id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
pakistan-48492772
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48492772
ڈیزائنر لان: خواتین کے اس بڑھتے جنون کی وجہ کیا ہے؟
صرف چند سال پہلے ہی پاکستان میں شروع ہونے والا ڈیزائنر لان کا نیا ٹرینڈ اب ایک جنون بن چکا ہے۔
ڈیزائنر لان کی مقبولیت کی ایک وجہ اس کی اعلی کوالٹی اورجدید ڈیزائنز ہیں آج کل ہر دوسری خاتون کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ڈیزائنرلان کا سوٹ ہی زیب تن کریں۔ اس مقبولیت کے باعث شاید تھری پیس سوٹ اب بالکل مختلف اور جدید شکل اختیار کر چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کئی بار خواتین کو ڈیزائنرلان کے لیے دکانوں پر کھینچا تانی کرتے اور آپس میں گتھم گتھا ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔ بی بی سی نے یہ جاننے کے کوشش کی ہے کہ خواتین کے ڈیزائنر لان کو اس قدر شدت سے پسند کرنے کی وجہ کیا ہے اور اس کے حصول میں وہ کن کن 'کٹھن مراحل' کو پار کرتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیے اپنے خون سے کپڑے بننے والی فیشن ڈیزائنر ٹیکسٹائل برآمدات مسلسل گر رہی ہیں ’اگر سکرٹ پہنی تو جہاز سے اترنا پڑ سکتا ہے‘ 'پسندیدگی کی وجہ' اسلام آباد کی ایف ٹین مارکیٹ میں شاپنگ کے لیے آئی خاتون مریم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ڈیزائنرلان پہنتی ہیں۔ ان کے نزدیک ڈیزائنر لان کے اس جنون کی سب سے بڑی وجہ اس کی اعلی کوالٹی اور جدید ڈیزائنز ہیں اور ان سلی لان لے کر اسے اپنے ڈیزائن میں سلوانا انھیں انتہائی آسان لگتا ہے۔ فیشن ڈیزائنر زونیا انوار کے مطابق خواتین کو لان کا سوٹ ٹرینڈ کی بجائے اپنی جسامت کی مناسبت سے لینا چائیے انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے پسندیدہ برانڈ کی ڈیزائنر لان خریدنے کے لیے ان کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر رکھتی ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی ڈیزائن پسند آتا ہے تو وہ فوراً اسے آن لائن ہی بک کر دیتی ہیں۔ ہما ستی جو ایک ورکنگ خاتون ہیں، کا ماننا ہے کہ لان جنون کا اصل شکار ان جیسی ورکنگ خواتین ہی ہیں کیونکہ ان کو روزمرہ پہننے کے لیے بھی ڈیزائنر لان ہی چاہیے ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیزائنر لان بے شک تھوڑی مہنگی ہوتی ہے لیکن اس کے رنگ، کوالٹی اور ڈیزائن دیکھنے کے بعد ان کی قیمت مناسب لگنے لگتی ہے تاہم ان کو نئی لان کے آنے کی خوشخبری مختلف برانڈز کی جانب سے آنے والے میسجز یا سوشل میڈیا سے ہی ملتی ہے۔ ’ڈیزائنر لان کے حصول کے لیے 'جدوجہد' مریم نے بتایا کہ آن لائن شاپنگ کی وجہ سے وہ سٹورز کے رش میں لان کے حصول کے لیے پریشانی سے تو بچ جاتی ہیں لیکن کسی اور کو اپنے جیسا ڈیزائن پہنا دیکھ کر انھیں بہت غصہ آتا ہے۔ 'ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک شاپنگ مال میں، ایک خاتون نے بالکل میرے جیسا سبز کرتا پہن رکھا تھا جسے دیکھ کر میں نے خود سے کہا یہ کیا ہے؟ مجھے بہت غصہ آیا۔' صرف چند سال پہلے شروع ہونے والا ڈیزائنر لان کا نیا ٹرینڈ اب ایک جنون بن چکا ہے ہما نے لان خریداری کی ایک ’تلخ یاد‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ وہ نئی لان آنے پر کسی وجہ سے خریداری کے لیے نہیں جا سکیں اور ان کا پسندیدہ پرنٹ آن لائن سٹاک میں بھی ختم ہوگیا لہذا انھوں نے اس مشکل وقت میں اپنی ایک سہیلی کی مدد مانگی۔ ان کی دوست ان کے برانڈ کے سٹور چلی تو گئیں اور ان کا پسند کیا ہوا ڈیزائن لے بھی آئیں لیکن شاید گھر پہنچتے ہی ان کی دوست کی نیت بدل گئی اور انھوں نے وہ جوڑا خود رکھ لیا اور کئی بار مانگنے کے باوجود بھی ان کو نہیں دیا۔ ہما نے بتایا کہ ایک دفعہ اتفاقاً ان کی ایک کولیگ بالکل ان جیسا ڈیزائن ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد انھوں نے آپس میں فیصلہ کر لیا کہ یہ سوٹ وہ ایک ہی دن نہیں پہنیں گی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اکثر ان کو ایسا ڈیزائن بھی پسند آ جاتا ہے جس کی انھیں بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن وہ اسے بھی خرید لیتی ہیں تاکہ وہ ان کی کسی سہیلی کے کام آجائے۔ ڈیزائنر زونیا انوار ڈیزائنرز کیا کہتے ہیں؟ ہم نے لاہور کی فیشن ڈیزائنر زونیا انوار سے لان کی مقبولیت اور اس کو لے کر بڑھتے ہوئے جنون کے بارے میں بات کی۔ زونیا کا ماننا ہے کہ ڈیزائنرلان نے تھری پیس سوٹ کو جدت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیزائنر لان کی کوالٹی اور پھر اس کے نت نئے ڈیزائنوں کی وجہ سے یہ جنون دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ان کے نزدیک ڈیزائنر لان کی مقبولیت کی ایک وجہ پاکستان کا موسم بھی ہے کیونکہ اس موسم کے لحاظ سے لان ہی سب سے موزوں کپڑا ہے۔ زونیا نے خواتین کے لیے لان خریداری کو آسان بنانے کے لیے کچھ مفید مشورے بھی دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ڈیزائنر لان کے بہترین ڈیزائنر خریدنے کے لیے خواتین کو فروری کے مہینے سے ہی کمر کس لینی چاہیے کیونکہ اسی مہینے میں ہر برانڈ اپنی نئی لان کی لانچ شروع کرتا ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ خواتین کو لان کا سوٹ ٹرینڈ کی بجائے اپنی جسامت کی مناسبت سے لینا چائیے اور سوٹ کے درست انتخاب کے بعد بہترین سلائی ان کے جوڑے کو چار چاند لگا سکتی ہے۔ 'اکثر خواتین کو نہ بھی کرنا پڑتی ہے' اسلام آباد میں ایک برانڈ کے سٹور مینجیر نے بی بی سی کو بتایا کہ موسم گرما کے دوران ہر ایک ماہ بعد لان کا نیا والیم مارکیٹ میں لایا جاتا ہے جس سے خواتین کے پاس چوائس بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کے عید وغیرہ کے موقع پر آنے والے والیمز کی مانگ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اکثر اس دوران دو دو والیمز بھی لائے جاتے ہیں۔ تاہم انھوں نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ آن لائن شاپنگ کے بجائے سٹورز میں آ کر اپنے ڈیزائن کا انتخاب کریں کیونکہ کسی چیز کو سامنے سے دیکھ کر ہی آپ اس کے ڈیزائن کا صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر والیم میں سے تین سے چار ڈیزائن سب سے زیادہ مقبول ہوتے ہیں اور ہر خاتون کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ وہی ڈیزائن خریدے۔ انھوں نے بتایا ’اگر ایک آؤٹ لیٹ سے ایک ڈیزائن نہ ملے تو ہم خواتین کو اپنی دوسری برانچ سے بھی ڈیزائن منگوا کر دیتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھی کسی خاص ڈیزائن کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اکثر خواتین کو نہ بھی کرنا پڑتی ہے۔‘
150119_petrol_shortage_analysis_rwa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/01/150119_petrol_shortage_analysis_rwa
ذمہ دار سرکار اور اس کے ادارے ہی ہیں
اسلام آباد کے ایوانوں میں پیٹرول کی قلت کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چاہے وہ وزارتِ خزانہ ہو، پیٹرولیم ہو یا پانی و بجلی، ملک میں جاری اس سنگین بحران کی ذمہ دار سرکار اور اس کے ادارے ہی ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سوموار کو پریس کانفرنس کے دوران اپنے محکمے کی جانب سے پٹرول کے بحران سے اعلان لاتعلقی کیا پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سوموار کو پریس کانفرنس کے دوران اپنے محکمے کی جانب سے پیٹرول کے بحران سے اعلان لاتعلقی کیا۔ انھوں نے پیٹرول کی قلت کی ذمہ داری پیٹرولیم کے وزیر شاہد خاقان عباسی اور پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف پر براہ راست تو نہیں ڈالی لیکن بعض تیکھے سوالوں کے جواب میں انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ ان سوالوں کے جواب ان دونوں وزیروں سے کیے جائیں۔ اس سے پہلے پیٹرولیم کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ تیل کی فراہمی کے سرکاری ادارے پی ایس او کو سرکار کی جانب سے بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث تیل کی خریداری میں تاخیر ہوئی یعنی بلواسطہ طور پر پیٹرولیم کے وزیر نے وزارتِ خزانہ کی جانب سے فنڈز بروقت جاری نہ ہونے کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا۔ پیٹرول کے جس بحران کا پاکستانی آبادی کے بڑے حصے کو سامنا ہے، اگر اس کی وجوہات سمجھنے کی کوشش کی جائے تو جو الزامات مختلف وزار دبے اور ڈھکے چھپے انداز میں ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں وہ سب ہی ٹھیک دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری بد انتظامی پاکستان سٹیٹ آئل وہ سرکاری ادارہ ہے جو ملک میں استعمال ہونے والے پٹرول کا بڑا حصہ درآمد کرتا ہے اور جو نجی کمپنیاں بھی تیل درآمد کرتی ہیں وہ بھی سخت سرکاری نگرانی میں ایسا کرتی ہیں پاکستان میں پیٹرول کی ترسیل پر سرکاری اجارہ داری ہے۔ چند برس قبل یہ سرکاری اجارہ داری ختم کرنے کی کوششوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا کہ یہ ایندھن پاکستان کی دفاعی مشینری کو چلانے کا ذمہ دار ہے لہٰذا اسے غیر سرکاری تحویل میں نہیں دیا جا سکتا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان سٹیٹ آئل وہ سرکاری ادارہ ہے جو ملک میں استعمال ہونے والے پیٹرول کا بڑا حصہ درآمد کرتا ہے اور جو نجی کمپنیاں بھی تیل درآمد کرتی ہیں وہ بھی سخت سرکاری نگرانی میں ایسا کرتی ہیں۔ سرکار کی جانب سے نگرانی کا یہ کام اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) انجام دیتی ہے۔ اتنے سخت سرکاری کنٹرول میں اگر ملک میں تیل کی فراہمی کے نظام کہیں گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری انہی سرکاری اداروں میں سے کسی ایک یا سب کو لینے ہو گی۔ تیل کی فراہمی کے نظام میں جو خلل پیدا ہوا ہے اس کا آغاز واجبات کی عدم ادائیگی سے ہوتا ہے۔ واجبات کی عدم ادائیگی پی ایس او نے 24 اور 30 دسمبر کو وفاقی حکومت کو تحریری طور پر اس صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے انتباہ کر دیا کہ پیسے نہ ہونے کے باعث وہ عالمی منڈی سے مزید پٹرول خریدنے کے قابل نہیں ہے پی ایس او ملکی ضروریات کے لیے جو پیٹرول درآمد کرتا ہے وہ سرکاری اور نجی اداروں کو فروخت کرتا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں جن سرکاری اداروں نے یہ پیٹرول خریدا اور اس کی ادائیگی نہیں کی اور جن نجی کمپنیوں نے خریدا انھوں نے یہ کہہ کر پی ایس او کو پیسے نہیں دیے کہ حکومت ایک دوسری مد میں ہماری مقروض ہے لہٰذا وہ یہ پیسے ہماری جانب سے حکومت سے وصول کر لے۔ نہ سرکاری اداروں نے پی ایس او کو پیسے دیے اور نہ ہی نجی کمپنیوں کی جانب سے وزارتِ خزانہ نے ادائیگیاں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ایس او کے پاس عالمی منڈی سے تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں رہے۔ پی ایس او نے 24 اور 30 دسمبر کو وفاقی حکومت کو تحریری طور پر اس صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے انتباہ کر دیا کہ پیسے نہ ہونے کے باعث وہ عالمی منڈی سے مزید پیٹرول خریدنے کے قابل نہیں ہے۔ تیل کے دستیاب ذخائر سے لاعلمی وفاقی حکومت نے اس وارننگ کا شائد اس لیے بھی نوٹس نہیں لیا کہ پی ایس او اگر نیا تیل درآمد نہیں بھی کرتا تو بلیک میں تین ہفتے کے ذخائر موجود ہونے چاہئیں کیونکہ قاعدے اور قانون کے مطابق تیل درآمد کرنے والی تمام نجی اور سرکاری کمپنیاں اتنی مقدار میں تیل ذخیرہ کرنے کی پابند ہیں اور اوگرا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان ذخائر کی روزانہ کی بنیاد پر مانٹرنگ کرے۔ چھ جنوری کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آیا تو حکومت کو بتایا گیا کہ ملک میں 18 دن کے لیے تیل کے ذخائر موجود ہیں یعنی ملک میں اتنا پیٹرول ہے کہ وہ 24 جنوری تک کے لیے کافی ہے تاہم آٹھ دن بعد یعنی 14 جنوری کو صوبہ پنجاب اور ملک کے دیگر شمالی حصوں میں پیٹرول پمپس، پیٹرول کی عدم دستیابی کے باعث بند ہونا شروع ہو گئے۔ طلب میں اضافے کے غلط اندازے حکومت نے دسمبر میں اعلان کیا کہ قدرتی گیس کی کمی کے باعث ٹرانسپورٹ سیکٹر کو سردیوں میں یعنی آئندہ تین سے چار ماہ تک گیس یا سی این جی فراہم نہیں کی جائے گی۔ پاکستان میں جس قدر سی این جی گاڑیوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے اس کی بنیاد پر ان گاڑیوں کے پیٹرول پر منتقل ہونے سے پیٹرول کی مانگ میں کب اور کتنا اضافہ ہو گا، یہ سمجھنے کے لیے حکومت کو کسی غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم جب یہ بات حکومت کی سمجھ میں آئی اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی اور وہ سی این جی صارفین ایک بار پھر طویل لائنوں میں کھڑے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہ لائنیں سی این جی نہیں بلکہ پیٹرول کے حصول کے لیے تھیں۔ ایسے میں وزیر، وزارتیں اور دیگر سرکاری ادارے اس بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں کر رہے۔ کیونکہ یہ سب ادارے ہی اس بیوقوفی کے شریکِ جرم ہیں۔
131003_india_book_a
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/06/131003_india_book_a
انڈیامیں مزید ریاستوں کے قیام کے امکانات
انڈیا کی انتیسویں ریاست تیلنگانہ وجود میں آ چکی ہے۔ تیلنگانہ انڈیا کی ایک اور ریاست آندھرپردیش کو تقسیم کر کے بنائی گئی ہے جو کہ انڈیا کی آزادی کے بعد لسانی بنیادوں پر وجود میں آنے والی پہلی ریاست تھی۔
آزادی کے بعد انڈیا میں نئی ریاستوں کا قیام متنازع موضوع رہا ہے لیکن اس کے باوجود وقفے وقفے سے نئی ریاستیں وجود میں آتی رہیں۔ آزادی کے بعد انڈیا میں نئی ریاستوں کا قیام متنازع موضوع رہا ہے لیکن اس کے باوجود وقفے وقفے سے نئی ریاستیں وجود میں آتی رہیں۔ ابتداء میں نئی ریاستوں کے قیام کو تقسیمِ ہند کے تجربے کی روشنی میں ایک مضبوط انڈیا کے خواب سے متصادم سمجھا گیا۔ تاہم، انیس سو باون میں مدراس کے صوبے سے تیلوگو زبان بولنے والے علاقوں کو الگ کر کے نئی ریاست بنانے کے مطالبے کے حق میں، پوٹی سری راملو کی موت تک بھوک ہڑتال کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کو اپنا موقف نرم کرنا پڑا، اور یوں آندھر پردیش کے نام سے لسانی بنیادوں پر نئی ریاست بن گئی۔ اس کے بعد تمل ناڈو، کیرالہ، کرناٹنک جیسی ریاستیں بنیں جن کا مطالبہ لسانی بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ پنجاب کو انیس سو چھیاسٹھ میں اندرا گاندھی کی رضامندی سے ریاست کا درجہ ملا۔ اس سے قبل انیس سو اکسٹھ میں پنڈت نہرو نے یہ کہہ کر یہ مطالبہ رد کر دیا تھا کہ گو پنجاب کی ریاست لسانی بنیادوں پر مانگی جا رہی ہے حقیقت میں یہ ایک مذہبی مطالبہ ہے۔ ریاستوں کے قیام کا ایک فوری نتیجہ تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انیس سو باون کے پہلے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد انیس سو ستاون کے انتخابات میں ترپن سے کم ہو کر پندرہ رہ گئی تھی۔ لندن میں کنگز کالج کے انڈیا انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ لیکچرار لویز ٹِلن نے اپنی کتاب ’ریمیپنگ انڈیا‘ (Remapping India) انڈیا میں ریاستوں کے قیام اور بڑی ریاستوں کی تقسیم کی تاریخ کا احاطہ کیا ہے۔لویز نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کب کسی ریاست کا مطالبہ شروع ہوا اور کیسے ان کے بارے میں سیاسی جماعتوں کا موقف بدلتا رہا۔ لویز نے اپنی کتاب میں بتایا کہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بعد ریاستوں کے قیام کا دوسرا دور وہ تھا جس میں ملک کے شمال مشرق میں میزورام، میگھالیا، اور اروناچل پردیش وجود میں آئیں۔ ان ریاستوں کے قیام کے پیچھے آسام کے قبائیلیوں کو خود مختاری دینا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد انیس سو باسٹھ میں چین کے خلاف جنگ کے بعد اس علاقے میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر کے وفاقی حکومت کا اثر و رسوخ بڑھانا تھا۔ کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح انیس سو پچاس کی دہائی میں نئی ریاستوں کی مخالفت ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جن سنگھ کی طرف سے کی گئی اور پھر سن دو ہزار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ہی تین نئی ریاستوں چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور اترا کھنڈ بنائیں۔ یہ ریاستیں ہندی بولنے والی بڑی ریاستوں کو توڑ کر بنائی گئی تھیں۔ لویز ٹِلن کی کتاب میں اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے کہ لسانی بنیادوں پر صوبوں کا قیام کس حد تک کامیاب فیصلہ تھا اور اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی یا کمزور اور اس کا علیحدگی پسند جذبات پر کیا اثر پڑا۔ تیلنگانہ کے بعد انڈیا میں مزید ریاستوں کے قیام کا کیا امکان ہے؟ لویز نے کتاب میں چھتیس گڑھ کے پہلے وزیر اعلیٰ اجیت جوگی کے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر کانگریس کی حکومت ہوتی تو یہ ریاست کبھی نہ بنتی کیونکہ اس وقت پچاس نئی ریاستوں کے قیام کے مطالبات میدان میں تھے اور کانگریس اس مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوری طور پر کسی ریاست کے قیام کا امکان نہ بھی ہو تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ریاستیں نہیں بنیں گیں۔
150401_pak_yemen_evacuation_update_hk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/04/150401_pak_yemen_evacuation_update_hk
چینی تعاون سے عدن میں محصور پاکستانیوں کے انخلا کا منصوبہ
پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یمن میں اب بھی 400 پاکستانی محصور ہیں جن میں سے 200 کو چین کے بحری جہاز کے ذریعے عدن سے نکالا جائے گا۔
70 سے 90 پاکستانی اب بھی صنعا میں موجود ہیں : ترجمان دفترِخارجہ یاد رہے کہ یمن میں سعودی عرب کے عسکری آپریشن اور مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتحال پر سعودی حکام سے بات چیت کے لیے پاکستان کے اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب میں موجود ہے۔ منگل کی رات دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی جانب سے جاری ہونے والے پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ یمن کے دارلحکومت صنعا، مکالا اور عدن میں اب بھی 400 پاکستانی انخلا کے منتظر ہیں۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ عدن میں پھنسے ہوئے تقریباً 200 پاکستانیوں کو چین کے بحری جہاز کی مدد سے نکال کر جیبوٹی پہنچایا جائے گا جہاں سے پی آئی اے کا طیارہ انھیں وطن واپس پہنچائے گا۔ اس سلسلے میں ایتھوپیا میں موجود پاکستانی سفیر سے کہا گیا ہے کہ وہ جیبوٹی میں کیمپ آفس قائم کریں۔ خیال رہے کہ چین کے 600 شہری بھی یمن میں محصور ہیں۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق جمعرات کو موکالا میں پاکستان کا بحری جہاز پہنچے گا اور وہاں موجود 150 پاکستانیوں کو کراچی لائے گا۔ بیان کے مطابق اب بھی یمن کے دارالحکومت صنعا میں 70 سے 90 کے قریب پاکستانی محصور ہیں مگر وہ صنعا سے دیگر شہروں میں جانے پر رضامند نہیں۔ یمن میں جاری سعودی عرب کی فضائی بمباری کا ایک منظر حکام کا کہنا ہے کہ صنعا کی خطرناک صورتحال کے باوجود خصوصی پرواز کے ذریعے ان پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ تسنیم اسلم کے مطابق سعودی حکام سے درخواست کی جارہی ہے کہ پاکستانی طیارے کو نو فلائی زون سے مثتثنیٰ قرار دیں جبکہ یمنی حکام سے بھی’ گراؤنڈ کلیئرنس‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ منگل کو پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں ریاض پہنچنے والے وفد میں قومی سلامتی و خارجہ امور کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے علاوہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل عامر ریاض بھی شامل ہیں۔ ایک سرکاری اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ یہ وفد دو دن سعودی عرب میں قیام کرے اور سعودی حکام سے یمن کی صورتحال اور سعودی عرب کی سلامتی سے متعلق امور پر بات کرے گا۔ اس وفد کی تشکیل اور روانگی کا اعلان ابتدائی طور پر گذشتہ ہفتے کیا گیا تھا تاہم عرب لیگ کے اجلاس کے نتائج آنے تک اس کی روانگی دو مرتبہ موخر کی گئی۔ حکومتِ پاکستان پہلے ہی سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرہ ہونے کی صورت میں ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کر چکی ہے تاہم ابھی تک وہاں فوج بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ جمعے کو قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بن رہا ہے۔ .
070715_bannu_deadbody_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070715_bannu_deadbody_nj
بنوں: دہشت گردی کے الزام میں قتل
صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع بنوں میں پولیس کو ایک لاش ملی ہےجس کا سر تن سےالگ کر دیا گیا ہے۔لاش کو پولیس نے سول ہسپتال بنوں منتقل کردیا ہے۔
بنوں پولیس کےایک افسر سلطان آیاز نے بی بی سی کو بتایا کہ بنوں شہر سے چند کلومیٹر دور تھانہ خویدہ کے حدود میں واقع چوک کڑی اعظم میں اتوار کو ملنے والی یہ لاش ایک غیر ملکی ازبک باشندے کی ہے۔پولیس کے مطابق لاش سے تازہ خون بہہ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کو لاش کے ساتھ ایک خط بھی ملا ہے جو پشتو زبان میں لکھا گیا ہے۔ خط کے مطابق یہ ایک غیر ملکی ازبک ہے۔اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور دوسرے منفی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔خط میں لکھا گیا تھا کہ ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا یہی انجام ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔لیکن پاکستان کے ساتھ غداری کے الزام میں پہلی مرتبہ ایک ازبک باشندے کو قتل کیا گیا ہے۔
060312_windies_newzeland_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/03/060312_windies_newzeland_zs
ویسٹ انڈیز کو شکست کا خطرہ
نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پر شکست کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ویسٹ انڈین ٹیم کو پچھلے سولہ ٹیسٹ میچوں میں سے چودہ میں ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
آک لینڈ ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کو جیت کے لیئے مزید پنتالیس رن کی ضرورت ہے جبکہ اس کی صرف دو وکٹیں باقی ہیں۔ چوتھے دن کے کھیل کے اختتام پر ویسٹ انڈیز نے 291 رن کے ہدف کے تعاقب میں 245 رن بنائے ہیں اور اس کے آٹھ کھلاڑی پویلین میں واپس جا چکے ہیں۔ چوتھے دن ویسٹ انڈیز نے بنا کسی نقصان کے اڑتالیس رن پر اپنی دوسری اننگز شروع کی اور کرس گیل اور ڈیرن گنگا ٹیم کے سکور کو 148 تک لے گئے۔ اس موقع پر کرس گیل بیاسی رن بنا کر ناتھن اسٹل کی گیند پر آؤٹ ہوگئے۔ رمیش سروان صرف چار رن بنا سکے جبکہ برائن لارا پہلی ہی گیند پر بولڈ ہوئے۔ دونوں کو شین بانڈ نے آؤٹ کیا۔ ایک موقع پر ویسٹ انڈیز کے دو سوگیارہ رن کے مجموعی سکور پر صرف تین کھلاڑی آؤٹ تھے مگر ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز کے مڈل آرڈر بلے باز اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے اور ویسٹ انڈیز کی اگلی پانچ وکٹیں صرف پینتیس رن کے اضافے کے ساتھ گر گئیں۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے شین بانڈ نے چار جبکہ ڈینیئل ویٹوری اور ناتھن آسٹل نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم: ہمیش مارشل، جے ہاؤ، سٹیفن فلیمنگ، پی فلٹن، ناتھن آسٹل، سکاٹ سٹائرس، بی میکلم، ڈینیئل ویٹوری، جیمز فرینکلن، کرس مارٹن، شین بانڈ ویسٹ انڈیز کی ٹیم: کرس گیل، ڈیرن گنگا، رمیش سروان، چندرپال، برائن لارا، ڈیون سمتھ، براوو، دنیش رام دین، بریڈ شا، فیڈل ایڈورڈز، جے ٹیلر
051108_france_riots_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/11/051108_france_riots_sen
فرانس میں کرفیو اور ایمرجنسی
فرانسیسی کابینہ تشدد ختم کرنے کے لیے کرفیو اور ایمرجنسی کا اختیار مقامی حکام کو دے دیا ہے۔
لگ بھگ دو ہفتے سے جاری فسادات پر قابو پانے کے لیے فرانسیسی وزیراعظم ڈومنِک دی ولیپاں نے پیرس اور دیگر شہروں میں کرفیو کے نفاد کا عندیہ دیا تھا۔ جاری فسادات کے دوران پیرس کے مضافات اور دیگری فرانسیسی شہروں میں دکانوں، اسکولوں، فیکٹریوں اور ہزاروں کاروں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔ یہ فسادات ان علاقوں میں ہوئے جہاں نسلاً غیرفرانسیسی تارکین وطن رہتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد فرانسیسی وزیر داخلہ نکولاس سرکوزی نے کہا کہ ہنگاموں کی صورت میں مقامی حکام جہاں ضروری سمجھیں گے کرفیو نافذ کر سکیں گے تا کہ ہنگاموں پر فوری قابو پایا جا سکے۔ اس کے علاوہ پولیس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے وہ ہتھیار جمع کرنے یا رکھے جانے کے شک کی بنیاد پر جہاں بھی ضروری سمجھے چھاپے مار سکتی ہے۔ پولیس کو متاثرہ علاقوں میں مزید پندرہ سو کی نفری دی گئی ہے۔ وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ خود حکومت پختہ عزمی، تحمل اور میانہ روی کی پالیسی پر قائم رہے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہنگاموں کی بارہویں رات قدرے خاموش گزری لیکن اب تک ایک ہزار گاڑیاں جلائی جا چکی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے یہ تعداد چودہ سو سے زائد بتائی گئی تھی۔ ان ہنگاموں نے اب تک پیرس کے نواح میں واقع ڈیڑھ درجن سے زائد قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا تھا۔ ہنگامے اس وقت شروع ہوئے جب شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے دو نوجوان پولیس سے بچنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
060116_afghan_attack_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060116_afghan_attack_zs
’خودکش حملہ‘، 4 افغان ہلاک
افغانستان کے شہر قندھار میں ایک مبینہ خود کش حملے میں ایک افغان فوجی اور تین شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔یہ افغانستان میں دو دنوں میں ہونے والا دوسرا خودکش حملہ ہے۔
اس سے قبل کہا گیا تھا کہ حملے مںی تین فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ حملہ ایک فوجی قافلے پر کیا گیا اور اس میں پانچ فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پیر کو ہونے والے دھماکے کی جگہ پر خون اور مرنے والوں کے اعضاء بکھرے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ افغان حکام نے طالبان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حملہ ’ افغانستان کے دشمنوں‘ نے کیا ہے۔ طالبان کا ترجمان ہونے کے دعویدار ایک شخص نے دعوٰی کیا ہے کہ طالبان ہی ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں اور مستقبل میں ایسے مزید دھماکے ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اتوار کو قندھار کے قریب ہی کینیڈا کے ایک فوجی قافلے پر ’خود کش‘ کار بم حملے میں افغانستان میں کینیڈا کے سیاسی ڈائریکٹر گلین بیری سمیت دو افغانی شہری مارے گئے تھے۔ افغانستان میں خودکش حملوں کے بڑھتے ہوئے رجحان سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ افغانستان میں بھی مزاحمت کار عراقی مزاحمت کاروں کے طریقے اپناتے جا رہے ہیں۔
140801_indian_army_chief_sa
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/08/140801_indian_army_chief_sa
پاکستان کو بھرپور اور فوری جواب دیا جائے گا: بھارتی فوجی سربراہ
بھارتی فوج کے نئے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر دوبارہ گذشتہ برس جنوری جیسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، جس میں مبینہ طور پر ایک بھارتی فوجی کا سرقلم کردیا گیا تھا، تو اس کا ’بھرپور اور فوری جواب‘ دیا جائے گا۔
جنرل سہاگ نے جمعرات کو ہی اپنے عہدے کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور آج دفتر میں ان کا پہلا دن تھا بھارت کا الزام ہے کہ گذشتہ برس جنوری میں پاکستانی فوج کے ایک سرحدی دستے نے بھارتی حدود میں داخل ہوکر دو فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان میں سے ایک کا سر قلم کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ تب سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوبارہ کشیدگی کا شکار ہوگئے تھے اور باہمی مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ جنرل سہاگ نے جمعرات کو ہی اپنے عہدے کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور آج دفتر میں ان کا پہلا دن تھا۔ جنرل سہاگ نے کہا ’اگر ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش آتا ہے تو اس کا پوری شدت کے ساتھ بھرپور اور فوری جواب دیا جائے گا۔‘ جنرل سہاگ سے یہ سوال ایک صحافی نے جنرل بکرم سنگھ کے اس بیان کے تناظر میں پوچھا تھا جس کے بعد میڈیا میں یہ قیاس آرائی شروع ہوگئی تھی کہ کیا جنوری کے واقعے کا انتقام لیا جا چکا ہے۔ جنوری دو ہزار تیرہ میں جنرل بکرم سنگھ نے کہا تھا کہ ’ہم اپنی مرضی کی جگہ پر اور اپنی پسند کے موقعے پر اس حملے کا جواب دیں گے۔‘ جنرل سہاگ کو چارج سونپنے کے بعد جنرل سنگھ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ معاملہ اب ختم ہوگیا ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ کام کیا جا چکا ہے، یہ کام مقامی کمانڈر کی سطح پر ہوتے ہیں، فوج کے سربراہ اس میں شامل نہیں ہوتے۔‘ تب سے ہی یہ قیاس آرائی جاری ہے کہ کیا جنرل سنگھ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جنوری کے مبینہ واقعے کا انتقام لیا جا چکا ہے اور اگر ہاں تو پاکستان کی جانب سے کبھی کوئی ردعمل سامنے کیوں نہیں آیا۔ لیکن جنرل بکرم سنگھ کے بیان کی بنیاد پر وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ واقعی کوئی انتقامی کارروائی کی گئی ہے یا نہیں۔ جنرل سہاگ سے بھی جب اس ممکنہ جوابی کارروائی کی تفصیل پوچھی گئی تو انھوں نے صرف یہ کہا کہ ’اس بارے میں جنرل سنگھ پہلے ہی بتا چکے ہیں۔‘ جنرل سہاگ کی تقرری تنازع کا شکار رہی تھی اور کانگریس کی قیادت والی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں ان کے نام کی تصدیق کی تھی جس پر بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے اعتراض کیا تھا حکومت جلدبازی سے کام لے رہی اور یہ فیصلہ نئی حکومت کے لیے چھوڑ دیاجانا چاہیے۔ جنرل سہاگ پر فوج کے سابق سربراہ اور وفاقی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے کئی سنگین الزامات لگائے تھے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے واضح کیا تھا کہ وہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا احترام کرے گی۔
110914_gujrat_modi_politics_sz
https://www.bbc.com/urdu/india/2011/09/110914_gujrat_modi_politics_sz
وزارت عظمی کی طرف مودی کے بڑھتے قدم
گجرات فسادات کے سلسلے میں وزیراعلی نریندر مودی کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے براہ راست کوئی فیصلہ نہ دیے جانےکو مسٹر مودی نےگجرات کے عوام کی جیت قرار دیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ آئندہ الیکشن میں مودی راہول کے مد مقابل ہونگے ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ساتھ ’گجرات کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم‘ ختم ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مودی نےگجرات کے عوام کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد جیسے پہلوؤں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کھلے خط میں کہا ہے کہ ’نفرت کو کبھی نفرت سے نہیں جیتا جا سکتا‘۔ مسٹر مودی نے مزید کہا کہ ’ہمارے ملک کی اصل طاقت اس کے اتحاد اور اس کی ہم آہنگی میں پنہاں ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی سماجی زندگی میں اتحاد کو مضبوط کریں‘۔ مسٹر مودی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ’سد بھاؤنا مشن‘ یعنی ہم آہنگی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اوراس کا آغاز وہ آئندہ سنیجر سے تین دنوں کے ’ برت ‘ سے کریں گےجس کے دوران وہ کھانے پینے سےگریز کریں گے ۔ گجرات فسادات کے بعد مسٹرمودی ایک متنازعہ رہمنا رہے ہیں۔ انہیں ایک مسلم مخالف ہندو وادی رہنما کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ نریندر مودی پرگجرات کے فسادات کے لیے سخت تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن، سد بھاونا اور، اتحاد جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ مودی اب وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں مسٹر مودی نے سنیچر کے اپنے تین روزہ برت اور اپنی سدبھاؤنا تحریک کے مقام کا ابھی اعلان نہیں کیا ہے لیکن ریاست میں اس پروگرام کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ دلی میں ان کے اس اعلان کو قومی سیاست میں مسٹر مودی کی آمد کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ملک کے ٹی وی چینلوں پر بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا مودی ملک کے اگلے وزیراعظم ہونگے۔ ؟ بی جے پی اگرچہ مودی کو وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر ابھی تک پیش نہیں کر رہی ہے لیکن پارٹی کے اندر واجپئی اور اڈوانی کے بعد کوئی واضح قیادت نہ ابھرنے اور ایک بہترین اور با صلاحیت منتظم کے طور پر قومی سیاست میں مودی کا ظہور انہیں خود بخود قومی سیاست کی طرف دھکیل رہا ہے۔ لیکن دلی کی طرف دیکھنے سے قبل انہیں اگلے برس گجرات کے ریاستی انتخابات جیتنے ہونگے۔ قومی سیاست میں مودی کی آمد کے امکان کو امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ سے مزید تقویت ملی ہے جس میں مودی کی انتظامی صلاحیت کی زبردست تعریف کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس بات کے غالب امکان ہیں کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں وہ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’گجرات بھارت میں موثر انتظام اور متاثرکن ترقی کی سب سے بہترین مثال ہے۔ وزیراعلی مودی نے اقتصادی عمل کواس طرح آسان بنایا، معیشت کو سرکاری سست روی سے آزاد کرایا اور بدعنوانی کو اس طرح قابو میں کیا کہ گجرات ریاست قومی اقتصادی ترقی کی قیادت کرنے لگی‘۔ گجرات میں اقتصادی ترقی کی شرح حالیہ برسوں میں گیارہ فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ اور بڑی بڑی کمپنیاں گجرات میں اپنی فیکٹریاں لگانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ملک کے متوسط طبقے میں مودی کی شبیہ ایک بہترین منتظم کے طور پر ابھری ہے اور ان کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
051224_egypt_jail_ak
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/12/051224_egypt_jail_ak
آیمن نور کو رہا کیا جائے: امریکہ
امریکہ نے مصر میں قائد حزب اختلاف آیمن نور کو دھوکہ دہی کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائے جانے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
نور نے ستمبر میں ہونے والے مصر کے صدارتی انتخاب میں دوسرے نمبر پر ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان کو پہلی دفعہ جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی ’گھاد‘ کو رجسٹر کروانے کے لیے جعلی دستخطوں کا سہارا لیا۔ نور کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ سزا سنائے جانے پر انہوں نے صدر حسنی مبارک کے خلاف نعرے لگائے۔ اس موقع پر ہزاروں لوگ ان کی حمایت کے لیے عدالت کے باہر جمع ہو گئے۔ قاہرہ سے بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ عدالت کے قریب سڑکیں ’گھاد‘ پارٹی کے حامیوں اور پولیس اہلکاروں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس سے قبل نور اپنی حراست کے خلاف بھوک ہڑتال کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج بھی رہے ہیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نور کے وکیل عامر سلیم کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور اپیل عدالت اسے ختم کر دے گی‘۔ مقدمہ کے شریک ملزم آیمن اسمٰعیل نے نور کے لیے کاغذات میں جعل سازی کو تسلیم کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنی گواہی واپس لے لی اور کہا کہ یہ اعتراف انہیں ان کے خاندان کے بارے میں دھمکیاں دے کر زبر دستی کروایا گیا تھا۔ ان الزامات کے باوجود نور کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی جس میں ان کی جماعت نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ نور نومبر میں اسمبلی میں اپنی نشست ایک حکومتی امیدوار سے ہار گئے تھے۔ اس سال کے آغاز میں امریکہ نے کہا تھا کہ وہ نور کے مقدمے کا جائزہ لے رہا ہے جس سے مصر کی حکومت کے اختلافات برداشت کرنے کی صلاحیت کا پتہ چلے گا۔ اخوان المسلمین کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ آیمن نور بے گناہ ہیں۔
regional-43348450
https://www.bbc.com/urdu/regional-43348450
کیا خواتین کو بوڑھا ہونے کا حق نہیں ہے؟
بالی وڈ اداکارہ سری دیوی کے انتقال کے بعد جس طرح میڈیا نے اسے کور کیا اس پر کئی جگہ تنقید ہوئی۔
اسی سے متعلق جنوبی انڈیا کی فلم انڈسٹری کی اداکارہ املا نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ معاشرے میں خواتین کی بڑھتی عمر کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق انڈین معاشرے میں خواتین کو ہمیشہ جوان اور خوبصورت دکھنے کے دباؤ میں جینا پڑتا ہے۔ املا نے بی بی سی سے کہا کہ تا عمر جوان دکھنے کا دباؤ صرف ہیروئنوں پر نہیں بلکہ ہر خاتون پر ہوتا ہے۔ املا نے کہا کہ ’میں نے بہت سے پیشہ ورانہ اور سماجی گروپز میں یہ بات دیکھی ہے کہ اس بات پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ خواتین کیسی دکھ رہی ہیں۔ ‘ وہ کہتی ہیں کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ معاشی طور پر کمزور طبقے کی خواتین پر ہمیشہ خوبصورت دکھنے کا کتنا جنون سوار ہوتا ہے۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ خوبصورت دکھنے والی خواتین سے وہ متاثر ضرور ہوتی ہوں گی۔ ذہنی دباؤ کی وجہ املا کے مطابق خواتین یہ دباؤ اپنے اوپر اس لیے لے لیتی ہیں کیوں کہ یہ ایک طرح کی ذہنیت ہے کہ خواتین کو بوڑھا نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اپنی عمر کو وقت کے ساتھ روک لینا چاہیے۔ آپ دنیا کی کسی بھی مخلوق کو دیکھ لیجیے سبھی اپنی جوانی کے دنوں میں سب سے زیادہ خوبصورت دکھتے ہیں۔ املا نے کہا کہ ’جوانی وہ وقت ہوتا ہے جب کوئی بھی شخص ہر وقت خوبصورت لگتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ جب آپ کی عمر بڑھنے لگتی ہے اور آپ ٹی وی پر جوانی کے دنوں میں لوگوں کو دکھائی دے چکے ہوتے ہیں تو لوگ آپ کی بڑھتی عمر کا موازنہ آپ کی انیس اور بیس برس والی خوبصورتی سے کرنے لگتے ہیں۔ لیکن کوئی ہمیشہ ایک جیسا کیسے دکھ سکتا ہے؟‘ لیکن یہ دباؤ سیلیبریٹی خود اپنے اوپر سوار کر لیتے ہیں یا میڈیا کی جناب سے ڈالا جاتا ہے؟ اس بارے میں املا نے کہا کہ ’سری دیوی کی موت کی خبر پڑھنے کے بعد یہ دباؤ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ میں جہاں بھی جاتی ہوں میرا دھیان اس بات پر ہوتا ہے کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگ تو کچھ بھی بول دیتے ہیں وہ کہنے سے پہلے سوچتے نہیں ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کے سوال بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ تمہارا رنگ کالا ہونے لگا ہے۔ کوئی کہتا ہے تم موٹی ہو گئی ہو۔ ایسا صرف میرے ہی ساتھ نہیں ہوتا ہے، سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔‘ فٹ رہنا ضروری ہے اپنی فیس بک پوسٹ کے بارے میں املا نے کہا کہ انھوں نے ان خیالات کی وجہ سے ہی وہ سب کچھ لکھا تھا۔ ان کے مطابق ’خواتین کو چاہیے کہ وہ خود کو فٹ رکھنے پر غور کریں۔ لیکن اس کا مقصد کوئی خاص طرح کی فگر حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ضروری ہے کہ جب آپ صبح اٹھیں تو اچھا محسوس کریں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ہم زیادہ تھکا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں چلنے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنے صحت پر دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ معاشرے کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے بارے میں املا نے کہا کہ ’کئی مرتبہ جب صحافی مجھ سے انٹرویو کرنے آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں اپنے شوہر کے لیے کیا کھانا پکاتی ہوں۔ اور جب میں بتاتی ہوں کہ کھانا بنانے کے لیے ہمارے گھر میں ایک خاتون نوکری کرتی ہیں تو وہ حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد بات چیت کے لیے ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے 'میں چاہتی ہوں 20 برس بعد تم کو یہ معلوم ہو' 'اس نے کہا میں جنسی طور پر تم پر فدا ہوں' ’مردوں کو خواتین کو لبھانے کی آزادی ہونی چاہیے‘ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ خواتین پر معاشرے کی طرف سے کس کس طرح کے دباؤ ڈالے جاتے ہیں۔ املا کا خیال ہے کہ خواتین کو اور بھی کئی طرح کے مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ شادی سے جڑے سوال، بچے پیدا کرنے اور کھانا پکانے کے بارے میں سوال۔ املا تمام خواتین کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ’خوبصورتی کو سمجھ پانا کسی کے لیے ہماری نظر کے بارے میں بہت کچھ کہتا ہے۔ کسی کو اور بھی کئی طرح خوبصورت پایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر اس کی حمت، طاقت، عقل، ذمہ داریوں سے نباہ کرنے کی صلاحیت۔ ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔‘ املا چاہتی ہیں کہ خواتین بے خوف اپنی بات سب کے سامنے رکھ سکیں اور پرانی اور غیر مناصب روایات کو توڑیں اور دوسروں کی بھی انہیں توڑنے میں مدد کریں۔
050616_kashmiri_endvisit_rza
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/06/050616_kashmiri_endvisit_rza
دورہ ختم، کشمیری رہنما واپس
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے علیحدگی پسند معتدل کشمیری رہنما جمعرات کو اپنا دورہ مکمل کر کے بھارت روانہ ہوگئے۔
اس دورے میں کشمیری رہنماؤں نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے اعلیٰ حکام اور وہاں کی عوام سے بھی کئی ملاقاتیں کیں۔ تاہم کشمیری رہنماؤں کے اس دورے میں اس وقت ایک نزع پیدا ہوگئی جب کشمیری رہنما یسین ملک نے پاکستان کے وزیرِ اطلاعات شیخ رشید کے حوالے سے یہ بیان دیا کہ وہ کشمیریوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔ بعض اخباروں نے یسین ملک کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ شیخ رشید احمد نے کشمیری شدت پسندوں کے لیے جہادی کیمپوں کا اہتمام کیا تھا۔ تاہم شیخ رشید اور پاکستان کے دفترِ خارجہ نے پر زور انداز میں اس کی تردید کی تھی۔ شیخ رشید احمد نے جو خود بھی کشمیری ہیں کہا تھا کہ انہوں نے کشمیریوں کو صرف پناہ دی تھی۔ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے بی بی سی کی اردو سروس کو بتایا کہ شیخ رشیداحمد جہادی تربیت کے کیمپ چلاتے رہے اور انیس سو اکیانوے میں اس وقت کے وزیرِ اعظم کے حکم پر ان کیمپوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے آئے ہوئے رہنماؤں نے پاکستان علاقے کو چکوٹھی کے مقام سے لائن آف کنٹرول عبور کی۔ انہیں وہاں تک ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا گیا۔ انہیں الوداع کہنے کے لیے پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم سردار سکندر حیات خان بھی ہیلی کاپٹر میں چکوٹھی تک آئے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بھارت نے علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں کو ایک نمائندہ گروپ کے طور پر پاکستان کا دورہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ بدھ کو علیحدگی پسند رہنماؤں نے کہا تھا انہیں امید ہے کہ بھارتی حکومت مستقبل میں بھی اسی طرح کا دانش مندانہ رویہ اختیار کرے گی۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے پاکستان کے اس دورے کی شدت پسند اور سخت گیر افراد نے مخالفت کی تھی۔ شیخ رشید احمد تیس جون کو بھارت کے زیرِانتظام کشمیر جانا چاہتے ہیں اور اس سفر کے لیے انہوں نے درخواست بھی دی ہے تاہم جہادی کیمپوں کے حوالے سے شروع ہونے والی حالیہ نزع سے خدشات ہیں کہ کہیں پاکستانی وزیرِ اطلاعات کا یہ دورہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔
041021_tajtowers_sen
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/10/041021_tajtowers_sen
تاج محل: مینار جھک رہے ہیں؟
کیا محبت کی عظیم یادگار، تاج محل کے مینار جھکتے جا رہے ہیں؟
جی ہاں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تاج محل کے عقب میں دریائے جمنا میں ہونے والی تبدیلیوں کے سبب تاج کے مینار جھک رہے ہیں لیکن محکمہ آثارقدیمہ اس کی تردید کرتا ہے اور اتر پردیش کی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اپنی رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرے گی۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اتر پردیش حکومت سے اسے یہ اطلاع ملی ہے کہ تاج محل کے مینار جھک رہے ہیں اور میناروں میں سے ایک چھ انچ جھک چکا ہے۔ محکمہ کے ماہر آثارِقدیمہ انور عتیق صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ آگرہ کے آثارقدیمہ کے سپرنٹنڈنٹ سے کہا گيا ہے کہ وہ اس اطلاع کی سچائی کا جائزہ لیں۔ ساتھ ہی دلی کے ماہرین بھی ان خبروں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تاج محل کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ مسٹر صدیقی نے کہا کہ ’ساڑھے تین سو برس قبل تاج محل جس طرح بنا تھاوہ آج بھی اسی حالت میں ہے۔ماہرین اسکی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ میناروں کے جھکنے کی خبر بے بنیاد ہے لیکن اس بارے میں حقیقت کا علم تحقیق کے بعد ہی ہو سکے گا‘۔ معروف مورخ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی میناروں کے جھکنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد احتیاطاً مینار لوگوں کے لیے بند کر دیے گئے۔تاہم یہ بتایا گیا تھا کہ یہ جھکاؤ تاج محل کے لیے کسی بھی طرح خطرناک نہیں۔ موجودہ تنازعہ آگرہ کے سرکردہ مورخ پروفیسر رام ناتھ کے ایک تحقیقی مقالے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ پروفیسر رام ناتھ کہتے ہیں کہ 1940 سے 1965 تک تاج محل کے میناروں میں مسلسل جھکاؤ آیا ہے لیکن اس کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ نے ہر سال اس کے سروے نہیں کرائے۔ پرفیسر ناتھ کا کہنا ہے کہ دریائے جمنا تاج محل کے تحفظ کی ضامن ہے۔ اگر تاج محل کو بچانا ہے تو اس کے پیچھے بہنے والی جمنا کے رخ میں کسی تبدیلی کے بغیر سال کے تین سو پینسٹھ دن پانی کے بہاؤ کو برقرار رکھنا ہوگا۔ پروفیسر رام ناتھ کا کہنا ہے کہ جمنا کا کچھ حصہ پہلے ہی سوکھا ہے اور وہاں ایک کوریڈیر بنانے سے جمنا کے بہاؤ کے رخ میں تبدیلی آئی ہے اور اب پانی تاج کے پشتوں پر جانے کے بجائے سیدھا جانے لگا ہے۔ پروفیسر ناتھ کے مطابق اس سے تاج محل کا اصل ڈیزائن متاثر ہوا ہے اور بقول ان کے اس سے تاج کو زبردست نقصان پہنچےگا ۔ مغلیہ فن تعمیر کے سرکردہ ماہر اور محکمہ آثار قدیمہ کے سابق سربراہ پروفیسر ایم سی جوشی کا کہنا ہے کہ تاج محل کی تعمیر میں دریائے جمنا کو بہت اچھی طرح استعمال کیا گیا ہے اور اگر پانی بیس پچیس فٹ اوپر تک پہنچ جائے تو بھی تاج محل کو کوئي نقصان نہیں پہنچے گا۔ پروفیسر جوشی کہتے ہیں کہ اگر دریا میں کوئی تبدیلی کی جائےگی اور بغیر سمجھے بوجھے عام انجینئیروں سے کوئی کام کرایا جائیگا تو یقینا تاج کے میناروں میں جھکاؤ پیدا ہوگا۔ پروفیسر جوشی کا یہ بھی خیال ہے کہ تاج محل کو کسی نقصان سے بچانے کے لیے دریا کی پرانی حالت بحال کرنی ہوگی اور اس کی گہرائی اور چوڑائی برقرار رکھنی ہوگی ورنہ محبت کی یہ عظیم یادگار وقت سے پہلے ہی ختم ہوجائےگی۔ تاج کا یہ تنازعہ ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے جب اسکی تعمیر کا ساڑھے تین سو سالہ جشن منایا جارہا ہے۔ تاج محل کو مغل شنہشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کرایا تھا۔اتر پردیش کی سابق مایاوتی حکومت نے تاج محل کے عقب میں دریائےجمنا کے کنارےایک تجارتی کمپلیکس بنانے کا آغاز کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کی بر وقت مداخلت کے نتیجے میں اس کمپلیکس کی تعمیر روک دی گئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے تاج سے متعلق کسی بھی مسئلے کی ذمےداری اس کی ہے۔محکمہ نے اتر پردیش میں ماہرین کی کمیٹی بنائے جانے پر بھی حیرت ظاہر کی ہے تاہم مرکزی حکومت نے اس معاملے پر اب تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض لوگوں کو اس معاملے میں کچھ سیاست بھی نظر آتی ہے۔ جمنا پر کوریڈور اور تجارتی کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایا وتی کا تھا اور ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو ان کے شدید مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ مرکز کی کانگریسی حکومت کے تعلقات ملائم سنگھ یادو سے اچھے نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ مہینے جب تاج محل کا جشن شروع ہوا تھا اس وقت بھی آگرہ میں مرکزی اور ریاستی اہلکاروں کے درمیان خاصہ کھنچاؤ دیکھنے میں آیا تھا-
160116_iran_nuclear_deal_progress_sz
https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/01/160116_iran_nuclear_deal_progress_sz
جوہری معاہدہ: ’ایران پر عائد پابندیاں آج اٹھا لی جائیں گی‘
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ آج یعنی سنیچر کے روز ایران پر سے بین الاقوامی پابندیاں اٹھائے جانے کا امکان ہے۔
معاہدے کے تحت جوہری صنعت میں تخفیف کے بدلے ایران پر سے بہت سی اقتصادی پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں امریکہ، ایران اور یورپی یونین جوہری معاہدے پر اب تک ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے سنیچر کو ویانا میں ملاقات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ایران نے امریکہ اور ایران کی دوہری شہریت کے حامل چار قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان قیدیوں کی شناخت نہیں ظاہر کی گئی تاہم یہ اطلاعات ہیں کہ ان میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جیسن رضایان بھی شامل ہیں جن کو گذشتہ سال جاسوسی کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ سنیچر کو ویانا آمد کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ’ آج کے دن ہم دنیا پر ثابت کر دیں گے کہ پابندیوں، دباؤ اور دھمکیوں سے نہیں بلکہ باہمی احترام اور بات چیت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔‘ جواد ظریف کا مزید کہنا تھا کہ ’جوہری معاہدے پر ہماری جانب سے عمل درآمد بالکل واضح ہے، جوہری معاملے سے وابستہ تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور ایران ایک خوشگوار ماحول میں دنیا بھر سے اقتصادی تعاون کر سکے گا۔‘ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ جوہری معاہدے پر ملاقات کے لیے ویانا میں موجود ہیں۔ ویانا میں یہ سہ فریقی بات چیت اس بات کا عندیہ ہے کہ اس معاہدے پر نفاذ قریب تر ہے اور اس سلسلے میں آئی اے ای اے اپنی رپورٹ سنیچر کو ہی پیش کرسکتا ہے ایران کا کہنا ہے کہ اُس نے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے شرائط کو پورا کیا ہے ۔ اس لیے اب اُس پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں۔ پابندیاں اٹھانے کے بعد ایران اربوں ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے حاصل کر نے کے ساتھ عالمی منڈی میں تیل بھی فروخت کر سکے گا۔ جوہری معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو کم کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کے بعد اُس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کردی جائےگي۔ عام طور پر یہی قیاس آرائی ہورہی ہے کہ ایران نے اس معاہدے سے متعلق اپنی شرائط پوری کر دی ہیں اور اب اس پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ ایران نے معاہدے کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے اس بارے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارہ آئی اے ای اے کی جانب سے اعلان کیے جانے کا امکان ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور یورپی یونین میں خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موگیرنی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بات چیت کریں گے۔ امریکی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق معاہدے پر عملدرآمد میں ’تمام فریق مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔‘ ویانا میں یہ سہ فریقی بات چیت اس بات کا عندیہ ہے کہ عملدرآمد کے حوالے سے آئی اے ای اے اپنی رپورٹ سنیچر کو ہی پیش کرسکتا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ ’اس سے متعلق تمام تفصیلات پر کام ہوچکا ہے۔‘ جوہری معاہدہ کیا ہے ایران نے جولائی 2015 میں چھ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد جوہری معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم ہوں گی۔ جوہری معاہدے کے تحت ایران اپنے سینٹری فیوجز میں کمی کرے گا اور ہیوی واٹر جوہری ری ایکٹر کو بند کر دے گا۔ ایران نے اس ہیوی واٹر ری ایکٹر کے مقاصد کو تبدیل کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جس کے بعد اسے جوہری ہتھیاروں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی جانب سے 2012 سے ایران پر عائد پابندیوں کے سبب ایران کو اقتصادی طور پر بہت نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر تیل کی آمدن میں اسے تقریبا 160 ارب ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔
160713_kashmir_demo_delhi_sh
https://www.bbc.com/urdu/regional/2016/07/160713_kashmir_demo_delhi_sh
’انڈیا سے نہیں پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں‘
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی تاریخی عمارت جنتر منتر پر سارا سال مظاہروں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ یہ دہلی کا ہائیڈ پارک ہے۔ جسے حکومت سے کوئی شکایت ہو، اور شنوائی نہ ہو رہی ہو، تو وہ جنتر منتر کا ہی رخ کرتا ہے۔
شہری حقوق کی علم بردار کویتا کرشنن نے کہا کہ حکومت کشمیر میں باقی ملک سے مختلف پالیسیاں اختیار کرتی ہے شاید اس امید میں کہ قریب ہی واقع پارلیمان تک اس اس کی آواز پہنچ جائے گی۔ ٭ ہلاکتوں میں مزید اضافہ، یومِ شہدا پر احتجاج کی کال ٭ ’سیاح کشمیر میں رہنے اور آنے سے ڈرتے ہیں‘ بدھ کی دوپہر وہاں کشمیر کی موجودہ صورت حال کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ کشمیرمیں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وہاں 35 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور وادی کے زیادہ تر علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ مظاہرے کی اپیل انسانی اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کی تھی اور خاموش مارچ میں شرکت کے لیے پہنچنے والے زیادہ تر چہرے جانے پہچانے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور اکثر جنتر منتر پہنچ کر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ بہرحال، کچھ تقاریر ہوئیں اور کچھ مشورے دیے گئے۔ مظاہرے کی اپیل انسانی اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے دی تھی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طالب علم رہنما شہلا رشید نے کہا کہ برہان وانی کو گرفتار کیا جانا چاہیے تھا، پھر ان پر مقدمہ چلتا اور عدالت جو مناسب سمجھتی، انھیں وہ سزا دیتی۔ قریب ہی کھڑے ایک صحافی نے کہا کہ ’میڈم وہاں مسلح تحریک چل رہی ہے۔۔۔‘ شہری حقوق کی علم بردار کویتا کرشنن نے کہا کہ حکومت کشمیر میں باقی ملک سے مختلف پالیسیاں اختیار کرتی ہے۔ ’جب ہریانہ میں پر تشدد مظاہرے ہو رہے تھے تو پولیس کی گولیوں سے کتنے لوگ مارے گئے تھے؟‘ مظاہرے میں بنیادی طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر سے وہ قانون ہٹایا جائے جس کے تحت وہاں مسلح افواج کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں، اور حکومت مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کرے۔ لیکن یہ بات چیت پہلے بھی کئی مرتبہ ہو چکی ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ مظاہرے میں صرف دو تین کشمیری نوجوان ہی شریک تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ’ہم انڈیا سے نہیں حکومت کی پالیسیوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘ کشمیرمیں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وہاں 35 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ایک اور کشمیری نوجوان نے کہا کہ امن کی اپیلوں سے کچھ نہیں ہوتا، وزیر اعظم کو خاموشی توڑنی چاہیے اور کشمیر کے مسئلے کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر لایا جانا چاہیے۔ کسی نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ برہان وانی جزب المجاہدین کے کمانڈر تھے، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ لوگ ان کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکتے، یا ان کے گھر والوں کے ساتھ ہمدردی نہیں کر سکتے۔ مظاہرے کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے بھی وہاں کچھ نوجوان موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ فوج اور حکومت کی حمایت میں وہاں آئے تھے۔ انھوں نے ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’اس دیش میں آزادی نہ ہوتی تو یہ لوگ یہاں آ کر دیش کے خلاف باتیں کرنے کی ہمت نہ کرتے۔‘ کشمیر پر کوئی بحث ہو تو وہ کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ فریقین اپنے موقف میں ذرا بھی نرمی دکھانے کو تیار نہیں۔ یہی شاید اس مسئلے کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
060121_pakbusback_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/01/060121_pakbusback_sen
پاکستانی مسافر بس لاہور واپس
لاہور سے امرتسر جانے والی پہلی بس اپنے پاکستانی مسافروں کو لے کر آج واپس لاہور پہنچ گئی ہے اس بس پر بھارت سے کوئی مسافر نہیں آیا۔
پاکستان ٹورزم ڈیولمپنٹ کارپوریشن یعنی ٹی ڈی سی پی کی اس بس نے واپسی کے سفر کے دوران آج واہگہ باڈر پار کیا تو اس میں آٹھ پاکستانی سرکاری اہلکار اور ذرائع ابلاغ کے سات نمائندے سوار تھے۔ یہ تمام وہی لوگ ہیں جو کل اسی بس میں پاکستانی گلوکارہ ریشماں سمیت دیگر گیارہ مسافروں کے ساتھ امرتسر گئے تھے۔ گلوکارہ ریشماں اور وہ تمام گیارہ مسافر توبھارت اتر گئے لیکن لاہور کا سفر طے کرنے کے لیےاس بس میں کوئی نیا مسافر سوار نہیں ہوا اور یہ بس انہی اخبارنویسوں اور سرکاری اہلکاروں کو لے کر لوٹ آئی جنہیں لیکر گئی تھی۔ امرتسر میں ہمارے نامہ نگار اسیت جولی کے مطابق اس بس پر کسی نئے مسافر کے سوار نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارتی حکام نے اس بس کی ٹکٹ حاصل کرنے والوں کے لیے دو ہفتے پہلے بکنگ کرانے کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پاکستانی اور بھارتی حکومتیں عام طور پر ایک دوسرے کے شہریوں کو سیر کا ویزا جاری نہیں کرتیں اور صرف ان لوگوں کو ویزہ دیا جاتا ہے جن کے عزیز واقارب موجود ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی حکام اب امرتسر اور لاہور میں اپنے اپنے ویزا کیمپ کھولنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنے کے خواہشمند افراد کو سہولت فراہم کی جاسکے۔ حکام ویزوں کی تعداد اور اقسام بڑھا نے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ امرتسر اور لاہور کے درمیان ہر ہفتے دو بسیں چلا کریں گی یہ پاکستانی بس کا پہلا سفر تھا اب پہلی بھارتی بس منگل کو امرتسر سے لاہور آئے گی اور اگلے روز واپس چلی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے حکام نے امرتسر اور پاکستانی شہر ننکانہ صاحب کے درمیان الگ سے ایک براہ راست بس سروس شروع کرنے کا فیصلہ بھی کر رکھا ہے توقع ہے کہ اس مہینے کی ستائیس تاریخ کو اس نئے روٹ پر آزمائشی بس چلائی جائے گی۔ دہلی لاہور اور مظفر آباد سری نگر بس سروس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی اب یہ تیسری بس سروس ہے اور اس کے ذریعے اٹھاون برس بعد پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کا براہ راست مسافر بس رابطہ بن پایا ہے۔
