file_id
stringlengths
8
8
metadata
stringlengths
415
808
title
stringlengths
4
145
num-words
int64
0
36.2k
contains-non-urdu-languages
stringclasses
2 values
document_body
stringlengths
41
200k
0101.xml
<meta> <title>پاکستان میں داعش کیلئے کوئی گنجائش نہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10201/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>176</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان میں داعش کیلئے کوئی گنجائش نہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر
176
No
<body> <section> <p>ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے پاکستان میں داعش کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ زیرو ٹالیرنس پالیسی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کب مکمل ہو گا ؟ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا۔</p> <p>امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات کو انفرادی حیثیت میں دیکھتاہے،ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا داعش اس وقت مشرق وسطیٰ میں کارروائیاں کر رہی ہے ، دیگر خطوں کو بھی اس سے خطرہ ہو سکتا ہے ، سب کو مل کر داعش سے نمٹنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں داعش کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔</p> <p>لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ خیبرایجنسی میں کامیابیوں کے بعد شمالی وزیرستان کا بڑا علاقہ بھی کلیئر کرالیا گیا ہے۔آپریشن ضرب عضب کے خاتمے کا ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا۔</p> <p>پاک امریکا تعلقات پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا دونوں ملکوں کے تعلقات مثبت سمت میں آگےبڑھ رہے ہیں، کوئی تیسرا ملک اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ امریکاپاکستان کے ساتھ تعلقات کوانفرادی حیثیت میں دیکھتاہے</p> </section> </body>
0102.xml
<meta> <title>پنجاب میں شیر کی دھاڑ،سندھ میں پیپلز پارٹی کا تیر نشانے پر لگا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10207/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>156</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پنجاب میں شیر کی دھاڑ،سندھ میں پیپلز پارٹی کا تیر نشانے پر لگا
156
No
<body> <section> <p>بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی پنجاب میں شیر سب سے آگے نکل گیا ۔ تحریک انصاف پھر پیچھے رہ گئی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا تیر چل گیا ۔ ایم کیو ایم دوسرے نمبر پر ہے۔</p> <p>کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کے حامیوں کا جشن جاری ہے۔غیر سرکاری، غیر حتمی نتائج میںپنجاب کی 2399 نشستوں میں سے 2058 کےنتائج موصول ہو گئے ہیں۔پنجاب میں مسلم لیگ(ن) 941 نشستوں کے ساتھ سب سےآگے ہے،آزادامیدوار 771 نشستوں پرکامیاب اورتحریک انصاف کی 303 نشستیں ہیں،پیپلز پارٹی کے 12 اورمسلم لیگ(ق)کے 10 امیدوار،جماعت اسلامی کی 8 اوردیگرجماعتوں کے 13 امیدوارکامیاب ہوئے۔</p> <p>سندھ میں ضلع کونسل کی 1833 نشستوں میں سے 1644 کےنتائج موصول ہوئے۔سندھ میں پیپلز پارٹی 844 نشستوں کے ساتھ سب سےآگے ہے۔ایم کیو ایم 118 نشستوں پرکامیاب ہوئے۔آزادامیدوار 118 نشستوں پرکامیاب ہوئے ، مسلم لیگ(ن)کی 64 نشستیں ہیں۔فنکشنل لیگ کے 22 ،تحریک انصاف کے 7 اور دیگر کے 30 امیدوار کامیاب ہوئے۔ 441 نشستوں کے نتائج ملتوی کر دیئے گئے</p> </section> </body>
0103.xml
<meta> <title>دنیا کی پہلی اسلامی برانچ لیس بینکنگ سہولت متعارف کرادی گئی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10210/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>214</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دنیا کی پہلی اسلامی برانچ لیس بینکنگ سہولت متعارف کرادی گئی
214
No
<body> <section> <p>پاکستان کے موبائل آپریٹر یوفون اور  سب سے بڑے اسلامی بینک میزان بینک کے اشتراک سے دنیا کی پہلی اسلامی برانچ لیس بینکنگ سہولت متعارف کرادی گئی ہے ۔ میزان یو پیسہ کے متعارف ہونے کے ساتھ اسلامک بینکنگ کے ذریعے صارفین پہلی بار پاکستان بھر میں رقم بھیج اور وصول کر سکیں گے۔ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کے علاوہ موبائل میں بیلنس بھی ڈلوایا جاسکتا ہے۔</p> <p>اس نئے اقدام کے بارے میں یوفون کے پریذیڈنٹ اور سی ای او عبدالعزیز نے بتایا کہ اس نئی شراکت داری کے ساتھ ہمارا مقصد یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں کی طاقت، میزان بینک کی مہارت اور یوپیسہ کی جغرافیائی طور پر موجودگی سے فائدہ اٹھایا جائے اور صارفین کو سہولت فراہم کر کے کامیابی کا ماحول پیدا کیا جائے۔</p> <p>میزان بینک کے پریذیڈنٹ اور سی ای او عرفان صدیقی نے بتایا کہ میزان بینک نے پاکستان میں اسلامی مالیاتی خدمات کی رسائی میں توسیع کے لئے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم 6 کروڑ استعمال کنندگان کو خدمات کی فراہمی کے ذریعے اپنے تصور اسلامک بینکنگ پہلا انتخاب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک قدم کی دوری پر ہیں۔</p> <p>انہوں نے مزید کہا کہ بینکنگ کی صنعت میں اسلامی برانچ لیس بینکنگ کا پھیلاؤ پہلا سنگ میل ہوگا</p> </section> </body>
0104.xml
<meta> <title>پریانکا چوپڑا سپر ویمن بننے کے لیے تیار؟</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10213/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>153</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پریانکا چوپڑا سپر ویمن بننے کے لیے تیار؟
153
No
<body> <section> <p>بولی وڈ کی خوبصورت اور کامیاب اداکارہ پریانکا چوپڑا بہت جلد ایک فلم میں سپر ویمن کے طور پر نظر آسکتی ہیں.</p> <p>ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اداکارہ پریانکا چوپڑا جو کہ اس وقت اپنے ہولی وڈ پراجیکٹ اے بی سی کوائنٹیکو کی شوٹنگ میں مصروف ہیں ہدایت کار ابھینے دیول کی فلم میں سپر ویمن کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔</p> <p>خبر میں مزید لکھا ہے کہ ابھینے دیول اس وقت فلم 'فورس 2 ' کی شوٹنگ میں مصروف ہیں جس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اداکارہ پریانکا سے فلم میں سپر ویمن کے کا کردار ادا کرنے کے لیے رجوع کیا ہے جس پر فی الحال بات چیت چل رہی ہے۔</p> <p>اب دیکھنا یہ ہے کہ پریانکا کو اس فلم میں کس قسم کی سپر پاورز دی جاتی ہیں۔</p> <p>پریانکا چوپڑا کی فلم 'باجی راؤ مستانی' 18 دسمبر کو سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔</p> </section> </body>
0105.xml
<meta> <title>بغیر علم فتویٰ دینا بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔ سعودی مفتی اعظم</title> <author> <name>محمد بلال</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10217/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>137</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بغیر علم فتویٰ دینا بڑا کبیرہ گناہ ہے ۔ سعودی مفتی اعظم
137
No
<body> <section> <p>سعودی مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل شیخ نے کہا ہے کہ بغیر علم کے فتوی دینا کبیرہ گناہ ہے ۔ انہوں نے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے تغیر زمانہ کو دلیل بنا کر شاذ اقوال و مسائل کی پیروی نہ کریں</p> <p>مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ افتاء ایک عظیم منصب اور مبارک عمل ہے ۔ مفتی لوگوں کی خیر کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ کون سی چیز لوگوں کے لئے بہتر ہے اور صحیح شرعی عقیدہ کے مطابق ہے</p> <p>انہوں نے علماء سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانون میں تفریق ڈالنے والے منحرف اور گمراہانہ افکار کا رد کریں۔مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں عقلی شبھات ڈالنے والوں کو تنبیہ کریں اور اشکالات کو رد کرین اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کریں</p> </section> </body>
0106.xml
<meta> <title>مغربی ممالک کی پالیسیاں کئی حوالوں سے دہشتگردوں کی مدد کر رہی ہیں ۔ بشار الاسد</title> <author> <name>محمد بلال</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10221/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>263</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مغربی ممالک کی پالیسیاں کئی حوالوں سے دہشتگردوں کی مدد کر رہی ہیں ۔ بشار الاسد
263
No
<body> <section> <p>شامی صدر کا کہنا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ شام مین داعش کے پھیلنے کے لئے قدرتی ماحول پیدا ہو چکا تھا ۔داعش قطر , سعودیہ اور ترکی جیسے ممالک کی حمایت سے وجود میں آئی اسی طرح شام میں خانہ جنگی کی ابتداء کے بعد سے مغربی پالیسیاں بھی داعش کی مددگار ثابت ہوئی ہیں ۔ اٹلی کے نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سمیت کئی امریکی عہدیدار اپنے بیانات میں یہ بات کہہ چکے کہ القاعدہ امریکی و سعودی سرمایہ سے قائم کی گئی</p> <p>داعش 2006 مین عراق مین زرقاوی کی قیادت میں ہوئی جنہیں بعد میں امریکی فوجیوں نے ہلاک کر دیا اس کے بعد امریکی سرپرستی میں عراق میں دوباہ اس تنظیم کو منظم کیا گیا ۔داعش کے موجودہ سربراہ نیویارک میں امریکی قید میں تھے جن کو رہا کر کے داعش کا سربراہ بنایا گیا</p> <p>انہوں نے مزید کہا کہ داعش شام میں نہیں بلکہ عراق میں بنائی گئی انہوں نے کہا کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر نے کہا ہے عراق کے خلاف جنگ نے بھی داعش کی بننے میں کردار ادا کیا ہے</p> <p>بشار الاسد کا کہنا تھا کہ جب تک ملک کے تمام علاقے شامی حکومت کے کنٹرول میں نہیں آتے الیکشن کے لئے ٹائم ٹیبل دینا ممکن نہیں</p> <p>اگر شام کے عوام مذاکرات کے زریعے صدارتی الیکشن پہ متفق ہوتے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ میں اپنے ملک کو جلتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔ جب تک میرا ملک پرامن نہیں ہوتا میرا مستقبل بھی پرامن نہیں ہے</p> </section> </body>
0107.xml
<meta> <title>پشاورمیں جعلی یونیورسٹی کا انکشاف</title> <author> <name>بشریٰ بٹ</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10224/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>128</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پشاورمیں جعلی یونیورسٹی کا انکشاف
128
No
<body> <section> <p>جعلی ڈگریوں اوراسناد کے قصے توبہت سنے ۔۔۔۔ لیکن پشاورمیں توجعلی درسگاہ کا انکشاف ہوا ہے اور وہ بھی افغان یونیورسٹی۔۔۔۔</p> <p>ٹوٹی کھڑکیاں، دیمک زدہ دروازے اورخستہ حال عمارت۔۔۔۔</p> <p>یہ منظرکشی کسی بھوت بنگلے کی نہیں بلکہ پشاورمیں جعلی افغان یونیورسٹی کی کی جارہی ہے۔ جس کی رجسٹریشن نہ توپاکستان میں ہے اور نہ ہی افغانستان میں۔۔۔۔</p> <p>اطلاع ملنے پرضلعی انتظامیہ نے یونیورسٹی پرچھاپہ مارکرسیل کر دیا۔ جعلی یونیورسٹی میں ۳۰۰ سے زائد افغانی اورپاکستانی طلبہ وطالبات زیرتعلیم تھے۔۔۔ جن سے ۶۰۰۰ روپے ماہانہ فیس وصول کی جارہی تھی ۔۔۔ یونیورسٹی کی بندش سے طالبعلموں کو لالے پڑگئے اپنے تعلیمی مستقبل کے اورشدید احتجاج کا اعلان کیا۔۔</p> <p>ڈپٹی کمشنرپشاورنے یونیورسٹی توسیل کر دی لیکن انتظامیہ فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔۔۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کوسخت سے سخت سزادی جائے گی۔۔۔</p> </section> </body>
0108.xml
<meta> <title>دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سکیورٹی فورسز کی ایک اور کامیابی</title> <author> <name>بشریٰ بٹ</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10231/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>105</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سکیورٹی فورسز کی ایک اور کامیابی
105
No
<body> <section> <p>دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سکیورٹی فورسزنے ایک اوربڑی کامیابی حاصل کرلی خیبرایجنسی سے خودکش جیکٹس،فورسزکی وردیوں سمیت بھاری مقدارمیں بارودی مواد برآمد کر لیا۔</p> <p>مستک خیبرایجنسی میں ایف سی نے کی خفیہ اداروں کی اطلاع پربڑی کارروائی ، دم دباکربھاگنے والے دہشت گرد بڑی مقدارمیں بارودی مواد غاروں میں چھپا کرچھوڑگئے۔</p> <p>ایف سی نے آپریشن کیا توبھاری مقدارمیں بارودی مواد برآمد کر لیا۔ جس میں ۱۲ سوکلوبارود،خودکش جیکٹس، ۵۰ آئی ڈیز اورفورسزکی وردیاں بھی برآمد کی گئییں۔</p> <p>ایف سی ترجمان کے مطابق قبائلی بچوں کونشانہ بنانے کیلیے کھلونا بم اوردہشت گردوں کے مواصلاتی نظام میں استعمال ہونے والے ایف ایم ریڈیوسیٹ بھی برآمد ہوئے</p> </section> </body>
0109.xml
<meta> <title>مدرسے کی حفاظت کرتے ہوئے چار رینجرز اہلکار جاں بحق</title> <author> <name>سلمان ربانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10234/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>147</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مدرسے کی حفاظت کرتے ہوئے چار رینجرز اہلکار جاں بحق
147
No
<body> <section> <p>کراچی/ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے اتحاد ٹاؤن میں واقع مدرسہ ابوہریرہ کے سامنے مسلح موٹر سائکل سواروں نے   4 رینجرز اہلکاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ،</p> <p>تفصیلات کے مطابق بلدیہ ٹاؤن کے علاقے اتحاد ٹاؤن میں دینی مدرسہ جامعہ ابوہریرہ کی  مسجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر رینجرز اہلکار تعینات تھےکہ تین موٹر سائیکلوں پر سوار 6 دہشت گرد مسجد پر حملہ کی غرض سے آئے مگر رینجرز کی گاڑیاں دیکھتے ہی اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے موقع پر 4 رینجرز اہلکارجاں بحق جبکہ ایک زخمی ہو گیا،</p> <p>جبکہ دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے، رینجرز نے فوری طور پر علاقہ سیل کر کے آپریشن شروع کر دیا،</p> <p>جبکہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن جاری ہے اور بہت جلد ہم ان دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے.</p> </section> </body>
0110.xml
<meta> <title>ہمسایہ ممالک سےعزت اوروقار کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں: سربراہ پاک فوج</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10239/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>195</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہمسایہ ممالک سےعزت اوروقار کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں: سربراہ پاک فوج
195
No
<body> <section> <p>آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے گی جب کہ ہم ہمسایہ ممالک سےعزت اوروقار کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔</p> <p>واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں دانشوراور ممتاز پاکستانی و امریکی باشندوں سمیت دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جب کہ اس موقع پر آرمی چیف راحیل شریف نے پاک امریکا دفاعی اور انسداد دہشت گردی تعاون پراظہار کا اطمینان کیا۔ جنرل راحیل شریف کا اپنے دورہ امریکا کے حوالے سے کہنا تھا کہ دورے میں پاکستان اورامریکا نے اپنے مشترکہ مفادات کولاحق خطرات پرتبادلہ خیال کیا ہے۔</p> <p>تقریب سےخطاب کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ملکی سلامتی کے لیے پاک فوج کا عزم غیر متزلزل ہے، پاک فوج اندرونی اوربیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے، ہم اپنے شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم ہمسایہ ممالک سےعزت اوروقار کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔</p> </section> </body>
0111.xml
<meta> <title>تیسری عالمی جنگ کا شوشہ کیوں چھوڑا جارہا ہے ؟</title> <author> <name>امتیاز احمد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10240/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1005</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
تیسری عالمی جنگ کا شوشہ کیوں چھوڑا جارہا ہے ؟
1,005
No
<body> <section> <p>دو ہزار ایک میں صدر بش نے دنیا کو پرامن بنانے کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہا تھا کہ اگر عراق اور افغانستان میں حملہ نہ کیا گیا تو یہ دنیا غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت، امن اور خواتین کی آزادی ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا کو امن کا گہوارہ ہونا چاہیے ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں امن بھی ہونا چاہیے اور خواتین کو حقوق بھی ملنے چاہیں۔۔۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا 2001ء سے پہلے زیادہ محفوظ تھی یا اب ہے ؟ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے جس فوجی طریقے سے امن لانے کا سوچا، وہ طریقہ کامیاب ہوا کہ نہیں ؟ کیا آپ کلسٹر بموں نے دنیا کو محفوظ بنایا یا نہیں۔۔ کیا عراق کے لوگوں کو سکھ کا سانس ملا کہ نہیں؟ ۔۔ آپ نے جتنے بھی اہداف بتائے، جتنے بھی لولی پوپ دیے، جتنے بھی نعرے لگائے سب کے سب غلط ثابت ہوئے یا نہیں؟ کوئی ایک ایسا ملک دیکھا دیجیے ، جہاں آپ نے امن کے نام پر قدم رکھا ہو اور وہاں واقعی امن قائم ہو گیا ہو؟</p> <heading>دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی 'نام نہاد جنگ' کی وجہ سے اب تک دس لاکھ سے تیرہ لاکھ شہری ہلاک ہو چکے ہیں، زخمیوں کے تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی تعداد بھی کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔۔ جس علاقے میں پہلے 'دہشت گردوں' کی تعداد ایک سو تھی اب وہاں ایک ہزار ہو چکی ہے۔</heading> <p>لیکن ان تمام حقائق کے باجود یہ کہا جا رہا ہے کہ شام اور عراق اور دوسرے علاقوں میں بمباری کا سلسلہ تیز کر دیا جائے گا تا کہ دنیا میں 'امن قائم' ہو سکے۔ آپ جتنی مرضی بمباری کر لیں اس کا نتیجہ وہی نکلنا ہے، جو ابھی تک نکلا ہے۔۔ مزید عسکریت پسندوں کی پیداوار، مزید ہلاکتیں اور مزید مہاجرین۔۔۔ اگر دنیا کی تمام تر عسکری طاقتیں مل کر، جدید ترین اسلحے کے ہمراہ، کھربوں ڈالر خرچ کر کے صرف افغانستان اور عراق کے حالات نہیں بدل سکے تو یقین کیجیے شام کے بھی نہیں بدل سکتے۔</p> <p>اگر آپ دنیا کا بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو فیئر کھیلنا ہو گا۔ آپ کو مذاکرات کرنا ہوں گے، آپ کو نام نہاد جمہوریت کو مسلط کرنے کے بجائے وہاں تعلیم عام کرنا ہوگی، وہاں اسلحے کی فروخت بند کرنا ہو گی۔ لیکن آپ کو وہاں تعلیم کی نہیں وہاں کے معدنی ذخائر اور تیل کی فکر ہے۔ آپ کو مرسی پسند نہیں، آپ کو رجب طیب پسند نہیں، آپ کو ہر وہ شخص نہ پسند ہے، جو آپ کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔ آپ کو اپنے دوہرے معیار ختم کرنا ہوں گے، اگر سعودی عرب، کویت، قطر ایسے ملک اپکے اتحادی ہیں، آپ کے مفادات کا خیال رکھ رہے ہیں تو سب ٹھیک ہے اور اگر نہیں رکھتے تو وہاں راتوں رات جمہوریت کا قیام دنیا کے امن کے لیے ضروری ہو جائے گا۔</p> <p>ابھی تک آپ نے وہی طریقہ اپنایا ہے، جس کے تحت مقامی حکومتیں آپ کے مفادات کا خیال رکھ سکیں اور اس کا نتیجہ اب آپ کے سامنے آ رہا ہے۔ آپ کا دل چاہے تو طالبان فریڈم فائٹر ہیں اگر دل نہ چاہے تو وہ دہشت گرد ہیں۔ آپ کا دل چاہے تو قذائی کے خلاف لڑنے والے باغی ہیں اور انہیں اسلحہ فراہم کرنا جائز ہے اور جب دل نہ چاہے تو دہشت گرد ہیں۔ آپ کا جب دل چاہے تو طالبان ایسے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات ناممکن ہیں اور جب دل چاہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں شرماتے کہ ان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔</p> <p>آپ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ ایسے ہی ہے، جیسے یہ کہا جائے کہ کسی لڑکی کے کنوار پن کے لیے اس کے ساتھ جنسی زیادتی ضروری ہے۔ چودہ برس پہلے صدر بش نے القاعدہ کو نست و نابود کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ اس ہفتے فرانسیسی صدر نے داعش کو نست و نابود کرنے کا نعرہ لگایا ہے۔ اور اگر پالیسی بم ہی رہے تو پانچ سال بعد کوئی اور لیڈر داعش سے بھی جابر تنظیم کے خلاف یہی نعرہ لگا رہا ہوگا۔۔ اس سارے کھیل میں کیپلٹزم کی موجیں لگی ہوئی ہیں لیکن انسانیت ماری جا رہی ہے۔ اگر یہ بموں کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو سمجھیے یہی تیسری عالمی جنگ ہے، جو مزید پھیلے گی اور اس کا آغاز ہو چکا ہے۔</p> <p>اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام معاملات میں صرف اور صرف مغرب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن صرف 'عسکریت پسند ' تنظیموں کو بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جو آپ کے ہی اسلحے کی بنیاد پر پروان چڑھی ہیں۔ یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے اور میری نظر میں بطور 'ریاست اور مہذب جمہوریت' کے آپ کا قصور زیادہ ہے۔</p> <p>لیکن دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ان تمام تر دوہری پالیسیوں کے باوجود کسی بھی عسکری گروپ کے ایسے اقدام کی حمایت نہیں کی جاسکتی، جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جائے۔ کسی بھی جہادی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جب چاہے ، جہاں چاہے عام شہریوں کو ہلاک کرنا شروع کر دے۔</p> <heading>میرا عسکری تنظیموں سے سوال ہے کہ آپ نے خودکش حملوں کے ذریعے اسلام کی کون سی خدمت کی ہے؟ آپ ان حملوں کے ذریعے کون سی جنگ رکوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ؟ کون سی مغربی پالیسی تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ آپ کے خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی مائیں، بہنیں ، بچے آج تک آپ کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔ آپ کے حملوں کی وجہ سے لاکھوں لاوارث ہونے والے افراد روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس گئے ہیں۔ آپ نے خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیے ہیں۔ اتنے لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بمباری میں ہلاک نہیں ہوئے، جتنے آپ نے مار دیے ہیں۔ اگر امریکا پر تنقید کی جائے تو ماسوائے لاشوں کے آپ نے کیا دیا ہے اس دنیا کو، اس پاکستان کو ؟۔۔۔</heading> </section> </body>
0112.xml
<meta> <title>پیرس کی خودکش بمبار خاتون سے متعلق چونکا دینے والے انکشافات</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10243/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>517</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پیرس کی خودکش بمبار خاتون سے متعلق چونکا دینے والے انکشافات
517
No
<body> <section> <p>اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں کے پیچھے کیا سازشیں کارفرماہیں اس کا ایک مظاہرہ نظر آیا پیرس کے دہشت گردی کے حملوں کے دوران جب  سرچ آپریشن کے دوران خود کو بم سے اڑانے والی خاتون حسنا کے خاندان نے اس س متعلق حیرت انگیز انکشافات کر کے سب کو حیران کر دیا ان کا کہنا ہے کہ حسنا کو اسلام سے کوئی لگاؤ نہیں تھا جب کہ اس نے کبھی بھی قرآن کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا۔</p> <p>برطانوی میڈیا میں جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق سینٹ ڈینس کے آپریشن کے دوران خود کو بم سے اڑانے والی حملوں کے ماسٹر مائنڈ عبدالحامد کی کزن خاتون حسنا ایت کے بھائی یوسف ایت نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ</p> <p>حسنا ایک آزاد خیال لڑکی تھی اور اس کی اسلام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس نے تو زندگی بھر نہ صرف قرآن پڑھنا سیکھا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کھول کر اسے پڑھا، وہ سگریٹ نوشی اور شراب پینا پسند کرتی تھی جب کہ اس کے کئی بوائے فرینڈز تھے</p> <p>۔</p> <p>اس خاتون کی ایک تصویریعنی سیلفی بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں اسے</p> <p>نیم عریاں حالت میں</p> <p>باتھ ٹب میں لیٹا دکھایا گیا ہے۔ خاتون کے بھائی یوسف کے مطابق  حسنا نے ایک ماہ قبل ہی داعش میں شمولیت کے بعد لائف اسٹائل تبدیل کیا تھا جب کہ اس سے قبل وہ اپنی ہی دنیا میں گم رہتی تھی اور وہ اپنے مذہب کے مطالعہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی بلکہ ہر وقت موبائل فون اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا استعمال اس کی عادت تھی۔</p> <p>یوسف کا کہنا تھا کہ اس نے بارہا اسے منع کیا کہ وہ اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرے لیکن وہ اس کی بات ہر وقت ٹال دیتی جس کے بعد اسے نصیحت کرنا ہی چھوڑدیا اسی وجہ سے اس کے اپنی بہن  سے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اتوار کی شام اس نے فون کیا کہ وہ اپنی جان  لے رہی ہے جس پر وہ اس کے گھر گیا لیکن 15 منٹ انتظار کرنے کے بعد بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو واپس گھر آگیا، کچھ دیر بعد جب اس نے دوبارہ کال کی لیکن حسنا نے اس بار اسے سختی سے منع کر دیا کہ وہ دوبارہ فون نہ کرے کیوں کہ وہ اس کے لیے مصیبت بنتی جا رہی ہے۔</p> <p>یوسف کے مطابق جب بدھ کے روز اس نے ٹی وی کھولا تو اسے اطلاع ملی کہ حسنا نے خود کو بم سے اڑا لیا ہے۔ یوسف کا کہنا تھا کہ جب اس کی بہن 5 سال کی تھی تو والدین میں علیحدگی ہو گئی اور اسے بچپن ہی سے محبت نہیں ملی بلکہ اس نے نفرت بھرے ماحول میں پرورش پائی۔ حسنا کے دوستوں کا بھی کہنا ہے کہ وہ آزاد سوچ والی خاتون تھی اور وہ کبھی بھی مذہب پر بات نہیں کرتی تھی جب کہ وہ پارٹی اور فنکشن سے محبت کرنے والی اور دوستوں میں رہنے والی خاتون تھی۔</p> <p>واضح رہے کہ پیرس حملوں کے ماسٹر مائنڈ عبدالحامد اباعود کی کزن حسنا نے سینٹ ڈینس میں پولیس آپریشن کےدوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا</p> </section> </body>
0113.xml
<meta> <title>فیس بک کا "بریک اپ پروٹیکشن" فیچرمتعارف کرانے کا اعلان</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10247/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>316</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فیس بک کا "بریک اپ پروٹیکشن" فیچرمتعارف کرانے کا اعلان
316
No
<body> <section> <p>کہا جاتا ہے کہ ماضی کی یادیں تعلق توڑ لینے کے بعد زیادہ تکلیف دہ بن جاتی ہیں اور اگر بار بار سامنے آجائیں تو درد دل بن جاتی ہیں اسی لیے فیس بک یادوں سے اپنے صارفین کو دور رکھنے اور ان لمحات میں سکون دینے کے لیے ایسا فیچر متعارف کرارہا ہے جن سے کوئی بھی اپنے سابق شوہر، بیوی یا دوست کی پوسٹ اور تصاویر کو ہائیڈ کر سکتا ہے جب کہ اسے اس کی خبر تک نہیں ہوگی۔</p> <p>فیس بک کا اس نئے "بریک اپ پروٹیکشن" فیچر کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو لوگ اپنے شوہر یا پارٹنر سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں لیکن ان کی پرانی پوسٹ اور تصاویر مسلسل ان کے سامنے آکر انہیں جذباتی طور پر ٹھیس پہنچاتی ہیں ان کے لیے یہ فیچر متعارف کرایا جا رہا ہے جس کے آن کرتے ہی وہ ان تمام سے نجات حاصل کر لیں گے۔</p> <p>فیس بک کے مطابق یہ آپشن ان لوگوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو اپنے سابقہ تعلقات یعنی سابقہ بیوی، شوہر، گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کی جانب سے جارحانہ رویئے سے بچنے کے لیے ان کو بلاک کیے بغیر ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ یہ فیچر اپنے تعلقات کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کے بعد صارف کو یہ سہولت بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے سابق پارٹنرکے بھیجے گئے گزشتہ تمام پوسٹ سے ان کا نام ہٹا سکے۔</p> <p>فیس بک کے پراڈکٹ مینجر کے مطابق فیس بک چاہتا ہے کہ وہ مشکل لمحات سے گزرنے والے اپنے صارفین کے لیے ایسے وسائل فراہم کرے جس سے انہیں ان حالات کا سامنا کرنے کی ہمت مل سکےاور وہ مزید درد ناک لمحوں سے بچ سکیں اس لیے ان کی کوشش ہے کہ  وہ اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ خوشیاں دیں اور یہ فیچر اسی سلسلے کا حصہ ہے۔</p> </section> </body>
0114.xml
<meta> <title>امریکا یا مذہبی جنونی ؟</title> <author> <name>شفیق منصور</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10252/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>953</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکا یا مذہبی جنونی ؟
953
No
<body> <section> <heading>انسان جب غیرمہذب تھے تو ہاتھوں سے لڑاکرتے تھے۔آج بھی ہاتھا پائی اور گتھم گتھی والی لڑائیاں غیرمہذب اورکمزورکرتے ہیں۔پھرکچھ وقت گزرا توانسان نے پتھر اور لکڑی کو بطورآلہ حرب استعمال کرناشروع کر دیا۔ذرا اورصاحب علم اور تہذیب یافتہ ہوئے تو تلوار اورتیرکی اختراع نے فن جنگ کو چارچاند لگادئے اور موت کے سوداگروں کے وارے نیارے ہوگئے۔کیونکہ نقصان جتنازیادہ ہو نفرت اتنی شدید ہوتی ہے اورجنگ کا عرصہ بھی طویل ہو جاتا ہے۔</heading> <p>ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔یہ انسانی تہذیب کے عروج کی صدی ہے۔جہاں انسان نے زندگی کے ہرشعبے میں ترقی کی اور معجزے کی حد تک کائنات کو تسخیر کیا تو کیسے ممکن تھا کہ وہ فن جنگ میں بھی جدید طریقے متعارف نہ کراتا۔حقیقت تو یہ ہے ہم نے جتنی ترقی فن جنگ میں کی کسی اور شعبے میں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔</p> <p>اکیسویں صدی کے آلات حرب کیا ہیں؟ اس کاجواب دوٹوک نہیں دیاجاسکتا۔مطلب یہ کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کاآلہ حرب ایٹم بم ہے،بندوق ہے یا جہاز ہے۔آپ موجودہ دورمیں لڑائی کے ہتھیار کی تحدید نہیں کر سکتے ۔بارودسے لیکر انٹرنیٹ،آرٹ اور قلم تک ، پانی سے لیکرتیل ،غذائی مواد اور ہواتک، حتی کہ مذہب ، عقیدے اور نظریے تک انسان نے ہرشے کو آلہ حرب بنا لیا ہے۔</p> <p>عصرحاضر کاانسان جس طرح تاریخ کاطاقتور ترین انسان ہے اسی طرح وہ عاجزترین بھی ہے۔جنگ کے ابتدائی تین مراحل میں کہ جب ہاتھ ،لکڑی اورتلوار سے لڑائی کی جاتی تھی۔اس وقت دشمن کاتعین بھی آسان ہوتا تھا اور جنگ کو روکنا بھی ممکن تھا۔جنگ مسلط کرنے والوں اور موت کے سوداگروں کی پہچان بھی اتنی مشکل نہ تھی جتنی کہ آج ہو چکی ہے۔اب نہ میدان میں لڑنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ سچ کیا ہے اور نہ عام شہری کو حقیقت کاادراک ہوپاتاہے۔</p> <p>اکیسویں صدی کی جنگ ذرامختلف ہے۔یہ جنگ دہشت گردی کے نام پر لڑی جارہی ہے۔کہا یہ گیا کہ یہ جنگ انسانیت اورانسانی وقار کے لئے ہے۔مذہب اورنسل سے بالاترہوکر۔یہ لڑائی جب شروع ہوئی تو دیمک کی طرح بس پھیلتی ہی چلی گئی۔کیا عیسائی،کیامسلمان،کیایہودوہنود اورکیالادین ،سب اس جنگ کاحصہ ہیں۔جنگ جوں جوں بڑھتی جارہی ہے کنفیوژن میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔</p> <p>اس جنگ کے سب سے بڑے متاثرین مسلمان ہیں۔ عام مسلمان۔ جو یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہمارا دشمن کون ہے۔پچھلی صدی میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلم دنیا ایسی جنگوں کو استعماری اور تہذیبی جنگیں کہتی تھی۔مدمقابل یورپی ممالک تھے ۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ تھی کہ مغربی ممالک اسلام دشمن ہیں اور ہماری زمین اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔آزادی کی کوششوں کے بعد جیسے جیسے وہ مسلم ممالک سے کوچ کرتے گئے اسلامی سیاسی جماعتیں وجود میں آتی گئیں اورحکومتی ایوانوں میں داخل ہوتی چلی گئیں۔کیونکہ استعماری جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے لوگ مذہبی طبقے کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔</p> <heading>ستر کی دہائی کے اواخر میں ایران میں انقلاب آیا،اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ سوڈان میں حسن ترابی نے اسلام کے نام پر حکومت ہتھیائی ۔پاکستان میں ایک آمر نے مذہب کے نام پر عوام کو ورغلایا۔ترکی میں نجم الدین اربکان کی اسلامی جماعت زور پکڑتی نظرآئی۔طالبان نے افغانستان اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی ۔ یہ تمام تبدیلیاں ایکدم رونما ہوئیں اور ان سب پر اسلام کاٹھپہ لگا ہواتھا۔اگرچہ ان میں سے اکثریت کے خطوط میں راستی کا عنصر کم تھامگر اس کے باوجود یہ تبدیلی واضح اشارہ تھا کہ عالم اسلام کامستقبل مذہب اسلام ہے نہ کہ مغربی و جمہوری اقدار۔صرف تین دہائیوں کے اندر اسلامی جماعتوں نے کئی مسلم ممالک میں مضبوطی سے اپنے قدم جمالئے۔</heading> <p>یہ منظرنامہ امریکہ اور یورپ کے لئے تشویشناک تھا۔انہوں نے اپنے تہذیبی غلبے کے لئے انتہائی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔استعمار ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔اس نے اسلامی یلغار روکنے کے لئے اسلام ہی کو ہتھیاربنایا۔ اس نے مسلم ممالک کے مذہبی جنونیوں کی طرف توجہ کی۔انہیں سعودی عرب اور ایران جیسے مسلم ممالک کے ذریعے طاقتورکیا۔یہ جنونی مذہب کی روح اور جدید دنیا سے نابلد تھے۔طاقتورجنونی خاموشی سے بیٹھ نہیں سکتا۔انہیں لڑنے کے لئے میدان چاہئے ہوتا ہے۔یہ اس کی نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے۔مغرب اپنی سرزمین کو میدان نہیں بننے دے سکتا تھا۔اس نے مسلم جغرافیے میں مشرق وسطی کا انتخاب کیا۔اس نے افغانستان کے بعد عراق پر حملہ کر دیا۔وہاں طاقت کاتوازن اور استحکام قائم کئے بغیر چپ چاپ نکل گیا۔عراق اب مذہبی جنونیوں کے رحم و کرم پر تھا۔وہ کام جو امریکہ اور یورپ خودکرنا چاہتے تھے وہ اب مسلمان خود انجام دینے لگے۔یہ جنگ اب ایمان کی جنگ بن گئی ہے۔ان جنونیوں نے فرقہ واریت کے پردے میں اوراسلامی نظام کے نفاذ کی آڑمیں ایکدوسرے پر اور عام شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔</p> <p>اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا کے عوام اسلامی جماعتوں سے چاہے وہ سیاسی کیوں نہ ہوں متنفر ہوگئے۔وہ مذہبی طبقہ جو جنگ کاحصہ نہیں شدیدتذبذب کاشکار ہے ۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا کہ کس کے ساتھ کھڑا ہو۔کیونکہ مذہی مسلح جماعتیں جوکچھ کر رہی ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل برخلاف ہے۔اب ان کے پاس دو راستے رہ جاتے ہیں ۔یاتو مذہب کے نام پر ناجائز ستم کرنے والوں کی حمایت کریں یاپھرامریکہ کی۔کیونکہ بظاہر دہشت گردی کے خلاف جنگ کاعلم امریکا نے اٹھا رکھا ہے۔یہی حالت عام مسلمانوں کی بھی ہے۔وہ کنفیوزڈ ہیں کہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں ۔یاتو مغربی اقدار اور نظام قبول کر لیں اور یاپھراسلامی نظام کے نام پر مذہبی جنونیوں کے جوتے کھانے کے لئے تیار رہیں۔</p> <p>جولوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغرب دہشت گردی اورتشدد کا قلع قمع کرنے میں واقعی مخلص ہیں وہ غلط فہمی کاشکار ہیں۔یہ گروہ امریکہ کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔وہ انہیں ختم کرنے کی بجائے ضرورت کے مطابق ان کی کانٹ چھانٹ کرتا رہے گااور جہاں حاجت ہوگی ان کے لئے میدان ہموار کرتا رہے گا۔</p> <p>خلاصہ یہ کہ آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔ امریکہ یا مذہبی جنونی۔ آپ کیا پسند کریں گے؟</p> </section> </body>
0115.xml
<meta> <title>شیخ رشید سیاست کی میرا ہے:وزیر مملکت محمد زبیر</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10259/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>92</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
شیخ رشید سیاست کی میرا ہے:وزیر مملکت محمد زبیر
92
No
<body> <section> <p>وزیر مملکت برائے نجکاری کمیشن محمد زبیر نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کو "سیاست کی میرا " قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اداکارہ میرا کو فلموں میں کوئی رول دینے کو تیار نہیں جبکہ سیاسی اداکار شیخ رشید احمد کو بھی کوئی ووٹ دینے کو   تیار نہیں ،</p> <p>نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا ہمارا بھی دل چاہتا کہ تحریک انصاف ہمیں کامیابی پر مبارکباد دے لیکن بدقسمتی سے ہمیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کی زبان لڑکھڑاتی ہے۔</p> </section> </body>
0116.xml
<meta> <title>چوتھا ون ڈے: پاکستان کو شکست، سیریز انگلینڈ کے نام</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10262/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>608</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
چوتھا ون ڈے: پاکستان کو شکست، سیریز انگلینڈ کے نام
608
No
<body> <section> <p>انگلینڈ نے پاکستان کو ایک روزہ سیریز کے چوتھے اور آخری میچ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 84 رنز سے شکست دے کر سیریز 3-1 سے اپنے نام کرلی.</p> <p>دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں انگلینڈ کی جانب ریکارڈ 356 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان ٹیم 41 ویں اوور میں 271 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی.</p> <p>پاکستان ٹیم نے مشکل ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ کا آغاز جارحانہ انداز میں کیا، کپتان اظہر علی اور اوپنر احمد شہزاد نے اچھا آغاز فراہم کیا تاہم 45 کے اسکور پر احمد شہزاد 13 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے.</p> <p>کپتان اظہر علی نے جارحانہ بلے بازی کا سلسلہ جاری رکھا اور اسکور کو 64 رنز تک پہنچایا لیکن ڈیوڈ ولی نے انھیں آؤٹ کر کے بڑی اننگز کھیلنے کا خواب چکنا چور کر دیا، انھوں نے 44 رنز بنائے.</p> <p>محمد حفیظ اور نوجوان بیٹسمین بابر اعظم نے 65 رنز کی شراکت میں اسکور کو 129 رنز تک پہنچایا لیکن حفیط 37 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے جبکہ بابر نے پاکستان کے اسکور کو 176 رنز تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور 51 رنز بنا کر عادل راشد کی گیند پر ہیلز کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے.</p> <p>پاکستان کے 194 رنز کے اسکور پر محمد رضوان ایک چھکا لگانے کے بعد 11 رنز بنا کر عادل راشد کی گیند پر آؤٹ ہوگئے.</p> <p>سابق کپتان شعیب ملک 2 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے 52 رنز بنا کر تیزکھیلنے کی کوشش میں ٹاپلی کو وکٹ دے بیٹھے تو پاکستان کا اسکور 228 رنز تھا جبکہ سرفراز احمد 24 رنز بنا کر عادل راشد کا شکار ہوئے.</p> <p>آٹھویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی وہاب ریاض تھے جنھوں نے ایک رن بنایا. اس وقت پاکستان کا اسکور 259 رنز تھا.</p> <p>یاسر 271 کے اسکور پر 5 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی انور علی نے 24 رنز بنائے انھیں معین علی نے آؤٹ کیا.</p> <p>انگلینڈ کی جانب سے عادل راشد اور معین علی نے تین تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ ڈیوڈ ولی نے دو وکٹیں اپنے نام کیں.</p> <p>اس سے قبل انگلینڈ نے جیسن روئے اور جوز بٹلر کی جارحانہ سنچریوں کے بدولت پاکستان کو سیریز برابر کرنے کے لیے آخری میچ میں 356 رنز کا مشکل ہدف دیا.</p> <p>ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی انگلش ٹیم کو اوپنرز ایلکس ہیلز اور جیسن روئے نے 54 رنز کا اچھا آغاز فراہم کیا تاہم ہیلز 22 رنز بنانے کے بعد محمد عرفان کو وکٹ دے بیٹھے.</p> <p>دوسری وکٹ میں 140 رنز کی شراکت قائم کرنے کے بعد جیسن روئے 102 رنز بنا کر یاسر شاہ کی گیند پر بابر اعظم کو کیچ دے بیٹھے اس وقت انگلینڈ کااسکور 194 رنز تھا. تیسرے آؤٹ ہونے والے بیٹسمین جو روٹ تھے وہ 71 رنز بنا کر اظہر علی کی گیند پر سرفراز کے ہاتھوں اسٹمپ آؤٹ ہوگئے.</p> <p>اظہر علی نے انگلینڈ کے چوتھے بیٹسمین کپتان آئن مورگن کو 227 رنز پر پویلین بھیج دیا وہ 14 بناسکے، جیمز ٹیلر 13 رنز بنا کر محمد عرفان کی گیند پر آؤٹ ہوگئے.</p> <p>جوز بٹلر نے پاکستانی باؤلروں کے پرخچے اڑاتے ہوئے 46 گیندوں پر سنچری بنا کر انگلینڈ کی جانب سے ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین سنچری بنانے کا ریکارڈ بنا دیا، انھوں نے اپنی ناقابل شکست 116 رنز کی اننگز میں 8 چھکے اور 10 چوکے لگائے، معین علی 4 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے.</p> <p>انگلینڈ نے 5 وکٹوں کے نقصان پر 356 رنز بنا کر پاکستان کو ایک مشکل ہدف دے دیا. دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے یہ بڑا اسکور ہے، اس سے قبل جنوبی افریقہ نے پاکستان کے خلاف 8 نومبر 2010 کو 5 وکٹوں کے نقصان پر 317 رنز بنائے تھے.</p> </section> </body>
0117.xml
<meta> <title>پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم انتقال کر گئے</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10269/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>854</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم انتقال کر گئے
