file_id
stringlengths
8
8
metadata
stringlengths
415
808
title
stringlengths
4
145
num-words
int64
0
36.2k
contains-non-urdu-languages
stringclasses
2 values
document_body
stringlengths
41
200k
5501.xml
<meta> <title>ڈونلڈ ٹرمپ، مذہبی جماعتیں اور گالیاں</title> <author> <name>سید انور محمود</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27812/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1306</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ڈونلڈ ٹرمپ، مذہبی جماعتیں اور گالیاں
1,306
No
<body> <section> <p>ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں اور انکے ممبران آجکل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے سیاست سیکھنے کی پوری پوری کوشش کررہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ پوپ کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب کا، دوسری باتوں کے علاوہ وہ اختلاف کرنےوالی خواتین کےساتھ کھلے عام بہت ہی نامناسب رویہ اوربہت ہی بے ہودہ کلمات جو کسی غنڈئے بدماش کے منہ سے ہی ادا ہوتے ہیں وہ ٹرمپ کےریکارڈ کا حصہ ہیں۔ہمارئے پاس بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں اور شاید پاکستان کی آئندہ سیاست کی بنیاد ہیں۔ پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں نے اتوار 27 مارچ 2016 کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہاوس کی طرف مارچ شروع کیا۔ مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیا، اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت تھی۔ شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا ان کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں تھی۔</p> <p>اگر وہ بات غلط نہیں تھی تو یقیناً 10 جون کو ایک نیوز چینل جو نیوز ون کہلاتا ہے اس کے ایک پروگرام میں ہونے والے بےہودہ واقعے پر جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پاکستان کی ممتاز کالم نگار اور انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد کے ساتھ جو برتاو انکی پارٹی کے ایک ممبر حافظ حمد اللہ جو سینیٹربھی ہے نےکیا ہے، اس کو یہ کہہ کر ختم کردینگے کہ حافظ صاحب ذرا گرم دماغ کے ہیں ، اسلام سے بہت محبت کرتے ہیں اور قبایلی روایت کے زبردست حامی ہیں، لہذا جلد غصہ آجانا قدرتی بات ہے، غلطی تو اس عورت کی ہے جو حافظ صاحب سے زبان چلارہی تھی، حالانکہ حافظ صاحب نے کہا بھی تھا کہ بیوی ہے بیوی بن، شوہر نہ بن۔ یہ وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کے دھرنے میں شریک ہونے والی خواتین کے بارئے کہا تھا کہ یہ دن میں دھرنا دیتی ہیں اور رات کو مجرا کرتی ہیں۔ ان دو واقعات کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو مذہبی شدت پسندوں یا مذہب کے نام پر سیاسی دوکانداری کرنے والوں سے اچھا مقابلہ کرنا ہے تو پھر آپکو ہر قسم کی گالیوں اور بےہودہ باتوں سے واقفیت لازمی ہے۔بہتر ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان اسلام فروشوں کی ویڈیو دیکھتے رہا کریں۔</p> <p>پاکستان میں روزانہ شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک ہر نیوز چینل پر سیاسی مجرا ہورہا ہوتا ہے، اس مجرئے کا واحد مقصد چینل کی ریٹنگ میں اضافہ کا حصول ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیوز ون پر 10 جون کو جو گھٹیا سیاسی مجراکیا گیا اسکا مقصد محض ریٹنگ کا حصول تھا۔ ماروی سرمد یسوع مسیح کو نہیں مانتیں، انکا کہنا ہے کہ اگر کوئی میرئے ایک گال پر تھپڑ مارئے گا تو میں اپنا دوسرا گال پیش نہیں کرتی بلکہ جیسے کو تیسا کرتی ہوں، لیکن شاید ماروی سرمد ابھی کچی ہیں لہذا وہ حافظ حمداللہ کے جیسی فحاش زبان استمال نہیں کرپائی، دوسرئے ماروی سرمد کو ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اب چونکہ ٹاک شو فائٹ شو بن چکے ہیں لہذا جتنی جلدی ممکن ہو جوڈو کراٹے سیکھ لیں، تاکہ حافظ حمد اللہ جیسے بدماش کو وہ ناک آوٹ بھی کرسکے۔ حافظ حمد اللہ کوئی عالم دین نہیں ہے لیکن وہ مذہبی سوداگرمولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہے۔ مولانافضل الرحمان ایک اچھے سیاسی بلیک میلر ہیں اور آج کل نواز شریف کی پانامہ لیکس سے جان چھڑانے کےلیے دوسروں سے سودئے بازی وہی کررہے ہیں، یہ ہی وجہ ہے حافظ حمد اللہ نیوز ون کے سیاسی مجرئے میں ایک خاتون کی شلوار اتارنے کی باتیں کررہا تھا۔</p> <p>دس جون کے سیاسی مجرئے کا موضوع تھا "خواتین کا زندہ جلانا"۔ اس پروگرام میں حافظ حمد اللہ نے بھرپور طریقے سے اپنی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا، مولانا شیرانی کو چرسی بیرسٹر مسرور نے کہا تھا ماروی نے نہیں اور جب حافظ حمد اللہ نے بیرسٹر مسرور کو مارنے کی بات کی تو بیرسٹر مسرور کا جواب تھا کہ جواب بھی ملے گا۔ مگر اس پروگرام میں جو کچھ ہوا اس میں ماروی سرمدکا کوئی قصور نہ تھا، پہل قابل نفرت حافظ حمد اللہ نے کی اور بے شرمی کی ہر حد پار کر گیا۔ کیا وجہ تھی کہ وہ ماروی سرمد کے منہ سے آدھا لفظ نکلنے سے پہلے ہی بولنے لگا؟ صاف نظر آ رہا تھا کہ حافظ حمد اللہ پہلے سے اس گھٹیا حرکت کا ذہن بنا کر بیٹھا تھا۔ مگر اسکے باوجود مخصوص فکر کے حامل مذہبی لوگ ماروی سرمد کو بد تمیز ثابت محض اسلیے کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ایک بے غیرت کو معصوم ثابت کر سکیں۔ اگر واقعی اس کو مولانا شیرانی کو چرسی کہنا برا لگا تھا تو بیرسٹر مسرور کو مارتا یا گالی دیتا، اس کو شاید ماروی سرمد کے ساتھ ہی اپنی بےغیرتی کا مظاہرہ کرنا تھا، ملا کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ منافقت مری تھی اور ملاپیدا ہوا تھا۔</p> <p>مولانا شیرانی کی والدہ بھی ایک عورت ہیں اور اگر خدا نے کوئی بیٹی دی ہے تو وہ بھی ایک عورت ہی ہے، لیکن افسوس مولانا جب سے اسلامی نظریاتی کونسل کےچیرمین بننے ہیں انکا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ عورت کی تذلیل کیسے کی جائے۔ چلیں مان لیا کہ مولانا شیرانی کے بارئے میں غلط کہا گیا لیکن مذہب کے ٹھیکیدار کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ روز عورت کی تذلیل کرئے، وہ جب چاہے کسی پر کفر کے فتوے لگا دے، کسی کی ماں بیٹی کو فاحشہ بلائے، کسی عورت کو شلوار اتارنے کی دھمکی دے، اس پر ہاتھ اٹھائے؟ یہ کون سا اسلام ہے؟ اقدس طلحہ سندھیلا اپنے مضمون "ش"سے شیرانی،"ش" سے "شلوار" میں لکھتی ہیں کہ "مولانا کو لبرلز سے مسئلہ ہے، ان کے مطابق یہ ہماری روایات کو تباہ کرنے پر تلے ہیں اس لیے انہوں نے ماروی کو دھمکایا کہ میں تمہارا ایجنڈا پورا نہیں ہونے دوں گا۔ مولانا اگر آپ باہمت ہیں تو براہ کرم ذرا ان لبرلز کے حق میں جب کل دنیا بھر کے اخباروں میں خبریں لگیں گی اور آپ کے گاڈ فادر امریکہ سے جب کوئی مذمتی بیان دے گا تو آپ ان سے کہنا کہ تمہاری اور تمہاری ماں کی شلواریں اتاروں گا، پھر آپ کو سمجھ آئے گا کہ شلورایں کیسے اترتی ہیں"۔</p> <p>مولانا فضل الرحمان اور انکے ساتھ جو بھی مذہب کے ٹھیکیدار ہیں ایک بات یاد رکھیں کہ اس طرح کی غنڈہ گردی کے بعد جب آپ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مہذب معاشرہ ہے تو کوئی آپکی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا، مذہب کے نام پر کی جانے والی اس غنڈہ گردی سے عام لوگوں کے دلوں میں آپ کےلیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ نواز شریف کی حکومت میں خواتین کے ساتھ جو بدترین سلوک ہورہا ہے، وہ قابل مذمت ہے، اس واقعہ کے بعد شاید نواز شریف حافظ حمد اللہ کوجو سینیٹربھی ہے وزارت مذہبی امور کا وزیر بنادیں، کیونکہ بیچارئے حاجیوں کو بھی بہت گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ یہاں ایک امتہان سینٹ کے چیرمین کا بھی ہے کہ کیا اس واقعہ کے بعد یہ غنڈا حافظ حمد اللہ سینیٹر رہ سکتا ہے، اپنے آپ کو بہت زیادہ لبرل ظاہر کرنے والےسینیٹ کے چیرمین رضا ربانی اس کے خلاف کیا کارروائی کرتے ہیں جلد ہی معلوم ہوجائے گا۔اگر ان حرکات کو نہیں روکا گیا تو آیندہ ہونے والے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتیں ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی انداز اپنایں گیں۔</p> </section> </body>
5502.xml
<meta> <title>مذہبی ولبرل انتہا پسندی کا شکار سماج</title> <author> <name>حفصہ مسعودی</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27872/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1524</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مذہبی ولبرل انتہا پسندی کا شکار سماج
1,524
No
<body> <section> <p>ایک دفعہ مدرسے میں آنے والی ایک ٹیلیفون کال سننے کا اتفاق ہوا ۔سلام کے بعد کال کرنے والا شخص بولا میں اپنی بچی کو مدرسے میں داخل کروانا چاہتا ہوں . میں نے کہا خوشی کی بات ہے جناب آپ کی بچی نے پہلے کچھ پڑھا ہوا بھی ہے تو محترم بولے ہاں چھٹی میں تین بار فیل ہو گئی ہے ،میں نے سوچا مدرسے میں داخل کروا دوں اللہ کا نام سیکھ لے گی . میرے منہ سے بے ساختہ نکلا مدارس کا المیہ یہ ہے کہ وہاں فیل ہونے والوں کو بھیجا جاتا ہے تو وہ بھی برجستہ بولے ،اب میری دوسری بچی بی اے کر رہی ہے میں اس کو تو نہیں مدرسے میں چھوڑ سکتا اور میں نے جواب میں تمیز سے کہا جناب پھر وہ جو آ پ کا ناکارہ مال جو آپ مدرسے میں ڈالنا چاہتے ہیں، اس کو بھی گھر رکھیں ،اللہ کے دین کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ جب یہ خبر اساتذہ تک پہنچی تو میری خوب خبر لی گئی کہ شاید وہ بچی اسی طرح ہدایت پانے میں کامیاب ہو جاتی میری سختی کی وجہ سے وہ رہ گئی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کسی اور مدرسے کی ہی زینت بنی ہوگی ۔</p> <p>یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم دینی مدارس میں ایسے لوگوں کو بھیجتے ہیں جن کو نام نہاد تہذیب یافتہ معاشرہ رد کر دیتا ہے ۔ جب وہ مدرسہ میں پہنچتے ہیں تو ان کا پالا ایسے اساتذہ سے پڑھتا ہے جن کو یا پڑھنا آتا ہوتا ہے یا ڈنڈہ چلانا ۔ انہوں نے کوئی ٹیچرز ٹریننگ کورس یا ورکشاپ نہیں کی ہوتی .ان کے پاس کوئی مالی ترغیبات بھی نہیں ہوتیں وہ انہی مدارس سے مار کھا کر پڑے ہوتے ہیں اور وہی طریقہ کار وہ اپنے شاگردوں پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ دو تین سال ناظرہ سیدھا کرنے میں لگا دیتے ہیں اور جب دین کو سمجھنے کا وقت آتا ہے تو دَعا یدعُوا کی گردان میں اٹک کر وہ لوگ مدرسے کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں باہر نکلتے ہیں تو ان کے چہرے پر داڑھی اور ناظرہ کے علاوہ ان کو بھی دینی احکامات کا اتنا ہی پتہ ہوتا ہے جتنا مسلم گھرانے کے کسی عام مسلمان کو یا اگروہ مدرسے سے بھاگتے نہیں تو عالمیہ(درس نظامی کا انتہائی درجہ) کر لیتے ہیں عالمیہ کرنے کے بعد اگر وہ قابل ہوئے تو باہر کسی تعلیمی ادارے میں عربی اسلامیات پڑھانے لگتے ہیں اور قابل نہ ہوئے تو یہ دو بارہ کا رد شدہ مال دوبارہ مدرسے میں ہی رہ جاتا ہے۔ مدرسے کے گھٹے ماحول سے جب یہ باہر نکلتے ہیں توماریں کھا کھا کر ان کی سوچ متشدد ہو چکی ہوتی ہے پھر وہ یہ تشدد معاشرے میں عام کرتے ہیں کچھ لوگ اچھے بھی ہیں لیکن اکثریت کا حال یہی ہے۔</p> <p>ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ ایک دفعہ محلے کی ایک خالہ نے بتایا قاری کا رشتہ تو بڑی بیٹی کے لئے آیا تھا لیکن وہ بہت پیاری ہے .اس کو کوئی اور بھی لے جاتا. یہ چھوٹی ذرا ماٹھی ہے ،اسی کی منگنی کر دی، وہ اللہ والا بندہ ہے اس کو خوش رکھے گا .یہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی سوچ اور ذہنیت ہے جو ہم دین سے وابستہ افراد کے لئے رکھتے ہیں ، پھر یہ لوگ جو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان کی عادتوں اور طبیعتوں میں اتنا ہی تفاوت ہوتا ہے جتنا کہ معاشرے کے دوسرے انسانوں کی طبیعتوں میں کوئی سخت ، کوئی نرم ، کوئی متشدد ،کوئی حلیم الطبع ۔</p> <p>سوال یہ ہے کہ جب آپ اس طبقے کو دیتے ہی نفرت حقارت اور مار پیٹ دیتے ہیں وہ ان کے علاوہ اور کیا لوٹا سکتا ہے ؟ تعلیمی بجٹ میں سے کتنا مدارس پر لگایا جاتا ہے ؟ کیا دینی مدارس کے اساتذہ کی بھی کوئی تربیتی ورکشاپ ہوتی ہے ؟ کیا مدرسوں میں بھی وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جو سکولوں میں ہیں ؟ اس کے ذمہ دار مدرسے والے نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بیمار ذہنیت اور سوچ ہے جب تک اس سوچ کو بدلا نہیں جائے گا متشدد واقعات کو طاقت کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا چاہے ایک دن میں ایک ہزار لوگوں کو پھانسی دی جائے۔ لیکن اس سارے قصے میں بدنام صرف اسلام ہوتا ہے۔</p> <p>ماروی سرمد اور حمداللہ کا واقعے کا بہت شور ہے ۔ جو کچھ حمداللہ نے کیا اس کو کسی بھی طرح درست نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی وجوہات کو دیکھا جانا ضروری ہے ۔ مولوی حمداللہ کا تعلق اسی مذہبی طبقے سے ہے جس کو معاشرے نے ہمیشہ رد کیا ، پھر مولوی حمداللہ کا تعلق اس خاندان اور ماحو ل سے ہے جو نسلوں سے متشدد ہیں ، اور گولی ، گالی اور گنڈاسہ کا استعمال فخر سمجھتے ہیں ،یہ لوگ جس ماحول کے پروردہ ہیں ان کو خواتین کی آواز سننے کی عادت نہیں ہوتی اس کا تعلق مذہب سے نہیں علاقے کی اقدار سے ہے ۔ مولوی حمداللہ کا اس پروگرام کے لئے انتخاب اور پھر پینل میں ایک اور انتہا پسند محترمہ ماروی کو بھی مدعو کرنا اور محترمہ کا ان کو بار بار بدتمیزی پر اکسانا ۔کیا صرف مولوی صاحب نے بدتمیزی کی ؟ محترمہ جواب میں تلاوت فرما رہی تھیں جب محترمہ کا محترم کو آگ بگولہ کرنے میں برابر کا ہاتھ ہے تو ایک اچھا اور ایک برا کیوں ؟ مجھے ان میں سے کسی بھی چیز کا تعلق اسلام سے نہیں لگ رہا تو پھر قصوروار داڑھی اور اسلام کیوں؟</p> <p>حمداللہ نے جو کیا وہ اس کا ذاتی عمل ہے حمداللہ اسلام کا چہرہ نہیں ہے۔اسلام کے نام کو اتنا ہی بدنام حمداللہ نے کیا جتنا ماروی نے اور اتنا ہی چینل کے ذمہ داران نے بھی۔</p> <p>کیا پینل کا انتخاب سوچ سمجھ کر نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا گفتگو کو مغلظات کی طرف جانے سے پہلے روکا نہیں جا سکتا تھا ؟ کیا پروگرام کی براہ راست نشر بند نہیں کی جا سکتی تھی ؟ پیمرا کس مرض کی دوا ہے ؟ پروڈیوسر کس لئے بیٹھے ہوتے ہیں؟</p> <p>ہمارا ایک قومی مسئلہ ہے کہ ہم غیر مسلم طاقتوں پر اسلام کے خلاف سازشوں کا الزام تو لگاتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ ان کی سازشوں سے زیادہ نقصان ہمارے خود کے اعمال پہنچا رہے ہیں ۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی دوسری جانب سیکولر انتہا پسندی اور پھر معتدل طبقے کی خاموشی ۔</p> <p>ٹی وی اور میڈیا پر انہی مذہبی لوگوں کو لایا جاتا ہے جن کے کرادر میں کوئی خامی ہوتی ہے نام لینا مناسب نہ ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں باعمل اور باعلم علمائے کرام کو چھوڑ کر میڈیا پر دکھایا جاتا ہے تو ملا صاحب کی گالم گلوچ، لال مسجد والے کی متشدد سوچ، یا کسی مسجد میں ہونے والا کوئی غیر اخلاقی واقعہ اور پھر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس پر لبرلز گڑ کھا کر شروع ہو جاتے ہیں اور چند ملاوں کے ساتھ دشمنی میں وہ اسلامی احکام کی دھجیاں بکھیرتے ہیں جیسا کہ مولانا شیرانی کے فتوے کے ساتھ ہوا ۔ اس پر لوگ اتنا بولے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ لفظ کسی قرآنی آیت یا حدیث کے تو نہیں ہیں ۔ قرآنی آیات کا اس طرح مذاق ہم مسلمان ہو کراڑاتے ہیں ہمیں کسی کی سازش کی کیا ضرورت ہے؟ عیسائی اور یہودی اپنے دین کی احکامات پر عمل نہیں بھی کرتے تو بھی ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے دینی احکامات کا مذاق نہیں اڑاتے میں نے آج تک ایسا کوئی تماشا نہیں دیکھا ۔</p> <p>ایک بیمار ذہن معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص اپنے عقائد و نظریات کو حرف آخر سمجھتا ہے ہم اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر ملا کو گالی دینے کی آڑ میں اسلام کی جی بھر کر تذلیل کرتے ہیں ۔جی بھر کر اسلام کو بدنام کرتے اور گالی دے کر سکون سے سوتے ہیں ۔ ہر طبقہ اپنے نظریات کے معاملے میں کٹر اور شدت پسند ہے ۔</p> <p>سوال یہ ہے کہ لبرلز خود کو لبرل کہنے کے باوجود اپنے نظریات میں کٹر کیوں ہوتے ہیں؟ مذہبی طبقہ نبی رحمت ﷺکا ماننے والا ہے جو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تو پھر وہ سخت کیونکر ہوتے ہیں ۔ اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں</p> <p>پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں علم فراوانی میں ہے تربیت کی کمی ہے صرف علم کسی کام کا نہیں جب تک تربیت نہ ہو۔ نبی رحمت ﷺ کے زمانہ میں کوئی کالج یونیورسٹی نہیں تھی صرف صحابہ کرام کی تربیت تھی۔ یہی حال لبرلز کا ہے انہوں نے یہاں وہاں سے چیزیں سن پڑھ کر علم تو حاصل کر لیا لیکن تربیت انکی بھی خاک نہیں ہے ۔</p> <p>دوسری بنیادی وجہ ہمارے اعمال و افعال سماجی رویوں کا رد عمل ہیں ۔ ملا وہی لوٹاتا ہے معاشرے کو جو اس کو معاشرے سے ملا ہے اور لبرلز بھی وہی گالیاں معاشرے کو دیتے ہیں جو ان کو فراوانی میں ملی ہوتی ہیں ۔نہ ماروی سرمد داڑھی کھینچنے کا کہتی ، نہ حمداللہ صاحب ارشادات فرماتے۔ جب تک ہماری سوچ اور سماجی رویے نہیں بدلیں گے، تربیت نہیں ہو گی تو معاشرے میں شدت پسندی یونہی رہے گی وہ مذہبی انتہا پسندی ہو یا لبرل ۔</p> </section> </body>
5503.xml
<meta> <title>کون کہتا ہے کہ رہبر پاگل تھا۔۔۔؟</title> <author> <name>غلام الدین جی ڈی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27884/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>805</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کون کہتا ہے کہ رہبر پاگل تھا۔۔۔؟
805
No
<body> <section> <p>سن 90 کے اوائل کی بات ہے۔۔۔ جب میں ایف جی بوائز ہائی اسکول دنیور میں زیر تعلیم تھا۔ ابو امی سے لڑجھگڑ کر آٹھویں جماعت میں سائیکل خریدا اور سائیکل سواروں کے کلب کا حصہ بن گیا۔ گھر سے اسکول کا مسافت تقریبا 6 کلومیٹر تھا، صبح سویرے اسکول جانے والے سائیکل سواروں کا شاہراہ قراقرم پرراج ہوتا تھا۔ اسکول روانگی پر ایسا لگتا تھا جیسے فرانس میں ٹورڈی سائیکل کا ریس چل رہا ہو، گرمی ہو یا سردی یا ہو بارشں، بس سواری ہماری ایک ہی ہوتی تھی۔</p> <p>اسکول میں آخری کلاس عربی اور فارسی کے ماہر استاد محترم سلطان محمود صاحب کی ہوتی تھی، موصوف کی یہ منطق آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کلاس روم کے بنسبت طلبہ کو اسکول سے ملحقہ باغ میں درختوں کے سایے تلے عربی پڑھانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ہم 10 سے زائد طلبہ کا تعلق ایک ہی گاؤں سلطان آباد سے تھا اور کوشش ہوتی تھی کہ آخری صفوں میں بیٹھ جائیں تاکہ چھٹی ہوتے ہی رفو چکر ہوں۔۔۔ پڑھائی گئی تیل لینے۔۔۔ آخری صفوں میں ہمارا ایک ہی مشغلہ ہوتا تھا، کبھی استاد کو کنکر مارو تو کبھی پڑھائی میں مصروف دیگر ساتھیوں کو۔۔۔ یوں ٹیچر کی طرف سے مار کھانا ایک معمول بن چکا تھا۔</p> <p>اسکول سے واپسی پر ہماری بیٹھک مرحوم رہبر کے ساتھ ہوتی تھی، رہبر کو ہمارے علاقے کے لوگ لابر کہہ کر پکارتے تھے، رہبر کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا لیکن باتیں بڑی ہی فلسفیانہ کیا کرتا تھا۔ رہبر میلے کچیلے لباس میں سٹرک کنارے بٹیھتا، لیکن بیٹھک کی کوئی جگہ معین نہ تھی۔ رہبر کو لباس اور رفع حاجت کی کوئی فکر تک نہ تھی، جو کچھ ہوتا ہوگا۔۔۔ قارئین خود ہی سمجھ لیں۔۔۔</p> <p>ہم ٹولی کی شکل میں اکثر رہبر کے قریب جاکر آوازیں کستے، کنکر مارتے، غصہ ٹھنڈا ہونے پر پاس بیٹھ کر گپ شپ لگاتے۔۔۔ رہبر بلا کا زہین شخص تھا۔۔۔ گرد و نواح کے حالات و واقعات پربے لاگ تبصرہ کرتا، نقل اتارتا۔۔۔</p> <p>رہبر کا ایک ہم عصر شاہ گل کے نام سےمشہور تھا، ہم شاہ گل کے بارے میں رہبر سے دریافت کرتے تو وہ جھٹ سے کہتا "وہ تو پاگل ہے، بہت گندا شخص ہے، نہ رفع حاجت کی فکر رہتی ہے نہ لباس کی۔۔۔"</p> <p>گلگت بلتستان کی موجودہ اور سبالق حکومتوں کی کارکردگی دیکھ کر آج بھی مرحوم رہبر یاد آتا ہے۔۔ مجھے تو ہر سمت بے بسی نظر آتی ہے، اس کے برعکس مرکزی حکومت طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت نظر آتی ہے، حکمران اداروں کی اصلاح اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا تے۔ بس چلتی کا نام گاڑی جو ہے۔۔۔!!!</p> <p>گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حاجی شاہ بیگ نے میڈیا کے نمائندوں سے گتفگو میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلی حفیظ الرحمان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔۔۔ تمام فیصلے بیوروکریسی کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مالی سال 2015-16 میں 6 بلین کا ترقیاتی فنڈ حکومتی نااہلی کے سبب خرچ نہ ہوپایا ہے۔ جبکہ وزیر اعلی کا یہ دعوی ہے کہ 10 بلین کے ترقیاتی بجٹ میں سے 7 بلین کے پروجیکٹ مکمل ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی بنچوں سے آفسر شاہی کی مداخلت کے خلاف آوازیں بھی اٹھی ہیں۔ پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قانون ساز اسمبلی جعفراللہ کا کہنا تھا کہ سیکریٹریز سیاستدانوں سے زیادہ بااختیار ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سطح پر بیوروکریسی کی مداخلت کے باعث حکومت ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل میں ناکام رہی ہے۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر اقبال نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی حکومت کو ناکام بنانے کے درپے ہے۔</p> <p>بعض معتبر حلقوں کا کہنا ہے کہ امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کے اطلاق کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ منتخب نمائندے بااختیار ہونگے، لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ نواز اور حزب اختلاف کے اراکین اختیارات کے حوالے سے کم و بیش ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو بھی شاید گلگت بلتستان میں ایک کمزور سیاسی ڈھانچہ سوٹ کرتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاق میں مقامی حکومتیں عمل میں آئی ہیں، ہر صوبے نے مقامی حکومتوں کے حوالے سے اپنا قانون بنایا ہے، اختیارات اور اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے، تاہم لوکل گورنمنٹ کا پہیہ ضرور چلے گا اور رفتہ رفتہ عوام کو حق حکمرانی مل ہی جائے گی۔</p> <p>گلگت بلتستان میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے حوالے سے نہ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے اقدامات اٹھائے اور نہ ہی موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔۔۔!!! پاکستان کے قیام کو 7 عشرے مکمل ہونے والے ہیں، لیکن آج بھی عوام حق حکمرانی سے محروم ہے، فصیلے عوامی نمائندے نہیں بلکہ کوئی اور کرتا ہے۔۔۔!!! اس لیے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوں۔۔۔ کہ کون کہتا ہے کہ رہبر پاگل تھا۔۔۔؟؟؟</p> </section> </body>
5504.xml
<meta> <title>علامہ اقبال، حمزہ علی عباسی اور قادیانی مسئلہ</title> <author> <name>سید راشد حسن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27896/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1238</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
علامہ اقبال، حمزہ علی عباسی اور قادیانی مسئلہ
1,238
Yes
<body> <section> <p>شیخ نور محمداپنی جوانی کے زمانہ میں ابن عربی کی تعلیمات کے بارے میں ہونے والے ایک درس کوبا قاعدگی سے سننے جاتے تھے ۔اس دور کے ایک ابھرتے عالم دین مرزا غلام احمد کا بھی وہاں آنا جانا تھا۔یہاں سے ان دونوں خاندانوں کی شنا سائی کا آغاز ہوا جنہوں نے بعد میں برصغیر کی مسلم تاریخ میں مثبت اور منفی حوالوں سے شہرت حاصل کی۔مرزا غلام احمد نے تو شروع میں ہندو پنڈتوں اور عیسائی مشنریوں سے مناظرہ جیت کر اپنی علمی دھاک بٹھانے کے بعد ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھنے کے علاوہ نبوت کا دعوی بھی کر دیا جبکہ شیخ نور محمد کا نام ان کے بیٹے نے اپنی مسلم احیائی شاعری سے ہمیشہ کے لئے آنے والے زمانوں میں زندہ و جاوید کر دیا۔</p> <p>مرزا غلام احمد کی احمدیہ جماعت کا ظاہری بھیس چونکہ لوگوں کو منکرات سے ہٹا کر اصل اسلام کی طرف بلانا تھا اسلئے اس زمانے کے بہت سے سادہ لوح مسلمانوں نے اس جماعت کا رخ کیا ۔اولا لوگوں کو مرزا غلام احمد کو مصلح اور مجدد کی حیثیت سے متعا رف کرایا جا تا تھا لیکن جب وہ پوری طرح رام ہو جاتے تو پھر ان کی خود ساختہ نبوت کی پٹری پر چڑھایا جانا احمدی جماعت کا مشہور طریقہ واردات تھا۔ اقبال کے خاندان کی چونکہ مر زا صاحب سے پرانی دعا سلام تھی اس لئے ان کا یہ پرچار وہاں بھی پہنچنا شروع ہوگیا۔یہ زمانہ اقبال کے اوئل جوانی کا تھا جب وہ اعلی تعلیم کے لئے یورپ روانہ ہو رہے تھے ۔اس سفر کے لئے اقبال کا سارا خرچہ ان کے بھائی شٰیخ عطا محمد نے اٹھا یا ۔یہ حقیقت ہے کہ اگر اقبال یورپ نہ جاتے تو علامہ اقبال کبھی نہ بن پاتے اور جدید زمانے میں مسلم احیاء کے موجد شمار کرنے کی بجائے شاید تاریخ انھیں ایک اوسط درجے کے شاعر کے طور پر ہی یا د رکھ پاتی۔یورپ جا کر اقبال کی فکر کا رخ اسلام، مغربی فلسفہ ، قر آن اور مسلم دنیا خصوصا برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار کی طرف پھر گیا جس نے بیسویں صدی میں اس خطہ کے مسلمانوں کی مذہبی اور سیا سی زندگی پر فیصلہ کن اثرات مرتب کئے۔</p> <p>شومئی قسمت کہ اقبال کے بڑے بھائی ، ان کے اور تمام مسلمانوں کے محسن شیخ عطا محمد نے اسی اثناء میں قادیانیت قبول کرلی تھی ۔بعد میں جب اقبال وطن واپسی کے بعداپنی شاعری کے ذریعے مسلم فکر کی تشکیل نو میں مصروف تھے تو بارہا احمدی جماعت کیطرف سے یہ کوششیں ہوتی رہی کہ اقبال بھی احمدی جماعت میں شامل ہوجائیں لیکن حکیم الامت پر ان کا کوئی جادو نہ چل سکا۔</p> <p>علامہ اقبال کی زندگی کی آخری دو دہائیوں میں جب قادیانی تحریک اپنے مرکز پنجاب سے نکل کر ہندوستان کے طول و عرض میں اپنی جڑیں مستحکم کرنا شروع کردی تواقبال ان ابتدائی مسلم عمائدین میں سے تھے جنہوں نے ان کاعوامی سطح پر رد کیا ۔اس رویہ پر پنڈت نہرو جیسے نیشنلسٹوں نے جب حیرانگی کا اظہارکیا تو اقبال نے سخت جواب دیتے ہوئے نہ صر ف قادیا نیوں کواسلام کا غدار قرار دیا بلکہ ان کی حمایت کرنے اور انھیں باقی مسلمان قوم کا حصہ سمجھنے پر پنڈت صاحب کو اچھی خاصی لعنت ملامت بھی کی۔یہ تو قادیانیوں کے بارے میں اقبال کا پبلک رویہ تاریخ میں درج ہے اب ہم ان کی ذاتی زندگی کی طرف آئیں تو وہ یہاں ایک ہاتھ اور بھی آگے گئے۔انھوں نے اپنے دو چھوٹے بچوں جاوید اور منیرہ کا گارڈین اپنے دوستوں کو مقرر کیا اور اپنے سگے بھائی شیخ عطا محمد کو اس اعزاز سے محروم صرف ان کے قادیا نی عقائد کی وجہ سے کیا،حالانکہ ساری عمر وہ انھیں باپ کی طرح عزت دیتے رہے تھے۔اقبال کے اس فیصلہ کا دکھ عطا محمد کو مرتے دم تک رہا جس کا ذکر جاوید اقبال نے اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔</p> <p>اس ساری تاریخی تمہید کا دومقا صد ہیں ، ایک تو آج کل وائرل <annotation lang="en">(viral)</annotation> بحث پر ایک نئے زاویہ سے توجہ دلانا ہے، چونکہ سوال اٹھانے والے حمزہ علی عباسی نے اپنا امیج ایک محب وطن اور نظریہ پاکستان کے شیدائی کے طور پر بنا رکھا ہے تو بات ان کے اور ہمارے آئیڈیل علامہ اقبال کے حولے سے کی جائے اور دوسرا یہ امتیازی سلوک کے حوالہ سے قادیانیوں کا ہمارے معاشرے میں سٹیٹس ڈیفائن کیا جائے۔</p> <p>پہلا سوال جو یہ اٹھایا گیا کہ ریاست کیسے کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟اس کو یہ حق کس نے دیا ہے ؟ تو یہ ہمارے اور آپ کے شاعر مشرق کا وژن تھا کہ اگر ان کی تجویز کے مطابق ہندوستان میں مسلم ریاست بن جاتی ہے تو اس کی پارلیمنٹ متفقہ فیصلوں سے اجتہاد کر سکتی ہے۔تو جناب آپ کے ملک کی پارلیمنٹ نے تمام فریقوں کو اپنے دفاع کا موقع دے کر ، ہر طرح کے قا نونی تقاضے پورے کرکے قادیانی سوال <annotation lang="en">(qadiani question)</annotation> حل کر چکی ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔اب اگر آپ میں نہ مانوں پر اتر آئیں تو آپ بیشک نہ نظریہ پا کستان کے خا لق کے وژن کو مانیں ، نہ پارلیمنٹ کو مانیں اور نہ اسکے فیصلوں کو مانیں لیکن یہ میں نہ مانوں کی گردان تاریخ نہیں بدل سکتی ہے۔</p> <p>دوسرا سوال قادیا نیوں سے امتیازی سلوک کے بارے میں اٹھایا گیا ہے۔ایک بات سمجھ لینے چاہیے کہ پوری دنیا کے ہر ملک اور خطہ میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری <annotation lang="en">(second class citizen)</annotation> کا درجہ ملتا ہے۔ اگر کہیں آئین اور قانون میں برابر حقوق کا وعدہ کیا جا رہا ہے تووہ محض دھوکہ یا سراب ہے۔انسانی فطرت کو کسی قانون اور ضابطہ سے بدلہ نہیں جا سکتاہے ۔اکثریت اگر اقلیت کے حقوق تلف نہ بھی کرے تو بھی اسکو برابری کا درجہ کبھی نہیں دیتی ہے۔جہاں تک قادیا نیوں کے بارے میںیہ شکایت کہ ان سے تو تیسرے درجے کے شہری <annotation lang="en">(third class citizen)</annotation> کا سا سلوک ہوتا ہے تو اسکی سیدھی سادھی وجہ شناخت کا بحران <annotation lang="en">(identity crises)</annotation> ہے۔</p> <p>قادیا نی مسلم شناخت کے دعوے دار ہیں اور جوان کے عقائد کو نہیں مانتا ،اس کو وہ مسلم شناخت سے محروم سمجھتے ہیں۔اب آپ خود تصور کرسکتے ہیں کہ ان کی یہ سوچ دوسرے مسلمانوں سے کس قدر نفسیاتی، تہذیبی اور سماجی نزاع کی بنیاد رکھ چھوڑتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنی وصیت میں کم سن جاوید اور منیرہ اقبال کی گورنس ایک جرمن انگریز خا تون کوتو بنانا گوارا کر لیا لیکن اپنے بڑے بھائی کو انکے قادیانی عقائد کی وجہ سے بچوں کی گارڈین شپ سے محروم رکھا۔کیونکہ غیر مسلموں کی شناخت کا بارے میں کوئی کنفیوشن نہیں ہوتی ہے اس لئے وہ ہمارے ساتھ اگر یورپ میں دوسرے درجے کا شہری سلوک کریں تو ہمارا اعتراض نہیں بنتا ہے کیونکہ ہمارے ہا ں بھی یہی ہوتا ہے لیکن جہاں کوئی ہماری شناخت پر ہی نقب لگائے بیٹھا ہو تو اسکی کا ساتھ رویے کا گر جانا انسانی فطرت ہے اور اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔</p> <p>بہتر یہی ہے کہ حمزہ صا حب طے شدہ مسلمات ، انسانی فطرت اورمسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی بجائے دوسرے ایشوز پر دھیان لگائیں ۔ امید تو یہی ہے کہ اب تک انھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہ اس نازک معا ملہ پر حکیم الامت ،دانائے رازاور مجدد ملت علامہ اقبال سے لے کر عام پرچون کی دکان پر بیٹھنے والے محمد اقبال تک کی حمیت جاگ اٹھتی ہے،اس لئے اس جگہ سے دور رہنا ہی منا سب ہے جہاں آپ کے پر جلنے شروع ہو جائیں۔</p> </section> </body>
