'مکتب فکر' پائے جائیں گے، بلکہ یہاں کا ہر شخص ایک 'اسکول آف تھاٹ' ہو گا! اب چونکہ وہ اسلام جو چودہ صدیوں سے مسلمانوں کے یہاں پایا گیا ہے اور اپنے مستند فقہی مکاتب کی صورت میں پایا گیا ہے... چودہ سو سال سے چلا آنے والا وہ اسلام کسی ایک بھی مسلمان کے یہاں ''مذہب'' نہیں بلکہ ''دین'' رہا ہے، اور یہ بات مسلمانوں کے یہاں ہر شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے... اگرچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اُس پر عمل پیرا نہ رہی ہو اور خواہشاتِ دنیا کے پیچھے لگ کر اس سے بہت دور بھی ہو چکی ہو اور بے شک اس کی جگہ بہت سی خلافِ شریعت چیزوں نے بھی ان کے یہاں بسیرا کر رکھا ہو، پھر بھی جہاں تک مسلمانوں کے علمی وفقہی ذخیرے ہیں ان کے اندر آپ کو اسلام کی وہی 'پرانی' تصویر دکھائی دے گی جو ''مذہب'' سے لے کر ''امورِ ریاست و سیاست'' تک معاشرے کے جملہ مسائل کو محیط ہے... چونکہ اسلام کی ایک تاریخی وفقہی تصویر متفقہ طور پر مسلمانوں کے ہاں ایسی ہی ایک کامل و شامل تصویر ہے.. لہٰذا مسلمان بچوں میں بے راہ روی عام کر دینے پر استعمار کی جو محنت ہوئی ہے اس کے اپنے فائدے ضرور ہیں، مگر اسلام کی وہ علمی تصویر پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے جو ان کو ''واپس'' آنے کےلیے مسلسل اپنی طرف بلاتی ہے۔ کم از کم بھی یہ کہ اسلام کی وہ علمی تصویر آج بھی مسلمانوں کو ان کے انحرافات کی پیمائش میں مدد دیتی ہے۔ اِس گھر کا بھولا ہوا کوئی شخص واپس آنے کا ارادہ کر لے، تو اس کا راستہ پھر بھی کھلا ہے۔ چنانچہ جب بھی اِن مسلمانوں کے بچے اسلام کی طرف واپس آتے ہیں، اور یہ ایک ایسا 'خطرناک' عمل ہے جو نہ صرف تیزی کے ساتھ شروع ہو چکا ہے بلکہ ''ایلیٹ'' کے بچوں میں بھی رواج پکڑ گیا ہے... جب بھی مسلمانوں کے بچے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی طرف لوٹتے ہیں تو پھر وہ وہی اسلام ہوتا ہے جو کم از کم علمی حد تک وہی چودہ سو سال پرانا ایک تسلسل ہے! لہٰذا استعمار کے زیر اشارہ کام کرنے والے ٹی وی اور سینما اور تھیٹر اور ریڈیو اور اخبارات کی سب کوششیں مسلمانوں میں عملی بے راہ روی لے آنے پر ہی مرکوز کروا رکھی جانا اس مسئلے کا کوئی بہت زبردست حل نہیں ہے۔ اصل کام اب یہ ہے کہ اسلام کی اُس علمی تصویر ہی کو بدل کر رکھ دیا جائے۔ اُن کی نظر میں، اس گھر سے اِس کے بچوں کا ایک بڑی تعداد کے اندر بھگا لیا جانا کتنا بھی خوش آئند ہو، کافی بہرحال نہیں؛ گھر تو گھر ہے؛ سب نہ سہی کچھ مسلمان بچے تو کسی نہ کسی وقت واپسی کی راہ لے ہی لیں گے؛ اور کیا بعید ایسے کچھ ہی بچے اِس فرعون کے محلات مسمار کر دینے کو کافی ہوں۔ اب تو کسی طرح یہ یقینی بنایا جائے کہ اِس گھر کے بچے جب واپس آئیں تو بھی ان کو یہ گھر نہ ملے۔ اصل کامیابی یہ ہو گی کہ مسلمان بچے بے راہ روی چھوڑ کر اسلام کی جانب لوٹیں تو بھی ان کو کسی اور ہی 'اسلام' سے واسطہ پڑے۔ ایسا ہو جائے پھر تو کیا ہی بات ہے! رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پھر... مسلمانوں کے بچے ''بے راہ رو'' ہو لیں یا ''مذہب پسند''، سبھی راستے ''روم'' کو جا رہے ہوں گے! چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھ سے اسلام کی صرف عملی تصویر نہیں، بلکہ اسلام کی علمی تصویر ہی کو چھین لے جانا آج اِس گلوبلائزیشن کے ایجنڈا پر سر فہرست ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آج کی یہ جنگ صرف اِس ایک نقطے پر ہو رہی ہے؛ اِس کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا اس جنگ کے پیچھے ہے ہی نہیں۔ یہ ایک ہی چیز ہے جو ہمارے پاس رہ گئی تھی اور یہ ایک ہی چیز ہے جسے اِس بار وہ ہمارے یہاں سے لینے آئے ہیں۔ اور اس کو لئے کے بغیر اِس بار وہ ہمارے یہاں سے جانے والے نہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ سارا التباس جو یہ سیکولر زبانیں اِس وقت پیدا کر کے دے رہی ہیں؛ اور جس کے دم سے 'مذہب کا احترام' ایسے چند الفاظ بول کر یہ ہم کو ایک بہت بڑا چقمہ دے دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور اِس مکاری سے کام لے کر اِن گلیوں اور بازاروں کے اندر اور یہاں کی لاکھوں کروڑوں سکرینوں پہ سامنے آکر ''دینِ محمدؐ'' کے ساتھ کفر کی کھلم کھلا دعوت دے کر بھی یہ محمد ﷺ پر ایمان رکھنے والے ایک معاشرے میں اپنا سر سلامت لئے پھرتی ہیں... یہ سارا التباس اور یہ ساری مکاری اِسی ایک حقیقت کے دم سے ہے کہ ہمارے بے علم عوام ابھی ''دین'' اور ''الٰہ'' کے اُس جامع مفہوم سے ناواقف ہیں جو چودہ سو سال سے امت کے اہل علم میں متفق علیہ چلا آیا ہے۔ ہمارے یہ عوام کبھی واقف ہوں کہ فقہائے اسلام کے یہاں ''دین'' کا کیا دائرۂ کار رہا ہے، یہاں تک کہ کسی بھی فقہ کی (جی ہاں کسی ایک نہیں بلکہ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، جس بھی فقہ کی) کتاب کھول لیں اور بیشک پوری کتاب نہ پڑھیں، محض اس کی فہرست پر ہی ایک سرسری نگاہ ڈال لیں، اِسی طرح صحاح ستہ میں سے حدیث کی کوئی ایک ہی کتاب اٹھا لیں اور زیادہ نہیں محض اس کی فہرست ہی کو ایک نظر دیکھ لیں، تو ان کو اندازہ ہو کہ ''دین'' کا دائرہ کہاں تک ہے[3] اور کیا کیا چیز ''دین'' کے اندر شامل ہے، جس کے ذریعے ان کو ''الٰہ'' کی عبادت کرنی ہے۔ ایک ایسا دین جو چودہ صدیوں تک معاشروں کو اپنی جاگیر منوا کر رہا ہو، اور یہاں کا بےعمل سے بےعمل اور گناہگار سے گناہگار شخص بھی اُس کی اِس حیثیت کو تسلیم کرتا رہا ہو.. ایک ایسا دین جو معاشروں پر مطلق حکمرانی کا دعویٰ کر کے رہا ہو اور یہاں کے کسی فاسق فاجر شخص نے بھی اُس کے اِس دعویٰ کو جھٹلانا اپنے حق میں کفر اور ابدی جہنم کا ہی موجب جانا ہو... ایک ایسا دین اِس نئے عالمی دجالی سیٹ اَپ میں کیونکر اپنی اصل حالت پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ یوں بھی ''دین'' تو ایک ہی ہو سکتا ہے۔ ''مذاہب'' تو کسی ملک میں جتنے مرضی ہوں، اور اِس کی تو اسلام بھی اجازت دیتا ہے بلکہ تاریخ شاہد ہے، 'اقلیتوں' کو ان کے اپنے اپنے ''مذہب'' پر چلنے کا حق دینے میں اسلام سے بڑھ کر کوئی دین اور کوئی تہذیب ہے ہی نہیں حتیٰ کہ 'جمہوریت' اور 'آزادی' کا سمبل مانا جانے والا آج کا ماڈرن فرانس بھی نہیں، البتہ ''دین'' تو ایک ملک میں ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اسلام کی طویل صدیاں یہاں کا ''دین'' اسلام تھا، خواہ 'مذہب' کسی کا جو بھی ہو۔ اب قریب قریب دنیا بھر کا ''دین'' سیکولرزم ہے، خواہ 'مذہب' کسی کا جو بھی ہو۔ کوئی ملک ایک سے زیادہ ''دین'' کا متحمل واقعتا نہیں ہو سکتا؛ ایک نیام میں دو تلواریں کبھی نہیں سمائیں۔ Law of the land تو ایک ہی ہو سکتا ہے، یا خدا کا فرمایا ہوا اور یا پھر انسان کا بنایا ہوا۔ ''دین'' کسی جگہ پر دو پائے ہی نہیں جا سکتے۔ جب ایسا ہے تو پھر شیاطین مغرب کے اِس مجوزہ جہان میں ''دینِ اسلام'' کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ اِس کو تو آہنی ہاتھ سے ختم کیا جانا ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی چیز چھوڑی جا سکتی ہے تو وہ 'مذہب' ہے! چنانچہ اُس اسلام کے ساتھ جو اپنا تعارف ''دین'' کے طور پر کرواتا ہے آج کھلی جنگ ہے۔ اُس کےلیے اِس پوری زمین پر کوئی جگہ نہیں۔ عملاً تو بڑی دیر سے نہیں، مگر ذہنوں کے اندر بھی اس کےلیے اب کوئی جگہ نہیں۔ وہ اسلام جو معاشروں میں عملاً یہ حیثیت رکھے کہ وہ حکم دے اور سر اس کے آگے جھک جایا کریں، وہ اِس دنیا میں آج ہے کہاں کہ اس کے خلاف جنگ کی جائے؟ تو پھر یہ کونسے اسلام کے ساتھ جنگ کرتے پھر رہے ہیں؟ وہ اسلام جو کسی وجہ سے یہاں کے بعض ذہنوں کے اندر باقی رہ گیا ہے اور ابھی تک کھرچا نہیں جا سکا ہے۔ جنگ کے طبل اب اُس اسلام کے خلاف بجائے گئے ہیں جو ''دماغوں'' کے اندر پایا جاتا ہے اور ابھی تک، جی ہاں ابھی تک اور اِس ''سیکولرزم کے اَیرا'' میں، اپنا تعارف ''دین'' کے طور پر کراتا ہے اور اس پر باقاعدہ اصرار کرتا ہے۔ آخر یہ اسلام ''دماغوں'' کے اندر بھی کیوں پایا جاتا ہے؟؟؟! جب تک یہ ''ذہنوں'' سے ہی کھرچ نہیں دیا جاتا اُس وقت تک دینِ اینگلو سیکسن کی بقاء و استحکام کی بابت کیونکر مطمئن ہوا جا سکتا ہے؟! پس ایسے اسلام کو تو دماغوں کے اندر بھی رہنے نہیں دیا جا سکتا؛ اس کا تو تصور ہی مٹا ڈالنا ضروری ہے...!!! شیاطین جانتے ہیں، یہ امت کتنی ہی لاغر اور بے بس اور نہتی کیوں نہ ہو گئی ہو، یہاں تک کہ اِس کے لوگ کتنے ہی گناہگار اور بے عمل کیوں نہ ہو گئے ہوں، ایسی کوئی بھی عالمی دجالی مہم جو اِس کے دین کو موت کا پیغام سنانے آئی ہو، اِس کی لاشوں پر سے ہی گزرے تو گزرے، ویسے یہ کسی بھی صورت اُس کو اپنے گھروں کا رخ کرنے کی اجازت دینے والی نہیں۔ تو پھر شیاطین کے پاس کیا صورت ہے کہ وہ دینِ محمدؐ کو صفحۂ ہستی سے ختم کر دینے کی اِس عالمی منادی کو اِس امت کے گھروں میں اور اِس کے زیر تماشا بڑی بڑی سکرینوں کے اوپر نشر کریں؟ شیاطینِ ابلاغ کے پاس آخر اِس کی کیا صورت ہو کہ وہ اِس امت کی گلیوں اور چوراہوں میں دندناتے ہوئے اِس کے ''دین'' کو ختم کر دینے کی بات کریں اور یہاں کے نمازیوں اور روزہ داروں تک سے اِس پر نہ صرف داد پائیں بلکہ توقع رکھیں کہ وہ بھی ساتھ مل کر اِس 'کارِ خیر' میں حصہ لیں؟ اِس کی ایک ہی صورت ہے: اسلام کو 'مذہبی معاملات' میں قید کرو اور پھر ایسے اسلام پر اپنا ایک پکا ٹھکا یقین ظاہر کر کے اپنے حسن نیت کا ثبوت پیش کرو۔ یعنی ''دین'' کی حیثیت میں اِس کے ساتھ کفر کرو اور 'مذہب' کی حیثیت میں اِس کا بھرپور احترام کرو۔ اتنا ہی نہیں، ساتھ میں اُن لوگوں کی عقل اور سمجھ پر اظہارِ افسوس کرو جو تمہاری نیت پر حملہ آور ہوتے اور مسلم عوام کو یہ تاثر دے کر تمہارے خلاف بھڑکاتے ہیں کہ یہ لوگ 'مذہب' کے منکر ہیں! ان سے کہو: دراصل تم لوگ ''سیکولرزم'' کو سمجھے نہیں، ہم کوئی 'مذہب' کا انکار تھوڑی کرتے ہیں؛ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے معاملات، وہاں پائے جانے والے انسانی فریقوں کے باہمی منشا سے، اور اُن کے مابین پائے جانے والے ''کامن گراؤنڈز'' اور ''کامن ٹرمز'' پر، چلائے جائیں گے جوکہ 'مذہب' کے ماسوا ہی ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ یہاں آپ اکیلے نہیں بلکہ غیر مسلم اقلیتیں بھی ہیں (گویا رسول اللہ ؐ کے قائم کردہ معاشرہ میں 'اقلیتیں' نہیں تھیں، یا پھر 'اقلیتیں' ختم کر کے رکھ دی گئی تھیں، یا پھر 'اقلیتوں' کے احترام میں ''سیکولرزم'' کو ہی law of the land ٹھہرا دیا گیا تھا اور قرآن کی اُن تمام نصوص کو جو معاشرے کےلیے فوجداری و دیوانی احکام بیان کرنے کو اترا کرتی تھیں محض ''تلاوت'' کےلیے مختص ٹھہرا دیا گیا تھا!)؛ اور یہ کہ سماجی علوم اور سوشل سسٹمز میں 'مذہب' کو گھسیٹ لانا کوئی درست بات نہیں۔ رہ گیا 'مذہب' اپنے خاص دائرۂ کار کے اندر (جو کہ سیکولرزم کی قاموس میں 'مسجد'، 'مندر' اور 'گوردوارہ' وغیرہ ہو سکتا ہے)، تو اس پر تو ہم پورا ایمان رکھتے ہیں اور ہر شخص کے اِس حق کا نہایت کھلے دل سے احترام کرتے ہیں کہ آج کی کسی بھی 'جدید ریاست' میں رہتے ہوئے وہ اپنی پسند کے مذہب پر چلنے کے اِس 'یونیورسل رائٹ' کو پوری آزادی کے ساتھ 'انجوائے' کرے! ہم تو صاف یہ کہتے ہیں کہ 'مذہب' کو اس کے دائرۂ کار کے اندر پورا پورا احترام دیا جائے، اب ہماری بابت ہی یہ نشر کرتے پھرنا کہ ہم 'مذہب' کے منکر ہیں کتنا بڑا جھوٹ ہے...! اِس طریقۂ واردات سے شیاطین نے دُہرا بلکہ تہرا فائدہ لیا: مسلم معاشروں کو اسلام سے (بطورِ ''دین'') مرتد کروا دینے کی ایک باقاعدہ تحریک بھی عالم اسلام کی گلیوں اور بازاروں کے اندر کھڑی کر لینے میں کامیابی پا لی گئی (اس پوائنٹ پر آگے چل کر ہم کچھ مزید بات کریں گے)، اسلام کو ''ریاست'' اور ''معاشرے پر حکمرانی'' سے بے دخل ٹھہرا کر 'مذہب' کی چاردیواری کے اندر قید کرا دینے میں بھی کمال کی کامیابی حاصل کر لی گئی، اور اسلام پر اپنے ایمان اور ایقان کا بھرم بھی نہ ٹوٹنے دیا گیا!!! ؂ تم قتل کرو ہو، کہ کرامات کرو ہو! دعائیں دیجئے یہاں کی دینی قیادتوں اور اسلامی جماعتوں کو جنہوں نے لوگوں پر شرک اور توحید کا فرق کھول کر رکھ دیا ہوا ہے! اِس پر ہم اگلی فصل میں بات کریں گے۔ [1] ہاں یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ ''دین'' کے اندر ''عبادات'' کو جس طریقے سے مصادرِ شریعت سے اخذ کیا جاتا ہے، ''معاملات'' کو بھی گو لیا اُنہی مصادرِ شریعت سے جاتا ہے مگر اِن کے اخذ کرنے کا طریقہ ذرا مختلف ہے۔ مراد یہ کہ ''عبادات'' کے اندر اصل: توقف اور تحریم ہے اور کوئی ایک بھی چیز ہم اپنی مرضی سے کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ جبکہ ''معاملات'' کے اندر اصل: ''اباحت'' ہے؛ یعنی ''معاملات'' کے ہر باب میں ہمیں اصولِ شریعت دے دیے گئے ہیں اور ان ''اصول'' کی تو ہمیں من و عن پیروی کرنا ہوتی ہے جبکہ کچھ تفصیلات میں __ حالات اور زمانہ کی رعایت سے __ ہماری عقل وتدبیر اور ہمارے اجتہاد کےلیے بھی ایک بہت بڑا دائرہ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے شریعتِ اسلام ''التزام'' اور ''اجتہاد'' کا ایک ایسا خوبصورت متوازن دائرہ فراہم کرتی ہے کہ عقل انسانی اس پر اَش اَش کر اٹھتی ہے! [2] ''دین'' کے جہاں کئی ایک لغوی و شرعی معانی ہیں وہاں اس کا ایک معنیٰ law of the land بھی ہے۔ قرآن کے مندرجہ ذیل مقام پر یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے: کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَن یَشَاءَ اللّہ (سورۂ یوسف: ۷۶) ''یوں ہم نے ہی یوسف ؑ کےلیے (یہ) چال چل دی۔ بادشاہ کے دین میں یوسف ؑ کےلیے یہ کبھی ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو حاصل کر لے، مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے'' یہاں ''بادشاہ کے دین'' سے مراد ہے بادشاہِ مصر کا قانون۔ بنابریں، ''دین'' کے اِس قرآنی اطلاق کی رو سے: کسی ملک کے ریاستی معاملات میں فیصل اور حَکم مانی جانے والی چیز کو وہاں کادین کہا جائے گا۔ مسلمانوں کا یہ ایک متفقہ اعتقاد ہے کہ اسلام ہر ہر معنیٰ میں ''دین'' ہے، نہ 'مذہبی' معاملات اس سے مستثنیٰ ہیں اور نہ 'ریاستی' اور نہ 'بین الاقوامی'۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ کا اتارا ہوا اور رسولؐ کا فرمایا ہوا مطلق طور پر اور ہر ہر معاملہ کے اندر حرفِ آخر ہے۔ یعنی ''دین'' ہے۔البتہ ''سیکولرزم'' کا عقیدہ، جس کا اس وقت میڈیا پر بے حد چرچا ہے، کہتا ہے کہ ریاستی معاملات میں تو ''اللہ کے اتارے ہوئے'' کو فیصل اور حَکم ہرگز نہیں مانا جا سکتا۔ البتہ 'روحانی' اور 'مذہبی' معاملات میں ضرور مانا جا سکتا ہے۔ یعنی دین بمعنیٰ "Law of the land" تو اسلام نہیں ہو سکتا اور یہ حیثیت تو اس ملک میں رہنے والے انسانوں ہی کو حاصل ہو گی، البتہ دین بمعنیٰ ''مذہب'' ضرور اسلام ہو سکتا ہے اور اِس معنیٰ میں اسلام پر کوئی قدغن نہیں! [3] مناسب معلوم ہوتا ہے، حدیث اور فقہ کی صرف ایک ایک کتاب کی فہرست نمونے کے طور پر ہم آپ کو دکھاتے ہی چلیں، محض اس ایک مقصد کےلیے کہ آپ کو انداز ہو، اسلام کے جملہ علماء و فقہاء و محدثین کے یہاں ''دین'' کا دائرہ کہاں تک ہے جس کے ذریعے آپ ''الٰہ'' کی ''عبادت'' کرتے ہیں اور اس کے ما سوا کی ''عبادت'' کا انکار کر کے ابدی جہنم سے نجات پاتے ہیں۔ فقہ حنفی کی ایک مشہور کتاب ''فتح القدیر'' کی فہرست (فقہ حنفی کی تقریباً سبھی کتب کی تفصیل اِسی انداز پر ہے۔ شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری مذہب کی کتبِ فقہ کی فہرست بھی اس سے ملتی جلتی ہی ہوتی ہے)۔ طوالت کے ڈر سے ابھی اس میں ہم ابواب اور فصول وغیرہ کی فہرست نہیں دے رہے، ورنہ آپ کو اور بھی اندازہ ہوتا کہ مسلمانوں کے جملہ علماء کے ہاں ''دین'' کا دائرہ کیا ہے: کتاب الطہارۃ پاکی کا بیان کتاب الصلاۃ نماز کا بیان کتاب الزکاۃ زکات کا بیان کتاب الصوم روزہ کا بیان کتاب الحج حج کا بیان کتاب النکاح نکاح کا بیان کتاب الرضاع رضاعت کا بیان کتاب الطلاق طلاق کا بیان کتاب العتاق غلام کو آزاد کرنے کا بیان کتاب الأیمان قسموں اور حلفوں کا بیان یہاں تک ہوئے 'مذہبی معاملات۔ اور اب 'دنیوی' اور 'ریاستی' معاملات شروع ہوتے ہیں: کتاب الحدود شریعت کی متعین کردہ سزاؤں کا بیان کتاب السرقۃ چوری (سے متعلقہ فوجداری احکام) کا بیان کتاب السیر رسول اللہؐ کے حالات اور مغازی (غزووں اور جنگ وصلح) وغیرہ کا بیان کتاب اللقیط لا وارث بچہ (سے متعلقہ قانوی احکام) کا بیان کتاب اللقطۃ لا وارث چیز (سے متعلقہ قانوی احکام) کا بیان کتاب الإباق غلام بھاگ جائے، (تو اس سے متعلقہ احکام) کا بیان کتاب المفقود کوئی شخص مفقود الخبر ہو جائے، تو اس کا بیان کتاب الشرکۃ شرکہ (companies) سے متعلقہ احکام کا بیان کتاب الوقف وقف Trusts & Endowments کا بیان کتاب البیوع تجارتی احکام (transactions) کا بیان کتاب الصرف کرنسی لین دین کا بیان کتاب الکفالۃ (مالی وعدالتی معاملات وغیرہ میں) ایک شخص کا دوسرے کی جگہ ذمہ دار بننے کا بیان کتاب الحوالۃ حوالہ (نیز ہنڈی و ڈرافٹ وغیرہ) کا بیان کتاب أدب القاضی ججوں سے متعلقہ پروٹوکولز کا بیان کتاب الشہادات عدالت میں گواہی دینے سے متعلقہ احکام کا بیان کتاب الوکالۃ ایک شخص کے دوسرے کی جگہ نیابتاً تصرف کرنے کا بیان کتاب الدعویٰ عدالتی دعویٰ جات کا بیان کتاب الإقرار عدالت میں اقرار کرنے کا بیان کتاب العاریۃ پرائی چیز لینے سے متعلقہ احکام کا بیان کتاب الہبۃ ہبہ کا بیان کتاب الإجارات کرائے پر جاگیر اٹھانے اور ملازمت وغیرہ کا بیان کتاب المکاتب غلام اپنی قیمت خود ادا کرنے کا ایگریمنٹ کرے، تو اس کا بیان کتاب الولاء آزاد شدہ غلام کی سماجی نسبت کا بیان کتاب الإکراہ اکراہ کا بیان کتاب الحجر حجر (incapable یا defaulter یا bankrupt ہو جانے) کا بیان کتاب المأذون تصرف میں اجازت ملنے کا بیان کتاب الغصب کسی کی چیز یا جاگیر دبا لی جائے، تو اس کا بیان کتاب الشفعۃ شفعہ کا بیان کتاب القسمۃ سانجھ کا بیان کتاب المزارعۃ مزارعت کا بیان کتاب المساقاۃ آبیاری کا بیان کتاب الذبائح ذبیحہ سے متعلق احکام کا بیان کتاب الأضحیۃ ربانی کا بیان کتاب الکراہیۃ مکروہ اشیاء کا بیان کتاب إحیاء الموات بیابان کو زیر کاشت لے آنے کا بیان کتاب الصید شکار سے متعلقہ احکام کا بیان کتاب الرہن رہن (گروی) سے متعلقہ احکام کا بیان کتاب الجنایات فوجداری جرائم سے متعلقہ امور کا بیان کتاب الدیات خون بہا کا بیان کتاب المعاقل قاتل کے ورثاء پر لاگو ہونے والے تاوان کا بیان کتاب الوصایا وصیت ناموں کا بیان کتاب الخنثیٰ ہجڑوں سے متعلقہ احکام کا بیان بتائیے، کونسی چیز چھوٹی ہے؟ مسلمانوں کے جملہ مکاتب فکر کی فقہ کھول لیجئے، آپ کو ''مندرجاتِ دین'' کی ایسی ہی ایک فہرست ملے گی۔ حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم کی فہرست حدیث کی صرف ایک کتاب کی فہرست محض مثال کےلیے دی گئی ہے۔ حدیث کی تقریبا سبھی جامع کتب کم و بیش ایسی ہی فہرست پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہاں صرف عربی عنوانات ہی خط نسخ میں دیے جائیں گے۔ چند جگہوں پر ہمارے اپنے جملے خط نستعلیق میں ہوں گے۔ ''ریاستی امور'' بولڈ حروف میں دیے گئے ہیں۔
urd_Arab
ٹیکساس میں 3 افراد کو یرغمال بنانے والا برطانوی شہری نکلا - Sarzameen Home انٹرنیشنل ٹیکساس میں 3 افراد کو یرغمال بنانے والا برطانوی شہری نکلا واشنگٹن (نمائندہ سرزمین+مانیٹرنگ سیل)مریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ٹیکساس کی عبادت گاہ کو یرغمال بنانے والے کی شناخت 44 سالہ برطانوی شہری ملک فیصل اکرم کے نام سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم بظاہر اکیلا تھا۔ روزنامہ سرزمین کی رپورٹ کے مطابق ٹیکساس کے کالیویل میں بیت اسرائیل کی عبادت گاہ کا مسئلہ ہفتے کی رات ختم ہوا جب ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے عمارت پر چھاپہ مارا، چاروں یرغمال افراد کو بازیاب کروایا اور اغوا کار کو ہلاک کر دیا۔ پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ایف بی آئی فیلڈ آفس، ڈلاس کے اسپیشل ایجنٹ انچارج میتھیو ڈی سارنو نے یرغمال بنانے والے شخص کی شناخت 44 سالہ برطانوی شہری ملک فیصل اکرم کے نام سے کی ہے۔ لندن سے جاری کردہ مسلح مقتول کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہاکہ'ہم ایک خاندان کے طور پر بالکل تباہ ہو چکے ہیں 'لیکن' ہم ابھی زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایف بی آئی کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس بیان پر دستخط کرنے والے فیصل اکرم ملک کے بھائی گلبر نے کہا کہ 'ہم بطور خاندان، ان کے کسی بھی فعل سے تعزیت نہیں کرتے اور اس افسوسناک واقعے میں ملوث تمام متاثرین سے تہہ دل سے معافی مانگنا چاہتے ہیں'. کالیویل پولیس نے کہا کہ ایف بی آئی کی ایویڈینس ریسپانس ٹیم عبادت گاہ میں شواہد پر کارروائی جاری رکھے گی لیکن 'اس وقت،واقعے میں دیگر افراد کے ملوث ہونے کی نشاندہی نہیں ہوئی ہے۔ پولیس نے کہا کہ ایف بی آئی کی نارتھ ٹیکساس جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس، جس میں پورے خطے کی ممبر ایجنسیز شامل ہیں کے تحقیقاتی لیڈز کی پیروی جاری رکھیں گی اور ایف بی آئی شوٹنگ کے واقعے کی ریویو ٹیم 'واقعے کی مکمل، حقائق پر مبنی اور معروضی تحقیقات کرے گی'۔ اس سے قبل ایک بیان میں ایف بی آئی نے کہا تھا کہ چاروں یرغمالی 'غیر نقصان دہ ہیں، اور یرغمال بنانا کسی خطرے کا حصہ نہیں ہے' یرغمال بننے والے افراد میں عبادت گاہ کا ربی چارلی سائٹرون واکر بھی شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ' یہ دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ تمام یرغمال افراد زندہ اور محفوظ ہیں۔ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے تقریباً 20 منٹ بعد ٹوئٹ کیا جب عبادت گاہ کی سمت سے ایک بڑے دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔
urd_Arab
بھٹکل کی دو غریب لڑکیوں کی عزت سوشیل میڈیا پر نیلام کرنے کی کوشش؛ برہنہ فوٹو کے ساتھ جوڑ کر سیلفی فوٹو کو کیا گیا وائرل؛ ایک گرفتار؛ ایس پی نے دیا سخت کاروائی کا انتباہ | ساحل آن لائن بھٹکل کی دو غریب لڑکیوں کی عزت سوشیل میڈیا پر نیلام کرنے کی کوشش؛ برہنہ فوٹو کے ساتھ جوڑ کر سیلفی فوٹو کو کیا گیا وائرل؛ ایک گرفتار؛ ایس پی نے دیا سخت کاروائی کا انتباہ Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 12th March 2018, 2:13 AM | ساحلی خبریں | ریاستی خبریں | بھٹکل 11/مارچ (ایس او نیوز) کالج کے ورانڈا میں کھڑی ہوکر دو غیر مسلم غریب لڑکیوں کوسیلفی فوٹو لینا اتنا مہنگا پڑ گیا کہ ان کی عزت کچھ شرپسندعناصروں نے سوشیل میڈیا پر نیلام کردیا، سیلفی فوٹو میں دو لڑکیوں کے پیچھے ایک مسلم طالب العلم کھڑا ہوا نظر آرہا ہے، جس پر شرپسندوں نے سوشیل میڈیا پر اُس فوٹو کے ساتھ کسی ننگی عورت کا بھی فوٹو جوڑ دیا اور سوشیل میڈیا پر اس انداز سے پیش کیا کہ مسلم لڑکا اُن دو لڑکیوں کے ساتھ گوا میں جاکر رنگ رلیاں منارہا ہو ۔ سوشیل میڈیا میں ٖغلط فوٹو کے ساتھ سیلفی فوٹو کو جوڑ کر اتنی تیزی کے ساتھ وائرل کیا گیا کہ اب نہ صرف طالبات، بلکہ اُن کے گھروالوں کی عزت بھی مٹی میں ملادی گئی ہے۔ اس تعلق سے مرڈیشور پولس تھانہ میں نامعلوم شرپسندوں کے خلاف معاملہ درج کرنے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے ، جبکہ ضلع کے ایس پی ونائک پاٹل نے اس تعلق سے سخت قدم اُٹھانے اور وائرل کرنے والوں کو نہ بخشنے کا انتباہ دیا ہے۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق مرڈیشور کالج کی دو غریب طالبات جس میں ایک کا تعلق گونڈا سماج اور دوسری کا تعلق موگیر سماج سے ہے، کالج کے ورانڈا میں کھڑی ہوکر اپنے موبائل سے سیلفی لیتی ہیں، اس موقع پر ان کے پیچھے ایک مسلم طالب العلم کھڑا ہے، سیلفی میں دو لڑکیوں کے ساتھ اُس مسلم طالب العلم کی بھی فوٹو قید ہوجاتی ہے۔ مگر کسی ذریعے سے یہ فوٹو غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے اور وہ اس فوٹو کو لو جہاد کا نام دیتے ہوئے ایک دوسری برہنہ عورت کے ساتھ جوڑ دیتا ہے، ساتھ میں ایک جھوٹا مسیج لکھ دیا جاتا ہے کہ لوجہاد کی شکار دو طالبات نے مسلم لڑکے کے ساتھ گوا میں جاکر رنگ رلیاں منائی ہیں۔ ان کا سیلفی فوٹوکسی برہنہ خاتون کے ساتھ جوڑ کر سوشیل میڈیا میں اس قدر عام کیا گیاہے کہ تقریبا ہر گروپ میں پوسٹ ہوتے ہوئے پورے شہر میں وائرل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دونوں لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے، بلکہ ان کے گھروالے بھی غلط وائرل فوٹوز سے سخت پریشان ہیں۔ مسیج میں ایک باوقار کالج کا نام بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ متعلقہ کالج میں مسلم لڑکوں کا غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ لو جہاد ہوتا ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ کچھ شرپسندلوگ مسلم لڑکے کے ساتھ ان کی فوٹو کو وائرل کرکے شہر کے حالات کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور غلط مسیجس کے ساتھ اس فوٹو کو تیزی کے ساتھ وائرل کرکے دونوں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ مسلم لڑکے کی عزت کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا گیا ہے۔ فوٹو کے ساتھ اسے لو جہاد کا نام بھی دیا گیا ہے۔ گھروالے بھی اب سخت پریشان ہیں کہ اس طرح کی غلط اور بے بنیاد فوٹو کو وائرل کرکے اُنہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پورے سماج میں ان کی عزت نیلام کردی گئی ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ شرم کے مارے دونوں لڑکیوں کا گھروں سے باہر نکلنا دشوار ہوگیا ہے، ساتھ ساتھ ان کے گھروالے بھی اس واقعہ سے سخت پریشان ہیں کہ کریں تو کیاکریں ۔ اس تعلق سے مرڈیشور پولس تھانہ میں معاملہ درج کیا گیا ہے اورگھروالوں سمیت حقیقت جاننے والے عوام نے پولس پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں بدنام کرنے اور غلط فوٹوکے ساتھ ان کے فوٹوز کو جوڑنے والوں کا سراغ لگائیں اور جو لوگ بھی متعلقہ فوٹوز کو وائرل کررہے ہیں، اُن کے خلاف بھی سخت کاروائی کرے۔ اس تعلق سے تازہ جانکاری یہ ہے کہ پولس کی ایک خصوصی ٹیم نے ایک شخص کو گرفتار کرلیا ہے جس کی شناخت یوگیش کی حیثیت سے کی گئی ہے، جبکہ پولس تیرو اور ہیمنت سمیت کئی دیگر نوجوانوں کو تلاش کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔ واقعے کی جانکاری ملتے ہی بھٹکل کے انچارج ڈی وائی ایس پی جی ٹی نائک نے مرڈیشو رپولس تھانہ پہنچ کر ضروری معلومات حاصل کی ہے اور گھروالوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس طرح کی نیچ حرکت کرنے والوں کو ہرگز نہیں بخشیں گے۔ اس تعلق سے ساحل آن لائن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ضلع کے ایس پی ونائک پاٹل نے بتایا کہ بےقصور لڑکیوں کی فوٹو کو ایک برہنہ فوٹو کے ساتھ جوڑ کر جس طرح سوشیل میڈیا پر وائرل کیا گیا ہے، اُس پر پولس سخت قانونی کاروائی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹکل پولس کو اس تعلق سے تیزی کے ساتھ چھان بین کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ، مزید بتایا کہ اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو بخشنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے عوام الناس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی فوٹوز کو وہاٹس ایپ پر موصول ہونے کی صورت میں دوسرے گروپوں یا دوسرے لوگوں کو ہرگز فاروڈ نہ کریں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ جن جن لوگوں نے متعلقہ فوٹوز اور وڈیوز کو دوسرے گروپوں میں فاروڈ کیا ہے، اُن کی گرفتاری یقینی ہے۔ بھٹکل کی دو غریب لڑکیوں کی عزت سوشیل میڈیا پر نیلام کرنے کی کوشش؛ برہنہ فوٹو کے ساتھ جوڑ کر سیلفی فوٹو کو کیا گیا وائرل؛ ایک گرفتار؛ ایس پی نے دیا سخت کاروائی کا انتباہ http://sonews.in/BrHK2
urd_Arab
پسند کی شادی کا خوفناک انجام! شوہر نے شادی کے ٹھیک 10 دِن بعد نئی نویلی دُلہن کے ساتھ کیا کِیا؟ | اردو نیوز بہاولپور (نیوز ڈیسک) شوہر نے پسند کی شادی کرنے کے 10 روز بعد ہی نئی نویلی دلہن کو Qatal کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق بہاولپور میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں لڑکی کو شادی کے دس روز بعد Qatal کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بہاولپور کے علاقے بسم اللہ کالونی میں 10 روز قبل پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو مبینہ طور پر زہر دے کر Qatal کر دیا گیا ہے۔پولیس نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ لڑکی کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ لڑکی کو اس کے شوہر نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زہر دے کرQatal کیا ہے۔ پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کرتے ہوئے لڑکی کے شوہر سمیت 3 افراد کے خلاف واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی تلاش شروع کر دی گئی ہے اور انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔۔میرپورخاص کے علاقے سندھڑی میں بھی پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو مبینہ طور پرQatal کر دیا گیا۔ Qatal کے خوف سے روپوش لڑکی کے شوہر غلام قادر کا کہنا ہے کہ وڈیرے نے جان بخشی کے لیے 10 لاکھ روپے لیے۔غلام قادر کا مزید کہنا تھا کہ بیوی واپس کرنے کا وعدہ کیا مگر بیوی زندہ واپس نہ آئی۔مق تولہ کے شوہر نے کہا کہ ملزمان آزاد ہیں اور اب اس کے تعاقب میں ہیں، اسے بھی جان کا خطرہ ہے۔
urd_Arab
فصل سوم - اقسام بدعت - منہاج بکس فصل سوم : تقسیمِ بدعت پر اَئمہ و محدّثین کی آرا ذیل میں ہم تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اکابر ائمہ ومحدّثین کے اقوال نقل کریں گے جس سے یہ اَمر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ بدعت کی تقسیم کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ یہ اُنہیں اَحادیث و آثار کی تشریح و توضیح ہے جن میں بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1۔ امام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام السلمی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے اُصولی، محدّث اور اِمام تھے۔ اہلِ زمانہ اِنہیں ''سلطان العلماء'' کے نام سے پکارتے تھے۔(1) وہ اَپنی کتاب ''قواعد الأحکام فی مصالح الأنام'' میں بدعت کی پانچ اقسام اور ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : البدعة فعل مالم يعهد فی عصر رسول اﷲ وهی منقسمة إلی بدعة واجبة و بدعة محرمة و بدعة مندوبة و بدعة مکروهة و بدعة مباحة.(2) (1) 1. ابن سبکي، طبقات الشافعية 8 : 209 2. ابن کثير، البداية والنهاية، 13 : 235 3. عبد الحي، شذرات الذهب فی أخبار من ذهب، 5 : 301 (2) 1. عزالدين، قواعد الأحکام فی مصالح الأنام، 2 : 337 2. عز الدين، فتاوی العز بن عبدالسلام : 116 3. نووی، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 21 4. سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6 5. ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثيه : 130 ''بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو حضورA کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، بدعت کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح۔'' 2۔ اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی کا اِعتقاد اور مذہب بھی یہی ہے کہ بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ وہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قال العلماء : البدعة خمسة أقسام واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علی الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات فإذا عرف ما ذکرته علم أن الحديث من العام المخصوص و کذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة و يؤيد ما قلناه قول عمر ابن الخطاب رضی الله عنه في التراويح نعمت البدعة(1) ولا يمنع من کون الحديث عاما مخصوصا قوله کل بدعة مؤکدا بکل بل يدخله التخصيص مع ذلک کقوله تعالی : {تدمر کل شيئ}(2).(3) (1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250 2. بيهقی، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269 3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250 (2) الاحقاف، 42 : 52 (3) نووی، شرح صحيح مسلم، 6 : 154 ''علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ بیان کی ہیں۔ بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر اُمور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعتِ مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعتِ مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ''تهذيب الاسماء واللغات'' میں واضح کر دیا ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اس کی پہچان ہو جائے گی تو پھر یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ حدیث اور دیگر ایسی احادیث جو ان سے مشابہت رکھتی ہیں عام مخصوص میں سے تھیں اور جو ہم نے کہا اس کی تائید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول : ''نعمت البدعۃ'' کرتا ہے اور یہ بات حدیث کو عام مخصوص کے قاعدے سے خارج نہیں کرتی۔ قول : ''کل بدعۃ'' لفظ ِ''کلّ'' کے ساتھ مؤکد ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تخصیص شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ''تدمر کل شئ'' (وہ ہر چیز کو اُکھاڑ پھینکے گی) میں تخصیص شامل ہے۔ 3۔ معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ''انوار البروق فی انوار الفروق (4 : 202.205)'' میں رقم طراز ہیں : البدعة خمسة أقسام .... واجب و محرم و مندوب ومکروهة والمباحة.(1) ''بدعت کی پانچ اقسام ہیں : وہ بدعت واجبہ، بدعت محرمہ، بدعت مستحبہ، بدعت مکروہہ اور بدعت مباحہ ہیں۔'' 4۔ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ''منہاج السنۃ (4 : 224)'' میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ''نعمت البدعة هذه'' کے ذیل میں بیان کرتے ہیں : إنّما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی. ''اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔'' علامہ ابن تیمیہ ''بدعتِ حسنہ'' اور ''بدعتِ ضلالہ'' کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فهذه بدعة ضلالة و بدعة لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر : نعمت البدعة هذه(1) هذا الکلام أو نحوه. رواه البيهقي بإسناده الصحيح فی المدخل.(2) ''امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اَصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعتِ حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ''نعمت البدعة هذه'' یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ''المدخل'' میں روایت کیا ہے۔'' 5۔ حافظ عماد الدین اسماعیل ابن کثیر ''تفسير القرآن العظيم (1 : 161)'' میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله : (فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه. ''بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعتِ شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ''فإنّ کلّ محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة'' اور بعض اوقات یہ بدعتِ لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ''نعمت البدعة هذه'' ہے۔'' 6۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ''جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم (ص : 253)'' میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : وقد روی الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعی يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. ''حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ بدعتِ محمودہ اور بدعتِ مذمومہ۔ بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے مطابق و موافق ہو اور جو بدعت سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے۔ 7۔ علامہ ابنِ اثیر جزری حدیثِ عمر : ''نعمت البدعة هذه'' کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة بدعتان : بدعة هدًی، وبدعة ضلال، فما کان فی خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلی الله عليه وآله وسلم فهو فی حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو فی حيز المدح. ''بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر راغب کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے۔'' 8۔ علامہ شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانی تصور بدعت اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ''الکواکب الدراری فی شرح صحيح البخاری (9 : 154، 155)'' میں لکھتے ہیں : البدعة کل شيء عمل علی غير مثال سابق وهی خمسة أقسام : واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة. ''ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ ''بدعت'' کہلاتی ہے اور اس کی پانچ اقسام ہیں : بدعتِ واجبہ، بدعتِ مندوبہ، بدعتِ محرمہ، بدعتِ مکروہہ اور بدعتِ مباحہ۔'' والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، و تطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، و إن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، و إلَّا فهی من قسم المباح وقد تنقسم إلی الأحکام الخمسة. 10۔ اِمام بدر الدین عینی بدعت کی تعریف اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ''عمدة القاری شرح صحيح البخاری (11 : 126)'' میں رقم طراز ہیں : البدعة علی نوعين اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی بدعة حسنة و اِن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی بدعة مستقبحة. ''بدعت اصل میں اُس نئے کام کو بجا لانا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا ہو پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر یہ بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو یہ ''بدعتِ حسنہ'' ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو یہ ''بدعتِ مستقبحۃ'' ہے۔'' 11۔ امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاویٰ ''الحاوی للفتاوی'' میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي في تهذيب الأسماء واللُّغات، البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ وهي منقسمة إلی حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام في القواعد : البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة. سيوطی، الحاوی للفتاویٰ، 1 : 192 سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6 سيوطی، الديباج علی صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445 ''بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ''تهذيب الاسماء و اللغات'' میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب ''قواعدالاحکام فی مصالح الانام'' میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے۔'' 12۔ علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان نعم البدعة هذه کے ضمن میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : نعم البدعة هذه(1) سماها بدعة لأنه صلی الله عليه وآله وسلم لم يسن لهم الاجتماع لها ولا کانت فی زمن الصديق ولا أوّل الليل ولا کل ليلة ولا هذا العدد. وهی خمسة واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة.(2) (1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906 (2) قسطلانی، ارشاد الساری لشرح صحيح البخاری، 3 : 426 ''نعم البدعة هذه'' کے تحت نمازِ تراویح کو بدعت کا نام دیا گیا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تراویح کے لئے اجتماع کو مسنون قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس طریقے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں(پابندی کے ساتھ) رات کے اِبتدائی حصے میں تھی اور نہ ہی مستقلاً ہر رات پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی(تراویح کی رکعات کا) یہ عدد متعین تھا اور بدعت کی درج ذیل پانچ اقسام واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروھہ، اور مُبَاحہ ہیں۔'' 13۔ امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنی معروف کتاب ''سبل الهدی والرشاد (1 : 370)'' میں علامہ تاج الدین فاکہانی کے اس مؤقف أن الابتداع فی الدين ليس مباحًا کا محاکمہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أن البدعة لم تنحصر في الحرام والمکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووی في تهذيب الأسماء واللُّغات : البدعة في الشرع : هي ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلی حسنة و قبيحة. وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة اﷲ تعالٰی في القواعد : البدعة منقسمة إلی واجبة و إلی محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة. ''بدعت کا انحصار صرف حرام اور مکروہ پر نہیں ہے بلکہ بدعت اسی طرح مباح مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے۔ اِمام نووی اپنی کتاب ''تهذيب الأسماء واللُّغات'' میں فرماتے ہیں شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو عہدِ رسالت مآب Aمیں نہ ہوا ہو اور یہ بدعتِ حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کی جاتی ہے۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام اپنی کتاب ''قواعد الاحکام'' میں فرماتے ہیں بدعت واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح میں تقسیم ہوتی ہے۔'' 14۔ امام محمد عبد الرؤوف المناوی اپنی کتاب ''فيض القدير شرح الجامع الصغير (1 : 439)'' میں بدعت کی تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہیں : فإن البدعة خمسة أنواع وهي هذه واجبة و هي نصب أدلة المتکلمين للرد علی هؤلاء و تعلم النحو الذي به يفهم الکتاب والسنة و نحو ذلک و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة مسجد و تزويق مصحف و مباحة کالمصافحة عقب صبح و عصر و توسع في لذيذ مأکل و مشرب و ملبس و مسکن و لبس طيلسان و توسيع أکمام ذکره النووي في تهذيبه. ''بدعت کی پانچ اقسام ہیں اور وہ یہ ہیں پہلی بدعت واجبہ ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مذاہب کو رد کرنے کے لئے متکلمین کے دلائل پیش کرنا اور اسی طرح علم نحو کا سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کو سمجھا جا سکے اور اس جیسے دیگر علوم کا حاصل کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے اور اسی طرح سرائے اور مدارس وغیرہ بنانا اور ہر اچھا کام جو کہ زمانہ اول میں نہ تھا اسے کرنا بدعت مستحبہ میں شامل ہے اور اسی طرح مسجد کی تزئین اور قرآن مجید کے اوراق کو منقش کرنا بدعت مکروھہ میں شامل ہے اور اسی طرح (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور لذیذ کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور سبز چادر استعمال کرنے میں توسیع کرنا اور آستینوں کا کھلا رکھنا بدعت مباحہ میں سے ہے۔ اس کو امام نووی نے اپنی ''تہذیب'' میں بیان کیا ہے۔'' 15۔ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی اپنی کتاب ''رد المحتار علی درالمختار (1 : 414)'' میں لفظ ''صاحب بدعۃ'' کا مفہوم و مراد واضح کرتے اور بدعت کی متعدد اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (قوله أی صاحب بدعة) أی محرمة وإلّا فقد تکون واجبة کنصب الأدلة للرد علی أهل الفرق الضالة و تعلم النحو المفهم للکتاب والسنة و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة و کل إحسان لم يکن فی الصدر الأول و مکروهة کزخرفة المساجد و مباحة کالتوسع بلذيذ المآکل والمشارب و الثياب کما فی شرح الجامع الصغير للمناوی عن تهذيب النووی و مثله فی الطريقة المحمدية للبرکلی. ''(قوله أی صاحب بدعة) ان کے قول صاحب بدعت سے مراد بدعت محرمہ ہے اور اگر یہ مراد نہ ہو تو پھر بدعت واجبہ مراد ہے جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل قائم کرنا اور علم النحو کا سیکھنا جو کہ کتاب و سنت کو سمجھانے کا باعث ہے اور اسی طرح بدعت مندوبہ ہوتی ہے جیسے سرحدی چوکیوں، مدارس کی تعمیر اور وہ اچھے کام جو پہلے زمانہ میں نہ تھے ان کا ایجاد کرنا وغیرہ اور اسی طرح مساجد کی تزئین کرنا بدعت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح لذیذ کھانے، مشروبات اور ملبوسات وغیرہ میں وسعت اختیار کرنا بدعت مباحہ ہے اور اسی طرح امام مناوی کی ''جامع الصغیر'' میں، امام نووی کی ''تہذیب'' میں اور امام برکلی کی ''الطریقۃ المحمدیۃ'' میں بھی ایسے ہی درج ہے۔ 16۔ یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی جنہیں اہلِ حدیث اور سلفی اپنا اِمام مانتے ہیں ،وہ حدیثِ عمر نعمت البدعة هذه کے ذیل میں ''فتح الباری'' کے حوالے سے بدعت کی پانچ اَقسام بیان کرتے ہیں : البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق و تطلق فی الشرع علی مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة و إلَّا فهی من قسم المباح و قد تنقسم إلی الأحکام الخمسة. شوکانی، نيل الاوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63 ''لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔'' 17۔ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی اپنی تفسیر ''روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی (14 : 192)'' میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : و تفصيل الکلام فی البدعة ما ذکره الإمام محي الدين النووی فی شرح صحيح مسلم. قال العلماء : البدعة خمسة أقسام : واجبة، ومندوبة، ومحرمة، ومکروهة، ومباحة. ''بدعت کی تفصیلی بحث امام محی الدین النووی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں کی ہے اور دیگر علماء نے کہا ہے بدعت کی پانچ اقسام بدعتِ واجبہ، بدعتِ مستحسبہ، بدعتِ محرمہ، بدعتِ مکروھہ اور بدعتِ مباحہ ہیں۔'' 18۔ غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی بدعت کو ایک اکائی سمجھنے کی بجائے اس کی تقسیم کی ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ''ہدیۃ المہدی'' کے صفحہ نمبر 117 پر بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ مباحہ کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ''بدعتِ ضلالہ محرمہ وہ بدعت ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔'' 19۔ مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهی تنقسم إلی مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولی اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبی صلی الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس فی الأکل والشرب واللباس وهی هنيئة قلت تدخل فی البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجری الأمر المرسوم بين الکفار فی جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التی جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبی صلی الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التی جاء ت من بلاد الکفار علی أصحابه و منها ما هی ترک المسنون و تحريف المشروع وهی الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الأصل. ''باعتبار لغت بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے(یعنی اس پر جم جانا چاہیے) کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعاتِ مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرما دیا تھا اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت ترک ہو رہی ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔'' 20۔ عصرِ قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ''الافتاء والدعوه والارشاد'' کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاویٰ کے مجموعہ ''فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء'' میں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : أولاً : قسم العلماء البدعة إلی بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالی وهي التي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علی جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک. ابن باز، فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء، 2 : 325 ''علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔'' ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز ''بدعتِ دینیہ'' اور ''بدعتِ عادیہ'' کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلی بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علی منعه. ابن باز، فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء، 2 : 329 ''بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور اصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔''