854
No
<body> <section> <p>پاکستان پیپلز پپارٹی کے سینئر رہنما اور سروری جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم امین فہیم طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔</p> <p>4 اگست 1939 کو مٹیاری میں پیدا ہونے والے امین فہیم بلڈ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی روز سے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں ریز علاج تھے۔</p> <p>امین فہیم کے اہل خانہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے جس کے بعد ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد اسپتال کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئی ہے، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ امین فہیم کی میت کو ایمبولنس کے ذریعے آبائی علاقے ہالا منتقل کی جائے گی جہاں دوپہر ساڑھے 3 بجے ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔</p> <p>مخدوم محمد امین فہیم 4 اگست 1939 کو کراچی سے لگ بھگ 200 کلومیٹر جنوب میں واقع علاقے "ہالا" میں پیدا ہوئے ۔</p> <p>آپ کے والد کا نام مخدوم محمد زمان تھا جو 'سروری جماعت' کے سترہویں روحانی پیشوا اور علاقے کے مشہور جاگیر دار تھے۔</p> <p>مخدوم امین فہیم کے والد ان 67 نمایاں افراد میں شامل تھے جنہوں نے "ہالا" میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور اس وقت انھیں پارٹی کا سینئر وائس پریزیذنٹ بنایا گیا تھا۔</p> <p>بعد ازاں 1970ء میں مخدوم محمد زمان 'طالب المولی' پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مخدوم امین فہیم نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے 'ہالا" ہی سے حاصل کی اور 1957ء میں میٹرک بھی وہیں کے ہائی اسکول سے کیا۔ اس کے بعد 1958ء میں مخدوم امین فہیم یونیورسٹی آف سندھ میں داخل ہوئے اور پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں بی ایس آنرز کر کے 1961ء میں فارغ التحصیل ہوئے ۔</p> <p>مخدوم امین فہیم نے 1970ء کے عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے جونیئر ممبر کی حیثیت سے سیاست میں میدان میں قدم رکھا۔ آپ صوبائی اسمبلی کے ٹھٹھہ کے حلقے سے کامیاب ہو کر سندھ اسمبلی کے رکن بنے۔</p> <p>اس کے بعد آپ نے 1977, 1988, 1990, 1993, 1997. 2002, 2008 160 اور 2013ء میں مسلسل آٹھ میں انتخابات میں حصہ لیا اور ہر بار ناقابل شکست ثابت ہوئے ۔ مخدوم امین فہیم کی انتخابات میں مسلسل کامیابیاں ایک قومی ریکارڈ ہیں۔</p> <p>آپ نے پاکستان کے سابق صدر اور آمرجنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کامکمل بائیکاٹ کیا تھا۔ 1993ء کے انتخابات میں مخدوم امین فہیم پاکستان کے واحد سیاسی امیدوار تھے جنہوں نے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی سیٹیں بلا مقابلہ جیت لیں تھیں تاہم بعد میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ اپنے بھائی کے چھوڑ دی تھی اور وہ بھی اس نشست پر بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے تھے۔</p> <p>مخدوم امین فہیم کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش کی تھی جسے آپ نے مسترد کر دیا تھا اور آخر دم تک پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری کو برقرار رکھا۔ مشرف سے قبل بھی تین مرتبہ 1988, 1990,ور 1993ء میں آپ کو اس عہدے کی پیشکشیں کی گئیں جو آپ نے قبول نہیں کیں۔</p> <p>مخدوم امین فہیم بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں وفاقی وزیر کے عہدے پر کام کرتے رہے ۔ 1988ء سے اگست 1990ء تک آپ وزیر اطلاعات رہے ۔ اس کے قبل دسمبر 1988 سے مارچ 1989ء کے دورانیے میں آپ کے پاس وزارت ریلوے کی ذمہ داری بھی رہی ۔</p> <p>بعد ازاں جنوری 1994ء سے نومبر 1996 تک آپ وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے عہدے پر رہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عام خیال یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور مخدوم امین فہیم کے ہاتھ میں دی جائے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 2008ء کے انتخابات میں وزیراعظم کے عہدے کے لیے ان کا نام سب سے اوپر تھا مگر پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کر دیا۔</p> <p>پھر نومبر 2008ء میں مخدوم امین فہیم کو وزارت معیشت وتجارت کا قلمدان دیا گیا۔ مخدوم امین فہیم "سروری جماعت ' کے روحانی پیشوا بھی تھے۔ سروری جماعت سے وابستہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں افراد ان کے عقیدت گزار ہیں ۔ مشہور ہے کہ 300 سال قبل اس جماعت کے ارکان کی تعدا د 9 لاکھ تھی ۔ اس لیے اسے "نولکھی گدّی" بھی کہا جاتا تھا۔</p> <p>مخدوم امین فہیم نے مشہور بنگالی گلوکارہ رونا لیلیٰ کی بڑی بہن دینا سے شادی کی تھی جو بعد میں کینسر کے باعث انتقال کر گئیں تھیں ۔ مخدوم امین فہیم کوسیاست میں آنے قبل اور بعد دونوں ادوار میں شاعری سے خاص شغف رہا ۔</p> <p>انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ "میں مولانا رومی،شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کا پرستار ہوں۔میری زندگی پر ان کی شاعری کا گہرا اثر ہے ۔میں نے ان کی شاعری سے محبت اور وفا کا درس سیکھا ہے۔"</p> <p>پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے امین فہیم کے انتقال کر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امین فہیم کا خلا پر نہیں کیا جا سکتا۔ شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ امین فہیم بہت اعلیٰ صفت کے انسان تھے اور وہ ہی مجھے سیاست میں لائے تھے، ان کے انتقال سے پیپلز پارٹی ایک بہترین سیاستدان سے محروم ہو گئی۔</p> </section> </body>
0118.xml
<meta> <title>میرغضنفرعلی خان کو گلگت بلتستان کا نیا گورنرتعینات کرنے کا فیصلہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10283/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>56</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
میرغضنفرعلی خان کو گلگت بلتستان کا نیا گورنرتعینات کرنے کا فیصلہ
56
No
<body> <section> <p>وزیراعظم میاں نواز شریف نے برجیس طاہرکی جگہ میرغضنفرعلی خان کوگلگت بلتستان کانیاگورنرتعینات کرنے کافیصلہ کیا ہے۔</p> <p>ذرائع کے مطابق مجوزہ نئے گورنرمیرغضنفرعلی خان نے گزشتہ روزیہاں وزیراعظم سے ملاقات بھی کی ہے۔</p> <p>ذرائع کا کہنا ہے گورنرگلگت بلتستان کی تبدیلی سے متعلق برجیس طاہرکوبھی باضابطہ آگاہ کردیاگیاہے،</p> <p>اس ضمن میں نوٹیفکیشن آئندہ چندروزمیں جاری ہونے کاامکان ہے</p> </section> </body>
0119.xml
<meta> <title>نیوزی لینڈ میں ہیلی کاپٹرگر کر تباہ، سیاحوں سمیت 7 افراد ہلاک</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10287/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>147</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
نیوزی لینڈ میں ہیلی کاپٹرگر کر تباہ، سیاحوں سمیت 7 افراد ہلاک
147
No
<body> <section> <p>نیوزی لینڈ کی برف پوش پہاڑیوں سے ٹکرا کر ہیلی کاپٹر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں پائلٹ سمیت 7 سیاح ہلاک ہوگئے۔</p> <p>غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق نیوزی کے سیاحتی مقام فاکس گلیشئر میں خراب موسم کے باعث غیرملکی سیاحوں کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں پائلٹ سمیت 7 سیاح ہلا ہوگئے۔</p> <p>پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کے مقام پر ریسکیو اور پیرامیڈیکس کی ٹیمیں پہنچیں تاہم ہیلی کاپٹر کے ملبے کی جگہ کوئی زندہ حالت میں نہیں ملا جب کہ خراب موسم کے باعث لاشیں منتقل کرنے میں وقت لگے گا۔</p> <p>دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر خراب موسم کے باعث حادثے کا شکار ہوا جب کہ جس وقت سیاح ہیلی کاپٹر میں روانہ ہوئے اس وقت فاکس گلیشئر پر بارش ہو رہی تھی تاہم حکام نے پائلٹ اور 6 غیرملکی سیاحوں کی شناخت ظاہر نہیں کی۔</p> </section> </body>
0120.xml
<meta> <title>کبوتر میں کینسر کا پتا دینے کی خوبی نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10290/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>465</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کبوتر میں کینسر کا پتا دینے کی خوبی نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا
465
No
<body> <section> <p>زمانہ قدیم سے کبوتر کو پیغام رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسے ایک ذہین پرندہ تصور کیا جاتا ہے لیکن جدید سائنس نے اس کی ایک نئی خوبی کو آشکار کر دیا ہے جس سے پتا چلا ہے کہ کبوتر کسی بھی شخص میں کینسر کی موجودگی سے بھی آگاہ کر سکتے ہیں۔</p> <p>یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے سائنس دانوں کے مطابق کبوتر کو ایسی تربیت دی جا سکتی ہے جس سے وہ کسی بھی انسان میں کینسر کا پتا دے سکتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبوتر کسی لیبارٹری یا ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا نظرآئیں لیکن ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کبوتر کے اندر کینسر کو جانچنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے اور تھوڑی سے ٹریننگ کے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ کینسر کی تشخیص کر سکے۔</p> <p>سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کبوتر کا وژن اگر انسان سے بہتر نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے جب کہ کبوتر روشنی کی ویو لینتھ کو زیادہ بہتر طور پر جانچ سکتا ہے جس میں الٹرا وائلٹ شعاع کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ یہ سن کر آپ کو حیرت ہوگی کہ کبوتر کا دماغ انسانی دماغ کے ایک ہزارویں حصے کے برابر ہے۔ سابقہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کبوتر چیزوں کو کیٹیگری میں تقسیم کر سکتا ہے بلکہ حروف کو بھی الگ الگ کر سکتا تھا اور یہاں تاکہ اگر آپ نے کپڑے تبدیل کیے ہیں تو وہ ان کی بھی پہچان کر سکتا ہے۔</p> <p>یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ اسٹریٹجک ٹیکنالوجی میڈیکل پیتھالوجی اور لیبارٹری میڈیسن کے وائس چیرمین پروفیسر رچرڈ لیونسن کا کہنا ہے کہ کبوتر کی دیکھنے کی زبردست صلاحیت نے انہیں حیران کر دیا ہے جسے پیتھالوجی میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران 8 کبوتروں کو ایک ہائی ٹیک ڈبے میں رکھا گیا اورانہیں ایک تصویر دکھائی گئی جسے سائنس دان دو الگ ڈبوں میں رکھی گئی مائیکرواسکوپ سے دیکھ رہتے تھے جب کہ مائیکرو اسکوپ پر رکھی گئی سلائڈز پر کینسر سیل  اوربغیر کینسر والے سیل واضح نظرآرہے تھے۔ اب سائنس دانوں نے کبوتروں کو ٹریننگ دی کہ وہ اس بکس پر ٹھونگ ماریں جس میں کینسر کے خطرناک سیل موجود ہیں یا پھر جو بے ضرر ہیں، ان کبوتروں کا اس طرح کی 144 تصاویر دکھائی گئیں۔</p> <p>15 دن کی ٹریننگ کے دوران کبوتروں نے ان سیل کی مختلف شکلوں کے درمیان بالکل درست فرق کیا اور ان کے درست جواب دینے کا تناسب 85 فیصد تھا جس نے سائنس دانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب انسانی پتھالوجسٹ کی جگہ کبوتر لے لیں گے تاہم اسے مہنگے ٹیسٹ کی جگہ پر نعم البدل طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔</p> </section> </body>
0121.xml
<meta> <title>بابا تم روتے کیوں ہو؟</title> <author> <name>سبوح سید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10293/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>973</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بابا تم روتے کیوں ہو؟
973
No
<body> <section> <p>بابا تم روتے کیوں ہو ہمیں بھوکا رہنے سے نہیں ، تمھارے رونے سے تکلیف ہوتی ہے ۔ ہم بغیر روٹی کے رہ سکتے ہیں لیکن تم روتا دیکھ کر نہیں رہ سکتے ۔ بابا ۔تم ہماری امید بنو نا ، مایوسی کیوں بن رہے ہو ؟</p> <p>بابا ، فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ساری دنیا اکٹھی ہو گئی تھی ۔ سارے عالمی رہ نما بھی متحد ہو گئے تھے ۔ ابھی شاید ہمارا میڈیا شام میں ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم سے آگاہ نہیں ہے ۔ وہ جونہی فارغ ہو کر ہم پر ایک نظر کرم کرے گا تو تم پھر دیکھنا ، ساری دنیا کیسے ہماری مدد کو آئے گی ۔ ماما صبح چائے کے ساتھ انڈا اور پراٹھا بنا کر دے گی ۔</p> <p>بابا، تم تو ویسے بھی دو پراٹھے کھا کر مزدوری کے لیے جاتے تھے نا ، تمھیں پھر سے دو پراٹھے ملیں گے ، چلو اب یہ رونا دھونا بند کرو ، میں بھی اپنا آدھا پراٹھا تمھیں دے دوں گا ۔ اچھا مجھے ایک بات تو بتاونا بابا ۔ جو سیدنا حسین بن ابی طالب کے بیٹے ننھے علی اصغر کی پیاس پر روتے ہیں ، انہیں میری بھوک اور پیاس نظر کیوں نہیں آتی ؟</p> <p>اور بابا یہ جو صبح شام اسلام امن کا دین ہے ، برداشت کا دین ہے ، رواداری کا دین ہے ، کہتے رہتے ہیں ، یہ سب پشاور میں میری طرح کے بچوں کے قتل پر تاویلیں کیوں دے رہے تھے ۔ ان کی ان بچوں سے کیا دشمنی تھی ۔ اورجب ڈرون حملوں میں بے گناہ بچوں کے ننھے منے جسموں کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں تو کچھ لوگ خوش کیوں ہوتے ہیں ؟ وہ ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم پر احتجاج کر نے کے بجائے ہمیں دہشت گرد کیوں کہتے ہیں ؟ ۔</p> <p>بابا، یہ دہشت گرد کیا ہوتا ہے ؟ جو افغانستان میں امریکی اسپتال پر ڈرون حملہ کر کے بے گناہ مریضوں کو قتل کرتے ہیں ، انہیں کیا کہتے ہیں ؟ اور وہ لوگ جو بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلا کر پوری زندگی کے لیے اپاہج بنا دیتے ہیں ، یہ کیوں ایسا کر تے ہیں ؟ اور مجھے بابا یہ بھی بتاؤ کہ وفاقی حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام میں جو گڑ بڑ ہوئی اور غلط انجیکشنز لگنے سے بچوں کی اموات ہوئیں ،اس پر پاکستانی نے کیا کیا ؟ جو باجی میرے پاکستانی بھائیوں کو پولیو کے قطرے پلاتی تھی ، سنا اسے بھی مار دیا ہے ،</p> <p>بابا ، وہ غریب سی لڑکی تھی ، اسے سنا ہے داڑھی والے آدمی نے اللہ اکبر کے نعرے لگا کر گولی مار دی ، بابا وہ تو قطرے پلانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتی تھی ۔ اسے کیوں مارا ، بتاؤ نا بابا ۔ اور بابا ، یہ جو پاکستان سمیت ہر جگہ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں ، انہیں کہاں رکھا گیا ہے ۔ ان کے بچے اپنی ماؤں سے یہ پوچھتے پوچھتے تنگ آ گئے ہیں ۔ کچھ مر گئے ہیں اور کوئی مسلسل سر دردی کے ساتھ جو ان ہو گئے ہیں ۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان کے بابا کو کب چھوڑیں گے ۔</p> <p>بابا، جب ہم سب مسلمان ہیں تو ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں ۔ ہمیں تو اپنے ملکوں میں اپنے ہی لوگ اپنے ہی لوگوں کے زریعے مرواتے ہیں ۔ ایسا کر کے انہیں کیا ملتا ہے بابا ؟۔ یہ انقلاب ایران کے رہ نما خامنہ ای صاحب تو اچھے آدمی لگتے ہیں ، وہ کیوں ہم پر بم برسانے والے بشار اور روس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ یہ سعودی عرب کے شہنشاہ سلمان تو بہت بھلے دکھتے ہیں ۔ قرآن کی تلاوت بھی بہت اچھی کر تے ہیں ۔ وہ خود کو خادم الحرمین الشریفین کہتے ہیں اور سعودی عرب کو مملکة الانسانیہ کہتے ہیں ۔ کتنا اچھا لگا تھا مجھے جب انہوں نے اوباما کو ائیر پورٹ پر انتظار کرنے کے لیے کھڑا کیا اور خود اپنی پوری کابینہ کے ساتھ نماز کے لیے چلے گئے تھے ۔ یہ کیوں ہماری مدد نہیں کر رہے ۔</p> <p>بابا ، ان سے کہو نا کہ یمن ، شام ، مصر ، لیبیا ، افغانستان ،عراق ، ایران اور افریقا میں ایک دوسرے کے خلاف لوگوں کو نہ لڑائیں ۔ اور بابا ، ہم مظلوم لوگ ہیں ، ہم تو ہر ظلم کے خلاف ہیں ، چاہے مسلمان کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ ۔ ہم تو فرانس میں حملوں کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ بھی کھڑے رہے لیکن کوئی ہمارے ساتھ کھڑا کیوں نہیں ہوتا ۔ یہ نواز شریف ، آصف زرداری ، عمران خان ، فضل الرحمان ہمارے بارے میں کیوں نہیں بولتے ۔ یہ فیس بک کے ارسطو ہمارے بارے میں چند لائنیں کیوں نہیں لکھتے ۔</p> <p>بابا مجھے سردی کی وجہ سے نیند نہیں آتی بابا مجھ سے بھائی کی بھوک برداشت نہیں ہوتی بابا مجھے ماما کی آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے بابا مجھے تمھارا رونا اچھا نہیں لگتا بابا مجھے تمھارا خدا اچھا نہیں لگتا بابا یہ کیا زندگی ہے ۔ ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں اور میرے پاس پانی کی ایک بوتل نہیں چھ ارب انسان ہیں اور ہم کئی روز سے بھوکے ہیں ۔</p> <p>بابا ، ہمیں موت کیوں نہیں آتی بابا ، ہم مر کیوں نہیں جاتے بابا ، تم مجھے مار کر سمندر کے کنارے کیوں نہیں پھینک دیتے کیونکہ ان بے غیرتوں کو جگانے کے لیے ہمیں ہر دوسرے روز سمندر کے کنارے ایک ایلان کر دی جیسا بچہ مارنا ہوگا ۔ ایک خیال کے خالق رب ، میں تیرا عرش تو نہیں ہلا سکتا لیکن تو صبح کے اس وقت میں دلوں کی حالت کو جانتا ہے ، اس خیال کو اگر شکل میں بدل دے تو ، تیرے خزانے میں کون سی کمی آ جانی ہے ۔ اب تو برق بھی گرنے سے سرمشار رہتی ہے ۔</p> </section> </body>
0122.xml
<meta> <title>جب القاعدہ تھی نا داعش</title> <author> <name>فیض اللہ خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10298/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1031</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جب القاعدہ تھی نا داعش
1,031
No
<body> <section> <p>یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب دنیا میں امن و آشتی کے زمزمے بہتے تھے ، عالمی دنیا پہلی و دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کو قتل کرنے کے بعد سکون سے بیٹھی تھی { مزید بربادی کے لئیے کچھ نہیں بچا تھا } تب یورپ و امریکا نے اپنی پسند کے مسلم خانے تشکیل دیکر قومی ریاستوں کا بیج لگادیا خلافت عثمانیہ ختم ہو چکی تھی اور اس کے بطن سے کئی مسلم ریاستوں نے دنیا میں آنکھ کھولی ، اسلامی ریاستوں کے نام پر جب قومی ریاستوں کی لکیریں کھینچ دی گئیں تو مہذب یورپ و امریکا نے ان ممالک پہ اپنے تنخواہ دار مسلط کر دئیے ، یوں حکمرانی کا انداز زرا بدل سا گیا اور بیچارے مسلمان سمجھنے لگے وہ آزاد ہو چکے ہیں ، نئی دنیا کا سبق انصاف ترقی مساوات اور جمہوریت کا تھا ، لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ اکثر ممالک میں پشت پناہی آمروں یا بادشاہوں کی ہی گئی اور جہاں جہاں جمہوریت نام کا دین نافذ ہوا وہاں بھی وہی اقتدار میں آیا جسے مغربی چاھتے تھے اور اگر الجزائر جیسی کوئی مثال قائم ہوئی { وہاں 90 کی دھائی میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے 80 فیصد نشستیں حاصل کیں لیکن فرانس کی حمایت یافتی الجزائری فوج نے اسلام پسند عوام کا مار مار کر بھرکس نکال دیا پھر وہاں مسلح تحریک شروع ہوئی باقی تاریخ ھے } تو بھی اس کامیابی کو مہذب یورپ نے ناکامی میں بدل دیا</p> <p>خیر ، ذکر تھا جب دنیا میں محبتیں عام تھیں ، کہتے ہیں کہ قومی ریاستوں کی تشکیل کے بعد اعلی اقدار و روایات کے حامل یورپ و امریکا نے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اسرائیلی ریاست بنا ڈالی { اس پہ معترض ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے لبرل دوستوں کے مطابق مسلمان بھی یہی کیا کرتے تھے ، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ مسلمان تو بقول آپ کے جاھل و اجڈ ہیں یہ مہذب یورت کب سے مسلمانوں والے کام کرنے لگا ؟؟؟} ، انہی دنوں اقوام متحدہ بولی کہ کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کے زریعے ھند کیسا تھ رھنے ۔ خودمختار یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اختیار حاصل ھے ۔۔۔۔۔۔ یہ اور بات ھیکہ مہذب دنیا اس پہ بھی عمل در آمد نا کراسکی چلیں اسے بھی جانے دیں فضول معاملہ ھے ۔۔۔۔</p> <p>اسی طرح ایک دن صومالیہ میں امریکی افواج اتر گئیں باقی تاریخ ھے اور سچی بات یہ ھیکہ اگر وہاں پاکستانی فوج کے جو ان صومالیوں سے نا بھڑتے تو یقینا امریکی افواج کا نقصان کئی گنا بڑھ جاتا { امریکہ کو سوچنا چاھئیے کہ وہ ہمارے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ھے جبکہ ہم آخر وقت تک دوستی نبھاتے ہیں } ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہی دنوں بوسینا شرقی ترکستان { سنگیانگ} سوڈان عراق وغیرہ وغیرہ میں لاکھوں انسان قتل کردئیے گئے ۔۔۔ سب کچھ مہذب دنیا کی ناک کے نیچے ہوتا رہا یہ اور بات ھیکہ دن میں امن تھا سکون تھا مزے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p> <p>کہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کے حکمران ان تمام مسائل کے حل کے لئے سرگرداں تھے دن رات ان کی کوششوں کا محور و مرکز ان مقبوضات کی بازیابی ، علم و فن کی ترویج معاشی و سیاسی استحکام اور عوامی امنگوں کو پوری کرنے پہ مرتکز تھیں ۔۔۔ اسی کی پیروی میں اپنے پڑوسی افغانستان کے بادشاہ نے روس کی خواھش کیمطابق اسے اپنے ملک میں عسکری مداخلت کی اجازت دیدی ، پھر جو کچھ ہوا وہ سب بہتر جانتے ہیں لیکن دنیا میں ہر طرف خوشیاں بکھری پڑی تھیں لوگ باہم اخوت و بھائی چارے سے رھتے تھے ، عجب رنگوں کی بہار تھی { جس میں سرخ رنگ نمایاں تھا } ۔۔۔۔۔۔۔ سنا ھیکہ انہی دنوں اسلامی ممالک کے کچھ شرپسند پر امن انداز میں اٹھے اور حکمرانوں سے ان کی کرپشن مظالم اور اختیارات کے غلط استعمال سمیت کئی سلگتے مسائل پہ سوال اٹھانے شروع کردئیے ۔۔۔ لیکن حسب سابق و معمول انہیں دھشت قرار دیکر جیلوں میں بند کیا گیا قتل کیا گیا ان کی انتخابی کامیابی ناکامی میں تبدیل کی گئی ۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود دنیا میں کیف و مستی تھی سرور تھا جنہیں بنیاد پرست و انتہاپسند قرار دیا گیا انہوں نے مسلمانوں کے عالمی و علاقائی مسائل کے خاتمے کے لئے اچھے بچوں کیطرح اقوام متحدہ سمیت مہذب دنیا سے رجوع کیا ، بلاشبہ یورپ نے انہیں پناہ تو دی لیکن قوت و اختیار رکھنے کے باوجود ان کے مسائل حل نا کئیے کیونکہ ان کا یہ منشاء ہی نہیں تھا ساری کہانی ہی فریب تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔</p> <p>یہ دن طویل تھے تو راتیں نا ختم ہونے والی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ایسے میں جب ریاستوں نے اپنا کام چھوڑ دیا عوام کو جبر کی چکی میں پیس دیا تو پھر گروہ اتھے مجموعے بنے اور نائین الیون ہو گیا ۔۔۔۔۔ تب اچانک دنیا کو علم ہوا کہ خون کا بھی رنگ ہوتا ھے اس کا بھی ذائقہ ہوتا ھے { یہاں یہ بحث ہر گز نہیں کہ اس کا فائدہ یا نقصان کیا تھا } تب ایک بڑے دھشت گرد جسے دنیا شیخ اسامہ کے نام سے جانتی ھے ، نے کہا تھا کہ اگر دنیا تک ہماری آوازیں اور احتجاج پہنچتے تو ہمیں کبھی جہاز نا بھیجنے پڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل درست ۔۔۔۔۔۔ پھر القاعدہ بنی اور اس کی انتہائی شکل دولت اسلامیہ بھی ۔۔۔اندھا دھند جنگوں اور حملوں کا آغاز ہوا گناہ گار و بے گناہ سب ایک ہی پاٹ میں پستے گئے نیویارک ۔۔ لندن ۔۔۔میڈروڈ ۔۔۔پیرس ۔۔۔ مالی ۔۔۔ استنبول ۔۔۔ کابل ۔۔۔ اسلام آباد ۔۔ بغداد ۔۔۔ ریاض ۔۔ پھر سب ہی جلنے لگے آگ کی حدت گھروں تک پہنچ گئی یوں القاعدہ اور داعش بھی بن گئی لیکن سنا ھیکہ ماضی کی دنیا بہت اچھی تھی تب شیر و بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، دنیا میں بہار کے دلفریب رنگ ہر سو پھیلے ہوئے تھے ، مظلوم انسانوں کے مسائل مہذب یورپ و امریکا حل کر رھا تھا ،،، ہر طرف خوشخبریاں تھیں دنیا بہشت بن چکی تھی کہ پھر القاعدہ و دولت اسلامیہ بن گئی ۔۔۔۔۔۔</p> <p>{</p> <p>انسانیت کا چورن فروخت کرنے والوں سے عرض ھیکہ یہ ایک طنزیہ تحریر ھے میں ذاتی طور پہ ہر بے گناہ انسان کے قتل کی مذمت کرتا ہوں ، لیکن اس</p> <p>مذمت سے پہلے بہت سارے اگر مگر ہیں جنہیں پروان چڑھانے میں میرے بجائے مہذب اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کردار ھے</p> <p>}</p> </section> </body>
0123.xml
<meta> <title>راولپنڈی میں 20 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد چھت سے پھینک کر قتل کر دیا گیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10300/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>233</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
راولپنڈی میں 20 سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد چھت سے پھینک کر قتل کر دیا گیا
233
No
<body> <section> <p>راولپنڈی میں حیوانیت کی انتہا ، حوا کی بیٹی ظلم کا شکار ہو گئی ،</p> <p>روات میں بیس سال کی لڑکی کو زیادتی کے بعد چھت سے پھینک کر قتل کر دیا گیا ایک ملزم پکڑا گیا ، دو فرار ہوگئے ،</p> <p>لڑکی کی لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ بنت حوا کی ردا لٹتی رہی ، دل خراش واقعے میں 3  سفاک افراد نے مبینہ طور پر لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔</p> <p>بے رحم افراد نے چکوال کی بیس سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور سنگدلی کے ساتھ اسے تین منزلہ گھر کی چھت سے دھکا دے کر قتل کر دیا ۔</p> <p>دھکا دینے والا ملزم بھی مقتولہ کی مزاحمت کے نتیجے میں چھت سے گر کر زخمی ہو گیا ۔</p> <p>پولیس کے مطابق تھانہ روات کے علاقے سے لڑکی کی لاش برآمد کرلی گئی ہے جسے پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ،</p> <p>پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے ۔</p> <p>پولیس کے مطابق مبینہ زیادتی میں تین ملزم شریک تھے ۔ فرار ہونے والے دو ملزم چکوال یا تلہ گنگ فرار ہوئے ہیں جن کی گرفتاری کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔</p> <p>پوسٹمارٹم رپورٹ کے بعد مقدمہ درج کیا جائے گا ۔</p> <p>دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آر پی او سے رپورٹ طلب کر لی ہے.</p> </section> </body>
0124.xml
<meta> <title>عمر اکمل مجھے اکثرنمازپڑھنے کی تلقین کرتےہیں:میرا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10303/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>140</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عمر اکمل مجھے اکثرنمازپڑھنے کی تلقین کرتےہیں:میرا
140
No
<body> <section> <p>کرکٹر عمر اکمل کو حیدرآباد سکینڈل میں بے قصور قراردیئے جانے اورٹیم میں شامل کیے جانے پر اداکارہ میرا ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئی ہیں اور کہا ہے کہ عمر اکمل کی بے گناہی ثابت ہونے پر وہ خوش ہیں ۔</p> <p>اُنہوں نے عمر اکمل کو اپنا بھائی قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ اُنہیں اکثر نماز پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ، میں اُنہیں مبارکباد دیتی ہوں کہ وہ بے قصور ثابت ہو چکے ہیں ۔</p> <p>نجی ٹی وی چینل سے گفتگوکرتے ہوئے اداکارہ میراکاکہناتھاکہ عمر اکمل اور میرارشتہ بہن بھائیوں کاہے ،</p> <p>میری نیک خواہشات عمر اکمل کے ساتھ ہیں ۔اس سے پہلے میرا نے کہاتھاکہ لگتا ہے کہ کسی نے عمر اکمل پکے نمازی ہیں ،</p> <p>کسی نے ان کی ڈرنک میں کچھ ملادیاجس کی وجہ سے اس طرح کا سین ہوگیااور اب اُن کو بے گناہ قراردیئے جانے پر کہا کہ وہ انہیں اکثر نماز پڑھنے کاکہتے ہیں</p> </section> </body>
0125.xml
<meta> <title>جاوید چوہدری نے کیا کمال لکھ دیا</title> <author> <name>ثاقب ملک</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10308/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>916</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جاوید چوہدری نے کیا کمال لکھ دیا
916
No
<body> <section> <p>ایک دن میں پورے آٹھ گھنٹے ،چار سو اسی منٹ اور تیس ہزار سیکنڈ سونے کے بعد صبح دس بجے اٹھا .اٹھنے کے بعد میں نے قہقہہ لگایا اور کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا .ٹھنڈی فرحت بخش ہوا ،جیسے دیو سائی کے میدانوں سے آ رہی تھی .میں نے واپڈا کے کھمبے پر بیٹھا ایک کوا دیکھا .کوے نے میری طرف دیکھا ،قہقہہ لگایا اور اپنی ٹائیں ٹائیں کرتی زبان میں بولا "جاوید صبح لیٹ اٹھنے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے " میں نے کوے کی یہ بات اپنی گرہ سے باندھ لی .وہ دن اور آج کا دن میں صبح چھ بجے اٹھ جاتا ہوں .ورزش کرتا ہوں نہاتا ہوں ،نماز پڑھتا ہوں .اس طرح میں میں پورا دن فریش رہتا ہوں .میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر کے سامنے والے کھمبے پر ایک عدد کوے کا بندوبست کریں تاکہ لوگ اس کی نصیحت سن کر صبح جلدی اٹھ سکیں .اس طرح لوگ مطمئن رہیں گے اور ان میں رواداری اور برداشت بڑھے گی .</p> <p>میں صبح اٹھنے کے بعد آئینہ بھی دیکھتا ہوں .میں آئینے میں عجیب عجیب شکلیں بنا کر ہنستا ہوں .ایک دن میں آئینہ دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً میری ریڑھ کی ہڈی میں سردی کا احساس ہوا .ایسے لگا جیسے سیاچن گلیشیر کی برف میری پشت پر آن لگی ہو .میرے رگ و پے میں سرد لہر سی دوڑ گئی .میں نے اپنے آپ کو روس میں سائبیریا میں محسوس کیا .مجھے احساس ہوا کہ دوزخ ٹھنڈا بھی ہو سکتا ہے .اچانک پیچھے سے میرے ملازم کی آواز آئی ،اس نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ سر اب برف ہٹا لوں ؟ در اصل میں اپنی کمر کی ٹکور کے لئے صبح صبح یہ ٹھنڈی مالش کرواتا ہوں .میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر میں ایک ایسے ملازم کا بندوبست کرے جو گھر کے ہر فرد کی پشت پر برف کے ٹکڑے سے ٹکور کرے .اس سے لوگوں میں برداشت بھی بڑھے گی .لوگ خوش بھی ہوں گے اور رواداری بھی بڑھے گی .</p> <p>یورپ کے اکثر ممالک میں لوگ صبح اسی طرح کرتے ہیں .اسی وجہ سے وہ ترقی کر گئے ہیں اور ہم پیچھے ہیں .ہم صبح اٹھ نہاریاں،سری پائے ،پراٹھے ، مکھن اور ملائیں کھاتے ہیں جب کہ وہ قومیں ،بریڈ کا ایک سلائس اور کافی سے کام چلاتی ہیں .ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو ناشتے کے انداز کو بدلنا ہو گا .میری حکومت سے گزارش ہے کہ پاکستان میں ناشتے پر پابندی لگا دے اس طرح لوگوں میں بھوک برداشت کرے کی صلاحیت پیدا ہو گی ،رواداری بھی بڑھے گی .</p> <p>میرے باتھ روم کی کہانی بھی دلچسپ ہے .اس کا سیمنٹ بالفورس کی ریت سے بنا ہے .ٹائلز اٹلی سے آئیں ہیں .صابن اور باڈی واش فرانس سے آئے ہیں .ٹب اسپین کے ہیں .ٹوٹیاں انگلینڈ کی ہیں ،پانی ہمالیہ کا ہے .یہ باتھ روم مجھے روادار بھی بناتا ہے اور میرے اندر برداشت بھی پیدا کرتا ہے .میں حکومت کو تجویز دوں گا کہ وہ ہر گھر میں ایسا باتھ روم بنا دے اس سے لوگ بری صحبت سے بچ جائیں گے ان میں رواداری بھی بڑھے گی اور برداشت بھی پیدا ہو گی</p> <p>.میں باتھ روم سے باہر نکلا میں نے قہقہہ لگایا اور خواجہ صاحب کے گھر پہنچ گیا .خواجہ صاحب ایک با کمال انسان ہیں .یہ دلوں کے بھید ٹھیک ،ڈھائی سیکنڈ میں جان لیتے ہیں .یہ اہل علم بھی ہیں اور اہل نظر بھی . میں نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ میں سکون حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے سکون کیسے ملے گا ؟ خواجہ صاحب اس وقت سگریٹ کے دھوئیں سے مرغولے بنا بنا کر دیکھ رہے تھے .انہوں نے میری طرف دیکھا قہقہہ لگایا اور کہا جاوید تم گٹر میں منہ ڈال کر عطر کی طرح کی خوشبو کی توقع کر رہے ہو ،تم منہ میں سٹرا ڈال کر سگریٹ پی رہے ہو،تم ہاتھی کے کانوں کو کبوتر کے پر سمجھ کر چوم رہے ہو ،تم اپنے منہ پر لوگوں کی تھوکیں مل کر شیو کر رہے ہو تمہیں ایسے سکوں نہیں ملے گا .میں نے قہقہہ لگایا اور پوچھا تو پھر میں کیا کروں ؟ خواجہ صاحب نے میری طرف دیکھا مسکرایے اور کہا تم اپنے ٹائٹ جوتے اتار پھنکو ،تم اپنی تنگ پینٹ بھی اتار پھینکو ،اب تم سخت گلے والی شرٹ اتار پھینکو ،اب تمہیں سکون مل جائے گا .</p> <p>میں نے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا اور کہا لیکن اس طرح تو میں برہنہ ہو جاؤں گا ؟ نہیں خواجہ صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوے کہا ،اس طرح تم نیچر سے قریب ہو جاؤ گے .اب تم باہر نکلو اوردنیا کا سامنا کرو .لیکن اس طرح تو بھونکتے کتے میرے پیچھے پڑ جائیں گے میں نے سوال داغا ،خواجہ صاحب نے سگریٹ کا کش لگایا ،پھر دوسرا کش لگایا ،پھر قہقہہ لگایا اور بولے جب تم بھونکتے کتوں کی بھونک برداشت کرنا سیکھ جاؤ گے تو تمہیں سکون مل جائے گا .میں اس دن سے اس نصیحت پر عمل پیرا ہوں .</p> <p>میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ لوگوں پر بھونکتے کتے چھڑوائے اس طرح لوگوں میں برداشت بھی پیدا ہو گی ،ان میں رواداری بھی بڑھے ،علم اور کلچر کا بھی فائدہ ہو گا .آخر ہم کب تک پکوڑوں پر شہد لگا کر کھاتے رہیں گے ؟ کب تک ہم ،پٹرول کی ربڑی بنا کر پیتے رہیں گے ؟ کب تک ہم اپنی مونچھوں سے دیواروں پر تصویریں بناتے رہیں گے ؟ ہمیں سکون حاصل کرنا ہو گا ورنہ فرعون کی لاش کی ممیوں کی طرح ہماری بھی ممیاں بن جائیں گئیں</p> </section> </body>
0126.xml
<meta> <title>صدر مملکت کی جانب سے غیر ملکی دوروں میں 60 لاکھ سے زائد کی ٹپ دینے کا انکشاف</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10316/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>426</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
صدر مملکت کی جانب سے غیر ملکی دوروں میں 60 لاکھ سے زائد کی ٹپ دینے کا انکشاف
426
No
<body> <section> <p>صدر مملكت ممنون حسین كی جانب سے غیر ملكی دوروں  كے دوران غریب عوام كے عطیہ کے لیے مختص کی گئی رقم سے لاکھوں روپے ٹپ میں دینے کا انکشاف ہوا ہے۔</p> <p>نجی ٹی وی کے نمائندے کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق صدر مملكت ممنون حسین كی ایما پر فنڈز كے غلط استعمال كا انكشاف ہو اہے، صدر مملكت نے غریب عوام كے ٹیكسوں كے پیسے سے 60 لاكھ سے زائد كی رقم بیرون ملك دوروں  كے دوران ویٹرز، ڈرائیورز اور سرونگ اسٹاف كو انعام كی مد میں  ادا كی، یہ رقم صدر مملكت نے مختلف قسم كے اداروں، اسكولوں، كلب، باركونسلوں كو یا پھر عوامی پیسے سے چلنے والوں كوعطیہ كرنے كے لیے ہوتی ہے۔</p> <p>دستاویزات کے مطابق اس فنڈ میں سے صدر مملكت نے ٹپ كی مد میں رقم ادا كی، صدر مملكت نے 14-2013 میں بیرون ملك كے 4  دورے كیے جس میں صدر 8 اكتوبر 2013 كو چین اور جنوبی افریقا كے دورے پر گئے، اپنے دورے كے دوران صدر مملكت  نے سیكورٹی اسٹاف، ویٹر، وہیل چئیر آپریٹر اور مكہ سے عالم كو انعام كی مد میں 26 لاكھ 57 ہزار 500 روپے دیئے، صدر 19 مئی 2014 كو چین كے دورے پر گئے جہاں انہوں نے  ویٹر، ڈرائیور اور سرونگ اسٹاف كو 9 لاكھ 93 ہزار روپے كا انعام دیا، صدر مملكت ممنون حسین نے 6 جون 2014 كو تركی ، نائیجیریا اور سعودی عرب كا دورہ كیا اور اس دوران انہوں نے ویٹرز، ڈرائیورزاور سرونگ اسٹاف كو 19 لاكھ 97 ہزار روپ كی ٹپ دی۔</p> <p>دستاویزات کے مطابق صدر مملكت نے 27 جون كو سعودی عرب كا دورہ كیا اور اس دوران 4 لاكھ 96 ہزار سیكورٹی اسٹاف، ویٹرز اور ڈرائیورز كو ٹپ كی مد میں  دیئے گئے جب کہ صدر مملكت كی جانب سے اپنے بیرون ملك دوروں  كے دوران  كل 61 لاكھ 44 ہزار 250 روپے كی ٹپ دی۔ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر مملكت نے غریب عوام كی یہ رقم  مختلف قسم كے اداروں كو عطیہ كرنے لیے مختص فنڈ میں سے اد اكی جو وزارت خزانہ كے ہدایات كی خلاف ورزی ہے۔</p> <p>آڈٹ حكام نے بیرون ملك دوروں  كے دوران صدر مملكت كی جانب سے دی جانے والی ٹپ پر آڈٹ اعتراض بنا دیا ہے جس میں مؤقف اختیار كیا گیا ہے كہ صدر مملكت نے جس فنڈ سے ٹپ كی رقم كی ادائیگی كی اس میں انہیں ادائیگی كرنے كی اجازت نہیں تھی کیونکہ ہنگامی فنڈز میں یہ رقوم كسی اسكول یا نجی ادارے كو ڈونیشن ، بار كونسل كو دینے یا ضرورت مند لوگوں كو دینے كے دی جاتی ہیں۔</p> </section> </body>
0127.xml
<meta> <title>تہمینہ کے ساتھ زیادتی اور اس کا قتل کس نے کیا ؟</title> <author> <name>زارا قاضی</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10318/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>878</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
تہمینہ کے ساتھ زیادتی اور اس کا قتل کس نے کیا ؟
878
No
<body> <section> <p>میرا تہمینہ سے چار سال پرانا تعلق تھا.. ان دنوں میں یونیورسٹی میں تھی ایک دفعہ ہفتہ وار چھٹی پر گھر جا رہی تھی فرنٹ سیٹ پر ایک دبلی پتلی خوشکل سی لڑکی بیٹھی تھی.. سفر شروع ہوا تو ہمارا باتوں کا سلسلہ بھی چل نکلا.. اس نے پوچھا آپ کہاں پڑھتی ہیں میں نے اپنی یونیورسٹی کا بتایا اس نے بتایا کہ وہ اے سی سی اے کی تیاری کر رہی ہے.. غرضیکہ دو گھنٹے کے سفر کے دوران تعارف سے چلتی بات ایک اچھی دوستی میں بدل گئی. گاڑی سے اتر کر گھروں کو روانہ ہونے سے پہلے ہم فیس بک آئی اور موبائل نمبر کی تفصیل لینا نہ بھولے.. اس کا شمار حقیقتاً ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کو یاد رکھنا نہیں پڑتا وہ یاد رہتے ہیں.. فیس بک پر چیٹ کبھی موبائل پر میسجنگ ہوتی رہی.. ہم اکثر کہا کرتے تھے ملیں مگر جب میں چکوال جاتی وہ اسلام آباد ہوتی وہ چکوال جاتی تو میں اسلام آباد.. اور یہاں بھی روٹین ایسی تھی کہ ملنا ہی نہیں ہو پایا..</p> <p>وقت گزرتا گیا یونیورسٹی کے بعد میری جاب ہو گئی اور اس نے اے سی سی اے چھوڑ کر قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم ایس سی ان کمپیوٹر سائنسز میں ایڈمیشن لے لیا.، اس نے دو سمسٹرز میں تاپ کیا تھا ۔تہمینہ کی فیس بک پروفائل دیکھی جا سکتی ہے جس سے اس کے رویے اور رحجانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ تہمینہ بہت حساس تھی۔</p> <p>کبھی اس کا میسج آتا سن فری ہے میں چائے خانہ جا رہی ہوں آ جا.. میں اس وقت کسی اسائمینٹ پر ہوتی سو نہ جا سکی کبھی میں نے اس کو میسج کیا کیپٹنز کک چلیں فری ہے تو. تب اس کی کلاس ہوتی..</p> <p>رمضان میں ایک دن اس کا فون آیا کہنے لگی میرا بہت دل کر رہا ہے تم سے بات کرنے کو.. میں نے پوچھا خیریت ہے تو مصنوعی شرماہٹ سے بتاتے لگی زارو میرا رشتہ پکا ہو گیا ہے میں نے اس کو پرجوش انداز میں مبارکباد دی بتانے لگی کہ سسرالی یو کے میں سیٹل ہیں.. کہنے لگی ڈائریکٹ شادی کریں گے.. کچھ ہی روز پہلے بتانے لگی کہ آجکل شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں. شاپنگ ہو رہی ہے صفر کے بعد شادی کی تاریخ رکھ دیں گے. آج میری ہفتہ وار چھٹی تھی صبح میں دیر سے اٹھی واٹس ایپ پر آفس والے گروپ میں خبروں کی بھرمار تھی.. ایک خبر یہ بھی تھی کہ چکوال کی تہمینہ نامی لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا عمیر نامی ملزم کا تعلق وہاڑی سے بتایا جاتا ہے. میں نے سرسری سی خبر پڑھی اور اپنے گھر کے کام میں مصروف ہو گئی تین بجے کے قریب مجھے چکوال سے ایک کزن کی کال آئی کہنے لگی زارا تہمینہ کہ ڈیتھ ہو گئی ہے میں نے گھبرا کر پوچھا کب کہنے لگی آج صبح میں راولپنڈی میں شاید کوئی روڈ ایکسیڈینٹ ہوا ہے. مجھے ایک دم صبح والے خبر یاد آئی میں نے اپنے چینل کے کرائم رپورٹر سے رابطہ کیا اس نے مجھے تفصیلات بتائیں کہ تہمینہ نامی لڑکی کو اجتماعی زیادتی کے بعد تیسری منزل سے پھینک کر قتل کر دیا گیا. ساتھ ہی تہمینہ کی خون آلود تصاویر بھی واٹس ایپ کر دیں..</p> <p>ٹی وی لگایا تو ہر چینل پر یہی بریکنگ چل رہی تھی کسی نے فیس بک پر ہونے والی دوستی کا انجام قرار دیا اور کسی نے گھر والوں سے چھپ کر شادی کرنے کی اسٹوری بریک کی.. غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں.. طرح طرح کے الزامات لگاتا میڈیا پتہ نہیں کیوں اس حقیقت کو نظر انداز کر رہا تھا کہ وہ ایک مر جانے والی لڑکی پر تہمتیں لگا رہا ہے صورتحال واضح نہیں ابتدائی تفتیش کی بنیاد پر پوری کہانی گھڑ کر نشر بھی کر دی آگے بڑھنے اور بریکنگ کی دوڑ نے یہ بھی نہ سوچنے دیا کہ اس کا گھر اس کا خاندان کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے ان کی تکلیف میں اس طرح کی خبریں مزید کتنا اضافہ کر دیں گی.. اس کے بھائی کبھی اس معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رئیں گےاس کے بوڑھے باپ کی کمر تو پہلے ہی جھک گئی ہے اس طرح کی خبریں اسے جینے بھی بھی دیں گی یا نہیں. اس کی ماں کس کس کو صفائیاں دے گی..</p> <p>پھر وہی ہوا میڈیا پر آنے والی خبریں دیکھ دیکھ کر میت گاوں پہنچنے پر گاوں والوں نے نہ صرف اپنے دلوں پر بلکہ گھروں میں بھی تالے لگا لیے.. کوئی اس جو ان موت کے آخری دیدار کو نہیں آیا.. جنازہ اٹھا تو کندھا دینے والے کم پڑ گئے. سوائے ماں کے کسی کی آنکھ نم نہ ہوئی. میڈیا کی گاڑیاں وہاں بھی پہنچ گئی ایکسکلوسیو کوریج کی گئی.. گاوں والوں نے دفنانے کے مقامی قبرستان میں جگہ نہ دی اور اسے جنگل میں قبر بنا کر دفنا دیا گیا..</p> <p>ناجانے اس سارے واقع میں کس کی کتنی غلطی ہے پتہ نہیں</p> <p>اس پر کیا بیتی پر</p> <p>مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد اس معاشرے کے ناسوروں نے جو سلوک تہمینہ کے ساتھ کیا اس معاشرے کا فرد ہونے پر مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے..</p> <p>کراہت آ رہی ہے ایسے انسانوں سے جو نہ تو جینے دیتے ہیں اور نہ مرنے دیتے ہیں..</p> <p>میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں تہمینہ..</p> <p>االلہ تمہاری اگلی منزلیں آسان فرمائے. آمین</p> </section> </body>