5505.xml
<meta> <title>ماہ مبارک رمضان کے تاریخی واقعات</title> <author> <name>نگہت نسیم</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28010/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>9226</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ماہ مبارک رمضان کے تاریخی واقعات
9,226
No
<body> <section> <blockquote> <p>بو علی سینا کا انتقال</p> </blockquote> <p>یکم رمضان المبارک سن 428 ہجری قمری کو" شیخ الرئیس " کے نام سے معروف اہم ایرانی منجم ، فلسفی ، ریاضیدان اور طبیب بوعلی سینا کا 58 برس کی عمر میں ایران کے مغربی شہر ہمدان میں انتقال ہوا۔</p> <p>انہوں نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔ خود بوعلی سینا کے بقول انہوں نے 18 سال کی عمر میں ہی اس دور کے تمام علوم حاصل کرلئے تھے بوعلی سینا ان افراد میں سے تھے جو صلاحیت اور قابلیت کے لحاظ سے انسانی کمال کی حد تک پہنچے ہو‏ئے اور تحقیق میں نہایت سنجیدہ تھے ۔ وہ مشرق اور مغرب میں ممتاز فلسفی اور طبیب کی حیثیت سے معروف تھے ۔</p> <p>ابن سینا کے معاصر دانشوروں کے نظریات پر ان کے افکار کا گہرا اثر ہوا۔ جس کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا ۔ابن سینا کی متعدد اور بیش بہا کتب میں " شفا "</p> <blockquote> <p>دورمضان کے اہم واقعات</p> </blockquote> <p>ماہر لسانیات عبدالرحمٰن زُجاجی نہاوندی کا انتقال</p> <p>2 رمضان المبارک سنہ 340 ہجری قمری کوعلم نحو اور لسانیات کے ماہر عبدالرحمٰن زُجاجی نہاوندی کا دمشق میں انتقال ہوا ۔ انہوں نے ابن درید جیسے معروف اساتذہ سے فقہ اور لسانیات کی تعلیم حاصل کی ۔ یہاں تک کہ ان علوم کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوا ۔ ان کی تالیفات میں الایضاح خاص طور سے قابل ذکر ہے ۔</p> <p>دو رمضان المبارک تین سو چالیس ہجری قمری میں چوتھی صدی ہجری قمری کے معروف فقیہ لغت شناس اور ادیب عبدالرحمٰن زجاجی نہاوندی کی دمشق میں وفات ہوئی ۔ انہوں نے ابن درید جیسے اپنے زمانے کے اہم اساتذہ سے فقہ اور لغت کا علم حاصل کیا یہاں تک کہ استاد کے درجے پر فائز ہوئے ۔اس عالم و فاضل عالم دین کی کتابوں میں کتاب الایضاح کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>تین رمضان کے اہم واقعات</p> <p>شیخ مفید محمد بن نعمان کا انتقال</p> <p>3 رمضان المبارک 413 ہجری قمری کو شیخ مفید کے لقب سے معروف عظیم مسلمان عالم ، فقہ اور علم کلام کے ماہر محمد بن نعمان کا انتقال ہوا ۔</p> <p>شیخ مفید سے قبل علم کلام صرف کتاب کی تصنیف و تالیف تک محدود تھا لیکن انہوں نے علم کلام اور فقہ کے بنیادی اصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے استدلال اور بحث و گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور ان علوم کی ترویج کی ۔ شیخ مفید بہت روشن خیال اوراعلیٰ استعداد کے حامل تھے ۔</p> <p>شیخ مفید نے فقہ ، اصول فقہ اور کلام کے موضوع پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں جن کی تعداد تقریبا" دو سو ہے ۔</p> <p>ابن خشّاب کا انتقال</p> <p>3 رمضان المبارک سنہ 567 ہجری قمری کو چھٹی صدی ہجری کے مشہور مسلمان مصنّف اور محقق ابن خشّاب کا انتقال ہوا ۔وہ سنہ 492 ھ ق میں عراق میں پیدا ہوئے تھے ۔انہوں نے اپنے زمانے میں رائج علوم حاصل کرنے کے بعد ، اس دورکے معروف اساتذہ کی سرپرستی میں متعدد کتابیں لکھنے کا آغاز کیا۔</p> <p>ابن خشاب کی علمی شخصیت کم نظیر حیثیت کی حامل ہے ، اسی لئے آپ کو علّامہ کیا گيا ۔وہ قرآئت اور قرآن فہمی کے لحاظ سے اپنے زمانے کے قاریان قرآن میں سرفہرست تھے ۔انہیں مختلف قرآئت کےساتھ قرآن حفظ تھا ۔مادیات کی طرف عدم توجہ آپ کی اہم اخلاقی خصوصیات میں سے تھی انہوں نے ہمیشہ طالب علموں کو یہ نصیحت کی کہ علم کو زور و زر کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں اور اسے صرف راہ خدا میں استعمال کریں ۔</p> <p>ابن خشاب نے جہاں مختلف علوم میں بہت سے شاگردوں کی تربیت کی وہیں نہایت اہم تالیفات بھی یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں</p> <p>4 رمضان اھم واقعات</p> <p>ابن خراسانی کا انتقال</p> <p>4 رمضان المبارک سنہ 576 ہجری قمری کوبغداد کےمشہور کاتب ، شاعر اور علم نحو کے ماہر ابن خراسانی کا انتقال ہوا ۔وہ سنہ 494 ہجری قمری میں ایران کے شمال مشرقی علاقے خراسان میں پیدا ہوئے ۔ابن خراسانی تحصیل علم کی خاطر بغداد گئے اوروہیں پر سکونت اختیار کی ۔ابن خراسانی کی تصنیفات میں ان کا دس جلدوں پر مشتمل دیوان خاص طور سے قابل ذکر ہےجس کا زيادہ تر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔</p> <p>ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن جعفر کا انتقال</p> <p>4 رمضان المبارک سنہ 608 ہجری قمری کوقاضی سعید ابن سناء الملک کے لقب سے مشہور مصری شاعر اور ادیب ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن جعفر کا انتقال ہوا ۔ وہ سنہ 545 ہجری قمری میں قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ان کی تصنیفات میں ان کا دیوان خاص طور سے قابل ذکر ہے جس میں قصیدے اورغزل جیسی مختلف اصناف شامل ہیں ۔</p> <p>ابن سناء الملک کے مشہور اشعار میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت اور یوم عاشور کے بیان میں کہے گئے اشعار خصوصا" قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>5 رمضان کے اہم واقعات</p> <p>افضل الدین ابوعبداللہ طبیب خونجی کا انتقال</p> <p>5 رمضان المبارک سنہ 646 ہجری قمری کومشہور فلسفی افضل الدین ابوعبداللہ طبیب خونجی کا انتقال ہوا ۔ وہ سنہ 590 ہجری قمری میں ایران کے شمال مغربی شہر خلخال میں پیدا ہوئے ۔طبیب خونجی صاحب منطق وحکمت تھے ۔وہ طب اور اسلامی علوم خصوصا" فقہ اور حدیث کے بہترین استاد تھے ۔انہوں نے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں کشف الاسرار عن غَوامض الافکار فی المنطق خاص طور سے قابل ذکر ہے ۔</p> <p>الحاج ملّا علی علیاری تبریزی کی پیدائش</p> <p>5 رمضان سنہ 1236 ہجری قمری کوایران کے ممتاز عالم دین الحاج ملّا علی علیاری تبریزی ایران کے شمال مغربی تبریز میں پیدا ہوئے ۔ان کو فقہ ، حدیث اورشعر و ادب میں بہت مہارت حاصل تھی اور فلسفے ،حکمت ، ریاضی اور علم نجوم کے ماہر استاد مانے جاتے تھے انہوں نے عراق کے شہر نجف میں واقع اعلیٰ دینی درسگاہ میں داخلہ لیا ۔</p> <p>شیخ مرتضیٰ انصاری اور میرزائے شیرازی جیسے فاضل اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا اور فقہ اور اصول فقہ میں کمال حاصل کیا ۔علیاری نے ایران واپس آنے کے بعد ذہین شاگردوں کی تعلیم و تربیت کی ۔ وہ دینی تعلیم کے علاوہ ریاضیات اور نجوم کی تعلیم بھی دیتے تھے ۔</p> <p>اسی دوران انہوں نے فقہ اوراسلامی مسائل کے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھیں ۔ان کی کتابوں میں " دَلَائلُ الاَحکام فی شَرح شَرایعُ الاسلام " خاص طور سے قابل ذکر ہے</p> <p>6 رمضان کے اہم واقعات</p> <p>ابویعلی جعفری کا انتقال</p> <p>6 رمضان سنہ 463 ھ ق کو 5 ویں صدی ہجری قمری کے ایک نامور عالم دین ابویعلی جعفری نے وفات پائی ۔ وہ فقیہ اور ماہر علم کلام تھے اور عظیم اسلامی دانشور شیخ مفید کی حیات میں ان کے نائب تھے ۔</p> <p>وہ عظیم اسلامی دانشور شیخ طوسی کے ہم عصر تھے ۔ ابویعلی جعفری نے علم کلام اور فقہ کی تدریس بھی کی ۔ان کی تصانیف میں میلاد صاحب الزماں اور تکملہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>حمزہ بن عبداللہ کا انتقال</p> <p>6 رمضان المبارک سنہ 463 ہجری قمری کو مشہور مسلمان فقیہ حمزہ بن عبداللہ سالار کا ایران کے شہر تبریز میں انتقال ہوا ۔شیخ سالار عظیم دانشور شیخ مفید اور سید مرتضیٰ علم الہدی کے مشہور شاگرد تھے ۔</p> <p>شیخ سالار کی سب سے مشہور کتاب "المراسم العلویہ و الاحکام النبویہ " ہے جو دس دیگر کتابوں کے ساتھ مل کر جوامع الفقہ کے نام سے چھپ چکی ہے ۔ شیخ سالار کی دیگر کتابوں میں الابواب و الفصول اور التقریب خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>7 رمضان کے اہم واقعات</p> <p>پیغمبر اسلام (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کا انتقال</p> <p>ایک روایت کے مطابق ہجرت سے تین سال پہلے سات رمضان المبارک کو پیغمبر اسلام (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی ۔</p> <p>حضرت ابو طالب بن عبد المطلب (‎ 549ء تا 619ء ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا اور حضرت علی علیہ السلام کے والد تھے۔ ان کا نام عمران اور کنیت ابوطالب تھی۔</p> <p>رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی والدہ حضرت آمنہ بنت وھب علیہا السلام اور دادا حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد آٹھ سال کی عمر سے آپ کے زیر کفالت رہے۔</p> <p>آپ نے ایک بار شام اور بصرہ کا تجارتی سفر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر بارہ برس کے لگ بھگ تھی۔ بحیرا راہب کا مشہور واقعہ، جس میں راہب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت کی نشانیاں دیکھ کر پہچان لیا تھا، اسی سفر کے دوران میں پیش آیا تھا۔</p> <p>پیغمبر اسلام (ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد حضرت ابوطالب نے آپ کی پرورش کی اور پیغمبر اسلام (ص) کے اعلان رسالت کے بعد بھی مشرکین کی مخالفت کے وقت آپ کی مدد و حمایت کی ۔</p> <p>حضور اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جب مکہ کے مشرکین نے مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا تو نبی اکرم (ص) اپنے تمام متعلقین کے ساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئےاور آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے ہی آپ کی کفالت کی ۔ شعب ابی طالب میں مسلمانوں کی تین سالہ اقتصادی ناکہ بندی کا دور ختم ہوتے ہی حضرت ابوطالب کا انتقال ہوگيا ۔</p> <p>آپ کی وفات کے بعد کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر مظالم کی انتہا کر دی۔ آپ کی وفات 619ء میں ہوئی۔ اسی سال حضرت خدیجہ علیہا السلام کی وفات بھی ہوئی۔ ان دو واقعات کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی " غم کا سال" قرار دیا۔</p> <p>ابن زہرہ کی پیدائش</p> <p>7 رمضان سنہ 511 ہجری قمری کو چھٹی صدی ہجری کے ایک مشہور ماہر علم کلام نامور فقیہ اور معروف دانشور ابن زہرہ موجودہ شام کے ایک شہر حلب میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے نجف اور حلب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بلند علمی مقام حاصل کیا ۔ابن زہرہ کو فقہ ، اصول ، کلام اورعربی ادب میں مہارت حاصل تھی ۔</p> <p>انہوں نے ابن ادریس حلّي جیسے دانشوروں کی تربیت کی اور اصول فقہ کے موضوع پر بہت سی کتابیں تحریر کیں ۔ابن زہرہ کا سنہ 585 ھ میں انتقال ہوا۔</p> <p>سید نظام الدین محمد معصوم صفائی ترمذی کی پیدائش</p> <p>7 رمضان المبارک سنہ 944 ہجری قمری کو دسویں صدی ہجری قمری کے ایک معروف شاعر اور مورخ " سید نظام الدین محمد معصوم صفائی ترمذی " ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔</p> <p>وہ " نامی " تخلص کرتے تھے ۔ان کے آباء اجداد ترمذ کے مسلمان تھے اور جنوب مشرقی افغانستان میں واقع علاقے قندہار میں رہتے تھے ۔لیکن چونکہ ان کے والد نے ہندوستان ہجرت کرلی تھی ۔اس لئے وہ بھی قندہار میں اپنی تعلیم مکمل کرکے گجرات چلے آئے اور دفتری عہدوں پر فائز رہے ۔</p> <p>نامی اپنے زمانے کے محنتی دانشوروں میں سے تھے ۔انہوں نے" طبّ نامی " جیسی بیش بہا کتابیں لکھیں ۔سنہ 1019 ع ہجری قمری میں نامی کا انتقال ہوا</p> <p>8 رمضان کے اہم واقعات</p> <p>نجم الدین علی دبیران کا انتقال</p> <p>8 رمضان سنہ 675 ھ ق کو عظیم ایرانی منجم اور مفکر نجم الدین علی دبیران کا انتقال ہوا ۔ وہ کاتبی کے نام سے معروف تھے ۔ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں اطلاعات دستیاب نہیں ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ عظیم فلسفی اورمفکر خواجہ نصیرالدین طوسی نے مراغہ کی رصد گاہ میں آ کر ان کا ہاتھ بٹایا ۔</p> <p>مراغہ کی رصد گاہ اس دور کی معروف رصد گاہ تھی ۔کاتبی نے برسوں اس رصد گاہ میں فعال کردار ادا کیا ۔ان کی کتابوں میں " جامع الدقائق " اور " حکمت العین " خاص طور سے قابل ذکر ہیں</p> <p>نویں رمضان کے واقعات</p> <p>محمد بن داؤد ظاہری کا انتقال</p> <p>9 رمضان المبارک سنہ 297 ہجری قمری کو تیسری صدی ہجری کے ایک شاعر، ادیب ، محدث اور فقیہ " محمد بن داؤد ظاہری " کا 42 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ داؤد ظاہری شعر ، ادب ، حدیث اور فقہ میں استاد کی حیثیت رکھتے تھے ۔انہوں نے ادب کے موضوع پر متعدد کتابیں تحریر کیں۔</p> <p>ماہر فلکیات الغ بیگ کا قتل</p> <p>9 رمضان المبارک سنہ 853 ہجری قمری کو ممتاز ماہر فلکیات الغ بیگ کو قتل کردیا گيا ۔وہ سولہ سال کی عمر میں تیمور کے جانشین مقرر ہوئے ۔تیمور کے برخلاف الغ بیگ کو ملک کی سرحدوں میں توسیع میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ زيادہ تر تحقیق و مطالعہ میں مشغول رہتے تھے ۔</p> <p>انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا جس میں دیگر موضوعات کے علاوہ علم نجوم خاص طور پر پڑھایا جاتا تھا ۔الغ بیگ کی دیگر کاوشوں میں سنہ 828 ہجری قمری میں سمرقند میں قائم کی گئی ایک تین منزلہ رصد گاہ ہے ۔قابل ذکر ہے کہ شمسی نظام کے کچھ سیاروں کے بارے میں الغ بیگ کی تحقیقات کے نتائج آج کی تحقیقات سے زيادہ مختلف نہیں ہیں ۔</p> <p>آیت اللہ شیخ محمد بہاری ہمدانی کاانتقال</p> <p>9 رمضان سنہ 1325 ہجری قمری کو آیت اللہ شیخ محمد بہاری ہمدانی کاانتقال ہوا ۔وہ 13 ویں اور 14 ویں صدی ہجری قمری کے ایران کے مشہور عارف اور بزرگ عالم دین ہیں جو اپنی پرہیزگاری نیکی عمل اور علمی کمالات کی وجہ سے مشہور ہیں ۔</p> <p>انہوں نے اپنی ابتدائي تعلیم مکمل کرکے عراق کے شہر نجف میں واقع اعلیٰ دینی درسگاہ میں داخلہ لیا اور تعلیم کی تکمیل کے بعد تدریس میں مشغول ہوگئے ۔آیت اللہ بہاری ہمدانی کی تصنیفات کا مجموعہ "تذکرۃ المتقین " کے نام سے شائع ہوا ہے ۔</p> <p>دس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کی وفات</p> <p>ام المؤمنین حضرت ختیجہ کبری سلام اللہ علیہا بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی پہلی بیوی جو کہ عرب اور اسلام کی نامدار ، اصیل اور نہایت با فضیلت خاتون تھیں ۔اس کے باجود کہ جاھلیت کے زمانے میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئی ، مگر عفت ، نجابت ، سخاوت ،حسن معاشرت ، صمیمیت ، صداقت ۔ شوھرکے نسبت وفا و محبت میں بے نظیر تھیں ۔ اس زمانے میں طاھرہ اور سیدۃ نساء قریش کے نام سے یاد کی جاتی تھیں ۔ اور پھر اسلام میں بہشت کی چار خواتین میں سے ایک قرار پائی اور انکی بیٹی حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیہا کے بغیر کوئی خاتون اس مقام کو نہ پہنچ سکی ہے ۔</p> <p>حضرت ختیجہ کبری سلام اللہ علیہا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سے پہلے ھند بن بناس تمیمی معروف بہ " ابوھالہ " اور اسکے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں تھی ۔اور ان دونوں سے اولادیں تھیں ۔دوسرے شوھر کے مرنےکے بعد حضرت ختیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے اپنی درایت اور عقلمندی سے تجارت کو کافی فروغ دیا اور عرب کی سرمایہ دار ترین فرد بن کر ابھری اور تجارت کے کافلوں کے کافلے شام وغیرہ بھیجا کرتی تھی ۔</p> <p>پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنے چاچاحضرت ابو طالب کے کہنےپر حضرت ختیجہ (س) کے تجارت میں شرکت کی اور حضرت ختیجہ کبری (س) کیلۓ کافی منافع کما کے دیااور ان کے دل میں آنحضرت کے نسبت محبت پیدا ہوئی اور آخر کار دونوں کا آپس میں نکاح ہوا ۔</p> <p>حضرت ختیجہ کبری (س) کا پیغمبر (ص) کے نسبت خاص محبت تھی اور جب آنحضرت مبعوث بہ رسالت ہوۓ تو اپنا سارا سرمایہ آنحضرت کے اختیار میں دیا تاکہ اسلام کے کام آجاے ۔وہ پہلی خاتون ہیں جس نے سب سے پہلے ایمان لایا اور اس راہ میں قریش کی طرف سے ڈھاۓ جانے والے مصائب تحمل اور بردباری کے ساتھ برداشت کۓ ۔</p> <p>جب تک زندہ تھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے دل کا سکون اور یار و یاور تھی اور شعب ابیطالب میں جلاوطنی کے شدید ترین دورمیں آنحضرت کا ساتھ نہ چھوڑا اور تمام وجود کے ساتھ انکی حمایت کرتی رہی ۔</p> <p>آخر کار یہ فداکارخاتون 25 سال رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اور اسلام کی خدمت میں رہ کر شعب ابی طالب میں قریشوں کے محاصرے سے نکل کر مکہ معظمہ میں دس رمضان بعثت کی دسویں سال میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر اعلی علیین کو عروج کرگئ ۔</p> <p>رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کم مدت میں دو عظیم حامی ابوطالب (ع)اور ختیجہ کبری(س) کو کھو بیٹھے اور اس وجہ سے کافی غمگین تھے ۔اور اس سال کو عام الحزن (غم کا سال ) نام دیا گيا۔</p> <p>حضرت ختیجہ کے بدن مطہر کے غسل و کفن کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے انہیں حجون مکہ میں دفن کیا ۔</p> <p>حضرت ختیجہ کبری (س) کے پیغمبر اسلام (ص) سے چھے فرزند دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جو کہ طیب اور طاھر کے نام سےمعروف ہیں اور بیٹیاں زینب ، رقیہ ،ام کلثوم اور حضرت فاطمہ زھراء تھے ۔( 5 ) ان فرزندان میں حضرت فاطمہ زھراء(س) بعثت کے بعد پیدا ہوئی اور وحی کی فضا میں آنکھیں کھولی ہیں ۔</p> <p>پیغبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت ختیجہ (س) کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم میرے لۓ پروردگار نے ختیجہ سے بہتر کسی کو نصیب نہ کیا کیونکہ جب لوگ کفرمیں تھے اس نے مجھ پر ایمان لایا ، جب لوگ مجھے جٹھلاتے تھے،وہ میری تصدیق کررہی تھی؛ جب لوگوں نے مجھے محروم کیا اس نے اپناسارا سرمایہ میرے اختیار میں رکھا۔ خدا نے اسکے ذریعہ مجھے اولاد عطا کۓ جبکہ دوسری بیویوں سے یہ کچھ نصیب نہ ہوا ۔</p> <p>خواجہ نظام الملک کاانتقال</p> <p>10 رمضان المبارک سنہ 485 ھ ق کو سلسلۂ سلجوقی کے معروف وزير اور مشہور زمانہ کتاب " سیاست نامہ " کے مصنف خواجہ نظام الملک کاانتقال ہوا۔</p> <p>وہ سنہ 410 ھ ق میں ایران کے شہر طوس میں پیدا ہوئے اور 40 سال تک سلجوقی دربار سے وابستہ رہے ۔ خواجہ نظام الملک نے اس مدت میں بغداد کے مدرسۂ نظامیہ کی طرز پر مدارس قائم کئے جن میں تقریبا" چھ ہزار طلبہ فقہ اور تفسیر قرآن اور اس زمانے میں رائج دیگر علوم کی تعلیم میں مصروف تھے ۔</p> <p>نظام الملک کی اہم ترین کتاب " سیاست نامہ " یا " سیر الملوک " ہے جو 51 ابواب پر مشتمل ہے اور تاریخی موضوعات سے پر ہے</p> <p>گیارہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>ابراہیم کر کی کا انتقال</p> <p>11 رمضان المبارک 853 ہجری کو مسلمان محدث ادیب اور مورخ ابراہیم کر کی، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں وفات ہوئی ۔انہوں نے قرآن سیکھنے اور ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اعلیٰ تعلیم کے لئے مختلف علمی اور دینی مراکز کی طرف رجوع کیا ۔</p> <p>یہاں تک کہ فقہ اور ادبیات میں کافی مہارت حاصل کرلی ۔ابراہیم کرکی نے مختلف کتابیں بھی لکھیں جن میں قرآنی علوم پر کتاب " اعراب المفصل " خاص طور سے قابل ذکر ہے ۔</p> <p>بارہ رمضان کے واقعات</p> <p>مہاجرین اور انصار کے درمیان پیمان اخوت</p> <p>12 رمضان سنہ 1 ھ ق کو رسول اکرم (ص) نے مکّے سے مدینے ہجرت کےکچھ ہی دنوں بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان پیمان اخوت باندھا ۔ مہاجرین وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرم (ص) کے ساتھ مکے سے مدینے ہجرت کی تھی اور انصار، مدینے کے وہ مسلمان تھے جنہوں نے مہاجرین کی میزبانی کی تھی ۔</p> <p>رسول اکرم (ص) نے مسلمانوں کے درمیان پیمان اخوت کی تقریب کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دنیا و آخرت میں اپنا بھائي قراردیا ۔</p> <p>مہاجرین اور انصار کے درمیان پیمان اخوت سے مسلمانوں کے درمیان قومی اور قبائلی اختلاف اور مدینے کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں مدد ملی ۔</p> <p>اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اورطاقت پیدا ہوگئی جن مسلمانوں نے رسول اکرم (ص) کے حکم پر ایک دوسرے کے ساتھ پیمان اخوت قائم کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت زيادہ ایثار و قربانی سے پیش آئے ۔</p> <p>تیرہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>علی سیستانی طاب ثراه کا انتقال</p> <p>13 رمضان سنہ 1340 ہجری کو ایران کے ایک بزرگ عالم اور فقیہ سید علی سیستانی کا انتقال ہوا ۔</p> <p>آپ اپنی اعلیٰ دینی تعلیمات کی تکمیل کے بعد سنہ 1318 ھ میں نجف اشرف سے ایران واپس آ گئے اور شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد مقدس کی جامع مسجد گوہر شاد میں لوگوں کی درخواست پرفقہ اور اصول فقہ کی تدریس شروع کی ۔</p> <p>آپ یہاں نماز جمعہ بھی پڑھاتے تھے ۔سید علی سیستانی کو آئینی تحریک کے زمانے میں اپنی مذہبی سرگرمیوں کے باعث ایک مدت تک قید خانے میں بھی رہنا پڑا اور بالآخر اسی راہ میں اسلام و مسلمین کی خدمت انجام دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے ۔</p> <p>جابر حاکم حجّاج بن یوسف ثقفی کا انتقال</p> <p>13 رمضان 95 ہجری قمری کو حکومت بنی امیّہ کے ظالم اور جابر حاکم حجّاج بن یوسف ثقفی کا انتقال ہوا ۔</p> <p>بنو امیہ کا ایک جرنیل،ظالم اور سفاک،سخت گیر گورنر،کہاجاتاہے کہ اسی کے ایماء اور حکم سے قرآن میں نقاط لگائے گئے،فصیح اللسان تھا۔اموی حکومت کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں اس کا بڑا حصہ رہا۔</p> <p>مکمل نام ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی۔ طائف میں پیدا ہوا وہی اس کی پرورش بھی ہوی[ 1 ]،حجاج بن یوسف طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی ۔</p> <p>جو ایک مدرس تھا۔ حجاج کا بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں پر حکومت کرنے کا عادی تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے اپنے باپ کے ساتھ ہی تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن وہ اس پیشے پر قطعی مطمئن نہ تھا اور کسی نہ کسی طرح حکمران بننے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ بالاخر وہ طائف چھوڑ کر دمشق پہنچا اور کسی نہ کسی طرح عبدالملک بن مروان کے وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور اسے ترقی دے کر اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا۔</p> <p>اس نے 173 ھ میں مکہ کا محاصرہ کیا جو سات ماہ تک جاری رہا اور کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے۔اس وقت وہاں حضرت عبداللہ ابن زبیر نے پناہ لے رکھی تھی جنہیں اس نے شہید کروا دیا۔ اور ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا۔یہ واقعہ اکتوبر 692ء کا ہے جس میں دس ہزار سے زائد مسلمان قتل ہو گئے۔[ 1 ]</p> <p>بعض مورخین نے حجّاج بن یوسف ثقفی کے حکم پر قتل کئے گئے افراد کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائي ہے ۔</p> <p>حجاج بن یوسف بہت باصلاحیت انسان تھا۔ وہ حکومت کے استحکام کے لیے ہر کام کرنے کو تیار رہتا۔لیکن اس کادوسرا رخ یہ کہ وہ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا۔ جا و بے جا تلوار استعمال کرتا ۔ انسان جان کی حرمت اس کے نزدیک کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ حرم کا احترام اس نے بے دریغ اٹھایا۔ حرام مہینوں کا احترام بھی وہ کم ہی کرتا تھا۔</p> <p>عراقیوں اور عجمی مسلمانوں سے اس کا سلوک نہایت ظالمانہ تھا ۔ وہ سخت متعصب تھا اور شمالی عدنانی قبائل کا سرپرست تھا۔ اس نے یمنیوں کو بلاوجہ ظلم کا نشانہ بنایا اور اس طرح سے اس کے ظلم و جور اور قبائلی تعصب پر بنو امیہ کی جڑیں کھوکھلی کر دیں۔ اور عوام الناس کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت کا بیج بویا گیا جو اموی سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔</p> <p>اس کی محبوب سزا مخالف کو برہنہ (ننگا) کر کے بغیر چھت کے قید خانوں میں رکھنا تھی۔ اس معاملے میں وہ مرد اور عورت کی تمیز بھی نہیں رکھتا تھا۔ مزید اذیت کے لیے وہ ایک ہی خاندان کے مرد و خواتین کو ایک ہی جگہ برہنہ قید رکھتا۔ ایک وقت میں اس کے برہنہ قیدیوں کی تعداد 50000 پچاس ہزار تک پہنچ گئی تھی جن میں 30000 خواتیں تھیں۔ ا</p> <p>حجاج بن یوسف ثقفی بے تحاشا مظالم کرنے کے باعث نفسیاتی اور جنونی بیماری کا شکار ہوکر مر گیا ۔لوگوں کے خوف سے ان کی میّت کو خفیہ طور پر ایک نامعلوم مقام پر دفنا دیا گیا ۔</p> <p>چودہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>محدث ابن مغازلی کا انتقال</p> <p>14 رمضان المبارک سنہ 542 ھ ق کو مسلمان فقیہ اور محدث ابن مغازلی کا انتقال ہوا ۔ وہ سنہ 457 ھ ق میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے عراق میں عظیم علماء سے تعلیم حاصل کی ۔</p> <p>ابن مغازلی کو اسلامی علوم و معارف میں سے علم حدیث میں بہت زيادہ دلچسپی تھی ۔انہوں نے اپنی زندگی کا زيادہ تر حصہ واسط اور بغداد شہر میں حدیث نقل کرنے میں گزارا ۔ انہوں نے اپنے اسلاف کے آثار کو بھی نقل کیا ہے جن میں ان کے والد کی مناقب بھی شامل ہیں ۔</p> <p>ابن مغازلی کے تحریری آثار میں صرف حدیث پر ایک کتاب دمشق کے کتب خانے " ظاہریہ " میں قلمی نسخے کی صورت میں محفوظ ہے ۔</p> <p>حکیم شمس الدین بہبہانی کا انتقال</p> <p>14 رمضان سنہ 1248 ہجری کو ایران کے مشہور دانشور اور حکیم شمس الدین بہبہانی نے وفات پائي ۔بہبہانی نے نوجوانی میں محقق بہبہانی اور علّامہ طباطبائي جیسے علماء سے کسب فیض کیا ۔وہ عظیم فقیہ اور عارف تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کا زيادہ تر حصہ تحقیق و تصنیف میں گزارا ۔شمس الدین بہبہانی نے " ، " پر تفصیلی شرح لکھی اور حکمت و اصول میں کئی کتابیں بھی تحریر کی ہیں</p> <p>پندرہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت باسعادت کامبارک دن</p> <p>مکمل نام حسن ابن علی</p> <p>ترتیب دوم</p> <p>جانشین حسین علیہ السلام</p> <p>تاریخ ولادت 15 رمضان، 03 ہجری</p> <p>کنیت ابو القاسم</p> <p>والد علی علیہ السلام</p> <p>والدہ فاطمہ بنت محمد</p> <p>تاریخ وفات 28 صفر، 50 ہجری</p> <p>جائے وفات مدینہ منورہ، جزیرہ نمائے عرب</p> <p>وجۂ وفات شہادت</p> <p>امام حسن علیہ السلام امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاکے بطن مبارک سے تھے۔ حضرت اما حسین علیہ السلام آپ کے چھوٹے بھائی تھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارھا فرمایا تھا کہ حسن و حسین علیہ السلام میرے بیٹے ھیں اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ھو اور حسن و حسین علیہ السلام رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ھیں۔( مناقب ابن شھر آشوب ، ذخائر العقبی)</p> <p>امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت پندرہ رمضان 3 ھء مدینہ میں ھوئی تھی۔ انھوں نے سات سال اور کچھ مھینے تک اپنے نانا (رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ کی وفات سے تین یا چہ مھینے پہلے ھوئی، آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آگئے تھے۔</p> <p>امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے حکم اور حضرت علی علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کے درجے پر فائز ھوئے اور ساتھ ساتھ ظاھری خلافت کے عہدیدار بھی بنے۔</p> <p>تقریباًچھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رھے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رھے. انہوں نے بعد میں امیر معاویہ رض سے صلح کر لی اور اقتدار سے دستبردار ہو گئے .</p> <p>عالم و فقیہ زین الدین بن علی کی شہادت</p> <p>15 رمضان سنہ 965 ھ ق کو عظیم عالم و فقیہ زین الدین بن علی شہید ہوئے ۔وہ شہید ثانی کے لقب سے معروف تھے ۔شہید ثانی سنہ 911 ھ ق میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کے پاس تعلیم حاصل کرنی شروع کی ۔</p> <p>اس کے بعد انہوں نے مختلف شہروں کا سفر کیا اور ممتاز علماء سے کسب فیض کیا جس کے نتیجے میں فقہ ، حدیث ، منطق اور فلسفے میں بہت مہارت حاصل کرلی ۔انہوں نے تقریبا" 70 کتابیں تحریر کیں ۔شہید ثانی کا بلند علمی مقام ان کے دشمنوں کے لئے بغض و حسد کا باعث بنا اور بالآخر ان کو شہید کردیا ۔</p> <p>سترہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>جنگ بدر</p> <p>17 رمضان سنہ 2 ہجری قمری کو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک علاقے میں اسلام کی ایک معروف و مشہور جنگ بدر ہوئی ۔بدر مدینے کے جنوب مغرب میں اٹھائیس فرسخ کی دوری پر واقع ایک کنویں کا نام ہے جہاں مشرکین سے مسلمانوں کی پہلی جنگ ہو‏ئي ۔</p> <p>اس جنگ میں مشرکین کے لشکر کی کمان ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی جبکہ مہاجرین اورانصار پر مشتمل اسلام کے لشکر کی قیادت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کررہے تھے ۔</p> <p>تاريخ اسلام کی معتبر کتابوں میں جنگ بدر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں مشرکین کے لشکر کے سپاہیوں کی تعداد نو سو بیس تھی اور اسلام کے سپاہیوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی لیکن اس کے باوجود اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی چونکہ یہ کامیابی دشمن کے تقریبا" تین برابر سپاہیوں کے مقابلے میں حاصل ہوئی تھی ۔</p> <p>اس لئے پیغمبر اسلام (ص) نے جنگ بدر میں ملنے والی اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت کی علامت بتایا ۔</p> <p>امیر علی شیر نوائی کی پیدائش</p> <p>17 رمضان سنہ 844 ہجری قمری کو معروف و مشہور ایرانی شاعر اور مصنف امیر علی شیر نوائی پیدا ہوئے ۔انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں شیریں و فرہاد ، لیلیٰ و مجنون اور قصۂ شیخ صنعان کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے شیر نوائي اپنے ترکی اشعار میں نوائی اور فارسی اشعار میں فنائی تخلص کرتے تھے ۔وہ سنہ 906 ہجری قمری میں 62 سال کی عمر میں وفات پاگئے -</p> <p>الحاج میرزا محمد ہاشم خوانساری کا انتقال</p> <p>17 رمضان سنہ 1318 ہجری قمری کو بزرگ عالم دین اور مرجع تقلید الحاج میرزا محمد ہاشم خوانساری نے ایران کے شہر اصفہان میں وفات پائي ۔انہوں نے دینی علوم کی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے دور کے اہم اور جیّد علماء سے کسب فیض کیا اور گہرے مطالعے اور تحقیق سے فقہ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر قرآن جیسے علوم میں کافی مہارت پیدا کرلی اور پھر اہم کتابوں کی تدریس اور تالیف شروع کردی ۔اس بزرگ عالم دین کی تصنیفات میں جواہر العلوم کی طرف خاص طور سے اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>فاضل شربیانی کا انتقال</p> <p>17 رمضان المبارک سنہ 1322 ہجری قمری کو 14 ویں صدی ہجری کے ایک عظیم مرجع تقلید فاضل شربیانی کی وفات ہوئی ۔ وہ علم اصول میں ایک بے نظیر استاد تھے انہیں فقہی احکام کے استنباط میں کمال حاصل تھا۔ فاضل شربیانی آذربائیجان اور قفقاز میں مسلمانوں کے مرجع تقلید تھے ۔آپ کی متعدد کتب میں نو جلدوں پر مشتمل رسائل و مکاسب کی شرح قابل ذکر ہے ۔</p> <p>اٹھارہ رمضان کے اہم واقعات</p> <p>میرزا عبدالعظیم خان قریب کی پیدائش</p> <p>18 رمضان سنہ 1296 ہجری قمری کو ایران کے مایۂ ناز محقق اور ادیب میرزا عبدالعظیم خان قریب ،ایران کے ایک شمالی شہر گرگان میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے صرف و نحو ، منطق ، ریاضی اور ادب کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور ان علوم میں مہارت حاصل کی ۔</p> <p>استاد قریب نے فارسی زبان و ادب سے متعلق متعدد کتابیں تالیف کیں جن میں فارسی قواعد کی کتاب " قواعد فارسی " اور بڑے ایرانی شعراء اور قلمکاروں کے حالات زندگی اوران کی منظوم اور نثری تخلیقات کے بہترین اقتباسات پر مشتمل کتاب " فوائد الادب " کا نام خاص طور سے لیا جاسکتا ہے۔</p> <p>ایران کے اس ممتاز ادیب کا ایک اور شاہکار " تاریخ مفصل و جامع شعرائے ایرانی " یعنی ایرانی شاعروں کی مفصل اور جامع تاريخ ہے.</p> <p>انیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ زہر آلود تلوار سے زخمی ھوئے</p> <p>19 رمضان سنہ 40 ھ ق کو سحر کے وقت رسول اکرم (ص) کے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عبدالرحمٰن ابن ملجم مرادی نے کوفے کی مسجد میں نماز کے دوران زہر آلود تلوار سے زخمی کردیا ۔</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اکرم (ص) کے بعد پہلی شخصیت ہیں جن کو تاریخ اسلام تقویٰ ، ایمان ،اخلاق ، شجاعت ،علم اور انصاف کے مظہر کی حیثیت سے یاد کرتی ہے ۔</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اکرم (ص) کی آغوش میں تربیت پائي اور معارف الٰہی کے اعلیٰ ترین مدارج طے کئے ۔ آپ پہلے شخص ہیں کہ جنہوں نے رسول اکرم (ص) کی دعوت اسلام پر لبیک کہی ۔</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہر مرحلے ہیں رسول اکرم (ص) کے سچے وفادار اور یارو مددگار رہے اور آپ (ص) کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا ۔یہاں تک کہ رسول اکرم (ص) کی جان اور دین اسلام کی حفاظت کی خاطر بارہا اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ۔</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ باطل کے خلاف حق کی جنگ میں ہمیشہ مرد میدان رہے ۔اسی کے ساتھ آپ بہت مہربان اور نرم دل بھی تھے اور کسی یتیم کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر بہت زيادہ متاثر اور غمگین ہوجایا کرتے تھے</p> <p>حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تقاریر ، خطبوں اور احکام و فرامین نیز خطوط کا مجموعہ " نہج البلاغہ " جس کو ایک بڑے عالم و دانشور سید رضي علیہ الرحمہ نے جمع کیا ہے آج بھی عالم بشریت کی ہدایت و رہبری کے لئے قرآن حکیم کے بعد سب سے عظیم اور مفید مجموعہ سمجھا جاتا ہے اور ایک دنیا اس گرانقدر کتاب سے فیضياب ہورہی ہے ۔</p> <p>ریاضي داں غیاث الدین جمشید کا انتقال</p> <p>19 رمضان سنہ 832 ھ ق کو معروف ایرانی منجم اور ریاضي داں غیاث الدین جمشید کاشانی کا انتقال ہوا ۔</p> <p>وہ بڑے زبردست منجم اور ریاضی داں تھے ۔انہوں نے رصدگاہ کے بہت سے آلات ایجاد کئے ۔غیاث الدین جمشید کاشانی نے علم ریاضي اور نجوم کے موضوع پر اہم اور قیمتی کتابیں تحریر کیں جن میں " مفتاح الحساب " اور" رسالۂ آلات رصد" خاص طور سےقابل ذکر ہیں ۔</p> <p>بیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>رسول اکرم (ص) کی کمان میں مکّہ شہر کی فتح اور سورۂ نصر کا نزول</p> <p>بیس رمضان سنہ 8 ھ ق کو رسول اکرم (ص) کی کمان میں لشکر اسلام نے مکّہ شہر کو فتح کیا ۔رسول اکرم (ص) کا یہ اقدام کفار کی طرف سے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کئے جانے کے بعد عمل میں آیا تھا ۔</p> <p>سنہ 6 ھ ق میں رسول اکرم (ص) اور قبیلۂ قریش کے درمیان صلح حدیبیہ سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے ۔آپ نے فتح مکہ کے بعد اس شہر کے لوگوں کو پناہ دی جبکہ ان لوگوں نے دین اسلام کے فروغ کو روکنے کی کوشش کی تھی ، اور رسول اکرم (ص) سمیت مسلمانوں کو ایذائيں اور تکالیف پہنچائی تھیں ۔</p> <p>آپ (ص) کے اس محبت آمیز رویّے سے متاثر ہوکر قبیلۂ قریش نے اسلام قبول کرلیا ۔بہرحال مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہوگیا ۔اس کے بعد رسول اکرم (ص) نے کچھ افراد کو مکے کے اطراف میں بت خانے توڑنے کے لئے بھیجا اور خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ خانۂ کعبہ کے بتوں کو توڑنے میں مشغول ہوگئے ۔</p> <p>اس کامیابی پر خداوند عالم نے آنحضرت (ص) پر سورۂ نصر نازل فرمایا ۔</p> <p>علم نحو کے ماہر " ابن شجری " کا انتقال</p> <p>20 رمضان سنہ 542 ہجری کو مسلمان شاعر ، ادیب اور علم نحو کے ماہر " ابن شجری " کا انتقال ہوا ۔ان کا نسب نواسۂ رسول (ص) حضرت امام حسن مجتبی (ع) سے ملتا ہے ۔اسی لئے انہیں علوی حسنی کا نام دیا گيا ہے ۔</p> <p>ابن شجری نے 70 سال تک نحو کی تعلیم دی ۔ان کے بہت سے تحریری آثار بھی یادگار کے طور پر موجود ہیں جن میں الامالی ۔ الحماسہ ۔اور منظومۂ ابن الشجری خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>ادیب یاقوت حموی کا انتقال</p> <p>20 رمضان سنہ 626 ہجری قمری کو ساتویں صدی ہجری کے مشہور ادیب یاقوت حموی نے وفات پائی ۔وہ سنہ 539 ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئے ۔</p> <p>نوجوانی میں قیدی بنالئے گئے لیکن کچھ عرصے کے بعد انہیں ایک تاجر نے بغداد میں خرید لیا اور پھر آزاد کردیا ۔یاقوت حموی نے آزاد ہونے کے بعد بہت سے سفر کئے اور دوران سفر مطالعہ بھی کرتے رہے ۔</p> <p>یہاں تک کہ حموی چنگیز خان کے ماورالنہر پر حملے کے دوران شام کے شہر حلب کی طرف چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔ان کے اہم تحریری آثار میں معجم البلدان اور معجم الادباء قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>اکیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>مولائے متقیان ، امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ شہید ہوئے</p> <p>21 رمضان سنہ 40 ھ ق کو جانشین رسول اکرم (ص) ، مولائے متقیان ، امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ شہید ہوئے ۔ شہادت سے دو روز قبل مسجد میں صبح کی نماز کے دوران جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سجدے کی حالت میں تھے کہ ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے آپ کے سرپروار کیا اور 21 رمضان کو آپ کرم اللہ وجہہ اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ۔</p> <p>آپ نے وہ سعادت حاصل کرلی جس کی آپ کو ہمیشہ سے آرزو تھی، یعنی راہ خدا میں شہادت ۔آپ کا طرز زندگی ، آپ کی حکومتی روش اور آپ کے خطبات و کلمات آج کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی عدل و انصاف اور حق و صداقت کی جستجو کرنے والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے رہے ہیں ۔</p> <p>نہج البلاغہ آپ کے خطبات ، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل اہم کتاب ہے جس کو ایک بڑے عالم و دانشور سید رضی علیہ الرحمہ نے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت آمیز باتوں ، عرفانی معارف اور اخلاقی نصیحتوں کا بحر بے کراں ہے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انسان کے لئے اخلاقی فضائل سے آراستہ ہونے کی بہترین راہ ،تقویٰ و پرہیزگاری کو قراردیا ہے ۔</p> <p>مولا علی کرم اللہ وجہہ کی شخصیت کا مختصر خاکہ</p> <p>تاریخ اسلام میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے امتیازی اوصاف وکمالات اور خدمات کی بنا پر رسول (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں " ۔کبھی یہ کہا کہ " میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے " کبھی یہ کہا " تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے " کبھی یہ کہاکہ " علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ (ع) سے تھی" کبھی یہ کہاکہ " علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے"</p> <p>کبھی یہ کہ" وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں " یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی کرم اللہ وجہہ کو نفس رسول کاخطاب ملا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر (ص) اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس جس کامیں سرپرست اورحاکم ہوں اس اس کے علی سرپرست اور حاکم ہیں یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی کرم اللہ وجہہ کو مبارک باد دی اور ان میں حضرت عثمان غنی (رض) نے سب سے پہلے دی ۔سارے جہانوں نے سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے علی کرم اللہ وجہہ کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے۔</p> <p>افسوس ہے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچ سکا اور 19 ماہ رمضان 40 ھ کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالت نماز میں زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس کوزخمی کیا گیا ۔</p> <p>آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔</p> <p>تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے ۔</p> <p>دو روز تک علی کرم اللہ وجہہ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظ?م تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا۔</p> <p>مولا ئے کایئانات حضرت علی فرماتے ہیں</p> <p>تم کو ان لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجا م کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طالبوں کے سے ہوتے ہیں.</p> <p>اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجا نہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔ اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں. اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں.</p> <p>جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے. جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں.</p> <p>ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے. دوسروں کے لیے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں. اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .</p> <p>جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں. اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں ,اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں. عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں. مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں. فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں ۔</p> <p>وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں. موت سے ڈرتے ہیں. مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے. دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .</p> <p>لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں.</p> <p>اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے. وہ اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خو ف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔</p> <p>معروف عالم اور محدث " شیخ حرّ عاملی " کا انتقال</p> <p>21 رمضان المبارک سنہ 1104 ہجری قمری کو لبنان کے معروف عالم اور محدث " شیخ حرّ عاملی " کا انتقال ہوا ۔وہ سنہ 1033 ہجری میں پیدا ہوئےتھے انہوں نے 40 سال تک لبنان اور شام کے قابل قدر اساتذہ سے کسب فیض کیا اور ان کے علم سے بہرہ مند ہوئے ۔</p> <p>شیخ حر عاملی کچھ عرصے بعد ایران کے شہر مشہد مقدس چلے آئے اور تقریبا" 24 سال تک دین کی ترویج ، تدریس اور قاضی کے فرائض انجام دیئے ۔</p> <p>اس بلند پایہ عالم کی تالیفات میں کتاب "وسائل الشیعہ " معروف ترین ہے جو فقہ اور حدیث کی معتبر کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ان کی دیگر کتب میں <annotation lang="ar">" الجواہرُ السنیّہ فی الاحادیث القُدسیّہ "</annotation> اور " دیوان شعر عربی " قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>بایئس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>معروف مسلمان محدث اور مفسر ابن ماجہ کا انتقال</p> <p>22 رمضان المبارک سنہ 273 ہجری قمری کو معروف مسلمان محدث اور مفسر ابن ماجہ کا انتقال ہوا ۔وہ سنہ 209 ہجری قمری میں ایران کے شہر قزوین میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کیا ۔ابن ماجہ نے علم حدیث میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی مشہور کتاب سنن ابن ماجہ تحریر کی جو اہل سنت کی صحاح ستّہ میں شامل ہے ۔ابن ماجہ کی دیگر اہم کتابوں میں تفسیر قرآن اور تاریخ قزوین قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>عظیم عالم دین الحاج عبدالحسین تہرانی کا انتقال</p> <p>22 رمضان المبارک سنہ 1286 ہجری قمری کو ایران کے عظیم عالم دین الحاج عبدالحسین تہرانی نے وفات پائي ۔ وہ شیخ العراقین کے نام سے مشہور تھے ۔وہ ایک فقیہ ،محقق ، دانشور اور متقی انسان اور قوی حافظہ کے مالک تھے ۔شیخ العراقین فقہ ، حدیث اور تفسیر قرآن میں انتہائي مہارت رکھتے تھے ۔انہیں مذہبی کتب جمع کرنے کا بہت شوق تھا وہ ایک بڑی لائبریری کے مالک تھے جسے انہوں نے محققین اور اہل مطالعہ کے لئے وقف کردیا ۔</p> <p>تئیسویں رمضان کے اہم واقعات</p> <p>احمد بن طولون کی پیدایئش</p> <p>23 رمضان المبارک سنہ 220 ہجری قمری کو مصر اور شام کے فرمانروا اور خاندان طولونیان کے بانی احمد بن طولون پیدا ہوئے ۔ طولونیان پہلا خاندان تھا جس نے اپنے قلمرو میں شام کو بھی شامل کرلیا ۔اس خاندان کا سلسلۂ نسب طولون نامی غلام تک پہنچتا ہے جسے بخارا کے حاکم نے عباسی خلیفہ مامون کے لئے تحائف کے ساتھ بھیجا تھا ۔اس کے بیٹے احمد طولون نے اپنے خاندان کی حکومت کی بنیاد رکھی ۔اس خاندان نے سنہ 254 ہجری قمری سے سنہ 292 ہجری قمری تک مصر اور شام پر حکومت کی۔</p> <p>عالم دین جمال الدین خوانساری کا انتقال</p> <p>23 رمضان المبارک سنہ 1125 ہجری قمری کو عظيم مسلمان عالم دین جمال الدین خوانساری کا انتقال ہوا ۔وہ ایران کے ایک تاریخی شہر اصفہان میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے دور کے معروف دانشوروں سے کسب فیض کیا اور تدریجا" علمی کمالات طے کرتے رہے ۔جمال الدین کو فقہ ، اصول فقہ ، کلام ، منطق ، فلسفے اور تفسیر میں خاص مہارت حاصل تھی اور ان علوم میں وہ استاد مانے جاتے تھے ۔</p> <p>چوبیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>شہرہ آفاق طبیب ، ریاضي دان ، فلسفی اورعلم فزکس و نجوم کے ماہر قطب الدین شیرازی کاانتقال</p> <p>24 رمضان المبارک سنہ 710 ہجری قمری کو ایران کے شہرہ آفاق طبیب ، ریاضي دان ، فلسفی اورعلم فزکس و نجوم کے ماہر ،قطب الدین شیرازی نے تبریز میں وفات پائي ۔وہ خواجہ نصیرالدین طوسی کے شاگرد تھے ۔قطب الدین شیرازی ، پہلے دانشور ہیں ، جنہوں نے قوس قزح کے بارے میں تحقیق کی اور علمی نقطۂ نگاہ سے اس پر بحث کی ۔</p> <p>انہوں نے منطق ، عرفان اور ہند سے کے علوم اپنے دور کے ممتاز دانشوروں سے حاصل کئے ۔قطب الدین شیرازی نے علم طب میں بھی کافی محنت کی اور کئي سال تک شیراز کے اسپتال میں طبیب اور معالج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔انہوں نے فلسفے ،اصول فقہ اور علم معانی و بیان پر متعدد کتابیں تحریر کی ہیں ، جن میں ابن سینا کی کتاب قانون کی شرح ۔ خواجہ نصیرالدین طوسی کی تحریر اقلیدس کا ترجمہ اور علم نجوم میں نہایَتہ الادراک فی درایت الافلاک کا نام لیا جا سکتا ہے .</p> <p>پچیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>فخرالدین رازی کی پیدایئش</p> <p>25 رمضان المبارک سنہ 544 ہجری قمری کو معروف مسلمان دانشور فخرالدین رازی ایران کے علاقے شہر ری میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنے دور میں رائج بہت علوم میں مہارت حاصل کی اور مختلف مسائل کے بارے میں تحقیقات انجام دیں ۔</p> <p>فخرالدین رازي کو اپنے دور میں علم کلام میں اہم مقام حاصل تھا انہوں نے اپنے دور کے دانشوروں کی تصانیف کی تصحیح بھی کی ۔ فخرالدین رازي کی اہم کتابوں میں تفسیر الکبیر ، اسرار التنزیل ، جامع العلوم اور مفاتیح الغیب خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>مفسر اور محدث ابن عطیہ کا انتقال</p> <p>25 رمضان المبارک سنہ 541 ہجری قمری کو مسلمان مفسر اور محدث " ابن عطیہ " نے وفات پائي ۔انہوں نے اندلس کے ایک ایسے خاندان میں پرورش پائی جس کے تمام افراد علم و ادب میں بلند مقام رکھتے تھے ۔</p> <p>اگرچہ ابن عطیہ ایک مفسر اور محدث کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے لیکن بہت سے مورخین نے انہیں فقہ ، اصول فقہ اور عربی ادب کا ماہر قرار دیا ہے ۔ابن عطیہ کی تالیفات میں تفسیر قرآن پر مشتمل ایک کتاب کے علاوہ " البرنامج " نامی کتاب خاص طور سے قابل ذکر ہے</p> <p>چھبیس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>مورخ ، مفکر اور ماہر عمرانیات ابن خلدون کا انتقال</p> <p>26 رمضان المبارک سنہ 808 ہجری کو مسلمان مورخ ، مفکر اور ماہر عمرانیات ابن خلدون کا انتقال ہوا ۔ان کو فقہ ،حدیث ، عربی ادب اور دینی معارف سمیت اپنے زمانے کے تمام علوم میں مہارت حاصل تھی ۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوتے تو شہر کی جامع مسجد میں درس و تدریس میں مشغول ہوجاتے ۔ابن خلدون نے 43 سال کی عمر میں بہت زيادہ غور و فکر اور مطالعے کے بعد متعدد مسائل پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مغربی تاریخ کا کچھ حصّہ تحریر کیا ۔</p> <p>ابن خلدون نے تاریخی فکر کو ایک نئے مرحلے تک پہنچایا اور واقعات نقل کرنے کی صورت میں تاریخ لکھنے کی روش کو تجزیاتی اور علمی روش میں تبدیل کردیا ۔ابن خلدون کے نظریات کی روشنی میں اسلامی معاشروں کے تاریخی تغییرات کو زيادہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے ۔ابن خلدون کی اہم تالیفات و تصنیفات میں خلاصۂ منطق ، مقدمۂ ابن خلدون اور کتاب اَلعبَر و اَلتَعریف کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>عالم دین جمال الدین محمد خوانساری کا انتقال</p> <p>26 رمضان سنہ 1125 ہجری کو ایران کے ایک عظیم عالم دین جمال الدین محمد خوانساری کا انتقال ہوا ۔وہ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ایران کے شہر اصفہان میں اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا اور علم کلام ، منطق ، فلسفے ، فقہ ، اصول فقہ اور تفسیر میں مہارت حاصل کی ۔جمال الدین خوانساری نے فقہ اور فلسفے کی بعض معروف کتابوں کی شرح اور ان پر حاشیہ تحریر کیا ۔</p> <p>ستایئس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>عالم دین علّامہ محمد باقر مجلسی کا انتقال</p> <p>27 رمضان المبارک سنہ 1110 ہجری قمری کو عظیم مسلمان عالم دین علّامہ محمد باقر مجلسی کا انتقال ہوا ۔انہوں نے اپنی زندگی میں متعدد کتابیں لکھیں جو مسلمانوں کے لئے اہم ترین ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔علّامہ مجلسی دینی علوم اور تدوین حدیث میں مہارت رکھتے تھے وہ دینی علوم کے میدان میں تصنیف و تالیف کے لحاظ سے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے ۔</p> <p>علّامہ مجلسی نے اپنی پوری زندگی میں نماز جمعہ و جماعت قائم کرنے ، دینی مدارس کی تشکیل ، پیغمبر اسلام (ص) کی احادیث اور اہل بیت (ع) کی روایات کی ترویج کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ۔علّامہ مجلسی کی تصنیفات 600 سے زائد بیان کی گئی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور بحارالانوار ہے ۔</p> <p>بحارالانوار عربی زبان میں احادیث و روایات کا مجموعہ ہے جسے علّامہ مجلسی نے کئی برس میں جمع کیا ۔علّامہ مجلسی کی دیگر اہم کتابوں میں عین الحیات اور حیات القلوب کانام قابل ذکر ہے ۔</p> <p>عظیم عالم اور فقیہ ، حسن بن زین الدین کی پیدایئش</p> <p>27 رمضان المبارک سنہ 959 ہجری قمری کو دسویں صدی ہجری کے عظیم عالم اور فقیہ ، حسن بن زین الدین لبنان میں واقع جبل عامل کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے ۔</p> <p>وہ صاحب معالم کے نام سے معروف ہوئے ۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے حوزۂ علمیۂ نجف تشریف لے گئے ۔ فقہ، اصول فقہ، منطق اور ریاضی جیسے علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے اور دینی علوم کی تدریس کا آغاز کردیا ۔</p> <p>اٹھایئس رمضان کے اہم واقعات</p> <p>منجم اور محدث ابو معشر بلخی کا انتقال</p> <p>28 رمضان المبارک سنہ 272 ہجری قمری کو ایران کے منجم اور محدث ابو معشر بلخی نے وفات پائی ۔ وہ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں بغداد گئے جہاں علم نجوم کی تعلیم حاصل کی اوراس سے متعلق یونانی ، سریانی ،ہندی اور عربی زبانوں کے مختلف مآخذ کا مطالعہ کیا ۔ابو معشر اپنے دور کے معروف ترین مسلمان منجم تھے ۔ ابو معشر نے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں المدخل الکبیر اور الموالید الصغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔</p> <p>انتسیویں رمضان کے اہم واقعات</p> <p>عظیم عالم دین محدث اور ادیب علّامہ حلّی جو جمال الدین کی پیدایئش</p> <p>29 رمضان المبارک سنہ 648 ہجری قمری کو عظیم عالم دین محدث اور ادیب علّامہ حلّی جو جمال الدین کے نام سے معروف ہیں ، پیدا ہوئے ۔ابتدا میں انہوں نے اپنے والد کے پاس رائج علوم سیکھے ۔</p> <p>اس کے بعد فقہ ،اصول فقہ اور حدیث جیسے علوم میں اعلیٰ علمی درجے پر فائز ہوئے ۔علّامہ حلّی زہد و تقویٰ کے لحاظ سے بہت مشہور تھے ۔مختلف موضوعات پر ان کی پانچ سو سے زائد تصانیف موجود ہیں جن میں " تذکرہ الفقہا " اور " ارشاد الاذہان " کی طرف خاص طور سے اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>خطیب اور مورخ ابن فرات کا انتقال</p> <p>29 رمضان المبارک سنہ 807 ہجری قمری کو مصری فقیہ ، خطیب اور مورخ ابن فرات کا قاہرہ میں انتقال ہوا ۔وہ اسی شہر میں سنہ 735 ہجری قمری میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی جوانی سے ہی علم کی جستجو شروع کردی ۔انہیں تاريخ میں بے حد دلچسپی تھی اسی لئے ہمیشہ تاریخی مسائل کو قلمبند کرنے میں مصروف رہے ۔اسی حوالے سے ان کی معروف کتاب " تاریخ الدول و الملوک " جو تاریخ ابن فرات کے نام سے بھی معروف ہے ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں چھٹی سے آٹھویں صدی ہجری تک کے حالات و واقعات کو لکھا ہے ۔ابن فرات نے اپنی کتاب تاریخ میں برسوں کے اعتبار سے حالات و واقعات کو قلمبند کیا ہے اور ہر سال کےاختتام پر بڑی شخصیات کی تاریخ وفات کا اضافہ کیا ہے ۔ابن فرات کی دیگر کتابوں میں " السماء الصحابہ " اور " تاریخ العباد و البلاد " کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔</p> </section> </body>
5506.xml
<meta> <title>مفتی عبدالقوی،قندیل بلوچ میں اورحامد میر</title> <author> <name>شہریار خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28100/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>844</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مفتی عبدالقوی،قندیل بلوچ میں اورحامد میر
844
No
