id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
050613_sindh_lb_polls
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/06/050613_sindh_lb_polls
سندھ: بروقت الیکشن مشکل میں
چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ کے نئے آٹھ اضلاع کی حد بندی، ججوں کی تقرری، اور دیگر ضروری انتظامات نہ ہوئے تو وہاں بلدیاتی انتظامات کرانا مشکل ہو جائےگا۔
یہ بات انہوں نے پیر کے روز کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے بلائے گئے ایک اجلاس میں کہی۔ سرکاری طور پر جاری کئے گئے ایک اعلامیہ کے مطابق جسٹس ڈوگر نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں پرانے شناختی کارڈ ہولڈرز کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔ سندھ میں گذشتہ چند ماہ کے دوران سات نئے اضلاع بنائے گئے ہیں۔ جن میں بعض اضلاع کی تقسیم اور حد بندی پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات کئے گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے نئے اضلاع کی حد بندی نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ ان اضلاع میں سیشن اور ایڈیشنل سیشن ججز کی تقرری نہ ہونے کی صورت میں وہاں انتخابات نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگیا تو پھر کوئی حد بندی نہیں ہوسکے گئی۔ آئی جی سندھ پولیس اسد جہانگیر نے بتایا کہ اس کی وجہ سے پولیس کے عہدوں پر بھی تقرری نہیں ہو سکی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے اتنباہ پر چیف سیکریٹری فضل الرحمان نے بتایا کہ بعض انتظامی مسائل کی وجہ سے یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔ تاہم آٹھ میں سے سات اضلاع کے لئے سیشن ججز کے آرڈر جاری کردیئے گئے ہیں۔ اور ایک ہفتے کے اندر ان اضلاع کی حد بندی کے انتظامات بھر کردیئے جائیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر نے انتظامیہ کو ایک ہفتے کی مہلت دی کہ وہ نئے اضلاع میں حد بندی ججوں کی تقرری، اور دیگر ضروری انتظامات مکمل کرلیں۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری فضل الرحمان، آئی جی سندھ پولیس اسد جہانگیر، ہوم سیکریٹری غلام محمد محترم، سندھ کے الیکمشنر علی محمد ہالے پوتہ بھی شریک تھے ۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ لوکل باڈیز آرڈیننس میں حالیہ ترامیم کے بعد ان کی اور صوبائی الیکشن کمیشن کی ذمیداریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کے انتخابات مقررہ وقت میں شفاف اور غیر جانبدار منعقد ہوں۔ انہوں نے ہدایت کی کے بغیر مزید تاخیر کے یونین کاؤنسل، تحصیل اور ضلعے کاونسل کی حد بندیاں کیں جائیں ورنہ انتخابات نہیں ہوسکیں گے۔
070101_test_record_06_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2007/01/070101_test_record_06_zs
یوسف اور مرلی، بہترین کھلاڑی
دو ہزار چھ میں جہاں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا پر راج کیا تو وہیں سال کے بہترین بلے باز کا اعزاز پاکستان کے محمد یوسف کے حصے میں آیا اور سری لنکا کے مرلی دھرن سال کے بہترین ٹیسٹ بالر قرار پائے۔
آئیے اب سنہ 2006 میں ٹیسٹ کرکٹ کے بہترین اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ٹیم ریکارڈز دوسرے نمبر پر سری لنکا کی ٹیم رہی جس نے گیارہ میچ کھیلے، چھ جیتے، تین ہارے جبکہ دو برابر رہے۔ چار فتوحات کے ساتھ پاکستان کا نمبر تیسرا رہا۔ ٹیسٹ ٹیموں میں ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش ایسی ٹیمیں تھیں جو ایک بھی ٹیسٹ میچ نہ جیت سکیں۔ سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز سال کے دوسرے بہترین بلے باز انگلینڈ کے کیون پیٹرسن رہے جنہوں نے 1343 رن بنائے جبکہ آسٹریلیا کے کپتان رکی پونٹنگ 1333 رن کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ سری لنکا کے کمارا سنگاکارا چوتھے اور پاکستان کے یونس خان پانچویں نمبر پر رہے۔ سب سے زیادہ وکٹیں ایک سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا عالمی ریکارڈ آسٹریلوی سپنر شین وارن کے پاس ہے جنہوں نے سنہ 2005 میں پچانوے وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وارن اس سال صرف انچاس وکٹیں حاصل کر سکے تاہم وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سات سو وکٹیں حاصل کرنے والے دنیا کے پہلے بالر بن گئے۔ مرلی دھرن اور وارن کے علاوہ جنوبی افریقہ کے مکھایا نتنی اٹھاون، بھارت کے انیل کمبلے ستاون اور انگلینڈ کے میتھیو ہوگارڈ اکیاون وکٹوں کے ساتھ نمایاں رہے۔ بہترین بیٹنگ اوسط پاکستان کے محمد یوسف 33۔99 کی اوسط کے ساتھ دوسرے اور آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ86۔88 کی اوسط کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ چوتھی اور پانچویں پوزیشنیں بھی آسٹریلیا کے ہی دو بلے بازوں مائیکل ہسی اور مائیکل کلارک کے حصے میں آئیں۔ ہسی نے 80 جبکہ کلارک نے 71 کی اوسط سے رنز بنائے۔ بہترین انفرادی سکور ان دونوں بلے بازوں نےاس میچ میں 624 رن کی شراکت بنا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا۔ سال کا تیسرا بڑا سکور نیوزی لینڈ کے سٹیفن فلیمنگ نے بنایا۔ اس مرتبہ بھی مدمقابل ٹیم جنوبی افریقہ تھی اور سکور تھا 262 رن۔ فلیمنگ کے علاوہ بھارت کے وریندر سہواگ 254 اور ویسٹ انڈیز کے برائن لارا 216 رنز کی اننگز کے ساتھ نمایاں رہے۔ ان دونوں بلے بازوں نے یہ اننگز پاکستان کے خلاف کھیلیں۔ بہترین انفرادی بالنگ انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف 108 رن دے کر آٹھ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھلائی۔ ان کے علاوہ ایک اننگز میں سات وکٹیں حاصل کرنے والوں میں انگلینڈ کے میتھیو ہوگارڈ اور نیوزی لینڈ کے ڈینیئل ویٹوری شامل تھے۔
060308_murli_fiver_si
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/03/060308_murli_fiver_si
پانچ وکٹوں کی نصف سینچری
سری لنکا کے بالر مرلی دھرن نے اپنے کیریئر میں پچاسویں مرتبہ پانچ یا پانچ سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔
بنگلہ دیش کے خلاف بوگرہ ٹیسٹ کے پہلے روز مرلی دھرن نے بنگلہ دیش کے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ مرلی دھرن کی کامیاب بالنگ کی بدولت بنگلہ دیش کی پوری ٹیم 234 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ مرلی دھرن نے بنگلہ دیش کی اننگز کے دوران پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے علاوہ دو کیچ بھی پکڑے۔ جب سری لنکا نے اپنی اننگز شروع کی تو اس کے دو کھلاڑی 25 رنز کے سکور پر آؤٹ ہو گئے۔ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے بالروں میں رچرڈ ہیڈلی دوسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 36 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ یا پانچ سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔ شین وارن نے اپنے کیریئر کے دوران 34 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ یا پانچ سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔ چند روز پہلے ہی مرلی دھرن دنیائے کرکٹ کی تاریخ میں ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں میں ایک ہزار وکٹ حاصل کرنے والے پہلے بالر بن گئے تھے۔ مرلی دھرن نے یہ کارنامہ چٹاگانگ میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ کے تیسرے دن سر انجام دیا تھا۔ بین الاقوامی کرکٹ میں وکٹیں حاصل کرنے کے لحاظ سے مرلی دھرن سر فہرست ہیں جبکہ اس فہرست میں آسٹریلوی کھلاڑی شین وارن دوسرے نمبر پر ہیں جنہوں نے 952 بلے بازوں کو اپنی سپن باؤلنگ کا نشانہ بنایا۔ تیسرے نمبر پر پاکستان کے بالر وسیم اکرم ہیں جنہوں نے 916 ووکٹ حاصل کیں۔ آسٹریلیا کے میکگرا 873 جبکہ انڈیا کے سپنر انیل کمبلے 824 کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہیں۔
130621_teacher_convicted_ra
https://www.bbc.com/urdu/world/2013/06/130621_teacher_convicted_ra
شاگرد سے جنسی تعلق، استاد جیل روانہ
برطانیہ کی ایک عدالت نے تیس سالہ استاد کو اپنی پندرہ سالہ طالبہ کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے اور اسے اغوا کرنے کے جرم میں ساڑھے پانچ برس قید کی سزا سنائی ہے۔
جریمی فورسٹ نے اس حد کو عبور کیا جو استاد اور شاگرد کے مابین ہوتی ہے: عدالت لندن سے تعلق رکھنے والے جریمی فورسٹ نے عدالت میں ایسٹبورن سکول میں اپنی پندرہ سالہ طالبعلم کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنے کا اعتراف کیا۔ لندن کی کراؤن کورٹ کو بتایا گیا کہ جرمی فورسٹ اپنی طالبہ کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے اور انہوں نے اس حد کو عبور کیا جو استاد اور شاگرد کے درمیان ہوتی ہے۔ اب سسیکس پولیس اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا گرفتاری کے بعد جریمی فورسٹ نے اپنے حق میں گواہی دلانے کے لیے طالبہ سے رابطے کیے تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ طالبہ نے فرانس میں گرفتاری کے بعد پولیس کو جو اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا وہ اس بیان سے مختلف ہے جو اس نے عدالت کے سامنے دیا۔ جج مائیکل لاسن کے مطابق طالبہ نے اپنے استاد جریمی فورسٹ کے قانونی دفاع کو مضبوط کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ اسے خودکشی کرنے سے باز رکھنے کے لیے فرانس کی سیر کرانے لے گیا تھا۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جریمی فورسٹ نے استاد اور شاگرد کے مابین رشتے کو پامال کیا، اپنے ساتھی استاتذہ کو گمراہ کیا، اپنے اور لڑکی کے خاندان کو پریشان کیا اور اپنے پیشے کی شہرت کو نقصان پہنچایا۔ جج نے اپنے فیصلےمیں کہا کہ جریمی فورسٹ نے اپنی شاگرد کی فریفتگی کی حوصلہ افزائی کی اور تعلقات کو اس جانب لے کرگئے جہاں نہیں جانا چاہیے تھے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ جریمی فورسٹ کو ساری زندگی کسی ایسے پیشے سے منسلک ہونے کے نا اہل ہوں گے جہاں ان کا رابطہ بچوں سے پڑے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ جریمی فارسٹ نے اپنی شاگرد کے ساتھ کار، ہوٹل اور اپنے گھر میں جنسی فعل کیا۔ جب جریمی فارسٹ اور ان کی شاگرد کے تعلقات کا راز کھلنے لگا تو وہ تیس ستمبر کو اپنی شاگرد کو لے کر فرانس چلا گیا۔ سات روز کی تلاشی کے بعد فرانس پولیس نے دونوں کو اکھٹے حراست میں لے کر انہیں برطانوی پولیس کے حوالے کر دیا۔ جریمی فارسٹ کی ماں نے عدالتی فیصلے کے بعد کہا کہ ان کا بیٹا اپنے کیے پر پشیمان ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے جب ان کے تعلقات پروان چڑھ رہے تھے تو نظام حرکت میں نہیں آیا۔
040628_iraqi_sovereignty_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040628_iraqi_sovereignty_fz
عراق میں انتقالِ اقتدار
عراق میں امریکی انتظامیہ نے پیر کے روز بغداد میں منعقد ہونے والی ایک سادہ سی تقریب میں ملک کی عبوری حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا ہے۔
گزشتہ برس طے کیے گئے منصوبے کے مطابق امریکی حکام نے عراقی عوام کو خومختاری منتقل کرنے کے لیے تیس جون کی تاریخ مقرر کی تھی۔ تاہم اب یہ کام مقررہ تاریخ سے دو روز قبل ہی کر دیا گیا ہے۔ اس تقریب میں شرکت کرنے کے بعد امریکی منتظم پال بریمر نے عراق چھوڑ دیا ہے اور وہ بغداد ایئر پورٹ سے کسی نامعلوم مقام کی طرف پرواز کر گئے ہیں۔ عراق کے امریکی منتظم پال بریمر نے خودمختاری کی دستاویزات ایک عراقی جج کے سپرد کیے۔ پال بریمر نے کہا کہ عراق اب خود مختار ہونے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی افواج عراق کو آزاد کرانے ہی آئی تھیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اقتدار کی جلد منتقلی کا مقصد عراق میں شدت پسندوں کے حملوں کو روکنا ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل عراق کے عبوری وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نےکہا تھا کہ امریکی حکام تیس جون کے بجائے پیر کو ملکی اختیارات عراق کی عبوری حکومت کو منتقل کر رہے ہیں۔ ہوشیار زیباری نے نیٹو ممالک کی طرف سے عراق کی سیکیورٹی فورس کی تربیت کا وعدہ کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے فرانس اور جرمنی کی طرف سے دی جانے والی اس تجویز کی تائید کی ہے کہ عراقی سیکیورٹی فورس کی تربیت کا کام عراق کے علاوہ کسی اور ملک میں کیا جائے۔ عراق کی عبوری حکومت کے حکام استنبول میں نیٹو ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں جس میں وہ عراق کی مزید مدد کرنے کی درخواست کریں گے۔
070908_airport_security_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070908_airport_security_sq
تمام ہوائی اڈوں پر ’ریڈ الرٹ‘
ملک میں دہشت گردی کےخطرے کے پیش نظرحکومت نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر سکیورٹی کو مذید سخت کردیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی وزارت داخلہ نے چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹریز اور ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں کے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تمام ایئرپورٹس پر سیکورٹی انتہائی سخت کردیں۔ بی بی سی کو موصول ہونے والی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق یہ ہدایات خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے ملنے والی ایک رپورٹ کی روشنی میں دی گئی ہیں جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے دفاعی لحاظ سے اہمیت کی حامل جگہوں پر دہشت گردی کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ دستاویز میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ شدت پسند ہوائی اڈوں، ہوائی جہازوں اور صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ حکومت میں شامل دوسری اہم شخصیات اور مسافروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ وزارت داخلہ نے ہوم سیکرٹریز اور صوبوں کی پولیس کے سربراہوں اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر اور شمالی علاقوں کے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں موجود ہوائی اڈوں اور دیگر اہم عمارتوں کے اردگرد حفاظتی اقدامات سخت کردیں تاکہ کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کی واردات کو روکا جا سکے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایئرپورٹس کے اندر سیکورٹی کی ذمہ داری وزارت دفاع اور ائرپورٹس سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کی ہے جبکہ ائرپورٹس سے باہر امن و امان برقرار رکھنا پولیس اور دوسرے قانون نافذ کے والے اداروں کے ذمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال فروری میں اسلام آباد ائرپورٹ پر دہشت گردی کی واردات ہوچکی ہے اس لیے اس واقعہ اور ملک میں حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں کے تناظر میں ائرپورٹس کی سکیورٹی کو مذید سخت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ یہ ہدایات ایسے وقت میں دی گئی ہیں جب وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور ورکرز نواز شریف اور شہباز شریف کی دس ستمبر کو اسلام آباد ائرپورٹ پر آمد کے سلسلے میں تیاریوں میں مصروف ہیں۔
060802_childlabour_ban_india_nr
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060802_childlabour_ban_india_nr
انڈیا: چائلڈ لیبر پر پابندی
ہندوستان کی حکومت نے چودہ سال سے کم عمر بچوں کے مزدوری کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں سڑکوں کے کنارے ، ہوٹلوں، گھروں اور صنعتی فیکٹریوں میں چودہ برس سے کم عمر کے بچے کام نہیں کر سکیں گے۔ چائلڈ لیبر سے متعلق اس نئے قانون پر اس سال اکتوبر میں عمل درآمد ہو گا۔ ہندوستان کی وزارت محنت کے ایک افسر ایس کے شریواستو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’چائلڈ لیبر پر نظر رکھنے والی کمیٹی وقتا فوقتا یہ جائزہ لیتی رہی ہے کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے بچوں کو کسی طرح کا کوئی خطرہ تو لاحق نہیں ہے۔ کمیٹی کی رسرچ کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فیکٹریوں اور ہوٹلوں میں بچوں کے کام کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے‘۔ مسٹرشریواستو نے مزید بتایا ہے کہ پابندی کافیصلہ اس حقیقت کے پیش نظر کیا گیا ہے کہ یہ مزدور بچے جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔ مسٹر شریواستو کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسکو چائلڈ لیبرسے متعلق قانون کے تحت قید کی سزا دی جائیگی۔ بچوں کی فلاح کے لۓ کام کرنے والی دلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کے سربراہ کیلاش ستیارتھی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں 1986 میں چائلڈ لیبر سے متعلق قانون بنا تھا اور اسی میں تبدیلی کرکے یہ نیا قانون بنایاگیا ہے جس کے تحت گھریلو ملازموں اور سڑک کے کنارے بنے ہوٹلوں میں بچوں کے کام کرنے پر پابندی لگے گی۔ مگرافسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان میں قانون کا زیادہ اثر نہیں ہوتا ہے۔ 1986 میں بنے قانون کے مطابق جو بھی شخص کم عمر کے بچوں سے مزدوری کراۓ گا اس کو دو سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے لیکن آج تک کسی بھی ایسےشخص کو سزا نہیں دی گئ جبکہ لاکھوں بچےمزدوری کررہے ہیں۔
081107_kashmir_voters
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/11/081107_kashmir_voters
سرینگر: انتخابی امیدوار غائب
جموں وکشمیر میں جب ریاستی انتخابات کا اعلان ہوا تو حالیہ بڑے بڑے عوامی مظاہروں کے پیش نظر اس بات کا امکان دکھائی دے رہا تھا کہ اُمیدوار بڑی تعداد میں سامنے نہیں آئیں گے اور انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیں گے۔
ریاست کی مقامی سیاسی جماعتوں میں جہاں کارکنوں کو مینڈیٹ دینے پر اندرونی خلفشار رہا وہیں قومی پارٹیوں کے لیے اُمیدوار ڈھونڈنا اور مرکزی شہروں میں دفاتر قائم کرنا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ بعض مقامی اخباروں نےایسی خبریں شائع کیں جن میں ان پارٹیوں کے رہنما بیروزگار نوجوانوں کو موٹی رقم اور روزگار کے عوض انتخابی امیدوار بننے کی جانب راغب کر رہے تھے۔ کشمیر میں بھارت کی دوسری ریاستوں کی طرح سن سنتالیس سے انتخابی عمل جاری ہے اور ان میں عوام کے بڑے طبقے نے حصہ بھی لیا ہے۔ معصوم ووٹر اس کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ جوڑ کر جذبات میں آکر انہیں ووٹ دیا کرتے تھے۔ویسے شیخ عبداللہ قران شریف کی تلاوت سے بھی لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے ماہر تھے۔ شیخ عبداللہ کے جانیشیں فاروق عبداللہ کے دور میں تلاوت کے بدلے انتخابی عمل پر زیادہ تر بالی وڈ چھایا رہا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد بیشتر کشمیری آزادی یا الحاق پاکستان کا خواب بھول گئے اور بقیہ ریاستوں کی طرح انتخابی عمل میں شریک رہے۔ انیس سو ستاسی میں راجیوگاندھی فاروق عبداللہ معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی مبینہ انتخابی دھاندلیوں نے عوام کو نہ صرف بدظن کردیا بلکہ بھارتی حکومت کی اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے پر شکوک بھی پیدا ہوگئے۔ اُن دنوں یہ خبر گرم تھی کہ چند نوجوان زیر زمین مہم چلارہے ہیں۔ ستاسی کے ریاستی انتخابات میں نوجوانوں کی نئی سیاسی تنظیم مسلم یونایٹڈ فرنٹ نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان نوجوانوں کی مار پیٹ ہوئی کچھ قید ہوئے، کچھ فرار ہوگئے اور چند برسوں بعد بندوق برداروں کی شکل میں دوبارہ نمودار ہوگئے۔ مسلح تحریک کے دوران انتخابات کرانا انتہائی مشکل ہوگیا مگر نیشنل کانفرنس نےہمیشہ کی طرح بھارتی حکومت کی مشکلوں کو آسان کردیا اور انتخابی عمل کے لیے راضی ہوگئی، حالانکہ پارٹی کے تمام بڑے رہنما مسلح تحریک کے پیش نظر وادی سے باہر چلے گئے کیونکہ بیشتر کارکن ’تشدد‘ کا بھی نشانہ بنے تھے۔ مسلح تحریک نے ایک طرف لوگوں میں جذبہ آزادی کو دوبارہ اُبھارا تو دوسری طرف تشدد کے خلاف حکومت کی کارروائی نے لوگوں کو بھارت سے دور کر دیا اور بھارت مخالف لہر مظبوط ہوتی گئی جو امرناتھ شرائن بورڈ کے قضیہ کے بعد اور گہری ہوگئی ہے۔ بیشتر قومی پارٹیوں کویہ تمنا رہی کہ وہ خوبصورت وادی میں اپنا دفتر قائم کرسکیں مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا اور اب یہ عالم ہے کہ بے روزگار نوجوان بھی انتخابی امیدوار بننے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مقامی جماعتوں کے دفاتر کے باہر یہ کہنے کے باوجود کہ وہ انتخابات کے لیے ماحول سازگار نہیں امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر بیشتر ووٹرانتخابات میں شریک نہیں ہونگےتو کیا اسے بڑی جمہوریت کا جمہوری عمل کہا جاسکتا ہے اور کیا بھارت پھر اس شدید مسئلے کو دبا کر کشمیریوں کا دل جیت سکتا ہے۔
140506_pak_hockey_asian_games_zz
https://www.bbc.com/urdu/sport/2014/05/140506_pak_hockey_asian_games_zz
ایشین گیمز ہاکی، پاکستان کی شرکت یقینی نہیں
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے بھیجی جانے والی نامکمل انٹری کی وجہ سے ہاکی ٹیم کی اس سال ہونے والے ایشین گیمز میں شرکت یقینی نہیں ہے۔
اولمپک یوتھ گیمز میں بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن نے تاحال انٹری نہیں بھیجی ہے: عارف حسن ایشین گیمز 19 ستمبر سے چار اکتوبر تک جنوبی کوریا کے شہر انچیون میں منعقد ہو رہے ہیں جن میں پاکستان کو ہاکی کے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔ ہاکی، عروج سے زوال تک کا سفر انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی تسلیم کردہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سید عارف حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے 30 اپریل کی ڈیڈلائن سے قبل پی او اے کو 25 نام بھیجے تھے جو پاسپورٹ تصاویر اور دیگر کاغذات مکمل نہ ہونے کے سبب واپس کر دیے گئے تھے۔ سید عارف حسن کے مطابق اس کے بعد فیڈریشن نے 15 کھلاڑیوں کے نام اور پاسپورٹ بھیج دیے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ان 15 کھلاڑیوں کا ایکریڈیشن کرا دیا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بین الاقوامی مقابلوں میں 16 کھلاڑی اور چھ آفیشلز کو شرکت کرنی ہوتی ہے لہذٰا پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اس کے بعد کوئی جواب نہیں دیا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ 15 کھلاڑی فرسٹ الیون میں شامل ہیں یا نہیں؟ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عارف حسن کا کہنا ہے کہ اولمپک یوتھ گیمز میں بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن نے تاحال انٹری نہیں بھیجی ہے جس پر ایف آئی ایچ خفا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ڈیڈلائن گزرجانے کے بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں ایشین گیمز اور اولمپک یوتھ گیمز کے منتظمین سے ایک ہفتے کی مہلت مانگی ہے لیکن اگر دونوں نے مثبت جواب نہ دیا تو پاکستانی ہاکی ٹیم ایشین گیمز اور اولمپک یوتھ گیمز میں شرکت سے محروم ہوجائے گی۔ عارف حسن نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن اس تاخیر کی وجہ ٹرائلز اور حکومتی اجازت کو قرار دے رہی ہے حالانکہ قومی کھیل اور دفاعی چیمپئن ہونے کے ناتے فیڈریشن کو اپنا تمام ہوم ورک بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ عارف حسن نے کہا کہ ایشین گیمز میں ہاکی ٹیم کی انٹری ان کی سربراہی میں قائم پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے توسط سے بھیج کر پاکستان ہاکی فیڈریشن نے پی او اے کی قانونی اور آئینی حیثیت تسلیم کر لی ہے۔ تاہم انھوں نے بین الصوبائی رابطے کے وفاقی وزیر کی جانب سے اکرم ساہی کی پی او اے کو تسلیم کیے جانے کے بیان پر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت دو کشتیوں میں سوار ہے وہ ایک جانب بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت یقینی بنانے کے لیے آئی او سی کی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا سہارا تلاش کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ اپنی پی اواے کے حق میں بیان دے رہی ہے جو غلط ہے کیونکہ آئی او سی نے اس بار پاکستان کو آخری وارننگ دے رکھی ہے اور اگر حکومت نے اولمپک چارٹر پر عمل نہ کیا تو پاکستان کی اولمپک رکنیت معطل کردی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ آئی او سی نے 21 مئی کو حکومتی نمائندے کو بلایا تھا لیکن حکومت نے اس ضمن میں اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔ عارف حسن نے واضح کر دیا کہ پی ایچ ایف کے سیکریٹری رانا مجاہد پر 10سال کی پابندی برقرار ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے دستخط سے آنے والی ہاکی کھلاڑیوں کی انٹریز کو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے مسترد کرتے ہوئے واپس کر دیا تھا۔
070630_relief_baloch_aw
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/06/070630_relief_baloch_aw
بلوچستان: سیلاب اور امداد
بلوچستان میں طوفان، بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں کھل کر اب سامنے آرہی ہیں۔
