file_id
stringlengths
8
8
metadata
stringlengths
415
808
title
stringlengths
4
145
num-words
int64
0
36.2k
contains-non-urdu-languages
stringclasses
2 values
document_body
stringlengths
41
200k
5401.xml
<meta> <title>پاکستان کا استحکام اور مدارس کا دفاع</title> <author> <name>مولانا محمد حنیف جالندھری</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18403/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1822</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان کا استحکام اور مدارس کا دفاع
1,822
No
<body> <section> <p>اس وقت ہم ایک عجیب وغریب صورتحال سے دوچار ہیں ۔ایک طرف تجددہے اور دوسری طرف تشدد ،ایک طرف ترقی کے نام پر لبرل ازم،روشن خیالی کے نام پر بے حیائی اور اعتدال پسندی کے نام پر مداہنت کو رواج دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف جہاد کے نام پر فساد ،مذہب کے نام پر انتہاپسندی اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلمانوں کے کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے ۔وطنِ عزیز پاکستان جو اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرض وجود میں آیا تھا اس وطن سے اسلام اور اسلام پسندوں کو دیس نکالا دینے کے جتن کیے جارہے ہیں ۔</p> <p>جس دینی تعلیم کا انتظام ریاست کی ذمہ داری تھی اس کا انتظام کرنے والے دینی مدارس کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے ، ان دینی مدارس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،ملک بھر کے سینکڑوں امن پسند علماءکو فورتھ شیڈول میں ڈال کر جرائم پیشہ لوگوں کی صفوں میں کھڑا کر دیا گیا ہے ،نہ جانے کس کی خوشنودی کے حصول کے لیے آئے روز مدار سِ دینیہ پر چھاپے مارے جاتے ہیں ،کبھی کوائف طلبی کے نام پر ،کبھی رجسٹریشن کے بہانے سے ،کبھی بینک اکاو¿نٹس کی بندش کی شکل میں ارباب مدار س کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔</p> <p>وطن عزیز میں ڈاڑھی اور پگڑی کو نفرت کی علامت بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ،دہشت گردی کی روک تھا م کے لیے جاری ہونے والے اشتہارات میں ڈاڑھی اور برقعے کو ہدف بنایا جاتا ہے ۔ملک بھر سے ہزاروں اسلام پسند جوانوں کو اس طرح غائب کر دیا گیا کہ ان کا کوئی اتا پتا نہیں کہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ؟اس ملک کا نوجوان سب سے زیادہ قابل رحم ہے ایک طرف اسے داعش کے نام پر ورغلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ویلٹنائن اور دیگر حوالوں سے بہکایا جا رہا ہے ،ایک طر ف اس کو اشتعال دلا کر بے گناہوں کا خون بہانے پر آمادہ کیا جاتا ہے تو دوسری طر ف اسے ڈرا دھمکا کر مسجد ومدرسہ سے دور رکھنے کی سعی کی جاتی ہے ۔</p> <p>ایک ایسے وقت میں جب اسلام پسندوں کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے،فرقہ واریت کی جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے، کبھی تبلیغی جماعت پر قدغنین لگائی جاتی ہیں اور کبھی دینی مدارس کی مُشکیں کسنے کی منصوبہ بندی ،نفسا نفسی کا عالم ہے ،کھینچا تانی کا ماحول ہے ،خوف وہراس کی کیفیت ہے ،مادیت کی دوڑ ہے ،جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ،لایعنی تبصرے ہیں ،باہمی انتشار وافتراق ہے ،کبھی دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اور کبھی مدارس کو دنیا بھر کی تمام خرابیوں کا منبع بتا یا جاتا ہے،کبھی مدار س کو تشدد اور عسکریت کی آماجگاہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی مدارس کے ساد ہ لوح نوجوان کو خوشنمانعروں کی بنیاد پر راہ اعتدال اور راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔</p> <p>پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ یعنی عساکر پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے نگہبان یعنی دینی طبقا ت کے مابین کشمکش کی فضا ءپیدا کی جاتی ہے ،ملا اور مسٹر کی تفریق کے نام پر پاکستان میں مذہبی طبقات کو تنہا کرنے کی سعی ہوتی ہے ،پاکستان کے اندر کشت وخون اور بدامنی کو ہوادینے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ایسے میں پاکستان کے علماءحیران ہیں کہ وہ کیا کریں ؟پاکستان کا نوجوان گومگو کی کیفیت میں ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرے ؟پاکستانی قوم سہمی بیٹھی ہے کہ وہ کہاں کا رخ کرے ؟مدارس دینیہ کے ساتھ محبت رکھنے والے لوگوں کے سامنے مدار س کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے ....اس ابتر اور سنگین صورتحال کے دوران وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے چومُکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے ۔</p> <p>وفاق المدارس نے اس عرصے میں دینِ اسلام کی پاسبانی ،شعائر اسلام کے دفاع اور دینی مدارس کا مقدمہ پیش کرنے میں اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی ، ہم لوگ تشدد اور تجدد کے بیچ میں اعتدال کی ایسی تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں کہ جس کی دونوں طرف بہت گہری اور بھیانک گھاٹیاں ہیں.... ایسے میں اس بات کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ قوم کے سامنے اسلام کا حقیقی پیغام پیش کیا جائے ،دینی مدارس کے کردار وخدمات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ،پاکستان کو درپیش مسائل وخطرات سے نمٹنے کے لیے اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے ،نظریہ پاکستان کے خلاف جاری سازشوں کی روک تھام کی سعی کی جائے ،پاکستانی نوجوان کی طرف بڑھنے والے تشدد کے سیلاب کا راستہ روکا جائے،بے حیائی کی آندھی سے اپنے بچوں اور بچیوں کی حفاظت کی جائے ،اس سلسلے میں مختلف کوششیں ہوئیں،حالیہ دنوں میں دینی مدارس کی "بیداری مہم" کے تحت ملک بھر میں بہت اہم اور کامیاب اجتماعات کا انعقا دہوا جن میں اکابر واصاغر کو باہم ملنے کا اور ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کا موقع ملا ،یہ اجتماعات دینی مدارس کے شکستہ دل ذمہ داران اور اساتذہ وطلباءکے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنے ،بددلی کا شکار لوگوں کو امید کی کرن دکھائی دی،اس کامیاب تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے ان اجتماعات کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے" استحکام مدارس و پاکستان کانفرنس " کے نام سے ایک عظیم الشان اجتماع کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔</p> <p>اللہ رب العزت کی رحمت سے امید ہے کہ یہ اجتماع اسلام کی حقیقی اور امن واعتدال پر مبنی تعلیمات کو دنیا کے سامنے لانے کا سبب بنے گا ،یہ اجتماع دینی مدارس کے کردار وخدمات کو اجاگر کرنے کا باعث ہو گا ،یہ اجتماع مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کا توڑ بنے گا ،یہ اجتما ع اہلِ حق کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو گا ،یہ اجتماع نظریہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے راستے کی رکاوٹ بنے گا ، یہ اجتماع پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید ہو گا ،یہ اجتماع پاکستان میں قیام امن کا پیش خیمہ بنے گا ،یہ اجتماع اہلسنت والجماعت علماءدیوبند کی اعتدال پر مبنی فکر کو عام کرنے کا باعث ہو گا ،یہ اجتماع اربابِ مدارس کو نیا عزم اور حوصلہ بخشے گا ،اس اجتماع سے نوجوانوں کو اپنی منزل کا سراغ ملے گا ،یہ اجتماع اتحاد ویکجہتی کا استعارہ اور امن وسکون کی علامت ہوگا ۔مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والا یہ اجتماع وقت کی پکار اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے کردار ادا کرنا ہم سب کو دینی اور ملی فریضہ ہے۔ اس لیے اس اجتماع کی کامیابی کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھانے اور ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔</p> <p>اجتماع کی کامیابی کے لیے خصوصی دعاؤں اور اذکار واوراد کا اہتمام کیا جائے خاص طور پر مدارس دینیہ میں سورہ یسین ،آیت کریمہ ،درود شریف اور صلوٰ ة الحاجت کا معمول بنایا جائے ۔</p> <p>اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ یہ اجتماع ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ،سب سے موثر اور سب سے زیادہ بامقصد اجتماع ثابت ہو</p> <p>٭....اجتماع میں بلاتفریق تمام طبقات اور تمام جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اس لیے تمام علماءکرام اپنے علاقوں میں اس حوالے سے محنت فرمائیں ۔</p> <p>٭....اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ہر کوئی اجتماع میں شریک ہو لیکن اگر کچھ احباب اجتماع میں شریک نہ ہو سکیں تو ان تک اجتماع کی دعوت اور پیغام ہر صورت میں پہنچانے کا اہتمام کیا جائے ۔</p> <p>٭....ملک بھر کے تمام ڈویژنز اور اضلاع میں ،تمام شہروں میں اجتماع کی تیاری کے سلسلے میں اجلاس ،کنونشنز اور مشاورتی مجالس کا انعقاد کیا جائے ۔</p> <p>٭....تمام مساجد کے ائمہ وخطباءاپنی اپنی مساجد میں مارچ کے مہینے کے تمام خطباتِ جمعہ میں اجتماع کے حوالے سے بار بار اعلانات فرمائیں اور ساتھیوں کو اجتماع میں شرکت کی ترغیب دیں ۔</p> <p>٭....ہر جمعہ کے بعد مساجد کے باہر اجتماع کے حوالے سے ہینڈز بل تقسیم کیے جائیں ۔</p> <p>٭....تمام دینی مجلات وجرائد اور قومی اخبارات میں اجتماع کے حوالے سے اشتہارات شائع کروائے جائیں ۔</p> <p>٭....اپنے اپنے اضلاع کی ضلعی انتظامیہ ،قانون نافذکرنے والے اداروں ،میڈیا ،عدلیہ،تعلیمی اداروں ، تاجر برادری اور دیگر طبقات کو اہتمام کے ساتھ اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جائے ۔</p> <p>٭....ملک بھر کے اخبارات اور میڈیا میں اجتماع کے حوالے سے خبروں ،بیانات اور مضامین کی اشاعت کو یقینی بنایا جائے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلایاجائے کہ وہ دینی طبقات اور دینی مدارس کو ان کے حجم اور حیثیت کے مطابق کوریج دینے کا اہتمام کریں ۔اس سلسلے میں خطوط لکھے جائیں ،فون کیے جائیں،ملاقاتوں کا اہتمام ہو .... اجتماع کے دوران میڈیا پر نظر رکھی جائے اور اگر حسبِ سابق اس عظیم الشان اجتماع کو الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے نظر انداز کیا جائے تو اس پر فوری طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے ۔</p> <p>٭....تمام علاقوں کے علماءکرام اپنے علاقے کے چیمبر آف کامرس ،تاجر تنظیموں ،بار ایسوسی ایشنزاور دیگر طبقات کے مراکز کا وفود کی صورت میں دورہ کرکے اجتماع میں شرکت کی دعوت دیں ۔</p> <p>٭....اجتماع میں بلاتفریق تمام مکاتبِ فکر کے وابستگان اور تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا جائے اور کسی قسم کی تفریق روا نہ رکھی جائے ۔</p> <p>٭....ملک بھر کے تمام چوکوں چوراہوں پر اجتماع کے حوالے سے بینرز اور پینا فلیکس آویزاں کیے جائیں تاکہ ملک کے ہر ہر فرد تک اجتماع کی دعوت اورآواز پہنچ جائے ۔</p> <p>٭....طلباءکو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے والدین اور سرپرستوں کے ہمراہ اجتماع میں شرکت کریں تاہم کمسن طلباءکو اجتماع میں شریک نہیںکیا جائے گا ان کی جگہ ان کے سرپرستوں اور اہل خانہ کو اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جائے ۔</p> <p>٭....تمام مدارس اپنے قدیم طلباءاور اپنے فضلا ءکے نام خطوط لکھ کر انہیں ادارے کے قافلے کے ہمراہ اجتماع میں شرکت کا پابندبنائیں ۔</p> <p>٭....بنات کے مدارس عموما ً اجتماعی معاملات میں شرکت سے محروم رہ جاتے ہیں اس اجتماع میں کوشش کی جائے کہ بنات کے سرپرستوں کی اجتماع میں شرکت کو یقینی بنایاجائے ۔</p> <p>٭....اہل مدارس اور علماءکرام ملک بھر سے قافلوں کی صورت میں اجتماع میں شرکت کریں ،قافلے کے جملہ شرکاءکے ناموں اور فون نمبرز کی فہرست ساتھ رکھیں ۔</p> <p>٭....قافلے کے جملہ شرکاءکے لیے پانی ،کھانے اور دیگر ضروریات کے بندوبست کانظم از خود بنائیں ۔</p> <p>٭....اجتماع کے دوران پاکستان کے علاوہ کسی قسم کا کوئی پرچم نہیں ہوگااور نہ اسٹیج کے بغیر کوئی نعرہ لگایا جائے گا اگر کوئی ایسا نعرہ یا کوئی پرچم کسی کی جانب سے بلندکرنے کی کوشش کی جائے تو اسے روکنے کا اہتمام ہو۔</p> <p>٭....اجتماع کے دوران نظم وضبط اور صبر وتحمل سے کام لیا جائے اور ہر قسم کی بدنظمی اور بے صبری سے گریز کیا جائے ۔</p> <p>٭....اجتماع کی آڑ میں کسی بھی غیر ذمہ دارانہ بینر،نعرے یا سرگرمی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے ۔</p> <p>٭....تمام علماءوطلباءمکمل طور پربیدار مغزی کا ثبوت دیں اور اس اجتماع کو سبوتاژ کرنے یا اس کے مقاصدکو متاثر کرنے والی کوششوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے ۔</p> </section> </body>
5402.xml
<meta> <title>درفش کاویانی، ممتاز قادری اور ایک سوال</title> <author> <name>عنایت شمسی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18424/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1470</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
درفش کاویانی، ممتاز قادری اور ایک سوال
1,470
Yes
<body> <section> <p>کاوہ قدیم ایران میں ایک لوہار تھا۔ روایت ہے کہ وقت کے ظالم بادشاہ ضحاک نے یکے بعد دیگرے اس کے کئی جگر گوشوں کو نہایت ظالمانہ طریقے سے قتل کروا کر لخت لخت کرا دیا۔ ظلم و ستم کا یہ اندھا راج دیکھ کر کاوہ لوہار سے رہا نہ گیا۔ اس نے اپنی مظلومی کو سروسامان بناکر بادشاہ وقت سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا۔ کاوہ نے اپنی دھونکنی کے چمڑے کو نیزے سے باندھا، لہرایا اور ظلم کے انتقام کا نعرہ بلند کرکے چل دیا۔ ضحاک کے جور و جبر اور ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے لوگ شاید اسی لمحے کے منتظر تھے۔ کاوہ نے جس سمت گھوڑا دوڑایا، ہجوم خلق اس کے ساتھ ہو لیا۔ لوگ ملتے گئے، کاروانِ ا نتقام بڑھتا گیا۔ آتشِ انتقام تیز ہوتی رہی، آگ کو غضب کی سان چڑھانے والوں میں اضافہ ہوتا گیا۔</p> <p>درفش قدیم فارسی میں پرچم اور جھنڈے کو کہتے ہیں۔ کاوہ لوہار کے اس چرمی پرچم نے مظلوم رعیت کو شاہی جبروت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہونے کی طاقت بخشی اور دھرتی کے مظلوموں نے کاوہ کی نسبت سے اس پرچم کو "درفش کاویانی" کا نام دے کر حریت و حقوق کی جد و جہد کی علامت بنادیا اور اس کے سائے میں جوق در جوق صف بندی کرلی۔ قافلہ آگے بڑھا اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے ضحاک کے تبختر کو پامال کردیا۔ ضحاک فرار ہوکر گمنامی کی موت مرا۔ کاوہ لوہار نے ضحاک کی "نادر شاہی" سے لوگوں کو نجات دلانے کے بعد بجائے خود بادشاہت سنبھالنے کے، فریدون کو تخت شاہی پر بٹھا دیا، جو بڑا عدل گستر بادشاہ ثابت ہوا۔ فریدون نے بادشاہ بننے کے بعد کاوہ لوہار کی خدمات کے اعتراف میں "درفش کاویانی" کو سرکاری حیثیت دے کر ظلم کے خلاف کامیاب جدوجہد کے استعارے کے طور پر تاریخ میں امر کردیا۔</p> <p>سیانوں نے ٹھیک کہا ہے کہ ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں۔ ہم کہ سکتے ہیں کہ ظلم کے سفر نے بھی یہ مقام حاصل کر رکھا ہے۔ تاریخ کا کوئی انسانی دور اٹھا کر دیکھ لیجئے، اس سفر کے ہمہمے سے نا آشنا نہیں ملے گا۔ خلقت پر ایک جیسا ظلم، جور، جبر اور قہر۔ دور فراعین مصر کا ہو یا اس کے صدیوں بعد کے یونانیوں کا۔ مگر ظلم کے خلاف "درفش کاویانی" لہرانے والوں کا وجود بھی ہمیشہ سلامت رہا ہے۔ دور کیوں جائیے، اپنی عظمتِ رفتہ کا ناروا بوجھ اٹھائی ہوئی تاریخ اسلام کے مختلف ادوار کے کچھ "روشن" جھروکوں میں ہی جھانک لیجئے، کتنے ہی درفش ہائے کاویانی آپ کو ہلکورے لیتے نظر آئیں گے۔ تاہم ماضی کی "روشن" مثالوں سے اپنی راہیں تاریک کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اپنے حال کے خار زار سے ہی کچھ "خزف ریزے" چن لیے جائیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی مواقع ایسے ملتے ہیں جب کچھ لوگوں نے ناموافق حالات کی ذہنی اور حسی کنٹھائیوں سے اکتا کر جوش غضب میں درفش کاویانی بلند کیا۔</p> <p>تیس سال پہلے کی بات ہے۔ کراچی شہر میں سڑک حادثے میں ایک مقامی طالبہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس اندوہ حادثے کی خبر پھیلتے ہی لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں۔ جذبات بے قابو ہوکر سڑکوں پر بہ پڑتے ہیں۔ شہید طالبہ کی قوم کے کچھ افراد آگے بڑھتے ہیں اور اس کے خون آلود دوپٹے کو درفش کاویانی بناکر گویا اپنی مظلومیت کو جدوجہد کا عنوان دیتے ہیں۔ تحریک چل پڑتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے لوگ اسی لمحے کے انتظار میں کب سے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ تحریک کو عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس مرحلے پر حقوق کی یہ تحریک جون بدل کر خالص ردعمل کی نفسیات میں ڈھل جاتی ہے۔ جیساکہ ردعمل کی پیدا کردہ تحریکوں کا مزاج ہے، وہ اپنی برادری کے سوا ہر قوم و برادری کو اپنا دشمن سمجھ کر سب سے دو دو ہاتھ کرنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی یہاں ہوا۔ تیس سال کے عرصے میں یہ "تحریک" ایک خوفناک ڈریکولا کی طرح ہزاروں افراد کا خون پی گئی۔ اس عرصے کے دوران بعض حکومتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس ڈریکولا کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں اور اس کے ہر سنگین جرم پر نہایت بے شرمی سے آنکھ بند کیے رکھی۔</p> <p>یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ گزشتہ سال کے نصف آخر میں شہر میں جاری بے انت قتل و غارت کو پوری طاقت سے روکنے کا فیصلہ ہوگیا۔ دار و گیر اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ کراچی کی جیلیں ایسے اقبالی مجرموں سے بھر گئیں، جو قتلوں کی سنچریاں کرچکے تھے۔ رئیس مما۔ انیس لمبا۔ جاوید بندا۔ طاہر توپچی۔ کامران مادھوری سے لے کر اجمل پہاڑی تک کتنے ہی خطرناک وارداتیوں کے جرائم کی ایسی ہوشربا تفصیلات سامنے آنے لگیں کہ انسانیت اپنے ہی کرتوتوں سے شرمسار ہوگئی۔ مگر ایک پرانے قتل کیس میں گرفتار غارت گر کو پھانسی دینے کے سوا کسی کو خراش تک نہیں آئی اور یہ سارے خطرناک مجرم سرکاری مہمان خانے میں گھر داماد بنا کر رکھے گئے ہیں۔ ریاست انہیں سزا دینے کے لئے کوئی پیش رفت کرتی ہے، نہ قانون ہاتھ میں لینے کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھانے والوں کو انہیں سزا دلوانے کے لئے آواز اٹھانے کی توفیق مل رہی ہے۔</p> <p>پانچ سال قبل ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ ایک تھا گورنر پنجاب سلمان تاثیر۔ معاملہ پیش آیا قانون انسداد توہین رسالت (295 <annotation lang="en">C)</annotation> کا۔ تاثیر صاحب اس قانون کو ایک امتیازی اور غلط قانون سمجھتے تھے۔ یہ خیال بہت سے دیگر لوگ بھی رکھتے ہیں۔ مگر تاثیر صاحب سماج کی حرکیات اور نفسیات کے تجزیے میں غلطی کر بیٹھے اور اس قانون کی مخالفت میں بہت کھل کر بہت آگے چلے گئے۔ ان کے آتشیں بیانات سے اشتعال بڑھ گیا اور مذہبی طبقے نے ان کے اقتدار کے جاہ و جلال کے پس منظر میں ان بیانات سے نظریاتی طور پر زچ ہوکر ان کے خلاف درفش کاویانی بلند کردیا۔ آگ دونوں طرف ہی برابر لگتی سلگتی رہی۔ تا آنکہ مذہبی رہنماوں کے زیر اثر تاثیر صاحب کے ایک کمانڈو گارڈ ممتاز حسین قادری نے جوش و جذبات سے مغلوب ہوکر ایک دن موقع پاکر ان کا کام تمام کردیا اور ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کیا۔</p> <p>مقدمہ شروع ہوا تو ممتاز قادری کے حامیوں کی بڑی تعداد سامنے آئی۔ یوں لگا جیسے عوام کی واضح اکثریت ان کی "قانون شکنی" کی حامی ہو۔ مگر عدالتوں نے جذبات اور عقیدتوں کو ایک طرف رکھ کر محض پاکستان پینل کوڈ کو پیش نظر رکھا، "قانون ہاتھ میں لینے" کے فلسفے اور ملزم کے اقبال جرم کی ظلمت مآب روشنی میں کیس کو آگے بڑھایا اور فیصلہ دے دیا کہ ممتاز قادری کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔ اس پر اپیلیں کی گئیں۔ دہائیاں دی گئیں۔ احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مگر عدلیہ کی سوئی پاکستان پینل کوڈ سے کسی طرح آگے نہ بڑھی۔ اس کے ساتھ ہی عدالتوں کا کام پورا ہوا۔ عدالتیں اس قدر ہی کیا کرتی ہیں۔ صرف اس کیس میں نہیں۔ سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو زندہ جلانے والوں سے لے کر کراچی کے اجمل پہاڑی تک ہر ہر کیس میں عدالتوں کا کام اتنا ہی رہا۔ اگلا مرحلہ انتظامیہ کا ہے۔ یعنی عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد۔ قادری کیس کے فیصلے کے بعد اس پر عمل در آمد کا مرحلہ آیا تو انتظامیہ کی سرپرستی مقتول سلمان تاثیر کی ہی پارٹی پی پی پی کے ہاتھ میں تھی۔ "شریک چیئرمین" بڑے طمطراق سے سربراہِ ریاست تھے۔ مگر انہوں نے کمال ہوشیاری سے، جیسا کہ اس میں وہ مہارت رکھتے ہیں، طویلے کی بلا "بندر" کے سر ڈال دی اور معاملے کو الٹا لٹکا کر چلتے بنے۔ ن لیگ بر سر اقتدار آئی۔ زرداری کی جگہ ممنون حسین نے لے لی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے "ٹنٹا" ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ممنون و مشکور صدر سے، جس نے اپنی تعلیم کا آغاز ہی اہلسنت بریلوی مکتب فکر کے دینی مدرسے سے کیا ہے، کے ذریعے عاشق رسول ممتاز قادری کی پھانسی کی توثیق کروادی اور اپنے تئیں "ٹنٹا" ختم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی لبرل پاکستان کی راہ میں بچھا ایک بڑا "کانٹا" نکل گیا۔</p> <p>اب رہ گیا یہ سوال کہ قتل کا ایک یہ مقدمہ ہی زیر التوا نہیں تھا۔ بلاشبہ دسیوں مقدمات قتل اب بھی زیر التواءہیں۔ جن میں قتلوں کی سنچریاں اسکور کرنے والے اقبالی مجرموں کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ کیا قانون کی بالادستی صرف ممتاز قادری کیس کی ہی راہ تک رہی تھی اور اس پر عمل در آمد سے اس کی کلغی اب بلند و بالا ہوگئی؟ اب مزید کسی قاتل کو لٹکانے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا انصاف ہے صاحب، کیا ہی انصاف ہے۔ ہمت کیجئے، قانون کی بالادستی کا سفر ابھی مزید ہمت دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا ایک غیر حقیقی ردعمل اور نہایت غلط جوش انتقام میں کراچی کے ہزاروں شہریوں کا خون پینے والے ڈریکولاوں کو غیر رسمی معافی دے کر قانون ہاتھ میں نہ لینے کا موثر پیغام دیا جاسکتا ہے؟</p> </section> </body>
5403.xml
<meta> <title>امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر بلوچ ثقافت کے رنگ</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18440/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>173</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر بلوچ ثقافت کے رنگ
173
No
<body> <section> <p>کراچی......پوری کائنات میں سے، میں نے چنا ایک دانا اور یہ ہے میرا بلوچستان، یہ ہیں اُس لوک گیت کے الفاظ، جو بلوچ یوم ثقافت پر امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر گونجے۔</p> <p>کراچی میں امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ بلوچ ثقافتی رنگ میں ڈوبی رہی جہاں بلوچ یوم ثقافت کے لیےاہتمام کیا گیا، مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد، فنکاروں نے تنبورو،جھانجھر، اور طبلا سنبھالا،اور پھر چھیڑا بلوچی راگ،سروں کا ایسا جادو چلا کہ جھومے بغیر کوئی نہ رہ سکا، ساز اور آواز نے شرکا کو بلوچستان کی بیٹھے بیٹھے سیر کرادی۔</p> <p>تقریب کے ننھے شرکاء نے بھی اپنا پیغام اپنی زبان سنایا،امریکی قونصلر جنرل برائن ہیتھ نے ثقافتی دن پر بلوچ قوم کو مبارکباد دی،اور بلوچستان میں امریکی تعاون سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر اظہار خیال کیا۔</p> <p>تقریب میں امریکی قونصل جنرل کو روایتی بلوچی پگڑی بھی پہنائی گئی۔ بلوچ ثقافت کے رنگوں کو اگر سر کے پر مل جائے تو یہ سننے والوں پر سحر طاری کردیتی ہے،زندہ قومیں ایسے ہی اپنے تشخص کو برقرار رکھتی ہیں۔</p> </section> </body>
5404.xml
<meta> <title>السلام علیکم عمران خان</title> <author> <name>شیخ ولی خان المظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18528/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2507</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
السلام علیکم عمران خان
2,507
No
<body> <section> <p>پچھلے دنوں ہم نے ایک وفد کی شکل میں تحریکِ انصاف کی قیادت سے ملاقات کی،بہت دوستانہ اور مشفقانہ انداز میں یہ نشست ہوئی،اس موقعے پر جو گزارشات وفد نے پیش کیں،وہ من وعن یہاں قارئین کی نذر کی جاتی ہیں:</p> <p>السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ</p> <p>محترم و مکرم جناب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف</p> <p>اﷲ تعالی نے آپ کو پاکستانی سیاست کو اعتدال میں لانے اور طبقاتی نظام کو ایک مساوی نظام میں لانے کے لئے چنا ہے اس کے لئے آپ نے ایک طویل و مسلسل محنت کی ہے اور نہایت خوش اسلوبی سے یہ سفر طے کیا ہے، ہم امید رکھتے ہیں کہ اس سفر میں مزید آسانیاں پیدا ہوں ، آپ سے اﷲ تعالی اس ملک میں وہ کام لیں جو اﷲ تعالی نے عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے لیا تھا ،آپ کے ذریعے اس قوم کو عدل و انصاف ملے اور وہ ماحول ہم دیکھ پائیں جو مدینہ منورہ کی ریاست میں دیکھنے کو ملا تھا ۔آپ نے ہر شعبہ میں قابل قدر اصلاحی اقدامات فرمائے ہیں اور روز افزوں بہتری کی طرف قدم بڑھاتے چلے جارہے ہیں ،اﷲ تعالی ان تما م خیر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ تھام لیں اور آپ کو پوری انسانیت کے لئے نافع بنائیں ۔</p> <p>جناب عالی!ہم ایک اہم نقطے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جس کی طرف آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور پہلے سربراہ جناب سر آغاخان نے موتمر عالم اسلامی کے ایک اجلاس جو کراچی میں 9 فروری 1951ء کو منعقد ہو،میں انہوں نے بڑے مدلل انداز میں بطور التجاء فرمایا کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کا آخری فیصلہ نہ کریں بلکہ عربی کو اختیار کریں ۔</p> <p>جناب عالی ! کوریا،تائیوان اور اب جرمنی جوکام کرچکے ہیں، اس کے لئے ہمارے پاس صوبہ خیبر پختون خواہ میں عربی زبان میٹرک تک موجود بھی ہے ،اساتذہ بھی موجود ہیں صرف اتنی بات ہے کہ وہ اختیاری ہونے کی وجہ سے اپنا مقام حاصل نہیں کرپارہی، اگر آپ اس کو لازمی کردیں، تو امید ہے پاکستان اپنے ان 22 عرب ممالک کے ساتھ بالکل ڈائریکٹ ہو جائے گا، جہاں ہماری بہت ساری آبادی عربی نہ جاننے کی وجہ سے لیبر میں کام کرنے پر مجبور ہے ،اور ساتھ ہی اپنے دین کے علوم سے عربی نہ جاننے کی بنا پر نا واقف ہے ،جس کی وجہ سے ایک قسم کااخلاقی اور فرقہ وارانہ بحران ہے، جس کا سامناہم سب یکساں کر رہے ہیں ،آپ کا یہ فیصلہ جہاں بہت سے بیرون پاکستان لوگوں کی مشکلات دور کرے گا، وہاں بے شمار روز گار کے مواقع کا راستہ ہموار ہوگا اور عرب و عجم کی تجارت باہم متعارف ہو گی، جس سے ہمارے ملک کو آگے بڑھنے کے نئے راستے ملیں گے ،ان شاء اﷲ۔</p> <p>پاکستان عریبک لینگویج بورڈ اس سلسلے میں تمام تر پیچیدگیوں میں بطور معاون اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے حاضر ہے ۔</p> <p>جس طرح بھٹو مرحوم نے قادیانیت کادیرینہ مسئلہ حل کیاتھا اسی طرح اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ یہ عظیم کا م آپ سے انتہائی خوش اسلوبی سے لیں اور آپ کو عالم اسلام کی تقویت کا ذریعہ بنائیں ۔</p> <p>ڈاکٹرشیخ ولی خان المظفر</p> <p>سربراہ پاکستان عریبک لینگویج بورڈ</p> <p>سر سلطان آغا خان سوئم ،آپ پاکستان کی خالق جماعت "آل انڈیا مسلم لیگ" کے بانی اور اس جماعت کے پہلے سربراہ تھے۔ 1906 سے 1912 تک اس جماعت کے صدر رہے ۔ یکم اکتوبر ، 1906 میں اُنہوں نے 35 نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ میں قیادت کی اوربرصغیرکے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی ۔اپنے تاریخی خطاب میں اُنہوں نے برطانوی وائسر ائے پر زوردیا کہ مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیاجائے اور ان کی تکریم کی جائے۔ 1930 اور 1931 میں گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، آپ دُنیا بھر کی اسماعیلی روحانی جماعت کے 48 ویں امامِ حاضرتھے۔ آپ نے تقریباً ستّر سال امامت کی ہے جو اسماعیلی اماموں میں سے سب سے طویل امامت ہے۔ عربی، فارسی،انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے ماہر، عظیم مدبر اور سیاست دان تھے،آپ سماجی مصلح بھی تھے،آپ نے 200 سے زائد اسکول قائم کئے، 1937 میں جمعیت الاقوام کے صدرمنتخب ہوئے۔آپ کراچی میں 2 ،نومبر 1877 کو پیدا ہے اورآپ کا انتقال 11 ،جولائی 1957ء میں ہوا، آخری آرام گاہ مصر کے شہر"اسوان"میں ہے۔اجلاس موتمر عالم اِسلامی منعقدہ کراچی ، 9 فروری 1951 میں سرسلطان آغا خان سوئم کے تاریخی انگریزی خطاب کا اُردو ترجمہ:</p> <p>"جناب ِصدر و برادانِ اِسلام !۔۔میں آپ کو یقین دلاناچاہتاہوں کہ آج آپ کو خطاب کرتے ہوئے میں اپنے دِل پر ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرتا ہوں ، آج جو کچھ میں کہنے والا ہوں ،اُس کی وجہ سے میں اس ملک کے"بعض اہم طبقات کی نظر میں بہت قابلِ ملامت "قرار دیا جاؤں گا ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جوخیالات میرے دل میں ہیں، اس آباد اور طاقت وَرملک کی خدمت میں پورے دلائل کیساتھ جس حد تک کہ ایک مختصر خطبہ میں اُنہیں بیان کیا جاسکتا ہے، پیش کرنا میرا فرض ہے اور اس فرض کو اداکرنے کا جو موقع آج مجھے حاصل ہے اگر اسے میں نے ہاتھ سے کھودیا تو میں اسلام کے ساتھ غدّاری کا مرتکب ہوں گا۔مجھے ڈرہے کہ میرے بعض دلائل ان حضرات کے لیے انتہائی ناگُوارہوں گے جنہوں نے آج سے مختلف حالات کے ماتحت اپنی زندگیوں کے بیشترحصّے اُس مقصد عزیز کے خدمت میں صرف کئے ہیں جس کا وقت میری نظر میں گذر چکا ہے، اوراب ایسے اہم حالات ہمارے سامنے ہیں کہ وہ کبھی پہلے ہمارے وہم و خیال میں نہیں آئے تھے۔پاکستان کے مسلم آبادی اور ہر صوبہ کی آبادی کے سامنے اپنے خیالات اور دلائل کو پیش کرنا اپنافرض سمجھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر کوئی ذمّہ داری آج میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ جس قدم کو میں" مہلک اور افسوس ناک" سمجھتا ہوں وہ ابھی نہیں اٹھایاگیا ہے اور وہ ابھی دستور کاحصہ نہیں بنا ہے۔ایک قوم کی زبان اس کی آواز کا اظہار ہوتی ہے اور اُس کے علاوہ دوسری انسانی جماعتوں کے ساتھ اس کی ترجمانی کا وسیلہ ہوتی ہے، قبل اس کے کہ میرا کہنا بعد از وقت ہوجائے میں پیرانہ سال انسان اس جگہ کے مسلمان بھائیوں سے التجا کرتا ہوں کہ"اُردو" کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کاآخری فیصلہ نہ کریں، بلکہ عربی کو اختیار کریں ، برائے خدا آپ میرے دلائل سنیں۔</p> <p>پہلے میں اُردو کے خلاف اپنی دلیل بیان کروں گا ،اگر ہندوستان کی گذشتہ برطانوی سلطنت کا دوسرا حصّہ ، اُردو کو اپنی قومی زبان بنا لیتا تو پاکستان کے لیے بھی ایسا کرنے کی یہ ایک معقول وجہ ہوجاتی، ہمارے جنوب کی طرف جو عظیم جمہوری مملکت ہے اُس کے ساتھ لسانی رابطہ و تعلقات کا ایک اہم نقطہ پیدا ہوجاتا ، پاکستان اور اس کے عظیم الشّان ہمسایہ کے درمیان تعلقات کی زنجیر کو توڑ نے کو اس سطح ارضی پر کوئی اور شخص ہو تو ہو ۔میں کبھی ایسا کرنے کے لیے راضی نہیں ہوسکتا۔</p> <p>دوستوں ، نہ صرف اُردو بلکہ ہندوستانی کو بھی بھارت کے طول و عرض سے خارج کرکے ہندی کو اس کی جگہ قومی زبان تسلیم کرلیا گیا ہے، باشندگان ِبھارت کو پورا حق ہے کہ جس زبان کوان کی اکثریت اپنے لئے مناسب اورتاریخی اعتبار سے قابل لحاظ سمجھے اسے اپنی قومی زبان بنائیں۔وہاں کی اکثریت کو یہ حق تھا کہ اپنی پسندیدہ زبان کو ملکی زبان کا درجہ دیدیں۔</p> <p>پاکستان میں اُردو کا انتخاب آپ کواپنے ہمسایہ ملک سے تعلقات کی اصلاح یا استواری میں کوئی مدد نہیں دے سکتا اورنہ وہاں کی مسلم اقلیت کو کسی نوع کی کوئی امداد اس کی بدولت پہنچ سکتی ہے، آپ خواہ کتنے ہی عربی اور فارسی الفاظ اس میں شامل کردیں ، اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اس کے نحو، اس کی ترکیب اور اس کی بنیادی اصول سب کے سب ہندی سے ماخوز ہیں، نہ کہ عربی سے ۔کیا ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان اُن کی زمانہ عروج میں اُردو تھی،پٹھانوں کے طویل دور حکومت میں حکمران طبقہ کی زبان اُردو کبھی نہیں رہی۔مغلوں کے دور کاجوشاندار حصّہ تھا اس کا خیال کیجئے ،تو معلوم ہوگا کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی زبان اُردو ہر گز نہیں تھی، میرادعویٰ ہے کہ کوئی شخص اورنگ زیب، شاہ جہاں، جہانگیر، اکبر ،ہمایوں اور بابر کا کوئی اُردو نوشتہ نہیں دکھلاسکتا،شاہی محلوں اور درباروں میں محض فارسی یا کبھی کبھی ترکی بولی جاتی تھی،میں نے اورنگ زیب کی بہت سی تحریریں دیکھی ہیں اور وہ نہایت عمدہ فارسی میں ہیں۔یہی حال تاج محل کا ہے،آپ جاکردیکھئے کہ شہنشاہ اور اس کی شہرہ آفاق بیگم کے مزار پر کس زبان کی تحریریں ہیں۔ فارسی عدالت کی زبان تھی اور تمام تعلیم یافتہ طبقہ اور درباری یہاں تک کہ انیسوی صدی کے ابتدائی حصّہ میں دوردراز بنگال میں خودہندو تعلیم یافتہ طبقہ فارسی لکھتا پڑتا تھا نہ کہ اُردو۔مکالے کے زمانہ تک فارسی او نچے طبقوں کی زبان تھی اور اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی اور تمام سرکاری کا غذات اور مختلف مرکزی عدالتوں میں فارسی استعمال ہوتی تھی۔ہمیں تاریخی حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اُردو زوال کے شروع ہونے کے بعد مسلمانانِ ہند کی زبان بنی، یہ زبان ان کے دور انحطاط سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے چوٹی کے شُعر ااسی دُور میں پیدا ہوئے اس سلسلہ کا آخری اور سب سے بڑا شاعِر اقبال تھا ،اقبال نے بیدار ہوکر اُردو کو ترک کردیا اور اس کی جگہ فارسی شاعری کو اختیار کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ لندن میں اقبال کے اعزاز میں ایک جلسہ پروفیسر نکلسن جیسے اشخاص نے منعقد کیا، میں بھی اس میں شریک تھا، اقبال نے کہا کہ میں نے اپنی شاعری کے واسطے فارسی کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ،اس کا تعلق اسلام کے زمانہ عروج سے ہے نہ کہ اس کی بدبختیوں کے دور سے، کیا آپ کو یہ ،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دورِانحطا ط کی زبان اب ایسے دور کیلئے ہماری قومی زبان بنائی جائے جس کی بابت ہمارا یہ خیال ہے کہ اس میں ہماری حیات نَوکے قومی تو قعات پنہاں ہیں ۔ اُردو کے تمام مشاہیراساتذہ اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔جبکہ ہم انتہائی یا س اور شکست خوردگی سے دوچار تھے ۔ اس وقت ہماری یہ کوشش معقول سمجھی جاسکتی تھی کہ ایک ایسی زبان اختیار کی جائے جس کاماخذہندی ہو اور اس میں عربی اور فارسی الفاظ کی آمیزش ہو تا کہ ملک کی ہم وطن اکثریت کے ساتھ بہتر مفاہمت کی صورتیں پیدا ہوجائیں۔ مگر آج برطانیہ کی وہ عظیم الشان محکوم سلطنت تقسیم ہوچکی ہے، اور اس کی جگہ دوبڑی آزاد قومیں لے چکی ہیں۔اور تمام دُنیایہ اُمید کرتی ہے کہ دونوں قوموں نے تقسیم کی حقیقت کو مستقل طور پر تسلیم کرلیاہے۔کیا موجودہ باشندگانِ پاکستان کی فطری اور قومی زبان اُردو ہے، کیایہ بنگال کی زبان ہے؟جہاں مسلمان کی اکثریت آباد ہے؟ کیا یہ وہ زبان ہے جسے آپ ڈھاکہ اورچٹاگانگ کے کوچوں میں سُنتے ہیں، کیایہ شمال مغرب کے سرحد وں(کے پی کے) کی زبان ہے، کیایہ سندھ کی زبان ہے،کیایہ پنجاب کی زبان ہے؟ یقینا سلطنت ِ مغلیہ کے زوال کے بعد بعض قطعات ملک کے ہندواورمسلمانوں کواُردوزبان کی صورت میں ایک وسیلۂ اتحادمل گیا تھا،مگر آج ان دوملکوں کے باہمی مفاہمت کے واسطے دوسری نوع کے وسائل تلاش کرنے ہوں گے۔</p> <p>اُردو کے تخلیق کرنے والے کون تھے؟ اُردو کی بنیادیں کہاں ہیں؟ یہ کہاں سے آئی ؟عساکر شاہی کے چھوٹے ملازمین اس کے بنانے والے تھے، شاہی دربار کے ساتھ ہندی بولنے والی ایک کثیر التعداد جماعت رہتی تھی، زمانہ کے اعتداد کے ساتھ ساتھ وہ جماعت ، فارسی اورعربی کے الفاظ کو ہندی قالب میں ڈھال کر اپنی زبان میں شامل کرتی گئی۔یہ صورت بالکل اسی طرح پیش آئی جس طرح کہ اس کے بعد انگریزی الفاظ مثلاً گلاس ،کیمپ وغیرہ کے شمولیت سے اُردو کی ایک نئی شکل "ہندوستانی" کی صورت میں پیداہوگئی۔کیا آپ لشکری زبان کو اپنی نئی نوز ائیدہ سلطنت کی قومی زبان بنانا چاہتے ہیں، یادربار کی زبان کو ؟ہر مسلمان بچہ جس کی کچھ تھوڑی بہت حیثیت ہوتی ہے عربی میں قرآن پڑھنا سیکھتا ہے، خواہ وہ ڈھاکہ کارہنے والا ہو یا کوئٹہ کا۔ وہ الف ۔بے۔سیکھتا ہے قرآن پڑھ سکے۔عربی اِسلام کی زبان ہے، قرآن عربی میں ہے۔نبیؐ کریم کی احادیث عربی میں ہے، اسپین میں جب اسلامی تہذیب اپنی اعلیٰ ترین صورت میں تھی تو عربی میں تھی۔کسی حد تک آپ کے سب بچوں کو ہمیشہ عربی پڑھنا ضروری ہے۔یہ حال آپ کے مغربی حصّہ کا بھی ہے، خواہ وہ سندھ ہو، خواہ بلوچستانی سرحد۔</p> <p>عملی اور دُنیاوی نقطۂ نظر سے غور کیجئے تو عربی بہ حثیت قومی زبان کے ایک آن میں نہ صرف چارکروڑ عربی بولنے والے آزاد ملکوں کے مسلمان باشندوں سے آپ کو وابستہ کردے گی جوآپ کے مغرب میں بستے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ کم وبیش چھ (پچاس)کروڑ ایسے عربی بولنے والے باشندوں سے بھی جو آزادتو نہیں ہیں، مگر افریقہ میں بستے ہیں،اٹلانٹک کے ساحل تک ،نہ صرف شمال میں بلکہ جنوب میں نائجیراور گولڈکوسٹ کے ملکوں تک اُونچے طبقوں کے باشندے عربی جانتے ہیں۔سوڈان کے تمام حصّوں میں خواہ وہ دریائے نیل کے کنارے ہوں یا فرانسیسی اقتدار میں عربی پرتگال مغربی افریقہ کے سرحد تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔مشرقی افریقہ میں نہ صرف زنجبار میں بلکہ ایک دوسرے سے دُور،ایسے ملکوں میں بھی جیسے کہ مدغاسکر اور پرتگال مشرقی افریقہ میں، باشندوں کی زبان عربی ہے۔اگر ہم عربی کے لیے مشرق کا رُخ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام انڈونیشیا اورملائیشیا کے آٹھ(تیس) کروڑ مسلمان میں پھیلا اور پروان چڑھا۔ آٹھ کروڑ مسلمانوں سے میرا مطلب فلپائن تک کے مسلمانوں سے ہے۔</p> <p>سری لنکا میں بھی خوش حال گھرانوں کے مسلمان بچے، کچھ نہ کچھ عربی ضرور سیکھتے ہیں۔ کیا یہ مناسب اور بجانہ ہوگا کہ پاکستان کی یہ طاقتور اسلامی سلطنت جو جغرافیائی طور پرمرکزی حیثیت رکھتی ہے۔جو مشرق کے دس(پچاس) کروڑ مسلمانوں کو مغرب کے دس(پچاس) کروڑ مسلمانوں سے جوڑتی ہے۔جو مشرق میں جزائر، فلپائن اور انڈونیشیا کے عظیم سلطنت اور ملائیشیا اور برما سے لیکر مغرب میں افریقہ کے دس کروڑ مسلمانوں میں اٹلانٹک کے ساحل تک ، ایک خاص حیثیت کی حامل ہے۔</p> <p>عربی زبان کو اپنی قومی زبان بنائے۔بجائے اس کے کہ ایسی زبان کو جو اسلامی سلطنتوں کے زوال سے تعلق رکھتی ہے اختیار کرکے اپنے سب ہمسایوں اور دُنیائے اسلام سے الگ ہوجائے۔</p> <p>حضرات،برادرانِ اِسلام ،باشندگانِ پاکستان ، باشندگان ہر صوبہ پاکستان اس سے پہلے کہ آپ آخری قدم اُٹھائیں، جس قدم کی بابت مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ کھائی میں اوندھے منہ گرنے کے مترادف ہوگا۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلہ پر غور وفکر کیجئے ۔اور ہر شخص کو موقع دیجئے کہ وہ اپنے خیالات ظاہر کرے ، جلدی نہ کیجئے اور اچھی طرح سمجھئے اورغور کیجئے۔جن لوگوں کو میں نے آج ناراض کیا ہے ، اُن سے میں اپیل کرتاہوں کہ اس مسئلہ پر جو بحث وتمحیص پیش آنے والی ہے اس میں تحمل اور رواداری سے کام لیں اور باقی سب صاحبان سے میری التجا ہے کہ واقعات کو اور آج کی دُنیا کو صحیح نظر سے اور تاریخی رُوشنی میں دیکھیں۔خُدا سے میری التجا ہے کہ اس مُلک کے باشندوں کا راستہ اس مسئلہ کے تصفیہ کرنے سے قبل ربّانی روشنی سے منّور کردیا جائے۔</p> </section> </body>
5405.xml
<meta> <title>سندہ کی مساجد میں جمعہ کیلئے سرکاری خطبہ</title> <author> <name>محمد ارشد قریشی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18547/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1019</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سندہ کی مساجد میں جمعہ کیلئے سرکاری خطبہ
1,019
No
<body> <section> <p>سندھ بھر کی مساجد میں جمعہ کے دن سرکاری خطبہ پڑھنے پر عمل در آمد کے لیئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو جلد یہ فیصلہ کرلے گی کہ کس طرح سے مساجد میں جمعہ کو سرکاری خطبہ پڑھنے پر عمل در آمد کرایاجائے ، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا اسے سمجھا جارہا ہے جس کی وجہ یہاں مختلف مسالک اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ابھی یہ طے ہی نہیں ہوا کہ سرکاری خطبہ کس طرح رائج کیا جائےگا کیا یہ شاہی فرمان کے طرز پر ظلی سبحانی کا حکم ہوگا یا گذارش کی جائیگی طریقہ کار جو بھی ہو کئی نئے مسائل جنم لیں گے،کیوں کہ جمعہ کی نماز میں عربی خطبے سے پہلے جو مقامی زبانوں میں خطبات پڑھے جاتے ہیں وہ کئی اسلامی تہواروں ، اہم دنوں اور اچانک رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ہوتے ہیں اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اسے اپنے مسلک کے مطابق اور اپنی مقامی زبانوں میں اسے لوگوں کو سمجھاتے ہیں ، تو ایک مسعلہ تو یہ درپیش آسکتا ہے کہ حکومت سندھ اس خطبے کا متن کس زبان میں جاری کرے گی اور کیا اسے اس زبان میں ہی پڑھنا لازمی ہوگا جس میں اسے جاری کیا جائے گا یا اپنی سہولت کے مطابق مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جاسکے گا اور ترجمے کی اجازت ہوگی تو یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ بعض اوقات ترجمے میں مفہوم ہی بدل دیا جاتا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی مساجد میں خاص طور پر سندھ کے دیہاتوں میں ایسے لوگ جمعہ کو مقامی زبانوں میں خطبہ کہتے ہیں جو کبھی کسی اسکول تک میں نہیں پڑھے ہوتے ہیں لیکن مذہبی معلومات اور واقعات انہیں ذہن نشیں ہوتے ہیں اور جس طرح انہیں قرآن کی آیتیں حفظ ہوتی ہیں اسی طرح جمعہ کے دن دیا جانے والا عربی خطبہ بھی زبانی یاد ہوتا ہے لیکن اگر انہیں عربی کے علاوہ کوئی تحریر دی جائے تو ان کے لیئے اسے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا اس لیئے تحریری متن پڑھنا ان علاقوں میں ایک نیا مسعلہ ہوگا ۔</p> <p>اب ان اہم اور حساس باتوں پر آتے ہیں جن سے معاملات بگڑنے کے اندیشے ہیں ، عاشورہ، عید میلادلنبی، شب براءت،گیاروھیں شریف وغیرہ کے موقع پر اسی موضوع پر خطبے دئیے جاتے ہیں جن میں ان کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں اپنے مسالک کی مطابقت بیان کیا جاتا ہے تو کیا حاضر سرکار کی جانب سے خطبات کے ایسے متن ترتیب دیئے جانا ممکن ہے جو تمام مسلک سے وابسطہ لوگوں کے لیئے قابل قبول ہوں اور تمام مساجد میں امام حضرات اسے پڑھنے پر رضا مندی ظاہر کردیں کیوں کہ اس 14 رکنی کمیٹی میں پانچ مسالک کے علماء کرام کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر یہ پانچ مسالک کے علماء کرام موجودہ تمام مسالک کی نمائیندگی کرسکتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ تمام اراکین کمیٹی اس کے متن پر اتفاق کرلیں گے اور اگر ایسا ہوگیا تو حکومت سندھ کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک سنہری باب رقم ہوگا ، اب ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو بہت سوچ سمجھ اور مشاورت سے کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔کیوں کہ خطبے کے متن پر اتفاق رائے ہوجانے کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ تمام مساجد میں ان خطبات کو پڑھا جارہا ہے کہ نہیں اور جہاں ان خطبات کو نہیں پڑھا گیا وہاں کیا کیا جائے گا ۔</p> <p>بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ کسی بھی فیصلے کا اعلان بغیر ٹھوس حکمت عملی کے کردیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی حکمت عملی کی جاتی ہے اور اس معاملے میں بھی صورت حال بظاہر ایسی ہی نظر آرہی ہے اور ابھی تک کی اطلاعات یہی ہیں کہ کمیٹی کسی حتمی فیصلے کی جانب نہیں آسکی ہے اور کئی مسالک سے وابسطہ علماء کرام کی جانب سے کئی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ، اس میں کسی قسم کی دوسری رائے نہیں کہ حکومت کا یہ کہنا کہ بلکل درست ہے کہ بعض مساجد میں نفرت انگیز خطابات ہوتے ہیں جس سے مذہبی انتشار پیدا ہوتا ہے اور کسی کو حق نہیں کی مساجد کے ممبروں سے ایک دوسرے کے لیئے کافر ہونے کی باتیں کی جائیں یا واجب القتل ہونے کے فتوے دیئے جائیں ۔</p> <p>ہمیں کسی بھی چیز کے بارے میں اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی پہلوؤں پر بھی سوچ بچار کرنا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ کوئی بھی ایسا کام جو معاشرے یا ملک و قوم کی بہتری کے لیئے کرنے جارہے ہوں تو اس کے تمام نتائج بھی مثبت آئیں لہذا حکمتی عملی ترتیب دیتے ہوئے اس بات کو لازمی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسا ممکن نہیں ہوا اور معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوئے تو پھر کیا کرنا ہوگا ہوسکتا ہے حکومت سندہ اور اس کی بنائی کمیٹی نے ان تمام پہلوؤں پر بغور کام کیا ہو اور انشااللہ ان کی نیک نیتی سے تمام کام خوش اسلوبی اور حسن اتفاق سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ۔ لیکن خدا نا خواستہ اگر ایسا ممکن نہیں ہوا تو پھر کہیں روایتی حربے استمال نہ کیئے جائیں جیسا کہ ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو معاملات سلجھ نہیں پاتے ان پر پابندی لگادی جاتی ہے ۔ جیسا کہ ماضی میں کئی چیزوں پر محض اس لیئے پابندی لگادی جاتی ہیں جسے حکومت کنٹرول کرنے میں ناکام ہوتی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری، عاشورہ کے دنوں میں موبائیل کا استمال اور مساجد کو سیل کرنا وغیرہ شامل ہیں ، تو اس مسعلے کی ناکامی کے بعد مجھے خدشہ ہے کہ جمعے کے دن عربی زبان کے خطبے کے علاوہ تمام خطبات پر ہی پابندی نہ لگادی جائے ۔</p> <p>لیکن ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے اور حکومت کی جانب سے کوئی بھی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے معاشرے میں بہتری آئے اور پر امن اور بھائی چارے والی فضاء قائم ہو تو نہ صرف حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ بھر پور تعاون بھی کرنا چاہیے۔</p> </section> </body>
5406.xml
<meta> <title>ممتاز قادری اورسلمان تاثیرایشو سے حاصل ہونے والے پانچ سبق</title> <author> <name>سبوخ سید</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18683/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2742</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ممتاز قادری اورسلمان تاثیرایشو سے حاصل ہونے والے پانچ سبق
2,742
Yes
<body> <section> <p>ساسلمان تاثیر اور ممتاز قادری والے سارے قصے میں جو چیز ہماری سمجھ میں آئی ہے ، آپ کے ساتھ بھی اسے شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔</p> <blockquote> <p>سلمان تاثیر</p> </blockquote> <p>سلمان تاثیر صاحب زبان کے معاملے میں انتہائی لاپرواہ قسم کے انسان تھے ۔ الفاظ کے چناؤ اور انتخاب نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ معاملہ حل کرنے کے بجائے خود ایک مسئلہ بن گئے تھے ۔ انہیں آسیہ بی بی سے ملنے جیل نہیں جانا چاہیے تھا بلکہ اس سارے مسئلے کو وہ معاشرے کے اہم افراد کی مشاورت سے حل کر سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنے منصب کا احساس نہ رکھنے کے ساتھ ساتھ حساس موضوع کی حساسیت کا خیال بھی نہیں کیا ۔</p> <p>دوسری بات یہ ہے کہ سلمان تاثیر نے واضح انداز میں کہا کہ وہ توہین رسالت ؐ کی سزا کے مخالف نہیں بلکہ سابق آمر ضیاٗ الحق صاحب کے دور میں بنائے گئے قانون توہین رسالت کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس کام کو سنجیدگی کے ساتھ کرنے کے بجائے میڈیا پر خبروں کی زینت بنایا ۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ بات تو ہر جگہ محسوس کی گئی کہ پولیس ، فوج ، خفیہ اداروں میں کس قسم کی ذہنی اور فکری تربیت کے حامل لوگ موجود ہیں۔</p> <p>سلمان تاثیر صاحب کے واقعے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ گفت گو کرتے ہوئے موقع محل ضرور دیکھنا چاہیے اور حساس موضوعات پر گفت گو متعلقہ پلیٹ فارمز پر ہی کرنی چا ہیے ۔</p> <p>یہ پہلا سبق ہے ۔</p> <blockquote> <p>میڈیا</p> </blockquote> <p>سلمان تاثیر کو اس مسئلے پر کئی میڈیا اینکرز نے اپنے پروگراموں میں بلایا اور اصرار کر کے ایسی گفت گو کرائی گئی جس کے نتائج بلاشبہ سلمان تاثیر کو ہی بھگتنے تھے ۔ اس سلسلے میں ڈان نیوز کی مہر بخاری کا پروگرام دیکھ کر اْپ میری رائے سے شاید اتفاق کریں ۔ میڈیا نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے خبر نگاری کے بجائے سنسنی خیزی پھیلائی اور معاشرے میں ہنگامہ برپا کیا ۔</p> <p>میڈیا کی حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پرانتظامیہ مختلف اضلاع میں تقاریر پر پابندی لگاتی ہے ، رات کو ٹی وی اینکرز انہیں پوری دنیا کے سامنے قابل تقلید ہیرو کے طور پر پیش کررہے ہوتے ہیں ۔</p> <p>آپ دیکھیں جاوید چوہدری صاحب اور مہر بخاری صاحبہ نے اپنے پروگرام میں ممتاز قادری کو قتل پر اکسانے والے مفتی صاحب کو بلایا ۔</p> <p>میڈیا میں فرقہ واریت کو پھیلانے والے افراد موجود ہیں جن کا ایجنڈا ہی فرقہ وارانہ ہے ۔</p> <p>دوسری بات یہ ہے حکومت پاکستان اور پیمرا (پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ) نے پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹی وی چینل کھولنے کے لائنسنس دیے ہوئے ہیں ۔ اس وقت بھی دو نیوز چینلز فرقہ وارانہ ایجنڈے پر "برادر اسلامی" ملک کے تعاون سے کام پر رہے ہیں ۔ ایک ویب چینل کو پاکستان کی ایک کالعدم جماعت کے اہم افراد "برادر اسلامی" ملک سے چلا رہی ہے ۔</p> <p>ٹی وی چینلز پر رمضان میں مذہبی پروگرام کرنے والے ایک "معروف" عالم دین نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد، دو روز پہلے دیوبندیوں کو علی الاعلان جلسے میں گستاخ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب سنی جاگ گئے ہیں ۔ انہی حضرت نے ایک ٹی وی چینل کے سٹوڈیو سے ڈاکٹرمیمونہ مرتضیٰ ملک کو گستاخ رسول کہہ کر اٹھا دیا تھا جب انہوں نے قرآن کی ایک آیت پڑھ کر اس کا ترجمعہ کیا تھا ۔</p> <p>ایک اور معروف اور نمایاں اینکر بھی ٹی وی پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ تقاریر کرتے ہیں جن کا تعلق معاشرے میں بین المسالک ہم آہنگی کی فضا کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں پیمرا کے کردار کو مزید موثر بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر دباؤ بڑھانا ہوگا ۔ یہ دوسرا سبق ہے</p> <blockquote> <p>اہل مذہب</p> </blockquote> <p>سلمان تاثیر کی گفت گو کے بعد اہل مذہب کا رویہ اصلاح کے بجائے انتہائی نازیبا تھا ۔راولپنڈی راجا بازار کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایک کالعدم جماعت کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ڈپٹی چئیرمین سینٹ اور اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پوسٹل سروسز مولانا عبدالغفور حیدری صاحب کی موجود میں ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے کہ میں انہیں یہاں لکھنے سے بھی قاصر ہوں ۔</p> <p>اسی طرح سلمان تاثیر کے قتل کے بعد لاہور میں تحفظ ناموس رسالت کانفرنس میں بھی پنجاب کے ایک مولوی صاحب نے لاہور کے ایک عالم دین کے بارے میں انتہائی شر پسندانہ قسم کی گفت گو کی حالانکہ سٹیج پر مولانا فضل الرحمان ، سیدمنور حسن ، قاضی حسین احمد ، علامہ ساجد علی نقوی سمیت اہم شخصیات موجود تھیں ۔</p> <p>اہل مذیب کی تفریق اور تقسیم سے کون آگاہ نہیں ، ایک دوسرے کے خلاف کفر اور گستاخ رسول کے فتوے کسی سیکولر یا لبرل نے نہیں دیے بلکہ انہی مذہبی لوگوں نے ایک دوسرے کے بارے میں دیے ۔ سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری نے راولپنڈی کے ایک مفتی کی تقریر سننے کے بعد ہی سلمان تاثیر کے قتل کا فیصلہ کیا تھا تاہم مفتی صاحب نے عدالت میں جو بیان حلفی جمع کرایا اس میں واضح طور پر لکھا کہ ان کا ممتاز قادری سے کوئی تعلق نہیں ۔ جب مقرر اور سامع کا کوئی رشتہ نہیں تو سننے والوں کو زرا ان اداؤں پر غور کرنا چاہیے ۔</p> <p>رسول اللہ کی توہین کی سزا پاکستان کے قانون کے مطابق موت ہے اور یہ سزا ریاست نے ہی دینی ہے ۔ اس وقت دیوبندی، بریلوی اور جماعت اسلامی جس طرح ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ان کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں ، وہ شاید ان کی نظر میں ٹھیک ہو ۔ تاہم انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں پانچ سوسے زائد توہین رسالت کے مقدمات مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف کروا رکھے ہیں ۔ ابھی تک ان کا فیصلہ نہیں ہوا ۔</p> <p>میرا ان علماٗ سے سوال ہے کہ اگر کل کوئی اٹھ کر ممتاز قادری بننے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں قتل کرتا ہے کیا اس سے ریاست میں فساد نہیں پھیلے گا ؟</p> <p>ممتاز قادری کے نزدیک دیوبندی پکے گستاخ تھے ، ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ممتاز قادری مرحوم کی سوچ کا</p> <p>جھنگ سے منتخب سابق رکن قومی اسمبلی اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مقتول رہ نما مرحوم مولانا اعظم طارق صاحب جب جیل میں تھے تو انہوں نے وہاں ہر عید کے موقع پر کھیر پکانے کی روایت قائم کی ۔ ان کے قتل کے بعد بھی مختلف جیلوں میں کھیر پکانے کی یہ رسم اب بھی جاری ہے ۔ چار سال پہلے جب اڈیالہ جیل میں قید سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے کھیر بنائی تو ممتاز قادری مرحوم کے لیے بھی بھیجی گئی ۔ ممتاز قادری نے پلیٹ اٹھا کر پھینکتے ہوئے کہا کہ " جیسا گستاخ سلمان تاثیر تھا ، ویسے گستاخ دیوبندی بھی ہیں " ۔</p> <p>مجھے نہیں علم شہباز شریف صاحب کے اب کیا خیالات ہیں تاہم ایک زمانے میں وہ بھی یہی خیالات رکھتے تھے جن کا اظہار انہوں نے ایک بھرے اجلاس کے دوران بھی کیا تھا ۔ اس اجلاس میں مولانا ضیاٗ القاسمی مرحوم اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بھی موجود تھے ۔</p> <p>ان واقعات کا یہاں ذکر کرنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ میں کوئی آگ بھڑکانا چاہتا ہوں ، میں صرف تصویر کا وہ چہرہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کل قتل و قتال کا معاملہ اسی طرح چلنا شروع ہو گیا اور آپ لوگ ممتاز قادری مرحوم کی طرز پر ہیرو بنانا شروع ہو گئے تو اس آگ کی تپش شاید آپ کے دامن کو بھی جلا کر راکھ بنا دے گی ۔</p> <p>کافر کافر شیعہ کافر، دیوبندی گستاخ رسول ، وہانی گستاخ رسول و اولیاٗ ، اہل حدیث غیر مقلد ،بریلوی مشرک ، ایک یہودی سو مودودی کے نعرے اور کچھ شیعہ کی طرف سے صحابہ کی تکفیر اور توہین پر مبنی لٹریچر اب بھی پاکستان میں با آسانی دستاب ہے ۔ یہ درست ہے کہ سارے علماٗ اس دھندے میں ملوث نہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جو ملوث ہیں ، وہی اس وقت ان مسالک کا چہرہ بن گئے ہیں ۔ ان مسالک کی علمی شخصیات ان واعظوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اور یرغمال ہیں ۔</p> <p>خدا کے لیے اب خود اپنے حال اور اس ملک پر رحم فرمائیے ۔ یہ ملک شام ، یمن ، عراق ، مصر، لیبیا بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔</p> <p>علماٗ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی، کس حد تک درست ہے ، میں اس پر شاید کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ، ہو سکتا ہے کہ ان کی بات درست بھی ہو اور نہ بھی ہو تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ دینے میں مولوی صاحبان ہی ملوث تھے ۔ یہ آوازیں کسی مسجد یا امام بارگاہ سے ہی بلند ہوتیں رہیں ۔</p> <p>میں کئی علماٗ سے کہہ چکا ہوں کہ پاکستان میں نوجوان طبقہ تیزی کے ساتھ مذہب اور خدا بیزار ہوتا جا رہا ہے اور اس کا سبب آپ ہیں ۔ اللہ نہ کرے کہ کل وہ دن آئے کہ پاکستان میں مساجد پر تالے پڑے ہوں ۔ غور سے اپنے عمل کو دیکھئے ، کتنے لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں ؟ ۔جمعے کو لوگ اس وقت پہنچتے ہیں جب آپ کی تقریر ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ علما کی باتیں عوام میں نہیں کر نی چاہییں لیکن زرا دیکھئے کہ عوام شاید زیادہ ہوشیار ہے وہ ان باتوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی جو آپ کرتے ہیں ۔</p> <p>یہ تیسرا سبق ہے ۔</p> <blockquote> <p>ممتاز قادری</p> </blockquote> <p>ممتاز قادری کی پھانسی اور جنازے میں ہزاروں لوگوں کی شرکت نے ایک بات واضح کر دی کہ اس ملک میں قانون توہین رسالت میں کسی قسم کی ترمیم نہیں ہو سکتی ۔ ممتاز قادری کا جنازہ ایک طرح سے ریفرنڈم تھا ۔اس جنازے میں کسی خاص مسلک کے لوگ شریک نہیں تھے بلکہ تمام مسالک کے اورعام مسلمان آئے تھے ، اوروہ عام مسلمان ممتاز قادری کے عمل کے مخالف اور جذبے کے حمایتی تھے ۔ یہ چوتھا سبق ہے ۔</p> <blockquote> <p>پھانسی</p> </blockquote> <p>ممتاز قادری نے سلمان تاثیرکا قتل کیا اور اس کا بر ملا اعتراف بھی کیا ۔ عدالت نے قانون کے مطابق ممتاز قادری کو سزائے موت دے دی ۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں ، قتل کر دیں ، انہیں سزا نہیں ملے گی تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاید ریاست اپنا مزاج بدل رہی ہے ۔ اس مزاج کا ترجمعہ اور تشریح آپ کو ملک اسحاق ، غلام رسول شاہ اور ممتاز قادری سمیت کئی افراد کی پھانسیوں اور ماورائے عدالت قتل سے ہو جانی چاہیے ۔</p> <p>تو یاد رکھیں ، لوگوں کو جذباتی نہ بنائیں ،اب قتل کریں گے تو پھانسی بھی ہوگی ۔</p> <p>یہ ہے پانچواں سبق</p> <blockquote> <p>وہ سبق جو حاصل نہیں کیا گیا</p> </blockquote> <p>ایک سبق جو حاصل نہیں کیا گیا وہ یہ ہے جو لوگ منبر ومحراب اور فرقہ وارانہ لٹریچر سے نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو ورغلاتے ہیں ۔ ان پر کوئی قدغن یا سزا کیوں نہیں ۔یہ لوگ بھی تو برابرکے مجرم ہیں تاہم اب بھی ٹی وی چینلز اور منبر محراب پریہی طبقہ قابض ہیں ۔</p> <p>جب تک آپ ملک میں لاؤڈ اسپیکر پر مکمل پابندی عائد نہیں کراتے ، اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ مذہبی اداروں کے پبلشنگ ہاؤسز پر پابندی اور رسائل کی سکیننگ لازمی ہے ۔</p> <p>یہ وہ سبق ہے جو ریاست نے ابھی تک نہیں حاصل کیا ۔</p> <blockquote> <p>ایک چھوٹی سی کہانی</p> </blockquote> <p>میں چار جنوری 2011 کو ایبٹ آباد اپنے گھر میں تھا ، تین معروف علماٗ بیٹھے تھے ۔ ہماری گفت گو سلمان تاثیر صاحب کے رویے کے خلاف ہی چل رہی تھی ۔ نماز ظہر کے بعد علماٗ رخصت ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد موبائل فون پر سلمان تاثیر کے قتل کی خبر آگئی ، مجھے بہت افسوس ہوا ۔ میں اپنی والدہ کے پاس بیٹھا تھا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر والدہ نے پوچھا کیا ہوا ؟</p> <p>میں نے انہیں سلمان تاثیر کے قتل کا بتا یا ۔</p> <p>انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، ظلم کیا ظالموں نے</p> <p>تھوڑی دیر بعد سب سے پہلے وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان مولانا عبدالقدوس محمدی صاحب کا میسج آیا جس میں قاری حنیف جالندھری صاحب اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور دیگر علماٗ کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کی گئی تھی ۔ پھر راول پنڈی سے علامہ حیدر علوی صاحب کا مذمتی پیغام آیا جس میں انہوں نے قتل کی مذمت کی تھی ۔ پھر صاحبزادہ فضل کریم مرحوم کا فون آیا ، انہوں نے کہا کہ " جو لوگ مزارات پر حملے کر رہے ہیں ، انہوں نے ہی سلمان تا ثیر کو بھی قتل کیا ہے ۔</p> <p>تھوڑی دیر بعد گرد بیٹھی تو پہلا فون آیا ، ہمارا مذمتی ٹکر نہ چلائیں ، ابھی مشاورت جاری ہے ۔ پھر علوی صاحب نے بھی یہی کہا ۔ منہاج القرآن کے علاوہ سب نے اپنے ٹکرز واپس لے لیے ۔ اگلے روز اسلام آباد میں ، میں اور ابصار عالم صاحب (چئیرمین پیمرا) اکٹھے تھے ۔ میں نے انہیں یہ میسج دکھا ئے کہ پہلے لوگوں نے مذمت کی اور اب مکر گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس پر تو پروگرام کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت وہ آج ٹی وی پر پروگرام کر رہے تھے ۔</p> <p>کچھ روز بعد عیدگاہ شریف راولپنڈی میں بریلوی علماٗ کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں بریلوی مکتب فکرکے معروف علماٗ شریک تھے ۔ صاحبزادہ فضل کریم صاحب مرحوم نے مجھے اجلاس میں بلا لیا ۔ آپس میں بیٹھے تو انہوں نے میری رائے لی (یہ رائے بحثیت صحافی نہیں تھے ) میں نے سب کے سامنے کہا کہ سلمان تاثیر کی باتیں قابل برادشت نہیں تھیں تاہم ممتاز قادری کا عمل بھی برادشت کے قابل نہیں ۔ ظاہر ہے وہ اس بات پر خوش نہیں تھے ۔</p> <p>بھنگالی شریف عرس پر جاتے ہوئے راستے میں ان سے تفصیلی بات ہوئی تھی ، میں نے کہا کہ میں مذہبی حوالے سے بات نہیں کرتا ، میں معاشرتی حوالے سے بات کر رہا ہوں ۔ وہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ۔ بھنگالی شریف کے پیر سید جابر علی شاہ بھی موجود تھے جب ہماری ان کی بیٹھک میں گفتگو چل رہی تھی ۔</p> <blockquote> <p>اصل سبق</p> </blockquote> <p>سب وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے بھی جانا ہے ۔</p> <p>حشر کا میدان ہو گا ۔ اللہ فیصلہ کرے گا کیونکہ نیتوں کو اور ارادوں کو وہی بہتر جانتا ہے ۔ وہی انصاف کے ترازو میں تول کر بتائے گا کہ کس نے کیا کیا ؟ ہمارا کام ہے کہ ہم جذباتیت سے ہٹ کر ایک دوسرے کی رائے کو سنیں اور سمجھیں ۔ پہلے میں بھی ایک خاص ماحول کے زیر اثر رہ کر سوچتا تھا تاہم میں نے ایک عرصے سے اپنے اسلوب پر سوچنا شروع کیا ہے ۔ جو نتیجہ نکلتا ہے ، اسے مختلف الخیال اہل علم و دانش کے سامنے رکھتا ہوں ، وہ اس میں اپنا <annotation lang="en">In put</annotation> دیتے ہیں ، میں رکتا نہیں ، سوچنے کا سفر جاری رکھتا ہوں ۔</p> <p>میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس دور میں اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں اس دور کے مطابق سوچوں اور نئی منزلیں تلاش کروں ۔ اگر مجھے پرانے لوگوں کی طرح سوچنے کا پابند بنایا ہوتا تو مجھے وہ چار سو سال پہلے پیدا کرتا ۔ان کے سامنے اور چیلنجز تھے، میرے سامنے اور ہیں ۔</p> <p>آج پیدا کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ میں آج کے مطابق سوچوں ۔ مجھے حق حاصل ہے کہ میں اپنی سوچ کو اچھے اور شائستہ انداز میں اپنے دوستوں اور احباب کے سامنے بھی رکھوں اور اس میں منافقت نہ کروں ۔ میرے نتیجہ فکر سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اتفاق بھی ۔ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ میرے نتیجے کو قبول کریں یا اس کا رد کر دیں ۔ تاہم سننے والے کو بھی چاہیے کہ وہ ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ۔</p> <p>تو گذارش یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ کیسے ہم اس ملک میں فرقہ وارانہ مخاصمتوں کو ختم کرکے ایک پر امن معاشرہ اور بہتر پاکستان وجود میں لا سکتے ہیں ۔</p> <p>یہ کام ہم اس وقت ہی کر سکتے ہیں جب ہم سچے دل اور اچھے دماغ کے ساتھ ، ہر قسم کی مذہبی ، لسانی ، مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر کھڑے ہو جائیں ۔</p> <p>یہ ہے اصل سبق</p> </section> </body>
5407.xml
<meta> <title>جنگی اخلاقیات اور اسلام</title> <author> <name>ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18900/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3400</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جنگی اخلاقیات اور اسلام
3,400
No
<body> <section> <p>سب سے پہلے اخلاق کو سمجھنے کی ضرورت ،انسانیت کی معراج حسن اخلاق ہے،ہمارے پیارے پیغمبرﷺ کی سب سے بڑی ڈگری خُلُقِ عظیم ہے،آپ نے فرمایا: کامل ترین مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں،مسلم یا غیر مسلم ہونا بعد کی بات ہے،انسان ہونا سب سے پہلے ہے اور انسان ہونے کے لئے انسانیت یعنی بلنداخلاق پر فائز ہونا،تاکہ آپ کے قول وعمل میں انصاف،عدل اور باہمی مساوات ہو،آپ ضد، عناد،تنگ نظری اور رعونت کی بیماریوں سے دور ہو،آپ جب فطرتِ سلیمہ کے مالک ہوجائیں گے تب آپ کا فہم کسی کی بات کو سمو سکے گا۔</p> <p>لہذا ایمان اور اسلام دونوں الفاظ میں غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے،کہ ان کا مأخذ امن وسلامتی ہے، یہ دونوں عنوان اس بات کا دعوی ہے کہ یہ مذہب نہ صرف انسانی معاشرہ بلکہ پوری کائنات میں امن وامان اورسلامتی وخیرسگالی کاداعی ہے، کیاآپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس دین کی پانچوں بنیادیں بنی نوع بشری میں تفرق کے بجائے اجتماعیت اور توڑ کے بجائے جوڑ کے مظاہر ہیں ، کلمہ طیبہ ، اقامت صلاۃ ، ادائے زکاۃ ، صیام رمضان اور حج بیت اﷲ میں سے ہرایک معاشرے میں امن ،سلامتی،اجتماعیت،جوڑ، خیر سگالی، الفت، محبت اور مودت پر شاہد عدل ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اسلام کے ان ارکانِ خمسہ کا جائزہ لے کر اس دین کے امن وسلامتی کے دعوے کو مبنی برحقیقت ہونے کا دو اور دوچار کی طرح نتیجہ نکال سکتاہے، توکیا کوئی قلب ِسلیم رکھنے والا دانش ور، تجزیہ نگار اور مؤرخ ہے جودنیا کے سامنے اس حقیقت کو طشت ازبام کردے ؟</p> <p>جہاد اسلام کے بنیادی ارکان خمسہ میں سے نہیں ہے ، یہ ایک ضرورت ہے، یہ ایک اضطراری حالت ہے،بالفاظِ دیگر یہ ایک رد عمل کانام ہے، ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ اپنے مکان ،ادارے ،محلے، شہر، ملک اورکل کائنات میں امن ، سلامتی ، حسن اخلاق، حسن معاشرت،حسن سیرت وکردار کے داعی ہیں،رحمۃ للعالمین پیا مبرﷺ کے وارث ونائب ہیں ،آپ ایک مثالی اور ماڈل معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں، آپ اور آپ کے اسلاف نے اس کے لئے جانی و مالی بیش بہا قربانیاں بھی دی ہیں ، لیکن کچھ افراد ،اقوام ، ممالک ، گروپزاور کچھ افکار ونظریات آپ کے اس مشن کو سبوتاژ کرناچاہتے ہیں ،اس میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں ،توکیاآپ ہابیل کی طرح قابیل کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑے رہینگے ، یا پھراپنے تعمیر کردہ چمن زار وگلستاں کو بچانے کے لئے جان ومال کی پرواہ کئے بغیر میدان میں کو د پڑ ینگے ، کیا اس نقطۂ نظر کو پیش رکھکر آج چودہ سو سال کے بعد مہذب اقوام نے ان کے گردانہ کارروائیوں کے مقابلے کے لئے"گرم تعاقب"کے نام سے یہی تکنیک نہیں اپنائی ؟ کیا اس میں دفاعی اور اقدامی سب شامل نہیں ہیں ، تو اگر انسانی عقل اپنی نارسی سے اس نکتے تک صدیوں اور ہزاریوں میں پہنچ سکتی ہے، تو وحی اور نبوت کی شکل میں دینی نقل اگر پہلے ہی اس تک پہنچ گئی ، تو اس میں تردد اور تذبذب کیوں ؟؟</p> <p>یادرکھیئے ایمان امن چاہتاہے ، اسلام سلامتی چاہتاہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ زمین اورکائنات میں اضطراب اور بے راہ روی روکنے کے لئے اسلام میں اقدامی اور دفاعی دونوں طرح کے جہاد ہیں ، اسلام کفرو کافر کو تخریب ، نقضِ امن اور دنگاوفساد سے جب بھی روکتاہے، اسے جہاد کہتے ہیں ، چنانچہ کفر اور کافر جہاں بھی پر امن ہیں ، انسانیت کی تباہی کے چکروں میں نہیں ہیں ، اسلام اور ایمان ان سے تعرض نہیں کرتے ، اس کی مثال آپ اسلا می حدود اور قصاص سے سمجھئے کہ کسی کا قتل وجرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے، تو حدود وقصاص کا اس سے کیا تعلق ؟ گویا جہاد کفر واہل کفراور بغاوت و اہل بغاوت کی موجودہ زمانے میں تخریبی عمل اور مستقبل میں تخریبی سوچ کا رد عمل ہے، اسی لئے مجاہد حسب حالات کبھی دفاع اورکبھی اقدام پر مجبور ہوتاہے۔ بہر حال یہاں ہم اس حوالے سے اسلام کے چند زرین قوانین پیش کر تے ہیں:</p> <p>نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنگ کا مقصد دشمن کا جسمانی طور پر خاتمہ کرنا نہیں ہے ، جدید بین الاقوامی انسانی فلاحی قوانین بھی یہ کہہ کر کہ جنگ کا مقصد دشمن کی جنگی طاقت اور جنگی استعداد کو کمزور کرنا ہونا چاہئیے،اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو نہی دشمن کی جنگی استعداد کمزور ہوجائے ، حملوں کو روک دینا چاہئے ۔</p> <p>جنگ کے اصول وقوانین میں اسلام نے جو بنیادی اصلاحات کی ہیں وہ یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کو صرف شریک جنگ تک محدود کیاجائے۔</p> <p>اسلام کے قانون جنگ کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانونی طورپر تسلیم شدہ سیاسی حکومت کی اجازت کے بغیر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔</p> <p>اسلام کے قانون جنگ کا تیسر اصول عملی طورپر جنگ میں حصہ نہ لینے والے افراد سے متعلق ہے، طبی امداد دینے والے اور اسی قبیل کے دوسرے افراد ، حتی کہ اگروہ جنگجوؤں اور حملہ آوروں کو مدد بھی فراہم کررہے ہوں ، انہیں جنگ میں شریک افراد کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، رعایت نہ صرف طب سے متعلقہ لوگوں کو دی گئی ہے ، بلکہ دوسرا امدادی عملہ جن میں نرسیں ، خدمت گار ، کھانا پکا نے والے، شہری ضروریات کی فراہمی کرنے والے ، بہت عمر رسیدہ سپاہی اور وہ بوڑھے افراد جو جنگ میں حصہ نہ لے رہے ہوں ، بھی اس رعایت میں شامل ہیں ان سب افراد کو قتل سے مستثنی قرار دیا گیاہے۔</p> <p>چوتھا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیاجائے جس میں دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہو ، قرآن پاک کی بہت سی آیات ہیں جن میں دھوکہ دہی اور کسی چیز کو ، حتی کہ دشمن کےسامنے بھی غلط انداز میں پیش کرنے سے منع کیا گیا ہے۔</p> <p>٭ بنونظیرنے ایامِ صلح میں معاہدۂ امن کے باوجود پیغمبرِاسلام ﷺ کو شہید کر نے کی ناپاک کوشش کی ،جس کے رو سے ان کو مدینہ میں رہنے کی گنجائش ختم ہوئی، تو انہیں صرف جلا وطن کیاگیا۔بنوقریظہ نے حالت جنگ میں اس طرح کا غدر کیا ،اور تمام مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی سازباز کی ، چانچہ ان کے صرف مردوں کو ان کے مقرر کردہ حَکَم سعد بن معاذ کے کہنے پرتہِ تیغ کیاگیا۔"گرم تعاقب " کی اصطلاح میں اگر دیکھا جائے تو یہ عین انصاف ہے، اس شریر قوم سے تنگ آکر ہٹلر نے کیا کیاتھا، وہ آپ کے سامنے ہے۔</p> <p>٭ حضرت ابو بصیر اور حضرت ابو جندل کے واقعات مشہور ومعروف ہیں، آپ ﷺ نے حربی معاہدات کی پاسداری کی ایک عظیم الشان مثال قائم کرکے ان دونوں واپس کیا۔</p> <p>٭ حضرت علی ؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ غزوۂ خندق میں ایک موقع پرجب وہ اپنے مد مقابل انتہائی طاقتوردشمن (عمروبن عبد وَدالعامری)کو پچھاڑ چکے، تو انہوں نے حضرت علی ؓ پر نیچے سے تھوک دیا، تو وہ ان سے یکدم پرے ہٹ گئے ،کسی نے پوچھا ،حضرت اس وقت تو آپ ان کا کام بڑی سے تمام کرسکتے تھے؟ فرمایا ،میری ان سے ذاتی کوئی دشمن نہیں ہے،نہ ہی ہم اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام لیتے ہیں۔(دلائل النبوۃ؍ج ۳ ؍ ۴۳۲ )،اسی واقعہ کے ذیل میں بعض مؤرخین نے حضرت علی کا اس جنگ میں ایک اور عجیب وغریب واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مبارز کو انجام تک پہنچایا، اورانکی تلوار،ڈھال اور زرہ لئے بغیر خالی ہاتھ لوٹے، نبی کریم ﷺ یا حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر بتایا، ان کی شرمگاہ کھل گئی تھی ،میں شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر واپس چلا آیا۔۔۔ یقیناًدنیا کی تاریخ کسی بھی گھمسان کی جنگ میں حسنِ اخلاق کے اس کردار کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔</p> <p>٭ دوسرے خلیفہ راشد کے زمانے میں ، مسلمانوں اور ایرانیوں کے مابین جنگ ہورہی تھی ، ایک ایرانی درخت پر چڑھ گیا اور اسکی چوٹی پر پناہ لے لی ، ایک مسلمان سپاہی نے اسے پالیا اور فارسی میں اسے کہنے لگا ، مترس ، یعنی مت ڈرو، ایرانی فوجی یہ سمجھا کہ شاید اسے پناہ اور تحفظ دے دیاگیاہے، چنانچہ وہ نیچے اترآیا ، تاہم مسلمان فوجی نے اسے قتل کر ڈالا، حضرت عمرؓ کو اس معاملے کی خبر دی گئی ، انہوں نے ایک پالیسی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے یہی فارسی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص دشمن فوجی کو " مترس " اور بعد میں اسے قتل کرتے پایا گیا، تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا اور وہ سزائے موت کاحق دار ہوگا، ایسے عمل کو دوسرے خلیفہ راشد نے قتل کے برابر گردانا صرف اس وجہ سے کہ ارادے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ، یہاں دھوکہ دہی کو اس کے لغوی معنوں سے کہیں زیادہ وسیع کر کے منع کردیاگیا۔</p> <p>٭ مسلمان حکومت نے جدید ترکی اور مصر کی سرحدوں کے قریب کہیں آباد غیر مسلم لوگوں سے معاہدہ کرلیا، یہ لوگ مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کیا کرتے تھے ، خاص طور پر وہ تجارتی قافلے جو عرب اور یورپ کے درمیان سفر کرتے تھے یہ انہیں لوٹ لیا کرتے ، حضر ت امیر معاویہ ؓ نے ان کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا،تاہم مسلمانوں نے ان سے جو معاہدہ کررکھاتھا اس میں وقت کی پاسداری ضروری تھی اور اس معاہدے میں ہرسال توسیع کردی جاتی تھی ، ان کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے خلیفہ نے انتظار کیا، یہاں تک کہ یہ معاہدہ ختم ہونے کو آگیا ، اس معاہدے کے ختم ہونے سے ایک ماہ قبل ، انہوں نے تیاری کی اور اپنی کمان میں فوج کو حکم دیا کہ وہ اس علاقے کی جانب پیش قدمی کریں جہاں یہ مشکلات پیدا کرنے والے لوگ رہائش پذیر تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ معاہدے کی آخری تاریخ تک انتظار کریں گے اور پھر معاہدے میں توسیع کرنے کے بجائے ، اگلی ہی صبح ان لوگوں کو سزا دیں گے، تکنیکی لحاظ سے ،قانونی ،آئینی اور آج کی زبان میں بین الاقوامی قانون کی روسے ان کا یہ قدم جائز ہوتا، وہ اپنے ہی علاقے میں نقل و حرکت کررہے تھے اور معاہدے کے عرصے میں ان کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھارہے تھے، لیکن یہ خلیفہ کی ذاتی رائے تھی اور اس پر دوسروں سے مشاورت نہیں کی گئی تھی ، ایک صحابی رسول ﷺ عمربن انباسہ ؓ گھوڑے پر سوار ہوکر تیزی سے اس جانب بڑھے جس سمت مسلمان فوج پیش قدمی کر رہی تھی ، خلیفہ کو خبر دی گئی کہ کوئی شخص نزدیک آرہاہے، جب وہ قریب آئے تو دیکھا گیا کہ وہ صحابی رسولﷺ عمر بن ابناسہ ؓ ہیں، جب حضرت عمرؓنے مسلمان فوج کو جالیا وہ زور وشور سے چلارہے تھے "وفاء لاغدر" اپنا وعدہ پورا کرو، دھوکہ دہی کے مرتکب نہ ہو" ۔</p> <p>خلیفہ تک پہنچنے کے بعد انہوں نے معاہدے کے متعلق اپنے فہم اور تعبیر کو واضح کیا اور یہ کہ خلیفہ کا یہ قدم کیسے دھوکہ دہی میں شامل ہے،حضرت عمر ؓ نے کہا کہ جب ایک مسلمان ریاست کچھ افراد کے ساتھ کوئی معاہدے کر بیٹھتی ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے ارادے دشمنی کی جانب مائل ہوں ، پر امن رہاجائے طرفین کو جذباتی طورپر پر امن رہنا چاہئے ، یہ حقیقت کہ ایک مسلمان حکمران نے معاہد قوم کے خلاف فوجی کارروائی کا سوچا اور اس ارادے کے ساتھ اپنی فوجوں کو حرکت بھی دی اس کا مطلب یہ ہواکہ وہ معاہدے کی اصل روح یعنی معاہدے کے عرصے میں پر امن رہنے کے عزم کے خلاف ایک حرکت کے مرتکب ہوئے۔</p> <p>چنانچہ مسلمانوں کو یہ حکم دیاگیاہے کہ اگروہ معاہدے کوختم کرنا چاہیں تو انہیں اپنے ارادے کا اعلانیہ اظہار کرنا چاہیے تاکہ دشمن موجودہ حالت کے بارے میں آگاہ ہوجائے اور اسے پتہ چل جائے کہ مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں چنانچہ وہ بھی اسی طرح تیار رہیں، صرف اسی صورت میں مسلمان ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں جن کے ساتھ ان کا امن کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ ؓ سمیت مسلمان فوج نے اس تشریح کو قبول کیا اور فورا ہی اپنے اقدامات کو ختم کرکے ، دمشق واپس روانہ ہوگئے۔</p> <p>٭ ۱۰۵ ھ اور ولید ابن عبد الملک کا عہد تھا ، جب اسلامی فوجیں سمرقند میں فاتحانہ داخل ہوئیں ، دیکھتے ہی دیکھتے سمرقند اسلامی ریاست کا حصہ بنادیاگیا، عدلیہ سمیت تمام محکمے وجود میں آگئے ، ابھی مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ سمرقند کے مقامی مذہبی پیشوا، اسلامی عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سمرقند میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت خود اسلامی قانون کی روسے ہی ناجائز اور غیر قانونی ہے ،لہذا عدالت اس حکومت کو ختم کرکے مسلم فاتحین کو سمرقند سے نکل جانے کا حکم جاری کرے ۔قاضی نے انہیں اپنے موقف کے حق میں دلائل پیش کرنے کو کہا، تو ان کی پہلی ہی دلیل آخری او رحتمی بھی ثابت ہوئی ، مذہبی پیشواؤں کا استدلال تھا ، آپ کے مذہب کے قانون کے تحت مسلم افواج کے کمانڈر پر لازم ہے کہ کسی ریاست پرحملہ کرنے سے قبل وہ دعوت اسلام دے ،اگر یہ دعوت رد کردی جائے، تو پھر وہ جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا حکم دے ،اگریہ مطالبہ بھی رد کردیا جائے، تو تب مسلم افواج اس ریاست پر حملہ آور ہوسکتی ہیں ، قاضی نے تصدیق کی کہ بالکل ایساہی ہے، تو ان مذہبی پیشواؤں نے انکشاف کیا، کہ فتح سمرقند کے موقع پر مسلم فاتحین نے اس قانون کو مکمل طورپر نظر انداز کیا، نہ تو دعوت اسلام دی گئی اور نہ ہی جزیئے کی شرط کے ساتھ سرنڈر کا مطالبہ کیا گیا، قاضی کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا، اس نے فوری طورپر سمرقند کے فاتح نامور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کو عدالت میں طلب کرلیا، قاضی نے قتیبہ بن مسلم سے صرف ایک سوال کیا، کیاواقعی ایساہی ہواہے، جیسا یہ مذہبی پیشوا بیان کررہے ہیں ؟ قتیبہ بن مسلم نے ان کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کچھ وضاحتیں اور وجوہات پیش کرنی شروع کردیں ، عدالت نے تمام وضاحتیں مسترد کرتے ہوئے پہلی سماعت پر تاریخ ساز فیصلہ صادر کردیا، مسلم عدالت نے سمرقند پر اسلامی حکومت کوناجائز اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ،نہ صرف اس کے خاتمے کا حکم دیا، بلکہ بلاتاخیر سمرقند سے نکل جانے کا حکم دیا، فیصلہ سناتے ہی قاضی نے اپناقلمدان سمیٹا اور کمرۂ عدالت خالی کردیا، مسلم لشکر نے سمرقند سے کوچ شروع کیا ،تو شہر کے باہر وہی مقامی مذہبی پیشوا ایک بار</p> <p>پھر قاضی اور قتیبہ بن مسلم کے سامنے آگئے ،انہوں نے ان کے گھوڑوں کی لگامیں پکڑ کر کہا، سمرقند نے اپنی تاریخ میں ایسا منصف فاتح کبھی دیکھا اور نہ ہی مستقبل میں کبھی دیکھ سکے گا، خدارا ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں اب یہ ہماری ہی خواہش ہے کہ آپ ہی ہم پر حکومت کریں ،یوں سمرقند پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی ، یہی واقعہ اہل سمرقند کے قبول اسلام کابھی سبب بنا۔</p> <p>٭ تاریخ شاہد ہے صلیبی جنگوں کے دوران مسلم عوام اور حکمرانوں کے ساتھ مغربی غارت گروں نے کیا نارواسلوک کیا ، اور اہل اسلام کے ہاتھوں ان حملہ آور فوجیوں اور بعض مقامات پر یورپی بادشاہوں کی قید وبند کی حالت میں کتنا عجیب حسن سلوک کا معاملہ کیاگیا۔</p> <p>٭ عجب خان آفریدی نے انگریز کمانڈر کی بیٹی کو جنگ کے دنوں اغوا کیا، اپنے پاس گھر کی عورتوں میں رکھا،جب اس کی رہائی ہوئی،تو پتہ کہ اسے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا،اس پر مستزاد یہ کہ اس نے اپنے والد سے مطالبہ کیا کہ مجھے عجب خان آفریدی کی ازدواجیت میں دیاجائے، والد نے انکار کیا ،تو اس نے بائبل کی قسم کھائی کہ کسی سے شادی نہیں کریگی، اگر کسی کو شک ہو تو وہ خاتون آج بھی زندہ ہیںاور لندن میں رہائش پذیر ہے،استطاعت رکھنے والے خود جاکر حقیقتِ حال معلوم کرسکتے ہیں۔</p> <p>٭ فی زمانہ ایوان ریڈلی اور ان جیسے بہت سے مغربی قیدیوں کے واقعات میڈیا نے کھل کر بیان کئے ہیں ،مجاہدین انہیں اذیتیں دے سکتے تھے ، انہیں بھوکا پیاسا رکھ سکتے تھے ، خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے امکانات موجود تھے ، لاشوں کی بے حرمتی ممکن تھیں ، لیکن سب کچھ اگر کسی نے کیا تو وہ ان لوگوں نے کیا جو مہذب کہلاتی ہیں ، عافیہ صدیقی کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، مساجد ومعابد اور سکول ہسپتالوں کو نشانہ بنانا، ڈرون حملوں میں معصوم لوگوں کو ہدف کرنا، باگرام ،ابو غُریب اورگوانتانامو بے میں انسانیت کی لرزہ خیزتذلیل ، قرآن کریم کی بے حرمتی کے متعدد واقعات ، لاشوں پر پیشاب ، پورے مذہب کوبدنام کرکے اسلامو فوبیا کا ہوا کھڑانا ، قانون بین الاقوام میں ممنوع انگنت اقسامِ اسلحہ استعمال کرنا، یہ کس کے کارنامے ہیں ، افسوس سے کہنا پڑتاہے ، یہ ان لوگوں کے کارنامے ہیں ، جو دنیا کو تہذیب وتمدن ، حقوقِ انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری سکھاتے ہیں ، ہم مغربی اقوام کا احترام کرتے ہیں ، ان کی ترقی کو سلام کرتے ہیں، مگر کاش ،ان اقوام کو بحیثیت ِاقوام عقل وہوش آجائے، کہ ان کے حکمرانوں اور ان کے اہل اقتدار نے انہیں دنیا میں کتنی نفرت دلائی ، انہیں کس قدر بدنام اور رسوا کیا، ان کے دامن کو کس حد تک داغدار اور تار تار کردیا ۔</p> <p>٭ اب ایک جھلک یہ بھی ،طالبان کے جیلر بابا جیلانی سے میں نے ایک موقع پر پوچھا ،آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نیٹو سپاہی تمھارے ہاتھوں جسمانی قیدی بننے کے بعد آپ کے روحانی قیدی بن جاتے ہیں، کہیں برین واش تو نہیں کر تے آپ لوگ ، وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا، نہیں جی،برین واش نہیں کرتے ،شکم واش کرتے ہیں، خود روکھی سوکھی کھاتے ہیں ، انہیں بادام ، پستہ ،مکھن اوردودھ و گھی میں توڑی ہوئی روٹی کہلاتے ہیں،ان کی عزت کر تے ہیں،احترام کرتے ہیں،مہمان کی طرح رکھتے ہیں،ان کے خاندانوں سے ان کے رابطے کراتے ہیں،ان کے لئے اور ان کی اقوام کے لئے دعائیں کر تے ہیں،نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔</p> <p>ایک جرمن خاتون صحافی نے مجھ سے میرے آفس میں انٹرویو کے درمیان پوچھا،یورپ میں خواتین کے حقوق کا بہت خیال رکھاجاتاہے ، مسلمانوں کے یہاں اس حوالے سے کوتاہی کی بات کی جاتی ہے، آپ کیا کہینگے؟ میں نے کہا، اس کا جواب عافیہ اور ریڈلی کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے موجود ہے۔</p> <p>٭ فلسطین میں مسلمان بچوں ، بوڑھوں ، نوجوانوں ، قیدیوں اور مساجد ورہائشی بستیوں میں کیاہورہاہے، کیایہ حالات آج کے کسی ذی شعور سے مخفی ہیں ، کیا ان سب کچھ میں صہیونیوں کو یورپ اور بالخصوص امریکہ کا آشیر باد حاصل نہیں ہے؟</p> <p>٭ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے خلاف کارروائی ہو یا مالی کے بے چارے طوارق ،افغانستان کی امارت اسلامیہ ہو یا صومالیہ کے کمزور قبائل ،عراق کے لیڈر صدام حسین ہو ، یا چیچینیا کے رشین فیڈریشن میں محصور رہنما جو ہر دودایف ،ان تہذیب یافتہ کہلانی والی اقوا م نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان پر کس بے رحمانہ ،بے باکانہ ،بے ترسانہ اور توہین آمیز انداز میں یلغار کی ، یہ آیندہ نسلوں کے لئے ایک سوہانِ روح اورغمناک تاریخ ہے۔</p> <p>٭ بوسنیا میں جب تک خون کی ندیاں نہ بہائی گئیں ، عزتیں نہ لوٹی گئیں ، نسلی تطہیر کی شرمناک کردار ادا نہ کئے گئے ، اس وقت تک ان طاقتور اقوام کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی ، آج جب وہی تاریخ مکمل طور پرشام میں اور ایک حدتک برما میں دھرائی جارہی ہے، تاریخ انسانی کا ایک المناک سانحہ رقم کیا جارہاہے ،ان متمدن اقوام پر مشہور ضرب المثل سو فیصد منطبق ہو رہی ہے کہ" خوئے بد را بہانہ بسیار"۔</p> <p>٭ ابھی کل کی بات ہے روس نے بلا جواز شام میں اندھے بموں کا بے دریغ استعمال کیا ہےاور امریکن فورسز نے قندوز میں اطباٗ بلا حدود کے ایک ہسپتال کو وحشیانہ بمباری نشانہ بنایا جس سے درجنوں مریض اور ڈاکٹرز ہلاک ہوئے۔گویا مسئلہ اخلاقیات اور انسانیت کا ہے یہ اخلاق اور انسانیت کے عظیم تر اوصاف سے عاری ہو گئے ہیں،پہلے انسان بننا یا بنانا پڑے گا پھر کہیں جاکر اسلامی اخلاقیات ضرب وحرب کی تفصیلات انہیں بتانی ہوں گی۔</p> <p>بہرحال ﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ اہل اسلام نے یہاں ان بدترین حالات میں بھی حق او ر سچ کا دامن تھامے رکھا، کوئی سچا واقعہ جو ان حق پر ستوں کے لئے آیندہ کی انسانی تاریخ یا قانون بین الاقوام میں باعث شرم وخجالت ہو،دنیاکی کوئی طاقت پیش نہیں کرسکتی ،کیا اس" صورۃ منتزعۃ" اور مجموعی صورتِ حالات سے مسلح تصادم میں اسلامی اخلاقیات کے نفاذ کی چمکداراورخیرہ کن کرنیں نہیں پھوٹتیں ؟</p> </section> </body>
5408.xml
<meta> <title>عجب کرپشن کی غضب کہانی</title> <author> <name>شہزاد سلیم عباسی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18976/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1413</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
عجب کرپشن کی غضب کہانی
1,413
Yes
<body> <section> <p>ارشاد ربانی ہے" اور جب تم بات کہو تو انصاف کی بات کہوخواہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا ہی کیوں نہ ہو " ، عدل علیؓ دنیا بھر میں ماڈل کا درجہ رکھتا ہے</p> <p>طرزِ حکمرانی اور طرزِ جہاں بانی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل ہے اسی مناسبت سے شہرہِ آفاق دانشور جارج جرداق نے" امام علیؓ انسانی عدالت کی آواز" کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ عدل وانصاف پر مبنی معاشرے پر جارج رال کی تھیوری آف جسٹس بھی کمال کی ہے۔ سیاست کے دو بنیادی اصول ہیں ایک ہے اہل شخص کو منصب پر بٹھانا اور دوسرا ہے اس منصب کا پاس رکھتے ہوئے قضاء صادر فرمانا۔</p> <p>ممتاز قادری کی پھانسی کے واقعے کے بعد بہت سے معاملات (مردم شماری، تھرپارکر ، ایم کیو ایم کا غم و غصہ،پنجاب اسمبلی کاتحفظ نسواں بل اورجنرل کیانی کے بھائی کا سکینڈل وغیرہ) دب کر رہ گئے ہیں اور مصطفی کمال کے لیے " سپر اسپیس " پیدا ہوگئی ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی" کرپشن فری پاکستان " مہم بھی مصطفی کمال ، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر کی دھواں دار پریس کانفرنس، میڈیا کی عدمِ توجہ اور ناموس شانِ رسالت ماٰب پر تحریک چلانے کی وجہ سے شاید تعطل کا شکار ہو گئی۔</p> <p>حالیہ مسائل ڈاکٹر عاصم ، عزیر بلوچ، پی آئی اے اور نکیال کشمیر واقعہ ، الیکٹورل ریفارمز، نیب ریفارمز ، احتساب کا نظام ،عزیر بلوچ اور مختلف جے آئی ٹیز اور کمیشنز سب عدل کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہیں۔اس موقع پر سراج الحق کا بیان کہ" بیوروکریسی میں پھیلی کرپشن داعش اور طالبان سے زیادہ بڑا خطرہ ہے" ناچیز کے دل کو چھو کر گزر گیا۔حقیقی جمہوریت کے ستون نواز شریف کا ایک بیانیہ عموماََ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان کی عزت و ناموس کے لیے ہم سب اکھٹے ہیں کوئی سندھی پنجابی،پٹھان ،بلوچی یا کشمیری نہیں ہے ،کیا ہی خوبصورت ہو جب تمام سیاسی جماعتیں، حکمران اور انفرادی لوگ اس تدبر کے ساتھ ایک صفحے پر ہو جائیں کہ مملکتِ خداداد کو "کرپشن فری" بنانا ہے۔</p> <p>سراج الحق کی یہ مہم دیگر مہمات کی طرح بہت بڑے پیمانے پر کامیابی کے جھنڈے گاڑھتی نظرنہیں آر ہی لیکن سراج الحق کی حالیہ پریس کانفرنس نے کرپشن کے راستوں ، دروازوں ، کھڑکیوں اور صندقوں سے متعلق بہت سے راز افشا کیے وہاں حقیقت پر مبنی حیران کن انفارمیشن کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کو بھی بے نقاب کیا ہے۔اور بتایا کہ روزانہ غریب عوام کے مال پر ڈاکہ مارتے ہوئے فی ورکنگ اوور ڈیڑھ ارب روپے ،روزانہ 12 ارب روپے اور 4380 ارب سے زائد کی کرپشن سالانہ ہو رہی ہے۔</p> <p>(i پاکستان میں کرپشن پر قابو پانے کے دعوے تواتر سے کئے جارہے ہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2015ء کی رپورٹ سے غیر حقیقت پسندانہ نتائج اخذکئے جارہے ہیں ۔ گزشتہ ماہ سے حکمران اس بات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں کہ 2015ء میں پاکستان میں کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔ اس دعوے کی بنیاد ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی 2015ء کی رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 175 ممالک میں سے 116 ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔</p> <p>رپورٹ میں پاکستان کو 100 میں سے 30 نمبر دیے گئے ہیں جبکہ 2014ء میں 29 نمبر دیے گئے تھے جبکہ اگر کسی ملک کا اسکور 50 سے کم ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں کرپشن کی صورت حال سنگین ہے۔ رپورٹ کے مطابق جو ملک جتنا زیادہ کرپٹ ہوتا ہے اس کا اسکور بھی اتنا ہی کم ہوتا ہے جبکہ جس ملک کے پبلک سیکٹر کو نسبتاً کم کرپٹ یا شفاف سمجھا جاتا ہے اس کا اسکور اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے 30 کے اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا اسکور 65,بھارت کا 38 اور سری لنکا کا 37 رہا یعنی جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔</p> <p><annotation lang="en">(ii</annotation> پاکستان میں مالی اور ذہنی (انٹلیکچوئل) بدعنوانی پروان چڑھنے کی وجہ ملک میں عملاً احتساب کا نظام موجود نہ ہونا اورنیب ، سیاستدان اور سول و ملٹری بیوروکریسی بھی مک مکا، مٹی پاؤ اور مفاداتی مفاہمت پر عمل پیرا ہونا ہے اسی لیے جسٹس بھگوان داس نے چیئرمین بننے سے انکار کیا۔</p> <p><annotation lang="en">(iii</annotation> بدعنوانی دستاویزات ہونے کے وجود پاکستان سے لوٹ کر مغربی ممالک میں منتقل کرنے والی رقوم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے دعوے گزشتہ 20 برسوں سے کئے جارہے ہیں لیکن اندورنی کہانی یہ ہے کہ ستمبر 2000 ء سے اب تک 7 نیب چیئرمینوں نے ملکی کرپٹ عناصر کو وقتاً فوقتاً ایمنسٹی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا اور غلط اعدادو شمار پیش کیے۔ٹیکس اصلاحات کے ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے انتخابی منشور کے مطابق ہرطاقتور اور مضبوط اجارہ دار طبقے کی بھرپور مخالفت کی جائے گی اور مندرجہ ذیل نکات بھی پیش کیے کہ" ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا،کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے،معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا،پی آئی اے کی نج کاری نہیں کی جائے گی" ، اگر ایسے ہی ہے تو ٹیکس ایمنسٹی کس مرضی کی دوا ہے یہ بھی کالا دھن کو سفید کرنا ہے جس کا دھن 8 ہزار ارب سے بھی زیادہ ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں پہلے ہی ناکام ہو چکیں ہیں۔ بھارت میں ٹیکس اسکیم کے تحت 30 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا جسے بھار ت میں زبردست پزیرائی ملی ۔ دونوں ممالک میں واضح فرق ہمارے لیے لمحہَ فکریہ ہے۔</p> <p>چند ماہ قبل کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل اکیراو چی نے کہا تھا کہ جاپان کی تیز رفتار ترقی کا راز یہ ہے کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین تعلیمی نظام میں شمارہوتا ہے جاپان میں تعلیم جاپانی زبان میں دی جاتی ہے اور جاپانی تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپانیوں نے جن خصوصیات کو اپنایا ہوا ہے ان میں خلوص، ایمانداری اور یکسوئی سے اپنے فرائض کی انجام دہی اور نظم و ضبط اور وقت کی پابندی شامل ہیں کیونکہ ان خصوصیات کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی ٹیکنیکی مہارت حاصل کرنے کی۔</p> <p>آئین کی شق 62-63پر پورا نہ اترنے والے افراد کا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر پہنچ جانے اور ان کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی وفاقی ،صوبائی حکومتوں اور حکومتی اداروں کی ذہنی (انٹلیکچوئل) بد عنوانی بشمول اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے ہونے والے سالانہ نقصانات اور بد عنوانی ، بد انتظامی، نااہلی، بدعنوان و نا اہل افراد کی حکومتی اداروں میں تقرریوں و ترقیوں ، قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے اور شاہانہ اخراجات کی وجہ سے قومی خزانے کو ہونے والے نقصانات کا حجم لگانا ناممکن ہے ۔پاکستان میں ٹیکسوں کی سالانہ وصولی کی استعداد 8000 ارب روپے ہے جبکہ موجودہ مالی سا ل میں وصولی 3000 ارب روپے ہے ۔متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009 کے لیے 2015 میں تعلیم کی مدمیں مختص کی گئی رقوم کے حجم کاتخمینہ 1350 ؍ارب روپے ہے۔آئین کی شقوں 25 ، 37 ، 38 کے مطاق 5 سے 16 تک بچوں کو مفت تعلیم دلوانا،ہر شہری کو سستا انصاف، بنیادی سہولت غذا، علاج، مکان، تعلیم دینا ریاست کا کام ہے۔</p> <p>پاکستان میں 5-16برس کے بچوں کی کل تعداد 51 ملین جبکہ پاکستان میں بچوں کی تعداد جو اسکول جاہی نہیں رہے۔ 24 ملین(دنیا بھر میں دوسرا نمبر)۔ ملک میں قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے افراد کا تخمینہ 10 ملین جبکہ انکم ٹیکس کے سالانہ گوشواروں کی تعداد 1 ملین ( 2010ء میں یہ تعداد 1. 6 ملین تھی) ۔ ملک کے اوپر بیرونی قرضوں وذمہ داریوں کا حجم 68. 5 ؍ارب ڈالر ہے(دسمبر 2015ء )۔ بات سمندر پار پاکستانی کی یا اندورنی مگر مچھوں کی نہیں ، نہ ہی ڈیپازٹس ، باہر کے محلات، برآمدات ، در آمدات، ترسیلات، ہنڈی، حوالہ ، انڈرانوائسنگ، اوور انوائسنگ، سمگلنگ،چھوٹے بڑے ڈیموں، تجارتی خسارے،قومی تعلیمی پالیسی ، یا قرضوں کاحجم اور اعلیٰ عدالتوں میں بشمول وفاقی شرعی عدالت میں موجود سالہا سالوں سے زیرِ التوا فیصلے یہ سب عدل و انصاف سے عاری کرپشن سے بھرپور رویے ہیں جنکی بات سراج الحق نے کی یہ چیز نئی نہیں ہے کہ لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جا ئے جس سے ہماری معیشت جاپان اور چائینہ کے مقابلے میں آسکتی ہے۔</p> <p>میں سمجھتا ہوں کہ سراج الحق کو کرپشن فری پاکستان بنانے کے لیے اپنی ذاتی جدوجہد کے ساتھ قومی بیانیے کی ضرورت پڑے گی جسکے لیے انہیں دوسری پارٹیوں اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ کرپشن سے پاک پاکستان ہر پاکستانی کی آواز بلکہ عام آدمی کی خواہش ہے۔</p> </section> </body>
5409.xml
<meta> <title>جعلی علماء کیسےتیار ہوتے ہیں ؟</title> <author> <name>محمد ارشد قریشی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/18982/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1088</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جعلی علماء کیسےتیار ہوتے ہیں ؟
1,088
Yes
<body> <section> <p>مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے۔ زیرِ نظر تحریر ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ کیوں ابھی تک ہم ایک چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے ہیں؟</p> <p>یہ مضمون جولائی 2010 ءکے'اُردو ڈائجسٹ 'میں شائع ہوا تھا۔ "نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا: "آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرائوں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔"نواب صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔</p> <p>دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: "ہم کل صبح چلیں گے" لیکن میری موٹر میں'موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔ اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔</p> <p>اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :"بس منزل آنے والی ہے۔"آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: "یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں "۔</p> <p>راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :"یاد رکھیں 'کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔" عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں "السلام علیکم" کہا۔دوسرے نے "وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟"نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔</p> <p>چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ،دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے ،عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔</p> <p>انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور داڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔ایک استاد نے سوال کیا،پہلے عربی پھر انگریزی اور آخر میں نہایت شستہ اردو میں!"جماعت اب یہ بتائے کہ جادو ،نظربد،تعویذ ،گنڈہ آسیب کا سایہ برحق ہے یا نہیں ؟"پینتیس چالیس کی جماعت بہ یک آواز پہلے انگریزی میں بولی <annotation lang="en">TRUE,TRUE</annotation> پھر عربی میں یہی جواب دیا اور اردو میں! ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر سوال کیا: "الاستاد ،قرآن تو کہتا ہے ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔"استاد بولے: "قرآن کی بات مت کرو،روایات اور ورد میں مسلمان کا ایمان پکا کرو۔ستاروں ،ہاتھ کی لکیروں ،مقدراور نصیب میں انہیں اُلجھاو۔"</p> <p>یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: "اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟"انگریز نے کہا: "ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں،تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوںخصوصاًمشرق وسطیٰ،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں</p> <p>۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ مؤذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔"</p> <p>نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس' عظیم مدرسے' کے بنیادی اہداف یہ ہیں:</p> <p>( ۱ ) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔</p> <p>( ۲ ) حضوراکرم ﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اس کی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔</p> </section> </body>
5410.xml
<meta> <title>دینی مدارس بانجھ ہوچکے ہیں</title> <author> <name>جاوید الرحمٰن</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19015/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>493</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دینی مدارس بانجھ ہوچکے ہیں
493
No
<body> <section> <p>نیوزٹی وی کا اینکرپرسن ملک کے ایک بڑے دینی مدرسے کے مہتمم سے انٹرویو کر رہے تھے ، سوال جواب کی یہ نشست لمبی اوراس کی تفصیل کافی طویل ہے لیکن جس سوال وجواب نے مجھے یہ جملے لکھنے پرمجبور کیا وہ یہ تھے !</p> <p>اینکر : مدارس میں جدید علوم کیوں نہیں پڑھائے جاتے ؟ تاکہ معاشرے کو ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر کار آمد افراد مل سکیں ؟</p> <p>مہتمم صاحب : مدارس کا کام دین پڑھانا ہے اور ہم اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں ، ہر سال ہزاروں افراد مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر عالم دین کی سند حاصل کر رہے ہیں ۔ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ڈائو میڈیکل کالج ، سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی اور دائود انجینئرنگ سے عالم دین کیوں نہیں نکلتے؟ یا بالفاظ دیگر اگر میں پوچھوں کہ ڈائو میڈیکل کالج سےانجینئر اور سرسید انجینئرنگ سے ڈاکٹر کیوں نہیں نکلتے ؟ تو آپ کا جواب یہی ہوگا کہ ڈائو میڈیکل کا کام ڈاکٹر اور سرسید انجینئرنگ کا کام انجینئر بنانا ہے، جس ادارے کا جو کام ہے وہ اسے پورا کر رہا ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جس طرح ڈائومیڈیکل اورسرسیدانجینئرنگ یونیورسٹی کا کام قوم کو ڈاکٹر اور انجینئر دینا ہے اسی طرح مدارس دینیہ کا کام قوم کومفتیان اورعلماکرام دینا ہے تاکہ یہ لوگ دینی حوالے سے قوم کی رہنمائی کرسکیں ۔</p> <p>علما کرام اوربالخصوص اہل مدارس یقینا اپنی تاریخ بھول گئے تبھی تو الفاظ کے ہیرپھیر سے عقلی دلائل اورسطحی سی باتیں کرکے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ مسلمانوں کی تاریخ میں جتنے بھی حکما، سائنسدان، انجینئر، ماہرین فلکیات ، ریاضی دان ، فلاسفر گز ر ے سب کا تعلق اپنے زمانے کے دینی مدارس سے رہا اور انہیں مدارس سے انہوں سے تعلیم حاصل کی۔</p> <p>خالد بن یزید ، ذکریا رازی ، ابن سینا ، خوارزمی ، ابوریحان البیرونی ، الفاربی ، ابن مسکویہ ، ابن رشد ، کندی ، ابومحمد خوحبدی ، جابربن حیان اور موسی بن شاکر ویگر مسلمان محققین مدارس کے ہی فارغ التحصیل اورعلما کرام ہی تھے ، ان حضرات نے قرآن وحدیث اور اس زمانے کے مروجہ علوم پراتنی تحقیق کیں کہ ان کی ایجاد ، دریافت اور تحقیق ہی ان کی" وجہ شناخت " بن گئی ۔ انہی محققین کی تحقیق آج اہل مغرب کے لئے ہرعلم وفن میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔</p> <p>یہ الگ بحث ہے کہ اس زمانے میں ریاستیں ،حکمران وقت مدارس کی سرپرستی کرتے تھے ، تاریخ کا مطالعہ بتاتی ہے کہ علماکرام کا شمار حکمرانوں کے مصاحبین میں ہوتا تھا یا کم ازکم بادشاہوں کے درباروں اپنے اپنے فن کے ماہرعلماکرام ضرورموجود ہوتے تھے۔ لیکن آج مدارس معاشرے کو علماکے علاوہ کچھ اوردینے سے بالکل قاصر ہیں ،ان علما کی تھان فراغت کے بعد کسی مسجد کی امامت وخطابت اور کسی مدرسے یا اسکول میں عربی کی تدریس پر ہی ٹوٹتی ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔</p> <p>اہل مدارس کوتسلیم کرنا ہوگا کہ مدارس بانجھ ہوچکے ہیں</p> </section> </body>
5411.xml
<meta> <title>پشتو اور سندھی کا عالمی زبانوں میں کمپیوٹر سےترجمہ ممکن</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19025/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>238</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پشتو اور سندھی کا عالمی زبانوں میں کمپیوٹر سےترجمہ ممکن
238
No
<body> <section> <p>اسلام آباد (نیوز ڈیسک)اگر تو آپ سندھی یا پشتو زبان کو کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا چاہے تو اب زیادہ مشکل کی ضرورت نہیں گوگل کا رخ کریں۔ جی ہاں گوگل ٹرانسلیشن میں مزید 13 زبانوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان میں پشتو، سندھی، کرگیز، فریسین (ڈنمارک، جرمنی اور نیدرلینڈ)، ہوائین، کردش، ساموان، اسکاٹ گائی لیک، سوہنا، امھارک، کورسیشن اور ژہوسا شامل ہیں۔ گوگل کا کہنا ہے کہ اب اس کی ٹرانسلیشن ایپ یا ڈیسک ٹاپ سائٹ پر اب 103 زبانیں دستیاب ہیں جو آن لائن استعمال ہونے والی 99 فیصد زبانوں کو کور کرتی ہیں۔ گوگل کا کہنا تھا کہ کسی زبان کا اضافہ کرنے کے لیے آن لائن اس کے ترجمے کو تلاش کیا جاتا ہے پھر گوگل ان تحریروں کو اسکین اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ذریعے اس کے پیٹرن کی شناخت کا کام کرتا ہے۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اس ایپ یا سروس کو انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو رضاکارانہ طور پر ترجمے کے حوالے سے تجاویز اور اصطلاحات سے آگاہ کرتے ہیں جس کی تصدیق دیگر افراد سے کی جاتی ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ نئی زبانوں کا اضافہ 120 ملین افراد کے لیے فائدہ مند ہوگا جو ایشیاءسے لے کر افریقہ، یورپ اور جزیرہ ہوائی میں رہتے ہیں۔ گوگل نے سندھی اور پشتو سمیت تمام نئی زبانوں کے بولنے والوں سے درخواست کی ہے کہ ترجمے کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور تعاون کریں۔</p> </section> </body>
5412.xml
<meta> <title>شہباز تاثیر کی بازیابی تاوان دے کر ہوئی یا آپریشن سے؟</title> <author> <name>علی شیر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19039/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1172</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
شہباز تاثیر کی بازیابی تاوان دے کر ہوئی یا آپریشن سے؟
1,172
No
<body> <section> <p>سابق مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کی پراسرار رہائی،پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کے ہاتھوں اغواء ہونے والے کئی بڑے واقعات میں سے ایک حل تو ہوگیامگر معمہ اور بڑھ گیاکیونکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سیکیورٹی آپریشن کی تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے میڈیا پر آپریشن کے حوالے سے چلنے والی خبروں کا نوٹس لے لیا ہے ۔</p> <p>شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے دوارب روپے کا تاوان اور پندرہ قیدی مانگے گئے تھے،معاملہ کیسے حل ہوا ابھی اس پر پراسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے،دوسال پہلے شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے ڈیل کرانے والا ایک ملزم چوہنگ ٹارچر سیل میں قید ہے ۔</p> <p>آئی بی سی اردو کے ذرائع کے مطابق شہباز تاثیر کی بازیابی کے لیے 50 کروڑ تاوان ادا کیا گیا تاہم یہ تاوان کس کئ ذریعے اور کس کو ادا کیا گیا ، اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔</p> <p>دوسری طرف کچلاک کے ہوٹل ملازمین نے شہباز تاثیر کے کھانا کھانے بل ادا کرنے اور لاہور فون کرنے کا کہہ کر کئی اور سوالات کو جنم دے دیا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کہیں شہباز تاثیر بھی برطانوی صحافی ایوین ریڈلے والا کردار تو ادا نہیں کردے گا؟</p> <p>نائن الیون کے بعد جب سے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکی جنگ میں پاکستان کو دھکیلا تو افغانستان اور پاکستان میں عسکریت پسندوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے متعدد اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات کو اغواء کرنا شروع کردیا، اکثر کے بدلے بھاری تاوان لیا جاتا رہا اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کئے جاتے رہے جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رقم اور قیدی رہا ہوتے رہے۔</p> <p>پاکستان کے شہر لاہور سے تین بڑے اغواء ہوئے جن میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کے داماد ملک عامر،امریکی کنٹریکٹر وائرن وائن سٹائن اور سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر شامل ہیں۔</p> <p>ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اغواء ہوئے۔</p> <p>اسلام آباد سے کرنل امیر تارڑ المعروف کرنل امام اور آئی ایس آئی و پاکستان ایئرفورس کے سابق اہلکار خالد خواجہ ،عثمان پنجابی کے چکمے میں آگئے اور شمالی وزیر ستان گئے اور طویل عرصہ رکھنے کے بعد دونوں کو قتل کردیا گیا۔خالد خواجہ کی لاش پھینک دی گئی مگر کرنل امام کے قتل کی ویڈیوتو جاری کی گئی مگر ان کی لاش آج تک ورثاء یا حکومت کے حوالے نہیں کی گئی۔</p> <p>سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی بھی تاحال بازیاب نہیں ہوسکے حالانکہ انہوں نے مولانا سمیع الحق کے ذریعے کافی کوششیں کی ہیں ۔</p> <p>لاہور سے اغواء ہونے والے امریکی شہری وائرن وائن سٹائن کو مبینہ طورپر قتل کیا جاچکا ہے بعض اطلاعات کے مطابق ان کی ہلاکت امریکی ڈرون کے نتیجے میں ہوئی ہے ،ان کی ہلاکت کا اعلان خود امریکی صدر باراک اوبامہ نے کیا تھا ۔</p> <p>لاہور سے اغواء ہونے والے ملک عامر رہا ہوچکے ہیں ان کی رہائی بھی پراسراریت میں تاحال دبی پڑی ہے اور کھل کر حقائق سامنے نہیں آسکے ہیں ۔</p> <p>شہباز تاثیر کی ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں مگر زیادہ باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز تاثیر کو عسکریت پسندوں نے ابتداء میں ہی نے افغانستان منتقل کردیا تھا اس لیے وہ ڈرون حملوں سے محفوظ رہے اور اب رہا ہوئے ہیں ۔</p> <p>ان کی اور علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو خصوصی ہدایات دی تھیں ،شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد علی حیدر گیلانی کی بازیابی بھی متوقع ہے۔</p> <p>ذرائع کے مطابق تقریباً دوسال قبل عسکریت پسندوں سے رابطے میں رہنے اور وہاں آنے جانے والے کچھ عسکریت پسندوں کے ذریعے سلمان تاثیر خاندان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان ڈیل کی کوشش ہوئی تھی جس میں طالبان نے دوارب روپے تاوان مانگا تھا اور پندرہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ۔</p> <p>اس وقت یہ ڈیل پیسوں کی حد تک تیار تھی مگر جن قیدیوں کی رہائی کا طالبان مطالبہ کررہے تھے وہ سیکیورٹی اداروں رہا نہیں کرنا چاہتے تھے جس کے بعد یہ ڈیل اس وقت سرے نہ چڑھ سکی،اس وقت ڈیل کرانے والے ذرائع نے شہباز تاثیر کے بارے میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان میں امریکی شہری وائن سٹائن کے ساتھ ڈرون حملے میں مارا گیا ہے ،اس طرح وقتی طورپر یہ رابطہ بند ہوگیا،</p> <p>کچھ عرصہ بعد یہ رابطہ کار پنجاب کے ایک اقلیتی ایم پی اے کے اغواء کرانے اور ڈیل کرانے کے الزام میں دھر لیا گیا اور اب وہ چوہنگ ٹارچر سیل میں قید ہے ۔</p> <p>شہباز تاثیر کی مبینہ طورپر جس طرح گزشتہ روز رہائی ہوئی ہے اس پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ،جن میں حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے سیکیورٹی آپریشن میں شہباز تاثیر کو بازیاب کرایا ہے جبکہ کچلاک کے ایک ہوٹل کے ملازمین نے میڈیا کو بتایا ہے کہ شہباز تاثیر کی شکل داڑھی بڑھی ہوئی اور پریشان حال ایک نوجوان آیا اس نے گوشت(روش) کا آرڈر دیا اس کا بل ساڑھے تین سو روپے ادا کیا اور پھر لاہور فون کرنے کے لیے موبائل مانگا جو انہیں دیا گیا تو اندازہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ ضرور کوئی مسئلہ ہے ۔</p> <p>ادھر چوہدری نثار علی خان نے آپریشن کی تفصیلات پھر کبھی بتانے کا کہہ کر بات ٹال دی ہے،اس سے مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہیں شہباز تاثیر بھی برطانوی صحافی ایوین ریڈلے والا کام نہ کردیں اور حکومتی دعوؤں کو غلط قرار نہ دے دیں ۔</p> <p>بہر حال شہباز تاثیر کی بازیابی کے انداز اور دعووں نے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے وضاحت ضرور ہے ۔</p> <p>پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے شہبازتاثیر کی بازیابی کے بعد انکے اغواء کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔</p> <p>ذرائع کے مطابق شہباز تاثیر اغوا کیس کی دوبارہ تحقیقات کیلئے پولیس نےتاثیر فیملی سے رابطہ کرلیا ہے ۔یہ جے آئی ٹی شہبازتاثیر کا بیان بھی ریکارڈ کریگی جس کی روشنی میں تحقیقات آگے بڑھائی جائیں گی۔</p> <p>ذرائع کے مطابق بیان ریکارڈ ہونے کے دوران اغواکاروں کے خاکے بھی بنوائے جائیں گے ۔</p> <p>وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار نے شہباز تاثیر کی رہائی کے معاملہ پر غلط معلومات دینے کا نوٹس لیتے ہوئے اسپیشل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔</p> <p>وزارت داخلہ کے اعلامیہ کے مطابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ ہمیں قوم کے سامنےسچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ آئی جی پولیس بلوچستان نے انہیں یہ خبر کیوں دی کہ شہباز تاثیر ایک آپریشن کے ذریعے بازیاب ہوئے جبکہ اصل واقعات اس کے برعکس تھے۔</p> <p>اعلامیہ کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اسپیشل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کو دو دن میں اپنی رپورٹ وزیرِداخلہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔</p> <p>تحقیقاتی کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی نیشنل کرائسسزمنیجمنٹ سیل بھی شامل ہیں۔</p> </section> </body>
5413.xml
<meta> <title>بلوچ، ثقافت اور بغاوت کی ایک کہانی</title> <author> <name>کامریڈ فاروق بلوچ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19051/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>822</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بلوچ، ثقافت اور بغاوت کی ایک کہانی
822
No
<body> <section> <p>کیا آج ہم لوگ بلوچستان کا سفر ایسے کر سکتے ہیں جیسے ہم ملتان سے لاہور جا رہے ہوں؟ اگر نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟ کیا بلوچستان کسی شجرِ ممنوعہ کا نام ہے؟ کیا ہم بلوچستان کو زیرِ بحث نہیں لا سکتے؟ کیا بلوچستان کا ذکر کرنا غیراسلامی یا کوئی غیرسنجیدہ موضوع ہے؟ کہیں بلوچستان کو زیرِ بحث لانا کوئی ایک "نان ایشو" ہے؟ یا پھر بلوچستان پہ بات کرنا واقعی ریاست مخالف پیرایہ ہے؟ اگر میرے سوالات غیر ضروری ہیں تو پھر مجھے اِس بات کا جواب چاہیے کہ ہم بلوچستان کے کسی شہر کی طرف عازمِ سفر کیوں نہیں ہوسکتے جیسے ہم فیصل آباد سے اسلام آباد کا دورہ کرتے ہیں؟ آخر کیوں اور آخر کب تلک؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ سنگلاخ بلوچستان درحقیقت پاکستان، ایران اور افغانستان سمیت پورے خطے کے سیاسی وجود پر رستا ہوا زخم بن چکا ہے؟ کیا بلوچستان میں مسلح بغاوت اور فوجی آپریشن آج بھی جاری نہیں ہیں؟ کیا قیام پاکستان کے بعد سے ہی بلوچستان انتشار اور سرکشی کا محور و مرکز نہیں ہے؟ کیا بلوچستان سے اجتماعی قبروں کی آنے والی خبریں غلط ہیں؟ کیا کراچی اور بلوچستان سے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد نہیں ہوتیں؟ کیا اٹھارہ ہزار لاپتہ بلوچوں کا معاملہ اِس نظام اور اِس ریاست پہ سوالات نہیں اٹھاتا؟ کیا فرقہ وارانہ منافرت کا منافع بخش کاروبار ہزارہ اور شیعہ آبادی سمیت تمام بلوچوں اور پشتونوں کی زندگی کو عذاب نہیں بنا رہا ہے؟ کیا ایرانی مُلا اشرافیہ اور آلِ سعود کی بادشاہت بلوچستان کی آگ میں تیل نہیں اُنڈیل رہے ہیں؟ کیا علاقائی اور دوسری عالمی طاقتوں نے بلوچستان کی سرزمین کو پراکسی جنگ سے برباد نہیں کیا ہوا؟ کیا امریکہ، چین، روس اور بھارت کے سامراجی گدھ بلوچستان کی لوٹ مار کے لئے ریاست اور قوم پرست قیادت میں شراکت دار ڈھونڈتے نظر نہیں آتے ہیں؟</p> <p>مجھے دو مارچ کو منائے جانے والے "بلوچ کلچر ڈے" نے اِس موضوع پہ قلم اٹھانے پہ مجبور کر دیا ہے. سروں پہ بلوچ پگڑی سجا کر یا بلوچ روایتی لباس زیب تن کرنے سے یا پھر بلوچوں کی روایتی داڑھی مونچھوں سے "بلوچ کلچر ڈے" منایا گیا. حتی کہ کراچی کے امریکی قونصل خانے کے عملے نے بھی یہی حلیہ اپنا کر "بلوچ کلچر ڈے" منایا. روایتی رقص پیش کرکے یا پھر کسی بلوچی سُر گیت پہ تلوار بازی کرکے "بلوچ کلچر ڈے" منا دیا گیا؟ اگر دومارچ کو بلوچ کلچر ڈے کی بجائے "بلوچ رائٹس ڈے" منایا جاتا تو کیا یہی جوش و خروش نظر آتا؟ کیا یہ ننگی منافقت کا مظاہرہ نہیں ہے؟ کیا یہ بلوچستان کے جلتے ہو حالات کے ساتھ شرمناک حد تک مذاق نہیں ہے؟ میں ذاتی طور پر خوشیاں منانے اور رنگ بانٹنے کا مخالف نہیں ہوں مگر منافقت کا کسی طور بھی قائل نہیں. ایک طرف آگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف مُردہ جسموں پہ پگڑیاں و روایتی لباس سجانے کی کوشش کی جارہی ہے. ایک طرف چہروں کو آنسوؤں سے تَر کیا جارہا ہے اور اُسی لمحے اُنہی چہروں پہ غازہ مَلا جا رہا ہے. ثقافتی رنگ بکھیرئیے مگر حقیقت میں، جھوٹ موٹ میں نہیں. ایک طرف نسل کُشی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو اور لگے ہاتھ بلوچ کلچر ڈے کا ڈھونگ بھی رچا لیا گیا!</p> <p>ماضی میں ملکی توانائی کی ضروریات کا ایک تہائی فراہم کرنے والی سوئی گیس کا معاملہ بلوچ عوام میں محرومی اور رنجش کے جذبات کی بڑی وجہ رہا ہے. لیکن علاقے میں معدنیات کے حوالے سے لگائے جانے والے نئے تخمینوں نے سامراجی قوتوں کی ہوس اور نتیجے میں ہونے والی خون ریزی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ کیا سینڈک پر قابض چینی کارپوریشن پندرہ ہزار ٹن روزانہ کے حساب سے کچ دھات نہیں نکالتی رہی ہے؟ لیکن کیا منصوبے کے ریونیو میں صوبائی حکومت کا شیئر صرف دو فیصد نہیں تھا؟ مجھے اِس بات کا بھی جواب دیجیے کہ کرپٹ معیشت، سیاست اور ریاست میں اُس دو فیصد کا کتنا حصہ بلوچ عوام تک پہنچا ہو گا؟ کیا معدنیات کی کان کنی کے دوسرے منصوبے اِسی صورتحال کا شکار نہیں ہیں؟ کیا پاکستانی عوام اور بلوچستانی عوام کے لئے انتہائی فائدہ مند ریکوڈک منصوبہ جہاں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن خالص تانبے اور دو کروڑ دس لاکھ اونس سونے کی موجودگی کا تخمینہ لگایا گیا، دو طرفہ کشیدگی اور بلوچ اشرافیہ کے داخلی تضادات کو مزید بھڑکانے کا سبب نہیں بن رہا؟</p> <p>جس بلوچ ثقافت کا دِن جوش و خروش سے منایا گیا، اُسی ثقافت کے امین کے عوام اتھاہ محرومی، غربت اور بیروزگاری کی ذلتوں سے دوچار ہیں۔ سب سے زیادہ معدنی زخائر رکھنے والے اس خطے کے سماجی اعشارئیے سب سے پست ہیں۔ بلوچستان میں زندگی ایک سزا سے کم نہیں ہے. اصلاحاتی پیکج، آئینی ترامیم اور ثقافتی دن منا کر عوام فریب دینا بند ہونا چاہیے. جس خطے میں سامراجی قوتوں کو لسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت کے بیج بونے کی کُھلی آذادی ہو وہاں بغاوتیں پنپتی ہیں، ثقافتیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتی ہیں.</p> </section> </body>
5414.xml
<meta> <title>پاکستانی علماء کے نزدیک داعش کیا ہے؟</title> <author> <name>تنویراحمداعوان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19055/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2262</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستانی علماء کے نزدیک داعش کیا ہے؟
2,262
No
<body> <section> <p>گزشتہ چند سالوں سے چند عالمی منظر نا مہ میں اور بالخصوص مشرق وسطی میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، عربی بہار،مصر میں فوجی حکومت کا قیام،یمن ،عراق اور شام میں دہشت و وحشت،ایران اور سعودیہ کہ باہم کشمکش اور بالخصوص داعش کا زمینی حقائق کے برعکس غیر معمولی حیثیت سے خلافت کا پرکشش لبادہ اوڑھ کر ابھرنا ،پرتشدد واقعات سے شہرت حاصل کرکے پوری دنیا پر تسلط حاصل کے دعویٰ کرنا،جہاں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیر مسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے،</p> <p>اس حوالے سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مسلمان جہاں بھی ہوں اس ملک کے لیے یکسو ہوکر اپنی صلاحیتوں کو بروکار لا سکیں۔</p> <p>معروف مذہبی سکالر مولانا سید سلمان الحسینی ندوی داعش کے حوالے سے تحقیق رکھتے ہیں پندرہ روزہ رسالہ "بانگ درا" میں لکھتے ہیں کہ</p> <p>"داعش "الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام کا مخفف ہے،یہ نام 2013 ؁ اس وقت متعارف ہوا جب القاعدہ کی عراقی شاخ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق (جس نے 2006 ؁ سے یہ نام اختیار کر رکھا تھا)کے امیرابوبکر(ابراہیم بن عواد ) بغدادی نے ابو محمد الجولانی کو شام میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ،جس نے "جبھۃ النصر ۃ "کے نام سے جہادی تنظیم قائم کرکے کاروائیاں شروع کیں،لیکن شام میں انکی وابستگی عراقی تنظیم سے کٹ کر اصل مرکزی تنظیم القاعدہ کے ساتھ قائم ہو گئی،تو عراقی تنظیم نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا ،اور اپنادائرہ کار شام تک وسیع کردیااور 2013 ؁میں داعش یعنی" عراق وشام کی اسلامی حکومت "کا اعلان کردیا۔جب کہ ابو محمد الجولانی "جبھۃ النصرۃ " کے تحت القاعدہ کے امیر ایمن الظواھری کے ماتحت کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں،داعش نے جبھۃ النصرۃ اور دیگر تنظیموں کیخلاف اپنی کاروائیاں جارہی رکھی ہوئی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب،ترکی ،عرب امارات یا قطر وغیرہ سے ہے،کیونکہ ان کے نزدیک یہ ساری تنظیمیں ظالم حکمرانوں کی آلہ کار ہیں(بانگ درا۔جنوری 2016 )</p> <p>داعش نے یکم رمضان المبارک 1435 ؁ھ بمطابق 29 جون 2014 ؁ کو خلافت اسلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام دولت اسلامیہ تک محددو کرلیا،جب کے شام کے ضلع حلب سے عراقی ضلع دیالی تک یعنی عراق وشام کا ایک تہائی علاقہ اپنے زیر کنٹرول کرکے اپنا پاسپورٹ اور کرنسی کا باقاعدہ اجراء بھی کیا،عراق کے سب سے بڑے موصل ڈیم اورا ئل ریفارئنریز،حمص کے نیچرل گیس سنٹر کے علاوہ بغداد کے قصبہ جات پر قبضہ کرنے سے داعش کی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔یہ ایک حیران کن امر ہے کہ داعش کو ملنے والی کامیابیاں زمینی وجود سے کہیں بڑھ کر ہیں،شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام کا راستہ دیا گیاتھاکہ وہ ان جہادیوں پر ہی حملے کرکے ،جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔</p> <p>یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ داعش ،مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے،جن میں عالمی جارجیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے،ایک طرف قوتیں جاسوسی کے ذریعے ان مختلف خیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکیں۔۔</p> <p>مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی اپنے کالم "تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ " داعش کی حقیقت کو یوں لکھتے ہیں،داعش اس وقت دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے اور اس کے بارے میں ہر سطح پر بحث و تمحیص اور گرمیء افکار کا سلسلہ جاری ہے،یہ تنظیم عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشارالاسد کی ان فرقہ وارانہ پالیسیوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک عرصہ سے مسلح جدوجہد میں مصروف جنگجوؤں پر مشتمل ہے، جن کا بین الاقوامی حلقوں میں مسلسل اعتراف کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ نوری المالکی نے اپنے دور میں فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لئے عراق کی ایک بڑی آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔</p> <p>داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلا میہ کے احیاء کے لیے برسر پیکار ہیں ،جو اس کے بقول عراق و شام میں قائم ہوچکی ہے،اور وہ اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلانا چاہتی ہے،اسے عراق وشام کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہے،اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور توسیع دینے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہی ہے۔تکفیر وقتال اس کے خصوصی عنوانا ت ہیں،داعش کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے رہا یا ان کے خیالات میں ان کے مخالف حکمرانوں کی تائید کا سبب بن رہے ہیں ،وہ نہ صر ف کافر ہیں بلکہ واجب القتال ہیں، چنانچہ مبینہ طور پر بے شمار مسلمان اس تکفیر و قتال کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔</p> <p>ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ تکفیر اور قتال کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتے تو اپنے بنیادی اہداف یعنی خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ میں اہلسنت کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی مہم میں انہیں عالم اسلام میں معقول حمایت حاصل ہوسکتی تھی مگر دہشت گردی اور تکفیر وقتال کا راستہ اختیار کرنے پر وہ امت مسلمہ کے کسی بھی سنجیدہ طبقہ کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں،چنانچہ ان کی ،مذمت اور انکے خلاف کاروائیوں میں امت مسلمہ بھی باقی دنیا کے ساتھ برابر کی شریک دیکھائی سے رہی ہے۔</p> <p>تکفیر اور اس پر مبنی قتال کا یہ فتنہ نیا نہیں ہے،بلکہ قرن اول سے چلا آ رہا ہے،جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے خلاف بغاوت کرنے والے "خوارج"نے بھی تکفیر و قتال کے عنوان پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کے بیشتر حصوں میں اس کا شر اور فساد کا دائرہ پھیلا دیا تھا،وہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کو تو کافرکہتے ہی تھے مگر جنگ صفین میں حضرت علی و حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان ہونے والی تحکیم (صلح کے مذاکرات)سے برأت نہ کرنے والوں کو بھی کافر کہتے تھے ، حتیٰ کہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کاارتکاب کرنے والے عام مسلمان مسلمان بھی دائرہ اسلام سے خارج تھے اور وہ صرف تکفیر تک محدود نہ تھے بلکہ واجب القتل بھی سمجھتے تھے،بصرہ شہر پر قبضہ کے بعد انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو اسی وجہ سے شہید کردیا تھا اور جب ان کا قبضہ کوفہ پر ہوا تو انہوں نے کوفہ کی آبادی کو قتل کا اعلان کردیا تھا اور امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو گرفتار کرکے خارجیوں کے کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تھا،یہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا حوصلہ و تدبر اور حکمت عملی تھی کہ نہ صرف خود کو بلکہ کوفہ کے عام مسلمانوں کو بھی ضحاک خارجی کی طرف سے قتل عام کے اعلان پر عملدرآمد سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔</p> <p>تکفیر و قتال کے اس فتنے نے اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں اس طرح کا حشر بپا کیا تھاملک کو اسلامی ریاست بنانے کے دعوے کے ساتھ ہتھیاراٹھانے والے گروہوں نے دس سال کے اندرایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری مسلمانوں کوباہمی قتل وقتال کی بھینٹ چڑھا دیا تھا اوراب یہ فتنہ پورے مشرق وسطٰی کواپنی لپیٹ میں لینے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس سب کچھ کے بعدبھی اکابر اہلسنت نے تکفیر وقتال کی اس روش براٗت اور اس کی شدید مذ مت کے باوجود ان خوارج کوکافر قرار دینے سے گریز کیا ہے امام اعظم امام ابو حنیفہ خود اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے بنتے بچے تھے مگرجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟تو انہوں نے کفر کا حکم لگانے سے انکار کیااور فرمایا کہ یہ ظالم اور باغی ہیں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے لکھا ہے کہ جمہور فقہاء و محدثین نے ان خوارج کو کافر کے بجائے فاسق و فاجر اور باغی قراردیا ہے البتہ بعض محدثین نے ان کی تکفیر بھی کی ہے۔(از اقتباس کالم روزنامہ اسلام 12 دسمبر 2015 )</p> <p>معروف مذہبی سکالر اور کالم نگار مولانا محمد ازہر صاحب اپنی تحریر "داعش کی حقیقت "میں لکھتے ہیں کہ</p> <p>"اسلامی ریاست کے قیام کا دعویٰ کرنے والی یہ تنظیم اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آے دن کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتی ہے ،جانوروں کی طرح انسانوں کو ذبح کرنا ،ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمائش کرنا، زندہ انسانوں کوبلند عمارت سے سر کے بل نیچے پھینکنا ،پنجرے میں بند کر کے پانی میں ڈبو دینا، گردن کے ساتھ با رودی مواد باندھ کر اُڑا دینا غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کے ایک سفاکانہ طریقے سے لوگوں کی جانیں لینا داعش کا معمول اور تعارف بن چکا ہے ۔داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں ان مظالم کی انتہائی مہارت سے فلم بنائی جاتی ہے اور پھردنیا کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے ۔مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ارتداد کی وجہ ان کا بیعت سے انکار یا باطل نظام کا حصے داریادشمن کا ایجنٹ ہونا بتلایا جاتا ہے ۔</p> <p>داعش کے عزائم اور مقاصد کیا ہیں؟اس کے متعلق کویت کے مشہور عربی رسالہ المجتمع میں ایک رپوٹ شائع ہوئی جس کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں کو نائن الیون واقعہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تو انہوں نے کلی طور پر دنیا کے نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے داعش کو تیار کیا ہے ،جو عالم عرب میں بسنے والے مسلمانوں کومسلکی بنیاد پر کافر و مرتد قرار دیکراس وقت تک قتل کرنا بند نہ کرے جب تک مشرق وسطیٰ کا لفظ نقشہ سے ختم نہ ہو جائے، دوسری طرف داعش کو اتنا طاقتوربنا دیاجائے کہ وہ ان ممالک کو بھی نشانہ بنائے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں، فرانس میں داعش کے ذریعے جوحملہ کرایا گیااس میں پُرامن شہریوں کو نشانہ بنایا گیاامریکہ واسرائیل کو اس سے حملہ سے ذرا برابر نقصان نہیں پہنچالیکن پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے لہذادنیا کے سارے مسلمان قاتل اور مجرم ہیں۔</p> <p>داعش نے اپنے قیام( 2013 )کے بعدابتدائی طور پر عرب حکومتوں کے ساتھ امریکااور مغربی طاقتوں کے ظلم وسفاکی کی بھرپور مذمت کی اورعراق وشام میں اہل سنت کے خلاف حکمرانوں کے ظلم اور نسل کشی کو ہدف بنا کر نوجوانوں میں جذبہ انتقام پیدا کیا،یہ پروپیگنڈا صرف عرب ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی اور دوسرے ممالک میں بھی کیاگیا جہاں مسلمان خاصی تعداد میں ہیں چنانچہ چیچنیا ،داغستان، آزربائیجان اور ترکمانستان سے بھی بڑی تعدادمیں داعش میں شامل ہونے کے لئے شام چلےگئے مگر یہ ہوا کہ اہلسنت کو حکمرانوں کے ظلم وستم سے بچانے کا نعرہ لگانے والی داعش نے عملاً اہلسنت کے خلاف اقدامات شروع کر دئیے ،چنانچہ اس نے آتے ہی عراقی وشامی حکومتوں( دونوں میں امریکہ اور روس کے حمایت یافتہ اور سو فیصد اہل تشیع لوگ ہیں) میں فوری طور پر ایسے تمام افراد کو ختم کردیا جو مستقبل میں ان حکومتوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتیں تھے۔</p> <p>داعش نے جن لوگو ں کو میدان عمل سے غائب کیا ان میں(الف)شام میں بشار الاسد کے خلاف جتنی جماعتیں مسلح ہو کر مقابلہ کررہی تھیں،انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔(ب)مساجد کے ائمہ ،خطباء اور علمائے دین کو قتل کیا جو داعش کی فکر کے خلاف تھے۔(د)دولت مند ،شرفاء،معززین شہر،یونیورسٹیز اور کالجز کے پروفیسر، مفسرین و محدثین کرام ،دینی علوم کی تدریس کرنے اولے اساتذہ اور سماجی شخصیات،سائنس دانوں اور انجینئروں اور ایٹمی توانائی کے ماہرین کو نشانہ بنا کر ختم کیا، یہ سب کے سب اہل سنت تھے۔</p> <p>شام میں چار سال سے اسدی فوج کے خلاف جو لوگ جنگ کر رہے ہیں، داعش نے اپنے اقدامات سے ان کو فوجی ، سیاسی اور مالی لحاظ سے کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ، داعش نے غیر معمولی تشدد ، انتہاپسندی اور تکفیری طرز عمل کی وجہ سے پوری دنیا کے جذباتی مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے،انتہائی اشتعال انگیز انداز میں تقریریں سنا کر نوجوانوں کے جذبات کو گرم اور ان کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا جاتا ہے،اسلامی خلافت کے قیام کے سہانے خواب دکھا کر انہیں ایسا نشہ پلا یا جاتا ہے کہ وہ شیطان سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔</p> <p>داعش کی ان سرگرمیوں نے بہت سے سوال پیدا کر دیئے ہیں ،مثلاتنظیم نے آج تک بشار الاسد کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا ؟ جب کہ شام کے عوام چار سال سے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔شام اور عراق میں اہل سنت کے اکثریتی علاقوں کو تنظیم نے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا ، ان علاقوں کے قائدین ،زعماء،علماء و مشائخ کو ہدف بنا کر کیوں قتل کیا گیا؟</p> <p>ان معروضات کے پیش نظر مہ داعش کو ایک انتہا پسند ،متشدد اور مسلم دشمن طاقتوں کی آلہ کار تنظیم سمجھتے ہیں،اس کے اب تک کیے گے اقدامات قرآن و سنت کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہیں۔(روزنامہ اسلام۔ 24 جنوری 2016 )</p> <p>داعش کی متنازعہ حیثیت کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں اخوان کے بزرگ راہنماعلامہ یوسف قرضاوی،اخوان المسلمین اور اس کی حامی جماعتیں ،عراق،اردن،مراکش،پاکستان ،ہندوستان اور پورپین ممالک کی علماء کونسلیں شامل ہیں۔ سعودی مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج ہی کی ایک شکل ہے جنہوں نے قرن اوّل میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کرکے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔</p> <p>موجودہ حالات میں جہاں مسلم نوجوان داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس عزم وعہد کی بھی تجدید ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات اور معاشرت کو اپنائے بغیر ہم اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکیں گے۔</p> </section> </body>
5415.xml
<meta> <title>جیسے وہ ویسے ہم</title> <author> <name>محمد انتصارالحق</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19059/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1610</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جیسے وہ ویسے ہم
1,610
Yes