<body> <section> <p>دل تو بہت چاہ رہا ہے کہ مفتی عبدالقوی اور محترمہ قندیل بلوچ صاحبہ کی سیلفیوں پر کچھ کہوں۔۔ لیکن ہمت نہیں پڑ رہی ۔۔ مفتی قوی ایک تو عالم دین ٹھہرے کہ جناب ایک عالم دین کا قصہ بیان کرنے پر اگر حامد میر کو توہین کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے تو میں کس کھیت کی مولی ہوں، اپنے بڑے بھائی حامد میر کو اللہ سلامت رکھے ان کو تو گارڈ بھی حاصل ہے۔ میں تو تنخواہ میں اپنا خرچ مشکل سے چلاتا ہوں گارڈ کیسے رکھوں گا۔۔</p> <p>پھر اس پہ ان عالم دین کا ایک سیاسی جماعت سے تعلق ہونا جس کے لیے بس جنت ہی لکھ دی گئی ہے ۔۔ اس جماعت میں جانے والا یا اس کی تائید و حمایت کرنے والا چاہے جتنا بھی کرپٹ رہا ہو، چور ہو، ڈاکو ہو۔۔ بدکار ہو یا بد کردار ہو۔۔ بس تمام داغ دھل جاتے ہیں کیونکہ اس جماعت کا نعرہ ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔۔</p> <p>لکھنا تو چاہتا ہوں مگر پھر سوچتا ہوں اپنی قندیل بی بی اگلے برس کسی ٹی وی چینل پر رمضان کی ٹرانسمیشن کر رہی ہو گی اور اس کے ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھیں گے تو وہ دنیا کے لیے خیر و برکت مانگے گی اور میں ان فیوض و برکات سے محروم رہ جاؤں گا۔۔ اس لیے میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ خاتون تو پہلے شاہد آفریدی کے پیچھے پڑی پھر عمران خان کے پیچھے اور پھر عمران بھائی ہاتھ نہیں آئے تو اس نے سوچا کہ چلو لیلیٰ نہ سہی۔۔۔ لیلیٰ کا مولوی ہی سہی۔۔</p> <p>اس لیے قندیل بلوچ قدم بڑھاؤ۔۔ اس ملک کا میڈیا آپ کے ساتھ ہے۔ جیسے وہ ایان علی کے ساتھ ہے۔۔ ایان علی سے یاد آیا ۔۔ اس خاتون کے ساتھ بھی کسی کی پکی دشمنی ہے ورنہ یہاں سے ملک کا آئین توڑنے والا۔۔۔ کیسے عدالتوں اور حکومتوں کا تمسخر اڑاتا رخصت ہوا۔۔ اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے عدالت نے بال حکومت کی کورٹ میں پھینکی تھی کیونکہ وہ یہ بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔۔ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی جو بندھی ہوتی ہے اس لیے اس نے سوچا حکومت کی آنکھیں تو کھلی ہوتی ہیں اور دھرنے کے بعد تو اور بھی زیادہ کھل گئی تھیں اس لیے ان کو نظر صاف آتا ہے ۔۔ مگر عدالت یہ بھول گئی کہ آنکھوں پر پٹی نہیں ہے مگر ہاتھوں میں زنجیر ضرور ہے۔</p> <p>خیر وہ مضبوط تھا نکل گیا۔ ایان علی ٹھہری صنف نازک ، اس سے کام لینے والے اسے وکیل تو بڑا کر کے دے سکتے ہیں عدالت جاتے ہوئے اس کا روٹ تبدیل کروا کے اسے کہیں اور نہیں پہنچا سکتے، بہرحال ایان علی کو دوسروں کے لیے سبق بنایا جا رہا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔</p> <p>اصل معاملہ تو جناب وہ ہے جناب جس کا کوئی تذکرہ بھی نہیں کر رہا۔ دو وڈیوز آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک میں شرجیل میمن لندن کے کسی ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہیں تو ایک رننگ کمنٹری کرتا شخص اس کو گالیاں دیتا ہے وہ مڑ کے دیکھتا بھی ہے مگر کسی تبصرہ کے بغیر نکل جاتا ہے۔۔ دوسری وڈیو بھی تقریباً ایسی ہی ہے اس میں بھی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے کو ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے پر اپنی گلابی انگریزی میں خوب گالیاں دیتا ہے۔۔ حسن نواز واپس آتا ہے اور وہ بھی گلابی بلکہ پنجابی نما انگریزی میں اپنے تئیں جواب دیتا ہے مگر وہ اس جواب سے مطمئن نہیں دکھائی دیتا اور پھر سے اس کے پیچھے چلتے ہوئے آوازے کستا رہتا ہے وہ بھی اسی گلابی انگریزی میں۔</p> <p>یہ دو وڈیوز نہیں پیغام ہے سب کے لیے ۔۔۔ پیغام یہ ہے کہ جناب ۔۔ اگر آج کسی اور کے پیچھے چلتے یہ لوگ کیمرے پکڑ کر چل رہے ہیں تو کل آپ کے پیچھے بھی ہوں گے، وقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔۔ آج آپ سیاست میں جو بدتمیزی کا بیج بو رہے ہیں کل آپ اس کی کھڑی فصل کاٹیں گے۔۔ کیونکہ شاید آپ بہت ایماندار ہوں مگر آپ کے دائیں بائیں وہی ہیں جو کئی تھالیوں سے لڑھکنے کے بعد آپ تک پہنچے ہیں۔۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔</p> <p>کرپشن کے خلاف آپ کا پیغام اچھا ہے مگر اپنے ساتھ کھڑے کرپٹ لوگوں کو ایسے موقع پر اپنے کندھے کے پیچھے چھپا کر آپ اپنے پیچھے فلم بنانے والے تیار کر رہے ہیں جو مستقبل میں آپ کے کسی ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے پر گلابی انگریزی میں نہیں بلکہ ٹھیٹھ پنجابی میں آپ کی شان میں قصیدے پڑھیں گے۔</p> <p>لوگ کرپشن کے خلاف ہیں مگر ایسے احتساب کو نہیں مانتے جس میں آپ اپنے ساتھیوں کی کرپشن کو جائز قرار دے دیں اور دوسروں کی کرپشن پر انہیں پھانسی دینے کا مطالبہ کریں، دوہرا معیار ترک کر کے آگے بڑھیں تو شاید ہم ایسے لوگ بھی آپ کے ساتھ چلیں مگر جب آپ کے ساتھ چلنے والوں میں سب پرانے فرشتے ہوں گے تو ہم انسانوں کی جگہ کیسے بنے گی۔۔ سوچئے گا ضرور۔۔۔۔</p> </section> </body>
5507.xml
<meta> <title>ماہ رمضان میں بہودہ رمضان نشریات</title> <author> <name>سید انور محمود</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28274/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1651</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ماہ رمضان میں بہودہ رمضان نشریات
1,651
No
<body> <section> <p>صرف ایک ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا، اب بھی ہے، نام ہے "پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک" لیکن اس کو عام طور "پی ٹی وی" کہا جاتا ہے۔پی ٹی وی نے اپنی نشریات کا آغاز 26 نومبر 1964ء کو لاہور کے اسٹیشن سے کیا۔ پی ٹی وی پر صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا، اس سے خبریں بھی نشر ہوتی تھیں اور ڈرامے بھی دکھائے جاتے تھے، پی ٹی وی کے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بڑئے شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی کے پروگرام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاسکتے ہیں، چونکہ پی ٹی وی ایک سرکاری ادارہ ہے لہذا بغیر نفع نقصان کی فکرکئے اس کی نشریات جاری رہیں۔ سرکاری اداروں میں سرکار کی پالیسی چلتی ہے لہذا پی ٹی وی عوام کو وہی کچھ دکھاتا ہے جو سرکار چاہتی ہے اور یہ ہی عوام کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ پی ٹی وی جہاں حکومت وقت کی ترجمانی کرتا ہے وہیں قوم کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کا حق بھی بھرپورطریقے سے ادا کرتا رہا ہے۔</p> <p>جنگ گروپ نے 2002ء میں جیو ٹی وی چینل کے نام سے پاکستان میں اپنی نشریات کا آغاز کیا بعد میں اس چینل میں توسیع ہوئی اور اس کے مزید چینل کھلے۔ 2002ء کے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 80 سے بھی زیادہ نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتی ہیں، تاہم ملک کی علاقائی زبانوں (پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، سرائیکی وغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ جن میں خبریں، صحت ، تعلیم اور تفریح کے بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پی ٹی وی ورلڈ پاکستان کا پہلا انگریزی چینل ہے۔جیسے جیسے چینلز کی تعداد بڑھی تو مقابلے کا رجحان بھی بڑھا اور زیادہ کمائی کیسے کی جائے اس کی فکر ہوئی، چینلز کے مالکان جو دراصل سیٹھ ہیں ان کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ عوام کو اچھی تفریح مہیا کی جائے یا انکو حقایق سے آگاہ کیا جائے بلکہ سیٹھوں کی ساری دلچسپی اس میں ہے کہ کس طرح عوامی توجہ حاصل ہو تاکہ ریٹنگ بڑھے جو اشتہارات اور کمائی میں اضافے کا سبب ہے۔ اس ریٹنگ کی چاہت میں چینلز کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان میں تمام نیوز چینل روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک ٹاک شو کے نام پر سیاسی مجرئے کرتے ہیں اور ان ٹاک شوز میں چھانٹ چھانٹ کر بدتمیزوں کو جمع کیا جاتا ہے جو آپس میں ایک دوسرئے کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں، گذشتہ دنوں ایک نام نہاد مذہبی رہنما تو اس قدر بے قابو ہوگئے کہ انہوں نے اپنی مدمقابل خاتون کو وہ کچھ کہہ دیا جو شاید ایک شریف انسان کبھی بھی نہ کہہ پائے، بہت شور ہوا لیکن جناب اس ٹی وی چینل کے سیٹھ کی تو عید ہوگئی کیونکہ پروگرام میں مذہبی رہنما کےبےہودہ پن کے بعد یقیناً چینل کی ریٹنگ بڑھی ہوگی اور سیٹھ کی آمدنی۔</p> <p>ٹاک شوز میں آنے والے سیاستدانوں میں کبھی کبھی ایک شریف سیاستدان بھی مل جاتا ہے، ایسے ہی سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جس کے ساتھ شرافت کا تمغہ لگا ہوتا ہے اور جسے ہم رمضان شریف کہہ کر پکارتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل جیو کے پروگرام 'عالم آن لائن' سے عوام میں بے حد مقبولیت پانے والے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو میڈیا کے حلقوں میں رمضان نشریات کا موجد کہا جاتا ہے۔ 2014ء میں معمولی گیمز، عجیب و غریب حرکات و سکنات اور نہایت آسان سوالات کے جوابات دینے پر موبائل فونز، اے سی، جینریٹرز، موٹر سائیکل اور گاڑی جیسے انعامات دینے کا سلسلہ عامر لیاقت کے'انعام گھر' نامی پروگرام سے شروع ہوا اور اسے رمضان کی نشریات میں بھی جاری رکھا گیا۔ اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دیگر چینلز نے بھی اسی طرز کے پروگرامز اور نشریات کا آغاز کیا اور اس برس نامور اداکار اور میزبان فہد مصطفیٰ کا پروگرام 'جیتو پاکستان' سب سے زیادہ انعامات دے کر ریٹنگز کی دوڑ میں آگے نظر آرہا ہے۔ تاہم ان پروگرامز میں دکھایا جانے والا مواد عوامی حلقوں میں شدت سے زیر بحث ہے۔</p> <p>رمضان نشریات کے نام پر رمضان کے مقدس ماہ میں ٹی وی چینلز سحری افطاری میں سٹیڈیم نما سٹوڈیو محفلیں سجاتے ہیں۔ رمضان نشریات میں انتہائی سنجیدہ ماحول ہونا چاہئے مگر یہاں انتہائی سنجیدہ سوالات انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں کئے جاتے ہیں، درست جواب دینے والوں پر انتہائی مضحکہ خیز انداز میں انعامات اچھال دیئے جاتے ہیں تاکہ محفل مزاحیہ بن سکے۔ ان رمضان نشریات کے اینکرز میں بعض نام نہاد دینی سکالرایسے بھی ہیں جن کو مشرف دور سے پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا ، جن کے پاس نا کوئی سند ہے اور نا ہی علماءانہیں اپنے میں سے مانتے یا جانتے ہیں۔ اسی طرح ان اینکروں میں کچھ ایسے گائیک جن کی زندگیاں گانے بجانے میں گزری ہیں وہ بھی رمضان نشریات میں قوم کو دین سے روشناس کراتے نظر آتے ہیں۔ ان چینلز کے سیٹھوں کا اگر بس چلے تو یہ مذہب کے نام پر سال کے بارہ ماہ یہ پروگرام جاری رکھیں۔ رمضان نشریات کی اہم بات یہ ہے کہ اینکر کے کپڑوں سے لے کر مولوی صاحب کی جانب سے کی جانے والی دعایں تک سب سپانسرڈ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو سحر اور افطار کی دعا ہوتی ہے وہ بھی سپانسرڈ ہوتی ہے۔ پچھلے سال بھی ہر چھوٹے بڑے چینل نے رمضان کو خوب بیچا ۔لاکھوں لگا کر کروڑوں کمائے۔ اس سال بھی رمضان کی تیاری کمرشلزم کی بنیاد پر ہی کی گئی ہے۔ پچھلے سال کس نے اس پاک ماہ میں کتنا کمایا وہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ ایک مشہوراینکر کے مطابق رمضان دو ہزار پندرہ میں جیو اور اے آر وائی نے صرف ایک ماہ میں چالیس چالیس کروڑ کا بزنس کیا، جبکہ باقی چینلز کا منافع بھی کرڑوں میں ہی ہے۔</p> <p>کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کے استاد پروفیسر انعام اللہ کہتے ہیں کہ "پاکستان میں ٹی وی چینل کی ابتدا کے بعد رمضان کے مہینے میں ناظرین حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول سننے کے لیے خصوصی نشریات دیکھا کرتے تھے، اس وقت ان نشریات کو رمضان کے حوالے سے کوئی خصوصی نام نہیں دیا جاتا تھا اور نا ہی یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے ملک میں ٹی وی چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور نشریات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے پر محیط ہونے لگا، ویسے ہی مخصوص مہینوں میں پیش کی جانے والی نشریات کو نام دیا جانے لگا اور کس چینل کی ان نشریات کو زیادہ دیکھا جاتا ہے، اس کی بنیاد پر چینلز کی کامیابی کا دارومدار ہونے لگا"۔ پروفیسرانعام کے مطابق یہ ہی وجہ ہے کہ خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج، عظیم الشان سیٹ، لاکھوں روپے مالیت کے انعامات کے انبار، مذہبی شخصیات اور شوبز کے ستاروں سے سجی نشریات کا سلسلہ گزشتہ چند برسوں میں رمضان کے مہینے میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔</p> <p>میڈیا ہاوسز سے تعلق رکھنے والے افراد کے مطابق رمضان کی ان نشریات کے دوران سب سے زیادہ مقبولیت پروگرام کے اس خاص حصے کو حاصل ہورہی ہے جس میں ہزاروں روپوں کے انعامات پروگرام میں شریک مہمانوں کو مختلف کھیل کھیلوں میں حصہ لینے کے عوض دیے جاتے ہیں۔ ان میں آم کھانے کے مقابلے سے لے کر محفل میں شریک سب سے زیادہ وزنی خاتون کے درمیان مقابلہ شامل ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ جس پروگرام میں تفریح کا عنصر سب سے زیادہ رکھا جا رہا ہے وہی پروگرام عوام میں پسندیدگی کی سند حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے مطابق پروگرام کی کامیابی یا ریٹنگ کی دوڑ میں نا صرف اس مقدس مہینے کی اصل روح متاثر ہو رہی ہے بلکہ پروگرام کے معیار بھی گرتے جا رہے ہیں۔رمضان نشریات سے چینل کے مالکان دوہرے فوائید حاصل کر رہے ہیں۔ ایک طرف مالکان خود کو دیندار دیکھا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ یہاں تک تو سب کچھ قابل قبول ہے لیکن جب ان موسمی دینی اسکالر کم اینکرز سے کوئی غلط بات ہو جاتی ہے تو یہ پورے معاشرے کی تقسیم کا باعث بنتی ہے جیسا ایک بڑے چینل کے ایک سابق معروف گلوکار اینکر جنید جمشیدنے ایک ایسی بات کر دی جو کرنے کی اُس کی حیثیت نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا اور خود ایک بڑے عالم کو اس کے حق میں بیان دینا پڑا۔ اس ہی پروگرام کی وجہ سے چند ماہ پہلے اُسےاسلام آباد ائرپورٹ پر عوامی رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔</p> <p>پاکستان میں رمضان کے مقدس اسلامی مہینے میں رمضان نشریات کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا مذہب اسلام سے دور دور کوئی واسطہ نہیں ۔ دولت کی ہوس نے چینلز کی ہائی ریٹنگ کی دوڑ میں سب سے آگے ہونے کے لیے بغیر کسی تحقیق کے اسلام کے نام پر جو کچھ بتایا یا دکھایا جارہا ہےوہ ایک غلط رجحان ہے جو روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔بجائے اس کے کہ رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اسلام سے متعلقہ علمی،ادبی،فکری،تعلیمی اور معلوماتی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا جس میں مذہبی سکالرز کو مدعو کیا جاتا اور ان سے اسلام کے بارئے میں کچھ سیکھا جاتا، الٹا سیکھ یہ رہے ہیں کہ موبائل کی بھیک کیسے مانگی جاتی ہے، کھانے پینے کی چیزوں پر کیسےجھپٹا مارا جاتا ہے۔ چینلز کے سیٹھ تو یہ سب کرواینگے اس لیے کہ اس میں ہی ان کا فائدہ ہے، لیکن ارباب اختیار کو تو یہ سوچنا چاہیےکہ ان نام نہاد رمضان نشریات سے ملک کی کس قدر بدنامی ہورہی ہے۔ پاکستان جو کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی پوری دنیا میں بدنام ہے ان رمضان نشریات سے مزید بدنام ہورہا ہے، لہذا حکومت کو چاہیے کہ ماہ رمضان میں بہودہ رمضان نشریات پر پابندی عائد کرئے۔</p> </section> </body>
5508.xml
<meta> <title>وفاق المدارس:نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تیرا خام ابھی!</title> <author> <name>محمد الکوہستاتی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28333/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>902</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وفاق المدارس:نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تیرا خام ابھی!
902
No
<body> <section> <p>الحمد للہ اس وقت وفاق المدارس کا نصاب بہت خوب اور شاندار ہے ، اور بلا مبالغہ دنیا کی کئی بڑی جامعات سے بہتر ہے ، اس وقت عالم اسلام کی قدیم اور مشہوردرسگاہ " جامعہ ازھر " سمیت اردن ، لبنان ، ام القری کے پڑھے ہوئے کئی حضرات اس بے علم وعمل طالب علم کے ہم درس ، شاگرد یا کولیگز ہیں ، ان کی علمی استعداد اگرچہ مجھے سے تو بہت اچھی ہے، لیکن مجهے سے هي بهتر هے؛ اس لئے میرا تجربہ یہ ہے کہ وفاق المدارس کا ایک قابل فارغ التحصیل کی ) ا استعداد کسی طرح بھی ان سے کم نہیں ، البتہ اس سے انکار نہیں کہ ان کو پرائیویٹ طورپر مختلف یو نیورسٹیز سے امتحان دے کر ڈگری حاصل کرنی پڑھے گی ، اور کچھ زبانیں سیکھنی پڑھیں گی ،</p> <blockquote> <p> <p>یہاں گواہی کے طور پر عصر حاضر کے معروف فقیہ ومحدث مفتی تقی عثمانی صاحب کی ایک عبارت احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، حضرت لکھتے ہیں :</p> <p>وفي خلال عملي ذلك ، كثيرا ما أحتاج إلى مناقشة ذلك القانون مع رفاقي في المحكمة الذين كانوا مؤهلين في القوانين القوانين الوضعية وطالت تجربتهم في ذلك ومراراً في أثناء المناقشة كنت أتي بتفسيرللقانون يخالف الظاهر وإنّهم بعد سماع كلامي يقرّون مافسّرته به ، فقال رئيس القضاة مرّة إن هذا الرّجل ربّما يسرع في فهم القانون أكثرمنّا ، فأجاب أحدهم بأنّه درس الحقوق بمرتبة الشّرف . فأجبت قائلا : إنّ فهمي للقانون لا ينبثق من دراستي للحقوق ، وإنّما هو ناتج من دراستي للفقه الإسلامي " وكان هذا الجواب حقيقة أجزم بها حتى الأن . (عثماني ، محمد تقي ، فقه البيوع ، مقدمة ، مكتبة المعارف سنة 2015 م ج 1 /ص 13 )</p> </p> <p>یعنی جب میں وفاقی شرعی عدالت میں جج تھا تو اس دوران مختلف قانونی معاملات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بحث ومباحثہ بھی کرنا پڑتا تھا ، یہ حضرات قانونی ماہرین بھی تھے اور اپنے فن میں طویل تجربہ کے حامل بھی ، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی قانونی شق کی تشریح میں میری رائے بادی النظرمیں ظاہر کے خلاف ہوتی تھی ، لیکن پوری بات اور دلائل سننے کے بعد وہ سب ساتھی میری رائے کی تائید کرتے ، ایک دفعہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب یہاں تک کہ دیا کہ یہ آدمی ( اپنی نوخیزی کے باوجود) کئی بار قانون ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ! اس پہ ایک صاحب بولے ، کیونکہ انہوں نے وکالت کا امتحان اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے ، لیکن میں فورا کہا : مجھے جو قانون فہمی کی دولت عطا ہوئی ہے ، اس کا سہرا قانون اور وکالت کی نہیں ۔ بلکہ فقہ کی تعلیم کے سر سجتا ہے ! اور یہی (فقہ کی تعلیم ) ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مجھے ابھی تک یقین ہے</p> <p> <p>یہ بے علم وعمل طالب علم اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے پاکستان کے علاوہ کئی ملکوں کے ماہرین تعلیم ، سفیروں ، پی ایچ ڈیز پرفیسرز اور اھل علم سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہو ا ہے ، جس سے ملا سب یا اکثر کا یہی سوال تھا کہ آپ نے کہاں سے پڑھا ہے ؟ جواب میں الحمد للہ یہ طالب علم اپنے مدرسہ کے ٹوٹے بوریہ اور صدقہ کی روٹیوں کا ایڈریس بتاتا تو وہ حیران ہوجاتے ، اور کئی حضرات نے مجھے وفاق کے کا نصاب مانگا تھا ، تو میں نے ان کی خدمت مین وفاق کا نصاب (جس کا عربی ترجمہ استاذجی ولی خان صاحب نے "دلیل الوفاق "کے نام سے کیا ہے ) پیش کیا ، جس پہ وہ بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی ، سبھی نے بہت سراہا ، جن کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے دلیل الوفاق دیا ہے ان میں کوئی ایک بھی پی ایچ ڈی سے کم نہیں ، اور بعض تو سالہاسال تک فکیلٹی ڈین بھی رہے ہیں َ۔ چند عجم وعرب ملکوں میں سرکاری وغیر سرکاری دینی مدارس ( بشمول کلیہ الشریعہ ) کے نصاب اور اس کے پڑھنے پڑھانےوالے اساتذہ وطلبہ سے ملاقاتوں اور طویل نشستوں کے بعد میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ الحمد للہ فی الوقت وفاق المدارس کے نصاب کا کوئی نعم البدل نہیں ، لیکن بایں ہمہ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی نصاب میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے ، اس لئے وفاق المدارس کا نصاب بھی اس سے مستثنی نہیں ، باقی جتنا فقہی ذخیرہ ہمارے نصاب میں شامل ہے دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں ، نورالایضاح قدوری ، کنزوقایہ اور ہدایہ کے بعد آدمی ہلکے سے مطالعہ سے جدید فقہی مباحث کو سمجھ سکتاہے ، ( بشرطیکہ اس نے کسی اچھے مدرسہ میں پڑھا ہو ، اور دوران تعلیم تعلیم پہ ہی کونسنٹریٹ کیا ہو) مزید فائدہ کیلئے حضرت مفتی تقی ؑثمانی صاحب کی فقہ البیوع ، قضایا فقہیہ معاصرہ ، اور د۔ سعید رمضان بوطی شہید کی بعض کتب شامل کی جاسکتی ہیں ، اسی طرح حدیث تفسیر ، عربی ادب ، صرف نحو ، اصول فقہ ، اصول حدیث کا بھی اچھا خاصا مواد موجود ہے ، البتہ منیجمنٹ ، اساتذہ کی تقرری اور ان کے درمیان کتب کی تقسیم میں بہتری عربی وانگریزی زبان پر توجہ سمیت انتظامی امور میں اصلاح کی ضرورت ہے ، اور ان شاء اللہ ذمہ داران وفاق اس سے غافل بھی نہیں ، اس لئے سوشل میڈیا پر بے جا تنقید کرنے والوں سے گذارش ہے کہ</p> <p>نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تیرا خام ابھی</p> <p>اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی !</p> </p> </blockquote> </section> </body>
5509.xml
<meta> <title>کیا حقانیہ حکومتی امداد لینے والا پہلا مدرسہ ہے؟</title> <author> <name>مولانا اسرار گل حقانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28397/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1689</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کیا حقانیہ حکومتی امداد لینے والا پہلا مدرسہ ہے؟
1,689
No
<body> <section> <p>دارالعلوم حقانیہ کے لئے صوبائی حکومت کی فنڈنگ کے حوالے سے ان دنوں پوری دنیا میں گرما گرم بحث اور غلیظ ترین پروپیگنڈہ اپنے عروج پر ہے ۔ خصوصاً الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں یکطرفہ طوفان مچا ہوا ہے لیکن افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے دینی و مذہبی حلقے کے سوشل میڈیا گروپس (فیس بک ، ٹوئٹر، واٹس اپ) بھی بغیر کسی تحقیق اور سوچ سمجھ کے اغیار کی لگائی ہوئی آگ کو بھڑکا رہے ہیں،جو کہ نہایت قابل افسوس امر ہے۔</p> <blockquote> <p>اس گروپ میں جو علما ،ادبا ،مفتیان کرام اور دانشوروں کا سنجیدہ حلقہ کہلایا جاتا ہے ، اس میں بھی کئی ایک حضرات نے دارالعلوم او راس کے مہتمم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے متعلق ایسی عامیانہ زبان اور گھٹیا الزامات عائد کئے ہیں جو کم سے کم اہل علم و تحقیق کو زیب نہیں دیتا۔ یہاں دارالعلوم کی صوبائی حکومت کی امداد پر اعتراضات اور الزامات عائد کرنے والے حضرات کے سامنے چند گزارشات اور دارالعلوم دیوبند جو ہم سب کا علمی و روحانی قبلہ و مرکز ہے ،حکومتی امداد کے حوالے سے اس کا موقف اور کردار کیا رہا ہے؟ اور دیگر مدارس و مذہبی جماعتوں نے کیا اس سے قبل حکومتوں کی گرانٹ اور دیگر مراعات حاصل نہیں کیں؟</p> </blockquote> <p>اس پر ایک مختصر سا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے دارالعلوم حقانیہ کی امداد پر معترض اور انگلی اٹھانے والے افراد تعصب و نفرت کی عینک اتار کر ٹھنڈے دماغ سے غور وفکر فرمائیں گے ۔</p> <blockquote> <p>(الف) اس ضمن میں قاسم العلوم بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصول ہشت گانہ کا ذکر بڑے زور و شور سے دینی حلقے اٹھا رہے ہیں کہ مسلک دیوبند سے وابستہ مدارس حکومتی امداد قبول نہ کریں کیونکہ یہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصول ہشت گانہ کے خلاف ہے ۔عرض یہ ہے کہ بانی دارالعلوم دیوبند کے پوتے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مہتمم دارالعلوم دیوبند اوران کے والد ماجد حضرت مولانا حافظ محمد احمد مہتمم دارالعلوم دیوبند، نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے اصولی موقف (اصول ہشت گانہ ) کو کن وجوہات اور کن مصالح کے تحت ایک طرف رکھ کر مختلف حکومتوں اور ہندوستان میں قائم خودمختار ریاستوں سے بھاری بھرکم امداد اور چندے لئے ؟؟</p> </blockquote> <p>(ب) مثال کے طورپر حضرت مولانا قاری طیب صاحب کا 1359 ھ میں سفر افغانستان جس میں وہاں کے علما دانشوروں کے علاوہ افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ اور وزیراعظم سے ملاقاتیں ہوئیں ، اور اسی سفر میں دارالعلوم دیوبند میں قائم "باب الظاہر "کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار افغانی روپے اس وقت کی بھاری بھرکم گرانٹ مولانا قاری طیب نے بطیب خاطر خوشی کے ساتھ قبول کرکے اس سے دارالعلوم دیوبند میں عظیم الشان سہ منزلہ عمارت "باب الظاہر "جس میں بڑی بڑی درسگاہیں متعدد کمرے وغیرہ ہیں ،کی تعمیر کی ۔ پھر بعد میں سفر ہندوستان کے موقع پر ظاہر شاہ نے اس کا دورہ بھی کیا اور اس امداد پر ان کی شان میں بڑے بڑے قصائد اور مدح سرائی بھی کی گئی۔(بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص۔ ٢٠٠ )</p> <p>(ج) اسی طرح سعودی بادشاہ شاہ سعود نے 1373 ھ میں اپنی حکومت کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کو پچیس ہزار کی خطیر گرانٹ فراہم کی اور اتفاق سے پھر اسی سال دارالعلوم دیوبند کا دورہ بھی کیا (بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص:388)</p> <p>(د) اسی طرح 1305 ھ میں ریاست حیدرآباد دکن کے صدر اعظم نواب سر آسمان جاہ نے دولت آصفیہ کی جانب سے سو روپیہ ماہانہ مقرر کیا جو بعد میں وقتا فوقتا سو سے پانچ سو اور پھر ایک ہزار تک پہنچ گیا ۔ حافظ محمد احمد صاحب ،مہتمم دارالعلوم دیوبند کی مساعی سے یہ سلسلہ سقوط حیدر آباد دکن تک جاری وساری رہا۔ اس حکومتی ماہانہ امداد کے علاوہ ریاست حیدرآباد دکن کی طرف سے تین ہزار روپے برائے تعمیرات بھی الگ سے دی گئیں۔ (بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند: مصنف سید محبوب رضوی ص ٢٠٠ )</p> <p>(ھ) چوتھی مثال ریاست بھوپال کی ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کو امداد دو سو سے بڑھتے بڑھتے تین ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی ریاستوں اور حکومتوں کی طرف سے دارالعلوم کو وقتا فوقتا مختلف ہدیہ ، عطیے او رکتابوں کے تحائف وغیرہ ملتے رہے ۔</p> <p>اب اگر عرصہ دراز کے بعد (بقول حکیم الامت مولانا قاری طیب صاحب کے دیوبند ثانی ) دارالعلوم حقانیہ نے تعمیرات جدید درالتدریس ، جامع مسجد اور واٹر ٹینک کی تعمیر کے سلسلے میں صوبائی حکومت کی امداد لینے کی حامی بھری ہے تو اس امداد پر اصول ہشت گانہ کی خلاف ورزی کا شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے اور ان تاریخی حقائق کے بعد بھی کہنا کہ یہ اکابر دارالعلوم دیوبند کا طریقہ اور وطیرہ نہیں۔</p> <p>دارالعلوم دیوبند کی تعمیرات کے لئے مختص بھاری بھرکم حکومتی امدادوں کے علاوہ روز مرہ کے اخراجات جیسے طلبا کے کھانے پینے ، اساتذہ کی تنخواہوں بلکہ مدرسہ کے جملہ مصارف میں بھی یہ چندے اور امدادیں کئی دہائیوں تک مسلسل استعمال ہوتی رہیں۔ اب اس کو کیا نام دیا جائے ؟؟</p> <p>تاریخ دارالعلوم دیوبند کا صفحہ صفحہ اس بات کا گواہ ہے ۔ امید ہے کہ علمی حضرات اس کتاب کا مطالعہ ایک بار پھر ازسرنو فرمائیں۔</p> <p>اب پاکستان کے بڑے دینی جامعات کی طرف ایک نظر ڈالئے ۔</p> <blockquote> <p>وفاق المدارس العربیہ کے صدر صاحب کے جامعہ فاروقیہ کی موجودہ مدنی منزل جو کہ اس سے قبل "صدام منزل " کے نام سے کئی برس تک معروف تھی ۔کیا اس کی تعمیر کمیونسٹ بعث پارٹی کی عراقی حکومت کے بھاری بھرکم فنڈ سے نہیں ہوئی؟؟ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کے "جامعہ معارف الشریعہ "اور جمعیة علماء اسلام ف کے صوبائی سیکرٹریٹ واقع رنگ روڈ پشاور پر قائم بہت بڑے کمپلیکس اور مسجد کی تعمیر کمیونسٹ نظریات کے علمبردار کرنل قذافی کے بھاری بھر کم اعلانیہ فخریہ امداد سے نہیں ہوئی ؟؟ اس کے علاوہ ایم ایم اے کے دور حکومت میں وزیراعلی اکرم درانی نے جمعیت ف کے اکثر بڑے مدارس مثلاً المرکز الاسلامی بنوں ،مدرسہ دارالعلوم پیزو ،اور نوشہرہ کے معروف مدرسہ اور جمعیت ف کے اہم مرکز ۔۔۔قابل ذکر ہیں۔) اس کے علاوہ جنوبی اضلاع کے چھوٹے بڑے درجنوں مدارس کو کروڑوں روپوں کے سرکاری فنڈز بھی جماعتی بنیادوں پر جاری کئے گئے۔</p> </blockquote> <p>(جن کی تفصیلی فہرست جلد دو تین دن میں سرکاری ریکارڈ سے وصول کرکے شائع کردی جائیں گے) ایم ایم اے دور میں جب جمعیت علماء اسلام (س) ابتدائی سالوں میں حکومت کی اتحادی رہی،تو دارالعلوم کے ایک فاضل نے دارالعلوم حقانیہ کے ہائی سکول (قائم کردہ بدست شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی) کی سائنس لیبارٹری ، سرکاری کتابیں ، اور اپ گریڈیشن کی کوششیں کیں تو حکومت نے سال بعد جواب میں یہ کہاکہ حقانیہ کا ہائی سکول حکومتی معیار کا نہیں۔ لہٰذا ایم ایم اے دور میں دارالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ کیا تیس روپے بھی نہیں دئیے گئے ۔اس امتیازی سلوک اور سیاسی اقربا پروری کو کیا نام دیا جائے؟؟</p> <p>اس طرح کے پی کے کی گزشتہ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت او راس کا وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے ضلع مردان کے دینی مدارس ، ائمہ مساجد اور حجروں کی تعمیرو ترقی کے لئے ایک ارب پینتیس کروڑ روپے کی خطیر رقم تقسیم کی۔ ان سرکاری امداد لینے والوں میں جمعیت علما اسلام ف کے اکثریتی مدارس اور علماے کرام سرفہرست ہے ۔(جن کے ناموں کی تفصیل عنقریب شائع کی جائے گی) اورحکومتی گرانٹ برائے دینی مدارس مردان پورے کے پی کے کے عوام کو معلوم ہے۔ ایک طرف اے این پی کے ساتھ نظریاتی اور سیاسی اختلاف ، لیکن حکومتی امداد کیلئے سارے اختلافات او رتکلفات پھر بالائے طاق کیوں ؟؟ اسی طرح صوبائی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے برادر مولانا لطف الرحمن اس بات پر مسلسل ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کے لئے تیس کروڑ روپے آخر کیوں ؟ اس امداد کو واپس لے کر دیگر مدارس پر بھی برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے ۔ جواب عرض ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھی تو آپ حضرات نے پانچ سال تک دارالعلوم حقانیہ کو امداد سے کیوں محروم رکھ کر دیگر مدارس کو نوازا ؟ اور بقول آپ کے عمران خان کی یہود نواز اور مغربی این جی اووز زدہ حکومت سے مدارس کیلئے امداد طلب کرنا کہاں کی دانشمندی اور کہاں کی سیاسی غیرت ہے؟</p> <p>اب آئیے پنجاب کی طرف جہاں کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے مختلف دینی جامعات میں کروڑوں روپوں کے لیپ ٹاپ حکومتی اسکیم کے ذریعے تقسیم کئے،مختلف مدارس میں ،انگلش اور کمپیوٹر اکیڈمیز کے نام سے فنڈز دئیے، ایمبولینسیں اور دیگر مراعات بھی دی گئیں ہیں۔ ا سکے علاوہ پرویز الہٰی اور میاں نواز شریف (سابق وزیراعلیٰ پنجاب) نے اپنے اپنے ادوار میں دینی مدارس کے لئے مختلف علماء کو سرکاری پلاٹ بھی الاٹ کئے۔</p> <p>تو اس طویل پس منظر میں کے پی کے کی صوبائی حکومت کی امداد دارالعلوم حقانیہ کے لئے آخر کیوں حرام اورپنجاب کے وزیراعلیٰ کی لیپ ٹاپ اسکیم وغیرہ وغیرہ عین حلال ؟؟</p> <p>اس طرح پنجاب گورنمنٹ نے مختلف مدارس کے ارباب اہتمام کو حکومتی اداروں کی سربراہی تنخواہیں ، گاڑیاں ،پولیس پروٹوکول اور ٹی اے ڈی اے اور دیگر حکومتی مراعات دی ہوئی ہیں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟؟ ضیاء حکومت کے جاری شدہ زکوٰة کے نظام سے کئی مدارس خفیہ اور اعلانیہ کئی برس سے مستفید ہورہے ہیں ، اس عرصہ دراز سے جاری استفادے کو کیوں ہدف تنقید نہیں بنایا جارہا ؟ اور ان مدارس کے نام کیوں نہیں اچھالے جارہے؟ محض اس لئے کہ سیاسی طورپر جامعہ دارالعلوم حقانیہ کا موقف الگ ہے، اور شاید اس لئے بھی کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اوراس کے ارباب اہتمام اسی قافلہ حق کے ساتھ اب تک رواں دواں ہیں، جس میں ایک وقت میں بڑا ہجوم تھا لیکن زمانے کی نئی چال اور حالات اور مصالح کی نزاکتوں کے باعث سب ایک ایک کرکے اس قافلہ حریت کو تنہا چھوڑگئے۔</p> <p>اگر مضمون میں کوئی تلخ بات یا چبھتا ہوا جملہ محسوس ہوا ہو تو اس پر پیشگی معذرت مگر چونکہ حقائق تلخ ہوتے ہیں۔امید ہے دارالعلوم پر تبرا کرنے والے حضرات اپنے موقف پر دوبارہ نظرثانی فرمائیں گے ۔</p> <p>جو تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی</p> <p>وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی</p> </section> </body>