فوجی دستے صوبے میں سیلاب اور طوفان سے متاثرہ لگ بھگ دس لاکھ سے زائد افراد کی مدد کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ریلیف کمشنر اللہ بخش بلوچ نے بتایا ہے کہ ان کے پاس چھ دنوں میں سترہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ علا قوں کی طرف امدادی سامان روانہ کر دیا گیا ہے لیکن متاثرہ افراد نے غصے اور غم کے تاثرات کے ساتھ ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں پہنچا۔ قُدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتِحال سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل فاروق احمد خان نے اسلام آباد میں جمعہ کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بارش کی وجہ سے جمعہ کو کوئٹہ سے امدادی کاموں کے لیے ہیلی کاپٹروں کی پروازیں منسوخ کرنا پڑیں جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہوئے عوام تک رسائی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بگڑتے موسم کی وجہ سے مزید تباہ کاریوں کے خدشے کے پیشِ نظر صوبائی حکومت صوبائی انتظامیہ سے دونوں صوبوں میں متواتر رابطے میں ہے جبکہ بلوچستان میں سنیچر سے چھ فوجی مال بردار طیارے سی ۔ ون تھرٹی طیارے امدادی کاروائیوں میں حصہ لیں گے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے ان میڈیا رپورٹوں کو رد کر دیا جن کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں دو سو ساٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل صورتِحال تب ہی واضح ہو سکے گی جب متاثرہ علاقوں تک رسائی مکمل طور پر ممکن ہو اور جب ہی اس بات کا تعین بھی کیا جا سکے گا کہ کتنی آبادی متاثر ہوئی، کتنے مکانات منہدم ہوئے اور کتنی مالیت کی سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں چار بڑی شاہراہیں بری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں سے رابطہ منقطع ہے جبکہ بجلی اور ٹیلیفون کا نظام بھی شدید متاثر ہونے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے حقائق کا جاننا تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔ لہٰذا اس بات کا خدشہ ہے کہ مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے دونوں صوبوں میں امدادی کاموں کے لیے بیس، بیس کروڑ روپے کی مالی امداد کے اعلان کے بارے میں لیفٹننٹ جنرل فاروق احمد خان نے اس بات سے لاعلمی کا اظہار کیا کہ آیا یہ رقم صوبائی حکومتوں کو جاری کر دی گئی ہے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ملکی سیاسی لیڈرشپ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد مالی امداد میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں متاثرین کو امدادی اشیاء کی باقاعدہ ترسیل تاحال شروع نہیں ہوسکی جبکہ دوسری جانب حزب اختلاف سے کے قائدین نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان سے انہیں مدد کی کوئی توقع نہیں ہے اس لیے انہوں نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنطیموں سے مدد کی اپیل کی ہے۔ حالیہ طوفان کی وجہ سے سندھ کے چار اور بلوچستان کے دس اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں گوادر، کیچ، پسنی، لسبیلہ، اُرماڑہ، پنجگور، خُزدار، جھل مگسی، جعفر آباد اور نصیر آباد شامل ہیں جبکہ سندھ میں ضلع کراچی، ٹھٹھہ، حیدر آباد اور بدین موسمی خرابی سے بُری طرح متاثر ہوئے۔
050426_badr_reference_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/04/050426_badr_reference_si
بدر: نیب ریفرنس پر فیصلہ ملتوی
منگل کو لاہور کی ایک احتساب عدالت نے پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر برائے پٹرولیم جہانگیر بدر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں ریفرنس پر فیصلہ تین مئی تک ملتوی کردیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے جہانگیر بدر پر ان کے وزیر پٹرولیم کے دور میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کے الزام میں ریفرنس دائر کیا ہوا ہے۔ احتساب عدالت کے جج شفقات احمد نے قومی احتساب بیورو کی طرف سے دائر کیے گئے اس ریفرنس میں سماعت مکمل کرلی تھی۔ جج نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور توقع تھی کہ جج منگل کو فیصلے کا اعلان کریں گے۔ تاہم جہانگیر بدر کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل وقار میر نے احتساب جج کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک دو رکنی بینچ جہانگیر کی ایک رٹ درخواست کی سماعت کررہا ہے۔ اس درخواست پر ہائی کورٹ کے بینچ نے نیب کو درخواست پر جواب دینے کے لیے نوٹس دے دیا ہے جس کی سماعت دو مئی کو ہوگی۔ اس پر احتساب جج نے جہانگیر بدر کے ریفرنس میں فیصلہ نہیں سنایا اور تین مئی کی پیشی مقرر کردی۔ ہائی کورٹ کا بینچ جج سردار اسلم اور جج رستم علی ملک پر مشتمل ہے۔ جہانگیر بدر نے لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں کہا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس میں انہوں نے احتساب جج سے کہا تھا کہ وہ الزامات سے متعلق سرکاری ریکارڈ عدالت میں منگوائیں جو ان کو بے گناہ ثابت کرسکتا ہے لیکن جج نے ان کی درخواست خارج کردی۔ جہانگیر بدر کا موقف تھا کہ اس ریکارڈ کو نہ منگوانے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس سیاسی انتقام کے لیے دائر کیا گیا۔
world-55313120
https://www.bbc.com/urdu/world-55313120
ایس 400 میزائل سسٹم: روسی ساختہ میزائل سسٹم خریدنے پر امریکہ کی ترکی پر تجارتی پابندیاں، ترکی کی جوابی اقدام کی تنبیہ
امریکہ نے اپنے ایک نیٹو اتحادی ترکی پر نئی تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس کی وجہ ترکی کی جانب سے روسی ساختہ دفاعی میزائل سسٹم کی تعیناتی بتائی گئی ہے جو ترکی نے گذشتہ برس خریدا تھا۔
روسی ساختہ ایس 400 دفائی میزائل سسٹم امریکہ کا کہنا ہے کہ روس کا زمین سے فضا میں فائر کرنے والا میزائل سسٹم ’ایس 400‘ نیٹو کی ٹیکنالوجی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور یہ یورپی، اٹلانٹک (بحر اوقیانوس) اتحاد کے لیے باعث خطرہ ہے۔ پیر کو امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے تجارتی پابندیاں عائد کر کے ترکی میں ہتھیاروں کی خریداری کے محکمے کو ہدف بنایا گیا ہے۔ ترکی اور روس میں حکام نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ امریکہ پہلے ہی ترکی کو اپنے ایف 35 فائٹر جیٹ پروگرام سے باہر نکال چکا ہے۔ اس کی وجہ بھی ترکی کی جانب سے روسی ساختہ میزائل سسٹم کی خریداری بتائی جاتی ہے۔ امریکہ کو کس بات پر اعتراض ہے؟ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’امریکہ نے ترکی کو اعلیٰ سطح پر متعدد بار بتایا ہے کہ ایس 400 سسٹم کی خریداری امریکہ فوجی ٹیکنالوجی اور دستوں کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اور اس سے روسی دفاعی محکمے کے پاس کافی فنڈنگ جمع ہو جائیں گے۔ اس سے روس ترک مسلح افواج اور دفاعی صنعت تک رسائی حاصل کر لے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ترکی نے پھر بھی ایس 500 کی خریداری اور ٹیسٹنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، باوجود اس کے کہ متبادل (سسٹم) دستیاب تھا، نیٹو کا آپسی تعاون کا سسٹم اس کی دفاعی ضروریات پوری کر سکتا تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے روس: ’آواز کی رفتار سے کئی گنا تیز میزائل نصب‘ روسی میزائل نظام کی خریداری، ترکی امریکہ تعلقات کا امتحان کیا امریکہ انڈیا کو پاکستان کے حساس علاقوں کے نقشوں تک رسائی فراہم کر سکتا ہے؟ ’میں ترکی سے گزارش کرتا ہوں کہ امریکی تعاون کے ساتھ ایس 400 کا مسئلہ فوراً حل کرے۔ ترکی امریکہ کے لیے ایک قیمتی دوست اور خطے میں اہم سکیورٹی پارٹنر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ترکی ایس 400 کی رکاوٹ کو جلد از جلد دور کر کے دفاعی محکمے میں ہماری دہائیوں پرانی تاریخ کو بحال کرے۔‘ ان پابندیوں کا ہدف ترکی کے دفاعی صنعتوں کے ڈائریکٹوریٹ کے صدر اسماعیل دمیر اور مزید تین ملازمین ہیں۔ ان میں امریکہ سے درآمد کے لائسنس پر پابندی کے علاوہ امریکی حدود میں ان افراد کے تمام اثاثوں کو منجمد کر دیا جائے گا۔ ترکی نے جواب میں کیا کہا؟ ترکی کی وزارت خارجہ نے امریکہ سے گزارش کی ہے کہ ’آج کے اعلان کردہ غیر منصفانہ فیصلے پر نظر ثانی کریں۔‘ ’اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ترکی اس مسئلے کو بات چیت اور سفارتی سطح پر حل کرنے کے لیے تیار ہے۔‘ گذشتہ سال ترکی نے امریکہ کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود روسی ساخت کا ایس چار سو فضائی دفاع کا میزائل نظام وصول کیا تھا ترک وزارت نے امریکہ کو متنبہ کیا کہ امریکی پابندیاں ’دونوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کریں گی۔ اور (ترکی) ایسے طریقے اور وقت پر اس کا جواب دے گا جو اسے مناسب لگے گا۔‘ انقرہ کا موقف ہے کہ ترکی نے روسی سسٹم ایک ایسے وقت میں خریدا جب امریکہ نے امریکی ساختہ پیٹریاٹ میزائل فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ترک حکام دلیل دیتے ہیں کہ ایک اور نیٹو اتحادی یونان نے بھی اپنا ایس 300 میزائل سسٹم تعینات کیا ہے۔ تاہم یہ روس سے براہ راست نہیں خریدا گیا تھا۔ روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے بھی امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے ’ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی جانب متکبرانہ رویے کا مظاہرہ‘ کیا ہے۔ ’امریکہ نے زبردستی ان اقدامات کا مظاہرہ کئی برسوں اور دہائیوں سے کیا ہے جو غیر قانونی اور یکطرفہ ہوتے ہیں۔‘ ترکی امریکہ کے لیے کتنا اہم؟ 30 رکنی نیٹو اتحاد میں ترکی کی فوج دوسرے نمبر پر سب سے بڑی ہے۔ یہ امریکہ کے اہم اتحادیوں میں سے ہے اور سٹریٹیجک جگہ پر واقع ہے۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں شام، عراق اور ایران ہیں۔ ترکی نے شام کے تنازع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے کچھ باغی گروہوں کو ہتھیار اور فوجی معاونت فراہم کی ہے۔ تاہم نیٹو اور یورپی یونین کے اراکین کے ساتھ اس کے تعلقات اب خراب ہو چکے ہیں۔ انھوں نے صدر اردوغان پر سنہ 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے زیادہ آمرانہ انداز اپنانے کا الزام لگایا ہے۔ ایس 400 سسٹم کام کیسے کرتا ہے؟ سوشل میڈیا پر ردعمل پاکستان میں سوشل میڈیا پر صارفین بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں اور صارفین کی اکثریت امریکہ کی جگہ ترکی کی حمایت میں ٹویٹس کر رہی ہے۔ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان اپنے دوست ملک ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔‘ اسی دوران پاکستانی صارفین نے اس خیال پر بھی تبصرے شائع کیے جس میں وہ ممکنہ طور پر ترکی کی جانب سے نیٹو چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ ذوالفقار احمد نامی ایک صارف نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ’جب تک ترکی نیٹو کا حصہ ہے، اسے اپنے دفاع کے لیے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو کسی نیٹو اتحادی کے خلاف ہے۔‘ ’اگر ترکی اپنی آزاد راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے تو اسے نیٹو چھوڑ دینا چاہیے۔ امریکی پابندیاں نیٹو کو اس راہ پر گامزن کر دیں گی۔‘ مونا نامی صارف نے لکھا کہ نیٹو میں ترکی کی موجودگی سے پاکستان جیسے مسلم ممالک کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ’اگر یہ نیٹو سے نکلتا ہے تو کچھ ممالک کے لیے یہ بڑا دھچکا ہو گا۔‘ محمود فاروق نے لکھا کہ ’ترکی کو نیٹو سے نکالنا آسان نہیں۔۔۔ ترکی میں اب بھی امریکی فوجی اڈے ہیں۔‘
131223_england_tredwel_swan_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/12/131223_england_tredwel_swan_ra
ایشز سیریز: بورتھوک اور جیمز کی سکواڈ میں شمولیت
انگلینڈ کے کھلاڑی گریم سوان کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد آسٹریلیا میں جاری ایشز سیریز کے لیے انگلینڈ نے سکاٹ بورتھ وک اور جیمز ٹریڈول کو ٹیم میں شامل کیا ہے۔
سکاٹ بورتھ وک ڈرہم کی جانب سے کھیلتے ہیں اور وہ لیگ سپنر ہیں جبکہ جیمز ٹریڈول آف سپنر ہیں اور کینٹ کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ تئیس سالہ بورتھ وک انگلینڈ کی جانب سے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ میلبورن میں کھیل سکتے ہیں لیکن اس میچ کے لیے بائیس ہاتھ سے آہستہ گیند کرنے والے مونٹی پنیسر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سوان کی جگہ لیں گے۔ اکتیس سالہ ٹریڈول میلبورن ٹیسٹ کے لیے وقت پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ دونوں سپنروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ میلبورن ٹیسٹ میں نہیں کھیل سکیں گے۔ تاہم سڈنی میں کھیلے جانے والے ایشز سیریز کے آخری ٹیسٹ میں ان کو ٹیم میں جگہ مل سکتی ہے۔ انگلینڈ پہلے ہی ایشز سیریز ہار چکا ہے۔ آسٹریلیا نے ابھی تک کھیلے گئے تینوں ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ اتوار کو انگلینڈ کے سپن بالرگریم سوان نے تمام قسم کی کرکٹ سے فوری ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ 34 سالہ گریم سوان نے آسٹریلیا میں جاری ایشز سیریز میں اب تک صرف سات وکٹیں لی ہیں۔ چونتیس سالہ سوان نے ساٹھ میچوں میں 255 وکٹیں حاصل کی ہیں اور وہ انگلینڈ کی جانب سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بالروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ ٹریڈول نے انگلینڈ کی جانب سے صرف ایک ٹیسٹ کھیلا ہے۔ انہوں نے تین سال قبل بنگلہ دیش کے خلاف میچ کھیلا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوبیس ایک روزہ اور سات ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلیں ہیں۔وہ پہلے ہی آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے آسٹریلیا جا رہے تھے۔ تاہم اب ان کو جلدی بلا لیا گیا ہے۔انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین ایک روزہ سیریز بارہ جنوری سے شروع ہو گی۔ دوسری جانب بورتھوک نے 2011 میں دو ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی میں انگلینڈ کی نمائندگی کی تھی۔آسٹریلیا کے خلاف ہونے والے آخری دو ٹیسٹ میچوں میں مونٹی پنیسر کے ٹیم میں شامل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ انگلینڈ کے سابق کپتان جیف بائیکاٹ مونٹی کے ٹیم میں شامل کے حق میں ہیں لیکن سوان کا کہنا ہے کہ بورتھوک ٹیم کے لیے زیادہ بہتر رہیں گے۔
071119_caretaker_oath_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071119_caretaker_oath_zs
نگران وزرائےاعلٰی، کابینہ کا حلف
پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تینوں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کر دی گئی ہیں اور نگران وزرائے اعلٰی اور ان کی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔
سرحد اسمبلی کے مدت پوری کیے جانے سے قبل توڑنے جانے کی وجہ سے وہاں پہلے ہی نگران حکومت قائم کی جا چکی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں ہائی کورٹس کے سابق ججوں اور بلوچستان میں سردار عطاءاللہ مینگل کے برادر نسبتی کو نگران وزیراعلٰی بنایا گیا ہے ۔ بی بی سی اردو کے نامہ نگار علی سلمان کے مطابق پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج شیخ اعجاز نثار کو نگران وزیراعلٰی مقرر کیا گیا ہے۔گورنر ہاؤس کے دربارہال میں پنجاب کے گورنر خالد مقبول نے شیخ اعجاز نثار اور ان کی سترہ رکنی کابینہ سے حلف لیا۔ پنجاب کے نگران وزیراعلٰی نے حلف اٹھانے کے بعدگورنر ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا صوبے میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ پنجاب کی نگران کابینہ میں معروف ماہر تعلیم میرا فیلبوس کو تعلیم،ٹی وی میزبان مبشر لقمان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی و کمیونیکشن ورکس، مقبول الہی ملک کو انسانی حقوق، آصف جان کو بلدیات، میاں شفقت کو ہاؤسنگ اور میاں محمد شفیق کو کامرس کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ دیگر وزراء میں بیرسٹر محمود شیخ کو قانون، سہیل افضل کو خصوصی تعلیم، سعد احسن کو جنگلات و ماہی پروری، جسٹس(ر) آصف جان کو مقامی حکومت، شہزاد اعظم کو محنت و افرادی قوت، سینیٹر دلاور عباس آبپاشی، ولید طارق سہگل ایکسائز اور مخدوم افتخار الحسن کو معدنیات کے محکمے دیے گئے ہیں۔ کوئٹہ گورنر بلوچستان اویس احمد غنی نے نگراں وزیراعلی سردار صالح بھوتانی اور گیارہ رکنی کابینہ سے حلف لیا۔ کابینہ میں زیادہ تر قبائلی رہنما اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ نگراں صوبائی وزراء میں سردار سعادت علی ہزارہ، امجد رشید، نواب غوث بخش باروزئی، مراد ابڑو، عارف جان محمد حسنی، ڈاکٹر عطا گل، سردار حیدر خان ناصر، روشن خورشید بروچہ، بیرسٹر میر سیف اللہ خان مگسی، نواب اورنگزیب جوگیزئی اور عبدالغفور بلوچ شامل ہیں۔ بلوچستان کے نگران وزیراعلٰی سردار صالح بھوتانی انیس سو ستتر سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ وہ چھ مرتبہ لسبیلہ زیریں سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ سردار صالح بھوتانی سردار عطاءاللہ مینگل کے برادر نسبتی ہیں اور سیاسی اور قبائلی طور پر انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ یاد رہے گزشتہ روز جام محمد یوسف نےگورنر بلوچستان سے اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست کی تھی اورگورنر بلوچستان نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔ کراچیسندھ حکومت اپنی پانچ سالہ معیاد مکمل کرنے کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب تحلیل کر دی گئی اور پیر کی سہ پہر نگراں حکومت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے ارمان صابر کے مطابق سندھ کے نگراں وزیرِاعلٰی کے طور پر سندھ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس عبدالقادر ہالیپوٹہ نے حلف اٹھایا ہے۔عبدالقادر ہالیپوٹہ ماضی میں سندھ کے وزیرِ قانون بھی رہ چکے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں نگران وزیراعلٰی کے علاوہ کابینہ کے چودہ وزراء نے بھی گورنر ہاؤس میں حلف اٹھایا جن میں سے پانچ کا تعلق متحدہ قومی مومنٹ، چار کا پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)، تین کا پاکستان مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ حلف برداری کی تقریب چار گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی اور تاخیر کی وجہ حکام نے آخر وقت تک کابینہ کے ممکنہ ارکان کے ناموں میں تبدیلی بتائی ہے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد نگراں وزیرِاعلٰی عبدالقادر ہالیپوٹہ نے گورنر سندھ سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ وہ اور ان کی کابینہ ایسا کوئی عمل نہیں کرے گی جس سے ان کی غیر جانبدارانہ حیثیت پر حرف آئے۔
120427_waziristan_peace_deal_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/04/120427_waziristan_peace_deal_zz
حقانی گروپ اور مقامی سردار کا تنازع ختم
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں حقانی گروپ اور مقامی قبائلی سردار کریم خان کے درمیان جاری تنازع ایک قبائلی جرگے کے ذریعے ختم ہوگیا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق حقانی گروپ کی نمائندگی گروپ کے جنگی کمانڈر سنگین خان نے کی مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعہ کی شام کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں بازار کے مشرقی حصے میں واقع ایک کُھلے میں میدان میں اتمان زئی وزیر قبائل کے مشران اور علماء پر مُشتمل ایک مُشترکہ جرگے نے مُسلح طالبان سے مُلاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ چیف ملک قادرخان کی سربراہی میں ہونے والے جرگے میں تین سو زیادہ قبائلی مشران اور مقامی علماء اکرم نے شرکت کی۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ اتمان زئی وزیر قبائل کا جرگہ کئی قافلوں کی شکل میں 80 گاڑیوں میں تحصیل میرعلی سے میرانشاہ پہنچا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میرانشاہ بازار کے ایک کُھلے میدان میں طالبان شدت پسندوں سے جرگے کی مُلاقات ہوئی جس میں ایک سو سے زیادہ مُسلح جنگجو موجود تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق حقانی گروپ کی نمائندگی گروپ کے جنگی کمانڈر سنگین خان جبکہ حافظ گل بہادر گروپ کی نمائندگی کمانڈر حلیم خان کر رہے تھے۔ حکام کے مطابق قبائلی جرگے کی کوششوں سے طالبان شدت پسند نے کریم خان کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا جس کے بعد سے طالبان شدت پسند کریم خان کے رہائش گاہ پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کریم خان طالبان کے خلاف کوئی اقدام اُٹھائیں گے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں حافظ گل بہادر گروپ کے کمانڈر حلیم خان نے بُہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پینتالیس سالہ کمانڈر حلیم خان کا تعلق تحصیل میرعلی کے گاؤں خُوشالی سے ہے اور ان کا قد بُہت چھوٹا ہے اور دارالعلوم حقانیاں اکوڑہ خٹک سے دینی تعلیم حاصل کی ہے اور علاقے میں بہادر کمانڈر کے نام سے مشہور ہیں جبکہ حافظ گل بہادر کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق طالبان شدت پسندوں نے بتایا تھا کہ کریم خان کو اس لیے نشانہ بنایاگیا کہ ان کے خاندان میں بُہت سارے جرائم پیشہ لوگ موجود ہیں اور طالبان علاقے سے جرائم پیشہ لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ طالبان اور کریم خان کے درمیان ہونے والے فیصلے پر بُہت خوش ہے لیکن اس واقعہ سے پہلے میرانشاہ میں طالبان شدت پسندوں نے حکیم خان نامی ایک شخص کے خلاف اس بنیاد پر کارروائی کی تھی کہ وہ جرائم پیشہ تھے۔ اس کارروائی کے دوران چار طالبان کے علاوہ حکیم خان گروپ کے انیس ساتھی طالبان کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ طالبان شدت پسندوں نے دوسرے دن ان کی لاشیں لٹکا دی تھیں اور بعد میں لاشوں کی بے حرمتی کی تھی۔ اب مقامی لوگوں کو خوف ہے کہ اس طرح نہ ہوں کہ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ طالبان شدت پسند ایک بار پھر کریم خان پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔
121018_indo_china_war_rh
https://www.bbc.com/urdu/india/2012/10/121018_indo_china_war_rh
بھارت اور چین میں جنگ کی یادیں
کوئی بھی شخص جو میری طرح ہمالیہ کی بلندیوں میں چین کے ساتھ عارضی لیکن تلخ سرحدی جنگ کا گواہ ہے، وہ نصف صدی کے بعد بھی وہ صدمہ بھولا نہیں ہے جس میں بھارتی فوج کی شکست ہوئی تھی اور سیاسی طور پر ناکامی بھی۔
اندر ملہوترا سینیئر صحافی، دلی سنہ انیس سو باسٹھ میں چین کے ساتھ جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی تھی اس جنگ کی تاریخ کو اتنی باریکی سے لکھا گیا ہے کہ اس زمین پر دوبارہ چلنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس پر بہت اچھی طرح سے کام کیا جا چکا ہے۔ یہ کہنا کافی ہوگا جیسا جواہر لال نہرو کے سرکاری سوانح عمری لکھنے والے ایس گوپال نے لکھا تھا ’چیزیں اتنی بری طرح غلط ہوئیں کہ اگر ایسا واقعی میں نہیں ہوتا، تو ان پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا۔‘ لیکن ایسا ہوا کہ بھارت کے اس وقت کے صدر ایس رادھاكرشن نے اپنی حکومت پر آسانی سے یقین کرنے اور نظر انداز کرنے کا الزام لگا دیا۔ جواہر لال نہرو نے بھی خود پارلیمنٹ میں کہا تھا ’ہم جدید دنیا کی حقیقت سے رابطہ بھول گئے تھے اور ہم ایک مصنوعی ماحول میں رہ رہے تھے جسے ہم نے ہی تیار کیا تھا۔‘ اس طرح انہوں نے اس بات کو تقریباً قبول کر لیا تھا کہ انہوں نے یہ یقین کرنے میں بڑی غلطی کی کہ چین سرحد پر جھڑپوں، گشتی پارٹی کی سطح پر تصادم اور تو تو میں میں سے زیادہ کچھ نہیں کرے گا۔ اگرچہ چین کے ساتھ جاری تنازعہ نومبر 1959 کے ابتداء میں اس وقت پرتشدد ہو گیا تھا جب لداخ کے كوگكالا میں پہلی بار چین نے خون بہایا تھا۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہر اس غلطی کی جڑ بن گیا جو اس کے بعد سرزد ہوئی۔ اس کے لیے ہمارے معزز وزیر اعظم کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ لیکن ان کے مشیر، افسر اور فوج بھی اس معاملے میں برابر کے مجرم ہیں کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی ان سے اکیلے میں بھی اس پر بحث نہیں کی کہ وہ غلطی پر تھے۔ ان کا یہ بہانہ ایک عام اصول تھا کہ ’ نہرو سب سے بہتر جانتے تھے‘۔ چین کے ساتھ تنازع کے بعد فوج کے سربراہ بنے جنرل ’مچچھو‘ چودھری کا خیال تھا ’ہم نے یہ سوچا تھا کہ ہم چینی شطرنج کھیل رہے ہیں، لیکن وہ روسی رولیٹ نکلا۔‘ جن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ لیکن اوپر جو دو نام ہونے چاہیئں، ان میں پہلے ہیں کرشنا مینن جو 1957 سے ہی ملک کے وزیر دفاع تھے۔ بھارتی فوج چین کے منصوبوں کا پتہ کرنے میں ناکام رہی دوسرا نام لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول کا ہے جن پر کرشنا مینن کی خاص نظرِ کرم تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل کول کو شمال مشرقی علاقے کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اس علاقے کو اب اروناچل پردیش کہا جاتا ہے۔ کول پہلے درجے کے فوجی نوکر شاہ تھے۔ ساتھ ہی وہ غضب کے جوش کے باعث بھی مشہور تھے۔ لیکن انہیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ایسی تباہ کن تقرری کرشنا مینن کی وجہ سے ممکن ہوئی کیونکہ وزیر اعظم سے قربت کے باعث مسٹر مینن جو بھی چاہتے تھے، وہ کرنے کے لیے آزاد تھے۔ مینن ایک ذہین لیکن چڑچڑی شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں فوج کے سربراہان کو ان کے جونيئرز کے سامنے بے عزتی کرنے میں مزا آتا تھا۔ وہ فوجی تقرریوں اور پروموشنز میں اپنے چہیتوں پر کافی مہربان رہتے تھے۔ یقینی طور پر انہیں وجوہات کے سبب ایک اڑيل وزیر اور مشہور جنرل كے ایس تھمیا کے درمیان بڑی بحث ہوئی۔ معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ مینن نے استعفیٰ دے دیا، لیکن انہیں اپنا استعفی واپس لینے کے لیے منا لیا گیا۔ لیکن اس کے بعد فوج اصلی شکل میں مینن کی نوکرانی بن گئی۔ ہمالیہ پر کول شدید طور پر بیمار پڑگئے اور انہیں دلی واپس لایا گیا لیکن مینن نے حکم دیا کہ وہ اپنا کمانڈ برقرار رکھیں گے اور دلی ہی سے وہ جنگ کی کمانڈ سنبھالیں گے۔ فوج کے سربراہ جنرل پی این تھاپر اس نظریہ کے مکمل طور پر خلاف تھے، لیکن وہ مینن سے ٹکراؤ نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جرنل کول واضح طور پر بہت سے معاملات میں غلط تھے، جنرل تھاپر ان کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ چین کی فوج نے بھارت کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا ان حالات میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ نہرو کے 19 نومبر کو امریکی صدر کینیڈی کو لکھے ان کے قابل رحم خطوط سے کافی پہلے ہی کرشنا مینن اور کول پورے ملک میں قابل نفرت شخصیت بن چکے تھے۔ اس کا نتیجہ بلکل واضح تھا۔ کانگریس پارٹی کے بیشتر لوگ اور پارلیمنٹ نے اپنا زیادہ وقت اور توانائی حملہ آوروں کو بھگانے کے بجائے مینن کو وزارت دفاع سے ہٹانے میں صرف کیا۔ نہرو پر بھی کافی دباؤ پڑا اور بالآخر انہوں نے مینن کو سات نومبر کو برخواست کر دیا اور کول کے معاملے میں تو صدر رادھاكرشن نے جیسے سب کچھ کہہ دیا ہو۔ 19 نومبر کو دلی آئے امریکی سينٹرز کے ایک وفد نے بھارتی صدر سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک نے یہ پوچھا کہ کیا جنرل کول کو قیدی بنا لیا گیا ہے؟ اس پر صدر رادھاكرشن کا جواب تھا ’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘۔ قومی سلامتی پر فیصلہ کرنا اتنا غیر منظم تھا کہ مینن اور کول کے علاوہ صرف تین لوگ سیکرٹری خارجہ ایم جے دیسائی، خفیہ سروسز کے سربراہ بي این ملک اور وزارت دفاع کے طاقتور جوائنٹ سیکریٹری ایچ سی سرین کی ہی پالیسی سازی میں چلتی تھی۔ ان میں سے سبھی کرشنا مینن کے معاون تھے۔ بی این ملک کا کردار بڑا تھا اور زیادہ وقت بدنام کرنے میں لگے رہتے تھے۔ ملک پالیسیاں بنانے میں افراتفری پھیلاتے تھے، جو ایک خفیہ چیف کا کام نہیں تھا۔ ’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘ نہرو پر بھی کافی دباؤ پڑا اور بالآخر انہوں نے مینن کو سات نومبر کو برخواست کر دیا اور کول کے معاملے میں تو صدر رادھاكرشن نے جیسے سب کچھ کہہ دیا ہو۔ 19 نومبر کو دلی آئے امریکی سينٹرز کے ایک وفد نے بھارتی صدر سے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک نے یہ پوچھا کہ کیا جنرل کول کو قیدی بنا لیا گیا ہے؟ اس پر صدر رادھاكرشن کا جواب تھا ’بدقسمتی سے یہ سچ نہیں ہے‘۔ اگر مسٹر ملک اپنے کام پر توجہ دیتے اور یہ پتہ لگاتے کہ چین اصل میں کیا کر رہا ہے، تو ہم اس شرمناک اور ہتک آمیز صورتحال سے بچ سکتے تھے۔ لیکن اس کے لیے یہ پتہ کرنا ہوتا ہے کہ ایک طرف جب ہم پوری طرح اس بات سے مطمئن تھے کہ کوئی بھی بڑی چیز نہیں ہوگی، چینی ہنما ماؤ، ان کے اعلی فوجی افسر اور سیاسی مشیر بڑی چالاکی سے اس منصوبہ بندی میں مصروف تھے کہ کس طرح بھارت کے خلاف محتاط رہ کر حملہ کیا جائے، جو انہوں نے کیا بھی۔ نہرو نے یہ سوچا کہ بھارت اور چین کی جنگ میں چین اور سوویت کے درمیان پھوٹ ایک اہم بات ہوگي اور یہ چین کے لیے خوف کی ایک بڑی وجہ ہوگي۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ کیوبا کے میزائل بحران کی معلومات کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے نہرو کو سبق سکھانے کا ماؤ کا پیغام نكتا كھرشچیو کے لیے بھی تھا اور اس وجہ سے سوویت لیڈر نے احتیاط برتا۔ بھارت کو اس میزائل کے بحران کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ 25 اکتوبر کو روسی اخبار پراودا نے بھارت کو كپكپا دیا۔ اس اخبار نے ’ہمارے چینی بھائی اور ہندوستانی دوست‘ کی بات کی۔ پراودا نے یہ بھی مشورہ دیا کہ بھارت کو عملی طور پر چین کی شرائط پر چین سے بات کرنی چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ کیوبا کے بحران کا حل قریب آتے ہی روس اپنی پرانی پالیسی پر آ گیا۔ لیکن ماؤ نے حملے کا وقت اسی حساب سے ہی طے کیا تھا۔ آخر میں ماؤ نے بھارت میں وہ حاصل کر لیا، جو وہ چاہتے تھے۔ وہ كھرشچیو پر كریبین میں بزدلی اور ہمالیہ میں غداری کے لیے طعنہ زنی بھی کر سکتے تھے۔ اسی بارے میں