050407_saul_bellow_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/04/050407_saul_bellow_as
سال بیلو نہیں رہے
امریکہ کےمشہور نوبل انعام یافتہ ناول نگار سال بیلو 89 سال کی عمر میں اپنے گھر بروکلین میں منگل کے دن انتقال کر گئے۔
ان کی موت کا اعلان ان کے وکیل والٹر پوزن نے کیا۔ سال بیلو کا شمار جنگ عظیم کے بعد کے عظیم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اپنے ناولوں میں انہوں نے ہیمنگوے اور ولیم فاکنر سے علیحدہ دانشور کردار پیش کیے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میں جو دیکھتا ہوں اس سے تجاوز نہیں کر سکتا، دوسرے لفظوں میں میں اس تاریخ نویس کی مانند ہوں جو اُس خاص عہد کا پابند ہے جس کے بارے میں وہ لکھ رہا ہے‘۔ لیکن سال بیلو کی تاریخ نویسی ذاتی اور مخصوص نوعیت کی تھی۔ سال بیلو کا تصنیفی سفر تقریباً آدھی صدی پر محیط ہے۔ شاید یہ بھی ایک سبب ہے کہ وہ اپنے ہم عصر ناول نگاروں میں کافی نمایاں رہے۔ سال بیلو کی تخلیقات کے تنوع کو دیکھتے ہوئے 1976 میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنے ناول ’آگی مارچ کی مہمات‘ (1953)، ’ہینڈرسن دی رین کنگ‘ ( 1959) اور ’ہرزوگ‘ (1964) کے ذریعے بڑے کرداروں کو جنم دیا اور ان کے ذریعے وسیع موضوعات اور تھیم پر لکھا۔ ان کی تخلیق کی سب سے نمایاں بات ان کے ناولوں کے کردار ہیں۔ جن میں ہرزوگ کو خاص مقام حاصل ہے۔ ہرزوگ ایک ایسا دانشور کردار ہے جسے بیلو سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہرزوگ کے ذریعے بیلو نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس ’ہی مین‘ والے عہد میں ایک دانشور نامرد کی طرح ہے جو سوچتے رہنے کی علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتا۔ بیلو کے بیشتر کردار دانشوروں کے اسی قبیلے سے ہیں۔ جن میں ایک خاص قسم کا مزاح بھی ہے۔ ایک زمانے تک سال بیلو نے خود کو ’یہودی-امریکی ادیب‘ کے لیبل سے آزاد اور الگ رکھنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم یہ اب ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان کے ناولوں میں یہودیت ایک عام بحث کا موضوع ہے۔ بیلو کے ہم عصر مالکیم بریڈبری کا خیال ہے کہ ’بیلو کی علمی، ادبی اور اخلاقی شہرت کا دارو مدار ان کے بڑے خیالات اور موضوعات پر ہے جسے انہوں نے آگی مارچ، ہینڈرسن، ہرزوگ اور ہمبولٹس جیسے کرداروں کے ذریعے پیش کیا، جو کہ اپنے شعور، خودی اور انسانی برتری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بیلو کی پیدائش 1915ء مانٹریال کےعلاقے کیوبک میں ہوئی۔ 1924 میں ان کا خاندان شکاگو منتقل ہو گیا۔سترہ سال کی عمر میں والدہ کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا- 1933 میں بیلو نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن دو ھی سال میں دوسری جگہ نارتھ وسٹرن میں اس لیے چلے گیئے کہ یہ جگہ نسبتاً سستی تھی۔ وسکونسن یونیورسٹی میں گریجویشن ادھوری چھوڑ دی۔ نوبل انعام کے علاوہ انہیں ڈھیر سارے انعامات سے نوازا گیا۔ ان کی پہلی تصنیف ’ڈینجلنگ مین‘ ہے جو 1944 میں شائع ہوئی۔ ان کی آخری تصنیف ’ریولسٹائن‘ 2000 میں شائع ہوئی۔
050108_liver_test_fz
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2005/01/050108_liver_test_fz
بائی اوپسی کی جگہ خون کا ٹیسٹ
سائنسدانوں نے جگر کے امراض کی تشخص خون کے ایک سادہ سے ٹیسٹ کے ذریعے کرنے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔
جگر کے مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹروں کو مریض کے جگر کے ’ٹشوز‘حاصل کرنا پڑتے ہیں اور اس کے لیے انہیں ایک چھوٹی سی سٹیل کی ایک سوئی جگر کے اندر پیوست کرنا پڑتی اور مریض کو اس کے لیے بے ہوش کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو بائی اوپسی کہا جاتا ہے۔ لیکن ساوتھ ہیمٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نےجس کی سربراہی پرورفیسر ولیم روزن برگ کر رہے تھے دعوی کیا ہے کہ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے بھی جگر کے مرض کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے ڈاکٹروں نے یورپ بھر سے جگر کے مرض میں مبتلا ایک ہزار کے قریب مریضوں کا معائنہ کیا۔ پروفیسر روزن برگ نے کہا ہے کہ اگلے سال تک محمکۂ صحت کو یہ خون کا ٹیسٹ کرانے کی سہولت حاصل ہو جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اعشاریہ پانچ فیصہ لوگ جگر کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں ہیپیٹاٹس سی بھی شامل ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں جگر کے امراض قدرتی اموات کی نویوں بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ جگر کے امراض اکثر ’فائبروسس‘ بن جاتا ہے جس میں صحت مند ٹشو بننا بند ہو جاتے ہیں اور ابھی تک اس کی تشخیص کے لیے بائی اوسپی واحد طریقہ ہے۔
130111_mqm_no_longmarch_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/01/130111_mqm_no_longmarch_zs
ایم کیو ایم لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوگی
متحدہ قومی موومنٹ نے چودہ جنوری کو تحریکِ منہاج القران کے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
طاہرالقادری کی اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے: فاروق ستار جمعہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی مجموعی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دہشتگردی کے خطرات کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چودہ جنوری کے لانگ مارچ کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشتگرد سرگرم ہیں اور مارچ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ملکی مفاد میں کیا ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم لانگ مارچ میں عملی طور پر شرکت نہیں کرے گی لیکن طاہرالقادری کی اخلاقی حمایت جاری رکھےگی۔ انہوں نے بتایا کہ طاہرالقادری کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور ایم کیو ایم کے قائد نے بھی اس فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا وہ طاہر القادری کو بھی لانگ مارچ نہ کرنے کا مشورہ دیں گے، فاروق ستار کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کرنا یا نہ کرنا طاہر القادری کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ انہیں اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی عدم شرکت کے فیصلے کا تعلق کراچی میں صدرِ پاکستان آصف زرداری کی زیرِ صدارت حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے اختتام پر جمعرات کی رات گئے جماعت کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔ خیال رہے کہ جمعرات کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے اپنے ٹیلیفونک خطاب کے دوران واضح طور پر کہا تھا کہ ان کی جماعت حکومت میں شامل ہوتے ہوئے بھی علامہ طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں ہر صورت میں شریک ہوگی۔ پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے ایم کیو ایم کی جانب سے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کی وسیع ترمفاد میں کیا گیا فیصلہ ہے۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی جانیں لانگ مارچ سے کہیں زیادہ اہم ہیں اور وہ طاہر القادری سے بھی مارچ منسوخ کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
040409_lanka_infight_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/04/040409_lanka_infight_rza
سری لنکا میں تامل باغیوں کی لڑائی
سری لنکا میں سرکاری اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ملک کے شمال مشرقی علاقے میں تامل باغیوں کے دو مخالف دھڑوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق تامل باغیوں کے بڑے دھڑے نے دریائے ویروگل کے پار باغیوں ہی کے اس دوسرے دھڑے کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے جس کی کمان کرنل کرونا کر رہے ہیں۔ کرونا کچھ عرصہ قبل تامل باغیوں کی تنظیم سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ علاقے میں ایک حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ باغیوں کے دھڑوں کے درمیان اس لڑائی میں دونوں طرف جانی نقصان ہوا ہے لیکن اس کی تفصیل پتہ نہیں چل سکی۔ سن دو ہزار دو میں ناروے کی ثالثی میں حکومت اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کے ایک معاہدے کے بعد ملک میں ہونے والی یہ پہلی بڑی لڑائی ہے۔ کولمبو میں بی بی سی کی نامہ نگار فرانسس ہیریسن لکھتی ہیں کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ باغیوں کی درمیان یہ لڑائی اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ثابت ہوگی یہ کسی بڑی جنگ کا آغاز۔ کرنل کرونا نے گزشتہ ماہ تامل باغیوں کے بڑے گروہ سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کی تھی کہ وہ باغی گروہ میں اپنی انتظامیہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ باغیوں کی تنظیم کے کرونا مخالف دھڑے نے کرونا کو غدار قرار دیتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق باغیوں کے یہ دونوں گروہ دریا کے آر پار اپنے اپنے علاقے میں فوجی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل دونوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس سات سو مسلح افراد ہیں۔ ٹیلی وژن پر انہیں دریا کے آر پار خندقیں کھودتے اور مورچے بناتے بھی دکھایا گیا تھا۔ باغیوں کے پاس بم اور رائفلیں تھیں۔
081019_haroon_nangarhar
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/10/081019_haroon_nangarhar
’یہ غلامی نہیں تو اور کیا ہے‘
یہ مراسلہ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد کے ہوائی اڈے سے لکھ رہا ہوں جس کا اصل نام تو ننگرہار ہوائی ڈگر ہے لیکن امریکی قبضے کے بعد سے یہ اتحادی افواج کے ایک بڑے اڈے کے طور پر کام کر رہا ہے۔
اتحادی فوجی طیارے، جن میں پاک افغان سرحد پر نظر رکھنے والے بغیر پائیلٹ کے جاسوسی طیارے شامل ہیں، دن رات پروازیں کرتے رہتے ہیں۔ اس ائیر بیس سے افغانستان کے ننگرہار سمیت چار مشرقی صوبوں میں جاری فوجی سرگرمیوں کا انتظام سنبھالا جاتا ہے۔ باقی تین صوبوں میں کونڑ، نورستان اور لغمان شامل ہیں۔ لیکن فوجیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں مقامی افغان بھی مختلف حیثیتوں میں یہاں کام کرتے ہیں۔ تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے اکثر مزدور روزانہ کام پر آتے ہیں تو وہیں ایسے بھی ہیں جو مستقل بنیادوں پر یہاں کام کے ساتھ ساتھ رہائش اختیار کیئے ہوئے ہیں۔ کابل کے قریب واقع بگرام بیس کی نسبت یہاں کام کرنے والوں کی اکثریت فارسی بولنے والوں کی ہے۔ جلال آباد میں اکثریت پشتونوں کی ہے۔ ان کی تعداد تقریبا دو ہزار کے قریب ہے۔ باہر سے آئے کسی شخص کے ساتھ انہیں بغیر اجازت بات کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ مجھے بھی ایک امریکی فوجی اور اس کے مترجم کی موجودگی میں ان مقامی کارکنوں میں سے چند سے بات کرنے کی اجازت ملی۔ یہ انٹرویوز ان کی موجودگی میں ہوئے۔ علی فوج کے قانونی امور کے شعبے میں گزشتہ دو برس سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اتحادی افواج کی خدمت نہیں بلکہ تمام افغانستان کی مدد کرتے ہیں۔ ’ہمارا ملک گزشتہ تیس برسوں کی لڑائی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہمارا نوجوان طبقہ چاہتا ہے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔‘ پوچھا کہ یہاں کام کرنا کیسا لگتا ہے تو اس کا کہنا تھا کام تو کام ہے پیٹ بھرنے کے لیئے کرنا ہی ہے۔ اتحادی افواج کے لیئے کام کرنے میں کسی قسم کا عار محسوس نہ کرنے کا تاثر دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں میں ملک کی خدمت کر رہا ہوں۔‘ مشکلات کے بارے میں دریافت کیا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ تو سارے افغانستان کو درپیش ہیں صرف اسے نہیں۔ ’جہاں امن نہ ہو جہاں سکیورٹی نہ ہو وہاں کیا میں اور کیا کوئی اور۔‘ پوچھا کہ بعض افغانوں کا ماننا ہے کہ یہ قابض فوج ہے اور اس کے ساتھ کام کرنا درست نہیں تو علی نے جواب دیا کہ افغانستان کی پچہتر فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ ’وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں۔ یہ ملک پر قبضے کے لیئے آئے ہیں یا اس کی خدمت کے لیئے آئے ہیں۔‘ نوجوان محمد اسماعیل بھی اسی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس نوکری سے خوش نہ ہوتا تو یہاں نہ ہوتا۔ ان کا خطرے کے بارے میں کہنا تھا کہ انہوں نے خطرہ قبول کیا ہے تاکہ اپنے ملک کو خطرے سے باہر نکال سکیں۔ ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر غیرملکی فوج ملک سے چلی جائے تو انہیں امید ہے کہ حکومت انہیں نوکری دے گی۔ ’یہاں کام کا تجربہ اتنا ہوگیا ہے کہ نوکری کا مسئلہ نہیں ہوگا۔‘ جلال آباد کے اس اڈے پر تعمراتی کام بھی جاری ہے۔ عارضی خیموں اور لکڑی کے کمروں کی جگہ یہاں اب مستقل عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ بڑی تعداد میں مزدور روزانہ کی بنیاد پر یہاں ڈھائی سو روپے کے عوض کام کرنے آتے ہیں۔ انہیں یہ مزدوری پاکستانی روپے میں ادا کی جاتی ہے۔ محمد زمان بھی اس بیس پر کافی عرصے سے ٹھیکیداری کر رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ انہیں باقی علاقے کے حساب سے ہی مزدوری ملتی ہے اور کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کا بھی کہنا تھا کہ اسے بھی کوئی دھمکی اب تک نہیں ملی ہے اور صورتحال پرامن ہے۔ یہ سب باتیں تو ایک فوجی کی موجودگی میں ہوئیں لیکن ایک ملازم سے بغیر ٹیپ کے اکیلے میں بات ہوئی تو اس نے کہا کہ غلامی تو غلامی ہے۔ غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کی جانب اس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’غلامی نہیں تو اور کیا ہے؟‘ (ہارون رشید افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ سفر کر رہے ہیں)
040329_mosul_attack_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/03/040329_mosul_attack_am
’موصل میں چار حملہ آور ہلاک‘
عراق میں موجود امریکی فوجی حکام نے بتایا ہے کہ فوج نے ملک کے شمالی شہر موصل میں ہونے والی ایک جھڑپ میں چار افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔
یہ واقعہ اتوار کی شام اس وقت پیش آیا جب گشت کرنے والی امریکی ٹیم ایک گاڑی کی طرف بڑھی تو اس میں سوار افراد نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ شروع کر دی جس کے بعد جوابی فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی پر سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی بظاہر اس گاڑی سے مشابہ تھی جو تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح امریکی فوجیوں پر حملے میںاستعمال کی گئی تھی جس میں امریکی ملٹری پولیس کے دو اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم جون کے اختتام پر عراق کی خود مختاری کے معاملے پر امریکہ کی طرف سے نامزد کردہ عبوری گورننگ کونسل کے ارکان سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ عبوری کونسل کے ترجمان کے مطابق گورننگ کونسل کے سات یا آٹھ رکن اقوام متحدہ کی ٹیم سے ملاقات میں مصروف ہیں۔ توقع ہے اقوام متحدہ کے ماہرین کی یہ ٹیم انتخابات منعقد کرانے، مردم شماری اور عبوری حکومت تشکیل دینے کے طریق کار کے بارے میں مشورے دیں گے۔ اس ہفتے کے آخر میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدر براہیمی کے زیرِقیادت ایک سیاسی وفد بھی ماہرین کی اس ٹیم سے آ ملےگا۔ عراق میں امریکی قیادت والی انتظامیہ نے ملک کی وزارت صحت اتوار کو عراق کی عبوری قیادت کے حوالے کی ہے۔ عراق کی عبوری قیادت کی دی جانے والی یہ پہلی ملکی وزارت ہے۔
world-39562512
https://www.bbc.com/urdu/world-39562512
دنیا بھر میں سزائے موت میں '37 فیصد کمی'
حقوقِ انسانی کے عالمی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سال 2015 کے مقابلے میں سال 2016 میں دنیا بھر میں سزائے موت کی تعداد میں 37 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
سال 2016 میں 23 ممالک نے سزائے موت دیں جبکہ سال 2015 میں یہ تعداد 25 تھی۔ تاہم سال 2015 میں 1634 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی جبکہ سال 2016 میں یہ تعداد کم ہو کر 1032 ہو گئی۔ پاکستان میں سزائے موت کے پسِ پردہ انسانی المیہ سزائے موت کے خلاف لاہور میں احتجاجی مظاہرہ آرکنساس میں سزائے موت پر عملدرآمد دوبارہ شروع اس کمی کا بڑا سبب پاکستان اور ایران میں سزائے موت میں کمی بنی ہے۔ ایمنسٹی کے اندازے کے مطابق چین میں دی جانے والی سزائے موت دنیا کے تمام ممالک میں دی جانے والی سزائے موت کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے لیکن غیر معتبر اعداد و شمار کی بنا پر اس فہرست میں صرف ان واقعات کو شامل کیا گیا ہے جن کی دیگر ذرائع سے تصدیق ہو سکی ہے۔ سزائے موت دینے والے ممالک کی درجہ بندی میں 11 سالوں بعد امریکہ پہلی دفعہ پہلے پانچ ممالک میںش شامل نہیں ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں کم سزائے موت کے باوجود درجہ بندی میں پہلے نمبر پر ایران اور دوسرے پر پاکستان جب کہ ان کے بعد چین، سعودی عرب اور عراق کا نمبر ہے۔ پاکستان میں سال 2015 میں 326 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی جبکہ یہ تعداد 2016 میں کم ہو کر 87 ہوگئی۔ 2015 میں اس بڑی تعداد کی وجہ ملک میں 2008 سے سزائے موت پر لگائی ہوئی پابندی کا ختم ہونا تھا جو کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے نتیجے میں ہٹائی گئی۔ اس حملے میں تقریباً 150 طلبہ کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں سال 2015 میں 326 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی جبکہ یہ تعداد 2016 میں گھٹ کر 87 ہوگئی جنوری 2015 میں پاکستان نے ملٹری کورٹس کے قیام کے منظوری دی جس میں دہشت گردی کے الزام میں ملوث شہریوں پر مقدموں کی سماعت کی جاتی تھی۔ دوسری جانب ایران میں گذشتہ سال 567 افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ سال 2015 میں یہ تعداد 977 تھی۔ ایمنٹسی کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ 2015 میں اتنی بڑی تعداد کیوں تھی لیکن ان میں سے اکثریت ان افراد کی تھی جو کہ منشیات سے متعلق مقدمات میں ملوث تھے۔ ایران میں دی جانی والی سزائے موت 2016 میں دی جانے والی سزائے موت کی مجموعی تعداد کا 55 فیصد بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ کہ ایران میں سزائے موت پانے والوں میں سے دو افراد ایسے تھے جن کی جرم سرزد کرنے کے وقت عمر 18 برس سے کم تھی اور انھیں سزائے موت دینا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ادھر امریکہ میں سال 1991 کے بعد سزائے موت کی تعداد میں سب سے بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن ایمنسٹی نے کہا کہ اس سال ریاست آرکنسا میں حیران کن تعداد میں قیدیوں کو سزائے موت دی جائے گی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حالات کتنی جلدی بدل سکتے ہیں۔ ایمنسٹی کے مطابق دنیا کے 104 ممالک میں سزائے موت کو ختم کیا جا چکا ہے۔ 1997 میں یہ تعداد 64 تھی۔
151212_artificial_intelligence_tech_tk
https://www.bbc.com/urdu/science/2015/12/151212_artificial_intelligence_tech_tk
مصنوعی ذہانت کےمنصوبے کےلیے ایک ارب ڈالر کا وعدہ
ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑے ایگزیکٹوز نے انسانیت کے فائدے کی غرض سے وہ مصنوعی ذہانت کے منصوبے ’اوپن اے آئی‘ کے لیے ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
تاہم کئی سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کے لیے خطرہ ثابت ہو گی اس منصوبے کے حمایت کرنے والوں میں ٹیلسیا موٹرز اور سپیس ایکس کے مالک ایلن مسک، پیپل کے شریک بانی پیٹر تھائل اور بھارتی ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے اِنفوسیس اور ایمازون ویب سروس شامل ہیں۔ ’مصنوعی ذہانت انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی‘ مصنوعی ذہانت کا منصوبہ ’اوپن اے آئی‘ یعنی اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ مالی فکروں سے آزاد ہو کر اس کے انسانیت کے لیے مثبت اثرات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم کئی سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کے لیے خطرہ ثابت ہو گی۔ معروف سائنسدان پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کو دیےگئے ایک حالیہ انٹرویو میں مصنوعی ذہانت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خیال میں مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی۔ ’ایک دفعہ انسانوں نے اسے بنا لیا تو اس کی ارتقا کا عمل خود ہی آگے بڑھتا رہے گا اور انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔‘ تاہم دیگر ماہرین کا کہنا مصنوعی ذہانت کے باعث انسانوں کو خطرہ ابھی دور کی بات ہے۔ ایک بیان میں ’اوپن آئی اے‘ ویب سائٹ کا کہنا تھا ’اس منصوبے کا مقصد ڈیجیٹل ذہانت کو اس انداز میں بڑھانا ہے کہ اس سے انسانیت کو مجموعی طور پر فائدہ ہو اور اس کے لیے یہ سرمائے کی فکر سے آزاد ہو۔‘ ’اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انسان کی بنائی یہ مصنوعی ذہانت معاشرے کو کس قدر فائدہ دے گی اور اسی طرح اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ اگر یہ بن گئی اور اس کا غلط استعمال ہوا تو یہ کتنا نقصان پہنچائے گی۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں انسانوں کی انفرادی طور پر فیصلہ لینے کی صلاحیت اور آزادی کی خواہش جیسے معاملات کی توسیع اور وسیع پیمانے پر جتنا ممکن ہو یکساں تقسیم کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کے بقول ایک دفعہ انسانوں نے اسے بنا لیا تو اس کی ارتقا کا عمل خود ہی آگے بڑھتا رہے گا اور انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے بیان کے مطابق ایک ارب ڈالر کی اس رقم کا ایک معمولی حصہ آئندہ چند برس میں خرچ کیا جائے گا۔
040221_saddam_icrc_am
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/02/040221_saddam_icrc_am
ریڈ کراس کی صدام سے ملاقات
انسانی ہمدردی کی بین الاقوامی تنظیم ریڈ کراس نےعراق کے معزول صدر صدام حسین کو دو ماہ قبل حراست میں لئے جانے کے بعد اب پہلی مرتبہ ان سے ملاقات کی ہے۔
ریڈ کراس کے دو افسران نے، جن میں ایک ڈاکٹر ہیں، عراق میں سنیچر کی صبح علیحدگی میں صدام حسین کا جسمانی اور ذہنی معائنہ کیا ہے۔ عراق کے معزول صدر صدام حسین نے اردن کے دارالحکومت عمان میں مقیم اپنی بیٹی کے لئے ایک خط ریڈ کراس کے ان افسران کے حوالے کیا ہے۔ جنیوا کنونشن کے معاہدے کے تحت ریڈ کراس صدام حسین کی حالت اور ان کے عراق میں محل و وقوع کے بارے میں تفصیلات بتانےکی مجاز نہیں ہے۔ تاہم آئی سی آر سی کے افسران نے واضح کیا ہے کہ انہیں مخلوط فوج کا مکمل تعاون حاصل رہا ہے۔ ان افسران کو صدام حسین کی صورت حال پر انتظامیہ سے گفتگو کرنے کی اجازت تھی تاہم انہوں نے معزول صدر کی حراست سے متعلق کسی قسم کی مشکلات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ صدام حسین کی حراست کے فوراً بعد آئی سی آر سی نے امریکی انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ اسے معزول صدر سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ ایک ہفتہ قبل تنظیم کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اسے ملاقات کی جلد اجازت دے دی جائے گی۔ مستقبل قریب میں ایسی دیگر ملاقاتوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
world-43612550
https://www.bbc.com/urdu/world-43612550
پوپ فرانسس کی اپیل: شام میں خونریزی کا فوری خاتمہ کریں
عیسایئوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں خون ریزی کے فوری خاتمے کے لیے اقدام کریں۔
پوپ نے اپنے دورِ پاپائیت کے پہلے پانچ برسوں کے دوران شام میں ہونے والے خون خرابے کی مسلسل مذمت کی ہے اٹلی کے شہر روم میں سینٹ پیٹرز سکوائر میں عیسائیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے حوالے سے اپنے روایتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ شام کے عوام بظاہر نہ ختم ہونے والی جنگ سے تھک چکے ہیں۔ پوپ فرانسس نے اپنے خطاب میں انسانی حقوق کے قوانین، اور پناہ گزینوں کے مسائل پر بھی زور دیا اور کہا کہ انھیں (پناہ گزینوں کو) اکثر آج کل کا ’ضیاع کا ماحول‘ مسترد کر دیتا ہے۔ اس سے قبل کل شب پوپ فرانسس نے بیسیلیکا میں دس ہزار زائرین کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ عشایے ربانی کے دوران انھوں نے آٹھ افراد کا بپتسمہ بھی کیا جن میں ایک نائجیرین پناہ گزین جان اوگاہ بھی شامل ہے۔ جان اوگاہ نے اٹلی کی ایک سپر مارکیٹ میں گدا گری کے دوران ایک ڈکیتی کو ناکام بنایا تھا۔ پوپ فرانسس ایسٹر کے خطبے سے پہلے لوگوں کا ہاتھ ہلا کر شکریہ ادا کر رہے ہیں انھوں نے خدا سے دعا کی کہ وہ جنوبی سوڈان اور کانگو کے زخموں کو مندمل کر دے۔ انھوں جزیرہ نما کوریا میں امن مذاکرات پر بھی زور دیا۔ پوپ فرانسس نے کہا کہ عیسائی پیغام کی طاقت نے پسماندہ لوگوں کو امید کی کرن دی ہے۔ پوپ نے اپنے دورِ پاپائیت کے پہلے پانچ برسوں کے دوران شام میں ہونے والے خون خرابے کی مسلسل مذمت کی ہے۔ 2013 میں انھوں نے مغرب کی جانب سے وہاں کی جانے والی فوجی مداخلت کی مخالفت کی تھی۔ اتوار کے روز انھوں نے دوسرے خطوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا: ’ہم سرزمینِ مقدس میں مفاہمت چاہتے ہیں۔ ہم یمن کے نہتے لوگوں اور تمام مشرقِ وسطیٰ میں جاری شورش کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ تقسیم اور تشدد پر مکالمہ اور باہمی عزت غالب آئے۔‘ پوپ نے شمالی و جنوبی کوریا کے تعلقات کے بارے میں کہا کہ انھیں امید ہے کہ مذاکرات سے اس جزیرہ نما میں طویل عرصے سے جاری کشیدگی کا خاتمہ ہو گا اور امن و یگانگت کو فروغ ملے گا۔ انھوں نے کہا: 'جو لوگ براہِ راست ذمہ دار ہیں، انھیں فراست و بصیرت ملے تاکہ وہ کوریا کے لوگوں کی بھلائی کا کام کر سکیں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کر سکیں۔' پوپ نے یوکرین اور وینزویلا میں جاری تشدد ختم کرنے کی امید بھی ظاہر کی۔
130112_quetta_burial_protest_update_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/01/130112_quetta_burial_protest_update_rh
کوئٹہ دھماکے: دھرنا جاری، تدفین نہیں کی گئی
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جمعرات کو سنوکر کلب پر ہونے والے بم حملوں میں شیعہ افراد کی ہلاکت پر ہزارہ برادری کا احتجاج ہفتے کو بھی جاری ہے اور تدفین نہیں کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کو کوئٹہ میں ایک سنوکر کلب کے اندر پہلے خودکش حملہ اور اس کے بعد باہر کھڑی گاڑی میں دھماکے کے نتیجے میں چوراسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان دو دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ جمعہ کو بلوچستان شیعہ کونسل نےسنوکر کلب حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین سے انکار کردیا تھا اور دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے تک شیعہ افراد کی تدفین نہیں کی جائے گی اور احتجاج جاری رہے گا۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق علمدار روڈ پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد دھرنے میں شامل ہے۔ اس دھرنے سے شیعہ مسلک کے علماء خطاب کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات دہرا رہے ہیں۔ یہ دھرنا نہایت سردی کے باوجود بھی اب تک جاری ہے اور کوئٹہ میں رات کو درجہ حرارت منفی چار ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ سنیچر کی صبح مظاہرین نے علمدار روڈ سے آئی جی پولیس کے دفتر تک مارچ کیا اور دفتر کے سامنے دھرنا دیا۔ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی کا کہنا ہے کہ حکام کی مظاہرین سے بات چیت کا سلسلہ جمعہ کی رات سے جاری ہے اور اس میں جلد کامیابی کا امکان ہے جس کے بعد لاشوں کی تدفین ہو سکے گی۔ پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر سے جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بلوچستان حکومت کی درخواست پر ایف سی کو حکم دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے سول انتظامیہ کی مدد کرے۔ بیان کے مطابق ایف سی کو پولیس کے مکمل اختیارات حاصل ہوں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو بیرون ملک کا دورہ منسوخ کرکے جلد ملک واپس پہنچنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ وزیر اعظم نے ہر ہلاک ہونے والے کے لواحقین کے لیے دس لاکھ اور ہر زخمی ہونے والے کے لیے ایک لاکھ روپے کے امدادی رقم کا اعلان بھی کیا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
pakistan-48900062
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48900062
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان نہ آنے کے فیصلے پر پاکستانی بورڈ خاموش، شائقین ناراض
بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے خطے میں کشیدگی کے بعد بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کے فیصلے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان میں کہا ہے کہ چئیرمین احسان مانی رواں ہفتے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے صدر ناظم الحسن سے دبئی میں ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ اتوار کو بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری حالیہ کشیدگی کے باعث اپنی ٹیم کو ٹیسٹ سیریز کے لیے پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ (بی سی بی) کے صدر ناظم الحسن نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بورڈ کو حکومت کی طرف سے صرف پاکستان کے مختصر دورے پر جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ناظم الحسن کا کہنا تھا ’بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس وقت پاکستان میں صرف ٹی ٹونٹی سیریز کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے پاکستان دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک ہے: گیل پاکستان میں کرکٹ تو واپس آ گئی لیکن مداحوں کا کیا؟ پاکستانی کرکٹر ایشیا الیون میں کیوں شامل نہیں؟ دوسری جانب پی سی بی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ احسان مانی رواں ہفتے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے صدر ناظم الحسن سے دبئی میں ملاقات کریں گے۔ دونوں بورڈز کے سربراہان کے درمیان یہ ملاقات آئی سی سی گورننس رویو کمیٹی کے اجلاس سے باہر ہو گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس ملاقات کے بعد بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان سے متعلق مزید تصیلات سے آگاہ کرے گا۔ یاد رہے گذشتہ ہفتے ڈھاکہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بات کرتے ہوئے ویسٹ انڈین اوپنر کرس گیل نے پاکستان کو کرکٹ کھیلنے کے اعتبار سے ’محفوظ ترین ممالک میں سے ایک‘ قرار دیا تھا۔ کرس گیل کا کہنا تھا ’اگر پاکستان کہتا ہے کہ آپ کو وہی سکیورٹی فراہم کی جائے گی جو سربراہان مملکت کو فراہم کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اچھے ہاتھوں میں ہیں جیسا کہ اس وقت ہم بنگلہ دیش میں بھی محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔‘ پاکستان کرکٹ شائقین کو پاکستان میں اس سیریز کے انعقاد سے خاصی امیدیں وابستہ تھیں۔ بنگلہ دیش حکومت کے ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کے کے فیصلے سے سوشل میڈیا صارفین خوش نظر نہیں آرہے۔ راحیل خان بنگلہ دیشی ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں ’کم از کم اب ہم آپ کی فول پروف سیکیورٹی اور وی آئی پی پروٹوکول پر خرچ ہونے والے ہزاروں ڈالر بچا سکیں گے۔‘ کئی صارفین یہ بھی کہتے نظر آئے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کے باعث بنگلہ دیش پاکستان آکر نہیں کھیلنا چاہتا لیکن متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کو راضی ہے ’کوئی ان کو دنیا کا نقشہ تو دکھائے۔‘ اس وقت جب پاکستان نے بنگلہ دیش کو ٹیسٹ نیشن بننے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے محمد سلیم خان مینگل کہتے ہیں کہ اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو بنگلہ دیش میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دینا چاہیے تاکہ انھیں بھی پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی طاقت کا اندازہ ہو۔ بابر شہزاد نامی صارف کا کہنا ہے ’اب ہمارے کھلاڑی جو ان کی ٹی ٹونٹی لیگ میں شامل ہیں، اگر ان میں کوئی شرم ہے تو فورا یہ لیگ چھوڑ کر وطن واپس آئیں۔‘ کچھ لوگ تو اس صورتِ حال سے لطف اندوز ہوتے یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان آکر نہیں کھیل سکتی کیونکہ امی نے دیر تک گھر سے باہر رہنے سے منع کیا ہے۔‘ بات یہاں تک آ گئی کہ کچھ صارفین وزیرِ اعظم عمران خان سے درخواست کر رہے ہیں کہ ’اگر بنگلہ دیش جیسی ٹیم پاکستان میں کھیلنے سے انکار کرتی ھے تو کرکٹ بورڈ کو حکم دیں کہ انڈیا بنگلہ دیش کے ساتھ کسی بھی مقام پر نہ کھیلا جائے اگر کرکٹ بورڈ کو پیسوں کی ضرورت ھے تو ہم پاکستانی چندہ کر کے ان کو دے دیں گے۔‘ جبکہ محمد اویس نامی کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش ٹیم کے دورہ پاکستان سے انکار کے بعد اب پی سی بی کو بنگلہ دیش کے خلاف بھی ٹی ٹوئنٹی سیریز منسوخ کرنی چاہئے اور ویسٹ انڈیز سے آنے کی درخواست کریں۔ کیونکہ کوئی شک نہیں کہ ٹی 20 فارمیٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم بہت اچھی ہے۔
040406_us_marines_rza
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/04/040406_us_marines_rza
عراق: 12 امریکی فوجی ہلاک
امریکی محکمۂ دفاع پنٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں اتحادی فوج کے مخالف عراقیوں نے رمادی میں امریکی فوج پر ایک حملہ کیا ہے جس میں بارہ امریکی میرین ہلاک ہوگئے ہیں۔
یہ حملہ سنیوں کی اکثریت والے عراقی علاقے فلوجہ میں امریکی فوج کی پیش قدمی کے ایک دن بعد ہوا ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کے اس اعلان سے محض چند گھنٹے قبل امریکی وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ نے اعلان کیا تھا عراق میں امریکی کمانڈروں کو تشدد روکنے کے لئے جتنی کمک چاہئیے ہوگی، روانہ کر دی جائے گی۔ پینٹاگون کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ رمادی میں امریکی فوج پر حملے میں اتحادی فوجی کے درجنوں مخالفوں نے حصہ لیا۔ اس حملے میں حملہ آوروں کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ رمادی وہ علاقہ ہے جہاں پر اتحادی فوج کے خلاف سخت قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ادھر سنی اکثریت والے ایک اور علاقے فلوجہ میں بیس سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔ امریکی فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایک روز کی لڑائی کے بعد اس نے جزوی طور پر فلوجہ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ دریں اثناء شعیہ اکثریت والے عراقی علاقوں میں بھی اتحادی فوج کے مخالفوں جو مقتدی صدر کے حامی ہیں اور اتحادی فوج کے درمیان گزشتہ تین روز سے جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ مقتدی صدر کے حامیوں نے جنہیں ’مہدی کی فوج‘ بھی کہا جاتا ہے، نہ صرف پر تشدد مظاہرے کیئے ہیں بلکہ اتحادی فوج پر مختلف شہروں میں حملے بھی کئے ہیں۔ ہفتے کے روز سے اب تک ان واقعات کے دوران شہریوں سمیت ایک سو کے قریب عراقی مارے گئے ہیں۔ بیس سے زیادہ اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ پہلے امریکی فوج کو صرف سنیوں کا سامنا تھا لیکن شیعہ مخالفت کے بعد ان کے لئے ایک نیا فرنٹ کھل گیا ہے۔ منگل کی جھڑپوں میں فلوجہ میں کئی عراقی مارے گئے ہیں جہاں امریکی فوج نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے مزاحمت کچلنے کے لئے کارروائی کی تھی۔ ناصریہ میں بھی اٹلی کے فوجیوں نے ایک جھڑپ کے دوران پندرہ عراقیوں کو ہلاک کر دیا۔ بغداد کے جنوب میں یوکرائن کا ایک فوجی ہلاک ہوگیا جبکہ پانچ زخمی ہوگئے۔ ادھر ایران نے اپنے شہریوں کو منع کیا ہے کہ وہ عراقی علاقوں میں نہ جائیں۔
sport-48482572
https://www.bbc.com/urdu/sport-48482572
کرکٹ ورلڈ کپ 2019:نیوزی لینڈ کی تباہ کن بولنگ، سری لنکا کو دس وکٹوں سے شکست دے دی
انگلینڈ اور ویلز میں جاری کرکٹ کے 12ویں عالمی کپ کے تیسرے روز نیوزی لینڈ نے سری لنکا کا 137 رنز کا ہدف محض 16.1 اوورز میں بغیر کسی نقصان کے حاصل کر لیا۔
کیویز کی طرف سے بیٹنگ کا آغاز کالن منرو اور مارٹن گپٹل نے کیا کیویز کی طرف سے بیٹنگ کا آغاز کالن منرو اور مارٹن گپٹل نے کیا۔ دونوں نے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں محتاط اور کہیں جارحانہ بیٹنگ کر کے نیوزی لینڈ کی فتح یقینی بنا دی۔ گپٹل نے 78 جبکہ منرو نے 58 رنز کی ناقابلِ تسخیر اننگز کھیلیں۔ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ اس سے قبل، نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تھی جس کہ بعد سری لنکا کی تمام ٹیم 29.2 اوورز میں صرف 136 رنز بنا سکی تھی۔ سری لنکن کپتان دمتھ کرونارتنے نے 52 رنز کی ناقابلِ تسخیر اننگز کھیلی۔ نیوزی لینڈ کی طرف سے میٹ ہنری اور روکی فرگیوسن نے تین، تین جبکہ کالن ڈی گرانڈہوم، جیمز نیشم، ٹرینٹ بولٹ اور مچل سینٹنر نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ اس سے قبل، جب نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو سری لنکا کے اووپننگ بلے باز لاہیرو تھریمانے پہلے ہی اوور کی دوسری ہی گیند پر میٹ ہینری کی بولنگ پر چار رنز بنا کر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ کسال پریرا نے جارحانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوتے ہوئے 24 گیندوں پر 29 رنز بنائے لیکن میٹ ہینری نے انھیں اپنے پانچویں اوور میں پولین کی راہ دکھا دی۔ اگلی ہی گیند پر کسال مینڈس بھی چلتے بنے جب مارٹںن گپٹل نے دوسری سلپ میں ان کا کیچ پکڑا۔ سری لنکا کے اووپننگ بلے باز لاہیرو تھریمانے پہلے اوور کی دوسری ہی گیند پر میٹ ہینری کی بولنگ پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے سوفیا گارڈنز پر کھیلے جانے والے اس میچ میں کیوی بولرز چھائے رہے۔ چوتھے آؤٹ ہونے والے بلے باز دھننجایا ڈی سلوا تھے جو چار رنز بنا کر لوکی فیرگیوسن کی بولنگ پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ کالن ڈی گرانڈ ہوم نے اپنے پہلے ہی اوور میں سری لنکا کے سابق کپتان اینجلو میتھیوز کو ایل بی ڈبلیو کر کے سری لنکا کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ لوکی فرگیوںسن کی تیز رفتار بولنگ نے نئے آنے والے بلے باز جیون مینڈس کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا، اور وہ گلی میں کھڑے جیمز نیشم کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے۔ ساتویں آؤٹ ہونے والے کھلاڑی تھسارا پریرا تھے جنھوں نے کچھ دیر مزاحمت کی کوشش کی، لیکن وہ 23 گیندوں پر 28 رنز بنانے کے بعد سپنر مچل سینٹنر کی بولنگ پر ٹرینٹ بولٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد سری لنکا کے فاسٹ بولرز اسورو اڈانا، لاستھ ملنگا اور سرنگا لکمل چند ہی گیندوں کے مہمان ثابت ہوئے۔ کالن ڈی گرانڈ ہوم نے اپنے پہلے ہی اوور میں سری لنکا کے سابق کپتان اینجلو میتھیوز کو ایل بی ڈبلیو کر کے سری لنکا کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا آئی سی سی کی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر موجود کیوی ٹیم کی قیادت کین ولیمسن کر رہے ہیں جبکہ عالمی نمبر نو سری لنکا کی قیادت دمتھ کرونا رتنے کر رہے ہیں۔ سری لنکا کی جانب سے کپتان دمتھ کرونارتنے کے علاوہ لاہیرو تھریمانے، کسال مینڈِس، کسال پریرا، اینجیلومیتھیوز، دھننجایا ڈی سلوا، تھسارا پریرا، جیون مینڈِس، اسورو اڈانا، لاستھ ملنگا اور سرنگا لکمل ٹیم میں شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم میں کپتان کین ولیمسن کے علاوہ مارٹن گپٹل، کالن منرو، راس ٹیلر، ٹام لیتھم، جیمز نیشم، کالن ڈی گرانڈہوم، مچل سینٹنر، لوکی فرگیوسن، ٹرینٹ بولٹ اور میٹ ہینری پر مشتمل ہے۔ یہ میچ کارڈف ویلز سٹیڈیم پر کھیلا جا رہا ہے، جہاں سری لنکا کو اب تک کھیلے گئے چار میچوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ بھی پڑھیے سرفراز احمد اگر عمران خان بن گئے تو۔۔۔ وہ میچ جہاں سے کرکٹ ورلڈ کپ کا سلسلہ شروع ہوا دس بڑے کھلاڑی جو کرکٹ کا عالمی کپ نہ جیت سکے کرکٹ کے گذشتہ 11 عالمی مقابلوں میں دونوں ٹیمیں 10 بار آمنے سامنے آ چکی ہیں جن میں چھ مرتبہ فتح سری لنکا کے نام جبکہ چار مرتبہ نیوزی لینڈ کے نام رہی ہے۔ آخری بار ان دونوں ٹیموں نے جنوری 2019 میں نیوزی لینڈ میں تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی تھی جس میں نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو وائٹ واش کیا تھا۔ میٹ ہنری نے تین سری لنکن بلے باز پولین لوٹا دیا ایک روزہ میچوں میں دونوں ٹیمیں اب تک 105 مرتبہ مدِمقابل آئی ہیں، 48 میچ نیوزی لینڈ نے اور 41 میچ سری لنکا نے جیتے ہیں جبکہ باقی 16 میچ منسوخ، بے نتیجہ یا برابر رہے۔ سری لنکا نے سنہ 1996 میں ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا کو اپ سیٹ شکست دے کر یہ ٹرافی اپنے نام کی تھی۔ اس کے علاوہ سری لنکا کی ٹیم سنہ 2007 اور 2011 کے ورلڈ کپس میں رنرز اپ رہی ہے۔ میزبان انگلینڈ کے علاوہ نیوزی لینڈ وہ واحد ٹیم ہے جس نے ورلڈ کپ کے تمام انڈیشنز میں حصہ لینے کے باوجود اب تک عالمی کپ نہیں جیتا۔ سنہ 2015 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ نے پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی لیکن اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آئی سی سی کی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر موجود کیوی ٹیم کی قیادت کین ولیمسن کر رہے ہیں جبکہ عالمی نمبر نو سری لنکا کی قیادت دمتھ کرونا رتنے کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ 2019 میں ان دو ٹیموں کے علاوہ دفاعی چیمپئین آسٹریلیا، افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، انگلینڈ، پاکستان، ساؤتھ افریقہ اور ویسٹ انڈیز حصہ لے رہی ہیں۔ یہ تمام ٹیمیں انگلینڈ اور ویلز کے 11 میدانوں پر مدِمقابل ہوں گی۔ پہلے مرحلے میں ساری ٹیم ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایک میچ کھیلیں گی، جس کہ بعد چار بہترین ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی جبکہ عالمی کپ کا فائنل 14 جولائی کو لارڈز کے میدان پر کھیلا جائے گا۔ عالمی کپ کے ابتدائی دو میچ یک طرفہ رہے جن میں میزبان انگلینڈ نے جنوبی افریقہ کو جبکہ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو باآسانی شکست دی۔ آج کے دن کا دوسرا میچ افغانستان اور دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کے مابین برسٹل کے میدان پر کھیلا جائے گا۔ یہ میچ پاکستانی وقت کے مطابق شام پانچ بجے شروع ہو گا۔
031101_polo_tournament_fz
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2003/11/031101_polo_tournament_fz
پولو کے مقابلے پاکستان میں
پاکستان پولو ایسوسی ایشن پاکستان میں عالمی کپ پولو کے کوالیفائنگ مقابلے منعقد کرا رہا ہے۔
یہ پولو میچز اس سال چھ دسمبر سے چودہ دسمبر تک لاہور کے پولو کلب میں کھیلے جائیں گے۔ پاکستان پولو ایسوسی ایشن، پہلی مرتبہ پولو کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ پاکستان اتنے بڑے اور اہم ٹورنامنٹ کو منعقد کرانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پولو کے کھیل کا اہم جز گھوڑا ہے اور اس کا ایک چھوٹا سا ٹورنامنٹ کرانے کے لیے بھی کافی تعداد میں گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ عالمی کپ جیسا بڑا ٹورنامنٹ جس میں بیس ٹیمیں حصہ لیتی ہیں ایک ہی جگہ منعقد کیا جا سکے۔ اسی وجہ سے عالمی کپ پولو کو چار زونز میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر زون کے ممالک آپس میں عالمی کپ کا کوالیفائنگ کھیلتے ہیں اور ہر زون سے فاتح ٹیم عالمی کپ کی میزبان ٹیم اور موجودہ عالمی چیمپئن کے ساتھ یعنی چھ ٹیمیں عالمی کپ کا فائنل راؤنڈ کھیلتی ہیں اور اس بار یہ فائنل راؤنڈ فرانس میں ہو رہا ہے۔ ان زون کے نام اے ، بی، سی اور ڈی ہیں۔پاکستان زون ڈی جو کہ ایشیا افریقہ اور اوشینیا کے ممالک پر مشتمل ہے کے مقابلوں کی میزبانی کر رہا ہے۔اس زون کے لیے پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران، سنگا پور اور آسٹریلیا کی ٹیموں نے کوالیفائی کیا ہے۔اور چاروں ٹیموں نے پاکستان آنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ پاکستان پولو ایسوسی ایشن کے صدر اورعالمی کپ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل عارف حسن نے بتایا کہ کسی ملک نے بھی سیکورٹی کے نقطہء نگاہ سے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ لیفٹننٹ جنرل عارف حسن کے بقول اس ٹورنامنٹ پر تین کروڑ پچاس روپے کے اخراجات آئیں گے اور یہ تمام رقم سپونسر شپ سے حاصل کی جائے گي۔انہوں نے کہا کہ وہ اس ٹورنامنٹ کو یادگار بنانا چاھتے ہیں۔اس موقع پر دنیا کی ان نامور شخصیات کو مدعو کریں گے جو کہ پولو کے کھیل سے شغف رکھتے ہیں ان میں پرنس کریم آغا خان، پرنس چارلس، اردن کے پرنس حسن کے علاوہ کچھ ممالک کے صدور کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ کے لیۓ ایک سو پچاس گھوڑوں کا انتظام کیا گیا ہے ایک سو گھوڑے پاکستان آرمی مہیا کرے گی جبکہ پچاس گھوڑے لاہور پولو کلب کے ممبران دیں گے۔ گھوڑے فراہم کرنے کی ذمہ دار کمیٹی کے صدر میجر جنرل شکیل ترمزی کا کہنا ہے کہ چار سو گھوڑوں میں سے ان گھوڑوں کا انتخاب کیا گیا اور اب ان کی تربیت کی جا رہی ہے انہوں نے بتایا کہ ان گھوڑوں کا معیار کسی طرح سے عالمی معیار سے کم نہیں ہو گا۔ میڈیا، مارکیٹنگ اور ایونٹ کمیٹی کے صدر عاشق حسین قریشی نے کہا کہ اس ٹورنامنٹ کی افتتاحی اور اختتامی تقاریب جو کہ لاہور پولو کلب میں ہوں گی انہیں بہت شاندار طریقے سے آرگنائز کیا جائے گا اور اس کے لیے لاہور پولو کلب میں آٹھ ہزار نشستوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے وہاں صرف ایک ہزار نشستیں تھیں۔ چودہ ہینڈی کیپ والے اس عالمی کپ کوالیفائنگ ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے پاکستان کے دس بہترین پولو کے کھلاڑیوں کا کیمپ لگایا گیا ہے۔ان کھلاڑیوں کے نام ہیں ملک عاطف یار ٹوانہ،شاہ شامیل عالم،خورشید احمد،حامد علی،برگیڈیر اسفندیار پٹودی،شاہ قبلاء عالم، حسام علی حیدر، سمیع اللہ، احمد خان اور ارسلان نجیب ہیں۔ ان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے آٹھ ہینڈی کیپ رکھنے والے بین الاقوامی پولو کھلاڑی پوجر ال آفندی کو کوچ مقرر کیا گیا ہے ۔جن کا کہنا ہے کہ پولو بہت مشکل کھیل ہے مگرہمارے کھلاڑیوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کی اہلیت ہے۔
150819_hrcp_kasur_case_sh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150819_hrcp_kasur_case_sh
’زمین کا جھگڑا کہہ کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی‘
حقوقِ انسانی کمیشن برائے پاکستان کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے معاملے کو زمین کا جھگڑا قرار دے کر ذمہ داری سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی بلکہ اس کی باقاعدہ تفتیش ہونی چاہیے اور تمام سکولوں میں بچوں کے لیے آگاہی پروگرام شروع کرنے چاہیے۔
حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اگر ویڈیوز میں بچوں کی مزاحمت نظر نہیں آ رہی تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کا استحصال نہیں ہوا ہے حقوقِ انسانی کمیشن برائے پاکستان اور اے جی ایچ ایس کے حقوق بچگان کے یونٹ نے ایک نو رکنی ٹیم تشکیل دی اور قصور واقعے کے اصل حقائق جاننے کے لیے گاؤں حسین والا کا دروہ کیا اور حقائق سے آگاہی کی ایک رپورٹ تیار کی ہے ۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات سنہ 2010 سے سنہ 2014 کے عرصے کے دوران پیش آئے جب اُن کی عمریں دس سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پولیس کے مطابق اُن کے پاس جنسی زیادتی کی 72 ویڈیوز ہیں جب کہ حقیقت میں کئی سو ویڈیوز موجود ہیں۔ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ اگر ویڈیوز میں بچوں کی مزاحمت نظر نہیں آ رہی تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کا استحصال نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِس سارے معاملے میں سائبر کرائم کا عمل دخل ہے اِس لیے حقوق انسانی کی تجویز ہے کہ اس سارے معاملے کی تفتیش وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو کرنی چاہیے۔ بچوں کی تعداد کے بارے میں حنا جیلانی نے کہا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اگر چند بچوں کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے تو یہ ایک سنجیدہ اور گھمبیر معاملہ ہے۔ اُنھوں نے صوبائی وزیر قانون کی اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سارے سکینڈل کے پیچھے زمین کا جھگڑا بھی ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہے بھی تو اس کی وجہ سے کیس کی تفتیش پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو دھمکانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس کا پولیس نے ابھی تک کوئی سد باب نہیں کیا حنا جیلانی نے بتایا کہ متاثرہ بچوں اور ان کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا اور اُن سے پیسے اینٹھے گے۔ اُنھوں نے کہا کا کہ بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس معاملے کی تفیش میں لاپرواہی برتی گئی ہے۔ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ وہ حویلی جہاں پر یہ جرم سر زردہ ہوا پولیس نے اُس کو بھی سیل نہیں کیا اور ایک مقامی چینل اُس کے اندر جا کر فلم بندی کرتا رہا اور وہ چیزیں دکھاتا رہا جو اس جرم میں استعمال ہوئی ہیں جس سے شواہد متاثر ہو سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس کا پولیس نے ابھی تک کوئی سد باب نہیں کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جن سیاسی عمائدین نے گذشتہ دنوں گاؤں کا دورہ کیا اُنھوں نے متاثرہ بچوں اور اُن کے گھر والوں کی بہتری ، بہبود اور اُن کے کیس کی پیروی کی بات کرنے کی بجائے صرف سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ حنا جیلانی نے کہا کہ ہمیں اِس سارے معاملے کو محض ایک واقعہ سمجھ کر بھول نہیں جانا چاہیے بلکہ ایک معاشرتی مسئلے کے طور پر اِس کی پیروی کرنی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں کو اُن کی حفاظت کے متعلق بتائیں اور تمام سکولوں میں بچوں کو اپنے تحفظ کے بارے میں آگاہی مہیا کریں۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم تین سال سے کوشش کر رہے ہیں بچوں کے تحفظ کا ایک جامع قانون بنایا جائے جس میں بچوں کی حفاظت کے لیے پروگرام کے ساتھ ساتھ اُن کی عملی مدد کی جا سکے۔
pakistan-43686079
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43686079
کوئی قومی وقار بھی ہوتا ہے!
پاک چین دوستی، یہ لفظ بچپن سے سنا۔ چین کو ہم نے دیونہ وار چاہا، چین نے بھی ہم سے محبت کی۔ اس محبت کو ہم متوسط طبقے کی گھٹی ہوئی مجبور اور ستوانسی محبتوں کی طرح دل میں دبائے نہیں پھرے، بلکہ دونوں ملکوں نے اپنی وفاؤں کا بارہا اور برملا اظہار کیا۔
اسی محبت کی ایک نشانی، سی پیک کی صورت میں ابھی میوں میوں چلنا شروع ہوئی تھی کہ کچھ اجڈ اور عاقبت نااندیش پاکستانی اور چند احمق چینی اس پہ اپنے گندے جوتوں سمیت دھم سے کود گئے۔ شناسائی، دوستی، محبت، وفا، عشق اور پھر جنوں، شاید انسانی تعلقات میں مانوسیت کے جذبے کو ان مدارج میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شاید اس لیے کہا کہ انسانی تعلقات کے بارے میں کوئی بھی بات حتمی طور پہ نہیں کہی جا سکتی۔ انسان اپنے جذبوں کے بارے میں بہت عجیب واقع ہوا ہے۔ انسان اس پہ ایشیائی انسان اور اس سے بھی بڑھ کے جنوبی ایشیائی اور پاکستانی انسان تو اپنے تعلقات اور جذبات اور وفاداریوں کے بارے میں بہت ہی عجیب واقع ہوا ہے۔ اس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، باہر سے آ نے والوں کے لیے دو طرح کے رویے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ان نو واردوں سے سخت خوف کھاتے ہیں اور اسی خوف کے تحت ان سے نفرت کرتے ہیں اور موقع آنے پہ ان کے درپئے ہونے کو بھی ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ نئے آنے والوں کے لیے خیر سگالی کے جذبے سے اس قدر معمور ہوتے ہیں کہ اکثر یہ جذبہ ان کے ظرف کے پیمانوں اور ہوش و خرد کی حدوں سے باہر چھلک جاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں نقصان اس خطے کے باشندوں کا ہی ہوتا ہے۔ قاعدہ ہے کہ جو قوم، اپنے ملک اور علاقے سے نکل کر کسی دوسرے علاقے کا رخ کرتی ہے یقیناً اپنے رشتے کی پھو پھی سے ملنے تو نہیں آتی اور نہ ہی اس کے پیشِ نگاہ سیاحت کا جذبہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، دوسرے خطوں میں موجود مادی فوائد ہی انھیں وہاں سے کھینچ کر لاتے ہیں۔ گھر بار کا سکھ چھوڑ کے آ نے والے، اپنے بن باس کی پوری قیمت وصول کرتے ہیں۔ برِصغیر نے بارہا یہ قیمت ادا کی۔ یہ دھرتی اتنی زرخیز ہے کہ جانے کتنی نسلوں کو خود میں جذب کر چکی ہے۔ اس لیے ہمیں کسی چینی اور ترکی سے تو بالکل بھی کسی قسم کا خوف نہیں۔ لیکن بہر حال، تعلقات کے قرینے ہوتے ہیں۔ پاکستانی پولیس اور چینی کارکنوں کے جھگڑے کی وجہ مبینہ طور پر چینی کمپنی کی طرف سے پولیس کیمپ کی بجلی پانی بند کرنا اور جواب میں پولیس والوں کا ان کی نقل وحرکت کو محدود کرنا، اس پہ چینیوں کا بھڑک کر لڑنا اور بعد ازاں پٹنا سمجھا جا رہا ہے۔ اسی بارے میں ’جھگڑا کرنے والے پانچ چینی باشندے ملک بدر کیے جائیں‘ سبھی نے اس واقعے کی ویڈیو دیکھی اور بارہا دیکھی۔ سب سے تکلیف دہ اور غصہ دلانے والا لمحہ وہ ہے جب پولیس کی گاڑی پہ بنا پاکستانی پرچم چینی کارکن کے جوتے سے نیچا نظر آ رہا ہے۔ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دل و دماغ کا انسان بھی اس منظر کو دیکھ کر جذباتی ہو سکتا ہے۔ میں تو یوں بھی پاکستانی جھنڈے اور ترانے کے سلسلے میں بےحد جذباتی مشہور ہوں۔ کہیں ترانہ بجا نہیں اور میرے آنسو بے قابو۔ جھنڈے کا یہ ہے کہ بنے بنائے جھنڈے کی بجائے ہمارے ہاں ہمیشہ گھر کا سلا ہوا پرچم لہرایا گیا۔ اس پرچم پہ چاند تارہ ٹانکنا اتنا آسان نہیں، وہ بھی ایسے کہ تارے کا کوئی کونا بے ڈھب نہ ہو، چاند کی گولائی کہیں بے ڈھنگی نہ ہو اور کہیں سے بھی کوئی پھونسڑا نہ نکلے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ مغرب کے بعد کبھی پرچم لہراتا نہ رہ جائے اور یومِ آ زادی گزرنے کے بعد اسے بے حد احترام سے ململ کی تہوں میں لپیٹ کے اگلے سال کے لئے سینت لیا جاتا ہے۔ یہ جھنڈا میرے مرحوم ساس سسر نے عین سرکاری پیمائش پہ تیار کیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اس ملک کے لیے کی جانے والی جدو جہد میں حصہ لیا، 1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ ڈالے اور پھر انسانی تاریخ کی خوفناک ترین اور سب سے بڑی ہجرت کی۔ آ ج وہ لوگ دنیا میں نہیں اور شاید اچھا ہی ہے کہ ایسے وقت سے پہلے نہ رہے۔ دنیا داری کے، بین الاقوامی تعلقات کے، انسانی اور قومی مصلحتوں کے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں، لیکن ہر بار جب اس ملک کی خود مختاری کا مذاق اڑاتے ہوئے، کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے، کسی بھرے شہر میں کسی کو مارنے والا دندناتا ہوا نکل جاتا ہے، کسی ملک کی پراکسی لڑنے کے لیے ایک پوری نسل کو جنگ کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے، کسی ملک کے امرا شکار کے بہانے مستاتے پھرتے ہیں، کوئی 'آپریشن نیپچون سپیئر' ہوتا ہے، کسی حلیف ملک کے جنگی جہاز بمباری کرتے ہیں اور کسی دوست ملک کا شہری پاکستانی پرچم سے اوپر پاؤں لیے پھنپھناتا ہے تو ساری مصلحتیں، ساری دنیا داری، سب سفارتی عیاریاں اور قومی مفاد کے لیے اختیار کیا گیا تمام تحمل رفو چکر ہو جاتے ہیں اور اس کی جگہ ایک خالصتاً پاکستانی جذباتیت اڑ کے کھڑی ہو جاتی ہے اور چلا چلا کے کہتی ہے، 'کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، قومی مفاد ہی نہیں کوئی قومی وقار بھی ہوتا ہے۔‘
world-45080317
https://www.bbc.com/urdu/world-45080317
سفارتی کشیدگی: سعودی ایئر کی ٹورونٹو کے لیے تمام پروازیں بند، کینیڈا میں تمام سکالرشپس معطل
سعودی عرب نے کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کے حکم کے بعد دونوں ممالک میں مزید کشیدگی بڑھ گئی ہے اور سعودی ایئر لائن نے ٹورونٹو کے لیے تمام فلائٹس معطل کر دی ہیں۔
سعودی اییر لائن کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب سعودی عرب نے کینیڈا پر ملک کے داخلی معاملات میں 'مداخلت' کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ کینیڈا میں تعینات سعودی سفیر کو بھی واپس بلا لیا۔ تاہم کینیڈا نے جواب میں کہا ہے کہ کینیڈا انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔ دوسری جانب ایک ویریفائڈ ٹویٹر اکاؤنٹ جو کہ مبینہ طور پر سعودی حکام کے ساتھ لنک ہے نے ایک فوٹو ٹویٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک جہاز ٹورونٹو کے مشہور سی این ٹاور کی جانب جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جلد ہی لوگوں نے اس تصویر کی مشابہت امریکہ پر 2001 میں ہونے والے حملوں کے ساتھ کی۔ تاہم بعد میں یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ کینیڈا میں تمام سکالر شپ، تربیتی اور فیلو شپ پروگرام معطل کیے جا رہے ہیں اور یہ پروگرام کسی اور ملک میں منتقل کیے جائیں گے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ کینیڈا کے ساتھ تمام نئے تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدے بھی روک رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا ہے جب کینیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس بارے میں مزید جانیے سعودی عرب: خواتین کے حقوق کی کارکن دوبارہ گرفتار ’انٹرنیٹ پر جان کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں‘ سعودی عرب نے کیا کہا؟ سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ 'سعودی عرب نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی داخلی معاملات میں کسی ملک کی مداخلت یا احکامات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔' خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی کارکن ثمر بداوی کو گذشتہ ہفتے حراست میں لیا گیا تھا سعودی وزارتِ خارجہ نے کینیڈا کی خارجہ اُمور کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ بیان کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں ریاض پر زور دیا گیا تھا کہ وہ خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ’فوری رہا‘ کرے۔ ثمر بداوی کو سنہ 2012 میں انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ بھی دیا گیا تھا سعودی عرب میں جن میں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے اُن میں سعودی نژاد امریکی خاتون کارکن ثمر بداوی بھی شامل ہیں۔ ثمر بداوی کو گذشتہ ہفتے حراست میں لیا گیا تھا۔ ثمر بداوی اور اُن کی ساتھی کارکن سعودی عرب میں رائج مردوں کی سرپرستی کے نظام کو ختم کرنے کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ سعودی عرب میں ایسے وقت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے جب ملک کے ولی عہد شہزادہ سلمان قدامت پسند معاشرے کو ترقی پسندی کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ ان گرفتاریوں سے سعودی ولی عہد کی ترقی پسندی کے تاثر کو نقصان پہنچا ہے۔ کینیڈا کی حکومت کی جانب سعودی عرب کے اس اقدام پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
regional-40949602
https://www.bbc.com/urdu/regional-40949602
چین اور انڈیا کی سرحد پر ’پتھروں‘ سے لڑائی