urd_Arab
انٹرٹینمنٹ – Forecasts News جب عورت کو احتلام ہو آپ کے جسم کا وہ حصہ جس کے بال اُکھاڑنے سے موت واقع ہو سکتی ہے پاک چین دوستی نے شاندار سنگ میل عبور کرلیا۔۔!! جدید ایٹمی ٹیکنالوجی کا کامیاب تجربہ، پوری دنیا میں دھوم مچ گئی بیالیس سالہ شخص 2 ہزار روپے کی خاطر بیک وقت 50 انڈے کھانے کے دوران جان کی بازی ہار گیا نوجوانوں کے لیے امید جاگ گئی ۔۔۔ کامیاب جوان پروگرام کے دوسرے مرحلے میں کتنے ارب روپے جاری ہوگئے؟جان کر آپ عمران خان کے لیے دعائیں دیں گے چپ چاپ مر جائے گی بطور چئیرمین سی پیک اتھارٹی میری تنخواہ 50 لاکھ روپے نہیں بلکہ کتنی ہے ؟ خود ہی سب کچھ بتا دیا سشانت سنگھ راجپوت کی موت کے تانے بانے اداکارہ سارہ علی خان سے جا ملے ۔۔۔ وہ سارہ علی خان کوپرپوز کرنے والے تھے لیکن پھر اچانک ۔۔۔ " کیس میں نیا موڑ زارا نور عباس نے پاکستان کی مہنگی ترین فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں کام سے انکار کیوں کیا؟وجہ جان کرآپ یقین نہیں کریں گے وہ لڑکی کالج سے نکلی ہی تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔۔۔ Home / انٹرٹینمنٹ بیوی سے عشق کب ہوتا ہے؟ September 6, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ایک خاتون نے نہایت دلچسپ سوال کیا، کہنے لگیں تارڑ صاحب میں نے آپ کا حج کا سفرنامہ منہ ول کعبے شریف پڑھا ہے۔ جس میں آپ نے اپنی بیگم کا تذکرہ اس طرح کیا ہے جیسے وہ آپ کی بیوی نہ ہوں گرل فرینڈ ہوں۔ … دنیا کے امیر ترین 25 خاندانوں کی فہرست جاری کردی گئی، کیا پاکستان کا بھی کوئی خاندان فہرست میں شامل ہے ؟ September 5, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 انٹرنیشنل لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) دنیا کے امیر ترین 25 خاندانوں کی فہرست جاری کردی گئی، کیا پاکستان کا بھی کوئی خاندان فہرست میں شامل ہے ؟ جانیں اس خبر میں ۔۔۔دنیا کے امیر ترین 25 خاندانوں کی فہرست جاری کردی گئی، ان خاندانوں کی اکٹھی دولت 1.4ٹریلین امریکی ڈالرز … شرم وحیا کی تمام حدیں پار ۔۔۔!!! رابی پیرزادہ کے بعدنامور پاکستانی اداکارہ ایمان علی کی شرمناک ویڈیو وائرل September 4, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان کی ہر دلعزیز اداکارہ ایمان علی کی سوشل میڈیا پر ڈانس ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔پاکستان کی ڈرامہ و فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی اداکارہ ایمان علی سنجیدہ اور حساس شخصیت کی مالک ہیں اور ڈراموں اور فلموں کے علاوہ کم ہی دکھائی دیتی ہیں، … لاہور میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ایک لڑکی علی الصبح سینکڑوں مزدوروں کو گھر پر تیار کیا ہوا بہترین ناشتہ کرواتی ہے ؟ یہ لڑکی دراصل کس عظیم شخصیت کی بیٹی ہے ؟ ایک شاندار تحریر ملاحظہ کیجیے September 2, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 لاہور (میڈیا نیوز ) امام احمد بن حنبلؓ نے کہا تھا:''یہ جنازہ ہی ثابت کرے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون''؟۔۔۔ ہر روز دُنیا میں لاکھوں افراد آتے اور لاکھوں افراد جاتے ہیں۔اِس فانی دُنیا میں اُن کی باتیں اور یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔10 برس قبل … تین اجنبی بزرگ ۔ سبق اموز August 31, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 ایک عورت کسی کام سے گھر سے باہر نکلی تو گھر کے باہر تین اجنبی بزرگوں کو بیٹھے دیکھا ، عورت کہنے لگی میں آپ لوگوں کو جانتی نہیں لیکن لگتا ہے کہ آپ لوگ بھوکے ہیں چلیں اندر چلیں میں آپ لوگوں کو کھانا دیتی ہوں ان بزرگوں نے … تب بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ اور اب اگر اپنی منکوحہ کے ساتھ چہلیں کرتا ہوں تو بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اگر آخری عمر میں بالآخر اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں تو بھی آپ کو منظور نہیں''۔ وہ خاتون نہایت پُرمسرت انداز میں کہنے لگیں … '16 برس کی عمر میں جھنگ سے اکیلی اپنے گھر سے نکلی تھی اور آج۔۔۔' 26 سالہ پاکستانی لڑکی کی وہ کہانی جو ہر پاکستانی نوجوان کو ضرور پڑھنی چاہیے August 30, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 محنت میں عظمت ہے اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، یقیناََ یہ جملے اور ضرب المثل آپ نے کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں سنے ہونگے،مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائینگی کہ ان ضرب المثل کو سامنے رکھتے ہوئے 16سجھنگ کے گائوں میں رہنے والی ماہہ یوسف نے … آدمی نے اپنی بیگم کی شادی اپنے بھائی سے کروا دی کیونکہ۔۔۔وہ خبرآگئی جس کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا August 29, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 کہاجاتاہے کہ پیار اندھا ہوتا ہے اور ایسا ہی کچھ بھارتی ریاست بہار میں ہوا جہاں دیور اپنی ہی بھابھی پر فدا ہوگیا لیکن یہ انکشاف ہوتے ہی شوہر نے اپنی اہلیہ اور اپنے بھائی کی شادی کرادی۔یہ واقعہ پڑوسی ملک بھارت کی ریاست بہار میں پیش آیا جہاں ایک … انوشکا اور ویرات نے ننھے مہمان کی آمد کی خوشخبری سنا دی ممبئی(این این آئی)بھارتی کرکٹ ٹیم کے مایا ناز کرکٹر ویرات کوہلی اور بالی ووڈ اداکارہ انوشکا شرما نے اپنے گھر ننھے مہمان کی آمد کی خوش خبری سنا دی ہے۔ ویرات کوہلی نے انسٹام گرام پر اپنی اور اور انوشکا شرما کی ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ دونوں … اگر مہوش حیات ایک ڈش ہوتی تو میں ۔۔۔۔۔ ہمایوں سعید نے حیران کن بات کہہ ڈالی August 26, 2020 انٹرٹینمنٹ 0 کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان کے اداکار اور پروڈیوسر ہمایوں سعید کا پاکستان کی ڈرامہ و فلم انڈسٹری کی اداکارہ مہوش حیات سے متعلق کہنا ہے کہ اگر مہوش حیات کوئی کھانے والی غذا ہوتیں تو بریانی ہوتیں ۔ہمایوں سعید نے پاکستان کی ہر دلعزیز اداکارہ ماہرہ خان کے کوکنگ شو …
urd_Arab
علم الحیوانیات کا مطالعہ ۔۔ زوالوجی (تیسری قسط) لمارک کے نظریات | اردو محفل فورم علم الحیوانیات کا مطالعہ ۔۔ زوالوجی (تیسری قسط) لمارک کے نظریات آج ہم بات کریں جین بیپٹسٹ ڈی لمارک کے بارے میں۔ لمارک کا یہ نظریہ تھا کہ آج ہم جانوروں کو جس شکل و صورت ميں موجود پاتے ہیں یہ با لکل اسی طرح کا وجودِ اصلی لئے پیدا ہوتے ہیں۔ دراصل وہ ایک ایسے نظریے کی پیروی کر رہا تھا کہ جس میں ایک جانور کے ایک لمبے عرصے میں نئی نسل میں تبدیل ہونے کی بات کی گئی تھی۔اور لمارک نے اپنے نظریے کی مادی توجیح بھی وضع کی۔ کہ کیسے ایک جاندار کی عادات اس کی سنتان یا اولادکی جبلت میں شامل ہوتی ہیں لمارک کے مطابق یہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو جانداروں کو اپنی عادات بدلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان بدلتی عادات کے نتیجے میں جانور کئی اعضائے جسما نی کا استعمال زیادہ کر دیتے ہیں اور کئی اعضا کے استعمال میں کمی کر دیتے ہیں جس سے عُضوی تبدیلیاں ہوتی ہیں جنھیں اگلی نسل میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ چوں کہ جسمانی ڈھانچے جس میں اندرونی اور بیرونی اعضا اور ساختیں شامل ہیں ، رویوں پر اثر اندا ز ہوتی ہیں۔ تو نتیجتاً انہیں تبدیلیوں کو وراثت کے طور پر اگلی نسل میں منتقل کر دیا جاتا ہےجس سے نئے رویے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح لمارک نے جبلّی رویوں کے آغاز اور اگلی نسل میں منتقلی کی وضاحت کی۔ لمارک کے اس مادی نظریے کی تین لازمی جزوّ ہیں۔ پہلا ، ماحول جانوروں کے رویوں میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک پرندہ کہ جس کا ماحول خشک ہوتا جا رہا ہے اور ماحول میں خشکی کی وجہ سے چھوٹے اور نرم بیج کی کمی ہونے کے باعث اسے بڑے اور سخت بیج ڈھونڈنے، توڑنے اور کھانے پڑیں گے۔ دوسرا، ماحولیاتی تبدیلیاں جانوروں کی بناوٹ اور ساخت میں تبدیلیوں کو باعث بنتی ہیں۔ اور ان تبدیلیوں سے نئے رویے جنم لیتے ہیں اور ان رویوں کی افزائش میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ پرندہ جس کا ماحول خشک ہو جانے کی وجہ سے چھوٹے اور نرم بیج کی غیر موجودگی کے باعث اب اسے بڑے اور سخت بیج توڑنے اور کھانے کے لئے اپنی چونچ میں تبدیلیاں لا کر اس کو بڑا اور مضبوط کرنا پڑے گا۔ تیسرا، ساخت اور رویوں کی یہ تبدیلیاں اگلی نسل میں منتقل کر دی جاتی ہیں۔ کیوں کہ لمارک کا ماننا تھا کہ ہر وہ چیزیا رویہ یا تبدیلی جو جانور اپنی زندگی میں حاصل کر لیتے ہیں اسے محفوظ کر لیا جاتا ہےاور عملِ تولید کے ذریعے اگلی نسلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ لمارک کا یہ خیال تھا کہ ماحول رویوں کی تبدیلی کا باعث بنتا ہےجس سے جانوروں کی بناوٹ اور ساخت میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ تبدیلیاں جنسی تولید کے قابل خلیوں۔۔جَرم سیلز۔۔میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں جو نئی نسل میں رویوں کے ارتقاء کا باعث بنتی ہیں۔ اس دھاگے میں ہم نے لمارک کے نظریات کےبارے میں پڑھا ۔ اگلے دھاگے میں ان نظریات میں جو خامیاں ہیں ان پر گفتگو کریں گے۔ پچھلی قسط میں ہم نے لمارک کے نظریات کے بارے میں پڑھا تھا آج ہم اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ لمارک نے اس نظریے کے ذریعے جانوروں کے رویوں پر کسی آفاقی خالق کے اثر کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن یہ نظریہ بھی سائنسدانوں کی ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پایا کیوں کہ اس میں کئی سوال اٹھتے ہیں ان میں سے چند ایک پر گفتگو کریں گے۔ پہلا ، بدلتا ہوا ماحول کس طرح ایک جانور کو ایک خاص طرح کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔مثال کے طور پر ، ماحول میں نرم بیج کی کمی پر کوئی پرندہ بڑے بیج ہی کھانے کے لئے کیوں چنتا ہے کوئی اور رویہ اختیار کیوں نہیں کرتا ۔ اور خاص طور ان رویوں پر سوال اٹھ رہا تھا کہ جن پر محول کے کچھ اثرات موجود نہیں تھے۔ دوسرا، لمارک نے اعضا کے استعمال اور ترکِ استعمال پر ایک نظریہ دیا ۔ کہ جس جسمانی عضو کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے وہ عضو اتنا ہی زیادہ نشونما پاتا ہے۔ اور جس جسمانی عضو کا استعمال ترک کر دیا جائے یا کم کر دیا جائے تو وہ عضو یا توسِرے سے مٹ جاتا ہے یا کمزور ہو جاتا ہے۔لیکن ہماری مثال کے تحت تو ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک پرندہ جو اپنی چونچ کے حساب سے زیادہ سخت بیج کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ عمل اس کی چونچ کو سخت اور مضبوط کیسے بنا سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بڑی شے کو کسی چھوٹے اوزار سے توڑنے کی کوشش کریں گے تو اس سے اوزار ٹوٹ توسکتا ہے مگر سخت اور مضبوط نہیں ہو سکتا۔ ایک اور مثال کو لے لیجئے کہ ایک جوتا کب ہم زیادہ استعمال کرتے ہیں تو کیا وہ بڑا اور مضبوط ہو جاتا ہے۔اور کیا جوتے کا کم استعمال کرنے سے کیا وہ چھوٹا اور کمزور ہو جاتا ہے۔ ہوتا تو دراصل یہ ہے کہ جب ہم جوتے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو وہ گھس کر چھوٹا اور کمزور ہو جاتا ہے اور اگر استعمال نہیں کرتے تو وہ اپنی اصل شکل میں موجود رہتا ہے۔ اب اگر جانداروں کے حوالے سے لمارک کے اس نظریے کو دیکھیں تو جب کوئی ورزش کرتا ہے تو اس کے اعصاب میں پختگی آتی ہے۔اور جب وہ ورزش بند کر دیتا ہے ۔ تو اعصاب واپس اپنی ناپختہ حالت میں آ جاتے ہیں۔ تیسرا، اگر ہم اس بات پر تامل کرتے ہیں کہ کسی جانور کی ساخت اور رویوں میں آنے والی تبدیلیاں اس کی نسل میں ویسی ہی منتقل ہو جاتی ہیں ۔ جیسا کہ لمارک نے اپنی کتاب میں لکھا کہقانون ِ قدرت کے تحت ماں باپ میں جو بھی تبدیلیاں آتی ہیں وہ من و عن اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ یہ عقائد یورپ اور برطانیہ میں انیسوی صدی تک مقبول رہے۔لیکن اس نظریے کا آج تک کوئی ثبوت نہ دے سکے۔یعنی جو والدین اپنے اعصاب یا پٹھوں کو مضبوط بناتے ہیں چاہے وہ جتنی بھی جسمانی مشقت کر لیں ان کی اولاد پیدائشی تن ساز پیدا نہیں ہو گے۔ یا اگر ماں باپ بہت اچھا پیانو بجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی اولاد پیدائشی طور پر بغیر کسی تربیت کے اچھا پیانو بجا سکتی ہو گی۔ اور پھر ہم ایک جرمن سائنسدان آگسٹ وائزمین کا کام دیکھتے ہیں کہ اس نے چوہوں کی کئی نسلوں کی دم کاٹی لیکن ہر بار نئی نسل دم کے ساتھ پیدا ہوئی ۔ نئی نسل میں کوئی بھی چوہا ایسا پیدا نہیں ہوتا تھا کہ جس کی پیدائشی طور پر دم نہ ہو یا چھوٹی ہی ہوتی ہو۔اس تشخیص سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک جاندار میں دو طرح کے خلیے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں یعنی جرم خلئیے ۔۔۔ تولید کے عمل میں حصہ لینے والے۔۔ اور دوسے سومیٹک خلئیے یعنی وہ خلئیے جو عملِ تولید میں حصہ نہیں لیتے۔اور اس نے یہ بتایا کہ سومیٹک خلئیوں میں تبدیلی کسی بھی صورت جرم خلیوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔ اور اس کی یہ تفریق آج تک من و عن قائم ہے۔ لمارک کی یہ تھیوری بھی حیوانی رویوں کا مکمل طور پر احاطہ کرنے سے قاصر رہی۔ محمد طلحہ گوہر چشتی, ‏مئی 27, 2018 لمارک کا نظریہ حیوانی رویوں کا مکمل احاطہ تو نہ کر سکا مگر اس کے بعد ایک جمِ غفیر نے اس موضوع پر تحقیق کا آغاز کر دیا۔ اس نظریے کی ناکامی کے بعد ڈارون نے ایک نئی وضاحت پیش کی۔ جبلّت کی وضاحت کے حوالے سے ڈارون کا ابتدائی قصد لمارک کے نظریےکے ساتھ مطابقت رکھتا تھا اس کا ماننا تھا کہ ایسی فائدہ مند عادات جو کسی نسل میں مستقل رائج رہیں وہ اس نسل کے جانداروں میں روایتی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں اور یہی تبدیلیاں آگے جا کر جبلت کی صورت میں نئی نسل میں موجود ہوتی ہیں۔ بہر کیف، وراثتی عادات کا یہ نظریہ زیادہ دیر ڈارون کو مطمئن نہ کر سکا۔ خصوصي طور پر اس بات کا ادراک ہوا کہ کچھ ایسے رویے بھی ہیں جن کا ارتقاء عادات سے نہیں ہواجیسا کہ ہنری لارڈ بورگھم Henry Lord Brougham نے اپنی کتاب میں مثال کچھ یوں دی کہ ایک مادہ بھڑ لاروا کو خواراک کے طور پر گھن۔۔۔ گرب۔۔۔ فراہم کرتی ہے۔ جن کو ابھی انڈوں سے نکلنا ہوتا ہے۔حالاں کہ اس مادہ بھڑ نے کسی کیڑے کو انڈے سے نکلتے ہوئے دیکھا بھی نہیں ہوتا۔اور نہ ہی اس نے کبھی شعوری طور پر ان گربز کا استعمال کیا یا چکھا ہوتا ہے۔اور ڈارون نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ایسے رویوں کو عادات کا پیش خیمہ سمجھنا یا کہنا بہت مشکل ہے۔ ایک ایسا عمل جو زندگی میں ایک بار انجام دیا جائےبغیر کسی تجربے کے۔اور وہ بھی ایک ایسا رویہ کہ جس کو کرنے کا مقصد بھی اس جانور کو معلوم نہ ہو وہ عقل کے ذریعے سے حاصل کی گئی عادات کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتا۔لہذا ڈارون نے اسے فائدہ مند وراثتی عادات کی بجائے اسے تولید تسلسل کے تناظر میں دیکھانا شروع کیا۔ آغاز میں جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تاریخِ فطرت کا مطالعہ کا اصل کھنچاو خدا کی صنّاعی کی تحقیق کرنا تھا تھا۔ مگر سپیشیز کے ارتقاء Origin of Species کے حوالے سے ڈارون کی تصنیف نے اس نقطہِ نگاہ کو بدل دیا۔ ڈارون کا مرکزی نقطہِ نگاہ مختلف رویوں کے امتیازی اوصاف کی عملی تشریح کرنا تھا۔ڈارون کی کامیابی یہ تھی کہ اس نے وضاحت کی کہ اتنی حیرت انگیز مخلوقات کسی خصوصی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئیں ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ حیرت انگیزی چار بنیادی خصوصیات کی بے مہری کا نتیجہ ہیں۔ ۱۔ ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں اختلاف ہوتا ہے۔حتی کہ قریبی رشتہ داروں میں جیے باپ بیٹے یا جڑواں بچوں تک کے رویے میں بھی نمایاں فرق موجود ہوتا ہے۔ ۲۔ بہت سی تبدیلیاں وراثتی ہوتی ہیں ۔ جیسے بچوں میں بہت سی خصوصیات والدین والی ہوتی ہیں اور یہ ان جینز کی وجہ سے ہوتی ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ ۳۔ تمام جانداروں کی شرحِ بقاء میں فرق ہوتا ہے۔جیسے کہ ایک مادہ سنیپنگ ٹرٹل 24 انڈے دیتی ہےجن میں سے صرف 5 ہی شباب کو پہنچتے ہیں۔جب کہ ایک اور مادہ 18 انڈے دیتی ہےتو اس میں سے صرف ایک بچتا ہے۔ ۴۔ وہ افراد جو بقا کی صلاحیتوں سے زیادہ مزین ہوتے ہیں وہی اگلی نسل تک جینز کی بکثرت فراہمی کر سکتے ہیں ۔ اسی قانون کو Survival of the Fittest کہا گیا۔ ڈارون کی اس توجیح کے بعد سائنس کی دو مختلف شاخیں وجود میں آئیں ایک ایکولوجی اور دوسری ایتھالوجی ۔اسی کا پیش خیمہ تھا کہ آئیون پیولوو نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتوں جے۔بی۔ واٹسن، ٹالمن اور لیشلے نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کترنے والے جانوروں بی۔ایف۔ سکنر نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرندوں وولف گینگ کوہلر اور رابرڑ یرک نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پائیمیٹس ۔۔ دودھ پلانے ولے جانوروں کے رویوں پر مطالعہ کا آغاز کیا۔ان تمام کا مقصد تھا کہ جانوروں کے رویوں پر کچھ مفروضے قائم کئے جائیں ۔جو ان کے عمومی برتاو کا احاطہ کرتے ہوں ۔ تا کہ بعد میں ان مفروضوں کو ٹیسٹ کیا جا سکے۔ لیکن اس سب کام میں بہت وقت لگتا تھا اور یہ بہت مشقت بھرا کام تھا۔ پھر ٹنبرگنTinbergen نے ایک ایسا طریقہ بتا یا کہ جس سے جانوروں کا مطالعہ کافی آسان ہو گیا۔اس نے اس مطالعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔اور اس نظام کے تحت اگر ہم کتے کا دم ہلانے کے رویے کا مطالعہ کریں تو: Proximate Cause۔۔۔ فوری پہلو: کتے کے حسیاتی خلیے کسی مانوس انسان کی موجودگی کا کھاوج لگاتے ہیں اس کا نروس سیسٹم ایک ایمپلس بیجتا ہے جس سے کتے کی دم حرکت کرنے لگتی ہے کتے اپنے مالک کو پہچانتے ہیں اور دم ہلاتے ہیں Ontogeny: ۔۔۔ انفرادی ارتقائی دم ہلانے کا رویہ کتے میں وراثتی طور پر تھا لیکن یہ اسے سیکھنا پڑتا ہے کہ کون اس کا دوست ہے۔ Function ۔۔۔ عملی دم ہلانا کتے کی طرف سے دوستانہ اشتیاق کا سگنل ہے جو اس کی پرورش بقا اور تولیدی عمل میں اس کا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ Ultimate Cause۔۔۔ حتمی وجہ: Evolutionary History۔۔۔ ارتقائی تاریخ ماضی میں دم ہلانا اس وقت ہوتا تھا جب وہ جسمانی طور پرباہمی عمل کرتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سگنل میں تبدیل ہو گیا۔ Causation سے سوال اٹھتا ہے کہ What makes behavior happen? Ontogenyسے سوال کیا جاتا ہے کہ How Does Tail wagging behavior Develop? Function سے معلوم کیا جاتا ہے کہHow this behavior contributes to genetic success? Evolutionary History یہ ادراک ہوتا ہےکہHow this behavior evolved from its Ancestral form to present form?
urd_Arab
سرگودھا۔24ستمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2020ء) ڈپٹی کمشنر عبداللہ نیئر شیخ نے کہا ہے کہ ضلع سرگودہا میں محکمہ صحت کی پولیو ٹیموں نے گذشتہ تین روز کے دوران پانچ لاکھ 59ہزار 987 پانچ سال تک کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف حاصل کیاہے جبکہ ضلع بھر میں پانچ سال تک کے بچوں کا مجموعی ہدف چھ لاکھ 48ہزار650 ہے پولیو ٹیموں نے اب تک 86فیصد بچوںکو پولیو کے قطرے پلائے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے کانفرنس روم میں منعقدہ پولیو مہم کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔ اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل بلال فیروز جوئیہ ' سی ای ا وہیلتھ ڈاکٹر رائے سمیع اللہ ' ڈاکٹر ریاض 'ڈاکٹر سہیل اصغر قاضی ' فوکل پرسن پولیو مہم ' تمام تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنر ز اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ افسران ہیلتھ اورمتعلقہ افسران بھی موجو دتھے ۔ ڈی ایچ او ڈاکٹر سہیل اصغر قاضی نے اجلاس کو بتایا کہ ضلع بھر میں پولیو مہم بھر پور طریقے سے جاری ہے اور ٹیموں کی سخت مانیٹرنگ کی جارہی ہے ۔انہوں نے بتایاکہ جاری مہم کے پہلے تین روز میں تحصیل بھیرہ میں 47974 ' بھلوال میں 53958 ' کوٹ مومن میں 67128 'ساہیوال میں 48658 ' سرگودہا میں231115 'شاہپور میں 56266 او رتحصیل سلانوالی میں 54888 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاچکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے روز ضلع بھر میں مجموعی طورپر ایک لاکھ 67ہزا ر667 کے ہدف کے مقابلے میں ایک لاکھ 89ہزار 283 پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے جو ہدف کا 113فیصد ہے جبکہ دوسرے روز کے ایک لاکھ 66 ہزار 883 کے ہدف کے مقابلے میں ایک لاکھ 61ہزار 615 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے ۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دو روز کے دوران اپنی رہائش گاہوں پر نہ ملنے والے 63516 بچوں میں سے 29138 بچوں کو تلاش کر کے پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں جبکہ انکاری خاندانوں کے 59بچوں میں سی56 کو پولیو کے قطرے پلائے گئے ۔ انہوں نے کہاکہ ضلع میں ٹیمیں 34ہزار 378 عدم دستیاب بچوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ٹیموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان بچوں کو ہر صورت تلاش کریں جبکہ والدین پر زور دیاجارہاہے کہ وہ بچوں کو قطرے پلانے میں کوتاہی نہ کریں تاکہ انہیں عمر بھر کی معذوری سے بچایاجاسکے ۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنروں کو ہدایت کی کہ وہ ٹیموں کی کارکردگی ' سکونت کی مارکنگ ' انگوٹھا نشانات کے ذریعے مانیٹرنگ کریں جس کیلئے چھاپہ مار اور خفیہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں تاکہ پولیو مہم کو کارگراو رمفید بنایاجاسکے ۔ انہوں نے جھگیوں ' بھٹوں او رخانہ بدوشوں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی طرف ٹیموں کی توجہ مبذول کروائی۔
urd_Arab
زِبان دینے والی زبانیں خود گونگی نہ ہوجائیں - ہم سب زِبان دینے والی زبانیں خود گونگی نہ ہوجائیں 06/12/2018 06/12/2018 فہیم اختر n/b Views وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اعلان ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے نئے بحث مباحثے شروع ہوچکے ہیں، تاہم یکساں نصاب تعلیم طویل المدتی منصوبہ ہے جس کے لئے ابتدائی سطح سے لے کر ہائیرایجوکیشن تک تمام کتب سے لے کر طریق تعلیم پر ازسرنوغور و خوض کیا جاسکتا ہے، یکساں نصاب تعلیم کی جانب قدم اٹھانا وفاقی حکومت کی تعلیم رغبتی اور تعلیم دوست ویژن اور فروغ کی جانب ایک قدم ہے، پانچ سالوں پر محیط حکومت اس دورانیہ میں کس حد تک کامیابی حاصل کرسکتی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ قدم دیر آید درست آید کے مانند ہے۔ اس سے قبل بھی یکساں نصاب تعلیم اور مقامی زبانوں کے تحفظ و فروغ کے لئے اقدامات اٹھانے کا اعلان کئی بار ہوچکا ہے مگر اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود رہے اور کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جدید ترین نصاب تعلیم بھی اس وقت تک کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جب تک اس میں مقامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کو فروغ نہ دیا جائے اور مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم نہ بنایا جائے۔ پاکستان لسانی اعتبار سے نہایت تنوع کا حامل ملک ہے، جہاں ہر صوبے میں الگ الگ لسانی حد بندیاں ہیں، ہر علاقہ دوسرے علاقے سے اپنی بولی اور زبان کی وجہ سے مختلف ہے، جس کی وجہ سے ہر علاقے کی اپنی اہمیت ہے، ماہرین تعلیم معاشرے میں ایک زبان کے رائج ہونے سے کثیر السانیت کو بہتر قرار دیتے ہیں، ۔ پاکستان میں اکثر تعلیمی کانفرنسز میں مغربی نظام تعلیم کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن مغربی سمیت تعلیمی میدان میں نمایاں رہنے والے ممالک کی اس روش پر کوئی عملدرآمد نہیں کرتا ہے کہ وہاں پر بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے، مادری زبان میں ابتدائی تعلیم رائج کرنے سے قبل متعدد تجربات اور تقابلی جائزے لئے گئے جس میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بنسبت دیگرزبانوں کے کئی گنا تیز اور قابل قرار دیے گئے۔ پاکستان میں بھی نجی تنظیموں کے زیر اہتمام اس تجربے کا اہتمام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کا فہم اور ادراک دوسرے سکولوں کے طلباءسے زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر مختلف قومی زبانیں وجود رکھتی ہیں۔ لسانی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 74 زبانوں کا مسکن ہے جن میں سے پانچ زبانیں دیگر تمام زبانوں پر غالب ہیں یا حکومت کرتی ہیں۔ جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، پشتو، سندھی اور سرائیکی شامل ہیں۔ جبکہ دیگر زبانوں کی بھی الگ الگ درجہ بندی ہے جن میں کئی علاقائی زبانیں اپنے مستقبل کے حوالے سے خطرے سے دوچار ہیں، بڑی عالمی زبانوں کے سامنے یہ زبانیں اپنی بقاءکے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ نصاب تعلیم میں از سرنو تبدیلی کا فیصلہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہاں پر انگریزی زبان میں تعلیم کو معیاری تعلیم قراردیا جاتا ہے جس کی ابتدا زبردستی یاد کرانے یعنی رٹا لگوانے سے ہوتی ہے۔ جو کسی طالبعلم کے صلاحیتوں کو پنپنے نہ دینے کے مترادف ہے، موجودہ وقت میں ملک کے تمام علاقوں میں سارا ادبی مواد ان ادیبوں کا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھے، صرف سادہ بی اے کرنے والے کئی حضرات ادب اور تاریخ پر اپنی گرفت رکھتے ہیں اور دونوں شعبوں پر اپنے ان گنت نشانات چھوڑچکے ہیں، اس کے پیچھے ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ اس دور میں انگریزی یا کسی دوسری زبان میں تعلیم کا سلسلہ مضبوط اور مربوط نہیں تھا، بلکہ قومی اور علاقائی زبانوں میں پڑھایا جاتا تھا اور زبانی طور پر ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی ہوا کرتی تھی۔ اب قاعدہ سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرنے والا طالبعلم ابتداء سے پریشانیوں میں گھرا ہوتا ہے کیونکہ گھر اور معاشرے کی زبان درسگاہ سے مختلف ہے، اورآسانی سے سمجھ آنے والی زبان گھر اور معاشرے کی زبان ہوتی ہے جہاں پر اس کا ہر کام اس کی اپنی توجہ سے ہوتا ہے۔ نصاب تعلیم کو ترتیب دینے کے لئے اس بات کی جانچ کی جاتی ہے کہ جس علاقے کے لئے نصاب ترتیب دیا جارہا ہے اس کی جغرافیہ اور ثقافت کیسا ہے، یہی دونوں عناصر اس علاقے کے ملبوسات اور غذائی رجحانات کا تعین کرتے ہیں جو کہ معاشرہ اور اس میں بسنے والے انسانوں کی صحت کا ضامن ہے ں، انسانی صحت انفرادی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جبکہ انفرادی سوچ اجتماعی سوچ کی جزہے، اجتماعی سوچ معاشرتی رویوں اور رخ کو جنم دیتی ہے۔ انسانی معاشرہ ایک سمندر کے مانند ہے اور نصاب تعلیم اس سمندر میں کشتی کی مانند ہے جن کے درمیان ایک گہرا رشتہ موجود ہے۔ پاکستان کے تناظر میں نصاب تعلیم کی ترتیب سے قبل ہونے والے ہوم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے موجودہ نصاب طلباءکے ذہنی لغت پر بوجھ بن رہا ہے اور اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذریعہ تعلیم یعنی انگریزی زبان کے مشکل ہونے کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سکولوں سے خارج ہونے کی شرح بھی پاکستان میں بہت زیادہ ہے اور امتحانی مرحلے میں غیر قانونی زریعوں کا استعمال عام ہوتاہے جوکہ معاشرے میں 'میرٹ کے قتل' کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ یہ ایک الگ بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں ریاستی اور حکومتی سطح پر مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے متعدد زبانوں کا وجود اور مستقبل خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ کسی معاشرے میں ایک سے زائد زبانیں موجود ہوں تووہاں کے طلباءاور عام لوگ بنسبت دیگر قابل بھی ہوتے ہیں اور معاشرے میں فہم و ادراک کے لئے متبادل مواد میسر ہوتا ہے، زبانوں کی تشبیہات، استعارات، لوک کہانیاں، لطیفے، خیالات، اور شاعری اپنے اندر صدیوں کی داستان چھپائے رکھتی ہے، یہی نثری ادب سے وہاں کی قدیم تہذیب کی کھوج لگایا جاسکتا ہے۔ معروف ماہر تعلیم نوم چومسکی زبان کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ 'زبان صرف کچھ حروف کا نام نہیں، یہ ایک ثقافت ہے، ایک روایت ہے، معاشرے کے وحدانیت کی علامت ہے، ایک مکمل تاریک ہے جو سماج کی پہچان بناتی ہے، ان سب عناصر کو ملانے کو زبان کہا جاتا ہے' ۔ پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع گلگت بلتستان لسانی اعتبار سے جہاں وسیع تنوع کا حامل ہے وہی پر سبھی زبانوں کو صورتحال کمزور ترین ہے یہاں پر بولی جانے والی بڑی زبانوں میں شینا، بلتی، بروشسکی، کھوار، وخی شامل ہیں اور چھوٹی زبانوں میں گوجری، کشمیری، ڈوماکی و دیگر زبانیں موجود ہیں۔ ڈوماکی کا شمار اس وقت ملک کے ان چند زبانوں میں ہوتا ہے جس کو سمجھنے والوں کی تعداد انگلی پر گنی جاسکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی ان زبانوں میں بروشسکی زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اپنی شجرہ نسب کے مناسبت سے تنہا زبان ہے، جبکہ بلتی زبان پاکستان کی زبانوں میں واحد زبان ہے جس کا شجرہ نسب چینی تبتی زبانوں سے جا ملتا ہے جبکہ دیگر ساری زبانیں ہند ایرانی زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کو آج تک قومی سطح پر سرکاری طور پر زبانوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، حال ہی میں منعقد ہونے والے مردم شماری میں جہاں بڑی زبانوں کا نام شامل کرکے ان کے بولنے والوں کے لئے الگ خانہ مختص کردیا گیا وہی پر ان تمام زبانوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے انہیں 'دیگر' زبانوں کا درجہ دیدیا، جو کہ افسوسناک امر تھا۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے مقامی زبانوں کی ترویج کے لئے ریجنل لینگویج اکیڈیمی اور مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے نصاب سازی کا اعلان کیا تھا جس میں ایک سال کی تاخیر سامنے آگئی جس کے وجوہات نامعلوم ہے، اس حوالے سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ لسانی امور کے باہمی اختلافات کی وجہ سے اس میں ایک سال کی تاخیر ہوئی ہے البتہ رواں سال کے آخر تک شینا زبان کا قاعدہ تیار کیا جائے گا اور اسے سرکاری سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا جائے گا جس کے بعد دیگر زبانوں اور دیگر کلاسوں کی جانب بتدریج چلیں گے۔ بہرحال صوبائی حکومت کے اس اقدام پر وفاقی حکومت کا تعاون لازمی ہے تاکہ مسائل کم سے کم ہوسکیں۔ وفاقی حکومت کا یکساں نصاب تعلیم کا اعلان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اگر دلجمعی سے اس پر کام کرے گی تو یقینا نصاب تعلیم میں تبدیلی کا بیڑہ اٹھاسکتی ہے مگر اس نصاب تعلیم کی تبدیلی سے قبل مقامی زبانوں کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے ان زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کریں، ورنہ لوگوں کو زِبان دینے والی زُبانیں خود گونگی ہوجائیں گی۔
urd_Arab
اسٹیو جابس کا بھی ایپل واچ کے ساتھ کچھ لینا دینا تھا آئی فون کی خبریں پابلو اپاریسیو | | ایپل واچ 5 اکتوبر ، 2011 ، سٹیو جابس انتقال ہوگیا اور اس کے ساتھ ایپل کا بہت زیادہ جادو چلا گیا۔ لیکن اس نے کچھ دستاویزات اور تحریریں چھوڑی ہیں جو اس کمپنی کے لئے آگے بڑھنے کے راستے کی نشاندہی کرتی ہیں جو اس نے ووزنیاک کے ساتھ قائم کی تھی جسے ٹم کک انجام دے رہا ہے۔ در حقیقت ، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایپل واچ ، 2014 میں متعارف کرایا جانے والا ایک آلہ ، ایپل کے موجودہ سی ای او کی سربراہی میں تیار کیا جانے والا پہلا پراڈکٹ تھا ، لیکن یہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے جو ہم نے ابھی تک سوچا تھا۔ ایپل تجزیہ کار ٹم بجارین کے مطابق ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں جن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ایپل واچ یہ ایک ایسی مصنوع ہے جو ایپل کے سابق سی ای او کی چیزوں کو دیکھنے اور اس کے تجربات سے متاثر ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ: اسٹیو جابس نے اس پراڈکٹ پر کس حد تک اثر ڈالا جو ہمارے پاس صرف ایک سال سے دستیاب ہے؟ بجارین اس متن کی وضاحت کرتے ہیں جس کا ترجمہ آپ نے ذیل میں کیا ہے۔ اسٹیو جابس نے ایپل سے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کہا ہوگا حال ہی میں ، میں نے ایپل کے ایگزیکٹوز کے ساتھ وقت گزارا ہے جو واچ میں شامل تھے۔ میں نے ان سے آلہ تیار کرنے کے لئے حقیقی محرک کی وضاحت کرنے کو کہا۔ اگرچہ ایپل نے فیشن اور ڈیزائن کو اپنے وجود کا ایک اہم سنگ بنیاد بنا دیا ہے ، لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ اس کے دل میں نہیں تھا کہ انہوں نے یہ پروڈکٹ کیوں تیار کی۔ سابق ایپل کے سی ای او اسٹیو جابس نے 2004 میں لبلبے کے کینسر کی نشوونما کی تھی۔ اس وقت ، اس نے 2011 میں اپنی موت تک ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے ساتھ کافی وقت گزارا تھا۔ جب کہ ذاتی صحت کے سفر نے شخصیت ملازمتوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا تھا ، یہ پتہ چلا ، ایپل کے ایگزیکٹوز کو بھی متاثر کیا۔ اس دوران ، نوکریوں نے دریافت کیا کہ صحت کی نگہداشت کا نظام کتنا ناجائز ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو یہ ذمہ داری عائد کی کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کے مختلف پہلوؤں ، خاص طور پر مریضوں ، ان کے ڈیٹا ، اور ان کی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے مابین رابط ... میرے خیال میں ایپل اپنے صارفین کی صحت اور صحت کے نگہداشت کے نظام کی مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے مشن پر ہے ، یہ کام جو جابس نے اپنی موت سے قبل انہیں دے دیا تھا۔ نیچے کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اسٹیو جابس نے ایپل واچ کے کسی تصورات کو دیکھا ہے ، جس پر شاید اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ ستمبر 2014 میں اس آلے کی نقاب کشائی تک اس کی موت سے تین سال ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ، اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم کا دعوی ہے کہ ایپل نے ایپل نہیں لیا ایپل کے شریک بانی کی موت تک سنجیدگی سے دیکھیں۔ بہرحال ، ہمیں ٹم کوک اور ان کی ٹیم نے جس طریقے سے انجام دیا ہے اسے کم و بیش پسند ہے ، ایسا لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم جو کچھ دیکھیں گے اس میں اسٹیو جابس کی مہر لگ جاتی رہے گی۔ جب تک پروجیکٹ ٹائٹن، بلاک کا سب سے زیادہ مہتواکانکشی منصوبہ جس کا مقصد بجلی اور / یا خود مختار کار تیار کرنا ہے ، نوکریوں کے ذریعہ یہ خیال تھا کہ فاسٹ کمپنی میں نے پہلے ہی اٹھا لیا 2012 میں۔ ہم صرف اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ کام کے حد تک قریب سے کریں گے تاکہ ایپل کے والدین میں سے کسی نے کیسے کیا ہوگا۔ مضمون کے لئے مکمل راستہ: آئی فون کی خبریں » ایپل کی مصنوعات » ایپل واچ » ایسا لگتا ہے کہ اسٹیو جابس کا بھی ایپل واچ سے کچھ لینا دینا تھا
urd_Arab
اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان بدل رہاہے اور ترقی کیجانب رخ موڑتی معیشت اور ہماری تعمیراتی پالیسی کی کامیابی کے نتائج مختلف شعبوں سے برآمد ہورہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ معاشی بدلاؤ،تعمیراتی پالیسیاں مختلف شعبوں میں کامیابی کامظہرہیں، پاکستان بدل رہاہے، دیوالیہ کے قریب سی ڈی اےکا2017میں خسارہ5ارب 80کروڑتھا، اس مالی سال سی ڈی اے73ارب سرپلس پرہے اور سی ڈی اے کے اکاؤنٹ میں 26ارب روپے موجود ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کےبعدوقت آگیاہےاسلام آبادکوماڈل سٹی بنایاجائے،ایسی ماڈل سٹی جس میں اصلاحات،تعمیرترجیح ہوگی، دیگر بڑے شہربھی عزم، شفافیت اور جدت کیساتھ ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکتے ہیں۔ With financial stability achieved, it's time to accelerate transformation of Islamabad into a model city with priority being on reform & restructuring. Other mega cities can also become self-sustaining economic engines of growth through commitment, transparency & innovation. یاد رہے 29 مئی کو وزیراعظم عمران خان نے ایک سال میں4ہزارارب روپےکی وصولی پرایف بی آر کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جولائی سےمئی تک ایف بی آرکی وصولی4ہزار143ارب روپےہے، ایف بی آرکی وصولیوں میں رواں سال 18فیصداضافہ ہے، یہ موجودہ حکومت کی معیشت بحالی کیلئے کیے گئے اقدامات کی عکاس ہے۔
urd_Arab
چھٹی کے موسم کے دوران بجلی سے متعلق دشواریوں سے کیسے بچنا ہے | cabredo.org چھٹی کے موسم کے دوران بجلی سے متعلق دشواریوں سے کیسے بچنا ہے چھٹی کے موسم میں جن سجاوٹوں کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے وہ عام ہیں۔ کرسمس ، چنوکا ، تشکر ، اور موسم خزاں اور موسم سرما کی دیگر تعطیلات کے جشن میں اکثر گھر کے اندر اور باہر کی روشنی کی تاریں آویزاں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ، توانائی سے پیاسے ان سجاوٹ برقی مسائل کا خطرہ لاحق ہوسکتی ہیں جن میں زیادہ بوجھ ، اڑا دیئے ہوئے فیوز ، اور یہاں تک کہ آگ بھی شامل ہے۔ نیچے دی گئی رہنما خطوط کو ذہن میں رکھنے سے آپ چھٹی کے موسم میں برقی پریشانیوں سے بچنے اور اپنے گھر کو محفوظ اور تہوار رکھنے میں مدد کریں گے۔ جب بھی ممکن ہو برقی چھٹیوں والی سجاوٹ کا انتخاب کریں۔ برقی پریشانیوں سے بچنے کا سب سے مؤثر طریقہ غیر برقی سجاوٹ کا انتخاب کرکے توانائی کی کھپت کو کم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ، اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ پلگ ان سانٹا کے مجسمے کو تبدیل کیا جائے جو موم بتیوں کے تہوار کے انتظام کے ل lights روشن ہوجائے اور گائے۔ کم چھٹی کی لائٹس پھانسی دیں۔ ایسے معاملات میں جہاں آپ بجلی کی سجاوٹ (جیسے روشنی کی ڈور) استعمال کرنا چاہتے ہیں ، آپ بجلی کی پریشانیوں کے خطرے کو ان کی مقدار کو کم کرکے کم کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، آپ کھڑکیوں اور دروازوں کی خاکہ کو بھی ٹریس کرنے کی بجائے اپنے گھر کی ایواؤں کے ساتھ روشنی کی ایک سادہ اور خوبصورت تار لٹک سکتے ہیں۔ کم واٹج ہالیڈے لائٹس استعمال کریں۔ توانائی کی کھپت کو کم کرنے کا ایک تیسرا طریقہ یہ ہے کہ روشنی کی پرانی تاپدیپت تار کو زیادہ موثر ایل ای ڈی لائٹس کے ساتھ تبدیل کرنا ہے۔ ایل ای ڈی لائٹس بہت کم توانائی کھینچتی ہیں اور کم حرارت بھی پیدا کرتی ہیں ، جس سے بجلی کے زیادہ بوجھ اور آگ کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ایل ای ڈی لائٹس تاپدیپت روشنی سے کہیں زیادہ دیر تک رہتی ہیں۔ متعدد سرکٹس میں بجلی کی سجاوٹ پھیلائیں۔ یہ اکثر ایک ہی دکان سے چھٹی کی روشنی کو ایک دوسرے کے ساتھ اختتام پر کشش حاصل کرسکتا ہے۔ تاہم ، اس سے آپ کے گھر کے ایک سرکٹ پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ اس کے بجائے ، اپنے گھر بھر میں بجلی کی سجاوٹ پلگ کرنے کی کوشش کریں ، کئی سرکٹس میں بوجھ پھیلاتے ہوئے۔ بکھرے ہوئے یا خراب چھٹی والے لائٹس استعمال کرنے سے گریز کریں۔ چھٹیوں کی لائٹس جو ہر سال بار بار استعمال کی جاتی ہیں ، خاص طور پر وہ جو باہر کے باہر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں ، بڑی تعداد میں پہننے کا نشانہ بنتی ہیں۔ بھڑک اٹھے یا پھٹے ہوئے موصلیت کے ساتھ روشنی کی تاروں کو فوری طور پر تبدیل کیا جانا چاہئے ، کیونکہ بے نقاب کنڈکٹر شارٹ سرکٹس اور آگ کے خطرے میں تیزی سے اضافہ کرتے ہیں۔ بجلی کے چھٹیوں کی سجاوٹ کو گرمی کے ذرائع سے دور رکھیں۔ گرمی کے ذرائع ، خاص طور پر کھلی شعلوں سے ، تار کی موصلیت پگھلنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور بجلی کی آگ اور دیگر پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے فائر پلیس مینٹل میں چھٹی کی لائٹس لگانے سے گریز کریں۔ نیز ، موم بتیاں ، چولہے اور ہیٹروں سے بجلی کی سجاوٹ کو محفوظ فاصلہ پر رکھیں۔ یقینی بنائیں کہ آپ کے کرسمس کے درخت کو اچھی طرح سے پانی پلایا گیا ہے۔ کرسمس کے درخت پر لٹکی روشنی سے پیدا ہونے والی گرمی آگ کا خطرہ بن سکتی ہے۔ اگر یہ درخت پانی کی کمی سے دوچار ہے تو یہ خطرہ کافی حد تک بڑھ گیا ہے ، لہذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا درخت پانی سے بھرا ہوا مستحکم اڈے پر کھڑا ہے۔ باقاعدگی سے اڈے میں پانی کی سطح کو چیک کریں۔ جب کرسمس لائٹس کے متعدد حصوں کو ایک ساتھ باندھتے ہو تو ، ہمیشہ ڈویلپر کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تاروں پر جو پابندی سے محفوظ طریقے سے منسلک ہوسکتے ہیں اس پر پابندی کی پابندی کرتے ہیں۔ اپنی چھٹی کی لائٹس چیک کریں تاکہ یہ یقینی بنائیں کہ وہ الحق شدہ ہیں۔ ایسی لائٹس جن کے پاس یو ایل مہر نہیں ہے شاید وہ سستے اور غیر محفوظ طریقے سے تیار کی گئی ہو۔ ایک ہی دکان میں ایک سے زیادہ سجاوٹ پلگ کرنے کیلئے پاور سٹرپس کے استعمال سے پرہیز کریں۔ بجلی کے آؤٹ لیٹس میں صرف 2 ساکٹ لگائے گئے ہیں تاکہ آپ کو انھیں زیادہ بوجھ سے روکیں۔ چھٹیوں کے حادثات کو کیسے روکا جائےتعطیلات کے دوران بجلی سے ہونے والی آگ کو کیسے روکا جائےچھٹی کے خطرہ سے اپنی بلی کو کیسے بچائیںکرسمس لائٹس کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کا طریقہ