080929_shares_slump_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/09/080929_shares_slump_rza
دنیا میں ہر جگہ مندی ہی مندی
کانگریس کی جانب سے ملکی اقتصادیات کو بچانے کے لیے صدر بش کے ریسکیو پیکج کی نامنظوری کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ اور ایشیا میں شیئر مارکیٹوں میں افراتفری مچ گئی اورشیئرز کی قیمتیں انتہائی تیزی سے گر گئیں۔
نیویارک میں پیر کو ٹریڈنگ کے اختتام پر ڈاؤ جونز انڈیکس سات فیصد تک گر چکی تھی۔ یہ ایک دن میں اس انڈیکس کی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔امریکہ میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد جب شیئر بازار کھلا تو سترہ ستمبر کو ڈاؤ جونز انتہائی متاثر تھی۔ تاہم پیرکو انڈیکس میں 777 پوائنٹس کی کمی ہوئی جو ایک دن میں ڈاؤ جونز کا سب سے زیادہ نقصان ہے۔ منگل کو ایشیا میں جیسے ہی مارکیٹیں کھلیں، ان میں گرواٹ کے آثار واضح تھے۔ جاپان، کوریا اور آسٹریلیا میں شیئرز کے مسلسل گرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس سے قبل پیر کو دن کے وقت ریسکیو پیکج پر ووٹنگ سے پہلے یورپ کی مارکیٹیں بھی گراوٹ کا شکار رہیں۔ لندن کی مارکیٹ پانچ اعشاریہ تین فیصد تک گر گئی جو جنوری سے اب تک اس کی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔’ ادھر امریکی ڈالر کی قدر میں دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں کمی ہوئی۔ بی بی سی کے بزنس ایڈیٹر رابرٹ پیسٹن کا کہنا ہے کہ جب سے قرضوں کی عدم ادائیگی کا معاملہ شروع ہوا ہے تب سے اب تک عالمی مالیات کی دنیا میں پیر کا دن بدترین دن ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ روز امریکہ میں سیاست دانوں کے درمیان ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے صدر بش کے تجویز کردہ ریسکیو پیکج کے حتمی مسودے پر معاہدہ طے پانے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ پیر کو مارکیٹوں میں مثبت رجحان دیکھا جائے گا۔ تاہم امریکہ میں کانگریس کی طرف سے ریسکو پیکج کو نامنظورکیے جانے کے بعد صورتِ حال یکسر بدل گئی اور لوگوں کا نقصان ہو گیا۔
140818_liberia_ebola_crisis_patients_flee_mb
https://www.bbc.com/urdu/science/2014/08/140818_liberia_ebola_crisis_patients_flee_mb
ایبولا بحران: لائبیریا کے طبی مرکز سے 17 مریض فرار
مغربی افریقی ملک لائبیریا کے دارالحکومت مونروويا میں ایبولا کے علاج کے لیے مخصوص ایک طبی مرکز کو حملہ کر کے لوٹ لیا گیا ہے، اور وہاں سے 17 مریض فرار ہو گئے ہیں۔
اتوار کو پولیس نے دارالحکومت مونروویا میں مظاہرین کے خلاف ہوا میں فائرنگ بھی کی لیکن اس کا کوئی اثر نظر نہیں آيا فرار ہونے والے مریضوں کے بارے میں متضاد قسم کی اطلاعات ہیں۔ سنیچر کی شام ایک مشتعل ہجوم نے اس مرکز پر حملہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب شہر کی گھنی آبادی والے ویسٹ پوائنٹ علاقے میں سینکڑوں لوگوں نے ’یہاں ایبولا نہیں ہے‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مظاہرہ کیا ہے۔ لائبیریا کے نائب وزیر صحت ٹولبرٹ نوینسواہ نے کہا کہ مظاہرین اس بات سے ناراض تھے کہ یہاں جن مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے وہ یہاں کے نہیں ہیں بلکہ دارالحکومت کے باہر سے لائے جا رہے ہیں۔ ٹولبرٹ نے کہا کہ علاج کے مرکز پر حملے کے بعد 29 مریضوں کو جان ایف کینیڈی میموریل میڈیکل سینٹر میں قائم مرکز میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں انھیں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ایک نامہ نگار نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 افراد طبی کیمپ سے فرار ہو گئے، جبکہ دس دیگر لوگوں کو ان کے لواحقین اپنے ساتھ لے گئے۔ حملے کی ایک عینی شاہد ریبیکا ویسیا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’انھوں نے دروازہ توڑ کر اس ہیلتھ سینٹر کو لوٹ لیا اور سارے مریض وہاں سے فرار ہو گئے۔‘ اطلاعات کے مطابق بھیڑ اس لیے بھی مشتعل تھی کہ ان کے علاقے میں ایبولا کے علاج کے لیے مرکز قائم کیا گیا ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق لائبیریا میں ایبولا وائرس کے انفیکشن سے 400 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، اور اب تک دنیا بھر میں مجموعی طور پر اس وائرس کے انفیکشن سے 1145 لوگ مارے گئے ہیں۔ لاگوس سے ہمارے نامہ نگار ول راس نے کہا ہے کہ مونروویا کے حملے کو ایبولا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے لائبیریا میں روکا جائے جہاں اس مہلک وائرس کے بارے میں لوگوں میں کم معلومات ہیں اور بہت سے لوگ ڈاکٹروں کے ساتھ تعاون کرنے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایبولا جسمانی رطوبتوں سے پھیلتا ہے جیسے پسینہ، خون وغیرہ، اور ابھی تک اس کا کوئی علاج نہیں ہے ایبولا کا وائرس فروری میں مغربی افریقی ملک گنی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور اب تک وہ لائبیریا، سیئرالیون اور نائجیریا تک پھیل چکا ہے۔ جنیوا میں عالمی ادارۂ صحت کی سربراہ جوان لیو نے کہا کہ اگرچہ گنی ابتدائی طور پر ایبولا کا مرکز تھا، مگر اب وہاں اس کے پھیلاؤ میں کمی آ رہی ہے اور اب توجہ دیگر ممالک خصوصاً لائبیریا پر مرکوز ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم لائبیریا میں حالات پر قابو نہ پا سکے تو خطے کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔‘
121217_quetta_killing_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/12/121217_quetta_killing_zs
کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ، تین ہلاک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فائرنگ کے دو واقعات میں محکمۂ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس اور ایف سی نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کر دیں فائرنگ کا پہلا واقعہ پیر کو ضلع کچہری کے قریب شاہراہِ اقبال پر اس وقت پیش آیا جب موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے ایک گاڑی پر فائرنگ کی۔ فائرنگ سے گاڑی میں سوار محکمۂ تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر ایڈمن خادم حسین نوری موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ خادم حسین نوری کا تعلق اہلِ تشیع سے تھا۔ اس کارروائی کے بعد فرار ہونے والے حملہ آوروں کا سامنا جناح روڈ پر پولیس کی گاڑی سے ہوا اور وہاں ان کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ زخمی پولیس اہلکار کو فوری طور پر سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان ہلاکتوں کے بعد پولیس اور ایف سی نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ فی الحال کسی تنظیم نے ان ہلاکتوں کی ذمہ دار قبول نہیں کی ہے۔ بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ میں اہلِ تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکتوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ ان ہلاکتوں کا الزام شدت پسند تنظیم لشکرِ جھنگوی پر لگایا جاتا رہا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
060124_indian_lad_ak
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2006/01/060124_indian_lad_ak
بھارتیوں کا نیا ’سٹیٹس سمبل‘
’کیا پریانکا چوپڑا اتنی دلکش ہے؟‘ سابق حسینہ عالم اور بالی وڈ کی سٹار پریانکا کی اتنی زیادہ تعریف پر معذرت لیکن یہ تھا وہ سوال جو بھارت میں ’میکسم‘ میگزین کے افتتاحی ایڈیشن کو دیکھ کر سب کے ذہن میں آیا جس کے کور پر پریانکا کی تصویر تھی۔
اس میگزین میں قارئین کے ساتھ یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں ’خواتین کے متعلق ایک سو ایسی باتیں بتائی جائیں گی جن کا انہیں علم نہیں ہے‘۔ یہ میگزین مغرب کے مقبول میگزین میکسم کی بھارتی اشاعت ہے۔ اس میں فیشن کے علاوہ پیشہ ور بھکاریوں کے طریقوں اور ایک پولیس انسپکٹر کے بارے میں کالم بھی شامل ہے جس کا خیال ہے کہ وہ ہندو خدا ’رادھا‘ کی شبیہ ہے۔ میگزین میں صحت اور فیشن کے علاوہ دیگر کئی موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ ’میکسم‘ میگزین کے دیگر حصوں میں مقبول مردوں، گاڑیوں اور ان کے ماڈلوں پر توجہ دی گئی ہے۔ برطانیہ کے قارئیں تو اس قسم کے طریقہ کار سے واقف ہوں گے لیکن برصغیر کے لوگوں کے لیے اس کا اداریہ بہت گرم مزاج ہے۔ میگزین شائع کرنے والوں نے اس بات کا اچھی طرح اندازہ لگایا ہے کہ دلی، ممبئی، حیدر آباد اور بنگلور کے مشہور لوگ بھی ویسے ہی ہیں جیسے لندن، برمنگھم اور مانچسٹر کے بڑے لوگ۔ لیکن اس سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی مٹیار کا انتخاب کیوں کیا ہے اور اس سلسلے میں ان کے ذہنوں میں کیا خاص بات ہے؟ بظاہر ان کی توجہ کا مرکز وہ نوجوان ہیں جو معاشی طور پر ترقی کر رہے ہیں اور انہیں اپنے ’امیج‘ کی فکر ہے۔ وہ زمانے کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کے پاس پیسے بھی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت کے لوگوں کو جنسی معاملات پر آگہی دی جا رہی ہے۔ آخر یہ ’کاما سوترا‘ کی سرزمین ہے جہاں مندروں کے نقش و نگار مردوں کے میگزینوں سے زیادہ عریانی کے حامل ہیں۔ لیکن جو تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب بھارت کے لوگ اس کے متعلق کھلے عام بات کرنے اور پڑھنے سے نہیں جھجکتے۔ اب اس طرح کے میگزین کا گھر میں ہونا کوئی شرم کی بات نہیں ہے بلکہ اب تو یہ ’سٹیٹس سمبل‘ بن گیا ہے۔ تاہم میگزین میں مالی معاملات کے متعلق کچھ نہیں لکھا گیا ہے کہ پیسے کس طرح بچائے جائیں اور کس طرح اچھی سرمایہ کاری کی جائے؟ اس کا غیر اعلانیہ منشور تو صرف ’خرچ کرو اور مزے اڑاؤ‘ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ میگزین سے ذات پات کے معاملات بھی غائب ہیں۔ تاہم اس میگزین کی اشاعت نے مغربی ثقافت کی یلغار کے متعلق بحث چھیڑ دی ہے لیکن اس کی مخالفت میں غم و غصے کا عنصر زیادہ نہیں پایا جاتا۔ ’میکسم‘ کے مدیر سنیل مہرہ نے اس موضوع پر کہا کہ ’کہاں ہیں وشوا ہندو پریشد کے مظاہرین جو اس کی کاپیاں سڑکوں پر جلا رہے ہوں؟‘ ان کا اشارہ ہندو قوم پرست جماعت کی طرف تھا جو اپنے آپ کو ہندو اخلاقیات اور روایات کا محافظ سمجھتی ہے۔ وقت کی نبض کو صحیح طور پر سمجھنے کی وجہ سے اس میگزین کی کامیابی کے قوی امکانات موجود ہیں اور اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ صرف دس دن میں اس کی اسی ہزار جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔
060326_bugti_back_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/03/060326_bugti_back_zs
کڑی حفاظت میں بگٹیوں کی واپسی
ڈیڑھ ہزار سے زائد ایسے بگٹی قبائلی اتوار کو فوج اور نیم فوجی ملیشیا کی زبردست حفاظت میں ڈیرہ بگٹی واپس پہنچ گئے ہیں جہاں سے نو برس پہلے انہیں نواب اکبر بگٹی کی ناراضی کے باعث زبردستی بے دخل کردیا گیا تھا۔
واپس آنے والے قبائلی میر احمدان بگٹی کے اہل خانہ، عزیزواقارب اور جاننے والے ہیں اور یہ تمام افراد گزشتہ نو برس سے ملتان میں رہ رہے تھے۔ ضلع کونسل ڈیرہ بگٹی کے سابق ناظم میر احمدان بگٹی قبیلے کے سردار نواب اکبر بگٹی کے کزن ہیں اور ان کا تعلق بھی بگٹی قبیلے کی رائجا شاخ سے ہی ہے جس سے خود نواب بگٹی کا بھی تعلق ہے۔ بگٹی قبائل میں کلپر، رائجا اور مسوری نام کی تین اہم شاخیں ہیں اور فی الوقت سرداری رائجا شاخ میں ہی چل رہی ہے۔ میر احمدان بگٹی کو ان کے مسلح حامیوں سمیت گزشتہ روز سو کے قریب ویگنوں اور ٹرکوں کے قافلے میں لا کر عارضی طور پر کشمور کی چھاؤنی میں ٹھہرایا گیا تھا جہاں سے اتوار کی سہہ پہر انہیں زبردست حفاظتی انتظامات میں ڈیرہ بگٹی میں ان کے گھروں میں لا کر واپس بسایا گیا ہے۔ کشمور سے براستہ سوئی ڈیرہ بگٹی تک تمام راستے میں سڑک کے دونوں جانب نہ صرف فرنٹئیر کونسٹیبلری اور پولیس کے اہلکار تعینات تھے بلکہ پہاڑیوں پربھی حفاظتی دستوں نے مورچے قائم کیے ہوئے تھے جبکہ فضا میں گن شپ ہیلی کوپٹر بھی چکر لگارہے تھے۔ تاہم اس قدر سخت حفاظتی اقدامات کے باوجود ایک مقام پر پورے قافلے کو خاصی دیر اس اطلاع پر رکنا پڑا کہ سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے درمیان قبائلی جنگجوؤں اور فوج کے درمیان تصادم ہوا ہے۔ بعد میں فرنٹئیر کونسٹیبلری کے کرنل فرقان نے ڈیرہ بگٹی میں تصادم کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس تصادم میں کم ازکم ایک سیکیورٹی اہلکار اور دو حملہ آور ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ مزید کچھ مشتبہ حملہ آور گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ میر احمدان بگٹی کی واپسی کے لیے حکام نے ڈیرہ بگٹی میں عام لوگوں کی جانب باقاعدہ ایسے بینر لگائے تھے جن پر ان کے خیرمقدم کے ساتھ ساتھ نواب اکبر بگٹی کے خلاف نعرے بھی درج تھے۔ تاہم بگٹی مہاجرین کی واپسی کے وقت ڈیرہ بگٹی مکمل طور پر ویران تھا۔ دکانیں بند اور سڑکیں سنسان تھیں اور وہاں صرف اور صرف سیکیورٹی اداروں کے اہلکار ہی دکھائی دے رہے تھے۔ حکام کے مطابق حالات معمول پر آرہے ہیں اور شہر چھوڑ جانے والی دس فیصد آبادی واپس بھی آچکی ہے لیکن بگٹی مہاجرین کےقافلے کے ساتھ جانے والے صحافیوں کو اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔ خود میر احمدان بگٹی نے واپسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گو وہ تیرہ برس سے اپنے گھروں سے دور ہیں لیکن ان کو نکالنے کے ذمہ دار صرف نواب بگٹی نہیں بلکہ ان کے ہاتھ حکومتیں اور سرکاری ادارے بھی برابر کے قصوروار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ماضی کے برعکس حکمرانوں کی وقتی سیاسی مصلحتیں آڑے نہیں آئیں تو وہ اب ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احمدان بگٹی کے قافلے کو لانے والی ویگنوں اور باربردار ٹرکوں کے ڈرائیوروں نے شکایت کی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زبردستی ان کو پکڑلیا ہے اور اب ان سے بیگار لی جارہی ہے۔تاہم فوجی حکام نے اس کی تردید کی ہے کہ وہ ویگنوں اور ٹرکوں سے بیگار لے رہے ہیں۔ ان کے مطابق تمام لوگوں کو معاوضہ دیا جارہا ہے۔
160201_zika_who_emergency_sh
https://www.bbc.com/urdu/science/2016/02/160201_zika_who_emergency_sh
زکا وائرس عالمی سطح پر خطرہ قرار دے دیا گیا
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ زکا وائرس عالمی سطح پر صحت کے لیے خطرہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جبکہ برازیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے ریو اولمکپس کے منسوخ کیے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
مچھروں کی وجہ سے پھیلنے والا یہ وائرس اب تک جنوبی امریکی خطے کے 20 ممالک میں پھیل چکا ہے ماہرین اس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث فکرمند ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ براعظم جنوبی امریکہ میں زکا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 30 سے 40 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے زکا کو عالمی تشویش کی اسی کیٹیگری میں رکھا گیا جس میں ایبولا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے تحقیق اور امدادی میں تیزی سے اقدامات کیے جائیں گے۔ عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹرجنرل ماگریٹ چین نے زکا کو ایک ~غیرمعمولی واقعہ‘ قرار دیا ہے اور مشترکہ ردعمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین اور ان کی بچوں کی حفاظت اور مچھروں کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ کے روکنا اولین ترجیح ہے۔ دوسری جانب برازیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے ریو اولمکپس کے منسوخ کیے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ صدر ڈلما روسوف کے چیف آف سٹاف یاکس وگنر نے حاملہ خواتین کو کھیلوں کے لیے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس سے قبل صدر ڈلما روسوف نے خالی عمارتوں میں جراثیم کی تلاش کے لیے صحت کے عملے کو زبردستی داخلے دے دی تھی۔ عالمی ادارہ صحت سے حاملہ خواتین کو زکا وائرس سے متاثرہ علاقوں کے سفر سے اجتناب برتنے کی تاکید کی ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں مچھروں سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی تلقین کی ہے۔ فی الوقت زکا وائرس سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسینیشن یا دوائی موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایڈیس نامی مچھر سے بچا جائے جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔ خیال رہے کہ اس قبل عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال کا اعلان مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کے پھیلنے کے بعد کیا گیا تھا۔ ایبولا وائرس کے نتیجے میں 11 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ زکا وائرس کے بارے میں سب سے پہلے یوگینڈا میں سنہ 1947 میں معلوم ہوا تھا لیکن یہ وائرس اس سے قبل کبھی بھی اس حد تک نہیں پھیلا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹرجنرل ماگریٹ چین نے زکا وائرس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت پر زور دیا ہے مچھروں کی وجہ سے پھیلنے والا یہ وائرس اب تک جنوبی امریکی خطے کے 20 ممالک میں پھیل چکا ہے تاہم برازیل اس وقت خطے میں اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ جنوبی امریکہ میں برازیل نے زکا وائرس کا پہلا کیس مئی 2015 میں رپورٹ کیا تھا۔ اس وائرس سے متاثرہ بہت سے افراد میں کوئی علامات نہیں دیکھی گئیں اسی لیے اس کا ٹیسٹ کرنا مشکل ہے۔ تاہم ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ برازیل میں ایک اندازے کے مطابق پانچ سے 15 لاکھ افراد متاثر ہیں۔ اسی دوران برازیل میں مائکرو سفیلے سے متاثرہ بچوں کی پیدائش میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ برازیل میں گذشتہ سال اکتوبر سے اب تک 4000 کیسز سامنے آچکے ہیں۔
120330_us_oil_sanctions_tf
https://www.bbc.com/urdu/world/2012/03/120330_us_oil_sanctions_tf
ایران سے تیل درآمدات پر امریکی پابندیاں
امریکی صدر براک اوباما نے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے خلاف تازہ پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو منظور کر دیا ہے۔
ترکی نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری میں بیس فیصد کمی کر رہا ہے۔ صدر اوباما نے یہ متعین کیا ہے کہ تیل کی عالمی منڈی میں اتنا تیل موجود ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک بغیر کسی تشویش کے ایران سے تیل خریدنا بند کر سکتے ہیں۔ صدر اوباما کے اس فیصلے کے تحت ان غیر ملکی بینکوں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی جو اب بھی ایران کے ساتھ تیل کی تجارت میں شریک ہیں۔ ایران کے خلاف یہ پابندیاں اس کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد کی گئی ہیں۔ مغربی ممالک کا شبہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ براک اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ وہ تیل کی عالمی منڈی پر نظر رکھیں گے تاکہ ایران سے کم تیل خریدے جانے کی وجہ سے کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں صدر اوباما نے ایک ایسے قانون کو منظور کیا تھا جس کے تحت انہیں رواں سال اکتیس مارچ تک یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا عالمی منڈی میں اتنا تیل موجود ہے کہ ممالک ایران سے تیل کی خریداری بےحد کم کر پائیں۔ اس قانون کے تحت ممالک کو ایران سے خریدے جانے والے تیل کو کم کرنے کے لیے رواں سال اٹھائیس جون تک کی مہلت دی گئی ہے جس کے بعد ان پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ عائد کی گئی ان تازہ پابندیوں سے ایران سے زیادہ تیل درآمد کرنے والے ممالک جنوبی کوریا، بھارت، چین، ترکی اور جنوبی افریقہ پر دباؤ ہے۔ تاہم ترکی نے جمعہ کو اعلان کیا تھا کہ وہ ایران سے تیل کی خریداری میں بیس فیصد کمی کر رہا ہے۔
science-45369082
https://www.bbc.com/urdu/science-45369082
چین: بچوں میں نظر کی کمزوری کو روکنے کے لیے ویڈیو گیمنگ کنٹرول کرنے کا اعلان
چین میں حکام نے بچوں کی قریب کی نظر کم ہونے کے بڑھتے ہوئے رحجان کو روکنے کے لیے ویڈیو گیمنگ کو کنٹرول کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
چین دنیا کی سب سے بڑی گیمنگ مارکیٹ ہے ریگولیٹرز نئی ویڈیو گیمز کی تعداد کو محدود کرنے، کھیلنے کا وقت کم کرنے اور عمر کی پابندی کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ چین میں سنہ 2015 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 50 کروڑ افراد کو بصری معذوری کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے نصف آبادی پانچ برس کی تھی۔ واضح رہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی گیمنگ مارکیٹ ہے۔ حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد مقامی ٹیک کمپنیوں کے حصص میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ اس بارے میں مزید پڑھیے ویڈیو گیمز کی لت کو ذہنی بیماری تسلیم کر لیا گیا ویڈیو گیمر: ’لوگوں کے پاس آئیڈیا تو ہے مگر ہنر نہیں ‘ ’ویڈیو گیمز ذہنی امراض کے علاج میں مددگار‘ فٹبال سے زیادہ ویڈیو گیمز میں کمائی چین کے صدر شی جنگ پنگ نے رواں ہفتے کے اوائل میں نظر کی قومی صحت پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا جس کے بعد چین کی وزارتِ تعلیم نے جمعرات کو نئی پالیسی جاری کی ہے۔ اس پالیسی نے قریب کی نظر کی اعلیٰ سطح پر بھاری مطالعہ کے بوجھ، موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات کے پھیلاؤ، بیرونی سرگرمیوں اور مشق کی کمی پر الزام عائد کیا ہے۔ گو کہ اس اس پالیسی میں اس امر پر اتفاق نہیں ہے کہ گیمنگ کی وجہ سے بچوں کی قریب کی نظر متاثر ہو رہی ہے تاہم مطالعہ کو ایک ممکنہ وجہ کے طور دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں لوگوں کی بینائی کم ہونے کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں شرح سب سے زیادہ ہے۔ چین میں جمعرات کو جاری کی جانے والی نئی پالیسی کے بعد جمعے کو چین کی گیمنگ کمپنیوں کے حصص میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
070225_derrell_ends_sq
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2007/02/070225_derrell_ends_sq