انڈین حکام کا کہنا ہے کہ مغربی ہمالیہ میں انڈیا اور چین کے درمیان متنازع سرحد پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان سنہ 1962 میں جنگ ہوچکی ہے اور تاحال کئی سرحدی تنازعات حل طلب ہیں انڈین خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ چینی فوجیوں نے پنگونگ جھیل کے نزدیک انڈین علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے بعد فوجیوں نے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جس سے دونوں اطراف کے فوجی معمولی زخمی ہوئے۔ بیجینگ کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی اپنی سرحدی حدود کے اندر تھے۔ خیال رہے کہ انڈیا، چین اور بھوٹان کے سرحدی علاقے ڈوکلام کی وجہ سے انڈیا اور چین کے درمیان صورتحال کشیدہ ہے۔ چين انڈیا کی جنگ میں پاکستان کا ردِعمل کیا ہو گا؟ 'چین انڈیا کو شکست نہیں دے سکتا' پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے انڈین فوجی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ حالیہ جھڑپ میں فوجیوں نے چینی فوجیوں کو ان علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے انسانی زنجیر بنائی جس پر انڈیا اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ لداخ کے علاقے میں واقع اس علاقے کو چین بھی اپنی سرزمین قرار دیتا ہے۔ ایک انڈین اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتے تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں' اور 'ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔' چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'انڈیا چینی زمین سے فوری طور پر اور بغیر کسی شرط کے تمام اہلکار اور ساز و سامان واپس بلائے۔' بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ جب جھڑپ ہوئی اس وقت اس کے فوجی چینی سرزمین کے اندر ہی موجود تھے۔ لداخ کے سرحدی علاقوں میں چین اور انڈیا کے درمیان متنازع سرحد کشیدگی کا باعث بنتی ہے دوسری جانب انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی علاقوں میں کوئی مشترکہ طور پر کھینچی گئی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی( نہیں ہے۔ انڈین وزارت خارجہ کے مطابق ایل اے سی کے بارے میں دونوں جانب سے مختلف دعوے ہونے کی وجہ سے اس قسم کی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور اگر سرحدوں کے بارے میں اتفاق رائے ہوتا تو اس صورتحال سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔ انڈیا چین تنازع، اقوام عالم کی دلچسپی انڈیا،چین تنازع: کب کیا ہوا؟ دونوں ممالک کی افواج کی جانب سے حالیہ جھڑپ ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب شمال مشرقی سرحدی علاقے ڈوکلام میں سرحدی کشیدگی پائئ جاتی ہے۔ جون سے جاری ڈوکلام کے تنازعے میں دونوں جانب نے اپنی فوجی طاقت علاقے میں بڑھا دی ہے اور ایک دوسرے کو علاقہ خالی کرنے کو کہا ہے۔ خیال رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان سنہ 1962 میں جنگ ہوچکی ہے اور تاحال کئی سرحدی تنازعات حل طلب ہیں۔
061220_bear_killed_sq
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/12/061220_bear_killed_sq
ریچھ کوزندہ جلانے پر چارگرفتار
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے نایاب کالے بھالوکو مارنے کے الزام میں چار افراد کوگرفتار کیا ہے۔
ہندوستان میں جنگلات کے تحفظ کے قانون کے مطابق کالا بھالو ایک نایاب جانور ہے جسے مارنا غیر قانونی ہے اوراس جرم میں دو سے چھ برس کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر کی گئي تصویروں میں دکھایا گيا ہے کہ گاؤں والوں نے بھالو کو پتھروں سے مارا اور بعد میں اسے زندہ جلا دیا۔ تصویروں کو ٹی وی پر دکھا‎‎‎ئے جانے کے بعد علاقے میں ہنگامہ مچ گيا۔ مسٹر لوہیا کا کہنا ہے کہ علاقے کی پولیس معاملے کی تفتیش کررہی ہے۔ چیف وائلڈ وارڈن اے کے سریواستو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ واقعہ اس برس سترہ نومبر کو پیش آیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے اہلکار اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن مشتعل ہجوم کے ڈر سے اہلکار کوئی بھی کاروائی نہيں کر سکے۔ مسٹر اے کے واستو کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھالو کو بھگانے کے لئے آگ لگائی تھی لیکن بھالو آگ میں پھنس کر جل گیا۔ مسٹر واستو کا کہنا ہےکہ جنوبی کشمیر کے وائلڈ لائف وارڈن اور پولیس نے اسی دن اس سلسلے میں ایک رپورٹ درج کرائی تھی جس دن یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک رینج افسر کے ساتھ چار اہلکاروں کو وقتی طور پر ملازمت سے ہٹا دیا گيا ہے اور اس معاملے کی محکمہ جنگلات کے پرنسپل کنزرویٹر کی جانب سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ مقامی نیوز ایجنسی کے مطابق گاؤں والوں نے بھالو کو اس جگہ بند کردیا تھا جہاں گائیں بھینسیں باندھی جاتی ہیں۔ایجنسی کے مطابق انہوں نے محکمہ جنگلات کے افسران کو واقعہ کی اطلاع دی تھی لیکن کوئی اہلکار واقع کی جگہ نہیں پہنچا۔ اتنے میں بھالو قید سے باہر نکل گيا اور گاؤں والوں نے اسے مار دیا۔
040922_mush_claim
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/09/040922_mush_claim
کیا اکثریت دو صوبوں کا فیصلہ ہے؟
فارسی کا ایک شعر ہے
با ہر کمال اندکے آشفتگی خوش استہر چند عقل کُل شدہ ای بے جنوں مباش اس شعر کا سیدھا سادھا مطلب تو یہی ہے کہ ہر کمال کے ساتھ دیوانگی کا عنصر اچھا رہتا ہے اور یہ کہ بے شک آپ عقلِ کل ہو جائیں (تھوڑا سا) جنون ساتھ رہنا چاہیئے۔ معلوم نہیں کہ شعر لکھنے والے نے یہ مشورہ کیوں اور کس کو دیا تھا لیکن یہ شعر مجھے یوں یاد آیا کہ جنرل مشرف نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ ملک کی اکثریت انہیں وردی میں دیکھنا چاہتی ہیں اور مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا اکثریت ضرورت سے زیادہ جنون میں مبتلا ہے یا پھر اقلیت عقلِ کل ہوگئی ہے؟ ایک بات بہر حال طے ہے کہ صدر پرویز مشرف کو وردی میں دیکھنے والی یہ اکثریت پاکستانی ہے۔ کیونکہ اگر یہ اکثریت غیر ملکی ہے تو پھر پوچھنے والے صدر مشرف سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ حضور! آپ پاکستانیوں کے صدر ہیں یا غیر ملکیوں کے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت پاکستان کے کون سے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے؟ کیا اس طبقے کی جو جمہوریت پسند ہے یااس طبقے کی جو جہوریت پسند نہیں۔ اگر یہ جمہوریت پسند طبقہ نہیں ہے تو پھر صدر صاحب جن پر پہلے ہی ڈکٹیٹر ہونے کا الزام ہے نئی مشکل میں پھنس جائیں گے اور کہنے والے کہیں گے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کے بل پر حکمرانی کی خلعت اوڑھنا چاہتے ہیں۔ لہذا مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ صدر صاحب کے دعوے کے مطابق وہ اکثریت جو انہیں وردی میں دیکھنا چاہتی ہے، جمہوریت پسند ہیں۔ پاکستان میں شاید مسلم لیگ سے بڑا کوئی ایسا ’جمہوریت پسند‘ طبقہ نہیں ہے جو حکومت کے سربراہ کو وردی میں دیکھنا پسند اور قبول کرے۔ کبھی جمہوریت بحال کرانے کے بہانے اور کبھی جمہوریت بچانے کے بہانے۔ مجھے تو یقین ہے کہ پاکستان کی تقدیر لکھنے والے نےمسلم لیگ کوحکمرانی کے سارے راز ودیعت کر دیئے ہیں۔ فوج کی وفاداری کا پرچم اٹھائے آج کل لیگی حضرات اسمبلیوں میں ’قراردادِ مشرف‘ پیش کرتے پھر رہے ہیں اور ایسی قراردادیں منظور کر کے فوج کے سربراہ کو ملکی سیاست میں گھسیٹنے کی التجائیں ہو رہی ہیں۔ لہذا فوج کا کہنا کہ خود سیاست دان انہیں اس ’گند‘ میں دھکیلتے ہیں درست ہے اس فرق کے ساتھ کہ جنہیں فوج سیاست دان کہتی ہے وہ محض پاکستان کی سیاست سے دان وصول کرنے والے لوگ ہیں۔ مجلس عمل والوں نے ایک سال پہلے پرویز مشرف کو صدر مشرف بنانے کا جو ’گناہ‘ کر دیا تھا آج کل وہ اس کا داغ دھونے کی کوشش میں ہیں۔ مشرف کی حمایت کا جواز پہلے بھی انہوں نے پیش کیا تھا مشرف کی مخالفت کی دلیل ’ظالموں‘ کے پاس اب بھی ہے۔ خیر! مجلس والوں کے ہنگاموں کا شور مسلم لیگیوں کے وفاداری کے نغموں میں دب سا گیا ہے۔ خود جنرل صاحب کو یقین ہوگیا ہے یا پھر دلا دیا گیا ہے کہ اکثریت انہیں وردی والا صدر دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک ثبوت تو یہی ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں میں ’قراردادِ مشرف‘ منظور ہو چکی۔ لیکن جنرل مشرف سے بہتر کون جانتا ہے کہ سرحد کی اسمبلی نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے جبکہ بلوچستان میں ناکامی کے ڈر سے قرارداد پیش کر کے واپس لے لی گئی۔ لہذا حساب تو برابر ہو گیا۔ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیاں نہیں چاہتیں کہ صدر مشرف وردی پہننے والے صدر ہوں۔ تو پھر اکثریت کا دعویٰ کیسا؟ ہُوا تو اصل میں یوں ہے کہ ملک کے دو صوبوں نے صدر کو وردی والا صدر بنانے کے خلاف ووٹ دے دیا ہے۔ ہاں یہ بے چارے دونوں صوبے چھوٹے ہیں۔ شاید اکثریت دوسرے دو صوبوں کی اسمبلیوں کے فیصلے کانام ہو۔مگر ایسا سمجھنے والے صرف وہی صاحبانِ عقل ہو سکتے ہیں جو اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھیں۔ کیونکہ تھوڑے سے جنون والوں کو بھی پتہ ہے کہ انٹیلی جنس کی رپورٹوں سے یہ فیصلے نہیں ہوا کرتے کہ اکثریت کیا چاہتی ہے؟
130719_taliban_letter_malala
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/07/130719_taliban_letter_malala
اللہ پہ چھوڑ دیں
مکرمی عدنان رشید،
طالبان کے رہنما عدنان رشید نے اپنے خط میں ملالہ پر کیے گئے حملے کو غلط قرار دینے کے بجائے صحیح اور غلط کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا آپ کی طرح میں بھی یہ خط ذاتی حیثیت میں لکھ رہا ہوں۔ اس خط کے مندرجات کا ہماری ادارتی پالیسی سے متفق ہونا ضروری نہیں نہ ہی پاکستان حکومت کی پالیسی ہے۔ آپ کہیں گے کہ کون سے پالیسی؟ کوئی بات نہیں جیسے ہی عمران خان لندن سے واپس آئیں گے بن جائے گی۔ مس ملالہ یوسفزئی کے نام آپ کا نامہ اس لیے قابل تحسین ہے کہ آپ نے یک جنبش قلم اس قوم کے ذہن میں پائے جانے والے ایک بڑے مغالطے کی اصلاح کردی ہے۔ آپ کے خیر خواہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ طالبان اور بچی کہ سر میں گولی۔ کوئی مرد مجاہد تو ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا۔ ملالہ کو گولی یا تو لگی ہی نہیں یا اگر لگی ہے تو اس نے خود ماری ہے تاکہ ایک دن اقوام متحدہ میں کھڑی ہو کر اس قوم کو بدنام کرسکے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ہمارے لوک ورثے سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوگی لیکن ہماری لوک داستانیں ایسی چلتر عورتوں سے بھری پڑی ہیں جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہیں۔ آپ کی طرح قوم کے ذہن میں بھی بہرحال یہ شک موجود ہے کہ کیا ملالہ کے سر میں گولی مارنا اسلامی فعل تھا یا نہیں۔ لیکن اس کے بعد آپ نے سچے پاکستانیوں والی وہی بات کی جوکہ ہماری قومی پالیسی ہے کہ چلو اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم پہ جب بھی برا وقت آتا ہے، جب کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہو پاتا جب ہم سے اپنے ذاتی اور اجتماعی دکھوں کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا تو ہم کہتے ہیں کہ چلو یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن میں نے کسی کو 14 سال کی لڑکی کے سر میں گولی مارنے کے بعد یہ کہتے نہیں سنا کہ اب اللہ پر چھوڑ دو۔ اللہ پہ چھوڑنے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑا مسب الاسباب ہے اور سب سے بہتر انصاف کرنے والا اور اسکے رموز عام انسان تو کیا آپ کا پسندیدہ مصنف اور مشہور دہریہ برٹرینڈ رسل بھی نہیں سمجھ سکتا۔ شاید بنیادی فرق یہ ہے کہ قوم اللہ پر چھوڑتی ہے آپ اللہ کے پاس چھوڑ آتے ہیں۔ بچیوں کو مارنے یا نہ مارنے کے فلسفیانہ نقطے پر مجھے اسلام سے پہلے زمانہ جہالت کی یاد آئی جب لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیا کرتے تھے شاید اس لیے کہ بڑی ہونے پر گاڑنے کی کوشش کرتے تو بہت شور مچاتیں۔ اسلام نے ان قبیح رسومات کا خاتمہ کیا۔ لیکن اگر چودہ سو سال بعد ایک چودہ سالہ بچی کا منہ بند کرنے کے لیے اسے گولی مارنے پر جید علما میں بحث چھڑ جائے تو برٹرینڈرسل جیسے بدبخت یہ کہنے لگیں کہ بھائی آپ لوگ تو وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ ویسے زیادہ منہ پھٹ بچیوں کو مارنے یا نہ مارنے کے بیچ میں بھی ایک طریقہ ہے جو زیادہ تر کمزور ایمان والے مسلمان استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ڈانٹ دیتے ہیں، کبھی ہلکی سی چپت لگا دیتے ہیں۔ لیکن بچیوں سے بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اور وہ ہیں عورتیں ان پر کل بات ہو گی۔
150910_islamic_unity_wusat_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/09/150910_islamic_unity_wusat_zs
اسلامی اخوت پناہ کی تلاش میں
چودہ سو برس پہلے۔
ویانا اور میونخ کے ریلوے سٹیشنوں پر سماجی تنظیموں نے ویلکم ٹو آسٹریا اور ویلکم ٹو جرمنی کے بینر لگائے ہجرت کا سال ہے۔ نومسلم کفارِ مکہ کے ظلم و ستم کی تاب نہ لاتے ہوئے یا تو حبشہ کی عیسائی مملکت کی جانب ہجرت کر رہے ہیں یا پھر مدینے کی وادی میں جائے پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ رسول اکرم کی ذاتِ مبارک بھی ہجرت پر مجبور ہوگئی ہے۔ مدینے کے انصار اور مکے کے مہاجرین کو سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور سے وہ بیج پھوٹ رہا ہے جو ملتِ واحدہ کا سایہ دار درخت بنےگا۔ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کا بحران: خصوصی ضمیمہ حضرت سعد بن ربی مدینہ کی ایک مالدار ہستی ہیں اور ان کے روبرو مکی حضرت مہاجر عبدالرحمان بن عوف ہیں۔ سعد کہہ رہے ہیں ، میں نے اپنی املاک کے دو حصے کر دیے ہیں، ایک تمہارا ایک میرا، میرے گھر میں سے آدھا تمہارا آدھا میرا ، میری دو بیویاں ہیں ، کہو ان میں سے کسے طلاق دوں تاکہ تم عقد میں لے سکو۔ عبدالرحمان بن عوف کہتے ہیں، بس اللہ ہی تمہیں اس ایثار کا اجر دے سکتا ہے ، مجھے تمہاری محبت اور خلوص میسر آگیا سمجھو سب مل گیا۔بس میرے بھائی بازار کا راستہ بتا دو ( تاکہ مزدوری ڈھونڈھ سکوں)۔ چودہ سو برس بعد۔ شام میں خانہ جنگی کو چوتھا برس ہو چلا ہے۔ ڈھائی کروڑ میں سے آدھے ملک کے اندر در بدر اور چالیس لاکھ سے زائد ہمسایہ ممالک ترکی، لبنان ، اردن اور عراق میں خیمہ زن۔ لبنان میں تو یہ حال ہے کہ ہر چوتھا باشندہ شامی پناہ گزین ہے۔ لگ بھگ پانچ لاکھ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔کچھ یورپی ممالک پریشان ہیں کہ اس اژدھام سے کیسے نمٹیں کہ جس میں صرف شامی نہیں عراقی ، افغانی اور افریقی مصیبت زدگان بھی شامل ہیں۔ جرمنی نے دسمبر تک آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے پر آمادگی ظاہر کی ہے مگر تین سالہ آئیلان کردی کی ساحل پر سجدے میں پڑی لاش نے واقعی دل ہلا دیا ہے۔ اگر ایک طرف ہنگری ہے جو اتنے زیادہ مسلمان پناہ گزینوں کو مسیحی یورپی تہذیب پر ناگہانی حملہ سمجھ رہا ہے اور سلوواکیہ کہہ رہا ہے کہ وہ صرف عیسائی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا تو دوسری جانب پاپائے روم ہیں جنہیں ان مصیبت زدگان سے کوئی مذہبی و ثقافتی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا۔ پاپائے روم نے یورپ بھر میں پھیلے ہوئے ایک لاکھ 22 ہزار رومن کیتھولک گرجا گھروں کو حکم دیا ہے کہ ہر گرجے میں کم از کم ایک بےگھر خاندان کے قیام کا بندوبست کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک پناہ گزیں خاندان اوسطاً پانچ افراد پر مشتمل ہے تو سیدھے سیدھے پانچ لاکھ بےگھروں کو رومن کیتھولک چرچ کا ادارہ ہی پناہ دینے کے لیے کافی ہے۔ ساتھ ساتھ یورپ کے سب سے طاقتور ملک جرمنی نے بھی اپنے دروازے ان پناہ گزینوں پر کھول دیے ہیں اور دسمبر تک آٹھ لاکھ بےخانماؤں کو اپنے ہاں بسانے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ابتدائی طور پر چھ ارب یورو کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ہنگری سے آسٹریا اور جرمنی میں داخل ہونے والے تھکے ہاروں کے لیے ویانا اور میونخ کے ریلوے سٹیشنوں پر طرح طرح کی سماجی تنظیموں نے ویلکم ٹو آسٹریا اور ویلکم ٹو جرمنی کے بینر لگائے ہیں۔ سینکڑوں جرمن اور آسٹریائی باشندے اپنی اپنی گاڑیاں لے کر ہنگری کے پھیرے لگا رہے ہیں تاکہ پیدل آنے والے عورتوں ، بچوں اور مردوں کو ڈھو کر لا سکیں۔ یورپی کمیشن کی تجاویز اگر منظور ہوگئیں تو اٹلی ، یونان اور ہنگری میں پھنسے ہوئے ایک لاکھ 20 ہزار مہاجروں میں سے کم از کم ساٹھ فیصد کو جرمنی ، فرانس اور سپین منتقل کر دیا جائے گا کئی جرمن تنظیمیں ان گھروں کی رجسٹریشن کر رہی ہیں جن کے مالکان نے ان پناہ گزینوں کو تب تک گھروں میں ٹھہرانے کی پیش کش کی ہے جب تک رہنے سہنے کا سرکاری انتظام نہیں ہو جاتا۔ جرمن کمپنیاں ویب سائٹس پر اشتہارات دے رہی ہیں کہ ہنرمند پناہ گزین نوکری کے لیے فوراً رجوع کریں۔ اگر ایک جانب جرمنی کی جنوبی ہمسایہ حکومتِ ڈنمارک لبنانی اخبارات میں یہ بڑے بڑے اشتہارات چھپوا رہی ہے کہ پناہ گزین ڈنمارک میں داخل ہونے کے بارے میں نہ سوچیں تو ڈنمارک کے شمالی ہمسائے سویڈن نے اپنے دروازے شامی اور دیگر مصیبت زدگان کے لیے وا کر دیے ہیں۔اس وقت فی کس آبادی کے اعتبار سے سویڈن پناہ گزین قبول کرنے والا سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔ سویڈن کے ہمسائے فن لینڈ کے وزیرِ اعظم جوہا سپیلا نے اعلان کیا ہے کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ بھی پناہ کے متلاشیوں کے لیے حاضر ہے جبکہ دور دراز یورپی جزیرے آئس لینڈ کی حکومت نے جب 55 پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی ’فراخدلانہ‘ پیش کش کی تو جزیرے کے باشندوں میں شدید ردِ عمل ہوا اور گیارہ ہزار شہریوں نے اعلان کیا کہ ان کے گھر پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔ دو ہفتے پہلے تک برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک پناہ گزینوں کو قبول کرنے میں آنا کانی کر رہے تھے لیکن بڑھتے ہوئے اخلاقی دباؤ اور یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلاد ینکر کے کوٹہ منصوبے نے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور صدر فرانسوا اولاند کو بھی جھکا دیا۔ اب برطانیہ نے 20 ہزار اور فرانس نے 24 ہزار نئے پناہ گزیں لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یورپی کمیشن کی تجاویز اگر منظور ہوگئیں تو اٹلی ، یونان اور ہنگری میں پھنسے ہوئے ایک لاکھ 20 ہزار مہاجروں میں سے کم از کم ساٹھ فیصد کو جرمنی ، فرانس اور سپین منتقل کر دیا جائے گا۔ قطر اور سعودی عرب سمیت تمام آسودہ خلیجی ریاستوں نے اب تک کسی شامی پناہ گزیں کو لینے کا اعلان نہیں کیا ہے آسٹریلیا کی حکومت سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کی شہرت رکھتی ہے مگر اس نے بھی بالاخر 20 ہزار شامی پناہ گزینوں کو لینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ اس وقت شام میں جو بیرونی ممالک بشارالاسد حکومت کے دامے درمے قدمے سخنے حامی ہیں ان میں روس اور ایران نمایاں ہیں۔ان دونوں ممالک نے اب تک کسی شامی پناہ گزین کو قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ اسد مخالف قوتوں کی حمایت میں امریکہ پیش پیش ہے مگر وہاں اب تک صرف ڈیڑھ ہزار شامی ہی پہنچ پائے ہیں۔ جبکہ قطر اور سعودی عرب سمیت تمام آسودہ خلیجی ریاستیں اسد مخالف قوتوں بالخصوص فری سیرین لبریشن آرمی کی تربیت و امداد میں تو پیش پیش ہیں لیکن ان میں سے کسی نے ایک بھی شامی کو قبول کرنے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ اخبار عرب نیوز کے بقول سعودی وزارتِ سماجی بہبود نے سعودی خاندانوں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ سرکاری اجازت کے بغیر عراقی و شامی بچوں سمیت کسی غیر ملکی بچے کو گود نہیں لے سکتے۔ مدینہ آج بھی وہیں ہے جہاں چودہ سو برس قبل مہاجر و انصار کے آسمانی اعلانِ اخوت کے موقع پر تھا لیکن زمانہ بدل گیا ہے اور مشرق کی روحِ اخوت کو اب مغرب میں پناہ مل رہی ہے ۔ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
131006_baat_se_baat_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/10/131006_baat_se_baat_zs
ایک وزیرِاعظم اور مشیر کا مکالمہ
وزیرِاعظم: کیا کریں ؟
مشیر: فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے سر جی۔ وزیرِاعظم: صبح سے بار بار یہ تین تصویریں الٹ پلٹ کر دیکھ چکا ہوں، سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔ مشیر: کیا سمجھ میں نہیں آ رہا سر جی؟ وزیرِ اعظم : یہ دیکھو تصویر نمبر ایک۔ ناک نقشہ تو ٹھیک ہے مگر آنکھیں چھوٹی ہیں۔ابا جی نے کہا تھا کہ چھوٹی آنکھ والے پر ہمیشہ آنکھ رکھنا اور یہ تصویر نمبر دو، اس کا چہرہ بالکل سپاٹ ہے بالکل چینیوں کی طرح۔ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ میرے بارے میں کیا ، کیسے اور کیوں سوچتا ہے ؟ اور یہ رہی تصویر نمبر تین، مسکراتا چہرہ ہے لیکن چہرہ تو ضیا صاحب مرحوم و مغفور کا بھی ہمیشہ مسکراتا ہی رہتا تھا اور پھر انہوں نے مسکراتے مسکراتے ہی بھٹو صاحب کی۔۔۔ مشیر: تو پھر جیسے آپ کا حکم؟ وزیرِاعظم : تیسرے کے بعد چوتھا، پانچواں، چھٹا اور ساتواں بھی تو ہوگا۔ذرا ان کی تصویریں منگواؤ۔ مشیر: سر جی تصویریں ریکارڈ سے نکلوانے میں دیر لگے گی۔ میں آپ کو ویسے ہی ان کا ناک نقشہ سمجھا دیتا ہوں۔ چوتھا دُور کا چشمہ لگاتا ہے۔ وزیرِاعظم: ایک منٹ، دور کا چشمہ تو مشرف بھی لگاتا تھا؟ مشیر: جی سر۔ وزیرِاعظم: تو پھر دفع کرو۔ پانچویں کے بارے میں بتاؤ۔ مشیر: سر پانچواں کلین شیو ہے مگر پڑھتے وقت قریب کا چشمہ لگاتا ہے۔ وزیرِاعظم: یعنی جہانگیر کرامت کی طرح ؟؟؟ مشیر: جی سر۔ وزیرِاعظم: چلو آگے بڑھو ۔ مشیر: سر چھٹے کی دور اور نزدیک کی نظر ٹھیک ہے مگر مونچھیں ہیں۔ وزیرِاعظم: مونچھیں؟ کیسی مونچھیں؟ ضیا الحق مرحوم و مغفور جیسی، کاکڑ جیسی یا ضیا الدین جیسی؟ مشیر: سر کاکڑ صاحب سے ملتی جلتی۔ وزیرِاعظم : آر یو شور کہ ضیا الدین جیسی نہیں ہیں۔ مشیر: نو سر، لیکن آپ چاہیں تو ہم اسے ضیا الدین جیسی کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ وزیرِاعظم: نہیں کوئی فائدہ نہیں۔اندر سے تو وہ پھر بھی چھوٹی مونچھوں والا ہی رہے گا نا ۔۔اور ساتواں؟ مشیر: سر جی ساتویں کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اسے کبھی کسی نے غصے میں نہیں دیکھا۔ہر وقت چہرے پر فلاسفروں جیسی مسکراہٹ رہتی ہے۔ آپ کا ذکر آجائے تو مسکراہٹ اور گہری ہوجاتی ہے۔ وزیرِاعظم : کیا مطلب اس بات کا؟ کیا وہ مجھے پسند کرتا ہے یا بےوقوف سمجھتا ہے۔ مشیر: سر یہی تو پتہ نہیں چلتا ۔ وزیرِاعظم :ہوں۔۔۔تو پھر بتاؤ کیا کریں ؟ مشیر: سر میری مانیں تو سب کے نام برتن میں ڈال کر کسی بچے سے ایک پرچی اٹھوا لیں۔ وزیرِاعظم : لیکن اگر پرچی پر ان ساتوں میں سے کسی کا نام آگیا تو کیا کریں گے؟ مشیر: سوری سر۔۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ وزیرِاعظم : میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ہے۔ ذرا اسے ایکسپلور کرو۔تمہیں یاد ہے کہ دو سال پہلے تین ریٹائرڈ افسروں پر جب کرپشن کا الزام لگا تھا تو ان کی ریٹائرمنٹ ختم کر کے انہیں حاضر سروس کر لیا گیا تھا تاکہ اندر خانے ہی ان کا کورٹ مارشل کیا جا سکے؟ مشیر: جی سر ایسا ہوا تو تھا۔ وزیرِاعظم : تو پھر کیوں نہ ہم کسی ریٹائرڈ افسر کو دوبارہ حاضر سروس کر کے اس کا نام ایوانِ صدر بھجوا دیں۔ میرے ذہن میں ایک نام ہے۔ ماشااللہ اکیانوے سال کی عمر میں بھی کسی بھی موجودہ حاضر افسر کی طرح چاق و چوبند ہیں۔تمہیں پتہ ہے کہ اس وقت شمالی کوریا کے چیف آف سٹاف بھی ایک پچاسی سالہ جنرل صاحب ہیں۔ چلی کے جنرل پنوشے بھی اسی عمر میں ریٹائر ہوئے اور ویتنام کے جنرل گیاپ کا تو ابھی ایک سو دو سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔یہ سب میں نے وکی پیڈیا پر پڑھا تھا۔کیسا آئیڈیا ہے؟ مشیر: سر آپ کا آئیڈیا سن کر میرے ذہن میں بھی ایک آئیڈیا آگیا۔ وزیرِ اعظم : واقعی؟ جلدی سے بتاؤ۔ تم میرے پہلے مشیر ہو جس کے ذہن میں کوئی آئیڈیا آیا ہے۔ مشیر: سر اگر ہم آرمی کا نام نیوی اور نیوی کا نام آرمی رکھ دیں تو مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ وزیرِاعظم : لیکن اس سے آرمی والے ناراض ہو سکتے ہیں۔ میں دوسری دفعہ ان کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا۔ مشیر: تو پھر سر ان تین تصویروں میں سے ہی ایک چن لیں۔ وزیرِاعظم : در فٹے منہ۔۔۔ تم کدو کے مشیر ہو؟ مشیر : سر ۔۔۔
030924_chat_addicts
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2003/09/030924_chat_addicts
چیٹ بِنا چین کہاں؟
میں نے پوچھا نام کیا ہے۔
اس نے کہا:’لیڈی ڈریکولا اِن لو_2002‘ میں: لیکن یہ تو تمہار آئی ڈی ہے؟ اس نے: بس آئی ڈی ہی ہے میری۔ میں نے کہا یہاں کیوں ہو؟ اس نے کہا بس ایسے ہی وقت گزارنے کے لئے ’جسٹ فار فن یو نو‘۔ میں: نہیں پھر بھی کوئی خاص وجہ تو ہوگی، جیسے میں اس وقت تین چیٹ رومز میں بیک وقت موجود ہوں، جہاں کوئی’دلچسپ‘ بات چیت شروع ہو جائے وہیں رہوں گا ؟ جہاں کوئی مل گیا، ہاں لیکن میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے: میں بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ میں: تو پھر بتاؤ بتاؤں؟ سچی؟ ہاں، ہاں! لیڈی ڈریکولا: میرے منگیتر نے مجھے آج صبح ای میل کے ذریعے چھوڑ دینے کا فیصلہ سنایا۔ اس نےکہا اسکا بوائےفرینڈ واپس آگیا ہے، دو برس بعد ایک چیٹ روم میں ملاقات ہوگئی۔۔۔، اب میں پھر سے سِنگل ہوں، سوچا یہاں شاید کوئی ڈیٹ مل جائے، ’جسٹ ٹو کِل دی پین، یو نو‘۔ میں: میں سمجھ سکتا ہوں، بڑی تکلیف دہ بات ہے، کوئی اس طرح ای میل پر ساتھ چھوڑ دے تو ۔۔۔ (میرے ذہن میں کچھ اور بھی تھا۔) تاہم اس صورت حال میں بھی فوری پیغام رسانی کے کئی فوائد ہیں۔ مثلاً، اگر تمہارا منگیتر تمہارے منہہ پر کہہ دیتا کہ وہ رشتہ توڑ رہا ہے تو شاید تمہیں کہیں زیادہ ٹھیس لگتی، یو نو۔۔۔ یا پھر اگر تمہاری ملاقات اس سے کرواتا کہ جو تمہاری جگہ لے رہا ہے۔ لیڈی ڈریکولا: ارے نہیں نہیں، کوئی ٹھیس ویس نہیں، نہ ایسے اور نہ ویسے، بس تھوڑی سی حیرت، ’اِٹس کُول، سب چلتا ہے یہاں۔‘ میں: یہاں کہاں؟ اس نے:یہاں دنیا میں انٹرنیٹ پر۔ تم نے جو تصویر اپنے پروفائل پر رکھی ہے وہ کسی ماڈل کی ہے جبکہ تم خود زیادہ ’سیکسی‘ نہیں ہو، شاید بد صورت بھی۔۔ میں اس نے کہا: تمہیں کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے۔ بہر حال، خیال تو ٹھیک ہے لیکن اتنی جلد میں ’ریئل ٹائم‘ نہیں ہو سکتی، اور پھر۔۔۔ میں: اور پھر؟ اس نے: اگر میں کہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو میں اس وقت ہوں، یا پھر جو میں نے اب تک بتایا ہے وہ بس ایسے ہی ٹائم پاس ہے۔۔۔ اس نے کہا: او ریئلی۔۔۔؟ میں: جی۔۔۔ ساتھ میں ایک سمائلی (: لیڈی ڈریکولا: تم اس طرح کی بول چال سے اپنے آپ کو آزاد خیال اور دلیر ثابت کر نا چاہتے ہو؟ میں: اور تم اس طرح کے سوالات اٹھا کر ایک عام سی گفتگو کو ’ایپِک‘ بنانے کی کوشش کررہی ہو؟ لیڈی: جی نہیں، آپ کچھ زیادہ پر امید ہو رہے، ایسا بالکل نہیں۔ میں نے: میں بھی کچھ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہا، میں بھی یہاں تفریح کے لئے آتا ہوں، ’ٹائم پاس، یو نو۔‘ اس نے: بہر حال، میں نہیں سمجھتی یہاں سب کچھ جاننا ممکن ہے، اور نہ ہی ضروری، اس وقت میں ایک آئی ڈی ہوں اور تم بھی، اگر ہماری گفتگو دلچسپ ثابت ہوتی ہے تو ہم اس ملاقات کو ریئل ٹائم میں ’ایکسٹینڈ‘ کر سکتے ہیں۔ اور اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں، سب کرتے ہیں۔ میں نے: بالکل صحیح، لیکن تمہار اصل نام؟ اس نے کہا: اگر میں یہ کہوں کہ میرا اصل نام لیزا ہے یا مریم ہے، کیا تم میرے بارے میں کسی نئے زاویے سے سوچوگے؟ لیڈی: واقعی؟ میرا تو خیال ہے کہ تمہیں میری جِنس سے مطلب ہے، اگر میں یقین دلادوں کہ میں واقعی ایک حسین اور سیکسی عورت ہوں اور آج شام کو کراس روڈز کلب میں ملوں گی تو تم یہ نام اور آئی ڈی کی بحث کو ری سائکل بِن میں پھینک دوگے، اور رہا سوال چہرہ آنکھوں کےسامنے آنے کا، تو تم نے پروفائل پر میری اصلی۔نقلی تصویر تو دیکھ ہی لی ہے۔ میں: اُف! شاید تم درست کہہ رہی ہو، لیکن تمہارا نام؟ اچھا یہ تو بتا دو کہ تم ہوکہاں سے؟کرتی کیا ہو؟ کچھ تو۔۔۔ لیڈی: اُف! میں بنگلور سے ہوں، اکیلی رہتی ہوں، گھر میں ایک بِلی اور دو کمپیوٹر ہیں۔ میں ایک آئی ٹی فرم میں منیجر ہوں۔ واؤ!، میرا چھوٹا بھائی بھی بنگلور میں رہتا ہے، وہ ایک ای۔کامرس کمپنی میں ملازم ہے۔ وہ: کیا نام ہے تمہارے بھائی کا؟ میں: اوہ نو۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
pakistan-43473618
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43473618
خادم حسین رضوی: تحریک لبیک پاکستان کے بانی کون تھے؟
خادم حسین رضوی کا آغاز
مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ پھر نومبر 2017 میں انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر دھرنا دیا۔ تین برس بعد نومبر 2020 میں ایک مرتبہ پھر ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسی مقام پر دھرنا دیا تھا جو حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا۔ لاہور کی ایک مسجد کے خطیب نے اصل شہرت نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ایک طویل لیکن بظاہر کامیاب دھرنا دے کر حاصل کی تھی۔ اس سے قبل وہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے معاملے میں بھی کافی سرگرم رہے تھے اور وہیں سے انھوں نے اپنی دینی سرگرمیوں کو سیاست کا رنگ دیا۔ بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی کو ممتاز قادری کے حق میں کھل کر بولنے کی وجہ سے پنجاب کے محکمۂ اوقاف سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے ستمبر 2017 میں تحریک کی بنیاد رکھی اور اسی برس ستمبر میں این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سات ہزار ووٹ حاصل کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ بھی پڑھیں! مذاکرات کی رات تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاملات کیسے طے پائے؟ فیض آباد دھرنا: فوج کو اختیارات سے تجاوز کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟ مبصرین کے مطابق ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد سے بریلوی طبقے کے قدامت پسندوں نے زیادہ متحرک سیاسی کردار اپنایا۔ لیکن پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ اور بریلوی دیوبندی اختلاف سال 2012 کے بعد سے دیکھا گیا۔ خادم حسین رضوی کو سنہ 2017 کے احتجاجی دھرنے میں سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔ انھیں کس کی حمایت حاصل تھی؟ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں فیض آباد دھرنے سے متعلق تاثر تھا کہ اس دوران احتجاج کرنے والوں کو کسی نہ کسی صورت پاکستان فوج کی حمایت حاصل تھی۔ اس بابت احتجاج کے اختتام پر رینجرز کی جانب سے مظاہرین میں رقوم کی تقسیم کو اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ تاہم مبصرین کے خیال میں انھیں کسی کی پشت پناہی حاصل رہی ہو یا نہ ہو وہ معاشرے کے ایک خاص قدامت پسند طبقے میں اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ ماضی میں ان کی تقریروں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کی تحریک کے دیگر سینئر رہنما جس قسم کی زبان فوج اور عدلیہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ انھیں اپنی طاقت پر حد سے زیادہ اعتماد ہوگیا ہے۔ ویل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود خادم حسین رضوی پاکستان میں توہین رسالت کے متنازع قانون کے ایک بڑے حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ وہ اس قانون کے غلط استعمال کے الزام سے بھی متفق نہیں۔ ان کا انداز بیان کافی سخت ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کا حل بظاہر انھوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے نکالا ہے۔ ناصرف اردو اور انگریزی میں ان کی ویب سائٹس بنائی گئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کئی اکاؤنٹ بنے۔ وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا ’چوکیدار‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ خادم حسین رضوی کہاں سے تھے؟ تحریک کے ایک ترجمان اعجاز اشرفی نے نے ماضی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ ’شیخ الحدیث‘ بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے دو بیٹے بھی مختلف احتجاج میں شریک رہے ہیں۔ خادم حسین ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے تھے۔ وہ 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان پر مختلف نوعیت کے کئی مقدمات بھی درج تھے۔ اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ان مقدمات کی تعداد کتنی ہے انھیں یاد نہیں۔ جنوری 2017 میں بھی توہین مذہب کے قانون کے حق میں انھوں نے لاہور میں ایک ریلی نکالی تھی جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا اور انھیں آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انھیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کو آگاہ رکھنا ہوتا تھا۔ آئی ایس آئی کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’خادم حسین رضوی اپنے سے اونچے عہدے والوں کے سامنے مغرور اور ماتحتوں کے ساتھ بدتمیز ہیں‘۔ تحریک لبیک کے مالی وسائل کیا ہیں؟ خادم حسین رضوی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے وسائل کہاں سے ملتے تھے یہ واضح نہیں لیکن اسلام آباد دھرنے کے دوران انھوں نے اعلان کیا تھا کہ نامعلوم افراد لاکھوں روپے ان کو دے کر جاتے ہیں۔ ماضی میں احتجاج کے دوران ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ واٹس ایپ پر ایک فون نمبر کے ساتھ ایک پیغام گردش کر رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر احتجاج کے دوران کسی کارکن کو کوئی سہولت مثلاً موبائل بیلنس، پیسے یا کھانا درکار ہو تو اُس نمبر پر پیغام بھیجے۔ اس سے بظاہر لگتا ہے کہ اندرون و بیرون ملک دونوں جانب سے انھیں فنڈ ملتے تھے۔ خادم حسین رضوی کو آج بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا ہے خادم رضوی کا انداز بیان خادم حسین رضوی کی کڑی تنقید کا نشانہ محض صاحب اقتدار ہی نہیں بلکہ مرحوم عبدالستار ایدھی جیسی شخصیت بھی رہی ہیں۔ وہ اپنے اجتماع میں آئے ہوئے صحافیوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی بڑے سخت انداز میں مخاطب کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ ایسے دعوے بھی کرتے تھے جنھیں عملی جامعہ پہنانا شاید ناممکن ہو۔ ایسا ہی ایک بیان انھوں نے کراچی میں دیا تھا کہ ’اگر ان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو وہ ہالینڈ کو کارٹون بنانے کا مقابلہ منعقد کرنے سے پہلے ہی پوری طرح سے برباد کردیتے۔‘ حالیہ دنوں میں بھی ان کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ایٹم بم کو نکال کر استعمال کرو۔
060810_nida_fazli
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060810_nida_fazli
’اینڈ دیٹ از دی ہول لائف۔۔۔‘
میرا ایک شعر ہے
ایک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیاکوئی جلدی میں کوئي دیر سے جانے والا زندگی کی طرح موت بھی ایک حقیقت ہے۔ مہاتما بدھ سے ایک مرتبہ ایک ایسی ماں ملنے آئی جسکا بیٹا مر چکا تھا۔ اس نے مہاتما سے اپنے بیٹے کو زندہ کرنے کی درخواست کی ۔ بدھ نے کہا ’مائی یہ ناممکن چیز اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب تو کسی ایسے گھر سے آگ لائے گی جہاں کبھی موت نہ ہوئی ہو‘۔ جگر مرادآبادی نے اس حقیقت کو دوسری شکل میں تسلیم کیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع ہے بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہےضروراس میں کمی کوئی پائی جاتی ہے ہر انسان اس وقت تک اپنے ماضی کو جیتا ہے جب تک وہ خود ماضی نہ بن جائے۔ ماں کی گود سے قبر اور شمشان کی آگ تک کے چھوٹے سے سفر میں انسان کی یادوں سے بہت کچھ گزرتا ہے۔ لیکن ان تمام یادوں میں سے وہی یاد رہ پاتا ہے جو ان سب میں قدرے مختلف ہوتا ہے۔ فلم ہدایت کار اور اداکار راج کپور میری ایسی ہی یادوں میں سے ایک ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات بمبئی کے کھار علاقے میں واقع میرے فلیٹ میں ٹیلیفون کے ذریعے ہوئی تھی۔ اس فون کال کی ایک چھوٹی سی داستان ہے۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں لوکل ٹرین سے چرچ گیٹ میں ادیبوں کے ایک جلسے میں شرکت کرنے جا رہا تھا۔ ٹرین کے اس ڈبے میں دو ایک مزيد فلمی دنیا کے لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے ’احمد فراز‘ ميں کافی دلچسپی دکھائی کیونکہ انہیں شاعری میں تھوڑی بہت دلچسپی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ’احمد فراز‘ نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا دیئے۔ وہ شخص ممبئی سینٹرل کے سٹیشن پر اتر گیا۔ ان دنوں ممبئی سینٹرل کے قریب تاڑدیو میں کئی فلمی دفتر ہوا کرتے تھے۔ لیکن روانگی سے قبل وہ شخص کافی احترام کے ساتھ میرے بنائے ہوئے ’فراز‘ سے مل کر گیا تھا۔ اپنے پسندیدہ شاعر سے ملنے کی خوشی کی خبر وہ کسی نئی خبر کی طرح جگہ جگہ پھیلاتا رہا۔ ایک منہ سے دوسرے منہ، دوسرے سے تیسرے منہ سے گزرتی ہوئی یہ خبر چیمبور میں واقع راجکپور کے سٹوڈیو تک پہنچی اور وہاں سے اس سٹوڈیو کے کاٹج میں پہنچ گئی جہاں راج صاحب آرام بھی کرتے تھے اور کام بھی کرتے تھے۔ ان سے ملنے جو بھی آتا تھا وہ اسی کاٹج میں آتا تھا۔ اسی کاٹج کے نزدیک ایک باورچی خانہ تھا جہاں سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کھانے پینے کی چیزيں آتی رہتی تھيں۔ یہ بات دوسرے دن کی ہے کھار میں میں اپنے گھرپر تنہائی میں کسی کتاب سے دل بہلا رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت کوئی ڈھائی بجے ہوں گا۔ میرے ’ہلو‘ کہنے کے ساتھ ہی کئی فلموں میں سنی ایک آواز میرے کانوں ميں گونجی۔ یہ آواز بڑی تہذیب سے بات کر رہی تھی۔ کیا میں ندا فاضلی صاحب سے بات کر سکتا ہوں؟ میں بول رہا ہوں ۔ کون بول رہا ہے ؟ میں نے جواب دیا۔ جی خاک سار کا نام راج کپور ہے۔ دوسری طرف سے کہا گیا۔ میں نے جب انہیں اس خبر کی اصلیت سے بتائی تو بڑی دیر تک ٹیلیفون کا رسیور انکے قہقہوں سے گونجتا رہا۔ قہقہوں کے بعد ان کے الفاظ تھے، ندا صاحب میں تو آپ کو سنجیدہ شاعر سمجھتا تھا لیکن آپ تو ’کامیڈی‘ میں بھی ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اس خوبی کو ضرور استعمال کروں گا اور جب انہوں نے اپنے بینر پر ’بیوی او بیوی‘ کا اعلان کیا تو اپنے وعدے کو نبھایا بھی۔ اسی فلم کے سلسلے میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو ٹیلیفون پر سنی ہوئی آواز چہرہ اور جسم بن چکی تھی۔ یہ چہرا اور جسم اس راج کپور سے بالکل مختلف تھا جو ’آوارہ‘، ’سنگم‘، ’میرا نام جوکر‘ اور ’جاگتے رہو‘ جیسی فلموں میں اداکار کے طور پر نظر آیا تھا کیونکہ بھرے ہوئے چہرے اور بھاری جسم کے سبب وہ راج کپور کم اور پرتھوی راج کپور زيادہ نظر آ رہے تھے۔ فلم ’بیوی او بیوی‘ میں سنجیو کپور اور رندھیر کپور نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آر ڈی برمن فلم کے موسیقار تھے۔ اس فلم کے پہلے نغمے کی ریکارڈنگ تھی۔ گیت میں لکھ چکا تھا اور موسیقی بھی تیار تھی اور آر ڈی برمن کے میوزک روم میں آخری ریہرسل پوری تیاری میں تھی۔ فلم کے ہدایت کار رویل اور رندھیر کپور بیٹھے تھے۔ گیت کی دھن اور بول سب پسند کرچکے تھے۔ پنچم کا میوزک روم ان دنوں سانتاکروز کی دوسری منزل پر تھا۔ ساز کھنکھنا رہے تھے۔ پنچم گیت گا رہے تھے۔ رندھیر تعریف میں سر ہلا رہے تھے کہ اچانک لفٹ کھلنے کی آواز آئی۔ سب نے دیکھا ایک ہاتھ میں بھیل پوری تھامے راج صاحب آرہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ، جہاں میں بیٹھا تھا، اسکے سامنے بیٹھ گئے ۔ ریہرسل پھر شروع ہوگئی۔ راج صاحب کی آنکھوں اور گردن کے اشارے سے لگتا تھا کہ انہیں موسیقی پسند ہے۔ سازوں کی آواز بند ہونے کے بعد انہوں نے کہا بھی ’گیت بہت اچھا ہے، دھُن بھی خوب ہے۔ پھر مجھے اپنے پاس بلاکر پوچھا، آپکو گانے کی ’سچویشن‘ کس نے سمجھائی تھی۔ میں نے رندھیر کپور کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے سر ہلایا اور کہا اگر کل آپ کو فرصت ہو تو چیمبر میں ہماری کٹیا میں آکر ہم سے سچویشن سن لیجیۓ۔ پنچم سمجھ چکے تھے کہ کل گیت رکارڈ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مجھے اکیلے میں بتایا کہ اگر تم کل راج صاحب کے کاٹج جاکر ان سے گیت کا موضوع سن کر وہیں اسی دھن پر گیت لکھ دو گے تو ریکارڈنگ ہوگی نہیں تو نہیں ہوگی۔ انگریزی کے ان جملوں کے بعد بولے ’جی بس اسی خیال کو ہی نغمہ بنانا ہے‘۔ دھن میرے ذہن میں تھی۔ دماغ بھی تھوڑا کام کررہا تھا۔ میں نے فورا انہیں مکھڑا بنا کر سنایا۔ : صدیوں سے دنیا میں یہی تو قصہ ہےایک ہی تو لڑکا ہے اور ایک ہی تو لڑکی ہےجب بھی یہ مل گئے پیار ہوگیا بول انہیں پسند آئے اور اسے آر ڈی برمن نے ریکارڈ کیا۔ راج کپور اب نہیں ہیں۔ لیکن وہ یادوں کی شکل میں میری طرح آج بھی کئی ذہنوں میں زندہ ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات چیمبور میں انہی کے بنگلے میں ہوئی تھی۔ وہ اس وقت تک شوگر کے مریض ہو چکے تھے۔ ان کی بیوی کرشنا جی ان کی شراب پر کنٹرول لگانے کے لیئے ان پر پہرا دیتی رہتی تھیں لیکن جیسے ہی وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی وہ ایک پیگ چڑھا لیتے۔ ’نشہ نشے کے لیئے ہے عذاب میں شاملکسی کی یاد کو کیجے شراب میں شامل
031104_poemmustafashahab_ua
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2003/11/031104_poemmustafashahab_ua
کون آیا تھا!
کون آیا تھا!
نہ جانے کون آیا تھا ہتھیلی کے نشان جس کے کچن کے میلے شیشوں پر نمایاں تھے نہ جانے کون تھا وہ جو پرانی کھڑکیوں پر زور بازو آزماتا تھا اور اس پہ گھر کا دروازہ نہ کھلتا تھا ’پرانے گھر بہت مضبوط ہوتے ہیں بڑی مشکل سے کھلتے ہیں‘ کوئی پندرہ برس سے گھر کے دروازے سے ٹوٹے گیٹ تک میرے ہی قدموں کے نشاں بنتے رہے مٹتے رہے کوئی نہیں آیا مگر رامن کی سبزی کی دکان سے باسی ترکاری سمیٹے جو وہ مجھ کو مفت دیتا ہے میں گھر لوٹا تو دروازے کے باہر گیلی مٹی پر نشاں اک اجنبی جوتے کے چسپاں تھے اگر وہ چور تھا تو میرے گھر سے اس کو کیا ملتا میں پینشن یافتہ بوڑھا نہ میرے پاس مال و زر نہ کوئی بے بہا پتھر نہ کپڑا ہے نہ لتّا ہے فقط اک سوٹ کالا ہے بلاوا آئے تو اس کو پہن کر سوگ کی محفل میں جاتا ہوں جہاں سب دوست رشتے دار مل کر وائین اور سکاچ پر مرحوم کے اچھے برے کو یاد کرتے ہیں مگر اب چند برسوں سے وہ میرا سوٹ بیچارہ یونہی لٹکا ہوا ہے وہ بھی شاید سوچتا ہوگا کہ پہلے کی طرح اب لوگ کیوں نہیں مرتے بلاوا کیوں نہیں آتا جو میرے پاس سب سے قیمتی شے ہے وہ ایک ٹی وی پرانا ہے جو ٹینا ’میری بیوی‘ کی نشانی ہے جسے رخصت ہوئے شاید کوئی سولہ برس گزرے مگر اب تک مجھے لگتا ہے جیسے بس ابھی ٹینا کچن سے چائے کی دو پیالیاں لے آئے گی اور مل کے ٹی وی کے مقابل ہم یوں ہی بیٹھے رہیں گے منہمک ۔۔۔۔۔ خاموش ۔۔۔۔۔ اثاثے میں میری پینشن کی بک ہے جو میں ہر منگل کو جاکر ڈاک گھر میں پیش کرتا ہوں وہاں کی کیشئر لڑکی، لگاوٹ سے میری پینشن مجھے دینے سے پہلے ایسے کھل کر مسکراتی ہے کہ میں پینشن سے بڑھ کر اس کی دلکش مسکراہٹ کیش کرتا ہوں اچانک میں محلے کے قصائی کی دکان میں خود کو پاتا ہوں قصائی دیکھ کر مجھ کو ہمیشہ پوچھتا ہے ’پھر وہی آرڈر‘؟ میری ہاں پر وہ اک چھوٹا سا ٹکڑا بیف کا مجھکو دکھا کر پیک کرتا ہے اسے معلوم ہوگا میں کبھی اس سے زیادہ اپنی پینشن میں تصرف کر نہیں سکتا مہینے سال میں چھ اونس کا سٹیک مانگو تو بڑی حیرت سے کہتا ہے ’تمھاری آج پیدائش کا دن ہوگا‘ منگل کے دن، اسُی منگل کے دن بازار میں اک شخص ملتا ہے نہ میرا دوست ہے اس سے نہ میرا کوئی رشتہ ہے پرانی ہیٹ کو سر سے اٹھاکر سر جھکاتا ہے وہ پھر موسم کی سختی کی شکایت کرنے لگتا ہے میں ہاں میں ہاں ملاتا ہوں وہ کہتا ہے گرانی بڑھتی جاتی ہے میں ہاں میں ہاں ملاتا ہوں وہ کہتا ہے حکومت کچھ نہیں کرتی میں ہاں میں ہاں ملاتا ہوں وہ کہتا ہے میں بجلی گیس کا بل دے نہیں سکتا میرے لب بند رہتے ہیں وہ کہتا ہے میری دو بیٹیاں ہیں، چار بیٹے ہیں وہ سارے مجھ کو بے حد چاہتے ہیں جان چھڑکتے ہیں مگر سب دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں بڑے سے گھر ہیں ان کے اپنے بزنس ہیں میں ایسے مسکراتا ہوں کہ جیسے اس کا کنبہ میرا کنبہ ہو میں اپنی کچھ نہیں کہتا کہ میرے پاس اس کے بولنے کے بعد باقی کچھ نہیں رہتا میں اک چھوٹی سی دنیا میں پلٹ کر پھر اکیلا لوٹ آتا ہوں مگر اس بار جانے کون آیا تھا میری اس خالی دنیا میں نہ جانے کون آیا تھا شاعر: مصطفٰی شہاب، لندن
130723_book_review_rh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130723_book_review_rh
پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ہم لوگ
نام کتاب: ہم لوگ
مصنف: فہمیدہ ریاض صفحات: 333 قیمت: 895 روپے ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ پی او بکس 8214، کراچی۔ 74900 فہمیدہ ریاض کے نام کے ساتھ ہی پہلا تصور ایک شاعرہ کا ہی آتا ہے۔ لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نثر نگار بڑی ہیں یا شاعرہ، مترجم کے طور پر ان کام زیادہ ہے یا ایک ایکٹیوسٹ کے طور پر۔ انھوں نے جلاوطنی بھی کاٹی ہے اور سرکاری ملازمتیں بھی کی ہیں۔ انھیں ایک آزاد دانشور لکھتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی بلاشبہ وہ پاکستان میں گنتی کی ان ادبی شخصیتوں میں ہیں جو ’جو فرسودگی اور اس کے نتیجے میں سچی جاندار چیزوں کی موت کے خلاف لڑنے کے تمام ساز و سامان سے آراستہ ہیں‘۔ انھوں نے ایڈورڈ سعید کی اس شرط کو تو پورا کیا ہے کہ ’دانش وروں کا کام ہلچل پیدا کرنا، سوالات اٹھانا اور وہ باتیں کرنا ہے جو کوئی اور نہیں کہے گا۔ ان میں جرات ہونی چاہیے کہ تسلیم شدہ اور جانی بوجھی باتوں سے آگے جائیں‘۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایڈورڈ سعید یہ بھی کہتے ہیں: دانشورانہ جہت رکھنے والے کسی بھی ادیب یا آرٹسٹ کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ وہ طاقت اور اقتدار کے مراکز سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ سیاسی مراتب اور مناصب کا طلب گار نہ ہو۔ اس طرح کے مناصب شعور کی آزادی کے حریف ہوتے ہیں۔ ایڈورڈ سعید اس سے آگے آنتونیو گرامچی کے حوالے سے کہتے ہیں: ہر دانشور معاشرے میں اپنی دانش کا رول نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تاوقتیکہ وہ سوال پوچھنے پر قادر نہ ہو، مسلمات سے انکار کا حوصلہ نہ رکھتا ہو، اپنی دنیا میں ایک بیگانے، ایک outsider کی زندگی گزارنے، اپنے ضمیر کو ہر طرح کے خوف، مصلحت اور ترغیب سے محفوظ رکھنے کا عادی نہ ہو‘۔ لیکن میں یہ سب کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ سوال تو فہمیدہ ریاض خود اپنے آپ سے بھی کرتی ہوں گی۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ حکومتی منصب اور اعزامات حاصل کرنے والے دوسرے لوگوں کو ہی غلط سمجھتی ہوں۔ لیکن یہ ایک ضمنی بات ہے۔ کچھ سال پہلے مجھے فہمیدہ ریاض سے ایک انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوے بتایا تھا: ’ہم لوگ‘ میں یہی تینوں کہانیاں ہیں۔ کس بارے میں ہیں وہ تو انھوں نے خود ہی آپ کو بتا دیا ہے۔ یہ کہانیاں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلوں میں بھی شائع ہو چکی ہیں اور شاید کتابی شکل میں بھی۔ ان انھیں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ اس ایڈیشن پر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا لکھا ہوا ایک تعارف بھی ہے۔ اگرچہ خود ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا اپنا تعارف نہیں ہے۔ ان تین تحریروں کو انھوں نے بھی کہانی کہا ہے۔ اگرچہ اصطلاحی معنوں میں اصناف کو الگ کرنے والے انھیں کہانیوں کی بجائے کچھ سفر نامہ، کچھ یادداشتوں اور کچھ مشاہدات کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن فہمیدہ کے تخلیقی قوت اظہار نے انہیں یقینی طور سفرناموں، یادداشتوں اور مشاہدات کے عمومی بیانیوں سے الگ کر دیا ہے۔ رضا کاظمی کا کہنا ہے: وہ اس سلسلے میں خود فہمیدہ ریاض ہی کے الفاظ کو دہراتے ہیں: اسی لیے کتاب کا عنوان خود فہمیدہ ریاض نے ’ہم لوگ‘ تجویز کیا۔ عام طریقہ تو یہ ہے کہ قارئین کو کہانیوں کے خلاصے یا ٹکڑے پیش کیے جائیں لیکن بہت اچھی لکھی اور چھپی ہوئی اس ذرا سی مہنگی کتاب کو پڑھنے کے لیے اتنا ہی جاننا بھی کافی ہے کہ یہ فہمیدہ ریاض کی کتاب ہے۔
060731_bollywood_diary_si
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/07/060731_bollywood_diary_si
سلو کا کیف اور رانی کے چرچے
سلو کا کیف
یہ خوشخبری اس وقت فلم انڈسٹری میں تیزی کے ساتھ گشت کر رہی ہے کہ سلمان خان قطرینہ کیف سے شادی کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ لیکن پیار کی یہ ڈگر اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ سلو بھیا کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ قطرینہ حالانکہ سلو بھیا سے بے انتہا پیار کرتی ہیں، گھر کی ہر پارٹی میں وہ میزبان کی طرح مہمانوں کا خیال رکھتی ہیں۔ لیکن قطرینہ کے ایک ’قریبی دوست‘ نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے کریئر پر دھیان دیں کیونکہ ان کا کریئر ابھی شروع ہوا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ قطرینہ کریئر پر دھیان دینے میں دلچسپی رکھتی ہیں یا سلو بھیا کی محبت انہیں شادی کے منڈپ تک پہنچاتی ہے۔ تب تک آپ اور ہم دعا کرتے ہیں۔ لگے رہو منا بھائی کچھ کردار اداکار کی پہچان بن جاتے ہیں۔ دفتر کی چھٹی کا روز اور نریمان پوائنٹ پر ہزارہا لوگوں کا ہجوم بڑی حیرت کی بات تھی پتہ چلا منا بھائی ایم بی بی ایس کا سیکوئیل ’لگے رہو منا بھائی‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ سنجے دت اور ارشد وارثی پر سین فلمایا جا رہا تھا وہ ایک پرانے سے اسکوٹر پر بیٹھے تھے۔ ہجوم چلانے لگا منا بھائی، سرکٹ۔اور منا بھائی نے ناراض ہونے کے بجائے لوگوں کو آٹو گراف بھی دیئے۔ ابھیشیک اور کرینہ کپور ا کھئی کے پان بنارس والا فلم ڈان کے ری میک میں اب شاہ رخ خان نے وہی گیت ’ کھئی کے پان بنارس والا‘ کا کچھ حصہ گایا ہے جو کبھی امیتابھ بچن نے گایا تھا۔ ناظرین کے دل دماغ پر ابھی تک امیتابھ بچن چھائے ہوئے ہیں پتہ نہیں شہنشاہ اور کنگ خان کے درمیان کا یہ مقابلہ کون جیتے گا۔ فرحان اختر کی یہ فلم جلد ہی نمائش کے لئے پیش ہو گی اور پھر آپ ہم ہی اس بات کا فیصلہ کر سکیں گے تب تک انتظار کیجئے۔ رانی کے چرچے رانی مکھرجی کی اداکاری کے چرچے تو فلم بلیک سے ہوئے اور وہ اداکاری کی بلندیوں پر پہنچ گئیں لیکن حال ہی میں اداکارہ اور ٹی وی میزبان سیمی گریوال نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ ہیروئینوں میں رانی مکھرجی ان کی پسندیدہ ہیروئین ہیں۔ واہ بھئی رانی آج کل بہت چرچے ہیں۔ کچھ شہرت اچھی لگتی ہے اور کچھ بری کیونکہ فلم انڈسٹری میں آج کل ایک خبر بہت تیزی سے گشت کر رہی ہے کہ رانی اور ایک بہت مشہور فلم پروڈکشن کمپنی کے شادی شدہ فلمساز کے ساتھ رانی کی گہری دوستی ہے۔ اب سچائی کھل کر سامنے آجائے تو بہتر ہے ورنہ آپ تو جانتے ہیں گپ شپ اور چٹپٹی باتیں کبھی کتنی خطرناک ہو جاتی ہیں۔ کجرارے کے بعد اب جھوم برابر جھوم جانی میرا نام فلموں کی ری میک کا زمانہ ہے اور اسی لئے سنا ہے کہ سنیل شیٹی بھی دیو آنند کی فلم ’جانی میرا نام‘ بنا رہے ہیں ۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ دیو آنند کے کردار کے لئے وہ ابھیشک بچن کو لینا چاہتے ہیں۔ سنیل ۔۔۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایبی دیو انکل کی طرح ہلنے کی ادا سیکھ لیں گے؟ سشمیتا سین کی سوانح حیات سشمیتا سین آج کل اپنی سوانح حیات ’بٹر فلائی‘ لکھنے میں مصروف ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اسے پڑھ کر لوگ چونک جائیں گے۔ سش بے بی چونکنا تو لازمی ہے کیونکہ اس میں آپ یقینا اپنی نجی زندگی کی پرتیں کھولیں گی؟ ہم صحیح کہہ رہے ہیں نا! خاموش کمل ہاسن کی خاموش فلم پشپک کے بعد ایک بار پھر بغیر آواز کی فلم ’مائی ڈیڈی اسٹرانگسٹ‘ آرہی ہے۔ فلم تو بنائی ہے بھارت بھوشن کے بیٹے راہول نے لیکن پتہ ہے کہ اس فلم میں ہیرو کے طور پر کس اداکار کی واپسی ہورہی ہے؟ ہم بتاتے ہیں راجندر کمار کے بیٹے ’کمار گورو‘ کی۔ ٹھیک ہی ہے بولتی فلمیں تو نہیں چل سکیں شاید خاموش فلم ہی کوئی کمال دکھا دے۔
040104_saarcdiary_alia_day3
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/01/040104_saarcdiary_alia_day3
سارک ڈائری: پاسپورٹ کی ضرورت
چار جنوری: ایک پاسپورٹ
آج عوامی اجلاس کا آخری دن تھا۔ میں اسلام آباد میں کچھ پاکستانی دوستوں سے ملی۔ بنگلہ دیش کا نام سنتے ہی لوگوں نے کافی دلچسپی دکھائی۔ لیکن گفتگو سے یہ بات ابھر کر آئی کہ پاکستان میں عورتوں پر مردوں کا زیادہ کنٹرول ہے۔ ایک لڑکی نے بتایا: ’ابا کہتے ہیں کہ تم کوئی کام نہیں کرسکتی، ہاں غیرسرکاری اداروں کے لئے وقتا فوقتا کچھ کرلو۔‘ بنگلہ دیش میں لڑکیاں اپنے کام کے بارے میں خود فیصلہ کررہی ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ لیکن جو پاکستانی خواتین کام کررہی ہیں وہ بنگلہ دیشی خواتین کی بہ نسبت زیادہ اسمارٹ ہیں۔ میں آج ٹیکسلا بھی گئی، کار سے صرف تیس۔چالیس منٹ کا راستہ ہے، یہاں گوتم بدھ کی ہزاروں سال پرانی یادداشتیں ہیں، ایک میوزیم بھی ہے۔ عوامی اجلاس میں شرکاء کا خیال تھا کہ یورپی یونین کی طرح سارک علاقے میں لوگوں کو ویزہ کے بغیر سفر اور کام کی اجازت دی جائے۔ ہمارے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ آزادانہ تجارت کے معاہدے سافتا کے ذریعے ہی ڈبلیو ٹی او یعنی عالمی تجارتی تنظیم پر اثرانداز بڑے ممالک کی کمپنیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ بڑی بڑی غیرملکی کمپنیاں ہمارے بازاروں میں اثر انداز ہوجائیں گی۔ سری لنکا سے آئے ہوئے ہمارے ساتھی کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں انسانی وسائل کی کمی نہیں، اگر اس کا مشترکہ طور پر استعمال کیا جائے تو ہم لوگ بھی ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چل سکیں گے۔ پھر دنیا چل کر ہمارے پاس آئےگی۔ شرکاء کا خیال تھا کہ سارک میں چھوٹے ممالک کے مسائل پر بات نہیں ہورہی ہے۔ جیسے بنگلہ دیش میں لوگ فکرمند ہیں کہ اگر ہندوستان اپنی اس تجویز پر عمل شروع کردیتا ہے جس کے تحت گنگا کی پچپن معاون دریاؤں کو جنوبی بھارت کی جانب موڑ دیا جائے گا، تو بنگلہ دیش میں سوکھا پڑ جائے گا۔ لیکن سارک اجلاس میں اس پر کوئی بھی بات نہیں کررہا ہے۔ عوامی اجلاس میں شرکاء کا خیال تھا کہ انڈیا کافی بااثر ہے، کافی بڑا ہے، جو چاہتا ہے کرلیتا ہے۔ ہمیں یورپی یونین کی طرح سارک میں مساوی حیثیت ملنی چاہئے۔ جنوری تین: پاکستانی کباب آج میں راولپنڈی گئی، پہلی بار احساس ہوا کہ اسلام آباد کتنا ڈل ہے۔ راولپنڈی میں زندگی کی رونق ہے، سڑکوں پر عام آدمی ہیں، ہرطرف گہما گہمی ہے، لوگ موٹر سائکل سے جارہے ہیں، سڑکوں پر بسیں، تانگے دکھائی دیے، بازار دیکھا۔ جبکہ اسلام آباد میں صرف بڑی بڑی عمارتیں، خوبصورت کاریں، اور چاروں طرف فوجی موجود ہیں۔ غیرسرکاری اداروں کے ہمارے اجلاس میں آج سارک ممالک کے درمیان ویزہ کی ضرورت ختم کرنے کی افادیت پر بات ہوئی۔ ہمارے ساتھیوں کا خیال تھا کہ سارک حکومتیں اس سمت میں قدم اٹھائیں اور پورٹ آف اِنٹری جیسے ہوائی اڈوں پر پہنچنے پر ان ملکوں کے لوگوں کو ویزہ دینے کی سہولت فراہم کی جائے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ہمارے ساتھی نے بتایا کہ انہیں ویزہ ملنے میں کتنی پریشانیاں ہوئیں جس کی وجہ سے وہ دیر سے پہنچے۔ میں آج پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شریک ہوئی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات پر بات چیت ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ کشمیر کی بنیادی وجہ سے سارک علاقائی تعاون کے عمل میں پیش رفت نہیں ہورہی ہے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں ہم لوگوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا لفظ کشمیر کے حوالے سے استعمال نہ کیا جائے، دہشت گردی کی صرف امریکی تشریح قبول نہیں کی جانی چاہئے۔ ہم نے دہشت گردی پر اضافی معاہدے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ہم نے سارک ممالک سے غیرقانونی چھوٹے ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں چھوٹے ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے عام فرد کو تشدد کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔ ہم نے اسے دہشت گردی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ ہم لوگوں نے سافتا یعنی آزادانہ تجارت کے معاہدے کی حمایت کی لیکن ہم نے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ اس میں خواتین مزدوروں کے لئے خصوصی امداد فراہم کی جائے۔ نیپال، بنگلہ دیش، مالدیپ، انڈیا، پاکستان کے نمائندوں نے سارک ممالک میں مزدوروں کے لئے یکساں حقوق کی افادیت پر زوردیا۔ مالدیپ کے ہمارے ساتھی کا خیال تھا کہ اس سے ان کے یہاں بعض سماجی مسائل کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ نیپال کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ سارک میں ہندوستان اور پاکستان پر توجہ کی وجہ سے ان کے اقتصادی مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا اور انہیں سفارتی اور اقتصادی طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے، صرف اس لئے کہ نیپال ایک چھوٹا ملک ہے۔ ہمارا عوامی اجلاس کل بھی جاری رہے گا۔ آج کے دن ہم نے کافی مسائل پر روشنی ڈالی۔ کھانے پینے کا اچھا انتظام تھا، شام کا کھانا اچھا ملا، بالخصوص پاکستانی کباب جو مجھے بنگلہ دیش میں نہیں ملتا۔ دو جنوری: عوامی ضرورت ہم ڈھاکہ سے چار لوگ سارک سربراہی کانفرنس کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری اداروں کی جانب سے منعقد کی جانیوالی عوامی اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد پہنچے، کُل سولہ گھنٹے لگے کیونکہ براہ راست کوئی پرواز نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے پہلی بات سارک ممالک کے اندر براہ راست پرواز کی ضرورت پر کی۔ ہندوستان، نیپال، سری لنکا اور دیگر سارک ممالک سے غیرسرکاری اداروں کے کارکن اس عوامی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔ سب کا یہی مسئلہ تھا، براہ راست فلائٹ کا نہ ہونا۔ یہ چوتھی پیپلز سمِٹ ہے۔ جو دوجنوری سے چار جنوری تک منعقد ہورہی ہے۔ اس سے قبل تین عوامی اجلاس کولمبو، دہلی، اور اسلام آباد میں ہوئے ہیں۔ پاکستان کا یہ میرا پہلا سفر نہیں ہے، لیکن اسلام آباد پہلی بار آئی ہوں۔ کافی کھلی جگہ ہے، ڈھاکہ میں کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ یہاں آنے کے بعد تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ یکم جنوری کو یہاں ہمارے ساؤتھ ایشیا پارٹنرشِپ کے ساتھیوں نے ہمیں خوش آمدید کیا۔ یکم جنوری کو ہم لوگوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جہاں ہم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہم سارک ممالک کے لوگوں سے مل رہے ہیں جبکہ سارک سربراہی اجلاس میں ان ممالک کے رہنما عوام سے نہیں صرف رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔ مجھے تعجب ہوا کہ کسی بھی صحافی نے اس پریس کانفرنس کے دوران عوامی اجلاس یعنی پیپلز سمِٹ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اسلام آباد کے پبلِک لائبریری آڈوٹیریم میں دو جنوری کو ہمارے سہ روزہ عوامی اجلاس کا افتتاح ہوا۔ نیپال، سری لنکا، ہندوستان، پاکستان کے نمائندوں نے ان ملکوں کے رہنماؤں پر عوام کی ضروریات کو واضح کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انڈیا سے جو کارکن آئے ہوئے ہیں انہوں نے معذرت کی کہ وہ گزشتہ عوامی اجلاس میں وہ شریک نہیں ہوسکے تھے، کیونکہ اسلام آباد میں سارک کا سربراہی اجلاس ہندوستان پاکستان کشیدگی کی وجہ سے نہیں ہو سکا تھا لیکن عوامی اجلاس ہوا تھا۔ اس سال عوامی اجلاس میں غیرسرکاری اداروں کے دو سو سے زائد کارکن شامل ہوئے ہیں۔ صرف بھوٹان سے کوئی نمائندہ نہیں آیا۔ سارک سربراہی اجلاس کی مناسبت سے ہم عوام کے مسائل پر بات کررہے ہیں، ان سبھی ملکوں میں عوام کے مسائل ایک ہی جیسے ہیں۔ اور پہلے روز ہم نے اس بات کی ضرورت پر زوردیا کہ سبھی ملکوں میں ایک عوامی تنظیم قائم کی جائے جو باضابطگی سے عوام کی ضروریات کو ملکی رہنماؤں پر واضح کرے۔ نوٹ: طالیہ رحمان ڈھاکہ میں غیرسرکاری تنظیم ڈیموکریسی واچ کی سربراہ ہیں اور وہ روزانہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لئے ڈائری لکھ رہی ہیں۔ سارک اجلاس کے بارے میں آپ بھی اپنی رائے ہمیں لکھ کر بھیج سکتے ہیں۔