urd_Arab
لنک کا نچوڑ 2020/09/3 فاریکس ٹریڈنگ بنیادیات مرحلہ 3 اپنا ای میل اور پاس ورڈ درج کریں ، پھر لاگ ان کرنے کے لئے تیر پر کلک کریں۔ ونڈوز 10 میں ٹیبلٹ وضع بند کریں. پورے لاس سینٹوس میں بہت سارے مجموعے ہیں۔ ان میں سے کچھ خاص قدر کے حامل ہیں ، جیسے جہاز کے حصے ، سب میرین پارٹس ، پوشیدہ پیکیج فاریکس ٹریڈنگ کا منصوبہ کیا ہے؟ اور لیٹر سکریپ۔ اگر آپ کو اس فہرست سے کوئی چیز مل جاتی ہے تو اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھیں۔ تکنیکی اشارے ، جیسے تیز رفتار اشارے ، یہ فیصلہ کرنے کے لئے چاندی کی گولی نہیں ہیں کہ کب خریدیں اور فروخت کیں۔ وہ عین مطابق وقت کے ناقص پیش گو ہیں ، لیکن وہ اس بات کی نشاندہی کرنے میں بخوبی ہیں کہ کون سا اسٹاک لیول 2 اسکرین جیسے تفصیلی اعداد و شمار کے ساتھ مزید تجزیہ کے امیدوار ہیں۔ اسی طرح ، تکنیکی تجزیہ کو ایک نقط point آغاز کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ تاریخی نمونوں کو لازمی طور پر مستقبل کی کارکردگی کی قطعی تصویر میں ترجمہ نہیں کیا جاتا ہے۔ GeneMarker سافٹ ویئر کی درخواست سادہ اعداد و شمار کا جائزہ اور تجزیہ بدیہی سافٹ ویئر استعمال کرنے میں آسان ہے باضابطہ ایک صفحے کی رپورٹ کوائف کی منتقلی کی ضرورت نہیں ہے. یہ ۵۱ برس پہلے، ایک الم ناک دن تھا۔ 4 – به دلیل ضعف زیر ساختهای فنی در کشور و سرعت پایین اینترنت امکان رقابت معامله گران با سرمایه گذاران کشورهای خارجی که معمولاً به صورت بانک های بزرگ می باشند وجود ندارد. خیلی از افراد وقتی از بروکر این سؤال را می کنند که چرا در فلان معامله ضرر کردیم در حالیکه تحلیل بازار چیز دیگری را نشان می داد با این پاسخ مواجه می شوند که به علت عدم دریافت پیام مناسب در زمان مورد نظر، شما دچار زیان شده اید. CRM قیمتوں کا چلن چلانے کا کام چلاتا ہے۔ لاگت کا استعمال عام طور پر صارفین کی تعداد ، مصنوعات کی خصوصیات اور سافٹ ویئر کی پیچیدگی پر ہوتا ہے۔ کچھ CRMs کی لاگت صرف صارف فی مہینہ 99 8.99 ہوتی ہے اور دیگر مہنگا ہر ماہ کے user 30 کے قریب زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کے لئے ، جس میں اکاؤنٹ کی ایک بڑی مقدار کا نظم و نسق ہوتا ہے ، وہاں بہت سارے افعال اور آٹومیشن کے ساتھ لامحدود ایڈیشن ہوتے ہیں جن پر فی مہینہ کئی سو ڈالر لاگت آتی ہے۔ تیسرا ایک MACD ہسٹوگرام ہے جو MACD اور MACD سگنل لائن کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ ایرکسن واضح نہیں ہیں ، جان لیں کہ آپ اپنے بچے کو جو حوصلہ افزائی اور کمک دیتے ہیں وہ ان کی ذاتی شناخت کو تشکیل دینے کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ، آپ کے بچے کے تجربات اور معاشرتی تعاملات ان کے طرز عمل اور آدرشوں کو ڈھال دیتے ہیں۔ فرق کا معاہدہ (CFD) ایک خریدار اور بیچنے والے کے مابین فاریکس ٹریڈنگ کا منصوبہ کیا ہے؟ ایک معاہدہ ہے جو طے کرتا ہے کہ خریدار بیچنے والے کو اثاثہ کی موجودہ قیمت اور معاہدے کے وقت اس کی قیمت کے درمیان فرق ادا کرے۔ CFDs تاجروں اور سرمایہ کاروں کو بنیادی اثاثوں کا مالک بنائے بغیر قیمت کی نقل و حرکت سے نفع اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ کسی سی ایف ڈی معاہدے کی قیمت اثاثہ کی بنیادی قیمت پر غور نہیں کرتی ہے: تجارت کے اندراج اور خارجی راستے کے درمیان صرف قیمت کی تبدیلی۔ انٹرپرائز ریسورس پلاننگ یا ERP ایک پری پیکڈ بزنس مینجمنٹ سافٹ ویئر ہے جو انٹرپرائز کی کارکردگی ، منافع بخشیت اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں، کاروباری مالکان ڈیبٹ کارڈ، چیک، ACH، اور وائر ٹرانسفر کے ذریعہ اپنے کثیر کرنسی اکاؤنٹس کے اندر فنڈز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں. جیسا کہ تمام کاروباری بینک اکاؤنٹس کے ساتھ، ان ٹرانزیکشن کے ساتھ فیس بھی منسلک ہوسکتی ہے. جب مرکزی بینک سود کی شرحوں کو اوپر یا نیچے منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو وہ رقم کی فراہمی میں ہیرا پھیری کرتا ہے ، یعنی یہ کھلی منڈی کی کاروائیاں کرتا ہے۔ لیوپولڈ کے میٹرکس کے لئے ، 88 ماحولیاتی عوامل یا اجزاء اور 100 ممکنہ اقدامات پر غور کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ لہذا ، ممکنہ اثرات یا تعامل کی جانچ پڑتال 8،800 ہیں۔ ان اخراجات کو انکم اسٹیٹمنٹ میں فروخت ہونے والے مال کی قیمت کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔ جو باقی ہے وہ سراسر منافع ہے۔ لہذا ، تخصص کی حکمت عملی اور دیگر دو حکمت عملی کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک کمپنی مہارت پر مرکوز ہے جو صرف مارکیٹ کے ایک چھوٹے حصے میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے۔ کم قیمت یا منفرد مصنوعات یا خدمات پیش کرتے ہوئے تمام خریداروں کو راغب کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ، خصوصی کمپنی کا مقصد صرف ایک خاص قسم فاریکس ٹریڈنگ کا منصوبہ کیا ہے؟ کے خریدار کی خدمت کرنا ہے۔ اس تنگ نظری کی مارکیٹ پر توجہ مرکوز کرکے ، ایک ماہر کمپنی اسی قیمت کے لیڈروں اور امتیاز کاروں کی طرح قیمتوں کی قیادت یا تفریق کو اسی فوائد اور نقصانات کی پیروی کر سکتی ہے۔ یوم تاخیر پر تجارتی ضابطے. کاغذی نوٹ دھیرے دھیرے ایک معیار بن گئے اور یوں دھاتی سکے رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے گئے۔ لین دین تجزیہ کے نظریہ میں ، caresses کی دو اقسام سنسنی کے مطابق وہ جینے کی دعوت دیتے ہیں: مثبت پرواہ اور منفی . مثبت خیالات خوشگوار احساسات اور جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اور منفی ، ناگوار احساسات اور جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ یہاں ہم آپ کو 2019 میں منافع بخش کاروبار یا اعلی خطرہ والے نظاموں سے گھر سے پیسہ کمانے کے طریقے دکھائیں گے جس سے آپ اپنا پیسہ کھو سکتے ہیں ، اگر آپ اچھی آمدنی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے ل work کام کرنا ہوگا۔ انٹرنیٹ مارکیٹنگ کی ایک سب سے اہم حکمت عملی ہر صارف کی زندگی بھر کی قیمت کو ترقی دینا ہے۔ کم از کم 36 فیصد لوگ جو آپ سے ایک بار خرید چکے ہیں وہ آپ سے دوبارہ خریداری کریں گے۔ پہلی فروخت بند کرنا اب تک کا سب سے مشکل حصہ ہے ، نہ کہ انتہائی مہنگے کا ذکر کرنا۔ لہذا بیک اپ سیل اور بوسٹ سیل کو دوبارہ خریدنے کے ل get ان کا استعمال کریں: .فاریکس تجارتی پلیٹ فارم بالوں سے بچنے کی یہ جھاگ بالوں کی پتی کی سرگرمی کو فروغ دیتی ہے اور یہ 25 ven تک زیادہ بالوں کو دوبارہ تیار کرنے کے لئے طبی طور پر ثابت ہے۔ اس میں نباتاتی عرق اور املیانتس بھی ہوتے ہیں جو کھوپڑی کی حالت رکھتے ہیں۔ الفا ہائیڈروکسیل ایسڈ (اے ایچ اے) قدرتی جلد کے زوئبا کو فروغ دیتا ہے اور بالوں کے پتیوں کو کھلا رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مصنوعہ ایف ڈی اے سے منظور شدہ اور ڈرمیٹولوجسٹ کی تجویز کردہ ہے۔ 13: چیز (1982) - انٹارکٹک اڈے کی تباہی. اگر آپ کو تینوں ٹائم فریموں میں بلش ریورسال چارٹ پیٹرن کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں تو ، آپ کو ایک نئی اپ گریڈ شروع ہونے کا زیادہ امکان ہوسکتا ہے ، جو آپ کو تیزی کی تجارت کی ایک کامیاب حکمت عملی کا باعث بن سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل حصے بٹ کوائن / امریکی ریاستوں کی ایک مثال دکھاتے ہیں۔ 5 ستمبر ، 2018 کو ڈالر (بی ٹی سی / یو ایس ڈی) فاریکس ٹریڈنگ کا منصوبہ کیا ہے؟ کریپٹو / فیاٹ جوڑی۔ مارکیٹ کا سائز حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ چھوٹے کاروبار ہوتے ہو تو مقامی ریسرچ ایجنسیوں سے رابطہ کریں۔ کسی بڑے کاروبار کے ل high اعلی سطحی کمپنیوں سے مارکیٹ ریسرچ لینا بہتر ہے۔
urd_Arab
ایک اور حوا کی بیٹی خود عورت کے ظلم کا شکار ایک اور حوا کی بیٹی خود عورت کے ظلم کا شکار ہو گئی۔ لاہور کے علاقہ ڈیفنس میں چودہ سالہ بچی پر مالکن نے بے پناہ تشدد کر کے اس کے بال بھی کاٹ دیے۔ تشدد کی شکار لڑکی کے والدین نے بتایا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو عائشہ بی بی کے پاس 8 ماہ قبل ملازمہ رکھوایا تھا، اس دوران بچی سے نہ تو ملنے دیا گیا اور نہ ہی کوئی معاوضہ دیا گیا۔ لڑکی کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ بچی پر تشدد کرتے رہے اور پھر اس کے سر کے بال مونڈ دیے، کمر پر کٹ لگا کر گھر سے کچھ فاصلے پر ویرانے میں پھینک کر چلے گئے، اس کے بعد مالکن نے فون پر اطلاع دی کہ اپنی بیٹی کو مانگا منڈی باغ سے آ کر لے جاؤ۔ بچی نے روتے ہوئے بتایا کہ مالکن اسے گھر نہیں جانے دیتی تھیں، ماں سے ملنے کے تقاضے پر مالکن نے تشدد کیا اور بال کاٹے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کی والدہ نے تھانہ مانگا منڈی میں درخواست جمع کرائی تھی، جو متعلقہ تھانے جنوبی چھاؤنی بھجوا دی گئی ہے، مالکن عائشہ بی بی کے خلاف جلد کارروائی شروع کی جائے گی۔ تشدد کی شکار لڑکی کی والدہ نے وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس گلزار احمد سے بھی انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
urd_Arab
کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والا اسپرے - کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والا اسپرے کرونا وائرس کے خلاف مختلف ویکسینز اور دواؤں کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، برطانوی ماہرین ایسے اسپرے پر کام کر رہے ہیں جو 2 دن کے لیے وائرس سے تحفظ فراہم کرسکے گا۔ برطانیہ میں برمنگھم یونیورسٹی کے محققین ایسے اسپرے پر کام کر رہے ہیں جو کووڈ 19 سے 2 دن کا تحفظ فراہم کر سکے گا۔ ان محققین کی جانب سے گزشتہ سال اپریل سے اس اسپرے کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے اور اب اس کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن کے لیے مشاورت کی جارہی ہے۔ تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر رچرڈ مواکس نے بتایا کہ وہ پرامید ہیں کہ اس اسپرے کا فارمولا سماجی دوری کی پابندیوں کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرسکے گا۔ نتھنوں میں استعمال کیے جانے والے اس اسپرے کو ابھی کوئی نام نہیں دیا گیا اور اس کے لیے پہلے سے منظور طبی اجزا کو استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ انسانوں کے لیے محفوظ ہے اور اسے مزید منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس اسپرے سے نتھنوں میں ایسی کوٹنگ ہوجائے گی جو وائرس کو جسم کے اندر جانے سے روکے گی، جس سے اسے استعمال کرنے والا وائرل ذرات والی فضا میں سانس لینے کے باوجود بیماری سے بچ سکے گا، کیونکہ وائرس ناکارہ ہوجائے گا۔ ڈاکٹر رچرڈ نے بتایا کہ اس کی عام دستیابی کے لیے ہم بڑی کمپنیوں سے بات کررہے ہیں کیونکہ ہمارے خیال میں وہ زیادہ بہتر طریقے سے اسپرے کو لوگوں تک پہنچاسکیں گی۔ تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ روزانہ اس اسپرے کا استعمال عام لوگوں کو کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کافی ہوگا، یہ اسپرے اسکول جانے والے بچوں میں زیادہ مؤثر ثابت ہوگا جبکہ اسے بچوں اور بالغ افراد میں یکساں طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
urd_Arab
شام میں 30 سے زائد بچوں کی ہلاکتیں، دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے: یونیسیف– News18 Urdu شام میں 30 سے زائد بچوں کی ہلاکتیں، دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے: یونیسیف شام میں ہوئے بم دھماکہ کی فائل فوٹو: تصویر، یو این آئی۔ اقوام متحدہ ۔ 2018 کے پہلے ہفتہ میں شام کے مشرقی غوطہ میں ہونے والے تشدد میں 30 سے زائد بچوں کی موت ہو گئی۔ Last Updated : January 16, 2018, 13:01 IST اقوام متحدہ ۔ 2018 کے پہلے ہفتہ میں شام کے مشرقی غوطہ میں ہونے والے تشدد میں 30 سے زائد بچوں کی موت ہو گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں 2013 سے اب تک دو لاکھ بچے تشدد زدہ علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مغربی ایشیائی ممالک کے اقوام متحدہ بین الاقوامی چائلڈ فنڈ کے افسر نے یہ اطلاع دی۔ شام میں یونیسیف کے نمائندہ فرائن اكویزا نے اپنے بیان میں کہا "نئے سال کے موقع پر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں ، ایسے وقت میں شام میں والدین اپنے بچوں کی موت کے سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں''۔ انہوں نے کہا''یہ انتہائی شرمناک ہے کہ لڑائی کے تقریبا سات سال بعد بھی بچے جنگ میں جانیں گنوا رہے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی اسے دیکھ رہی ہے۔ شام میں اور پڑوسی ممالک میں لاکھوں بچے تشدد کی مار جھیل رہے ہیں''۔ یونیسیف کو مشرقی غوطہ سے اطلاع ملی ہے کہ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے زیر زمین دوز بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ہوئے تشدد کے دوران مشرقی غوطہ کے دو طبی مراکز پر حملہ ہوا۔ تشدد کی وجہ سے یہاں زیادہ تر طبی مراکز بند پڑے ہیں۔ مشرقی غوطہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں اسکولوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے جبکہ شام میں دیگر حصوں کے اسکولوں کے بچے ششماہی امتحان دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا'' ہمیں شام میں ضرورتمند بچوں کو فوری طور پر بغیر کسی روک ٹوک کے انسانی امداد پہنچانی ہوگی۔ جنگ میں شامل متحارب گروپ ایسا کر سکتے ہیں اگر وہ حقوق انسانی کے کارکنوں کو یہاں بچوں کی زندگیاں بچانے کی اجازت دیں۔
urd_Arab
ایڈورڈ اسنوڈن ان کا کہنا تھا کہ جب تک وہ واپس نہیں جاتے وہ روس سے اپنی سیاسی پناہ کی مدت میں توسیع کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔ امریکہ کے خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے راز افشا کرنے والے خود ساختہ مفرور جاسوس ایڈورڈ اسنوڈن نے کہا ہے کہ وہ امریکہ واپس آنا چاہتا ہے۔ امریکی ٹی وی چینل این بی سی سے اپنے پہلے انٹرویو میں اسنوڈن نے برائن ولیمز کو بتایا کہ وہ خود کو ایک محب وطن سمجھتے ہیں لیکن جب تک وہ امریکہ واپس نہیں جا سکتے وہ روس سے اپنی سیاسی پناہ کی مدت میں توسیع کرنے کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔ انھوں نے انٹرویو میں اوباما انتظامیہ کی طرف سے ان پر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ امریکی حکام انھیں ایک غدار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے این ایس اے کے نگرانی سے متعلق پروگرام کی معلومات افشا کر کے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ واپس جانے کے لیے کوئی معاہدہ کریں گے تو اسنوڈن کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ " ان (این ایس اے کے) پروگرامز میں اصلاحات کی گئی ہوں" اور اپنے پیچھے چھوڑ کر آنے والے ملک اور ان کے اہل خانہ کو ان کے اقدامات سے فائدہ ہو سکے۔ ینشنل سیکورٹی ایجنسی کی نگرانی کے پروگرام کی وسعت اور امریکی شہریوں کے بارے میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ ڈیٹا کو ظاہر کرنے پر امریکہ نے اسنوڈن پر چوری اور دو بار ملکی راز افشا کرنے کا الزم عائد کیا ہے۔ اس سے پہلے بدھ کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ اسنوڈن "بہادری دکھائیں" اور امریکہ واپس آ کر جاسوسی کے الزمات کا سامنا کریں۔ اسنوڈن نے ایک سال پہلے این ایس اے کے دنیا بھر میں جاسوسی مہم کے بارے میں خفیہ دستاویزات کو افشا کرنے کے بعد روس میں سیاسی پناہ لی تھی۔
urd_Arab
پی ایس ایل فائیو کے بقیہ میچز کا شیڈول جاری،شائقین کرکٹ کے لئے بڑی خوشخبری لاہور (کرکٹ نیوز پی کے) پاکستان سپر لیگ 2020 کے بقیہ میچ کرانے کا فیصلہ ہو گیا ،پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے بقیہ ملتوی ہونے والے میچز کی تاریخوں اور وینیو کا اعلان کر دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ فرنچائزرز سے طویل مشاورت کے بعد پی ایس ایل کے بقیہ چار میچ جس میں تین پلے آف اور ایک فائنل ہوگا کروانے کا فیصلہ ہو گیا ہے اب بقیہ میچ نومبر میں کھیلے جائیں گے۔پلے آف میچز 14 نومبر اور 15 نومبر کو کھیلے جائیں گے جبکہ فائنل 17 نومبر کو کھیلا جائے گا۔ کورونا کے باعث سارے میچ بائیو سیکیور ببل میں کرائیں جائیں گے اور تمام میچ لاہور میں کھیلے جائیں گے۔پی سی بی کا کہنا تھا ملک میں کورونا کے کیسز کافی حد تک کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ مقیہ میچ کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ مارچ میں کورونا وائرس کی وجہ سے پی ایس ایل کے بقیہ میچ ملتوی ہو گئے تھے،کچھ میچ شائقین کے بغیر بھی کھیلے گئے تھے لیکن پھر کھلاڑیوں کی صحت اور مہمان کھلاڑیوں کو بھی واپس جانا تھا کیوں کہ پوری دنیا میں فلائٹیں بند کرنے کا فیصلہ ہو رہا تھا جس کے باعث غیر ملکی کھلاڑیوں کو جانا پڑا تھا۔ پی ایس ایل کے بقیپ میچز کا سن کر شائقین کرکٹ خوش ہوگئے ہیں ۔پہلے یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ ٹیم کو چیمپئن قرار دیا جائے لیکن اس پر ملا جلا رجھان رہا اور سب بقیہ میچز کروانے پر زور دے رہے تھے۔
urd_Arab
فٹبال کے عالمی کپ کی کوالی فکیشن مقابلے : آسٹریلیا نے چائینیز تائی پے کو1۔5 اور شام نے گوام کو0۔3گول سے ہرا دیا فٹبال کے عالمی کپ کی کوالی فیکیشن کے مقابلے جاری ہیں۔آسٹریلیا نے چائینیز تائی پے ،شام نے گوام کو ہرا دیا۔ آسٹریلیا میں کھیلے گئےمیچ میں میزبان ٹیم نے چائینیز تائی پے کو ایک مقابلے میں پانچ گول سے شکست دی۔ ہیری۔سوٹر نے 11ویں منٹ میں گول کر کےآسٹریلیا کو برتری دلائی۔27ویں منٹ میں جیمی۔میکلارن نے پنالٹی کک پر گول کر کے آسٹریلیا کی برتری دگنا کی۔41ویں منٹ میں ٹرینٹ۔سینز بری جبکہ 46ویں منٹ میں مچل ڈیوک کے گولز نے آسٹریلیوی ٹیم کی برتری چار گول کر دی۔چائینز تائی پے نے اپنا واحد گول 62ویں منٹ میں کیا۔84ویں منٹ میں ڈیوک نے میچ کا آخری گول کرتے ہوئے آسٹریلیا کو چار گول سے فتح دلائی۔ ایک اور میچ میں شام نے گوام کو یکطرفہ مقابلے کے بعد تین گول سے مات دی۔گوام میں کھیلے گئے میچ میں شام کی طرف سے ماردک۔ماردکیان نے چھٹے منٹ میں پہلا گول کیا۔ تین منٹ بعد ماردکیان نے فٹبال کوایکبار پھر حریف ٹیم کے جال میں ڈال کر اپنی ٹیم کی برتری دگنا کی۔ کھیل کے اختتام سے چھ منٹ قبل محمود ۔ال۔ماوس نے میچ کا تیسرا اور آخری گول کرتے ہوئے شام کو فتح دلائی۔
urd_Arab
امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ پر پاکستان کا احتجاج رپورٹ میں الزام گیا تھا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت میں اب بھی شدت پسندوں کا 'درپردہ' استعمال کر رہا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت پاکستان کو اُس رپورٹ کے مندرجات پر شدید تحفظات ہیں پاکستان نے امریکی محکمہ دفاع کی اس رپورٹ پر احتجاج کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان افغانستان اور بھارت میں اب بھی شدت پسندوں کا 'درپردہ' استعمال کر رہا ہے۔ بدھ کو امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے اس بارے میں اپنی حکومت کی تشویش سے اُنھیں آگاہ کیا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت پاکستان کو اُس رپورٹ کے مندرجات پر شدید تحفظات ہیں جو امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے کانگریس کو بجھوائی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ مشترکہ مفاد میں امریکہ سے پاکستان کے تعاون کو دیکھا جائے تو رپورٹ میں دہشت گردوں کی موجودگی اور افغانستان و بھارت میں شدت پسندوں کے درپردہ استعمال سے متعلق لگائے گئے یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے بقول رپورٹ میں نامناسب بیان پر پاکستان کے احتجاج سے امریکی سفیر کو آگاہ کیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے الزامات اس موقع پر اس لیے بھی باعث تشویش ہیں کیوں کہ اس وقت حکومت پاکستان شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن میں مصروف ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن 'ضرب عضب' کو امریکہ سمیت عالمی سطح پر سراہا گیا کیوں کہ اس کے ذریعے کامیابی سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا گیا ہے اور یہ تمام شدت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کیا جا رہا ہے۔ بیان میں اس اُمید کا اظہار کیا گیا کہ اس معاملے کو درست پیرائے میں دیکھا جائے گا۔ امریکہ محکمہ دفاع کی طرف سے 'افغانستان میں سلامتی اور استحکام میں پیش رفت' کے نام سے جاری کردہ اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں 'پراکسی فورسز' یا درپردہ لڑنے والی طاقتوں کا استعمال اس لیے کر رہا ہے کیوں کہ وہاں اُس کا اثرورسوخ کم ہو رہا ہے۔ پاکستان اس سے قبل بھی ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ مہینوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی رواں ماہ امریکہ کا دورہ کرنا ہے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی سے متعلق اُمور میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی جائے گی۔
urd_Arab
مجھے جمعیت سے کیوں دلچسپی ہے؟ Dec 23, 2014 1:23 AM, December 23, 2014 ایوب منیر جمعیت کے قیام کو چھیاسٹھ برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں یہ طلبہ کی ملک گیر ، منظم ، باکردار ، اصول پسند اور علم دوست تنظیم بن کر سامنے آئی ہے ۔ اس تنظیم کا ایک دستور ہے ۔ اس میں باضابطہ طور پر انتخابات ہوتے ہیں ۔ فنڈز کے جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا نظام موجود ہے ۔اسلامی جمعیت طلبہ میں جو شخص ، اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کا جو نوجوان شامل ہوجاتا ہے وہ تحریراً اقرار کرتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول ہے ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ،علامہ اقبالؒ اور خرم مراد ؒکے خیالات و افکار سے جمعیت مسلسل استفادہ کرتی رہی ہے اور اس پر اسے فخر بھی ہے ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کئی نسلیں تیار ہوچکی ہیں کہ جنھوں نے بقائے پاکستان کی جنگ مشرقی پاکستان میںلڑی ہے افغانستان اور جموں و کشمیر کی تحاریک آزادی میں حصہ لیا اور اپنے خون سے یہ ثابت کیا کہ انھیں غیر ملکی استعمار اور غیروں کی خدائی پسند نہیں ہے ۔ جمعیت کے دستور میں یہ طے ہے کہ جمعیت کے کارکنان کسی سیاسی پارٹی کے آلہ کار نہ بنیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے جماعت اسلامی سے کئی بار اختلافات سامنے آئے ہیں ۔ اگرچہ پاکستان کے کسی بھی دینی و سیاسی لگائو سے جمعیت جماعت کے زیادہ قریب ہے ۔ جمعیت کا ایک مرکزی سیکرٹریٹ جہاں مختلف شعبے ہیں اور ان کے تمام اخراجات طلبہ اپنے جیب خرچ سے ادا کرتے ہیں ۔ تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں جمعیت کے دفاتر قائم ہیں ۔ جہاں شب بیداری ، درس قرآن ، مطالعہ قرآن و حدیث اجتماعی کھانے ، اسٹڈی سرکل وغیرہ کے ذریعے نوجوانوں کی علمی تربیت کی جاتی ہے ۔ جمعیت نے امت مسلمہ کے درد کو ہمیشہ محسوس کیا ہے ۔ مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کا المناک واقعہ ہو ، لبنان پر اسرائیل کی ملٹری جارحیت ہو ۔ افغانستان و عراق میں امریکی فوجوں کے ہاتھوں معصوموں کا قتل عام ہو ، بھارت کے شہروں ، ایودھیا ، احمد آباد ، علی گڑھ، میرٹھ اور بھاگپور میں مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی ہو ، بوسنیامیں خون مسلم کی ارزانی ہو یا چیچنیا کے معصوم شہریوں پر روسی حکومت موت کا دائرہ تنگ کررہی ہو ۔ فلسطین میں حماس کی قیادت میں آزادی کی جدوجہد ہو یا اقوام عالم کے کسی بھی حصے میں ظلم و ستم ، جبر اور زیادتی ہو ، اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے، نعرے بلند کیے ہیں ، جلوس منعقد کیے ہیں ۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے دبائو کا نتیجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ کشمیریوں کی پیٹھ میں کئی بار خنجر گھونپا گیا ہے۔ وہ پاکستانیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پاکستانی حکمران انھیں نئے نئے راستے سجھارہے ہیں مظفر نعیم، شعیب نیازی اور نجانے جمعیت کے کتنے جاں نثار مقبوضہ کشمیر کی وادیوں میں دفن ہیں ۔ جن کی قبریں شہادت دے رہی ہیں کہ پاکستانی نوجوان ، جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے اور پاکستان کو سلامت رکھنے میں اپنا خون بہانے میں کبھی راہِ فرار اختیار نہ کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ، پاکستان کی نوجوان نسل کو اور اسلامی جمعیت طلبہ کو شادباد و شادمان رکھے ۔ آمین
urd_Arab
کارروان علم فائونڈیشن کے زیر اہتمام سکالرشپ ہولڈ رز کنونشن2018کا انعقاد کارروان علم فائونڈیشن کے زیر اہتمام "سکالرشپ ہولڈ رز کنونشن"2018کا انعقاد 19 مارچ 2018 (20:39) 2018-03-19 کاروان علم فائونڈیشن کے زیر اہتمام لاہور میں "اسکالرشپ ہولڈرز کنونشن "کا انعقاد کیا گیا -جس میں علمی و ادبی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کاروان علم فائونڈیشن کے بانی و سیکریٹری جنرل ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو چاہئے ریسرچ کوفروغ دیں اور طلباءکی کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ انہو ں نے کہا کہ میں خود پانچویں کلاس سے پی ایچ ڈی تک وظیفوں پر پڑھا ہوں اس لئے میں اس درد کو بہتر طور پر محسوس کرسکتا ہوں تقریب سے سینئر صحافیوں، ماہر تعلیم، سماجی شخصیات اوراساتذہ و طلبہ نے بھی خطاب کیا۔کنونشن کی صدارت سماجی کارکن و ماہر تعلیم احسان اللہ وقاص نے کی جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی سینئر کالم نویس و اینکر جاوید چوہدری تھے کنونشن میں چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان سے چار سو سے زائد طلبہ،ان کے والدین اور تعلیمی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ کاروان علم فاﺅنڈیشن کے بانی و سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے طلباءو طالبات سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس فاﺅنڈیشن کا آغاز دس ہزار روپے سر ہوا تھا محب وطن پاکستانیوں کے تعاون سے اب اس کے فنڈز کروڑوں روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ خصوصی طور پر گلگت بلتستان سے آئی طالبہ نگہت محسود نے پرجوش تقریر کی اور پشتوزبان میں شاعری بھی سنائی۔ باہمت معذور طلبہ نے اپنی روداد سنائی کہ کاروان علم فاﺅنڈیشن کے تعاون سے نہ صرف انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ آج وہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور ملک پاکستان کا سرمایہ بن چکے ہیں۔طلباءو طالبات نے اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں شعرو شاعری بھی سنائی اور شرکاءسے خوب داد سمیٹی۔ یاد رہے کہ اس کنونشن میں ملک بھرکے 36میڈیکل کالجز 49جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں سے طلبہ شریک ہوئے جس میں ایم بی بی ایس، ڈی فارمیسی ،ایم ایس سی ،ایم اے ،بی ایس انجینئرنگ ،بی ایس آنرز ،ایف ایس سی/ ایف اے کے طلبہ شریک ہوئے تھے۔ تقریب میں ایوب صابر اظہار، ندیم شفیق،خالد ارشاد صوفی، طیب اعجاز قریشی، ذوالفقار راحت، گل نوخیز اختر، شاہد نذیر چوہدری، نوید چوہدری، ندیم نظر،حبیب اکرم،افتخار مجاز،اسد اللہ غالب اور زابر سعید بدر نے بھی شرکت کی۔مہمانان گرامی، سینئرصحافیوں و کالم نگاروں کو کاروان علم فاﺅنڈیشن کی جانب سے تحائف و ایوارڈز بھی دیئے گئے جبکہ تقریب کے اختتام پر طلبہ کو بھی تعریفی سرٹیفیکٹس ارو تحائف دیئے گئے۔
urd_Arab
بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ قائد اعظم محمد على جناح کی زندگ مضمون: – Know Cliff قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ ۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔ آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوئے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے ۔ آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔ ۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ ہندوستان واپسی کے بعد جناح صاحب نے ممبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوام یعنی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی۔ جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔
urd_Arab
قربانی سے پہلے ناخن اور زیر ناف بال کاٹنا کیسا ہے؟ - Bnb NewsBnb News قربانی سے پہلے ناخن اور زیر ناف بال کاٹنا کیسا ہے؟ ایک سوال ہے کہ ایک عورت نے چار سال پہلے عمرہ کیا اس کو پتہ نہیں تھا اس نے نقاب لگائے رکھا؟ بہتر دم دیدیں۔ ایک سوال ہے عمرے کے بعد نہانا ضروری ہے؟ عمر ے کے بعد نہانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ پتہ نہیں کیوں یہ مسئلہ پوچھتے ہیں۔ عمرے کےبعد نہانےکا کیا مطلب ہے؟ ایک سوال ہے کہ عمر ے سے پہلے تلبیہ بھول گیا؟ پھر تو عمرہ بھی نہیں ہوا۔ تلبیہ پڑھنا تو لازمی ہے۔ایک سوال ہے کہ میرے والداور والدہ آٹھ دس سال سے ناراض ہیں؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ آپ بھی دو رکعات نما ز پڑھ کر ان کی ہدایت کےلیے دعا کریں۔ ایک سوال ہے کہ بھینسے کی قربانی کرنا بالکل جائز ہے؟قربانی جسے ہم سنت ابراہیمی کہہ رہے ہیں سنت تو کہہ رہے ہیں ۔ اور کیا ہے سنت ہے۔ایک سوال ہے کہ زیر ناف بال کاٹنے لازمی ہیں؟ زیرناف بال جو ہیں ان کی صفائی حج پر جانے سےپہلے لازمی ہے۔لیکن جس نے قربانی کرنی ہے۔ اس کے لیے بہترہوتا ہے کہ وہ نہ کرے۔ حدیث شریف میں جو حکم ہے ان کے لیے جن لوگوں نے قربانی کرنی ہو۔ ان کےلیے افضل یہ ہے کہ یہ دس دن جو ہیں آپ حجامت وغیرہ نہ کریں۔ اور نہ کریں تو جائز ہے۔ایک سوال ہے کہ قضاء نمازیں کس طرح پڑھیں؟ قضا نمازیں جب بھی موقع ملے ادا کرو۔ مغرب کے بعد، عشاء کے بعد مکمل کر لو۔ایک سوال ہے کہ صبح نماز میں امام صاحب نےسجدے والی آیت پڑھی۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ ہم رکوع میں چلے گئے؟ اور جو رکوع میں چلے گئے ان کی بھی نماز ہوگئی ۔ جھک تو گئے ہیں ۔ایک سوال ہے کہ ایک عالم ہولیکن حق بات نہ کہے ؟ ایک حدیث میں آتا ہے۔ کہ آخر یہ گونگا ش یطان ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اس کو قیامت والے دن اس کو جہنم کی لگا م ڈالی جائے گی۔
urd_Arab
کیا ترمیمی ایکٹ 2021ء سٹیٹ بینک کے عہدیداروں کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے؟ - ڈیلی منافع صفحہ اول اہم خبریں کیا ترمیمی ایکٹ 2021ء سٹیٹ بینک کے عہدیداروں کو احتساب سے مستثنیٰ... کیا ترمیمی ایکٹ 2021ء سٹیٹ بینک کے عہدیداروں کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے؟ یہ کہنا درست نہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدیداروں کے معاملے میں نیب اور ایف آئی اے کا دائرہ اختیار نہیں ہو گا بلکہ صرف اتنی تبدیلی کی گئی ہے کہ کارروائی شروع کرنے کیلئے بینک کے بورڈ کی منظوری درکار ہو گی اسلام آباد: وزارت خزانہ کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء میں مرکزی بینک کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایک بیان میں وزارت خزانہ کے ترجمان نے سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ مجوزہ ایکٹ کے ذریعے سٹیٹ بینک کو کسی بھی ادارے، خاص طور پر ملک سے باہر، مالیاتی یا غیر مالیاتی نجی معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے لامحدود طور پر بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ معلومات کے تبادلے کے لئے بعض پروٹوکولز کی پیروی کی جاتی ہے۔ باہمی یاد داشتوں (ایم او یوز) کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ایک عام بین الاقوامی طریقہ کار ہے اور سٹیٹ بینک ملکی اور غیر ملکی ریگولیٹری اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے کے لئے مفاہمت کی دستاویزات پر اتفاق کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی معلومات کا تبادلہ مالیاتی اداروں کے ماتحت اداروں اور ان کے سمندر پار آپریشنز کی موثر نگرانی کیلئے ضروری ہے۔ یہ بھی پڑھیے: کابینہ نے سٹیٹ بینک کی انتظامی خودمختاری کا بل منظور کر لیا وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ ترامیم کے تحت وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد ہی سٹیٹ بینک کو ملکی اور بین الاقوامی نگران حکام کے ساتھ ایم او یوز دستخط کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بینک نے پہلے سے ہی وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد متعدد بین الاقوامی ریگولیٹری اداروں/مرکزی بینکوں کے ساتھ طویل المعیاد ایم او یوز اور اسی نوعیت کے انتظامات کئے ہیں۔ یاد رہے کہ 9 مارچ 2021ء کو وفاقی کابینہ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2021ء کے مسودے کی منظوری دیتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس بل کا جو مقصد بتایا گیا تھا وہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی آپریشنل اور انتظامی خود مختاری کو یقینی بنانا، اس کا دائرہ کار اور اختیارات کو بڑھانا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کے عہدیداروں اور عملے کے ارکان کو نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پر قانونی چیلنجز سے خسارہ جیسے نقصان یا دیگر مالی بوجھ کے خلاف تحفظ کی فراہمی مرکزی بینک کے قوانین میں عام بات ہے اور اسے بین الاقوامی طور پر بہترین عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی طرح سینٹرل بینک کے عہدیداروں اور عملے کی خود مختاری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کی دفعات دیگر ملکی قوانین میں بھی موجود ہیں۔ مزید برآں متعدد مرکزی بینکوں کے قوانین میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ مرکزی بینک کے جائزے یا منسوخی کے مقصد کے لئے اقدامات پر کسی عدالت میں کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمان نے بتایا کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، مالدیپ سمیت سارک ممالک اور دنیا بھر میں 20 سنٹرل بینکس کے قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ کیے جانے والے اقدامات پر سینٹرل بینکس کے سینئر عہدیداروں اور عملے کو قانونی تحفظ مسلمہ بین الاقوامی معیار و طریقہ کار ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے عہدیداروں کے معاملے میں نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کا دائرہ اختیار نہیں ہو گا بلکہ جو تبدیلی کی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ کارروائی شروع کرنے کے لئے سٹیٹ بینک کے بورڈ کی منظوری درکار ہو گی۔ ترجمان نے بتایا کہ مرکزی بینک سے متعلق 14 قوانین واضح طور پر حکومت کو سٹیٹ بینک کو ہدایات دینے کی ممانعت کرتے ہیں اس کا مقصد طے شدہ مقاصد کے حصول کیلئے ایک خود مختار قانونی فریم ورک کی فراہمی ہے۔ لہذا یہ دعویٰ گمراہ کن ہے کہ مجوزہ ایکٹ میں سٹیٹ بینک کو احتساب سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ مجوزہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء سٹیٹ بینک کے مقاصد کو واضح اور ان مقاصد کے حصول کے لئے بینک کو زیادہ جواب دہ بھی بناتا ہے۔ مجوزہ ترامیم میں احتساب سے متعلق ایک نئی شق شامل کی گئی ہے جس سے سٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ بنایا گیا ہے۔ اس شق کے تحت گورنر سٹیٹ بینک، بینک کے مقاصد و اہداف کی کامیابیوں، مالیاتی پالیسی، معیشت کی حالت اور مالی استحکام سے متعلق سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کا پابند ہے۔ مزید برآں احتساب کے عمل کے ایک حصے کے طور پر ضرورت پڑنے پر پارلیمنٹ سٹیٹ بینک کے کسی سینئر عہدیدار کو مدعو کر سکتی ہے۔ متعدد دوسرے سینٹرل بینکس نے بھی احتساب کے اسی طریقہ کار کو اپنایا ہوا ہے جس میں معیشت کی صورت حال کی رپورٹ پیش کرنے اور گورنر یا بینک کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کا پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونا شامل ہے۔
urd_Arab
کرپشن کی دیمک ہمیں کھا رہی ہے، مودی کا یوم آزادی پر خطاب | حالات حاضرہ | DW | 15.08.2015 بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں خبردار کیا ہے کہ بدعنوانی بھارت کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے عہد کیا کہ وہ کرپشن اور غربت کا خاتمہ کر دیں گے۔ بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر ملکی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی کے لال قلعے میں اپنی عوامی تقریر میں کہا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں غربت کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی حکومتی پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ترقی کے لیے بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے۔ مودی نے البتہ اس بارے میں کوئی اظہار خیال نہ کیا کہ ان کا اصلاحاتی پروگرام تعطل کا شکار ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے کہا، ''میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہماری قوم بدعنوانی سے نجات پا لے گی۔ ہم بدعنوانی کو ختم کر دیں گے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اعلیٰ قیادت سے آغاز کرنا ہو گا۔'' مودی کے بقول، ''بدعنوانی دیمک کی طرح ہے۔ یہ آہستہ آہستہ پھیلتی ہے، جو ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس کے خاتمے کے لیے درست وقت پر انجیکشن لگانے کی ضرورت ہے۔'' مودی نے آج پندرہ اگست کے روز اپنی تقریر میں بدعنوانی کے مسئلے کو ایک ایسے وقت میں موضوع بنایا، جب حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں بدعنوانی کے اسکینڈل عام ہو چکے ہیں۔ مودی کی اس ہندو قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والی وزیر خارجہ سشما سوراج کے علاوہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ کو بھی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ امر اہم کے کہ پارلیمان میں حکمران جماعت کو اپنے کئی اقتصادی منصوبوں پر مخالفت کا سامنا بھی ہے، جس میں نیشنل سیلز ٹیکس کا معاملہ بھی شامل ہے، جسے مودی کی انتظامیہ اقتصادی ترقی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتی ہے۔ بھارت میں اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح 7.5 فیصد ہے جبکہ ماہرین کے مطابق ملک میں غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اس رفتار میں تیزی لانا ہو گی۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں یہ عہد بھی کیا کہ ایک ہزار دنوں کے اندر اندر بھارت کے تمام دیہات کو بجلی کی فراہمی ممکن بنا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ''آزادی کے کئی عشروں بعد بھی بھارت کے اٹھارہ ہزار پانچ سو دیہات کو ابھی تک بجلی میسر نہیں ہے۔ میں سرکاری اور دیگر فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئندہ ہزار دنوں میں ان تمام علاقوں میں بجلی کی ترسیل کو یقینی بنائیں۔'' گزشتہ برس مئی میں بڑی کامیابی کے ساتھ اقتدار میں آنے والے مودی نے کہا کہ فی الحال بھارت میں غریب طبقہ اقتصادی ترقی کی نچلی سطح پر ہے اور کامیابی کے لیے اس نچلی سطح کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مودی کے بقول، ''اگر یہ (غریب طبقہ) بااختیار ہو جاتا ہے، تو ہمیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔'' یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی کی اس پہلی عوامی تقریر کے لیے شاندار اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن کی کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے منیش تیواڑی کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت پارلیمان کے اندر ہی بدعنوانی کے الزامات سے نمٹنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کے پاس اخلاقی حوصلہ نہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے عہدیداروں سے کہیں کہ ان الزامات کے پیش نظر وہ اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں۔ تیواڑی نے مودی کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ''مودی نے اپنی اس طویل تقریر میں عوام کو یہ نہیں بتایا کہ پارلیمان کا حالیہ سیشن رائیگاں کیوں گیا؟'' ترقی کے لیے بدعنوانی کا خاتمہ ضروری ہے۔ مودی نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک 'سینٹر فار پالیسی آلٹرنیٹیو' کے سربراہ موہن گُروسوامی کے مطابق مودی نے بدعنوانی کے مکمل خاتمے کا جو سنگ میل رکھا ہے، اس کا حصول ناممکن ہے۔ گروسوامی کہتے ہیں کہ بھارت میں بدعنوانی ایک وباء کے ماند ہے، جو نوکر شاہی نظام میں ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ حکومتی سطح پر کتنی بڑی بدعنوانی ہوتی ہے، بلکہ ان کا مسئلہ سڑک پر موجود ایک پولیس افسر کی طرف سے کی جانے والی یا دیگر عوامی دفاتر میں ہونے والی بدعنوانی ہے۔ بھارت کے نشریاتی ادارے ABP کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق ملک میں 59 فیصد عوام کا کہنا ہے کہ مودی نے حکومتی سطح پر بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کیے گئے اپنے انتخابی وعدے کو پورا نہیں کیا۔
urd_Arab
ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سےبین البراعظمی تعاون کا نیا دور شروع ہو رہا ہے.وزیراعظم نوازشریف | News and Views ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سےبین البراعظمی تعاون کا نیا دور شروع ہو رہا ہے.وزیراعظم نوازشریف بیجنگ: وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سرحدوں کا پابند نہیں اور اس منصوبے سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہو سکتے ہیں جب کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بین البرعظمی تعاون کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ چین میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ چین میں اس فورم کا انعقاد تاریخی موقع ہے، بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابیوں کا اعتراف کرنے کے لیے جمع ہیں، علاقائی روابط کیلئے چینی قیادت کے ویژن کے معترف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقائی روابط کے منصوبوں میں بے مثال سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بین البراعظمی تعاون کا نیا دور شروع ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ 3 براعظموں کو ملا رہا ہے، منصوبے سے ایشیا، افریقا اور یورپ کو آپس میں ایک دوسرے سے ملانے میں مدد ملے گی اوراس منصوبے سے دنیا کے 65 ممالک مستفید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شاہراہ ریشم کی یاد تازہ کرتا ہے، اس میگا پراجیکٹ کے تحت منصوبے نہ صرف غربت کے خاتمہ کا باعث بنیں گے بلکہ ان منصوبوں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ ہمیں آپس کے تنازعات کو جنم دینے کے بجائے تعاون کو فروغ دینا چاہیئے جب کہ یہ فورم رکن ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا بہترین موقع ہے جب کہ چائنا ریلوے ایکسپریس منصوبہ باہمی روابط کیلئے پل ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا سب سے اہم حصہ ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سرحدوں کا پابند نہیں ہے، یہ منصوبہ تمام ممالک کیلئے کھلا ہے اور اس سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہم ان منصوبوں کی مدد سے نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے تیزی سے مکمل کئے جا رہے ہیں اور پاکستان علاقائی روابط کے لئے ویژن 2025 پرعمل پیرا ہے۔
urd_Arab
سردار صغیر سمیت راولاکوٹ سے گرفتار تمام سیاسی اسیروں کو فوری رہا کیا جائے، جے کے ایل ایف برطانیہ سورج کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے فرانس اور یورپ میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی گئیں شاہ غلام قادر کے اعزاز میں عشائیہ‎
urd_Arab