0128.xml
<meta> <title>دو اڑھائی سال میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی: وزیراعظم نواز شریف</title> <author> <name>آئی بی سی اردونیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10324/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>273</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دو اڑھائی سال میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی: وزیراعظم نواز شریف
273
No
<body> <section> <p>وزیراعظم نواز شریف نےکہاہے کہ 2 اڑھائی سال میں لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی، قوم اندھیرے کے دنوں کو ماضی کے قصے کے طور پر یاد کیا کرے گی۔</p> <p>خانیوال ملتان موٹر وے سیکشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ قوم ترقی کا راستہ روکنے والوں سے حساب لے رہی ہے۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی بھی راستہ روکنے والوں سے قوم کا لیا گیا حساب ہے، موٹروے بنا کر فاصلوں کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں۔</p> <p>وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایم 4 کے افتتاح کے بعد موٹر وے پر سفر کیا اور بعد میں اسے عام مسافروں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔</p> <p>وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایم 4 ملتان خانیوال کا افتتاح کیا اور تقریب کے بعد انہیں موٹر وے پر لے جایا گیا۔ وزیر اعظم نے موٹر وے پر 50 کلومیٹر تک سفر کیا اس موقع پر گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔</p> <p>وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر سکیورٹی کے پیش نظر ساڑھے تین گھنٹے کے لئے جی ٹی روڈ بلاک کر دیا گیا تھا جبکہ کچھ ٹریفک کبیر والا کے راستے سے گزاری گئی۔</p> <p>ذرائع کے مطابق 56 کلومیٹر طویل شام کوٹ انٹرچینج سے ملتان تک ایم فور کا یہ سیکشن تقریباً 3 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ 2008ء میں اس منصوبے کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے کیا تھا اور ابتدائی طور پر اسے 2012 ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن یہ بروقت مکمل نہ ہو سکا اور اب تین سال کی تاخیر سے مکمل ہوا ہے</p> </section> </body>
0129.xml
<meta> <title>لانڈھی کراچی میں ایم کیو ایم کا انتخابی جلسہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10327/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>230</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
لانڈھی کراچی میں ایم کیو ایم کا انتخابی جلسہ
230
No
<body> <section> <p>ایم کیو ایم کا کراچی کے علاقے لانڈھی میں انتخابی جلسہ ہوا، جس سے خطاب کرتے ہوئے عامرخان نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے شہر کی تصویر کو بدلا ہے۔وسیم اختر کہتے ہیں ایم کیو ایم ہی کراچی کے تمام مسئلوں کا حل ہے۔</p> <p>متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حیدرآباد اور میرپورخاص کی طرح کراچی کی عوام بھی ایم کیو ایم کے حق میں ہی ووٹ ڈالے گی اور کراچی کا میئر ایم کیو ایم کا ہی ہوگا۔</p> <p>ایم کیو ایم رہنما عامر خان نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو جب بھی اقتدار کو حصہ ملا تو ان کے ذمیداران نے شہر کی تصویر کو بدلا ہے، کراچی کے اندر تمام ترقیاتی کام ایم کیو ایم نے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس تحریک میں شہیدوں کا لہو اسے کوئی مٹایا نہیں سکتا۔</p> <p>ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کراچی کی تمام عوام ہے، کچھ لوگ ایم کیو ایم میں مائنس ون کا فارمولا لانا چاہتےہیں، مگر وہ ناکام ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہی عوام کے جذبات کا عکاس ہے۔</p> <p>متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے علاقے لانڈھی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو کے رہنما آصف حسنین کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ہی کراچی کے تمام مسئلوں کا حل ہے</p> </section> </body>
0130.xml
<meta> <title>فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کی دوسری شام شاعری کے نام</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10330/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>125</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کی دوسری شام شاعری کے نام
125
No
<body> <section> <p>فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کی دوسری شام با ذوق بھی رہی اور دلچسپ بھی،نامور شاعروں نے اپنا کلام پیش کیا، جس سے حاضرین خوب محظوظ ہوئے۔</p> <p>الحمرا ہال لاہورمیں فیض انٹرنیشنل فیسٹیول کی دوسری شام شاعری کے نام رہی۔ مشاعرے کی صدارت عطالحق قاسمی نے کی۔ مہمان خصوصی امجد اسلام امجد تھے۔</p> <p>محفل میں نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کیا، جسے حاضرین نے بے حد پسند کیا۔ شعراء کے کلام میں خیال کی پختگی، ترقی پسند اور پرامید سوچ کی جھلک تھی۔</p> <p>بیاد فیض اور قاسمی کے نام سے منسوب اس مشاعرے میں جہاں شرکاء نے اپنا کلام پیش کیا وہیں فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ چار روزہ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول 22 نومبر تک جاری رہے گا</p> </section> </body>
0131.xml
<meta> <title>اسکول میں اچھی کارکردگی کیلئے بچوں کو اچھا ناشتہ کروائیں:ماہرین</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10334/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>174</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اسکول میں اچھی کارکردگی کیلئے بچوں کو اچھا ناشتہ کروائیں:ماہرین
174
No
<body> <section> <p>برطانوی ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچوں سے اسکول میں اچھی کارکردگی چاہتے ہیں تو انہیں اچھا ناشتہ کروائیں۔</p> <p>شاید ہی دنیا میں کوئی والدین ہوں جنہیں اپنے لاڈلے سپوتوں سے پڑھائی کے میدان میں کچھ کر دکھانے کی امیدیں نہ وابستہ ہوں، جس کے لئے والدین کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن ماہرین نے تو اس کا نہایت ہی آسان سا حل پیش کر دیا ہے۔</p> <p>جی ہاں برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غذائیت سے بھرپور ناشتہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے جو ان کی اسکول میں کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔</p> <p>تحقیق کے دوران 9 سے 11 سال کی عمر کے 5 ہزار بچوں کے روز مرہ معمولات کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ جن بچوں کے والدین انہیں بہتر ناشتہ کروا کے بھیجتے ہیں ان بچوں کے اساتذہ ان کی کارکردگی سے خوش رہتے ہیں</p> </section> </body>
0132.xml
<meta> <title>2020ء تک اسلامی بینکاری کا حصہ 50 فیصد ہو جائے گا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10337/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>118</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
2020ء تک اسلامی بینکاری کا حصہ 50 فیصد ہو جائے گا
118
No
<body> <section> <p>گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف وتھرانے کہا ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا مستقبل تابناک ہے۔ سال 2020ء تک پاکستان کے بینکاری نظام میں اسلامی بینکاری کا شیئر 50 فیصد ہو جائے گا۔برانچ لیس بینکاری وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔</p> <p>وہ گزشتہ شب مقامی ہوٹل میں میزان بینک اور یوفون کے اشتراک سے پہلی برانچ لیس اسلامی بینکنگ سروس "یو پیسہ" کی افتتاحی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔اشرف وتھرانے کہا کہ ہم اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں برانچ لیس بینکاری تیزی سے روایتی بینکاری کی جگہ لے رہی ہے اور ایسی موبائل فون مالیاتی خدمات پاکستان کی معاشی افزائش میں بہت زیادہ معاون کردار ادا کریں گی</p> </section> </body>
0133.xml
<meta> <title>عمران خان تنگ نہ کریں،پختون خوا میں کام کریں :سعد رفیق</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10340/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>131</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عمران خان تنگ نہ کریں،پختون خوا میں کام کریں :سعد رفیق
131
No
<body> <section> <p>وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان لوگوں کو تنگ کرنا بند کریں اور خیبر پختون خواہ میں کام کریں ۔</p> <p>تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست کیلئے نو گو ایریا ختم ہونے چاہئیں ۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آج تک نہیں بتایا کہ ان کی کمائی کہاں سے آتی ہے ،ان سے پرانے مراسم ہیں دل کرتا ہے انہیں سمجھاﺅں کہ گالی اور گولی کی سیاست پر ووٹ ہیں پڑتے ۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ ہمارے استعفیٰ مانگنے آئے تھے اور 34 استعفے دے کر چلے بھاگ گئے ۔</p> <p>خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ریحام خان سے طلاق عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے اس پر بات نہیں کریں گے</p> </section> </body>
0134.xml
<meta> <title>داعشی اور طالبانی نظریات کے اسلامی جواز کیسے بنتے ہیں ؟</title> <author> <name>ڈاکٹر عرفان شہزاد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10341/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1455</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
داعشی اور طالبانی نظریات کے اسلامی جواز کیسے بنتے ہیں ؟
1,455
No
<body> <section> <p>بہت آئیں بائیں شائیں ہو چکا۔ آج کچھ بات سیدھی سیدھی ہو جائے۔ جس کو دنیا دہشت گردی کہتی ہے، جسے اہل احتیاط عسکریت پسندی کہتے ہیں اور جسے اہل مدارس جہاد کہتے ہیں، اس کا علمی ، اخلاقی اور اسلامی جواز کیسے پیدا کر لیا جاتا ہے۔ کس طرح وہ دین جس کو دینِ امن کہتے ہیں اور جس کےنبی کو نبی رحمت ﷺ کہتے ہیں ،اس دین کے طلبا، 'طالبان 'کیسے بن جاتے ہیں، یہ بےگناہ غیر مسلموں کو قتل کرنا کیون جائز سمجھتے ہیں ، یہ انسانیت کے نا م پر ہی سہی ان سے ہمدردی کیوں نہں جتاتے، بلکہ جو جتاتے ہیں ان پر بھی لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ اپنے مسلمانوں کو بھی قتل کرنے سے کیوں نہیں جھجھکتے۔ یہ پشاور کے آرمی پبلک سکول کے معصوموں کے قتل پر بھی قرآن و حدیث سے دلائل کیسے لے آتے ہیں۔ یہ کس طرح اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو قتل کر کے جشن منا لیتے ہیں، یہ کیسے دوسرے مسلک والوں کو بم سے اڑا کر تسکین پاتے ہیں۔ یہ کس طرح اس سب قتل وغارت کے لیئے اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اور اس پر خدا سے اجر کی امید کیسے کرتے ہیں ۔</p> <heading>مدراس میں کیا سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے میں آج صاف صاف بتاتا ہوں۔ تاکہ معلوم ہو کہ اس امت کے اربوں روپے ، اسلام کے جن قلعوں پر لگ رہے ہیں وہ آپ کے لیے کیا سوغات تیار کرتے ہیں۔</heading> <p>یہ آئیڈیلوجی یہ ہے:</p> <p>غلبہ دین ، یعنی دین کا سیاسی غلبہ اس امت پر فرض ہے۔ مولانا تقی عثمانی 'ان الحکم الا للہ ' کے تحت فرماتے ہیں کہ جس خدا کا حکم آسمانوں میں قائم ہے اس حکم زمین پر بھی قائم ہونا لازم ہے۔ مولانا زاہد الراشدی فرماتے ہیں:"مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ "خلافت اسلامیہ" کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے۔" اس نظریے کو مولانا مودوی کے نظریہ عبادت و اطاعت نے منطقی دلائل مہیا کردئیے۔ انہوں نے اسلام کو ایک نظام بتایا اور دوسرے نظاموں کی اطاعت کو کفر کی اطاعت قرار دیا۔چنانچہ اب اگر ایک مسلم حکومت اسلامی نظام نافذ نہیں کرتی تو وہ قرآن کی رو سے کافر ہے:</p> <heading>جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہیں دیتے تو وہ کافر ہیں</heading> <p>اگر مسلمان ایسا کریں تو گویا وہ تو مرتد ہیں اور مرتد کی سزا موت ہے۔ ان کے خلاف لڑنا جائز ہے ۔ اب جو عام لوگ وو ٹ ، ٹیکس وغیرہ کے ذریعے اس نظامِ کفر کو سپورٹ کرتے ہیں ، وہ بھی نظامِ کفر کے مددگار ہیں ، چنانچہ یا تو وہ بھی کافر ہیں یا خدا کے باغی ہیں ان کا قتل بھی برا نہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں آپ کا قتل جائز ہے یا کم از کم قابلِ افسوس نہیں!</p> <p>مسلمانوں کی حکومت اگر ہے تو اس پر فرض ہے کہ اپنے دائرہ حکومت میں اسلام کے قانون کا نفاذ کرے اور اس کے بعد ساری دنیا پر اس کو بزور قوت نافذ کر دے۔ غیر مسلم حکومتوں کو آپشن دیا جائے گا کہ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں، یا مسلمانوں کے سیاسی اقتدار میں ماتحت بن کر رہیں، اور یہ بھی نہیں مانتے تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی ۔ انہیں محکوم بنایا جائے گا۔</p> <p>اگر حکومت میسر نہ ہو تو مسلمان خود اپنے طور جتھا بندی کر کے جہاد شروع کریں گے۔ اور اس راہ میں اگر مسلمان حکومتیں رکاوٹ بنتی ہیں تو ان سے بھی لڑیں گے۔اب قرآن اور حدیث سے ان کے دلائل ملاحظہ فرمائیے:</p> <p>رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا</p> <p>قرآن کا فرمان ہے :</p> <heading>اس خدا نے رسول بھیجا کہ باقی تمام ادیان پر غالب ہو جائے،</heading> <p>دوسرے مقام پر ہے</p> <heading>ان سے لڑتے رہو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے۔</heading> <heading>اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک ان کفار سے لڑوں جب تک وہ لا الہ کا اقرار نہ کر لیں۔ (بخاری)</heading> <p>ویسے تو ہماری ساری فقہ ہی ان نظریات پر قائم ہے لیکن نمونے کے طور پر شاہ ولی اللہ کے بیانات نقل کرنا کافی ہوگا، جن کی علمی سیادت پر سب کو اتفاق ہے۔ آپ فرماتے ہیں:</p> <p>1۔ معلوم ہونا چاہیے کہ نبی ﷺ کو خلافتِ عامہ کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اور دین کا غلبہ دیگر تمام ادیان پر جہاد اور اس کے آلات و وسائل کی تیاری کے بغیر ممکن نہیں ۔ تو جب لوگ جہاد چھوڑ دیں گے، اپنے مال مویشیوں میں لگ جائیں گے، تو ذلت ان کو گھیر لے گی، اور دیگر ادیان والے ان پر غالب آ جائیں گے۔</p> <p>2۔ مسلمانوں کے حکمران پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے غلبےاور کفار کے ہاتھوں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے اسباب کے حصول کی فکر کرے اور اس سلسلے میں خوب محنت اور غوروفکر کرے اور پھر اپنے نتائجِ فکر پر عمل کرے۔</p> <p>3۔ مسلمانوں کا حکمران اہلِ کتاب اور مجوس سے لڑتا رہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔</p> <p>4۔ اور تیسرے حال( کہ اہلِ کتاب سے ذلت کے ساتھ جزیہ وصول کیا جائے) سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ کفار کی شان و شوکت کا زوال ہوتا ہے اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور نبی ﷺ انہیں مصالح کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔</p> <p>شاہ صاحب،مسلم حکمران کے لیے لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ غیر مسلم قوتوں کے خلاف ہر حال میں جنگ کرے ۔ اور صلح صر ف اس صورت میں کرے جب مسلمان کمزور ہوں یا صلح کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کی جائے:</p> <p>5۔ مسلم حکمران ،غیر مسلم حکومتو ں سے مال کے ساتھ یا بغیر مال کے صلح کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلمان کفار سےلڑنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے انہیں صلح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا کبھی وہ انہیں مال کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ قوت حاصل کر سکیں، یا صلح کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ ایک قوم کے شر سے محفوظ ہو کر دوسری قوم سے جہاد کر سکیں۔</p> <p>پرائیویٹ جہاد کے لیے عملی نمونے حضرت حسین رض سے لے سید احمد شہید تک کی تمام تحریکوں سے فراہم کیے جاتے ہی، کہ یہ لوگ چند افراد کے ساتھ خدا کے نظام کو قائم کرنے چل پڑے تھے اور اپنی جانیں دے دی تھیں تو ہمیں بھی چاہیئے کہ اسی اسوہ پر چلیں۔اب اگر ایسی حکومت میسر نہ ہو تو نجی طور افراد ان فرائض کو انجام دینے نکل پڑیں۔ چنانچہ سید احمد شہید لکھتے ہیں:</p> <p>1۔ "جو حکومت اور سیاست کے مردِ میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبورًا چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے</p> <p>2۔ حقیقت کے مطابق مقولہ:سلطنت و مذہب جڑواں ہیں"، اگرچہ یہ قول حجتِ شرعی نہیں لیکن مدعا کے موافق ہے کہ دین کا قیام سلطنت سے ہے</p> <p>3۔ "اس فقیر کو مال و دولت اور حصولِ سلطنت و حکومت سے کچھ غرض نہیں، دینی بھائیوں میں سے جو شخص بھی کفار کے ہاتھوں سے ملک آزاد کرے، رب العالمین کے احکام کو رواج دینے اور سید المرسلین کی سنت کو پھیلانے کی کوشش کرے گا اور ریاست و عدالت میں قوانینِ شریعت کی رعایت و پابندی کرے گا، فقیر کا مقصود حاصل ہو جائے گا اور میری کوشش کامیاب ہو جائے گی۔</p> <p>4۔ اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستا ن کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر وشرک سے پاک کیا جائے</p> <p>5۔ "اس قدر آرزو رکھتا ہوں کہ اکثر افرادِ انسانی، بلکہ تمام ممالکِ عالم میں رب العالمین کے احکام، جن کا نام شرع متین ہے، بلا کسی کی مخالفت کے جاری ہو جائیں۔"</p> <heading>یہ سید صاحب کے عالمی ایجنڈے کا اظہار ہے۔ یعنی ساری دنیا پر اسلام کا سیاسی غلبہ آپ کے پیشِ نظر تھا۔</heading> <p>دوسرے طرف، غیرمسلم ممالک دارالحرب ہیں۔ جہان اسلام کی حکومت نہ ہو وہ دارالحرب ہوتا ہے۔ چنانچہ دارالحرب میں رہنے والے بھی اپنی کفار کی حکومتوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ان کے لیڈر مسلمانون پر حملے کرتے ہیں اور ان 'مجاہدوں' کو مارتے ہیں جو خلافت قائم کر کے ان کو محکوم بنا سکتے ہیں ، اس لیے غیر مسلم فوجیوں کے علاوہ ان کے عوام کو بھی قتل کرنا جائز ہے جو ان کی مضبوطی کی وجہ ہیں۔ قرآن کہتا ہے:</p> <heading>اے ایمان والو، تمہارے گرد و پیش جو کفار ہیں ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمہارے رویہ میں سختی محسوس کریں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔</heading> <p>اب بتائے کیا خیال ہے کب داعش کو جائن کر رہے ہیں؟؟</p> <p>'</p> </section> </body>
0135.xml
<meta> <title>بنگلہ دیش میں پھانسی چڑھنے والے علی احسن مجاہد کا بیٹے کے نام پیغام</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10344/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>148</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بنگلہ دیش میں پھانسی چڑھنے والے علی احسن مجاہد کا بیٹے کے نام پیغام
148
No
<body> <section> <p>علی احسن مجاہد نے سزائے موت کا فیصلہ نہایت تحمل اورحوصلے سے سنا اور اپنے بیٹے کو جوپیغام دیا وہ نہایت جرات و ہمت کے مالک شخص کا ہی بیان ہو سکتا ہے۔</p> <p>انہوں نے اس مقدمے کو مکمل طور پرمسترد کرتے ہوئے اسے حکومتی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا۔</p> <p>علی احسن مجاہد کا کہنا تھا کہ سزائے موت میرے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتی اور نہ پریشانی کا باعث ہے</p> <p>میں نے اپنی زندگی میں کسی بے گناہ فرد کو قتل نہیں کیا اور نہ کسی ایسے گناہ کے ارتکاب میں شریک ہوا۔</p> <p>یہ حکومت کی باطنی نفرت، سیاسی انتقام،جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی الزامات اور نام نہاد عدالت کا نام نہاد فیصلہ ہے۔</p> <p>جسے میں مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں۔</p> <p>میں اللہ کے دین کی خدمت ، سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کو ہر لمحہ تیار تھاتیارہوں۔اللہ مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے</p> </section> </body>
0136.xml
<meta> <title>جدید چارجنگ کیبل، موبائل صارفین کے لیے اچھی خبر</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10349/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>299</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جدید چارجنگ کیبل، موبائل صارفین کے لیے اچھی خبر
299
Yes
<body> <section> <p>سمارٹ فونز استعمال کرنے والے صارفین کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنا موبائل رات کو چارجنگ پر لگا کر سوتے ہیں تاکہ جب اگلی صبح وہ بیدار ہوں تو ان کا موبائل مکمل طور پر چارج اور سارادن وہ اسے بآسانی استعمال کر سکیں۔</p> <p>پھر رات کو جب بیٹری بالکل ختم ہونے والی ہوتی ہے تو وہ پھر موبائل کو چارجنگ پر لگاکرسوجاتے ہیں۔یہ ایک اچھی اور آسان عادت تصور کی جاتی ہے لیکن جب بیٹری سوفیصد چارج ہو جاتی ہے اور اس کے بعد بھی چارجنگ آن رہنے کی وجہ سے سمارٹ فون کی بیٹری کمزور ہونے لگتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ بے کارہوجاتی ہے۔</p> <p>اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ایک امریکی کمپنی <annotation lang="en">UsBidi</annotation> نے ایسی چارجنگ کیبل متعارف کروادی ہے جو موبائل کو 100 فیصد چارج کرنے کے بعد خودبخود چارج کرنا بند کر دے گی۔</p> <p>کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف موبائل کو چارجنگ مکمل ہونے کے بعد بیٹری کومزید چارج نہیں کرے گی بلکہ اسے کمپیوٹر <annotation lang="en">USB</annotation> میں لگا کر بھی موبائل کو تیزی سے چارج کیا جا سکے گا۔</p> <p>جب ہم اپنے موبائل کو کمپیوٹر <annotation lang="en">USB</annotation> سے چارج کرتے ہیں تو یہ زیادہ تیزی سے چارج نہیں ہوتا جس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ <annotation lang="en">USB</annotation> موبائل کو کمپیوٹر کے ساتھ <annotation lang="en">sync</annotation> کرتے ہوئے کم وولٹیج دیتی ہے اور موبائل چارج ہونے میں زیادہ وقت لیتا ہے۔</p> <p>تاہم کمپنی نے کیبل کے کنارے پر ایک بٹن لگادیا ہے جو دبانے کے بعد <annotation lang="en">sync</annotation> کے عمل کوروکے گا اور موبائل تیزی سے چارج ہوگا۔اس کیبل کو فروری 2016ء میں مارکیٹ کیا جائے گا اور اس کی قیمت 32 ڈالر( 3200 روپے) ہوگی۔</p> <p>کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قیمت زیادہ نہیں کیونکہ اس طرح صارفین اپنے موبائل کی بیٹری کی عمر بڑھنے سے انہیں زیادہ دیر تک استعمال کر سکیں گے</p> </section> </body>
0137.xml
<meta> <title>جہلم میں توہین مذہب کے واقعے کے بعد کشیدگی ، فوج طلب</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10360/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>509</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جہلم میں توہین مذہب کے واقعے کے بعد کشیدگی ، فوج طلب
509
No
<body> <section> <p>جہلم میں مبینہ توہینِ مذہب کے واقعے کے بعد کشیدگی کی فضا ہے جبکہ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔</p> <p>جہلم میں جمعے کی شب مشتعل ہجوم نے مبینہ توہینِ مذہب کے الزام کے بعد ایک فیکڑی پر حملہ کر دیا تھا جہاں وہ شخص ملازمت کرتا ہے جس پر وہاں کے ہی ایک ڈرائیور نے قرآن کو مبینہ طور پر نذرِ آتش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔</p> <p>وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جہلم واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے فوج کو صوبائی حکومت کے مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کے اجازت نہیں دی جائے گی۔</p> <p>جہلم کے ضلعی پولیس افسر مجاہد اکبر خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ الزام کے بعد احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازم قمر احمد طاہر کو پولیس نے حراست میں لیا تھا اور ان کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا جا چکا تھا۔</p> <p>تاہم جماعت احمدیہ نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ 'ایک منصوبے کے تحت فیکٹری کو آگ لگا کر احمدیوں کو زندہ جلانے کی عمداً کوشش کی گئی۔ کسی شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دشمنی کی آگ کے تحت قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگایا ہے۔'</p> <p>جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا بتایا کہ 'مساجد سے لاؤڈ سپیکرز پر اعلان کر کے مشتعل ہجوم کو اکھٹا کیا گیا۔ جس نے فیکٹر ی پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد فیکٹری کو آگ لگا دی۔'</p> <p>ڈی پی او مجاہد اکبر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ فیکڑی پر ہجوم کے حملے کے بعد کی اطلاع کے بعد فیکڑی کے اندر موجود قریباً 15 سے 16 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ یہ افراد ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد تھے جو اس فیکٹری احاطے کے اندر ہی مقیم تھے اور ان سب کا تعلق احمدی برادری سے ہے۔</p> <p>ڈی پی او مجاہد اکبر خان کے مطابق اس واقعے میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تاہم فیکڑی میں آگ لگنے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ ان کے بقول آگ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔</p> <p>پولیس کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم کے خلاف بھی مقدمہ درج کر دیا گیا ہے جس میں کم سے کم ایک ہزار افراد شامل تھے اور مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔</p> <p>ڈی پی او کا کہنا تھا کہ اس وقت زیادہ توجہ قیامِ امن پر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علاقے میں موجود احمدی برداری کے افراد کی سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔</p> <p>فیکٹری کے مالکان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور ملازمین کی اکثریت بھی احمدی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔</p> <p>آگ لگنے سے فیکٹری کا 70 فیصد سے زائد حصہ جل کر تباہ ہو گیا ہے جبکہ فیکٹری کے احاطے میں موجود آٹھ متعدد گاڑیاں بھی جلا دی گئیں۔</p> </section> </body>
0138.xml
<meta> <title>ایبٹ آباد میں لینڈ سلائیڈنگ سے 50 سے زائد دیہات کا رابطہ اسلام آباد سے منقطع</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10364/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>247</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ایبٹ آباد میں لینڈ سلائیڈنگ سے 50 سے زائد دیہات کا رابطہ اسلام آباد سے منقطع
247
No
<body> <section> <p>تحصیل حویلیاں کے گاؤں پونہ کے پہاڑ میں شگاف پڑنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے 50 سے زائد دہہات پر مشتمل 30 ہزار افراد کا رابطہ اسلام آباد سے منقطع ہو گیا ہے جب کہ ندی مصنوعی جھیل میں تبدیل ہو گئی ہے۔</p> <p>ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے گاؤں پونہ کے پہاڑ میں شگاف پڑنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے مرکزی رابطہ  سڑک بند ہو گئی ہے جس سے 50 سے زائد دیہات کا رابطہ ایبٹ آباد، حویلیاں اور اسلام آباد منقطع ہو گیا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث تقریباً 30 ہزار افراد پر مشتمل آبادی متاثر ہوئی ہے اور یونین کونسل ناراں میں لوگ گزشتہ 2 روز سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن ابھی تک وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کا کوئی بھی فرد متاثری کی داد رسی کے لئے نہیں پہنچ سکا۔</p> <p>گاؤں پونہ میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ندی مصنوعی جھیل میں تبدیل ہو گئی ہے جس سے عطاء آباد اور زلزال جھیل کی یاد تازہ کر دی ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر ہماری مدد نہ کی تو یہ پہاڑ ہمارے گھروں کو تباہ کر دے گا۔</p> <p>واضح رہے کہ لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کا آبائی علاقہ ہے جب کہ  مسلم لیگ (ن) کے سردار اورنگزیب نلوٹھہ یہاں کے ایم پی اے ہیں۔ یہاں پر ریسکیو ٹیموں کا پہنچنا نہایت آسان ہے لیکن اس کے باوجود ریسکیو آپریشن اب تک شروع نہین کیا جا سکا ہے</p> </section> </body>
0139.xml
<meta> <title>پیرس حملوں کے بعد سیکیورٹی خدشات: بیلجئیم اورامریکا سے 8 پاکستانی گرفتار</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10367/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>201</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پیرس حملوں کے بعد سیکیورٹی خدشات: بیلجئیم اورامریکا سے 8 پاکستانی گرفتار
201
No
<body> <section> <p>پیرس میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد بیلجئیم اوروسط امریکی ملک ہونڈراس میں 8 پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔</p> <p>برطانوی میڈیا کے مطابق پیرس کے بعد بیلجئیم کے دارالحکومت برسلزمیں دہشت گردی کے خدشات کے باعث سیکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ شہرکی سڑکوں پرفوج کے دستے گشت کر رہے ہیں اورمبینہ دہشت گرد صالح عبدالسلام کی تلاش جاری ہے۔بیلجئیم کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے برسلز کے نواحی علاقے کے ایک پیٹرول پمپس پر موجود 3 ایمبولینسوں میں موجود 6 افراد کو حراست میں لےکرانہیں متعلقہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا جہاں ان کے فنگر پرنٹس لئے گئے جس سے پتا چلا کہ حراست میں لئے گئے 6 افراد پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔</p> <p>پولیس کا کہنا ہے کہ حراست میں لئے گئے افراد مقامی زبان نہیں جانتے لیکن اس کے باوجود وہ ان سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ دوسری جانب وسط امریکی ملک ہونڈراس کی سرحد پر تعینات سیکیورٹی حکام نے ملک میں داخل ہونے والے 3 افراد کو حراست میں لے لیا۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ تینوں افراد قانونی دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل ہوئے تھے۔ گرفتار کئے گئے افراد میں 2 پاکستانی شہریت کے حامل ہیں جب کہ ایک شامی ہے</p> </section> </body>
0140.xml
<meta> <title>ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے: گورنر آسام پی بی اچاریا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10371/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>156</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے: گورنر آسام پی بی اچاریا
156
No
<body> <section> <p>بھارتی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پدمنابھابالاکرشنا اچاریا کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ غلط نہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لئے ہے، دیگر ممالک سے ہندو بھی یہاں آکر رہ سکتے ہیں اور کیونکہ وہ کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر بنگلادیش سمیت دیگر ممالک سے ہمارے ہاں آباد ہونے والے ہندوؤں کے حوالے سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں انہیں کس طرح سے سہولیات فراہم کرنی ہیں، ہمیں ایک بھی بنگلادیشی کو نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کی فہرست میں شامل نہیں کرنا چاہیئے۔</p> <p>پی بی اچاریا کا مزید کہنا تھا کہ شمال مشرق ایک خطرناک علاقہ ہے جس کی وجہ سے بھارت کی سلامتی خطرے میں ہے، مختلف نظریات کی وجہ سے ملکی سلامتی خطرے میں ہے، ہمیں بھارت کی سلامتی کو بچانے کے لئے کوششیں کرنی چاہیئیں</p> </section> </body>
0141.xml
<meta> <title>عامر پر تاحیات پابندی لگائی جائے:پیٹرسن</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10374/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>177</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عامر پر تاحیات پابندی لگائی جائے:پیٹرسن
177
No
<body> <section> <p>فکسنگ میں سزایافتہ فاسٹ بولر عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کی مخالفت انگلینڈ میں بھی شروع ہو گئی ہے اور سابق  انگلش بیٹسمین کیون پیٹرسن نے ان پر ہمیشہ کیلیے کرکٹ کے دروازے بند کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔</p> <p>پیٹرسن کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ جب عامر ان چیزوں میں پڑا اس کی عمر محض 18 برس تھی، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے پاس خصوصی ٹیلنٹ ہے، اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ وہ اور آصف غریب پس منظر سے تعلق رکھتے اور چند سیکنڈز کے کام کیلیے خطیر رقم کے لالچ میں آگئے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ عامر کو واپس نہیں آنا چاہیے، میں کسی کے خلاف نہیں اور ان کیلیے نیک تمنائیں رکھتا ہوں لیکن یہ کھیل ہم سب سے بڑا ہے، اس کو ہم سے کہیں زیادہ لمبے عرصے تک جاری رہنا ہے، ہمیں کوئی حق نہیں بنتا کہ اس کو نقصان پہنچائیں۔</p> <p>واضح رہے کہ اس سے قبل انگلینڈ میں کم عمری کے باعث عامر کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پائے جاتے تھے</p> </section> </body>
0142.xml
<meta> <title>مرد خواتین کے ساتھ زیادہ کھانا کھاتے ہیں: تحقیق</title> <author> <name>آئی بی سی</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10377/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>188</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مرد خواتین کے ساتھ زیادہ کھانا کھاتے ہیں: تحقیق
188
No
<body> <section> <p>تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ  مرد جب بھی خواتین کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو زیادہ کھاتے ہیں۔</p> <p>امریکی یونی ورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق سے حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ مرد جب خواتین کے ساتھ ہوتے ہیں تو زیادہ کھانا کھاتے ہیں کیونکہ تحقیق کے اس دلچسپ و عجیب حقائق کے پیچھے کوئی سائنسی وجہ نہیں ہے بلکہ مرد صرف خواتین کو متاثر کرنے کے لیے زیادہ کھاتے ہیں۔ تحقیق میں اس کی مثال کچھ اس طرح دی گئی ہے کہ اگر مرد کسی خاتون کے ساتھ پیزا کھانے جائے تو وہ خاتون کے مقابلےمیں 93 فیصد زیادہ پیزا اور 86 فیصد زیادہ سلاد کھائے گا جب کہ خواتین چاہے کسی مرد کے ساتھ کھانا کھائیں یا خاتون کے ساتھ ان کے کھانے کی مقدار پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔</p> <p>تحقیق دانوں کے مطابق اس کا تعلق انسان کی نفسیات سے ہوتا ہے جس کا مقصد دوسروں کے سامنے دکھاوا کرنا ہے اور ان کو متاثر کرنا ہوتا ہے لہٰذا جب بھی مرد کسی خاتون کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو وہ صرف خاتون کو متاثر کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں</p> </section> </body>
0143.xml
<meta> <title>حسینہ واجد کا جہاد</title> <author> <name>فیص اللہ خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10382/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>752</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
حسینہ واجد کا جہاد
752
No
<body> <section> <p>حسینہ واجد کا جہاد جو کچھ حسینہ واجد کر رہی ھے اسے اس بات کا اختیار بنگلہ دیش کا آئین و قانون دیتا ھے ،پاکستان کے حوالے سے حسینہ کا ایجنڈا کبھی بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا عوام نے اسے ووٹ ہی اس کے نعروں پہ دئیے تھے ، ایک سیکیولر بنگلہ دیشی کی نظر سے دیکھیں تو وہ پاکستانی فوج کے مددگار بنگلہ عوام کے قاتل اور خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو لٹکا رہی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔</p> <p>یہ الگ بحث ھیکہ اس وقت انہوں نے پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑی تھی ،رہی یہ دھائی کہ پاک و ھند سرکاروں کے معاھدے کے مطابق 1971 کے جنگی مجرموں { پاکستان کے مددگاروں } کی خلاف بنگلہ دیشی حکومت کوئی مقدمہ نہیں چلائے گی تو ایسی بات سوائے خود کو اطمینان دلانے کے کچھ نہیں ، جناب دنیا میں دو ہی کردار ہوتے ہیں ایک فاتح دوسرا مفتوح ۔۔ ہم مفتوح تھے جبھی سرنڈر بھی ہوئے اور قید بھی ، البتہ جو جماعت اسلامی کی شکل میں بنگال ہی میں رہ گئے انہیں تو اپنے نظر ئِے کی قیمت چکانی پڑے گی کیونکہ یہی مہذب دنیا کا اصول ھے { باقی اچھی طرح غور و خوص کر لیں کہ مزید بھی ساتھ دیں گے کہ نہیں } ۔۔۔</p> <p>ان حالات میں کئے گئے تمام معاھدوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے بڑھ کر نہیں ہوتی جنہیں آپ صرف عجائب گھر کی زینت بنا سکتے ہیں اس سے کچھ کام کی بات نکال نہیں سکتے ، ہاں یہ ضرور ھیکہ اس معاھدے کے باوجود مہذب یورپ و امریکا اور عالمی اداروں کی خاموشی { ایک آدھ ٹوں ٹاں کے علاوہ } بڑے مزے کی ھے کیونکہ انسانی حقوق کا کنٹریکٹ رکھنے کے باوجود ان کا گم صم رھنا ہمارے لبرل دوستوں کی بھی پریشانیوں میں زرا سا اضافہ کر دیتا ھے ، مگر ڈھیٹ ہونے کیوجہ سے وہ آرام سے دوسری راہ اختیار کر لیتے ہیں باقی بچے اسلام پسند تو صرف غائبانہ نماز جنازہ ہی پڑھ سکتے ہیں یہی ان کے بس میں ھے یا پھر کوئی ننھنا سا احتجاج ہو جائیگا ،</p> <p>کبھی کبھی بنگالیوں پہ رحم بھی آتا ھے وہ پاکستان کی سول و ملٹری اشرافیہ کے مظالم کے باعث پاکستان سے الگ ہوئے اور اس کے بعد جتنی بنگلہ دیشی خواتین کی اسمگلنگ ہوئی اس کی مثال مشکل سے ملتی ھے آزادی کا یہ سفر ایسا تھا کہ برصغیر کے سب سے بڑے ملحد و مسلم سیکیولرز یہیں پیدا ہوئے پلے بڑھے اور آج بنگالی سیکیولرز و ملحداپنی اصلی شناخت کیساتھ محسن انسانیت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں آذادی اظہار کے نام پہ توہین و غلاظت کا وہ بازار وہاں گرم رکھا گیا ھے وہاں باقاعدہ بلاگرز کو قتل کرنا پڑا ھے { پاکستان میں کسی کو کم از کم سرعام یہ سب کرنے کی جرات نہیں } بنگالیوں نے خود ہی قوم پرستی یا سیکیولر ازم کو چنا دین جمہوریت کی روشنی میں پرکھا جائے تو اس فیصلے کو جمہور کی تائید حاصل ھے سو اس پہ اعتراض جہالت قرار پائیگا ، بلاشبہ وہاں اسلام پسند بھی کافی ہیں لیکن معذرت کیساتھ عرض ھیکہ تبلیغی جماعت کے بڑے اجتماع سے اس سیکیولر نظام کو کیا خطرہ ؟؟؟ انفرادی اصلاح کی یہ کوشش قیامت تک جاری رھنے کا امکان ھے لیکن اس کے نتیجے میں ریاستیں نہیں بدلیتیں ۔</p> <p>بس یاد رھے ہم جس دنیا کے باسی ہیں وہاں امن انصاف اور قانون کی بالادستی کا خواب محض خواب ہی رھے گا یہ اصطلاحات ٹرک بتی سے زیادہ کی حیثنت نہیں رکھتیں یہ اور بات ھیکہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یوں ہی سرپٹ دوڑے جانا ھے یا اس فریب سے باھر بھی نکلنا ھے ؟؟؟ ویسے اگر کل کو کسی نے حسینہ واجد کو شہید کر دیا تو وہ تو پکی دھشتگردی ہی کہلائے گا نا بھایئوں ؟؟؟؟؟؟ کیونکہ جہاد و قتال تو حسینہ سرکار کر رہی ھے نا ؟؟؟؟؟ جان کی امان پاتے اور نا چاھتے ہوئے بھی ایک گلہ جنرل شریف سے بنتا ھیکہ جناب والا، آپ تو ساری دنیا کو دھشت گردوں سے ختم کرنے کے انتہائی اہم مشن پہ مامور ہیں زرا ایک آدھ فون حسینہ جی کو بھی لگا دیں ، جہاں آپ دنیا جہاں کے دورے کرتے ہیں ایک بنگال کا بھی سہی، شاید ہماری جوھری قوت اور آپ کی بارعب شخصیت سے ڈر کر وہ مزید کسی ایسے شخص کو پھانسی نا چڑھائے جس نے کبھی آپ کے فریضے میں رضاکارانہ طور پہ مدد کی تھی ھند کی خلاف جنگ کی تھی ، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو حسینہ کی شکایت ابامہ صیب کو ہی لگادیں کیا پتہ حسینہ ان کی مان لے، اور کام بن جائے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p> </section> </body>
0144.xml
<meta> <title>سردیوں میں جلد کو خشکی سے بچانے کے آسان طریقے</title> <author> <name>AhSan Khan</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10386/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>482</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سردیوں میں جلد کو خشکی سے بچانے کے آسان طریقے
482
No