ڈیرل ہیئرکا نسلی امتیاز کا الزام واپس
کرکٹ امپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے خلاف نسلی امتیاز کا الزام واپس لے لیا ہے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈیرل ہیئر نے پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) دونوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا تھا۔ واضح رہے کہ انہیں اوول کے میدان میں پاکستان کے خلاف فیصلہ سنانے کے بعد آئی سی سی نے اپنے ایلیٹ امپائروں کے پینل سے خارج کر دیا تھا۔ ڈیرل ہیئر نے اگرچہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کے خلاف الزام واپس لے لیا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے آئی سی سی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ترک نہیں کیا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں اوول میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان میچ کو ختم کرنے کے بعد آئی سی سی نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ پاکستان نے اس میچ کے دوران اس وقت کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جب ڈیرل ہیئر نے پاکستانی بولروں پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگاتے ہوئے مخالف ٹیم کو پانچ اضافی رنز دے دیے تھے۔ شروع میں ڈیرل ہیئر کا خیال تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ’غیرقانونی طریقے‘ استعمال کیے تھے۔ اگرچہ آئی سی سی کے ساتھ ڈیرل ہیر کے امپائرنگ کے معاہدے کی معیاد مارچ دو ہزار آٹھ تک ہے لیکن انہیں اگلے ماہ ویسٹ انڈیز میں ہونے والے عالمی کپ کے مقابلوں کے لیے طلب نہیں کیا گیا۔ اس دوران چون سالہ آسٹریلوی نے، جو آجکل انگلینڈ میں مقیم ہیں، انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے امپائروں کی لسٹ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر وہ اس فہرست پر ہوتے تو وہ فرسٹ کلاس میچوں میں امپائرنگ کر سکتے تھے۔ اس ماہ کے اوائل میں ڈیرل ہیئر کے وکیل نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا ’ ہمارا اور ہمارے موکل ڈیرل ہیئر کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ ناقابل قبول اور گھٹیا رویہ اپنایا گیا تھا۔ اس معاملے میں سچ یہ ہے کہ اگر وہ سفید فام نہ ہوتے توڈیرل ہیئر کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔‘
051211_bus_fire_lhr_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/12/051211_bus_fire_lhr_zs
بس آتشزدگی، 40 باراتی ہلاک
لاہور میں چھاؤنی کے علاقے میں باراتیوں سے بھری بس میں آتش زدگی سے کم از کم چالیس افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
لاہور کی کینٹ پولیس کے سربراہ محمد علی نیکوکارا کے مطابق اس بس میں آتش بازی کاسامان بھی تھا جو ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ یہ بس مین سٹاپ غازی آباد کے رہائشی ظہیر خان کے باراتیوں سے بھری تھی ۔ظہیر خان سعودی عرب میں ملازم ہیں اور شادی کے لیے چھٹی پر وطن لوٹے تھے۔ ان کی بارات گڑھی شاہو گئی تھی واپسی پر روایت کے مطابق دولہا دلہن اور دو تین قریبی رشتہ دار ایک کار میں سوار ہوگئے چند کاروں کے علاوہ باقی باراتی اس بس میں سوار ہوگئے۔ شام پونے سات بجے کے قریب یہ بس مغل پورہ پل پار کرکے غازی آباد جانے والی ذیلی سڑک پر مڑی ہی تھی کہ اچانک اس میں آگ لگ گئی اور دھماکوں کی آواز سنی گئی۔ بس حادثے کے عینی شاہدوں نے بتایا کہ چند منٹ کے اندر اس بس میں سوار درجنوں افراد جل کر سیاہ ہو چکے تھے اور کئی اعضا جسموں سے الگ ہوچکے تھے۔ ایک دوسری کار میں سوار باراتی گلزار حسین نے بتایا کہ دولہا دلہن اور دیگر کار سوار گھر پہنچ چکے تھے دولہا کار سے اتر چکا تھااور دلہن کو کار سے اتارنے کی رسمیں جاری تھیں کہ یہ اندوہناک خبر پہنچی دولہا سمیت تمام افراد بھاگ کر ایک کلومیٹر دور بس کے پاس پہنچے۔ گلزار حسین نے کہا کہ وہ دولہا اور دوسرے رشتہ دار بے بسی سے لوگوں کے جلنے کا منظر دیکھتے رہے۔ ڈرائیور انعام اللہ چلتی بس کو روک کر چھلانگ لگا کر اتر گئے تھے انہوں نے بس جلنے سے پہلے کا منظر بیان کرتے ہوئے کہاکہ کسی باراتی نے آتش بازی کے انار کو جلاکر باہر پھینکنے کی کوشش کی لیکن وہ بس کے اندر ہی چل گیا اور گر کر اس کے شعلے گھومنے لگے۔ لوگوں نے چیخ وپکار شروع کر دی اور اترنے کی کوشش کی لیکن ایک ہی دروازے کی وجہ سے لوگ اس میں پھنس گئے اسی دوران بس میں موجود آتش بازی کے دوسرے سامان کو بھی آگ لگ گئی۔ ایمبو لینس سروس کے حکومتی ادارے ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے انچارج ڈاکٹر یحٰی بٹ نےایک جلی ہوئی گھڑی دکھاتے ہوئےکہا کہ اس کی سوئیاں چھ بجکر بیالیس منٹ پر رک گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے سوختہ لاشوں میں دبے چند زخمی بھی نکالے ہیں۔انہی کی ٹیم کے ایک دوسرے رکن محمد افتخار نے کہا کہ لاشیں سیٹوں سے چپکی ہوئی تھیں اور ایک دوسرے میں دھنسی ہوئی تھیں بعض لاشیں اس قدر جل چکی تھیں کہ وہ جلی ہوئی لکڑی لگتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جو آٹھ افراد شدید زخمی ہیں ان میں سے چار پانچ تو بے ہوشی کے عالم میں نکالے گئے ہیں اور باقی تکلیف سے چلا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کٹر کے ذریعے بس کی باڈی اور سیٹیں کاٹ کر لاشیں نکالی ہیں۔ ایک امدادی کارکن محمد فاروق اس واقعہ کی بات سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی جل کر مرے ہیں اور عورتیں ایسے چیخ رہی تھیں کہ ان آوازیں کان کے پردے چیرتی معلوم ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لاشیں اٹھاتے تھے تو کئی ہلاک ہونے والوں کے اعضا ٹوٹ کر گر جاتے تھے۔ حادثے کاشکار ہونے والے خاندان کے ایک فرد گلزار حسین نے کہا کہ قریب ہی واقع ایک چھوٹے سے نجی کلینک کے ڈاکٹر الحاج صفدر شہزاد نے بتایا کہ زخمی ان کے کلینک میں آنے لگے ان کے جسم جلے ہوئے تھے ان کے جسم سے ان کے کپڑے جل کر چپکے ہوئے تھے اور وہ انہیں ہاتھ لگاتے تھے تو ساتھ ہی ان کی کھال بھی اتر جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ زخمیوں کی بری حالت تھی انہوں نے انہیں طبی امداد بھی دی اور ایمبولینسوں میں سوار کرواکر ہسپتالوں تک پہنچایا۔ پولیس ترجمان کے مطابق اب تک جن نو افراد کی شناخت ہوسکی ہے ان میں ایک ماں اور اس کی دو بییٹاں اور ایک میاں بیوی شامل ہیں۔
080221_us_mush_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/02/080221_us_mush_zs
مشرف کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا
وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے حامیوں کی انتخابات میں شکست کے بعد ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اب پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری ڈینا پیرینو نے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ (ق) کے انتخابات میں ہارنے پر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے فون کر کے اپنے پاکستانی ہم منصب سے بات چیت کی ہے۔ اسلام آباد میں واقع امریکی سفارتخانے کے شعبہ اطلاعات سے ذرائع ابلاغ کے لیے جمعرات کو جاری کردہ ڈینا پیرینو کے بیان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ صدر بش نے صدر پرویز سے منگل کو روانڈا سے گھانا جاتے ہوئے دوران پرواز فون پر بات کی تھی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا ہے کہ’صدر بش نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے مکمل تعاون کیا کیونکہ انہوں نے (صدر پرویز مشرف) نے پاکستان کو جمہوریت کے راستے پر لانے میں مدد کی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ایک اچھے شراکت دار رہے‘۔ ترجمان نے کہا کہ صدر پرویز مشرف کو اقتدار میں رہنا چاہیے یا نہیں اس بات کا فیصلہ پاکستانی عوام کو کرنا ہے۔ پاکستان میں حکومت سازی کے اہم مرحلے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے صدر مشرف کی حمایت یافتہ مسلم لیگ (ق) کو مسترد کرکے مشرف مخالف جماعتوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائے جانے کی وجہ سے پہلے ہی صدر پرویز مشرف کا اقتدار میں رہنا مشکل بنتا جا رہا ہے۔ لیکن ایسے میں امریکہ کا یہ کہنا کہ صدر پرویز نے پاکستان کو جمہوریت کی راہ پر لانے میں مدد کی اور اس لیے انہیں صدر بش کی حمایت حاصل رہی اور اب ان کی قسمت کا فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے، صدر پرویز مشرف کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔
040927_pakistan_india_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/09/040927_pakistan_india_sen
پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت کادورہ کریگی
پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ اس کی کرکٹ ٹیم فروری میں بھارت کا دورہ کرے گی اور تین ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچ کھیلے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے اس بارے میں کہا ہے کہ ’بھارتی کرکٹ بورڈ نے پچیس فروری سے پاکستانی ٹیم کی میزبانی پر اصولی آمادگی ظاہر کی ہے‘۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ چھ ہفتے کا دورہ ہو گا جس کے دوران ٹیسٹ پہلے کھیلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارتی ٹیم سن دو ہزار چھ کے دوران انہی دنوں پاکستان کا جوابی دورہ کرے گی جن میں پاکستانی ٹیم بھارت کا دورہ کرنے والی ہے۔‘ انیس سو ننانوے کے بعد پاکستان کا یہ بھارت کا پہلا دورہ ہوگا۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کرکٹ تعلقات پانچ سال کے وقفے کے بعد اس وقت از سرِنو بحال ہوئے تھے جب اس سال مارچ میں بھارتی ٹیم پاکستان آئی اور تین ٹیسٹ اور پانچ ایک روزہ میچ کھیلے۔ شہریار خان نے بتایا کہ نومبر میں بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر بھی ایک روزہ میچ کھیلا جائے گا۔
150810_nisar_mqm_row_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150810_nisar_mqm_row_sr
’متحدہ سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن تقاریر معاملات بگاڑ رہی ہیں‘
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت متحدہ قومی موومنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن لندن سے الطاف حسین کی تقاریر سے معاملات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی جانب نکتہ اعتراض کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت بات پر یقین رکھتی ہے لیکن الطاف حسین کی تقاریر سے ’چنگاری سے آگ لگاتی ہیں۔‘ ’الطاف حسین اپنی زبان کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں‘ ’الطاف حسین کی تقاریر کا معاملہ قانونی طور پر اٹھائیں گے‘ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں نکتۂ اعتراض پر کہا تھا کہ رینجرز، پاکستانی فوج، وفاقی حکومت کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے بجائے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔ جس کے جواب میں وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ کراچی میں آپریشن متحدہ قومی موومنٹ یا کسی اور سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے اور کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف رینجرز کا آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے شروع کیا گیا تھا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ گذشتہ کچھ برسوں کے مقابلے میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ چوہدری نثار نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے تحفظات کے حوالے سے انھوں نے خفیہ اداروں کے سربراہان اور ڈی جی رینجرز سے ملاقات کی تھی لیکن ’الطاف حسین کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے ہیں اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انھیں بہتر میں کچھ وقت تو لگے گا۔‘ انھوں نے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار سے تجویز دی کہ وہ الطاف حسین کو سمجھائیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ رینجرز کے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے جو کچھ بھی برامد ہوا ہے ایم کیو ایم کو اُس پر جواب دینا ہو گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ کراچی میں ’کسی کو لاپتہ کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور ڈی جی رینجرز سے کہا گیا ہے کہ ایسی چیزیں نہ ہوں۔‘ چوہدری نثار نے بتایا کہ وزیرداخلہ کی مداخلت کے بعد ایم کیو ایم کے اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاریاں روک دی گئیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی میں ہلاک ہونے والے کارکنوں کے بارے میں دیے گئے اعداد وشمار ’غلط‘ ہیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم ارکان نے کراچی میں کارکنوں کی مبینہ ہلاکتوں پر ایوان سے واک آوٹ بھی کیا۔
140201_pak_gov_taliban_aziz_contacts_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/02/140201_pak_gov_taliban_aziz_contacts_rh
اگر رابطہ کیا تو کس نے کیا؟ ہم نے نہیں کیا: عرفان صدیقی
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے منتظم مولانا عبدالعزیز کے مطابق حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی ہے تاہم وہ اس وقت تک اس عمل میں شامل نہیں ہوں گے جب تک حکومت نظام شریعت کے نفاذ کے مطالبے پر سنجیدگی ظاہر نہیں کرتی۔
’میں نے کہا کہ ابھی فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ یہاں (اسلام آباد) میں مطالبات ماننے جا رہے ہیں‘ دوسری جانب طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی حکومت کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے کہا کہ صرف کمیٹی کے ارکان کو بات چیت کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اور کمیٹی کے کسی نمائندے کی جانب سے مولانا عبدالعزیز سے کوئی رابط نہیں ہوا ہے۔ منتظم مولانا عبدالعزیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنیچر کو حکومت اور طالبان دونوں جانب سے ان سے رابط کیا گیا ہے۔ ’ملک کے اہم نمائندے نے فون کر کے کہا ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے حکومت سے تعاون کریں جبکہ طالبان کے ایک نمائندے کی جانب سے فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ہماری شوریٰ کی رائے ہے کہ آپ اس عمل میں شامل ہوں۔‘ انھوں نے طالبان کو دیے جانے والے جواب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ’میں نے کہا کہ ابھی فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ یہاں (اسلام آباد) میں مطالبات ماننے جا رہے ہیں۔‘ خیال رہے کہ گذشتہ روز جمعے کو وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان سے امن مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کو ہدایت کی تھی وہ فوری طور پر ان سے بات چیت کا آغاز کرے۔ اس کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے طالبان سے مذاکرات کے لیے جلد اپنے نمائندے چننے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جہاں آسانی محسوس کریں گے وہیں ان سے بات چیت کی جائے گی۔ حکومت کے اہم نمائندے کے جواب کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نے کہا ’جب میں مطمئن ہوں گا کہ حکومت مطالبات کو پورا کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے اور ان کو ماننے پر آمادہ ہے تو اسی صورت میں شامل ہوں گا، ورنہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ میں حکومت کو، طالبان کو اور خود کو بھی دھوکہ دوں۔‘ مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انہوں نے حکومتی اہم نمائندے کو یہ ہی کہا ہے کہ ’ملک میں اسلامی نظام، نظام شریعت کے نفاذ کا دیرینہ مطالبہ ہے، کیا اس کی طرف پیش رفت ہو گی؟ اور اگر اس سمت میں پیش رفت نہیں ہو گی تو پھر مذاکرات تو کامیاب نہیں ہوں گے۔‘ پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے لال مسجد آپریشن کیا تھا جس میں حکومت کے بقول شدت پسندوں نے پناہ لی ہوئی تھی اور اس آپریشن میں 103 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار بھی شامل تھے۔ لال مسجد کے واقعے کے بعد ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا تھا اور بعض کی رائے میں یہ لال مسجد میں فوجی کارروائی کا ردعمل ہے۔
060605_budget_opposition_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060605_budget_opposition_sq
’یہ اعدادوشمار کاگورکھ دھندا ہے‘
پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ نئے مالی سال کے بجٹ کو اعداد وشمار کا گورکھ دھندا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک مایوس کن بجٹ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ جس شرح سے ملک میں مہنگائی بڑھی ہے اس شرح سے نہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیئے مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ قاضی حسین احمد نے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ امیروں کا بجٹ ہے اور عام آدمی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے بجٹ کو اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا قرار دیا اور کہا کہ صدر مشرف کے سات سالہ دور میں پینتالیس مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ غریب عوام معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ قاضی حسین احمد نے مختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ فوجی جرنیل ملک کو لوٹ رہے ہیں اور کوئی ایسا کاروباری شعبہ نہیں جس میں جرنیل نہ گھسے ہوئے ہوں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے بجٹ کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ پندرہ فیصد تنخواہوں میں اضافہ سرکاری ملازمین کے ساتھ مذاق ہے کیونکہ ان کے بقول کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ڈھائی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی بجٹ میں اضافہ زیادہ کیا جاتا ہے لیکن اعداد و شمار کم بتائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر آمدن بڑھ رہی ہے اور سرکاری خزانہ بھرا ہوا ہے تو پھر تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبوں کے لیے بجٹ میں معمولی اضافہ کیوں کیا گیا ہے۔ مولانا غفور حیدری، عمران خان، چودھری نثار علی خان نے بھی اِس بجٹ کو مایوس کن قرارد دیا ہے جبکہ وزیر مملکت برائے خزانہ عمر ایوب اور حکومت کے دیگر حامی حزب مخالف کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اس بجٹ کو عوام دوست قرار دے رہے ہیں۔ عمر ایوب نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا بجٹ ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف دیا گیا ہے۔
060607_un_us_row_uk
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/06/060607_un_us_row_uk
اقوام متحدہ:امریکہ کی ناراضگی
اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر جان بولٹن نے نائب سکریٹری جنرل مارک ملوک براون کے اس بیان پر سخت تنقید کی ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ امریکی رویے کا ذکر کیا تھا۔
نائب سکریٹری جنرل مارک ملوک براون نے کہا تھا کہ امریکہ اس تنظیم کو اپنے سفارتی مقاصد کے لیے تو استعمال تو کر لیتا ہے لیکن جب امریکہ میں کچھ مخصوص افراد اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو امریکہ کبھی اقوام متحدہ کے حق میں بات نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے نائب سکریٹری جنرل کے اس بیان کو ایک ’سنگین غلطی‘ قرار دیتے ہوئے سکریٹری جنرل کوفی عنان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے نائب کے اس بیان کی مذمت کریں۔ اقوام محدہ میں اہلکاروں کا کہنا ہے کہ مسٹر ملوک براوں کی تقریر کا مقصد اقوام متحدہ کی اس معاشی بحران کی طرف توجہ دلانا اور اس کا انتباہ کرنا تھا۔ لیکن امریکی سفیر نے ان کے بیان کو ایک’ سنگین غلطی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ پر نائب سکریٹری جنرل کی یہ تنقید خود اقوام متحدہ کے لیے انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔‘ تنظیم کے سکریٹری جنرل کوفی عنان کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ کوفی عنان مسٹر ملوک براون کی تقریر کی توثیق کرتے ہیں۔ نائب سکریٹری جنرل نے بھی صحافیوں سے کہا کہ ان کے سمجھ نہیں آتا کہ ان کے بیان کو امریکہ مخالف کس طرح سمجھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحث کا عمل اہم ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ امریکیوں کو یہ احساس ہو کہ اقوام متحدہ کا قیام ان کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ امریکہ میں کانگریس کے انتخابات نومبر میں ہو رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو خدشہ ہے اواشنگٹن اقوام متحدہ کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تاکہ اس اہم ریپبلکن ووٹ حاصل ہو جائیں۔ امریکہ کا موقف ہے کہ وہ تنظیم میں اصلاحات چاہتا ہے اور انہیں یہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔
040720_philippines_hostage_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/07/040720_philippines_hostage_as
یرغمال فلپائنی رہا کر دیا گیا
عراق میں اغوا ہونے والے فلپائن کے ٹرک ڈرائیور اینجلو ڈی لا کروز کو رہا کر دیا گیا ہے۔
فلپائن کی صدر گلوریا اورویو نے کہا کہ انہوں نے بغداد میں موجود ڈی لا کروز سے ٹیلیفون پر بات کی ہے اور وہ اچھی صحت میں ہیں۔ شدت پسندوں نے ڈی لا کروز کو سات جولائی کو یرغمال بنا لیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر فلپائن نے عراق سے اپنی فوجیں واپس نہ بلائیں تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ منیلا نے آخر فیصلہ کیا کہ عراق سے فوجیں واپس بلا لی جائیں۔ امریکہ نے منیلا کے فیصلے پر شدید تنقید کی تھی۔ پیر کو فلپائن کا اکیاون فوجیوں پر مشتمل دستہ عراق سے واپس چلا گیا۔ اب ان کی جگہ ان کا کام پولینڈ کی فوج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ عراق نے فلپائن کے فیصلے پر تنقید کی ہے اور اسے دہشت گردوں کا حکم ماننے کے مترادف کہا ہے۔ اتوار کو عراق کے وزیرِ خارجہ ہشیار زبیری نے بغداد میں ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ’ہم فلپائن کی حکومت کے فیصلے کی قدر کرتے ہیں لیکن یہ (فیصلہ) دہشت گرد گینگ کے مطالبے پر کیا گیا ہے‘۔
world-39834265
https://www.bbc.com/urdu/world-39834265
کیا اپوزیشن کے لیے صورتحال خطرناک ہے؟
اگر گذشتہ ہفتے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو آٹھ جون کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا ٹریلر مان لیا جائے تو یہ فلم لیبر پارٹی اور یو کے انڈیپینڈنٹ پارٹی یا یوکپ کے لیے کافی خطرناک لگ رہی ہے۔