<body> <section> <p>" الناس علی دین الملوکھم" یعنی رعایا اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے۔ اور تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجودہیں کہ حاکم محکوم پر اتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ تہذیب و تمدن یہاں تک کہ خیالات تک بدل جاتے ہیں۔ جب اسلامی حکومتیں اپنے عروج پر تھیں تو غیر قومیں اسلامی تہذیب و تمدن کے زیادہ زیرِ اثر تھیں۔ اس سے بھی زیادہ ، جتنے آج ہم مغربی تہذیب سے مانوس اور مرغوب ہیں۔ ذرا تاریخ پر نظر ڈالیں جب دنیا پر ہماری قیادت تھی اور قوت اور اقتدار ہمارے اختیار میں تھا، بڑے بڑے فرمانروا ہمیں خِراج دیتے تھے۔ اس وقت دنیا ہمارے لباس ، زبان اور علوم اِختیار کرنے میں فخر محسوس کرتی تھی۔</p> <p>سسلی کا بادشاہ راجر اَول (1091-1101)عربی لباس پہنتا تھااور اس کی سرکاری زبان عربی تھی۔ سرسیہ (آج کا برطانیہ) کا بادشاہ "اوفا"کا سکہ سلامی دینار کی شکل میں تھااور اس پر عربی کی ایک مثل لکھی ہوئی تھی۔ برطانیہ کے عجائب گھر میں آپ آج بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ میلان ، اٹلی کے گِرجا گھر میں آج بھی آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر کے گرد عربی عبارت دیکھ سکتے ہیں۔ جرمن بادشاہ فریڈرک دو م کے دربار میں عربی لباس پہنا جاتا تھا۔ آکسفورڈ اور فرانس کی درسگاہوں میں عربی زبان لازمی تھی۔</p> <p>لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم محکوم ہوتے گئے۔ مغربی تہذیب اور ملحدانہ افکار کے زیرِ اثر آتے گئے۔ اور یہ سب مغربیوں کی ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ برصغیر کی جنت میں جب انگریز شیطان داخل ہوا تو لارڈ میکالے نے تحریر کیا کہ "ہمیں ہندستانیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جو اس وسیع رعایا کے اندر ہماری ترجمان ہو اور یہ جماعت رنگ، خون اور نسل میں ہندستانی ہی ہوگی لیکن سمجھ اور ذہنیت کے اعتبار سے مکمل انگریز ہوگی"</p> <p>اور پھر پچاس سال کے اندر اندر ہی یہ عالم تھا کہ گھروں کے اندر ناخواندہ عورتوں میں بھی مغربی تہذیب کی برتری اپنی جگہ مضبوط کر چکی تھی۔انگریزی زبان اور لباس معاشرے میں عزت کا معیار بن گیا۔ جیم خانوں اور کلبوں میں جانااور شراب اور رقص <annotation lang="en">status symbol</annotation> بن گئے۔ ہمارے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسا نصاب پڑھایا جانے لگا کہ کوٹ پتلون ، ٹائی اور انگریزی بولنا کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ اور اپنی تہذیب اور ماضی باعثِ شرم ہوگیا۔ اور پھر پاکستان بننے کے بعد سے آج تک انگریزوں کے اس مشن کوہمارے حکمرانوں نے نہایت وفاداری سے آگے بڑھایا اور بڑھائے جا رہے ہیں۔</p> <p>حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان سمیت جتنے بھی اسلامی ملک آزاد ہوئے وہ اسلام کے نام پر ہی آزاد کروائے گئے۔ وہاں انگریز کا یہ ٹارگٹ موجود ہے۔ انگریز نے لارڈمیکالے کے منصوبے پر جو کھیپ ہر ملک میں تیار کی تھی وہ اپنے اپنے ملک کے آزادہوتے ہی اقتدار پر قابض ہو گئی۔ ترکی سے لے کر انڈونیشیا تک سب ہی حکمران مغربی نظام تعلیم کے تربیت یافتہ بلکہ تربیت زدہ ہیں۔ چاہے انہوں نے مغربی ملک میں جاکر تعلیم حاصل کی ہو یا اپنے ہی ملک کے مغربی طرز کے ادارے میں۔</p> <p>ترکی میں کمال اتا ترک نے حکماََاسلامی روایات کا خاتمہ کیا۔ترکی کا ایک مو'رخ عرفان اوگا اپنی کتاب اتاترک میں لکھتا ہے ۔ " یہ کوئ چُھپی ہوئ بات نہیں ہے کہ مصطفی کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا۔مصطفی کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر قرآن مجید پھینک کر مارا تھا جبکہ وہ ایک بہت زیاد ہ قابل احترام بزرگ تھے۔ مگر اس پر کوئ احتجاج نہ ہوا۔ اس کا مطلب تھا کہ حالات بدل چکے ہیں۔"</p> <p>شام کے حکمران اب بھی عیسائ فرقے کی اشتراکیت کے زیر اثر ہیں اور مصر کے شاہ فاروق کی عیاشی سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ایران کے شاہ نے اسلام سے تمام رابطے ختم کرنے کے لئے اور عوام کو اسلام سے دور کرنے کے لئے بے انتہا اقداما ت کئے۔یہاں تک کہ گلیوں اور سڑکوں پر اس نے عیسائی بادشاہ سائرس کے مجسمے نصب کرا دئیے۔</p> <p>انڈونیشیا کے صدر احمد سکارنو نے جدیدترکی کے نقشِ قدم پر چلنے کی باقائدہ منصوبہ بندی اختیار کی۔آج بھی وہاں عیسائی مشنریوں کو خاص مراعات حاصل ہیں۔ تیونس 1957 میں آزاد ہو ااور بورقیہ جو پہلے صدر بنے،انہوں نے ممکنہ حد تک پرسنل لاء میں غیر اسلامی تبدیلیاں کیں۔محکمہ ،اوقاف ختم کر دیا۔اور اپنی ایک تقریر میں ان خیالات کا اظہارکیا " قرآن میں تضادہے۔جسے عقل قبول نہیں کرتی۔جیسے عصائے موسیٰ اوراصحاب کحف کا قصہ"</p> <p>مسلمانوں کا طرز عمل ہمیشہ ایسا کیوں رہتا ہے؟ اپنے مذ ہب ،دینی ثقا فت سے وہ کیوں شرم محسوس کرنے لگ جاتے ہیں؟اپنی دینی اقدارکیوں انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے؟ اسرائیل کو دیکھیں وہ اپنے مذہب اور مذہبی روایات پر پتھر کی طرح جما ہوا ہے۔وادی ء سینا میں اسرائیل کا جو پہلا ٹینک داخل ہواتھا اس پرتورات کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔</p> <p>المیہ ہمارا یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں جب تک آزادی کا معرکہ برپا رہتا ہے تو قربانیوں کے لیئے اور سر فروشی کے لیئے اللہ کی رضا اور اسلا م کی سر بلندی کو اپنا مقصد رکھنے والوں کو آگے کر دیتے ہیں۔اورجنگ آزادی کے رہنما مذہبی نعرے لگا کر انہیں مخالف قوتوں سے ٹکرا دیتے ہیں۔جب ان سر فروشوں کی قربا نیوں سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے تو جنگ آزادی کے رہنما اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور تمام کام اسلام اور شریعت کے خلاف شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ قربانی دینے والے یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے غلطی کی کیوں کہ سب کچھ تو اس مقصد کے بر عکس ہو رہا ہے جس کے لیئے آزادی کا حصول ہوا تھا۔</p> <p>لمحہء فکر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام پر یہی سوچ غالب آرہی ہے۔جس مقصد کے لیئے بے تحاشا خون بہا کر،گھر اور خاندان اجاڑکر،بہوبیٹیوں کی عزتیں لٹواکر پاکستان حاصل کیا گیا تھا وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔آج تک(قائد اعظم کے بعد)ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا جو اس ملک،مذہب اور عوام کے ساتھ مخلص ہو اور دل میں اس کا درد رکھتا ہو ۔ہمارے تمام حکمران ملک کی ترقی،عوام کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کی تڑپ سے عاری رہے بلکہ دین ہی سے نا واقف پائے گئے۔مغربی تہذیب اور مغربی طاقتوں کے ذہنی غلام بنے رہے۔ہر حکمراں روٹی کے ایک ٹکرے کے بدلے ملک اور عوام کو بیچتا ہی رہا۔ اقبال نے جانے کتنا عرصہ پہلے ہی کہ دیا تھا کہ:"مغربی تعلیم مشرق میں مغربی افکار اور تہذیب کے لیئے نو آباد یات کی زمین فراہم کرتی ہے اور بلند معیار زندگی کی ہوس پیدا کر کے نئے نئے مسائل سے دو چار کرتی ہے۔ ذہنی انتشار اور فکری انار کی اس کی بنیاد ہوتی ہے ۔ فکرو فلسفہ ،آزادانہ غورو خوض <annotation lang="en">(Free Thinking)</annotation> کے نام سے ذہنی بے ربطی اور پریشان خیالی کو جنم دیتی ہے"(نقوش اقبال ازسید ابو الحسن ندوی)</p> <p>جب سے پاکستان بنا ہے ہمارے حکمرانوں کے افکار ،طور طریقوں اور سیرت وکردارکے اثر سے رعایا گلتی سڑتی چلی آرہی ہے۔ہم نے ہمیشہ گوروں سے ان کی خباثت،گندگی ،بے راہ روی اور بے حیائی ہی اپنائی۔اگرچہ اُن میں خوبیاں بھی ہیں۔صنعت ہو،علم ہو یا اپنے عوام کی بھلائی وہ ہر میدان میں نقطہ ء عروج پر پہنچے ۔ساری رات کلبوں میں داد عیش دے کر بھی صبح اپنی معاشرتی ذمہ داری میں مستعد ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کی یلغار سے ہماری علمی استعداد ،ٹیکنا لو جی وغیرہ میں اضافہ ہوتا تو کچھ بات بھی تھی۔ ہم نے توصرف کمپیوٹر پر عریانیت سے محفوظ ہونا،کوک برگر کھا کر ہائے مام کہنا ہی ترقی سمجھ لیا۔</p> <p>اس یلغار کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے بے حس حکمران رہے اور آلہ ء قتل میڈیا۔۔۔۔میڈیا کو جس سوچی سمجھی سازش کے ذریعے معاشرے میں منفی طور پر استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے وہ سمجھنے کی بات ہے۔پاکستان ٹی وی کاجد امجد زیڈاے بخاری ترقی پسند انسان تھا۔اس کی ترقی پسندی کو نثار فتحی نے اپنی کتاب "پاکستان میں مغربی ثقافت کانفوذاور اس کے اسباب"میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔ "کراچی میں جب ٹی وی نیا نیا شروع ہونے والا تھاتو بخاری صاحب نے فنکاروں،لکھنے والوں اور متوقع پروڈیوسروں کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی اور کہا کہ ٹی وی اس صدی کا سب سے موثر آرگن ہے ۔ اور سب سے موئثر کام نئی نسل کو ماں باپ کی تربیت سے نکال کر وہ بنانا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا کہ آپ نئی نسل کیسی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور دوسرا اہم مقصدیہ ہوگا کہ قو م کو شعوری طور پر اس کا احساس نہ ہواور اسے فرسودہ مذہبی تصوارت سے آزاد کرائیں اور یہ اس خوبی سے ہوکہ پتا نہ چلے کہ آپ یہ مہم چلا رہے ہیں۔ مذہبی جنوننیوں اور مُلاؤں سے معاشرے کو پاک کردیں جو قومی آزاد خیالی چیلنج کرتے رہتے ہیں۔"</p> <p>یہ بات 1968 کی ہے۔ اب 2014 ہے۔اس ساری مہم میں بھٹو کا کردار بھی بڑا اہم رہا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ٹی وی سکرین پر چند خواتین کے برقعے اتروا کر انہیں "آزادی"دلوائی تھی۔ رہی سہی کثرہمارے سابق ڈکٹیٹر ، پلے بوائے ، ینگ مین مشرف صاحب نے لڑکیوں کو نیکر پہنا کر اور خود پریذیڈنسی میں بھانڈوں ، مراثیوں اور کنجروں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پردھمالیں ڈال کے پوری کردی۔</p> <p>یہ سب ہم پر ایسا اثر انداز ہو چکا ہے کہ ہم انفرادی سطح پر بھی درندگی اختیار کر چکے ہیں۔ درندگی اس معنی میں کہ درندوں کی طرح ہماری زندگی ہر قسم کے اصول ضوابط اور ڈسپلن سے عاری ہو چکی ہے۔ شرم حیا، سچ جھوٹ، حرا م حلال ہمارے نزدیک فرق کھو چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم لاعلاج نہیں۔ نسخہ وہی ہے جس کاذکر مولانا حالی نے کیا</p> <p>اُتر کر حرا سے سوئے قو م آیا</p> <p>اور اک نسخہء کیمیا ساتھ لایا</p> </section> </body>
5416.xml
<meta> <title>پنجاب حکومت تحفظ حقوق نسواں بل میں ترمیم کیلئےتیار ہو گئی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19089/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>276</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پنجاب حکومت تحفظ حقوق نسواں بل میں ترمیم کیلئےتیار ہو گئی
276
No
<body> <section> <p>پنجاب حکومت نے تحفظ حقوق نسواں بل میں ترمیم پر آمادگی ظاہر کر دی ،بل کے حوالے سے علمائے کرام اور مذہبی حلقوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان ،</p> <p>تفصیلات کے مطابق پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری کو ٹیلیفون کیا اور انہیں حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے اعتماد میں لیا ،</p> <p>انہوں نے کہا کہ بل میں اسلام اور شریعت کے خلاف کوئی چیز نہیں ،اس حوالے سے خوامخوا خدشات پھیلائے جا رہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ میں آپ کو بل کا مسودہ ارسال کرتا ہوں ،آپ اس کے تمام نکات کا جائزہ لیں ،اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو اس میں ترمیم کے لئے بھی ہم تیار ہیں</p> <p>،انہوں نے مولانا حنیف جالندھری کو یقین دھانی کروائی کہ بل کے حوالے سے علمائے کرام اور دینی حلقوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے ،اس موقع پر مولانا محمد حنیف جالندھری نے رانا ثناءاللہ کو تحفظ حقوق نسواں بل کے حوالے سے علمائے کرام کے خدشات اور تشویش سے آگاہ کیا،</p> <p>رانا ثناءاللہ کی پیشکش پر بل کے مسودے کے حوالے سے اکابر علمائے کرام اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا ،انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے قانون سازی کے لئے عجلت سے کام لیا ہے ،اسمبلی میں بل پیش کرنے سے قبل علمائے کرام ،قانونی ماہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا ،انہوں نے رانا ثناءاللہ سے کہا کہ اس ملک کی اکثریت کی رائے پر مغربی ایجنڈے کو مسلط کرنے کی روش درست نہیں</p> </section> </body>
5417.xml
<meta> <title>سابقہ ملکہ حُسن نے اسلام قبول کرلیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19098/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>321</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سابقہ ملکہ حُسن نے اسلام قبول کرلیا
321
No
<body> <section> <p>چیک ری پبلک سے تعلق رکھنے والی سابقہ مس ورلڈ مارکیٹا کورینکووا نے اسلام قبول کرلیا اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئیں ۔ ذہنی پریشانی کا شکار رہنے والی مس ورلڈ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے'کلمہ طیبہ ' کا ورد کیا تو ان کی ساری پریشانیاں ختم ہو گئیں۔</p> <p>ملکہ حسن نے دبئی میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ' 'میں مستقل طور پر دبئی میں رہنا چاہتی ہوں اور اسلام کا مطالعہ جاری رکھنا چاہتی ہوں۔"</p> <p>انہوںنے اسلام قبول کرنے بعد مغربی طرز عمل کو ترک کردیا اور حجاب پہننا شروع کردیا ہے۔جب انہوں نے حجاب میں پہلی تصویر بنائی تو اس کے پرستار حیران رہ گئے۔انہوں نے سمجھاکہ شاید عرب کے کسی فیشن شو کیلئے یہ ڈریس زیب تن کیا ہے۔</p> <p>بھارتی اخبار نے عربی جریدے <annotation lang="ar">'القدس العرابی'</annotation> کے حوالے سے لکھا کہ اٹلی میں ہونے والے مس یونیورس کے مقابلوں میں بھی وہ منتخب ہو چکں ہیں۔ عیسائیت کی پیروکار مارکیٹا کورینکووانےاسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام مریم رکھا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اسلام میں خواتین کا کتنا بلند رتبہ ہے تو انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کافی کامیاب ہیں۔ ان کے پاس ملبوسات کی ایک کمپنی اور ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی بھی ہے۔</p> <p>پراگ کی یونیورسٹی سے انگلش ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے بعد انہوں نے رائل کالج آف آرٹس لندن سے پروڈکشن ڈیزاننگ میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے بی بی سی کےلئے بھی کام کیا۔مس یونیورس کے انتخاب کے بعد وہ ایک سپر ماڈل بن گئیں اور انہیں ہالی وڈ سے بھی فلم کی پیشکش ہوئی اورانہوں نے ایک فلم میں اہم کردار بھی ادا کیا۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود وہ طویل عرصے سے ذہنی پریشانی کا شکار تھیںلیکن ان کے سامنے یہ راستے اس وقت صاف ہوگئے اور انہیں ذہنی آسودگی حاصل ہوئی جب انہوں نے قرآن کا مطالعہ</p> </section> </body>
5418.xml
<meta> <title>فیاضیاں ( نویں قسط )</title> <author> <name>محمد فیاض راجا</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19131/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1003</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
فیاضیاں ( نویں قسط )
1,003
No
<body> <section> <p>سر پر بڑی سی کالی پگڑی، کاندھے پر دھری، گہرے رنگوں والی سندھی چادر،گوشتی رنگ کی ڈھیلی ڈھالی قمیض اور کھلے، لمبے پائنچوں والی سفید شلوار۔۔ یہ اس کا لباس تھا۔ لمبوترے چہرے پر کھڑی ناک کے نیچے گہری، کالی سیاہ، گھنی مونچھیں اس کی مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتی تھیں تو ہاتھ میں پکڑی، تیز دھار اور لمبے پھل والی چمکتی کلہاڑی اس کی بہادری کے قصے بیان کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ ہر منگل کی شب 8 بجے آتا تھا اور یوں آتا تھا کہ بس حواس پر چھا جاتا تھا۔ ہاشم ںام تھا اس کا۔۔۔ ہاشم خان۔</p> <p>1983 کے ماہ ستمبر کی ایک ڈھلتی شام تھی جب وہ سندھ کے کسی نسبتا سرسبز گوٹھ میں کھیت کھلیانوں کے بیچوں بیچ، اپنی ہی دھن میں، لمبے لمبے ڈھگ بھرتا چلا جارہا تھا۔ اس شام اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تو موجود تھی مگر اس کے کندھے مخصوص سندھی چادر سے بے نیاز تھے۔ چھوٹے چھوٹے سفید رنگ پھول اگاتی، لال سی زمین والی چادر اوڑھے، وہ، اس سے چند قدم پیچھے تھے۔ وہ جو رانی تھی اور اس کی بیوی، جس سے اس نے گاوں کے قدیم رسوم و رواج سے لڑتے ہو ئے ایک ایسے وقت میں نکاح کیا تھا جب پوری برادری اور سارا گاوں رانی پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ لاد کر اسے جان سے ماردینے کے درپے تھا۔</p> <p>ہاشم خان اپنی ہی دھن میں چلتا، رانی سے کئی قدم آگے بڑھ گیا تھا۔ " ہاشم " ! فضا میں نسوانی آواز گونجی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، رانی چلتے چلتے رک گئی تھی شاید تھک کر۔ وہ رکا پھر لوٹا اور اس کے قریب آیا۔"کیا ہوا! تھک گئی ہو کیا"؟؟؟ ہاشم نے پوچھا تھا۔ " تم کتنے بھی تیز چلو! کتنی ہی دیر چلو! میں، تمہارے پیچھے پیچھے چلتی رہوں گی "۔ رانی نے محبت سے کہا تھا۔ ہاشم خان نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔ " تم نے چڑیا اور باز کی کہانی سنی ہے؟ " جواب ملا۔ "ہاں سنی ہے"۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہاشم اور رانی کے درمیان باقی کا مکالمہ کچھ یوں تھا۔</p> <p>چڑیا جب باز کے پیچھے اڑتی ہے تو بے چاری کے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔</p> <p>کیا کہیں زمانے کو، بے چاری چڑیا کا بیاہ کرا دیا باز کے ساتھ۔۔۔</p> <p>زمانے نے تو بیاہ نہیں کرایا۔</p> <p>پھر کس نے کرایا ہے؟</p> <p>باز چڑیا کو اپنے پنجوں میں لیکر اڑا ہے۔</p> <p>تو چڑیا بے چاری اب تھک گئی ہے!!!</p> <p>یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا ڈرامہ " دیواریں " تھا۔ دیواریں، جس کا آغاز شاید 1983 کے جولائی میں ہو اتھا۔ ان دنوں اسکول سے گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور دوسری جماعت کے اس طالب علم کے پاس وقت بے شمار۔ چھٹیوں کے کام کا رجسٹر " بھرنے" اور مغرب تک ،حسب ضرورت ہاکی اور کرکٹ "بھگتانے" کے بعد، رات کا کھانا کھا کر شام آٹھ بجے ٹی وی کے آگے آرام سے بیٹھا جا سکتا تھا۔ اعجاز بھائی کی جانب سے ،ہفتے میں ایک دن آٹھ بجے والا ٹی وی ڈارمہ دیکھنے کی پابندی، اسکول سے گرمیوں کی چھٹیوں کی بعد زرا نرم سی پڑ گئی تھی۔</p> <p>اگر میں بھول نہیں رہا تو دیواریں، عبدالقار جونیجو نے تحریر کیا تھا اور اسے پی ٹی وی کراچی کے مشہور پروڈیوسر ہارون رند نے پیش کیا تھا۔ دیواریں میں اداکار نور محمد لاشاری، ساقی، سکینہ سموں، شہناز سومرو، فرید نواز بلوچ اور منصور بلوچ نے لازوال اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اوپر ذکر کیا گیا ہاشم خان کا کردار منصور بلوچ نے نبھایا تھا۔ ہاشم خان کا کردار مختلف " شیڈ" لئے ہو ئے تھا جس میں منصور بلوچ نے اپنی شاندار پرفارمنس کے باعث رنگ بھر دیئے تھے۔ دیواریں سندھ کے وڈیرہ شاہی نظام اور فرسودہ رسم و رواج میں جکڑے ہو ئے معاشرے کی کہانی تھی جس نے ملک میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔</p> <p>ڈرامہ سیریل دیواریں کی تیرھیوں قسط کا ایک سین میں آج تک نہیں بھولا۔ ڈرامے کی بارہ قسطوں میں مسلسل ہتھے سے اکھڑا رہنے اور ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والا ہاشم خان، رانی سے شادی کے چند ماہ بعد گاوں کے ہوٹل پر چائے پینے آتا ہے تو وہاں موجود " مکھن خان " ( ڈرامے کا ایک منفی کردار ) اس پر فقرے اچھالتے ہو ئے اسے بے غیرت ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ آخرکار برداشت کی حد گزرنے پر ہاشم خان، ہاتھ میں کلہاڑی اٹھائے، مھکن خان اور اسکے حواری پر حملے کے لئے آگے بڑھتا ہے تو ایسے میں " بیک گراونڈ " سے اس کی بیوی رانی کی آواز آتی ہے۔ " نہیں ! ہاشم، نہیں !۔ خدا کے واسطے کسی سے جھگڑا مت کرو، تمہیں کچھ ہوگیا تو میرا کیا بنے گا؟"۔ ہاشم یہ آواز سنتے ہی رک جاتا ہے اور مکھن خان کو وہیں چھوڑ کر ہوٹل سے چلا جاتا ہے۔</p> <p>ڈرامے کے اگلے سین میں رانی، ہاشم خان سے پوچھتی ہے کہ وہ پریشان کیوں ہے؟ ہاشم خان بتاتا ہے کہ اسے ہوٹل پر مکھن خان نے بے غیرتی کا طعنہ مارا مگر زندگی میں پہلا موقع تھا جب وہ لفظوں کا وار سہہ کر پی گیا۔ اس سمجھ نہیں آرہا کہ مکھن خان آج زندہ کیوں اور کیسے بچ گیا؟۔ جس پر اسے رانی ایک قدیم کہاوت سناتی ہے " بندہ، شادی کے بعد آدھی ہمت چھوڑ دیتا ہے اورجب اولاد ہوتی ہے تو پوری ہمت چھوڑ دیتا ہے"۔</p> <p>یہ پی ٹی وی کے سنہرے دن تھے جب ہفتے کے ساتوں دن شام آٹھ بجے گلیاں اور بازار ویران ہوجایا کرتے تھے۔ نوے کی دہائی میں پی ٹی وی کی کمرشل ازم سے " شادی" ہوگئی تو اس نے " آدھی ہمت " چھوڑ دی۔ 21 ویں صدی میں، وطن عزیز میں، پرائیویٹ ٹی وی چینلز ،پی ٹی وی کی " اولاد " بن کر سامنے آئے تو پی ٹی وی کی بچ رہنے والی " باقی ہمت " بھی جواب دے گئی۔ اور یوں پاکستان ٹیل ویژن جو کبھی باز تھا، چڑیا کی طرح کمزور کئی پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو تو اپنے پنجوں میں لے کر ان کی کامیاب اڑان کا باعث بنا مگر خود اپنی اڑان بھول گیا۔ ( جاری ہے )</p> </section> </body>
5419.xml
<meta> <title>مہاجر کیا کریں؟</title> <author> <name>عمران احمد راجپوت</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19273/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>853</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مہاجر کیا کریں؟
853
No
<body> <section> <p>انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اِس ملک پر ایک خاص قسم کا گروہ قابض ہوگیا جس نے نہ صرف عوام کو اپنے زیرتسلط کرنا چاہا بلکہ اپنی اجاراداری کو دوام بخشنے کیلئے ایسی پالیسی وضع کیں جس کی بدولت ملک کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جو ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنی رعایا تصور کرتے ہوئے اِس کے مالکِ کل بن بیٹھے۔ لہذا ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو آزادی کے بعد بھی غلامی کی کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ اِس ڈر سے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اِن زندہ لاشوں میں جذبہ حب الوطنی کے تحت اتحاد و اتفاق نہ پیدا ہوجائے اور ظلم و ناانصافی پر کھڑی اشرافیہ کی یہ سلطنت ڈھا نہ دیں لہذا تصادم کی سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے قوموں میں اختیارات و وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ طور پر کی گئیں تاکہ قومیں ہمیشہ آپس میں دست وگریباں رہیں اور کسی طور ایک ملت کے خود کو پیش نہ کرسکیں۔</p> <p>وسائل کی تقسیم اور حقوق کی فراہمی اصولی بنیادوں پر نہ ہونے کے سبب قوموں کے اندر احساسِ محرومی نے جنم لینا شروع کیا اور جب یہ احساس شدت اختیار کرنے لگا تو قوموں کا آپس میں ٹکراؤ شروع ہوگیا جس کا فائدہ اقتدار و اختیارات پر قابض یہی مخصوص ٹولہ اٹھاتا رہا ملک و قوم کی بدقسمتی یہ رہی کہ ایسے عناصر کو ہمیشہ ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل رہی جس کے باعث اشرافیہ کا یہ ٹولہ 68 سالوں سے کبھی جمہوریت کا نام لیکر تو کبھی آمریت کا خوف دلاکر ملک کی غریب و مظلوم عوام کا خون چوستا آرہا ہے۔ جب کبھی غریب و مظلوم عوام نے اپنے حقوق کیلئے آوازِ حق بلند کرنا چاہی اسے فلفور سازشوں اور ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب عوام اپنے حقوق کی آخری جنگ لڑنے ریاست کے سامنے ڈٹ گئے جبکہ اس وقت بھی اشرافیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی جبر سے کام لیا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔</p> <p>جو قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں پیش پیش تھی جس قوم نے جدوجہد آزادی کے دوران سب سے زیادہ جانوں کا نظرانہ پیش کیا انھیں اسی مفادپرست ٹولے نے بغاوت پر مجبور کردیا۔ بجائے اسکے کہ ٹھوکر کھانے کہ بعد ماضی سے سبق سیکھتے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے آج بھی قوموں کا استحصال کیا جارہا ہے چار اکائیوں کی پاداش میں دیگر قوموں کے وقار کو مجروح کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔</p> <p>آج ملک میں موجود ہر مظلوم طبقہ اپنے حقوق کی پامالی پر نوحہ خوانی کرتانظرآتاہے۔ اِنھی مظلوم طبقات میں سے ایک بانیانِ پاکستان کی اولادیں ہیں جو کب سے اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن اقتدار کے نشے میں دھت اشرافیہ بجائے انکے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انکی محرومیوں کو دور کرے انھیں تقسیم در تقسیم کرنے کے فارمولے پر عمل پیراں ہے آج بھی بھائی کے ہاتھ بھائی کے خون سے رنگے جانے کی ترکیبیں آزمائی جارہی ہیں خدارا بند کرو یہ خون کی ہولی کھیلنا 68 سالوں سے جاری اِس خونی کھیل کا شکار ہوتے آرہے ہیں تین نسلیں خون میں نہا چکیں ہیں لیکن پھر بھی تمھاری پیاس نہیں بجھتی اب بس کردو اب نسلوں کو پروان چڑھنے دوانھیں پڑھنے دو میری قوم کے جوانوں کو باغی مت بناؤ یقین کرو مہاجر کچھ نہیں چاہتا ملک کی تقسیم نہ صوبے کی تقسیم،مہاجر تو اِس ملک کی ترقی میں شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے، ملک کی تعمیروترقی کیلئے خود کو اسکا اہل بنانا چاہتا ہے۔</p> <p>مہاجر بھی پاکستان کا اسی طرح ایک معزز شہری ہے جس طرح ایک پنجابی، سندھی، بلوچی یا پٹھان ہے یہ بھی دیگر کی طرح اپنے اکثریتی علاقوں میں اپنے اتنظامی امور چلانے کا حق اور اختیار چاہتے ہیں جو کہ بالکل جائزمطالبہ ہے تاریخ گواہ ہے قوموں میں تصادم کی اصل وجہ اُنکے حقوق کی پامالی ہے تحریکِ پاکستان سے لیکر سقوطِ ڈھاکہ تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اِس حوالے سے مہاجر قوم سے اتنا کہنا چاہیں گے کہ اپنے خلاف ہونے والی سازش کے پیشِ نظر اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت ہے سازشی عناصر اب کھل کر اِس قوم کے اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنے کیلئے عملی طور پر میدان میں آچکا ہیں۔</p> <p>سازش گہری ہے لہذا مثبت سوچ کے ساتھ نہایت صبروتحمل سے اسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے منتشر نہیں ہونا کیونکہ انتشار کی صورت میں سازشی عناصر کو اپنے مقاصد میں تقویت ملے گی۔قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے اس فرمان (اتحاد،تنظیم،یقین محکم) کوذہنوں میں رکھتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔میں اِس حوالے سے پاکستان کے مثبت سوچ کے حامل سیاسی رہنما جن میں سابق صدر جناب جنرل پرویز مشرف سندھ دھرتی کی عظیم شخصیت جناب سائیں پیر پگاڑا سے کہنا چاہونگا کہ وہ آئیں آگے بڑھیں اورسندھ میں مبینہ سیاسی صورتحال اور تصادم کی فضاء کے خاتمے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ ملک سے انتشار و بدامنی کا خاتمہ ہوسکے۔</p> </section> </body>
5420.xml
<meta> <title>ایم کیوایم، پتنگ اور موسم</title> <author> <name>فیاض راجہ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19416/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1112</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ایم کیوایم، پتنگ اور موسم
1,112
No
<body> <section> <p>جاڑوں کی ایک ٹھٹھرتی رات ایک بادشاہ اپنے خیمے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ خیمے میں شمعیں روشن تھیں اور آتشدان میں کوئلے دہک رہے تھے۔ ایک تو خیمے کا ماحول گرم تھا دوسرا انگور کی بیٹی نے اندر کا موسم بھی دو آتشہ کردیا۔ بادشاہ نے ابھی صرف دو جام ہی پئے تھے کہ ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ " اس سال موسم خلاف معمول ہے " وہ خود سے گویا ہوا۔ " ان دنوں سردی ہونی چاہیئے تھی مگر سخت گرمی پڑ رہی ہے۔ "</p> <p>بسنت کے شوقینوں کو کراچی میں حالیہ بسنت بہار کا موسم بھی "خلاف معمول" لگ رہا ہے۔ پورے ملک خاص کر لاہور میں بسنت تو نام ہی پتنگوں کے اڑنے اور پھر کٹ کر گرنے کا ہے تبھی تو "بو کا ٹا" کی آوازیں مزہ دیتی ہیں مگر سیانے کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کی بسنت میں " پتنگ" اڑتی تو تھی مگر "گرتی" کبھی نہیں تھی۔</p> <p>یہ کوئی لگ بھگ بتیس برس پرانی بات ہے 1984 کے "موسم بہار" میں کراچی کے آسمان پر ایک نئی سیاسی جماعت نمودار ہوئی۔ " پتنگ " کا انتخابی نشان رکھنے والی اس جماعت نے اڑان بھری اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی مقبول اور منظم ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ پاکستان کی متعدد طلبا تنظیموں نے سیاسی جماعتوں کے بطن سے جنم لیا ہے مگر یہ وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جو طلبا کی ایک تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اے پی ایم اسی او کا آغاز 11 جون 1978 کو جامعہ کراچی سے ہوا تھا۔</p> <p>9 فروری 1984 کو مارشل لاء کے ایک آرڈی ننس کے تحت ملک بھر میں طلباء کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ۔ تمام طلبا ء تنظیموں کو "خلاف قانون" قراردے دیا گیا اور ان کے بنک اکاونٹ منجمند کر کے دفاتر کو سربمہر کردیا گیا۔طلبا کی سیاسی سرگرمیوں اور طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہوئی اور اے پی ایم ایس او کے چیئرمین الطاف حسین، وائس چیئرمین عظیم احمد طارق اور دیگر بانی اراکین اپنی تعلیم مکمل کرچکے تو انہوں نے مہاجروں کے مسائل کے حل اور انہیں متحد اور منظم رکھنے کے لئے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس سیاسی جماعت کا نام مہاجر قومی مومنٹ رکھا گیا اور اس کا قیام 18 مارچ 1984 کو عمل میں آیا۔</p> <p>مہاجر قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو اس تنظیم کا " قائد تحریک " قرار دیا گیا ۔ مہاجر قومی موومنٹ نے اگلے چند برسوں میں سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں تلاطم پیدا کردیا۔ 8 اگست 1986 کو مہاجر قومی موومنٹ نے کراچی میں اپنی قوت اور تنظیم کا پہلا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس دن مہاجر قومی موومنٹ نے نشتر پارک میں ایک عظیم الشان جسلہ منعقد کیا ۔ اس جلسے کی تیاری کئی دن سے جاری تھی اور شہر بھر میں جابجا استبقالیہ کیمپ لگے ہو ئے تھے۔ جلسہ کے دن محسوس ہوتا تھا جیسے شہر کا ہر راستہ نشتر پارک کی طرف جا رہا ہو۔ جلسہ گاہ میں حاظرین بہت بڑی تعداد میں جع تھے جن کے نظم و ظبط کا یہ عالم تھا کہ ہلکی بارش کے باوجود جلسہ منظم طور پر جاری رہا۔</p> <p>مہاجر قومی موومنٹ کے اس جلسہ کی کامیابی نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ الطاف بھائی نے جانے کیا سوچ کر برسوں پہلے ایم کیو ایم کے انتخابی نشان کے طور پر " پتنگ " کو منتخب کیا تھا۔ پتنگ جسے پنجاب اور پنجابی میں "گڈی" کہتے ہیں، نے کراچی میں گزشتہ 30 برسوں سے ایم کیو ایم کی گڈی "چڑھا" رکھی ہے۔ ایم کیوایم کی مخالف سیاسی جماعتوں۔۔۔ پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کئی طرح کی " ڈور " استعمال کرکے ایم کیو ایم کی پتنگ " کاٹنے" کی کوشش کی مگر ان کے کان " بو کاٹا " کی آوز سننے کو ترس گئے۔ یہاں تک کہ 90 کی دہائی میں " حقیقی " کا "مانجا" لگا کر نئی ڈور" سوتنے " کی کوشش کی گئی مگر یہ کوشش بھی رائیگاں گئی اور ایم کیو ایم کی " چر خڑی" الطاف بھائی کے ہاتھ میں ہی رہی۔</p> <p>ہر سال موسم بہار کی آمد پر مارچ کے مہینے میں ایم کیوایم کی جانب سے عزیز آباد کے جناح گراونڈ میں " بسنت میلے" کا اہتمام کیا جا تا رہاہے۔ اس بسنت میلے میں ایم کیو ایم کی " پتنگیں " وہ اڑان بھرتی تھیں کی دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے تھے مگر اب کے برس " موسم بہار " میں ایم کیو ایم کی پتنگیں اڑان بھرنے کی بجائے ایک ایک کرکے " کٹ " کر گرنے لگی ہیں اور اس کے مخالفین " بو کاٹا " کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس بار یہ" کمال " ایم کیوایم کے سابق رہنما مصطفی کمال کا ہے اور ان کا یہ " کمال " آج کل " زوروں " پر ہے ۔ مگر مصطفی کمال کے مخالفین کا " الزام" ہے کہ ایم کیو ایم کی پتنگیں کاٹنے میں مصطفی کمال سے زیادہ کمال " انتظامیہ " کا ہے جس نے پنجاب بھر میں تو بسنت پر پابندی لگا رکھی ہے مگر کراچی میں پتنگ کاٹنے کی پوری "اجازت" دے رکھی ہے جبھی تو مصطفی کمال کے گھر آئے روز ایم کیو ایم کی کوئی نہ کوئی پتنگ" کٹ" کر گرتی رہتی ہے۔</p> <p>بتیس برس قبل 1984 میں الطاف حسین نے اپنا سفر مارچ کے مہینے میں شروع کی تھا مگر پہلا سیاسی جلسہ 5 ماہ بعد نشتر پارک میں منعقد کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے 1988 کے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں انٹری دی تھی۔ بتیس برس 2016 میں مصطفی کمال نے الطاف حسین سے بغاوت کا سفر بھی مارچ ہی کے مہینے میں شروع کیا ہے۔ جلسہ تو انہوں نے 23 مارچ کو کرنے کا اعلان کیا ہے مگر بقول ان کے،،، نظر ان کی بھی ضمنی نتخابات کے ٹی ٹوینٹی میچ پر نہیں بلکہ وہ 2018 میں کراچی کی سیاست کا "ٹیسٹ میچ" کھیلنا چاہتے ہیں۔ الطاف بھائی کی ایم کیو ایم نے بہار کے موسم میں جنم لیا تھا مگر گزرے تیس برسوں میں کراچی کے آسمان نے بہار کم اور خزاں زیادہ دیکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار ہی کے موسم میں، مصطفی کمال کے ہاتھوں، کراچی سے جنم لینے والی ایک نئی سیاسی جماعت کراچی کا " معمول " کا موسم بدل پاتی ہے یا نہیں؟؟؟</p> <p>موسم سے یاد آیا! بادشاہ کی بات خادم نے سن لی تھی جو خیمے کے باہر ٹھنڈ میں کھڑا تھا۔ خادم خیمے کے اندر آیا اور دو زانوہوکر بولا تھا۔ "جناب! باہر جہاں یہ خادم کھڑا ہے ، وہاں موسم بالکل معمول کے مطابق ہے۔ "</p> </section> </body>
5421.xml
<meta> <title>سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تناو بڑھ گیا</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19419/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>144</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تناو بڑھ گیا
144
No
<body> <section> <p>سعودی عرب اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی،سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکی صدر اوباما کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مفت میں فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں ۔</p> <p>ایک عربی اخبار میں لکھے گئے مضمون میں شہزداہ ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ شام، یمن اور عراق میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا الزام لگانے والے صدر اوباما کیا وہ دن بھول گئے جب وہ خود ایران کو دہشتگردی کا حامی ملک کہتے تھے۔</p> <p>امریکی صدرنے ایک جریدے کو دئے گئے بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی سے مفت میں فائدے اٹھاتا رہا ہے۔</p> <p>امریکی صدر کے بیان پر پرنس ترکی الفیصل نے کہا کہ ، ہم مفت میں فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں، ہم ہمیشہ امریکیوں کو اپنا اتحادی سمجھیں گے کیونکہ ہم ایسے ہی ہیں۔</p> </section> </body>
5422.xml
<meta> <title>ڈاکٹرخلیل طوق آر ترکی کو صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ تفویض</title> <author> <name>ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19466/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1912</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ڈاکٹرخلیل طوق آر ترکی کو صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ تفویض
1,912
Yes
<body> <section> <p>اردو ادب کے نشر و اشاعت کیلئے قائم ملی و ادبی ادارہ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام استاد شاعر قیصر شمیم کی صدارت اور افسانہ نگار و کالم نویس فہیم اختر (لندن) کی سرپرستی میں حال ہی میں مغربی بنگال اردو اکادمی کے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیٹوریم میں ترکی ادیب، شاعر، نقاداور استنبول یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو کو روز نامہ اخبار مشرق کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور پارلیمانی رکن محمد ندیم الحق کے ہاتھوں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔ اس موقع پر استنبول یونیورسٹی کے ایک اور اردوپروفیسر ڈاکٹر ذکائی کردس اور تہران یونیورسٹی ایران سے تشریف فرما زینب سعیدی بھی موجود تھیں۔</p> <p>ڈاکٹر خلیل طوقار،ڈاکٹر جلال سوئیدان، ڈاکٹر خاقان قیوم ُجو، ڈاکٹر سلمیٰ بینلی، ڈاکٹر نورئیے بلک، ڈاکٹر گلیسرین ہالی جی، ڈاکٹر شوکت بولو، ایرکن ترکمان، درمش بلغورچند ایسے نام ہیں کہ جو ترکی میں اُردو زبان وادب اور تدریس وتحقیق میں مصروف ہیں۔</p> <p>ترکی میں اِس وقت تین یونیورسٹیوں میں اُردو کے شعبے قائم ہیں۔ انقرہ یونیورسٹی، سلجوق یونیورسٹی قوینہ، استنبول یونیورسٹی۔ اِن تینوں یونیورسٹیوں میں اردو کے حوالے سے تعلیم و تدریس اور تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں ۱۹۸۵ء میں اردو کا شعبہ اور چیئر قائم ہوئی جس پر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا تقرر ہوا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے جہاں اردو زبان وادب کے لیے اور بہت سے کام کیے وہاں خلیل طوقار جیسے اسکالر کو تدریس اُردو کے لیے تیار کرنا بھی اُن کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے ثمرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔</p> <p>خلیل طوقار <annotation lang="en">(Halil Toker) ۳</annotation> ،اپریل ۱۹۶۷ء کو باقر کوئے <annotation lang="en">(Bakirkoy)</annotation> استنبول میںپیدا ہوئے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے ۱۹۸۹ء میں استنبول یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اُنھوں نے ۱۹۹۲ء میںاستنبول یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا۔ اُن کا ایم اے کا مقالہ اُردو اور فارسی دونوں زبانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایم اے میںاُنھوں نے مرزا غالب۔ فن اور شخصیت کے حوالے سے کام کیا۔ ۱۹۹۵ء میں اُنھوں نے استنبول یونیورسٹی ہی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اُن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا: <annotation lang="en">(Persian and Urdu Poetry in India and the Poets of the Bahadur Shah II Era)</annotation> برصغیر میں فارسی اور اردو شاعری اور بہادر شاہ ظفر کے دور کے شعرا۔</p> <p>۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۹ء تک وہ اسسٹنٹ کے طور پراستنبول یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے منسلک رہے۔ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۱ء تک بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردواستنبول یونیورسٹی میں کام کرتے رہے اور ۲۰۰۱ء سے نومبر ۲۰۰۶ء تک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ نومبر ۲۰۰۶ء میں وہ پروفیسر ہوگئے اور نومبر ۲۰۰۹ء سے سینئر پروفیسر کے طور پر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی سے منسلک ہیں، شعبہ اُردو کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کے مقصد کے بارے میں لکھتے ہیں۔</p> <p>"ہمارے شعبے کا مقصد ہے: ترکی میں اردو کی تعلیم کو پھیلا کر ترکی کے لوگ اور اردو بولنے والوں کے درمیان موجود تاریخی دوستی اور برادری کو اور بڑھا کر مضبوط کرنا اور علمی اور ادبی سطح پر تحقیق اور تدقیق کرنے والے رسرچ سکالرز کو تربیت دینا۔"</p> <p>۳۵ سے زیادہ کتابیں تحریر کر چکے ہیں،اردو، ترکی اور انگریزی میں اب تک سو سے زیادہ مقالات لکھ چکے ہیں۔زبان وادب کے سلسلے میں کئی ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اُنھیں اپنے کام پر بہت سے ایوارڈ اور اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ مختلف موضوعات پر شایع ہونے والی اُن کی کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔</p> <p>ڈاکٹر خلیل طوقارنے اردو تحقیق میں نمایاں کام کیا ہے۔اِس حوالے سے اردو، ترکی اور فارسی تینوں زبانوں پر اُن کی گہری نظر ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید لکھتے ہیں:</p> <p>"خلیل طوقار نے "عہد بہادر شاہ میں اردو اور فارسی شاعری" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے اور اردو گرامر پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے۔"</p> <p>ڈاکٹرخلیل طوقار ترکی سے سہ ماہی اردو رسالہ "ارتباط" بھی نکالتے ہیں۔جنوری تا ستمبر ۲۰۱۱ء کا شمارہ اُنھوں نے ارتباط کا فیض احمد فیض نمبر نکالا اور نومبر ۲۰۱۲ء۔ اپریل ۲۰۱۳ء میں ارتباط کا احمد فراز نمبراہمیت کا حامل ہے۔ "جہان اسلام۔ ترکی کا ایک اردو اخبار" بھی اُن کی تحقیقی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کے مضامین پاکستانی جرائد اخبار اردو، مجلہ اقبال، اردو نامہ اور دیگر متعدد رسائل میں شایع ہوچکے ہیں۔ اردو کے حوالے سے مختلف ممالک میں متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنے تحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں۔</p> <p>ڈاکٹر خلیل طوقار نے اُردو کے حوالے سے ۳۵ سے زیادہ کتب اور ۱۰۰ سے زیادہ مقالات تحریر کیے۔علامہ اقبال کے خطوط،مولانا روم کی مثنوی کے منتخب حصوں کے علاوہ اردو شعرا کے کلام کا انتخاب بھی ترکی زبان میں منتقل کیا۔اُن کا تراجم کے حوالے سے بہت ساکام شایع ہوچکاہے۔</p> <p>ڈاکٹر خلیل طوقار ایک نقاد، محقق اور ماہر تعلیم وتدریس ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت جذبوں کے شاعر بھی ہیں۔ اُن کی شعری کتابیں "ایک قطرہ آنسو" اور 'آخری فریاد' میں اُن کی متنوع شاعری موجود ہے۔ اُن کی شاعری جذبے اور خیال کا ایک حسین امتزاج لیے ہوئے ہے۔اُن کے شعری موضوعات میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ وہ واردات قلبی اور اپنے لطیف خیالات کو لفظوں کے روپ میں بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔</p> <p>اُن کی نظم سوال کے یہ مصرعے دیکھیے:</p> <p>میں نے پوچھا شبنم سے</p> <p>تیری عمر ہے کتنی</p> <p>کہا اس نے مسکرا کر</p> <p>کم سے کم تیرے جتنی</p> <p>صاحب اعزاز پروفیسر ڈاکٹرخلیل طوق آر نے اظہار خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ان کی کسبی زبان نہیں بلکہ اپنی زبان ہے۔ اس زبان سے میری محبت ہے۔ میرا عشق ہے۔ ڈاکٹرخلیل جن کی مادری زبان ترکی ہے۔ لیکن وہ فارسی ، اردواور انگریزی زبان میں بھی عبور رکھتے ہیں نے کہا کہ ترکی اور اردو زبان کا ایک قدیمی رشتہ ہے جس پر وہ نازاں ہیں۔ خود لفظ ـ"اردو" ایک ترکی ہے جس کے معنی 'لشکر' کے ہے۔ حضرت امیر خسرو جو اردو کے پہلے شاعر ہیں ، خود ترک تھے۔ دکن کے قطب علی شاہ کا تعلق بھی ترکی سے تھا۔ حضرت غالبؔ اور داغؔ بھی ترکی ہی کے تھے۔ اس طرح اردو ترکی کی طرح ہماری بھی زبان ہے۔ ہماری زبان سے ہماری قوم ہوتی ہے ۔جب زبان ہی نہیں رہے گی تو قوم کہاں رہے گی؟ ترکوں میں قوم پرستی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ تاتاری ترکیوں کو ترکی سے نکال کر روس میں بھیج دیا گیا تھا۔ ان کی تعداد ۲۰ لاکھ تھی۔ ان کی نصف تعداد راستے میں ہی فوت ہوگئی ،بقیہ زندہ رہی۔ آج کریملین میں ان کی ایک پارلیمنٹ اردو شاعری میں ان کے ۳ مجموعے بھی آچکے ہیں۔ یہ اردو کی تہذیب ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور ڈاکٹر خلیل جیسے لوگ اس کے امین ہیں۔ ان کی شاعری مئے دو آتشہ ہے۔ ترکی یونیورسٹی میں ہر سال ۱۳۵ ؍ ۱۲۰ طلبا و طالبات اردو کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔</p> <p>لٹریری سوسائٹی کے سرپرست فہیم اختر نے کہا کہ ۲۰۰۶ء میں بزرگ شاعر جب لندن آئے تھے تو میں نے ان سے اس طرزکی سوسائٹی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا۔ تب سے آج تک ہر سال ادبی پروگرام کئے جاتے ہیں اور ادباء و شعراء صحافیان کو اعزازات دیئے جانے کا سلسلہ قائم ہے۔ اس سے قبل مشہور صحافی احمد سعید ملیح آبادی ،مجتبیٰ حسین، ملک زادہ منظور، عزیز برنی جیسی شخصیتوں کو اعزازات دیئے گئے۔</p> <p>۲۰۱۵ء میں ترکی میں تین دنوں تک "جشن اردو " منایا گیا جس میں دنیاکے سو سے زیادہ مفکرین نے شرکت کی تھی۔ اس میں بھی مدعو تھا۔ وہیں میری ملاقات ڈاکٹر خلیل طوقار سے ہوئی ۔ رواں سال کا ایوارڈ انہی کے نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ تمام اردو والوں کا ہے ۔میں اس کا رضا کار ہوں۔ اس ادارے میں تمام لوگوں کی شمولیت ہونی چاہئے۔ میں کلکتہ کو محدود سطح سے نکال کر عالمی سطح پر مرکز نگاہ بنانا چاہتا ہوں۔</p> <p>اردو کی آبیاری ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس کی ترقی و ترویج کیلئے کسی عظیم یا حکومت پر انحصار نہیں کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دینی ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر خلیل طوقارایوارڈ دینے سے کلکتہ اور استنبول کے درمیان ایک پل قائم ہوگا۔ اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں لندن میں ضرور رہتا ہوں لیکن میرا دل کلکتہ میں رہتا ہے۔ میں اردو زبان کی خدمت کیلئے بر وقت تیار ہوں۔ تاتاریوں نے اپنی زبان کو مرنے نہیں دیا۔ اس طرح زبان کی حفاظت ہماری ذمہ داری اور فرض ہے۔ اردو دنیا کی واحد مشترکہ زبان ہے جس میں سارے مذاہب اور اقوام کے الفاظ شامل ہیں۔ ہندو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی زبان ہے۔ مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہے۔ ترکی بھی اسے اپنا سمجھتا ہے تو ایرانی بھی اسے اپنا جانتا ہے۔ یہ محبت اور ہم آہنگی کی زبان ہے جو مفاہمت سے پیدا ہوئی ہے ۔ یہ زبان ہم سب کیلئے اللہ کی نعمت ہے۔ اس لئے زبان کے اندر اپنی حفاظت خود کرنے کا وصف موجود ہے۔ ورنہ اردو کے ساتھ جتنے ناروا سلوک کئے گئے اس کے باوجود اس کا پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہنا ایک بڑی بات ہے۔</p> <p>ترکی میں اردو کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ۱۹۱۵ء میں وہاں اعلیٰ تعلیم کا آغاز ہوا۔ آج تر کی کی تین یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ تا ہم انھوں نے اس بات کا افسوس کا اظہار کیا کہ آج اردو کو نقصان اردو والوں سے ہی پہنچ رہا ہے۔ اردو والے آج اپنے بچوں سے انگریزی میں باتیں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں غیر اردو داں طلبہ جب اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کے لوگوں سے اردو میں باتیں کرتے ہیں تو وہ جواب انگریزی میں دیتے ہیں ،جس سے وہ جزبز کے شکار ہوجاتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ جب اردو والے خود اپنی زبان میں گفتگو نہیں کرتے ہیں تو ایسی زبان سیکھنے سے کیا فائدہ؟ ان حالات میں مجھے انہیں سمجھانا ہوتا ہے۔</p> <p>انہوں نے اردو والوں سے فریاد کی کہ خدا کیلئے اردو کے ساتھ نارواسلوک نہ کریں۔ زبان آپ کی محبت ہے۔ زبان کو روزگار بنانے کیلئے نہ سیکھیں بلکہ شوق سے سیکھیں ۔یہ زندہ رہے گی تو آپ زندہ رہیں گے۔</p> <p>اس سے قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے ڈاکٹر خلیل طوقار کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جس روانی کے ساتھ ترکی میں بات کرسکتے ہیں اس روانی کے ساتھ فارسی اور اردو بھی بول سکتے ہیں۔ موصوف ۴۰ ؍ کتابوں کے مصنف ہیں جس میں سے ۲۵ ؍ کتابیں اردو میں ہیں۔ یہ بیک وقت ادیب، شاعر، محقق ،نقاد بھی ہیں۔ انہوں نے سفر نامے بھی لکھے ہیں۔</p> <p>صدر جلسہ قیصر شمیم نے کہا کہ تاریخ کبھی کبھی خود کو دہراتی بھی ہے۔ اس میں نئی نئی باتیں بھی آتی ہیں۔ خلافت کی تحریک کے حوالے سے اردو کا ایک پرانا رشتہ ترکی سے پیوستہ ہے جس کے اظہار کیلئے سیکڑوں صفحات بھی کم ہیں۔</p> <p>دیگر مقررین میں ایم پی محمد ندیم الحق، صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج ڈاکٹر دبیر احمد ، ڈاکٹر ذکائی کرداس ترکی، زینب سعیدی ،تریاق کے ایڈیٹر میر صاحب حسن ، ڈاکٹر شکیل احمد خاں، ڈاکٹر مشتاق انجم، وغیرہ شامل تھے۔نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر صباح اسمٰعیل نے بحسن خوبی انجام دی جبکہ اظہار تشکر ادارے کے نائب سکریٹری سید حسن نے کیا۔ جلسہ گاہ میں عمائدین شہر کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔پروگرام کے آخری حصہ میں شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔</p> </section> </body>
5423.xml
<meta> <title>ذمہ دار صحافت،تجدید وإحیاء</title> <author> <name>ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19548/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2042</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ذمہ دار صحافت،تجدید وإحیاء
2,042
No
<body> <section> <blockquote> <p>گذشتہ پیر کو مقامی ہوٹل میں پاکستان عربک لینگویج بورڈ کے زیر انتظام "جدید صحافت اور ہماری ذمہ داریاں "کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا،جہاں راقم نے اپنے صدارتی خطبے میں جومعروضات پیش کیں،ان کا خلاصہ إفادۂ عام کے لئے یہاں قارئین کے نذر ہے:</p> </blockquote> <p>اسلام میں دعوت وتبلیغ کا انحصار جن عوامل پر ہیں،ان میں سے اکثر کا تعلق صحافت سے ہے،آپ ﷺ کی ہفتہ واری مجلس، جمعے ،عیدین،نکاح وغیرہ کے خطبات،مراسلات وارشاداتِ نبوی ﷺ اور ان سب سے بڑھ کر قرآن کریم بجائے خود مکتوب ومقروؤ شکل میں،یہ سب کیا ہیں،یہ آگاہی ہیں،جسے آج میڈیا کہتے ہیں،ایک عالم دین یا مذہبی آدمی کا جتنا مضبوط تعلق میڈیا سے ہوگا،اتنا ہی وہ اپنے پیغام کے پہنچانے میں مؤثر ہوگا،لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتاہے کہ میڈیا میں کچھ ایسے عناصر اور رجحانات ہیں ،جن کے حوالے سے ہمارے بزرگوں کو شدید تحفظات ہیں،یہ تسلیم ہے، مگر صالح عناصر اگر یوں ہی دوری اختیار کرینگے،تو اصلاح کیسے ممکن ہوگی،سیرتِ نبویﷺ کے تناظر میں ہمیں ان سب مواقع ومقامات پے جانا پڑے گا،حکمت عملی سے متأثر کن کردار بھی ادا کرنا پڑے گا،یہ ہمارا دعوتی وتبلیغی فرض بنتاہے،شتر مرغ بن کر بیٹھے رہنے سے تو مسائل حل نہیں ہوں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ ہوں یا کوئی بھی پڑھاکو قسم کے لوگ ہوں ،ان کی بہترین کھپت میڈیا میں ہی ہے،عربی آتی ہو،تو اخبار وتحقیقات کی ایک عظیم دنیا آپ کے سامنے ہوگی،انگریزی آتی ہو،تو کیا کہنے،میگزین ہو،اخبار ہو یا ٹی وی ،کمپیوٹر،موبائل کی کوئی سکرین ہو،پوری دنیا آپ کے ہاتھوں میں ہے،نظریاتی میدانوں میں معرکہ آرائیاں بہادر نوجوانوں کے انتظار میں ہیں۔</p> <p>الغزو الفکری ایک باقاعدہ مضمون کے طور پرعرب دنیا میں نصاب کا حصہ ہے،یعنی نظریاتی جنگ،یہ وہ جنگ ہے، جو دین بیزار لوگ غیر فوجی وسائل کے ذریعے مسلمانوںکو مسخر کرنے اور ان کے عقائد، افکار، رسم و رواج ، اخلاق، اور زندگی گزارنے کے اسلامی ڈھانچے کو یکسر بدلنے کیلئے لڑتے ہیں۔ تاکہ مسلمان اپنے انفرادی تشص سے محروم ہوجائیں، اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں اغیارکی تقلید کرنا پڑے ۔</p> <p>اس جنگ میں ظاہری وجود کو نشانہ نہین بنایا جاتا، بلکہ دین، سوچ، فکر، معاشرتی رسم و رواج ،اقداراور اخلاق کوہدف بناکر کاری ضرب لگائی جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ باطنی عوامل ہیں، جو کسی قوم کے افراد کو اپنے ظاہری اور معنوی وجود بچانے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگ کی صف اول میں کھڑا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ان نظریاتی قوتوں کو آہستہ آہستہ منظم طریقے سے ختم کیا جاتا ہے، تو دشمن کے ساتھ ظاہری لڑائی کا تصور خودبخود ختم ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں فاتح قوم یعنی دشمن ہر قسم کے مالی و روحانی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ اور بغیر کسی عسکری لڑائی کے اسے اپنا مقصود بھی ہاتھ آجاتا ہے۔</p> <p>اس غیر فوجی جنگ میں جو وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ، وہ بھی نظریاتی اور فکری ہوتے ہیں، مثلاً، استاد، کتاب، درسگاہ، اسکول، کالج، یونی ورسٹیز،علمی تحقیقات، کتب خانے، اخبارات، رسائل، جرنلزم، ادبی لیٹریچر، معاشرتی علوم، علاج معالجہ کے ادارے، شفاخانے، ہسپتال، سیروتفریح کے مقامات، پارک، کلب، نائٹ کلبز، ہوٹلز، ساحل سمندر، میڈیا، ریڈیو ،ٹیلی ویثرن، سینماگھر، ویب سائٹس،ویب پیجز،ویڈیو کلپس،امیجز،تھیٹر، فلمیں بنانے والی کمپنیاں،انٹیلیجنس ادارے، این جی اوز،کارٹونسٹ،سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتیں، جنسی خواہشات کی تکمیل کے مواقع اور انکی تشہیر، فیشن، اور عریاںاشتہارات، اور ہر وہ چیز جس میں عورت کا استعمال ہو ۔ اور اسی قسم کے دیگر ذرائع جن کے پیچھے نہایت ماہر اور تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں، جن کا کام ہی، نظریاتی اور فکری اپداف کو اپنی مرضی کے مطابق مندرجہ بالا ذرائع کے ذریعے پھیلا کر عام لوگوں کی فکری اور نظریاتی اساس کو تبدیل کرنا ہوتا ہے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ کا میدان اتنا وسیع ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ،</p> <p>آج اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں ، تو ہمیں ہر طرف ، ہر شعبہء زندگی میں ایک ہی چیزنظر آتی ہےوہ یہ کہ ہمارا دشمن دن رات صرف ایک ہی جنگ جیتنے میں مصروف نظر آتا ہے، اسے آج کے مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اسکی فکری اساس، اور نظریاتی پہچان یعنی اسلام سے خطرہ ہے،تو ابنائے بھی اسلام اس جنگ کے لئے تیار ہیں،اگر ہیں تو پھر میدان میں آئیں،نظریاتی دلائل کی روشنی میں بھرپورمقابلہ کیجئے،اچھی طرح یاد رکھیں ،وہ زمانہ گیا،کہ آپ کے ایک فتوے کی وار سے بڑے بڑے بُت گرجایا کرتے تھے،اب وہ اتنے مضبوط اور آپ اتنے کمزور ہیں کہ بلاٹھوس دلیل اور بڑھکیاں مارنے کی وجہ سے وہ ہمیں گرانے کو ہیں،خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں پوری طرح تیار و ہوشیار ہوکر حکمتِ عملی بنایئے۔</p> <p>حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی جنگ کے اس محاذ پر ہماری پسپائی نے اہل اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے،اس کا مداویٰ اب یوں ہوگاکہ آپ ایک باوقار اور ذمہ دارانہ انداز میں میدانِ صحافت کا انتخاب کریں،اپنا لوہا منوایئے،بے جا فتوی بازیوں کا زمانہ اب نہیں رہا،یہاں اخبار سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے،پہلے خبر کی تہ تک جایئے،خبر ایک وہ ہے،جو آپ نے اصول حدیث میں پڑھی ہے اور ایک خبر دنیائے میڈیا کی ہے،وہ یہ ہے،جس کی تقسیم کے طریقے یکسر بدل گئے ہیں۔ موبائل فون اور دیگر موبائل آلات جنہیں انٹرنیٹ سے [جوڑا] یا کنیکٹ کیا جا سکتا ہے، اب ہر لمحے اور ہر جگہ موجود ہیں، اس لیے اطلاعات و معلومات کے صارف اور موجدکے درمیان فرق دھندلا پڑ گیا ہے ،بلکہ بعض صورتوں میں تو بالکل ہی ختم ہو گیا ہے، جیسے جیسے اطلاعات اور معلومات کے ذرائع میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ شہریوں کو ملنے والی معلومات جن کی روشنی میں وہ عمل کر رہے ہیں، ممکن ہیں مسخ شدہ یا غلط ہوں۔</p> <p>اس ماحول میں، شہریوں کو قابلِ اعتبار اور صحیح معلومات فراہم کرنے والی صحافت کی ضرورت ہے، تا کہ وہ اپنی بستی کو اور پوری دنیا کو سمجھ سکیں اور اپنے معاشرے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کر سکیں،بنیادی طورپرصحافی ایسے اخلاقی معیار اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن پر کاربند رہتے ہیں، جن سے اُنہیں اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے کہ ان کے کام سے سچائی، بھلائی،شفافیت اور کمیونٹی کی اقدار کا بول بالا ہو رہا ہے۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ایک صحافی انفرادی طور پر اور وہ تنظیمیں جو ان کے کام کو شائع کرتی ہیں، اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری میں عوام کا اعتماد حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی صحافی اعلیٰ ترین اخلاقی معیاروں کی کس طرح پاسداری کرسکتا ہے؟</p> <p>آپ میں بیشترنے خبر کی تحقیقات اصول حدیث میں پڑھی ہیں، آپ حضرات ان اصولوں کے اظہار سے جو صحافت کی بنیادی اقدار کا نچوڑ ہیں، اخلاقی معیاروں کا ہر جگہ بول بالا کرسکتے ہیں۔ عام طور پر ان میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں:</p> <p>• سچائی کا کھوج لگائیں اور ممکنہ حد تک اسے پوری طرح سامنے لائیں۔</p> <p>• طاقتور افراد کو جوابدہ ٹھہرائیں۔</p> <p>• کمزور اور بے سہارا لوگوں کی آواز بنیں۔</p> <p>• اپنے صحافیانہ طریقوں کے بارے میں شفاف رہیں۔</p> <p>• واقعات کے بارے میں اپنی سوچ منصفانہ اور جامع رکھیں۔</p> <p>• جب ممکن ہو، مفادات کے ٹکراؤ سے بچیں اور مسابقاتی وفاداریوں کو ظاہر کریں۔</p> <p>• نقصان کو جتنا کم کر سکیں، کریں۔ خاص طور سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کے سلسلے میں۔</p> <p>• اُن سے دور رہیں جو اپنے مفاد کے فروغ کی خاطر اور سچائی کو مسخ کرنے کی غرض سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔</p> <p>• تمام دوسرے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر، اپنی وفاداریاں ان شہریوں کے لیے وقف کر دیں جن کی آپ خدمت کرتے ہیں۔</p> <p>• اطلاعات کی تصدیق کی کوششوں میں چوکنے اور منظم رہیں۔</p> <p>• عوامی بحث وتمحیص اور تنقید کے لیے ایک فورم قائم کریں۔</p> <p>اس فہرست کا مقصد بنیادی اصولوں کی ایک مثال دینا ہے، لیکن یہ کوئی حتمی فہرست نہیں ہے۔ ہر نیوز روم اور صحافیوں کی انجمن کو اپنے اصولوں کی نشاندہی کرنا چاہیئے، جس سے انہیں اپنے مشن اور صحافت کے طریقوں کے لیے رہنمائی مل سکے۔ جب کوئی صحافی ایک بار اپنے بنیادی اصولوں کی وضاحت کر لیتا ہے، تو پھر اچھے اخلاقی فیصلے کرنے کے لیے قیادت، ناقدانہ اندازِ فکر، سوالات پوچھنے، کسی مخصوص صورتِ حال کے لیے متبادل راستوں کی نشاندہی کرنے، اور بالآخر ایسا متبادل راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے صحافیانہ مقصد کو بہترین انداز سے پورا کر سکے۔</p> <p>مثال کے طور پر، بہت سے صحافی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ سرکاری لین دین میں کیا ہو رہا ہے، گمنام ذرائع سے اطلاعات حاصل کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ فرض کریں، کوئی شخص آپ سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک منتخب سیاست دان کسی مقامی کاروباری ادارے سے رشوت لے رہا ہے، اور اس کے عوض وہ منافع بخش سرکاری ٹھیکے، اس کاروباری ادارے کو دلوا رہا ہے۔ صحافی اور اس کے ساتھی اپنے کام کا آغاز ان سوالات سے کریں گے:</p> <p>• اس اطلاع کی چھان بین کرنے میں ہمارا صحافیانہ مقصد کیا ہے؟ اِس سے شہریوں کو کیا فائدہ ہوگا؟</p> <p>• ایسی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے پیچھے اس ذریعے کا کون سا مقصد کار فرما ہے؟</p> <p>• کیا ایسی دستاویزات عام طور سے دستیاب ہیں جن سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہو؟</p> <p>• کیا اطلاع دینے والا ذریعہ، کسی قسم کی دستاویزات یا دوسرے ثبوت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟</p> <p>• ہمیں اس ذریعے کی نوعیت اور اِس کی معلومات کو کیسے بیان کرنا چاہئِے، اور ہم اس کی شناخت کو اپنے قارئین وناظرین سے خفیہ کیوں رکھ رہے ہیں؟</p> <p>• ہمیں اس اطلاع کی تصدیق کرنے کے لیے دوسرے ذرائع کہاں سے مل سکتے ہیں؟ کیا ان کا نام لیا جائے گا؟</p> <p>• اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہماری کہانی مکمل ہے، ہمیں دوسری کس قسم کی رپورٹنگ کرنا چاہیئے؟</p> <p>• کہانی کے ذریعے کو گمنام رکھنا ہماری ساکھ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے شاذونادر ہی خفیہ رکھنا چاہیے اور ایسا صرف بہت اہم واقعات میں کرنا چاہیئے۔</p> <p>• اگر ہم کسی گمنام ذریعے سے کوئی اطلاع شائع کرتے ہیں، تو اس کی تائید دو دوسرے ذرائع سے کی جانی ضروری ہے۔</p> <p>آپ کے لئےاس قسم کے رہنما اصول بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہر ممکن صورتِ حال کے لیے رہنما اصول فراہم نہیں کیے جا سکتے، اس لیے ان سے ٹھوس اخلاقی فیصلہ سازی میں تو مدد لی جا سکتی ہے، لیکن وہ ناقدانہ اندازِ فکر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔</p> <p>جدید دور کے صحافیوں کو اکثر اِس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور معلومات کا کیا کیا جائے، جو خیالات و تصورات کی مارکیٹ میں، شاید سوشل میڈیا کے ذریعے متعارف تو کرا دی گئی ہیں، لیکن یہ مصدقہ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ موبائل فون پر کوئی متنازعہ ویڈیو یا فوٹو ہو، کوئی دستاویز ہو ،جس میں بدعنوانی کا الزام لگایا گیا ہو، یا کوئی ایسا بیانیہ ہو، جو مقبول ہو گیا ہو۔ جب کسی کمیونٹی میں شہری ایسی اطلاعات پر بڑے پیمانے پر تبادلۂ خیال کر رہے ہوں ،جس کی جانچ پڑتال یا تصدیق نہ کی گئی ہو، تو صحافیوں کو صحیح صورتِ حال بتانے کے لیے اقدام کرنے چاہئیں۔ ایسی صورتِ حال میں آپ اس قسم کے سوالات پوچھ سکتے ہیں:</p> <p>• ہم اس اطلاع کی تصدیق یا تردید کے لیے، کیا کر سکتے ہیں؟</p> <p>• عام لوگوں میں سمجھ بوجھ میں اضافے کی خاطر، ہم حقائق کو کس طرح بے نقاب کر سکتے ہیں یا سیاق وسباق فراہم کر سکتے ہیں؟</p> <p>• دوسرے لوگوں کی فراہم کردہ ناقص معلومات کو درست کرنے کے لیے، ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟</p> <p>• اس اطلاع کی وصولی کی اطلاع دیتے ہوئے، ہم اپنی اعتمادی اور بے اعتمادی کی کس طرح وضاحت کر سکتے ہیں؟</p> <p>کسی صحافی میں اعتماد اور مہارت اس احساس سے پیدا نہیں ہوتے کہ اس کے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں، بلکہ اس کے لیے صحافیانہ اور اخلاقی اقدار کے بارے میں واضح سمجھ بوجھ کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایسے اچھے سوالات پوچھنے کا شعور ہونا چاہیے جو متبادل حل اور سچائی کے نئے راستے سامنے لا سکیں۔"(مأخوذ ازپوائنٹر انسٹیٹیوٹ مع تغییر وإضافات)۔</p> <p>حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ۔</p> <p>قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں۔</p> <p>کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں۔</p> </section> </body>
5424.xml
<meta> <title>میں جب جہاد میں شہادت کی موت مانگتا تھا۔</title> <author> <name>ضیاٗ الدین یوسفزئی ،برمنگھم</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19572/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1353</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
میں جب جہاد میں شہادت کی موت مانگتا تھا۔
1,353
No
<body> <section> <p>تم جیش ہو، سپاہ ہو، لشکر ہو، حزب ہو، احرار ہو، طالبان ہو اور یا ان سب کی ماں القاعدہ ہو۔ تم جو بھی ہو، جہاں بھی ہو، جس نام سے بھی لڑ رہے ہو اور جس سے بھی مدد لے رہے ہو، خود سیکڑوں کی تعداد میں مرکر اور دوسروں کو ہزاروں کی تعداد میں مار کر اگر تمھیں یہ گمان ہو کہ تم خدا کی راہ میں جہاد کر رہے ہو تو ذرا ٹھہرو، اور ع</p> <p>میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے.</p> <p>تمھیں اپنے جہاد کے لیے کسی مولوی یا مفتی سے فتویٰ لینے کی قطعاً کوئی حاجت نہیں۔ بس ذرا سا ایک طائرانہ نظر پچھلے چالیس سالوں کی جہادی تاریخ پر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ تم تاریخ کی جو بھی کتاب پڑھوگے، تمھیں اس حقیقت کا پتا چلے گا کہ تمھاری اس جہاد کی تیاری ستّر کی دہائی میں ہوئی اور جہاد کا باقاعدہ اعلان و آغاز امریکا میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اب امریکی ریاست کوئی خلافتِ عمر فاروقؓ تھوڑی تھی جو امارتِ اسلامی کو چار سُو پھیلانا چاہتی تھی۔ بلکہ امریکا اس جہاد کے ذریعے سرمایہ دار دنیا کے رہنما کے طور پر روسی ساخت کی کمیونزم کو روکنے اور اسے شکست دینے کے لیے پرعزم تھا۔</p> <p>یہ جہاد امریکا کے ڈالروں، سعودی عرب کے ریالوں اور سادہ لوح افغانوں کے مذہبی عقیدہ کی طاقت سے شروع ہوا۔ اس جہاد کے دوام کے لیے مرحوم ضیاء الحق نے امریکا کے ساتھ مل کر پورے پاکستانی معاشرے کو انتہاپسند جہادی اور بنیاد پرست مسلمان بنا دیا۔ اس وقت کے افغان کیمپوں کے اسکولوں میں سی آئی اے کا وہ نصاب چلتا تھا جس کو امریکا کے "نبراسکا یونی ورسٹی" نے تیار کیا تھا۔ جس میں دو کلاشنکوف جمع دو کلاشنکوف مساوی چار کلاشنکوف ریاضی کے سوالات ہوتے تھے۔ پاکستانی اخباروں کے اداریوں، نامور صحافیوں کی تحریروں، شعلہ بیاں مولویوں کی تقریروں، ریڈیو کے نغموں اور ٹی وی کے ڈراموں کے ذریعے جہادی رومانس کو نئی نسل کی رگ رگ میں اتارا گیا۔</p> <p>پختون خوا کے درو دیوار جہادی نعروں سے آلودہ اور مسجدوں کے منبر و محراب الجہا الجہاد کے نعروں سے گونج اٹھے تھے۔ یہی وہ دور تھا کہ 1983-84ء کے سالوں میں مَیں شانگلہ (سوات) کے ایک دُور افتادہ گاؤں "بر کانا" میں بھی اس جہاد کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ میرے استادِ محترم (جہاں بھی ہو خدا انھیں خوش رکھے) کا تعلق پنج پیری مکتبۂ فکر سے تھا۔ قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھاتے وقت وہ ہمیشہ تین نکات بہ تکرار میرے دل و دماغ میں راسخ کرنا چاہتے تھے۔ نمبر ایک یہ کہ میں اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھوں اور شرک و بدعت (بہ الفاظِ دیگر اجتہاد) سے دور رہوں۔ نمبر دو، کسی بھی آیتِ کریمہ میں جہاں بھی امکان ہو، مولانا مودودی صاحب کو برا بھلا کہ کر انھیں خارج از اسلام قرار دوں اور نمبر تین یہ کہ میں سراپا جذبۂ جہاد سے سرشار ہوجاؤں۔ میں اپنے استاد سے اتنا متاثر تھا کہ میں اپنے نام ضیاء الدین کے ساتھ پنج پیری لکھنے لگا تھا اور ہر نماز کے بعد دعا کرتا تھاکہ اے خداوند! مجھے توفیق و ہمت دے کہ میں کافروں کے خلاف جہاد میں لڑتے ہوئے شہید ہوجاؤں۔ دوسری طرف میرے والد محترم جواسکول میں معلم ہونے کے ساتھ ساتھ امامِ مسجد بھی تھے، جمعہ کے دن باقاعدگی سے خطبہ دیتے تھے۔ اپنے خطبے کے دوسرے حصے میں وہ عربی زبان میں کافروں کو زبردست قسم کی بد دعائیں دیتے تھے۔ جیسا کہ <annotation lang="ar">"الہم دمر دیار ہم و خرد بنیانہم و شتط شملہم۔"</annotation> اور اس کے بعد وہ <annotation lang="ar">"والروس وسین و سائرہ دہرین۔"</annotation> یعنی روس، چین اور تمام دہریوں کے لیے خصوصی بد دُعا مانگتے تھے۔ بد دُعا کی اس فہرست میں امریکا اور اس کے حواری اتحادیوں کے نام شامل نہیں تھے کیوں کہ ان کی سرپرستی میں تو ان کے لیے ہم جہاد لڑ رہے تھے۔</p> <p>جنرل ضیاء الحق مرحوم کے علماء و مشائخ کانفرنسوں میں خطابات سے لے کر مساجد کے مولویوں کے خطبات تک نشرو اشاعت کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے جہاد کی تبلیغ و ترویج کے لیے وقف تھے۔ یہ اسّی کی وہ دہائی تھی جب جمی کارٹر افغانستان کی آزاد اسلامی ریاست کے دفاع و تحفظ کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رونالڈ ریگن افغان مجاہدین کے کمانڈروں کو وائٹ ہاؤس بلاکر ان کی خصوصی خاطر تواضع کرتے تھے اور اسی دور میں جب مارگریٹ تھیچر مجاہدینِ اسلام کا خون گرمانے کے لیے لنڈی کوتل پہنچتی اور اپنے پورے زورِ خطابت میں مجاہدین سے وعدہ کرتی کہ "آزاد دنیا کے دل تمھارے ساتھ ہیں" تو فضا نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔</p> <p>قصۂ مختصر اس جہاد کے صفِ اوّل کے سپہ سالار جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور مارگریٹ تھیچر تھی۔ ان کا مقامی کماندان امیرالمؤمنین، مردِ مومن، مردِ حق، ضیاء الحق تھے۔ باقی رہے افغان جہادی لیڈر، جن کے نازو نخرے اٹھانے والا اب کوئی نہیں، وہ روز بروز گم نامی کی اتھاہ گھاٹیوں میں معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تو میرے نادان مسلمان مجاہدو! امریکا کا جہاد آپ اسّی کی دہائی کے آخر میں جیت گئے تھے جس کے نتیجے میں سوویت یونین نہ صرف پسپا ہوا بلکہ ٹوٹ بھی گیا۔ امریکا اپنا جہاد جیت کر افغانستان سے نکل گیا۔ نائن الیون کے بعد دوبارہ آیا تو تمھاری مدد کے بغیر اسامہ بن لادن کو زندہ نگل گیا۔ تم وہی مجاہدین تھے لیکن نہ امارتِ طالبان کو بچاسکے اور نہ ہی اسامہ بن لادن کو۔ میں کوئی طعنہ نہیں دے رہا ہوں لیکن صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمھارا جہاد اب ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ تم اب تک افغانستان کے لاکھوں شہریوں اور پاکستان کے پختون خطے میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کو مارچکے ہو۔ تمھارے جہاد کے نتیجے میں کتنے باپ اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاچکے ہیں، کتنی ماؤں کی گود اُجڑ چکی ہیں اور کتنی جوان عورتوں کے سہاگ لٹ چکے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ تم میں سے اکثر پختون ہیں جو بلا سوچے سمجھے اپنی ہی نسل کشی کر رہے ہیں۔ تم ہزارہ بلوچوں کو بھی عقیدے کے نام پر صفحۂ ہستی سے مٹا رہے ہو۔ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونی ورسٹی میں معصوم طالب علموں کا بہیمانہ قتل تمھارے "عظیم اسلامی معرکوں" کی درخشندہ مثالیں ہیں۔</p> <p>میرے گم نام سرفروشو! امریکا کے جہاد میں شامل ہوکر روس کو بھگانے کی منطق تو کچھ نہ کچھ سمجھ میں آ ہی جاتی ہے کیوں کہ ہم تم بہت سادہ لوح ہیں لیکن امریکا کی دشمنی میں جہاد کے نام پر اپنے ہی لوگوں کا قتل میرے جیسوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر تم یہ سب کچھ جہاد کا نام استعمال کرکے جان بوجھ کر کر رہے ہو اور تمھیں پتا ہے کہ ایجنڈا کوئی دوسرا ہے تو پھر لڑتے رہو، مرتے رہو اور مارتے رہو۔ لیکن اگر تمھارے دل میں تھوڑی سی بھی انسانیت کی رمق اور ایمان کا شائبہ موجود ہے تو اپنے کندھے پر لدھے ہوئے بھاری بھرکم راکٹ لانچر کی طرف ایک بار غور سے ضرور دیکھو، شاید یہ وہی راکٹ لانچر ہے جو تمھارے والد کے ہاتھ میں سی آئی اے اپنے جہاد کے لیے تھما چکا تھا، یہ شاید تمھیں میراث میں ملا ہے لیکن وہ جہاد کب کا ختم ہوچکا ہے۔ اس کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں، اس کے فوائد امریکا اور اس کے عالمی حواریوں، علاقائی شراکت داروں اور مقامی اڑھتیوں کو اپنے اپنے حصہ کے مطابق مل چکے ہیں۔ اب تمھارے خونی راستوں کی کوئی منزل نہیں۔</p> <p>روم راہے کہ اورا منزلِ نیست</p> <p>ازاں تخمِ کہ ریزم حاصلِ نیست</p> <p>تو اے میرے بھٹکے ہوئے مسافرو! تم خود بھی گھر کا راستہ بھول چکے ہوں اور ہم جیسے ہزاروں کو بھی بے گھر کرچکے ہوں۔ ہم پچھلے ساڑھے تین سالوں سے جلاوطن ہیں۔ میری ماں، ہمارے عزیزو اقارب ہم سے جدائی کے ماہ و سال گن رہے ہیں اور شاید تمھاری ماں اور دیگر پیارے رشتہ دار بھی تمھاری راہ تک رہے ہوں۔ موت بن کر قریہ بہ قریہ، کو بہ کو کیوں پھر رہے ہوں۔ لوٹ آؤ، زندگی بن کر اپنے گھر لوٹ آؤ۔ کیوں کہ خارزار راستوں پر زخم زخم ہونے سے بہتر ہے کہ اپنے گھر، اپنی جنت لوٹ آؤ۔</p> </section> </body>
5425.xml
<meta> <title>سعودی عرب ایران سے مشروط مذاکرات کے لیے تیار</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19601/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>370</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سعودی عرب ایران سے مشروط مذاکرات کے لیے تیار
370
No
<body> <section> <p>سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ایک سینیئر رکن پرنس ترکی بن فیصل السعود نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ شام سے ایران اپنے فوجی ہٹانے کے لیے رضامند ہو۔</p> <p>مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مخالف تسلیم کیے جاتے ہیں۔ شام کے بحران میں جہاں ایران صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ہے وہیں سعودی عرب ان کے مخالفین کا حامی ہے۔</p> <p>لیکن پرنس ترکی نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں عندیہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگي ختم ہو سکتی ہے۔</p> <p>اس سلسلے میں انھوں نے ایران کے سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا ذکر کیا جو ان کے مطابق سنہ 1980 کی دہائی میں سابق سعودی شاہ عبداللہ کے ساتھ مل کر دونوں ممالک درمیان علیحدگي کے دور کو ختم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔</p> <p>بی بی سی کی فارسی سروس کو دیے جانے والے انٹرویو میں انھوں نے مزید بتایا کہ 'دونوں ممالک کے بہت سے مشترکہ مفاد ہیں جو انھیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔'</p> <p>سعودی پرنس نے کہا کہ شام سے بڑی تعداد میں اپنے فوجی ہٹانے کے روس کے فیصلے پر انھیں حیرت ہے۔</p> <p>انھوں نے کہا کہ 'اس فیصلے سے شام میں امن کے لیے ہونے والی موجودہ کوششوں کو تقویت ملے گی اور وہاں جاری خونریزی کو بھی روکنے میں مدد ملے گی۔'</p> <p>انھوں نے کہا: 'تمام غیر ملکی فوجیوں کو شام سے چلے جانا چاہیے شام کے لوگ اس کا استقبال کریں گے۔'</p> <p>امریکی صدر براک اوباما سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پرنس ترکی نے کہا کہ اوباما کو ان کے ملک پر بے بنیاد الزامات کا جواب دینا ہی ہو گا۔</p> <p>اوباما نے سعودی عرب سمیت امریکہ کے کئی اتحادی ممالک کو 'فری رائیڈرز' یعنی مفت خور کہا تھا۔</p> <p>سعودی شہزادے نے کہا کہ ان کا ملک ایک ذمہ دار خود مختار ملک ہے اور اس نے کبھی کوئی 'مفت سواری' نہیں کی ہے۔</p> <p>انھوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب 'دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والا ملک نہیں ہے، جیسا کہ الزام لگایا جاتا ہے۔'</p> <p>اس کے برعکس پرنس ترکی نے کہا کہ 'ہم دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار ہیں۔'</p> </section> </body>
5426.xml
<meta> <title>پاکستان کو سیکولر لبرل ریاست بنانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ قاری حنیف جالندھری</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19605/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>320</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان کو سیکولر لبرل ریاست بنانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ قاری حنیف جالندھری
320
No
<body> <section> <p>جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا ہے کہ یوم پاکستان کے موقع پر دینی مدارس بند کرنے کے بجائے حکومت اپنی سیکورٹی بہتر بنائے ۔</p> <p>انہوں نے کہاہے کہ سیکولراورلبرل ازم کے نام پرعلماء کر ام اوردینی مدارس کودیوارسے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے،</p> <p>کچھ منفی قوتیں مدارس اور پاکستان کا آپس میں ٹکراؤ چاہتی ہیں،</p> <p>تحفظ حقوق نسواں بل پراگرپہلے سے علماء سے مشاورت کی جاتی تویہ صوتحال پیدانہ ہوتی،</p> <p>اسلامی نظریاتی کونسل حقوق نسواں ایکٹ کے حوالے سے اپنی جائزہ رپورٹ جلد حکومت کودے ،</p> <p>ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،</p> <p>اس ملک کی بنیادوں میں ہمارے اکابرین کا خون شامل ہے۔</p> <p>پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں ۔</p> <p>ملک میں شرح خواندگی بڑھانے میں مدارس کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دینی اداروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں پھلنے اور پھولنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔</p> <p>وفاق المدارس کے زیر اہتمام 3 اپریل کو لاہورمیں ہونے والی استحکام مدارس و پاکستان کانفرنس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اہم سنگ میل ثابت ہوگی،</p> <p>کانفرنس میں مستقبل کالائحہ عمل بھی تیارکیاجائے گا،یوم پاکستان پردینی مدارس کی بندش کافیصلہ درست نہیں حکومت مدارس بندکرنے کی بجائے اپنی سیکورٹی کے انتظامات بہترکرے۔</p> <p>مولانا حنیف جالندھری نے کہاکہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، یہاں کوئی غیراسلامی قانون نہیں بن سکتا،اس ملک کو سیکولرریاست یالبرل ریاست بنانے کااعلان کرنا پاکستان کے آئین کے خلاف ہے،</p> <p>یہ ملک کلمے کے نام پربناہے اورکلمے کے نام سے ہی قائم رہے گا ایک عرصے سے ایساماحول بنایاجارہاہے کہ ہمارا ملک سیکولرازم کی طرف چلاجائے اس ملک میں سیکولر ازم کے فروغ کی سازش کی جا رہی ہے،</p> <p>اس موقع پران کے ہمراہ مولاناپیرعزیزالرحمن ہزاروی ،مولاناظہوراحمدعلوی ،مولانانذیرفاروقی ،مولاناعبدالغفار،مولاناعبدالقدوس محمدی اور مولاناتنویرعلوی بھی موجود تھے</p> </section> </body>
5427.xml
<meta> <title>وہ بیمار نہیں طاقتورتھا</title> <author> <name>ابراہیم کنبھر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19753/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1507</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وہ بیمار نہیں طاقتورتھا
1,507
No
<body> <section> <p>اب وہ شخص واقعی بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں پارلیمنٹ سے لے کر ڈی چوک تک مکے لہرا کر اپنی طاقت اور جواں مردی کا اظہار کرنے والے اس شخص کی جوانی تو کب کی ڈھل چکی، اب تو چہرے کی جھریاں اس کی ضعیفی کا پتہ دیتی ہیں۔ اب تو اس کی چال ڈھال بھی اس کی عمر رسیدی کا چلتا پھرتا ثبوت ہیں۔</p> <p>عمر کے اس حصے میں ایک شخص کو جتنی بیماریوں نے گھیرنا ہوتا ہے ان میں سے اکثر اس 72 سالہ شخص کو بھی لگ چکی ہیں۔</p> <p>سنگین غداری مقدمے کی شروعات میں جس شخص کا بلڈ پریشر جواں سال لڑکے کی طرح ہونے کی گواہی وکیل استغاثہ دیا کرتا تھا، اب اس شخص میں وہ بات ہی نہیں رہی۔</p> <p>عدالتی حکم پر بننے والے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر خصوصی عدالت نے بھی فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ کے مطابق ایسی کوئی خطرناک بیماری نہیں کہ ملزم عدالت میں بھی نہ آسکے۔</p> <p>وہ تب کی بات ہے اور ان تین سالوں میں بلڈ پریشر دن بہ دن بڑھتا رہا، کمر درد کو ایک عرصہ ہوچکا، غدود بڑھنے کی شکایت کو بھی تین سال ہو چکے، اب ریڑھ کی ہڈی کا معاملہ اتنا سنجیدہ ہو چکا ہے کہ بقول دفاعی وکیل کسی بھی وقت فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔</p> <p>یہ تمام بیماریاں، عمر رسیدی، ضعیفی اور گھٹن والے ماحول کی یکسانیت اور جسمانی کمزوریوں کے باوجود وہ شخص آج بھی اتنا مضبوط اور بااثر ہے کہ کوئی عدالت، کوئی حکومت، یہاں تک کہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ بھی، ان کے خلاف کچھ کر نہ سکی۔</p> <p>اس عمر میں بھی وہ 12 اکتوبر 1999 سے لے کر 3 نومبر 2007 تک اٹھائے گئے تمام اقدمات کا تنِ تنہا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ ججوں کو معزول کرنے کی بات سرے سے نہیں مانتے، اکبر بگٹی کے قتل پر نہیں پچھتاتے اور لال مسجد آپریشن کو حکومت کا اجتماعی فیصلہ مانتے ہیں۔ وہ یہ سب کر چکے لیکن پھر بھی کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔</p> <p>تصور کریں کہ اگر کسی عام شخص کو ایسے مقدمات کا سامنا ہو تو کیا وہ اس طرح آرام سے اپنی رہائش گاہ پر رہ سکتا ہے، دوستوں سے ملاقاتیں کرسکتا ہے اور روزانہ ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دے سکتا ہے یا اپنی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کر سکتا ہے؟</p> <p>عام شہری تو کیا عام شہری کے ووٹ پر بنی حکومتوں کے سربراہان کا بھی عدالتی مقدمات میں جو حشر نشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔</p> <p>یہ بھی تو ہماری تاریخ کا بدترین باب ہے کہ کس طرح ایک منتخب وزیرِ اعظم کو ایک فوجی آمر کی ایما پر براہِ راست ہائی کورٹ سے مقدمہ شروع کروا کر سزائے موت دلوائی گئی اور سپریم کورٹ سے اس پر مہر لگوا کر تختہ دار پر پہنچا دیا گیا، بھلے ہی بینچ کے 9 میں سے 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔</p> <p>وہ بھی تو ہماری اپنی ہی عدالتیں تھیں نہ جو ایک اور وزیرِ اعظم کو نام نہاد ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید تک کی سزا دے دی تھی۔ آمریتی ادوار کی عدالتوں کا تو کیا کہنا مگر جمہوری حکومتوں میں لگی عدالتوں نے بھی تو کمال کیے ہیں۔</p> <p>سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دنوں میں ایک وزیراعظم کو ایک ایسے مقدمے میں چلتا کیا جو مقدمہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ ایک وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے بعد اسی مقدمے میں دوسرے وزیراعظم کو طلب کرکے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا۔</p> <p>اور تو اور میمو گیٹ میں ایک سویلین صدر کو ایوان صدر سے باہر نکالنے کی باتیں بھی کی گئیں۔</p> <p>کبھی تو لگتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور پرویز مشرف بھی جنرل یحییٰ خان کی طرح بااثر اور مضبوط ہیں، جنہیں ملک کے دولخت کرنے کا ذمہ دار تک نہیں ٹھہرایا گیا، اور پھر ان کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے خلاف ملکی قانون اور قانونی مشینری نظربند کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔</p> <p>ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی ایک مقدمہ تو درج نہیں، ایک ہی وقت میں ان کے خلاف بینظیر بھٹو اور غازی عبدالرشید کے قتل کے مقدمے بھی چل رہے ہیں تو ججوں کو غیر قانونی طور پر نظربند کرنے، معزول کرنے اور ہراساں کرنے کا مقدمہ بھی ہے، مگر سب سے بڑا مقدمہ آئین شکنی کا ہے جو جرم ثابت ہونے پر اگر ملزم سزائے موت سے بچ نکل بھی جائے تو عمر قید ان کا مقدر لازمی بنتی ہے۔</p> <p>یہ بات الگ ہے کہ اب تک پرویز مشرف کو اس مقدمہ سے کوئی نتیجہ نہ نکلنے کا یقین تھا اور کئی تکنیکی نکات کی بنیاد پر یہ مقدمہ خاص عدالت سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک جاتے جاتے پھر آکر خصوصی عدالت پہنچا ہے، جہاں اس عدالت نے ملزم کو 31 مارچ کو طلب کر رکھا ہے۔</p> <p>اس مقدمے کی تمام تر پیچیدگیوں کو سپریم کورٹ نے حال ہی میں سنائے گئے فیصلوں سے آسان کر دیا ہے، اور اب یہ مقدمہ پھر سے خصوصی عدالت میں چلنا چاہتا ہے، لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس بار کی پیشی پر سنگین غداری کا ملزم ملک میں موجود ہی نہیں ہوگا۔</p> <p>اتنے کیسز، پیشیاں، وارنٹ اور سمن جاری ہوتے رہے لیکن نہ تو ملزم نے کبھی پرواہ کی نہ ہی کسی پیشی پر حاضری کو ضروری سمجھا۔ ملزم کی اس 'مجبوری' کو ایک عدالت تو سمجھ گئی اور اکبر بگٹی قتل کیس سے بری کر دیا۔</p> <p>بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ ہو یا غازی عبدالرشید قتل کیس، بس تمام عدالتی کارروائی کو ایک ہی میڈیکل سرٹیفکیٹ کی مار سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھنا کسی عام سے شہری کے بس کی بات تو نہیں۔ اور جب خصوصی عدالت سمن جاری کرے تو کون ہے جو عدالت جانے کے بجائے اے ایف آئی سی میں داخل ہوجائے؟</p> <p>جب وارنٹ جاری ہوں تو شہر کے داروغہء خاص کو بھی ہسپتال میں داخلے کے لیے دو دن کا انتظار کروایا جاتا ہے۔ ملزم کے با اثر ہونے کا ڈر تھا یا ملزم کے حامیوں کا خوف، لیکن جب سپریم کورٹ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا کیس سن رہی تھی، تو وفاقی حکومت کا چیف پرنسپل افسر ملزم کو باہر بھیجنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس مؤقف دینے سے کترا رہا تھا۔</p> <p>جب بار بار عدالت نے سوال کیا کہ حکومت خود کیا چاہتی ہے تب بھی اٹارنی جنرل چپ ہی رہے۔ بس ایک ہی بات کرتے رہے کہ کیونکہ عدالت نے ملزم کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم نے بھی نام رکھا ہوا ہے۔</p> <p>جب حکومت اپنے کاندھوں کا وزن عدالت پر ڈالنے لگی تو عدالت نے یہ ہی آبزوریشن دی کہ آپ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کرتے اور عدالتی احکامات کے پیچھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟</p> <p>یہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے ملزموں کی حراست کو ریگولیٹ کرنے کے حکومتی اختیارات سے دستبردار ہوتے ہوئے فرما دیا کہ یہ کام عدالتوں کا ہے، جس پر عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو گرفتار کرنا یا حراست میں رکھنا عدالت کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی کو قانون سے ہٹ کر حراست میں رکھا جاتا ہے تو پھر عدالت معاملات دیکھے گی۔</p> <p>پرویز مشرف کے ملک چھوڑنے کی آخری رکاوٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ختم ہو چکی ہے اور مشرف بھی بالآخر تمام مقدمات سے دور دبئی پہنچ چکے ہیں۔ پرویز مشرف کے باہر جانے پر مجھے دنیا کی ان تمام آمروں کے ملک سے جانے اور زندگی کے باقی دن ریاستی یا خودساختہ جلاوطنی کے دن یاد آ رہے ہیں۔</p> <p>دنیا کی تاریخ کئی آمر حکمرانوں کی جلاوطنی کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ صدام حسین اور معمر قذافی کی موت تو اپنے ہی ملکوں میں ہوئی لیکن نپولین بونا پارٹ سے پنوشے اور رضا شاہ پہلوی تک کئی آمروں کو جلاوطنی کے دن کاٹنے پڑے تھے اور ان میں سے اکثر تو آخری دنوں میں وطن کی مٹی کو بھی ترستے رہے۔</p> <p>مثالیں اتنی ہیں کہ صفحات کے صفحات بھرے جا سکتے ہیں۔ جس جس آمر نے سالوں تک اپنے اپنے ممالک میں شاہانہ زندگی گزاری ہے، آگے پیچھے جی حضوری کرنے والے مصاحب دیکھے ہیں، پچاس پچاس گاڑیوں سے کم جن کا قافلہ کبھی نہیں ہوتا تھا، انہوں نے جلا وطن ہو کر ہمیشہ غریب الوطنی ہی کی زندگی گزاری ہے۔</p> <p>اس ملک کا آمر جنرل پرویز ملک سے جا تو رہا ہے لیکن اس ملک میں رہ کر اگر وہ عدالتوں سے بے خوف ہو کر کسی سویلین حکمران کی طرح مقدمہ لڑتا تو ہی بہتر تھا، کیونکہ ملک کے اندر کی گھٹن سے باہر کی آزاد فضا کی گھٹن جلدی کھا جاتی ہے۔</p> <p>مگر شاید عدالتوں کا سامنا کرنا اتنا بھی آسان نہیں، اسی لیے جو 'ڈرتا ورتا' نہیں تھا، اس نے بھی پہلے اے ایف آئی سی کی پناہ میں اور پھر ملک سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔</p> </section> <section> <p>ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔</p> </section> </body>
5428.xml
<meta> <title>جاناجنرل(ر) پرویز مشرف کا</title> <author> <name>محمد عامر خاکوانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19781/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1467</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جاناجنرل(ر) پرویز مشرف کا
1,467
Yes
<body> <section> <p>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p> <p>جنرل (ر)پرویز مشرف آخر ملک سے باہر چلے گئے، پچھلے کئی ماہ سے چلنے والا ڈرامہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ اخباری تجزیوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یہ ایشو اب کئی دنوں تک زیر بحث رہے گا،اگر چہ عملاً اب یہ سانپ پیٹنے والی بات ہوگی ۔</p> <p>مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نے مرکز میں حکومت بنائی تو کچھ ہی عرصہ کے بعد حکومتی کیمپ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف انتقامی جذبات انگڑائی لینے لگے۔ہر پارٹی کے اندر کچھ زیادہ سخت گیر، جارحانہ مزاج، جوشیلے لوگ ہوتے ہیں جنہیں عقاب <annotation lang="en">(Hawk)</annotation> کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ مصلحت اندیش، محتاط اور جارحانہ پالیسی سے گریز کرنے والے موجود ہوتے ہیں، انہیں پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں فاختہ <annotation lang="en">(Dove )</annotation> کہہ دیا جاتا ہے ۔یہ اصطلاحات سفارت کاری کے حوالے سے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے جب خورشید قصوری صاحب کو وزیرخارجہ بنایاتو یہ منصب سونپنے سے پہلے ان سے ملاقات کی۔ بقول قصوری صاحب، جنرل مشرف نے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ سوچ کے حساب سے عقاب ہیں یا فاختہ؟ خورشید قصوری کا جواب تھا، عقاب ہوں نہ فاختہ <annotation lang="en">(Neither a Hawk Nor a Dove)</annotation> ۔اسی نام سے قصوری صاحب نے اپنی خودنوشت بھی شائع کی۔</p> <p>بات پرویز مشرف سے سیاسی انتقام کی ہو رہی تھی، مسلم لیگ ن اور شریف برادران کی سیاست کے نبض شناسوں کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف مسلم لیگ میں سخت گیر سوچ رکھنے والے گروپ میں بڑے میاں صاحب بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ وہ جو تصویر دل کے چوکھٹے میں اتار لیں، اسے جلدبدلتے نہیں ۔ جسے پسند کرتے ہیں، ا س کے لئے نرم گوشہ برسوں بلکہ عشروں تک رکھتے ہیں۔ ناپسند بھی اسی شدت اور قوت سے کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مئی کے انتخابات کے بعد حکومت بنی تو وزیراعظم ہاﺅس دو حوالوں سے خاصا پرجوش اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھا۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ اب ہم اپنی سوچ اور فکر کے مطابق پاک بھارت دوستی کا عمل تیز کریں گے ، ایم ایف این سٹیٹس دینے کے علاوہ بھی کئی امور پربرق رفتار پیش رفت کی جائے گی۔ایک سینئر صحافی کے بقول ، ایک اہم حکومتی وزیر سے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلق بڑھاتے ہوئے زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھے جائیں ، ورنہ "مسائل" پیدا ہوجائیں گے۔ وزیر موصوف نے اس صائب مشورے پر انہیں گھورااور تحکمانہ انداز میں انگلی کھڑی کر کے کہا،" اب جو ہم فیصلہ کریں گے ،وہی ہوگا۔" بعد میں جو ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔جس تیزی سے آگے بڑھے تھے، اتنی ہی تیزی مگر پشیمانی کے پسینے کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔سب کو سمجھ آگئی کہ پاک بھارت تعلقات ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں، یہ ٹیسٹ میچ ہے ، وہ بھی عام دورانیے سے زیادہ طویل ۔ ویسے بھی جب تک نئی دہلی میں پاکستان سے خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی امنگ پیدا نہیں ہوگی، اسلام آباد میں چہرہ کوئی بھی ہو، یک طرفہ بنیادوں پر وہ کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔</p> <p>جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا معاملہ بھی ویسی نوعیت کا ثابت ہوا۔ حکومتی کیمپ کو ان کے بعض بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس کھیل میں نہ شامل ہوں، اس سے فائدہ کم ہے، نقصان کا خدشہ زیادہ۔ مشورہ دو دلائل کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔اول یہ کہ سویلین حکومت کو ابتدا ہی میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں الجھنا چاہیے، اس سے باہمی تعلقات کشیدہ ہوں گے اور فائدہ سیاسی مخالفین اٹھائیں گے ۔اس کے جواب میںحکومتی "عقابوں" کا خیال تھا کہ ہم شروع میں زیادہ طاقتور ہوں گے کہ اتنا جلدی کوئی اسٹیبلشمنٹ عوامی مینڈیٹ لینے والی حکومت کو نکال نہیں سکتی، اس لئے جو کرنا ہے، شروع میں کرگزرو۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑا، قانونی طور پر وہ یقیناً مجرم ہیں ،لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں، وہ عسکری حلقوں میں مقبول ہیں اور اہم حلقوں میں یہ مستحکم تاثر ہے کہ مشرف نے شدید امریکی دباﺅ کے باوجود پاکستانی مفادات(ایٹمی اثاثوں ، طالبان کے ساٹھ سٹریٹجک تعلقات وغیرہ) کا بڑی حد تک تحفظ کیا ہے۔حکومتی جماعت محض اپنے انتقامی جذبات کی تسکین کے لئے عدالتوں میں کھینچنا اور ذلیل کرنا چاہتی ہے۔دوسری طرف مشرف مخالف حکومتی حلقے کا یہ خیال تھا کہ پرویز مشرف نے ملک وقوم کو رسوا کیا، جمہوریت پر شب خون مارا ، عدلیہ کی آزادی سلب کی۔اس کے ساتھ ساتھ جنرل پرویز مشرف نے تین چار حوالوں سے بہت بدنامی کمائی۔نائن الیون کے بعدمقبوضہ کشمیر میں جہادی تنظیموں کو سپورٹ کے حوالے سے یوٹرن، پھر جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اورافغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ سے تعاون نے روایتی مذہبی حلقوں کو مشرف مخالف بنا دیا۔مذہبی جماعتیں، دینی مدارس کے طلبہ اورمسجد ومنبر سے تعلق رکھنے والے حلقے اس پر بڑے برہم اور آزردہ ہوئے ۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر ہونے والے آپریشن نے ان جذبات کو دس سے ضرب دے دی۔مذہبی حلقوں کے غیض وغضب کی انتہا نہ رہی ۔نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت نے ایک اور انداز سے آگ بھڑکائی، بلوچ ، پشتون قوم پرستوں کے علاوہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے والے جمہوری حلقے بھی خفا ہوئے۔ حکومتی کیمپ کا خیال تھا کہ یہ تمام فیکٹر اکٹھے ہو کر پرویز مشرف کو رسوا کرنے اور عدالت کے ذریعے اسے سزادلوانے کے لئے کافی ہوں گے۔ یہ خیال بھی یقیناً کہیں نہ کہیں گردش کر رہا ہوگا کہ اگر ایک بارکسی کو اس آئینی شق کے تحت سزامل گئی تو پھر مستقبل میں ایسا ایڈونچر کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں آئے گا۔</p> <p>پچھلے سال ڈیڑھ کے دوران اس حوالے سے جو کچھ ہوتا رہا، وہ سب کے سامنے ہے۔آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے معاملے میں نہ الجھنے کا مشورہ دینے والے درست ثابت ہوئے۔ حکومت یہ کیس شروع کر کے پھنس گئی ۔ ان کے لئے نہ نگلے جانے، نہ اگلے جانے والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ پیچھے ہٹنا بھی ندامت اور شرمساری کا باعث تھا، آگے برق رفتار پیش رفت بھی ممکن نہیں تھی۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود مشرف کو جیل بھیجنے میں بھی حکومت ناکام رہی۔ گھر میں نظربندی پر اکتفا کرنا پڑا یا پھر ہسپتال کے لگژری کمرے میں رکھنا پڑا۔ اس صورتحال میں حکومت کے لئے بہترین آپشن یہی تھی کہ کسی طرح باہر علاج کرانے کے نام پر سہی، پرویز مشرف کو باہر بھیج دیا جائے ،اس سے ہر فریق کا کچھ نہ کچھ بھرم رہ جائے گا۔ پرویز مشرف محفوظ ہو جائیں گے، ان کے بہی خواہوں کو اس سے طمانیت کا احساس ہوگا۔ حکومت کو یہ تسلی رہے گی کہ کم از کم انہوں نے کیس تو چلایا۔وہ کہہ سکے گی کہ کبھی کسی نے اتنا بھی نہیں کیا تھا، زرداری نے تو گارڈ آف آنر دیا ، ہم نے توکیس چلایا۔ اگر عدالت نے غیر موجودگی میں سزا سنا دی تو اس سزا پر کچھ شور مچاکر، بھنگڑے ڈال کر خوشی منا لی جائے گی، ادھر پرویز مشرف کو یہ اطمینان رہے گا کہ میں نے کیس فیس کیا تھا ، پیچھے نہیں ہٹا اور بیماری کی بنیاد پر مجبوراً باہر آیا ۔ وہ دوبارہ واپس آنے کی بڑھک بھی مار سکتے ہیں۔ کوئی یقین کرے یا نہ، اس سے کمانڈو کو فرق نہیں پڑتا۔</p> <p>اب ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ چودھری نثار نے پریس کانفرنس میں وہی باتیں کر کے حکومت کا دفاع کرنے کی سعی کی ہے۔ پرویز مشرف نے علاج کے بعد واپس آنے کا مژدہ سنایا ہے ۔ تیسرے فریق کی رائے تو کھل کر سامنے نہیں آ یا کرتی ، اس کے بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں، وہ لگائے جار ہے ہیں۔ یہ تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ موجودہ عسکری قیادت کا رویہ مثبت رہا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو سابق آرمی چیف کو قدرے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل کیانی کے بھائیوںکے حوالے سے تحقیقات چل رہی ہیں، جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنے اندازوں کے برعکس خاصے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔پرویز مشرف نے کوشش کی کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لپیٹ میں لیا جائے تاکہ اتنا غبار اڑے کہ کوئی کچھ نہ کر پائے۔ عدالت نے یہ کوشش ناکام کر دی۔ جسٹس ڈوگر اور دیگر کو شریک نہ کرنے سے اب کیس پرویز مشرف ہی کی جانب بڑھ اور دائرہ تنگ ہو رہا تھا۔ باہر جانے کے سوا ان کے پاس آپشن کوئی نہیں بچی تھی۔ سیاسی قوتیں چاہیں تو اسے اپنی فتح قرار دے سکتی ہیں۔ اس وقت اہم ترین بات یہ ہے کہ کیا کوئی ڈیل ہوئی ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے؟باخبرصحافیوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں نیب کی پنجاب میں کارکردگی اس سوال کا جواب دے گی۔ اسی سے اندازہ ہوگا کہ ڈیل ہوئی یا نہیں؟</p> </section> </body>
5429.xml
<meta> <title>ملاقات ڈاکٹر خورشید رضوی سے</title> <author> <name>فرحان احمد خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/19933/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2273</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ملاقات ڈاکٹر خورشید رضوی سے
2,273
Yes
<body> <section> <p>پرسوں شام برادر بزرگ محمودالحسن کی معیت میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے آشیانے پر حاضری ہوئی۔ڈاکٹر خورشید رضوی ایک باکمال شاعر،عربی زبان کے عالم و محقق اور فارسی کا گہرا درک رکھتے ہیں۔ محمود الحسن نے میرا تعارف اپنے دوست کے طور پر کرایا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ" میرا خیال تھا کہ محمود کا کوئی بھی دوست 70 سال سے کم عمر کا نہ ہو گا مگر آپ نے اسے غلط ثابت کر دیا۔" میں نے انہیں یاد دلایا کہ محمود الحسن کی شادی پر بھی آپ نے یہ جملہ کہا تھا۔</p> <p>دونوں صاحبان علم محو کلام ہوئے۔ بات انتظار صاحب کی حسین یادوں سے شروع ہوئی ۔دلچسپ تھی کیونکہ دونوں صاحبان کو انتظار صاحب کا بہت قرب حاصل رہا۔پھر اعجاز بٹالوی مرحوم کی شخصیت اور فن کی باتیں ہوئیں ،خورشید رضوی صاحب نے ان کی خوش کلامی اور بصیرت کے دلچسپ واقعات سنائے ۔ان کے سنائے ہوئے کچھ لطیفے بھی خورشید صاحب نے نقل کیے ۔اعجاز بٹالوی کے بھائی آغا بابرکا بھی ذکر ہوا۔وزیر الحسن عابدی صاحب کے بارے میں رضوی صاحب کہنے لگے کہ وہ بہت اعلیٰ اور عالمانہ گفتگو کرتے تھے۔ رضوی صاحب نے وہ واقعہ سنایا جب انہیں فردوسی کا ایک شعر سمجھنے میں دقت ہوئی تو کیسے عابدی صاحب نے اسے لمحوں میں صاف کر دیا تھا۔</p> <p>ڈاکٹر خورشید رضوی بہت دھیمے لہجے میں لفظوں کے خوبصورت انتخاب کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں۔محمود الحسن کے سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے طالب علمی کے زمانے کی یادیں کھنگالیں کہ کس طرح انہوں نے سائنس کے مضامین کی بجائے اردو پڑھنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ان کے بقول وہ سائنس کے تجرباتی پہلومیں کافی دلچسپی رکھتے تھے لیکن ہرروز لمبے چوڑے نوٹس لکھ کر لانا ان سے نہ ہوا۔چنانچہ پھر انہوں نے اردو ہی میں اپنے شاندار سفر کا آغاز کیا اور پھر کہیں رکے نہیں۔</p> <p>خورشید رضوی اپنے اردوذوق کی آبیاری میں "سرمایۂ اردو" کا بہت کردار دیکھتے ہیں۔ شاہنامہ فردوسی کا ذکر ہوا،غالب کے فارسی کلام کے متعلق بہت جاندار گفتگو ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ غالب کا فارسی کلام بہت کمال کی چیز ہے ۔محمود الحسن نے پوچھا کہ پھر ان کی نسبت اقبال کیوں فارس میں زیادہ مقبول ہوئے؟ خورشید رضوی نے بہت تفصیلی جواب دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ غالب اور بیدل وغیرہ پیچیدہ کلامی کو پسند کرتے تھے اور یہ پیچیدہ بیانی ایرانیوں کے ذوق کے مطابق نہیں تھی۔ اس بات پر دلیل غالب ہی کے اس فارسی شعر سے باندھی کہ</p> <p>سخن سادہ دلم را نہ فریبد غالب</p> <p>نکتۂ چند زپیچیدہ بیانے بمن آر</p> <p>انہوں نے بتایا کہ اقبال کے ہاں سہل نگاری ہے جسے ایران میں بہت پسند کیا گیا لیکن دوسری جانب اقبال خود غالب کے بہت بڑے مداح تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک نوٹ میں غالب کو "دی پرشیئن پوئیٹ"(فارسی شاعر) لکھا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نظیر اکبر آبادی کی قوت مشاہدہ اور اس کو ادا کرنے کی طاقت کے بہت قائل ہیں اور انہیں غیر معمولی آدمی قرار دیتے ہیں۔پھر کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں اس طرح کا شعور احسان دانش میں تھا۔ انہوں نے شروع سے لے کر اپنے آخری دور تک کے رنگوں کے ساتھ اپنی آواز ملائی۔</p> <p>ڈاکٹر خورشید رضوی نے 2007ء میں اپنے دورہ ہندوستان کے دوران تاج محل کی ادھوری سیر کے بعد نظیر اکبر آبادی کے مزار کی زیارت کا واقعہ بھی سنایا اور وہاں کے ماحول کی خوب منظر کشی کی۔</p> <p>ماضی کی ان ہستیوں کا ذکر چلا تو کہنے لگے کہ آج بھی آپ کو کروڑوں انسانوں میں دس بیس تو ایسے مل ہی جائیں گے جنہیں کل لوگ بڑا آدمی قرار دیں گے ۔آج کروڑوں کے مجمعے میں انہیں کون دیکھتا ہے لیکن یہ کروڑوں غائب ہو جاتے ہیں باقی صرف وہی دس بیس بچتے ہیں۔</p> <p>میں صوفے کی ایک جانب ٹکا ہوا یہ دلچسپ مکالمہ سن رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کے وجہیہ سراپے میں گم تھا۔ایک گھنٹہ اور چند منٹ اوپراسی طرح گزر گئے ۔خدا معلوم کس طرح بات عربی ادب کی جانب چل نکلی۔ غالباً محمود الحسن کا کوئی سوال تھا۔ میں نے اس لمحے کو نادر جانا اور مکالمے میں شمولیت کا گویا ایک جواز مجھے مل گیا تھا۔ وجہ یہی ہے کہ عربی ادب کی کچھ کتابیں میں نے بھی دیکھ رکھی ہیں۔</p> <p>عربی زبان کی گہرائی، گیرائی اور وسعت کے بارے میں ڈاکٹر رضوی نے بھرپور گفتگو کی۔ "معلقات السبع" کا ذکر چلا تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا"سبع ملعقات" بہت بڑی شاعری ہے اور اس میں بھی درجہ بندی ہے۔ انہیں جاہلی شاعر طرفہ کا معلقہ سب سے زیادہ پسند ہے۔کہنے لگے کہ اگر ایک نظم کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے تو وہ (طرفہ أشعرُھم واحدۃً)شعرائے عرب میں سب سے بلند تر ہے۔ عمرو ابن کلثوم کے معلقے کو طرفہ اور دیگر شعراء کے معلقات کی نسبت فروترقرار دیتے ہیں۔خورشید رضوی طرفہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنے تخیل میں بھی بہت منفرد ہے۔اس کی شاعری میں تفکر کی ایک جہت ہے جو امرؤالقیس میں نہیں ہے ۔</p> <p>ایک شعر دلیل کے طور پر لاتے ہیں</p> <p>أری العیش کنزاً ناقصاً کُل لیلۃ</p> <p>وَماتَنقُصِ الأَیّام والدَّھرُ یَنفَدِ</p> <p>(میں زندگی کو ایسا خزانہ سمجھتا ہوں جو ہر شب گھٹتا رہتا ہے اور زمانہ اور ایام جس چیز کو گھٹاتا رہے وہ فنا ہوجائے گی۔)</p> <p>اسی حوالے سے ذکر چلا مشہور عالم اور قانون دان ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا ، جن کے ساتھ خورشید رضوی صاحب کی گہری دوستی تھی ۔خورشیدرضوی نے سنایا کہ ڈاکٹر غازی نے کہا "مجھے تو عمروابن کلثوم کا معلقہ بہت پسند ہے ۔اس پر میں نے کہا کہ جو سب سے فرو تر ہے آپ اس کی کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس میں تو تفاخر اور نعرے بازی کے سوا ہے کیا۔"ڈاکٹر رضوی امرؤالقیس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ہزلیاتِ شعرائے عرب کی بات چلی تو کہا کہ امرؤالقیس کو اس کے ایک شعر(اذا ما بُکیٰ من خَلفِہا انصرفت لہ ۔ ۔ ۔) کی وجہ سے بہت بدنام کیا گیا حالانکہ اعشیٰ اس سے زیادہ فحش گو ہے۔</p> <p>میں نے سوال کیا کہ ہمارے مدارس عربیہ اور یونیورسٹیوں میں عربی ادب کی کچھ منتخب کتابیں پڑھائی جاتی ہیں لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلباء میں عربی کا ادبی ذوق پیدا نہیں ہو رہا تو کہنے لگے" اصل بات یہ ہے کہ ہم عربی شاعری کو بھی صرف نحو میں محدود کر دیتے ہیں۔گرائمر کی ترکیبوں میں الجھ جاتے ہیں کہ صیغہ کون سا ہے ، جار مجرور کیسے ہیں،جملہ کیا بنتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں شاعری کہاں ہے۔"اس کے بعد ذوق کے اس انحطاط کو ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس ایک جملے میں سمو دیا کہ</p> <blockquote>"ہمارے ہاں عربی کا قابل آدمی بھی محض زبان کا قابل آدمی ہوتا ہے۔"</blockquote> <p>یہ بہت بڑا حادثہ ہے ۔اس شعر میں کیا شاعری ہے وہ یہ نہیں جانتا وہ صرف گرائمر جانتا ہے ۔ہم امرؤالقیس کو اس کے کلام کی شاعرانہ لپک کی وجہ سے اتنا بڑا شاعر مانتے ہیں اس لیے نہیں کہ اس میں صیغے کو ن کون سے ہیں ۔ وجہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ دیکھیے ! عربی نسبتا ذرا مشکل زبان ہے ۔ لوگ یہیں (گرائمر وغیرہ)تک زور مار کر اسے کمال سمجھ لیتے ہیں۔اس پر اس ستارہ شناس کی کہانی سنائی کو آسمان کی وسعتوں کو دیکھنے کے لیے دوربین بنانے لگتا ہے تو پھر دوربین کے کیل وپیچ میں ہی کھو کر رہ جاتا ہے ۔</p> <p>ایک اور بات انہوں نے بتائی کہ عربی میں چیزوں کی صلابت سے شاعری برٓآمد کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں چیزوں کی نزاکت سے شاعری برآمد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے سرد آہ بھری اور کہا کہ "بد قسمتی سے ہم وقت کے ساتھ ساتھ <annotation lang="en">Non Creative</annotation> (غیر تخلیقی) ہوتے گئے۔ ہمارے برصغیر میں یہ معیار قائم ہوا کہ جو چیز لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے وہ بڑی چیز ہوتی ہے ۔"</p> <p>میں نے عربی نثر میں مقامات حریریہ کا نام لیا تو کہنے لگے کی اس سے قبل بدیع الزمان ھمذانی(جو عربی ادب کی صنف مقامہ کے موجد بھی ہیں) نے جو مقامے لکھے ان کا تو جواب ہی نہیں۔(وہ ھمذانی کے مقامات پر مبنی کتاب اندر سے اٹھا لائے) ڈاکٹر صاحب نے ایک اور کتاب "عنوانُ الشرفِ الوافی" کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ محیر العقول کتاب ہے ، جس میں کالم بنے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ اوپر سے نیچے پڑھیں تو یہ نحو کی کتاب معلوم ہوتی ہے دوسرے رخ سے پڑھیں تو وہ تاریخ کی کتاب لگتی ہے حتیٰ کہ ایک رخ سے تو زبان بھی بدل جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فارسی کی کتاب ہے۔</p> <p>مصطفیٰ لطفی المنفلوطی کا نام لیا تو کہنے لگے کہ اس کے افسانوں کے پلاٹ میں تو کوئی جان نہیں لیکن اس کا کمال اس کی زبان میں ہے۔محمود الحسن نے سوال اٹھایا کہ قدیم زمانے کی شاعری میں اس قدر کُھلا پن تھا لیکن اب ایسا نہیں ،یہ کیسے ہوا؟ ڈاکٹر رضوی نے جواب دیا کہ"ہمارے ہاں کے ممنوعات <annotation lang="en">(Taboos)</annotation> اس دور سے بہت زیادہ ہیں۔</p> <p>انہوں نے ہذلیات شیخ شعدی ،ہذلیات عیبدزاکانی (بیچ میں محمود الحسن نے جعفر زٹلی کا ذکر ریکارڈ پر لانا لازم سمجھا)اور نظیر اکبر آبادی کی کلیات میں شامل ہذلیہ شاعری کوان کے ادبی کمال کے اعتراف کے ساتھ بطور مثال پیش کیا۔کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں تو جعلی قسم کی شرم ہے اور فیک قسم کے اقدار ہیں۔</p> <p>اس کے پھر عربی کے ایک اور عالم جناب محمد کاظم مرحوم کا ذکر چلا تو کہنے لگے کہ میری عربی ادب سے متعلق کاوشوں پر سب سے پہلے کاظم صاحب ہی کا ردعمل آتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے محمد کاظم کا ذکر بہت محبت سے کیا۔ کاظم صاحب کی کتاب "عربی ادب میں مطالعے" اہل ذوق کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔</p> <p>تقسیم ہند کے بعد کے حالات کی طرف روئے سخن مڑا تو ڈاکٹر رضوی نے کہا"پاکستان کے بننے وقت حالات بہت بہتر تھے۔ اس کے بعد حکمرانوں میں بددیانتی نے پورے ملک کو برباد کر کے رکھ دیا۔جب حکمران ہی بد دیانت ہو جائیں تو پھر بچ کیا جاتا ہے" اس پر محمود الحسن کو منیر نیازی یہ غزل یاد آئی ۔</p> <p>میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا</p> <p>عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا</p> <p>میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد</p> <p>پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا</p> <p>راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے</p> <p>مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا</p> <p>شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا</p> <p>پھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیا</p> <p>شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر</p> <p>شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا</p> <p>ڈاکٹر رضوی نے دلچسپی سے غزل سنی اور منیر نیازی کے بارے میں کہنے لگے " منیر نیازی بڑے بے مثل آدمی تھے۔ وہ کسی سے متاثر ہی نہیں تھے،بہت اوریجنل آدمی تھے۔"</p> <p>اب شام کے سائے کافی گہرے ہو چکے تھے اور گفتگو اپنے جوبن پرتھی ۔ محمود الحسن نے کہا کہ کہ شاعروں میں فیض اور فکشن نگاروں میں انتظار حسین کی شخصیت میں جو محبوبیت نظر آتی تھی ،عالموں میں وہی محبوبیت آپ کی شخصیت میں ہے ۔اس سے محمود الحسن کی مراد شخصیت کا وہ مثبت ترین پہلو تھا جو دوستوں کے علاوہ ناقدین کو بھی اس شخصیت کااسیر بنائے رکھتا ہے ۔ اس پر ڈاکٹر رضوی مسکرا دیے اورصورت حال کے موافق اپنا ہی ایک شعر سنایا</p> <p>زندگی گزری بہت پر لطف بھی سنسان بھی</p> <p>سردیوں کی رات کی تنہا مسافت کی طرح</p> <p>ڈاکٹر خورشید رضوی نے "قلائد الجُمان" پر اپنی تحقیق پر مبنی کتاب بھی دکھائی اور راقم کو ایک نسخہ عنایت کرنے کی ہامی بھی بھری۔یہاں یہ عرض کر دوں کہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی کتاب "عربی ادب قبل الاسلام " عربی ادب کے بارے میں اردو میں لکھی گئی اب تک کی اہم ترین کتاب ہے جس کے بارے میں کئی اہل علم کا خیال ہے کہ اگر اس کا ترجمہ عربی میں کر دیا جائے تو یہ خود عربوں کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔اس کے بعد محمود الحسن اور ڈاکٹر رضوی کے درمیان کچھ کتب و رسائل کا تبادلہ ہوا۔ محمودالحسن نے رسالہ "شبخون" عنایت کرتے ہوئے کہا کہ " یہ آپ کے لیے ہے ، واپس کرنے کی حاجت نہیں ۔"</p> <p>اس کے بعد ہم لاہور کی خوبصورت شام کا لطف لیتے ہوئے واپسی کے لیے روانہ ہوگئے ۔ رہائشی علاقے کے صدر دروازے سے ذرا پہلے محمود الحسن نے کہا کہ "فانی!یارسردی اگر اتنی سی ہو تو اچھی لگتی ہے ۔"</p> <p>میں نے محمود الحسن کی یہ بات سنی اور ڈاکٹر خورشید رضوی کی وہ غزل گنگنانے لگا جو مجھے بہت پسند ہے ۔</p> <p>لیجیے آپ بھی ان کے شعری مجموعے "رائگان " میں شامل اس غزل کا لطف لیں اور مجھے دیجیے اجازت ۔رب راکھا!</p> <p>یہ</p> <p>جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی</p> <p>وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں</p> <p>یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جْڑ سکی</p> <p>یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں</p> <p>کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا</p> <p>تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضر ر نہ تھا</p> <p>پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے</p> <p>جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں</p> <p>یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے</p> </section> </body>
5430.xml
<meta> <title>وِفاق المدارس کے نام خط اور جواب</title> <author> <name>ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفرؔ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20030/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1250</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وِفاق المدارس کے نام خط اور جواب
1,250
No
<body> <section> <p>"السلام علیکم !</p> <p>استاذِ محترم آپ کو بخوبی علم ہے کہ 3 اپریل 2016 کولاہور میں وفاق المدراس ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے. اس میں شک نہیں کہ وفاق المدارس کی گرانقدر خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ، تاہم چند سوالات ذہن میں آرہے ہیں ، لیکن کہیں اکابر کی گستاخی نہ ہوجائے، اس لئے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا ، البتہ آپ سیاستاذ شاگردی کے علاوہ ایک محبت بھرا تعلق بھی ہے ،اس لئے عرض کیئے دیتا ہوں، مناسب سمجھیں تو کسی سے شیئر بھی کردیں ، اپنے کالم میں جگہ دیدیں،یا مجھے سمجھادیں ۔</p> <p>1۔وفاق المدارس ایک تعلیمی بورڈ ہے ، تو کیا کوئی بھی تعلیمی بورڈ اس طرح جلسے ، جلوس وغیرہ کرتا ہے ؟ کیا وفاق کی بیسک تھیم اس سے متفق ہے ؟</p> <p>2۔ظاہر ہے کہ سارے اخراجات طلبہ سے فیسوں کی مد میں وصول کیئے جائیں گے ، یا شایدانفرادی طور پر کچھ اہل خیر کا تعاون ہوگا ، لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی رقم خرچ کرکے بجائے ایک " عظیم الشان" کانفرنس اور تقاریر کروانے کے اس رقم کو وفاق کی تعلیمی سر گرمیوں کی بہتری ، یا مدرسین کیلئے کوئی ایسا اجتماعی نظم پر کیاخرچ نہیں کیا جاسکتا ، جو بوقت مجبوری ان کے کام آئے ۔اس میں کیا شک ہے کہ اکثر مدرسین غربت کی لکیر سے بہت نیچے زند گی گزارتے ہیں ، جب ان کا کوئی بچہ یاوالدین میں سے کوئی یا خود بیمار ہوتے ہیں، تو ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ؟</p> <p>3۔جدید عصری علوم کی اہمیت کتنی ہے، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ، اس رقم کو لگا کر فضلا ئیکرام کیلئے وفاق کی سطح پر عربی ادبیات ،انگلش ، فقہ المعاملات یا اس طرح کا کوئی اور مفید کورس شروع کیا جائے ، اور پاکستان کی کسی بڑی یونیورسٹی یا ایچ ای سی طرح کے قومی ادارں سے اس کی باقاعدہ ایفلیشن کروائی جائے ،کیاایسا ممکن نہیں ہے ؟</p> <p>4۔ وہ طلبہ جو وفاق کی سطح پر پوزیشن لیتے ہیں ، اس رقم کو وفاق من حیث الادارہ اپنے تعلق کو استعمال کرکے ایسے طلبہ کیلئے اسلامی ممالک کی بڑی جامعات میں تعلیم دلوائے ، اور بعد میں جب وہ بر سر روز گار ہوں، تو ان سے قسطوں میں وہ خرچہ وصول کرلیا جائے</p> <p>5۔ باوجود زبردست علمی نصاب ہونے کے ہماری سند کا جو حال ہے ، آپ سے مخفی نہیں ، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ناظمِ وفاق اپنے مخلص دوستوں اور پروفیشنل حضرات ( سلیکشن قابلیت کی بنیاد پر ہو تعلقات کی بنیاد پر نہیں ) جو ان معاملات کو سمجھتے ہوں ، کو لے کر عالم اسلام کی مختلف جامعات مصر ، مراکش،ترکی،امارات،مدینہ منورہ ،مکہ مکرمہ ، ملیشیا ، بحرین ، کویت وغیرہ کا دورہ کریں ، اور وہاں کے اہل علم سے رسم و راہ پیدا کریں ، اور اان کی جامعات سے اپنے بورڈ کا جزوی یا کلی الحاق کریں ، اس سے جہاں فضلا ئیوفاق کے سامنے نئی راہیں کھلیں گی ، وہاں علما ئیپاکستان کی خدمات کا بھی عالمی سطح پر تعارف ہوجائے گا ۔</p> <p>6۔ایک طرف وفاق کی خدمات ہیں، لیکن دوسری طرف مس منیجمنٹ کا یہ عالم ہے کہ وفاق المدارس کی اپنی آفیشل ویب سائڈ بھی اردو کے سوا کسی زبان میں کماحقہ دستیاب نہیں ، انگلش نہ عربی ، یہ تو اللہ پاک سلامت رکھے ہمارے استاذجی کو ، آپ کی قدر ہم وفاق والے یا علما کتنی کرتے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ جناب نے دلیل الوفاق کے نام سے وفاق کا عربی تعارف لکھ دیا، ورنہ تو " اپنااعمال نامہ " خالی ہی ہے ، اس لئے کم از کم وفاق کا موسوعہ اور آفیشل ویب سائڈ کا عربی ارد و میں ترجمہ کروایاجائے ۔</p> <p>7۔ پوری دنیا میں آن لائن تعلیم اور پرائیویٹ امتحانات کا غلغلہ ہے،اخبارات تک پرنٹ کے بجائے صرف سکرین تک آگئے ہیں،ہر قسم کا مواد اور سہولتیں نٹ پر موجود ہیں،کیا ہمارے بزرگوں کو اس بات کا خیال نہیں ہے کہ گلوبلائزیشن کیاس دور میں ہمیں ہم آہنگ چلنا ہوگا،ذرہ بھی پیچھے رہنے سے ہماری نسلیں بہت پیچھے رہ جائیں گی۔</p> <p>8۔افسوسناک صورتِحال کا سامنا اس وقت ہوتا ہے،جب وفاق کے کسی فاضل کو حج عمرے کے موقع پر یا کہیں اور عربی میں بات کرنی پڑے،حالانکہ ہمارا دعوی یہ ہے کہ ہم کوئی ڈاکٹر انجینئر تیار نہیں کرتے،ہم تو قرآن وسنت کے ماہرین تیار کرتے ہیں،کیا عربی ادب کے بغیر اس قسم کے ماہر تیار ہوسکتے ہیں،بہرحال یہ دکھڑا کہیں لمبا نہ ہوجائے۔</p> <p>مورخ یوں جگہ دیتا نہیں تاریخ عالم میں</p> <p>بڑی قربانیوں کے بعد پیدانام ہوتاہے</p> <p>ان سب دردمندانہ اور مخلصانہ گذارشات کو پیش کرنے کا مقصد صرف سمجھنا ہے ، یقیناًاکابر مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ، ان کی سوچ وفکر بہت بلند ہوگی ، لیکن بسا اوقات کسی طرف توجہ نہیں بھی ہوتی ہے ، اس لیئے یہ معروضات پیش کی ہیں ۔دینی مدارس،عصری دانشگاہیں،علما،طلبہ،پاکستان اورتمام اہل پاکستان زندہ ،تابندہ اور پائندہ باد۔</p> <p>محمد نذیر خان فاضلِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، حال وارد ترکی</p> <p>محترم شیخ نذیر خاں صاحب "</p> <p>وعلیکم السلام۔مزاج بخیر۔</p> <p>آپ کی تمام تجاویز وفرمودات لائقِ تحسین ہیں،اللہ کرے وفاق المدارس اس پر سنجیدگی سے غور فرمائے،پرآپ مایوس نہ ہوں،اپنے حصے کادیا اسی طرح جلاتے رہیئے،لیکن،جی ہاں لیکن،آپ اور آپ جیسے (امیر جان حقانیؔ ،ابو ریان،مبشر بسام،محمد الفیصل،زاہد شاہد،سجاد الحجابی،جنید اکبر،خالدحبیب ،شیخ عزیز العظیمی،مسران ارشد،منظورشاہ،عبید وحید ،مختار جنون، یوسف القمر،سمیع عزیز،حبیب حسن زئی،احتشام گل،موسی العراقی،لطیف معتصم ،یوسف چینی،شہزاد علی،شیخ ناصر،عبدالرحمن صدیقی،پیر یاسر عرفات،علامہ سعید الحسینی،مفتی مطیع اللہ حرم زئی،انعام قریب،نورازاریزا،ضیا الرحمن، محمد شعیب،عبدالمجید ملاخیل،نورالمتین،مفتی ضیا الرحمن،حزب اللہ جلالی،ایوب جان بنوری،حبیب زکریا،،عثمان علی،عبد الجبار شریف،براہیم خٹک،وسیم خان،عثمان براہیم،مفتی عبد القادر،ڈاکٹر یوسف مرزا،جاوید خٹک،ضیا الحسین الولی،شیخ محمد،حماد عزیز قاسمی،مشتاق زاہد،ریاض فنٹر،طلحہ لدھیانوی،شبیب عمانی،صبغ اللہ کاکڑ،عبد اللہ مسعود،جنید انور،ڈاکٹر ابرار،بلال حسن زئی،حنظلہ امجد،ابراہیم عابدی،عطا بخاری،مشتاق طارق وغیرہ)تمام قابل وذہین اشخاص نئی راہوں کی تلاش میں اگر یوں ہی ہر دم سرگرداں رہیں گے،تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی کی راہیں تمہاری منتظر رہیں گی،</p> <p>امام الادب العربی مولانا ابوالحسن علی ندوی نیبھی شروع شروع میں در در کی ٹھوکریں کھائیں ،مگر آخر کار انہیں عالم اسلام کاسب سے بڑاایوارڈکنگ فیصل پرائز مل ہی گیا،</p> <p>فیس بک اور وہاٹس اپ والے بھی دیگر انسانوں کی طرح مادر زاد ان پڑھ ہی پیدا ہوئے تھے،وہاٹس اپ والوں کو تو فیس بک میں نوکری بھی نہیں مل رہی تھی، لیکن انہوں نے مقابلے میں ایک ایسی چیز ایجاد کی کہ وہی فیس بک والے آخر کار مجبور ہوئے ان سے وہاٹس اپ خریدنے پر،حوصلے سے کام لیں اور کچھ نیا کر کو شعار بناکر جتے رہیں،کام کام اور کام ،امت میں تجدید وحیا کی ضرورت ہے،کچھ نہ کچھ تجدیدی کام کریں،</p> <p>آپ میں سے ہر کوئی مستقبل کا حسن زیات،جادالحق علی جاد الحق،سید سابق،علی طنطاوی،جوہری طنطاوی،علی صابونی،عبدالفتاح ابوغدہ،مصطفی زرقا،شیخ البانی،مصطفی صادق الرافعی،طہ حسین،حسن البنا،ابن باز،محمد بن عبد الوہاب النجدی،ابوالکلام آزاد،عبیداللہ سندھی،ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی،احمد دیدات،فتح اللہ گولن،ہارون یحی،شاہ ولی اللہ اور شیخ احمد سرہندی ہیں،اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔</p> <p>دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی</p> <p>دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی</p> <p>متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی</p> <p>یہ کس کافر ادا کا غمز خوں ریز ہے ساقی</p> <p>وہی دیرینہ بیماری ، وہی نا م حکمی دل کی</p> <p>علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی</p> <p>حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا</p> <p>کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی</p> <p>نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے</p> <p>وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی</p> <p>نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے</p> <p>ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی</p> </section> </body>
5431.xml
<meta> <title>ہولی، رنگوں اور خوشیوں کا تیوہار</title> <author> <name>مکیش میگھواڑ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20082/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>899</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہولی، رنگوں اور خوشیوں کا تیوہار
899
Yes
<body> <section> <p>ہولی موسم بہار میں منایا جانیوالا ہندو مت کا مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ یہ پھاگن کے مہینے (مارچ-اپریل) میں چاند کی پندرھویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔اس دن اہل ہنود ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں، گھروں کے آنگن کو رنگوں سے نقشین کرتے ہیں اور بہار کو خوش آمدید کرتے ہیں ۔</p> <p>لائے اس بت کو التجا کر کے</p> <p>کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے</p> <blockquote> <p>ہاں! کیوںکہ اس بار کی ہولی ہر سال سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس بار حکومت وقت نے اس کو قومی تہوار قرارد دیا ہے، 68 سال بعد اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔</p> </blockquote> <p>لوگوں کی التجا سن ہی لی گئی اور پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو پاکستان کے آئین(سماجی معاہدے) کی ایک اور کڑی سے جوڑا گیا۔</p> <p>ویسے تو ہولی پوری دینا میں موسم بہار کی آمد کی نوید کےطور پر منایا جاتا رہا ہے، برصغیر میں مذہبی عقیدت سے اور ترقی پسند لوگوں کے لیے یہ ایک ثقافتی تہوار ہے۔ اگر اس کو منطق کی عینک لگا کر بھی دیکھا جائے تو سچ میں ہولی اس خطے کا ثقافتی تہوار ہے۔</p> <p>ہندو مت کی تاریخ سے مورخین نے یہ دلائل بھی دیئے ہیں کہ ہولی کی شروعات ملتان سے ہوئی، اس کے شواہد ملتان کے پرہلاد مندر سے ملتے ہیں جو کہ اس وقت خستہ حالی میں آخری سانسیں لے رہا ہے، سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کو وہ پرانا پرھلاد مندر اوقاف والوں نے کچھ نائیوں اور کیٹرنگ والوں کو لیز پر دے دیا ہے۔ جہاں یہ حال اپنی تاریخی ورثے کے ساتھ کیا جائے، اور ہر اس ورثے کو باہر کے حملہ آوروں کی ثقافت کا لبادا پہنا کر مسخ کر دیا جائے ۔ جہاں رام باغ کو آرام باغ، امر کوٹ کو عمرکوٹ، لائل پور کو فیصل آباد اور نیروں کوٹ کو حیدرآباد کیا جائے ، جہاں امن سے رہنے والے کو ڈرپوک، غلام اور کمینہ کہاجائے، اور ہر حملہ آور کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے ایسے میں بھلا لوگ کس طرح اپنے مذھبی اور ثقافتی تھوار منا سکتے ہیں!</p> <p>برحال ہولی تو پوری دینا کے لیے رنگوں کا تہوار ہے،اب ہولی سندھ، ھند، برصغیر کی سرحدیں پار کر کے امریکا، یورپ سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا کے گوروں تک پہنچ گئی ہے، مختلف کمپنیاں اسے اپنے ورکرز کے ساتھ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں! مگر پاکستان میں بسنے والے ہر ہندو کیلئے یہ عذاب سے کم نہیں رہی، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے کوئی بھی ہولی خوشی کےطور نہیں منائی، ہر سال سندھ میں ہولی پر کہیں نہ کہیں توہین رسالت ص کے فتوے لگتے رہے ہیں، مندر توڑے گئے ہیں، یا تو لوگوں کو مارا گیا ہے، 2014 میں بھی میرے گاؤں کے کچھ بچوں پر توہین رسالت ص کا الزام لگایا گیا ۔۔۔۔۔۔!</p> <p>مزے کی بات تو یہ ہے کہ ھم اتنے منافق ہیں کہ ہم کافروں کی دی ہوئی امداد اور بھیک تو مزے سے کھا لیتے ہیں مگر کسی کا تہوار منانے یا خوشیوں میں شریک ہونے سے ہمارے ایمان ڈگمگا جاتے ہیں! جہاں مذاہب امن کا درس دیتے ہیں وہیں انہیں مذاہب کو ماننے والے مذاہب کی بنیادی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے ہیں، محض اپنی ذاتی دشمنیاں پالنے کے لیے۔</p> <p>اس وقت میں ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ ہندوازم کسی مذہب یا عقیدے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک علاقائی پہچان ہے، باقی قدیم ھند میں رہنے والے لوگوں کو ھندو کہا جاتا رہا، جس طرح اب ریاستی لیول پر سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کی پہچان ہیں، باقی ھندو کو اگر زیادہ باریکی سے دیکھا جائے تو یہ تہذیب کا نام ہے جس میں اسلام سے قبل، جین مت، بدھ مت، سناتھن دھرم، اور سکھ مت کے مذہبی عقائد کے لوگ تھے، جو تہذیبی، ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔آج بھی برصغیر کے مختلف لوگوں میں مذہبی عقائد تو مختلف ہیں، مگر کافی ساری ثقافتی چیزیں ایک ہی ہیں۔</p> <annotation type="url"><p>https://www.youtube.com/watch?v=JOh98r9XiQc</p></annotation> <p>ہولی کو تاریخ میں مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک الگ بات ہے مگر جب ہولی کی شروعات ہوئی تو اس وقت ہندوازم صرف مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ ایک پوری تہذیب کا حصہ تھا۔ میرا یہ کامل یقین ہے کہ ثقافت بہت بڑی اور پرانی ہے اور مذاہب ان ثفاقتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، آپ تمام مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مذہب کی تاریخ انسان کی تاریخ سے پرانی نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے جو بھی تہوار شخصیات کے علاوہ کسی رسم، اور موسم کی آمد کے لیے منائے جاتے ہیں وہ تہوار اور دن کبھی بھی کسی ایک مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میری نظر میں ہولی ایک علاقائی اور ثقافتی تہوار ہے، رنگوں سے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ خوشی اور غم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہاں مگر انسانوں سے ازلی رشتا ضرور ہوتا ہے۔</p> <p>بہرحال ریاستی طور پر ہولی کی چھٹی کرنے کی منظوری دینا اچھی پیش رفت ہے، سندھ حکومت کا فیصلہ باعث فخر ہے جس نے ہولی کے موقع پر چھٹی کا اعلان کیا ۔</p> <p>امید کرتا ہوں کہ اس سال ہولی ہماری زندگی کے رنگوں کو مزید رنگین بنائے ۔ اس ملک میں ہمیشہ ہولی خوشیوں کے رنگ لاتی رہے، ریاست بنا کسی امتیاز کے تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرے اور ثقافتی سرگرمیاں اور تیز کرے ، ثقافت کے رنگ ہی انتہا پسندی کو کم کر سکتے ہیں ۔</p> </section> </body>
5432.xml
<meta> <title>وہ شہردلِ بربادکہاں۔۔۔؟</title> <author> <name>محمدعماراحمد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20085/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>804</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وہ شہردلِ بربادکہاں۔۔۔؟
804
No
<body> <section> <p>23 مارچ 1940 کواقبال پارک لاہورمیں قراردادِلاہورپیش کی گئی جوبعدمیں"قراردادِپاکستان" کےنام سےمشہورہوئی۔اس قراردادمیں مسلمانوں نے مطالبہکیاکہ ہندوستان کےمسلم اکثریتی علاقوں کویکجاکرکےآزاد مملکتیں قائم کردی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خودمختاری اور حاکمیتِ اعلیٰ حاصل ہو۔قائدِاعظم رحمۃاللہ علیہ نےاس قراردادکوتحریکِ پاکستان کااہم سنگِ میل</p> <p>قراردیا۔</p> <p>قراردادکی منظوری کےبعدمسلمانوں نے عزم وہمت سےتحریک جاری رکھیاوراپنےقائدین کابھرپورساتھ دیا۔اپنا گھربار،عزت وعصمت سب کچھ داؤپرلگایااوراپنےلئےعلیحدہ وطن کے حصول کی پُرخلوص جدوجہدکی۔اپنی اولادکوذبح کرایا،ان کی عزت وعصمت کی قربانی دی،کئی ماؤں کی گودیں ویران ہوئیں اورکئی گھر اجڑے۔مسلمانوں نےہرنقصان کی پروا کئےبغیراپنی جدوجہدجاری رکھی اورہرمشکل گھاٹی عبورکی تاکہ آئندہ دنوں میں الگ شناخت کےساتھ مطمئن زندگی بسرکرسکیں۔</p> <p>تحریکِ پاکستان کےراہنماؤں نےاسلام کوپاکستان کی اساس قراردیااور"پاکستان کامطلب کیا؟لاالہ الااللہ"کا نعرہ لگایا۔پاکستان کاایک تصوراتی خاکہ پیش کیاکہ اسلامی ریاست میں بسنےوالی عوام کوبنیادی سہولیات دی جائیں گی۔شخصی ومذہبی آزادی اورجان ومال کاتحفظ فراہم کیاجائےگا۔اقلیتوں کومکمل مذہبی آزادی اورتحفظ دیاجائےگا۔خواتین وحضرات کوبغیرصنفی امتیاز کےبنیادیحقوق فراہم کئےجائیں گے۔سندھی،بلوچی،پنجابی،بنگالی،مہاجراورپٹھان کی بجائےایک ہی قومی شناخت ہوگی۔اسلام کےنظامِ سلطنت کو ریاست میں نافذکرکےدنیاکےسامنےایک کامیاب نظام لایاجائےگا۔</p> <p>مغرب کانظامِ معیشت انسانی استحصال کاباعث ہےاس کی جگہاسلامی نظام معیشت سامنےلایاجائےگاجو انسانیت کےلئےنہایت مفیدہوگا۔اسلام کےنظامِ سلطنت کےتحت ملک کانظام چلایاجائےگااوردنیامیں اسےایک بہترین نظام کےطور پرمتعارف کرایاجائےگا۔پاکستان ایک مستحکم وخودمختارریاست کےطور پرترقی کی منازل طےکرےگااوراسلامی دنیا میں قائدانہ کرداراداکرےگا۔مسلمان قوم اسلام کےنام پرمتحدہوئی اوربھرپورجدوجہدکےبعد 7 سال کےعرصہ میں پاکستان کےحصول میں کامیاب ہوئی۔</p> <p>پاکستان بناتولوگ آنکھوں میں سنہرےسپنے سجائےتاریخ کی سب سےبڑی ہجرت کرکےاسلامی مملکت میں داخل ہوئے۔اپنی جائیداد،گھراورخاندان چھوڑکرلٹےہوئےاورکنگال ہوکرپاکستان میں آبسے۔وہ سمجھےتھےکہ یہاں ہردردکادرماں میسرہوگااوربغیرکسی خوف وخطرےکےپرسکون زندگی بسرکریں گے۔</p> <p>مگرقیام کےبعد ہی پہلےپہل اسلامی مملکت کی وزارتِ قانون ایک ہندوکےسپردکردی گئی جبکہ قانون سازی اسلامی ہوناتھی۔اسلامی نظام کی بابت علماءنےسوال کیاتوانہیں یہ کہ کرخاموش کرادیاگیاکہ آپ ابھی آرام فرمائیں اگرآپ کی راہنمائی کی ضرورت ہوئی توآپ سےرجوع کیاجائےگا۔پھرسوال اٹھایاکہ کون سااسلام نافذکیاجائےکیوں کہ آپ نے کئی اسلام بنارکھےہیں ۔اس کےجواب میں علماءنے 22 نکات پیش کئےکہ انہیں سب مسالک نےمشترکہ طورپرمرتب کیاہےاسےہی آئین کاحصہ بنا دیاجائےمگروہ اب تک کاغذات تک ہی محدودہیں۔</p> <p>سیدسلمان ندوی رحمۃاللہ علیہ تعلیمی نصاب مرتب کرنےوالی کمیٹی سےیہ کہ کر علیحدہ ہوئےکہ"یہاں ہماری امنگوں کےمطابق کام نہیں</p> <p>ہورہا۔ہندوستان میں فتنہ ارتدادکاخطرہ ہوسکتاہےمگرجونصاب پاکستان میں مرتب کیاجارہاہےمجھےخوف ہےکہ یہاں ملحداوردہریےپیداہوں گے۔"سرظفراللہ خان کووزارتِ خارجہ کاقلم دان دیاگیاجس سےمذہبی راہنماؤں کومایوسی ہوئی۔افسوس ناک بات یہ ہےکہ ختمِ نبوت جیسےاہم مسئلہ کےلئےبھی اس اسلامی ملک میں ہزاروں جانیں قربان کرناپڑیں جبکہ صحابہ واہلبیت رضوان اللہ علیہم</p> <p>اجمعین کی عزت وعصمت کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوپایا۔</p> <p>شخصی آزادی کی صورتحال یہ ہےکہ ایسےہرشخص پرقدغن لگادی جاتی ہےجوحکومتکےغلط اقدامات پر تنقیدکرےیاحکومتی پالیسیوں سےجائزاختلاف کرے۔آزادیِ اظہارجمہوری وآمرانہ حکومتوں میں شجرِ ممنوعہ قرارپائی اورشعراء،ادبی ومذہبی شخصیات اس جرم میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتی رہیں جبکہ کئی اہم شخصیات کو جلاوطنی کی زندگی بسرکرناپڑی۔عوام کےتحفظ میں اب تک ناکام</p> <p>رہےہیں اورآج بھی ہم بےخوف وخطرآزادنہ گھوم پھر نہیں سکتےکہ کس لمحےلقمہ اجل بن جائیں۔اقلیتوں کےحقوق کانعرہ بھی محض نعرہ ہی رہا،جس کاجی چاہےاٹھ کربستیوں کی بستیاں جلا دےاورعبادت گاہوں کوبموں سےاڑادے۔ذاتی ومالی معاملات حل نہ ہو پائیں تواقلیتی شخص پرتوہینِ رسالت کاالزام لگاکرخودہی منصف بن کرسزا سناکےآگ لگادی جاتی ہے۔</p> <p>اقلیت تواقلیت رہی یہاں اکثریت بھی خوار ہورہی ہےاوراپنےحقوق کےلئےدربدرٹھوکریں کھارہی ہے۔انصاف کی حالت یہ</p> <p>کہ غداری کےمقدمہ میں نامزدملزم ایگزٹ کنٹرول لسٹ سےنام نکلوا کردبئی میں سیاسی سرگرمیوں کاآغازکرچکاہے۔غریب عوام عمرقیدکی سزاپانےکےبعدعدالت سےرجوع کرتی ہےاورسزاپوری کرکےعدالت سےبغیرفیصلہ کےکیس واپس لےلیتی ہےکہ ہم نےاپنی سزا جھیل لی ہے۔</p> <p>اسلامی نظامِ معیشت سامنےلانےکاخواب بھی تعبیرنہ پاسکا،سپریم کورٹ یہ کہ کردرخواست نبٹادیتی ہےکہ"ہم مدرسہ کھول کرنہیں بیٹھ سکتے،جس نےسودنہیں لیناوہ نہ لے"۔پاکستان آج بھی ایک خودمختارریاست نہیں بن سکابلکہ آج بھی دوسروں کےاشاروں پرچل رہاہےیہاں تک کہ قیمتوں کےبھاؤبھی عالمی مالیتی بینک کے 'احکامات'کی روشنی میں طےکئےجاتےہیں۔ایک فون کال پرملکی وقارکا</p> <p>سوداکردیاجاتاہےجبکہ خارجہ پالیسی ملکی مفادنہیں بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیادپربنائی جاتی ہے۔پاکستان کےعالم اسلام میں قائدانہ کردار اداکرنے دعوے بھی تکمیل تک نہ پہنچ سکےکیوں کہ پاکستان خودبھی ایک آئیڈیل ریاست</p> <p>نہیں بن سکا۔</p> <p>پاکستان میں ایک قوم بن کررہنےکی بات بھی بیانات تک محدودرہی،شروع میں ہی بنگالیوں سےاختلافات رہے جس کانتیجہ بنگلہ دیش کی</p> <p>صورت میں سامنےآیا۔اب بھی بلوچ،پختون،سندھی،سرائیکی اورمہاجربن کرعوام اپنےاپنےحقوق مانگ رہی ہے۔خواتین کےتحفظ کےحوالےسےافسوسناک صورتحال ہےکہ پاکستان عورتوں کےلئےدنیاکاتیسراخطرناک ملک ہے اوراس حوالےسےکوئی قانون سازی ہوتی ہےتوپاکستان کی مذہبی شناخت خطرےمیں پڑجاتی ہے ۔</p> <p>یہ سب صورتحال ایک المیہ سےکم نہیں کہ ستربرس ہونےکوہیں اور منزل حاصلکرناتوالگ رہاہم اس سمت بڑھ ہی نہیں رہےکہ جہاں ہم جاکر یہ کہ سکیں کہ ہماپنےمقصد میں کامیاب ہوگئےہیں۔وہ لاکھوں لوگ جو اس مشن میں اپنی جانیں قربان کرگئےان کاخون ہم پرقرض ہےاوریہ قرض ہم نےنہ اتاراتوروزِمحشرہم بطورمجرم اٹھائےجائیں گے۔</p> <p>ضرورت اس امرکی ہےکہ ہم متحد ہوکراپنےمقصدکوحاصل کرنےکےلئےپرخلوص جدوجہدکریں۔جس طرح ہم نےتحریک پاکستان میں کامیابی حاصل کی اسی طرح تعمیرِپاکستان میں بھی کامیابی مل سکتی ہےمگراس کےلئےاک نئے عزم اورارادےکےساتھ جہدمسلسل کی ضرورت ہے۔ہمیں ان غلطیوں کو تسلیم کرکےانہیں سدھارناچاہئےجن کےسبب ہم منزل سےدورہورہے ہیں اورسترسال بعدبھی حبیب جالب کی زبان میں مقتدرحلقوں سےیہ سوال کرنےپرمجبورہیں کہ</p> <p>ہرشام یہاں شامِ ویراں،آسیب زدہ رستےگلیاں</p> <p>جس شہرکی دھن میں نکلےتھے،وہ شہردلِ بربادکہاں</p> </section> </body>
5433.xml
<meta> <title>یوم پاکستان مبارک لیکن....</title> <author> <name>عماد ظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20125/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1226</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
یوم پاکستان مبارک لیکن....