5510.xml
<meta> <title>اردگان اور ہم</title> <author> <name>فیض اللہ خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28429/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1062</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اردگان اور ہم
1,062
No
<body> <section> <p>بندوقوں کا رخ اب کی بار رجب طیب اردگان کی جانب ھے ۔۔۔ کیا لبرلز اور کیا ہی ان سے متاثرہ ملاز۔۔۔۔ سبھی ڈھولکیاں لیکر فیس بک پہ اتر آئے ہیں اور " دیکھا ہم پہلے ہی نہ کہتے تھے " جیسے طعنوں سے اپنی اپنی دیواریں سجا رکھی ہیں ۔۔۔۔۔</p> <p>پاکستانی جنتا کو باور کرایا جارھا ھے کہ جیسے ترک صدر نے پہلی بار اسرائیل سے تعلقات قائم کئیے ۔۔۔۔ ماضی کسی کویاد نہیں کہ یہ ترک ریاست تھی جس نے اسرائیل کو ادرگان سے بہت پہلے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اعلی سفارتی و معاشی روابط بھی رکھے ۔۔۔۔۔</p> <p>ترکی ایک سیکیولر ریاست ھے ، جس میں اچھی حکمت عملی اور کارکردگی کی بیناد پہ ایک مسلمان اقتدار تک پہنچ گیا ، اردگان نے اپنے پیش رو اور رفاہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے نجم الدین اربکان کی جماعت کو ساتھیوں سمیت چھوڑا تھا ، اسکی وجہ طریقہ کار کا فرق تھا استاد اربکان اس عمارت کے اولین معماروں میں سے ایک تھے جہاں اردگان جیسے بہت سے پروان چڑھے ، استاد اربکان کی واضح اسلام پسندی کے باعث فوج نے انہیں بیدخل کیا ، جسکے بعد اردگان نے اپنا راستہ الگ کرکے اسی میدان میں کھیل کر فتح حاصل کی ، جسکے اصول سیکیولر فوج نے وضع کر رکھے تھے ۔۔۔۔</p> <p>ترک تاریخ کا دیانت داری سے جائزہ لیجئے تب آپ کو پتہ چلے گا کہ اردگان نے کتنے بڑے بڑے کام کئیے، ترکی کو پاکستان نہ سمجھیں جہاں مذھبی سیاست کی آزادی ہو اور مذحبی تنظیموں کو کام کرنے کی مکمل اجازت ہو ، وہاں تو خواتین کے سر پہ اسکارف لینے کے عام سے معاملے کے لئیے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، باقی معاملات کا تو ذکر ہی نہ کریں</p> <p>ہمارا حال یہ ھے کہ ابصار عالم کی جانب سے ایک آدھ رمضانی و دیگر فتنہ پھیلاتے کرنٹ افئیر کے پروگرام کا ھلکا پھلکا پھسپھسا سا نوٹس لینے پہ اپنی مسرت کا اظہار کرتے نہیں تھکتے { جیسی تیسی سہی خوشی کسی نہ کسی درجے میں بنتی ہی ھے } لیکن وہ اردگان جس نے غزہ کے معاملے پہ طویل عرصے سے اسرائیل کیساتھ قائم تعلقات کئی برس تک منقطع رکھے اور متعدد عالمی فورمز پہ اسرائیل کے خلاف کھل کر بات کی اھلیان غزہ تک کمک پہچائی { ابھی بھی غزہ کی حکمران حماس نے ترک صدر کے فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کیا ھے جس کے بعد ہمارا اعتراض ویسے بھی نمٹ جاتا ھے } ، مرسی کی غیر قانونی برطرفی پہ جب سارے عالم اسلام کے حکمرانوں کو چپ لگی تھی ، تب یہ اردگان ہی تھا جس نے مسلمانوں کی ترجمانی کی سیسی خائن کو آمر قرار دیا سفیر واپس بلایا اور اخوان المسلمون کیساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔۔۔۔</p> <p>شام کے مظلوم شہری جب ملک میں قائم اسد خاندان کی آمریت کے خلاف آذادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نعرے کےساتھ اٹھے تو اردگان نے انکی مدد کی ، لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ، برما کے مسلمانوں کے لئیے آواز بلند کی ، پاکستان سے اس شخص کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔۔۔۔</p> <p>یار لوگ ، ترکی میں ہونے والے حالیہ حملوں پہ اسے طعنے دے رھے ہیں کہ اپنی پالیسی کی سزا بھگت رہا ھے ۔۔۔۔</p> <p>عرض ھے کہ ، افغان جہاد کے زمانے میں پاکستان صرف امریکی حکم پہ نہیں کودا تھا کہ اس سے بہت پہلے ، پشتون و بلوچ قوم پرست وہاں سے بیٹھ کر پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف تھے تب کے بم دھماکے نجانے ہمیں کیوں یاد نہیں ؟</p> <p>ان دنوں پاکستان کے پاس یہی آپشن تھا کہ اس طوفان کے آگے جہادیوں کے ذریعے بند باندھے اور افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام میں معاونت کرے جو پاکستان دوست ہو ۔۔۔ ظاھر سی بات ھے ایسی ہر پالیسی کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں وہ پاکستان و ترکی دونوں کو بھگتنے تو پڑیں گے لیکن یہ مرحلہ بھی گزر ہی جائیگا ۔۔۔۔</p> <p>ترکوں کا سب سے بڑا مسلہ وہ کرد ہیں جو ترکی سے الگ ہوکر خودمختار ریاست کا قیام چاھتے ہیں اس ضمن میں انہیں عالمی قوتوں کی مدد حاصل ھے ۔۔۔۔</p> <p>کرد ہمارے بلوچ و پشتون اور سندھی قوم پرستوں جیسے ہی ہیں جو اپنی ایک قوم پرست ریاست کردستان کے قیام نبرد آزما ہیں بلکہ عراق میں تو کردوں نے اپنا معاملہ الگ ہی کرلیا ہے ، فطری امر ھے ترکی اپنی حدود میں اسکی اجازت نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔ ترکی کیا، کوئی بھی ریاست ٹھنڈے پیٹوں اپنی تقسیم برداشت نہیں کرسکتی ۔۔۔</p> <p>پہلی و دوسری جنگ عظیم کے بعد اسلامی ریاستیں قومی ریاستوں میں تبدیل ہوئیں ، انہیں آذاد کرنے والے بھی یہی چاھتے تھے کہ قوم پرستی کے غلیظ تصور کیساتھ دڑبوں لکیروں اور خانوں میں تقسیم ممالک باقی رہیں تاکہ انہیں کوئی خطرہ نہ ہو ۔۔۔۔</p> <p>ایسے میں اگر اردگان یا مرسی جیسا کوئی ، کچھ نہ کچھ کرکے اقتدار تک پہنچ بھی جاتا ھے تو اسکے واسطے اتنی رکاوٹیں تیار کی جاچکی ہوتی ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونا بہت مشکل ہوتا ھے ۔۔۔۔</p> <p>امت مسلمہ ایک زمانے سے قحط الرجال کا شکار ھے ایسے میں اردگان جیسے لوگ غینمت ہوا کرتے ہیں ، بطور حکمران اردگان سے غلطیاں ہوئیں کئی معاملات میں اسکی رائے ٹھیک بھی نہیں تھی کئی ایسی باتیں تھیں جنہیں نظر انداز کرکے اسے آگے بڑھنا چاھئیے تھا ، بہت سی پالیسیوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔۔۔۔</p> <p>لیکن ان سب کے باوجود ہمیں پتہ ھے کہ وہ سیکیولر ریاست کا ایک ایسا مخلص مسلمان حکمران ھے کہ جسے بیک وقت شامی و ایرانی صدور ، امریکا و یورپ اور اسرائیلی سخت ناپسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔</p> <p>۔</p> <p>آخر میں اسرائیل اسرائیل کا راگ الاپنے والوں کی خدمت میں بس اتنی سی عرض ھے ، اس صہیونی ریاست کو جنم دینے والے ، امریکا برطانیہ اقوام متحدہ اور مسلمانوں کے قتل و زمینوں پہ قبضہ کرنے والے امریکیوں روسیوں چینیوں اور ھندیوں سے جب تمام اسلامی ممالک نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں تو پھر اسرائیل پہ گرجنے برسنے کی ضرورت نہیں ، جس جس کو غیرت دکھانی ھے مکمل دکھائے یا پھر خاموش رھے ۔۔۔ ویسے بھی یہ سقوط و سکوت کا مقام ہے</p> <p>رہا اقصی ، تو اسکی اذادی کے لئیے وہی جانیں دیں گے یا دے رھے ہیں جنہیں آپ ہم خارجی و دھشت گرد کہتے ہیں ۔۔۔</p> <p>یہی عیسی ابن مریم کا لشکر ھے جو یروشلم کو تسخیر کرے گا ۔۔۔۔۔</p> <p>ہماری افواج تو ہمیں ہی فتح کرنے کے لئیے بیٹھی ہیں</p> </section> </body>
5511.xml
<meta> <title>شناخت کی سیاست اور ہمارا نقطہ نظر،حصہ دوم</title> <author> <name>محمد عرفان چوہدری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28499/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3000</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
شناخت کی سیاست اور ہمارا نقطہ نظر،حصہ دوم
3,000
Yes
<body> <section> <p>پچھلے دنوں سندھ میں جاری دلت تحریک کے حوالے سے ایک مضمون بعنوان "شناخت کی سیاست اور ہمارا نقطہ نظر" لکھا۔ جس میں بنیادی طور پر شنا خت کی سیا ست کی نظری بنیادوں کو پرکھنے کی کوشش کی گئی اور اس با ت کا جائزہ لینے کی سعی کی کہ شناخت کی سیاست کس طرح طبقاتی سیاست کے آگے بڑھنے میں حائل ہوتی ہے۔مضمون کے شائع ہو نے کے بعد مختلف لوگوں نے اس بابت اپنی آراء بذریعہ فون کال دی۔ کچھ دوستوں نے دوران گفتگو بہت سے اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ۔ ان کے خیال میں ان پہلوؤں کی وضاحت کے لئے ایک مزید تفصیلی تحریر کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے طبقاتی نقطہ نظر کی مزید وضاحت بھی ہو سکے اور دلت سجاگ تحریک کی مخالفت کرنے والے دوسرے سماجی گروہوں کے نقطہ نظر سے ہمارا فرق بھی واضح ہو جائے۔</p> <p>جن پہلووں کی نشاندہی کی گئی وہ مندرجہ ذیل ہیں</p> <p>۔. 1.وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتو ں کی سماجی حشیت کا تعین</p> <p>۔ 2.دلت شناخت کو لیکر مختلف سماجی پرتوں کے نقطہ نظر اور ان کاسیاسی،سماجی اور معاشی تناظر؟</p> <p>۔ 3.مظلوم ذاتوں کا معاشی وسماجی استحصال اور ان کی مزاحمتی تحریک کی تاریخ،اہمیت اور طریقہ کار؟</p> <p>وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتو ں کی سماجی حشیت کا تعین ؟</p> <p>اگر وادی سندھ کے تاریخی تناظر میں دارواڑ ذاتوں کی سماجی حثیت اور شناخت کا تعین کر نے کی کوشش کی جائے تو وادی سندھ کے جغرافیائی حدود اربعہ کو سمجھنا ہو گا۔ کیا وادی سندھ کراچی سے گھوٹکی تک موجود انتظامی اکائی کا نام ہے؟سندھی قوم پرستوں کے ساتھ معازرت کے ساتھ وادی سندھ نام ہے قراقرم سے بحیرہ عرب اور ستلج سے کوہ ہندوکش تک پھیلے ایک قطعہ زمین کا جس کی اپنی تاریخ،اپنا کلچر، ایک سی آبادی بلاچھوت چھات سماجی نظام صدیوں سے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاوں کی سر زمین کے طور پر اپنی آب و تاب کے ساتھ ہزاروں سالوں کا تاریخی بوجھ اور خزانے اپنے سینے میں سمیٹے ہوئی ہے۔درمیانہ قد، چپیٹی ہوئی ناک اور سانولہ رنگ کی یہ نسل اس قدیم تہذیب کے بانیوں میں سے ہے۔ مختلف آرکیالوجی کے ماہرین کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ہی سے قدیم ترین انسانی ڈھانچوں کے شواہد ملے ہیں۔اس تہذیب نے دریائے سوآن کے کنارے جنم لیا اور ہڑپہ ،موئنحجوڈاڑو میں آکر جوان ہوئی۔</p> <p>اس کے بعد اس تہذیب کی قدیم ترین بستیاں مختلف علاقوں میں پھیلتی گئی۔آریاوں کی آمد سے پہلے یہ تہذیب اپنے پورے جوبن پر تھی اور اس تہذیب میں ابتدائی سوشلزم کی تمام شکلیں اور پیداواری رشتے مروج تھے۔ یہ ایک پرامن تہذیب تھی کیونکہ جہاں معبد ملتے ہیں قلعے نہیں،یہاں زیورات ملتے ہیں ہتھیار نہیں،پکے مکان وافر تعداد میں مہمان خانے فراہمی نکاسی وآب کا اعلی انتظام اور دجلہ و فرات اور نیل کی تہذیبوں سے تعلقات کے شواہد اس تہذیب کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔آریہ سماج وادی ہندومت میں موجود ذات پات، انسانی تقسیم یا غلامی کے شواہد نہیں ملے۔ ا گر اس قسم کی کو ئی تقسیم اس سماج میں ہو تی تو یقیناًطبقاتی کشمکش بھی ہوتی اور بڑی تعداد میں قلعے اور ہتھیار بھی دریافت ہوتے۔ کامریڈ عبدالرشید ڈھولکہ لکھتے ہیں کہ " جنگی کلچر سے نابلد اس تہذیب کے پروان چڑھنے میں ہزاروں سال لگے ہونگے اور اس عرصہ میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری اس کے جغرافیہ یعنی اس کے گردا گرد موجود پہاڑی، صحرائی سلسلوں اور سمندروں نے نبھائی ہو گی۔ یہ ایک سول سوسائٹی کی تہذیب تھی۔</p> <p>شاہی محلات اور درباروں کا وجود نہیں تھا۔ انسانی اور حیوانی زندگی ان لوگوں کی نظر میں بڑی مقدس شہ تھی۔ یہ لوگ گوشت خور نہیں تھے۔ جس معاشرہ میں اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے پالتو یا جنگلی جانوروں کی جان لینا حرام ہو وہاں انسانوں کے مابین جنگ و جدال اور قتل و غارت کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسی سماجی قدروں کی موجودگی میں ریا ستی حکمرانی، انتظام و انصرام اور جبر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ریاستی جبر کی عدم موجودگی میں یہ ایک اشتراکی سماج تھا۔ نظم و نسق اور سماجی پھیلاؤ کے کاموں کی ذمہ داری پنچائتوں اور جرگوں پر تھی۔ یہ پنچائتیں اور جرگے اس خطہ میں آج کے طبقاتی سماج میں بھی حکمران طبقہ کے مخصوص مفادات کی حفاظت کیلئے استعمال ہورہے ہیں اور مشکل حالات میں ریاستیں بھی ان کا سہارا لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔</p> <p>گردونواح کے وحشی اور جنگجو گروہ جب اس تہذیب کی محافظ جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے قابل ہوئے تو یہ تہذیب انہیں سمجھنے سے عاری اور مقابلہ کرنے میں بے بس نکلی، کیونکہ اشتراک و معاونت کے ماحول کی پیداوار مقابلہ و مسابقت کے ماحول کا سامنا شعوری برتری کے بغیر نہیں کر سکتی۔ ان حملہ آوروں کے ہاتھوں یہ تہذیب برباد ہوئی۔ آریا آئے اور انہوں نے اپنا طبقاتی سماجی و معاشی نظام نافذ کیا۔ یہ سلسلہ تاریخ کے مدوجرر سے گزرتا ہوا رواں دواں رہا۔ ایک طرف امن و آتشی کی یہ دھرتی جنگ ناموں کا موضوع بن گئی۔ دوسری طرف اس سماج نے ہزاروں سالوں تک لوٹ مار اور زبردستی کا شکار رہنے کے باوجود ٹوٹی ہوئی شکل میں اپنی اشتراکی سماجی قدروں اور نفسیات کو قائم رکھا۔ اس کی طاقتور باقیات آج بھی ہمارے سماج میں موجود ہیں۔ جن کا قلع قمع کرنے کیلئے سامراجی طاقتیں اور ان کے کا سہ لیس حکمران طبقہ عوام کے خلاف ہمہ جہت جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہاں کے عوام کو نہ معاہدہ عمرانی کا قائل کیا جاسکا ہے اور نہ ہی ریاست کے تقدس کا۔"</p> <p>آریاوں کی آمد کے بعد انہوں نے اپنی نسلی برتری قائم کر نے کے لئیے ہندومت کی بنیادیں یہیں پر ر کھی اور یہاں کے قدیم باشندوں کو اپنا ذہنی غلام بنانے کے لےئے ذات پات کا سماجی نظام تشکیل دیا اور چھودر ذاتوں کے خانے میں یہاں کے قدیم باشندوں کو رکھا۔آریہ سماج وادی ذات پات کی مخالفت اس خطہ کے لوگوں نے ہمیشہ کی اور ہندومت کے مقابلے میں کبھی جین مت، کبھی بدھ مت( بدھ مت کی روشنی بھی یہیں سے پھٹی اور ایران،توران، چین اور جاپان تک گئی)، کبھی تصوف اور کبھی سکھ مت کی شکل میں ہمیشہ اس ذات پات کے نظام کی مزاحمت کی اور عدل وانصاف،سماجی مساوات کے لیے اٹھنے والی ہر لہر کا اس خطہ کے لوگوں نے ساتھ دیا۔اسحاق محمد اپنے ڈرامہ مُصلی کے پیش لفظ میں یوں رقمطراز ہیں" باہمن دی دُپر یارے دی رِیس نال تے اَساڈی ایس دھرتی دے باسیاں دا مڈھ قدیم توں واہ پیا اے تے ایہدے نال ڈھڈوں نفرت رہی اے"۔ ابٹ سن نے انیسویں صدی کے آخر میں اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوے 1883 کی مردم شماری رپورٹ میں کہا کہ"پنجاب میں بدھ مت اور سکھ مت کے اضافحے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باہمن نے انسانوں کے کندھوں پر ذات پات کا اس قدر بھاری پتھر رکھ دیا ہے کہ جسے اٹھانا ناممکن تھا"۔اس ذات پات نے سماج میں کتنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں اس بات کا اندازہ اسحاق محمد کے ڈرامہ مُصلی کے دیباچہ کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ اسحاق محمد رقمطراز ہیں کہ " 1937-1939کے دوسال میں نے ڈی۔اے۔وی کالج میں پڑھنے کی غرض سے جالندھر میں گزارے۔ مجھے وہاں رہنے کی لیے ایک ذاتی کمرہ ملا ہوا تھا۔ گرمیوں کے موسم کے دوران میں کالج سے واپس آکر درختوں کی گہری چھاوں میں اپنی دوپہر گزارہ کرتاتھا۔ میرا ایک ہم جماعت چماروں کا لڑکا بھی تھاجس کا گھر میری رہائش گاہ کے راستے میں پٹرھتا تھا۔ ایک دن ہم دونوں سائیکلوں پر کالج سے اکٹھے ہی آئے اس روز دھوپ بھی شدید تھی۔ میری دعوت پر اس روز وہ دوپہر گزارنے کی غرض سے میرے ساتھ درختوں کی گہری چھاوں میں رک گیا۔جب وہ شام کو جانے لگا تو میں نے یونہی اسے کہا دیا یار جاتے ہوئے ایک گلاس پانی کا ڈال کر دینا، اس دوران میں خودایک مزیدار کتاب پڑھنے میں مگن تھا۔ پڑھتے پڑھتے مجھے محسوس ہو ا کہ جیسے کوئی نئی بات ہو رہی ہو۔کیا دیکھتا ہو ں کہ میرے ہم جماعتی نے ہجیر کے پتے لے کر ایک پتہ گلاس کے ارد گرد لیپیٹااور دوسرا پتہ گھڑے کے اوپر رکھ کر پا نی گلاس میں ڈالا۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران بھی ہوا اور غصے بھی، کہ ایک کالج کا لڑکاکس طرح باہمن کی ذات پات کا مارا ہوا میرے سامنے کھڑا ہے"۔ اس لئیے اس حقیت سے تو انکار ہی ممکن نہیں کہ برہمن نے ذات پات کا جو فلسفہ دیا اس کی مختلف شکلیں بدستور ہمارے معاشرے میں جاری و ساری ہیں اور ان کا شکار صرف ہندومت کی نچلی ذاتیں کو ہلی ، بھیل ،میگواڑ ہی نہیں بلکہ یہیں سماجی تعصب ہمیں وادی سندھ کے دوسرے علاقوں پنجاب ، خیبر پختونخواہ میں موجود ان ڈارواڑ نسلوں اور ذاتوں سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس حیقیت کے باوجود کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں ان ڈارواڑ نسلوں اور ذاتوں نے اپنے مذہب بھی تبدیل کر لیے ہیں لیکن یہ تعصب ہمیں پنجاب کے اندر مُصیلوں، چماورں اور خیبر پختخواہ کے اندر گوجروں کے ساتھ دیکھنے کو ملتاہے۔ ان برادریوں کی اس ذات پات کے خلاف ایک طویل جہدوجہدبھی دیکھنے کو ملتی ہے۔</p> <blockquote> <p>دلت شناخت کو لیکر مختلف سماجی پرتوں کے نقطہ نظر اور ان کاسیاسی،سماجی اور معاشی تناظر؟</p> </blockquote> <p>ہمارے ہاں یہ عام مروجہ اصول ہے کہ ہم کسی بھی مسئلے پر حمایت اور مخالفت میں پیش کیے گیے نقطہ ہائے نظر کو ان کی بظاہر نظر آنی والی اُوپری مماثلت کی بنا پر ایک پلڑے میں رکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرون حملوں کی مخالفت ایک سچا محب وطن کیمونسٹ بھی کرتا ہے اور حافظ سعید احمد بھی، لیکن دونوں کو ایکدوسرے کے ساتھ صرف اس لیے نتھی کر دیا جائے کہ دونوں ڈرون حملوں کے مخالف ہیں درست نہیں ہو گا۔ایسی ہی صورتحال دلت شناخت کے حوالے سے شائع ہو نے والے میر ے کالم کے بعد پیش آئی، جس وجہ سے مجھے یہ وضاحتی تحریر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دلت شناخت کو لیکر سندھ میں ابھرنے والی مخالفت اور دلت تحریک پر ہونیوالی تنقید میں شامل سماجی گروہوں کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ دلت شناخت کو لیکر ہماری تنقید اور خود تنقیدی کی وضاحت ہو سکے۔</p> <p>اگر ہم دلت شناخت کو لیکر تنقید کر نے والوں کے سیاسی وسماجی پس منظر کو سامنے رکھیں تو اس حوالے سے آنیوالی تنقید کو تین خانو ں میں تقیسم کیا جا سکتا ہے۔</p> <heading>۔ 1.سندھی قوم پرستوں کی مخالفت</heading> <heading>۔ 2.اُوپری ذاتی کی ہندووں برادری کی مخالفت</heading> <heading>۔ 3.طبقاتی نقطہ نظر کیساتھ آنیوالی تنقید</heading> <p>دلت شناخت پر تنقید کر نے والا ایک گروہ وہ ہے کہ جس کے اوپر سندھی قوم پرستی کا غلبہ چھایا ہو ا ہے۔ سندھی قوم پرست حلقے دلت شناخت کے نام پر ہونیوالی سرگرمی کو سندھی قوم کو تقیسم کر نے کے مترادف اور اسے ایک سازش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بقول ایک معروف سندھی قوم پرست دانشوار رجب میمن کے کہ"دلت شناخت کو ابھارنے کے پچھے بھارتی ہاتھ ہے جس کا مقصد مہاجر صوبہ بنانا ہے" موصوف بہت دور کی کوڑی لے کر آئے ہیں۔ یہ وہی انداز فکر اور الزام تراشی ہے جو اب تک افسر شاہی اور پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے سندھی قوم پرستوں کے اوپر لگتا آیا ہے۔</p> <p>دلت شناخت کی مخالفت کرنے والا دوسرا گروہ وہ ہے جو ہندو برادری اور اقلیتوں کے لیے مخصوص صوبائی اور وفاقی کوٹوں سے مستفید ہو تا ہوا آرہا ہے۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ دلت شناخت کے تسلیم ہو جانے سے کہیں نچلی ذاتوں کے لیے علیحدہ سے کو ٹہ منظور نہ ہو جائے۔ اس تناظر میں ہندو برادری کی اُوپری ذاتیاں دلت شناخت کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر دوسری طرف دلتُ سجاگ تحریک کی سرگرمیوں اور چارٹر کو دیکھیں تو اس میں یہ مطالبہ بالکل واضح ہے کہ دلت یعنی نچلی ذاتوں کے لیے ملازمتوں میں علیحدہ سے کوٹہ مقرر کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔</p> <p>دلت شناخت پر تنقید کرنے والا تیسرا گروہ مشتمل ہے طبقاتی سوچ اور فلسفہ پر یقین رکھنے والوں کا۔ ہمارے نزدیک دلت شناخت مزدور باالخصوص ہاری وکھیت مزدور طبقے کی پیشہ وارنہ شناخت کو نسلی شناخت کے نا م پر تقسیم کرنے کی کوشش۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی وسیع تر جہدوجہد اور مزاحمت کو ٹکڑیوں میں باٹننا کسی بھی طرح محنت کش طبقے کے لیےُ سود مند نہیں ہو سکتا ہے۔</p> <blockquote> <p>مظلوم ذاتوں کا معاشی وسماجی استحصال اور ان کی مزاحمتی تحریک کی تاریخ،اہمیت اور طریقہ کار؟</p> </blockquote> <p>یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں نہ صرف مظلوم ذاتوں کا وجود ہے جن کو معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ سماجی تعصبات کا بھی کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ بعض جگہوں پر سماجی تعصبات کی یہ شکلیں اس قدر شدید ہیں کہ معاشی آسودگی بھی اس میں کسی طرح کی کمی نہیں لا سکی۔لیکن دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہمارے سامنےُ مونہہ چڑہائے کھڑی ہے کہ دلت شناخت کو لیکر جن لوگوں نے ہمارے ہمسایہ ملک میں سیاست کی ہے اور دلت شناخت کے بل بوتے پر منتخب ہو کر اعلی ایوانوں تک پنچے ہیں اس سے بھی مسلہ حل ہونے کی بجائے یوں کا توں بدستور ویسے ہی موجود ہے۔مایا وتی دلت شناخت کی بنیادپر وزیر اعلی تو بن گئی کیا اس سے دلت واسیوں کے مسائل ہوگئے؟یقننا اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے گا۔ کیا نچلی ذات سے کسی کا اعلی حکومتی رکن منتخب ہو جانا یا نچلی ذاتو ں کے لیے کوٹہ مقرر ہو جانامسلے کا حل ہے۔؟اس طرح کے اصلاح پسند حل مسلئے کی معاشی بنیادوں کو قائم رکھتے ہو ئے اسے حل کر نے کی کوششیں ہیں۔ اس طرح کے اصلاح پسند اقدامات کتےُ کو کنواں سے نکالے بغیر پانی کے لوٹے نکالنے کے مترداف ہے۔</p> <p><annotation lang="en">Subaltern School of Thoughts</annotation> اس کے برعکس پوسٹ ماڈرن ازم کے علمبردار اور کے دانشور، مارکسی لیننی پارٹیوں کے سخت گیر ڈھانچوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان پارٹیوں کے اداروں میں مڈل اور اپر مڈل کلاس کی پرتیں پرولتاریہ کے نام پر براجمان ہو جاتی ہیں اور محنت کش طبقے کی نچلی پرتوں کی رسائی شاذوناذر ہی پاتی ہے۔ ان کی تنقید بائیں بازو کی پارٹیوں کے اندر نچلی پرتوں کی کمی کے حوالے سے ایک سنجیدہ تنقید ہے،جس پر مارکسی لیننی پارٹیوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔انقلابی پارٹی میں طبقاتی توازن کبھی بھی غیر انقلابی طبقات کے حق میں نہیں ہو نا چاہیے۔ انقلابی عمل میں یہاں شعور کی بہت اہمیت ہے وہیں پر دکھ اورُ بکھ کا عملی احساس ہو نا بھی بہت ضروری ہے۔یہی دونوں چیزیں وہ بنیادی مواد فراہم کرتی ہیں، جسکا انقلابی عمل متقاضی ہوتا ہے۔ جو طبقات اور ذاتیں اس دکھ اورُ بُکھ کے قرب سے پچھلے چار ہزار سال سے گزر رہی ہوں،ان کی انقلابی شکتیَ سے کسی کو کیونکر انحراف ہو سکتا ہے بشرطیکہ اگر یہ طبقات انقلابی نظریہ سے لیس ہوں۔</p> <p>طبقاتی استحصال کا شکار مختلف طبقوں میں دارواڑ ذاتیں طبقاتی استحصال کی سیڑھی کی سب سے نچلی پیڑھیاں ہیں جن کے کندھوں پر سب کا بوجھ ہے۔طبقاتی استحصال کی اس سیڑھی کوُ الٹا کرنے کی جتنی خواہش ان کے اندر موجود ہے، شائد ہی کسی اور طبقاتی پرت میں موجود ہو۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان طبقاتی پرتوں کو منظم اور متحد کیاجائے اور ان کی تنظیموں کے اندر قیادتی رول انہیں خود ہی ادا کرنے دیا جائے۔یہ انقلابی عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ طبقاتی پرتیں اپنی نسلی ذاتوں کی شناخت سے باہر آ کر دوسرے پیشہ وارانہ انقلابی گروہوں کے ساتھ اتحاد ومعاونت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے انقلابی نظریہ اور سوچ کو پروان چڑھاہیں۔</p> <p>پنجاب کے اندر دارواڑ نسلوں اور ذاتوں کو منظم کرنے کی تحریک بہت پرانی ہے جس کی جڑیں برصغیر کی تقسیم سے پہلے بھی اس خطہ میں موجود رہی ہیں۔پنجاب کے اندر مسلم شیخ یا مُصیلوں کی پہلی تنظیم 18 ٖفروری 1946 میں کسمپر ریلوے اسٹیشن تحصیل وہاڑی میں رکھی گی۔اس تنظیم کا پہلا نام انجمن مُسلم شیخاں رکھا گیا۔اس تنظیم نے ۱۹۵۱ کے الیکشنوں میں پنجاب کے اندر اپنے ۵۲ نمائندے بھی کھڑے کیے اور پہلی دفعہ ایسے بڑے بڑے جاگیرداروں کو چیلنج کیا جن کے خلاف علاقے کے دوسرے ملکیت یافتہ طبقات بھی کاغذات نامزدگی داخل کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔</p> <p>ملک آغا خاں سہوترا کے بقول کہ"ہم نے ۹۱۵۱ کے الیکشن میں سارے پنجاب میں اپنے نمائندے کھڑے کیے ہماری کامیابی یہی تھی کہ ہمارے کسی نمائندے کی ضمانت ضبط نہیں ہوئی"۔ 1970 کی دہائی کے انقلابی بخار نے بہت سی انقلابی پر توں کو متحرک کیااور اسی دوران 23 جنوری 1972 میں انجمن مسلم شیخاں نے بھی اپنا نام تبدیل کر کے پاکستان دیہاتی مزدور تنظیم رکھ لیا۔ملک آغا خاں سہوترا تنظیم کے دستور میں نام بدلنے کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔ ۱۹۷۰ کے دوران ہم نے دیکھ لیا کہ دکھیاروں کی اس بیڑی میں ہمارے (مسلم شیخوں ) کے علاوہ دوسرے لوگ بھی سوشلزم کے حمایتی ہیں۔ ۱۹۵۱ کے الیکشن کے دوران ہمیں یہ بھی احساس ہوا کہ ہمارے پاس اکثریتی ووٹ نہیں ہیں، لیکن اگر محنت کشوں کی دوسری پرتوں کے ساتھ سنگت بنا لی جائے تو ہم گنتی میں بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی سوچا کہ ہم پچھلے چار ہزار سال سے بے ذاتے رہ رہے ہیں اب سماج کی لوٹ کھسوٹ نے جب ذاتوں والے لوگوں کو بھی مجبور کر دیاہے کہ وہ ہماری طرح کھیت مزدور اور مل مزدور بن کے کام کر رہے ہیں۔ اب ان کو اپنے ساتھ شامل نہ کرنا اپنے آپ کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔اسی فلسفہ کو اسحاق محمد اپنے پنجابی ڈرامہ مُصلی میں یوں لکھتے ہیں" مُصلی دی آزادی لئی باہمن دی نفی ضروری اے۔پر جے ایتھے ای رک جاویں تے مُصلی باہمن بن جاندا اے ۔۔۔۔ مُصلی دی نفی کریں گا،بے ذاتا بنیں گا،تدوں ای ذات پات دی پھاہی گلوں لتھے گی۔۔۔۔۔ "</p> <p>" جے تسیں اپنی تقدیر بدلنی چاہندے اوتے تہانوں چوہڑے نوں بھرا آکھنا تے مننا پوسی۔ جے تُسیں اوہدے لئی باہمن بنے رہے تے باہمن واسطے تہانوں مُصلی بنا کے رکھن دا بہانہ پیدا ہو جاندا اے۔۔۔ جد تاہیں تسیں ایس پوڑی نوں اُ لٹدے نہیں۔ اُپرلے ڈنڈے تھلے نیں لاہندے تے تھلویں ڈنڈیاں نوں اُپر نہیں چاندے تہاڈی نجات نہیں ہو سکدی۔۔ "</p> </section> </body>
5512.xml
<meta> <title>یکے از بُرشیاتِ سہیل</title> <author> <name>سہیل اکبر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28511/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1007</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
یکے از بُرشیاتِ سہیل
1,007
No