موجودہ انتخابی نتائج نے یو کے انڈیپینڈنٹ پارٹی کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ان انتخابات میں لیبر پارٹی ویلز میں تو مکمل تباہی سے بچ گئی اور کارڈِف، نیویورٹ اور پورٹ ٹالبوٹ میں ووٹروں نے اس کی کچھ لاج رکھ لی، مگر سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں اسے زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ میں قبل از وقت انتخابات کروانے کا اعلان پارٹی نے نہ صرف 20 سال بعد سکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے شہر گلاسگو میں سٹی کونسل کا کنٹرول کھو دیا بلکہ یہ اپنے گڑھ ویسٹ مڈلینڈز میں بھی میٹرو میئر کا الیکشن ہار گئی۔ گلاسگو میں اس بار سکاٹش نیشنلسٹ پارٹی فاتح رہی جب کہ ویسٹ مڈلینڈز میں اس کے امیدوار سیان سائمن کو ڈیپارمنٹل سٹور جان لیوئس کے سابق ایم ڈی اور ٹوری امیدوار اینڈی سٹریٹ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا باوجود اس کے کہ وہ وہاں کے ایشیائی بالخصوص پاکستانی نژاد ووٹروں میں بہت مقبول ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کئی موقعوں پر مساجد اور اسلامی مراکز کے دورے کرتے دیکھے گئے۔ اینڈی سٹریٹ بھاری تنخواہ کی نوکری کو چھوڑ کر لوکل کونسل کی سیاست میں داخل ہوئے ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ ویسٹ مڈلینڈ کے لوگوں نے اس بات کو بہت سراہا ہے۔ ماضی قریب میں برمنگھم اور ویسٹ مڈلینڈز کے مضافاتی علاقوں میں لیبر کی مضبوط پوزیشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ پارلیمان میں وہاں کی 28 میں سے 21 نشستیں لیبر کے پاس تھیں اور یہ پارٹی گذشتہ 25 سالوں سے دیگر پارٹیوں کو ہراتی چلی آ رہی تھی۔ لیبر کے امیدوار اور سابق وزیر اینڈی برنہم مانچسٹر میٹرو میئر کا انتخاب جیت گئے جبکہ لیور پول میٹرو میئر کے الیکشن میں سابق رکن اسمبلی سٹیو رودرم کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ کامیابیاں لیبر پارٹی کے نقصان کی تلافی کے لیے ناکافی دکھائی دے رہی ہیں۔ آٹھ جون کو ہونے والے عام انتخابات لیبر پارٹی اور یوکپ کے لیے کافی خطرناک لگ رہے ہیں جیساکہ گذشتہ دنوں انھیں صفحات پر بیان کیا گیا، دائیں بازو کی سیاسی جماعت یو کے انڈیپینڈنٹ پارٹی یا یوکپ کی سیاسی پریشانیاں جنرل الیکشن کے اعلان کے بعد سے عیاں تھیں۔ پارٹی اب تک برطانیہ کو یورپ سے آزادی دلانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر کاربند تھی اور جب گذشتہ سال مئی میں بریگسٹ ووٹ کی کامیابی کی صورت میں یو کے'انڈیپینڈنٹ' ہو گیا تو 'پارٹی' اپنا سیاسی جواز کھو بیٹھی۔ اس ساری کامیابی کا کریڈٹ ٹوری قیادت کو گیا اور اسی کی بنیاد پر وزیر اعظم ٹریسا مے زبردست انتخابی کامیابی کی توقع کر رہی ہیں۔ موجودہ عام انتخابات سے پہلے اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر یوکِپ نے 'انٹیگریشن' یا یوں سمجھ لیجیے کہ تمام کمیونیٹیز کے انضمام کا نعرہ لگایا ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی نے عام مقامات پر حجاب کی پابندی، اسلامی شرعی عدالتوں پر پابندی اور مزید اسلامی سکول کھولنے پر پابندی جیسے متنازع امور کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ برطانوی عوام کو پارٹی کے ان انتخابی وعدوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کا واضح ثبوت بلدیاتی انتخابات میں یوکپ کی کارکردگی ہے، جس میں ایک کو چھوڑ کر تمام 146 یوکپ کونسلر ہار گئے ہیں۔ کیونکہ یہ انتخابات انگلینڈ اور ویلز کی تمام کونسلوں میں نہیں ہو رہے تھے اس لیے ابھی بھی کچھ بلدیاتی اداروں میں یوکپ کونسلر موجود رہیں گے لیکن موجودہ انتخابی نتائج نے پارٹی کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے کے بلدیاتی انتخابات میں کچھ دلچسپ چیزیں سامنے آئیں۔ جہاں ملک بھر سے کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار زبردست انتخابی کامیابیاں حاصل کر رہے تھے وہیں نارتھمبرلینڈ کونسل کے ایک وارڈ میں قسمت کی دیوی ٹوری پارٹی اور اس کے ایک امیدوار سے روٹھی روٹھی دکھائی دی۔ یہاں پارٹی کے 33 امیدوار کامیابی حاصل کر چکے تھے اور اس کو کونسل کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے صرف مزید ایک کامیابی کی ضرورت تھی۔ ساؤتھ بلائتھ وارڈ میں لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار لیزلی اکربری اور ٹوری پارٹی کے ڈینیل کار کے ووٹ تین بار گِنے جا چکے تھے لیکن فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کیونکہ دونوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد برابر تھی۔ پہلی گنتی میں ٹوری امیدوار ایک ووٹ سے آگے تھے، ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 356 جب کہ ان کے مدِمقابل امیدوار نے 355 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوئی اور تعداد برابر نکلی۔ ربش پارٹی کی امیدروار سیلی کوگلی تیسری گنتی پر بھی ووٹ برابر نکلے۔ اس پر ریٹرننگ آفیسر نے دونوں امیدواروں کی رضا مندی سے فیصلہ کیا کہ مزید گنتی کی بجائے فیصلہ قسمت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایسی صورتِ حال میں عام طور پر تین طریقے رائج ہیں، یا تو امیدواروں کے درمیان فیصلہ سکا اچھال کر کیا جاتا ہے یا پھر دونوں کے نام کاغذ پر لکھ کر ایک ہیٹ میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہاں کے ریٹرننگ آفیسر نے ان دونوں کی بجائے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا اور فیصلہ بوتل پینے والے پائپ یا سٹرا سے کیا گیا۔ اس طریقے میں ایک سٹرا کو دو مختلف لمبائیوں میں کاٹ لیا جاتا ہے اور ایک امیدوار سے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ٹکڑا کھینچ لے اور اگر اس کا کھینچا گیا سٹرا لمبا ہو تو وہ جیت جاتا ہے۔ ساؤتھ بلائتھ میں لِب ڈیم کی امیدوار لیزلی اکربری نے جو سٹرا کھینچا وہ بڑا تھا اس لیے ان کو کامیاب قرار دیا گیا۔ اگر ڈینیئل کار یہ نشست جیت لیتے تو ٹوری پارٹی ایک ووٹ سے کونسل کا کنٹرول حاصل کر سکتی تھی۔ ان انتخابات میں دوسری باتوں کے علاوہ سکاٹ لینڈ سے ایک نئی پارٹی کا ظہور ہوا۔ اس پارٹی کا نام ہے کوڑا یا ربش پارٹی جس کی واحد امیدوار سیلی کوگلی نے ایسٹ ایرشائر کونسل کے اِرون ویلے کے وارڈ میں کامیابی حاصل کی۔ پارٹی نے یہ الیکشن سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر لڑا کہ وہ اِرون ویلے میں کوڑا اٹھانے کے کام میں بہتری لائے گی۔ اس کا انتخابی تعرہ تھا 'ووٹ فار سیلی فاربیٹر ویلی' (وادی کی بہتری کے لیے سیلی کو ووٹ دیں)
pakistan-54114724
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54114724
موٹروے ریپ کیس: شوبز شخصیات کی جانب سے خواجہ سراؤں کے احتجاجی مظاہرے کو نظرانداز کرنے پر سوشل میڈیا صارفین برہم
پاکستان کے صوبے پنجاب میں گذشتہ ہفتے ہونے والے ریپ کے واقعے کے بعد سے ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام اور رواں ہفتے کے شروع میں ہونے والے ان مظاہروں میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے علاوہ سی سی پی او لاہور کی بیانات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس حوالے سے نظامِ عدل اور پولیس کے تفتیشی نظام میں بہتری کے مطالبات کیے گئے۔ اس نوعیت کا ایک اور احتجاج 14 ستمبر کو کراچی میں پریس کلب کے سامنے منعقد ہوا لیکن اس بار سوشل میڈیا پر تنقید کی توپوں کا رخ معاشرتی برائیوں کے بجائے اس مظاہرے میں شرکت کرنے والوں پر تھا۔ وجہ کچھ یوں بنی کہ کراچی میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ پیر کی شام کراچی پریس کلب کے باہر جمع ہو کر ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم جیسے ہراسانی، جنسی تعصب اور تشدد اور قتل کے خلاف احتجاج کریں گے۔ لیکن اُسی روز کراچی میں شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی موٹروے پر ہونے والے واقعہ کی مذمت کے لیے ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا تھا۔ ٹرانس کمیونٹی کے مظاہرے میں شرکت کرنے والے محمد معیز، جو کہ سوشل میڈیا پر شمائلہ بھٹی کے کردار سے بھی جانے جاتے ہیں، نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مظاہرے کے دوران پیش آنے والے والے واقعات پر متعدد ٹویٹس کیں۔ معیز نے اپنی تھریڈ میں لکھا کہ فنکاروں کے گروپ نے وہاں پہنچ کر پہلے سے موجود پانی اور سوڈا والوں کے سٹال ہٹوائے اور اس کے بعد اپنے مظاہرے کا آغاز کیا، جس میں ان کے ساتھ وہاں ان کی پریس ٹیم اور فوٹوگرافرز موجود تھے۔ معیز طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شوبز شخصیات کے ہونے کے بعد کون 200 غریب ٹرانس جینڈر افراد اور خواجہ سراؤں کو گھاس ڈالے گا، کیونکہ سیلیبریٹیز کی آوازیں زیادہ اونچی ہیں۔‘ معیز نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’سیلیبریٹز نے ٹرانس جینڈر مظاہرے میں شمولیت سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ تھا ہی ریپ اور جنسی تشدد کے خلاف۔' معیز لکھتے ہیں کہ یہ ہمارے اتحادی نہیں ہیں اور ان کی موقع پرستی کو حمایت نہ سمجھا جائے اور ’ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔‘ ’پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ طبقاتی فرق ہے۔ ہماری تمام جدوجہد اور مزاحمت اس فرق اور اشرافیہ کے کنٹرول کو ختم کرنے کے بارے ہونی چاہیے۔‘ معیز کی اس تھریڈ پر سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد نے تبصرہ کیا اور فنکاروں کی جانب سے کیے گئے مظاہرے پر سوالات اٹھائے۔ صارف مریم نے اس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’مظاہرے میں بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی۔ یہ منافقت لگتی ہے جب آپ صرف تصویریں بنواتے ہیں اور اصل مسائل کے بارے میں اس طبقے سے بات نہیں کرتے جن کے مسائل کو لے کر وہ ٹی وی سکرین پر باتیں کرتے ہیں اور پیسہ بناتے ہیں۔‘ صحافی اور مصنفہ صنم مہر نے بھی ایک ٹویٹ کی جس میں اداکارہ ثروت گیلانی کی ویڈیو تھی جس میں نظر آتا ہے کہ وہ اور فیشن ڈیزائنر فریحہ الطاف اس مظاہرے میں شرکت کرنے جا رہے ہیں اور اس کے بارے میں تمسخرانہ انداز میں بات کر رہے ہیں۔ صنم مہر نے لکھا کہ بہت ممکن ہے کہ ان کی نیت بالکل ٹھیک ہو لیکن یہ کیا ہے؟ ’اور کیا کوئی یہ سمجھا سکتا ہے کہ ان سیلیبریٹیز کو کیا ضرورت پیش آئی کہ اپنا ایک مظاہرہ منعقد کریں بجائے پہلے کیے جانے والے مظاہرے کی حمایت کر کے؟‘ صارف ’اے کیب‘ نے بھی اسی تناظر میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’سیلیبریٹیز صرف ایک چیز کی پروا کرتے ہیں اور وہ ہے اُن کا اپنا تاثر۔ اور کوئی بھی اگر اسے ’خراب‘ کرے گا تو وہ زبردستی کسی بھی طریقے کو استعمال کر کے انھیں ہٹا دیں گے۔ اور وہ کسی بھی ایسے مظاہرے میں شرکت کریں گے جس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔‘ ثروت گیلانی، جن کے پوسٹر پر ’ریپ‘ کی انگریزی میں غلط ہجے لکھنے پر بھی مذاق اڑایا گیا، نے ٹویٹ میں معذرت کی ہے۔ ’میں معافی چاہتی ہیں۔ یہ ایک غیر دانستہ غلطی تھی۔ بہت سارے کارڈز بنا رہے تھے اور منتظمین کے ساتھ احتجاج کی تیاری کرنا کافی دماغ ہلا دینے والا کام ہے۔ اور پہلے ہونے والے احتجاج کے روز کئی فنکار مصروفیت کے باعث وقت نہیں نکال سکے تھے تو ہم نے وہ دن چنا جب ہم میں سے زیادہ تر فارغ تھے۔‘ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر تنقید کم نہ ہوئی۔ صحافی علینہ شگری نے سکرین شاٹ ٹویٹ کی جس میں نظر آ رہا تھا کہ فریحہ الطاف نے انھیں بلاک کر دیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ فریحہ الطاف کو صرف مثبت کوریج چاہیے اور پردے کے پیچھے وہ سی سی پی او لاہور سے زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ صارف عائشہ بنت راشد نے بھی تبصرہ کیا کہ ’زیادہ بُرا تو یہ ہے کہ انھوں نے وہاں پر ہونے والے ٹرانس حقوق کے مظاہرے کو نظر انداز کر دیا، کیونکہ اپنی پی آر زیادہ ضروری ہے۔‘
regional-40541285
https://www.bbc.com/urdu/regional-40541285
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا بحران
اب سے ایک ہفتے بعد انڈیا کے صدر کا انتخاب ہونے والا ہے۔ اس صدارتی انتخاب میں دونوں ہی اہم امیدواروں کا تعلق دلت برادی سے ہے اور یہ بات طے ہے کہ ملک کا آئندہ صدر دلت ہو گا۔
مسلمان انڈیا کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور سب سے زیادہ پس ماندہ بھی ہیں یہ سماجی برابری کی جنگ میں دلت برادری کی ایک اہم کامیابی ہے۔ دلت صدیوں کی تفریق، اہانت اور مظالم کے خلاف ایک طویل عرصے سے نبرد آزما ہیں۔ انھیں آج بھی سماجی نفرتوں اور تفریق کا سامنا ہے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ پہلے کے مقابلے میں کافی طاقتور ہوئے ہیں۔ مسلمان اب کسی کا ووٹ بینک نہیں مسلمان چار کروڑ، امیدوار ایک بھی نہیں آزادی سے پہلے انھیں بھیم راؤ امبیڈکر جیسا مفکر اور رہنما ملا جس نے دلتوں کے چھینے ہوئے وقار اور سماجی مساوات کے لیے ایک غیر معمولی تحریک کی قیادت کی۔ اس تحریک کو کانشی رام جیسے رہمنا نے دلتوں میں سیاسی بیداری کی لہر سے ایک نئی بلندی پر پہنـچایا۔ آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کسی بھی وقت ساڑھے پانچ سو ارکان میں سے تقریباً سو ارکان دلت اور قبائل برادیوں سے آتے ہیں۔ انڈیا کی بیشتر اسمبلیوں میں بھی دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہونے سے وہ اب تعلیم اور روزگار میں بھی آگے آئے ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں دلتوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے۔ نوجوانوں کی یہ نئی نسل پر اعتماد، سیاسی طور پر بیدار اور قیادت کے لیے بے چین ہے۔ اٹھارہ فی صد آبادی کے ساتھ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ انڈیا میں مسلمان غربت و افلاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ اب ملک میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی ہیئت ایک جیسی نہیں ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ انھیں صرف ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں ہے، حکومت نے غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کے نام پر اور مویشیوں کی خرید وفروخت کے نئے ضابطوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک لمحے میں بے روزگار کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چیلنوں پر قوم پرستی کی لہر جاری ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹ اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ ہے۔ حکمراں بی جے پی ایک ہندو نواز پارٹی ہے اور ہندوتوا کے سیاسی اور مذہبی نظریے میں یقین رکھتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے تصور پر عمل پیرا ہے جس میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کےلوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ مسلمانوں کو ملک میں بہت سے مسائل درپیش ہیں مسلمانوں نے ابتدا سے ہی بی جے پی کی مخالفت کی ہے۔ اب جب کہ بی جے پی اپنے زور پر اقتدار میں ہے اس نے مسلمانوں کو پوری طرح مسترد ہی نہیں بلکہ محدود کر دیا ہے۔ اپوزیشن انتہائی کمزور اور پوری طرح منتشر ہے۔ قوم پرستی کے اس دور میں میڈیا حکومت نواز ہو چکا ہے۔ بی جے پی کا سیاسی اثر بڑھتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں کوئی نظریاتی یا سیاسی چیلنج بننے کے بجائے اپنے باقی ماندہ وجود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ انھیں تقسیم ہند کے بعد اب تک کے سب سے سنگین بحران کا سامنا ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں ملک کے اعتدال پسندوں اور جمہوریت نواز اکثریت کا بحران ہے۔ برطانوی مبصر اور رکن پارلیمان میگھناد دیسائی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ انڈیا کے 18 کروڑ مسلمانوں کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اپنی ایک علیحدہ سیاسی پارٹی بنانی چاہیے۔ مسلمان بھارتی جمہوریت میں ہمیشہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں یاقومی دھارے سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا اور انھیں غربت اور پسماندگی میں دھکیلتی گئیں۔ ان دشوار مراحل میں بھی مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا۔ اس نے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی جماعت کے تصور کو کبھی قبول نہیں کیا۔ انڈیا میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف حال ہی میں بہت سے لوگوں نے مظاہرہ کیا تھا بھارتی جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے نیچے آگئی ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں حکمراں جماعت کے ارکان اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مسلمان بی جے پی کو ایک ہندوتوا وادی اور مسلم مخالف جماعت سمجھتے آئے ہیں اور مستقبل میں ان کی اس سوچ کو اور بھی تقویت حاصل ہو گی۔ وہ بی جے پی کو صرف اپنے لیے نہیں ملک کی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جس طرح کی فضا بنی ہوئی اس ماحول میں ملک کے طول و عرض میں ہر جگہ مسلمانوں میں بے بسی، گبھراہٹ اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ہر طرف بحث و مباحثے چھڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوجوان دلت رہنما نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ مسلمانوں کو اوپر لانے کے لیے ایک امبیڈکر کی ضرورت ہے۔ شاید انھیں بے چینیوں سے کوئی امبیڈکر اور کانشی رام پیدا ہو جو انڈیا کی خطرے میں گھری ہوئی جمہوریت کو درپیش چیلنجز میں بھارتی مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کر سکے۔
140428_who_polio_pakistan_tk
https://www.bbc.com/urdu/science/2014/04/140428_who_polio_pakistan_tk
پولیو پر عالمی ادارۂ صحت کا خصوصی اجلاس
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں عالمی ادارۂ صحت کا پولیو کے حوالے سے چار روزہ ہنگامی اجلاس جاری ہے جس میں ذرائع کے مطابق پاکستان پر بین الاقوامی سطح پر سفری پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
گذشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس 2014 میں پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے بھارت نے جسے پولیو سے پاک قرار دیا جا چکا ہے پہلے ہی پاکستانی مسافروں پر انسدادِ پولیو ویکسینیشن لازمی کر چکا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں اور گذشتہ برس کے مقابلے میں یہاں پولیو کے نئے مریضوں کی تعداد میں اس سال میں اب تک 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2013 میں اپریل کے مہینے تک پاکستان میں 8 پولیو کے کیس سامنے آئے تھے، جبکہ اس سال پہلے چار ماہ میں 56 مریض منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ نائیجریا اور افغانستان سمیت، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا وائرس عام ہے۔ تاہم، نائیجریا میں گذشتہ برس اپریل تک 14 کیس سامنے آئے تھے، اور اس سال اسی مدت میں 1 کیس سامنے آیا ہے۔ ادھر افغانستان میں گذشتہ سال اور اس سال اپریل تک دو کیسز کی ہی اطلاع ہے۔ اس کے علاوہ عراق، شام، اور ایتھوپیا میں بھی پولیو کے سامنے آئے ہیں۔ پیر کو شروع ہونے والے اس اجلاس کا فیصلہ دو دن بعد آئے گا۔ یہ اجلاس جینیوا میں ٹیلی کانفرنس کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور اس میں پاکستان، امریکہ اور سعودی عرب سمیت، چودہ ممالک کے ماہرینِ صحت شرکت کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہِ صحت کے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگیولیشنز کے اس اجلاس کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا رکن ممالک پر لازمی ہوتا ہے۔ اجلاس میں ہیلتھ سروس اکیڈمی اسلام آباد کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اسد حفیظ پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پولیو کی فوکل پرسن عائشہ رضا فاروق نے بھی پیر کے روز اجلاس میں شرکت کی۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان جن خاص سکیورٹی اور سیاسی چیلنجیز کا سامنا کر رہا ہے، اس کا سامنا کسی اور ملک کو نہیں: ’ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے غفلت کی ہے۔ جہاں ہم کام کر سکے، وہاں ہم کامیاب رہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیو وائرس کی افزائش کو ملک کے نو اضلاع تک محدود کر دیا ہے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان نے انسدادِ پولیو مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک سے 227 ملین ڈالرز کا قرضہ بھی لیا ہے، اور سکیورٹی کے مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پشاور، کراچی، چارسدہ، صوابی اور مردان میں ہنگامی انسدادِ پولیو چلائی ہیں۔ خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کے پولیو کی نگرانی کے سیل نے منگل کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے دو تازہ مریضوں کی اطلاع دی ہے۔ پاکستان میں 2014 میں پولیو کے سب سے زیادہ 38 کیس شمالی وزیرستان سے آئے ہیں جبکہ دیگر قبائلی علاقوں سے چھ، خیبر پختونخوا سے آٹھ اور کراچی سے چار کیس رپورٹ ہوئے۔ خیال رہے کہ شدت پسند گروہ حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے وزیرستان میں انسدادِ پولیو مہم پر جولائی 2012 سے پابندی عائد ہے گذشتہ ہفتے فوج کے دفتر تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیو مہم کو کامیاب بنانے کے لیے فوج کو سویلین حکومت کی مدد کرنے کو کہا گیا ہے۔
070509_pak_crash_report_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/05/070509_pak_crash_report_nj
فوکرحادثہ:’ نا اہلی اور کوتاہی‘
وزارت دفاع کے پارلیمانی سیکریٹری سید تنویر حسین نے بدھ کی شام قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملتان میں فوکر طیارے کی تباہی کی وجہ محکمانہ نا اہلی اور کوتاہی تھی۔
انہوں نے دس جولائی کو ملتان میں فوکر طیارے کے حادثے میں پینتالیس افراد کی ہلاکت پر افسوس ظاہر کیا اور ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ’یہ حادثہ پی آئی اے کے شعبہ انجنیئرنگ کی نا اہلی اور پائلٹوں کی ناتجربہ کاری کے سبب پیش آیا‘۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ وزارت دفاع کو موصول ہوگئی ہے اور جلد وزیراعظم کو بھجوائی جائے گی اور ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد تحقیقاتی رپورٹ ایوان میں بھی پیش کردیں گے تاکہ قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جاسکے۔ سید تنویر حسین نے بتایا کہ تباہ ہونے والے فوکر طیارے کے انجن کا ایک ٹربائن کا بیئرنگ خراب تھا اور انجنیئرنگ کے شعبہ سے وابسطہ افراد نے ایک مخصوص آلہ سے اس کو تبدیل کرنے کی بجائے ہتھوڑے مارکر پھنسایا جو بعد میں گِھس گِھس کر ٹوٹ گیا۔ انہوں نےبتایا کہ جب اڑان بھرنے کے لیے طیارہ رن وے پر آیا تو بلیک باکس سے آواز آئی اور ایک پائلٹ نے دوسرے سے پوچھا کہ کیا انجن میں خرابی ہے تو دوسرے نے کہا کہ ہاں دایاں انجن بند ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی پائلٹوں نے پرواز جاری رکھی اور فضا میں دوسرا انجن جو پہلے ہی کمزور تھا وہ طیارے کو نہیں سنبھال سکا اور حادثہ پیش آیا۔ پارلیمانی سیکریٹری نے بتایا کہ ’دونوں پائلٹ کم تجربہ کار تھے اور پی آئی اے کے شیڈولنگ محکمے نے یہ جانتے ہوئے بھی ان کی ڈیوٹی لگائی‘۔ اس انکشاف پر حزب مخالف کے بعض اراکین نے سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
141117_polio_pakistan_drops_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/11/141117_polio_pakistan_drops_nj
انسدادِ پولیو کی تین روزہ مہم آج سے شروع
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں انسداد پولیو کی تین روزہ مہم آج سے شروع کر دی گئی ہے جس میں حکام کے مطابق ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے 332 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں شدت پسندوں کی جانب سے انسداد پولیو مہم کی مخالفت اور علاقے میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے یہ مہم سخت حفاظتی انتظامات میں شروع کی گئی ہے۔ یہ مہم تحصیل لنڈی کوتل، تحصیل جمرود کے علاوہ بازار زخہ خیل اور تیراہ میدان کے علاقے میں شروع کی گئی ہے جبکہ تحصیل باڑہ میں فوجی آپریشن کی وجہ سے اس وقت یہ مہم شروع نہیں کی جا رہی۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے لیے قائم انسداد پولیو کنٹرول روم سے ڈاکٹر وزیر اکبر خان نے بتایا کہ باڑہ میں فوجی آپریشن جاری ہے اس لیے وہاں یہ مہم شروع نہیں کی جا سکی۔ اس مہم کے دوران ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے 332 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان ٹیموں کی حفاظت کے لیے پولیٹیکل انتظامیہ نے خاصہ دار اور لیویز فورس تعینات کی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس ماہ کی دس تاریخ کو انسداد پولیو مہم شروع کی گئی تھی لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنا پر خیبر ایجنسی میں یہ مہم معطل کر دی گئی تھی۔ اس سال اب تک شمالی وزیرستان ایجنسی کے بعد سب سے زیادہ پولیو کے مریض خیبر ایجنسی سے سامنے آئے ہیں جن کی تعداد 59 بتائی گئی ہے۔ ایک لاکھ 28 ہزار بچوں کو اس بیماری سے بچاؤ کے قطرے دیے جائیں گے پاکستان سے اس سال اب تک کل 247 بچے پولیو کے وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ قبائلی علاقوں میں یعنی 158 بچوں میں اس مہلک بیماری کا وائرس پایا گیا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں 49 اور سندھ میں 25 جبکہ بلوچستان میں 11 اور پنجاب میں تین بچے اس وائرس کی زد میں آئے ہیں۔ پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا پولیو کے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے اور پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے لیے انسداد پولیو مہم کے فوکل پرسن ڈاکٹر امتیاز علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں حکام نے آئندہ ماہ سے انسداد پولیو کی بھرپور مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وہ علاقے جو پولیو وائرس کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہیں، وہاں انسداد پولیو کی مہم شروع کی جائیں گی۔ ان علاقوں میں پشاور ، بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دسمبر سے جنوری تک سردی کی وجہ سے انسداد پولیو کی ویکسین زیادہ موثر ہوتی ہے اس لیے ان دنوں میں بہتر اور معیاری مہم سے اس وائرس کو ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔
050522_ice_scientist
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2005/05/050522_ice_scientist
برف کے سائنسدان کون اور کیوں؟
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ گرین لینڈ میں برف کی تہہ کے گھٹنے کے پریشان کن آثار ملے ہیں۔ (بی بی سی کے نامہ نگار ڈیوڈ شکمان نے گرین لینڈ میں موسم کے بارے میں تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کی ٹیم کے ساتھ کچھ وقت گزارا)
برف میں دھنسے ہوئے ایک ٹینٹ کا تصور کریں جس کے اندر تیز ہواؤں کا شور سنائی دیتا ہو اور ایک چھوٹی سی کھڑکی سے ہلکی سی روشنی آ رہی ہو۔ ہم انتہائی شمال میں تھے۔ وائن کی ایک بوتل چکر لگاتی رہی اور کہانیوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر میں کافی پینے کا وقت ہو گیا اور میں حقیقت کی دنیا میں واپس آگیا۔ یہ کوئی معمول کی محفل نہیں ہے۔ ہمارا پڑاؤ دنیا میں برف کے سب سے بڑے ٹکڑے پر ہے۔ میری کرسی برف کی ایک میل چوڑی تہہ پر رکھی ہے۔ ہمارے چاروں طرف ایک ہزار میل پر پھیلا برف کا ویرانہ ہے۔ نہ روشنی، نہ سڑک، نہ زندگی، صرف ہم۔ میرے ساتھ وہ شخص بیٹھا ہے جس نے پندرہ برس قبل تحقیق کے لیے یہ ٹھکانہ قائم کیا۔ طویل قامت پروفیسر کونراڈ سٹیفن کے حلیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے طویل عرصہ آرکٹک میں گزارا ہے۔ ان کے رفقاء کا کہنا ہے کہ وہ اتنے سخت جان ہیں کہ انہیں کبھی سردی نہیں محسوس ہوتی۔ ایک بار انہوں نے چھ ماہ تک آرکٹک میں برف کا تجزیہ کیا۔ ایک اور مشن پر انہوں نے ایک سے زیادہ بار چوبیس گھنٹے مسلسل جاگ کر برف سے ٹکرا کر واپس جانے والی شمسی لہروں کے بارے میں اعداد و شمار اکٹھے کیے۔ ایک بار کونی کے ٹینٹ کے نیچے برف ٹوٹ کر گہرے سمندر کی طرف بہنے لگی۔ کونی اپنی برفانی گاڑی کے ذریعے اچھل کر واپس برف کی پناہ میں پہنچے۔ ہمیشہ سے تصور کیا جاتا رہا ہے کہ برف کی یہ تہہ اتنی سرد ہے کہ اس کو ہٹانے کے لیے سینکڑوں یا ہزاروں سال تک گرم موسم چاہیے ہوگا۔ لیکن تحقیق سے نئی باتیں سامنے آئی ہیں کہ گرمیوں کے چند ہفتوں میں برف کے ساحل کی طرف بہنے کی رفتار دوگنی ہو جاتی ہے۔ اس کے نتائج گھمبیر ہیں۔ جتنا موسم گرم ہوگا اتنی تیزی سے برف سمندر میں بہے گی اور دنیا بھر میں اس کی سطح بلند ہوگی۔ ہم ایک دن کے لیے گرین لینڈ آئے تھے لیکن موسم کی خرابی کے باعث چار روز تک وہاں سے نکل نہیں سکے۔ میں نے اس دورے کے دوران ایک سبق سیکھا۔ سیاستدان اور ماہرین ماحولیات اکثر موسم کے بارے میں اندازے لگاتے رہتے ہیں لیکن قطب شمالی کی سردی میں کچھ سخت جان سائنسدان اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
pakistan-38953228