1,226
No
<body> <section> <p>یوم پاکستان ہمیشہ کی طرح جوش و خروش سے منایا گیا. یہ دن وطن عزیز میں قرارداد لاہور کی یاد میں منایا جاتا ہے. 23 مارچ 1940 کو مینار پاکستان کے سائے تلے یہ قرارداد جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے پیش کی گئی. اور صدیوں سے ہندووں کے ساتھ بسنے والے مسلمانوں نے طے کیا کہ ہم دو الگ قومیِں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے. یہ دن دو قومی نظریے کی یاد میں منایا جانا تو سمجھ میِں آتا ہے لیکن اس دن پر فوجی پریڈ اور ٹینکوں کی نمائش یا لڑاکا طیاروں کے کرتب دکھانا کیوں ضروری ہیں اس کی سمجھ آج تک نہیں آئی. کیونکہ قرارداد لاہور میں نہ تو کسی فوجی نے اس کا متن بنایا رھا اور نہ ہی آزادی کی لڑائی میں کوئی ٹینک یا فضائی لڑاکا طیارہ استعمال ہوا تھا. جڑواں شہروں کو سیل کر کے اور معمولات زندگی متاثر کر کے ایسی تقریبات کا انعقاد مذاق سے کم نہیں لگتا. موبائل فون جام سڑکیں جام اور وجہ ہماری یوم پاکستان کی فوجی پریڈ. ویسے اگر عام آدمی کو مرعوب کرنے کیلئے یہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تو درست وگرنہ عالمی دنیا میں اب یہ جگ ہنسائی کا ہی باعث بنتی ییں.</p> <p>سیکیورٹی مہیا کرنے والے ادارے جب خود سیکیورٹی طلب کرتے ہوئے پریڈ کریں تو ظاہر ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کس قدر اور کس کی مرہون منت ہے. رہی بات دو قومی نظریے کی تو مورخ نے تقسیم ہند کے موقع پر بھی لکھا کہ اس وقت بسنے والے مسلمان زیادہ تر ہندوستان میں ہی مقیم رہے .آج بھی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے . سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام پر بھی تاریخ کا یہی کہنا ہے کہ قومیں مذہب یا کاغذ کے ٹکڑوں پر بنی دستاویزات کے تحت نہ تو یکجا رہ سکتی ہیں اور نہ جدا کی جا سکتی ہیں. تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم تاریخ کو مسخ کر کے اپنی مرضی کی تاریخ بچوں کو ازبر تو کروا لیتے ہیں لیکن اس سے تاریخ کو یا حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا.</p> <p>دو قومی نظریہ کا کیا ہوا اس کا جواب بہت سادہ ہے لیکن چلئے دل خوش فہم کو تسلی کیلئے اگر سمجھا بجھا کر قائل کر بھی لیا جائے کہ یہ درست تھا تو پھر آج بھی لتا منگیشکر کی آواز کانوں میں زہر گھولنے کے بجائے رس کیوں گھولتی ہے.</p> <p>آج بھی بھارتی اداکار فلمیں اور ڈرامے ہی ہماری سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ کیوں ہے.</p> <p>اسی طرح بھارت میں غلام علی راحت فتح علی اور عاطف اسلم کیونکر آواز اور فن کا جادو چلاتے ہیں؟</p> <p>کیا وجہ ہے کہ شادی کے تہوار سے لیکر بیساکھی کے تہوار تک پاک و ہند میں بسنے والوں کی قریب قریب ساری رسمیں ایک جیسی ہیں. ہمارے فیورٹ اداکار لکھاری گلوکار یا تحقیی و تخلیقی آئیڈیل عرب دنیا یا مسلمان دنیا سے کیوں نہیں؟</p> <p>خیر نفرتوں کے سوداگر چونکہ دونوں ممالک میں عوام کی برین واشنگ کر کے اپنی اپنی دوکانیں چمکاتے ہیں اس لیئے یہ بحث لاحاصل ہے.لیکن قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان میں محض دو مختلف قوموں کا تو ذکر نہیں ہوا تھا.اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسے ملک کا قیام ناگزیر ہے جہاں مسلمان اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے آزادی سے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.</p> <p>وطن بھی بنا اور آج قریب 68 برسوں میں ہمیں اپنے تشخص کا پتہ ہی نہیں چل سکا. ہم عربی مسلمان ہیں یا برصغیر کی ہزاروں سالہ پرانی تہزیب کے مالک مسلمان اسی کشمکش میں آج تلک ہم اپنا تشخص ڈھونڈے ہی جا رہے ہیں . قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم اس تشخص پر ہی متفق نہیں ہونے پائے. ایک اور اہم بات جو قرارداد پاکستان میں تھی وہ آزادی سے اپنے عقائد اور عبادات کے فرائض کی بجا آوری تھا.</p> <p>آج جب مسجد میں مسلمان نماز پڑھنے جاتے ہیں تو باہر مسلح پولیس والوں کو نمازیوں کی حفاظت پر معمور کیا جاتا ہے. یہ دیکھ کر قرارداد پاکستان پیش کرنے والے بھی عالم ارواح میں کانپ اٹھتے ہوں گے.</p> <p>شیعہ سنی احمدی قادیانی اور نہ جانے کتنے ہی اور فرقوں اور مسلکوں کے نام پر ادوسرے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے پاکستانی کیا اس قرارداد پاکستان کی روح کی نفی نہیں ہیں؟</p> <p>لاپتہ افراد کیا یوم پاکستان کی تقریبات میں چھاتی پھیلاتے ارباب اختیار اور نظریہ پاکستان کے نام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان نہیں ہیں؟</p> <p>آج تک اپنی منزل اور راہ کا تعین نہ کرنے پانا اور قومی بیانیے کو تشکیل نہ دے پانا نظریہ پاکستان پر سوالات نہیں اٹھاتا؟</p> <p>تھر میں بھوک سے بلکتے ایڑیاں رگڑتے مرتے ہوئے بچے کیا پاکستانی نہیں ہیں؟</p> <p>کڑوڑہا تعلیم کی نعمت سے محروم بچے دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان پر ایک گہرا طنز نہیں ہیں؟</p> <p>پاکستان بنانے والے اور نظریہ پاکستان کی اساس ڈالنے والے کٹر مذہبی تھے یا سیکیولر آج تک ہم یہ بھی جان نہیں پائے اور اسی بحث میں دھائیاں ضائع کر چکے ہیں تو کیا یہ اس امر کی نشاندہی نہیں ہے کہ یا تو نظریہ پاکستان ہم سمجھ ہی نہ پائے یا پھر سچائی بے حد تلخ اور کڑوی ہے.</p> <p>اتنی تلخ کہ ہم اسے فراموش کرنے کی خاطر ایک مہ نوش کی طرح ہتھیاروں کی نمائش کو غم اور سچائی فراموش چھپانے کیلئے استعمال کرتے ہیں. اس دن بھی ہم پریڈ کر کے اپنے آپ کو بیوقوف بناتے ہیں کہ دیکھا ہم کتنے طاقتور ہیں. حالانکہ طاقتور یا بہادر اقوام اپنے نظریات کو لٹمس ٹیسٹ سے بار بار گزارتے ہیں کہ انہیں سچ اور حقیقت سے غرض ہوتی ہے نا کہ مصنوعی تقریبات اور جھوٹ پر قائم تاریخ سے.</p> <p>یوم پاکستان پر تقریبات منعقد کر کے خطیر رقم ضائع کرنے کے بجائے تعمیری مباحث اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جو ہمارے نظریے پر اٹھتے سوالات اور حقائق کو پرکھے اور پھر سے ایک نظریہ پاکستان کی تشکیل دے سکے.ایک ایسا نظریہ جہاں جنگی جنون کے خبط میں مبتلا ہو کر کڑوڑہا افراد کو غربت کی آگ میں نہ جھونکا جائے. جہاں صیح معنوں میں آزادی سے مسلمان اور اقلیتیں اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.جہاں یوم پاکستان کی تقریبات منعقد کرنے کیلیئے شہر کے شہر سیکیورٹی خدشات کے باعث بند نہ کرنے پڑیں. جہاں مساجد گرجا گھروں کے باہر پولیس اور رینجرز عبادت گزاروں کے تحفظ پر معمور نہ ہوں. اور جہاں پاکستان یا اس خطے میں پیدا ہونے والے بڑے آدمیوں کو رنگ مزہب اور تعصب کے بغیر نئی نسلوں سے روشناس کروایا جائے.</p> <p>آج 23 مارچ برصضیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والے سوشلسٹ رہنما بھگت سنگھ کی برسی کا دن بھی ہے.بھگت سنگھ جڑانوالہ پنجاب کا رہائشی تھا اور انگریز راج کو ناکوں چنے چپوا گیا.بھگت سنگھ کی جنگ طبقات سے تھی نہ کہ مذہب یا فرقوں سے. اگر بھگت سنگھ اور اس جیسے اور ہیروز کا بھی ذکر اس دن کر دیا جائے اور نئی نسلوں کو اس سے روشناس کروایا جائے تو کیا اس سے نظریہ پاکستان کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے.؟مجھے یقین ہے کہ نظریات اتنے کمزور نہیں ہوتے کہ جو کسی غیر مسلم کی خدمات کو تسلیم کرنے سے مٹی کے برتنوں کی طرح ٹوٹ جائیں. ویسے یوم پاکستان کی خوشیاں آپ سب کو مبارک لیکن کچھ لمحات کیلئے اپنی اپنی تعصب کی پٹی اتار کر نظریہ پاکستان کی اصل روح اور متن کو جاننے کی کوشش ضرور کیجئے گا.</p> </section> </body>
5434.xml
<meta> <title>سانحہ لاہور: وفاق المدارس نے 3 اپریل کو منعقد ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس ملتوی کر دی.</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20708/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>581</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سانحہ لاہور: وفاق المدارس نے 3 اپریل کو منعقد ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس ملتوی کر دی.
581
No
<body> <section> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں نائب صدر وفاق المدارس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی صدارت میں منعقدہ ہوا۔</p> <p>۔اس موقع پر سانحہ لاہور کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں 3 اپریل کو گلشن اقبال پارک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں منعقد ہونے والی عظیم الشان استحکام مدارس واستحکام پاکستان کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے غور وخوض کیا گیا۔اجلاس کے بعد وفاق المدارس کے قائدین نے پریس کانفرنس کی۔</p> <p>وفاق المدارس کے منتظمیں نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر سانحہ لاہور کے شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور ملک کی موجودہ نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کانفرنس کے التواء کا اعلان کررہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>سانحہ لاہور کے خلاف جمعے کو ملک بھر میں یوم دعا منایا جائے گا اور علماء دہشت گردی کے خلاف وعظ کریں گے . وفاق المدارس</p> </blockquote> <p>انہوں نے کہا وفاق المدارس کی مجلس عاملہ لاہور کے سانحے پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرکے ان عناصرکی بھرپور مذمت کرتی ہے جو اس طرح کی درندگی کا ارتکاب کر کے نہ صرف بے گناہ خاندانوں کو اجاڑ رہے ہیں بلکہ ملت اسلامیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر تمامتر فائدہ مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کو پہنچا رہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والے ملت اسلامیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں . وفاق المدارس</p> </blockquote> <p>اس موقع پر وفاق المدارس کے قائدین متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور ہمدردی کے اظہار کے ساتھ ان کے درد میں برابر کے شریک ہیں</p> <p>وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے قائدین نے بلاتحقیق ایک بے گناہ شخص کو خود کش بمبار کے طورپر پیش کرنے اور دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ اس حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے،</p> <p>انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ امن وسلامتی اور ملکی حالات کی نزاکت کو پیش نظر رکھا اور ایک مرتبہ پھر ہم قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کانفرنس کے فوری انعقاد کو موخر کررہے ہیں نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔انہوں نے مطالبہ کیادینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔</p> <blockquote> <p>اس موقع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے اعلان کیا کہ جلد اسلام آباد میں استحکام مدارس واستحکام پاکستان کے عنوان سے ایک عالمی کنونشن منعقد کیا جائے گا۔</p> </blockquote> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے یکم اپریل بروز جمعہ کو یوم دعا کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کی تمام مساجد میں ائمہ وخطباء پاکستان میں امن وسلامتی کے قیام،پاکستان اور دینی مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے خطاب کریں گے اور سانحہ لاہور کے شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں کی جائیں گی۔</p> <p>اجلاس میں مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان،مولانا انوا رالحق نائب صدر وفاق المدارس،مولانا مشرف علی تھانوی خازن وفاق المدارس العربیہ،مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی سیکرٹری جنرل وفاق المدارس، مولانا حافظ فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور،مولانا امداداللہ، مولانا زبیر احمد صدیقی،مولانا حسین احمد، مولانا مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی،مولانا سعید یوسف،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی،مولانا اصلاح الدین حقانی، مولانا ارشاد احمد،مولانا ظفر احمد قاسم، مولانا مفتی مطیع اللہ،مولانا عبدالقدوس،مولانا مفتی طاہر مسعود،مولانا مفتی محمد طیب،مولانا ضیاء اللہ اخونزادہ،مولانا قاری محب اللہ،مولانا مفتی خالد محمود،مولانا عبدالمجید ناظم دفتر،مولانا عبدالمنان،مولانا قاری محب اللہ اور دیگر علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی</p> </section> </body>
5435.xml
<meta> <title>آج دن بھرپاکستان میں کیاہوتارہا ؟</title> <author> <name>ٹیم آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20747/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3654</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
آج دن بھرپاکستان میں کیاہوتارہا ؟
3,654
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>ایرانی ویزے پر پاکستان میں علاحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے والے بھارتی ایجنٹ نے پاکستان مخالف سرگیوں کا اعتراف کر لیا</p> </blockquote> <p>اسلام آباد : پاک فوج نے بلوچستان سے گرفتار ہندوستانی جاسوس کی ویڈیو جاری کر دی ہے جس میں کلبوشھن یادیو نے 'را' سے تعلق کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ ہندوستان نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔</p> <p>کلبوشھن یادو کی ویڈیو وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دکھائی گئی۔</p> <p>ویڈیو میں کل بھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔</p> <p>کلبوشھن کے مطابق 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔</p> <p>وڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سےملاقات کرنا تھا۔</p> <blockquote> <blockquote>بھارتی جاسوس کا ویڈیو بیان</blockquote> <p>ایرانی ویزے پر پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے بھارتی جاسوس کا ویڈیو بیان آگیا ۔ خوفناک وارداتوں کا انکشاف</p> <blockquote><annotation lang="en">Posted by</annotation></blockquote> <blockquote><annotation lang="en">IBC Urdu</annotation></blockquote> <blockquote><annotation lang="en">on Tuesday, March 29, 2016</annotation></blockquote> </blockquote> <p>کلبھوشن یادیو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے 'را' کا ہاتھ ہے۔</p> <p>اس موقع پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو سے پاکستان اور بلوچستان کے نقشے برآمد ہوئے ہیں اور وہ 'را' کے چیف اور جوائنٹ سیکریٹری اے کے گپتا سے براہ راست رابطے میں تھا۔</p> <blockquote> <p>' <annotation lang="en">Your monkey is with us</annotation> '</p> </blockquote> <p>عاصم باجوہ نے کہا کہ کلبوشھن نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اگر آپ ہندوستان کو اس کی گرفتاری کا بتانا چاہتے ہیں تو انہیں خفیہ کوڈ ' <annotation lang="en">Your monkey is with us</annotation> ' (آپ کا بندر ہمارے پاس ہے) بتائیں تو وہ سمجھ جائیں گے کہ کون گرفتار ہوا ہے۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے اور کلبھوشن اس بات کا ثبوت ہے۔ 'ریاستی دہشت گردی کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں ہوسکتا'۔</p> <p>ترجمان کا کہنا تھا کہ کلبوشھن یادیو گوادر میں چینی انجینیئرز کے ہوٹل پر بم دھماکے، مہران بیس حملے میں ملوث رہا جب کہ پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ اس کے بڑے اہداف تھے۔</p> <p>ایک سوال کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ایرانی صدر کے سامنے بھی ہندوستانی دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ ایرانی صدر نے را کی مداخلت کا مسئلہ تحمل سے سنا تھا اور اُمید ہے کہ ایران کی جانب سے مثبت جواب آئے گا۔</p> <p>انھوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے ایرانی خفیہ ایجنسی کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے۔</p> <p>ایک اور سوال پر پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ کلبھوشن دہشت گردی کا نیٹ ورک بنانے، انھیں فنڈنگ اور اسلحہ مہیا کرنے میں ملوث رہا تاہم اس سے مزید تفتیش جاری ہے اور جلد تمام معلومات منظرعام پر لائی جائیں گی۔</p> <p>ہندوستانی میڈیا میں آنے والی خبروں کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ کلبھوشن یادیو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور قونصل رسائی کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔</p> <p>پنجاب میں جاری فورسز کے آپریشن کے سوال پر لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ راولپنڈی، ملتان اور دیگر علاقوں میں اس وقت بھی آپریشن جاری ہے۔</p> <blockquote> <p>دو گھنٹے کے اندر دھرنا ختم کرو ، ورنہ آپریشن ہوگا . حکومت کا ممتاز قادری کے حامیوں کو سخت پیغام</p> </blockquote> <p>وفاقی حکومت پارلیمان کے سامنے بیٹھے ممتاز قادری کے حامیوں کو دو گھنٹے کی وارننگ دی ہے کہ وہ دھرنا ختم کر یں ورنہ آپریشن کیا جائے گا . ایف سی ، فوج اور رینجرز کے تازہ دم دست پہنچ گئے .</p> <p>دھرنا کے شرکاء کو مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے دو گھنٹے کا نوٹس دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غیر قانونی دھرنا فی الفور ختم کیا جائے .</p> <p>تقریبا سات ہزار سے زائد اہلکار اس وقت ریڈ زون میں پہنچ چکے ہیں. پمز اسپتال اور پولی کلینک میں ایمرجنسی نافذ کر د ی گئی ہے .</p> <p>دھرنا قیادت کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ نے مذاکرات کر نے کی کوشش کی تاہم دھرنا قیادت نے اسلام آباد انتظامیہ سے مذاکرات کے بجائے وفاقی وزراء سے مذاکرات کا مطالبہ کیا .</p> <p>ذرائع کے مطابق دھرنا قیادت لوگوں کے مسلسل چلے جانے کی وجہ سے پہلے ہی پریشانی کا شکار تھی . قیادت نے حکومت تک پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی کہ وہ ان کی باوقار روانگی کے لئے راجا ظفر الحق کو ہی بھجوا دیں تاکہ ان کے سامنے مطالبات پیش کر کے دھرنا ختم کر دیا جائے.</p> <p>دھرنا شرکاء نے کراچی ائیر پورٹ پر وزیر اطلاعات پرویز رشید کو جوتا مارا اوران کے ساتھ گالم گلوچ کی . چہلم کے موقع پر اسلام آباد ائیر پورٹ کے اندر جنید جمشید کی مارا اور گالم گلوچ کی . ان دو واقعات کی وجہ سے حکومت نے کسی حکومتی نمائندے کو نہیں بھجوایا .</p> <p>دھرنا شرکاء نے ڈی چوک میں دھرنے کے لیے کسی سے اجازت لی اور نا ہی اطلاع دی .</p> <p>دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد کے شہری یرغمال بنے ہوئے ہیں اور شہری محصور ہیں . دوسری جانب کراچی میں بھی تین دنوں سے نمائش چورنگی پر مظاہرہ جاری ہے جس کی وجہ سے کراچی میں ٹریفک کا نظام انتہائی مشکلات کا شکا ہے .</p> <p>دھرنے کے قیادت نے میڈیا کے ساتھ بدتمیزی بھی کی اور مائیک پر گالم گلوچ کی .</p> <p>دوسری جانب دھرنے کے شرکاء نے میٹرو بس کے سٹیشن توڑ ڈالے جس کی وجہ سے تین دنوں سے میٹرو بس سروس بند ہے . موبائل سروس بند ہے اور سیکرٹریٹ کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے .</p> <p>اس سے پہلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے 700 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر کے انھیں پنجاب کی مخلتف جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔</p> <blockquote> <p>دھرنے کی قیادت نے مشورہ کیا ہے کہ ریڈ زون کے بجائے کوئی اور جگہ دھرنے کے لیے دی جائے اور حکومت ان سے مزاکرات کرے .</p> </blockquote> <p>کیپیٹل پولیس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 500 سے زائد مظاہرین کو اتوار کی رات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے جھڑپوں کے دوران گرفتار کیا گیا، جن میں کچھ رہنما بھی شامل ہیں۔ بقیہ گرفتاریاں پیر کو عمل میں آئیں۔</p> <p>ذرائع کے مطابق اسلام آباد کے ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ میں دھرنے میں شامل افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن دھرنے سے باہر جانے والے مظاہرین کی گرفتاری عمل میں آئی، (چاہے وہ کسی بنیادی ضرورت کے لیے گئے ہوں یا دھرنا چھوڑ کر گئے ہوں)۔</p> <p>واضح رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پنجاب پولیس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تقریباً 2 ہزار مظاہرین نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون ایریا ڈی چوک میں دھرنا دے رکھا ہے۔</p> <p>ذرائع نے مزید بتایا کہ گرفتار مظاہرین کو کچھ پولیس تھانوں سمیت مختلف مقامات پر رکھا گیا اور بعدازاں انھیں اسلام آباد کے قریبی ضلعوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔</p> <p>ایک پولیس اہلکار کے مطابق گرفتار شدگان کی جیلوں میں منتقلی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔</p> <p>مذکورہ اہلکار نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ بہت زیادہ تعداد میں گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، لہذا کیپیٹل پولیس پہلے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ جس جیل میں مظاہرین کو بھیجا جارہا ہے، وہاں جگہ موجود ہے یا نہیں۔</p> <p>سنی تحریک (ایس ٹی) اور تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں یہ مظاہرین اتوار کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ممتاز قادری کے چلہم میں شرکت کے لیے پہنچے اور بعد ازاں انھوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔</p> <p>یہ مظاہرین تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچے، جہاں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں، پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا جب کہ آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔</p> <p>حکومتی درخواست پر پاک فوج کے دستوں کو بھی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون کی سیکیورٹی کیلئے طلب کرلیا گیا۔</p> <p>ان مظاہرین نے اپنے مطالبات کی منظوری تک ریڈ زون میں دھرنا دے رکھا ہے، ان مطالبات میں ملک میں شریعت کا نفاذ، دہشت گردی اور قتل سمیت مختلف مقدمات میں گرفتار کیے گئے سنی علماء اور رہنماؤں کی غیر مشروط رہائی، ممتاز قادری کو شہید تسلیم کیا جانا، راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قادری کے سیل کو قومی ورثہ قرار دینا اور توہین کے قوانین میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہ کیے جانے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں۔</p> <p>اتوار کی شام سے شروع ہونے والا مذہبی جماعتوں کا احتجاج تاحال جاری ہے، تاہم دھرنے میں شریک افراد کی تعداد گذشتہ روز 10 ہزار سے کم ہو کر 2 ہزار رہ گئی تھی۔</p> <blockquote> <p>پنجاب میں کریک ڈاؤن قومی آپریشن ہے،رانا ثناء اللہ</p> </blockquote> <p>لاہور: پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پنجاب کریک ڈاون ایک 'قومی آپریشن' ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے حصہ لیں گے.</p> <p>لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی قیادت، مذہبی جماعتیں، اپوزیشن اور حکومت کریک ڈاؤن کے حق میں ہے.</p> <p>رانا ثناء اللہ نے آپریشن کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا، 'کچے کے کچھ علاقوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے، جہاں پولیس، ایلیٹ فورس اورانسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) حصہ لیں گے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو رینجرز اور فوج کی مدد بھی حاصل کی جائے گی'۔</p> <p>واضح رہے کہ صوبائی وزیر قانون نے ایک ایسے وقت میں پریس کانفرنس کی ہے جب اتوار 27 مارچ کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خودکش حملے کے بعد گذشتہ روز فوجی قیادت کی ہدایت پر پنجاب بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا.</p> <p>لاہور خود کش دھماکے میں 73 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 250 سے زائد زخمی ہوئے تھے.</p> <p>پنجاب میں کریک ڈاؤن کے معاملے پر حکومت اورفوج میں اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا ، 'کچھ عناصر ہماری مشترکہ کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، لیکن یہ آپریشن اسی جذبے کے ساتھ جاری رہے گا اور بہت جلد پوری قوم کو کامیابی حاصل ہوگی'.</p> <p>صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سانحہ لاہور کے بعد گذشتہ 24 گھنٹوں میں پنجاب میں 56 آپریشنز کیے گئے، جن میں سے سی ٹی ڈی نے 16 جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیز نے مقامی پولیس کے تعاون سے 88 آپریشنز کیے.</p> <p>انھوں نے بتایا کہ ابتدائی آپریشنز میں 5 ہزار 221 افراد کو شامل تفتیش کیا گیا،جن میں سے 5 ہزار 5 لوگوں کو کوائف کی تصدیق کے بعد رہا کردیا گیا اور 216 کو گرفتار کیا گیا.</p> <p>صوبائی وزیرقانون نے بتایا کہ لاہور واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی ہے، جس کی سربراہی ایس ایس پی سی ٹی ڈی کریں گے اور اس میں باقی ایجنسیز کے لوگ بھی شامل ہوں گے.</p> <p>رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مشترکہ کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اوریہاں بھرپور انداز میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا خاتمہ کیا گیا.</p> <p>انھوں نے بتایا کہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی تعداد ساڑھے 15 سو ہے جن پر کڑی نگاہ رکھی گئی ہے جبکہ مدرسوں کا مکمل ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے۔</p> <p>صوبائی وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے، نہ یہاں دہشت گردی کا کوئی منظم نیٹ ورک ہے اور نہ ہی کوئی محفوظ ٹھکانہ ہے.</p> <p>رانا ثناء کا مزید کہنا تھا کہ ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر پنجاب میں بھی عملدرآمد جاری ہے اور کل سے پنجاب میں انٹیلی جنس کی بنیادوں پر مشترکہ آپریشنز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>پولیس کا خدشہ غلط ثابت ہوا ،،، یوسف خود کش حملہ آور نہیں تھا بلکہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ پارک میں آیا تھا ۔</p> </blockquote> <blockquote> <p>یوسف خود کش حملہ آور نہیں تھا ۔ دوست محمد یعقوب نے وضاحت کر دی ۔</p> <blockquote><annotation lang="en">Posted by</annotation></blockquote> <blockquote><annotation lang="en">IBC Urdu</annotation></blockquote> <blockquote><annotation lang="en">on Monday, March 28, 2016</annotation></blockquote> </blockquote> <p>یوسف کا دوست یعقوب زخمی حالت میں ہسپتال میں پڑا تھا، اب وہ بیان دینے کے قابل ہوا تو اس نے بتایا کہ یوسف وہ اور ان کا ایک اور دوست بلال ہر ہفتے اس پارک آتے تھے۔ اس بار بھی وہ پارک آئے تھے، ایک دوسرے کی تصویریں بنا رہے تھے کہ دھماکہ ہو گیا، یوسف اور بلال شہید ہو گئے تاہم یعقوب بچ گیا ۔</p> <p>پولیس نے گذشتہ روز میڈیا کو بتایا تھا کہ یوسف ممکنہ طور پر خود کش حملہ آور ہو سکتا ہے کیونکہ یوسف کے جسم کا نچلا دھڑ دھماکے کی وجہ سے ضائع ہو چکا تھا ۔ بعد میں پولیس نے کہا کہ یوسف ہینڈلر تھا جبکہ خود کش حملہ آور کا سر پارک سے ملا ہے ۔ تاہم اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ یوسف خود کش حملہ آور تھا اور نا ہی ہینڈ لر تھا ۔</p> <p>ادھر جماعۃ الاحرار نے خود کش حملہ آور کی تصویر جاری کر دی ہے جس کے مطابق صلاح الدین خراسانی نے گلش اقبال پارک لاہور میں خود کش دھماکہ کیا تھا.</p> <blockquote> <p>سانحہ لاہور: وفاق المدارس نے 3 اپریل کو منعقد ہونے والی استحکام پاکستان کانفرنس ملتوی کر دی.</p> </blockquote> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں نائب صدر وفاق المدارس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی صدارت میں منعقدہ ہوا۔</p> <p>۔اس موقع پر سانحہ لاہور کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں 3 اپریل کو گلشن اقبال پارک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں منعقد ہونے والی عظیم الشان استحکام مدارس واستحکام پاکستان کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے غور وخوض کیا گیا۔اجلاس کے بعد وفاق المدارس کے قائدین نے پریس کانفرنس کی۔</p> <p>وفاق المدارس کے منتظمیں نے کہا کہ ہم رضاکارانہ طور پر سانحہ لاہور کے شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور ملک کی موجودہ نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کانفرنس کے التواء کا اعلان کررہے ہیں۔</p> <p>سانحہ لاہور کے خلاف جمعے کو ملک بھر میں یوم دعا منایا جائے گا اور علماء دہشت گردی کے خلاف وعظ کریں گے . وفاق المدارس</p> <p>انہوں نے کہا وفاق المدارس کی مجلس عاملہ لاہور کے سانحے پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرکے ان عناصرکی بھرپور مذمت کرتی ہے جو اس طرح کی درندگی کا ارتکاب کر کے نہ صرف بے گناہ خاندانوں کو اجاڑ رہے ہیں بلکہ ملت اسلامیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر تمامتر فائدہ مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کو پہنچا رہے ہیں۔</p> <p>ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والے ملت اسلامیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں . وفاق المدارس</p> <p>اس موقع پر وفاق المدارس کے قائدین متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور ہمدردی کے اظہار کے ساتھ ان کے درد میں برابر کے شریک ہیں</p> <p>وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے قائدین نے بلاتحقیق ایک بے گناہ شخص کو خود کش بمبار کے طورپر پیش کرنے اور دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ اس حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور انہیں قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے،</p> <p>انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ امن وسلامتی اور ملکی حالات کی نزاکت کو پیش نظر رکھا اور ایک مرتبہ پھر ہم قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کانفرنس کے فوری انعقاد کو موخر کررہے ہیں نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔انہوں نے مطالبہ کیادینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔</p> <p>اس موقع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے اعلان کیا کہ جلد اسلام آباد میں استحکام مدارس واستحکام پاکستان کے عنوان سے ایک عالمی کنونشن منعقد کیا جائے گا۔</p> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے یکم اپریل بروز جمعہ کو یوم دعا کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کی تمام مساجد میں ائمہ وخطباء پاکستان میں امن وسلامتی کے قیام،پاکستان اور دینی مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے خطاب کریں گے اور سانحہ لاہور کے شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیں کی جائیں گی۔</p> <p>اجلاس میں مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان،مولانا انوا رالحق نائب صدر وفاق المدارس،مولانا مشرف علی تھانوی خازن وفاق المدارس العربیہ،مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی سیکرٹری جنرل وفاق المدارس، مولانا حافظ فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور،مولانا امداداللہ، مولانا زبیر احمد صدیقی،مولانا حسین احمد، مولانا مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی،مولانا سعید یوسف،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی،مولانا اصلاح الدین حقانی، مولانا ارشاد احمد،مولانا ظفر احمد قاسم، مولانا مفتی مطیع اللہ،مولانا عبدالقدوس،مولانا مفتی طاہر مسعود،مولانا مفتی محمد طیب،مولانا ضیاء اللہ اخونزادہ،مولانا قاری محب اللہ،مولانا مفتی خالد محمود،مولانا عبدالمجید ناظم دفتر،مولانا عبدالمنان،مولانا قاری محب اللہ اور دیگر علماء کرام کی بڑی تعداد نے شرکت کی</p> <blockquote> <p>ورلڈ ٹی 20 میں شکست پر وقار کی قوم سے معافی</p> </blockquote> <p>لاہور: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کی خراب کارکردگی پر پوری قوم سے معافی مانگ لی۔</p> <p>لاہور میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے قبل میڈیا سے گفتگو کے دوران وقار یونس نے قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ کاسمیٹکس سرجری کرنے سے چیزیں ٹھیک نہیں ہوں گی، ہمیں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہوگی اور ایمان داری سے کرکٹ کھیلنی ہوگی۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہورہی اور نہیں معلوم کہ ملک میں کب بین الاقوامی کرکٹ ہوگی، لیکن تب تک ہمیں ڈومیسٹک کرکٹ ٹھیک کرنا ہوگی۔</p> <p>شاہد آفریدی کی زیر قیادت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بنگلہ دیش کے خلاف فتح کے ساتھ ایونٹ کا کامیاب آغاز کرنے والی پاکستانی ٹیم مزید کوئی اور میچ نہ جیت سکی اور ہندوستان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف لگاتار تین شکستوں کے بعد ایونٹ سے باہر ہو گئی۔</p> <p>ٹیم کی شکست کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں سیاست کی بازگشت سنائی دی جہاں ذرائع کے مطابق ٹیم میں کروہ بندی ایونٹ میں شکست کی اہم وجہ بنی۔</p> <p>قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ نے کہا کہ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رپورٹ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کو دوں گا جس کے بعد امید ہے کہ رپورٹ کی سفارشات پر عمل ہوگا، مسائل سامنے لا کر حل کرنے کا وقت آگیا ہے، اب آنکھیں کھولے بغیر معاملات حل نہیں ہوں گے اور کرکٹ کو سیاست سے الگ کرنا ہوگا۔</p> <p>وقار یونس نے کہا کہ پہلے بھی پوری ایمانداری سے کام کیا ہے اور آگے بھی کوشش کروں گا تاہم رپورٹ کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں بتاسکتا، گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہمارے جو بھی اختلافات ہیں وہ بورڈ کا اندرونی معاملہ ہے جسے باہر نہیں آنا چاہیے۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی ذمے داری کسی ایک شخص پر ڈالنا زیادتی ہوگی، ہمیں معاملے کی تہہ میں جانا پڑے گا اور سوچنا ہوگا کہ ہم میں کیا خامیاں ہیں۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ کسی کو فارغ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، مجھے گھر بھیجنے سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو میں چلا جاتا ہوں، بے شک سب کو اُڑا دیں لیکن سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، جب تک اصل مسائل کی طرف نہیں جائیں گے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔</p> <p>قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ نے کہا کہ کرکٹ اسٹارز کا نہیں ہیروز کا کھیل ہے، اسٹارز اور ہیروز میں فرق ہوتا ہے جبکہ ٹیلی وژن پر چار اشتہار کرنے سے کوئی ہیرو نہیں بن جاتا، ہمیں ہمیں اسٹارز نہیں ہیروز کی ضرورت ہے۔</p> <p>انہوں نے ٹیم میں گروپنگ کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ٹیم میں گروپنگ ہے، ٹیم کی کارکردگی ہی ٹھیک نہیں تو ہم گروپنگ کے کیسے قابل ہوں گے۔</p> <blockquote> <p>سابقہ بیوی سے ملنے کے لیے مصری نے مصر کا طیارہ ہائی جیک کر لیا</p> </blockquote> <p>قبرص کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ لارناکا ایئر پورٹ پر ہونے والا ہائی جیک 'ڈرامہ' اپنے اختتام کو پہنچا ہے اور ہائی جیکر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔</p> <p>مصر کی فضائی کمپنی 'ایئرایجپٹ' کی پرواز ایم ایس 181 کو مصر کے شہر سکندریہ سے قاہرہ جاتے ہوئے ہائی کیک کر لیا گیا تھا۔ ہائی جیکر کا کہنا تھا کہ وہ آتشیں مواد والی بیلٹ پہنے ہوئے ہے۔</p> <p>اطلاعات کے مطابق لارناکا ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد ہائی جیکر نے تمام مسافروں کو رہا کر دیا تھا اور قبرص میں سیاسی پناہ اور اپنی سابقہ قبرصی بیوی سے ملنے کا مطالبہ کیا تھا۔</p> <p>قبرص کے صدر نیکوس انسٹاسیاڈیس نے صحافیوں کو بتایا کہ طیارے کا ہائی جیک ہونا دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک عورت سے ہے۔</p> <p>مصر کے سول ایوی ایشن کے وزیر نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مسافروں کی رہائی کے بعد بھی طیارے میں سات افراد موجود تھے۔</p> <p>شریف فاتح کے مطابق ان میں پائلٹ، معاون پائلٹ، ایک ایئر ہوسٹس، ایک سکیورٹی آفیسر اور تین مسافر تھے۔ انھوں نے تینوں مسافروں کی قومیت بتانے سے انکار کیا تھا۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ ہائی جیکر سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ واضح نہیں کہ وہ طیارے پر دھماکہ خیز مواد لے کر گیا ہے یا پھر جھوٹ بول رہا ہے۔</p> <p>قبرص کے صدر نے کہا تھا کہ 'ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ سبھی مسافروں کو بحفاظت رہا کرا لیا جائے۔'</p> <p>اس سے قبل 'ایجپٹ ایئر' کا کہنا تھا کہ خودکش بیلٹ پہنے ہوئے ایک مسافر نے انھیں پرواز قبرص میں اتارنے کے لیے کہا تھا۔</p> <p>سکندریہ ایئرپورٹ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ پرواز سے قبل جہاز میں آٹھ امریکی، چار برطانوی، چار ڈچ، دو بیلجیئن، ایک اطالوی اور 30 مصری شہری سوار ہوئے تھے۔</p> <p>مصر کی وزارت ہوا بازی کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 'ہواباز نے کہا تھا کہ ایک مسافر نے انھیں بتایا کہ اس کے پاس دھماکہ خیر جیکٹ ہے اور اس نے طیارے کو لارناکا میں اتارنے پر مجبور کیا۔'</p> <p>لارناکا ایئرپورٹ پر فضائی آپریشن معطل کر دیا گیا ہے اور اس طرف آنے والی پروازوں کا رخ دوسرے شہروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔</p> </section> </body>
5436.xml
<meta> <title>وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے جامعہ حفصہ ؓ کا الحاق منسوخ کر دیا.</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/20945/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>193</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے جامعہ حفصہ ؓ کا الحاق منسوخ کر دیا.
193
No
<body> <section> <p>دینی مدارس کے تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اسلام آباد میں واقع جامعہ حفصہ ؓ کا الحاق منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔</p> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم دفتر مولانا عبدالمجید نے لال مسجد کے خطیب اور جامعہ حفصہؓ کے مہتمم مولانا عبدالعزیز کے نام خط میں لکھا کہ ۔</p> <p>"جامعہ حفصہ ؓ کی جانب سے الحاق کے لیے بھیجی گئی درخواست پر غور کے بعد جامعہ حفصہ ؓ کے وفاق المدارس کے ساتھ الحاق کی منسوخی کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔</p> <p>خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وفاق المدارس کے جامعہ حفصہ ؓ کے الحاق کی منسوخی کے ساتھ ساتھ طالبات کے داخلہ فارم اور فیس بھی واپس کر دی ہے ۔</p> <p>خیال رہے کہ وفاق المدارس نے 2007 میں بھی جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ ؓ کا الحاق ختم کر کے اس کے ساتھ لاتعلقی کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں الحاق بحال کر دیا گیا تھا ۔</p> <p>ادھر جامعہ حفصہ ؓ کی پرنسپل ام حسان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک کمنٹ میں کہا ہے کہ</p> <p>" انہیں افسوس ہے کہ طالبات کا قیمتی سال ضائع ہو گیا"</p> </section> </body>
5437.xml
<meta> <title>آج دن بھر کیا ہوتا رہا ؟</title> <author> <name>ٹیم آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21100/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>4935</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
آج دن بھر کیا ہوتا رہا ؟
4,935
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>'پاکستان میں ایٹمی مواد کے تحفظ کے لیے مؤثر نظام موجود ہے'</p> </blockquote> <p>وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے کا ہے کہ جوہری مواد کو کسی صورت غلط ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے اور پاکستان میں جوہری مواد کے تحفظ کے لیے ایک مؤثر نظام موجود ہے۔</p> <annotation type="url"><p>http://dw.com/p/1INtE</p></annotation> <p>ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس جوہری مواد کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے نیو کلیئر ایمرجنسی مینجمنٹ نظام سمیت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موثر میکنزم موجود ہے۔</p> <p>یہ باتیں امورِ خارجہ کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی نے واشنگٹن میں امریکی صدر اوباما کی طرف سے دیئے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔</p> <p>ریڈیو پاکستان کے مطابق انھوں نے کہا کہ 'نیو کلیئر اینڈ ریڈیولوجیکل ایمرجنسی سپورٹ سینٹر اور نیو کلیئر اینڈ ریڈیویوجیکل ایمرجنسی کوآرڈنیشن سینٹر چوبیس گھنٹے کام کررہے ہیں۔'</p> <p>طارق فاطمی نے کہا کہ 'بین الاقوامی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ جوہری مواد کو کسی صورت غلط ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے اور پاکستان اس میں شامل ہے۔'</p> <p>انھوں نے کہا کہ ریڈیائی ذرائع نجی شعبے، ہسپتالوں، صنعتوں اور تحقیق کے شعبوں میں ہر جگہ استعمال کیے جارہے ہیں۔</p> <p>جوہری سلامتی سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدراوباما کا کہنا تھا کہ اب بھی جوہری مواد کے شد پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے گو بہت کام کیا گیا ہے تاہم دنیا میں پلوٹونیم کی مقدار میں کافی اضافہ ہو گیا ہے جس کا تحفظ بہت ضروری ہے۔'</p> <p>ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی سطح پر انٹیلیجنس اطلاعات کے تبادلے کی ضرورت ہے تاکہ دولتِ اسلامیہ جیسے گروہوں کو شکست دی جا سکے۔</p> <p>پاکستان میں ماضی میں کئی اہم فوجی تنصیبات پر بڑے شدت پسند حملوں کے بعد عالمی سطح پر یہ تحفظات پائے جاتے ہیں کہ آیا پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ بھی نہیں یا نہیں۔ پاکستان اس حوالے سے کئی بار یہ یقین دہانیاں کروا چکا ہے کہ اس کے جوہری ہتھیار مکمل طور محفوظ ہیں۔</p> <p>پاکستان کے جوہری اثاثوں کے محلِ وقوع کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان ہتھیاروں کے مختلف حصوں کو علیحدہ علیحدہ جگہوں پر سٹور کیا گیا ہے۔</p> <p>اب تک امریکی حکام جوہری اثاثوں کے محفوظ ہونے کے بارے میں پاکستان کی یقین دہانیوں کو، بے شک کھلے عام ہی سہی، قبول کرتے رہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ایسے ہی واشنگٹن کی تشویش بھی بڑھی ہے۔</p> <p>وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے جمعے کو واشنگٹن میں جوہری سلامتی کانفرنس کے موقع پر ترکی کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔</p> <p>ترک وزیر خارجہ نے اس موقعے پر لاہور خود کش دھماکے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دکھ کی اس گھڑی میں ترکی کی حکومت اور عوام کی جانب سے پاکستانی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا۔</p> <p>اس موقعے پر طارق فاطمی نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف 13 ویں او آئی سی سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے ترکی کا دورہ کریں گے۔ سربراہ اجلاس اگلے ماہ استنبول میں منعقد ہو رہا ہے۔</p> <p>وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے جمعے کو واشنگٹن میں جوہری سلامتی کونسل کے موقع پر چین کے وزیر خارجہ وانگ سی سے ملاقات کی۔ چینی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹجک پارٹنرشپ کو مستحکم بنانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔</p> <blockquote> <p>مولانا مسعود اظہر پر پابندی نہ لگنے پر انڈیا برہم</p> </blockquote> <p>اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی جانب سے مولانا محمد مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی تجویز کو چین نے روک دیا ہے۔ مولانا مسعود اظہر پاکستان میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ ہیں۔</p> <p>انڈیا نے اس قدم پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے تاہم اس نے اس سلسلے میں نہ تو چین کا نام لیا ہے اور نہ ہی پاکستان کا۔</p> <p>انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے کہا کہ 'یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جیش محمد کو شدت پسند سرگرمیوں اور القاعدہ سے تعلقات کی وجہ سے سنہ 2001 میں ہی بلیک لسٹ شدت پسند تظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا لیکن اس کے لیڈر پر پابندی لگانے کی تجویز پر تکنیکی اعتراض لگا دیا گیا ہے۔'</p> <p>سوروپ نے واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے تحفظ پر ہونے والی کانفرنس کے دوران نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئےکہا: 'ہم اس بات سے مایوس ہیں کہ مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی ہماری درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے تکنیکی پابندی لگا دی ہے۔'</p> <p>انھوں نے کہا: 'پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے سے یہ واضح ہے کہ مسعود اظہر پر پابندی نہیں لگانے کا نتیجہ انڈیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف کمیٹی کا یہ عمل بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے انتہا پسندی کو فیصلہ کن شکست دینے کے عزم کے مطابق نہیں ہے۔'</p> <p>بہر حال یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا چین نے انڈیا کی تجویز پر تکنیکی روک لگانے کی درخواست کی ہے یا کسی دوسرے ملک نے۔</p> <p>تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ چین نے اقوام متحدہ میں طالبان اور القاعدہ پر پابندی لگانے والی کمیٹی کی ڈیڈ لائن سے قبل اس پر روک لگائي ہے۔</p> <p>بہر حال اقوام متحدہ میں چین کے سفیر لیو جیئي نے اس بارے میں صرف اتنا کہا کہ 'کسی پر بھی پابندی لگانے کے لیے وافر بنیاد کا ہونا ضروری ہے۔'</p> <p>اگر مولانا مسعود اظہر پر پابندی لگتی ہے تو ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہو گی اور ان کے اثاثے منجمد ہو جائیں گے۔</p> <p>انڈیای اخبار دا ہندو کے مطابق بیجنگ، دہلی اور نیویارک میں موجود انڈیا کی وزارت خارجہ کے اہلکاروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رواں سال دو جنوری کو پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے کے بعد سے انڈیا اقوام متحتد کے چین سمیت تمام مستقل رکن ممالک سے مولانا محمد مسعود اظہر پر پابندی کے لیے رابطے میں تھا۔</p> <p>یاد رہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد پاکستان کی حکومت نے کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو تفتیش کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا تھا۔</p> <p>پاکستان نے پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی تھی۔ کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے دفاتر کو سیل کیا گیا اور بہت سے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مولانا مسعود اظہر کو محکمہ انسداد دہشت گردی نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔</p> <blockquote> <p>نریندر مودی سعودی عرب پہنچ گئے</p> </blockquote> <p>انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سنیچر کو سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں وہ توانائی، سکیورٹی اور تجارتی تعلقات پر سعودی رہنماؤں سے بات چیت کریں گے۔</p> <p>خیال رہے کہ انڈیا اپنی ضروریات کا 80 فیصد خام تیل کی درآمد سے پورا کرتا ہے۔</p> <p>انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار شری کمار کا نریندر مودی کے دورۂ سعودی عرب سے پہلے کہنا تھا کہ ان کا ملک سعودی عرب سے 20 فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔</p> <p>خبر رساں ادارے اے ایف پی نے انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے اہلکار کے حوالے سے بتایا 'ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب سے خام تیل کی درآمد جاری رہے۔'</p> <p>ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم سعودی بادشاہ سلمان سے اس حوالے سے بات چیت کریں گے۔</p> <p>ادھر سعودی پریس ایجنسی نے بھی نریندر مودی کی سعودی عرب آمد کی خبر شائع کی ہے تاہم ان کے دورے کی مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔</p> <p>انڈیا کی وزارتِ خارجہ کے اہلکار شری کمار نے کہا کہ نریندر مودی کا دورۂ سعودی عرب بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس میں دو طرفہ علاقائی اور کثیر اطرافی معاملات پر بات کی جائے گی۔</p> <p>شری کمار کے مطابق مذاکرات کے ایجنڈے میں سکیورٹی تعاون پر بات چیت کی بھی امید کی جا رہی ہے۔</p> <p>نریندر مودی اتوار کو سعودی عرب کے بڑی کاروباری رہنماؤں سے بھی ملیں گے۔</p> <p>سعودی عرب انڈیا کا پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 25 ارب ڈالر بڑھ کر 48 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔</p> <p>سعودی عرب میں 30 لاکھ انڈین افراد ملازمت کرتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>گلگت بلتستان میں پرائمری تک صرف خواتین اساتذہ</p> </blockquote> <p>پاکستان کےشمالی علاقےگلگت بلتستان کے صوبائی حکومت نے پرائمری تک کی تعلیم خواتین اساتذہ کے سپرد کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔</p> <p>گلگت بلتستان کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے بتایا ہے کہ اس ابتدائی نظام تعلیم کے مثبت نتائج حاصل ہوں گے جبکہ اس میں ضروری اصلاحات متعارف کرانے سے مزید بہتری آئی گی۔</p> <p>گلگت بلتستان کے خواتین نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلے خواتین کو معاشی طور مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔</p> <p>گلگت کے ایک خاتون استانی روبینہ امتیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبائی حکومت کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے پرائمری ایجوکیشن کو خواتین اساتذہ کے حوالے کرنے کے بعد بنیادی تعلیم میں مزید بہتری آئے گی کیونکہ خواتین اساتذہ اس صلاحیت سے لیس ہیں کہ اس نظام کو بہتر انداز میں چلائیں۔</p> <p>'اس سے نہ صرف معیار تعلیم بہتر ہوگا بلکہ بچوں کے تربیت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ خاتون نہ صرف بہترین استانی بلکہ ماں کا کردار بھی ادا کرتی ہیں جس سے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول میسر آئےگا۔'</p> <p>سکردو کے خاتون سماجی رہنما ثریا منی نے بی بی سی کو بتایا کہ 'گلگت بلتستان میں لوگ بچیوں کی تعلیم پر بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں اب چونکہ خواتین اساتذہ ان کو پڑھائیں گی تو سکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھے گی کیونکہ خواتین اساتذہ میں ممتا کا جذبہ ہوتا ہے اور وہ پرائمری لیول کے بچوں کو بہتر طریقے سے تربیت فراہم کرسکتی ہے۔'</p> <p>گلگت کے ایک مقامی شخص رئیس نے بی بی سی کو بتایا کہ پرائمری نظام تعلیم خواتین اساتذہ کے حوالے کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے تشدد سے محفوظ ہوں گے۔</p> <p>'کیونکہ بعض اوقات مرد اساتذہ کے جانب سے بچوں پر تشدد کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور بچوں کو سکولوں میں گھر جیسا ماحول میسر آئےگا۔'</p> <p>گلگت بلتستان کے خاتون ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ مقدم نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت 2015 سے 2030 تک طویل المدتی تعلیم منصوبے پر کام کررہی ہیں اور 2025 تک ہماری کوشش ہے کہ پرائمری تک تعلیم کو مفت کیا جائے انھوں نے بتایا کہ علاقے میں خواتین کی خود مختاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جا رہا ہے۔</p> <blockquote> <p>اورکزئی: کوئلے کی کان میں دھماکہ، پانچ مزدور ہلاک</p> </blockquote> <p>پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں کوئلے کی ایک کان میں ہونے والے دھماکے میں پانچ مزدور ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے ہیں۔</p> <p>یہ دھماکہ اورکزئی ایجنسی کے علاقے کلایہ کے جنوب مشرق میں دس کلومیٹر دور کوریز میں ہوا۔</p> <p>حکام کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ دھماکہ کوئلے کی کان کے اندر گیس بھر جانے سے ہوا۔</p> <p>اس دھماکے کے نتیجے میں کوئلے کی کان کے اندر پھنس جانے والے افراد کو باہر نکالنے کے لیے پولیٹکل انتظامیہ اور فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے مشترکہ کوششیں کی ہیں۔</p> <p>اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ عزیزاللہ جان نے بی بی سی کو بتایا کہ انتظامیہ نے کوئلے کی کان کے مالک مینجر اور ٹھیکیداروں کو گرفتار کر لیا ہے۔</p> <p>کوئلے کی یہ کانیں چاہے قبائلی علاقوں میں ہوں یا بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ان میں کام کرنے والے بیشتر غریب لوگ ہوتے ہیں جو بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ان اندھیروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔</p> <p>پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق گذشتہ ماہ کوئلے کی کان کے حادثے کے بعد مقامی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جب تک اس بارے میں تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں تب تک کوئلے کی تمام کانوں میں کام بند رہے گا۔</p> <p>اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ کوئلے کی کان کے مالک کا موقف یہ ہے کہ مزدور ضروری مرمت کے لیے کان میں کام کر رہے تھے۔ پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔</p> <p>خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بھی اورکزئی ایجنسی میں کوئلے کی ایک کان بیٹھ گئی تھی جس میں سات کان کن ہلاک اور دس زخمی ہو گئے تھے۔ کوئلے کی یہ کان ڈولی کے علاقے میں تھی۔</p> <p>اورکزئی ایجنسی میں پہلے بھی کوئلے کی کانوں میں حادثات ہوتے رہے ہیں۔</p> <p>پہاڑی علاقوں میں واقع کوئلے کی ان کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث اکثر اوقات قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔</p> <p>کوئلے کی ان کانوں میں کام کرنے والے بیشتر مزدوروں کا تعلق شانگلہ اور سوات کے علاقوں سے ہے جو انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>چترالی دلہن کی تلاش میں روسی شہری گرفتار</p> </blockquote> <p>پاکستان کے ضلع چترال میں پولیس کے مطابق شادی کی خواہش لیے چترال آنے والے ایک غیر ملکی کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔</p> <p>پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے غیر ملکی شخص کا تعلق روس سے ہے جو خود کو ماسکو کا رہائش پذیر بتاتا ہے۔</p> <p>چترال کے ایس پی انویسٹی گیشن شیر احمد نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ مذکورہ غیر ملکی کو شک کی بنا پر پولیس نے گرفتار کیا ہے کیونکہ یہ شخص 25 دسمبر کو بھی چترال ایا تھا اور شادی کرنے کی کوشش کررہا تھا۔</p> <p>جس پر ان کو مشکوک قرار دے کر واپس بھیج دیاگیا تھا لیکن 29 مارچ کو یہ بھیس بدل کر دوبارہ واپس چترال آیا ہے لہذا پولیس نے اس کو گرفتار کیا ہے کیونکہ ان کی حرکات مشکوک ہے اور پولیس و قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کی تحقیقات کررہے ہی ہے کہ آخر یہ شخص چترال میں شادی اور گھر بنانے میں دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔</p> <p>صحافی شید انور کے مطابق غیر ملکی جس کا نام اپینگس اور اسلامی نام تورود علی ہے نےاردو زبان میں ایک اشتہار چترال کے مختلف مقامات پر چسپاں کیا ہے کہ 'وہ مسلمان ہے اور روس کا باشندہ ہے اور چترال میں شادی اور گھر تعمیر کرنے کا خواہش رکھتا ہے'۔</p> <p>بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص نے شادی میں مدد دینے والے کو دس لاکھ روپے معاوضہ دینے کی بھی پیش کش کی ہے۔</p> <p>چترال پولیس نےشادی کے خواہش مند غیر ملکی کے پاسپورٹ و دیگر دستاویزات قبضے میں لے لیے ہیں۔</p> <p>چترال کے مقامی صحافیوں کے مطابق یہ دوسرا واقعہ ہے کہ کوئی غیر ملکی چترال میں شادی کی غرض سے دلہن کی تلاش میں آیا ہو۔ اس سے پہلے ایک برطانوی نے چترال میں خونزا گل نامی لڑکی سے شادی کی تھی جو کچھ عرصہ چلنے کے بعد طلاق پر منتج ہوئی۔</p> <blockquote> <p>پسنی میں ماہی گیروں کے جال میں پھنس کر شارک ہلاک</p> </blockquote> <p>پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں نایاب شارک مچھلی ماہی گیروں کے جال میں پھنس کر ہلاک ہو گئی ہے۔</p> <p>نایاب شارک گوادر کی تحصیل پسنی کے سمندری حدود میں ماہی گیروں کے جال میں پھنس گئی تھی۔</p> <p>پسنی کے مقامی صحافی ساجد نور نے بی بی سی کو بتایا کہ مچھیرے سمندری حدود میں معمول کی ماہی گیری کے لیے نکلے تھے کہ اچانک اُن کے جال میں بڑی مچھلی پھنس گئی۔</p> <p>انھوں نے بتایا کہ دیکھنے پر پتہ چلا کہ شارک مچھلی جال میں پھنس گئی۔ شارک کا وزن ڈیڑھ ٹن سے زیادہ تھا اور اس کی لمبائی 14 فٹ تھی۔</p> <p>مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں نے شارک کو جال سے نکال کر دوبارہ سمندر میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن شارک کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ جال سے نکل نہیں سکی۔</p> <p>یاد رہے کہ پاکستان کی سمندری حدود میں شارک مچھلی کا شمار نایاب مچھلیوں میں ہوتا ہے۔ پسنی میں بولی جانے والی مقامی بلوچی زبان میں شارک مچھلی کو <annotation lang="bal">'بیران پاگاس'</annotation> کہا جاتا ہے۔</p> <blockquote> <p>بلوچستان: چار ماہ میں 92 عسکریت پسند' ہلاک'</p> </blockquote> <p>پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گذشتہ چار ماہ کے دوران 417 ٹارگٹڈ آپریشنز میں حکام نے 92 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔</p> <p>ان کاروائیوں کے دوران سکیورٹی اداروں کے 22 سے زائد اہلکار ہلاک اور 65 زخمی بھی ہوئے۔</p> <p>اس بات کا انکشاف بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر سرفراز بگٹی نے صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ اور فرنٹیئر کور کے ڈی آئی جی ایف سی بریگیڈیئر طاہر محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔</p> <p>صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ فرنٹیئر کور بلوچستان اور حساس اداروں کے یکم دسمبر 2015 سے لے کر اب تک ٹارگٹڈ آپریشنوں میں دو اہم کمانڈروں سمیت 92 مبینہ عسکریت پسند مارے گئے۔</p> <p>انھوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران 1, 844 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔</p> <p>ان آپریشنز کے دوران مختلف اقسام کے 820 چھوٹے بڑے ہتھیار اور 10, 727 کلو گرام دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔</p> <p>سرفراز بگٹی نے بتایا کہ اس دوران ایف سی کے 22 جوان ہلاک اور 65 زخمی ہوئے۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف جاری آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور شدت پسند تنظیموں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔</p> <p>سیکورٹی افواج کی کاروائیوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً بعض قوم پرست جماعتوں کے بیانات بھی آتے رہے ہیں جن میں ان کاروائیوں میں مارے جانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کو عسکریت پسند قرار دیے جانے کے دعوے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔</p> <p>اسی طرح گرفتار افراد کی کالعدم تنظیموں سے تعلق کے دعوے کو بھی مسترد کیا جاتا رہا ہے۔</p> <blockquote> <p>نگورنو کاراباخ تنازعے میں کشیدگی، دو مقامات پر جنگ جاری</p> </blockquote> <p>آرمینیا اور آذربائیجان نے نگورنوکاراباخ کے تنازعے میں کشیدگی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ اِس کشیدگی کے سبب دونوں ملکوں نے اگلے محاذوں پر بھاری ہتھیار تعینات کر دیے ہیں۔ آرمینیا کی وزارت دفاع کے مطابق متنازعہ علاقے میں لڑائی جاری ہے۔ اِس بیان کے مطابق کاراباخ کی فوج نے آذری فورسز کے حملے کو پسپا کرنے کے علاوہ حملہ آور فوج کو بھاری جانی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ دوسری جانب آذربائیجان نے کہا ہے کہ اُس کا ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا ہے اور اُس کے زمینی دستے کاراباخ کی بھاری شیلنگ کی زد میں ہیں۔ آذری حکومت نے بھی دو محاذوں پر لڑائی جاری رہنے کی تصدیق کی ہے۔</p> <blockquote> <p>'صالح نے خود کو نہ اڑانے کا فیصلہ کیا تھا'</p> </blockquote> <p>گزشتہ برس ہونے والے پیرس دہشت گردانہ حملوں کے مبینہ سرغنے صالح عبدالسلام کے بھائی نے کل جمعے کے روز بتایا کہ صالح نے خود کو نہ اڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔ محمد عبدالسلام نے بتایا کہ اُس کے بھائی کا خودکش حملے سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ رضاکارانہ تھا۔ نومبر میں کیے گئے حملوں میں ایک سو تیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ شمالی بیلجیم کی جیل میں بند صالح عبدالسلام نے اپنے بھائی کو جیل میں ملاقات کے دوران بتایا کہ اگر وہ چاہتا تو فرانس کے حملوں میں ہلاکتیں اور زیادہ ہو سکتی تھیں۔ پیرس حملوں کا واحد زندہ بچ جانے والا ملزم صالح ہے اور اُسے اٹھارہ مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔</p> <blockquote> <p>بیلجین شہری پر دہشت گرد گروپ کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی فرد جرم عائد</p> </blockquote> <p>بیلجیم کے ایک شہری پر ایک دہشت گرد گروپ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ اِس شہری کا نام صرف وائی اے بتایا گیا ہے۔ اِس کو ایک دہشت گردانہ حملے کی پلاننگ کی اطلاع ملنے کے بعد فرانس اور بیلجیم کی مشترکہ تفتیش کے بعد حراست میں لیا گیا۔ بیلجیم کی وفاقی پولیس کے مطابق جمعرات کے روز حراست میں لیے گئے تینتیس برس کے مشتبہ شخص کو جمعے کے روز عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ عدالت نے اُسے ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔ وائی اے نامی شخص کو چوبیس مارچ کو فرانس میں گرفتار ہونے والے رضا کریکت سے کی جانے والی تفتیش کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>عراق: مارچ کے مہینے میں گیارہ سو سے زائد انسانوں کی ہلاکت</p> </blockquote> <p>اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ مارچ کے مہینے میں عراق میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات میں گیارہ سو سے زائد انسان مارے گئے۔ فروری میں 670 افراد ہلاک اور تیرہ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اس طرح رواں برس کے تیسرے مہینے میں ہلاکتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد پندرہ سو سے زائد رہی۔ اس مہینے میں ہونے والی گیارہ سو سے زائد ہلاکتوں میں 575 عام شہری شامل تھے جبکہ بارہ سو کے قریب سویلین زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ یعنی 259 ہلاکتیں دارالحکومت بغداد میں ہوئیں۔</p> <blockquote> <p>کولکٹہ فلائی اوور ٹریجڈی: تعمیراتی کمپنی کے دس ملازمین تفتیش میں شامل</p> </blockquote> <p>بھارتی شہر کولکٹہ میں منہدم ہو جانے والے زیرتعمیر فلائی اوور کی تفتیش میں تعمیراتی کمپنی کے کئی ملازمین شامل ہیں۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ کم از کم دس ملازمین کو قتل کے الزام کا سامنا ہو سکے گا۔ زیر تعمیر فلائی اوور کے منہدم ہو جانے سے دو درجن افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ جمعرات کے روز پیش آنے والے حادثے کے بعد سے ابھی تک ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔ امدادی کارکنوں کا خیال ہے کہ ملبے تلے اب مزید نعشوں کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پولیس اب تک تین ملازمین کو باقاعدہ طور پر گرفتار کر چکی ہے۔ ان کے علاوہ سات دوسرے ملازمین بھی پولیس نے پوچھ گچھ کے لیے روک رکھے ہیں۔</p> <blockquote> <p>ترکی نے مہاجرین کے لیے دو مراکز کی تعمیر شروع کر دی</p> </blockquote> <p>ترک حکام کے مطابق یونان سے واپس ترکی بھیجے جانے والے مہاجرین کے لیے دو رہائشی مراکز کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے تحت ترکی جلد ہی بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو دوبارہ قبول کرنے پر تیار ہے۔ مہاجرین کے مراکز بحیرہ ایجیئن کے سیاحتی مقام جَسمے میں تعمیر کیے جا رہے ہیں جو ازمیر صوبے میں واقع ہے۔ یہ مقام یونانی جزیرے چیئوس کے قریب ہے۔</p> <blockquote> <p>صومالیہ: الشباب کے اہم لیڈر کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا امکان</p> </blockquote> <p>امریکی فوج کے ہیڈکوارٹرز پینٹاگون نے کہا ہے کہ اِس کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا جمعرات کے روز کیے گئے ڈرون حملے میں صومالیہ کے دہشت گرد گروپ الشباب کے اہم ترین لیڈر حسن علی دوری کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اکتیس اپریل بروز جمعرات جنوبی صومالیہ میں کینیا کی سرحد کے قریبی علاقے جِیلب میں ڈرون حملہ کیا گیا تھا اور اِس کا قوی امکان ہے کہ حسن علی دوری اپنے دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گیا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کُک کے مطابق دوری سن 2014 میں کرسمس کے تہوار کے دن کیے گئے حملے کا سہولت کار اور مارچ سن 2015 میں موغادیشو کے ایک بڑے ہوٹل پر کیے گئے حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔</p> <blockquote> <p>افغانستان میں ہونے والے حادثے میں ایک درجن کے قریب ہلاکتیں</p> </blockquote> <p>افغان حکام نے بتایا ہے کہ مغربی شہر ہرات میں ایک حادثے میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے۔ صوبائی پولیس کے سربراہ کے ترجمان رؤف احمدی کے مطابق حادثے میں تین گاڑیاں ایک شدید حادثے کا شکار ہوئیں۔ ترجمان نے غیرذمہ دارانہ ڈرائیونگ کو حادثے کی وجہ قرار دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اِن دنوں افغانستان کی سڑکوں پر نوروز کی تیرہ چھٹیوں کے بعد خاصی بھاری ٹریفک دیکھی جا رہی ہے۔</p> <blockquote> <p>فلپائن: پولیس اور کسان مظاہرین میں جھڑپیں، دو ہلاک</p> </blockquote> <p>جنوبی فلپائن میں قحط سالی کے شکار کسان مظاہرین اور پولیس کے درمیان آج ہفتے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں دو افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ کسان اپنے علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خوراک کی کمیابی کے تناظر میں احتجاج کر رہے تھے۔ فلپائن کے صوبے کوٹاباٹو کے دارالحکومت کیڈاپاوان میں ہزاروں کسانوں نے مرکزی شاہرہ کو بند کر دیا تھا۔ وہ حکومت سے چاول کی پندرہ ہزار بوریاں طلب کر رہے تھے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہونے پر پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی اور اِسی میں دو افراد مارے گئے۔ یہ امر اہم ہے کہ فلپائن میں گزشتہ دسمبر سے بارشیں نہ ہونے سے کئی علاقوں میں خشک سالی پائی جاتی ہے۔</p> <blockquote> <p>نئے ویتنامی صدر نے حلف اٹھا لیا</p> </blockquote> <p>ویتنام کی پارلیمنٹ نے ملکی پولیس کے سربراہ ٹران دائی کوانگ کو نیا صدر منتخب کر لیا ہے۔ پبلک سکیورٹی کے وزیر اور جنرل پولیس کے سربراہ کوانگ کو پارلیمنٹ میں نئے صدر کے الیکشن کی ووٹنگ میں 436 ووٹ ملے۔ ویتنام میں صدر کا عہدہ دستوری ہوتا ہے لیکن وہ ملکی فوج کا کمانڈر ہوتا ہے۔ اب اگلے ہفتے کے دوران پارلیمنٹ نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ ویتنام پر کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل نگوین پھُو ٹرونگ پہلے ہی وزیراعظم ہیں اور اُن کا انتخاب یقینی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے طاقتور پولٹ بیورو کا انتخاب رواں برس جنوری میں کیا گیا تھا۔</p> <blockquote> <p>امریکا اور فلپائن کی فوجی مشقیں پرسوں پیر سے شروع ہوں گی</p> </blockquote> <p>فلپائن اور امریکا کے ہزاروں فوجی پرسوں پیر سے سالانہ جنگی مشقوں میں حصہ لیں گے۔ جنگی مشقوں کے ترجمان کے مطابق ان جنگی مشقوں میں زمینی دستوں کے ساتھ امریکا کے پچپن جنگی ہوائی جہاز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ فلپائن کو حال ہی میں حاصل ہونے والے لڑاکا طیارے مشقوں میں شریک کیے جائیں گے۔ بئے کٹان نامی جنگی مشقوں سے انسداد دہشت گردی کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ فلپائن کو جنوبی علاقوں میں ابُو سیاف گروپ کے عسکریت پسندوں کی مسلح کارروائیوں کا سامنا ہے۔گیارہ روزہ جنگی مشقوں کے نام 'بئے کٹان' کا فلپائنی زبان میں مطلب کندھے سے کندھا مِلا کر رکھنا ہوتا ہے۔</p> <blockquote> <p>میکسیکو: تینتالیس لاپتہ طلبا کی تفتیش میں نئی پیش رفت</p> </blockquote> <p>شمالی امریکی ملک میکسیکو میں لاپتہ ہو جانے والے تینتالیس طلبہ کی تلاش کے عمل میں نئی پیش رفت کا بتایا گیا ہے۔ ایک جگہ کوڑ اکرکٹ جمع کرنے کے مقام پر لگائی جانے والی آگ میں سے کم از کم سترہ جلی ہوئی نعشوں کی باقیات ملی ہیں۔ میکسیکو کے اٹارنی جنرل کے ترجمان کے مطابق اِن سترہ لاشوں کی شناخت کے کلینکل ٹیسٹ اگلے ہفتوں میں مکمل کر لیے جائیں گے۔ میکسیکو کے شہر اِگوالا میں چھبیس ستمبر سن 2014 کو تینتالیس طلبا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اِن کی تلاش کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ لاپتہ طلبا کے رشتہ دار اُس سابقہ حکومتی بیان سے اتفاق نہیں کرتے جس کے تحت کہ کوکولا میں کوڑے کے ڈھیر میں سے جلائی گئی نعشوں کی نشانیاں دستیاب نہیں ہوئی تھی۔</p> <blockquote> <p>چین میں نو افراد کے قاتل کو موت کی سزا کا حکم سنا دیا گیا</p> </blockquote> <p>چینی نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق وسطی شہر لودی میں نو افراد کو ہلاک کرنے کے جرم میں پیپلز کورٹ نے مجرم لُو رینچُو کو موت کی سزا کا حکم سنایا ہے۔ رینچُو نے نو ہلاکتوں کے علاوہ نو دوسرے افراد کو زخمی بھی کر دیا تھا۔ مجرم نے واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر یہ ہلاکتیں کی تھیں۔ لودی شہر میں مجرم نے انیس فروری سن 2015 کو چالیس ہزار یوان کی عدم ادائیگی پر یہ واردات کی تھی۔</p> <blockquote> <p>ایران: خاتون رکن پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ</p> </blockquote> <p>ایران میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی کونسل نے ایک خاتون رکن پارلیمنٹ مینو خلقی کی رکنیت منسوخ کر دی ہے۔ ایرانی اخبار شرق کے مطابق مینو خلقی اُن پانچ امیدواروں میں شامل ہیں جنہیں ایرانی شہر اصفہان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اصلاح پسند خلقی فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ ایران کی گارڈین کونسل نے وزارت داخلہ یا امیدوار کو رکنیت منسوخ کرنے کی کوئی واضح وجوہات نہیں بتائیں۔ کونسل نے صرف اخلاقی رویے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ قانون کی تیس سالہ طالبہ مینو خلقی کا کہنا ہے کہ اُن کے بارے میں بے بنیاد غیراخلاقی افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔</p> <blockquote> <p>سائنسدان بالوں کےغدود اور جلد بنانے میں کامیاب</p> </blockquote> <p>جاپان میں سائنسدانوں نے لیبارٹری میں چوہوں کی تیار کردہ جلد سے کامیاب پیوندکاری کی ہے جس کے بعد اس میں پہلے سے زیادہ 'اعضا' کام کر رہے ہیں۔</p> <p>اس کا آغاز سٹیم سیلز سےکیاگیا جو چوہے کے مسوڑھوں سے حاصل کیےگئے۔سائنسدان کئی تہوں سے جلد کے ساتھ ساتھ بالوں کی غدود اور کھال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔</p> <p>جب اس کی ایک 'عریاں چوہے' میں قوت مدافعت کے ذریعے پیوندکاری کی گئی اور جب یہ عمل مکمل ہوا تو بال اگنا شروع ہوگئے۔</p> <p>تحقیق کارروں کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اسے انسانوں پر آزمانے کے لیے پانچ سے دس سال لگیں گے۔</p> <p>تاہم تحقیق کرنے والی ٹیم کو امید ہے کہ اس سے جھلس جانے والے افراد کے خلیوں سے فعل جلد کی جانب رہنمائی ہو سکےگی اور اس کی واپس ان متاثرین میں پیوندکاری کی جا سکے گی۔</p> <p>جرنل سائنس ایڈوانسز کے مطابق اس تحقیق کے نتائج سے اسی شعبے میں کام کرنے والے دیگر سائنسدانوں کو بے حد خوشی ہوئی ہے۔</p> <p>اس اخبار کے سینئر مصنف تاکاشی سوجی کا کہنا ہے کہ 'مرکزی اعضا کو دوبارہ کام میں لانے کا خواب پر عمل ہونا شروع ہو گیا ہے۔'</p> <p>ان کا کہنا ہے کہ 'ہم پیوندکاری کے لیے لیب میں اصل اعضا کی تیاری کے اس خواب کے پہلے سے زیادہ قریب آگئے ہیں۔'</p> <p>جان میک گراتھ نے بی بی سی نیوز کو بتایا ہے کہ 'اس نئے نظام کی مدد سے ہم مریضوں کے لیے فعال جلد کی تیاری کے عمل میں بہت آگے آگئے ہیں۔ جبکہ اس قبل کی جانے والی تمام کوششیں ابتدائی مراحل میں ہی ناکام ہو گئی تھیں۔'</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے قبل ہمارے پاس جلد کے کچھ حصے ہوتے تھے لیکن اب پورے کا پورا ڈبہ ہے ہمارے پاس۔'</p> <p>'اس مثال کو فٹبال سے سمجھیئے ہر کوئی وین رونی کو حاصل کر سکتا ہے لیکن اب ہمارے پاس مانچیسٹر یونائیٹڈ کلب ہے۔ میدان پر پوری ٹیم موجود ہے۔'</p> </section> </body>
5438.xml
<meta> <title>وفاق المدارس کیا کر رہا ہے ؟</title> <author> <name>عامر ہزاروی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21236/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1582</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وفاق المدارس کیا کر رہا ہے ؟
1,582
No
<body> <section> <p>وفاق المدارس العربیہ مکتب دیوبند کا نمائندہ تعلیمی بورڈ ہے۔ اس ادارے کی بنیاد مولاناخیر محمد جالندھری ؒ نے اپنے ہم عصر علماء سے مل کر رکھی تھی، وفاق المدارس کے پہلے صدر مولانا شمس الحق افغانی ؒ سے لیکر مولانا سلیم اللہ خان تک یہ ادارہ اپنی آب و تاب سے جاری ہے۔ موسم خزاں کا ہو یا بہار کا، یہ نغمہ تو حید گاتا جارہا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام ہزاروں مدارس کام کر رہے ہیں اور لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں جبکہ لاکھوں فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ مدارس کی بڑھتی ہو ئی تعداد کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ وفاق کی ترقی بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ کامیابی کی طرف جارہا ہے یا ناکامی کی طرف؟ اس ادارے کی خوبیاں کیا ہیں اور خامیاں کیا ہیں؟ یہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟ کیا وفاق کا نظام معاشرے سے ہم آہنگ ہے یا نہیں ؟ کیا اس کے فارغ علماء معاشرے میں کوئی فعال کردار ادا کر رہے ہیں یا نہیں ؟ یہ تمام سوال غور طلب ہیں۔ ان پہ بحث کی ضرورت ہے۔</p> <p>کسی ادارے یا جماعت پہ تنقید کرنے سے وہ جماعت یا ادارہ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتا ہے، ادارے یا جماعت کو اپنی پالیسیوں پہ نظرِ ثانی کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب روایت یہ چلی ہے کہ بندہ سوال اٹھائے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھتے ہیں یا اکابر زیادہ سمجھتے ہیں؟ اکابرین کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب جواب بن نہ پائے تو فوراً گستاخ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ میں چاہوں گا کہ میرے سوالات پہ بجائے گستاخ کا فتویٰ لگانے کے انہیں زیرِ بحث لایا جائے۔ اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ وفاق المدارس کا نظام معاشرے کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے یا نہیں، تو میرا جواب نفی ہو گا۔ میں وفاق المدارس کے نصاب کو ناقص سمجھتا ہوں۔ اس نصاب میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔</p> <p>حال ہی میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک بیان سنا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ والد گرامی مفتی شفیع عثمانی ؒ نے فرمایا تھا کہ ہمیں پاکستان میں نہ دیوبند کے نظام کی ضرورت ہے نہ ندوہ کے نظام کی ضرورت ہے اور نہ ہی علی گڑھ کے نظام کی۔ یہ نظام فطری نہیں تھے بلکہ ردّ عمل کے طور پر سامنے لائے گئے۔ انگریز کے اس خطے سے جانے کے بعد جو تفریق علی گڑھ کے طلباء اور مدارس کے طلبا میں پیدا ہوئی اسے ختم کرنے کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے اس تفریق کو گہر ا کیا گیا۔ دونوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوریاں پیدا کی گئیں اور یہ ستم ابھی تک جاری ہے۔ کسی نے بھی اس دوری کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نظام نے دوریوں کی دیواریں ہی نہیں بلکہ بلندو بالا عمارتیں کھڑی کر دی ہیں۔ یہ معاشرہ ابھی تک تقسیم ہے اور اس تقسیم کی ذمہ داری جہاں حکومت پہ عائد ہوتی ہے وہاں اہل مدارس بھی اس کے پورے پورے ذ مہ دار ہیں۔</p> <p>وفاق المدارس کا نظام معیشت کے اعتبار سے انتہائی ناقص ہے۔ مدارس کے فضلاء معیشت کی وجہ سے سخت پریشان رہتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے ان کی حال مزدوروں سے بھی ابتر ہے۔ مزدور معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس پر ہر کوئی ترس کھاتا ہے جبکہ مزدور بھی دیہاڑی پانچ سو روپیہ لیتا ہے جو پندرہ ہزار روپے مہینہ بنتی ہے، جبکہ مدرسین کی تنخواہ پانچ ہزار سے بھی کم ہوتی ہے۔ مدرسین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ طبی سہولت کے نام پر انہیں ڈسپرین کی گولی بھی میسر نہیں ہے۔ افسوس کہ مدارس کے طلباء کو کوئی ہنر بھی نہیں سکھایا جاتا۔ پہلے نصابی کتب کے علاوہ طب کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، اب وہ بھی نہیں پڑھائی جاتیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مدارس کا ذہین طالب علم کسی اور کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ وہ طلباء جنہیں مکھن کہا جاتا تھا وہ کوئی اور لے اڑا۔ اب یہ ذہین طبقہ جب پالیسیوں کو نشانہ تنقید بناتا ہے تو اسے گستاخ کہا جاتا ہے، اور مدارس کا یہ طبقہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ طبقہ اب سوال اٹھاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آخر کب تک عقیدت کی وجہ سے نچلے طبقے کا استحصال ہو تا رہے گا ؟</p> <p>وفاق المدارس کے لوگوں سے تیسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ یہ فقط تعلیمی سرگرمیوں تک محدود نہ رہ سکے انہوں نے حکومتوں کو اپنے کندھے فراہم کیے جس کا نقصان یہ ہو ا کہ مدارس کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوا۔ دنیا نے مدارس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اورکٹہرے میں کھڑا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جہاد افغانستان میں ہمارے مدارس استعمال ہوئے۔ ہمارے تقریباً تمام اکابرین وفود کے وفود لیکر افغانستان گئے۔ وہاں جنگ لڑی واپس آکے کتابیں لکھیں۔ طلباء کو ترغیب دی کہ افغانستان خلافت راشدہ کے نظام کا مرکز ہو گا۔ جائیں اور جا کے لڑیں۔ مدارس کے طلباء نے جہادی تنظیمیں بنائیں۔ فنڈز لیکر افغانستان گئے۔ پورے ماحول کو جذباتی بنایا۔ یہ لوگ دیانت داری کے ساتھ لڑے۔ جونہی ریاست نے یوٹرن لیا تواہلِ مدارس پریشان ہو گئے۔ وہ طلباء جن کو خلافت کے نام پر تیار کیا گیا ان سے کہا گیا کہ آپ اسلحہ رکھ دیں۔ جب انہوں نے اسلحہ نہ رکھا تو ان کے خلاف کاروائی کی گئی۔ انہیں مدارس سے نکالاگیا اور سرکاری اداروں نے مدارس پہ چھاپے مارے۔ جب یہ کام ہوا تواہل مدارس کو سمجھ آئی اوہ یہ تو غلط ہو گیا۔ کیوں نہ اب امن کی بات کی جائے؟ لیکن یہ امن کی باتیں بھی بیکار گئیں۔</p> <p>جو کام ریاست کا تھا وہ مدارس نے شروع کیا تو ملک بھر میں مدارس مشکوک ٹھہرے۔ طلباء نے اسلحہ اٹھا لیا۔ مدارس حکومت اور طلباء دونوں کی نظرمیں مجرم ٹھہرے ایک طرف ریاست تھی تو دوسری طرف وہ طلباء جن کو اسلحہ تھمایا گیا تھا۔ یہ طالب پوچھتا ہے کہ جہاد افغانستان جائز تھا تو جہاد پاکستان ناجائز کیوں ٹھہرا ہے؟ اس سوال کا جواب آج تک نہ ملا۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا حسن جان ؒ کو ان کے شاگرد نے ہی شہید کیا۔ مولانا فضل الرحمن پہ خود کش حملے کس نے اور کیوں کیے؟ وانا وزیرستان کے علماء کو کیوں مارا گیا ؟ ان کا قصور یہ تھا کہ یہ لوگ رکاوٹ بن گئے تھے۔ چلو ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن مدارس اب پھر کیوں استعمال ہونے جارہے ہیں؟ یہ استحکام مدارس و استحکام پاکستان جیسے جلسے کیوں منعقد کیے جارہے ہیں ؟ مدارس کو اب کس سے خطرہ پڑ گیا ہے؟ مشکلات کا دور تو گز ر چکا ہے اب یہ پروگرام کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا دنیا کا اور بھی کوئی ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو یوں جلسے کرتا پھرے؟ لاکھوں روپے کے اشتہارات اور وال چاکنگ کروانے کامقصد کیا ہے؟ ان پیسوں سے غریب فضلا ء کا نظام زندگی بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ کوئی ٹرسٹ بنایا جاسکتا تھا۔ کوئی میڈیا چینل تشکیل دیا جا سکتا تھا۔ لیکن کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ مجھے یہ سب کچھ کسی کے اشارے کی وجہ سے لگ رہا ہے۔</p> <p>اگر وفاق کی یہی پالیسی رہی تو خاکم بدہن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وفاق ٹوٹ جائے گا۔ وفاق والوں نے مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا فضل الرحمن کی جو گفتگو شائع کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاق جمعیت کو سائیڈ پہ کرنا چاہتا ہے ؟ حکومتوں کیساتھ سودے بازی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں نہ کہ تعلیمی ادارے۔ میری درخواست ہے کہ وفاق اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر بنائے۔ وحدت کی علامت کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ وفاق سب کی سرپرستی کرے۔ وفاق کو فریق نہیں بننا چاہیے۔ اشاعت التوحید والوں نے اپنا وفاق بنا لیا ہے۔ تبلیغی جماعت تو پہلے ہی وفاق کے ساتھ نہیں۔ کراچی کے چند بڑے مدارس بھی وفاق المدارس سے اپنی راہیں جدا کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جمعیت کے ساتھ بھی پنگے بازی ٹھیک نہیں۔ کیونکہ جمعیت ہی بظاہر وہ پس منظر ہے جس کے بل بوتے پر وفاق المدارس کی وفاقی حیثیت برقرار ہے۔</p> <p>میرے خیال میں وفاق المدارس کو اپنی تعلیمی حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے ادارہ کو تعلیمی معاملات کے ساتھ خاص رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وفاق ہی وہ ادارہ ہے جو تعلیمی نظام بھی درست کر سکتا ہے اور سب جماعتوں کو اپنے سائے تلے جمع کر سکتا ہے لیکن یہ ایسا کیوں نہیں کر رہا، یہ مجھے نہیں معلوم۔ معذرت کے ساتھ مجھے استحکام مدارس و استحکام پاکستان جیسے جلسوں سے سیاست اور حصول طاقت کی بو آرہی ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے سپاہ صحابہ بھی یہ کام کر چکی ہے۔ سپاہ صحابہ پر بھی ایسے ہی الزامات تھے۔ انہوں نے استحکام پاکستان و مدح صحابہ جلوس نکالے۔ دفاع پاکستان کونسل میں بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی اور بعد ازاں پورے پاکستان سے سیاست میں حصہ لے لیا۔ سپاہ صحابہ کا سیاست میں حصہ لینا اچھی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک جماعت تشدد والے ماحول کو چھوڑ کر سیاست کی طرف آتی ہے لیکن مجھے دکھ یہ ہے کہ اس سے اہل مذہب ہی کمزور ہوئے۔ اپنی ہی طاقت بکھری۔ دوسری جماعتوں کے لوگ تو ووٹ دیتے نہیں اور اپنے بھی تقسیم ہو جائیں تو یہ مہنگا سودا ہے۔ میری گزارش ہے کہ وفاق اپنا کندھا استعمال نہ ہونے دے۔ وفاق وحدت کی علامت ہے اور وہ اس علامت کو محفوظ رکھے۔ نجی باتوں کو پبلک میں نہ لائے، معیشت کے لیے، سوچے نظام تعلیم بہتر کرے۔ یہ جلسے جلوس نکالنا تعلیمی اداروں کا کام نہیں۔</p> </section> </body>
5439.xml
<meta> <title>ریاستی اداروں کی مار کھانے کو ہر وقت تیار "گدھا"</title> <author> <name>نصرت جاوید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21258/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>981</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ریاستی اداروں کی مار کھانے کو ہر وقت تیار "گدھا"
981
Yes
<body> <section> <p>جلسے، جلوس اور ہڑتالیں ہمارے ملک کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں۔ برصغیر پاک وہند پر اپنا تسلط جمانے کے بعد برطانوی سامراج نے بڑی ذہانت کے ساتھ انہیں ایک حوالے سے روزمرہّ اور معمول کی صورت اختیار کرنے دی۔</p> <p>1857ء کے بعد اس نے جان لیا کہ خیبر سے راس کماری تک پھیلے اس وسیع وعریض خطے کی بے تحاشہ آبادی کو محض تشدد کے ذریعے غلام بنانا، سمندر پار سے آئے چند ہزار نفوس پر مشتمل گورے فوجیوں اور انتظامیہ کی حکمرانی کے ذریعے ممکن ہی نہیں۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ابلتے غصے کو اظہار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔</p> <p>جلسوں میں ہوئی "باغیانہ" تقاریر کے مستند متن سپیشل برانچ کے "چٹ کپڑے" اہلکاروں کے ذریعے اکٹھا کئے جاتے۔ ان کے مواد کا معروضی جائزہ لے کر بلکہ حکومت کو ایسے اقدامات لینے پر مجبور کیا جاتا جو لوگوں میں یہ امید جگائیں کہ "قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے" پیش کئے گئے "جائزمطالبات" پر ہمدردانہ غور کیا جاسکتا ہے۔ چند فوری نوعیت کے مسائل کا پرامن احتجاج کے ذریعے مداوا ممکن ہے۔</p> <p>برطانوی سامراج کی اس زیرک پالیسی کی وجہ سے برصغیر میں چین، ویت نام اور دنیا کے دیگر غلام بنے ممالک میں ابھرنے والی مسلح جدوجہد اور گوریلا جنگ کی گنجائش باقی ہی نہ رہی۔ سامراج نے بالآخر دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے وطن کی ریاستی اور معاشی مجبوریوں کو پوری طرح سمجھتے ہوئے برصغیر کو "آزاد" کرنے کا فیصلہ کیا۔ سامراج سے مقامی اشرافیہ کو اقتدار کی منتقلی مذاکرات اور خط وکتابت کے طویل ادوار کے بعد ایک منظم انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔</p> <p>جلسے،جلوس اور ہڑتال کے ضمن میں دکھائی اس فراخ دلی کے مقابلے میں لیکن "بلوے" کو ہمیشہ ایک سنگین جرم گردانا گیا۔ احرار اور خاکسارجیسی جاندار تحاریک اسی وجہ سے اپنے ابتدائی ایام میں بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود بالآخر اپنی موت آپ مرگئیں۔ "بلوے" کو روکنے اور اس ضمن میں کئے تمامتر پیشگی اقدامات کے باوجود برپاہوجانے کی صورت میں انتظامیہ کبھی درگزر سے کام نہیں لیتی تھی۔ بلوے کے ذمہ دار افراد کو ہر صورت گرفتار کرنے کے بعد عدالتوں کے ذریعے جیلوں تک پہنچایا جاتا۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی شدومد کے ساتھ ان تمام انتظامی کوتاہیوں کا سراغ لگاکر اس کے ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کی نشاندہی کا عمل بھی جاری رہتا اور خطا کاروں کو اپنی کوتاہیوں کی سزا انضباطی حوالوں سے ہر صورت بھگتنا پڑتی۔</p> <p>قیامِ پاکستان کے بعد مگر ہماری ریاست ان تمام صلاحیتوں سے بتدریج اور بالآخر خطرناک حد تک محروم ہونا شروع ہوگئی۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ ریاستی بے بسی کا مکمل طورپر بے نقاب ہونا جنرل مشرف کے آخری دنوں میں شروع ہوا تھا جس نے اپنے تئیں جنرل (ریٹائرڈ) تنویر نقوی جیسے افلاطون کی مدد سے پاکستان میں ایک <annotation lang="en">Republic</annotation> متعارف کروائی تھی۔ "اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی" اور "جعلی نہیں اصلی جمہوریت" وغیرہ۔</p> <p>آغاز ریاستی بے بسی کی بے نقابی کا وکلاء کی جانب سے افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کی تحریک کے ذریعے ہوا۔ اس تحریک کے دوران یقینا "ایک گملہ" بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ ریاستی کنٹرول سے آزاد 24 / 7 چینلوں کی طرف سے اس تحریک کی <annotation lang="en">Live Coverage</annotation> نے مگر انتظامیہ کو حواس باختہ کردیا۔ پرامن احتجاجی تحریک کے دوران ہی اسلام آباد کی لال مسجد والے پاکستان میں "شرعی نظام" کو لاگو کرنا شروع ہوگئے۔ ریاست اور اس کی انتظامیہ کے لئے یک نہ شددوشد والا معاملہ ہوگیا۔</p> <p>مجھ ایسے اینکرز جنہیں کئی وجوہات کی بناء پر شاید "شرعی نظام" کے نفاذ میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی لال مسجد والوں کی طرف سے "ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے" کی کوششوں پر واویلا مچانا شروع ہوگئے۔ بالآخر جب لال مسجد کے خلاف آپریشن ہوا تو مجھ ایسے لوگ ہی بغیر مستند ثبوتوںکے ان "یتیم بچیوں" کی "سفاکانہ ہلاکت" پر ماتم کنائی میں مصروف ہوگئے جو مبینہ طورپر اس آپریشن کا نشانہ بنی تھیں۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ لال مسجد کے حوالوں سے کئی دنوں تک ٹی وی سکرینوں پر مسلسل ہوئی "سینہ کوبی" نے مذہبی انتہاء پسندوں کو بالآخر خود کش دھماکوں کے ذریعے ریاست سے "انتقام" لینے پر مجبور بھی کیا۔</p> <p>لال مسجد کے واقعے کے بعد سے جب بھی کوئی سیاسی یا مذہبی رہ نما کسی نہ کسی بہانے اسلام آباد پر چڑھ دوڑتا ہے تو حکومت اور انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ ریاست مفلوج ہوئی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا تماشہ لگ جاتا ہے۔ دھرنا تو بالآخر ختم ہوجاتا ہے مگر حکومتی اور انتظامی سطح پر آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش ہی نظر نہیں آتی۔</p> <p>پنجابی کا ایک محاورہ ذکر کرتا ہے اس غصے کا جو گدھے سے گراکوئی شخص اس گدھے کے مالک کمہار پر اتارتا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی مارکھانے کو ان دنوں ہر وقت تیار "گدھا" اپنے تئیں ہمہ وقت چوکس، بیدار اور انتہائی آزاد ہونے کا دعوے دار میڈیا ہے۔</p> <p>اس میڈیا کو اصل لگام بالآخر پہلے "قومی سلامتی" سے جڑے "خدشات" نے ڈالی۔ <annotation lang="en">Ratings</annotation> کویقینی بنانے کے دعوئوں کے ساتھ سکرینوں پر سرخی پائوڈر لگاکر بیٹھے سٹار اینکرز خواتین وحضرات نے اپنی تنخواہ، آرام، سہولتوں اور شوشا کی خاطر اس لگام کو "جذبہ حب الوطنی" کی شدت کے ساتھ اپنے گلے میں ڈال لیا۔ پھر "ہم بھی یہیں موجود ہیں" والے پیغام کے ساتھ متحرک ہوگیا <annotation lang="en">PEMRA</annotation> ۔ذہنی غلاموں نے اس کی ہدایات کو بھی آمناََ وصدقناََ کہا۔ میڈیا مگر اب بھی آزاد ہونے کا دعوے دار ہے۔ ہماری سکرینوں پر ہمہ وقت رونق لگی رہتی ہے۔ دھندا خوب چل رہا ہے۔ اسے صحافت نہیں مگر کوئی اور نام دینا ہوگا۔ ساری عمر اس پیشے کی نذر کردینے کے بعد میری فریاد ہے تو بس اتنی کہ :"تم کوئی اچھا سا رکھ دو اپنے دیوانے کا نام"۔ اس التجا کے بعد میرا اسلام آباد میں ہوئے حالیہ دھرنے کے بارے میں کوئی تجزیہ آپ کی سمع خراشی کے لئے موجود نہیں ہے۔</p> </section> </body>
5440.xml
<meta> <title>"خوف کی سیاست"(The politics of fear)</title> <author> <name>معیز مبین</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21272/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>646</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
"خوف کی سیاست"(The politics of fear)
646
Yes
<body> <section> <p>پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ "خوف پھیلانے کی سیاست" <annotation lang="en">(Politics of fear)</annotation> کے ذریعے دہشت گردی کی جنگ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 2001 سے سیکیوریٹی اور حکومتی عہدیداروں نے بم دھماکوں کو سہولت کے ساتھ ان جگہوں سے منسلک کر دیا جہاں انھوں نے فوجی آپریشن کا پہلے سے فیصلہ اور تیاری مکمل کر لی ہوتی تھی۔ رحمان ملک کی "تمام کڑیاں جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں" جیسے بیانات سے لے کر موجودہ حکومت کی شمالی وزیرستان "دہشت گردی اور عسکریت کا گڑھ ہے" کے اعلانات، سب کے سب فوجی آپریشن تبھی ہوئے جب حکومت نے شہروں کے اندر دھماکوں کو اپنے من پسند جگہوں کے ساتھ منسلک کیا، جہاں انھوں نے آپریشن کرنا تھا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ تمام آپریشن اس سے تھوڑی ہی عرصے پہلے امریکی عہدیداروں کے "ڈو مور" مطالبات میں سے کلیدی مطالبات ہوتے ہیں۔ تازہ ترین امریکی مطالبہ جنوبی پنجاب میں آپریشن ہے جو کہ بھارت مخالف گروپوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔</p> <p>حالیہ تاریخ میں سب سے پہلے "خوف پھیلانےکی سیاست" کی طاقت جارج بش نے دریافت کی، جب اس نے نائن الیون واقعات پر اس سیاست کا استعمال کر کے افغانستان پر حملے کیلئے رائے عامہ ہموار کی۔ ملک کے اندر جارج بش نے ہوم لینڈ سیکیوریٹی کا نیا ڈیپارٹمنٹ بنایا، <annotation lang="en">NSA</annotation> کو نگرانی اور جاسوسی کرنے کے کھلے اختیارات دئیے اور کانگرس سے پیٹریاٹ ایکٹ پاس کروایا جس سے سیکیوریٹی کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں سیکیوریٹی اداروں کو مداخلت کا کھلا حق دے دیا اور لوگوں کے حقوق سلب کر لئے۔</p> <p>اس "خوف پھیلانے کی سیاست" کا طرز یہ ہے کہ سانحات کو استعمال کرکے پالیسی معاملات پر ہر بحث ختم کر دی جائے اور معاشرے کو پولرائز کیا جائے اور اس کیلئے نفرت، انتقام اور حب الوطنی کے جذبات کو استعمال کر کے عوام کی نظروں میں ایک ولن کھڑا کر دیا جائے جس ولن کا فیصلہ حکومت وقت کرے گی۔ درحقیقت یہ جذباتیت کی یہ فضا ہی تھی، جس میں جارج بش نےعراق میں وسیع پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں کا افسانہ گھڑا اور ایک تباہ کن جنگ کا آغاز کر دیا جس سے عراق اور پورے مڈل ایسٹ میں دسیوں لاکھ مسلمان جان بحق ہوئے۔ یہ یہی خوف کی سیاست ہی تھی جس نے بش انتظامیہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنی مرضی کا ولن تشکیل دے کر لوگوں سے منوا سکے تاکہ اپنی مرضی کی جنگ کو چھیڑا جا سکے۔</p> <p>پاکستانی حکومت نے خوف کی سیاست کا یہ طرز امریکی حکومت سے مستعار لیا ہوا ہے۔ میں نے بہت پڑھے لکھے اور بظاہر باشعور افراد کو کہتے سنا ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر موجود مولویوں کو ڈرون سے اڑا دینا چاہئے، یا پشتوں فاٹا کے قبائل پر بمباری بالکل صحیح ہے کیونکہ انھوں نے دہشت گردوں کو پیدا کیا ہے یا یہ کہ ریاست ان تمام مدارس پر چھاپے مار کر ان کو بند کر دے یا ان پر ٹینکوں سے بمباری کر کے برباد کر دیا جائے، یا تمام اسلامی سیاسی ورکروں کو پھانسی پر چڑھا دینا چاہئے یا اس طرح کے مختلف نسخے۔ ایسے خیالات یقیناً ریاست کی جانب سے سانحات کو "خوف پھیلانے کی سیاست" کیلئے استعمال کرنا کا نتیجہ ہے۔</p> <p>وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کو سمجھیں کہ ہم بطور معاشرہ ایک گہرے منجدھار میں ہیں اور عقلی طرز استدلال سے کام لیں۔ عقلی طرز اسدلال کا تقاضا ہے کہ ہم ان معاملات کی جڑ اور تناظر پر جائیں۔ یہ مسئلہ کب اٹھا؟ کن حالات نے اس مسئلے کو جنم دیا؟ یہ عسکریت ، یہ اموات، یہ تباہی، یہ بربادی تب ہی ہمارے ملک میں اس شکل میں آئی جب ہم نائن الیون کے بعد امریکی جنگ کا حصہ بنے۔ اور اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ ہم اس تباہ کن اور خودکشانہ جنگ سے مکمل فوجی اور سیاسی ناطہ توڑ لیں۔ صرف یہی اس قتل عام کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔</p> </section> </body>
5441.xml
<meta> <title>مصطفیٰ کمال کی "پاک سر زمین" کا نظام کیا ہوگا؟</title> <author> <name>عمران احمد راجپوت</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21273/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>913</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مصطفیٰ کمال کی "پاک سر زمین" کا نظام کیا ہوگا؟
913
No
<body> <section> <p>پاکستان میں ہمیشہ ایک خاص قسم کی سوچ کو اقتدار کے ذریعے عوام پر مسلط کیا جاتارہا ہے۔ قارئین اِس سوچ کو پروان چڑھانے والوں میں جمہوری روایتوں کے نگھبان سے لیکرآمرانہ رویوں کے ترجمان تک شامل ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں قوتوں میں ایک تو اقتدار کی حوس میں مبتلااسے ابدی دوام بخشنے کی آرزومند ہے دوسری طاقت اپنے نظریات کے تحفظ اور مرتب کردہ پالیسیوں کے پیشِ نظراپنے اصولوں کی پابند ہے۔ اقتدارکے اِس سنگھاسن سے سیاستدانوں نے دوری اختیار کی نہ اشرافیہ نے اپنی گرفت کمزور ہونے دی۔دو طاقتوں کی آپس کی رسہ کشی نے ہر طرف بے یقینی کی صورتحال پیدا کررکھی ہے۔ جبکہ حالات کی ستم ظریقی یہ رہی کہ اِن دو طاقتوں کے بیچ عوامی جذبات کاہمیشہ خون ہوتارہا ہے رسہ کشی کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ جس کی تازہ مثال سیاسی افق پر اچانک نمودار ہونے والی پاک سرزمین پارٹی ہے جس کے سربراہ جناب مصطفی کمال نے حق پرستوں کو وطن پرستوں کی صفوں میں شامل کرنے کاٹھیکہ لے رکھا ہے۔</p> <p>کمال صاحب واضح پالیسی کے بنا جس طرح عجلت میں انڈے ڈنڈے بھنڈی لوکی کا مقابلہ کررہے ہیں اِس سے معلوم پڑتا ہے کہ پاک سرزمین کے اصل مالکین بہت زیادہ جلدی میں ہیں جنکی ہر ممکن کوشش ہے کہ 2018 ء میں منعقد کئے جانے والے عام انتخابات سے قبل پاک سرزمین پارٹی کو عوام میں جتنی ممکن ہوسکے مقبولیت دلائی جائے تاکہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے ماحول سازگار بنایا جاسکے۔ لہذا اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے پہلے مرحلے میں کراچی حیدرآباد میرپورخاص سمیت اندرونِ سندھ میں پارٹی کو مضبوط کرکے پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی پھیلایا جائے۔ کہنے کو ابھی عام انتخابات میں دو سال کا عرصہ باقی ہے لیکن اتنا وقت بطور ایک نومولود سیاسی جماعت کے قومی سطح پر عوامی مقبولیت حاصل کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔</p> <p>میدان سے باہر خاموش تماشائی بنی حکمراں جماعت سمیت پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں بڑے اطمنان کے ساتھ کراچی حیدرآباد کی نمائندہ جماعت کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر کافی مسرت محسوس کررہی ہیں اور اُس خاموش طوفان سے بے خبر ہیں جو کراچی کے ساحل سے اُمڈ کر کشمیر کی چٹانوں سے ٹکرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فلحال یہ عتاب متحدہ قومی موومنٹ پر آیا ہوا ہے جہاں جہاں سے مصطفی کمال کا قافلہ گزرتا ہے متحدہ کے کارکنان مزید عتابی زد میں آنا شروع ہوجاتے ہیں جس کی ایک مثال میرپورخاص میں ایم کیوایم کے زونل آفس پر پولیس کی جانب سے چھاپہ مار کاروائی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کا پہلاعوامی جلسہ 24 اپریل کو ہونے جارہا ہے اِس حوالے سے پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی ہر ممکن کوشش ہے کہ جلسے میں زیادہ سے زیادہ عوام شرکت کریں لہذا عوامی روابطہ مہم کا سلسلہ کراچی حیدرآباد سے نکل کر اندرونِ سندھ پہنچنے کو ہے۔</p> <p>دوسری جانب ہاتھ پیر بندھے مجبور و لاچار متحدہ قومی موومنٹ چپ سادھے وقت و حالات کے دھارے میں بہتے ہوئے خاموش پالیسی اپنائی نظر آتی ہے۔ جوکہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر بہتر حکمتِ عملی ہے لیکن مستقبل کی سیاست پر یہ پالیسی اپنا کیا اثر چھوڑتی ہے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے ٹھان رکھی ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں متحدہ کوایک سیٹ بھی نہیں دینی لیکن اِس بارے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ کراچی کی سیاست پاکستان کے دیگر حصوں سے بالکل مختلف ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ ایم کیوایم کا ووٹ بینک توڑنے کیلئے پہلے ہی کئی حربے آزما چکی ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، لیکن اِس دفعہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار نظر آتے ہیں لہذا قوی امکان ہے کہ اِس دفعہ رزلٹ ماضی سے مختلف ہو۔ جب کہ اندرونِ سندھ میں بھی کچھ اِسی قسم کی سیاست جنم لے رہی ہے اورپاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ جناب پیرصدرالدین شاہ راشدی کی قیادت میں سندھی قوم پرستوں کا اتحاد سندھ ڈیموکریٹک گرینڈالائنس متحرک ہوچکا ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سائیں پیر صاحب پگارہ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثبت تعلقات ہیں لہذا مستقبل میں ممکن ہے شہری سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ اور اندورنِ سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا صفایا کرنے کیلئے پاک سرزمین پارٹی سندھ ڈیموکریٹک گرینڈ الائنس کا سیاسی اتحادہوجائے۔</p> <p>دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے بھی مصطفی کمال کی تلاش میں ہے اورسنا ہے کہ وہ اپنے اِس مقصد میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرچکی ہے مسلم لیگ ن میں سے فارورڈ بلاک بنائے جانے کی خبریں محو گردش ہیں لہذا پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کا اثر توڑنے کیلئے مسلم لیگ ق کے طرز کی سیاسی جماعت بنائے جانے کاقوی امکان ہے۔اِسی طرح کے پی کے میں آجائیں جہاں پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہے جبکہ بلوچستان میں بھی اسٹیبلشمنٹ بلوچ نیشنل پارٹی پر ہاتھ رکھ سکتی ہے اِس طرح عام انتخابات سے قبل چاروں صوبوں سے فارورڈ بلاکس پر مشتمل جماعتوں کا ایک قومی اتحاد بنایاجائے گا جس کی قیادت دبئی میں بیٹھا وہ شخص کریگا جس کیلئے یہ سارا اسٹیج تیار کیا جارہا ہے وہ شخص جنرل پرویز مشرف ہونگے جو مذکورہ بالا تمام جماعتوں پر مشتمل اتحاد کی قیادت کرینگے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی اِن کوششوں میں کامیاب ہوپاتی ہے یا نہیں جب کہ ساتھ میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام اسٹیبلشمنٹ کے اِس کردار کومثبت لیتے ہوئے اسکی حمایت کرتے ہیں یامخالفت خاص کر ایسے حالات میں جب عوام پہلے ہی تبدیلی کے خواں ہو۔</p> </section> </body>
5442.xml
<meta> <title>یااللہ مدد میں بے قصور ہوں</title> <author> <name>قیوم نظامی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21328/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>551</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
یااللہ مدد میں بے قصور ہوں
551
No
<body> <section> <p>قیوم نظامی اپنی کتاب میں زوالفقار علی بھٹو کے آخری دن کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.</p> <p>یااللہ مدد میں بے قصور ہوں" پھانسی تختہ پر کھڑے زوالفقار علی بھٹو نے نظریں آسمان کی جانب اٹھا کر کہا. 3 اپریل 1979 کو جب بیگم بھٹو اور بے نظیر آخری ملاقات کےلیے جیل آئیں تو بھٹو کو علم ہوگیا تھا کہ رات انھیں پھانسی دی جائے گی.پھانسی کی رات بھٹو نے شیو کی سفید شلوار قمیض پہنی زندگی کا آخری سگار پیا اور خواب آور گولی کھارکر سو گئے. رات کو دیر تک جاگنے کی عادت تھی دوبجے سوئےساڑھے تین بجے جیل سٹاف نے بھٹو کو سٹریچر پر ڈال لیا. جیل کی صعوبتیں انہوں نےبہادری سے برداشت کیں مگر ان کا وزن کم ہوچکا تھا. جب ان کو موت کی کوٹھری سے باہر لایاگیاتو ہوا لگنے سے ان کی غنودگی کم ہوئی اور ان کو احساس ہوا کہ انھیں پھانسی گھاٹ کی جانب لے جایا جارہا ہے تو وہ کوشش کر کے سٹریچر سے نیچے اتر آئے اور پیدل چلنے لگے.وہ سب سے آگے چل رہے تھے اور فوجی افسران ان کے پیچھے تھے. بھٹو پھانسی گھاٹ میں داخل ہوئے چند سیٹرھیاں چڑھ کر پھانسی کے تختےپر پورے قد سے کھڑے ہوگئے.عینی شاہد کے مطابق آخری منظر سے یوں لگ رہا تھاجیسے بھٹو چبوترےپر کھڑے سلامی لےرہے ہوں اور باقی سب افراد مودب کھڑے ہیں. بھٹو نے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا "یااللہ مدد میں بے قصور ہوں" پھر اس کے بعد تارا مسیح نے رسی کھینچ دی. بھٹو کی روح پرواز کرگئی مگر ان کا رشتہ اور تعلق عوام سے ختم نہ کیا جاسکا. وہ مر کر امر ہوگئے اور قوم پرستی ,حب الوطنی</p> <p>,حریت پسندی اور عوام دوستی کی علامت بن گئے. ان کی آخری خواہش پوری ہوئی.بھٹو اپنی آخری خواہش کے مطابق آج بھی تاریخ کے سینے میں اور عوام کے دلوں میں زندہ ہیں.</p> <p>جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے</p> <p>یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں.....</p> <p>جنرل ضیاء الحق کے رفقاء اور حامیوں کی تحریری اور زبانی شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ بھٹو کو سیاسی طور پر قتل کیا گیا. بھٹو کو عالم اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی گئی. ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ان کا سب سے بڑا جرم تھا.سپریم کورٹ کے سات ججز میں سے تین ججز نے بھٹو کی سزا ختم کردی تھی.تینوں کا تعلق سندھ اور سرحد سے تھا.جبکہ پنجابی ججز نے سزائے موت بحال رکھی. دنیا بھر کے راہنماوں نے جنرل ضیاء سے بھٹو کی سزائےموت ختم کرنے کی اپیلیں کر رکھی تھیں مگر اس نے زاتی اقتدار کی خاطر بھٹو کی پھانسی کے احکامات جاری کر دیے.بھٹو کو رات کی تاریکی میں لاڑکانہ لےجایاگیا.بیگم بھٹو اور بےنظیرکو آخری دیدار کی بھی اجازت نہ دی گٰی.انھیں فوج کے سخت پہرے میں گڑھی خدا بخش میں سپردِ خاک کردیاگیا. دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار پی پی پی کے آٹھ غریب کارکنوں نے بطور احتجاج خود کو سرعام نذرِآتش کرلیا. ان پروانوں میں عبدالغفور, عبدالرشیدعاجز, یعقوب پرویز کھوکھر,منور حسن, راشد ناگی, جبکہ دوسرے شہیدوں میں ادریس طوطی, ادریس بیگ,رزاق جھرنا, عثمان غنی,ناصر بلوچ ,ایاز سموں, حمید بلوچ, نذیر عباسی, کلور براہمنی, عنایت مسیح,لالا اسد, موسی مینگل, میاں محمد اعظم.اورفقیر ہسبانی شامل تھے. جو پھانسی چڑھے یا پولیس کی گولیوں سے شہید ہوئے.</p> <p>جو دیکھا جو سُنا..</p> </section> </body>