<body> <section> <p>کچھ دن سے محسوس کر رھا تھا کہ جب میں آلہٴ صفائی برائے دندان (جسے ٹوتھ برش یا فرشاة الأسنان کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ھے) استعمال کر رھا ھوتا ھوں تو کیفیت کچھ یوں ھوتی جیسے آپ ھاکی کھیلنے کے دوران ساکت گیند کو زور سے ھٹ لگائیں لیکن پتہ تب چلے جب ریفری سیٹی بجا کے فریق ثانی کو مطلع کر دے کہ "یا اخی ،، اینے فاوٴل کر دتا اے ھون ھٹ توں لا" ،، بہرحال ،، کاروبارِ نظافتِ دندان میں کچھ کمی سی محسوس ھونے لگی ایسے میرے دانتوں کی نام نہاد صفائی کو جب کچھ دن گزر چکے تو میں نے ٹوتھ برش کی "ویکلی انسپکشن" کا اصولی فیصلہ کیا ۔۔۔ تو انکشاف ھوا کہ چونکہ اس کی "ڈیلی انسپیکشن" میں غفلت برتی گئی ھے اس واسطے اس کی پرواز میں شدید کوتاہی آچکی تھی۔۔۔ پھر سوچا کہ ابھی اس بیچارے کو خریدے دن ھی کتنے ھوئے ھیں ،، جمعہ ، جمعہ فقط دوسو آٹھ دن ،،، اور ابھی سے اس نے داغِ مفارقت سے متعلق اشاره جات دینا شروع کر دئیے ھیں ،، یہ مرحلہ تو کہیں راستے میں آنا تھا،،</p> <p>بطور جملۂ معترضہ یہاں مجھے اپنا جگرِ سوئم ، بی ۔ ایچ ۔ خان عرف جانو جرمن سابقہ جیل سپریٹینڈنٹ سنٹرل جیل جھنگ حال مقیم اسلام آباد، یاد آیا ۔۔۔ باره تیره برس اُدھر ھم پی ۔ اے ۔ ایف بیس مسرور (کراچی) میں ملی و قومی ھم آھنگی کے ساتھ رہا کرتے تھے ۔۔۔۔ میں اکثر و بیشتر جانو کے کمرے میں جایا کرتا ،،، میری نظر جب بھی اس کی الماری کے اندر رکھے ھوئے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ پر پڑتی میں یہ سوچ کر حیران ھو جاتا کہ میرا دوست اور اتنا ذمہ دار؟ ناممکنات میں سے ھے ۔۔۔۔ کہ ٹوتھ برش نیا اور ٹوتھ پیسٹ تو جب دیکھو، بالکل نیا ۔۔۔ ایک دن میں نے جانو سے کسوٹی کسوٹی کھیلنا شروع کر دی،، کہ قوم کو ان وجوه سے آگاه کیا جائے کہ جن کی بنا پر تمھارا برش اور پیسٹ نئے کا نیا دِکھتا ھے ،،، ایک میں ھوں کہ برش تو اپنا ھوتا ھے لیکن ٹوتھ پیسٹ کے بارے میں راوی شدید شکوک و شبہات کا شکار رھتا ھے ۔۔ کہ وه تو جس کا ھے، جتنا ھے ، حسبِ ذائقہ و حسبِ ضرورت نظر بچا کر استعمال کر لیتا ھوں ،، بالخصوص مہینے کی بیس تاریخ کے بعد۔۔۔</p> <p>گولڈ لیف کا تقریبا" ایکس ایل سائز کا آخری کش لگا کر جانو فیصلہ کن انداز میں جوابا : میں اپنے دانت سال میں صرف ایک مرتبہ صاف کرتا ھوں ۔۔۔ یہ کہہ کر جانو نے اپنا سیگریٹ فرش پر رکھ کر یوں توڑا جس طرح جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت والا فیصلہ لکھ کر اپنا قلم توڑا ۔۔۔ جانو نے تو صرف مجھے ورطہء حیرت میں مبتلا کیا لیکن جسٹس منیر نے پوری قوم کو۔۔۔</p> <p>جانو کے "دندان شکن" جواب پر میں حیرت سے بولا کہ جانو، تمھارے دانت ھیں یا پنجاب کی نہریں ؍ کھال ہںیں کہ جن کی بھل صفائی سال میں ایک مرتبہ ہی ہںوتی ہںے؟ قریب پندره برس ھونے کو آئے ہںماری دوستی پھول کر کپا ھوچکی ھے۔۔۔ اور اب یہ عالم ہںے کہ ایک پنجابی محاورے کی مطابق جو کہ سیٹھ طفیل ٹوکہ اینڈ سنز سمندری روڈ لائلپور (فیصل الاباد) والوں نے اپنی فیکٹری کے ماتھے پہ لکھ کے ٹانگ رکھا ہںے کہ <annotation lang="pa">"دادا لوے، پوتا ہںنڈاوے،،،، نہ ٹوٹے، نہ جان چھُٹے"</annotation> ۔۔۔۔</p> <p>اقوامِ عالم کا ٹوتھ برش کے ساتھ حسنِ سلوک وه جانیں اور برش جانے ،،، وه تو شاید ماہانہ بنیادوں پر اسے تبدیل کرتے ہںوں گے، ہںم پاکستانی تو بقول شاعر ؎؎</p> <p>ہم تو محنت میں بھی توحید کے قائل ہںیں قتیل</p> <p>ایک ہںی برش کو ساری عمر کام پہ لگائے رکھا</p> <p>نظافتِ دندان کے فرائضِ منصبی سے سبکدوشی پر ہم اسے بال رنگنے پر معمور کر دیتے ہںں،،، کچھ عرصہ بعد ادھر سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اسے سلائی مشین اور اس سے ملتے جلتے گھریلوُ آلاتِ دگر کی صفائی و ستھرائی پر لگا دیا جاتا ھے۔ لیجئے صاحب ! چند ماہ بعد جب برش تنظیفی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہاں سے بھی پنشنی ھوجاتا ہںے اور اس کے دانت تقریبا" جھڑ جاتے ہیں تو اس پر نئی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہںے ،،، اب یہ کمر کی خارش کرنے کے منصب پر فائز کر دیا جاتا ھے ۔۔۔ گمان ہںے کہ کمر سے بھی چونکہ خطِ استوا کا گزر ہںوتا ہںے اس لئے یہاں بھی طول بلد اور عرض بلد فرض کر لیے جاتے ہیں اور پھر برش کو لے کر کے عموُدی، متوازی، اُفقی غرضیکہ ھمہ قسم کے قائمے زاویوں سے خارش کی جاتی ہںے۔۔۔۔</p> <p>لفظ خارش ذہںن میں آتے ہی بلاتعطل عطاءالحق قاسمی یاد آجاتے ہیں ، بقول جن کے "بیوی سے محبت کا اظہار کرنا بالکل ایسے ہںی ھے جیسے بندہ اس جگہہ خارش کرے جہاں خارش نہ ھو رھی ھو"۔۔۔۔</p> <p>اب ٹوُتھ برش پر بڑھاپا طاری ھو جاتا ھے اور اس کے بال وغیرہ داغِ مفارقت دے جاتے ھیں ،،، لیکن نہیں ،،، ٹھہرئیے ! چونکہ ھم زندہ قوم ھیں ،،، پائندہ قوم ھیں، تو برش لبِ گور پہنچ کر بھی ھمارے آپ کے کام آئے گا ،،، اب یہ قوم کی شلواروں میں بند قبا ڈالنے کے لئے استعمال ھوگا ،،،، بند قبا کو عام فہم زبان میں ناڑہ یا نالہ کہا جاتا ھے۔ البتہ نالہ ھائے فریادی چیزے دگر است ۔۔۔ یہاں وضاحت ضروری ھے کہ مذکورہ آلے کے نام کا ترجمہ عزیزی محمد اشفاق صاحب نے کیا ھے سو ترجمہ کے پیشگی حقوق بحق محمد اشفاق ضبط ھیں۔</p> <p>حرفِ آخر، ذہںن کے کسی نہاں خانے میں یہ خیال جاگزیں ھوتا ھے کہ انور مسعود کی شہره آفاق بنیان اور ٹوتھ برش میں کوئی باھم ربط ضرور ھے کہ بنیان اور برش دمِ آخر بالترتیب جانگیہ اور آلہ برائے بند قبا المعروف "نالے پانی" کا روپ دھار جاتے ھیں۔</p> <p>اضافی نوٹ ؛ نام نہاد مصنف شعبۂ ھوا بازی سے منسلک ھیں اس لئے ھوا میں لمبی لمبی چھوڑتے رھتے ھیں، ان کی باتوں کا برا نہ منائے گا البتہ اداره ان کے اقوال و افعال کا ھرگز ذمہ دار نہیں ھے۔۔ (اداره)</p> </section> </body>
5513.xml
<meta> <title>پاکستان سے محبت،،کس قیمت پر</title> <author> <name>حنیف سمانا</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28567/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>476</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان سے محبت،،کس قیمت پر
476
No
<body> <section> <p>امریکہ عراق و شام کی ایسی تیسی کرکے اب دوبارہ ہمارے خطّے کی طرف اپنی نظر_کرم کرنے والا ہے.... پختونستان کی پرانی فائل جو ضیاء الحق اور کچھ دینی جماعتوں کی مہربانیوں سے زمین میں دفن ہوگئی تھی... محمود خان اچکزئی کے بیان کے بعد جھاڑ پونچ کر دوبارہ نکالی جائے گی... یہاں سندھ میں کراچی صوبے کے مطالبے کے ذریعے اور کہیں کالا باغ ڈیم کے راگ کے ذریعے سندھی قوم پرستوں کے مردہ جسموں میں بھی روح پھونکی جائے گی... سندھو دیش کی فائل کو بھی قبر سے نکالا جائے گا... پختون کارڈ، بلوچ کارڈ، مہاجر کارڈ اور سندھ کارڈ ........یہ سارے کارڈ راشن کارڈوں کی طرح پھر روشناس کرائے جائیں گے... اے این پی کے پیٹ میں ڈیورنڈ لائن کی مروڑ بھی اٹھے گی.... ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری طرف حکمران لندن میں سیاسی عدّت میں بیٹھے ہیں... کراچی میں امجد صابری کے قتل اور ایک جج کے بیٹے کے اغوا کے بعد سوشیل میڈیا پر سو کالڈ لبرلز کی طرف سے جس طرح فوج کو لعن تعن کی گئی وہ بھی اس گیم کا حصّہ ہے... اس وقت امریکہ، انڈیا، افغانستان اور ایران کے مفادات ایک ہوگئے ہیں... ایسے میں ملک کی محب وطن قوتوں کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے.... یاد رکھئیے ... یہ لبرلز جو بھی کہیں لیکن اب تک پاکستان جو کسی بڑی غیر ملکی جارحیت سے بچا ہوا ہے تو اس کی وجہ ہمارا ایٹمی پروگرام اور ہماری فوج ہے.... آس پاس کے کسی ملک میں یہ ہمت نہیں کہ وہ ڈائریکٹ حملہ کرے .. اسی لئے وہ دہشت گردی کے ذریعے ہمیں اندر سے کمزور کر رہے ہیں... سیاسی حکومت سے تو کسی خیر کی امید نہیں... چونکہ ان کا ویژن نہاری ، پائے سے نکل کے رنگ برنگی میٹرو اور ٹرینوں تک ہی ہے کہ جس میں کمیشن کا امکان ہے.... وہ آگے آنے والے خطرات سے بالکل بےخبر ہے... یہاں فوج کی ذمہ داری دگنی ہوجاتی ہے کہ ایک طرف تو وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بھی بچائے اور دوسری طرف بلوچستان، سندھ اور خاص طور پر کراچی میں پائی جانے والی احساس محرومی کا سد باب کرے... سندھ حکومت کسی منصوبے کے تحت کراچی کو نظر انداز کر رہی ہے... شہر کو قائم علی شاہ کی حکومت نے کربلا بنایا ہوا ہے... شہری پانی کو ترس رہے ہیں .. بعض علاقوں میں جنازوں کو غسل دینے کے لئے بھی پانی نہیں ہے... شہر میں کہیں آگ لگتی ہے تو فائر فائٹر کے پاس آگ بجھانے کے لئے بھی پانی نہیں ہوتا... بجلی اور بے روزگاری کے مسائل الگ ہیں... ایسے میں رینجرز کی شہر میں اندھا دھند پکڑ دھکڑ شہریوں میں پاکستان سے اور بد دلی پیدا کرے گی... فوج کو جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے... ان تمام تکالیف کے باوجود لوگ پاکستان سے اب بھی محبت کرتے ہیں... انہیں دوسری طرف کو نہ دھکیلا جائے.</p> </section> </body>
5514.xml
<meta> <title>"مولانا متردد "اور ناسٹلجیا کے آفٹر شاکس</title> <author> <name>ڈاکٹر محمد مشتاق</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28580/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>969</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
"مولانا متردد "اور ناسٹلجیا کے آفٹر شاکس
969
Yes
<body> <section> <p>یونی ورسٹی میں طالب علمی کے دور میں ہمارے گروپ میں انواع و اقسام کے اصحاب پائے جاتے تھے۔ کسی کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا تو کسی کا جمعیت طلبائے اسلام سے ، کوئی تبلیغی جماعت کے ساتھ چلے لگاتا تھا ، یا لگواتا تھا ، تو کسی کو "اسلامی انقلاب" کی فکر لاحق تھی ، کوئی سلوک کے منازل طے کررہا تھا اور کوئی پختون قوم کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافی پر نوحہ خوانی کا مشغلہ رکھتا تھا ۔ عصر کے بعد نثارخان کے ہٹ میں دودھ پتی پر شروع ہونے والا مباحثہ فیصل مسجد اور ای سیون میں بھرپور واک کے بعد واپس نثار خان کے ہٹ میں رات کے کھانے کے بعد بھی جاری رہتا اور بسا اوقات کھانے کے بعد فیصل مسجد کے گرد ایک اور واک اور اس کے بعد نثار خان کے ہٹ میں دودھ پتی کی اگلی پیالی پر بھی جاری رہتا ۔</p> <p>اس گروپ میں شامل اصحاب میں بعض پر وقتاً فوقتاً لکھوں گا۔ آغاز مولانا متردد سے کرتے ہیں ۔ جو دوست مولانا متردد سے واقف ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے کمنٹس میں ان کا نام نہ لکھیں ورنہ وہ مولانا متشدد بھی بن سکتے ہیں ۔</p> <p>مولانا متردد کا تعلق سوات کی حسین وادی سے تھا (یہ الگ بات ہے کہ سوات کے جادوئی حسن کا کچھ بھی اثر مولانا متردد کے ظاہر میں نہیں جھلکتا تھا)۔ مدارس کے طلبہ کے عمومی معمول کے مطابق انھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا ، یعنی کئی مدارس میں وقت گزار چکے تھے اور "فارغ" کہیں سے نہیں ہوئے تھے۔ اسی کے نتیجے میں مسلسل تردد کا شکار رہتے تھے ۔ کیا بے چین روح پائی تھی ۔ کبھی بری امام کے مزار پر سماع کی محفل میں بیٹھے ہیں (اور شنید ہے کہ سوٹے بھی لگاتے تھے) ؛ تو کبھی ریاض بسرا کا پوز بنا کر تکفیر و تقتیل کے ارادے ظاہر کرنے لگتے تھے ؛ اگلے دن معلوم ہوتا تھا کہ وہ جمال شاہ کے "ہنرکدہ" میں فنون ِ لطیفہ اور اعضاے رئیسہ کے تعلق پر انتہائی پرمغز گفتگو میں مصروف ہیں ۔ اس سارے تردد میں ایک بات بہرحال <annotation lang="en">constant</annotation> تھی : مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ عقیدت کی آخری حد کو چھونے والی محبت! یہاں تک کہ ایک د ن ہم سوات میں ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ ان کے مدرسے کی دیوار پر نعرہ لکھا ہوا ہے :</p> <blockquote> <p>دو ملکوں کے دو حکمران ، ملا عمر فضل الرحمان !</p> </blockquote> <p>فضل الرحمان صاحب کیا حکمران بنتے ، کچھ دنوں میں ملا عمر ہی کی حکومت ختم ہوگئی اور ہمارے بعض دوست اسے اسی نعرے کا اثر قرار دینے لگے۔</p> <p>مولانا متردد نے طالبان کے دور میں افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا اور اس وجہ سے یونی ورسٹی میں نئے آنے والے طلبہ کو اپنے "جہادی تجربات" سے بھی آگاہ کرتے رہتے تھے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان تمام تجربات میں صرف نمکین کڑاہی یا مٹن تکہ ہی کی تفصیلات ہوتی تھیں اور "جہاد "کی تفصیلات ہمیشہ "اگلی ملاقات" کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔</p> <p>ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امریکا نے افغانستان پر کروز میزائل برسائے ۔ مولانا مترددبہت مشتعل تھے اور دیگر مشتعل طلبہ کے ساتھ مل کر آب پارہ میں کئی دفعہ شعلہ نوا مقرر کی حیثیت سے لوہا منوایا ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ سارا دن یونی ورسٹی میں کسی دوست کو نظر نہیں آئے ۔ سب تشویش میں مبتلا تھے اور اسی تشویش میں نثار خان کے ہٹ میں دودھ پتی پی رہے تھے کہ اچانک مولانا متردد نمودار ہوئے۔ پسینے سے شرابور ۔ سانس چڑھی ہوئی ۔ چہرے پر تھکن کے آثار۔ کپڑے گرد و غبار سے اٹے ہوئے۔ سب کو فکر ہوئی ۔ کیا ہوا؟ کہاں تھے ؟ بڑی مشکل سے سانس پر قابو پا کر کہا کہ آب پارہ میں جلسہ تھا، پولیس نے لاٹھی چارج شروع کیا ، بڑی مشکل سے جان بچا کر آئے ہیں ۔ ایک دوست نے فقرہ کسا : یہ تو بھگوڑا ہوا ۔ فوراً جواب دیا : متحرفاً لقتال یا متحیزاً الی فئۃ کو بھگوڑا نہیں کہتے ۔ انعام کو اس کے میلے کپڑوں پر ہی غصہ آرہا تھا ۔ ( صفائی نصف ایمان کو انعام مکمل ایمان سمجھتا تھا اور اس کی کچھ تفصیل بعد میں عرض کروں گا ۔ ) کہا : "تمھیں شرم نہیں آتی ۔ اتنے گندے حلیے میں تم اسلام کی بات کرتے ہو ۔ "جواب تیار تھا : "جہاد سفید استری شدہ کپڑوں کا شوق رکھنے والوں کا کام نہیں ہے ۔ یہ ہم جیسے میلے کچیلے لوگ ہی کرتے ہیں ۔ " کچھ لوگوں نے تحسین کے ڈونگرے برسائے لیکن ایک نے مشورہ دیا کہ ہاسٹل جاکر منہ ہاتھ دھو آؤ ، پھر بات کرتے ہیں ۔ اٹھ گئے ۔ اور غائب ہوئے ۔</p> <p>کچھ دیر انتظار کے بعد سارے دوستوں نے ٹھان لی کہ مولانا متردد کو ڈھونڈ نکالنا ہے ۔ پورا ہاسٹل چھان مارا ۔ نہیں ملے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں تھا ۔ ایک پختون قوم پرست دوست مسکرا رہے تھے ۔ پوچھا تو کہا کہ یار میں بتادیتا ہوں کہ کہاں گیا ہے لیکن میرا نام نہیں لینا۔ وعدہ کیا تو اس نے کہا :</p> <heading>قائد اعظم یونی ورسٹی میں پشتو موسیقی اور روایتی اتنڑ( رقص )کی محفل ہے ؛ وہاں چلا گیا ہے !</heading> <p>(جاری)</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر محمد مشتاق</p> </blockquote> <p>ڈاکٹر محمد مشتاق بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، اسلام اور جنگی قوانین پر ان کی کتب اور مقالے ملک اور بیرون ملک منعقدہ کانفرنسز میں پڑھے گئے ۔ سماجی میڈیا پر وہ کبھی کبھار اپنے ذوق کے مطابق ہلکا پھلکا لکھتے رہتے ہیں ۔ سماج کی تشکیل ، بناوٹ اور ساخت جیسے خشک موضوعات کو سہل انداز میں بیان کرنا ان کا خاصہ ہے ۔ آئی بی سی اردو انہیں اپنے صفحات پر خوش آمدید کہتا ہے ۔</p> </section> </body>
5515.xml
<meta> <title>سعودی اونٹ پہاڑ کے نیچے</title> <author> <name>قاری محمد حنیف ڈار</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28629/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1844</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
سعودی اونٹ پہاڑ کے نیچے
1,844
Yes
<body> <section> <p>سلفی تکفیری گروہ داعش کی موجودہ دھشت گردی کی پشت پر سید مودودی کی کتابیں نہیں بلکہ امام ابن تیمیہ · کے اجتہادات ھیں ،، اسلامی تاریخ کے مختلف پسِ منظر رکھنے والے واقعات سے امام ابن تیمیہ نے جس طرح استنباط کر کے ان کو دوسرے پسِ منظر رکھنے والے احوال پر جس بے دردی کے ساتھ چسپاں کیا ، اور جس کو ان کی علمی ھیبت سے دھشت زدہ عقول حرف آخر سمجھ کر صدیوں سے پوجتے چلے آئے تھے ، اس نے آخر انڈے بچے دینے شروع کر دیئے ھیں ،،</p> <p>امام ابن تیمیہ کے فرمودات لٹریچر میں رُل رھے تھے ان کو کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں تھا ،، سید مودویؒ کے بارے میں علمائے دیوبند کہا کرتے تھے کہ ھم مودودی کے امام ابن تیمیہ کو گھاس نہیں ڈالتے ،یہ مودودی کیا بیچتا ھے ،، ابن تیمیہ اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ سعودی نجدی انقلاب نے گود لیا اور چار فقہوں کے مقابلے میں پانچویں فقہ کے طور پر پالا پوسا اور پروان چڑھایا ،، اس سے پہلے کبھی بھی فقہ تیمیہ اقتدار میں نہیں آئی تھی ،، اب یہی فقہ سعودیوں کے گلے کا پھندہ بن گئ ھے ،</p> <p>گزرے کل میں یہی نجدی داعش ھی کی طرح کا ایک گروہ تھے جن کو لارنس آف عریبیا نے عرب نیشنلزم کی بنیاد پر اسلامی خلافت کو ٹکڑے کرنے کا ٹاسک دیا تھا ، مشرک واجب القتل کا فتوی بھی ابن تیمیہ کا تھا اور حرمین میں ھزاروں ترک تہہ تیغ کیئے گئے جو حرمین کے تقدس میں شھید اور پسپا تو ھوتے گئے مگر پلٹ کر فائر نہ کیا کہ مقدس شہروں کی حرمت پامال نہ ھو ، داعش کی طرح بس مزاروں کو مسمار کرنا ھی ان کا بھی منتہائے مقصود تھا جیسا کہ داعش نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں کیا ،آج داعش انہی کی ٹرو کاپی بن کر ان کے سامنے کھڑی ھے ، وھی متشدد نظریات ، وھی مسلمانوں کے واجب القتل ھونے کے فتوے ، اور وھی دولے شاہ کے چوہوں جیسی محدود سوچ اور اپروچ ،، سعودیوں میں ٹھہراؤ اور اعتدال باقی امت کے ساتھ تعامل کی وجہ سے آیا ھے ورنہ امام ابن تیمیہ کے فتوؤں نے ان کو راکٹ بنایا ھوا تھا ،، آج کئ جید سعودی علماء یہ کہتے ھوئے قطعاً نہیں شرماتے کہ نظریاتی طور پر داعش ھمارے ھی ایجنڈے کو کاپی کر رھی ھے اور ھم علمی طور پر ان کا رد نہیں کر سکتے ،یہی بات اس عربی مضمون میں بھی کہی گئ ھے کہ جب تک آپ ابن تیمیہ کی پوری میتھالوجی کو ری وزٹ نہیں کرتے آپ کبھی بھی داعش کے نظریات کا رد علمی بنیاد پر نہیں کر سکیں گے ، ایک آدھ فتوے کی بات نہیں ابن تیمیہ کا پورا بیانیہ ھی محلِ نظر ھے ،،</p> <p>بہت کم لوگ جانتے ھیں کہ جب ترکوں نے مسجد نبوی کی تعمیر کی تو بچوں کو والدین سے لے لیا گیا ، رزقِ حلال سے ان کی پرورش کی گئ ، ان تمام کو معمار کی تربیت کے ساتھ حفظ قرآن کی تعلیم دی گئ ، جو دورانِ تعمیر باوضو حالت میں قرآن کی تلاوت کرتے ھوئے مسجدِ نبوی کی تعمیر کرتے رھے ،اگر پتھر کو چھوٹا کرنا ھوتا تو اس کو مدینے کی حدود سے باھر لا کر توڑا جاتا کہ نبئ کریم ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے ، وھی ترک واجب القتل ٹھہرے اور حرم نبوی میں پتھر نہ توڑنے والوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا اور ان کے سر قلم کئے گئے ،،</p> <p>ابن تیمیہ نے یہ فتوی دیا کہ مسلم بیٹا اپنے کافروالدین کو قتل کر سکتا ھے - ظاھر ھے کہ یہ ابوعبیدہ ابن الجراحؓ کے اپنے والد کو قتل کرنے اور حضرت حذیفہؓ کے اپنے کافر باپ عتبہ کو للکارنے پر قیاس کر کے دیا گیا فتوی ھے جو کہ پہلے دن سے غلط تھا ، ایک تو اس وجہ سے کہ مکے کے لوگوں کے لئے تو طے ھی یہ تھا کہ وہ یا تو ایمان لائیں گے یا قتل کر دیئے جائیں گے تیسرا کوئی آپشن ان کے لئے اللہ کی شریعت میں تھا ھی نہیں اس لئے کہ ان میں ھی رسول مبعوث ھوئے تھے اور ان پر ھی اس درجے کا اتمام حجت قائم ھوا تھا کہ اب وہ اللہ کی سنت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو رد کر کے اللہ کے عذاب کے مستحق ھو چکے تھے ، اور یہ عذاب حالتِ جنگ میں ھی آنا تھا کیونکہ اللہ پاک نے واضح کر دیا تھا کہ " قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم وینصرکم علیھم ویشف صدورقوم مؤمنین (توبہ 14 ) ان سے لڑو اللہ ان کو تمہارے ھاتھوں عذاب دے گا ، اور ان کو رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور اس طرح مومنین ( کا غصہ نکال کر ) ان کے سینوں کو شفا بخشے گا ( ٹھنڈا کرے گا )</p> <p>دوسرا اس وجہ سے کہ ابن تیمیہ کا یہ فتوی کہ بیٹا اپنے کافر والدین کو قتل کر سکتا ھے قرآن حکیم کے 180 ڈگری خلاف تھا جو واضح طور پر حکم دے رھا ھے کہ اگر والدین تم کو میرے خلاف شرک پر آمادہ کریں اور ایسا کرنے میں سختی بھی کریں تو بھی ان کی بات تو مت مانو مگر ان کے ساتھ رھو ، ان کو ساتھ رکھو اور جس طرح اولاد اپنے والدین کی معروف طریقے سے خدمت کرتی ھے اس طرح ان کی خدمت جاری رکھو ( لقمان )</p> <p>وان جاھداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا .( لقمان -15)</p> <p>سعودی اس فتوے کو جنگی حالات کا فتوی کہہ کر مٹی جھاڑ کر اس کا دفاع کرتے رھے ،مگر جب داعش نے ابن تیمیہ کے فتوے کو بنیاد بنا کر خود کو مسلمان اور سعودیوں کو کافر قرار دیا اور اپنے خلاف بولنےوالے والدین کی اولادوں کو حکم دیا کہ وہ ایسے والدین کو اپنے ھاتھ سے قتل کریں اور داعش کے اس حکم پر شام میں عملدرآمد شروع ھوا ،جہاں دو جڑواں بھائیوں نے اپنی والدہ کو اس جرم میں کہ اس نے ان کو داعش چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا بازار میں پبلک کے سامنے لا کر خود گولی ماری اور اس کی ویڈیو بھی بنائی جو غالباً یو ٹیوب پر دستیاب بھی ھے نہ صرف ماں کو قتل کرتے وقت ابن تیمیہ کا فتوی پڑھا گیا بلکہ اردنی پائیلٹ کو زندہ جلاتے وقت بھی ابن تیمیہ کا ھی فتوی پڑھا گیا تھا اب سعودیہ میں دو جڑواں بھائیوں نے اپنی 67 سالہ ماں ، 73 سالہ باپ اور بھائی کو چھرے سے قتل کرنے کی کوشش کی جس میں والدہ تو قتل ھو گئ جبکہ باپ اور بھائی ریاض اسپتال میں داخل ھیں دونوں بھائیوں کو فرار ھوتے ھوئے یمن کی بارڈر پر گرفتار کر لیا گیا ھے ،، تو اب سعودیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ھیں اور ان میں ایک طاقتور گروہ یہ مطالبہ کر رھا ھے کہ ابن تیمیہ کے فتاوی بھی نظر ثانی کے محتاج ھیں ان کا بغور جائزہ لے کر ان کا محاکمہ کیا جائے اور ان کو ایک مخصوص وقت اور پسِ منظر تک محدود کر کے اس کی عمومیت کا انکار کیا جائے تا کہ اس قسم کے گروھوں کو اس فعل شنیع کے لئے کوئی شرعی جواز دستیاب نہ ھو ،،گویا ابن تیمیہ کی پوری فقہ تنازع کا شکار ھو گئ ھے ،،</p> <p>پاکستان میں ٹی ٹی پی اور لال مسجد سرکٹ دیوبندی چہرہ رکھنے کے باوجود داعشی باطن رکھتے ھیں اور دیوبند کے لئے ایک <annotation lang="en">Liability</annotation> بن چکے ھیں ،جو دیوبندی عام آدمی کو اپنی دیوبندیت سے <annotation lang="en">Attract</annotation> کرتے ھیں مگر داعشیت کے خیمے میں داخل کر دیتے ھیں ، اور الزام سارا دیوبند پر آ جاتا ھے ، اس بات کو مسلک کی اعلی قیادت بخوبی جان گئ ھے اور اس نے اپنے آپ کو ان سے دور رکھنے کا فیصلہ کر لیا ھے ، دیکھ لیجئے گا کہ آئندہ لال مسجد تنازعے میں دیوبندی علماء قطعاً کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کریں گے.</p> <p>الجدل الفقهي من جديد</p> <p>هل أجاز ابن تيمية أن يقتل الابن والده الكافر؟ الجدل الفقهي يعود من جديد بعد غدر "توأمي داعش" بوالدتهم ،صحيفة المرصد: تناول ناشطون من تيارات مختلفة قصاصات، زعموا أن شيخ الإسلام ابن تيمية أجاز فيها أن يقتل الابن والده الكافر، ما فهم منه البعض أن توأمي داعش، استندا إلى أقوال في التراث، أقربها ابن تيمية وذلك قبل أن تسفر التحقيقات الأمنية بالكشف عن خلفية التوأمين الداعشية، . لكن الفقهاء السعوديين الذين يعتبرون ابن تيمية عمدة اختياراتهم الفقهية والعقائدية، أشغلهم نفي التهمة عنه، حتى بدا اتهامه بإباحة فعل مثل «غدر التوأمين»، أشد من الفعلة نفسها بحسب صحيفة "الحياة".</p> <p>وفي تفاعل نادر حول قضايا مثل هذه علّق وزير الشؤون الإسلامية الشيخ صالح آل الشيخ، على هذه الجزئية بأن قول شيخ الإسلام رحمه الله، «وإذا كان مشركاً جاز للولد قتله، وفي كراهته نزاع بين العلماء»، يقصد به إذا تواجها في «الحرب»، هذا في فئة المؤمنين والوالد في فئة الكافرين، في هذه الحال فقط». ولفت في التعليق الذي نقله عنه طالبه المقرب الدكتور راشد الزهراني، في «تويتر»، إلى أن ابن تيمية ليس وحده الذي عالج هذه الحال علمياً، مضيفاً: «هذه المسألة ذكرها فقهاء المذاهب، ومما جاء في المذهب المالكي قول خليل في مختصره في قتال البغاة: «وكره للرجل قتل أبيه وورثته»، وجاء في المذهب الحنفي، قول الكاساني، في بدائع الصنائع «ويكره للمسلم أن يبتدئ أباه الكافر الحربي بالقتل»، والنقول في هذا كثيرة. لكنه شدد على أن تنزيل تلك الأحكام على اغتيال «توأمي داعش» والدتهما، افتراء على ابن تيمية.</p> <p>وزاد آل الشيخ «أما القتل عنوة وغيلة وفي المدن فلا يقول به أحد من العلماء لا ابن تيمية ولا غيره، وهو حرام بالإجماع . مؤكداً أن «من نسب إلى العالم الجليل شيخ الإسلام ابن تيمية غير هذا فقد افترى على هذا الإمام».</p> <p>بينما اتجه الداعية الشهير عائض القرني إلى نفي التهمة عن ابن تيمية، عبر شجب «أعداء الأمة، داعش الخوارج، والمجوس الصفويين، أجدادهم قتلوا عمر وعثمان وعلياً والحسين رضي الله عنهم، ولعن قاتليهم»، وأبرز فداحة الجريمة، قائلاً: «قدم رجل بوالدته يحج بها على ظهره من اليمن فقال لابن عمر: هل تراني كافأتها؟ قال: لا، ولو بزفرة من زفراتها عند الولادة».</p> <p>ونافح الداعية السعودي أيضاً بدر العامر عن ابن تيمية، واعتبر نسب الجريمة النكراء إلى أقواله الفقهية، غلطاً بحثياً، وخللاً في الفهم، وأسس وسماً، بعنوان «براءة ابن تيمية»، حاول فيه جمع أقول الفقيه الحنبلي العريق، الرافضة لقتل الأب حتى وإن كان كافراً. لكن التيار الآخر الذي عرف محلياً بالليبرالي، انتقد كُتابه التراث التيمي، وأكدوا أن مراجعته ضرورة، في إشارة إلى وجاهة الربط، بحسب زعمهم.</p> <p>وقال الكاتب السعودي محمد المحمود عبر حسابه في «تويتر»: «لماذا نعجب من (دواعش) يقتلون والدتهم، وفي تراثنا البعيد والقريب جواز قتل الوالد المشرك، بل وقتل الأطفال (..) وفي سياق التراث العقائدي التقليدي مفهوم جداً أن نجد هكذا فعل لأن قتل الوالدين عندهم أرقى درجات صدق «الولاء والبراء».</p> <p>وأكد نظيره في هذا الاتجاه الكاتب محمد آل الشيخ، أنه «يجب أن نعيد قراءتنا لتراث ابن تيمية الفقهي ونتعامل معه على أساس أنه مرتبط بزمن آخر وظروف أخرى لا علاقة لها بزمننا، وإلا فلن ينتهي الإرهاب».لكنه عاد وأكد في تغريدة أخرى، أن الإشكال الأكبر في توظيف أقوال الأقدمين من جانب تيارات الإسلام السياسي الراهنة، مثل تنظيم الإخوان المسلمين. وقال: «مواجهة الإرهاب تعني بالضرورة اجتثاث السلفية المتأخونة، ومكافحة تسييس الدين ودعاته مثل مكافحة الأوبئة القاتلة المميتة وإلا فلن ينتهي الإرهاب».</p> </section> </body>
5516.xml
<meta> <title>افغانستان میں بےامنی اور پاکستان؟</title> <author> <name>عالیہ احمد</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28660/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2380</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
افغانستان میں بےامنی اور پاکستان؟
2,380
No