080224_delhi_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/02/080224_delhi_diary_awa
سمجھوتہ کی برسی اور را کی مصیبت
پاکستانی انتخابات کی تاریخی کوریج
گزشتہ ہفتے پاکستان کے پارلیمانی انتخابات تو تاریخی اہمیت کے تھے ہی، ہندوستان میں ان کا کوریج بھی تاریخی نوعیت کا تھا۔ پاکستان کا یہ پہلا ایسا انتخاب تھا جس کی کوریج ہندوستان میں وسیع پیمانے پر ہوئي۔ ہندوستان سے درجنوں ملکی اور غیر ملکی صحافی پاکستان گئے اور وہاں کے بڑے بڑے شہروں اور حلقوں سے انتخابات اور ان سے متعلق خبریں اور تبصرے شائع اور نشر کیے۔ پاکستان کے انتخابات کے بارے میں ہندوستان میں اس بار جتنی دلچسپی دیکھنے کو ملی اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ کم از کم دس ٹی وی چینل پاکستان سے براہ راست خبریں نشر کر رہے تھے۔ انتخابات کی اس گہما گہمی کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کے اقدامات پر بات چيت بھی جاری رہی۔ گزشتہ ہفتہ دونوں ملکوں نے پروازوں کی تعداد میں ڈھائی گنا اضافہ کرنے کے بعد بس سروس بھی بہتر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے جو فیصلے کیے گئے ان میں دلی لاہور بس کو ہفتے میں دو کے بجائے تین بار چلانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ ہر ٹرپ میں رٹرن ٹکٹ کی تعداد بھی بڑھائي گئی ہے۔ ’را ‘ کی مصیبت پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان کی خارجی خفیہ سروس ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی ’را‘ اپنے اہلکاروں پر جاسوسی اور بدعنوانی کے الزامات سے بدنام ہوئی ہے۔ پھر پے در پے کئی کتابوں نےاس خفیہ تنظیم کے طریقہ کار، کارگردگی اور صلاحیت پر سوالیہ نشان لگائے اور ان کے سربراہ کی صلاحیت کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں شکوک ظاہر کیے گئے ہیں۔ بعض اخبارات نے لکھا ہے کہ ان کی صلاحیت کے بارے میں شکوک اتنے بڑھ گئے ہیں کہ مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے را سے خفیہ معلومات کا تبادلہ بند کر دیا ہے۔ لیکن بعض اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مسٹر چترویدی کے خلاف مغربی ایجنسیوں کا پراپیگنڈہ ہے کیونکہ وہ انہیں پسند نہیں کرتے ہیں۔ انتخابی بجٹ 29 فروری کو ملک کا عام بجٹ پیش کیا جانے والا ہے۔ رواں مالی سال میں ٹیکس کلکشن میں نہ صرف زبردست اضافہ ہوا ہے بلکہ براہ راست ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم بالواسطہ ٹکس سے پہلی بار تجاوز کرگئی ہے۔ وزیر خزانہ کا خزانہ توقع سے زيادہ بھرا ہوا ہے۔ آئندہ برس پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہيں اور کئي حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس کی شرح گھٹائی جائے۔ ٹیکس گھٹے گا یا نہيں یہ تو 29 فروری کو ہی پتہ چلے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ انتخابات کے پیش نظر اس بحٹ میں متوسط طبقے، کسانوں اور مزدوروں کے لیے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور ہوگا۔ سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی رہائي نہیں ہندوستان اور پاکستان کی جیلوں میں سینکڑوں ایسے قیدی موجود ہيں جو اپنی سزاؤں کی مدت پوری کرنے کے کئي برس بعد بھی رہائی حاصل نہيں کرسکے ہیں۔ دونوں ہی ملکوں میں حقوق انسانی کی تنظیمیں اور غیر سرکاری تنظیمیں ان افراد کی رہائي کے لیے کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن دونوں ملکوں کے پیچیدہ نظام کے سبب ان میں اکثر کامیابی نہي ملتی۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے ایک شخص نے پاکستان کی جیل میں قید اپنے بھائي گوپال داس کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی۔ گوپال داس مبنیہ طور پر 1984 میں بھٹک کر پاکستانی خطے میں چلے گئے تھے۔ ان پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلا اور انہيں 1986 میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ ان کے بھائي کے مطابق سزا کی مدت 2005 میں پوری ہوگئی لیکن حکومت نے ان کی رہائی کے لیے سفارتی طور پر کوئی کوشش نہيں کی ہے۔ عرضی گزار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ گوپال داس نے میاں والی جیل سے ایک خط لکھا ہے۔ عرضی گزار نے عدالت سے درخواست کی ہےکہ وہ حکومت کو ہدایت کرے کے ان قیدیوں کی رہائی کے لیے سفارتی اقدامات کیے جائیں۔ عدالتِ عظٰمی نے حکومت کو نوٹس بھیجا ہے۔ سمجھوتہ دھماکے کی برسی گزشتہ ہفتے سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے کے ایک برس پورے ہوئے۔ گزشتہ برس اٹھارہ فروری کی رات دلی سے تقریباً سو کلو میٹر دور ہریانہ میں دیوانہ کے مقام پر ٹرین کے دوڈبوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم 68مسافر مارے گئے تھے۔ بہت سی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی تھی اور اس میں سے کم از کم 24 افراد کو مہرانہ کے مقامی قبرستان میں دفنا دیا گيا تھا۔ جہاں کتبوں پر نام کے بجائے نمبر لکھے ہوئے ہيں۔ مہلوکین کے بعض رشتہ دار اس واقعہ کی برسی پر پاکستان سے مہرانہ آئے۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکے کی تفتیش ابتدائی مرحلے پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس کے ذمہ دار کو ن تھے اس کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ تفتیش کی کیا صورت حال ہے اور اس میں کوئی پیش رفت ہورہی یا نہیں یا تفتیش بالکل رکی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
080428_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2008/04/080428_bollywood_diary_awa
امیتابھ اور تنازعہ، پاکستان میں جنت
امیتابھ اور تنازعہ
کیا بات ہے کہ تنازعات کبھی بھی امیتابھ بچن کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔کبھی ان کی بہو ایشوریہ رائے کی پیڑ سے شادی تو کبھی ان کے کاشتکار ہونے کا معاملہ۔ حد تو تب ہوئی جب کچھ دنوں قبل شتروگھن سنہا نے آئیفا ایوارڈ میں فلموں کی نامزدگی پر امیتابھ بچن پر تنقید کی۔ اس کے بعد اچانک ہدایت کار انوراگ باسو نے امیت جی کو فلموں سے ریٹائر ہونے کا مشورہ دے ڈالا۔ اب ان سب کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے امیت جی نے ایک نیا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اپنا بلاگ۔ اب امیت جی اپنے بلاگ میں ان کے بارے میں الٹا سیدھا کہنے والوں کو کرارا جواب دے رہے ہیں۔ویسے امیت جی کا یہ آئیڈیا بہت اچھا ہے۔ سلمان کے دس قدم سلمان بھی ٹی وی کی دنیا میں ہنگامہ کرنے کی پوری تیاری کر رہے ہیں۔اپنے ٹی وی شو کی ریہرسل کے لیے انہیں سیٹ بنا کر دیا گیا۔ لیکن وہ سیٹ گوریگاؤں فلم سٹی میں تھا۔ جو سلو بھیا کے گھر سے بہت دور ہے۔اب سویرے اٹھ کر اتنی دور پہنچنا بہت مشکل تھا۔ سلمان نے اس سیٹ کو اپنے گھر کے پاس واقع محبوب سٹوڈیو میں بنانے کے لیے کہا۔ سلمان کچھ کہیں اور لوگ نہ مانیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بس سیٹ بن گیا اور سلمان روزانہ دس قدم چل کر ’ دس کا قدم‘ کھیلنے جاتے ہیں۔ ٹشن کی ٹشن اب آپ اسے یش راج فلمز کی بدقسمتی سمجھئے یا پھر سیف اور کرینہ کی۔ان دونوں کی جوڑی کا جلوہ چل ہی نہیں سکا۔ہمیں لگتا ہے کرینہ، لوگ آپ کو پردے پر اپنے قریبی دوست کے ساتھ رومانس کرتے دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ آپ کہیں ایسا ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ٹہریے بھئی بتاتے ہیں۔دیکھئے جب شاہد اور کرینہ ساتھ ساتھ تھے۔ان کی کوئی فلم کامیاب ہی نہیں ہوئی۔ لیکن جب ان دونوں کے تعلقات میں درار آئی تو اس وقت فلم ’ جب وی میٹ‘ بن رہی تھی۔یہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ دونوں کے کام کی بھی بہت تعریف ہوئی۔تو پھر۔۔۔۔نہیں ہم کچھ غلط نہیں سوچ رہے بلکہ یہ مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ کرینہ اب سیف کے ساتھ پردے پر نہ ہی نظر آئیں تو کیا پتہ شاید ان کی فلم ہٹ ہو جائے۔ پاکستان میں جنت مہیش اور مکیش بھٹ کی فلم’جنت‘ ایک ساتھ انڈیا اور پاکستان میں نمائش کے لیے پیش ہو رہی ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ فلم کے ہیرو اور اس کے ستارے فلم کی پریمیئر پارٹی میں شرکت کرنے پاکستان جا رہے ہیں۔ فلم کی نمائش دو مئی کو متوقع ہے۔عمران کی اس سے پہلے فلمیں آوارہ پن، گینگسٹر اور دی کلر پاکستان میں نمائش کے لیے پیش ہو چکی ہے۔ دُبلی کَنگنا اتنی دبلی پتلی نازک سی حسینہ کو ہدایت کار موہت سوری نے اپنی فلم ’راز‘ کے سیکوئیل میں مزید تین کلو وزن گھٹانے کا حکم دے دیا۔ ہمیں یقین ہے کہ مزید وزن کم کرنے کے چکر میں کنگنا کہیں ہوا میں ہی نہ گم ہو جائے۔ سنجے راکس کیا آپ جانتے ہیں کہ سنجے دت ایک راک سٹار ہیں۔ یا یہ کہ وہ ایئر گٹار ڈرم ایک مشاق کی طرح بجاتے ہیں؟ نہیں نا۔ لیکن اب آپ انہیں ان کی آنے والی فلم ’وڈسٹاک ولا‘ میں اس روپ میں دیکھیں گے۔ ایک بات بتائیں دراصل انہیں راک سٹار بننے کا شوق تو بہت پہلے سے تھا لیکن گٹار بجانے کی یہ مشق انہوں نے اپنے ذہنی الجھنوں اور ٹینشن کو دور کرنے کے لیے اس وقت کی جب ان پر عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔ رانی کی ناراضگی اسی لیے تو ان کی آنے والی فلم ’ تھوڑا پیار تھوڑا میجک‘ کی تشہیری پارٹی میں وہ غائب تھیں۔انہیں ڈر لگا ہوگا کہ کوئی نہ کوئی یہ سوال پوچھ ہی لے گا کیونکہ یہ فلم بھی تو آدتیہ چوپڑہ کی ہی ہے۔ عائشہ بزنس وویمن عائشہ تاکیہ بھی پریتی زنٹا کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔پریتی نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر آئی پی ایل ٹیم خرید کر ان کے ساتھ ان کے بزنس میں شریک ہوئیں تو اب عائشہ کوئلہ ہوٹل کے مالک اور اپنے دوست فرحان اعظمی کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں بارہ سے زیادہ ’ بوتیک ہوٹل‘ شروع کرنے کی تیاری میں ہیں۔ ان کا پہلا ہوٹل گوا میں شروع ہو رہا ہے۔آپ کو نہیں لگتا آج کل کی ہیروئین کچھ زیادہ سمجھدار ہو گئی ہیں۔ قطرینہ کا مذاق قطرینہ اور مذاق۔۔۔لوگ حیرت زدہ تھے۔ہمیں حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہم سلمان خان کے لطیفوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ یقینا انہی کی صحبت کا اثر ہے۔ سونو کی دیوانی گلوکار سونو نگم کے پرستاروں کی دنیا میں کمی نہیں ہے لیکن ممبئی میں ایک شو کے دوران سونو کی دیوانی ایک لڑکی نے جو کر دیا اسے دیکھ کر پوری دنیا حیران رہ گئی۔ سونو سٹیج پر گا رہے تھے اچانک وہ لڑکی سٹیج پر چڑھ گئی اور سونو کو پکڑ کر بوسہ دینے کی کوشش کرنے لگی۔سونو اس اچانک حملے سے پریشان ہو گئے وہ اسے دھکیلنے لگے لیکن لڑکی نے اپنے ناخنوں سے سونو کو زخمی کر دیا اور سٹیج سے اترنے سے انکار کر دیا۔حفاظتی دستوں نے اسے کھینچ کر نیچے اتارا۔
48454154
https://www.bbc.com/urdu/48454154
کرکٹ ورلڈ کپ 2019: بکنگھم پیلس کے باہر ’اوپننگ پارٹی‘ اور سرفراز کی شلوار قمیض
یہ بھی پڑھیے
کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کا آغاز تو جمعرات سے انگلینڈ میں ہو رہا ہے لیکن اس کی افتتاحی تقریب بدھ کی شام لندن میں بکنگھم پیلس کے سامنے واقع سڑک پر منعقد ہوئی۔ افتتاحی تقریب کو 'اوپننگ پارٹی' کا نام دیا گیا۔ اس تقریب میں چار ہزار افراد نے شرکت کی جن کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا تھا۔ پاکستان ہارے گا کس سے اور ہرائے گا کس کو؟ پاکستان کی نئی ورلڈ کپ کِٹ ماضی کے مقابلے میں کیسی ہے؟ دل پاکستان کے ساتھ لیکن دماغ ویسٹ انڈیز کے لیے 2015 کے ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک تقریب میں ورلڈ کپ ٹرافی کے ہمراہ آئے۔ اوپننگ پارٹی میں اس عالمی ایونٹ میں شریک دس ممالک کے موجودہ اور سابق کھلاڑیوں، نامور شخصیات اور فنکاروں نے شرکت کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ پاکستان کی جانب سے نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن اور طالبہ ملالہ یوسفزئی اور حال ہی میں سمرسٹ کو کاؤنٹی چیمپئن شپ جتوانے والے بلے باز اظہر علی تقریب میں شریک ہوئے۔ ملالہ اور بالی وڈ اداکار فرحان اختر تقریب کے موقع پر بکنگھم پیلس کے باہر پاکستانیوں کی بڑی تعداد اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے موجود تھی۔ چاچا کرکٹ بھی افتتاحی تقریب میں توجہ کا مرکز رہے۔ تقریب کا آغاز اس مقابلے میں شریک ٹیموں کے کپتانوں کی آمد سے ہوا۔ پاکستانی کپتان سرفراز احمد قومی لباس پہن کر تقریب میں شریک ہوئے۔ تقریب کی ایک خاص بات 60 سیکنڈز کرکٹ چیلنج بھی تھا جس میں انگلینڈ کی ٹیم فاتح رہی۔ انگلینڈ کی جانب سے سابق کرکٹر کیون پیٹرسن نے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔انڈین ٹیم سابق کرکٹر اور کوچ انیل کمبلے اور اداکار فرحان اختر پر مشتمل تھی جبکہ آسٹریلیا کی جانب سے بریٹ لی اور پیٹ کیش میدان میں اترے۔ پیر کے روز مقابلے میں شریک ٹیموں کے کپتان ملکۂ برطانیہ سے ملاقات کے لیے بکنگھم پیلس بھی گئے۔ کرکٹ ورلڈ کپ 2019 میں پاکستان ہارے گا کس سے اور ہرائے گا کس کو، آئیں آپ ہمارے ساتھ پیش گوئیاں کریں۔
150321_iran_nuclear_deal_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/03/150321_iran_nuclear_deal_sq
نوروز یا ایران اور امریکہ کا موسمِ بہار
سردیوں کے بعد اب بہار۔
مذاکرات میں وقفوں کے دوران ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اپنے وفد کے ہمراہ چہل قدمی کے لیے نکل جاتے ہیں یہ فقرہ آج کل سوئٹزر لینڈ میں جاری جوہری مذاکرات میں ایک بڑی علامت بن چکا ہے۔ اور بات محض علامتی نہیں کیونکہ یہاں پر موجود ایرانی اور امریکی وفود کو پورا ادراک ہے کہ موجودہ ہفتہ دراصل قدیم ایرانی کیلنڈر کے سب سے بڑے تہوار ’نوروز‘ کا ہفتہ ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس ہفتے جب سینیئر ایرانی اہلکار اپنے دوستوں اور عزیزوں سے نئے سال کے تحفوں کے تبادلے کے لیے تہران جائیں گے تو ان کے ہاتھ میں رنگین کاغذ میں لپٹا ہوا کوئی سیاسی تحفہ نہیں ہو گا۔ یعنی ان کے ہاتھ میں کسی ایسے منصوبے کا خاکہ نہیں ہوگا جس کے تحت ایران بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے عوض اپنا جوہری پروگرام محدود کر دے۔ شاید اسی لیے ایرانی وزیر خارجہ اور ان کی ٹیم نے نوروز کی روایتی میز ’ہفت سین‘ 19ویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے بو رواج پیلس ہوٹل کے ایک شاندار کمرے میں سجا لی ہے۔ نوروز کے کھانوں کی میز کو عموماً سات قدیم علامات سے سجایا جاتا ہے جن کی روایت زرتشت دور سے چلی آ رہی ہے۔ آپ کو اس میز پر گندم یا جو کا ننھا پودا دکھائی دے گا جو ایک نئے جنم کی علامت ہوگا، اور اس کے علاوہ یہاں آپ کو آنے والے سال میں خوشحالی کی علامت کے طور پر روایتی میٹھا بھی دکھائی دے گا اور اچھی صحت، برداشت اور محبت کی علامات بھی۔ اس برس مشیل اوباما نے وائٹ ہاؤس میں نوروز کی تقریب کا اہتمام بھی کیا عزت و وقار یہاں علامتوں کا ذکر اہم ہے کیونکہ ایران کے جوہری مذاکرات میں بھی علامات کا کردار بہت بڑا ہے۔ ایران کے نقطۂ نظر سے یہ بات اہم ہے کہ ان کی ’خود فراموشی‘ کے عوض یہ نہایت ضروری ہے کہ ایران کو وہ عزت واحترام دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔ ایرانی نقطۂ نظر سے اگر وہ اپنے جوہری پروگرام کے کچھ حصوں سے دستبردار ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایک قانونی حق سے دستبردار ہو رہے ہیں جو ان کے خیال میں کسی خود فراموشی سے کم نہیں۔ ایرانی کہتے ہیں کہ ایسے جوہری پروگرام سے قدرے پیچھے ہٹنے پر رضامند ہونا جو کہ مکمل غیر فوجی نوعیت کا حامل ہے، دراصل ایران کی جانب سے اپنے حق کو فراموش کرنے کے برابر ہے۔ لیکن ان مذاکرات میں شامل دوسرا فریق چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے۔ ویٹو کی طاقت کے حامل سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی ایک ایسے معاہدے کے خواہشمند ہیں جو ایران کے جوہری سائنسدانوں اور ان کے آلات پر ایسی حدود نافذ کر دے کہ اگر ایران ان پابندیوں کو توڑتا ہے اور یکایک ’بم‘ بنانے کی ٹھان لیتا ہے تو باقی دنیا کو اتنا وقت ضرور مل جائے کہ وہ اپنا رد عمل ترتیب دے لے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مذاکرات کئی سطحوں پر ہو رہے ہیں۔ کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب دونوں اطراف کے خشک مـزاج جوہری ماہرین مذاکرات کی میز پر آ بیٹھتے ہیں اور اس بات کے بخیے ادھیڑنا شروع کر دیتے ہیں کہ اصل میں ایران کی جوہری صلاحیت ہے کتنی۔ امریکہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں جنیوا میں پہنچے ہوئے امریکی جوہری ماہرین میں ایک شخص ایسا ہے جسے کسی جوہری پروگرام کی تکنیکی تفصیلات کا بخوبی علم ہے۔ یہ شخص کیون ویل ہیں جو کہ جوہری طبیعات کے ماہر ہیں اور نہ صرف 11 برس تک لوس الاموس کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں بلکہ شمالی کوریا کے ساتھ جوہری مذاکرات کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق کیون ویل دس مرتبہ شمالی کوریا جا چکے ہیں اور اس ملک میں پانچ ماہ گزار چکے ہیں جس کا جوہری پروگرام دنیا کا خفیہ ترین پروگرام سمجھا جاتا ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حالیہ مذاکرات میں بھی مسٹر ویل ہی وہ شخص ہیں جنھیں قائل کرنا ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ جو بھی جوہری معاہدہ ہو وہ اتنا سخت ضرور ہو کہ مسٹر ویل اسے پورے اعتماد کے ساتھ امریکہ کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھ سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ویل ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچے، تاہم ابھی ان کے پاس وقت موجود ہے کیونکہ سیاسی معاہدے کے پہلے ڈھانچے پر اتفاق ہو جانے کے بعد بھی مسٹر ویل کے پاس کچھ ہفتے ہوں گے جن میں وہ ایران کے ساتھ اہم تکنیکی تفصیلات طے کر سکتے ہیں۔ کوئی شک نہیں رہا کہ جان کیری اور جواد ظریف اکھٹے کام کر سکتے ہیں۔ سیاسی لڑائی لیکن اصل چیز جو اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا جون کے آخر تک ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے میں کامیابی یا ناکامی ہوتی ہے، وہ چیز سیاسی مذاکرات ہیں۔ اس سیاسی بات چیت کا ایک اہم اور سادہ پہلو یہ ہے کہ اب تک امریکی اور ایرانی وزرائے خارجہ کتنا وقت اکھٹے گزار چکے ہیں۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ جان کیری اور جواد ظریف اکھٹے کام کر سکتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہمیں دونوں کی چال ڈھال سے مل جاتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنی ملاقاتوں کے موقعے پر صحافیوں کو تصویرں اتارنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور دنیا بھر کے پریس فوٹو گرافر، امریکیوں کے بقول، ان پر کیمروں کی فلیش لائیٹس کی ’بوچھاڑ‘ کر دیتے ہیں۔ تاہم کم از کم ایک صحافی ایسا ضرور ہے جس کا کہنا ہے کہ جنیوا میں جاری مذاکرات میں ’تناؤ‘ پایا جاتا ہے۔ لیکن مجھے ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ مذاکرات کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، لیکن جھیل جنیوا کے ارد گرد کی فضا مثبت دکھائی دے رہی ہے۔ مذاکرات کی فضا بہت اہم ہوتی ہے، خاض طور ایسے مذاکرات میں جہاں داؤ پر لگے ہوئے معاملات بہت اہم ہوں۔ ان مذاکرات کے اختتام پر جو بھی معاہدہ ہوتا ہے اس کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہو گی کیونکہ یہی وہ معاہدہ ہوگا جس سے ایران کے ساتھ آئندہ تعلقات کی راہ میں حائل بھاری دروازہ کھلے گا۔ یہ معاہدہ ایران اور دیگر دنیا، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک مکمل نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔ خدشات اپنی جگہ قائم مشرق وسطیٰ میں ایران وہ ملک ہے جس کے پاس سب سے زیادہ بلیسٹک میزائل ہیں امریکہ اور ایران دونوں ممالک میں ایسے لوگوں کو کمی نہیں جو ان مذاکرات کو بہت شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ براک اوباما، جنھوں نے ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا دیا ہے، انھیں پورا یقین ہے کہ اپنی صدارت کے اختتام پر وہ اپنے پیچھے ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ چھوڑ کر جائیں گے۔ اور صدر اوباما ایک مرتبہ پھر نہایت پر امید دکھائی دے رہے ہیں۔ نوروز کے موقعے پر ایرانی عوام کے نام اپنے چار منٹ کے ویڈیو پیغام میں صدر اوباما نے بتایا کہ انھوں نے اپنی اہلیہ مشیل کے ساتھ مل کر کیسے ’نئے سال کے لیے اپنی خواہشات کے اظہار کے لیے اپنے ہاں ہفت سین کا اہتمام کیا۔‘ ’اس برس ہمیں کئی دھائیوں بعد یہ موقع نصیب ہوا ہے کہ ہم دونوں ممالک کے درمیان ایک مختلف مستقبل کی جستجو کر سکتے ہیں۔‘ تاہم بظاہر اس پیغام کے جواب میں ایران کی جانب سے آنے والا پیغام زیادہ محتاط دکھائی دیتا ہے۔ وزیر خارجہ جواد ظریف نے جان کیری کو بتایا کہ فارسی میں نوروز کا مطلب نیا سال نہیں بلکہ ’نیا دن‘ ہے۔ ’میری خواہش ہے کہ یہ نیا دن پوری دنیا کے لیے ایک نیا دن ثابت ہو، زیادہ اتفاق اور امن کے نئے دور کا آغاز۔‘ تاہم مسٹر ظریف نے یہ بھی ٹویٹ کیا کہ ’ وقت آ گیا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادی دباؤ اور اتفاق رائے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔‘ ایران کے ساتھ تعلقات کے موسم سرما پر شاید ابھی بہار نہیں آئی۔
160425_parveen_sabeen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160425_parveen_sabeen
پروین اور صبین
ایک ایسی تھی۔
محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک صبین کے مرنے سے ہزارو صبین پیدا ہوں گی ایک ویسی تھی۔ پروین کو شہر کے غریبوں کے لیے گٹر بنانے کا شوق تھا۔ صبین کو ہم جیسے نیم پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں کے بند گٹر کھولنے کا شوق تھا۔ ایک شہر کے نقشے بناتی تھی۔ دوسری اُن میں رنگ بھرنے کی فکر میں رہتی۔ ایک کراچی کے دور دراز علاقوں میں جا کر بھولے بسرے گوٹھوں کو شہر کے نقشے پر لاتی۔ بتاتی یہ گوٹھ 120 سال پرانا ہے۔ یہاں اِتنے لوگ رہتے ہیں۔ اِس کو سرکاری ریکارڈ میں شامل کرو اِس سے پہلے کہ تم اِن کا نام و نشان مِٹا کر یہاں ایک گولف کورس بنا دو۔ دوسری شہر کے کونوں کھدروں سےگمشدہ قوال بچوں کو ڈھونڈ کر لاتی اور ہم ایسے گنوار لوگوں کو سکھاتی کہ قوالی سُنتے ہوئے ٹانگیں نہیں پھیلائی جاتیں۔ ایک کو یہ فکر کہ ہمارے حصے کا پانی کون چراتا ہے، دوسری کو یہ غم کہ کتابیں اتنی مہنگی کیوں ہیں۔ طبلہ سارنگی بجانے والے اپنا ہنر آج کے بچوں کو کہاں اور کیسے سکھائیں؟ ایک کی یہ جدوجہد کہ شہر کے بے گھر لوگوں کی زمین پر قبضہ کون کرتا ہے۔ دوسری کو یہ غم کہ ہماری سوچوں پر پہرے لگانے والے کون ہیں۔ ایک نے اِس شہر کی بدبو کم کرنے کی کوشش کی دوسری نے اِس شہر کو تھوڑا سُریلا بنانے کی کوشش کی۔ دونوں نہ پاگل نہ دیوانی، نہ ملک دشمن، نہ ریاست کی باغی نہ تمہارے مذہب کی منکر، نہ تمہاری تہذیب سے بیزار ، ایک شہر کی پیاس بجھانے کے لیے سرگرداں اور دوسری اِس شہر کی روح کو زندہ رکھنے کے چکر میں۔ ایک اپنے نقشوں کی فائلیں بند کر کے، دِن کا کام ختم کر کے دفتر سے نکلی۔ دوسری ملک کے اُن راندہِ درگاہ بلوچوں سے ایک شائستہ ڈائیلاگ کروا کے گھر کو چلی جن پر میڈیا تو کیا پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے دروازے بھی بند تھے۔ پروین رحمان کا جرم یہ تھا کہ وہ کراچی شہر کو بہتر کیسے بنایا جائے دونوں کے لیے سر کے قریب سے گولی۔ ایسی گولی نہیں جو ڈرانے، دھمکانے، اپاہج کرنے کے لیے ماری جاتی ہے بلکہ وہ گولی جو ایسے قدیمی سر درد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتی ہے۔ اب ہم کہتے ہیں، زمانہ کہتا ہے کہ پروین اور صبین بہادر خواتین تھیں۔ ہمارے ملک میں ہر زندہ رہ جانے والا ہر مر جانے والے کو بہادر کہتا ہے اور ساتھ ساتھ دل میں یہ بھی سوچتا ہے کہ اِس بیوقوفی کی کیا ضرورت تھی۔ جدوجہد کے اور بھی طریقے ہیں۔ اخبار میں مضمون لکھ لو، لِٹریری فیسٹیول کروا لو، ایک پٹیشین آن لائن ڈال دو۔ سیاست والوں کو سیاست کرنے دو تمہارا کام یہ نہیں ہے۔ تمہیں کیا پتہ یہ بلوچ باغی کِس کِس کے ایجنٹ ہو سکتے ہیں۔ تم کیا جانو کراچی کی لینڈ مافیا کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔ اگر بہت شوق ہے ایسے کاموں کا تو تھوڑی احتیاط ہی کر لیا کرو۔ دو چار گارڈ رکھ لو۔ آج کل کورنگی کے مستری بھی گاڑی کو بلٹ پروف کر دیتے ہیں۔ روز راستہ بدل کر گھر جایا کرو۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم بال ہی ٹھیک کر لو۔ پتہ نہیں کِس کو کِس بات پر غصہ آ جائے۔ مختصًرا یہ کہ سب کہتے باز آ جاؤ ورنہ ماری جاؤ گی۔ دونوں شہیدوں میں آپ کئی خرابیاں ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن میں حلف اُٹھا کر کہتا ہوں دونوں میں شوق شہادت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ دونوں میں زندہ رہنے کا عزم تھا اور ہم جیسے سہمے ہوئے لوگوں سے بھی دلیل سے بات کرتی تھیں۔ ماما قدیر اور فرزانہ مجید T2F میں آ کر اسّی لوگوں سے سوال جواب کر لیں گے تو کیا واقعی قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی؟ کیا شہر کی دیواروں پر پیار کا نعرہ لکھنے سے قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ کیا غریبوں کے لیےگٹر بنانا جرم ہے’ اور میں تو بناتی بھی نہیں اُنہیں سکھاتی ہوں کہ اپنا گٹر خود کیسے بناتے ہیں‘۔ کیا کراچی والوں کو یہ بتانا کہ اُن کا پانی کہاں سے آتا ہے اور رستے میں کون کون چُراتا ہے؟ کیا اِس طرح کے چھوٹے چھوٹے معمولی جرم کی سزا اب موت ٹھہری ہے؟ ہم شاید اُنہیں اِس لیے بہادر کہتے ہیں تا کہ اپنی بزدلی کی چادر میں سہمے ہوئے سیانے لگ سکیں۔ محبت کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک صبین کے مرنے سے ہزارو صبین پیدا ہوں گی۔ ایک پروین کے جانے سے کئی اور پروینیں آگے آئیں گی۔ میں ایسی باتیں سن کر چِڑ جاتا ہوں۔ اور پھر سوچتا ہوں کہ صبین اِس چِڑ جانے والے رویے سے منع کرتی، کبھی خود چِڑ کر یہ بھی کہہ دیتی تمارے جیسے سنکیوں کی وجہ سے آج ہم اِس حال میں ہیں۔ تو آج ہم اِس حال میں ہیں کہ ایک پروین تھی جو ہماری زمین تھی۔ ایک صبین تھی جو ہمارا آسمان تھا۔ مجھے ایک نئی زمین اور نیا آسمان لا کر دو۔ پھر بتانا کہ کتنی نئی پروینیں اور کتنی نئی صبینیں پیدا ہوئیں۔
071210_bollywood_diary_ka
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/12/071210_bollywood_diary_ka
سلمان بنے لکھاری اور سنجے کا جشن
سلمان بنے رائٹر
جی ہاں اداکاری اور مصوری کے بعد سلمان اب رائٹر بن گئے ہیں۔انہوں نے اپنی پہلی فلم ’ ویر‘ کی کہانی خود لکھی ہے۔ابھی فلم کی کہانی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے ہاتھوں ہاتھ خرید بھی لیا گیا۔پچھہتر کروڑ روپے کے بجٹ کی اس فلم کو ’ اروس فلمز ‘ نے خرید لیا ہے اور فلمساز وجے گلانی اسے بنائیں گے۔ہدایت انیل شرما کی ہو گی اور یہ کہنا بے معنی ہوگا کہ اس کے ہیرو سلمان ہوں گے۔البتہ اس فلم میں وہ کتنا معاوضہ لیں گے یہ پوچھنے والا سوال ہے اور ہمارے خبرو کے مطابق اس فلم کا وہ پچیس کروڑ روپیہ معاوضہ لے رہے ہیں کیونکہ اداکاری کے ساتھ کہانی کا تڑکا بھی تو ہے۔ پندرہ دن کی شوٹنگ چار کروڑ روپے میں اگر صرف پندرہ دن کی شوٹنگ پر چار کروڑ روپے خرچ ہوں تو! فلمساز کنال شیو دسانی فلم ’ہائی جیک‘ بنا رہے ہیں۔فلم کی کہانی کے مطابق ہوا میں ہی طیارہ کو ہائی جیک کر لیا جاتا ہے۔فلم کی شوٹنگ کے لیے شیو دسانی نے طیارہ کا سیٹ بنایا اور اس میں فلم کی شوٹنگ کی لیکن دسانی چاہتے تھے کہ کلائمکس کسی اصلی طیارے میں ہو اس کے لیے انہوں نے بوئنگ 737 طیارہ کرایہ پر لیا جس کے لیے انہیں چار کروڑ رپے خرچ کرنے پڑے۔دبئی کی تپتی سرزمین پر پچپن ڈگری درجہ حرارت پر چودہ دنوں تک کلائمکس فلمایا گیا۔ ’مجھے کام دو‘ عامر کی آنکھوں میں آنسو گلوکار سونو نگم کے کروڑوں پرستار ہیں لیکن سونو خود عامر کے اتنے بڑے پرستار ہوں گے یہ راز ایک ریالٹی شو میں کھلا جب سونو نے عامر کو بتایا کہ وہ بچپن سے ہی ان کی فلموں کی تصویریں جمع کرتے رہے تھے۔سونو نے جب عامر کو بتایا کہ وہ ان کے آئیڈیل ہیں تو جذباتی عامر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ڈھائی لاکھ کا لباس اہمیت کس کی ہے ڈھائی لاکھ کے لباس کی یا اس بات کی کہ اسے کسی نے تحفہ میں دے دیا ہو۔ہمارے لیے تو دونوں ہی باتیں اہمیت کی حامل ہیں۔قطرینہ کیف شاپنگ کی دیوانی ہیں یہ بات کچھ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ممبئی کے ورلی علاقہ میں کیف ایک غیر ملکی برانڈ شو روم میں پہنچ گئیں انہیں Gucci برانڈ کا ایک لباس بہت ہی اچھا لگا۔لیکن جیسے ہی انہوں نے وہ لباس خریدنے کے لیے اس پر قیمت کا لیبل دیکھا لباس خریدنے کا ارادہ ہی بدل دیا۔ویسے کیف آپ کے لئے یہ قیمت کچھ زیادہ تو نہیں تھی۔خیر کیف کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ان کے گھر پر کوئیرر سروس سے وہ لباس پہنچا۔فون پر سٹور کے مالک نے بتایا کہ انہوں نے اٹلی میں کمپنی کو سارا ماجرا بتایا اور کمپنی نے کیف کو وہ لباس بطور تحفہ دے دیا۔آپ وہ لباس دیکھنا چاہیں گے ؟ ضرور دیکھئے۔فلم ویلکم کے ٹائٹل گیت میں کیف وہ لباس پہنے نظر آئیں گی۔ سنجے کا جشن جیل میں بید کی کرسیاں بناتے اور دال روٹی کھانے کے بعد اب سنجے بھر پور زندگی جی رہے ہیں۔گوا کے ہوٹل اور اس کے ساحل اس بات کے گواہ ہیں کہ سنجے وہاں اپنی دوست مانیتا کے ساتھ چھٹیاں منا رہے ہیں۔خبریں یہ ہیں کہ اب انہوں نے چوبیس کروڑ روپے میں تین نئی فلمیں سائن کی ہیں۔اتنی تکلیف کے بعد ان خوشیوں پر سنجے کا حق بنتا ہے۔ کون بڑا ؟ اکثر یہ سوال انڈسٹری میں اداکاروں کی انا کا سول بن جاتا ہے۔اس وقت یہ سوال انیل کپور اور اکشے کمار کے درمیان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔انیل کپور چاہتے ہیں کہ فلم ویلکم کے تشہیری پوسٹرز میں ان کا نام اکشے سے پہلے آئے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ چونکہ اکشے سے سینئر ہیں اس لیے انہیں عزت ملنی چاہیئے۔انیل جی آپ کے ساتھ اس فلم میں کئی سینئر اداکار ہیں جیسے پریم چوپڑہ فیروز خان۔اس کا مطلب ہے کہ پریم چوپڑہ کا نام سے پہلے اس کے بعد فیروز خان کا نام اور۔۔۔۔ اور جب کرینہ ۔۔۔۔
070730_bollywood_diary_si
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/07/070730_bollywood_diary_si
کرینہ کی چپ، وویک کا تاج محل اورچورن
میں چپ رہوں گی
بے بو ( کرینہ کپور) نے بونی کپور سے کہہ دیا ہے کہ وہ چپ رہیں گی۔ بے بو نے بونی کی فلم ’ملیں گے ملیں گے‘ کی ڈبنگ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ امتیاز علی کی فلم جس میں وہ شاہد کپور کے ساتھ کام کر رہی ہیں وہ کپور کی فلم سے پہلے ریلیز ہو اسی لیے انہوں نے یہ انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔ پپی کے بغیر نہیں آں ہا ۔۔۔آپ غلط سمجھے ہم بوسے کی بات نہیں کر رہے۔ بات ہو رہی ہے ایشا دیول کے کتے کی۔ایشا جی کتا کہنے پر ہمیں معاف کیجئے ہم جانتے ہیں کہ آپ کے پپی کو کتا کہہ کر ہم نے اعلیٰ سوسائٹی کے اصولوں کو توڑا ہے۔ خیر اصل بات یہ ہے کہ ایشا اپنے پپی کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔پانڈیچیری میں فلم ’ون ٹو تھری‘ کی شوٹنگ کے دوران ایشا کو اپنے پپی کی یاد نے اتنا ستایا کہ انہوں نے اپنے پپی کو پانڈیچری بلا لیا۔ اب ایک اور مصیبت تھی کہ ہوٹل نے پپی کو رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ آخر کار جس ہوٹل نے پپی کو ساتھ رکھنے کی اجازت دی وہ شہر کا معمولی ہوٹل تھا اور اپنے پپی کے لیے ایشا نے یہ قربانی بھی دی۔ آج کل ایک آئٹم گرل گھر سے نکل ہی نہیں رہی ہیں۔ سنا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ہونٹوں کو پرکشش بنانے کے لیے سرجری کروائی تھی جو غلط ہو گئی اور اب ان کے ہونٹ سوج گئے ہیں۔اس لیے انہوں نے انڈیا کے بہترین سرجن کی فہرست منگائی ہے جن سے وہ اب دوسرا آپریشن کروائیں گی۔ سلو کا انکار رقص کے ایک پروگرام میں سلو( سلمان خان) کو بپ (بپاشا) کو اپنے ہاتھوں میں اٹھانا تھا۔ لیکن سلو نے بپ کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔اب بھئی یہ سلو ہیں جن کے موڈ کا کوئی پتہ ہی نہیں لگا سکتا۔ لیکن ہمیں زیادہ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمیں پتہ ہی ہے کہ جان کے ساتھ سلو کی اَن بَن ابھی بھی جاری ہے اور بھلا سلو جان کی دوست کو کیسے بخش دیتے۔ وویک کا تاج محل پیار میں چوٹ کھائے وویک نے تاج محل تیار کیا ہے۔آں ہاں غلط مت سمجھئے انہوں نے ایش ( ایشوریہ رائے ) کے لیے تاج محل نہیں تیار کروایا بلکہ اپنے لیے ڈیڑھ کروڑ روپیوں کی ایک وینٹی وین تیار کرائی ہے اور وہ اسے اپنا تاج محل کہتے ہیں۔اس میں ان کا اپنا جم، باورچی خانہ، آرام دہ بیڈ روم بھی ہے۔وویک سے کوئی پوچھے کہ بغیر ممتاز محل کے تاج محل کیسے بن گیا۔ بیچارے فلمساز اننت مہادیون جب تشار کپور کو اپنی فلم کا سکرپٹ پڑھ کر سنا رہے تھے کہ جتیندر کے کتے وہسکی نے آکر انہیں کاٹ لیا۔گھبرائے مت مہادیون کو جتیندر نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتا جب بھی کسی کو کاٹتا ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔مہادیون تو خوش خوش لوٹ گئے۔جیتو جی اگر ایسی ہی بات ہے تو شاید سب سے زیادہ ضرورت تو آپ کے بیٹے کو ہے ان کی کوئی بھی فلم سپر ہٹ نہیں ہوتی ہے۔ کنگ خان کا چورن کنگ خان ( شاہ رخ خان ) لوگوں کو چورن دیتے ہیں۔نہیں یہ محاورہ کے طور پر استعمال نہیں کر رہے ہیں۔خان واقعی میں چورن خریدتے ہیں لیکن وہ خود نہیں کھاتے بلکہ چورن اور سپاری خرید کر رکھتے ہیں اور جو بھی ان سے ملنے آتا ہے اسے وہ چورن اور سپاری دینا نہیں بھولتے۔ سنجو بابا کامنصوبہ سنجو بابا( سنجے دت) کی قسمت کا فیصلہ اکتیس جولائی کو ہو گا پتہ نہیں عدالت کیا فیصلہ دے اس لیے سنجو بابا نے اپنی ’قریبی دوست‘ مانیتا کو ساؤتھ افریقہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے جہاں مانیتا ایک بوتیک چلائیں گی۔ سنجو کا کہنا ہے کہ اگر انہیں رہائی کے بجائے جیل جانا پڑا تو میڈیا مانیتا کو بہت پریشان کرے گا۔ سنجو جہاں تک ہمیں معلوم ہے آپ کی دوست کو آپ کے گھر والوں نے ابھی تک قبول نہیں کیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آپ مانیتا کو گھر میں رکھنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتے۔رائٹ بابا! سنی (سنی دیول) پاجی کسی بھی فلم کا سکرپٹ سننے کے لیے فلمساز کو صبح پانچ بجے گھر پر بلاتے ہیں۔پھر ساتھ میں جاگنگ کے لیے جاتے ہیں۔ گھر پہنچ کر انہیں گرما گرم پراٹھے کھلا کر رخصت کرتے ہیں۔سنی پھر آپ کہانی کب سنتے ہیں؟ سیف آؤٹ چھوٹے نواب (سیف علی خان) فلم نو سموکنگ کے آئٹم نمبر گیت سے باہر ہو گئے۔ویسے آپ کو ہم نے بتا ہی دیا تھا کہ چھوٹے نواب اور بپ کے بیچ کتنی قریبی دوستی ہو گئی ہے۔فلم میں جان کے ساتھ بپ (بپاشا باسو ) بے بی ہیں اور جان کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ اب ان کی فلم میں بھی نواب صاحب انٹری کریں۔ اس لیے بپ نے چھوٹے نواب کو پیار کے ساتھ منع کر دیا اور وہ مان بھی گئے۔آپ کو نہیں لگتا کہ یہ دوستی کافی گہری ہے۔ نیا پروفیشن سلو ( سلمان خان ) آج کل پینٹنگ بنانے میں زیادہ مصروف ہیں۔آج کل وہ رات دن پینٹنگ ہی بنا رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے بنائے گئے فاؤنڈیشن میں غریب بچوں کے لیے رقم جمع کرانا چاہتے ہیں۔سلو نے اب اپنے دوستوں سے بھی کہہ دیا ہے کہ ا ب ان کی پینٹنگ وہ بطور تحفہ نہیں دیں گے۔بہت جلد ہی ممبئی کی آرٹ گیلری میں سلو کی پینٹگز کی نمائش ہونے والی ہے۔ رتیک بنے سکرپٹ رائٹر رتیک اب اپنے والد راکیش روشن کے ساتھ فلم ’کرش‘ کے سیکوئیل کے لیے کہانی لکھ رہے ہیں۔اب فلم کی کہانی کیسی ہو گی یہ تو پتہ نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ آج کل ہر اداکار اداکاری کے ساتھ ساتھ دوسرے کام بھی کر رہے ہیں۔ جب بے بو کی سانسیں رکیں منالی میں چودہ ہزار فٹ کی اونچائی پر جب بے بو ( کرینہ کپور) اور شاہد کپور امتیاز علی کی فلم کی شوٹنگ کے لیے پہنچے تو دونوں کی سانسیں رک گئیں کیونکہ وہاں آکسیجن کا دباؤ بہت کم تھا۔اس روز تو شوٹنگ منسوخ کر دی گئی لیکن دوسرے روز انہیں شوٹنگ کرنی ہی پڑی۔ شرابی ابھے نہیں ابھے شراب پینے نہیں لگے لیکن وہ ساقی بننے کی تربیت لینے کے لیے بارسلونا پہنچ گئے ہیں۔ہمارے خبرو نے بتایا کہ ابھے وہاں بار ٹینڈر بننے کے لیے دو ماہ کا کورس کریں گے۔ہمیں لگتا ہے ابھے کہ آپ کو بار ٹینڈر کا کورس کرنے کے بجائے اداکاری کا کورس کرنا چاہئیے تاکہ آپ کی فلمیں ہٹ ہوں کیا خیال ہے آپ کا؟ بیچارے آسوتوش آسوتوش آج کل بہت پریشان ہیں۔کیونکہ ان کی فلم کی شوٹنگ مکمل ہی نہیں ہوئی۔ایش (ایشوریہ) ایب (ابھیشیک بچن) کے ساتھ ہنی مون منا کر لوٹی تو ہیں لیکن اب انہوں نے ساری تاریخیں رامو (رام گوپال ورما) کے نام لکھ دی ہیں جو تیزی کے ساتھ ’سرکار راج اور ٹائم مشین‘ بنا نے میں مصروف ہیں۔جودھا اکبر اب اس سال تو ریلیز ہونے سے رہی۔آسوتوش اب سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی فلم ایش کی شادی سے پہلے کیوں مکمل نہیں کر لی۔ چلتے چلتے عامر خان اوورسیز ناظرین کے لیے اب ایک انگریزی فلم بنانے جا رہے ہیں۔ گلوکارہ آشا بھوسلے آج کل کنگ خان سے خفا ہیں کیونکہ انہوں نے آشا کے البم کے لیے گانا گانے سے انکار کر دیا۔کنگ خان اب رجنی کانت کی فلم شیواجی دی باس کے ہدایت کار شنکر کے ساتھ سائنس کے موضوع پر فلم بنانے کی تیاری میں ہیں۔جیا خان آج کل ہندی سیکھ رہی ہیں کیونکہ عامر زبان اور تلفظ کی غلطیوں کو معاف کرنے والے فلمساز نہیں ہیں۔اوہو ہم بتانا تو بھول گئے کہ تمل فلم ’گھجنی‘ کے ہندی ری میک میں جیا بطور ہیروئین کام کریں گی۔
140206_who_is_who_in_negotiations_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/02/140206_who_is_who_in_negotiations_sa
طالبان اور حکومتی کمیٹی کے اراکین کون ہیں؟
عرفان صدیقی
کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی طالبان کی کمیٹیوں کے اراکین پاکستانی سیاست، ذرائع ابلاغ اور مذہبی امور میں جانی پہچانی شخصیات ہیں حکومتی کمیٹی حکومتی کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی ہیں جو اس وقت وزیرِاعظم کے خصوصی مشیر برائے قومی امور ہیں۔ عرفاں صدیقی ایک معروف صحافی اور کالم نگار ہیں جو کہ اخبار روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں اور اپنے قدامت پسند نظریات اور افغانستان میں امریکی جنگ پر تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے کئی بار افغانستان میں امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ رحیم اللہ یوسف زئی رحیم اللہ یوسف زئی ایک سیاسی اور سکیورٹی کے امور کے تجزیہ کار ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں، افغانستان کے ساتھ ساتھ طالبان امور کے ماہر ماننے جاتے ہیں۔ وہ افغانستان کے حالات پر 1979 میں سویت حملے سے آج تک گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ القاعدہ کے سابق سربراہ اوساما بن لادن اور افغان طالبان کے سربراہ مُلا عمر کے انٹرویو کر چکے ہیں۔ وہ پشاور میں روز نامہ دی نیوز کے مدیر ہیں اور ٹائم میگزین اور بی بی سی کے لیے نامہ نگار بھی رہ چکے ہیں۔ رستم شاہ مہمند رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں اور صوبے خیبر پختونخواہ میں بر سرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے اہم رکن ہیں۔ رستم شاہ مہمند کو افعان امور کا ماہر مانا جاتا ہے اور وہ سکیورٹی معاملات کے حوالے سے ایک معروف تجریہ کار بھی ہیں۔ تقریباً دس سال کے عرصے تک وہ پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کے چیف کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ میجر محمد عامر میجر محمد عامر پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق اہلکار ہیں جنہوں نے افعانستان میں سویت مداخلت کے دوران افغان مجاہدین کی تربیت اور معاونت کی تھی۔ میجر عامر کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد نے ایک مدرسہ تشکیل دیا تھا جو کہ دیوبندی اور وہابی مکتبۃ فکر سے منسلک تھا۔ پاکستانی طالبان کے موجودہ سربراہ مُلا فضل اللہ نے اپنی مذہبی تعلیم اسی مدرسے سے حاصل کی تھی۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی مولانا سمیع الحق مولانا سمیع الحق کو پاکستانی میڈیا میں ’طالبان کا موجد‘ کہا جاتا ہے۔ وہ ایک بااثر مذہبی رہنما اور سیاست دان ہیں جن کی تعلیمات کو طالبان تحریک کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق پاکستان کے ایک اہم ترین مدرسے دارالعلوم حقانیہ کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں جسے 1990 کی دہائی میں افغان جہاد کی نرسری تصور کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ایک بار مولانا سمیع الحق نے مُلا عمر کو اپنے بہترین طالبعلموں میں سے ایک قرار دیا تھا اور انہیں ایک ’فرشتہ نما انسان‘ بیان کیا تھا۔ وہ جمیعت علما اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں اور پاکستان کے ایوانِ بالا میں دو مرتبہ رکنیت حاصل کر چکے ہیں۔ مولانا عبد العزیز مولانا عبد العزیز پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے سخت حامی ہیں۔ وہ 2007 میں پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں فوج کے ساتھ کیشدگی میں ملوث اسلام آباد کی لال مسجد کے امام تھے۔ لال مسجد آپریشن میں مولانا عبد العزیز کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک برقعہ پہن کر وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ 21 ماہ قید کے بعد انہیں 2009 میں رہا کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے متعدد فتوے جاری کر رکھے ہیں جن میں موسیقی، فلموں اور خواتین کی تصاویر کو حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ ابراہیم خان ابراہیم خان بنوں سے سابق سینیٹر ہیں۔ وہ اسلام پسند سیاسی جماعت، جماعتِ اسلامی کے صوبائی صدر ہیں اور طالبان اور القاعدہ کے حامی ہیں۔ جماعتِ اسلامی کی قیادت نے حال ہی میں ایک بیان دیا تھا جس میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا گیا تھا۔
060115_delhi_diary_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/01/060115_delhi_diary_rs
موت کے اسباب جاننے کیلیے سروے
سب سے بڑا سروے:
بھارت میں موت کے اسباب جاننے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا سروے شروع کیا گیا ہے۔ ملک میں ہر برس 95 لاکھ اموات ہوتی ہیں لیکن ان میں سے صرف 35 لاکھ افراد کی موت کا سبب درج ہو پاتا ہے۔ طبی سہولیات کے ناقص ہونے اور ڈاکٹروں تک رسائی نہ ہونے کے سبب 65 لاکھ افراد کی موت کی وجہ درج نہیں ہو پاتی۔ حکومت نے موت کا یہ سروے سینٹر فار گلوبل ہیلتھ ٹورنٹو یونیورسٹی اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی مدد سے شروع کیا ہے- یہ جائزہ 1998 سے 2014 تک 16 برسوں پر محیط ہو گا۔ اس کے تحت 24 لاکھ گھروں میں تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد کا ریکارڈ درج کیا جائے گا- اس سروے کا مقصد موت کے اسباب کا پتہ لگانا، آبادی کی صحت کے رحجان کا جائزہ لینا اور طبی پروگراموں کے اثرات کی معلومات حاصل کرنا ہے- ہوائی اڈوں کی جدید کاری: مسافروں کی تعداد میں زبردست اضافے کے پیش نظر ہوائی اڈوں کی جدید کاری کی فوری ضرورت ہے لیکن حکومت کی اتحادی بائیں بازو کی جماعتیں جدید کاری کا کام نجی یا غیر ملکی کمپنیوں کو دینے کے خلاف ہیں جس کے سبب یہ کام رکا ہوا ہے۔ پورے ہفتے یہ سسپنس بنا رہا کہ جدید کاری کا کام کسے دیا جائے گا۔ ممبئی سے 500 اور دلی کے ہوائی اڈے سے 450 ہوائی جہاز روزانہ پرواز کرتے اور اترتے ہیں۔ اس وقت مسافروں کی تعداد دو کروڑ سالانہ ہے جو آئندہ چار برس میں چھ کروڑ ہونے کی امید ہے- دلی اور ممبئی کے ہوائی اڈوں پر بھیڑ اتنی بڑھ گئی ہے کہ اکثر ہوائی جہازوں کو رن وے خالی نہ ہونے کے سبب 10 سے 30 منٹ تک فضا میں ہی رہنا پڑتا ہے اور ہرمنٹ پانچ ہزار روپے ایندھن پر خرچ ہوتے ہیں- ائیر پورٹ اتھارٹی نے امریکی ماہرین کی ایک ٹیم دلی بلائی ہے جو ہوائی اڈوں پر بھیڑ کم کرنے کے لیے فضائی راستوں کو ازسرنو ترتیب دے رہی ہے۔ شکریہ غیر مقیم ہندوستانیوں: اس ہفتے وزیر خزانہ پی چدمبرم نے غیر مقیم ہندوستانیوں کا شکریہ ادا کیا- دراصل غیر مقیم ہندوستانی غیر ملکی زرمبادلہ کا سب سے معتبر اور ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ غیر مقیم ہندوستانیوں نے پچھلے برس 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم وطن بھیجی۔ تین چوتھائی رقم خلیجی ممالک میں رہنے والے ورکرز نے بھیجی۔ عرب ممالک میں 35 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی کام کر رہے ہیں اور انہیں ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ان کے سا تھ سوتیلا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ ہندوستان مین غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائرہ 137 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اب بہت آسان ہو گئی ہے۔ شادیوں کا موسم: جنوری اور فروری میں شگن کے مطابق کچھ ایسی تاریخیں ہیں جس دن اکیلے دلی میں کئی ہزار شادیاں ہونا طے پائی ہیں۔ پندرہ فروری بھی ایک ایسا ہی دن ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس دن 15 ہزار سے زیادہ شادیاں ہوں گی ۔ دارالحکومت کے شہریوں نے دلی کے اطراف میں زرعی زمین خرید کر انہیں ’فارم ہاؤسز‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے یہ فارم ہاؤسز صرف شادیوں اور دوسرے فنکشن کے لیے ہی استعمال کیے جا رہے تھے۔ میونسپل کارپوریشن نے کافی کوشش کی ان فارم ہاؤسز کا استعمال فنکشن وغیرہ کے لئے نہ ہو لیکن اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ اب ہائی کورٹ نے میونسپل کارپوریشن کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے فارم ہاؤسز ميں فنکشن وغیرہ پر پابندی نہ لگائی تو وہ اس ادارے کو ہی تحلیل کر دے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ پارکوں اور دوسرے عوامی مقامات پر کسی طرح کی پارٹی اور مذہبی جلسے وغیرہ بھی نہ ہونے چاہیں۔ صدر بش کے لیے مشترکہ اجلاس نہیں: امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کا مارچ کے پہلے ہفتے میں ہندوستان کا دورہ متوقع ہے۔ حکومت سابق صدر بل کلنٹن کی طرح صدر بش کے لیے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا پروگرام بنا رہی تھی لیکن حکومت کی اتحادی بائيں بازو کی جماعتوں نے اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی دے ڈالی۔ حکومت نے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی لیکن کمیونسٹ بائيکاٹ کے فیصلے سے نہیں ہٹے۔ اب مشترکہ اجلاس کا پروگرام ہی ہٹا دیا گيا ہے ۔ کمیونسٹوں نے صدر بش کی آمد پر کئی طرح کے احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
090120_obama_speech_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2009/01/090120_obama_speech_zs
میں باراک حسین اوباما۔۔۔۔۔
’’میرے عزیز ہم وطنو
میں آج یہاں ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کی یاد لیے، لوگوں کی جانب سے مجھ پر کیے جانے والے اعتماد کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوں۔ میں ہماری قوم کے لیے صدر بش کی خدمات اور اقتدار کی منتقلی کے عمل کے دوران تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں۔ اب تک چوالیس امریکی عہدۂ صدارت کا حلف اٹھا چکے ہیں لیکن امریکہ کا آج تک کا سفر صرف ان اعلٰی عہدوں پر کام کرنے والے افراد کی صلاحیتوں اور ذہانت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام اپنے آباؤاجداد کے آئیڈیلز سے وفادار رہے ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ آج ہم ایک بحران کا شکار ہیں۔ ہماری قوم تشدد اور نفرت کا پرچار کرنے والے نیٹ ورک کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے۔ ہماری معیشت بری طرح کمزور ہو چکی ہے، لوگوں کے گھر چھنے ہیں، نوکریاں گئی ہیں اور کاروبار تباہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ جہاں کچھ افراد کی غیر ذمہ داری اور لالچ ہے وہیں مشکل فیصلے کرنے اور ایک نئے دور کے لیے قوم کو تیار کرنے میں ہماری کوتاہی بھی ہے۔ طبی سہولیات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، سکول بہت سوں کے لیے کامیابی کی ضمانت نہیں رہے، اور توانائی کا بے جا استعمال ہر نئے دن کے ساتھ ہمارے دشمنوں کو تقویت دینے کی ساتھ کرہ ارض کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ لیکن ان خطرات کا تو باقاعدہ حساب لگایا جا سکتا ہے۔ جو امر کسی پیمانے پر پرکھنا ممکن نہیں، وہ اعتماد کا بحران ہے ۔ایک سر ابھارتا خطرہ کہ شاید امریکہ کا زوال ناگزیر ہو چکا ہے۔ آج میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمیں درپیش مشکلات حقیقی ہیں اور بہت سی ہیں۔ ان سے کم وقت میں آسانی سے نہیں نمٹا جا سکتا لیکن امریکہ یہ جان لے کہ ان سے ضرور نمٹا جائےگا۔ آج کے دن ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہم نے خوف کے بدلے امید اور تصادم اور نفرت کے بدلے اتحاد کو ترجیح دی ہے۔آج کے دن ہم حقیر شکایتوں اور جھوٹے وعدوں، الزام تراشیوں اور فرسودہ خیالات سے، جو طویل عرصے تک ہماری سیاست کو گہنائے رہے، دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم ایک جوان قوم ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ بچگانہ چیزوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم نسل در نسل ہم تک منتقل ہونے والے ایک بہتر تاریخ کے اس گراں قدر تحفہ کو چننے اور اپنی قوم کی عظمت کو پھر سے اجاگر کرنے کے لیے اپنے پائیدار جذبے کا اعادہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عظمت یوں ہی نہیں مل جاتی۔ اسے محنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ منزل کے حصول کے لیے ہم آسان راستے کی تلاش نہیں کریں گے اور نہ ہی کم تر پر راضی ہوں گے۔ یہ راستہ کمزور دل کے لیے نہیں ہے، ان کا راستہ نہیں جو محنت پر عیش کو فوقیت دیتے ہیں، یا محض عیش اور شہرت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بلکہ یہ راستہ خطرات سے نبرد آزما ہونے والوں کا ہے، میدانِ عمل میں آنے والوں کا ہے، اہل عمل کا ہے۔ ان لوگوں کا ہے جن میں سے کچھ جشن مناتے ہیں مگر اکثر وہ مرد و خواتین ہیں جو اپنے کام میں جٹے ہوئے ہیں اور جو ہمیں مشکل راہوں سے خوشحالی اور آزادی کی جانب لائے۔ ہمارے لیے انہوں نے اپنا سامنا سمیٹا اور ایک نئی زندگی کی تلاش میں سمندروں کا سفر کیا۔ ہمارے لیے ہی وہ مغرب میں قیام پذیر ہوئے اور ہمارے لیے انہوں نے کوڑے کھائے اور سخت زمین میں ہل چلائے۔ وہ ہمارے لیے ہی کنکارڈ، گیٹسبرگ، نارمنڈی اور کھیسان جیسے محاذوں پر لڑے اور جان دی۔ بار بار ان مرد و زن نے کوشش کی، قربانیاں دیں اور کام کیا تاکہ ہم ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ ان کے نزدیک امریکہ ہمارے انفرادی ارادوں، جنم، زر یا قبیلے کے اختلافات سے کہیں بڑا تھا۔ یہی وہ سفر ہے جسے ہم آج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم آج بھی دنیا کی سو سے طاقتور اور خوشحال قوم ہیں۔ ہمارے کارکن آج بھی اتنا ہی کام کر رہے ہیں جتنا کہ بحران کے آغاز پر کر رہے تھے۔ ہمارے ذہنی اختراع میں کمی واقع نہیں ہوئی اور ہماری اشیاء اور خدمات کی ضرورت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ گزشتہ ہفتے گزشتہ ماہ یا گزشتہ برس تھی۔ لیکن اب تنگ نظر مفادات کے تحفظ اور مشکل فیصلوں کو ٹالنے کا وقت گزر چکا ہے۔ آج سے ہمیں اپنے آپ کو سمیٹنا ہے اور امریکہ کی تشکیلِ نو کا کام دوبارہ شروع کرنا ہے۔ ہم جس سو بھی نظر ڈالیں ہمیں کرنے کو بہت سا کام نظر آئے گا۔ ہماری اقتصادی حالت ہم سے فوری اور جراتمندانہ اقدامات کی متقاضی ہے۔ اور ہم میدانِ عمل میں آئیں گے۔ ہم نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے بلکہ ترقی کے لیے نئی بنیادیں ڈالیں گے۔ ہم اپنی تجارت میں اضافے کے لیے سڑکیں، پل اور بجلی گھر تعمیر کریں گے۔ ہم سائنس کا اصل مقام بحال کریں گے اور طبی سہولیات کا معیار بلند کرنے اور اس کی لاگت میں کمی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں گے۔ ہم اپنی فیکٹریاں چلانے اورگاڑیوں کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے سورج اور ہواؤں کو لگام ڈالیں گے اور اپنے سکولوں، کالجوں اور جامعات کو نئے دور کے تقاضوں کے ہم پلہ لائیں گے۔ ہم یہ سب کر سکتے ہیں اور یہ سب ہم کریں گے بھی۔ اب یہاں کچھ لوگ ہیں جو ہمارے بلند ارادوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے خیال میں ہمارا نظام بہت بڑے منصوبوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ان لوگوں کی یادداشت کمزور ہے۔ یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارے ملک نے کیا کچھ کیا ہے۔ ہمارے سامنے یہ سوال نہیں کہ بازار کی طاقت اچھائی کے لیے ہے یا برائی کے لیے۔ دولت کی تشکیل اور آزادی کے پھیلاؤ کے لیے اس طاقت کا کوئی ثانی نہیں لیکن اس بحران نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ کڑی نگرانی کے بغیر یہ بازار بے قابو ہو سکتا ہے اور یہ کہ صرف خوشحال افراد کو فائدہ پہنچانے والی قوم زیادہ عرصے تک خوشحال نہیں رہ سکتی۔ ہماری معیشت کی کامیابی کا دارومدار صرف ہمارے جی ڈی پی کے حجم پر نہیں بلکہ ہماری خوشحالی کی پہنچ اور ہر خواہشمند فرد کو موقع کی فراہمی پر ہے۔ ہم یہ موقع خیرات میں نہیں دیتے بلکہ اس لیے دیتے ہیں کہ یہ مفادِ عامہ کا بہترین راستہ ہے۔ اگر ہمارے سامنے اپنے دفاع اور آئیڈیلز میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنے کی بات ہو تو ہم اس بات کو ہی رد کرتے ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد نے، جنہیں ان حالات کا سامنا تھا جن کے بارے میں آج تصور ہی کیا جا سکتا ہے، قانون کی حکمرانی اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے ایک چارٹر تیار کیا۔ یہ آئیڈیلز آج بھی موجود ہیں اور ہم انہیں مصلحتاً ترک نہیں کریں گے۔ چنانچہ دنیا کے تمام لوگ اور حکومتیں، بڑے سے بڑے دارالحکومتوں سے لے کر میرے والد کی جائے پیدائش اس چھوٹے سے گاؤں تک میں رہنے والے یہ جان لیں کہ امریکہ ہر اس مرد، عورت، بچے اور قوم کا دوست ہے جو پرامن اور عظیم مستقبل چاہتا ہے اور یہ کہ ہم ایک بار پھر رہنمائی کے لیے تیار ہیں۔ ہم اپنے اصولوں سے رہنمائی لیتے ہوئے ایک بار پھر ان خطرات سے نمٹ سکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں زیادہ تعاون، زیادہ کوشش اور اقوام کے درمیان زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ ہم ذمہ دارانہ انداز سے عراق کو اس کے عوام کے حوالے کرنا شروع کریں گے اور افغانستان میں مشکل سے حاصل کیا گیا امن قائم رکھیں گے۔ ہم اپنے پرانے دوستوں اور سابق دشمنوں سے مل کر جوہری ہتھیاروں میں کمی کے لیے انتھک کوششیں کریں گے۔ ہم اپنے طرزِ زندگی کے لیے نہ تو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کریں گے اور نہ ہی اس کی دفاع سے چوکیں گے۔ اور وہ جو دہشتگردی اور معصوم لوگوں کو ذبح کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہمارا عزم بلند ہے اور اسے توڑا نہیں جا سکتا۔ تم ہم سے آگے نہیں نکل سکتے اور ہم تمہیں شکست دے دیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مختلف النوع ورثہ ہماری طاقت ہے کمزوری نہیں۔ ہم عیسائیوں، مسلمانوں، یہودیوں،ہندوؤں اور دہریوں کی قوم ہیں۔ ہم میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے،ہر زبان بولنے والے لوگ اور کرہ ارض کے ہر کونے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ ہم نے خانہ جنگی اور امتیاز کا تلخ ذائقہ چکھا ہوا ہے اور چونکہ ہم اس سیاہ باب سے مزید مضبوط اور متحد ہو کر نکلے ہیں اس لیے ہم جانتے ہیں کہ پرانی دشمنیاں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی، قبیلوں کے لحاظ سے ہونے والی شناخت ختم ہو جائے گی اور دنیا مختصر ہو کر رہ جائے گی اور امریکہ کو امن کے اس نئے دور میں رہنما کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مسلم دنیا کے لیے میرا پیغام ہے کہ ہم ایک نئی راہ کی تلاش میں ہیں جس کی بنیاد باہمی احترام اور باہمی مفاد پر ہو۔ مغرب کو اپنے معاشرے کی خرابیوں کا ذمہ دار سمجھنے والے سمجھ لیں کہ آپ کے عوام آپ کو ان چیزوں پر پرکھیں گے جو کہ آپ نے تعمیر کیں نہ کہ جو آپ نے تباہ کیں۔ وہ لوگ جو رشوت ستانی اور دھوکے بازی سے اقتدار میں آئے ہیں جانتے ہیں کہ وہ تاریخ کی غلط سمت میں ہیں لیکن وہ جان لیں کہ ہم اس صورت میں ان کی جانب ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار ہیں اگر وہ اپنی مٹھی کھولنے پر آمادہ ہو جائیں۔ غریب ملکوں کے عوام سے ہم کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ آپ کی کاشت میں ترقی ہو، پینے کا صاف پانی میسر ہو اور جسم اور دماغ دونوں کی نشو نما کے لیے مواقع حاصل ہوں۔ اور ہم اپنے جیسے وسرے دولت مند ممالک سے کہتے ہیں کہ ہم دنیا کے غریب عوام کے مصائب کو مزید نظر انداز نہیں کرسکتے، اور نہ ہی ہم نتائج کی فکر کیے بغیر دنیا کے وسائل استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا بدل گئی ہے اور ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔ ہم ان بہادر امریکیوں کے شکر گزار ہیں جو دور افتادہ ریگستانوں اور پہاڑوں پر اس وقت بھی پہرہ دے رہے ہیں۔ ہم ان کے احسان مند ہیں نہ صرف اس لیے کہ وہ ہماری آزادی کے محافظ ہیں بلکہ خدمت کے جذمے کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر زندگی کا مقصد تلاش کرتے ہیں اور آج ہم سب کو اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حکومت جو کچھ کر سکتی ہے وہ تو کرے گی، لیکن یہ ملک ترقی کے لیے امریکی عوام کے عزم پر انحصار کرتا ہے۔ ہمیں اس مشکل کی گھڑی سے نکلنے کے لیے رحم دلی اور قربانی کے جذبے کی ضرورت ہے جو امریکی عوام دکھا رہے ہیں۔ ہمارے چیلنجز نئے ہوسکتےہیں، ان سے نمٹنے کے طریقے نئے ہوسکتے ہیں لیکن وہ اقدار جن پر ہماری کامیابی کا انحصار ہے، سخت محنت اور ایمانداری، شجاعت اور انصاف، رواداری اور تجسس، وفاداری اور محب الوطنی، تمام کی تمام پرانی ہیں۔ لیکن یہی صحیح ہیں۔ ہماری تاریخ میں انہیں اقدار کی بنیاد پر ترقی ہوئی ہے اور ہمیں انہیں کی جانب لوٹنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر امریکی اپنی ذمہ داری سمجھے اور اسے اس بات کا احساس ہو کہ ہمارے کچھ فرائض بھی ہیں، اپنے تئیں، اپنی قوم کے تئیں اور دنیا کے تئیں اور ہم ان ذمہ داریوں کو بوجھ نہیں سمجھتے بلکہ خوشی سے سنبھالتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ روح کی تسکین اور ہمارے کردار کی شناخت اس سے بہتر طریقے سے نہیں ہوسکتی کہ ہم مشکل حالات سے نمٹنے میں دل و جان سے جٹ جائیں۔ یہ شہریت کی قیمت اور وعدہ ہے۔ یہ ہماری آزادی اور نسل کا مطلب ہے کہ آج ہر نسل اور مذہب کے لوگ اس شاندار سڑک پر جشن منا رہے ہیں اور ایک ایسا شخص جس کے باپ کو ممکنہ طور پر ساٹھ برس قبل ایک مقامی ریستوران میں داخل نہ ہونے دیا جاتا، آج آپ کے سامنے کھڑا ایک مقدس ترین حلف اٹھا رہا ہے۔ اس لیے آؤ مل کر اس دن کو یاد رکھیں۔ یاد رکھیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کہاں آ پہنچے ہیں۔ امریکہ کی تشکیل کے سال میں، سرد ترین مہینوں میں محبِ وطن افراد کا ایک چھوٹا گروہ برفانی دریا کے ساحل ہر لکڑیوں کے بجھتے ہوئے الاؤ کر گرد بیٹھا تھا۔ دارالحکومت خالی ہو چکا تھا۔ دشمن آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ برف خون سے سرخ تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے انقلاب کا نتیجہ مشکوک تھا، قوم کے باپ نے لوگوں کو یہ پیغام دیا: ’ آنے والے زمانوں کی قومیں سن لیں کہ اس سردی میں جہاں صرف امید اور نیکی پنپ سکتی ہے کہ اس شہر اور ملک نے ایک مشترکہ خطرے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے متحد ہو کر اس کا مقابلہ کیا‘۔ امریکہ والوں، اس مشکلات کے موسم میں اور مشترکہ خطرات کا سامنا کرتے ہوئے یہ لازوال الفاظ امید اور نیکی کے ساتھ یاد رکھیں۔ آو مل کر ان برفانی بحرانوں کا مقابلہ کریں اور آنے والے طوفانوں سے نمٹیں۔ تاکہ ہمارے بچوں کے بچے یہ کہیں کہ جب ہم پر مشکل وقت پڑا تو ہم نے نہ اس سفر کو ختم کرنے سے انکار کیا،نہ پیٹھ دکھائی اور افق پر نظریں گاڑے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے تاکہ آزادی کا عظیم تحفہ آنے والی نسلوں تک پہنچایا جا سکے‘۔
150722_pakistan_foreign_ministers_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/07/150722_pakistan_foreign_ministers_zz
اشتہار برائے وزیرِ خارجہ
میرے پیارے پاکستانیو!