<body> <section> <heading>لندن:</heading> <p>سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی ہوا میں نمی کا تناسب کم ہو جاتا ہے جس کا اثر ہماری جلد پر پڑتا ہے اور جلد کھردری اور خشک ہونے کے ساتھ پھٹنے لگتی ہے،ماہرین کے مطابق سرد موسم میں جلد کی حفاظت پر تھوڑی سی توجہ دے کر اس کی خوبصورتی اور نکھار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔</p> <p>ماہرین امراض جلد کے مطابق زیادہ دیر تک گرم پانی سے نہانا بھی خشکی کا باعث بنتا ہے اس لئے سرد مودم میں غسل کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھئے کہ پانی نیم گرم ہو اور غسل کا دورانیہ بھی 10 منٹ سے زیادہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ جلد کی حفاظت کے لئے نہانے سے پہلے پانی میں بے بی آئل یا کوئی اور تیل لے کر اس کے چند قطرے پانی میں ڈال لیں اور سرسوں یا کھوپرے کے تیل سے جسم پر مالش کریں، یہ طریقہ جلد کو شاداب رکھنے میں انتہائی معاون ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نہانے کے بعد بدن اچھی طرح خشک کر لیں اور کسی اچھے سے باڈی لوشن سے مساج کریں۔ روزانہ رات سونے سے قبل منہ دھو کر اچھی سی کولڈ کریم لگانا بھی فائدہ مند ہے۔</p> <p>سردیوں میں صابن کا استعمال کم کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے جلد کی قدرتی نمی میں کمی ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ صابن کو جسم پر زیادہ رگڑنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس طرح جلد پھٹنے اور متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں،ماہرین کے مطابق چہرے کی صفائی کے لئے بیسن کا لیپ بہترین طریقہ ہے جس سے چہرہ چکنائی سے پاک اور فریش ہو جاتا ہے۔اگرکسی شخص کی جلد قدرتی طور پر خشک ہو تو اس کے لئے صابن سے پاک موسچرائزز کلینر کا استعمال بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔</p> <p>جن لوگوں کی جلدنازک ہوتی ہےسردیوں کے موسم میں ان کے ہاتھوں کی جلد بہت اترتی ہے۔ اس کے لئے ایک گلاس گلاب کے عرق میں دو چمچے گلیسرین ایک بڑے لیموں کا رس ملا کر کسی بوتل میں محفوظ کر لیں' رات کو سوتے وقت مساج کریں اور صبح دھولیں اور کوئی اچھا سا لوشن لگائیں۔</p> <p>سردیوں میں جلد کو تروتازہ اور شاداب رکھنے کے لیے رات کو سوتے وقت معیاری کولڈ کریم اور موسچرائزر کا استعمال کرنے سے جلد میں ضروری نمی برقرار رہتی ہے اور یہ طریقہ اسے سرد موسم کے اثرات سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سردیوں میں پانی کا زیادہ جب کہ گرم مشروبات کا استعمال کم کردینا چاہئے، کیوں کہ یہ جسم سے پانی کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔</p> <p>ماہرینِ صحت کے مطابق  سرد موسم میں جلد کو تروتازہ رکھنے کے لیے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ سردیوں میں مالٹے، سنگترے، گاجر، مولی اور دیگر موسمی پھلوں سے بھی جسم میں پانی کی کمی پوری کی جاسکتی ہے اور پانی سے ہم اپنی جلد کے لیے ضروری نمی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح جلد کی شادابی برقرار رہتی ہے اور جلد موسم کے اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔</p> </section> </body>
0145.xml
<meta> <title>دبئی میں شہریار خان اور ششانک منوہر کی ملاقات بے نتیجہ ختم</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10392/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>266</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دبئی میں شہریار خان اور ششانک منوہر کی ملاقات بے نتیجہ ختم
266
No
<body> <section> <p>پاک بھارت کرکٹ سیریز کی بحالی کے لئے پاکستان اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی۔</p> <p>دبئی میں واقع انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والی ملاقات میں دونوں کرکٹ بورڈ کے سربراہان کے علاوہ پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی اور آئی سی سی ٹاسک فورس کے صدر جائلز کلارک بھی شریک تھے جس میں  جائلز کلارک نےشہریارخان اور ششناک منوہر کے درمیان ثالث کا کردارادا کیا، ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان مفاہمتی یادداشت کے تحت دسمبر میں ہونے والی پاک بھارت سیریز پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم شہریار خان اورششانک منوہر اس حوالے کسی نتیجے پر نہ پہنچ پائے اور دونوں کے درمیان ملاقات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔</p> <p>دوسری جانب میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے چیرمین شہر یارخان نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی ٹاسک فورس کے صدر جائلز کلارک کل پاک بھارت کرکٹ سیریز کے حوالے سے بریفنگ دیں گے۔</p> <p>واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 6 باہمی سیریز کی مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت بھارت کو آئندہ ماہ پاکستان سے ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20 میچز کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات آنا ہے لیکن بھارت نے آنے سے انکار کر دیا تاہم گزشتہ ہفتے بھارتی بورڈ نے تجویز پیش کی تھی کہ ون ڈے اور ٹی 20 میچز کی سیریز بھارت میں ہی کرائی جائے جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا</p> </section> </body>
0146.xml
<meta> <title>اسلام اور جہاد کو پہاڑوں پر موجود چند لوگوں سے منسوب کیا جا رہا ہے: فضل الرحمان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10395/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>147</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اسلام اور جہاد کو پہاڑوں پر موجود چند لوگوں سے منسوب کیا جا رہا ہے: فضل الرحمان
147
No
<body> <section> <p>جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اسلام اور جہاد کو پہاڑوں پر موجود چند لوگوں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔</p> <p>بونیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جہاد ایک مقدس لفظ ہے لیکن اسے بدنام کیا جا رہا ہے، اسلام اور جہاد کو پہاڑوں پر موجود چند لوگوں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور نیٹو نے افغانستان کو تباہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان آج خانہ جنگی کا شکار ہے۔</p> <p>مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسلام تو امن اور اعتدال پسند مذہب ہے اور دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کی طرح نظریاتی تبدیلی بھی آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہے اور ہمارے لئے عہدوں اور پیسوں سے زیادہ اہم اسلامی نظریہ ہے۔</p> </section> </body>
0147.xml
<meta> <title>بھارت نے پاکستان کو ہرا کر جونیئرہاکی ایشیا کپ جیت لیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10399/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>158</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھارت نے پاکستان کو ہرا کر جونیئرہاکی ایشیا کپ جیت لیا
158
No
<body> <section> <p>بھارت نے پاکستان کو جونیئرہاکی ایشیا کپ کے فائنل میں 2-6 سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔</p> <p>ملائشیا کے شہر کونٹن میں کھیلے گئے جونیئرہاکی ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت نے پاکستان کو یکطرفہ مقابلے کے بعد 2-6 سے شکست دے دی تاہم شکست کے باوجود پاکستان نے جونیئرہاکی ورلڈ کپ 2016 کے لئے کوالیفائی کر لیا۔ بھارت کی جانب سے فائنل میچ میں ہرمن پریت سنگھ نے 4 ، من پریت اور ارمان قریشی نے ایک ایک گول کیا جب کہ پاکستان کے محمد یعقوب اور محمد دلبر نے ایک ایک گول کیا۔</p> <p>اس سے قبل سیمی فائنل میں پاکستان نے کوریا کو شکست دے کر فائنل کے لئے کوالیفائی کیا تھا جب کہ سیمی فائنل میں بھارت نے جاپان کو 1-6 سے شکست دی تھی۔</p> <p>واضح رہے کہ جونیئرہاکی ایشیا کپ کے گروپ اے میں بھارت، ملائشیا، جاپان اور چین جب کہ گروپ بی میں پاکستان، کوریا، عمان اور بنگلادیش کی ٹیمیں شامل تھیں۔</p> </section> </body>
0148.xml
<meta> <title>شام میں روسی حملوں سے اب تک 97 بچوں سمیت 400 شہری ہلاک ہوئے: تنظیم انسانی حقوق</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10402/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>232</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
شام میں روسی حملوں سے اب تک 97 بچوں سمیت 400 شہری ہلاک ہوئے: تنظیم انسانی حقوق
232
No
<body> <section> <p>شورش اور خانہ جنگی کے شکار شام میں روسی مداخلت کے بعد اب تک 400 سے زائد عام شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں کم ازکم 97 بچے بھی شامل ہیں۔</p> <p>شام میں انسانی حقوق پر نظررکھنے والی  تنظیم، سیریئن آبزورویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق روس نے شام میں 30 ستمبر سے حملوں کا آغاز کیا اور 20 نومبر تک ان حملوں میں 403 عام شہری مارے گئے ہیں جن میں 25 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ شام میں انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم نے کہا ہے کہ مرنے والے بے گناہ شہریوں کی تعداد 526 ہے  جس مین 137 بچے شامل ہیں۔</p> <p>دونوں تنظیموں کے مطابق اکتوبر سے اب تک شام کے مختلف علاقوں میں بشارالاسد کی فوج نے 42 ہزار 234 فضائی حملے کئے اور اس دوران شامی افواج نے 22 ہزار 370  بیرل بم گرائے جس کے نتیجے میں 6 ہزار 889  عام شہری مارے گئے ہیں جس میں ایک ہزار 436 بھی شامل ہیں ۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ  اس صورتحال سے شامی عوام ملک چھوڑ رہے ہیں اور صرف حلب سے ایک لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔</p> <p>واضح رہے کہ 4  سال قبل شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد شام میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ لاکھوں شامی پناہ کے لئے  ترکی، اردن اور یورپ کے دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔</p> </section> </body>
0149.xml
<meta> <title>مالی سال 2014-15 کے دوران 10 ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوئی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10406/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>197</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مالی سال 2014-15 کے دوران 10 ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوئی
197
No
<body> <section> <p>ملک بھر میں مالی سال 2014-15 کے دوران 10 ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری کئے جانے کا اانکشاف ہوا ہے۔</p> <p>آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق مالی سال برائے 15-2014 کے دوران تقسیم کار کمپنیاں بجلی نادہندگان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے جس کے باعث بجلی بل ادا نہ کرنے والے صارفین نے کنکشن منقطع ہونے کے باوجودغیرقانونی بجلی استعمال کی۔</p> <p>قانون کے تحت بجلی نادہندگان کے کنکشنز منقطع کرنے کے بعد ان کے میٹر سمیت تمام آلات متعلقہ تقسیم کار کمپنی میں جمع کروائے جاتے ہیں تاکہ ان کا غلط استعمال نہ ہو لیکن تقسیم کار کمپنیوں کی طرف سے ایسا نہیں کیا گیا۔</p> <p>نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق رپورٹ کے مطابق صرف گجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) میں 9 ارب 19 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔</p> <p>اس کے علاوہ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) میں 91 کروڑ سترہ لاکھ روپے سے زائد کی بجلی استعمال کی گئی لیکن اس کا بل وصول نہیں کیا گیا۔ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) میں 14 کروڑ 41 لاکھ روپے سے زائد کی بجلی لائن لاسز کی نذر ہو گئی اور اس کے بل وصول نہیں کیے گئے</p> </section> </body>
0150.xml
<meta> <title>ایرانی عدالت نے امریکی صحافی کو قید کی سزا سنا دی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10409/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>160</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ایرانی عدالت نے امریکی صحافی کو قید کی سزا سنا دی
160
No
<body> <section> <p>ایرانی عدالت نے امریکی صحافی کو جاسوسی کے الزام میں قید کی سزا سنا دی ہے،امریکی صحافی کو ایرانی عدالت سے سزا امریکا ایران کے مابین حال ہی میں بڑھتے تعلقات ایک حساس معاملہ ہے۔</p> <p>تہران میں امریکی اخبار کے بیورو چیف جیسن ریزان کو جولائی 2014 میں،تہران سے گرفتار کیا گیا تھا۔ امریکی اخبار کے نمائندے کے پاس ایران اور امریکا ، دونوں ممالک کی شہریت ہے۔</p> <p>ایرانی عدالتی ترجمان غلام حسین محسنی نے امریکی اخبار کے نمائندے کو دی جانے والی قید کی سزا سے متعلق مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لئے جیسن ریزان کو 20 دن کی مہلت دی گئی ہے۔</p> <p>امریکی دفتر خارجہ کے تر جمان جان کربی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ امریکی صحافی کو ایرانی عدالت سے سزا کی خبریں ایرانی خبر رساں ایجنسی کے ذریعے ملی ہیں تاہم فوری طور پریہ واضح نہیں ہے کہ ایران نے جیسن ریزان کی سزا کی تفصیلات کیوں جا ری نہ کی جاسکیں</p> </section> </body>
0151.xml
<meta> <title>فصلوں کو مضرجڑی بوٹیوں سے محفوظ رکھنے والا روبوٹ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10415/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>122</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فصلوں کو مضرجڑی بوٹیوں سے محفوظ رکھنے والا روبوٹ
122
No
<body> <section> <p>جرمن کمپنی نے ایسا روبوٹ تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو فصلوں میں اگنے والی نقصان دہ جڑی بوٹیوں کو ختم کر کے فصلوں کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، 'بونی روب'نامی یہ جدید روبوٹ ایک منٹ میں 120 مضر جڑی بوٹیاں اور گھاس پھوس ختم کر سکتا ہے ۔</p> <p>اس روبوٹ کا سائز ایک کار کے برابر ہے اور اس میں لیزر ریڈار وژن سسٹم نصب کیا گیا ہے۔روبوٹ کا خصوصی نظام ایک سینٹی میٹر تک کی گھاس اور جڑی بوٹیوں کو ختم کر دیتا ہے تاکہ فصلوں کی غذائیت اور توانائی محفوظ رہ سکے اور نقصان سے بچ جائیں۔</p> <p>روبوٹ انسانوں سے زیادہ تیز کام کرنے کی صلاحیت کے ساتھ 24 گھنٹے تک بغیر رکے کام انجام دے سکتا ہے</p> </section> </body>
0152.xml
<meta> <title>جاپانی الفاظ کا انگریزی سمیت 3 زبانوں میں ترجمہ کرنیوالا مائیکروفون</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10419/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>140</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جاپانی الفاظ کا انگریزی سمیت 3 زبانوں میں ترجمہ کرنیوالا مائیکروفون
140
No
<body> <section> <p>جاپانی ایک مشکل زبان ہے جسے سیکھنا یا بولنا آسان نہیں تاہم جاپان کی ایک مشہور کمپنی نے ایسا میگا فون تیار کر لیا ہے جو جاپانی الفاظ کا تین مختلف زبانوں میں ترجمہ کر سکتا ہے۔</p> <p>جاپان میں تیار کئے گئے اس میگا فون کا نام'میگا فون یاکو'ہے جو جاپانی الفاظ کو انگریزی ، چینی اور کورین زبان میں ترجمہ کر کے جاپانی زبان سے نابلد سیاحوں کی مشکل آسان کر سکتا ہے۔</p> <p>جادوئی صلاحیتوں کے حامل اس انوکھے میگا فون میں جدید ترین سافٹ وئیرانسٹال کیا گیا ہے جس کی بدولت یہ خود کار انداز میں جاپانی الفاظ کو انگریزی ،چینی یا کورین زبان میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔</p> <p>جاپان میں آنے والے سیاحوں کیلئے یہ ایک حیر ت انگیز ایجاد ہے کیونکہ جاپان میں انگریز ی زبان بولنے والے افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے</p> </section> </body>
0153.xml
<meta> <title>ہالی ووڈ اداکارہ اسکارلیٹ جوہانسن کی 31 ویں سالگرہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10424/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>334</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہالی ووڈ اداکارہ اسکارلیٹ جوہانسن کی 31 ویں سالگرہ
334
No
<body> <section> <p>ہالی وڈ کی سنہری بالوں والی حسینہ اسکارلیٹ جوہانسن آج 31 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ نومبر 1984ء کو نیویارک میں پیدا ہونے والی اسکارلیٹ کا شمار ہالی وڈ کی ایسی اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔</p> <p>اسکارلیٹ کو بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا، اس لئے انہوں نے سات برس کی عمر سے ہی اداکاری شروع کر دی اور کئی ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ۔</p> <p>یہی وجہ ہے کہ جب وہ صرف دس سال کی عمر کو پہنچی تو ہدایت کار راب رینر نے فلم "نارتھ" میں پہلی بار کام کرنے کا موقع دیا جو 1994ء کو ریلیز ہوئی۔</p> <p>اسکارلیٹ کو اصل شہرت 1998ء میں ریلیز ہونے والی فلم "دی ہارس و سپر" کی کامیابی سے ملی جس میں ان کے ساتھ اداکار رابرٹ ریڈفورڈ نے مرکزی کردار ادا کیا۔</p> <p>2003ء میں اداکار بل مرے کے ساتھ فلم 'لوسٹ ان ٹرانسلیشن' میں اپنی بہترین اداکاری کے ذریعے ناقدین کو حیران کر دیا اور اس فلم میں بہترین اداکارہ کے طور پر گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے ان کی نام زدگی عمل میں آئی۔</p> <p>2005ء میں ان کی دو فلمیں اداکار ایون میگ گریجر کے ساتھ "دی ائزلینڈ" زیادہ کامیاب نہ ہو سکی لیکن ہدایت کار وڈی ایلن کی فلم "میچ پوائنٹ" میں اسکارلیٹ کی شان دار پرفارمنس پسند کی گئی اور انہیں ایک بار پھر گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔</p> <p>اسکارلیٹ نے فلم 'دی نینی ڈائریز اور 2008ء میں "دی اسپیرٹ"، 2009ء میں "ہی جیسٹ ناٹ ڈیٹ ان ٹویو" اور 2010ء میں فلم "آئرن مین 2 " میں اپنے کردار کمال مہارت سے ادا کیے، 2012ء میں ان کی دو فلمیں "دی ایوینجرز" اور "ہچکاک" ریلیز ہوئیں۔</p> <p>گزشتہ برس ان کی فلم لوسی نہ صرف بے حد مقبولیت حاصل کی بلکہ اس فلم میں جاندار اداکاری کی بدولت یہ فلم باکس آفس میں بھی کھڑکی توڑ بزنس کرنے میں کامیاب رہی جبکہ رواں برس انہوں نے ایونجرز: ایج آف الٹرون میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے داد سمیٹی</p> </section> </body>
0154.xml
<meta> <title>کوہاٹ میں صحافی قتل</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10428/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>224</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کوہاٹ میں صحافی قتل
224
No
<body> <section> <p>خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک مقامی صحافی کو قتل کر دیا۔</p> <p>پولیس کے مطابق موٹرسائیکل پر سوار حملہ آوروں نے 42 سالہ حفیظ الرحمٰن کو کوہاٹ شہر کے نواح میں ان کے گھر کے قریب قتل کیا۔</p> <p>کوہاٹ پولیس کے ترجمان فضل نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے میں حفیظ کو تین گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔</p> <p>گزشتہ ایک مہینے کے دوران خیبرپختونخوا میں صحافی کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل ضلع ٹانک میں ایک اخبار سے منسلک صحافی زمان محسود کو بھی اسی طرح کے حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔</p> <p>مقتول حفیظ الرحمٰن گزشتہ 12 سال سے صحافت کے پیشے سے منسلک تھے اور ان دنوں مقامی ٹی وی چینل نیو ٹی وی سے منسلک سے تھے۔</p> <p>حفیظ الرحمٰن کے قتل کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آئیں ہیں اور نہ ہی انہیں کبھی ماضی میں دھمکیاں موصول ہوئیں۔</p> <p>پاکستان میں صحافیوں پر اکثر حملے دیکھنے میں آتے ہیں اور ستمبر میں کراچی شہر میں بھی ایک ٹی وی چینل کے ٹیکنیشن اور صحافی کو دو مختلف واقعات میں قتل کر دیا گیا تھا۔</p> <p>اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001 کے بعد سے پاکستان میں 70 سے زائد صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے</p> </section> </body>
0155.xml
<meta> <title>دہشت گردی کے پیچھے کون ہے ؟</title> <author> <name>محمد حسین</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10448/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1892</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دہشت گردی کے پیچھے کون ہے ؟
1,892
No
<body> <section> <heading>دہشت گردی ایک بنیادی عالمی مسئلہ</heading> <p>انسانی جان، قدرتی وسائل اور امن عالم کو سب سے زیادہ خوفناک خطرہ اس وقت عالمی دہشت گردی سے ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی، فلسطین میں مسلسل اسرائیلی جارحیت، لبنان کے شہر بیروت اور فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی ایک بار پھر عالمی ذرائع ابلاغ اور ریاستی و سکیورٹی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پُرتشدد انتہاپسندی کے نتیجے میں گزشتہ تقریباً دو دہائیوں کے دوران لاکھوں لوگ ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اگرچہ دنیا کے گوشہ و کنار کے زیادہ تر ممالک دہشت گردی کے واقعات کے زد میں آ چکے ہیں تاہم ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دہشت گردی سے مسلم ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو ئے ہیں۔ واضح رہے دہشت گردی کو جہاد کا نام دینا، اقتدار کی خاطر درندگی کو نفاذ شریعت کی تحریک قرار دینا اور پُرتشدد بغاوت کے نتیجے میں مقبوضہ علاقے کو امارت یا خلافت اسلامیہ کا نام دینا، یہ سارے نعرے تشدد، بربریت اور ظالمانہ حرکتوں کو ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرنے، ان کو تقدس کا لبادہ پہنانے اور اندھی تقلید و عقیدت میں مگن سادہ لوح مسلمانوں کی ناجائز ہمددری لینے کی تزویراتی حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ مسلم ممالک میں شرح خواندگی میں کمی، بیرونی جنگی مداخلتوں اور سماجی نا انصافیوں سے تنگ آئے ہوئے ہزاروں مسلم جو ان ان تنظیموں سے متاثر ہوں اور ان کے رکن، معاون یا ہمدردر ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک عالم اسلام کا کوئی ذمہ دار ادارہ یا مرکز دہشت گردی کے جواز کے قائل نہیں ہے اور نام نہاد مسلم دہشت گرد تنظیموں کے خود ساختہ فہم شریعت اور فہم جہاد کی توثیق کرنے کے لیے نہ صرف تیار نہیں بلکہ ہر ذمہ دار ادارہ اس کی صراحتاً نفی کرتا ہے۔</p> <heading>دہشت گردی کے اثرات</heading> <p>دہشت گردی کے نتیجے میں متاثرہ ممالک میں مجموعی طور پر اب تک لاکھوں افراد آگ اور آہن کی نذر ہو چکے ہیں۔ خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں، ہزاروں بستیاں اجڑ چکی ہیں۔ لاکھوں بچے، خواتین بوڑھے اور جو ان تہہ تیغ ہو چکے ہیں۔ خوف، دہشت اور اضطراب نے امن و امان، سکون اور اطمینان کی فضا کو خون آلود کر دیا ہے۔ ہر طرف دکھ، غم، نوحہ، ماتم، چیخ و پکار، آہیں اور سسکیاں ہیں۔ مجبوری، بے بسی، لاچارگی، افسردگی، اداسی، مایوسی، احساس محرومی اپنی اپنی انتہا کو چھو رہی ہیں۔ متاثر ہ معاشروں کی مشکلات میں کمی آنے کے بجائے تکالیف روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ خوشحالی اور ترقی کی امیدیں بدحالی کی مایوسی کی نذر ہو تی جا رہی ہیں۔ متاثرین اپنے گھر وں سے بے یار و مددگار ہو کر کھلے آسمان تلے دربدری کے عالم میں ہیں یا مہاجرت کرتے ہوئے صحرا اور سمندر کے موجوں کے رحم و کرم پر ۔ اپنےمنہ پھیر رہے ہیں نالاں ہیں اور دورازے بند کر رہے ہیں جس کی وجہ سےغیروں کے دروازوں پر اذن دخول مانگ رہے ہیں۔ بھوک، پیاس، بیماری بے معانی ہو چکی ہیں۔ اب بربریت، درندگی، عصمت دری، ذبح، آگ، بم، گولی کا ہر لمحہ سامنا ہے۔ موت ہر طرف عیاں ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی کے آثار معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ معاشی نقصانات، معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور نفسیاتی امراض جیسے مسائل اس پُر آشوب صورت حال میں زیر بحث نہیں ہیں۔</p> <p>کوئی آسرا نہیں، کوئی ہمنوا نہیں، نہ کوئی غم خوار، نہ ہمدردر، نہ دکھ درد کو سننے والا اور نہ ہی اس کا کوئی مداوا کرنے والا۔ باپ کے سامنے بیٹی لاچار، ماں کے سامنے بچے، بچوں کے سامنے ماں باپ کا غم، الم، مصیبت !! لیکن کریں تو کیا کریں لاچار و ناچار!!!!!</p> <p>دکھ درد اور رنج والم، ظلم و بربریت، دہشت و وحشت کی یہ کہانیاں سب سے زیادہ ہمیں مسلم جنگ زدہ معاشروں میں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ اس ساری صورت حال کا ا جائزہ لیا جائے تو اس کے کچھ داخلی عوامل ہیں اور کچھ بیرنی عوامل۔ داخلی عوامل کو دیکھتے ہوئے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ غیر ریاستی مسلح تنظیمیں کیسے جنم لیتی ہیں اور پھر پروان چڑھتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے تاہم میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ دہشت گردی اور انتہاپسندی تین مرحلوں میں طفولیت سے بلوغت تک پہنچتی ہے۔</p> <heading>دہشت گردی کے اسباب و مراحل</heading> <p>پہلا مرحلہ، جب کسی بھی ریاست کے بد ترین طرز حکمرانی، سماجی تفریق، ریاستی تشدد، غربت، بے روزگاری اور نا انصافیوں سے وہاں کے شہری تنگ آجاتے ہیں، ریاست کی جانب سے لوگوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ تو لوگ اپنی نسلی، مذہبی اور لسانی شناخت اور وجود کو خطرے میں محسوس کرنے لگتے ہیں یوں وہ ابتدا میں اپنے جائز حقوق کے لیے حکومتوں کے خلاف منظم انداز میں اٹھتے ہیں۔ اس طرح ریاست کے خلاف مقامی سطح پر غیر ریاستی عناصر یا مزاحمتی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ عرب سپرنگ سمیت مختلف ممالک میں اٹھنے والی تحریکوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے میں سیاسی اصلاحات، اقتدار میں شراکت، وسائل کی منصفانہ تقسیم، شکایات کا ازالہ اور جائز حقوق کی فراہمی مسئلے کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔</p> <p>جب پہلے مرحلے میں لوگوں کے شکایات کا ازالہ نہ ہو تو دوسرے مرحلے میں مختلف علاقائی اور ہمسایہ ممالک اپنی باہمی مخاصمت کی بنیاد پر دوسرے ممالک میں اُن کو مزید غیر مستحکم کرنے کی خاطر مداخلت شروع کرتے ہیں ۔ مسائل اور ریاستی جبر سے تنگ آ کر بغاوت پر اترے ہوئے مشتعل لوگ بیرونی امداد کو غنیمت سمجھتے ہیں ۔ اس مداخلت کے نتیجے میں پراکسی وار شروع ہوتی ہے۔ اس طرح بیرونی طاقتوں کو کسی اور ملک میں مداخلت کرنے اور خانہ جنگی کا کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرحلے میں انتشار، پروپیگنڈا، نسلی، لسانی یا مذہبی بنیادوں پر گروہی فرقہ وارانہ فسادات میں شدت دکھائی دیتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں سعودی عرب، قطر، ترکی، ایران، لبنان، دیگر عرب ممالک کی شام، عراق، یمن اور بحرین میں مداخلت کو اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس مداخلت کے ذریعے ہر ہمسائیہ ملک اپنا دفاع اور سلامتی اسی میں سمجھتا ہے کہ اپنے حریف کو جتنا ہو سکے کمزور کر ے۔ جیسا کہ بہت سارے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ علاقائی قوتوں کو باہمی جنگ میں مصروف رکھ کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس مرحلے میں متوازن سفارتی تعلقات اور علاقائی ممالک میں باہم عدم مداخلت کی پالیسی سے معاملے کو نمٹا جا سکتا ہے۔</p> <p>دوسرے مرحلے میں مسئلے کو مناسب انداز میں مخاطَب نہ بنانے کی صورت میں تیسرے مرحلے میں معاملہ مزید شدت، حدت اور وسعت اختیار کر جاتا ہے ۔ علاقائی اور عالمی استعماری طاقتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے ریاست کے خلاف نبرد آزما اور باہم متصادم گروہوں کو استعمال کرنے کا موقع پاتی ہیں۔ پھر یہ طاقتیں انہیں جنگی تربیت، جدید اسلحہ، افرادی قوت اور دیگر ذرائع سے مزید مضبوط اور طاقتور بناتی ہیں اور اپنے ریاستی مفادات کے حصول کے لیے کام میں لاتی ہیں۔ اور ضرورت محسوس کریں تو وہ خود جدید ترین جنگی اسلحے سے لیس ہو کر میدان میں اترتی ہیں اور تباہی اور بربادی مچاتی ہیں۔ شام اور عراق کے مسئلے پر امریکہ، یورپی اور نیٹو ممالک، روس، چین کی مداخلت /شمولیت کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں اقوام متحدہ کی منفعل کارکردگی اور طاقتور ممالک کی جانب سے اپنے ممالک کو لاحق ممکنہ خطرات سے پیشگی دفاع کے نام پر یا انتقام کے جذبے کے تحت مختلف مسلم ممالک پر حملے دہشت گردی کو مزید پھلنے اور پھولنے کا باعث بنے۔</p> <heading>دہشت گردی کے کچھ دیگر عوامل</heading> <p>گروہی تنازعات میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات، فرقہ وارانہ فسادات، علاقائی ممالک کے مابین روایتی مخاصمت، عالمی طاقتوں کے متصادم مفادات، باہمی سفارتی تعلقات میں تناؤ، انتقامی جذبات اور طاقت کے بل بوتے پر غلبہ اور اقتدار کی ہوس، مواقع اور جگہوں پر عمل اور رد عمل پر مبنی رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات جیسے عوامل اس آگ کے کھیل میں پٹرول کا کام کرتے ہیں ۔ جب پُر تشدد دہشت گردی میں مختلف ممالک حصہ دار بنتے ہیں تو اس آگ اور آہن کا کھیل میدان جنگ کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے اُن ممالک تک پہنچنے لگتے ہیں جو انہی دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح اور مضبوط کرتے رہے ہیں یا ہنوز کر رہے ہیں۔ یوں مفادات کے خونی کھیل کا ایک شیطانی دائرہ وجود میں آجا تا ہے جس میں انسانی جان کی قدر و قیمت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔</p> <p>گزشتہ تقریباً کئی دہائی سے جاری دہشت گردی کے تسلسل کو شام، عراق، یمن، لبنان، افغانستان، پاکستان، الجزائر، صومالیہ وغیرہ کے طرز حکمرانی کے ساتھ ملا کر ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو القاعدہ اور داعش سمیت دیگر غیر ریاستی مسلح مسلم تنظیموں کی طفولیت (ریاستی جبر اور تفریق کے خلاف مزاحمت) سے اُن کی بلوغت (پُرتشدد دہشت گردی) تک کے مراحل سمجھے جا سکتے ہیں۔</p> <heading>حل کا راستہ</heading> <p>دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پوری دنیا متاثر ہو چکی ہے۔ چنانچہ دہشت گردی اور بدامنی اب بلا تفریق پورے عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تناظر میں ہر باشعور اور انسانی ہمدردی سے سرشار شخص کی یہی دلی خواہش ہے کہ پورا عالم امن کا گہوارا بنے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مکروہ عفریت سے کیسے نمٹا جائے؟</p> <p>میرا ماننا یہ ہے کہ دہشت گردی کے حل کا آغاز بھی وہیں سے ہوگا جہاں سے دہشت گردی کی راہ ہم ہموار ہوئی ہے۔ یعنی ریاستی سطح پر اس کا مستقل اور فطری حل بیرونی مداخلت ہر گز نہیں ہے بلکہ داخلی سطح پر غیر ریاستی متصادم گروہوں کو سیاسی اور غیر عسکری حل پر آمادہ کیا جائے۔ جبکہ امن عالم کا تقاضا ہے کہ ایک طرف جنگ اور دہشت گردی کے مکروہ تسلسل کے پیچھے کارفار چند اہم عناصر( ۱ ) "اسلحہ سازی کی منعفت بخش صنعت" [ جس سے چند ممالک کے مفادات وابستہ ہیں] ( ۲ ) کمزور اور جنگ زدہ ممالک میں بڑی طاقتوں کی مداخلت ( ۳ ) وسائل پر قبضے کی بے لگام دوڑ ( ۴ ) ریاستی اور تجارتی مفادات کے لیے تمام اخلاقی و انسانی اقدار کی پامالی ( ۵ ) مذہب خاص طور پر اسلام کے مقدس مذہبی لبادے میں تشدد اور دہشت گردی کے خلاف مسلم قائدین/ممالک کی غیر واضح اور منقسم پالیسی ( ۶ ) انسداد دہشت گردی پر مشرق و مغرب، امیر و غریب، مسلم و غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر ایک ہمہ جہت اسلوب پر بین الاقوامی سطح پر نتیجہ خیز غور اور خوض کیا جائے، ایسی منصفانہ اور جامع حکمت عملی اپنائی جائے جس میں انسانیت کے لیے امن، خوش حالی اور ترقی کا پیغام ہو نہ کہ انسداد دہشت گردی کے نام پر امیروں کے ہاتھوں غریبوں کے استحصال کی توثیق کا پروانہ۔</p> <p>امن عالم کے لیے عالمی برادری کے خلوص نیت، مضبوط ارادے، منظم منصوبہ بندی اور ان منصوبوں پر مؤثر عمل در آمد کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر ملکوں کے مؤثر اور بہتر طرز حکمرانی، سیاسی اصلاحات، عصری تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تعلیمی نصاب و نظام کی تجدید، غربت، بے روزگاری اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے تعلیم، تحقیق، ترقیاتی اقدامات اور انسانی وسائل کی پرورش پر سرمایہ کاری اور ملک کے سارے طبقات کے لیے سماجی انصاف کی فراہمی جیسے اقدامات ثمر آور ہو سکتے ہیں۔</p> </section> </body>
0156.xml
<meta> <title>داعش کی پیدائش ؟</title> <author> <name>شفیق منصور</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10454/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>816</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
داعش کی پیدائش ؟
816
No
<body> <section> <p>عراق کی ابوغُریب جیل کا شمار دنیا کی بدترین جیلوں میں ہوتا ہے۔صدام حسین کے دور میں یہ جیل سیاسی مخالفین کے لئے مخصوص تھی،یہاں اُنہیں عبرتناک سزائیں دی جاتی تھیں۔یہ مصر کی جیل وراء الشمس کی طرح تھی،جس کا مطلب ہے سورج کے اُس پار، جو لوگ ان جیلوں میں ڈالے جاتے تھے وہ شاذ ہی واپس آتے تھے۔ 2003 کے بعد امریکی افواج نے عراقی شہریوں کے ساتھ اسی جیل میں شرمناک اور گھناؤنا سلوک روا رکھا جسے سن کر پوری دنیا کے انسانی حقوق کے ادارے تلملا اٹھے۔ بعد میں امریکی صدر بش کو علی الاعلان دنیا سے معافی مانگنی پڑی۔</p> <p>امریکی انخلاء کے بعد ایران نواز عراقی حکومت نے بھی جیل کی روایت کو بدلنا اُن شیعہ نوجوانوں کے خون سے دغا کے مترادف سمجھا جو صدام حسین کے عہد میں یہاں اذیت دئے گئے۔اس جیل میں مشکوک سنی اشخاص کو قید کیا جاتا ہے۔اس کی مضبوط و بلندقامت دیواریں اور اندر کا سناٹا روح کو بوجھل کرنے کے لئے کافی ہے۔ہر لمحے اس کے زندان خانوں میں خوف اور اذیت کی کئی داستانیں دفن ہوتی ہیں۔ 21 جولائی 2013 کو ابوغریب جیل میں ایک واقعہ پیش آیا۔باہر سے کچھ حملہ آور آئے۔ انہوں نے جیل پر شدید دھاوا بول دیا اور اس کے اندربند اپنے سات سو ساتھیوں کو نکال کر فرار ہوگئے۔جیلوں پر حملے ہونا اور قیدیوں کا فرار ہو جانا عجیب اور غیرمعقول بات نہیں ہے،لیکن ابوغریب جیسی جیل سے سات سو افراد کا کامیابی کے ساتھ نکل جانا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔لیکن یہ حیرت اس وقت اس وقت ختم ہو گئی جب ہسپتال میں پڑے کچھ سپاہیوں نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے۔</p> <p>ان کا کہنا تھا اس طرح کی کاروائی دنیا کی کوئی بھی دہشت گرد تنظیم انجام نہیں دے سکتی۔جو کچھ بھی ہوا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرایاگیا۔اس میں ضرور حکومت کی معاونت شامل ہے۔ہم جب بھی اس رات کے حادثے بارے سوچتے ہیں ہمارا سر پھٹنے لگتا ہے۔ بعدمیں کئی شواہد سامنے آئے جن سے حکومت کا ملوث ہونا ثابت ہوتا ہے۔</p> <p>حملہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا۔حملے سے چند دن قبل جیل کے سپرنٹینڈینٹ نے نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ تمام قیدیوں کے لئے اجتماعی افطاری کا بندوبست کیا جائے۔اس کے لئے اس نے 21 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔اس دوران القاعدہ کے 200 کارکن بغداد کی ناصریہ جیل سے ابوغریب منتقل کردئیے گئے۔یہ سارے کے سارے وہ لوگ تھے جنہیں پھانسی کی سزا سنائی جاچکی تھی۔ان کا ابوغریب لایا جانا خلافِ اصول تھا۔اس کے علاوہ جیل کی اندرونی جانب دیواروں کے ساتھ کئی جگہ پتھروں کے ڈھیر جمع کردئیے گئے،جن سے دیوار پر باآسانی سے چڑھا جاسکتا تھا۔ 21 جولائی کو مغرب کے قریب تمام قیدیوں کو افطاری کے لئے ایک جگہ جمع کر دیا گیا۔انمیں وہ قیدی بھی شامل تھے جنہیں الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھا جاتا ہے۔ان کا کسی اور سے ملاقات کرنا ممنوع تھا،مگر جیل کے سربراہ کے حکم کے مطابق سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا۔وہ سب آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔</p> <p>جیل کا انتظامی عملہ حیران تھا کہ جنکے چہرے مرجھائے ہوئے تھے اب ان پر خوشی کی لہر تھی۔افطاری کے بعد انہیں واپس زنذانوں میں بند کر دیا گیا۔عشاء کی نماز کے بعد جونہی گھڑی نے نو بجائے جیل کی فضاء رکٹ حملوں کے شور سے گونج اٹھی۔جیل کے اطراف میں برجوں پر متعین سپاہیوں نے آواز لگائی کہ جیل سے تھوڑی دور کچھ مسلح افراد ہیں جو راکٹ فائر کر رہے ہیں۔وہ شاید اندر گھسنا چاہتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی خبر دی کہ جیل کے باہر پولیس کی گشتی گاڑیاں بھی موجود نہیں ہیں۔انتظامی عملے نے فورا مرکزی سیکیورٹی ہیڈکوارٹر کو کال کر کے حادثے کی خبر دی۔جواب ملا ٹھیک ہے،کمک بھیجی جارہی ہے۔ باہرسے راکٹ اور گولیاں بارش کی طرح مسلسل برس رہے تھے۔ مقابلہ کرنا پولیس کے بس میں نہیں تھا۔زیادہ تر اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔اس دوران جیل کی بجلی بھی منقطع ہو گئی۔</p> <p>دو گھنٹوں تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔حملہ آور جیل کے اندر داخل ہو چکے تھے۔دو گھنٹے گزرنے کے بعد جیل کی دھویں سے اَٹی فضا میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوئے جن سے آرمی کے نوجوان اتر رہے تھے۔اس کے بعد مزید دو گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔جب دھواں چھٹا تو معلوم ہوا القاعدہ کے سات سو اہم ترین افراد کامیابی سے فرار ہو چکے ہیں۔</p> <p>اس واقعے کے صرف چند ہی دن بعد خبر آئی کہ شام میں ایک تنظیم وجود میں آئی ہے،جس کا نام داعش ہے۔اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ملی کہ بشارالاسد کے خلاف لڑنے والی تنظیم جبہۃ النصرۃ کے فتح کردہ دوشہروں پر داعش نے قبضہ کر لیا ہے اور مقابلے میں جبہۃ النصرۃ کے کئی مجاہد شہید ہوگئے ہیں۔ جبکہ حکومتِ عراق کی وزارت داخلہ نے فرارہونے والے قضیے کی پیش رفت کی بابت جوابدیا کہ انہیں واپس گرفتار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ عراق سے شام میں داخل ہو چکے ہیں۔ ادھر کچھ دنوں بعد بشارالاسد نے ایک مغربی صحافی کو انٹرویو دیا جس میں وہ خلافِ معمول پہلی بار خوداعتماد اور مطمئن نظر آرہا تھا،جیسے اس کی تمام مشکلات دور ہو چکی ہیں۔</p> <p>جاری ہے۔</p> </section> </body>
0157.xml
<meta> <title>جنہوں نے تہمینہ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا تھا</title> <author> <name>قاری محمد حنیف ڈار</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10459/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>541</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جنہوں نے تہمینہ کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا تھا
541
No
<body> <section> <p>یہ سارے لوگ جنہوں نے تہمینہ کو دفنانے کو جگہ دی اور نہ اس کے جنازے میں شرکت کی ،سارے معصوم اور پاک صاف لوگ تھے ،جو اگر اس لڑکی کا جنازہ پڑھ لیتے تو شاید عذابِ الہی کا شکار ھو جاتے ،یہ منافق معاشرہ ھے شاید اس لڑکی کو ان کی دعاؤں کی ضرورت بھی نہیں تھی اس کے گناہ تو اس کا قاتل لے گیا ،، اسے اب کسی کی دعا کی بھی ضرورت نہیں ،، حقیقت یہ ھے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ انسانوں کا ایسا رویہ ھی انہیں بخشانے کے لئے کافی ھوتا ھے ،، اللہ بڑا کریم ، بڑا غیرتمند ھے ، وہ اپنے اختیارات میں کسی مداخلت کو پسند نہیں فرماتا ،،</p> <p>اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا ،،،،،،، آپ اس کا جنازہ پڑھانے کھڑے ھوئے تو حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ شخص اس قابل نہیں کہ آپ اس کا جنازہ پڑھا کر اس کو عزت دیں ،، یہ ایسا تھا ،یہ ویسا تھا ،،،،،،،،،،،، اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عمرؓ کی طرف سے رخِ انور کو پھیر لیا اور بقیہ لوگوں سے پوچھا تم میں سے کسی نے اس شخص کو مسلمانوں والا کوئی کام کرتے دیکھا ھے ؟ ایک شخص نے کہا کہ " جی ھاں اس نے ایک رات ھمارے ساتھ اسلامی لشکر کی پہریداری کی ذمہ داری نبھائی تھی ،،</p> <p>اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ صفیں بنا لو اور اس شخص کی نمازِ جنازہ ادا فرما دی ، جنازہ پڑھانے کے بعد آپ بیٹھ گئے اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے چہرے پر پیار سے ھاتھ پھیرا اور فرمایا " تیرے ساتھی سمجھتے ھیں کہ تو جھنمی ھے ،مگر میں محمد اللہ کا رسول گواھی دیتا ھوں کہ تو جنتی ھے ،،،،،،،،،،،،،،،</p> <p>کاش کوئی سمجھے کہ اس بادشاھوں کے بادشاہ کو پتہ نہیں کس کی کون سی ادا پسند آ جائے کہ وہ اسے اپنے پڑوس میں جگہ دے بخش دے ،، عمرؓ کی گواھی رد کر دے اور محمد ﷺ کی گواھی ڈلوا دے ،،</p> <p>حضرت عیسی علیہ السلام کے سامنے ایک زانی جوڑے کو پیش کیا گیا تا کہ آپ ان کا فیصلہ تورات کے مطابق کر دیں ،، پیش کرنے والے یہود کے علماء تھے اور سازش کے تحت اس جوڑے کو لایا گیا تھا ، اگر عیسی علیہ السلام سنگسار کا فیصلہ کرتے ھیں تو عوام الناس ان کے خلاف ھو جائیں گے ،، اور اگر نہیں کرتے تو ھم شور کر دیں گے کہ یہ کیسے رسول ھیں کہ جن کو شریعت کا پتہ نہیں ،،،،،،،،،</p> <p>حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کی سزا سنگسار ھے مگر پتھر وہ مارے جس نے یہ کام خود نہ کیا ھو ، اس کے بعد لوگوں سے کہا کہ اپنے اپنے انگوٹھے کے ناخن میں دیکھو ، سب کو ان کا کرتوت ان کے ناخن میں کلپ کی صورت دکھا دیا اور فرمایا کہ اگر کسی نے جھوٹا پتھر مارا تو میں یہ منظر سامنے کی دیوار پر دکھا دونگا ،، سارا مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا اور لوگ نکل بھاگے ،آپ نے اس جوڑے کو توبہ کروائی ان کی شادی کر دی اور ان کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ،،</p> </section> </body>
0158.xml
<meta> <title>انسانیت</title> <author> <name>سید رفعت سبزواری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10462/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>546</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
انسانیت
546
No