5443.xml
<meta> <title>سر پھرے آشفتہ سر</title> <author> <name>حنیف سمانا</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21471/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>315</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سر پھرے آشفتہ سر
315
No
<body> <section> <p>قوم پھر شریف برادران کی "حق حلال" کی کمائی کے پیچھے پڑ گئی ہے...جو ان بیچارے بھائیوں اور ان کی اولادوں نے برسوں کی محنت کے بعد کمائی ہے... کیا محنت نہیں کی ان بھائیوں نے.... سعودیہ میں عربوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کے، ان کے اونٹ نہلا کے، حرم کے باہر اجوہ کھجوروں کا ٹھیلا لگا کے کچھ ریال جمع ہوئے تو ایک شگرمل لگائی... پھر اس شگر مل کو بیچ کے ان کے فرزند_ارجمند اور دختر_نیک اختر زوجۂ صفدر نے کچھ آف شور کمپنیز بنائیں.... کچھ حقیر سی لندن میں پراپرٹیز خریدیں ... اس پر عمران خان جیسے لوگوں کا اتنا واویلا... سمجھ سے باہر.</p> <p>ارے عمران خان !</p> <p>تمہیں کیا پتہ کہ مٹی کی محبت میں ہم "سر پھروں نے" ....معافی چاہتا ہوں.... ہم آشفتہ سروں نے،</p> <p>وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے..."</p> <p>یہ بات افتخار عارف نہیں کہہ رہے بلکہ نواز شریف کہہ رہے ہیں...اور سچ کہہ رہے ہیں...ہاں البتہ یہ بات الگ ہے کہ ان آشفتہ سروں نے مٹی پر جو قرض چڑھائے ہیں وہ مٹی کے سپوت نسل درنسل چکائیں گے...</p> <p>ہمارے وزیر اعظم نے اپنے آپ کو قوم کے سامنے پیش کر دیا... اور ایک سابق جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بھی قائم کر دیا... قوم کو اور کیا چاہئیے.... افسوس کے آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو عدالتی کمیشن کی نہ سوجھی... اس پاگل کے بچے نے اسمبلی ہی توڑ کے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ... یہ الگ بات ہے کہ وہاں کے صدر نے ابھی یہ منظور نہیں کیا... یہ گوروں کو سیاست ویاست نہیں آتی ... سالے جلدی غیرت میں آجاتے ہیں ... ہماری پنجابی فلم کے مولا جٹ کی طرح ... بتاؤ... اتنی سی بات پر کوئی استعفی دیتا ہے... ہمارے ہاں تو حکمرانوں پر کرپشن کے علاوہ قتل کے بھی مقدمے ہوتے ہیں ... مجال ہے تو ٹس سے مس ہوں.. آفرین ہے ان آشفتہ سروں پر.</p> </section> </body>
5444.xml
<meta> <title>دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا</title> <author> <name>سید انور محمود</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21632/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1176</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا
1,176
No
<body> <section> <p>مولانا احمد رضا خان بریلوی، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں 1272 ھ ۔ 1856ء میں پیدا ہوئے۔امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالم دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزارہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں اور پاکستان میں ان کی ہی اکثریت ہے۔</p> <p>شاہ احمد نورانی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ تھے، انہیں قائد اہلسنت بھی کہا جاتا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی پاکستان کے اسلامی دینی اور سیاسی میدان میں ایک قد آور شخصیت تھے۔ اگر ہم انکی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں گے تو بہت سی جگہ اختلاف کرنے کے باوجود ہم ان کو ایک بااخلاق انسان پاینگے۔ مولانا نورانی سیاسی معاملات میں اگر کسی کی مخالفت کرتے بھی تھےتو کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتےتھے۔ 1990ء میں محمد سلیم قادری نے پاکستان سنی تحریک کی بنیاد رکھی لیکن انہیں مئی 2001ء میں شہید کردیا گیا۔ آجکل ثروت اعجاز قادری پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سنی تحریک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ دہشتگردی کےمخالف رہے ہیں۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور دہشتگردی کے خلاف آخری سانس تک جہدمسلسل جاری رکھیں گے، دہشتگردوں کی حمایت اور پناہ دینے والوں کی کسی صورت حمایت نہیں کرسکتے۔</p> <p>پاکستان سنی تحریک و دیگر مذہبی جماعتوں نے لبیک یارسول ﷺ کانفرنس کے بعد اتوار 27 مارچ کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہائوس کی طرف مارچ شروع کیا ۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، اس دوران جھڑپوں میں متعدد مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔آخر میں مظاہرین نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دئے دیا، یہ دھرنا چار روز کے بعد مظاہرین اور حکومت کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدئے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس دھرنے میں جس قسم کی شرمناک حرکتیں اور گالم گلوچ کی گئی وہ باعث حیرت ہے اور ناقابل برداشت بھی۔ پاکستان سنی تحریک کے رہنما جو عالم دین بھی ہیں انکی حرکتوں سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے لیکن شاید سنی تحریک کے رہنماوں کو اسکا احساس بھی نہیں ہے، افسوس ہوا جب کراچی میں مفتی منیب الرحمان صاحب نے فرمایا کہ مذہبی پُرجوش کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھا جائےاور ڈی چوک پر دھرنا دینے والوں اور مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہرگز نہ کیا جائے۔</p> <p>شاہ احمد نورانی کے صابزادے اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے سربراہ شاہ اویس نورانی نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں گالیاں دینے والوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ نوجوان ہیں ، غصے میں تھے اس لیے جذبات میں آکر یہ حرکتیں کربیٹھے۔گویا دونوں مذہبی اسکالر کے نزدیک ملک کے وزیر اعظم نواز شریف، انکی صابزادی مریم نواز، ممتاز مذہبی اسکالرطاہرالقادری اور ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کو مغلظات بکنا اور گالیاں دینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔</p> <p>پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 14 جنوری 2013ء کو طاہر القادری کا پہلا چار روزہ دھرنا، دوسری بار نواز شریف حکومت میں 14 اگست 2014ء کو طاہر القادری کا دوسرا دھرنا اور تحریکِ انصاف کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل 126 روزہ دھرنا۔ طاہر القادری نے اپنے پہلے دھرنے میں بہت پرجوش انداز میں تقاریر کیں ، مسائل بیان کیے، پیپلز پارٹی کی حکومت کو برا بھلا بھی کہا۔ خالی ہاتھ واپس گئے لیکن ایک مرتبہ بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔</p> <p>دوسرے دھرنے میں طاہر القادری کے ساتھ عمران خان بھی شامل تھے، طاہر القادری کا بلڈ پریشر بڑھا تو کفن لے آئے جس کے بارئے میں انہوں نے کہا کہ یا تو میں پہنونگا یا نواز شریف کی حکومت ، دھرنا چھوڑ کر جانے تک ان کی زبان سےکوئی بے ہودہ لفظ نہیں سنائی دیا۔عمران خان کے دھرنے میں عمران خان نے سب سے زیادہ "اوئے " کا لفظ استمال کیا مثلاً "اوئے نواز شریف"، جس پر انکو ایک بدتمیز سیاستدان کہا جانے لگا۔ ان کے دھرنے میں زیادہ اکثریت نوجوانوں کی تھی جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔</p> <p>اپنی سیاسی مخالفت میں مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کےدھرنے کے بارئے میں کہا تھا کہ عمران خان کے لوگ دن میں دھرنا دیتے ہیں اور رات کو مجرا کرتے ہیں ، مولانا کے اس بیان کو خود ان کے ہمدردوں نے پسند نہیں کیا تھا اور پورئے ملک میں اسکی مذمت کی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کو بھی اپنی زبان پر قابو نہیں اس لیے انہوں نے دھرنے کے شرکا اور تحریک انصاف کی ترجمان شیری مزاری کے بارئے میں بے ہودہ کلمات کہے جس پر تحریک انصاف نے بھرپور احتجاج کیا، بعد میں الطاف حسین نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے بیان پر معذرت کی اور شیری مزاری سے بھی ذاتی طور پر معذرت کی۔</p> <p>مفتی منیب الرحمان فرمارہے تھے کہ اس سے پہلے بھی دھرنے ہوئے ہیں ، مفتی صاحب کی بات بلکل درست کہ دھرنے ہوئے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے دھرنے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی جس میں موجود مذہبی شخصیات حکومت اور حریف مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو ایسی گالیاں دے رہی تھیں جنہیں شاید کوئی بھی مہذب انسان سننا پسند نہیں کرتا ہے۔</p> <p>سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں اس دھرنے کے تعلق سے لاہور میں واپڈا ہاؤس کے سامنے ایک مولوی دوسرئے چند لوگوں کے ساتھ لوہے کا ایک پائپ اٹھاکر وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ برا سلوک کرنے کا کہہ رہا ہے۔ ڈی چوک کے دھرنے میں نواز شریف کے علاوہ ان کی صابزادی مریم نواز کو بہت ہی غلیظ الفاظ سےنوازا گیا۔ دھرنے کے شرکا باپ بیٹی کے متعلق اپنے گھٹیا ریمارکس دیتے رہے۔ڈی چوک کی سڑکوں کوبھی اپنے گندے نعروں کےلیے استعمال کیا، وہاں موجود کنٹینر گندی گالیوں سے بھرئے ہوئے ہیں۔</p> <p>عمران خان کے بیان پر کہ "ہمارے دھرنے کا اس دھرنے سے موازنہ نہ کریں" مولانا خادم حسین نے عمران خان کو گندی گالیاں دیں۔ طاہر القادری کو بھی مولانا خادم حسین نے دل کھول کر گالیاں دیں۔ مسلکی اختلاف کے باوجود جو رائے عامہ ممتاز قاردی کے حق میں تھی، اب اس کا کہنا ہے کہ سنی تحریک کے دھرنے کا حلوہ کڑوا تھا۔</p> <p>کوئی کیسے مان لے کہ یہ عاشق رسول ﷺ ہیں؟ لوگ مذہب کتابوں سے نہیں، افراد اور معاشروں سے سیکھتے ہیں۔اگر خود یہ رہنما ایسی شرمناک گالیاں دیتے ہیں، تو ان کے زیر تعلیم رہنے والوں کی اخلاقی تربیت اور حالت کیسی ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔</p> </section> </body>
5445.xml
<meta> <title>پنجابی پرچار کے زیراہتمام' 'ویساکھی میلے"کا انعقاد</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21635/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>296</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
پنجابی پرچار کے زیراہتمام' 'ویساکھی میلے"کا انعقاد
296
No
<body> <section> <p>پنجابی پرچار کے زیرا ہتمام "ویساکھی میلہ"کا انعقاد جمعرات کے روزالحمراءہال مال روڈ میں کیا گیا ۔</p> <p>صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود کا کہناتھا کہ جس طرح دیگر صوبوں میں ان کے کلچرکے حوالے سے دن منائے جاتے ہیں اسی طرح پنجاب میں بھی پنجابی ثقافت کو زندہ رکھنے کیلئے دن منایاجائے کریں گے ۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ پنجابی زبان کو سکولوں اور کالجوں میں لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کیلئے حکومت اقدامات کرے گی اور اس کیلئے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی ۔صوبائی وزیر نے ان خیالات کا اظہار پنجابی پرچار کے زیر اہتمام ویساکھی میلے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔</p> <p>پنجابی پرچار کے ڈائریکٹر احمد رضا پنجابی نے کہا کہ پاکستان سے شدت پسندی کے خاتمے کیلئے صوفیا کرام کی زبان پنجابی کو فروغ دیا جائے ،پنجابی زبان جو کہ امن کا درس دیتی ہے اس کو زندگہ رکھنے کیلئے سکولوں کالجوں کی سطح پر نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے ۔</p> <p>ویساکھی میلے میں پنجابی زبان کی ترویج کیلئے گراں قدر خدمات دینے والوں میں ایوارڈ بھی تقسیم کیے گئے جن میں کرکٹر عمران نذیر ،دیپ سیدہ افضل سحر ،بابا نجمی ،افتخار ٹھاکر ،سید نور،شوکت علی ،راشد محمود،امجد کریم رندھاوا،ڈاکٹر اشتیاق احمد،ثریا خانم شامل ہیں ۔</p> <p>ویساکھی میلے میں سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ نے بطور مہمان خصوصی جبکہ ،صوبائی وزیر تعلیم رانامشہود ،پیپلز پارٹی کے رہنما قمرالزمان کائرہ ،مسلم لیگ ن کی زکیہ شاہ نواز ، شوکت بسرا،سینئر صحافی سہیل وڑائچ ، سلمان غنی ،فلم سٹار سید نور،سائمہ نور ،ریشم ،ڈرامہ آرٹسٹ نعمان اعجاز ،سٹیج ایکٹر افتخار ٹھاکر ،گلوکار شوکت علی ،ندیم عباس،مصنف و شاعر ڈاکٹر اشتیاق احمد،کرکٹر عمران نذیر ،کبڈی کے کھلاڑی غلام عباس بٹ ،شاعر بابا نجمی اور ریڈیو پریزنٹر افضل ساحرسمیت پنجاب بھر سے لوگوں نے شرکت کی</p> </section> </body>
5446.xml
<meta> <title>نرگسیت کا‌شکار پاکستانی قوم کی خوش فہمیاں</title> <author> <name>عقیل یوسفزئی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21738/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1047</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
نرگسیت کا‌شکار پاکستانی قوم کی خوش فہمیاں
1,047
No
<body> <section> <p></p> <p>مبارک ہو ۔ ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور میڈیا کے شاہینوں کو پانامہ پیپرز کی آڑ میں لامتناہی ، لا حاصل اور بے مقصد مباحث اور رائے زنی کے علاوہ نت نئے انکشافات کا ایک اور بہانہ یا جواز ہاتھ لگ چکا ہے۔ ایک ایسی قوم یا سوسائٹی اپنے علاوہ دوسروں کو بھی میرٹ ، اخلاقیات اور ذمہ داریوں کا احساس دلانے نکل آئی ہے جس کے 80 فیصد لوگ دوسرے مقامات تو ایک طرف مسجد میں لگے بلب کو چوری سے بچانے کیلئے زنجیر کے ذریعے باندھنے کے اعلیٰ اخلاقی معیار پر فائز ہیں اور جہاں سڑکوں کے کنارے لکھے اس مشورے یا اطلاع کے اس پورے فقرے کے " یہاں پیشاب کرنا منع ہے " سے بعض لوگ " یہاں " کا لفظ مٹانے کو اپنا اسلامی اور قومی فریضہ سمجھ کر پورا کرتے آ رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک اور معاشرے کے لوگ برطانیہ ، روس ، جاپان اور امریکہ کے حکمرانوں اور عوام کو اپنے زریں مشوروں سے نوازنے میں مصروف عمل ہیں جن کے تین سے چار کروڑ تک بچے اکیسویں صدی میں سکول جانے کی سہولت اور ضرورت سے محروم ہیں اور جن کے چھوٹے تو ایک طرف بڑوں کو بھی ائیر پورٹس پر زبردستی پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔</p> <p>ایک ایسے معاشرے اور ملک کے حکمران ، سیاستدان اور تجزیہ کار ترقی یافتہ اقوام کو اپنے " نابغہ روزگار" مشوروں سے نوازنے کے شوق دیوانگی میں سرگرداں ہیں جس کے 65 فیصد شہری اس دور میں بھی صاف پانی کی ضرورت سے محروم ہیں اور جس کے مذہبی اور اخلاقی معیار کا یہ عالم ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو اپنے جوتے چوری ہونے کے خوف سے اس جگہ پر رکھ لیتے ہیں جہاں وہ کائنات کے خالق کے سامنے سربسجود ہورہے ہوتے ہیں۔</p> <p>ہمارے وہ اینکر ، صحافی ، کالم نگار اور دیگر گلے پھاڑ پھاڑ کر پاکستانی تو ایک طرف مہذب دُنیا کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں جو کہ اپنی بے مثال کارکردگی اور " خدمات " کے باعث راتوں رات لکھ پتی سے کروڑ پتی بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ معززین جب دوسروں کو نااہل ، چور اور کرپٹ قرار دیتے ہیں تو انسان کو افسوس کے علاوہ شرم بھی آنے لگتی ہے۔ غیر صحافتی پس منظر رکھنے والے نام و نہاد اینکرز اور تجزیہ کارتو حد ہی کرتے ہیں۔ ماضی میں گھٹیا فلموں کی تیاری میں شہرت رکھنے والے ایک ناکام ترین اینکر نے اپنے سفر کیلئے جہاز خرید رکھا ہے مگر وہ ہر شام ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر دوسروں کے بیڈ رومز اور نجی زندگی میں دخل دینے کی اپنی عادت کو بھی قومی مفاد کی آڑ میں معیوب نہیں سمجھتا ۔ ہم ایک ایسا اینکر رکھنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں جس نے چند برس قبل اپنے پروگرامز اور چرب زبانی کے ذریعے دُنیا میں قیامت کرنے یا لانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جس کا دس پندرہ سال میں ایک بھی تبصرہ یا تجزیہ درست ثابت نہیں ہوا۔</p> <p>ہمارے بعض دانشوروں اور انگریزی دان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ روزانہ کے حساب سے امریکہ ، فرانس ،روس اور چین جیسے ممالک کو ایسے مشورے دے رہے ہوتے ہیں جنہیں سن کر ان ترقی یافتہ اقوام کو اپنی کم عقلی کا شدت سے احساس ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان کی فرمودات ان ہی تک محدود رہتی ہیں)۔</p> <p>حالانکہ ہمارے حقیقی حالات کی حقیقی عکاسی بہت پہلے نامور شاعر اور تخلیق کار جون ایلیا کچھ یوں کر چکے ہیں " ہمارے ہاں بیسویں صدی کبھی آئی ہی نہیں بلکہ وقت ہمارے بال کھینچ کر اور ہمیں جھنجھوڑ کر بیسویں صدی میں گھسیٹ کر لے آیا ہے ورنہ ہم تو حقیقت میں بارہویں صدی عیسویں کے لوگ تھے" ہمارے قانون ساز اداروں کی حالت ایک اور حقیقی دانشور نے کچھ اس انداز میں بیان کی ہے۔ " جن مسائل پر اسمبلیوں میں بحث ہونی چاہیے وہ ہمارے ہاں حجام کی دکانوں پر ڈسکس ہوتے ہیں۔ واصف علی واصف کے بقول اینٹ کا اینٹ سے ربط کب کا ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے اعمال اور افکار کے ذریعے اپنی کتنی دیواریں گرا چکے ہیں۔ ہمیں دُنیا کے باشعور لوگوں کے اس متفقہ فارمولے ، ضرورت یا بات سے شدید نفرت ہے کہ " دوسروں کے احتساب سے قبل خود کو احتساب کے عمل سے گزارنا لازمی ہے "</p> <p>ہم جب چوری یا کرپشن کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں تو جن لوگوں یا اداروں نے ہمارا احتساب کرنا ہوتا ہے وہ پہلا سوال کرتے ہیں کہ " وہ مجھے یا ہمیں کیا دو گے "۔ اُس پر ستم یہ کہ ہم ہاتھ میں ہتھکڑی لگنے کے بعد بڑی شان و شوکت سے وکٹری کا مشہور زمانہ نشان بنانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ سب کو پتہ ہے کہ بحثیت قوم ہم میں سے اکثر لوگ کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، دوسروں کو نیچا دکھانے ، دوسروں کی حق تلفی بلکہ تھوک کے حساب سے انسانوں اور انسانیت کا خون بہانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ان تمام " اعلیٰ خصوصیات " کو مہارت ، ذہانت اور کامیابی کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کا ذرہ بھر احساس دل میں لانے کو بھی جرم عظیم سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسی ، اپنے بھائی اور اپنے دوست کے دُکھ اور امداد کا کوئی احساس نہیں ہوتا مگر ہم دوسرے سیاروں پر پہنچنے والی اقوام کا مذاق اُڑانے اور ان کو مشورے دینے میں ذرا بھر دیر نہیں لگاتے۔</p> <p>نامور فلسفی شاعر غنی خان کی ایک پشتو نظم کا خلاصہ ہے کہ اس مولوی کی شراب نوشی سے انکار کی کوئی اہمیت نہیں جس کو شراب سرے سے دستیاب نہیں ہو۔ ایمان کا پتہ تو تب چلے گا جب شراب آپ کے سامنے ہو اور آپ پینے سے انکار کریں۔ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو وہ لوگ برا سمجھتے ہیں جن کو یاتو مولوی کی طرح مواقع دستیاب نہیں ہوتے یا ان میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ورنہ ہم میں کوئی بھی ایسا کرنے کا معمولی سے معمولی موقع بھی ضائع نہیں کرتا ۔</p> <p>سچی تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ ہم بہت خوش فہمیوں کے علاوہ بدترین قسم کی انفرادی اور اجتماع تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو گئے ہیں اور صرف یہی رویہ ہماری اجتماعی تباہی کیلئے کافی ہے۔</p> </section> </body>
5447.xml
<meta> <title>بیسویں صدی کے اہم ہندوستانی مصنف :منشی پریم چند</title> <author> <name>آئی بی سی اُردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21804/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2446</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بیسویں صدی کے اہم ہندوستانی مصنف :منشی پریم چند
2,446
No
<body> <section> <p>پریم چند ایک سچے ہندوستانی تھے۔ ایک عام ہندوستانی کی طرح ان کی خواہشات اور ضروریات محدود تھیں۔ وہ ایک عام دیہاتی کی طرح سادہ کپڑے پہنتے تھے۔ ہندوستانی لباس میں انھیں پسند تھا۔دھوتی کرتا انکا سب سے پسندیدہ لباس تھا۔ اس وقت گاندھی ٹوپی کرتا صافہ ،شیروانی،پاجامہ وغیرہ قومی لباس تھے۔</p> <p>انھوں نے انگریزی کپڑے پہنے ضرور لیکن بیرونی لباس انھیں پسند نہیں تھا۔ اس میں انھیں انگریزیت کی بو آتی تھی ۔وہ عموماًفرش پر بیٹھ کر ڈیسک پر لکھتے ، کرسی تو بہت بعد میں بیوی کے کہنے پر لائے۔ گائے ان کے پاس ہمیشہ رہی۔ایک عام انسان ہونے کی وجہ سے وہ اتنے عوام پسند ادیب ہوسکے۔</p> <p>پریم چند نے تقریباً تین سو کہانیاں، پندرہ ناول اور تین ناٹک لکھے۔ دس کتابوں کے ترجمے کئے اور ہزاروں صفحات میں دیگر تصنیفات یاد گار چھوڑیں۔ وہ فن اور خیال دونوں ہی پہلؤوں سے اول درجے کے ادیب تسلیم کئے گئے۔ان میں کبیر اور تلسی کا مشترکہ تہذیبی شعور تھا۔انھوں نے اپنے ادب کے ذریعہ ہر قسم کی تباہی بربادی اور غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانیت پر مبنی سماج کا تصور پیش کیا۔ اس کے لئے انھیں ٹالسٹائے، گورکی، سوامی دیا نند ، وویکا نند اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم انسانوں سے ترغیب ملی ۔ اپنی انسانیت پسندی کی وجہ سے وہ ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستانی سماج اور اس کی انسانیت کے مصنف ہیں۔ ان کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر( ۱۹۸۰ء ) میں ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی انھیں عزت کے ساتھ یاد کیا گیا اور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔</p> <p>اتر پردیش کے مشہور شہر بنارس سے اعظم گڑھ جانے والی سڑک پر تقریباً چار میل دور واقع لمہی گاؤں میں ۳۱ ؍ جولائی ۱۸۸۰ء کو اردو ہندی کے مشہور ادیب پریم چند کی پیدائش ہوئی ۔ والد کا نام منشی عجائب لال شریواستو اور والدہ کا نام آنندی تھا۔ والد نے بیٹے کا نام دھنپت رائے رکھا اور تاؤ نے نواب رائے۔ یہی دھنپت رائے آگے چل کر پریم چند کے نام سے ہندوستان کے مشہور ادیب بنے ۔ ماں کے وہ بڑے لاڈلے تھے کیونکہ تین بیٹیوں کے بعد ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ بچپن میں وہ شرارتی اور کھلنڈرے تھے۔</p> <p>آٹھ برس کی عمر میں نزدیک کے لال پور گاؤں کے ایک مولوی صاحب کے یہاں اردو فارسی درس سے ان کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ اسی درمیان ۱۸۸۸ ء میں انکی والدہ آنندی کا انتقال ہو گیا۔ والد نے دو برس بعد دوسری شادی کر لی ۔ْ انھیں دنوں ان کا تبادلہ گورکھپور ہو گیا۔ پریم چند نے گورکھپور کی راوت پاٹھ شالہ میں انگریزی زبان کی تعلیم شروع کی ا ور مڈل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۶ء میں انھوں نے مشن اسکول کے آٹھویں درجہ میں داخلہ لیا۔ وہ زمانہ ان کے لئے تنگی کا تھا جسے انھوں نے اپنے مضمون "جیون سار" میں لکھا ہے ۔ اسی درمیان ان کے والد کا بھی انتقال ہو جانے سے ان کا ایک سال خراب ہو گیا۔</p> <p>۱۸۹۹ء میں انھوں نے انٹرنس کا امتحان دوئم درجہ میں پاس کیا مگر بہت کوششوں کے باوجود بنارس ہندو کالج میں داخلہ نہ لے سکے کیونکہ حساب میں کمزوری اور بیماری نے پریشانی پیدا کر دی تھی۔ تب کوئنس کالج بنارس کے پرنسپل کی سفارش پر ۲ جولائی ۱۹۰۰ء کو انھیں بہرائچ کے سرکاری اسکول میں ۲۰ روپے ماہانہ پر ٹیچر کی جگہ مل گئی۔ ۱۹۰۴ء میں انھوں نے گورنمنٹ سینٹرل ٹریننگ کالج الہٰ باد سے جونیر انگلش ٹیچرسر ٹیفکیٹ کا امتحان دیا اور اول درجے سے امتحان پاس کیا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ الہ ٰباد میں رہے ۔ ۱۹۰۵ء میں بطور سرکاری ٹیچر ان کا تبادلہ کانپور ہو گیا۔</p> <p>جون ۱۹۰۹ ء میں وہ سب ڈپٹی انسپکٹرمدارس ہو کر کانپور سے مہوبہ ضلع ہمیر پور گئے۔ جولائی ۱۹۱۴ء میں بستی پہونچے پھر وہاں سے اگست ۱۹۱۶ء میں گورکھپور پہنچے۔ یہاں وہ نارمل ٹریننگ اسکول میں ان نوجوانوں کو پڑھاتے تھے جو بعد میں ٹیچر بنتے تھے۔ وہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ بھی تھے لہٰذا اسکول کے احاطہ میں رہنے کے لئے انھیں ایک کمرہ مل گیا۔ کمرہ کے سامنے نیم کا درخت تھا جس کے نیچے بیٹھ کر وہ لکھتے پڑھتے تھے۔ اب اس جگہ پتھر کا ایک چبوترہ بنوا دیا گیا ہے اور کمرہ پر "پریم چند سدن " نام کی تختی بھی لگا دی گئی ہے۔قریب ہی ایک خوبصورت پارک ان کے نام سے بن گیا ہے۔</p> <p>گورکھپور میں ہی انھیں ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انکی پہلی شائع شدہ تخلیق"اولیور کرام ویل" اردو میں ہے جو بنارس کے ہفتہ وار اخبار"آوازۂ خلق" میں مئی ۱۹۰۳ء سے قسط وار شائع ہوئی۔ اور ان کا پہلا ناول "اسرار معابد" بھی اسی ہفتہ وار اردو اخبار میں اکتوبر ۱۹۰۳ء سے سلسلہ وار چھپنا شروع ہوا جس میں انھوں نے مندر کے پجاریوں کی بد کرداری، دھوکہ بازی اور جھوٹ بولنے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔</p> <p>پپریم چند درجہ نہم میں تھے جب ان کے والد نے اپنے سسر کے کہنے پر بستی ضلع کے ایک گاؤں کے معمولی زمیندار کی بد صورت اور جاہل لڑکی سے ان کی شادی کر دی، و ہ کئی برس تک اس کے ساتھ نباہ کرتے رہے مگر ایک دن ساس سے جھگڑا ہونے پر وہ ضد کر کے اپنے میکے چلی گئی اور پھر پریم چند اسے بلانے گئے اور نہ وہ خود آئی۔ تقریباً ۲۶ برس کی عمر میں انھوں نے مارچ ۱۹۰۶ء میں دیوی پرساد کی بال ودھوا بیٹی شیو رانی سے دوسری شادی کر لی۔</p> <p>پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اردو زبان سے ہی کیا لیکن ان میں ہندی کے پڑھنے والوں تک پہنچنے کی خواہش شروع ہی سے رہی۔ شائد اسی وجہ سے انھوں نے اردو ناول"ہم خرما و ہم ثواب" کا ہندی ترجمہ "پریما" کے عنوان سے ۱۹۰۷ء میں شائع کرایا۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیا نند اور سوامی وویکا نند کے خیالات سے متاثر ہو کر بھی انھوں نے ناولوں اور افسانوں کی تخلیق کی ۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "سوزِ وطن" ۱۹۰۸ء میں کانپور سے شائع ہوا۔</p> <p>انگریزی غلامی کے دور میں حب الوطنی پر لکھے گئے افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ تھا۔ باغیانہ ادب لکھنے کی بنا پر انگریزکلکٹر نے کتاب کی باقی ماندہ سات سو جلدیں منگا کر بطور سر زنش جلوا دیں۔ انگریز کلکٹر کی طرف سے سنسر شپ عائد کئے جانے پر پریم چند نے نام بدل کر اپنی تخلیقات جاری رکھیں۔ ان کا ایک مشہور افسانہ"رانی سارندھا" تو بغیر مصنف کے نام سے ہی "زمانہ " کے اگست ستمبر ۱۹۱۵ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ تب ان کے خاص دوست "زمانہ" کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن نگم نے انھیں پریم چند نام رکھنے کی تجویز پیش کی۔</p> <p>ان کا پہلا افسانہ "بڑے گھر کی بیٹی" پریم چند کے نام سے "زمانہ" کے دسمبر ۱۹۱۰ء کے شمارے میں چھپا۔ اردو میں پریم چند کا دوسرا افسانوی مجموعہ "پریم پچیسی"(حصہ اول) ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا۔ دوسرا حصہ ۱۹۱۸ء میں چھپا۔اس میں پریم چند کی مشہور کہانیاں مثلاً "نمک کا دداروغہ" بے غرض محسن" خون سفید" اور" صرف ایک آواز" شامل ہیں۔ یہ کہانیاں گاؤں کی سیدھی سادی زندگی سے تعلق رکھتی ہیںٍ۔</p> <p>۱۹۲۰ء میں ان کی کہانیوں کا نیا مجموعہ"پریم بتیسی" کے نام سے شائع ہوا۔ اس کی بعض کہانیوں نے بڑی شہرت حاصل کی،مثلاً "بوڑھی کاکی" اور "حج اکبر" پھر ان کے چالیس افسانوں کا مجموعہ "پریم چالیسی" ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوا۔اس میں ان کی مشہور کہانیاں "قزاقی" اور " پوس کی رات" بھی شامل ہیں۔</p> <p>اردو میں تقریباًبارہ تیرہ برس تک لکھنے کے بعد انھوں نے ہندی میں خاص طور پر لکھنے کا فیصلہ کیا اور ان کا پہلا ہندی افسانہ" سوت" ہندی کے ماہانہ رسالے"سرسوتی" کے دسمبر ۱۹۱۰ء کے شمارے میں چھپا۔ اس کے بعد ہندی اخبارات و رسائل میں ان کے افسانوں کا مطالبہ روز بروز بڑھنے لگا۔ ان کا پہلا ہندی افسانو ی مجموعہ سات افسانوں پر مشتمل"سپت سروج" گورکھپور سے جون ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا۔" سیوا سدن" ان کاپہلا کامیاب ناول ہے جس کی تخلیق بنیادی طورسے اردوزبان میں "بازارِ حسن" کے عنوان سے ہوئی تھی،اس میں پریم چند نے طوائف بننے کے اسباب، حالات اور اس کے معاشرتی رد عمل کوکامیابی اور فن کاری کے ساتھ پیش کیا اور معاشرے کو ان کے حل کے لئے متوجہ کیا۔</p> <p>۱۹۱۶ء میں پریم چند نے انٹر اور ۱۹۱۹ ء میں بی اے سکنڈ ڈیویژن میں پاس کیا۔ بی اے میں انکے مضامین تھے انگریزی ادب، فارسی اور تاریخ۔ اپنی علالت اور روز مرہ کی پریشانیوں کے باعث وہ ایم اے نہ کر سکے، انھیں دنوں لاہور کے مشہور اردو ادیب امتیاز علی تاج سے ان کا تعارف ہوا جو دوستی میں بدل گیا۔ اور آخری عمر تک قائم رہا۔ تاج اردو رسالہ "کہکشاں" کے مدیر اور دارالاشاعت انجمن کے مالک بھی تھے۔ تاج نے ان کے کئی افسانے اور کہانیاں کہکشاں میں شائع کیں اور " زمانہ" سے زیادہ معاوضہ دیا۔ ان کے اردو ناول"بازار حسن" گوشۂ عافیت" چوگانِ ہستی" وغیر ہ بھی دارا لاشاعت لاہور سے شائع ہوئے۔</p> <p>پریم چند کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری بیوی سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہی زندہ بچے۔ شیو رانی دیوی نے بھی کافی کہانیاں لکھیں اور جنگ آزادی میں جیل گئیں۔ مہاتما گاندھی کے تئیں پریم چند کی عقیدت تا عمر قائم رہی۔ سرکاری نوکری سے استعفیٰ دینے کے بعد پریم چند کو تلاش معاش کے لئے مختلف جگہوں پر بھٹکنا پڑا۔ مختلف طرح کے کام کرنے پڑے۔</p> <p>آمدنی کا ایک طے شدہ اور مستقل ذریعہ پیدا کرنے کے لئے انھوں نے ایک پرنٹنگ پریس بھی کھولا لیکن کاروباری سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے پریس میں نقصان ہونے لگا۔تبھی لکھنؤ کے دلارے لال بھارگو نے اپنے دارالاشاعت"گنگا پستک مالا دفتر" میں بطور ادبی مشیر رکھ لیا۔ لکھنؤ جاتے ہی پریم چند نے اپنی مشہورکہانی "شطرنج کے کھلاڑی"لکھی جو لکھنؤ سے شائع ہونے والے ہندی کے مشہور رسالے"مادھوری" کے اکتوبر ۱۹۲۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس میں تاریخی واقعات کے ذریعہ عوام کے دل میں حب وطن کا جذبہ اور غیر ملکی غلامی سے نجات پانے کی خواہش پیدا کی۔</p> <p>انھوں نے اپنی زندگی اور ادب دونوں میں ہندؤوں اور مسلمانوں کو قریب لانے کے لئے کام کیا۔ اس کے لئے اردو زبان میں ہندؤوں کی زندگی سے متعلق اور ہندی میں مسلمانوں کی زندگی اور تاریخ سے متعلق افسانے، ڈرامے اور ناول لکھ کر ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کی۔ ۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ان کا ڈرامہ "کربلا" بہت مشہور ہوا جس میں انھوں نے حضرت امام حسین کی قربانی کی لا فانی کہانی پیش کی۔انھوں نے ہندی کی سنسکرت سے وابستگی اور اردو پر فارسی کے غلبے کی مخالفت کرتے ہوئے قومی ثقافت کے فروغ کے لئے ہندوستانی زبان کی حمایت کی ۔</p> <p>پریم چند کا قول تھا کہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔لیکن مٹھی بھر تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے عہدوں اور ممبریوں کے لئے ساری لڑائی کھڑی کی ہوئی ہے۔ غریبی، نا خواندگی ،بیماری اور بیکاری ہندو مسلم کا فرق نہیں کرتی۔ انھوں نے دھرم پر چلنے والے ایک اندھے بھکاری کو اپنے کامیاب ناول "چوگان ہستی" کا ہیرو بنایا۔ بعد میں اس کا ہندی ترجمہ ہوا۔</p> <p>پریم چند دلارے لال بھارگو کے اشاعتی ادارے میں بھی بہت دنوں تک کام نہ کر سکے،انھوں نے ۳۰ اگست ۱۹۲۵ء کو نوکری چھوڑ دی اور دوسرے دن ہی مع خاندان کے بنارس نکل پڑے۔ وہاں کچھ وقت سرسوتی کی دیکھ بھال اور لکھنے لکھانے میں گذارالیکن نو ل کشور پریس لکھنؤ کے منتظم وشنو نرائن بھارگو کے مدعو کرنے پر ان کے رسالے"مادھوری" کے نائب مدیر کا عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن ۱۹۳۱ء میں وشنو نرائن کا انتقال ہو جانے پر پریم چند کے مخالفین نے انھیں اسی سال اکتوبر میں نوکری سے ہٹوا دیا۔ ۱۹۲۸ ء اور ۱۹۲۹ء میں پریم چند نے اپنی کہانیوں کے تین مجموعے "خاک پروانہ" خواب وخیال" اور فردوس خیال " شائع کرائے۔</p> <p>۱۹۲۸ء میں ان کے ادب کو پسند کرنے والوں نے ہندوستان کی دیگر زبانوں اور بیرونی زبانوں کے پڑھنے والوں تک ان کے ادب کو پہونچانے کا کام خاص طور پر شروع کیا۔ ادھر جاپان میں رہنے والے ہندوستانی کیشو رام سبر وال نے ان کی کہانیوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام شروع کیا اور جاپان کے مشہور رسالے "کیزو"میں ۱۹۲۸ء میں شائع کیا۔اسی سال جرمنی کی برلن یونیورسٹی کے ہندی پروفیسر تارا چند رائے نے بھی ان کی کہانیوں اور ناولوں کا جرمنی میں ترجمہ کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا۔</p> <p>پریم چند کی بیوی شیو رانی بھی اپنے خاوند کی طرح کانگریس پارٹی کی رکن تھیں اور جنگ آزادی کی مہم میں عملی طور سے حصہ لیتی تھیں۔ لکھنؤ میں جب 'مہیلاآشرم" کی بنیاد پڑی تو وہ اس کی مجلس عاملہ کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کا سوراجیہ کے لئے عملی جوش کافی دنوں بر قرار رہا۔ پریم چند شروع سے ہی مطالعے کے عادی تھے وہ انگریزی ، اردو، فارسی اور ہندی زبانیں جانتے تھے، گؤ دان ان کا شاہکار ناول ہے۔</p> <p>فلم بنانے والوں نے انھیں کہانی ، مکالمے لکھنے کے لئے مدعو کیا جسے انھوں نے قبول کر لیا۔اور مئی ۱۹۳۴ء میں بمبئی پہونچ گئے۔ ان کی پہلی کہانی پر "مل کا مزدور" فلم بنی جو لاہور میں دکھائی گئی کیونکہ بمبئی میں اسے دکھانے کی اجازت نہ ملی۔ یہ فلم کمپنی مالی نقصانات کی وجہ سے چند ماہ بعد بند ہو گئی تو پریم چند اپریل ۱۹۳۵ء میں بمبئی چھوڑ کر بنارس روانہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد انہ لکھنے کے کام میں چاہے دولت نہ ہو لیکن سکون ضرور ملتا ہے۔</p> <p>۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء کے ایک خط میں حسام الدین غوری کو لکھتے ہیں۔" سنیما میں کسی اصلاح کی توقع کرنا بیکار ہے۔ یہ صنعت بھی اسی طرح سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جیسے شراب فروشی۔ انھیں اس سے بحث نہیں کہ پبلک کے مذاق پر کیا اثر پڑے گا۔ انھیں تو اپنے پیسے سے مطلب۔ سنیما کے ذریعہ مغرب کی ساری بے ہودگیاں ہمارے معاشرے میں میں داخل کی جا رہی ہیں اور ہم بے بس ہیں۔۔ میں نے خوب سوچ لیا ہے۔ اس دائرے سے نکل جانا ہی مناسب ہے".</p> <p>پریم چند کو زندگی کی مشکلات سے جنگ کرتے وقت اپنی جسمانی بیماریوں سے بھی جنگ کرنا پڑی۔ ۸ ؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کو صبح تقریباً دس بجے اس عظیم مصنف کی روح فانی جسم چھوڑ کر پرواز کر گئی۔</p> <p>منشی پریم چند کے مطالعے اور حالات کے جائزے سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز اردو سے کیا ۔اردو کے ادیب اور افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ عالمی ادب میں وہ اردو کے ادیب کی حیثیت سے متعارف ہیں اور اردو کے اس قد آور ادیب کو اگر ہندی میں میں بھی ایک بلند مقام حاصل ہے تو یہ ایک ایسا خراج تحسین ہے جو ہندی کے کسی ساہتیہ کار کوحاصل نہیں ہے ۔</p> </section> </body>
5448.xml
<meta> <title>جسٹس منیر ، قرارداد مقاصد اور اقلیتیں</title> <author> <name>شمس الدین امجد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21986/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3220</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جسٹس منیر ، قرارداد مقاصد اور اقلیتیں
3,220
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>شکریہ وجاہت مسعود صاحب . حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے</p> </blockquote> <annotation type="url"><p>http://ibcurdu.com/news/21918</p></annotation> <heading>شکریہ وجاہت مسعود صاحب - حصہ دوم</heading> <p>جسٹس منیر وجاہت مسعود صاحب سمیت لبرلز کا حوالہ ہے جی ہاں وہی جسٹس منیر جس نے پاکستان میں پہلی دفعہ جمہوریت پر فاتحہ پڑھی تھی، اور اس خدمت کے صلے میں ایوب خان کے وزیر قانون قرار پائے تھے۔ افسوس کہ جمہور اور جمہوریت کے بارے میں بات کرتے اور دلیل دیتے ہوئے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کے پاس جمہوریت کے اولین قاتل کے سوا کوئی معتبر حوالہ نہیں ہے۔ جسٹس منیر کے مکروہ کردار اور تاریخ اور خود قائداعظم کی شخصیت کو مسخ کرنے کے حوالے سے مزید جاننا ہو تو سلینہ کریم کی کتاب "سیکولر جناح اینڈ پاکستان" کا مطالعہ کافی رہے گا۔ لبرلز تاریخ سمیت ہر چیز کو مسخ کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں، جسٹس منیر نے یہ کارنامہ مگر قائداعظم کے باب میں انجام دیا اور اپنی کتاب "جناح ٹو ضیا" میں ایک خود ساختہ تقریر قائداعظم سے منسوب کر ڈالی۔ جو بابائے قوم کے ساتھ یہ سنگین مذاق کر سکتے ہوں وہ اور کیا کیا نہ کریں گے۔ سلینہ کریم نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس جھوٹ کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔</p> <p>انھی جسٹس منیر کی ایک دو نمبری پروفیسر خورشید احمد صاحب کی زبانی سنیے اور سر دھنیے</p> <p>"جنرل ایوب خاں نے 1962ء کے دستور میں پاکستان کے نام کے ساتھ لگا 'اسلامی' کا لفظ نکالا اور قراردادِ مقاصد میں بھی ترمیم کرڈالی تھی، لیکن انھی کے نظام کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی نے ایوب صاحب اور ان کے وزیرقانون ریٹائرڈ جسٹس محمد منیر کی ساری تگ و دو کے باوجود، اسلام کو بحیثیت 'پاکستان آئیڈیالوجی' کتابِ قانون پر رقم کیا۔ اس کے حق میں خود ذوالفقار علی بھٹو نے زوردار تقریر کی۔ اس بحث کے دوران میں سب سے بُرا حال جسٹس منیر کا تھا، جنھوں نے پہلے مخالفت کی اور پھر کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، اسمبلی یہ اضافہ کرلے۔ مگر ان کی بد دیانتی کا حال یہ رہا کہ خود یہ سب بھگتنے کے باوجود اپنی کتاب <annotation lang="en">From Jinnah to Zia</annotation> میں وہی رٹ لگائی کہ 'پاکستان آئیڈیالوجی' کی اصطلاح جنرل ضیاء الحق کی اختراع تھی۔ علمی بددیانتی اور حقائق کو مسخ کرنا اس طبقے کا شیوہ ہے۔" (ترجمان القرآن - نصیحت اور انتباہ- اپریل 2016 )</p> <p>قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر اور قرارداد مقاصد پر تنقید کے تناظر میں وجاہت صاحب کا سارا زور اقلیتوں کو برابر کے شہری قرار دلوانے پر ہے اور ان کے خیال میں قرارداد مقاصد اس کی نفی کرتی ہے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ قرارداد مقاصد میں کہیں اقلیتوں کو دوسرے نمبر کا شہری قرار دیا گیا ہے یا ان کے حقوق کا انکار کیا گیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرارداد مقاصد میں قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے تتبع میں یہ کہا گیا ہے کہ</p> <p>* اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔</p> <p>* بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں مساوات، حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارخیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔</p> <p>* اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔</p> <p>اور قرارداد مقاصد کے مطابق ہی یہ سب کسی مذہبی پیشوا کے ذریعے سے نہیں ہونا بلکہ اس میں صاف لکھا ہے کہ " مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔" صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرارداد مقاصد اقلیتوں کے حقوق اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی نفی نہیں کرتی بلکہ حقیقت مں اس کی ضامن ہے۔</p> <p>ایک اور سوال البتہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا قرارداد مقاصد اقلیتوں کو سماجی ترقی کرنے سے روکتی ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جوگندر ناتھ منڈل سے وزارت قانون واپس نہیں لی گئی تھی، سر ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے نہیں ہٹایا گیا، اس نے جسٹس کارنیلیس کو چیف جسٹس بننے سے نہیں روکا، سیسل چوہدری نے قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے ملکی دفاع کا فریضہ انجام دیا اور ستارہ جرات حاصل کیا۔ قرارداد مقاصد آئین کا مستقل حصہ ضیا دور میں بنی مگر اس نے اس کے بعد بھی رانا بھگوان داس کو ترقی سے نہیں روکا اور وہ قائم مقام چیف جسٹس ہوئے، اس نے محمد یوسف، انیل دلپت اور دانش کنیریا کو کرکٹ میں کروڑوں لوگوں کے سامنے پاکستان کی نمائندگی کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ آج قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہیں اور وہ وفاقی و صوبائی وزارتوں پر براجمان ہیں۔ قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے ان کے بہترین تعلیمی ادارے اور ہسپتال یہاں تک کہ مشنری ادارے کام کر رہے ہیں، ایف سی کالج جیسے کئی اداروں کو قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے اقلیتوں کو واپس کر دیا گیا۔ یہاں قرارداد مقاصد کے باوجود اے نیئر ، بنجمن سسٹرز اور شبنم نے اپنا نام بنایا، شبنم کو تو آج بھی فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرارداد مقاصد نے جمشید نسروانجی کو کراچی کا ماسٹر پلان بنانے سے نہیں روکا، یہ آواری کو بڑی ہوٹل چین بنانے میں آڑے نہیں آئی، اس نے اردشیرکائوس جی کے نامور صحافی بننے میں روڑے نہیں اٹکائے۔ اس نے آغاخانیوں کے ہسپتالوں، کالجوں یونیورسٹیوں اور تجارتی ایمپائر کو مسمار نہیں کیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ قراداد مقاصد نے سب سے مبغوض طبقے قادیانیوں کے بھی بطور شہری نمایاں عہدوں تک پہنچنے میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کی۔ یہ بس چند حوالے ہیں ورنہ اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔</p> <p>ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ قرارداد مقاصد یا ریاست کی اسلامی شناخت کیا اقلیتوں کے لیے نقصان دہ ہے یا اس سے ان کے حقوق پر زد پڑتی ہے؟ اس پر کسی مسلمان یا قرارداد مقاصد کے خالقین میں سے کسی کے خیالات نقل کرنے کرنے کے بجائے آئیے متحدہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جسٹس کارنیلیس سے رجوع کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس کارنیلیس کا شمار پاکستان کے معتبر ترین چیف جسٹس میں ہوتا ہے، جب سیکولرز اور لبرلز کے روحانی مرشد جسٹس منیر نظریہ ضرورت گھڑ رہتے تھے، اسی بنچ میں ہوتے ہوئے جسٹس کارنیلیس نے اختلافی نوٹ لکھا اور اسے قانون کے منافی قرار دیا۔ ایوب دور میں بھی انھوں نے آمریت کے خلاف کئی فیصلے دیے۔ اس لیے آج بھی ان کا نام بڑے فخر کے ساتھ ایک بڑے اور اصول پسند قانون دان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے خود اعتزاز احسن سمیت کئی قانون دانوں کا ان کا نام انتہائی احترام سے لیتے سنا ہے۔ انھی جسٹس کارنیلیس کے چیف جسٹس بننے کے بعد الطاف حسن قریشی صاحب نے انٹرویو کیا جو ان کی کتاب " ملاقاتیں کیا کیا" میں شامل ہے۔ اس کا مطالعہ کر لیں تو سیکولر لابی کے پروپیگنڈے کے تاروپود بکھر جاتے ہیں۔</p> <p>چند سوالات اور ان کے جواب ملاحظہ کیجیے</p> <p>سوال - ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کس طرح قائم کر سکتے ہیں؟</p> <p>جسٹس کارنیلیس : ہمارے دل میں اسی قانون کا احترام پیدا ہو سکتا ہے، جو ہمارے احساسات کے مطابق ہو، اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہھر ہمیں اس نظام قانون کو نافذ کرنا ہوگا جسے عامۃ الناس پسند کرتے ہیں اور نظام قانون اسلامی قانون ہے۔ اہل پاکستان اپنے دلوں میں اسلامی شریعت کے لیے بےپناہ محبت اور شدید پیاس رکھتے ہیں۔ اور یہ پیاس ہر لحظہ بڑھتی رہے گی۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب جنم لےگا۔</p> <p>سوال - کیا اس عہد میں اسلامی قانون نافذ کیا جا سکتا ہے؟</p> <p>جسٹس کارنیلیس - کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو یہ کام اور بھی آسان ہے۔ عدالتیں موجود ہیں، اور ان کا نظام موجود ہے۔ لوگ قانونی ضابطوں کے عادی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون اس طرح مدون کیا جائے کہ اسے سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا آسان ہو جائے۔ قانون کے ماہرین اور اہل علم و فضل یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں تو اسلامی فقہ کے ذخائر ، قاضیوں کے عدالتی فیصلوں اور قانون نظائر سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کو مربوط اور قابل فہم صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ اگر انگریزی قانون کی لائبریریاں آباد ہو سکتی ہیں تو آخر اسلامی قانون پر اس نوع کا تحقیقی کام کیوں نہیں ہو سکتا۔</p> <p>سوال - ہماری عدالتوں میں سالہا سال سے انگریزی قانون رائج ہے، کیا اسلامی قانون رائج کرنے سے ایک ذہنی خلا نہیں پیدا ہو جائے گا؟</p> <p>جسٹس کارنیلیس - کوئی خلا پیدا نہیں ہوگا۔ دراصل بات سمجھ لینے والی ہے کہ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا، اس قانون کی ایک تاریخ اس کا ایک پس منظر، اس قانون کی طاقت سے بڑی بڑی سلطنتیں چلتی رہی ہیں اور ماضی قریب میں بھی یہ قانون عدالتوں میں رائج رہا ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی قانون تسلسل سے تما کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے، اگر آپ اسلامی قانون کو جدید طرز پر مدون کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے میں کوئی ذہنی خلا پیدا نہیں ہوگا۔ جب اسلامی قانون کی کتابیں وکلا بھی پڑھیں گے اور جج صاحبان بھی تو پھر یہی قانون ہماری قانونی فضا میں رچ بس جائے گا۔</p> <p>سوال - آپ نے فرمایا پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے، اسلامی قانون کے نفاذ سے اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟</p> <p>جسٹس کارنیلیس - میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اسلام اقلیتوں کے جان، مال اور حقوق کے تحفظ اور شخصیت کی نشو و نما کی ضمانت دیتا ہے۔</p> <p>سوال - بنیادی حقوق کا تصور اسلامی مزاج سے کوئی مطابقت رکھتا ہے؟َ</p> <p>جسٹس کارنیلیس - میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا مزاج بنیادی حقوق کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ وہ احترام آدمیت کا سبق دیتا ہے۔ (ملاقاتیں کیا کیا - صفحہ 191- 195 )</p> <p>لیجیے قرارداد مقاصد تو ایک طرف رہی، اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والا سب سے نامور شخص یہاں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا ہے اور اسے قوم کے احساسات کے مطابق بتا رہا ہے۔</p> <p>اصل مسئلہ قرارداد مقاصد کا نہیں بلکہ پاکستانی ریاست کی دستوری اسلامی شناخت کا ہے، قرارداد مقاصد کی آر میں سیکولر لابی اس پر حملہ آور ہے اور اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ لفظا بھی اس شناخت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ عملا تو آج تک پاکستان سیکولر لابی کے زیر تسلط رہا ہے اور وہ اس میں اسلام کے عملی نفاذ کے سوا سب کچھ کرتی رہی ہے۔ قرارداد مقاصد ہو یا آئین پاکستان ، اس میں بنیادی طور پر بات وہی کہی گئی ہے جو قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے حوالے سے سیکولر لابی کہتی ہے اور دونوں میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اقتدار و اختیار بذریعہ جمہور ہی استعمال کیا جائے گا مگر بس ایک قدغن رکھی گئی ہے کہ اس میں قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہو اور حلال و حرام کا خیال رکھا جائے اور یہ مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کے مطابق ہے۔ اگر اس سے بھی انکار ہے تو دائرہ اسلام میں رہنا بس تکلف ہی رہ جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرارداد مقاصد اقلیتوں کی شخصی و مذہبی آزادی اور سماجی ترقی میں کوئی قدغن نہیں لگاتی، اس کی کوئی مثال لفظا و عملا پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے تمام اعتراضات بے اصل اور بےبنیاد ہیں۔</p> <p>ایک بات جس کی اس تناظر میں بہت گردان کی جاتی ہے کہ کوئی غیرمسلم صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس پر قدغن قرارداد مقاصد نہیں بلکہ آئین پاکستان لگاتا ہے اور اسے کسی مولوی نے نہیں بلکہ سیکولر لابی کے محبوب اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا اور منظور کروایا تھا۔ تو بنیادی پر یہ اعتراض ایک سیکولر پر بنتا ہے ، مولوی یا قرارداد مقاصد پر نہیں۔ اسی سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ خود جمہوری اصولوں کے مطابق ایک اقلیتی نمائندہ کیسے سربراہ ریاست بن سکتا ہے؟ دستوری طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، تو دستوری سوال ہے کہ اسلامی ریاست کی سربراہی کوئی غیرمسلم کیسے کرےگا؟ اگر دستوری طور پر یہ بحث ختم ہوگئی ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے، تو کیا یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک ایسے شخص پر ایسی ذمہ داری ڈالی جائے جسے نہ اس کا ضمیر مانتا ہو اور نہ ہی اس کے اندر ایسا کرنے کی صلاحیت ہو؟</p> <p>تو بنیادی طور پر آپ کا ہدف اسلامی شناخت ہے نہ کہ قرارداد مقاصد؟ ویسے مناسب ہوتا کہ یہ بات کرتے ہوئے وجاہت صاحب اور ان کا قبیلہ امریکہ و برطانیہ و مغرب سے کوئی دلیل بھی پیش کرتا، کیا وہاں کوئی مسلمان سربراہ ریاست بن سکتا ہے؟ سربراہ ریاست کیا بننا ، وہاں تو مسلمانوں کو نکالنے کی بات ہو رہی ہے اور امریکہ کے صدارتی امیدوار اسے بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ کیا نہیں کر رہے؟</p> <p>جب سیکولر ریاست کے حوالے سے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسے فرد کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تو عملا اس کی مثال پیش کرنے سے وہ قاصر ہوتے ہیں۔ چلیے ہم فرانس اور مغرب کی بات نہیں کرتے، سوویت یونین کے زیرتسلط مسلم ریاستوں میں مسلم شناخت کے خاتمے کی بھی بات نہیں کرتے کہ وہ تو غیر مسلم تھے۔ مسلم معاشرے میں سیکولرازم کے حوالے سے فی زمانہ کمال اتاترک کو بطور آئیڈیل اور بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کا سیکولر طبقہ اس سے خاص قسم کا روحانی تعلق محسوس کرتا ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کے ساتھ ہی مذہب اور فرد کے خاص شخصی نوعیت کے معاملات کا جو حشر انھوں نے کیا ، وہ کیا کسی سے مخفی ہے؟ ممکن ہے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو مگر دنیا تو جانتی ہے تو کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کمال اتاترک کے ترکی کی طرح پاکستان میں بھی قرآن، اذان، حجاب، عربی رسم الخط سمیت ہر اسلامی شناخت پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ سیکولرزم کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے جو ترکی میں ظاہر ہوا، بنیاد اگر مذہب سے نفرت اور حقارت ہو تو اس کے مظاہر کو کیوں کر برداشت کیا جائے گا۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہب اور اہل مذہب کے معاملے میں جو نفرت و حقارت پاکستان کے اس گنے چنے محدود قبیلے میں پائی جاتی ہے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ان میں بھی ایک چھوٹا کمال اتاترک موجود ہے، بس غلبہ پانے کی دیر ہے کہ وہ یہاں بھی سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے گا۔</p> <p>اگر اس بابت جواب یہ ہے کہ یہ ریاستیں حقیقی سیکولرزم کی نمایندگی نہیں کر رہیں، حقیقی سیکولرزم کچھ اور ہے ۔ تو پھر آج کی اسلامی ریاستوں کی مثالیں دینا چھوڑ کر "حقیقی سیکولرزم" کے مقابلے میں "حقیقی اسلام" کو سامنے رکھیں۔</p> <p>وجاہت صاحب نے اپنے تازہ آرٹیکلز میں مولانا عثمانی صاحب کے بارے میں اپنے بےبنیاد اعتراضات پر تو کوئی کلام نہیں کیا البتہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر پر خوب زور صرف کیا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کیا قائداعظم نے پوری زندگی میں ایک ہی تقریر کی تھی؟ ایک لحظے کو ہم مان لیتے ہیں کہ 11 اگست کو قائداعظم کی تقریر کی وہی تشریح ہے جو وجاہت صاحب کر رہے ہیں اور اس تقریر کے ذریعے قائداعظم نے تحریک پاکستان میں اپنے خیالات اور تقاریر سے رجوع کر لیا تھا مگر 11 اگست کے بعد کیا وہ خاموش رہے تھے یا کچھ بولا تھا؟ اگر بولا تھا تو وہ 11 اگست کا تسلسل تھا یا تحریک پاکستان میں ان کی تقاریر، خیالات اور وعدوں کا؟ اگر قائداعظم کی بالخصوص 1940 سے ان کی وفات تک کی تمام تقاریر اور خیالات کو سامنے رکھا جائے گا تو ان کی 11 اگست کی تقریر کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اصلا وہ برصغیر میں ہونے والے خون خرابے اور انتقال آبادی کے خطرے کے پیش نظر اقلیتوں کو ایک جواب تھا کہ آپ یہاں رہیں ، پاکستان میں آپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور ریاست کو آپ کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ بعینہ یہی بات قرار داد مقاصد میں بھی کہی گئی ہے مگر ذرا رکیے کیا یہ اصول صرف قائد اعظم نے بیان کیا یا اسلام اور تاریخ میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ریاست مدینہ میں آنحضور ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام یہودیوں کے ہاں نوکری کرتے اور ان سے قرض لیتے ہیں، کیا یہ اس بات کی شہادت نہیں کہ خود ریاست مدینہ میں اقلیتوں کو مذہبی و سماجی تحفظ حاصل تھا، اور جب قائداعظم کہتے تھے کہ ہم نے 13 سو سال قبل جمہوریت کا سبق پڑھ لیا تھا تو یقینا ان کے سامنے مسلمانوں کا یہ تعامل موجود تھا۔</p> <p>ایک عجیب تضاد یہ ہے کہ وجاہت صاحب اور ان کا قبیلہ قائداعظم کے دستورساز اسمبلی سے خطاب کو تو اہمیت دیتا ہے مگر خود دستور ساز اسمبلی کو نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دستور سازی بلاشرکت غیرے قائداعظم کا اختیار تھا یا اسے دستور ساز اسمبلی نے کرنا تھا، اس سے بھی بنیادی بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے حرف آخر قائداعظم ہیں یا حضور سرورکائنات ﷺ ، اگرچہ ہمارے خیال میں خود قائداعظم قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ کو اپنا ہادی و رہنما مانتے تھے، جا بجا ان کی تقاریر میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔ پھر جب قائداعظم نے خود کہا کہ نئے ملک کی دستوری حیثیت متعین کرنا میرا نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے تو دستور ساز اسمبلی نے وہی کیا اور ملک کی دستوری حیثیت متعین کر دی۔ اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟ کیا یہ دستور ساز اسمبلی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ جمہوریت اور سیکولرزم کے عین مطابق نہیں کہ جمہور کی رائے کے مطابق دستور اور قانون سازی کی جائے؟</p> <p>کیا کبھی قائداعظم کو زبردستی سیکولر بنانے والوں نے یہ سوچا کیا ہے کہ ان کی ساری بے معنی کوشش سے قائداعظم ایک بے اصول ، موقع پرست اور جھوٹے سیاستدان کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ان کی شبیہ یہ بنتی ہے کہ انھوں نے تحریک پاکستان میں جھوٹے وعدے کیے اور اپنی سیاسی کامیابی کےلیے اسلام کو بطور نعرہ استعمال کیا اور مطلب نکلنے پر پتلی گلی سے نکل کر سیکولرزم پر ایمان لے آئے۔ یہ قائداعظم جیسی عظیم ہستی پر ایک بہتان عظیم کے سوا کیا ہے جنھوں نے اپنی کسی تقریر میں ایک دفعہ بھی سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ سیکولرزم کا ایک دفعہ حوالہ دیا؟ ہاں مگر جس طبقے کے جسٹس منیر فکری سرخیل اور حوالہ ہوں ، اس سے بہتان کیا ، کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے، جسٹس منیر نے تقریر گھڑ کر اسے قائداعظم سے منسوب کر دیا تو ان کے روحانی شاگرد جھوٹ اور پروپیگنڈے کے میدان میں کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دیں گے.</p> <blockquote> <p>وجاہت مسعود صاحب کا کالم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے .</p> </blockquote> <p><annotation lang="en">http://ibcurdu.com/news/ 21920</annotation></p> </section> </body>
5449.xml
<meta> <title>اُردو کے چند مشہور شعراء</title> <author> <name>آئی بی سی اُردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/21988/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1408</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اُردو کے چند مشہور شعراء
1,408
No
<body> <section> <p>اردو ادب کی تاریخ میں مشہور شعراء کے نام اور ان کا کام اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ہر ایک کا نام اور مختصر تعارف بھی لکھنے بیٹھا جائے تو حیات مستعار کم پڑ جائے گی۔ اور اس سے بھی مشکل مرحلہ ان میں سے یہ انتخاب کرنا ہے کہ کس کو لیا جائے اور کس کو چھوڑا جائے، کیوں کہ ہر نام اپنی جگہ نہ صرف یہ کہ انتہائی اہم ہے بلکہ اپنی ذات میں انجمن ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک خاص دور کا انتخاب کر کے اس میں پائے جانے والے شعراء کا مختصر تعارف اور ان کے کلام کے چند نمونے پیش کیے جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی خاص دور کا انتخاب بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ شعراء میں سے چند کا انتخاب مشکل ہے۔</p> <p>اردو لکھنے ، بولنے اور اس میں نثر و نظم کے میدان میں مشق سخن کرنے والے یوں تو ہر ملک میں کچھ نہ کچھ پائے جاتے ہیں لیکن اس زبان کا اصل وطن اور مسکن بر صغیر پاک و ہند ہے۔ اور دنیا میں جہاں کہیں اس زبان کے جاننے والے اور چاہنے والے پائے جاتے ہیں ان کا خمیر بھی اسی مٹی سے اٹھا ہوا ہے، ان کے اسلاف یہیں سے ہجرت کر کے دیار غیر میں جا بسے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے اور ان کی دو دو اور تین تین نسلیں وہیں جنمیں، وہیں پلی بڑھیں اور اسی رنگ میں رنگی گئیں۔</p> <p>پاک و ہند میں سے ہم تقسیم بر صغیر کے بعد پاکستان میں میدان شعر میں نام پیدا کر کے آسمان سخن کے درخشاں ستاروں کی حیثیت اختیار کرنے والے چند شعراء کے تبصرے پر اکتفا کریں گے۔</p> <p>ہمیں ہر گز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شاعر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی رذہنی و فکری رجحان سازی اور رویوں کی تشکیل میں معاشرہ، اس کے حالات اور اس کی روایات بڑی حد تک اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور شاعر چونکہ معاشرے کا چشم و دل ہوتا ہے اور اس کا مشاہدہ باقی لوگوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے اس لیے معاشرے کے اثرات پر اس کی نظر بھی باقی لوگوں سے گہری ہوتی ہے اور پھر یہ مشاہدہ اس کے کلام میں جھلکتا نظر آتا ہے، کہیں اس کا عکس مثبت ہوتا ہے اور کہیں اس معاشرتی عمل کا رد عمل اور اس کی مذمت و مزاحمت شاعر کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہے۔</p> <p>پاکستانی معاشرہ شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے اس لیے اس کے شعراء کے رجحانات بھی بدلتے رہے۔ ابتداء میں تو قبل از تقسیم والی سوچ اور انداز فکر ہی شعراء میں موجو دتھی لہذا وہی کلاسیکی اور قدیم روایت پر مبنی شاعری ہوتی رہی جس میں نمایاں نام شاعر قومی ترانہ پاکستان حفیظ جالندھری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے ہیں۔ یہ اگرچہ بچوں کے شاعر کے طور پر معروف ہیں لیکن ان کی غزل اور دیگر اصناف شاعری میں کلاسیکی رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔</p> <p>کلاسیکی رجحان زیادہ دیر چل نہ سکا کیوں کہ پھر پاکستان میں ترقی پسند سوچ نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ دائیں اور بائیں بازو کی آپس میں نبرد آزمائی بھی ہو ۔ ترقی پسند تحریک ایک وقت میں بہت معروف ہوئی تھی اور اردو شاعری کے بڑے بڑے نام اس میں موجود تھے۔ چند قابل ذکر اور نمایاں نام جن کی شاعری ہر خاص و عام کے پاس یکساں مقبول ہے اور جس کا اعتراف اپنے اور پرائے سب کرتے ہیں ان میں فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی اور عبد الحمید عدم ہیں۔ ترقی پسند رجحان میں ایک عنصر مزاحمت کا بھی ہے اور ان کی شاعری میں جا بجا اس کا رنگ نظر آتا ہے۔</p> <blockquote> <p>فیض احمد فیض</p> </blockquote> <p>فیض احمد فیض کے شعر کو بہت زیادہ مقبولیت ملی خاص طور پر کچھ اشعار اور غزلیں آج بھی زبان زد عام ہیں جن میں</p> <p>جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامتی رہتی ہے</p> <p>یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں</p> <p>اور اسی طرح سقوط مشرقی پاکستان کے بعد فیض نے جو اشعار کہے وہ بھی سب کے دل کی یکساں آواز ہیں ۔ اس میں فیض نے دکھ اور غم کے جذبات کو جو الفاظ کا پیرہن دیا ہے وہ فیض ہی کا کمال ہے۔</p> <p>ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد</p> <p>پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد</p> <blockquote> <p>عبد الحمید عدم</p> </blockquote> <p>عبد الحمید عدم کے کلام میں موضوعات اگرچہ نئے نہ تھے بلکہ وہی پرانے موضوعات گیسوئے جاناں اور جام و مینا ہی تھے لیکن ان کا انداز ایسا تھا جو سننے والے کو اک نیا سرور دے جاتا تھا۔</p> <blockquote> <p>احمد ندیم قاسمی</p> </blockquote> <p>احمد ندیم قاسمی بھی شاعری اور افسانہ دونوں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں، رجحان کے لحاظ سے ترقی پسند ہیں اوران کی شاعری میں جا بجا یہ رجحان نظر آتا ہے، مذمت و مزاحمت کا پہلو بھی کہیں کہیں عود کر آتا ہے کیوں کہ ترقی پسند اور قدامت پسند تحریکوں کا تصادم ہر دور میں رہا ہے اور اس کے اثرات جانبین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔</p> <p>مذکورہ بالا ناموں کے علاوہ بھی ایسے بے شمار نام ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی ڈگر پر چلے اور ترقی پسندی، مذمت، مزاحمت اور عشق و محبت جیسے موضوعات و رجحانات کا پرتو لیے شاعری کے میدان میں جھنڈے گاڑتے گئے۔</p> <p>تقریبا ہر عشرے کے شعراء کا رجحان اپنے سے ما قبل و ما بعد عشرے کے شعراء سے کسی نہ کسی حد تک علیحدہ ہے۔ اور اس کا سبب ملکی سیاسی حالات، مختلف تحریکیں اور مختلف مکاتب فکر و فن کی آپس میں چپقلش اور نوک جھونک ہیں کیوں کہ ایک شاعر اپنے وقت اور دور کے حالات کا عکاس ہوتا ہے۔</p> <heading>بیسویں صدی کے آخری عشرے میں اور اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں جن شعراء پر شہرت و مقبولیت کی دیوی مہربان ہوئی ان میں پروین شاکر، احمد فراز، منیر نیازی اور جیسے نام قابل ذکر ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں، یہ چند نام "مشت نمونہ از خروارے" کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔</heading> <blockquote> <p>پروین شاکر:۔</p> </blockquote> <p>ان کی شاعری نے نسوانیت کو آواز دی، جس طرح پروین شاکر نے عورت کے جذبات و احساسات کو خوبصورت اظہار بخشا یہ انہیں کا کام ہے، ان سے قبل یا بعد ایسا نمونہ دیکھنے کو نہیں ملا ۔ ان کی شاعری محبت اور عورت کے گرد گھومتی ہے۔ تعلیم اگرچہ انگریزی ادب کی حاصل کی لیکن اردو میں نام کمایا۔</p> <blockquote> <p>احمد فراز:-</p> </blockquote> <p>کوہاٹ میں ایک پشتون فیملی میں پیدا ہوئے، تعلیم اردو اور فارسی میں لی اور کئی حکومتی ذمہ داریوں پر فائز رہے ، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے بھی سربراہ رہے۔ ان کی شاعری میں رومانویت کا عنصر اگرچہ غالب ہے لیکن مزاحمت اور امید کے پہلو بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں آمریت کے خلاف ان کی نظمیں بطور خاص ان کی نظم "محاصرہ" بہت زیادہ مقبول ہوئی ۔ رومان پرور اورعشق محبت کے گرد گھومنے والے اکثر یاسیت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن فراز اپنے اشعار میں مایوسی کے بجائے اپنی صلاحیتوں کے مطابق عمل کر کے روشنی کی کرنیں پیدا کرنے کا درس دیتے ہیں</p> <p>شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا</p> <p>اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے</p> <blockquote> <p>منیر نیازی؛-</p> </blockquote> <p>منیر نیازی بیک وقت اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔ انہیں احتجاج کے شاعر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے بعض اشعار ضرب المثل بھی بن گئے جن میں اردو کی ایک نظم کا پہلا مصرعہ ' ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں' اور ایک پنجابی قطعہ ہے</p> <p>کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن</p> <p>کج گَل وچ غم دا طوق وی سی</p> <p>کج شھر دے لوک وی ظالم سن</p> <p>کج مينوں مَرن دا شوق وی سی</p> <p>مذکورہ بالا تحریر میں انتہائی اختصار کے ساتھ شعراء کے رجحان کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور صرف ان شعراء کو شامل کیا گیا ہے جو حیات مستعار گزار کر دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ اگرچہ موجودہ وقت کے شعراء میں بھی بہت بڑے بڑے نام ہیں جن میں</p> <blockquote> <p>افتخار عارف، انور مسعود ، قاسم پیر زادہ</p> </blockquote> <p>جیسے انتہائی قابل احترام اور مقبول ہیں لیکن اس ایک مضمون کی وسعت ساری تفاصیل کو سمونے کے لیے ناکافی ہے۔ ہر شاعر کا کام اور اس کا تعارف ایک مستقل کتاب کی وسعت کا متقاضی ہے اگر کتاب نہیں تو کم از کم ہر شاعر کے تعارف کے لیے ایک علاحدہ مضمون ناگزیر ہے۔</p> </section> </body>
5450.xml
<meta> <title>ماہ رجب کی مذہبی وتاریخی اہمیت</title> <author> <name>مولانا شریف ہزاروی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22022/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2088</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ماہ رجب کی مذہبی وتاریخی اہمیت
2,088
No
<body> <section> <p>اسلامی سال کے بارہ مہینے اپنے اندر کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان بارہ مہینوں پر مشتمل سال کی بھی ایک اہمیت ہے۔ قرآن کریم نے بارہ ماہ کے سال کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا ہے:</p> <p>ترجمہ: یعنی یقینا (ایک سال کے) مہینوں کی تعداد بارہ' اﷲ کی کتا ب (لوح محفوظ) میں ہے (اور یہ اس وقت سے مقرر ہے) جب اﷲ نے آسمان و زمین کو بنایا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ( ۱ )</p> <p>نبی اکرمﷺ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار (ذوالقعدہ' ذوالحجہ' محرم اور رجب) کی حرمت و عظمت بیان کرتے ہوئے حجتہ الوداع کے موقع پر یوم نحر کو اپنے ایک تاریخی خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ:</p> <p>"زمانہ لوٹ کر اپنی جگہ واپس آگیا اور اب مہینوں کی ترتیب وہی ہوگئی ہے' جو اﷲ نے تخلیق ارض و سماء کے وقت مقرر کی تھی ( ۲ )</p> <p>رجب کی عظمت و رحمت کے سارے عرب قائل تھے۔ مگر اسلام نے اس ماہ مبارک کی فضیلت یعض تاریخی واقعات کی بناء پر اور بڑھا دی۔</p> <p>لغت کی کتابوں میں رجب کے معنی "عظمت و بزرگی" کے بیان ہوئے ہیں اور ترجیب بمعنی تعظیم آیا ہے ( ۳ )</p> <p>زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کی تعظیم کے پیش نظر اس میں جدال و قتال منع تھا۔ قبیلہ مضر کے لوگ بطور خاص اس ماہ کی تعظیم کرتے اور قتل و غارت گری کو اس ماہ میں انتہائی معیوب جانتے تھے۔ اس لئے لغت کی بعض کتابوں میں رجب کو رجب مضر بھی کہا گیا ہے ( ۴ )</p> <p>نبی اکرمﷺ نے بھی اپنے خطبہ یوم النحر حجتہ الوداع میں اسے رجب مضر ہی فرمایا ( ۵ )</p> <blockquote> <p>رجب میں قربانی</p> </blockquote> <p>رجب کے مہینے میں زمانہ جاہلیت میں قربانی کرنے کا رواج بھی تھا اور یہ قربانی عتیرہ اور رجبیہ کہلاتی تھی۔ اسلام میں اس قربانی کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ابو ذر بن لقیط بن عامر عقیلی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یارسول اﷲﷺ! ہم زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں قربانی کیا کرتے تھے' جسے ہم خود بھی کھاتے اور جو کوئی ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے تھے۔ حضور ﷺنے اس کے جواب میں فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ( ۶ )</p> <p>زمانہ جاہلیت میں لوگ رجب کی قربانی بتوں کے تقرب کے لئے کرتے تھے' اس لئے حضورﷺ نے اس سے ایک موقع پر منع بھی فرمایا مگر اس ممانعت کا مقصد دراصل بتوں کے لئے ذبح کرنے سے منع کرنا تھا' نہ کہ مطلقا رجب میں ذبیحہ سے منع کرنا ( ۷ )</p> <p>اہل اسلام کے لئے ہر ماہ میں اﷲ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ بعض علماء نے اسے مباح کہا ہے بلکہ علماء ابن سیرین تو رجب میں باقاعدگی سے "رجبی" کرتے تھے ( ۸ ) جس کی صورت یہ ہوتی کہ جانور ذبح کیا جاتا اور دعوت عام ہوتی۔ ملا علی قاری اور علامہ عینی نے رجب کی قربانی کو ممنوع قرار دیا ہے ( ۹ )</p> <blockquote> <p>رجب میں قتال</p> </blockquote> <p>قریش کے ہاں ماہ رجب میں قتال کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا' اس لئے جب غزوہ بدر سے قبل نبی اکرمﷺ نے حضرت عبداﷲ بن حجش اسدی رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ماہ رجب میں ایک سریہ کے لئے صحابہ کو روانہ فرمایا اور انہوں نے بطن نخلہ میں قریش کے ایک قافلہ کو پایا جو عراق کی طرف جارہا تھا تو اس پر حملہ کرنے میں انہیں تردد ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر حملہ کرتے تو رجب کی تعظیم و حرمت کے پیش نظر یہ مناسب نہ تھا اور حملہ نہ کرتے تو اگلے ہی روز قافلہ حدود حرم میں داخل ہوجاتا پھر تو حملہ کرنا اور بھی نامناسب ہوتا۔ چنانچہ صحابہ نے کثرت رائے سے فیصلہ کرکے حملہ کردیا۔ مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اگرچہ قافلہ کا سامان تو مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا لیکن کفار کو یہ شور مچانے کا موقع مل گیا کہ نبی اکرمﷺ نے حرمت والے مہینوں کی حرمت و وقار کا بھی خیال نہیں کیا۔ نبی اکرمﷺ کو علم ہوا تو آپ بھی صحابہ کے اس عمل سے ناخوش ہوئے ( ۱۰ ) مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کی تسکین قلب اور صحابہ کی دلجوئی و عزت افزائی فرماتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائیں۔</p> <p>ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں آپ سے کہ ماہ حرام میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے' آپ فرمایئے کہ لڑائی کرنا اس میں بڑا گناہ ہے' لیکن روک دینا اﷲ کی راہ سے اور کفر کرنا اس کے ساتھ اور (روک دینا) مسجد حرام سے اور نکال دینا اس میں بسنے والوں کو اس سے بڑے گناہ ہیں اﷲ کے نزدیک اور فتنہ و فساد قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔</p> <p>اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشہر حرام اور رجب کی فضیلت کو اسلام نے خاص اہمیت دی ہے</p> <blockquote> <p>رجب میں عمرہ</p> </blockquote> <p>ماہ رجب میں عمرہ کا رواج زمانہ جاہلیت میں پایا جاتا تھا اور پورا عرب ماہ رجب میں عمرہ کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ پورے جزیرہ عرب سے ماہ رجب میں وفود مکہ مکرمہ کا رخ کرتے تھے اور ان قافلوں کو راستے میں کسی قسم کی لوٹ مار یا قتل و غارت گرمی کا خوف نہ ہوتا جبکہ دیگر مہینوں (ماسوا اشہر حرام) میں یہ ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ عربوںکے ہاں ایک رواج یہ بھی تھا کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم میں کاروباری منڈیاں قائم کی جاتیں اور حرم کے اردگرد بڑے بڑے تجارتی میلے لگا کرتے۔ ان مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ عمرہ کے لئے رجب ہی کا مہینہ مقرر تھا۔ اور اشہر حج میں عمرہ کرنا عربوں کے ہاں افجر الفجور سمجھا جاتا ( ۱۲ )</p> <p>بعض مسلمانوں میں رجب کے مہینے میں عمرہ کو بہت افضل سمجھا جاتا ہے' حالانکہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور یہ کسی بھی مہینے میں کیا جاسکتا ہے اور جب بھی کیا جائے گا اس کی فضیلت ایک سی ہوگی ماسوا ماہ رمضان کہ اس کے بارے میں ارشاد مصطفوی بڑا واضح ہے۔</p> <p>"رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے' یا میرے ساتھ حج کے برابر ہے" ( ۱۳ )</p> <blockquote> <p>ماہ رجب اور معراج شریف</p> </blockquote> <p>اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ واقعہ معراج کب اور کس ماہ میں پیش آیا۔ اور اس سلسلہ میں علماء سلف کے متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے ربیع الاول' کسی نے ربیع الثانی اور کسی نے رمضان المبارک کا مہینہ قرار دیا ہے۔ تاہم اکابر علماء کی ایک جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ رجب ہی کے مہینے میں پیش آیا ۔</p> <p>واقعہ معراج کے حوالے سے ۲۷ شب رجب اہل اسلام کے ہاں عبادات کی راتوں میں ایک رات شمار کی جاتی ہے۔ اسی رات لوگ بکثرت نوافل ادا کرتے اور ذکرواذکار کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں علماء حرم کے منع کرنے کے باوجود حرم شریف عمرہ کرنے والوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ میرے قیام مکہ مکرمہ 1983-1980ء کے دوران ایک بار امام حرم نے ماہ رجب کے ایک جمعہ کے خطاب میں کہا کہ لوگ خواہ مخواہ 27 ویں شب رجب میں عمرہ کو افضل سمجھ کر حرم میں رش (بھیڑ بھاڑ) کردیتے ہیں حالانکہ اس رات میں عمرہ کی کوئی فضیلت نہیں۔ اگلے ہی روز صبح حرم میں بعد نماز عصر جناب علامہ محمد علوی مالکی نے درس دیتے ہوئے اس کی پرزور تردید کی اور کہا "لوگوں کو اس رات میں عمرہ کرنے سے یہ کہہ کر روکنا کہ اس رات کی کوئی فضیلت نہیں' بہت بڑی غلطی ہے' سوال یہ ہے کہ عبادات کی کثرت عنداﷲ پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ؟ اگر ناپسندیدہ ہو تو بے شک منع کیجئے لیکن اگر مطلوب ہو تو کرنے دیجئے کہ اس بہانے کچھ لوگ عبادت کے لئے وقت نکال لیں گے۔ نیز یہ کہ ہر وہ دن افضل ہے جس دن کی نسبت محبوب خداﷺ سے ہے اور ہر وہ رات افضل ہے جس کو کسی بھی طرح نبی اکرمﷺ سے نسبت ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ اس رات کی نہ کوئی فضیلت ہے نہ افضلیت کسی طور بھی مناسب نہیں"</p> <blockquote> <p>ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات</p> </blockquote> <p>تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات پیش آنے کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہجرت حبشہ اولیٰ ہے' جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول اﷲﷺ عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں' سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے۔</p> <p>٭ سریہ عبداﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں' مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت' پہلا خمس' پہلا شہید اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا۔</p> <p>٭ 9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ' غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور یہ سند حاصل کی۔</p> <p>ترجمہ: (آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا) …</p> <p>۱۵</p> <p>٭ حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔</p> <p>دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجرت سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے' فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔</p> <p>٭ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583 ھ' 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔</p> <p>اس طرح ماہ رجب کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے جو اس کی مذہبی فضیلت (شہر حرام) ہونے کے علاوہ ہے۔</p> <blockquote> <p>رجب اور رجال اﷲ</p> </blockquote> <p>اعلیٰ حضرت مجدد گولڑوی پیر سید مہر علی شاہ صاحب کے ملفوظات میں ابدال و اقطاب کی تعریف میں حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اﷲ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ "رحبیون" کو بھی ابدال کہا جاتا ہے اور وہ تعداد میں چالیس ہوتے ہیں اور ان کے "رجبیون" کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماہ رجب میں اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں گشت کرتے ہیں۔ ان پر رجب کے پورے مہینے میں کشف وارد ہوتا ہے جس کا اثر بعض پر پورا سال رہتا ہے ( ۱۶ )</p> <p>حضرت شیخ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری چشتی رحمتہ اﷲ علیہ کا وصال 6 رجب 633 میں ہوا جن کے خلفاء و مریدین نے ہندوستان میں اسلام کی نشوونما کے سلسلہ میں تاریخ ساز کردار ادا کیا اور ظلمت کدہ ہند میں حضرت شیخ بزرگ رحمتہ اﷲ علیہ کی روشن کردہ شمع اسلام کی بھرپور حفاظت کا فریضہ انجام دیا۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے تقریبا تمام مراکز میں رجب کے مہینے میں خواجہ بزرگ کی یاد منائی جاتی ہے۔</p> <p>ان کے علاوہ کئی بزرگان دین کے ایام وصال رجب المرجب کے مہینے سے تعلق رکھتے ہیں ( ۱۷ )</p> <p>حواشی و حوالہ جات</p> <p>1۔ القرآن' سورۃ التوبہ'آیت 36</p> <p>2۔ صحیح البخاری' کتاب التفسیر' باب 705 ' حدیث 1773</p> <p>3۔ ابن منظور افریقی' لسان العرب' زیر مادہ "رجب"</p> <p>4۔ ایضا</p> <p>5۔ بخاری و مسلم</p> <p>6۔ سنن نسائی کتاب الاضحیتہ' حدیث 4556 ' نیز سنن ابی دائود' کتاب الاضحیہ</p> <p>7۔ شرح صحیح مسلم' ج 3 ' ص 171 ' بحوالہ ملا علی قاری</p> <p>8۔ علامہ بدر الدین عینی' عمدۃ القاری' ج 1 ص 89 ' مطبوعہ مصر</p> <p>9۔ ملا علی قاری' مرقات' ج 3 ' ص 315 ' مطبوعہ ملتان</p> <p>10۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری' ضیاء النبی ج 3 ' ص 376</p> <p>11۔ القرآن' البقرہ آیت 217</p> <p>12۔ السید رزق الطویل' مقال فی مجلہ الحج' شمارہ 1 / 51 ' ص 31 ' مکہ مکرمہ 1995ء</p> <p>13۔ صحیح مسلم' باب فضل العمرہ فی رمضان' باب 375 ' حدیث 2934</p> <p>14۔ مستدرک حاکم' ج 3 'ص 102 ' نیز ترمذی ابواب المناقب'فی مناقب عثمان</p> <p>15۔ مفتی فیض احمد فیض' ملفوظات مہریہ' ص 56</p> </section> </body>
5451.xml
<meta> <title>چترالیوں کا مذہب ، انسانیت</title> <author> <name>اختر گل</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22045/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1099</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
چترالیوں کا مذہب ، انسانیت
1,099
No
<body> <section> <p>پہاڑی جنگجو،خودسر،سخت جان ،قابو میں نہ آنیوالے،آئین و قانون شکن،اپنے فیصلوں میں آزاد،کسی کی بالادستی تسلیم نہ کرنے والے،جدید اور مہذب دنیا سے دور رہنے کے سبب تہذیب و تمدن سے بھی بے خبر،تنگ نظراورمعمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کرنے والے اور کئی عشروں و صدیوں تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہنے والے لوگ ہیں ،یہ نہ خود کسی کے کام آتے ہیں اور نہ کسی کو کام کرنے کا موقع دیتے ہیں ، ہر وقت ایک دوسرے کے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں،دشمنیاں،نفرتیں اور کدورتیں ان کا خاصہ ہیں،ان سے دور رہنا ہی بہتر ہے،یہ وہ باتیں تھیں جو عرصہ تک برصغیر پر حکمرانی کرنے والی انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کہی تھیں اورآج بھی مغرب کی اچھی خاصی آبادی ان باتوں پر یقین کرتی ہے تاہم سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلند،برف پوش پہاڑوں کے دامن میں گھرے ،سنگلاخ چٹانوں میں قید،تنگ وادیوں میں گزر بسر کرنے والوں اورکسی حد تک ناقابل رسائی علاقوں میں رہنے والے چترالی عوام نے اپنے کردار اورعمل سے اس مفروضے کوغلط ثابت کرتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ پہاڑوں پر رہنے والے اور ظاہری طور پرجدید دنیا کی نظروں سے اوجھل عوام بھی تہذیب و تمدن،مہمان نوازی اورمحبت و بھائی چارے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔</p> <p>آج کے چترال پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ چترالیوں میں ہر وہ خوبی بدرجہ اتم موجودہے جس کی جدید دنیاصرف تصور کر سکتی ہے،زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں چترالی عوام نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو،اندرون و بیرون ملک مختلف اہم اور کلیدی عہدوں پر تعینات چترالی عوام خدمات انجام دے رہے ہیں جو بلاشبہ ان کی صلاحیتوں اورقابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے،چترالی عوام نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وہ صرف پہاڑوں تک محدود ہیں بلکہ وہ موقع ملنے پر کسی بھی شعبہ زندگی میں اپنا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔</p> <p>چترال میں کئی ایک زبانیں بولی جاتی ہیں جواپنی الگ پہچان رکھتی ہیں اس حوالے سے ناروے کے زبان دان جارج مارگن سٹیرن نے چترال کودنیا کاوہ واحد علاقہ قراردیا ہے جہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں ان زبانوں میں کھوار،کالاشا من،پالولا،دمیری ،گواربھٹی، نورستانی،یدغا، بروشسکی، گجر، وخی، کرغز،فارسی اور پشتو شامل ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ مختلف مذاہب اورتہذیبوں کے پیروکار صدیوں سے پیار ومحبت کے ساتھ رہ رہے ہیں،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امن و امان کے حوالے سے چترال دنیا کا مثالی علاقہ ہے جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔</p> <p>دیر کے شمال،نورستان اور کنڑ کے مشرق،صوبہ بدخشاں کے جنوب اور گلگت بلتستان کے مغرب میں واقع منفرد محل وقوع کا حامل ضلع چترال 3 لاکھ نفوس پر مشتمل علاقہ ہے،ضلع میں 24 یونین کونسلیں اور 6 سب تحصیلیں ہیں،آب و ہوا کے لحاظ سے چترال میں گرمیوں میں بارش سرے سے نہیں ہوتی جبکہ درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تاہم سردیوں میں یہاں ریکارڈ سردی ہوتی ہے اور درجہ حرارت منفی 10 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، 2 فٹ تک برف معمول جبکہ اکثر 20 میٹر یا 70 فٹ تک بھی برف ریکارڈ کی گئی ہے۔</p> <p>چترال مقامی زبان کالفظ ہے جس کے معنی میدان کے ہیں،چترال کو مقامی بولی میں چترار بھی کہاجاتاہے 1969ء تک یہ آزاد ریاست تھی تاہم بعد ازاںیہ ریاست سوات اوردیرکی طرح پاکستان میں ضم کر دی گئی۔</p> <p>14833 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے چترال کے علاقے کیلئے قومی اسمبلی میں ایک جبکہ صوبائی اسمبلی میں دو نشستیں ہیں، چترال کے عوام اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے یا یوں کہیئے کہ چترال کے عوام احسان فراموش نہیں،گزشتہ دور میں سابق آرمی چیف و صدرپرویز مشرف نے چترال کے عوام کا دیرینہ مسئلہ لواری ٹنل حل کرنے کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے اور کئی عشروں سے تعطل کا شکار اس منصوبے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز جاری کئے،لواری ٹنل وہ واحد راستہ ہے جس کی تکمیل سے چترال کے عوام کا ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ سال کے بارہ مہینے رابطہ بحال رہ سکے گا، ورنہ توموسم سرما میں لواری پاس بند ہونے کی وجہ سے چترال کے عوام کو پڑوسی ملک افغانستان کے راستے اپنے علاقے جانا پڑتا ہے،لواری ٹنل منصوبے کی تکمیل میں اہم پیشرفت کرنے پرچترال کے عوام سابق صدر پرویز مشرف کے احسان مندرہے اورگیارہ مئی کے عام انتخابات میں پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو جہاں ملک بھر میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ پارٹی سربراہ کو بھی نا اہل قرار دیا گیا،چترال وہ واحد علاقہ تھا جہاں اے پی ایم ایل کا امیدوار قومی اسمبلی شہزادہ افتخارالدین اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر اسی جماعت کا ٹکٹ ہولڈرغلام محمد کامیاب ہوا جبکہ گزشتہ دور حکومت میں صوبائی وزیر بہبود آبادی سلیم خان کو علاقے کیلئے گرانقدر خدمات انجام دینے پر گیارہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں چترالی عوام نے بھاری اکثریت سے کامیابی دلا کر ثابت کر دیا کہ چترالی احسان فراموش نہیں اور احسان کا بدلہ احسان سے دیتے ہیں۔</p> <p>چترال کے عوام کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ماضی اور روایات سے جڑے ہوئے ہیں،چترال ٹاؤن اور چند اہم بازاروں کے علاوہ پوری آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور 1200 کے قریب دیہات بونی،دروش اوردیگرقبائل پر مشتمل ہے،چترال کی اہم وادیوں میں کیلاش،شندور،ایون اور سینشالی شامل ہیں،کیلاش کی ایک خاتون ماہر ارضیات سعید گل کیلاشی کے مطابق"اگر کسی کو اخلاق اور انسانیت سیکھنا ہے تو چترال آجائے آج تک وہاں کسی نے دوسرے کا مذہب و عقیدہ نہیں چھیڑا، ہم چترالی کسی کا مذہب نہیں اس کی انسانیت دیکھتے ہیں، انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے،میراچچا پکا مسلمان ہے اور پانچ وقت کا نمازی ہے جبکہ ہم غیرمسلم ہیں اس کے باوجود ہم ایک ہی گھر میں بخوشی رہ رہے ہیں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیلاشی وہ واحد کمیونٹی ہے جو موت پر بھی جشن مناتی ہے،چترال دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل ایک ہندو ریاست تھی اور یہاں بدھ مت کے آثاربھی ملتے ہیں،چترالیوں میں ایک اہم خوبی ان کا جذبہ ایثار ہے دوسروں کے کام آنا چترالی عوام اپنا سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں،ہزارہ یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرعبدالصمد کے مطابق چترال تاریخی ورثے سے مالا مال علاقہ ہے ، یہاں مختلف مقامات پر عظیم تاریخی ورثے کے آثار ملے ہیں اورمختلف مقامات پرمزیدبھی دریافت کئے جا رہے ہیں ان کے مطابق چترال کے عوام اپنی مٹی سے پیار کرنے والے اورمہمان نواز و جفاکش لوگ ہیں اورانہی خوبیوں کی بدولت آج کی جدید دنیا میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔</p> </section> </body>
5452.xml
<meta> <title>کہیں آپ بزاخفش تو نہیں؟</title> <author> <name>ضیاالدین یوسف زئی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22054/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1550</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کہیں آپ بزاخفش تو نہیں؟
1,550
No
<body> <section> <p>میرا ایک دوست گل خان یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ ہے۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں اس کی اپنی ایک انفرادیت اور شناخت تھی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اتفاقاً اسے ایک مہربان اور متمول شخصیت سمندر خان نے ملازمت دی۔ میرا دوست عام طور پر مخصوص قسم کے لوگوں سے جلد متاثر ہوجاتا تھا لیکن سمندر خان کی سایۂ عاطفت نے اس کی پوری شخصیت ہی بدل ڈالی۔ اب میں جب گل خان سے ملتا ہوں تو وہ خود معدوم ہوچکا ہے۔ اس کی اُٹھک بیٹھک، چال ڈھال اور سننے اور بولنے کے ہر انداز میں سمندر خان ہی سمندر خان جھلکتا ہے۔ اب جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو میں گل خان سے کم اور سمندر خان کی شبیہ یا ہمزاد سے زیادہ ملتا ہوں۔ ایک عرصہ ہوا کہ گل خان نے اپنے دماغ سے سوچنا چھوڑ دیا ہے اور وہ سمندر خان کا یو ایس بی بن چکا ہے۔ وہ سمندر خان سے جو کچھ سنتا ہے، من و عن پورے گرافکس کے ساتھ ڈِس پلے کرتا ہے۔ میں نے کئی بار یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ جب سمندر خان اپنے پورے علمی رعب اور شاہانہ انداز سے بولتا ہے تو گل خان مریدانہ اور درباری اطاعت کے ساتھ سر تسلیم خم کرکے ا س کے ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ ایسے لمحوں میں مجھے وہ گل خان کم اور 'بز اخفش 'زیادہ لگتا ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں "بزاخفش" کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ پرانے زمانے میں اخفش نامی ایک شخص تھا جس نے ایک بز یعنی بکری پال رکھی تھی۔ وہ اپنی بکری کو باندھ کر اس کے سامنے بلند آواز سے کتاب پڑھتا تھا۔ بکری اپنی فطرت کے مطابق سر ہلاتی تھی تو وہ سمجھتا کہ بکری اس کا کہا درست سمجھ کر سر ہلاتی ہے۔ وہ یہ دیکھتا تو خوش ہو جاتا۔</p> <p>لیکن یہ رویہ صرف ایک گل خان تک محدود نہیں ہے۔ سچ پوچھو تو ہمارے ہاں اب ایسے گل خانوں کے لشکر موجود ہیں۔ میں 2012ء میں اپنے گاؤں کے قریب دوسرے گاؤں اپنی بہن کے گھر چلا گیا تھا۔ نمازِ جمعہ کا وقت ہوا تو اسی گاؤں کی مسجد میں گیا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کم عمر لڑکا سفید پگڑھی باندھے ہوئے خوب تیل لگا کر چمکتا دمکتا ہوا مسجد کے منبر پر براجمان ہے۔ مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہے اور سب بوڑھے، جوان، چھوٹے مولانا صاحب کو بڑی توجہ سے ثواب دارین حاصل کرنے کی غرض سے سن رہے ہیں اور بعض تو مولانا کی توجہ اور خدا کی رحمت کے حصول کے لیے مولانا کی ہر بات پر اثبات میں سر بھی ہلا رہے تھے۔ میں جس لمحے مسجد میں داخل ہوا تو مولانا صاحب حجرِاسود پر گفت گو فرما رہے تھے۔ نمازیوں کو متوجہ کرکے کہنے لگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حجرِ اسود کا رنگ سیاہ کیوں ہے؟ چوں کہ سوال و جواب دونوں کا حق صرف مولانا ہی کو حاصل ہوتا ہے، اس لیے نمازیوں کا تجسس پیدا کرکے خود ہی جواب دینے لگے۔ فرمایا کہ دراصل حجرِاسود پہلے سفید رنگ کا پتھر تھا لیکن صدیوں سے اربوں حاجیوں کے چومنے کی وجہ سے ان کے سارے گناہ اور کالے کرتوت اس پتھر کے ساتھ چمٹ گئے اور یہ سفید پتھر کالا ہوگیا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ مولانا صاحب مزید کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں قادیانی حجرِ اسود کو چرا کر لے گئے تھے اور حجرِ اسود کو جب خلیفہ نے سپاہیوں کو بھیج کر بازیاب کرایا تو وہ ٹوٹا ہوا تھا۔ خلیفہ نے اسے ریشمی تار سے سلوا کر دوبارہ نصب کرادیا۔ مولانا کی تاریخ اسلام پر اس قسم کی موشگافیوں کو سن کر میرا خون کھولنے لگا۔ دل نے بہت چاہا کہ اٹھ کر مولانا کو چیلنج کروں لیکن یہ پشتون روایت آڑے آئی کہ مہذب مہمان پرائے گاؤں میں فساد برپا نہیں کرتے۔ لہٰذا واہیات سننے کے باوجود میں ان تمام بزاخفشوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا جو صرف ہاں میں سر ہلاتے تھے۔ اس وقت مجھے اپنے سوات کے عظیم شاعر احمد فواد کا یہ شعر یاد آ رہاہے۔</p> <p>مخ کے چرتہ یو نیم لیونے بہ وو</p> <p>اوس خو زمونگ زان لہ دلتہ کلی دی</p> <p>(پہلے یہاں کوئی ایک آدھ پاگل موجود ہوتا تھا لیکن اب تو یہاں ان کے پورے کے پورے گاؤں آباد ہیں)</p> <p>چلیں آپ خود کو بھی آزما لیجئے کیوں کہ یہ صرف ایک مسجد کی کہانی نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی مذہبی اجتماع کے جم غفیر میں جانے کا اتفاق ہوا ہو اور آپ کسی 'امیرِ کبیر' کے حورو غلماں سے متعلق میٹھی کہانیاں سنتے رہے ہو اور یا کوئی مرشد اپنے پیر کامل کی کرامات کے حوالے سے دیومالائی قصے سناتا رہا ہو اور آپ کے دل میں اس سے سوال کرنے کی جرأت پیدا ہوئی ہو اور نہ جسم میں اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت اور آپ بھی اس کی ہر بات کو بلا سوچے سمجھے قبول کرتے رہے ہو تو آپ کو یقین کے ساتھ شک ہونا چاہئے کہ کہیں آپ بزاخفش تو نہیں۔</p> <p>چلیں اب ذرا اس سے بھی سخت امتحان سے گزرتے ہیں۔ اگر آپ کسی ٹی وی اینکر کے فین یا دیوانے ہیں اور وہ اینکر علم کلام میں ماہر ہونے کے ساتھ فن کار بھی ہے اور یہ آزمائش آپ کے لیے دو وجوہات کی بنا پر زیادہ مشکل ہے کیوں کہ ٹیلی وژن کا یہ علامہ اپنے بودو باش میں الٹرا ماڈرن ہے لیکن فکر و نظر کے لحاظ سے الٹر فرسودہ ہے۔ لہٰذا یہاں دھوکا کھانے کا زیادہ امکان ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ٹی وی پر جس طرح ہر شے کی تصویر دس فی صد بڑی لگتی ہے، اس طرح اس چھوٹے سکرین پر کہی جانے والی ہر بات پر لوگوں کو دس گنا زیادہ اعتبار ہوتا ہے۔ اب اگر اس چھوٹے طاقت ور سکرین پر آپ کسی نام نہاد عاشقِ رسولؐ اور علامہ سے یہ بات سنتے ہیں جس میں وہ اپنے معتقدین سے براہِ راست دریافت کرتا ہے کہ "کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے پھولوں میں خوش بو کہاں سے آئی ہے اور پھر وہ کسی خاص جذبہ کے تحت مستغرق ہوکر آنکھیں بند کرتا ہے اور خودہی جواب دیتا ہے کہ "اُمہات المؤمنین میں سے ہماری ایک ماں حضورؐ کا پسینہ مبارک ایک بوتل میں اکھٹا کرتی تھیں اور پھولوں پر چھڑکتی تھیں تو آج دنیا بھر کے پھولوں میں جو خوش بو ہے، یہ اس پسینے کی برکت سے ہے۔" اب اگر اس قسم کی گفت گو سن کر آپ سوال کرنے کی بجائے فرطِ جذبات سے رونے لگتے ہیں تو آپ کو اپنی حالت پر رونا چاہئے۔ کیوں کہ آپ کو یقین کے ساتھ شک ہونا چاہئے کہ کہیں آپ بزاخفش تو نہیں۔</p> <p>بات لمبی ہوتی جا رہی ہے، سمیٹنا چاہتا ہوں۔ بزاخفش کئی طرح کے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً قدامت پسند، لبرل، قوم پرست، مسلک پرست اور نسل پرست۔ لیکن ہمارے ہاں صرف قدامت پرستوں اور رجعت پسندوں کا پلڑا بھاری ہے۔ اب آپ سے میرا آخری سوال ان چند شخصیات کے بارے میں ہے جن کی کچھ باتیں مجھے بھی اچھی لگتی ہیں لیکن میں کبھی بھی اپنے دل و دماغ کی کنجی دوسروں کے حوالے نہیں کروں گا۔ میں موجود ہوں اور موت سے پہلے معدوم نہیں ہونا چاہتا۔ اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کہیں آپ کے دل و دماغ پر مولانا طارق جمیل صاحب، عامر لیاقت حسین، ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب، جناب جنید جمشید یا کسی دوسری طلسماتی یا کرشماتی شخصیت کا پورا قبضہ تو نہیں۔ کیا آپ کے وجود کے اندر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب تو سانس نہیں لے رہے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ کو یقین کے ساتھ اپنے اوپر شک ہونا چاہئے کہ کہیں آپ بز اخفش تو نہیں۔</p> <p>اس مضمون کا مقصد یہ شیخی بگھارنا نہیں کہ میں کوئی بڑا سقراط ہوں کیوں کہ عمر کے ایک حصہ میں ، مَیں بھی بزاخفش رہا ہوں۔ یہ میرے زمانۂ طالب علمی کا وہ دور تھا جب میں ضیاء الدین کے ساتھ پنج پیری لکھا کرتا تھا اور پی ٹی وی پر مولانا طاہر القادری اور طالب جوہری کی تقاریر سننے کے لیے پاگل رہتا تھا او ر ان کی ہر بات کو نیوٹن کے قوانین کی طرح سچ مانتا تھا۔ لیکن یہ صرف دو تین برس کی بات تھی۔ مجھے خصوصاً ان مذہبی سیاسی شخصیات پر ترس آتا ہے جن کی سوچ کے ارتقا پر کئی دہائیوں سے جمود طاری ہے۔ میں اسّی کی دہائی میں سولہ سال کی عمر میں جو سوچتا تھا، وہ ساٹھ ستر سال کی عمر میں اب بھی وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ مجھے مجاہد حسین خٹک کے مضمون "اسلامی انقلاب یا سراب" میں یہ بات دل کو بہت اچھی لگی کہ ہر فرد کو یہ حق اور آزادی ہونی چاہئے کہ وہ خود سچائی کی تلاش کریں۔ برسبیل تذکرہ اگر کل قیامت کے دن جزا و سزا کے دوسرے حساب کتاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہم سے دریافت کرے کہ "میں نے آپ کو دو آنکھوں، دو کانوں، ایک زبان اور ہمہ وقت سوچنے والے دماغ کے ساتھ ایک مکمل وجود دے کر 'اصل' پیدا کیا تھا۔ اس توقع کے ساتھ کہ آپ اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے وجود کا ثبوت دیں گے لیکن آپ نے کسی اور کی کاربن کاپی بن کر کیوں اپنی اصلیت اور انسانی عظمت گنوا دی، آپ اشرف المخلوقات بننے کی بجائے بزاخفش کیوں بنے؟ تو اس وقت ہمارا جواب کیا ہوگا؟</p> </section> </body>
5453.xml
<meta> <title>چند یادیں احمد رشدی کی</title> <author> <name>راضیہ سید</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22079/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1061</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
چند یادیں احمد رشدی کی
1,061
No
<body> <section> <p>مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت کالج کی طالبہ تھی۔ ایک گلوکار کی مدھر بھری آواز نے میری سماعتوں کو جیسے قید سا کر لیا تھا۔ بات کچھ یوں تھی کہ ہمارے وین ڈرائیور موسیقی کے بغیر گاڑی چلانے کے عادی نہیں تھے، تو ہمیں موسیقی سننی ہی پڑتی تھی، لیکن یہ بات بہرحال ماننے کے لائق ہے کہ ہمارے وین ڈرائیور کا میوزک کے بارے میں ذوق بہت اعلیٰ پائے کا تھا۔</p> <p>خیر آج میں اپنی پروفیشنل لائف میں ہوں لیکن اس خوب صورت آواز کا جادو اب تک نہیں بھلا پائی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر پاکستانی فلموں کو اچھی موسیقی، بہترین دھنوں اور ورسٹائل گلوکاروں کا حسین امتزاج میسر نہ ہوتا تو وہ کبھی اتنی مقبول نہ ہوتیں۔</p> <p>احمد رشدی بھی ایک ایسا ہی نام ہے جو اپنی انفرادیت کے باعث ایک جداگانہ مقام رکھتا ہے۔ ایک ایسا گلوکار جنہوں نے اس وقت اپنے آپ کو منوایا جب پلے بیک گائیکی میں شہنشائے غزل مہدی حسن، ایس بی جون، مسعود رانا، سلیم رضا اور دیگر سب ہی اپنا اپنا کردار نبھا رہے تھے۔</p> <p>میری طرح آپ سب کو بھی یاد ہوگا کہ ہم سبھی بچپن میں ان کے دو مشہور گانے تو ضرور گنگنایا کرتے تھے۔ ایک گانے میں کچھ جھیل سی آنکھوں کا ذکر تھا اور پھول سے چہروں کی باتیں بھی تھیں، جی بالکل احمد رشدی نے وہ گانا ہمارے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے لیے گایا تھا اور اس فلم کا نام 'ارمان' تھا اور گانا اب یہ بھی کیا بتانے کی ضرورت ہے جناب گانا وہی 'کو کو کورینا'۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس گانے کو جنوبی ایشیاء میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی گانے سے احمد رشدی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہی شہرت بچوں کے لیے گائے جانے والے گیت 'گول گپے والا آیا، گول گپے لایا' کو حاصل ہوئی۔</p> <p>48 سال کی عمر پانے والے یہ ورسٹائل گلوکار 1934 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا اور والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔</p> <p>احمد رشدی ابتداء ہی سے اداکار بننا چاہتے تھے لیکن قسمت انہیں موسیقی کی طرف لے آئی۔ انہوں نے ایک درجن کے قریب فلموں میں ثانوی رول بھی کیے، لیکن کامیابی نہ مل سکی، تاہم اپنی خوب صورت آواز اور انداز کی بنا پر وہ فلم کی کامیابی کی ضمانت ضرور بن گئے۔</p> <p>رشدی کی گائیکی کے جس جس پہلو کا احاطہ کریں، وہ مکمل نظر آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ انہوں نے سولو، ڈسکو، پاپ میوزک، کلاسیکل میوزک، ہپ ہاپ میوزک، راک اینڈ رول ان تمام اصناف میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، لیکن غزل کے میدان میں بھی اپنا کردار بھرپور انداز سے نبھایا۔ میں خاص طور پر یہ کہوں گی کہ انہوں نے نصیر ترابی کی غزلوں کو ایک نئی زندگی بخش دی۔</p> <p>احمد رشدی نے موسیقی کی کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ کسی بھی گانے پر ایموشنل اداکاری بھی ایسی کرتے تھے کہ دیکھنے والا کھو سا جاتا تھا۔</p> <p>کامیڈی ہو یا پیروڈی، وہ اپنی محنت سے گانے کے بولوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ انہوں نے وحید مراد کے لیے تقریباً 150 گانے گائے جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ موسیقار ایم اشرف کی ترتیب کردہ دھنوں پر ایک سو سے زائد گانے اور مالا کے ساتھ ایک سو دوگانے گانا بھی انہی کا اعزاز ہے۔</p> <p>پانچ نگار ایوارڈز، بیسٹ سنگر آف ملینیئم، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، لیجنڈ ایوارڈ، لکس اسٹائل ایوارڈ، اور 2003 میں ان کی وفات کے بیس سال بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ستارہء امتیاز سے نوازنا بھی میں سمجھتی ہوں کہ ان کی موسیقی کے میدان میں خدمات کا بہت کم اعتراف ہے۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ قومی ترانہ گانے والے دس گلوکاروں میں احمد رشدی بھی شامل ہیں۔</p> <p>وہ کلاسیکل موسیقی سے واقفیت نہیں رکھتے تھے تاہم ہر لفظ کو سر کے مطابق ڈھال لیتے تھے۔ 1940 میں انہوں نے فلم 'آنچل' کے لیے ایک المیہ گیت 'کسی چمن میں رہو تم' گایا۔ انہوں نے اس سے قبل المیہ گیت نہیں گائے تھے اور فلم انڈسٹری میں سیلم رضا مرحوم کا طوطی ہی بولتا تھا۔</p> <p>موسیقار خلیل احمد نے ان کے بارے میں فلم ڈائریکٹر کو بھی کہا تاہم کوئی بھی اتنا بڑا رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن سلیم رضا اور پھر خلیل احمد نے اپنی نوکری کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب کو قائل کیا اور یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔</p> <p>احمد رشدی نے بہت سی زبانوں میں گانے گائے اور ایک پاکستانی فلم کے لیے انگریزی میں بھی گانا گایا۔ اردو، گجراتی، مراٹھی، تامل، تلگو، بھوجیوری، سب زبانوں میں گانے گائے لیکن پنجابی گانوں سے زیادہ ان کے اردو کے شوخ گانے زیادہ مشہور ہوئے۔</p> <p>احمد رشدی بڑے، بوڑھے، بچوں اور خواتین سب میں یکساں مقبول تھے۔ 1954 میں انہوں نے مہدی ظہیر کا لکھا ہوا گیت 'بندر روڈ سے کیماڑی تک' گایا اور یہ بچوں کے پروگرام 'بچوں کی دنیا' کے لیے تھا۔</p> <p>احمد رشدی نے ریڈیو سے موسیقی کے سفر کا آغاز کیا اور 1983 میں آخری گانا آذر حفیظ کا تحریر کردہ گایا، جس کے بول کچھ یوں تھے 'آنے والو سنو' گایا۔ 1959 میں لاہور مدعو کیے گئے جہاں انہوں نے فلم 'راز' کے لیے گانے ریکارڈ کروائے۔ ایک گانا جو اس فلم کے لیے انہوں نے زبیدہ خانم کے ساتھ گایا 'چھلک رہی ہیں مستیاں'، وہ آج بھی لوگوں کے ذہن و دل پر نقش ہے۔</p> <p>فلم 'انوکھی' میں ایک مزاحیہ گانا تھا 'ماری لیلی نے ایسی کٹار'؛ یہ گانا لہری صاحب پر فلمایا گیا تھا اور یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ یہ گانا بہت مقبول ہوا) اور اداکار لہری کے فنی سفر پر اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ پرانی فلموں کے شائقین 'مہتاب' فلم کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا گانا 'گول گپے والا آیا، گول گپے لایا' سنتے ہی کھٹے میٹھے گول گپے ذہن میں آتے ہیں۔</p> <p>احمد رشدی پاکستانی فلم انڈسٹری کا ستون تھے۔ انہوں نے 583 فلموں کے لیے کم و بیش پانچ ہزار گیت گائے، جس میں ہندوستانی فلم 'عبرت' بھی شامل ہے۔</p> <p>یہ عظیم گلوکار آج ہم میں نہیں اور اس فانی دنیا کو 11 اپریل 1983 کو چھوڑ گئے، لیکن 'کو کو کورینا' کی جھیل سی گہری آنکھیں اب بھی ذہن کے کسی کونے میں موجود ہیں۔</p> <p>بشکریہ ڈان نیوز</p> </section> </body>
5454.xml
<meta> <title>زمانہ تبدیل ہوا تاریخ نہیں</title> <author> <name>اسامہ محمد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22190/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>963</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
زمانہ تبدیل ہوا تاریخ نہیں
963
Yes