ماہِ ربیع الاوّل؛ قومی و ملّی تقاضے۔۔محمدعباس شاد -مکالمہ انسانی تاریخ میں مسلمانوں کو جو عروج و رفعت ملی، وہ حضور اکرم ﷺ کی روشن تعلیمات، جماعت ِصحابہؓ کی جدوجہد، اولیاء اللہؒ کی انسان دوستی اور علمائے ربانیینؒ کی قربانیوں کی بدولت ملی۔ لیکن مسلمانوں کی موجودہ حالت ِزاراِن مقدس شخصیات کی روشن تعلیمات، جدوجہد، انسان دوستی اور قربانیوں سے بے گانگی اور لاتعلقی ظاہر کر رہی ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل ہر سال ہمیں نبی اکرمؐ کی مقدس تعلیمات کی یاد دِلاتا ہے، لیکن ہم اسے اپنی روایتی بے حسی کے سبب کچھ حاصل کیے بغیر گزار دیتے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی ولادت کی خوشی مسلمانوں کے لیے ایک فطری اور طبعی امر ہے، لیکن ہماری اجتماعی قومی حالت ِزار اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اس موقع پر نبی مکرمؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے حالات پر بھی سنجیدگی سے غور کریں۔ ۱۲؍ ربیع الاوّل کی آمد پر ہمارے نوجوان اور بچے گلی کوچوں اور چوراہوں پر راہ گیروں کا راستہ روک کر جشن ولادت منانے کے لیے زبردستی چندے مانگتے ہیں۔پیوند لگے کپڑے پہننے والے نبیؐ کے نام نہاد محب' گوٹوں کناریوں والے کرتے پہنے، مِسّی سرمہ لگائے نبیؐ کی شان بیان کرتے ہیں۔ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوکوں پیاسوں کو کھلانے پلانے والے نبیؐ کے نام پر پُرتکلف کھانوں کی دعوتیں اڑاتے ''عاشقانِ رسول'' ہیں۔ صادق و امین نبیؐ کے نام پر اپنی گلیوں، مکانوں، چوراہوں اور عمارات کو چوری کی بجلی سے برقی قمقموں کی سجاوٹ سے جگمگانے والے، گلیوں، بازاروں، چوراہوں اور عام شاہراہوں کو بند کرتے ہوئے مسافروں، مریضوں اور خلقِ خدا کو ذہنی و جسمانی کوفت پہنچا کر میلاد النبیؐ کے جلوس نکالنے والوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قوم کے اجتماعی اَخلاق کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محبوبِ خدا سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جیسا کہ آپؐ کا فرمان ہے: ''مجھے اس ذات کی قسم ہے، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوسکتا، جب تک کہ مَیں (ﷺ) اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔'' (بخاری) لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضے کیا ہیں؟ جس ملک میں سود کا نظام ہو، جہاں عدالتوں کے دروازوں پر لگے ترازو میں انصاف بکتا ہو، جہاں کی سیاست میں منافقت شامل ہو، مذہبی رہنما مخالفوں کے قتل کے حکم صادر کرتے اور نفرت کے فتوے بانٹتے ہوں، حکمران عوام کا خون چوستے ہوں، عوام کے آنگن میں بھوک اور افلاس ناچتے ہوں، حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں کمرتوڑ مہنگائی روز افزوں ہو، ایسے ملک میں نبی اکرمؐ کے ماننے والوں اور آپؐ کی عزت و ناموس کے محافظوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام دشمن اور نفرتوں کے نظام اور ماحول کو اسوۂ نبیؐ کی روشنی میں تبدیل کرنے کے لیے جزوی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اپنا کردار ادا کریں۔
urd_Arab
سشمیتا سین نے شیئر کی بوائےفرینڈ کی خاص تصویر : چوتھی دنیا : سشمیتا سین نے اپنے بوائے فرینڈ کی ایک اور تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے جس میں وہ کائوچ پر بیٹھے نظر آرہے ۔ بالی ووڈ ایکٹریس سشمیتا سین ان دنوں ماڈل روہمن شال کےس اتھ اپنے ریلیشن شپ کو لے کر سرخیوں میں ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ روہمن کے ساتھ فوٹیج بھی شیئر کرتی رہتی ہیں۔د ونوں کا پیار چرم پر ہے اور سشمیتا اسے کسی سے بھی نہیں چھپا رہی ہے۔ انہوںے اپنے بوائے فرینڈ کی ایک تصویر شیئر کی ہےجس میں وہ کائوچ پر بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ پچھلے کچھ وقت سے ششمیتا اور روہمن کی چرچا رہر طرف ہورہیہے سشمیتا نے انسٹاگرام پر ایک تازہ تصویر شیئر کی اور لکھا 'جب ہم اپنے ماضی اور مستقبل کو چھوڑ دیتے ہیں تو حال سامنے ہوتا ہے میں دیکھ رہی ہوں کہ تم مجھے دیکھ رہے ہو۔' کچھ دنوں پہلے سشمیتا نے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر تصویر شیئر کی تھی اور پیار بھرا کیپشن لکھا تھا اس سے پہلے پچھلے دنوں سشمیتا کے جنم دن پر روہمن نے ایک خاص تصویر شیئر کرتےہوئے اپنے پیار کا اظہار کیا تھا۔ معلوم ہو کہ سشمیتا نے اس سال کی دیوالی بھی بوائے فرینڈ روہمن کے ساتھ ہی منائی تھی تصویروں سے صاف ہے کہ بوائے فرینڈ کے ساتھ سشمیتا مضبوط ریلیشن شپ میں ہیں۔ فلموں کی بات کریں تو سشمیتا نے اپنے بالی ووڈ کیریئر کے دوران نایک، سمے، میں ہوں نا، بیوی نمبر1، کیونکہ میںجھوٹ نہیں بولتا اور فضا جیسی فلموں میں کام کیا
urd_Arab
جمعۃ المبارک' 13؍جمادی الثانی 1436ھ ' 3؍ اپریل 2015ء پٹرولیم کی قیمت میں اضافہ۔ برائلر، دالیں، سبزیاں مہنگی گڈز ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ گئے۔ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی ہوتی ہے اس وقت تو کہیں سے بھی کسی چیز کی قیمت میں کمی کا غلغلہ سنائی نہیں دیتا۔ اس وقت یہ ناجائز منافع کمانے والے عناصر چپ سادھ لیتے ہیں۔ مگر جیسے ہی چند روپے اضافہ کی اطلاع ملتی ہے۔ یہ سب مل کر گیڈروں کی طرح چلانے لگتے ہیں اور قیمتوں میں من مانا اضافہ کر لیتے ہیں۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ تیل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب سارا نزلہ غریبوں کے کچن پر گرے گا۔ جہاں چار دن کی چاندنی کے بعد پھر اندھیری رات کا دور شروع ہونیوالا ہے۔ دالیں، سبزیاں ہر گھر کے کچن کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں کیونکہ اب عام پاکستانی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسکے گھر میں دال یا سبزی کا رونق میلہ لگا رہے جس میں کبھی کبھی برائلر بھی اپنے کرتب دکھانے چلا آتا ہے۔ گوشت کو تو بھولے ہوئے انہیں عرصہ ہو گیا۔ وہ یہ صرف عید قربان پر ہی غریبوں کے دستر خوان کو زینت بخشتا ہے۔ یا پھر غریب غربا اسے دکانوں پر لٹکتا دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں اور آئندہ عید قربان پر ذبح ہونیوالے گائے اور بکروں کا تصور جی میں لا کر خوش ہوتے ہیں۔اب ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ناجائز منافع کمانے والے مافیا کو چھٹی کا دودھ یاد دلائے اور انکے گرد شکنجہ کسے' اور اشیائے خورد و نوش کی سرکاری ریٹ پر فراہمی کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب ''ایک پٹرول سب پہ بھاری'' پڑنے لگے۔اور بجلی و گیس کی طرح پٹرول بھی عوام کو سڑکوں پر آنے کیلئے اکسانے لگے۔ بارات جتنے منٹ لیٹ اتنے سو روپے جرمانہ، بھارتی گائوں کے پنچائیت کا فیصلہ۔ یہ ہوئی نہ بات وقت کی قدر کرنیوالے لوگ ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں ورنہ بھارت ہو یا پاکستان ہمارے ہاں شادی بیاہ کے علاوہ اب تو مرنے والے کے کفن دفن اور آخری رسومات کے موقع پر بھی گھنٹوں تاخیر کرنا فیشن بن چکا ہے۔ اگر ایسا ہی خوبصورت فیصلہ ہمارے ہاں بھی ہو جائے تو مزہ دوبالا ہو جائیگا۔یہ تو 10 بجے شادی ہال بند کرنے کے حکم کی مہربانی ہے کہ شادی کی تقریبات رات 10 بجے تک بادل نخواستہ ختم کرنا پڑتی ہیں۔ مگر جو لوگ گھروں میں یہ تقریبات منعقد کرتے ہیں یا نجی فارم ہائوسز میں وہاں تو وہی پہلے والے دن اور پہلی والی راتیں ہوتی ہیں۔ہر کام میں تاخیر کرنا عادت بد کی طرح ہمارے معاشرے میں رچ بس گیا ہے۔ کارڈ پر ہو یا زبانی یاددہانی مقررہ وقت کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ تقریب میں جانیوالے لوگ اس وقت تیار ہونا شروع کریں یا گھروں سے روانہ ہوں۔ باقی سب تو چھوڑیں۔ خود میزبان بھی اپنے دیئے وقت کی پابندی نہیں کرتے اکثر وقت کے پابند لوگ جب مقررہ وقت پر شادی ہال پہنچتے ہیں تو وہاں ہو کا عالم طاری ہوتا ہے اور مہمان کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اب ہمارے ہاں بھی اگر مقررہ وقت سے تاخیر پر آنے والوں پر جرمانہ عائد کر دیا جائے تو بہت سے گم راہ' راہ راست پر آ سکتے ہیں۔ چودھری نثار کی نواز شریف سے ناراضگی کی افواہیں۔ یہ وزیر داخلہ اور وزیراعظم کی ناراضگی بھی ماں بیٹی کی ناراضگی محسوس ہونے لگی ہے۔ بچوں کی طرح بات بات پر ناراض ہونے کی عمر اب میاں صاحب کی ہے نہ چودھری صاحب کی۔ یہ دونوں ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ ہاں اگر دل لگی مقصود ہے تو پھر یہ روٹھنا اور منانا تو یاروں دوستوں میں چلتا رہتا ہے۔ ایسی باتوں کے لئے ہی کسی نے کیا خوب کہا ہے…؎ یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا یہ چھوٹی چھوٹی باتیں دل لبھانے والی ہوتی ہیں۔ مگر مخالفین اس پر بھی ایسی شُرلیاں چھوڑتے ہیں کہ عوام کو لگتا ہے۔ چودھری صاحب اس بار نہیں مانیں گے اور حاسدین و مخالفین حکومت کے جانے کیلئے الٹی گنتی گننا شروع ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ کچھ نہیں ہوتا جو مخالفین نے سوچ رکھا ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ چودھری صاحب کو میاں صاحب سے شکایات ہیں یا میاں صاحب کو چودھری صاحب سے۔ وجہ جو بھی ہو اسے اچھے دوستوں کی طرح مل بیٹھ کر طے کرنا چاہیے۔ کیونکہ ''تم روٹھو اور میں منائوں ایسی تو کوئی بات نہیں''۔ سعودی عرب اور یمن کی طرح باہمی جنگ و جدال سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے اپنی پارٹی اور حکومت کو نقصان سے بچانے کیلئے نثار نواز بھائی بھائی کے نعرے کو فروغ دینا پڑے گا۔ ایک بار پھر امید ہے میاں شہباز شریف ریفری بن کر میدان میں کودینگے اور مقابلہ برابر قرار دے کر ختم کرائیں گے۔ کرپشن کے باعث معاشرے پر سستی طاری ہوئی ہے۔ صدر ممنون حسین۔ محترم صدر کے ان خیالات سے ہم اتفاق نہیں کرتے کیونکہ اس وقت معاشرے میں جاری تیز رفتاری، چستی اور چہل پہل اس کرپشن کی کرامت ہی تو ہے۔ اگر کرپشن سے سستی طاری ہوتی تو کرپٹ افراد کاہل ہوتے مگر جناب ایسا ہرگز نہیں بلکہ جو کام سست رفتاری اور کاہلی کی نذر ہو رہا ہے اس کام میں کرپشن کا پرزہ فٹ کر دیں پھر دیکھیں وہ کام کیسے پھرتی اور تیز رفتاری سے گھنٹوں نہیں منٹوں میں ہو جاتا ہے۔ یہ ساری پھرتی اسی کرپشن کے سبب اس تن مردہ میں نئی جان پھونکتی ہے اور کرپشن کی گنگا میں ڈبکی لگانے والے سست الوجود اور کاہل سے کاہل اشخاص جو سرکاری ہوں یا غیر سرکاری یکدم چاق و چوبند ہو جاتے ہیں۔ انکی پھرتیاں اور برق رفتاری قابل دید ہوتی ہے۔رہی بات معاشرے کی تو وہاں بھی جب یہ کرپشن کا مال گھروں میں آتا ہے بیوی بچے اور والدین کے جیب اور بٹوے نوٹوں سے بھر بھر جاتے ہیں تو ان کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے یہ سب بازاروں شاپنگ سنٹروں اور تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں کا کاروبار انہی کے دم سے چلتا ہے۔اگر کرپشن کی گہما گہمی اور رونق نہیں ہوتی تو یہ ہمارا معاشرہ بے رنگ اور پھیکا ہی رہتا کیونکہ رزق حلال کھانے والے ان عیاشیوں اور ٹھاٹھ باٹھ کا تصور بھی نہیں کر سکتے وہ البتہ اپنی سعد عادات کی وجہ سے خود بھی کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں اور معاشرے کو سست رفتار بنانے کے طعنے سہتے ہیں۔
urd_Arab
جاوا کے ساتھ ایچ ٹی ایم ایل ٹیبل کیپچر جاوا کے ساتھ ویب سائٹس سے ایچ ٹی ایم ایل ٹیبلس پر قبضہ کریں ایچ ٹی ایم ایل ٹیبلز کو تبدیل کرنے کے متعدد طریقے ہیں into JSON ، CSV اور ایکسل اسپریڈشیٹ استعمال کریں GrabzIt کا جاوا API، کچھ مفید تکنیک یہاں تفصیلی ہیں۔ تاہم ، اس سے پہلے کہ آپ فون کریں ، یاد رکھیں URLToTable, HTMLToTable or فائلٹوٹوبل طریقوں Save or SaveTo میز پر قبضہ کرنے کے ل method طریقہ کو بلایا جانا چاہئے۔ اگر آپ جلدی دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ خدمت آپ کے لئے ٹھیک ہے یا نہیں ، آپ کوشش کر سکتے ہیں HTML ٹیبلوں پر قبضہ کرنے کا براہ راست ڈیمو ایک URL سے۔ اس کوڈ کا ٹکڑا کسی مخصوص ویب صفحے میں پائے جانے والے پہلے HTML ٹیبل میں تبدیل ہوجائے گا into CSV دستاویز۔ پہلے سے طے شدہ طور پر یہ پہلا جدول جس میں اس کی شناخت ہوتی ہے اسے تبدیل کردے گا intOA میز. تاہم ویب پیج میں موجود دوسری ٹیبل کو 2 پاس کرکے تبدیل کیا جاسکتا ہے setTableNumberToInclude کا طریقہ TableOptions کلاس. آپ کو بھی استعمال کر سکتے ہیں setTargetElement اس بات کا یقین کرنے کا طریقہ کہ مخصوص عنصر کی ID کے اندر صرف ٹیبلز کو تبدیل کیا جائے گا۔ متبادل کے طور پر آپ ویب پیج پر سارے ٹیبلز پر درست ہو کر قبضہ کرسکتے ہیں setIncludeAllTables طریقہ ، تاہم ، یہ صرف XLSX اور JSON فارمیٹس کے ساتھ کام کرے گا۔ یہ آپشن تیار کردہ اسپریڈشیٹ ورک بک میں ہر ٹیبل کو ایک نئی شیٹ میں ڈالے گا۔ GrabzIt ویب پر پائے جانے والے HTML جدولوں کو JSON میں تبدیل بھی کرسکتا ہے ، بجائے اس کے بجائے JSON فارمیٹ کی وضاحت کریں۔ مثال کے طور پر ذیل میں اعداد و شمار کو بیک وقت پڑھا جاتا ہے اور بطور a GrabzItFile کا استعمال کرتے ہوئے اعتراض SaveTo طریقہ ، تاہم عام طور پر یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ آپ یہ کریں متفقہ طور پر. جب تبادلہ مکمل ہوجائے toString JSON حاصل کرنے کے ل method طریقہ کو کہا جاتا ہے string، اس کے بعد لائبریری جیسے تجزیہ کرسکتے ہیں گوگل گوسن. آپ کو ایک کسٹم شناخت کنندہ پاس کرسکتے ہیں ٹیبل جیسا کہ ذیل میں دکھایا گیا ہے ، اس کی قیمت آپ کے GrabzIt جاوا ہینڈلر کو واپس کردی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کسٹم شناخت کنندہ ایک ڈیٹا بیس شناخت کنندہ ہوسکتا ہے ، جس سے اسکرین شاٹ کو کسی خاص ڈیٹا بیس ریکارڈ کے ساتھ وابستہ کیا جاسکتا ہے۔
urd_Arab
ٹیکس چوروں کی جنتیں کہاں کہاں، آکسفیم کی فہرست جاری | حالات حاضرہ | DW | 12.12.2016 ٹیکس چوروں کی جنتیں کہاں کہاں، آکسفیم کی فہرست جاری برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم نے ایک فہرست جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا میں ٹیکس چوروں کی جنتیں کہاں کہاں ہیں۔ آکسفیم کے مطابق بڑے کاروباری ادارے فراڈ کرتے ہوئے شہریوں کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پیر بارہ دسمبر کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں آکسفیم نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں 'ٹیکس چوروں کی جنت' کہلانے والے علاقے کارپوریٹ ٹیکس بچانے میں مدد کے معاملے میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں مختلف 'ممالک کو اُن اربوں ڈالر سے محروم کر رہے ہیں، جنہیں غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے'۔ اس فہرست میں یوں تو اور بھی بہت سے نام شامل ہیں تاہم برمودا، کے مَین آئی لینڈز، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، آئر لینڈ اور لکسمبرگ کو 'بد ترین ٹیکس ہیونز' قرار دیا گیا ہے۔ اس فہرست کی تیاری کے سلسلے میں جن سوالات کو بنیادی اہمیت دی گئی، وہ یہ تھے کہ مختلف ممالک تباہ کن ٹیکس پالیسیاں متعارف کروانے مثلاً کارپوریٹ ٹیکس کی شرح صفر پر رکھنے، غیر منصفانہ اور غیر پیداواری ترغیبات دینے اور ٹیکس چوری کے انسداد کے لیے سرگرم بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے فقدان کے معاملے میں آخر کس حد تک جا سکتے ہیں۔ آکسفیم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اُس کی تیار کردہ فہرست میں چوٹی کی پوزیشنوں پر موجود ممالک بڑے بڑے اسکینڈلز میں ملوث ہیں۔ اس سلسلے میں آکسفیم نے آئر لینڈ کی مثال دی ہے، جس کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے شعبے کی ممتاز امریکی کمپنی ایپل کے ساتھ ٹیکس کے معاملے پر ڈِیل دنیا بھر میں شہ سُرخیوں کا موضوع بنی تھی۔ اس ڈِیل کے تحت اس ادارے کو انتہائی کم شرح یعنی صرف 0.005 فیصد کے حساب سے کارپوریٹ ٹیکس دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ آئر لینڈ کے ساتھ ہونے والی ایک ڈِیل کے تحت امریکی ادارے ایپل کو انتہائی کم شرح یعنی صرف 0.005 فیصد کے حساب سے کارپوریٹ ٹیکس دینے کے لیے کہا گیا تھا آکسفیم کی ٹیکس پالیسیوں سے متعلق خاتون مشیر ایسمی بیرک ہاؤٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'کارپوریٹ ٹیکس کی بچت میں مدد دینے والے خطّے ایک ایسے خطرناک حد تک غیر مساوی اقتصادی نظام کے فروغ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، جس کے باعث کروڑوں انسانوں کے لیے ایک بہتر زندگی کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں'۔ اس برطانوی امدادی ادارے نے کہا ہے کہ ملٹی نیشنل یا کثیرالقومی کارپوریشنز کی جانب سے ٹیکسوں کی چوری کے باعث غریب قومیں اپنے اُن وسائل سے محروم ہو رہی ہیں، جو 'اسکول نہ جانے والے 124 ملین بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے اور حفظان صحت کی ایسی سہولتوں کو ممکن بنانے کے لیے کافی ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہر سال کم از کم چھ ملین بچوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جا سکتا ہے'۔
urd_Arab
عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے ۔فرخ نسم وفاقی وزیر قانون – Roshan Pakistan News عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہوسکتی ہے ۔فرخ نسم وفاقی وزیر قانون اسلام آباد(اسٹاف رپورٹر )اپوزیشن نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق قانون سازی پر قومی اسمبلی میں شدید احتجاج کیا۔ اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا مسلم لیگ نواز کی زہرہ ودود فاطمی نے کورم کی نشاندہی کر دی ۔ اپوزیشن راہنما احسن اقبال نے کہا کہ آج معمول کی ایجنڈے پر اسی نکات کا شامل ہونا واضح ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اسی وجہ سے آج حکومتی ارکان کی تعداد بھی زیادہ ہے، لگتا ہے کہ کوئی خاص کام ہونے جارہا ہے، آج حکومت خاموشی سے اس ایوان سے بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کیلئے بل پاس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ میرا ضمیر اور میری جماعت اس قانون کے پاس ہونے کا الزام اپنے سر نہیں اٹھا سکتا، خاص طور پر کلبھوشن کے لیے مخصوص قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے، بھارتی جاسوس کے لئے قانون سازی کو ہماری نسلیں معاف نہیں کریں گی، کل تک کلبھوشن کا نام نہ لینا ایشو بنا لیا گیا تھا، ایجنڈے میں ایسے ایشو شامل کئے گئے جو بڑا مسئلہ بن جائیں گے، ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس مقدس ایوان میں جاسوس کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے، حکومت کس طریقے سے یہ قانون سازی کر رہی ہے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ احسن اقبال آپ جو بات کر رہے ہیں وہ بھارت چاہتا ہے، میں سمجھتا ہوں آپ نے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نہیں پڑھا، اور اگر پڑھ رکھا ہے تو مجھے بہت حیرت ہے کہ آپ یہ بات کر رہے ہیں، اگر ہم یہ قانون نہیں لے کر آئیں گے تو عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، میں آپکے سامنے یہ سارا فیصلہ پڑھ دیتے ہوں جس کا پیرا 146 یہ ہے کہ کلبھوشن کو پھانسی دینے کے فیصلے کو ریویو کرنا پڑے گا، یہی وہ قانون ہے جو فیصلے پر نظرثانی کو یقینی بنائے گا۔ پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر محترم نے اعتراض کیا کہ کورم کیوں پوائنٹ آؤٹ ہوا، اسلیے کہ تمام بل بغیر پڑھے ارکان سے پاس کروائیں گے، اس طرح کارروائی بلڈوز ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھی، یہ بل نہ حکومتی ارکان نے پڑھے نہ اپوزیشن نے پھر بل پاس کرکے کس کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے ۔رانا تنویر حسین نے کہا کہ جس طرح دوروز قبل 10 بل ایک ہی روز میں منظور کرلیے گئے، اتنی جلدی اتنے بل منظور کرنا چاہتے ہیں جیسے بجٹ کے بعد آپ نے الیکشن میں جانا ہو، قائمہ کمیٹیاں غیر موثر ہوچکی ہیں۔
urd_Arab
پاکستان ہو یا امریکہ یا یورپی ممالک جہاں بھی جمہوری نظام قائم ہیں سیاست داں اب کرونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی اور معاشرتی مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وہ سیاست داں جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ بقول ان کے، کرونا وائرس سے نمٹنے میں حکومتوں کی ناکامی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ان کی سیاسی مہموں کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ سیاست کے ماہروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ اس وبا سے نمٹنے اور اس کے نتیجے میں عام لوگوں کے واسطے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے جتنا اور جو کچھ ہونا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو سکا۔ لیکن، اوّل تو سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ فوری طور پر یہی کچھ ہو سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ مخالفین بھی حکومتوں پر نکتہ چینی کی تکرار کے علاوہ کوئی قابل عمل متوازی حل نہیں دے سکے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سیاستدانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے صورت حال کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو اس بارے میں خلوص نیت سے آگاہی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب سازشی نظریہ خاص طور سے سوشل میڈیا پر اتنی زیادہ پیش کیا جا رہا ہے کہ عوام کنفیوژ ہو کر رہ گئے ہیں کہ کس کی سنیں اور کس کی مانیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سیاست دان وقتی طور پر کچھ مقاصد حاصل کر لیں گے، لیکن طویل المدت مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔ وقت اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھ کر اور مل جل کر آنے والے وقت سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہئیے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ امریکہ میں یہ صدارتی انتخاب کا سال ہے اور گزشتہ کئی صدارتی انتخابات سے یہاں معیشت اور اندرونی حالات صدارتی انتخابی مہموں کا مرکزی موضوع رہے ہیں اور صدر ٹرمپ نے اپنی اس پہلی مدت صدارت میں معیشت کو بہتر بنایا۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بہت زیادہ کمی ہوئی اور ان کی پارٹی یہ ہی توقع کر رہی تھی کہ معیشت کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل ہوگی۔ لیکن، کرونا کی اچانک وبا، لاک ڈاؤن اور معاشی بد حالی اور بے روزگاری کی آسمان سے باتیں کرتی شرح کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ اپوزیشن کی ڈیموکریٹک پارٹی صدر ٹرمپ کے انداز پر کوئی تین ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج لارہی ہے اور جس کی سینیٹ میں منظوری مشکوک ہے، کیونکہ وہاں ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ بقول ممتاز تجزیہ کار مسعود ابدالی کرونا کے سبب پیدا ہونے والے عام آدمی کے مسائل کو اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے پیکیج میں شہروں اور ریاستوں کے لئے ایک ہزار ارب مختص کئے ہیں، کیونکہ اس وائرس سے جو ریاستیں اور بڑے شہر متاثر ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ جو ریاستیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جیسے کہ نیو یارک ہے وہ اِنہیں بیل آؤٹ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اسی لئے معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے پر مصر ہیں کہ انتخاب کے سال میں معیشت بہتر ہو جائے تو ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست داں ہر معاملے پر سیاست کرتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ اس وقت سیاست کی جائے۔ اور یہی صورت حال پاکستان میں بھی دیکھنے میں آرہی ہے، جہاں وفاقی حکومت تو اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کرتی نظر آتی ہے، تاکہ لوگ معاشی بدحالی کا اتنا شکار نہ ہونے پائیں، جس کی توقع کی جارہی ہے، جبکہ اپوزیشن سخت نوعیت کے لاک ڈاؤن پر مصر ہے اور ممتاز پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ اصرار تو ہے لیکن کوئی قابل عمل متوازی حل اس کی جانب سے نہیں پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے پوائنٹ اسکورنگ کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اصل مسائل لفظی جنگ کے غبار میں چھپتے جارہے ہیں۔
urd_Arab
نوازشریف نےوفاداری کے جواب میں بے وفائی نہیں دشمنی نوازشریف نےوفاداری کے جواب میں بے وفائی نہیں دشمنی کی،چودھری نثار 03 جولائی 2018 (21:31) ویب ڈیسک:نوازشریف نے مجھ سے بے وفائی نہیں بلکہ دشمنی کی،مجھے اس کا جواب دینا آتا ہے لیکن جواب میرے حلقے کے ووٹرز دیں گے،سابق وزیرداخلہ چودحری نثار۔ راولپنڈی کے علاقے چکری میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثارعلی خان کا کہنا تھا کہ تقریر وہاں کی جاتی ہے جہاں لوگوں کو قائل کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں موجود لوگوں نے تو الٹا مجھے قائل کرلیا ہے کیوں کہ یہ غیرت مندوں کا علاقہ ہے یہاں لوگ پرچیوں سے نہیں ضمیر سے ووٹ دیتے ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ نوازشریف سے 34 سال وفاداری نبھائی، نوازشریف سے ایسی وفاداری نبھائی جیسے بھائی بھائی نہیں نبھا سکتا لیکن نوازشریف نے بے وفائی نہیں بلکہ مجھ سے دشمنی کی جب کہ مجھے اس کا جواب دینا ہے لیکن اس کا جواب میرے حلقے کے ووٹرز دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اگر سیٹ کی لالچ ہوتی تو چپکے سے ایک درخواست لاہور بھیج دیتا جب کہ عمران خان نے بھی کہا کہ نثار ہماری طرف آئیں ٹکٹوں کی لائن لگا دیں گے لیکن چودھری نثار نہ پہلے کبھی بکا ہے نہ آئندہ بکے گا۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میرا مقابلہ کسی وزیر یا ایم این اے کے حلقے سے نہ کریں بلکہ میرے حلقے کا مقابلہ نوازشریف ،شہبازشریف، زرداری، عمران خان کے حلقے سے کریں جب کہ میرے مخالفین کوئی نئے نہیں، یہ 8 سال مشرف کی وردی کے پیچھے آپ پرمسلط رہے لیکن اُس کے باوجود میں نے کسی کی خوشامد نہیں کی بلکہ اصولوں کی سیاست کی ہے۔
urd_Arab
مہدی ہجوانی 2019/07/13 فاریکس کرنسی کے جوڑے میٹا کوٹیز فاریکس ٹریڈنگ اور رسک میٹا کے پیچھے سوفٹویئر کمپنی ہےTradeپلیٹ فارم کے خاندان. نگارش توصیه نامه توسط علی ثنائی. بیکٹیریا اور مائکوز کی وجہ سے. مرضی کے مطابق تجارتی ٹولز اور مارکیٹ کی شکل دینے والی خصوصیات سے بھرے ہوئے ، کریپٹونوفا نے ان کاروباریوں کو نشانہ بنایا جو ایک سب شامل کرنے والے تجربے کی تلاش میں ہیں۔ بہرحال ، مطلوبہ تجارتی جوڑے ، کم فیس اور مناسب اوزار تلاش کرنے کی امید میں ایک دوسرے کے تبادلے سے دوسرے کے تبادلے میں تبدیلی کرنے سے یہ مزید کمی نہیں کرتا ہے۔ گریجویٹس کے لئے بہترین انٹری لیول فنانس نوکریاں. اور تم میں کون سی ذہانت غالب ہے؟ کیا آپ اس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں؟ مجھے آپ کی رائے میں دلچسپی ہے۔ آپ کا شکریہ! فاریکس اسکیلپنگ کس طرح کام کرتی ہے ،فاریکس ٹریڈنگ اور رسک کاپی کرنا وہ ہے جو زائرین کے ساتھ جوڑتا ہے ، اور انہیں اس بات پر یقین دلاتا ہے کہ وہ کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بیان کرکے یہ کرتا ہے کہ ایسا فاریکس ٹریڈنگ اور رسک کرنے سے وہ کیا حاصل کرسکتے ہیں۔ و هم مورد داد و ستد قرار می گیرد( اما نه به صورت یک کالای فیزیکی بلکه فقط از طریق خرید و فروش بهای دیجیتالی آن معامله می شود) بعلاوه سهام برخی شرکت های معروف مثل. پروبیٹ ایکسچینج میں ایک آبائی پروبیٹ ٹوکن (پی آر او) ہوتا ہے ، جو ایک معیاری Ethereum ERC-20 ٹوکن ہے۔ پروبیٹ کے وائٹ پیپر کے مطابق ، پی او بی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے: شراکت کا نام شراکت کا پتہ بنیادی کاروباری سرگرمی اور کاروباری کوڈ وفاقی آجر کا شناختی نمبر (EIN) تاریخ ہے کہ کاروبار شروع ہوا اکاؤنٹنگ کا طریقہ. فلاڈیلفیا فیڈرل ریزرو کے سینئر ماہر معاشیات ، جارج الیسنڈریا وضاحت کرتے ہیں کہ تجارتی خسارے فاریکس ٹریڈنگ اور رسک وسائل کی موثر مختصی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں: چین کو سامان اور خدمات کی پیداوار منتقل کرنے سے امریکی کاروباری اداروں کو تحقیق اور ترقی جیسی اپنی بنیادی صلاحیتوں کی طرف زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ قرض بھی ممالک کو زیادہ مہتواکانکشی اقدامات کرنے اور زیادہ سے زیادہ خطرات لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اگرچہ اب امریکہ اتنے سامان اور خدمات کی تیاری اور برآمد نہیں کرتا ہے ، لیکن اس ملک میں ایک جدید ترین چیز رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ، ایپل اپنے کارکنوں کو سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ، جدید ترین مصنوعات تیار کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم ادا کرسکتا ہے کیونکہ وہ بیرون ملک ممالک میں سامان کی پیداوار کو آؤٹ سورس کرتا ہے۔ زہر آلودگی سے ہونے والی بیماریاں. میرین کور کی طرف سے ہزنگ رسومات کو روکنے کی کوششوں کے باوجود بدقسمتی سے یہ عمل برقرار ہے۔ فوج ، بحریہ ، ایئرفورس ، اور کوسٹ گارڈ میں جب کہ طوفان پھوٹ پڑنے کا امکان ہے ، میرینز میں ہیزنگ کے طریقوں کو سب سے زیادہ سفاک ہونے کی شہرت حاصل ہے ، اور دیگر افراد کے مقابلے میں امریکی فوج کی اس شاخ کی ثقافت میں ہیزنگ زیادہ جکڑی ہوئی ہے۔ . عام تعلیم آبادی کے عمر گروپ کے مطابق مفادات اور مقاصد کی ایک وسیع کائنات کے ساتھ ساتھ فاریکس ٹریڈنگ اور رسک سماجی و سیاسی تناظر میں موجود ترقیاتی ضروریات کو شامل کرتی ہے۔ اسے مختلف طریقوں سے درجہ بند کیا جاسکتا ہے۔ آئیے سب سے اہم کو جانتے ہیں۔ بلومبرگ ٹرمینل کیسے کام کرتا ہے. کیریئر کی جھلکیاں / پروفائل / خلاصہ بیان (اختیاری) اسٹاک یا مالی مستقبل میں سرگرم یوم تاجر کمپنی کے آئی کیو ڈیٹا فیڈز کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ، جو صارفین کو بیک وقت 1،300 قیمتوں کا سراغ لگانے میں مدد فراہم کرتے ہیں ، اور پی ایم ایکس ، سافٹ ویئر جو تجزیات کے ساتھ قیمتوں کے اعداد و شمار کو جوڑتا ہے جو چھوٹی منڈی کی نقل و حرکت کو ٹریک کرسکتا ہے اور کئی پر ڈسپلے کو سنبھال سکتا ہے۔ ایک ساتھ میں مختلف مانیٹر ٹیلیونٹ ڈی فاریکس ٹریڈنگ اور رسک ٹی این کے پاس موبائل قیمتوں کا اطلاق بھی ہے۔ اگلی اسکرین پر ، کیمرہ فنکشن نمودار ہوگا ، جو آپ کے آلے کا ویب کیم آن کرے گا۔ اپنی شناختی ویب کیم کے سامنے رکھیں اور پر کلک کریں۔ تصویر لینے کے لئے اس کی تصویر کھنچوانا۔ د)شناسایی عقیق از نظر وزن مخصوص. یہ فیصلہ کرتے وقت کہ کون سا کرنسی جوڑا استعمال کریں ، ان ممالک کی ممکنہ اقتصادی صورتحال پر غور کریں۔ کراؤڈ فنڈنگ ​​ایک ایسا طریقہ کار ہے جہاں متعدد افراد کاروبار یا خیال کے ل for بہت کم رقم میں سرمایہ کاری ، قرضے یا تعاون کرتے ہیں۔ یہ رقم فنڈز کے مقصد کو پورا کرنے میں مدد کے فاریکس ٹریڈنگ اور رسک لئے مل جاتی ہے۔ ای ٹورو کمیشن اور فیسوں کی وضاحت. – اس کی ایک شکل ہے پوکر جہاں تمام شرط رکھی ہیں میں حقیقی پیسے. دونوں ، ایف ایم ای اے اور ایف ایم ای سی اے ، پیداوار کے عمل میں استعمال ہونے والے دو طریقہ کار ہیں ، اور ایف ایم ای اے اور ایف ایم ای سی اے کے مابین فرق میں بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کی توسیع ہے۔ مزید وضاحت کرنے کے لئے ، فیلور وضع اور اثرات کے تجزیہ (FMEA) اور ناکامی کے طریقوں ، اثرات اور تنقیدی تجزیہ (FMECA) دو طرح کی تکنیک ہیں جو کسی مصنوع یا عمل کے اندر مخصوص ناکامیوں یا غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور اصلاحی اقدامات انجام دینے کے ل the مسائل؛ اور ایف ایم ای سی اے ایف ایم ای اے کی ترقی ہے۔ یہ مضمون آپ کو ایف ایم ای اے اور ایف ایم ای سی اے کے درمیان فرق کا مزید تجزیہ پیش کرتا ہے۔ . ایسا کرنے کی پہلی چیز ڈیمو اکاؤنٹ کی کوشش کر رہی ہے. NinjaTrader.com پر، ویب سائٹ پر کلک کریں ٹریڈ فیوچرز یا ٹریڈ FX، آپ کے پسندیدہ مارکیٹ پر منحصر ہے. نیچے ڈومین اور ڈییمو اکاؤنٹ کے لئے معلومات کو بھریں. ایک حقیقی ای میل ایڈریس کا استعمال کریں تاکہ آپ لاگ ان کی معلومات، اور ان پٹ کینیڈا آپ کے ملک کے طور پر وصول کریں (یا اگر آپ کسی دوسرے ملک سے ہیں، اپنا اصلی ملک ان پٹ لہذا آپ کو مناسب معلومات کا پیکج مل جائے گا). منافع اور نقصان کے اکاؤنٹس کے نقصانات. غیر ملکی کرنسی مارکیٹ میں کسی مرکزی بینک کے ذریعہ کی جانے والی کوئی بھی کارروائی اس ملک کی معیشت کی استحکام یا مسابقت کو بڑھانے کے لئے کی جاتی ہے۔ سنٹرل بینک (کے ساتھ ساتھ قیاس آرائیاں کرنے والے) کرنسی کی مداخلت میں مشغول ہوسکتے ہیں تاکہ ان کی کرنسیوں کو سراہا یا فرسودہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ، مرکزی وسطی بینک طویل عرصے سے افطاری کے رجحانات کے دوران اضافی فراہمی پیدا کرکے اپنی کرنسی کو کمزور کرسکتا ہے ، جو اس کے بعد غیر ملکی کرنسی کی خریداری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ملکی کرنسی کو مؤثر طریقے سے کمزور کیا جاتا ہے ، اور عالمی مارکیٹ میں برآمدات کو زیادہ مسابقتی بناتا ہے۔
urd_Arab
عالمی سطح پر بچوں کے درمیان بھی ڈرامائی بے انصافی | حالات حاضرہ | DW | 28.06.2016 عالمی سطح پر بچوں کے درمیان بھی ڈرامائی بے انصافی دنیا بھر اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کم عمر بچیوں کی شادیوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اور 2030ء تک کروڑوں بچے ایسی بیماریوں سے مر سکتے ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے یہ باتیں اپنی آج منگل 28 جون کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی ہیں۔ اس سالانہ رپورٹ کے مطابق غریب بچوں کے پانچ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرنے کے امکانات متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں سے دو گُنا زیادہ ہیں۔ جبکہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے باعث غریب لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے امکانات دو گنا سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی باعث اس ادارے کی طرف سے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے غریب ترین بچوں کی مدد کے لیے زیادہ بھرپور کوششیں عمل میں لائی جائیں۔ یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جسٹن فورسِتھ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ''بعض بڑے چیلنجز جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں جیسے مہاجرین یا تارکین وطن، عدم مساوات اور غربت سے جڑے ہوئے ہیں۔'' فورستھ کے مطابق عدم مساوات کا خاتمہ ایسے بچوں کے حق میں ہے مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ مستقبل میں ایسے تنازعات کو روکا جائے۔ یونیسیف کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں کو تعلیم دی جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوسطاﹰ اگر ایک بچہ ایک برس کی اضافی تعلیم حاصل کرتا ہے تو بالغ ہونے پر اس کی کمائی 10 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی قوم میں نوجوان اوسطاﹰ ایک سال کی اضافی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس قوم کی غربت کی شرح میں نو فیصد تک کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یونیسیف کی اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں قریب 124 ملین بچے ایسے ہیں جو پرائمری یا لوئر سیکنڈری اسکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد 2011ء کے مقابلے میں دو ملین زائد ہے۔ یونیسیف کے پروگرام ڈائریکٹر ٹَیڈ چائبان نے نیویارک میں اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر بتایا کہ اگرچہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران بچوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے 'زبردست پیشرفت' ہوئی ہے تاہم اس پیشرفت کی تقسیم مساوی نہیں تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر دنیا کے ہر غریب بچے تک پہنچنے میں کامیابی نہ ہوئی تو اگلے پندرہ برسوں کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے انہتر ملین بچے ایسی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جائیں گے، جن کا آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جنوبی ایشیا اور افریقہ میں زیریں صحارا کے علاقے میں حالات خاص طور پر بہت خراب ہیں۔
urd_Arab
فاریکس کیسے کام کرتا ہے - اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے یوسف تیموری 2020/11/29 بنیادی تجزیہ فیس بک کی ویب سائٹ پر لنک کا استعمال کریں. - مهمترین موردی که برطبق حکم شرعی فارکس از سمت اسلام مورد اهمیت قرار دارد این است که در این معامله، عدالت از طرفین رعایت شده باشد یعنی جنس اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے یا خدمتی به اندازه واقعی آن به فروش رسد و به اندازه حقیقی آن هزینه دریافت شود. هر طرفی که این اندازه را رعایت نکند و در پی سود بیشتر اقدام به تغییر این قانون کند معامله از نظر اسلامی باطل است و باید خسارتی پرداخت شود. آبزرچ ، سیلجیرنٹ کے دلکش ویلش سمندری گاؤں میں واقع ایک ایوارڈ یافتہ جائیداد ایک حیرت انگیز ، ہم عصر ساحل سمندر ہے جس میں دو مکمل چوڑائیوں اور سانس لینے والے ابروسچ کے دلکش بندرگاہ اور کارڈیگن بے سے باہر کے نظارے سے بھر پور نظارہ ہے۔ پہاڑ کے پہلو میں تعمیر ، تین منزلہ پراپرٹی میں قدرتی سیڈم کی چھت اور بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جو قول پر زور دیتے ہیں ، جس سے سیلجینٹ کو ایک وسیع و عریض احساس ہوتا ہے۔ اوپن پلان پلانٹ رہنے کی جگہ کے ساتھ دو ماسٹر بیڈروم ، دو ڈبل کمرے اور چار این سوٹ باتھ روم شامل ہیں۔ ایک صاف ستھرا ، معاصر تھیم گھر پر راج کرتا ہے ، جس میں امریکی اخروٹ کی فرش جیسی سجیلا ٹچ اور جدید ترین راکو موڈ لائٹنگ سسٹم ہوتا ہے۔ بلکہ اُس سے اگر آپ ایڈوانس پیمنٹ بھی مانگے گے تو وہ آپکو بہ خوشی دے گا، جبکہ مستقبل میں اگر دوبارہ اس گاہک کو آپ کے پراڈکٹ/سروس کی ضروت ہوئی تو آپ سے تعلق کی وجہ سے آپ ہی سے رابطہ کرے گا اور اسی تعلق کی وجہ سے وہ اپنی دوستوں، عزیزوں وغیرہ میں بھی آپکی ریفرنس دے گا جب بھی کوئی آپکے پراڈکٹ/سروس کے متعلق بات کرے گا یا ایسی سیچویشن کے بارے میں بات کرے گا جہا ں پہ آپکا پراڈکٹ /سروس استعمال ہوتا ہے۔ کسی خدمت سے رکنیت ختم کرنا یا اپنے اکاؤنٹ کو غیر فعال کرنا ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔ کمپنیاں فعال طور پر آپ کو رخصت ہونے سے روکنے کی کوشش کریں گی۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ صفحات کی ایک سیریز کے نیچے قریبی اکاؤنٹ کو دفن کیا جائے۔ 3. اپنے اصلی / براہ راست میں رقم جمع کروائیں Olymp Trade اکاؤنٹ. سسٹمک رسک ، ایک رسک فیکٹر جو آپ کبھی بھی ختم نہیں کرسکتے ہیں ، پورٹ فولیو رسک میں مدد دیتے ہیں۔ سسٹمک رسک میں سود کی شرحوں ، کساد بازاری ، جنگ اور سیاسی عدم استحکام سے وابستہ خطرہ شامل ہے ، ان سبھی کمپنیوں اور ان کے حصص کی قیمتوں کے لئے اہم اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کی نوعیت سے ، یہ خطرے والے عوامل کسی حد تک غیر متوقع ہیں۔ اگرچہ آپ سود کی شرحوں کے طویل مدتی رجحان کا تعین کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں ، لیکن آپ اس کی پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ ان کی قیمت میں اضافہ یا کمی ہوگی۔ زیادہ تر معاملات میں ، اسٹاک مارکیٹ متوقع تبدیلی میں قیمت لگائے گی ، اس سے پہلے کہ انفرادی سرمایہ کار اس پر غور کرے۔ آپ کے اندراج کے طریق کا انتخاب کرنا. کسٹمر سروس سے رابطہ کریں اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی ایک کاپی ہاتھ میں رکھیں. فرشتہ کی سرمایہ کاری کو قبول کرنے کے اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے بارے میں سوچنے والے کسی بھی کاروباری شخص کے لئے یہ بات اہم ہے کہ سرمایہ کار اس معاملے میں پیسوں کے علاوہ کیا لیتے ہیں ، مثلا business کاروباری کاموں میں مہارت یا اچھے سپلائرز تک رسائی ، مثال کے طور پر۔ آپ یہ بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ فرشتہ سرمایہ کار کس طرح کے ساتھ کام کرنا چاہے گا کیوں کہ اس شخص کے اپنے متضاد خیالات ہوسکتے ہیں کہ آپ کے کاروبار کو چلانے کے طریقہ کار کو کس طرح سے چلنا چاہئے۔ جمنی اصطلاح کے سیاق و سباق پر منحصر ہے ، کے دو معنی ہیں۔ ایک نسبتا unc غیر متنازعہ ہے ، صرف ایک ایسے بروکر کا حوالہ دیتے ہیں جو اپنے کاروبار کو انجام دینے کے لئے دوسرے بروکر پر انحصار کرتا ہے۔ دوسری تعریف میں منفی مفہوم ہے ، ان بروکروں کا حوالہ دیتے ہیں جو مختلف اسکیموں کے ذریعہ اپنے مؤکلوں اور بازار کے دیگر شرکاء کا استحصال کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں. .فاریکس کیسے کام کرتا ہے اس کے باوجود ابتدائی، اس نظام کو دلچسپی ہو سکتی ہے. ایکسپرٹ آپشن 2 اکاؤنٹ کی اقسام ، ڈیمو اکاؤنٹ اور ایک… 2018 کی اسٹیٹ آف ورک پلیس ایمپوتھی رپورٹ کے مطابق ، بزنسولور نے پایا کہ جواب دہندگان میں سے 96 stated نے کہا کہ ہمدردی کمپنیوں کے لئے اپنے ملازمین کو کام کی جگہ پر مظاہرہ کرنا ایک لازمی قدر ہے ، لیکن 92 believe کا خیال ہے کہ ہمدردی کم کارکردگی کا مظاہرہ اور کم سمجھی جاتی ہے۔ ریپڈ سائیکلنگ سے مراد عارضے کے اندر الگ الگ اقساط کے نمونہ ہیں اور ضروری نہیں کہ ان اقساط سے وابستہ علامات۔ ایک بائپولر مریض کو تیز رفتار سائیکلنگ سے دو قطبی عوارض کی تشخیص کی جاتی ہے اگر وہ قریب 12 ماہ کے اندر چار یا زیادہ موڈ جھولوں کا سامنا کررہے ہیں۔ تیز رفتار سائیکلنگ میں ، عارضے میں مبتلا شخص ایک سال میں انماد یا افسردگی کی چار یا زیادہ اقساط کا تجربہ کرتا ہے۔ یہ دوئبرووی عوارض کے دوران کسی بھی موقع پر ہوسکتا ہے ، اور اس پر منحصر ہے کہ بیماری کتنی اچھی طرح سے چل سکتی اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے ہے۔ ویب ایم ڈی لکھتا ہے ، یہ ضروری نہیں ہے کہ اقساط کا مستقل یا غیر معینہ نمونہ ہو۔ اسٹاک مارکیٹ کی قیمت کیا ہے ،اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے موٹاپا بالغوں اور زیادہ وزن میں اضافے والے وزن میں کمی کے ساتھ وزن کم کرنے میں مدد دینے کے لcase لورکاسرین نے ایف ڈی اے کی منظوری حاصل کی تھی ، جن کو زیادہ وزن سے منسلک صحت کی پریشانی ہوتی ہے ، جیسے ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر اور بلند کولیسٹرول۔ منشیات پورے پن کے جذبات میں اضافہ کرتی ہے تاکہ کم کھانا کھایا جائے۔ یہ ایک گولی (بیلویق) اور ایک توسیعی ریلیز ٹیبلٹ (بیلویق ایکس آر) کی حیثیت سے دستیاب تھا۔ بالوں میں گرنے والے افراد میں وٹامن بی 12 کی کمی دیکھی گئی (15) بال پٹک کی بنیاد پر ، ہمارے پاس چھوٹے چھوٹے خون کی وریدیں ہوتی ہیں جو بالوں کے ہر تناؤ کی جڑوں سے جڑ جاتی ہیں۔ یہ خون کی رگیں بالوں میں آکسیجن لے جاتی ہیں ، جس سے بالوں کی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے اور بالوں کے گرنے سے بچ جاتا ہے۔ مواد کی مزید اقسام (جیسے پی ڈی ایف) اور میٹا ڈیٹا سے استفسار کریں کوئی نتیجہ نہیں پر کمی کرنے کیلئے مبہم ملاپ متعلقہ مشورے جیو سے متعلق مخصوص مشورے جہتی (ملٹی فلٹر) تلاش تیز استفسار پروسیسنگ استفسار کے ڈیٹا تک اصل وقت تک رسائی. جب کسی ملک کی برآمدات اس کی درآمد سے زیادہ ہوتی ہیں تو ، اس میں تجارت کا فاصلہ ہوتا ہے۔ جب برآمدات درآمد سے کم ہوتی ہیں تو اس میں تجارتی خسارہ ہوتا ہے۔ سطح پر ، سرپلس خسارے سے افضل ہے۔ تاہم ، یہ ایک حد سے زیادہ سادہ گمان ہے۔ تجارتی خسارہ فطری طور پر برا نہیں ہے ، کیونکہ یہ مضبوط معیشت کا اشارہ ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ جب سرمایہ کاری کے محتاط فیصلوں کے ساتھ مل کر ، خسارہ مستقبل میں مضبوط معاشی نمو کا سبب بن سکتا ہے۔ .فاریکس کیسے کام کرتا ہے طبق «فهرست کیفیت مرگ؛ رتبه بندی کشور‌ها در مراقبت های حمایتی و تسکینی» (The 2015 Quality of Death Index. Ranking palliative care across the world) که توسط بنیاد لیِن (Lien) و با همکاری سرویس اطلاعاتی موسسۀ اکونومیست (The Economist Intelligence Unit) در سال 2015 منتشر شده است، 80 کشور از جنبه‌های گوناگون مراقبت های حمایتی و تسکینی و کیفیت مرگ مورد ارزیابی قرار گرفته اند. جیسا کہ ڈس انفیکشن کے لئے مرکبات کے استعمال کے لئے ، یہ ان مصنوعات کو منتخب کرنے کے قابل ہے جس میں جراثیم کشی ، دھونے اور deodorizing اثر ہوتا ہے۔ مثالی طور پر ، ایجنٹ کو از سر نو تشکیل دینا اور محفوظ ہونا چاہئے ، لیکن پھر بھی اپنے تجارتی نتائج کو بہتر بنانے کے لئے ExpertOption کے اشارے وہ احاطے اور مریضوں دونوں کی حفاظت کے اپنے کام کو پورا کرتے ہیں۔ اس ترکیب کی ایک اہم خصوصیت اس میں غیر زہریلا ہونا ہے۔ کسی بھی صورت میں ، آپ کو فنڈز کو ان کی ہدایات کے مطابق استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ فلیکس شیئرز مارننگ اسٹار ایمرجنگ مارکیٹس فیکٹر ٹیلٹ (ٹی ایل ٹی ای) iShares MSCI ابھرتی ہوئی مارکیٹس کم سے کم اتار چڑھاؤ (EEMV) ایس پی ڈی آر ایس اینڈ پی ایمرجنگ مارکیٹس ڈیویڈنڈ (EDIV) وزڈ ٹری ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اعلی منافع (ڈی ای ایم) لنگڑے کاکروچ سے شیخ سعدی تک.