<body> <section> <p>میں ایک ریسرچ کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں چند اعداد و شمار بھی دیئے گئے تھے جس کے مطابق دنیا میں قریباً چار ہزار سے زائد مختلف مزاہب موجود ہیں.</p> <p>ہم تو چند ایک ادیان سے ہی شناسا ہیں یا ان کے بارے میں پڑھ رکھا ھے. میں نے کوشش کی کہ دین کی تعریف کروں تو سمجھ میں یہی آیا کہ کہ دین اقدار کا مجموعہ ہے اعلیٰ اخلاقی انسانی اقدار ...</p> <p>معروف حدیث نبوی ص ہے انما بعثت لاتمم مقارم الخلاق. یعنی انبیاء کی بعثت کا مقصد اخلاق کی تکمیل تھا یعنی انسان کو شعوری و فکری طور پر اعلیٰ بنانا تھا.</p> <p>پھر آئیے ہم اپنے معاشرے پہ نظر دوڑاتے ہیں کہ ہم اخلاقی طور پہ کس نہج پر ہیں تو معلوم ھوتا ھے کہ ہم گدھوں کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ، غیر معیاری مشروبات بیچتے ہیں اور جعل سازی میں سبقت لے چکے ہیں.</p> <p>مقصد کسی پر تنقید کرنا ھر گز نہیں مگر محاسبہ کرنا ضروری ھے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار کیوں ہیں؟</p> <p>میری ناقص رائے میں ہم نے اصل مفاہیم کو چھوڑ کر چھلکے سے چپکے رہنے کو ترجیح دی ہے. ہم نے قرآن کو رٹے ضرور مار لیئے ہیں مگر اس کے آفاقی میسج سے رجوع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی. نتیجہ یہ ھے کہ ہم تیسری دنیا میں رہ رہے ہیں.</p> <p>دنیا اگلے تیس برسوں میں مریخ پہ آبادکاری کا سوچ رہی ھے مگر ہم طوطا فال سے قسمت کا حال معلوم کرنا چاھتے ہیں...</p> <p>قصور کس کا ھے؟</p> <p>قصور ان تمام طبقات کا ھے جنہوں نےمعاشرے کی سوچنے کی صلاحیت کو صلب کرنے کی کوشش کی.</p> <p>زمانے کے ارتقاء کے ساتھ انسانی شعور کو ارتقاء کا موقع فراہم نہی کیا. اور اگر کسی نے معاشرے کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر اس میں طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی اس کا حال برا ھی ھوا. ایک شعر زہن میں آدھمکا ھے</p> <p>یہ ارتقاء کا چلن ھے کہ ہر زمانے میں</p> <p>پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں</p> <p>ہمیں اسی ڈر کا خاتمہ کرنا ھے کہ ہم کسی کی دکان بند کرنے نہی آئے مگر ہم سوسائٹی کو تھوڑی سپیس دینا چاھتے ہیں...</p> <p>باتوں باتوں میں ہم کہیں اور نکل گئے مگر اس تمام تمہید کا مقصد فقط یہی ھے کہ انسانیت کی خدمت اور بھلائی کو ہی اگر ہدف قرار دیا جائے تو اسی صورت میں ہم ایک بہتر معاشرہ ترتیب دے سکتے ہیں . ایسے تمام کاموں سے اجتناب کریں جس سے بقا انسانیت کو خطرات ھوں.میرے خیال سے اسے اگر معیار قرار دے دیا جائے تو ہم حقیقی معنوں مردِ قلندر و مرد حُر بن سکتے ہیں. لیکن یہ سب ممکن کیسے ھو گا؟ بہت اچھا سوال ھے!!!</p> <p>جواب یقیناً یہی ھونا چاھیے کہ معاشرے کی علمی سطح کو بلند کیا جائے، ہم اپنی درس گاھوں میں روبوٹ تیار کرنے کے بجائے انسان تیار کریں، اور ان کے سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت کو مفقود نہ ھونے دیں ان کے اندر سے ڈر ختم کریں.</p> <p>ہم سب ایک مہذب اور آئیڈیل معاشرے کا خواب دلوں میں رکھتے ہیں . معلوم نہی کہ یہ خواب ہماری آنکھیں بند ھونے سے پہلے شرمندہِ تعبیر ھو کہ نہی مگر ہم اس کی کوشش جاری رکھیں گے کیونکہ یہی انسان اور انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ھے اور یہی انبیاء اور مصلحین کا بھی پیغام تھا.</p> </section> </body>
0159.xml
<meta> <title>فلسفۂ اخلاق</title> <author> <name>شیخ ولی خان المظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10466/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>973</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فلسفۂ اخلاق
973
No
<body> <section> <p>اخلاق کی ضرورت، اہمیت اور افادیت ہر زمان اور ہر مکان میں مسلَّم رہی ہے،انسان کی صحیح انسانیت کا ادراک بھی اُس کے اخلاق ہی سے ممکن ہے،اسی لئے تمام ادیان اور مہذب معاشروں میں حُسنِ اخلاق پر زور دیا گیا ہے،یوں ہمیشہ کے لئے انسانی سوسائٹی میں اخلاق کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے،انبیأ،اولیأ،حکمأ،مصلحین،مفکرین اور انسانی حقوق کے عَلمبرداروں نے اپنے کردار اور گفتار سے اخلاقِ کریمانہ کی دعوت دی ہے،بالخصوص آپﷺ کو اللہ تعالی نے خُلُقِ عظیم کی سند عطا فرمائی ہے،جب انسان یا کوئی قوم ومعاشرہ اخلاقی قدروں سے عاری ہوجاتاہے،تو اس کا بنیادی وجود ہی خطرے میں پڑجاتا ہے،</p> <p>احمد شوقی کہتاہے:</p> <p>وإنِّما الأُمَمُ الأخلاقُ ما بَقِيَتْ</p> <p>فَإنْ هُمُو ذَهَبَتْ أَخلاقُهُمْ ؛ ذَهَبُوا</p> <p>قومیں تو اخلاقیات کا نام ہیں اپنی بقأ میں،جب اُن میں اخلاقی زوال آجاتا ہے تو وہ بھی ختم ہو جاتی ہیں۔</p> <p>اخلاق ایک مستقل اور منفرد موضوع ہے،یہ ایک فلسفہ ہے،اسے بطورِ فلسفہ تعلیم گاہوں،دانش گاہوں ،مدارس ومکاتب اور تمام تربیتی اداروں میں ایک علیٰحدہ مضمون کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے،میڈیا اور عسکری اداروں میں اہمیت کے ساتھ اسے اپنانے کی زیادہ ضرورت اس لئے ہے کہ یہ ادارے جتنے مفید ہیں اُتنے ہی خطرناک بھی ہیں،ان کا اثر ورسوخ سب سے بڑھ کر ہوتا ہے،یہاں اخلاق کی افادیت جتنی ہےاُتنی ہی بد اخلاقی مضر ہے،یہ دونوں ادارے اگر اخلاقیات کو مد نظر نہ رکھیں تو صرف انسانی معاشرہ اور تہذیب ہی نہیں، اپنی بد اخلاقی کے زہریلے اثرات سے پوری انسانیت ہی کو داؤ پر لگادیں گے۔</p> <p>اخلاقی قدروں کی ضرورت ماضی میں بہت تھی، اس سے انکار نہیں، مگر آج کے زمانے میں اس کی ضرورت ماضی سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے،ماضی میں محدودیت تھی، حدیں تھیں،چند کلو میٹر کے فاصلے پر آپ کسی کے ضرر سے اپنے کو بڑی آسانی سے بچاسکتے تھے،لیکن لا محدودیت کے اس دور میں آپ کے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا،موبائل اور انٹر نیٹ ٹیکنالوجی نے دنیا کو کچھ زیادہ ہی مختصر کر دیا ہے،پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا،اس کی وجہ سےمشرق ومغرب پَل پَل میں ایک دوسرے کے اثرات وخطرات سے متأثر ہو جاتے ہیں،دنیا کے کسی بھی کونے کا کوئی بھی واقعہ کہیں بھی اپنے اچھے یا برے نتائج کالمحوں میں اثر دکھا سکتا ہے،بعض اوقات میڈیا کے چند الفاظ یا تصویری جھلکیاں جلتی پر تیل کا کام کر جاتے ہیں۔ فرانس میں پیرس کے حالیہ واقعے کو لے لیجئے،اس کے مہلک اثرات شام میں بے گناہوں پر اندھا دھند بمباری کی صورت میں نظر آرہے ہیں،کتنی جانوں اور املاک کی تباہی ہوگی،شاید اس کا صحیح اندازہ لگانا اس وقت مشکل ہے،البتہ امریکہ میں ٹریڈ ٹاور کی جس تباہی میں دو سے چار ہزار افراد لقمۂ اجل بنے تھے،اس کے انتقام میں لاکھوں افغانوں کی جانیں اور املاک برباد ہوئے،جبکہ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے،ضرورت سے زیادہ انتقام کیا ہے، بد اخلاقی ہی تو ہے، یہی بد اخلاقی اب شام میں عروج پر ہے۔</p> <p>نفاق بھی بداخلاقی کے زمرے میں آتاہے،اب یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے،کہ حکومتیں دیگر ممالک کے معاملات میں دخیل ہو جاتی ہیں،پھر اگر وہاں کوئی اپنی خود مختاری کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تو اسے دہشتگرد ٹہرایا جاتا ہے،بد قسمتی سے عالم اسلام کے ساتھ یہ بد اخلاقی صلیبی جنگوں اور اسپین میں نسلی تطہیر کے ادوار سے چلی آرہی ہے،فلسطین میں خونِ عرب ومسلم امریکی ویٹوز ہی کی وجہ سے بہایا جارہاہے،عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر ایسی تباہی ہوئی کہ الامان الحفیظ،اسی تباہی کی وجہ سے آج تک وہاں امن نام کی چیز عنقا ہے،افغانستان میں روس نے مظالم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ تاحال وہاں کے زخموں میں مندمل ہونے کے کوئی نشانات نہیں ہیں،شام میں ایران اور روس بضد ہیں کہ شامیوں کو خود اپنے مسائل حل کرنے چاہیئے،اقوامِ متحدہ کی تمام کوششوں کو ان دو ملکوں نے پیروں تلے روندا اور پھررعونت دیکھیئےکہ بذاتِ خود باہر ہی سےان کی افواج وہاں آتش وآہن کا بے رحمانہ کھیلواڑ کھیل رہی ہیں کہ بشار حکومت گرنے نہ پائے،تو یہ دوغلی پالیسی بداخلاقی نہیں تو اسے اور کیا نام دیاجانا ممکن ہے۔</p> <p>اقوامِ متحدہ اخلاقیات کے پیمانے طے کریں اور رکن ممالک پر لاگو کریں،یہ کیا بات ہوئی کہ آپ نے ایک ہنستے بستے ملک کو تخت وتاراج کر دیا اور اب صرف اس پر اکتفا کیا گیا کہ بے بنیادمعلومات تھیں، غلطی ہوئی، ہمیں افسوس ہے،اس بے حساب تباہی کا معاوضہ کون ادا کرے گا،آیندہ ایسی غلطی نہ کرنے کے لئے تو آپ نے جاپان وجرمنی کو غیر مسلح کر دیا تھا،انٹر نیشنل سیکورٹی کونسل کے اراکین اپنے ملکی اغراض ومفادات کے وقت ہراجلاس میں ویٹو کا لٹھ اٹھا ئے ہوئے نظرآتے ہیں،امریکہ وبرطانیہ سے بھی کوئی پوچھ گچھ کر سکتا ہے،کہ یہ غلطی نہیں بداخلاقی تھی،حساب دو۔۔۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی دنیا بڑے ممالک کی بد اخلاقیوں کی زد میں ہے، یہ ممالک خود دہشت گرد بن چکے ہیں،ان کی دہشت گردیوں اوربد اخلاقیوں کا اگر دیرپا اور معقول حل تلاش نہ کیا گیا،تو معلوم ہےکیا ہوگا،یہ خود بھی ڈوبیں گے اور اپنے ساتھ ہم سب کو ڈوبو دیں گے۔ یہ ممالک دہشت گردی کے اسباب کے خالق ہیں،جب تک یہ اسباب پیدا ہوتے رہیں گے، القواعد اور الدواعش کی تخلیق کوروکنا خیال است ومحال است وجنون۔</p> <p>ہم یہاں یہ بھی عرض کیئے دیتے ہیں، کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی بنیاد بھی بد اخلاقی تھی،چنگیزخان اور ہٹلر بھی جنگی اخلاقیات سے نا بلد تھے،لیکن تباہیاں محدود تھیں،پھر ان تباہیوں کے لئے وقت نکالنااوراسباب مہیأ کرنا آسان کام نہیں تھا، مگر آج ایک کلک پر سے مذکورہ اشخاص وجنگوں کے مقابلے میں سَو گنا زیادہ تباہیاں اور بربادیاں ممکن ہیں،اگر انسانی اخلاق واقدار سے عاری کوئی شخص یہ تباہیاں کرنا چاہیں،تو نہ دیر لگے گی،نہ لاؤ ولشکر کی ضرورت پڑی گی، لہذا</p> <p>اسی دنیا میں جنات ونعیم میں بسنے والو،فلسفۂ اخلاق کی آج شدید ترین ضرورت ہے۔</p> <p>شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات!</p> <heading>("اخلاق اور عالمی قانونِ جنگ" کے متعلق منعقدہ سیمینار 17, 11, 15 پی سی ہوٹل کراچی میں پڑھا گیا)</heading> </section> </body>
0160.xml
<meta> <title>پاک بھارت کرکٹ سیریز 20 دسمبرسے 3 جنوری تک سری لنکا میں ہوگی: بھارتی میڈیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10475/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>185</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاک بھارت کرکٹ سیریز 20 دسمبرسے 3 جنوری تک سری لنکا میں ہوگی: بھارتی میڈیا
185
No
<body> <section> <p>پاک بھارت کرکٹ سیریز 20 دسمبر سے 3 جنوری تک سری لنکا میں کھیلنے جانے کا امکان ہے۔</p> <p>بھارتی میڈیا رپوٹس کے مطابق پاک بھارت کرکٹ سیریز سری لنکا میں کھیلے جانے کا امکان ہے جب کہ 20 دسمبر سے 3 جنوری تک 3 ون ڈے اور 2 ٹی ٹوئنٹی پر مشتمل سیریز کھیلی جاسکتی ہے۔ سیریز کے زیادہ تر میچز کولمبو میں کھیلے جانے کا امکان ہے جب کہ دونوں ٹیموں کی میزبانی کے لئے سری لنکا کا کینڈی شہربھی متوقع وینیو ہو سکتا ہے۔</p> <p>اس سے قبل برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاک بھارت کرکٹ سیریز متحدہ عرب امارات کے بجائے سری لنکا میں کھیلی جائے گی جس میں ون ڈے اور ٹیسٹ کے بجائے 5 یا 6 میچز پر مشتمل صرف ٹی ٹوئنٹی سیریز ہی کھیلی جائے گی۔</p> <p>واضح رہے کہ پی سی بی چیئرمین شہریار خان اور بی سی سی آئی صدر ششانک منوہر کے درمیان آئی سی سی کے ہیڈکوارٹر دبئی میں ملاقات ہوئی جس میں کرکٹ سیریز پر تبادلہ خیال کیا گیا تاہم اس ملاقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔</p> </section> </body>
0161.xml
<meta> <title>موسیقی،فنون لطیفہ اور مولانا آزاد</title> <author> <name>مولانا ابوالکلام آزاد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10477/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>160</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
موسیقی،فنون لطیفہ اور مولانا آزاد
160
No
<body> <section> <p>مولانا ابو الکلام آزاد اپنی خاطر کا غبار اتارتے ہوئے لکھتے ہیں:</p> <p>اس بات کی عام طور پر شہرت ہو گئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنونِ لطیفہ کے خلاف ہے اور موسیقی محرماتِ شرعیہ میں داخل ہے۔</p> <p>حالانکہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ فقہا نے سد وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا اور یہ تشدد بھی باب قضا سے تھا نہ کہ باب تشریع سے۔قضا کا میدان نہایت وسیع ہے ہر چیز جو سوئے استعمال سے کسی مفسدہ کا وسیلہ بن جائے قضاءً روکی جاسکتی ہے لیکن اس سے</p> <p>تشریع کا حکم اصلی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ۔ لیکن یہ مبحث میں یہاں نہیں چھیڑنا چاہتا۔ یہاں جس زوایہ نگاہ سے معاملہ پر نظر ڈالی جارہی ہے وہ دوسرا ہے:</p> <p>مومن آ کیش محبت میں کہ ھے سب جائز،،</p> <p>حسرتِ حرمتِ صہبا ومزامیر نہ کھینچ ،،</p> <p>از: غبارِ خاطر</p> </section> </body>
0162.xml
<meta> <title>امریکی ریاست لوزانیا میں فائرنگ سے 16 افراد زخمی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10479/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>165</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکی ریاست لوزانیا میں فائرنگ سے 16 افراد زخمی
165
No
<body> <section> <p>امریکی ریاست لوزانیا کے ایک پارک میں فائرنگ سے 16 افراد زخمی ہو گئے۔</p> <p>غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست لوزانیا کے شہر آرلینز کے اپر نائنتھ وارڈ میں لوگوں کی بڑی تعداد ایک میوزک بینڈ کے گانے کی عکس بندی دیکھنے میں مصروف تھے کہ 2 حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 16 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے واقعہ کے وقت پارک میں 500 کے قریب افراد موجود تھے جب کہ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔</p> <p>واقعہ کے فوری بعد پولیس نے پورے علاقے کا محاصرہ کر کے حملہ آوروں کی تلاش کے لئے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ اس سے قبل رواں برس جولائی میں بھی ایک حملہ آور نے لوزانیا کے شہر لافائٹ کے سنیما گھر میں فائرنگ کر کے 2 افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا تھا۔</p> </section> </body>
0163.xml
<meta> <title>مصباح کے بغیر دورہ انگلینڈ پاکستان کیلئے کانٹوں کی سیج ثابت ہوگا: جیفری بائیکاٹ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10483/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>423</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مصباح کے بغیر دورہ انگلینڈ پاکستان کیلئے کانٹوں کی سیج ثابت ہوگا: جیفری بائیکاٹ
423
No
<body> <section> <p>سابق انگلش کپتان اور موجودہ مبصر جیفری بائیکاٹ نے خبردار کیا ہے کہ مصباح الحق کے بغیر پاکستان ٹیم کیلیے انگلینڈکانٹوں کی سیج ثابت ہوگا، مہمان بیٹسمینوں کیلیے جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔</p> <p>اپنے ایک انٹرویو میں جیفری بائیکاٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے حال ہی میں انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار کیا مگر ون ڈے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آئندہ برس کے وسط میں پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کرنا ہے جو کہ 2010 کے فکسنگ اسکینڈل کے بعد اس کا پہلا ٹورہوگا اور ایک بار پھر کرپشن کے الزامات پاکستانی ٹیم کے تعاقب میں ہوں گے۔ جیفری بائیکاٹ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس اسکینڈل کے بعد سے پاکستانی پلیئرز کا رویہ کافی بہتر ہوا اورانھوں نے خودکوکافی کنٹرول میں رکھا ہے، اصل اہمیت کپتان کی ہوتی ہے کہ وہ ٹیم کے لیے کیسی ٹون سیٹ کرتا ہے اور پاکستان کے پاس مصباح کی صورت میں ایک بہترین کپتان موجود ہے اگر وہ آئندہ برس انگلینڈ آتے ہیں تو ان کیلیے ضروری ہوگا کہ وہ خود کو انتہائی ٹھنڈا اور پرسکون رکھیں لیکن اگر وہ نہیں آتے تو پھر پی سی بی کو انگلینڈ کے دورے کیلیے موزوں کپتان کی تلاش کا سخت چیلنج درپیش ہوگا۔</p> <p>بائیکاٹ نے واضح کیا کہ پاکستانی بیٹنگ لائن کی انگلش کنڈیشنز میں آزمائش ہوگی جہاں پر اسٹورٹ براڈ، جیمز اینڈرسن اور دیگرفاسٹ بولرز کا سامنا کرنا ہوگا، یہاں پر ویسے بھی گیند ہوا میں سوئنگ ہوتی اور میں نے یو اے ای میں ہونے والے مقابلوں میں بھی پاکستانی بیٹسمینوں کو سوئنگ کے سامنے مشکل سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری یارکشائر میں یونس خان سے ملاقات رہی، وہ کافی بااخلاق اورحیران کن بیٹسمین ہیں۔ بائیکاٹ نے یونس اورجاویدمیانداد کے موازنے کے حوالے سے کہا کہ میں نے اپنے وقت میں گیری سوبرز کا سب سے زیادہ رنزکا ریکارڈ توڑا، پھرمیرا ریکارڈ سنیل گاوسکر نے توڑدیا جو کہ ان کے پاس بھی نہیں رہا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں سوبرزسے بڑاکھلاڑی ہوں، اس لیے کسی کا دوسرے سے رنز کی بنیاد پر موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔</p> <p>فکسنگ میں سزا یافتہ کرکٹرزکے بارے میں جیفری بائیکاٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں ان کو لمبی مدت کیلیے کھیل سے باہردیکھنا چاہتا تھا مگر چونکہ وہ اپنی سزا کاٹ چکے اس لیے انھیں دوسرا موقع ملنا چاہیے، عامرکی راہ میں بھی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے لیکن میرا اس کیلیے پیغام ہے کہ اب اگر تم نے کچھ غلط کیا تو پھر عمر بھر کیلیے کرکٹ کو بھول جانا۔</p> </section> </body>
0164.xml
<meta> <title>چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 32 برس بیت گئے</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10487/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>449</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 32 برس بیت گئے
449
No
<body> <section> <p>پاکستان فلم انڈسٹری کے میگا اسٹار اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 32 برس بیت گئے۔</p> <p>برصغیر پاک و ہند کے معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کے ہاں پیدا ہونے والے وحید مراد نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ پروڈیوسر کے طور پر وحید مراد اپنے والد کے قائم شدہ فلم بینر کے تحت فلم "انسان بدلتا ہے" سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ تاہم اداکار کی حیثیت سے وہ 1962 میں فلم ' اولاد' میں جلوہ گر ہوئے۔ 1966 میں انہوں نے پرویز ملک کی ہدایت میں اپنی ہی پروڈکشن میں "ارمان" میں بطور ہیرو کام کیا۔  جس  نے اس وقت کے تمام باکس آفس کے ریکارڈز توڑ دیئے اور تھیٹر میں 75 ہفتے مکمل کئے۔ فلم میں احمد رشدی کے گائے ہوئے "کوکو کورینا"، "اکیلے نہ جانا"، "بے تاب ہو ادھر تم" اور'زندگی اپنی تھی ابتک" جیسے گانے نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ آنے والے وقت میں وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور، سہیل رانا، احمد رشدی اور زیبا کی کامیاب ٹیم  نے ایک بڑی تعداد میں بہترین فلمیں بنائیں۔</p> <p>وحید مراد نے دو دہائیوں تک ملک کی سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیت ہونے کا لطف اٹھایا تاہم 1970 کی دہائی کے آخر میں ان کا کیرئیر زوال پزیر ہوا کیونکہ اس وقت کی معروف اداکاراؤں زیبا ، شبنم اور نشو کو اپنے شوہروں کی جانب سے چاکلیٹی ہیرو کے مدمقابل کام کرنے کی اجازت نہیں تھی ، جس کی وجہ سے وہ وحید، ندیم یا محمد علی کے ساتھ بطور معاون اداکار کے طور پر یا ' پھر دوسرے درجے کے ہداتکاروں کی فلموں میں بطور اداکار کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وحید مراد اس طرح کے  بدترین برتاؤ کو برداشت نہیں کرپا رہے تھے جس کی وجہ سے ناصرف وہ اخلاقی پستی کا شکار ہوئے بلکہ ان کی گھریلو زندگی بھی ناچاقی کا شکار ہوئی۔ 1983 میں  وحید مراد کی گاڑی ایک حادثے کا شکار ہو گئی جس سے وحید تو معجزاتی طور پر بچ گئے لیکن حادثہ ان کے چہرے پر ایک بڑا نشان چھوڑ گیا تھا۔ کل تک جو ہدایت کار اور پروڈیوسر انہیں اپنی فلم میں شامل کرنے کے لئے برسوں انتظار کرتے تھے وہ اب ان سے پہلو بچانے لگے۔ اس صورت حال سے وہ اس قدر دلبرداشتہ ہوگئے کہ 23 نومبر 1983 کو وہ اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے اور لاہور میں اپنے والد کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔</p> <p>وحید مراد نے پاکستان کی سلور اسکرین پر رومانوی ہیرو کی بہترین تصویر پیش کی،انہوں نے اپنے فن سے سے پاکستان کی فلمی صنعت کے امیج کو بہتر کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی فلموں اور ان پر عکسبند کئے گئے گانوں کو آج بھی مقبولیت حاصل ہے</p> </section> </body>
0165.xml
<meta> <title>گلگت بلتستان اورملک کے با لائی علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10490/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>233</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
گلگت بلتستان اورملک کے با لائی علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں
233
No
<body> <section> <p>گلگت بلتستان اورملک کے با لائی علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں ۔نوشہرہ میں دھند کے باعث 6 گاڑیاں ٹکرا گئیں، جس سے 6 افراد معمولی زخمی ہوگئے ۔</p> <p>ادھر زلزلے سے متاثر علاقے ،وسطی کرم میں جلانےوالی لکڑی کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بارش اور پہاڑوں پر برف باری کا سلسلہ وقفے وقفےسے جاری ہے ۔ دیامر کے علاقوں بابوسر ، نیاٹ اور بٹوگا ویلی میں برف باری سےمیدانی علاقوں میں برفیلی ہوائیں چل رہی ہیں ،جبکہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں خیموں میں مقیم زلزلہ متاثرین شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔</p> <p>گزشتہ رات آنے والے زلزلے کے جھٹکے نے ایک بار پھر انہیں خوف میں مبتلا کردیاہے ۔ دوسری جانب نوشہرہ میں پشاور اسلام آباد موٹر وے پر دُھند کے باعث 6 گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں،حادثہ میں 6 افراد معمولی زخمی ہوگئے ۔ اُدھروسطی کرم میں سردی کی شدت کم کرنے کے لئے جلائی جانے والی لکڑی کی قیمت سردی بڑھنے کے ساتھ مہنگی ہوتی جارہی ہے،جس سے زلزلہ متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔</p> <p>محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم خشک رہے گا۔ تا ہم خیبر پختونخواہ ، کوئٹہ ، ژوب ڈویژن، فاٹا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں موسم سرد اور مطلع ابرآلود رہنے کے علاوہ چند ایک مقامات پر بارش اور پہاڑوں پر برف باری کا امکان ہے</p> </section> </body>
0166.xml
<meta> <title>تہمینہ کی موت کاذمہ دارکون ؟</title> <author> <name>محمد حسین</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10530/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1563</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
تہمینہ کی موت کاذمہ دارکون ؟
1,563
No
<body> <section> <p>گزشتہ دنوں راولپنڈی میں چند بے رحم افراد نے چکوال کی بیس سالہ لڑکی تہمینہ کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور سنگدلی کے ساتھ اسے تین منزلہ گھر کی چھت سے دھکا دے کر قتل کر دیا ۔ جب اس کی لاش کو اپنے گاؤں پہنچا دیا گیا تو گاؤں میں اس کی میت کو کندھا دینے کے لیے کوئی تیار تھا اور نہ ہی اسے دفنانے کے لیے۔ اس میت کو اپنے ہی گاؤں میں دفن ہونے کی دو گز زمین بھی میسر نہ آئی چنانچہ ورثا نے اسے جنگل میں دفنا دیا۔ اس واقعے میں گاؤں کے لوگ ایک اجتماعی زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی ایک لڑکی کے خلاف خود مدعی، وکیل اور خود ہی منصف بنے۔</p> <p>یہ حرکت جہاں قانون اور انصاف کا سر عام قتل ہے، وہاں انسانی تہذیب اور انسانی ہمدردی پر ایک بد نما داغ ہے اور درندگی ، انتقام اور اشتعال کی بدترین مثال ہے۔ اگر اس کہانی پر غور کیا جائے تو یہ ہماری منافقت، درندگی، صنفی تعصب اور بطور قوم ہماری تشدد مزاجی کی عکاس ہے۔ اگر یہ کسی بڑے جاگیردار، سیاست دان، سول یا فوجی آفیسر یا تاجر کی بیٹی ہوتی تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا؟ یہی سمجھ آتی ہے کہ ہمارے سماج میں غیرت کی نام نہاد آگ ہمیشہ کمزوروں اور غریبوں کے خلاف ہی بھڑکتی ہے۔</p> <p>صنفی تعصب اور تشدد ہمارے رویوں میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ اپنے ہمیں وہ محسوس بھی نہیں ہوتا۔ گھر میں بیٹی پر بیٹے کی ترجیح، بہن پر بھائی کی فوقیت، بیوی پر خاوند کی برتری کا سبق ہم روز پڑھاتے، سکھاتے اور دکھاتے ہیں۔ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کی ضروریات اور تمنائیں والد، بھائی، خاوند اور بیٹوں پر قربان کی جاتی ہیں۔</p> <p>گھر میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان تفریق کا یہ عالم معاشرے میں عام دیکھا جا سکتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کے بجائے دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار۔ بیٹیوں کو والدین پر بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، جبکہ بیٹوں کو ماں باپ کا آسرا، گھر میں بیٹی جب سے ہوش سنبھالتی ہے تب سے وہ یہی سنتی رہتی ہے کہ اس نے بڑی ہو کر کسی اور کے گھر ہی جانا ہے لہذا اسے خدمت کے رموز ہی سکھائے جاتے ہیں۔ بیٹی کی تعلیم و تربیت کو اسی بنیاد پر زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ اس نے یہاں نہیں رہنا۔ بیٹی کو آخر میں بچا ہوا کھانا دیا جاتا ہے، جبکہ بیٹے کو پہلے اور اچھا دیا جاتا ہے۔ بیٹے کا کھانا دسترخوان پر جب کہ بیٹی کو کچن کے کسی کونے میں دیا جاتا ہے۔ کام کاج کامعاملہ ہے تو وہ کونسا کام ہے جو بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں سے نہیں لیا جاتا ، گھر کو جھاڑو دینے، کھانا تیار کرنے، برتن دھونے، کپڑے دھونے سے لے کر گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ تک۔ گھر سے باہر کے کام خاص طور پر دیہات میں مال مویشیوں کی دیکھ بال ہو یا کھیتوں میں کام ، غرض عورت ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہتی ہے۔ لیکن نہ آفرین، نہ حوصلہ افزائی اور نہ ہی کوئی صلہ، نہ لاڈ نہ پیار!!! جبکہ بیٹے، بھائی اور شوہر شہزادے ہوتے ہیں۔</p> <p>ماں کی بیتے کے لیے تکالیف کی کہانی بیٹے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوتی ہے اور یہی ماں اپنی آخری سانس تک بیٹے کی آرام دہ زندگی کے لیے تڑپتی رہتی ہے۔ اسی طرح بیوی اپنی زندگی کو اپنے خاوند کے حوالے کر دیتی ہے، دکھ سکھ، غمی خوشی، ہر مشکل اور مصیبت سہنے کے لیے تیار رہتی ہے، اس کے لیے بے پناہ قربانیوں پیش کرتی ہیں !!</p> <p>یہ تو ہو گئی گھر کی مختصر کہانی!!! اب سماج میں عورت کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے، اس کو ذرا دیکھتے ہیں۔ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ خوف ہر وقت ستاتا رہتا ہے کہ اُن پر کسی سنگ دل مرد کی بے شرمانہ نظریں نہ پڑیں۔ سماج میں روز پیش آنے والی اور ذرائع ابلاغ پر دکھائی جانے والی دل خراش کہانیوں اور واقعات کو دیکھ کر ماں ہر وقت اسی اضطراب کے ماحول میں اپنے دن رات گزارتی ہے کہ کہیں یہی خبریں میری آنگن سے نہ نکلیں!!!!</p> <p>لڑکوں کی دھوکہ دہی، استحصال، بلیک میلنگ اور شادی اور دوستی کے جھوٹے وعدوں کے شکار ہونے والی لڑکیاں نہ اپنے گھر کی رہ جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں سماج قبول کرتا ہے۔ اُسے ناقص العقل، بے وقوف اور طرح طرح کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو کوئے یار میں ایسی کسی ملزم اور مقتول کے لیے دو گز زمین بھی میسر نہ رہی۔ ۔ لیکن اصل مجرموں ( عفت ریزی اور عصمت دری کرنے والوں) کو گھر میں بھی قبول اور سماج میں بھی انہیں ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے گرد لڑکے جمع ہو کر کہنے لگتے ہیں "سانوں وی دسو یار کہ کڑیاں نوں کیویں پھنسانا ہے؟ (ہمیں بھی بتاﺅ کہ لڑکیوں کو کیسے زیر دام لاتے ہیں) وہ پھر بڑے احساس تفاخر سے اپنی فاتحانہ کرتوت سنانے لگتے ہیں۔ کسی کی بیٹی یا بہن کی عصمت دری کی قصہ خوانی کے دوران نہ سننے والوں میں شرم اور نہ سنانے والوں میں حیا کی کوئی رمق!</p> <p>ہمارا سماج بھی ایک مردانہ سماج ہے جہاں ہر طرح کی اخلاقی، مذہبی اور سماجی فوقت مرد کو ہی حاصل ہے جبکہ عورت کمزور، لاچار، بے آسرا اور بے بس اور مرد کی خدمت گار مخلوق کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی بے بسی کی دل سوز کہانیاں بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے مختلف روپ اور کرداروں میں آپ روزانہ سن اور دیکھ سکتے ہیں۔ تہمینہ کی کہانی کی طرح آبرو ریزی کی کہانیاں آپ کو اپنے ہی اطراف میں ملیں گی۔</p> <heading>خداوندان سماج سے میرے دس سوالات ہیں:</heading> <heading>1. کیوں مرد (بیٹا، بھائی، شوہر) ہونے پر احساس برتری ہوتا ہے اور عورت (بیٹی، بہن اور بیوی) ہونے پر احساس کم تری؟ کیا ہمارے سماج میں صنف ہی احساس برتری جتلانے کا ذریعہ قرار پائی ہے؟</heading> <p>2. گھریلو تنازعات سے لے کر سماجی برائیوں تک کیوں ہر سماجی برائی، فتنہ فساد، جھگڑے اور لڑائی میں کوئی ہاتھ ہو نہ ہو، ذمہ دار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے؟</p> <heading>3. مرد کے دھوکے، للچائی نظروں، جھوٹے وعدوں اور جنسی جرائم کو سماجی قبولیت کیوں حاصل ہے جبکہ عورت کے چہرہ اور کلائیوں اور پنڈلیوں کے نظر آنے پر ہر دم سماجی و مذہبی فتاوی کی بھرمار؟</heading> <p>4 حیا، غیرت اور عفت وغیرہ کے عناوین صرف عورت کے ساتھ کیوں مختص کیے گئے ہیں؟ اس اخلاقی تفریق کا جواز کیا ہے؟ کیوں اخلاقی معیارات پر مرد کو برتری دی گئی ہے؟ مرد کی جابرانہ بے حیائی چھوٹی اور عورت پر ہونے والی زیادتی بھی عورت ہی کے لیے سماجی بے قدری کی وعید!!! مرد کا گنا ہ چھوٹا اور عورت کا گنا ہ بڑا کیوں اور کیسے ہے؟ کیوں مرد عورت پر زیادتی کے بعد ہیرو قرار پاتے ہیں اور عورت ایک بالجبر گناہ کے بعد زندگی بھر کے لیے آنکھ اٹھا کر چلنے سے بھی قاصر ہو جاتی ہے؟</p> <heading>5. عورت بالغہ اور رشید ہ ہونے کے باوجود بہت سے نجی، گھریلو اور سماجی معاملات میں وہ اپنی بہتری کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتی ہے ؟ تعلیمی کیرئیر، ملازمت کے مواقع اور شوہر کے انتخاب وغیرہ جیسے بنیادی اور فیصلہ کن مراحل میں کیوں اسے مرد کے فیصلے (چاہے اسے وہ پسند ہوں یا نہ ہوں، بہتر ہوں یا نہ ہوں) کو ہی قبول کرنا پڑتا ہے؟</heading> <p>6. عورت پر یہ اصرار کیوں کہ وہ صرف اپنے گھر میں ہی کام کر سکتی ہے؟ اسے اعلیٰ تعلیم و تربیت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ اسے کیوں روایت سے بغاوت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے؟ کیوں سماج کی تعمیر و ترقی میں عورتوں کو عضو معطل کی طرح سمجھا گیا ہے؟</p> <heading>7. عورتوں کی آبادی مردوں کی آبادی سے زیادہ ہونے کے باوجود تعلیمی و تر بیتی ادارے اور سماجی مراکز مرد اور خواتین کے لیے یکساں کیوں نہیں ہیں؟۔ کیوں شہر میں لڑکوں کے بیس سکول اور کالجز اور لڑکیوں کے دو سکو ل اور کالجز ہوتے ہیں؟ کیوں اکیاون فیصد آبادی پر مشتمل خواتین کو ریاستی اور سماجی اداروں میں نمائندگی تیس فیصد بھی نہیں ہے؟</heading> <p>8. دین کی تشریح اور بیان میں خواتین کا تناظر ادارتی سطح پر مورد نظر کیوں نہیں ہے؟ کیا دین کے مختلف پہلوؤں کی تفہیم و تشریح کے جملہ حقوق صرف مردوں کے لیے خاص ہیں؟</p> <heading>9. کیوں مذہب، قانون، ریاست، عدالت ، میڈیا سب کمزوروں کی غلطیاں نکالنے ، انہی پر ہی اپنا دباؤ رکھنے اور انہی کو ہی ہر معاملے میں غلط ٹھہرانے پر لگے ہوئے ہیں؟</heading> <p>10. خواتین کے معاشی، سماجی اور انسانی حقوق پر بات کرنا کیوں مغربی ایجنڈا قرار دیا جاتا ہے؟ کیا مشرقی تہذیب یا اسلام میں عورت کے حقوق اور مقام کا کوئی عملی تصور نہیں ہے؟ ہم کب تک عورت کے کتابی حقوق اور مقام کی مدح سرائی میں زمینی حقائق سے منہ چراتے پھریں گے؟</p> <p>ہمارے سماج کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ کسی خوف و ہراس، صنفی تعصب و تشدد کے بغیر زندگی کے مختلف شعبوں میں مرد و عورت کو اپنے اپنے فرائض سر انجام دینے کے یکساں نہیں تو کم از کم متناسب مواقع اور وسائل دستیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے سماج میں ایسے متوازن رویے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو ٹھوس اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو۔</p> </section> </body>
0167.xml
<meta> <title>ہائر می پلیز !!!</title> <author> <name>سید رفعت سبزواری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10537/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>657</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہائر می پلیز !!!
657
Yes
<body> <section> <p>حسب معمول فیسبک کی پوسٹ گردانی جاری تھی کہ یکا یک نظریں ایک تصویر پر ٹھہر گئیں ،،، لکھا تھا " خدا ان کی مدد کرتا ہے جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں " یہ ایک پوسٹر تھا جو کہ کسی دیوار پر چسپاں تھا اور اس کی تصویر بنا کر فیسبک پر اپلوڈ کی گئی تھی ،، مجھے مزید تجسس پیدا ہوا لہٰذا میں نے اس پوسٹرکو پڑھنا شروع کر دیا ... کسی نوجوان نے لکھا تھا میں نے نسٹ یونیورسٹی <annotation lang="en">(NUST)</annotation> سے ایم ایس الیکٹریکل اور بیچلر ٹیلی کام انجینرنگ میں کیا ہے اگر کسی کے پاس جاب ہے تو اس نمبر پر مجھ سے رابطہ کریں ،،،،</p> <p>شاید بہت سے افراد کے لئے یہ ایک معمولی بات ہوگی مگر مجھے تو اس قوم کی قسمت پر ماتم کرنے کا جی کر رہا تھا ... یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر نسٹ جیسے مثالی تعلیمی ادارے کے طلبہ اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ اس قسم کا اشتہارات چھاپ کر دیواروں پر چسپاں کر رہے ہیں تو پھر ملک کےباقی ماندہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی حالت زار کیا ہوگی اس کا اندازہ قارئین بخوبی لگا سکتے ہیں .</p> <p>کہتے ہیں نوجوان کسی بھی قوم کی خوش حالی اور ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں اگر یہ بات درست ہے جو کہ یقینا درست ہے تو پھر ہم بحثیت معاشرہ اور قوم نوجوانوں کو کیا دے رہے ہیں ؟؟؟؟</p> <p>یہ سوال ایوان اقتدار کے یخ بستہ کمروں میں بیٹھے عوامی نمائندوں سے کیا جانا چاہیے ، کہنے کو تو وہ عوامی نمائندے ہیں مگر شہر خموشاں کے باسی بننے کے بعد شاید ان کی یاداشت کم ہو جاتی ہے یا پھر وہ اس قوم کے حقیقی مسائل جاننا ہی نہیں چاہتے ،،،</p> <p>کسی زمانے میں سیانے کہا کرتے تھے پڑھ لکھ لو کچھ بن جاؤ گے لیکن اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان جرائم کی طرف مائل ہو رہے ہیں .</p> <p>جب ایک گریجویٹ یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکلتا ہے تو اس کی آنکھوں میں حسین خوابوں کی ایک جنت ہوتی ہے، آنے والی زندگی کے متعلق اس نے جانے کیا کچھ سوچ رکھا ہوتا ہے مگر جب وہ عملی زندگی کے میدان میں اترتا ہے تو کبھی سفارش کبھی میریٹ اور کبھی تجربہ نہ ہونے جیسی توجیہات پیش کر کے اسے بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے .وقت کی بے رحم موجوں پر کچھ تو تیرنا سیکھ جائیں گے مگر جو ڈوب جائیں گے ان کا حساب کون دے گا !!!!</p> <p>مناسب پلاننگ اور تھنک ٹینکس وقت کی ضرورت ہیں ، نظام کو ایڈھاک ازم پر چلانے کے بجاے پالیسی سازی کے عمل کو تیز تر کرنا ہوگا اور اس قوم کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہنر اور ٹیلنٹ سے استفادہ کرنا ہوگا ، یقین مانیں یہ نوجوان کسی بھی لحاظ سے مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کے نوجوانوں سے کم نہیں مگر ان کو موقع تو دیں پھر یہاں سے عرفہ کریم جیسی ملت کی قابل فخر بیٹیاں پیدا ہونگی ،</p> <p>اقبال کا یہ شعر ہمیشہ میری امید بڑھتا ہے</p> <p>نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے</p> <p>ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی</p> <p>لکھنے کو بہت سے موضوعات ہیں جن پر صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں مگر میری نظر میں افتخار طاہری جیسے لوگوں کے بارے میں لکھنا "ٹاپ سٹوری "ہے ، مجھے اس سے فرق نہیں پڑھتا کہ لوگ اس تحریر کو کس قدر پذیرائی بخشتے ہیں مگر میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا ، کاش صاحبان اختیار بھی اس کو اپنا فرض سمجھیں تو یہ ملک اقبال کے خوابوں کی تعبیر بن جاۓ اور جانے کتنے افتخار اس قوم کا افتخار بن جائیں .</p> <p>شاید وہ دن بھی آجاۓ جب نوجوانوں کی جگہ ریاست اشتہارات لگاۓ، جانے کتنے نوجوان "ہائر می پلیز" لکھ کر اپنے سسکتے خوابوں کی تعبیر کے متلاشی ہیں ، مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر کب ہونگے ؟ مجھے اس کا شدت سے انتظار ہے ،،،،،،</p> </section> </body>
0168.xml
<meta> <title>ریاست میں مذہب مداخلت کیوں ؟</title> <author> <name>شاد مردانوی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10538/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>608</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ریاست میں مذہب مداخلت کیوں ؟
608
No
<body> <section> <heading>کیا ریاست اور مذہب الگ اکائیاں تسلیم کی جائیں.؟</heading> <p>آپ کی یہ بات بالکل بجا ہے. اس وقت تمام مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذاہبِ کی اصل سے پھر چکے ہیں.</p> <p>اگر ہر مذہب کے ماننے والے اس مذہب کی اساسی تعلیمات پر ہی عمل کر لیتے تو امن کوئی قفقاف کے پہاڑوں میں دیوہیکل درندے کے پھن میں رکھا ہوا موتی نہیں جس کا حصول مشکل ہو.</p> <p>یہ بھی درست ہے کہ ہم ریاست کو چھ کلمے پڑھوانا چاہتے ہیں اور بس کلمے ہی پڑھوانا چاہتے ہیں.ہمارا زوال جانئے کہ ہم نے لفظیاتی ہیر پھیر کو معیارِ ایمان بنا لیا. یہ بھی تسلیم کہ رواداری کا نام لینا بھی ہماری زبانوں کو آلودہ کر دیتا ہے.</p> <p>یہ الزام بھی اپنی پوری صداقت کے ساتھ مان لیا گیا کہ مسلمان اسلام میں عملی تحریف کے مرتکب ہو چکے. ہم نے رسالت مآب علیہ السلام کی رواداری، وسیع المشربی اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رحیمانہ برتاؤ کو عملا دین میں منسوخ مان لیا.</p> <p>یہ دلیل بھی مضبوط مانتے ہیں کہ تثلیث کا عقیدہ، ختمِ نبوت کے نا ماننے عقیدے سے زیادہ اہم اور زیادہ خطرناک ہے. تو پھر ختم نبوت کے منکرین پر زمین تنگ کیوں.؟</p> <p>عیسائیت پر بھی تمام اعتراضات حرف بہ حرف تسلیم، مانتے ہیں کہ عیسائیت اپنی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہی... واقعی دنیائے عیسائیت دوسرا گال پیش نہیں کر رہی ہے. بلکہ مقابل کے مقابلے پر آمادگی سے قبل ہی اس کی زمینیں چھیننا اہل غرب کا شیوہ اور شعار بن چکا.</p> <p>ہندو ازم پر اب ہم کیا کہیں. متین اور متفکر ہندو بھی ہندو مت کے موجودہ روییے پر نالاں ہیں. ہندوستان کے طول و عرض میں آئے دن (ہندو) ریاست کی چیرہ دستیوں پر سراپا احتجاج ہیں. ادیب کسی سماج کا حساس طبقہ ہوتا ہے. اور ان کا اظہار عدم اطمینان ہم اور آپ بھی دیکھ چکیں.</p> <p>یہودیت پر تو آپ کے مقدمے کو ہماری گواہی کی تقویت کی بھی ضرورت نہیں. موجودہ شکل میں موجود یہودیت کے انسانیت پر استبداد کی تاریخ سب مانتے ہیں.</p> <heading>یہ سب تسلیم.</heading> <p>لیکن محترمی کیا آپ کا پیش کردہ مقدمہ ہمیں صرف اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے جو آپ نے اخذ کیا؟</p> <p>آپ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر مذہب کو ماننے والے کو تحفظ فراہم کرے. لیکن خود ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو.</p> <p>کیا واحد حل یہی ہے کہ اب تمام آسمانی مذاہب کو ہم پسِ پشت ڈال دیں. کیا تمام تر الہامی تعلیمات کو آپ کے پیش رؤوں کے دو ایک صدیاں قبل وضع کردہ نظام کے مقابلے میں ٹھکرادیا جائے.</p> <p>کیا آپ کو یہ قرینِ قیاس اور قرینِ انصاف لگتا ہے. کہ چودہ سو، دوہزار اور چار ہزار سالہ مجموعی انسانیت کی دانش کا اعتماد رکھنے والے مذاہب فقط کچھ سو سال پہلے والے نظام کے مقابلے میں مکمل مسترد کئے جائیں.</p> <p>خصوصا اس حال میں کہ جب ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اچھا آپ کے تجویز کردہ نظام کی افادیت تو مسلم ہے. لیکن کیا آپ ہمیں اس کی کوئی عملی مثال مہیا کر سکتے ہیں. کوئی ایک ایسی ریاست جہاں آپ کا تجویز کردہ نظام لاگو ہو اور وہاں وہی ثمرات حاصل ہوئے ہوں جو آپ باور کرواتے ہیں.</p> <p>ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کسی بھی نظام سے منسوب افراد کی زندگی پر نظر کو اس نظام پر نظر سے علیحدہ رکھیں.</p> <p>اسلام کیا تعلیم دے رہا ہے. یہ اس بات سے بالکل ایک الگ بات ہے کہ مسلمان کیا کر رہے ہیں</p> <p>عیسائیوں نے دنیا کو کتنا آرام دیا اس کا اس بات سے کوئی ربط نہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی تلقین کردہ تعلمات کیا تھی.</p> <p>ہندو آج جو مذہب کے نام پر کر رہا ہے. بھگوت گیتا اور وید کے اشلوک اس کا بالکل ساتھ نہیں دے سکتے ہیں.</p> </section> </body>
0169.xml
<meta> <title>میں معذرت نہیں کروں گا!</title> <author> <name>خالد المعینا</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10544/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>716</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
میں معذرت نہیں کروں گا!