پاکستان میں نواز شریف حکومت کے دو برس کی تکمیل کے باوجود کل الوقتی وزیرِ خارجہ نہیں ہے پاکستان کا محکمہ خارجہ 68 برس سے ملک کو درپیش خارجی چیلنجوں سے نمٹ رہا ہے۔ اب تک اس محکمے کی رہنمائی سر ظفر اللہ خان اور محمد علی بوگرہ سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور صاحبزادہ یعقوب خان تک اور پھر خورشید محمود قصوری سے حنا ربانی کھر تک 23 سرکردہ ماہرین و اکابرین نے کی ہے۔ محکمہ خارجہ میں لگ بھگ 500 کیرئر ڈپلومیٹ اپنے فرائض تندہی اور قابلیت سے انجام دے رہے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے 90 سے زائد ممالک میں پاکستان کے سفارتخانے قائم ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ ، خلیجی ریاستوں ، ایران اور افغانستان سمیت کئی ممالک میں دو درجن سے زائد قونصل خانے بھی پاکستان کا وقار بلند کر رہے ہیں۔ کئی ممالک میں اعزازی سفیر اور قونصل جنرل بھی متحرک ہیں۔ اس وقت پاکستان کو پانچوں جانب سے جن سٹریٹیجک، عسکری اور سفارتی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران اور مغرب کے جوہری سمجھوتے اور شام کی خانہ جنگی اور یمن کی صورتحال کے سبب جس طرح مشرقِ وسطی کا نقشہ اتھل پتھل ہو رہا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں مودی حکومت علاقائی و بین الاقوامی محاذ پر جیسی پھرتیاں دکھا رہی ہے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں طالبان اور کابل حکومت کے مابین کسی جامع سمجھوتے کی جس قدر فوری ضرورت ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات میں اقتصادی و سیاسی گرمجوشی برقرار رکھنے کے لیے جو مہارت، اپچ اور توانائی درکار ہے اور سب سے اہم پاکستان کا بین الاقوامی امیج بہتر بنانے کے لیے جو تخلیقی صلاحیت چاہیے اس کے پیشِ نظر ایک ایسے کل وقتی ذہین و موقع شناس وزیرِ خارجہ کی فوری ضرورت ہے جو میرا اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا مشترکہ بوجھ ہلکا کر سکے۔ ویسے تو جواہر لال نہرو، جنرل یحییٰ خان اور بھٹو صاحب اپنے وزیرِ خارجہ خود ہی تھے لیکن نہرو جی نے یہ قلمدان ہوتے ہوئے بھی سنہ 62 کی انڈو چائنا جنگ ہاری، یحیٰی خان نے اس قلمدان کو اپنے سینے سے لگایا مگر پاکستان کا سینہ شقّ کر دیا اور بھٹو صاحب کی خارجہ مہارت بھی انہیں معزولی اور پھانسی سے نہ بچا سکی۔ چنانچہ آپ میں سے کئی لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ جب میں نے پچھلے دورِ حکومت میں گوہر ایوب اور پھر سرتاج عزیز پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کل وقتی وزیرِ خارجہ رکھا تو اس بار کیا قباحت ہے کہ حنا ربانی کھر کے بعد سے پاکستان کو گذشتہ ڈھائی برس سے کوئی ایسا مناسب شخص میسر نہ آ سکا جو یہ بھاری پتھر چوم سکے؟ مجھے شوق نہیں کہ وزراتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھوں ورنہ میں اس وقت آپ سے مخاطب ہی کیوں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ گوہر ایوب صاحب برے آدمی نہیں مگر کیا کیا جائے کہ وہ برے وقت میں پارٹی چھوڑ کر ق لیگ میں چلے گئے۔ اب میں کس منہ سے اًس منہ سے بات کروں؟ جہاں تک سرتاج عزیز کا معاملہ ہے تو یقیناً انہیں مشیرِ خارجہ کے عہدے سے ترقی دے کر مکمل وزیرِ خارجہ بنانے میں کوئی قباحت نہیں مگر جب بھی اس بارے میں کسی فیصلے پر پہنچنے لگتا ہوں تو برادرِ خورد شہباز شریف یاد دلا دیتے ہیں کہ’پائی جان بابا جی 12 اکتوبر انیس سو نڑیہنوے نوں وی وزیرِ خارجہ سن ۔اینہاں نے اس ویلے کی پٹ لیا؟‘ حنا ربانی کھر گذشتہ دورِ حکومت میں وزیرِ خارجہ کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہی تھیں اس کے بعد میرے زخم بھی ہرے ہوجاتے ہیں اور میں اپنا فیصلہ ملتوی کردیتا ہوں۔ لیکن اب جبکہ میری مدتِ اقتدار آدھی گذر چکی اور ہر ایرا غیرا منہ کو آ رہا ہے تو میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ آپ سے براہ راست رجوع کروں۔ چونکہ میری حکومت میرٹ پر یقین رکھتی ہے لہذٰا نیا وزیرِ خارجہ بھی اسی اصول کے تحت درکار ہے۔ ویسے تو ڈپلومیٹک کور میں ایک سے ایک تجربہ کار کھڑپینچ پڑا ہے مگر ان میں سے بیشتر اچھے منتظم ضرور ہیں لیکن ان میں تخلیقی اپچ کی کمی ہے اور پھر محکمے میں سے کسی ڈپلومیٹ کو ترقی دینے سے سینیئر جونیئر کی بحث بھی چھڑ سکتی ہے جس سے محکمے کی کارکردگی اور متاثر ہوگی۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ باہر سے درخواستیں طلب کی جائیں۔ پاکستان کے تمام شہری جو اکہری شہریت رکھتے ہیں۔ وزیرِ خارجہ کی آسامی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ عمر کی قید نہیں مگر امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی مستند یونیورسٹی کا گریجویٹ ہو، اردو اور انگریزی میں مناسب مہارت رکھتا ہو ( دیگر زبانوں میں مہارت اضافی تصور ہوگی)، خوش لباس و ہنس مکھ ہو، عالمی جغرافیے اور حالاتِ حاضرہ سے کماحقہہ واقف ہو، سیر سپاٹے کا شوقین ہو، بست ہوجائے تو ماتھے پر شکن نہ آئے۔ مطالعے کا بھلے رسیا نہ ہو مگر کم ازکم ایک اخبار ضرور پڑھتا ہو نیز شارٹ ہینڈ جانتا ہو تاکہ آسانی سے فوری ڈکٹیشن لے سکے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو بھی پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے عہدے پر فائز رہے انٹرویو بورڈ چار افراد پر مشتمل ہوگا یعنی وزیرِ اعظم، وفاقی یونٹوں کا ایک نمائندہ ( وزیرِ اعلیٰ پنجاب)، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف آف آرمی سٹاف۔ بعد از تقرری بھی امیدوار جملہ امور کے لیے اسی بورڈ کو جوابدہ ہوگا۔ درخواست دینے کی آخری تاریخ بوجوہ مقرر نہیں کی جا رہی۔ اصل مقصد مناسب امیدوار کی تلاش ہے لہذا حتمی تاریخ دینے سے بہتر ہے کہ میں انتظار کروں اور تب تک ملک و قوم کے مفاد میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالے رہوں۔ آخر میں پھر وضاحت کرنا چاہوں گا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ اختیارات جمع کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ورنہ وفاقی و پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کو دفاع اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کو وزارتِ قانون نہ تھماتا۔ اب آپ یہ جگت نہ مار دیجئے گا کہ وزیرِ خارجہ رکھو نہ رکھو دیگر قلمدانوں کے جوڑے تو ٹھیک کر لو۔ جب تک امورِ خارجہ کے حساس اور ٹیکنیکل قلمدان کی رکھوالی کے لیے کم ازکم اسحاق ڈار جیسا کوئی فرض شناس، وفادار اور چوہدری نثار علی خاں جیسا قابل امیدوار نہیں مل جاتا۔ مجھے ہی وزارتِ خارجہ کو چار و ناچار دیکھنا پڑے گا۔ امیدوار اپنی درخواستیں دفترِ خارجہ کے بجائے براہ راست وزیرِاعظم سیکرٹیریٹ بھیجیں اور لفافے پر صاف صاف لکھیں ’باملاحظہ وزیرِ خارجہ پاکستان معرفت وزیرِ اعظم پاکستان۔‘ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو، پاکستان پائندہ باد۔
031228_2003_sports_overview_na
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2003/12/031228_2003_sports_overview_na
پاکستان اسپورٹس اور 2003
باکسنگ
باکسنگ رنگ میں پاکستانی باکسرز حسب معمول اپنے حریفوں کے چہروں پر نشانات ثبت کرکے سینے پر چمکتے تمغے سجاتے رہے لیکن یہ خبر پہلی بار سننے کو ملی کہ سرکار نے بھی باکسرز اور باکسنگ کی قسمت بدلنے پر توجہ دی۔ ایتھنز اولمپکس کی بھرپور تیاری اور انڈوراسٹیڈیم کے لئے صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان باکسنگ فیڈریشن کو ایک کروڑ روپے کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے بوسان ایشین گیمز میں پاکستان کا واحد گولڈ میڈل جیتنے والے باکسر مہراللہ کو پچاس لاکھ روپے کا آنکھوں کو خیرہ کردینے والا نقد انعام بھی دیا اور اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والے پاکستانی باکسر کے لئے ایک کروڑ روپے کا اعلان بھی کیا ہے۔ سن دو ہزار تین میں مہراللہ نے پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ تین طلائی اور دو نقرئی تمغے جیتے۔ انہوں نے کوالا لمپور میں منعقدہ کامن ویلتھ چیمپئن شپ کے علاوہ کراچی کے گرین ہل اور چین کے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں سنہرے چمکتے تمغے اپنے سینے پر سجائے۔ اصغر علی شاہ نے کامن ویلتھ چیمپئن شپ کے علاوہ گرین ہل انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں گولڈ میڈل جیتا۔ اس سال پاکستان نے پہلی مرتبہ عالمی امیچر باکسنگ چیمپئن شپ میں حصہ لیا۔ نعمان کریم اس مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ بخارسٹ میں ہونے والی ورلڈ کیڈٹ چیمپئن شپ میں بھی پاکستان نے پہلی مرتبہ شرکت کی اور تین میں سے ایک باکسر علی محمد نے کوارٹرفائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس سال پاکستان نے مجموعی طور پر چھ گولڈ میڈل، نو چاندی کے تمغے اور تیرہ کانسی کے تمغے جیتے۔ سنوکر یہ سال پاکستان اور بھارت کے لئے امیچر سنوکر میں خوشی کا پیغام لے کر آیا۔ چین میں ہونے والی عالمی امیچر سنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں مدمقابل ہونے والے کھلاڑی پاکستان کے صالح محمد اور بھارت کے پنکج ایڈوانی تھے جس میں بنگلور سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ طالب علم پنکج ایڈوانی نے چھ کے مقابلے میں گیارہ فریمز سے اپنے تجربہ کار حریف کو قابو کرلیا۔ صالح محمد فائنل تک آتے آتے کسی کھلاڑی سے نہیں ہارے تھے لیکن فائنل میں وہ عالمی اعزاز کا فیصلہ کن مقابلہ اپنے نام کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ عالمی مقابلے میں ان کی سب سے بہترین پرفارمنس تھی۔ اس سے قبل چین ہی میں پانچ سال قبل منعقد ہونے والی ورلڈ امیچر سنوکر چیمپئن شپ میں وہ سیمی فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس سال پاکستان اور بھارت سنوکر ٹیبل پر آمنے سامنے آئے جسے مبصرین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں پہلا قدم قراردیا۔ کراچی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی پہلی سنوکر ٹیسٹ سیریز میں پاکستان نے دلچسپ مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کی۔ اس سیریز میں دونوں جانب سے جانے پہچانے کیوسٹس نے شرکت کی۔ سیریز میں میں سابق عالمی اور ایشین چیمپئن محمد یوسف ، دو مرتبہ کے ایشین چیمپئن یاسین مرچنٹ اور موجودہ عالمی امیچر چیمپئن پنکج ایڈوانی کے علاوہ صالح محمد، نوین پروانی ، الوک کمار مانن چندرا اور خرم آغا شامل تھے۔اس سال کھیلوں کے کئی مقابلے سارز وائرس کی وباء پھیلنے سے متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں بھارت میں ایشین سنوکر چیمپئن شپ منعقد نہ ہوسکی۔ ہاکی پاکستان ہاکی کے لئے یہ سال ملی جلی کارکردگی کا حامل رہا۔ پاکستان نے سال کا آغاز کوالالمپور میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ جیت کر کیا۔ فائنل میں اس نے جرمنی کو ایک گول سے شکست دی لیکن ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کو روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں دو کے مقابلے میں چار گول سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایمسٹرڈیم میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان نے لیگ میچ میں 4 --- 7 سے شکست کھانے کے بعد بھارت کو تیسری پوزیشن کے میچ میں 3---4 سے ہرا کر کانسی کا تمغہ جیتا۔ سہیل عباس سمیت تین اہم کھلاڑیوں کے فیڈریشن کو بتائے بغیر جرمنی میں لیگ کھیلنے کا تنازعہ کوچ شہناز شیخ کے استعفے پر منتج ہوا۔ ان کھلاڑیوں کے بغیر پاکستان ٹیم آسٹریلیا میں کھیلے گئے چار قومی ٹورنامنٹس میں مایوس کن کارکردگی کے بعد چوتھے نمبر سے اوپر نہ جاسکی۔ پاکستان ہاکی ٹیم سال کے دوران شہناز شیخ کے بعد دوسرے مینجر رشید جونیئر کی خدمات سے بھی محروم ہوگئی جنہوں نے فیڈریشن کی پالیسیوں سے اختلاف کے نتیجے میں استعفٰی دے دیا جس کے بعد ہالینڈ کے رولینٹ آلٹمینز قومی ٹیم کے کوچ بنادیے گئے۔ ان کے علاوہ ہالینڈ کے سابق گول کیپر جینسن کو پاکستان ٹیم کا گول کیپنگ کوچ مقرر کیاگیا ہے۔ پاکستان کو حیدرآباد دکن میں ہونے والے افرو ایشین گیمز کے فائنل میں بھی بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ وہی پرانی تھی کہ سہیل عباس ٹیم میں شامل نہ تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن لاکھ یہ دعوٰی کرے کہ پاکستان ٹیم ون مین شو نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ میدان میں سہیل عباس واضح فرق بن کر سامنے آتے ہیں۔ 2003 ء میں سہیل عباس 27 گول کے ساتھ پاکستان ہاکی ٹیم کے سب سے نمایاں کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے۔ اسکواش وہ دن گئے جب اسکواش کورٹس پر پاکستان کی بالادستی تھی۔ اب معاملہ پہلے دوسرے راؤنڈز یہاں تک کوالیفائنگ راؤنڈز سے آگے کا نہیں رہا۔ عالمی رینکنگ میں سب سے اچھی پوزیشن کے حامل پاکستانی کھلاڑی منصور زمان نے ملک میں چھوٹی انعامی رقم والے ٹورنامنٹس کے دو فائنلز کھیلے لیکن دونوں میں وہ اپنے سے نیچے رینکنگ کے فرانسیسی کھلاڑی گریگوری گالٹیئر سے ہارگئے۔ برٹش اوپن اور ورلڈ اوپن میں وہ دوسرے راؤنڈ سے آگے نہ جاسکے۔ شاہد زمان نے تین سال قبل بین الاقوامی مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھاکر اپنے روشن مستقبل کی نوید سنائی تھی لیکن اب ان کا کھیل بلندی کی بجائے زوال پذیر ہے۔ اس سال وہ کوچ رحمت خان سے زبانی جنگ میں زیادہ مصروف رہے۔ ورلڈ اوپن میں وہ پہلے ہی میچ میں شکست سے دوچار ہوگئے۔ ورلڈ ٹیم چیمپئن شپ پاکستان نے نویں پوزیشن حاصل کی۔ گوکہ یہ پوزیشن گزشتہ چیمپئن شپ کی گیارہویں پوزیشن سے بہتر تھی لیکن اہم میچوں میں برتری لینے کے بعد پاکستانی کھلاڑی اپنے سے نیچے رینکنگ کے کھلاڑیوں سے بھی میچ نہ جیت سکے۔ سینیئر کھلاڑیوں کے کوچ رحمت خان کے ساتھ اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ یہ کھلاڑی کوچ کے ساتھ تربیت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ سابق عالمی چیمپئن جہانگیرخان کے مطابق ورلڈ ٹیم ایونٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کا ڈسپلن مایوس کن تھا۔ سینیئر کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی کے برعکس نوجوان جونیئر کھلاڑی روشن مستقبل کی امید کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سال کے اوائل میں رحمت خان کے تربیت یافتہ نوجوان کھلاڑیوں نے برٹش اوپن جونیئر مقابلوں میں اپنے بھرپور جوہر دکھائے۔ سفیرخان نے بیس سال کے طویل انتظار کے بعد پاکستان کے لئے پہلا انڈر 19 ٹائٹل جیتا۔ یاسربٹ، فرحان محبوب اور عامر اطلس نے بھی اپنے باصلاحیت ہونے کا مکمل ثبوت فراہم کیا اور انڈر 17 انڈر 13 مقابلوں میں شاندار پرفارمنس دی۔ کرکٹ 2003 پاکستانی کرکٹ کے لئے میدان اور میدان سے باہر زبردست اتارچڑھاؤ کے سبب انتہائی ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا۔ جنوبی افریقہ میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم ناک آؤٹ مرحلے سے قبل ہی واپسی کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے تشکیل نو کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سینئر کھلاڑیوں کو گھر کا راستہ دکھایا اور انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہنے والے راشد لطیف کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہوئے قیادت کی ذمہ داری سونپ دی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی لیکن اس کی کسی کا کچھ نہ بگاڑنے والی روایتی رپورٹ اخبارات و جرائد کے صفحات سیاہ کرنےکے بعد داخل دفتر کردی گئی اور ورلڈ کپ میں ٹیم کی شکست کے ذمہ دار کھلاڑی ایک ایک کرکے واپس بلالئے گئے۔ راشد لطیف کی کپتانی میں پاکستان ٹیم نے شارجہ کپ جیتا، سری لنکا کے ون ڈے ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا ، انگلینڈ میں ون ڈے سیریز میں عمدہ پرفارمنس دی اور بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز دونوں میں کلین سوئیپ کیا۔ تاہم چیف سلیکٹر عامر سہیل سے شدید اختلافات کے نتیجے میں راشد لطیف کپتانی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں متنازعہ کیچ پر وہ پانچ ون ڈے انٹرنیشنل کی پابندی کی زد میں آئے۔ ٹیم میں واپسی برائے نام ہوئی کیونکہ قیادت انضمام الحق کو سونپی جاچکی تھی۔ سال کا سب سے بڑا تنازعہ جیو ٹی وی کو نیوزی لینڈ کے خلاف نشریاتی حقوق دیئے جانے کی صورت میں سامنے آیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی براہ راست کرکٹ کوریج کی تاریخ میں پہلی بار کوئی میچ براہ راست ٹیلی کاسٹ نہ ہوسکا۔ اسی دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ توقیر ضیا نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جو کافی دنوں سے اپنے بیٹے کو ہم عصر باصلاحیت کھلاڑیوں پر فوقیت دے کرضرورت سے زیادہ کھیلنے کے مواقع دیئے جانے پر زبردست تنقید کی زد میں تھے۔ توقیرضیا کو خوش کرنے والے ان کے مشیروں کی حواس باختگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روز چیف سلیکٹر انہیں جونیئر ٹیم کا کپتان بنانے کا اعلان کردیتے ہیں تو دوسرے دن جنرل صاحب انہیں کپتانی سے ہٹاکر میڈیا کی زبردست تنقید کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک روز انہیں عمرگل جیسے بولر پر ترجیح دے کر نیوزی لینڈ کے دورے پر جانے والی پاکستان ٹیم میں شامل کرنے کا چونکا دینے والا اعلان کیا جاتا ہے تودوسرے دن جنرل صاحب کے مشیروں کو خیال آجاتا ہے کہ جنید ضیاء کے امتحانات سر پر ہیں لہذا وہ نیوزی لینڈ نہیں جاسکیں گے لیکن امتحانات کی یہ کیسی تیاری ہے کہ وہ انہیں تاریخوں میں بھارت کے اے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی پاکستان اے کرکٹ ٹیم میں بدستور موجود رہے۔ ایک فوجی کے جانے کے بعد پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور ایک سفارتکار کے سپرد کردی گئی ورلڈ کپ میں 16 کھلاڑیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہنے والے انہتر سالہ شہریار خان پاکستان کرکٹ بورڈ ایڈہاک کمیٹی کے نئے سربراہ مقرر کردیئے گئے۔ لیکن کرکٹ کے حلقے شدت سے ان کے ان اقدامات کے منتظر ہیں جن سے وہ یہ ثابت کرسکیں کہ کرکٹ بورڈ میں ہونے والی تبدیلی محض چہرے کی تبدیلی نہیں ہے۔ دنیا کے لئے ’نوگو‘ ایریا قرار دیئے جانے والے میدان بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے پاکستان آنے سے پھر آباد ہوئے لیکن جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کا پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہ کھیلنے کا اصرار بدستور قائم رہا۔ ایک طویل عرصے تک جمی برف پگھلنے کو ہے اور دنیا بے چینی سے بھارتی کرکٹ ٹیم کے پاکستان کے دورے کی منتظر ہے۔ 2003 میں پاکستانی کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی کے لحاظ سے یوسف یوحنا، توفیق عمر، یاسرحمید، عمران فرحت اور محمد سمیع نمایاں رہے۔ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین پاکستان کے یوسف یوحنا رہے۔ بیٹسمینوں میں توفیق عمر سرفہرست رہے، یاسرحمید نے بنگلہ دیش کےخلاف کراچی میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز دونوں اننگز میں سنچریوں کے ساتھ کیا۔ ان سے قبل یہ منفرد اعزاز صرف ویسٹ انڈیز کے لارنس رو کو حاصل تھا۔ یاسرحمید نے نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں عمران فرحت کے ساتھ لگاتار چار میچوں میں پہلی وکٹ کے لئے سنچری شراکتیں قائم کرکے نئی تاریخ رقم کی۔ عمران فرحت نے توفیق عمر کے ساتھ جنوبی افریقہ کے خلاف لگاتار تین اننگز میں پہلی وکٹ کی سنچری پارٹنرشپ بنائیں۔ فاسٹ بولر شعیب اختر کبھی فٹ تو کبھی ان فٹ رہ کر شہ سرخیوں میں رہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پال ایڈمز کے ساتھ زبانی جنگ انہیں مہنگی پڑگئی اور وہ ایک ٹیسٹ اور دو ون ڈے کی پابندی کی زد میں آئے البتہ وقفے وقفے سے ان کے طوفانی اسپیل دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ 2003 ء میں دو عالمی ریکارڈ ہولڈرز نے دنیائے کرکٹ کوالوداع کہا۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں پانچ سو وکٹیں حاصل کرنے والے عہد ساز وسیم اکرم کا ہنگامہ خیز عہد اختتام کو پہنچا۔ اسی طرح ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں 194 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلنے والے سعید انور نے بھی یہ اندازہ لگالیا کہ وقت اب ان کا نہیں رہا۔ انہوں نے بھی کرکٹ کو خدا حافظ کہہ دیا تاہم ان کے ہم عصر وقار یونس کرکٹ کے میدان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور اب بھی پاکستان ٹیم میں واپسی کے لئے پرعزم ہیں۔
080720_delhi_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/07/080720_delhi_diary_awa
سیاسی افرا تفری اور کشمیر پربدلتا رجحان
سیاسی افرا تفری کا عالم
ہندوستان میں جوہری معاہدے پر منموہن سنگھ حکومت اور بائیں باوزو کی جماعتوں میں اختلافات ابتدا سے ہی تھے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ باياں محاذ حکومت سے کبھی بھی حمایت واپس لے سکتا ہے۔ لیکن حکمراں کانگریس اور حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی دونوں ہی بڑی جماعتیں پارلیمنٹ میں اعتماد کی تحریک کے لیے تیار نہیں تھیں۔ گھبراہٹ میں دونوں ہی جماعتیں اب ایک دوسرے کی صفوں میں شب خوں مارنے کی کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس وقت دارالحکومت دلی میں سیاسی افرا تفری کا عالم ہے۔ کافی عرصے بعد اندر کمار گجرال اور دیوے گوڑا کے زمانے کی طرز کی سیاسی سرگرمیاں دلی میں واپس لوٹی ہیں۔ وقت سے پہلے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کیے جانے سے پارلیمنٹ کے عملے کو بھی صفائی ستھرائی سے لے کر اعتماد کی تحریک پر بحث تک کی تیاریاں ہنگامی طور پر کرنی پڑی ہیں۔اعلی سرکاری افسر بھی اس وقت سانس روکنے بیٹھے ہیں کہ دیکھیے پارلیمنٹ میں کیا ہوتا ہے۔ کشمیر کے بارے میں بدلتا رجحان ایک سروے کے مطابق ہندوستان اور پاکستان دونوں کی اکثریت اس بات کے لیے تیار ہے کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دینا چاہیے۔ ورلڈ پبلک اوپینئن کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اگر کشمیریوں کی اکثریت آزادی کا انتخاب کرتی ہے تو ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی اکثریت اس آزادی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ جائزہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف ممکنہ حل کے بارے میں کیا گيا تھا۔ کشمیر کے سوال پر دونوں حلقوں میں ممکنہ حل کے بارے میں لوگوں نے کھلے پن کا اظہار کیا ہے۔ جن لوگوں کا سروے کیا گيا ہے ان ميں 75 فیصد پاکستانی جموں و کشمیر کی آزادی کو تسلیم کرنے یا آزاد کرنے کے حق میں ہيں۔ پچاس فیصد ہندوستانیوں نے اس کی مخالفت کی جبکہ دیگر پچاس فیصد نے کہا کہ یہ کم از کم قابل قبول ہے یا اس سوال کا جواب نہیں دیا ۔ جموں و کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے کی تجویز زیادہ قابل قبول نہيں ہے۔ پاکستان میں 52 فیصد اس کے خلاف ہيں۔ ہندوستان ميں 48 فیصد نے اس کی مخالفت کی جبکہ 58 فیصد نے اس کا یا تو جواب نہيں دیا یا اسے کسی حد تک قابل قبول کہا۔ گجرات کا دوسرا پہلو گجرات کا جب ذکر آتا ہے تو عموماً فسادات اور گودھرا کے واقعات فوراً ذہن میں آجاتے ہيں۔ لیکن ان تنازعات کے درمیان گجرات وزیر اعلی نریندر مودی کی قیادت میں تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں گجرات کی انتظامہ کو ملک کی سب سے بہترین اور باصلاحیت انتظامیہ قرار دیا گيا۔ گجرات صوبہ سرمایہ کاری کے لحاظ سے ہندوستان کے اولین صوبوں میں سے ہے۔ گزشتہ دنوں اسٹیٹ پٹیرولیم کارپوریشن نے صوبے کے کرشنا گوداوری بیسین میں قدرتی گیس کے ایک بڑے ذخیرے کو دریافت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلی نریندر مودی نے کارپوریشن کے جائزے کے مطابق بتایا کہ اس ذخیرے میں تقریبا سو ارب ڈالر مالیت کی گیس موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں گجرات پیٹرولیم کارپوریشن صوبے کی توانائی کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کا اہل ہوگا۔ جعلی دواؤں کے لیے عمر قید گزشتہ دنوں کابینہ جعلی دواؤں سے متعلق قانون میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔ موجودہ قانون کے تحت جعلی دوائيں بنانے کے جرم ميں پکڑے بانے والے پانچ سال کی قید اور دس ہزار تک کا جرمانہ کیا جاتا تھا۔ لیکن ترمیم شدہ قانون میں یہ سزا بڑھانے کر عمر قید کرنے اور جرمانہ دس لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ مجوزہ قانون میں کئي ایسے معاملات کو غیر ضمانتی زمرے ميں رکھا گیا ہے جن ميں پہلے ضمانت مل جاتی تھی۔ میدانی بیت الخلا میں ہندوستان سب سے آگے دنیا ميں تقریبا ایک ارب بیس کروڑ افراد اب بھی رفع جاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہيں اور ہندوستان میں ایسے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ صفائی ستھرائي اور پینے کے صاف پانی کی سپلائی سے متعلق عالمی تنظیم صحت کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تقریبا 67 کروڑ افراد کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے لیے جاتے ہيں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گيا ہے کہ پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ 1990 میں یہ تعداد 24 فیصد تھی جو 2006 میں گھٹ کر 18 فیصد ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ ہندوستان ميں حالات میں کچھ بہتری آئي ہے لیکن ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
130626_book_review_rwa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/06/130626_book_review_rwa
ایک دلچسپ داستان، ایک مختلف بیان
نام کتاب: جادۂ تسخیر
مصنف: محمد حیدر علی تدوین: سلیم سہیل صفحات: 326 قیمت: 500 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور sanjhpks@gmail.com اپنے لڑکپن کی ابتدا پر میں نے اردو اور پنجابی کی داستانوں اور قصوں کی کتابوں کو ٹھیلوں اور اُن دکانوں پر بِکتے ہوئے دیکھا تھا، جو ہر ایسی جگہ پر لگا لی جاتی تھیں، جہاں زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کا امکان ہوتا تھا۔ تب پڑھنے سے میری رغبت صرف بر بنائے خوف تھی۔ یوں بھی سرکاری اور دفتری ملازمتیں کرنے والے سفید پوش خاندان میں اس نوع کی کتابوں کی آمد اور پڑھے جانے کو اچھا کہاں سمجھا جاتا تھا۔ میری گنتی اگرچہ بگڑوں میں ہوتی تھی پھر بھی میں ان میں کوئی کتاب کبھی حاصل نہ کر سکا لیکن اب جو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو لال، ہرے اور سیاہی مائل سرخ رنگ کی وہ تصویریں ضرور یاد آتی ہیں جو ٹائٹلوں پر چھپی ہوتی تھیں۔ بہت یاد کرنے پر قصہ گُل بکاؤلی، داستانِ امیر حمزہ، الف لیلہ، داستان ہیر رانجھا، داستان سوہنی مہیوال اور کلام شاہ حسین سے آگے کوئی نام یاد نہیں آتا۔ یہ ساری باتیں مجھے ’جادۂ تسخیر‘ کو پڑھتے ہوے یاد آئیں۔ وصول ہونے سے پہلے میں نے کبھی اس کتاب کا نام تک نہ تو سنا اور نہ کہیں پڑھا تھا۔ میں سلیم سہیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور اب تک بھی اتنا جانتا ہوں کہ انھوں نے جادۂ تسخیر کی تدوین کی ہے۔ کتاب میں انھوں نے پیش گفتار کے عنوان سے ایک تعارف لکھا ہے۔ کیوں کہ اس کتاب کے سلسلے میں انھیں مظہر محمود شیرانی، محمد کاظم، تحسین فراقی اور محمد سلیم الرحمٰن کا تعاون بھی حاصل رہا ہے تو مجھے یقین ہے جو کچھ اس میں انھوں نے لکھا ہے وہ محض داستانوں سے ان کی محبت کا وفور نہیں ہے، اگر چہ ان کے انداز میں قدرے جذباتیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مغرب سے مرعوبیت کی ابتدا تو 1857 میں جدوجہدِ آزادی کی ناکامی کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے مروج اردو شاعری پر نکتہ چینی ہوئی اور اُسے فرسودہ اور پُر از تکرار اور غیر حقیقی شے قرار دے دیا گیا۔ داستانوں پر اس قدر سختی سے تنقید نہیں ہوئی، اس کا سبب یہ تھا کہ شاعری کو اہم سمجھا جاتا تھا۔ داستانوں کو بہت سے لوگ ادب کا حصہ قرار دینے کو بھی تیار نہیں تھے‘۔ مزید ’ترقی پسند ادب کی تحریک کی مقبولیت نے جس کے نزدیک ادب کا واقعیت پسند اور افادیت آمیز ہونا لازمی تھا داستانوں کو ادب کے دائرے سے تقریبًا باہر دھکیل دیا‘۔ اب وہ بیسویں صدی کے آخری نصف پر آتے ہیں جب داستانوں کو اہمیت دینے والے نقاد سامنے آئے۔ سب سے پہلے کلیم الدین احمد نے ’اردو زبان اور فنِ داستان گوئی‘ لکھ کر داستان نگاری کے نظری مباحث کا تعین کیا اور طلسمِ ہوشربا، بوستانِ خیال، باغ و بہار، فسانۂ عجائب اور منظوم داستانوں میں سحر البیان اور گلزارِ نسیم کو پہلی مرتبہ اچھوتے انداز سے دیکھا۔ اس کے بعد وہ محمد حسن عسکری، گیان چند جیں، شمس الرحمٰن فاروقی، نیّر مسعود، ہائزخ زمر، شمیم حنفی اور دیگر کئی کے کاموں کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ سہیل بخاری، آغا سہیل اور سہیل احمد تک آتے ہیں جنھوں نے داستان کی تنقید میں مشرق و مغرب کے ماخد یکجا کیے۔ یہ سارا پس منظر بیان کرنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ جادۂ تسخیر پہلی بار سن 1872 میں اور اس اشاعت سے پہلے آخری بار سنہ 1895 میں نول کشور پریس سے شائع ہوئی۔ اس زمانے میں نول کشور کے ہاں سے کتاب کا شائع ہونا از خود معیار کی ضمانت تھا۔ سلیم سہیل جادۂ تسخیر کا موازنہ فسانۂ عجائب سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’فسانۂ عجائب میں آورد اور الجھاؤ کا احساس ہوتا ہے جب کہ جادۂ تسخیر میں آمد کا عنصر غالب ہے‘۔ جزیاتی حسن زیادہ ہے، تلازمہ زیادہ مضبوط ہے اور تفاصیل کے بیان میں قطعیت ہے۔ اس کے علاوہ نثر میں قوافی کا التزام، منظر کے بیان میں محل و وقوع کو موافقت، سراپا نگاری، اسم با مسمٰی کردار اور مشاہدہ ہے۔ سلیم سہیل نے یقینی طور پر تدوین بڑی محنت سے کی ہے اور کتاب کے آخر میں ایک فرہنگ بھی مرتب کر دی ہے جو آنے والے وقت کے پیش نظر اور تفصیلی ہوتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔ جادۂ تسخیر محمد حیدر علی خاں کی لکھی ہوئی ہے جن کا تعلق رام پور کے فرما رواؤں میں سے تھا۔ انھوں نے یہ داستان شوق کے طور پر لکھی ہو گی۔ اس میں انھوں نے پانچ چھ سال کا عرصہ لگایا۔ موجودہ حالت میں 210 صفحے ہیں۔ کہانی تو اتنی ہے کہ ایک شہزادہ شکار کو جاتا ہے، ایک ہرن کا پیچھا کرتا ہے، لشکر سے بچھڑ کر ایک باغ میں پہنچتا اور ایک بزرگ سے ملتا ہے، بزرگ کی ہدایت کے برخلاف اُس باغ میں داخل ہو جاتا ہے جس میں ایک شہزادی کا مجسمہ ہے وہ اس پر فریفتہ ہوتا ہے۔ اس شہزادی کے حصول میں دنیا بھر کی مصیبتیں جھیلتا ہے اور شہزادی کو حاصل کر کے لوٹتا ہے۔ لیکن سارا لطف تفصیل کا ہے۔ تفصیل میں اُس زمانے کی سماجیات اور اخلاقیات کا بیان بھی ہے یہی اس کہانی کا حُسن اور مصنف کا کمال ہے جو اسے دوسری کہانیوں سے الگ کرتا ہے۔ جس زمانے میں یہ داستان لکھی گئی اس میں داستان گوئی کا دور تو تھا لیکن لکھنے کا رواج نہیں تھا کیوں کہ ہر ایک کے لیے شائع ہونا بھی آسان نہیں تھا ورنہ کتنی ہی ایسی داستانیں ہوتیں جو ہو سکتا تھا کہ محفوظ داستانوں سے کہیں آگے کی تخلیقات ہوتیں۔ مجموعی طور پر سلیم سہیل نے ایک اہم کام کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت نہ صرف داستانوں میں اضافہ بلکہ زبان کے لیے بھی اہم تصور ہو سکتی ہے۔
150124_fa_cup_upsets_chelsea_mancity_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/01/150124_fa_cup_upsets_chelsea_mancity_zs
ایف اے کپ میں اپ سیٹس کا دن، چیلسی اور مانچسٹر سٹی باہر
ا
چیلسی کے مینیجر ہوزے مورینہو نے کہا ہے کہ وہ چوتھے راؤنڈ میں اپنی ٹیم کی اس شکست پر ’پشیمان‘ اور ’شرمندہ‘ ہیں نگلینڈ میں فٹبال کے ایف اے کپ مقابلوں میں ملک کے دو بڑے فٹبال کلبوں چیلسی اور مانچسٹر سٹی کی ٹیمیں چوتھے راؤنڈ میں غیر معروف ٹیموں سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی ہیں۔ سنیچر کا دن ایف اے کپ میں اپ سیٹس کا دن رہا جب انگلش پریمیئر لیگ میں ابتدائی دو پوزیشنز پر براجمان لندن کے کلب چیلسی اور مانچسٹر کے مانچسٹر سٹی کو بالترتیب بریڈفرڈ اور مڈلزبرو نے شکست دی۔ چیلسی کے ہوم گراؤنڈ سٹیمفرڈ برج میں کھیلے گئے میچ میں ایک موقع پر چیلیسی کو صفر کے مقابلے میں دو گول کی برتری حاصل تھی۔ یہ برتری کیہل اور رمیرز نے 21ویں اور 38ویں منٹ میں گول کر کے دلوائی۔ لیکن پھر بریڈفرڈ سٹی کی ٹیم میچ میں واپس آئی اور 41ویں منٹ میں سٹیڈ کے گول کی بدولت چیلسی کی برتری کم کر دی۔ دوسرے ہاف میں مہمان ٹیم نے اپنے سے کہیں بہتر کھلاڑیوں پر مشتمل چیلسی کی ٹیم کی ایک نہ چلنے دی اور موریس، ہالیڈے اور یئیٹس کے گولوں کی بدولت یہ میچ چار دو کے سکور سے جیت لیا۔ یہ لگارتار دوسرا برس ہے کہ مانچسٹر سٹی کو چیمپیئن شپ کھیلنے والی کسی ٹیم نے ایف اے کپ سے باہر کیا ہے چیلسی کے مینیجر ہوزے مورینہو نے کہا ہے کہ وہ چوتھے راؤنڈ میں اپنی ٹیم کی اس شکست پر ’پشیمان‘ اور ’شرمندہ‘ ہیں۔ مورینہو نے کہا کہ ’ایک بڑی ٹیم کے لیے نچلی لیگ سے تعلق رکھنے والی ایک چھوٹی ٹیم سے ہارنا اس کی بےعزتی ہے اور مجھے اور کھلاڑیوں کو شرمندہ ہونا چاہیے۔‘ دن کے دوسرے اپ سیٹ میں مڈلزبرو نے مانچسٹر سٹی کو صفر کے مقابلے میں دو گول سے ہرایا۔ اس میچ کے پہلے ہاف میں کوئی ٹیم گول نہ کر سکی اور دوسرے ہاف میں میچ کے 53ویں منٹ میں بیمفرڈ نے گول کر کے مڈلزبرو کو برتری دلوائی۔ بعدازاں میچ کے 90 ویں منٹ میں گارسیا مارٹینز نے مڈلزبرو کے لیے دوسرا گول کر کے اپنی ٹیم کی فتح یقینی بنا دی۔ یہ لگارتار دوسرا برس ہے کہ مانچسٹر سٹی کو چیمپیئن شپ کھیلنے والی کسی ٹیم نے ایف اے کپ سے باہر کیا ہے۔ گذشتہ برس اسے وگن کی ٹیم نے ہرایا تھا۔
071203_bolllywood_diary_ka
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/12/071203_bolllywood_diary_ka
سنجے کی کمائی، مادھوری کا دیوانہ
خان کا انکار
ایک کروڑ روپے مالیت کی بینٹلی کار اگر کوئی آپ کو تحفہ میں دے تو کیا آپ انکار کریں گے؟ نہیں نا لیکن شاہ رخ خان نے فلمساز روی چوپڑہ سے کار لینے سے انکار کر دیا۔خان چوپڑہ کی آنے والی فلم ’بھوت ناتھ‘ میں مہمان اداکار کا کردار کر رہے ہیں۔ویسے بھی اکثر بڑے اداکار جب مہمان اداکار کا رول کرتے ہیں تو فلمساز سے اس کی قمیت وصول نہیں کرتے اس لیے فلمساز انہیں کوئی نہ کوئی تحفہ دے دیتے ہیں۔خان نے اپنی فلم ’اوم شانتی اوم‘ میں اکتیس اداکاروں کو تحفہ دیے تھے لیکن اب انہوں نے چوپڑہ سے کار لینے سے یہ کہہ کر منع کر دیا ہے کہ انہوں نے فلم میں کام دوستی کی خاطر کیا ہے۔اب کوئی خان کو سمجھائے کہ تحفہ لینے سے انکار کرنا بدتہذیبی ہے اور وہ بھی بینٹلی کار۔۔۔۔۔۔ کرینہ آنٹی آنٹی مت کہو نا! ہمیں یقین ہے کرینہ سیف کے بچوں سارہ اور ابراہیم سے یہی کہتی ہوں گی۔ ہمیں نہیں پتہ ہم تو مذاق کر رہے تھے لیکن اصل بات یہ ہے کہ آج کل کرینہ سیف کے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار رہی ہیں لیکن وہ خود پر آنٹی کا لیبل لگا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں شاید اسی لیے ان کے ساتھ کسی بھی پروگرام میں آج تک نظر بھی تو نہیں آئیں۔۔ پریانکا چوپڑہ کے بالوں کی قیمت دو کروڑ روپے ہے؟ نہیں پریا نکا اپنے بال فروخت نہیں کر رہی ہیں لیکن ہمیں یقین ہوگیا کہ ان کے بالوں میں ہیرے ضرور جڑے ہوں گے۔اب کیا کریں جب کوئی بالوں کی قیمت دو کروڑ روپے لگائے تو ہمارا آپ کا یہ سوچنا لازمی ہے۔ چلیے سسپنس ختم کر دیتے ہیں۔ دراصل سن سلک شیمپو کمپنی نے اپنے پروڈکٹس کے اشتہار کے لیے پریانکا کو دو کروڑ روپے میں سائن کیا ہے اور اب سے پریانکا اپنے فِگر پر دھیان دینے کے بجائے اپنے بالوں پر زیادہ دھیان دیں گی کیونکہ اتنی رقم تو پوری فلم کرنے پر بھی نہیں ملتی۔ میں کدھر جاؤں شاہد کپور آج کل بہت پریشان ہیں۔ نہیں کرینہ کا ساتھ چھوٹنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ ان کی ماں نیلما عظیم چاہتی ہیں کہ وہ ان کی فلم میں کام کریں اور باپ پنکچ کپور کا کہنا ہے کہ شاہد صرف ان کی ہی فلم میں کام کرے۔اب شاہد پریشان ہے کہ وہ کدھر جائے۔ویسے کوئی ہمیں یہ سمجھا سکتا ہے کہ اگر شاہد کی فلم ’ جب وی میٹ‘ کامیاب نہیں ہوتی تو بھی کیا دونوں اسی طرح شاہد کو اپنی فلم میں لینے کے لیے آپس میں الجھتے؟ دھک دھک گرل کے دیوانوں کی کمی نہیں ہے۔نامور مصور ایم ایف حسین سے لے کر انڈیا کے گلی کوچوں تک دیوانے موجود ہيں، لیکن اب بالی وڈ میں ان کا ایک نیا دیوانہ پیدا ہوا ہے اور وہ کوئی اور نہیں رنبیر کپور ہیں۔رنبیر کا کہنا ہے کہ جب وہ چھ سال کے تھے تب وہ ان پر فدا ہو گئے تھے۔مادھوری نے یہ سن کر ہنس کر انہیں اپنی فلم ’آجا نچلے ‘کا ڈی وی ڈی اپنے دستخط کے ساتھ دے تو دیا لیکن کسی فلم میں ساتھ کام کرنے کی خواہش بھی شاید جلد ہی پوری ہو کیونکہ مادھوری ایک بار پھر یش راج فلمز کے ساتھ کام کرنے کی تیاری میں ہیں۔ سنجے کی کمائی پونے کی یروڈا جیل میں قید کے سینتیس دنوں میں سنجے نے بیت کی کرسیاں بنا کر اڑتیس روپے سینتیس پیسے کمائے۔جیل سے باہر آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے اپنے ہیئر سٹائلسٹ علیم حکیم سے اپنے بال بنوائے جس پر شاید دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ کئے۔اب ہمارے خبری نے خبر دی ہے کہ انہوں نے کے سیرا سیرا اور سہارا موشن پکچرز کے ساتھ سو کروڑ روپوں کے سودے میں اپنی ہوم پروڈکشن کی تین فلمیں سائن کی ہیں۔ہم سنجے سے یہ پوچھنے کے لیے بے قرار ہیں کہ کون سے کمائی ان کے گاڑھے پسینے کی ہے ؟ میں ابھی چھوٹا ہوں پرینکا چوپڑہ کے قریبی دوست ہرمن بویجا نے بپاشا کے ساتھ کام کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ بپاشا کے مقابل ہیرو بننے کے لیے چھوٹے ہیں۔حیرت انگیز نا۔بویجا کو کوئی سمجھائے کہ ابھی ان کی کوئی فلم ریلیز بھی نہیں ہوئی اور وہ بڑے آفرز ٹھکرانے لگے۔ہمیں نہیں لگتا کہ وہ رنبیر سے چھوٹے ہیں لیکن رنبیر نے تو بپاشا کے ساتھ فلم سائن کر لی ہے۔ نیا عامر ہمیشہ سادگی کے ساتھ رہنے والے عامر خان آج کل فیشن ایبل ہو گئے اور بالی وڈ کے نامور سٹائلش ہیرو سلمان خان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔انہوں نے سٹائلسٹ کپڑوں کے ساتھ اب بالوں کا سٹائل بھی بدلا ہے۔ اور تو اور انہوں نے سلمان کی طرح دونوں کانوں میں بالیاں بھی پہن لی ہیں۔ قطرینہ کیف آج کل شطرنج میں دلچسپی لے رہی ہیں اور ان کے استاد بنے ہیں اکشے کھنہ ۔ فلم ’ ریس ‘ کے سیٹ پر جب بھی انہیں شوٹنگ سے فرصت ملتی ہے، وہ شطرنج کی بساط پر مہرے بچھا کر کھیلنا شروع کرتی ہیں اور اس میں اکشے انہیں داؤ پیچ سکھاتے ہیں۔ اور جب پریانکا رو پڑی فلم ’ گاڈ تو سی گریٹ ہو‘ کے سیٹ پر سلمان اور پریانکا پر ایک محبت بھرا گیت فلمانا تھا۔ سلمان نے شوٹنگ کے دوران کہہ دیا کہ وہ پریانکا کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔اب محبت بھرا گیت اور پردے پر ایک دوسرے سے دوری ممکن ہی نہیں۔پریانکا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔شوٹنگ ہی کینسل کرنی پڑی۔دراصل سلمان اور پریانکا کے درمیان اختلافات اس وقت سے ہوئے جب پریانکا نے سلمان کی گرل فرینڈ قطرینہ کے خلاف بہت کچھ بول دیا۔پریانکا نے اب ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اسی رات ایک فائیو سٹار ہوٹل کی پارٹی میں سلمان سے سارے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی۔اس دوران لوگوں نے انہیں آنسوؤں سے روتے دیکھا لیکن پھر کچھ ہی دیر بعد سلمان نے انہیں گلے لگا لیا۔اب لگتا ہے کہ فلم کے اس گیت کی شوٹنگ ہو گی اور گیت سپر ہٹ ہو جائے۔۔۔۔
030907_mohenjodaro_rains_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/09/030907_mohenjodaro_rains_fz
آثار قدیمہ اور بارشیں
تحریر: نثار کھوکھر
سندھ میں حالیہ طوفانی بارشوں نے جو تباہی مچائی اس کی ایک جھلک تو سامنے آگئی ہے لیکن جو نقصان موہن جو داڑو کے قدیم اثار کو پہنچا ہے اس کی شدت نہ تو حکومت نے محسوس کی ہے اور نہ ہی میڈیا نے۔ پانچ ہزار سال قبل مسیح کے یہ آثار قدیمہ لاڑکانہ سے ستائیس کلومیٹر دور دریائے سندھ کے قریب واقع ہیں جہاں زیر زمین پانی کی سطح اوسطاً زیادہ رہتی ہے۔ حالیہ موسلا دھار بارشوں کے دوران لاڑکانہ اسی ملی میٹر بارش کا پانی ریکارڈ کیا گیا جس سے ان اثار قدیمہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہاں کی سب سے اونچی اور پرکشش جگہ سٹوپا کی کچی دیواروں سے بارش کا پانی نالیاں بنا کے گزر گیا ہے اور اس کی حفاظت کے لئے چڑھائی گئی مٹی کی تہیں بھی اتر چکی ہیں اور اب اس کی اینٹوں آئندہ بارشوں اور سورج کی تپش کو براہ راست جھیلنا ہوگا۔ یہ سٹوپا اس تہذیب کے سب سے بڑہ پروہت کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس کے گرد بنے ہوئے رہائشی کمرے مشیروں کی آرام گاہ بتائے جاتے ہیں اور یہاں سے کھڑے ہوکر موہن جو داڑو کے تمام آثار قدیمہ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں کے ایک چوکیدار کا کہنا ہے کہ ’بارشیں اس قدر شدید تھیں کہ سٹوپا کے احاطے کے اندر پانی کچھ دن تک کھڑا رہا‘۔ اس سٹوپا سے بارش کے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔
061223_deccan_diary_zs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/12/061223_deccan_diary_zs
آندھرا میں آئی آئی ٹی اور ثانیہ مرزا کا ’بگ نو‘
آئی آئی ٹی کا تنازعہ
آندھراپردیش کی کئی برسوں کی محنت اور جستجو کے بعد بالاخر مرکزی حکومت نے ریاست میں اعلٰی تعلیمی ادارے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کے قیام کی منظوری دے دی ہے- اس ادارے کے قیام کے لیے ریاستی اسمبلی کو تین مرتبہ قراردادیں منظور کرکے مرکزی حکومت کو بھجوانا پڑی تھیں لیکن اس کامیابی پر خوشی منانے کی بجائے ریاست کی بعض سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اپوزیشن تلگودیشم کو اعتراض ہے کہ یہ ادارہ حیدرآباد کے بالکل قریب میدک ضلع میں قائم کیا جارہا ہے جبکہ اس نے اپنے دور اقتدار میں حیدرآباد سے 300 کلومیٹر دور عادل آباد ضلع کے ایک مقدس مقام باسر میں اس ادارہ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ باسر کا انتخاب اس لیے کیا گیا تھا کہ ملک میں علم اور دانش کی ہندو دیوی سرسوتی کا واحد مندر اسی جگہ واقع ہے اور اکثر طلبا اعلٰی تعلیم کے حصول سے پہلے اس جگہ کی یاترا کرتے ہیں۔ تاہم کانگریس کی حکومت نے میدک کے انتخاب کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ آئی آئی ٹی کسی ایسی جگہ ہی قائم کیا جاسکتا ہے جو سڑک ریل اور فضائی رابطے سے جڑا ہو اور جہاں طلبا اور عملے کے لئے تمام ضروری سہولتیں موجود ہوں ایڈز کے مقابلے میں چیونٹی کی رفتار حکومت کی سست روی کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ زندگی اور موت کا سوال بن جانے والے مسائل میں بھی وہ اپنی روش نہیں بدلتی۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ آندھراپردیش ایڈز کے مہلک مرض سے بری طرح متاثر ہونے والی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ پانچ سال قبل تلگودیشم حکومت نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ شادی سے پہلے ایڈز کے معائنہ کو لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے لازمی قرار دینے کا قانون بنایا جائے۔ تاہم اتنے عرصے تک بحث کے باوجود آج تک اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔گزشتہ ہفتے جب وزیرِ صحت کے روشیا سے پوچھا گیا کہ اس قانون سازی کی تجویز کا کیا ہوا تو انہوں نے کہا’ہم یہ قانون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن سے مشورہ کررہے ہیں‘۔ کام کرنے کی یہ رفتار شاید چیونٹی کو بھی مات کر دے۔ کیرالا میں تھوکنا منع ہے اس سے پہلے حیدرآباد کی مجلس بلدیہ نے عوامی مقامات پر پیشاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی اور اس کے لیے ایک انوکھی سزا نافذ کی تھی۔ فٹ پاتھ پر پیشاب کرتے ہوئے پکڑے جانے والوں کو بلدیہ کی گاڑی شہر سے باہر 10 کلومیٹر دور لے جا کر ویران جگہ پر چھوڑ دیتی اور اسے پیدل چلتے ہوئے واپس آنا پڑتا۔ مجلس بلدیہ حیدرآباد اب تھوکنے پر بھی پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے اور حکام کا کہنا ہے وہ تھوکنے والوں پر 500 تا 5000 روپے جرمانہ عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ثانیہ مرزا۔ فلموں کو’بگ نو‘ دوحہ سے حیدرآباد واپسی پر ان کا ایک ہیروئن کی طرح استقبال کیا گیا۔ کبھی اپنی ٹی شرٹس اور شارٹ سکرٹ کے لیے تنازعہ میں گھرنے والی ثانیہ نہ صرف ٹینس، ماڈلنگ اور فیشن کی دنیا میں مرکز توجہ بنی ہوئی ہے بلکہ آہستہ آہستہ اس پر فلمی دنیا کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔گزشتہ مہینے چین کی خبر رساں ایجنسی’ژن ہوا‘ کی جانب سے ٹینس کی 10 خوبصورت ترین خاتون کھلاڑیوں میں شامل کی جانے والی 20 سالہ ثانیہ نے کئی فلمسازوں کی درخواست کو ٹھکرا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گی جو اس کے ٹینس کے راستہ میں رکاوٹ بنے۔
141010_wusat_letter_to_malala_tim
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/2014/10/141010_wusat_letter_to_malala_tim
ملالہ کے لیے ایک خط
از طرف وسعت اللہ خان
ملالہ یوسفزئی اب تک کی سب سے کم عمر نوبیل امن انعام یافتہ شخصیت ہیں پیاری گل مکئی ملالہ، جب تک رہو یونہی کامیابیاں سمیٹتی رہو۔ ایک کے بعد ایک پہاڑ سر کرتی رہو۔ تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔ نہیں سنا تو اب سن لو۔ وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا اچھا وہی رہا جو وطن سے نکل گیا مجھے یقین ہے اگر تمہارے پیشرو ڈاکٹر عبدالسلام یہیں رہتے رہتے تو زیادہ سے زیادہ ایک سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کی پنشن کھا رہے ہوتے اور پھر کہیں ٹیوشن سنٹر کھول کے بچوں کو فزکس پڑھا رہے ہوتے اور ایک دن کوئی ایمان والا انہیں اسی ٹیوشن سنٹر میں گھس کے گولی مار کر اپنی آخرت سنوار جاتا۔ مگر یہاں کسی کے ہاتھوں مرنے کے لیے کسی کا غیر مسلم، نیم مسلم یا گمراہ مسلم ہونا بالکل ضروری نہیں اور یہ بات تم سے بہتر کون جانتا ہے۔ تمہارا تو قادیانیت، شیعت، بریلویت، عیسائیت یا کسی بھی یت سے دور دور کوئی لینا دینا بھی نہیں تھا۔ یہ تو خدا کا بڑا کرم ہوا کہ تمہاری زندگی تمہاری جنم بھومی میں تنگ کردی گئی تاکہ تم ہجرت کرو اور خود کو پہچانو، اپنے سکڑے پروں کو پھیلا کر انہیں دیکھ سکو اور پھر آسمانوں میں اس خوف سے آزاد اڑ سکو کہ کہیں سے کوئی گولی نہ آجائے۔اب تمہیں اوپر والےشعر کا مطلب بھی سمجھ میں آرہا ہوگا۔ پیاری گل مکئی ملالہ، کہیں یہ مت فرض کرلینا کہ پاکستان تمہیں امن کا نوبیل انعام ملنے پرخوش نہیں۔ یہ جو ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں خوشی ہی کے تو ہیں کیونکہ رنج و الم پر مدت ہوئی یہاں کوئی نہیں روتا ووتا۔ اس بات پر پلیز رنج نہ کرنا کہ تمہارے وطن کے اکثر چینلوں کو ایک روز پہلے تک نہیں معلوم تھا کہ تم بھی نوبیل انعام کی دوڑ میں شامل ہو۔ ایسی بے پر کی پچھلے برس بھی مغربی زرائع ابلاغ نے اڑائی تھیں شائد اس لیے یہاں احتیاطاً کسی کا دھیان نہیں گیا۔ مگر کل دس اکتوبر کی دوپہر کو جب تمہیں انعام ملنے کی خبر ٹوٹی تو تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہر پاکستانی ٹی وی چینل نے اسے بریکنگ نیوز کے طور پر اپنا لیا۔ بلکہ ایک چینل نے تو یہ انکشاف بھی کیا کہ تمہیں امن کا نوبیل انعام ملنے کی سب سے پہلی پیش گوئی اسی چینل نے کی تھی۔ ہم میڈیا والے اور بھی خوشی مناتے اگر ملتان میں عمران خان کا جلسہ نہ ہوتا اور اس سے پہلے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے سلسلے میں مشترکہ پریس کانفرنس نہ ہوتی، اور اس سے پہلے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز بھارتی گولہ باری کے تعلق سے یومِ احتجاج منانے کی خبر نہ ہوتی اور اس سے بھی پہلے کراچی میں نگلیریا وائرس سے ایک اور آدمی کے مرنے کی خبر نہ ہوتی اور اگر کل ہی ایم کیو ایم کے قائد کا کارکنان سے ہنگامی خطاب بھی ہو جاتا تو سوچو جتنا تمہارا تذکرہ ہوگیا اس کی بھی گنجائش بے چارے میڈیا پر کہاں رہتی۔ مگر گل مکئی ملالہ، فیس بک اور ٹویٹر تمہارے انعام کی خوشی میں جگمگا رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں۔اتنی کوریج تو حیدرآباد اور کراچی میں زہریلی شراب پی کر مرنے والے بیالیس لوگوں کو نہیں ملی جتنی تمہیں مل گئی کیا یہ کافی نہیں۔اے این پی کے چند کارکن پشاور میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کناں ہوئے کیا یہ کافی نہیں۔ تمہارے سوات میں کل بھی تمام بچیوں نے تمہیں انعام ملنے کی خوشی میں دل لگا کے تمام کلاسیں پوری طرح اٹینڈ کیں اور آج بھی وہ تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں دل ہی دل میں یاد کرتے ہوئے پڑھیں گی کیا یہ کافی نہیں۔ کسی طالبان تنظیم یا ہم نواؤں کی جانب سے اس خط کے لکھے جانے تک کوئی شدید ردِ عمل نہیں آیا کیا یہ کافی نہیں۔ پیاری گل مکئی ملالہ، فکر تو خیر تمہیں کبھی بھی کسی بات کی نہیں رہی لیکن اب تم جب چاہو اسی بےفکری سمیت وطن لوٹ سکتی ہو۔ پاکستان میں تمام کتاب گھر بے چینی سے منتظر ہیں کہ جب تم آؤ گی تب ہی وہ تمہاری سوانح عمری ’آئی ایم ملالہ‘ کھلے عام ڈسپلے کریں گے۔ مینگورہ میں جب اپنے گھر جاؤ گی تو پاک فوج کے جوان اپنی اس بہادر بیٹی کی حفاظت کریں گے۔ تم جب ایوانِ وزیرِ اعظم میں مدعو کی جاؤ گی تو عین ممکن ہے کہ میاں صاحب جذباتی ہو کر تمہارے نام پر کسی اہم شاہراہ معنون کرنے کا اعلان کر ڈالیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگلے ملالہ ڈے پر تمہارا یادگاری ٹکٹ جاری ہوجائے۔ یہ بھی گمان ہے کہ تمہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ پاکستان پہنا دیا جائے۔ لیکن ان تمام باتوں، امیدوں اور گمانوں کا انحصار اس پر ہے کہ تم کب اور کتنا جلد اپنی سرزمین کا رخ کرتی ہو۔ اب تو یہاں آپریشن ضربِ عضب بھی خیر سے کامیاب ہوچکا ہے۔ فوج کےسربراہ دھڑلے سے جب چاہتے ہیں شمالی وزیرستان آتے جاتے ہیں۔ اسی لیے ایک پراعتماد آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی تمہیں مبارک باد دی جا چکی ہے۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم تک پہلی بار وہاں جا کر واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔تو پھر تم سمیت کسی کو بھی کاہے کا ڈر۔ پیاری گل مکئی ملالہ ، میں نے تمہیں پہلی بار دو ہزار نو میں چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں بہت سے بچوں اور بڑوں کے درمیان دیکھا تھا جب سوات قانونی طور پر وفاق اور صوبے نے باہمی رضامندی سے مولانا صوفی محمد کے توسط سے مولوی فضل اللہ صاحب کے شاہینوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ مگر تم لوگ وزیرِ اعلی کو لہو روتے سوات کی کہانی سنانے آئے تھے۔تم نے بھی بہت ٹھہر ٹھہر کے بات کی تھی اور جوں جوں تمہارا بیان سننے والوں کو پریشان کررہا تھا توں توں تمہاری آنکھوں کی چمک بڑھ رہی تھی۔ آج اتنے برس بعد مجھ پے کھلا کہ وہ چمک تمہاری آنکھوں میں کیوں تھی۔ تمہارے سوات کے ہی ایک شاعر احمد فواد کا شعر سن لو۔ گردش ِ وقت کو خاطر میں نہ لانے والی شہر میں دو نئی آنکھوں کا بڑا چرچا ہے پیاری گل مکئی ملالہ ، شاید یہ تم ہی نے کہیں کہاں تھا کہ جب مکمل سناٹا ہو تو ایک آواز بھی بہت طاقت ور ہوتی ہے۔ خوش رہو ، پھلو پھولو ملالہ۔
070418_cjcase_timeline_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/04/070418_cjcase_timeline_rs
چیف جسٹس کے ساتھ کب کیا ہوا؟
نو مارچ:
صدر مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف جسٹس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ریفرنس دائر ہونے کے ساتھ ہی چیف جسٹس کو گھر میں بند کر دیا گیا۔ چیف جسٹس کے گھر کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس تعینات کر دی گئی۔ نو مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس سپریم کورٹ میں ہوا جس کی سربراہی اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے کی۔ کونسل نے بند کمرے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا اور ریفرنس کی اگلی سماعت تیرہ مارچ کو کرنے کا فیصلہ کیا۔ دس مارچ: حکومت نے چیف جسٹس کے زیر استعمال گاڑیاں لفٹر کے ذریعے اٹھا لیں۔ ملک بھر میں وکلاء نے چیف جسٹس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف تین روز مکمل ہڑتال کی اور پورے ملک میں سراپا احتجاج بنے رہے۔ تیرہ مارچ: ’غیر فعال‘ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سامنے پیشی پر پولیس کی طرف سےمہیا کی جانے والی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ پیدل سپریم کورٹ جائیں گے۔انتظامیہ اور پولیس کے اہلکاروں نے چیف جسٹس کو زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی جس دوران چیف جسٹس سے بدسلوکی کا واقعہ پیش آیا۔ جسٹس افتخار سپریم جوڈیشل کے سامنےپیش ہوئے اور کونسل کے پانچ میں سے تین اراکان پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال سپریم جوڈیشل کی سربراہی کے اہل نہیں ہیں جبکہ جسٹس عبدل الحمید ڈوگر (جج سپریم کورٹ) اور جسٹس افتخار حسین چودھری (چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رجسٹر ہوچکی ہیں لہذا انہیں ان سے انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے۔ مقدمے کی سماعت سولہ مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ سولہ مارچ: چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بتایا کہ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو گھر میں مقید کر دیا گیا ہے ۔ کونسل نےحکم جاری کیا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے اہل خانہ کی نقل و حرکت پر تمام پابندیاں ختم کی جائیں اور وہ جس شخص سے ملنا چاہیں مل سکتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ذرائع ابلاغ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جسٹس افتخار کے معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ سترہ مارچ: صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد کو ’جبری چھٹی‘ پر بھیج دیا۔ چیف جسٹس کو جبری چھٹی پر بھیجنے کا فیصلہ انیس سو اکہتر میں بنانے جانے والے ایک قانون کے تحت کیا۔ اکیس مارچ: حکومت نے ملک بھر میں وکلاء اور دوسرے طبقوں کی طرف سے شدید احتجاج اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے کے اعلان کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ایک ’انتظامی‘ حکم کے ذریعے دس روز تک ملتوی کر دیا گیا۔ چوبیس مارچ: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لے لیا۔ اٹھائیس مارچ: جسٹس افتخار نے اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں کو اٹھائے جانے کے بعد سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کی ہائی کورٹ سے خطاب کیا۔ جسٹس افتخار نے کہا کہ ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ تیس مارچ: جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف الزامات کی سماعت کے لیے بنائی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور تین مختلف وکلاء نے اپنے طور پر دائر کی جانے والی پیٹشنوں میں موقف اختیار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کا حق حاصل نہیں ہے۔ تین اپریل: جسٹس رانا بھگوان داس کے قائم مقام چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی از سر نو تشکیل کی گئی جس کے بعد کونسل کا اجلاس ہوا جس کی سربراہی جسٹس رانا بھگوان داس نے کی۔ اس سماعت میں جسٹس افتخار کے خلاف کارروائی بند کمرے یا کھلی عدالت میں کروانے سے متعلق بحث ہوئی اور کونسل نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ تیرہ اپریل: سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل کی کارروائی کو بند کمرے میں یا کھلی عدالت میں کرنے سمیت دوسرے اعتراضات پر وکلاء کے دلائل سننے کے بعد تمام ابتدائی نکات کا فیصلہ ایک ہی دفعہ کیا جائے گا۔ اٹھارہ اپریل: سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد جسٹس افتخار کے وکلاء نے بتایا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو سماعت کے دوران بتایا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے اس لیے اگر مناسب سمجھیں تو کارروائی کو آگے نہ چلائیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت چوبیس اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال کےالزامات کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔
090228_privacy_technical_advice
https://www.bbc.com/urdu/institutional/2009/02/090228_privacy_technical_advice
ہماری پرائیویسی پالیسی
نجی معلومات کی پالیسی
آپ کے متعلق حاصل کی گئیں نجی معلومات کے بارے میں ہماری پالیسی درج ذیل ہے۔ 1۔ سٹیٹ مینٹ آف انٹینٹ 2۔وزیٹرز کے بارے میں معلومات 3۔'کوکیز‘ کیا ہے؟ 4۔ نجی معلومات داخل کرنا 5۔ نجی معلومات تک رسائی 6۔ سولہ سال سے کم عمر کے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 7۔ اپنی کوکیز کو کیسے تلاش اور کنٹرول کیا جائے 8۔ آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی سائٹس کوکیز استعمال کرتی ہیں؟ 9۔ اپنے کوکیز کوڈ کو کیسے دیکھا جائے؟ 1۔ سٹیٹ مینٹ آف انٹینٹ فارمز میں دیےگئے خانوں میں اپنے بارے میں تفصیلات درج کرنے سے بی بی سی آپ کو وہ خدمات مہیا کر سکے گا جو آپ کو مطلوب ہیں۔ جب بھی آپ ہمیں نجی معلومات فراہم کریں گے ہم ان معلومات کو اپنی اس پالیسی کے مطابق استعمال کریں گے۔ ہماری خدمات کا مقصد آپ کو وہ معلومات فراہم کرنا ہے جو آپ موصول کرنا چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے موجودہ قوانین کا احترام اور بیسٹ پریکٹس کا حصول بی بی سی کی اولین ترجیح ہیں۔ 2۔ وزیٹرز کے بارے میں معلومات آپ جب بھی بی بی سی آئی کی ویب سائٹ پر آئیں گے تو آپ جن صفحات تک پہنچیں گے وہ کوکیز سمیت آپ کے کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ ہو جائیں گی۔ (مزید معلومات کے لیے پوائنٹ نمبر تین ملاحظہ فرمائیں)۔ اگر تمام نہیں تو زیادہ تر ویب سائٹس کوکیز استعمال کرتی ہیں کیونکہ کوکیز ویب سائٹ شائع کرنے والوں کو مفید کام سرانجام دینے میں مدد فراہم کرتی ہیں جیسے کہ یہ معلوم کرنا کہ کسی کمیوٹر یا اسے استعمال کرنے والے نے پہلے اس ویب سائٹ کو وزٹ کیا ہے یا نہیں۔ بار بار اس ویب سائٹ کو وزٹ کرنے والے کمپیوٹر میں دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس کمپیوٹر پر پہلے سے اس سائٹ کے حوالے سے کوئی ککی موجود ہے یا نہیں جو آپ کے پچھلے وزٹ کے دوران آپ کے کمپیوٹر میں داخل کی گئی تھی۔ کوکیز کا مقصد کمپیوٹر استعمال کرنے والے کے متعلق مفید معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے جو ویب سائٹ بنانے والوں کو اپنی خدمات کو ان کی ضروریات کے مطابق بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور استعمال کرنے والے کے پروفائل کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنے پچھلے وزٹ پر ہمارے تعلیمی صفحات پر گئے تھے تو کوکیز ہمیں یہ بتا سکتی ہیں اور اس سے ہمیں آپ کے اگلے وزٹ کے دوران اپنی تعلیم کے متعلق معلومات کو آپ کے لیے واضح کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ریڈ شیرف انٹرنیٹ کے استعمال پر ایک تحقیقی اور رائے شماری کرنے والی کمپنی ہے جو ہمارے لیے ہماری ویب سائٹ پر آنے والوں کے بارے میں غیر نجی معلومات ان کوکیز اور کوڈ کے ذریعے اکٹھا کرتی ہے جو ہماری سائٹ میں ایم بیڈڈ ہوتی ہیں۔ یہ کوکیز اور کوڈ دونوں ایسے غیر نجی اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں جیسے کہ استعمال کرنے والا کن مختلف پیجز تک گیا، کتنی دیر تک ان پر رہا، کن کن پیجز اور راستوں سے گزرتے ہوئے کسی پیج تک پہنچا، استعمال کرنے والوں کی سکرین سیٹنگ کیا ہے اور اسی طرح کی دیگر عمومی معلومات۔ اس سے بی بی سی کو اس کی سائٹ تک آنے والوں کے لیے اپنی خدمات کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اگر ریڈ شیرف کی کوکیز اپنے سسٹم پر نہیں چاہتے تو آپ پوائنٹ نمبر سات کے طریقہ کار کے تحت ایسا کر سکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ پر موجود ایم بیڈڈ کوڈ کے بارے میں آپ براہ راست ریڈ شیرف سے درج ذیل ای میل کے پتے پر رابطہ کر سکتے ہیں۔privacy@redsheriff.com اس سلسلے میں ریڈ شیرف کی اپنی نجی معلومات کے بارے میں پالیسی پر مزید معلومات کےلئے درج ذیل ویب سائٹ سے رجوع کریں۔ http://www.redsheriff.com/6.0.0.htm 3۔ کوکیز کیا ہیں؟ جب آپ کسی بھی سائٹ میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کے کمپیوٹر کو خودکار طور پر کوکیز جاری کر دی جاتی ہیں۔ کوکیز ایسی ٹیکسٹ فائلز پر مشتمل ہوتی ہیں جن کے ذریعے ہمارا سرور آپ کے کمپیوٹر کی شناخت کرتا ہے۔ کوکیز بذات خود مختلف استعمال کرنے والوں کی شناخت نہیں کرتیں بلکہ ان کا کام صرف کمپیوٹر کی شناخت تک ہی محدود ہوتا ہے۔ یہ کوکیز زیادہ تر سائٹس جاری کرتی ہیں جس کا مقصد ان کی سائٹ پر آنے والی ٹریفک کے بارے میں اعدادو شمار اور معلومات کا حصول ہوتا ہے۔ کوکیز بذات خود صرف سائٹ کے ان حصوں اور دورانیے کے بارے میں ہی ریکارڈ جمع کر پاتی ہیں جن تک کوئی کمپیوٹر پہنچتا ہے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمپیوٹرز کی سیٹنگ میں ان کوکیز کو بغیر اطلاع کے اندر آنے کی اجازت دیں، اندر آنے دینے سے پہلے مطلع کیا جانا ضروری قرار دیں یا کوکیز کو اپنے کمپیوٹر میں آنے سے مکمل طور پر روک دیں۔ تاہم کوکیز کو مکمل طور پر روکنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ کچھ ویب سائٹس پر خاص طرح کے پیجز تک آپ رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اگر آپ کے کپمیوٹر کی سیٹنگ کوکیز مسترد نہیں کر رہی تو بھی آپ نامعلوم کمپیوٹر کے طور پر ہماری ویب سائٹ براؤز کر سکتے ہیں جب تک کہ آپ بی بی سی آئی کی خدمات کے لئے رجسٹر نہیں کرتے۔ 4۔ آپ کی نجی معلومات کی حفاظت اور اس کا استعمال آپ مقابلوں میں شرکت یا بی بی سی آئی کمیونٹی کی رکنیت کے لیے بی بی سی آئی کو جو بھی نجی معلومات فراہم کریں گے ہم ان کے استعمال کے لیے قانونی طور پر آپ کو جواب دہ ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ پر واضح کریں کہ ہم ان معلومات کو کیسے استعمال کریں گے اور یہ معلومات کسی کو بھی فراہم کرنے سے پہلے آپ کو مطلع کریں (یہ جاننے کے لیے کہ ہم ان معلومات کے لئے درخواست کیوں کرتے ہیں متعلقہ ویب پیجز پر جائیں)۔ عام طور پر آپ بی بی سی کو جو بھی معلومات فراہم کریں گے وہ بی بی سی کے اندر اور اس کے سروس پرووائیڈرز کے لیے ہی استعمال کی جائیں گی۔ یہ معلومات کبھی بھی آپ کی رضامندی حاصل کیے بغیر باہر کسی کو فراہم نہیں کی جائیں گی جب تک کہ ہم پر یہ قانونی طور پر لازم نہ ہو کہ ہم یہ معلومات ظاہر کریں۔ اثنا دریں اگر آپ نامناسب اور ناشائستہ مواد بی بی سی کو پوسٹ کریں یا بھیجیں اور بی بی سی کے خیال میں یہ رویہ قابل گرفت ہے اور دہرایا جا رہا ہے تو بی بی سی اسے روکنے کے لیے آپ کے متعلق جو بھی معلومات موجود ہیں استعمال کر سکتا ہے۔ اس میں آپ کو ملازمت فراہم کرنے والے ادارے، آپ کی تعلیمی درس گاہ اور آپ کو ای میل کی سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں تک آپ کے رویے کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی شامل ہے۔ ہم ان معلومات کو صرف اس وقت تک اپنے پاس رکھیں گے جب تک کہ آپ ہماری خدمات سے استفادہ حاصل کرتے رہتے ہیں اور اس کے بعد جیسے کہ بی بی سی آئی کی رکنیت ختم کر دینے کے بعد اسے ضائع کر دیں گے۔ تاہم تحفظات کے پیش نظر ہم بی بی سی آئی کمیونٹی سروسز میں شرکت کےحوالے سے آپ کے پیغامات، ان کا متن، رکن کا نام، وقت اور تاریخ جیسی دستاویزات چھ ماہ تک آپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ جہاں ایسے افراد کی نجی معلومات رکھی جائیں گی جنہوں نے ابھی تک بی بی سی آئی کی رکنیت کے لیے نام درج نہیں کرایا لیکن دوسری خدمات میں حصہ لیا ہے (جیسے کہ مقابلے) ان کی نجی معلومات صرف اس وقت تک محفوظ کی جائیں جب تک کہ وہ ان سہولیات کی اطمینان بخش فراہمی کے لیے ضروری ہوں گی۔ ہم ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ انیس سو اٹھانوے کے تحت فراہم کی گئی تمام نجی معلومات کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ اگر آپ کو بی بی سی آئی کی کسی بھی سائٹ سے یہ بتایا جائے کہ آپ کی معلومات کے ذریعے بی بی سی 'خدمات کے انتظامی مقاصد‘ کے تحت آپ سے رابطہ کرے گی تو اس کا مطلب ہے کہ بی بی سی آپ سے ایسے تمام مقاصد کے لیے رابطہ کر سکتی ہے جو ان خدمات سے متعلقہ ہیں جس کے لیے آپ نے درخواست دی ہے۔ مثال کے طور پر ہم آپ کو ’پاس ورڈ‘ فراہم کرنے کے لیے یا یہ بتانے کے لیے کہ سروس انتظامی بحالی یا مرمت کے لیے فلاں سے فلاں وقت تک معطل رہے گی، آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ہم آپ سے تشہیری مقاصد کے لیے رابطہ نہیں کریں گے جیسے کہ آپ کو سروس میں تبدیلیوں یا نئے حصے متعارف کروانے کے بارے میں آگاہ کرنا جب تک کہ آپ فارم بھرتے وقت یا بعد میں خود اس طرح کی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ رہنے اور تشہیری مواد کی درخواست نہ کریں۔ 5۔ آپ کی نجی معلومات تک رسائی آپ کو حق حاصل ہے کہ کسی وقت بھی بی بی سی کے پاس موجود اپنی تمام تر نجی معلومات کی ایک نقل حاصل کر سکتے ہیں۔ ( اس کے اخراجات کیلئے آپ کو دس پاؤنڈ ادا کرنے ہوں گے۔) اس قسم کی درخواستوں کے لیے پتہ درج ذیل ہے۔ Data Protection Officer Room 315 Brock House 19Langham Street London W1A 1AA 6۔ سولہ سال اور اس سے کم عمر اگر آپ کی عمر سولہ سال یا اس سے کم ہے تو آپ کے لیے بی بی سی کو نجی معلومات فراہم کرنے سے پہلے اپنے والدین یا سرپرست کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہے۔ اس اجازت کے بغیر آپ ہمیں اپنے بارے میں نجی معلومات نہیں بھیج سکتے۔ 7۔ آپ اپنی کوکیز کیسے تلاش اور کنٹرول کر سکتے ہیں اگر6.0 Netacape استعمال کرتے ہیں تو اپنی ٹاسک بار پر کلک کریں۔ 1۔ Edit پر جائیں 2۔ Preference پر کلک کریں 3۔ Advance پر کلک کریں 4۔ Cookies پر کلک کریں اگر آپ6.0 Internet Explorer استعمال کرتے ہیں تو 1۔ Tools پر جائیں 2۔ Internet Options پر کلک کریں 3۔ Privacy Tab پر کلک کریں 4۔ Custom Level پر کلک کریں 5۔ Advance کے بٹن پر کلک کریں 6۔ override autumatic cookie handing کے باکس کا اتخاب کریں اور Accept, Block یا Prompt میں سے اپنی مرضی کے مطابق انتخاب کر لیں۔ اگر آپ 5.0 یا Internet Explorer 5.5 کرتے ہیں تو 1۔ Tools کا انتخاب کریں 2۔ Internet Options چنیں 3۔Security ٹیب پر کلک کریں۔ 4۔ Custom Level پر کلک کریں۔ 5۔ چھٹے نمبر پر جائیں اور دیکھیں کہ ایکسپلورر پانچ کوکیز کو کیسے سیٹ کرتا ہے اور Accept, Disable, یا Prompt میں سے اپنی مرضی کے مطابق انتخاب کریں۔ اگر4.0 Netacape استعمال کرتے ہیں تو اپنی ٹاسک بار پر کلک کریں۔ 1۔ Edit پر جائیں 2۔ Preference پر کلک کریں 3۔ Advance پر کلک کریں 4۔ اس باکس سے اپنی مرضی کے مطابق انتخاب کر لیں جس پر Cookies لکھا ہے۔ 8۔ آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی سائٹس جن پر آپ جاتے ہیں کوکیز جاری کرتی ہیں؟ اگر6.0 Netacape استعمال کرتے ہیں اپنی ٹاسک بار پر کلک کریں۔ 1۔ Edit پر جائیں 2۔ Preference پر کلک کریں 3۔ Advance پر کلک کریں 4۔ Cookies پر کلک کریں 5۔ View Cookies پر کلک کریں اگر آپ6.0 یا Internet Explorer 5.0 استعمال کرتے ہیں تو 1۔ Tools پر جائیں 2۔ Internet Options پر کلک کریں 3۔ General کے ٹیب پر کلک کریں 4۔ Settings پر کلک کریں 5۔ View Files پر کلک کریں اگر4.0 Netacape استعمال کرتے ہیں اپنی ٹاسک بار پر کلک کریں۔ نیٹ سکیپ تمام کوکیز آپ کی ہارڈ ڈرائیو پر ایک فائل میں ڈال دیتا ہے جس کا ونڈوز پر نام Cookies.txt ہے۔ 9۔اپنا کوکی کوڈ کیسے دیکھیں۔ کسی بھی کوکی پر کلک کرکے اسے کھول لیں۔ آپ کو اس میں بہت سارا متن حروف اور اعداد کی شکل میں نظر آئے گا۔ یہ نمبر آپ کا شناختی کارڈ ہیں جسے صرف وہ سرور دیکھ سکتا ہے جس نے یہ کوکی آپ کے کمپیوٹر کو جاری کی ہے۔