<body> <section> <p>ایک بہت ہی غلط فلسفہ ہمارے دماغ میں افغانستان کے حوالے سے بیٹھا دیا گیا ہے کہ " افغانستان کی بدامنی کا ذمےدار پاکستان ہے کیوں کہ اس نے سوویت جنگ میں طالبان تیار کئے " . پاکستان میں موجود کچھ لوگ بھی پوری تندہی سے اس فلسفے کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ نئی افغان نسل بھی اسی فلسفے کو پڑھ کر بڑی ہورہی ہے ..</p> <p>سب سے بڑا جھوٹ تو اس فلسفے میں یہ جملہ ہے کہ</p> <p>" پاکستان نے افغانستان میں جنگ کی اور پختون کو اسلحہ دیا "</p> <p>جناب محترم کاش یہ کہنے سے قبل اگر آپ افغان کی تاریخ پڑھ لیتے یا پاکستان کے قبائلی پٹی کی ہی تاریخ پڑھ لیتے تو آپکو معلوم ہوتا کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح پیدا بھی نہیں ہوئے تھے . جب انگریز ہندوستان میں داخل بھی نہ ہوا تھا . یہ افغان اس سے بھی قبل ہتھیار سے محبت کرتے آئے ہیں اور یہ آگے بھی کرتے رہیں گے آپ چاہ کر بھی انکی فطرت نہیں بدل سکتے .</p> <p>*آپ کا دوسرا اعتراض کہ پاکستان نے افغانستان میں روس اور امریکی جنگ میں افرادی قوت مہیا کی . پاکستان کو افغانستان میں اس طرح کی مداخلت کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا . پاکستان نے پختونوں کو لڑائی پر اکسایا وغیرہ وغیرہ ..</p> <p>محترم جناب یہاں</p> <p>آپ ڈنڈی مار گئے ہیں</p> <p>١٩٢١ میں جب روس اور افغانستان کے حکمران امان الله خان کے درمیان دوستی کے " تاریخی " معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے تو امان الله نے افغانستان کو جدیدیت کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کی کیوں کہ بے تحاشہ پیسہ اور فوجی مدد روس کی جانب سے مل رہی تھی . اور پھر جب امان الله نے مخلوط تعلیمی نظام قائم کرنے کے بعد تیزی سے ننگ معاشرہ ترتیب دینا شروع کیا تو " افغانستان" کے " قدامت پسند" پختونوں نے اول مزاحمت اور بعد میں باقاعدہ بغاوت شروع کی . امان الله پختونوں کی اس بغاوت کا جواب نہ دے پایا اور ملک سے فرار ہوگیا جسکے بعد بچہ ثکاؤ اور پھر مالک خان اور پھر جرگہ کے فیصلے بعد نادر خان افغانستان کا بادشاہ بنا واضح رہے کہ ١٩٢٠ میں شاید پاکستان کا تصور بھی ٹھیک سے واضح نہ ہوا تھا لہٰذا " علامہ اقبال اور مولانا مودودی " پر آپ پختونوں کو بھڑکانے کا الزام بھی نہیں دھر سکتے ..</p> <p>یہ تو تھی پختونوں کی وہ پہلی بغاوت جو روس کی افغان حکمرانوں کے ساتھ ہونے والی دوستی سے ہی شروع ہو چکی تھی .</p> <p>* پھر اپ نے پاکستانی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کھا کہ انھوں نے افغانستان میں دراندازی کی ..</p> <p>اگر آپ حقائق سے آگاہ ہوتے تو یقیناً آپ لکھتے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی افغانستان تمام سرحدی معاہدوں سے منحرف ہوگیا تھا اور پختونستان کا شوشہ کھڑا کیا پاکستان کو بنے ایک ماہ بھی نہ ہوا تھا کہ افغانستان نے دیدہ دلیری سے نا صرف پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ قبائلی پٹاور خیبر پختون خواہ میں سوویت یونین کے حامیوں کا ٹولا بنانا شروع کیا جنہیں تمام امداد افغانستان کے راستے دی جاتی تھی اور انکا مقصد پختونوں کو قوم پرستی کے نام پر پاکستان سے منحرف کرنا تھا . اسکے علاوہ افغانستان ڈاکٹر نجیب الله کے دور تک پاکستان کے کس کس " مہان سیاستدان" کو چارہ ڈالتا رہا ہے یہ آپ جمعہ خان صوفی کی کتاب " فریب ناتمام" میں پڑھ سکتے ہیں . واضح ہو کہ جمعہ خان صوفی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بندہ نہیں ہے بلکہ عبدالولی خان اور اجمل خٹک کا قریبی ساتھ اور افغان حکمران داکترنجیب الله کا قریبی دوست رہا ہے جب کہ سوویت یونین میں باقاعدہ تربیت حاصل کیا ہوا کٹر قوم پرست " کامریڈ" ہے . جس نے تمام خدائی خدمتگاروں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا ہے کس نے پختون کا خون کس طرح بیچا...</p> <p>* اب آتے ہیں اس اعتراض کی جانب جس کی رو سے سوویت جنگ میں پاکستان کے کردار پر کچھ لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں..</p> <p>محترم جناب ، آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سوویت جنگ کی ابتداء تب ہی ہوگی تھی جب سردرداود خان کے اہلخانہ کو قتل کر کے وہاں کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کیا کمیونسٹوں کے برسراقتدار آنے اور ان کی سوشلسٹ پالیسیوں کے جواب میں اسلامی ذہن رکھنے والی قوتیں بھی متحرک اور منظم ہونے لگیں ۔ انقلاب مخالف افغان پاکستان ، یورپ اور امریکا کا رخ کرکے اپنے آپ کو مزاحمت کے لیے تیار کرنے لگے ۔ دوسری طرف کمیونسٹوں نے افغان عوام کے مزاج سے غیرموافق ، غیراسلامی اور آزادخیال پالیسیوں کو اپنائے رکھا جن کی وجہ سے عوام بلخسوس کی صفوں سے بھی حکومت کے خلاف اور مجاہدین کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ پی ڈی پی اے کی صورت میں اپنے ہم خیالوں کے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سوویت یونین نے افغانستان کے اقتصادی، سیاسی اور فوجی معاملات میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ ملوث کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔ دسمبر ۷۸ء میں افغانستان اور سوویت یونین کے مابین ایک اور معاہدہ طے پایا جس میں قرارپایا کہ کابل حکومت بوقت ضرورت ماسکو سے فوج بلا سکتی ہے ۔ ستمبر ۱۹۷۹ء میں وزیراعظم اور وزیردفاع حفیظ اللہ امین نے نورمحمد ترکئی کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حفیظ اللہ امین افغانستان پر اپنی گرفت کو مضبوط نہ کرسکے اوران کی حکومت کے عدم استحکام کو بہانہ بنا کر "کمیونسٹ حکومت کی بقا" کے لیے ، دسمبر ۱۹۷۹ء میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کر دیا گیا اور ان کی جگہ ماسکو میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے پرچم دھڑے کے سربراہ ببرک کارمل کو واپس بلا کر تخت کابل پر بٹھا دیا گیا۔</p> <p>اور جناب آپکی اطلاع کے لئے یہ بھن عرض ہے کہ پروفیسر ربانی ، احمد شاہ مسعود ، گلبدین حکمت یار وغیرہ جنرل زیا نہیں بلکہ " بھٹو " کے زمانے میں پہلی بار پاکستان آئے تھے اور تب ذولفقار علی بھٹو نے انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا پر قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جب سوویت یونین نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تب پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی لہٰذا پہلے سے تے پالیسی کےتحت افغان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کی گئی کیوں کہ یہی سوویت یونین ٧٠ کی دہائی میں افغانستان کے ساتھ مل کر بلوچستان اور پختونستان آزادی کی تحریک چلواتا رہا تھا ، ہم ایک طاقتور دشمن کو اپنی سرحد کے قریب کیسے رخ سکتے تھے جب کہ پہلے ہی ہماری مشرقی سرحد پر ہمارا دشمن بیٹھا ہے . اگر مغربی سرحد جو کہ انتہائی طویل اور دشوار گزار ہے وہاں بھی دشمن پہنچ جاتا تو پاکستان کی سالمیت کو سخت ترین خطرہ تھا . ٹھیک انہی دنوں جے سندھ تحریک بھی سر اٹھانے لگی تھی ...</p> <p>اس دور کا اگر لیٹریچر پڑھنے کا آپکو اتفاق ہو یا کوئی قبائلی پختون جسنےوھ دور جانی کی حالت میں دیکھا ہو وہ میسر ہو تو ذرا پوچھیئے گا کہ پختون لوگوں کے اس جنگ میں کیا تاثرات تھے ؟</p> <p>پاکستان چاہ کر بھی انہیں جنگ میں کودنے سے نہ روک پاتا لہٰذا پاکستان نے انکی بھرپور سرپرستی کی اور اس میں صرف پختون نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی پوری بیلٹ شریک تھی جب کہ پوٹھوار ریجن سے تعلق رکھنےوالے پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی ، امریکہ کو بھی سوویت سے خطرہ تھا لہٰذا اس نے اس حتمی جنگ میں پاکستان اور مجاہدین کا ساتھ دیا . ہمارے لئے یہ ہماری بقا کی جنگ تھی پر امریکہ کو اپنا مضبوط دشمن مارنا تھا ، اغراض و مقاصد سب پر ہی واضح تھے آپ کیوں انجان بن رہے ہیں ؟</p> <p>* آپ نے اعتراض کیا کہ پاکستان کے " سرکاری علماء " نے جہادکے فتوے دیے</p> <p>محترم جناب آپ شاید افغان جنگ سے بلکل ہی نابلد ہیں ، پاکستان نے صرف گلبدین حکمت یار کی تنظیم اسلامی کو سپورٹ کیا تھا ، جب کہ سوویت کے خلاف جنگ میں افغانستان میں موجود تقریباً فرقہ اور مسلک کی جہادی تنظیمیں شامل تھیں .</p> <p>صوفی سلسلۂ نقشبندی کے رہنما پیر صبغت اللہ مجددی نے ۱۹۸۰ ء میں جبہ نجات ملی (دی افغانستان نیشنل لبریشن فرنٹ) کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی .</p> <p>پیر سید احمد گیلانی ، جن کے خاندان کو موروثی روحانی رتبے کاحامل قرار دیا جاتا ہے ، نے بھی "محاذ ملی افغانستان "کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی</p> <p>مزار شریف سے تعلق رکھنے والے شیعہ رہنما عبدالعلی مزاری نے "حزب وحدت" کے نام سے شیعہ کمیونٹی کی تنظیم قائم کی تھی ۔ جہاد کے دنوں میں اسے ایران کی بھرپورسپورٹ حاصل رہی ۔ بعدازاں یہ تنظیم دو حصوں یعنی حزب وحدت (خلیلی گروپ) اور حزب وحدت (کریمی گروپ) میں بٹ گئی ۔ اسی طرح ایک اور شیعہ رہنما آصف محسنی نے حرکت اسلامی کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کی تھی اور آخری وقت تک یہ تنظیم بھی تحریک مزاحمت کا حصہ رہی ۔ پر ایران کا کوئی " دانشور" ان تنظیموں کو لیکر اپنے ملک پر یا اسکی پالیسی پر انگلیاں نہیں اٹھاتا ..</p> <p>پاکستان کا کردار اسلئے زیادہ اہمیت کا تھا کہ اس نے کچھ وقت کے لئے ہی صحیح مختلف جہادی تنظیموں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا تا کہ یہ اپس میں لڑنا نہ شروع ہوجائیں پر اس میں مکمل کامیاب پھر بھی نہ ہوسکا ،</p> <p>١٩٨٨ میں جنیوا معاہدہ کے بعدافغان جنگ ختم ہوگئی اور پاکستان کا اس میں کردار بھی ..</p> <p>اسکے بعد افغان مجاہدین کی مختلف تنظیموں کی آپسی جنگ اور انکی ڈاکٹر نجیب سے دشمنی کی وجہ سے بہت خونریز خانہ جنگی ہوئی ..</p> <p>*پھر کچھ تاریخ سے نابلد حضرات افغان طالبان کو لیکر عجیب و غریب منطقیں دیتے ہیں ،</p> <p>طالبان تحریک کے آغاز کے بارے میں کئی قصے مشہور ہیں ، تاہم اصل قصہ جو اس تحریک کے آغاز کا سبب بنا یوں تھا کہ ۱۹۹۴ء میں ایک مقامی کمانڈر نے بدفعلی کی غرض سے ایک نوجوان کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا ۔ یہ بات پورے علاقے میں پھیل گئی تھی ، چنانچہ ملا محمد عمر اپنے طالبان اور گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کرکے لڑکے کو چھڑانے کے لیے گئے اور کمانڈر کو قتل کرکے اس کی لاش ایک جگہ لٹکا دی ۔ یہ خالصتاً ایک اتفاقی واقعہ تھا جس کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی نہ اس سے پہلے کبھی ملا محمد عمر کے ذہن میں طالبان کی طرح کسی منظم تحریک کو شروع کرنے کا خیال آیا تھا ، لیکن چونکہ قندہارکے لوگ مقامی کمانڈروں کے ظلم سے تنگ آگئے تھے اور وہ ان سے جان چھڑانے کی خاطر کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اس لیے لامحالہ قرب و جوار کے لوگوں کی نظریں ملا محمد عمر اور ان کے طالبان کی طرف اٹھنے لگیں ۔اکتوبر ۱۹۹۴ء میں پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل(ر) نصیراللہ بابر نے چھ مغربی سفارت کاروں کے ہمراہ قندہار اور ہرات کے راستے وسط ایشیا تک کا سفر کیا ۔ انھوں نے ترکمانستان جاتے ہوئے ہرات کے گورنر اسماعیل خان سے ملاقات کی ۔ ۲۸ دسمبر کو پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں اسماعیل خان اور افغان ازبک لیڈر رشید دوستم سے ملاقات کی ۔ یہ وہ عرصہ تھا کہ جب ربانی حکومت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے ۔ کابل حکومت سے مایوسی کے بعد حکومت پاکستان جنوبی افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے کی خواہش مند تھی ، جبکہ دوسری طرف نصیر اللہ بابر کے ساتھ مغربی سفارت کاروں کے دورۂ افغانستان کو تیل اور گیس کی ان بین الاقوامی کمپنیوں کی کوششوں کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاتا ہے جو ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے گیس پائپ لائن بچھانے کی آرزومند تھیں۔اسی سال نومبر میں نصیراللہ بابر کے منصوبے کے تحت خیرسگالی کے جذبے کے اظہار کے لیے تیس ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان کا قافلہ کوئٹہ سے ترکمانستان کے لیے روانہ ہوا جسے قندہارمیں مقامی کمانڈروں نے روک لیا ۔ مقامی کمانڈروں سے لڑائی کے نتیجے میں پاکستانی قافلے کے بیس افراد ہلاک ہوئے ۔ اس دوران میں نصیراللہ بابر نے قندہارمیں مقیم پاکستان کے سفارتی عملے کے ذریعے سے ملا محمد عمر سے رابطہ قائم کیا اور ان سے ٹرکوں کے قافلے کو چھڑانے میں مدد کی درخواست کی ۔ اول الذکر واقعے کی وجہ سے چونکہ ملا محمد عمر کا رعب علاقے میں بیٹھ گیا تھا ، اس لیے مجاہد کمانڈروں کے ظلم و ستم سے تنگ آنے والے قندہار کے باشندے بندوقوں سمیت ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی حمایت میں نکل آئے اور ایک ہی دن کے اندر وہ مجاہد کمانڈروں کو ماربھگانے اور پورے قندہار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئے ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی پاکستانی قافلے کو چھڑانے کے بعد قندہارپر اپنا قبضہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ بیشتر سابق کمانڈر قندہار چھوڑ کر فرار ہوگئے اور جو ہاتھ آئے انھیں قتل کرکے ان کی لاشوں کو چوراہوں میں لٹکا دیا گیا ۔ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں کی اس اچانک اور غیرمعمولی کامیابی نے نہ صرف انھیں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ، بلکہ پورے علاقے میں ان کی شخصیت کا رعب بھی بیٹھ گیا ۔ صرف بیس روز بعد یعنی ۲۵ نومبر کو طالبان نے قریبی صوبے ہلمند پربھی قبضہ کرلیا اور یوں طالبان کی فتوحات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔</p> <p>باقی کابل پر یلغار سے لے کر ڈاکٹر نجیب کی ہلاکت تک کے واقعات حکومت حاصل کرنے کی جنگ تھی یہ کوئی نی جنگ نہیں تھی ، افغانستان کتریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں اسی طرح حکومتیں بدلتی آئی ہیں ، پہلے اس لئے کوئی توجہ نہیں دیتا تھا کہ وہ بادشاہ اور عیاش لوگ تھے جنھوں نے سگے رشتوں کا خون کر کے تحت سنبھالا پر اس بار داڑھی اور پگڑی والے ملا عمر نے کابل پر قبضہ کیا تھا لہٰذا لوگوں کو تکلیف کچھ زیادہ ہوئی .</p> <p>سوویت جنگ ہو یا موجودہ جنگ یہ صرف اورصرف وطن کی آزادی کی جنگ ہے شریعت ، اسلامی نظام کا نفاذ یہ محض منشور یا نعرہ کے لئے استعمال کیا گیا لہٰذا آئندہ کسی بھی شے کو پاکستان سے جوڑنے سے قبل ایک بار تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زحمت ضرور کر لیں اور یہ یاد رکھیں کہ اگر پختون خود اسلحہ اٹھانا چاہے تو کوئی دنیاوی طاقت اسے اس کام سے نہیں روک سکتی اور ہوسکے تو کبھی پاک افغان سرحدی علاقوں کبھی دورہ کریں</p> </section> </body>
5517.xml
<meta> <title>افغانستان میں پاکستان کے خلاف جنگ</title> <author> <name>عالیہ احمد</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28667/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>747</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
افغانستان میں پاکستان کے خلاف جنگ
747
No
<body> <section> <p>انڈیا افغانستان میں دریائے کابل پر 13 ڈیم بنا رہا ہے جن کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے لیے اس دریا میں پانی کی مقدار نہ ہونے کے برابر رہ جائیگی!</p> <p>پاکستان کے کم از کم 20 شہر دریائے کابل پر کسی نہ کسی طرح انحصار کرتے ہیں جن میں سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے تین بڑے شہروں کی زراعت کا کل انحصار ہی صرف اسی دریا پر ہے۔</p> <p>پشاور 80 فیصد، نوشہرہ 47 فیصد اور ضلع چارسدہ کی 84 فیصد زراعت اس دریا کے مرہون منت ہے۔ ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد ان شہروں کی زراعت بہت حد تک تباہ ہوجائیگی۔ ایوب خان نے 1960 میں اس دریا پر ورسک ڈیم بنایا تھا جو 343 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے اور خیبر پختونخواہ کی بجلی کی کم از کم 25 فیصد ضروریات اس ڈیم سے پوری ہوتی ہیں۔ دریائے کابل سوکھنے کی صورت میں صوبہ اس سستی بجلی سے بھی محروم ہوجایگا!</p> <p>یہ سارا معاملہ بارہا منتخب جمہوری حکومت کے نوٹس میں لایا جا چکا ہے لیکن وہ اس پر ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں (فلحال وہ دن رات ایک کر کے اپنی آف شور کمپنیاں بچانے میں مصروف ہے) دوسری طرف پشتونوں کے سب سے بڑے "خیرخواہ" اسفند یار ولی نے تو باقاعدہ ان انڈین ڈیموں کی حمایت کر دی ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ اسفند یار ولی کا تعلق ضلع چارسدہ سے ہے جو ان ڈیموں سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا اور اسکی زراعت مکمل طور پر تباہ ہوجائیگی!</p> <p>یہ اسفند یارولی کالاباغ ڈیم کا سب سے بڑا مخالف ہے جس سے صوبہ خیبرپختنواہ کی 8 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہوگی اور صوبے میں زرعی انقلاب آجائیگا۔ ( یہ کافی افسوسناک امر ہے کہ محض ایک خاندان کی ہٹ دھرمی کی بدولت پشتنونوں سمیت 20 کروڑ آبادی بجلی اور پانی کے بحرانوں سے دوچار ہے )</p> <p>دنیا بھر میں پانیوں پر ممالک کے درمیان معاہدے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کو بھی افغانستان کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہئے۔ سنا ہے کچھ لوگوں نے اس معاملے میں افغانستان سے سرسری سی بات کی تو انہوں نے معاملے پر بات کرنے سے ہی انکار کردیا اور کہا کہ اس پر ابھی ہماری پالیسی نہیں بنی۔ اس صورت میں پاکستان کو ہر صورت میں ان ڈیموں پر کام رکوا دینا چاہئے کیونکہ اس دریا کا پانی صرف افغانستان کا نہیں ہے۔ اس طرح افغانستان کو بھی ٹائم مل جائیگا کہ وہ آرام سے بیٹھ کر پالیسی بنا سکے!</p> <p>ان ڈیموں کے حوالے سے آجکل سوشل میڈیا پر یہ پرپیگینڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کا اصل خیر خواہ انڈیا ہے نہ کہ پاکستان۔ انڈیا افغانستان میں ڈیم بنا رہا ہے جبکہ پاکستان وہاں دہشت گرد بھیج رہا ہے۔</p> <p>تو جناب عرض یہ ہے کہ افغانستان ماچس کی تیلی سے لے کر آٹا، گھی، چینی، سیمنٹ، ادویات غرض ضروریات زندگی کی تقریباً ہر چیز پاکستان سے حاصل کرتا ہے جسکے بدلے میں اٖفغانستان سے پاکستان صرف اسلحہ، ہیروئن اور افغان پناہ گزین ہی آرہے ہیں۔</p> <p>پاکستان میں 40 لاکھ افغانی پناہ گزین ہیں جنکا صرف ایک سال کا خرچہ ہی اس جیسے 100 ڈیموں کے خرچے کے برابر ہے ( انڈیا خیر خواہ ہے تو صرف ان اٖفغان پناہ گزینوں کو پناہ دے کر دکھا دے)</p> <p>افغانستان وہ واحد ملک ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ سردار داوؤد کے دور سے پاکستان میں دہشت گردی اور بغاوتوں کو افغانستان ہی سپورٹ کرتا رہا ہے جس نے پاکستان میں تباہی پھیلا رکھی ہے۔ فضل اللہ سمیت دہشت گردوں کے تمام سرپرست افغان حکومت کی پناہ میں ہیں۔</p> <p>پاکستان نے روس کے خلاف بے سروسامانی کے باوجود اٖفغانستان کی مدد کی۔</p> <p>آج اگر واقعی پاکستان امریکہ کے خلاف مجاہدین کی مدد کر رہا ہے تو ایک غیرت مند افغانی اس پر ناراض کیسے ہو سکتا ہے ؟؟</p> <p>امریکہ کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت پورے افغانستان کی ترجمان کیسے ہوسکتی ہے جس کے منہ میں یہ ڈال دیاگیا ہے کہ " امریکہ افغانستان میں تا قیامت رہے " ؟؟؟</p> <p>اور سب سے بڑھ کا انڈیا کی افغانستان سے محبت " حب علی " نہیں بلکہ " بغض معاویہ " والا معاملہ ہے۔ وہ پاکستان کی نفرت میں افغانستان پر مہربان ہو رہا ہے۔ یہ نفرت نہ ہو تو ہندو کو مسلمان سے جو تاریخی عناد ہے اس کے پیش نظر انڈیا افغانستان کو زہر بھی نہ دے !</p> <p>ایک طرح سے انڈیا افغانستان میں جو سرمایہ کاری کر رہا ہے اس کے لیے بھی اسے پاکستان ہی کا شکر گزار ہونا چاہئے۔</p> </section> </body>
5518.xml
<meta> <title>لوگ پڑھ لکھ گئےلیکن . . . .</title> <author> <name>ڈاکٹر ندیم عباس</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28689/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>595</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
لوگ پڑھ لکھ گئےلیکن . . . .
595
No
<body> <section> <p>زندگی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں انسان زندگی میں کبھی ملا نہیں ہوتا کبھی ان کو دیکھا نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی کوئی تحریر نہیں پڑھی ہوتی ہے مگر ان کے ساتھ دل کا اتنا مضبوط تعلق ہوتا ہے کہ ان کی وفات انسان پر بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہے ایدھی صاحب ان شخصیات میں سے ایک تھے جن پر بطور پاکستانی ہمیں فخر رہے گا اور اس بات پر بھی فخر رہے گا کہ ہم نے ایدھی کے عہد میں زندگی کی ۔</p> <p>ان جیسی شخصیات پر لکھنا چاہتا ہوں تو الفاظ کی کوتاہ دامنی اور ان شخصیات کی بڑھائی کا اندازہ ہوتا ہے ایدھی صاحب کے لیے عظیم ،مسحا اور محسن جیسے الفاظ چھوٹے اور ان کی شخصیت بڑی معلوم ہوتی ہے</p> <p>موت حق ہے ہر کسی کو آنی ہے 92 سال کی خدمت سے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد کئی حسرتیں دل میں لیے ایدھی صاحب عازم عدم ہوئے ہر آدمی حسرتیں لیے جاتا ہے مگر ان کی حسرتیں انسانوں کی خدمت کی حسرتیں تھیں مثلا ہر پانچ سو کلومیٹر پر ایک ہسپتال بنانا چاہتے تھے لاوارثوں کے قبرستان کی زمین خریدنا چاہتے تھے انسان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے وہ اس کا ثواب پائیں گے</p> <p>حیرت ہے مرتے ہوئے یہ وصیت کر گئے میرے جس اعضاء سے کسی انسان کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہو وہ میری طرف سےعطیہ ہے اب ان کی آنکھیں ان کے مرنے کے بعد بھی روشنی کا ذریعہ بنی رہیں گی</p> <p>ایدھی صاحب آپ چلے گئے اہل پاکستان کو اس بات پر فخر رہے گا کہ آپ نے ہر قسم کی بیرونی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا اور صرف پاکستانیوں کے عطیات قبول کرتے تھے اور پاکستانیوں نے کبھی آپ کو مایوس نہیں کیا آپ روڑ کنارے کھڑے ہوئے تو آپ کی گود کو نوٹوں سے بھر دیا ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات دے دیے یہ قوم تو دھوکوں کی ماری ہوئی ہے انہیں تو کوئی آدمی چاہیے جو قابل اعتماد ہو جب اعتماد حاصل ہو جاتا ہے تو یہ کسی کو بھی مایوس نہیں کرتی</p> <p>آج کے دن چار بچے یتیم نہیں ہوئے لاکھوں بچے یتیم ہو گئے ہیں صرف بلقیس ایدھی کے سر سے سائیبان نہیں چھینا گیا بلکہ ہزاروں خواتین سہارا ہو گئی ہیں</p> <p>ایدھی صاحب فرمایا کرتے تھے لوگ پڑھ لکھ گئے ہیں مگر انسان نہیں بن سکے درست فرمایا کرتے تھے زخموں سے چور چور انسانوں کو سڑک کنارے تڑپتا دیکھ کر منہ دوسری طرف کر کے نکل جاتے ہیں کہاں کی انسانیت ؟ معلومات کو تعلیم نہیں کہا جا سکتا جو انسانیت سے محروم کر دے جو انسان کو بے ضمیر کر دے وہ تعلیم نہیں ہوتی اور ایدھی صاحب کا تو اوڑھنا بچھونا ہی انسانیت اور انسانی ضمیر کو جگانا تھا</p> <p>آج ہم سب ایدھی صاحب کی یاد منا رہے ہیں پوری قوم دکھی ہے تو آئیے ایدھی صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کریں اور اس کے لیے عملی اقدامات کریں ہر مصیبت زدہ کی مد کریں تعصبات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر بے سہاروں کا سہارا بنیں جہاں بھی انسانیت کو کوئی مشکل درپیش ہو وہاں اپنی بساط کے مطابق اس مشکل کو کم کرنے کی کوشش کریں جب ہم انسانیت کی خدمت کریں گے تو ایدھی صاحب کی روح شاد ہو گی اور ایدھی صاحب کا خدا بھی ہم سے راضی ہوگا</p> <p>انڈیا کی وزیر خارجہ کا یہ بیان دہرایا جا رہا ہے کہ ایدھی صاحب ایک عظیم انسان تھے سچ کہتی ہیں عربی کی مشہور کہاوت ہے فضیلت وہ جس کا اقرار دشمن بھی کرے</p> </section> </body>
5519.xml
<meta> <title>غلط خبر کی اشاعت پر صحافی اور اخباری مالکان پرجرمانہ بڑھا رہے ہیں .ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</title> <author> <name>انٹرویو : فیصل بن نصیر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28763/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2134</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
غلط خبر کی اشاعت پر صحافی اور اخباری مالکان پرجرمانہ بڑھا رہے ہیں .ڈاکٹر صلاح الدین مینگل
2,134
No
<body> <section> <p>کسی بھی ادارے کا سربراہ اس ادارے کی ساکھ، ترقی اور مستقبل کا امین ہوتا ہے، اگر سربراہ فوری ایکشن لینے اور قانون پر عملدرآمد کروانےوالابن جائے اور کام کو اپنا نصب العین جانتے ہوئے ایمانداری، محنت لگن اور انصاف پر مبنی خدمت کرنے کا ارادہ کر لے تو اس ادارے کی ترقی کوکوئی نہیں روک سکتا، چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل سے انٹرویو کرنے پر ان کی زندگی سمیت ان کی اہلیت بار ے بہت سے پردے چاک ہوئے، بلوچستان کا غیور سپوت اسلام آباد صرف اس لئے آیا کے وہ چاہتے تھے کہ بلوچی قوم کی نمائندگی کر کے بتا سکیں کے بلوچ قوم ایک محنتی اور محب وطن قوم ہے اور ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے ہر موڑ پر اسے ثابت کر کے دکھایا،وہ وکالت کی نرم گرم راہیں ہوں ،تعلیم کا میدان ہو یا پھر کوئی بھی کام غرض ہر جگہ اپنی محنت کے بل پر اپنا مقام بنایا اور پھراپنی ذمہ داریوں کو با احسن نبھایا۔</p> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل 26 جون 1964 ء کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں علاقے کی متول سماجی شخصیت حاجی محمد شریف کے ہاں پیدا ہوئے، ڈاکٹر مینگل کو تعلیم سے لگاوٗبچپن سے ہی تھا اور لگاتار اول پوزیشنیز لینے والے صلاح الدین مینگل نے اپنی منزل 1977ء میں لاء کالج کوئٹہ سے قانون دانی کے شعبے میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد سے مقننہ میں اعلیٰ مقام کے حصول تک ہدف کر رکھی تھی، جبکہ تعلیم کا سلسلہ ان کی شبانہ روز محنت جس میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان،لاء کالج کوئٹہ کے پرنسپل کا عہدہ، وزارت قانون و انصاف میں جوڈیشل ممبر اپیلیٹ ٹریبیونل ، ممبر سینٹ کمیٹی برائے بلوچستان یونیورسٹی،پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان اور دیگر اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ جاری و ساری رہا، اور انہوں نے 2008ء میں قانون کے شعبہ میں ہی پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری بھی حاصل کر لی۔ تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑنے والے ڈاکٹر مینگل کو حکومت کی جانب سے پریس کونسل آف پاکستان کے لئے چیئرمین کی ذمہ داریا ں ا ن کی کارکردگی کی بنیاد پر تین سال کے لئے تفویض کی گئی ہیں،چیئرمین پی سی پی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نمائندہ خصوصی روزنامہ پاکستان فیصل بن نصیر کے ساتھ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی خصوصی گفتگو ذیل میں نظر قارئین ہے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>پریس کونسل آف پاکستان کی ذمہ داریا ں کیا ہیں اور یہ ادارہ کب قائم ہوا۔؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>پریس کونسل آف پاکستان صحافیوں کو ان کے حقوق دلانے اور اخبارات کو جامع رپورٹننگ کرنے پر کاربند کرنے کے لئے قائم کردہ حکومتی اد ارہ ہے،جس طرح پیمراء الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ ہے اسی طرح پرنٹ میڈیا کے لئے حکومت کی جانب سے پریس کونسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ پرنٹ میڈیا کی مشکلات دور کرنے سمیت ریگولیٹ کرنے میں معاون ہو سکے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>پریس کونسل مذہبی مواد کی اشاعت اور ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اخبارات کے لئے کیا پالیسی رکھتا ہے؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>میڈیا ہاوسسز کو چاہیے ضابطہ اخلاق پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، غیر اخلاقی اور نا مناسب الفاظ کے استعمال، کسی خاص نظر یہ یا سوچ کو نمایاں کرنے،مذہبی، مسلکی، لسانی یا ذات سے متعلق نفرت انگیز کلمات یا کسی جانب خاص جھکاو ۔ جرائم پیشہ افراد کو ہیرو بنانے ، سنسنی خیزی،ظلم و زیادتی کے واقعات کی حد ود وقیود سے عاری رپورٹننگ اور بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی تصاویر کوشائع کرنا بھی ممنوع ہے، ضابطہ اخلاق پر عمل نہ کرنے والے اخبارات کو پریس کونسل آف پاکستان کی جانب سے وارننگ جاری کی جاتی ہے اور اگر غلطی سنگین ہو تو اس پر کاروائی عمل میں لا کر اخبارات کو جرمانہ کرنے کی پالیسی بھی پریس کونسل کے دائرہ اختیار میں موجود ہے لیکن میں سمجھتا ہوں صرف جرمانہ کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اداروں کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا زیادہ اہم ہے، جس سلسلے میں اداروں کے چیف ایڈیٹرز لیول پر مشاورت کا عمل جلد شروع کیا جا رہا ہے ۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>کیا آپ پریس کونسل آف پاکستان کی موجودہ صورتحال سے ہمارے قارئین کو آگاہ کریں ؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>پریس کونسل آف پاکستان کی موجود کارکردگی کی اگر بات کریں تو گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران اختیارات کے تحت دو اسی سو موٹو جاری کئے ہیں جن پر فوری فیصلے کئے گئے ہیں ، جبکہ اس وقت پریس کونسل کے پاس پہلے سے موجود کیسوں میں سے صرف ساٹھ کیسسز پینڈنگ رہ گئے ہیں اور ان پر بھی جلد کام مکمل کر کے فوری انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>پی سی پی کا کام صحافیوں کی استعداد کار بڑھانے سمیت ان کی بہتری اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدامات بھی کرنا ہے اس ضمن میں آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>پریس کونسل آف پاکستان صحافیوں کی ٹریننگ کے لئے پروگرامز کا جلد انعقاد کر رہی ہے اور انہیں مالی مشکلات سمیت کام کے دوران پیش آنے والی دیگر پریشانیوں سے نجات دلانے اور مستقبل محفوظ کرنے کے لئے آئندہ میڈیا ہاوسسز کے ساتھ مل کر ایک جامع پروگرام پر عملدرآمد کرنے کا خواہاں ہے، اور انشاء اللہ جلد ہی ہم ان پر عمل کر لیا جائے گا اور میں اپنے قارئین سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں چیئرمین اس لئے نہیں بنا کہ مجھے عہدہ کا لالچ تھا بلکہ میں چاہتا ہوں صحافی کی مشکلات کم ہوں اور وہ اپنا مستقبل روشن دیکھ سکے اور میں اپنے اس خواب کو ضرور پورا کروں گا اس کام کے لئے مجھے صحافیوں کی مدد اور اداروں کی جانب سے سپورٹ چاہیے اور اگر پاکستان کا صحافی مضبوط ہو گا تو نہ صرف ادارے مضبوط ہوں گے بلکہ صحافت ترقی کرئے گی اور پاکستان کا نام روشن ہو گا ، جو میرا مشن ہے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>پریس کونسل کے چیئرمین کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہیں ،آپ ان اختیارات کا ستعمال کیسے کرنا چاہیں گے؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>دیکھیں جہاں تک تو فیصلے کرنے کی بات ہے تو ایک بلوچ ہونے کے ناطے آ پ کو اتنا بتا دوں کہ بہادری اور جرائت بلوچوں کا خاصہ ہے اور میں اپنے تجربے سے شعبہ صحافت کے لئے بہت کام کرنا چاہتا ہوں ، اگر حکومت کی جانب سے چیئرمین پریس کونسل کے لئے سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات تفویض کئے گئے ہیں تو یقیناًیہ کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ہے اور یہ ایک اہم منصب ہے اور اس پر ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر رکھنا ہو گا، لیکن میں اپنے اختیارات سے زیاد سے زیادہ صحافیوں کو فائدہ دلوانے کے لئے کوشش کروں گا اور جہاں تک بات ہے صحافتی اداروں کی تو ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے بھی معاون ہوں گا۔