urd_Arab
پاکستان نے سفری پابندیاں‌ عائد کردیں، مسافروں کا داخلہ مکمل بند کراچی(ویب ڈیسک)نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی تجویر پر ڈائریکٹر فضائی ٹرانسپورٹ نے کیٹیگری سی میں شامل ممالک کے مسافروں کی آمد پر مکمل پابندی عائد کردی۔کرونا وائرس کی تیسری لہر اور بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) نے بیرونِ ملک سے آنے والے مسافروں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔این سی او سی کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کے پیش نظر ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ عرفان صابر نے پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کیا، جس میں ممالک کو تین حصوں (کیٹیگریز) میں تقسیم کیا گیا ہے۔کیٹیگری اے میں آسٹریلیا، چین، جاپان، سعودی عرب، نیپال، سری لنکا فجی مراکو اور ویت نام سمیت 20 ممالک شامل ہیں، جہاں سے آنے والے مسافروں کے لیے کرونا ٹیسٹ لازمی نہیں ہے۔
urd_Arab
بازیچہ اطفال » گھرکب آؤ گے صفحہ اوّل » تاریخ، سیاست اور پاکستان, دینیات کی کتاب سے, کاشف نامہ مصنف: کاشف نصیر وقت: ہفتہ، 2 اکتوبر 201029 تبصرے لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لئے شدید بے چینی میں تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارلسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارا فقید المثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری نشان راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔ انکے ہاتھوں میں ہار ہیں، انکے لبوں پر والہانہ پن ہے اور انکی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ خدا کی قسم ایسا استقبال آج تک کسی کا نہیں ہوا ہوگا، پرویز مشرف تم گھرکب آؤ گے، دیکھو یہ قوم کس طرح تمہاری منتظر ہے۔ استقبالیوں میں سب سے آگے جواں سال حسان اپنی دادی کے ساتھ کھڑا چچا جان سے خوش گپیوں میں مصروف ہے اور اسکی دادی کی پشت پر جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے آٹھ سو طلبہ و طالبات پھولے نہیں سما رہے۔ دائیں سمت پر کشمیر کے ایک لاکھ بیس ہزار کفن پوش اور بائیں سمت پر افغانستان اور قبائلستان کے ایک لاکھ مرد و زن۔ضعیف اکبر بگتی بھی نظر آرہے ہیں اور چھ ماہ کا سلیمان بھی، مرحومہ بے نظیر بھی ہیں اور درجنوں مقتول علماکرام بھی۔یہی نہیں لاہور سے علامہ اقبال بھی آئے ہوئے ہیں اور کرچی سے قائد اعظم و قائد ملت بھی۔ آخرپرویز مشرف تمہاری شخصیت اور کردار میں ایسا کیا خاص ہے جو عدم کے یہ مسافر بھی اپنی اپنی گوشہ نشینی چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور منتظر فردا ہیں۔ سنا ہے کہ ابھی وہ ہزاروں لوگ جو تم نے لاپتہ کردئے تھے کے اہل خانہ بھی تمہارا پوچھتے ہوئے آئیں گے اور وہ ہزاروں اسیران ملت جو گوانتانوبے اور بگرام کے زندان خانوں میں پابند سلاسل ہیں بھی تمارے منطقی انجام کی خصوصی دعائیں کریں گے۔ تمہارے ہجر میں فردا ڈاکڑ عبدالقدیر خان بھی سخت اضطرابی کیفیت میں ایک گلدستہ لئے اپنے لان کا چکر لگا رہے ہیں، ڈاکٹر شازیہ بھی امریکہ سے خصوصی طور پر ایک تحفہ لے کر تمہارے لئے آرہی ہیں اور چیف جسٹس اوف پاکستان بھی اپنے دو برسوں کی خوش گوار یادوں کا سرمایہ تمہارے قدموں میں بچھانے کے لئے بے چین ہیں۔لیکن پرویز مشرف تم گھر کب آؤ گے! تم نے نو برس تک پورے جاہ جلال کےساتھ اس قوم کی تقدیر پر اکیلا راج کیا، راج ایسا کہ بات زبان سے نکلے اور عمل پزیر ہوجائے۔ کونسا اختیار تھا جو ہاتھ میں نہیں تھا، کونسی طاقت تھی جو ساتھ نہیں تھی، کونسے وسائل تھے جو بروئے کار نہ لائے جاسکتے تھے۔ لیکن بے حیائی کے سیلاب، فکری انحطاط کے طوفان اور کشت و خون کی برسات کے علاوہ تمہارے اور کون سے کارنامے ہیں جو تم گنواو گے۔ تم نے اور تمہارے حورایوں نے اقصادی اور معاشی ترقی کے بڑے بڑے بت کھڑے کئے لیکن وہ صرف چند ٹھوکروں سے گر کر پاش پاش ہوگئے۔ آج پھر تم اس ملک کو اندھیرے سے روشنی کی طرف لانے کی بات کررہے ہو لیکن جب تمہارے نام کا سکہ چلتا تھا تو تم نے اس سمت میں کیا کیا تھا، کیا یہ بتانا پسند کرو گے کہ تم نے کتنے ڈیم بنوائے تھے، کتنی بجلی گھر لگوائے تھے، کتنے موٹر وے اور ہوائی اڈے بنوائے تھےاور کتنی صنعتیں لگوائیں تھیں۔ کیا تم نے شہد کی نہریں جاری کردی تھیں، کیا تم نے اسٹیل کو منافع بخش بنادیا تھا، کیا تم نے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا۔ نہیں تو تم نے کیا کیا، سوائے اس قوم کو پیچھے کی سمت لے جانے کہ۔ تم نے تو اس ملک کو بھارت اور بنگلا دیش سے بھی بیس سال پیچھے کردیا ہے۔کیا تعلیم کے شعبے میں جس رفتار ان دو ممالک نے پچھلی ایک دہائی میں ترقی کی اسکا نصف بھی یہ قوم دیکھ سکی،کیا آئی ٹی وی، توانائی اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں ہی انکا کسی سطح پر مقابلہ کیا جاسکا یا کیا علاج معالجہ اور صحت کی سہولیات میں ہی ان کو زیر کیا جاسکا۔ تم نے نو سال روشن خیالی اور جدت پسندی کے راگ الاپے لیکن کیا سائنس و ٹکنالوجی کے میدان کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ ہے جسے تم اپنی چھاتی پر سجا سکو۔ تم نے نو سال خوشحالی کے بلند بانگ نعرے لگائے لیکن متوسط طبقے کو لیز پر لی گئی گاڑیوں اور مکانات جن کے سود بھرنے سے اب وہ قاصر ہیں اور کیا ملا، کیا افراط زر کی شرح میں مجموعی طور پر سو گناہ اضافہ نہیں ہوا، کیا غریب غریب تر اور امیر امیر تر نہیں ہوگیا، کیا بے روزگاری اور خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ نہیں ہوا، کیا غیر ملکی قرضوں میں تین گنا اور ملکی قرضوں میں دو گنا اضافہ نہیں ہوا۔کیا ٹیکسٹائل کی صنعت برباد نہیں ہوگئی کیا پی آئی اے خسارے میں نہیں چلا گیا، کیا تم نے قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام من پسند افراد کو فروخت نہیں کردیا، کیا اسٹاک ایکسینج کی کساد بازاری میں بڑی مچھلیوں نے چھوٹی مچھلیوں کی زندگی بھر کا سرمایہ ہڑپ نہیں کرلیا، کیا برادر اسلامی ملک کو تاراج کرنے کے لئے جو امداد ملی اس میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بد انتظامی نہیں ہوئی اور کیا آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں جو ملکی و غیر ملکی امداد ملی اسے مال مفت دل بے رحم کی عملی صورت نہیں بنایا گیا۔ بے غیرتی اور منافقت کی اعلی مثال دینی ہو، تکبر اور گھمنڈ کے بت کھڑے کرنے ہوں، دین فروشی اور عہد شکنی کا پیمانہ دیکھانا ہو تو اس اکیسوں صدی میں تم سے بڑا عبداللہ بن ابی کون ہے۔ یاد کرو تم چور دروازے سے اقتدار میں آئے اور منتخب وزیر اعظم کو پاپند سلاسل کیا، عدلیہ پر شب خون مارا اور ایک ہی وار میں اسے ضمیر فروشوں سے بھر دیا، سودی بینکاری پر پابندی سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آیا تو اللہ سے کھلی جنگ چھیڑ دی، ریفریم ڈیم رچا کر صدر بنے اور پارلمینٹ کو اپنے کھیت کی مولی میں تبدیل کردیا، قوم سے وردی اتارنے کا عہد کیا لیکن عہد شکنی کی مثال بن گئے، محسن پاکستان کو اپنے اقتدار کی سولی پر چڑھا کر بے آبرو کیا، سینکڑوں مسلمانوں کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرکے کمال ڈھٹائی سے اپنی کتاب میں اعتراف جرم کیا، شوکت عزیز ایسے عالمی اداروں کے چاکروں کو ملکی معیشت تباہ کرنے کا ٹھیکہ دیا، تمام مکاتب فکر کی سخت مخالفت کے باوجود حدود اللہ میں ترامیم کی جسارت کی، قبائلی علاقوں میں امریکہ سے ڈرون حملے کرواکر محب وطن پاکستانیوں کو افواج پاکستان کے سامنے لاکھڑا کیا، بلوچستان میں ایک بزرگ سیاست دان کو قتل کروا کر بلوچوں میں محرومی کے جزبات راسخ کردئے، بھارت سے دوستی کے نام پر کشمیریوں کی آروزوں کا سودا کیا، لال مسجد میں آٹھ سو معصوم طلبہ و طالبات کے خون کی ہولی کھیلی اور عدلیہ نے سر اٹھایا تو اسے بری طرح کچلنے کے لئے آخری حد تک گئے۔ پرویز مشرف تمہارے کون کون سے جرائم بیان کروں، بس اتنا مت بھولنا کہ تم نے صدیوں ہمارا سکوں لوٹا ہے لیکن اب کی بار تمہارے لئے اقتدار کی کرسی نہیں پھانسی کا پھندا ہے۔ تمہارا معاملہ تو یوں ہے کہ رسی جل گئی لیکن بل ختم نہیں ہوئی، وہی اکڑ، وہی بدمعاشی اور وہی خود پر ناز۔ آج بھی خود کو خدا سمجھتے ہو، آج بھی خود کو عقل کل مانتے ہو اور آج بھی اپنے مخالفین کو گمراہ کہتے ہو۔بلوچستان اور فاٹا میں سورش اور ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام کیا تمہارا رچایا ہوا نہیں ہے اور معیشت کی یہ ڈوبتی کشتی اور مہنگائی کی یہ آگ کیا تمہاری لگائی ہوئی نہیں اور کیا یہ موجودہ انتہاپسندی اور دہشت گردی تمہارے دور کی ایجاد نہیں۔ آج تم این آر او پر معافی مانگ رہے ہو لیکن اسکے نتیجے میں جو چور اچکے حکمران ہوئے اسکا حساب کون دیگا۔ جو سرمایہ دارانہ معاشی پالیسی تمہارا ایک حواری بناکر گیا ہے اور جس کا مزا یہ قوم آج تک چکھ رہے ہیں اسکا جواب کون دیگا۔ تمہیں اس ملک سے رفوچکر ہونے پر کس نے مجبور کیا تھا اور آج تم گھر واپسی کی بات کررہے ہو تو کس نے روکا ہے۔ سنتے ہو لاکھوں کروڑوں لوگ ایک آس کی پیاس لئے شدید بے چینی میں تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے ہوائی اڈے سے دارلسلطنت تک ایک لمبی قطار بنا رکھی ہے کہ تمہارے فقید المثال استقبال کرسکیں۔ نوجوان سب سے آگے اور مستعد ہیں، بزرگ بھی تمہاری نشان راہ تک رہے ہیں اور بچوں کا بھی ایک جم غفیر ہے۔ انکے ہاتھوں میں ہار ہیں، انکے لبوں پر والہانہ پن ہے اور انکی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ خدا کی قسم ایسا استقبال آج تک کسی کا نہیں ہوا ہوگا، پرویز مشرف تم گھرکب آؤ گے، دیکھو یہ قوم کس طرح تمہاری منتظر ہے۔ 29 تبصرے برائے: گھرکب آؤ گے 3 اکتوبر, 2010 بوقت 8:36 شام بگٹی سے آج ہمدردی جاگی ہے۔ اپنے قبیلے کا مطلق العنان بادشاہ تھا- ظالم اور جابر بھی تھا۔ کئی قتل کر رکھے تھے نواب صاحب نے۔ اگر اپنی ضد میں حادثاتی موت مر گئے تو اپنا ہی نقصان کیا۔ جامعہ حفصہ میں اگر کچھ معصوم مارے گئے تو قصور ان مسلح باغیوں کا تھا ، نہ کہ پاک فوج کا۔ کون سا ملک اپنے دارالحکومت میں مسلح بغاوت برداشت کرتا ہے؟ ڈاکٹر قدیر صاحب نے جو کچھ کیا۔ لیبیا کے قذافی صاحب نے قبول کر لیا۔ اور ضیا کی حدود کو اللہ کی حدود مت کہیں۔ خدا کا خوف کریں۔ باالجبر زیادتی کرے والی عورت کو چار گواہ لانے کا مطالبہ کون سا انصاف ہے؟ مشرف کی واپسی کا پاکستان کو کم ہی فائدہ ہو گا۔ مجھے تو موصوف سے اتنا گلہ ہے کہ ملا سے دوستی انہیں بھی کرنی پڑی۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 1:15 صبح طرز تحریر دلچسپ ہے. ایسا لگتا ہے کہ "محبوب" کو خط لکھا گیا ہے. 😀 4 اکتوبر, 2010 بوقت 3:06 صبح محترم کاشف نصیر صاحب، دوسرا تبصرہ میں نے ارسال نہیں کیا۔ معلوم نہیں کسطرح شامل ہوا ہے۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 4:57 صبح بہت زبردست !! بہت پسند آئی یہ تحریر۔ میں نے کہیں اعلان کیا تھا۔اسے جوتا مارنے والے کو پچاس ہزار دوں گا۔ آپ نے اتنے سارے تیار کر لئے!!! عالم برزخ سے بھی انوائیٹ کر لئے۔ آج سے میں اپنا اعلان واپس لیتا ہوں۔ مالخولیائی دیوث کے چانٹے کو جوتے مارنے والے کو ہم کوئی پیسے نہیں دیں گے۔ ثواب حاصل کر نے کیلئے جوتے ماریں۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 9:20 صبح میں آپ کی کافی باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں۔ آپ یقینا گلاس آدھا خالی دیکھنے کے عادی ہیں۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 11:32 صبح لطف القادیان صاحب کی تکلیف سمجھ میں آتی ہے کیونکہ مشرف انکل اور حضرت گاما بی اے کا مشن ایک ہی تھا 4 اکتوبر, 2010 بوقت 11:54 صبح مُش صاحب کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اور میں تو یاسر صاحب کی طرف سے 50 ہزار کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ اب صرف ثواب کے لیے جوتا کاری۔ خیر اگر جوتا کاری کی کوئی چھوٹی موٹی فیس مقرر کردی جائے تو کثیر سرمایہ حاصل ہوسکتا ہے۔ جو کہ معیشت کو استحکام بخشنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ اور ہاں تحریر کی تعریف تو رہ ہی گئی۔ زبردست ہے۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 12:08 شام کاشف بھائي، آپ نےبہت خوب لکھاہے۔ اس میں کچھـ باتوں سےآپ سےاختلاف ہےکیونکہ ایک آدمی تواتناکچھـ نہیں کرسکتاان کاساتھـ دینےوالےسیاست دانوں کوبھی ساتھـ میں عبرت کانشان بناناچاہیےکیونکہ یہ جنرل ان سیاست دانوں کی بدولت ہی توہمارےکندھوں پرسوار ہوتےہیں۔ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 1:40 شام ماشاءاللہ بہت خوب لکھا ہے آپ نے کاشف۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بحثیتِ قوم اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اسی ظلم کرنے والے کو دوبارہ سر آنکھوں پر بھی بٹھاتے ہیں اور پھولوں کے ہار بھی پہناتے ہیں۔ ہمارے رہنما اگر غلطی سے کبھی پکڑے جائیں اور کرپشن کی سزا کاٹ جیل سے نکلیں تو ہمی عوام کا ایک جمِ غفیر ان کے استقبال کو باہر کھڑا ہوتا ہے اور کندھوں پر اٹھا کر زندہ باد کے نعرے لگاتا اپنے ووٹوں کے ذریعے دوبارہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا آتا ہے۔ مشرف نے جو کچھ پاکستان کے ساتھ کیا اس کے بعد واپسی کا تصور کرنا بھی مشکل تھا لیکن مشرف کو اپنی قوم کی سائیکی معلوم ہے۔ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اب بھی ہم لوگوں میں مشرف ازم کا حامی ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جو واپسی کی صورت میں ان انکل کو بھرپور سہارا دے گا 🙁 4 اکتوبر, 2010 بوقت 8:34 شام جو قوم زرداری کو صدر منتخب کر سکتی ہے اسے مشرف کیا چبھتا ہے؟ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 9:39 شام جمات کا نام -آل پاکستان مسلم لیگ ہے – منشورمیں ہے -تمام فیصلے قران اور سنت کے مطا بق ہونگے – یہ سنتے ہی – فلم سٹار میرا، عتیقہ اوڈو، لیلےٰ نے رکنیت کے فارم بھر دئے ہیں – بہت شکریہ 4 اکتوبر, 2010 بوقت 11:11 شام جفر صاحب، جماعت احمدیہ کا مشن مشرفوں، شریفوں، زرداریوں کی دنیا سےتعلق ہی نہیں رکھتا – بلکہ مودودیت، قطبیت، پرویزیت، دیوبندیت، بریلویت، وہابیت وغیرہ بھی دنیا کی سیاستیں ہیں۔ احمدیت اللہ تعالیٰ کے نظام کی جماعت ہے۔ خلافت حقہ کی ماننے والی ہے۔ آپ کو کیا سمجھ ان باتوں کی۔ 5 اکتوبر, 2010 بوقت 12:35 صبح کاشف بھیا بہت خوب… دل خوش ہو گیا تحریر پڑھ کر. لکھنے کا انداز واقعی بہت عمدہ ہے. آپنے اپنے حصے کے استقبال کا حق ادا کر دیا. الفاظ نہیں تعریف کیلئے….. یہ شروع کے تبصروں میں جو گند ہے کچھ سمجھ نہیں آیا. 5 اکتوبر, 2010 بوقت 1:49 صبح کاشف بھائی !- وہ یعنی بزدل جرنیل واپس آئے تو بہت سی ۔ باتاں۔ ہونگی۔ مشرف بے غیرت و ننگ وطن ننگ دین ننگ ملت تو تھا ہی مگر ابھی بھی پاکستای قوم میں بہت سے لوگ اسے سرسید کی طرح ملت کا زبردستی رہنماء منوانے پہ منافقانہ زور لگائیں گے۔ مرز غلام قادیان ملعون مطعون جو ٹٹی میں گر کر مر گیا تھا ۔ اس کذاب کی آخری قسط اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی پیٹھ پہ وار کرنے کے لئیے قادیان کے بانیوں نے اسی مشرف بزدل جرنیل کا انتخاب کر رکھا ہے۔جبکہ پوری قوم جرنیل کی نہ صرف مخالفت کرتی ہے بلکہ اس سے ۔حساب۔ صاف کرنا چاہتی ہے۔ تو ظاہری سی بات ہے قادیانیوں یعنی احمدیوں کے پیٹ میں مروڑ تو اٹھے گا۔ 5 اکتوبر, 2010 بوقت 7:21 شام کاشف صاحب نے تازہ تحریر کا زکر کیا اور دریافت فرمایا کہ ہم نے تبصرہ کیوں نہیں کیا؟ اصل میں تو ہم معمولی آدمی ہیں بھلا ہمارے کچھ کہنے سے کیا پونے لگا اور دوسری بات کہ بلاگس لکھنے والے اور تبصرے کرنے والے جو لوگ ہیں انکے ہی برادریوں والے ملک و ملت کو تباہ کرتے ہیں تو ایسی منافقانہ اور مگر مچھی ماحول میں کسی کی نصیحت کیا کام دے گی اپنے تبصرے میں عبداللہ ولد الطاف حسین کی خالہ اسماء نیشنل و وفادار پیرس فرانس کا تبصرہ مشرف پر پڑھنے کو ملا اور وہی ہم یہاں لگا کر پوچھنے والے تھے اب کیا فرماتے ہیں علماء بلاگرز؟ بدقسمتی سے وہ تبصرہ تلاش کرنے پر بھی نہ ملا غالباً بی بی سی پر دیکھا تھا حضرت کاشف نے کافی اچھا لکھا ہے مگر بات تب ہوگی جب دل اور بصیرت بھی الفاظ کا ساتھ دے صرف مشرف ٹٹو کی کیا حیثیت ہے؟ اسکے ساتھ جو تھے اور جو اسکو لائے تھے اور جن اقوام کا وہ تھا اصل مجرم تو وہی ہیں پہلے ملک کا طے کرلو کس کا ہے پھر دیکھیں گے. صاف شفاف ریفرنڈم کروالو جسکا ملک نکلا اسکو دے دیا جائے گا وہ اصل مالک اسکو کیسے چلانا ہے . اگر شیعوں کی اکثریت نکلی تو ملک انکا، قادریوں کی نکلی تو انکا، قادیانیوں کی نکلی تو انکا اور اگر کسی اور کی نکلی تو انکو دینا ہوگا اسلام کے نام پر دھوکا کیا گیا ہے، مسلم لیگ میں بے دین ، دین بیزار، شیعہ ، قادیانی اوپر بیٹھے تھے خون مسلمانوں کا استعمال ہوا اور اب تک دھوکا ہورہا یے مزید وقت لینے اور الو بنانے کو اب سپریم کوٹ نے نیا لبادہ لے لیا ہے فوج کل مسلمان بنی پھرتی تھی آج کل جام لٹاتی ہے اگر ملک میں ختم نبوت پر ایمان لانے والا ہی صدر بنتا ہے تو زرداری کیسے بن گیا؟ کوئی بتائے گا یا ہم بتائیں؟ دودو ہاتھ ہونے تک اب فیصلہ نہیں ہونے لگا اور مجرم کو سزا نہیں ملنے لگی جہاد سیف کا اور جہاد تبلیغ کا یہ دونوں جب عروج پر پہنچیں گے تو اس بات کا تصفیہ ہوگا اور ملک بناتے ہوئے جو دھوکا دیا گیا تھا اسکا بھی خاتمہ ہوگا بلاگز لکھتے رہنے سے جس مین دل اور بصیرت بھی ساتھ نہ دے اور جلوس نکالتے رہنے اور چیف چیف کرنے رہنے سے یہ ظلم نہیں ختم ہوگا امید ہے پاکستانی پراٹھے کی طرح تبصرہ طبیعت زیادہ بھری نہیں کزرا ہوگا اور باقی جن پر گزرا ہے تو انکی پروا نہیں انکی قوم کا اعمال نامہ تھا 5 اکتوبر, 2010 بوقت 7:35 شام اس ملک کی جگہ ایک نیا ملک بنے گا یہ ہو کر رہے گا اب دو طبقات ہیں ایک ملک ٹکڑے کرکے اپنا اپنا حصہ لینا چاہتا ہے یعنی ایک آج کا بنگالی طبقہ ہے جس کے پیچھے وہی لوگ ہیں جو کل کے بنگالی کے پیچھے تھے ہاتھ انکے بھی کچھ نہیں آیا ہاتھ انکے بھی کچھ نہیں آئے گا ایران بلوچستان کا کے خواب دیکھ رہا ہے امید ہے پھر جماعت اسلامی وہاں چلی جائے گی قادیانی اپنے حصہ کیلئے رال ٹپکاتے ہیں اور ساگ کھانے اور لسی پینے والے قادری اپنی خدمات کا صلہ مانگنے واشنگٹن تک چلے گئے دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کا آج کل خون بہایا جارہا یے اور علماء شہید کئے جارہے ہیں وہ کہتے ہیں ملک رہے گا مگر اسکی حدود کم نہیں بلکہ بڑھے گی اور اس میں خلفاء راشدین کا نظام آئے گا یعنی ملک کا کچھ ہونے ہی والا ہے اب زیادہ دیر لولی پاپ اور کورٹ پاپ کا چکر نہیں چلنے لگا مگر آثار یہی بتاتے ہیں کہ پہلے طبقہ کے ہاتھ صرف زلت آئے گی انشاء اللہ 5 اکتوبر, 2010 بوقت 11:57 شام قادیان کا بھونپو کہتا ہے "جعفر صاحب، جماعت احمدیہ کا مشن مشرفوں، شریفوں، زرداریوں کی دنیا سےتعلق ہی نہیں رکھتا – بلکہ مودودیت، قطبیت، پرویزیت، دیوبندیت، بریلویت، وہابیت وغیرہ بھی دنیا کی سیاستیں ہیں۔" یہ سب جانتے ہیں کہ مشرف کے ساتھ سارے قادیانی اور شیعہ تھے، اسکی بیوی بھی قادیانی ہے. ہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں ہمارے پاس بہت بڑی گواہی موجود ہے کہ خود مشرف بھی قادیانی تھا اور اب لطف القادیان کہتا ہے انسے ہمارا تعلق نہیں اپنے قبیلے کی پردہ پوشی جس کو ہم فیس میکنگ کہتے ہیں کیلئے دیوبندیت، وہابیت کا نام بھی لے دیا مگر یہ خبیث یہ نہیں جانتے کہ یہ پہلوں کی طرح نہ کوئی فرقہ ہے، نہ مزہب اور نہ سنت اور اصحاب رسول سے انحراف. یہی جوہ یہ کہ اب سارے کافر اور ابن یہود شیعہ اور قادری پادری سب کھل کر سامنے آگئے ہیں اور انہی کو ٹارگٹ کر رکھا ہے جہاد میں بھی اب یہ تنہا ہیں ان ہی کا سر کٹ رہا ہے، قلم بھی انہی کے خلاف ہے اور ساری دنیا ملک مٹانے کے درپے ہے. اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اصحاب رسول کی پیروی کرنے اور قربانی دینے والوں کا نام فتنہ پردازوں کے ساتھ لکھا جائے؟ جن لوگوں نے قادیانیوں کا بنایا اور اٹھایا انہی نے شیعوں،مودودیت، قطبیت، پرویزیت، بریلویت اور آجکل نے نئے فتنوں کی پرورش کی اور اب تو پردے بھی اٹنے لگے ہیں دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ قادیانی نے اپنے سے بھی بڑے فتنے کا نام کیوں نہیںلیا؟ کیسا آزمائش کا دور ہے. باتیں کرنا آسان ہے. ہماری طرح تبصرہ لھ دینا آسان سا کام ہے مگرکفار اور انکے لے پالکوں سے ٹکرا جانا اور راہ خدا گردن کٹا دینا بہت مشکل کام ہے، بے شک آگے مرتبے بھی انہی کے ہیں اے مجاہدو! یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تمہارے ہیں 7 اکتوبر, 2010 بوقت 12:59 صبح بھئی صاحب، مشرف صاحب آپ سنیوں کو مبارک ہوں۔ احمدی کم از کم باعمل مسلمان لگنے چاھیئں۔ اگر کسی کے بارہ میں کہا جائے کہ بے ایمان ہے، بد اخلاق ہے اوراحمدی ہے تو سخت تعجب ہوتا ہے۔ شاز ہی ایسی باتیں سچ ثابت ہوتی ہیں۔ میرے علم میں کوئی ایسا مشرف کا حامی نہیں جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہو- ہاںملا اور ملا نواز قسم کے موقع پرستوں کوہر "لبرل ٹائپ" کو احمدی قرار دینے کا شوق ہے۔ باقی آپ رہیں اور آپ کی خود ساختہ سازشیں۔ 7 اکتوبر, 2010 بوقت 10:20 صبح مشرف جیسے فضول ٹاپک پر تو غصے کے مارے گفتگو بھی صحیح طرح نہیں ہوپاتی آپ نے پتا نہیں اتنی بڑی تحریر کیسے لکھ دی ۔ کیا بلڈ پریشر نارمل کرنے والی گولیاں ساتھ ہی رکھی تھیں 9 اکتوبر, 2010 بوقت 3:04 صبح http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101008_musharraf_interview_javed.shtml 9 اکتوبر, 2010 بوقت 3:06 صبح وہ تو خیر جب آنا ہوگا تب آہی جائے گا یہ بتاؤ کہ تم کب جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افغانستان جہاد کرنے جس کا ڈھنڈھورا تم دن رات پیٹتے رہتے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ 10 اکتوبر, 2010 بوقت 8:54 صبح کاشف نصیر یہ ہے روشن خیال اسلام کی ایک شکل !!!!!!!!! http://www.voanews.com/urdu/news/American-Muslims-Gathering-08Oct10-104581059.html 19 اکتوبر, 2010 بوقت 3:49 شام پرویز مشرف کے لئے میں بہت کچھ لکھنا اور کہنا چاہتا ہوں مگر افسوس نہ ہی تہذیب اسکی اجازت دیتی ہے اور نہ کوئی نہایت بری گلی اس کم کا حق ادا کرسکتی ہے.کاش کہ وہ وقت آۓ جب اس ملعون سے اس کے جرائم کا حساب لیا جاسکے اور اس شیطان لعين کو عبرت کی ایک مثال بنایا جا سکے. انشا الله مجھے اس منصف اعلۍ سے یہ امید ہے کے وہ اس لعنتى کردار کو ضرور اسکے انجام تک پوھنچاۓ گا. آمین 19 اکتوبر, 2010 بوقت 4:02 شام پرویز مشرف کے لاتعداد جرائم میں دین سے بغاوت کا بیج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بونا بھی ہے. اسنے جس فصل کی آبیاری کی وہ پک چکی ہے. اسی صفحہ پر عبدللہ کا تبصرہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے. یہ لوگ دین کو سمجھنے کے لیے بھی قرآن و سنّت کی بجاۓ امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں. کسی نے سچ ہی کہا کہ بلندیوں کی طرف سفر میں ایک حد ہوتی ہے جبکہ پستیوں کا سفر غیر محدود ہوتا ہے. جتنا چاہو نیچے گرتے چلے جاؤ abdulla adam says: 22 اکتوبر, 2010 بوقت 1:16 صبح jo chup rahay ge zuban e khanjr laho pukaray ga aasteen ka 23 اکتوبر, 2010 بوقت 11:45 شام محترم ڈاکٹر جواد صاحب، مشرف صاحب سے قبل امیر الموءمنین ضیاءالحق، خلیفۃالمسلمین نواز شریف ، دختر مشرق بینظیر، قائد عوام بھٹو، فیلڈ مارشل ایوب خان، سب کے سب امریکہ کو قبلہ بنائے ہوئے تھے۔ مشرف کو الزام دینا ناانصافی ہے۔ 25 اکتوبر, 2010 بوقت 1:54 شام لطف السلام صاحب آپکے جذبات پرویز مشرّف کے لیے قبل فہم ہیں. پاکستان اور پاکستان سے باہر تمام بے دین، قادیانی ، شیعہ اور تمام دین بیزار لوگوں کی جو خدمت پرویز مشرّف نے کی ہے شاید ہی کوئی اور کرسکے. دنیا میں تو شاید ان جرائم کا حساب نہیں لیا جاسکے لیکن ملک کو ایک خونی جنگ میں محض اپنے اقتدار کی خاطر دھکیل دینا، معصوم پاکستانیوں کو امریکا کے ہوتھوں فروخت کردینا ، امریکیوں کو پاکستان میں دروں حملوں کی اجازت دینا، جامعہ حفصہ میں معصوم بچیوں کا قتل عام، ڈاکٹر عافیہ کو امریکی درندوں کے حوالے کرنا، ڈاکٹر عبدل قدیر خان کی ڈی بریفنگ اور انکے ساتھ مجرموں والا سلوک ، بلیک واٹر جیسی بنام زمانہ تنظیموں کو پاکستانیوں کے قتل کی اجازت دینا اور ایٹمی پروگرم کو تقریباً ختم کر دینا ایسے جرائم ہیں جن کی دنیا کے کسی قانون میں کوئی گنجائش نہیں نا ہی کوئی زندہ قوم ان جرائم کو برداشت کر سکتی ہے . جن حکمرانوں کا نام اپنے لیا ان پر بد عنوانی ، اقربا پروری یا آئین کی خلاف ورزی کے الزامات تو عائد ہو سکیں مگر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہ سکتے کے وہ قومی مجرم یا امریکا کا ایجنٹ ہے . یہ اسکی خدمات ہی تو ہیں ہے ابھی تک وہ ایک سربراہ مملکت کا پروٹوکول اور تحفظ لے رہا ہے. حالانکہ پرویز مشرّف جیسے لوگوں کو استعمار ٹویلٹ پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتا ہے. پرویز مشرّف نے پاکستان کے خلاف وہ جرائم کیے ہیں جنہیں آج تک کوئی دوسرا نا کر سکا اور نا شاید آئندہ کر سکے گا. 26 اکتوبر, 2010 بوقت 3:41 صبح مسٹر جواد ،ڈاکٹریٹ تو جناب نے غالبا نفرت پھیلانے میں کی ہے،خیر، میری باتیں آپ جیسے کم عقلوں کے لیئے ہوتی بھی نہیں ہیں ،گھٹن میں پل کر بڑے ہونے والوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ سطحی ہوکر رہ جاتی ہے، رہی دین کو سمجھ نے کے لیئے قرآن و سنت کے علم کی بات تو الحمدللہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے دین کا صحیح فہم عطا فرمایا مجھ ناچیز کو! 20 نومبر, 2010 بوقت 6:23 صبح لطف القادیان تم صرف اتنا لکھ دیا کرو کہ تم قادیانی ہو ، اتنا لمبا تبصرہ کر کے کیوں انگلیاں تھکاتے ہو ۔ ہمیں باقی بات ویسے ہی سمجھ آجاے گی کہ اس پوسٹ میں تم نے کیا لکھنا تھا ۔ صرف آئیندہ سے اتنا لکھنا کہ میں قادیانی ہوں ۔ بات ختم
urd_Arab
اردو میں غزل فارسی سے آئی او رفارسی کی غزل عربی قصائد کے نسیب یعنی تشیبی حصے سے ابھری۔ یہ بات عجیب ہے کہ ایامِ جاہلیہ میں بھی عربوں کی لسانی تہذیب بہت اعلیٰ اور ارفع تھی ، لہذا ان کے قصائد کا معیار بھی شاعری کی بلندیوں کو چھوتا تھا ۔ عربی زبان عملاً ایک ایجاز پسند اور اختصار پسند زبان ہے کہ جہاں اعراب کی تھوڑی سی کمی بیشی سے معانی کا پورا نظام بدل جاتا ہے ۔ فارسی کی غزل میں حسن وعشق میں مکالماتی طرز کو بھی فروغ ملا۔ اس ورثے کی بنیاد پر اردو غزل کی تعمیر عمل میں آئی ، جہاں بیانیہ پر کم اور حسنِ اظہار پر زیادہ زور دیا گیا ۔ مزید برآں اردو میں تشبیہات واستعارات ، تمثیلات وغیرہ کا پورا سرمایہ منتقل ہوگیا ۔ اردو غزل اور اردو کی بیشتر شاعری میں عربی اور فارسی تہذیب کی وجہ سے خارجی اثرات وعناصر کا زیادہ عمل دخل رہا ہے۔ ہماری شاعری کو نئی نظم کے عناصر سے ہمکنار کرانے میں اقبال کا بڑا ہاتھ ہے گوکہ انھوں نے پابند نظمیں کہی ہیں، ان کے بعد میراجی نے جو مشرق ومغرب کا سرمایہ ہمارے سامنے رکھا اس سے بھی اردو میں نئی نظم کی ترویج میں بہت مدد ملی۔اس کے فنی تقاضوں میں نئے آہنگ کی تلاش ،نئی شعری صداقت کی کھوج ، لفظ کی نئی کائنات نئے امکانات او رنئے معانی ومفاہیم کی تخلیق بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، جب تک نئے لکھنے والے ان پہلوؤں کا احاطہ نہیں کریں گے اس وقت تک وہ نئی نظم کے فنی امکانات کی توضیح نہیں کرسکتے ۔ یہ تمام باتیں زبان کے کلی نظام، موجودہ کائناتی، سماجی اور انسانی حقائق کے آئینے ہی میں کی جاتی ہیں ، ورنہ شعری عمل لفظی بازیگری اورخیالی کرتب بازی کا شکار ہوجائے گا۔ ایک نظم کہنے کے لیے شاعر کو ہر چیز کا ازسرنو جائزہ لیناہوتا ہے کیونکہ ایک نظم کہنے کے معنی یہ ہیں کہ ایک مانوس چیز کو نئے انداز سے دیکھا اور سمجھا جائے۔شاعر کے لیے اس صلاحیت کا ہونا کہ وہ کائنات کی ہر چیزکااز سرنو جائزہ لے انتہائی ضروری ہے ۔ اس کی یہ صلاحیت کہ وہ ہر چیز پرمتحیر ہو ،جیسے وہ دیکھتا ہے اس کا مابہ الامتیاز ہے ۔ہر اچھے شاعر بالخصوص آزاد نظم کے شاعر کو اس حقیقت کو سمجھنا اور حقیقت کی ایسی شعری صداقت تلاش کرنا بہت ہی ضروری ہے ، جس کا انسانی زندگی اورانسانی تہذیب پر اطلاق ممکن ہوسکے۔ تجربہ نیا ہوتا ہے تو اظہار کا پیرایہ بھی نیا ہوتا ہے لیکن ہر نئی بات کے ساتھ مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں ۔ کسی بھی زمانے میں نئی چیز کو بہت آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا ۔ قبل اس کے کہ ذہن ونظر اورسماج قبول کریں ،نئے تجربے کو بہت سارے امتحانات سے گزر نا پڑتا ہے ۔ جب پہلی بار نظم کو نیا پیراہن دیا گیا تو کئی اعتراضات اٹھے لیکن طباطبائی جیسے لوگوں نے اردو میں جدید نظم کی ابتدا کی۔ ایک نظم جس کا عنوان' ' بلینک ورس کی حقیقت ' 'ہے ، اس نظم کی خاصیت یہ ہے کہ بلینک ورس نظم اس میں قافیے ردیف کی پابندیوں کا مذاق اڑایا گیا ہے اور شاعری کو فطری شاعری کہا ہے ۔ اس نظم کا بند ملاحظہ کیجیئے: فطری ان کا ہے رقص اور سب طبعی ان کی ہی گیتیں بساں رقص طاؤس سہمے ان کے ہیں راگ سارے اصل ان کی ہیں دھنیں بساں صورت بلبل قدرت کے کرشموں سے وہ لیتے تعلیم ہیں ان کو نہیں تال کی حاجت جیسے بادل کے گرجنے پر ہے موروں کا رقص کلیوں کے چٹکنے پر عنادل کا سرور ہے ویسا ہی رقص جس طرح کا ہے نشاط ویسا ہی مسرور بھی ہے جس نوع کا وجد یہ بات نہیں ہے کہ ہے ارادہ کچھ اور اور قافیہ لے چلا کسی اور طرف یہ بہت ضروری ہے کہ لکھنے والا ہمیشہ تلاش وکھوج میں مبتلا رہے اور اس تلاش وکھوج کے تجربے کو اپنی شاعری کی لسانی میں پرکھے ، اس طرز کے تجربوں کے بغیر شعری تاریخ میں کوئی ندرت ، کوئی نیا پن او رکوئی استعجابی پہلو وجود میں نہیں آسکتا، لہذا ہماری نئی نظم کو ایسے انسانوں کی تلاش ہے جو اول تو زندگی کے اچھے او ربرے تجربات سے گذر سکیں اورپھر اپنے لسانی نظام کی نئی ہیئت میں ڈھال سکیں۔ ہر نیا تجربہ اظہار کا نیا پیرایہ لاتا ہے، لہذا روایتی طور پر مستعمل ہیئت کا معاملہ یہاں معنی ثابت ہوتا ہے، اگر تجربہ نیا ہوگا تو اظہار کا پیرایہ نیا ہوگا ،اس کا ظاہری او رباطنی آہنگ نیا ہوگا ۔ اس کی تمثیلیں اوراستعارے نئے ہوں گے ، جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو شاعری بالخصوص نظم روایتی اظہار کا شکار ہوجاتی ہے جیسا کہ ہماری اکثرنئی نظموں کے ساتھ ہوا ہے۔انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ انفرادیت کو پسند کرتی ہے لیکن جب تک کوئی سوچ اجتماعی فکر کا حصہ نہیں بن جاتی اسے مقبولیت ملنا آسان نہیں ۔اردو شاعری میں غزل کی صنف کو اس قدر مقبولیت ملی کہ دوسری اصناف کو اپنی جگہ بنانا مشکل تھا ۔ لیکن ارتقا کے سفر میں نئی اشیا کی شمولیت ہی نئے معاشرے کی تشکیل ہے ۔شاعری میں بھی نئے تجربے کچھ مغرب کچھ مشرق سے متاثر ہوکر کیے گئے ، جیسے آزادغزل ، ہائیکو، غزل نما ، غزلیہ ، نثری غزل ، ماہیا، تروینی ،کہہ مکرنی، کندیلیاں ، دوہکا، دوپدے ، کتونی، تنکا اور ربنکا ، چوبولے، چھلے وغیرہ۔ آج ہم جس دور سے گزررہے ہیں او رمستقبل میں جس تیزی سے تغیرات کے دھماکوں کی آوازیں پر تول رہی ہیں، نظم کی نئی شکل بھی تقاضا کرتی ہے کہ اس کی طرف مکمل توجہ کی جائے۔وقت کا تقاضا فکر وسوچ کی نئی منزلیں بدلتے منظر میں اپنے زاویے خود چنتے ہیں ، کبھی اپنے اظہار میں کامیاب ہوتے ہیں کبھی ادھورے سفر میں تھک کر گرجاتے ہیں ۔ ادبی نظریات ، رجحانات میں جاری تبدیلیاں ، زبان، زندگی ، ادب ، آرٹ ، آئیڈیالوجی، تہذیب وثقافت پر فی زمانہ سائنس کی تخلیقات او رکمپیوٹر کے برقی اذہان قبضہ کررہے ہیں اور انسانی فکر متاثر ہورہی ہے ۔ لیکن یہ کائنات کے منظر نامے میں گزرنے والا پہلا حادثہ تو نہیں ۔یہ وقت ایک درمیان یعنی قدیم اور جدید کے درمیان حائل ہونے والا ایک پردہ ہے جو نئی سوچ وفکر کا متلاشی ہے ۔نئی نظم ، نیا آہنگ بھی اپنی منزل کی طرف دوڑ رہا ہے ۔ اب اردو زبان اس جہت کی تلاش میں کتنی کامیاب رہے گی اور عالمی سطح پر اپنا کتنا ورثہ چھوڑجائے گی اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔ نظم کی دنیا میں جوش کے علاوہ دو اہم نام اقبال اور انیس کے ہیں، لیکن اتفاق کہ دونوں ہی اپنی شناخت اسلام کے توسط سے بناتے ہیں۔ شاعری کا لباس جو صرف فلسفہ، علوم سیاسی معاشرتی حالات کا متمنی نہیں وہ بے چین ہو کر اس عنصر کو تلاش کرتا ہے، جہاں جمالیات، حسن، فطرت لاشعور زماں، مکاں سے پرے نکلنے کو بے چین ہوجاتے ہیں۔ نظم نے جب چولہ پہنا اور فیض احمد فیض سے گذر کر میراجی اور راشد کے قلم میں سماگئی اور راشد کی نظم' حسن کوزہ گر 'نے کہانی کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعداخترالایمان کی نظم' بازگشت' میں بھی اس بات کو محسوس کرسکتے ہیں۔ علامتیں، استعارے، تشبیہات جوروایت کی مستحکم دیوار اور ادب کی تاریخ ساز اصناف ، اس کے بغیر زبان کا لطف، بیان کا انداز، تصورکی تسکین اور قاری اور تخلیق کار کی تڑپ کے درمیان وسیلۂ اظہار ناممکن ہے۔ یہیں سے جدیدیت کا آغاز اور نظم کا تنوع کہہ سکتے ہیں، گو کہ غزل میں ایک موضوع کو سورنگ میں باندھاگیا اور فنی کمال کا اظہار کیاگیا۔ ایک استعارہ کئی رنگوں میں ڈھل کر کئی اذہان میں اپنی شکل کو اجاگر کرتا ہے۔ استعارہ ایک ایساتصور یا ایسی ذہنی تصویر ہے جو فن کے مظاہرے کو قوت دیتی ہے۔ دو لوگوں کے درمیان فکر و سوچ کا ایک انوکھا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ اگر یہی استعارہ عام یا اجتماعی مفہوم کی تصویر اختیار کرلے تو دیومالائی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ اردو شاعری اور غم و یاس کا موضوع بدن اور روح کی طرح ہے، اکثر ہماری شاعری میں ان شاعروں کو کامیاب تصور کیا گیا، جنھوں نے زندگی کی رنگینیوں پر موت کی تلخ حقیقتوں کو ترجیح دی۔ یہی وجہ تھی کہ بار بار عشق مجازی سے عشق حقیقی پر آکر تان ٹوٹتی ہے۔ غزل نے اس پیرہن کو پہن کر کئی محفلیں آباد کیں لیکن آج کے عہد کی نظم کچھ اور مانگتی ہے۔ دراصل انوکھا واقعہ انوکھی بات، چونکادینے والی اثرانگیزباتیں، گوکہ اس کا منبع غزل ہے۔ اگر دوسرا مصرعہ پہلے مصرعے کے برعکس نئی بات یا اس جہت کی طرف اشارہ کرے جہاں قاری کی سوچ نہ پہنچ سکی ہو تو قاری لطف اندوز ہوتا ہے اور غور و فکر کے دوازے بھی کھلتے ہیں۔
urd_Arab
دیہات کے شغل بھی اپنا نہ سکے - ہم سب 03/06/2020 03/06/2020 ایاز امیر n/b Views 0 Comment europe, family, history, pakistan, punjab, usa, Woman کتوں کے شوق کے حوالے سے مہر خداداد لَک کا ذکر اوپر ہوا۔ ایک اور قسم کے شکار کا بھی شوق دیہی زندگی میں پایا جاتا ہے… جنگلی سؤر کا شکار۔ بڑے زمیندار بھی کرتے ہیں اور چھوٹے کاشتکار بھی اس شوق میں مبتلا رہتے ہیں۔ سردار ممتاز بھٹو اور ملک غلام مصطفی کھر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس شغل میں کافی آگے ہیں۔ ہمارے علاقے میں مختلف دیہات میں ٹیمیں بنی ہوئی ہیں جو اس شکار کیلئے نکلتی ہیں۔ خاص قسم کے کتے بڑی چاہ سے رکھے جاتے ہیں اور پھر اس شکار میں استعمال ہوتے ہیں۔ سؤر کا شکار بڑے اہتمام سے دیگر ممالک میں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ روس میں کمیونسٹ حکمرانی مسلط تھی تو باہر کے سربراہانِ مملکت کیلئے سؤر کے شکار کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ روس کی سردی میں جب ہر طرف برف نظر آرہی ہو صبح سویرے بھاری بھاری اوورکوٹ پہنے مہمان سربراہان کو ماسکو کے قریب جنگلات میں لے جایا جاتا اور یہ شکار ہوتا۔ ہمارے دیہی علاقوں میں روس کے بادشاہ تو نہیں بستے لیکن اس شکار کا شوق پایا جاتا ہے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ سؤروں پہ ظلم بہت کرتے ہیں۔ جانور کوئی کتوں کے نرغے میں آیا تو اُسے رسیوں میں باندھ دیا جاتا ہے اور پھر اُس کی نیم نڈھال جان پہ بار بار کتوں کو چھوڑا جاتا ہے۔ ایک آدھ بار میں ایسے شکار پہ گیا لیکن اِس ظلم کا نظارہ ہوا تو پھر کبھی جانے کی ہمت نہ پڑی۔ ہمارے لوگ سمجھتے ہیں کہ سؤروں پہ ظلم عین ثواب ہے۔ انگلستان میں لومڑی کا شکار ایک خاص اہتمام سے ہوتا ہے۔ جیسی ہماری تحصیلیں ہیں انگلستان میں کاؤنٹیز ہوا کرتی ہیں۔ ہر کاؤنٹی میں لومڑی کے شکار کی ٹیمیں ہیں۔ گھوڑوں پہ شکار ہوتا ہے اور اس میں مرد و خواتین گھڑ سوار برابر کا حصہ لیتے ہیں۔ لباس بھی مخصوص ہوتا ہے، لال کوٹ، سفید پتلون اور سواری کے خاص بوٹ۔ شکار کا ایک ماسٹر ہوتا ہے۔ سونگھنے والے کتوں کی ایک بڑی تعداد شکار میں شامل ہوتی ہے۔ بگل بجے تو کتے اور گھوڑے لومڑی کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ انگلستان کا رقبہ ہمارے رقبے سے بہت کم ہے لیکن وہاں کی زمینداریاں ہماری نسبت بہت بڑی ہوا کرتی ہیں۔ لومڑی کا شکار ان بڑے رقبوں پہ کھیلا جاتا ہے۔ گھڑ سوار نکلیں تو میلوں میل دوڑے جاتے ہیں۔ گھڑ سواری بلاجھجک اور دھڑلے کی ہوتی ہے۔ ندی آئے یا کوئی اور رکاوٹ، گھوڑے پھلانگتے چلے جاتے ہیں۔ کمزور دلوں کیلئے یہ شغل نہیں۔ گھوڑا اچھا ہونا چاہیے اور گھڑ سواری بھی کمال کی آنی چاہیے۔ تبھی آپ اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں' اور جب کہیں دن ڈھلے شکار کا اختتام ہوا تو پھر تصور کیجیے کہ جشن کا کیسا سماں برپا ہوتا ہو گا۔ نوابی کے انداز ہر معاشرے کے اپنے اپنے ہوا کرتے ہیں۔ بڑے زمیندار یورپ اور امریکا میں ہیں اور ہمارے ہاں بھی' لیکن جیسے عرض کیا انداز اپنے اپنے۔ ہمارے پنجاب کا ایک خاص مزاج ہے جو صدیوں سے چلا آرہاہے۔ تقسیمِ ہند کی وجہ سے پنجاب کی بھی تقسیم ہوئی، ایک پنجاب وہاں رہ گیا اور پنجاب کا بڑا حصہ ہمارے حصے میں آیا لیکن کچھ ہماری تاریخ ایسی رہی کہ پنجاب کا صدیوں پرانا مزاج یہاں بدلتا گیا۔ سماجی روّیے کچھ ایسے بنے کہ وہ پنجاب کی پرانی بات یہاں نہ رہی۔ پنجابی مزاج شغل کرنے والا مزاج ہے۔ وہ روش تو مٹائی نہیں جا سکتی لیکن جیسے مزاروں کا ذکر ہوا اور بھی بہت ساری روایات یہاں پاکیزگی کے نام پہ مٹتی چلی گئیں۔ پنجاب کے درمیان کھینچی گئی لکیر کے دونوں اطراف آپ کو ایک طرح کے لوگ ملیں گے۔ جاٹ ہندوستانی پنجاب میں بھی ہیں اور یہاں بھی۔ شکلیں ایک ہیں، زبان ایک ہے' سماجی عادات ایک ہیں لیکن مزاج میں تھوڑا سا فرق آچکا ہے۔ جس قسم کا بھنگڑا ہندوستانی پنجاب میں دیکھا جاسکتا ہے یہاں اب کم ہی ملتا ہے۔ ہماری شادی بیاہ کی تقریبات میں زور کھانے پہ ہوتا ہے۔ وہاں شادی بیاہ کی تقریبات ذرا مختلف ہوتی ہیں۔ یورپ اور ہماری زمینداری میں ایک اور فرق بھی ہے۔ وہاں کے بڑے زمینداروں نے دیہی زندگی ترک نہیں کی، دیہاتی زندگی کو جدید بنایا ہے اورفخر اس بات میں سمجھاجاتا ہے کہ دیہات میں بڑا گھر یا محل ہے۔ یہاں پہ روایت اُلٹی بنی ہے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی زمینداریاں تباہ ہوگئیں یا تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئیں اور زمیندار گھرانے دیہات کو ترک کرکے شہروں کے پوش علاقوں میں مقیم ہوگئے۔ نہ صرف بڑے زمیندار بلکہ جن کا کوئی بھی رشتہ زمین سے تھا' انہوں نے بھی دیہات کو چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔ اب ایک تبدیلی پاکستان میں آچکی ہے۔ ذرائع آمدورفت بہتر ہوگئے ہیں۔ دیہاتی علاقے جو پہلے دوردراز سمجھے جاتے تھے نئی سڑکوں کے بننے کی وجہ سے شہروں کے نزدیک آگئے ہیں' اس لئے اب نیا رجحان فارم ہاؤسز کا چل نکلا ہے۔ شہر کے آسودہ حال لوگ اب چاہنے لگے ہیں کہ قریب یا دور کے دیہاتی علاقوں میں کوئی ٹھکانہ ہو جہاں وہ فراغت کے لمحات گزار سکیں۔ یہ ایک نیا اور اچھا ٹرینڈ ہے۔ ← اس بجٹ میں بھی دیوالیہ ادارے ہی پالنے ہیں کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے باعث سندھ میں آم کے کاشتکاروں کے خدشات: یہ سال آم اور عوام، دونوں کے لیے اچھا نہیں۔۔۔ →
urd_Arab
وزن بڑھانے کے دس ایسے طریقے جو صحت کے لیۓ خطرناک نہ ہوں Home»Healthy Lifestyle»وزن بڑھانے کے دس ایسے طریقے جو صحت کے لیۓ خطرناک نہ ہوں By Ambreen Sethi February 25, 2021 Updated: March 1, 2021 4 Mins Read کم وزن سے کیا مراد ہے ؟ وزن کے کم ہونے کے صحت پر اثرات وزن کم ہونے کی وجوہات قدرتی طریقے سے وزں میں اضافے کا طریقہ زیادہ کیلوری والی خوراک کا استعمال دن میں تین بار پیٹ بھر کر کھائیں وزن بڑھانے والی غذائیں وزن بڑھانے کی ضرورت ان لوگوں کو پڑتی ہے جن کا وزن نارمل رینج سے کم ہوتا ہے ۔اگر چہ دنیا میں زیادہ تر افراد موٹاپے کا شکار ہیں اور وزن کم کرنے کا جتن کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف دنیا میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جن کا وزن کسی بھی صورت میں نہیں بڑھتا ہے۔ اور وہ اپنے دبلے پتلے جسم کو کسی بھی طرح خوبصورت بنانا چاہتے ہیں۔ تاکہ ان کا پہنا ہوا کپڑا ان پر سج سکے اور ان کے کمزور وجود کو لوگ نظر انداز نہ کر کے گزر جائيں ۔بلکہ وہ اتنا وزن بڑھا لیں کہ لوگ ان کو قابل غور سمجھنے لگیں کم وزن سے مراد یہ ہےکہ اگر کسی انسان کے جسم کا وزن اور اس کی قد کے مرکب کے درمیان شرح 5۔18 سے کم ہو۔ تو ایسے افراد کو کمزور اور پتلا تصور کیا جاۓ گا یعنی ان کا وزن نارمل رینج سے کم ہے جس طرح موٹاپا انسان کی صحت کے لیۓ کئی حوالوں سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح وزن کا کم ہونا بھی ایک خطرناک بات ہے۔ اور اس سے مردوں میں 140 فی صد اور خواتین میں 100 فی صد جلد موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کم وزن والے افراد کی قوت مدافعت بھی کمزور ہوتی ہے۔ اور وہ جلد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں بہت پتلا ہونا یا کمزور ہونا درحقیقت جسم کی کسی نہ کسی خرابی کا سبب ہو سکتی ہے۔ جس میں تھائي رائڈ کی خرابی ، سیلئیک کی بیماری (گلوٹین کا ہضم نہ کر سکنا )، ذیابطیس ، کینسر یا مختلف قسم کے انفیکشن شامل ہو سکتے ہیں اگر آپ کا وزن کم ہے اور آپ اس میں اضافہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ تو اس کے لیۓ سوڈہ والے مشروبات اور بیکری کی چیزوں کو استعمال کر کے آسانی سے وزن بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں صحت برباد ہو جاے گی۔ اس وجہ سے آج ہم آپ کو ایسے طریقے بتائیں گے جن کے استعمال سے نہ صرف وزن بڑھایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اپنی صحت کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے اگر وزن میں اضافے کے خواہاں ہیں تو اپنی خوراک میں کیلوریز کا اضافہ بہت ضروری ہے۔ اس کے لیۓ ایسی خوراک کا انتخاب کریں جس میں زیادہ کیلوریز موجود ہوں ۔ان میں دودھ انڈے اور مکھین پنیر وغیرہ شامل ہیں۔ جن کو استعمال کر کے زیادہ کیلوریز حاصل کی جا سکتی ہیں وزن کے اضافے کے لیۓ پروٹین سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے ۔پروٹین جسم کے اندر مسلز بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اور اگر پروٹین نہ ہو تو زیادہ کیلوریز جسم میں چکنائي کی صورت میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ جو کہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ پروٹین کے لیۓ ہر قسم کے گوشت کا استعمال ، انڈے اور دودھ سے بنی اشیا کا استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے وزن کے اضافے کے لیۓ کاربوہائيڈ ریٹ اور چکنائي کا زیادہ استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر صرف ان دونوں کا استعمال وزن تو بڑھا دے گا مگر صحت کو خراب کر دے گا۔ اس وجہ سے پروٹین اور زیادہ کیلوریز والی غذا کے ساتھ چکنائی اور نشاستے دار اشیا کا استعمال مفید ہوتا ہے۔ اور ان تمام اشیا کو دن میں کم از کم تین بار پیٹ بھر کر کھانا چاہیۓ کچھ ایسی غذائیں جو وزن میں اضافہ صحت کے ساتھ کر سکتی ہیں کچھ اس طرح ہیں دودھ دہی اور اس سے بنی اشیا زیتون کے تیل میں پکے کھانے گوشت اور آلو یہ تمام اشیا ایسی ہیں جن کا استعمال صحت کے ساتھ وزن بڑھانے میں بہت مدد دیتی ہیں ان تمام کوششوں سے بھی اگر وزن نہ بڑھے تو اس صورت میں آن لائن ڈاکٹر سے مشورے کے لیۓ مرہم ڈاٹ پی کے کی ایپ ڈاون لوڈکریں یا پھو 03111222398 پر رابطہ کریں