080114_bollywood_d_ka
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2008/01/080114_bollywood_d_ka
شلپا کےساتھ یوگااور لاپتہ تبو
گلیمر کے ساتھ یوگا
اگر یوگا کرنے کی ہدایت کوئی پرکشش حسینہ دے تو کون کافر اس سے انکار کرے گا۔ بس اب تیار ہو جائیےشلپا شیٹی سے یوگا کے گر سیکھنے کے لیے۔ اپنی پرفیوم لانچ کرنے کے بعد شلپا اب یوگا کی ڈی وی ڈی جاری کررہی ہیں لیکن یہ ڈی وی ڈی ہندستانیوں کے لیے نہیں ہے، پہلے لندن پھر دبئی اس کے بعد یورپی ممالک اور امریکہ کے بعد کہیں آپ ہندستانیوں کا نمبر آئے گا۔ شاید شلپا ہم سے بدلہ لے رہی ہیں۔ کیوں ؟ وہ اس لیے کہ جب تک وہ بالی وڈ میں تھیں آپ نے ان کی قدر کہاں کی تھی وہ تو لندن نے ان کی اداؤں کو پہچانا بس اس لیے وہ ان کے ساتھ پوری طرح سے وفا کررہی ہیں۔ وزنی لارانا۔ نا ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ لارا دتہ موٹی ہو گئی ہیں بلکہ ان کی فیس بہت موٹی ( زیادہ ) ہوتی جارہی ہے۔ فلم پارٹنر کی کامیابی کے بعد انہوں نے اپنی فیس ایک دم پچپن لاکھ روپے کر دی اور تو اور اس فیس کے علاوہ اپنے ہیئر ڈریسر اور سپاٹ بوائے وغیرہ پر روز کے تیس ہزار کا اصراف۔ لارا جی ایک منٹ۔۔ کہیں آپ کو یہ تو نہیں لگتا ہے کہ پارٹنر آپ کی وجہ سے کامیاب ہوئی تھی۔۔۔لارا جی شاید آپ کے یہی نخرے ہیں اس لیے تو آپ کے ہاتھ میں صرف ایک ہی فلم ’ بندہ یہ بنداس ہے‘ بچی ہے۔۔۔ ہمیش کی شرم گلوکار موسیقار اور اداکار ہمیش ریشمیا پردے پر محبت کرنے سے گھبراتے ہیں شاید اسی لیے انہوں نے پوجا بھٹ کو ان کی فلم ’ کجرارے ‘ میں ایسے ہی ایک منظر کی عکس بندی سے منع کر دیا۔ پوجا کی فلم پاکستان کی لاہور کی ہیرا منڈی اور اس کے پس منظر پر فلمائی جانے والی فلم ہے۔ جس کی شوٹنگ مراکش کے ساتھ ساتھ لاہور میں بھی ہو گی۔ ہمیش کے انکار کے بعد آخر کار فلم کی سکرپٹ میں تبدیلی کرنی ہی پڑی۔۔۔پوجا کیسے مان گئیں پتہ نہیں ویسے مہیش اور پوجا کی فلموں میں تو ایسے منظر کی بھر مار رہتی ہے۔ ایک سو بیس کروڑ روپے کی فلم؟ بالی وڈ کے فلمسازوں نےاب تک چالیس سے پچاس کروڑ روپے لاگت کی فلمیں ہی بنائی تھیں لیکن ایک سو بیس کروڑ روپے کی فلم ! یقین نہیں آیا لیکن ہمارے خبرو نے جو خبر دی اس کے مطابق تو اس پر یقین کرنا ہی پڑے گا۔ کمل ہاسن نے اپنی فلم ’مرما یوگی ‘ کے لیے والٹ ڈزنی پروڈکشن ہاؤس سے ہاتھ ملایا ہے ۔سترہویں صدی کے پس منظر پر مبنی یہ فلم اب تک کی سب سے مہنگی فلم ثابت ہو گی اور شاید کمل ہاسن اپنی زندگی میں کچھ سابقہ ریکارڈ بھی توڑنے کی کوشش کریں۔ بھنسالی کا پیار سنجے لیلا بھنسالی کی فلم سانوریا چاہے فلاپ ہو گئی ہو۔(بھنسالی جی ہم آپ کے پرستار ضرور ہیں لیکن معاف کیجیے گا یہی حقیقت ہے ) بھنسالی کی ہمت نہیں ٹوٹی وہ پاکستان میں لاہور کی ہیرا منڈی پر فلم بنانے کے لیے ریسرچ ضرور کر رہے ہیں لیکن اب وہ اپنا پہلا اوپرا ڈائرکٹ کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ جی ہاں وہ رانی پدماوتی کے عشق کی داستان کو بیلے رقص کے ذریعہ پیش کریں گے جسے انیس سو تئیس میں البرٹ رسل نے پیش کیا تھا۔ بھنسالی کا یہ شو پیرس کے نامور اوپیرا ہاؤس تھیئٹر’دی شیلیٹ‘میں پیش ہو گا۔ پچاس سالہ ہیروئین کی تلاش ہاں بھئی امیتابھ بچن کے سامنے بطور ہیروئین ایک پچاس سالہ اداکارہ کی تلاش ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کیا فلمساز اس بات سے واقف نہیں کہ ریکھا (شاید وہ اب امیتابھ جی کے ساتھ کام کرنا پسند نہ کریں ) یا پھر ہیما مالنی یا پھر زینت امان جیسی کئی اداکارائیں ہیں۔ ویسے یہ ساٹھ سالہ ہیروئین پچاس کی بھی تو نہیں لگتیں۔ فلمساز اس وقت حیرت انگیز طور پر کم عمر ہیروئین ساریکا اور شیفالی چھایا کے نام پر غور کر رہے ہیں۔ ایڈوانی کی کال ایل کے ایڈوانی نے عامر خان کو فون کیا۔ نہیں۔۔۔ان کی فلم کی نمائش رکوانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی فلم تارے زمین پر دیکھنے کے لیے۔۔بہت لوگوں کو شاید پتہ نہیں کہ ایڈوانی عامر کے بڑے پرستار ہیں۔عامر فورا دہلی پہنچے اور انہوں نے ایڈوانی اور ان کی فیملی کے لیے خصوصی شو کیا۔ ایڈوانی کو فلم بہت پسند آئی۔ایڈوانی نے اس سے پہلے اسی طرح عامر کی فلم لگان بھی دیکھی تھی۔۔۔۔وہ سب تو ٹھیک ہے ایڈوانی جی لیکن پھر یہ کیا کہ آپ کی ہی پارٹی کے لوگ عامر کے دُشمن بنے ہیں اور ان کی فلمیں گجرات میں دکھائی ہی نہیں جاتی۔اپنے ہیرو کے ساتھ یہ سلوک کیا آپ بند نہیں کروا سکتے۔۔۔۔۔ ممو کی تقدیربیچارے ممو کی تقدیر ہی کچھ خراب ہے۔پاپا متھن چکرورتی نے اپنے بیٹے کو لانچ کیا۔دو فلمیں بن چکی ہیں لیکن ایک نے بھی ابھی تک سنیما گھر کا منہ نہیں دیکھا اور اس کے بعد بالی وڈ میں قدم رکھتے ہی رنبیر چھا گئے۔بیچارہ ممو۔۔۔ ہالی وڈ بالی وڈ میںبالی وڈ سٹارز ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرتے رہے ہیں۔( اب چاہے وہ وہاں کی بی گریڈ فلمیں ہی کیوں نہ ہوں ) لیکن اب بالی وڈ میں ساجد نڈیاڈ والا ہالی وڈ کے نمبر ون سٹارز کو اپنی فلم میں لینے کی تیاریوں میں ہیں۔اپنی فلم ’ کم بخت عشق ‘ کے لیے انہوں نے آرنالڈ اور بیونس نولس (Knowles) کو لینے کا فیصلہ کیا ہے اور بات چیت جاری ہے۔ ویسے ایک بات بتائیے اگر ہالی وڈ فلمسٹارز بالی وڈ فلموں میں کام کرنے لگیں تو ایسی فلموں کو کیا کہا جائے گا۔ہالی بالی وڈ یا۔۔۔نام سوچ کر بتائیے گا۔ لاپتہ تبولوگ پریشان رہتے ہیں کہ ایک فلم میں کام کرنے کے بعد تبو اکثر لاپتہ ہو جاتی ہیں۔وہ دوسری ہیروئینوں کی طرح ایک ساتھ کئی فلمیں نہیں کرتیں ۔فلمسازوں کو پریشانی ہے کہ تبو انٹرنیشنل بینر کی فلمیں کرنے کے بعد بالی وڈ فلمسازوں کو منہ ہی نہیں لگاتیں ۔تبو اس معاملہ میں ہم آپ کے ساتھ ہیں کم سے کم اچھی فلمیں تو دیکھنے مل جاتی ہیں۔ شلپا پر فلم شلپا شیٹی پر فلم بنے گی۔ اب اگر اس وقت بھی شلپا کے نام کو کیش نہیں کیا گیا تو کب کریں گے؟ بگ برادر کے واقعہ کے بعد ہی سنی دیول نے شلپا پر فلم بنانے کی تیاری کر لی تھی۔ فلم کا نام ’ دی مین‘ ہے لیکن شلپا اتنی مصروف تھیں کہ خود انہیں وقت ہی نہیں ملا۔ اب بہت جلد یہ فلم شروع ہو گی اور اس فلم کی خاصیت یہ ہو گی کہ اس میں بگ برادر کے وہ شاٹس بھی شامل کیے جائیں گے جس کی وجہ سے وہ مشہور ہوئیں۔دیکھیں اس فلم سے سنی کو کتنی شہرت ملتی ہے۔
051223_yearender_sport_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/12/051223_yearender_sport_zs
کرکٹ میں کامیابی ، ہاکی میں صرف دعوے
کرکٹ
کرکٹ پاکستانیوں کا پسندیدہ کھیل ہے اور جب پاکستانی ٹیم ملک میں یا ملک سے باہر کھیل رہی اور جیت رہی ہو تو کرکٹ کی دیوانی اس قوم کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے سنہ 2005 پاکستانی قوم کو کئی اچھی خبریں دے گیا اور گزشتہ برسوں کی نسبت سنہ 2005 میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے کافی کامیابیاں حاصل کیں۔ سال کا آغاز اگرچہ اچھا نہیں تھا اور پاکستان کا آسٹریلیا کا دورہ ناکام رہا۔ سنہ 2004 کے آخری مہینے میں شروع ہونے والی تین ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں آسٹریلیا نے تینوں میچوں میں پاکستان کو شکست سے دوچار کیا۔ پہلا ٹیسٹ میچ تو آسٹریلیا نے چار سو اکانوے رنز سے جیتا اور اس میچ کی دوسری انگز میں پاکستان کی پوری ٹیم محض بہتر رنز بنا سکی۔ آسٹریلیا میں ہونے والے ایک روزہ سہ فریقی ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان کی کارکردگی کچھ خاص اچھی نہ تھی اس ٹورنامنٹ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تو تین ایک روزہ میچز میں سے دو جیتے اور ایک ہارا لیکن آسٹریلیا کے خلاف اس کی کارکردگی کافی ناقص رہی سوائے اس میچ کے جو پاکستان نے تین وکٹوں سے جیتا۔ تین ایک روزہ پر مشتمل اس سہ فریقی ٹورنامنٹ کے فائنل کے پہلے دو میچز ہی میں آسٹریلیا نے پاکستان کو ہرا کر ٹورنامنٹ جیت لیا۔ مارچ۔اپریل سنہ 2005 میں بھارت میں ہونے والی سیریز سے قبل بھارت کی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ سنہ 2004 میں پاکستان میں ہونے والی پاک بھارت سیریز میں بھارت نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ بھارت جانے والی اس ٹیم میں سپیڈ سٹار شعیب اختر بھی شامل نہیں تھے۔ انہوں نے خود ہی ان فٹ ہونے کی بناء پر ٹیم میں شمولیت سے معذرت کر لی تھی۔ بھارت جانے سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈسپلنری کمیٹی نے شعیب اختر کو آسٹریلوی دورے کے دوران نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے پر پانچ سو ڈالر کا جرمانہ بھی کیا تھا۔ پاکستان کی ٹیم نے سپیڈ سٹار شعیب اختر کے بغیر بھی مبصرین کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ موہالی میں ہونےوالا پہلا ٹیسٹ میچ تو برابری پر ختم ہوا تاہم کلکتہ میں ہونے والےدوسرے ٹیسٹ میچ میں بھارت نے پاکستان کو ایک سو پچانوے رنز سے ہرا دیا۔ بنگلور میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ پاکستان کی ٹیم نے زبردست کم بیک کیا اور کلکتہ ٹیسٹ میچ میں ناکام ہونے والی بیٹنگ لائن اپ نے تیسرے ٹیسٹ میچ میں کمال کر دیا اور یوں پاکستان نے یہ میچ ایک سو اڑسٹھ رنز سے جیت کر ٹیسٹ سیریز برابر کر دی۔ بھارت کے خلاف ایک روزہ سیریز میں بھی پاکستان کی ٹیم نے زبردست کھیل پیش کیا۔چھ میچوں پر مشتمل اس ایک روزہ سیریز میں اگرچہ پاکستان کی ٹیم پہلے دو میچ ہار گئی تاہم بعد کے چاروں میچز میں پاکستان نے کامیابی حاصل کر کے اس سیریز کو2-4 سے جیت لیا۔ اس سیریز کا آخری میچ دیکھنے کے لیے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف بھی بھارت پہنچے اور جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کی یاد تازہ کر دی۔ بھارت کے ساتھ کامیاب سیریز کے بعد پاکستان کا اگلا معرکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف تھا اور ویسٹ انڈیز کو انہی کے ملک میں شکست دینا اب بھی مشکل سمجھا جاتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے دورے میں بھی شعیب اختر کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ اس بار شعیب کے بقول وہ ٹیم کا حصہ بننے کے لیے بالکل فٹ تھے۔ مئی جون میں دورۂ ویسٹ انڈیز میں دو ٹسیٹ میچوں کی سیریز کھیلی گئی جو ایک ایک میچ سے برابر رہی جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف تین ایک روزہ میچز کی سیریز پاکستان نے0-3 سے جیتی اور یوں ویسٹ انڈیز کا دورہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ دورۂ ویسٹ انڈیز کے بعد پاکستان کی ٹیم کو کئی مہینوں کا آرام ملا اور تقریباّ پانچ ماہ کے بعد پاکستان ٹیم اپنے ہی ملک میں انگلینڈ کی ٹیم کا سامنا کرنا تھا۔ انگلش ٹیم کی آسٹریلیا کے خلاف ایشز سیریز میں اٹھارہ سال بعد فتح کے سبب مبصرین پاک انگلینڈ سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم کو فیورٹ قرار در رہے تھے اور سیریز کے آغاز سے پہلے پاکستان ٹیم کے کپتان انضمام الحق اور کوچ باب وولمر نے بھی انگلینڈ کی ٹیم کو جیت کے لیے فیورٹ قرار دیا لیکن یہ سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ پاکستان کی ٹیم نے تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 0-2 سے فتح حاصل کی۔ ملتان اور لاہور میں ہونے والے پہلے اور تیسرے ٹیسٹ میچز جیتے اور فیصل آباد میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میں بھی انگلینڈ کی ٹیم ہارتے ہارتے میچ بچا گئی۔ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پانچ ایک روزہ سیریز میں 2-3 سے فتح حاصل کی۔انگلینڈ کے خلاف سیریز میں فاسٹ بالر شعیب اختر کو شامل کیا گیا اور انہوں نے اپنی زبردست کارکردگی سے ناقدین کو خاموش کر دیا۔ پاکستان ٹیم کے کپتان انضمام الحق اس سال اپنی کامیابیوں کو ٹیم مشترکہ کوشش کو قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹیم میں اتحاد اور جیت کے جذبے کے سبب اس سال ہماری کارکردگی بہتر ہوئی ہے جبکہ پاکستان ٹیم کے سابق کپتان عمران خان اس سال کی تمام کامیابیوں کا سہرا کپتان انضمام الحق کے سر باندھتے ہیں۔ ہاکی پاکستان کے قومی کھیل ہاکی میں پاکستانی ٹیم اس سال بھی دعووں اور وعدوں کے باوجود قوم کو کوئی خاص اچھی نوید نہیں دے سکی۔ پاکستان کی ہاکی ٹیمیں کم اہمیت والے ٹورنامنٹ میں تو پھر کچھ اچھی کارکردگی دکھاتی رہیں لیکن بڑے اور اہم ٹورنامنٹ میں ان کی کارکردگی کا گراف بہت نیچے رہا۔ مارچ میں لاہور میں ہونے والے چار ملکی جونیئر ہاکی ٹورنامنٹ اور ملائشیا میں ہونے والے چھ ملکی ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی جونیئر ہاکی ٹیم کی کامیابی کے بعد جونیئر ہاکی ٹیم کی مینجمنٹ نے دعوے کیے کہ وہ ہالینڈ میں جولائی میں ہونے والے جونیئر عالمی ہاکی کپ میں بھی گولڈ میڈل لیں گے جبکہ جن مقابلوں میں پاکستان کی جونیئر ہاکی ٹیم نے کامیابی حاصل کی تھی ان میں کوئی خاص بڑی ٹیموں نے حصہ نہیں لیا تھا۔ گولڈ میڈل کے دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ جانے والی جونیئر ہاکی ٹیم کی کارکردگی عالمی کپ میں انتہائی مایوس کن رہی اور وہ ساتویں نمبر پر رہی۔ سنیئر ہاکی ٹیم نے جون میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ کھیلا جس میں اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ اگست میں پاکستان نے جرمنی میں چار ملکی ٹورنامنٹ ہیمبرگ ماسٹر میں حصہ لیا اور آخری نمبر پر رہی۔ اس ٹورنامنٹ کے آخری میچ میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کے کپتان محمد ثقلین پر آسٹریلوی کھلاڑی کو ہاکی مارنے کا الزام بھی لگا۔ اس کے فوراّ بعد ہالینڈ میں ہونے والی روبو بینک ٹرافی میں پاکستان کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس ٹورنامنٹ میں دنیائے ہاکی کی بڑی ٹیموں نے شرکت کی لیکن یورپی ممالک جن کا ٹارگٹ ورلڈ کپ، اولمپکس اور چمپیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ ہوتا ہے وہ اکثر ایسے ٹورنامنٹس میں اپنے جونیئر کھلاڑیوں کو موقع دیتے ہیں۔ بہرحال اس جیت سے پاکستان کی ہاکی ٹیم کو جو کافی عرصے سے پہلی پوزیشن کے لیے ترس رہی تھی کچھ سہارا ملا۔ تاہم اس جیت سے پاکستان کی ہاکی مینجمنٹ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہوگئی اور ایک مرتبہ پھر بھارت میں ہونے والی چمپیئنز ٹرافی کے لیے پھرگولڈ میڈل کے دعوے ہونے لگے۔ یہ دعوے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور پاکستان کی چمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں کارکردگی نہایت مایوس کن رہی۔ اور پاکستانی ٹیم پانچویں نمبر پر رہی۔ سکواش جس کھیل میں جہانگیر اور جان شیر کے زمانے میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا اس سال بھی پاکستانی سینئر کھلاڑی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ جونیئر کھلاڑیوں کی کارکردگی البتہ بہتر رہی اور پاکستان نے برٹش اوپن جونیئر مقابلوں میں تین طلائی اور ایک چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ جونیئر ایشن چمپیئن شپ بھی پاکستان نے جیتی اور عامر اطلس جونیئر ایشن چمپیئن بنے۔ سینیئر کھلاڑیوں میں شاہد زمان کی عالمی رینکنگ گزشتہ سال سے بہتر تو ہوئی اور انہوں نے اپنے ملک میں ہونے والے کچھ ٹورنامنٹس میں اچھی کارکردگی بھی دکھائی تاہم وہ اور کوئی اور پاکستانی کھلاڑی کسی بھی بڑے اور اہم ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکے۔ پاکستان سکواش فیڈریشن نے کراچی میں کئی سال بعد پاکستان اوپن کا انعقاد کیا لیکن اس میں پاکستان کا کوئی کھلاڑي سیمی فائنل کے مرحلے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکا۔ اسی برس کے آخر میں اسلام آباد میں مردوں کی عالمی ٹیم سکواش چمپیئن شپ منعقد کی گئی۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم سیڈنگ میں ساتویں نمبر پر تھی اور اسی سیڈنگ کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کی ٹیم نے ساتویں پوزیشن ہی حاصل کی۔ پاکستان سکواش فیڈریشن نے پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کا بین الاقوامی ٹورنامنٹ وسپا سکواش ٹورنامنٹ بھی منعقد کرایا جسے برطانیہ میں مقیم پاکستانی کھلاڑی کارلا خان نے جیتا۔ ٹینس ٹینس کے کھیل میں سال کا آغاز تو پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے کافی اچھا تھا۔ پاکستان نے لاہور میں ہونے والے ایشیا اوشینا گروپ ون ڈیوس کپ ٹائی میں یکے بعد دیگرے تھائی لینڈ اور چائنیز تائپے کو شکست دی۔ چائنیز تائپے کو شکست دے کر پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیوس کپ کے ورلڈ گروپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا لیکن بعد میں چلی میں ہونے والی ٹائی میں صفر کے مقابلے پانچ میچوں سےشکست کھائی اور دوبارہ گروپ ون میں آ گئے۔ پاکستان کے ٹینس کے کھلاڑیوں اعصام الحق اور عقیل خان کی بدولت سعودی عرب میں ہونے والی پہلی اسلامک گیمز میں پاکستان نے تین گولڈ میڈل حاصل کیے۔ باکسنگ ایمیچیور باکسنگ میں پاکستانی باکسرز کئی بین الاقوامی مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ اس سال پاکستان نے استنبول میں ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ اور آذر بائی جان میں حیدر علی ٹورنامنٹ میں شرکت کی ان دونوں ٹورنامنٹ میں پاکستانی باکسرز کواٹر فائنل تک پہنچے۔ کراچی میں منعقدہ ایشین جونیئرٹورنامنٹ میں پاکستان کی باکسنگ ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ ویت نام میں ہونے والی ایشین باکسنگ چمپیئن شپ میں تین گولڈ میڈل حاصل کیے۔ فٹبال فٹبال میں پاکستان کی عالمی رینکنگ میں کوئی فرق نہیں آیا البتہ پاکستان میں ہونے والی پہلی پاک بھارت فٹ بال سیریز پاکستان نےگول اوسط پر جیت لی مگر بلند و بانگ دعووں کے باوجود پاکستان کی فٹبال ٹیم کراچی میں ہونے والی ساف فٹبال چمپیئن شپ کے سیمی فائنل میں بنگلہ دیش سے ہار گئی۔ فٹ بال کے کھیل میں اس سال پاکستان فٹ بال فیڈریشن نے ایک اہم اقدام کیا اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں قومی وومن فٹ بال چمپئن شپ کا انعقاد کیا۔ اس چمپیئن شپ میں آٹھ ٹیموں نے شرکت کی اور اسے پنجاب کی ٹیم نے جیتا۔ ایتھلیٹکس ایتھلیٹکس میں دو پاکستانی ایتھلیٹ افضل بیگ اورگلناز نے فن لینڈ میں ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چمپیئن شپ میں شرکت کی اور یہ محض ایک شرکت ہی ثابت ہوئی۔ تیراکی تیراکی کے عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کی تیراک خواتین اور مردوں نے شرکت کی تاہم کسی بھی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ کچھ تیراکوں نے تو اپنے ریکارڈ ہی بہتر کیے مگر کچھ تو یہ بھی نہ کر سکے۔ بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس گولف، سنوکر،وولی بال بیس بال اور دیگر کئی کھیلوں میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت تو کی لیکن کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔
080204_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2008/02/080204_bollywood_diary_awa
سلمان کی شادی، بپاشا کی دیوانگی
پہلے پیسہ پھر فوٹو
اگر آپ سلمان خان کی تصویر کھینچنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اپنی جیب ڈھیلی کرنی ہو گی۔حیران مت ہوں، یہ صحیح ہے۔ایک اخبار کے فوٹو گرافر نے جب سلمان کی تصویر کھینچی تو سلمان نے انہیں بلایا پھر ان کی کھینچی گئی تصویر کو ڈیلیٹ کرایا۔ان سے سو روپیوں کا مطالبہ کیا۔فوٹوگرافر نے کہا ان کے پاس صرف بیس روپے ہیں۔ سلمان نے وہ روپے قریب ایک بیٹھے اپاہج شخص کو دینے کے لیے کہا۔اس کے بعد سلمان واپس اپنے موڈ میں آئے اور اپنی تصویر کھنچوائی۔ ساتھ میں شاہ رخ کو بھی آواز دی اور ساتھ میں تصویر کھنچوانے کے بعد کہا کہ یاد رکھنا میری تصویر شاہ رخ سے اچھی ہونی چاہئے۔اس لیے اب آپ بھی یاد رکھیئے سلو کی تصویر کھینچنی ہو تو پہلے کچھ رقم خیرات کیجیئے پھر چاہے درجنوں تصاویر اتار لیجیئے۔ ایس ایم ایس سر آنکھوں پر جی ہاں کرینہ کا ہر ایس ایم ایس سیف کے سر آنکھوں پر ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ سیف نے اپنی پہلی محبت امریتا سنگھ سے بھی شاید اتنی ٹوٹ کر محبت نہیں کی تھی۔ کسی بھی پروگرام میں جانا ہو کرینہ ایک ایس ایم ایس کرتی ہیں اور سیف انہیں وہاں تک چھوڑ آتے ہیں اور تو اور جب پروگرام ختم ہو جاتا ہے تب صرف ایک ایس ایم ایس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے سیف وہاں پھر پہنچ جاتے ہیں اور اکثر دیر تک گاڑی میں بیٹھے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شاہ رخ خان کا اعزاز لگتا ہے شاہ رخ خان پر دنیا بھر سے اعزازات کی جھڑی سی لگ گئی ہے۔ فرانسیسی اعزاز کے بعد خان کا اب پیرس کے گریوین میوزیم میں موم کا مجسمہ تیار کیا جا رہا ہے۔خان کا ایک مجسمہ پہلے ہی لندن کے تساؤ میوزیم میں لگایا جا چکا ہے۔اس میوزیم میں مہاتما گاندھی کے بعد خان کو یہ اعزاز حاصل ہو گا۔ کنگنا کا وارڈروب مالفنکشن مدھر کی فلم فیشن کا ایک شاٹ لیا جارہا تھا۔ سیٹ سے مدھر نے سب کو ہٹا دیا سوائے کنگنا اور فوٹوگرافرز کے۔کیونکہ جو شاٹ فلمایا جانا تھا وہ بہت ہی حساس منظر تھا۔ آپ کو یاد ہے لیکمے فیشن ویک جب نامور ماڈل کیرل گریشیز ریمپ پر چل رہی تھیں اور اچانک ان کا گاؤن سرک گیا۔بس یہی منظر فلمایا گیا اور کنگنا نے بہت ہی بولڈ ہو کر اس منظر کو دہرایا بھی۔ ہاں بھئی کنگنا ویسے بھی بہت بولڈ ہی ہیں۔ عاطف کی دیوانی بپاشا بپاشا باسو پاکستانی گلوکار عاطف اسلم کی اتنی بڑی مداح ہوں گی یہ پتہ نہیں تھا۔ بپاشا کو عاطف کے سارے نغمے پسند ہیں اور اپنی کار میں بھی وہ عاطف کے نغمے سنتی رہتی ہیں۔خیر ایسا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن بپاشا نے اپنے پسندیدہ گلوکار کو اپنی فلم ’ ریس‘ کے ایک نغمے ’ جان جاناں‘ میں اپنے ساتھ اداکاری کا موقع بھی دے دیا۔ویسے یہ گیت عاطف نے ہی گایا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اب آپ عاطف کو ایشیا کی سیکسی گرم کا خطاب پا چکی بپاشا کے ساتھ دیکھ سکیں گے۔واہ عاطف بازی مار لی۔ اب سیف کی باری سلمان خان اور شاہ رخ خان کے بعد اب سیف علی خان کی باری ہے۔نہیں مادام تساؤ میوزیم کے لیے نہیں بلکہ سکس پیک ایبز حاصل کرنے کے لیے سیف دن رات محنت کر رہے ہیں۔سیف روزانہ اپنے ٹرینر ستیہ جیت کی ورزش گاہ میں کسرت کر رہے ہیں۔ اب تک ان کے چار ایبز تیار ہو چکے ہیں اور آپ چھوٹے نواب کو ان کی آنے والی فلم تشان کے ایک گیت میں بغیر شرٹ اور سکس پیکس ایبز کے ساتھ دیکھ سکیں گے۔واہ بھئی اس فلم میں کرینہ بکنی میں اور سیف بغیر شرٹ کے۔کیا لگتا ہے یش راج کو اس سے زیادہ پبلسٹی کرنے کی ضرورت ہے؟ بینیگل کی ہنسی کون سوچ سکتا تھا کہ آرٹ فلموں کے خالق شیام بینیگل بھی کامیڈی فلموں کے جادو سے نہیں بچ پائیں گے۔ گزشتہ ہفتہ ہی انہوں نے اپنی کامیڈی فلم ’مہادیو کا سجن پور‘ کا پہلا شاٹ اوکے کیا۔ خیر کئی یادگارفلموں اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ یافتہ فلمساز سے یہ امید کر سکتے ہیں کہ بے معنی کامیڈی فلموں کے اس دور میں ان کی کامیڈی معنی خیز ہو گی۔بیسٹ آف لک بینیگل جی۔ شاہد نے نام بدلا نہ۔۔۔نہ۔۔۔شاہد نے اپنا نام نہیں نام کے ہجے بدل دیے۔آپ تو جانتے ہیں کہ بالی وڈ میں لوگ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے اپنے ناموں کے ہجے بدلا کرتے ہیں اور سنا ہے کہ شاہد نے پرانے دور کی ناکامیوں کو ختم کرنے لیے اپنے نام KAPUR کو بدل کر KAPOOR کر دیا۔چلیے دیکھتے ہیں اب ان کی زندگی میں ایسی کون سے حسینہ آتی ہے جو ان کی زندگی کو کامیاب راہیں دے۔ سلمان کی شادی سلماں خان شادی کریں گے یا نہیں یہ سوال ہر برس اٹھتا ہے لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں، میڈیا ہر موقع پر ان سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے ’ آپ شادی کب کر رہے ہیں؟‘ لیکن ہمارے ذرائع کہتے ہیں کہ سلمان اس سال کے آخر تک شادی ضرور کر لیں گے اور ہم اتنے یقین کے ساتھ یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ سلمان کے والد سلیم خان اور والدہ نے انہیں الٹی میٹم دے دیا ہے مجال ہے کہ سلو اسے ٹال سکیں۔۔۔تو پھر قطرینہ کیا آپ تیار ہیں۔۔۔! کھلاڑی اکشے چار سال تک کامیڈی فلمیں کرنے کے بعد اب اکشے کمار ایک بار پھر کھلاڑی بننے کے لیے تیار ہیں یعنی اب وہ اپنے پرانے اور اصلی چولے میں نظر آئیں گے۔انہوں نے اس سال چار ایکشن فلمیں سائن کر لی ہیں۔ویسے اکشے وہ واحد اداکار رہے جنہوں نے خان برادران کو ٹکر دی۔گزشتہ برس چار فلمیں اور وہ سب بہت کامیاب۔ اکیلی کرن راؤ کرن راؤ بیچاری اکیلی ہو گئی ہیں ۔۔۔ناں ۔۔۔ناں عامر کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہیں وہ ان کے گھر میں بھی رہتی ہیں ۔ہم نے تو انہیں بیچاری اس لیے کہا ہے کہ وہ بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم بنانے جا رہی ہیں اور عامر خان ان کی فلم میں سرمایہ نہیں لگا رہے ہیں۔ان کی پہلی سکرپٹ عامر پہلے ہی ٹھکرا چکے ہیں لیکن دوسری سکرپٹ پر فلم بننے جا رہی ہے۔ویسے کرن اس بات سے غمزدہ نہیں۔ وہ اس بات سے خوفزدہ تھیں کہ اگر عامر ان کی فلم میں سرمایہ لگاتے تو پھر ان سے اتنی ساری توقعات لگاتے کہ وہ پریشان ہو جاتیں۔۔۔۔ٹھیک ہے کرن جی عامر کو ایسے ہی پرفیکشنسٹ نہیں کہا جاتا ہے۔
120826_book_review_zz
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2012/08/120826_book_review_zz
فرنود: دلیل، سند، مثال
نام کتاب: فرنود
انور سِن رائے بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی یہ کتاب جون ایلیا کی تحریروں کا مجموعہ ہے لیکن پڑھنے، رکھنے، بار بار پڑھنے اور تحفے میں دینے کے لائق ہے مصنف: جون ایلیا تالیف و ترتیب: خالد احمد انصاری صفحات: 718 قیمت: 800 روپے ناشر: الحمد پبلی کیشنز۔ رانا چیمبرز سیکنڈ فلور، لیک روڈ۔ لاہور یہ جون ایلیا کے سات مضامین اور کوئی ایک سو اسّی سے زائد انشائیوں اور اداریوں پر مشتمل دستاویز ہے۔ اس سے پہلے ان کی شاعری کے پانچ مجموعے: شاید، یعنی، گمان، لیکن اور گویا آ چکے ہیں اور ابھی ہو سکتا ہے کہ بہت کچھ آئے۔ اصل میں جون ایلیا خود اپنے حساب کے آدمی تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ شاعری کو چھپوانے سے زیادہ سنانے کی چیز سمجھتے تھے۔ یعنی انہیں لگتا تھا کہ شعر سناتے ہوئے وہ ہر شعر میں جو ایک حالت اور کیفیت شامل کرتے تھے شاید وہ پوری طرح شعر میں آتی نہیں۔ ان کا فی بطنِ شاعر بہت مستحکم تھا، یہ بھی ان کے گمان کا گمان ہے کیونکہ جنھوں نے ان کا شعر پڑھا ہے وہ بھی تو ایک حالت و کیفیت میں جاتے اور آتے ہیں، تو اسے کیا کہا جائے گا؟ لیکن یہ شاعری کہاں سے آ گئی بیچ میں، بات تو جون ایلیا کے مضامین، انشائیوں اور اداریوں پر ہو رہی تھی جو انہوں نے چوالیس سال کی مدت کے دوران ماہنامہ انشا، عالمی ڈائجسٹ، 1990 میں جشنِ جون ایلیا کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے اور سب سے زیادہ سسپنس ڈائجسٹ کے لیے لکھے۔ لیکن جون ایلیا کا نام آتے ہی بات شاعری اور ان کی شخصیت کی طرف چلی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ وہ سراپا شاعر تھے لیکن انھیں ضرور اندازہ ہو گیا تھا شاعری کو درکار معاشرے کی کایا پلٹ رہی ہے لیکن یہ بھی ایک الگ تفصیل ہے۔ ان کی نثر۔ انھیں ضرور یقین تھا کہ ان کی نثر تو خود ہی اپنا کچھ کر لے گی لیکن شاعری کو ان کی ضرورت ہے۔ جیسے عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو ماں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ماں کو بچے کی ضرورت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا ہی جون ایلیا کا معاملہ بھی لگتا ہے۔ شاعری کو ان کی ضرورت تھی جیسے بچے کو ہوتی ہے اور انھیں شاعری کی ضرورت تھی جیسے ماں کو بچے کی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی تو ہے کہ بچے ماں کے بغیر رہ لیتے ہیں لیکن ماں سے بچے لے لیے جائیں تو جیتے جی مر جاتی ہے۔ اصل میں جون ایلیا خود اپنے حساب کے آدمی تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ شاعری کو چھپوانے سے زیادہ سنانے کی چیز سمجھتے تھے اور نثر؟ شکیل عادل زادہ کا کہنا ہے کہ ’اس نثری مجموعے کی قریباً ساری تحریریں ضرورتاً لکھی گئی ہیں‘۔ اس بات کا ان تحریروں کی قدر سے کیا علاقہ ہوا؟ لیکن ذرا آگے چلیے، انہوں نے خود ہی وضاحت کی ہے ’حاضری لگا دینے کی اِس عام روش سے وہ ہمیشہ مجتنب رہے‘۔ سو یہ کام ضرورتی ہونے کے باوجود سرسری نہیں کیا گیا۔ اور جون ایلیا کا خود کہنا تھا کہ ’نثر کاری میں بڑی حجت کرنے پڑتی ہے۔ یہ شاعری نہیں جو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر حال میں سرزد ہو جائے۔ نثر کے لیے خود کو باندھ کے، جکڑ کے بیٹھنا پڑتا ہے‘۔ مجھے ان کی شاعری اور نثر الگ الگ نہیں لگیں اگر نثر میں بھی ان کے سامنے مشاعرے کے سامعین ہوتے اور یہ بھی انھیں سامنے بیٹھ کر سنانی ہوتی تو اس میں بھی وہ سب کچھ درآتا جو ان کے شعر میں ہے۔ جون ایلیا کی اصل شاعری ان کی نثر ہے یا کم سے کم دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں، ضرور یہ بات بہت سوں کو بیٹھے گی نہیں۔ خرابی ان میں نہیں، اس روایت و وراثت میں ہے جس نے شاعری اور شعر کو محض تفریح کا سامان بنا دیا پست معنوں میں بھی اور وسیع معنوں میں بھی۔ خالد انصاری نے لکھا ہے کہ جون ایلیا نے ذہینہ سائیکی کے فرضی نام سے بھی لکھا اور اس کتاب میں ایک مضمون ’مرد برقع اوڑھیں‘ ہے بھی۔ لیکن کیا انہوں نے ایک ہی مضمون لکھا؟ اور ہیں تو کیوں شامل نہیں؟ اگر ملے نہیں تو اب جس کسی کے پاس ہوں وہ انھیں جمع کر دے یا خالد انصاری ہی یہ کام بھی کر دیں۔ اس کتاب میں شامل تحریریں فلسفیانہ بھی ہیں، سماجی بھی اور سیاسی بھی اس کتاب میں شامل تحریریں فلسفیانہ بھی ہیں، سماجی بھی اور سیاسی بھی۔ سیاسی اور سماجی تحریریں ایسی اہم ہیں کہ ان سے ہر دور کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آ جاتی ہے اور یہ بھی علم ہوتا ہے کہ حکومتوں نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو کس کس بات کے بارے میں کتنا لاعلم رکھا۔ پھر جون ایک کی دوستیاں اور تعلق داریوں کا حساب بھی ہے۔ اس مختصر تبصرے میں اس کتاب کا پورا تعارف بھی ممکن نہیں اور پھر یہ کتاب جون ایلیا کی تحریروں کا مجموعہ ہے لیکن پڑھنے، رکھنے، بار بار پڑھنے اور تحفے میں دینے کے لائق ہے۔ شکیل عادل زادہ کو جون ایلیا کے بارے میں اور، اور سب کچھ بتانا چاہیے۔ فرنود میں شامل ساری تحریروں میں نام کا اہتمام ہے: دلیل، سند، مثال۔ اس کے بعد بھی اختلاف کی گنجائش دکھائی دے گی، تو زندہ تحریر کا ایک لازمی وصف اختلاف پر اکسانا بھی ہے۔ لیکن بات کرنے کا یہ ڈھنگ کہ دماغ بھی بول رہا ہے اور دل بھی اور کبھی کبھی تو دونوں مکالمے میں ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ وہ کہاں اور کس کی طرف ہے۔ نثر کا یہ وفور اردو میں کم ہی ہے، ہے بھی تو ایسے وفور کا سا نہیں۔ خود فرنود اٹھا کے دیکھ لیجے۔ کتاب بہت اچھی شائع ہوئی ہے۔ قیمت مناسب ہے۔ جلد بندی زیادہ توجہ چاہتی تھی۔ ٹائٹل اچھا نہیں ہے، یہی معنی اور طرح مصور کیے جاتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ٹائپنگ اور پروفنگ کی غلطیاں چند ایک ہیں اور یہ کمال ہے اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
071022_bollywood_diary_fz
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/10/071022_bollywood_diary_fz
بالی وڈ ڈائری
پیغام محبت
سینچر کے روز ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان مہیندر سنگھ دھونی بہت مسکرا رہے تھے۔ارے بابا میچ جیتنے کے بعد نہیں بلکہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی۔ اور ان کی یہ مسکراہٹ ان لاکھوں پرستاروں کے لیے نہیں بلکہ کسی ایک مخصوص شخصیت کے لیے تھی جسے انہوں نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا اور وہ تھیں خوبصورت اداکارہ دیپکا پڈوکون۔ دیپکا کی مسکراہٹ زیادہ معنی خیز تھی۔ ان کے گالوں کی سرخی میں اضافہ ہو جاتا جب وہاں موجود صحافی ان سے دھونی کے بارے میں سوال کرتے۔ اب دلوں کے ٹوٹنے کے اس موسم میں دلوں کا یہ ملن ایک خوشگوار احساس دے گیا۔ دلوں کا ملن آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے میں جب کہ بالی وڈ کے گلیاروں میں دلوں کے ٹوٹنے کی خبریں گشت کر رہی ہیں، تو ہم دلوں کے ملاپ کی باتیں کیسے کر سکتے ہیں؟ خبریں آپ تک تو یہی پہنچی ہیں نا کہ کرینہ کپور اور شاہد کی دوستی میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ دونوں کی برسوں پرانی دوستی ختم ہو چکی ہے۔ شاہد اکیلے ہیں اور کرینہ نے سیف کا ہاتھ تھام لیا۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ تو یہ ہے کہ برسوں بعد شاہد اپنی ماں نیلما عظیم سے ان کے گلے ملے۔گلے شکوے دور ہوئے۔ دراصل نیلما اور کرینہ میں کبھی تعلقات خوشگوار نہیں تھے اور اسی وجہ سے شاہد اپنی ماں سے علیحدہ ہو کر الگ گھر میں رہنے لگے تھے۔ جان کی معافییہ شاید معافی مانگنے کا موسم ہے۔ ملکہ شیراوت نے فلم اگلی اور پگلی میں اپنے ساتھی اداکار رنویر شوری کو اتنے طمانچے مارے کہ شرمندہ ہو کر معافی مانگ لی لیکن جان نے عائشہ کو طمانچے نہیں مارے بلکہ فلم نو سموکنگ میں ان کے منہ پر سگریٹ کے دھوئیں چھوڑے۔ منظر کو ٹھیک سے فلمانے کے لیے انہیں ایسا متعدد بار کرنا پڑا جس سے عائشہ کی طبیعت خراب ہو گئی۔ بیچارے جان نے عائشہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی۔ جب سانڈ نے۔۔۔جب سانڈ نے ملکہ شیراوت کا پیچھا کیا۔۔۔ہے ناں دلچسپ خبر۔فلم اگلی اور پگلی میں ملکہ شیراوت اداکار رنویر شوری کے ہمراہ موٹر سائیکل پر بیٹھی تھیں۔انہیں اس شوٹ کے دوران چلانا تھا۔ملکہ نے زور سے چلایا۔بس کیا تھا کچھ دور کھڑا سانڈ بپھر گیا اور اس نے اس گاڑی کا پیچھا شروع کر دیا۔ملکہ اور زور زور سے چیخنے لگیں۔لیکن اس وقت ملکہ یا رنویر نے سرخ رنگ کے کپڑے نہیں پہنے تھے بلکہ موٹر سائیکل کا رنگ سرخ تھا۔۔۔ عامر کا نیا روپعامر کو آپ نے کئی روپ میں دیکھا ہے لیکن فلم گجنی کے ری میک میں آپ انہیں ایک نئے انداز میں دیکھیں گے۔انہوں نے اس فلم میں اپنی شرٹ بھی اتاری ہے۔سر بھی منڈوایا ہے اور تو اور انہوں نے کمر سے نیچے جینس پینٹ پہنی ہے۔۔۔ سلمان کا چوکا اور چھکاسلمان خان نے ایک ہی ساتھ چوکا اور چھکا مار دیا ہے۔ بارہ کروڑ روپے میں ایک فلم سائن کر کے انہوں نے چوکا مارا ہے تو اس فلم کی آمدنی سے تیس فیصد منافع کا معاہدہ کر کے انہوں نے چھکا مار دیا ہے۔ مطلب یہ کہ سلمان نے تمام ہیرو کو پیچھے چھوڑ دیا اور وہ اس وقت بالی وڈ کے سب سے مہنگے اداکار بن گئے۔
060219_delhi_diary_sen
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/02/060219_delhi_diary_sen
مصوری، شاہی شادی اور صدر بش کے کھانے
وزارت خارجہ کی اپنی عمارت
مختلف عمارتوں میں دفاتر کے بعد بالآخر وزارت خارجہ کی ایک اپنی عمارت کی تعمیر شروع ہو گئی ہے۔گزشتہ دنوں وزیراعظم منموہن سنگھ نے مولانا آزاد روڈ پر مجوزہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس عمارت کا نام جواہر لعل نہرو بھون ہوگا اور یہ تقریبا تین برس میں تعمیر ہوگی۔ خارجہ امور کی وزارت کے مختلف دفاتر اکبر بھون، شاستری بھون اور پٹیالہ ہاؤس میں کام کرتے ہیں۔ نئی عمارت کی تعمیر کے بعد یہ تمام محکمے اس عمارت میں منتقل ہو جائیں گے۔ نئی عمارت پر کام شرع کرانے میں نٹور سنگھ کا بہت بڑا ہاتھ تھا جو چند مہینے پہلے تک وزیر خارجہ تھے لیکن اب یہ وزارت وزيراعظم کے پاس ہی ہے۔ وی پی سنگھ کی مصوری سابق وزيراعظم وی پی سنگھ ایک اچھے مصور ہیں۔ ان کی مصوری کی پچھلے دونوں دلی میں ایک نمائش ہوئی۔ مصوری اور شاعری دونوں ہی ان کے شوق ہیں۔ مسٹر سنگھ کہتے ہیں کہ ’ کاش میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مصوری کو دیا ہوتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میں ایک سیاست داں سے کہيں بہتر ایک مصور ثابت ہوتا‘۔ مسٹر سنگھ 90-1989 میں وزير اعظم بنے تھے۔ انہوں نے ملازمتوں میں پسماندہ ذاتوں کے حصے کے لیے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کی تھیں جس پر پورے ملک میں اعلی ذات کے ہندوؤں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ انہیں کے دور میں ایک کے اڈوانی نے بابری مسجد کے خلاف مہم چلائی تھی۔ مسٹر سنگھ کو کینسر ہے اور انہيں ہر ہفتے ڈائیلیسس سے گزرنا پڑتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’میں ہر لمحے کے لیے خدا کا شکر گزار ہوں، بجائے اس کے میں اپنی بیماری کے نتائج کے بارے میں سوچوں میں بـچے ہوئے ہر لمحے کو استعمال کرنا چاہتا ہوں‘۔ صدر بش کا دسترخوان امریکہ کے صدر جارج بش یکم مارچ کو ہندوستان پہنچيں گے۔ ان کے دورے کے لیے ابھی سے سکیورٹی کے انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے دستر خوان کی بھی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انہيں ہندوستانی کھانے نہ صرف پسند ہیں بلکہ ان کے بارے میں وہ خاصی معلومات بھی رکھتے ہيں۔ وہ موریہ شریٹن ہوٹل میں قیام کريں گے۔ ہوٹل کو وائٹ ہاؤس سے ایک فہرست موصول ہوئی ہے۔ ہوٹل کے اسٹار کک امتیاز قریشی صدر کے کھانے کے انچارج ہوں گے۔ اور دستر خوان پر کئی طرح کے کبابوں کے علاوہ بریانی، حیدرآبادی ڈشز میں کھٹے بیگن کے علاوہ دال اور جنوبی ہندوستان کے کھانے ہوں گے۔ صدر بش اپنی جوانی کے دنوں میں دلی میں دو مہینے رہ چکے ہیں اور اس وقت کے کھانوں بھولے نہیں ہیں۔ انکم ٹیکس والے دیکھ رہے ہيں ٹیکس کی چوری کرنے والوں پر انکم ٹیکس والوں کا شکنجہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اب اگر آپ مہنگی پینٹنگ خرید رہے ہوں، ہوم تھیٹر یا پھر پلازما ٹی وی۔ اگر آپ ان کی قیمت کیش میں ادا کر يں گے تو ٹیکس والوں کی طرف سے آپ کو نوٹس مل سکتا ہے کہ برائے مہربانی آپ اپنا ریٹرن فائل کر ديں۔ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ مہنگی اشیاء کی خرید اری میں 50 فی صد سے زيادہ لوگ قیمت نقد ادا کرتے ہيں۔ ٹیکس کا محکمہ آئندہ مہینے کے اختتام تک دس ہزار ایسے لوگوں کو نوٹس بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انکم ٹیکس کا محکمہ انہيں بھی نوٹس بھیجے گا جن کے کریڈٹ کارڈ پر دو لاکھ روپے سے زیادہ کی خریداری کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ لوگ بھی اس دائرے میں آئيں گے جنہوں نے بینک میں دس لاکھ یا اس سے زيادہ رقم جمع کر رکھے ہیں۔ ہندوستان ميں ٹیکس کے نظام میں خامی کے سبب ان افراد کی اکثریت جنہیں ٹیکس دینا چاہیے ٹیکس کے دائرے میں نہیں آ پاتی ہے لیکن اصلاحات کے بعد اب بعض ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ آئندہ دو تین برس میں کوئی بھی ٹیکس کی گرفت سے بچ نہیں پائے گا۔ شاہی شادی امریکہ کے کروڑ پتی بزنسمین وکرم چٹوال اور ہندوستانی فیشن ماڈل پریا سچدیو کی شادی کی مختلف رسومات چار دن تک جاری رہیں۔ اس شادی میں دنیا بھر کے ٹاپ بزنس مین شریک ہوئے ۔ شرکت کرنے والوں ميں اسٹیل انڈسٹری کے ارب پتی لکشمی متل بھی شامل تھے۔ تقریبا 400 مہمانوں نے شادی میں شریک ہونے کے لیے اپنے اپنے نجی ہوائی جہازوں کا استعمال کیا۔جبکہ شادی کا پنڈال سجانے کے لیے بینکاک اور سنگاپور سے پھول منگوائے گئے۔شادی کی رسمیں ویلنٹائن ڈے یعنی 14 فروری کو ممبئی سے شروع ہوئيں جن ميں بالی ووڈ کی شاہ رخ خان، پریتی زنٹا اور برطانوی اداکارہ لز ہرلی جیسی شخصیات نے شرکت کی۔ تاہم شادی کا جشن منانے کے لیے راجستھان کے شہر اودے پور میں انتظامات کیے گئے اور آخر میں بارات دلی پہنچی۔چونتیس سالہ وکرم چٹوال کے والد امریکہ کے ہمسفئر ہوٹل اور رسورٹ کے علاوہ بامبے پیلس نامی ہوٹل چین کے مالک ہیں۔ شادی کے انتظامات سال دوہزار چار میں اسٹیل ٹائیکون لکشمی متل کی بیٹی کی شادی کی یادیں تازہ کر رہے تھے جس میں انہوں نے چھ کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے تھے۔
061008_diary_shakeel_oct8_ra
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/10/061008_diary_shakeel_oct8_ra
انڈیا:اڑتالیس فیصد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں
کارگل کے نئے حقائق
کارگل کی لڑائی کو ہندوستان میں عموماً ملٹری انٹیلیجنس اور خفیہ اداروں کی ایک بڑی ناکامی تصور کیا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیشن وغیرہ بھی بنائےگئے تھے لیکن کمیشن نے فوجی غفلت کے لیئے کسی فرد واحد کو ذمہ دار قرار دینے کے بجائے ایک عمومی رپورٹ دی تھی اور اس میں بنیادی طور پر مستقبل کے لیئے احتیاطی اقدامات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب کـچھ نئی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ اے وائی ٹپنس نے ایک انٹرویو میں کارگل کی صورتحال پر قابو پانے کےلیے بری فوج کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے بری فوج اور فضائیہ میں رابطے کی شدید کمی تھی۔ سابق ایئر چیف مارشل ٹپنس نے کہا کہ فوج نے پاکستانی حملے اور پیش رفت کے بارے میں وزارت دفاع کو بہت تاخیر سے خبر دی۔ انہوں نے اس انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ صورتحال انتہائی نازک تھی۔ فوج کو پاکستانی حملے کو پسپا کرنے کے لیئے فضائیہ کی مدد چاہیئے تھی لیکن فضائیہ کی کارروائی کے لیئے وزارت دفاع کی منظوری چاہیئے۔ یہ ممکن نہ ہوا کیونکہ فوج اس وقت وزارت کو صورتحال کی سنگینی کے بارے میں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ فصائیہ کے سابق سربراہ کے مطاب‍ق پوری صورتحال کے بارے میں فوج کی تینوں شاخوں کو کوئی مشترکہ بریفنگ بھی نہیں دی گئی تھی۔انہوں نے بتایا ہے کہ ایک مشترکہ میٹنگ سے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل وی پی ملک غصے میں اٹھ کر چلے گئے تھے۔ صدر مشرف کی کتاب ہندی میں صدر پرویز مشرف کی کتاب ’ان دا لائن آف فائر‘ ہندوستان میں ’اگنی پتھ‘ کے نام سے ہندی میں شائع ہو گئی ہے۔ ہندی میں اس کتاب کی خصوصیت یہ کہ اس میں کارگل کے باب میں پہلی بار اس لڑائی میں ہلاک ہونے والے پاکستانی فوجیوں کی تعداد بتائی گئی ہے ۔ صدر مشرف کارگل کی لڑ ائی کے وقت پاکستانی فو ج کے سربراہ تھے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس لڑائی میں مجموعی طور پر 357 فوجی ہلاک اور 665 زخمی ہوئے تھے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جنگ بندی سے پہلے ہمارے 157 فوجی شہید اور 250 زخمی ہوئے۔ فوج کی واپسی کے دوران ہمارے 250 فوجی شہید 415 زخمی ہوئے ۔‘ ہندوستان میں ملٹری انٹیلیجنس کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد تقریباً گیارہ سو تھی۔ ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی پی ملک نے کارگل پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 270 پاکستانی فوجیوں کو ہندوستانی علاقے میں دفن کیا گیا ہے ۔ ہندوستان کے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد سرکاری طور پر 522 بتائی جاتی ہے ۔ سچائی شاید صرف اس وقت کے دونوں جانب کے جنرلوں کو ہی پتہ ہے۔ ہندوستانی فضائیہ کی پریشانی حال میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایف 16 جنگی طیاروں کی فراہمی کے معاہدے کے بعد ہندوستانی فضائیہ پریشانی میں پڑ گئی ہے۔ فضائیہ کے سربراہ کی طرف سے وزیر دفاع کو لکھا گیا ایک خط گزشتہ دنوں سامنے آیا ہے جس میں ایئر چیف مارشل نے کہا ہے کہ اگر فضائیہ کے لیئےمطلوبہ جدید ترین جنگی طیارے اور لائٹ کمبیٹ ایئر کرافٹ وغیرہ فوری طور پر نہیں حاصل کیے گئے تو پاکستانی فضائیہ پر ہندوستانی برتری ختم ہوجائے گی۔ فضائیہ کے سربراہ کے خط میں کہا گیا ہے کہ نئےطیارے اور دوسرے ساز و سامان نہ حاصل کیے جانےاور ہر مہینے مگ تربیتی طیاروں کے تباہ ہونے کے سبب فضائیہ کے سکوارڈنوں کی تعداد 40 سے گھٹ کر 34 ہو گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہی صورتحال قائم رہی تو اگلے سال تک صرف 30 سکواڈرن ہی بچیں گے۔ ایک سکواڈرن میں عموماً 22 جنگی طیارے ہوتے ہیں ۔ فضائیہ دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آرڈی او سے بھی ناخوش ہے جو ایک بھی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں کر سکا ہے۔ فضائیہ نے بعض میزائلوں اور دیگر ساز و سامان کے لیئے اب اسرائیل سے رابطہ قائم کیا ہے ۔ ہندوستان اسوقت ایشیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن غربت اب بھی اس کے ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ میں حائل ہے۔اس کے لیئے ہندوستان کی معیشت کو دس فی صد کی رفتار سے آگے بڑھنا ہوگا۔اس وقت یہ شرح آٹھ فی صد ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ دس فی صد کے نشانے کو حاصل کیا جا سکتا ہے اگر مینیو فیکچرنگ اور زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔انہوں نے ہفتے کے روز کہا کہ سڑک، بندرگاہوں اور ہوا‏ئی اڈوں کو بہتر بنانے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے پر تقریباً 320 بلین ڈالر ‍خرچ کیے جانے ہیں۔ بنیادی ڈھانچوں کی تر‍قی کا یہ عمل ملک کی معیشت کے لیے بقول ان کے انقلاب ثابت ہوگا۔اس وقت ملک میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک نئی شاہراہیں تعمیر کی جا رہی ہیں اور پندرہ بین الاقوامی ہوائی اڈوں سمیت پچیس سے زیادہ ہوائی اڈوں کو بین الاقوامی میعار کا بنایا جا رہا ہے ۔سیکورٹی کے نئے مسائل دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور نت نئی شکل میں بموں کے استعمال سے سفر بالخصوص فضائی سفر میں طرح طرح کی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کچھ عرصے سے مذہبی مقامات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ہندوستان کے اہم مندروں میں حفاطتی انتظامات سخت کر دیئے ہیں۔ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے بعد بنارس کے سب سے اہم مندر گیان واپی کاشی وشوناتھ مندرمیں نہ صرف سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے بلکہ وہاں مندر کے احاطے میں پن یا قلم لے کر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان مندروں میں عقیدت مندوں کو عبادت کے لیے جانے سے پہلے میٹل ڈیٹیکٹراور جامہ تلاشی کے عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کی مقبولیت گزشتہ دنوں ملک کے سرکردہ اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نےملک کے کئی مقامات پر ایک سروے کیا۔اس سروے کے مطابق اگر انتحاب کا موقع دیا جائے تو باون فیصد شہری ملک میں ہی رہنا جاہیں گے جبکہ 48 فی صد غیر ممالک جانا چاہیں گے لیکن دلی واحد شہر تھا جہاں کےنوے فی صد شہری یہیں رہنا چاہتے ہیں۔ سروے کے مطابق ممبئی کے وہ شہری جو دوبارہ ہندوستانی کےطور پر ہی جنم لینا چاہتے ہیں ان میں سے چالیس فی صد شہری ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی وجہ سے دوبارہ یہاں جنم لینا چاہیں گے۔ جو لوگ دوسرے جنم میں غیر ممالک میں پیدا ہونا پسند کریں گے ان میں صرف عیسائی ایسے تھے جو صد فی صد دوسرے جنم میں بھی عیسائی رہنا پسند کریں گے جبکہ دوسرے جنم میں بھی اپنے موجودہ مذہب پر قائم رہنے کے معاملے میں ہندوؤں میں یہ فیصد 78 سکھوں میں 86 اور مسلمانوں میں 60 تھا ۔
031029_poetry_humour_as
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2003/10/031029_poetry_humour_as
مزاحیہ مشاعرہ
شعراء کے چند اشعار
ضیاالحق قاسمی میں نے اوڑھی ہے تیرے نام کی اجرک ایسی اب تجھے چھوڑ کے پنجاب جا نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود خدا نے مجھے بھیجا ہے حکومت کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ زمانے کی ضرورت کیا ہے؟ مشورہ کوئی نہیں آپ سے مانگا میں نے آپ کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدر کا پورا علاقہ صاف ہونا چاہیئے ہر گلی کوچے سے بھی انصاف ہونا چاہئیے صدر کے پورے علاقے میں ہے اکثرگندگی انتخابِ صدر تو شفاف ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدری پہن کے قوم سے شرما رہا تھا میں اچکن پہنتا میں کوئی عبدالودود تھا لنڈے کی خیر ہو کہ میری لاج رہ گئی میں ورنہ ہر لباس میں ننگا تھا وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دم نکلتا ہے اور گھٹتا ہے میں تو سگریٹ بھی اب نہیں پیتا یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سسرال کی نظر میں ایک نکھٹو ہوں میں اکثر وہ میرے بارے میں ہی گفتگو کریں میں ڈوب کر پسینے میں کرتا ہوں سارے کام دامن نچوڑ لوں تو یہ سسرے وضو کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ چھ مصرعے سنانا تو بری بات نہیں پورا دیوان بغل میں کیوں دبا رکھا ہے اور غزلیں جو سناؤ گے تو اب خیر نہیں سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا کہ وہ میرا مسیحا ہوگا لیکن اس نے تو مری تارا میسیحائی کی رات گھس آئی میرے گھر میں علاقے کی پولیس بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلی بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لحاف ہوں کسی اور کا مجھے اوڑھتا کوئی اور ہے میری بابرہ تو شریف ہے تیری بابرہ کوئی اور ہے یہ سیاہ سیاستوں کا کھیل ہے۔ منافقوں کی ہی جیل ہے یہاں بھونکتا کوئی اور ہے یہاں کاٹتا کوئی اور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی کی خاتون شاعرہ شکیلہ ثروت وکالت کا یہ پیشہ راس آسکتا ہے تم کو بھی تم عادت کے مطابق جب بھی بولو جھوٹ ہی بولو بہت آساں طریقہ ہے ادھر آؤ میں سمجھاؤں اگر دولت ہی کمانا ہے تو پھر اسکول ہی کھولو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف جوتا چرانے کے وہ لیں گی ایک سو ڈالر تو ان حالات میں تو منہ دکھائی ہو نہیں سکتی گریباں چاک پھرتے ہو حسیناؤں کی گلیوں میں بزرگو ایسی پیری میں سلائی ہو نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذرا صادق آج کے ملکی صورتحال اور حکومت کو اپنا موضوع بنایا ہمارے ملک میں جمہوریت نے بھیس بدلا ہے میرا جمہور کو یہ مشورہ ہے سرخم کر لے جمالی مشورہ دیتے ہیں کھانے میں کفایت کا نصیحت سے پہلے ذرا وہ اپنا وزن کم کر لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرحت ہمایوں کا موضوع حکومت اور اپوزیشن مذاکرات تھے حکومت اور اپوزیشن نے ہنستے کھیلتے مسئلے طے کرلئے تو روئے گا کون؟ صدر کی وردی یہ اتروائیں گے ایک سال کے بعد اب یہ سوچو اتنی میلی وردی دھوئے گا کون؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب امریکہ کو یہ تحقیق کرنا چاہئیے اس طرح بجلی کا جانا عام سا قصہ نہیں بجلی کی بندش کے کاریگر ہیں پاکستان میں کیا یہاں سے کوئی ماہر تو وہاں پہنچا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صوبائی وزیر رؤف صدیقی نے حکومت کا دفاع کیا عریاں اگر ہو صدر یہ تنقید ہے برمحل ہے آپ کے دماغ میں کپڑوں سے کیوں خلل وردی اتارنے سے اسے کیا ملے گا پھل دیکھنا کیا چاہتی ہے بھلا مجلس عمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاھور سے آئے ہوئے شاعر زاہد فخری کا موضوع اور اسلوب مختلف تھا نرالی ہیں زمانے سے میرے محبوب کی باتیں کہیں بھی وہ محبت کے سلیبس میں نہیں ملتیں میں کہتا ہوں تیری آنکھیں قلو پطرہ سے ملتی ہیں وہ کہتی ہے کہ میری آنکھیں تو آپس میں نہیں ملتیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالحسین ناصف نے عام موضوعات کو اچھوتے انداز میں بیان کیا کل پڑوسن سے بولے یہ دادا پیار کیسے نبھائیں بچپن کا؟ آؤ ہم دونوں ایک ہو جائیں تو پچپن کی تو میں بھی پچپن کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے مجھ پہ نہ کچھ الزام دیں آپ کا میرا کوئی جھگڑا نہیں زیرِ پا کیلے کا چھلکا آ گیا آپ کو دیکھ کے میں پھسلا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کرنا اس کا مشغلہ ہے بہت سی لڑکیوں پہ مر مٹا ہے میرا بیٹا کلنٹن پہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رفیق مغل سیاست اور بھینگے پن پر ہم بھی کاش جلالی ہوتے بینگن ہوتے تھالی ہوتے ہاتھ کبھی نہ خالی ہوتے چوہدری یا جمالی ہوتے
140910_book_review_azeem_almiya_rh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/09/140910_book_review_azeem_almiya_rh
40 سال بعد بھی اہم
نام کتاب: عظیم المیہ
کچھ پڑھنے والوں کو اگر یہ کتاب پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں بھی محسوس ہو تو حیرت نہیں ہو گی مصنف: ذوالفقار علی بھٹو صفحات: 160 قیمت: 300 روپے ناشر: بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن۔ نیو گارڈن ٹاؤن لاہور تقسیم کار: بُک ہوم۔ بُک سٹریٹ 46 مزنگ روڈ، لاہور یہ کتاب ان دستاویزات میں سے ایک ہے جنھیں نظر انداز کر کے لکھی جانے والی پاکستان کی تاریخ میں یقیناً ایسا خلا موجود رہے گا جو اُسے مستند نہیں بننے دے گا۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی یہ کتاب 1970 کے عشرے میں پہلی بار The Great Tragedy کے نام سے شائع ہوئی۔ تب ہی سے اخبارات و جرائد میں نہ صرف اس کے اصل متن، بلکہ دوسری زبانوں میں بھی اس کے اقتباسات کے ترجمے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ایک طویل مضمون پر مشتمل اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ 1970 کے انتخابات کے حالات، نتائج، نتائج کے عوامل، وہ واقعات اور ان کا پس منظر بیان کیا ہے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ بہت سے لوگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو سمجھتے ہیں اور یہ سلسلہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فوراً ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں شامل پیش لفظ کے آخر پر 20 اگست 1971 کی تاریخ درج ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صفائی کا یہ بیان سنگین اور بوجھل الزامات پر مشتمل مقدمے کی فردِ جرم اور دو لختگی کا نتیجہ سامنے آنے سے پہلے عوام کی عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔ کیوں؟ اس کا فیصلہ کرنے میں قارئین آزاد ہیں۔ یہ بیان ہمیں ان واقعات اور ان کے پس منظر کے بارے میں بتاتا ہے جن کی وجہ سے پاکستان ایک نہ رہ سکا اور یہ بھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اسے ایک رکھنے کے لیے کیا کیا۔ اس میں غیر ملکی طاقتوں کا عمل دخل کیا تھا، شیخ مجیب الرحمان کا کردار کیا تھا اور کیسا تھا اور سب سے بڑھ کر اُس وقت اسٹیبلشمنٹ نے کیا چاہا اور کیا۔ 40 سال سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے لیکن جن لوگوں کے دلوں میں محصور پاکستانیوں کی پھانس اٹکی ہوئی ہے ان کے لیے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا آج بھی ایک رِستا ہوا ناسور ہے۔ یہ کتاب اس ناسور کے گرد گھومتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک فرد کا بیان ہے کہ اُس نے حالات کو کیسے دیکھا۔ لیکن یک طرفہ ہونے کے باوجود یہ ایک ایسے فرد کا بیان ہے جو تاریخ کو تبدیل کرنے والے اِن حالات کا اہم ترین حصہ تھا۔ پاکستان کی تاریخ، سیاست اور سیاسی قوتوں پر اثرانداز ہونے والی قوتوں کو سمجھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ اس کتاب پر مترجم کا نام نہیں دیا گیا لیکن اسے بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے اس لیے اسے ایک مستند ترجمہ سمجھا جانا چاہیے۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر یہ بات اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب میں بہت سے مسائل اور حوالے ایسے ہیں جو 1970 کے بعد پیدا ہونے والے اکثر لوگوں کو سمجھنا مشکل ہوں گے۔ اس لیے بھٹو لیگیسی فاؤنڈیشن کو آئندہ ایڈیشنوں میں اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کتاب میں شامل چار ضمیمے بھی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا کتاب کے متن سے بہت قریبی تعلق ہے۔ کچھ پڑھنے والوں کو اگر یہ کتاب پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں بھی محسوس ہو تو مجھے حیرت نہیں ہو گی۔ اس کے اسی پہلو کی وجہ سے اس کا ذکر ناگزیر ہوا ہے۔ ورنہ تو اس پر سنہ اشاعت 2013 ہے۔ اگرچہ یہ جاری 2014 میں کی گئی ہے۔ اگر ناشر اس کتاب کی تاریخی اہمیت کو سمجھتا تو اس بے نیازی کے کا ازالہ ضرور کرتا۔ ایک ’چیپی‘ ہی کی تو بات تھی۔ طباعت اور جلد بندی اچھی ہے۔ پروفنگ کی غلطیاں بہت ہی کم ہیں لیکن قیمت نسبتاً زائد ہے۔
080622_delhi_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/06/080622_delhi_diary_awa
رام مندر کا نعرہ اور اٹل چوک کی بھرمار
انتخاب اور رام مندر
لال کرشن اڈوانی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظٰمی کے امیدوار کے طور پر اتر رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر انہوں نے اپنے پسندیدہ موضوع رام مندر کا رخ کیا ہے۔ ’شری رام مندر‘ نام کی ایک فلم کی اسکریننگ کے بعد مسٹر اڈوانی نے کہا کہ 1990 میں رام مندر کی تحریک نے ان کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ انہرں نے کہا کہ ہندوستان کے ہر کونے میں ایک رام مندر ہونا چاہئے ۔ بی جے پی کے رہنما کا خیال ہے کہ ایودھیا میں جس مقام کو لوگ بھگوان رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں اس مقام پر رام مندر ضرور بننا چاہئے۔ اس میں انہوں نے صرف اتنا اضافہ کیا کہ مندر کی تعمیر مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اڈوانی نے جے شری رام کے نعرے کے ساتھ کہا کہ رام بھکتی ہندوستان کی روایت رہی ہے اور یہ کسی ایک فرقے تک محدود نہیں ہے۔ رام مندر سے متعلق ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اس مہینے کے اوائل میں ہی بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر اڈوانی نے اپنے قومی جمہوری اتحاد پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی حمایت کے دائرے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی لانے کی کوشش کرے ۔ اٹل چوک ہندوستان کا شاید ہی کوئی کونہ ہو جہاں کوئی نہ کوئی عمارت ، سڑک ، دفتر یا اسکول و کالج کا نام نہرو ، گاندھی کے نام پر نہ ہو۔ اتر پردیش میں مایاوتی کے وزیراعلٰی بننے کے بعد صوبے میں عمارتوں کا نام دینے میں امبیڈکر کا نام بھی جڑ گیا۔ بی جے پی ابھی تک اس معاملے میں کافی پیچھے رہی تھی لیکن اب وہ اس معاملے میں سب کو پیچھے چھورتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والے چھتیس گڈھ صوبے میں پنچایت کے محکمے نے پارٹی کے سبکدوش رہنمااور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو ہمیشہ یاد رکھنے کا ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔ محکمے نے صوبے کے سبھی 9820 گاؤوں میں ایک بڑے چوراہے کا نام ’اٹل چوک‘ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گاؤں پنچایتیں ان اٹل چوراہوں کو خوبصورت بنائیں گی۔ اب تک تقریبآ آٹھ ہزار چوراہے تیار ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اٹل بہاری واجپائی کو اس طرح کی شہرت بالکل پسند نہیں تھی۔ جب وہ وزیر اعظم تھےاس وقت بعض پروگراموں کو ان کے نام دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ لیکن جھتیس گڑھ کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اٹل بہاری واجپئی ہی تھے جنہوں نے جھتیس گڑھ صوبے کی تشکیل کا آغاز کیا تھا اورانہیں اسی طرح یاد کیا جانا چاہیے۔ جنریٹر کا خرج ڈیڑھ ہزار کروڑ روپے دارالحکومت دلی اور اس کے اطراف میں بجلی کی کمی اور خراب سپلائی کے سبب صنعتی کارخانوں کو جنریٹر چلانے کے ڈیزل پر سالانہ ڈیڑھ ہزار کروڑ روپے خرج کرنے پڑتے ہیں۔ ایسوسی ایٹیڈ چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹری یعنی ایسوچیم نے ایک جائزے میں بتایا ہے کہ اس صنعتی خطے میں بجلی کی سپلائی انتہائی خراب ہے اور جنریٹرکے استعمال سے چالیس فی صد سپلائی پوری ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غازی آباد، گڑگاؤں، نوئیڈا، فریدآباد ، میرٹھ ، لونی اور بلبھ گڑھ میں 38 ہزار سے زیادہ چھوٹی بڑی صنعتی یونٹیں ہیں۔ ان یونٹوں کو چلائے رکھنے کے لیے ہر مہینے تقریبا 117 کروڑ روپے ڈیزل پر خرچ ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں جنریٹروں کے چلنے سے نہ صرف یہ کہ ماحولیاتی اور صوتی الودگی پیدا ہو رہی ہے بلکہ اس سے ڈيزل بھی ضائع ہوتا ہے جسے موٹر گاڑیوں کے لیے استعمال کیا چا سکتا ہے۔ ہندوستان میں ترقی ہونے کے ساتھ بجلی کی مانگ میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔لیکن بجلی کی کمی کے سبب یہ مانگ پوری نہیں ہو پا رہی ہے اور ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی گل ہونا آج بھی معمول کی بات ہے۔
030906_i_chat
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2003/09/030906_i_chat
چیٹ بِنا چین کہاں
میں نے پوچھا نام کیا ہے۔