کسی بھی دباو کا شکار نہیں ہوں گایہ نہ صرف میرے عہدے کا تقدس ہے بلکہ میری ذمہ داری بھی ہے ۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>آپ اپنی تعلیمی قابلیت اور تجربے سے صحافت کے لئے کوئی بڑے اہم فیصلے کریں گے یا پھر جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے والی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>میں اہم فیصلے کرنے سے بھی گریز نہیں کروں گا لیکن اتنا بتاتا چلوں کہ پاکستان کا میڈیا اب بہتری کی جانب گامزن ہے اور صرف توجہ کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ترقی ہو گی بلکہ یہ انڈسٹری پھلے پھولے گی اور میں صحافی کو اس کا مقام دلانے کے لئے مشکل سے مشکل فیصلہ کرنے کو تیار ہوں لیکن صحافیوں کو بھی اپنی ملکی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ذمہ دارانہ رپورٹننگ کرنا چاہیے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>آپ اپنے قریبی حلقوں میں علم دوست اور نرم گو مشہور ہیں ، اپنے بارے میں کچھ شیئر کرنا پسند کریں گے۔</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>جی فیصل صاحب علم تو ایسی چیز ہے جو پھیلانے سے بڑھتا ہے اور میں نے علم کی ترقی کے لئے جو بن سکا کیا، اردو، ادب کا دلدادہ ہوں، براہوی اور اردو زبان میں دس کتابوں کا مصنف ہوں، جبکہ انگریزی زبان میں دو کتابیں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور جلد ہی شائع ہو رہی ہیں۔ کتاب دوستی ہی دراصل علم دوستی ہے اور علم کو پھیلانے کا سلسلہ گود سے گور تک جاری رہنا چاہیے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>انتظامی معاملات اور مالی معاملات کی بات کریں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے اس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جو فنڈز موجود ہیں، کیا یہ آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>آپ نے اس موضوع کو چھیڑ دیا ہے تو بتاتا چلوں کہ جہاں تک فنڈز کی بات ہے تو صرف چار کروڑ روپے سالانہ سے تمام پرنٹ میڈیا کی ریگولیشن، صحافیوں کی ٹریننگ کا انتظام و انصرام اور پھر سٹاف کی تنخواہیں اور تو اور بلڈنگ کا کرایہ ہی سالانہ پچاس لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا ہے، حکومت سے درخواست ہے کہ ادارے کے لئے کوئی بلڈنگ مہیا کر دے تاکہ ہم اپنی مالی مشکلات سے نکل کر کاموں کی طرف خاص توجہ مرکوز کر سکیں، اسلام آباد میں چھوٹے سے چھوٹے ادارے کو بھی حکومت کی جانب سے دفاتر کی سہولیات دی گئی ہیں ،جبکہ اہم ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافتی ادارے کے لئے کوئی ایسا ٹھکانا بھی نہیں جہاں سر چھپا کر بیٹھا جا سکے، گزشتہ بلڈنگ جو پی آئی ڈی بلڈنگ سے متصل تھی ہمیں فورا چھوڑنے کے احکامات ملے کیونکہ وہاں زلزلے کے بعد مخدوش حالت کی بناء پر کسی بھی وقت بڑے سانحے کا خطرہ منڈلا رہا تھا، لیکن اب کرائے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹک رہی ہے اور پی سی پی مشکلات کا شکار ہے۔حکومت الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے قائم ادارے پیمرا کو تو بے انتہا وسائل اور فنڈز مہیا کر رہی ہے لیکن اخبارات کو ریگولیٹ کرنے والی پریس کونسل آف پاکستان کے لئے کوئی فنڈز ہی نہیں ہیں۔ دوسری جانب پیمرا کروڑوں روپے کے فنڈز اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کر رہا ہے جبکہ اس کے برعکس پی سی پی کو صرف چند بڑے اخبارات معمول کے مطابق ادائیگیاں کر رہے ہیں جبکہ دیگرسینکڑوں چھوٹے اخبارات کی جانب سے ادائیگیوں کے معاملات سے کنی کترانا ایک ایسا عمل ہے جو پریس کونسل کے مالی معاملات کو مزید مشکلات کا شکار کئے ہوئے ہے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>کیا پی سی پی کی جانب سے غلط رپورٹنگ کرنے پر صحافی کے لئے کوئی سزا یا اشاعتی ادارے کو کوئی جرمانہ بھی کیا جاتاہے؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>جی بالکل اس ضمن میں درخواست موصول ہونے یا پھرسو موٹو اختیارات کے تحت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور کسی بھی غلط خبر کی اشاعت پر دس ہزار روپے جرمانے تک کی سزائیں دی جاتی ہیں اور مستقبل میں جرمانے کی سزاوں کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ غیر دانستی غلطی یا پرنٹنگ کی لا پرواہی پر وارننگ بھی جاری کی جاتی ہے ، صحافت کے اصولوں پرکار بند رہنا اور عمل درآمد کروانا پی سی پی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>چیئرمین پی سی پی کا عہدہ پا کر کیسا محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ اس کا درجہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدہ کے برابر ہے اور آپ کی ایک خواہش بھی تھی کہ آپ اعلیٰ عدلیہ کے لئے کام کریں ۔؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>چیئرمین پریس کونسل صرف ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک ایسی اتھارٹی ہے جو اخبارات کو ان کا حق دلانے کے لئے قائم کی گئی ہے اور جتنی دیر میں اس سیٹ پر موجود ہوں مجھے صحافت کے خدمت گار کے طور پر جانا جائے تو فخر محسوس کروں گا،اور میں محنت پر یقین رکھنے والا شخص ہوں ، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت نہ کرتا ہوں اور نہ کسی اور کی جانب سے برداشت کرتا ہوں۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>صحافت کا مستقبل پاکستان میں کیسا دیکھتے ہیں؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کا مستقبل روشن دیکھ رہا ہوں ، اس وقت الیکٹرانک میڈیا میں اچھی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، اگر پرنٹ میڈیا میں تنخواہیں نسبتا کم ہیں تو صرف اخباری مالکان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ، اخباری صحافی کو بھی محنت کر کے اپنی شناخت بہتر کرنا ہو گی تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔</p> <blockquote> <p>فیصل بن نصیر</p> </blockquote> <p>چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پرنٹ میڈیا کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟</p> <blockquote> <p>ڈاکٹر صلاح الدین مینگل</p> </blockquote> <p>میڈیا ہاوسسز کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان ہماری آن بان شان ہے اور اخبارات میں کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ ملک سے متعلق مثبت باتوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں،صحافی کو چاہیے کے رپورٹنگ کرتے وقت قومی مفاد کو مقدم رکھیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا بہترین امیج سامنے آ سکے۔</p> </section> </body>
5520.xml
<meta> <title>آزادئِ قدس یاتسخیرِکعبۃ۔۔۔؟</title> <author> <name>محمدعماراحمد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28906/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>787</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
آزادئِ قدس یاتسخیرِکعبۃ۔۔۔؟
787
No
<body> <section> <p>اس برس بھی جمعۃالوداع کوایران اوراس کےدنیابھرمیں موجودہم فکرطبقےنےیوم القدس کےطورپرمنایا۔پاکستان،سعودی عرب،شام،لبنان،عراق نائجیریااوردیگرکئی ممالک میں موجود ایرانی لابیزنے 850 چھوٹےبڑےشہروں میں اسرائیل وامریکہ مردہ بادریلیاں نکالیں جن میں خواتین وحضرات کی بڑی تعدادنےبھرپورشرکت کی۔</p> <p>دوسری طرف روزنامہ اوصاف 28 جون میں شائع ایک رپورٹ میں ایرانی سپریم لیڈرخامنہ ای صاحب کے قریبی ساتھی اورایرانی نیوزادارے"تابناک"کےمطابق امام مہدی اس برس حج کےموقع پرظاہرہوں گےاورسعودی عرب کےموجودہ نظام کولپیٹتےہوئےحج کی قیادت کریں گے۔امام صاحب کی اعانت کےلئےایران نےشام اوریمن میں 10 لاکھ کامسلح لشکربھی ترتیب دےدیاہے۔ان کےمطابق اس برس حج کےموقع پر سانحہ منیٰ سےبھی بڑاحادثہ رونما ہوگا۔اسی منصوبےکےپیشِ نظرایران اس برس اپنےشہریوں کوحج پرنہیں بھیج رہابلکہ ایرانی شہری شام میں مقدس مقامات کی زیارت سےمشرف ہوسکیں گے۔</p> <p>فلسطین کےحوالےسےایران،حزب اللہ اوران کےہم فکرطبقے کاظاہری مئوقف آزادئِ قدس کی حمایت واعانت کارہاہے۔حماس اورحزب اللہ میں اس سلسلےمیں کچھ تعاون رہتاہےجبکہ ایران بھی اس بات کااظہارکئی بارکرچکاہےکہ وہ حماس اورفلسطینی عوام کی ہرطرح سے مددکرتارہتاہے۔یہی طبقہ ہی آزادئِ قدس کےحوالےسےدنیابھرمیں متعدد مخصوص ایام کو اسی مناسبت سےبھرپوراندازمیں مناتاہے۔</p> <p>جبکہ العربیہ کی ایک رپورٹ کےمطابق حماس کےاعلیٰ عہدیدارکی ویڈیومنظرعام پرآئی جس میں وہ یہ کہتےہوئےسنےگئےکہ ایران کافلسطینی عوام کےلئےتعاون محض پروپیگنڈا ہے،ایران نےبہت ہی کم فلسطینی عوام کاتعاون کیاہے۔کچھ عرصہ قبل حماس نےحزب اللہ کےکئی لوگ پکڑےجواپنےمخصوص ایجنڈےپرکام کررہےتھےاورلوگوں میں متنازعہ مواد پھیلارہےتھےجوفلسطین کی داخلی سلامتی کےلئےخطرےکاباعث تھا۔</p> <p>حماس یافلسطین کےلئےایران اوراس کےہم فکرممالک یالوگوں کی ہمدردی میں صداقت کا اندازہ اس سےبھی لگایاجاسکتاہےکہ ایران بشارالاسدکی عسکری حمایت کررہاہے۔ان کی ہی فوجیں شام میں موجودفلسطینیوں کےمہاجرین کیمپوں میں بمباری کرتی ہیں اوراب تک کئی ہزارمہاجرین لقمہِ اجل بن چکےہیں۔حماس راہنماخالدمشعل کےمطابق بشارالاسدکےدبائوکی وجہ سےہمیں (حماس کو)شام سےبےدخل ہوناپڑا۔اسرائیلی مظالم پرشورشرابہ کرنےوالےیہ فلسطینی عوام کےنام نہادہمدرداورآزادئِ قدس کےعلمبرداراپنےملکوں میں موجودان مظلوم ومعصوم اوربےگھرافرادپرمظالم کیوں ڈھارہےہیں۔؟چندماہ پہلےحزب اللہ فلسطین کےایک راہنماآزادئِ قدس کےمقدس مشن کوچھوڑکراسد کی حمایت میں جانبازی دکھانےشام گئے اوروہیں پرہی مخالفین کی زدمیں آکرہلاک ہوئے۔</p> <p>ایران اوراس کےہم فکرمشرقِ وسطیٰ باالخصوص سعودی عرب کےحکمرانوں کےخلاف دنیابھرمیں پروپیگنڈاکرتےرہتےہیں۔آلِ سعودآلِ یہودجیسانفرت انگیزنعرہ انہی لوگوں کی ہی اختراع ہے۔سعودیی عرب کےقریبی ممالک یمن اوربحرین میں بغاوت و شورش کامقصدبھی سعودی عرب کےگردگھیراتنگ کرناہے۔گزشتہ برس منیٰ حادثہ میں بھی مبینہ طورپرایران ملوث تھااورامام خمینی کی زندگی میں ہی حج کےموقع پر بدامنی پھیلانےکی کوشش بھی انہی نےکی۔اب پھراس برس کئی ماہ پہلےہی صف بندی شروع ہوچکی ہےکہ مقاماتِ مقدسہ کےتقدس کوپامال کرناہے۔اس مرتبہ ایک مذہبی نظریہ آمدِ مہدی کاسہارالیاہےاوراسی نظریہ کی آڑمیں یہ ناپاک کھیل کھیلاجائےگا۔</p> <p>ایران گزشتہ کئی برسوں سےامتِ مسلمہ کےخلاف کی جانےوالی سازشوں اوران کی تکمیل میں ملوث ہے۔پاکستان اورمشرقِ وسطیٰ میں بدامنی پھیلانےوالےکئی گروہ ایران کی مکمل سرپرستی میں کام کررہےہیں۔مقدس مقامات کاکنٹرول آلِ سعودکےپاس ہوناایران کوبرداشت نہیں ہے۔وہ سعودی عرب کےگردگھیراتنگ کرنےکےلئےساراکھیل کھیل رہاہےجس میں امتِ مسلمہ کاخونِ ناحق بہ رہاہے۔اب کےسعودی عرب کی نسبت امریکہ بہادرکاجھکائوایران کی طرف ہے۔ایران مغربی طاقتوں کےلئےمعتبرہورہاہےاوروہ ان کےمنصوبوں کی تکمیل کاذریعہ بنےگا۔ایران اورمغرب میں خفیہ معاشقےکھل کرسامنےآرہےہیں اورمزیدسامنےآئیں گے۔ایران امریکہ اوراسرائیل سےہاتھ ملانےکوتوتیارہےمگرمسلم ممالک سےنہیں۔</p> <p>اسی طرح استعماری طاقتیں عراق اورافغانستان پرتوحملہ آورہوتی ہیں کہ وہ ان کےلئے خطرہ تھےمگرایران کےبارےمیں محض زبانی جمع خرچ ہی کافی ہوتاہے۔انسانی حقوق کی پامالی کوبنیادبناکروہ لیبیاپرتوہلہ بولتےہیں مگرشام میں درندگی اوربربریت پرمکمل خاموش رہتےہیں۔مسٹراوباماتواس بات پربہت خوش ہیں کہ وہ شام میں کسی بھی کارروائی میں شامل نہیں ہوئے۔یہ سب باتیں ایران اوراس کےہم فکرطبقےکےمرگ برگ امریکہ واسرائیل نعروں کاپول کھولنےکوکافی ہیں۔</p> <p>ایران ایک طرف آزادئِ قدس کاعلمبردارہےمگراس کےلئےکوئی صف بندی،منصوبہ بندی کہیں نظرنہیں آتی۔مگرتسخیرِکعبۃ کےلئےاس نے 10 لاکھ کالشکرِعظیم تیارکررکھاہےاوروہ بھی ایک مفروضےپرکہ اسی برس امام مہدی تشریف لارہےہیں۔ایرانی عزائم کیاہیں؟اب اس کااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں کہ یہ سب واضح ہورہاہے۔مرگ برگ اسرائیل اورمرگ برگ امریکہ کےنعرےتولگاتےہیں مگران کےخلاف کوئی تحریک یالشکرتیارنہیں کئےگئےبلکہ شام،عراق اورافغانستان جیسےممالک میں ان کےمفادات کاتحفظ کیاگیا۔۔جبکہ سرزمینِ عرب میں مسلمانوں کاخونِ ناحق بہانےاورحرمین کےتقدس کوپامال کرنےکےلئےاتنےبڑےمسلح لشکرکاتیارکرنایہ ظاہرکرتاہےکہ ایران کاعزم آزادئِ قدس نہیں بلکہ تسخیرِکعبۃ ہے۔۔۔</p> <p>مسلم امہ اس وقت جس مشکل ترین دورسےگزررہی ہےاس کاذمہ دارتنہاایران نہیں بلکہ عرب ممالک کی بادشاہتیں اوران کی غلط پالیسیاں بھی مسلم امہ میں تفریق اورخون ریزی کاباعث ہیں۔افسوس اس پرہےکہ اس دہکتی آگ کوبجھانےکی بجائےنت نئےنظریات اورباتوں سےاس آگ کومزیدبھڑکایاجارہاہے۔سعودی عرب اورایران کی سیاسی مخاصمت کومذہبی لبادےاوڑھاکرمسلم دنیامیں شیعہ سنی کشیدگی کوہوادینےکی مذموم کوششیں عروج پرہیں۔ ایسےوقت میں ایران کی طرف سےامام مہدی کی آمداورسعودی عرب کےنظام کولپیٹنےکی باتیں اوراس کےلئےمسلح لشکرکی تیاریاں حالات کومزیدگھمبیر بنائیں گی۔</p> <p>ایران کوسوچناچاہئےکہ اس قسم کےاعلانات سےمشرق وسطیٰ میں موجودآگ پوری اسلامی دنیامیں پھیل جائےگی کہ مسلمان کعبۃ اللہ اورروضہِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبارےمیں کسی بھی قسم کی شرانگیزی برداشت نہیں کریں گے۔اس قسم کےکسی بھی اقدام سےمسلم امہ میں جوکشیدگی پھیلےگی اس کی تمام ترذمہ داری ایران پرہوگی اس لئےایران کوچاہئے کہ وہ ذمہ داری کامظاہرہ کرتےہوئےمسلم امہ میں موجودآگ کوکم کرنےکی کوشش کرے۔ ایران اورسعودی عرب مسلم ممالک میں اہم مقام رکھتےہیں انہیں چاہئےکہ وہ اس مقام کا غلط استعمال کرنےکی بجائےمفیداستعمال کرکےمسلم امہ میں تفریق ختم کرنےمیں کردار ادا کریں۔</p> </section> </body>
5521.xml
<meta> <title>محمود خان اچکزئی کے متنازع بیانات</title> <author> <name>سید انور محمود</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28937/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1114</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
محمود خان اچکزئی کے متنازع بیانات
1,114
No
<body> <section> <heading>پختونخوا ملی عوامی پارٹی کےسربراہ محمود خان اچکزئی جو قائد اعظم کے تو مخالف ہیں لیکن اپنے آپ کو ایک اصول پسند سیاستدان کہتے ہیں، غریبوں اور مظلوموں کی نام نہاد ہمدردی رکھنے والے اس سیاستدان نے دسمبر 2014 میں اسلام آباد کے دھرنے کے شرکا کو جو عام طور پر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے خانہ بدوش کہہ کر پکارا تھا حالانکہ یہ انہی جیسے خانہ بدوشوں کےووٹوں کی بھیک حاصل کرکے پارلیمینٹ میں پہنچے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نواز شریف کے سیاسی حلیف ہیں، اس لیے سیاسی اور مالی فوائد بھی حاصل کررہے ہیں۔ نواز شریف حکومت میں محمود خان اچکزئی کی بیوی سمیت انکے خاندان کے دس افراد مختلف حکومتی عہدوں پرموجود ہیں ، خود وزیراعظم کے مشیر خاص اور ایک بھائی گورنر بلوچستان، باقی دوسرے عہدوں پر۔محمود خان اچکزئی اپنے متنازع بیانات کےلیے مشہور ہیں، ان کے والد خان عبدالصمد اچکزئی نے 1973ء کے آئین کو تسلیم نہیں کیا تها اور اپنی پوری زندگی خان عبدالصمد اچکزئی یہ درس دیتے رہے کہ پختون قوم کی آزادی کے لئے آزاد پختونستان کا قیام ضروری ہے۔</heading> <p>ایک جلسہ عام میں جو 25 جون 2012 کو کوئٹہ کے صادق پارک میں ہوا تھا، محمود خان اچکزئی نے اپنی طویل تقریر کے دوران کہا تھا کہ '</p> <heading>'بلوچوں کے ساتھ نہ کوئی لڑائی ہے، نہ جھگڑا، یہ بلوچوں کا علاقہ ہے جو چاہیں کریں، ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم پشتون برابری کی بنیاد پر اپنا حق مانگتے ہیں۔ صوبے میں پشتونوں کو ان کا حق دیا جائے تو ہم یہاں رہیں گے۔ ہمیں حقوق نہ دیئے گئے تو دوسروں کو بھی مزے نہیں لینے دیں گے۔ وزیراعلیٰ پشتون نہیں تو گورنر پشتون ہونا چاہیے۔ چترال سے بولان تک متحدہ قومی وحدت کی تشکیل تک 125 سال پرانا صوبہ بحال کیا جائے۔ ہماری جدوجہد کا مقصد پاکستان کو توڑنا نہیں، ہم بلوچستان میں دوسرے درجے کے شہری بن کرنہیں رہ سکتے۔ بلوچ ہمیں مجبورنہ کریں کہ جرگہ بلا کر الگ صوبے کا اعلان کریں"۔</heading> <p>ان کی اس تقریر نے بلوچ قوم پرستوں میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے اور تمام قوم پرست پارٹیوں نے ان کے خلاف بیانات دیئے۔ بلوچستان میں پشتون بلوچ سیاست میں ایک خاموش فائر بندی تھی، جو محمود خان اچکزئی کی اس تقریر کے بعد ٹوٹ گئی۔</p> <heading>قومی اسمبلی میں دس جون 2013 کو اس وقت کے صدر آصف زداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر بحث کے دوران، محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ آخر کراچی سے اردو بولنے والوں کے علاوہ دیگر قومیتوں اور زبانیں بونے والے جیسے سندھی، پنجابی، بلوچ یا پٹھان، سندھ کی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے لیے کیوں منتخب نہیں ہوتے؟ اس حوالے سے انہوں نے لبنان کی بھی مثال دی جہاں آئین کی رو سے صدر عیسائی، وزیراعظم سنی جبکہ شیعہ کمیونٹی کا فرد اسپیکر بنتا ہے، یہ طریقہ کار وہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے میں مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کراچی کو "دہشت گردوں کا شہر" قرار دے دیا۔ ایم کیو ایم کے سخت احتجاج کےبعد اسپیکر نے "دہشت گردوں کا شہر" کے الفاظ کو حدف کروادیا تھا۔ اپنی اسی تقریر کے دوران محمود خان اچکزئی نے فاٹا کی سات ایجنسیز پر مشتمل ایک علیحدہ پارلیمنٹ بنانے کی بھی تجویز پیش کی جس کا انتخاب فی فرد ایک ووٹ کے تحت کیا جائے اور ان کا ایک منتخب گورنر بھی ہو، لیکن ایم کیو ایم کے شور شرابے کی وجہ سے ان کی یہ تجویز زیر بحث نہ آسکی۔</heading> <heading> <blockquote> <p>گذشتہ دنوں کافی عرصے بعدمحمود خان اچکزئی کو ایک مرتبہ پھرمتنازع بیان دینے کا شوق جاگا تو انہوں نے افغان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا علاقہ ہے اور "اگر افغان مہاجرین کو پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ہراساں کیا جاتا ہے تو انہیں یہاں صوبہ خیبر پختونخوا میں آجانا چاہیے جہاں ان سے کوئی بھی مہاجر کارڈ طلب نہیں کرے گا کیونکہ یہ انہی کا ہے"۔ افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں بلا خوف و خطر رہ سکتے ہیں۔ افغان اخبار کے مطابق ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر پاکستانی پشتونوں کو بھی تشویش ہے۔ بعد میں محمود خان اچکزئی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان اخبار نے ان کا بیان غلط انداز میں پیش کیا۔ میں نے یہ کہا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے خیبر پختونخوا افغانستان کا حصہ رہا ہے، یہ نہیں کہا کہ خیبر پختونخوا افغانیوں کا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان میں پختون قوم پرستی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔</p> </blockquote> <heading>ان کے اس انٹرویو کےجواب میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواپرویزخٹک نے کہا ہے کہ محمود خان اچکزئی کا بیان شرمناک ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،کیا محمود خان اچکزئی خیبرپختونخوا کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور کرسکتے ہیں؟ پرویزخٹک کاکہنا تھا کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے آج تمام پاکستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا، خیبرپختونخوا کی عوام نے 1947ء میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا نہ کہ افغانستان کے۔ پرویز خٹک نے مزید کہا کہ محمود خان اچکزئی کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، خیبرپختونخوا کے عوام محمود خان اچکزئی کے بیان کو مسترد کرتے ہیں،پاکستان صرف پاکستانیوں کا ہے اور پاکستانی ہی اس ملک کے مستقل شہری ہیں۔</heading> </heading> <heading>ماضی کی سیاست میں قوم پرستی کا ایشو بہت زیادہ تھا مگر پھر قوم پرستوں نےجن میں غفار خان اور ولی خان بھی شامل ہیں خیبرپختونخوا کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرلیا تھا۔ محمود خان اچکزئی کا افغان مہاجرین کے حوالے سے بیان پختون قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی جانتے ہیں پختون قوم پرستی کے مردہ گھوڑے میں دوبار جان نہیں ڈالی جاسکتی ہے۔ پختون قوم پرستی کی تحریک دفن ہوچکی ہے جس میں زیادہ کردار پاکستان کے پختون قوم پرستوں کا رہا ہے۔محمود خان اچکزئی نے افغان مہاجرین کے بارے میں بیان سیاست کی غرض سے دیا ہے، انہوں نے پشتون قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کی ہے، بلوچستان میں پختون اور بلوچ سیاست اہم ہے۔ محمود خان اچکزئی افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ سمجھنے اور وہاں مداخلت کے خلاف ہیں لیکن جب پاکستان کی ریاست کی بات آتی ہے تو وہ سرحدوں کو بھول جاتے ہیں، اس لیے محمود خان اچکزئی کے اس قسم کے وطن دشمن بیانات پاکستان کے عوام اور خاصکرپختونوں کو قبول نہیں ہیں۔ کوئی بھی محب وطن پاکستانی خیبرپختونخوا کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور نہیں کرسکتا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ محمود خان اچکزئی کے اس متنازع بیان کا نوٹس لے اور خاصکر وزیراعظم نواز شریف کو اپنے سیاسی حلیف محمود خان اچکزئی جیسے غیر محب وطن کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد کے بارئے میں سوچنا چاہیے۔</heading> </section> </body>
5522.xml
<meta> <title>وحدتِ انسانیت کا ترجمان،ایدھی</title> <author> <name>شہاب الدین شہاب</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/28968/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1267</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وحدتِ انسانیت کا ترجمان،ایدھی
1,267
No
<body> <section> <p>حزن و یاس کا عجیب منظر ہے۔ پریشانی اور مایوسی کے گہرے سائے ہیں۔ فراقِ یار کا عجب سا واویلا ہے۔ مدح و تعریفوں کے ان گنت بیانات ہیں۔زبانیں تر بہ تعریف اور قلم محو ذکرِ درویش ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ اچانک انسانیت پاکستان کی سرزمین پر یتیم ہوگئی ہے۔ وحدتِ انسانیت کا عملی داعی، خدمتِ خلق پر یقین مستحکم کا مالک، رب کے بندوں سے پیار کا سراپا فقط اس بنیاد پرکہ بس وہ میرے رب کے بندے ہیں اور وحدتِ انسانیت کے اس عظیم درس کے لئے محمدِ عربیﷺ کو اپنا استاد و رہنماء چننے والے عبدالستار ایدھی اپنے پیچھے انمٹ نقوشِ محبت و خدمت چھوڑ کر اپنے رب سے ملنے دارِ بقاء کی طرف چل دئے۔</p> <p>لیکن آج اس درویش کے ہم سے جدا ہونے پر جوردِعمل پوری قوم کا سامنے نظر آیا۔وہ ایک طرف جہاں قابلِ تحسین و ستائیش ہے وہیں پر میرا احساس اس رنج سے زخمی ہے کہ ہم کیوں شخصیات کے بھنور میں فکر و شعور اور عملی پروگرام اور نظریات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ آج ہر خاص عام ایدھی کے غم میں سوگوار دکھائی دیتا ہے۔لیکن کتنے ہیں جنہوں نے ایدھی کے مشن کو اعلانات اور اخباروں کی حد سے آگے بڑھ کر عملی طور پر اپنانے کا عزم کرکے میدانِ عمل میں آنے کا عہد کیا ہو؟</p> <p>عبدالستار ایدھی کا ماتم چند روز یا پھر چند ہفتے اخباروں ، ٹی وی چینلز کی زینت بنا رہیگا۔ لیکن پھر غفلت کی ماری ہوئی یہ قوم اس درویش کو اسی طرح بھول جائیگی جسطرح یہ آج محسنِ انسانیت کو عملا بھول چکے ہیں۔ جس طرح یہ اپنے خالق کے احسانات و انعامات سے بھری زندگی گزار کر بھی غیروں کے در پر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ جس طرح اس قوم نے مفکرِ پاکستان اور بابائے قوم کے احسانات و فرمودات کو بھلا کر ، اسکے فکر و احساس کا خون کرکے مملکتِ خدادا پاکستان کو آج اس حال میں پہنچا دیا کہ جہسے دیکھ کر علامہ مرحوم اور قائدِ اعظم کی روح کو بھی تکلیف ہوگی۔ اور اگرکمال محبت کا ثبوت دیا تو کسی ائرپورٹ یا کسی شاہراہ کو ایدھی صاحب کے نام سے معنون کردیں گے۔ بیشک یہ بھی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری اپنے قومی ہیروز کا کردار اور انکا مشن ہوتا ہے۔ جسکو زندہ قومیں اپنے لئے مشعلِ راہ بناتی ہیں ۔ پر جسکا بد قسمتی سے ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔</p> <p>کاش ہمارے رویوں میں الفاظ سے زیادہ عمل کی جھلک نظر آتی۔ ہماری زبانوں کی تیزی سے زیادہ عبدالستار ایدھی کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہمارے قدم تیز ہوتے۔اللہ کے اس درویش کی رحلت پر جوشِ و جذبہ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید غفلت کی نیند ٹوٹ چکی ہے۔عین ممکن ہے کہ بسترِ غفلت پر سونے والے بیداری کی کروٹ لے چکے ہیں۔لیکن عمل کی دنیا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید آنکھوں کا خمار ابھی باقی ہے۔یا یوں کہئے کہ دھواں بڑھتا جا رہا ہے پر شعلوں کی چمک ابھی نظر نہیں آتی۔</p> <p>تنگ نظری اور قدامت پسندی کا چشمہ اتار کر دیکھیں تو تاریخِ عالم یہی تصویر دکھاتی ہے۔ کہ دنیا میں جتنی آسمانی کتابیں آئیں جتنے اللہ کے برگزیدہ رسول و نبی آئے۔ حکماء و صلحاء جو اللہ رب العزت کی بڑائی کے پیامبر بنے۔ وہ سب ایک نکتے پر متفق اور ایک ہی سچائی کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ ایک ہی روشنی کی رنگا رنگ کرنوں کے پھیلانے والے، خدا کی زمین پر خدا کے بندوں کو ایک ہی سچائی کی پہچان کرانے کے تقیب نظر آتے ہیں اور وہ سچائی اور وہ فکر وحدتِ انسانیت کا تصور ہے۔</p> <p>کتابِ انسانیت کی عظمت اور بڑائی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایسے فکر و شعور کو اجاگر کر کرتاہے ۔ جسمیں ساری انسانیت کی فلاح اور خدا کاے سارے بندوں کا فائدہ ہے۔اسکی عالمگیریت اگر قائم ہے۔تو اسلئے کہ یہ کل انسانیت کی کتاب ہے اور وحدتِ انسانیت اور وحدتِ کائنات کا اعلی ترین تصور ایمان بااللہ میں مضمرہے کیونکہ ایمان بااللہ کے منزلِ مقصود پر پہنچنے کے بعد ہی انسانیت کا درجہ آتا ہے۔اور انسان دوستی کی منزل سے انسان کا گزر ہوتا ہے۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسان دوستی اور وحدتِ انسانیت ایمان بااللہ کی سب سے اہم اور اعلی درجہ ہے۔کیونکہ جسکو اللہ کے مخلوق سے رنگ و نسل ، قوم و مذہب اور علاقے سے بالا تر ہوکر محبت نہیں سہمجھو وہ خدا کے ساتھ محبت میں سچا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے صوفیاء کرام تو انسان دوستی کو ہی اصل دین قرار دیتے ہیں۔ان اولیاء اللہ کا تو یہ عقیدہ ہوگیا تھا کہ جو شخص اپنی جماعت سے باہر خدا کے دوسرے بندوں سے جو اسکے ہم عقیدہ نہیں محبت نہیں کرتا اور بغض و نفرت کرتا ہے، وہ سچا موحد ہو ہی نہیں سکتا۔</p> <p>اس تناظر میں جب میں عبدالستا ر ایدھی کی زندگی کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے صحیح معنوں میں وحدتِ انسانیت کے ترجمان نظر آتے ہیں ۔ وہ انسان جس نے ایک مسلمان کی حیثیت سے عملا قرآن کو کتابِ انسانیت اور دینِ اسلام کو دینِ انسانیت ثابت کرکے دکھا دیا۔اس میرِ کاروانِ اغنیاء نے خدا کے انسانوں میں محبتیں بانٹیں۔ نفرتوں اور تعصبات سے پاک ایک ایسی فضاء تشکیل دی جو کہ وحدتِ انسانیت کا شاید اس وقت روئے زمین پر یکتا اور مثالی نمونہ ہے۔</p> <p>اس درویش نے اس وقت انسانیت کے ایکتا اور محبت کی بات کی جب ہمارے معاشرے میں رسوم و رواج، نام نہاد مذاہب اور خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر بٹی ہوئی قومیتں نفرت و عصبیت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔جب خدا اور بندے کے بیچ انسانی سوچ و فکر کی بنیاد پر بنے ہوئے نظریات حائل ہوئے معاشرے کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایدھی صاحب کا عمل دراصل اس خود غرضی ، نام نہاد دین داری ، مفاد کے چادر میں لپٹی ہوئی قوم پرستی اور نمود و نمائش کی کھونٹی سے ٹنگی ہوئی انسان دوستی کے نام پر بھیانک کاروبار کے خلاف وہ فطری اعلانِ بغاوت ہے۔ جسکو شاید اہلِ نظر اور انسان دوست ہی سمجھ سکتے ہیں۔اسکی زندگی ہمارے صوفیاء کے چمکتے اور دمکتے کردار کا عملی مظہر رہا۔اور اس اللہ کے بندے نے خاموش سپاہی کی طرح عمر بھر انسان دوستی کی جنگ بڑی ثابت قدمی سے لڑی ۔ اور ایسے لڑی کہ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں تو ان سب کو اس درویش کے آگے جھکنا پڑا جنکی زندگی کا مقصد عوام کے جذبات ، عوام کی دولت ، عوام کے حقوق اور عوام کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنی دنیا سجانا ہے۔جی ہاں عبدالستار ایدھی کی وفات پر معاشرے کے ان لوگوں کا گلدستے اور تعزیتی کلمات کے ساتھ سامنے آنا، جنکے ہاتھ عوام کے خون سے ہمیشہ رنگے ہوتے ہیں،دراصل انسانیت کی فرعونیت پر خاموش مگر پر جوش فتح ہے۔</p> <p>کہ اپنے ایوانوں میں روز و شب انسانیت اور انسان دوستی کی جسم سے بوٹیاں نوچنے والے آج وحدتِ انسانیت کے سب سے بڑے داعی اور اس قافلے کے ایک درویش سالار کے آگے سر خم کئے کھڑے ہیں ۔</p> <p>میرے عزیزو! ۱ یہ ایدھی کی شخصیت نہیں تھی کہ وہ تو ایک کمزور اور نحیف شخص تھا۔شاید اسکی قد کاٹ دیکھ کر توعلاقے کا نمبردار بھی نہ جھکتا۔یہ اسکا نظریہ ، اسکی فکر اور اسکا عقیدہء انسانیت تھا۔ جسکا داعی ہر دور میں اللہ کے نبی اللہ کے رسول اور اللہ کے اولیاء رہے ہیں۔جس نے ہر ایک کو اسکے در کا ثناء خوان بنا دیاہے۔ ہم نے اس درویش کے اس مشن اور فکر کو زندہ رکھنا ہے اور میرے خیال میںیہی اس بندہء خدا کو سب سے بڑی خراجِ عقیدت ہوگی۔</p> </section> </body>