716
No
<body> <section> <p>پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکت کا واقعہ دس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ اس واقعے سے چند دن قبل بیروت کے نواح میں ایک خودکش بمبار نے دھماکے میں 40 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور صحرائے سیناء میں روسی طیارہ مار گرایا گیا تھا جس میں 224 مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ان دونوں واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔</p> <p>فرانس حملوں کے بعد متعدد مغربی صحافیوں نے مجھے فون کر کے اس واقعہ پر سعودی موقف معلوم کیا۔ میرا جواب یہی تھا کہ ہم سب اس غیر انسانی اور ظالمانہ فعل کی شدید مذمت کرتے ہیں جس سے ہمارے مذہب اور معاشرے کی بدنامی کے سوا اور کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ فون کرنے والے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا ہم اس پر معذرت کریں گے؟ اس لغو سوال پر میں بہ مشکل اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکا۔ ہم کس گناہ کی معافی مانگیں؟ کیا مشکوک اور پراسرار گروپوں کی قتل و غارت گری کے ذمے دار ہم ہیں؟ کیا ہم ان تمام مشکوک اور مذموم حملوں کے ذمہ دار ہیں جن کو بلا جواز اسلام کے سر تھوپ دیا جاتا ہے؟ میرا جواب تھا کہ میں اس پر معذرت نہیں کروں گا۔</p> <p>ایسے واقعات کی بین الاقوامی تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاتی ہیں اور ان کے نتائج کو دنیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟ میں سازشی افسانوں میں یقین نہیں رکھتا مگر نائن الیون سے آج تک میرے تمام سوالات کا جواب کوئی نہیں دے سکا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مشکوک دھماکوں اور آتش زدگی کے واقعات کے بعد ہمیشہ ملزمان کے پاسپورٹ صحیح سلامت رہتے ہیں؟ کیا دہشت گرد پاسپورٹ جیب میں رکھ کر حملے کرتے ہیں یا پھر ان کے پاسپورٹ آگ لگنے اور بم دھاکوں سے محفوظ رکھنے والی دھاتوں سے بنائے جاتے ہیں؟ نیویارک حملوں کے بعد سعودی پاسپورٹ صحیح سلامت برآمد ہوئے، اور فرانس حملوں میں شامی پاسپورٹ تباہی سے محفوظ رہے جو جعلی نکلے بلکہ ایک ہی نام اور نمبر کے گیارہ پاسپورٹ نکل آئے۔</p> <p>نام نہاد لیڈروں اور متعصب سیاستدانوں کو مشکوک اور پراسرار حملوں کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا سلسلہ اب بند کر دینا چاہیے۔ ایسے کم علم لوگوں کو بلا جواز اسلام دشمنی کا راگ الاپنا بند کر دینا چاہیے جنھوں نے اپنی حکومتوں کے ان جرائم کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جو وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے قیام، دوسرے ممالک میں آمریتوں کی پرورش اور بدامنی کے فروغ اور مسلم ممالک میں سیاسی انتشار پھیلانے کے لیے کرتی رہی ہیں تاکہ ان ممالک کے وسائل کو لوٹا جا سکے۔</p> <p>میں بھی معصوم لوگوں کے قتل عام کی مذمت کے لیے ساری دنیا کے ساتھ کھڑا ہوں مگر براہِ مہربانی مجھ سے اس جرم کی معافی مانگنے کا مطالبہ نہ کیجیے جس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ نیتن یاہو روزانہ بنیاد پر فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے مگر کیا یہودیوں اور صہیونیوں نے کبھی اس پر معذرت کی ہے؟ کیا دلائی لامہ اور آنگ سانگ سوچی نے میانمار میں بدھوں کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی طرز پر ہزاروں نہتے مسلمانوں کے قتل عام پر معذرت کی ہے؟ کیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلانے اور گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کرنے پر معذرت کی ہے؟ کیا بش، بلیئر، رمز فیلڈ، چینی، وولفووٹز، بریمر، شیراک اور ہاورڈ نے لاکھوں افغانوں اور عراقیوں کے بے رحمانہ قتل عام پر معذرت کی ہے؟</p> <p>پیرس حملوں میں مرنے والوں کا بدلہ بے گناہ شامی مسلمانوں سے لینے کے لیے پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل داعش نے انقرہ میں ایک سو سے زیادہ بے گناہ لوگوں کہ بم دھماکے میں قتل کیا تھا تو کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ ایسا متعصبانہ غم وغصہ مجھے اور دنیا میں بے شمار دوسرے لوگوں کو قبول نہیں۔ ایسے مشکوک حملوں کی ذمہ داری جن پراسرار اور مشکوک مسلمان گروپوں سے منسوب کی جاتی ہے ان کو مغربی خفیہ ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ ایسے گروپ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کی کسی کارروائی کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے لہٰذا میں معذرت نہیں کروں گا۔</p> </section> </body>
0170.xml
<meta> <title>بانی پاکستان کو قائد اعظم کا خطاب میرے نانا نے دیا تھا۔ عامر لیاقت</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10548/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>462</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بانی پاکستان کو قائد اعظم کا خطاب میرے نانا نے دیا تھا۔ عامر لیاقت
462
No
<body> <section> <p>جیو نیوز کے صدراور معروف براڈ کاسٹر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کہا کہ کہ ان کے نانا سردارعلی صابری نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے علاقے میں سردار علی صابری کے نام پر سڑک بھی ہے۔</p> <p>ایک نجی چینل میں صبح کی نشریات کے دوران گفت گوکرتے ہوئے عامر لیاقت حسین نے بتایا کہ پی این اے کی تحریک میں ان کے والدین نے بھرپور حصہ لیا اور جیل بھی کاٹی ۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ ان کے نانا بڑے آدمی تھے ۔ وہ بچپن میں نانا کے پاس ہی رہتے رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ان کی خالہ سٹیٹ بنک میں کام کرتی تھیں اور انہیں بچپن میں ایک ہی خواہش تھی کہ خالہ جب بھی گھر آئیں میرے کھیلنے کے لیے قائد اعظم کی تصویر والی اٹھنی ضرور لیتی آئیں ۔</p> <heading>انہوں نے کہا کہ ریحام خان کو اپنی عدت پوری کرنی چاہیے ۔عامر لیاقت نے کہا کہ وہ مطیرہ کے ساتھ شو کر نے کے لیے تیار ہیں شاید اسی طرح وہ ٹھیک ہو جائیں تاہم انہوں نے مطیرہ کو شادی پر مبارک باد بھی پیش کی ۔</heading> <p>انہوں نے کہا کہ شیخ رشید بہت سچے اور کھرے انسان ہیں ، وہ ان کے ساتھ نا صرف رہنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی تربیت میں رہنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمر شریف پاکستان کا فخر ہیں اور وہ ان کے ڈرامے ٹکٹ لیکر دیکھتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ گھڑی نہیں پہنتے تاہم پشاور میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کی گھڑی انہیں دے دی جو سانحہ پشاور میں شہید ہو گیا تھا ۔</p> <heading>انہوں نے کہا کہ جنید جمشید ان کا بھائی اور بہت پیارا دوست ہے ۔ انہوں نے مزاح کرتے ہوئے کہا کہ فہد مصطفیٰ دو نمبر آدمی ہے ۔</heading> <p>انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاست میں تنازعات جنم دینے کے ماہر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اے آرے وائی بڑا چینل ہے اور انہوں نے بڑا دل رکھنا وہیں سے سیکھا ہے ۔</p> <heading>انہوں نے کہا کہ انہیں ان کی ماں بہت یاد آتی ہے اور وہ انہیں یاد کر کے روتے رہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب سوشل میڈیا پر ان کی والدہ کو گالیاں دی جاتی ہیں تو انہیں بہت دکھ ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ رسول اللہ ؐ کے موئے مبارک دیکھ کر نارمل ہو جاتے ہیں ۔</heading> <p>ڈاکٹر عامر لیاقت حسین گذشتہ پندرہ برس سے الیکٹرانک کے ساتھ منسلک ہیں ۔ وہ مذہبی امور کے وزیر مملکت بھی رہے تاہم بعد میں مستعفیٰ ہو گئے ۔ حال ہی میں انہوں نے جیو ٹیلی ویژن میں بحثیت صدر دوبارہ شمولیت اختیار کی ہے اور اپنا مقبول پروگرام انعام گھر شروع کیا ہے ۔</p> </section> </body>
0171.xml
<meta> <title>بھارت مزید رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ عامر خان</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10561/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>279</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھارت مزید رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ عامر خان
279
No
<body> <section> <p>ممبئی: بالی ووڈ میں مسٹر پرفیکشنسٹ کے نام سے مشہور اداکار عامر خان نے بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے باعث ملک چھوڑنے پر غور شروع کر دیا ہے۔</p> <p>بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اور عدم برداشت نے اقلیتوں سے لے کر ملک کے نامور ادیبوں ، شعرا اور بالی ووڈ اداکاروں سمیت دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی پریشان کر دیا ہے جس کے بعد کئی نامور ادیبوں، شاعروں اور فلمسازوں نے اپنے قومی ایوارڈز واپس کرنے کی تحریک شروع کررکھی ہے جب کہ ملک میں بڑھتی انتہاپسندی اور عدم برداشت کے خلاف بالی ووڈ اسٹار شاہ رخ خان نے بھی آواز بلند کی تھی تاہم اب ایک اور نامور اداکار مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔</p> <p>عامر خان نے ایک صحافتی ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں رونما ہونے والے کئی واقعات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے تحت میں اور بالخصوص میری اہلیہ ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ملک میں جاری انتہا پسندی کی فضا سے میری اہلیہ بھی خوفزدہ ہیں جس پر انہوں نے ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے تاہم خود بھی ملک میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔</p> <p>بالی ووڈ اسٹار نے ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں اور فلمسازوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تمام افراد کو قانون میں رہتے ہوئے انفرادی طور احتجاج کا حق حاصل ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ بالی ووڈ اسٹار شاہ رخ خان کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھانے پر بی جے پی کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔</p> </section> </body>
0172.xml
<meta> <title>اگر ریحام خان صرف اینکر رہتی</title> <author> <name>اوریا مقبول جان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10584/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1685</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اگر ریحام خان صرف اینکر رہتی
1,685
Yes
<body> <section> <p>مونیکا لیونسکی کی یہ تقریر دنیا بھر کے میڈیا کی اخلاقیات پر اتنا بڑا سوال ہے جس کا جواب میڈیا سے وابستہ کسی فرد کے پاس نہیں ہے۔ مونیکا ہماری موجودہ تاریخ کا وہ "مہذب" چہرہ ہے جس پر بدنامی کی کالک عالمی سطح پر ملی گئی اور اس کالک کو ملنے کے جملہ حقوق صرف اور صرف امریکی میڈیا کے پاس تھے۔ یہ خاتون گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔ اس نے اپنی دس سالہ خاموشی چند ماہ قبل توڑی اور ایک پر ہجوم ہال میں گفتگو کی جس کا عنوان تھا "شرمندگی کی قیمت <annotation lang="en">(The Price of Shame)</annotation> ۔ تقریر کا ایک ایک لفظ نپا تلا اور معنی خیز تھا جب کہ حسن بیان اس کا سترہ سالہ کرب اور اذیت کا آئینہ دار اور درد سے نکھرا ہوا۔ اس نے آغاز اس فقرے سے کیا کہ آپ ایک ایسی عورت کو دیکھ رہے ہو جو گزشتہ دس سال سے خاموش تھی۔کچھ عرصہ پہلے جب میں نے اپنی خاموشی توڑی تو ایک شخص مجھ سے متاثر ہو کر میرے قریب ہوا۔ مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ اس نے مجھے ایک دفعہ یہ محسوس کرانے کی کوشش کی میں ایک بائیس سالہ نوجوان لڑکی ہوں۔ اس رات مجھے یہ احساس ہوا کہ میں شاید دنیا کی وہ واحد عورت ہوں جو چالیس سال سے زیادہ عمر کی ہونے کے باوجود بھی بائیس سالہ زندگی کی طرف لوٹنا نہیں چاہتی۔</p> <p>اس کے بعد مونیکا نے پورے ہال سے کہا کہ وہ شخص ہاتھ کھڑا کرے جس نے بائیس سال کی عمر میں کوئی غلطی نہ کی ہو۔ پورا ہال ساکت و جامد بیٹھا رہا۔ اس نے کہا میں نے بھی بائیس سال کی عمر میں ایک غلطی کی تھی کہ میں اپنے باس کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ لیکن میری طرح کسی کا باس امریکا کا صدر نہیں تھا۔ زندگی ہمیشہ آپ کو حیران کرتی ہے لیکن دو سال بعد 1998ء میں میرے اس معاشقے کی بنیاد پر مجھے ایک عام سی لڑکی کے بجائے دنیا بھر کی رسوا ترین عورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اطلاعات ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ملتی تھیں لیکن میری اس رسوائی کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور لوگ آج بھی سوشل میڈیا، ای میلز اور تقاریر میں میرا ذکر کرتے ہیں۔ تقریباً بیالیس ریپ گانے ایسے ہیں جن میں میرا نام ذلت و رسوائی کے لیے لیا گیا ہے۔ مجھے بہت کم لوگ جانتے اور بہت زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ دیکھنے والے جو میرے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں وہ ایک بری عورت کا ہے جسے وہ طرح طرح کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 1998ء میں میں نے اپنی عزت و وقار بلکہ سب کچھ کھو دیا۔ آئیں میں آپ کے سامنے ایک منظر پیش کرتی ہوں۔</p> <p>ایک بغیر کھڑکیوں کے کمرہ جس میں خاص طور پر روشنی کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں مجھے میری ٹیلیفون پر کی جانے والی گفتگو کو سنوانے کے لیے بلایا گیا تھا جو خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ میری اور صدر بل کلنٹن کی گفتگو۔ یہ بیس گھنٹوں پر مشتمل تھی جس میں جذبات بھی تھے اور محبت بھی تھی۔ میرے سر پر سارا لمحہ ایک تلوار لٹکتی رہی۔ کچھ عرصے بعد یہ گفتگو کانگریس کے ریکارڈ کا حصہ بنا دی گئی۔ لیکن ذلت و رسوائی کا آغاز اس وقت ہوا جب چند ہفتوں بعد یہ گفتگو ٹیلیویژن پر چلا دی گئی اور اس کے مخصوص حصے آن لائن بھی میسر ہو گئے۔ یہ رسوائی ناقابل برداشت تھی۔ رسوائی اور ذلت کا یہ سفر اب دنیا بھر میں بہت سے غلطی کرنے والوں کے لیے اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس واقعے کے بارہ سال بعد میری ماں نے مجھے فون پر بتایا کہ کس طرح ٹیلر کلیمنٹ نامی اٹھارہ سالہ لڑکے نے جارج واشنگٹن پل سے کود کر خودکشی کر لی تھی کیونکہ اس کی ایک خفیہ ویڈیو کسی نے بنائی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ ٹیلر تو مر گیا۔ میں، میری ماں اور آپ اس کے ساتھ بھی ہوں گے لیکن اس کے گھر والوں پر ذلت و رسوائی کا جو پہاڑ ٹوٹا ہو گا وہ ناقابل برداشت ہے۔</p> <p>آج اس دنیا میں بہت سارے ایسے والدین ہیں جو اپنی اولادوں کو میڈیا کی اس ذلت و رسوائی سے نہیں بچا پاتے۔ وہ ان کی غلطیوں سے درگزر کرنا اور انھیں چھپانا چاہتے ہیں۔ لیکن میڈیا انھیں ذلت کا لباس پہناتا رہتا ہے۔ آج دن بدن نیٹ کے ذریعے لوگوں کو خوفزدہ اور شرمندہ کرنے کا دور ہے۔ صرف ایک سال یعنی 2012ء سے 2013ء کے درمیان لوگوں کی فون کی گفتگو وغیرہ سے ہراساں کرنے میں 87 فیصد اضافہ ہوا۔ بلکہ ہالینڈ کی تحقیقات کے مطابق عام وجوہات کے بجائے نیٹ یا سوشل میڈیا سے ذلت اور سراسمیگی کے بعد خودکشیاں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ آپ صرف ایک <annotation lang="en">Chat</annotation> سروس سے اندازہ لگائیں جو نوجوان استعمال کرتے ہیں۔ یہ گفتگو اور تصاویر تھوڑی دیر کے لیے محفوظ رکھتی جاتی ہیں' لیکن اچانک چوری ہو جاتی ہیں اور ایک لاکھ لوگوں کی ذاتی گفتگو مستقل طور پر سوشل میڈیا کے ذخیرے میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سب کی ایک قیمت ہے جو صرف وہ ادا کرتا ہے جو رسوا ہو رہا ہوتا ہے۔ رسوائی کے دوران آپ سے کوئی ہمدردی نہیں کرتا۔ ایسے میں آپ کو کسی اجنبی کی تسلی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن وہ میسر نہیں آتی۔ میں نے زندگی کے نازک ترین ایام ایسے گزارے ہیں جب ان الفاظ کو ترستی تھی جو میری غلطی پر مجھے معاف کر دینے والے ہوں۔ ہم آزادیٔ اظہار کے قائل ہیں لیکن کیا اس کی کوئی ذمے داری نہیں۔ کیا ہم ایسے شخص کے ساتھ ہمدردی اور تسلی کے لفظ میڈیا یا سوشل میڈیا پر نہیں بول سکتے جب وہ رسوا کیا جا رہا ہو۔</p> <p>مونیکا لیونسکی کا معاشرہ' مغرب کا معاشرہ، ذمے دار میڈیا، جہاں ہتک عزت کا قانون اس قدر موثر مگر وہ کس قدر بے بس اور مجبور۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے کی ریحام خان ہو یا ایسی کوئی اور آپ اس کے ذاتی کرب اور دکھ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کا میڈیا اس قدر ظالم، بے رحم اور جانبدار ہے کہ کسی دوسرے معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ریحام خان صرف اور صرف ایک اینکر پرسن رہتی اور عمران خان سے شادی نہ کرتی تو کس قدر عزت دار زندگی گزار رہی ہوتی۔کیا کبھی کوئی ٹی وی چینل اس کے پہلے خاوند کے گھر پہنچتا اور اس سے انٹرویو کرتا۔کرید کرید کر سوالات پوچھتا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ صرف ا ینکر ہوتی تو کیا کوئی ٹی وی چینل اس کی ڈانس والی ویڈیو اور مختصر لباس والی تصویریں دکھا کر تبصرے کرتا۔ اگر وہ ایک اینکر ہوتی، اس کی طلاق ہو جاتی تو کیا یہ خبر نہ ہوتی۔ لیکن شاید اس خبر کو کوئی بھی نشر نہ کرتا۔ اسے چھپایا جاتا، اسے ذاتی معاملہ سمجھا جاتا، کوئی یہ دعویٰ نہ کرتا کہ میں کسی قیمت پر خبر نہیں چھپا سکتا کیونکہ خبر بہت اہم ہوتی۔ کہا جاتا ہے سیاست دان عوامی شخصیات ہیں اس لیے ان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں۔کیا ہمارے اینکر اور کالم نگار عوامی شخصیات نہیں۔ ان کو سننے اور دیکھنے کے لیے لوگ ہزاروں سیاست دانوں سے زیادہ جمع ہوتے ہیں۔</p> <p>یہ روزانہ لاکھوں لوگوں کے ذہن بدلتے ہیں، ان کی رائے بناتے ہیں۔ یہ عوامی شخصیات کیوں نہیں، ان کی ذاتی زندگی اور کردار کیوں لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ یہی سوال جو مونیکا لیونسکی نے کیا تھا۔کیا کسی اینکر، کالم کالم نگار یا صحافی نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔ کیا ان سب کی ذاتی زندگی میں کہیں کوئی طوفان نہیں آیا، کیا ان کے معاشقے لوگوں کو دکھا کر انھیں ان کی اولادوں اور گھر والوں کے سامنے شرمندہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم سب میڈیا والوں کو رسوا کرنے کے لیے کسی اور گھر اور جھانکنے کے لیے کسی اور کا گریبان چاہیے۔ روزانہ ہمارے ٹیلیویژن چینلز پر غلط انگریزی اور بے سروپا اردو بولنے والے بڑے بڑے نیوز اینکر، اینکرز اور رپورٹر نظر نہیں آتے۔ لیکن ہم تمسخر اڑانے کے لیے اداکارہ میرا کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر ہمارا دھندا چلنے لگتا ہے۔ صحافت میں یہ روش ٹیلی ویژن چینلز کے آنے کی وجہ سے عام نہیں ہوئی۔ یہ مدتوں سے چلی آ رہی ہے۔ آپ چھوٹے شہروں کے محدود اخبارات اور ہفت روزوں اور بڑے اخبارات کے نمایندوں کے بارے میں سوال کر کے دیکھیں، ہر کوئی ان سے خوفزدہ اور پریشان نظر آئے گا۔ اکثر چھوٹے جرائد جو بہت محدود تعداد میں چھپتے ہیں ان کا مقصد ہی رنگینی، سکینڈلزکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا ان سب کے بارے میں اخبارات کے ایڈیٹر، میڈیا کے کرتا دھرتا اور ٹیلی ویژن چینل پر چمکتے دمکتے اینکر نہیں جانتے۔ یہ سب جانتے ہیں۔</p> <p>1980ء میں جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا تو ایک دن طلبہ کو لے کر مچھ جیل دکھانے گیا۔ وہاں پھانسی کی کوٹھریوں میں ایک بہت موٹا سا شخص پھانسی کی سزا کا منتظر تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک صحافی کو قتل کیا ہے۔ میرے ساتھ طلبہ اس سے طرح طرح کے سوال کر رہے تھے۔ ہر کسی کو پڑھا لکھا ہونے کے ناطے صحافی سے ہمدردی تھی۔ وہ جواب میں یہی کہتا رہا بس غلطی ہو گئی۔ پھر ایک دم پھٹ پڑا اور تیز تیز بولنے لگا۔ آپ کی بہن کے بارے میں کوئی ایک خبر بار بار لگائے، آپ اس کی صوبے سے باہر شادی کر دیں تاکہ وہ چین سے زندگی گزار سکے۔ کوئی وہ اخبار بھی اس کے سسرال پہنچا دے، وہ طلاق لے کر گھر آ بیٹھے اور خبر لگانے والا چائے خانے میں بیٹھ کر اسے اپنی فتح قرار دے تو آپ اس چھوٹے سے شہر کوئٹہ جس کی آبادی ایک لاکھ ہے جہاں آپ کی رسوائی کو سب جانتے ہیں تو ایسے میں آپ کیا کریں گے۔ طلبہ چپ رہے۔ وہ بولا آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ خودکشی کرتے ہیں اور میرے جیسے جاہل قتل کر کے پھانسی پر جھول جاتے ہیں۔ انجام دونوں صورت میں موت ہے اور وجہ صرف ایک ہے کہ صحافت میں کچھ لوگ خبر کو انسانوں کی عزت، توقیر اور احترام سے زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔</p> </section> </body>
0173.xml
<meta> <title>سڑکیں بننے سے فاصلے کم ہوتے ہیں اور دل ملتے ہیں: وزیراعظم نواز شریف</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10587/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>254</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سڑکیں بننے سے فاصلے کم ہوتے ہیں اور دل ملتے ہیں: وزیراعظم نواز شریف
254
No
<body> <section> <p>وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سڑکیں بننے سے فاصلے کم ہوتےہیں اور دل ملتےہیں۔</p> <p>گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان کی تقریب حلف برداری میں خطاب کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں،ماضی کی حکومتوں نےگلگت بلتستان اور عوام پرتوجہ نہیں دی ، وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کے مسائل دور کریں اور گلگت کےعوام بھی آئین کےتحت زندگی گزاریں،اس لئے انہوں نے اس خطے کے لئے خصوصی اصلاحات کمیٹی بنائی ہے۔ شمالی علاقوں میں اتنا پیسہ خرچ کیا جارہا ہے جتنا کراچی، لاہور اور دیگر شہروں پر نہیں لگایاجارہا۔</p> <p>وزیر اعظم نے کہا کہ سڑکیں بننے سے فاصلے کم ہوتےہیں اور دل ملتےہیں، گلگت سےاسکردو تک ہائی وے بنائی جائےگی، اس منصوبے پر 50 ارب روپے لگیں گے،اس سڑک کو اقتصادی راہداری کا حصہ بنایا جائے گا ، خنجراب ،سوست اور گلگت والی سڑک حویلیاں تک جائے گی، وسط ایشیا سے آنے والی ٹریفک اسی سڑک سے ہوتی ہوئی گوادر تک جائے گی، جتنا پیسا خرچ کیا جارہا ہے اتنی خوشحالی بھی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں بجلی کی فراہمی کےمنصوبےلگائےجائیں گے، اسی خطے میں بھاشا ڈیم بن رہا ہے جو منگلا اور تربیلا سے بڑا ڈیم ہوگا،اسکردو،داسواوربونجی میں بھی بجلی کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا جس سے ہمیں 10 ہزار میگا واٹ بجلی ملے گی۔</p> <p>سیاحت کے فروغ کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے سیاحت کو فروغ ملے گا</p> </section> </body>
0174.xml
<meta> <title>سوشل میڈیا پر توہین صحابہ ؓ کے مجرم کو 13 برس قید کی سزا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10591/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>140</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سوشل میڈیا پر توہین صحابہ ؓ کے مجرم کو 13 برس قید کی سزا
140
No
<body> <section> <heading>فیس بک پر صحابہ ؓ کی توہین پر مبنی مواد اپ لوڈ کرنے پر مجرم کو 13 برس قید کی سزا</heading> <p>چینوٹ میں ثقلین ریحامی شخص نے روان برس میں فیس بک پر صحابہ کرام ؓ کی توہین پر مبنی مواد اپ لوڈ کیا ۔</p> <p>مذکورہ شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور گرفتاری کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 13 برس قید اور اڑھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے ۔</p> <p>ثقلین ریحان کا تعلق چناب نگر کے نواحی علاقے کالو وال سے ہے اور اس پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت سی ڈی تھانہ فیصل آباد میں چند ماہ قبل مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔ مقدمہ کا نمبر 16 ہے ۔</p> <heading>پاکستان میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب سے متعلق مواد اپ لوڈ کرنے پر یہ پہلی سزا ہے ۔</heading> </section> </body>
0175.xml
<meta> <title>بول ٹی وی لانے کا ہمارا فیصلہ غلط تھا. عائشہ شیخ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10594/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>162</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بول ٹی وی لانے کا ہمارا فیصلہ غلط تھا. عائشہ شیخ
162
No
<body> <section> <p>قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ایف ائی اے کو مطلوب شعیب شیخ کی اہلیہ عائشہ شیخ نے کہا ہے کہ ایگزیکٹ کو ہراساں کیا گیا ۔</p> <p>عائشہ شیخ نے کہا کہ میڈیا کی جانب سے ایکزیگٹ کو ہراساں کرنا اور میڈیا ٹرائل ایک بدترین مثال ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹ 18 سال سے کام کر رہی ہے، ہم آج صرف میڈیا ٹرائل کی وجہ سے یہاں کھڑے ہیں۔</p> <heading>انہوں نے کہا کہ 6 ماہ سے ایگزیکٹ کی کمپنی بند ہے جس کی وجہ ہمارے 5 ہزار سے زائد ملازمین 6 ماہ سے بے روزگار ہیں۔</heading> <p>عائشہ شیخ نے کہا کہ ایگزیکٹ ہی بول ٹی وی کو لا رہا تھا اور بول ٹی وی آنے سے پہلے ہر زبان پر تھا۔</p> <heading>انہوں نے کہا کہ ہم پر ٹیکس نہ دینے الزام غلط ہیں ،ایگزیکٹ لاکھوں روپے ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کر رہا ہے،</heading> <p>عائشہ شیخ نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ بول ٹی وی لانے کا فیصلہ غلط تھا۔</p> </section> </body>
0176.xml
<meta> <title>میں ایک ملحد تھا</title> <author> <name>شاد مردانوی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10597/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>566</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
میں ایک ملحد تھا
566
No
<body> <section> <p>میں یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ یہاں کوئی خدا بھی ہے. اور اگر ہے بھی تو ہوتا ہوگا. مجھے اس سے اور یقینا اس کو بھی مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں. پھر مجھے خدا کا ایک نمائندہ ملا.</p> <p>مجھے خدا سے کوئی تعلق نہیں. نہ نفرت کا نہ محبت کا... مگر خدا کے نمائندوں سے مجھے شدید نفرت ہے. مگر وہ ایسا تھا کہ مجھے اپنی نفرت پر پھر سے سوچنا پڑا.</p> <p>اس نے کبھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ میں اس کے یا کسی کے بھی خدا کو نہیں مانتا. وہ میرے ساتھ پب بھی جاتا. بار بھی جاتا. اس کی حکمت عملی عجیب تھی..پھر مجھے نہیں معلوم کب اس کے کبھی کبھار کے ایک معمولی نشتر سے گھائل ہو کر میں خدا کا وجود اور اس کی کارِ جہاں میں ہیر ھیر کا قائل ہو گیا.</p> <p>اس دن اس نے میرے لئے پنک شیمپئین کی پارٹی رکھی تھی. میرے خدا کے قائل ہونے کا جشن اگلے دن بھی جاری رہا. اگلے دن شام کو وہ میرے گھر میں بلو لیبل وہسکی سے میری خاطر کر رہا تھا.</p> <p>میں پریشان تھا یہ کیسا خدا کا نمائندہ ہے. میرے ساتھ شراب پی رہا ہے. خیر رفتہ رفتہ وہ مجھے سمجھاتا رہا کہ خدا کے وجود کا قائل ہونا ہی کافی نہیں. خدا نے انسانوں کیلئے کچھ ضابطے مقرر کئے ہیں. ان پر عمل درآمد بھی ضروری ہے. میرے فلیٹ کے قریب ہی سینا گاگ تھا. میں نے وہاں جانا شروع کیا. ہفتے میں ایک بار ضرور جاتا. مجھے لگا کہ میں پرسکون ہو گیا ہوں.</p> <p>وہ پھر میرے پاس آیا اور اس مرحلے پر اس نے میری رہنمائی اسلام کی طرف کی. اسلام کا مطالعہ میری زندگی کا دلچسپ تجربہ تھا. میں بلا تامل مسلمان ہو گیا. مجھے یہ توقع تھی کہ آج پھر پنک شیمپئین کا دور چلے گا.مگر وہ مجھے اسلامک سینٹر لے گیا. نمازیں پڑھوائی. عقیدہ سمجھایا.</p> <p>مجھے لگنے لگا کہ میں زندگی برباد کر چکا ہوں. اب مجھے سدھار کا موقع ملا. میں نے اس سے کہا مجھے اپنے آس پاس کے ماحول سے گھٹن ہو رہی ہے. مجھے کسی ایسے ملک کا پتہ دو جہاں میرے آس پاس اچھے مسلمان بستے ہوں. اور میں دین کا علم حاصل کرسکوں.</p> <p>اس نے مجھے پاکستان کے ایک مدرسے میں بھیج دیا. یہاں آکر مجھے علم ہوا کہ میں ابھی مکمل مسلمان نہیں ہوں. مجھے ایک خاص رنگ میں رنگنا پڑے گا. مجھے لاء آف شریعہ کی کسی ایک تشریح کو اختیار کرنا ہوگا. سبز اور کالے رنگ سے پرہیز کرنا ہوگا.</p> <p>میں نے یہ بھی کر لیا. اب میں مکمل مسلمان تھا اور مطمئن تھا. مدرسے میں کچھ سال گزارنے کے بعد میں نے یہیں پاکستان میں ایک ایسے صوبے میں رہائش اختیار کرلی. جہاں کےلوگوں کیلئے مذہبی تعلیمات پر عمل ان کی عادت بن چکی تھی.</p> <p>پھر ایک دن میرے پاس ایک معروف عالم دین آئے دن اور انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اگر میں مُردوں کے بارے میں سننے اور نہ سننے کے عقیدے سے واقف نہیں ہوں تب میں ادھورا مسلمان ہوں. اس نے تو ادھورا بھی نہیں کہا تھا. کافر کہا تھا. لیکن اتنے لمبے سفر کے بعد میں خود کو کافر کہتے ہوئے ہچکچارہا تھا. خیر میں نے اس کی بات بھی مان لی. اب میں حقیقی معنوں میں پورا کا پورا اسلام میں داخل ہو چکا تھا.</p> <p>پہلے میں ملحد تھا. خدا کو نہیں مانتا تھا</p> <p>اب میں مسلم ہوں. اور جو "میرے" خدا کو نہیں مانتا. وہ کافر ہے</p> </section> </body>
0177.xml
<meta> <title>میرا اللہ کتنا اچھا ہے</title> <author> <name>اے وسیم خٹک</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10607/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1683</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میرا اللہ کتنا اچھا ہے
1,683
Yes
<body> <section> <p>اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا ایک آئیڈیا شیئر کیا تھا کہ موقع ملا تو اس پر لکھیں گے ۔ دوستوں کی رائے بھی جاننی چاہی تھی مگر وقت کے جھمیلوں میں گم ہو کر وہ آئیڈیا بھی کھو گیا۔ کچھ دن پہلے فیس بک نے اسے آئیڈیے کی یاد دلادی کہ آج سےتین سال پہلے آپ نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی اس  کا عنوان تھا کہ میرا اللہ کتنا اچھا ھے ،</p> <p>اخبار میں ایک اشتہار دیکھ رھا تھا.. " ہم اپنے بیٹے کو بوجہ نافرمانی ' گستاخی ' بدچلنی و آوارہ گردی اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے عاق کرتے ہیں.. ہم اس کے کسی نفع نقصان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.. ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا.. "میرا اللہ کتنا اچھا ہے..میں بدچلن ہوں ' آوارہ ہوں ' گستاخ ہوں نافرمان ہوں لیکن میرا اللہ کبھی مجھے اپنی نعمتوں سے عاق نہیں کرتا ' مجھ سے قطع تعلقی کا اشتہار نہیں نکالتا ' میری روٹی روزی سے غافل نہیں ہوتا ' لوگوں کو بتا کر مجھے ذلیل و رسوا نہیں کرتا.. خاموشی سے دروازہ کھلا چھوڑ کر میرے لوٹنے کا دن رات انتظار کرتا ہے.میرا اللہ کتنا اچھا ھے..</p> <p>اور جب کبھی اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں کسی تکلیف میں مبتلا ھو کر اسے پکارتا ھوں تو میری سن کر مجھے ڈھارس بھی دیتا ھے اور اس تکلیف سے مجھے نکالنے کی سبیل بھی کرتا ھے جس میں خود اپنی غلطی سے پھنس جاتا ھوں.. پھر کبھی کسی رات پشیمانی سے مجبور ھوکر آنسو بہاتے ھوئے اس سے شرمسار ھوتا ھوں تو وہ ماں سے بھی زیادہ تڑپ کے ساتھ اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ھے.میرا اللہ کتنا اچھا ہے ۔</p> <p>جب غور کیا تو اللہ کی اچھائی سامنے آتی گئی اور دل کے آنسو رونے پر مجبور ہوئے کہ اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہے مگر ہم اللہ سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ نماز میں کھڑے ہو کر میں معلوم ہو جاتا ہے ۔ کھڑے اللہ کے سامنے ہوتے ہیں مگر ذہنوں میں خرافات گردش کر رہے ہوتے ہیں اور ہماری سوچیں نماز میں ہمارے راستے میں آجاتی ہیں ۔  ہم اس ذات باری تعالی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں جو ستر ماﺅں سے زیادہ ہم سے پیار کرتا ہے مگر ہم اس کی محبت کے بدلے میں کچھ بھی اسے نہیں دیتے ہم ایک لفظ ہم پڑھتے ہیں <annotation lang="en">consideration</annotation> لین دین کے جتنے بھی معاملات ہوتے ہیں۔ ان میں یہ لفظ بڑی اہمیت رکھتا ہے اس کا مطلب آپ کو پتہ ہے کیاہوتا ہے ؟اس کا مطلب عام لفظوں میں ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو۔</p> <p>ایک شعرکا مصرعہ بھی ہے نا کہ کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔پڑھ لو تو پاس ہو جاﺅ، کھا لو تو بھوک ختم، پی لو تو پیاس غائب، پیسے دو چیز لو، ہاں ہمارے اپنے تعلقات بھی تو اس بنیاد پر ہی بنتے ہیں نا کہ عزت کرو عزت کراﺅ۔ یعنی ہر معاملے میں لینا دینا تو چلتا رہتا ہے مگر دیکھیں کہ آپ اللہ سے مانگیں اور بے حساب مانگیں ۔ آپ یقین کریں اللہ کبھی آپ سے واپسی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ یعنی اللہ کے ساتھ معاملات میں یہ اصول ختم ہو جا تاہے آپ اللہ کو ایک بار پکارو وہ دس بار سنے ۔  آپ نہ بھی پکارو وہ پھر بھی سنے گا۔ اس کی نعمتیں اور رحمتیں اتنی کہ گننے لگو تو گنتی ختم ۔ لکھنے لگو تو سیاہی ختم،</p> <p>غور کیا جائے تو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اس دنیا میں بھی اگر کوئی آپ سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ آپ کو نہیں چھوڑتا ۔ آپ اسے چھوڑ کر کہیں چلے بھی جاو  وہ آپ کے پلٹنے کا انتظار کرتا ہے.چاہے یہ محبت کسی بھی رشتے میں ہو جیسے ماں کی مثال لیں ۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دل سے نہیں نکالتی ۔ بھلے اولاد کچھ بھی کرے  ۔ وہ ہر حال اپنے بچوں سے محبت ہی کرتی ہے.تو اللہ پاک جو انسانوں سے ایسی محبت کرتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص کسی سے نہ کر سکے تو وہ ہمیں کیسے چھوڑ سکتا ہے..</p> <p>ہر بار انسان ہی اللہ پاک کو چھوڑتا ہے اور ہر بار نقصان اٹھاتا ہے. اپنے محور سے دور ہو کر بھی کبھی نفع میں رہا ہے کوئی؟  انسان کبھی دنیا کی محبت میں کھو کر ۔ کبھی اپنے ہی نفس کی محبّت میں کھو کر۔  کبھی مرتبے کی محبت میں کھو کر اللہ کو چھوڑ دیتا ہے.کیونکہ محبت ایک وقت میں صرف کسی ایک سے ہی کی جا سکتی ہے ۔اس میں دوئی کا تصوّر ممکن نہیں...اور یہ مقام یہ محبت میں سب سے پہلا مقام صرف اور صرف اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ ہی اس کے لائق ہے.. ورنہ ہماری روح کبھی چین نہیں پا سکتی..</p> <p>یہاں ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ انسان کی فطرت میں غلامی ہے.. خاص کر اس کی اسیری جس سے یہ محبت کرتا ہے.اگر ہم اس کو بانٹ دیں مختلف چیزوں میں تو بیک وقت ہم بہت ساری چیزوں کی غلامی میں ہوتے ہیں ۔ جیسے آجکل فیشن ہے جس نے دنیا کے بہت سے جو ان لوگوں کو اپنا اسیر کر لیا ہے.. دوسرا میڈیا ہے پیسہ ہے غرض یہ سب مادی چیزیں انسان کو اپنی غلامی میں جکڑے ہوے ہیں جبکہ مادی چیزوں اور کثرت کی محبت انسان کو مزید بے چین کر دیتی ہے کیونکہ روح کی غذا نور ہے ہدایت ہے۔  وہ جو اللہ کی طرف سے ہو..روح اس کی غلامی کے لئے بنی ہے اللہ کی غلامی کے لئے.. اور اس کی غلامی میں آ کر انسان دنیا کی غلامی کی تمام زنجیروں سے آزاد ہو جاتا ہے.. اسی غلامی میں صحابہ کرام تھے.. میرے پیارے نبی اور تمام اولیا ءاللہ نے بھی اسی ذات کی غلامی کی..ان سب نے دنیا کو اپنا اسیر کر لیا اس کے ہر کونے کو فتح کر لیا..</p> <p>اب ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں تو دل بڑا ہو جاتا ہے بلکہ بہت بڑا۔ وہ اس لیے کہ جس سے آپ محبت کرنے لگے تو آپ کا فرض ہوتا ہے ناکہ اس کی ہر چیز سے جو اس سے وابستہ ہو محبت کریں۔پس اللہ سے محبت ہو گی تو اس کی بنائی ہر چیز سے ہو گی۔ ہائے سردی ہے ۔ مجھے تو بہت لگتی ہے مگر اللہ نے بنائی ہے اس کو پیاری لگی تو بنائی ۔ اس لیے اس کی محبت میں اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے ۔ محبت کا سفر موسموں کی طرح انسانوں پہ بھی لاگو ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی اللہ کا بندہ ہے اس کو پیارا لگا تو اس نے بنایا نا تو جب اس ذات کو اس سے محبت ہے تو بھئی ہم کون ہوئے اس سے نفرت کرنے والے۔</p> <p>محبت کا سفر جو اللہ کی ذات سے شروع ہوتا ہے ساری کائنات پہ حاوی ہو جاتا ہے اگر ہم جائزہ لیں تو اللہ مخلوق کو نہیں چھوڑتا... مخلوق االلہ کو چھوڑ دیتی ہے.."اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اگر بندے کو اللہ کے الف کی بھی سمجھ لگ جائے تو بیڑہ پار ہو جاتا ہے !میرا اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اگر کوئی اس کے بندے کا دل دکھا دے تو جب تک اس بندے سے معافی نہیں ملتی، اللہ سے بھی نہیں مل پائے گی۔میرے اللہ کے بندوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان کے ہاں سے معافی نہیں ملتی۔ اس بات سے بھی دل نہیں پگھلتا کہ اس کے اس ایک عمل سے کسی پر آیا عذاب ٹل سکتا ہے۔ کسی کی زندہ رہتے ہوئے تڑپ ختم ہو سکتی ہے۔</p> <p>میرے اللہ کا بندہ اپنے آپ کو اللہ سے بڑا سمجھتا ہے شاید۔ جبھی تو وہ اپنا دل بڑا نہیں کر پاتا۔ یا پھر یہ جھجھک ہے کہ سب مٹی میں مل جائیگا۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائیگا۔رات کو ہم سب جب اپنے روزمرہ کے کاموں سے فراغت کے بعد سونے کے لئے جاتے ہیں تو سب کمروں کی روشنیاں گل کرتے ہیں ۔ بیوی بچوں اور والدین کو سوتا دیکھ کر بھائیوں اور بہنوں کے کمروں میں جھانکتے ہیں کہ وہ سو رہے ہیں یا ابھی تک پڑھنے میں لگے ہوئے ہیں اور پھر جب وضو کیا جاتا ہے اور نماز وتر کے لئے جائے نماز بچھا ئی جاتی ہے تو کیا ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ کس کے سامنے کھڑے ہونے جارہے ہیں ؟ یہ جو نماز کی مشق ہے ا س میں میرا مقصد کیا ہے ؟تب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بیوی، بچوں والدین، بہن بھائیوں دوستوں اور رشتہ داروں کے سوا بھی کوئی ہے ، وہ ایسا ہے جس کے سامنے آنکھوں سے دو آنسو بہائے جائیں  تو و ہ کہے گاکہ بس۔۔۔ فکر نا کر۔۔۔ میں ہوں نا۔۔۔وہ ایسا ہے۔۔۔ کہ جس کے سامنے میں اپنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہو جائیں تو وہ حکم دیتا ہے کہ بخش دو میرے اس گناہگار بندے کو۔۔۔</p> <p>اس نے کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے لیکن صرف مجھ سے بخشش مانگی۔تب ہمارا ا دل چاہتا ہے کہ زور زور سے چلا کر ساری دنیا کو بتایا جائے کہ " میرااللہ سب سے بڑا ہے اور کتنا اچھا ہے۔ لیکن آداب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہاتھ بندھے کہتے ہیں کہ "ساری تعریف صرف اللہ کی ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے"۔۔۔ میں اس کے سامنے جھک کر اسے بتاتا ہوں کہ "اے اللہ، پاکی صرف تیرے لیے ہے اور تو سب سے عظیم ہے"۔۔۔ اور جب میں زمیں پر اپنا ماتھا ٹیکتے ہوئے یہ سوچتا ہوں کہ میں اس ہستی کے سامنے جھک رہا ہوں جس نے مجھے سب کچھ دیا۔۔۔ زندگی دی، سانسیں دی۔۔۔ اتنے خوبصورت رشتے دیے۔۔۔عزت اور محبت دیے۔۔۔ اور آج تک مجھے بھوکا نہیں رہنے دیا۔۔۔ تو میرے ہونٹ اور دل ایک ساتھ کہہ اٹھتے ہیں کہ "</p> <p>اے اللہ، پاکی صرف تیرے لیے ہے اور تو بلند تر ہے</p> <p>"۔۔۔ اور "اے اللہ تو پاک ہے، اے میرے پروردگار اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔۔۔ یا اللہ مجھے بخش دے"۔جب ساری دنیا کے رشتے مجھے چھوڑ جائیں گے تو میرا اللہ میرے ساتھ ہوگا۔۔۔ اور جب میں دنیا چھوڑ جاوں گا تب بھی میرا اللہ میرے ساتھ ہوگا۔ تو میرا اللہ کتنا اچھا ہے</p> </section> </body>
0178.xml
<meta> <title>میں ہندو کو سلام نہیں کر سکتا</title> <author> <name>حنیف سمانا</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10625/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>427</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
میں ہندو کو سلام نہیں کر سکتا
427
Yes