اس نے کہا:’لیڈی ڈریکولا اِن لو_2002‘ میں: لیکن یہ تو تمہار آئی ڈی ہے؟ اس نے: بس آئی ڈی ہی ہے میری۔ میں نے کہا یہاں کیوں ہو؟ اس نے کہا بس ایسے ہی وقت گزارنے کے لئے ’جسٹ فار فن یو نو‘۔ میں: نہیں پھر بھی کوئی خاص وجہ تو ہوگی، جیسے میں اس وقت تین چیٹ رومز میں بیک وقت موجود ہوں، جہاں کوئی’دلچسپ‘ بات چیت شروع ہو جائے وہیں رہوں گا ؟ جہاں کوئی مل گیا، ہاں لیکن میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے: میں بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ میں: تو پھر بتاؤ بتاؤں؟ سچی؟ ہاں، ہاں! لیڈی ڈریکولا: میرے منگیتر نے مجھے آج صبح ای میل کے ذریعے چھوڑ دینے کا فیصلہ سنایا۔ اس نےکہا اسکا بوائےفرینڈ واپس آگیا ہے، دو برس بعد ایک چیٹ روم میں ملاقات ہوگئی۔۔۔، اب میں پھر سے سِنگل ہوں، سوچا یہاں شاید کوئی ڈیٹ مل جائے، ’جسٹ ٹو کِل دی پین، یو نو‘۔ میں: میں سمجھ سکتا ہوں، بڑی تکلیف دہ بات ہے، کوئی اس طرح ای میل پر ساتھ چھوڑ دے تو ۔۔۔ (میرے ذہن میں کچھ اور بھی تھا۔) تاہم اس صورت حال میں بھی فوری پیغام رسانی کے کئی فوائد ہیں۔ مثلاً، اگر تمہارا منگیتر تمہارے منہہ پر کہہ دیتا کہ وہ رشتہ توڑ رہا ہے تو شاید تمہیں کہیں زیادہ ٹھیس لگتی، یو نو۔۔۔ یا پھر اگر تمہاری ملاقات اس سے کرواتا کہ جو تمہاری جگہ لے رہا ہے۔ لیڈی ڈریکولا: ارے نہیں نہیں، کوئی ٹھیس ویس نہیں، نہ ایسے اور نہ ویسے، بس تھوڑی سی حیرت، ’اِٹس کُول، سب چلتا ہے یہاں۔‘ میں: یہاں کہاں؟ اس نے:یہاں دنیا میں انٹرنیٹ پر۔ تم نے جو تصویر اپنے پروفائل پر رکھی ہے وہ کسی ماڈل کی ہے جبکہ تم خود زیادہ ’سیکسی‘ نہیں ہو، شاید بد صورت بھی۔۔ میں اس نے کہا: تمہیں کسی ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے۔ بہر حال، خیال تو ٹھیک ہے لیکن اتنی جلد میں ’ریئل ٹائم‘ نہیں ہو سکتی، اور پھر۔۔۔ میں: اور پھر؟ اس نے: اگر میں کہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو میں اس وقت ہوں، یا پھر جو میں نے اب تک بتایا ہے وہ بس ایسے ہی ٹائم پاس ہے۔۔۔ میں: hmmm ۔۔۔ کوئی بڑی بات نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے، تم نے جو اپنی عمر بتائی ہے تم اس سے دس پندرہ برس زیادہ کی ہو سکتی ہو، یا پھر تم نے جو تصویر اپنے پروفائل پر رکھی ہے وہ کسی ماڈل کی ہے جبکہ تم خود زیادہ ’سیکسی‘ نہیں ہو، شاید بد صورت بھی ہو (نو اوفینس مینٹ)، یا پھر یہ کہ تم ایک عمر رسیدہ، ذہنی بیمار قسم کی عورت، یا پھر مرد، ہو، جو اپنی شبینہ زندگی میں نو عمر لڑکوں، یا لڑکیوں، کی تلاش میں انٹرنیٹ کے بے نام دریچوں کی سیر کو نکلی/ نکلا ہے۔ مجھے اسکا کوئی غم نہیں، میں چیٹ کی دنیا کا پرانا باسی ہوں، یہاں کی گلیوں اور راہ گیروں اور انکے نقابوں سے بخوبی واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں تم کیا کہہ رہی ہو، میں خود بھی۔۔۔ اس نے کہا: او ریئلی۔۔۔؟ میں: جی۔۔۔ ساتھ میں ایک سمائلی (: لیڈی ڈریکولا: تم اس طرح کی بول چال سے اپنے آپ کو آزاد خیال اور دلیر ثابت کر نا چاہتے ہو؟ میں: اور تم اس طرح کے سوالات اٹھا کر ایک عام سی گفتگو کو ’ایپِک‘ بنانے کی کوشش کررہی ہو؟ لیڈی: جی نہیں، آپ کچھ زیادہ پر امید ہو رہے، ایسا بالکل نہیں۔ میں نے: میں بھی کچھ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہا، میں بھی یہاں تفریح کے لئے آتا ہوں، ’ٹائم پاس، یو نو۔‘ اس نے: بہر حال، میں نہیں سمجھتی یہاں سب کچھ جاننا ممکن ہے، اور نہ ہی ضروری، اس وقت میں ایک آئی ڈی ہوں اور تم بھی، اگر ہماری گفتگو دلچسپ ثابت ہوتی ہے تو ہم اس ملاقات کو ریئل ٹائم میں ’ایکسٹینڈ‘ کر سکتے ہیں۔ اور اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں، سب کرتے ہیں۔ میں نے: بالکل صحیح، لیکن تمہار اصل نام؟ اس نے کہا: اگر میں یہ کہوں کہ میرا اصل نام لیزا ہے یا مریم ہے، کیا تم میرے بارے میں کسی نئے زاویے سے سوچوگے؟ میں: ہاں، نام سے چہرہ آنکھوں کے سامنے آ سکتا ہے اور مجھے اس احساس سے نجات ملے گی کہ میں ایک آئی ڈی سے بات کر رہا ہوں۔ لیڈی: واقعی؟ میرا تو خیال ہے کہ تمہیں میری جِنس سے مطلب ہے، اگر میں یقین دلادوں کہ میں واقعی ایک حسین اور سیکسی عورت ہوں اور آج شام کو کراس روڈز کلب میں ملوں گی تو تم یہ نام اور آئی ڈی کی بحث کو ری سائکل بِن میں پھینک دوگے، اور رہا سوال چہرہ آنکھوں کےسامنے آنے کا، تو تم نے پروفائل پر میری اصلی۔نقلی تصویر تو دیکھ ہی لی ہے۔ میں: اُف! شاید تم درست کہہ رہی ہو، لیکن تمہارا نام؟ اچھا یہ تو بتا دو کہ تم ہوکہاں سے؟کرتی کیا ہو؟ کچھ تو۔۔۔ لیڈی: اُف! میں بنگلور سے ہوں، اکیلی رہتی ہوں، گھر میں ایک بِلی اور دو کمپیوٹر ہیں۔ میں ایک آئی ٹی فرم میں منیجر ہوں۔ واؤ!، میرا چھوٹا بھائی بھی بنگلور میں رہتا ہے، وہ ایک ای۔کامرس کمپنی میں ملازم ہے۔ وہ: کیا نام ہے تمہارے بھائی کا؟ میں: اوہ نو۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: مرزا وحید، بی بی سی اردو ڈاٹ کام
050809_theatre_series_ms
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/08/050809_theatre_series_ms
قصہ تمام: پاکستانی تھیٹر کی سیر
پاکستان کا اصل تھیٹر کیا ہے؟
لوک تھیٹر، کمرشل تھیٹر یا جسے میڈیا سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کہتا ہے؟ صدیوں پرانے بھانڈ، نقلیے، راس دھاریئے، سانگی، قصہ گو اور واریں گانے والے کون تھے؟ وہ تاریخ دان تھے یا فنکار؟ ان کا طریقہ کار کیا ہوتا تھا؟ وہ کس حال میں ہیں؟ کیا شہری تھیٹر انہیں کھا گیا یا ان کے زوال کی اصل ذمہ داری ٹی وی، سینیما اور ویڈیو کے سر ہے؟ پاکستان کا کمرشل تھیٹر کیا ہے اور یہ چھاپوں کے سائے تلے کیوں پلتا ہے؟ فحاشی کی تعریف کیا ہو؟ میڈیا سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کسے کہتا ہے؟ بی بی سی اردو سروس کی پاکستان کے فنکاروں پر نئی سیریز: ’قصہ تمام: پاکستانی تھیٹر کی سیر‘۔ اس میں آپ جہاں کمرشل تھیٹر کے فنکاروں سے مل سکیں گے جیسے کہ نرگس، افتخار ٹھاکر، نسیم وکی اور سہیل احمد وہاں بامقصد تھیٹر کی کئی اہم شخصیات جیسے کہ ضیاء محی الدین اور شاہد محمود ندیم کے خیالات بھی سن سکیں گے۔ پھر آپ اس میں کئی لوک فنکاروں کے انٹرویو بھی سن سکیں گے اور ان کے سنائے ہوئے چند قصے اور واریں بھی۔ یہ سیریز بیک وقت آن لائن اور ریڈیو پر نشر کی جائے گی۔
080414_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2008/04/080414_bollywood_diary_awa
شاہد ثانیہ کی دوستی،سلمان کا شو
پردہ سیمیں سے میدان پر
پردہ سیمیں پر مقابلہ کی بجائے اب سٹارز کی جنگ کرکٹ کے میدان میں ہونے والی ہے۔ مانا کہ شاہ رخ خان اور پریتی زنٹا نے انڈین پریمیئر لیگ ٹیمیں خریدی ہیں لیکن ان کے ساتھ اکشے کمار، رتیک روشن، قطرینہ کیف اور زائید خان بھی میدان میں اتر گئے ہیں۔ اب دیکھئے شاہ رخ نے اپنی ٹیم کے لیے ایک کروڑ روپے کا میوزک البم بنایا اور مزید کی تیاری ہے۔پریتی نے بھی اپنی کرکٹ ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دلیرمہدی کے ساتھ البم بنایا۔ لیگ کی ديگر ٹیموں کے مالکین نے سوچا کہ فلمی دنیا کے ستاروں کی وجہ سے ان کی ٹیمیں پیچھے نہ رہ جائیں تو دہلی ٹیم نے اکشے کمار کو میدان میں اتار دیا۔قطرینہ کیف اور زید خان بنگلور ٹیم میں پہنچ گئے۔ ایسے میں صنعت کار مکیش امبانی پیچھے کیوں رہتے انہوں نے رتیک روشن کو اپنی ٹیم کے لیے البم بنانے کے لیے راضی کر لیا۔ روزانہ ان کا چارٹرڈ طیارہ رتیک کو ممبئی سے کرجت لے جاتا ہے جہاں میوزک البم کے لیے شوٹنگ ہو رہی ہے۔کہاں تک لکھیں بھئی۔ہمیں تو لگتا ہے کہ کرکٹ مقابلہ نہیں یہ تو سٹارز وار ہوگیا ہے۔ شاہد اور ثانیہ ہمیں نہیں پتہ کہ دونوں میں صرف دوستی ہے یا اس سے بڑھ کر کچھ اور لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک آپ دونوں کو اپنا ساتھی نہیں مل جاتا روز ایک نئی خبر تو اس طرح سامنے آتی رہے گی۔ویسے آپ دونوں کی جوڑی بھی کچھ کم شاندار نہیں۔آپ کا کیا خیال ہے؟ مجھے میری جینز دے دو دراصل انیل نے جیکی کی ایک خاکی اور دوسری سیاہ رنگ کی جینس برسوں پہلے فلم وراثت میں پہنی تھی۔فلم کامیاب ہوئی۔بس کیا تھا انل نے اسے لکی مان لیا اور اب وہ ہر فلم میں وہ خاکی جینس ضرور پہنتے ہیں۔ اس جینز کو وہ خزانہ کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں۔انہوں نے یہ جینز اب فلم ٹشن میں بھی پہنی ہے۔آپ اس نایاب جینس کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ فلم دیکھنی ہو گی۔ سلمان خان ٹی وی شو میں بائیس قسطوں والا یہ شو امریکی گیم شو ’ پاور آف ٹین ‘ کی نقل ہے اور اس کا انڈین نام ؛ ’دس کا دم‘ ہے۔ حالانکہ سلمان یہ شو کرنے کے لیے بہت بے چین ہیں لیکن انہیں اب اپنی راتوں کی پارٹیاں قربان کرنی پڑ رہی ہیں۔دن میں فلم کی شوٹنگ اوررات میں شو کی ریہرسل۔اب نتیجہ یہ ہے کہ سلمان ریہرسل کرنے کے بعد اپنی وین میں سو جاتے ہیں۔ جہاں ’ڈو ناٹ ڈسٹرب‘ کا بورڈ لگا دیا جاتا ہے۔ بھئی ہم سب سلو بھیا کی اس قربانی اور محنت کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں کیا آپ ہمارے ساتھ تیار ہیں؟ بگ ٹور لیکن جب سے اس ٹور کا اعلان ہوا ہے، کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے۔پہلے اکشے کمار ٹور سے باہر ہوئے لیکن بعد میں انہوں نے حامی بھری، پھر بپاشا باسو بعد میں لارا دتہ نے انکار کر دیا۔دونوں کا ماننا ہے کہ اس ٹور میں ایشوریہ پر زیادہ دھیان ہو گا اور انہیں وہ جگہ نہیں مل سکے گی۔اب بھئی جب یہ ٹور فیملی ٹور بن گیا ہے تو یہ تو ہونا ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ دیپکا کی شرم دیپکا اکشے کے ساتھ بنکاک میں فلم ’چاندنی چوک ٹو چائنا ‘ کی شوٹنگ کر رہی تھیں۔ سیٹ پر اچانک رنبیر کپور پہنچ گئے۔دیپکا کو اکشے کے ساتھ محبت بھرے مکالمے بولنے تھے اور کچھ ایسے منظر فلمانے تھے کہ دیپکا رنبیر کے سامنے کرنے سے گھبرانے لگیں۔کئی ری ٹیک ہوئے۔ہر شاٹ کے بعد دیپکا رنبیر کے پاس پہنچ جاتی تھیں۔اکشے بہت ناراض ہوئے پتہ نہیں ری ٹیک کی وجہ سے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور خان بالی وڈ کے چار خان کے علاوہ اب بہت سے نئے خان اپنی قسمت آزمائی کرنے آرہے ہیں۔ان میں ریحان خان بھی ایک ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ خان کبھی سپاٹ بوائے اور ڈرائیور تھے جو فلم ’کروک شیتر‘ میں ڈائرکٹر مہیش مانجریکر کو ان کے گھر سے لانے اور لے جانے کا کام کرتے تھے۔ اب وہ فلم ’ فاسٹ فارورڈ ‘ میں ہیرو ہیں اور وہی مہیش مانجریکر ان کے سامنے ویلن، واقعی زندگی بہت فاسٹ ہے۔ عدنان کی مشکل ارے بھئے فلم کی کہانی تو یہ تھی کہ ایک موسیقار جو بہت فربہ ہے، اس کے ساتھ ایک نازک سی لڑکی دل لگا بیٹھتی ہے اور پھر وہ اسے اپنا وزن کم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔عدنان نے فلم شروع ہونے سے قبل ہی اپنا سو کلو سے زیادہ وزن کم کر لیا۔اب کیا ہو۔عدنان دوبارہ وزن بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
sport-43597726
https://www.bbc.com/urdu/sport-43597726
’گیانا کی وہ شام اور ٹرینیڈاڈ کا وہ جوان‘
تین کپتان موجود ہیں۔
وکٹ سے کچھ دور، سرفراز احمد کھڑے ہیں۔ ان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ وہیں محمد حفیظ اور شعیب ملک بھی موجود ہیں۔ لیکن سرفراز شاید وہاں ’موجود‘ نہیں ہیں۔ حفیظ کوئی مشورہ دیتے ہیں، ملک مایوسی سے خلا میں گھورتے ہیں، سرفراز سکور بورڈ پہ نظر ڈالتے ہیں۔ اور تین افسردہ چہروں کی یہ مختصر سی میٹنگ برخاست ہو جاتی ہے۔ ویسٹ انڈین ٹیم نے تاریخ میں کبھی 300 کا تعاقب نہیں کیا تھا، لیکن گیانا کی اس شام یہ تاریخ بدلنے کو تھی۔ یہ پاکستان کے گذشتہ دورہء ویسٹ انڈیز کا پانچواں میچ تھا۔ ٹی ٹونٹی سیریز کی جیت کے بعد، بطور ون ڈے کپتان یہ سرفراز کا پہلا میچ تھا۔ پہلے بیاسی اوورز تک میچ پاکستان کی گرفت میں تھا۔ لیکن پھر، ٹرینیڈاڈ کا وہ جوان بیٹنگ کے لیے آ گیا۔ ویلکم بیک ہوم کرکٹ پی ایس ایل تھری میں ابھرنے والے نئے ستارے کون ہیں؟ جس وقت وہ کریز پر آیا، ویسٹ انڈیز کو جیت کے لیے 107 گیندوں پہ 153 رنز بنانا تھے۔ اور یہ آخری بیٹنگ پیئر تھا۔ لیکن اس جوان نے عماد وسیم، محمد عامر، وہاب ریاض اور حسن علی سے بھاری اٹیک کے خلاف، 58 گیندوں پہ 91 رنز بنا ڈالے۔ اس اننگز میں گیارہ چوکے اور تین چھکے شامل تھے۔ جیسن محمد کی وہ اننگز ماڈرن ون ڈے بیٹنگ کی ماسٹر کلاس تھی، جو بدقسمتی سے آئی پی ایل کے ہنگامے میں ایسی گم ہوئی کہ یوٹیوب پہ اس کا کوئی تذکرہ تک موجود نہیں۔ خود جیسن محمد بھی اسی اننگز کے ساتھ گم ہو گئے۔ وہ 91 ناٹ آؤٹ ابھی تک ان کا کرئیر بیسٹ ون ڈے سکور ہے۔ اس روز جیسن محمد مین آف میچ تھے۔ کل شام جیسن محمد کپتان ہوں گے۔ اور ان کی کمزور سی ٹیم کا مقابلہ سرفراز احمد کی بھرپور، مکمل ٹیم سے ہو گا۔ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی پچھلی دونوں ٹی ٹونٹی سیریز میں پاکستان فاتح رہا ہے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم دونوں بار وقت سے خاصی پیچھے دکھائی دی۔ اس بار بھی جو ٹیم پاکستان بھیجی گئی ہے، وہ بھی اوسط پلاننگ کا نمونہ ہے۔ گمان یہ ہوتا ہے کہ ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے صرف ایک طویل المدت کاروباری معاہدے کی توثیق کے لیے نجم سیٹھی کی دعوت قبول کر لی۔ ورنہ ٹیم سلیکشن ہی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کرکٹ کوالٹی اور ویسٹ انڈین شناخت کے عوامل فی الوقت ڈیو کیمرون کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ایسے میں، بظاہر سکیورٹی وجوہات کی بنا پہ، جب سینیئرز کی اکثریت نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تو افراتفری میں ایک سکواڈ پورا کیا گیا اور جیسن محمد کو اس کی کپتانی دے کر جھٹ پٹ کراچی فلائٹ پہ بٹھا دیا گیا۔ اس کوشش سے کراچی کی انٹرنیشنل کرکٹ تو یقینا بحال ہو جائے گی لیکن اچھی کرکٹ شاید نہ ہو پائے۔ دونوں اسکواڈز کی طاقت میں بہت فرق ہے۔ مکمل ٹیم ہی نہیں، سرفراز کو اپنے ہوم گراونڈ اور کراوڈ کا بھی ساتھ حاصل ہے۔ اس کے برعکس ویسٹ انڈین سکواڈ کا المیہ دیکھیے کہ تین وکٹ کیپر بیٹسمین شامل کیے گئے ہیں لیکن یہ جواب ہی بہت دقیق ہے کہ بطور کیپر کون کھیلے گا اور بطور بیٹسمین کون؟ مڈل آرڈر میں کون آئے گا؟ اور کپتان خود کہاں کھیلے گا؟ یہ سبھی جواب مشکل سہی، مگر پھر بھی ایک موہوم سی امید تو ہے کہ شاید ٹرینیڈاڈ کا وہ جوان کسی ایک دن اٹھ کھڑا ہو، اور گیانا کی وہ شام یاد دلا دے۔
070812_delhi_diary_zb
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/08/070812_delhi_diary_zb
پاکستان پر حملے کی عرضی، مفت ہنی مون
پاکستان پر حملے کی پٹیشن
گجرات میں ایک وکیل نےہا ئی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی جس میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وہ مرکزی حکومت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ہدایت جاری کرے ۔وکیل نے اپنی عرضی میں دلیل دی تھی کہ اگر ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے پاکستان ذمہ دار ہے تو جس طرح گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اسی طرح ہندوستان کو بھی پاکستان پر حملہ کرنا چاہیے۔ گجرات ہائی کورٹ نے اس پٹیشن کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ کہہ کر ناصرف اسے مسترد کر دیا بلکہ عرضی گزار پر پندرہ ہزار روپے کا جرمانہ بھی عا ئد کیا۔ وزیروں کے لیے غیر ملکی دورے اب مشکل مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کو اگر غیر ممالک کے دورے پر جانا ہے تو انہيں وزارت خارجہ کا ایک لمبا چوڑا سوالنامہ بھرنا ہوگا۔ غیر ملکی دورے کے لیے وزارت خارجہ سے سیاسی منظوری پہلے بھی لازمی تھی لیکن اب جونیا فارم ہے اس میں غیر ممالک جانے والے وفد کے لیڈر کا نام، مقصد، کس کی دعوت پر جارہے ہيں اور کیا اس ملک کے ہندوستانی سفارتخانے سے صلاح و مشورہ کیا گيا ہے یا نہيں؟ ان سبھی سوالات کی تفصیل لکھنی ہوگي۔ اگر غیر ممالک میں کوئي تنظیم یا گروپ قیام و طعام کا انتظام کررہا ہے تو اس کے لیے وزارت داخلہ سے بھی منظوری لینی ہوگي۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہےکہ اگر یہ سبھی تفصیلات فراہم کی گئیں تو دورے کی منظوری ایک ہفتے کے اندر مل جائے گي۔ بینگلور اور ممبئی کے یہ مہنگے ہوٹل بینگلور، ممبئی اور دلی کے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کمروں کے کرائے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ سیاحت سے متعلق ’انڈس ویو ایڈوائزر کے ذریعے کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق بینگلور میں ایک کمرے کا ایک رات کا کرایہ اوسط پانچ سو ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ ممبئی میں اوسط چار سو ڈالر اور دلی میں ساڑھے تین سو ڈالر ہے۔ مہنگا کرایہ ہونے کا کچھ تو سبب بڑھتی ہوئي سیاحت اور معیشت ہے لیکن اس کا بنیادی سبب ہوٹلوں کی کمی ہے۔ ایوانِ صنعت اور تجارت کے مطالعے کے مطابق ہندوستان میں مجموعی طور پر ایک لاکھ پانچ ہزار ہوٹل رومز یا کمرے ہیں جبکہ اکیلے چین کے شہر شنگھائی میں ایک لاکھ پینتیس ہزار کمرے ہیں۔ چین میں ہندوستان سے دس گنا اور امریکہ میں چالیس گنا زيادہ ہوٹل ہیں۔ یورپ میں ہندوستانیوں کی مانگ یورپ میں بہتر زندگی کے معیار اور آبادی کے ایک بڑے حصے کے بڑھاپے کی طرف جانے سے باصلاحیت افرادی قوت کی زبردست کمی پیدا ہورہی ہے اور اب وہ ہندوستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت نے با ہنر پیشہ وروں کے مائیگریشن کے لیے گزشتہ مہینوں میں بلجیئم، پولینڈ، سویڈن اور فرانس سے بات چيت کی ہے۔ گزشتہ ہفتے غیر مقیم ہندوستانیوں کے امور کی وزارت نے یورپی یونین کے ممالک میں پیشہ وروں کے قانونی امیگریشن کے لیے انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن سے ایک مفاہمت کی ہے۔ یہ تنظیم جلد ہی جرمنی، برطانیہ، اٹلی، سپین اور آئرلینڈ میں تجرے کے طور پر ان کی ضروریات کا جائزہ لے گی اور ان کے مطابق ہندوستانی پیشہ وروں کو تربیت دی گی۔ آئی ٹی سیکٹر پچاس بلین کی صنعت اب سے کوئی پانچ برس قبل جب اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ ائی ٹی سیکٹر کو سن دو ہزار دس تک پچاس بلین ڈالر کی صنعت تک پہنچانا ہے تو اس وقت بیشتر تجزیہ کاروں نے اسے ایک سیاسی رہنما کی مبالغہ آرائی قرار دیا تھا۔ ’ڈیٹا کوئسٹ‘ کے سالانہ جائزے کے مطابق گزشتہ مالی برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت پچاس بلین کی مالیت پار کر گئی۔ گزشتہ برس آئی ٹی اور اس سے متعلق سروسز کی برآمدات کی مالیت پندرہ سو سینتیس ارب روپے سے زیادہ تھی جو مجموعی برآمدات کی آمدنی کا نصف سے زيادہ حصہ ہے۔ جائزے کے مطابق آئی ٹی صنعت تیس فیصد کی سالانہ شرح سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پیدائش میں تاخیر پر ہنی مون فری پہلا بچہ شادی کے دو برس بعد پیدا کریں تو دوسرا ہنی مون منانے کے حکومت کی طرف سے سات ہزار روپے مفت ملیں گے ۔ مہاراشٹر کے ستارہ ضلع میں صحتِ عامہ کا محکمہ ضلع میں آبادی پر قابو پانے کے لیے 15 اگست سے اس ’ہنی مون پیکیج‘ کی اسکیم شروع کر رہا ہے۔ یہ سکیم بنیادی طور پرغریب گھروں کے لیے ہے ۔ اس کے تحت اگر نو شادی شدہ جوڑا پہلا بچہ دو سال بعد پیدا کرنے کا فیصلہ کرے تو پانچ ہزار روپے اور اگر اس میں مزید ایک سال کا اضافہ کر دے تو سات ہزار روپے ملیں گے۔ ضلعی انتظامیہ کا اندازہ ہے کہ اگر بیس فی صد نوشادی شدہ جوڑوں نے بھی اس سکیم کو قبول کیا تو کم ازکم پانچ ہزار بچے تاخیر سے پیدا ہوں گے۔ ضلع میں ہر برس پچیس ہزار جوڑے شادیاں کرتے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق تقریباً پچاسی فی صد خواتین شادی کے پہلے برس ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔
130626_book_review_rk
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/06/130626_book_review_rk
ہماری زبان اور دنیا کا تعلق
نام کتاب: معنی اور صداقت
مصنف: برٹرینڈ رسّل مترجم: امیر خان حکمت صفحات: 386 قیمت: 450 روپے ناشر: سٹی بُک پوائنٹ۔ نوید سکوائر، اردو بازار، کراچی یہ کتاب برٹرینڈ رسّل کی ’این انکوائری اِن ٹو میننگ اینڈ ٹرتھ‘ کا ترجمہ ہے۔ برٹرینڈ رسّل 18 مئی 1872 میں پیدا ہوئے اور دو فروری 1970 میں انتقال کر گئے۔ وہ صرف برطانیہ ہی کے نہیں دنیا بھر میں ایک عظیم فلسفی، ماہر منطق، ماہر ریاضی، مورخ اور سماجی نقاد کے طور جانے جاتے ہیں۔ انھیں ایک لبرل یا آزاد خیال اور سوشلسٹ بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہہ کر اس کی تردید کرتے رہے کہ وہ ان میں سے کسی کی معیار پر بھی خود کو پورا نہیں پاتے۔ رسّل جنگ کے مخالفت کرنے والے دنیا کے سرفہرست لوگوں میں شامل رہے، عالمی جنگ کے دوران انھیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ انھوں نے سٹالن پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک بڑی سامراج دشمن بھی رہے، ہٹلر کے خلا نکلنے والوں میں بھی وہ انتہائی نمایاں تھے، ویت نام کی جنگ میں انھوں نے امریکہ کی شدید مخالفت کی، ایٹمی اسلحے کی مخالفت میں بھی سب سے آگے رہنے والوں میں شامل تھے۔ انھیں 1950 میں امن کا نوبل انعام پیش کیا گیا۔ ’معنی و صداقت‘ یا ’این انکوائری اِن ٹو میننگ اینڈ ٹرُتھ‘ پہلی بار 1940 میں شائع ہوئی۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ اردو میں اس کتاب کا پہلا ترجمہ ہے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردومیں اس کتاب کو آنے میں سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اس کتاب میں برٹرینڈ رسّل نے زبان اور دنیا کے درمیان تعلق پر بات کی ہے۔ اور بظاہر ایسے لگتا ہے کہ یہ کتاب زبان، زبان کے فلسفے یا فلسفوں و تصورات اور زباندانی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہی ہو گی لیکن اس سے یقینی طور پر ادب اور سماجیات سے دلچسپی رکھنے والے لطف اور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انگریزی پڑھ سکنے والوں میں جن لوگوں کو لسانیات، ادب، فلسفے اور سماجیات سے دلچسپی رہی ہے، انھوں نے تو یوں بھی اس کتاب کا یقینی طور پر مطالعہ کیا ہو گا لیکن اب اگر وہ اسے اردو میں بھی پڑھیں تو اس سے یقینی طور پر انھیں اردو اور پاکستان کی دوسری قومیتی زبانوں میں اظہار کے لیے بہت مدد مل سکتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں تو رسّل نے خود کہا ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں منطقی اور ریاضیاتی پہلوؤں سے احتراز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’یہ (منطق اور ریاضی) وہ مسئلہ اجاگر نہیں کرتے جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں‘۔ بظاہر عام پڑھنے والوں کے لیے اس کتاب میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی اور وہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ بالکل ایک ایسی خْشک کتاب ہو گی جس کا صرف ماہرین سے ہی تعلق ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ کتاب کچھ مشکل ضرور ثابت ہو سکتی ہے لیکن آپ اسے زندگی سے لاتعلق نہیں کہہ سکتے۔ پھر برٹرینڈ رسّل کا انداز اور مثالیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں تاریخ اور سماجیات کے معاملات بھی کھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا باب، لفظ کیا ہے؟ اس میں ان کا ایک جملہ ہے ’وہ آدمی جو اپنے دشمن کے نام سے آشنا ہوتا ہے، وہ اس کے ذریعے سے اُس پر طلسماتی برتری حاصل کر سکتا ہے‘۔ اس جملے سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں رسّل کا انداز کیسا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ امیر خان حکمت نے کیا ہے۔ انھوں نے انگریزی اور معاشیات میں ماسٹرس کیے پھر قانون کی بھی تعلیم حاصل کی اور تدریس سے منسلک ہو گئے۔ وہ 2007 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر عبداللطیف گورنمنٹ کالج میرپور خاص، سندھ سے سبک دوش ہوئے۔ مطالعہ ان کا خاص شوق ہے۔ اس سے قبل بھی وہ برٹرینڈ رسّل کی کتاب: میں عیسائی کیوں نہیں؟ کا ترجمہ کر چکے ہیں جو اسی ادارے سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جوزف مرفی کی دو کتابوں: ’ذہن کی طلسماتی طاقت‘ اور ’ذہنی حرکیات کا معجزہ‘ کے تراجم بھی کیے ہیں۔ ان کا موجودہ ترجمہ نہ تو بہت عمدہ ہے اور نہیں اسے خراب کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے جملوں کی ساخت میں اصل سے قریب رہنے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے اس کوشش میں جملے اکثر اوقات سیدھے نہیں رہتے۔ تراجم اور خاص طور پر ایسے تراجم میں جن میں مفہوم کی منتقلی بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے، جملوں کو پوری طرح سمجھ کر اپنی زبان کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پڑھنے والوں کے لیے خوشی کی بات یہ ہو سکتی ہے کہ اس کتاب میں پروف کی غلطیاں انتہائی کم ہیں۔ قیمت اگرچہ کچھ زیادہ ہے لیکن کتاب کی پیش کش موضوع سے انتہائی مطابقت رکھتی ہے۔
071231_bollywood_diary_awa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/12/071231_bollywood_diary_awa
نئے سال کا جشن اور شلپا کا نیا ساتھی
نئے سال کا جشن
نئے سال کا جشن منانے بالی وڈ ستارے ممبئی کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں. ہمارے خبرو کے مطابق شاہ رخ خان اور ان کی فیملی کے ساتھ ان کے قریبی دوست کرن جوہر اور ٹیم گوا کے ساحل پر موج مستی کریں گے. سلمان خان اور ان کی فیلمی اپنے پنویل فارم ہاؤس پر ہی پارٹی کریں گے۔جس میں ان کے دوست بھی شامل رہیں گے۔اکشے کمار اور ان کی فیملی کیربین میں ایک جہاز پر نئے سال کا جشن منائیں گے۔(کتنا رومانوی منظر ہوگا) سنیل شیٹی اپنی فیملی کے ساتھ کھنڈالا میں اپنے بنگلہ میں ہی جشن منانے والے ہیں لیکن ہاں آئٹم گرلز اس نئے سال کو بھی کیش کرنے سے نہیں چوکی ہیں۔ایشیاء کی سب سے سیکسی خاتون کا خطاب حاصل کر چکی بپاشا باسو ممبئی کے پانچ ستارہ ہوٹل میں رقص کر رہی ہیں۔ملائکہ ارورہ خان دہلی کے کلب میں اور ہاٹ راکھی ساونت برازیلیا کی رقصاؤں کے ساتھ ممبئی کے ایک ہوٹل میں اپنے رقص کے جلوے بکھیریں گی۔جشن کا جشن اور۔۔۔۔۔ عامر کا ایس ایم ایس عامر خان اپنی فلم کی کامیابی سے بے انتہا خوش ہیں۔ جس طرح ایک بچہ اپنی کارگزاری سب کو دکھا کر خوش ہوتا ہے بس اسی طرح عامر اپنے دوستوں کو ایس ایم ایس کر کے انہیں اپنی فلم دیکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔انہوں نے شاہ رخ اور امیتابھ بچن کو ایس ایم ایس کیا لیکن دونوں جگہ سے جواب نہیں ملا۔ عامر جواب کیسے ملتا آپ خود سوچئے آپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ آپ نے ابھی اوم شانتی اوم نہیں دیکھی۔تو شاہ رخ تو چاہتے ہوں گے نا کہ پہلے آپ ان کی فلم دیکھیں۔رہا سوال بگ بی کا تو آپ نے انہیں پہلے ہی ان کی فلم بلیک پر ریمارکس پاس کر کے ناراض کر دیا تھا عامر کبھی کبھی مصلحت سے بھی تو کام لیا کیجئے۔۔۔۔۔ شاہد کی قسمت شاہد اور کرینہ ابھی حال تک ایک اچھے دوست رہے ہیں۔ جی ہاں آج کل شاہد کی قمست کے ستارے بہت بلند ہیں۔ہدایت کار عزیز مرزا کی فلم ' قسمت کنکشن ' کے ساتھ ہی انہیں یش راج بینر کی فلم مل گئی ہے۔یش راج نے نئے چہرے کے بجائے شاہد کو اپنی آنے والی فلم کے لیے سائن کیا جس میں انہیں ایک نوجوان اور فریش چہرے کی تلاش تھی۔اسی لیے تو شاہد اپنی اس فلم کی تیاری کے لیے خود کو بالکل فٹ رکھنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ اپنے ٹرینر کے ساتھ دن رات کام کر رہے ہیں۔نئے سال پر بھی گوا میں جشن منانے کے بجائے اپنے ٹرینر کے ساتھ گئے ہیں۔۔۔۔شاہد وہ تو ٹھیک ہے لیکن نئے سال کا جشن اور ٹرینر۔ہاؤ بورنگ ۔۔۔۔۔ رانی اور کرینہ میں کشمکش رانی مکھرجی اور کرینہ کے درمیان سردی کے ان دنوں میں بھی سرد جنگ چل رہی ہے۔(مذاق کا برا مت مانئے ) رانی ان دنوں بنکاک میں سیف علی خان کے ہمراہ کنال کوہلی کی فلم کی شوٹنگ کر رہی ہیں۔بچوں کی چھٹیاں تھیں تو سیف سارہ اور ابراہیم کو بھی ساتھ لے گئے۔ماحول ٹھیک ٹھاک تھا لیکن جیسے ہی کرینہ بھی وہاں پہنچیں، ماحول گرما گیا۔ہمارے خبرو کا کہنا ہے کہ شوٹ کے دوران سیٹ پر کرینہ کا ہنسی مذاق بلا تکان گفتگو سے رانی کا پارہ چڑھ گیا اور رانی نے کرینہ سے بات بند کر دی حتی کہ ان کی ڈنر کی دعوت بھی ٹھکرا دی۔رانی ہمیں پتہ ہے کہ آج کل آپ خود اپنے رشتوں کو لے کر ناراض رہتی ہیں لیکن دوسروں کو تو کچھ جگہ دینی ہو گی نا! سلمان یہ کیا ہو گیا؟ سب جانتے ہیں کہ سلمان خان کی برتھ ڈے پارٹی میں کھانا پینا دھوم دھڑکا ساری رات چلتا ہے۔ بے بی قطرینہ بھی بنکاک سے پنویل کے فارم ہاؤس پر پہنچ گئیں۔مغلائی، چائینیز ، انٹرکانٹی نینٹل پکوان کے ساتھ دوستوں کی محفل جمی لیکن صرف تین بجے رات تک ہی۔ہمارے خبرو کا کہنا ہے کہ سلو بھیا پہلے صبح پانچ بجے تک پارٹی کرتے تھے پھر یہ وقت چار بجے اور اب تین بجے تک آخر یہ کیوں سلو؟ جان کے بعد کرینہ نئی خبر ہے۔ جان ابراہام کے بعد اب کرینہ کپور اپنے لباس کو اپنا نام دے کر بازار میں داخل ہو رہی ہیں۔شاہد کے ساتھ ان کی فلم ' جب وی میٹ ' کے لباس کے بازار میں کافی چرچے ہیں اور اسی بات کو کرینہ کیش کرنا چاہتی ہیں۔صحیح جارہی ہو بے بی۔۔۔۔۔ عامر اور واکی ٹاکی تارے زمین پر عامر خان کی ہدایت کاری میں بنی پہلی فلم ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ عامر کو گھر میں شورغل پسند نہیں اس لیے وہ اپنے ہی گھر نوکروں کو بلانے کے لیے زور سے آواز لگانے کے بجائے والی ٹاکی کا استعمال کرتے ہیں اور گھر کا ہر ملازم اپنے کان میں ایئرفون لگا کر چلتا ہے۔ہاؤ سویٹ۔۔۔۔۔ سنجے دت کی قسم آج کل سنجے دت سے زیادہ کون سٹار خود کو اتنا خوش قمست سمجھ سکتا ہے۔جیل سے کم سے کم ڈھائی تین سال تک انہیں مہلت مل گئی ہے اور اب وہ شاہ رخ کے سکس پیک ایبز کے بجائے آٹھ پیک بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے آئندہ برس سے شراب چھوڑ دینے کی بھی قسم کھائی ہے۔واہ سنجو بابا یا واہ منا بھائی کیا گاندھی گیری ہے۔۔۔۔ کِس کو کِس نہیں پردے پر بوسہ دینے سے کچھ اداکار ہمیشہ ہی منع کرتے ہیں جن میں شاہ رخ خان، سلمان خان اور جمی شیر گل شامل ہیں لیکن کچھ ستارے ایسے ہیں جنہوں نے پہلے بوسہ دینا تو دور کافی بیباک مناظر بھی دئے اور اب وہ کِس دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ان میں کبھی آئٹم گرل رہ چکیں ایشا کوپیکر کا بھی نام شامل کر لیجئے۔اب بیچارے فلمساز پریشان ہیں کیونکہ وہ ان ہیروئین کو ان کی آئٹم گرل کی امیج دیکھ کر ہی تو سائن کرتے ہیں۔ آخرکار شلپا شیٹی کو بھی ان کا ہمسفر مل ہی گیا۔خود شلپا نے ایک غیر ملکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا۔ویسے ان کے پرستار اس بات سے خوش ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمیں یقین ہے کہ بالی وڈ میں ان کے دوست ضرور اس بات سے خوش ہوں گے۔ بے بی یہ شاید آپ کے لیے بھی صحیح وقت ہے۔ انیل کپور کا انکار انیل کپور نے راکیش اوم پرکاش مہرہ کی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ہمیں لگا کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو رنگ دے بسنتی کے فلمساز کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرے لیکن انیل کے انکار کی وجہ ؟ ان کی اپنی بیٹی جی ہاں اس فلم میں سونم ہیروئین ہیں اور اسی لیے انیل نے اپنی بیٹی کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیا۔ نہ تم ہمیں جانو۔۔۔ کبھی گہرے دوست رہ چکے لوگ جب ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو اس طرح نظر انداز کرتے ہیں جیسے نہ تم ہمیں جانو نہ ہم تنہیں جانیں۔۔۔یہ گیت ہم رنبیر کپور اور دیپکا پڈوکون کے لیے گا رہے ہیں۔دونوں جب ایک پارٹی میں آمنے سامنے آئے تو جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں کیونکہ رنبیر آج کل سونم کے دوست ہیں تو دیپکا کا نام کبھی دھونی تو کبھی یوراج کے ساتھ لیا جا رہا ہے۔۔۔۔
070626_bollywood_diary_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/06/070626_bollywood_diary_rs
بالی وڈ ڈائری: نوجوان عامر اور سنجو کا پیار
راکھی کی ویڈیو
آئٹم گرل راکھی ساونت سامنے ہوں تو اچھے اچھوں کے دل دھڑک جاتے ہیں۔ راکھی پہلی مرتبہ ریمپ پر چلنے والی تھیں۔۔۔آں آں آپ نے غلط سمجھا وہ چڑیل کا لباس پہن کر لوگوں کو ڈرانے کی تیاری میں تھیں اور وہ بیچاری کرتی بھی کیا، پروگرام ہی ’ہاؤس آف ہاورر‘ کے افتتاح کا تھا۔ خیر بات یہ نہیں ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ راکھی جب اپنا لباس تبدیل کرنے گئیں تو پیچھے سے دو افراد نے چپکے سے اپنے موبائل کے ذریعہ ان کے فوٹو کھینچنے شروع کر دیے۔اس بات سے بے خبر کہ راکھی اب اپنے ساتھ باڈی گارڈز (وہ بھی باؤنسرز) لے کر چلتی ہیں۔ بس کیا تھا ان کے گریبان محافظوں کے ہاتھ میں۔ پولیس نے انہیں راکھی کے ہی کہنے پر رہا کر دیا کیونکہ ان کی بیویوں نے راکھی سے معافی مانگ لی تھی۔ کون سلو اگر بالی وڈ کا کوئی شخص یہ کہے کہ کون سلو تو شاید ان کے دماغ کا علاج کروانا پڑے گا۔ لیکن یہ بات کسی اور نے نہیں اس اداکارہ نے کہی جس کی سفارش خود سلو نے کی تھی۔ بونی کپور کی فلم ’پوکری‘ میں سلو ہیرو کا رول کر رہے ہیں۔ سلو نے جیا کی سفارش کی اور بونی نے انہیں فلم کے لیے سائن بھی کر لیا لیکن ایک انٹرویو میں جیا نے کہا:’انہیں یہ رول اپنے بل بوتے پر ملا ہے اور یہ سلو کون ہے میں نہیں جانتی‘۔ اُف دماغ ساتویں آسمان پر لیکن کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ ابھی تک جیا کی کوئی فلم ہٹ بھی ہوئی ہے؟ جی ہاں اگر آپ عامر کو دیکھتے تو یہی کہتے۔ اپنی فلم لگان کی ڈی وی ڈی کا اجراء کرنے آئے سپر سٹار عامر چالیس نہیں تیس برس، نہیں نہیں! پچیس برس کے لگ رہے تھے۔ لیکن اس کے لیے وہ کتنی قربانیاں دے رہے ہیں یہ آپ کو پتہ ہے نہیں ناں۔ عامر نے گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔ ناشتہ میں ایک کیلا اور سیب، دوپہر میں صرف جو اور باجرہ کی روٹی اور سبزی، کھانا صرف زیتون کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ شام کا ناشتہ نہ ہونے کے برابر ہے اور رات میں جوس اور سلاد بس۔ اسی کے ساتھ چار گھنٹوں تک مختلف ورزش۔ اکشے کا پروفیشنلزم وہی اپنے ایکشن ہیرو اکشے کمار۔ لیڈز میں شوٹنگ کر رہے تھے اور انہیں فوری طور پر ممبئی میں یش راج فلمز کی شوٹنگ کے لیے بھی وقت پر پہنچنا تھا۔ بتائیے یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا؟ لیکن اکشے نے اسے ممکن بنایا۔ انہوں نے لیڈز سے لندن پہنچنے کے لیے طیارہ چارٹرڈ کیا۔ لندن پہنچے پھر وہاں سے سیدھے یش راج سٹوڈیو۔ چغل خور ہر اخبار ہر نیوز چینل پر دیکھو تو آج کل بس جان ابراہام اور بپاشا باسو کے درمیان اختلافات کی ہی خبریں۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر خبر کس نے اتنی تیزی کے ساتھ پھیلائی۔ پتہ تو اس وقت چلا جب جان نے اپنے سیکریٹری کو کام سے ہی نکال دیا۔ دراصل سیکریٹری نے جان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی ہر فلم سے ملنے والی رقم کا دس فیصد حصہ انہیں دیں جیسا کہ انڈسٹری میں اس کا چلن ہے۔ جان نے انکار کر دیا اور پھر کیا تھا انہوں نے بدلہ لینے کے لیے بیپ بے بی کو جان کے راز بتا دیے۔ ہونا کیا تھا سیکریٹری کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ہدایتکار کی پٹائی کیسا لگا ہوگا جب دہلی کے عوام نے معاون ہدایتکار آشیش کی خوب جم کر پٹائی کی۔روہت شیٹی کی فلم ’سنڈے‘ کی شوٹنگ چاندنی چوک پر چل رہی تھی۔ اجے دیوگن پولیس کے لباس میں موٹرسائیکل پر آشیش کا تعاقب کر رہے تھے اور آشیش جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ بس کیا تھا عوام نے سمجھا کہ ایک پولیس انسپکٹر کسی ملزم کا تعاقب کر رہا ہے۔ سب نے مل کر آشیش کو پکڑ لیا اوراس سے پہلے کہ فلم کا یونٹ لوگوں کو سمجھاتا لوگوں نے جم کر اپنے ہاتھ صاف کر لیے۔ شیٹی نے آخر کار لوگوں کو یقین دلایا کہ انہوں نے اپنے کیمرے چھپا کر رکھے تھے۔ منا بھائی اپنی ’دوست‘ مانیتا سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے خبری نے تو ہمیں بتایا تھا کہ سنجو نے مانیتا سے شادی کر لی ہے لیکن کیا کریں سنجو اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ خیر انہوں نے اپنے پیار کے اظہار کے طور پر مانیتا کا نام اپنے ہاتھ پر ٹیٹو کرالیا ہے۔ لیکن سنجو کیا آپ کو پتہ ہے کہ ٹیٹو مٹانے میں بہت تکلیف ہوتی ہے؟ چھوٹے نواب کا ایکشن اکشے نے کلکتہ میں 80 فٹ اونچائی سے چھلانگ لگائی تو اپنے چھوٹے نواب کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ وہ اب صرف رومانٹک ہیرو کا لیبل ہٹا کر ایکشن ہیرو کی ریس میں ہیں۔ جی ہاں چھوٹے نواب نے اپنی آنے والی فلم ’ریس‘ میں کسی سٹنٹ آرٹسٹ کی بجائے خود اپنا شاٹ دیا۔ ارے بھئی پوچھیے تو وہ رگوں میں سرد لہر لانے والا شاٹ کیسا تھا۔ ایکشن ڈائریکٹر الان امین کے مطابق چھوٹے نواب ہوائی غبارے میں دو سو فٹ اونچائی پر پہنچے وہاں سے انہیں ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گزر رہی کھلی کار میں کودنا تھا جہاں سے انہیں اس کار کے بریک کو روکنا تھا تاکہ کھائی میں گرتی کار کو بچایا جا سکے۔آہ۔۔۔ سن کر ہی پسینے چھوٹ گئے۔ کون کہتا ہے کہ ملکہ صرف پیسوں کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے دل میں بھی رحم ہے اور وہ اس طرح کہ انہوں نے ہمیش کی فلم میں گیت ’محبوبہ‘ میں جو لباس پہن کر رقص کیا تھا اسے وہ نیلام کرنے والی ہیں تاکہ اس کی رقم سے وہ کسی سماجی تنظٰیم کی مدد کر سکیں۔ شروعات کی بولی ایک لاکھ روپے کی لگی ہے۔ آپ کیا بولی لگاتے ہیں۔۔۔۔ چلتے چلتے بلبلِ ہند لتا منگیشکر نے صرف پندرہ منٹوں میں گیت ریکارڈ کر کے ریکارڈ بنا لیا۔ فلم ’تیسری منزل‘ کے یونٹ ممبر تھائی لینڈ کے طوفان میں پنس گئے جب ان کی بوٹ کو اونچی لہروں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس میں دیپل شاہ، عرفان خان اور لکی علی بھی موجود تھے۔ ہدایتکار ناگیش ککنور اس وقت تھائی لینڈ میں شوٹنگ کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی فلم کے اداکاروں کو فٹ رہنے کے لیے روزانہ جِم جانے کا حکم دیا ہے ورنہ انہیں ہر روز سو تھائی باتھس (روپیہ ) بطور جرمانہ دینا پڑے گا۔رام گوپال ورما کی سرکار ٹو میں اداکار کے کے مینن بھوت کا رول ادا کریں گے۔ویسے بھی پہلی فلم میں انہیں ایب نے قتل کر دیا تھا۔
040924_south_asia_na
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040924_south_asia_na
پاک بھارت امن کی کوششیں کہاں پہنچیں؟
اپریل 2003
سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے اہم خطاب کے دوران پاکستان کی طرف ’دوستی کا ہاتھ‘ بڑھایا تھا۔ یہ تقریر انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد کی۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں دسمبر دو ہزار ایک میں پاک بھارت جنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ نامہ نگاروں کے الفاظ میں ’جوئے‘ کی چال چلتے ہوئے واجپائی نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کا قیام صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مئی 2003بھارت نے دہلی اور لاہور کے درمیان بس سروس کی بحالی کا اعلان کیا۔پاکستان نے اسےایک مثبت قدم قرار دیا۔ اسی ماہ دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے اپنے اپنے ہائی کمشنرز کو نامزد کیا۔ پاکستان کی جیلوں میں قید کئی بھارتی قیدیوں کو رہا کردیا گیا جس کے جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا۔ اگست 2003 تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت اور پاکستان نے مشترکہ طور پر یوم آزادی کے جشن منائے۔ اکتوبر 2003 بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا۔ مسئلہ کشمیر پر بھی بات ہوئی۔ نومبر 2003 لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس سے قبل دونوں ممالک نے اپنی اپنی فوج کو فائرنگ روکنے کا حکم دیا تھا۔ دسمبر 2003دو سال کی پابندیوں کے بعد بھارت اور پاکستان نے یکم جنوری سے براہ راست فضائی رابطے بحال کرنے کا اعلان کیا۔ جنوری 2004 اسلام آباد میں علاقائی ممالک کے ایک اجلاس کے دوران دونوں ملکوں میں مذاکرات ہوئے جسے دونوں ہی نے ایک مثبت قدم قرار دیا۔ مشرف اور واجپائی کی پہلی ملاقات تین گھنٹے طویل رہی۔ اختتام ماہ، بھارت اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے اعتدال پسند رہنماؤں نے پہلی مرتبہ مذاکرات کیے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ متنازعہ علاقے سے تشدد ختم ہونا چاہیے۔ فروری 2004 تین سال بعد پہلی مرتبہ دونوں ممالک نے کشمیر کے مسئلہ پر باقاعدہ مذاکرات کیے۔ اسلام آباد میں ہونے والے یہ مذاکرات تین دن جاری رہے۔ مارچ 2004انیس سو نواسی کے بعد بھارت سے کرکٹ کے تیس ہزار شائقین نے پاکستان کا دورہ کرکے پاک بھارت میچ دیکھا۔ مئی 2004 پاکستان نے بھارت کے نئے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اس عہد کا خیر مقدم کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ جون 2004 بھارت اور پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر عائد پابندی کی تجدید کی اور ایک ہاٹ لائن قائم کی تاکہ ایک دوسرے کو بڑے جوہری خطرات سے آگاہ کرسکیں۔ ستمبر 2004 دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے دہلی میں ملاقات کی جو تین سال میں پہلی اعلٰی سطحی سرکاری ملاقات تھی۔ دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے تاہم کم ہی نتائج ایسے نکلے جس سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہو۔ کشمیر کا مسئلہ اب بھی اتنا ہی الجھا ہوا دکھائی دیتا ہے جیسا کہ کبھی ماضی میں نظر آتا تھا۔
130415_book_review_niqaat_rh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/04/130415_book_review_niqaat_rh
نقاط، گیارھویں اشاعت: دلچسپ اور قابلِ توجہ
نام کتاب: نقاط 11
ادارت: قاسم یعقوب صفحات: 400 قیمت: 300 روپے رابطہ: p-240 رحمٰن سٹریٹ، سعید کالونی، مدینہ ٹاؤن، فیصل آباد niqaat@gmail.com نقاط 11 کا سب سے بڑا حصہ تنقید کے لیے وقف ہے۔ اس کے بعد شاعری ور پھر فکشن اور فکشن میں بھی خالد فتح محمد کے زیر تکمیل ناول کا مختصر حصہ افسانوں کے مقابلے میں کہیں جان دار ہے۔ اگرچہ اس حصے کو ایک الگ افسانے کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے، یہی بات ہے جو اس ناول کا انتظار پیدا کرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افسانے پڑھنے جیسے نہیں ہیں۔ لیکن ان میں کوئی بھی افسانہ ایسا نہیں ہے جو آج سے پچاس سال پہلے نہ لکھا جا سکتا۔ اس حوالے سے بہت سے سوال پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہو سکتا کہ اب سے تیس سال پہلے تک لکھے جانے والے فکشن میں کتنا ایسا ہے جو آج بھی اُسی طرح اہم ہے جیسے وہ اپنے دور میں تھا؟ اس بات کو زندگی کی ان حقیقتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو وقتی یا زمانی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ انھی حقیقتوں کو دوسری نوعیت وہ ہوتی ہے جن کی دریافت اُس فکشن یا ادب کو پیدا ہوتی ہے جس پر وقت اثر انداز نہیں ہوتا اور ہر زمانے کی ہر نسل اُسے پڑھتی ہے اور کوئی تہذیبی، جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی رکاوٹ اس کے آڑے نہیں آتی۔ اس پر تفصلی بات بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کی جگہ یہ نہیں ہے۔ تنقید کے حصے میں تمام ہی مضمون پڑھنے کے لائق ہیں۔ آصف فرخی کا مضمون عمدہ ہے لیکن مضمون میں رقت کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔ طارق علی سے تو وہ مکالمے سے زیادہ جھگڑتے ہوئے لگتے ہیں۔ ’مابعد نائن الیون اور منٹو‘ میں ڈاکٹر ناصر عبس نے منٹو کو مختلف پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن شاید مضمون زیادہ تفصیل اور ٹھہراؤ کا تقاضا کرتا ہے۔ کامران کاظمی کا مضمون عام پڑھنے والوں کی دلچسپی کا زیادہ ہے۔ مجموعی طور چار سو صفحات کی اس کتاب میں تین سو اکانوے صفحات یقینی طور پر پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ ان میں وہ چار صفحات جن پرجریدوں کے نام اورکتابوں کے اشتہار ہیں۔ وہ نو صفحات جو نظام صدیقی کی تحریر کو دیے گئے ہیں کسی اور حصے کو دیے جاتے تو زیادہ مناسب تھا۔ نظام صدیقی کے موضوع سے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ اپنے انداز اور زبان کے حوالے سے اپنے ممدوح سے کہیں نیچے چلے گئے ہیں۔ اب اگر وہ اس دلیل کا سہارا لیں کہ اینٹ کا جواب اینٹ سے دیا جائے گا تو پھر اینٹ بازی کو پسند نہ کرنے والے کہا جائیں گے؟ نقاط کی موجودہ اشاعت میں مضامین کے حصے میں جلیل عالی نے تخلیق و تنقید، اقبال آفاقی نے افسانےکی تنقید، خورشید اکرم نے نثری نظم: توقعات اور امکانات، معید رشیدی نے فیض پر چند نئے سوالات اور عابد سیل نے اردو غزل پر بیسویں صدی کی تحریکوں کے اثرات کا جائزہ لیا۔ تنقید کا دوسرا حصہ ’منٹو آج بھی سوچ رہا ہے‘ کے عنوان سے ہے۔ جس ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ نقطۂ نظر کے عنوان سے قائم کیے جانے والے حصے میں، لاکھوں کا سچ کے عنوان سے ارشد محمود نے ’سچ‘ پر غور طلب انداز میں بات کی ہے اور خواجہ عتیق الرحمٰن نے ’اردو طبقہ اور ذرائع ابلاع کی ترجیحات‘ کا جائزہ لیا ہے۔ نئی نظم کا تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے قائم کیے گئے حصے میں احمد ندیم تونسوی نے ن م راشد کی نظم ’تیل کے سوداگر‘ کا بین المتونی جائزہ لیا ہے اور قاسم یعقوب نے ایک نثری نظم ’بڑھئی کی آری‘ کے حوالے سے نثری نظم کی ساخت پر بات کی ہے۔ اس میں انھوں نے اختلاف کی گنجائش کا اہتمام بھی کیا ہے۔ نئی نظم- نیا مطالعہ، کے عنوان سے قائم کیے گئے حصے میں اشرف یوسفی اور کی شاعری اور ڈاکٹر اسلم انصاری کے ادبی سفر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ ’تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے‘ کے عنوان سے قائم کیے گئے حصے میں مہدی کے لیے شاہد اشرف کی ایک نظم ہے اور یاسر اقبال کا مضمون ہے جس میں انھوں نہ مہدی حسن کے حوالے سے برصغیر میں موسیقی کی مبادیات میں انقلابات کا جائزہ لیا ہے۔ تراجم کے حصے میں ہندی کے کہانی کار دیپک مشعل کی تین کہانیاں ہیں، جرمن شاعر ٹامس سٹیمر کی آٹھ نظمیں ہیں جنھیں اردو میں نجیبہ عارف نے کیا ہے، ہندی کے نئے شاعر مہیش ورما، مراٹھی کے ہیمت دیوت اور انگریزی کے ٹیڈ ہیوز کی تین نظمیں ہیں جنھیں صفدر رشید اور رابی وحید نے اردو میں کیا ہے۔ اس کے بعد نظموں کا حصہ ہے جس میں آفتاب اقبال شمیم، عبدالرشید، مبارک حیدر، علی محمد فرشی، ابرار احمد، انوار فطرت، اشرف یوسفی، محمود ثنا، انجم سلیمی، ارشد محمود ناشاد، سعید احمد، شاہد اشرف، محمد افتخار شفیع، اختر رضا سلیمی، طارق حبیب، منیر احمد فردوس، محمود اعوان، اورنگ زیب نیازی، عمران ازفر(املا یہی استعمال کی گئی ہے)، فیصل عرفان اور قاسم یقوب کی تخلیقات ہیں۔ اس کے بعد کا حصہ جلیل عالی، ابرار احمد، انجم سلیمی، ارشد محمود ناشاد، حیدر فاروق، شہاب صفدر، اشرف نقوی، ضیا المصطفیٰ ترک، علی اکبر ناطق، ادریس بابر، شہزاد اظہر، طاہر شیرازی، الیاس بابر اعوان، عطا تراب، عارفہ شہزاد اور وقاص عزیز کی غزلوں پر مشتمل ہے۔ عرفان احمد عرفی، علی اکبر ناطق، فرح ندیم، سید علی محسن اور لیاقت علی کے افسانوں پر مشتمل حصے کے بعد مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں عرفان جاوید کا ایک دلچسپ مضمون ہے۔ کتاب مطلعہ کے عنوان سے قائم کیے گئے حصے میں عمران شاہد بھنڈر کی کتاب ’فلسفۂ مابعدِ جدیدیت: تنقیدی مطالعہ‘ کے بارے میں نظام صدیقی کا، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کی کتاب ’متن، سیاق اور تناظر‘ کے بارے میں قاسم یعقوب کا، نوبل انعام یافتہ ناول نگار ماریو برگس یوسا کے ناول ’بیڈ گرل‘ کے بارے میں خالف فتح محمد کا اور خاور نوازش کی ’مشاہیر ادب: خارزارِ سیاست میں‘ کے بارے میں شکیل حسنین سید کا مضمون ہے۔ قاسم یعقوب کا تبصرہ جامع اور عمدہ ہے۔ آخر میں قلمی معاونین کی تفصیل ہے۔
130628_book_review_rwa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/06/130628_book_review_rwa
اردو میں ناول کے ذریعے فلسفے کی تاریخ
انور سِن رائے
نام کتاب: سونی کی دنیا مصنف: جوسٹین گارڈر ترجمہ: ابوالفرح ہمایوں صفحات: 288 قیمت: 350 روپے ناشر: سٹی بک پوائنٹ، نوید سکوائر، اردو بازار۔ کراچی E-mail:citybookurdubazaar@gmail.com ’سوفیز ورلڈ‘ 1991 میں لکھا گیا۔ یہ ناول ناوروے کی رہنے والی ایک نو عمر لڑکی سوفی آموڈسین کے گرد گھومتا ہے اور اسی لیے اس کا نام سوفیز ورلڈ رکھا گیا ہے۔ اس کا دوسرا کردار البرٹو ناکس ہے جو فلسفیانہ سوچ رکھنے والا ایک ادھیڑ عمر ہے اور جو سوفی کو فلسفے کی تاریخ اور سوچ سے متعارف کراتا ہے۔ ’سوفی کی دنیا‘ سب سے پہلے نارویجن زبان میں شائع ہوا۔ اور شائع ہوتے ہیں ناورے میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گیا۔ بعد میں یہ ناول 53 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ 1995 میں ہوا اور اب تک یہ ناول تیس ملین یعنی تین کروڑ سے زائد سے فروخت ہو چکا ہے۔ نارویجن زبان اور ناروے میں لکھے جانے والے ناولوں میں جوسٹین گارڈر کا یہ ناول ناروے سے باہر سب سے زیادہ تجارتی کامیابی حاصل کرنے والا ناول ہے۔ اب اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے اور ایک کمپیوٹر گیم بھی بنایا جا چکا ہے۔ ناول کی کہانی کے مطابق یہ 1990 کا زمانہ ہے۔ 14 سالہ Sophie Amundsen جس کے لیے اردو ترجمے میں زیادہ تر سوفی آموڈسین اختیار کیا گیا، اپنی والدہ، نارنجی بلی شیریکان، تین سنہری مچھلیوں، دو آسٹرین طوطوں اور ایک سبز کچھوے کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے والد ایک آئل ٹینکر کے کپتان ہیں اور زیادہ تر گھر سے دور ہی رہتے ہیں۔ ایک روز سوفی سکول سے لوٹتی ہے تو اُسے گھر کے لیٹر بکس سے دوسری بہت سے خطوں کے ساتھ ایک خط ملتا ہے جو اس کے نام ہے۔ لفافے پر اس نام واضح طور پر لکھا تھا اور گھر کا پتا بھی۔ خط پر چونکہ کوئی ٹکٹ نہیں تھا اس لیے وہ یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتی تھی کہ اُس کے نام یہ خط کہاں سے آیا ہے۔ لیکن وہ یہ ضرور جان لیتی ہے کہ خط کوئی دستی طور ہی ڈال کر گیا ہے۔ سوفی نے جب گھر کے اندر جا کر لفافہ کھولا تو اس میں ایک چٹ تھی جس پر لکھا تھا ’تم کون ہو؟‘۔ اسی طرح اُسے دو گھنٹے کے اندر ایک اور لفافہ ملا، وہ بھی دستی طریقے سے لیٹر بکس میں ڈالا گیا تھا، اس میں بھی ایک چٹ تھی اور اس پر بھی ایک سوال لکھا تھا ’یہ دنیا کب اور کیسے پیدا ہوئی؟‘ ناول ان دو پیغامات سے شروع ہوتا ہے۔ تیسرے لفافے پر اس کے نام تو تھا لیکن خط کسی اور کے لیے تھا۔ لکھا تھا ہلڈی مولر کانگ معرفت سونی آموڈسین۔ اس میں ایک قدرے تفصیلی پیغام بھی تھا۔ ’ڈیر ہلڈی! پندرھیوں سالگرہ مبارک ہو۔ مجھے یقین ہے تم میری باتوں کو سمجھ گئی ہو گی۔ میں تمھیں جو تحفہ دے رہا ہوں وہ تمھاری زندگی کو خوشگوار بنانے میں مددگار ہوگا۔ مجھے معاف کردینا کہ یہ کارڈ سوفی کی معرفت بھیج رہا ہوں۔ تمھارا پتا میرے پاس نہیں ہے، لہٰذا یہی آسان طریقے ہے۔ تمھارے ڈیڈی کی طرف سے پیار‘۔ اس کے بعد اسے مسلسل لفافے ملتے رہتے ہیں جو اسے دنیا اور سقراط سے سارتر تک کے فلسفے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اردو میں اگرچہ فلسفہ پڑھنے کا شوق انتہائی کم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسفے کا شمار ان مضامین میں نہیں ہوتا جو ملازمت کی تلاش میں مددگار ہوتے ہیں اور فلسفہ پڑھنے والوں کو کم و بیش پاگل تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ناول ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فلسفہ ایسا مضمون ہے کہ اس سے ایک چودہ سالہ لڑکی کو بھی دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے اور یہ لڑکی ایک یورپی ملک کی ہے۔ اس ناول کا اردو میں ترجمہ ہونا ویسا ہی اہم ہے جیسا کہ انگریزی میں ترجمہ ہونا تھا، جس کے بارے میں نیوز ویک نے لکھا تھا ’مغربی فلسفے کی ایک جامع تصویر- ایک چودہ سالہ لڑکی فلسفے کی تاریخ سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بے حد کار آمد ہو گی جو فلسفے کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو بیش تر اسباق اور معلومات فراموش کر چکے ہیں‘۔ دی واشنگٹن پوسٹ بُک ورلڈ کا کہنا تھا کہ ’اس ناول کی سب سے قابلِ تعریف بات اس کا سیدھا سادہ اندازِ بیان ہے۔ فلسفے جیسے خشک موضوع کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر بات آسانی سے دل میں اتر جاتی ہے۔ فلسفے کی تاریخ کے بارے میں یہ ناول فرانس میں پاگل پن کی حد تک مقبول ہوا ہے اور آج پورے یورپ کا پسندیدہ ناول ہے‘۔ نیوز ویک نیوز ڈے کا کہنا تھا: ’یہ ایک انوکھی اور نادر کتاب ہے۔ سقراط سے سارتر تک کے نظریات کا نچوڑ، ایک ایسی گولی جو شہد اور دودھ کے مرکب سے بنائی گئی ہے۔ ایک بار پڑھنا شروع کرنے کے بعد اسے آسانی سے ایک طرف ڈال دینا آپ کے بس کی بات نہیں‘۔ جوسٹن گارڈر 8 اگست 1952 کو اوسلو میں پیدا ہوے۔ انھوں نے اوسلو یونیورسٹی سے نظریات کی تاریخ، مذہب اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد انھوں نے سیکنڈری سکول میں فلسفے اور مذہب کی تدریس شروع کی۔ اس ناول کے علاوہ بھی انھوں نے فلسفے اور مذہب پر کتابیں لکھی ہیں۔ جہاں تک اردو ترجمے کا تعلق ہے، دو ایک بار اور نظر کی جاتی تو کہیں بہتر ہو سکتا تھا، زبان مزید آسان ہو سکتی تھی۔ فلسفے کی اصطلاحات اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی دے دی جاتیں جیسے ناموں کے ساتھ کیا گیا ہے تو پڑھنے والوں کی زیادہ مدد ہو جاتی۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں زیادہ نہیں ہیں لیکن جو ہیں وہ انتہائی بھیانک ہیں۔ بیک ٹائٹل پر ہی ناول کی اشاعت کا سال 1911 لکھا ہوا ہے۔ مترجم کا تعارف نہ دیا جانا بہت زیادتی ہے۔
130804_book_review_sa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/08/130804_book_review_sa
بارش میں شریک، شاعری اور مصوری
نام کتاب: بارش میں شریک
شاعر: عطا تراب مصورہ: فائزہ خان صفحات: 208 قیمت: 500 روپے ناشر: راستے پبلی کیشنز۔http://www.rastayngo.com مجھے اس کتاب کا قابلِ مواخذا ایڈیشن بھیجا گیا ہے۔ اب پتا نہیں کہ اس پر بات کرنا، اس کے بارے میں کسی کو بتانا بھی مواخذگی کی حدود میں آتا ہے یا نہیں۔ کتاب میں ایسے ایسے مصوروں کی آرا ہیں کے ان کے بعد مصوری کے بارے میں کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ شاعری کے بارے میں تو کمال یہ ہوا ہے کہ فتح محمد ملک اور فہمیدہ ریاض ایسی انتہائیں یک جا ہیں۔ فہمیدہ ریاض مجنوں صفت آنکھ اور دل کی مالک ہیں۔ اگرچہ یہاں اُن کی رائے قدرے سرپرستانہ ہے۔ دیکھیں: ’بارش میں شریک، جیسے دل رُبا، ذہن میں سوندھے تصور جگانے والے نام کی یہ کتاب جو عطا تراب کی شاعری اور فائزہ خان کی مصوری پر مشتمل ہے، ایک حیرت انگیز کتاب ہے ۔ ۔ ۔ جرات مندانہ اور طاقتور شعری اور صوری تخلیقات جو دل کو چھو لینے والی اور پُر کشش ہیں کسی نادر و نایاب خزانے کی طرح اس کتاب کے اوراق میں چھپی ہیں‘۔ فتح محمد ملک کا کہنا ہے: میں نے عطا تراب کے ان اشعار کو فائزہ خان کی مصوری کی روشنی میں بار بار دیکھا اور بار بار اس سوچ کو دامن گیر پایا کے شعر اچھا ہے یا تصویر پسندیدہ ہے؟ بالآخر تھک ہار کر یہ موازنہ ترک کر دیا اور اشعار اور تصاویر کو وہ دروازہ سمجھا جس سے گزر کر قامتِ حسن میں گُم ہو گیا‘۔ مصوری کے حوالے سے استاد سعید اختر کی آنکھ کا اشارہ بھی اپنی جگہ سند ہے یہاں تو وہ کہتے ہیں: آپ (فائزہ) کا تراب کی شاعری کو تصویروں میں بدل دینا اچھا لگا ۔ ۔ ۔ تراب ایک اچھا شاعر ہے اور آپ ایک اچھی مصورہ‘۔ منصور راہی نے خود کو مصوری تک محدود رکھا ہے: فارمالسٹ اور سینتھیسس پر بنیاد کرتا نپا تُلا اظہار، موضوعات کا انسانی جسم کے خطوط میں گندھے ہوے، احساس کی ایک خاص روش سُجھاتے اور فینٹیسی کی چھاپ چھوڑتے رنگ اور ہئیتیں‘۔ راہی نے رائے انگریزی میں دی ہے جہاں لفظوں کے باہمی استعمال کو کھولنا ان میں اپنی معنی دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے انھوں نے اس کی کوشش خود بھی نہیں کی۔ انور حسین جعفری کو کتاب کا عنوان دلچسپ اور کتاب منفرد لگی ہے اور اس کی انفرادیت ان کے نزدیک مصور اور شاعر کے مابین ہم کاری کی نوعیت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بہت سی آرا میں سے چند ہیں۔ خود عطا تراب اپنے تئیں میر صاحب کے راستے پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: آخر میں التماس ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ زندگی، محبت، جمالیات، شعور اور ایمان کی ’بارش میں شریک‘ ہو جائیں۔ وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں: تراب تم بھی عجیب مشکل سے آدمی ہو کہ کوئی کتنا ہی خوبصورت ہو کوئی کتنا ہی دلربا ہو کہ کوئی چاہے ہزار جانیں تمھارے دل پر کرے نچھاور پر ایک مدت سے بڑھ کے تم نے کبھی محبت نہیں نبھائی تراب تم بھی عجیب مشکل سے آدمی ہو۔ عطا تراب کی شاعری پڑھنے کی ہے اور سوچنے کی ہے تاکہ داد، تعریف، مطالعے، تربیت اور یادداشت سے پیدا ہونے والی دشواریوں کے بارے میں جانا جا سکے۔ یہ پڑھنے والا کا مسئلہ نہ ہو تو لطف بھی لیا جا سکتا ہے اور سر بھی دُھنا جا سکتا ہے۔ فائزہ خان کی مصوری میں تزئین کاری بھی ہے اور اپنے اظہار کی کوشش بھی۔ خیال آتا ہے کہ منصور راہی کو فارملسٹ کیوں یاد آئے ہیں۔ کیا وہ فائزہ کے کام کو سماجی اور تاریخی تناظر سے آگے جاتا محسوس نہیں کرتے؟ یہ سوال مصوری کا ہے۔ ادب میں فارملسٹ کسی اور جغرافیے اور مخصوص متن کی ساخت سے زیدہ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن روس میں فارملسٹوں کے بیس سال بیرونی دخل اندازی سے متن کی آزادی کے سال ہیں۔ اول تو اس طرح تصویروں کی اشاعت کو سامنے رکھ کر مصوری کو سمجھنے، محسوس کرنے اور زیر بحث لانے کی کوئی بھی کوشش منصفانہ نہیں ہو سکتی لیکن یوں ہی رنگوں اور ہئیتوں سے ذہن روس کی پچاس سال پہلے کی مصوری طرف جاتا ہے۔ لیکن اس عہد کی روسی مصوری بالعموم ایک نوع کی ایسی حقیقت پسندی تھی، جو محسوساتی تہ تک رسائی کے لیے ایک مختلف اپروچ کا تقاضا کرتی ہے۔ فائزہ کے ہاں تصویریں زیادہ سے زیادہ معنی کو سمونے اور پھر انہیں ایک نئی شکل دینے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ معنی کی یہی بالادستی اور اوّلیت تراب کی شاعری کا بھی خاصا اور دونوں کی قدرِ مشترک بھی ہے۔ تراب اور فائزہ، دونوں کے لیے خود ان کی مہارت، متعین مقاصد تخلیقی آزادی کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ مصوری اور شاعری کو ایک دوسرے کا مددگار بنانے کے ایک طریقے کی طرف استاد سعید اختر نے اشارہ کیا ہے۔ جس میں دونوں ایک دوسرے سے الگ تخلیق ہوتے تھے۔ شعر کو تصویر سے وابستہ کر کے ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن یہ طریقہ تلازماتی ہوتا تھا۔ موجودہ کتاب میں غالبًا ایسا نہیں ہے۔ اس میں شاعری کو السٹریٹ کیا گیا ہے لیکن یہ السٹریشن عمومی طرز کی نہیں ہے، مصورہ نے معنی کے ساتھ ساتھ تاثر کو بھی لگتا ہے کہ ترجیح طور رپ شامل رکھنے کو کوشش کی ہے۔ شعر میں معنی و مفاہیم اور خارجی غنایت کو ترجیح دینے والوں کو تراب کی شاعری کا بڑا حصہ بہت پسند آئے گا۔ وہ انھیں ایک استاد بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ کتاب آرٹ پیپر پر بہت عمدہ شائع ہوئی ہے، کم و بیش تمام ہی چار رنگی کہی جا سکتی ہے۔ عام طور پر شعری مجموعے ایسے شائع نہیں ہوتے۔ اگر ہوئے بھی ہیں تو شاعر سرکاری افسروں یا بینکار تھے۔ ایسے انداز شعری تاثر کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شاعری اور مصوری کا یہ اتصال ایک چیلنج بھی ہے جن وہ تمام مراحل درپیش ہو سکتے ہیں، جو مجھے پیش آئے۔
030911_allende_9_11_wusat_ms
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/09/030911_allende_9_11_wusat_ms
ایک اور گیارہ ستمبر
تحریر: وسعت اللہ خان
اب سے دو برس پہلے والے گیارہ ستمبر کو جب نیو یارک کے ورلڈٹریڈسینٹر پر حملہ ہوا تو صدر بش نے اس عالمی دہشت گردی کی جو متعدد وجوہات بیان کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہ دہشت گرد امریکی جمہوریت، طرز زندگی اور شخصی آزادیوں کی ثقافت سے حسد میں مبتلا ہیں۔ لیکن اس دنیا میں گیارہ ستمبر سن دو ہزار ایک سے قبل ایک اور گیارہ ستمبر بھی گزرا ہے جب جمہوریت اور شہری آزادیوں کے سب سے زیادہ علم بردار ملک نے ایک چھوٹے ملک میں جمہوریت کا چراغ بجھا دیا کیونکہ اس چھوٹے ملک کی جمہوریت امریکی جمہوریت کی ہم خیال نہ تھی۔ گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو جب چلی کے دارالحکومت سانتیاگو کے صدارتی محل پہ چلی کی فضائیہ اور برّی فوج حملے کر رہی تھی تو عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کے خلاف اس کاروائی کی ہدایت کاری امریکی سفارت خانے میں بیٹھے سی آئی اے کے اہلکار کر رہے تھے۔ چلی میں لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کے برعکس اٹھارہ سو دس میں سپین سے آزادی کے بعد سے جمہوری روایات مسلسل تھیں۔ خود سلوادور آئندے بھی چلی کی جمہوریت کا کوئی نیا یا اچھوتا کردار نہیں تھے۔ وہ جب انیس سو ستر کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوئے تو یہ بطور امیدوار ان کے چوتھے انتخابات تھے۔انیس سو اٹھاون کے انتخابات میں وہ صرف ساڑھے تین فیصد ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے۔ انیس سو چونسٹھ میں ان کی ہار کو یقینی بنانے کیلئے، امریکی سینیٹ کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سی آئی اے نے تین ملین ڈالر خرچ کئے اور ان کے مخالف کرسچین ڈیموکریٹ امیدوار کی مہم کا آدھا خرچہ برداشت کیا لیکن انیس سو ستر کے انتخابات میں جب تمام تر کوششوں کے باوجود سلوادور آئندے بائیں بازو کے اتحاد پیپلز یونٹی کے قائد کے طور پر پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات جیتے تو امریکی صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ہینری کنسنجر نے یہ تبصرہ کیا ’اگر کسی ملک کے عوام اپنے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے نتیجے میں کمیونزم کے راستے پر چل نکلے ہیں تو کیا ہمیں خاموش تماشائی بن جانا چاہئے‘۔ اس سے پہلے کہ سلوادور آئندے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے، چلی کی فوج کے سربراہ جنرل رینے شنیڈر کو اغوا کرنے کی کوشش کے دوران شدید زخمی کر دیا گیا اور بعد میں وہ چل بسے۔ اس واردات کا مقصد یہ تھا کہ فوج بھڑک اٹھے اور سلوادور آئندے کے باضابطہ صدر بننے سے پہلے ہی ان کا تختہ الٹ دے۔ امریکی سینیٹ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جنرل شنیڈر کے قتل کیلئے اسلحہ سی آئی اے نے فراہم کیا تھا۔ چلی تانبے کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں سرفہرست ہے۔ صدر آئندے نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی تانبے کی صنعت پہ اجارہ دار امریکی کمپنیوں ’کین کوٹ‘ اور ’ایناکونڈا‘ اور مواصلاتی نظام کی اجارہ دار آئی ٹی ٹی کے اثاثے قومی تحویل میں لے لئے۔ غیرملکی بینکوں کو بھی قومیا لیا گیا، مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا اور ناکافی غذائیت کے شکار پانچ لاکھ بچوں کو اسکول میں مفت دودھ کی فراہمی شروع ہوئی۔ امریکی سینیٹ کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے صدر آئندے کے اقتدار کے تین برس میں ان کے خلاف آٹھ ملین ڈالر کی رقم براہ راست خرچ کی۔ یہ رقم حزب اختلاف کے رہنماؤں اور ٹریڈ یونینز کو دی گئی، اخبارات کے ایڈیٹروں کو بانٹی گئی اور فوجی جرنیلوں کو پہنچائی گئی۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اپنے قرضے معطل کر دیئے۔ یہ سب کچھ عین آئندے کے برسر اقتدار آنے کے بعد وائٹ ہاؤس میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز، اٹارنی جنرل جان مچل، قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر اور صدر رچرڈ نکسن کے ایک اجلاس میں طے پانے والے اس منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ چلی کی معیشت کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئندے کے اقتدار کے دوسرے سال میں خوردنی اشیاء بازار سے غائب ہونی شروع ہوگئیں، بیرونی سرمایہ کاری ٹھپ ہوگئی، تانبے کی عالمی قیمت میں کمی آگئی، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گھٹنے لگے، افراط زر پانچ سو فیصد سالانہ کی شرح تک پہنچ گیا، بلیک مارکیٹ وجود میں آگئی، ٹرانسپورٹ کی ہڑتالیں اچانک شروع ہوگئیں اور لوگ بلبلانے لگے۔ گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو جیسے ہی فوج کے سربراہ جنرل پنوشے کے فوجی دستوں نے صدر آئندے کا صدارتی محل تباہ کر کے اقتدار پہ قبضہ کیا، سی آئی اے کی فہرست کے مطابق بائیں بازو کے لوگ پکڑے جانے لگے۔ بیشتر کو سانتیاگو کے مرکزی سٹیڈیم میں جمع کیا گیا اور گولی مار دی گئی۔ کئی کابینہ وزیر بھی اسی طرح ہلاک کئے گئے، یونیورسٹیاں فوج کے کنٹرول میں دے دی گئیں اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں اور سترہ برس طویل فاششٹ دور حکومت کا آغاز ہو گیا۔ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد بحال ہوگئی۔ غیر ملکی کمپنیوں کے اثاثوں سے لے کر پینشن کی سکیموں تک ہر شے کی نج کاری ہوگئی اور ملک پہ ایک سکوت کی حکمرانی ہو گئی۔ اگر واشنگٹن میں جمہوریت کا میوزیم قائم کیا جائے تو اس میں ایسے حکمرانوں کی آویزاں فہرست بھی اچھی لگے گی جو بیلٹ باکس کے ذریعے برسر اقتدار آئے اور امریکہ کے نزدیک راندہ درگاہ ہوگئے۔ ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق، گھانا کے صدر کوامے اینکرومہ، کانگو کے صدر پیٹرس لوممبا، انڈونیشیا کے صدر احمد سوئیکارنو، چلی کے صدر سلوادور ائندے، پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، نکاراگوا کے صدر ڈینیئل اورتیگا۔۔۔ کس کس کے نام گنوائے جائیں۔ گیارہ ستمبر انیس سو تہتر کو چلی کی حکومت ختم کرنے والے جنرل آگستو پنوشے آج سانتیاگو سے ایک سو بیس کلومیٹر دور ایک ساحلی بنگلے میں باقی ماندہ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے وارثوں نے جنرل پنوشے کے خلاف سینکڑوں مقدمات دائر کر رکھے ہیں لیکن چلی کی سپریم کورٹ کہتی ہے کہ جنرل پنوشے چونکہ پچاسی برس کی عمر میں نسیان کا شکار ہیں لہٰذا ان کے خلاف اس عمر میں عدالتی کاروائی مناسب نہیں ہے۔