urd_Arab
دین عمل۔ عائشہ یاسین | مکالمہ زندگی کے ہنگاموں میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے ۔سال دنوں اور گھنٹوں کے حساب سے گزر رہے ہیں ۔کب بچپن گزرا کب جوانی آئ اور کب جوانی کے ترو تازہ دن بڑھاپے کی رہ گزر پہ چل پڑے ۔اور بنا کسی خبر کے ہم کو لحد میں اتار دیا جائے گا۔پھر جو خواب کی دنیا ہوا کرتی تھی وہ اصل دنیا بن جائے گی اور مادی دنیا خواب سی معلوم ہوگی اور ایسا محسوس ہوگا کہ ہم خواب سے جاگے ہیں اور دنیاوی زندگی ہم چند لمحے ہی جی پائے ہیں ۔ ساٹھ ستر سال کی زندگی لمحوں سی لگے گی اور لاکھ کو شش کے باوجود دوسرا موقع نہیں ملے گا۔تب مکافات عمل کیا ہوتا ہے ، اس کا ادراک ہوگا۔عمل کے سارے دروازے بند کردیے جائیں گے ۔اب عمل کا حساب اور تخمینہ لگایا جائے گا۔مزے کی بات یہ کہ اوپر کا حساب کتاب اور نیچے دنیا کے حساب کتاب کا طریقہ یکسر مختلف ہوگا ۔وہاں اعمال کا شمار گن کے نہیں بلکہ تول کے کیا جائے گا۔جس عمل کو صاف نیت اور پاکیزگی سے سر انجام دیا جائے گا اور اللہ کے بنائے اصول و ضوابط کے مطابق ہوگااس کا وزن زیادہ ہوگا۔ وہی ہماری بخشش کا وسیلہ بنے گا مگر جو عمل محض دکھاوے اور ریاکاری کے واسطے کیا جائے گا وہ وزن میں ہلکا اور ناکارہ ہوگا۔ اب عمل جو بھی ہو چاہے حقوق اللہ یا حقوق العباد ۔اس کے خالص ہونے کا فیصلہ اس کے ناپ تول یعنی وزن کے مطابق کیا جائے گا۔ یہ دنیا عمل کی کھیتی ہے۔کہتے ہیں کہ ہم جیسا بوتے ہیں ویسا ہی فصل کاٹنا پڑتا ہے ۔سیب کا درخت لگاتے ہیں تو سیب کا پھل ملتا ہے ۔کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ آم کے درخت پر انار کا پھل آیا ہو یا ببول پر گلاب کھلے ہوں؟ اسی طرح عمل کا تعلق اس سے ہے ہم جو اس دنیا میں بوئیں گے ہمیں آخرت میں وہی اجرت کے طور پر ملے گا۔کیکر کا پودا لگا کے یہ سوچنا کہ اس پر رسیلے آم لگیں گے تو یہ سراسر بیوقوفی ہے۔اس لئے عمل کا صالح ہونا مقدم ہے۔ دین اسلام میں عمل کو دو طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ 1۔حقوق اللہ 2۔حقوق العباد عمل کی تقسیم ہمیں آسانی فراہم کرتی ہے۔ حقوق اللہ یعنی اللہ اور بندے کا حق جس میں ہمارے سارے ارکان شامل ہیں ۔ایمان۔ نماز ۔روزہ۔حج اور زکوہ ۔اللہ کے نزدیک عبادات کا خالص ہونا لازم ہے۔بدنی فرائض سے لیکر شرعی احکامات کو بجا لانا لازم ہیں۔اس میں پاکی و ناپاکی سے لیکر سجود و سلام اور درست سمت اور تعداد میں ادائیگی لازم ہے۔جسمانی و ذہنی پاکیزگی کا ہونا بھی بہت اہم ہے ۔ اللہ کی وحدانیت اور صمدیت کو ماننا بنیادی شق ہے ، اس کے تمام انبیاء اکرام اور آخر زمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر کامل یقین کرنا لازمی جز ہے ۔یہ اللہ کاحق ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں۔اس کی ثنا کریں اس کا شکر بجا لائیں ۔اپنے مالک کی حمد و ثناء کریں جس نے ہمیں پیدا کیا اور بیش بہا نعمتوں سے نوازا۔یہاں رب کی ربوبیت پر ایمان اور اس کو لا شریک ماننا اور اس کا کوئ ہمسر نہیں کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔نماز کے ہر رکوع میں بار بار اللہ سے صراط مستقیم پر چلنے کی تکرار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زندگی کے شب و روز اس کی رضا اور احکامات میں گزارنے کی کوشش کرنی ہے جس کے صلے میں ہم کو انعام و اکرام سے نوازا جا ئے گا ۔ اسی طرح فرائض ارکان روزہ کے ادب و آداب ہیں۔روزہ ہم کو تقوی سکھاتا ہے کہ کیسے نفسانی خواہشوں کو معدوم رکھا جائے اور اللہ کے احکام بجا لایا جائے ۔اللہ کی خوش نودی کے لئے جبرن کھانا پینا چھوڑ دیا جائے اور ایک آواز پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کھانا پینا شروع کر دیا جائے یعنی اللہ کے حکم پہ اپنے اوپر حلال کو حرام قرار دیا جائے اور اسی رب العزت کے حکم پر دوبارہ اللہ کے دیے ہوے رزق کو حلال کرلیا جائے ۔اطاعت کی یہ کیا خوب تکنیک ہے اور خوبصورتی بھی کہ بندہ مستقل اس بات سے باخبر رہے کہ چاہے دنیا کا کوئی بھی سرا ہو کوئی بھی کونا ہو اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور یہی شعور انسان کو روزہ میں خیانت کرنے نہیں دیتا یعنی تمام مہینے کے لئے مسلمانوں میں پروگرامنگ سیٹ کردی گئی کہ بندے تو اپنے رب سے چھپ کر کسی کام کو انجام نہیں دے سکتا چاہے تو آسمان پر چلے جا ئے یا سمندروں کی گہرائیوں میں چھپ جائے۔مجھ سے اوجھل ہونا تیرے اختیار میں نہیں اور یہ ایمان صالح کہ میرا رب سب دیکھ رہا ہے تقوی کی بنیاد ہے ۔ اس کے بعد زکوہ آتی ہے ۔اللہ تعالی نے جب جب صلوہ یعنی نماز کا ذکر کیا وہیں زکوہ ادا کرنے کئ تلقین کی ۔دونوں ارکان مساوی قرار دئے۔دوسرے اور آسان لفظوں میں لازم و ملزوم ٹھہرے ۔ہم پر جس طرح نماز فرض کی گئ روزہ کا رکھنا اہم ٹھہرا اس ہی طرح زکوہ ادا کرنا انتہائی ضروری ہے۔جس طرح نماز کے بغیر روزہ محض ایک فاقہ ہے اسی طرح نماز روزہ حج زکوہ کے بغیر نامکمل ہیں ۔اللہ تعالی نے جو ارکان مقرر کئے ان میں ردوبدل ممکن نہیں ۔سارے ارکان جب یکجا ہوتے ہیں تو شریعت مکمل ہوتی ہے اور یہ شریعت کئ اداءیگی حقوق اللہ کہلاتی ہے ۔ دوسری جانب حقوق العباد آتا ہے۔جہاں بندے کا بندے کے حقوق کا تقاضہ ہے ۔اس کے شرائط و ضوابط حقوق اللہ جیسے نہیں لیکن اس کے خالص ہونے کی شرط وہی ہے ۔جن کا ادا ہونا اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے کہ جتنا حقوق اللہ ہے۔سہل زبان یا ریاضی کی زبان میں ہم ان کو وائس ورسا کہیں گے۔لازم و ملزوم ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں ۔اگر ہم اس کو فارمولے کی مدد سے سمجھنا چاہیے تو یہ کچھ یوں ہو گا : حقوق اللہ +حقوق العباد =عبادت/عمل کامل/دین اسلام حقوق العباد کا تعلق بندوں کے ساتھ روابط کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ایک طرف ہر نماز کی پابندی لاگو کی گئی تو دوسری طرف اخلاق کو سنوار نے کا حکم دیا۔اسی طرح روزے کی حالت میں خود پر قابو پائے رکھنا اور زبان اور ہاتھ کو لگام ڈالے رکھنے کا پابند کیا ۔حج کی ادائگی میں بھی احتیاط اور صبر قائم رکھنے کو مشروط رکھا۔زکوہ وہ رکن ہے جس کا براہ راست حقوق انسانی سے تعلق ہے ۔دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور رشتوں کا تقدس کو قائم رکھ کر اپنے مال میں سے مستحقین کا حق ادا کرنا اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے یعنی حقوق اللہ کو مقبول کروانے کے لیے حقوق انسانی کو مقدم کہنا ہوگا اور اسی طرح حقوق اللہ کی تکمیل حقوق العباد پر منحصر ہے ۔یہ دونوں عمل ترازو کے دو پلڑے ہیں اور ان دونوں کا توازن برقرار رکھنا لازم ہے ۔کسی کو ضرر پہنچاکے یا کسی کی حق تلفی کرکے ہماری عبادات خالص نہیں رہ سکتی۔اس کو اس طرح سمجھئے کہ اپنی ظاہری و باطنی عبادات کو قبول کر وانے کے لیے ان تمام اصول و ضوابط جو رب تعالی نے مقرر کئے ہیں ان بنیادی اصولوں پر چل کر ہم عابد بن سکتے ہیں ۔ نماز روزہ حج زکوہ اور ایمان صالح کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاقیات اور اچھے سلوک کے امتزاج سے ہم متقی کی شق پہ پورا اتریں گے شاید اسی کو اللہ سے ڈرتے رہنا کہتے ہیں۔جب بندہ ہر وہ کام تر ک کرے جس سے اس کا رب راضی نہیں ہوگا یا جس سے اس نے منع فرمایا ہے اور ہر اس کام میں پہل کرے جس سے اس کی رضا حاصل ہو یہی عمل ، عمل صالح ہے۔جب بندے کے ذہن میں یہ بات چسپاں ہوجائے کہ اگر میں نہیں بھی دیکھ رہا پر میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے تو کوئی بھی عمل خسارے والا نہیں کرپائے گا۔اس کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا ہوگا کہ اس کے ہر نقل و حرکت کو دیکھا اور جانچا جارہا ہے اور اسے لکھا بھی جا رہا ہے تو وہ چاہ کر بھی گناہ کو سرانجام نہیں دے پائے گا۔یہ شعور کہ میں کسی طور خود کو اللہ سے چھپا نہیں سکتا عمل صالح کا باعث بنے گا اور ہمارا رب اپنے بندے سے نیک اعمال اور خلوص نیت چاہتاہے ۔اسی لیے دین اسلام دین عمل ہے اور عمل مشقت سے حاصل ہوتی ہے۔کثرت کا نام عمل ہے۔سب کا حساب کتاب یکساں ہوگا سب کے اعمال کو تولا جائے گا۔وہاں کسی کو بھی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔وہاں کسی حیلہ جوئی کی گنجائش نہیں ہوگی۔وہاں نہ تقریریں کام آئیں گی نہ وعظ ۔سب کو عدل کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہوگا۔ عمل کے اعتبار سے درجہ بندی ہوگی۔فقط زبانی کلامی نیکی کا کوئی وجود نہ ہوگا صرف ان نیکیوں کا شمار ہوگا جن پر عمل ہوا ہوگا باقی سب ہوا میں تحلیل ہوجائیں گی ۔ اسی لئےاسلام کو دین عمل کہنا درست ہے کیوں کہ جو جو اللہ تعالی نے قرآن میں حکم فرمایا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر کرکے بتایا۔اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ذندگی بسر کریں اور ہمارا شمار صالحین میں ہو۔آمین یا رب اللعالمین۔
urd_Arab
صرف ایک لیٹر پانی سے جوڑوں میں درد اور کمر درد کے علاج کا بہت آسان طریقہ۔ - Urdu TvUrdu Tv صرف ایک لیٹر پانی سے جوڑوں میں درد اور کمر درد کے علاج کا بہت آسان طریقہ۔ ہم اکثر بیماریوں کے لیے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے رابطہ کر تے ہیں کہ ہمیں ان بیماریوں سے نجات مل سکے لیکن اکثر بیماریاں ایسی ہو تی ہیں کہ جو بغیر دوا کھائے صرف پانی پینے سے ہی آپ اپنے ان بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں آج ہم انہی بیماریوں کے بارے میں بات کر یں گے کہ جن کا علاج آپ صرف پانی پینے سے ہی کر سکتے ہیں جن میں سینے اور معدے کی جلن جوڑوں کا ورم اور درد کمر کے درد کے خاتمے کے لیے سینے کے درد کے لیے آدھے سر کے در د کی روک تھام کے لیے بڑی آنت کے درد کا خاتمہ کر نا ہو دمہ کا خاتمہ کر نا ہو یا شوگر کا ابتدائی دور ہو تو اس سے بچاؤ کے لیے بھی پانی کیسے آپ کی صحت پر آپ کے جسم پر اثر کر تا ہے۔ آ ج ہم اسی بارے میں بات کر یں گے۔ تو چلتے ہیں ہم اس موضوع کو شروع کر تے ہیں۔ پانی تو ہم سب پیتے ہیں لیکن آ ج آپ کو ایک واقعہ سے بات سمجھاتے ہیں کہ ایک بھارتی شہری کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ماہ تک پانی کا استعمال کچھ ایسے انداز میں کیا کہ اس خالص اور فطری مشروب نے ان کی زندگی ہی بدل کر دی ان کا کہنا ہے کہ میں ایک ملازمت پیشہ مصروف آ دمی ہوں اور اپنی صحت کے بارے میں لاپرواہ رہتا ہوں اور جب ایک روز بیوٹی سیلون میں تھا مجھے ایک ماہرِ جلد نے بتا یا کہ میری جلد بہت خشک ہو چکی ہے اس نے روئی سے میری جلد کو صاف کر نا چاہا تو روئی کے باریک ریشے میری خشک جلد کے ساتھ اٹکنے لگے جس پر مجھے بہت شرمندگی ہو ئی۔ گھر آ کر میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ نہ صرف میری جلد کی دلکشی ختم ہو چکی ہے بلکہ بالوں میں بھی چمک نہیں تھی اور آنکھیں بھی مرجھائی نظر آ تی تھیں میں نے اپنی حالت بہتر کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر مطالعہ کا آغاز کیا اور چند گھنٹے میں ہی اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ پانی ہی میرے تمام مسائل کا حل ہے اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے ایک تجربے کا آغاز کیا اور روزانہ صبح کے وقت ایک لیٹر پانی پینا شروع کر دیا ۔ میں صبح اُٹھتے ہی چائے یا کافی نہیں پیتا تھا بلکہ ایک لیٹر پانی پیتا تھا شروع میں تو مجھے یہ کام بہت مشکل لگا لیکن ایک ہفتے بعد صبح بے دار ہونے پر مجھے خود ہی پیاس محسوس ہو رہی ہو تی تھی چند دن بعد ہی میں نے اپنی صحت میں واضح تبدیلیاں دیکھنا شروع کر دیں۔ پہلی تبدیلی تو یہ ہو ئی کہ میں دن بھر سستی کا شکار رہتا تھا جو اب دن بھر مجھے سستی تک نہیں ہوئی اور میرا تمام دن جو ہے وہ بہت ہی اچھے انداز میں گزر گیا۔
urd_Arab
'' جو کر رہے ہو بالکل ٹھیک کر رہے ہو، اپنا کام جاری رکھو۔۔۔۔'' سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف آپریشن، ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا – Hotline News '' جو کر رہے ہو بالکل ٹھیک کر رہے ہو، اپنا کام جاری رکھو۔۔۔۔'' سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف آپریشن، ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی صدر نے پاکستان میں جاری کرپشن کیخلاف مہم کی حمایت کردی، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خاتمے کیلئے جو کام کر رہے ہیں اس میں ان کی حمایت کرتے ہیں، وہ اپنی جدودجہد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان میں سابق حکمراں جماعتوں کیخلاف جاری انسداد کرپشن مہم کی حمایت کی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی کرپشن کیخلاف جدوجہد سے آگاہ ہیں۔ عمران خان اپنے ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بہترین کام کر رہے ہیں، انہیں پوری امید ہے کہ عمران خان کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنی جدوجہد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پیر کے روز امریکی صدارتی محل وائٹ ہاوس میں وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی۔ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان مسئلے کے حل کیلئے پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے معاملے پر پاکستان کے پاس وہ پاور ہے جو دیگر ممالک کے پاس نہیں۔ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر افغان جنگ سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان ماضی میں امریکا کا احترام نہیں کرتا تھا لیکن اب ہماری کافی مدد کررہا ہے۔ پاکستان امریکا کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے، پاکستان افغان عمل آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ افغان مسئلے کے حل کیلئے معاونت فراہم کرنے پر پاکستان کے شکرگزار ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جو امداد بند کر دی تھی وہ بھی بحال ہو سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کی امداد اس لیے بند کی تھی کہ وہ امریکا کی مدد نہیں کر رہا تھا، یہ بات عمران خان کی حکومت بننے سے پہلے کی ہے۔ افغان کی جنگ چاہتے تو ایک ہفتے میں جیت سکتے تھے، تاہم وزیراعظم عمران خان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ پاکستان افغانستان میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام کو روک سکتا ہے۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغان جنگ کا بات چیت کے ذریعے خاتمہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اس دوران امریکی صدر سے کہا کہ امریکا پاکستان کیلئے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے مجموعی تعلقات مزید بہتر ہوں، اور تجارتی تعلقات بھی فروغ پائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان امداد کے حصول کی بجائے امریکا کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کے قیام کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کا خواہشمند تھا، پاکستان کیلئے امریکا بہت اہمیت رکھتا ہے، روس کے خلاف افغان جنگ میں پاکستان فرنٹ اسٹیٹ تھا۔پاکستان نے نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی۔ افغان تنازع کا حل صرف طالبان سے امن معاہدہ ہے۔ امید ہے ہم آنے والے دنوں میں طالبان پر مذاکرات جاری رکھنے پر زور دینے کے قابل ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے موقع پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی ثالثی کی پیش کش کی۔ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی کہا تھا کہ امریکا مسئلہ کشمیر کے حل میں معاونت کرے اس لیے مجھے ثالث بننے میں خوشی ہوگی۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو مجھے آگاہ کریں۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکا پاک بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے بھی مصالحت کرسکتا ہے۔ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کا دورہ کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ تاحال انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت نہیں دی گئی، تاہم اگر وزیراعظم عمران خان دعوت دیں، تو وہ ضرور پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر سے ملاقات کیلئے وائٹ ہاؤس پہنچے۔وائٹ ہاؤس پہنچنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیااور مصافحہ کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ عمران خان کے ساتھ ملاقات کو انتہائی خوشگوار دیکھ رہا ہوں، امید ہے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر مین مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ون آن ون ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر کے درمیان وفود کی سطح پر نشست بھی ہوئی۔ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہوئے۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقاتوں کے دوران بڑے بریک تھرو کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بتایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اس دورے کے دوران امریکا پاکستان کو آزادانہ تجارتی معاہدے کی پیش کش بھی کر سکتا ہے۔
urd_Arab
اسلام اور موسیقی ۔ دوسرا و آخری حصہ – Niazamana October 19, 2015 8:57 pm · 3 comments کسی بھی چیز کو قبول یا رد کرنے، پسند و ناپسند کرنے یا جائز و ناجائز ٹھہرانے کیلئے اس چیز کی ماہیت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ کسی چیز کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں، اس کے فوائد و نقصانات کیا ہیں، ان سب کو دیکھے بغیر کسی بھی قسم کا فیصلہ صادر کرنا غیر دانشمندانہ فعل کہلاتا ہے۔ موسیقی حلال ہے یا حرام؟ اس کے فوائد یا نقصانات دیکھنے کے علاوہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری کہ موسیقی آخرکیا چیز ہے؟۔اور موسیقی تب تک نہیں سمجھی جا سکتی جب تک ہم موسیقی کے بنیادی ماخذ سْر کو نہ سمجھ لیں۔ سْر کی سادہ ترین تعریف آواز ہے۔ ایک آواز جس کی ایک مخصوص اونچائی اور ارتعاش کا ایک مخصوص دورانیہ ہوتا ہو۔ اس سے اگلی آواز ایک باقاعدہ طے شدہ معیار کے مطابق ارتعاش کے مخصوص دورانیے کی حامل ہو گی۔ اور اس کی اونچائی اور ارتعاش کا دورانیہ پہلی آواز سے اونچا ہو گا۔ اسی طرح اگلی آواز کی اونچائی اور ارتعاش کے زیادہ دورانیہ سے نیا سْر بنتا ہے۔ ان آوازوں کے مجموعے سے موسیقی کا سکیل بنتا ہے جسے ہمارے ہاں سپتک یا سات سروں کا مجموعہ کہتے ہیں۔ ان سْروں کو شدھ سْر کہتے ہیں۔ انہی سْروں یا آوازوں کی مزید درجہ بندی کی جاتی ہے، پہلا اور پانچوں سر قائم ہوتا ہے یعنی ان کے مقام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی جبکہ دوسرے پانچ سروں کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس سے مزید پانچ سر حاصل ہوتے ہیں، یوں سات سْر بارہ سروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ علم کی ہر شاخ کے چند بنیادی یونٹ ہوتے ہیں جن کے اوپر اس علم کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں مثلاََ کسی بھی زبان کے کانسونینٹس اور واولز اس زبان کے بنیادی یونٹ ہوتے ہیں، ان آوازوں کی مدد سے لفظ بنتے ہیں اور لفظوں سے زبان بنتی ہے، ہم حروف تہجی کو بھی کسی زبان کے بنیادی یونٹ کہہ سکتے ہیں۔ ریاضی میں ایک سے لے کر نو تک کے ہندسے اس علم کے بنیادی یونٹ کہلاتے ہیں، اس میں صفر کا اضافہ کرنے سے ریاضی کے بنیادی یونٹ دس ہیں، اور ان کے اوپر علم ریاضی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ موسیقی کے بنیادی یونٹ اس کے سْر ہیں جو تعداد میں بارہ بنتے ہیں، اور چونکہ ریاضی کی طرح موسیقی کے بنیادی یونٹ بھی کم ہیں اس لئے انہیں استعمال کرتے وقت بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاضی میں ایک ہندسے کی جگہ تبدیل کرنے سے بہت زیادہ فرق پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح موسیقی کے ایک سْر کی تبدیلی پورا ماحول بدل دیتی ہے۔ جس طرح ہر علم کے بنیادی یونٹس کے نام ہیں، مثلاً اردو زبان میں الف ب پ ہیں، ریاضی میں ایک دو تین وغیرہ، اسی طرح موسیقی میں ان یونٹس کے بھی نام ہیں۔ پہلے سْر کو کھرج (بھارت میں اسے شڑج کہتے ہیں) اور اس کا مخفف سا، دوسرا سْر رکھب (اسے بھارت میں رشبھ) کہتے ہیں اور اس کا مخفف رے، تیسرا سْر گندھار اور اس کا مخفف گا، چوتھا سْر مدھم اور اس کا مخفف ما، پانچوں سْر پنچم اور اس کا مخفف پا، چھٹا سْر دھیوت اور اس کا مخفف دھا، ساتوں سْر نکھاد(بھارت میں نشادھ) اور اس کا مخفف نی ہے۔ پانچ سر جو پہلے اور پانچویں کو چھوڑ کر بنائیگئے ہیں، انہیں رے کومل، گا کومل، ما تیور، دھا کومل اور نی کومل کہتے ہیں۔ لاطینی میں ان سْروں کو دو، رے ، می، فا، سول، لا، نی کہتے ہیں، ویسے آج کل سی، ڈی، ای، ایف، جی، اے، بی کا زیادہ استعمال ہے موسیقی کیا ہے، مجھے اس کی کوئی ایسی تعریف نہیں مل سکی جو اس کے ساتھ انصاف کر سکے۔ وکی پیڈیا کے مطابق موسیقی فن کی ایک ایسی شکل ہے جو آواز اور خاموشی کے ذریعہ اپنا اظہار کرتی ہے۔ لہذا میں اس ادھوری تعریف کی بجائے اپنے طور پر ایک جامع تعریف کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ موسیقی مختلف سْروں یا آوازوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو کانوں کو بھلا لگے۔ کانوں کو بھلا لگنا ایک اہم شرط ہے ہم بازار میں مختلف اونچی یا نیچی آوازوں جن میں ٹریفک کا شور، سبزی بیچنے والوں کی آوازیں، لوگوں کی چیخ و پکار بھی سنتے ہیں لیکن ہم انہیں موسیقی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ وہ کانوں کو بھلا لگنے کی بجائے سمع خراشی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اب اسی تعریف کو موسیقی کی ان اصناف پر لاگو کرتے ہیں، جو شائد اکثریت کے نزدیک موسیقی نہیں ہے ستر کی دہائی میں کراچی سے سعیدہ گزدر صاحبہ کی ادارت میں پاکستانی ادب نامی ایک ادبی جریدہ چھپتا تھا، اس کے سرپرست سید سبط حسن ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے میں ایک مباحثہ چھپا جس کے شرکا، سید سبط حسن، ریڈیو پاکستان لاہور کے ڈائرکٹر جنرل سلیم گیلانی، حبیب جالب اور استاد امراؤ بندو خان تھے۔ اس مباحثے کے دوران ایک صاحب نے امراؤ بندو خان سے پوچھا، "خان صاحب اسلام میں موسیقی کے حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے"۔ اس سے پہلے کہ امراؤ بندو خان جواب دیتے۔ سلیم گیلانی صاحب بول اٹھے۔ "میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے یا حلال، البتہ جب اذان ہوتی ہے تو اس میں پورے بارہ کے بارہ سْر لگتے ہیں"۔ جی ہاں اذان دی نہیں جاتی بلکہ اذان گائی جاتی ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں 1978 کا ایک واقعہ یاد آ گیا، ناروے میں مقامی ٹی وی نے دو قسطوں میں کاروان، آنگن نام سے دو پرگرام نشر کئے، اتفاق سے میں نے بھی ایک میں کام کیا تھا۔ اس فلم میں میرے گھر ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے، اس کے کان میں اذان "دی" جاتی ہے۔ فلم کی ڈائریکٹر جو ایک مقامی نارویجن عورت تھی، مجھ سے علیحدگی میں پوچھتی ہے وہ آدمی بچے کے کانوں میں کیا گا رہا تھا۔ حضرت بلال حبشی کی اذان کا بہت عقیدت کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ نے انہیں یہ فریضہ ان کے سریلے پن کی وجہ سے تفویض کیا تھا۔ رسول اللہ کی وفات کے بعدوہ مصر چلے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ کے زمانے میں حضرت بلال ایک مرتبہ مدینہ آئے تو صحابیوں نے حضرت عمر کو مجبور کیا کہ بلال کو اذان دینے کا کہا جائے، بیچارہ حبشی خلیفہ وقت کا حکم نہ ٹال سکا۔ لیکن جونہی اشہد انا محمد رسول اللہ کہا تو حضرت بلال کی آواز سسکیوں میں بدل گئی اور تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اذان ادھوری چھوڑ دی گئی۔ مجھے 1986 میں اسد امانت علی مرحوم سے اس کے گھر ملنے کا اتفاق ہوا۔ اسد نے انہی دنوں ایک مرثیہ ریکارڈ کروایا تھا، جس کے بول تھے، "یہ اذان علی اکبر ہے" اور ان بولوں کی بعد راگ بھیرو میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدا ابھرتی ہے۔ ایسی اذان میں نے زندگی میں کبھی نہیں سنی، ایک عجیب سی پْراسراریت اور مسحور کن کیفیت۔ میں نے اسد کو صلاح دی، کہ تم پوری اذان راگ بھیرو میں ریکارڈ کرو، اور اس کے علاوہ قرات بھی کیا کرو، لیکن اسد نے ہنستے ہوئے " خالد صاحب جان وی دیو" کہہ کر ٹال دیا۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اگر فجر کی اذان راگ بھیرو میں گائی جائے تو اس کا تاثر ایسا ہو گا جو بھلایا نہ جا سکے گا۔ 1982 میں انڈیا کے مشہور سربہار اور ستار نواز استاد امرت خان ناروے آئے، موسیقی اور اسلام کے حوالے سے بات چھڑی تو کہنے لگے، کہ اذان کے لفظوں میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ بے جان الفاظ ہیں لیکن جونہی یہ الفاظ کسی سریلے موذن کے گلے سے ادا ہوتے ہیں تو جان نکال دیتے ہیں۔ اگر کسی کو اس دعوے پر شک ہے تو اذان کے لفظوں کو تحت الفظ ادا کرنے کے بعد کسی اچھے موذن کی اذان سنے، فرق صاف معلوم پڑ جائے گا ۔ قرآن پڑھنا اور قرأت دو مختلف چیزیں ہیں، پڑھنا تحت اللفظ کو کہتے ہیں اور قرأت قرانی آیات کو گانے کو کہتے ہیں۔ مجھے قاری خوشی محمد کی قرأت سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں اسلام آباد ٹی وی پر قصیدہ بْردہ شریف پہلی بار نشر ہوا جو میرے ذاتی دوست سید پرویز حیدر صاحب نے ترتیب اور ریکارڈ کروایا تھا۔ اسلام آباد قرأت اکیڈیمی کے بچے ہاتھوں میں چھوٹی طشتریاں اٹھائے ہوئے ہیں جن پر موم بتیاں جل رہی ہیں، بچے قصیدے کی لائنیں گاتے ہیں اور پس منظر میں جونہی قاری خوشی محمد کی قرأت ابھرتی ہے تو ایسے لگتا ہے گویا زمین کی گردش رک گئی ہو۔ پرویز حیدر صاحب کے بقول قاری خوشی محمد کے گھر میں تانپورہ اور ہارمونیم موجود ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ ساز انہوں نے گھر کی سجاوٹ کیلئے نہیں رکھے ۔ کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے، دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے تلاش اْس کو نہ کر بتوں میں ، وہ ہے بدلتی ہوئی رْتوں میں، جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے ، وہی خدا ہے۔ یہ بہت مشہور حمد ہے جسے استاد نصرت فتح علی خان نے گایا ہے۔ اسے سنتے وقت ہر کوئی جذبہ ایمانی سے شرابور ہو جاتا ہے، لیکن اسے تحت اللفظ پڑھنا تو مناسب ہے لیکن اگر موسیقی حرام ہے تو اس حمد یا کسی بھی حمد کو گانا حرام ہے۔ استاد اشرف شریف جب بھی ناروے آتے ہیں تو ان سے ستار پر یہ دھن بجانے کی ضرور فرمائش ہوتی ہے اور سب موجود لوگ دھن کے بول گاتے ہیں، جو سرگم کے نیچے لکھ ہوئے ہیں۔ استھائی نی رے سا رے گا رے ساسا رے سا۔ سا ما ماما گا ما گا پا پا دھا پا ما گا رے رے ما گا رے سا نی گا گا ما پا پاپا پا دھا پاما ما پاما گا تیرے لئے یہ دنیا بنی ہے گا ما پا ما گا رے ما گا رے سا سا نی رے سا رے گا رے سا سا رے سا تو گر نہ ہوتا سا، ما۔ ماما گا ما گا پا دنیا تھی خالی جی ہاں یہ فلم نور اسلام کی سدا بہار نعت ہے۔ نعت شاعری کی وہ صنف ہے جس میں عقیدت کے جوش میں اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ اکثر اوقات وہ شرک کی حدیں بھی پار کر جاتے ہیں۔ نعت دروغ گوئی کی ایک بدترین مثال ہے، اور اس میں آپ جس قدر بڑا جھوٹ بولیں گے، سبحان اللہ و ماشا اللہ کے اسی قدر زیادہ ڈونگرے برسیں گے ۔ اسی فقرے کو لے لیں، تیرے لیے یہ دنیا بنی ہے۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر خواہ حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش نہ بھی ہوتی، انہیں دنیا میں پھر بھی آنا ہی تھا۔ اور پھر اب تو رسول کریم آ کر چلے بھی گئے ہیں تو دنیا کا تو مقصد پورا ہو گیا، لہذا ہم کس خوشی میں یہاں پر جھک مار رہے ہیں۔ اور پھر اس دعوے کا کیا ہو گا کہ یہ دنیا انسان کی آزمائش کیلئے بنی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم جیسے ایک عام انسان تھے، وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے، انہوں نے عام انسانوں کی طرح بچپن، جوانی اور بڑھاپا دیکھا، وہ ہم سب کی طرح کھانا کھاتے تھے، پانی پیتے تھے۔ کپڑے پہنتے تھے، پیشاب و پاخانہ فرماتے تھے۔ صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں ام المومنین زینب بنت جحش کے چمڑہ رنگنے کا ذکر ہے اس حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنسی خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہوتے تھے۔لیکن ان میں اور عام انسانوں میں ایک فرق ضرور تھا، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام پہنچانے کا وسیلہ بنایا۔ یعنی آپ خدا کے پیغامبرتھے۔ ایک انسان سے ایسی ایسی باتیں منسوب کرنا جو ان میں نہ تھیں، وہ جھوٹ بولنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ کئی بار معراج النبی کے حوالے مولوی صاحبان کی تقاریر سننے کا موقع ملا، جو اللہ اور اس کے "محبوب" کے دیدار کی خواہش اور وصال کا تذکرہ ایسے چسکے لے کرکرتے ہیں جیسے نعوذ باللہ اس رات رسول اللہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان (خاکم بدہن ) کوئی جنسی قرابت ہوئی تھی۔ جہاں تک میری معلومات ہیں، عرب ممالک میں نعت کا کوئی تصور نہیں ہے نعت لکھنا اور گانا اصل میں ہندومت کے بھجنوں کی نقل ہے۔ ناروے میں ارشد شاہین نام کے ایک شاعر ہیں جو میرے گاؤں سے ہونے کے علاوہ میرے رشتہ دار بھی ہیں۔ وہ پاکستان یا بھارت کی بجائے ناروے میں اردو کی پی ایچ ڈی کرنے آئے ہیں۔ ایک محفل میں ملے، میں انہیں نہیں پہنچانتا تھا، انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے رشتہ بتایا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھجی، میں نے انہیں میسج بھیجا کہ میں کچھ اس قسم کا انسان ہوں کہ لوگ مجھے کچھ عرصہ بعد ان فرینڈ کر دیتے ہیں، لہذا اسے رہنے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے سلسلہ میں بے فکر رہیں انشاء اللہ ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک دن ایک نعت اپنی ٹائم لائن ہر شیئر کی۔جس کا صرف مجھے مطلع یاد رہ گیا ہے۔ جس کے بول کچھ یوں تھے۔ جب سے آئے سرکار مدینے میں، نہ رہا کوئی بیمار مدینے میں ان کی اس نعت کے نیچے درجنوں کے حساب سے سبحان اللہ و ماشاء اللہ قسم کے کومنٹس تھے، میں قسمت کا مارا بھی کومنٹ کر بیٹھا۔ آپ کی نعت سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ رسول کریم کے آنے سے لوگوں کی بیماری ختم ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں، لوگ بدستور بیمار ہوا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں قبیلہ عرینہ کے چرواہوں کا قصہ بہت مشہور ہے، جن کے رنگ زرد اور پیٹ پھول گئے تھے، انہیں رسول اللہ نے اونٹنی کا پیشاب اور دودھ ملا کر پینے کا مشورہ دیا تھا، اس سے وہ تندرست ہو گئے، لیکن وہ نابکار جاتے ہوئے کسی مسلمان کو قتل کر کے اس کے اونٹ ہنکا کر لے گئے، رسول اللہ کے حکم سے ان کو پکڑ کر ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کی ٹانگیں اور بازو کاٹ کر ریگستان میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ دوسروں کی بیماری دور کرنا تو ایک طرف، رسول کریم خود بھی بیمار ہوتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری دنوں میں ان کی بیماری کا ذکر ہر سیرت کی کتاب میں موجود ہے جہاں حضرت ابوبکر کی امامت کا ذکر ہے۔ مزید برآں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ مانگا کہ وصیت لکھ سکیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بخار کی شدت کی وجہ سے ہذیانی کیفیت طاری ہے۔ لہذا آپ نے جوش عقیدت کی وجہ سے جو اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے کیا آپ کو اس کا ثواب ملے گا یا روز محشر آپ کی پکڑ ہو گئی۔ موصوف نے میرے کومنٹ کا کافی دیر تک جواب نہیں دیا بلکہ سبحان اللہ و ماشاء اللہ والے کومنٹس کو لائک کرنے میں مصروف رہے اور دوسرے دن مجھے ان فرینڈ کرنے کی بجائے بلاک کر دیا۔ ہمارے ہاں بہت سی نعتیں فلمی دھنوں پر بھی گائی جاتی ہیں، بچپن میں میرے گاؤں کی مسجد ایک بڑا مذہبی اجتماع ہوا، بہت زیادہ نعت گانے والے آئے، میں نے اپنی پسندیدہ نعت کی فرمائش کی لیکن پوری نہ ہوئی ، میں نے بعد میں پوچھا کہ آپ نے کیوں نہیں گائی، نعت گانے والے صاحب نے جواب دیا، بیٹا میں فلمی نعتیں نہیں گایا کرتا۔ مجھے سمجھ نہ آئی تو انہوں نے کہا کہ تم نے جس نعت کی فرمائش کی تھی وہ ایک پنجابی گانے کی دھن پر بنائی گئی ہے۔ نعت کے بول تھے عرشاں دا لاڑا، سوہنے رب دیا پیارا، ساری امت دا بن کے سہارا نیں مکے وچ چن چڑھیا اس کی دھن فلم کرتار سنگھ کے مقبول گانے پر بنائی گئی۔ دیساں دا راجہ، میرے بابل دا پیارا امبڑی دے دل دا سہارا نیں ویر میرا گھوڑی چڑھیا انہی دنوں ایک اور نعت بہت مقبول تھی اساں یا محمد کہنا اے دنیا دی نظروں بچ بچ کے اساں کملی دی چھانویں بہنا اے اور اس کی دھن اس فلمی گانے پر بنی ہے چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا حمد کے سلسلہ میں تو پھر بھی سب چل جاتا ہے کہ اس ذات باری کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے لیکن اگر الکاذب عدو اللہ کا مطلب وہی ہے جو میں سمجھا ہوں تو تمام نعت نویس اور نعت گانے والے روز محشر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ لیکن اگر لمحوں کیلئے اس پْرعقیدت دروغ گوئی سے قطع نظر کر بھی لیا جائے تو نعت گانا موسیقی کے زمرے میں آتا ہے اور اگر موسیقی حرام ہے تو نعت گانا بھی حرام ہے۔ آواز تو خدا کی دین ہے لیکن اس آواز میں تب ہی تاثیر پیدا ہوتی ہے، جب آپ موسیقی کی پر اسرار وادی میں پاؤں رکھتے ہیں، ریاضت کرتے ہیں۔ گو کوئی بھی اچھا نعت خوان موسیقی سیکھنے کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن میں اس بات کو ماننے کیلئے قطعاً تیار نہیں ہوں کہ اچھے نعت گانے والوں نے چند ایک راگ نہ سیکھے ہوں، ان کے گھر میں ہارمونیم نہ ہو یا یہ باقاعدگی سے موسیقی کا ریاض نہ کرتے ہوں۔ دف کے ساتھ گانے کو جائز سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے کھجور یا کدّو کھانا تو سنت رسول کا مقام حاصل کر گیا، لیکن آم، امرود اور کریلے وغیرہ یہ سعادت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دف ایک ردھم کا ساز ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ردھم کے ساز پہلے وجود آئے کیونکہ ان کا بنانا آسان ہوتا ہے، ردھم کیلئے آپ کسی بھی چیز مثلاً ٹین کے ایک ٹکڑے کو لکڑی یا ہاتھ سے پیٹ کر ردھم بنا سکتے ہیں۔ آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے میز پر با آسانی"دھا گے نا تی نا کے دھن نا" کے بول بجا سکتے ہیں، افریقہ اور ایمزن کے جنگلوں کے باسیوں کو بھی انتہائی سادہ قسم کے ڈھول پیٹتے دیکھ سکتے ہیں۔۔ لیکن میلوڈی کے ساز تب بنتے ہیں جب کسی علاقے میں تہذیب نے ارتقا ء کا ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہو۔ سْروں کے مقام کی شناخت کو مد نظر رکھ کر ساز بنانے اور بجانے کی اہلیت حاصل کر لی گئی ہو۔ رسول کریم ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں پیدا ہوئے، اس وقت اس علاقے میں دف کے علاوہ کوئی ساز نہیں تھا اور نہ ہی کسی اور ساز کا ذکر کسی بھی کتاب میں ملتا ہے۔ عبداللہ بن زبیر کے ہاں بربط کو دیکھ کر عبداللہ بن عمر کا یہ کہنا کہ یہ کوئی شاہی ترازو لگتا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بربط اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مکہ و مدینہ پہنچی، اگر بربط رسول کریم کے زمانہ میں موجود ہوتی تو عبداللہ بن عمر ایسی بات قطعاً نہ کرتے۔ ویسے بھی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بکرے کی کھال سے دف بنے تو وہ جائز ہے اور اسی بکرے کی کھال سے طبلہ بنے تو وہ حرام ہے موسیقی کو ناپسند کرنے والے اس میں فحاشی و بے حیائی کا بھی ذکر کرتے ہیں، شراب و کباب کا بھی ذکر آتا ہے، منّی کی بدنامی کا بھی بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ موسیقی اور شاعری دو الگ چیزیں ہیں۔ آپ منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے کی دھن پر بلغ العلی بکمالہ،کشف الدجی بجمالہ حَسْنت جمیع خصالہ،صلو علیہ و آلہ گا کر سبحان اللہ و ماشا اللہ کی داد وصول کر سکتے ہیں، موسیقی کو ہم ایک پلیٹ سے مثال دے سکتے ہیں۔ ایک ایسی پلیٹ جس میں کھانا پیش کیا گیا ہو۔ اس پلیٹ میں کھانا اگر بدذائقہ ہے تو اس میں پلیٹ کا کوئی قصور نہیں اور اگر کھانا بہت لذیز ہے تو اس میں پلیٹ کا کوئی کمال نہیں۔ موسیقی کو آپ ایک دیوار کی مانند سمجھ سکتے ہیں جس پر حدیث رسول بھی لکھی جا سکتی ہے اور مردانہ کمزوری کے شرطیہ علاج کا اشتہار بھی لکھا جا سکتا ہے۔ موسیقی کے سروں پر اذان بھی دی جا سکتی ہے، قرآن کی قرأ ت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی لچر سا فلمی گانا بھی رچا جا سکتا ہے۔ موسیقی اپنے طور پر نہ مقدس ہے اور نہ فحش۔ راگ بھیرو میں اگر ہندو صبح کے وقت جاگو موہن پیارے گا سکتے ہیں تو مسلمان اس راگ میں اللہ ہو اللہ، جل شان اللہ گاتے ہیں۔ اگر ہندو راگ درباری میں شری کرشن کی تعریف میں گردھر برج دھر مرلیا دھر نی دھر گا سکتے ہیں۔ ( ویسے یہ اتفاق سے ایک مسلمان موسیقار حّدو خان صاحب کی بندش ہے) تو مسلمان اسی درباری میں، تو رحیم تو کریم پاک پروردگار گاتے ہیں۔ ایک ہی دھن پر پیار کیا تو ڈرنا کیا اور اساں یا محمد کہنا اے بھی گایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی گانے کے لچر یا بیہودہ ہونے کا قصور وار موسیقی کو نہیں بلکہ اس کے شاعر کو ٹھہرانا چاہئے نہ کہ موسیقی کو قابل گردن زنی قرار دیا جائے۔ اور یہاں شاعری کو نہیں بلکہ اس کے لکھنے والے کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے کیونکہ شاعری کا بھی وہی حال ہے جو موسیقی کا ہے۔ اسی شاعری اور اوزان کی مدد سے کوئی حمد لکھ سکتا ہے اور کوئی انتہائی فحش گانا۔ موسیقار کا کام اسی شاعری کو سر اور لے میں باندھنا ہوتا ہے۔ شاعری یا موسیقی کو حرام ٹھہرانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی علم ریاضی کو حرام قرار دے کیونکہ اس کی مدد سے قرض خواہ مقروض سے سود کی شرح طے کرتا ہے، یاسائنس حرام ہے کیونکہ اس سے تباہی کے ہتھیار بنتے ہیں۔ موسیقی نسل انسان کے ہزاروں سالوں کے تہذیبی ارتقا کا نتیجہ ہے اور اسے مذہب یا کسی اور وجہ سے رد کرنا سراسر جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
urd_Arab
سورة الأحزاب - آیت 36 اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔ [ ٥٥] آزاد شدہ غلاموں کا معاشرہ میں مقام :۔ اس سورۃ کے آغاز میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عرب معاشرہ میں کثیر تعداد غلاموں کی تھی۔ اور غلاموں کو ایک حقیر اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی غلام آزاد کردیا جاتا، جسے مولیٰ کہا جاتا تھا، تو بھی آزاد لوگوں کا معاشرہ اسے اپنے آپ میں جذب کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس اصلاح کا آغاز نبی کی ذات اور اس کے گھرانہ سے کیا جائے۔ سیدہ زینب کا اللہ اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام زید بن حارثہ تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرنے کے بعد اسے اپنا متبنّیٰ بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزاد لوگ اسے معاشرتی لحاظ سے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کا رشتہ طلب کیا۔ تو ان لوگوں کو یہ بات توہین آمیز معلوم ہوئی اور سخت ناگوار گزری۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ اسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت سیدہ زینب بنت جحش کو سنائی تو انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور یہ رشتہ قبول کرلیا۔ اور سیدنا زید کا زینب بنت جحش سے نکاح ہوگیا۔
urd_Arab