<body> <section> <p>میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں اس کے ساتھ ہی کچھ <annotation lang="en">Toilets</annotation> بنے ہوئے ہیں... ان کی صفائی ستھرائی کے لئے ایک بوڑھے ہندو جمعدار کو رکھا گیا ہے... وہ بوڑھا دن میں دو سے تین بار مجھے مشکل میں ڈال دیتا ہے... میں جب بھی جاتا ہوں وہ بلند آواز میں مجھے سلام کرتا ہے..</p> <p>"السلام علیکم "</p> <p>میں جواب میں بجھے دل سے کبھی کبھی معض سر ہلاکے اور کبھی دبے الفاظ میں "وعلیکم" کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہوں...میرا یہ عمل میری تربیت کے بھی خلاف ہے.. کیونکہ بچپن سے مجھے بتایا گیا تھا کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے.. اس کا حکم قرآن میں سورۃ النساء میں بھی آیا ہے اور اس کے علاوہ سلام کا جواب اس سے بہتر اور عمدہ طریقے سے دینا مستحب ہے.</p> <p>اگر کوئی مسلمان مجھے "السلام علیکم" کہتا ہے تو میں جواب میں خوشی خوشی "وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ " کہتا ہوں....</p> <p>مگر یہاں معاملہ ہندو کا ہے...اور کہا یہ گیا ہے کہ غیر مسلم کے سلام کے جواب میں صرف "وعلیکم" کہو...</p> <p>زیادہ تر میں کوشش کرتا ہوں کہ اس ہندو جمعدار کے سلام کرنے سے پہلے ہی اس سے اس کی طبیعت پوچھ لوں اور اسے سلام کرنے کا موقع نہ دوں...</p> <p>" کیا حال ہیں چاچا! طبیعت تو ٹھیک ہے"</p> <p>مگر وہ دور سے مجھے آتا دیکھ کے سلام میں پہل کرتا ہے... اور مجھے پریشان کر دیتا ہے...مجھے اسے صرف "وعلیکم" کہتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے.... مجھے یوں لگتا ہے کہ میری طرف سے جیسے کوئی <annotation lang="en">Discrimination</annotation> ہو رہی ہے... کوئی امتیاز برتا جارہا ہے....کبھی کبھی مجھے میرا یہ عمل قرآن کی بھی روح سے مختلف نظر آتا ہے...</p> <p>مجھے قرآن کی وہ آیت بھی یاد آتی ہے...</p> <p>هَلْ جَزَاءُ الْاحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانِO</p> <heading>"کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور ہے"</heading> <p>(سورۂ الرحمن)</p> <p>لیکن کیا کیا جائے....میں اکثر دل میں دعا کرتا ہوں کہ آج وہ چاچا نہ ہو... مگر وہ مسلسل مجھے آزمانے کے لئے موجود ہوتا ہے...</p> <p>میں اندھیری رات میں بستر میں لیٹے لیٹے جب اپنے رب سے باتیں کرتا ہوں تو کہتا ہوں..</p> <p>"اے میرے رب! تو تو ان کو بھی دیتا ہے جو تجھے نہیں مانتے... اگر غلطی سے میرے منہ سے اس بوڑھے ہندو کی سلامتی کے لئے کوئی دعا نکل جاتی ہے...تو پھر بھی اس کی...اور میری... سلامتی تو تیرے ہی رحم و کرم پہ ہے.... تو جس طرح چاہے.... جو تیری مرضی ہو... مجھ سے یہ امتیاز نہیں ہو پارہا.... تو میری اس سوچ کو معاف کر دے...اور مجھے کوئی راستہ سجھا.... یا میں اس طرف جانا ہی چھوڑ دوں"</p> </section> </body>
0179.xml
<meta> <title>بیٹی نے جام شہادت نوش کر کے دودھ کی لاج رکھی ہے ۔ والدہ مریم مختار</title> <author> <name>انڈس براڈ کاسٹ</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10626/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>326</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بیٹی نے جام شہادت نوش کر کے دودھ کی لاج رکھی ہے ۔ والدہ مریم مختار
326
No
<body> <section> <p>پاک فضائیہ کا تربیتی طیارہ ایف ٹی- 7 گر کر تباہ ہونے سے خاتون فلائنگ آفیسر مریم مختیار جاں بحق ہو گئیں.</p> <p>پی اے ایف ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق میانوالی کے قریب کندیاں میں فضائیہ کے ایف ٹی- 7 طیارے کو معمول کی پرواز کے دوران حادثہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں خاتون پائلٹ مریم مختیار جاں بحق ہو گئیں.</p> <p>پی اے ایف ترجمان کے مطابق اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی اور فلائنگ آفیسر مریم مختیار معمول کے آپریشنل ٹریننگ مشن پر تھے کہ مشن کے بالکل آخری لمحات میں طیارے میں فنی خرابی پیدا ہو گئی۔</p> <p>دونوں پائلٹس نے طیارے اور زمینی آبادی کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے طیارے سے چھلانگ لگا دی، جبکہ طیارہ میانوالی کے قریب کندیاں کے علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔</p> <p>ترجمان کے مطابق اسکواڈرن لیڈر ثاقب عباسی کو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ فلائنگ آفیسر مریم مختیار جان کی بازی ہار گئیں، وہ شہادت کے درجے پر فائز ہونے والی پاکستان ایئرفورس کی پہلی خاتون پائلٹ ہیں۔</p> <p>24 سالہ مریم مختیار کا تعلق کراچی سے تھا اور انھیں پاکستان ایئرفورس میں بطور کمیشنڈ آفیسر شمولیت اختیار کیے ہوئے 2 برس سے زائد کا عرصہ ہو گیا تھا۔</p> <p>گذشتہ برس برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں مریم مختیار کا کہنا تھا کہ "جو پروفیشن انھوں نے اختیار کیا، اس پر ان کے والدین کچھ پریشان تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ ان کا شوق ہے، اسی لیے انھوں نے ان کا ساتھ دیا۔"</p> <p>ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "وہ بہت فخر محسوس کرتی ہیں کہ وہ پاکستان ایئرفورس کا حصہ ہیں۔"</p> <heading> <heading>مریم مختار کے بھائی کہتے ہیں ، مریم سے اچھی بہن نہیں ہو سکتی تھی ۔</heading> <heading>مریم مختار کی والدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کو بہادری اور شیر کی طرح موت کی نصیحت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیٹی نے شہادت کا منصب حاصل کر کے ان کے دودھ کی لاج رکھی ہے ۔</heading> </heading> </section> </body>
0180.xml
<meta> <title>پاکستانی تن ساز سلمان احمد نے امریکا میں "مسٹر مَسل مینیا" کا عالمی مقابلہ جیت لیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10633/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>245</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستانی تن ساز سلمان احمد نے امریکا میں "مسٹر مَسل مینیا" کا عالمی مقابلہ جیت لیا
245
No
<body> <section> <heading>لاس ویگاس: پاکستانی باڈی بلڈر سلمان احمد نے امریکا میں ہونے والے عالمی مقابلہ جیت کر "مسٹر مَسل مینیا" کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔</heading> <p>سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پر اپنے پیغام میں سلمان خان نے کہا ہے کہ مین اوپن مقابلے کی لائٹ ویٹ کیٹگری میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد اب وہ ' آل اوور ورلڈ مین اوپن ٹائٹل' مقابلے میں شرکت کے اہل ہوگئے ہیں۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ "مسٹر مسل مینیا " کا انعقاد گزشتہ 25 برسوں سے ہر سال ہوتا ہے لیکن وہ پہلے پاکستانی ہیں جس نے یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔</p> <p>سلان احمد نے کہا کہ ' میں پاکستان اور پوری دنیا میں اپنے مداحوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے لیے دعاگو رہے،' سلمان احمد نے اپنے والدین کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے والدین کی مدد اور تائید کے بغیر کچھ بھی نہیں۔</p> <p>واضح رہے کہ سلمان احمد لائٹ ویٹ کیٹگری میں سونے کا تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی ہیں تاہم اس سے قبل کراچی کے عبدالمالک 75 کلو گرام کیٹگری میں یہ اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں جب کہ کچھ ماہ قبل ایک اور پاکستانی تن ساز عاطف انور نے 100 کلو گرام کیٹگری سے زائد کے مقابلے کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔</p> <p>اس موقع پر سابق مسٹر ورلڈ آرنلڈ شوارزنیگر نے عاطف انور کو فاتح قرار دیتے ہوئے انہیں میڈل پہنایا اور ان کا ہاتھ فضا میں بلند کیا تھا.</p> </section> </body>
0181.xml
<meta> <title>آئمہ مساجد کو تقریرکیلئے لائسنس جاری کیے جائیں۔</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10641/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>217</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
آئمہ مساجد کو تقریرکیلئے لائسنس جاری کیے جائیں۔
217
No
<body> <section> <heading>پیرس: فرانس میں مسلمانوں کی سب سے بڑی اورمرکزی جماعت نے شدت پسندی ختم کرنے کیلئے مطالبہ کیا ہے کہ امام مساجد کو تقاریر کرنے کیلئے لائسنس جاری کیے جائیں۔</heading> <p>مسلمانوں کی فرنچ کونسل (سی ایف سی ایم) کے صدر انور ببک نے کہا ہے کہ ملک میں امام مساجد کو 'ڈرائیونگ لائسنس' کی طرز پر سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں تاکہ وہ 'برادشت اور کھلے مذہب' کی ترویج کے پابند ہو سکیں۔</p> <p>کونسل نے کہا ہے کہ وہ فرانسیسی روایات سے مطابقت اور مذہبی معلومات کا امتحان لینے کے بعد امام مساجد کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔</p> <heading>کونسل کے مطابق، اماموں سے ایک چارٹر پر بھی دستخط لیے جائیں جس میں وہ 'ملکی قوانین کے احترام' کے پابند ہوں گے۔</heading> <p>انور نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ تمام امام مساجدکیلئے سرٹیفکیٹ ضروری ہونے کی سوچ رکھتے ہیں یا نہیں۔ 'ایکشن کا وقت آن پہنچا ہے اور فرانس کے تمام مسلمانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا'۔</p> <heading>انہوں نے مزید بتایا کہ وہ جہادی نظریات کو مذہبی دلائل سے چیلنج کرنے کیلئے ایک کونسل قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔</heading> <p>پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکت کے 11 دنوں بعد یہ تجاویز سامنے رکھنے والے انور کہتے ہیں کہ تشدد میں ملوث افراد کو 'کبھی فرانسیسی مسلمانوں کی حمایت نہیں ملے گی'۔</p> </section> </body>
0182.xml
<meta> <title>امریکا میں پاکستانی نژاد دہشت گرد کو 40 برس کی سزا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10647/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>146</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکا میں پاکستانی نژاد دہشت گرد کو 40 برس کی سزا
146
No
<body> <section> <p>نیو یارک......دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کے جرم میں امریکی عدالت نے پاکستانی عابد نصیر کو 40 سال قید کی سزا سنا دی،</p> <heading>عابد پر برطانیہ کے شاپنگ سینٹر کو بم سے اڑانے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔</heading> <p>انتیس سالہ پاکستانی عابد نصیر کو 2009 میں برطانوی حکام نے مانچسٹر کے شاپنگ مال میں بم حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر رہا کر دیا گیا تھا۔</p> <p>2013 میں نیویارک سٹی سب وے کو دھماکے سے اڑانے کے الزام میں عابد نصیر کو دوبارہ گرفتار کر کے امریکا منتقل کر دیا گیا،</p> <p>امریکی عدالت نے مارچ 2015 میں عابد نصیر پر برطانیہ میں القاعدہ کا سیل چلانے، مانچسٹر اور نیویارک میں حملے کرنے کی القاعدہ کی سازش میں ملوث ہونے کی فرد جرم عائد کی اور آج کی سماعت میں عابد نصیر کو 40 سال کی سزا سنا دی گئی ہے۔</p> </section> </body>
0183.xml
<meta> <title>دردمندانہ گزارش</title> <author> <name>قاری محمد حنیف ڈار</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10651/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>855</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دردمندانہ گزارش
855
No
<body> <section> <p>وہ احباب جو اپنی خلوتوں کو بے خوف ھو کر استعمال کرتے اور اس کو اپنا پرائیویٹ معاملہ سمجھ کر حدودِ شریعت سے مستثناء سمجھتے ھیں ، وہ جان لیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فرمان کے مطابق نیک وہ نہیں کہ جس کی جلوت پاک ھو ، بلکہ نیک وہ ھے کہ جس کی خلوت پاک ھو ،، بے حیائی کا ظاھر و باطن دونوں حرام کیئے گئے ھیں ،،</p> <p>قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ( الاعراف، 33 )</p> <p>اللہ پاک نے صحابہؓ کے ایمان بالغیب کو حالتِ احرام میں شکار کے ذریعے سے آزمایا تھا اور شکار کو ان کے اس قدر قریب کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف ان کے ھاتھوں اور نیزوں کی دسترس میں تھے بلکہ ان کے ساتھ آ کر اپنا بدن بھی کھجاتے تھے گویا وہ ان کو چڑا رھے ھوں کہ بڑے شکاری بنے پھرتے تھے ذرا ھمیں پکڑ کر تو دکھاؤ اور صحابہ رضوان اللہ علیہھم اجمعین اپنا منہ پھیر لیتے تھے ،،</p> <p>یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَیَبۡلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیۡءٍ مِّنَ الصَّیۡدِ تَنَالُہٗۤ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ رِمَاحُکُمۡ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّخَافُہٗ بِالۡغَیۡبِ ۚ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿المائدہ-94﴾</p> <p>قرآن میں ہے :</p> <p>" اے ایمان والو! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعہ ضرور آزمائے گا جن کو تم تمہارے نیزوں اور ہاتھ سے پکڑ سکوگے ، تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔" (مائدہ: 94 )</p> <p>بنی اسرائیل کے ایمان بالغیب کو مچھلیوں سے آزمایا گیا تھا جب ان کے شکار کے دن تو مچھلی بھول کر بھی باھر کا رخ نہیں کرتی تھی جبکہ اس کے ناغے اور پابندی والے دن پانی پر کشتی کے بادبان کی طرح شڑپ شڑپ دوڑتی ان کے سامنے سے گزرتی تھیں کہ ھمت ھے تو پکڑ کر دکھاؤ،، اور انہوں نے پکڑ کر دکھا دیا اور فیل ھو گئے ،،،</p> <p>آج ھمارا ایمان بالغیب انٹرنیٹ اور موبائیل کے ذریعے آزمایا گیا ھے ،جہاں ایک کلک آپ کو وہ کچھ دکھا سکتی ھے جو ھمارے باپ دادا 10 ، 10 بچے پیدا کرانے کے باوجود دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ھو گئے ،، ھم نے خفیہ گروپ بنا کر اپنے اپنے گٹر کھول رکھے ھیں ،،یستخفون من الناس ،، لوگوں سے تو چھپا لیتے ھیں" ولا یستخفون من اللہ و ھو معھم ،، " مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ھے ، ھمارا لکھا اور دیکھا ھوا سب ھمارے نامہ اعمال میں محفوظ ھو رھا ھے جہاں سے صرف اسے سچی توبہ ھی مٹا سکتی ھے</p> <p>یہ سب امتحان اس لئے ھے تا کہ "لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب۔ " اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔</p> <p>یہ لکھنے والے ھاتھ اور پڑھنے والی آنکھیں ، سب ایک دن بول بول کر گواھی دیں گے ،،</p> <p>: { الْيَوْم نَخْتِم عَلَى أَفْوَاههمْ وَتُكَلِّمنَا أَيْدِيهمْ وَتَشْهَد أَرْجُلهمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ )( یاسین - 65 )</p> <p>" آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ھم سے بات کریں گے اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔'</p> <p>" گناہ کے دوران ھمارا کوئی بیوی بچہ یہانتک کہ بلی یا ھوا کا جھونکا بھی دروازہ ھلا دے تو ھماری پوری ھستی ھل کر رہ جاتی ھے ،، کیوں ؟ رسوائی کا ڈر ،، امیج خراب ھونے کا ڈر ،، اس دن کیا ھو گا جب ھماری بیوی بچے اور والدین بھی سامنے دیکھ رھے ھونگے اور دوست و احباب بھی موجود ھونگے ،، زمانہ دیکھ رھا ھو گا اور تھرڈ ایمپائر کی طرح کلپ روک روک کر اور ریورس کر کے دکھایا جا رھا ھو گا ،، ھائے رے رسوائی ،،،،،،،،،،،،،،،، آج بھی صرف توبہ کے چند لفظ اور آئندہ سے پرھیز کا عزم ھمارے پچھلے کیئے ھوئے کو صاف کر سکتا ھے اور ھمیں اس رسوائی سے بچا سکتا ھے ،، اللہ کے رسول دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاھر سے اچھا کر دے ،،</p> <p>خلوت کے گناہ انسان کے عزم و ارادے کو متزلزل کر کے رکھ دیتے ھیں یوں میں خود اعتمادی اور معاملات میں شفافیت سے بھی ھاتھ دھو بیٹھتا ھے</p> <p>حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ھیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ ،،،،،،،،،</p> <p>"مجھے امت کے کچھ لوگوں کو دکھلایا گیا ھے ، جو قیامت کے دن مکہ کے پہاڑوں جیسی نیکیاں لے کر آئیں گے ؛لیکن اللہ تعالی ان ساری نیکیوں کو اکارت کر دیں گے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ان کی کچھ نشانیاں تو بیان فرما دیجئے کہ کہیں ھم ان جیسے نہ ھو جائیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ تمہارے ھی بھائی بندھوں گے، تمہاری جنس اور نسل میں سے ھوں گے۔وہ تمہاری ھی طرح رات کی نیکیوں کوحاصل کرنے والے ھونگے لیکن خلوت اور تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں مبتلا ھو جائیں گے (رواہ ابن ماجہ)</p> </section> </body>
0184.xml
<meta> <title>"مولوی صاحب مر چکے ہیں"</title> <author> <name>جاوید چودھری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10656/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1838</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
"مولوی صاحب مر چکے ہیں"
1,838
No
<body> <section> <p>منگل کا دن تھا،نومبر کا مہینہ تھا،تاریخ 17 تھی اور سن تھا 2015ء ،قاری عبدالرحمن انھیں کراچی ائیر پورٹ پر ڈراپ کر کے واپس چلے گئے،راستے سے فون کیا،جواب دیا " بورڈنگ کارڈ میری جیب میں ہے،ظہر کی نمازپڑھ لی ہے،فلائیٹ وقت پر ہے،عصر انشاء اللہ لاہور میں پڑھوں گا"قاری صاحب مطمئن ہو گئے،دن کے سوا بجے تھے،فلائیٹ نے ڈیڑھ بجے اڑنا تھا،قاری عبدالرحمن نے ڈیڑھ بجے دوبارہ فون کیا،انھوں نے فون اٹھایا لیکن وہ بول نہ سکے،قاری صاحب کو ان کے کراہنے اور اونچی اونچی سانس لینے کی آوازیں سنائی دیں،قاری صاحب نے بلند آواز سے پوچھا "حضرت آپ خیریت سے ہیں۔</p> <p>آپ ٹھیک تو ہیں"وہ جواب دے رہے تھے لیکن بات سمجھ نہیں آ رہی تھی،قاری صاحب اس وقت شاہراہ فیصل پر تھے،وہ مڑے اور گاڑی واپس ائیر پورٹ کی طرف دوڑا دی،وہ راستہ بھر انھیں فون کرتے رہے لیکن انھوں نے دوبارہ فون نہیں اٹھایا،قاری صاحب ائیر پورٹ پہنچے،ائیر پورٹ حکام سے ملے،انھیں بتایا،فلاں مسافر شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ سے لاہور جا رہے تھے لیکن وہ لاؤنج میں بیمار پڑے ہیں،مجھے ان تک لے جائیں،حکام نے فوراً جواب دیا،شاہین ائیر لائین کی فلائیٹ جا چکی ہے،آپ کا مسافر چلا گیا ہے،قاری صاحب نے ان کے سامنے موبائل ملایا،ان کے فون پر بیل جا رہی تھی۔</p> <p>قاری صاحب نے حکام کو فون دکھایا اور بتایا،میرے مسافر کا فون آن ہے،وہ ابھی تک لاؤنج میں موجود ہیں،مجھے اندر لے جائیں،حکام نے انکار کر دیا،قاری صاحب گیٹ پر کھڑے ہو کر انھیں مسلسل فون کرنے لگے،تھوڑی دیر بعد کسی صاحب نے فون اٹھا لیا،قاری صاحب نے کہا "آپ فون اشتیاق صاحب کو دے دیں"اس صاحب نے دکھی آواز میں جواب دیا "آپ کے مسافر انتقال کر چکے ہیں"قاری صاحب کے منہ سے چیخ نکل گئی،انھیں اس بار اندر جانے کی اجازت مل گئی۔</p> <p>وہ اندر پہنچے تو ٹوٹے ہوئے گندے سے اسٹریچر پر پاکستان کے اس عظیم مصنف کی لاش پڑی تھی جس نے 45 برس تک ملک کی تین نسلوں کی فکری رہنمائی کی،جس نے 100 کتابیں اور 800 ناول لکھے،جس نے دو ہزار صفحات پر مشتمل اردو زبان کا طویل ترین ناول لکھا،آپ کا بچپن یا لڑکپن اگر ستر،اسی یا نوے کی دہائی میں گزرا ہے اور آپ کا کتاب سے ذرا سا بھی تعلق رہا ہے تو پھر اس گندے اور ٹوٹے ہوئے اسٹریچر پر پڑی وہ لاش آپ کی محسن تھی۔</p> <p>وہ پوری زندگی بچوں کے لیے سسپنس سے بھرپور جاسوسی اور تفتیشی کہانیاں لکھتے رہے،آخر میں اپنے لیے موت پسند کی تو وہ بھی تفتیش اور سسپنس سے بھرپور تھی،کراچی ائیرپورٹ پر اس عالم میں فوت ہوئے کہ ان کے ہاتھ میں بورڈنگ پاس تھا اور ائیرپورٹ کے اسپیکروں سے اعلان ہو رہا تھا " شاہین ائیر لائین کے ذریعے کراچی سے لاہور جانے والے مسافر اشتیاق احمد فوری طور پر فلاں گیٹ پر پہنچ جائیں"اعلان ہوتا رہا اور بورڈنگ پاس ہوا میں لہراتا رہا لیکن وہ سیٹ سے نہ اٹھ سکے،جہاز لاہور چلا گیا اور وہ جہاز کے بغیر آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے اور ملک کے وہ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے جن کے وہ چاچا جی تھے،اشتیاق چاچا جی،ایک ایسے چاچا جی جنہوں نے انھیں بچپن میں ادب اور نیکی دونوں کی لت لگا دی تھی،جنہوں نے انھیں پاکستانی بنایا تھا،اردو زبان میں بچوں کے ادب کے سب سے بڑے خالق اشتیاق احمد ہم سے بچھڑ گئے۔</p> <p>اشتیاق احمد ایک ایسے انسان تھے جن کے لیے سیلف میڈ جیسے لفظ بنے ہیں،بھارتی پنجاب کے قصبے کرنال میں پیدا ہوئے،پاکستان بننے کے بعد والدین کے ساتھ جھنگ آ گئے،خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی۔ بڑی مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی،لاہور میں میونسپل کارپوریشن میں ملازم ہو گئے۔</p> <p>سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا،خاندان بڑا تھا،آمدنی کم تھی چنانچہ وہ شام کے وقت آلو چھولے کی ریڑھی لگانے لگے،یہ "کاروبار"چل پڑا تو کمپنی کو پان اور سگریٹ تک پھیلا دیا،وہ دن کی ملازمت اور شام کے کاروبار سے ایک گھنٹہ بچاتے تھے اور رات سونے سے پہلے کہانیاں لکھتے تھے،ان کی پہلی کہانی 1960 ء کی دہائی میں کراچی کے کسی رسالے میں شایع ہوئی،وہ کہانی اشتیاق صاحب کے لیے رہنمائی ثابت ہوئی اور وہ باقاعدگی سے لکھنے لگے،کہانیاں سیارہ ڈائجسٹ میں شایع ہونے لگیں،وہ کہانی دینے کے لیے خود ڈائجسٹ کے دفتر جاتے تھے۔</p> <p>کہانی بھی دے آتے تھے اور مفت پروف بھی پڑھ دیتے تھے،پبلشر کو ان کی یہ لگن پسند آ گئی،اس نے انھیں پروف ریڈر کی جاب آفر کر دی،اشتیاق صاحب نے میونسپل کارپوریشن کی پکی نوکری چھوڑی اور 100 روپے ماہانہ پر کچے پروف ریڈر بن گئے،وہ اب کہانیاں لکھتے تھے اور پروف پڑھتے تھے،کہانیاں رومانوی ہوتی تھیں،ان کی چند کہانیاں "اردو ڈائجسٹ'،میں بھی شایع ہوئیں، 1971ء میں پہلا ناول لکھا،وہ ناول رومانوی تھا،پبلشر نے وہ ناول پڑھنے کے بعد انھیں جاسوسی ناول لکھنے کا مشورہ دیا،اشتیاق صاحب نے قلم اٹھایا،محمود،فاروق،فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے لافانی کردار تخلیق کیے اور صرف تین دن میں ناول مکمل کر کے پبلشر کے پاس پہنچ گئے اور پھر اس کے بعد واپس مڑ کر نہ دیکھا،وہ شروع میں شیخ غلام علی اینڈ سنز کے لیے لکھتے تھے۔</p> <p>پھر شراکت داری پر "مکتبہ اشتیاق"بنا لیا اور آخر میں اشتیاق پبلی کیشنز کے نام سے اپنا اشاعتی ادارہ بنا لیا،وہ ہفتے میں چار ناول لکھتے تھے،ان ناولوں کی باقاعدہ ایڈوانس بکنگ ہوتی تھی،آپ کسی دن نادرا کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں،آپ کو 80 ، 90 اور 2000ء کی دہائی میں لاکھوں بچوں کے نام محمود،فاروق،جمشید اور فرزانہ ملیں گے،یہ نام کہاں سے آئے،یہ نام اشتیاق صاحب کے ناولوں سے کشید ہوئے،وہ جھنگ میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتے تھے،لکھتے تھے اور صرف لکھتے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں کہانیاں بُننے کا ملکہ دے رکھا تھا،اشتیاق صاحب کی کہانی آخری سطر تک اپنا سسپنس برقرار رکھتی تھی۔</p> <p>ان کے لفظوں میں مقناطیسیت تھی،قاری ان کا لکھا ایک فقرہ پڑھتا تھا اور اس کی آنکھیں لوہا بن جاتی تھیں اور وہ اس کے بعد ان کی تحریر سے نظریں نہیں ہٹا پاتا تھا،مقبولیت اگر کوئی چیز ہوتی ہے تو اشتیاق احمد اس کی عملی تفسیر تھے اور اگر تحریر کو پڑھے جانے کے قابل بنانا ایک فن ہے تو اشتیاق احمد اس فن کے امام تھے،وہ لکھتے بچوں کے لیے تھے لیکن ان کے پڑھنے والوں میں آٹھ سے اسی سال تک کے "نوجوان"شامل تھے،وہ بڑے شہروں سے گھبراتے تھے۔</p> <p>ان میں ایک خاص نوعیت کی جھجک اور شرمیلا پن تھا،وہ درویش صفت تھے،انھوں نے عمر کے آخری پندرہ سال مذہب کے دامن میں گزارے،وہ باریش ہو گئے،جامعۃ الرشید کے ساتھ منسلک ہوئے،روزنامہ اسلام کا بچوں کا میگزین سنبھال لیا،حلیہ بھی عاجز تھا اور حرکتیں بھی چنانچہ وہ قلمی کمالات اور ادبی تاریخ رقم کرنے کے باوجود سرکاری اعزازات سے محروم رہے،خاک سے اٹھے انسان تھے،خاک میں کھیل کھیل کر خاک میں مل گئے،سرکار نے زندگی میں ان کا احوال پوچھا اور نہ ہی سرکار کو ان کے مرنے کے بعد ان کا احساس ہوا،وہ تھے تو سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں تھے۔</p> <p>وہ نہیں ہیں تو ورثے میں ہزاروں کہانیاں، 100 کتابیں اور 800 ناول چھوڑنے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہیں،سرکار زندگی میں ان کی طرف متوجہ ہوئی اور نہ ہی مرنے کے بعد،کاش ان کی بھی کوئی لابی ہوتی،کاش یہ بھی کسی بڑے شہر میں پلے ہوتے،کاش یہ بھی انگریزی ہی سیکھ لیتے اور یہ برطانیہ اور امریکا کے بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے تو زندگی میں بھی ان کے گھر کے سامنے لوگوں کا مجمع رہتا اور موت کے بعد بھی ان کی قبر،ان کے گھر کے سامنے سے پھول ختم نہ ہوتے،یہ بس کرنالی،جھنگوی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے،یہ ایک گم نام'ناتمام زندگی گزار کر رخصت ہو گئے اور ان کی ہزار کتابیں بھی ان کو نامور نہ بنا سکیں،حکومت ان کے وجود سے بے خبر تھی اور ان کی آخری سانس تک بے خبر رہی۔</p> <p>وہ منگل کی اس دوپہر کراچی ائیر پورٹ پہنچے،بورڈنگ کروائی،ظہر کی نماز ادا کی،قاری عبدالرحمن کا فون ریسیو کیا،انھیں بتایا "فلائیٹ وقت پر ہے،میں انشاء اللہ عصر کی نماز لاہور میں پڑھوں گا"اور لاؤنج میں بیٹھ گئے،لاؤنج میں کوئی شخص انھیں نہیں جانتا تھا،جان بھی کیسے سکتا تھا،وہ حلیے سے پورے مولوی لگتے تھے اور آج کے زمانے میں کوئی شخص کسی مولوی کو پیار اور دلچسپی سے نہیں دیکھتا،اشتیاق احمد کو بیٹھے بیٹھے بے چینی ہونے لگی،ماتھے پر پسینہ آ گیا،دل گھبرانے لگا،سانس چڑھنے لگی اور نبض کی رفتار میں اضافہ ہونے لگا،وہ پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھنے لگے لیکن وہاں ان کا کوئی مددگار نہیں تھا،اس دوران فلائیٹ کا اعلان ہو گیا،وہ ہمت کر کے قطار میں کھڑے ہو گئے لیکن ان کی ٹانگوں میں جان کم ہو رہی تھی۔</p> <p>وہ آگے بڑھے اور کاؤنٹر پر کھڑی خاتون کو بتایا "مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے پلیز ڈاکٹر کو بلا دیں"خاتون نے انھیں بیٹھنے کی ہدایت کی اور کام میں مصروف ہو گئی،وہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے،ان کے سینے میں شدید درد تھا،وہ بری طرح کراہ رہے تھے،ان کو کراہتے دیکھ کر مسافر نے شور مچا دیا،اس کے بعد وہاں "ڈاکٹر بلاؤ،ڈاکٹر بلاؤ"کی آوازیں گونجنے لگیں،اشتیاق صاحب اس دوران تڑپنے لگے،مسافروں نے ان کے تڑپنے کا نظارہ دیکھنے کے لیے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا،ہجوم کی وجہ سے آکسیجن کم ہو گئی،انھوں نے لمبی ہچکی لی اور دم توڑ دیا،ڈاکٹر آدھ گھنٹے بعد وہاں پہنچا،وہ خالی ہاتھ تھا،اس کے پاس سٹیتھو اسکوپ تک نہیں تھا،ڈاکٹر نے ان کی نبض ٹٹولی،نتھنوں پر انگلی رکھی،دل کو دبا کر دیکھا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر کہا "مولوی صاحب مر چکے ہیں"لوگ افسوس سے لاش کو دیکھنے لگے۔</p> <p>اشتیاق صاحب کے انتقال کے آدھ گھنٹے بعد اسٹریچر آیا،اسٹریچر گندہ بھی تھا اور ٹوٹا ہوا بھی،لاش سیٹ سے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈال دی گئی،قاری عبدالرحمن پہنچے،لاش ان کے حوالے کر دی گئی،بورڈنگ پاس ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھا،یہ بورڈنگ پاس وزیر اعظم اور وزیراعظم کے مشیر شجاعت عظیم کے نام ان کا آخری پیغام تھا "خدا کے لیے ملک کے تمام ائیر پورٹس پر کلینکس بنوا دیں،میں آج مر گیا ہوں،کل آپ کی باری بھی آ سکتی ہے،اللہ نہ کرے آپ یوں ڈیپارچر لاؤنج میں آخری سانس لیں"۔ ڈرائیور نے ان کے ہاتھ سے بورڈنگ پاس کھینچا،اسٹریچر اندر رکھا،ایمبولینس کا دروازہ بند کیا اور محمود،فاروق،انسپکٹر جمشید اور فرزانہ جیسے کرداروں کا خالق دنیا سے رخصت ہو گیا۔</p> <p>وہ زمین کا رزق زمین کے معدے میں اتر گیا،پیچھے صرف تاسف اور بے حسی رہ گئی،یہ بے حسی اور یہ تاسف آج بھی کراچی ائیرپورٹ کے لاؤنج کی اس نشست پر پڑا ہے جس پر اشتیاق صاحب نے آخری سانس لی تھی،یہ تاسف اور یہ بے حسی یہاں برسوں تک بال کھولے پڑی رہے گی،کیوں؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کے سب سے بڑے ادیب نے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑا،اگر ائیرپورٹ پر ڈاکٹر ہوتا تو شاید وہ بچ جاتے لیکن یہ اگر اور مگر اشتیاق صاحب جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے،یہ لفظ میاں نواز شریف اور شجاعت عظیم جیسے لوگوں کے لیے بنے ہیں،یہ لوگ ہمیشہ قائم رہیں گے جب کہ اشتیاق صاحب جیسے لوگ بورڈنگ پاس ہاتھوں میں پکڑ کر دنیا سے اسی طرح رخصت ہوتے رہیں گے،رہے نام سدا بے حسی کا۔</p> <p>بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس</p> </section> </body>
0185.xml
<meta> <title>ترکی نے روسی جنگی طیارہ گرا کر پیٹھ میں چھرا گھونپا: ولادیمرپیوٹن</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10658/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>255</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ترکی نے روسی جنگی طیارہ گرا کر پیٹھ میں چھرا گھونپا: ولادیمرپیوٹن
255
No
<body> <section> <p>ترکی کی جانب سے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مار گرائے جانے پر اپنے شدید ردعمل میں روسی صدر ولادیمر پوٹن نے خبردار کیا ہے کہ ترکی کا یہ عمل کمر میں چھرا گھوپنے کے مترادف ہے جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں جبکہ روسی وزیر خارجہ لاروف نے ترکی کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔</p> <p>سوچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ترکی نے روسی طیارہ گرا کر پیٹھ پیچھے سے چھرا گھونپ کر دہشت گردوں کا ساتھ دیا ہے جب کہ اس عمل سے روس کے ترکی کے ساتھ تعلقات پر خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طیارے کو گرایا گیا وہ ترکی کی سرحد سے ایک کلومیٹر دور شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا تھا جب کہ اسے شام کی سرحد کے 4 کلومیٹر اندر نشانہ بنایا گیا۔</p> <p>دوسری جانب روسی وزارت دفاع نے ترک دفاعی اتاشی کو وزارت دفاع طلب کر کے روسی طیارے کو مار گرائے جانے کی وضاحت طلب کرلی ہے تاہم حکام نے مزید تفصیلات بتانے سے انکارکردیا ۔</p> <p>واضح رہے کہ آج ترکی ایف 16 طیاروں نے بارہا خبردار کرنے کے باوجود سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مارگرایا تھا تاہم اس حملے طیارے کے پائلٹوں کی ہلاکت سے متعلق مصدقہ اطلاعات سامنے نہیں آسکیں۔ شام کے حکام کا کہنا ہے کہ ان پائلٹس میں سے ایک پائلٹ ہلاک جب کہ دوسرا داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ ہے۔</p> </section> </body>
0186.xml
<meta> <title>انتہا پسند ہندوؤں کا اداکارعامر خان کے گھر پر دھاوا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10661/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>339</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
انتہا پسند ہندوؤں کا اداکارعامر خان کے گھر پر دھاوا
339
No
<body> <section> <p>بھارت میں تیزی سے بڑھتی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے پر بالی ووڈ سپر اسٹار عامر خان کے گھر پر ہندو انتہا پسندوں نے دھاوا بول دیا۔</p> <p>بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اورعدم برداشت نے اقلیتوں سے لے کرملک کے نامورادیبوں، شعرا اوربالی ووڈ اداکاروں سمیت دیگرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی پریشان کر دیا ہے جب کہ اسی حوالے سے گزشتہ روز ایک پروگرام کے دوران عامر خان نے اس کا اظہار کیا جس پر بھارت میں ہندو انتہا پسند بلبلا اٹھے اور ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ اداکار کے گھرپر دھاوے کے فوری بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے اور حصار بناتے ہوئے انتہا پسندوں کو ان کے گھر پر حملے سے روک دیا۔ شیوسینا کے کارکنوں کی جانب سے اداکار کے گھر کے باہر پوسٹرز کو جلایا گیا اور انتہا پسندی کا ایک اور چہرہ دکھاتے ہوئے نعرے بازی بھی کی گئی۔</p> <p>دوسری جانب عامر خان کے آواز اٹھانے کے بعد کانگریس اور بی جے پی کے درمیان لفظی جنگ چھڑ چکی ہے جہاں کانگریس کی جانب سے بھی انتہا پسندی کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ کانگریس ترجمان کا کہنا ہے کہ عامر خان کی آواز لاکھوں بھارتیوں کی آوازہے تاہم بی جے پی ترجمان شاہنواز حسین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بھارت سے بہترکوئی اورجگہ نہیں اورہندوؤں سے بہتر کوئی پڑوسی نہیں ہو سکتا،عامرخان یہ نہ بھولیں کہ اسی بھارت نے انہیں فلمی اسٹاربنایا ہے اوراگر وہ ملک چھوڑ کر کہیں جاتے ہیں تو انہیں ہرجگہ عدم برداشت کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ اداکار نے عوامی جذبات کو مجروح کیا ہے۔</p> <p>واضح رہے کہ عامر خان نے گزشتہ روز ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ملک میں رونما ہونے والے کئی واقعات نے انہیں اور بالخصوص ان کی اہلیہ کو ملک چھوڑنے کے حوالے سے غورکرنے پر مجبور کردیاہے تاہم  وہ خود بھی ملک میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔</p> </section> </body>
0187.xml
<meta> <title>عامر خان پاکستان آ جائیں ،میرے گھر قیا م کریں:میرا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10664/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>343</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عامر خان پاکستان آ جائیں ،میرے گھر قیا م کریں:میرا
343
No
<body> <section> <p>بولی ووڈ اسٹارعامرخان کی جانب سے بھارت چھوڑنے کے بیان پرانتہا پسندہندؤوں کی جانب سے شدیداحتجاج کے بعد فلم اسٹارمیرا نے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دیدی۔</p> <p>ایک طرف بھارت میں اپنے منیجرکوفون کر کے عامر خان کوپاکستان آنے کا پیغام بھجوایا تودوسری جانب سوشل ویب سائٹ پر بھی اپنا پیغام لوڈ کر دیا، جس کوبہت سراہا گیا ہے۔ فلم اسٹارمیرا نے کہا کہ بالی ووڈ اسٹار عامر خان نے اپنی بہترین اداکاری سے دنیا بھر میں پرستاروں کے دل جیتے ہیں۔</p> <p>پاکستان میں بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ انتہا پسند ہندؤوں کی طرف سے مسلمانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے اورتشدد کرنے کے واقعات میں حیرت انگیز اضافے کے بعد ان کی اہلیہ کرن راؤ جو کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہیں لیکن انھوں نے اپنے شوہر کوہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں پرحالات کس قدرخراب ہیں، ایسے میں بطورپاکستانی میں نے انھیں لاہورآنے کی دعوت دی ہے۔</p> <p>وہ میرے گھر پرقیام کریں گے اور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھرسے پاکستان آنے والے جانتے ہیں کہ پاکستانی کس قدرمہمان نواز ہیں۔ خاص طور پر لاہور اور یہاں بسنے والوں کی مہمان نوازی کے ڈنکے توپوری دنیا میں بجتے ہیں۔ اس لیے میں نے بھارت میں اپنے منیجرکے ذریعے عامرخان اور ان کی اہلیہ کوپاکستان آنے کی دعوت دیدی ہے۔ وہ باکمال فنکاراورایک اچھے اورسلجھے ہوئے انسان ہیں۔</p> <p>ان کے ساتھ بھارت میں ہونے والے اس رویے پردنیا بھر میں بولی ووڈ فلموں کودیکھنے اورپسند کرنے والوں کو بھی مایوسی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بالی ووڈ اداکارانوپم کھیرکی جانب سے عامرخان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا عمل بھی انتہاپسند ہندؤں کی ایک سازش لگتی ہے۔</p> <p>سب کے سامنے ہے کہ جس طرح سے بھارت میں پاکستانیوں اورمسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ اس سے ہمیں مودی سرکارکی مسلم مخالف پالیسی کا بھی پتہ چلتا ہے، بلکہ دنیا بھر میں اپنی فلموں کے ذریعے کلچراورمہمان نوازی کا "ڈھونگ" رچانے والوں کے اس روپ کردیکھ کرسیاحوں کی اکثریت بھی خوفزدہ ہو گئی ہے۔</p> </section> </body>
0188.xml
<meta> <title>شادی کے بعد ایک فریق کے موٹا ہونے پر دوسرے ساتھی کے موٹا ہونے کا دوگنا خطرہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10667/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>279</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
شادی کے بعد ایک فریق کے موٹا ہونے پر دوسرے ساتھی کے موٹا ہونے کا دوگنا خطرہ
279
No
<body> <section> <p>امریکی ماہرین نے اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے اگر شادی شدہ جوڑے میں سے ایک فریق موٹاپے کا شکار ہوتا ہے تو دوسرے کے لیے موٹاپے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔</p> <p>امریکی ریاست بالٹی مور جان ہاپکنس یونیورسٹی سے وابستہ ماہرین نے شادی اور موٹاپے کے درمیان تعلق کے حوالے سے مطالعاتی تحقیقی کی ہے جسے بین الاقوامی طبی جریدے 'امریکن جرنل آف ایپی ڈیمیولوجی' نے شائع کیا ہے۔</p> <p>تحقیق کے دوران ماہرین نے 4 ہزار جوڑوں کے روز مرہ معمولات کی 25 برس تک نگرانی کی، تحقیق کے آغاز پر 23 فیصد مرد اور 25 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار تھیں۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹاپے کا شکار شوہروں کی بیویوں کے لیے موٹاپے کا خطرہ 89 فیصد تک دیکھا گیا جب کہ اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح ایک عام وزن رکھنے والے شوہر کی بیوی جس کا وزن مشاہدے کی مدت کے دوران نارمل سے زیادہ ہوا تھا ان میں موٹاپے کا امکان 78 فیصد زیادہ تھا ایسے شوہروں کے مقابلے میں جن کی بیویوں کے وزن میں خاصا اضافہ نہیں ہوا تھا۔</p> <p>تحقیق میں شامل محقق ر لورا کوب کا کہنا ہے کہ یہ بہت غیر معمولی بات نہیں ہے کہ میاں اور بیوی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک جیسی عادتیں اختیار کر لیتے ہیں جو ان کے وزن پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کے وزن میں تبدیلی جلد یا دیر سے دوسرے پر بھی ظاہر ہوتی ہے جو شاید اس وجہ سے ہے کیونکہ ان کی خوراک، جسمانی سرگرمیوں اور طرز عمل میں ایک ہی طرح کی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ موٹاپے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔</p> </section> </body>
0189.xml
<meta> <title>امریکی کمپنی نے سگریٹ پینے والوں کے لیے "ای سگریٹ" موبائل فون تیارکرلیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10670/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>217</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکی کمپنی نے سگریٹ پینے والوں کے لیے "ای سگریٹ" موبائل فون تیارکرلیا
217
No
<body> <section> <p>اگر پاکستان میں نہیں تو کم ازکم دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اسمارٹ فون چابیوں اور نقدی کی جگہ لے چکے ہیں اور اب اس کے بعد</p> <p>ایک فون میں "ای سگریٹ" کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔</p> <p>امریکی کمپنی کی جانب سے تیار کردہ اس فون کا نام "ویپورکیڈ" ہے جسے دنیا کا پہلا دخانی ( دھویں والا) فون کہا جاسکتا ہے جس سے ٹیکسٹ ، ای میل اور فون پر بات کرتے ہوئے اس میں موجود کارٹریج اور نلکی سے سگریٹ کے کش بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اس دلچپسپ فون میں ای سگریٹ کی کارٹریج 30 مختلف ذائقوں میں تیار کی گئی ہے جو فون کے اوپری حصے میں نصب ہو جاتی ہے اور اس سے تمباکو نوشی کا شوق پورا کیا جاسکتا ہے جب کہ صارف اگر چاہے تو سگریٹ کی نال لمبی کر کے موبائل فون کو بطور حقہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔</p> <p>کمپنی نے اس کے لیے 2  سیٹ بنائے ہیں جو 3 جی اور 4 جی سروسز فراہم کرتے ہیں اور ان کی قیمت 300 اور 500 ڈالر ہے، ان میں اینڈرائڈ کٹ کیٹ آپریٹنگ سسٹم موجود ہے جب کہ اس میں ای سگریٹ (ویپنگ) ایپ ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ معمولی تبدیلی کے بعد موبائل فون میں دوائیں اور دمے کے مریضوں کے لیے پمپ نما دوائیں بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔</p> </section> </body>
0190.xml
<meta> <title>قانونی نوٹس میں غلطیوں پرریحام خان نے اپنا وکیل ہٹا دیا</title> <author> <name>نمائندہ خصوصی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10673/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>152</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
قانونی نوٹس میں غلطیوں پرریحام خان نے اپنا وکیل ہٹا دیا
152
No
<body> <section> <p>ریحام خان نے لندن میں اپنے میں اپنا وکیل تبدیل کر لیا۔</p> <p>انہوں نے اپنے سابق شوہر ڈاکٹراعجاز کو بیرسٹر اسلم کے ذریعے قانونی نوٹس بھیجا تھا جس کا جواب دے دیا گیا تھا۔</p> <p>آئی بی سی ذرائع کے مطابق ریحام خان کے وکیل کی جانب سے بھیجا گیا نوٹس غلطیوں سے بھرپور تھا جس کی وجہ سے ریحام خان کا کیس کمزور ہو گیا تھا۔</p> <p>قانونی نوٹس میں فون نمبر بھی درج کر دیا گیا تھا جو برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔</p> <p>زرائع نے مزید بتایا کہ لندن میں مقیم ایک صحافی نے(جن کی دعوت پر ریحام طلاق سے قبل لندن پہنچی تھیں) مذکورہ وکیل کو ریحام خان سے متعارف کروایا۔</p> <p>ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر اسلم نے یہ کیس بلا معاوضہ لیا تھا مگر وہ اسے مہارت سے پیش نہ کر سکے۔</p> <p>اب ریحام خان کسی نئے وکیل کی تلاش میںہے جسے وہ معاوضہ دین گی ۔</p> </section> </body>
0191.xml
<meta> <title>کراچی آپریشن - ایک تاثر</title> <author> <name>عظیم الرحمن عثمانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10682/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1007</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کراچی آپریشن - ایک تاثر
1,007
No