070923_shakeel_dairy_nj
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/09/070923_shakeel_dairy_nj
رام سیتو ’را‘ اور بھارتی نوجوان
گردن کاٹنے کی ریس
انسانوں کی گردن کاٹنے کا اگر ذکر آتا ہے تو فورا ہی طالبان، عراق کے شدت پسند اور دیگر مسلم شدت پسندوں کا نام سامنے آ جاتا ہے۔ لیکن اب لگتاہے کہ وشوہندو پریشد بھی اس صف میں پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔ گزشتہ دنوں بی جے پی کے سابق ایم پی اور وشو ہندو پریشد کے رہنماء رام ولاس ویدانتی نے ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ جو شخص تمل ناڈو کے وزیراعٰلی کروناندھی کی گردن اور زبان کاٹےگا اسے اس کے وزن کے برابر سونے سے تولا جائے گا۔ وشو ہندو پریشد اور بی جے پی، مسٹر کروناندھی سے ان کے اس بیان پر سخت برہم ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں کے بھگوان رام کے وجود کا کوئی تاریخی یا آثاریاتی ثبوت نہیں ہے مسٹر ویدانتی کا کہنا ہےکہ مسٹر کرونا ندھی نے تمام ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے’ ہم اپنے مذہب کے احکامات پر عمل کريں گے اور ہمیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا‘۔ ’را‘ پر نکتہ چينی کرنے سے بچیں مرکزي تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی نے گزشتہ دنوں خفیہ ادارے ’ را‘ کے سابق جوائنٹ سیکرٹری میجر جنرل وی کے سنگھ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔ انہوں نے حال ہی میں ’را‘ پر ’انڈیاز ایکسٹرنل انٹیلی جنس ‘ نام کی ایک کتاب لکھی تھی۔ جس میں انہوں نے قیادت کی خرابی اور جوابدہی کی کمی کا سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے مخصوص کارروائیوں پر نکتہ چينی بھی کی تھی۔ میجر جنرل وی کے سنگھ نے کمانڈوز کے لیے خریدے گئے کچھ ساز و سامان کی بھی تفصیلات دی ہیں اور ساتھ ہی بعض خریداریوں میں بےضابطگیوں کا الزام لگایا تھا۔ سی بی آئی نے سرکاری راز داری قانون کے تحت مقدمہ درج کرنےکے بعدان کے خلاف چھاپہ مارا ہے۔ ان کا ذاتی کمپوٹر ضبط کرلیا گيا ہے اور ان کے ناشر سےبھی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہےکہ اس کتاب کے آنے کے بعد سے ہی ’را‘ کے حکام مصنف سے کافی ناراض تھے اور اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں’ را‘ نے حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا تھاکہ وہ اس کتاب پر پابندی عائد کردے۔ کتاب سامنے آنے کے کئی ہفتے بعد چھاپے مارنے کا بظاہر مقصد مستقبل میں اس طرح کی نکتہ چينیوں کو بند کرنا ہے۔ 1857 برطانوی فوجی کی جیت کا جشن ہندوستان میں گزشتہ کئی ہفتوں سے 1857 کی بغاوت کے ڈیڑھ سو برس پورے ہونے پر جشن منایا جارہا ہے۔ یہ بغاوت برطانوی فوج کے بعض سپاہیوں نے میرٹھ میں کی تھی۔ بغاوت ناکام رہی اور برطانوی فوج نے تمام سرکش سپاہیوں کی بغاوت کو سختی سے کچل دیا تھا۔ اس بغاوت کی ناکامی سے برطانوی راج کا تسلط پورے ہندوستان پر مکمل طور پر قائم ہوگیا تھا۔ لیکن کیا ان برطانوی سپاہیوں کی بہادری اور شجاعت کو یاد نہیں کیا جانا چاہیے جنہوں نے اس بغاوت کو کچلا تھا۔ گزشتہ دنوں تقریبًا بیس برطانوی شہری بڑی خاموشی سے ان سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میرٹھ میں جمع ہوئے۔ ساٹھویں کوئنز رائل کے انیس فوجی اہلکار اس مقام پر پہنچے جہاں ہندوستانی فوجیوں نے بغاوت کی تھی۔ وہاں موجود سینٹ جونز چرچ میں وہ ایک سنگی کتبہ نصب کرنا چاہتے تھے۔ جس میں لکھا تھا میرٹھ اور دلی میں ساٹھویں کنگز رائل رائفل کور کی پہلی بٹالین کی بہادری اور نمایاں خدمات کے اعتراف میں لیکن چرچ کے بشپ نے اس یادگار کتبے کو نصب کرنے کی اجازت نہیں دی‘۔ ہتھوڑے والا قاتل مغربی دلی کے بلجیت نگر علاقے میں لوگوں کی نیند اڑی ہوئي ہے اور لوگ راتوں میں گروپ بناکر پہرا دے رہے ہیں۔ اس رہائشی علاقے میں گزشتہ دو مہینوں میں چار خواتین پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے تین کی موت اسی وقت ہوگئی جبکہ چوتھی خاتون شدید زخمی ہیں۔ یہ سبھی حملے ایک جیسے ہیں۔ ان میں قاتل عورتوں کو نشانہ بناتاہے، کسی بھاری چيز سے سر پر وار کرتا ہے اور گھر سے کوئی چیز نہیں لے جاتا۔بعض رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے کم از کم سات حملے ہوۓ ہیں۔ پولیس ابھی تفتیش کررہی ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ قاتل ’ ہیمرمین‘ کے نام سے مشہور ہوچکا ہے۔ ہندوستانی نوجوان دنیا میں سب سے زیادہ خوش متوسط طبقے کے نوجوان ہندوستانی پوری دنیا میں سب سے زیادہ خوش اور دوسری قوموں کے مقابلے اپنی زندگی سے زیادہ مطمئن ہیں۔ سویڈین کی تحقیقاتی اور مشاورتی فرم کیروس فیوچر کےایک عالمی جائزے کے مطابق نوجوان ہندوستانیوں کے لۓ ملازمت یا کام سب سے اوّلین ترجیح دی ہے۔ اس کے بعد اچھا کریئر اوراعٰلی درجہ حاصل کرنے کا مقام آتا ہے۔ سروے کے مطابق ہندوستانی نوجوان اپنے اور اپنے معاشرے کے مستقبل کے بارے میں بہت حد تک مثبت خیال رکھتے ہیں سروے میں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں فیملی مرکزی نکتہ ہے لیکن آج کے نوجوان ہندوستانی معاشرے میں نوجوانوں نے فیملی اور بچے ہونے میں کم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سنسکرت کی مقبولیت میں اضافہہندوستان کی قدم ترین اور کلاسکی زبانوں میں سے ایک سنسکرت زبان تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ اب ایک ایسے وقت میں جب لوگ اس زبان کو ’مردہ‘ قرار دینے لگے تھے ایک اطلاع کےمطابق لاکھوں لوگ اس زبان کو پورے ملک میں سیکھ رہے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کے ادارے راشٹریہ سنسکرت سنستھان کے مطابق سال 2000 سےسال 2006 کے درمیان اس کے غیر رسمی کورس کے ذریعے ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد نے سنسکرت زبان سیکھی ہے اس میں ڈاکٹر، وکیل، بزنس مین، گھریلو خواتین رٹائرڈ اہلکار سبھی شامل تھے۔ ابھی حال ہی میں کشمیر یونیورسٹی کے سنسکرت کے شعبے میں بتیس مسلم طلبہ نے بھی سنسکرت پڑھنے کے لیے درخواست دی ہے۔ تین برس قبل جب سنسکرت سنستھان کھلا تھا تو اس کے سو مراکز تھے لیکن اب ان کی تعداد ایک ہزار زیادہ ہے۔
070813_bollywood_diary_zb
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/08/070813_bollywood_diary_zb
وویک کی سلمان سے سرِعام معافی
بھائی معاف کردو
وویک اوبرائے نے ہزاروں ناظرین کے سامنے کان پکڑ کر اور ہاتھ جوڑ کو سلّو بھیا (سلمان خان) سے معافی مانگی ہے۔ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کی جانب سے سلّو کو ایوارڈ دیا گیا اور اسی پروگرام میں وویک اپنی فلم ’اوم کارا‘ کے نغمے ’بیڑی جلئی لے‘ پر کوئنا کے ساتھ رقص کر رہے تھے۔ سلّو ناظرین کی پہلی صف میں شلپا شیٹی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ڈانس ختم کرنے کے بعد وویک نے اچانک ہی دونوں کان پکڑے، اپنے گھٹنوں پر جھکے اور ہاتھ جوڑ کر کہا ’بھائی اب معاف بھی کردو‘۔ شلپا کے کہنے پر سلّو نے محض سر ہلا دیا لیکن سلّو شاید وہ وقت نہیں بھولے جب وویک نے پریس کانفرنس طلب کر کے ان کے خلاف بیان دیا تھا۔ ہمیں لگتا ہے سلّو اب آپ وویک کو معاف کر ہی دیجیئے کیونکہ جس وجہ سے انہوں نے آپ کے ساتھ سب کچھ کیا وہ وجہ بھی تو اب ان کے پاس نہیں رہی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ خبر غلط ہے بڑی تیزی کے ساتھ خبریں پھیلیں کہ ایش (ایشوریہ رائے) ماں بننے والی ہیں۔ جتنی تیزی کے ساتھ خبر پھیلی اتنی ہی تیزی کے ساتھ اس کی تردید بھی ہوئی۔ ایب (ابھیشیک) نے فوراً بیان دیا ’ایش ابھی دو سال تک ماں بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہیں‘۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایش نے بالی وڈ اور ہالی وڈ فلموں کو جو تاریخیں دی ہیں اس کے مطابق وہ اب سے دو سال تک سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لے سکتیں تو پھر فیملی بنانے کا خیال بھی کیسے آئے گا۔ لیکن بیچارے ہونے والے دادا بگ بی (امیتابھ بچن) اپنے پوتے کو گود میں کھلانے کے لیے اتنے بے چین ہیں کہ یہ خواہش وہ ہمیشہ میڈیا کے سامنے ظاہر کرنے سے نہیں چوکتے۔ کرشمہ کی واپسی یہ تو ہم بھی عرصے سے سن رہے ہیں کہ کرشمہ ایک بار پھر فلموں میں آرہی ہیں لیکن اب تک کیوں نہیں آئیں؟ ہم نے چھان بین کی تو پتہ چلا کہ وہ اپنی مشہور جوڑی گووندہ کے ساتھ نہیں بلکہ کنگ خان (شاہ رخ)، سلّو ( سلمان ) یا عامر اور اکشے کے ساتھ ہیروئین بن کر پردے پر واپسی چاہتی ہیں۔ بے بی اگر آپ یہی سوچتی ہیں تو پھر بھول جائیے کیونکہ یہ سب تو آج کل کی پریانکا، لارا، دیپیکا اور ودیا کے ساتھ رومانس میں مصروف ہیں۔ کنگنا کا پرفیوم کنگنا کے پرفیوم نے بوبی کو دیوانہ بنا دیا۔ آہاں غلط ۔۔۔۔دیوانہ مطلب غصے سے پاگل۔۔۔ دراصل کنگنا کے ساتھ رومانس کا ایک منظر فلمانا تھا اور بوبی جب بھی کنگنا کے قریب جانے کی کوشش کرتے اس پرفیوم کی خوشبو سے وہ چِڑ جاتے۔ بوبی نے کنگنا کو منع بھی کیا کہ وہ یہ پرفیوم نہ لگائے لیکن جب کوئی اثر نہیں ہوا تو انہوں نے غصے میں کہہ دیا ہے کہ اگر کنگنا نے وہ پرفیوم لگانا نہیں چھوڑا تو وہ بازار میں موجود تمام شیشیاں خرید لیں گے۔ سنا ہے کنگنا خوش ہیں کہ چلو ساری پرفیوم انہیں پھر تحفے میں مل جائے گی۔ پاپا انیل کی منت انیل کپور شاید اپنی فلم کی کامیابی کے لیے کبھی اتنے بے چین نہیں ہوئے ہوں گے جتنے وہ اپنی بیٹی سونم کی آنے والی فلم ’سانوریا‘ کو لے کر بے چین ہیں۔ سونم کی پہلی فلم دیوالی میں نمائش کے لیے پیش ہو گی اور انیل کپور نے اس فلم کی کامیابی کے لیے منّت کے طور پر سگریٹ پینی چھوڑ دی۔ سلّو کی ٹِپ باندرہ بینڈ سٹینڈ کا پان والا پانچ ہزار روپے کی ٹِپ دیکھ کر شاید رات بھر سو نہیں سکا۔ دراصل سلّو ( سلمان خان ) روزانہ کی طرح سائیکل پر جاگنگ کرنے نکلے۔ راستے میں انہیں سگریٹ کی طلب لگی۔ انہوں نے ایک پان کی دکان والے سے اپنا سگریٹ مانگا اور کہا کہ وہ پیسے بعد میں آ کر دے دیں گے۔ پان والے نے انہیں سائیکل سوار سمجھ کر ادھار دینے سے انکار کر دیا۔ سلّو اسی کے پاس والی دکان پر جا پہنچے۔ پان والا سلّو کو پہچان گیا اور اس نے خوشی خوشی سگریٹ کا پیکٹ دے دیا۔ سلّو دوبارہ شام کو اپنی کار میں واپس آئے اور انہوں نے پانچ ہزار روپے کا بنڈل نکال کر اسے دے کر کہا اپنے پیسے لےلو اور باقی تمہاری ٹِپ۔ راکھی کا انداز راکھی ساونت کا بھی جواب نہیں۔ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ فلمساز راہول رویل نے ان کی آنے والی فلم ’بڈھا مر گیا‘ کی تشہیر کے لیے لگائے گئے پوسٹرز میں بیڈ روم کے مناظر کو استعمال کیوں نہیں کیا۔ راکھی کی یہ بات سن کر راہول پریشان ہیں اور وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میری زندگی میں یہ پہلی اداکارہ ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کے بیڈ روم کے مناظر کی تشہیر ہو۔ راہول جی اس کا مطلب ہے کہ آپ نے راکھی کو اچھی طرح پہچانا ہی نہیں۔ دراصل وہ اس ہیپوکریسی کے دور میں شاید ایسی پہلی ’معصوم‘ اداکارہ ہیں جو جیسی باہر ہیں ویسی اندر بھی۔ چھوٹے نواب کی مونچھ چھوٹے نواب (سیف علی خان) آجکل صرف گھر سے سٹوڈیو شوٹنگ کے لیے جاتے ہیں۔ انہوں نے پارٹیوں میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔نہیں وہ نہ تو اداس ہیں اور نہ ہی بیمار بلکہ انہیں یش راج فلمز کی جانب سے سختی کے ساتھ ہدایت ہے کہ وہ اپنا نیا لُک کسی کو نہ دکھائیں۔ سیف بابا نے اپنے نئے رول کے لیے چھوٹی چھوٹی مونچھیں رکھی ہیں اور فلمساز چاہتے ہیں کہ ان کا یہ نیا انداز دنیا کے سامنے ان کی فلم کے ساتھ ہی سامنے آئے تاکہ دنیا دیکھ کر کہہ سکے کہ مونچھیں ہوں تو سیف جیسی۔۔۔۔ رامو کی آگ سننے میں آیا ہے کہ ہدایت کار انیس بزمی کی طرح رامو آج کل دن رات مصروف رہنے لگے ہیں۔ انیس ایک ساتھ سات فلموں پر کام کر رہے ہیں تو رامو دن میں فلم ’سرکار راج‘ بناتے ہیں اور رات میں ’رامو کی آگ‘ کے لیے کام کرتے ہیں۔۔۔پھر یہ لوگ سوتے کب ہیں؟ شلپا کی ڈیمانڈ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ شلپا آج ایک مقبول چہرہ بن گئی ہیں اور اب انہیں تعارف کی ضرورت نہیں رہی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب بالی وڈ میں بھی ان کی مارکیٹ زوروں پر ہو گی لیکن شاید ایسا سوچنا ہی غلط تھا۔ ہمارے خبرو نے ہمیں بتایا کہ راکیش روشن نے شلپا کو اپنی آنے والی فلم ’کریزی فور‘ میں آئٹم نمبر کے لیے سائن کرنا چاہا اور شلپا نے اپنی مارکیٹ ویلیو دیکھ کر پچاس لاکھ روپوں کا مطالبہ کر دیا۔ سنا ہے راکیش نے راکھی ساونت کو سائن کر لیا۔ چک دے خان آخر سو سنار کی اور ایک لوہار کی ہو ہی گئی۔ اپنے کنگ خان (شاہ رخ خان) کی فلم ’چک دے انڈیا‘ شاید کامیابی کے سارے ریکارڈ جلد ہی توڑ دے گی۔ ویسے چند اوسط فلمیں دینے کے بعد ایک کامیاب فلم، خان ساتویں آسمان پر ہیں اور سنا ہے کہ وہ جلد ہی ’جوکر‘ بن کر لوگوں کو ہنسائیں گے اور رلائیں گے بھی۔ رتیک کی اردو ماشااللہ جودھا اکبر فلم کی شوٹنگ تو مکمل ہو گئی لیکن اب ڈبنگ جاری ہے اور رتیک اپنے استاد کمال احمد سے اردو سیکھ رہے ہیں۔ ان کے یہ استاد ان کے ساتھ سٹوڈیو بھی جاتے ہیں تاکہ ڈبنگ میں خبر کو کھبر نہ کہیں۔
070827_sindh_60yrs2_zb
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/08/070827_sindh_60yrs2_zb
پاکستان کے ساٹھ سال اور سندھ (حصہ دوم)
سندھ کی سیاسی تحریکیں
گزشتہ ساٹھ سال کے دوران سندھ میں کئی تحریکیں اٹھیں۔ لیکن ان میں سے تین ایسی تھیں جنہوں نے اسلام آباد کے ایوانوں کو ہلا دیا۔ وہ تحریکیں تھیں 1968 اور 1969 کی ون یونٹ مخالف تحریک، 1983 کی ایم آر ڈی تحریک، اور 1986 کی تحریک۔ ان تینوں تحریکوں کی شدت، مقاصد، کردار وغیرہ الگ الگ تھے لیکن ان تحریکوں کے علاوہ طلباء، مزدوروں اور کسانوں نے بھی کئی تحریکیں چلائیں۔ آٹھ جنوری کی طلبہ تحریک 1953 میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کی اپیل پر کراچی کے طلباء نے احتجاج کیا۔ پولیس نے زبردست لاٹھی چارج کیا اور بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کیں۔ دوسرے دن اس سے بھی بڑا جلوس نکالا گیا۔ جس میں عام شہری بھی شامل ہوگئے۔ پولیس نے گولیاں چلائیں۔ ستائیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ سندھ کے قومی حقوق کی تحریک صوبائی اسمبلی توڑنے کے بعد ضمنی انتخابات ہوئے۔ لبرل رہنما عبدالستار پیرزادہ نے حکومت بنانے کے لیے کراچی کی سندھ کو واپسی، مرکزی اداروں میں سندھیوں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، فوجی افسروں کو سندھ میں زمینیں دینے پر ممانعت جیسے مطالبات رکھے۔ ان دنوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواب افتخار حسین ممدوٹ کو سندھ کا گورنر بنایاگیا جنہوں نے ستار پیرزادہ کی حکومت ختم کرکے ایوب کھوڑو کو بحال کردیا۔ بعد میں ایوب کھوڑو، پیر علی محمد راشدی اور ممدوٹ کے ذریعے ون یونٹ نافذ کردیا گیا۔ ون یونٹ کا قیام ویسے تو بنگال کے ساتھ برابری کے لیے تھا لیکن سندھ کو بھی اس نئے ڈھانچے میں بڑا نقصان ہوا۔ ایک طرف سندھ کے لوگ اپنے معاشی وسائل اور جائیداد ک مسائل محسوس کر رہے تھے تو دوسری طرف انہیں زبان اور ثقافت خطرے میں دکھائی دینے لگی تھی۔ شاید اسی لیے سندھ کی قومی تحریک ایک نکاتی مطالبے پر مرکوز ہوگئی یعنی ون یونٹ کا خاتمہ۔ حیدربخش جتوئی، جی ایم سید اور شیخ عبدالمجید سندھی نے اینٹی ون یونٹ فرنٹ قائم کیا جس کی تائید عوامی لیگ اور آزاد پاکستان پارٹی نے بھی کی۔ اکتوبر سن 58 میں ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا جس کی تیاری اگرچہ خاصے عرصے سے تھی لیکن سندھ کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مارشل لاء ون یونٹ کو بچانے کے لیے لگایا گیا تھا۔ ہاری تحریک پچاس کی دہائی کے آغاز پر سندھ کے ہاریوں نے حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا اور سندھ ٹیننسی ایکٹ منظور کرایا۔ ہاریوں کے حقوق کے لیے بننے والا یہ پہلا قانون تھا۔ اسی کے چند برس بعد ہاریوں نے سندھ میں بٹئی تحریک چلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ زرعی پیداوار کے نصف کا مالک ہاری ہوگا۔ یہ تحریک خاصے علاقوں میں بڑے زور وشور سے چلی۔ بعض مقامات پر ہاریوں نے اپنا حصہ لینے کے لیےباضابطہ مزاحمت بھی کی۔ جیئے سندھ تحریک ان تمام مسلسل واقعات کے بعد سندھ میں پہلے بے قاعدہ اور بعد میں باقاعدہ ایک سوچ، ایک تحریک نے جنم لیا جسے بعد میں جیئے سندھ تحریک کا نام دیاگیا۔ ابتدائی طور پر اس تحریک کو روایتی زمینداروں اور درمیانے طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک کے روحِ رواں جی ایم سید تھے تاہم اس کی بنیادوں میں حیدربخش جتوئی، قاضی فیض محمد، شیخ عبدالمجید سندھی، ہاشم گزدر جیسے کئی رہنما اور کئی گمنام کارکن اور رہنما شامل تھے جن کا اب تاریخ میں کوئی باقاعدہ ذکر نہیں ملتا۔ آگے چل کر جب جی ایم سید نے اسے باقاعدہ تنظیمی شکل دی تو جیئے سندھ تحریک پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ اس کا بھارتی حکومت سے تعلقات ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ تحریک ثقافتی سطح پر رہی اور سیاسی مقاصد کو آگے نہ لا سکی۔ ایوب خان کا سبز انقلاب اور زرعی اصلاحات سندھ کی دیہی آبادی کا کوئی زیادہ بھلا نہ کر سکے۔ البتہ سبز انقلاب کا فائدہ زمینداروں کو ضرور ہوا۔ عجیب بات ہے کہ اس سبز انقلاب سے فائدہ اٹھانے والے زمیندار ہی بعد میں ایوب کے مخالف ہوکر کھڑے ہوگئے۔ اسی اثناء میں ایک زمیندار اور پُرکشش قیادت رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آگئے۔ انہوں نے سندھ کی بے چینی کو استعمال کر کے مقبولیت حاصل کر لی۔ پیپلز پارٹی کا کردار دوہرا رہا۔ وہ صوبائی سطح پر سندھ کے مسائل اور ملکی سطح پر نچلے طبقے کے روٹی، کپڑا اور مکان جیسے مسائل اٹھا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو سندھ کو قابو میں رکھ سکتی ہے۔ ایوب خان اور ون یونٹ کے خلاف تحریک ون یونٹ قیام کے بعد سندھ میں چھوٹی بڑی تحریکیں چلتی رہیں لیکن باقاعدہ تحریک کی شکل اس وقت بنی جب مغربی پاکستان کے گورنر کالا باغ نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا ایک کمشنر کے کہنے پر تبادلہ کیا۔ چار مارچ 1967 کو سندھ یونیورسٹی کے طلباء جب کیمپس سے بسوں میں سوار ہو کر حیدر آباد شہر میں مظاہرہ کرنے آ رہے تھے تو شہر کے باہر ہی روک کر لاٹھی چارج کیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ اس واقعے نے سندھ میں سیاسی سرگرمی کو نئی جِلا بخشی اور یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کے بعد اس تحریک میں سندھ کے ادیب، دانشور، اور عام لوگ بھی شامل ہوگئے۔ 1968 اور 1969 کی تحریک زیادہ شدید تھی جس نے نہ صرف سندھ کے اندر بلکہ پورے ملک میں ایک انقلابی صورتحال پیدا کردی تھی۔ اس تحریک میں اگرچہ قوم پرستی کا رنگ شامل تھا لیکن اپنے جوہر میں یہ تحریک طبقاتی اور جمہوری تھی۔ یہ واحد موقع تھا جب سندھ کی دیہی اور شہری آبادی متحد تھی اور تمام لسانی، قومی، مذہبی تعصبات سے بالاتر تھی۔ شہری علاقوں میں مزدور تحریک چلا رہے تھے اور دیہی علاقوں میں کسان اور درمیانہ طبقہ بغاوت کیے ہوئے تھا۔ اس دور میں قوم پرستوں کے تمام تر کام کے باوجود بھٹو نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور جب ستّر کے انتخابات ہوئے تو لوگ پیپلز پارٹی اور بھٹو کے عشق میں اس حد تک چلے گئے کہ ’ووٹ پی پی کا اور سر مرشد کا‘۔ تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب کو جانا پڑا لیکن وہ اقتدار اپنے ساتھی جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے۔ ستّر کے انتخابات سے پہلے یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے اور صوبے بحال کرنے کا اعلان کیا تو کراچی سندھ کو واپس مل گیا۔ اس سے سندھی آبادی کو خاصی تشفی ہوئی۔ عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک مرتبہ پھر سندھ کے لوگوں نےتحریک کے تسلسل کو جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ انتخابی فہرستیں سندھی میں بنائی جائیں۔ اس کے لیے بھوک ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جو حیدرآباد شہر کے مشہور حیدر چوک پر کئی دنوں تک جاری رہا۔ اس موقع پر ایک بار پھر سندھی مہاجر فسادات کرانے کی کوشش کی گئی۔ جب صدر جنرل یحییٰ خان نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کیا تو بھٹو نے بطور مغربی پاکستان کے لیڈر کے یحییٰ خان کا ساتھ دیا اور بنگلہ دیش میں سِول لڑائی شروع ہوگئی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران سندھ نے اکّا دکّا اظہار کیا تاہم کوئی بھرپور اظہار سامنے نہیں آیا۔ 1971 میں جب پی پی انقلاب کی راہ چھوڑ کر اصلاحات کی طرف آئی تو یہ تحریک دم توڑ گئی اور معاملات لسانی اور قوم پرستی کی بنیادوں پر تقسیم ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کی اصلاحات نے قومی سوال کو حل کرنے کی بجائے اس کو مزید الجھایا اور شدید کیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مہاجروں کی نئی کھیپ جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے سندھ میں آنا شروع ہوگئی۔ یہ کھیپ بھی لاکھوں میں تھی۔ سندھ زبان کا بل اور کوٹہ سسٹم کا نفاذ سندھ کے دیہی آبادی کا تو کوئی بھلا نہیں کر پایا لیکناس سے سندھ کی شہری آبادی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوگئی۔ اس بات نے مہاجر، پٹھان اور پنجابی آبادیوں میں تنگ نظر چھوٹے مقامی لیڈروں کو جنم دیا۔ اس زمانے میں سندھی مہاجر فسادات ہوئے جس میں فریقین کے درجنوں افراد ہلاک ہوگئے۔ یہیں سیاست میں تشدد کا عنصر آنا شروع ہوگیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سندھ میں لسانی فسادات پیپلز پارٹی کے ہی دور میں ہوئے۔ یہ فسادات ایک طرح سے مہاجر آبادی کی ناراضگی کا اظہار تھے جو اقتدار سے محروم ہو چکی تھی۔ بعد میں ان کے اطمینان کے لیے سندھ میں اردو سندھی دونوں کو سرکاری زبان بنایا گیا اور اسی کے ساتھ سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیوی بیگم لیاقت علی خان کو سندھ میں گورنرمقرر کیا گیا اور ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد سندھیوں کے تسلّط کا خوف محسوس کرنے والے مہاجروں کے اطمینان کے لیے غیر تحریری طور پر یہ معاہدہ طے ہوا کہ سندھ کا گورنر سندھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا آج تک اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ مہاجروں کے اس بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے سندھی قوم پرست طلباء نے اردو بولنے والے لیکن پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر بدیع الحسن زیدی کو کراچی سے حیدر آباد آتے ہوئے جام شورو کے پاس اغواء کر لیا۔ انہیں کئی دن بعد مذاکرات کے ذریعے بازیاب کرایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے سندھیوں کو اربنائزیشن (شہری) دھارے میں شامل ہونے کے لئے کچھ جگہ ملی۔ ایم آرڈی تحریک 1979 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے اور 1979 میں پھانسی نے سندھ میں قومی تحریک کو بے انتہا طاقت دی۔ اس کی علامت بھٹو تھا جو سندھ سے تعلق رکھتا تھا۔ ضیاء کا پس منظر اور اس کے کام سندھ میں اس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک جو ملک گیر تھی لیکن اس کا عملی اظہار کچھ اس طرح ہوا کہ سندھ میں اس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ یہ تحریک سندھ کی تحریک کے طور پر ہی پہچانی جانے لگی۔ ضیاء نے سندھ میں جو مظالم کیے وہ کسی طور پر انگریز سامراجیوں سے کم نہ تھے جو انہوں نے برصغیر میں روا رکھے تھے۔اس بات نے سندھ میں فوجی حکومت کے خلاف ایک طاقتور تحریک کو جنم دیا۔ سرکاری اعداد وشمار یہ ہیں کہ اس دور میں 1263 لوگوں کو قتل کیا گیا اور ہزاروں کو زخمی کیا گیا۔ مظاہرے، جلوس، قید، کوڑے، پھانسیاں اور فوج کے ہاتھوں لاکھاٹ (سکرنڈ) اور میہڑ (دادو) میں مظاہرین کی ہلاکت اس تحریک کے بہت بڑے واقعات تھے۔ ایم آر ڈی تحریک کے دور میں بہادری اور شجاعت کے کئی ایک واقعات ہوئے جو اب سندھ میں لوک ادب کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سندھ کی دیہی آبادی نے فوجی آمریت کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے مکمل طور پر بغاوت کا اعلان کیا۔ سندھ میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جس نے اس تحریک میں حصہ نہ لیا ہو۔ اگرچہ اس کا رنگ ایک حد تک قوم پرستانہ تھا لیکن نچلی سطح پر عمومی طبقاتی تھی۔ یہ تحریک اس وجہ سے ناکام ہوئی کہ حکمران سندھ اور دیگر صوبوں کے شہروں میں لسانی بینادوں پرنفرت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس تحریک کے توڑ کے لیے کراچی میں ایم کیو ایم، سندھ پنجابی پشتون اتحاد اور مذہبی بنیاد پرستی کو ابھارا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک اپنی طبقاتی شکل اختیار کر رہی تھی۔ اس کے باوجود یہ تحریک جاری رہی۔ اس دور میں جب جب قومی تضادات طبقاتی تضادات کے ساتھ جڑے تو معاملہ خاصا گرم ہو گیا۔ اس تحریک اور سندھ میں ضیاء کے خلاف نفرت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں سندھ سے محمد خان جونیجو کو وزیرِ اعظم بنایا گیا لیکن آگے چل کر جنرل ضیاءالحق نے انہیں برطرف کر دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک مزید کامیاب ہو جاتی اگر ایم آر ڈی اور پیپلزپارٹی کے رہنما انقلابی یا طبقاتی مطالبات سے گریز نہ کرتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو صوبوں اور شہری اور دیہی آبادی کے درمیان مزید بھائی چارہ ہوتا لیکن حکمران طبقہ جس میں ایم آر ڈی کے لیڈران بھی شامل تھے اس سے ڈرگئے تھے۔ انیس سو چھیاسی کی تحریک انیس سو چھیاسی کی تحریک ضیاء کے تابوت میں آخری کیل تھی۔ اس تحریک کا بڑا واقعہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور ملک بھر میں نکالی گئی ریلیاں تھیں لیکن بینظیر بھٹو کا اقتدار میں آنا اور جمہوری دور کی آمد معاہدوں کی نذر ہوگئے اور حقیقی مقاصد حاصل ہی نہ ہو سکے اور نہ ہی کوئی بہت بڑی تبدیلی آ سکی۔ یہ رسمی جمہوری دور چھوٹی قومیتوں کے لیے مزید تکلیف کا باعث بنا کہ مجموعی طور پر اظہار اور تقریر و تحریر کی آزادی نے ان لوگوں میں یہ احساس مزید بڑھایا کہ وہ کتنی تکلیف میں ہیں۔ وہ اپنی عدالتوں، اپنے افسران ، ثقافت وغیرہ سے محروم ہیں۔ شہری آبادی کی تحریک 1984 میں ایم کیو ایم وجود میں آئی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کے مقاصد میں چاہے کچھ بھی رکھا گیا ہو لیکن دراصل مہاجر اس پوزیشن کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے جو انہیں پاکستان بننے کے بعد ایک عشرے تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور فیصلہ سازی میں حاصل تھی۔ یہ پوزیشن دراصل کراچی کے مرکزی دارالحکومت بننے اور پنجاب اور پٹھان آبادی کے بڑے پیمانے پر اس شہر میں آ کر بسنے، ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور منتقل ہونے سے خاصی متاثر ہوگئی تھی۔ ایک اور نقصان اس وقت ہوا جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ یوں مرکزی چیزوں پر پنجابی اور پٹھان نے نہ صرف اپنی حصہ داری بڑھا دی بلکہ باقی حصے میں سندھیوں کو بھی شراکت کرا دی تو مہاجر اپنے آپ کو تنگ محسوس کرنے لگے۔ یوں مہاجروں میں اپنی الگ سیاست کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ ایم کیو ایم کا پہلا جھگڑا پٹھانوں کے ہی ساتھ ہوا جب بشرا زیدی کیس میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ ضیاء حکومت کے غیر جماعتی انتخابات نے ملکی اور صوبائی سیاست پر زیادہ منفی اثرات ڈالے۔ پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے چکر میں قوم پرستوں کو مراعات دینے یا خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حکومت کا جانبدارانہ رویہ تھا جس کے جواب میں مہاجریت کو ابھار ملا۔ ایم کیو ایم کا فروغ ریاست کی سطح پر محنت کش طبقے کو نسلی، لسانی اور قوم پرستانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا تھا۔ یہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ والی پالیسی کا تسلسل تھا۔ افغان جنگ اور اس کی طرف پاکستان کے رویے کے نتیجے میں پندرہ لاکھ سے زیادہ افغانی سندھ میں آگئے جن کی اکثریت اب بھی کراچی میں رہ رہی ہے اور اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جیئے سندھ نے مارشل لاء حکومت کی جزوی مخالفت اور حمایت والی پالیسی اختیار کی۔ ضیاء کو جی ایم سید کی عیادت کرنے جناح ہسپتال آنا پڑا اور ایم آر ڈی تحریک کے دوران سید کے آبائی گاؤں سن بھی جانا پڑا۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں بائیں بازو کی جماعت اور لیڈروں کی مقبولیت بڑھنا شروع ہوئی۔ اس دور میں کامریڈ جام ساقی اور رسول بخش پلیجو لیڈر کے طور پر ابھرے۔ پاکستان کی تاریخ میں سندھ سے تین وزیر عظم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، اور بینظیر بھٹو۔ ان تینوں کو فوجی حکومت نے ہٹایا جس وجہ سے سندھ میں فوج کے خلاف نفرت بڑھی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم اور گریٹر تھل کینال کی تعمیر پر سندھ کی قوم پرست، مذہبی اور وفاق پرست جماعتیں سب متفق ہیں اور وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ اس وقت کالا باغ ڈیم اور وسائل کی تقسیم ایسے معاملات ہیں جن سے دوریاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔
150929_migrants_stories_bbc_corrospondents_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/09/150929_migrants_stories_bbc_corrospondents_zs
پناہ گزینوں کی یادگار تصاویر
لز ڈیوسیٹ
بی بی سی کے نامہ نگار اور کیمرہ پرسن یورپ میں بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کی آمد کے معاملے کی کوریج کر رہے ہیں اور کچھ جب وہاں جاتے ہیں تو تصاویر بناتے ہیں۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ہمیں چند یادگار تصاویر مختصر حوالے یا کہانی کے ساتھ بھیجیں جو انھوں نے بنائی ہوں۔ ہم تین نوجوان شام کے شہر حلب سے سفر کر کے یہاں پہنچے اور شمالی یونان کے اس پل پر کسی کا انتظار کر رہے ہیں۔اِن لوگوں کو امید ہے کہ اِن کے خاندان کا چوتھا فرد 23 سالہ ولید اب بھی زندہ ہے۔ اُن کے بھائی احمد جو اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے انھوں نے بعد میں مجھ سے اپنی تصویر لینے کی گزارش اِس امید کے ساتھ کی کہ شاید ولید اُس تصویر کو دیکھ سکے۔ پانچ روز بعد ولید کی لاش دریا کے کنارے درخت کے پاس سے مل گئی۔ ولید نے تیر کر دریا پار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ یہ بات نہیں جانتا تھا کہ دریا کو پار کرنے کے لیے پل موجود ہے۔ یورپ کے اس سفر کی انھیں خوفناک قیمت ادا کرنا پڑی لیکن اُن کا کہنا ہے کہ یہ خدا کی جانب سے لکھی گئی قسمت کا حصہ تھا۔ بیتھنی بیل میں نے ہنگری کی سرحد کے ساتھ آسٹریا میں نیکِلس ڈورف کے لوری پارک میں ایک مصنوعی پیر دیکھا جو کونے میں رکھا ہوا تھا۔ یہ جگہ آسٹریا میں داخل ہونے کے بعد مہاجرین کا پہلا پڑاؤ ہے۔ بیشتر افراد جو اپنے پیروں پر سرحد پار کرکے یہاں پہنچتے ہیں، آسٹریا کے حکام اور ریڈکراس کے ذمہ داران ان کا استقبال کرتے ہیں اُنھیں غذا، دوائیاں اور صاف کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ بہت سارے اپنے پرانے جوتوں کو جو انتہائی خستہ حالت میں ہوتے ہیں اُنھیں آسٹریا کے خیراتی اداروں کی جانب سے ملنے والے نئے جوتوں سے تبدیل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد ضائع جوتوں اور گندے کپڑوں کا ڈھیرسا لگ گیا ہے لیکن مصنوعی ٹانگ ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ یہ کس کی تھی؟ اس کی ضرورت کیوں تھی؟ کیا حکام کی جانب سے اُس شخص کو نئی ٹانگ دی گئی تھی اور اب وہ کہاں ہے؟ بین براؤن تھکن سے چور اور حاملہ ہونے کے ساتھ وہ کروشیا اور ہنگری کی سرحد پار کر کے بس بریمنڈ کے مقام پر پہنچی تھیں۔ وہ اب مزید چلنے کے قابل نہیں تھیں۔ حکام اس خاتون کے لیے سٹریچر لے کر آئے اور اُنھیں اس سرحدی علاقے سے لے جایا گیا۔ میں اُن کی مدد نہیں کر سکتا تھا اور حیران کہ آیا ان کا بچہ ہنگری میں پیدا ہوگا، یورپ میں آنکھ کھولنے والا ایک نیا بچہ۔ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ایک روز وہ 2015 میں پناہ گزینوں کے عظیم الشان سفر کی کہانی سنے گا جو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ایک نئے زندگی کے لیے کیا گیا۔ گائے ڈی لوؤنی یہ لوگ سربیا سے کروشیا کی جانب سِڈ کے قریب سرحد پار کر کے آئے ہیں۔ یہ اُن پہلے پناہ گزینوں میں شامل تھے جنھوں نے گزشتہ روز سربیا سے متصل ہنگری کی سرحد کا راستہ بند ہونے کے باعث اس راستے کو اختیار کیا۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اُنھیں کھیتوں کے کونے پر چھوڑ کر صحیح سمت کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا یہاں تک کہ اس مقام سے سرحد صرف چند سو گز کے فاصلے پر تھی۔ اس چھوٹے سے گروپ میں شامل افراد کی کیفیت کافی پرجوش تھی اور وہ چلا کر کہہ رہے تھے کہ ’آپ کا شکریہ سربیا!‘۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ نوجوان سیلفی بنا رہے تھے۔ دیگر لوگ گھر پر موجود اپنے اہلخانہ کو حالات سے باخبر رکھنے کے لیے ویڈیوز بنارہے تھے۔ میں عربی نہیں بول سکتا لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ’ہم یہاں سربیا میں ہیں اور کروشیا میں داخل ہونے والے ہیں۔‘ ان کے سکون کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اینا ہولیگن میں نے یہ تصویر سورج نکلنے کے چند لمحوں بعد آسٹریا کی سرحد پر واقع نیکِلس ڈورف میں لی تھی۔ ہم ساری رات لوگوں سے بات کرتے رہے جو وہاں پہنچے تھے۔ محمد گفتگو کے دوران ٹوٹ سے گئے تھے جب اُنھوں نے وہ سب یاد کیا کہ کس طرح اُن کی کشتی ڈوبنے لگی اور اُن کے بچے پانی پر تیرنے لگے ۔ اُن کے بچے کمبل میں بیٹھے تھے اور ڈبل روٹی کو توڑ رہے تھے، اُن کے سوپ کے پیالوں میں سے بھانپ اڑ رہی تھی۔ بچے اِس بات سے بالکل انجان تھے کہ وہ چند روز قبل موت کے منہ سے بچ کر نکلے ہیں۔ حلب سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ شام چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے۔ اُن کا کہنا ہے اُنھیں حالات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ ’خانہ جنگی کے تقریباً پانچ برسوں بعد اب بہت سارے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں کیونکہ وہ ناامید ہو چکے ہیں۔‘ ہم سب تھکے ہوئے اور کانپ رہے تھے اور جب کیمپ کے افق سے سورج نمودار ہوا تو خیموں کے اندر سے اور کمبل اوڑھے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکل آئے اور بسوں کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ میرے لیے یہ تصویر اُس منظر کو بیان کر رہی ہے کہ کس طرح پناہ گزین اور تارکین وطن یورپ کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں انھیں اپنے بہتر مستقبل کی روشنی نظر آتی ہے۔ وِل ورنن یہ تصویر ایک نوجوان پناہ گزین خاتون کی ہے جو شاید شامی ہے۔ میں نے یہ اس وقت بنائی جب وہ باہر کھڑی تھی اور اس کی ٹی شرٹ نامناسب حد تک موزوں تھی۔ جب میں اس کے پاس پہنچی تو وہ ابتدائی طور پر تھوڑی سی ڈری ہوئی لگ رہی تھی۔ جب میرے کیمرہ مین بھاسکر سولنکی نے اس کی تصویر بنائی۔ وہ یونان کے جزیرہ لیس بوس کی بندرگاہ میتھلینی میں کئی گھنٹوں سے لائن میں کھڑی تھی اور آخر کار وہ ہزاروں پناہ گزینوں کی لائن میں سب سے آگے پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ ترکی سے یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کے لیے مرکزی داخلی راستہ ہے۔ وہ خوف میں تھی کہ میں کوئی افسر ہوں جو اُس کو لائن میں بیچھے کی جانب بھیج سکتا ہے۔ میں نے ایک شامی شخص کی مدد سے جو انگریزی بول سکتا تھا کوشش کی اُس کو سمجھا سکوں کہ اس کی ٹی شرٹ کس حد تک مفید ہے۔ ہمیں زبان کی مشکلات سے گزرنا پڑا تو آخر کار میں نے اُن کے شوہر سے سکارف ہٹانے کو کہا تاکہ میں تصویر لے سکوں۔ مجھے اس تصویر میں اُن خاتون کا چہرہ بہت پیارا دکھائی دے رہا تھا۔ جیمز رینلڈز سربیا اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایک پہاڑی میں اپنے ساتھیوں ٹونی براؤن اور ٹم فیسی کے ساتھ کھڑا تھا جنھوں نے تصویر بنائی تھی۔ ہم نے سامنے نظر آنے والی ایک وادی کی جانب نظر دوڑائی اور دیکھا کہ سینکڑوں کی تعداد میں پناہ گزین اور تارکین وطن ایک طویل راستے پرگامزن تھے۔ قطار بالکل سانپ کی مانند لگ رہی تھی۔ نوجوان اور مضبوط لوگ آگے تھے اور ان کے اہلخانہ اور بچے ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ بعد میں وہ لکیر مزید پتلی ہوتی گئی۔ پیچھے کی جانب سست بیمار اور کمزور افراد تھے۔ ہماری ملاقات اُن کے ہمراہ ایک توانا شخص آزات سے ہوئی۔ وہ اپنی پشت پر بوڑھی والدہ کو اٹھائے بغیر رکے چل رہے تھے۔ میں نے اِس خبر کی کوریج کے دوران کئی اہم مناظر دیکھے لیکن میں اس شخص کو نہیں بھول سکتا جو اپنی والدہ کو پیچھے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ برینو بول پیپ میں نے کشتی کی ایک تصویر لی جو خصوصی طور پر 1700 پناہ گزینوں کو یونان کے جزیرے لیسبوس سے ایتھنز لے کر پہنچی۔ بورڈنگ کے دوران جیسے جیسے شام گزری کھڑکیاں آہستہ آہستہ مرد، خواتین اور بچوں سے بھر گئیں۔ جزیرے تک پہنچنے والے تمام افراد ترکی سے ربر کی کشتیوں میں پہنچے تھے۔ تمام لوگ مغربی یورپ جانے کی خواہشمند تھے اور زیادہ تر جرمنی جانے کے۔ جہاز کے تلے کئی ٹینٹ لگے تھے جو اس بندرگاہ میں دوسری کشتیوں کے انتظار میں موجود افراد استعمال کررہے تھے۔ جب یہ تصویر میں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تو اس پر تصویر پر کافی ردعمل آیا جو دماغ میں محفوظ رہ گیا۔ ’غلط ہجے‘ ایک شخص نے جہاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اِس کا نام ’دہشت گرد ہونا چاہیے تھا۔‘۔ ایک اور نے لکھا کہ یہ نام ’ مسافروں میں سے کچھ کا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔‘۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ میں جہاز کے کونے میں لکھے الفاظ پر غور نہیں کیا تھا۔ رون براؤن 23 ستمبر کو کروئیشیا میں اوپاٹوویک کے ایک کیمپ میں ایک ماں اپنے ننھے بچے کو لے کر پہنچی۔ اگرچہ اُس وقت سینکڑوں کی تعداد میں پناہ گزین بسوں کے زریعے سے آرہے تھے جن میں زیادہ تر خاندان اور کم عمر بچوں کے ساتھ آئے تھے، تمام کے تمام خاموش تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اب تک کے اس سفر سے تھک چکے تھے۔ عبدالجلیل عبدالرسولو ایک ویڈیو جرنلسٹ کی حیثیت سے میں نے بہت پریشان کن مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا ہے۔ جب پناہ گزین اور تارکین وطن سرحدوں پر پھنس گئے اور ریل میں سوار ہونے کے لیے سب کو جلدی تھی اور وہ اپنے روتے ہوئے بچوں کو دھکیل رہے تھے۔ ہر جگہ میں نے لوگوں کو اپنے ماضی سے خوف زدہ اور غیر یقینی مستقبل کے بارے میں فکر مند محسوس کیا ہے۔ لیکن جب میں نے ویانا میں ایک کیمپ میں پہنچا، جہاں اُنھیں عارضی طور پر رکھا جاتا تھا۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے بیٹے کو کھانا کھلا رہا تھا۔ دونوں نے انتہائی خوشی سے تصویر کھنچوائی اور اس کے بعد بچے کے والد نے کہا کہ ’میرا بچہ اب محفوظ ہے۔‘ نِک تھورپ جون کے آغاز میں مشرقی بلغاریہ کے پناہ گزین کے کیمپ میں نے مراد (لاس ویگاس کی ٹی شرٹ میں دائیں جانب)، ان کے بھائی، اُن کے بہنوئی اور ایک یزیدی دوست سے ملاقات کی۔ وہ ترکی کے شہر ایڈرین کے پہاڑوں پر 13 اور 14 گھنٹوں کے سفر کے بعد یہاں پہنچے۔ وہ یہاں ایک مہینے سے مقیم ہیں انھوں نے کئی بار سرحد پار کرنے کی کوششیں کی اور ساتویں کوشش میں ترکی اور بلغاریہ کی سرحد پار کی۔ یہ شام سے تعلق رکھنے والے کرد ہیں جو اپنے خاندانوں کے ہمراہ سفر کررہے ہیں جس میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ اس گروپ میں انجینئیرنگ کے طالبعلم، دندان ساز، انگریزی کے استاد بھی موجود ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں کسی بھی ملک میں جو اُنھیں قبول کرلے۔
130704_book_review_rwa
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/07/130704_book_review_rwa
برصغیر میں اردو غزل گائیکی کے 110 سال
نام کتاب: غزل گائیکی
کتاب کی طباعت اور پیشکش عمدہ ہے اور غزل سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی دلچسپی کی حامل ہے مصنف: انجم شیرازی صفحات: 288 قیمت: 450 روپے ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، 2/46 مزنگ روڈ، لاہور sanjhpks@gmail.com اردو میں موسیقی پر کتابیں انتہائی کم ہیں اور ان میں ایسی کتابیں تو اور بھی کم ہیں جن سے ایک ایسا عام آدمی بھی فائدہ حاصل کر سکے جو کچھ جانے بغیر، موسیقی سنتا اور لطف اٹھاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ ایسی کتابوں کے لکھنے والوں کا عطائی ہونا ہے۔ یعنی موسیقی انھیں وراثت نہیں ہوئی۔ انھوں ذاتی تگ و دو اور میراثیوں کی قربت، عنایت اور عطا سے موسیقی سیکھی اور معلومات جمع کیں اس لیے بعید نہیں کہ وہ اس پر لکھتے ہوئے اُس دقت کو اپنے اسلوب کا حصہ بننے سے روک نہ پاتے ہوں جو انھیں اس علم کو سیکھنے میں پیش آئی ہو یا نفسیاتی طور پر خود کو اپنے اساتذہ کی جگہ رکھ کر ان کی زبان بولنے لگتے ہوں۔ یہ محض میرا قیاس ہے، لیکن میں نے موسیقی کے بارے میں جو دو ایک کتابیں دیکھی ہیں اور مختلف رسالوں میں گاہے ماہے جو مضامین دیکھے ہیں یہ تاثر انھی سی پیدا ہوا ہے۔ شاید کوئی دو سال پہلے کی بات ہے محترم عقیل عباس جعفری نے موسیقی کے بارے میں شاہد احمد دہلوی کے مٰضامین کو اکٹھا کر کے ’مضامینِ موسیقی‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس لیے میں نے انھی سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یوں تو اردو میں موسیقی پر 30، 35 کے لگ بھیگ کتابیں ہوں گی لیکن ان میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو موسیقاروں اور گانے والوں اور والیوں کے بارے میں ہیں۔ صرف موسیقی کے فن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ 20 ہوں گی۔ ان 20 میں ’مضامین موسیقی‘ کے علاوہ زیڈ اے بخاری کی ’راگ دریا‘ اردو میں لکھی جانے والی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے‘۔ اس کے علاوہ استاد بدرالزماں کے بارے پڑھا تھا کہ ان کی کوئی 10 سے زیادہ کتابیں موسیقی پر آ چکی ہیں لیکن بد قسمتی سے مجھے ان میں سے کسی بھی کتاب کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی ایک کتاب صدائے موسیقی کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس بارے میں کوئی پانچ چھ ہفتے قبل کسی اخبار میں کوئی تحریر پڑھی تھی۔ اب یہی بات یاد رہ گئی ہے کہ ان کی کتاب عام اور خاص دونوں طرح کے لوگوں کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہے۔ انجم شیرازی کی کتاب صرف غزل گائیکی اور گانے والوں / والیوں تک محدود ہے۔ اس کے آخر جن ماخذات و کتابیات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں استاد اختر علی خاں و استاد ذاکر علی خاں کی ’نورنگِ موسیقی‘، چوہدری ظہور کی ’جہانِ فن‘، محمد نواب علی خان کی ’معارف النغمات‘ اور خود انجم شیرازی کی ’مبادیاتِ موسیقی‘ سمیت کل چار کتابیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ رسائل نے بھی موسیقی نمبر شائع کیے جن میں ’آج کل‘ کا موسیقی نمبر اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو میں اس موضوع پر کام کرتے ہوئے کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ موسیقی کی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور اب کئی ادارے بھی بن گئے ہیں جن میں کلاسیکی موسیقی کی تربیت دی جاتی۔ خود انجم شیرازی کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 1979 میں رضا کاظم کے قائم کردہ ادارۂ موسیقی میں پہلے استاد غلام حسن شگن اور پھر استاد لطافت حسین خاں سے تعلیم حاصل کی۔ انجم شیرازی نے اس کتاب میں غزل گائیکی کا بہت مناسب تعارف کرایا ہے۔ غزل گائیکی کا گائیکی کی دوسری ہئیتوں سے فرق واضح کیا ہے۔ غزل گائیکی کے مختلف انگ جیسے ٹھمری، خیال، کافی،گیت، قوالی، مجرائی اور لوک کی وضاحت کی ہے۔ اس کے بعد وہ غزل گائیکی کی تاریخ بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ سنہ 1902 میں ریکارڈنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے گوہر جان کی آواز میں ریکاڈنگ کی گئی، اس سلسلے میں کچھ حلقے ساشی مکھی اور فینی بالا کے نام بھی لیتے ہیں۔ انجم شیرازی نے گائیکی کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور گوہر جان اور ان کی پہلی غزل ’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں عنایت بائی، برکت علی، کے ایل سہگل، ماسٹر مدن، کملا جھریا، جوتیکا رائے، مختار بیگم، ملکہ پکھراج، اختری بائی فیض آبادی (بیگم اختر)، مجدد نیازی، سی ایچ آتما، شمشاد بائی، نیلم بائی، خان مستانہ، زہرہ بائی، کانن دیوی، سریندر شانتا آپٹے، جہاں آرا کجن، پنکھج ملک، امیر بائی، خورشید بانو، وڈیا ناتھ سیٹھ، سریندر کور، راج کماری، طلعت محمود، نورجہاں، زاہدہ پروین، محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوشلے، کشور کمار، مبارک بیگم، منور سلطانہ، سلیم رضا، منیر حسین اور نسیم بیگم شامل ہیں۔ دوسرا دور مہدی حسن سے شروع ہوتا ہے اور اس میں وہ فریدہ خانم، اقبال بانو، غلام علی، پرویز مہدی، امانت علی خان، اعجاز حسین حضروری، حسین بخش گلو، شوکت علی، رونا لیلیٰ، حبیب ولی محمد، ناہید اختر، نیّرہ نور، اعجاز قیصر، بلقیس خانم، تصور خانم، طاہرہ سید، استاد ظفر علی خاں، منی بیگم، عابدہ پروین، شاہدہ پروین، سلامت علی و عذرا سلامت، غلام عباس، فدا حسین، مسعود ملک، حامد علی خاں، اسد امانت علی خاں، امتیاز علی خاں و ریاض علی خاں، استاد رئیس خاں اور ٹینا ثانی شامل ہیں۔ تیسرے دور میں جگجیت سنگھ، چترا سنگھ، انوپ جلوٹا، بھوپندر سنگھ، متالی سنگھ، پنکھج اداس، سریش واڈیکر، چھایا گنگولی، طلعت عزیز، چندن داس، ہری ہرن، استاد احمد حسین، استاد محمد حسین، مدھو رانی، راجندر مہتہ، نینا مہتہ، اشوک کھوسلہ، راج نتن، سمن یادیو، نصرت فتح علی، گلبہار بانو اور خلیل حیدر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ انجم غزل کے ان مختلف ادوار کو ریکارڈنگ کے آغاز سے شروع کرتے ہیں۔ ورنہ تو غزل یقینًا درباروں اور کوٹھوں پر ہی نہیں بازاروں میں بھی پہلے سے موجود تھی لیکن یہ تاریخ غالبًا محفوظ نہیں ہے۔ ان تمام گلوکاروں اور ان کے انداز کا مناسب تعارف بھی دیا گیا ہے اور کئی جگہ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں کے بارے میں راگوں اور مسیقاروں کی تفصیل بھی ہے۔ کتاب کی طباعت اور پیشکش عمدہ ہے اور غزل سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی دلچسپی کی حامل ہے۔
sport-44462141
https://www.bbc.com/urdu/sport-44462141
روس میں فیفا ورلڈ کپ 2018 کا فاتح کون ہو گا، تاریخ کیا بتاتی ہے؟
32 ممالک، ایک فاتح!
مگر آپ کیسے پیشنگوئی کر سکتے ہیں کہ ماسکو میں 15 جولائی کو ورلڈ کپ کون جیتے گا؟ بی بی سی سپورٹس نے ماضی کے رجحانات اور شماریات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ 31 ٹیموں کو پیچھے چھوڑ کر یہ ورلڈ کپ کون جیتے گا۔ یہ بھی پڑھیے آپ کے خیال میں 2018 کا فٹبال ورلڈ کپ کون جیتے گا؟ فٹبال ورلڈ 2018: کون کھیلے گا اور کون نہیں؟ ورلڈ کپ 2018: وہ سب کچھ جو آپ جاننا چاہتے ہیں ورلڈ کپ جیتنے کے لیے مندرجہ ذیل عناصر ضروری ہیں۔ درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں ہونا 1998 میں ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد بڑھا کر 32 کر دی گئی تھی۔ تب سے اب تک ورلڈ کپ جیتنے والی تمام ٹیمیں درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں سے تھیں۔ آخری مرتبہ جب کسی ٹیم نے درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں نہ ہوتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا وہ 1986 کا ورلڈ کپ تھا جب ارجنٹائن نے میراڈونا اور ان کے یادگار ’ہینڈ آف گاڈ‘ کی مدد سے ٹرافی حاصل کی تھی۔ اس لحاظ سے آئندہ ورلڈ کپ کے لیے 24 ٹیمیں باہر ہو جاتی ہیں۔ آپ میزبان نہ ہوں گذشتہ 44 سال سے روایت ہے کہ میزبان ٹیم کو سیڈڈ مانا جاتا ہے اسی لیے روس ان میں شامل ہے ورنہ 66ویں عالمی رینکنگ کے ساتھ روس بھی ہمارے تجزیے میں باہر ہو چکا ہوتا۔ تاہم ماضی کے برعکس ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا کامیابی کا راستہ نہیں۔ 1930 سے 1978 کے 11 ورلڈ کپ مقابلوں میں پانچ میزبان کامیاب ہوئے۔ تاہم اس کے بعد سے گذشتہ نو ٹورنامنٹس میں صرف ایک مرتبہ (1998 میں فرانس) میزبان ملک کامیاب رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا یا جنوبی افریقہ کے میزبان ہوتے ہوئے ویسے ہی ورلڈ کم جیتنے کے امکان کم تھے مگر 1990 میں اٹلی، 2006 میں جرمنی، اور 2014 میں برازیل کو بھی میزبانی مہنگی پڑی۔ مضبوط دفاع 32 ٹیموں کے ورلڈ کپ کے دور میں پانچوں چیمپیئنز کے خلاف ان کے سات میچوں میں کبھی بھی مجموعی طور پر چار سے زیادہ گول نہیں ہوئے۔ اپنی باقی سات ٹیموں کو دیکھیں تو پولینڈ کا دفاع سب سے کمزور ہے اور کوالیفائنگ راؤنڈ میں اس نے اوسطً 1.4 گول دیے ہیں۔ جرمنی اور پرتگال کے خلاف فی میچ 0.4، بیلجیئم اور فرانس کے خلاف 0.6، برازیل کے خلاف 0.61، اور ارجنٹائن کے خلاف اوسطاً 0.88 گول ہوئے ہیں۔ یورپی ملک ہو ورلڈ کپ کی فاتح ٹیمیں اب تک یورپ یا جنوبی امریکہ سے آئی ہیں۔ ماضی میں یورپی ٹیموں کا یورپ سے باہر ریکارڈ اچھا نہ تھا مگر سپین کی جنوبی افریقہ میں کامیابی اور جرمنی کی برازیل میں فتح نے اس رجحان کو توڑ دیا۔ مگر جب ٹورنامنٹ یورپ میں ہوتا ہے تو تقریباً ہمیشہ کامیابی کسی یورپی ٹیم کی ہوتی ہے۔ یورپ میں منعقدہ 10 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں صرف ایک مرتبہ کوئی غیر یورپی ٹیم کامیاب ہوئی اور اس کے لیے آپ کو 1958 میں سویڈن میں برازیل کی کامیابی تک جانا پڑتا ہے۔ آپ کے پاس بہترین گول کیپر ہو آپ کا خیال ہو سکتا ہے کہ گول سکور کرنے والی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہی ہوں مگر 1982 سے اب تک صرف دو مرتبہ گولڈن بوٹ (سب سے زیادہ گول کرنے والا کھلاڑی) ٹورنامنٹ کی کامیاب ٹیم سے تھا۔۔۔ 2002 میں برازیل کے رونالڈو اور 2010 میں سپین کے ڈیوڈ ویا (جن کا یہ اعزاز تین اور کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر تھا)۔ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں میں گول کیپر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ گذشتہ پانچ میں سے چار گولڈن گلوو اعزازات ٹونامنٹ کی کامیاب ٹیم کے کیپر کو گئے ہیں۔ باقی چار ٹیموں میں سے یہ سوچنا مشکل نہ ہوگا کہ جرمنی کے مانیوئل نیوئر، فرانس کے ہیوگو لوریس، یا بیلجیئم کے تھباؤ کورتس یہ اعزاز جیتیں۔ پرتگال کے ریو پاتریچیو کا یہ اعزاز جیتنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تجربہ کار ٹیم 1998 کے بعد سے ایک رجحان سامنے آ رہا ہے کہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیمیں زیادہ تجربہ کار ٹیمیں ہوتی ہیں۔ 1998 میں فرانس کی ٹیم میں ہر کھلاڑی 22.77 میچ کھیل چکا تھا۔ چار سال قبل جرمنی کی ٹیم کی اوسط 42.21 میچ تھی۔ اس دور میں ٹیموں کے تجربے میں اضافہ دیکھا گیا ہے، 2002 میں برازیل کی اوسط 28.04، 2006 میں اٹلی کی اوسط 32.91، اور 2010 میں سپین کی اوسط 38.30 تھی۔ باقی تین ٹیموں میں فرانس کی موجودہ اوسط 24.56 میچ ہے جبکہ جرمنی کی 43.26 اور بیلجیئم کی 45.13 ہے۔ دفاعی چیمپیئن نہ ہوں ورلڈ کپ کا دفاع کرنا مشکل ہے۔ برازیل کی 1958 اور 1962 میں کامیابی ہونے کے بعد سے کسی ٹیم نے بھی اس اعزاز کا دفاع کامیابی سے نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ برازیل کے متواتر دو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 13 دفاعی چیمپیئنز کوارٹر فائنل سے آگے صرف دو مرتبہ گئے ہیں۔ 1990 میں ارجنٹائن اور 1998 میں برازیل (تاہم برازیل 1974 میں چوتھے نمبر پر ضرور آیا تھا جب ٹونامنٹ کا فارمیٹ دو مراحل پر مشتمل ہوتا تھا)۔ گذشتہ چار ٹونامنٹس میں دفاعی چیمپیئن تین مرتبہ گروپ مرحلے سے آگے نہیں گئے۔ جرمنی کی ورلڈ کپ کی تاریخ انتہائی شاندار ہے۔ گذشتہ نو ٹورنامنٹس میں (جن میں سے تین انھوں نے بطور مغربی جرمنی کھیلے) وہ دو مرتبہ جیتا ہے، تین دیگر فائنل تک پہنچا ہے اور دو دیگر مرتبہ تیسرے نمبر پر آیا ہے مگر تاریخی کے لحاظ سے دفاعی چیمپیئن ہونے کی وجہ سے روس میں شاید اس کی قسمت ساتھ نہ دے۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ بیلجیئم کی ٹیم یہ ورلڈ کپ جیتے گی۔ اگر کوئی اور نہ جیتا۔ جو کافی ممکن ہے!
070820_bollywood_diary_sen
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2007/08/070820_bollywood_diary_sen
ایش اب خالی ہاتھ کیوں رہتی ہیں؟
سنجو بابا کی رہائی
سنجو بابا (سنجے دت) کو سپریم کورٹ نے عبوری ضمانت پر رہا کر دیا۔ فلمی حلقوں میں خوشی کا ماحول ہے اور ان کے پرستار یہ خوش خبری سن کر ان کے گھر کے باہر جمع ہو رہے ہیں تا کہ واپسی پر ان کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ پونے کی یروڈا جیل میں سنجو بابا بڑھئی کا کام سیکھ رہے ہیں اور جیل کے قیدیوں کو گاندھی گیری بھی سکھا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے سنجو کو کسی نہ کسی فلم میں اب بڑھئی کا رول بھی مل ہی جانا چاہیے جسے وہ خوبصورتی کے ساتھ نبھا سکیں گے۔ خالی ہاتھ ایش ایش (ایشوریہ رائے) آج کل خالی ہاتھ رہتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے ہاتھ میں کسی بھی کمپنی کا برانڈڈ پرس نہیں ہوتا کیونکہ ان کے ہاتھ خالی ہی نہیں رہتے۔۔۔ہاں بھئی ایک ہاتھ میں ایب (ابھیشیک ) کا ہاتھ اور دوسرا ۔۔۔ وہ بھی ایب کے کندھے پر، اب بیچارے پرس کے لیے کوئی جگہ بچی ہو تو ناں۔ ویسے بے بی کیا شادی کے چار ماہ بعد بھی ہنی مون جاری ہے یا پھر یہ کسی کو جتانے یا جلانے کی سازش ہے؟ اونہہ۔ برقعےکے پیچھے کنگ خان (شاہ رخ خان) کی فلم ’چک دے انڈیا‘ باندرہ کے تھیٹر میں دکھائی جا رہی تھی۔ تماش بینوں کی بھیڑ میں ایک برقع پوش خاتون سب سے زیادہ خوش ہو کر تالیاں بجا رہی تھی لیکن جب اس نے سیٹیاں بجانی شروع کیں تو آس پاس کے لوگوں کو حیرت ہوئی۔ غور سے دیکھا تو برقع میں کوئی اور نہیں پریتی زنٹا تھیں۔ ہمارے مخبر کو پریتی نے بتایا کہ گھر میں یا ملٹی پلیکس میں بیٹھ کر فلم دیکھنے سے کیسے پتہ چلتا کہ کنگ خان کو عوام کتنا پسند کرتی ہے اس لیے وہ برقع میں تھیٹر پہنچ گئیں۔ویسے آپ کو نہیں لگتا کہ پریتی کا بچپن اور اس کی سادگی ابھی زندہ ہے۔ کنگ کا جادو آپ نے پیپسی کا وہ نیا اشتہار دیکھا ہے جس میں کنگ خان کو ایک نوجوان انکل کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اشتہار بہت اچھا ہے اور نوجوان کی اداکاری بھی لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب پیپسی کے اشتہار میں سولہ سال کے ’درش‘ کو شوٹنگ کے لیے بلایا گیا تو پہلی مرتبہ کنگ خان کو اپنے سامنے دیکھ کر درش اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا اور رو پڑا۔ کِم کا تھپڑ کِم شرما نے زوردار تھپڑ اپنے کسی دیوانے پاگل کو نہیں مارا۔ کِم دراصل ارمیلا اور چند دوستوں کے ساتھ شہر کے فائیو سٹار ہوٹل میں کھانے کے لیے پہنچے۔ وہاں سے نکلتے وقت بھیڑ میں ایک خاتون راستہ میں رکاوٹ بنی کھڑی تھیں۔ کِم نے انہیں ہٹنے کے لیے کہا لیکن شاید نشے میں دھت خاتون نے ’ہندوستانیوں‘ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا بس کیا تھا کِم کو غصہ آگیا اور انہوں نے زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔خاتون کا تو پتہ نہیں لیکن اب وہ ہیرو ضرور ہوشیار ہو جائیں جو فلم میں ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ اب کنگ خان اور عامر خان دونوں سلو کی طرح پردے پر اپنے کپڑے اتارنے کے لیے تیار ہیں۔ صرف پردے پر سلو کی طرح شرٹ اتارنے کے لیے دونوں سپر ہیرو کئی مہینوں سے اپنا بدن کسرتی بنانے کے لیے خصوصی تربیت لے رہے تھے۔ اب اوم شانتی اوم میں کنگ خان اور فلم گھجنی کے ری میک میں عامر آپ کو چونکانے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ راکھی کا نخرہ ’آئٹم گرل‘ راکھی ساونت کی پہلی فلم ’بڈھا مر گیا‘ فلاپ ہو گئی۔ اس کے لیے بیچاری راکھی نے کیا کچھ نہیں کیا۔ اس نے وہ کپڑے نہیں پہنے جو ہدایت کار راہول رویل نے انہیں دیے تھے، وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ ان میں راکھی کا وہ حسن نظر ہی نہیں آتا تھا جس میں وہ پوری طرح آئٹم گرل نظر آتیں۔ اب اپنا پورا حسن دکھانے کے باوجود فلم نہیں چلی تو راکھی نے ان کپڑوں کا معاوضہ مانگنا شروع کر دیا ہے اور بیچارے پریشان فلمساز یہ جھٹکا برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ہالی وڈ نہیں سننے میں آیا ہے کہ پرینکا چوپڑہ نے ہالی وڈ کی فلم کرنے سے یہ کہہ کر ان انکار کر دیا کہ وہ بالی وڈ میں ہی خوش ہیں۔جھوٹ بولے کوا کاٹے۔آپ نے یہ تو سنا ہی ہو گا: اب کون ہالی وڈ میں کام کرنا نہیں چاہتا، وہی جنہیں کام نہیں ملتا۔ہمارے مخبر نے بتایا کہ پرینکا کو ہالی وڈ کی فلم میں کام ملا پر انہیں معاوضہ اتنا کم دیا جا رہا تھا کہ انہوں نے منع کر دیا۔ سلو کا تحفہ اب لوگ دھمکائیں یا ڈرائیں لیکن ہم سلو بھیا (سلمان خان) کی خبریں دینا بند کر ہی نہیں سکتے۔ کیا کریں بالی وڈ کے گلیاروں میں ان کی خبریں ہر وقت گشت کرتی رہتی ہیں اب بتائیے ہم یہ خبر کیسے چھوڑ دیں کہ سلو بھیا نے ہالی وڈ اداکارہ علی لارٹر کو خوبصورت اور قیمتی چولی لہنگا خرید کر دیا۔ آپ کو یاد ہے ناں کہ سلو کی ہالی وڈ فلم ’میری گولڈ‘ میں ان کی ہیروئین علی لارٹر نے دلہن کے جوڑے کے طور پر چولی لہنگا پہنا تھا۔ یہ ڈریس علی کو پسند آگیا اور انہوں نے فلمساز سے یہ لباس مانگ لیا لیکن وہ انہیں نہیں دیا گیا۔ بس سلو کو پتہ چلا اور انہوں نے اسی طرح کا لباس خرید کر علی کو بھیج دیا۔ ایش کی نا! ہم جانتے ہیں کہ ایش (ایشوریہ رائے) نے سلو یا وویک کو نہ تو پہلے ہی کہہ دیا تھا لیکن ہم یہاں بات کر رہے ہیں ایش کے رول کی۔ ایش نے کرن جوہرکی فلم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب شادی کے بعد وہ بولڈ سین نہیں کریں گی کیونکہ انہیں شرم محسوس ہو گی۔بے بی اگر ایسا ہی رہا تو پھر آپ کو شاید فلمیں ملنی ہی بند ہو جائیں ایک بار پھر سوچ لیجیے۔۔۔کیونکہ یہی فلم پرینکا نے بڑی خوشی سے قبول کر لی۔ بگ بی کا سٹنٹ بگ بی (امیتابھ بچن) نے فلم ’بھوت ناتھ‘ میں سیڑھیوں سے گرنے کا منظر خود کیا جب کہ سیٹ پر ان کا ڈپلی کیٹ موجو د تھا۔ ہدایت کار نے انہیں بہت منع کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ سب ڈر رہے تھے کیونکہ ابھی حال ہی میں ان کا آپریشن ہوا ہے۔ بگ بی آپ کم سے کم ان کیمرہ مین اور ٹی وی چنیل صحافیوں پر تو ترس کھائیں جن بے چاروں کو آپ کی بیماری کے دوران دن رات ہسپتال کے سامنے کھڑے رہ کر خبریں دینی پڑتی ہیں۔۔۔ بگ بی آپ سن رہے ہیں ناں؟ بیجان جان جان اور بپ (بپاشا) کے درمیان پتہ نہیں سب کچھ کیسا ہے لیکن جو کچھ ہے وہ کچھ اچھا نہیں ہے، کم سے کم کوریو گرافر سروج خان یہی سمجھتی ہیں۔ وہ فلم گول میں دونوں کا آئٹم رقص فلما رہی تھیں۔ دونوں کو ایک سین میں محبت کا اظہار کرنا تھا اور دونوں پردے پر بالکل قریب نہیں آ رہے تھے۔ چہرے پر تاثرات صحیح نہیں تھے۔ کئی بار ری ٹیک کرنے کے بعد سروج خان گرج پڑیں ’تم دونوں اپنے جھگڑے سیٹ کے باہر کرو لیکن میرے سین کو تو خراب مت کرو‘۔ ایب کا گھونسلہ ابھیشیک کا گھونسلہ آپ نے دیکھا؟ نہیں گھر نہیں ان کے بالوں کا گھونسلہ دراصل کسی جیوتش نے کہہ دیا کہ وہ اگر بال لمبے رکھیں اور داڑھی نہ منڈائیں تو ان کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ ایب نے وہی کیا۔ اب ان کی فلم بھی کامیاب ہو گئی اور انہیں ایش بھی مل گئی۔ ایب اب تو خدا کے لیے بال منڈوا لیجیے کیونکہ وہ خوبصورت نہیں لگتے بلکہ چڑیا کا گھونسلہ لگتے ہیں۔۔۔کیا آپ نے نہیں دیکھا اس گھونسلے کو؟ سونو نگم کو حیدرآباد میں کسی ہسپتال کے لیے عطیہ جمع کرنے کی خاطر کیے گئے شو میں گیت گانا تھا۔ ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے لیکن سونو کو ایک سو دو ڈگری بخار تھا۔ منتظمین نے پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا لیکن سونو نقصان نہیں چاہتے تھے۔ بس کیا تھا وہ سٹیج پر پہنچے اور پورے دو گھنٹہ تک گاتے رہے آخر کار سٹیج پر ہی بے ہوش ہو گئے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس وقت وہاں ڈھیر سارے ڈاکٹر موجود تھے۔ بالی وڈ جوڑی کہتے ہیں کہ جوڑیاں آسمان پر بنتی ہیں شاید ٹھیک ہو لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ بالی وڈ جوڑیاں جمعہ کو سنیما گھروں میں بنتی ہیں یعنی اگر ناظرین نے انہیں پسند کر لیا تو پھر جوڑی ہٹ۔ ایسی ہی جوڑی ایب اور رانی کی ہے لیکن کینوس پر اب ایک نئی جوڑی ابھری ہے اور وہ ہے اکشے اور کیٹ (قطرینہ) کی۔ ہم کو دیوانہ کر گئے اور پھر نمستے لندن میں ان کی جوڑی بہت ہٹ رہی، اس لیے اب دونوں ایک ساتھ پھر ڈریم لندن میں ساتھ نظر آنے والے ہیں۔ اب ہمیں پتہ چلا کہ آخر سلو کی شادی میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ارے بابا کیٹ اپنا کریئر بنانے میں مصروف ہیں۔
140903_imran_voter_letter_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/09/140903_imran_voter_letter_zz
’بابا ایک بار پھر سوچ لیں‘
جناب عمران خان
۔۔۔’پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں‘ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد۔ میری بیٹی منزہ کی عمر 14 برس ہے۔ اپنے دس سالہ تعلیمی دور میں وہ صرف ایک بار مسلسل پانچ دن سکول نہیں جا سکی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ خاندانی تقریبات ہوں یا سیر و تفریح کے مواقع، منزہ سکول پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، جناب خان صاحب کہ جب کل اسے پیغام ملا کہ اس کا سکول مزید ایک ہفتہ نہیں کھل سکے گا، تو وہ بجھ سی گئی۔ خان صاحب میری بیٹی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سکول نہ جا سکنا ہے۔ ایک اور وجہ ہے جس کا تعلق بھی براہ راست آپ ہی سے ہے، اس لیے وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ برس مئی میں جب انتخابات قریب آئے تو میں نے آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر ہمارے گھر میں خاصی گرما گرم سیاسی بحث چھڑ گئی۔ منزہ میرے اس فیصلے کے سخت خلاف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلا تو منزہ نے مجھ سے کہا ’بابا ایک بار پھر سوچ لیں۔‘ میں نے سوچا کہاں میرا 20 سالہ صحافت کا تجربہ اور کہاں یہ کل کی بچی اور اس کی سیاسی سمجھ بوجھ۔ میں پولنگ بوتھ میں گیا اور آپ کے امیدوار کے نام پر مہر لگائی۔ اگلے چند ماہ میں منزہ کو آپ کے نظریات اور نئے پاکستان کے فائدے گنواتا رہا۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ وہ ان باتوں سے مرعوب ہو رہی ہے لیکن میں اسے اچھے مستقبل کی خوشخبری سناتا رہا۔ گذشتہ چند روز سے منزہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ میں جب رات کو گھر جاتا ہوں تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا۔ جو مناظر اس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹیلی وژن پر دیکھے ہیں، اس کے بعد میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔ تحریک انصاف کا آزادی مارچ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچا تھا اور اس کے بعد شہر کے کئی حصوں میں نظام زندگی متاثر ہوا ہے میں یقین نہیں کر پا رہا کہ 13 برس کی منزہ نے آپ کے نظریات کے بارے میں جو خدشات ایک برس پہلے ظاہر کیے تھے، وہ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ عمران خان صاحب، میں اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو گیا ہوں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔ پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں۔ آپ کے نام یہ خط منزہ بھی پڑھے گی، اس لیے میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ سچ ہے۔ امید ہے آپ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کریں گے۔ آپ کا ووٹر