<body> <section> <p>رومن قوم کے زوال کے بارے میں یورپین تاریخ دانوں نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ بڑے بڑے ابواب محض اس تاریخی زوال کے اسباب پر رقم کئے گئے ہیں لیکن رومن حکمرانوں اور اشرافیہ کی جانب سے ان اسباب کی وجوہات کے مصنوعی ازالے کا بھی ذکر ہمیں تاریخ میں ملتا ہے ۔</p> <p>یہ اسباب کیا تھے ؟ حد سے زیادہ کرپشن کا بڑھ جانا، غلاموں کی کثرت اور سستی لیبر کی وجہ سے رومن مڈل کلاس میں بے روزگاری کا حد سے تجاوز کرنا ، رومی سلطنت کی وسعت کے لحاظ سے بھاری فوجی اخراجات نے لوگوں پر سخت ترین ٹیکسوں کی بھرمار کررکھی تھی ، رومی حکمرانوں اور اشرافیہ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا ، رومن سینٹرز اور سیزروں کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی اختلاف اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھاری رشوت کا استعمال عام ہوچکا تھا ، مشرقی یورپ سے اٹیلا دی ہن اور جنوب کی جانب سے جرمینین قبائل کی شورشوں نے رومی فوج کو متواترجنگ کی حالت میں رکھنے کی وجہ سے بددل کردیا تھا۔</p> <p>لیکن ان وجوہات کا اگر براہ راست اثر پڑ رہا تھا تو وہ رومی عوام تھے جن پر نئے نئے ٹیکس لگا کر ان کا خون بری طرح نچوڑا جاتا تھا اور جب کبھی ردعمل کی فضا محسوس کی جاتی تو رومی حکمران اور اشرافیہ "گیمز" کا اعلان کرا دیتی اور یوں مہینوں تک رومی عوام ان گیمز میں گم ہوکر اپنے تمام مصائب بھول جاتے ۔ نہ انہیں اس بات کا ہوش رہتا کہ حکمران ظالمانہ ٹیکسوں کے ذریعے ان کی کھال اتار رہے ہیں ۔ نہ انہیں اس بات کا خیال آتا کہ سرحدوں پر بڑھتے ہوئے خطرات سے حکمران نمٹنے سے عاری ہوچکے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں۔انہیں یہ بھی یاد نہیں آتا تھا کہ اس ناگفتہ بہ حالت میں وہ روٹی کہاں سے کھائیں گے جو پہلے ہی عنقاء ہوچکی ہے ۔ ہاں انہیں اگر کوئی چیز مرغوب تھی تو وہ رومی تھیٹروں کے وسط میں بنی وہ رزم گاہیں تھیں جہاں پر دنیا کے مانے تانے تیغ زن <annotation lang="en">(Gladiator)</annotation> اپنے خونریز فن کا مظاہرہ کرتے یا دنیا بھر سے مختلف قوموں کے قیدی بنا کر لائے ہوئے انسانوں کو زندہ درندوں کے سامنے ڈالا جاتااورپھر مفتوحہ علاقے کی حسین ترین عورتیں ان اخلاق باختہ تھیٹروں کی زینت بنا دی جاتیں۔</p> <p>بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ ان تیغ زنوں <annotation lang="en">(Gladiators)</annotation> کو خریدنے کے لئے بھاری رقوم ادا کی جاتیں یقینی بات ہے یہ بھی عوامی ٹیکس سے ہی ادا ہوتی تھیں پھرکہیں جاکہ ان خونی مناظر کا اہتمام کیا جاتا جبکہ ان پر لگنے والی شرطوں پر عوام کی اکثریت اپنی رہی سہی پونجی بھی لٹا دیتے۔لیکن اس سب کے باوجود رومن عوام اپنی اس بے راہ روی کو زندہ دلی کا نام دیتے تھے اور اسے اعلیٰ وصف قرار دے کر اپنے آپ کو دیگر اقوام سے ممتاز شمار کرتے تھے ۔</p> <p>یہ ان لوگوں کا حال تھا جو 27 قبل مسیح میں ایک قوم بن کر ابھری تھی مگر 476 عیسوی تک عوام میں بدل کر تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکی تھی۔ جدید تاریخ کے عرب دانشوروں نے عوام اور قوم میں ایک جوہری فرق بیان کیا ہے ۔ ان کے خیال میں قوم ان افراد کا مجموعہ ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی خوشی اور غمی سے پوری طرح آگاہ ہو اور جب اسی قوم میں آپس کا فکری اور شخصی بُعد پیدا ہوجائے تو یہ عوام بن جاتے ہیں ، ایک ایسا بے سمت ہجوم جو اپنے ہمسروں تک سے غافل ہو۔</p> <p>آج جب ہم پاکستانی قوم کی "زندہ دلی" کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم ابھی تک قوم ہیں یا عوام بن چکے؟ آج جب پاکستانی رومیوں کی طرح کرکٹ کے کھیل پر والہانہ فدا ہوتے ہیں تو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ وہی قوم ہے جس پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹا ہوا ہے ، کیا یہ وہی قوم ہے جس کی غیرت کا جنازہ حکمرانوں نے نکال دیا ہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے افراد ڈررون حملوں میں گاجر مولی کی طرح کاٹے جاتے رہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس پر ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں عذاب الہی ٹوٹ چکا ہے ؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے لئے بجلی ، گیس اور پیٹرول کی ادائیگی اور اشیاء خودنوشت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جو اس قوم کی شہہ رگ ہے ، آئے روز ظلم وستم کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔</p> <p>حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیں ایک قوم کی طرح ایک مقصد پر جمع کیا تھا ۔ نباض امت اقبال ؒ نے اس قوم کی فکری آبیاری کی تھی۔ مولانا محمود الحسنؒ اسیر مالٹا، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد علی ؒجوہر اور مولانا شوکت علی ؒجیسے رہنما ئے امت نے اس قوم کو عملی جدوجہد کا سبق سکھایا تھا۔ لیکن ہم یہ سب کچھ بھول گئے ۔ علماء اور دینی جماعتوں نے اسلام کے بجائے اسلام آباد کی راہ لی۔ سیاستدانوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا سراب دکھایااور یہ قوم اس قسم کے مشرکانہ نعروں کو اپنا ہدف سمجھ کر ان کے پیچھے لگ گئی۔ رازق تو اللہ کی ذات ہے اور یہ وصف صرف اسے ہی سزا وار ہے، ہاں اس کے لئے جدوجہد انسانوں کے لئے شرط ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے جیسے انسانوں کو ہی ان مسائل کا حل سمجھ لیں تو عذاب خداوندی کا سروں پر مسلط ہونا حیران کن نہیں۔</p> <p>یہی وجہ ہے کہ ہم قوم سے عوام بن گئے ایک دوسرے سے غافل، ہمارا سب سے بڑا ایشو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کا میچ ہے ، ہمارے حکمرانوں کو بھی رومی حکمرانوں کی طرح عوام کو بے وقوف بنانا آتا ہے کیونکہ زمانے بدلنے سے تقاضے بدلتے ہیں روش یا تاریخ نہیں۔</p> </section> </body>
5455.xml
<meta> <title>قیام پاکستان کے حوالے سےدیوبند کے دو جید علماء کے درمیان مکالمہ</title> <author> <name>رضی الدین سید</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22197/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>7093</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
قیام پاکستان کے حوالے سےدیوبند کے دو جید علماء کے درمیان مکالمہ
7,093
No
<body> <section> <p>تحریک پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کی دو بزرگ عالم شخصیات بہت نمایاں ہوئی تھیں جن میں سے ایک مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے۔ اتفاق سے دونوں</p> <p>حضرات دارالعلوم دیو بند کے ممتاز اساتذہ بھی تھے۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں اس دور کی معروف مذہبی تنظیم "جمعیت علمائے ہند" کے دو ٹکڑے ہوئے جن میں سے اول الذکر کی قیادت حسب دستور مولانا حسین احمد مدنی ؒکے پاس رہی جب کہ دوسرے گروپ "جمعیت علمائے اسلام" کی قیادت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒنے کی۔ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے معاملے پر "جمعیت علمائے ہند" نے قائد اعظم کا ساتھ دینے کے بجائے کانگریس اور گاندھی کا ساتھ دیا جب کہ جمعیت "علمائے اسلام" نے کانگریس کے بجائے قائداعظم اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒمرحوم قائداعظم کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار کیے گئے۔ پاکستان کے معاملے میں مولانا کا ساتھ دینے والے دیگر علما میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒاور مفتی محمد شفیع ؒجیسی جیّد ہستیاں بھی تھیں۔</p> <p>تقسیم ہند سے قبل یکم محرم 1365 ھ (دسمبر 1945 ئ) میں دارالعلوم دیو بند میں دونوں جیّد ہستیوں کے درمیان پاک وہند کے موضوع پر ایک تفصیلی مکالمہ ہوا جس میں مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور ان کے رفقا نے مولانا شبیر احمد عثمانی ؒسے "پاکستان کی حمایت کیوں" پر کئی سوالات کیے۔</p> <p>تحریک پاکستان کا یہ ایک نادر دلچسپ اور اہم باب ہے جو شاید اس سے قبل اس طرح منظر عام پر نہیں آیا تھا۔</p> <p>کتابچے کا نام "مکالمتہُ الصّدرین" ہے جسے آل انڈیا جمعیت العلمائے اسلام کے رکن مولانا طاہر احمد قاسمی نے دیوبند سے شائع کروایا تھا۔ اُردو ڈائجسٹ کے لیے اس کے مندرجات کو کراچی سے جناب رضی الدین سید نے روانہ کیا ہے۔</p> <p>گفت و شنید کی ابتداء کیسے ہوئی؟</p> <p>یکم دسمبر 1945ء کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارری ناظم اعلیٰ جمعیۃ العلماء ہند دہلی اپنی کسی ضرورت سے دیو بند تشریف لائے تھے۔ اس وقت وہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے دولت کدہ پر بھی بغرض عیادت و مزاج پرسی حاضر ہوئے۔ دوران مزاجی پرسی، مولانا حفظ الرحمن نے علامہ عثمانی سے فرمایا کہ ہمیں آپ سے حالات حاضرہ پر کچھ نیاز مندانہ گزارشات کرنی ہیں۔ مسئلہ پر شرعی حیثیت سے تو ہم آپ سے کیا گفتگو کرتے۔ یہ درجہ تو ہمارا نہیں، البتہ کچھ واقعات ایسے بیان کرنے ہیں جن کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ آپ کے علم میں نہ آئے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان واقعات کو سن کر حضرت والا کی جو رائے قائم شدہ ہے اس میں تغیر ہو جائے۔</p> <p>علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں گفتگو کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔ جب دل چاہے تشریف لائیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ اس گفتگو میں میرے ساتھ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی (ناظم ندوۃ المصنفین دہلی، برادر زادہ علامہ عثمانی) اور کوئی تیسرے صاحب جو مناسب ہوں شریک ہوں گے۔ اس کے بعد 5 دسمبر 1945ء کو مولانا حفظ الرحمن کا دہلی سے ایک خط بذریعہ ڈاک بنام علامہ عثمانی موصول ہوا جو بجنسہ درج ذیل ہے۔</p> <p>بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم o</p> <p>ازندوۃ المصنفین دہلی</p> <p>27 ذی الحجہ 1364 ھ ( 1941 ئ)</p> <p>ذوالمجد و الکرم استاذ یددام اللہ فیوضکم</p> <p>السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، مزاج اقدس۔</p> <p>کل دیو بند سے نو بجے صبح چل کر دہلی پہنچ گیا، حضرت مولانا حسین احمد سے شب میں گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جمعیت العلمائے ہند کی ایک خصوصی مشاورت جمعرات کے روز دیوبند بلانا چاہتے ہیں تاکہ جمعیت العلمائے اسلام سے متعلق بعض اہم معاملات پر گفتگو ہو سکے۔ اس مشاورت میں غالباً حضرت مفتی صاحب (مولانا کفایت اللہ صاحب، رسالے: تعلیم الاسلام چھ حصوں کے مصنف،سیّد )اور مولانا احمد سعید بھی شرکت کریں گے۔</p> <p>میں نے اپنے اس معروضہ کے پیش نظر جو حضرت والا میں حاضر ہو کر پیش کیا تھا اب یہ مناسب سمجھا کہ مولانا مفتی عتیق الرحمن اور میں جمعرات کو شب میں پہنچیں اور جمعہ کے دن گزارشات پیش کریں۔ اب میری یہ بھی سعی ہو گی کہ اکابر جمعیۃ العلما بھی اس گفتگو میں حصہ لیں، تو اکابر علمائے دیو بند کے سیاسی افکار کی یکجہتی میں ان شاء اللہ بہت مدد ملے گی۔ اگر میری گزارشات منظور ہو گئیں، تو جمعہ کے دن آٹھ بجے یہ گفتگو آپ ہی کے دولت کدہ پر ہو جائے،تو بہت بہتر۔ باقی اپنی مشاورت تو شب میں اور باقی دوسرے وقت بھی ہو سکتی ہے۔</p> <p>خادم محمد حفظ الرحمن کان اللہ لہ</p> <p>27 ذی الحجہ 1364 ھ</p> <p>اس پروگرام کے بموجب 7 دسمبر 1945ء یوم جمعہ کو ساڑھے آٹھ بجے حضرت مولانا حسین احمد (صدر جمعیتہ العلمائے ہند)، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ(سابق صدر جمعیتہ العلمائے ہند)، حضرت مولانا احمدسعید (سابق ناظم اعلیٰ جمعیتہ العلمائے ہند)، مولانا حفظ الرحمن (حال ناظم اعلیٰ جمعیتہ العلمائے ہند)، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا عبدالحنان، مولانا مفتی عتیق الرحمن، علامہ عثمانی کے دولت کدہ پر تشریف لائے۔ علامہ عثمانی نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ان حضرات سے ملے۔ کچھ دیر مزاج پرسی ہوتی رہی، عیادت کے بعد چند منٹ مجلس پر سکوت طاری رہا۔ یہ خاموشی غالباً اس لیے تھی کہ کون ابتداکرے اور کس نوعیت سے مسئلہ پر گفتگو کا آغاز ہو۔</p> <p>چونکہ علامہ عثمانی کو ابتدا کرنا مقصود نہ تھا اور یہ حضرات خود تشریف لائے تھے۔ اس لیے علامہ عثمانی بھی خاموش رہے۔ آخر مولانا حفظ الرحمن نے مسائل حاضرہ پر گفتگو کا آغاز کیا اور ایک طویل تقریر فرمائی جو تقریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ علامہ عثمانی برابر اس تقریر کو بغور سنتے رہے۔ جب وہ تقریر فرما چکے، تو علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مجھے پورے الفاظ اور اجزا تو آپ کی لمبی چوڑی گفتگو سے محفوظ نہیں رہے جو تخلیص میرے ذہن میں آئی ہے اس کے جوابات بلالحاظ ترتیب عرض کروں گا۔ اگر کوئی ضروری بات رہ جائے، توآپ یاد دلا کر اس کا جواب مجھ سے لے سکتے ہیں۔</p> <p>اس گفت و شنید کا سلسلہ سوا تین گھنٹا مسلسل جاری رہا اس مکالمہ میںسب سے زیادہ حصہ مولانا حفظ الرحمن لیتے رہے اور دوسرے درجے میں مولانا احمدسعید ان کے شریک رہے۔ کبھی کبھی کوئی اور صاحب بھی کچھ بول پڑتے تھے لیکن حضرت مفتی کفایت اللہ نے جو مزاج پرسی کے بعد سکوت اختیار فرمایا وہ اختتامِ مجلس تک ختم نہیں ہوا۔ کسی موقع پر بھی ایک حرف نہیں بولے۔</p> <p>علامہ عثمانی کو اس طویل سکوت پر خود حیرت تھی۔ وہ بحث میں تو کیا حصہ لیتے اشارۃً کنایتہ بھی کسی موضوع پر اثباتاً نفیاً کسی طرح کا اظہار نہیں فرمایا۔ آخر مجلس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کچھ بولے جو تقریباً پندرہ منٹ سے زیادہ نہ تھا۔</p> <heading>مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ</heading> <p>مولانا حفظ الرحمن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ کلکتہ میں "جمعیت العلمائے اسلام" حکومت کی مالی امداد اور اس کے ایماسے قائم ہوئی ہے۔ مولانا آزاد سبحانی "جمعیتہ العلمائے اسلام" کے سلسلہ میںدہلی آئے اور حکیم دلبر حسن کے ہاں قیام کیا جن کی نسبت عام طور پر لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ سرکاری آدمی ہیں۔ مولانا آزاد سبحانی(سیّد) نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہم جمعیتہ العلمائے ہند کے اقتدار کو توڑنے کے لیے علماء کی ایک جمعیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ گفتگو کے بعد طے ہوا کہ گورنمنٹ ان کو کافی امداد اس مقصد کے لیے دے گی۔ چنانچہ ایک بیش قرار رقم اس کے لیے</p> <p>منظور کر لی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سبحانی کے حوالہ بھی کر دی گئی۔ اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا گیا۔ مولوی حفظ الرحمن نے کہا کہ یہ اس قدر یقینی روایت ہے کہ اگر آپ اطمینان فرمانا چاہیں، تو ہم اطمینان کرا سکتے ہیں۔ چنانچہ مولانا آزاد سبحانی نے اس کے بعد کلکتہ میں جلسہ کیا۔ جلسہ میں انھوں نے جو کچھ بکواس کی وہ آپ کے علم میں ہے۔ ان کی تلون مزاجی بھی سب کو معلوم ہے۔ ایک زمانہ میں وہ گاندھی کے ساتھ سایہ کی طرح رہتے تھے۔ پھر کچھ دنوں بعد ان کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال اس مسلمان افسر کا تبادلہ ہو گیا اور ایک ہندو اس کی</p> <p>جگہ آ گیا۔ جس نے گورنمنٹ کو ایک نوٹ لکھا۔ جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف ہونا بالکل بے سود ہے۔ اس پر آیندہ کے لیے امداد بند ہو گئی۔ اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمن نے کہا کہ مولانا الیاس ؒ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمدکچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہو گیا۔ اس کے بعد مولوی حفظ الرحمن نے پاکستان کی صورت میں جو نقصانات ان کے نزدیک تھے، وہ ذرا بسیط کے ساتھ بیان کیے اور دکھایا کہ مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان سراسر مضر تھا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ نے کلام اس قدر طویل کر دیا ہے کہ نمبر وار ہر ایک چیز کا جواب دینا مشکل ہے۔ میں جو کچھ یاد رکھ سکا ہوں ان کے جوابات دوں گا۔ اگر کسی چیز کو بھول جائوں، تو آپ مجھے یاد دلا کر اس کا جواب لے لیں۔</p> <heading>علامہ عثمانی کا جواب</heading> <p>پہلے میں اس معاملے کی نسبت گفتگو کرتا ہوں جو روایت آپ نے بیان کی، میں نہ اس کی تصدیق کرتا</p> <p>ہوں نہ تکذیب۔ ممکن ہے کہ آپ صحیح کہتے ہوں۔ مجھے اس سے پہلے بذریعہ ایک گمنام خط کے جو دہلی سے ڈالا گیا تھا۔ یہی بتلایا گیا تھا اور مجھے بھی اس خط میں دھمکی دی گئی تھی یہ روایت صحیح ہو یا غلط۔ بہرحال میرے علم میں آچکی ہے۔ لیکن اس روایت سے مجھ پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور میری رائے کیا متاثر ہو سکتی ہے۔ میں نے جو رائے پاکستان کے متعلق قائم کی ہے وہ بالکل خلوص پر مبنی ہے۔</p> <p>"جمعیتہ العلمائے اسلام" میں آزاد سبحانی رہیں یا نہ رہیں جمعیتہ العلمائے اسلام خود قائم رہے نہ رہے، میری رائے جب بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان مفید ہے۔ اگر میںتھوڑی دیر کے لیے اس روایت کو تسلیم بھی کر لوں کہ جمعیت العلمائے اسلام گورنمنٹ کے ایما سے قائم ہوئی ہے، تو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کانگریس کی ابتدا کس نے کی تھی اور کس طرح ہوئی تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ ابتداً اس کا قیام ایک وائسرائے کے اشارہ پر ہوا (اور برسوں وہ گورنمنٹ کی وفاداری کے راگ الاپتی رہی ہے، مرتب) بہت سی چیزوں کی ابتدا غلط ہوتی ہے مگر انجام میں</p> <p>بسااوقات وہی چیز سنبھل جایا کرتی ہے۔ ہم نے مولانا آزاد سبحانی یا جمعیت العلمائے اسلام کی وجہ سے مسلم لیگ کی تائید نہیں بلکہ دیانتاً یہ رائے قائم کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک مرکز اور ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے اور علمائے ملت کو اس کی پشت پناہی اور اصلاح میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو، تو اسی قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھیے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلم بزرگ اور پیشوا تھے ان کے متعلق لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ان کو چھ</p> <p>سو روپے ماہوار حکومت کی طرف سے دیے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ گو مولانا تھانوی ؒ کو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے۔ مگر حکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کو اس کا شبہ بھی نہ گزرتا تھا۔ اب اسی طرح اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اس کو یہ علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جارہا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ شرعاً اس میں ماخوذ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان مولوی عتیق الرحمن سے آپ پوچھیے کہ معاملات دارالعلوم کے سلسلہ دیو بند کے بعض پارٹی باز اشخاص نے</p> <p>ان کے سامنے نہایت قطعی الفاظ میں کیا یہ نہیں کہا تھا کہ وائسرائے کے دفتر میں ہم اپنی آنکھوں سے وہ چٹھی دیکھ کر آئے ہیں جس کے ذریعہ مولانا مدنی کو شبیر احمد عثمانی نے گرفتار کرایا ہے ( فَلَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ)لیکن میں پوچھتا ہوں کیا اس میں ذرا بھی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ اس پر مولوی عتیق الرحمن نے آنکھیں نیچی کر لیں اور خاموش ہو رہے۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ حضرات کے متعلق بھی عام طور پر مشہور کیا جاتا ہے کہ آپ ہندوئوں سے روپیہ لے کر کھا رہے ہیں کیا یہ صحیح چیزیں ہیں۔ اب ہمیں ان سب قصوں سے بالکل علیحدہ رہ کر غور کرنا چاہیے کہ کون سا راستہ اختیار کرنے میں مسلمانوں کا فائدہ ہے اور کس راستے میںان کا نقصان (قطع نظر اس سے کہ وہ بات انگریز کے ایجنٹ کی زبان سے نکلے یا کوئی ہندو کادلال کہے۔ مرتب)</p> <p>لہٰذا اب میں مزید گفتگو سے پہلے تین چیزیں دریافت کرنا چاہتا ہوں؟</p> <p>گفتگو کا محور</p> <p>پہلی چیز دریافت طلب یہ ہے کہ جو فارمولا جمعیۃ العلمائے ہند نے پاکستان کا نعم البدل ظاہر کر کے ملک کے سامنے پیش کیا اور جس کا حوالہ مولانا حفظ الرحمن نے اپنی تقریر میں بھی دیا ہے اس فارمولا کو آپ حضرات نے کم از کم کانگریس سے منوا لیا ہے یا نہیں؟</p> <p>مولانا حفظ الرحمن نے اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے کچھ اعذار بیان کیے۔ علامہ عثمانی کو چونکہ ان اعذار سے کچھ بحث نہیں تھی اس لیے فرمایا کہ اعذار کچھ بھی ہوں میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کا فارمولا کانگریس نے تسلیم کر لیا ہے یا نہیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ ہمارا یہ اصول نہیں ہے کہ ہم جنگ آزادی کی شرط کے طور پر ہندوئوں سے کوئی چیز منوا لیں۔</p> <p>دوسری بات یہ کرنی ہے کہ آپ جو کچھ گفتگو اس وقت مجھ سے فرمانا چاہتے ہیں وہ کس تقدیر پر ہے۔ آیا یہ فرض کرتے ہوئے کہ انگریز حکومت ہندوستان سے چلی گئی ہے یا جارہی ہے۔ یا یہ مان کر ابھی وہ موجود ہے اور سردست جا نہیں رہی۔ گویا جو کچھ لینا ہے اسی سے لینا ہے۔</p> <p>مولانا حفظ الرحمن نے فرمایا کہ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ انگریز حکومت ابھی ہندوستان میں موجود ہے۔ اس کی موجودگی تسلیم کرتے ہوئے جو کچھ لینا ہے اسی سے لینا ہو گا۔</p> <p>تیسری بات دریافت طلب یہ ہے کہ آپ حضرات جو انقلاب اس وقت چاہتے ہیں وہ فوجی انقلاب ہے یا آئینی؟ اس کا جواب دیا گیا کہ فوجی انقلاب کا تو اس وقت کوئی موقع ہی نہیں نہ فی الحال اس کا امکان ہے نہ اس کے وسائل مہیا ہیں۔ اس وقت تو آئینی انقلاب ہی زیر بحث ہے۔</p> <p>علامہ عثمانی نے فرمایا کہ بس اب بحث کا رخ متعین ہو گیا۔ اب کلام اس پر رہے گا کہ سردست انگریزی حکومت کی موجودگی کے باوجود آئینی انقلاب میں کون سا راستہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ آیا وہ راستہ جو جمعیتہ العلمائے ہند نے تجویز کیا ہے یا پاکستان کا راستہ جو مسلم لیگ اختیار کر رہی ہے۔</p> <p>پاکستان کے نقصانات کا اظہار</p> <p>مولانا حفظ الرحمن نے اپنی طویل تقریر میں فرمایا کہ پاکستان قائم ہونے میں مسلمانوں کا سراسر نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت 53 فیصد ہے فلاں صوبے میں اس قدر، فلاں میں اتنی اور آسام میں اکثریت دوسروں کی ہے۔ ہر جگہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں غیر مسلم اقلیت اتنی زبردست ہے کہ مسلمان اس سے کسی طرح بھی عہدہ برآنہ ہو سکیں گے اور بہت ہی تھوڑی اکثریت کچھ نہ کر سکے گی۔ بلکہ ہمیشہ معرض خطر میں رہے گی۔ ادھر مسٹر جناح یہ کہہ ہی چکے ہیں پاکستان میں جمہوری طرز کی حکومت ہو گی۔ ایسی مشکل میں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان سے کوئی بھی فائدہ نہ ہو گا۔ بلکہ تنظیم، دولت اور تعلیم میں پست ہونے کی وجہ سے 53 فی صد مسلمانوں کی اکثریت 47 فی صد غیر اقلیت ہی کے عملاً تابع و محکوم رہے گی۔ سکھ نہایت جنگجو قوم ہے وہ کسی طرح بھی پاکستان قائم نہ رہنے دے گی۔ ادھر جاٹوں کی قوم ہے وہ بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دے گی۔</p> <p>اس موقع پر علامہ عثمانی نے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک پاکستان کا مطالبہ کرنے والے صوبہ وار چھے پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یا تمام مسلم اکثریت والے صوبوں کا ایک پاکستان مطلوب ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہیں پاکستان تو ایک ہی بنانا چاہتے ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا تب صوبہ جاتی اعداد کی گفتگو اس موقع پر بے کار ہے۔ مولانا عثمانی نے فرمایا کہ اس وقت ہم کو پاکستان کی مرکزی حکومت میں یہ دیکھنا چاہیے کہ مسلم اور غیر مسلم آبادی میں کیا تناسب ہے۔ مولانا حفظ الرحمن کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان میں مجموعی تعداد مسلمانوں کی چھ کروڑ ہو گی اور غیر</p> <p>مسلم تین کروڑ ہوں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ تعداد غلط ہے۔ مجموعہ میں مسلمان تقریباً سوا سات کروڑ ہیں۔ لیکن ہم سات کروڑ تسلیم کیے لیتے ہیں اور غیر مسلم جو تین کروڑ سے کم ہیں ان کو پورے تین کروڑ کر لیا جائے۔ اس تعداد سے سات اور تین کی نسبت مسلم و غیر مسلم کے درمیان ہو گی اور مجموعی آبادی میں آپ کے فرمانے کے مطابق ساٹھ اور چالیس کی نسبت ہو گی یعنی مسلمان ساٹھ فی صد اور غیر مسلم چالیس فی صد ہوں گے۔ (حالانکہ اس صورت میں مجموعہ مسلمان ستر فی صد اور غیر مسلم تیس فیصد ہوتے ہیں)</p> <heading>حضرت علامہ کا مسکت اور حقیقت افروزجواب</heading> <p>مگر علامہ عثمانی نے اس وقت بھی اغماض کر کے اور ان کے ہی بیان کردہ تناسب کو صحیح بیان کردہ تناسب کو صحیح مان کر اس پر کلام فرمایا،آپ نے کہا کہ اب آپ اپنے فارمولا پر نظر ڈالیے کہ اس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا مرکزی حکومت میں کیا تناسب رہتا ہے؟ تو آپ کے فارمولے کی رو سے مرکز میں چالیس مسلمان ہوں گے اور چالیس ہندو اور بیس فی صد میں دیگر اقلیتیں ہوں گی۔ اس طرح سے آپ کے فارمولا کے لحاظ سے غیر مسلموں کی تعداد ساٹھ فیصد اور مسلمانوں کی تعداد چالیس فی صد ہوئی اور مسلم لیگ کے پاکستانی فارمولا میں (بقول آپ کے یہی نسبت علی العکس ہوگی) یعنی ساٹھ فی صدمسلمان اور چالیس فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ حالانکہ حقیقی تناسب پاکستانی فارمولا میں ستر فیصد کا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ آپ کے اس فارمولا سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ (ہم اگر ساٹھ فیصد رہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے، تو چالیس فی صد میں کیا کر سکیں گے۔)</p> <heading>نوٹ:</heading> <p>جمعیتہ العلما کے فارمولا میں بھی مندرج ہے کہ خالص اسلامی مسائل میں دو تہائی مسلمان اگر کسی چیز کے مخالف ہوں گے، تو وہ چیز مسلمانوں کے لیے قبول نہیں کی جائے گی۔ اس شرط سے کسی درجہ میں مضر امور کا تدارک ہو سکتا ہے۔ لیکن باقی مسلمانوں کے حق میں جو ضروری یا مفید امور ہوں ان کے خاطر خواہ حاصل ہونے کی کوئی تدبیر نہیں کیوں کہ مرکز میں مسلم تعداد چالیس اور غیر مسلم تعداد ساٹھ فیصد ہو گی۔ ایسی تمام تجاویز غیر مسلم اکثریت کے رحم و کرم پر رہیں گی اور یہ معاملہ بھی کہ خالص اسلامی مسئلہ کون سا ہے۔ (اکثریت ہی فیصلہ کرے گی)</p> <heading>پاکستان ہندوئوں کے مفاد میں ہے، تو وہ اس کے مخالف کیوں ہیں؟</heading> <p>اس موقع پر کہا گیا کہ عیسائی ہمارے ساتھ ہوجائیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ جب پاکستان کا فارمولا سامنے آتا ہے، تو عیسائی مسلمانوں سے علیحدہ غیر مسلم بلاک میں شمار کیے جاتے ہیں اور جب جمعیتہ العلمائے ہند کا (مقدس) فارمولا پیش کیا جاتا ہے، تو وہی عیسائی گویا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کی طرف شمار کیے جاتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ غیر مسلم سب کے سب بہرصورت ایک ہی شمار ہوں گے۔ (الکفر ملتہ واحدۃ) اور خالص مسلمانوں کو ان سب کے مقابل رکھ کر مسئلہ پر غور کرنا چاہیے۔ وفد جمعیۃ العلمائے ہند نے آخر کار اس کو تسلیم کر لیا۔</p> <heading>اگر پاکستان ہندو کے لیے مفید ہے، تو وہ اس کی مخالفت کے لیے اس قدر مضطرب کیوں ہے؟</heading> <p>علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ پاکستان قائم ہونے میں سراسر مسلمانوں کا نقصان اور ہندوئوں کا فائدہ ہے۔ اگر تسلیم کر لیا جائے، تو کیا آپ باور کر سکتے ہیں کہ ہندو پاکستان کی مخالفت محض اس لیے کر رہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا نقصان ہے اور وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کا نقصان دیکھنے کو تیار نہیں۔ ان کا تو اعلان یہ ہے کہ جو جماعت یا جو شخص بھی پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف کھڑا ہو گا کانگریس اس کی ہر طرح امداد کرے گی۔ (اس وعدہ کا تعلق کسی شخص خاص سے نہیں، کانگریس کے پورے ادارے سے ہے) اور ان کا قول ہے کہ پاکستان</p> <p>ہماری لاشوں پر ہی بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔آخر یہ پرزور اور انتہائی مخالفت کیوں ہے؟ اس کے جواب میںمولانا حفظ الرحمن نے فرمایا ان کی کوئی مصلحت ہو گی۔ لیکن اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔ اور بار بار اس پہلو سے گریز کیا جاتا رہا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس کی جو کچھ بھی مصلحت ہو آخر آپ حضرات نے بھی کچھ غور کیا کہ وہ مصلحت کیاہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک تو اس کی مخالفت کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ انگریز کی حکومت تو سردست اوپر قائم ہے جسے آپ خود شروع میں تسلیم کر چکے ہیں۔ ہندو یہ چاہتا ہے کہ انگریزی حکومت</p> <p>کے زیرسایہ دس کروڑ مسلمانوں میں سے ایک شخص کی گردن پر سے بھی ہندو اکثریت کا جوا کبھی اور کہیں اترنے نہ پائے۔ اور اس طرح مسلمان ہمیشہ انگریز اور ہندو کی ڈبل غلامی میں بااختیار خود پستے رہیں۔ علامہ عثمانی نے کئی بار اس چیز کو ان لوگوں سے پوچھا مگر ادھر سے کوئی شافی جواب ہاتھ نہ آیا۔ اس کے بعد جمعیتہ العلمائے ہند کے وفد کی طرف سے کہا گیا کہ اچھا اگر پاکستان بن جائے، تو تین کروڑ کی مسلم اقلیت ہندو صوبوں میں رہے گی۔ اس کی حفاظت کا کیا انتظام ہوگا؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ ان کے لیے معاہدات کے ماتحت مسلم اقلیت ان کے ہاں اور ہندو اقلیت ہمارے یہاں رہے گی اور ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے تلے دبا رہے گا۔ آخر اکھنڈ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمانوں کی حفاظت کس طرح ہو گی۔ اس کے بعد مولانا حفظ الرحمن اور مولانا احمد سعید نے موضع گفتگو بدل کر کہا۔</p> <p>"اجی حضرت یہ علی گڑھ کے نیچری علما کے وقار کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ اگر مسلمانوں کے راہنما بن گئے، تو دین کو</p> <p>برباد کردیں گے۔ علما کو مٹا دیں گے۔ اسی سلسلہ میں اِن بدتمیزیوں کا بھی ذکر کیا گیا جو بعض مقامات میں مولانا حسین احمد کے ساتھ کی گئی تھیں۔ اسی سلسلہ میں بھی کہا کہ مسلم لیگ راجائوں، نوابوں، خطاب یافتہ لوگوں کی جماعت ہے۔ سرفیروز خان نون کے متعلق فرمایا کہ وہ حکومت کے اشارے سے مستعفی ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے ہیں اور وہ کھلے طور پر سرکاری آدمی ہیں۔"</p> <p>علامہ عثمانی نے فرمایا کہ سر فیروز خان نون کے متعلق میں بحث نہیں کرتا۔ آپ جو چاہیں کہیں لیکن مسٹر جناح کے متعلق کبھی میرا یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ وہ سرکاری آدمی ہیں یا وہ کسی دبائو یا لالچ میں آ سکتے یا کسی قیمت پر خریدے جا سکتے ہیں۔</p> <p>مولانا سعید احمد کے اس کہنے پر کہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور دوسرے بعض فرقے علما کا اقتدار مٹانا اور دین کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا یہ جو مشکلات ہوئیں ان کا حل آپ کے ذہن میں کیا ہے؟ کچھ آپ بھی تو فرمائیے! اس پرسب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اور کچھ دیر خاموشی سی طاری ہو گئی۔ پھر وفد کی طرف سے کہا گیا کہ حضرت آپ ہی فرمائیں کیا حل ہے؟ حضرت علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ خوب رہی مشکلات تو بیان فرمائیں آپ اور حل بتائوں میں؟ آخر آپ نے بھی تو کچھ اس کا حل سوچا ہوگا؟</p> <p>علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اچھا لیجیے میں ہی اس کا حل عرض کرتا ہوں میرے نزدیک اس کا حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ سب حضرات مل کر مسلم لیگ میں شامل ہو کر اس پر قبضہ کریں۔ ایک دو مہینے دورہ کر کے تین چار لاکھ آنے والے ممبر مسلم لیگ کے بھرتی کرائیں۔ جب ہمارے ہم خیال ممبران کی اتنی بھاری تعدادمسلم لیگ میں شامل ہو جائے گی، تو پھر ہم عوام کےذریعے جو مفید صورت مسلمانوں کے لیے ہو گی باآسانی بروئے کار لا سکیں گے۔ کیا ہمارا اثر عوام پر اتنا بھی نہیں کہ ہم دو چار لاکھ ممبران بھرتی کرا سکیں۔ میں اِس کے لیے تیار ہوں کہ آپ حضرات کے ساتھ مل کر اس کام میں حصہ لوں۔ میرے نزدیک تواصلاح کی یہی بہترین شکل ہے۔ اس پر مولانا احمد سعید نے فرما یا کہ یہ تو صحیح ہے لیکن جب ہم لوگ ایسا کریں گے، تو یہ راجے، مہاراجے، نواب اور سر، مسلم لیگ سے علیحدہ ہوکر دوسری جماعت بنا لیں گے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اگر وہ نئی مسلم لیگ بنا لیں گے، تواس سے کیا ہو گا۔ عوام کی طاقت تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی۔ سر شفیع مرحوم نے بھی تو ایک زمانے میں شفیع لیگ بنائی تھی لیکن اس کا حشر کیا ہوا۔ جب شفیع صاحب رحلت کر گئے،توان کے ساتھ ہی ان کی لیگ بھی ختم ہو گئی اور رابطہ عوام وہ کبھی پیدا نہ کر سکے۔</p> <p>رہا ان بدتمیزیوں کا قصہ جو آپ کے ساتھ ہوئیں۔ اس کے متعلق آپ کو معلوم ہے کہ میںنے جو پیغام جمعیت العلما اسلام کے اجلاس کلکتہ کے موقع پر بھیجا تھا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ پرلے درجے کی شقاوت و حماقت ہے کہ قائد اعظم کو کافر اعظم کہا جائے یا مولانا حسین احمد وغیرہ کے ساتھ کوئی ناشائستہ سلوک کیا جائے۔</p> <p>اس موقع پر مجھے ایک بات کہنی پڑتی ہے وہ یہ کہ جن انگریزی خواں طلبا کے رویہ کی آپ شکایت فرما رہے ہیں وہ نہ تو آپ کے مرید ہیں نہ شاگرد۔ نہ انھوں نے کسی دینی ماحول میں تربیت پائی ہے۔ (اور سمجھتے یہ ہیں کہ آپ مسلم قوم کو ہندوئوں کی دائمی غلامی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں)، اس کے بالمقابل جو عربی مدارس کے طلبا آپ کے شاگرد آپ کے مرید اور دینی ماحول بلکہ مرکز دین و اخلاق میں تربیت پانے والے ہیں۔ ذرا ادھر بھی تو دیکھیے کہ انھوں نے اس کا بھی کوئی تدارک کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے تمام مدرسین، مہتمم اور مفتی سمیت (باستثنا</p> <p>ایک دو کے) بالواسطہ یا بلا واسطہ مجھ سے نسبت تلمذ رکھتے تھے۔ دارالعلوم کے طلبا نے میرے قتل تک کے حلف اٹھائے اور وہ، وہ فحش اور گندے مضامین میرے دروازے میں پھینکے کہ اگر ہماری ماں بہنوں کی نظر پڑ جاتی، توہماری آنکھیں شرم سے جھک جاتیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ملامت کا کوئی جملہ کہا۔ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان کمینہ حرکات پر خوش ہوتے تھے۔ "حریت" اخبار دہلی آج کل میری ذاتیات پر نہایت رکیک مضامین لکھ رہا ہے کیا آپ حضرات میں سے کسی نے اس پر بیزاری کا اظہار کیا؟ اس پر سب کی آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ مولانا سعید نے اتنا فرمایا کہ اجی حضرت عزیز حسن بقائی تو ہمیشہ اسی قسم کی بے ہودہ بکواس کیا کرتا ہے کیا آپ کو معلوم نہیں؟ علامہ عثمانی نے فرمایا اس وقت تو وہ آپ کی حمایت اور ہمنوائی میں سب کچھ کہہ رہا ہے۔ گو مجھے یہ معلوم ہے کہ ایک زمانہ میں اس نے آپ صاحبان کو بھی بری طرح مجروح کیا تھا۔ لیکن دکھلانا صرف یہ ہے کہ آپ حضرات نے کبھی اس قسم کی چیزوں سے جو ہمارے متعلق کہی گئیں اظہار بیزاری نہیں کیا نہ کسی پر ملامت کی۔ ہم نے تو یہ کیا کہ موقع ملنے پر ایسے امور سے پوری قوت کے ساتھ اظہار بیزاری کرتے رہے۔</p> <p>محلہ کسرول مراد آباد کے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا حسین احمد اور مفتی کفایت اللہ آپ کے نزدیک محض ذاتی مفاد کے لیے ہندوئوں کا ساتھ دے رہے ہیں یا ان کا اجتماع بے دینی اور کفر ہے، یا وہ اپنے استاد کے مسلک سے ہٹ گئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میرے حاشیہ خیال ہی میں یہ نہیں آ سکتا کہ یہ حضرات کسی ذاتی مفاد کے لیے ایسا کریں گے۔ وہ اپنے نزدیک جو حق سمجھتے ہیں کر رہے ہیں اور اسی کو اپنے استاد کا مسلک سمجھتے ہیں۔ باقی یہ لازم نہیں کہ جو ان کا خیال ہے وہ واقعی میں صحیح ہو۔ نہ ان کی تقلید دوسروں پر واجب ہے۔ امور مذکورہ کاتذکرہ میں نے اس لیے نہیں کیا کہ مجھے کوئی انتقام لینا مقصود ہے۔ میں بہر طور ایسے امور کو بُرا سمجھتا ہوں۔ دکھلانا صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی بساط کے موافق اس قسم کے امور کو روکنے کی ہمیشہ سعی کی۔</p> <heading>مولانا مدنی کا ایک استدلال اور اس کا مسکت جواب</heading> <p>آخر گفتگو میں مولانا حسین احمد نے اپنی جیب سے دو تین کالم کا ایک مضمون نکال کر تقریباً دس منٹ تک پڑھ کر سنایا۔ یہ مضمون ایک انگریز کی تجویز اور رائے پر مشتمل تھاجس میں اس نے ہندوستان کی سیاسیات پر بحث کرتے ہوئے حکومت برطانیہ کو اس کا ایک حل بتلایا تھا۔اس مضمون میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور بمبئی کے بجائے کراچی کو تجارت کا مرکز بنایا جائے۔ گویا اس مضمون کو سنانے کی غرض یہ تھی کہ مسلم لیگ نے جو نظریہ پاکستان پیش کیا ہے وہ اس انگریز کی تجویز پر مبنی ہے اور مسلم لیگ انگریزوں کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے۔</p> <p>مولانا احمد سعید نے سوال کیا کہ انگریز کی پالیسی ٹکڑے کرنے کی ہے یا جمع کرنے کی۔ یعنی اس کا فائدہ کس جانب میں ہے؟ مطلب یہ تھا کہ ہم جو وفاقی حکومت چاہتے ہیں انگریز کے لیے مہلک ہے اور آپ جو تقسیم ہند چاہتے ہیں یہ صورت حکومت کے لیے مفید و معین ہے۔ علامہ عثمانی نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک آپ کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا۔ یعنی آپ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انگریز کا فائدہ ہمیشہ ٹکڑے کرنے میں ہے یا نہیں۔ میرا جواب یہ ہے کہ کبھی انگریز کا فائدہ ٹکڑے کرنے میں اور کبھی جمع کرنے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی</p> <p>ایک حالیہ نظیر ملاحظہ فرمائیے۔ برطانیہ نے ترکی اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ عراق، شام، لبنان، نجد، یمن سب کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وقت میں پالیسی یہ تھی اب جو عرب لیگ قائم ہو رہی ہے جس میں تمام عربوں کو روس کے خطرہ سے انگریز متحد کرنا اور ان سب کا ایک بلاک بنانا چاہتا ہے۔ کیا یہ بھی آپ کے نزدیک انگریز کے اشارے سے نہیں ہو رہا جس کا منشا یہ ہے کہ تمام عرب ممالک کی ایک آہنی دیوار بنا دی جائے۔ اس کو وفد نے تسلیم کیا کہ بیشک علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر یہ کہنا صحیح نہیں کہ انگریز کی پالیسی ہمیشہ ٹکڑے کرنا</p> <p>ہے۔ معلوم ہوا کہ کبھی اس کی پالیسی جمع کرنے کی بھی ہوتی ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا فائدہ کس صورت میں ہے خواہ اس میں حکومت کا فائدہ ہو یا نقصان ظاہر ہے کہ ہندو یا مسلمان کسی کے مقابلے میں بھی گورنمنٹ اپنے مفاد کو بااِختیار خود نظرانداز نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ مولانا حسین احمد نے جو ایک انگریز کا مضمون پڑھ کر سنایا یہ ایک انگریز کی شخصی رائے اور تجویز ہے۔ جوآج سے چودہ برس پہلے اسے پیش کی گئی تھی لیکن حکومت برطانیہ کا سب سے بڑا نمایندہ وائسرائے ہند لارڈ ویول جو ہندوستان پر اس وقت حکمران ہے اس نے اپنی تقریروں میں برملا یہ کہا کہ اس ملک کا مرکز اور اس کی حکومت ایک ہی رہنی چاہیے اس ملک پر کوئی بڑا عمل جراحی نہیں ہو سکتا۔ پہلی مرتبہ یہ تقریر کلکتہ کے کامرس چیمبر میں کی۔ دوسری مرتبہ لیمپس لیچر میں یہی مضمون ادا کیا اور ابھی دو تین ماہ ہوئے کہ راولپنڈی کے دربار میں لارڈویول نے یہی کہا کہ اس ملک کی تقسیم نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے سابق وائسرائے لارڈ لنتھگو نے بھی 42ء میں اس قسم کی تقریر کی تھی۔ اب آپ حضرات غور فرمائیں کہ آج وائسرائے ہند کے نظریے کی حمایت کانگریس کر رہی ہے یا مسلم لیگ۔</p> <p>مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ اجی حضرت یہ تو انگریزوں کی چالیں ہیں۔ کہتے تو کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس انگریز کی تجویز میں بھی تو یہی احتمال ہو سکتا ہے۔ لیکن حجت کے درجہ میں تو سب سے بڑے ذمہ دار ہی کا قول ہم پیش کر سکتے ہیں۔</p> <p>اس سلسلہ میں مولانا حسین احمد نے فرمایا کہ اچھا اگر پاکستان قائم ہو گیا، تو ہندوستان کا دفاع کیسے ہو سکے گا؟ روس نے اگر حملہ کر دیا، تو سرحد کے مسلمان بے چارے پس جائیں گے۔ سارا بوجھ ان پر پڑ جائے گا۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ یہ توآپ مان چکے ہیں کہ انگریز ابھی یہاں موجود ہے۔ سرِدست اگر پاکستان بنائے گا، تو وہی بنائے گا۔ سرحدوں کی حفاظت کی بھی کوئی صورت ضرور نکالے گا اور اس کے چلے جانے کی صورت میں بیرونی قوت ہندوستان پر چڑھائی کرے گی، تو دونوں طبقے مل کر اس کی حفاظت کریں گے اور ہر ایک دوسرے کی آدمی، سامان اسلحہ اور روپے سے مدد کرے گا کیوں کہ یہ سب کا مشترکہ مفاد ہو گا۔ ایسا نہیں کریں گے، تو سب کا نقصان ہو گا۔ اس قسم کے دفاع کے کام باہمی معاہدوں سے انجام پائیں گے۔ مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ حضرت معاہدوں کو آج کل کون پوچھتا ہے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جب بلا معاہدہ آپ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، تومعاہدہ کی صورت، تو بہرحال اس سے قوی تر ہونی چاہیے۔</p> <p>پھر آپ کی تقریر کا حال، تو یہ ہوا کہ ہم کسی حالت اور کسی وقت بھی ہندوئوں کی احتیاج سے باہر نہیں ہو سکتے اور نہ ان کے بدون کبھی کوئی کام کر سکتے ہیں۔ (یہ بات کم از کم شیر دل بہادروں کو زیب نہیں دیتی جو کہتے ہیں ذرا انگریز سے آزادی مل جائے پھر ہم نہرو وغیرہ کسی سے نہیں ڈرتے۔)</p> <p>نیز آپ دیکھتے ہیں کہ معاہدات ہی کی طاقت تھی کہ روس اور برطانیہ نے مل کر جرمن اور جاپان کو کس طرح پیس ڈالا۔ کیونکہ تینوں کی غرض مشترک تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کا مفاد جب مشترکہ ہو گا، تو دونوں بذریعہ معاہدات عملی اتحاد کیوں نہیں کر سکتے۔ (گو قومی اتحاد نہ ہو نہ سہی)</p> <heading>اس موقع پر مفتی عتیق الرحمن نے علامہ عثمانی سے کہا کہ آپ تو ہمیشہ سیاسیات سے یکسو رہا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں کیا داعیہ ایسا پیش آیا جس کی وجہ سے آپ نے شرکت فرمائی؟</heading> <p>حضرت علامہ نے ارشاد فرمایا کہ اس الیکشن کی نوعیت پچھلے الیکشنوں سے بالکل مختلف ہے۔ حکومت نے صاف لفظوں میں اس کا اعلان کر دیا ہے کہ اس مرتبہ منتخب ہونے والی اسمبلیاں ہی آیندہ ہندوستان کا مستقل دستور بنائیں گی۔ چونکہ اس الیکشن سے قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ وابستہ تھا اس بنا پر میں نے ضروری سمجھا کہ اس بنیادی موقع پر ان مسلمانوں کی مدد کی جائے جو استقلال ملت اور مسلم حق خودارادیت کے حامی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ آپ نے یہ کہا کہ میں سیاسیات سے ہمیشہ علیحدہ رہا ہوں۔ گزشتہ چند سالوں کو چھوڑ دیجیے اس سے بیشتر جمعیتہ العلما ہند میں ہماری بھی تو کچھ ناچیز خدمات رہی ہیں۔ ہم نے بھی تو کچھ معرکے سر کیے ہیں اور آپ حضرات طوفانی دورہ کر رہے تھے جس سے میرے نزدیک مسلمانوں کا نقصان تھا، تو ظاہر تھا کہ ایسے موقع پر میں سکوت کیسے باقی رکھ سکتا تھا۔</p> <p>اگر بینم کہ نابینا و چاہ ہست</p> <p>اگر خاموش بہ نشینم گناہ است</p> <p>(جب میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک نابینا کنویں کی طرف بڑھ رہا ہے، تو اس موقع پر خاموش بیٹھنا میرے لیے گناہ کا کام ہے۔)</p> <p>ان وجوہ سے میں نے مسلم لیگ کی تائید و حمایت کی۔ (پھر علامہ عثمانی نے یکایک کوئی اعلان نہیں فرمایا، بلکہ مہینوں پاکستان کے نظریہ پر شرعی و سیاسی حیثیت سے انتہائی غور و تعمق کیا، جب کلکتہ کے اجلاس کل ہند جمعیتہ العلمائے اسلام میں اپنا پیغام بھیجا، تو استخارہ بھی فرمایا۔ مکمل شرح صدر کے بعد یہ اقدام فرمایا گیا۔ (مرتب) اس کے بعد علامہ عثمانی نے فرمایا کہ پھر میرا اثر ہی کیا ہے۔ہندوستان میں اگر میری اپیل پر بیچارے نوابزادہ لیاقت علی خان کو دس بیس ووٹ مل ہی گئے،تو کیا اثر ہوا۔ آپ تو ماشاء اللہ بااثر ہیں۔ (موجودہ پروپیگنڈے کی طاقتیں آپ کے ساتھ ہیں)۔ میں تو اب آپ میں ایک اچھوت کی حیثیت رکھتا ہوں۔ کسی نے کہا، نہیں یہ بات نہیں آپ کے اعلانات نے ملک میں ہلچل مچا دی ہے۔</p> <heading>علامہ عثمانی سے سکوت کی درخواست</heading> <p>مولانا احمد سعید نے فرمایا کہ بہرحال یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اس میں احتمالِ خطا دونوں طرف ہے۔ مگر آپ تو اس قوت سے بیان دے رہے ہیں کہ اپنے مخالفوں کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ ذرا کچھ تو نرمی اختیار کریں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ آپ سب حضرات ماشاء اللہ اہلِ علم ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب احناف و شوافع وغیرہ کے باہمی اختلافی مسائل کی تقریریں آپ اور ہم کرتے</p> <p>ہیں تو باوجودیکہ سب آئمہ ہُدیٰ ہیں لیکن ہم میں سے کون اپنے مذہب کی تصویب و تائید میں کسر اٹھا رکھتا ہے؟ اور حنفی مذہب کو ترجیح دیتے ہوئے شافعی یا مالک یا احمد کے لیےاپنے زعم میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے۔ اس پر سب ہنسنے لگے۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں میرا تو وہی خیال ہے جو فقہا کرام نے مسئلہ کے عقیدے کی نسبت لکھا ہے کہ اپنا امام جو مسئلہ بیان کرے اس کی نسبت یہ رائے رکھے کہ صواب عمل الخطا۔ یعنی جو ہمارے امام نے مسئلہ بیان کیا وہ صحیح اور درست ہے۔ ہاں اس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔ اور دوسرے امام نے جو کہا (خطائو احتمل الصواب) یعنی وہ خطا ہے گو اس میں احتمال صواب کا بھی قائم ہے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی نہیں۔ آخر میں مولوی حفظ الرحمن نے فرمایا کہ جمعیتہ العلما اسلام محض ہماری جماعت کے مقابلے میں اس کو توڑنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ مناسب ہو گا کہ آپ کم از کم اس کی صدارت قبول نہ فرمائیں۔ علامہ عثمانی نے فرمایا کہ میں نے ابھی صدارت کے قبول و عدم قبول کی نسبت کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن کل کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا کروں گا۔</p> <p>(نوٹ: لیکن اس کے بعد علامہ عثمانی نے کل ہند جمعیتہ العلما اسلام کے ناظم کے تار کے جواب میں باضابطہ صدارت کی… کا تار روانہ فرما دیا ہے۔ فلہ الحمد مرتب)</p> <p>جب یہ حضرات علامہ عثمانی سے رخصت ہونے لگے۔ مولانا احمد سعید نے دریافت فرمایا کہ حضور نظام نے حیدر آباد بھی تو بلایا تھا آپ کب تشریف لے جائیں گے؟ علامہ عثمانی نے فرمایا میں نے حضور نظام کو لکھا ہے کہ ابھی تو تین ماہ تک مجھے یہاں بغرض علاج قیام کرنا ہے۔ سردی کم ہونے پر اگر اجازت ہو تو حیدر آباد آئوں۔ اب حضور نظام پر موقوف ہے کہ اگر اس کے باوجود انھوں نے مجھے طلب فرمایا، تو مجھ کو بہرحال جانا پڑے گا اور اگر اجازت دے دی تو ٹھہر جائوں گا۔</p> <p>(الحمدللہ اس تحریر کے مرتب کرتے وقت ہی حضور نظام کے چیف سیکرٹری کا تار بنام علامہ عثمانی پہنچ گیا کہ آپ کو فرد حق تک قیام کی اجازت ہے۔ مرتب)</p> <p>چلتے چلتے وفد کا منشا یہ معلوم ہوتا تھا کہ جو تحریرات آپ کی شائع ہو چکی ہیں وہ بیان مسئلہ کے لیے کافی ہیں۔ اب اگر یکسوئی اختیار کی جائے، تو کیا بہتر نہ ہو گا؟ لیکن علامہ عثمانی نے فرمایا کہ جس چیز کو میں حق سمجھتا ہوں ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں میرے لیے سکوت کیسے مناسب ہے؟</p> <p>اس کے بعد وفد رخصت ہو گیا۔یہ تمام گفتگو نہایت خوشگوار فضا میں ہوئی۔ کسی موقع پر بھی الحمد للہ ادنیٰ سی تلخی پیدا نہ ہوئی۔ جب یہ تاریخی مجلس برخاست ہونے لگی، تو علامہ عثمانی نے اپنے یہاں آنے والے علما کے احترام میں اِتنا فرمایا کہ یہ سلسلہ گفتگو آخری نہیں ہے۔ پھر جب چاہیں گفتگو کرسکتے ہیں۔جانبین کو موقع غور و فکر کا حاصل ہے۔ ا ب تک کی صورتِ حال یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ قائم ہیں اور میں اپنی جگہ پر رہا۔ اِس کے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔ شرعی حیثیت سے مسائل حاضرہ پر ہند کے وفد کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوا۔</p> <p>(غالباً یہ حضرات یہ سمجھ کر آئے تھے کہ علامہ عثمانی کی سیاسی معلومات کم ہوں گی، تو ہم اپنے بیان کردہ واقعات سے علامہ موصوف کی رائے کو متاثر کر دیں گے۔ شرعی حیثیت سے گفتگو تو مولانا حفظ الرحمن سے پہلے کر چکے تھے کہ اس پر ہم آپ سے کیا بحث کرتے۔ لیکن اس مکالمہ سے غالباً ان پر یہ حقیقت بھی روشن ہوگئی کہ علامہ عثمانی ؒ کی معلومات شرعیہ جہاں بے پناہ ہیں وہاں سیاسی مذاق بھی کچھ اِس سے کم نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ علامہ عثمانی نے مسئلہ پاکستان کو اپنی گفتگو میں اس طرح سے مُنقح کیا کہ جو لوگ سیاسی ہیں جب اس مکالمہ کو سنتے ہیں۔ تو وہ خود بھی تنقیح مسئلہ کے انداز پر عش عش کرتے ہیں)</p> <heading>ضروری گزارش</heading> <p>جو مکالمہ اوپر درج ہوا اس پر گفتگو کے سب اجزا آگئے۔ کوئی ایک آدھا جز چھوٹ گیا ہو، تو جدا بات ہے۔ ترتیب کلام میں تقدیم و تاخیر بھی ممکن ہے کیونکہ جس وقت مکالمہ ہو رہا تھا، بروقت منضبط نہیں ہوا۔ لیکن گفتگو کا ملخص اور ضروری لب لباب جہاں تک ممکن تھا لے لیا گیا۔ علامہ عثمانی نے جس طرح گفتگو نقل فرمائی اسی طرح قلمبند کر لی گئی اور مزید احتیاط یہ کی گئی کہ مسودہ صاف کر کے حضرت علامہ کو دکھلا لیا گیا۔ حضرت علامہ نے کہیں کہیں اس میں ترمیم و اصلاح بھی فرمائی۔ لہٰذا یہ مکالمہ اب حضرت علامہ کا مصدقہ مکالمہ ہے۔ جو بغرض افادۂ عوامشائع کیا جا رہا ہے۔ اس مکالمہ سے اہل بصیرت اور مہذب دنیا کو یہ واضح ہو گا کہ اختلافات میں حزم و احتیاط اور عدل و توازن سے کیا لطافت پیدا ہوتی ہے اور کس طرح مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔ اور بے اعتدالیوں یا بدتہذیبیوں سے اختلاف کس طرح خلاف اور شقاق کی نوعیت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ کہ ہر دو جماعتوں کا رخ کیا ہے۔ کون اصول کو مقدم کرنا چاہتی ہے اور کون ذاتیات پر اتری ہوئی ہے؟</p> <heading>بشکریہ اردو ڈائجسٹ</heading> </section> </body>
5456.xml
<meta> <title>فرقہ واریت کی موجودگی میں وحدت امت کامسئلہ</title> <author> <name>محمد عمران</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22390/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1840</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
فرقہ واریت کی موجودگی میں وحدت امت کامسئلہ
1,840
Yes
<body> <section> <p>آج مغربی معاشرے میں اسقاط حمل سے لے کر کلوننگ تک، سٹم سیل ریسرچ <annotation lang="en">(Stem cell research)</annotation> سے لے کر ہم جنس پرستی تک، عراق جنگ سے لے کر ٹیکس اصلاحات ، اور <annotation lang="en">pro-choice, pro-life</annotation> بحث سے لے کر اوباما کئیرتک بے شمار مسائل میں مختلف آراء پائی جاتی رہی ہیں لیکن یہ ان کے انتشار کا باعث نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام میں ایک مسئلے پر موجود مختلف آراء <annotation lang="en">(difference of opinion)</annotation> میں سے ایک رائے کو نافذ کرنے کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو اسلام سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ عوامی نمائندوں کی اکثریتِ رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پس اس طریقہ کار کے مطابق وہ اپنے تمام اختلاف کو ریاستی معاملات میں حل کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی رائے اختیار کر لیتے ہیں بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست میں ایک رائے نافذ کر دی جاتی ہے۔ اور بقیہ رائے کے حامل لوگ اپنی رائے کے نفاذ کیلئے سیاسی طریقے سے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ تاآنکہ ان کی کوششوں سے رائے عامہ ان کی رائے کے حق میں ہو جائے، پس وہ رائے اکثریتی رائے کی بنیاد پر نافذ ہو جاتا ہے۔</p> <p>اسلام میں مختلف آراء میں سے ایک رائے نافذ کرنے کا طریقہ کارجمہوریت سے مختلف ہے۔ اسلام کااس سلسلے میں طریقہ کار یہ ہے کہ شریعت سے اخذ کردہ قوی دلائل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے اولولامریعنی خلیفہ جس اجتہاد کو تبنی <annotation lang="en">(Adopt)</annotation> کر لے اس پر عمل پیرا ہوناواجب ہوتا ہے۔ خلیفہ عبادات، ذاتی معاملات اور عقائد کی فروعی تفصیلات میں کوئی مخصوص اجتہاد نافذ نہیں کرتا اور لوگوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مجتہد کی تقلید کریں۔ وہ محض ان مسائل میں ایک اجتہاد کو نافذ کرتا ہے ،جن کا تعلق اجتماعی معاملات اور نظام سے ہے مثلاً جہاد کب اور کس کے خلاف کیا جائے، خراج، اقتصادی نظام، تعلیمی پالیسی وغیرہ۔</p> <p>اس اسلامی اپروچ کے دلائل کافی جانے پہچانے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! اللہ اوررسول( ﷺ )کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولوالامر (حکمرانوں) کی بھی۔" (النساء:۵۹) پس خلیفہ اسلامی دلائل پر مبنی رائے میں سے جس رائے کو اختیار کرنے کے بعد لاگو کریگا اس پر تمام مکاتب فکر محض اس لئے عمل کریں گے کیونکہ اس منتخب کردہ خلیفہ کی اطاعت مندرجہ بالا آیت اور دیگر احادیث کی وجہ سے فرض ہے۔ اس دوران عوام اور دیگر مجتہدین اپنی اپنی رائے پر قائم رہ سکتے ہیں، اس کی تعلیم و ترویج کر سکتے ہیں اور خلیفہ کو اپنی رائے اپنانے کے لئے مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن ان اجتماعی مسائل میں پوری امت کو خلیفہ کے اپنائے گئے اجتہاد ہی پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ یہ اﷲ کا حکم ہے۔ اسی طرح معاشرے اور ریاست کا نظم و نسق بغیر انتشار کے چلایا جاسکتا ہے۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے: (امر الامام یرفع الخلاف ) "امام (خلیفہ) کا حکم اختلاف کو ختم کرتا ہے" اور(ألامر الامام نافذ ظاہراً و باطناً ) "امام کا حکم ظاہراً اور باطناً نافذ کیا جاتا ہے"۔ اسی اصول کے تحت ابو بکرؓ نے اپنی خلافت کے دوران صحابہؓ کی اکثریتی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رائے کو نافذ کیا اور مرتدین زکاۃ، جھوٹی نبوت کے دعوے داروں اور رومیوں کے خلاف ایک ساتھ لشکر کشی فرمائی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے عراق کے مفتوحہ علاقوں پر خراج نافذ کرنے کے اپنے اجتہاد کو نافذ فرمایا اگرچہ حضرت بلالؓ اور اکابر صحابہؓ کا اجتہاد ان سے مختلف تھا۔ نیز جب ابو بکرؓ خلیفہ تھے تو انہوں نے طلاق، وراثت اور اموال کی تقسیم میں اپنے اجتہادات کو نفاذ کیاجبکہ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں انہی مسائل پر مختلف اجتہادات کو لاگو فرمایا۔ حضرت ابو بکرؓ اور عمرؓ کے اس طریقہ کار پر تمام صحابہؓ کا اجماع ہے جو ہمارے لئے شرعی دلیل ہے۔ اجتہادی اختلاف حضرت ابو بکرؓ اور عمرؓ کی خلافت کے دوران بھی رہا لیکن اس نے امت میں تفرقہ یا انتشار پیدا نہیں کیا کیونکہ امت کو اپنے اجتہادی اختلافات حل <annotation lang="en">(resolve)</annotation> کرنے کا طریقہ آتا تھا۔</p> <p>خلافت کے انہدام کے بعد اٹھنے والے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ بنا کہ اب مذہبی اختلاف کو کیسے حل کیا جائے۔ یاد رہے کہ خلافت مسلمانوں کو سیاسی طور پر ایک کرنے کیلئے ہوتی ہے. خلافت کا یہ مقصد نہیں کہ تمام مسلمان ایک مسلک بن جائیں یعنی ہمارا اجتماعی لائحہ عمل ایک ہو، بےشک ہماری سوچ مختلف ہی کیوں نہ ہو. خلافت میں مختلف افراد اور گروہ مختلف سوچ ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں کیونکہ انفرادی طور پر فکر میں تنوع <annotation lang="en">(diversity)</annotation> اور تضاد فطری ہے. لیکن چونکہ ریاست کے درجے پر عمل کی وحدانیت لازم ہے اسلئے اسلام نے یہ حق خلیفہ کو تفویض کیا ہے ۔</p> <p>خلافت کے انہدام کے بعد ایک ادارہ جسے مسلمانوں کا اختلاف رائے حل کرنے میں شرعی اختیار اور مسلمانوں کا اعتماد حاصل تھا، اچانک ایک سیکولر ڈھانچے سے تبدیل کر دیا گیا. اور چونکہ مسلمان مذہب کے معاملات میں ایک سیکولر ریاست پر کبھی اعتبار نہیں کر سکتے، اسلئے انھوں نے نجی <annotation lang="en">(private)</annotation> مذہبی اداروں کا رخ کیا تاکہ مذہبی معاملات اس کے ذریعے منظم کریں. یقیناً ایسے نجی اداروں کا ایک ہونا ناممکن تھا اور ہے، اسلئے ہر ایسے نجی مذہبی اداروں کے پیچھے افراد کے جھمگٹے مضبوطی سے جمع ہو گئے. ان نجی مذہبی اداروں کو ایک شدید خدشہ لاحق تھا. اور وہ یہ کہ ایک مرکزی نگران ادارے( یعنی خلافت ) کی غیر موجودگی میں کوئی بھی نااہل نئی بےبنیاد تشریحات کرکے امت کو گمراہ کر سکتا ہے، اسلئے ان مذہبی گروہوں نے اپنے تئیں لوگوں کو ایسے کسی فتنے سے بچانے کیلئے انھیں صرف اپنی تشریحات پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور باقی سب سے دور اور انتہائی محتاط رہنے پر اکسایا. یوں یہ نجی مذہبی ادارے جڑیں <annotation lang="en">(institutionalized)</annotation> پکڑتے گئے.</p> <p>دو مزید چیزوں نے مسئلہ مزید گھمبیر بنا دیا. اول یہ کہ سیکولر ریاستی ڈھانچے نے مذہبی علم کو کھوکھلا کر دیا، کیونکہ وہ چیزیں جو مذہبی علم کو گہرائی بخشتی ہیں جیسے کہ عربی زبان، قرآن و حدیث کا علم، اصول، فقہ، اور اسلامی اخلاق کو جان بوجھ کر قومی نصاب سے ہٹا دیا گیا. دوسرا اس سے جڑا مسئلہ یہ تھا کہ ریاست اسلام نافذ نہیں کر رہی تھی اسلئے اسلامی علم محض غیر عملی فلسفے اور تاریخی کہانیاں بن کر رہ گئے کیونکہ اس کا عملی و ریاستی سطح پر کوئی پالیسی یا قانون کے طور پر کوئی استعمال نہ تھا. جس کے باعث اجتماعی طور پر اسلام کی فہم و سمجھ میں بطور دین و نظام بہت بڑا زوال آیا اور آندھی تقلید کی بنیاد پر مذہبی گروہ بن گئے جس سے فرقہ واریت اور مسلک پرستی مسلمان دنیا میں گہری سے گہری تر ہوتی گئی.</p> <p>یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام گروہ جو آج موجود ہیں، سب کے سب ان اوقات میں ظاہر ہوئے جب یا تو خلافت ختم ہوئی، یا تب جب کچھ علاقوں میں استعمار خلافت کا کنٹرول ختم کرنے میں کامیاب ہوا. واحد استثناء اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف ہے جس کی جڑیں ابتدائی دور میں سیاسی اختلافات سے شروع ہوئی. تاہم ایک وسیع تناظر میں اسلامی آئیڈیالوجی پر اتفاق کا اثر یہ تھا کہ خلافت اختلاف کی تنظیم کرنے میں کامیاب تھی. تاہم اہل تشیع آخرکار ایک صفوی ریاست میں الگ ضرور ہوئے تاہم وہ بھی اپنی ریاست میں اسلامی قانون سے نہیں ہٹے.</p> <p>آندھی تقلید کا یہ رجحان اور بعض گروہوں کا انتہاپسندانہ طرزعمل دراصل براہ راست خلافت کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے اور صرف خلافت کا دوبارہ قیام ہی اس مذہبی اختلاف رائے کی درست تنظیم کر کے اسے اسلام کی درست تعلیمات کے مطابق واپس ڈھالے گی. مسلم دنیا میں ایک صدی کی سیکولر حکمرانی اس امر کی غماز ہے کہ سیکولرزم صرف اس مسئلے کو گھمبیر کر سکتی ہے، حل نہیں. مسلم معاشروں میں سیکولرزم اس مسئلے کا حل نہیں، جیسا کہ بعض لوگ تجویز کرتے ہیں، بلکہ یہ خود اس مسئلے کی وجہ ہے.</p> <p>خلافت تمام مسلمانوں کی ایک ریاست کا نام ہے۔ اور یہ کسی مخصوص گروہ کی خلافت نہیں۔ خلافت کو کسی مخصوص مسلک کو نافذ نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ قوی دلائل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے درست اجتہاد نافذ کیاجانا چاہئے ۔ خواہ وہ کسی عصر حاضر کے مجتہد کی رائے ہو یا اسلام کے مشہور زمانہ تاریخی مجتہدین کی رائے ہو، جن کا آج ایک زمانہ مقلد ہے۔</p> <p>عملیت پسندی کے طور پر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ یہ اگر بالفرض کوئی گروہ یا کچھ گروہ ریاستی پالیسی سے کچھ معاملات میں اختلاف کرتے ہو، اور اپنے اختلاف میں وہ انتہائی شدید رویہ اپنانے پر بھی تیار ہو، تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ریاست عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ آخرکار آج اکثریت گروہوں کے نزدیک یہ نظام "غیر شرعی" ہے، تو اس سے نظام منہدم نہیں ہو گیا تو ایک ایسے نظام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے جو اسلام کے ہزاروں احکامات کو نافذ کر ے گی ، حدود، جہاد، لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا، کفار سے الائنس کاٹنا ، غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ، اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی حفاظت۔</p> <p>آخر میں دو مزید امور بھی قابل توجہ ہیں.</p> <p>اولا: اسلام کے قطعی احکامات میں مجموعی طور پر کوئی زیادہ فرق نہیں۔ خصوصاً وہ امور جن کا تعلق ریاست سے ہے ان معاملات میں امت میں جذباتی اختلافات نہیں. جیسے خراج، عشر، زکواۃ، حرمت سود، ریاست کا ایک ہونا، خلیفہ کی اطاعت، خلیفہ کا امت کے امور کا ذمہ دار ہونا، بنیادی ضروریات کی گارنٹی، کفار کے ساتھ فوجی تعاون کا ممانعت ، <annotation lang="en">IMF</annotation> اور ورلڈ بینک جیسے استعماری اداروں سے قرضہ لینے کی ممانعت، اقوام متحدہ جیسے طاغوت کی رکنیت کا حرام ہونا، غیر شرعی ٹیکس لینے کی ممانعت ، زمینوں سے متعلق معرکۃالآرا اصلاحات، حدود کا نفاذ، اقام الصلوۃ، پردہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور اسلامی ثقافت کی ترویج وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک عبادات اور بعض مسائل کی فروعات اور تفصیلات میں اختلاف کا تعلق ہے تو اس اختلاف کا امت کی وحدت کے امور سے کوئی تعلق نہیں ، نہ ہی ریاست کے امور پر اس کاکوئی اثر پڑتا ہے پس اس اختلاف کے باقی رہنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ مثبت انداز میں ان معاملات پر بحث و مباحثے کا کلچر پروان چڑھا کر ریاست خلافت ایک ایسے برداشت پر مبنی <annotation lang="en">( tolerant)</annotation> معاشرے کو پروان چڑھا سکتی ہے.</p> <p>دوم :موجودہ فرقہ وارانہ اختلافات میں شدت یقیناً حکمرانوں اور استعماری طاقتوں کے مفاد میں ہے اور اس کو بڑھانے میں ان کی کوششوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا. جیسا کہ آج مڈل ایسٹ میں بالکل واضح ہے.</p> <p>اجتہاد سے متعلقہ بنیادی سمجھ ہی تفرقہ بازی اور دیگر مکاتب اسلام سے بغض کو زائل کرتی ہے کیونکہ دیگر مکاتب فکر بھی دلائل کی بنیاد پر ایک شرعی مسئلے پر کاربند ہوتے ہیں۔ یقینا! جب آپ حق کی تعلیم عام کر دیتے ہیں تو فرقے مکاتب فکر بن جاتے ہیں تاہم ایسا ہونا ایک ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔</p> <blockquote> <p>نوٹ</p> </blockquote> <heading>کالم کے مندرجات سے کسی کو اختلاف ہو تو وہ اپنی تحریر <annotation lang="en">ibcurdu@yahoo.com</annotation> پر بھجوا سکتا ہے .</heading> </section> </body>
5457.xml
<meta> <title>مسلح بلوچ تنظیموں کی سرگرمیوں سےایران میں تشویش</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22639/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>495</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مسلح بلوچ تنظیموں کی سرگرمیوں سےایران میں تشویش
495
No
<body> <section> <p>ایران نے ملک میں مسلح بلوچ تنظیموں کی ان بڑھتی سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں وہ ایران کے جنوب مشرق میں واقع علاقے بلوچستان میں پاسداران انقلاب اور سیکورٹی فورسز کو حملوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔</p> <p>ایرانی پاسداران انقلاب کی فورسز نے منگل کے روز سے علاقے میں وسیع پیمانے پر مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ ادھر وزیر داخلہ نے سیکورٹی، انٹیلجنس اور ایران اور پاکستان کے درمیان واقع صوبوں کے سینئر ذمہ داران کا اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔ یہ اجلاس آئندہ تین ہفتوں کے اندر تہران میں منعقد ہوگا۔</p> <p>"فارس" نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی کا کہنا ہے کہ مذکورہ اجلاس کا مقصد مسلح تحریکوں کا سامنا کرنے اور سرحد کے مابین اسمگلنگ کی کارروائیوں روکنے کے لیے کوششوں میں تعاون کو یقینی بنانا ہے۔</p> <p>یاد رہے کہ متعدد بلوچی تنظیمیں مثلا "جيش العدل"، "جيش النصر" اور "الفرقان" وغیرہ پاسداران انقلاب اور سیکورٹی فورسز کے خلاف برسرجنگ ہیں۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ عسکری کارروائیاں "فرقہ واریت اور نسل پرستی" پر مبنی ان اقدامات کے جواب میں ہیں جو ایرانی حکومت بلوچ عوام کے خلاف کرتی چلی آرہی ہے۔ بلوچیوں کو تمام ایرانی قومیتوں میں غریب ترین شمار کیا جاتا ہے۔</p> <p>ان گروپوں کی ایرانی پاسداران انقلاب اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ مسلح جھڑپوں کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں گزرے عرصے کے دوران جانبین کے درجنوں ارکان ہلاک ہوچکے ہیں۔</p> <blockquote> <p>حملے روکنے کے لیے مشقیں</p> </blockquote> <p>اسی سلسلے میں پاسداران انقلاب کی زمینی فورسز نے جن کے پاس ایران اور پاکستان کے درمیان سرحد کی سیکورٹی بھی ہے، ایرانی بلوچستان کے علاقے میر جاوہ میں مسلسل دوسرے روز بھی مشقیں کیں۔ مشقوں کا مقصد دراندازی کی کارروائیاں روکنا اور مسلح گروپوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ بات پاسداران کی زمینی فورسز کے کمانڈر جنرل محمد پاکپور نے ایک بیان میں بتائی۔</p> <p>"فارس" نیوز ایجنسی کے مطابق پاکپور کا کہنا ہے کہ "ہم ان مشقوں میں سیکورٹی کارروائیاں سرانجام دے رہے ہیں جن میں پاسداران انقلاب کے ہیلی کاپٹر وسیع پیمانے پر شریک ہیں اور دشمن کے ٹھکانوں پر میزائل بھی داغے جارہے ہیں"۔</p> <blockquote> <p>قبائل کو ہم خیال بنانے کی کوشش</p> </blockquote> <p>بلوچی قبائل میں لابنگ کے لیے پاسداران انقلاب کے ڈپٹی جنرل کمانڈر جنرل حسین سلامی اور زمینی فورسز کے کمانڈر جنرل محمد پاکپور نے بلوچستان میں سنی قبائل کے سرداروں اور عمائدین میں سے 30 شخصیات کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا۔</p> <p>دونوں فوجی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا مقصد "ملک کے جنوب مشرق میں مسلح افراد کے انسداد کے لیے قبائل اور عسکری فورسز کے درمیان تعاون شروع کرانا ہے"۔</p> <p>گزشتہ چند ماہ کے دوران ایرانی فوجی اور سیکورٹی ذمہ داران نے دو علاقوں بلوچستان اور کردستان میں امن و امان کی صورت حال بگڑنے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مرکزی حکومت کی مخالف مسلح تنظیموں کی سرگرمیاں ہیں، یہ تنظیمیں غیر فارسی بان عوام کے لیے قومی حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں۔</p> </section> </body>
5458.xml
<meta> <title>جبران خلیل جبران.....مختصر بائیوگرافی......</title> <author> <name>جمال ناصر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22645/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>501</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
جبران خلیل جبران.....مختصر بائیوگرافی......
501
Yes
<body> <section> <p>فلاسفر, شاعر,ادیب ارو مصور جبران دسمبر 1883 کو لبنان کی وادی قادیشیا کی ایک بستی ,,بشری,,میں پیدا ھوا- 1894 میں جبران کا بڑا بھای اپنے دور کے دوسرے نوجوانوں کی طرح امریکہ جاکر قسمت آزمانے پر بضد ھوا - باپ نے مخالفت کی لیکن ماں نے بیٹے کی ضد کے آگے سر جھکادیا اور بچوں کو لے کر بڑے بیٹے کے ساتھ امریکہ روانہ ھو گئی - دوسال بعد جبران نے لبنان آکر عربی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا -1912میں وہ پیرس سے ھوتا ھوا امریکہ واپس چلا گیا ,</p> <p>نیویارک میں اس نے پہلا ناول ,,ٹوٹے ھوےپر,, تصنیف کیا ,عرب دنیا میں زبردست پزیرای ملی ,پھر اس نے ,,اشک وتبسم ,,کو کتابی شکل دی - اسی دور میں میں جبران نے اپنا مشہور افسانہ گورکن لکھا ,گورکن کے بعد قیدی بادشاہ تحریر کیا -1920 میں اسکی پہلی تصنیف <annotation lang="en">mad man</annotation> (پاگل) شائع ھوی اس کے <annotation lang="en">fore runner</annotation> (پیشرو) اور عربی شاھکار المراکب لکھا - جبران کی اگلی تصنیف <annotation lang="en">The prophet</annotation> تھی -1923 میں اس کا عربی ترجمہ النبی کے نام سے شائع ھوا تو امریکہ میں موجود شامی اس کتاب پر ٹوٹ پڑے - اسکی کتاب ریت اور جھاگ بھی اسی زمانے میں شائع ھوئ ..</p> <p>شہرت اور دولت کے بعد تپ دق بھی جبران پر عاشق ھوگئی اس کا مرض بڑھتا گیا مگر اس نے پرواہ نہ کی - النبی اور پھر 1928 میں ,,ابن آدم ,,کی اشاعت نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا ,اس پر دولت کی بارش ھورھی تھی پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی - اس کے بچپن اور جوانی کے خواب پورے ھوگئے ,لیکن اسکی محنت کا مال ایک بیمار دل اور بیمار پھیپھڑے تھے اس کا خیال تھا کہ احتیاط اور پرھیز سے ازخود ٹھیک ھوجاے گا لیکن ایسا نہ ھو سکا اسکی تکالیف میں اضافہ ھوتا گیا اس کے جوڑوں میں درد ھوتا تو سمجھتا کہ نقرص ھے کبھی سانس میں تکلیف ھوتی تو سمجھتا نزلہ بلغم ھے لیکن پھر ایکسرے سے حقیقت آشکار ھوئی.</p> <p>انہی دنوں جبران نے <annotation lang="en">Garden of prophet</annotation> لکھا - بیماری کی وجہ سے بہت دفعہ لکھنے میں وقفہ ھوا لیکن جبران پھر کوشش کرکے لکھتا رھتا زندگی کے آخری دنوں ارضی دیوتا <annotation lang="en">Earth God</annotation> لکھی.</p> <p>جبران نے عمر بھر شادی نہ کی اسکی زندگی میں بہت سی خواتین آئیں لیکن اس نے محبت صرف سلمی سے کی ,جبران وہ خانقاہ خریدنا چاھتا تھا جہاں اسکی ملاقات سلمی سے ھوی تھی - جبران خلیل جبران 9 اپریل 1931 کو نیویارک میں کہیں جارھاتھا کہ کار کو حادثہ پیش آگیا انجن ٹوٹ گیا جبران شدید زخمی ھوگیا ھسپتال لایا گیا زخم گہرے تھے خون زیادہ بہہ چکا تھا ڈاکٹر بے بس ھو چکے تھے جبران مسلسل بے ھوش تھا 10 اپریل کو سانس رک رک چلنے لگااسکی بہن بھی پہنچ چکی تھی ڈاکٹر نے بتایا کہ امید نہیں یہ کبھی ھوش میں آئیں گے اسی رات گیارہ بجے جبران کے سینے سے آخری سانس نکل گیا.</p> <p>جبران کی بہن ماریہ نے وہ خانقاہ جو جبران زندگی میں خریدنا چاھتا تھا خرید کر وھاں اس کو دفن کردیا .........</p> </section> </body>
5459.xml
<meta> <title>مہاتما گاندھی .....مختصر ذکر ..</title> <author> <name>جمال ناصر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22650/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>636</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
مہاتما گاندھی .....مختصر ذکر ..
636
No
<body> <section> <p>ستم ظریفی دیکھیں جو شخص زندگی بھر عدم تشدد کا پرچار کرتا رھا اور جس کے فلسفہ کے بارے میں دعوی کیا جاتا ھے کہ برصغیر کی آزادی اور پرامن انتقال اقتدار کا ذریعہ بنا وہ خود تشدد کا شکار ھوگیا ..</p> <p>اھنسا کا دیوتا موھن داس کرم چند گاندھی 12 اکتوبر 1869,کو کاٹھیاواڑ کے شہر پور بند میں پیدا ھوا ,انگلستان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے بعد جنوبی افریقہ میں وکالت کرنے پہنچے تو انکو نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا - وھاں حکمران سفید فام یورپی مقامی سیاہ فاموں اور ھندوستانیوں سے توھین آمیز رویہ رکھتے تھے - چنانچہ انہوں نے وکالت کے ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کے خلاف ستیہ گرہ یعنی عدم تشدد پر مبنی مزاحمتی تحریک شروع کردی -1905 میں انہوں نے مغربی طریقے ترک کرکے انتہا درجہ کی سادگی اپنا لی ,</p> <p>1915 میں مہاتما گاندھی ھندوستان آگئے اور تحریک آزادی میں شامل ھوگئے ,برصغیر کی آزادی کی امید میں پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے برطانیہ کی حمائت کی ,لیکن جنگ کے خاتمہ پر آزادی کے آثار نظر نہ آنے پر 1919 میں انہوں نے برطانوی راج کے خلاف پر امن عدم تعاون اور ستیہ گری کی تحریک شروع کردی - انکی تحریک کے اھم مقاصد میں ھندوستان کی آزادی زات پات کا خاتمہ تھا ,,گاندھی جی کو کئی مرتبہ قید وبند سے گزرنا پڑا- دو مرتبہ انہوں نے اکیس اکیس دن کا مرن برت رکھا -1931 میں منعقدہ لندن گول میز کانفرنس میں کانگریس کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی.</p> <p>گاندھی جی کی کوشش تھی کہ ھندوستان کی تقسیم نہ ھو یعنی پاکستا نہ بنے لیکن پاکستان کا قیام عمل میں آگیا - انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا اور پھر فسادات کی زد میں آے لوگوں کی مدد پر کمر بستہ ھوگئے ان کے کہنے پر ھی حکومت ھند نے پاکستان کو پچپن کروڑ ادا کردئیے یہ رقم پاکستان کو متحدہ ھندوستان کے اثاثے میں سے واجب الادا تھی ,مسمانوں اور پاکستان سے ھمدردی کا اظہار کرنے پر لوگ انہیں ھندوستان کی تقسیم کاذمہ دار سمجھنے لگے-20 جنوری 1948 کو گاندھی جی کے خلاف نفرت کا پہلا اشارہ اسوقت ملا جب برلا ھاوس سے کچھ فاصلے پر اسوقت ایک بم پھینکا گیا جب وہ پرارتھنا سبھا میں تقریر کر رھے تھے ,انہوں نے بم پھینکنے والے کو ایک بہکا ھوا نوجوان کہ کر پولیس کو ھدائت کی اسے پریشان نہ کرے ایک پنجابی مدن لال گرفتار ھوا وہ اسی گروہ کارکن تھا جس نےگاندھی جی کو مارنے کی سازش کی تھی ,مدن لال کے ناکام رھنے پر پونا کا ایک نوجوان صحافی ناتھورام گوڈ سے دلی آیا اور وہ پستول جیب میں ڈالے برلا ھاوس کے گرد منڈلاتا رھتا - سازش کی بو پاکر حکام نے نگہداشت میں اضافہ کردیا گاندھی جی نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پولیس پرارتھنامیں آنے والوں کی تلاشی لے - ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے مرناھی ھے توپھر مجھے پرارتھنا سبھا میں ھی مرنا چاھئے.</p> <p>30 جنوری کی شام وہ برلا ھاوس میںواقع اپنے کمرے سے نکل کر پرارتھنا سبھا میدان کی طرف چلے راستہ صرف دومنٹ کاتھا لیکن اس دن سردار پٹیل سے باتیں کرنے کی وجہ سے کچھ دیر ھوگئی وہ اپنی پوتیوں آرا اور منو جنکو وہ اپنی چہل قدمی کی چھڑیاں کہتے تھے کے کندھوں پر ھاتھ رکھے سبھا کی طرف آرھے تھے پرارتھنا کے پنڈال میں لوگوں نے ان کے لئے راستہ بنایا بہت سے لوگ اٹھ کھڑے ھوئےکچھ تعظیم میں جھک گئے گاندھی جی نے ھاتھ جوڑ کر نمسکار کیا ,,ٹھیک اسی وقت گوڈسے مجمع کے کنارے آگے بڑھا اور اس طرح جھکا جیسے وہ گاندھی جی کے چرن چھونا چاھتا ھے - پھر اس نے جیب سے پستول نکال کر اوپر تلے تین فائر کردئیے گاندھی جی تیورا کر زمین پر گر پڑے - ان کے منہ سے بے اختیار نکلا - ھےرام- گولیوں نے سینہ چھید ڈالا........</p> </section> </body>
5460.xml
<meta> <title>دل کےدورےاورغیرملکی دورے</title> <author> <name>شعیب نظامی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22848/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>581</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
دل کےدورےاورغیرملکی دورے
581
No
<body> <section> <p>پاکستان کے بگڑتے سیاسی حالات پر جہاں رونا چاہئے وہاں آپ اب آنسو نہیں نکلتے،، اسی لیے اب ب۔ ادب تحریر لکھنے کو دل کرتا ہے۔ یہ ب ادب، اردو میں بے ادب ہے اور عربی میں با ادب۔ آج کل ہر میڈیا ہاؤس میں سیاسی معاملات پر بحث جاری رہتی ہے۔ میرے نیوز روم میں بھرپور جمہوریت ہے اور سیاسی معاملات پر کھل کر اظہار خیال کرکے بڑھال نکالی جاتی ہے۔ سیاسی بحث میں مدثر عزیز، سردار عمران، شاکر سولنگی اور رضا باجوہ صاحب وقتا فوقتا اپنے اپنے مصالحے شامل کرتے رہتے۔</p> <p>گزشتہ دنوں ایک محفل میں بچپن کا ایک کھیل یاد آگیا۔ جس میں سب اپنی انگلیاں، چیل اڑھی، کوا اڑا، بھینس اڑی، اور کیل اڑی۔ پر گاہے بگاہے انگلیاں اٹھاتے اور جو غلط انگلی اٹھاتا اس کی شامت آتی۔</p> <p>مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب یہ کھیل صحافی کھیل رہے ہیں۔ ایک بولا نواز شریف اڑا، سب نے انگلی اٹھائی ہا ہاں اڑا، ، پھر بولے کہ چوہدری نثار اڑا، سب نے پھر انگلی اٹھائی ہاں ہاں اڑا، پھر آواز آئی کہ عمران خان اڑا، سب نے پھر انگلی اٹھائی ہاں ہاں اڑا، ساتھ ہی جہانگیر ترین اڑا سب نے پھر انگلی اٹھائی، پھر شاکر سولنگی نے آواز لگادی کہ مولانا فضل الرحمان اڑا اور پھر سب نے انگلی اٹھائی،، ہاں ہاں اڑا۔ یہ ہمارے ملک میں سب کو غیر ملکی دورے کیوں پڑ رہے ہیں۔</p> <p>کبھی مشرف صاحب باہر جا رہی ہیں تو کبھی ایان علی، زرداری صاحب تو ہیں ہی باہر۔ سیاست میں فارن ٹور کھیلا جا رہا ہے۔ کبھی آف شور کا شور ہے کبھی چور نے مچایا ہے شور۔ کسی کی بیوی بیمار تو کسی کا دل، کسی کے حالات، کسی کے مزاج۔۔ ہر غم کا علاج پاکستان سے باہر۔ ہم گزشتہ دس میں 35 کھرب روپے سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں پر لگا چکے ہیں لیکن دل کا ایک بھی ایسا ہپستال نہیں بنا سکے جو ہمارے حکمرانوں کے علاج کے شایان شان ہو۔ تین ارب روپے کی لاگت سے بننے والا راول پنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی اس قابل نہیں کہ وزیر اعظم کے دل کے غم کو ہلکا کرسکے۔ کوئی ایسی ٹیکس ہیون نہیں بناسکے جہاں ہمارے حکمران اپنا سرمایہ لگاسکیں۔ ایسا کوئی ٹنیشن فری پارک نہیں بناسکے جہاں دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ یہ امرا تو باہر چلے جائیں لیکن یہ عوام کہاں جائیں۔ یہ اپنی بھڑاس کہاں نکالیں۔ گزشتہ دنوں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک افسران سے اس بات پر منہ ماری ہوگئی کہ موصوف کے مطابق پاکستان میں صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس جمع کراتے ہیں جبکہ ہمارے انہیں یہ باوار کراتے رہے کہ پاکستان میں کم از کم چار کروڑ روپے روزانہ ٹیکس دیتے ہیں کیونکہ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 9 کروڑ سے زائد ہے اور ہر سم پر ٹیکس ہے۔ یہ اپنا ٹیکس سے بچا سرمایہ کہاں لگائیں ان کے پاس تو سرمایہ بچتا ہی نہیں۔ لگانے کو۔۔</p> <p>یہ تو وہ بد نصیب ٹیکس دہندگان ہیں جن کے لیے دس روپے کی دوا نہیں اسپتال میں، علاج کے لیے ڈاکٹر نہیں، ایکسرے مشین خراب پڑی ہے، سٹی اسکین دو ماہ کے بعد ہوتا ہے اور ایم آر آئی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، علاج تو دور کی بات اب تو بستر نہیں ہے، زمین پر ہی پڑے رہتے ہیں ۔ رواں مالی سال اقتصادی سروے کا صحفہ نمبر 192 پڑھ لیں، پاکستان میں ایک ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، تیرہ ہزار افراد کے لیے ایک داندان ساز اور سولہ افراد کے لیے اسپتال کا ایک بستر ہے۔</p> </section> </body>
5461.xml
<meta> <title>ناک کو ناک ہی کہتے ہیں نا!</title> <author> <name>ضیاٗ الدین یوسفزئی ،برمنگھم</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/22850/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1357</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ناک کو ناک ہی کہتے ہیں نا!
1,357
Yes
<body> <section> <p>یہ اپنی خوب صورت وادئ سوات کی ایک جاں فزا صبح کی کہانی ہے۔ 1994ء کے او ائل میں مَیں نے اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ مل کر ایک نجی تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ ہم دونوں دوست بہت محنت کرتے تھے۔ تعلیم کے مشنری جذبے سے سرشار تھے۔ دن بھر زیرتعلیم بچوں کو خوب پڑھاتے تھے اور شام ہوتے ہی محلے کے حجروں اور بیٹھکوں میں جا کر تعلیم کی افادیت کی تبلیغ کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ساتھ تنگیِ معاش سے نکلنے کے لیے اپنے سکول کی انفرادیت پر روشنی بھی ڈالتے تاکہ والدین کو یہ باور کرائیں کہ ہمارا سکول ہی سب سے اعلیٰ اور بہتر ہے۔</p> <p>رات گئے تک سکول کی پبلسٹی کمپین کے بعد تھوڑی سی نیند نصیب ہوتی تو میں اگلی صبح سویرے اٹھتا۔ تب سب سے پہلے جھاڑو دے کر صفائی کرتا، پھر کپڑے تبدیل کرتا اور گھنٹی بجا کرپرنسپل کی کرسی پر بیٹھ جاتا۔ سکول کی لان میں درخت پر آویزاں تانبے کی گھنٹی کے ساتھ تو میرا ہمیشہ سے ایک جذباتی لگاؤ رہا ہے لیکن ان دنوں دروازے کی گھنٹی کی آواز بھی یہ امید لے کر کانوں میں رَس گھولتی تھی کہ اب کوئی مہربان والد اپنے بچے کو سکول میں داخل کرانے کے لیے نمودار ہوجائیں گے۔</p> <p>ایسے ہی ایک صبح ایک والد اپنے بچے کو دور واقع کسی سکول سے نکال کر نزدیک ہمارے سکول لے آئے۔ انٹری ٹیسٹ کے طور پر میں نے اس کا زبانی امتحان لینا شروع کیا۔ آگے لکھنے سے پہلے واضح کردوں کہ یہ چھوٹا سا امتحان کسی بچے کے داخلے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔ (کیوں کہ داخلے جاری ہیں کا بینر سارا سال کئی کھمبوں پہ آویزاں رہتا)، اس ٹیسٹ کے ذریعے محض یہ تعین کرنا تھا کہ بچے کو کون سی موزوں جماعت میں داخلہ دیا جائے۔ حسب معمول چند تعارفی سوالات کے بعد بچے کی انگریزی زبان کی فہم کو جانچنے کے لیے اس سے پوچھتا کہ بیٹے یا بیٹی ذرا یہ بتاؤ کہ سر کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں۔ جواب ملتا ہیڈ اور یا بچہ خاموش رہتا۔ اس طرح دوسرے معروف جسمانی اعضاء کے بارے میں بھی پوچھتا کہ انھیں انگریزی میں کیا کہا جاتا ہے۔لیکن اس صبح میرا واسطہ جس بچے سے پڑا تھا، وہ بڑا استاد تھا۔ اس نے اَن جانے میں مجھے وہ کچھ سکھایا جو میں نے کسی استاد سے سنا تھا اور نہ کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ میں نے پوچھا: "بچیہ پوزے تہ سہ وائی" یعنی بیٹے ناک کو کیا کہتے ہیں؟ اس نے معصومیت کے ساتھ برجستہ جواب دیا کہ: "پوزے تہ پوزہ وائی کنہ" مطلب ناک کو ناک کہتے ہیں نا۔ یہ جواب سن کر میں ششدر رہ گیا۔ تھوڑا سا نروس ہونے کے باوجود میں نے بچے کو خوب داد دی۔ لیکن اندر ہی اندر مجھے اپنی کم فہمی کا گہرا احساس ہوا۔ اس دن کے بعد میں نے پھر کبھی کسی بچے سے نہیں پوچھا کہ ہاتھ، پاؤں، چہرے اور سر کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں بلکہ اپنے ہاتھ، سر، ناک یا دفتر میں موجود معروف چیزوں پر ہاتھ رکھ کر پشتو ہی میں اس کا نام پوچھتا۔ بچہ پشتو ہی میں جواب دیتا تھا اور جواب ہمیشہ درست ہوتا تھا۔</p> <p>نئے آنے والے بچوں کے لیے زبانی امتحان یا تعارفی ملاقات کا یہ طریقۂ کار بہت کامیاب اور خوش گوار تھا۔ اس طرزِ عمل سے نہ مجھے سبکی ہوتی تھی، نہ والدین پہلے ہی دن اپنے بچے سے مایوس ہوتے اور نہ ہی ننھے منے بچے کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ یوں ایک فطری انداز میں بچے کے سکول میں پہلے دن کا آغاز ہوتا۔</p> <p>اس چھوٹی سی کہانی سے یہ بڑی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ بچوں کی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور انھیں پروان چڑھانے کے لیے ابتدائی تعلیم کا مادری زبان میں ہونا کتنا اہم ہے۔ اور یا کم از کم کچی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک مادری زبان کو بہ طور لازمی مضمون پڑھانا کتنا ناگزیر ہے۔</p> <p>میرے کچھ دوست آج کے بچوں کو اپنے سے زیادہ اس لیے خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ ان کو شروع ہی سے تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی نئی نسل کی اس بد نصیبی اور پس ماندگی پر ماتم نہیں کرتا کہ ایک طرف تو وہ اپنی مادری زبانوں کی لکھت پڑھت سے محروم رہتی ہے اور دوسری جانب انگریزی پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے ریاضی، سائنس اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کو سمجھنے میں سخت دشواری سے گزرتی ہے۔</p> <p>بذاتِ خود میں نے اپنے آبائی گاؤں شاہ پور کے سرکاری سکول میں پانچویں جماعت سے انگریزی سیکھنا شروع کی تھی اور آگے جاکر انگریزی ادب میں ماسٹر بھی کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج مجھے مارلو، شیکسپئر، جان ملٹن، جین آنسٹن اور ورڈز ورتھ کے ناموں کے علاوہ کچھ زیادہ یاد نہیں۔ میں خود کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک پشتو زبان کو بطور ایک مضمون پڑھا۔ پشتو پڑھنا، لکھنا سیکھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں آج خوشحال خان خٹک، رحمان بابا، حمید بابا، حافظ الپورئی، حمزہ بابا اور غنی خان جیسے عظیم شعرا، صوفیا اور فلسفیوں کے فیض سے محروم رہتا۔</p> <p>ہم سکولوں میں بچوں کو ان کی مادری زبان کے سیکھنے سے محروم رکھ کر ان پر بڑا جبر کرتے ہیں۔ یہ جبر ریاستی بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں نہ ہونے کی وجہ سے اور یا مادری زبان کو نصاب میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں سوکھی اور بنجر رہتی ہیں۔ فکر و نظر کے چشمے اپنی ہی زبان میں سوچنے اور سمجھنے سے پھو ٹتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 2006ء میں سوات کی سول سوسائٹی اور پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کی کوششوں سے ہم نے جب چند نجی تعلیمی اداروں میں پشتو کو بطورِ لازمی مضمون پڑھانا شروع کیا تو آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ بچے سب سے زیادہ پشتو کی کلاس کا انتظار کرتے اور سب سے زیادہ پشتو ہی کی کلاس میں خوش رہتے۔</p> <p>پاکستان کے ہر پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، ہندکی اور پشتون بچے کا بنیادی حق ہے کہ ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان ہی میں حاصل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اردو یا انگریزی کو نصاب سے نکال دیں یا نظر انداز کردیں۔ اردو اب قریباً پورے ساؤتھ ایشیا کے رابطے کی زبان ہے اور انگریزی پوری دنیا کی زبان ہے۔ ان کی اہمیت مُسلّم ہے۔ لیکن پاکستان کے تناظر میں مادری زبانوں کو ان دونوں زبانوں کی بھینٹ چڑھانا انتہائی غیر فطری اور نامعقول رویہ ہے۔</p> <p>ہماری ریاست اگر فرسودہ اور ناکام بیانیہ کی تبدیلی میں مخلص ہے تو سب سے پہلے قوموں کی مادری زبانوں کے حوالے سے معاندانہ اور خوف کا رویہ چھوڑ دے۔ مادری زبانوں کی نشرو اشاعت اور ترویج نہ صرف ان زبانوں کے بولنے والوں کی قوموں کی تہذیبی بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ عظیم تر پاکستان کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ آج کی دنیا میں عظیم قوموں اور بڑے ممالک کے شہری بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ <annotation lang="en">We are a multi cultured and diverse society</annotation> یعنی ہم ایک کثیر الثقافتی اور متنوع معاشرہ ہیں۔ کاش یہ چھوٹی اور سادہ سی بات جس پر مہذب دنیا متفق ہے، میاں شہباز شریف، ثنا اللہ زہری اور ہمارے اپنے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سمجھ میں آجائے اور وہ بھی صوبہ سندھ کے نقشِ قدم پر چل کر کل سے نرسری سے لے کر جماعت دہم تک بچوں کی مادری زبانوں کو کورس میں بطورِ لازمی مضمون شامل کردیں اور متعلقہ محکمہ تعلیم کو یہ ٹاسک دیں کہ پرائمری تعلیم مادری زبانوں میں رائج کردی جائے۔</p> <p>د بل ژبہ زدہ کول کہ لوئ کمال دے</p> <p>خپلہ ژبہ ہیرول بے کمالی دہ</p> <blockquote> <p>ضیاالدین یوسف زئی</p> </blockquote> <p>ضیا الدین سف زئی ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور دانش ور ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ضیا الدین یوسف زئی اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔اس وقت کونسلیٹ آف پاکستان برمنگھم (برطانیہ) میں ایجوکیشن اتاشی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔</p> <p>(کسی پرائی زبان کو سیکھنا اگرچہ بڑے کمال کی بات ہے لیکن اپنی زبان کو نظر انداز کرنے کا ملطب ہے کہ آپ میں کوئی کمال نہیں۔)</p> </section> </body>
5462.xml
<meta> <title>امام مسجد نبوی کا سانحہ ارتحال</title> <author> <name>غلام نبی مدنی،مدینہ منورہ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23035/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>792</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
امام مسجد نبوی کا سانحہ ارتحال
792
No
<body> <section> <p>شیخ محمد ایوب مسجد نبوی کے امام اور مدینہ یونیورسٹی کے فاضل اور استاد تھے۔آپ کا شمار نہ صرف سعودی عرب بلکہ عالم اسلام کے مشہور قراء میں ہوتا ہے۔ آپ 1952ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ 12 سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل حفظ کیا۔بعدازاں مدینہ منورہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1408 ھ میں مدینہ یونیورسٹی سے تفسیر قرآن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ کی ذہانت،محنت اور تعلیم وتعلم میں بھرپور رغبت کی وجہ سے آپ کو مدینہ یونیورسٹی میں استاد مقرر کیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ آپ مدینہ منورہ کی مختلف مساجد میں امامت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔جن میں مسجد نبوی اور مسجد قباء بھی شامل ہیں۔ 1410 ھ سے 1417 ہجری تک متواترمسجد نبوی میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔آپ کو 1410 ھ کے رمضان میں تنہامسجد نبوی میں تراویح کی نماز پڑھانے کا خاص اعزاز بھی حاصل ہے۔تقریبا 19 سال کے انقطاع کے بعد گزشتہ سال ملک سلمان کے حکم پر آپ دوبارہ مصلی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر تشریف لائے اور تراویح کی نماز پڑھائی۔ 9 رجب 1437 ھ کوفجرکےبعد 64 سال کی عمر میں آپ اپنےخالق حقیقی سےجاملے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ اسی دن ظہر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں مسجد نبوی کے قدیم امام شیخ علی الحذیفی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔اور جنت البقیع ایسے مبارک قبرستان میں دفن ہونے کی سعادت ملی۔پسماندگان میں دو بیویاں، 5 بیٹے اور اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔الحمدللہ پانچوں بیٹے اور بیٹیاں قرآن کریم کے حافظ ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں تلامذہ ہیں جنہوں نے مسجد نبوی اور مدینہ یونیورسٹی میں آپ سے کسب فیض کیا۔اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔رحمه الله رحمة واسعۃ۔</p> <p>شیخ محمد ایوب انداز قرآن اور خوش الحانی میں یکتا اور منفرد حیثیت کے مالک تھے۔یہی وجہ تھی کہ ملک فہد کے حکم پر آپ نے مکمل قرآن کریم کی ریکاڑڈنگ کروائی جو ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ پر آج تک نشر ہورہی ہے۔اہل مدینہ آپ کی آواز سن کر دھاڑیں مارکررونے لگتے تھے۔ 19 سال کے بعد جب پچھلے سال آپ کو مسجد نبوی میں تراویح کے لیے امام مقررکیا گیا تو دور دراز سے لوگ آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لائے۔آپ فرماتے تھے کہ میری دو خواہشیں ہیں،ایک یہ کہ محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مرنے سے پہلے امامت کی سعادت مل جائے اور دوسری یہ کہ میری چھوٹی بیٹی بھی قرآن حفظ کرلے۔اللہ کی شان آپ کی یہ دونوں خواہشیں مکمل ہوئیں۔چنانچہ 19 سال کے بعد آپ کو محراب نبوی میں پچھلے سال امامت کی سعادت بھی ملی اور فوت ہونے سے ایک دن پہلے اپنی بیٹی کی حفظ ِقرآن کی تقریب میں شرکت بھی فرمائی ۔</p> <p>حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں برتری کا معیار صرف تقوی ہے۔اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ "کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں،نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے اورنہ کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل ہے اورنہ گورے کو کالے پر کوئی برتری ہے مگر تقوی کے ذریعے"اس پر شاہدہے۔شیخ محمدایوب اصلا برمی تھے،لیکن قرآن کریم سے محبت اور لگن کی وجہ سے اللہ نے انہیں دیگرہزاروں عربوں پر فضیلت بخشی اور مصلی نبوی پرامامت کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔مسجد نبوی میں ہر نماز کے بعد کئی کئی جنازے ہوتے ہیں،لیکن جنازے کو کندھا دینے کے لیے کبھی لوگ دور دور سے دوڑ دوڑ کرنہیں جاتے،پہلی بار میں نے یہ جنازہ دیکھا جس میں بوڑھے،نوجوان سبھی شیخ محمد ایوب کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے دوڑے جارہے تھے۔دنیا بھر سے آئے زائرین بھی یہ منظر دیکھ حیران تھے۔مسجد نبوی میں معمول سے زیادہ رش تھا،گرمی کی شدت کے باوجود لوگ تدفین کے مراحل میں شریک رہے۔</p> <p>شیخ محمد ایوب ایسے لوگوں کی رفعت اور قدر ومنزلت کی وجہ صرف قرآن اورقرآن تھی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:"اللہ عزوجل اس قرآن کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلند کرتے ہیں جب کہ بعض دوسرے لوگ(جوقرآن سے روگردانی کرتے ہیں) کو پست کردیتے ہیں"۔ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو کیوں کہ قیامت کے دن یہ اپنےپڑھنےوالوں کی سفارش کرے گا۔اس لیے ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ قرآن سے دوستی لگائے،خود بھی سیکھے اور تدبر سے پڑھے اورسمجھے اور اپنے گھروالوں اوردیگر مسلمانوں کو اس کی طرف راغب کرے۔آج مسلمانوں کی پستی کا ایک سبب قرآن سے دوری ہے۔" اورتم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر"۔</p> <p>شیخ محمد ایوب ایسےلوگ تمام مسلمانوں کےلیےمشعل راہ ہیں،جو قرآن کی برکت سےساری زندگی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے اور قیامت تک آنے والے لوگ قرآن ہی کی وجہ سے انہیں یاد اور دعائیں دیتے رہیں گے۔اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم اور اہل قرآن سے محبت کرنے والا بنائے اورقرآن کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔</p> </section> </body>
5463.xml
<meta> <title>بولی وڈ بھی حنا ربانی کھر سے متاثر؟</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23177/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>327</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بولی وڈ بھی حنا ربانی کھر سے متاثر؟
327
No
<body> <section> <p>پاکستان کی سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے سیاست کی دنیا میں تو اپنا نام بنایا ہی ہے، لیکن شاید یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ بولی وڈ میں بھی ان سے متاثر ہوکر ایک کردار تخیلق کیا جائے گا.</p> <p>ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بولی وڈ کی آنے والی تھرل فلم 'ارادہ' میں دیویہ دتہ ایک ہندوستانی سیاستدان رامندیپ کے کردار میں نظر آئیں گی، جس کا اسٹائل اور طور اطوار بالکل حنا ربانی کھر جیسے ہیں.</p> <p>اس فلم میں دیویہ دتہ کے علاوہ نصیر الدن شاہ اور ارشد وارثی بھی اداکاری کے جوہر دکھائیں گے.</p> <p>2011 سے 2013 کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہنے والی حنا ربانی کھر، فیشن اور اسٹائل کی وجہ سے بھی خاصی مشہور تھیں.</p> <p>حنا ربانی کو 2011 میں دورہ ہندوستان کے دوران کافی سراہا گیا، جب انہوں نے دہلی ہوائی اڈّے پر قدم رکھا تو سب کی نظریں ان پر مرکوز ہوگئی تھیں۔ موسم کے لحاظ سے زیب تن کیے ہوئے اُن کے نیلے رنگ کے لباس، ہیئر اسٹائل، سن گلاس اور ہینڈ بیگ انڈین میڈیا میں خوب سرخیوں کی زینت بنے اور انھیں 'ماڈل جیسی وزیر' بھی قرار دیا گیا۔</p> <p>اپنے کردار کی حنا ربانی کھر سے مماثلت کے حوالے سے دیویہ دتہ کا کہنا تھا کہ 'یہ قصداً نہیں تھا، کردار بہت جاذب نظر ہے اور بالکل ویسا ہی معلوم ہوتا ہے، جس طرح حنا ربانی کھر نظر آتی ہیں. جب میں اس گیٹ اَپ میں سیٹ پر آئی تو بہت سے لوگوں نے بتایا کہ میں حنا ربانی کی جیسی لگ رہی ہوں اور چونکہ تاثرات کافی مثبت تھے لہذا ہم نے یہ گیٹ اَپ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا.'</p> <p>انھوں نے مزید بتایا کہ رامندیپ عزم و ہمت والی ایک پنجابی خاتون ہیں، مجھے اس کے لیے زیادہ تیاری نہیں کرنی پڑی کیونکہ ڈائریکٹر اپرنا سنگھ اور نشانت تری پیتھی جانتے تھے کہ انھیں کیا کرنا ہے اور میں نے صرف ان کے وژن کو فالو کیا.</p> </section> </body>
5464.xml
<meta> <title>علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم اپنی کہانی سناتی ہے</title> <author> <name>نوید احمد</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23232/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>876</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم اپنی کہانی سناتی ہے
876
Yes
<body> <section> <p>لائبریری کسی بھی مہذب معاشرے کا قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے،جہاں اس اثاثے کی تزئین و آرائش کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں وہیں علم کے متلاشیوں کی پیاس بجھانے کے لیے قدیم و جدید فکری اور تحقیقی مواد جمع کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے،کہا جاتا ہے کہ " لائبریری ایک ایسا ڈلیوری روم ہے جہاں خیالات و نظریات کی پیدائش ہوتی ہے اور تاریخ کو زندگی ملتی ہے"تقسیم ہند سے قبل جہلم سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ سرکاری آفیسر لالہ گورن دتہ مل نے اپنے والد لالہ لدھا شاہ بندرا کی یاد میں ایک لائبریری قائم کی،برصغیر کی مشہور شخصیت ،پنجابی زبان کے مصنف اور تحریک آزادی کے رہنما لالہ لاجپت رائے کی قائم کردہ غیر منافع بخش تنظیم سرونٹس آف دی پیپل سوسائیٹی <annotation lang="en">(Servansts of the Peoples Society)</annotation> کے زیر انتظام اس کا نام لاجپت رائے لائبریری رکھا گیا جبکہ مرکزی ہال کا نام لالہ لدھا شاہ ہال رکھا گیا ،جس کا افتتاح ڈاکٹر گوپی چند بھارگو نے 3 مئی 36 19ء کو کیا،قیام پاکستان کے بعد اسکو علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم کا نام سے منسوب کر دیا گیا،معلوم نہیں کیسی کیسی علمی،ادبی اور سماجی شخصیات کی اس کو رفاقت میسر رہی،جن کی علمی جستجو اور جمالیاتی ذوق کو یہ دانش گاہ تسکین پہنچاتی رہی بلکہ جہلم کی گزشتہ اسی( 80 )سالہ تاریخ اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے،اس دوران مختلف حکومتی محکموں نے اس کا انتظام و انصرام سنبھالے رکھا جو اس کی موجودہ صورت گری کے اولین ذمہ دار قرار دیئے جا سکتے ہیں،جہلم شہر کے دل میں قائم اپنے گمشدہ سکون کی تلاش میں ہے اور اہلیان جہلم کی بے اعتنائی و بیگانگی ،انتظامیہ کی نااہلی اور عوامی نمائندوں کی بے حسی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے،جہلم لائیو سے اس کی گفتگو ملاحظہ ہو،</p> <p>جہلم لائیو:اپنے محل و قوع کے بارے میں بتائیے؟</p> <p>جواب:آج سے کم و بیش اسی سال پہلے جہلم شہر میں 2 کنال 13 مرلے پر مشتمل اراضی میں لائبریری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا،کبھی یہاں متنوع موضوعات پر مشتمل ،مختلف مذاہب عالم کی تاریخ کے بارے میں ہزاروں کتب موجود تھیں،تاہم یہ ذخیرہ کم ہوتے ہوتے تقریباََ چار ہزار کتب کے سٹاک تک آپہنچا ہے،جو 19 لوہے اور 3 لکڑی کی بوسیدہ الماریوں میں رکھا گیا ہے،</p> <p>جہلم لائیو:اس لائبریری کی سرپرستی آج کل کس حکومتی محکمے کے زیر انتظام ہے؟</p> <p>جواب:بنیادی طور پر یہ لائبریری محکمہ اوقا ف گجرات ریجن کے زیر انتظام ہے،جنہوں نے ٹی ایم اے جہلم کے دو اہلکار یہاں متعین کیے ہوئے ہیں،ان میں سے ایک لائبریرین جبکہ دوسرا نائب قاصد کے فرائض سرانجام دے رہا ہے،گجرات شہر میں تشریف فرما ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ اوقاف محمد عدنان حسین کے اختیار میں اس لائبریری کا انتظام ہے،جو ضلع گجرات میں اس قدر مصروف ہیں کہ اس لائبریری کے بارے میں سوچنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں،جبکہ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ ،محکمہ اوقاف کو خطوط لکھ کر اپنی ذمہ دارسے بری ہو چکی ہے،</p> <p>جہلم لائیو:عمارت کی مجموعی حالت کیسی ہے؟</p> <p>جواب:ایسا محسوس ہوتا ہے زندگی کے آخری دن آ پہنچے ہیں،کمزور دیواروں پر موجود بوسیدہ چھت کسی بھی وقت زمین پر آسکتا ہے اور خاکم بدہن کوئی ناخوشگوار حادثہ رونما ہو سکتا ہے،محکمہ اوقاف نے لیٹر نمبر <annotation lang="en">AA/ETP/GRT/ 2014 / 1024</annotation> مورخہ23-10-2014 جبکہ محکمہ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ جہلم نے لیٹر نمبر 3994-95/Cمورخہ 28-11-2014کے مطابق لائبریری کی عمارت کو خطرناک قرار دے کر شہریوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے،اس رپورٹ کو دیکھتے ہوئے موجودہ صورتحال کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے،</p> <p>جہلم لائیو:کتنے لوگ روازانہ لائبریری آتے ہیں؟</p> <p>جواب:انتہائی مخدوش صورتحال کے باوجود سات،آٹھ لوگ ہیں جو اس لائبریری سے ابھی مایوس نہیں ہوئے ،علم و دانش کی تلاش میں باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں،اخبار پڑھتے ہیں،لائبریری کی خستہ حال عمارت کو حسرت سے دیکھتے ہیں،لائبریری کی تباہی کے ذمہ دار ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں،اور پھر اگلے دن واپس آنے کے لیے اپنے گھر روانہ ہو جاتے ہیں،</p> <p>جہلم لائیو:سنا ہے اس عمارت میں کچھ خاندان رہائش پذیر ہیں؟</p> <p>جواب:ناجائز تجاوزات کا سلسلہ بہت عرصہ سے جاری ہے،جس کی پشت پناہی مقامی خاتون ایم این اے کر رہی ہیں،لائبریری کے صحن میں ان کی آشیرباد سے چند خاندان رہائش پذیر ہیں،جن کے نام سراج،رمضان،رضیہ اور صادق ہو سکتے ہیں،جبکہ باہر دکانیں بنا کر کرایہ دار بٹھائے گئے ہیں،ایک دفعہ لائبریرین نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے قبضہ مافیا کی شکایت اعلٰی حکام سے کی تو خاتون ایم این اے نے موقع پر پہنچ کر معمولی سرکای ملازم کی "عزت افزائی"کی جس کے بعد مذکورہ اہلکار خاموشی کو بہترین پالیسی قرار دیتا ہے،</p> <p>جہلم لائیو:اپنی آخری خواہش بتائیے؟</p> <p>جواب:لائبریری میں موجود کتب میری معنوی اولاد ہیں،ہمارے ایک طرف موجود اکرم شہید لائبریری کی کتابوں جبکہ دوسری جانب سامنے گلی میں بک کارنر پر موجود کتانوں کی قسمت دیکھ کر ان کو رشک آتا ہے یہ تاریخٰی اور نایاب کتب ان جیسا ماحول چاہتی ہیں،میری آخری خواہش ہے کہ لائبریری سے قبضہ مافیا کا صفایا کر کے لائبریری کی عمارت کو ازسرنو تعمیر کیا جائے،لیکن اگر اس سے صاحبان حل و عقد کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہے اور اس قیمتی زمین پر صاحب ذی محتشم کی نظر ہے تو پر سکون جگہ کا جواز پیش کر کے اس تاریخی اثاثے کو کسی مناسب جگہ منتقل کر دیا جائے تاکہ ان کتابوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے،</p> </section> </body>
5465.xml
<meta> <title>پاکستان اور دنیا بھر سے دلچسب اور اہم ترین خبریں</title> <author> <name>ٹیم آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23635/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1654</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان اور دنیا بھر سے دلچسب اور اہم ترین خبریں
1,654