ماہنامہ منہاج القرآن > مارچ 2015 ء > اداریہ: چھت کے بغیر عمارت کے مکیں ماہنامہ منہاج القرآن : مارچ 2015 ء > ماہنامہ منہاج القرآن > مارچ 2015 ء > اداریہ: چھت کے بغیر عمارت کے مکیں اداریہ: چھت کے بغیر عمارت کے مکیں یہ مسلمہ امر ہے کہ دور غلامی میں قوموں کا مزاج تبدیل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کا المیہ بھی یہی ہے کہ بطور قوم مجموعی طور پر پوری امت دین کے خود ساختہ ادھورے تصورات لے کر عملاً متحرک اقوام عالم کے مقابلے میں تنہا کھڑی ہے۔ حالانکہ اس وقت پوری دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس کے پاس ہدایت کے بنیادی ذرائع مبنی بر وحی ہیں، جن میں خطا اور تبدیلی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ تبدیل شدہ ان ادھورے اور مبہم تصورات میں دین و دنیا کی تقسیم اور عبادت کا محدود تصور سرِ فہرست ہے۔ ان اسباب کی بناء پر مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے آخری اور حتمی دین کے تحرک اور فیض رسانی کو دوسری اقوام تک پہنچانے میں نہ صرف غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس الہامی اور فطری نظام زندگی کو دوسروں تک پہنچنے میں بھی ہم خود رکاوٹ بن گئے ہیں۔ قرآن نے امت مسلمہ کی اہم ترین خصوصیت امت وسط بیان کی ہے۔ وسط کے مفہوم میں اعتدال اور میانہ روی شامل ہیں۔ ''خيرالامور اوسطها'' یعنی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی امور ہی سراپا خیرو برکت ہیں۔ اعتدال انسانی فطرت اور نفسیات کے عین مطابق ہے جبکہ شدت میں زبردستی، زور آوری اور دبائو کا عنصر شامل ہوتا ہے جسے انسانی سرشت قبول نہیں کرتی اور اگر انسان پر کوئی چیز مسلط کردی جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لا اکراہ فی الدین فرماکر اپنے پسندیدہ دین اسلام کی خوبی بھی یہی بیان کی ہے کہ اس میں کوئی عمل بھی زبردستی نہیں ٹھونسا گیا۔ اسلامی تعلیمات عقائد و معاملات اور عبادات سب کے سب فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہیں۔ فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں بھی انسان کا اپنا جسمانی یا روحانی، دنیوی یا اخروی فائدہ مضمر ہے۔ ہم لوگ عبادت بھی کرتے ہیں اور مساجد میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام بھی پہلے سے زیادہ وسیع پیمانوں پر جاری و ساری ہے۔ اگر آپ جہادی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آتی ہیں بلکہ اب تو جس کو اور کوئی کام نہیں آتا وہ بھی جہاد کے لئے چل پڑتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کا مجموعی تاثر نہایت غیر تسلی بخش بلکہ پریشان کن کیوں ہے؟ اقوام عالم کی قطار میں اس کی سست رفتاری اور غیر فعالی سوالیہ نشان کیوں ہے؟ نجی زندگی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی زندگی تک ہر سطح پر بدامنی، بے چینی، اضطراب مسلمانوں کا مقدر کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات اور اسباب میں سے بنیادی وجہ مسلمانوں کا فکری انتشار، عدم اخلاص اور غیر اخلاقی رویے ہیں۔ مسلمان سیاستدان، معیشت دان، تاجر، اساتذہ، طلباء اور دانشور بالعموم چند عبادات اور عقائد کو کل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے معاملات یعنی پبلک ڈیلنگ کو کلیتاً دین سے علیحدہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مجموعی رویوںمیں بھی دین اور دنیا کی تقسیم جڑ پکڑ چکی ہے۔ ہم جب مسجد میں آتے ہیں تو خود کو اسلام میں داخل سمجھتے ہیں مگر جب دفتر، دکان، فیکٹری اور گھر میں جاتے ہیں تو خود کو مذہب سے فارغ کرلیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے اخلاق غیر مستحکم بلکہ کئی موقعوں پر بالکل کمزور ہوچکے ہیں۔ مذہبی شخصیات میں قول و فعل کا تضاد، نفرت و حقارت، فرقہ پرستی کا فروغ اور اب انتہاء پسندی کے نتیجے میں عروج پر پہنچی ہوئی دہشت گردی اسی انتشارِ فکری اور اخلاقی فقدان کا نتیجہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام جس انتشار اور تضاد کا شکار ہے اس میں بھی تدریسی اخلاقیات کا فقدان نظر آتا ہے۔ سیاستدان اور حکمران ریاستی امور میں جس قدر ہوس پرستی اور کرپشن کی دلدل میں اتر چکے ہیں اور اب اعلانیہ کرپشن روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہر بار انتخابی وعدے ہوتے ہیں قسمیں اور حلف اٹھائے جاتے ہیں مگر اقتدار کی راہداریوں میں پہنچتے ہی سب وعدے سب حلف اور تمام تعمیری عزائم ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ انہیں قوم کے مسائل سے کوئی غرض ہی نہیں رہی۔ ان کا ضمیر مردہ ہوکر مردار پسند بن چکا ہے۔ وزراء اور بیوروکریٹ قومی املاک کو گروی رکھ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ کمیشن کھاتے ہیںاور قومی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر بے دریغ لٹانے کے بعد قومی خزانہ خالی ہوجانے کی نوید سنادیتے ہیں لیکن آج تک نہ کسی کرپٹ حکمران افسر اور سیاستدان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور نہ کوئی چور ڈاکو عبرت ناک انجام کو پہنچ سکا۔ اس کی وجہ بھی ہر طرف پھیلی ہوئی منافقت اور مفادات ہیں۔ ہمارے قومی اور صوبائی عوامی نمائندگان انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے تمام تر غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں حتی کہ قاتلانہ حملے اور کھانوں میں زہر تک ملادینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ اقتدار کی ہوس میں انسانی اقدار کا یہ جنازہ کیوں نکلتا ہے؟ محض اس لئے کہ ہمارے اندر اخلاقی اور ایمانی جذبات ختم ہورہے ہیں۔ ویسے تو ہر شعبہ زندگی میں اخلاقیات کا فقدان نظر آتا ہے لیکن ان لوگوں کے معاملات دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے جو مذہبی پیشوائیت اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ علماء اور مشائخ ہماری مسلم سوسائٹی میں دین کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اسی نسبت سے لوگ انہیں احترام اور عزت دیتے ہیں مگر کتنی تعجب کی بات ہے کہ صبح و شام قرآن و حدیث کی تعلیمات کا درس دینے والے اور دین کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کردینے والے بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے ان حضرات کی اکثریت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہِ حسنہ اور خلقِ عظیم سے محروم ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں کو گلے لگایا، یہ لوگ اپنوں کو دین سے باہر نکالنے پر کمربستہ ہیں۔ پیغمبر اسلام نے کئی کئی روز تک مدینہ میںحاکم ریاست ہونے کے باوجود فاقے کئے، چند کھجوریں اور جو کی روٹی کے چند نوالے بھی میسر آئے تو اپنے جانثاروں میں تقسیم کردیئے مگرہمارے کتنے روحانی خانوادے اور دینی قائدین ہیں جو خود تو پرتکلف اور پرتعیش زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کے اردگرد ان کے حلقہ ہائے ارادت میں مسلمان بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہے ہیںمگر ان کا ضمیر اس پر انہیں کبھی ملامت نہیں کرتا۔ ہمارے بعض ناسمجھ علماء کے منفی رویوں، دوسروں سے نفرت اور بے جا فتوی بازی سے معاشرتی توازن بگڑ چکا ہے۔ نوجوان دین سے بیزار ہورہے ہیں اور اغیار ہماری ہنسی اڑا رہے ہیں مگر ان حضرات نے کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ کیا یہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کی اتباع ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کو من پسند صورت دے دی ہے۔ جیسے ایک عمارت بہت سے ستونوں سے مزین ہو مگر وہ چھت کے بغیر مکمل اور محفوظ نہیں ہوسکتی، اسی طرح دین کی چھت حسنِ خلق ہے جس کے بغیر ہم میں سے کسی کا دین محفوظ نہیں۔ ہم داعیِ توحید بھی ہیں، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویدار بھی ہیں، نمازوں کی پابندی بھی کرتے ہیں اور جہادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں مگر ہماری زندگیاں اسوہِ حسنہ کی سب سے نمایاں خوبی سے کلیتاً خالی ہیں۔ ہم دوسروں کو اعلیٰ مقام دینے کی اخلاقی جرات تو کیا اسے برابر کی حیثیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ہم دوسروں کی خیر خواہی کے جذبے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ دوسرے مکتبہ فکر کے حامل افراد سے ملنا اور ان کے ساتھ کھڑے ہونا بھی اپنی کسرِ شان اور توہین سمجھتے ہیں۔ اسلام کی عمارت کے ستون اور دیواریں بھی ہیں مگر اس کی چھت قائم نہیں اور ہم چھت کے بغیر عمارت کے مکین ہیں۔
urd_Arab
بھارت کے اتنہا پسند تنظیموں سے گٹھ جوڑ پر پاکستان نے ڈوزیئر تیار کرلیا - Alif Urdu بھارت کے اتنہا پسند تنظیموں سے گٹھ جوڑ پر پاکستان نے ڈوزیئر تیار کرلیا نومبر 14, 2020 نومبر 14, 2020 0 تبصرے 95 مناظر اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے بھارتی مداخلت اور اس کے دہشت گرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ سے متعلق ڈوزیئر تیار کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق یہ ڈوزیئر اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو پیش کیا جائے گا، ڈوزیئر میں بھارتی شہر کریلہ اورکرناٹک میں داعش اور بھارتی انتہا پسند تنظیموں اور ان کے افغانستان میں موجود رابطوں کے شواہد کی نشاندہی کی گئی ہے۔بھارت اور دہشت گرد تنظیموں کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان سمیت خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے، مزید کارروائیوں کیلیے ان تنظیموں کے درمیان رابطے جاری ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔ اس پریس کانفرنس میں جہاں کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے بارے آگاہ کیا جائے وہاں بھارت کی جانب سے ان دہشت گرد تنظیموں کے بارے بھی آگاہ کیے گئے جانے کا امکان ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے شاہ محمود قرییشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا بھارت کی اشتعال انگیزی سے متعلق شواہد موجود ہیں، بھارت کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی معاونت کر رہا ہے، اطلاعات ہیں سرحد کیساتھ بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے سازش ہو رہی ہے، پاکستان میں حالیہ دہشتگرد کارروائیوں کے پیچھے بھارت ہے، بھارتی کرنل راجیش افغانستان سے پاکستان مخالف سرگرمیاں کر رہا ہے۔میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا بھارتی سفارتخانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بن چکے، بھارتی کرنل راجیش نے 4 بار دہشتگردوں سے افغان سفارتخانے میں ملاقات کی، بھارت نے 30 داعش دہشتگردوں کو پاکستان منتقل کیا، بھارت کالعدم تنظیموں میں اربوں روپے تقسیم کر رہا ہے، را کی طرف سے ٹی ٹی پی کی معاونت کے ثبوت بھی ہیں، دہشتگرد تنظیموں کو مختلف ذرائع سے رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا بھارت نے سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنانے کیلئے خصوصی ملیشیا بنائی، الطاف حسین گروپ کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی فنڈنگ کے شواہد ہیں، بھارت دہشتگردوں کو اسلحہ اور بارود بھی فراہم کر رہا ہے، عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے علما کرام ان لوگوں کا ہدف ہے، بھارت دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کی پشت پناہی کر رہا ہے، دہشتگردوں کے 66 تربیتی مراکز افغانستان، 21 بھارت میں ہیں۔میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا پی سی گوادر پر دہشتگرد حملے کا ماسٹر مائنڈ را افسر انوراگ سنگھ تھا، ڈاکٹر اللہ نذر نے جعلی افغان پاسپورٹ پر بھارت کا سفر کیا، ڈاکٹر اللہ نذر کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ روابط ہیں، ڈاکٹر اللہ نذر، را حکام کے درمیان گفتگو کی آڈیو ٹیپس موجود ہیں، بھارت نے قندھار میں دہشتگردوں کے کیمپ کیلئے 30 ملین ڈالرز لگائے، دہشت گرد اسلم اچھو بھارتی ہسپتال میں زیر علاج رہا، اجمل پہاڑی نے چیف جسٹس کے سامنے تسلیم کیا بھارت نے 4 کیمپ قائم کیے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا بھارت نے بلوچستان میں انتشار کیلئے 23.5 ملین ڈالر دیئے، سٹاک ایکس چینج حملے میں بھارتی باردو، خودکش جیکٹس استعمال ہوئیں، بھارت گلگت بلتستان میں بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بھارتی خفیہ ایجنسی را نے مختلف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی منصوبہ بنایا، بھارتی افواج نے کل نہتے کشمیری شہریوں کو نشانہ بنایا، پشاور ایگریکلچر یونیورسٹی، اے پی ایس حملوں میں را ملوث تھی، ان حملوں کی ویڈیوز افغانستان سے اپ لوڈ کی گئیں۔
urd_Arab
جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟ - فتویٰ آن لائن جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کیا وعید ہے؟ سوال نمبر:478 زمرہ: عبادات | نماز | نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَو يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ : أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِيْنًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ الْعِشَاءَ. بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب وجوب صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم : 618 ''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔''
urd_Arab
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 اکتوبر2017ء) مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کی احتساب عدالت میں پیشی پر لیگی خواتین ایم این ایز نے جوڈیشل کمپلیکس میں داخلہ نہ ملنے پر دھرنا دیدیا۔مسلم لیگ (ن)کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر نیب ریفرنس کی سماعت کے لیے عدالت پہنچے تو مسلم لیگ(ن)کے کارکنان ان سے پہلے ہی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچ چکے تھے۔ احتساب عدالت کی جانب سے آج عدالت میں داخلے کے لیے 15 لوگوں کی فہرست جاری کی گئی تھی اور فہرست کے مطابق ہی لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تاہم وزیر مملکت مریم اورنگزیب کی والدہ اور ایم این اے طاہرہ اورنگزیب سمیت دیگر خواتین ممبران کو پولیس نے اندر جانے سے روک دیا۔پولیس اہلکاروں نے طارق فاطمی اور ان کی اہلیہ کو بھی اندر نہ جانے دیا جس کے بعد خواتین ایم این ایز نے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر قائم چیک پوسٹ پر احتجاج کیا اور دھرنا دے دیا۔
urd_Arab
سمندر کی سطح بڑھنے سے کراچی زیرآب آ سکتا ہے : سپارکو حکام اسلام آباد (92نیوز) سپارکو نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات کی رپورٹ قائمہ کمیٹی میں پیش کر دی۔ سپارکو حکام کا کہنا ہے کہ سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔ کراچی سمیت کئی ساحلی شہر خطرے میں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دنیا کے کئی ممالک خطرے میں ہیں۔ دریاوں اور سمندروں کے ڈیلٹے زمین میں دھنس رہے ہیں۔ 5 کروڑ انسانوں کو بچانے کے لیے بندوبست کر لیا جائے۔ وقت صرف 20 سے 25 سال کا ہے۔ سپارکو نے دنیا کے بدلتے ہوے موسموں اور ممکنہ تباہی کے خطرات کی گھنٹی بجا دی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلیوں کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران سپارکو حکام نے بتایا کہ مجموعی طور پر دنیا 7 برسوں سے خشک سالی کا شکار ہے۔ دریاوں میں پانی کا بہاو بہت کم ہے۔ سمندروں کی سطح ایک اعشاریہ3 ملی میٹرکی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ تازہ پانی مناسب مقدار میں نہ ملنے سے سمندر خشک زمین کو کھا رہے ہیں۔ سپارکو حکام کا کہنا ہے کہ دیگر سمندروں کی طرح بحیرہ عرب اور دریائے سندھ کے ڈیلٹے زمین میں دھنس رہے ہیں جس سے سب سے زیادہ خطرہ کراچی اور ساحلی پٹی کو ہے کیونکہ بنگال میں آنے والے سائیکلون کی شدت بحیرہ عرب کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں سمندر کی لہریں کراچی میں براہ راست داخل ہو سکتی ہیں۔ کراچی کو بچانے کے لیے یا تو ساحل کے قریب موجود انفراسٹرکچر کو پیچھے ہٹایا جائے یا بند باندھا جائے۔
urd_Arab
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے - Urdu News, Aalmi Times Home/اسلامیات/موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے عالمی ٹائمز دسمبر 1, 2018 0 47 12 minutes read اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ۔ تمہارا رب قریب ہے کہ تم سے تمہاری برائیاں دورکردے اورتمہیں داخل کردے ان باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،اس دن اللہ تعالیٰ نبی کواوراُن لوگوں کوجواُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں،رُسوانہ کرے گا،اُن کانوراُن کے آگے اوراُن کی دائیں جانب دوڑرہا ہو گا،وہ کہیں گے: ''اے ہمارے رب!ہمارانور مکمل کردے اور ہمیں بخش دے،بلاشبہ تو ہر چیزپرپوری قدرت رکھنے والا ہے۔''(سورہ۔تحریم۔آیت۔8) اصل میں توبۃً نصوحاً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کر دینے کے لیے نصاحۃ الثوب کا لفاظ استعمال کیا جاتا ہے۔ پس توجہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توجہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اسکی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کرلیں۔ جب انسان کے اندر شہوت کا غلبہ ہو تا ہے،شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے وہ برائیوں کو خوشنما دکھاتا ہے،پھر ہمارا نفس جو دنیاوی لذتوں میں گم ہو کر،ہم اپنی جان پر ظلم کر بیٹھتے ہیں اور حرام کردہ امور میں ملوث ہو جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالی کی ذات رحمت ہے کہ اپنے گنہگار بندوں کے سا تھ بھی انتہائی نرمی والا معاملہ کرتی ہے؛ اللہ تعالی کی رحمت ہر شئے سے وسیع ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی کرنے کے بعد توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے، پھر جو شخص ایسا ظلم کرنے کے بعد توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے وہ یقیناً بہت بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (المائدہ: 39) مخدوم شرف الدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں،پیدائش سے موت تک جو انسان گناہ کرتا ہے وہ انسان نہیں وہ شیطان ہے،پیدائش سے موت تک کوئی آدمی نیک کام کرتا ہے وہ بھی انسان نہیں ،وہ فرشتہ ہے۔انسان تو وہ ہے کہ جانے انجانے میں اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اللہ فوراََسے معافی مانگے،یہ آدم ؑ اور آدمؑ کے بیٹوں کی خاصیت ہے۔ اللہ تعالی معاف کرنے والا اور نہایت کرم کرنے والا ہے اسی لیے تو اپنے تمام بندوں کو سچی توبہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ رحمت الہی حاصل ہو۔ اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو یقینی بات ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔( التحریم: 8) توبہ کا دروازہ تمام بندوں کیلیے اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ عزوجل اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور دن میں اللہ تعالی اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے، یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا،جب تک سورج مغرب کی سمت سے طلوع نہ ہو جائے) مسلم: (2759)سچی توبہ محض زبانی جمع خرچ کا نام نہیں ہے، بلکہ سچی توبہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان گناہ سے فوری طور پر باز آ جائے اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرے اور توبہ کردہ گناہ دوبارہ نہ کرنے کا پورا عزم کرے، ہاں اگر کسی کے حقوق سلب کئے ہیں تو مستحقین کو ان کے حقوق لوٹا دے، توبہ کیلیے یہ بھی شرط ہے کہ موت نظر آنے سے پہلے انسان توبہ کرے۔فرعون کی طرح نہ کرے۔ حضرت ابو لبابہ بن عبدا لمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غزوئہ بنو قریظہ کے موقع پر ایک خطا سرزد ہو گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر نادم ہوئے کہ خود کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور کہا: جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں فرمائے گا تب تک نہ میں کچھ کھا?ں گا نہ پیوں گا،نہ کوئی چیز چکھوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے۔ حضور پرنورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو جب ان کے بارے میں پتا چلا تو ارشاد فرمایا:اگر یہ میرے پاس آ جاتا تو میں اس کے لئے مغفرت طلب کرتا لیکن اب اس نے خود کو باندھ لیا ہے تو جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرمائے گا، میں نہیں کھولوں گا۔ سات دن تک حضرت ابو لبابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ کوئی چیز کھائی، نہ پی، نہ چکھی، حتیٰ کہ ان پرغشی طاری ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جب انہیں توبہ کی قبولیت کے بارے میں بتایا گیا تو فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لا کر اپنے دست اقدس سے مجھے نہیں کھولتے۔ چنانچہ تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور اپنے پیارے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بندشوں سے آزاد فرمادیا۔ (دلائل النبوہ للبیہقی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الاحزاب ومخرجہ الی بنی قریظ۔۔۔ الخ،4/31-41، خازن، الانفال، تحت الاٰیت: 72،2/091) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں گراہوا۔ (مشکوٰۃص:333) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گنہگاروں کا رونا، آہ کرنا، گڑگڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔(او کما قال ﷺ) مولانا رومیؒ فرماتے ہیں: قطرئہ اشکِ ندامت در سجود ہمسری خون شہادت می نمود (ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے) اس سے شہدا ٗوںکے مقام اور مرتبہ میں کمی واقع نہیں ہوتی۔شہدا ئے اسلام اللہ کے یہاں بڑے مقام کے حامل ہیں۔ حضرت مالک دینارؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے ایک دن حضرت حسن بصریؒ سے یہ پوچھا کہ لوگوں کی تباہی کس چیز پوشیدہ ہے؟تو آپ نے فرمایا کہ مردہ دلی میں ہے۔میں نے پوچھا۔''مردہ دلی کا کیا مطلب ہے؟''حضرت نے فرمایا۔''دنیا کی جانب راغب ہو جانا مردہ دلی ہے۔'' حضرت جنید بغدادی ؒکے پاس ایک حسین عورت آئی اور پوچھا میرا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے پاس ایک عورت آئی، اور پوچھا کے حضرت آپ سے ایک فتویٰ چاہئے کہ اگر کسی مرد کی ایک بیوی ہو تو کیا اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح جائز ہے؟ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا بیٹی اسلام نے مرد کو چار نکاح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ چاروں کی بیچ انصاف کر سکے -اس پر اس عورت نے غرور سے کہا کہ حضرت اگر شریعت میں میرا حسن دکھانا جائز ہوتا تو میں آپ کو اپنا حسن دکھاتی اور آپ مجھے دیکھ کر کہتے کہ جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہو اسے دوسری عورت کی کیا ضرورت؟ اس پر حضرت نے چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے – وہ عورت چلی گئی جب حضرت ہوش میں آئے تو مریدین نے وجد کی وجہ پوچھی۔حضرت نے فرمایا کہ جب عورت مجھے یہ آخری الفاظ کہ رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ الفاظ القا کیے کہ: اے جنید! اگر شریعت میں میرا حسن دیکھنا جائز ہوتا تو میں ساری دنیا کو اپنا جلوہ کرواتا تو لوگ بے اختیار کہہ اٹھتے کہ جس کا اتنا خوبصورت اللہ ہو اسے کسی اور کی کیا ضرورت ہے؟ ایک مرتبہ حضرت حبیب عجمیؒ کسی کونے میں بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے کہ جس کاقلب تجھ سے مسرور نہ ہو،اس کو ئی مسّرت حاصل نہیں ہوئی اور جس کو تجھ سے انس نہ ہو، اس کو کسی سے انس نہ ہو۔''لوگوں نے پوچھا۔''جب آپ گوشہ نشین ہو کر دنیا کی تمام باتوں سے الگ ہو چکے ہیں تو یہ بتائیے کہ رضا کس شے میں ہے؟'' آپ نے فرمایا،''رضا تو صرف اسی قلب کو ہے جس میں کوئی کدورت نہ ہو''۔ ایک شخص ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے بحث کررہا تھاکہ برکت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ابراہیم بن ادہم نے کہا کہ تم نے کتے اور بکریاں دیکھیں ہیں وہ شخص بولا ہاں۔ابراہیم بن ادہم بولے سب سے زیادہ بچے کون جنتاہے کتے یابکری وہ بولا کہ کتے۔ابراہیم بن ادہم بولے تم کو بکریاں زیادہ نظر آتیں ہیں یاکتے وہ بولا بکریاں۔ابراہیم بن ادہم بولے جبکہ بکریاں ذبح ہوتیں مگر پھر بھی کم نہیں ہوتیں توکیا برکت نہیں ہے اسی کانام برکت ہے۔پھر وہ شخص بولا کہ ایسا کیوں ہے کہ بکریوں میں برکت ہے اور کتے میں نہیں۔ابراہیم بن ادہم بولے کہ بکریاں رات ہوتے ہی فورا سوجاتیں ہیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتیں ہیں اور یہ نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے لہذا ان میں برکت حاصل ہوتی ہے۔اور کتے رات بھر بھونکتے ہیں اور فجر کے قریب سوجاتے ہیں لہذا رحمت وبرکت سے محروم ہوتے ہیں۔پس غوروفکر کامقام ہے آج ہمارابھی یہی حال ہے ہم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ہیں اور وقت نزول رحمت ہم سوجاتے ہیں اسی وجہ سے آج نہ ہی ہمارے مال میں اور نہ ہی ہماری اولاد میں اورنہ ہی کسی چیز میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے، (سورہ۔الزمرآیت۔53) اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا؟ اس پر آیت۔۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا(سورہ۔فرقان۔آیت۔68)اور یہ آیت نازل ہوئی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو؟ آپ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا؟ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا؟ اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ (اللہ پاک ایسے ایسے دشمنوں کو بھی معاف کرنے کیلئے آمادہ ہیں)تو پھر اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ کی رحمت ومغفرت سے مایوس ہو تو گویا اس نے اللہ کی کتاب قرآن مجید کا انکار کیا۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام امید لے کر آئی تھی جو جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔ ان سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زید نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468) حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کرنے والے جب اپنی قبروں سے نکلیں گے تو ان کے سامنے کستوری کی خوشبو پھوٹے گی،یہ جنت کے دسترخوان پر آکر اس سے تناول کریں گے،عرش کے سایہ میں رہیں گے،جب کہ بہت سے لوگ حساب و کتا ب کی سختی میں ہوں گے۔صحیح مسلم سیدنا عمران ابن حصین ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔اسے زنا کا حمل تھا۔وہ عرض کرنے لگی یارسول اللہ ﷺ میں وہ کام (یعنی زنا )کر بیٹھی ہوں۔رسول اللہ ﷺ نیاس کے ولی کو بلا کر ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ اچھا سلوک کرواور جب وضع حمل ہو جائے تو اسے میرے پاس لے آنا،پھر ایسا ہی ہوا(یعنی وضع حمل کے بعد ولی خدمت اقدس ﷺ میں لے کرحاضر ہوئے)تب رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے اس کے کپڑوں ساتھ باندھا جائے،تا کہ ستر نہ کھلے،پھر اسے رجم کیا گیا ۔بعدازاںرحمت العالمین ﷺ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی۔سیدنا عمر ابن خطاب ؓ عرض گزار ہوئے۔یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی حالانکہ اس نے زنا کاارتکاب کیا تھا،اس پر نبی برحق ﷺ نے ارشاد فرمایایقیناََ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہل مدینہ کے ستّر (70)افراد پر تقسیم کی جائے توتو انہیں بھی کافی ہو جائے گی۔یعنی ان کی مغفرت ہو جائے ۔اور ائے عمر ؓ تو نے اس سے افضل کوئی توبہ دیکھی ہے کہ اس نے اپنی جان محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر قربان کردی۔(او کما قال ﷺ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے (جبکہ وہ اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے) اُس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جتنی خوشی تم میں سے کسی مسافر کو اپنے اُس (سواری کے) اونٹ کے مل جانے سے ہوتی ہے جس پر وہ چٹیل بیابان میں سفر کررہا ہو۔(اور اونٹ گم ہو کر مل جائے،اس کے گم ہونے سے مسافر پریشان ہو پھر اسے مل جائے)مفہوم حدیث(اوکما قال صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح) اللہ رب العزت نہایت کریم اور رحیم ہے جو شخص گناہوں سے باز رہنے کا پکا ارادہ کرکے سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتا ہے۔اس نے اپنی ذات پاک پر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔ ""اور جب آپ کے پاس وہ آئیں جوہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کہہ دیں تم پرسلام ہو، تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت لازم کر رکھی ہے،یقیناوہ جو تم میں سے نادانی میں کوئی بُرائی کر بیٹھے،پھراس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تویقیناوہ بے حدبخشنے والا،نہایت رحم والا ہے۔(سورہ۔الانعام۔آیت۔54) جو لوگ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے گناہ ہو چکے تھے۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد اگرچہ ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں، لیکن مخالفین اسلام ان کو سابق زندگی کے عیوب اور افعال کے طعنے دیتے تھے۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ اہل ایمان کو تسلی دو۔ انہیں بتائوکہ جو شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے اس کے پچھلے قصوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ندامت ہی توبہ ہے۔(مسند احمد بن حنبل، المسند، 1:376۔رقم:3568) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا۔ چنانچہ میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ''تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے؟'' میں نے کہا: اسی قدر (چھوڑ آیا ہوں) اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کل مال (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ''تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے؟'' کہا: میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے۔ تب مجھے کہنا پڑا، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا۔(ترمذي، الجامع الصحیح، 6: 614ابواب المناقب، رقم: 3675۔ ابو داؤد، 2: 129، السنن کتاب الزکٰوۃ، رقم: 1678۔دارمي، السنن، 1: 480، رقم: 1660۔حاکم، المستدرک، 1: 574، رقم: 1510. بزار، المسند، 1: 394، رقم: 270۔ عبد بن حميد نے 'المسند (ص: 33، رقم: 14)' ميںسعد بن اسلم سے روا یت لی ہے۔ ابن ابي عاصم، السنہ، 2: 579، رقم: 1240۔ مقدسي، الاحادیث المختار، 1: 173، 174، رقم: 80، 81۔ ابو نعیم نے 'حلیۃ الاولیاء (1: 32)' میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا ہے۔ ابن الجوزی نے 'صفۃ الصفوہ (1: 241)' میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ محب طبری نے بھی 'الریاض النضرہ (1: 355)' میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔بیہقی، السنن الکبریٰ، 4: 180، رقم: 7563)
urd_Arab
مقدس فاروق اعوان منگل 23 اپریل 2019 16:40 اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین23اپریل2019ء) شمالی بحیرہ عرب میں پاک بحریہ نے میزائل فائرنگ کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق پاک بحریہ کے فاسٹ اٹیک کرافٹ نے سطح سمندر سے زمین پر میزائل فائر کیا۔مقامی سطح پرتیار کیے گئے میزائل نے کامیابی سے اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ میزائل سمندر سے سمندر اور سمندر سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ترجمان پاک بحریہ کے مطابق میزائل پاکستان کے جدید اسلحہ سازی کی استعداد اور آپریشنل صلاحیت کا عملی ثبوت ہے۔وائس ایڈمرل کلیم شوکت نے پی این ایس معاون سے میزائل فائرنگ کا مشاہدہ کیا۔وائس چیف آف نیول اسٹاف نے پاکستان نیوی فلیٹ کی آپریشنل تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
urd_Arab
مغربی میڈیا کے سائبر حملوں کے دعوے کو ایران نے کیا مسترد : چوتھی دنیا : مغربی میڈیا کے سائبر حملوں کے دعوے کو ایران نے کیا مسترد مغربی میڈیا کے ذریعہ ایران پر کامیاب سائبر حملوں کی خبروں کو ایران نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے ۔مغربی میڈیا میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ تہران کے شعبہ آئل سے منسلک آن لائن نظام پر 'سائبر حملے کامیاب' رہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران کے سرکاری محکمہ برائے سائبر سیکورٹی نے بتایا کہ 'مغربی میڈیا کی رپورٹس کے برعکس، تحقیقات سے ثابت ہوا کہ تہران کی تیل پر مشتمل تنصیبات اور اہم انفراسٹرکچر پر 'سائبر حملے سے کوئی نقصان' نہیں پہچا۔تاہم اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس رپورٹ کے بارے میں بات کررہے تھے۔نیٹ بلاکس نامی ایک تنظیم نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'نیٹ ورک ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں انٹرنیٹ کی ترسیل متاثر ہوئی'۔ تنظیم کے مطابق 'انٹرنیٹ کے متاثر ہونے کی وجہ نامعلوم ہے تاہم اثر محدود تھا اور آن لائن صنعت اور حکومتی پلٹ فارم متاثرہے۔اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ ایران کے بعض نیٹ ورک پر غیرمطلوبہ تکنیکی واقعات پیش آئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کسی نظام کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی ہو'۔ واضح رہے ایران کے وزیر ٹیلی کمیونیکیشن جواد اظہری جہرومی میں تصدیق کرچکے ہیں کہ تہران کو سائبر دہشت گردی کا سامنا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے بتایا تھا کہ اسٹکس نیٹ وائرس کا علم 2010 میں ہوا تھا، جس سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران میں جوہری ٹھکانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ وائرس بنایا تھا۔ خیال رہے کہ گزشتہ رواں برس جون میں تہران کی جانب سے امریکی ڈرون مار گرانے کے واقعے کے بعد واشنگٹن نے ایرانی میزائل کنٹرول سسٹمز اور جاسوسی نیٹ ورک پر حملے کیے تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے بعد امریکی سائبر کمانڈ کو خفیہ طور پر جوابی حملے کا حکم دیا تھا۔اخبار کے مطابق حملے کے نتیجے میں راکٹ اور میزائل کو کنٹرول کرنے والے کمپیوٹر ناکارہ بنادیے گئے تھے جبکہ یاہو نیوز کا کہنا تھا کہ حملے میں خلیج عمان میں موجود بحری جہازوں کو پتہ لگانے کے ذمہ دار جاسوسی گروپ کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
urd_Arab
کیا آپ اپنے کچن سے ہونے والی بچت ضایع کر رہے ہیں؟ | Unilever Food Solutions کیا آپ اپنی آمدنی کچن کے ڈرین میں ڈال رہے ہیں؟ فضلا کیسے کم کیا جاے۔ کیا آپ نے کھانے کے تحفظ کے بارے میں سنا ہے؟ نہیں؟ یہ اپنے قیمتی مصالحجات تالا بند کرنا نہیں ہے۔بلکہ، مذاق کے علاوہ، یہ ایک ایسا پلان ہے جس کے تحت آپ یقینی بناتے ہیں کہ آپ کے کچن سے اتنا کھانا ملتا رہے کہ سب کھانا کھا سکیں۔ یہ صرف کھانا پکانے کے حوالے سے نہیں بلکہ پھیکے جانے والے کھانوں کو بچانے کے حوالے سے بھی ہے۔ آفیشل اعداد کے تحط، دنیا کا ایک تہائی کھانا استعمال ہونے سے پہلے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ تقریباً 2 ارب لوگوں کو کھلانے کے لیے کافی ہے۔ ہاں، یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے اور شاید کام کے اوقات کے بعد اس پہ بڑی بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم یونی لیور والے یہ فخر سے کہ سکتے ہیں کہ استحکامی سوچ ہماری رگ رگ میں بسی ہے۔ اپنی تحقیق سے ہمیں پتا چلا ہے کہ 84% لوگ اس بات کے بارے میں فکرمند ہیں کہ جن جگہوں پر وہ کھانا کھاتے ہیں وہاں کتنا کھانا پھینکا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ 70% لوگ اس بات کے لیے زیادہ رقم بھی خرچ کرنے کو تیار ہیں کہ ان کا پسندیدہ ہوٹل یا ریسٹورانٹ فضلے کو ٹھیک تریقے سے ٹھکانے لگانے کا انتظام کرے۔ یہ بات اتنی پیچیدہ نہیں جتنی سننے میں لگ رہی ہے۔ آپ نے 3 ڈبے بنانے ہیں، بیکار فضلہ، کھانا بناتے وقت کا کچرہ اور گاھک کی پلیٹ میں رہ جانے والا کھانا (عموماً 30% کھانا بالکل ضائع ہوتا ہے اور گاھک اسے ہاتھ بھی نہیں لگا پاتے). کم از کم 3 روز کے لیے ریکارڈ بنایں، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس جگہ توجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ آپ چاہتے ہونگے کہ ایسی تمام ڈشیں جو بن سکتی ہیں، آپ اپنے گاھکوں کو پیش کریں، اس کے لیے آپ کو زیادہ تعداد میں کھانا تیار کرنے کی اشیاء کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب کہ آپ کا اسٹاک ختم ہونے کا زیادہ خطرہ زیادہ بھرا ہوا کچن اور زیادہ کھانا پکانے والے لوگ۔ اس مشکل کو کم کرنے کے لیے دیر تک پکنے والے کھانوں اور زیادہ اسٹاک اور افراد جن ڈشوں میں لگتے ہیں ان کو مینو سے خارج کر دیں۔ پیشین گوئی کرنا فضلے کو روکنے کے لیے ایک اہم جزو ہے۔اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اندازہ لگانا ہے کہ آپ کے مینو میں کتنے ایسے کھانے ہیں جو آپ کے گاھک واقعی کھائیں گے۔ آپ کو موسم کا بھی خیال کرنا ہوگا۔ تازہ اور مزیدار چکن سلاد شاید گرمیوں میں ھٹ ہو، لیکن سردیوں میں یہ یقیناً کچرے دان کی زینت بنے گی۔ اپنے آس پڑوس کے ایونٹس اور فیسٹیول کا بھی خیال رکھیں۔ شاید کسی بڑے فیسٹیول یا ایوینٹ کی وجہ سے آپ کے یہاں گاھک زیادہ آئیں سچ کو آنچ نہیں۔ اپنی کچن ٹیم کا جایزہ لیں اور ان کی کمزوری اور ان کے مضبوط پوائینٹس کو ذہن میں رکھیں۔ کیا یہ آپ کے مینو میں دی گئی ڈشیں اچھی طرح بنا سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کچرا بڑھے گا ، اور تلخیاں بھی۔ یعنی آپ کو ان دونوں مسائل کو ہل کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ پیلیا، ایک لذیذ اسپینش ڈش ہے۔ یہ ان چند پہلی ڈشز میں سے ایک ہے جو بچے کچے کھانوں سے بنتی ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کتنی مشہور ڈش ہے۔ اسہی طرح ہم چکن کے ٹکڑے استعمال کر سکتے ہیں ایک ٹیرین نامی ڈش بنانے کے لیے، بچی کچی بریڈ استعمال کر سکتے ہیں بریڈ کا میٹھا بنانے کے لیے، اور بچی ہوئی سبزیوں کا ذائقہ دار سوپ بن سکتا ہے۔ زرا سی تگڑم لگا کر اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کر کے آپ کچن کے فضلے سے ایک اچھی اور مزیدار ڈش بنا سکتے ہیں۔ آخری بات۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ری سائیکلنگ کے ماہر ہیں۔ یونی لیور کے پی ای ٹی ری سائیکلنگ کے عزم کے بارے میں جانئیے۔ سی ٹی اے، یہاں ساین اپ کریں کیا آپ مزید ایسے آیڈیاز جاننا چاہتے ہیں جو آپ کے کچن کی افادیت کو برقرار رکھ سکیں؟ تو یونی لیور فوڈ سولیوشن کے نیوز لیٹر کے لئے ساین اپ کیوں نہیں کرتے؟ چٹکلوں اور ٹوٹکوں سے بھرپور، یہ سیدھا آپ کے انباکس میں آتا ہے۔ اب آپ کے بچے ہوے کاموں کی لسٹ میں ایک کام کم ہو جاے گا۔
urd_Arab
ٹرین روک کر دہی خریدنے جانے والا ڈرائیور معطل – Daily Basarat, روزنامہ بصارت ,Pakistan News, Today News< Urdu News اہم خبریںتازہ ترینقومی مسافر بس، وین یا نجی گاڑی کو سڑک کنارے کھڑا کر کے کسی کام سے ڈرائیور کا اِدھر اُدھر ہوجانا تو سنا اور دیکھا گیا ہے لیکن کسی ٹرین ڈرائیور کا ٹرین روک کر دہی لینے کے لیے چلے جانا خلاف معمول سی بات لگتی ہے۔ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے قریب پاکستان ریلوے کی ایک ٹرین کے ساتھ ایسا ہوا تو یہ مناظر سوشل میڈیا پر خاصی دلچسپی سے دیکھے گئے۔ صارفین کی جانب سے کہیں ڈرائیور کو اس حرکت پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو کوئی محکمہ ریلوے کو سخت سناتا رہا جو اپنے سٹاف کو نظم و ضبط کا پابند نہیں رکھ سکا ہے۔ توصیف احمد اعوان نامی ٹویپ نے اپنے تبصرے میں لکھا 'یار یہ کون لوگ ہیں۔ ٹرین ڈرائیور ٹرین روک کر دہی لینے پہنچ گیا۔' منگل کو پاکستان ریلوے کے ٹرین ڈرائیور اور محکمے پر تنقید کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے دہی خریدنے کے لیے جانے والے ٹرین ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور کو معطل کرنے کی ہدایت جاری کردیں۔ وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم سواتی کے ردعمل کے ساتھ جاری کردہ تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ لاہور ڈویژن میں کاہنہ کاچھا ریلوے سٹیشن کے قریب انجن نمبر 5217 کا اسسٹنٹ ڈرائیور ٹرین روک کر دہی خریدنے کے لیے بازار گیا تھا۔ جس پر ٹرین ڈرائیور رانا محمد شہزاد اور افتخار حسین اسسٹنٹ ڈرائیور کو معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے کے مطابق اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی برداشت نہیں کیے جائیں گے، اگر آئندہ بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو متعلقہ شخص کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے گا۔ ٹرین ڈرائیور کے عمل اور وفاقی وزیر کے ایکشن کے باوجود بھی کچھ صارفین مطمئن نہ ہوئے تو انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ محکمہ سدھرنے والا نہیں ہے۔ پاکستان ریلوے کے ٹرین ڈرائیور کی جانب سے دہی کی خریداری کے لیے ریلوے ٹریک سے باہر جانے کا معاملہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند ہفتے قبل محکمہ ریلوے کے ایک ڈویژنل سپریٹنڈنٹ کی جانب سے سٹاف کے لیے سمارٹ فون پر پابندی کا حکم سامنے آیا تھا۔ اس ہدایت میں کہا گیا تھا کہ ٹرین ڈرائیور، اسسٹنٹ ٹرین ڈرائیور، اسٹیشن ماسٹر، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر سمارٹ فون استعمال نہیں کریں گے البتہ ضرورت پڑنے پر یہ ملازمین سادہ فون استعمال کر سکتے ہیں۔
urd_Arab
کیا گرم موسم میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا ؟ – Mashriq TV & Newspaper مارچ 31, 2020 June 3, 2020 ویب ڈسک: کیا گرم موسم میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا ؟ ماہر سمیات تھوماس پیٹشمان بتاتے ہیں کہ موسم بہار سے کیوں امیدیں وابستہ ہیں اور خواتین کیسے کووڈ انیس مرض سے مقابلہ مردوں کی نسبت بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ کیا گرم موسم میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا ؟ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو نیا کورونا وائرس وبائی زکام کے وائرس جیسا ہو جائے گا۔ اس کے بعد درجہ حرارت میں اضافے سے مرض پھیلانے والا جرثومہ ختم ہو جائے گا جس سے COVID-19 مرض بھی رک جائے گا۔ موسم بہار اور گرمی کی شدت بڑھنے سے امیدیں تو وابستہ ہیں لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نیا کورونا وائرس بھی وبائی زکام کے وائرس کی طرح کام کرے گا۔ وائرس سے متعلق امراض کے ماہر (وائرالوجسٹ) تھوماس پیٹشمان کا کہنا ہے کہ ماہرین اس بات کی پیش گوئی اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ، 'حقیقت یہ ہے کہ ہم اس وائرس کو ابھی تک نہیں جانتے'۔ اس ضمن میں جرمن شہر ہینوور کے ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ تھوماس پیٹشمان کا مزید کہنا ہے، ''اس وائرس کی خاص بات یہ ہے کہ انسانوں کو پہلی مرتبہ اس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چین سے حاصل کردہ ڈیٹا سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ وائرس جانوروں سے ایک انسان تک پہنچا اور پھر وہاں سے پھیلنا شروع ہو گیا۔'' علاوہ ازیں بیرونی صورت حال بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مددگار ہے، جس میں ایک عنصر درجہ حرارت کا بھی شامل ہے۔ سانس کی نالی کے ذریعے پھیلنے والے وائرس کے لیے سرد موسم سازگار ہوتا ہے۔ پیٹشمان کا کہنا تھا، ''کم درجہ حرارت میں وائرس مستحکم ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فریج میں رکھا ہوا کھانا زیادہ دیر تازہ رہتا ہے۔ موسم گرم ہونے کے ساتھ کئی وائرسوں کے لیے حالات سازگار نہیں رہتے۔ پیٹشمان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''کورونا وائرس کے گرد چربی کی تہہ ہوتی ہے جو گرمی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت بڑھتے ہی تہہ ٹوٹ جاتی ہے۔'' سانس کی نالی سے متلعقہ وائرسوں کی منتقلی میں ہوا میں نمی کا تناسب بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ چھینکنے یا کھانسی کی صورت میں جرثومے باہر نکل کر ہوا میں عملی طور پر معلق ہو جاتے ہیں۔ پیٹشمان نے اس بارے میں بتایا ، ''زیادہ نمی کے مقابلے میں سرد اور خشک موسم میں وائرس ہوا میں زیادہ دیر تک معلق رہتا ہے