<body> <section> <p>میں حال ہی میں کراچی گیا اور چاہتے نہ چاہتے جاری آپریشن کا تجزیہ کیا. کچھ مشاہدات کئے اور کچھ واقعات سنے. چونکہ میرا یہ سفر مختصر تھا لہٰذا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپریشن کی صداقت کو میں کس درجہ تک جان پایا مگر پھر بھی اپنے احساسات آپ سب سے بانٹنا چاہوں گا.</p> <p>اس بارے میں کوئی دو رائے موجود نہیں ہیں کہ آپریشن کی وجہ سے اس وقت کراچی میں امن و امان کی صورت بہت بہتر ہے. قتل و غارت، ڈاکہ زنی، گینگ وار اور بم دھماکوں جیسی وارداتوں میں واضح کمی آئی ہے. نتیجہ یہ ہے کہ کاروبار رات گئے تک کھلے ہیں اور شہری پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہیں. اس بہتری کا انکار آپریشن کے مخالف بھی نہیں کرتے. گو ان مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی عارضی اور مصنوعی ہے. انہیں خدشہ ہے کہ آپریشن میں اپنائے گئے غلط طریق کی وجہ سے مستقبل قریب میں حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جائیں گے. آپریشن کے حامی یہ دعا کر رہے ہیں کہ بس یہ آپریشن رکے نہیں بلکہ مسلسل سالوں سال چلتا رہے. یہاں تک کے جرائم پیشہ افراد دم توڑ جائیں. اب آپریشن کے مخالفین کے خدشات درست ہیں یا پھر آپریشن کے حامیوں کی خواہش. اس کے بارے میں خامہ سرائی سے زیادہ کچھ اور ممکن نہیں.</p> <p>آپریشن اس وقت تمام جرائم پیشہ گروہوں یا گینگز کے خلاف کسی نہ کسی درجہ میں ہو رہا ہے. مگر یہ سچ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اس آپریشن کا خاص ہدف ایم کیو ایم بنی ہوئی ہے. یہ بات کسی کراچی کے رہائشی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ شہر میں موجود ہر سیاسی تنظیم اپنے ملٹری ونگز رکھتی ہے اور قتل و غارت یا بھتہ خوری جیسے اقدام میں ملوث ہے. ایسے میں صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنانا ، ان کے حامیوں میں غصہ اور تنظیم کے لئے محبت پیدا کر رہی ہے. دوسری اہم بات جو ایم کیو ایم کے حق میں جارہی ہے وہ اس وقت صفائی کی ابتر صورتحال ہے. کراچی شہر شائد اپنی پوری تاریخ میں اتنا مخدوش اور گندا نظر نظر نہیں آیا ہوگا جتنا کہ وہ آج ہے. لہٰذا جہاں شہری امن و امان کی وجہ سے خوش ہیں ، وہاں گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے شدید نالاں بھی ہیں. کوڑے کے ڈھیر ، ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور بے ہنگم ٹریفک .. ہر شہری کو مصطفیٰ کمال کی یاد دلا رہی ہے جس نے ایم کیو ایم کا میئر بن کر اس شہر کو صفائی اور ترقی کا نمونہ بنا دیا تھا. ایم کیو ایم ان ہی دو باتوں کو اب بلدیاتی الیکشن میں نفسیاتی طور پر کیش کروا رہی ہے. اس کی پوری الیکشن کمپین کچھ اس قسم کے بینرز پر مبنی ہے: "مئیر تو اپنا ہی ہونا چایئے!" ... "ووٹ تو اپنوں کو ہی دینا چاہیئے" وغیرہ . لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں کلین سویپ کرے گی.</p> <p>دھیان رہے کہ میں یہاں ایم کیو ایم کا دفاع نہیں کر رہا بلکہ میں خود ان کا شدید ناقد ہوں. لیکن اس وقت مقصد تنقید نہیں بلکہ اپنا دیانتدارانہ مشاہدہ آپ تک پہنچانا ہے. میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ جرائم پیشہ عناصر کی بلاتفریق سرکوبی نہیں کی جارہی بلکہ میں یہ بتا رہا ہوں کہ 'سیاسی' جماعتوں میں آپریشن کا خصوصی ہدف اس وقت ایک ہی جماعت ہے. وہ مجرم جو سیاسی نہیں بلکہ پیشہ ور ہیں، ان سب پر رینجرز موت بن کر منڈلا رہی ہے. جس کے بارے میں رینجرز کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ عادی مجرم یا فسادی ہے تو اسے ماورائے عدالت گولی ماردی جاتی ہے یا نامعلوم مقام پر لے جا کر چھترول ہوتی ہے. کچھ واقعات اختصار سے عرض کر دیتا ہوں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کی زد میں تمام غیر سیاسی حلقے یا قومیں شامل ہے.</p> <p>میرے ایک قریبی دوست کے بتیس سالہ بھائی کو کچھ پٹھان مجرم اغوا برائے تاوان کے لئے اٹھا لے گئے اور بدنام پٹھان علاقے الاصف اسکوائر میں ہاتھ پاؤں باندھ کر قید کر دیا. گھر والو سے تاوان مانگا گیا مگر اسی رات یہ لڑکا ان کے چنگل سے بھاگ نکلا. رینجرز نے اسے اگلے روز بلایا اور شناخت کیلئے کچھ تصاویر دکھائیں. لڑکے نے دو مجرموں کو شناخت کیا مگر اس شرط کیساتھ کے وہ عدالت کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہتا. رینجرز نے جوابی کہا کہ ہم آپ کو عدالت لے جانا بھی نہیں چاہتے ، آپ بس اخبار پڑھتے رہیئے گا. تین دن بعد ان دونوں اغوا کاروں کی لاشوں کی تصویر اخبار میں موجود تھی. میرے ایک قریبی رشتہ دار کے کئی کاروبار ہیں اور انہیں بھتہ کیلئے تین مختلف بلوچ بدمعاشوں کا فون آیا کرتا تھا. رینجرز نے تینوں کو مار ڈالا ہے. میرے بڑے بھائی کے دوست کو اندرون سندھ سے تاوان کی دھمکیاں دی گئیں ، اس نے رینجرز سے رابطہ کیا. کچھ دن بعد رینجرز کا فون آیا کہ ان ڈاکوؤں کو اندرون سندھ میں مار دیا گیا ہے. پھر کوئی فون نہ آیا. میرے ایک ایم کیو ایم سے منسلک اور سابقہ ذمہ دار رشتہ دار نے گلستان جوہر میں ایک تھانہ چوکی دکھا کر بتایا کہ اس کے سارے پولیس والو کو رینجرز اٹھا کر لے جاچکی ہے کیونکہ یہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے تھے.</p> <p>ایسے کتنے ہی واقعات سننے میں آتے رہے، جن میں مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی بھی شامل ہے. جس جس کو رینجرز اٹھا رہی ہے وہ یا تو جرائم پیشہ فسادی ہیں (بلاتفریق) یا پھر کسی پارٹی کے سیاسی ذمہ دار ہیں (زیادہ تر ایم کیو ایم). میری اپنی دیانتدارانہ رائے میں اس آپریشن کو پوری قوت سے اگلے پانچ سے دس سال جاری رہنا چاہیئے مگر اس کا دائرہ دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی تنگ ہونا ضروری ہے جیسے شاہی سید یا پیپلز پارٹی وغیرہ کے بدمعاش. اسی طرح دیگر شہروں میں بھی بلا تفریق کاروائی ہو تاکہ کراچی کو سوتیلے پن کا احساس نہ ہو. دعا یہی ہے کہ الله پاک اس شہر کی رونقوں کو اور دوبالا کریں اور ہر فسادی کو جہنم واصل فرمائیں. آمین.</p> </section> </body>
0192.xml
<meta> <title>روس میں ترک سفارت خانے کے باہر سیکڑوں روسی نوجوانوں کا مظاہرہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10687/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>80</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
روس میں ترک سفارت خانے کے باہر سیکڑوں روسی نوجوانوں کا مظاہرہ
80
No
<body> <section> <p>روس میں ترک سفارتخانے کے باہر مشتعل روسی نوجوانوں نے مظاہرہ کیا، مشتعل مظاہرین نے پتھر برسا کر عمارت کے شیشے توڑ دیئے۔</p> <p>روس اور ترک حکام کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اثر عوام میں بھی منتقل ہونا شروع ہو گیا، ترکی کی جانب سے روسی طیارہ گرانے کے واقعے کے خلاف روسی نوجوانوں نے ترک سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا۔</p> <p>مشتعل مظاہرین نے سفارتخانے کی عمارت پر انڈے، ٹماٹر پھینکے اور پتھراؤ کر کے کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیئے</p> </section> </body>
0193.xml
<meta> <title>مذہبی سیاست بند گلی میں</title> <author> <name>قاری محمد حنیف ڈار</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10689/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1994</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مذہبی سیاست بند گلی میں
1,994
No
<body> <section> <p>میرا یہ تجزیہ معروف دینی تحریکوں کا جزو رھنے ، ان کی آئیڈیالوجی کو دل وجان سے قبول کرنے ، ان کے ھفتہ وار دروسِ قران</p> <p>میں کارکنوں کے جذبات کو گرمانے اور سالوں تک نئے لوگوں کو ان کا رکن بنانے کی سعی کرنے اور پھر اس ساری جدوجہد کے</p> <p>نتیجے کو دیکھ لینے کے بعد باھر سے کسی سیکولر صحافی کا نہیں بلکہ اندر کے ایک بھیدی کا تجزیہ ھے ،جس نے بڑے بڑے بزرگوں کی جلوتوں اور خلوتوں سے استفادہ کیا ،، ان سے سوال وجواب کے ذریعے ان کی مستقبل کی منصوبہ بندیوں کو جانا اور پھر ان کا انجام بھی دیکھا ، پھر بین الاقوامی طور پر بھی ان دینی و مذھبی سیاسی جماعتوں کی مساعی کو دیکھا ان کا لٹریچر پڑھا اور پھر ان کی جدوجہد کو ایک غلط رخ پر جاتے بھی دیکھا ،، لہذا مثالوں میں ان کے متعلق بھی عرض کیا جائے گا.</p> <p>...............................................................</p> <p>ھم نے دین کے متعلق ھمیشہ عملی سے زیادہ جذباتی رویہ اختیار کیا ، اور بند کمروں میں گرین ھاؤس فارمز کی طرح اپنے دروس اور مواعظ سے لے کر محراب و منبر تک ھر جگہ اپنی لفاظی سے وہ منظر باندھ کر دکھایا کہ گویا بس یہ اسلام آیا کہ آیا ۔</p> <p>ھم جونہی اسلام آباد یا کسی بھی ملک کے دارالخلافے میں مسندِ اقتدار تک پہنچیں گے تو خلفاء راشدین کا سا سماں باندھ کر رکھ دیں گے ، پھر اپنی اسلامی تاریخ کے چند گنے واقعات کو پیش کر کے یوں ثابت کیا کہ گویا ھمارا سارا ماضی اسی قسم کے واقعات سے عبارت تھا اور آج دنیا ان مناظر کو دھرانے کے لئے بے قرار ھے ،بس چند لوگ ھیں جو اس کی راہ میں حائل ھیں ، چند حکمران یا پارٹیاں یہ کام نہیں ھونے دے رھیں ورنہ دینے والے ھوتے مگر لینے والا کوئی نہ ھوتا ، وغیرہ وغیرہ</p> <p>ھمارے سامعین اور قارئین دونوں میں یکساں مزاج اور ذھنی صلاحیتوں کے لوگ نہیں ھوتے . کچھ لوگ یو-ٹوپیئے کا شکار ھوتے ھیں جو ھمارے بیان کردہ مناظر کو گویا اپنے تصور میں تصویر کی صورت دیکھ بھی رھے ھوتے ھیں ،خطیب ایسے لوگوں کو ھپناٹائز کر کے جو چاھے کروا لے مگر ایک وقت آتا ھے کہ یہی لوگ اس دینی جماعت کے لئے بوبی ٹریپ اور بارودی سرنگ کا کام کرتے ھیں ، اس کی وجہ یہ ھے کہ جب انہیں بند کمرے میں یہ یقین دلا دیا جاتا ھے کہ باھرجنوری فروری ھے اور شدید سردی پڑھ رھی ھے ان کو عقلی طور پر ڈبل سوئیٹر پہنا دیئے جاتے ھیں .</p> <p>سرد ھواؤں سے بچنے کے لئے کان لپیٹ دیئے جاتے ھیں اور آنکھوں پہ چشمے چڑھا دیئے جاتے ھین ، وہ کارکن اس تصور کو</p> <p>لئے جونہی کمرہ درس سے باھر نکلتا ھے تو اچانک اس کو اگست کی شدید گرمی اور کڑکتی دھوپ کا سامنا کرنا پڑتا ھے ،پھر یہ</p> <p>ھر دن اور ھر ھفتے کی روٹین بن جاتی ھے تو اس کارکن کے اندر اپنے خطیب کے تخیلاتی تخلیق کردہ جنوری فروری کی بجائے باھر کے حقیقی اگست پر غصہ آنا شروع ھو جاتا ھے ،،،،،،،،،، اور یہی وقت اس کارکن کے ایک شدت پسند بننے کے مرحلے کا آغاز ھوتا ھے ،،</p> <p>پروپیگنڈہ ھمیشہ دشمن کے خلاف اور دشمن کے لئے ھوتا ھے، مگر دینی سیاسی جماعتیں ھر الیکشن میں خود اپنے کارکنوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے لئے پروپیگنڈہ کرتی ھیں ،</p> <p>انہیں باھر کے لوگوں کو باور کرانا چاھئے کہ وہ 100 سیٹیں لے جائیں گے ،مگر اپنے کارکنوں کو سچی بات بتا دینی چاھئے کہ تین کی امید بھی مت رکھنا ،، مگر ایسا ھوتا نہیں بلکہ ان کے اپنے کارکن بھی یہی سمجھ لیتے ھیں کہ وہ 100 سیٹیں جیت لیں گے ، وہ جماعت پر دباؤ ڈالتے ھیں کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ منٹ کر کے اپنی ھاتھ آئی ھوئی سیٹ مت گنوائیں اور پھر نتائج ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ھیں جبکہ جذبات بھڑک اٹھتے ھیں۔</p> <p>وہ سمجھتے ھیں کہ یہ معاشرہ ھمارے خلوص واخلاص کا قدردان نہیں ھے ، جو ان سے لیتے نہیں بلکہ ان کے بہتر مستقبل اور ان کو عدل و انصاف فراھم کرنے کے لئے بیویوں کے زیور بیچ کر الیکشن پر خرچ کر دیتے ھیں کہ ان کو کرپشن سے پاک قیادت فراھم کی جائے مگر یہ لوگ کرپٹ لوگوں کو چن لیتے ھیں ، لہذا یہ لوگ بھی اس کرپٹ نظام کے ممد ومعاون اور سزا کے حقدار ھیں ۔</p> <p>آ</p> <p>پ اپنے یہاں کی نہیں بیشتر اسلامی ممالک کی شدت پسند اور دھشت گرد تنظیموں کا بیک گراؤنڈ دیکھ لیں ان کے تانے بانے جا کر مذھبی سیاسی جماعتوں سے ھی جا کر ملتے ھیں ، جوں جوں یہ لوگ الیکشن کے ذریعے اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے ،یہ خود معاشرے کے ھی دشمن بن جاتے ھیں ،</p> <p>پاکستان میں صوفی محمد سمیت کئ لوگ جماعت اسلامی کا حصہ رہ کر دوسری انتہاء کو پہنچ گئے ،</p> <p>مصر کی سلفی تکفیری تحریک جو سارے لوگوں کو اسلام کی راہ میں روڑا سمجھ کر کافر اور واجب القتل تصور کرتی ھے ، سوائے ان کے کہ جو اس کے رکن ھیں ۔ یہ بھی وھاں اخوان المسلمون کے اندر سے ھی الگ ھوا ایک دھڑا ھے ،</p> <p>الجزائر میں جب الیکشن جیت کر بھی وھاں کی جماعت اسلامی کو اقتدار سے الگ رکھا گیا تو اس کی سیاسی قیادت تو جیل چلی گئ اور پارٹی کو سخت گیر کارکنوں نے ھائی جیک کر لیا اور پوری پارٹی کو دھشت گرد بنا دیا ،</p> <p>یہ لوگ اس قدر انسانیت دشمن تھے کہ جس گھر میں داخل ھوتے نہ 90 سال کی دادی کو زندہ چھوڑتے نہ پوتی اور پڑپوتی کو ،، جب وہ اس گھر سے نکلتے تو کوئی سانس لینے والا اس گھر میں باقی نہیں ھوتا تھا ،،</p> <p>یہ حال تو ان تنظیموں اور جماعتوں کا ھے جو اقتدار تک نہیں پہنچیں ، جو پہنچ گئیں وہ اپنے وعدوں کے مطابق وہ کر کے نہ دکھا سکیں جس کے خواب وہ دھائیوں تک لوگوں کو دکھاتے رھے تھے ، اس کی وجہ یہ ھے کہ جب تک پارٹی پارلیامنٹ میں نہیں پہنچتی تب تک اس کو اپنی شوری یا پولٹ بیورو یا سنٹرل ورکنگ کمیٹی چلاتی ھے ،لیکن جب وہ حکومت بناتی ھے تو اسے اپنی پارٹی شوری کی بجائے ملکی شوری کے مشورے پر چلنا پڑتا ھے کہ کس پالیسی کے تحت قرضے ملیں گے ،ورنہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا ،، اور سب کچھ چوپٹ ھو جائے گا ، ایسی پارٹی نہ ادھر کی رھتی ھے اور نہ اُدھر کی ،</p> <p>وزیرِ اعظم جب اپنی پارٹی کی شوری میں شریک ھوتا ھے تو وھاں کی فضا اور مشورے پارٹی لیول کے ہی ھوتے ھیں ،وہاں یہ مشورہ دیا جاتا ھے کہ آپ کو کوئی کمپرومائز نہیں کرنا، آپ نے کوئی قرضہ نہیں لینا ورنہ پارٹی اگلے الیکشن میں کیا منہ دکھائے گی ،، آپ پارٹی سے دشمنی کر رھے ھیں جس نے آپ کو اقتدار تک پہنچایا ،الغرض وہ صدر ھو یا وزیرِ اعظم ایک کنفیوز شخص بن کر رہ جاتا ھے ، نہ پارٹی کے کام کا اور نہ حکومت کے کام کا ،</p> <p>محمد مرسی کو پارٹی نے مروایا ھے وہ بس پارٹی کا صدر بن کر ملک چلا رھا تھا نہ کہ مصر کا صدر بن کر ،، نتیجہ سب کے سامنے ھے ،،</p> <p>اللہ کے رسول ﷺ نے غزوہ خندق میں یہودی قبائل کو مدینے کی آدھی فصل دینے کی پیش کش کی تھی اگر وہ مشرکین کے لشکر سے الگ ھو جائیں اور مدینے کے حلیف کے طور پر کئے گئے معاھدوں کی پابندی کریں ،، یہ ایک کمپرومائز تھا ،، جب ملک چلانا ھو تو آئیڈیالوجی کو اپنی جگہ رکھتے ھوئے ، موجود وسائل کی بنیاد پر حقیقت پسند پالیسی اپنانی پڑتی ھے ،</p> <p>ھمارا آئیڈیل پجیرو اور کروزر ھو سکتی ھے مگر ھم گاڑی وھی لے سکتے ھیں جس کو خریدنے کے پیسے ھماری جیب میں ھوتے ھیں ، مگر اسلامی جماعتیں اپنے دروس اور مواعظ ،اپنی تربیت گاھوں مین اتنی افیم کھلا چکی ھوتی ھیں کہ اپنے کارکن کے ذہن میں مسلمانوں کے حسین اور شاداب سنہرے ماضی کے اتنے سبز باغ دکھا چکی ھوتی ھیں کہ اب وہ اس ٹرانس سے باھر آنے اور کوئی کمپرومائز کرنے کا تیار ھی نہیں ھوتا</p> <p>ھماری تربیت گاھوں میں وھی ھوتا ھے جو پہاڑوں کی کھوہ میں فدائی تیار کرتے وقت ھوتا ھے ، ھم اپنے ماضی کو اتنا حسین اور</p> <p>جو ان بنا کر پیش کرتے ھیں کہ بوڑھے بھی عاشق ھو جاتے ھیں ،</p> <p>حقیقت یہ ھے کہ ابتدائی پچاس ، ساٹھ سال کو چھوڑ کر 1400 سال کی ھماری نام نہاد اسلامی خلافتیں جو کہ اصل میں بس سلطنتیں تھیں ،، اس سے 360 ڈگری مختلف اور بھیانک تھیں کہ جس کا نقشہ آج ھم کھینچ کر نوجوان کو پاگل بنا دیتے ھیں ،اور جب وہ نقشہ جائز اور قانونی ذرائع سے خود بنا کر دینے میں ناکام ھو جاتے ھیں ، تو وہ جو ان اسے بزورِ بازو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے ، اور یوں دھشت گردوں کے ھاتھ بک جاتا ھے ،،</p> <p>ھماری مذھبی سیاست کرنے والی دینی جماعتوں کے ھر الیکشن کے نتائج کے بعد بہت سارے لوگ دھشت گرد تنظیموں کے سہولت کار بن جاتے ھیں ، یہ بالکل وھی منظر ھے جب سالانہ امتحانات کے نتائج کے بعد نہروں کے پلوں پر پولیس کا پہرہ لگ جاتا</p> <p>ھے</p> <p>کیونکہ ناکام طلباء کے خودکشی کرنے کا سیزن ھوتا ھے</p> <p>،گویا ھماری سیاست کرنے والی مذھبی جماعتیں نادانستگی میں دھشت گردوں کے ھمدرد پیدا کرنے والی فیکٹریاں بن چکی ھیں ، ان کا ھر الیکشن پاکستان کے عوام کے خلاف دھشت گردوں کی طرف سے تمام حجت کا کام کرتا ھے کہ دیکھ لو ووٹ کے ذریعے وہ اسلام کبھی نہیں آ سکتا جس کا خواب تمہیں ساٹھ سال سے دکھایا جا رھا ھے ،لہذا آؤ ھماری طرف اگر وہ دین نافذ کرنا ھے کیونکہ یہ کام تلوار سے ھی ھوتا آیا ھے اور اب بھی تلوار کے ذریعے ھی ھو گا ،،</p> <p>دینی سیاسی جماعتیں آج بند گلی میں پہنچ چکی ھیں - وہ اپنے کارکنوں کو اپنی صحیح اور سچی تاریخ پڑھاتے ھیں تو وہ رومانس ھی ختم ھو جاتا ھے کہ جس کی بنیاد پر یہ گھر بسایا گیا تھا ،یہ جماعت بنائی گئ تھی ،اور اگر اپنی یہ روش جاری رکھتی ھیں تو ھر الکیشن کے بعد دھشت گردوں کے ھاتھ مضبوط ھوتے ھیں اور ان کا سیاسی مقدمہ کمزور پڑ جاتا ھے اب وہ کریں تو کیا کریں ،سیاسی طور پر وہ کچھ کر کے دکھا نہیں سکے ،، اور تلوار کے ذریعے نفاذ کے وہ بظاھر قائل نہیں یہی وہ مخمصہ ھے کہ جس میں وہ ھمیشہ فوج یعنی سرکاری تلوار کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی سازش کرتے رھے اور فوج ان کو استعمال کر کے حکومت کرتی رھی ،یہی وجہ ھے کہ فوج بھی آج نشانے پر ھے ۔</p> <p>دینی جماعتوں کو اپنے کام کی طرف توجہ دینی چاھئے اور معاشرے کی اصلاح کا کام کرنا چاھئے ، جو کہ نبیوں کا فرضِ منصبی تھا ، چند نبیوں کے سوا کبھی کسی نے حکومت نہیں کی ،، نوح علیہ السلام کی زندگی سب کے سامنے ھے اور زکریا و یحی علیہ السلام کی بھی ،، دین کی خدمت دین سمجھ کر کیجئے ، اور انسانیت کی خدمت بھی انسان سمجھ کر کیجئے ، صلے کو قیامت پہ چھوڑ دیجئے تا کہ آپ کا کیڈر مایوسی کا شکار نہ ھو اور دھشت گردی کی طرف مائل نہ ھو ، اپنی فلاحی سعی کو ھر د وچار سال بعد الیکشن میں کیش کرانے کی کوشش مت کیجئے۔</p> <p>آپ اس عمل کو خیر باد کہہ دیں ،معاشرے کیے تزکیئے کی کوشش کیجئے ، حکومت بدلنے کی نسبت لوگوں کو بدلنا آسان ھے۔ انسان سازی کیجئے ۔ تبدیلی کو گھروں اور محلوں سے شروع کیجئے ،مگر اس سب میں اھم نکتہ یہ ھے کہ دو چار سال بعد کشکول لے کر ان کے در پہ سوالی بن کر مت جایئے کہ وہ آپ کی کھلائی گئ روٹی کا عوض آپ کو عطا کر دیں ،</p> <p>اس دنیا میں انسان خدا کو صلہ نہیں دیتا آپ کو کوئی کیا دے گا ۔</p> </section> </body>
0194.xml
<meta> <title>جاپان:ننھے بچوں کے درمیان گھٹنوں کے بَل چلنے کا دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10699/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>121</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جاپان:ننھے بچوں کے درمیان گھٹنوں کے بَل چلنے کا دنیا کا سب سے بڑا مقابلہ
121
No
<body> <section> <p>جاپان کے شہر یوکوہامامیں ننھے بچوں کا گھٹنوں کے بَل دوڑنے کےدنیا کے سب سے بڑے اور منفرد مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔</p> <p>6 سے 9 ماہ کی عمر تک کے 601 بچوں نے اس منفردمقابلے میں اپنے والدین کے ہمراہ شرکت کی اور اس ریس میں تین میٹر کا فاصلہ تیزی سے گھٹنوں کے بَل دوڑتے ہوئے کیا اور ورلڈ ریکارڈ بکس میں اپنا نا م شامل کر والیا ۔</p> <p>مقامی شاپنگ سینٹر میں منعقد کی گئی ریس شروع ہو تے ہی جہاں کچھ والدین اپنے بچوں کو ریسنگ ٹریک پر ان کے پسندیدہ کھلونے دکھا کر تیز رفتارسے گھٹنے کے بَل چلنے پر اکساتے نظر آئے وہیں کچھ خود بھی بچوں کیساتھ بچے بنے ان کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دئیے</p> </section> </body>
0195.xml
<meta> <title>14 سالہ لڑکے کا صرف 4 سیکنڈز میں ریوبک کیوب حل کرنےکا ریکارڈ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10705/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>118</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
14 سالہ لڑکے کا صرف 4 سیکنڈز میں ریوبک کیوب حل کرنےکا ریکارڈ
118
Yes
<body> <section> <p>ریوبکس کیوب حل کرنے میں ذہین سے ذہین افراد بھی اکثر مات کھا جاتے ہیں لیکن امریکی ریاست میری لینڈ <annotation lang="en">( Maryland )</annotation> میں منعقدہ ایک مقابلے میں چودہ سالہ لوکس ایٹر <annotation lang="en">( Lucas Etter )</annotation> نا می لڑکے نے صرف چار اعشاریہ نوے سیکنڈ زمیں ریوبک کیوب حل کر کے نیا عالمی ریکارڈ اپنے نا م کر لیا ہے ۔</p> <p>لوکس ایٹر اس فن میں اس قدر ماہر ہے کہ صرف چار سیکنڈز میں ہی حل کر کے ریونک کیوب پیش کر دیتا ہے۔</p> <p>اپنی اس مہارت کو دیکھتے ہوئے یہ لڑکا ریوبک کیوب حل کرنے کے مقابلے میں اکثر وبیشتر شرکت کر تا ہے تاکہ وہ اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ بڑے پیمانے پر کر سکے</p> </section> </body>
0196.xml
<meta> <title>روسی وزیراعظم نے ترک روس مشترکہ منصوبے ختم کرنے کا اشارہ دےدیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10709/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>134</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
روسی وزیراعظم نے ترک روس مشترکہ منصوبے ختم کرنے کا اشارہ دےدیا
134
No
<body> <section> <p>ترکی کی جانب سے روسی طیارہ گرائے جانے پر پیدا ہونیوالی کشیدگی تاحال برقرار ہے،روسی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ترکی اور روس کے مشترکہ منصوبے ختم کیے جا سکتے ہیں ،ترک کمپنیوں کے ہاتھ سے روسی مارکیٹ بھی نکل سکتی ہے۔</p> <p>شامی سرحد کے نزدیک ترکی کی جانب سے روسی جنگی طیارہ گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار ہے،روسی وزیراعظم نے ترکی اور روس کے مشترکہ منصوبے ختم کیے جا نے کا اشارہ دے دیا۔</p> <p>روسی وزیراعظم دمتری میدیدوف کا کہنا ہے کہ ترکی اور روس کے مشترکہ منصوبے ختم کیے جا سکتے ہیں اور ترک کمپنیوں کے ہاتھ سے روسی مارکیٹ نکل سکتی ہے ۔</p> <p>گزشتہ روز ترکی نے شامی سرحد کے نزدیک روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھا،جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی آ گئی ہے</p> </section> </body>
0197.xml
<meta> <title>سعودی عرب میں تیز بارش،طائف میں سیلابی صورت حال</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10712/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>216</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سعودی عرب میں تیز بارش،طائف میں سیلابی صورت حال
216
No
<body> <section> <p>سعودی عرب کے مختلف شہروں میں بارش کا سلسلہ جاری ہے ، قصیم بریدہ میں جدہ کے بعد سب سے زیادہ بارش 104 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے، جہاں گزشتہ 36 گھنٹوں سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔</p> <p>دار لحکومت ریاض میں گزشتہ رات سے بارش کا سلسلہ جاری ہے،اور ابتک 25 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ تمام انڈ ر پاس ٹریفک کے لیے بند کر دیے گیے ہیں، مخرج نمبر 33 ، 34 کی سڑکیں بھی زیر آب آ گئی ہیں۔</p> <p>ادھر ریاض ریجن کے شہروں وادی لبن ، شقراء ،المزاحمیہ ،المجمہ اور الدوادی میں بارش اور تیز ہواؤں کے بعد سڑکیں زیر آب آنے سےکئی درخت اکھڑ گئے جبکہبل بورڈز سڑکوں پر آ گرے ہیں،جس کے باعث درجنوں گاڑیاںپھنس گئیں،کئی عمارتوں میں بارش کا پانی داخل ہو گیا۔</p> <p>صورتحال پر قابو پانے کے لیے محکمہ شہری دفاع ،ٹریفک پولیس،بلدیاتی ادارے متحرک ہو گے ہیں۔دفتروں میں حاضری کم رہی اور تعلیمی سرگرمیاں بھی معطلہوگئی ہیں۔</p> <p>دوسری جانب طا ئف میں وادی حنیفہاورالرکیہ میں بارش سےسیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ بارشوں کے بعدمکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ،جدہ سمیت مختلف شہروں میں موسم یکسر تبدیل ہو گیا ہے اور کافی ٹھنڈی ہو گئی ہے، بدھ کومکہ میں درجہ حرارت 29 ،جدہ 30 ،مدینہ اور طائف 14 اورریاض میں 17 ریکارڈ کیا گیا</p> </section> </body>
0198.xml
<meta> <title>ترکی میں کاسا 1000 منصوبے کے معاہدے پر دستخط</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10715/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>94</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ترکی میں کاسا 1000 منصوبے کے معاہدے پر دستخط
94
No
<body> <section> <p>کاسا 1000 منصوبے کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے, معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب ترکی میں ہوئی پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے کی۔</p> <p>ترجمان وزارت پانی وبجلی کی طرف سے جاری بیان میں کہاگیا کہ کرغستان ، تاجکستان ،افغانستان اور پاکستان کے وزرائے توانائی نے کاسا 1000 منصوبے کے معاہدے پر دستخط کیے۔</p> <p>کاسا منصوبے کے تحت ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کا آغاز مئی 2016 میں ہوگا، کاسامنصوبے کے تحت 1300 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائیگی، 1000 میگاواٹ بجلی پاکستان جبکہ 300 میگا واٹ بجلی افغانستان حاصل کریگا</p> </section> </body>
0199.xml
<meta> <title>"وہ" تک مجھ جوکو رسائی نصیب نہیں</title> <author> <name>نصرت جاوید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10718/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1082</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
"وہ" تک مجھ جوکو رسائی نصیب نہیں
1,082
Yes
<body> <section> <p>صرف اخباروں یا ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو جانچنے کی کوشش کریں تو ایک جماعت ہوا کرتی تھی پاکستان پیپلز پارٹی۔ 2013ء کے انتخابات تک اسے "چاروں صوبوں کی زنجیر" بھی کہا جاتا تھا۔ اس سال مئی میں ہوئے انتخابات کے نتائج آئے تو خبر ملی کہ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی جماعت جس کا بانی جنرل ضیاء کے ہاتھوں پھانسی چڑھا اور جس کی بیٹی راولپنڈی میں قتل ہوئی، اب صرف دیہی سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔</p> <p>پیپلز پارٹی سے غلط یا صحیح وجوہات کی بناء پر بے پناہ نفرت کرنے والوں کو اس جماعت کے ایسے "انجام" سے مطمئن ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس جماعت کی "گڈ گورننس" کا عالم یہی رہا تو 2018ء کے انتخابات کے بعد اس جماعت کا اندرونِ سندھ میں بھی کوئی نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔ گڑھی خدا بخش میں صرف بھٹو اور بے نظیر کی قبریں باقی رہ جائیں گی اور شاید عام دنوں میں وہاں اتنے ہی لوگ فاتحہ کرتے دکھائی دیں گے جتنے اسلام آباد میں فیصل مسجد کے احاطے میں فاتح افغانستان غازی ضیاء الحق شہید کی قبر پر ان دنوں نظر آتے ہیں۔</p> <p>اپنے تعصبات سے نجات پاکر مستقبل پر نظر رکھنا مگر ہم لوگوں کے لئے بہت مشکل ہے۔ تخت یا تختہ کے جنون میں مبتلا ہمارے ذہن اپنے دشمن کے مکمل خاتمے تک مطمئن نہیں ہوتے۔</p> <p>خدا عمر دراز کرے ذوالفقار مرزا کی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران اپنی ضد، لگن اور جرأت کردار اور گفتار وغیرہ کی بدولت ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ میڈیا کی حد تک موصوف فاتح بدین ٹھہرے۔ بدین مگر ایک ساحلی شہر ہے۔ جرأت وبہادری کے اس فرزندِ سندھ کو اب ٹی وی سکرینوں پر عقل کل نظر آنے والے اینکر خواتین وحضرات نے ایک نئی جماعت بنانے پر مجبور کردینا ہے۔ سنا ہے موصوف کے ہونہار فرزندِ ارجمند پیپلز پارٹی سے ملی صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے استعفیٰ دے دیا تو وہاں کروانا پڑے گا ضمنی انتخاب۔</p> <p>اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ کو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے جیت کر موصوف سندھ اسمبلی میں لوٹ آئے تو ابھی تک اپنی صفائیاں دینے کے لئے اکثر دوبئی کے پھیرے لگانے والے پیپلز پارٹی کے چند نامی گرامی وڈیرے پھر شاید آصف علی زرداری کے فون بھی نہیں سناکریں گے۔ 21 کے قریب افراد ٹارگٹ پر ہیں۔</p> <p>منصوبہ یہ ہے کہ مارچ 2016ء کے اختتام تک یہ سب یک جا ہو کر "بھٹو اور بے نظیر کی جماعت کے احیائ" کے نام پر "زرداری لیگ" کی کرپشن کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیں۔ صوبائی رہ نمائوں کی اتنی بڑی تعداد جرأت وبہادری کے تازہ ایڈیشن یعنی ذوالفقار مرزا کی دبنگ قیادت تلے یکجا ہو گئی تو شاید قائم علی شاہ اپنی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کرنے پر مجبورہوجائیں۔ وہ مجبور کردئیے گئے تو صوبائی اسمبلی کے لئے نئے انتخابات کروانا پڑیں گے۔ ذوالفقار مرزا کی نئی جماعت سندھ کے اصلی اور وڈے پیر پگاڑا کی جماعت کے ساتھ مل کر مجوزہ انتخابات میں مشترکہ امیدوار کھڑے کرے گی۔</p> <p>منصوبہ سازوں کو یقین ہے کہ اگر ایسی صورت بن گئی تو دیہی سندھ کے چند حلقوں میں شاید پیپلز پارٹی کو امیدوار بھی نہ ملیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کاجواب مجھے منصوبہ سازوں کے حقیقی یا اپنے تئیں ترجمان بنے حضرات ابھی تک فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت رعونت کے ساتھ مجھے یاد بس یہ دلایا جاتا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں بالآخر منظر وہی بن جاتا ہے جو "وہ" چاہتے ہیں۔</p> <p>"وہ" تک مجھے رسائی نصیب نہیں۔ اپنے گھر میں اکیلے بیٹھا <annotation lang="en">What Next</annotation> والے بیہودہ سوالات اٹھاتا رہتا ہوں جن کے جوابات نہیں مل پاتے۔ اپنی کوتاہ فہمی پر ندامت ہوتی ہے۔ میرے بے پیر من میں اکثر یہ خواہش مچل اٹھتی ہے کہ عصر حاضر کا کوئی عارف مل جائے۔ اس کے ہاتھ پر بیعت کروں اور کشفِ عارف سے بھیک مجھے کچھ سوالوں کے جواب کی صورت یوں عطا ہو جیسے کچھ سوالوں کے بارے میں گوگل کا سرچ بٹن دباکر میسر ہوتی ہے۔</p> <p>کسی عارفِ عصر کی شفقت سے محروم میرا بھٹکا اور پریشان ذہن ان دنوں بس سوچ رہا ہے تو صرف اتنا کہ ذوالفقار مرزا کی صورت دیہی سندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا کرنے والا تو دریافت ہو چکا ہے۔ مگر "شہری سندھ" کا کیا ہوگا۔ وہاں ایک جماعت ہوتی ہے نام ہے جس کا ایم کیو ایم۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی اس میں سے "ذوالفقار مرزا" نکالنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئی تھیں۔ بالآخر مناظرِ عام پر آئے آفاق احمد اور عامر خان۔</p> <p>ایک نہیں دو "ذوالفقار مرزا" باغیوں نے رونق لگائی تو ایم کیو ایم والوں نے 1993ء میں قومی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ منصوبہ سازوں کی تسلی کا بندوبست ہو گیا مگر اچانک کسی کو خیال آیا کہ ایم کیو ایم کو مین سٹریم سیاست سے باہر کر دیا گیا تو قومی سلامتی کے لئے طویل المدتی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک صاحب ہوا کرتے ہیں امان۔ وہ کراچی میں کسی قومی سلامتی کے ادارے سے وابستہ تھے۔ انہیں حکم ہوا کہ ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔ شاید ان کی ایسی ہنر مندی کے باعث ہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اسلام آباد والے گھر میںقائم دفتر کی سربراہی سنبھالنے پر قائل کر دیا۔</p> <p>آفاق بھائی ان دنوں ٹی وی ٹاک شوز میں اکثر اپنے خیالات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ "مہاجر کاز" سے اپنی وابستگی کی وجہ سے لیکن نشانہ جماعتِ اسلامی اور عمران خان کو بنائے ہوئے ہیں۔</p> <p>ہوتا دراصل یوں ہے کہ اپنی جماعت سے کئی برس کی رفاقت کے بعد جرأت وبہادری کی علامت بنے افراد کو اپنی "دیانت" ثابت کرنے کے لئے <annotation lang="en">Hard Line</annotation> لینا پڑتی ہے۔</p> <p>اپنی بات سمجھانے کے لئے بھارتی پنجاب کا حوالہ دینے پر مجبور ہوں۔ یہ حوالہ دینے کی وجہ سے میرے ایمان پر خداراشبہ نہ کیجئے گا جو ویسے بھی کافی کمزور ہے اور گھبرائے ہوئے رہتا ہے۔</p> <p>خیر بھارتی پنجاب پر کسی زمانے میں اکالی دل کا راج ہوا کرتا تھا۔ اس کا توڑ نکالنے کے لئے گیانی ذیل سنگھ نے مجبور کیا اندرا گاندھی کو کہ سرپرستی کی جائے جرأت وبہادری کے ایک پیکر سنت جرنیل سنگھ بھنڈ رانوالہ کی۔ اس کے سرپر ہاتھ رکھا گیا تو بالآخر جٹ وحشی ہو گیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ حال کی طرف لوٹتے ہوئے میں تو صرف اپنے سندھ میں نئے "جرنیل سنگھ" ابھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔</p> <p>بشکریہ:نوائے وقت</p> </section> </body>
0200.xml
<meta> <title>حسینہ واجد کے ایوارڈ</title> <author> <name>خورشید ندیم</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2015</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/10724/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1312</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
حسینہ واجد کے ایوارڈ
1,312
Yes
<body> <section> <p>شیخ مجیب الرحمٰن کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ انہیں پاکستان کی فوج نے نہیں، بنگالیوں نے مار ڈالا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حسینہ واجد بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر پاؤں رکھتی، اسی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ کوئی جذبہ، مثبت ہو یا منفی، حدود سے تجاوز کر جائے تو آ دمی خود اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔</p> <p>پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا!</p> <p>آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے</p> <p>قیادت کے باب میں، برصغیر کے عوام بہت بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہر نئے آنے والے پہلے سے بدتر۔ بھارت نہرو سے مودی تک آپہنچا، پاکستان، قائد اعظم سے آصف زرداری تک اور بنگلہ دیش مجیب الرحمٰن سے حسینہ واجد تک۔ ماضی کے اسیر پست نظر لوگ جو ذات اور تعصبات سے اوپر اٹھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ یوں خود برباد ہوتے ہیں اور عوام کو بھی برباد کرتے ہیں۔ ساری دنیا ماضی کو خیرباد کہتے ہوئے، مستقبل میں چھپے امکانات کی تلاش میں ہے۔ اس خطے پر ایسا آسیب کا سایہ ہے کہ کوئی ستر سال پہلے کے حادثے کو رو رہا ہے اور کوئی 1971ء سے آگے نہیں بڑھ سکا۔</p> <p>حسینہ واجد کا مرض سنگین تر ہے۔ 1974ء کے سہ فریقی معاہدے سے سب واقف ہیں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے طے کر لیا تھا کہ گڑے مردے نہیں اکھاڑے جائیں گے۔ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف دیکھا جا ئے گا۔ حسینہ واجد نے مگر اِس سے انحراف کیا۔ 2009ء میں انتقامی عمل کا آغاز کر دیا۔ شمشاد احمد اور سلمان بشیر جیسے سفارت کار اور احمر بلال صوفی جیسے قانون دان واضح کر رہے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہی نہیں، عدالتی کارروائی کے بارے میں بھی عالمی تنظیمیں یہ کہہ چکیں کہ ایک ڈرامہ ہے جو عدالت کے ایوانوں میں رچایا جا رہا ہے۔ سکرپٹ میں پہلے سے لکھا ہے کہ کسے سزا ہونی ہے۔ اس کارروائی کا اصل ہدف جماعت اسلامی ہے۔ جماعت نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر غلام اعظم سے لے کر علی احسان محمد مجاہد تک، لوگوں نے اس کی قیمت ادا کی۔ اب صلاح الدین قادر چوہدری بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔</p> <p>اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ "جنگی جرائم" کے خلاف مقدمات بنگلہ دیشی عوام کی خواہش ہے۔ وہ نسل اب کم و بیش ختم ہو چکی جو 1970ء کے واقعات کی گواہ ہے۔ اب معاملات اس نسل کو منتقل ہو چکے جو اس کے بعد پروان چڑھی۔ اس کے لیے یہ واقعات ماضی کی ایک داستان ہیں، ذاتی تجربہ نہیں۔ پاکستان سے انہیں کوئی خاص محبت ہے' نہ نفرت۔ مجھے جب ایک بار بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں کے بازاروں میں جا کر بطور خاص اس بات کو سمجھنا چاہاکہ ایک عام آ دمی کا برتاؤ ایک پاکستانی کے ساتھ کیسا ہے۔ میرے ساتھ ملائشیا سے آئی ہوئی ایک مسلمان خاتون بھی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہاں کا دکان دار اور عام شہری دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے ہم غیر ملکی گاہک تھے۔ نہ مجھے پاکستانی سمجھتے ہوئے کسی التفات کا مظاہرہ کیا گیا' نہ نفرت کا مستحق سمجھا گیا۔</p> <p>میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز احمد بنگلہ دیش کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ وہاں کے دینی مدارس اور اسلامی تحریکوں پر ان کی تحقیق بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں کے ان گنت سفر کر چکے اور اس کے تمام اہم شہروں اور قابل ذکر قصبوں میں جا چکے ہیں۔ ان کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے 'ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا'۔ ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مجھے وہاں کی کوئی خاص بات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ فلاں محلے میں 'بابو کی بریانی' ملتی ہے جو شہر بھر میں مشہور ہے۔ تم اس دکان پر ضرور جانا۔ اس بریانی کا آغاز کراچی سے ہوا اور پھر اس کے ماہر ڈھاکہ منتقل ہو گئے۔ میں وہاں گیا۔ بریانی کھائی۔ اچھی لگی' مگر پاکستان کی کوئی خوشبو نہ آئی۔ میں نے وہاں بیٹھے آ دمی کو اپنا تعارف کرایا تو اس کی آنکھوں میں آشنائی کی کوئی چمک نہیں دیکھی۔ اسی طرح نفرت بھی نہیں تھی۔ دونوں جذبوں کا اگر میں تقابل کروں تو شاید محبت کا پلڑا بھاری ہو۔کہنا مجھے یہ ہے کہ حسینہ واجد کے دل میں پلنے والی نفرت کو عوامی جذبات سے کوئی غذا نہیں ملی۔</p> <p>یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جماعت اسلامی آج بنگلہ دیش کی ایک بڑی جماعت ہے۔ وہاں کی پارلیمان کا حصہ رہی اور اس کے افراد کابینہ میں بھی رہے۔ بنگلہ دیش پر اس کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسری جماعت کا۔ وہ متحدہ پاکستان کی حامی تھی لیکن جب یہ حادثہ ہو گیا تو اس نے اپنی توانائیاں بنگلہ دیش کو ایک جمہوری اور اسلامی ریاست بنا نے کے لیے وقف کر دیں۔ جمہوریت کے لیے اس کی جدوجہد اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اپنے تصورِ ریاست کو بالجبر عوام پر مسلط نہیں کرنا چاہتی۔ وہ قومی دھارے میں ہمیشہ شامل رہی اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت کے ساتھ اس نے اتحاد بھی بنایا' جو وہاں کی دوسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ یوں حسینہ واجد یہ سزا غیر ملکیوں کو نہیں، بنگلہ دیش کے شہریوں کو دے رہی ہیں۔</p> <p>حسینہ واجد کا انتقامی جوش بنگلہ دیش کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ دنیا کو اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوتوں کا راستہ جب بالجبر روکا جاتا ہے تو اس سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ آج اگر مشرقِ وسطیٰ میں داعش اور کل القاعدہ جیسی تنظیموں نے جنم لیا تو اس کا ایک بڑا سبب عوام کے جمہوری حقوق کی پامالی بھی تھا۔ مصر میں تیس سال حسنی مبارک مسلط رہے۔ جب اتنے عرصے بعد عوام نے اپنا فیصلہ سنایا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ عوام کا قتلِ عام ہوا اور پھر ایک نئی فوجی آمریت مسلط ہو گئی۔ شام پر بشارالاسد کا خاندان اکثریت کی تائید سے محروم سالوں سے اقتدار پر قابض ہے۔ باپ نے صرف اپنے اقتدار کے لیے فروری 1982ء میں اپنے بھائی کے ہاتھوں حماۃ شہر کو تاراج کر وایا اور چالیس ہزار افراد کو مار ڈالا۔ کوئی اس کی تفصیل جاننا چاہتا ہے تو آج بھی وکی پیڈیا پر <annotation lang="en">Hama massacre</annotation> کے عنوان سے یہ خوں چکاں داستان پڑھ سکتا ہے۔ بیٹے نے چار سالوں میں ساڑھے تین لاکھ شامیوں کو مروا دیا مگر اقتدار نہیں چھوڑا۔ اگر عوام کے جمہوری حقوق اس طرح پامال ہوں گے تو اس کا نتیجہ داعش یا القاعدہ کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ اگر دنیا چاہتی ہے کہ جنوبی ایشیا، خاکم بدہن مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ پیش نہ کرے تو اسے حسینہ واجد اور مودی جیسو ںسے اعلانِ برات کرنا ہوگا۔ جو جمہوریت کے نہ ہونے اور انسانی حقوق کی پامالی پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، کیا وہ مصر اور بنگلہ دیش کی طرف نگاہ اٹھائیں گے؟ اگر نہیں' تو جان لیں کہ داعش کے خلاف ان کی حکمتِ عملی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔</p> <p>پاکستا ن میں لوگ مضطرب ہیں۔ یہ قابلِ فہم ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب جو بھی تھے، یہ ہے تو ایک زخم جو ہمارے دل پر لگا۔ کون ہے جو اپنے ملک کو دو لخت دیکھ سکتا ہے؟ قربانی صرف جماعت اسلامی نے دی لیکن یہ دکھ تو سب کا ہے۔ جماعت کے لوگوں نے پاکستان کا مقدمہ لڑا۔ قوم اِس کو ووٹ نہ دے، لیکن اس کے تاریخی کردار کی تحسین تو کرے۔ بھارت کے اہلِ دانش نے، ریاست کے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے، مودی سرکار کے خلاف اپنے احتجاج کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔</p> <p>پاکستان کے کچھ دانش وروں کو بھی حسینہ واجد نے ایوارڈ دیے تھے۔ کیا وہ اُن کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، یہ ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کریں گے؟ یہ جماعت اسلامی نہیں، متحدہ پاکستان کا مقدمہ ہے۔ یہ انسانی حقوق کا مقدمہ ہے</p> <p>۔</p> <p>بشکریہ:روزنامہ دنیا</p> </section> </body>