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>مشرف کو 20 مئی تک گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے . عدالت</p> </blockquote> <p>اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری سے عارضی استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی 6 اپریل کو جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹ کو 'جعلی' قرار دے دیا۔سابق چیف جسٹس سمیت 60 ججز کی نظر بندی کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سہیل اکرام نے کی۔</p> <p>پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے سابق آرمی چیف کی میڈیکل رپورٹ اور اپنے موکل کی حاضری سے عارضی استثنیٰ کی درخواست عدالت میں جمع کرائی، تاہم عدالت نے دونوں کو مسترد کرتے ہوئے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو برقرار رکھا۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سہیل اکرام نے قرار دیا کہ پرویز مشرف گذشتہ ماہ مارچ میں بیرون ملک گئے جبکہ جو رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی وہ اپریل کی ہے۔</p> <heading>پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اگر ڈاکٹر اجازت دیں اور سیکیورٹی مہیا کی جائے تو ان کے موکل عدالت میں پیش ہوں گے، جس پر جج نے کہا کہ پرویز مشرف گذشتہ ڈیڑھ برس سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے ہیں۔</heading> <p>سابق صدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری سے متعلق اپنی رپورٹ میں اسلام آباد پولیس نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ پرویز مشرف گذشتہ ماہ مارچ سے دبئی میں ہیں، اس لیے وارنٹ گرفتاری پر عمل نہیں کیا جاسکتا، جس پر جج نے انسپکٹر جنرل اسلام آباد کو حکم دیا کہ وہ ملزم پرویز مشرف کی رہائش کے بارے میں معلوم کریں اور انھیں گرفتار کرکے 20 مئی کو اگلی سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے۔</p> <blockquote> <p>القاعدہ کا اہم کارکن اور اسامہ کا ساتھی کراچی سے گرفتار</p> </blockquote> <p>کراچی میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے القاعدہ کے انتہائی مطلوب دہشت گرد عبدالرحمان سندھی کو گرفتار کرلیا ہے۔ ملزم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔ملزم عبدالرحمان سندھی کا نام مطلوب افراد کی فہرست میں 2001ء میں اس وقت شامل کیا گیا تھا، جب امریکی صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ سندھی اور سعود میمن پر شبہ ہے کہ انہوں نے اغوا کے لیے دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کی تھی.امریکی اہلکار سعود میمن کو جنوبی افریقہ سے گرفتار کرکے گوانتانامو بے منتقل کیا گیا تھا، جہاں سے رہائی کے بعد 2005 میں اس کا انتقال ہوگیا تھا جبکہ عبدالرحمان سندھی نہ تو امریکی اور نہ ہی پاکستانی اداروں کے ہاتھ آیا تھا۔ایس ایس پی سید مقدس حیدر نے ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے بتایا کہ ایک حساس ادارے نے پولیس کو مخبری کی تھی سندھی ناظم آباد میں موجود ہے، جس پر پولیس نے اسے چھاپہ مارکر گرفتار کرلیا۔</p> <blockquote> <p>این ایف سی ایوارڈ کےفوری تعین کی ضرورت ہے، خورشید شاہ'</p> </blockquote> <p>اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم نواز شریف کو آٹھویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تعین کے لیے خط ارسال کیا ہے۔وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کی مدت 30 جون 2015 کو ختم ہوچکی ہے،جس کے بعد نیا این ایف سی ایوارڈ تقریباً 2 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ 7 ویں این ایف سی ایوارڈ کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے ایک سال کی توسیع دی گئی تھی، این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں میں وسائل کی تقسیم کا تعین کیا جاتا ہے، جبکہ صوبوں میں وسائل کی حقیقت پسندانہ تقسیم کے لیے جلد از جلد نئے صاف اور شفاف این ایف سی ایوارڈ کے تعین کی ضرورت ہے۔</p> <blockquote> <p>وکٹیں گرانے والے عمران خان کی اپنی وکٹ گر گئی .</p> </blockquote> <p>کراچی: پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی حفیظ الدین حالیہ دنوں میں بننے والی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) میں شامل ہو گئے۔سید حفیظ الدین 2013 کے عام انتخابات میں حلقہ پی ایس -93 سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں سید حفیظ الدین نے سندھ اسمبلی اور تحریک انصاف سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا۔سید حفیظ الدین کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کی بہت کوشش کے بعد کراچی میں پارٹی کو کھڑا کیا تھا، لیکن پارٹی نے اندرونی طور پر آواز اٹھانے کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا۔</p> <blockquote> <p>لیہ: زہریلی مٹھائی کھانے سے 10 افراد ہلاک</p> </blockquote> <p>لیہ: پنجاب کے ضلع لیہ کے چک 105 م-ل میں زہریلی مٹھائی کھانے سے 33 افراد کی حالت غیر ہوگئی، جن میں سے 10 افراد ہسپتال میں دوران علاج ہلاک ہوگئے ، ہلاک ہونے والوں میں سے 3 افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔پولیس کے مطابق سجاد نے گائوں میں موجود طارق ہوٹل اینڈ سویٹس شاپ سے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں مٹھائی (لڈو) خریدی اور خاندان والوں کے ساتھ خود بھی کھائی۔مٹھائی کھانے کے بعد ان افراد کی حالت غیر ہوگئی اور ان کو مقامی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر(ڈی ایچ کیو) ہسپتال منتقل کردیا گیا۔علاج کے دوران 9 سالہ شہباز احمد، رمضان اور عرفان کی حالت نازک ہوگئی اور انہیں نشتر ہسپتال ملتان منتقل کردیا گیا، جہاں بعد ازاں وہ چل بسے۔</p> <blockquote> <p>عاقب اور پیٹر مورس ہیڈ کوچ کے مضبوط امیدوار</p> </blockquote> <p>لاہور: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے عہدے کیلئے سابق انگلش کوچ پیٹرمورس اور پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔</p> <blockquote> <p>100 بااثرشخصیات: ثانیہ اور پریانکا بھی شامل</p> </blockquote> <p>امریکی جریدے ٹائم کی جانب سے حال ہی میں دنیا کے 100 بااثر افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں پریانکا کا نام بھی شامل ہے . ٹائم میگزین نے سو شکصیات میں ہندوستانی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کا نام بھی شامل کیا ہے .فہرست میں شامل دیگر ہندوستانیوں میں آر بی آئی کے گورنر راگھورام راجن، گوگل کے سی ای او سندر پچائی اور فلپ کارٹ کے بانی بنی بنسال اور سچن بنسال بھی شامل ہیں۔</p> <blockquote> <p>جاپان کی طرف سے پہلے اسٹیلتھ جنگی طیارے کی کامیاب پرواز</p> </blockquote> <p>جاپان نے اپنے پہلے اسٹیلتھ لڑاکا طیارے کی کامیاب پرواز کا تجربہ کیا ہے۔ اس طرح جاپان دنیا کی اُن چند فوجی طاقتوں کے گروپ میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس راڈار کو دھوکہ دینے والی یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ملکی سطح پر تیار کردہ <annotation lang="en">X-2</annotation> جیٹ نے ناگویا ایئرپورٹ سے اُڑان بھری اور 25 منٹ دورانیے کی کامیاب پرواز کے بعد گِیفُو <annotation lang="en">Gifu</annotation> ایئربیس پر اترا۔ جاپانی وزارت دفاع کی طرف سے بتایا گیا کہ اس پرواز کے دوران طیارے کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی خاص مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ جاپان نے اس منصوبے کا آغاز 2009ء میں کیا تھا۔</p> <blockquote> <p>ترکی میں بم دھماکے کے نتیجے میں تین فوجی ہلاک</p> </blockquote> <p>ترکی میں آج ہونے والے ایک بم حملے میں تین فوجی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ترکی کے مشرقی صوبے میں ایک فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی جنوب مشرقی علاقوں میں ترک فورسز اور علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے جنگجوؤں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان جھڑپوں کا آغاز گزشتہ برس ترک حکومت اور <annotation lang="en">PKK</annotation> کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہوا تھا۔</p> <blockquote> <p>شامی حکومتی فورسز کی بمباری میں 10 افراد ہلاک</p> </blockquote> <p>شامی حکومتی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ شامی خانہ جنگی پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق یہ حملے صوبہ حلب کے مختلف مقامات پر آج جمعہ کے روز کیے گئے۔ آبزرویٹری کے مطابق ان حملوں میں درجنوں دیگر افراد زخمی بھی ہوئے جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔</p> <blockquote> <p>یمن میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا آغاز</p> </blockquote> <p>یمن میں جاری بحران کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں سے کرائے جانے والے امن مذاکرات میں شیعہ حوثی باغی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ مذاکرات پیر 18 اپریل کو شروع ہونا تھے تاہم باغیوں کی طرف سے احتجاج کے باعث مؤخر ہو گئے تھے۔ باغیوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سعودی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد نے 11 اپریل کو شروع ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ یمنی امن مذاکرات کے ایجنڈے میں سلامتی سے متعلق اقدامات کے علاوہ حوثی باغیوں کے مسلح گروپوں کا انخلاء اور اپنے ہتھیار ریاست کے حوالے کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یمن میں جاری جنگ کے سبب ساڑھے چھ ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔</p> <blockquote> <p>جرمنی میں سکھوں کے گردوارے پر حملہ، دو ٹین ایجرز گرفتار</p> </blockquote> <p>جرمن شہر ایسن میں گزشتہ روز ایک سکھ گردوارے پر بم حملے کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے۔ جرمن پولیس کے مطابق اس حملے کے بعد دو ٹین ایج مسلمان لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو مشتبہ طور پر شدت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ پولیس کی طرف سے ایک فوٹیج جاری کیے جانے کے بعد ایک نوجوان نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ دوسرے کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ جرمن میڈیا کے مطابق یہ دونوں نوجوان جرمنی میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ پولیس کے مطابق گردوارے پر حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں میں سے ایک شخص کی حالت تشویشناک ہے۔</p> <blockquote> <p>ادریس دیبے پانچویں مرتبہ چاڈ کے صدر منتخب</p> </blockquote> <p>افریقی ملک چاڈ میں سینیئر رہنما ادریس دیبے کو پانچویں مدت کے لیے صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ بات ملکی الیکشن کمیشن کی طرف سے بتائی گئی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ افریقی یونین کے انتخابی مبصرین نے 10 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کو آزادانہ اور شفاف قرار دیا تھا۔ چاڈ کے الیکشن کمیشن کے مطابق دیبے نے 61 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ اپوزیشن رہنما صالح کیبازو کو 12. 8 فیصد ووٹ ملے۔ دیبے نے 1990ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا۔</p> </section> </body>
5466.xml
<meta> <title>تعلیم ،درسگا ہ اور استاد</title> <author> <name>تنویراحمداعوان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23793/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>909</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
تعلیم ،درسگا ہ اور استاد
909
Yes
<body> <section> <p>تعلیم کے ذریعے انسان نے تحقیق و ایجادات کی نئی دنیا آباد کی ہے،حقوق و فرائض کا ادراک بھی درسگاہ کی مرہون منت ہے،اساتذہ کی تربیت بے ڈھنگ اور بے حیثیت کو مہذب ،باکردار اور باحیثیت بنا ڈالتی ہے،گویا تعلیم ،درسگاہ اور استاد کی تکون معاشرے کا جزلاینفک ہے،کسی بھی سماج کے بننے اور بگڑنے کا انحصار انہی تینوں پر ہوتا ہے۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ عروج ان قوموں کا مقدر بنا جنہوں نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا،سامراج نے ہمیشہ تعلیم کے ذریعے قوموں کو افکار ونظریاتی غلامی کا طوق پہنایا۔بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند ایسے ہی حالات سے دوچار ہوا،جہاں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد تھی ،جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کرچکی ،اقتدار پر قابض ہونے کے بعد نئے نظام تعلیم کے ذریعے ایسی ذہنی غلامی کی ابتداء کی گئی ،جس کے فیض یافتہ دیکھنے میں تو ہندی تھے مگر افکار و نظریات کے اعتبار سے افرنگی تھے۔ردعمل میں دو تعلیمی نظام وجود میں آئے ،علی گڑھ یونیورسٹی اوردارلعلوم دیوبند،قیام پاکستان انہی اداروں کے فضلاء اور متعلقین کی جدوجہد کا ثمرہ ہے اورقیام پاکستان سے استحکام پاکستان کا سفر میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔</p> <p>تعلیم ،درسگاہ اور استاد کا ادب و احترام جتنا طلبہ و فضلاء مدارس دینیہ میں ہوتا ہے،شاید ہی کسی دوسرے ادارے کے فیض یافتہ کرتے ہوں ۔استاد اور شاگرد کے عظیم رشتے کے تقدس سے گہرا علاقہ رکھنے والے علماء و طلبہ جب اپنے مربی اور محسن اساتذہ سے ملتے ہیں تو مشکوٰۃ تعلیمات نبویہ سے روشنی لے کر ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں،یہ اہل علم وعلماء کرام ہیں جو معاشرے اور سماج کو اعلیٰ اقدار،باحیاء ،عفت و عصمت اور باوقا رروایات کی تعلیم دیتے ہیں ۔تہذیب و تمدن ،اخلاق حسنہ اور امن و سلامتی کا درس انہی کا ورثہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار جامعہ العلوم الاسلامیہ الفریدیہ اسلام آباد میں 23 اپریل 2016 ؁کو منعقدہ تقریب ختم بخاری شریف سے مہتمم جامعہ مولانا عبدالعزیز غازی صاحب،ولی کامل مولانا محمد حسن صاحب،مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ،مولانا عبدالغفارصاحب اور مولانا یعقوب طارق صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب ختم بخاری شریف میں ملک کے طول وعرض سے جدید فضلاء کے والدین و متعلقین ،علماء و مشائخ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی ،جامعہ فریدیہ کی مسجد کے دونوں پررونق اور کشادہ ہال تنگی دامن کا شکوہ کر رہے تھے،جب کہ حسن انتظام ،شائستگی ،سلیقہ مندی اور نفاست جہاں منتظمین جامعہ کی محنتوں کاعکاس تھی وہیں اہل علم ومدارس کے کردار کو بھی اجاگر کررہی تھی ۔</p> <p>مہتمم جامعہ فریدیہ مولانا عبدالعزیز غازی صاحب نے تقریب ختم بخاری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اخلاق حسنہ اپنانے سے ہی بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے،قرآن پاک اور قرآنی نظام میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے،ذکراللہ سے دلوں کو سکو ن ملتا ہے،خواص کو تکلّفات سے پاک زندگی کو اپنا شعار بنانا پڑے گا،موجودہ حالات میں امت کی راہنمائی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے علماء و فضلاء کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ہیں۔ شیخ الحدیث مولانامحمد حسن صاحب نے صحیح البخاری کا آخری درس پڑھاتے ہوئے طلبہ و علماء کوپندو نصائح فرمائیں ،انہوں نے فرمایاکہ تقویٰ کو لازم پکڑو اس کے ذریعے انسان خالق ومخلوق دونوں کا محبوب بن جاتا ہے،اخلاص،محنت اور استقامت سے خدمت دین میں جڑے رہو،مسلمان کا عمل خدا تعالیٰ کو راضی کرنے اور آخرت کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہوتا ہے۔</p> <p>مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے استاد اور شاگرد کے بے لوث تعلق ،مدارس کے کردار ،تحریک آزادی ،قیام پاکستان اور استحکام پاکستان میں مدارس اور علماء کرام کے کردار پر خوبصورت انداز میں گفتگو کی ۔معروف ثناء خواں عبدالباسط حسانی نے حمد باری تعالیٰ پیش کی اوراستاذالعلماء مولانا یعقوب طارق صاحب نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے ،نائب مہتمم جامعہ مولانا عبدالغفار صاحب سارے نظم کی نگرانی فرماتے رہے،جب کہ آپ نے استقبالیہ خطبہ میں آنے والے معزز مہمانوں،علماء کرام و مشائخ عظام کو خوش آمدید کہا ،آپ نے جامعہ کی کارکردگی اور اہداف کے حوالے سے گفتگو فرمائی ،فضلاء کرام کو مبارک باد اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے جو استاد اور شاگرد کے مابین بے لوث اور محبت بھرے رشتے کی عکاسی کررہے تھے ،اس موقع پر پروجیکٹر کے ذریعے جامعہ کے شعبہ جات ،کارکردگی ،نظم اور اہداف بالخصوص طلبہ کی رفاعی سرگرمیوں کے پلیٹ فارم فریدیہ ویلفئیر ٹرسٹ کی کارگزاری پرمشتمل پریزنٹیشن احسن انداز میں شرکاء تقریب کے سامنے پیش کی گئی ،جب کہ مختلف جگہوں پر سکرینوں کے ذریعے تقریب کی کوریج پہنچائی جاتی رہی ،جس پر <annotation lang="en">IT</annotation> شعبہ کے مسؤل مولانا عبداللہ امین صاحب اور مفتی خلیق احمد صاحب مبارک با د کے مستحق ہیں۔</p> <p>تقریب میں 75 شرکاء دورہ حدیث شریف کی دستار بندی شیخ الحدیث مولانامحمدحسن صاحب ،شیخ الحدیث مولانا مفتی امین صاحب ،مولاناعبدالعزیز غازی صاحب،مولاناعبدالغفار صاحب،مولانافضل اللہ شامزئی صاحب،مولاناعبدالباسط خطیب صاحب، مفتی محمد فاروق صاحب اورمفتی محمد طارق صاحب کے دست مبارک کی گئی ،اورتکمیل حفظ قرآن کریم کی 23 طلبہ نے سعادت حاصل کی جب کہ شعبہ تجوید سے 8 ،تخصص فی اللغۃ العربیۃ سے 16 اور تخصص فی الفقۃ سے 8 طلبہ نے سند فرغت حاصل کی،اس موقع پر اپنا تعلیمی سفر مکمل کرنے والے ان طلبہ کو قیمتی انعامات دیئے گئے اور نمایاں کارکردگی پیش کرنے والے خوش نصیب طلبہ کو تعرفی اسناد سے نوازا گیا۔</p> <p>تقریب کے اختتام پر مولانا عبدالعزیز غازی صاحب نے اسماء الحسنی کا پورے مجمع کو ذکر کروایا ،اور آپ کی دعا سے یہ پر نور اور باوقار تقریب اختتام پذیر ہوئی</p> </section> </body>
5467.xml
<meta> <title>تین جلسیاں اور آج کے دور کا اصغر خان</title> <author> <name>عماد ظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23822/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1454</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
تین جلسیاں اور آج کے دور کا اصغر خان
1,454
Yes
<body> <section> <p>اتوار کو ملک میں تین جلسے ہوئے. ملکی سیاست میں جاری بحران کے تناظر میں ان کی ایک خاص اہمیت تھی. پہلا جلسہ لاہور میں جماعت اسلامی نے کیا.اور اس کے بعد اسلام آباد میں عمران خان اور کراچی میں مصطفی کمال نے میدان سجایا. یہ تینوں افراد اور جماعتیں بنیادی طور پر "فرشتوِں" کی حمایت یافتہ ہیں اور میدان میں انہی کے اشارے پر اتری ہیں.جو بات عجیب لگی وہ ان جماعتوں کے سربراہوں کا احتساب کا مطالبہ تھا. جناب سراج الحق جب حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور احتساب کا ذکر کر رہے تھے رو خیبر بنک پختونخواہ سکینڈل اور افغان جہاد کے نام پر لگائے گئے لاکوں ڈالرز کے الزامات کی گونج سماعتوں میں گونج رہی تھی. وطن عزیز میں طالبان کی خاموش حمایت اور شدت پسندی کے کلچر کو فروغ دینے جیسا گھناونا جرم بھی ان کے اور ان کی جماعت کے ساتھ ساتھ چپکا نظر آ رہا تھا. ادھر مصطفی کمال جب ظلم جبر کے خاتمے کی بات کر رہے تھے تو کراچی میں ان کے دور میں ہی کیئے گئے لاتعداد ٹارگٹ کلنگ کیسے جرائم چائنہ کٹنگ اور 12 مئی جیسے لاتعداد سانحے نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے.</p> <p>عمران خان جب نواز شریف کو دوران تقریر کرپٹ اور مجرم قرار دے رہے تھے تو خیبر پختونخواہ میں قیمتی معدنیات کے ٹھیکے جہانگیر ترین کو نوازنے سے لیکر شوکت خانم کے مشکوک آڈٹ اور خود علیم خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیاں بھی بار بار دکھائی دے رہی تھیں. یہ ٹیموں جلسے جنہیں اگر شرکا کی تعداد کے حوالے سے جلسیاں کہا جائے تو مناسب ہو گا ایک احتجاجی تحریک کا باقائدہ آغاز تھے. ان جماعتوں کا یوں ایک ہی دن جلسے منعقد کرنا 1977 کی پی این اے کی تحریک کی یاد دلا رہا تھا جو اس وقت کی ہس پشت قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلوای تھی. جماعت اسلامی اور مصطفی کمال کا یوں استعمال ہونا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں تین چار قومی اسمبلی کی نشستوں سے سے زیادہ کچھ کر دکھانے کی اہلیت نہیں رکھتیں اس لیئے جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے سے ان جو فائدہ ہو سکتا یے لیکن تحریک انصاف کا ابھی تک پس ہشت قوتوں کے ہاتھوں استعمال فہم سے بالاتر ہے. تحریک انصاف کے یوم تاسیس اور احتجاجی لائحہ عمل تشکیل دینے کے حوالے سے ایف 9 پارک اسلام آباد کے جلسے میں شرکا کی تعداد دیکھ کر وہ مشہور کہاوت بھی یاد آ گئی کہ "کھودا پہاڑ نکلا چوہا". جس نے بھی عمران خان کو اس پارک میں جلسہ کرنے کا مضحکہ خیز مشورہ دیا تھا عمران خان کو اس ایڈوائزر کو جماعت کی فیصلہ سازی سے علحدہ کر دینا چائیے. ایف نائن پارک کو بھرنا کوئی آسان کام نہیں اور کوئی بھی باشعور سیاستدان کبھی بھی احتجاجی تحریک کے آغاز یا یوم تاسیس کے موقع پر اس مقام کا انتخاب نہیں کر سکتا تھا.</p> <p>ان تینوں جلسیوں میں عوام کی تعداد نے یہ بات بھی عیاں کر دی کہ عوام نے پانامہ لیکس والے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور الیکٹرانک میڈیا کے زریعے عوام کو گھروں سے باہر نکال کر حکومت کے خلاف مظاہروں کا منصوبہ پھر عوام نے مسترد کر دیا. لاہور اور اسلام آباد کے جلسوں کا آغاز نواز شریف اور اختتام بھی نواز شریف کی زات تھی.عمران خان اور سراج الحق نے حسب روایت وہی ایک ہی دھاندلی اور چوری کی گردان الاپی اور اپنے منہ خود ہی اپنی تعریفیں کرنے کے بعد گھر کی راہ لے لی.رائے ونڈ دھرنہ کے بارے میں اعلان کی عمران خان کو البتہ ہمت نہ ہوئی کیونکہ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ رائے ونڈ میں دھرنے کی صورت میں جوابی دھرنہ بنی گالہ آور زمان پارک کے سامنے حکمران جماعت کے کارکنوں کی جانب سے دیا جا سکتا ہے.اس لیئے عمران خان نے اگلے ہفتے چیئرنگ کراس لاہور پر جلسے کا اعلان کر کے فیس سیونگ کی کوشش کی.</p> <p>دوسری جانب نواز شریف نے جلسہ اور دھرنوں کی سازشوں کا جواب دینے کیلئے خود بھی جلسوں کے منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس ضمن میں پہلا جلسہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے ہوم گراونڈ کے پی کے میں منعقد ہو رہا ہے.اب عوام کی جو تعداد نواز شریف کے جلسوں میں ہو گی عمران خان اور جماعت اسلامی اس کا مقابلہ کیسے کریں گے یہ تحریک انصاف کیلئے ایک نیا چیلنج ہے. سراج الحق اور ان کی جماعت یا مصطفی کمال تو مصنوعی تنفس کے سہارے سیاست میں زندہ ہیں لیکن عمران خان نے اپنی احمقانہ طرز سیاست سے نواز شریف کو اگلے عام انتخابات کیلئے انتخابی مہم ابھی سے شروع کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے .دوسری جانب اورنج ٹرین اور میٹرو کے منصوبوں پر تنقید کر کے عمران خان نے پنجاب کے انتخابی میدان سے اپنے آپ کو خود ہی باہر کر دیا ہے.جس قدر زہر افشانی خان صاحب ان منصوبوں کے بارے میں کرتے ہیں اتنا ہی نواز شریف کا پنجابی ووٹ بنک مضبوط ہوتا ہے. جو بات عمران خان ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہیں وہ ایک سیلیبریٹی فگر اور سیاسی رہنما کے درمیان واضح فرق ہے. سٹیج پر آ کر ایک تحکمانہ انداز میں بیٹھنا ایک مغرور انداز بیاں کم سے کم سیاسی میدان میں کارگر نہیں ثابت ہو سکتا. ایک اور بات جو اس ناکام جلسے بلکہ جلسی کے بعد خان صاحب کو کام کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ ان کا اور عوام کے درمیان رابطے کی کمی کو کم کرنے کا اقدام ہے.عمران خان خود راولپنڈی کے حلقہ <annotation lang="en">NA56</annotation> سے منتخب ایم این اے ہیں اور اگر اپنے حلقے سے بھی وہ مناسب تعداد میں اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکال کر جلسہ گاہ تک نہیں پہنچا سکتے تو پھر انہیں اگلے انتخابات میں اس حلقے سے اپنی سیٹ بچانے کی فکر کرنی چاھیے.</p> <p>الزامات بہتان اور رونے دھونے کو پنجاب کے ووٹرز قطعا پسند نہیں کرتے اور عمران خان اس بات کو جتنا جلدی سیکھ جائیں اتنا ہی بہتر ہے کہ اب خود ان کی اپنی عمر بھی بزرگی والی ہے. دوسری جانب عمران خان کے فلاپ شو اور عوامی رد عمل سے اس بات پر مہر ثبت ہو چکی ہے کہ نواز شریف کو احتجاج کے زریعے ہٹانا قطعا ممکن نہیں ہے.اور ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں. جہاں جن چار حلقوں کو لے کر عمران خان کے زریعے دھاندلی کی سازش رچائی گئی وہاں دو حلقوں پر مسل لیگ نون پی کامیاب ہوئی جبکہ خواجہ آصف والے حلقے پر تحریک انصاف کا موقف عدالت نے غلط قرار دیا اور خواجہ سعد رفیق کا حلقہ کا نتیجہ بھی جلد سامنے آ جائے گا جو کہ حکمران جماعت کے حق میں ہی ہو گا. 2014 میں نواز شریف کے خلاف دھاندلی کے ایشو پر احتجاج کی کال غیر موزوں بھی تھی اور اس کی ٹائمنگ بھی درست نہیں تھی لیکن پانامہ لیکس دوسرے احتجاج کی کال کی ٹائمنگ اور حالات عمران خان اور پس پشت قوتوں کے حق میں ہیں اور اگر ان تمام معروضی حقائق کے باوجود عوام کی بڑی تعداد احتجاج کیلئے تیار نہیں تو پھر اس نئی بساط کا پہلا مرحلہ نواز شریف کے نام ہے. یعنی اگر نواز شریف کو پس پشت قوتیں ہٹانا چاہتی ہیں تو صرف آور صرف جمہوری نظام لپیٹ کر ہی یہ مقصد پورا کیا جا سکتا ہے.</p> <p>اب جمہوری نظام اگر فرض کیجیئے لپیٹا بھی جائے تو عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے حصے میں کیا آئے گا اس کا اندازہ لگانا ہر چند بھی مشکل نہیں ہے. لیکن ہوس اقتدار میں عمران خان اور جماعت اسلامی جمہوری بیانیے کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہی جا رہے ہیں.یہ طاقت کے ایوان تو ہمیشہ سے ہی چہروں کا بدلنا دیکھتے آئے ہیں.آج نواز شریف برسر اقتدار ہیں تو کل عمران خان بھی ہو سکتے ہیں لیکن جمہوری بیانیے کو کمزور کر کے صرف اور صرف آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں جمہوریت سے نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں. جماعت اسلامی اور مصطفی کمال کو جمہوریت سے زیادہ آمریت بھاتی ہے اس لیئے وہ جمہوری بیانیے کو کمزور کرتے ہیں لیکن تحریک انصاف کیلئے جمہوری بساط لپیٹے جانے کا مطلب ان کی سیاسی بساط بھی لپیٹے جانا ہے. جو نوشتہ دیوار اس وقت تحریک انصاف پڑھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے اب اس بازی میں سب کچھ داو پر لگا دیا ہے یا تو اب یہ نظام لپیٹا جائے گا یا پھر نواز شریف مخالف بیانیے پر حاوی آ جائیں گے. ایسے میں عمران خان کو دیکھ کر تحریک استقلال کے آصغر خان صاحب کی یاد آ جاتی ہے جو پس پشت قوتوں کے اشاروں پر نظام لپیٹ کر بھی کچھ نہ حاصل کر پائے اور بھٹو کے جانے کے بعد گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کر دی.عمران خان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری سیاست میں ایک اور اصغر خان نے جنم لے لیا ہے.</p> </section> </body>
5468.xml
<meta> <title>ڈاکٹر دُر مُش بُلگُر....آں ترکِ شیرازی</title> <author> <name>عنایت شمسی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/23995/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3078</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
ڈاکٹر دُر مُش بُلگُر....آں ترکِ شیرازی
3,078
Yes
<body> <section> <p>ترکی کانام سنتے ہی جانے کیوں ایک وجد آفریں احساس کی خوشبو دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ کر مسمریزم کی طرح ایک نئی دنیا کی پرکیف فضاوں میں اڑا لے جاتی ہے۔ شہپرِ تصور اناطولیہ (ترکی کا وہ حصہ جو براعظم ایشیا میں واقع ہے، جسے تاریخ میں ہم "ایشیائے کوچک" یعنی چھوٹا ایشیا کے نام سے جانتے ہیں۔ ترک اور عربی زبان میں اسے اناضول کہاجاتا ہے) کے جنوب مشرق سے شمال مغرب کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے تو شمال سے بحیرہ اسود، قریب ہی جنوب میں واقع بحیرہ روم اور مغربی پہلو میں ایک محبوب کی طرح سکون سے لیٹے ہوئے بحیرہ ایجئین سے اٹھنے والی شمیم جانفزا پرِ پرواز میں نئی تب و تاب پیدا کردیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دل و دماغ کی اسکرین پر اولو العزم سلجوقوں اور عثمانیوں کی شاندار تاریخ کی دستاویزی فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ "تصورِ جاناں" کا سفرِ شوق جوں جوں آگے بڑھتا ہے چپے چپے سے پھوٹنے والی خوشبوئیں یہ کہتے ہوئے اک شانِ دلربائی کے ساتھ دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں کہ جا این جا است، مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کے ہاتھ دل کا سودا کیا جائے۔ آپ ایک منظرِ خوش نظر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو دسیوں دوسرے حسین مناظر "سرِ خود نہادہ برکف" کی محبوبانہ کیفیت میں سامنے آجاتے ہیں ۔ ترک و اختیار کے اسی شش و پنج اور مختلف ادوار میں صفحہ تاریخ پر اپنی الو العزمی کا نقش ثبت کرنے والی عظیم ترک اقوام کی ترکتازیوں کی حسین یادوں میں وان اور ارضروم سے گزر کر "زندہ رود" کا براقِ اشتیاق جب قونیہ کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو فضا میں حضرت جلال الدین رومی کے انفاس کی تقدیس آگیں مہک روح تک میں سرشاری و سرمستی اتار دیتی ہے اور ایسی وارفتگی "جسمِ خیالی" کو محیط ہوجاتی ہے کہ اس پر بے اختیار رقصِ درویش طاری ہونے لگتا ہے ۔ پرواز کیف و مستی کی اس حالت سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپاتی کہ کفِ دستِ ساقی چھلک پڑتا ہے اور آن کی آن میں انقرہ اپنی عطر بیز بانہوں میں سمیٹ لیتا ہے۔ انقرہ.... جی ہاں وہی انقرہ، جو تاریخ میں "انگورہ" کے نام سے ہمارے جذبوں کو مہمیز دیتا ہوا بازنطینی رومیوں کے مقابل خود کو فنا کرکے امر ہوجانے کے احساس سے دوچار کرتا رہا ہے۔</p> <p>اس سمے وقت تھم سا جاتا ہے۔ درخشاں ماضی کا ایک روشن جھروکا کھل جاتا ہے۔ یہ محتشم عباسی خلیفہ معتصم باللہ کا دور ہے۔ ایک بے نام سی شکایت موصول ہوتی ہے کہ بازنطینی سلطنت کی حدود میں ایک مسلمان لونڈی نے رومی شہری کے ہاتھوں تھپڑ کھا کر خلیفہ اسلام کا نام لے کر مدد کے لیے دہائی دی ہے۔ معتصم بے آسرا لونڈی کا "بدلہ" لینے کے لیے بے چین ہوکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو بازنطینی سلطنت کی حدود میں یہی "انگورہ" سب سے پہلے اس کے قدم چومتا ہے اور بغیر کسی کشت و خون کا موقع دیے خود کو اسلام کی آغوش میں دے دیتا ہے۔ ترک قوم کی عظمت کے تابندہ نقوش میں محویت کے اسی عالم سر مستی کے دوران ہی فضا میں ملتِ اسلامیہ کے اس عظیم شہر کے آثار ہویدا ہوجاتے ہیں، جو تاریخ پر گہرا نقش چھوڑنے والی عظیم مشرقی رومی (بازنطینی) سلطنت کا بھی عظیم شہر رہا ہے۔ جی ہاں دو عظیم بر اعظموں میں پھیلا ہوا گنبدوں کا شہر: عظیم استنبول۔ وہ شہر جس کی گود میں تاریخ پروان چڑھی، قوموں نے جینے کا ہنر سیکھا اور دنیا پر اپنی عظمت کی دھاک بٹھائی۔قسطنطنیہ سے استنبول بننے کا تاریخی عمل جیتے جاگتے انداز میں احساسات کی دنیا میں ہلچل مچارہا ہے، چشمِ تصور محوِ تماشا ہے، آٹھ صدیاں جس شہر کی فتح کی آرزو کو پالتے ناتمام حسرتوں کی دھواں ہوگئیں، آج عظیم ترک قوم کا عظیم سپوت سلطان محمد الفاتح عسکری تاریخ کا محیر العقول کارنامہ انجام دے کر اس کی شہر پناہ کے سائے میں میزبانِ رسول ابو ایوب انصاریؓ کی مرقد پر مختصر حاضری دینے کے بعد فتح و ظفر کا پرچم اٹھائے قسطنطنیہ میں داخل ہوکر رسول خدا کی بشارت سے سعادت اندوز ہورہا ہے۔ ایا صوفیا کے ہال میں تاریخ جُون بدلتی ہے اور قسطنطنیہ میں عظیم بازنطینی مشرقی رومی سلطنت کے ملبے پر عظیم استنبول کی نیو اٹھتی ہے۔ عثمانی اپنی سلطنت کے ساتھ ساتھ اس شہر کی عظمت کا ڈنکا بھی چار دانگ عالم میں بجا دیتے ہیں۔</p> <p>وقت کروٹ بدلتا ہے۔عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹ پڑتا ہے۔ ایک مختصر مدت کے لیے استنبول شہرِ آشوب بن کر اسلامیانِ عالم کو خونِ ناب رونے پر مجبور کرتا ہے۔اس شہر کا سقوط ملت اسلامیہ کے غیر مختتم سقوط کا سر نامہ بن جاتا ہے۔ عراق کے صدام دور کے مسیحی المذہب وزیر خارجہ جناب طارق عزیز یاد آگئے۔ عراق کویت جنگ کے دوران جنیوا کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر نے جناب طارق عزیز کو مخاطب کرکے دھمکی دی کہ اگر عراق نے امریکی شرائط تسلیم نہ کیں تو اس پر ایسی بمباری کردی جائے گی کہ وہ پتھر کے دور میں چلا جائے گا۔ طارق عزیز نے نہایت تحمل سے جیمز بیکر کی لن ترانی سنی اور سوال کیا: "مسٹر بیکر! آپ کے ملک کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟" جیمز بیکر نے پر رعونت لہجے میں جواب دیا: "دوسو یا اڑھائی سو سال...." طارق عزیز نہایت پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے: "مسٹر بیکر! ہماری تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ہم تاریخ میں کئی بار پتھر کے دور میں بھیج دیے گئے، مگر ہر بار ہم ایک نئے جذبہ تعمیر، نئے عزم اور ولولے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے...." استنبول بھی اس خرابی کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کی عظمتِ رفتہ کے ملبے پر جدید ترکی کی عظیم الشان عمارت کھڑی کردی گئی۔ وقت کا پہیہ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، اس شہر کی عظمتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ یورپ جس کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی پر دنیا کی رال ٹپکتی ہے، آج میری ملت کے درخشاں ماضی کا یہ عظیم سرمایہ، میرا استنبول اسی یورپ کا ثقافتی دار الحکومت باور کیا جاتا ہے۔ خدا اس کے دامنِ عظمت کو ہفت افلاک کی بے کراں وسعتیں عطاءکرے۔</p> <p>استنبول مرکزِ ثقلِ نگاہِ عاشقاں، شہرِ شکوہ و جلال اور باسفورس کی وہ سدا بہار دلہن بحیرہ مرمرہ اپنے مرمریں پانی سے جس کے پیر دھونے کی خدمت پر مامور ہے۔ جس کا حسن صدیوں کے پھیرے میں کبھی ماند نہیں پڑا۔ یقینا یہ شہرِ نگاراں اس قابل ہے کہ دل کی ساری دولت اس پر وار دی جائے۔ اس شہر کے رومیلی حصار کی جادوئی غلام گردشوں سے نکل کر تخیل کی پرواز اسی "عالم میں انتخاب" کا درجہ رکھنے والے شہر کے یورپی حصے کی معطر فضاوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ استنبول کا یہ حصہ "رومیلیا" کہلاتا ہے۔ اس کی شان ہی الگ ہے۔ اس کی ہر ادا البیلی ہے۔ رومیلیا میں داخل ہوتے ہی اچانک "یلدرم" یعنی اک برق سی دماغ میں کوند جاتی ہے اور یورپ کی سمت سلطان بایزید یلدرم کی برقِ رفتار فتوحات کی تاریخ کا در وا ہوجاتا ہے۔ دل اس سلطانِ عالیشان کی کامرانیوں کے سرور میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ اچانک "گرجستان" کی سمت سے پر ہول گرد و غبار کا سرخ طوفان خوابناک انہماک کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ بایزید یورپ سے رخ پھیر کر پشت پر پڑنے والے اس وار کی طرف پلٹتے ہیں۔ گردو غبار چھٹتا ہے تو اس میں سے تیمورِ لنگ کی ڈراونی صورت بر آمد ہوتی ہے۔ انگورہ یعنی موجودہ ترک دارالحکومت انقرہ میں میدان لگتا ہے۔ قسمت بے وفائی کرتی ہے۔ بایزید جس کی تلوار کی چمک نے اسے یلدِرِم بنایا تھا، اس وحشی فاتح کے ہاتھوں قید ہوجاتا ہے۔ عثمانیوں پر پہلی بار عظیم کوہِ غم ٹوٹتا ہے اور اس کے ساتھ ہی یورپ کی طرف اسلام کے بڑھتے فاتحانہ قدم رک جاتے ہیں۔ کہتے ہیں تیمور کی ہوسِ ملک گیری کے نتیجے میں یورپ پچھم کی طرف چلنے والی اسلام کی پروائی ہواوں کے لمس سے محروم ہوگیا اور مغربی یورپ (ہسپانیہ) کی اسلامی سلطنت کا دفاع بری طرح کمزور ہوکر رہ گیا۔ انہی ملے جلے احساسات کے ساتھ تخیل رومیلیا کی پر بہار فضاوں میں آگے بڑھتے بڑھتے خطہ بلقان کی سرحد تک پہنچتا ہے اور ساتھ ہی ترکی کا طائرانہ خیالی سفر نقطہ انتہا کو چھولیتا ہے۔</p> <p>متنوع انقلابات کی امین ترک سرزمین اب ایک عرصے سے ہنگامہ عالم سے بے نیاز تعمیر و ترقی اور استحکام کی منزل کی طرف نہایت خاموشی سے کامیابی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ وہ ترکی جو کبھی یورپ کا مردِ بیمار کہلاتا تھا اور یورپی برادری میں شامل ہونے کی عرضی لے کر یورپ کے چودھردیوں کی دہلیز پر لگ بھگ ایک صدی تک کھڑا رہا اور ان کی ہر شرط بلا چوں چرا قبول کرنے اور خود پر لاگو کرتے چلے جانے کے باوجود اسے یورپی برادری میں شامل کیے جانے کے قابل نہیں سمجھا گیا، آج یہ دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ وہی یورپی برادری ترکی کی مضبوط معیشت کا سہارا حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف نگاہِ آز سے دیکھ رہی ہے۔</p> <p>اس کامیابی اور کامرانی کے پیچھے ترک قوم کے جوہرِ قابل کی جہد مسلسل اور عملِ پیہم کا ہاتھ ہے، یہ وہ عظیم قوم ہے جس کا ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ جامعہ استنبول کے شعبہ اردو کے صدر جناب پروفیسر خلیل طوقار کی طرح ڈاکٹر دُرمش بُلگُر بھی اسی اولو العزم قوم کے قابل فخر سپوت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی لاہور کی کلیہ علوم شرقیہ کی جلال الدین رومی چیئر کے سربراہ ہیں اور اردو زبان پر گہرا عبور رکھتے ہیں۔ وہ 1968ء میں جنوب مشرقی ترکی کے نسبتاً کم مشہور مگر تاریخی شہر قازیان تپ میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور تعلیم کا آغاز کیا۔ حصول علم کے باقی مدارج انہوں نے دار الحکومت انقرہ میں طے کیے۔ خدا جانے ان کے دل میں اردو سے محبت کی جوت کیسے اور کس شبھ گھڑی (ہماری نسبت سے) میں جاگی ، وہ دن آج کا دن اردو اور ڈاکٹر درمش بلگر صاحب روح و رواں بن چکے ہیں۔ اپنی قوم اور ملت پر فخر اور اس سے غیر مشروط وفاداری تو ہر ترک باشندے کی طرح ڈاکٹر صاحب کی بھی گھٹی میں پڑی ہے، مگر ہمارے لیے قابل رشک امر یہ ہے کہ وہ ہماری اردو زبان سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ یہ اردو سے ان کی بے پناہ محبت اور تعلق خاطر کا ہی نتیجہ ہے، جو انہوں نے ترکی کے غیر موافق ماحول میں رہتے ہوئے اردو سیکھ کر شیریں کے لیے جوئے شِیر کھود نکالنے کا کارِ فرہادی انجام دیا۔ حصول علم سے فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحب جامعہ استنبول کے شعبہ اردوسے منسلک ہوئے اور گیسوئے اردو کو نہایت فدویانہ جذبے سے اپنا شانہ فراہم کیا۔ ترک طلبہ کو اردو کی تدریس کے ساتھ انہوں نے زبان کی متنوع خدمات سے بھی اہل اردو میں نام پیدا کیا۔ آج اردو سے ان کی بے لوث محبت اس صورت میں سامنے آئی ہے کہ وہ اردو زبان میں کئی اہم کتابوں کے مصنف، مترجم، مرتب اور مولف ہیں۔</p> <p>ڈاکٹر صاحب علم و ادب کے متنوع مشاغل کے ساتھ مقامی اردو ذرائع ابلاغ کے توسط سے اپنے گراںقدر خیالات کی ترسیل میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عراق اور شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کا اثر و نفوذ بڑھنے کے بعد سے خطے کے کئی ملکوں میں بد امنی کے مختلف مظاہر نے عدم استحکام اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ان سلگتے حالات کی آنچ ترکی میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کردوں کی شوریدہ سری میں خطے میں جغرافیائی تقسیم کی در پردہ منصوبہ بندیوں کے زیر اثر پیدا ہونے والی نئی شدت و حدت بھی ترکی کے لیے بڑا درد سر بنی ہوئی ہے۔ تیسرا مسئلہ جناب رجب طیب ایردوغان کی قیادت میں بر سر اقتدار اسلام پسند پارٹی (اے کے پی) کی تقریباً ڈیڑھ عشرے سے کامیابیوں کا تسلسل بھی ہے، جو ترکی میں پٹی ہوئی سیکولر سیاسی جماعتوں اور ان کے عالمی ہوا داروں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے، چنانچہ عموماً ان تین مسائل و معاملات کے ضمن میں ترکی پوری دنیا میں میڈیا کے توسط سے رائے عامہ میں زیر بحث آتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا چونکہ تیسری دنیا کے دیگر ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی طرح ایسے تمام معاملات کی جانکاری کے سلسلے میں مکمل طور پر مغربی میڈیا پر انحصار کرتا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ پیشہ ورانہ مہارت (دیانت نہیں) کے ساتھ بالخصوص ترکی کے مسائل سمیت دلچسپی کا اسلامی پہلو رکھنے والے کسی بھی معاملے کو اپنی مخصوص عینک سے <annotation lang="en">Anglise</annotation> کرتے ہیں، جس کا احساس کیے بغیر پاکستان کا نام نہاد آزاد میڈیا ابلاغ بلکہ جگالی کرتا ہے، جس سے متعلقہ ملک، ادارے یا معاملے کے بارے میں بیشتر منفی امیج <annotation lang="en">Build</annotation> ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر درمش بلگر صاحب عموماً اپنے وطن مالوف سے متعلق ایسی منفی رخ پیش کرنے والی خبروں کو احقاقِ حق کے تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں اور ہمارے میڈیا کے اس رخِ کردار پر اظہار افسوس کرتے ہیں، جو بجا طور پر ان کا حق ہے۔</p> <p>ڈاکٹر دُرمش بُلگُر خوبصورت نثر کے ساتھ اہل زبان کے لہجے میں نستعلیق اردو بول بھی لیتے ہیں۔ موبائل فون پر ان سے پہلی بار ہم کلام ہوا تو کافی دیر تک بے یقینی کی کیفیت میں گفتگو میں سکتہ پیدا کرکے خود کو یقین دلانے میں مگن رہا کہ یہ واقعی ترک نژاد ڈاکٹر درمش ہیں؟! خدا ان کا سایہ سلامت رکھے اور انہیں مضامینِ نو اور نوع بہ نوع کا انبار لگاتے چلے جانے کی ہمت و توفیق ارزاں کرے۔ گزشتہ دن ہمیں اچانک ڈاکٹر صاحب کی بے پناہ شفقت سے دوچار ہونا پڑا۔ گھر سے دفتر آیا تو ایک خوبصورت پیکٹ میرا منتظر تھا۔ یہ اندازہ تو دیکھتے ہی ہوا کہ کتابیں ہیں۔ جی ہاں کتابیں۔ علم و دانش سے کسی بھی درجے میں ربط ضبط رکھنے والے کسی بھی شخص کی سب سے مرغوب غذائے فکر و نظر۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔ مرسل کا نام پڑھنے کی نیت سے پیکٹ پر نگاہ ڈالی تو جا بجا آڑے ترچھے تھپے ہوئے ٹکٹ اور نام و پتے کے حاشیوں اور بین السطور تک میں بد سلیقگی کے ساتھ ٹھکی ہوئی مہریں محکمہ ڈاک کی بدترین کور ذوقی کا اعلان کررہی تھیں۔ عالم یہ تھا کہ میرے لیے ٹکٹوں اور مہروں کے اس جنگل میں مرسل کا نام و پتا تلاش کرنا وقت کا ضیاع معلوم ہوا اور بے صبری کے ساتھ پیکٹ کا پیٹ چاک کرتے ہی بنی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ چپڑی اور دو دو کی جگہ پانچ پانچ کے مصداق پوری پانچ عدد کتابیں میرے سامنے تھیں اور یہ دیکھ کر تو خوشی کا ٹھکانا ہی نہ رہا کہ مرسل کوئی اور نہیں، گرامی مرتبت ڈاکٹر درمش بلگر صاحب ہیں اور انہوں نے کسی اور کی نہیں، اپنی ہی جگر کاوی کا ماحصل خلوص آمیز شفقت کے ریشم میں لپیٹ کر ذرہ نوازی فرمائی ہے۔</p> <p>یہ پانچ کتابیں غالباً ڈاکٹر صاحب کی فنی مہارت کا اب تک کا سرمایہ ہیں۔ ان کتابوں میں "مشاہیرِ ترک"طبع زاد اور سب سے ضخیم ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے معروضی انداز میں اختصار کے ساتھ بیسویں صدی تک اناطولیہ میں گزرے مشہور علمائے دین، دانشوروں، سائنس دانوں اور صوفیائے کرام کے حالات زندگی اور ان کے علمی، عملی اور فنی کارنامے بیان کیے ہیں۔ کتاب تفصیل سے پڑھنے کا ابھی موقع ہاتھ نہیں آیا ہے، تاہم ڈاکٹر صاحب کی جانب سے "اناطولیہ" کی تصریح و تحدید سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ صرف ان ترک مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے جو ایشیائے کوچک کے خطے میں گزرے ہیں۔ اگر یہ احساس درست ہے تو اس کی وجہ صاف اور واضح ہے۔ اس خطے کی تاریخ اسلام میں خاص اہمیت رہی ہے اور یہاں سے علم و فن کے وہ آفتاب و ماہتاب اٹھے ہیں، جن سے ایک عالم نے ضیاءپائی۔ دوسری کتاب "گم شدہ گلاب" ہے۔یہ دراصل معروف ترک ادیب سردار اوزکان کے ایک بیسٹ سیلر ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں میں انتیس زبانوں میں اس کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔ ترجمے میں طبع زاد تحریر کی جو خوبیاں لازمی سمجھی جاتی ہےں، ان کی خوشبو "گم شدہ گلاب" میں بہ کمال و تمام محسوس کی جاسکتی ہے۔ "گم شدہ گلاب" کے مطالعے سے محسوسات کے تُرک اظہاریے کے سلیقے اور ترک ادب کی چاشنی سے بھی آشنائی ہوجاتی ہے۔ اس خوبصورت ترجمے میں قبلہ ڈاکٹر درمش بلگر صاحب کے ساتھ جناب نعیم بٹ بھی شریک رہے ہیں۔</p> <p>"مولانا رومی اور دیار رومی" اور "شروح و شارحین مثنوی رومی"ڈاکٹر صاحب کی دو مختصر مگر گراںقدر تحقیقی کتابیں ہیں۔ اول الذکر میں صوفی جلیل مولانا جلال الدین رومی کے مستند حالات زندگی، ان کی تصانیف اور ان کے شہر قونیہ کی مختصر تاریخ اور احوال پر جامع انداز میں دادِ تحقیق دی گئی ہے۔ کتاب کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ قونیہ شہر کے مختلف اہم اور قابل دید مقامات کا تازہ تصاویر کی پیش کش کے ساتھ تعارف کرایا گیا ہے۔ ثانی الذکر کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مثنوی رومی کی ترک زبان میں مختلف شروحات اور شارحین کا تذکرہ ہے۔ یہ کتاب بھی ڈاکٹر صاحب کے ذوقِ تحقیق کی آئینہ دار ہے۔ پانچواں تحفہ جو ہمیں موصول ہوا، وہ ہمارے لیے حقیقی معنی میں نعمت غیر مترقبہ ہے۔ "ترکی زبان" نامی ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب اردو میں "زبانِ یارِ من" (ترکی) سکھانے کی عمدہ کاوش ہے۔ نعمت غیر مترقبہ اس لیے کہ میں ذاتی طور پر ترکی اور ترک قوم کے ماضی اور حال کے مطالعے سے خصوصی لگاو کے باعث اندر ہی اندر ایک عرصے سے ترکی زبان سیکھنے کا داعیہ محسوس کر رہا تھا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عالمِ شوق میں کس بے تابی سے اس کتاب کو ہم دست کیا گیا ہوگا۔ یہ تمام کتابیں کلیہ علوم شرقیہ، جامعہ پنجاب نے اپنے روایتی اعلیٰ معیار کے ساتھ نہایت اہتمام سے شائع کی ہیں۔</p> <p>بہر حال مختصر جائزے سے اندازہ ہوا کہ موضوع کوئی بھی ہو، ڈاکٹر در مش بلگر کی نثر کی یہ خوبی ہر تحریر میں نمایاں ہے کہ وہ سادہ اورآسان زبان میں اپنی بات اور خیال پیش کردیتے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے، جو لکھتے لکھتے آتی ہے اور صاحب تحریر کی فنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔حافظ نے توبشرطِ دل بستگی "ترکِ شیرازی" کے خط و خالِ خد پر سمرقند و بخارا قربان کرنے کا اعلان کردیا تھا، جبکہ ہمیں ڈاکٹر درمش بلگر کی صورت میں ترکِ اصیل کی رعنائی خیال اور حسنِ کمالات کی چکا چوند کا سامنا ہے!</p> </section> </body>
5469.xml
<meta> <title>حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول</title> <author> <name>شبنم گل</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/24138/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1098</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول
1,098
No
<body> <section> <p>اپنے دل پر لکھ لو کہ گزرتا ہوا ہر دن سال کا بہترین دن ہے۔</p> <p>رالف والڈو ایمرسن کے الفاظ ہمیشہ مجھے ہر لمحے کے قیمتی ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ ہر دن اپنے اندر تخلیق کا ہنر رکھتا ہے اور پھر اگر شہر ایسا ہو کہ ہر نئے موسم کی مہک سے سرشار بے ساختہ ہوائیں روح تک کو مہکانے لگیں، تو موسموں کا تخلیقی ہنر مکینوں کے ذہنوں پر بھی دستک دینے لگتا ہے۔</p> <p>حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے، جو فن و فکر و ادبی سرگرمیوں کا ہمیشہ مرکز رہتا ہے، لیکن اس بار جب حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کی بازگشت سنائی دی تو ہر طرف زندگی کی لہر دوڑ گئی، لیکن اس فیسٹیول سے پہلے "خانہ بدوش" تنظیم کی فعال اراکین نے، آٹھ دنوں پر مشتمل شیخ ایاز میلے کا انعقاد کیا تھا۔ جو ایک کامیاب کوشش تھی۔</p> <p>حیدرآباد فیسٹیول کے پہلے دن افتتاحی تقریب کے روح رواں امرجلیل تھے۔ ایک طویل عرصے کے بعد اہل حیدرآباد نے اپنے انتہائی معتبر ادیب کو قریب سے دیکھا۔ نوجوانوں کا تجسس اور اشتیاق قابل دید تھا۔ جو امرجلیل کو اپنا فکری رہبر سمجھتے ہیں۔ سینئر ادیبہ ماہتاب محبوب، امرجلیل سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ لیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ انھیں خوشی اس بات کی تھی کہ وہ امرجلیل سے یہ ایوارڈ وصول کر رہی ہیں۔ عرفانہ ملاح نے امر جلیل سے خوبصورت سوال پوچھے جن کا جواب وہ متانت سے دیتے رہے۔</p> <p>آپ دانش کدے میں جا بیٹھیں تو ہر لمحہ خیال کے خوبصورت پھولوں سے مہکنے لگتا ہے۔ پہلے دن ترتیب دیے جانے والے پروگرامز میں حیدرآباد کل اور آج، مزاحمتی ادب، بچوں کا ادب، شاعر اور شاعری وغیرہ شامل تھے۔ سندھی کے مایہ ناز ادیب، محقق، ناول نگار آغا سلیم کا پچھلے دنوں انتقال ہو گیا۔ آغا سلیم نے شاہ لطیف کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ سندھی ادب کے حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ ان کے فن اور خدمات کے حوالے سے معلوماتی نشست میں جامی چانڈیو اور نصیر مرزا نے ان کی شخصیت اور فن و فکر پر روشنی ڈالی۔</p> <p>سندھی ادب میں ہر مہینے دس سے پندرہ کتابیں منظرعام پر آتی ہیں۔ یہ کتابیں تاریخ، ثقافت، تحقیق، ناول، کہانی و شاعری سے لے کر مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ کتابوں کی رونمائی میں منظور تھیم، شبنم گل، مہران ایوب کے ناول اور عبدالحئی پلیجو کا سفر نامہ شامل تھا۔</p> <p>سندھی تحقیقی ادب پر اگر بات کی جائے تو، سندھ کے کافی شہروں پر معلوماتی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ سندھ کی نہریں اور دریا، تھر، ثقافتی ورثے پر نایاب کتب دستیاب ہیں۔ سندھ کے آثار قدیمہ کے حوالے سے بھی بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ دوسرے دن قدیم آثار کے موضوع پر پروگرام میں آثار قدیمہ کے ماہرین اشتیاق انصاری اور حاکم علی شاہ بخاری شریک گفتگو تھے۔ اسی شعبے سے وابستہ نسیم جلبانی نے موضوع کی مناسبت سے بامعنی سوالات کیے۔</p> <p>اس گفتگو کا حاصل یہ تھا کہ آثار قدیمہ جیسے اہم شعبے پر قابل اور آثار قدیمہ کا علم رکھنے والے لوگوں کی تقرریاں ہونی چاہئیں۔ اہم عہدوں پر لاعلم اور سفارشی لوگوں کو لانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ آرکیالوجی حساس شعبہ ہے۔ جسے انتہائی نگہداشت اور نظرداری کی ضرورت ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ آثار قدیمہ کی تعمیر نو میں قدیم عمارت سازی کا حسن برقرار رکھنا چاہیے۔سندھ میں برطانوی راج کے موضوع پر مقررین ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انعام شیخ و دیگر شریک گفتگو ماہرین نے موضوع پر مہارت سے روشنی ڈالی۔ یہ نشست فکری لحاظ سے بھرپور رہی۔</p> <p>سندھی سفرنامے کے پروگرام میں ڈاکٹر اسحاق انصاری، الطاف شیخ اور ڈاکٹر مشتاق ھل شریک گفتگو رہے۔ الطاف شیخ نے سندھی میں لاتعداد سفرنامے تحریر کیے ہیں۔ سفرنامے کے حوالے سے الطاف شیخ کا حصہ بھرپور ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں سفر کرنے کی جستجو پیدا کی اور ایک کھڑکی بیرون دنیا کی کھول دی۔</p> <p>اسی دن مشاعرے کی نشست بھی بھرپور رہی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا بلکہ ہر دن نئی نسل کی شمولیت قابل تحسین تھی۔ تخلیق کار دور دراز سے اپنے احساس کا گلدستہ لائے تھے۔ ذہن و روح سبزہ زار بنے ہوئے تھے۔ یہ ذہن میں خیال کا بیج بوتے ہیں۔ ایک ہی خیال کافی ہوتا ہے جو ایک دن پودے سے سایہ دار درخت بنتا ہے۔ آخری دن کی نشست میں جدید سندھی ادب کا تنقیدی جائزہ، سندھی ڈرامہ، تراجم، ناول اور کہانی پر مباحثہ، واٹر اکانومی، کتاب اور پبلشر، شاہ لطیف اور شیخ ایاز کے فن پر گفتگو معلوماتی رہی۔</p> <p>مختلف نشستوں میں اجمل کمال، افضال احمد، ولیرام ولبھ، عذرا عباس، عمر قاضی، آغا ظفر، نوراحمد جھنجی، زیب سندھی، روبینہ ابڑو، ڈاکٹر عرفانہ ملاح، رخسانہ پریت، عشرت علی خان و دیگر شامل تھے۔ادبی لٹریچر فیسٹیول ہر بڑے شہر میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن میں پروگرامز کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک ہی وقت میں تین یا چار پروگرام چل رہے ہوتے ہیں۔ اکثر پروگرام آپ نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی پروگرام میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔ ہر نشست کا وقت ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہوتا ہے۔</p> <p>بعض اوقات موضوع اور مقررین تشنہ رہ جاتے ہیں۔ تین دن میں اکثر چالیس یا اس سے زائد پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ہم معیار سے زیادہ مقدار کا سوچتے ہیں۔ قناعت کا جوہر ہم کب کا کھو چکے۔ کثرت میں دل کا سکون ڈھونڈتے ہیں ۔</p> <p>شور برپا ہے خانہ دل میں</p> <p>کوئی دیوار سی گری ہے ابھی</p> <p>یہ بھی ممکن ہے کہ نشستوں کی تعداد کم کر کے ہر نشست کا دورانیہ بڑھا دیا جائے۔ آج کل ادبی پروگرامز میں یہ رجحان زیادہ ہے کہ پورا مقالہ لکھ کر آئیں۔ جب کہ سات یا دس منٹ میں اس کا خلاصہ بیان کرنا ہو گا۔ ماضی کے پروگرام یاد ہیں جب مقرر دل کی بات مکمل طور پر کہہ کے رخصت ہوتے تھے اور سننے والا طویل عرصے تک ان الفاظ کے سحر میں کھویا رہتا۔ وہ الفاظ ضایع نہیں ہوتے تھے بلکہ اپنے اندر تاثیر کا سلیقہ رکھتے۔</p> <p>حیدرآباد کا یہ ادبی میلہ اپنی نوعیت کا پہلا و منفرد پروگرام ہے جو خوبصورت محفل موسیقی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس محفل میں برکت علی، رفیق فقیر، مظہر حسین، بیدل مسرور و دیگر گلوکاروں نے فن کا جادو جگایا۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین قابل تحسین ہیں۔ جن کی محنت اور رت جگے کامیاب ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزرتا ہوا ہر پل، وقت کے سفر میں تعمیری اثر رکھتا ہے۔</p> <p>ہماری ذات پر منحصر ہے کہ احساس کو نکھارنے کے لیے ہم کن لمحوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ چینی کہاوت ہے کہ خوفزدہ مت ہونا کہ تم آہستگی سے ابھر رہے ہو، مگر اپنے غیر متحرک ہونے سے ڈرتے رہنا۔</p> </section> </body>
5470.xml
<meta> <title>پاکستان اور دنیا بھر سے آج کی اہم ترین خبروں پر مشتمل پہلا آن لائن بلیٹن</title> <author> <name>آئی بی سی اُردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/24177/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>4190</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
پاکستان اور دنیا بھر سے آج کی اہم ترین خبروں پر مشتمل پہلا آن لائن بلیٹن
4,190
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>پاکستان</p> </blockquote> <blockquote> <p>'نیا پاکستان کہاں ہے اور کون بنا رہا ہے؟'</p> </blockquote> <p>مانسہرہ: وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے 'نئے پاکستان' کے نعرے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت نہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کے ترقیاتی منصوبوں کا بیڑہ مسلم لیگ (ن) نے اٹھارکھا ہے۔</p> <p>مانسہرہ میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا، 'نیا پاکستان کہاں ہے اور کون بنا رہا ہے؟'</p> <p>اس موقع پر اپنی حکومت کی خوب تعریفیں کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں 1990 سے لے کر آج تک جتنے بھی بڑے بڑے منصوبے بنائے گئے ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بنائے ہیں۔</p> <p>انھوں نے اپنی حکومت کے دوران شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا، 'پشاور سے اسلام آباد اور ہزارہ موٹر وے بھی مسلم لیگ (ن) نے بنائی، بالا کوٹ سے لے کر جل کھڈ اور بابو سر ٹاپ تک سڑک بھی نواز شریف نے بنائی'۔</p> <p>ان کا کہنا تھا وہ جلسوں جلوسوں کی مہم پر نہیں بلکہ ترقی و خوشحالی کی مہم پر نکلے ہیں۔</p> <blockquote> <p>جلسوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، عمران خان</p> </blockquote> <p>لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف پاناما لیکس کے معاملے پر قوم کو جواب دینے کے بجائے جلسے کررہے ہیں تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔</p> <p>اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے چوتھی مرتبہ مانسہرہ میں گیس پائپ لائن کا اعلان کیا ہے۔</p> <p>'میاں صاحب آپ جتنی مرضی جلسے کرلیں، قوم آپ سے سوال پوچھے گی، آپ کی بیٹی کہہ رہی ہے ہماری باہر کوئی پراپرٹی نہیں، بیٹا کہہ رہا ہے یہ پراپرٹیز ہماری ہیں، ایک اور بیٹا کہہ رہا ہے ہم کرائے پر رہ رہے ہیں اور آپ کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز جو سچ بولتی ہیں وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ پراپرٹیز ہماری ہیں، ہم نے سن 2000 میں خرید لی تھیں۔'</p> <p>'نیا پاکستان کہاں ہے اور کون بنا رہا ہے؟'</p> <p>عمران خان نے کہا کہ اس معاملے پر وہ تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھا کریں گے، حزب اختلاف کی جماعتیں فیصلہ کر بیٹھی ہیں کہ احتساب کا عمل وزیراعظم سے شروع ہوگا۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین یا عمران خان سے پہلے نواز شریف کا احتساب ہوگا۔</p> <p>حالیہ دنوں میں جہانگیر ترین پر قرض معاف کروانے کے الزامات سامنے آئے تھے۔</p> <blockquote> <p>اقلیتوں کے تحفظ سے دنیا میں پاکستان کا چہرہ روشن ہوگا . سماجی ماہرین</p> </blockquote> <p>کراچی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف علمی اور سماجی شخصیات نے کہا کہ پاکستان میں اکثریت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اقلیت پر اپنی مذہبی فکر مسلط کرے.</p> <p>پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام سندھ اور بلوچستان کی جامعات کے اساتذہ کے لئے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے موضوع پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا.</p> <p>پشاور یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ معاشرے میں سماجی ہم آہنگی وقت کا تقاضا ہے اور اس کے قیام کے لئے اساتذہ اور علماء کو مل کر جدو جہد کرنا ہو گی.</p> <blockquote> <p>سپریم کورٹ :پی بی 39 چاغی میں دوبارہ الیکشن کی درخواست خارج</p> </blockquote> <p>اسلام آباد:سپریم کورٹ نے بلوچستان کی صوبائی نشست پی بی انتالیس چاغی میں دوبارہ انتخابات کی درخواست خارج کردی۔</p> <p>سپریم کورٹ میں بلوچستان کی صوبائی نشست پی بی انتالیس چاغی میں دوبارہ انتخابات کرانے کی درخواست خارج کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پی بی انتالیس کے عام انتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں ہوئی دوبارہ انتخابات کا مقدمہ نہیں بنتا۔</p> <p>اس حلقے سے مسلم لیگ ق کے محمد امان اللہ کامیاب ہوئے تھے، ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار محمد عارف حسنی نے نتیجے کوچیلنج کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے میرامان اللہ کونا اہل اورحلقے میں دوبارہ انتخاب کی درخواست خارج کردی۔</p> <blockquote> <p>متحدہ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل</p> </blockquote> <p>کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے اقلیتی رکن پونجھو بھیل نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔</p> <p>عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے پونجھو بھیل سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی جانب سے اقلیتی نشست پر رکن منتخب ہوئے تھے۔</p> <p>پونجو بھیل نے زرداری ہاؤس میں فریال تالپور سے ملاقات کی اور پی پی پی میں شمولیت کے فیصلے کا اعلان کیا، اس فیصلے کے بعد پونجھو بھیل نے سندھ اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفی دے دیا۔</p> <p>پونجھو بھیل اور فریال تالپور کی ملاقات کے دوران پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما سینیٹر ہری رام، ایم پی اے سردار علی شاہ، سلیم جلبانی، مہیش کمار مالانی، قاسم سراج سومرو اور ایڈووکیٹ ظفر لغاری بھی موجود تھے۔</p> <p>وہ مستعفی ہونے سے قبل قائمہ کمیٹی برائے قانون اور پارلیمانی معاملات اور انسانی حقوق، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور قائمہ کمیٹی برائے کانوں اور معدنیات کے رکن جبکہ قائمہ کمیٹی برائے اقلیتی معاملات کے چیئرمین تھے۔</p> <p>سابق ایم کیو ایم رکن صوبائی اسمبلی اس سے قبل 2000 سے 2002 تک بلدیاتی حکومت کے دوران میرپور خاص کیلئے مخصوص نشست پر اقلیتی کانسلر منتخب ہوئے تھے، اس کے بعد 2002 سے 2007 میں وہ سندھ اسمبلی کے رکن بھی رہے۔</p> <blockquote> <p>3 سالہ بجٹ فریم ورک منظور، 100 ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز</p> </blockquote> <p>اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے آئندہ مالی سال 2016-17 کے وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال اور اگلے 3 سالہ میڈیم ٹرم بجٹری فریم ورک کی منظوری دے دی، آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ 860 ارب پی ایس ڈی پی کا حجم 800 ارب، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3735 ارب روپے مقررکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔</p> <p>قرضوں پرسودکی ادائیگی کے لیے 1354 ارب، پنشن کی ادائیگی کے لیے 245 ارب، وفاقی حکومت کے سروس ڈلیوری اخراجات کے لیے 348 ارب، سبسڈیز کے لیے 169 ارب، صوبوں کو گرانٹس کی ادائیگی کے لیے 40 ارب اوردیگرگرانٹس کی مد میں 542 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے، بجٹ میں 100 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز بھی ہے جبکہ یہ ٹیکس مختلف ٹیکس چھوٹ ختم ہونے پر عائد ہوںگے۔</p> <blockquote> <p>197 افراد کو قتل کیا تھا: عزیر بلوچ کا اعتراف</p> </blockquote> <p>لیاری گینگ وار کے سر غنہ عزیر بلوچ نے جی ٹی آئی میں تفشیش کے دوران قتل کی 197 وارداتوں کا اعتراف کر لیا عزیر بلوچ کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں 65 مقدمات درج ہیں.</p> <blockquote> <p>پاکستانیوں کی اکثریت اسلامی قوانین کی حامی</p> </blockquote> <p>کراچی: ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 78 فیصد پاکستانی ملکی قوانین قرآن کریم کی روشنی میں بنائے جانے کی 'سختی سے حمایت' کرتی ہے۔</p> <p>پیو ریسرچ سینٹر نے مسلم اکثریتی دس ممالک میں ایک سروے کیا گیا جس میں لوگوں سے ان کے ملک میں نافذ قوانین کو اسلام تعلیمات کے مطابق بنانے' کے حوالے سے رائے لی گئی۔</p> <p>سروے میں پوچھا گیا کہ ان میں سے کون سے بیان کی حمایت کرتے ہیں:</p> <p>آپ کے ملک کے قوانین سختی سے قرآن کی تعلیمات کی پیروی کریں؟</p> <p>آپ کے ملک کے قوانین اسلام کے اصولوں کی پیروی کریں لیکن قرآن کی تعلیمات کی سختی سے پیروی نہ کریں؟</p> <p>ملکی قوانین میں قرآن کی تعلیمات کا اثر نہیں ہونا چاہیے؟</p> <blockquote> <p>غیرت کے نام پر بھائی کے ہاتھوں بہن قتل</p> </blockquote> <p>کراچی: شہر قائد کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک نوجوان نے غیرت کے نام پر اپنی نوعمر بہن کو قتل کردیا۔</p> <p>مومن آباد پولیس کے مطابق فرید کالونی کے رہائشی حیات احمد نے اپنی 17 سالہ بہن سُمیرا کو گھر کے باہر چُھری کے وار کرکے قتل کیا۔</p> <p>واقعے کے بعد ملزم حیات احمد کو گرفتار کرلیا گیا۔</p> <blockquote> <p>پاکستانی سرحد کے ساتھ 8 ہندوستانی 'لیزر وال' فعال</p> </blockquote> <p>نئی دہلی: ہندوستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرحدی کے ساتھ لگائی جانے والی 8 لیزر وال فعال کردی گئی ہیں، جبکہ چند دنوں میں مزید 4 لیزر وال فعال کردی جائیں گی۔</p> <p>ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں ہندوستان کی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے سینئر عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ لیزر وال ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے اس وال سے کسی بھی چیز کے گزرنے کی صورت میں فوری طور پر سائرن بجنا شروع ہوجائیں گے۔</p> <blockquote> <p>عالمی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>پاناما پیپر کی اگلی قسط 9 مئی کو جاری کی جائے گی.</p> </blockquote> <p>ایک زلزلے کے آفٹر شاکس جاری ہیں ، دوسرا بھونچال آنے کو ہے ، آف شور کمپنیوں کے پاکستانی مالکان ہوشیار ہو جائیں ، پامانا پیپرز کی دوسری قسط 9 مئی کو جاری کی جائے گئی.</p> <blockquote> <p>شام: ہسپتال پر بمباری میں 27 افراد ہلاک</p> </blockquote> <p>دمشق: شام کے شہر حلب میں ایک ہسپتال پر بمباری کے نتیجے میں 27 افراد ہلاک ہو گئے۔</p> <p>امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق حلب کے ہسپتال پر بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں 3 ڈاکٹرز، حفاظت پر مامور 2 گارڈ اور ایمبولینس ڈرائیور بھی شامل ہے۔</p> <p>مقامی ذرائع سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق القدس ہسپتال کے مرکزی دروازے پر موجود افراد کو نشانہ بنایا گیا۔</p> <p>شام میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق گزشتہ 6 روز میں حلب میں 148 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔</p> <blockquote> <p>'یہودمخالف'پوسٹ:مسلم رکن پارلیمان پارٹی سے معطل</p> </blockquote> <p>مغربی بریڈفورڈ کی ایم پی ناز شاہ نے کہا کہ 2014 میں کی گئیں ان پوسٹ کے بارے میں انہیں بہت زیادہ پچھتاوا ہے، اور یہ پوسٹ اس وقت کی گئی جب وہ پارلیمان کی رکن نہیں تھیں۔</p> <p>ناز شاہ نے ایک تصویر سوشل میڈیا پر شئیر کی تھی جس میں امریکی نقشے کے ساتھ اسرائیل کا نقشہ ساتھ منسلک تھا اور نیچے درج تھا 'اسرائیل اور فلسطین تنازعے کا حل، اسرائیل کو امریکا میں منتقل کردیا جائے'، اور ساتھ میں تبصرہ لکھا تھا کہ 'مسئلہ حل ہوگیا'۔</p> <p>انہوں نے ہیش ٹیگ <annotation lang="en">IsraelApartheid</annotation> # استعمال کیا اور جس کے اوپر درج تھا کہ 'مت بھولو کہ ہٹلر نے جو کچھ جرمنی میں کیا وہ سب قانونی تھا'۔</p> <p>لیبر پارٹی کے ترجمان نے اس بارے میں بتایا کہ پارٹی رہنما جیرمی کوربائن کے ہمراہ ناز شاہ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ وہ انتطامی طور پر لیبر پارٹی سے معطل رہیں گی۔</p> <p>جب تک اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اس وقت تک وہ پارٹی کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گی، کوربائن نے ناز شاہ کے ان تبصروں کو 'ناگوار اور ناقابلِ قبول' قرار دیا، قبل ازیں اس تبصرے پر ان کو معطل نہیں کیا گیا تھا، جس کو وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 'غیر معمولی' قرار دیا تھا</p> <blockquote> <p>حلب کے ہسپتال پر فضائی حملہ، بیس ہلاک</p> </blockquote> <p>سیرین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا ہے کہ حلب کے علاقے میں واقع ایک ہسپتال پر کیے گئے فضائی حملے میں کم از کم بیس افراد مارے گئے ہیں۔آبزرویٹری نے مقامی لوگوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ القدس ہسپتال حلب کے اُس علاقے میں واقع ہے، جو باغیوں کے قبضے میں ہے۔ اِس ہسپتال کو بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی امداد حاصل تھی۔ فضائی حملے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب میں کیے گئے۔ آبزرویٹری نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ چھ ایام کے دوران حکومتی جنگی طیاروں کی بمباری میں چوراسی شہری مارے گئے ہیں اور باغیوں کی شیلنگ سے انچاس سویلین کی ہلاکت ہوئی ہے۔</p> <blockquote> <p>عالمی پریس فریڈم میں کمی کا رجحان</p> </blockquote> <p>جمہوریت نواز گروپ فریڈم ہاؤس نے آزادیٴ صحافت کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے دنیا بھر میں پریس فریڈم میں کمی کے رجحان کو ظاہر کیا ہے۔ فریڈم ہاؤس نے سن 2015 کے لیے اپنی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ایک عالمی سروے کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں پرتشدد حالات کی وجہ سے صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں میکسیکو میں صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہانگ کانگ میں آزادیٴ اظہار کو کنٹرول کرنے پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق پریس فریڈم کی یہ سطح گزشتہ بارہ برسوں میں سب سے کم مقام پر ہے۔ سروے میں دنیا بھر کے 199 ملکوں کو شامل کیا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>شام امن مذاکرات کو بچایا جائے: امریکا اور روس سے اپیل</p> </blockquote> <p>شام کے لیے مقرر اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر اسٹیفان ڈے مستورا نے امریکا اور روس سے اپیل کی ہے کہ ناکام ہوتے شامی امن مذاکرات کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا کہ شام میں شروع ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے مذاکراتی عمل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ڈے مستورا نے یہ اپیل ویڈیو لنک کے ذریعے سکیورٹی کونسل سے کی ہے۔ اس گفتگو میں اقوام متحدہ کے سفیر نے یہ بھی کہا کہ ساٹھ ایام سے جاری جنگ بندی اب ایک دھاگے سے بندھی رہ گئی ہے اور اِس صورت حال کو سنبھالنے کے لیے روس اور امریکا کی مداخلت ضروری ہے۔</p> <blockquote> <p>چین نے غیر ملکی این جی اوز کی نگرانی کا قانون منظور کر دیا</p> </blockquote> <p>چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اُس مسودہٴ قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی نگرانی سکیورٹی اداروں کے سپرد کر دی گئی ہے۔ بیجنگ حکومت کی پبلک سکیورٹی کی وزارت کو غیر ملکی این جی اوز کی براہ راست نگران مقرر کیا ہے۔ اِس قانون کے تحت تمام غیر سرکاری تنظیموں کو اپنے پراجیکٹس کی تفصیلات فراہم کر کے پیشگی منظوری لینا ہو گی۔ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں پولیس این جی او کے ملازم کو بغیر کسی فردِ جرم کے کم از کم پندرہ ایام کے لیے حراست میں رکھ سکے گی۔</p> <blockquote> <p>'المکّلا کی بازیابی میں دو درجن سے زائد فوجی ہلاک ہوئے ہیں'</p> </blockquote> <p>یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادی کی فوج کے مطابق بندرگاہی شہر المکلا کی بازیابی کی لڑائی میں کم از کم ستائیس فوجی ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران یمنی فوج نے اِس شہر پرقابض القاعدہ کے جہادیوں کو پسپا کر دیا تھا۔ مقامی آبادی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ایک برس بعد شہریوں کی زندگی معمول پر آنے لگی ہے۔ جنوبی یمن میں ہادی کی فوج کو متحدہ عرب امارات کی فوج کا بھی تعاون حاصل رہا۔ اِس عسکری مہم کے دوران سعودی عسکری اتحاد کے جنگی طیارے بھی انتہا پسندوں پر حملے کرتے رہے تھے۔</p> <blockquote> <p>لبنانی فوج نے داعش کا اہم لیڈر ہلاک کر دیا</p> </blockquote> <p>لبنان کی فوج نے بتایا ہے کہ ایک آرمی آپریشن کے دوران شام کی سرحد کے قریب عسکریت پسند تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کا مقامی کمانڈر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے کی شناخت نائیف الشعلان کے طور پر کی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے جنگجو ابو فوز کی عرفیت سے پہچانا جاتا تھا۔ عسکری آپریشن شمالی لبنان کی عَرسال علاقے میں کیا گیا۔ شام اور لبنان کے اِس سرحدی پہاڑی علاقے میں القاعدہ سے وابستگی رکھنے والا النصرہ فرنٹ اور 'اسلامک اسٹیٹ' کے جنگجووں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔</p> <blockquote> <p>امریکا نے بدھا کے قدموں کے نشان کا نادر نمونہ پاکستان کو لوٹا دیا</p> </blockquote> <p>امریکی حکام نے پاکستان سے اسمگل کیا جانے والا مہاتما بدھ کے پتھر پر ثبت قدموں کے نشان والا نادر اسکلپچر لوٹا دیا ہے۔ امریکی حکام نے اس انتہائی قیمتی نشان کو نیویارک میں پاکستانی مشن کے نائب سربراہ رضوان سعید شیخ کے حوالے کیا۔ مہاتما بدھ کے پتھر پر ثبت قدموں کے نشان کی مالیت ایک ملین ڈالر سے زائد خیال کی جاتی ہے۔ رضوان شیخ نے پانچ سو پاؤنڈ وزنی 'بدھ پادا' کہلانے والے اسکلپچر کو پاکستان کی ثقافتی تاریخ کا ایک انتہائی اہم عنصر قرار دیا۔ یہ اسکلپچر قدیمی نوادرات اکھٹے کرنے والے ایک جاپانی سے برآمد کیا گیا تھا۔دوسری صدی کے اس نادر نمونے میں گوتم بدھ کے پیروں کے نشان اور چند مذہبی علامات کندہ ہیں۔</p> <blockquote> <p>ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ خارجہ پالیسی کے خد و خال کی وضاحت</p> </blockquote> <p>رواں برس کے امریکی صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کی دوڑ میں سب سے نمایاں ارب پتی کاروباری سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنی ممکنہ خارجہ پالیسی کے اہم نکات کی وضاحت کر دی ہے۔ اِس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا جائے۔ ٹرمپ نے انتہا پسند اسلام کو روکنے کی بات کی ہے۔ اپنی خارجہ پالیسی کے خد و خال بیان کرتے ہوئے ٹرمپ نے اوباما کی فارن پالیسی کو ایک 'ڈیزاسٹر' قرار دیا۔ ٹرمپ کے مطابق امریکا کی مثبت شناخت کے عمل کو بہتر کرنے کے علاوہ نیٹو اور ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے توازن کو بہتر کیا جائے گا۔</p> <blockquote> <p>عراق نے الجزیرہ ٹیلی وژن کا لائسنس معطل کر دیا</p> </blockquote> <p>خلیجی ریاست قطر میں قائم عربی نیوز ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کے عراق میں آپریشن کے سرکاری اجازت نامے کو حکومت نے منسوخ کر دیا ہے۔ بغداد حکومت نے لائسنس منسوخ کرنے کی وجہ رہنما اصولوں کی خلاف ورزی بیان کی ہے۔ الجزیرہ ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے عراقی حکومت کے اِس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بغداد حکومت نے الجزیرہ کو لائسنس سن 2014 میں جاری کیا تھا۔ الجزیرہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عراق سے متعلق خبریں عراقی عوام کے لیے نشر کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔</p> <blockquote> <p>پولیس کی مدد سے ہندو انتہا پسندوں نے شادی رکوا دی</p> </blockquote> <p>بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے ضلع سَتنا کے ایک گرجا گھر میں شادی کو انتہا پسندو ہندووں نے پولیس کی مدد سے رکوا دیا۔ انتہا پسند ہندو گروپ کے مطابق لڑکی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ شادی رکوانے والے ہندووں کا تعلق بجرَنگ دَل سے بتایا گیا ہے۔ ضلعی پولیس کے ایک افسر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ معاملے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور اِس معاملے میں لڑکی کی عمر اہم ہے۔ پولیس افسر کے مطابق مذہب تبدیل کرنے والی لڑکی کی عمر اٹھارہ نہیں بلکہ اِس وقت سترہ برس ہے۔</p> <blockquote> <p>شمالی کوریا:ریستوراں ویٹرسز کے خاندان کی ویڈیو اپیل</p> </blockquote> <p>چین سے واپس شمالی کوریا جاتے ہوئے جنوبی کوریا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والی ایک ریستوراں کی گیارہ ویٹرسزکے بارے میں شمالی کوریا کا اصرار ہے کہ وہ اغوا کر لی گئی ہیں۔ یہ ملازمائیں چین میں شمالی کوریا کے ایک ریستوراں میں کام کرتی تھیں۔ ان کے خاندانوں کی جانب سے ایک اپیل کمیونسٹ ملک نے جاری کی ہے۔ اس میں ویٹرسز کے والدین روتے ہوئے انہیں واپس آنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ اِس ویڈیو میں کچھ والدین نے جنوبی کوریا کی خاتون صدر پر ان خواتین کے اغوا کا الزام دھرتے ہوئے تنقید بھی کی۔</p> <blockquote> <p>امریکی وزیر دفاع جرمنی کا دورہ کریں گے</p> </blockquote> <p>پینٹاگون کے سربراہ اور امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اگلے ہفتے کے دوران جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ وہ اس دورے میں جہادی گروپ 'اسلامک اسٹیٹ' کے خلاف قائم امریکی عسکری اتحاد کے وزرائے دفاع کے ساتھ ایک میٹنگ میں شریک ہوں گے۔ اِس میٹنگ میں شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ اور تازہ صورتحال پر تبادلہٴ خیال کیا جائے گا۔ یہ دو روزہ میٹنگ جرمن شہر اشٹٹ گارٹ میں ہو گی۔ اسی شہر میں امریکا کی یورپی کمانڈ کا ہیڈکوارٹرز قائم ہے۔</p> <blockquote> <p>لیبیا سے خام تیل حاصل کرنے پر انڈین فلیگ والابحری جہاز بلیک لسٹ</p> </blockquote> <p>بھارتی جھنڈے کے حامل ایک مال بردار بحری جہاز کو شورش زدہ ملک لیبیا سے غیرقانونی انداز میں خام تیل لے جانے پر اقوام متحدہ نے بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ بحری جہاز نے خام تیل اُس بندرگاہ سے حاصل کیا تھا جو حکومتی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اِس مال بردار بحری جہاز کا نام 'ڈسٹیا امیا' بتایا گیا ہے۔ مال بردار جہاز نے خام تیل لیبیا کے شمال میں البیضا سے لیکر مالٹا کی جانب روانہ تھا۔ اسی جہاز نے پہلے بھی خام تیل ایک نامعلوم خریدار کو بھیجا تھا۔</p> <blockquote> <p>انتہاپسندوں پر تنقید کرنے والا نوجوان یمنی اسکالر ہلاک کر دیا گیا</p> </blockquote> <p>یمن کے جنوبی شہر عدن میں ایک نوجوان مذہبی عالم عمر بتاوِل کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ بتاوٍل کو سماجی ویب سائٹس پر اسلامی انتہا پسندوں پر شدید تنقید کرنے پر شہرت حاصل ہونے لگی تھی۔ عدن کے شیخ عثمان علاقے میں اٹھارہ برس کے عالم کی نعش ملی ہے، اُس کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ اُس کے رشتہ دار کے مطابق عُمر کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کرنے کے بعد ہلاک کیا اور انہوں نے اِس قتل کا الزام مسلمان شدت پسندوں پر عائد کیا ہے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اِس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔</p> <blockquote> <p>جورجیا میں قاتل کی موت کی سزا پر عمل درآمد</p> </blockquote> <p>امریکی ریاست جورجیا میں تہرے قتل کے ایک ملزم ڈینیئل انتھونی لوکاس کو زہریلے ٹیکے کے ذریعے موت کی سزا پر عمل کر دیا گیا۔ لوکاس نے یہ تینوں قتل سن 1998 میں ایک نقب زنی کی واردات کے دوران کیے تھے۔ اس واردات میں ایک شخص اوراُس کے دو بچے مارے گئے تھے۔ سینتیس سالہ ملزم کی موت بدھ کی رات زہریلا ٹیکا لگانے کے بعد تقریباً دس بجے واقعے ہوئی تھی۔ اُس وقت جیل حکام بھی ڈیتھ چیمبر میں موجود تھے۔ آخری بیان میں لوکاس نے مقتول کی بیوی سے اُس کے شوہر اور بچوں کو ہلاک کرنے پر معذرت بھی چاہی تھی۔</p> <blockquote> <p>کھیلوں کی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>ڈونلڈ اور اسٹورٹ لا آسٹریلین ٹیم سے منسلک</p> </blockquote> <p>سڈنی: سابق عظیم جنوبی افریقی باؤلر ایلن ڈونلڈ کو دورہ سری لنکا کیلئے آسٹریلین ٹیم کا باؤلنگ کوچ جبکہ سابق کرکٹر اسٹورٹ لا کو بیٹنگ کوچ مقرر کردیا ہے۔</p> <p>'وائٹ لائٹننگ' کے نام سے مشہور سابق مایہ ناز فاسٹ باؤلر ایلن ڈونلڈ کو کریگ میک ڈرموٹ کی جگہ وقتی طور پر باؤلنگ کوچ کا عہدہ سونپا گیا ہے جنہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔</p> <p>ہیڈ کوچ ڈیرن لیمن نے ڈونلڈ کی تقرری کو بہترین اقدام قرار دیا ہے۔</p> <p>ڈیرن لیمن نے کہا کہ وہ اپنے ہمراہ بہت وسیع تجربہ لے کر آئیں گے اور ان کی موجودگی سے ہمارے باؤلرز کو بہت فائدہ ہو گا۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ ان کا ٹیسٹ ریکارڈ ان کی بہترین کارکردگی کا عکاس ہے اور وہ بلاشبہ اپنے دور ایک بہترین فاسٹ باؤلرز میں سے ایک تھے۔</p> <p>بدھ کو میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ ڈونلڈ شاید جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز تک آسٹریلین ٹیم کیلئے خدمات انجام دیں گے لیکن کرکٹ آسٹریلیا نے اس کی تصدیق کردی ہے۔</p> <p>اس سے قبل انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کیلئے خدمات انجام دینے والے ایلن ڈونلڈ اپنے دس سالہ کیریئر میں 330 ٹیسٹ اور 272 ایک روزہ وکٹیں لینے کا اعزاز رکھتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>ولیمسن نیوزی لینڈ ٹیسٹ ٹیم کے بھی کپتان مقرر</p> </blockquote> <p>ویلنگٹن: مایہ ناز کیوی بلے باز کین ولیمسن کو برینڈن میک کولم کی جگہ نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کا نیا قائد مقرر کردیا گیا ہے۔</p> <p>نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دنیائے کرکٹ میں ایک بڑی طاقت کی شکل دینے والے برینڈن میک کولم نے فروری میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔</p> <p>2010 میں ہندوستان کے خلاف ڈیبیو کرنے والے کین ولیمسن کو ایک عرصے سے میک کولم کا جانسشین تصور کیا جا رہا تھا جہاں وہ پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میچوں میں کیوی ٹیم کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔</p> <p>نیوزی لینڈ کرکٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ نے کہا کہ ولیمسن ایک عرصے سے ٹیم میں ایک لیڈر کی حیثیت سے ہیں اور پہلے ہی خود ایک انتہائی قابل کپتان ثابت کر چکے ہیں۔</p> <p>انہوں نے کہا کہ ان کی پیشہ ورانہ سوچ کی وجہ سے ساتھی کھلاڑی اور کرکٹ حلقے میدان اور میدان سے باہر ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ہندوستان میں انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کیلئے موجود ولیمسن نے کہا کہ وہ میک کولم کی نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹیم کو تیار کرنا چاہتے ہیں، یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیم مزید کارہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔</p> <p>ولیمسن کی زیر قیادت حال ہی میں ختم ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی اور اس ٹورنامنٹ اسپن باؤلرز کے بہترین طریقے سے استعمال پر ولیمسن کی صلاحیتوں کو کافی سراہا گیا تھا۔</p> <blockquote> <p>شوبز</p> </blockquote> <blockquote> <p>ہیما مالنی کی 'دپیکا' کو منگنی کی مبارکباد</p> </blockquote> <p>بولی وڈ اداکارہ دپیکا پڈوکون اور رنویر سنگھ کے تعلق کی خبریں تو کافی عرصے سے زبان زد عام ہیں لیکن شائقین اس انتظار میں تھے کہ دونوں اپنے اس تعلق کا باقاعدہ اعلان کب کرتے ہیں۔</p> <p>لیکن بولی وڈ کی 'ڈریم گرل' ہیما مالنی کی محض ایک ٹوئیٹ نے ان خبروں کو مزید بڑھاوا دے دیا۔</p> <p>ہوا کچھ یوں کہ آج صبح ہیما نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں 'دپیکا' کو منگنی کی مباکباد دے ڈالی۔</p> <blockquote> <p>خیبرپختونخوا میں فلم 'مالک' کی نمائش کی پیشکش</p> </blockquote> <p>پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں عاشر عظیم کی فلم 'مالک' چلانے کی پیشکش کر دی۔</p> <p>صوبائی حکومت نے مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے فلم 'مالک' پر پابندی کو مسترد کرتے ہوئے فلم کی سینما گھروں میں نمائش کی پیشکش کا اعلان کیا۔</p> <p>صوبائی وزیر اطلاعات ونشریات مشتاق غنی کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے کوشش کی ہے کہ بدعنوانی کو بے نقاب کرے، اس سے بڑے بڑوں کو تکلیف ہو گئی، اس پر حکومتیں پابندی لگا رہی ہیں، یہ فلم پورے ملک میں دکھائی جانی چاہیے۔</p> </section> </body>
5471.xml
<meta> <title>اسیران جنگ کو غلام بنانے کا جواز</title> <author> <name>عمار خان ناصر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/24492/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2204</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اسیران جنگ کو غلام بنانے کا جواز
2,204
No
<body> <section> <p>سوال: جاوید احمد غامدی صاحب کی راے یہ ہے کہ اسلام سے پہلے جنگی قیدیوں کو غلام لونڈی بنا لینے کا جو دستور تھا، قرآن مجید میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟</p> <p>جواب: جناب جاوید احمد غامدی کی یہ رائے سورئہ محمد کی آیت ۴ پر مبنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے کفار کے حوالے سے یہ ہدایت کی ہے کہ یا تو ان پر احسان کرتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا جائے اور یا ان سے فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ ارشاد ہوا ہے:</p> <p>فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ</p> <p>"پھر جب کفار کے ساتھ تمھاری مڈبھیڑ ہو تو خوب ان کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب اچھی طرح ان کی خون ریز ی کر چکو تو انھیں مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ (ان کے ساتھ لڑائی جاری رکھو) یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔"</p> <p>آیت بظاہر جنگی قیدیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے اختیار کو دو باتوں میں محصور کر دیتی ہے، یعنی یہ کہ یا تو انھیں احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ چھوڑ دیا جائے اور یا ان سے فدیہ لے کر انھیں رہا کر دیا جائے۔ حصر کا یہ اسلوب بظاہر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسیران جنگ کو فدیہ لے کر یا احسان کے طو رپر آزاد کرنے کے علاوہ کوئی ان کے حوالے سے کوئی تیسرا طریقہ اختیار کرنا جائز نہ ہو۔ تاہم اس ہدایت کے سیاق وسباق کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً کا حصر کا اسلوب اسیران جنگ کو غلام بنانے کی ممانعت کے لیے نہیں، بلکہ ایک مختلف تناظرمیں استعمال کیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے زیر بحث ہدایت کی ترجمانی یوں کی ہے: "یعنی اس کے بعد اگر یہ تمھارے ہاتھ سے چھوٹیں تو صرف دو ہی شکلوں سے چھوٹیں۔ یا تو تمھارے احسان کا قلادہ اپنی گردن میں لے کر یا فدیہ دے کر۔" (تدبر قرآن ۷ / ۷۹۳ )</p> <p>میری طالب علمانہ رائے میں مولانا اصلاحی کی یہ رائے بے حد صائب ہے اور کلام کے موقع ومحل اور اس کے رخ کی نہایت درست ترجمانی کرتی ہے۔آیت کے موقع ومحل اور کلام کے دروبست سے واضح ہے کہ یہاں جنگی قیدیوں سے متعلق کسی قانون کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ اہل ایمان پر یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا انکار کرنے پر اہل کفر کو رسوا کرنے اور انھیں سزا دینے کے لیے اہل ایمان کو بطور آلہ وجارحہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا منشا یہ ہے کہ کفار کو اس جنگ میں خدا کا دشمن سمجھ کر میدان جنگ میں بھی ان کی خوب خون ریزی کی جائے اور پھر جب انھیں شکست ہو جائے تو قید کرنے یا قید سے آزا دکرنے کا معاملہ بھی پوری طرح ان کو نیچا دکھا کر اور ان کے کبر وغرور کو توڑ کر ہی کیا جائے۔ دشمن کے ساتھ جنگ میں ظاہر ہے کہ اسے زک پہنچانے کے یہی تین طریقے ہو سکتے ہیں اور قرآن نے یہاں یہ واضح کیا ہے کہ ان تینوں طریقوں میں دشمن کی کمر توڑنے، اسے زک پہنچانے اور اس کا حوصلہ توڑنے کے جذبے کا اظہار پوری طرح نمایاں ہونا چاہیے۔</p> <p>اس تناظر میں دیکھیے تو 'اما منا بعد واما فدائ' میں حصر قیدیوں کو قتل کرنے یا غلام بنانے کے تقابل میں نہیں، بلکہ باعزت آزاد کرنے کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مقصود اس بات کی نفی کرنا نہیں کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے یا انھیں غلام بنا لیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ انھیں باعزت آزادی نصیب نہیں ہونی چاہیے۔ کلام کا یہ رخ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں مقصود اگر جنگی قیدیوں کے بارے میں کسی قانون کا بیان ہوتا تو اس کے لیے سادہ طریقے پر یہ کہنا کافی تھا کہ ایسے قیدیوں کو آزاد کر دینا ہی واحد قانونی آپشن ہے، چاہے بلا معاوضہ آزاد کیا جائے یا فدیہ لے کر، لیکن قرآن نے یہاں قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد کرنے کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہونے والا کوئی سادہ لفظ مثلاً 'تحریر' یا 'تسریح' نہیں، بلکہ 'منا' کا لفظ استعمال کیا ہے۔</p> <p>کلام کا یہ محل اور رخ پیش نظر رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ یہاں قیدیوں کے بارے میں قتل اور غلامی کے آپشنز کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ متکلم کا مقصود دراصل یہ ہے کہ ان اہل کفر کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے کسی پہلو سے نرمی یا مسامحت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے، اس لیے اس نے انھی پہلووں کا ذکر کیا ہے جہاں اس کا خدشہ یا امکان ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میدان جنگ میں انھیں تہہ تیغ کرنے میں رو رعایت کا امکان ہو سکتا تھا تو فرمایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ خوب ان کی گردنیں ماری جائیں۔ قتل سے بچ جانے والوں کے بارے میں یہ امکان تھا کہ انھیں فرار ہونے دیا جائے تو فرمایا کہ نہیں، بلکہ انھیں خوب مضبوطی سے باندھ لیا جائے۔ پھر گرفتار کیے جانے والوں کے بارے میں یہ امکان تھا کہ انھیں باعزت طریقے سے رہا کر دیا جائے تو فرمایا کہ نہیں، ان کی رہائی بھی یا تو مسلمانوں کا ممنون احسان ہو کر عمل میں آنی چاہیے یا فدیہ ادا کر کے۔ چونکہ ان قیدیوں کے قتل کیے جانے یا غلام بنائے جانے کی صورت میں نرمی کا پہلو قدرتی طور پر مفقود ہے اور ان کا اختیار کیا جانا بدرجہ اولیٰ متکلم کے مقصود کو پورا کرتا ہے، اس لیے یہاں ان آپشنز کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں اگر ان کا ذکر کیا جاتا تو ظاہری طور پر اس کی ایک ہی صورت تھی، یعنی یہ کہ یہ کہا جاتا کہ ان قیدیوں کو قتل کرنے یا غلام بنانے ہی کو ترجیح دی جائے اور آزاد کرنے کا آپشن کم سے کم استعمال کیا جائے، لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی تحدید عائد کرنا بھی یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصود نہیں۔ پس ازروے بلاغت قتل اور غلامی کا ذکر کرنے کی یہاں نہ صرف یہ کہ ضرورت نہیں تھی بلکہ ایسا کرنا غیر ضروری اور غیر مناسب ہوتا۔</p> <p>مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات میں جنگی قیدیوں کے بارے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا، اس میں قیدیوں کو بلامعاوضہ یا فدیہ لے کر رہا کرنے کے علاوہ بعض قیدیوں کو قتل کرنا اور بعض کو غلام بنا لینا بھی شامل ہے۔ چنانچہ آپ نے بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن الحارث کو قتل کر ا دیا۔ بنو قریظہ نے بدعہدی کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ پھر ان کے کہنے پر سعد بن معاذ کو حکم مقرر کیا گیا جنھوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے جبکہ ان کے عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، چنانچہ ان کے فیصلے کے مطابق ان کے مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر مسلمانوں کے مابین تقسیم کر دیا گیا۔ (بخاری، ۴۲۷۳ ، ۳۱۸۳ ) ان میں سے بعض قیدیوں کو مشرکین کے ہاتھوں بیچا بھی گیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۸۰۱۸۱ )</p> <p>خیبر کی فتح کے موقع پر آپ نے یہود کے جنگی مردوں کو قتل کرا دیا جبکہ ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ ان میں حیی بن اخطب کی صاحبزادی صفیہ بنت حیی بھی تھیں جنھیں بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کر لیا۔ (بخاری، رقم ۵۹۸ ، ۹۷۶۲ )</p> <p>غزوئہ بنو المصطلق میں بھی آپ نے ان کے جنگی مردوں کو قتل کیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ ان میں قبیلے کے سردار کی بیٹی سیدہ جویریہ بھی شامل تھیں جو ابتداءثابت بن قیس کے حصے میں آئیں، لیکن پھر ان کی رضامندی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ثابت بن قیس سے خرید لیا اور انھیں آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا۔ (بخاری، رقم ۵۵۳۲ ، ۶۵۳۲۔ ابوداود، رقم ۹۲۴۲ )</p> <p>غزوئہ حنین میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا اور انھیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنی ملکیت میں آنے والی خواتین کے استبراءرحم کے بعد ان سے استمتاع کر سکتے ہیں۔ تاہم بعد میں اس قبیلے کے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور درخواست کی کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس کر دیا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ان سب کو آزاد کر دیا گیا۔ (بخاری، رقم ۲۴۱۲ ، ۱۱۹۲۔ مسلم، رقم ۳۴۶۲ )</p> <p>بنو فزارہ کے خلاف غزوے میں ان کی جو خواتین قید کی گئیں، انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے مابین تقسیم کر دیا جبکہ ان میں سے بعض خواتین کو مکہ مکرمہ بھیج کر ان کے بدلے میں مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا گیا۔ (مسلم، رقم ۹۹۲۳ )</p> <p>ایک موقع پر کچھ قیدی آپ کے پاس آئے تو ضباعہ بنت زبیر اور سیدہ فاطمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ ان قیدیوں میں سے ایک ایک خادم انھیں دے دیا جائے، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'سبقکن یتامی بدر' یعنی بدر میں ییتم ہونے والوں کا حق تم سے مقدم ہے۔ (ابوداود، رقم ۴۰۴۴ )</p> <p>ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جنگی قیدیوں کو لایا جاتا تو آپ ان میں سے ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو اکٹھے کسی کی ملکیت میں دے دیتے تاکہ ان کے مابین تفریق نہ ہونے پائے۔ (ابن ماجہ، رقم ۹۳۲۲ )</p> <p>سیدنا علی کو ایک سریے میں یمن کی طرف بھیجا گیا تو بنو زید کے ساتھ لڑائی میں ان کے کچھ قیدی ان کے ہاتھ آئے۔ انھوں نے ان میں سے ایک عورت کو اپنے لیے چن لیا اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فیصلے کی تصویب فرما دی۔ (مسند احمد، رقم ۴۳۹۱۲ )</p> <p>عہد صحابہ میں اس ضمن کے بعض واقعات حسب ذیل ہیں:</p> <p>عین التمر میں دشمن کے بہت سے افراد کو غلام بنا لیا گیا جن میں عبد الاعلیٰ شاعر کے والد ابو عمرہ، محمد بن سیرین کے والد سیرین اور سیدنا عثمان کے معروف غلام حمران بن ابان بھی شامل تھے۔ (ازدی، فتوح الشام، ص ۰۶ )</p> <p>سرزمین شام میں اردن کا علاقہ فتح ہوا تو اسلامی لشکر کے امرا میں اس حوالے سے اختلاف راے پیدا ہو گیا کہ مفتوحین کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے یا اہل ذمہ بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے عملی مصلحت کی روشنی میں دوسری راے کی تائید کی لیکن اصولی طور پر غلام بنانے کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ (ازدی، فتوح الشام، ص ۵۲۱ )</p> <p>غامدی صاحب کی رائے میں اس نوعیت کے واقعات میں قیدیوں کو مختلف افراد کے مابین تقسیم کرنا مستقل ملکیت کے اصول پر نہیں بلکہ ایک عارضی انتظام کے طور پر تھا تاکہ یہ افراد خود ان قیدیوں کے ساتھ فدیہ وغیرہ کے معاملات طے کر کے بالآخر انھیں آزاد کر دیں، لیکن یہ توجیہ اشکال کو حل نہیں کرتی، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہرحال جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنایا اور اسی حیثیت سے لوگوں کو ان پر مالکانہ حقوق دیے ہیں، جبکہ اگر قرآن مجید نے سورئہ محمد کی زیر بحث آیت میں قیدیوں کو غلام بنانے کی ممانعت کی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں مملوک نہ بنایا جائے، چاہے یہ ملکیت وقتی اور عارضی نوعیت کی کیوں نہ ہو۔ پھر یہ کہ روایات میں اس کا بھی کوئی قرینہ موجود نہیں کہ یہ قیدی اس اصول پر تقسیم کیے گئے تھے کہ ان کے مالک ان کے ساتھ فدیے کا معاملہ طے کر کے انھیں آزاد کرنے کے پابند ہوں گے۔ بظاہر جس طریقے سے مختلف مواقع پر قیدیوں کو لوگوں کی ملکیت میںدیا گیا، اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ انھیں ان پر ملکیت کا حق مستقل طور پرحاصل ہو گیا تھا۔ ایسے کسی موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ بعد میں انھیں آزاد کرنا مالکوں پر لازم ہے۔ مزید برآں ایک ایسے معاملے کو جو نظم اجتماعی سے متعلق ہے، افراد کے سپرد کر دینے کی وجہ اور حکمت واضح نہیں ہوتی۔ اگر قرآن کا منشا یہی ہے کہ یہ قیدی لازماً آزاد ہو جائیں تو انھیں افراد میں تقسیم کر کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو ان کی شخصی صواب دید پر منحصر کر دینا بظاہر کوئی قابل فہم حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔</p> <p>ان وجوہ سے میری طالب علمانہ رائے میں اہل علم کے عام نقطہ نظر کے مطابق یہی بات درست ہے کہ قرآن نے اسیران جنگ کو غلام بنانے پر قانونی اور شرعی دائرے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ ہذا ما عندی واللہ اعلم</p> </section> </body>
5472.xml
<meta> <title>مدارس یونیورسٹیوں سےآگے</title> <author> <name>محمود شام</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/24521/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1050</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
مدارس یونیورسٹیوں سےآگے
1,050
Yes
<body> <section> <p>سماں بالکل ایک کنسرٹ کا سا ہے۔ بہت اونچا اسٹیج۔ طویل و عریض سیاہ پردے۔ کرین والے کیمرے۔ بڑی بڑی لائٹس۔ اونچے چوڑے اسپیکرز۔ بیٹھنے کے لیے صوفے کرسیاں۔ اسٹیج کے عقب میں تیاری کا کمرہ۔ جہاں نقلی داڑھی بھی لگائی جارہی ہے۔ زنانہ لباس۔ برقعے۔</p> <p>دو سے تین گھنٹے کے پروگرام میں ٹی وی چینلوں کی طرح ٹاک شوز۔ ڈرامے۔ خاکے۔ ملّی ترانے اور آخر میں ایک باقاعدہ قوّالی۔ جو در اصل حالاتِ حاضرہ پر گہرا طنز۔ اور قوّالی کی پیروڈی ہے۔</p> <p>پکڑی گئی اصلی کرنسی</p> <p>چل گئے کھوٹے سکّے</p> <p>آگئے لوٹے۔ چھا گئے لوٹے</p> <p>جب فراڈ کیا تو ڈرنا کیا</p> <p>میرا پہلا تاثر یہی ہے کہ دینی مدارس اپنے خلاف پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے کے لیے بھرپور تیاری سے میدان میں آگئے ہیں۔ جدید علوم کے ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی ممنوعہ نہیں قرار دے رہے ہیں۔ آج تک جو مسلمانوں پر الزام تھا کہ انہوں نے پرنٹنگ کو قبول نہیں کیا تھا۔ اور بہت پیچھے رہ گئے۔ آج کا دینی طبقہ جدید ٹیکنالوجی سے پوری طرح واقف ہے۔ اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنا بھی رہا ہے۔ میں ٹویٹ کررہا ہوں کہ جامعہ بنوریہ العالمیہ میں یہ اسٹیج شو دینی مدارس کے خلاف مختلف قسم کے الزامات کا عملی جواب دینے کے لیے ایک بھرپور علمی۔ تخلیقی۔ تحقیقی اور تکنیکی کوشش ہے ۔ اپنی بات زیادہ وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی۔ سوشل میڈیا۔ کیمرے۔ مائیک۔ اسپیکرز۔ اسٹیج۔ اسکرپٹ اور تصوّراتی تحریر کا کامیاب استعمال ہے۔</p> <p>پہلے یہ حلقے ایسے مظاہروں۔ تماشوں۔ کوششوں کو لہو و لعب یا لایعنی کہا کرتے تھے۔ لیکن اب انہیں حالات نے یہ سبق دیا ہے کہ یہ آلات۔ ایجادات۔ ٹیکنالوجی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی انسان کو ودیعت کی گئی ہیں۔ ان کا استعمال صرف ناچ گانے کے لیے نہیں۔ اعلائے کلمة الحق کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ پرنٹنگ۔ کمپیوٹر جب قابل قبول ہیں تو ابلاغ کے یہ آلات بھی دینی پیغام کی ترسیل کے لیے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔</p> <p>میں یہ سمجھ رہا ہوں اور ٹویٹ بھی کررہا ہوں کہ یہ یقیناً <annotation lang="en">Paradigm Shift</annotation> ہے۔ ایک تاریخ ساز تبدیلی۔ میں اپنے سامنے دینی حلقوں میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ یہاں دوسرے دارُالعلوموں کے محترم و مکرّم اساتذہ بھی تشریف رکھتے ہیں۔ سب یہ طنزیہ خاکے۔ ڈرامے۔ میک اپ۔ نقلی ریش۔ زنانہ لباس میں لڑکے۔ برقع میں نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ اداکاری ہورہی ہے۔ مگر مقصد نیک ہے یہ اسٹیج۔ کیمرے۔ سب کا کرایہ گرانقدر ہوگا۔ لیکن مقصد ارفع ہے۔ اس سے تبدیلی آئے گی۔</p> <p>زیادہ تر اعلانات عربی زبان میں ہیں۔ لہجہ بالکل سعودی عرب اور مصر والا ہے۔ اُردو میں بھی بعض پیغام دیئے جارہے ہیں۔ لیکن مسرّت اور تعجب اسوقت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جب غیر ملکی طلبہ بہت شستہ اُردو بولتے ہیں۔ ان کا تلفّظ ہمارے صدر۔ وزیرا عظم ۔ وفاقی وزرائ۔ گورنرز۔ وزرائے اعلیٰ سے کہیں زیادہ بہتر۔ ہمارے ٹی وی اینکرز۔ اور نیوز ریڈرز سے کہیں زیادہ دُرست۔ ایک شعبہ بالخصوص اُردو سکھانے کے لیے مختص ہے۔ جبوتی۔ انڈونیشیا۔ تھائی لینڈ۔ فلپائن۔ کمبوڈیا۔ کینیڈا۔ برطانیہ۔ فجی۔ ملائیشیا۔ نائیجیریا۔ کرغیزستان۔ افغانستان۔ بنگلہ دیش ۔گھانا۔ تاجکستان ۔ ویسٹ انڈیز۔ کانگو۔ الجزائر۔ کینیا۔ مصر۔ روس۔ برما۔ سوڈان۔ ماریشس۔ البانیہ۔ سب ہی ملکوں سے آئے ہوئے نوجوان ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض کے اہلِ خانہ بھی یہاں مُقیم ہیں۔ وہ بھی زیرِ تعلیم ہیں۔</p> <p>فرقوں کی تقسیم ختم کرنے کے لیے ایک امام کے پیچھے مختلف مسالک کے مقتدی بھی نماز پڑھتے دکھائے گئے تقریب میں اگرچہ زیادہ تر دیو بندی مسلک سے وابستہ علما تھے۔ لیکن یہاں سلام بھی پڑھا گیا۔ یا نبی سلام علیک۔ یا حبیب سلام علیک۔ یا رسول سلام علیک۔ صلوٰة اللہ علیک۔</p> <p>قوّالی بہت اچھی کوشش ہے۔ قراقلی جناح کیپ سر پر۔ گیسو دراز۔ نوجوان بہت اچھی طنزیہ مزاحیہ قوّالی پیش کررہے ہیں۔ منی لانڈرنگ پر بھی طنز ہے۔ لوٹا کریسی بھی ہدف تنقید ہے۔ فراڈ اورکرپشن بھی۔پکڑی گئی اصلی کرنسی۔ چل گئے کھوٹے سکّے۔ پھر لہک لہک کے آگئے لوٹے۔ چھاگئے لوٹے اور 'انار کلی' کے گانے جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ کی پیروڈی۔ جب فراڈ کیا تو ڈرنا کیا۔</p> <p>اس وقت جب ایک افراتفری ہے نفسا نفسی ہے۔ تو دینی مدارس کی طرف سے اپنے بقا کے لیے جنگ لائقِ تحسین ہے۔ صرف جوشیلی تقریریں نہیں کی جارہی ہیں۔ کسی دوسرے مسلک والے کو کافر نہیں قرار دیا جارہا ہے۔ نوجوان طالب علم فرقہ ورانہ یگانگت کی بات کررہے ہیں۔ ویمن پروٹیکشن بل حکومت پنجاب کے خلاف ۔ ایکٹ کے ڈرامے میں عام عدلیہ اور اسلامی عدلیہ کی تقابلی سماعت کے ذریعے اس بل پر تنقید کی گئی ہے۔</p> <p>میں دیکھ رہا ہوں کہ دینی مدارس اپنا۔ تنگ دامن وسیع کررہے ہیں۔ پہلے میں جامعة الرشیدیہ میں ایک جلسۂ تقسیمِ اسناد میں شرکت کرچکا ہوں۔ جہاں درسِ نظامی کے ساتھ اب ایم اے۔ ایم بی اے کی کلاسیں بھی ہورہی ہیں۔ دینی اور دنیوی دونوں علوم پڑھائے جارہے ہیں۔ اور بھی کئی مدارس میں یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جامعة البنوریہ العالمیہ نے پہلے سے انگریزی کمپیوٹر کلاسز شروع کر رکھی ہیں۔ غیر ملکی طلبہ کی معاشرت اور ضرورت کے مطابق رہن سہن کی سہولتوں میں جدّت اختیار کی گئی ہے اب باقاعدہ ایک میٹرو پولیٹن یونیورسٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ اسطرح دینی مدارس خود کفیل ہوجائیں گے۔ یہاں اپنے مشن سے خلوص اور عشق بھی ہوتا ہے۔ طلبہ وطالبات سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔قیام و طعام کی سہولتیں بھی۔ اب جدید علوم کی تدریس بھی ہورہی ہے۔ غیر نصابی سرگرمیاں بھی۔ کھیل ورزش۔ تیراکی بھی۔</p> <p>پرائیویٹ یونیورسٹیاں اس مقابلے میں پیچھے رہ سکتی ہیں۔ کیونکہ ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ دینی مدارس میں وہی ڈگریاں مفت پڑھ کر مفت رہائش میں مل جائیں گی۔ سب سے زیادہ سرکاری یونیورسٹیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ بلکہ خالی ہوجائیں گی۔ جب سارے دینی مدارس اپنی یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ جدید علوم بھی پڑھائیں گے۔ روزگار کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ یہاں سے فارغ التحصیل دین اور دُنیادونوں سے آگاہی رکھتے ہوں گے۔ عام یونیورسٹیوں کو بھی مقابلے میں دینی تعلیم کا آغاز کرنا پڑے گا۔</p> <p>مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ دینی مدارس جلد ہی اپنا کوئی ٹی وی چینل بھی شروع کرلیں گے۔ ٹیکنالوجی پر انہیں عبور حاصل ہورہا ہے۔ بولنے والے بھی ہیں۔ تحقیق کرنے والے بھی۔ اپنے خلاف پروپیگنڈے کا مدلّل اور مؤثر جواب دینے کی اجتماعی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔</p> <p>اور کہنے کو بھی بہت کچھ ہے ۔</p> </section> </body>
5473.xml
<meta> <title>صحافت کی آزادی کیلئے پہلا حقیقی قدم</title> <author> <name>محمد نواز طاہر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/25074/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>784</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
صحافت کی آزادی کیلئے پہلا حقیقی قدم
784
No
<body> <section> <p>پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین کی ایک بات قانون و پارلیمانی امور کے وزیر رانا ثناءاللہ خان نے بھی دہرائی ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی کو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں سپیس نہیں ملتی ۔۔۔ میڈیا بریفنگ کے دوران رانا ثنا اللہ نے خالصتاً پنجابی اور خاص طور پر فیصل آبادی انداز میں شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر سپیس کی نشاندہی بھی کردی کہ چلیں اہم پارلیمانی امور پر اتنی سپیس ہی دیدی جائے ۔۔۔۔۔ان کا یہ گلہ اور تجویز نامناسب بھی نہیں ہے ۔۔۔</p> <p>پنجاب اسمبلی ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی ہے اور صوبے کا سب سے بڑا جمہوری اور آئینی ادارہ ہے ۔۔۔ یہاں کی کارروائی رپورٹ ہونا چاہئے ۔۔۔ اس میں بھی دورائے نہیں کہ حکومت یا کوئی شخص کسی اشاعتی اور نشریاتی ادارے کو کوریج کیلئے مجبور نہیں کرسکتا لیکن یہ امر اپنی جگہ درست ہے اور اسے تسلیم بھی کرنا پڑے گا کہ آخر پنجاب اسمبلی کے سنجیدہ امور کو سپیس کیوں نہیں ملتی ۔۔۔۔؟( اشاعتی و نشرایاتی ادارے تو عوام کیلئے ہوتے ہیں ) سپیس نہ ملنے کی ایک وجہ تو خود پارلیمانی 'کارکردگی 'اور اس کی جملہ 'سچائیاں' ہیں دوسری وجہ میڈیا کی پالیسی اور تیسری وجہ خاصی قابلِ اعتراض ۔۔۔۔ یعنی ہم صحافیوں کی پروفیشنل سکل۔۔۔ اور اس سے بھی بڑھ کر میڈیا کارکنوں کی وہ مجبوریاں ہیں جو انہیں ٹیلی فونک ہدایات کی صورت میں نان پروفیشنل نااہل" افسروں " اور مالکان کی طرف سے ملتی ہیں ۔۔۔۔۔</p> <p>رانا ثناءاللہ کا شکوہ اپنی جگہ۔۔۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ محکمہ محنت اور اشتہارات کا منبع محکمہ اطلاعات صوبائی دائرہ کار میں ہیں تو اشتہارات کو ویج ایوارڈ اور کارکنوں کی بروقت اجرت کی ادائیگی سے مشروط کیوں نہیں بنایا جاتا جبکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ؟ رانا ثنااللہ کیلئے یہ سوال نیا نہیں تھا۔۔۔ انہوں نے جواب بھی نیا نہیں دیا ۔۔۔ بولے اسمبلی کا اجلاس کم و بیش ڈیڑھ ماہ جاری رہنا ہے ، ہم مل بیٹھ کر اس پر بات کرلیں گے، ویسے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ویج ایوارڈ کا معاملہ کیا ہے اور ہماری( حکومتی ) مجبوریاں کیا ہیں ؟ آپ کارکن خود بھی کوئی "ہل جُل' ' کریں ، کوئی تحریک ، پروٹیسٹ، کوئی موومنٹ بنائیں ، ہمارے لئے تو مالکان کو کونٹر کرنا آپ کو معلوم ہی ہے کہ کتنا مشکل ہے ۔۔۔۔ ۔ ان کی یہ بات درست ہے ۔۔ یہ جواب وہ پہلے بھی دے چکے ہیں ۔۔۔تب ان کا کہنا ہوتا تھا کہ میاں صاحب( نوازشریف و شہبازشریف) سے ہم بات تو کرسکتے ہیں لیکن نظامی صاحب ( مدیرِ نوائے وقت مجید نظامی مرحوم) آڑے آجاتے ہیں ، ان کے ان کی ناں کے سامنے کسی کی ہاں نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔</p> <p>یہاں یہ واضح کرنے اور تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں اطلاعات کے وزیر قمر کائرہ نے کوشش بھی کی تھی مگر اس وقت کی پی قایف یو جے کی اسلام آباد بیسڈ قیادت نے مالکان وفائی کی اور کارکنوں کا بھٹہ بٹھا دیا۔۔۔</p> <p>رانا ثناءاللہ نے پھر بھی کلی طور پر مایوس نہیں کیا ۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ۔۔۔ کوئی حل نکال لیتے ہیں ، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اخبارات کو اشتہارات کسی میرٹ پر نہیں بلکہ لین دین ، دوستی ناطے ، تعلقداری ، سیاسی رشوت اور اثرورسوخ کی بنیاد پر جاری کیے جاتے ہیں حالانکہ اس وقت تمام اخبارات اپنی سرکولیشن کے دعوﺅں ( اے بی سی سرٹیفکیٹ )کے حوالے سے براہِ راست نیب کی گرفت میںآسکتے ہیں ۔۔ اگر ان کے اشتہارات کارکنوں کی قانونی اجرت اور مراعات کی بروقت ادائیگی کے ساتھ مشروط کردیے جائیں تو بہت سے اخبارات کے پاس بہت سی سپیس خالی رہ جائے گی ۔۔۔۔۔۔</p> <p>رانا ثنااللہ سے بس ایک گذارش کی گئی ہے کہ وہ ٹیبل پر بیٹھنے سے پہلے اشاعتی و نشریاتی اداروں میں کام کرنیوالے کارکنوں ، کارکنوں کے نام پر مراعات لینے والے' آف شور " افراد اور حال ہی میں چھانٹیوں کا شکار بننے والوں کی رپورٹ منگوالیں ۔۔۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ محکمہ محنت اور محکمہ اطلاعات ان سے پوری طرح تعاون نہیں کریں گے۔۔۔ اس لئے انہیں ایک کونٹر لسٹ ہم بھی بنا کر دیں گے ۔۔۔اتفاق سے یہ' غیر حکومتی 'بات انہیں نامناسب نہیں لگی ۔۔۔۔۔</p> <p>دیکھئے ۔ کس کی لسٹ کب بنتی ہے ؟ کب وزیرقانون مل بیٹھتے ہیں اور میڈیا کارکنوں کا ساتھ دینے کارسک لیتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ۔۔۔ وہ جانتے ہیں کہ جس روز حکومت کارکنوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی میڈیامالکان آسمان سے زمیں پر آگریں گے ۔۔۔۔ پھر حکومت کو مالکان کی بلیک میلنگ سے نجات اور کارکنوں کی سپورٹ بھی مل جائے گی جبکہ یہ صحافت کی آزادی کیلئے پہلا حقیقی قدم ہوگا۔۔۔</p> </section> </body>
5474.xml
<meta> <title>معاشرے میں محدود ہوتا مولوی کا کردار!</title> <author> <name>ظفر سلطان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/25388/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1057</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
معاشرے میں محدود ہوتا مولوی کا کردار!