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-38953228
افغان مہاجرین کی جبری واپسی میں اقوام متحدہ ملوث ہے: ہیومن رائٹس واچ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے جولائی 2016 سے تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کو ڈرا دھمکا کر افغانستان واپس جانے پر مجبور کرنے کی تحریک چلا رکھی ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے بڑے پیمانے پر جبرا اپنے ملک واپس بھیجا گيا ہے واپس جانے والوں میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ پناہ گزین ہیں اور اس طرح حالیہ برسوں میں یہ دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جسے زبردستی واپس بھیجا گیا ہے۔ پاک افغان سرحد چار روز سے بند ’پاکستان پناہ گزینوں کو جگہ دینے والا تیسرا بڑا ملک‘ رپورٹ کے مطابق اب ان پناہ گزینوں کو افغانستان میں مسلح جنگوں، تشدد، مفلسی اور بے دری کا سامنا ہے۔ سوموار کو جاری کی جانے والی 76 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اقوام متحدہ پر اس جبری نقل مکانی میں ساز باز کا الزام بھی لگایا گيا ہے۔ 'پاکستانی جبر، اقوام متحدہ کی ساز باز: افغان پناہ گزینوں کی اجتماعی جبری واپسی' نامی رپورٹ میں یو این سی ایچ آر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے عوامی سطح پر پاکستان کی جانب سے زور زبردستی کیے جانے کی مذمت کیے بغیر 'رضاکارانہ آبادکاری' کے پروگرام میں اضافہ کیا اور اس طرح وہ پاکستان کے ساتھ پناہ گزینوں کے ساتھ برے سلوک میں شامل ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے سینیئر محقق گیری سمپسن نے کہا: 'دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے کے بعد سنہ 2016 کے وسط میں پاکستان نے حالیہ زمانے میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین مخالف تحریک کا محرک ہوا اور انھیں وطن لوٹنے پر مجبور کیا۔' بہت سے افغان پناہ گزینوں کا الزام ہے کہ جاڑے کے موسم میں انھیں وقت بے وقت پولیس کی جانب سے زیادتیوں کا سامنا رہا ان کا کہنا ہے ایسا اس لیے ہوا کہ 'اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے پاکستان کو ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے اور ڈرانے دھمکانے سے عوامی طور پر نہیں روکا۔' انھوں نے مزید کہا: 'بین الاقوامی ڈونرز کو اس معاملے میں دخل دے کر پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ پاکستان میں باقی افغان پناہ گزینوں کو بچایا جا سکے۔' افغان پناہ گزینوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان کی غیر محفوظ قانونی حیثیت، جاڑے کے موسم میں واپس بھیجنے کی دھمکیوں اور پولیس کی زیادتیوں نے ایک ایسا زہر آلود مرکب تیار کر دیا کہ ان کے پاس پاکستان چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی وطن واپسی ہے جو جبری کرائی جا رہی ہے رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے واپس ہونے والے ہر ایک پناہ گزینوں کے لیے نقد رقم کو دگنا یعنی 400 امریکی ڈالر کر دیے جانے نے بھی لوگوں کو پاکستان کی زیادتیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے تیار کیا۔ ہیومن رائٹس کے مطابق یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے جنگ زدہ علاقوں میں واپس نہیں جا سکتے یا پھر ان کے پاس کوئی گھر ہی نہیں جہاں وہ واپس جا سکیں۔ پناہ گزینوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان میں افغان مخالف جذبات کے اچانک پیدا ہو جانے سے بھی خوف زدہ ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے ہیومن رائٹس واچ کو رواں سال 27 جنوری کو ایک خط لکھا جس میں پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے خدشات کو تسلیم کیا تاہم اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ’رقم دگنی کیے جانے سے پناہ گزینوں کی واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔'
080528_baloch_black_day_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080528_baloch_black_day_ra
بلوچستان: ایٹمی دھماکوں پر احتجاج
بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اور تنظیمیں آج کے دن چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے یوم سیاہ منا رہی ہیں اور اس حوالے سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ نواز اس دن کو یوم تکبیر کے طور پر منا رہی ہے۔
کوئٹہ میں مری اتحاد بلوچ نینشل فرنٹ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ خواتین پینل کے قائدین اور کارکنوں نے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور شہر میں ریلی نکالی گئی ہے۔ یہ ریلی سائنس کالج سے شروع ہوئی اور منان چوک پر مقررین نے ریلی سے خطاب میں کہا ہے کہ چاغی میں کیےگئے دھماکوں سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس دن کو یوم تکبیر کے طور پر منایا جا رہا ہے مقامی قائدین کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں سے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔ بلوچ نیشنل فرنٹ کے رہنما صادق ریسانی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایٹمی دھماکے اور میزائل کے تجربوں کے لیے بلوچستان کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے جس سے مقامی لوگوں نے نقل مکانی کر لی ہے۔ بلوچستان نینشل پارٹی مینگل گروپ نے بھی اپنے دفاتر اور گھروں پر سیاہ پرچم لہرائے ہیں۔ میں نے چاغی میں لوگوں سے پوچھا کہ ایٹمی دھماکوں کو دس سال ہوگئے ہیں تو ان دس سالوں میں مقامی لوگوں پر کیا گزری ہے تو انھوں نے کہا کہ مختلف بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چاغی میں نوجوانوں نے چاغین رایٹس موومنٹ قائم کی ہے اور اس تنظیم کے چیئر مین حفیظ سنجرانی کے مطابق مقامی بیماریاں عام اور علاج کی سہولتیں نہیں ہیں۔ پانی کا فقدان ہے اور زیر زمین پانی کی سطح نیچے گر گئی ہے۔ اس تنظیم کے نائب چیئرمین عبدالخالق نے بتایا کہ آج سے دس سال پہلے جب دھماکے ہوئے تھے تو لوگوں پر کیا گزری تھی۔ انھوں نے کہا کہ جب دھماکے ہوئے تو پہاڑوں کا رنگ کالا پڑ گیا اور دھواں اٹھنے لگا جس سے لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ بعد میں خبروں میں بتایا گیا ہے ایٹمی دھماکے کیے گئے ہیں۔ عبدالخالق کے مطابق کچھ عرصہ بعد لوگوں کو جلد کی بیماریاں ہونے لگیں اور پیٹ خراب رہنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ چاغی میں سونے کے وسیع ذخائر ہیں اور سالانہ حکومت پاکستان کو تفتان بارڈر سے اربوں روپے کا منافع ملتا ہے لیکن چاغی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس دن کو یوم تکبیر کے طور پر منایا جا رہا ہے جماعت کے صوبائی صدر سردار یعقوب ناصر کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں سے ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔
160322_wt20_pak_nz_analysis_hk
https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/03/160322_wt20_pak_nz_analysis_hk
بیٹسمینوں نے مایوس کرنے کی قسم کھا رکھی ہے
پاکستانی بیٹسمینوں نے اپنے شائقین کو مایوس کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
دوسرے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں دم توڑگئیں ہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک اچھے آغاز کے بعد مڈل آرڈر بیٹنگ کی انتہائی غیرذمہ داری 22 رنز کی شکست کا سبب بن گئی اور یوں مسلسل دوسرے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم مسلسل تیسرا میچ جیت kr ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔ بھارت کے خلاف اس نے 126 اور آسٹریلیا کے خلاف 142 رنز کا کامیابی سے دفاع کیا تھا لیکن پاکستان کے خلاف اس نے اس ٹورنامنٹ میں اپنا سب سے بڑا اسکور 180 رنز پانچ کھلاڑی بناکر بڑے اعتماد سے اس کا دفاع کر لیا۔ منزل تک پہنچنے کے لیے پاکستانی ٹیم کو ایک اچھی بنیاد کی ضرورت تھی جو شرجیل خان نے فراہم کردی۔ انھوں نے احمد شہزاد کے ساتھ صرف 33 گیندوں پر 61 رنز بنا ڈالے۔ شاہد آفریدی کے 16ویں اوور میں آؤٹ ہونے کے بعد آخری 31 گیندوں پر ایک بھی چوکا نہ لگ سکا شرجیل خان نے پچھلی ناکامیوں کا غصہ نیوزی لینڈ کے بولرز پر بری طرح اتارا۔ انھوں نے صرف 25 گیندوں پر 47 رنز کی انتہائی جارحانہ اننگز کھیلی جس میں نو چوکے اور ایک چھکا شامل تھا۔ ان کے جانے کے بعد پاکستان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں اور کسی بھی بیٹسمین نے ذمہ داری سے بیٹنگ کی زحمت ہی نہیں کی۔ شاہد آفریدی کے 16ویں اوور میں آؤٹ ہونے کے بعد آخری 31 گیندوں پر ایک بھی چوکا نہ لگ سکا۔ عمر اکمل جنھیں ہمیشہ اس بات کا گلہ رہتا ہے کہ انھیں بیٹنگ آرڈر میں اوپر بھیجا جائے اس میچ کو پاکستان کے حق میں ختم کرنے کی اچھی پوزیشن میں تھے لیکن ایک بار پھر اپنی غیرذمہ داری دکھا کر ٹیم کو بیچ منجدھار میں چھوڑگئے۔ سنہ 2012 کے بعد دوبارہ خالد لطیف کو انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کا فیصلہ بالکل ایسے ہی ناکام ثابت ہوا جیسے خرم منظور کو ایشیا کپ میں کھلانے کا۔ اس سے قبل نیوزی لینڈ نے مسلسل تیسرے میچ میں ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ نیوزی لینڈ نے اس ٹورنامنٹ میں اپنا سب سے بڑا اسکور 180 رنز بناکر بڑے اعتماد سے اس کا دفاع کیا نیوزی لینڈ کو پانچ وکٹوں پر 180 رنز تک لے جانے کا سہرا مارٹن گپٹل کے سرجاتا ہے جنھوں نے ایک اینڈ سے پاکستانی بولنگ پر حاوی ہوتے ہوئے دس چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے 80 رنز کی شاندار اننگز بھی کھیلی اور ولیم سن اور کورے اینڈرسن کے ساتھ نصف سنچری شراکتیں بھی قائم کیں۔ گپٹل اور ولیم سن نے جن دس ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اوپننگ کی ہے ان میں سے آٹھ میں انھوں نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 50 سے زائد رنز کی شراکت قائم کی ہے۔ نیوزی لینڈ کے اوپنرز یہ سوچ کر بیٹنگ کے لیے آئے تھے کہ پاکستانی ٹیم کے سب سے کامیاب اور موثر بولر محمد عامر کو سنبھلنے نہیں دینا اور اس حکمت عملی میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ محمد عامر نے چار اوورز میں 41 رنز دے ڈالے۔ محمد عرفان نے پہلے اوور میں 13 رنز دینے کے بعد اگرچہ اپنے دوسرے اوور میں کپتان ولیم سن کی وکٹ حاصل کی لیکن اس کے بعد وہ بھی رنز کے بہاؤ میں بہہ گئے۔ محمد سمیع نے بھارت کے خلاف میچ کے بعد اس میچ میں بھی اچھی بولنگ کی اور مارٹن گپٹل اور لیوک رانکی کی وکٹیں حاصل کیں۔ وہاب ریاض کی جگہ ٹیم میں شامل کیے گئے لیفٹ آرم اسپنر عماد وسیم نے بھی موثر بولنگ کرتے ہوئے چار اوورز میں 26 رنز دیے۔ کپتان شاہد آفریدی نے اگرچہ دو وکٹیں حاصل کیں لیکن ان کے چار اوورز میں دس رنز کی اوسط سے رنز بن گئے۔
140802_china_factory_blast_many_dead_mb
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/08/140802_china_factory_blast_many_dead_mb
چین: فیکٹری میں دھماکہ، 65 افراد ہلاک
چین کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ملک کے مشرقی علاقے میں قائم ایک فیکٹری میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 65 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
جاری تصاویر میں کئی لوگوں کو جلے ہوئے کپڑوں میں فیکٹری کے باہر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے اس دھماکے میں تقریباً 120 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سرکاری ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی نے سنیچر کو اپنے مائکرو بلاگنگ اکاؤنٹ ویئبو پر خبر دی ہے کہ ملک کے مشرق میں واقع صنعتی صوبے جیانگسو کے کنشان شہر کی ایک فیکٹری میں دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہوا نےکہا ہے کہ یہ دھماکہ سنیچر کی صبح سات بج کر 37 منٹ پر ایک کار پولیشنگ ورکشاپ میں ہوا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دھماکے کے وقت وہاں 200 سے زیادہ افراد موجود تھے۔ سی سی ٹی نے اپنی سائٹ پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فیکٹری میں دھات کا کام ہوتا تھا اور اس میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے۔ حکام دھماکے کی وجوہات کا پتہ چلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جبکہ امدادی کام زوروں پر جاری ہے۔ زخمیوں کو طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ آن لائن جاری تصاویر میں کئی لوگوں کو جلے ہوئے کپڑوں میں فیکٹری کے باہر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس کے عقب میں فیکٹری سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ چین کی فیکٹریوں میں اس قسم کے حادثے ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وہاں حفاظت کے میعار کو برقرار رکھنے میں عموماً بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔
regional-39566643
https://www.bbc.com/urdu/regional-39566643
یوپی: ’مذبح خانوں کے خلاف مہم، مسلمانوں کے کاروبار کے خلاف سازش‘
انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر رام پور کی معروف رضا لائبریری کے عقب میں واقع بازار میں ہر چیز بکتی ہے۔
وہاں گوشت کی دکانیں بھی ہیں لیکن ان دنوں بند پڑی ہیں۔ گوشت کی ان دکانوں میں سے ایک کے مالک محمد قریشی کا الزام ہے کہ اتر پردیش میں مذبح خانوں کے خلاف جاری مہم مسلمان مخالف ہے۔ اترپردیش کا مسلمان اتنا پریشان کیوں؟ 'ہماری تو قسمت پر تالا لگ گیا ہے' اترپردیش میں مذبح خانے بند ہونا شروع وہ کہتے ہیں کہ 'مسلمانوں کے کام پر ہی ہاتھ ڈالا جا رہا ہے۔ وہ مسلمان کو کاروبار سے توڑنا چاہ رہے ہیں۔ کاروبار جب ٹوٹ جائے گا، اس کے پاس پیسہ نہیں ہو گا، تو ظاہر ہے وہ غلام بن کر رہے گا۔' ریاستی حکومت کہتی ہے کہ یہ کارروائی کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں لیکن حکومت کی باتوں پر مسلمان کمیونٹی کو اعتماد نہیں ہے۔ قریشی اس دلیل کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پہلے گوشت کا کام بند کیا اور دو دن پہلے تمام آرا مشینیں توڑ دیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی تھیں۔' شہر کے مذبح خانے بند ہیں۔ گوشت کھانے والے پریشان ہیں۔ ریستوران اور گھروں میں گوشت دستیاب نہیں ہے۔ ایک ریستوران کے مالک نے کہا کہ 'رام پور مسلم اکثریتی شہر ہے۔ یہاں مسلمان اور ہندو دونوں کو گوشت کا شوق ہے لیکن اب سبزیاں کھائی جا رہی ہیں۔' بکرے، مرغی اور مچھلیوں کے گوشت کی دکانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے لیکن ڈر کے مارے دکاندار خود گوشت کی دکان نہیں کھول رہے ہیں۔ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بعض پولیس اہلکار مشتعل ہو کر ہر طرح کی گوشت کی دکانوں کو بند کروا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ صرف غیر قانونی مذبح خانے بند کراوئے جا رہے ہیں لیکن رام پور میں قریشی برادری کے صدر زاہد قریشی کہتے ہیں کہ غیر قانونی مذبح خانے ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کو مذبح خانوں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذبح خانے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک روایتی مذبح خانے جو میونسپل کارپوریشن کے ہوتے ہیں اور دوسرے جدید مشینوں والے مذبح خانے جو تمام نجی ملکیت کی حامل ہیں اور جہاں کا گوشت صرف برآمد کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 'یوپی میں کوئی نجی مذبح خانہ نہیں ہے۔ سارے مذبح خانے میونسپل کارپوریشن کے ہیں۔' جدید اور نجی مذبح خانوں کے لیے لائسنس لینا پڑتا ہے۔ اس صنعت میں مسلمان اور ہندو شراکت دار ہیں۔ سماجوادی پارٹی کی پچھلی حکومت نے کئی برس سے نئے لائسنس جاری نہیں کیے تھے اور موجودہ لائسنسوں کی تجدید نہیں کی گئی۔ اسی لیے ریاستی حکومت اس بحران کی ذمہ داری سماج وادی پارٹی کی حکومت پر مسلط کرتی ہے۔ گوشت کے کاروبار سے منسلک قریشی برادری کے ایک نوجوان رہنما طارق حسین قریشی مانتے ہیں کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن وہ سماجوادی پارٹی کی پچھلی حکومت کو اس کا زیادہ ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'یہ سماجوادی پارٹی کی ہی سازش ہے۔ اس کی حکومت نے 2014 میں جتنے بھی میونسپل والے مذبح خانے تھے، ان کے لائسنس منسوخ کر دیے۔ مسلم قوم کو اور خاص طور سے قریشی برادری کو سماجوادی پارٹی نے نشانہ بنایا ہے۔' دوسری طرف سنہ 2014 میں سپریم کورٹ نے گوشت کی دکان اور مذبح خانوں کے لیے کئی ہدایات جاری کی تھیں۔ ان کے بارے میں قریشی برادری سے لے کر ریاستی حکومت تک کسی کو معلوم نہیں تھا۔ زاہد قریشی کے مطابق پچھلی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس حکم کو دبا دیا تھا۔ عدالت کا حکم مذبح خانوں کو بہتر بنانے سے متعلق تھے جنھیں اب تک لاگو نہیں کیا گیا۔ حال ہی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے عدالت کے حکم پر عمل کرنا شروع کیا ہے۔ ریاستی حکومت ناراض قریشی برادری سے بات چیت بھی کر رہی ہے۔ لیکن گوشت کے کاروبار سے منسلک قریشی برادری کے مطابق حکومت نے لائسنس والے جدید مذبح خانے بھی بند کر دیے ہیں۔ دوسری طرف قریشی برادری پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے جانوروں کو اپنی دکانوں کے پچھلے حصے میں لے جا کر حلال کر کے گوشت فروخت کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض لوگوں نے کہا کہ گھروں کے اندر بھینسے حلال کیے جا رہے ہیں۔ پارٹی کے ایک سینیئر رہنما شیو بہادر سکسینہ کہتے ہیں: 'یہاں تو ہر گلی میں مذبح خانے ہوا کرتے تھے۔ یہاں گلیوں میں لوگ جانور کاٹ دیا کرتے تھے۔ یہاں لوگ عید، بقرا عید پر گائے کے گلے میں مالا ڈال کر سڑک پر گھما کر مظاہرہ کیا کرتے تھے کہ اسے ہم کاٹنے لے جا رہے ہیں اور گلی میں لے جا کر کاٹ دیا کرتے تھے۔' سکسینہ نے مسلمانوں کے اس دعوے کو غلط قرار دیا کہ حکومت انھیں غریب کرنا چاہتی ہے. وہ کہتے ہیں کہ 'حکومت جب قانون بناتی ہے تو مسلمان اور ہندو دونوں کے لیے تیار کرتی ہے۔' کئی مسلم رہنماؤں کی رائے میں گوشت کے نام پر سیاست کی جارہی ہے۔ کچھ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمان کچھ وقت کے لئے گوشت کھانا اور فروخت کرنا بند کر دیں۔ سابق ایم پی شفيق الرحمن برق کہتے ہیں: 'میں تو مسلمانوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم گوشت خریدنا، فروخت کرنا، کاٹنا اور کھانا بند کر دو۔ جب تک تمہارا مسئلہ حل نہیں ہوتا، آپ عزت سے دوسرا کوئی کام کرو۔ یہ مسئلہ ان (حکومت ) کو خود حل کرنا پڑے گا۔' لیکن قریشی برادری کے زاہد قریشی کے مطابق مشورہ دینا آسان ہے۔ اس معاشرے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ گوشت کے کاروبار سے منسلک ہیں جن کے پاس 'کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔' وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حال ہی میں قریشی برادری اور مذبح خانوں کے مالکان سے ملاقات کی اور انھیں یقین دلایا ہے کہ ان کے مسائل پر غور کیا جائے گا۔
130310_mob_psychology_zis
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/03/130310_mob_psychology_zis
پاکستان کا ’مشتعل ہجوم‘
لاہور کے قدیم علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتی برادری کی وہ پہلی آبادی نہیں جو توہینِ رسالت کے کسی مبینہ واقعے پر ’مشتعل ہجوم‘ کے غیظ و غضب کا نشانہ بنی ہے۔
ذیشان حیدر بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد زیادہ دور نہ بھی جائیں تو دو ہزار نو کے سانحۂ گوجرہ سے دو ہزار تیرہ میں لاہور کی عیسائی بستی کے دو سو کے قریب گھروں کی تباہی کے درمیان توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کے نام پر پاکستان میں ’عوامی انصاف‘ کے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ یہ وہ مشتعل ہجوم ہے جو کبھی توہین آمیز فلم کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑیوں کے شیشے توڑتے دیکھا جا سکتا ہے تو کبھی کراچی میں مبینہ طور پر توہینِ آمیز ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے والے مسیحی لڑکے کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہی ہجوم لاہور کے نجی سکول کی استانی کی مبینہ غلطی پر مشتعل ہو کر اس سکول کی تین شاخوں کو تباہ کر دیتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دادو یا پھر احمد پور شرقیہ میں قرآن کی مبینہ بےحرمتی کے الزام میں لوگوں کو سرِ عام زندہ یا پھر اس کی لاش جلا دیتا ہے۔ ان تمام واقعات میں قدرِ مشترک تو مشتعل ہجوم ہی ہے لیکن ایک فرق ان افراد میں ہے جن سے مل کر یہ ہجوم تشکیل پاتا ہے۔ جہاں گوجرہ میں منظم طور پر کی جانے والی کارروائی کا الزام مذہبی شدت پسند کالعدم تنظیموں پر عائد کیا گیا تھا تو وہیں کراچی اور لاہور ایسے واقعات کا آغاز تو مذہب کی بنیاد پر اشتعال دلائے جانے سے ہوا لیکن منظرِ عام پر آنے والی تصاویر میں آگ لگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے نوجوان اپنے حلیوں سے شدت پسند تنظیم کے رکن یا حمایتی کم اور شترِ بےمہار زیادہ دکھائی دیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشتعل ہجوم ہے کیا اور وہ کون سے عناصر ہیں جو ان عام نوجوانوں کو ایک ایسے ہجوم کی شکل دے دیتے ہیں کہ جس کے غیظ و غضب کے آگے ہر کوئی لاہور کی اس پولیس کی مانند بےبس دکھائی دیتا ہے جو جوزف کالونی میں مکانات کو جلتے اور وہاں کے رہائشیوں کے سپنوں کو ٹوٹتے دیکھتی تو رہی لیکن ان پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ "بادامی باغ کے واقعے میں ڈنڈے لہراتے ہوئے جو نوجوان نظر آ رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ روزگار ہے نہ تعلیم اور ان کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں حالانکہ جنہیں وہ مار رہے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔ " عمر ندیم تاررڑ، ماہرِ علمِ بشریات ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ توڑ پھوڑ پر آمادہ ہجوم میں شامل افراد انفرادی طور پر چاہے اتنے پرتشدد نہ ہوں لیکن جب وہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو نہ ہی ان میں نتائج کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی ضمیر کی خلش انہیں ستاتی ہے اور وہ اپنے اقدامات کے لیے بھی ہجوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ماہرِ علمِ بشریات ندیم عمر تاررڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں ہی پسے ہوئے طبقات ہیں: ’یہ لوگ خود کو کچلنے والے بالا دست طبقات کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ان کا غصہ زیردست پر نکلتا ہے۔‘ ندیم تاررڑ کا کہنا تھا کہ ’بادامی باغ کے واقعے میں ڈنڈے لہراتے ہوئے جو نوجوان نظر آ رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ روزگار ہے نہ تعلیم اور ان کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں حالانکہ جنھیں وہ مار رہے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔‘ ان کے مطابق اس کی ذمہ داری ہماری حکومت اور ان واقعات پر بیان بازی کرنے والی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد تو امداد اور اقدامات کے اعلانات کرتی ہے لیکن مسئلے کی بنیاد کی اصلاح کے لیے کام نہیں کرتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کو بہانے اور عذر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ملک میں مسیحی برادری پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں ان میں معاشی پہلو ہمیشہ موجود رہا ہے اور بادامی باغ والا واقعہ بھی اس سے الگ نہیں۔ "ہمارے ہاں محض نصیحتوں سے یا وعظ سے لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے اور انہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے۔ اس کے لیے ان وجوہات کو تلاش کر کے دور کرنا ہوگا جو ان خرابیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔" ڈاکٹر مبارک علی معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی جہاں اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس عوامی تشدد کی بڑی وجوہات طبقاتی محرومیاں، ریاست کا جبر اور حکمران طبقے کی جانب سے استحصال ہے وہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار کا انحطاط بھی اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاست یا فرد کی ملکیت یا انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے اور معاشرے کے محروم طبقات توڑ پھوڑ کر کے انتقام کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ’لوگوں میں احساسِ محرومی ہے، غصہ ہے اور اس کا اظہار وہ تشدد کی شکل میں کرتے ہیں اور کسی دوسرے کے مال و متاع کو آگ لگا کر اپنی محرومیوں کا غصہ اتارتے ہیں‘۔ ڈاکٹر مبارک کے مطابق بنیادی خرابیوں کو دور کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں: ’ہمارے ہاں محض نصیحتوں سے یا وعظ سے لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے اور انہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے۔ اس کے لیے ان وجوہات کو تلاش کر کے دور کرنا ہوگا جو ان خرابیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے واقعات میں افواہوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے اور اکثر اوقات افواہیں ہی اس قسم کے واقعات کی بنیاد بنتی ہیں لیکن انتہائی قدم اٹھانے سے قبل سچائی جان لینے کا خیال آپ کو جبھی آ سکتا ہے جب آپ باشعور ہوں اور یہ شعور صرف تعلیم کے عام ہونے سے ہی آ سکتا ہے۔ اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
061020_bihar_ih
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/10/061020_bihar_ih
بہارعدالت: محض ایک دن میں فیصلہ
بہار کی ایک عدالت نے جمعرات کے روز ایک مقدمے کی سماعت کے پہلے دن ہی فیصلہ کرتے ہوئے سزا سنا دی۔