urd_Arab
جمعرات 9 فروری 2017 16:49 اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 فروری2017ء) ڈپٹی میئر اسلام آباد سیّد ذیشان علی نقوی نے کہا ہے کہ سرسبز و شاداب پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی کے طور پر اسلام آباد کے سرکاری شعبہ کے 422 سکولوں کو ''گرین سکول'' بنایا جائے گا۔ اس امر کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں شجرکاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریب میں مختلف سکولوں کے بچوں کی بڑی تعداد کے علاوہ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی جس کا اہتمام پائیدار ترقی سے متعلق غیر سرکاری تنظیم ایس ڈی پی آئی اور پاکستان یوتھ فار کلائمیٹ نیٹ ورک (پی وائی سی این) نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے اشتراک سے کیا تھا۔ شجرکاری کی اس مہم کا مقصد ''گرین پاکستان'' کے نام سے قومی شجرکاری مہم کو تقویت دینا تھا جس کا آغاز پاکستان کے تمام صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ساتھ کیا گیا ہے اور جس کے تحت ملک بھر میں 257 ملین درخت لگائے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ڈپٹی میئر اسلام آباد نے کہا کہ حکومت اور سول سوسائٹی کے اداروں کا قومی مقصد کیلئے مل کر کام کرنا ایک خوش آئند امر ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ توقع کی جانی چاہئے کہ نجی شعبہ بھی اپنی سماجی ذمہ داریوں کے تحت اس مقصد میں ہاتھ بٹانے کیلئے آگے آئے گا۔ جنگلات کی کٹائی اور اس باعث زہریلی گیسوں کے اخراج کی روک تھام کیلئے قائم ادارہ (آر ای ڈی ڈی) کی نمائندہ ماجیلا کلارک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ جنگلات کے فروغ کی اہمیت کو اجا گر کرنے کی تمام کاوشوں میں ہاتھ بٹائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر ای ڈی ڈی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ملک کر اس ضمن میں پاکستان کیلئے پالسیی پر کام کر رہا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے شکیل احمد رامے نے کہا کہ پی وائی سی این اور ایس ڈی پی آئی اپنی اس کاوش کے ذریعے بہتر اور صاف ستھرے ماحول کیلئے درختوں کی اہمیت جو اجا گر کرنا چاہتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی نے پی وائی سی این اور سول سوسائٹی کے دوسرے اداروں کے ساتھ ملک کر پشاور، کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی شجرکاری مہم کی افتتاحی تقریبات کا انعقاد کیا اور ایک بہتر پاکستان کیلئے درختوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
urd_Arab
25جولائی کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی واضح کامیابی ہوگی، سراج منیر مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 جون2018ء) مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے مرکزی ممبرمجلس عاملہ شیخ سراج منیر نے کہا ہے کہ نے 25جولائی کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی واضح کامیابی ہوگی، میاں نواز شریف پاکستانی عوام کے نجات دہندہ ہیں،پاکستان کو دہشتگردی مہنگائی،بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ سے نجات دلانا مسلم لیگ ن کی قیادت کا انمول کارنامہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے مرکزی ممبرمجلس عاملہ شیخ سراج منیر نے گزشتہ روز مسلم لیگی کارکنوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر کے آئین میں 13 ویں ترمیم کا کریڈٹ صرف وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کو جاتا ہے ۔عمران خان صرف کرکٹ کھلیں ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں ۔یوٹرن لینے والے صرف یوٹرن ہی لیں ،پاکستان وآزادکشمیر میں حقیقی تبدیلی مسلم لیگ ن لے کر آئی ہے جس کی وجہ سے آج ملک کے اندر امن اورروشنی ہے ،انہوں نے کہا کہ پاکستان کے باشعور،غیور عوام 25جولائی کو ایک بار پھر مسلم لیگ ن کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائیں گے۔
urd_Arab
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت خطے کیلئے گیم چینجرہو گی ،فواد چوہدری – Daily Wifaq – روزنامہ وفاق پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت خطے کیلئے گیم چینجرہو گی ،فواد چوہدری Tagged: پاکستان اور بھارت, پی ڈی ایم کی حالت, تجارت گیم چینجر ہو گی, مریم نواز شریف, وفاقی وزیر فواد چوہدری تجارت کے نتیجہ میں کشمیری عوام ہیں ان کو نہیں لگنا چاہئے کہ ان کے جو زخم ہیں ان کو ہم بھول گئے ہیں وزیر اعظم کی ٹویٹ کا پاکستان اور بھارت کیساتھ تعلقات سے تعلق نہیں بلکہ ان کی یہ بات خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیا پر تھی پی ڈی ایم کی جو حالت ہوئی ہے ،مریم نواز شریف اس صدمہ سے باہر نہیں آپارہیں،وفاقی وزیر اطلاعات اسلام آباد (ویب نیوز)وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہو گی تو یہ اس خطہ کے لئے گیم چینجر ہو گی اور اس سے پاکستان اور بھارت دونوں کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن اس تجارت کے نتیجہ میں جو ہمارے کشمیری عوام ہیں یا مسلمان ہیں ان کو یہ تو نہیں لگنا چاہئے کہ ان کے جو زخم ہیں ان کو ہم بھول گئے ہیں اور بھارت کے ساتھ ہم جو تجارت کررہے ہیں وہ ان کو نظر انداز کرکے کررہے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بھارت بھی ایسے اقدامات کرے جس کے نتیجہ میں ہمارے جو وہاں کے مسلمان ہیں یا کشمیری ہیں ان کو لگے کہ ان کی اہمیت برقرارہے ،ہمارے جو کشمیری مسلمان بھائی ہیں اور اس کے بعد وہاں پر جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے اس کو نظر انداز کرکے تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا،پی ڈی ایم کی جو حالت ہوئی ہے ،مریم نواز شریف اس صدمہ سے باہر نہیں آپارہیں اس لئے ان کو پی ٹی آئی ٹوٹتی نظر آرہی ہے، حالانکہ ٹوٹ (ن) لیگ رہی ہے اور میاں محمد شہبازشریف کے آنے کے بعد تو مریم نواز کو خود بھی نہیں پتہ کہ (ن)لیگ میں ان کا مستقبل کیا ہے۔ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک سال قبل ہم نے اپنے ہیلتھ سیکٹر کو وسعت نہ دی ہوتی تو آج بھی ہماری حالت بھارت جیسی ہو سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایک سال پہلے ہم نے اقدامات شروع کئے اس کے نتیجہ میں ابھی تک ہم کوروناوائرس کی وباء کا مقابلہ کامیابی سے کررہے ہیں۔ 26فروری2020کوجب پاکستان میں کوروناوائرس کاپہلا کیس رپورٹ ہوا تو اس وقت نہ ہم کچھ بنارہے تھے اور نہی ہماری استعدادکارتھی۔ پاکستان نے زبردست کوشش کی جس کے نتیجہ میں ملک میں صحت کی سہولتوں میں اضافہ ہوا، ہم نے اپنی چیزیں بنانا شروع کردیںاور آج ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن اب ایشو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوروناوائرس کے کیسز کی شرح11.4فیصد سے بڑھ رہی ہے اور اگر یہ شرح بڑھ کر 15فیصد ہو گئی تو پھر ہمارے موجودہ وسائل کم ہوجائیں گے اور ان پر اتنا بوجھ آجائے گا کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے اور اس میں سب سے بڑا خطرہ آکسیجن کا ہے جو کہ اس وقت ہم 90فیصد صلاحیت پر چل رہے ہیں۔ ہم نے آکسیجن بنانے کی جو 90فیصد صلاحیت تھی اس کو ہم نے100فیصد کردیا ہے اور جو آکسیجن صنعتی شعبہ کے لئے استعمال ہورہی تھی اس کو بھی ہم نے صحت کے شعبہ کو دے دیا ہے، ابھی تک ہماری ضروریات پوری ہورہی ہیں اور اگر یہ معاملہ بڑھ جاتا ہے تو پھر ہمارے لئے مسئلہ ہو گا ، اسی لئے ہم تمام شہریوں سے بار، بار درخواست کررہے ہیں کہ آپ احتیاط کریں کیونکہ احتیاط کے علاوہ اس کا کوئی قلیل المدتی حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم مکمل لاک کر دیں گے تو اس کا مطلب کیا ہوگا، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو ناردرن پاکستان ہے ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان ہے اگر ہم آج لاک ڈائون کردیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں پر تیل ختم ہو جائے گا ، ہم امپورٹ اور ایکسپورٹس کے آرڈرز بری طرح متاثر ہوںگے ، ہم ٹرانسپورٹ نہیں چلا پائیں گے ، ہماری فوڈ سپلائی چینز بری طرح متاثر ہوں گی، ہمارے ہاں آٹے ، چینی اور دیگر چیزوں کی کمی ہوجائے گی اور اوپر سے رمضان ہے ؛ لہذا لاک ڈائون کی چھوٹی، چھوٹی تفصیلات بھی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات اسد عمر اور این سی او سی کو یہ ٹاسک دیا ہے وہ ایک تفصیلی منصوبہ تیار کریں کہ جب لاک ڈائون ہو گا تو یہ سارے معاملات کو ہم نے کیسے دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان کی ٹویٹ کا پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات سے تعلق نہیں بلکہ ان کی یہ بات خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیا پر تھی ۔ بھارت کے عوام کے ساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ تو ہمارا صدیوں کا رشتہ اور تعلق ہے، ایک خاص شدت پسند طبقہ جو کہ بھارت میں ہے اور اس نے مسلمانوں کی بالخصوص اور اقلیتوں کی بالعموم زندگیوں کو اجیرن بنایا ہوا ہے وہ ہمارے اختلافات کی بنیاد ہے اور کشمیر کے اوپر بھارتی حکومت کی خاص طور پر جو پالیسیاں ہیں ان پر ہمارااختلاف ہے۔ بھارت میں وباء کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور میں نے گذشتہ روز ٹویٹ کیا اور انسانیت کا رشتہ سب سے محترم اور اہم رشتہ ہے اور اس کا ہم نے خیال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ بہت اچھے تعلقات کار چاہتے ہیں اور خصوصاً اصلاحات کو لے کر ہم یقینی طور پر اپوزیشن کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ ہم انتخابی اصلاحات کے اوپر آگے برھیں ، عدالتی اصلات کے اوپر آگے بڑھیں، وزیر اعظم نے سپیکر اور سپیکر نے پارلیمانی رہنمائوں کو لکھا ہے اور کہا ہے کہ آپ آیئے اور اس کے اوپر ہم آگے بڑھیں، (ن)لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو چاہیے کہ وہ ان معالات کو اپنے ہاتھ میں لے اور ہم آگے بڑھیں، شہباز شریف یا مریم نواز تو اپنے کیسز سے آگے نہیں بڑھتے اور ان کو دیگر معاملات میں کوئی دلچسپی نہیںہے۔ انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر شہباز شریف کے کیس کا فیصلہ ہونا چاہئے تھا لیکن ان کی ضمانت کا فیصلہ ہو گیا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان کے کیس کا فیصلہ جلدی ہو گا۔
urd_Arab
پی سی بی نے انگلش ٹیم کے دورے کی آس لگالی - ایکسپریس اردو بیگم شمیم اختر کی لندن میں نماز جنازہ ادا، تدفین آج پاکستان میں ہوگی کوئی ڈیل نہیں ہوئی لیکن ای سی بی سے بات چیت جاری رہے گی،وسیم خان اسپورٹس رپورٹر جمعـء 31 جولائ 2020 انگلینڈ مناسب وقت پر2022کی سیریز کے حوالے سے درست فیصلہ کریگا۔ فوٹو : فائل لاہور: پی سی بی نے 2022 میں انگلش ٹیم کے جوابی دورے کی آس لگالی۔ انگلینڈ میں چھٹیاں گذارنے والے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے پی سی بی پوڈ کاسٹ میں کہا کہ قومی ٹیم کے حالیہ دورئہ انگلینڈ کا فیصلہ صرف پاکستان ہی نہیں عالمی کرکٹ کے مفاد میں کیا گیا،انٹرنیشنل میچز کی بحالی تمام ملکوں کے لیے اہمیت کی حامل ہے، سب جانتے تھے کہ اگر مزید6ماہ کرکٹ نہ ہوئی تو بے پناہ مسائل ہوں گے، تمام تر حفاظتی تدابیر کا خیال رکھتے ہوئے مقابلوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ انگلینڈ میں ویسٹ انڈیز نے سیریز کھیلی،اب پاکستان ٹیم بھی ایکشن میں نظر آنے والی ہے،اس سیریز سے یقینی طور پر مستقبل میں ملکی کرکٹ کا فائدہ ہوگا، اگر پوچھا جائے کہ کوئی ڈیل ہوئی تو بالکل نہیں، ابھی ان باتوں کا وقت نہیں تھا کہ مطالبات کیے جاتے، ای سی بی سے 2022 میں دورے کے حوالے سے بات چیت جاری رہے گی، امید ہے کہ وہ مناسب وقت پر درست فیصلہ کریں گے۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کی ٹیم نے آخری بار 2005 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا،پی سی بی کی خواہش ہوگی کہ17 سال ایک بار پھر انگلش کرکٹرز ملکی میدانوں کی رونقیں بحال کریں۔ وسیم خان نے کہا کہ انگلینڈ کیخلاف سیریز کی تیاریاں بڑے اچھے انداز میں ہوئی ہیں، طویل وقفے کے بعد میدان میں اترنے والے کرکٹرز کے ساتھ مینجمنٹ نے بڑی جانفشانی سے کام کیا، یونس خان اور مشتاق احمد سمیت کوچنگ اسٹاف سے فون پر بات ہوتی ہے،میں ان سے تیاریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہتا ہوں، سب نے اطمینان کا اظہار کیا اور اچھی کارکردگی کیلیے پْرعزم ہیں۔
urd_Arab
کرونا ویکسینیشن: صوبوں سے ہیلتھ کیئر ورکرز کا ڈیٹا طلب جہانگیر خان 31 دسمبر 2020 اسلام آباد: کابینہ کی جانب سے چینی کمپنی سے ویکسین ڈوز خریدنے کے بعد وفاقی حکومت نے صوبوں سے ہیلتھ کیئر ورکرزکا ڈیٹا طلب کرلیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: کرونا ویکسین پاکستان کب آئے گی؟ فواد چوہدری نے بتا دیا واضح رہے کہ آج وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ کابینہ نے چینی کمپنی سے ویکسین ڈوز خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں بتایا کہ چینی کمپنی سائنو فارم سے ویکسین کی ڈوز خریدی جائیں گی، نجی سیکٹر اگر کوئی اور منظور شدہ ویکسین درآمد کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
urd_Arab
چائنا گھریلو کرسی ، کنٹینر اسٹوریج باکس ، سیفٹی اسٹول - بیبو ہماری فیکٹری گھریلو کرسی ، کنٹینر اسٹوریج باکس ، سیفٹی اسٹول مہیا کرتی ہے۔ اور ہماری مصنوعات بنیادی طور پر جاپان ، کوریا ، جرمنی ، سوئٹزرلینڈ ، پولینڈ اور امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں۔ ہم اعلی معیار ، مناسب قیمت اور کامل خدمت لیتے ہیں۔ گھریلو فروغ کا تحفہ چھوٹا بچ kidsہ بچوں کی سرگرمی کی میز اور ایک کرسی سیٹ کیا آپ بچوں کے فرنیچر کی تلاش کر رہے ہیں جو عمارت کے بلاکس ، ڈرائنگ ، مطالعہ اور روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرنے کے لئے استعمال ہوسکے؟ اب ہم آپ کو اپنی مصنوعات کی سفارش کرتے ہیں۔ بیبو گھریلو فروغ کا تحفہ چھوٹا بچہ بچوں کی سرگرمی کی میز اور ایک کرسی سیٹ۔ یہ ایک ڈبل رخا بورڈ ، بڑی اسٹوریج کی جگہ کے ساتھ آتا ہے اور اس میں کرسی بھی ہوتی ہے۔ یہ پلے ٹیبل اعلی معیار ، خوبصورت ظاہری شکل اور جگہ کی حیرت انگیز بچت کے ساتھ بچوں کی روز مرہ کی ضروریات کو پوری طرح پورا کرسکتا ہے۔
urd_Arab
آرمی چیف سے چینی وزیرخارجہ کی ملاقات - Pak Online News ہوم اہم خبریں آرمی چیف سے چینی وزیرخارجہ کی ملاقات آرمی چیف سے چینی وزیرخارجہ کی ملاقات چینی وفد نے وزیر خارجہ وانگ ژی کی قیادت میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی جہاں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سمیت باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری اعلامیے کے مطابق چینی وزیرخارجہ اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات میں خطے کی سلامتی اور باہمی تعاون پر گفتگو کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق وانگ ژی کا کہنا تھا کہ پاک-چین تعلقات مشترکہ نقطہ نظر اور باہمی احترام کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اعلامیے کے مطابق پاک فوج کی پیشہ ورانہ قابلیت کو سراہتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'دنیا کو خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرنا چاہیے'۔ چینی وزیرخارجہ نے 'سی پیک کے لیے فراہم کی گئی سیکیورٹی کی تعریف کی اور کہا کہ چین مکمل خوش حالی پر یقین رکھتا ہے'۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے دورے اور مسلسل تعاون پر چینی وزیرخارجہ کا شکریہ ادا کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ 'پاکستان بین الاقوامی محاذ آرائی سے متاثر ہوا ہے لیکن ہم اندورنی اور بیرونی دونوں محاذوں پر امن و استحکام کے عزم کے ساتھ قوموں کے درمیان احترام اور جائز مقام حاصل کرلیں گے'۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف سے ملاقات کے دوران پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جنگ بھی موجود تھے۔ قبل ازیں چینی وزیرخارجہ وانگ ژی وزرت خارجہ پہنچے اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم دہرایا گیا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چینی شہریوں کا تحفظ اور سی پیک کی سلامتی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پاک۔چین دوستی کو عوامی اور حکومتی سطح پر بھرپور پذیرائی حاصل ہے اور وانگ ژی پاکستان کے دیرینہ دوست ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ 'آج کے مذاکرات میں دوطرفہ تعلقات اور عالمی امور پر بات چیت ہوئی، چینی وزیر خارجہ سے غربت کے خاتمے، تجارتی تعاون بڑھانے اور برآمدات کے فروغ سمیت اہم امور پر بات کی ہے'۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'پاکستان اور چین کی دوستی لازوال ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'چین کی خارجہ پالیسی میں پاکستان اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کے ساتھ تزویراتی تعلقات مزید مضبوط بنانا اور باہمی تجارتی حجم میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ ہر شعبے میں بھرپور تعاون جاری رکھیں گے'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'چینی تعاون کا مقصد پاکستان میں تعلیم اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانا ہے، غربت کے خاتمے اور پاکستان کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کریں گے'۔ وانگ ژی نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں، چین دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے جبکہ عالمی معاملات پر بھی پاکستان کی مکمل حمایت کرتے رہیں گے'۔
urd_Arab
جمشید ہاشم پور 2020/11/13 ویڈیو سبق عمدہ ، اعلی درجے کی خاصی کافی کا بازار بڑھتا ہی جارہا ہے ، جس سے آزاد دکانوں کے لئے کافی جگہ بن جاتی ہے۔ نیشنل کافی ایسوسی ایشن کے مطابق 2001 اور 2017 کے درمیان روزانہ خصوصی کافی پینے والے بڑوں کی تعداد 14 فیصد سے بڑھ کر 41 فیصد ہوگئی۔ شاید آپ کو اس بازار میں کوئی طاق مل جائے۔ نام رقم Hadogenes zuluanus نام مشترک اسکورپیون صاف است درصد خلوص : بیشتر از 99 % شکل سم : پودر لیوفیلیز اشاریوں کے فوائد شکل بسته بندی : بسته بندی در vials glass شیشه ای تخت خلاء. قیمت بسته بندی 10 میلی گرمی : 182 یورو قیمت بسته بندی 100 میلی گرمی : 1548 یورو قیمت بسته بندی 500 میلی گرمی : 6377 یورو. ڈیجیٹل آپشنز سیڑھی طرز کا آپشن ہیں جو ہر 5 منٹ میں ختم ہوجاتے ہیں۔ تاجر خطرے کی ترجیحات کے مطابق پیسہ ، رقم میں ، یا رقم کی ہڑتال میں سے انتخاب کرسکتے ہیں۔ کھانے کی پینٹریوں اور سوپ کے کچن سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے 646-457-9730 پر کال کریں ، اور ایس این اے پی (تکمیلی فوڈ فوائد) تک رسائی حاصل کرنے میں بھی مدد حاصل کریں۔ کاروباری مالکان ، چاہے وہ فرمیں اسٹارٹ اپ ہوں یا موجودہ فرمیں ، انھیں کچھ وقت لگانے کی ضرورت ہے اور وہ یہ بیان کرنے کے اہل ہوں گے کہ انہیں کاروباری قرض کی ضرورت کیوں ہے اور انہیں کتنی ضرورت ہے۔ اگر آپ کو کوڈ 19 فنڈز کی ضرورت ہو تو یہ بھی سچ ہے۔ اکثر ، کاروبار اس سوال پر توجہ نہیں دے پاتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے کاروباری منصوبے کے ایک حصے کے طور پر اپنے مالی بیانات تیار نہ کریں تب تک انہیں کتنی ضرورت ہے۔ اپنی ٹیکسٹ ایڈیٹر کی ایپلی کیشن لانچ کریں اور اس ویب دستاویز کو کھولیں جس کی سرخی آپ ترمیم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کیمرہ باڈی ڈیجیٹل کیمرا کا بنیادی حصہ ہوتا ہے ، جس میں کنٹرولز ، LCD ، اندرونی امیج سینسر اور اس سے وابستہ سرکٹری ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر ، اس میں تصویر کو ریکارڈ کرنے کے لئے درکار تمام اجزاء شامل ہیں۔ یہ کیمرے کا وہ حصہ بھی ہے جو آپ کیمرہ استعمال کرتے وقت رکھیں گے۔ آپ کبھی کبھی ایسا کیمرا دیکھیں گے جو خریداری کے لئے دستیاب ہو جس میں صرف کیمرہ باڈی موجود ہو ، جو اشاریوں کے فوائد تھوڑا سا الجھا ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون صرف کیمرہ باڈی خریدنے کے بارے میں کسی بھی خدشات کو واضح کرنے کی امید کرتا ہے۔ ایک فرق جو اس فرق کی علامت ہے۔ صرف بل مارکیٹ میں مضبوط اسٹاک خریدیں اور ریچھ کی منڈی میں صرف مختصر اشاریوں کے فوائد ، کمزور اسٹاک. آخر کار یہ ایک معاملہ ہے جس کی بنیاد ایڈوب کی فوٹو گرافی اور ڈیزائن ایپس ہیں۔ بعض اوقات آپ مفت متبادل حاصل کرسکتے ہیں ، اور کبھی کبھی ایڈوب واقعی بہترین انتخاب ہوتا ہے۔ یہ آپ کی مخصوص ضروریات پر منحصر ہوگا لیکن اس کے ساتھ کہ سالانہ وابستگی ایڈوب کے ساتھ کس طرح کام کر سکتی ہے ، مکمل ایڈوب تخلیقی کلاؤڈ سبسکرپشن کا عہد کرنے سے پہلے پہلے مفت متبادلات کی کوشش کرنا ہمیشہ ہی فائدہ مند ہے۔ اپنی پنوں کو منظم اور منظم کرنے کے لئے ، ان بورڈوں پر رکھیں جو زمرے کے مطابق ہوں۔ آپ محفوظ شدہ پنوں کو گھسیٹ کر اور چھوڑ کر دوبارہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ چگونه می توان در کسب و کار خود اثبات فاجعه کرد. آپ نے کار واش کے اتنے سارے کاروبار دیکھے ہونگے جہاں چاروں طرف سے کوئی نہیں تھا۔ قرضوں میں پڑنے کے لئے چیزوں کو پیار کرنے ایک بہت ہی تیز طریقہ ہے۔ کیونکہ جب آپ چیزوں کا متحمل ہوجاتے ہیں تو ، اشاریوں کے فوائد آپ صرف اس بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آپ ان سب کو خریدنے کے ل how کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جب تک کہ یہ آپ کا گھر نہیں ہے ، صرف ان چیزوں کو خریدیں جو آپ دو سال سے بھی کم عرصے میں مکمل ادائیگی کرسکتے ہیں۔ فارورڈ ٹریڈنگ :ٹریڈنگ ٹائم فریم میں فرق اگر قیمت ہدف کی طرف بڑھتی ہے ، لیکن پھر دوسری طرف جانا شروع کردیتی ہے تو ، فعال نظم و نسق کا تاجر پوزیشن کو بند کرسکتا ہے ، جس سے جیتنے والے تجارت کو ہار میں بدلنے سے روکا جاسکے۔ پیٹنٹ نمبر 6617610 [درخواست دہندہ] ٹویوٹا موٹر کمپنی ، لمیٹڈ [درخواست کی تاریخ] 2016/3/2 [ایجاد کا عنوان] گاڑیوں کے ڈسپلے کا آلہ خارج ہونے والے مقام کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائے جانے والے امیج میں دکھایا گیا رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔لہذا ، آبجیکٹ کے وجود کو پہچاننے میں ڈرائیور کی مدد کرنا ممکن ہے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ضائع ہونے والے مقام کی سمت میں گہرائی کے احساس کو بڑھانا اور ، توسیع کے ذریعہ ، ظاہر کردہ شبیہہ میں آبجیکٹ کے فاصلے کو صحیح طور پر سمجھنے کا احساس بھی پیدا کیا جائے۔ بن گیامزید یہ کہ ڈرائیور نے پہچان لیا ہے کہ آبجیکٹ اور گاڑی کے مابین فاصلہ بدلا جارہا ہے کیونکہ کم از کم ایک چمک اور اس میں شفافیت جس میں آبجیکٹ اور گاڑی کے درمیان فاصلہ ہے اس کے مطابق بدلا جاتا ہے۔ ظاہر کردہ اشاریوں کے فوائد تصویر کو تبدیل کرکے بھی مدد کرنا ممکن ہے۔ پیٹنٹ نمبر 6617610 گزٹ لنک (J-PlatPat) اس حکمت عملی کو استعمال کرنے کے لئے ، پہلے لاگ ان آپ کے لئے Expert Option تجارتی اکاؤنٹ یا یہاں رجسٹر کریں اگر آپ تجارت میں نئے ہیں۔ اصول نصب و فعال سازی نرم افزار: پس از دانلود نرم افزار به محلی که Setup نرم افزار در آنجا قرار دارد رفته و بر روی Setup دوبار کلیک می کنیم پنجره ای مانند تصویر زیر باز می شود. منقولہ قرض کی سیکیورٹیز ہمیشہ قیمت پر درج ہوتی ہیں۔ قیمت سیکیورٹی کی مساوی قیمت اور اس کی چھوٹ کی شرح پر منحصر ہے۔ یہ قرض سکیورٹیز چھوٹ پر فروخت کی جاتی ہیں اور پختہ ہونے پر پوری مساوی قیمت کے لئے چھڑائی جاتی ہیں۔ فرق اس دلچسپی کا ہے جو سیکیورٹی اپنی زندگی کے دوران حاصل کرتی ہے۔ فرض کیج a کہ کوئی فرم چھ ماہ کی پختگی کے ساتھ percent percent$ فیصد ٹریژری بل کو of par فیصد برابر ، یا دو فیصد کی رعایت پر خریدے۔ لاگت percent 10،000 کے 98 فیصد کے برابر ہے۔ بیلنس شیٹ پر ٹریژری بل کی قدر کے طور پر $ 9،800 کا نتیجہ بتایا گیا ہے۔ آپ کے دماغ کو کھونے والے 4 تاجر ہونے کے راستے. گرانٹ تھورٹن کے سوونک نے کہا کہ بڑھتی افراط زر جمع کی طلب کی وجہ سے چل اشاریوں کے فوائد رہی ہے ، اور صارفین معمول پر آرہے ہیں۔ درباره سامانه خرید و فروش بیت کوین ایران. . 'ابتداء میں عبدالغفار خان ملک دشمن ہوگئے تھے۔ جی ایم سید بھی ملک دشمن ہوگئے تھے۔یہ جو تصور پیدا کیا گیا وہ پھر نہیں بدلا اور ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی ذہن نہیں بدلا'۔
urd_Arab
ضمانت رد ہونے پر سکھر عدالت سے 71 میں سے 64 ملزمان فرار - ضمانت رد ہونے پر سکھر عدالت سے 71 میں سے 64 ملزمان فرار سکھر: ضمانت رد ہونے پر سکھر عدالت سے 71 میں سے 64 ملزمان فرار ہو گئے، پولیس صرف 7 کو گرفتار کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق تعلقہ کونسل فیض گنج کے ترقیاتی کاموں میں کرپشن کے معاملے میں نیب کی جانب سے دائر ریفرنس میں نامزد 71 لوگوں کی ضمانت سکھر عدالت نے رد کر دی۔ سکھر عدالت میں ایم پی اے ساجد بھانبھن کے بھتیجے سمیت 71 لوگوں کی ضمانت رد ہوئی، ضمانت منظور نہ ہونے پر ملزمان کی بڑی تعداد ہائی کورٹ سے فرار ہو گئی، نیب نے ریفرنس میں شامل 7 لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار ملزمان میں ثنا اللہ چانگ، علی خان، وحید شیخ، رحمت اللہ اور شہزاد بھٹو شامل ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے فیض گنج کے ترقیاتی کاموں میں کرپشن کے الزام میں ملزمان کی ضمانت رد کر دی تھی، ملزمان پر ترقیاتی کاموں کے حوالے سے 12 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ساجد بھانبھن کا بھتیجا الہٰی بخش بھانبھن پروجیکٹ کے ٹی ایم او کے عہدے پر فائز تھا۔ سکھر نیب کی کارروائی، کرپشن الزامات پر محکمہ انہار کے 8 افسران گرفتار یاد رہے کہ اس سے چند ماہ قبل قومی احتساب بیورو سکھر نے اسلام آباد میں کارروائی کر کے کرپشن کے الزامات پر محکمہ انہار کے 8 افسران کو گرفتار کر لیا تھا، ملزمان کو عدالت کی جانب سے ضمانتیں مسترد ہونے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
urd_Arab
مراکش سے انڈونیشیا تک جب سے عرب بہار کا آغاز ہوا، پورے عالمِ اسلام میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ عرب ممالک ہی نہیں، مختلف خطوں میں تاریخ رقم کی جانے لگی۔ ہم یہاں ۱۲ممالک کا تذکرہ کر کے حالات کی ایک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ ادارہ * مراکش: مراکش میں دعوتی، تربیتی سرگرمیاں جماعۃ التوحید و الاخلاص کے نام سے، جب کہ سیاسی سرگرمیاں حزب العدالۃ و التنمیۃ (جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) کے نام سے ہورہی ہیں۔ عرب بہار شروع ہوئی تو بادشاہ سلامت محمد السادس نے حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خودہی دستوری اصلاحات کردیں اور انتخابات کروادیے۔ جسٹس پارٹی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار میں آگئی۔ پارٹی کے سربراہ عبد الالہ بنکیران وزیر اعظم بن گئے اور اصلاح کی کوششیں شروع کردیں۔ فی الحال بادشاہت اور سابق نظام کی باقیات کے سایے باقی ہیں لیکن عوام پُراُمید ہیں۔ * تیونس: تیونس کی النہضۃ پارٹی بھی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے مقتدر ہے۔ ۱۶سال قید میں رہنے والے علی العُرَیض حال ہی میں وزیر اعظم مقرر کیے گئے ہیں۔ ملکی معاملات میں سدھار آنے لگا تو ایک اپوزیشن رہنما شکری بلعید کو قتل کرکے احتجاج کے الاؤ بھڑکا دیے گئے ہیں، لیکن اُمید ہے ان پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ دستور سازی کا عمل تقریباً مکمل ہے جس کے بعد جولائی اگست میں پارلیمانی انتخاب ہوں گے۔ * لیبیا: لیبیا میں کرنل قذافی کے خاتمے کے بعد اخوان کی سیاسی پارٹی عدل و تعمیر پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر رہی تھی۔ قذافی دور میں اخوان ہی کو سب سے زیادہ تشدد اور عقوبتوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے بعد ہر طرف تحریک اسلامی کی کامیابیوں سے خوف زدہ ہو کر لیبیا میں بیرونی مداخلت اپنے عروج پر جا پہنچی اور اس کے نتیجے میں ملک کی ۴۹سیاسی جماعتوں اور قبائلی و مسلح تنظیموں کا اتحاد بنا اور سرمایے کا سیلاب آگیا۔ اخوان کو ۲۰۰کے ایوان میں صرف ۱۸نشستیں مل سکیں۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو عوامی تائید کے حامل اخوان کا شریک اقتدار ہونا ناگزیر دکھائی دیا۔ اخوان میں شرکت اور عدم شرکت پر مختلف آرا تھیں، بالآخر شرکت کا فیصلہ ہوا اور وزارت پٹرولیم، وزارت اقتصاد جیسی اہم وزارتوں سمیت چھے وزارتیں اخوان کو دی گئیں۔ * مصر: مصر میں اخوان المسلمون کو گذشتہ دو سال میں ایک دو نہیں پانچ مرتبہ الیکشن میں جانا پڑا اور الحمدللہ ہر بار سرخرو ہوئے۔ سب سے پہلے حسنی مبارک کے سقوط کے چند ہفتے بعد عبوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ پھر بالترتیب قومی اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات کے لیے اور پھر ملک کے پہلے جمہوری دستور پر ریفرنڈم کے لیے۔ اسمبلی، سینیٹ اور صدر کے انتخابات میں ۵۱فی صد ووٹ حاصل کرنے کی شرط کی وجہ سے انتخابات کے دو دو دَور ہوئے، اس طرح عملاً آٹھ مرتبہ عوام نے اخوان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ مصر کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے، اسرائیل ہی نہیں بعض عرب ممالک نے بھی مخالفین کو بلامبالغہ اربوں ڈالر، ذرائع ابلاغ کے خوف ناک طوفان، اور ملک کے ہر اہم ادارے میں براجمان حسنی دور کے کرپٹ ذمہ داران کے ذریعے اخوان کو ناکام کرنا چاہا، لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاسکا۔ اب بھی حالانکہ دستور منظور ہوگیا اور ملک میں خدا خوف، محنتی اور باصلاحیت قیادت آچکی ہے، جسے سکون سے کام کرنے دیا جائے تو مصر تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کی نئی تاریخ رقم کردے۔ لیکن بدقسمتی سے مخالفین اور ملک دشمن عناصر اسی اصلاح احوال سے خوف زدہ ہیں۔ اب ان کے پاس کوئی ایشو نہیں رہ گیا تو بلاوجہ جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ حکومت نے ۲۲؍اپریل سے ملک میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے۔ چار مراحل اور دو دو اَدوار میں یہ انتخابی عمل جون کے اختتام تک مکمل ہوگا۔ اپوزیشن اور ڈکٹیٹر کی باقیات ایک بار پھر آگ اور خون کا بازار گرم کرنا چاہتی ہیں لیکن صدر مرسی اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ اللہ کی نصرت انھیں آیندہ بھی ہر مرحلے میں سرخ رُو کرے گی۔ * سوڈان: سوڈان میں بھی اسلامی تحریک برسراقتدار ہے۔ اسے بھی ہر طرف سے اقتصادی پابندیوں، فضائی حصار، پانچ پانچ ملکوں کی طرف سے مشترکہ جنگوں، جنوبی سوڈان کے باغیوں کی ۵۰سال سے جاری بغاوت اور پھر جنوب کی علیحدگی، دار فور میں قبائل کی باہم لڑائی اور بدقسمتی سے خود تحریک کے اندرونی اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن الحمدللہ کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پٹرول کے کنویں بھی چلے گئے، لیکن تیل کے نئے ذخائر کے علاوہ حال ہی میں پروردگار نے سونے کی بڑی مقدار سے نوازا ہے۔ اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ جب یہ حکومت آئی تھی اس وقت اور آج کے سوڈان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسائل اب بھی بہت ہیں، لیکن یک سوئی اور اللہ پر ایمان کے بھروسے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ * یمن: یمن میں ۳۳سال کے شخصی اقتدار کے بعد جنرل علی عبد اللہ صالح کو بھی طویل عوامی جدوجہد کے بعد رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت وہاں عبوری حکومت قائم ہے اور التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے تحریک اسلامی شریک اقتدار ہے۔ پانچ وزارتیں اور صدارتی کونسل میں نمایندگی ہے۔دو سال کے اندر اندر انتخابات ہونا ہیں۔ پاکستان کی طرح یمن پر بھی امریکی ڈرون حملوں کا زور ہے۔ حوثی قبیلے کے جو باغی سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے ساتھ برسر جنگ رہتے تھے، اب علی صالح ان کا حلیف ہے اور حکومت سے لڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض اسلامی ملک بھی جنگ اور اختلافات کی آگ پر ڈالروں اور اسلحے کا تیل چھڑک رہے ہیں۔ *ترکی: خلافت اسلامی کا آخری مرکز ترکی تو پوری دنیا کے سامنے رول ماڈل بن چکا ہے۔ ترک حکومت کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ نظریاتی، معاشی اور سیاسی محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ فرمان کہ ''اگر راہ نہ پاکر فرات کنارے کوئی خچر بھی ٹھوکر کھانے سے مرگیا تو عمر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا'' ہمیشہ ترک ذمہ داران حکومت کی نگاہ میں رہتا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو پہلی بار کامیابی میں ۳۷فی صد ووٹ ملے تھے لیکن اپنی کارکردگی کی وجہ سے آخری پارلیمانی انتخابات میں ۶۴فی صد سے زائد ووٹ لے چکے ہیں۔ حکمران پارٹی نے اپنے منشور میں اعلان کیا تھا کہ اس کا وزیراعظم تین بار سے زائد اُمیدوار نہیں بنے گا۔ اس کی رُو سے آیندہ انتخاب اردوگان کا آخری انتخاب ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ترکی میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ ملک میں پارلیمانی کے بجاے صدارتی نظام حکومت رائج کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو عوام کا ایک طبقہ یہ راے رکھتا ہے کہ صدر عبد اللہ گل کی جگہ اردوگان صدر مملکت کی حیثیت سے نظام چلائیں۔ * انڈونیشیا: انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے عالم اسلامی کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں بھی اسلامی تحریک گذشتہ صدی کے وسط سے کوشاں تھی، لیکن ۱۹۹۹میں پہلی بار جسٹس پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت متعارف کرواتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔ صرف ۴ء۱فی صد ووٹ ملے، دستور کے مطابق پارلیمنٹ میں آنے کے لیے کم از کم ۲فی صد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہیں، کوئی بھی سیٹ نہ ملی۔ مایوسی کا شکار ہونے کے بجاے انھوں نے۲۰۰۲ء میں 'مستحکم جسٹس پارٹی' کے نام سے نئی پارٹی رجسٹر کروائی اور ۲۰۰۴کے انتخاب میں ۵۵۰کے ایوان میں ۴۵نشستیں حاصل کرلیں۔ ۳ء۷فی صد ووٹ ملے اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی پارٹیوں میں ساتویں نمبر پر آگئے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں انھوں نے ۵۷نشستیں حاصل کرلیں اور پارلیمانی پارٹیوں میں چوتھے نمبر پر آگئے۔ مستحکم جسٹس پارٹی، حکمران پارٹی کی حلیف اور حکومت میں شریک ہے۔ پانچ وزارتیں حاصل ہیں جن کی کارکردگی دیگرتمام وزرا سے نمایاں ہے۔۲۰۱۳ء میں وہاں پھر انتخاب ہونا ہیں۔ * صومالیہ: صومالیہ اگرچہ کئی عشروں سے خانہ جنگی کا شکار رہے۔ ہر دھڑے نے ایک علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ چھوٹا سا ملک ہزاروں کلومیٹر طویل ساحل رکھتا ہے۔ عالمی تجارت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے بحیرہ احمر کے دروازے، باب المندب پر واقع ہونے کی وجہ سے عالمی بحری قزاقوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ حالیہ انتخابات میں ایک اسلامی ذہن اور اچھی شہرت رکھنے والے حسن شیخ محمود صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اسلامی تحریک نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے اور قدرے استحکام کا دور شروع ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریک 'تحریک اصلاح' کی اولین ترجیح ملک میں امن اور قومی یک جہتی ہے۔ اس کے وزرا بھی اس عمل میں پوری طرح متحرک ہیں۔ تحریک کے مرکزی ذمہ دار سے ایک بار پوچھا تھا کہ تباہ شدہ ملک میں مٹھی بھر جرائم پیشہ کیسے ساری دنیا کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے جہاز اغوا کرلیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ جرائم پیشہ گروہ تو صرف استعمال ہوتے ہیں، اصل سرغنہ عالمی مافیا گروپ ہیں۔ بعض حکومتیں بھی تاوان کی رقوم میں سے حصہ لیتی ہیں۔ حالیہ حکومت نے قومی فوج کی تشکیل اور متحارب گروہوں میں مصالحت شروع کروادی ہے۔ جنگ میں جھونکے جانے والوں اربوں ڈالر کی نسبت تعمیر نو کے لیے درکار امداد کہیں کم ہے، لیکن عالمی ساہوکاروں کو اب بھی جنگ ہی زیادہ مرغوب ہے۔ ترک حکومت نے حالیہ صومالی حکومت سے قریبی تعلقات استوار کرنا شروع کیے ہیں۔ طیب اردوگان خود بھی اسی جنگ زدہ ملک سے ہو کر آئے ہیں۔ کئی تعمیری منصوبے شروع کروائے ہیں۔ عوام کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ تھوڑی سی کوشش کریں تو ان کا ملک بھی امن، اصلاح، تعمیر اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔ *مالدیپ: بحر ہند کا مختصر سا جزیرہ بلکہ ۱۱۹۲چھوٹے چھوٹے جزیروں کا مجموعہ مالدیپ بھی سالہا سال تک مامون عبد القیوم کے زیر اقتدار رہا۔ وہ اگرچہ جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل تھے، لیکن دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے بڑی قدغنیں لگا رکھی تھیں۔ گذشتہ انتخابات میں نوجوانوں نے مل کر انھیں شکست دے دی اور اب ایک مخلوط حکومت کے ذریعے ملک کو جمہوریت اور اصلاحات کی راہ پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تحریک اسلامی کا سیاسی بازو جسٹس پارٹی بھی شریک اقتدار ہے، اور بالخصوص اپنی وزارتوں میں بہتر کارکردگی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ * ملایشیا: ملایشیا بھی سید ابو الاعلی مودودیؒ اور امام حسن البنا شہیدؒ کے لٹریچر سے فیض یاب ہونے والے حزب اسلامی (PAS) کے نام سے مصروف عمل ہیں۔ اس وقت ملایشیا کے ۱۳صوبوں میں سے تین میں ان کی حکومت ہے۔ سابق وزیر خزانہ انور ابراہیم جو خود بھی دوران تعلیم تحریک سے روشنی و رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں، کراچی اور برطانیہ میں بھی حصول تعلیم کے لیے مقیم رہے اور اس دوران خرم مرادؒ اور پروفیسر خورشید احمد سے براہِ راست بھی کسب فیض کے مواقع ملے۔ پہلے حکمران پارٹی امنو (UMNO)میں مہاتیر محمد کے بعد دوسری اہم ترین شخصیت تھے ،لیکن مہاتیر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے الزامات لگا کر پارٹی سے نکال دیا۔ بعد ازاں عدالت نے طویل سماعت کے بعد ان کی براء ت اور رہائی کا حکم دیا۔ انھوں نے اپنی الگ جماعت جسٹس پارٹی کے نام سے بنائی ہے، حزب اسلامی کے ساتھ اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی حکومت جن تین صوبوں میں ہے وہاں باقی پورے ملک کی نسبت جرائم، رشوت اور کرپشن میں نمایاں کمی ہے۔ بالخصوص صوبہ کلنتان میں کہ جہاں مسلسل تین بار حزب اسلامی کی حکومت بنی ہے اور درویش صفت نک عبد العزیز وزیر اعلیٰ ہیں، حالات بہت بہتر ہیں۔ کئی بین الاقوامی تجارتی کمپنیاں اپنے دفاتر دار الحکومت کوالالمپور سے منتقل کرکے کلنتان جارہی ہیں کیوں کہ وہاں کرپشن نہیں ہے۔ملایشیا میں انتخابات کسی بھی وقت متوقع ہیں لیکن حکومت بلاوجہ لیت و لعل کررہی ہے۔ منصفانہ انتخاب ہوں تو اسلامی تحریک اور اتحادی یقیناًپہلے سے بہتر نتائج دکھائیں گے۔ * فلسطین: غزہ (فلسطین) ۲۰۰۶ء میں حماس نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور غزہ اور مغربی کنارے میں ۶۰فی صد سے زائد نشستیں جیت لیں۔ حماس نے تنہا حکومت بنانے کے بجاے قومی حکومت بنانے پر اصرار کیا، لیکن چند ماہ بعد ہی الفتح کے وزرا نے حکومت سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اختلافات باہم لڑائی تک جاپہنچے اور الفتح کو غزہ سے بھاگنا پڑا۔ غزہ میں صرف حماس کی حکومت رہ گئی تو ۲۰۰۸میں صہیونی افواج نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا۔ مصر کی جانب سے حسنی مبارک نے بھی ساتھ دیا اور غزہ کی ۱۷لاکھ آبادی پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کردی گئی۔ اس دوران اسرائیل کی جانب سے دوبا رمہلک جنگ بھی مسلط کی گئی۔ شدید مشکلات اور حصار کے باوجود ایمان سے سرشار اہل غزہ نے صبرو ثبات کی شان دار مثال قائم کی۔ منتخب وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ، وزرا اور حماس کے کارکنان نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی۔ پھراللہ تعالی نے مصر میں تبدیلی کی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے عطاکیے۔ اب رفح بارڈر کھل گیا ہے۔ غزہ میں جہاد کی لہلہاتی کھیتی کے ساتھ ہی ساتھ ،تعمیر و ترقی کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے گذشتہ سال پھر جنگ مسلط کی لیکن ایک ہفتے بعد ہی خود صلح کی بھیک مانگنا شروع کردی۔ غزہ سے آنے والے حماس کے ذمہ دار ترین احباب بتارہے تھے کہ ایک مرحلے پر اسرائیل نے کہا کہ آپ جنگ بندی کا اعلان فوراً کردیں تو ہم اس کے بعد مذاکرات کے ذریعے باہم معاہدہ بھی کرلیں گے، لیکن ہم نے انکار کردیا۔ بالآخر انھوں نے ہماری شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔
urd_Arab