1,057
No
<body> <section> <p>معاشرے میں مولوی کے کردار کا جو تاثر ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ مولوی کی جو پہچان صدیوں پہلے تھی آج بھی برقرار ہے مثال کے طور پر امامت ،خطابت صدیوں پہلے بھی مولوی کے پاس تھی آج بھی مولوی امامت و خطابت پر قائم و دائم ہیں،مسجد و مدرسہ کے وارث کل بھی مولوی تھے آج بھی وہی ہیں اسی طرح تجہیز تکفین اور نکاح کی ذمہ داری آج بھی انہی کے پاس ہے ،مولوی حضرات نے یہ ذمہ داریاں چونکہ ازخود اپنے ذمے لی ہیں اس لئے ان سے کسی نے یہ ذمہ داریاں چھیننے کی کوشش نہیں کی ،معاشرے میں مولوی کے کردار کااس حد تک جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مولوی کا جو کردار صدیوں پہلے تھا وہ آج بھی برقرار ہے لیکن آج ہر طرف یہ سوال موضوعِ بحث ہے کہ معاشرے میں مولوی کا کردار محدود تر ہے۔ جو لوگ یہ سوال اُٹھاتے ہیں ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جتنے شعبہ ہائے زندگی ہیں ان میں مولوی کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر شعبہ ہیلتھ کا جائزہ لیں تو 100 ایم بی بی ایس ڈاکٹرز میں سے بمشکل ایک آدھ ڈاکٹر داڑھی والا یا باقاعدہ مدارس کا پڑھا ہوا ہو۔ رہا سرکاری شعبہ تعلیمات اُس میں مولویوں کی نمائندگی ہیلتھ کی نسبت بہتر ہے کیونکہ عربی اور اسلامیات کے اکثر ٹیچرز مدارس ہی کے ہوتے ہیں لیکن چونکہ دیگر اساتذہ کی نسبت عربی اور اسلامیات کے ٹیچر انتہائی کم تعداد میں ہوتے ہیں اس لیے مجموعی طور پر مدارس سے پڑھے ہوئے اساتذہ کی سرکاری تعلیمی اداروں میں تعداد ایک یا دو فیصد ہوتی ہے۔ عدلیہ میں مدارس کے پڑھے ہوئے طلباء کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مدارس کے طلباء کی نمائندگی انتہائی محدود پیمانے پر ہے۔ مسجد اور مدرسہ کے علاوہ دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی میں مولوی کا کردار عددی اعتبار سے انتہائی محدود ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اعتراض اور سوال کرنے والوں کا اعتراض بے جا نہیں ہے۔ جب کہ مولویوں کی اکثریت اس بات سے انکاری ہے اور حال کی مثال پیش کرنے کے بجائے اپنے شاندار ماضی کی مثالیں پیش کرنے پر مصر ہیں کہ ہمارے اسلاف کی امورِ سلطنت سے لے کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمائندگی تھی۔یہ لوگ اپنے شاندار ماضی کچھ یوں پیش کرتے ہیں۔</p> <p>"برصغیر پاک و ہند کے مدارس اسلامیہ نے جہالت و ناخواندگی کے قلع قمع ، علوم وفنون کی تعلیم و اشاعت اور ملت اسلامیہ کی دینی و ملی قیادت و رہنمائی کا فریضہ ہی انجام نہیں دیا بلکہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں بھی ان مدرسوں کی خدمات بڑی ہیں، بالخصوص برطانوی سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اورخطے کے لوگوں کو حریت سے ہم کنار کرنے میں مدارس اسلامیہ اور ان کے قائدین کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ وہ مدارس کے جانباز علماء ہی تو تھے جنہوں نے آزادی کی آواز اس وقت اُٹھائی جب عام لوگ خوابِ غفلت میں مست، آزادی کی ضرورت و اہمیت سے نابلد اور احساس غلامی سے بھی عاری تھے، ان علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے آزادی کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور قائدانہ رول ادا کیا، خصوصاً حضرت مولانا ولی اللہ شاہ ' مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی، مولانا سید احمد شہید، مولانا شاہ اسماعیل شہید، مفتی صدرالدین، حاجی امداد اللہ اور اللہ مہاجرمکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمدگنگوہی، حافظ ضامن شہید، مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ الہندمولانا محمود حسین دیوبندی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا سید حسین احمدمدنی' مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ آسمانِ حریت کے وہ تابندہ ستارے ہیں جنہوں نے محکومی کی شب تاریک کو انوارحریت کی ضوفشانی سے معمور کر دیا۔</p> <p>مذکورہ مجاہدین آزادی و علماء کرام سب مدارس اسلامیہ ہی کے فضلاء و فیض یافتہ تھے۔ ایک دو حضرات ایسے ہیں جو باضابطہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل نہ تھے لیکن علمائے کرام کے باضابطہ صحبت یافتہ ضرور تھے۔</p> <p>یہ تھیں جنگ آزادی میں مدارس اسلامیہ اور علماء کی قربانیوں کی چند مثالیں۔ اسی طرح تاریخ بتاتی ہے کہ مدارس اسلامیہ سے اگر ایک طرف دین و مذہب اور کتاب و سنت کے خدام نکلے ہیں تو دوسری طرف ایسے ایسے شائقین ادب اور ماہرین فن بھی تیار ہوئے ہیں جنہوں نے شعر وادب کی چاشنی، شعر کی سحرانگیزی اور اردو ادب میں اپنی مہارت کی داد وصول کی۔ اردو کے بڑے بڑے رائٹرز پیدا ہوئے جیسے مناظر احسن گیلانی، شمس العلماء تاجور نجیب آبادی، سعید احمداکبرآبادی اور حفظ الرحمان سیوہاروی نہ صرف مضمون نگار یا مصنف بلکہ بے شمار ایڈیٹر اور شاعر بھی۔ حامدالانصاری، ایڈیٹر مدینہ بخنور، مظہرالدین شیرکوٹی، مدیر پرامان دہلی کو کون نہیں جانتا۔ ان علماء نے سب سے بڑی خدمت اردو کی ہے ،جو بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے برما، بنگال، دکن، کابل، بخارا، ایران، سماٹرا، جاوا، کشمیر اور نہ جانے کہاں کہاں دور دراز مقام تک اردو زبان کو پھیلایا ہے۔ مدارس دینیہ میں دور دراز سے تشنگانِ علوم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے، چونکہ برصغیر پاک و ہند میں ذریعہ تعلیم اردو زبان ہی رہی ہے لہٰذا وہ اردو سے شناسا ہو جاتے تھے، نہ صرف شناسا بلکہ اردو کے بہترین مقرر اور خطیب بن جاتے تھے۔ بہت سے شاعر اور ادیب بھی بن جاتے تھے۔ اگر ہم اس امر پر غور کریں کہ ان لوگوں کے جرائد و اخبارات تصانیف وغیرہ سے کتنے لوگوں نے اردو سیکھی اور ان کی تقریروں سے عوام کو زبان سے کتنی شناسائی ہوئی ہے تو یہ دائرہ بہت ہی وسیع ہو جاتا ہے جس کا احاطہ مشکل ہے"</p> <p>اہل مدارس کا مذکورہ بالا ذکر اپنے اندر ایک روشن و درخشاں تاریخ لیے ہوئے ہے، اہل مدارس کے معاشرے میں محدود کردار پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں اگر وہ اعتراض نہ بھی کریں تو اہل مدارس کے اندر سے کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جب ماضی میں یہی مدارس رشد و ہدایت کے سرچشمے ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبہ جات میں مکمل رہنمائی کرتے تھے اور ان مدارس سے فارغ التحصیل حضرات کا معاشرے میں بھرپور کردار تھا تو آج محدود کردار کیوں ہے؟</p> <p>کالم کا دامن چونکہ تنگ ہوتا ہے اس لیے اگلی نشست میں بتائیں گے کہ مولوی معاشرے میں کیسے فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔</p> </section> </body>
5475.xml
<meta> <title>اللہ سے پانچ وقت نماز پڑھنے اور داڑھی نہ ترشوانے کا وعدہ کیا ہے. علی حیدر گیلانی</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/25560/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>559</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
اللہ سے پانچ وقت نماز پڑھنے اور داڑھی نہ ترشوانے کا وعدہ کیا ہے. علی حیدر گیلانی
559
No
<body> <section> <p>لاہور: افغانستان سے بازیاب ہونے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں ملتان سے اغوا کرنے کے بعد 2 ماہ تک فیصل آباد میں رکھا گیا جس کے بعد افغانستان منتقل کیا گیا۔</p> <p>علی حیدر گیلانی کا بازیابی کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہنا تھا کہ میں القاعدہ کے قبضے میں تھا اور مجھے ملتان سے انتخابی مہم کے دوران اغوا کے بعد دو ماہ تک فیصل آباد میں رکھا گیا اور پھر فیصل آباد سے افغانستان منتقل کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں قید کے دوران افغان اور نیٹو فورسز کے مشترکہ آپریشن میں بازیاب ہوئے اور امریکی فوجیوں کو بتایا کہ میں سابق وزیراعظم پاکستان کا بیٹا ہوں جب کہ افغان فوجیوں نے مجھ سے پشتو زبان میں بات کی جو میں سمجھ نہیں سکتا تھا۔</p> <heading>علی حیدر گیلانی نے کہا کہ جب قید میں تھا تو اپنی آزادی کی دعا مانگتا تھا، آج میں آزاد ہو کر گھروالوں سے ملا ہوں، اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ داڑھی نہیں تراشوں گا اور 5 وقت کی نماز پڑھوں گا، اللہ نے میری دعا قبول کی اور آزادی نصیب ہوئی۔</heading> <p>واضح رہے کہ علی حیدر گیلانی کو عام انتخابات سے 2 روزقبل 9 مئی 2013 کو انتخابی مہم کے دوران اغوا کرلیا گیا تھا جب کہ گزشتہ روز افغانستان اور نیٹو فورسز نے افغان صوبے غزنی میں کارروائی کرتے ہوئے علی حیدرگیلانی کوبازیاب کرایا تھا۔</p> <blockquote> <p>لاہور: افغانستان سے بازیاب ہونے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی 3 سال بعد لاہور پہنچ گئے۔</p> </blockquote> <p>سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں کابل ایئرپورٹ سے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے تو انتہائی جذباتی مناظر دیکھے گئے۔</p> <heading>علی حیدر گیلانی کے بھائی، رشتہ دار اور کمسن بیٹا اپنے والد کا انتظار کرتا رہا اورجب علی حیدر نے اپنے 4 سالہ کمسن بیٹے جمال گیلانی کو دیکھا تو اسے گلے سے لگا لیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اسلام آباد میں پیشی کے باعث ایئرپورٹ نہ جاسکے جب کہ والدہ بیماری کی وجہ سے بیٹے کا استقبال کرنے ایئرپورٹ نہیں گئیں۔</heading> <blockquote> <p>ماں بیٹا گلے لگ کر روتے رہے</p> </blockquote> <p>علی حیدر گیلانی سخت سیکیورٹی میں ایئرپورٹ سے ڈیفنس میں واقع اپنی رہائشگاہ پہنچے تو ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، گھر میں داخل ہونے کے بعد علی حیدر اپنی والدہ کے سینے سے لگ گئے اور دونوں ماں بیٹے خوشی کے مارے روتے رہے۔ لاہوراور ملتان میں گیلانی ہاؤس کے باہر بھی جیالوں کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جب کہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے کارکنان خوشی کا اظہار کرتے رہے۔</p> <p>اس سے قبل علی حیدر گیلانی کے ہم شکل بھائی علی قاسم گیلانی ان کو لینے کابل ایئرپورٹ پہنچے جہاں افغان حکام نے علی حیدرگیلانی کو پاکستانی سفیر کے حوالے کیا جس کے بعد وزیراعظم کے خصوصی طیارے میں علی حیدر گیلانی کو لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔</p> <p>واضح رہے کہ علی حیدر گیلانی کو عام انتخابات سے دو روز قبل 9 مئی 2013 کو انتخابی مہم کے دوران اغوا کرلیا گیا تھا جب کہ افغانستان اور نیٹو فورسز نے افغان صوبے غزنی میں کارروائی کرتے ہوئے علی حیدرگیلانی کو بازیاب کرایا تھا جب کہ افغان سفیر نے اس حوالے سے بذریعہ فون سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کل صبح 11 بجے آگاہ کیا۔</p> </section> </body>
5476.xml
<meta> <title>وہ ایک لہو رنگ دن</title> <author> <name>فیض اللہ خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/25656/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>691</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وہ ایک لہو رنگ دن
691
No
<body> <section> <p>12 مئی 2007 بھی ایک ایسا ہی خون آلود دن ھے جسے کم از کم کراچی والے فراموش نہیں کرسکیں گے ۔۔۔۔ لگ بھگ ایک عشرہ قبل اسی دن شہر کی سڑکوں پہ خون کی ھولی کھیلی گئی درندگی کی عجب مناظر تھے جسے اس روز رپورٹ کرتے ہوئے میں خود سے شرمندگی محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔۔</p> <p>12 مئی کو ایم کیو ایم کی طاقت وحشت میں بدلی ، کینٹ ایریا میں واقع شارع فیصل اور اطراف کی سڑکوں کو 11 مئی کی رات کو ہی اسوقت کے مشیر داخلہ اور حالیہ مئیر کراچی وسیم اختر کے احکامات پر روکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا گیا ۔۔۔</p> <p>اس روز کراچی میں ایم کیو ایم کا بھی جلسہ تھا لیکن چیف جسٹس کے روٹ اور متحدہ کے جلسہ کی جگہ یکسر مختلف تھی ، لیکن کیا کیجئے کہ کمانڈو مشرف کی انا غرور اور ذاتی جذبات کی تسکین کے لئیے ضروری تھا کہ چیف جسٹس سمیت پیپلزپارٹی مسلم لیگ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ذلیل کیا جائے ۔۔۔۔</p> <p>یہی وجہ تھی کہ جب 12 مئی کا تپتا سورج غروب ہوا تو افق پر اس خون کی سرخی نمایاں تھی جو دن بھر کراچی کی سڑکوں پہ ناحق بہتا رھا ، اس روز 50 سے زائد انسان کھیت رھے تھے ۔۔۔۔۔۔</p> <p>عین اسی شام اسلام آباد میں کمانڈو نے بھی جلسہ کیا اور اپنے دونوں بازو قوم کو دکھاتے ہوئے کہا کہ " کراچی میں عوام کی طاقت کا مظاھرہ دیکھ لیا " ۔۔۔۔</p> <p>12 مئی 2007 وہ دن تھا جب بے پناہ عروج رکھنے والی ایم کیو ایم اور جنرل مشرف کے زوال کا لازوال سفر شروع ہوا ، بطاھر تو سب کچھ متحدہ اور مشرف کے ہاتھ میں تھا لیکن اس روز کے قتل عام نے دونوں کے چہرے پہ اتنے بدنما داغ لگائے کہ انہیں ابھی تک دھویا نہیں جاسکا ۔۔۔۔</p> <p>اس معاملے کی تحقیقات کے لئیے اسوقت لارجر بینچ تشکیل دیا گیا اسکے نتیجے میں کسی کو سزا تو نہیں سنائی گئی لیکن یہ سوال ضرور اٹھا کہ اگر کوئی گروپ اٹھ کر ائیر پورٹ ہائی کورٹ و شارع فیصل جیسی حساس تنصیبات والے علاقے کو یرغمال بناسکتا ھے تو ایسے میں ہماری کیا سیکیورٹی ھوگی ؟</p> <p>اس سانحے کے بعد پہلی بار میڈیا نے ایم کیو ایم کیخلاف لب کشائی کی جرات کی اور ان دنوں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت اپنے اس بھونڈے اقدام کی صفائیاں دیتی پھر رہی تھی ۔۔۔۔</p> <p>کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم دراصل ایوب خان اور کوٹہ سسٹم جیسے غیر منصفانہ قانون کے ردعمل میں بنی لیکن گزرے ماہ و سال میں کراچی میں 25 ہزار پاکستانی رزق خاک ہوئے تعلیمی تہذیبی طبی سفر تنزلی کے گڑھے میں جا پہنچا کوٹہ سسٹم کو خود ایم کیو ایم نے تحفظ دیا ۔۔۔ نئی نسل خوف کے سائے پل کر جوان ہوئی اور کئی ایسے تحائف ملے جس نے اس شہر کے مجموعی مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیا ھے ۔۔</p> <heading>اس ھولناک دن کے بعد شہر میں نسلی و لسانی فسادات عروج پہ پہنچے مہاجر پشتون اور بلوچ مارے گئے اور بے دریغ مارے گئے یہ سلسلہ درازتر ہوتا چلا گیا بستیاں تو تقسیم تھیں ہی اسکے بعد اسپتال اور قبرستان بھی منقسم ہوگئے ، یقینی طور پہ اسکا سارا کریڈیٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں ، سرکار ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سر جاتا ھے جنہوں نے اس آگ میں لوگوں کو جھلسایا زمینوں پہ قبضے کئیے اور بھتہ خوری و اغواء کی نت نئی اقسام متعارف کرائیں ۔۔۔۔۔</heading> <p>حالیہ عرصے کے آپریشن کے بعد معاملات بتدریج درست سمت میں جارھے ہیں لیکن صرف عسکریت کے خلاف آپریشن کافی نہیں ہوتا سماجی سطح پہ اسکے اثرات نظر آنا بے حد ضروری ہیں ۔۔۔۔</p> <p>12 مئی کے سانحے سے سب سے زیادہ اگر کسی کو سیکھنے کی ضرورت ھے تو وہ خود متحدہ ھے ، ایم کیو ایم کی قیادت کو سمجھنا ۃوگا کہ محض طاقت کے استعمال سے قلوب و اذھان فتح نہیں کئِے جاسکتے ۔۔۔۔۔۔</p> <p>رھے وہ معصوم جو 12 مئی کو زندہ گھروں سے نکلنے کے بعد لاشوں کی صورت میں لوٹے تو ان سے ہم سب معافی ہی مانگ سکتے ہیں کیونکہ اس دیس میں کب مکمل انصاف ہوا ۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟</p> </section> </body>
5477.xml
<meta> <title>جمعرات، 12 مئی 2016 کی اہم ترین خبروں پر مشتمل نیوز بلیٹن</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/25662/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3654</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جمعرات، 12 مئی 2016 کی اہم ترین خبروں پر مشتمل نیوز بلیٹن
3,654
No
<body> <section> <blockquote> <p>پاکستان</p> </blockquote> <blockquote> <p>سانحہ صفورا: پانچوں مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری</p> </blockquote> <p>راولپنڈی: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے سانحہ صفورہ میں ملوث مجرم سعد عزیز سمیت پانچ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کردیے ہیں۔</p> <p>آئی ایس پی آر کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا کہ یہ دہشت گرد سانحہ صفورا گوٹھ اور سبین محمود کے قتل میں ملوث تھے جبکہ ان کو سزائے موت کا حکم فوجی عدالت نے سنایا۔</p> <p>اعلامیے میں بتایا گیا کہ سزائے موت پانے والوں میں دہشت گردوں کے معاونت کاربھی شامل ہیں۔</p> <p>پھانسی کی سزا پانے والے دہشت گردوں میں طاہر حسین منہاس، سعد عزیز، اسدالرحمن، حافظ ناصر، محمد اظہر عشرت شامل ہیں۔</p> <blockquote> <p>وزیراعظم، آرمی چیف ملاقات: آڈیو کیسے لیک ہوئی؟</p> </blockquote> <p>کراچی: وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات کی ویڈیو فوٹیج نے اس وقت کئی سوالات کو جنم دیا، جب ویڈیو میں بات چیت کی غیر متوقع آڈیو بھی سنائی دی گئی۔ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی فوٹیج میں سنا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم، آرمی چیف سے ون آن ون ملاقات میں کہہ رہے ہیں کہ تاریخ دے دی گئی ہے۔ اگرچہ فوٹیج میں آواز صاف نہیں تھی اور آرمی چیف کا جواب بالکل غیر واضح تھا، لیکن ایک ٹی وی صحافی نے جنرل راحیل شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو وہاں اس تاریخ سے پہلے پہنچنا ہے۔</p> <p>ویڈیو کی آواز نشر ہونے کا وقت بھی معنی خیز ہے کیونکہ یہ عین اس کے بعد نشر ہوئی جب نامعلوم ذرائع نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں آرمی چیف نے، وزیر اعظم نواز شریف کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاناما لیکس کا معاملہ جلد حل کریں۔</p> <blockquote> <p>کاسا 1000 سے 'سستی اور ماحول دوست بجلی ملے گی'</p> </blockquote> <p>جمعرات کے روز تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں توانائی کے کاسا 1000 منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔</p> <p>پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ، قرغیزستان کے وزیرِ اعظم سورن بے جینباکوف اور عالمی بینک کی نائب صدر انگر اینڈرسن اس تقریب میں شامل ہیں۔</p> <p>کاسا (سینٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا) 1000 منصوبے کے تحت قرغزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان کو توانائی کی گرڈ سے منسلک کر دیا جائے گا۔پروجیکٹ کے تحت قرغزستان اور تاجکستان پاکستان اور افغانستان کو 1300 میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔</p> <blockquote> <p>'وزیراعظم کے بعد اپوزیشن کو بھی تقاریر کی اجازت دیں'</p> </blockquote> <p>پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی جماعتوں نے 13 مئی کو وزیر اعظم کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں ممکنہ آمد اور پاناما لیکس سے متعلق وزیر اعظم کے خطاب کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کو بھی تقریر کرنے کا موقع دینے کے لیے قومی اسمبلی کے سپیکر سے رابطہ کیا ہے۔</p> <p>حزب مخالف کی جماعتوں نے جمعرات کو مسلسل چوتھے روز بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور کہا کہ جب تک وزیر اعظم ایوان میں نہیں آتے اس وقت تک اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔</p> <blockquote> <p>مجھے ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی، یوسف رضاگیلانی</p> </blockquote> <p>لاہور: سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ علی حیدر گیلانی باحفاظت بازیابی ایک معجزا ہے۔ امریکی اور افغان فورسز نے القاعدہ کیخلاف آپریشن کیا اور علی حیدر کو بازیاب کروایا،مجھے بھی نہ کردہ گناہ کی سزا سنا کرنا اہل قرار دیا پانامہ لیکس پر اپوزیشن اپنا موقف پارلیمنٹ میں پیش کرے گی.</p> <p>علی حیدر گیلانی کو بازیاب کروانے پر امریکی اور افغان فورسز کا شکریہ ادا کرتا ہوں پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ قربانیاں پیش کی مجھے بھی این آر او میں کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا اس وقت بھی میرے اوپر 27 سے زائد مقدمات بن چکے ہیں اپنے بچے سے ملاقات سے قبل بھی میں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہے انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس پر متحدہ اپوزیشن کی جانب سے کام جاری ہے پی پی کی پانامہ لیکس پر پالیسی سینٹ اور قومی اسمبلی میں اعتزاز احسن اور خورشید شاہ پیش کریں گے.</p> <blockquote> <p>'متحدہ قائد نےپارٹی قیادت چھوڑنےکا اعلان نہیں کیا'</p> </blockquote> <p>کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر پارٹی کی قیادت چھوڑنے کا اعلان کیا تاہم کچھ ہی دیر میں اس کی تردید بھی سامنے آگئی۔</p> <p>کراچی میں مزار قائد کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاج کے دوران خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے تمام ذمہ داریاں رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار کو سونپنے کا اعلان کیا۔</p> <p>اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے تمام معاملات سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>قصور کے بعد سوات: 'بچوں کی ویڈیوز بنانے والا گینگ گرفتار'</p> </blockquote> <p>پولیس کے مطابق مذکورہ چودہ سالہ لڑکا اٹھائیس ستمبر دوہزار چودہ کو لاپتہ ہوا تھا اور اس کے والد نےگمشدگی کے رپورٹ درج کراوائی تھی</p> <p>پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے بچوں کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کرنے والے تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔</p> <p>پولیس نے ملزمان کے نام اورنگزیب عرف رنگے، عمر خالق عرف نواب اور سجاد بتائے ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ تینوں افراد بچوں کو اغوا کرنے کے بعد انھیں زبردستی جنسی عمل پر مجبور کرتے اور اس دوران ان کی ویڈیوز اور تصاویر بناتے تھے۔</p> <blockquote> <p>نیب کا ایم ڈی فشریز ہاؤسنگ سوسائٹی کے دفتر پر چھاپہ</p> </blockquote> <p>کراچی: نیب حکام نے پہلے سے گرفتار فشریز کے سابق چئیرمین نثار کورائی کی نشاندہی پر ایم ڈی فشریز ہاؤسنگ سوسائیٹی کے دفتر میں چھاپہ مار کر اہم دستاویزات تحویل میں لے کر دفترکو سِیل کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق نیب کراچی نے ایم ڈی فشریز کوآپریٹیو سوسائیٹی کے دفتر پر چھاپہ مار کر اہم سرکاری کاغذات کی چھان بین کی، اس موقع پر نیب حکام نے فشریز کے افسران سے پوچھ گچھ کی اور چند غیر حاضر افسران کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں، بعد ازاں نیب کی ٹیم سابق چئیرمین فشریز نثار کورائی سے متعلق اہم ریکارڈ اپنے ہمراہ لے گئی۔</p> <blockquote> <p>ڈی جی رینجرز سندھ میجرجنرل بلال اکبر کا دارلعلوم کراچی کا دورہ</p> </blockquote> <p>کراچی: ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کا دارلعلوم کراچی کا دورہ، مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر علما کرام سے ملاقات۔ ڈی جی رینجرزسندھ میجر جنرل بلال اکبر نے دارالعلوم کراچی کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا۔ اپنے دورے کے موقع پر بلال اکبر نے مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر علما کرام سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ڈی جی رینجرز نے وفاق المدارس العربیہ کے تحت جاری امتحانات کا بھی جائزہ لیا۔</p> <blockquote> <p>عالمی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>پاک بھارت مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے، عبدالباسط</p> </blockquote> <p>نئی دہلی: بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چاہئے پاک بھارت مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہمیشہ کھلے ہیں مذاکرات کب ہوں گے تاریخ ہمارے پاس نہیں جمعرات کے روز نئی دہلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ ہمیں امید رکھنی چاہئے کیونکہ اچھا وقت آنے کی امید رکھتے ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام امور پر جامع مذاکرات ضرور ہوں گے کیونکہ پاک بھارت بات چیت کے دروازے بند نہیں ہو رہے بلکہ ہمیشہ سے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی کوئی تاریخ ہمارے پاس نہیں ہے لہذا یہ نہیں بتا سکتا مذاکرات کب ہوں گے لیکن امید ہے بہت جلد خارجہ سطح پر مذاکرات شروع ہوں گے ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔</p> <blockquote> <p>ڈونلڈ ٹرمپ کا جلد اسرائیل کا دورہ کرنے کا اعلان</p> </blockquote> <p>مقبوضہ بیت المقدس: امریکہ میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دونوں بڑی جماعتوں کے ممکنہ امیدوار اسرائیل اور یہودی لابی کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں اور ری پبلکن پارٹی کے شعلہ بیان صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت جلد اسرائیل کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے ایک اسرائیلی روزنامے کو انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ میں بہت جلد اسرائیل جاؤں گا۔ انھوں نے اسرائیلی اخبار کے ساتھ اس تازہ انٹرویو میں امریکی صدر براک اوباما کو آڑے ہاتھوں لیا اور انھیں ایران کے ساتھ گذشتہ سال جولائی میں جوہری معاہدہ طے کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہاکہ اسرائیل کے خلاف موجود خطرہ صدر براک اوباما کی ایران کے بارے میں پالیسی اور جوہری معاہدے کی وجہ سے پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے عوام اوباما کی وجہ سے بڑا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔</p> <blockquote> <p>تائیوان میں 5. 8 شدت کا شدید زلزلہ</p> </blockquote> <p>بیجنگ: تائیوان کے مشرقی علاقے میں آج زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق مشرقی علاقے میں ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 5. 8 درجے ریکارڈ کی گئی جبکہ زلزلے کا مرکز مشرقی ساحلی شہر سو-آؤ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر 24. 77 درجے شمالی ارض بلد اور 122. 02 درجے مشرقی طول بلد میں واقع تھا۔</p> <blockquote> <p>امن دستوں کو طاقت کے استعمال کی اجازت دی جائے، ہالینڈ اور روانڈا کا مطالبہ</p> </blockquote> <p>ہالينڈ اور روانڈا نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلح تنازعات والے علاقوں ميں شہريوں کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ کے امن دستوں کو طاقت استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ وسطی افريقی ملک روانڈا اور يورپی يونين کے رکن ملک ہالينڈ کی جانب سے اس بارے ميں کوششوں کا باقاعدہ آغاز بدھ گيارہ مئی کے روز کيا گيا۔ يہ امر اہم ہے کہ ہالينڈ کے امن دستوں کے ليے جولائی سن 1995ء ميں بوسنيا کے مسلمانوں کی حفاظت کرنے ميں ناکامی آج بھی شرمندگی کا باعث ہے۔</p> <blockquote> <p>جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مقبولیت میں کمی</p> </blockquote> <p>ایک سروے کے مطابق جرمن باشندوں کی دو تہائی تعداد چانسلر انگیلا میرکل کی چوتھی مدت اقتدار کی مخالف ہے۔ یہ نتائج ایسے کئی دوسرے عوامی جائزوں کی بازگشت ہیں، جن کے مطابق چانسلر میرکل اور حکمران اتحاد کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ دوسری جانب تارکین وطن اور مسلم مخالف جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اسے پندرہ فیصد جرمن عوام کی حمایت حاصل ہے۔</p> <blockquote> <p>فارک باغیوں سے امن معاہدہ، ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ</p> </blockquote> <p>کولمبیا نے فارک باغیوں سے امن معاہدہ کرنے کے بارے میں ریفرنڈم کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بگوٹا حکومت کے مطابق یہ ریفرنڈم رواں برس ستمبر میں کروایا جائے گا۔ کولمبیا کی وزارت نے کہا ہے کہ ہوانا میں فارک باغیوں سے جاری مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ ہوانا میں کولمبیا حکومت اور فارک باغیوں کے مابین امن مذاکرات سن دو ہزار بارہ سے جاری ہیں۔ فارک باغی نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بگوٹا حکومت کے خلاف گوریلا لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس جنگ میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔</p> <blockquote> <p>یورپی یونین ویزہ فری انٹری کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے، ترکی</p> </blockquote> <p>ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ یورپی یونین ترک باشندوں کے لیے ویزہ فری انٹری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ معاہدہ ہونے کے بعد یونین کے طرف سے ایسی 72 شرائط عائد کی گئیں، جو پہلے نہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ یورپی یونین ترکوں کے لیے ویزے کے شرائط میں نرمی کرے گی۔ دوسری جانب یورپی پارلیمان کا کہنا ہے کہ جب تک انقرہ حکومت یورپی یونین کی شرائط پورا نہیں کرتی، تب تک اس موضوع پر کوئی پارلیمانی بحث یا مشاورت بھی نہیں ہو سکتی۔</p> <blockquote> <p>تہران اور ریاض معاہدے میں ناکام، ایرانی حج نہیں کر پائیں گے</p> </blockquote> <p>ایران اور سعودی عرب حاجیوں کے معاملے میں کسی بھی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی شہری رواں برس حج کے لیے سعودی عرب کا سفر نہیں کر پائیں گے۔ ایرانی وزیر ثقافت علی جنتی کا کہنا ہے کہ چار رکنی ایرانی وفد نے سعودی حکام سے بات چیت کی تھی لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔ جنوری سے ایران میں سعودی سفارت خانہ بند ہے جبکہ ایرانی ہوائی جہازوں کو بھی سعودی عرب جانے کی اجازت نہیں ہے۔ سعودی عرب کے مطابق ایرانی شہریوں کو ویزہ اپلائی کرنے کے لیے کسی دوسرے ملک کے سفارتخانے جانا ہوگا۔</p> <blockquote> <p>یورپی یونین کے اخراج سے لندن کی معاشی حالت خراب ہو گی، فرانس</p> </blockquote> <p>فرانس نے کہا ہے کہ اگر برطانیہ اگلے ماہ ہونے والے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ ڈالتا ہے تو اس سے لندن حکومت کی عالمی معاشی ساکھ کو کسی حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فرانس کے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے ممکنہ اخراج کے بعد ان کے کئی بینک لندن میں اپنے آپریشنز محدود کر دیں گے۔ قبل ازیں برطانوی صنعتی اداروں کی نمائندہ تنظیم سی بی آئی نے کہا تھا کہ برطانیہ نے اگر یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کیا تو نہ صرف روزگار کے قریب ایک ملین مواقع خطرے میں پڑ جائیں گے بلکہ لندن کو قریب ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان بھی ہو گا۔</p> <blockquote> <p>یمن: القاعدہ کے خودکش حملے، تیرہ یمنی فوجی ہلاک</p> </blockquote> <p>یمن میں القاعدہ کی طرف سے کیے جانے والے تین خودکش حملوں کے نتیجے میں کم از کم تیرہ یمنی فوجی مارے گئے ہیں۔ مشرقی صوبہ حضر موت کے سب سے بڑے شہر المکلا میں کیے جانے والے اس حملے میں متعدد فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یمنی افواج نے اس صوبے کو گزشتہ ماہ ہی القاعدہ کے عسکریت پسندوں سے آزاد کروایا تھا۔</p> <blockquote> <p>عراق: ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 93 ، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی</p> </blockquote> <p>گزشتہ روز عراقی دارالحکومت بغداد میں ہونے والے تین کار بم دھماکوں کی ذمہ داری جہادی تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔ ان بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر ترانوے تک جا پہنچی ۔ گزشتہ روز کے بم دھماکوں کو عراق میں رواں برس کے بدترین حملے قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دارالحکومت میں سکیورٹی فورسز کا کنٹرول کس قدر کمزور ہے۔ دوسری جانب عراق میں سیاسی بحران بھی سر اٹھا رہا ہے۔ شیعہ عالم مقتدی الصدر کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔</p> <blockquote> <p>کرپشن کے تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں، آئی ایم ایف</p> </blockquote> <p>برطانوی دارالحکومت میں بین الاقوامی انسداد بدعنوانی سربراہی اجلاس کے آغاز سے پہلے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن کے تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر ایک اعشاریہ تین سے لے کر ایک اعشاریہ پچھہتر بلین تک رشوت ادا کی جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس طرح سالانہ عالمی اقتصادی ترقی میں دو فیصد کمی ہو رہی ہے۔ لندن میں ہونے والی اس کانفرنس میں دنیا بھر سے چالیس ممالک شریک ہو رہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>برازیل: خاتون صدر کا مواخذہ کرنے کے حق میں ووٹ</p> </blockquote> <p>برازیل کی سینیٹ نے ملکی خاتون صدر دِلما روسیف کے مواخذے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی روسیف چھ ماہ کے لیے اپنے عہدہ صدارت سے معطل ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ یہ ذمہ داریاں نائب صدر مائیکل ٹیمر سنبھال لیں گے۔ خاتون صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے مالیاتی خسارہ چھپانے کے لیے بجٹ میں ہیرا پھیری سے کام لیا تھا۔ سینیٹ کے اکیاسی اراکین میں سے نصف سے زائد نے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔</p> <blockquote> <p>رومانیہ: نیٹو کے دفاعی میزائل نظام کی تنصیب</p> </blockquote> <p>رومانیہ میں نیٹو کی طرف سے بنائی گئی اس فوجی بیس کا افتتاح کر دیا گیا ہے، جہاں دفاعی میزائل نظام نصب کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا آغاز سن دو ہزار دس میں کیا گیا تھا اور سن دو ہزار اٹھارہ میں یہ دفاعی نظام مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا۔ اسی طرح کی ایک دوسری دفاعی بیس پولینڈ کے شمال میں واقع ہے، جو روسی علاقوں سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ روس نے نیٹو کی اس منصوبہ بندی کو 'غلط اور خطرناک' قرار دیا ہے۔ ماسکو حکومت کے مطابق یہ دفاعی نظام ان کی ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مطابق یہ نظام روس کے خلاف نہیں ہے۔</p> <blockquote> <p>تیونس مبینہ شدت پسندوں کے خلاف چھاپے، کم از کم آٹھ ہلاک</p> </blockquote> <p>تیونس کی سکیورٹی فورسز نے ملک گیر سطح پر مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں چار سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق اس دوران سولہ مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تیونس میں جون کے آواخر تک ہنگامی حالت نافذ رہے گی۔ تیونس میں گزشتہ برس نومبر میں اس وقت ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی، جب ایک خودکش حملے میں صدارتی قافلے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔</p> <blockquote> <p>ہتھیاروں پر امریکی پابندیوں کے خاتمے کا خیرمقدم کریں گے، ویتنام</p> </blockquote> <p>ویتنام نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے ہتھیاروں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے کی جانے والی امریکی کوششوں میں تیزی کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویتنام کی وزارت خارجہ کے مطابق اس سے ظاہر ہوگا کہ دونوں ملکوں کے مابین اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایک ہفتے بعد صدر باراک اوباما اس ملک کا دورہ کرنے والے ہیں۔ امریکا نے ویتنام جنگ کے بعد سے اس ملک کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکا کے مطابق یہ پابندیاں اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہونے کی صورت میں اٹھائی جائیں گی۔</p> <blockquote> <p>یوگنڈا: صدارتی حلف برداری کی تقریب سے پہلے اپوزیشن لیڈر گرفتار</p> </blockquote> <p>افریقی ملک یوگنڈا میں صدارتی حلف برداری کی تقریب سے پہلے مرکزی اپوزیشن لیڈر کیزا بیسگی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اپوزیشن لیڈر کو بدھ کے روز اس وقت گرفتار کیا گیا، جب ایک تقریب کے دوران انہوں نے فروری میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق سوالات اٹھائے۔ انسانی حقوق کی تنظمیں متعدد مرتبہ اپوزیشن کے خلاف جاری حکومتی کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ اس ملک میں اپوزیشن کے کسی بھی ایونٹ کی لائیو کوریج پر بھی پابندی عائد ہے۔</p> <blockquote> <p>نائجیریا میں ملیریا ٹیسٹ پیشاب کے ذریعے، سائنسدان</p> </blockquote> <p>نائجیریا کے محقیقین نے ایک ایسا نیا طریقہ دریافت کر لیا ہے کہ گھر پر ہی پیشاب کے ٹیسٹ کے ذریعے ملیریا کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اس نئے طریقے میں ایک ٹیسٹ پٹی کو پیشاب میں رکھ دیا جاتا ہے، جس کے بعد اس کا رنگ بتا دیتا ہے کہ اس میں ملیریا کے جراثیم موجود ہیں یا نہیں۔ ملیریا کی تشخیص کے اس نئے طریقے سے ترقی پذیر ملکوں کے دیہات یا دور دراز کے علاقوں کے باشندے بھی استفادہ کر سکیں گے۔</p> <blockquote> <p>کھیلوں کی خبریں</p> </blockquote> <p>شرجیل خان کو مبینہ دھمکیاں، پی سی بی کا تحقیقات کا حکم</p> <p>پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹر شرجیل خان کو ملنے والی مبینہ دھمکیوں کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے۔</p> <p>جمعرات کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قومی کرکٹ ٹیم کے رکن شرجیل خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ انھیں دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔</p> <p>شرجیل خان نے اس ویڈیو میں کہا کہ 'میں آج آپ سے ایک بات شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے چند دنوں سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔'</p> <p>انھوں نے کہا کہ 'مجھے دھمکیاں دینے والے لوگ مجھ سے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھوں نے میری کچھ جعلی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی دھمکی دی ہے۔'</p> <blockquote> <p>ششانک منوہربلامقابلہ چیئرمین آئی سی سی منتخب</p> </blockquote> <p>دبئی: ہندوستان کے کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے سابق سربراہ ششانک منوہر کو بلا مقابلہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے پہلے آزاد چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں۔</p> <p>آئی سی سی کے قواعد میں کی گئی اصلاحات کی رو سے ششانک منوہر ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے چیئرمین کے عہدے کے لیے سامنے آئی تھے، یعنی کسی ملک سے ان کے تعلق کا اظہار نہ ہو۔</p> <p>ششانک منوہر کو ایک دیانت دار اور شفاف کردار کا منتظم مانا جاتا ہے۔</p> <blockquote> <p>شوبز</p> </blockquote> <blockquote> <p>اوم پوری کی ایک اور فلم کا پاکستان سے تعلق؟</p> </blockquote> <p>ہندوستان کے معروف اداکار اوم پوری فلم 'نا معلوم افراد' کے ہدایت کار نبیل قریشی کی اگلی فلم 'ایکٹر ان لا' سے پاکستانی فلم میں ڈیبیو کرنے جارہے ہیں اور اب وہ ایک اور فلم کر رہے ہیں جس کا تعلق پاکستان سے ہے۔</p> <p>میڈیا رپورٹس کے مطابق اوم پوری نے بتایا کہ وہ حال ہی میں اپنی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر گر کر کافی زخمی ہوگئے، یہ فلم دو ملکوں کی دوستی پر بنائی جارہی ہے جس کی شوٹنگ اس وقت بھوپال میں کی جارہی ہے۔</p> <p>اوم پوری کا کہنا ہے 'یہ فلم ہنوستان، پاکستان اور لندن پر بنائی جارہی ہے، فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار کا تعلق دبئی سے ہے، اس فلم کی کہانی دو دوستوں پر مبنی ہے جن کا تعلق پاکستان اور ہندوستان سے ہے، یہ یقیناً ایک بہت اچھی فلم ہے'۔</p> <p>تاہم اوم پوری نے اس فلم کا نام نہیں بتایا اور میڈیا کو ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی کہ وہ صرف اپنی فلم 'ایکٹر ان لا' کی بات کر رہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>عالیہ بھٹ اور شردھا کپور میں اختلافات بڑھ گئے</p> </blockquote> <p>ممبئی: بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ اور اداکارہ شردھا کپور میں اختلافات بڑھ گئے۔ بالی وڈ ذرائع ابلاغ کے مطابق بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ اور اداکارہ شردھا کپور جو پہلے ہر تقریب میں ایک دوسرے کے گن گاتی تھیں میں اختلافات اتنی شدت اختیار کر گئے ہیں کہ دونوں اب ایک دوسرے سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی، ذرائع کے مطابق اداکارہ شردھا کپور عالیہ بھٹ کے بوائے فرینڈ سدھارتھ ملہوترا کے ساتھ فلم اک ویلن کے بعد ایک اور فلم سائن کرنے جا رہی ہیں، شردھا اور سدھارتھ کے درمیان فلم اک ویلن کے دوران خاصی بے تکلفی ہو گئی تھی اس وجہ سے اب عالیہ سدھاتھ اور شردھا کے دوبارہ اکٹھے فلم کرنے سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اور شردھا سے چڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔</p> </section> </body>
5478.xml
<meta> <title>افغان طالب کی وجہ سے رہا ہوا . شہباز تاثیر</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26069/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2071</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
افغان طالب کی وجہ سے رہا ہوا . شہباز تاثیر
2,071
No
<body> <section> <p>پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو 26 اگست 2011 کو لاہور سے اغوا کیا گیا تھا اور تقریباً ساڑھے چار سال بعد آٹھ مارچ 2016 کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔</p> <p>بی بی سی اردو کی نوشین عباس کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اغوا کاروں نے ان پر بہیمانہ ظلم کیے اور اذیتیں پہنچائیں لیکن اس کے باوجود خدا کو ان کی زندگی منظور تھی اور وہ انھیں بچاتا رہا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کس طرح بغیر تاوان ادا کیے رہا ہوئے اور کیسے گھر پہنچے۔</p> <blockquote> <p>سوال: جب آپ کو وہ اغوا کر کے لے گئے تو کیا انھوں نے آپ کو اذیتیں پہنچائی تھیں؟</p> </blockquote> <p>'انھوں نے مجھے شروع میں کوڑے مارنے شروع کیے۔ تین چار دنوں میں انھوں نے مجھے پانچ سو سے زیادہ کوڑے مارے۔ اس کے بعد میری کمر بلیڈوں سے کاٹی۔ پلاس (زمبور) لے کے میری کمر سے گوشت نکالا۔ پھر میرے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن نکالے۔ مجھے زمین میں دبا دیا، ایک دفعہ سات دن کے لیےاور ایک دفعہ تین دن کے لیے۔ پھر مزید تین دن کے لیے۔جب انھوں نے میرا گوشت جسم سے کاٹا تھا تو اتنا خون بہا کہ ایک ہفتہ بہتا رہا اور زخم بند نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے بینک اکاؤنٹ مانگتے رہتے تھے۔ ان میں رحم نہیں تھا۔ ان کے دل نہیں تھے۔ میں بس اللہ سے صبر کی دعا کرتا تھا۔ آخر میں میں اتنا سخت ہو گیا تھا کہ میں کہتا جو کرنا ہے کر لو۔</p> <p>'وہ مجھے بھوکا رکھتے تھے۔ میرے پہرے داروں کا رویہ بہت برا تھا۔ انھوں نے میرا منہ سوئی دھاگے سے سی دیا۔ انھوں نے مجھے سات دن یا شاید دس دن کھانا نہیں دیا۔ مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ کتنے دن۔ مجھے ٹانگ پر گولی ماری گئی۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ وہ میری ہڈی کو نہیں لگی اور نکل گئی۔</p> <p>'میرے منہ پر شہد کی مکھیاں بٹھائیں تاکہ میرے خاندان والوں کو دکھا سکیں کہ میری شکل بگڑ گئی ہے۔ مجھے ملیریا ہو گیا لیکن مجھے دوائی نہیں دی گئی۔ مجھے کہتے تھے کہ ہمیں بینک اکاؤنٹ دو۔</p> <p>'جب انھوں نے میرا گوشت جسم سے کاٹا تھا تو اتنا خون بہا کہ ایک ہفتہ بہتا رہا اور زخم بند نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے بینک اکاؤنٹ مانگتے رہتے تھے۔ ان میں رحم نہیں تھا۔ ان کے دل نہیں تھے۔ میں بس اللہ سے صبر کی دعا کرتا تھا۔ آخر میں میں اتنا سخت ہو گیا تھا کہ میں کہتا جو کرنا ہے کر لو۔ الحمداللہ، میرے اللہ نے خود ہی اذیت ختم کر دی۔</p> <p>'وہ فلم بنانے کے لیے اذیت دیتے تھے۔ مجھے ایک دن پہلے ہی کہتے تھے کہ تیاری کرو کل یہ ہو گا۔ میں ان سے کہتا کہ کون سی تیاری کروں، کیسے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے کہتے کہ کل تمہارے ناخن نکالیں گے۔ میں پوری رات نماز پڑھتا تھا، نماز کے بعد نفل اور نفل کے بعد دعا فجر تک۔</p> <p>'مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے جتنا بھی ماریں اللہ نے مجھے اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے، ایک شیل میں رکھا ہوا ہے۔ اور وہ اس شیل میں داخل نہیں ہو سکتے ہیں۔ نہ ان کے الفاظ اور نہ ان کے جسمانی اعمال۔'</p> <blockquote> <p>سوال: آپکی رہائی کے لیے کیا کوئی تاوان کی رقم ادا کی گئی تھی؟</p> </blockquote> <p>'نہیں۔ میں وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ جیل میں مجھے ایک آدمی ملا، اس نے میری مدد کی، مجھے کچلاک پہنچانے تک اور کچلاک سے میں نے اپنے خاندان سے رابطہ کیا اور اس کے بعد مجھے آرمی نے لیا اور لاہور پہنچا دیا۔ میں نے پیسے تو نہیں دیے لیکن جاتے ہوئے میں نے ان کے دس ہزار روپے ضرور لیے تھے۔'</p> <blockquote> <p>سوال: کیا آپ اپنی قید کے متعلق کچھ تفصیلات بتائیں گے کہ آپ کو کتنی مختلف جگہوں پر لے جایا گیا اور کتنے گروہوں کے حوالے کیا گیا؟</p> </blockquote> <p>'میں صرف ایک گروپ کے ساتھ تھا اور وہ تھا اسلامک موومنٹ آف ازبکستان۔ میں صرف ایک گروپ کے پاس ہی رہا۔ ان کے پاس اس وقت تک رہا جب تک افغانی طالبان اور ازبک گروپ کی بیعت کے اوپر لڑائی نہ ہوئی تھی۔ یہ اس لیے ہوا کہ ازبکوں نے فیصلہ کیا کہ وہ داعش کے ساتھ جائیں گے کیونکہ ان کی نظر میں وہ صحیح خلافت تھی اور افغان طالبان کی صحیح نہیں تھی۔ تب میں افغان طالبان کے ہاتھوں میں آ گیا۔ مگر وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ میں کون ہوں۔ میں نے انھیں کتنی بار کہا کہ میں ازبکی نہیں ہوں۔ وہ کہتے کہ میں ازبکی ہوں اور میں نے ان کے ساتھ جنگ کی تھی اور اس لیے پکڑا گیا تھا۔ اس لیے مجھے جیل میں پھینکو۔ تو گروپ تو ان کے درمیان جنگ سے پہلے ایک ہی تھا۔ دوسرا تو اس وقت تبدیل ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے میں الحمد اللہ آزاد بھی ہوا۔</p> <p>'مجھے لاہور سے میر علی لے کر گئے جو وزیرستان میں ہے اور میر علی سے مجھے ہر مہینے منتقل کرتے رہتے تھے۔ میں میر علی میں 2014 کی جون تک تھا جب انہی ازبکیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ انھیں پہلے سے پتہ تھا کہ حکومت اور فوج کی طرف سے کیا ردِ عمل آئے گا اس لیے انھوں نے مجھے شوال منتقل کر دیا جس کا راستہ شاید دتہ خیل سے جاتا ہے۔ ادھر میں فروری 2015 تک تھا۔ اس کے بعد مجھے گومل کے راستے افغانستان کے علاقے زابل لے جایا گیا۔ وہ جگہیں بدلتے رہتے تھے۔ کہیں ایک مہینہ کہیں دو مہینے۔ ایک مرتبہ ڈرون حملوں کی وجہ سے میں ڈیڑھ سال تک ایک خاندان کے ساتھ رہا۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ میں کون ہوں اور شاید افواہ بھی اڑی تھی کہ شہباز تاثیر ڈرون حملے میں مر چکا ہے۔ لیکن الحمد اللہ میں بچ گیا تھا۔</p> <p>'صرف ڈرون حملے ہی نہیں تھے، جیٹ حملے بھی تھے۔ میں ابھی طالبان کے قبضے سے رہا ہونے والے حیدر گیلانی سے ملنے گیا تھا اور میں انھیں کہہ رہا تھا کہ آسمان سے بہت خوفناک آوازیں آتی تھیں۔ انھیں میری باتیں سمجھ آ رہی تھیں مگر ہمارے بھائیوں کو یہ باتیں نہیں سمجھ آ رہی تھیں۔ کبھی کبھار گھنٹوں تک بمباری ہوتی ہے۔ آپ کوئی ذہنی تیاری نہیں کر سکتے، کچھ سکول میں نہیں سیکھ سکتے بس آپ کے بچنے کی حس آپ کو بچاتی ہے۔</p> <p>'میں ایک ڈرون حملے کی زد میں تھا، یہ اس وقت تھا جبکہ القاعدہ کے ایک سینیئر کمانڈر ابو یحییٰ اللبی کو ڈرون حملے میں مارا گیا۔ مجھے تو بہت بعد میں پتہ چلا۔ میں اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے کمرے میں تھا۔ جب ڈرون حملہ ہوا تو چھت اور دیوار میرے اوپر گری، لوگ آئے انھوں نے مجھے دیکھا۔ میں ملبے میں دبا تھا، مٹی میں اٹا ہوا تھا لیکن میرا دم گھٹا اور مجھے کھانسی آ گئی۔ ایک ازبکی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ان لاشوں کو ایک گاڑی میں ڈال دو۔ اس طرح اس نے مجھے دنیا سے بھی چھپا دیا۔ میں اتنا زیادہ زخمی تھا کہ دو مہینے تک چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے مجھے سب بتایا کہ تمہارے ساتھ ابو یحییٰ اللبی تھا، وہ جب مرا تو وہ زیرِ زمین کمرے میں تھا۔ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی ڈرون حملے میں بچ گیا ہو۔ وہ خود یہ کہنا نہیں چاہ رہا تھا کہ اللہ نے تمہیں بچایا ہے۔ میں بہت خوش قسمت تھا کہ میں دو ڈرون حملوں میں بچا۔ ایک جیٹ حملے میں میں بم گرنے کی جگہ سے صرف سو میٹر دور تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ کے سامنے کس طرح زندہ سلامت بیٹھا ہوں۔'</p> <blockquote> <p>سوال: تو پھر آپ کیسے آزاد ہوئے، ذرا اس کی تفصیل بتائیے؟</p> </blockquote> <p>'جیسا کہ میں نے بتایا کہ ازبکیوں کی بیعت تھی افغان طالبان کے ساتھ۔ جب یہ اعلان ہو گیا کہ ملا محمد عمر کی وفات ہو چکی ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ افغانی طالبان کی کوئی جائز حیثیت نہیں رہی۔ خلافت کا اعلان شام اور عراق میں ہو چکا ہے، ابو بکر البغدادی خلیفہ ہے، امیر ہے ہم اس کی بیعت لیں گے۔ اس پر ان میں تنازع ہوا۔ افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین صرف افغان طالبان میں سے ہو سکتا ہے اور اسے پٹھان ہونا چاہیے، پشتون۔ اس کے علاوہ ان کے لیے سب کچھ ناقابلِ قبول ہے۔ جب ازبکیوں نے ان کی قانونی حیثیت پر اعتراض کیا تو انھوں نے انھیں ختم کیا، پورے گروپ کو ختم کیا، پوری قیادت کو ختم کیا۔ تین دن وہاں صرف موت تھی۔ مجھے وہاں سے بھاگنے کا موقع ملا اور میں بھاگ گیا۔ مجھے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے افغان طالبان نے پکڑ لیا۔ وہ سمجھے کہ میں ازبک ہوں۔ وہ مجھے مارتے ہوئے نیچے لے آئے۔ مجھے دوسرے ازبکوں کے ساتھ قیدی بنا کر ساتھ بٹھایا۔ پھر ایک گاؤں میں بھیجا گیا جہاں قاضی آئے اور انھوں نے سزائیں سنائیں۔ اور ہمیں چھ مہینے سے دو سال تک کی سزائیں سنائی گئیں اور ایک افغان جیل میں بھیجا گیا۔ ادھر مجھے ایک افغانی طالبان ملا، اس نے میری مدد کی۔ اس میں تھوڑا وقت لگا۔ دو تین مہینے۔ لیکن اس نے میرے لیے ایک راستہ کھولا، جس کی وجہ سے میں اس جیل سے نکلا۔ اور افغانستان سے کچلاک موٹر سائیکل پر آیا۔ اس میں مجھے آٹھ دن لگے۔ مجھے 29 فروری کو رہا کیا گیا اور آٹھ مارچ کو میں نے گھر فون کر کے کہا تھا کہ میں آ گیا ہوں۔ مجھے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یہ کوئی چال ہے یا انھیں پتہ نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور اپنی آزادی کی طرف جا رہا ہوں۔ بہت کشمکمش تھی۔'</p> <blockquote> <p>سوال: پانچ سال کی قید کون بھول سکتا ہے لیکن کوئی ایسا خاص واقعہ ہے جو آپ کبھی بھی نہیں بھول پائیں گے۔</p> </blockquote> <p>'ایک رات رمضان کے مہینے میں شوال کے علاقے میں بہت سخت بمباری ہو رہی تھی۔ دو بجے شروع ہوئی تھی۔ وہاں رات کو بہت ٹھنڈ تھی۔ رات کو مجھے کہا گیا یہاں سے نکلنا ہے۔ ایک شخص کو عورتوں اور بچوں کو لے کر محفوظ مقام پر پہنچنا تھا۔ وہ عورتیں تمام بچے نہیں اٹھا سکیں۔ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ خود ہی بچنا ہے۔ اگر بھاگے تو خود ہی ذمہ دار ہو گے۔ تین بچے گھر میں رہ گئے، میں انھیں لینے واپس بھاگا، میں نے دو بچوں کو اٹھایا ایک بچی میرے ساتھ بھاگتی ہوئی آئی، وہ بہت ڈری ہوئی تھی، پہلے وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکل رہی تھی۔ میں وہاں سے نکل کر دو پہاڑوں کے درمیان ایک محفوظ مقام پر پہنچا ہی تھا تو عورتیں آئیں اور مجھ سے بچے لیے اور میرا شکریہ ادا کیا۔ ان کو پتہ تھا کہ یہ اس وقت بھاگ سکتا تھا لیکن میری انسانیت اس وقت مجھے اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ اپنی زندگی محفوظ بنا لوں اور تین بچوں کو چھوڑ دوں۔</p> <p>وہ فلم بنانے کے لیے اذیت دیتے تھے۔ مجھے ایک دن پہلے ہی کہتے تھے کہ تیاری کرو کل یہ ہو گا۔ میں انھوں سے کہتا کہ کون سی تیاری کروں، کیسے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے کہتے کہ کل تمہارے ناخن نکالیں گے۔ میں پوری رات نماز پڑھتا تھا، نماز کے بعد نفل اور نفل کے بعد دعا فجر تک۔</p> <p>'خدا کا شکر ہے کہ کچھ نہیں ہوا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں کسی طرح ذمہ داری محسوس کروں کہ وہ مر گئے اور میں نے کچھ نہیں کیا۔ اسی لیے میں واپس گیا اور انھیں لا کر ان کے خاندان کے حوالے کیا جو کہ میرے اغواکار کا خاندان تھا۔'</p> <blockquote> <p>سوال: بازیاب ہونے کے بعد سب سے پہلے کیا کیا؟</p> </blockquote> <p>'نہاری کھائی جو سچ ہے۔ کچلاک ریسٹورنٹ میں کچھ نہیں کھایا۔ آرمی کمپاؤنڈ میں آیا تو انھوں نے کہا کچھ چائے، کافی پانی تو میں نے کہا نہاری۔ ممکن ہو تو لاہور سے منگوا دیں نہیں تو میں آپ کی بلوچی نہاری بھی کھانے کو تیار ہوں۔'</p> <blockquote> <p>مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا ارادہ ہے؟</p> </blockquote> <p>'میں بہت عرصے کے بعد ایک ایسے مقام پر پہنچا ہوں جہاں میں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتا ہوں۔ اس لیے میں بس دوستوں سے مل رہا ہوں۔ خاندان کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ میں ایک ایک قدم کر کے زندگی گزار رہا ہوں۔</p> <p>'جب میں یہاں آ رہا تھا تو ہم برفانی طوفان میں پھنسے تھے اور لگ رہا تھا کہ مر جاؤں گا لیکن اس وقت میں خود کو کہتا رہا کہ ایک قدم اور سہی۔ اس وقت میری زندگی بھی ایسی ہی ہے میں ایک ایک قدم اٹھا رہا ہوں۔'</p> <p>بشکریہ بی بی سی اردو</p> </section> </body>
5479.xml
<meta> <title>کرنل شکیل شہید کی حادثاتی موت اور اصل کہانی</title> <author> <name>ثقلین شوکت</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26084/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2827</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کرنل شکیل شہید کی حادثاتی موت اور اصل کہانی
2,827
No
<body> <section> <p>آرمی چیف کی جانب سے کرپشن کے خلاف بیان کے بعد عسکری ذرائع سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ فوج نے احتساب کے عمل کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے۔ کرپشن کے خلاف جوں جوں اس کہانی کی پرتیں کھل رہی ہیں توں توں نت نئے سوال بھی جنم لے رہے ہیں۔ میڈیا پر عمومی طور پر آرمی چیف کے اس عمل کو سراہے جانے کے بعد اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نہ صرف میڈیا بلکہ اس ساری تحقیق کا سبب بننے والے آرمی افسران کے لواحقین بھی اپنے پیاروں کے حوالے سے اٹھنے والی افواہوں پر پریشان ہیں۔ پہلی بار ادارہ "ہم شہری" اس حادثے میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ کرنل شکیل کے بھائی کا موقف سامنے لا رہا ہے۔</p> <p>اب تک سامنے آنے والی خبروں کے مطابق مبینہ طور پرسمگلنگ کے دھندے سے پیسے بنانے کے جرم میں فرنٹئیر کانسٹیبلری کے ڈی جی رہ چکے افسران اور وہاں تعینات کئی دوسرے لوگوں کو فوج سے نکالا جا چکا ہے۔ (اگر چہ آئی ایس پی آر کی جانب سے باقاعدہ اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والی خبروں کی کوئی تردید بھی سامنے نہیں آئی۔) نکالے جانے والوں میں ایف سی کے ڈی جی میجر جنرل اعجاز شاہد کے علاوہ لیفٹینٹ جنرل عبید اللہ خٹک بھی شامل ہیں۔ میڈیا میں سامنے آنے والی چہ میگوئیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن تحقیقات کے نتیجے میں ان تمام لوگوں کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اس کا نقطۂ آغاز وہ حادثہ تھا جو مورخہ 26-11-2014 کو کوئٹہ چمن شاہراہ پر کچلاک کے نزدیک پیش آیا۔</p> <p>کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان جو اس کرپشن کا شکار بنے ان کی پراسرار شہادت کے اسباب پر سے پردہ بھی اٹھ سکے گا</p> <p>اس حادثے میں ایک سمگل شدہ قیمتی سپورٹس کار میں موجود دو فوجی افسران شہید ہو گئے، تاہم اخبار ڈان میں اگلے روز شائع ہونے والی خبر میں اس گاڑی (یہ گاڑی اس لیے اہم ہے کہ اسی سے تحقیقات کا در وا ہوا)کا کوئی ذکر نہ تھا۔ اخبار ڈان نے اپنی ستائیس نومبر دو ہزار چودہ کی اشاعت میں ا س حادثے کے بارے میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے جو خبر دی اس کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان لورا لائی میں ہونے والی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے انتظامات مکمل کرنے کے لیے جا رہے تھے کہ کچلاک کے قریب ایک ٹرک ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ اس حادثے میں کرنل شکیل موقع پر دم توڑ گئے جب کہ میجر یاسر سلطان سی ایم ایچ میں جان کی بازی ہار گئے۔ اس خبر میں کہیں اس بات کا شائبہ بھی موجود نہ تھا کہ پاک فوج کے یہ دونوں سپوت کسی سرکاری ڈیوٹی پر نہیں تھے اور نہ ہی اس میں کسی تیسرے شخص کی گاڑی میں موجودگی اور اس کے زخمی ہونے کی بات تھی۔ سڑکوں پر آئے روز ہونے والے حادثات کی مانند اسے بھی ایک روڈ ایکسیڈنٹ قرار دے کر شہداء کی میتیں تدفین کے لیے روانہ کر دی گئیں۔</p> <p>لیفٹیننٹ کرنل شکیل کی تدفین کے لیے راول پنڈی کا انتخاب کیاگیا۔ کرنل شکیل کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ (بطور شہید) پنڈی میں دفنایا گیا۔ پاک فوج کے ایک دستے نے انہیں سلامی دی اور ان کا تابوت پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا۔(یہاں اس بات کا ذکر اس لیے تفصیل سے کیا گیا ہے کہ مختلف ذرائع سے اخبارات میں اس بات کو اچھالنے کی</p> <p>کوشش کی جا رہی ہے کہ شہدا کے اہل خانہ نے آرمی چیف کو خط لکھ کر دونوں کو "شہید" قرار دینے کی درخواست کی تھی۔ شہید کرنل شکیل کے بھائی نے "ہم شہری" سے بات کرتے ہوئے اس بات کو بہتان قرار دیا اور بتایا کہ ان کی جانب سے اس سلسلے میں ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ان کے مطابق ایسی بات کرنے کا مقصد ایک جانب تو شہدا کے خون اور ان کے لواحقین پر ظلم کے مترادف ہے تو دوسری جانب اس سے ان تحقیقات کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس حادثے کے سلسلے میں تاحال کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچیں)۔تدفین کے بعد ایک پروقار تقریب میں شہید کی باقیات بڑے بھائی خالد محمود ایڈووکیٹ (نین سکھ)کے حوالے کی گئیں۔</p> <p>کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان شہید کے حوالے سے سامنے آنے والی قیاس آرائیوں کے بعد "ہم شہری" نے لیفٹینٹ کرنل شکیل کے بھائی خالد محمود سے رابطہ قائم کیا۔ ان کی جانب سے اختیار کردہ موقف کو یہاں بیان کرنے کا مقصد اس حوالے سے پیدا ہونے والی افواہوں کا خاتمہ اور یہ مطالبہ دہراناہے کہ شہید کے اہل خانہ کو ان کی شہادت کے بارے میں ہونے والی تفتیش سے آگاہ کیا جائے اور تفتیش کے دوران ان حالات کو مد نظر رکھا جائے جن سے کرنل شکیل اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل دوچار تھے۔یہاں ان حالات کو ترتیب وار پیش کر کے اس سارے سلسلے میں بہت سے حقائق پہلی بار سامنے لائے جا رہے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے لانے کا مقصد کسی شخص یا ادارے کو نشانہ بنانا نہیں تاہم ہر پاکستانی کی طرح لیفٹینٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان کے لواحقین اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کی شہادت کے بارے میں اصل حقائق سے آگاہ ہوں۔ چونکہ ابھی تک دونوں خاندانوں کو باقاعدہ طور پر کوئی تفتیشی رپورٹ فراہم نہیں کی گئی اس لیے سنی سنائی باتیں سامنے آرہی ہیں۔</p> <p>اس سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ جرم و سزا کی اس کہانی کا آغاز قطعاً اس حادثے سے نہیں ہوا جو کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان کی گاڑی کو پیش آیا۔ یہ حادثہ کرپشن اور پیسہ بنانے کی اس کہانی کا ایک المناک موڑ ضرور تھا۔ خالد محمود نے "ہم شہری" سے بات کرتے ہوئے بتایا: "شکیل کی تدفین کے موقع پر مجھے ایک شخص ملا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن غم سے اس کی جو حالت ہو رہی تھی اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ شکیل کو بہت قریب سے جانتا تھا۔ اس نے مجھ سے علیحدگی میں بات کرنے کے لیے چند منٹ مانگے۔ اس شخص نے مجھے پہلی بار اس بات سے آگاہ کیا کہ شکیل اور یاسر کو جب حادثہ پیش آیا تو وہ لوگ کسی سرکاری گاڑی میں نہیں بلکہ ایک سمگل شدہ قیمتی سپورٹس کار کی "ٹیسٹ ڈرائیو" میں مصروف تھے۔ اسی شخص نے مجھے یہ بھی بتایاکہ شکیل کی سالانہ خفیہ رپورٹ خراب کرنے کی دھمکی دے کر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس شخص نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیسے شکیل کو استعمال کیا جانا تھا اور نہ ہی میری جذباتی حالت ایسی تھی کہ میں اسے مزید کریدتا،تاہم اس نے یقین دلایا کہ وہ کسی بھی انکوائری اور عدالت میں اس سلسلے میں حقائق بیان کرنے کے لیے تیار تھا۔"</p> <p>یہ کرنل شکیل کی شہادت کے معاملے کو ایک عام سے حادثے سے پراسرار مبینہ قتل بنادینے والی بات تھی۔ شکیل کے بھائی اس بات سے آگاہ تھے کہ مکینیکل انجیئر ہونے کے ناطے ایف سی کے زیر استعمال گاڑیوں کی دیکھ بھال کرنل شکیل کی ذمہ داریوں میں شامل تھی تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس تعلق کی ایک اور نوعیت بھی تھی۔ تصویر کے اس رخ پرخالد محمود نے کچھ یوں روشنی ڈالی: "شکیل نے اپنی تعیناتی کے کچھ عرصہ بعد ہی ایف سی کے لیے خریدی جانے والی ایک گاڑی پر اعتراض کیا۔ شکیل کے خیال میں چالیس پچاس لاکھ میں مل جانے والی گاڑی ایف سی کو ایک کروڑ سے زائد قیمت پر بیچنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ شکیل نے اس کیس پر کام کیا اور رپورٹ آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد کے حوالے کر دی۔ شکیل کو آئی جی کی جانب سے اس کام پر سراہا گیا اور فائل مزید کارروائی کے لیے آئی جی نے اپنے پاس رکھ لی۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بھی جب اس سلسلے میں کوئی کارروائی سامنے نہ آئی تو شکیل نے اس بارے میں اپنے ایک کولیگ کو اعتماد میں لیا۔ اس کولیگ نے شکیل کو بتایا کہ 'جنہوں نے اس سودے سے فائدہ اٹھانا تھا تم انہی کو یہ فائل دے آئے ہو۔ اب محتاط رہنا تمہیں کسی نہ کسی طرح نشانہ بنایا جائے گا۔' شکیل کے لیے یہ انکشاف کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ لیکن اس کولیگ نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت چند دن بعد سامنے آگیا۔ ستّر لاکھ کی کرپشن پکڑنے والے کے خلاف چھتیس ہزار روپے کی خورد برد کے الزام میں انکوائری شروع کر دی گئی۔ شکیل نے پریشانی کے عالم میں دوبارہ اپنے اسی کولیگ سے رابطہ کیا۔ اس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ لاہور میں چونڈہ لین(لاہور کی ایک رہائشی آبادی) میں قائم قیمتی امپورٹڈ گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک شخص کے پاس جائے ۔ یہ شخص آئی جی ایف سی کا عزیز تھا اور شکیل کو یقین دلایا گیا تھا کہ آئی جی صاحب اپنے اس عزیزکی بات نہیں ٹالیں گے۔"</p> <p>شکیل کے لیے ایسے حالات بالکل نئے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ کوئٹہ سے لاہور آیا۔ یہاں اس نے چونڈہ لین میں ایک دن گزارا۔ خالد محمود کے بقول"شکیل کے سامنے انکوائریوں اور تادیبی کارروائیوں سے بچنے کے لیے دو شرائط رکھی گئیں۔ یا تو وہ اس کاروبار میں شراکت دار بن جائے(انجنیئر ہونے کی وجہ سے اور ایف سی میں ٹرانسپورٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نباہنے والاشکیل اس کاروبار میں کلیدی کردار ادا کر سکتا تھا) دوسری صورت یہ تھی کہ وہ جو کچھ ہو رہا تھا اسے ہونے دے اور جو حکم دیا جائے بلا چوں چراں اس پر عمل کرے۔اس نے دوسری شرط مان لی۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بے ایمانی کا دھبہ اگر ایک بار اس کی سروس بک پر لگ جاتا تو اس کے پاس باقی کیا بچتا؟"</p> <p>شکیل واپس کوئٹہ لوٹ گیا۔ یہاں ایف سی کے ایک "سیف ہاؤس" میں واقع ورکشاپ میں ایک جانب قیمتی گاڑیاں اور دوسری جانب بلوچوں کی "مرمت" کا کام متوازی چلایا جاتا تھا۔ شکیل کی قسمت لیکن اسے کسی اور جانب دھکیل رہی تھی۔ کرنل شکیل شہید نے خود خالد محمود کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ تفصیلات کے مطابق "ایف سی کے کچھ جوانوں نے ایک چیک پوسٹ پر ایک گاڑی کو روکا اور کار کے ڈرائیور کو نیچے اترنے کا حکم دیا۔ گاڑی کی تلاشی کے لیے جب دروازے کھلے تو جوانوں کے منہ بھی حیرت سے کھل گئے۔ گاڑی نوٹوں سے بھرے شاپنگ بیگوں سے لدی ہوئی تھی۔جوانوں نے پوسٹ میں موجود میجر صاحب کو بتایا۔ میجر صاحب کے اوسان بھی اتنی کرنسی دیکھ کر خطا ہو گئے۔ کار سوار حلیے سے کسی طرح بھی گاڑی یا اس رقم کا مالک نہیں لگتا تھا لیکن اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ہی ان چیزوں کا مالک ہے۔ میجر نے کرنل شکیل کو اس بارے میں آگاہ کیا اور انہیں بھی چیک پوسٹ پر بلا لیا۔ کار سوار اپنی تھوڑی بہت "تواضع" کے بعد آئی جی ایف سی (میجر جنرل اعجاز شاہد)کا نام لے کر ڈیوٹی پر موجود لوگوں کا دھمکا رہا تھا۔ کرنل شکیل اور ڈیوٹی میجر نے کسی موہوم خدشے کے تحت اس شخص کی دھمکیوں کا امتحان لینے کے لیے اس سے آئی جی صاحب کا ذاتی موبائل نمبر اور کچھ اور معلومات مانگیں۔ ان خیال میں اگر اس شخص کے پاس یہ معلومات نہ ہوئیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ صرف انہیں دھمکانے کے لیے ایک بڑے افسر کا نام لے رہا ہے۔</p> <p>"اس شخص نے جو موبائل نمبر بتایا وہ آئی جی ایف سی کے زیر استعمال ذاتی نمبر نہیں تھا۔ کرنل شکیل اور ڈیوٹی میجر دونوں کے پاس موجود نمبر اور اس نمبر میں دور دور تک کوئی ربط نہیں تھا۔ اس شخص نے اپنا اصرار جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ اس نمبر پر بات کی جائے تو آئی جی ایف سی سے بات ہو جائے گی۔ باہمی مشاورت سے دونوں افسران نے یہ نمبر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ فون اٹھائے جانے پر دوسری جانب سے جو آواز آئی وہ ان افسران کے لیے کسی بم کے دھماکے سے کم نہیں تھی۔ آئی جی ایف سی(اعجاز شاہد) لائن پر تھے ۔دونوں افسران کو حکم دیا گیا کہ وہ کار سوار اور گاڑی کو جانے دیں ۔ کار سوار جاتے جاتے دونوں پریشان افسران کو تسلی دے گیا کہ اگر انہوں نے اس بارے میں اپنا منہ نہ کھولا تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔"</p> <p>لاعلمی میں کرنل شکیل ایک ایسے علاقے میں جا نکلے تھے جہاں ان کا ہر قدم کسی نہ کسی "بارودی سرنگ" پر ہی پڑنا تھا۔ انہوں نے اس جنجال سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ ان کی پوسٹنگ کے دو برس پورے ہونے کو تھے اور بند گلی کے آخر پر روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ آئی جی ایف سی (اعجاز شاہد) کے بیٹے کی سمگل شدہ قیمتی سپور ٹس کار، نسان فئیر لیڈی، کو اپنی نگرانی میں تیار کرائیں۔اس کے لیے مختلف ضروری پرزے کراچی سے منگوائے گئے۔ شکیل کے خیال میں یہ ایک اور پھندا تھا۔ ایک ایسی گاڑی جس کی مصدقہ دستاویزات بھی موجود نہیں تھیں وہ باآسانی اس کے گلے منڈھی جا سکتی تھی۔ اس پر اس گاڑی کی ملکیت کا الزام لگایا جا سکتا تھا۔ اور حقیقتاً کرنل شکیل کی شہادت کے بعد ایسی کوشش کی بھی گئی۔ انہیں پیغام پہنچایا گیا کہ اگر انہوں نے اس گاڑی کے سلسلے میں کوئی پس و پیش کی تو ان کی سالانہ خفیہ رپورٹ خراب کر دی جائے گی۔ کرنل شکیل نے گاڑی تیار کرانی شروع کردی۔ گاڑی کی ساخت اور اس بارے میں دوسری معلومات اس وقت سامنے آئیں جب شکیل کے ایک کولیگ نے ، جو کوئٹہ میں تعینات تھے، جائے حادثہ پر جا کر اس گاڑی کی تصویر بنائی اور اسے فیس بک پر موجود "ابدالین" نامی ایک گروپ میں شئیر کیا۔ کرنل شکیل کے گھر والوں کو بھی اسی گروپ میں موجود لوگوں نے گاڑی کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔</p> <p>سوال یہ ہے کہ کیوں اس بات کو چھپایا جا رہا تھا کہ کرنل شکیل اور میجر یاسر شہید ایک ایسی گاڑی میں موجود تھے جو سمگل شدہ تھی؟ اس کا جواب موجود ہے کہ کرنل شکیل اس گاڑی کواپنے باس کے حکم پر "تیار" کرا رہے تھے۔ لیکن اس گاڑی کو ٹکر مارنے والا ٹرک؟ حادثے کے بعد کرنل شکیل کو کچل دینے والی سرخ رنگ کی بیاسی ماڈل کرولا کار کہاں غائب ہو گئی؟ اگر مبینہ طور پر آئی جی ایف سی کا بیٹا بھی اس کار میں موجود تھا تو کیا اس سے اس سلسلے میں تفتیش ہوئی؟ تحقیقی کمیٹی کی جانب سے شہداء کے اہل خانہ کو حقائق سے باخبر کیوں نہیں رکھا جا رہا اور ان سے کیوں تعاون طلب نہیں کیا جا رہا؟ کرنل شکیل شہید کو شہادت سے عین پہلے جن حالات سے پالا پڑا تھا وہ انہیں اپنے بھائی کے ساتھ مسلسل شئیر کر رہے تھے؟ اگر کرنل شکیل کوئٹہ میں اپنی ملازمت کی مدت پوری کر کے دوسری جگہ روانہ ہو جاتے تو اس سے کس کو خطرہ درپیش تھا؟ خفیہ نمبروں سے شہداء کے گھر والوں کو اس تفتیش میں دلچسپی لینے سے روکنے والے کون لوگ ہیں؟</p> <p>یہ وہ حقائق اور سوال ہیں جو کرنل شکیل شہید کی حادثاتی موت کے پیچھے موجود ہیں ۔ ان کے قریبی ذرائع ان حقائق کو کسی بھی انکوئری فورم پر بیان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی انہیں اس تفتیش میں شامل کرے تو ہی ایسا ممکن ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کے دو اعلیٰ افسران کی شہادت پر پڑا پراسراریت کا پردہ اب تک فاش کیوں نہیں ہوا؟ میڈیا رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد کہ ایف سی کے اعلیٰ افسران کو کرپشن کے الزام میں نکالا گیا ہے یہ بات اور بھی ضروری ہے کہ ان دونوں افسران کی شہادت کے بارے میں اس پہلو سے تفتیش بھی کی جائے کہ کہیں انہیں "نشانہ" تو نہیں بنایا گیا۔ 24-04-2016ء "جیو" کے پروگرام "آپس کی بات"میں سینئر صحافی نجم سیٹھی نے انکشاف کیا کہ اس گاڑی میں اعجاز شاہد(اس وقت کے آئی جی ایف سی) کا بیٹا بھی موجود تھا۔ بری طرح تباہ ہو جانے والی گاڑی سے اس کا بنا نقصان نکل آنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ عام حالات میں بھی یہ بات تشویش ناک ہے کہ فوج جیسے منظم ادارے کے شہید ہونے والے دو افسران کی شہادت کے بارے میں تفتیش تقریباً ڈیڑھ سال بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ کرپشن کے ذمہ دار تو انجام کو پہنچ گئے کیا کبھی لیفٹینٹ کرنل شکیل اور میجر یاسر سلطان جو اس کرپشن کا شکار بنے ان کی پراسرار شہادت کے اسباب پر سے پردہ بھی اٹھ سکے گا؟</p> <p>(خالد محمود پنجابی کے نمایاں شاعر اور کہانی کار بھی ہیں۔ اپنے بھائی کے حوالے سے لکھی جانے والی ان کی کہانی "شہید؟" جلد اشاعت پذیر ہونے والی ہے۔)</p> <heading>یہ انٹرویو ہفت روزہ 'ہم شہری' سے وابستہ صحافی ثقلین شوکت نے کیا ہے جو 5 مئی 2016ء کو شائع کیا گیا . آئی بی سی اردو ادارہ 'ہم شہری' اور مضمون نگار کے شکریے کے ساتھ اسے شائع کر رہا ہے . مدیر</heading> </section> </body>
5480.xml
<meta> <title>کراچی کی سماجی تبدیلی اورنئی منصوبہ سازی</title> <author> <name>غلام مصطفیٰ</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26327/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2065</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کراچی کی سماجی تبدیلی اورنئی منصوبہ سازی
2,065
No
<body> <section> <p>جس دن ایک پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا صادق خان لندن کا میئر منتخب ہوا س دن سے میں نے اس بات پہ غور کیا کہ وہ کیا عوامل تھے ، جن کی بنا پر گورے انگریز نے غیر مقامی لوگوں کو اپنا نظام اپنانے اور اس کی حصہ داری میں ان کو شامل کیا ۔ ؟ ان عوامل پر غور کرتے کرتے میں نے لندن اور کراچی کا تقابلی جائزہ بھی لیا جس سے آشکار ہوا کہ کراچی کی بد امنی کی علتوں کی صحیح تشخیص کرکے اس شہر کو پر امن کیا جاسکتا ہے ۔ اور یہ کام بغیر کسی آپریشن کے بھی انجام دیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>کراچی کو غریب پرور شہر کہا جاتا ہے ، اس نے ہر دور میں یہاں قدم رکھنے والوں کو ماں کی ممتا دی ہے ، اور اسکی گود میں آنے والوں نے سماجی اور معاشی طور پر ترقی کی ہے ۔ اس ماں نے آج تک اپنے کسی بچے کو بھوکا نہیں رکھا ، ہر ایک کو پیٹ بھرنے کو نوالہ مہیا کیا ۔۔۔ آج کے مہنگے سماج میں بھی کراچی کا شمار دنیا کے تین بڑے سستے شہروں میں کیا جاتا ہے ، جہاں ایک مزدور بیس روپے میں کھانا کھا سکتا ہے ۔ کراچی کی ہمہ گیری ، اور اسکے تنوع نے یہاں بتدریج مختلف سماجی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے ، جسکے باعث یہاں کے مسائل کی بھی مختلف جہتیں ہیں ۔ جنہیں نئی منصوبہ سازی سے حل کیا جا سکتا ہے ۔</p> <p>کراچی بنیادی طور پر ایک معاشی حب ہے جہاں صنعتی ترقی نے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کئے ہیں ۔ جس کی بنا پر نہ صرف اندرون سندھ بلکہ اندرون ملک سے بھی یہاں بڑے پیمانے پر ھجرت کو فروغ دیا ۔۔۔ اسی ھجرت نے یہاں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔</p> <p>یو این ڈی پی کی 2006 کی ھیومن ڈولپمنٹ رپورٹ کے مطابق 177 ممالک میں ھیومن ڈولپمنٹ انڈکس میں پاکستان کا درجہ 134 واں ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 17 فیصد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی ایک امریکی ڈالر سے بھی کم ہے ۔ جبکہ 73. 6 فیصد آبادی کی آمدن 2 امریکی ڈالرز سے نیچے جبکہ قومی غربت کی سطح 32. 6 فیصد ہے ۔ جبکہ غربت کی شرح 2002 سے مسلسل 7. 8 فیصد پر برقرار ہے ۔</p> <p>کسی بھی معاشرے کیلئے مندرجہ بالا اعدادو شمار بڑے ہی خطرناک ہیں ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 18 کرورڑسے متجاوز ہے ۔ جس میں سے 70 لاکھ لوگ کچی آبادیوں میں بستے ہیں ۔ جبکہ ایگریکلچرل لینڈ پر بنائے گئے مکانات میں ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ بستے ہیں ۔ اس کے علاوہ بے ضابطہ تعمیر کردہ مکانات میں 34. 5 ملین آبادی رہائش پذیر ہے ۔ جبکہ اندورن سندھ ذیادہ گنجانیت کی حامل آبادیاں غریب واڑوں میں بدل دی گئیں وہ آبادیاں اس میں شامل نہیں ہیں جسکے مکین ماحولیاتی طور پر انتہائی خراب حالات میں زندگی گذار رہے ہیں ۔</p> <p>مندجہ بالا حقائق انتہائی تلخ ہیں ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں غریبوں اور امیروں کے درمیان فرق مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں دیہی ، شہری اور صوبائی سطح پر سماجی اور معاشی طور پر واضح تفریق موجود ہے ۔ اس سماجی تفریق نے معاشرے میں معاشی ناہمواری میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جس کےنتیجے کے طور پر بہتر روز گار کے حصول اور معاشی ناہموری کی دلدل سے نکلنے کیلئے اندرون ملک بڑے پیمانے پر ھجرت ہوئی ہے.</p> <p>شہروں کی صنعتی ترقی نے غیر ہنر مند اور ہنر مند مزدوروں کی مانگ کو جنم دیا یہ ہنر مندی دیہات میں رہنے والے دست کار طبقے میں موجود تھی ۔ دوسری جانب ھجرتے کرنے والوں نے شہری آازادیوں کا تجربہ کیا اور دیہی علاقوں سے اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے اور جاگیرداروں کے تسلط سے ا ٓذاد کرانے کیلئے شہروں میں سکونت کو ترجیح کی ۔ شہری علاقوں اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں ھجرت کی بڑی وجہ سماجی طور پر معاشرے میں تعلیم کا شعور بھی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں اور چھوٹے شہروں میں دیہی علاقوں سے آنے والی لڑکیوں کے لئے ہاسٹل کی سہولیات ناپید ہیں ، بہت سے دیہات میں مڈل اور ہائی اسکول بھی نہیں ہیں اور جہاں ہیں وہاں تعلیم کا فقدان ہے اس صورت حال سے سندھ کا دیہی طبقہ سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے ۔</p> <p>۔ جبکہ افغان مہاجرین کی ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔ یہ ھجرت ، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں بھی ہوئی ہے ، ایک ہی صوبے کے چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں بھی ہوئی ہے اور ایک ہی صوبے کے دیہاتوں سے شہروں میں ہوئی ہے ۔ اور اس ھجرت نے شہری معاشرے کو نئے مسائل سے دوچار کیا ہے ۔</p> <heading>1989 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے 8 فیصد نے اپنے علاقوں سے ھجرت کی ہے ۔ اس 8 فیصد میں سے 24. 8 فیصد ھجرت کرنے والوں نے کراچی کا رخ کیا ہے ، جس میں افغانی اور پشتو بولنے والوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہے ۔</heading> <p>ایک دوسرے جائزے کے مطابق پنجاب میں ھجرت کرنے والے 1. 6 فیصد ہیں ، سرحد میں ھجرتے کرکے جانے والے 3 فیصد ، بلوچستان میں 5. 1 فیصد ( جس میں افغان مہاجرین شامل ہیں ) جبکہ سب سے ذیادہ سندھ میں 7. 4 فیصد ہے ۔ اس تعداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ھجرت پسماندہ علاقوں سے ہوتی ہے جہاں زمین اور وسائل پر دباو ہوتا ہے ۔ اور جہاں صنعتی ترقی نہیں ہوتی اور زرائع مواصلات بہت خراب ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑی ھجرت صوبہ پختونخواہ سے سندھ کی طرف ہوئی ہے اور خصوصیت سے کراچی میں ہوئی ہے ۔ اور حالیہ سالوں میں سوات اور وزیرستان کے آپریشن کی وجہ سے ہونے والی ھجرت اسکے علاوہ ہے ۔</p> <p>ایک سروے میں کچھ اور دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں ۔ اندرون ملک ھجرت کرنے والوں کے مطابق</p> <heading>17 فیصد نے شادی کی وجہ سے ھجرت کی</heading> <p>، 12 فیصد نے ملازمت کی وجہ سے ھجرت کی اور 9 فیصد نے کاروبار کی وجہ سے ھجرت کی ہے ۔ اس لحاظ سے ذیادہ تر ھجرت خاندانی ، سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ یہی معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات اس ھجرت کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ لوگوں نے بہتر مستقبل کیلئے اپنے ہی ملک میں ھجرت کا دکھ اٹھایا ہے ۔ اور یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔</p> <p>کراچی کے سماجی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ھجرت کرکے آنے والوں کو مقامی آبادی نے اپنے اندر ضم نہیں ہونے دیا ، نہ ہی انہیں اپنایا ، جسکے نتیجے میں یہاں ھجرت کرکےا ٓنے والوں نے اپنےآپ کو چھوٹے چھوٹے پاکٹس ، کالونیوں اور مخصوص علاقوں میں آباد کیا ، تاکہ اپنی کمیونٹی کے درمیان انہیں تحفظ کا احساس رہے ۔ اس لحاظ سے سندھی آبادی نے اپنے آپ کو ، سچل ، ملیر ، قائد آباد ، اسٹل ٹاون اور گلشن حدید کے علاقوں میں آباد کیا ۔ جبکہ پختون آبادیوں نے اپنے آپ کو سہراب گوٹھ ، قائد ٓباد ، لانڈھی ، بنارس ، شیرشاہ اور کیماڑی اور بلدیہ کے علاقوں میں آباد کیا ۔ پرانی کچی آبادیاں جو کبھی اس شہر کے ارد گرد ایک جھالر کی طرح پھیلی ہوئی تھیں اب وہ بھی شہر سے جڑ کر پوری طرح شہر میں جذب ہو چکی ہیں ۔ انہیں ایک معاشرتی اور طبعی ڈھانچہ تو فراہم ہو گیا ہے مگر سیاسی نمائندگی اور شہر کے سسٹم میں انکی حصہ داری تا حال نہیں مل سکی ہے ۔</p> <p>یہ سب ھجرت کرنے والے اس طاعون زدہ معیشت کے باسی ہیں ۔ جس نے اس ملک کے معاشرے کو امیر اور غریب کی دو واضح لکیروں میں تقسیم کردیا ۔ ہے</p> <p>ایک طرف چمچماتی گاڑیاں ہیں ، ایک سے ایک نئی وضع اور قطع کا لباس ، جھٹ پٹ تیار کھانوں ( فاسٹ فوڈ) کی ریل پیل ہے ۔ خریداری کے محفوظ شاپنگ مال ہیں ، مہنگے طعام و چائے خانے ہیں ، نجی شعبے میں شاندار اسکول اور یونیورسٹیاں اور صارفیت کو بام عروج پر پہنچانے والے اشتہارات ہیں تو دوسری جانب اس شہر میں عدم مساوات اور بے روزگاری کے حامل افراد کے جتھے ہیں جو مزدوری کی تلاش میں آپ کو ہر صبح شہر کی ہر چورنگی پر نظر آئینگے ، کہ ایک دن کی مزدوری مل جائے تو پیٹ کی آگ بجھا پائیں۔ امارت اور غربت کا بڑھتا ہوا فرق وہ سب سے برا عنصر ہے جس نے میرے شہر کے نچلے اور متوسط آمدن کے طبقات کے نوجوانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے ۔</p> <p>کراچی کے اصل مسائل اس ھجرت کے بعد شروع ہوئے ہیں ، اس وقت کراچی شہر کی کل آبادی میں 25 فیصد پختون آبادی شامل ہے ،جو 40 سے 50 لاکھ کے قریب ہے جس میں 50 ھزار افغان مہاجرین بھی ہیں ۔ لیکن اس ملک کے منصوبہ سازوں نے اتنی بڑی ھجرت کے نتیجے میں ہونے والی سماجی تبدیلی کے بعد ھجرت کرکے آنے والوں کو اس شہر کے سسٹم کا حصہ نہیں بنایا ۔</p> <p>جب بھی دنیا میں کہیں بھی بڑے پیمانے پر ھجرت ہوتی ہے تو ایک نسل اپنے آپ کو معاشی استحکام پہ لگا دیتی ہے ۔ اور پھر انکی دوسری اور تیسری نسل اپنے معاشرے کے مسائل کے حل کیلئے اپنا سیاسی حصہ مانگتی ہے اور زندہ معاشرے اچھی منصوبہ بندئی کے ساتھ شہر کے اسٹیک ہولڈرز کو شہر کی حصہ داری میں شامل کرکے شہر کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جسکی زندہ مثال لندن کی ہے ، جہاں پاکستان سے ھجرت کرنے والوں کی دوسری نسل نے اب وہاں کی مقامی سیاست میں اپنا حصہ مانگا ۔ اور برطانیہ کے زندہ معاشرے نے صادق خان کی شکل میں ان کمیونٹیوں کو انکا حصہ دیکر انہیں اپنے شہر اور اپنے معاشرے میں ضم کیا ہے ۔</p> <p>لیکن کراچی میں کی جانے والی سیاسی حلقہ بندیاں اس طرح کی جاتی ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ھجرت کرکے آْنے والوں کا کوئی نمائندہ منتخب ہو کر کسی فورم پر نہ آ جائے ۔ مثلا اگر کسی محلے میں پختون ا ٓبادی ذیادہ ہے ، یا سندھی آبادی زیادہ ہے تو اسے دو حلقوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے تا کہ انکا ووٹ تقسیم ہو جائے اور ان کا نمائندہ ووٹ کے زریعے منتخب ہو کر نہ آ جائے ۔ ایسے معاشروں میں جب معاشرے میں رہنے والوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے سسٹم میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا ، تو عدم تحفظ کا احساس شدت سے ابھر کر سامنے آ تا ہے اور یہی وہ احساس ہے جو اسلحے کے کلچر کو فروغ دیتا ہے۔ اور طاقت کا حصول ہی مسائل کے حل کی آخری امید ٹہرتا ہے۔ نتیجتا معاشرے میں وہ انارکی پھیلتی ہے جس کا مشاہدہ ہم نے حالیہ برسوں میں کراچی میں کیا ہے</p> <p>1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی میں مختلف زبانین بولنے والوں کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں ۔</p> <heading> <heading>اردو 48. 52 فیصد</heading> <heading>پنجابی 13. 94 فیصد</heading> <heading>پشتو 11. 42 فیصد</heading> <heading>سندھی 7. 22 فیصد</heading> <heading>بلوچی 4. 34 فیصد</heading> <heading>سرائیکی 2. 11 فیصد</heading> <heading>مختلف دوسری زبانین بولنے والے 12. 44 فیصد</heading> </heading> <p>اور اب تو سوات اور وزیرستان کے حالیہ آپریشن کے بعد یہ تعداد بہت مختلف ہوگئی ہے ۔ شاید باقی کمیونٹیز کے لوگوں کی تعداد اب 57 سے 58 فیصد ہو لیکن شہری مسائل میں 58 فیصد دوسری آبادیوں کی نمائندگی اور شہری ترقی میں ا نکی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اور یہی حال حالیہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں کھل کر سامنے آیا ہے ۔</p> <p>زندہ معاشرے اپنے مسائل کی حقیقی وجوہات جان کر بہتر منصوبہ بندی سے ان کا تدارک کرتے ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کراچی کے اصل منصوبہ ساز ان امور پر توجہ دیکر شہری مسائل کو حل کرینگے ، اور لندن کی طرح دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو شہری ترقی میں حصہ دار بنا کر بہتر معاشرے کی تشکیل میں اپنا فرض ادا کرینگے ، ورنہ آپریشن کبھی دیر پا ثابت نہیں ہوتے ۔</p> <p>آئندہ برسوں میں کراچی میں ایک بلکل ہی مختلف معاشرہ سامنے آئے گا۔ لہذا ہمیں اپنے سیاسی اور سماجی نظام میں بڑی تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے ، اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو سماج میں سیاسی انقطاع بڑھے گا اور اسکے نتیجے میں شہر میں معاشرتی لحاظ سے مزید تصادم پیدا ہوگا ، اور شہری معاشرہ مزید چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ جائے</p> </section> </body>
5481.xml
<meta> <title>جمعرات 19 مئی 2018 کی اہم ترین قومی و عالمی خبروں پرمشتمل نیوز بلیٹن</title> <author> <name>آئی بی سی اردو نیوز</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26335/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>3262</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جمعرات 19 مئی 2018 کی اہم ترین قومی و عالمی خبروں پرمشتمل نیوز بلیٹن
3,262
No
<body> <section> <blockquote> <p>پاکستان</p> </blockquote> <blockquote> <p>الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیےآئینی ترمیم منظور</p> </blockquote> <p>عمران خان 2013 کے انتخابات کے بعد سے الیکشن کمیشن کو 'آزاد' بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں</p> <p>پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زریں یعنی قومی اسمبلی نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی سے متعلق 22 آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہے۔</p> <p>قومی اسمبلی سے اس آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اس کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھجوایا جائے گا۔</p> <p>وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس آئینی ترمیم میں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقہ کار کو تبدیل کیاگیا ہے اور اب چیف الیکشن کمشنر کےلیے سپریم کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہونے کی شرط ختم کرد ی گئی ہے۔</p> <p>اس آئینی ترمیم کے تحت پاکستا ن کے چیف جسٹس سے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کا اختیار بھی واپس لے لیاگیا ہے اور اب الیکشن کمشن کا سنیئیر رکن چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں ادا کرسکے گا۔</p> <blockquote> <p>قومی اسمبلی میں 22 ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور</p> </blockquote> <p>اسلام آباد: قومی اسمبلی نے الیکشن کمشنرز کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق 22 ویں آئینی ترمیم کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے 22 ویں آئینی ترمیم کو شق وار منظوری کے لئے پیش کیا۔ ترمیم کے حق میں 236 ووٹ آئے جب کہ کسی بھی رکن نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ آئنی ترمیم کی منظوری پر زاہد حامد نے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا۔</p> <blockquote> <p>ٹڈاپ سکینڈل، یوسف رضا گیلانی کی عبوری ضمانت منظور</p> </blockquote> <p>کراچی: ٹڈاپ میگا سکینڈل میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی 5 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کر لی گئی جبکہ عدالت نے 23 مقدمات میں فرد جرم عائد کرنے کے لئے تاریخ مقرر کر دی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی احتساب عدالت میں پیش ہوئے جہاں ان کی آمد سے قبل پیپلز پارٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد پہلے سے ہی عدالتی احاطے میں موجود تھی۔ دوران سماعت یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے 5 مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے پرانے الزامات پر نئے مقدمات قائم کئے گئے ہیں اس لئے ان کے موکل کی عبوری ضمانت منظور کی جائے۔</p> <blockquote> <p>پنجگور میں تخریب کاری کا منصوبہ ناکام، اسلحہ برآمد</p> </blockquote> <p>پنجگور: فرنٹئیر کور بلوچستان نے حساس ادارے کیساتھ مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے پنجگور کے علاقے میں تخریب کاری کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ ترجمان ایف سی کے مطابق ایف سی اور حساس ادارے نے کارروائی پنجگور کے علاقے سبزاب میں کی جہاں شرپسند عناصر کی جانب سے ایک کمپائونڈ میں چھپایا گیا اسلحہ اور گولہ و بارود برآمد کر لیا گیا۔ برآمد کئے گئے اسلحہ اورگولہ و بارود میں 26 راکٹس، تیار شدہ آئی ای ڈیز، ایک ہزار 350 گولے، دو رائفلیں اور دستی بموں کے علاوہ سینکڑوں رائونڈز بھی شامل ہیں تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔</p> <blockquote> <p>رمضان کا چاند دیکھنےکیلئے پشاور میں اجلاس پر غور</p> </blockquote> <p>اسلام آباد: رمضان المبارک اور عید کے موقع پر چاند کی تاریخوں کے اختلاف کے خاتمے کے لیے حکومت رواں سال رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے پشاور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے پر غور کر رہی ہے۔</p> <p>حکومت نے پشاور اور دیگر شہروں کے تمام علماء کے ساتھ ملاقات کا بھی فیصلہ کیا ہے، جن میں پشاور کی مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی بھی شامل ہیں، جو عموماً رمضان کے چاند کا اعلان مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے ایک دن قبل کرتے ہیں۔</p> <blockquote> <p>عالمی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>افغانستان: پولیس افسر کے ہاتھوں 8 ساتھی قتل</p> </blockquote> <p>کابل: افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں ایک پولیس افسر نے چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے اپنے ہی 8 ساتھیوں کو ہلاک کردیا۔</p> <p>خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ میں زابل کے ڈپٹی پولیس چیف غلام جلانی فارحانی کے حوالے سے کہا ہے کہ واقعے کے ذمہ دار پولیس اہلکار صوبائی دارالحکومت قلات سے فرار ہوگیا، اپنے ساتھ اسلحہ اور گاڑی بھی لے گیا ہے۔</p> <p>ادھرطالبان کے ترجمان قاری یوسف نے ایک جاری بیان میں کہا کہ واقعے کے پیچھے ان کا گروپ ملوث ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 'فائرنگ کرنے والا اب ان کے ساتھ ہے'۔</p> <p>اس علاقہ کے ضلعی پولیس چیف شاہ محمد نے بتایا کہ صوبہ ارزگان کے ضلع دیھراود میں ایک پولیس اہلکار نے دو ساتھی اہلکاروں کو ذاتی رنجش کے باعث فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔</p> <blockquote> <p>مصری مسافر طیارہ حادثے کا شکار ہوا: فرانسیسی صدر</p> </blockquote> <p>فرانسیسی صدر نے حادثے کی تصدیق کر دی ہے</p> <p>فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ پیرس اور قاہرہ کے درمیان لاپتہ ہونے والا مصری طیارہ حادثے کا شکار ہوا ہے۔</p> <p>طیارہ اے 320 بدھ کی رات مشرقی بحیرۂ روم کے اوپر 37000 فٹ کی بلندی پر محوِ پرواز تھا جب اچانک ریڈار سے غائب ہو گیا۔</p> <p>طیارے میں 56 مسافر، تین سکیورٹی اہلکار اور عملے کے 10 ارکان سوار تھے۔ بتایا گیا ہے کہ مسافروں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔</p> <blockquote> <p>عراقی فورسز کی پیش قدمی، 15 دیہات داعش سے چھڑا لیے</p> </blockquote> <p>بغداد: عراقی فوج نے شورش زدہ صوبہ الانبار میں تازہ کارروائیوں میں اہم پیش قدمی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ "داعش" کے زیر قبضہ 15 دیہات چھڑا لیے۔ الجزیرہ آپریشنل کنٹرول روم کے سربراہ میجر جنرل علی دبعون نے "العربیہ" سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں اور الانبار صوبے قبائلی لشکر نے 8 روز قبل مشترکہ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن میں داعش کے قبضے سے پندرہ دیہات کو چھڑا لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف سرگرم عالمی اتحاد کے جنگی طیاروں کی معاونت بھی حاصل رہی۔</p> <blockquote> <p>دمشق کے جنوب مشرق کا علاقہ باغیوں کے قبضے سے نکل گیا</p> </blockquote> <p>شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے باغیوں کے قبضے سے ایک وسیع علاقے کو آزاد کرا لیا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری کے مطابق دمشق کے جنوب مشرق میں واقع اس علاقے پر خانہ جنگی شروع ہونے کے ساتھ ہی باغی قابض ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ دیار العصیر نامی ایک اہم ترین شہر سے بھی اسد مخالفین فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسد مخالف اوریئنٹ نیوز نے بھی حکومتی دستوں کی اس کامیابی کی خبر دی ہے۔</p> <blockquote> <p>آذربائیجان کی سِلک وے ایئر ویز کے جہاز کا حادثہ، نو افراد ہلاک</p> </blockquote> <p>آذربائیجان کی سِلک وے ایئر ویز کا ایک طیارہ افغانستان میں حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔ امریکی فوجی ذرائع نے بتایا کہ یہ طیارہ ہلمند کے ایک فوجی اڈے سے ٹیک آف کے دوران ہی حادثے کا شکار ہو گیا۔ بتایا گیا ہے کہ فضا میں بلند ہونے کے دوران طیارے کے پَر رن وے سے ٹکرا گئے تھے۔ اس واقعے میں نو افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو شدید زخمی افراد کو قندھار کے فوجی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ سِلک وے ایئر ویز کے مطابق زخمی ہونے والے عملے کے ارکان ہیں اور ان کا تعلق یوکرائن سے ہے۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد مشرقی یورپی شہری تھے۔</p> <blockquote> <p>ایردوآن آمرانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں، جرمن پارلیمانی اسپیکر</p> </blockquote> <p>جرمن پارلیمان کے صدر نوربرٹ لامرٹ نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ملکی پارلیمان کے ساتھ رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لامرٹ کے مطابق خاص طور پر حزب اختلاف کی کرد جماعت کے ارکان اسمبلی کو حاصل استثنٰی ختم کرنے کا منصوبہ قابل مذمت ہے۔ ان کے بقول یہ ایردوآن کے آمرانہ طرز عمل کا مظہر ہے۔ لامرٹ کے بقول افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایردوآن کے اقدامات ترکی کو جمہوری اقدار سے دور کر رہے ہیں۔ شدید بحث مباحثے کے بعد گزشتہ منگل کے روز ترک پارلیمان نے ایک چوتھائی ارکان کو حاصل ان کے خلاف کسی بھی ممکنہ قانونی کارروائی سے استثنیٰ ختم کرنے کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔</p> <blockquote> <p>اقوام متحدہ کے تحفظ ماحول کے ادارے کی سربراہی میکسیکو کی ایک سفارت کار کے حوالے</p> </blockquote> <p>میکسیکو کی ایک سفارت کار اقوام متحدہ کے تحفظ ماحول کے ادارے کی اگلی سربراہ ہوں گی۔ اس عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون نے سویڈن میں ایک اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ اب یہ ذمہ داریاں پیٹریشیا ایس پینوزا کے سر ہوں گی۔ 57 سالہ ایس پینوزا نے اس موقع پر کہا کہ وہ بہت شکر گزار ہیں اور یہ عہدہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ اس سے قبل وہ جرمنی میں میکسیکو کی سفارت کار رہ چکی ہیں۔کوسٹا ریکا کی کرسٹیانا فیگیرس جولائی میں چھ سال بعد اس عہدے سے الگ ہو رہی ہیں۔</p> <blockquote> <p>سری لنکا: مٹی کے تودوں کی زد میں آ کر پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں</p> </blockquote> <p>سری لنکا میں مٹی کے تودے گرنے سے تقریباً پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ شدید بارشوں کے بعد مٹی کے تودے گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جن کی زد میں آ کر ہزارہا شہری متاثر ہوئے۔ امدادی تنظیم ریڈ کراس کے مطابق کولمبو سے شمال کی جانب تین گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہیں اور انہی دیہات میں قریب 400 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ برے موسمی حالات اور ان کے نتائج کی وجہ سے ملک بھر میں ڈھائی لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔</p> <blockquote> <p>ایڈومنی کے مہاجر کیمپ میں ہنگامہ آرائی، چھ افراد زخمی</p> </blockquote> <p>یونان میں ایڈومنی کے مہاجر کیمپ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں چھ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ ایک یونانی ریڈیو کے مطابق زخمی ہونے والوں میں چھ مظاہرین اور دو پولیس اہلکار شامل ہیں۔ پولیس نے بتایا ہے کہ تقریباً تین سو مہاجرین ٹرین کی ایک بوگی کی مدد سے مقدونیا کی سرحد پر نصب باڑ کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔بتایا گیا ہے کہ اس مہاجر کیمپ میں حالات اب معمول پر آ گئے ہیں۔ یونانی حکومت مئی کے اوائل میں اس مہاجر کیمپ کو ختم کرنا چاہتی تھی تاہم یہ کام انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔</p> <blockquote> <p>بینالی یلدرم ترکی کے نئے وزیر اعظم ہوں گے، ذرائع</p> </blockquote> <p>بینالی یلدرم ترکی کے نئے وزیر اعظم اور حکمراں اے کے پی پارٹی کے نئے سربراہ ہوں گے۔ اے کے پی کے ایک اجلاس میں ساٹھ سالہ یلدرم کو نامزد کیا گیا ہے اور اس فیصلے کا اتوار کو جماعت کے خصوصی اجلاس میں باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔ بینالی یلدرم اس سے قبل وزیر نقل و حمل رہ چکے ہیں اور ان کا شمار صدر رجب طیب ایردوان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ احمد داؤد اولو نے ابھی گزشتہ دنوں حکومت کی سربراہی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ترکی میں پارلیمانی نظام ہوتے ہوئے بھی صدر ایردوآن کو ہی حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے۔</p> <blockquote> <p>مصری حکام طیارے کے حادثے کی وجہ جاننے کی کوششوں میں مصروف</p> </blockquote> <p>مصری فضائی کمپنی ایجِپٹ ایئر کا ایک طیارہ بحیرہ روم میں گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ طیارہ قاہرہ میں اترنے سے بیس منٹ قبل ریڈار سے غائب ہو گیا تھا۔ ایجِپٹ ایئر کی پرواز ایم ایس 804 پیرس سے قاہرہ جا رہی تھی۔ اس طیارے پر کل 66 افراد سوار تھے، جن میں سے 56 مسافر تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پینتیس مصری جبکہ پندرہ فرانسیسی شہری شامل ہیں۔ اس واقعے کے بعد پیرس اور قاہرہ میں ہنگامی اجلاس طلب کر لیے گئے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حادثہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے رونما ہوا ہے یا پھر یہ کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی۔</p> <blockquote> <p>نیٹو میں شامل ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس</p> </blockquote> <p>مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ممالک کے وزرائے خارجہ آج بیلجیم کے دارالحکومت میں مل رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اجلاس میں فوجوں کی تعیناتی کے بارے میں طے کیے جانے والے معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔ نیٹو اتحاد اپنے ساتھی مشرقی یورپی ملکوں میں مزید فوجی بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے، تا کہ یہ ملک کسی مشکل گھڑی میں خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ اس بارے میں نیٹو نے اپنا فیصلہ مشرقی یوکرائن میں روسی مداخلت کے بعد کیا تھا۔ نیٹو کے اس عمل کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اس کی اب تک کی سب سے بڑی عسکری تیاری قرار دیا جا رہا ہے۔</p> <blockquote> <p>چینی طیارے امریکی جاسوس طیارے سے ٹکرانے سے بچ گئے</p> </blockquote> <p>امریکی وزارت دفاع کے مطابق دو روز پہلے دو چینی جنگی طیاروں نے ایک امریکی جاسوس طیارےکو روکنے کی کوشش کی۔ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ بحیرہ جنوبی چین کی بین الاقوامی فضائی حدود میں پیش آیا۔ واشنگٹن انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق امریکی طیارہ اپنی معمول کی پرواز پر تھا۔ بیجنگ میں حکام نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین کے متعدد جزائر پر چین اپنی ملکیت کا دعوٰی کرتا ہے اور یہ دعویٰ کئی پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعے کی وجہ بھی ہے۔ یہ سمندری راستہ خام تیل کی ترسیل کی ایک انتہائی اہم آبی گزرگاہ بھی ہے۔</p> <blockquote> <p>آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی جیت گئی</p> </blockquote> <p>بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاست آسام کے انتخابات میں کامیابی کا دعوٰی کیا ہے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق بی جے پی کو 126 میں سے 81 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ 2001ء سے اس ریاست میں حکومت کرنے والی کانگریس پارٹی کے حصے میں صرف 26 سیٹیں آئی ہیں۔ نریندر مودی نے اسے ایک غیر معمولی فتح قرار دیتے ہوئے پارٹی رہنماؤں کو مبارکباد دی ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بی جے پی اس شمال مشرقی بھارتی ریاست میں کامیاب ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں پانچ بھارتی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان آج جمعرات کو کیا جا رہا ہے۔</p> <blockquote> <p>نیتن یاہو نے سابق حریف کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپ دیا</p> </blockquote> <p>اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنی مخلوط حکومت میں ایک اور سیاسی جماعت کو شامل کر لیا ہے۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق انتہائی سخت گیر نظریات کے حامل ایوگڈور لیبرمین نے نیتن یاہو کی دعوت قبول کر لی ہے۔ انہیں وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق لیبرمین کے حکومت میں شامل ہونے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کے امکانات مزید کم ہو گئے ہیں۔ نیتن یاہو اور لیبرمن کا شمار ایک دوسرے کے حریفوں میں ہوتا تھا۔ اس طرح اب نیتن یاہو کو پارلیمان میں اپنی اکثریت کے حوالے سے کوئی فکر نہیں رہی۔</p> <blockquote> <p>ترکی اور یورپی یونین میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے</p> </blockquote> <p>پناہ گزینوں سے متعلق معاہدے کے بعد ترکی اور یورپی یونین میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ انقرہ میں سفارتی ذرائع نے بتایا کہ تازہ کشیدگی کا تعلق ترکی میں یورپی یونین کے مشن کے سربراہ ہنس یورگ ہابرس کی ایک رپورٹ سے ہے۔ اس رپورٹ میں ہابرس نے پناہ گزینوں سے متعلق معاہدے کے دوران ترکی کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آج کل ترک شہریوں کے یورپی یونین میں ممکنہ طور پر ویزہ فری داخلے کا موضوع متنازعہ بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین نے انقرہ حکومت سے 72 شرائط پوری کرنے کے لیے کہا ہے۔</p> <blockquote> <p>جرمن شہریوں کی اکثریت کو مہاجرین سے کوئی مسئلہ نہیں، ایمنسٹی</p> </blockquote> <p>ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جرمن شہریوں کی اکثریت نے مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کے ایک تازہ جائزے کے نتائج کے مطابق صرف پانچ فیصد جرمن شہری ایسے ہیں، جو یہ چاہتے ہیں کہ جنگ اور ظلم و زیادتی سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے پناہ گزین جرمنی کی بجائے کسی اور ملک میں جا کر پناہ لیں۔ اس جائزے میں شامل نصف سے زائد افراد کو اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ ان کا پڑوسی کوئی پناہ گزین ہو جبکہ دس فیصد تو کسی پناہ گزین کو اپنے گھر میں رکھنے پر بھی تیار ہیں۔</p> <blockquote> <p>وینزویلا میں صدرمادورو کے خلاف ملک گیر احتجاج جاری</p> </blockquote> <p>وینزویلا میں صدر نکولس مادورو کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز تقریباً بیس شہروں میں مسلسل تیسرے دن ملکی صدر کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ دارالحکومت کراکس میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے علاوہ ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا۔ وینزویلا گزشتہ کئی برسوں سے اقتصادی مسائل کا شکار ہے اور سیاسی سطح پر بھی مادورو کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملکی اپوزیشن نے فوج اور عوام سے سول نافرمانی شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔</p> <blockquote> <p>مقدونیہ میں پارلیمانی انتخابات ملتوی</p> </blockquote> <p>مقدونیہ میں پانچ جون کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حزب اختلاف کی تین جماعتوں نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ ان جماعتوں کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات شفاف اور غیر جانبدار انداز میں نہیں کرائے جا سکتے۔ یورپی یونین نے بھی انتخابات ملتوی کر دینے کی دخواست کی تھی۔ مقدونیہ میں صدر گیورگے ایوانوف کی جانب سے جاسوسی کے ایک اسکینڈل میں ملوث پچاس افراد کو عام معافی دینے کے فیصلے کے خلاف سیاسی مزاحمت شروع ہو گئی تھی۔</p> <blockquote> <p>کھیلوں کی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>انگلینڈ بھی ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کیلئے تیار</p> </blockquote> <p>لندن: انگلش کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کولن گریوز نے کہا ہے کہ انگلینڈ پہلے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کی میزبانی کیلئے تیار ہے۔</p> <p>گزشتہ سال نومبر میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایڈیلیڈ میں تاریخ کا پہلا ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تھا جس کی عوامی سطح پر کافی پذیرائی کی گئی تھی۔</p> <p>رواں سال پاکستان اور ہندوستان بھی اپنا پہلا ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلیں گے جبکہ سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی اس پر غور کر ہے ہیں جہاں دونوں ملکوں ڈومیسٹک سطح پر ٹرائلز کے نتائج کے منتظر ہیں۔</p> <p>انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بی بی سی اسپورٹس کو انٹرویو میں کہ آپ اس سے منہ نہیں موڑ سکتے، یہ ہو کر رہے گا۔</p> <p>انہوں نے کہا ہ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ کب ہو گا، ہم اس پر کافی کام کر رہے ہیں اور ہم ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ دیکھنا پسند کریں گے۔</p> <p>تاریخ کا پہلا ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ صرف تین دن میں ختم ہو گیا تھا جس میں کھلاڑیوں نے پنگ گیند کو دیکھنے میں مشکلات کی شکایات کی تھیں.</p> <blockquote> <p>دہشت گرد فرانس میں یورپی فٹ بال مقابلوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، جرمن پولیس</p> </blockquote> <p>فرانس میں ہونے والی یورپی فٹ بال کپ کے دوران دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ہے۔ وفاقی جرمن پولیس کے مطابق بارہ جون کو فرانس اور رومانیہ کے مابین کھیلا جانے والا افتتاحی میچ دہشت گردوں کا ممکنہ ہدف ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مزید بتایا گیا کہ علامتی اور آسان اہداف کو نشانہ بنانے میں زیادہ اموات ہوتی ہیں اور ایسے واقعات ذرائع ابلاغ میں زیادہ جگہ پاتے ہیں۔ یورپی فٹ بال چیمپئن شپ کے دوران فرانس میں دس ہزار سے زائد اہلکار ذمہ داریاں ادا کریں گے جبکہ دس مختلف اسٹیڈیمز میں ہونے والے ہر مقابلے کے موقع پر نو سو کا اضافی عملہ حفاظت پر مامور کیا جائے گا۔</p> <blockquote> <p>شوبز</p> </blockquote> <blockquote> <p>وائکنگ ڈراموں کا ڈنمارک کی سیاحت پر مثبت اثر</p> </blockquote> <p>اطلاعات کے مطابق وائکنگز کے بارے میں ٹی وی ڈراموں کی مقبولیت کی وجہ سے ڈنمارک کے تاریخی مقامات پر سیاحوں کی آمد پر مثبت اثر پڑا ہے۔</p> <p>ملک کے آثارِ قدیمہ کے متعلقہ عملے نے سرکاری ٹی وی ڈی آر کو بتایا ہے کہ برطانیہ میں تیار کیے جانے والے ڈرامے 'لاسٹ کنگڈم' اور ہسٹری چینل کے 'وائکنگز' کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد بڑھی ہے۔</p> <p>ڈنمارک کے مشرقی شہر راسکلڈ میں واقع وائکنگ شپ میوزیئم میں آنے والوں کی تعداد گذشتہ برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے اور 2015 کے مقابلے میں اس برس یہاں 12 ہزار سیاح زیادہ آئے ہیں۔</p> </section> </body>
5482.xml
<meta> <title>آدھا تیتر آدھا بٹیر</title> <author> <name>عماد ظفر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26355/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1288</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
آدھا تیتر آدھا بٹیر
1,288
No
<body> <section> <p>بنیادی جبلتوں پر پابندی اور فطرت سے جنگ کرنا شاید بطور معاشرہ ہماری سرشت میں شامل ہو چکا پے.ایک ایسا معاشرہ اور اور ملک جس نے دہائیوں تنگ نظری اور شدت پسندی کی چھتری تلے نسلیں پروان چڑھوا کر ایک ایسا ماحول اور نسلیں تیار کیں جہاں آزادی اظہار خواہ وہ جبلتوں دوارے ہو یا پھر شخصی زندگی گزارنے دوارے ان کو نہ صرف ناپسند کیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے. یوں کہیے کہ ایک تنگ نظری اور شدت پسندی کی فصیل میں ہمیں آج بھی مقید رہنا اچھا لگتا ہے اور کوئی بھی اگر اس فصیل سے باہر جھانکنا چاہے تو اس کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے.</p> <p>ہم نے تنگ نظری اور شدت پسندی کا انجام خوب اچھی طرح بھگتا بھی ہے ،کہیں فرقہ واریت کہیں مذہب کہیں خلافت اور کہیں غیرت اور بے حیائی کے نام پر ہم لاکھوں جانیں گنوا بیٹھے ہیں لیکن حرام ہے جو ہمارے کانوں پر جوں تک رینگی ہو.آج بھی کمال ڈھٹائی سے ہم اسی تنگ نظری شدت پسندی اور جبر کی گھٹن معاشرے میں قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں.حال ہی میں ملک کی مختلف جامعات میں پڑھنے والے طلبا اور طالبات کو جامعات کی انتظامیہ کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے کہ جامعات میں لڑکا یا لڑکی اکھٹے اکیلے نہیں بیٹھ سکتے کیوں کہ یہ ہماری روایات یا تہزیب کے خلاف ہے البتہ اگر گروپ کی شکل میں بیٹھنا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں.اکیسویں صدی کے اندر ملک کی جامعات کی اعلی انتظامیہ کے اہلکاروں کی ترجیحات ملاحظہ فرمائیے کہ بجائے علم و تحقیق پر وقت صرف کرنے اور طلبا و طالبات کو ریسرچ کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں مدد فراہم کرنے کے ان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کہیں طلبا اور طالبات ہمارے کلچر کو تباہ نہ کر دیں.</p> <p>آفرین ہے ایسی جامعات کے ذہین و فطین چانسلرز اور وائس چانسلرز اور دیگر اساتذہ پر اور اس امر سے یہ اندازہ کرنا ہرچند مشکل نہیں کہ تعلیم کے شعبہ میں موجود طالبانی مائینڈ سیٹ ابھی بھی بھرپور قوت اور توانائی کے ساتھ بنجر اذہان تیار کرنے میں مگن ہے. مائینڈ سیٹ تیار کرنے میں اساتذہ کا اور سکول کالج اور جامعات کے ماحول کا گہرا تعلق ہوتا ہے. جو استاد یا تعلیمی درسگاہ سارا دھیان لڑکے لڑکیوں کے آپس کے میل جول پر ہی رکھے تو پھر نتیجتا علم و تحقیق کے میدان میں دنیا کی اقوام کی فہرست میں آخری نمبروں پر آنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں. یہی وجہ ہے کہ تحقیق نت نئے ایجادات کے شعبے میں ہمارا شمار دنیا کی آخری نمبر کی اقوام میں ہوتا ہے. البتہ حیرانگی ہماری روایات اور کلچر کے بارے میں ضرور ہے کہ آخر یہ اتنا کمزور کیوں ہے کہ قدم قدم پر اسے ہر وقت نقصان پہنچنے کا ہی احتمال رہتا ہے. آخر ایک بالغ و عاقل لڑکا لڑکی جامعات میں اکیلے کیوں نہیں بیٹھ سکتے اور کیا ان کے اکیلے نہ بیٹھنے سے ہماری جامعات کی تعلیم و تحقیق کے معیار میں بہتری آ سکتی ہے. یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب بھی آپ لڑکے یا لڑکی کو ایک دوسرے سے تعلیمی درسگاہوں میں یا کسی بھی تعمیری اور مثبت سرگرمی میں میل جول سے روکیں گے تو وہ مثبت سرگرمیوں اور تعمیری سوچ پر وقت صرف کرنے کے بجائے ان فرسودہ پابندیوں کی بیڑیوں کے خلاف سوچتے یا ان میں بندھ کر غیرت اور حیا کے تصور کو بنیادی جبلتوں سے نتھی کر بیٹھیں گے اور یوں غیرت کے نام پر قتل یا بے حیائی اور عریانی کے خلاف نعرے مارتی نسلیں پروان چڑھتی ہی رہیں گی جن کی تحقیق کا ماخذ ناف سے نیچے ناڑا باندھنا ، اور آج کی جدید سائینسی یا علمی تحقیقات کو کئی صدیوں پہلے اپنی مذہبی اور علمی سرگرمیوں کی بدولت قرار دینے پر مبنی ہو گا.</p> <p>بجائے طلبا اور طالبات کو اعتماد کی فضا دینے اور ایک دوسرے کو سمجنے کے ان کے میل جول پر پابندی لگانا واضح ثبوت ہے کہ طالبان مائینڈ سیٹ تعلیم کے شعبہ میں کامیابی سے اپنا زہر اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب ہے. جامعات کا اس قسم کے نوٹسز جاری کرنا یقینا حکومت کی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیِ ہے اور یہ بات پھر ہماری شدت پسندی ختم کرنے کے خلاف جنگ اور شدت پسند بیانیے کے خاتمے کے بارے میں سنجیدگی پر سوالات کھڑے کر دیتی ہے. یعنی پالیسی ساز اب بھی محمد بن قاسم یا دوسری قبائلی تہذیبوں کے جنگجوؤں کی ہمراہ ساتھ لائی گئی روایات کو اپنی روایات سمجھ کر معاشرے پر جبرا قبائلی رسومات اور سوچ تھوپنا چاہتے ہیں.</p> <p>اس ضمن میں دانشور بھی پیچھے نہیں اوریا مقبول جان جو آج تک اپنی 22 ویں گریڈ میں ترقی نہ ہونے کی فرسٹریشن نوجوانوں کو گمراہ کر کے نکال رہے ہیں یا پھر انصار عباسی جنہیں دل سے طالبانی حکومت کا انداز پسند ہے انہوں نے بھی اس قسم کے اقدامات کی حوصلہ افزائی فرمائی. انصار عباسی صاحب تو چھاتی پھلا کر پوچھتے پھر رہے تھے کہ وہ لوگ جو جامعات میِں لڑکا لڑکی کے آپس میں اکٹھا بیٹھنے کے فیصلے کے خلاف ہیں کیا وہ اپنی بیٹیوں کو جامعات میں لڑکوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دیں گے .یعنی ایک سینئر صحافی اور اپنے آپ کو دانشور کہلوانے والے کی سوچ کا معیار اور غیرت کا تصور عورت کی زات سے نتھی ہے. جناب انصار عباسی سے عرض ہے کہ مجھے سب کا تو پتہ نہیں لیکن بحیثیت ایک بیٹی کے باپ کے میں یہ کیہ سکتا ہوِ کہ کم سے کم مجھے تو کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میری بچی کو میرے شک اور میرے وہم کی نہیں بلکہ یقین اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کل کو اس نے تخلیقی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑنے ہیں جہاں اسے ہزارہا مخالف جنس کے لوگوں سے مقابلہ کرنا ہو گا یا پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی میں ان سے میل جول رکھنا ہو گا.</p> <p>اسی طرح میرے بیٹے کو بھی کم و بیش انہی مراحل سے گزرنا ہو گا تو کیا میں ہر وقت اولاد کو باندھ کر بھیڑ بکریاں بنا کر رکھوں اور انصار عباسی اور اوریا مقبول جان کے کالم پڑھوا کر سیلیکان ویلی کے بجائے کابل کی طالبانی ویلی یا داعش کی جنگجو کمپنی کا پرستار بنواوں؟. خود حکومت وقت کو بھی اس قسم کے مضحکہ خیز نوٹسز یا اقدامات اٹھانے سے گریز کرنا چائیے. اپنی مرضی سےزندگی بسر کرنے کی آزادی ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور کوئی مذہبی چورن فروش یا فرسودہ روایات کا علمبردار یہ حق کسی دوسرے پر جبرا مسلط نہیں کر سکتا. اور حکمران جماعت کا نیا چہرہ تو خود ایک عورت محترمہ مریم نواز ہیں تو کم سے کم پنجاب کے اندر جامعات میں اس طرح کے نوٹسسز دے کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟</p> <p>بجائے پنجاب یونیورسٹی اور دیگر جامعات سے شدت پسند تنظیمیوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور ان تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کرنے کے ان کی حوصلہ افزائی کرنا اپنی نئی نسل کو تعصب اور جہالت کے اندھیروں میں پھینکنے کے مترادف ہے. پالیسی سازوں کو سب سے پہلے سماجی ڈھانچے اور اس خطے کی اصل ثقافت اور روایات کو سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے. برصضیر کی ثقافت ہزارہا برسوِ پر محیط ہے اور عرب یا فارسی قبائلی ثقافتوں سے بے حد مختلف ہے. جو بچے جامعات میں پڑھ رہے پیں ان پر قدغنیں لگا کر صدیوں پہلے کے فرسودہ نظریات بانٹنا بند کیجئے. بصورت دیگر ہمیں اسی قسم کے معاشرے میں سانس لینا ہو گا جو اپنی ثقافت کے علاوہ ہر قوم کی باہر سے درآمد شدہ قبائلی رسومات کو مان کر تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اپنا تشخص کھو کر "آدھا تیتر آدھا بٹیر" بن چکا ہے.</p> </section> </body>
5483.xml
<meta> <title>عراقی فورسز کی پیش قدمی، 15 دیہات داعش سے چھڑا لیے</title> <author> <name>آئی بی سی اُردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26383/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>276</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
عراقی فورسز کی پیش قدمی، 15 دیہات داعش سے چھڑا لیے
276
No
<body> <section> <p>بغداد: عراقی فوج نے شورش زدہ صوبہ الانبار میں تازہ کارروائیوں میں اہم پیش قدمی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ "داعش" کے زیر قبضہ 15 دیہات چھڑا لیے۔</p> <p>الجزیرہ آپریشنل کنٹرول روم کے سربراہ میجر جنرل علی دبعون نے "العربیہ" سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں اور الانبار صوبے قبائلی لشکر نے 8 روز قبل مشترکہ آپریشن شروع کیا تھا۔</p> <p>اس آپریشن میں داعش کے قبضے سے پندرہ دیہات کو چھڑا لیا گیا ہے۔</p> <p>انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف سرگرم عالمی اتحاد کے جنگی طیاروں کی معاونت بھی حاصل رہی۔</p> <p>میجر جنرل دبعون کا کہنا تھا کہ داعش سے آزاد کرائے گئے دیہات تزویراتی اہمیت کے حامل علاقوں کے درمیان واقع ہیں۔</p> <p>یہ دیہات ایک طرف عین الاسد فوجی اڈے سے متصل ہیں اور دوسری جانب حدیثہ اور دریائے فرات کے دائیں کنارے پر پھیلے ہوئے ہیں۔</p> <p>انہوں نے بتایا کہ داعش سے قبضے سے آزاد کرائے گئے دیہات میں الوردیہ، الربعی، عوینات، صوینج۔</p> <p>ابو العلا، البرازیہ، جبہ اور دیگر شامل ہیں۔قبل ازیں عراقی فوج نے الانبار میں الرطبہ شہرداعش سے چھڑانے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا۔</p> <p>آپریشنل چیف جنرل ھادی رزیج نے بتایا کہ الرطبہ شہر کو داعش سے آزاد کرا لیا گیا ہے اور اب فورسز گھروں میں نصب کی گئی بارودی سرنگیں صاف کر رہی ہیں۔</p> <p>الرطبہ شہر کو داعش سے چھڑانے کے بعد بغداد کو عمان اور دمشق سے ملانے والی عالمی شاہراہ پر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کر کے تلاشی کا عمل زیادہ سخت کر دیا ہے۔</p> <p>یہ عالمی شاہراہ اردن کی سرحد کے قریب طرییبل گذرگاہ سے کچھ فاصلے پر الرطبہ شہر سے بھی ملتی ہے۔</p> </section> </body>
5484.xml
<meta> <title>سیاسی زبان درازیاں اور عمران خان</title> <author> <name>فرحان احمدخان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26398/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>555</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سیاسی زبان درازیاں اور عمران خان
555
No
<body> <section> <p>عمران خان نے اب کی بار اسمبلی میں بہت اچھی تقریر کی ۔ مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف نے جوابی خطاب فرمایا ۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ نواز کے باقی وزراء اور ٹی وی مباحثوں کے جنگجوؤں کی طرح عمران خان کو نامناسب لب ولہجہ استعمال کرنے والا سیاست دان قرار دیا ۔ ایوان میں خواجہ آصف کے خطاب کے دوران میاں صاحب کی اطلاعات کے وزیر پرویز رشیدبھی انہیں لفظی کُمک بہم پہنچاتے رہے ۔ ان کی تلقین کردہ لفظیات بھی کارروائی سے حذف کیے جانے کے قابل تھیں ۔ پھر خواجہ آصف نے جوش خطابت میں عمران خان کو پنجابی میں "مِیسنا" کہہ دیا اور پھر اس بلیغ لفظ کی تشریح بھی فرمائی۔ سامنے بیٹھے قائد حزب اختلاف کو پنجابی زبان میں سراہتے ہوئے کہا کہ شاہ جی!آپ نے بہت اچھا کیا کو اسے پریس کانفرنس کے دوران "نُکرے" لگائے رکھا ۔ یہ سن کر خورشید شاہ کے سپاٹ کے چہرے پر منفی یا مثبت کوئی تأثر نہیں آیا ۔پرانے سیاست دان ہیں ۔چہرے کے تأثرات پر قابو رکھ سکتے ہیں ۔</p> <p>میرے دوست نے درست کہا کہ یہ لوگ جتنی بھی توانائی صرف کر لیں عمران خان کو کرپٹ ثابت نہیں کر سکیں گے ۔ اب اگر عمران خان پریس کانفرنس میں خورشید شاہ کے عقب میں کھڑے ہو گئے تو اس پر حکومتی وزراء کی فوج کیوں بغلیں بجا رہی ہے ۔ یہ اور کچھ نہیں صرف اور صرف بوکھلاہٹ ہے جس کا اظہار وہ کر رہے ہیں ۔ عمران خان نے ایوان کے فلور پر کہا کہ اگر میں کچھ دیر کے لیے پیچھے کھڑا ہو بھی گیا تو کیا قیامت آ گئی ہے ۔ عمران خان پر الزام ہے کہ اس کا رویہ ہمیشہ غیر جمہوری قسم کا رہا ہے ۔اب اگر وہ جمہوری انداز میں چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں توبوکھلائے ہوئے حکومتی وزیروں اور مشیروں کی جانب سے طعنہ زنی شروع ہو جاتی ہے ۔</p> <p>میرا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ عمران خان کوئی بہت بڑا وژینری رہنما ہے جو پاکستان کو بدل کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ وہ اس عہد کا مقبول ترین سیاست دان ہے ۔المیہ مگر یہ ہے کہ اسے بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے مشیر میسر آئے ہیں ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی روایت میں غیر مناسب زبان کی ترویج کا سہرا عمران خان کے سر ہے ،انہیں چاہیے کہ اخبارات کی پرانی فائلیں جھاڑ کر لیاقت علی خان، ایوب خان، محترمہ فاطمہ جناح ،ذوالفقارعلی بھٹو،ضیاء الحق،شیخ رشید، شہباز شریف وغیرہ کی زبان بیان کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کر لیں ۔ بھٹو صاحب تو اس میدان کے شہہ سوار رہ چکے ہیں ۔</p> <p>عمران خان سے اختلاف ضرور کیجیے لیکن ٹھوس بنیادوں پر ۔ سیاسی اخلاقیات کے بھاشن اس وقت اچھے لگتے ہیں جب آپ خود بھی کوثر وتسنیم میں دھلی زبان استعمال کرتے ہوں ۔ میاں صاحب کی ایوان میں موجودگی کے دوران اگر ان کا کوئی وزیرِ بے تدبیر مخالفین کی نامناسب لفظوں کے ساتھ دھجیاں اڑا رہا ہو اور میاں صاحب اپنے سُرخ گال کو مُٹھی پر ٹِکائے خاموشی سے انجوائے کر رہے ہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ انہیں میاں صاحب کی تائید حاصل ہے ۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ پہلے آپ اپنے گھر میں شائستگی کی مثال قائم کیجیے اورپھر دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے نکلیے ۔</p> </section> </body>
5485.xml
<meta> <title>اپنی حالت کیسے بدلیں ؟</title> <author> <name>امیر محمد اکرم اعوان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26498/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>4036</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
اپنی حالت کیسے بدلیں ؟
4,036
Yes