سہسرام میں روہتاس کے ضلع اور سیشن جج ارون کمار شری واستو نے ایک سات سالہ بچی سےجنسی بد فعلی کی کوشش کے معاملے کی سماعت ایک دن میں پوری کرنے کے بعد ملزم کو پانچ سال کی سزا سنائیروہتاس ضلع کے پبلک پروسیکیٹور راجندر پرساد سنگھ کے مطابق اس سال 23 جولائی کومذ کورہ بچی کامعاملہ پیش آیا تھا۔ اس معاملے میں پولیس نے اپنی تفتیش پوری کر جمعرات کو تعزیرات ہند کی دفعہ 376 اور 511 کے تحت الزام عائد کیا۔ کچھ ہی دیر میں گواہی پوری ہوئی اور فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس سے قبل جج ارون کمار شری واستو نے ہی اسی سال جولائی میں جنسی بدفعلی کے ایک دیگر معاملے میں ایک ملزم کو مجرم قرار دیتے ہوئے محض دو دنوں کی سماعت میں سزا سنا دی تھی۔ عام طور پر یہاں کی عدالتوں میں مقدمے کافی دنوں تک چلتے ہیں اس کے باوجود فیصلے نہیں ہو پاتے۔ لیکن نیتیش کمار کی حکومت کے ذریعہ سماعت کے عمل کو تیز کرنے کے سبب فیصلے نسبتاً کم دنوں میں سنائے جانے لگے ہیں۔نیتیش کمار کی حکومت بننے کے بعد لفظ ’سوشاسن’ یعنی اچھی حکمرانی کافی مقبول ہوا تھا۔ اسکے بعد لفظ ’سپیڈ ٹرائل’ یعنی تیز تر سماعت بھی کافی چرچے میں رہاہے۔ ریاست کے اے ڈی جے پولیس ابھیانند کے مطابق اس سال جنوری سے ’سپیڈٹرائل’ کا عمل شروع کیا گیا ہے اور ستمبر تک چار ہزار سے زائد مقدموں کو اس مہم کے تحت نمٹایا جاچکا ہے۔ مسٹر ابھیانند کے مطابق ’سپیڈ ٹرائل’ کی مہم کی وجہ سے قتل اور آبرو ریزی کے متعدد ملزمان کو مجرم ثابت کیا جا چکا ہے۔ ایسے معاملوں میں کافی تعدادان مجرموں کی ہے جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بہار میں پولیس کے ذریعہ دیر سے الزام عائد کرنے، معاملے کی تفتیش کر رہے پولیس اہلکار کے گواہی کے لیۓ نہ پہنچنے اور کئی بار جیل سے ملزم کو وقت پر کورٹ نہ پہچائے جانے کے سبب مقدموں کے فیصلے دیر سے آتے ہیں۔اسکی وجہ سے زیر سماعت قیدیوں کو لمبے عرصے تک جیل کاٹنی پڑتی ہے۔ سماعت میں دیری کی وجہ سےکئی بار اصل سزا سے زائد وقت جیل میں کٹ جاتا ہے۔ دوسری جانب پولیس اور عدالتی عمل کی سست روی سے جرائم پیشہ افراد لمبے وقت تک بے خوف ضمانت پر گھومتے رہتے ہیں۔ ریاست میں پیچیدہ اور سست رفتار عدالتی عمل کا تذکرہ گذشتہ دنوں پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈاکٹر جے این بھٹ نے بھی کیا تھا۔ دارالحکومت پٹنہ میں ’سپیڈ کریمنل جسٹس’ کے موضوع سے منعقدہ سیمینار میں وزیر اعلی نیتیش کمار نے ’سپیڈ ٹرائل’ کے فوائد بتائے۔ نتیش کمار کے مطابق پہلے بندوق لیکر گھومنا ’سٹیٹس سمبل’ تھا لیکن جب آرمزایکٹ کے تحت سزا جلد سنائی جانے لگی تو یہ معاملہ کافی حد تک کنٹرول میں آ گیا۔نیتیش کمار کا خیال ہے کہ اسی طرح تین سال تک یہ مہم چلی تو قتل اور آبروریزی کے واقعات کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔
060628_hayat_inquiry_ak
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060628_hayat_inquiry_ak
’اِن کیمرہ‘ تحقیقات قبول نہیں: صحافی
صوبہ سرحد کے صحافیوں، سیاستدانوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے واضح کیا ہے کہ قبائلی صحافی حیات اللہ کے قتل کی بند کمرے میں تحقیقات انہیں قابل قبول نہیں ہوں گی۔
یہ تنبیہ اور مطالبہ بدھ کو پریس کلب میں خیبر یونین آف جرنلسٹس کے زیرِ اہتمام حیات اللہ کی یاد میں ایک ریفرنس میں جاری کیا گیا۔ ’آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے والے اقدامات اور پاکستان کا مستقبل‘ کے عنوان پر ہونے والی بحث میں مقامی صحافیوں، سیاستدانوں، وکلاء اور حقوق انسانی کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے آئی اے رحمٰن نے اعلان کیا کہ عدالتی کمیشن کی جانب سے ’اِن کیمرہ‘ تحقیقات کی صورت میں وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحقیقات ہائی کورٹ کے جج کی بس کی بات نہیں اور اس کے لیئے سپریم کورٹ کا بڑا بنچ مقرر کیا جائے۔ سینیئر صحافی آئی اے رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ رویہ صرف صحافیوں کے ساتھ روا نہیں رکھا جا رہا بلکہ ہر شعبے میں یہی ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ ان ’پراسرار گمشدگیوں‘ کا ہے۔ خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر انتخاب امیر نے کہا کہ گھٹن کے اس ماحول میں آزاد صحافت ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بند کمرے میں تحقیقات نے اس عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ریفرینس سے پیپلز پارٹی کے قمر عباس، عوامی نیشنل پارٹی کے نائب صدر حاجی محمد عدیل اور مسلم لیگ (ق) کے ایک رہنما نے بھی خطاب کیا۔ وکلاء کی نمائندگی سینیئر وکیل محمد خورشید نے کی۔ اجلاس کے اختتام پر کئی قرار دادیں بھی منظور کی گئیں جن میں حیات اللہ کے اصل قاتلوں اور قتل کے محرکات کو عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
080619_kurram_jail_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/06/080619_kurram_jail_zs
کرّم: پینتیس قیدی جیل توڑ کر فرار
فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ کرم ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب پینتیس کے قریب قیدی جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
لوئر کرم کے اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ عطاءالرحمن نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کی شب تقریباً ساڑھے نو بجے صدہ سب جیل میں موجود قیدیوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت جمع ہو کر مرکزی دروازہ توڑ دیا۔ ان کے مطابق اس موقع پر موجود لیویز اہلکاروں نے قیدیوں پر قابو پانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تاہم اس کے باوجود چھیاسٹھ میں پینتیس افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ فرار ہونے والوں میں چار افراد قتل جبکہ باقی اکتیس معمولی نوعیت کی مقدمات میں مبینہ طور ملوث تھے۔ ان کے بقول انہیں یہ شبہ ہے کہ قتل کے مبینہ کیس میں ملوث دو افراد نے قیدیوں کو ورغلا کر جیل سے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کی۔ ان کے مطابق ان دو قیدیوں نے چند دن قبل اپنے مطالبات کے حق میں بھول ہڑتال کی تھی تاہم انہوں نے بات چیت کر کے انہیں مطمئن کردیا تھا۔ اسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی بھی قیدی کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے تاہم انہوں نے جمعرات کے روز قبائلی جرگوں میں مشران سے کہا ہے کہ وہ ان افراد کو مقامی انتظامیہ کے حوالے کردیں۔ ان کے مطابق قبائلیوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ فرار ہونے والے قیدی گھر نہیں آئے ہیں اور جب بھی واپس آئیں گے انہیں حکام کے حوالے کردیا جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے انگریزوں کے دور کا قانون’ایف سی آر‘ رائج ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کو عدالت میں اپیل کرنے کا حق حاصل نہیں اور پو لٹیکل انتظامیہ کو یہ مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ تین سال تک پابندِ سلاسل رکھ سکتی ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایف سی آر کے خاتمے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔
060613_gaza_attack_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/06/060613_gaza_attack_fz
اسرائیلی حملہ: بچے، نو ہلاک
غرب اردن کے علاقے غزہ میں اسرائیلی فوج کی فضائی بمباری سے دو بچوں سمیت نو فلسطینی ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ میں فضائی بمباری کی تصدیق کی ہے تاہم اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے کے بارے میں عینی شاہدین اور ڈاکٹروں نے بتایا ہے۔ فلسطین کے اسلامی جہاد نامی گروہ نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اس کے ارکان بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران غزہ کے علاقے سے اسرائیل پر راکٹ داغے جاتے رہے ہیں۔اسرائیل نے بھی فلسطینی شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیئے رہائشی علاقوں پر متعدد فضائی حملے کیئے ہیں۔ غزہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایلن جانسٹن نے اطلاع دی ہے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات عام ہیں لیکن اس سے پہلے کسی واقعے میں اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اطلاعات کے مطابق پہلے حملے کے بعد دوسرا راکٹ عین اسی جگہ آ کر گرا جہاں پر پہلے حملے کے بعد بہت سے شہری ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی مدد کے لیے جمع تھے۔ زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے دوران علاقے میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ ہسپتال کے باہر خواتین نے اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان راکٹ فائر کرنے کے واقعات میں جمعہ کو سمندر کے کنارے ایک اسرائیلی حملے میں آٹھ فلسطنیوں کی ہلاکت کے بعد شدت آئی ہے۔ اس حملے کے بعد فلسطینی میں حزب اقتدار کی جماعت حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ یک طرف جنگی بندی ختم کرکے اسرائیل پر دوبارہ حملے شروع کر رہی ہے۔ سمندر کے کنارے ایک خاندان کے پکنک مناتے وقت اسرائیل کی طرف سے فائر کیئے گئے راکٹ میں آٹھ فلسطینی ہلاک ہو گئےے تھے۔ تاہم اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ حملہ اسرائیل فوج کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں فلسطینیوں کی طرف سے سو سے زیادہ راکٹ فائر کیئے گئے ہیں۔
150709_serena_sharapova_win_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/07/150709_serena_sharapova_win_as
سیرینا اور موگوروزا ومبلڈن کے فائنل میں
عالمی نمبر ون سیرینا ولیمز نے عالمی نمبر چار ماریا شاراپوا کو ومبلڈن کے سیمی فائنل میں ہرا کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے۔
سیرینا ولیمز نے مارا شاراپوا کو ہرا کر اپنا گیارہ سالہ ریکارڈ قائم رکھا ان کا مقابلہ فائنل میں سپین کی گاربین موگوروزا سے ہو گا۔ 33 سالہ امریکی کھلاڑی نے سٹریٹ سیٹس میں میچ جیت کر شاراپوا کے خلاف فتوحات کا اپنا 11 سالہ ریکارڈ برقرار رکھا۔ ولیمز اپنے 25 ویں گرینڈ سلام کے فائنل میں پہنچنے کے بعد بہت جوش میں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ میں تھوڑا نروس ہو گئی تھی کیونکہ یہ سیمی فائنل تھا اور کافی دیر ہو گئی ہے میں یہاں تک نہیں پہنچی تھی۔‘ شاراپوا نے 2004 سے لے کر اب تک سرینا ولیمز کو کبھی نہیں ہرایا اور یہ ان کی ولیمز کے ہاتھوں 17 ویں شکست تھی۔ روسی کھلاڑی کو معلوم تھا کہ انھیں اپنی سروس کا دفاع کرنا ہے لیکن یکے بعد دیگرے ڈبل فالٹس کی وجہ سے گیم ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی۔ سنیچر کو ولیمز اپنا چھٹا ومبلڈن ٹائٹل جیت سکتی ہیں مگر اس کے لیے انھیں سپین کی 21 سالہ موگوروزا کو شکست دینا ہوگی جو اپنا پہلا گرینڈ سلام فائنل کھیلیں گی۔ موگوروزا نے پولینڈ کی ایگنیسکا رادوانسکا کو پہلے سیمی فائنل میں چھ دو، تین چھ اور چھ تین کے سکور سے ہرایا۔ وینیزویلا میں پیدا ہونے والی ہسپانوی کھلاڑی نے میچ جیتنے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میرے پاس اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔‘ ’میں ساری عمر اس لمحے کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرتی رہی۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں بہت اچھا کھیل رہی تھی سو مجھے جذبات سے خالی شکل بنائے پرسکون رہنا تھا۔‘ ’مجھے معلوم تھا کہ یہ مشکل ہو گا۔ میں دوسرے سیٹ میں نروس ہو گئی تھی۔ ان کے پاس بہت تجربہ تھا اور مجھے فائٹ کرنا تھی۔‘ موگوروزا نے فیصلہ کن پوائنٹ پر اپنے جذبات پر قابو رکھا۔
pakistan-46615989
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46615989
بسنت: کیا پنجاب کے لوگ اگلے سال اپنا تہوار منائیں گے؟
پاکستان میں بسنت کا تہوار اور پتنگ بازی لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ بسنت کا تہوار گذشتہ چند دہائیوں سے پتنگ بازی کے گرد ہی گھومتا رہا ہے یعنی پتنگ بازی نہیں تو کیا بسنت؟
پتنگ بازی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گذشتہ قریباً ایک دہائی سے مسلسل پابندی کا شکار رہی ہے پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص لاہور میں بڑے پیمانے پر منائے جانے کے بعد بسنت کے اس تصور نے نہ صرف پتنگ کی باقاعدہ صنعت کو جنم دیا بلکہ اس سے منسلک تفریح اور دیگر کاروبار بھی اس سرگرمی سے مستفید ہوتے تھے۔ تاہم دوسری جانب انسانی جان کے لیے خطرہ بن کر سامنے آنے کے باعث پتنگ بازی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گذشتہ قریباً ایک دہائی سے مسلسل پابندی کا شکار رہی ہے یعنی دوسرے الفاظ میں بسنت نہیں منائی جا رہی۔ یہ بھی پڑھیے بسنت پالا اڑنت! خوشی اور غم منانا آسان نہیں رہا ماضی میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے دو ادوار میں یہ پابندی ختم نہیں کی جا سکی۔ تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کو پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ آئندہ برس فروری میں بسنت منعقد کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب کے حوالے سے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے منسوب مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے بیانات کے مطابق پنجاب حکومت نے اصولی طور پر بسنت منانے کا فیصلہ کیا ہے جو فروری کے دوسرے ہفتے میں منائی جائے گی۔ اس حوالے سے پنجاب کے وزیرِ قانون محمد بشارت راجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو پتنگ بازی سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے حکومت کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ لاہور میں بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے لیے ملک اور بیرونِ ملک سے لوگ آیا کرتے تھے تو کیا بسنت یعنی پتنگ بازی پر پابندی ختم؟ مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ بسنت پر باقاعدہ دائمی پابندی عائد تھی جو اب ختم کر دی گئی ہے لیکن حکام سے بات کریں تو معلوم ہوتا ہے ابھی ایسا کچھ نہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی پنجاب کے ترجمان شہباز گِل کا کہنا تھا کہ ’وزیرِ اعلی پنجاب کی خواہش تھی کہ بسنت منائی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے انھوں نے ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اپنی سفارشات دے گی۔‘ لاہور کی ڈپٹی کمشنر صالحہ سعید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی تو حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے وہ جو سفارشات دے گی اس کے بعد فیصلہ ہو گا۔ ابھی ایسے کوئی احکامات نہیں آئے کہ پتنگ بازی کی اجازت دی گئی ہو۔‘ پنجاب میں اگر آپ آج پتنگ اُڑاتے ہوئے پائے جائیں تو پولیس آپ کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے یعنی پتنگ بازی پر پابندی بدستور قائم ہے تاہم بسنت کا فیصلہ کمیٹی کی سفارشات پر منحصر ہے۔ ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ بسنت پر باقاعدہ دائمی پابندی عائد تھی جو اب ختم کر دی گئی ہے پتنگ بازی یا بسنت؟ پتنگ بازی پر پابندی کیسے اور کیوں عائد ہے اور اس سے بسنت کا تہوار کیسے جُڑا ہے؟ حکومتِ پنجاب نے سنہ 2009 میں پتنگ بازی کی ممانعت کا قانون منظور کیا تھا۔ اس کے مطابق پتنگ اڑانے اور پتنگ اور اس کو اڑانے کے لیے ڈور اور اس پر لگانے والا کانچ کا مانجھا بنانے اور بیچنے پر پابندی ہو گی۔ تاہم اس قانون کے مطابق ضلعی ناظم حکومتِ پنجاب کی پیشگی اجازت کے ساتھ بہار کے موسم میں 15 دن کے لیے پتنگ فروشی اور پتنگ بازی کی اجازت دے سکتا ہے۔ یعنی ان 15 روز کے علاوہ پتنگ اڑانے اور بیچنے پر پابندی ہو گی۔ ماضی میں حکومتِ پنجاب ان 15 روز کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اگر حالیہ حکومت بسنت مناتی ہے تو وہ قانون کے مطابق انھی 15 روز میں ممکن ہو پائے گا۔ اجازت کیوں نہیں ملتی تھی؟ حکومت پنجاب کے ایک عہدیدار کے مطابق ماضی میں بھی ہر برس بسنت منانے یا نہ منانے کے حوالے سے بات چیت ہوتی تھی۔ یعنی موسمِ بہار میں پتنگ بازی کی اجازت دینے پر غور کیا جاتا تھا جس کی لیے کمیٹیاں بھی قائم کی جاتی تھیں۔ ’ان کمیٹیوں میں مختلف سٹیک ہولڈرز پتنگ بازی کے خطرات کا بھی جائزہ لیتے تھے اور اس کے حق میں بات کرنے والوں کا مؤقف بھی لیا جاتا تھا۔ تاہم پتنگ بازی کی اجازت دینے کی سب سے زیادہ مخالفت پولیس کا محکمہ کرتا تھا۔‘ آخر میں زیادہ تر پولیس کا مؤقف موزوں مانا جاتا تھا۔ اس کے بعد 15 موسمِ بہار میں 15 روز کے لیے بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی یعنی بسنت کا تہوار گزشتہ تقریباً 12 برس سے نہیں منایا جا سکا۔ ڈرو گلے پر پھرنے راہگیروں، موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کی اموات بسنت پر پابندی کی وجہ بنیں پتنگ بازی کی مخالفت کیوں؟ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک تو کانچ کا مانجھا لگی یا سنتھیٹک وہ مخصوص ڈوریں تھیں جو پتنگیں اڑانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ ان سے مخالف پتنگ کاٹنے میں آسانی ہوتی تھی اس لیے ان کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا۔ تاہم ڈور راہگیروں، موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کے گلے پر پھرنے اموات واقع ہو رہی تھیں جن میں بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ دوسری وجہ ہوائی فائرنگ سے ہونے والی اموات تھیں۔ بسنت کے دنوں میں بڑے پیمانے پر لوگ گھروں کی چھتوں پر سے پتنگ بازی کے مقابلے کرتے تھے جن میں جیت کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی جاتی تھی۔ ایسے تمام واقعات میں انسانی جانیں ضائع ہوتی تھیں یا لوگ زخمی ہوتے تھے۔ پولیس اس لیے بھی پابندی کی حمایت کرتی تھی کہ ایسے تمام واقعات کی روک تھام کی ذمہ داری پولیس کی بنتی تھی۔ پابندی کی صورت میں ایسا کرنا آسان ہوتا تھا۔ انسانی اموات کے بعد پتنگ بازی پر پابندی لگانے کے لیے احتجاج بھی ہوا تھا ’بس دو دنوں کی تو بات ہے‘ بسنت منانے کی حمایت کرنے والوں خصوصاً پتنگ بازی ایسوسی ایشن کی جانب سے یہی مؤقف اپنایا جاتا ہے کہ پولیس اگر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے تو بسنت منائی جا سکتی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ کائٹ فلائنگ ایسوسیئشن لاہور کے صدر شیخ محمد شکیل کا کہنا تھا کہ ’بس دو دنوں کی تو بات ہے۔ اگر آپ موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر عملدرآمد کروا سکتے ہیں تو ہوائی فائرنگ کی روک تھام اور ممنوع علاقوں میں پتنگ اڑانے پر پابندی پر بھی عملدرآمد کروایا جا سکتا ہے۔‘ قانون کے مطابق کھلے میدانوں، پارکوں یا سڑکوں پر پتنگ بازی نہیں کی جا سکتی۔ ’ویسے بھی بسنت کے دنوں میں سارا لاہور تو چھتوں پر ہوتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پتنگ فروشی پر پابندی سے پتنگ اور ڈوری بنانے کے صنعت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ ’اس کے ساتھ ساتھ جو کاروبار منسلک تھے انھیں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اب اگر آپ بسنت کرواتے ہیں تو محض دو دنوں پر محیط اس سرگرمی سے اربوں روپے کا کاروبار ہو گا۔‘ ان کا دعوٰی تھا کہ ’آخری بار سنہ 2009 میں جب بسنت منائی گئی تھی تو دو ارب کا کاروبار ہوا تھا۔‘ شیخ محمد شکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے موجودہ حکومت کے ساتھ مشاورت سے بسنت کے لیے آئندہ برس 9 اور 10 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ ’جن لوگوں نے بیرونِ ملک سے آنا ہوتا ہے انھیں ٹکٹ لینے میں وقت لگتا ہے۔‘ تاہم حکومت کی جانب سے بسنت منانے کا ارادہ ظاہر کیے جاتے ہیں اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومتی کمیٹی کیا سفارشات مرتب کرتی ہے اور اس حوالے سے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے کیونکہ درخواست سامنے آنے کے بعد وزیرِ اطلاعات نے کہہ دیا ہے کہ جو عدالت کا حکم ہو گا وہ سر آنکھوں پر۔
151109_balochistan_journalist_toucherd_sr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/11/151109_balochistan_journalist_toucherd_sr
کوئٹہ میں پولیس کا ٹی وی چینل کے کیمرہ مین پر مبینہ تشدد
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس کے مبینہ تشدد سے نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ایک کیمرہ مین زخمی ہوگئے ہیں۔
کیمرہ مین رضوان احمد نے بتایا کہ پولیس کے تشدد سے ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے نیوز چینل ’اب تک‘ کے کیمرہ مین رضوان شاہد کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ شہر کے علاقے شاہ و کشا روڈ پر پیش آیا ۔ رضوان شاہد نے بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا کہ دفتر سے چھٹی کے بعد وہ اپنی دکان پر جانے کے لیے جب شاہ و کشاء روڈ پر مڑے تو وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے انھیں رکنے کا اشارہ کیا۔ انھوں بتایا کہ چونکہ دکان چوک کے ساتھ تھی اس لیے وہ دکان پر رکے جس پر ایک پولیس اہلکار وہاں پہنچ کر انھیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پولیس اہلکار سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی بات سننے کے بجائے انھیں مارا گیا۔ رضوان شاہد نے بتایا کہ انھوں نے پولیس اہلکار کو اپنے سے دور کرنے کے دھکہ دیا تو اس پر اہلکار نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھیں زدوکوب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موقع پر موجود تمام پولیس اہلکاروں نے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران ان کے دائیں پیر اور کمر پر کلاشنکوف کا بٹ بھی مارا گیا، جس کے بعد انھیں گوالمنڈی تھانہ لے جایا گیا۔ رضوان احمد نے بتایا کہ پولیس کے تشدد سے ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ جب اس سلسلے میں گوالمنڈی پولیس کے ایس ایچ او سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ون وے کی خلاف ورزی پر کیمرہ مین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔
050225_heath_zimbabwe_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/02/050225_heath_zimbabwe_ra
زمبابوے: باغی کپتان ٹیم میں واپس
زمبابوے کے سابق کپتان ہیتھ سٹریک نے زمبابوے کے کرکٹ بورڈ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ دوبارہ زمبابوے کی نمائندگی کر سکیں گے۔
ہیتھ سٹریک نے دس مہینے پہلے زمبابوے کرکٹ بورڈ کے ساتھ ایک تنازعے کے بعد کرکٹ کھیلنا چھوڑ دی تھی۔ ہیتھ سٹریک نے کہا کہ جب ان کو زمبابوے کی ٹیم میں چنا جائے گا تو ٹیم کے لیے کھیلنے کے تیار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کپتان تایندا تیبو کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور کھلاڑی بلنگوٹ نے بھی زمبابوے کی ٹیم کے لیے کھیلنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ زمبابوے کرکٹ بورڈ کے حکام کو امید ہے کہ ہیتھ سٹریک زمبابوے کی ٹیم میں جو جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے، شرکت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دس مہینے پہلے ہیتھ سٹریک اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کے زمبابوے کرکٹ بورڈ کے ساتھ جھگڑے کی وجہ زمبابوے کا ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ خطرے میں پڑ گیا تھا۔ زمبابوے میں کرکٹ کا بحران کپتان ہیتھ سٹریک کی قیادت میں پندرہ کھلاڑیوں کی سلیکش کی پالیسی کے خلاف بغاوت کے بعد شروع ہوا۔ زمبابوے نے سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا۔
060811_warning_us_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/08/060811_warning_us_rs
بھارت کو بھی خطرہ ہے: امریکہ
دارالحکومت دلی میں امریکی سفارتخانے نے آئندہ دنوں میں ہندوستان میں القاعدہ کے ممکنہ حملوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
سفارت خانے کے حکام نے امریکی شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پندرہ اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر عوامی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔ ادھر حکومت نے یوم آزادی کے موقع پر پورے ملک میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں۔ گزشتہ روز لندن میں دہشت گرد حملوں کی سازش کے پس منظر میں دلی میں امریکی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں دلی اور ممبئی جیسے شہروں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ سفارت خانے کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہوائی اڈے، اہم سرکاری دفاتر اور ہوٹل جیسی عوامی جگہیں ہوسکتی ہیں۔ امریکی شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ چاک و چوبند رہیں اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔ ہندوستانی حکومت نے اس خبر پر اپنا رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن یوم آزادی کے موقع پر حکومت نے پورے ملک میں چوکسی بڑھا دی ہے۔ دلی اور ممبئی سمیت ملک کے سب ہی بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ قومی سلامتی کے بارے میں اس طرح کے خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ ملک کی جوہری تنصیبات دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ حکومت نے ممبئی کے بھابھا ایٹمی ریسرچ اور چینائی کے کلپکّم جیسی جوہری تنصیبات کی حفاظت کے لیے خصوصی کمانڈو تعینات کیے ہیں۔ دلی میں پولیس نے لشکر طیبہ کے بعض مشبہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ انتظامیہ کو پندرہ اگست یعنی یوم آزادی سے قبل دہشت گرد حملوں کا خدشہ ہے اسی لیے اکثر شہروں میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ ہر سال یوم آزادی کی تقریب سے پہلے سکیورٹی سخت کی جاتی ہے اور بہت سی گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں۔
060604_russian_diplomat_free_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/06/060604_russian_diplomat_free_zs
بغداد: ’چار روسی اہلکار بازیاب‘