<body> <section> <p>نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا</p> <p>ارشاد باری ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد :۱۱) کہ اﷲ کریم کسی قوم کے حالات کو تبدیل نہیں فرماتے، درست نہیں فرماتے جب تک وہ قوم اپنے آپ کو، جب تک حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ اس کے افراد اپنے آپ کو، اپنے کردار کو ، اپنے طرز عمل کو درست نہیں کرلیتے ،کسی نے بہت اچھا شعر کہا ہے اور ترجمے کا حق ادا کردیا ہے کہ</p> <p>خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی</p> <p>نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا</p> <p>ہم جس دور میں گزر رہے ہیں اس ملک کوبنے ہوئے تقریبا ً پون صدی ہونے کو آئی ہے اس پون صدی میں ہمارا آنے والا ہردن سیاسی طور پر،معاشی اوردینی طور پربھی پہلے سے خراب ہوتا جارہا ہے کردار کے اعتبار سے زندگی کے کسی شعبے میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی ،بنیادی حقیقت یہ ہے کہ د نیا کا خوشحال ترین خطہ پاکستان کے نام پر اﷲ نے ہمیں عطاکیا ، باقی برصغیر بھی اس خطے کی وجہ سے مشہور تھا سب سے زیادہ انسانی زندگی کے وسائل اس ایک خطے میں موجود ہیں بلکہ پاکستان کے گردا گرد اگر دیوار بنا دی جائے تاکہ بیرونی دنیا سے اس کا کوئی رابطہ نہ ہو تواس ملک میں زندگی کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے یہ واحد ملک ہے جو <annotation lang="en">survive</annotation> کرسکتا ہے دنیا کا کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں ہے جس میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں موجود ہوں دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں آج بھی دنیا میں موجود ہیں یہ سارے وہ علاقے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے فتح کیے تھے یہ اﷲ کی ایسی حکمت ہے کہ جو علاقے صحابہ کرام ؓ کے عہد میںاورخلافت راشدہ کے عہد میں حلقہ اقدار میں آئے اور اسلامی ریاست کا حصہ بنے وہ سب ابھی تک اسلامی ریاستوں کے طورپر موجود ہیں یہ صحابہ کرامؓ کی اور خلافت راشدہ کی برکات کا ایک پہلو ہے کہ وہ زمین اﷲ کے نام سے خالی نہیں ہوئی اس میں آج کے دور کے مسلمانوں کا یاچودہ صدیاں میں گزرنے والے لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔</p> <p>برصغیر میں تعلیمی نظام بہت اعلیٰ تھا چپے چپے پر یونیورسٹیاں تھیں شاہ و گدا سب ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ، فقیر کا بچہ جہاں ہوتا، بادشاہ کے بیٹے بھی وہیں آکرپڑھتے تھے۔ زندگی کے ہر شعبے کے لوگ ،ماہرین تعلیم ،ڈاکٹر،سائنٹسٹ ، مورخ، سپاہی ، جرنیل،حکمران ،سیاست دان انہی یونیورسٹیوں سے نکل کر آتے تھے جنہیں جامعات کہا جاتا تھا اب تو ہم جہاں جمعہ کی نماز پڑھیں وہاںبورڈ لگا دیتے ہیں جامع مسجد کاجامعہ کا مطلب ہے یونیورسٹی انگریزی لفظ یونیورسٹی کا عربی ترجمہ جامعہ ہے یہ جامعات خود کفیل تھیںمسلمان حکمرانوں نے انہیں بڑی بڑی جاگیریں دیںان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ہوتے تھے اس کی آمدن سے بچوں کی تعلیم ،کتابیں ،کھانا پینا ،اساتذہ کی رہائش ، تنخواہ،اکیڈمی کی تعمیر،تمام اخراجات پورے ہوتے اور آپ حیران ہوںگے کہ انگریز نے جب اس ملک پر قبضہ کیا تو جو رپورٹ لارڈ کلائیو نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں دی تھی اس کی ایک تصدیق شدہ کاپی ابھی تک میرے پاس موجود ہے اس میں وہ کہتا ہے حالانکہ مسلمان حکمرانوں کو اور ان کی حکومت کو کمزور ہوتے ہوتے گئے ہوئے بھی برسوں بیت چکے پھر اس کے بعد پنجاب پر سکھوں کا اقتدار آگیا دہلی پر مرہٹے چھا گئے اور یوں جگہ جگہ خانہ جنگی ہوئی اوراپنی اپنی حکومتیں بن گئیں اور وار لارڈزبن گئے اس کے باوجود جب انگریز نے قبضہ کیا اور لارڈ کلائیو نے جو رپورٹ دی وہ کہتا ہے کہ میں نے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پورے ہندوستان کا سفر کیا ہے مجھے کوئی گداگر نظر نہیں آیا اور میں نے کوئی چور نہیں دیکھا یعنی معاشی حالت اس ساری تباہی کے باوجود ایسی تھی کہ یہ اس کے الفاظ میں <annotation lang="en">i found no thief and no beggar</annotation> کوئی چور اور کوئی گداگر میں نے نہیں دیکھا آگے وہ لکھتا ہے کہ اس پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور مسلمانوں کا اس وقت لٹریسی ریٹ چراسی پرسنٹ تھا یعنی مسلمانوں میں چوراسی پرسنٹ وہ لوگ تھے جو فاضل تھے ،جوپڑھے لکھے تھے اب تو ہم جو لٹریسی ریٹ دیتے ہیںاس میں جو نام لکھ سکتا ہے اسے ہم پڑھا لکھا بنا دیتے ہیں اس زمانے میں جو پوری طرح سے پڑھے لکھے <annotation lang="en">well qualifed</annotation> لوگ تھے ماسٹرر تھے انہیں پڑھا لکھا شمارکیاجاتا تھا اور مسلمانوں میںوہ چوراسی فیصد تھے تو اس نے تجویز دی کہ ہم اس قوم پر حکومت نہیں کر سکتے اگر ہمیں حکومت کرنا ہے تو اس کی <annotation lang="en">we have to break their backbone</annotation> یہ اس کے الفاظ ہیںکہ ہمیںان کی ریڑھ کی ہڈی توڑنی ہو گی اور وہ ان کا نظام تعلیم ہے ا س رپورٹ میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں ایسا نظام تعلیم متعارف کرانا ہو گا جس میں مسلمانوںکی تہذیب کو گھٹیا ظاہر کیا جائے اور ہماری تہذیب کو اعلیٰ ظاہر کیا جائے اور لوگ ہماری تہذیب کو اپنانا شروع کردیں پھر ہم مسلمانوں کو غلام بنا سکتے ہیں اس کا وہ نسخہ اتنا کارگر ثابت ہوا کہ پون صدی ہوگئی ہمیں آزاد ہوئے آج بھی ہمارا صدر مملکت خطاب فرماتا ہے تو انگریزی میں وزیراعظم بولتا ہے تو انگریزی میں وزیر بات کرتے ہیں تو انگریزی میں۔ لباس اوپر سے نیچے تک صدر سے لے کر ایک عام تحصیلدار،نا ئب تحصیلدار تک انگریز کا ہے تہذیب وہی ہے اس غلامی ، محکومی اور ذلت سے ہم نکل ہی نہیں سکے پاکستان بنا ،کہا گیا ہم آزاد ہو گئے لیکن یہ آزادی وہی ہے جو اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے نجومی کے طوطے کو ملی ہوتی ہے کہ وہ پنجرے سے نکلتا ہے ایک کارڈ اٹھاتا ہے پھر خود بخود پنجرے میں چلا جاتا ہے اسے کوئی بند نہیں کرتا ،تالا نہیں لگاتا آزاد ہی ہوتا ہے ہم بھی اس طوطے کی طرح آزاد ہیں کہ عدالتی ،تعلیمی اورسیاسی نظام وہی ہے بلکہ اس سے بے بدتر ہوگیا ہے۔</p> <p>یہ نظام کیوں نہیں بدلا جاتا؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریز مالک تھا اور برصغیر کے سارے لوگ اس کے غلام تھے اس نے جو نظام بنایا تھا اس کا نام ہی <annotation lang="en">salavary system</annotation> ہے یعنی غلاموں کے لیے ایک نظام ،اب جو لوگ انگریز کی جگہ برسر اقتدار آئے انہیں اس میں بڑا مزا آیا کہ ہم تو مالک بن گئے اور اتنی مخلوق ہماری غلام ہے ہم جو چاہیں کریںوہ بھلا اسے کیوں بدلیں گے ؟ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہتے ہیں اس کی جگہ دوسرا آجاتا ہے اس نظام کو دیکھ لیں جو کچھ ہو رہا ہے مہنگائی ہے لوگ مر رہے ہیںخودکشیاں کررہے ہیں اولادیں بیچ رہے ہیں مساجد اورہر فرقے کی عبادت گاہوں میں دھماکے ہورہے ہیں قتل عام ہورہا ہے اس کے باوجود جب بھی بات ہوتی ہے کہتے ہیں اس نظام کو نہیں بدلنے دیں گے اس کے لئے ہم جان لگا دیں گے اس نظام میں ہے کیا؟کہ جو اقتدار میں آجائے وہ مالک بن جاتا ہے اور باقی سارے اس کے غلام بن جاتے ہیں اس لیے اس نظام کو نہیں بدلنا چاہیے آپ ووٹ کی طاقت کی بات کرتے ہیں ملکی آبادی جیسا کہ کہا جاتا ہے اگر اٹھارہ کروڑ ہے تو اٹھارہ کروڑ میں ایسے لوگ جو بالغ اور ووٹ دینے کے قابل ہوں گے وہ زیادہ سے زیادہ دس کروڑ ہوں گے پھر دس کروڑ میں ہماراجو <annotation lang="en">Turn over</annotation> آتا ہے وہ سرکاری طورپربتایاجاتا ہے کہ چھبیس فیصد لوگوں نے ووٹ دئیے تیس فیصد نے دئیے ،پچاس فیصد کر لیں تو دس کروڑ کا پچاس فیصد پانچ کروڑ بنے گا تو پانچ کروڑ لوگ اگر ووٹ پول کرتے ہیں جبکہ جو سپریم کورٹ میں ثابت ہوا وہ تو یہ تھا کہ چھ کروڑ کچھ لاکھ جعلی ووٹ تھے تو جس ملک میں ووٹر دو کروڑ تین کروڑووٹ دینے آئیں اور چھ کروڑ وہاں جعلی ہوں تو کون سی جمہوریت ہو گی اور کیسا انتخاب ہو گا ؟ الیکشن سے پہلے یہ طے ہو جاتا ہے کہ فلاں پارٹی کو اتنی سیٹیں ملیں گی ،فلاں کو اتنی ملیں گی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یہاں طے ہوتا ہو کہیں سے طے ہو کے آجاتا ہے اورآج کل بین الاقوامی پالیسی جو پاکستان کے ساتھ ہے وہ یہی چل رہی ہے کہ یہاں نئی نئی جماعتیں پیدا کرو ،نئے نئے لوگ کھڑے کرو اور ان کو اورتقسیم در تقسیم کرو کہ ا سمبلی میںہر پارٹی کی دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ نشستیں رہ جائیں اور ان کی اپنی کوئی فیصلہ کن حیثیت نہ رہے بہت سے لوگ خوش ہو رہے ہیں کہ ایک نئی پارٹی آ گئی لیکن یہ کوئی خوشی کی بات نہیں میرا خیال ہے اگر مجھے صحیح یاد ہے ہمارے الیکش کمیشن کے پاس رجسٹرڈ پولیٹیکل پارٹیز ایک سو ستائیس ہیں تو یہ ہم پر ایک پالیسی مسلط ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان کی پارٹیاں بنیں زیادہ سے زیادہ یہ تقسیم در تقسیم ہوں تا کہ فیصلہ کن حیثیت کسی پارٹی کی بھی نہ ہو اور فیصلے کہیں اور سے ہو کر ان پر مسلط ہوتے رہیں یہ سارے وہ حقائق ہیں جو ہمارے سامنے ہیں ہربندہ چاہتا ہے کہ ان حالات کا مقابلہ کیا جائے لیکن کسی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ کیسے کیا جائے؟ میں نے یورپ، امریکہ مغربی ممالک وغیرہ میں پھر کے دیکھا ہے میرے سفر نامے میں بھی آپ کویہ چیز ملے گی کہ والدین چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نیک ہوں اچھے مسلمان ہوں ، شریف آدمی بنیں لیکن خود شرابیںپیتے ہیں کلبوں میں جاتے ہیں عیاشیاں کرتے ہیں اب یہ کیسے ممکن ہے کہ والدین تو موج میلہ کریں اور بچے صوفی ،نیک اور پارسا بن جائیںیہ کیسے ممکن ہے؟ کم وبیش ہماراعالم بھی یہی ہے ہم کہتے ہیں کہ سارا ملک سدھر جائے لیکن ہم خود سدھرنا نہیں چاہتے دوسروں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اپنی نہیں۔</p> <p>اﷲکریم نے جو قانون بتایا ہے وہ یہ ہے کہ اﷲ کریم تب تمہار ے حالات بدلیں گے جب تم اپنے آپ کو بدلو گے حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ تمہارے اپنے اندر جو کچھ ہے تمہارے اپنے بس میں جو کچھ ہے جو کچھ تم کر سکتے ہو جب اس میں تم بہتری لاؤ گے اﷲ تمہارے حالات میں بہتری لے آئیں گے اور یہ بڑا عجیب طوفان آیا ہوا ہے ہمارے ملک میں کہ پوری قوم کی اصلاح کر دو ہر جماعت یہ دعویٰ لیے کھڑی ہے کہ ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے تومیرے بھائی یہاں جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے ہمیں یہ امید رکھنی کہ اوپر سے کوئی تبدیلی آجائے ہاں اﷲ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ کوئی نیک بندہ بھیج دے وہ تبدیلی لا دے تو یہ ایک معجزہ ہو گا یہ <annotation lang="en">routine work</annotation> نہیں ہوگا یعنی یہ معمول کا کام نہیں ہو گا اﷲ کی طرف سے ایک معجزہ ہوگا وہ قادر ہے وہ کرسکتا ہے اس قوم کا عالم تو یہی ہے کہ کوئی ایک بندہ نیک آ جائے تو سارے اس قالب میں ڈھل جائیں گے اور اﷲ کرے ایسا ہو یہ آسان طریقہ ہے لیکن اس امید پر ہم بری نہیں ہو سکتے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہے اصلاحِ احوال کے جتنے طریقے ہیں قرآن کریم پڑھو،حدیث شریف پڑھو ،تاریخ اسلا م کا مطالعہ کرو اپنے کردار کو ان ہستیو ں کے کردار کے مقابلے میں جانچو ، اتباع رسالت اختیار کرو اور صحابہ کرام ؓ کا اتباع اختیار کرو نیک لوگوں کی پیروی اختیار کرویہ سارے طریقے اصلاح احوال کے ہیں لیکن ان سب کی جان ذکر الہٰی ہے فرد کے اندراس کے دل میں جب نور الہٰی آتا ہے تو اس کی روشنی انسان کے اعضاء وجوارح میں بھی جاتی ہے دماغ میں بھی جاتی ہے زبان میں بھی جاتی ہے اور وہ مثبت تبدیلی لاتی ہے آپ ایک پودا لگاتے ہیں یا فصل لگاتے ہیں تو اسے زمین پر چھوڑ دیتے ہیں جیسی اس زمین میں زرخیزی ہے اتنا وہ ہوجاتا ہے لیکن اگر آپ اسے کھاد بھی دیتے ہیں تو بہت اچھا ہوجاتا ہے پھر اگر پانی بھی دیتے ہیں تو او ربھی اچھا ہوجاتا ہے توانسانی کردارماحول پر چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا ویرانے میں کوئی پودا لگا دیا یا کوئی بیج ڈال دیا ذکر الہٰی اُسے پانی اور کھاد دینے کے مترادف ہے کہ وہ نیکی پھلتی ،پھولتی اور بارآور ہوتی ہے تو ا س تبدیلی کا سب سے مؤثر ذریعہ ذکر الہٰی ، مشائخ کی توجہ ،انوارات الہٰی، برکات رسالت ﷺ کا سینے میں ہونا ہے ہمیں دوسروں کا معائنہ کرنے کی بجائے کہ وہ کتنا بدلا سب سے پہلے اپنا،اپنی ذات کا جائزہ لینا چاہئے اپنی ذات کا اندازہ کرنا چاہئے کہ مجھ میں کتنی مثبت تبدیلی آئی ایک بات دوسری بات یہ ہے اس کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھیں جہا ں تک آپ کا اثر ہے جہاں تک کوئی آپ کی بات سنتا ہے اس نیکی کو آگے پھیلائیں اس پر سب مسلمانوں کا حق ہے اور آج کے دور میں تو من حیث القوم ہم سارے مریض ہیں اورمریض کا عالم یہ ہوجاتاہے کہ مرض اس کے مونہہ کا ذائقہ بدل دیتاہے اسے آپ دودھ میں شہد ڈال کر بھی دیں تو وہ کہتا ہے کڑوا ہے مجھے کڑوا لگتا ہے دودھ کڑوا نہیں ہوتا اس کا مونہہ کا جو لعاب ہے وہ بدل چکا ہوتاہے آج قوم کو اﷲاﷲ بتائیں تو انہیں کڑوا لگتا ہے انہیں پسند نہیں آتا یہ ایک بیماری کی دلیل ہے لیکن کیامریض کو کڑوا لگتا ہے تو اسے غذا نہ دی جائے ہم اسے تودوادیتے ہیں اورجب اﷲ اسے جوں جوں صحت دیتا ہے تو اسے <annotation lang="en">taste</annotation> بھی درست لگنے لگ جاتا ہے اسی طرح اﷲاﷲ کی بات کریں تولوگ بھاگتے ہیں ،بدکتے ہیں۔</p> <p>آپ دیکھیں گے لوگوں کا عجیب عالم ہے کہیں عرس ہورہا ہے کہیں کسی خانقاہ پہ اجتماع ہورہا ہے دو ر دور سے لوگ جوق در جوق آ جاتے ہیں کیا یہ تبدیلی کے لئے آتے ہیں ؟دین سیکھنے کے لئے آتے ہیںاﷲ اﷲ کے لیے آتے ہیں نہیں یہ ایک خانقاہی نظام جو اصلاح احوال کے لیے تھا یہاں بھی لوگ دنیا کی طلب میں آتے ہیں طبقات الکبری میں ابن سعد پہلی جلد میں وہ لکھتے ہیں کہ مشرکین مکہ جب حضرت ابوطالب کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے دو باتیں کیں پہلی بات تو ایک بہت خوبصورت نو جوان نو عمرلڑکاوہ ساتھ لائے کہ یہ بچہ آپ رکھ لیں اور اپنا بھتیجا ہمیں دے دیں ہم اسے قتل کردیں تو وہ ہنسے اور انہوں نے کہاکیا خوب! تمہارے بیٹے کو تو میں پالوں پوسوں اور میرے بیٹے کو لے جا کر تم قتل کر دو یہ تم نے سوچا کیسے ؟یہ تمہیں کیسے عقل آئی کہ میرابیٹا تم قتل کردو اور تمہارے بیٹے کی میں پرورش کروں؟ کہنے لگے اچھا آپ کویہ منظور نہیں تو پھر ایک اور بات کریں بات یہ ہے کہ (حضورﷺ کے بارے انہوں نے کہا )کہ آپ کا بھتیجا کہتا ہے کہ اﷲ مالک ہے اﷲ ایک ہے اﷲ پالتا ہے اﷲ پیدا کرتا ہے اﷲ مارتا ہے یہ ساری باتیں ہم مانتے ہیں ہمیں پتہ ہے اﷲ واحد ہے اﷲپیدا کرتا ہے اﷲ موت دیتا ہے اﷲ رزق دیتا ہے اﷲ زندہ رکھتا ہے یہ ہم بھی مانتے ہیں پھر جھگڑاکس بات کا ہے ؟ انہوں نے کہا جھگڑا یہ ہے کہ ہمارے یہ جو بتُ ہیں یہ بڑے بڑے نامور اور نیک لوگوں اور نبیوں اور ولیوں کے ہیں اور ان کی پوجا ہم اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اﷲکے نزدیک ہماری سفارش کرتے ہیں اور اﷲ سے ہمیں زندگی لے کر دیتے ہیں ،دولت لے کر دیتے ہیں ہمارے کام کرواتے ہیں اگر ان کو ہم چھوڑ دیں تو ہماری اﷲ کیا سنے گا؟ ہم تو گئے گزرے لوگ ہیںہماری وہاں تک رسائی کیسے ہو؟ تو جھگڑا صرف یہ ہے کہ یہ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑدیں تو یہ بتوں کے بغیر اﷲ کی پوجا کرتے رہیں ہم اپنے بتو ں کی پوجا کرتے ہیں وہ ہماری اﷲ کے ہاں سفارش کرتے ہیں تو ہم انہیں نہیں چھیڑیں گے یہ ہمیں نہ چھیڑیں تو ابو طالب نے بھی یہ فرمایاکہ بھئی بات تو ان کی معقول ہے اس بات پر تو کم ازکم ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے حضور اکرم ﷺ نے اس سب کی تردید فرمائی اور قرآن کریم کی تلاوت فرما کے فرمایا کہ میں تو وہ کہوں گا جو مجھ پر میرا اﷲ وحی نازل فرمائے گا اﷲکریم اگر ان بتوں کو رد کررہا ہے تو میں ان کو رد کروں گا اگر اﷲ انہیں جھوٹا کہے گا تو میں انہیں چھوٹا کہوں گا کیو نکہ میں وہ کہوں گا جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے آج کم وبیش ہم اسی اہل مکہ والے عقیدے پر آگئے ہیں اور جو مزارات یا خانقاہیں نیکی کا منبع تھیں وہاں سے ہم نیکی لینے نہیں جاتے صحیح عقائد سیکھنے نہیں جاتے کوئی تبدیلی لینے نہیں جاتے بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں یہ اﷲ سے ہمیں دنیاکی چیزیں لے کر دیتے ہیں تو اس عالم میں اور زیادہ مجاہدے کی ضرورت ہے محنت کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس مصیبت سے نکال کر صحیح راستے پہ لایا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ پہلے خود صحیح راستے پر چلے اس کو سمجھے اس پرا س کا کامل یقین ہو جس بات پر بندے کو خود تردد ہو اس پر دوسرے کو قائل نہیں کر سکتا۔</p> <p>میرے بھائی اپنے اسباق میں جتنا زیادہ وقت ہو سکے محنت کریں لطائف بہت زیادہ کریںا یک بات یاد رکھیں بڑے سے بڑا عالم،بڑے سے بڑا نیک، بڑے سے بڑا، بزرگ، شہید،برزح میں اپنے مقام پر رہتاہے اپنے مقام کو چھوڑ کر آجا نہیں سکتا سوائے اس آدمی کے جس کی روح نے دنیا میں قوت پرواز حاصل کر لی ہویہ صرف صوفیاء کی ارواح ہوتی ہیں کہ جو برزخ میں بھی سفر کر سکتی ہیں ،آجا سکتی ہیںبارگاہ نبویﷺ میں جاتی ہیں اپنے منزل پر جاتی ہیں اگر دنیا میں بھی کہیں چاہیںتو آجاسکتی ہیں ان میں قوت پرواز ہوتی ہے۔</p> <p>دنیا میں تبدیلی لانے کا جو آپ سوچتے ہیں اس کے لئے آپ کے اندر ایک قوت ہونی چاہئے حالات کی پرواہ نہ کریں حالات کیسے ہیں؟ حالات ہوتے رہتے ہیں نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے غلاموں اور آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کو عورتوں بچوں سمیت شعب ابی طالب میں بند کردیاگیا اور تین سال تک پوری قوم نے مقاطعہ رکھا بچوں کے رونے او ر بھوک سے بلبلانے کی آواز یں وادی سے باہر سنائی دیتیں تھیں اور پرانے چمڑے جلاکر ان کی خاک پھانک کر اوپر سے پانی پی کر صحابہ کرام ؓ نے گزارا کیالیکن تین سال کوئی شخص حر ف شکایت زبان پر نہیں لایا کہ یااﷲ کافروں کو برباد کردے یا اﷲ انہیں اجاڑ دے کوئی نہیںملتا ،کسی نے نبی کریم ﷺ سے عرض نہیں کیا کہ ان کے لیے بدعا فرما دیں اس امید پہ رہے کہ یہ تنگی کے دن بھی گزر جائیں گے آخر توحید باری کا نعرہ غالب آئے گا یہ کون سی کیفیت ہے ؟ یہ اپنے ایمان کی طاقت ہے جو ان کے اندریقین تھا کہ کچھ بھی ہوجائے تین سال بعد وہ ختم ہوگیا اور یہ آخری سالوں میں تھا ایک دو سال حضورﷺ مکہ میں رہے پھر ہجرت ہوگئی اورہجرت کے بعد اسلامی ریاست بن گئی اور وہی لوگ اسی شہر کے فاتح کہلائے حرم کو بتوں سے پاک کردیا اور شہر کو بت پرستوںسے پاک کردیا۔اگر آپ حق پر ہیں تو نا امیدی کی کوئی وجہ نہیں جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کو حکم ہوا کہ کفار سے کہہ دیں کہ ہمارے لیے دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے یا تو ہم تم پر فتح پائیں گے یا شہید ہو جائیں گے دونوں طرف ہماری بھلائی ہے او ر تمہارے لیے سوائے بربادی کے کچھ بھی نہیں ہے تومومن کے لیے دنیا کی کامیابی یا آخرت کی کامیابی دونوں میں سے ایک تو فوری مل جاتی ہے شہید ہو گیا تو دونوں جہانوں میں کامیاب ہوگیا ،فاتح ہوگیا دنیا میں کامیابی پالی۔</p> <p>میرے بھائی اس کے لیے پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں سیکھیں اور سکھائیں محنت سے حاصل کریں اور اسے بانٹیں اﷲ آپ کی کوشش قبول کرے اور آپ کو مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنا دے وہ قادر ہے کہ کسی کو بھی بھلائی کا سبب بنادے آپ اگر خلوص دل سے محنت کریں گے تو اس وقت جو جماعت متقدمین سے وابستہ ہے جو جماعت مشائخ عظام سے وابستہ ہے جو جماعت نبی کریم ﷺ کی بارگاہ سے وابستہ ہے اورجس طاقت سے وابستہ ہے اس کی مثال اس وقت دنیا میں آپ لوگوں کے علاوہ کوئی دوسری نہیں اور بھی سلاسل ہیں جماعتیں بھی ہیںذکر بھی لوگ کرتے ہیں لیکن جو قرب ،جو مقام ،جو حیثیت اس وقت نقشبدیہ اویسیہ کو نصیب ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تو یہ بہت مبارک بات ہے لیکن یہ اتنی ہی زیادہ اہم بھی ہے کہ اتنا ہی آپ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے کہ آپ اس کے لیے اتنی ہی محنت ،اتنا ہی مجاہدہ کریں کہ اس کا حق ادا کریں آپ پاکستان کی بات کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ جو حیثیت آپ کی اس وقت بارگاہ رسالت ﷺ میں ہے مشائخ سے اور متقدمین سے رابطے کی ہے آپ پر اس وقت فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ دنیا میں مثبت تبدیلی کا سوچیں روئے زمین پر ایک مثبت ،ایک عدل پسند ،ایک انصاف سے بھرپور معاشرہ قائم کرنے کا سوچیں کیوں کہ آپ کو وہ بہت زیادہ کیفیت حاصل ہے جو آپ کویہ بات سوچنے کا مکلف بنا دیتی ہے چہ جائیکہ ملک میں بھی انصاف نہ ہو ۔</p> <p>لیکن میرے بھائی یہ تب ہو گا جب آپ اپنے اندر اس چیز کو سموئیں گے جب آپ کی اپنی فکر میں ،سوچوں میں افکار میں تبدیلی آئے گی تو تب باہر تبدیلی آئے گی میری دعا ہے اﷲتمام احباب کو محنت کی توفیق بھی دے سب کی محنت قبول بھی فرمائے اور اس جماعت کو اس مثبت تبدیلی کاسبب بنائے یہ تاریخی تبدیلی ہوگی اور اس کے لیے آپ کو بہت سی محنت کرنی چاہیے آپ دیکھتے ہیں لوگ سیاسی رتبہ حاصل کرنے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں رات دن سفر کرتے ہیں تگ ودو کرتے ہیں پیسہ خرچ کرتے ہیں وقت لگاتے ہیں لوگ چھوٹے چھوٹے مفاد کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں؟ اگر آپ دنیا میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پھر ہر ساتھی خود اپنی محنت کو دیکھے کہ میں محنت کیا کر رہا ہوں اور کرنا کیا چاہتا ہوں ؟ مجھ پر نہ چھوڑیں کسی دوسرے پر نہ چھوڑیں کہ وہ آپ کو جج کریں آپ اپنے جج خود بن جائیں اور خود اندازہ کریں کہ میں کیا کر رہا ہوں اور اس کے نتائج کہاں تک فیصلہ کن ہو سکتے ہیں ؟کہاں تک اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اس وقت دنیا میں الحمد اﷲ یہ واحد جماعت ہے کہ یہاں دارلعرفان (منارہ ۔ چکوال) میں جب رات کو ذکر ہوتا ہے تو جاپان سے امریکہ کے مغربی ساحلوں سے اور چین سے افریقہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اس میں شامل ہوتا ہے یعنی تاریخ تصوف میں یہ پہلی با ر ہے کہ اس طرح کے سائنسی آلات آ گئے کمپیوٹر ز کی دنیا آ گئی اور اسے اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ ایک وقت میں روئے زمین پر تھوڑے سہی لیکن ہوتے روئے زمین پر ہیں تو اگر اﷲ نے اتنی رسائی دی ہے تو پھر ہم روئے زمین پر مثبت تبدیلی لانے کے مکلف ہیں وہ ہو گی یا نہیں ہو گی یہ اﷲ کا کام ہے ہماری زندگی، ہماری محنت،ہمارا مجاہدہ اس میں صرف ہونا چاہئے اورپھر اگرہم اپنے آپ میں مثبت تبدیلی نہ لا سکیں تو ہم باہر کیا کریں گے تو میرے بھائی اﷲ کے اس ارشاد عالی کے مطابق اپنے آپ میں تبدیلی لائیے خود کو منظم کیجیے ایک دوسرے کے کام آئیے بھلائی کو معاشرے میں پھیلائیے برائی سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کیجیے اور اپنی پوری محنت کیجئے اس بات کو چھوڑ دیجیئے کہ کون اچھا ہے کون برا ہے؟ یہ میرا اور آپ کاکام نہیں ہے سب نے اﷲ کے حضور جانا ہے اس نے فیصلہ کرنا ہے کون اچھا ہے کون براہے؟ ہمیں لوگوں تک اﷲ کریم کا پیغام پہنچانا ہے اورخود اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے میری دعا ہے کہ اﷲ کریم آپ کو اس میں کامیاب کرے۔</p> </section> </body>
5486.xml
<meta> <title>مُلا منصور کی وصیت</title> <author> <name>محمد حنیف</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26673/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>551</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
مُلا منصور کی وصیت
551
Yes
<body> <section> <p>1- جب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آپ سے کہے کہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں اُس دِن سے اپنی وصیت لکھنی شروع کر دینا۔</p> <p>2- جب اِنھی میں سے کوئی کہے کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو یہ مت کہنا کہ اِس بھائی چارے کے اب تک کتنے ڈالر ہوئے۔ پاکستانی حساس قوم ہیں۔</p> <p>3- کوئٹہ سے کبھی گاڑی کرائے پر مت لینا۔ خلیفہ مُلاّ عمر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر سفر کرنا۔ طبعی عمر پاؤ گے۔ بلکہ شہادت کے کئی سال بعد بھی لوگ زندہ ہی سمجھیں گے۔</p> <p>4- پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگاروں سے بچ کر رہنا۔ اگر ڈرون سے بچ گئے تو یہ دانشور چوم چوم کر مار دیں گے۔ جب تک آپ زندہ ہیں آپ کو تاریخ کا سب سے بڑا جنگجو کہیں گے شہادت کے بعد کہیں گے امن کی آخری اُمید دم توڑ گئی۔ اچھے خاصے مجاہد کو گاندھی بنا دیں گے یہ دفاعی تجزیہ نگار ۔</p> <p>5- ہر ریاست کی پالیسی دوغلی ہوتی ہے لیکن یہ ہمارے میزبان بھائی ایک ہاتھ سے فاتحہ پڑھتے ہیں، دوسرا ہاتھ خنجر پر رکھتے ہیں۔</p> <p>6- میرا خیال تھا ہمارے پاکستانی دوست لطیفے بہت اچھے سُناتے ہیں۔ ایک پنجابی مجاہد نے ایک دفعہ بتایا کہ ہمارے چوکیدار رات کو صدا لگاتے ہیں'جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا'۔ اب پتہ چلا کہ کم بختوں نے ایک جگت کو قومی دفاعی پالیسی بنا لیا ہے۔</p> <p>7- اپنے پاکستانی بھائیوں سے کبھی یہ نہ کہنا کہ ہم افغان تو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تم کیا لُچ تل رہے ہو۔ بتایا تھا نہ حساس قوم ہیں ادارے بھی حساس ہیں خفا ہو جاتے ہیں ۔</p> <p><annotation lang="en">Image copyright AP</annotation></p> <p>8- حساسیت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی آپ کی شہادت ہو گی تو پہلے سکتے میں آ جائیں گے پھر کہیں گے ہماری خود مختاری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں گھُس کر مارا، پھر کہیں گے ہمارے گھر میں تو تھا ہی نہیں اُُس کے بعد پھر کہیں گے لیکن تمہاری جرات کیسے ہوئی ہمارے گھر میں گھسنے کی۔ تو آپ نے دیکھا آپ کی جان جائے گی اور اِن کی خود مختاری پِھر دنیا میں اٹکھیلیاں کرتی پھرے گی اور کہے گی پتہ نہیں مجھے دُنیا والے اِتنا کیوں چھیڑتے ہیں۔</p> <p>9- یہ جو پاکستان کے علما و مشائخ اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھانے والی پارٹیاں ہیں اِن سے بھی ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ساری عمر آپ کے کانوں میں 'شہادت ہے مطلوب و مقصود و مومن' گنگناتے رہیں گے جب وقت شہادت آئے گا تو اِن کی گنگا جمنی تہذیب جاگ اُٹھے گی اور کہیں گے'نہیں حضور پہلے آپ'۔</p> <p>10- اگلا امیر منتخب کرتے وقت اِن کے مشورے مت سُننا، کچھ سال پہلے ہمارے پاکستان بھائی خالد سجنا کو امیر منتخب کروانے والے تھے کہ کسی نے گانا لگا دیا 'سجنا وی مر جانا'۔ وہُ امیر نہ بن سکے۔ دنیا کی بہت سی قومیں لہو و لعب میں مبتلا ہیں لیکن یہ کیسی قوم ہے جس نے گانوں اور لطیفوں کو ایک مکمل ضابطۂ حیات بنا رکھا ہے۔</p> <p>11- سرحدی علاقوں، پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے کے دِن گئے۔ کراچی کے گنجان آباد علاقے بھی بہت گنجان ہو گئے اب پکی پناہ کے لیے ڈی ایچ اے سٹی میں ایک پلاٹ بُک کراؤ وہاں تمہیں امریکہ کا باپ بھی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔</p> <p>بشکریہ بی بی سی اردو</p> </section> </body>
5487.xml
<meta> <title>مجھے کے پی کے پولیس جیسانظام چایئے۔</title> <author> <name>توقیر ریاض خان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26689/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1221</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
مجھے کے پی کے پولیس جیسانظام چایئے۔
1,221
Yes
<body> <section> <p>پولیس نام ہے ان افراد کی ٹیم کا جو ریاست کی جانب سے با اختیار ہوتے ہیں ریاست میں قانون کے نفا ذ کے لیے ، عام شہری کے مال کی حفاظت، اور سول ڈس آرڈر کو محدود کر نے کے لیے جس میں اختیارات کی طاقت کا درست استعمال شامل. ہے ایک خود مختیار ریاست میں جو اصطلاح عام ہے وہ یہ ہے کہ پولیس کی ذمیداری قانونی طور پر اپنے اپنے علاقے تک محدو د ہوتی ہے اور ریاست کی جانب سے اس کو علاقے میں اپنے اختیار کا استعمال کر تے ہوئے قانون کانفاذکرنا ہوتا ہے پولیس جس کا مطلب ہے (پاسبان ) کے ہیں پاسبان یا ش±رطہ <annotation lang="en">(police)</annotation> ، عموماً سرکاری وکیل یا وکالات جو قانون نافذ کرنے اور قوت کا جائز استعمال کرتے ہوئے عوامی و سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے ذمّہ دار و مختار ہوتے ہے.پاسبان دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے " دربان، چوکیدار، نگہبان، حفاظت کرنے والا" کے ہیں۔ پولیس قوت کا جائز استعمال کرتے ہوئے عوامی و سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے ذمّہ دار و مختار ہوتے ہے پوری دنیا میں مختلف پولیسنگ نظام موجود ہیں لیکن ان سب کا مجموعی مقصد نظم و نسق کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔</p> <p>پولیسنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی بنیاد انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ حضور ﷺ کے دور میں پولیسنگ کا نظام موجود تھا گوہ کہ وہ باقاعدہ ڈیپارمنٹ کے طور پر واضع نہیں تھا احادیث مین آتا ہے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ باقاعدہ ایک پاسبان چیف کے طور پر حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔ حضر ت عمر فارق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں باقاعدہ ایک دستہ تھا جو پورے علاقے میں رات گئے گشت کرتا شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا تا یہ نظام اسلامی حکومتوں کا حسہ تھا صدیوں سے رائج تھا۔ 18 صدی میں جب سر رابرٹ باتھ نے 1822 میں ہوم سیکر ٹری کا منصب سنبھالا تو انہوں نے میٹروپولیٹن پولیس ایکٹ 1829 کے تحت ایک کل وقتی، پیشہ ورانہ پولیس فورس کی بنیاد رکھی جس کا مقصد گریٹر لندن کے علاقے میٹروپولیٹن میں امن وامان قائم کرنا تھا جس کو میٹروپولیٹن پولیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کو (پیلرز یا بوبیز ) کہا جاتا ۔پوری دنیا میں اس باوقار محکمے کا وقا ر آج تک قائم ہے لیکن افسوس کے ہمارے پاکستان میں یہ نظام انتہائی اندو ناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہماری پولیس کا نظام ایک ایسا نظا م جس کی مثال شاہد کہ ہمیں ملے۔ پنجاب پولیس ،سند ھ پولی، بلوچستان پولیس اور کے پی کے پولیس اب ایک پاکستان میں چار نظام پولیس رائج ہیں۔ جن کے اپنے اپنے سپہ سالار ہیں پنجاب پولیس، سند ھ پولیس کا نظام دیکھیں تو قانون کی بالادستی کے لیے قائم یہ ادارےکر پشن کے گڑ بن چکے ہیں جاگیرداروں ،سرمایا داروں اور سیاست دانوں کے سرکاری آلہ کار بن ک رہ گئے ہیں۔ جس طرح کا نظام تھانوں میں موجود ہیں یہ جرم کو ختم کرنے کے بجائے جرائم کی استعداد کو بڑھانے کا سبب بن چکا ہے۔</p> <p>ٹاوٹ مافیا پولیسنگ نظام میں اس بری طرح سراہیت پذیر ہوچکا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔میں نے یہاں تک بھی دیکھا کہ ایک ایس ایچ او اگر کسی تھانےمیں تعینا ت ہوتا ہے تو چارسنبھالنے کے بعد وہ پہلا کام اس علاقے کے ٹاوٹ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کی تلا ش کر تا ہے تاکہ وہ علاقے میں غیر معمولی سرگرمیوں کی معلومات لے سکے اس لیے نہیں کہ خاتمہ کرنا ہے بلکہ اس لیے کہ جناب اب ہم ا? چکے ہیں ہمار ا ریٹ یہ ہوگا۔ اگر ریٹ نہ ملے تو جناب آتے ہی پکڑ دھکڑ اور اسے کے بعد ریٹ سیٹ۔۔یہ پورا ایک چیپٹر ہے جس پر بات ہوسکتی ہے بحر حال اس غیر محفوظ نظام پولیس میں مجھے اس وقت امید کی کرن نظر آئی جب میں خود کے پی کے پولیس کے سسٹم میں سے گزرا۔مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ پاکستان پولیس ہے۔جس طرح درخواست گزار کے ساتھ پولیس کی کوارڈینیشن تھی میں حیرت میں تھا۔ ایک معمولی سا ایس ایم ایس اور انسپکٹر جنرل پولیس کی کال، ایس ایم ایس موصول ہوتے ہی آئی جی کے پی کے ناصر درانی صاحب کی اپنے ذاتی نمبر سے کال موصول کرنا کسی انہونی سے کم نہ تھا یہ حیرت میں ڈال دینے والا معاملہ تھا۔ لیکن اس کے بعد پورا ایک سسٹم متحرک ہوجانا متعلقہ ڈی پی او، ڈی ایس پی ، ایس ایچ اس طرح رابطے میں جیسے میں پاکستان میں نہیں لندن ،دوبئی یا کسی ایسے ملک میں اپنے آپ کو محسوس کر رہا تھا جس میں پولیس کا نظام خود مختیار اور انصاف پر مبنی ہو۔ یقین جانیے میں نے ایک ذاتی مسئلے کے لیے جب کے پی کے کے نظام پولیس کو رابطہ کیا تو میں حیران تھا میرے ساتھ بیٹھے لوگ حیران تھے کہ کیا یہ پولیس سسٹم پاکستان میں ہے۔ جس میں کسیی کے لیے آئی جی خود آن لائن ہو ڈی پی رات گئے تک اپنے ا?فس میں اس لیے موجود ہو کہ اس کے علاقے میں ایک کیس داخل ہوا ایس ایچ متعلقہ چوکی میں رات گئے تک اس لیے بیٹھا ہے کہ نظام کا نفاذ اور انصاف کو معیا کرنا اولین ترجیع ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور دکھ بھی ہو ا کہ دوسری جانب پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں ایک چوکی انچارج کو ملنے کے لیے گھنٹوں عوام تھانے چوکیوں کی نظر ہوجاتے ہیں کے پی کے کے نطام پولیس کو دیکھنے کے بعد میری امیدیں جو دم توڑ چکیں تھی دوبارہ قائم ہوگئیں کہ نہیں اگر سپہ سالار منصف ہوتو ،فرض شناس ہو تو اس کا اثر نیچے تک محسوس ہوتا ہے۔</p> <p>میں کے پی کی حکومت کو خراج تحسین کم اور آئی کے پی کے ناصر دورانی صاحب کو زیاد ہ اس کا حقدار سمجھتاہوں جنہوں نے پاکستان جیسے ملک میں جس میں پولیس کا محکمہ استحصال ،ناانصافی ،کر پشن اور بد دیانتی کی مثال بن چکا تھا اس میں ایک ایسی پولیسنگ کو متعارف کروانا جس میں شہری سر فخر سے بلند کرکے بلکہ کسی ڈر اور خوف کے انصاف کے حصول کی امید پر بے خوف و خطر پولیس اسٹیشن جا سکتا ہے۔بلکہ متعارف ہی نہیں اس پر عمل درآمد کروا کر ثابت کر دیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں کاش کہ وزیر اعظم پاکستان کے پی کے پولیسنگ نظام کو باقی صوبوں میں رائج کردیں ۔گوہ کہ مسائل ابھی کے پی کے پولیس میں موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی رائی کے دانے کے برابر ہے مجھے پنجاب ،سند ھ اور بلوچستان میں بھی کے پی کے پولیسنگ سسٹم چائیے۔ مجھے ناصر درانی جیسا سپہ سالا ر چائیے۔مجھے وہ پورا نظام چائیے جو کے پی کے میں رائج ہے۔ کے پی کے حکومت سے میرےسو اختلاف اپنی جگہ لیکن مجھے ذاتی تجربے کے بعد کم از کم پولیسنگ سسٹم میں جو تبدیلی آئی اسے ماننا پڑا۔ میں یہ سمجھتا ہوں جو کام اقدام ہے اس کو ہمیشہ خو ش آمدید ک کہنا چاہیے اور اگر وہ عمل نافذ ہوسکے تو اس کو پورے خطے میں نافذ کرنا چایئے نہ کہ سیاسی رنجشوں کی بنیاد پر اچھی اقدام کو بھی ٹھوکر ماردی جائے۔ میاں محمد نواز شریف صاحب کے پی کے پولیس نظام اس وقت پاکستان میں بہتر نظام پولیس ہے اس کو پورے ملک میں لاگو ں کریں۔تاکہ بنیادی ضرورت انصاف عام پاکستانی کو با آسانی مہیا ہوسکے۔</p> </section> </body>
5488.xml
<meta> <title>بھولے بسرے پاکستانی</title> <author> <name>معصوم رضوی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26862/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1240</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بھولے بسرے پاکستانی
1,240
No
<body> <section> <p>جب ہم پاکستان کی خامیاں گناتے ہیں تو دراصل اپنی برائی کرتے ہیں، معاشرے اور اپنے ہی لوگوں کو کوس رہے ہوتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیں وہ سب کچھ دیا جو تصور سے بھی باہر ہے، ذرا ایک لمحے کیلئے ان لوگوں کا دکھ درد محسوس کریں جنہیں آزاد ملک کا باشندہ ہونے کی نعمت نصیب نہیں، پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قائدین، مشاہیر، گمنام ہیروز سمیت عوام کی بڑی قربانیاں شامل ہیں، مسلمان آگے تھے تو غیرمسلم بھی پیچھے نہ تھے، حتیٰ کہ چند غیر ملکی شخصیات تاریخ کا اہم حصہ ہیں، پاکستان کے ہیروز میں سے بعض کو تو سب جانتے ہیں اور مگر بعض شعوری یا لاشعوری طور پر فراموش کر دیئے گئے، آئیے ایک بار ماضی کے بھولے بسرے راستوں پر پھر چلتے ہیں</p> <p>سب سے پہلے تذکرہ ایک ایسے نو مسلم یورپی کا جو پاکستان کی تاریخ کا نہ بھلانے والا کردار ہے، لیوپولڈ ویز، آسٹریا کے یہودی خاندان میں پیدا ہوئے، 26 سال کی عمر میں یورپ میں صحافت اور تحقیق کے حوالے سے شہرت حاصل کی، لیوپولڈ ویز نے 1926 میں اسلام قبول کیا، نام محمد اسد رکھا گیا، عبرانی، آرامی، پولش، جرمن، عربی، فارسی زبانوں پر عبور، دشت کی سیاحی میں لیبیا کے قائد حریت عمر مختار کے ساتھی رہے، سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز کے دست راست بنے، عرب سمیت ایشیائی ممالک کی دشت نوردی کرتے ہوئے 1932 میں ہندوستان آئے، علامہ اقبال سے دوستی اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا، بتایا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے مملکت خداداد کی پہلی شہریت محمد اسد کو عطا کی اور انہیں محکمہ اسلامی تعمیر نو کا سربراہ مقرر کیا</p> <p>وزارت خارجہ میں محکمہ مشرق وسطیٰ کی سربراہی اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا، متعدد کتابوں کے مصنف روڈ ٹو مکہ، اصول ریاست اور اسلامی حکومت، ہمارے قوانین اور 17 سال کاوش کے بعد قران مجید کا ترجمہ و تفسیر، جو یورپ میں آج بھی مقبول عام ہے، 1952 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے نیویارک گئے، کچھ مسائل کے بنا پر استعفی دیا، زندگی کے 66 سال عرب، ہندوستان، پاکستان اور تیونس میں گزرے، 1992 میں 92 سال کی عمر میں اسپین میں وفات پائی، شاید آج بہت کم پاکستانی علامہ محمد اسد سے واقف ہیں</p> <p>سیاست کے میدان خارزار مین نوجوان محمد علی جناح کی انگلی تھامنے والے دادا جی نورو جی، اولڈ مین آف انڈیا، تعلق پارسی برادری سے، آل انڈیا کانگریس کے بانیوں میں شامل، برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے ایشیائی رکن، 1905 میں نوجوان وکیل کو کانگریس میں لائے، ایک سال بعد جب جماعت کی صدارت سنھالی تو محمد علی جناح کو اپنا سکریٹری مقرر کیا، سیاست میں بھرپور سرپرستی کے باعث قائد اعظم کی سیاست پر انکی گہری چھاپ نظر آتی ہے</p> <p>جوگندر ناتھ منڈل، قائد اعظم کے منتخب کردہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون، دولت مشترکہ اور امور کشمیر کے وزیر بھی رہے، قائد اعظم اور قائد ملت کیساتھ کام کیا، محمد علی جناح کی رحلت کے بعد انتظامیہ کے امتیازی سلوک کے باعث دلبرداشتہ منڈل استعفے دیکر واپس بھارت چلے گئے، 1968 میں مشرقی بنگال کے شہر بنگائوں میں 64 سال کی عمر میں انتقال ہوا، پاکستان کے اولین قانون سازوں میں سے ایک تھے</p> <p>سر محمد ظفر اللہ، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ، ریڈ کلف کمیشن کے سامنے پاکستان کا مقسمہ لڑا، 1947 سے 1954 تک اس عہدے پر فائز رہے، 54 سے 58 تک عالمی عدالت کے جج کے فرائض انجام دیئے اور 58 سے 61 تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب رہے، واحد پاکستانی جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت انصاف کے سربراہ رہے، پاکستانی خارجہ پالیسی کے معمار سر ظفر اللہ کا تعلق احمدی فرقے سے تھا، 1985 میں لاہور میں انتقال ہوا</p> <p>چیف جسٹس اے آر کارنیلس، سپریم کورٹ کے چوتھے چیف جسٹس، 1960 سے 1968 تک عدالت عظمیٰ کی سربراہی کی، نہایت بے خوف، راست گو اور معبتر شخصیت، مولوی تمیز الدین کیس کا دوٹوک فیصلہ، ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف واحد اختلافی نوٹ جسٹس کارنیلس کی جرات کی مثال ہیں، 1973 کا آئین مرتب کرنے میں اہم کردار، اہم ترین بات یہ کہ جسٹس کارنیلس اسلامی فقہ اور شریعت پر سند سمجھے جاتے تھے</p> <p>ایک اچھے منصف کیطرح ہمیشہ حکومت سے دور رہنے کو ترجیح دی، ساری عمر لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے کمرے میں بسر کی اور 1991 میں 93 سال کی عمر میں اسی کمرے میں آخری سانسیں لیں، ایک اور بہترین منصف جسٹس دراب پٹیل، سپریم کورٹ کے جج اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جنرل ضیا کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بجائے ملازمت چھوڑنے کو ترجیح دی، جبکہ انکے چیف جسٹس بننے کے امکانات روشن تھے، دوسرے پاکستانی جو انٹر نیشنل کمیشن فار جیورسٹس کیلئے منتخب ہوئے، کوئٹہ کی پارسی برادری سے تعلق، سپریم کورٹ سے استعفے کے بعد انسانی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد، 1997 میں کوئٹہ میں دنیا سے رخصت ہوئے، چیف جسٹس رانا بھگوان داس ماضی قریب کا کردار، با اصول، ایماندار منصف، پی سی اور کے تحت حلف سے انکار کے بعد نظر بندی جھیلی، مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جگہ تعینات ہوئے، مضبوط کردار کے باعث حکومت اور اپوزیشن کی چیف الیکشن کمشنر بنانے کی مشترکہ پیشکش مگر معذرت کر لی، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سربراہ رہے اور 2015 میں دنیا سے کوچ کیا، رانا بھگوان داس بہترین نعت گو شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں</p> <p>معروف سائنسداں ڈاکٹرعبدالسلام، طبعیات میں 1979 میں نوبل انعام پانیوالے پہلے پاکستانی، 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد بطور احتجاج ملک چھوڑ دیا، اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس کی بنیاد رکھی، پاکستانی سائنسدانوں کیلئے بیرونی دنیا کے دروازے کھولے، اٹلی اور برطانیہ کی جانب سے شہریت کی پیشکش ٹھکرا کر پاکستانی رہنے کو ترجیح دی، 70 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے اور وصیت کے مطابق جائے پیدائش جھنگ میں تدفین ہوئی</p> <p>مزید دو ایسی غیرملکی شخصیات جو ہم سے بہتر پاکستانی ثابت ہوئیں، جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فائو، 1962 مین جذام کے مریضوں کے علاج کیلئے میری اڈیلیٹ لپروسی سینٹر قائم کیا جو آج پاکستانیوں کی خدمت کر رہا ہے، ڈاکٹر رتھ فائو پچاس سالوں تک اس مشن میں مصروف رہیں اور 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک قرار دیا، ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی سسٹر گرٹروڈ لیمینز نے 1969 میں معذور بچوں کیلئے کراچی میں دارالسکون کے نام سے رفاحی ادارہ قائم کیا، جو آج بھی سماجی خدمات کے حوالے سے قابل فخر مثال ہے</p> <p>یقینی طور پر ایک کالم ان شخصیات کا حق ادا بھی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس تحریر کا یہ مقصد ہے، انکے علاوہ بھی اور بہت سی ایسی ہستیاں ہیں جو آج ہماری حافظے میں کہیں موجود نہیں، اس تذکرے کا مقصد صرف تاریخ کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے، مجھے یقینی طور پر خوشی ہو گی اگر یہ مفروضہ غلط ثابت ہو کہ بیشتر پاکستانی ان شخصیات سے واقف نہیں یا پھر فراموش کر چکے ہیں</p> <p>ماضی سے آنکھیں تو موندی جا سکتی ہیں مگر اس کو تبدیل کرنا ممکن نہیں، خواہ آپ کو پسند ہو یا نہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ حال اور مستقبل کی عمارت بہرحال ماضی کی بنیادوں پر ہی کھڑی ہوتی ہے، بقول امجد اسلام امجد</p> <p>یہ آج جو صورت ہے، حالات نہ تھے ایسے</p> <p>یوں غیر نہ تھے موسم، دن رات نہ تھے ایسے</p> <p>تفریق نہ تھی ایسی، سنجوگ نہ تھے ایسے</p> <p>اے وقت گواہی دے، ہم لوگ نہ تھے ایسے</p> </section> </body>
5489.xml
<meta> <title>جب علماء نے "رجوع" کر لیا</title> <author> <name>امیرجان حقانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/26924/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2340</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
جب علماء نے "رجوع" کر لیا
2,340
No
<body> <section> <p>سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک ایک اوپن فورم ہے۔فیس بک کی افادیت اور نقصانات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ مستند کالم نگاروں نے فیس بک کے فوائد و مضرات پر تفصیلی گفتگوئیں گی ہیں۔ سال پہلے میں نے ایک انگلش ارٹیکل " فیس اوپن یونیورسٹی " کے عنوان سے لکھا تھا جو احباب میں بہت ہی مقبول ہوا تھا۔ میں گزشتہ پانچ سال سے فیس بک استعمال کررہا ہوں۔ مجھے اپنے خیالات دوسروں تو فوراً پہنچانے اور بہت سے اہل علم و فکر اور ادباء و محققین کو چانچنے اور ان سے رابطہ نکالنے اور انہیں پڑھنے اور سمجھنے کا ،اور اپنی رائے قائم کرنے کے لیے سب سے بہترین جو فورم ملا ہے وہ فیس بک ہے۔ اس لیے میں نے اوپن یونیورسٹی سے تعبیر کیا ہے ۔ گزشتہ دنوں میں نے دینی قیادت کی بے بضاعتی اور بے بصیرتی پر مبنی ایک مختصر پوسٹ لکھی۔ احباب نے بہت ہی پسند کیا۔ جید اسکالر ز اور اہل علم و محققین نے اس پر اپنے اپنے تبصرے لکھے اور مستقل تحریریں رقم کی۔میں اپنی پوسٹ اور اس پر لکھی گئی دو اہم تحریریں اس کالم کا حصہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ یہ تلخ حقائق اور وقت کی ضروریات اور ملی تقاضوں کا ادارک کیا جاسکے اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل کے لیے کوئی پلان تشکیل دیا جاسکے۔ سوشل میڈیا کی افادیت کا اندازہ ان چند بصیرت افروز کمنٹس سے لگایا جاسکتا ہے۔</p> <p>میری مختصر پوسٹ ملاحظہ کیجیے گا۔</p> <heading>"مذہبی قیادت۔۔۔۔سنت و بصیرت سے مکمل عاری"</heading> <p>"درمیانی شخص" کو عزت دینا، اس پر اعتماد و بھروسہ کرنا رسول اللہ کی سب سے بہترین سنت ہے۔ غزوہ خندق کے موقع پر مسلمان انتہائی مشکل حالت میں تھے۔ نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ پکے مسلمان تھے لیکن سابقہ تعلق کی وجہ سے قریش اور یہودیوں کے ہاں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔۔۔۔عین مشکل وقت میں آپ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعر ض کیا کہ میں کردار اد اکرسکتاہوں۔۔ آپ ۖ نے ایجنٹ کہہ کر بھگایا نہیں بلکہ ارشاد کیا "انما انت فینا رجل واحد' اور ان کو استعمال کیا اور درپیش مشکل کا حل نکالا۔اور مسلمانوں کو ظفریابی ہوئی۔ یہ سنت و بصیرت کا اعلیٰ پہلوں ہے۔</p> <p>ہماری موجودی مذہبی قیادت اور ان کے کارکنان اور چمچہ گیران ان درمیانی اشخاص کی قدر کرنے اور ان سے کام لینے کی بجائے انہیں ایجنٹ، غیروں کا آلہ کار، اپنوں کا دشمن اور نہ جانے کیا کیا القابات رذیلہ سے نواز کر دور بھگا رہے ہیں۔اور تو اور اپنے شاگردوں اور ہم عقیدہ و مسلک لوگوں پر بھی اعتماد و بھروسہ کے بجائے کاسہ لیس کا خطاب دے کر بہت دور کررہے ہیں۔ ہم نے ابوالکلام آزاد اور سرسید احمد خان اور عبیداللہ سندھی کے ساتھ یہی کیا۔ابوالکلام آزاد مسلمانوں اورہندوں کے بیچ درمیانی شخص کا کردار ادا کرسکتے تھے مگر ہم نے اس سے "شو پیس" کا خطاب دیا۔سرسید احمد خان انگریز اور مسلمان کے درمیان پل بنے مگر ہم نے سختی سے مسترد کردیااور عبیداللہ سندھی کو تو مسترد کرنا ثواب ہی سمجھا۔شیخ الہند کی نصیحتیں اور وصیتیں بھی کام نہیں آئی۔ ہماری وفاق المدارس کی قیادت نے ڈاکٹر طفیل ہاشمی کے ساتھ یہی کیا۔کاش !ہاشمی صاحب پر تھوڑا سا بھی بھروسہ کیا جاتا۔ ہم نے ہر ایک کو اپنے سے دور رکھا ہوا ہے۔ ابلاغ کے وسیع ترین ذرائع کو اپنا کر اپنے موقف و نظریہ و فکر کی ترویج و تبلیغ کے بجائے ان اداروں میں کام کرنے والے مخلص لوگوں کو بھی ایجنٹ کا لقب دے کر دور بھگایا ہوا ہے۔۔۔ بخدا یہ صرف اور صرف سنت رسول ۖ سے لاعلمی اور بصیرت و بصارت کی کمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ سینکڑوں نام ہیں جن کو ہماری مذہبی و مدارسی قیادت نے دور کیا ہوا ہے۔ وہ ہمارے لیے بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں مگرایک دفعہ ہی دل سے ان کو خوش آمدید کہا جائے اور ان پر بھروسہ کیا جائے۔۔ اے کاش ایسا نہ ہوتا!احباب کیا کہتے ہیں؟"</p> <p>اس مختصر سی تحریر پر دوستوں نے مجھ سے بہت سے پہلوں ڈسکس کیے اور بہتوں نے اوپن فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔انتہائی علمی شخصیت مولانا لقمان حکیم صاحب(سینئر جج و مترجم رحماء بینہم عربی) نے کمنٹس کے ساتھ استفسار کیا کہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی کی کیا خدمات کیا ہیں؟ میں نے مختصر عرض کیا۔"ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب پاکستان میں اسلامی علوم میں ایم فل کروانے کا بانی ہے۔پاکستان میں بہت سے علماء و شیوخ (تمام مکاتب فکر کے)نے ان کی نگرانی میں علوم اسلامیہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب 1966 ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور سے فاضل ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایم فل علوم اسلامیہ متعارف کروایا اور کورس ڈیزائن کیا اور گائیڈ بکس لکھی ۔پنجاب یونیورسٹی میں بھی اس کے اسٹائل کو اپنایا گیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے درس نظامی کا اغاز کیا۔درجنوں کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔اور اگر وفاق المدارس والے تمام مراحل طے ہونے کے بعد آخر میں یہ کہہ کر پوری سکیم مسترد نہیں کرتے کہ یہ سازش ہے تو آج تمام مدارس وجامعات کے طلبہ کے پاس میٹرک، ایف اے اور بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی باقاعدہ ڈگری ہوتی اور یہ سب کچھ اپنے مدرسے و جامعات میں بیٹھ کرتے۔ یونیورسٹی والے صرف انگریزی اور مطالعہ پاکستان کا ایگزام لے کر (رسے میں ہی) ان کو ڈگری دیتی، اور ہرمدرسے کے چند اساتذہ کو تھوڑی بہت تنخواہ بھی اوپن یونیورسٹی سے ملتی اور اسائمنٹ کی چیکنگ کی شکل میں بھی اساتذہ کو کچھ نہ کچھ ملتا"۔</p> <p>پھر جب بات کھل گئی تو بہت دور تک چلی گئی اور ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے تلخ حقائق پر مبنی یہ مفصل تحریراپنی وال سے شیئر کیا۔ قارئین کی نذر کررہا ہوں۔</p> <p>ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:</p> <heading>"میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟</heading> <p>آج مدت بعد امیر جان حقانی (راقم الحروف)نے وہ زخم پھر سے ہرے کر دئے جو بتدریج مندمل ہو رہے تھے ۔مجھے نہ معلوم کیسے شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا ۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے سپین ہونے سے بچایا حقیقتا وہی لوگ اس ملک کے خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لئے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی ۔دوسرا طبقہ کنجے گرفت و ترسے خدا را بہانہ ساخت کا پیکر ہو گیا ۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔</p> <p>اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا اور اوپن یونیورسٹی اصلاً ان لوگوں کے لئے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے تاکہ اس یونیورسٹی کے ذریعے انکے لئے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے ۔</p> <p>میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہیں یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دئے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے ۔۔مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لئے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کئے جائے اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے ۔</p> <p>یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں ۔ایسے میں مجھے باہر سے صرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کئے ۔مجھے بریلوی اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی ۔لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے، ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا ۔کراچی جاکر مولانا سلیم اللہ خان سے بھی ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا ۔اس کے مطابق مجھے 8--9 ماہ کے بعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا ۔لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے ۔جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لئے آئے ہیں کہ جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا اس پر فورا اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے ۔میں نے اپنی مشکلات اور یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا ۔جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا ۔</p> <heading>مرے تھے جن کے لئے ۔ ۔ ۔ ۔</heading> <p>حیرت ہوئی۔مولانا محمد زاہد(فیصل آباد والے) سے معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ</p> <heading>"علما ء کرام نے رجوع کرلیا "</heading> <p>بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے ۔اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے ۔میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہاء میں مجھے کہا یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو ہمارے بچے کہاں جائیں گے ۔میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس؟ بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے ۔مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو، اور دیوبندی علما ء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقوی دانش کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا "</p> <p>میرے قلم کار دوست</p> <heading>عنایت شمسی صاحب</heading> <p>نے اس پوسٹ پر یوں تبصرہ کیا:</p> <p>"بالکل حق بجانب ہے آپ کا خیال۔ یہ حضرات گرامی لوگوں کو صرف اور صرف مولوی بنانے اور مدارس کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے کے بجائے دعوت کا نبوی منہج اختیار کر کے زندگی کے ہر شعبے کو اہمیت دیتے تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ ستر کی دہائی میں محمود شام نے جناب مفتی محمود کا ایک انٹرویو کیا۔ ایک سوال تھا مدارس سے ہر سال بڑی تعداد میں طلبہ نکلتے ہیں، کیا ان کے لئے روزگار کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا؟</p> <p>مفتی صاحب جواب میں پوری قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں:</p> <p>"نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے، یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ معاشرے میں مدارس کے فضلا کی کھپت طلب سے کہیں زیادہ ہے۔ مدارس تو معاشرے کی ضرورت اور طلب کو ہی پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔"</p> <p>بلاشبہ ستر کی دہائی میں صورتحال ایسی رہی ہوگی، مگر کیا آج کے حالات نے اس بات کی "بصیرت افروزی" پر سنجیدہ سوال نہیں کھڑا کیا ہے؟ روایتی دینی طبقہ صرف ایک شعبے کی لکیر پیٹنے کے بجائے ہمہ گیر محنت پر کاربند ہوجاتا تو نہ صرف آج مدارس کے طلبہ کو روزگار کے معاملے میں ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہونا پڑتا اور نہ ہی سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ کے تئیں کوئی فرسٹریشن پیدا ہوتی۔</p> <p>پاکستان میں کئی مکاتب فکر کے لوگوں نے انتہائی سنجیدگی اور مہارت سے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ آج وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مضبوط بنائے ہوئے ہیں۔ اقلیت میں بھی اکثریت کا روپ دھارا ہوا ہے۔ اور آپ کے حصے میں فقط رونا دھونا رہ گیا ہے۔ وہ اپنے تمام مفادات انتہائی عقل مندی سے محفوظ کر کے سکون سے بیٹھے ہیں۔ اور آپ کے مدارس کو اب بھی "تحفظ" کے خطرات کا سامنا ہے اور آپ کے اسلام کو ستر سال بعد بھی آج وقتا فوقتا ہنگامی "زندہ باد مہم" کی آکسیجن کی ضرورت رہتی ہے۔</p> <p>جب آپ کا حال ہی یہ ہو کہ آپ سے محبت رکھنے والے ایک کلین شیو مسلمان کے ہاتھ پورے خطیبانہ طمطراق کے ساتھ انتہائی کراہت سے یہ کہتے ہوئے جھٹک دیے جائیں کہ "کیا شکل بنائی ہوئی ہے، یہودیوں کی شکل بنائی ہوئی ہے۔ ۔ ۔" (یہ میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے) تو بابا آپ کی قسمت میں صرف اور صرف دجالی میڈیا کا رونا رہ جاتا ہے۔ یقین کریں اس سوچ، اس رویے اور اس کردار کے ساتھ جتنا وقت آپ گزارتے چلے جائیں گے، اتنا ہی بے اثر، بے وقعت اور بے کار ہوتے چلے جائیں گے!شکریہ حقانی میاں، آپ نے اپنے حصے کا فرض نبھانے کی ایک اور اچھی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش جاری رکھئے، آخر پتھر پہ جونک پڑ ہی جائے گی"۔</p> <p>بہت سارے احباب کے سنجیدہ کمنٹس اس لیے مقتبس نہیں کیے جاسکے کہ جو جگہ دل میں ہے وہ کاغذ کے ان اوراق میں کہاں؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔</p> </section> </body>
5490.xml
<meta> <title>کچھ اسلامی نظریاتی کونسل کے دفاع میں</title> <author> <name>محمد عامر خاکوانی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27017/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1344</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
کچھ اسلامی نظریاتی کونسل کے دفاع میں
1,344
No
<body> <section> <p>مجھے اندازہ ہے کہ آج نہایت مشکل مقدمہ ہاتھ میں لیاہے، جسے ثابت کرنا تو دور کی بات ہے ،لوگوں کو اسے سننے پر آمادہ کرنا بھی آسان نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ہمارے ہاں تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ میڈیا میںہمیشہ اسلامی نظریاتی کونسل کا مذاق اڑایا جاتا اور اس کے اراکین پر پھبتےاں کسی جاتی ہیں۔</p> <p>اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔پہلا سبب اس کے اراکین ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے ،جس کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ قوانین کو اسلامی بنانے کے حوالے سے رہنمائی اور سفارشات دے اور پہلے سے موجود غیر اسلامی قوانین کی نشاندہی کرے ۔ یہ انتہائی اہم ذمہ داری ہے ، جس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے نامور اور قابل احترام ترین علما کرام کو اس اہم فورم میں جگہ دی جائے۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا رہا۔ ایسے لوگ اس کا حصہ بنتے ہیں جن کی سفارش سیاستدانوں نے کی یااکثر حکومتوں کے پیش نظر یہ رہا کہ ایسے کمزور لوگ لائے جائیں، جو کوئی مسئلہ پیدا نہ کریں اور لوپروفائل رہ کر اپنی مدت گزار دیں۔ ایسے لوگ بھی ممبر بنتے رہے ،جو اپنی سنگل کالم ،ڈبل کالم خبر چھپوانے کے لئے اخبارات کے چکرلگایا کرتے اور انہیں اتنی جگہ بھی نہ مل پاتی۔ ظاہر ہے جب اراکین کونسل کا معیار اتنا نیچے آ جائے گا تو پھر کونسل کے حوالے سے احترام میں بھی اسی درجہ کمی واقعہ ہوجائے گی۔</p> <p>اسلامی نظریاتی کونسل پر تنقید کی دوسری وجہ یہ کہ ان کی بیشتر تجاویز اور سفارشات روایتی دینی فکر کے تابع رہی ہیں، کئی بار یہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ عصری تقاضوں سے ناواقف ہیں یا کہیں علم ہے بھی تو جدید ڈکشن موجود نہیں۔ آج کے زمانے میں جب میڈیا اتنا فعال اور بریکنگ نیوز کی بیماری (سنڈروم)کا شکار ہے ، تو ایسے میں بات نہایت سلیقے سے نپے تلے الفاظ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی زبان ذرا پھسلی ، ایک آدھ غیر محتاط جملہ نکلا اور لوگ اسے لے اڑے۔ بعد میں خواہ جس قدر وضاحتیں کی جائیں ، وہ بے کار ہیں۔ جس کسی نے پورے توازن، احتیاط اورعلمی شائستگی کے ساتھ جامع رائے دینے کی مثال ملاحظہ کرنا ہو ، وہ جسٹس (ر)مفتی تقی عثمانی کی ممتاز قادری کے حوالے سے گفتگو کاویڈیو کلپ دیکھ لے۔ سوشل میڈیا پر یہ وائرل رہا اورمفتی صاحب کے مخالفین نے بھی ان کے دلکش اسلوب اورنپے تلے انداز کو سراہا۔</p> <p>اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی ہیں۔ شیرانی صاحب رکن اسمبلی اور جمیعت علما ءاسلام فضل الرحمن گروپ کے مرکزی رہنما ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ انہوں نے مولانا شیرانی کو دانستہ مین سٹریم پالیٹیکس سے ہٹا کر کونسل کے گورکھ دھندے میں الجھایا تاکہ وہ انہیں پارٹی میں ٹف ٹائم نہ دے سکیں۔ مولانا محمد خان شیرانی چہرے مہرے سے سخت گیر روایتی عالم دین لگتے ہیں۔ میڈیا سے وہ فاصلے پر رہتے ہیں، بلوچستان سے تعلق رکھنے کے باعث لاہور ، کراچی کے اخبارنویسوں کے ساتھ ان کا میل ملاپ بھی نہایت کم ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی سفارش سے چیئرمین بننا بھی ان کے خلاف گیا۔</p> <p>مولانا شیرانی سے ملنے جلنے والے بعض کالم نگار البتہ ان کی تعریف کرتے رہے، جسے پڑھ کرمیرے جیسے لوگ ناک بھوں ہی چڑھاتے تھے۔برادرم خورشید احمد ندیم نے بھی ایک دو بار ان کا اچھے لفظوں میں تذکرہ کیا ، تو پہلی بار سنجیدگی سے یہ سوچا کہ ممکن ہے دور سے دیکھنے کے باعث ہم غلط فہمی کا شکار ہیں۔ دو تین ہفتے پہلے روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں مولانا شیرانی کا انٹرویو شائع ہوا تو پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی فکر نہایت پختہ اور کئی حوالوں سے متوازن ہے ۔</p> <p>تین دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کے حوالے سے بعض تجاویز کا جائزہ لیا اور ان پرغور کا تین روزہ سیشن منعقد کیا، جس کے بعد ان کی حتمی سفارشات حکومت کو بھیجی جائیں گی۔ یاد رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل صرف تجاویز دے سکتی ہے، اس سے زیادہ اس کا آئینی اور قانونی اختیار نہیں۔ ایسی تجاویز کے پلندوں کے ڈھیر حکومت کے پاس پڑے ہیں، جن میں سے بیشتر کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا۔ اس کے باوجود ان سفارشات میں سے جس کسی میں اتنا "پوٹینشل" ہوکہ وہ میڈیا پر دو تین دن زوردار پروگرام کرا سکے یا اس کے ذریعے مذہبی حلقوں کا تمسخراڑایا جا سکے۔پنجابی سلینگ میں" توا لگانا"سمجھ لیں،ایسے تمام نکات کو اہتمام کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے، یار لوگ طنزیہ کالم لکھنے کا موقعہ بھی ضائع نہیں جانے دیتے۔مزے کی بات ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے دوسرے سیشن کے دوران جن چند نکات کی سفارش کرنے پر غور ہوا، ان میں بعض ایسے ہیں جن کی حمایت کی جرات ماضی میں کسی عالم دین، مذہبی حلقے یا مذہبی جماعت نے نہیں کی۔ ہمارے لبرل ، سیکولر حلقے پچھلے کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ مذہبی حلقے ان پر بات کیوں نہیں کرتے؟ اب جب اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم اور آئینی ادارے نے ،جس کا سربراہ ایک انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا روایتی عالم دین ہے، جب انہوںنے وہ باتیں کیں تو میڈیا نے انہیں یکسر نظرانداز کر دیا۔</p> <p>چند ایک نکات بطور مثال پیش کرتا ہوں۔اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں، کاروکاری یا اس طرز کے الزامات کے تحت کسی عورت کو ختم کیا جائے تو اسے قتل ہی تصور کیا جائے۔ ونی یا صلح کے لئے لڑکی کی زبردستی شادی قابل تعزیر(سزا) جرم ہوگا۔ کسی عورت کا مذہب زبردستی تبدیل کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو تین سال سزا دی جائے۔ یاد رہے کہ ہماری بیشتر این جی اوز اور عاصمہ جہانگیروغیرہ چند برسوں سے یہ الزام لگا رہی ہیں کہ سندھ میں ہندو خواتین کو زبردستی مسلمان بنایا جا رہا ہے۔ نظریاتی کونسل کے نزدیک ایسے مجرموں کو باقاعدہ سزاد ی جائے ۔ عورت کی قرآن پاک سے شادی جرم ہے، سزا دس سال ہوگی۔ یہ بھی ایسا جرم ہے جس کا ارتکاب اندرون سند ھ ہو رہا ہے، ہمارے اکثر سیکولر لکھاری یہ طعنہ دیتے تھے کہ مولوی حضرات اس پر کیوں نہیں بولتے۔ لیجئے، اسلامی نظریاتی کونسل نے مولوی طبقہ کی نمائندگی کر دی ہے، اب اسے قانون بنانے میںہر ایک اپنا حصہ ڈالے۔ تین طلاقیں بیک وقت دینا قابل تعزیر ہوگا۔ یہ تجویز اگر حتمی سفارشات میں آتی ہے تو اپنی نوعیت کی انقلابی تجویز ہوگی۔ جہیز کے مطالبے اور نمائش پر پابندی ہوگی۔ عورت سے زبردستی مشقت لینے پر مکمل پابندی ہوگی۔ بھٹہ مزدور خواتین کے پس منظر میں یہ نقطہ بہت اہم ہے۔ ایک اور بہت اہم تجویز ہے کہ تیزاب گردی یا کسی حادثے میں کسی خاتون کی موت کی مکمل تحقیقات ہوں گی۔عاقلہ، بالغہ عورت اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے۔ قانوناً تو اس پر کوئی پابندی نہیں، اعلیٰ عدالتیں کئی فیصلے دے چکی ہیں، مگر دینی حلقے یانظریاتی کونسل جیسے ادارے کی جانب سے یہ بات کہنا بہت اہم ہے اور اس کا ایک خاص نفسیاتی تاثر بنے گا۔ شوہر اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر نس بندی (اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم) نہیں کر سکتا۔ ہمارے جاگیردار طبقے کے عیاش عناصر میں یہ عام رواج ہے کہ دوسری ، تیسری ، چوتھی شادی کر لی اور نس بندی کر ا لی کہ وہاں سے اولاد پیدا نہ ہو تاکہ پہلی خاندانی بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد اعتراض نہ کرے اور جائیداد وغیرہ کا جھگڑا نہ بنے ۔ اہل علم اسے عورت کا جذباتی استحصال قرار دیتے ہیں کہ ماں بننا ہر خاتون کا حق ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس مسئلے پر اپنی واضح رائے دے دی ہے ۔</p> <p>دو تجاویز ایسی ہیں، جن پر زیادہ اعتراض کیا گیا، ایک خواتین پر ہلکا تشدد کرنے کی اجازت والا معاملہ ، دوسرا مرد مریضوں کے خواتین نرسوں سے علاج پر پابندی کی تجویز۔ ایک دو اور نکات بھی ہیں، جوہمارے سیکولر دوستوں کو" کانٹوں" کے طرح کھٹکتے رہیں گے، مگر یہ علیحدہ سے تفصیلی مباحث ہیں، ان کے لئے ایک اور کالم درکار ہوگا۔</p> </section> </body>
5491.xml
<meta> <title>بیویوں سے ڈرتے ہو</title> <author> <name>محمد حنیف</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27131/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>716</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بیویوں سے ڈرتے ہو
716
No
<body> <section> <p>چند سال پہلے سامنے آنے والی ایک نیم سائنسی تحقیق کے مطابق ہر بالغ صحت مند مرد اوسطاً ہر سات سیکنڈ کے بعد جنس یعنی سیکس کے بارے میں سوچتا ہے۔ پاکستان کی اِسلامی نظریاتی کونسل کے روحِ رواں مولانا محمد خان شیرانی نے اِس تحقیق کو اپنی جرات ایمانی سے غلط ثابت کرنے کی ٹھانی ہے۔ اُن کا خیال ہے مرد باقی چھ سکینڈ بھی کسی اور کام میں کیوں ضائع کرے۔ اِس لیے مولانا شیرانی اور اُن کی نظریاتی کونسل کا زیادہ تر وقت جنسیات اور عورت ذات کے بارے میں غور و فکر کرتے گزرتا ہے۔</p> <p>پنجابی میں اگر کسی بزرگ کی منت کرنی ہو تو کہتے ہیں میں آپ کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا ہوں جانیں دیں۔ ایسے مت کریں لوگ کیا کہیں گے اپنا نہیں تو اپنی بزرگی کا ہی خیال کر لیں۔ لیکن مولانا شیرانی کی ریشِ مبارک اتنی ریشمی اور نورانی لگتی ہے کہ ڈر لگتا ہے کہ گناہ گار کا ہاتھ لگنے سے میلی نہ ہو جائے۔ویسے اُن کے جُبے کی ہیبت بھی اپنی جگہ ہے۔</p> <p>صرف مولانا شیرانی کی ہی بات نہیں سائنسی طریقے سے ہر سات سیکنڈ کے بعد سوچنے والے مرد حضرات بھی اِس فکر میں غلطاں پائے جاتے ہیں کہ بیوی کو کیسے قابو کیا جائے۔ یہاں پر اُن کا ذِکر مقصود نہیں ہے جو ہلکی پھلکی پٹائی سے، یا کلہاڑی کے وار سے یا تیزاب کی بوتل سے یا بندوق کی گولی سے بیوی پر اپنی اجارہ داری ثابت کرتے ہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا کرنے سے پہلے وہ تعزیرات پاکستان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یا مولانا شیرانی کے فتوے کا اِنتظار کرتے ہیں۔ میں تو اُن کمزور دِل ، نیم مذہبی ، نیم تہذیب یافتہ میانہ روی اِختیار کرنے والے مرد حضرات کی بات کر رہا ہوں جو ویسے تو شاید کاکروچ پر چپل اُٹھاتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو قابو کرنا اُن کا بھی اولین مسئلہ رہتا ہے۔ اُن میں شاعر بھی شامل ہیں اور سبزیوں کے آڑھتی بھی۔ دکانوں میں، گلیوں کی نکڑوں پر، ریڈیو کے ڈرائیو ٹائم پروگراموں میں، ناؤ نوش کے ٹھکانوں پر، میلاد کی محفلوں میں ، گالف کورسز میں، ولیمے کی دعوتوں میں جہاں بھی کچھ شادی شدہ مرد مل بیٹھیں گے تو مارشل لا کب آ رہا ہے کہ بعد اگلی گفتگو ہمیشہ اِس طرح شروع ہو گی کہ یار جو میری بیوی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔</p> <p>ایک تبلیغی دوست چلّے پر جا رہا تھے پوچھا پیچھےگھر پر خیریت رہے گی بولے جب کبھی کہتا ہوں کہ دیر سے گھر آؤں گا تو بیوی کا مُنہ بن جاتا تھا۔ اب چالیس دن کے لیے جا رہا ہوں کچھ کہہ کر تو دِکھائے۔ اللہ کے کام سے کیسے روکے گی</p> <p>یہ باتیں آپ نے نو بیاہتا نوجوانوں سے لے کر قریب المرگ بزرگوں تک سے سُنی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ ُیار جو میری بیوی ہے نا ۔۔۔۔۔۔'، شادی شدہ مردوں کے لیے ایک مستقل مصرع طرح ہے جس پر وہ اپنے خوف اور خواہشات کے مضامین باندھتے رہتے ہیں۔</p> <p>ایک تبلیغی دوست چلّے پر جا رہا تھے پوچھا پیچھےگھر پر خیریت رہے گی بولے جب کبھی کہتا تھا کہ دیر سے گھر آؤں گا تو بیوی کا مُنہ بن جاتا تھا۔ اب چالیس دن کے لیے جا رہا ہوں کچھ کہہ کر تو دِکھائے۔ اللہ کے کام سے کیسے روکے گی۔</p> <p>بیوی کو قابو کرنے کی جدوجہد کی وجوہات تاریخی، نفسیاتی اور سماجی تو ہوں گی لیکن اُن کی ایک سیدھی سی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر والی جانتی ہے کہ یہ جو باہر جان محفل بنا پھرتا ہے، جو بورڈ روم کا بادشاہ ہے جس کے آگے پیچھے بندوقوں والے محافظ گھومتے ہیں جو اپنے آپ کو موالیوں کا پیر کہلاتا ہے ، یہ جس کو اُٹھ کر سلام کرتے ہیں جسکے جُبے کی ہیبت سب پر طاری ہے۔ اِس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اِس جُبے کے پیچھے کیا چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے۔</p> <p>اگر کوئی مرد کا بچہ مولانا شیرانی کے نورانی سحر سے آزاد ہو کر ریش مبارک کو چھو سکے تو اُنھیں وہی کہہ دے جو اُردو اور سندھی کے معروف شاعر اور سینئر کالم نگار حسن مجتبی نے ن۔م راشد کی طرز میں اُس وقت کہا تھا جب بیویوں کی غیبت کی محفل عروج پر تھی۔</p> <p>بیویوں سے ڈرتے ہو بیویاں تو تم بھی ہو بیویاں تو ہم بھی ہیں</p> <p>بشکریہ: بی بی سی اردو</p> </section> </body>
5492.xml
<meta> <title>بکروں کی فریاد . . .گو نواز گو</title> <author> <name>شہریارخان</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27168/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1177</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
بکروں کی فریاد . . .گو نواز گو
1,177
No
<body> <section> <p>کل بہت ہی عجیب سا خواب دیکھا، ایک لمبی سے داڑھی والا کالا بکرا میرے خواب میں آیا اور زار و قطاررونے لگا، میں خواب ہی خواب میں پریشان بھی ہو گیا۔۔ بھائی روتے کیوں ہو؟ میں نے پوچھا</p> <p>کیا بتائیں جناب، ہماری زندگی عذاب کر کے رکھ دی ہے، سارے ملک کے بکرے چھپتے پھر رہے ہیں، پہلے صرف کالے بکرے خوفزدہ تھے، اب تو رنگ و نسل اور حسب و نسب کی بھی تفریق مٹ گئی ہے۔ دوندا ، کھیرا یا بڈھا بکرا ۔۔ بس اب بکرا ہونا چاہئے، صاحب لوگوں نے تو حد ہی کر دی۔بکرا منمنایا</p> <p>جناب بکرا صاحب، ہوا کیا ہے؟ کون آپ کے پیچھے پڑا ہے؟ کن سے خوفزدہ ہیں آپ لوگ؟ کیا آپ کا تعلق کراچی سے ہے؟ایسے خوفزدہ تو کراچی کے عوام ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے پوچھا</p> <p>نہیں جی۔۔ سب سے زیادہ متاثر ہم پنجابی بکرے ہو ئے ہیں ان پنجاب کے دہشت گردوں سے۔۔ یہ تو کراچی کے بھتہ خوروں سے بھی زیادہ ظالم ہیں۔ یعنی بکرے نہ ہوئے مچھر یا مکھی ہو گئے۔۔ جس کا دل کرتا ہے ہماری گردن پکڑ لیتا ہے۔۔ کوئی ظلم سے ظلم ہے۔۔ کوئی چیف جسٹس بھی ایسا نہیں رہا جو اس دہشت گردی کا از خود نوٹس لے۔۔ اللہ بخشے ہمارے چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب جب سے ریٹائر ہوئے ہیں، از خود نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا اپنے جج صاحبان نے ، میرے خیال میں تو ایک ہی شخصیت ہے جو یہ ظلم بند کرا سکتی ہے۔۔ مجھے ذرااپنے آرمی چیف کا نمبر ہی دے دیں، بکرے نے جگالیانہ انداز میں کہا۔۔</p> <p>سوری، میرے پاس آرمی چیف کا نمبر تو نہیں ہے۔ ہاں اپنا مسئلہ بتاؤ تو پتا چلے معاملہ کیا ہے، پھر اگر میرے بس میں ہوا تو حل کروانے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔میں نے صحافیانہ انداز میں کہا</p> <p>جناب ۔۔ آپ ہی کے بس میں تو ہے، اگر آپ کسی طرح ہم سب بکرا جات کی جانب سے ایک اپیل اخبار میں شائع کرا دیں تو میں بے حد مشکور ہوں گا اور تا دم ذبح آپ کو دعائیں دیتا رہوں گا، میرے چالیس سے زائد بچے اور دس بکریاں آپ کے ممنون رہیں گے، خیر ممنون کا نام تو چھوڑ دیں، اس ایک شخص نے جتنی ممنونیت کا مظاہرہ کیا ہے اب کوئی اس مقام ممنونیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ بکرے نے کہا</p> <p>بھئی تم تو سیاسی قسم کے بکرے معلوم پڑتے ہو۔۔ تمہارا سیاست سے کیا تعلق؟ میں نے پوچھا تو بکرے نے جگالی کرتے کرتے ایک نہایت ہی بے ہودہ سی گالی دی اور بولا۔۔ یہی سوال تو ہم سب بکرے کر رہے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کیا تعلق؟ کیوں ہمیں سیاست میں گھسیٹ رہے ہو؟ ہم بے چارے بے زبان ہیں ، بے زبان ہی رہنے دو، ہمیں بد زبان بننے پہ مجبور نہ کرو۔۔ اگر ہم نے احتجاج شروع کر دیا تو ہم گالیاں بھی بکیں گے اور ٹکریں بھی ماریں گے، ہم پہ آنسو گیس کا اثر بھی نہیں ہوتا ۔ ہاں ، البتہ چھری سے ڈر لگتا ہے صاحب۔</p> <p>یار تم میرا خواب لمبا کر رہے ہو۔ جلدی جلدی بتاؤتمہارا کیا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی قصابوں سے متعلق معاملہ ہے تو جمعیت القریش کے خورشید قریشی صاحب اپنے دوست ہیں، ان سے کہہ کر تمہارا مسئلہ حل کروا دیتا ہوں۔ میں نے غصے میں کہا</p> <p>جناب قصابوں سے کیا مسئلہ ہوگا، ان کے ساتھ تو ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے، ان کے ساتھ تو آپ لوگوں کو مسئلہ ہونا چاہئے کہ ہمارے ساتھ ساتھ وہ آپ کو بھی حلا ل کرتے ہیں۔ بکرا بولا۔۔ پھر دائیں بائیں دیکھ کر رازداری سے بولا ۔۔ سر ہماری جان ان سیاستدانوں سے چھڑوا دیں۔۔آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔</p> <p>بھئی تمہارا سیاستدانوں نے کیا بگاڑا ہے؟ میں نے پوچھا تو بکرا پہلے ہنسا، پھر اس نے کہا۔۔ پہلا قصور چوہدری تنویر کا ہے۔۔ انہوں نے تو خلوص نیت کے ساتھ اپنے لیڈر کے لیے چوبیس بکروں کا صدقہ کیا تھا، بس پھر کیا تھا ہر لیگی سیاستدان کو یوں لگا جیسے کوئی بکرے صدقہ کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے یعنی جو جتنے زیادہ بکرے ذبح کرے گا اتنا بڑا لیڈر بنے گا۔۔ ڈاکٹر طارق فضل، ملک ابرار کے بعد ہر یونین کونسل کے چیئرمین سمیت ہر شخص نے یہ مقابلہ شروع کر دیا۔۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کیا تمہارے لیڈر کی حالت کے ذمہ دار ہم ہیں؟ ہمارا کیا قصور ہے؟</p> <p>بکرا ایک ہو یا چالیس، چھیاسٹھ کیا فرق پڑتا ہے؟ صدقہ صدق دل سے کیا جائے تو رب ایک کالی مرغی کیا، پانچ دس روپے کا صدقہ بھی قبول کر لیتا ہے، یہ دولت کی نمائش جہاں عید قربان پہ کرتے ہیں وہیں سب صدقہ کرتے ہوئے بھی یہی نمائش کرتے ہیں۔۔ عید پر بھی ایک دو اونٹ، دو چار ویہڑے اور پچاس پچاس ہزار روپے والے چار پانچ بکرے قربان کرنے کے بعد بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ہاں کوئی غریب مانگنے والا آ جائے تو اس کی شامت آ جائے گی، ہٹے کٹے ہو کام کیوں نہیں کرتے؟ لیکن اپنے لیڈرز کو خوش کرنا ہو تو یہ سو سو بکرے بھی قربان کر دیں گے مگر ٹیکس کتنا دیتے ہیں پانچ ہزار روپے۔۔</p> <p>ان سے اچھے تو پیپلز پارٹی والے تھے ایک لیڈر کسی بکرے کوکو گھیر گھار کے لاتا تھاپھر سارے اس بکرے کے ساتھ تصویر کھنچوا لیتے تھے یعنی لیڈر بھی خوش کہ میرے کارکن میرے لیے اچھے جذبات رکھتے ہیں، بکرا بھی ایک ہی ہوتا تھا جسے شام کو فارم ہاؤس پر ہونے والی پارٹی میں استعمال بھی کر لیا جاتا تھا۔صبر شکر بھی کر لیتے تھے۔ یہاں تو کام رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔</p> <p>چلو ۔۔ چوہدری تنویر تک تو ٹھیک ہے وہ تو حقیقی رئیس ہیں اور پر خلوص بھی مگر اب کئی قبضہ گروپوں نے بھی یہ کام شروع کر دیا۔ اپنی یونین کونسل کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین ، کونسلر اور لیبر کونسلر حضرات سب کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے جہاں بکرا نظر آئے اسے پکڑ کر لے آؤ۔۔ یہ سب بھی اسی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔۔۔اور یہ مقابلہ غالباً یا تو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میاں صاحب وطن واپس نہیں آتے یا پھر ہماری نسل کے ناپید ہونے تک۔۔ اور ہمیں خدشہ ہے کہ میاں صاحب کو آنے میں تھوڑی سی بھی تاخیر ہو گئی تو شاید ہماری نسل ہی مٹ جائے۔۔ اب تو ہمارا ہر بکرا نعرہ لگانے لگا ہے ۔۔۔ گو نواز گو۔۔ گو نواز گو۔۔</p> <p>تمہاری بھی عقل ماری گئی ہے بکرے، تم نعرہ مارو کم نواز کم، کم نواز کم۔۔۔ تاکہ نواز شریف صاحب جلد واپس آ جائیں۔۔ تم بھی بالکل پاگل ہو۔۔ میں نے کہا تو بکرا غصے میں آ گیا اور قریب تھا کہ مجھے ٹکر مارتا کہ میری آنکھ کھل گئی۔۔ قریب ہی بیگم کھڑی مجھے حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔۔ کیا ہوا کیوں گھبرائے ہوئے ہیں۔۔ اس نے پوچھا</p> <p>کچھ نہیں۔۔ تم بتاؤ کیا ہوا۔۔۔ میں نے پوچھا تو بیگم بولی، مہمان آنے والے ہیں ذرا بازار سے مٹن تو لا دیں۔۔</p> <p>نہیں۔۔ میں نے خوفزدہ لہجے میں کہا، بہتر ہے آپ چکن ہی پکا لیں، آج کل بکروں کی حالت کچھ اچھی نہیں۔۔۔ اچانک مجھے بکرے کی ٹکر کا خیال آگیا۔۔</p> </section> </body>
5493.xml
<meta> <title>ہم ایک دوسرے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟</title> <author> <name>تصوّر حسین خیال</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27387/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1425</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
ہم ایک دوسرے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
1,425
No
<body> <section> <p>یہ 2007 کے اوائل کا قصّہ ہے۔ لندن میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کو حالانکہ دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا تھا مگر پھر بھی لوگوں کے ذہنوں پہ اور ان کی گفتگو میں ان واقعات کے اثرات کو ابھی زنگ نہیں لگا تھا۔ میں اپنی رات کی شفٹ ختم کر کے بذریعہ بس گھر لوٹ رہا تھا۔بس میں لوگوں کی تعداد گنجائش کی نسبتا کافی کم تھی۔ اکثر سیٹیں خالی تھیں اور اس کی وجہ صبح کے اوقات تھے ےیعنی قریب 6 بجے کا وقت تھا۔ برطانیہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہاں ہر رنگ ، نسل اور مذہب کے لوگ پائے جاتے ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف بس میں موجود مسافر بھی تھے۔</p> <p>ایک سٹاپ پہ بس رکی تو ایک نوجوان جس نے عربی طرز کا ایک لمبا سا جُبہّ پہن رکھا تھا ،سوار ہوا۔ ہاتھ میں تسبیح، زبان پہ ورد، لمبی سیاہ گھنی داڑھی ، وہاں اس طرز کے جُبے ّ بہت مقبول ہیں۔ خاص طور پہ ان لوگوں میں جو باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں۔ اپنے چہرے کے خدوخال سے وہ بھارتی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی کوئی بھی ہو سکتا تھا مگر اس کا حلیہ اسے ایک مسلمان ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔ سب سے پہلے جس بات نے میری ادھ سوئی آنکھوں کو چونکنے پہ مجبور کیا وہ بس میں موجود سبھی لوگوں کا اسے سر تا پا گھورنا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسے وہاں کی معاشرتی اخلاقیا ت کے برعکس ایسے معیوب انداز میں گھورنے والوں میں فقط گوری یا سیاہ چمڑی والے ہی نہیں تھے " اپنے " بھی تھے۔ اپنے کا لفظ وہاں پاکستانی نک نیم کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔مختصراً وہ ان چبھتی نگاہوں کا شکار مسلم، غیر مسلم دونوں سے ہوا تھا۔</p> <p>دوسری بات جو زیادہ حیران کن اور غور طلب تھی وہ سبھی مسافروں کا اسے خوف زدہ نگاہوں سے بار بار دیکھنا تھا۔ مجھے بھی مجبوراً معاشرتی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نظر مڑ کے سبھی کے چہروں کو دیکھنا پڑا اور اس ایک طائرانہ سی نظر نے یہ واقعی آشکار کیا کہ لوگ اس کی موجودگی میں بے چینی سی محسوس کر رہے تھے۔ ایک خاتون تو خاصی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔ بقیہ سبھی مسافروں کا یہ حال دیکھ کےخدا گواہ ہے جو پہلا خیال میرے ذہن میں اترا تھا کہ مجھے بھی باقاعدگی سے نماز شروع کر دینی چاہئے وہ نہ جانے ماحول کا اثر تھا یا میرے اندر کے کسی وہم کا کہ وہ خیال خوف میں بدل کر آیت الکرسی کی صورت میری زبان پہ جاری ہونے لگا اور سبھی کی طرح میں بھی اپنے اندر ایک بے نام سی بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ نوجوان مسافروں کے اس طرز کے ردّعمل ساے مکمل بے خبر اپنی تسبیح میں مصروف تھا۔</p> <p>اتنے میں وہ خاتون اٹھیں اور ڈرائیور سے بس روکنے کا تقاضا کرنے لگیں۔ بس اپنے سٹاپ سے پہلے نہیں رک سکتی تھی مگر وہ خاتون ہیجانی سی کیفیت میں ڈرائیور پہ چلانے لگی۔ ڈرائیور شاید چالان کے خوف سے بس روکنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خاتون اونچی آواز میں چلا بھی رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس نوجوان کو بھی دیکھ رہی تھی آخر کات سٹاپ پہ بس رکی اور وہ خاتون اچھلتے ہوئے بس سے ایسے اتری جیسے موت اس کا پیچھا کر رہی ہو اور وہ اس سے بھاگ کے دور جانا چاہتی ہو۔ میرے سمیت سبھی یہ اندازا لگا چکے تھے کہ وہ شدید خوف کے اثر میں تھی۔ نوجوان حقیقت سے بے خبر خاتون کے ایسے رویئے پہ کافی حیران لگ رہا تھا۔ وہ جانے اس کی نظریں پڑھ سکا یا نہیں مگر وہ اس حقیقت سے لا علم ہی رہا کہ اس کایہ سلامتی، محبت اور بھائی چارے کے مذہب کی نمائندگی کرنے والا حلیہ آج کسی کے لئے اس درجہ خوف کی علامت بن گیا کہ ایک خاتون اس کی موجودگی میں چند میل کا سفر سکون سے طے نہ کر سکی اور بس کو اپنے مطلوبہ مقام سے پہلے ہی اپنے لئے غیر محفوظ سمجھا اور بس سے اتر گئی۔</p> <p>وہ خاتون اتر گئی ۔ وہ نوجوان بھی اپنے سٹاپ پہ بس کو الوداع کہ گیا مگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ایک سوا ل جوبیدار کر گیا وہ یہ تھا کہ کیا واقعی ہم ایک دوسرے سے ڈر گئے ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ہمارے جیسے انسانوں سے ہی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کیا انسان ہی انسان کے لئے خوف کی علامت بن چکا ہے۔ ہم اس قدر سہم گئے ہیں کہ اپنے سائیوں سے بچتے پھر رہے ہیں۔ معاشروں کی بنیاد تو قربتوں سے ہے، فاصلے تو توڑ پھوڑ اور تفریق کی نشانی ہیں۔</p> <p>ہم نےایک دوسرے سے چند گز کے فاصلے پہ رہتے ہوئے بھی میلوں کی مسافتوں پیدا کرنی شروع کر دی ہیں۔ اس خوف نے ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ مار دیا ہے۔ ہم آدھی رات کو ویران سڑک پہ کھڑے کسی بزرگ کو اپنے گاڑی میں اس لئے نہیں بٹھاتے کہ رستے میں کہیں اس کے کمزور بازو ہم سے ہماری جمع پونجی نہ چھین کے لےجائیں۔ ہم مجبوری میں کسی کو اپنا فون اس لئے استعما ل نہیں کرنے دیتے کہ کہیں وہ لے کے بھاگ نہ جائے۔ ہم کسی سنسان جگہ پہ کھڑی کسی برقعہ پوش خاتون کے ہاتھ کے اشارے کو اس لئے نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ہم رکے تو جھاڑیوں کی اوٹ سے چند مسلح افراد ہمیں اپنے اشاروں پہ نہ نچانے لگیں ۔ اس خوف نے ہماری عبادتوں کا سکون چھین لیا ہے، ہم نماز پڑھتے اسی پریشانی میں گھرے رہتے ہیں کہیں یہ نماز ہماری آخری نماز کی وجہ نہ بن جائے۔ ہماری مساجد، امام بارگاہ، درسگاہیں جو امن و تحفظ کی علامت سمجھی جاتی تھیں آج وہاں داخل ہونے والاہر شخص پہلے تلاشی کے ذریعے اپنے پر امن ہونے کا ثبوت دیتا ہے تب اسے داخلے کی اجازت ملتی ہے۔</p> <p>شرمندگی مجھے اس دن ہوئی جب ایک دن ہمارے گھر کے دروازے پہ دستک ہوئی کوئی معمر سی خاتون تھیں، کہا بیٹا کچھ نہیں چاہئیے، بہت بھوک لگی ہے، کھانے کا وقت ہے اگرکچھ کھانے کو مل جائے تو؟ میں نے انہیں اندر ڈرائینگ روم میں بٹھانا چاہا تو والدین گھبرا گئے، کہا بیٹا ان کے ساتھ ڈاکو ہوتے ہیں، یا تو یہ اندر کے حالات کا جائزہ لینے آئی ہے یا اس کے اندر آتے ہی اس کے پیچھے وہ بھی گھس آئیں گے، ہم خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مجبوراً مجھے انہیں روٹی، سالن اور پانی باہر گیٹ کے پاس زمین پہ بٹھا کے دینا پڑا ۔ یہ اس خاتون کی تذلیل تھی ، انسانیت کی تذلیل تھی۔ وہ کھانا کھا کے چلی گئی اور میں یہ سوچتا رہاکہ وہ تو کھانا کھانے ہی آئی تھی ہم اگر خوف ذدہ نہ ہوتے تو اسے عزت سے اندر بٹھا کے کھلا سکتے تھے۔</p> <p>ایک دن میرا ایک دوست بڑے مزے سے اپنا ایک کارنامہ سنا رہا کہ ہم کچھ دوست مارکیٹ میں گئے۔ عید کی آمد قریب ہونے کے باعث رش کافی تھا کہ اچانک ہمیں ایک شرارت سوجھی، ہم میں سے ایک نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی زمین پہ بیٹھ گیا ، لوگوں نے نہ جانے اس کا کیا مطلب لیا کہ ایک ہلچل سی مچی اور لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے زمین پہ لیٹنے لگ گئے۔ میرے دوست کے لئے یہ فقط ایک مزاح تھا مگر میرے لئے ایک لمحۂ فکریہ کہ کیا واقعی ہم اتنے ڈر گئے ہیں کہ آج اگر کوئی اچانک بھیڑ میں اس ذات باری تعالیٰ کہ جس کی رحمت بے حساب ہے کا نام اونچی آواز میں کوئی بلند کرے تو ہمیں بجائے سکون کے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔</p> <p>پڑوسی جاسوس لگنے لگا ہے، نمازی ، نمازی سے خائف ہے، مسافر اپنے ساتھ بیٹھے دوسرے مسافر پہ بھروسہ نہیں کرتا، رشتے بے اعتبار ہوتے جا رہے ہیں، خلوص غرض لگنے لگا ہے، ایمان ملاوٹ ذدہ محسوس ہونے لگا ہے، اپنے علاوہ ہر مذہب سے کفر کی بدبو آنے لگی ہے اور اسے سونگھنے والے ایسے بھی ہیں کہ جنہیں اس حس کی ح سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ ہر سچ میں جھوٹ کا گماں ہوتا ہے، والدین اولاد، اولاد والدین سے غیر محفوظ ہونے لگے ہیں، امیر کو غریب سے چوری کا خدشہ، غریب کو امیر سے ظلم کا خوف۔ ہم اس خوف کی پکڑ میں ہیں اور یہ رفتہ رفتہ ہماری ایک دوسرے کے بیچ مسا فتوں کی دیوار کو بلند سےبلند تر کرتا جا رہا ہے ہم ایک دوسرے سے دور ہونے لگے ہیں ، ہم ایک دوسرے سے ڈرنے لگے ہیں۔</p> <p>مجھ کو انساں کوئی مار ہی ڈالے گا</p> <p>مروائے گا مجھ کو میرا انساں ہونا۔</p> </section> </body>
5494.xml
<meta> <title>وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے سالانہ امتحانات کے نتائج ک اعلان کر دیا۔</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27481/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>256</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے سالانہ امتحانات کے نتائج ک اعلان کر دیا۔
256
No
<body> <section> <p>صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا سلیم اﷲ خان اور ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان قاری محمد حنیف جالندھری نے کل کراچی میں وفاق کے سالانہ امتحانات برائے سال 1437 ھ مطابق 2016ء کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال ملک بھر میں ہونے والے امتحانات کا نتیجہ تقریباً 81 %سے زائد رہا۔</p> <p>امتحانات میں کل 271926 (دو لاکھ اکہتر ہزار نو سے چھبیس) طلبہ وطالبات نے حصہ لیا جن میں سے 222059 نے کامیابی حاصل کی۔</p> <p>ملکی سطح پر کتب بنین میں درجہ عالمیہ ( دورہ حدیث شریف) میں اوّل پوزیشن محمد احسن بن محمد ادریس جامعہ فاروقیہ کراچی، دوم پوزیشن لعل رحمن بن حاجی محمد جان جامعہ عثمانیہ کراچی اور کامران خان بن نصیب زادہ جامعہ فاروقیہ کراچی نے حاصل کیں۔ سوم پوزیشن امان اﷲ بن صفدر خان جامعہ دارلعلوم کراچی نے حاصل کی ،</p> <p>اسی طرح درجہ عالمیہ للبنات میں اوّل اور دوم پوزیشن مدرسہ سیدہ حفصہ مسلم ٹاون راولپنڈی کی طالبات اور سوم پوزیشن جامعہ دارالعلوم کراچی کی طالبہ نے حاصل کی۔</p> <p>وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جاری کردہ نتائج کے مطابق درس نظامی بنین میں کل 93440 طلبہ شریک ہوئے جن میں سے 69891 طلبہ کامیاب ہوئے، درس نظامی بنات میں کل 119301 طالبات شریک ہوئیں ، جن میں سے 96175 طالبات کامیاب ہوئیں، وفاق المدارس العربیہ کے تحت درجہ حفظ بنین میں کل 48002 حفاظ نے امتحان دیا جن میں سے 45492 حفاظ کامیاب ہوئے، اسی طرح درجہ حفظ بنات کے امتحان میں 11183 حافظہ بچیوں نے شرکت کی جن میں سے 10501 حافظات کامیاب ہوئیں۔</p> </section> </body>
5495.xml
<meta> <title>والدین اور ہم ؟</title> <author> <name>جمال ناصر</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27560/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>232</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
والدین اور ہم ؟
232
No
<body> <section> <p>ھمارے ھاں والدین سے مراد ماں اور باپ ھوتے ھیں اور اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں -لیکن عربی زبان میں والدین کا سلسلہ ماں باپ سے اوپر بھی جاتا ھے -</p> <p>یعنی ان میں نانا, نانی, دادا,دادی اور اسی طرح اولاد میں پوتا,پوتی, اور نواسہ,نواسی نیچے تک س شامل ھوتے ھیں -</p> <p>بچہ جب تک اس عمر تک نہ پہنچے جہاں وہ معاملات کے فیصلے خود کرنے کے قابل نہ ھو اس وقت تک لامحالہ اسے ماں باپ کے فیصلوں کے مطابق چلنا چاہیے -لیکن جب وہ سن شعور کوپہنچ جاتا ھے تو ماں باپ کے فیصلوں کی اطاعت اس پر فرض قرار نہی پاسکتی -</p> <p>ماں باپ بڑھاپے کی اس عمر کو پہنچ چکے ھوتے ھیں یا پہنچ رھے ھوتے ھیں جن کے متعلق قران کریم نے کہا ھے,,</p> <p>کہ وھاں انسانی عقل اندھی ھوجاتی ھے (68-36)</p> <p>وہ عمر کا ارذل حصہ ھوتا ھے(5-22)</p> <p>وھاں انسان اپنا سابقہ علم فراموش کرجاتا ھے 5-22)</p> <p>قران کریم کی تعلیم تو یہ ھے حضرت ابراھیم نے برملا اپنے باپ کو کہ دیا کہ وہ غلط راستے پر چل رہا ھے اس لیے وہ اسکا حکم ماننے کے لیے تیار نہی ھے -</p> <p>قران نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ھے یعنی انکی ضروریات کا پورا,کرنا جنہیں بوجہ ضعیف العمری خود پورا کرنے کے قابل نہ رھے ھوں نیز یہ بھی کہ ان سے سختی سے پیش نہ آیا کرو -</p> </section> </body>
5496.xml
<meta> <title>عربی زبان، مدراس عربیہ اور ایک نوجوان فاضل کی علمی کاوش</title> <author> <name>عنایت شمسی</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27661/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1883</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
عربی زبان، مدراس عربیہ اور ایک نوجوان فاضل کی علمی کاوش
1,883
Yes
<body> <section> <p>عربی دنیا کی دوسری سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ پوری دنیا میں 280 ملین افراد پیدائشی طور پر اور 250 ملین افراد اپنے طور پر سیکھ کر عربی بولتے ہیں۔ دنیا کی اس قدیم ترین اور محفوظ و زندہ زبان کو آج مشرق وسطی اور افریقہ کے تقریباً 30 ملکوں کی قومی و سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں ایسے ملک بھی شامل ہیں جن کی آبادی کی اکثریت مسلمان نہیں ہے۔ عربی سریانی اور عبرانی کی طرح سامی النسل زبان ہے، اس نسل کی مغربی وسطی شاخ سے اس کا تعلق ہے اور اپنے "خاندان" کی یہ سب سے بڑی زبان ہے۔ عربی زبان تاریخ میں اپنے وجود کے ابتدائی نقوش سے لے کر اب تک ہر دور میں لہجوں کے معمولی فرق کے ساتھ یکساں ہی رہی ہے۔ یہ غالباً دنیا کی وہ واحد زبان ہے، جس کا دامن تاریخ کے کسی بھی دور میں شعر و ادب کے علمی و فنی سرمائے سے خالی نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے وجود کا جوہر شروع سے اب تک کسی تغیر و تبدل کے بغیر برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس زبان کی سب سے بڑی خوبی اس کی فصاحت، بلاغت اور اس کی وسعت و گہرائی ہے۔ فصاحت کا یہ حال کہ ایک ایک مضمون کی نہایت عمدگی کے ساتھ ہزار رنگی پیش کش میں بھی الفاظ و معانی کی تنگ دامنی کا شکوہ آڑے نہیں آتا۔ بلاغت کا یہ عالم کہ وہ مضمون جس کے بیان کے لیے ہزار صفحے درکار ہوں، دو لفظوں میں اس انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کے فہم میں کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ وسعت کے تو کیا ہی کہنے۔ اس صفت میں دنیا کی کوئی زبان عربی کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ عربی حروف تہجی میں سے کوئی تین حرف ملالیے جائیں تو عربی زبان کا ایک با معنی لفظ اور کلمہ وجود میں آجاتا ہے۔ اس سے اس زبان کی وسعت اور گہرائی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔</p> <p>عربی زبان کو چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں دین اسلام نے اس وقت گود لیا، جب قرآن کریم اس زبان میں نازل ہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور نزول قرآن کے بعد اسلام بطور دین متشکل ہوا تو عربی زبان اس کی گویا سرکاری زبان بن گئی، چنانچہ اسلام کے پہلو بہ پہلو یہ زبان بھی پھلتی پھولتی اور سجتی سنورتی تہذیب کے مختلف قرینوں سے آشنا ہوتی رہی۔ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں گو عربی زبان اس بنا پر سب سے پرانی ہے کہ یہ تقریباً دو ہزار سال سے باقاعدہ گفت و شنید کی زبان ہے، فارسی گیارہ صدیوں سے بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ انگریزی کی عمر یہی کوئی چھ سات صدی ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ محمد عربی سے ہے عالم عربی۔ اگر محمد عربی تشریف نہ لاتے تو یہ زبان بھی جزیرہ نمائے عرب کے صحراوں میں کچھ صدیوں کی عمرگزار کر اپنے بولنے والوں سمیت فنا کے گھاٹ اتر جاتی۔ عربوں کی تاریخ میں ایسی اقوام بھی گزری ہیں، جنہیں "عرب بائدہ" کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عرب اقوام ہیں، جن کے حالات میں تاریخ صرف اس قدر شہادت پیش کرتی ہے کہ وہ ہلاک ہوگئیں اور ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ اس کے سوا تاریخ ان کے متعلق مستند تفصیلی احوال بتانے سے قاصر ہے۔ عالم یہ ہے کہ آج عرب خطوں میں کہیں کہیں کھدائیوں سے ہی ان کے ہلاکت نشان آثار سے تاریخ کے عمل میں ان کے گزرنے کا سراغ ملتا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں ظہور اسلام کے ساتھ دراصل عربی زبان کی تاریخ کا نیا موڑ شروع ہوتا ہے۔ عربی زبان کی تاریخ میں یہ موڑ نہ آتا، تو کچھ بعید نہ تھا کہ عرب عاربہ اور عرب مستعربہ بھی اپنی طبعی عمر گزار کر تکوین کے عام اصول کے مطابق عرب بائدہ کے انجام سے دوچار ہوجاتے۔ یوں آج دنیا اس ملکوتی جلال و جمال اور فصاحت و بلاغت کی معجزانہ صفات کی حامل اہم زبان سے محروم ہوتی۔</p> <p>اسلام میں اہم مقام حاصل ہونے کے بعد اہل اسلام نے عربی زبان سے کچھ اس طرح تعلق خاطر بنایا، برتا اور نبھایا کہ دنیا کی کوئی اور زبان قیامت تک اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اس زبان کے پیدائشی طور پر تکلم کرنے والوں نے اس کی حفاظت و ترویج میں بلاشبہ دوسری زبانوں سے وابستہ اقوام و افراد کی طرح تندہی اور مخلصی سے کام لیا، مگر محض اسلام کے رشتے سے جس طرح غیر اہل زبان نے اس کی متنوع خدمت کی، اس کا دائرہ اہل زبان کی خدمات سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ بطور زبان ہر زاویہ نگاہ سے اس کی خدمت انجام دینے کے لیے علوم کی نئی نئی شاخیں تراشی گئیں، چنانچہ محض عربی زبان سے وابستہ علوم کو دیکھا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، جیسے علم الاشتقاق، علم الصرف، علم النحو، علم البیان، علم المعانی، علم البدیع وغیرہ۔ یہ سارے علوم جو عربی زبان کا ہی طواف کرتے ہیں، ان کے بنیاد گزاروں اور ترویج کاروں میں زیادہ تر غیر اہل زبان کا ہی نام آتا ہے، یعنی وہ جن کی مادری زبان عربی نہ تھی۔ عربی زبان کے ان تمام خادم علوم میں جن شخصیات کی مہارت کو امامت کا درجہ حاصل ہوا، ان میں بیشتر غیر عرب ہیں۔ اس کی وجہ بالکل واضح اور منطقی ہے۔ اسلام اور قرآن کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے عربی زبان پر عبور لازم ہے۔ بلاشبہ اس زبان کے محاورے، اس کے ماحول، اس کے الفاظ کی نسل، خاصیات اور استعمال کے موقع و محل کو سمجھے بغیر اسلام کے ذخیرہ تعلیمات سے کماحقہ آشنائی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اہل زبان کے لیے قرآن کی زبان اور محاورے کو گرفت میں لینا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔ وہ ذرا توجہ، دھیان اور محنت کے ذریعے اس کی کنہ کو پاسکتے تھے، مسئلہ غیر اہل زبان کے لیے تھا، جس کے حل کے لیے انہوں نے اس زبان کے "بحر الکاہل" میں شناوری کی ٹھانی اور علوم و فنون کے وہ وہ موتی ڈھونڈ لائے کہ اہل زبان بھی اش اش کر اٹھے۔</p> <p>عربی زبان و ادب سے منسلکہ خدمات کو عموماً پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا دور قبل از اسلام کا ہے۔ اس دور میں تشکیل دیا گیا اثاثہ جاہلی ادب کہلاتا ہے، جو نثر کم شعر پر زیادہ مشتمل ہے۔ دوسرا دور اموی عہد اقتدار کو محیط ہے۔ اس دور میں پہلی بار باقاعدہ عربی ادب تشکیل پایا اور بطور فن نثری و شعری ادب پارے تخلیق کیے گئے۔ تیسرا دور بنی عباس۔ چوتھا دورِ اندلس ہے، جس میں فاطمین مصر اور عثمانی سلاطین کا عہد بھی شامل ہے، جبکہ پانچواں دور جدید ادب کا ہے۔ اس وقت ہم عربی کے جدید ادب کے دور میں ہیں۔ عربی ادب میں جدت کی بنیاد <annotation lang="en">Colonial</annotation> دور میں پڑی۔ یہ وہ دور تھا، جب استعمار کے زیر اثر مفتوح اقوام میں دو متوازی اور متزاحم فکری لہریں زوروں پر تھیں۔ اس دور میں تشکیل پانے والا عربی ادب ان دونوں متضاد فکری لہروں کے دوش پر سوار نظر آتا ہے۔ عہد استعمار کے خاتمے کے بعد جدید عربی ادب مزید نکھر کر سامنے آیا اور زبان کے پیکر نے سلیقہ اظہار کا نیا خوبصورت پیرہن اختیار کرلیا۔ مصر کے ادیب و شاعر بلاشبہ انتداب، انقلاب اور ما بعد استعمار کے ادوار کی بالکل مختلف گودیوں میں پروان چڑھنے والے اس جدید عربی ادب کے سرِ خیل مانے جانے کے قابل ہیں۔ ان کا ادب فکر و نظر کا وقیع علمی سرمایہ اپنے وجود میں سموئے ہوئے ہے۔ اگرچہ ادب کا وہ پرانا ذوق اب نہیں رہا، تاہم مصر کے مفکرین کی ادبی تخلیقات کا سحر اب بھی پوری طرح قائم ہے۔</p> <p>برصغیر پاک و ہند کے عربی مدارس بھی ایک بالکل اجنبی ماحول و سماج میں عربی زبان کے فروغ میں اپنے دائرہ کار کے مطابق کردار ادا کر رہے ہیں۔ درس نظامی سے جڑے ہوئے ہمارے خطے کے روایتی مدارس عربیہ کا بنیادی مقصد چونکہ "قرآن و سنت" کی ترویج و اشاعت ہے، اس لیے عربی زبان کی بطور زبان خدمت یہاں ثانوی اور ضمنی درجے میں ہی انجام پاتی ہے۔ مدارس کے نظام و نصاب میں اگرچہ جس قدر کتابیں شامل ہیں، وہ سب عربی میں ہیں، مگر چونکہ ان مدارس میں عربی تدریس کی زبان نہیں، اس کے ساتھ ساتھ عربی کو ابتدائی تعلیمی درجات میں بطور زبان صرف ایک مضمون کی حیثیت سے ہی توجہ ملتی ہے، اس لیے "مدارس عربیہ" کے فضلا عربی زبان میں گفتگو، تحریر اور تقریر کی صلاحیت سے عموماً محروم ہوتے ہیں۔ ان کی ساری عربی دانی متعلقہ کتابوں کے متن، حاشیوں، بین السطور اور زیادہ سے زیادہ شرحوں تک ہی مار کرتی ہے، اس سے آگے بلکہ زیادہ تر صحیح معنوں میں اس سے باہر ان کی زبان گنگ رہ جاتی ہے۔ یہ "مدارس عربیہ" کے نظام و نصاب کا بہت بڑا خلا ہے اور بڑی ناکامی ہے۔ تاویلاتِ باردہ کے خوشنما سے خوشنما پردے میں بھی اس نقص کو نہیں چھپایا جا سکتا۔ اہل مدارس کو انکار کی روش اپنانے کے بجائے کھلے دل سے ناکامی تسلیم کرکے اپنی صفوں کو پھر سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کسی قدر اطمینان کے قابل ہے کہ کچھ عرصے سے بعض مدارس میں عربی کو بطور زبان بھی خصوصی اہمیت دی جانے لگی ہے، جس کے نتیجے میں جدید فضلائے مدارس میں عربی زبان سے لگاو، اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس پہلے کی نسبت زیادہ پایا جا رہا ہے، اگرچہ اس احساس و شعور کی کچھ وجوہات اس کے علاوہ بھی ہیں۔</p> <p>مولانا عبد الحئی چترالی دار العلوم کراچی کے نوجوان فاضل ہیں اور جدید فضلائے مدارس کے اسی قلیل گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو عربی زبان کا اچھا ذوق اور شعور رکھتے ہیں۔ وہ ایک ملک گیر تعلیمی نیٹ ورک میں عربی زبان کی تدریس، تحقیق اور ترجمے کی خدمات سے وابستہ ہیں اور اب ما شاءاللہ طلبہ میں عربی زبان کی تحریری استعداد پیدا کرنے کے لیے عرق ریزی سے ترتیب دی گئی کتاب کے مصنف بھی بن گئے ہیں۔ <annotation lang="ar">"الرائد فی التحریر العربی"</annotation> کے نام سے لکھی گئی ان کی کتاب میرے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب میں مستند مراجع سے استفادے کے ذریعے عربی میں مضمون نویسی کے جدید اسالیب سکھانے کا التزام کیا گیا ہے۔ کتاب میں جدید قواعد املا بھی شامل ہےں اور ساتھ ہی عربی بولتے ہوئے عام طور پر کی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔کتاب پر جدہ میں قائم <annotation lang="ar">"مرکز خدمة اللغة العربیہ"</annotation> نے نظرثانی کی ہے۔ کتاب کے مشمولات و مضامین کے پر اثر ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عالم اسلام کی اہم علمی شخصیت مفتی محمد تقی عثمانی، عربی زبان کی ایک متداول نصابی کتاب کے مصنف مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، جامعہ ازہر میں لسانیات کے پروفیسر ڈاکٹر علی شعبان، شاہ سعود یونی ورسٹی جدہ کے شعبہ عربی کے سربراہ ڈاکٹر خالد بن عائش الحافی، دار العلوم کراچی کے استاذ عربی شیخ محمود التونسی اور مدرسہ ابن عباس کے شیخ عبد المعز التونسی نے ان پر اعتماد و اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ کتاب <annotation lang="ar">"دار الخدمة اللغة العربیہ"</annotation> نے خاص اہتمام کے ساتھ شایع کی ہے۔ امید ہے کہ تعلیم و تدریس سے منسلک حضرات کے لیے یہ کتاب اہم رہنما ثابت ہوگی۔ فیس بک پر مصنف سے کتاب کے متعلق اس ایڈریس کے ذریعے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں:</p> <p><annotation lang="en">https://www.facebook.com/abdulhai.chitrali. 9 ?fref=ts</annotation></p> </section> </body>
5497.xml
<meta> <title>سندھ کا 869 ارب روپے کا بجٹ پیش</title> <author> <name>آئی بی سی اردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27679/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1021</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
سندھ کا 869 ارب روپے کا بجٹ پیش
1,021
No
<body> <section> <p>کراچی: نئے مالی سال 17-2016 کے لیے سندھ کا 869 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا گیا۔</p> <p>اسپکیر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے بجٹ پیش کیا۔</p> <p>رواں سال ترقیاتی بجٹ کے استعمال پر حکومت کی کارگردگی مایوس کن رہی اور 162 ارب روپے میں سے صرف 86 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ کئی ترقیاتی منصوبے مکمل نہ ہوسکے۔</p> <blockquote> <p>ترقیاتی اخراجات</p> </blockquote> <p>صوبائی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ نئے مالی سال میں ترقیاتی بجٹ پچھلے سال کی نسبت 39 فیصد زیادہ ہے۔</p> <p>نئے مالی سال کے بجٹ میں مجموعی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 225 ارب روپے، ترقیاتی بجٹ میں اضلاع کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ بلدیات کے لیے نئے بجٹ میں 42 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔</p> <p>گذشتہ برس ترقیاتی اخراجات کے لیے 214 ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 503 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔</p> <blockquote> <p>کراچی کے لیے خصوصی پیکج</p> </blockquote> <p>نئے مالی سال کے بجٹ میں کراچی کے لیے 10 ارب روپے کا خصوصی پیکج رکھا گیا ہے۔</p> <p>خصوصی کراچی پیکیج میں شاہراہ فیصل کی توسیع، اسٹارگیٹ اور پنجاب چورنگی پر انڈر پاس کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں، جبکہ گذشتہ سال دھابے جی پر نئے پمپ کی اسکیم کو ایک مرتبہ پھر بجٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔</p> <p>علاوہ ازیں ایس 3 اور کے 4 منصوبہ کے لیے بھی بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے۔</p> <blockquote> <p>تعلیم</p> </blockquote> <p>نئے مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقم 160 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گذشتہ برس بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 144 ارب 67 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔</p> <p>اس حوالے سے صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ تعلیم کا بجٹ گذشتہ سال کی بنست 11 فیصد سے زیادہ ہے ۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے بجٹ میں اسکولوں کے لیے 4 ارب 68 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اسکولوں اور کالجوں کی مرمت کے لیے 5 ارب 4 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔</p> <blockquote> <p>صحت</p> </blockquote> <p>صحت کے شعبے کے لیے 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گذشتہ برس صحت کا بجٹ 57 ارب 49 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔</p> <p>بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ 40 کروڑ 10 لاکھ روپے ہسپتالوں کی مرمت کے لیے رکھے گئے ہیں۔</p> <blockquote> <p>محکمہ داخلہ اور پولیس</p> </blockquote> <p>محکمہ داخلہ اور پولیس کا مجموعی بجٹ 70 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ گذشتہ برس پولیس کا بجٹ 61 ارب روپے رکھا گیا تھا۔</p> <p>پولیس میں 20 ہزار جبکہ دیگر محکموں میں 10 ہزار نئی اسامیاں رکھی گئی ہیں۔</p> <blockquote> <p>ٹیکس وصولی</p> </blockquote> <p>صوبائی وزیرخزانہ نے بتایا کہ سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کرکے ریونیو کو بڑھانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سندھ بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد کم کرکے 13 فیصد کردی گئی ہے۔</p> <p>مراد علی شاہ نے بتایا کہ اس سال 124 ارب روپے ٹیکس وصولیاں کی جائیں گی۔</p> <p>ان کا کہنا تھا کہ سندھ ریونیو بورڈ کو 61 ارب روپے کی وصولیوں کا ہدف دیا گیا ہے، جبکہ گذشتہ سال محصولات کی وصولیوں کا ہدف 154 بلین تھا جو اس سال 24 فیصد زیادہ ہے۔</p> <p>انھوں نے مزید بتایا کہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) آن سروسز کی خدمات پر ٹیکس 14 فیصد سے گھٹا کر 13 فیصد کیا جارہا ہے۔</p> <p>صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے، جو عام آدمی پر اثرانداز ہو۔</p> <blockquote> <p>بجٹ خسارہ</p> </blockquote> <p>مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں 14 ارب 61 کروڑ روپے کا خسارہ دکھایا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ</p> </blockquote> <p>مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں تنخواہوں اور 85 سال سے زائد عمر کے افراد کی پینشن میں بھی 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔</p> <blockquote> <p>متفرق اخراجات</p> </blockquote> <p>صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں سماجی بہبود، خصوصی تعلیم، اسپورٹس، اقلیتی امور کے بجٹ میں ساڑھے 65 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں کی امداد کے لیے بجٹ میں 200 فیصد اضافہ کرکے 3 کروڑ کردیا گیا ہے۔</p> <p>بجٹ تقریر کے دوران صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ پارٹی رہنماؤں کی مشاورت سے برابری مساوات اور مفاہمت کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ تشکیل دیاگیا ہے۔</p> <p>مراد علی شاہ کی جانب سے بجٹ پیش کیے جانے کے دوران اپوزیشن ارکان نے ہنگامہ آرائی کی۔</p> <p>گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے بجٹ تقریر تین زبانوں یعنی سندھی، اردو اور انگریزی میں کی، جبکہ تقریر کے دوران اشعار بھی پڑھے۔</p> <blockquote> <p>فنانس بل کو مسترد کرتے ہیں، اپوزیشن لیڈر</p> </blockquote> <p>بجٹ خطاب کے بعد سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ پارلیمانی روایت کو برقرار رکھ کر بجٹ پورا سنا، حکومتی ارکان سو رہے تھے، سب کو روزہ لگ رہا تھا، اب ہم منگل سے ہماری تقاریر شروع ہوں گی۔</p> <p>خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ سندھ کا بجٹ عوام دشمن قرار دے کر مسترد کرتے ہیں، الفاظ کا گورکھ دھندا ہے۔</p> <p>ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنی جیب سے بیرون ملک کابینہ کے اجلاس منعقد کریں، عوام کا پیشہ خرچ نہ کریں۔</p> <p>انہوں نے مزید کہا کہ پورے بجٹ میں رمضان پیکج نظر نہیں آیا، مراد علی شاہ کو پتہ ہی نہیں ہے، سبزیاں 30 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں، آٹا 10 کلو پر 60 روپے بڑھ گیا ہے، اب ہماری تقریروں کی باری ہے، ہم بتائیں کے آپ کی "پرسنٹیج مافیا" کیلئے مزید مراعات رکھ دیں کمیشن مافیا کیلئے 10 پرسنٹ سنا جاتا تھا اب حکومت 100 پرسٹ پر چل رہی ہے۔</p> <p>انہوں نے الزام عائد کیا کہ ترقیاتی بجٹ کو 100 فیصد کرپشن مافیا سمجھتے ہیں، دیہی علاقوں کو کوئی اسکیم نہیں دی گئی، نئے اسپتالوں کا اعلان نہیں ہوا، حکومت کو بتادیا ہے کہ 'نو ٹو کرپشن' ہے، ہمیں امید تھی کہ شیڈو بجٹ کی طرح سندھ حکومت کے بجٹ پر بھی نو ٹو کرپشن لکھا ہوگا، لیکن ایسا نہیں تھا۔</p> <p>اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ فنانس بل کو مسترد کرتے ہیں، امید ہے حکومت بھی ہماری تقریر دل تھام کر سنے گی۔</p> <p>بشکریہ ڈان</p> </section> </body>
5498.xml
<meta> <title>رمضان المبارک اور کتابِ انسانیت</title> <author> <name>شہاب الدین شہاب</name> <gender>Male</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27747/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>1211</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
رمضان المبارک اور کتابِ انسانیت
1,211
No
<body> <section> <p>رمضان ا لمبارک کا مقدس مہینہ اپنے پہلے عشرے میں ہے اور ملک کے طول و عرض میں اس مقدس مہینے کا اہتمام زوروں پر ہے۔ فرضیتِ رمضان ا للہ رب العزت کے اس احسانِ عظیم اور رحمتِ ابدی کا شکر بجا لانے کے لئے ہے جو غارِ حرا میں کالی کملی والے کے ذریعے قرآن مقدس کے نزول اور دینِ قیم کے عطا کی صورت میں پوری انسانیت پر کی گئی۔</p> <p>رمضان کی حقیقت دراصل کیا ہے؟؟ یہ مہینہ محسنِ انسانیت ﷺکے اس عمل کا اتباع ہے۔ جس میں محمدﷺ نوامیسِ نبوت کی پیروی کرتے ہوئے قرآنِ پاک کے نزول کے تحمل کے لئے مادی ضروریات سے مستغنی ہوئے۔ہدایت و رہنمائی کا وہ تحفہء عظیم جو اس مہینے میں انسانیت کو محمد عربیﷺ کے ذریعے عطا کردیا گیا۔ اسکا شکریہ ادا کرنے کے لئے اطاعت و عبودیت کا یہ طریقہ اس مہینے محمدﷺ کی اتباع میں مادی ضروریات سے مستغنی رہنے کی صورت میں بتا دیا گیا۔ جس شب میں اس تحفہء عظیم(قرآنِ مجید) کا نزول ہوا۔ وہ یومِ اکبر یعنی یومِ نزولِ قرآن جسے لیلۃالقدر کے نام سے یاد کیا گیا۔اسلام کا عیدِ اکبر کہلایا۔پس ایک کلمہ گو اور محمدﷺ کے سچے امتی کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ان ایامِ مقدسہ میں اس زندگی کا چناؤ کرے جو قرآن کا مطلوب اور حاملِ قرآن کی زندگی کا پرتو ہو۔کیونکہ یہی تو وہ دستورِ حیات ہے۔ جسکی بدولت ہم نے جسم کی زندگی اور روح کی تسلی پائی۔۔عین اس وقت جبکہ بدی نیکی پر غلبہ آور تھی۔ توحید کی کرنیں اوراسکا روشن چہرہ کفر و عصیان کے ظلمت کدوں میں کہیں چھپ گیا تھا۔اور انسانیت اپنے خالقِ حقیقی کی بغاوت پر اتر آئی تھی۔</p> <p>آسمانِ ہدایت کے وہ دروازے جو قریبا چھ صدیوں سے اولادِ آدم پر بند کر دے گئے تھے۔رحمتِ ربانی اور عطاءِ خداوندی کا وہ سلسلہ جو برسہا برس سے رک گیا تھا۔ خداوندِ کریم کے احسانِ عظیم قرآنِ حکیم کے نزول کی صورت میں انسانیت کی طرف پھر متوجا ہوگیا۔یہ نزول انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب تھا، جس نے انسانیت کی فکری اور ذہنی ویرانیوں کو شادابیوں میں بدل دیا۔وہ دنیا جو سعادت اور روحانیت سے بیگانہ ہوچکی تھی ایک بار پھر اپنے چمن میں بہاروں کے منظر دیکھنے لگی۔اس احسانِ عظیم کی یاد اور اس سے عہدِ وفا کے لئے ہی مسلمان ماہِ صیام میں دنیا کی بھوک وپیاس سے بے نیاز اپنی روحانی پیاس اور تشنگی کو قرآن کی انقلابی اور آفاقی سوچ کے آبِ حیات سے مٹانے میں محو ہوجاتے ہیں ۔</p> <p>لیکن مملکت، خدادا میں رمضان المبارک میں قوم کی حالت دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ شاید ہم ربِ کائنات کے اس عظیم احسان کے تشکر اور ممنونیت میں بھی غلو اور بدعات و نفس پرستی کا شکار ہیں۔ہماری عہدِ وفا بھی نمود و نمائش اور رواجی اور فروعی عبادات میں بدل گئی ہے۔</p> <p>ہماری روزمرہ کی زندگی میں توقرآن اب صرف برکت، مردے کے سرہانے پڑھنے کے لئے، قبر کے گرد دائرہ ڈال کر تلاوت کرنے ، سود و رشوت سے بنے بنگلے میں اسکا ختم کرنے ، شادی بیاہ کی غیر شرعی رسوم و رواجوں کے بیچ دلہن کی رخصتی کو با برکت بنانے اور نیک لوگوں کی محفل میں بیٹھ کراسکی تلاوت کا وظیفہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے ۔مگر اس سے بھی دردناک اور کربناک صورتِ حال تو وہ ہے جو ہم ماہِ صیام کے بابرکت مہینے میں اس کتابِ عظیم کا حشر حفاظ و علماء کے ہاتھوں دیکھتے ہیں ۔کہیں شبینوں کا اہتمام ہورہا ہے تو کہیں ختمِ قرآن کے سلسلے میں چراغاں کیا گیا ہے۔کہیں قرآن کے فضائل پر پرَ نور اور پُر جوش تقریریں ہیں تو کہیں قرآنِ پاک کو برکت و بخشش کا سامان سمجھ کر اس کی عظمت و بزرگی کے گن گائے جارہے ہیں۔ کہیں لیلۃ القدر کا جشن ہے تو کہیں قرآن پاک کو کئی حافظ مل کر ایک یا دو راتوں میں ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔</p> <p>یہ بات اٹل ہے کہ قرآن کو اس طرح بغیر سوچے سمجھے پڑھنا اور بغیر عمل کے اس کو صرف ذریعہ ثواب سمجھنا قرآن کے عظیم مقصدیت کے ساتھ صراحا نا انصافی ہے۔ صحابہ کرام حضور اکرمؐ سے دس آیتیں پڑھ کر آگے نہیں بڑھتے جب تک اس پر عمل نہیں کرتے ۔حضرت عمر فاروقؓ کا یہ حال تھاکہ سورۃ بقرۃ حضورﷺ سے دس سال میں سیکھی۔ قرآن کتابِ عمل ہے۔اور اسکا پڑھنا اسی صورت میں میں فائدہ مند ہوگا جب اسکو پڑھ کر ، سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ ورنہ صرف ثواب کی نیت سے قرآن کا بے ھنگم ختم اور تلاوت نہ اپنے لئے اور نہ معاشرے کے لئے مفید ہوگا۔ اسکا یہ ہرگز مطلب نہ لیا جائے کہ نعوزبااللہ ہم تلاوتِ قرآن کے منکر یا خلاف ہیں۔ مگر تلاوت وہ جو قرآن اور صاحبِ قرآن نے سمجھائی اور سکھلائی ہے۔ جسکا تتمہ عمل پر ہو۔ صحابہ کرام کا یہی وطیرہ تھاکہ جتنا قرآن پڑھتے اسکا عملی عکس اپنی زندگی میں ڈھونڈتے۔</p> <p>لیکن اے کاش!!!قرآن کو وصیلہ ء ثواب سمجھ کر اپنے اپنے طریقوں سے اسے ختم کرنے کی تگ و دو نے ہمیں اس کے اصلی روح سے کافی دور کردیا۔ اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول ؛رواجی نیکیاں ہمارے پلے پڑگئیں۔قرآن کی روح سے دور اسکو مقدس کتاب سمجھ کر ثواب واجر کا وصیلہ بناکر ہم اس سے عملا بہت دور ہوگئے ہیں جسکا نتیجہ مولانا عبیداللہ سندھی کے بقول یہ نکلا کہ ؛ملت منتشر ہوگئی۔ خرافات عقائد کا حصہ بن گئے۔فکر ساکن ہوگئی۔عقلیں منجمد ہو گئیں۔عوام کو باور کرایا گیا۔کہ میلوں ،محافل اور عرسوں میں نجات ہے۔پبلک کاموں میں حصہ بے دین اور دنیا داروں کا کام ہے۔</p> <p>لہذا قرآن پاک کو اس مقدس مہینے میں جب اسکے نزول کے شکر کے طور پر ہم اللہ کے دربار میں اپنا نفس اور اپنی خواہشات قربان کردینے کے لئے کمر کس لیتے ہیں تو پھر قرآن سے عہدِ وفا کی تجدید بھی اُسی طرح ہو جیسے کہ اسکا حق ہے۔اسکو غور و حوض سے پڑھنا اور اسکی سمجھ بوجھ میں میں تفکر اور تفقہ کرنا، اسکی تعلیمات پر تدبر اور پھر عمل پیرا ہونے کی بھر پور کوشش کرنا تاکہ ہماری پیدائش کا اصل مقصد پورا ہو کہ یہ مقصد قرآن پر عمل ہے نہ کہ طوطا بن کر اسکا ورد کرنا۔</p> <p>اسلئے اس رمضان المبارک میں ہم یہ عہد کرلیں کہ قرآن پاک کے پڑھنے اس پر غور و فکر کرنے اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کا ہم وہ بنیادی حق ادا کردیں جسکی خاطر اللہ رب العزت نے یہ با برکت مہینہ ہمیں عطا کردیا تھا۔ہم شبینوں اور محافل کی چکا چوند روشنیوں میں مغفرت اور بخشش ڈھونڈنے کی بجائے صحابہ کرام رضہ اللہ تعالی عنہ کے نقشِ قدم پر چل کر قرآن کے چند آیات ہی اس مہینے میں اس طرح سیکھ لیں کہ وہ ہمارے عمل کا حصہ بن جائیں۔ تو سمجھو رمضان المبارک میں اس کتابِ انسانیت کا حق ادا اور شکریہ خداوندی ادا کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ اور اگر ہم نے نفسِ قرآن کو چھوڑ کر اسکی تلاوت بلا مفہوم کے اور اسکے ختم کرنے کو ہی ذریعہء نجات سمجھا۔ محافل، شبینوں میں ہم اپنا مقصدِحیات کھو بیٹھے تو پھر مزید تنزلی ، قرآن سے دوری، بے عمل زندگی اور نماز ، روزہ، حج کی چند ظاہری عبادات کا مجموعہ ہمارا اسلام ہوگا اور نتیجہ مزید بدعات اور خرافات میں پڑ جانا اور اقوامِ عالم میں مزید کمزور ہونا ہمارا مقدر رہے گا۔</p> </section> </body>
5499.xml
<meta> <title>خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے اسلام کا استعمال</title> <author> <name>نہال مگدی</name> <gender>Female</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27753/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>828</num-words> <contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages> </meta>
خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے اسلام کا استعمال
828
No
<body> <section> <p>لندن ۔ فروری میں سکاٹ لینڈ کی مسلمان خواتین سرکاری طور پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے ایک نئی مہم کا آغاز کریں گی۔ اگرچہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک عالمی مظہر ہے جو قومیت، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تمیز نہیں برتتا لیکن کچھ لوگ مسلمان ممالک میں عورتوں کے خلاف تشدد کو دیکھتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس کا لازمی تعلق مذہب کے ساتھ ہے۔ تاہم برطانیہ میں قائم مسلمان عورتوں کی فلاحی تنظیم "امینہ" کی رضاکار عورتیں دلیل دیتی ہیں کہ اس کے برعکس اسلام کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے حل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔</p> <p>اس مقصد کے لئے انہوں نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی جو اس غلط فہمی کا ازالہ کرے گی کہ اسلام کسی بھی طرح کے تشدد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ "امینہ" کمیونٹی میں اماموں کے ساتھ کام کرے گی اور اس تصور کی حمایت کے لئے حدیث اور قرآن کی آیات استعمال کرے گی کہ نہ صرف اسلام تشدد کی مذمت کرتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کا متن بار بار عورتوں کے ساتھ نرم، منصفانہ اور عزت دارانہ سلوک پر زور دیتا ہے۔</p> <p>عورتوں کے خلاف تشدد کے جواز کے لئے جس قرآنی آیت کا بہت زیادہ حوالہ دیا گیا ہے وہ قرآن کی آیت 4:34 ہے۔ اس کا ترجمہ یوسف علی نے کیا ہے: "۔ ۔ ۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی <annotation lang="ar">(نشوز)</annotation> اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار (ہلکی) کی سزا دو (اضربوھن) ۔ ۔ ۔"۔</p> <p>عربی الفاظ <annotation lang="ar">"نشوز"</annotation> اور <annotation lang="ar">"اضربوھن"</annotation> کی سیاق و سباق سے ہٹ کر اور غلط تشریح اس آیت کی ایسی غلط تفہیم کا باعث بنی ہے جو نفوذ کر گئی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ "ضرب" (جو اضربوھن کا مادہ ہے) کے 25 مختلف مطالب ہیں جن میں "دور چلے جانا" یا "کچھ وقت کے لئے چھوڑ دینا" بھی شامل ہیں۔ مؤخر الذکر مطلب کی بنیاد پر ترجمہ اس طرح بنتا ہے: "جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو، پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان سے بستر علیحدہ کر لو اور پھر ان سے دور چلے جاؤ"۔</p> <p>مزید برآں یہاں لفظ <annotation lang="ar">"نشوز"</annotation> اس آیت کے تین مرحلوں کو صرف بہت مخصوص اور سنجیدہ صورتوں میں قابل اطلاق بناتا ہے۔ سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن میں اسلامی تعلیمات کے پروفیسر محمد عبدالحمید دلیل دیتے ہیں کہ یہ لفظ خصوصی طور پر ازدواجی بے وفائی کے حوالے سے ہے۔</p> <p>یہ احساس کرنے کے لئے کہ اسلام عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے، ہمیں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالوں اور قرآن کے عمومی پیغام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کی آیت 30:21 میں کہا گیا ہے، "اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ۔ اس نے تمہارے درمیان محبت قائم کر دی، یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں"۔</p> <p>یہ یقینی بنانے کے علاوہ کہ ایسے پیغامات معاشرے میں پھیلیں، "امینہ" کی مہم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ تشدد کے خلاف بات کریں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایک فرض ہے کہ مسلمان زیادتی کے خلاف بات کریں اور بھرپور انداز میں ان غلط عقائد کی مخالفت کریں کہ اسلام عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی حمایت کرتا ہے۔</p> <p>اگر یہ کام کمیونٹیوں میں مذہبی رہنماؤں تک پہنچ جائے تو یہ تشدد کے حل کا اہم حصہ بن سکتا ہے۔ اماموں کا مقامی مسلمان کمیونٹیوں پر قابل قدر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جنہیں قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے مساجد میں مردوں اور عورتوں تک پیغام کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا انتہائی اہم ہے۔ آئمہ کی مشترکہ آوازوں میں یہ قوت ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ سلوک میں درکار اشد ضروری تبدیلی کو رواج دے سکیں۔</p> <p>یہ کام خاندان کی سطح پر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ برمحل ہے کہ بچے چھوٹی عمر سے عورتوں کے احترام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ان کے ساتھ خلیقانہ سلوک کی اہمیت کو سمجھیں۔ اس بات پر گھروں اور مذہبی سکولوں میں زور دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ والدین بالخصوص باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نرم رویئے کی اتباع میں اپنے بچوں کے لئے اس سلوک کا نمونہ یا رول ماڈل بن سکتے ہیں۔</p> <p>اسلام عورتوں کے ساتھ سلوک سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اپنے متن میں بڑے واضح رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ یہ علم اور تفہیم، جس کو توڑ مروڑ کر عورتوں کے ساتھ نفرت کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہےِ، مسلمان کمیونٹیوں میں گھریلو تشدد کے مسئلے کے حل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔</p> <p>نہال مگدی لندن میں مقیم ایک مسلمان، برطانوی مصری بلاگر اور مارکیٹنگ کی ماہر ہیں۔</p> </section> </body>
5500.xml
<meta> <title>منگل، 14 جون 2016 پاکستان اور دنیا بھر سے قومی و عالمی خبروں پر مشتمل آن لائن بلیٹن</title> <author> <name>آئی بی سی اُردو</name> <gender>N/A</gender> </author> <publication> <name>آئی بی سی اردو</name> <year>2016</year> <city>Islamabad</city> <link>http://ibcurdu.com/news/27781/</link> <copyright-holder>آئی بی سی اردو</copyright-holder> </publication> <num-words>2561</num-words> <contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages> </meta>
منگل، 14 جون 2016 پاکستان اور دنیا بھر سے قومی و عالمی خبروں پر مشتمل آن لائن بلیٹن
2,561
Yes
<body> <section> <blockquote> <p>پاکستان</p> </blockquote> <blockquote> <p>خیبر پختونخوا کا 505 ارب روپے کا بجٹ، 22 فیصد تعلیم کیلئے مختص</p> </blockquote> <p>پشاور: نئے مالی سال 17-2016 کے لیے خیبر پختونخوا کا 505 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا گیا۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید نے کابینہ کی جانب سے منظور کردہ بجٹ پیش کیا۔</p> <blockquote> <p>شہباز شریف وزارت خارجہ کیلئے بہترین انتخاب</p> </blockquote> <p>اسلام آباد : یوں تو اپوزیشن کی جانب سے وزارت خزانہ، خارجہ امور اور وزارت پانی وبجلی ہمیشہ ہی تنقید کی زد میں رہتے ہیں تاہم اب خود مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے بھی کابینہ کے سینئر ارکان کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی ہے۔ حکومتی بنچوں پر موجود ارکان اسمبلی کابینہ میں شامل وزراء کی زمینی حقائق سے مکمل غفلت اور ان کی بنائی جانے والی بے قاعدہ پالیسیوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ گجرانوالہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رکن اسمبلی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے وزیر خارجہ بننے کیلئے موزوں ترین شخص ہیں۔</p> <blockquote> <p>پاکستان میں ججز کا تحفظ بھی ایک مسئلہ ہے: چیف جسٹس</p> </blockquote> <p>چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کو مختلف محاذوں پر جارحیت کا سامنا ہے پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور ایسے میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہیں۔منگل کو فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے 17 مجرموں کی طرف سے ان سزاوں کے خلاف دائر کی گئی اپیلیوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسے حالات ہیں جہاں پر ججز کو تحفظ دینا بھی ایک مسئلہ ہے۔</p> <blockquote> <p>طورخم میں کشیدگی برقرار، زخمی پاکستانی میجر ہلاک</p> </blockquote> <p>پاک افغان سرحدی مقام طورخم پر گذشتہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے</p> <p>پاکستان اور افغانستان کے سرحدی مقام طورخم پر افغان فوج کے ساتھ اتوار کی شب فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والے پاکستانی فوج کے میجر علی جواد ہسپتال میں دم توڑ گئے ہیں جبکہ سرحد پرگیٹ کی تعمیر پر شروع ہونے والی کشیدگی تیسرے دن بھی برقرار ہے۔ یہ تنازعہ پاکستان کی جانب سے سرحد پر اپنی حدود کے اندر ایک دروازے کی تعمیر پر شروع ہوا اور اتوار سے پیر کی رات تک وقفے وقفے سے ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں اب تک پاکستانی اور افغان فوج کا ایک ایک رکن ہلاک جبکہ 11 پاکستانیوں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے ہیں۔</p> <blockquote> <p>پولیس سوتی رہی اور لاہور کی مصروف شاہراہ پر صحافی لُٹ گئے</p> </blockquote> <p>پولیس کی نااہلی کے باعث لاہور میں ڈاکو راج جاری، عام شہریوں کے علاوہ اپنے فرض کی تکمیل کے لئے دن رات سڑکوں پر پھرنے والے صحافیوں کو بھی نشانہ بنا دیا گیا۔ ڈاکوؤں نے سرراہ تین صحافیوں سے گن پوائنٹ پر قیمتی موبائل فون، ہزاروں روپے کی نقدی اور دیگر سامان چھین لیا تفصیلات کے مطابق پولیس کی روایتی غفلت اور نااہلی کے باعث پنجاب خصوصاً صوبائی دارالحکومت میں ڈاکو راج جاری ہے، جس کا واضح ثبوت آئے روز سرعام سڑکوں پر ہونے والی ڈکیتی کی وارداتیں ہیں۔</p> <blockquote> <p>خیبر پختونخوا میں ایک اور مخنث پر حملہ</p> </blockquote> <p>مانسہرہ: صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں مخنثوں نے اپنی ایک ساتھی پر حملے کے خلاف احتجاج کیا اور حملہ آوروں کی جلد ازجلد گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیا۔ مانسہرہ پریس کلب کے باہر سے شروع ہونے والی ریلی کا اختتام اربن پولیس اسٹیشن کے باہر ہوا۔محلہ ایوب کے علاقے میں 3 مسلح افراد نے کاشی چن نامی مخنث کے گھر کے باہر ان پر فائرنگ کردی اور موقع سے فرار ہوگئے۔کاشی چن کو زخمی حالت میں کنگ عبداللہ ٹیچنگ ہسپتال پہنچایا گیا جہاں کے ڈاکٹروں نے انھیں تشویش ناک حالت میں ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس منتقل کرنے کو کہا۔</p> <blockquote> <p>سوات میں پولیس موبائل پر حملے میں تین اہلکار زخمی</p> </blockquote> <p>پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں حکام کے مطابق شدت پسندوں کے حملے میں ایک سب انسپکٹر سمیت تین اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد حکام کے مطابق پولیس کے سرچ آپریشن میں تین شدت ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق منگل کی صبح یہ واقعہ تحصیل کبل کے علاقے توتانوبانڈئی میں پیش آیا۔ زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں ایس آئی رفیع اللہ ، عزیز الرحمان اور جہانگیر شامل ہیں جنھیں ہسپتال منتقل کر دیاگیا۔</p> <p>اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے قبول کی ہے۔</p> <blockquote> <p>بچے کے 'ریپ' کے الزام پر امام مسجد گرفتار</p> </blockquote> <p>چکوال: صوبہ پنچاب کے شہر چکوال میں بچے کے 'ریپ' کے الزام میں مسجد کے امام کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق چکوال کے دھاپئی گاؤں میں مسجد کے 60 سالہ امام نے 9 سالہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف کیا۔</p> <p>دھاپئی گاؤں کے مکینوں کے مطابق گزشتہ سال 60 سالہ ملزم کو مسجد کا امام مقرر کیا گیا تھا، بعدازاں امام اپنی بیوی کے ساتھ سرگودھا کے گاؤں سالار سے دھاپئی منتقل ہوگیا اور اس نے گاؤں کے بچوں کو شام کے وقت مسجد میں قرآن پڑھانا شروع کردیا تھا۔ متاثرہ بچے کے والد نے بتایا کہ جب میرا بیٹا عربی پڑھنے کے بعد گھر نہیں آیا تو میں پریشان ہوگیا اور مسجد میں امام کی حرکت دیکھ کر چیخ پڑا، جس کی وجہ سے گاؤں والے جمع ہوگئے۔</p> <blockquote> <p>زینت کو جلانے والا مفرور بھائی بھی گرفتار</p> </blockquote> <p>لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پسند کی شادی کرنے پر 18 سالہ لڑکی زینت رفیق کو زندہ جلانے کے واقعے میں شریک لڑکی کے بھائی مفرور ملزم انیس کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق انیس کو تھانہ فیکٹری ایریا کی حدود میں نشتر روڈ کے قریب ایک رشتے دار کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔</p> <blockquote> <p>عالمی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ پر برہم</p> </blockquote> <p>امریکی صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں ٹرمپ نے اس اخبار کو جھوٹا اور بے ایمان قرار دیا۔ ان کے بقول واشنگٹن پوسٹ کی نا قابل یقین حد تک غلط خبروں کی وجہ سے اس اخبار کا کوئی نمائندہ ان کی انتخابی مہم میں ان کے ساتھ نہیں ہو گا۔ ٹرمپ نے اس سلسلے میں پہلے سے جاری کردہ ایک اجازت نامہ منسوخ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مدیر اعلٰی مارٹن بیرن نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ غیر جانبدارانہ صحافتی کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔</p> <blockquote> <p>فرانس میں چاقو بردار شخص کا حملہ، پولیس افسر اور اس کی بیوی ہلاک</p> </blockquote> <p>فرانسیسی دارالحکومت کےایک نواحی علاقے میں ایک پولیس افسر کو اس کے گھر کے سامنے خنجر کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق اس پولیس اہلکار کے قتل کے بعد حملہ آور اسی کے گھر میں چھپ گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں پولیس کے خصوصی دستے اس حملہ آور کو ہلاک کرنے کے بعد جب گھر میں داخل ہوئے تو وہاں انہیں مقتول افسر کی بیوی کی لاش بھی ملی۔ اس کارروائی کے دوران مقتولین کا تین سالہ بچہ محفوظ رہا۔ دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خبر رساں ادارے 'اعماق' کے مطابق اس تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔</p> <blockquote> <p>اسرائیل اقوام متحدہ کی قانونی امور کی کمیٹی کا سربراہ بن گیا</p> </blockquote> <p>اقوام متحدہ کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل اس عالمی ادارے کی کسی مستقل کمیٹی کا سربراہ بن گیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق عالمی ادارے کی قانونی امور کی کمیٹی کی سربراہی کے لیے اسرائیلی سفارت کار ڈینی ڈینن کے حق میں 193 میں سے 109 ارکان نے ووٹ دیے۔ اس فیصلے کے خلاف عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ فلسطینی سفارت کار ریاض منصور کے مطابق یہ ذمہ داری شہری حقوق کی پامالیوں کے مرتکب کسی انسان کے بجائے کسی مناسب شخصیت کو سونپی جانا چاہیے تھی۔ اسرائیلی امیدوار کی امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے بھی حمایت کی گئی۔</p> <blockquote> <p>فلپائن میں کینیڈا کے مغوی شہری کا سر قلم کیے جانے کی تصدیق</p> </blockquote> <p>فلپائن کی حکومت نے عسکریت پسندوں کی طرف سے کینیڈا کے ایک شہری کے سر قلم کیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ منیلا حکومت کے مطابق روبرٹ ہال نامی اس کینیڈین باشندے کو شدت پسندوں کے ابو سیاف گروپ نے قتل کیا۔ روبرٹ ہال کو 2015ء میں ایک اور کینیڈین شہری جان رِڈسڈَیل کے ہمراہ فلپائن کے جنوبی حصے سے اغوا کیا گیا تھا۔ رِڈسڈَیل کو بھی اپریل میں عسکریت پسندوں نے اسی انداز میں قتل کر دیا تھا۔ فلپائن کے صدر بینِگنو آکینو نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'سفاکی اور احمقانہ حرکت' قرار دیا ہے۔ مسلم عسکریت پسندوں کا ابو سیاف گروپ جنوبی فلپائن میں ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔</p> <blockquote> <p>لیبیا کے ساحلی محافظوں کا رویہ نا قابل قبول ہے، ایمنسٹی</p> </blockquote> <p>انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لیبیا کے ساحلی محافظوں کی جانب سے مہاجرین کی کشتیوں کے خلاف سخت کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق بحیرہ روم میں ان کشتیوں پر حملے کیے جاتے ہیں، لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے جبکہ چند واقعات میں تو ایسی کشتیوں پر فائرنگ بھی کی گئی۔ اس تنظیم نے اس سلسلے میں اپنی یہ رپورٹ اٹلی کے جزائر سِسلی اور آپُولیا پر پہنچنے والے مہاجرین سے بات چیت کرنے کے بعد مرتب کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک واقعے میں تو ان ساحلی محافظین نے ایک کشتی الٹ جانے کے بعد مدد کرنے کے بجائے سو سے زائد مہاجرین کو ڈوبنے دیا۔</p> <blockquote> <p>اورلینڈو حملہ: عمر متین کو آئی ایس کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی، ایف بی آئی</p> </blockquote> <p>امریکی شہر اورلینڈو کے ایک ڈسکو پر حملہ کرنے والے ملزم اور دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے مابین براہ راست کوئی رابطہ نہیں تھا۔ امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے مطابق 29 سالہ عمر متین نے اس حملے کی منصوبہ بندی اکیلے ہی کی تھی اور بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ اسے آئی ایس یا داعش کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اورلینڈو کے اس کلب میں ہونے والی فائرنگ میں ہلاک ہونے والے پچاس افراد کے لیے ایک تعزیتی تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ بتایا گیا ہے کہ چند مسلم تنظیموں کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے۔</p> <blockquote> <p>جرمن چانسلر میرکل کے دورہ چین کا آج آخری دن</p> </blockquote> <p>جرمن چانسلر انگیلا میرکل آج منگل کی صبح چینی شہر شین یانگ پہنچ گئیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس دوران میرکل چِنگ بادشاہت کے دور کے چار سو سال پرانے ایک محل کو دیکھنے جائیں گی۔ واپس برلن کے لیے روانہ ہونے سے قبل وہ ایک صنعتی عجائب گھر اور جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو کی ایک مقامی ساتھی کمپنی کی فیکٹری کا دورہ بھی کریں گی۔ میرکل تین روزہ دورے پر چین میں ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین ہونے والے مذاکراتی دور میں شرکت کرنا تھا۔ اس دوران چینی اور جرمن حکومتوں کے مابین 24 مختلف معاہدوں پر اتفاق رائے ہوا۔</p> <blockquote> <p><annotation lang="en">BeLeave in Britain</annotation> ، بریگزٹ کے حق میں 'دا سن' کی سرخی</p> </blockquote> <p>برطانیہ کے مقبول ترین اخبار 'دا سن' نے بریگزٹ کے حق میں اپنی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کثیر الاشاعت روزنامے نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کے حق میں اپنے پہلے صفحے پر سرخی لگائی: 'بی لِیو ان برٹن'۔ اس اخبار نے برطانوی ووٹروں سے کہا ہے کہ برطانیہ کو اور بھی عظیم بنانے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ اس اخبار کے مطابق یورپی یونین سے انخلا کی صورت میں برطانوی جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا اور اُس ثقافت اور اقدار کو تحفظ ملے گا، جن پر برطانوی عوام کو فخر ہے۔</p> <blockquote> <p>یوگنڈا: پولیس کے مقامی مرکز پر فائرنگ میں فوجی اہلکار ہلاک</p> </blockquote> <p>یوگنڈا میں پولیس کے ایک مقامی مرکز پر فائرنگ میں ایک فوجی اہلکار ہلاک ہو گیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ حملہ آور اس مرکز میں قید اپنے ایک ساتھی کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اس واقعے میں سات دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ایک بیان کے مطابق زیر حراست شخص کو قتل اور پولیس کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزام میں مئی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دوسری جانب گزشتہ چند دنوں کے دوران یوگنڈا کی فوج کے ایک کرنل اور تیس سپاہیوں کو بھی مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔</p> <blockquote> <p>کھیلوں کی خبریں</p> </blockquote> <blockquote> <p>پاکستان کا سامنا کرنے کو تیار ہیں: الیسٹرکک</p> </blockquote> <p>لندن: انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان الیسٹر کک نے سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کامیابی کے بعد پاکستان کی باؤلنگ کو بہترین قرار دیتے ہوئے سامنا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انگلینڈ اور سری لنکا کے درمیان آخری ٹیسٹ لارڈز میں کھیلا گیا جہاں آخری روز بارش کے باعث میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا تاہم پہلے دومیچوں میں کامیابی کے باعث میزبان ٹیم نے سیریز 0-2 سے اپنے نام کرلی۔ انگلینڈ نے سری لنکا کے خلاف ہیڈنگلے میں کھیلے گئے پہلے میچ میں ایک اننگز اور 88 رنز اور چیسٹر لی میں منعقدہ دوسرے ٹیسٹ میں 9 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی تاہم سیریز میں وائٹ واش کرنے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سریز میں کامیابی کے بعد انگلینڈ ٹیم کوسوائے پاکستان کے دیگر بڑی ٹیموں سے ٹیسٹ ٹرافی جیتنے اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔</p> <blockquote> <p>آسٹریلیا کے خلاف ویسٹ انڈیز فاتح</p> </blockquote> <p>کیرون پولارڈ نے جیت کا رن حاصل کرنے کے بعد فتح کا جشن اس طرح منایاویسٹ انڈیز میں جاری سہ فریقی ون ڈے ٹورنامنٹ کے پانچویں میچ میں میزبان ٹیم نے آسٹریلیا کو چار وکٹوں سے ہرا دیا ہے۔ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دی جس نے مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 265 رنز بنائے۔آسٹریلیا کی جانب سے عثمان خواجہ نے سب سے زیادہ 98 رنز بنائے جبکہ کپتان سٹیون سمتھ نے 74 اور جارج بیلی نے 55 رنز بنائے۔ویسٹ انڈیز کی جانب سے جیسن ہولڈر، کارلوس بریتھویٹ اور کیرون پولارڈ نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔میزبان ٹیم نے مقرر ہدف 45 ویں اوور میں چھ وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا۔</p> <blockquote> <p>شوبز</p> </blockquote> <blockquote> <p>عامر کی 'دنگل' کو ریلیز کی نئی تاریخ مل گئی</p> </blockquote> <p>ممبئی: بولی وڈ اداکار عامر خان کی آنے والی فلم 'دنگل' اس سے قبل 23 دسمبر کو ریلیز ہونی تھی تاہم اب اسے رواں سال 16 دسمبر کو سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔بولی وڈ لائف کی ایک رپورٹ کے مطابق قیاس آرائیاں تھیں کہ عامر خان، سلمان خان کی فلم 'سلطان' کے باعث اپنی فلم کی تاریخ آگے بڑھاتے ہوئے اسے اگلے سال ریلیز کریں گے تاہم عامر نے ان خبروں کو بے بنیاد ثابت کرتے ہوئے اسے ایک ہفتہ قبل ہی ریلیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔</p> <blockquote> <p>انیل کپور پہلی بار اپنے بھتیجے ارجن کے ساتھ کاسٹ</p> </blockquote> <p>بولی وڈ اداکار انیل کپور اور ارجن کپور اصل زندگی میں چچا بھتیجے ہیں اور یہ دونوں اداکار اب فلم میں بھی یہ کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق انیل کپور اور ارجن کپور انیس بزمی پروڈکشن کی فلم 'مبارکاں' میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ کام کرتے نظر آئیں گے۔اس فلم کی ہدایت کاری مراد کھتانی کریں گے جبکہ دونوں اداکار اپنی اصل زندگی کا رشتہ ہی اسکرین پر ادا کریں گے۔فلم ساز کے قریبی ذرائع کے مطابق 'فلم میں انیل کپور اور ارجن چچا بھتیجے کا کردار کریں گے، ہمیں ہقین ہے کہ شائقین کو یہ جوڑی ضرور پسند آئے گی'۔فی الحال فلم کا عملہ باقی کاسٹ کو فائنل کرنے میں مصروف ہے۔</p> </section> </body>