عراقی وزارتِ داخلہ کے مطابق دارالحکومت بغداد سے ہفتے کو اغوا کیئے جانے والے روسی سفارتخانے کے چار اہلکاروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان لیفٹینٹ کرنل فلاح المحمداوی نے بتایا کہ عراقی کمانڈوز نے ہفتے کی رات جدرہ ڈسٹرکٹ میں حملہ آوروں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور مغویوں کو بازیاب کروا لیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اغواکنندگان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم روسی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک ان افراد کی بازیابی کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے دوران لوگوں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ خوراک خرید رہے تھے۔ اغوا کنندگان کی سفیدگاڑی کو بھی اس کارروائی کے دوران نقصان پہنچا۔ یاد رہے کہ سنیچر کو بغداد کے مغربی علاقے میں منصور نامی ڈسٹرکٹ میں روسی سفارتخانے کے نزدیک ایک کارروائی کے دوران ایک روسی سفارتکار کو ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ حملہ آور سفارتخانے کے چار اہلکاروں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
090107_gaza_cluster
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2009/01/090107_gaza_cluster
غزہ: بمباری میں تین گھنٹے کا وقفہ
اسرائیل نے غزہ پر جاری بمباری میں ہر روز تین گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا ہے۔
بمباری میں مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے سے چار بجے تک وقفہ کیا جائے گا تاکہ غزہ کے مصائب زدہ شہریوں کے لیے امداد پہنچائی جاسکے۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ تین گھنٹے کے وقفے سے لوگوں کو ضروری اشیا خریدنے اور امداد حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔‘ غزہ میں لڑائی رکوانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اور سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فوری فائربندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل اور حماس دونوں پر جنگ بندی کے لیے اب دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اہم عالمی قوتوں نے غزہ میں فائربندی کے مصر اور فرانس کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائیس نے کہا ہے کہ امریکہ مصر اور فرانس کی طرف سے پیش کیے جانے والے امن منصوبے کے حق میں ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے بھی منصوبے کو خوش آمدید کہا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی سفیر گیبری ایلا شلیو نے کہا کہ ان کا ملک فرانس مصر کے منصوبے کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ گزشتہ رات اسرائیل نے غزہ پر چالیس فضائی حملے کیے۔ بدھ کے روز اسرائیل نے حماس کی جانب سے کسی میزائل حملے کی اطلاع نہیں دی ہے۔ آج اسرائیلی کابینہ کا ایک اجلاس ہو رہا ہے جس میں مصر اور فرانس کی تجویز کے ساتھ ساتھ فوجی آپریشن کا دائرہ بڑھانے پر بھی غور کیا جائے گا۔ ایک فلسطینی اہلکار کے مطابق حماس کی قیادت ، جو یہ چاہتی ہے کہ اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دے، اس منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ اس سے قبل انہیں مصر کے صدر حسنی مبارک نے بریفنگ دی تھی۔ اسرائیل مصر کے راستے غزہ میں اسلحے کی سمگلنگ روکنا چاہتا ہے جبکہ حماس کا مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے میں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کی شرط بھی شامل ہونی چاہیے۔ اس سے قبل غزہ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سکول پر اسرائیلی حملے میں کم از کم تیس افراد ہلاک اور پچپن زخمی ہوگئے تھے۔ اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسرائیلی توپ خانے کی طرف سے داغے جانے والے گولے غزہ میں اس کے زیرِ انتظام ایک سکول کے باہر گرے۔ بان کی مون نے اسرائیل کو غزہ پر بمباری اور حماس کو اسرائیل پر راکٹ فائر کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا دورہ کریں گے۔ اسی دوران وینیزویلا نے اسرائیلی سفیر اور اس کے سفارتخانے کے کچھ عملے کو غزہ پر بمباری کی وجہ سے ملک سے چلے جانے کے لیے کہا ہے۔ وینیزویلا کے صدر ہیوگو چاویز نے اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور غزہ میں اس کی کارروائی کو بربریت قرار دیا۔ فرانس اور مصر کے منصوبے کے تحت محدود وقت کے لیے فائربندی ہو گی تاکہ امدادی سامان غزہ میں پہنچایا جا سکے اور اسرائیل اور فلسطینی گروہوں کے درمیان بات چیت شروع کروائی جا سکے تاکہ لڑائی دوبارہ شروع نہ ہو۔ فرانس کا کہنا ہے کہ اسے امید ہے کہ اسرائیل بدھ تک اپنا رد عمل ظاہر کر دے گا۔ جبالیہ کے پناہ گزیں کیمپ میں واقع الفالوج سکول میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اس واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔قریبی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ یہ سکول اسرائیلی حملے میں براہ راست فائر کا شکار ہوا۔ اس سے قبل ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی آئی سی آر سی نے کہا تھا کہ غزہ کو سنگین ترین انسان بحران کا سامنا ہے۔غزہ میں تنظیم کی سرگرمیوں کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ دس روز کی کشمکش کے بعد غزہ میں زندگی ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے غیر ملکی صحافیوں کے غزہ میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے حالانکہ ملک کی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ محدود تعداد میں صحافیوں کو داخل ہونے دیا جائے۔
050828_afghanistan_india_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/08/050828_afghanistan_india_rs
منموہن سنگھ کا دورہ افغانستان
بھارت اور افغانستان نےتعلیم، صحت اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ایک معاہدے پراتفاق کیا ہے۔
وزیراعظم منموہن سنگھ نےصدر حامد کرزئی سےملاقات کے بعد افغانستان کی ترقی کے لیے ہرممکن مدد کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں پائیدار امن کے لیے افغانستان کی خوشحالی ضروری ہے۔ صحت کے شعبے میں معاہدے کے مطابق ہندوستان میڈیکل سائینسز، صحت عامہ ،ہسپتال اورخاندانی فلاح و بہبود کے پروگراموں میں مدد کرےگا۔ تعلیم کےشعبےمیں کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور اعلیٰ سول حکام کی ٹرینگ کی شامل ہے۔ زرعی شعبے میں دونوں ملک سائینسز کا تبادلہ کرینگے اور ماہرین کی مدد اس شعبے میں فائدہ حاصل کریں گے۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں توانائی کی کمی ہے اور بھارت نے اس شعبے میں بھی اسےمدد فراہم کرنے کو کہا ہے۔ بھارت افغانستان کی ٹرانسپورٹ ، ٹیلی کمیونکیشن اور شہری ہوا بازی کے شعبے میں اسکی پہلے ہی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن تازہ معاہدے کے تحت اس دائرے کو مزید بڑھایا جائےگا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور صدر حامد کرزئی نےاس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ کابل میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوۓ منمو ہن سنگھ نے دہشتگردی کے خطرات سے بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا ’انہوں نےدنیا بھر کی طرح بھارت اور افغانستان میں بھی دہشت گردی کے متعلق بات چیت کی ہے۔ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کہیں بھی ہو وہ ایک خطرہ ہے اور اس سے نمٹنا ہے‘۔ گزشتہ تقریباتین عشروں میں کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے قبل سنہ انیس سو چھہّتر میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت کی سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ یہ عمارت بھارتی تعاون سے تعمیر ہوگي۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں بھارت اسےسب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔ دو ہزار ایک سےاب تک وہ افغانستان کوتقریبا پچاس کروڑ ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت مزید امداد کا اعلان بھی کرنے والا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کابل میں اپنے اثرو رسوخ کو اور موثر بنانے کی کوشش میں ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کابل سے قربت کے لیےآج بھی سرد جنگ کا شکار ہیں۔ لیکن طالبان دور کے خاتمے کے بعد بھارت افغانستان میں پیر جمانے میں مدد ملی ہے۔
regional-43251157
https://www.bbc.com/urdu/regional-43251157
میانمار سرحد پر واقع رووہنگیا کیمپ سے فوجی ہٹا دے: بنگلہ دیش کا مطالبہ
بنگلہ دیش نے پڑوسی ملک میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فوجی سرحد کے اس علاقے سے ہٹا لے جہاں ہزاروں روہنگیا پناہ گزین مقیم ہیں۔
یہ عارضی کیمپ بنگلہ دیش میانمار سرحد سے چند میٹر کے فاصلے پر قائم کیا گیا ہے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر واقع ایک پتلی سی پٹی پر پانچ ہزار کے قریب روہنگیا رہائش پذیر ہیں جو اپنے ملک میں اکثریتی بودھوں کی جانب سے نسلی تعصب اور تشدد کا شکار ہونے کے بعد وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ جمعرات کو میانمار (سابق نام برما) کے فوجیوں کی بڑی تعداد سرحد پر نمودار ہوئی۔ بنگلہ دیش نے میانمار کے سفیر کو بلا کر ان سے جواب طلبی کی ہے۔ کل ملا کر سات لاکھ کے قریب روہنگیا اس وقت اپنا وطن ترک کرنے پر مجبور ہوئے تھے جب میانمار کی حکومت کے بقول اس نے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ تاہم بعد میں آنے والی اطلاعات کے مطابق اس دوران بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی، لوگوں کو قتل کیا گیا اور ان کے گھر جلا دیے گئے۔ اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ میانمار کے ان اقدامات کو 'نسل کشی' کہا جائے۔ جمعرات کو ایک سو سے دو سو کے درمیان برمی فوجی سرحد پر واقع عارضی کیمپ کے قریب نمودار ہوئے۔ سرحدی محافظوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کے پاس مشین گنیں اور مورٹر تھے۔ میانمار کے فوجی سرحد پر نظریں رکھے ہوئے ہیں ایک روہنگیا شخص دل محمد نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ میانمار کے حکام لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات کر رہے ہیں کہ روہنگیا یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس سے قبل اس علاقے میں میانمار کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی گشتیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ ایک اور شخص محمد عارف نے اے ایف پی کو بتایا: 'وہ اپنے ساتھ کم از کم 14 سیڑھیاں لے کر آئے تھے اور انھوں نے سرحدی جنگلے پر چڑھ کر ہمیں ڈرانے کی کوشش کی کہ وہ ہمیں اس کیمپ سے نکال باہر کریں گے۔' بنگلہ دیش کے قائم مقام وزیرِ خارجہ نے میانمار کے سفیر کو بلا کر انھیں کہا کہ سرحدی علاقے میں فوجی موجودگی سے بےچینی پھیلے گی اور کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا۔' انھوں نے مطالبہ کیا کہ میانمار اپنی فوجیں اور فوجی اثاثے سرحد سے ہٹا دے۔
050915_hindu_girl_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/09/050915_hindu_girl_rs
جیکب آباد لاٹھی چارج، 20 زخمی
سندھ کے شہر جیکب آباد میں ایک ہندو لڑکی سپنا کے مبینہ اغواء کے خلاف ہندو کمیونٹی کے جلوس پر پولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج سے بیس سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
لڑکی کےاغواء کے خلاف ہندو پنچایت کی جانب سے جمعرات کو ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی۔ جس پر ہندو کمیونٹی نے کاروبار بند رکھ کر جلوس نکالا اور جیکب آباد ائرپورٹ کی طرف جانے کی کوشش کی جہاں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو آنا تھا مگر پولیس نے مظاہرین کو وزیر اعلیٰ سے ملنے نہیں دیا۔ ہندو نوجوان کشور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ وزیر اعلیٰ سےملاقات کرکے ان کو اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستان سنانا چاہتے تھے۔ مگر پولیس نےان پر لاٹھی چارج کیا۔ شیلنگ اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔ جس میں بیس ہندو نوجوان زخمی ہوگئے۔ کشور نے کہا کہ ان کی بہن بیٹیوں کو اغواء کرکے زبردستی ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ اٹھارہ سالہ ہندو لڑکی سپنا کو دو ورز قبل اغواء کیا گیا تھا۔ اس کے والد گیان چند نےمحکمے ٹیلیفون کے ایس ڈی او فونز غلام حیدر اور دو ملازمین شمس الدین دستی اور میو خان پر اغواء کا مقدمہ درج کروایا ہے۔ گیان چند نے کہا کہ شمس الدین ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر سپنا کو اغواء کر کے لےگیا ہے۔ جیکب آباد سٹی پولیس نے ایس ڈی او فونز غلام حیدر اور ملازم میوخان کو حراست میں لیا ہے۔ اغواء ہونے والی لڑکی سپنا کے بھائی وکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہندو کمیونٹی پر دوہرا ظلم کیا گیا ہے۔ لڑکی بھی ان کی اغواء ہوئی اور لاٹھیاں بھی انہیں پر برسائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ سپنا کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہے۔ جس کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ لڑکی سے ان کی ملاقات کروائی جائے۔ اگر وہ خوشی سے مسلمان رہنا چاہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ واضح رہے کہ اٹھارہ سالہ سپنا سے شادی کرنے والے شمس الدین دستی کی عمر چونتیس برس ہے اور وہ پہلے سےشادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران جیکب آباد سے چار ہندو لڑکیوں کو اغوا کیا گیا۔ جن کو بعد میں مسلمان کرنے کے بعد ان سے شادی کی گئی۔ جیکب آباد شہر میں چالیس ہزار سے زائد ہندو آبادی ہے۔ ہندو کمیونٹی کی کاروبار پر گرفت ہے۔ لڑکیوں کے اغوا کے بعد ہر مرتبہ جے یو آئی کی جانب سے مسلمان لڑکوں کی حمایت کی گئی۔ موجودہ وقت بھی انتظامیہ پر جے یو آئی کا دباؤ ہے کہ گرفتارشدگان کو آزاد کیا جائے۔
world-40444681
https://www.bbc.com/urdu/world-40444681
جرمنی میں ہم جنس پرست شادیاں قانونی قرار
جرمنی کے ارکانِ پارلیمان نے واضح اکثریت سے ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے چند ہی روز قبل چانسلر انگیلا میرکل نے اس بارے میں ووٹنگ پر مخالفت ترک کر دی تھی۔
انگیلا میرکل اب بھی ہم جنس پرست شادی کی مخالف ہیں اس منظوری کے بعد ان جوڑوں کو مکمل ازدواجی حقوق مل جائیں گے جو اب تک سول یونین تک محدود تھے۔ اب وہ بچوں کو گود بھی لے سکیں گے۔ میرکل کے سیاسی مخالفین اس کے حق میں تھے لیکن جرمن چانسلر نے، جنھوں نے ابھی پیر ہی کے روز اس معاملے پر آزاد ووٹنگ کی منظوری دی تھی، خود اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اس مسودۂ قانون کو 393 قانون سازوں کا ووٹ ملا، مخالفت میں 226 ووٹ آئے، جب کہ چار قانون سازوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن قانون اب کچھ یوں پڑھا جائے گا: 'شادی دو افراد کے درمیان زندگی بھر کا ساتھ ہے، چاہے وہ مختلف جنس سے ہوں یا ایک ہی جنس سے۔' جمعے کو ووٹنگ سے قبل میرکل نے کہا کہ ان کے نزدیک شادی ایک مرد اور ایک درمیان ہوتی ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ اس مسودۂ قانون کی منظوری سے 'زیادہ سماجی ہم آہنگی اور امن آئے گا۔' اچانک ووٹنگ 2013 میں اپنی انتخابی مہم چلاتے وقت میرکل نے ہم جنس پرست شادی کے خلاف بیانات دیے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ 'بچوں کی بہبود' ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے لیے یہ مسئلہ خاصا مشکل رہا ہے۔ تاہم 26 جون کو خواتین کے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ انھوں نے دوسری جماعتوں کی طرف سے ہم جنس پرست شادیوں کی حمایت کا جائزہ لیا ہے اور وہ مستقبل میں اس پر ووٹنگ کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی اپنے حلقے میں ایک ہم جنس پرست جوڑے سے ملاقات ہوئی جو آٹھ لے پالک بچوں کو پال رہے تھے۔ اس سے ان کا نظریہ بدل گیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی جس میں اکثر لوگوں نے ہم جنس پرست شادیوں کے حق میں بیانات دینا شروع کر دیے۔ حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 83 فیصد جرمن باشندے شادی میں مساوات کے قائل ہیں۔ قانون منظور ہونے پر گرینز پارٹی نے جشن منایا اب کیوں ووٹنگ ہوئی؟ جرمنی میں ستمبر میں انتخابات ہو رہے ہیں اور انگیلا میرکل نہیں چاہتیں کہ لوگ انھیں پرانے خیالات کی مالکہ سمجھیں۔ اس کے علاوہ ان کی اتحادی جماعت ایس پی ڈی نے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر اصلاحات نہ ہوئیں تو وہ آئندہ ان سے اتحاد نہیں کریں گے۔ اب جرمنی میں صرف ایک جماعت اے ایف ڈی ہی باقی رہ گئی ہے جو ہم جنس پرست شادی کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں اور کہاں کہاں ہم جنس پرست شادی قانونی؟ یورپ کے کئی ملکوں نے پہلے ہی سے ہم جنس پرست شادیوں کی منظوری دے رکھی ہے۔ ان میں ناروے، سویڈن، ڈینمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، برطانیہ، فرانس، سپین، پرتگال، بیلجیئم، لکسمبرگ اور جمہوریہ آئرلینڈ شامل ہیں۔ تاہم آسٹریا اور اٹلی میں ہم جنس پرست جوڑوں کو صرف سول پارٹنرشپ کا حق حاصل ہے۔
sport-38476499
https://www.bbc.com/urdu/sport-38476499
پاکستانی کرکٹ کے اولین کھلاڑیوں میں سے ایک امتیاز احمد انتقال کر گئے
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ملک کی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن امتیاز احمد لاہور میں انتقال کر گئے ہیں۔
ان کے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز تقسیم ہند سے قبل 1944 میں ہوا تھا اور تقسیم ہند سے قبل وہ رانجی ٹرافی میں نارتھ انڈیا کی نمائندگی کرتے رہے تھے۔ امتیاز احمد کی عمر 88 سال برس تھی۔ سنیچر کی صبح امتیاز احمد کے بیٹے ضیغم امتیاز نے اپنے والد کے انتقال کے بارے میں سوشل میڈیا پر پیغام نشر کیا۔ امیتاز احمد نے سنہ 1952 سے سنہ 1962 کے درمیان پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 41 ٹیسٹ میچ کھیل کر 2070 رنز بنائے۔ وہ وکٹ کیپیر بیٹسمین کی حیثیت سے پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ میچوں میں ڈبل سنچری سکور کرنے والے پہلے کھلاڑی تھے، جو انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف سنہ 1955 میں لاہور میں سکور کی تھی۔ امتیاز احمد کی پیدائش پانچ جنوری 1928 کو لاہور میں ہوئی تھی اور انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی تھی اور پیشہ ورانہ طور پر کرکٹ کے علاوہ پاکستان فضائیہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ ان کے فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز تقسیم ہند سے قبل 1944 میں ہوا تھا اور تقسیم ہند سے قبل وہ رانجی ٹرافی میں نارتھ انڈیا کی نمائندگی کرتے رہے تھے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں انھوں نے 130 میچ کھیل کر دس ہزار سے زائد رنز بنائے اور ان کا بہترین سکور 300 رنزن ناٹ آؤٹ رہا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد حفیظ کاردار کی قیادت میں بننے والی پاکستان کی اولین ٹیسٹ کرکٹ ٹیم میں امتیاز احمد کو بطور بلےباز شامل کیا گیا اور سنہ 1952 میں انڈیا کا پہلا دورہ کرنے اور اولین ٹیسٹ میں فتح حاصل کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم میں شامل کھلاڑی پاکستان کی جانب سے اولین ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کے صرف دو کھلاڑی حیات ہیں۔ وقار حسن، عمر 84 برس وزیر محمد،عمر 87 برس جو کھلاڑی فوت ہو گئے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہے سنہ 1954 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم جس میں امتتاز احمد بھی شامل تھے خیال رہے کہ پاکستان کو دورہ انڈیا میں کھیلے گئے پہلے دہلی ٹیسٹ میں شکست ہوئے تھی لیکن لکھنئو میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میچ میں انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دی تھی۔ دورہ انڈیا میں پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں امتیاز احمد نے بطور بیٹسمین شرکت کی تھی تاہم چینئی میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے وکٹوں کے پیچھے خدمات سرانجام دیں اور سنہ 1962 میں انگلینڈ کے خلاف اپنے کیریئر کے اختتام کے بطور وکٹ کیپیر بیٹسمین ہی کھیلتے رہے۔ امتیاز احمد کی کرکٹ کیریئر کا ایک اہم پہلو سنہ 1958 میں دورہ ویسٹ انڈیز کے موقع پر بارباڈوس میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ اس ٹیسٹ میچ کی دوسری اننگز میں لیجنڈری کرکٹر حنیف محمد نے 337 رنز بنائے تھے اور ان کے ساتھ امتیاز احمد ہی نے اننگز کا آغاز کیا تھا حنیف محمد کا ساتھ دیتے ہوئے 91 کی اننگز کھیلی تھی۔ اسی طرح سنہ 1959 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کا دورہ پاکستان بھی ان کے کریئر کی شہ سرخیوں میں شامل ہے۔ سپورٹس تجزیہ کار اور پی سی بی کے سابق ایڈیشنل میڈیا مینجر آصف سہیل کہتے ہیں: ’امتیاز احمد نے اس دور میں پاکستان کی ٹیم کی نمائندگی کی جب کرکٹ کے میدانوں پر انگلینڈ، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا راج تھا۔ انھوں نے دنیا کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے متعارف کروایا۔‘ ’آج پاکستانی کرکٹ جس اونچائی پر ہے اس میں امتیاز احمد کا کردار نہایت اہم رہا ہے‘: آصف سہیل ویسٹ انڈیز کے 1959 میں دورہ پاکستان کے بارے میں آصف سہیل کہتے ہیں کہ اس دورے کے دوران ویسٹ انڈیز فاسٹ بولر سر ویزلی ہال نے امتیاز احمد کی بیٹنگ کے بارے میں کہا تھا کہ ’مجھے اس کے بارے میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘ آصف سہیل کا امتیاز احمد کے بارے میں کہنا تھا کہ آج پاکستانی کرکٹ جس بلندی پر ہے اس میں امتیاز احمد کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان کی مردوں کی ٹیم ہی نہیں بلکہ خواتین کی ٹیم کی تربیت و رہنمائی اور اس کی کامیابیوں کا سہرہ امتیاز احمد کے سرجاتا ہے۔ امتیاز احمد پاکستان فضائیہ سے بھی 27 سال خدمات سرانجام دی تھیں اور سنہ 1966 میں انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیف سلیکٹر اور دیگر عہدوں پر بھی فائز رہے تھے۔
140217_south_korea_building_collapse_rwa
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/02/140217_south_korea_building_collapse_rwa
جنوبی کوریا: عمارت کی چھت گرنے سے نو ہلاک
جنوبی کوریا میں ایک عمارت کی چھت گرنے کے نتیجے میں کم سے کم نو افراد ہلاک اور 17 سے زائد شدید زخمی ہو گئے۔
حادثے کے وقت طلبا عمارت کی چھت پر میوزک کنٹسرٹ میں شریک تھے جنوبی کوریا کے جنوب مشرقی شہر میں گرنے والی عمارت کے ملبے نیچے اب بھی 10 افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں سے سات طالب علم تھے۔ جنوبی کوریا کی نیشنل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی کے حکام کے مطابق شدید برفباری کے بعد آڈیٹوریم کا ایک حصہ گرنے سے کم سے کم 80 افراد زخمی ہوئے۔ جنوبی کوریا میں خراب موسم کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آئیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ پیر کی رات پیش آیا۔ ایک سرکاری اہل کار کے مطابق حادثے کے وقت بوسن یونیورسٹی کے طلبا بڑی تعداد میں ایک تفریحی مقام پر جمع تھے اور ان میں سے متعدد عمارت سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ اطلاعات کے مطابق حادثے کے وقت طلبا عمارت کی چھت پر میوزک کنٹسرٹ میں شریک تھے کہ عمارت کی چھت گر گئی۔ ایک طالب علم نے جنوبی کوریا کے ٹی وی چینل کو بتایا کہ سٹیج پر چھت گرنے کے بعد پر طرف چیخ و پکار تھی اور لوگ باہر جانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ جنوبی کوریا میں سنہ 1995 میں ایک عمارت کے گرنے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
050606_bombay_congress
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/06/050606_bombay_congress
ممبئی: ڈانس بار بند، مجرے شروع
ممبئی اب اپنے پرانے دور میں واپس لوٹنے کی تیاری میں ہے جب یہاں مجرے ہوا کرتے تھے اور یہاں کے علاقے ’ کانگریس ہاؤس‘ میں محفلیں سجا کرتی تھیں۔
(ممبئی کا وہ علاقہ جہاں پہلے مجرا کرنے والے پیشہ ور لوگ آباد تھے اسے کانگریس ہاؤس کہا جاتا ہے )۔ بھارت کی ریاست مہاراشٹر کی حکومت ڈانس بار بند کرنے کا حکم دے چکی ہے اور اس کے لیے حکومت نے آرڈیننس جاری کر دیا ہے جو گورنر ایس ایم کرشنا کے دستخطوں کے بعد نافذالعمل ہو جائےگا۔ ڈانس بار میں کام کرنے والی پچھتر ہزار کے قریب لڑکیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جس دن سے حکومت مکمل طور پر ڈانس بار بند کرنے کا حکم نافذ کر دے گی وہ اس دن سے اپنے پرانے پیشے ’مجرا‘ کی طرف لوٹ آئیں گی۔ وہ اپنے اپنے گھروں کو قمقموں سے سجا کر گاہکوں کو وہاں بلائیں گی اور ایک بار پھر اپنا خاندانی پیشہ جسے انہوں نے نیا رنگ دیا تھا، اپنا لیں گی۔ ڈانس بار ایسوسی ایشن کی صدر ورشا کالے نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ ممبئی میں ایک بار پھر مجرے کا کلچر شروع ہوگا۔ باروں میں رقص کرنے والی اکثر لڑکیاں بھاتو، چھارا اور بیڑیا ذات کی ہیں جن کا خاندانی پیشہ ہی مجرا کرنا ہے۔ ڈانس بار کے باضابطہ طور پر بند ہوتے ہی کانگریس ہاؤس کی گلیاں سج جائیں گی۔ یہاں بیئر باروں کا جال سا بچھا ہوا ہے۔ شراب کی بےشمار دکانیں ہیں۔گاہک پی کر آئیں گے اور یہاں مجرا ہوگا۔ ممبئی کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں بھارت کے مختلف علاقوں سے ناچ گانے کا پیشہ کرنے والی ذات کے لوگ ’ کانگریس ہاؤس‘ اور ’فارس روڈ‘ پر آکر بس گئے تھے۔ پہلے یہاں مجرے ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں کچھ نے جسم فروشی کا دھندہ اپنا لیا تھا اور کچھ نے ڈانس باروں میں رقص کر کے گاہکوں کا دل بہلانا شروع کر دیا تھا۔ کالے کے مطابق ابھی کچھ لڑکیاں مجرے کے لیے آگرہ اور یوپی کے دیگر شہروں میں جا رہی ہیں لیکن وہ ممبئی کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں کیونکہ یہاں انہیں رقم زیادہ ملتی ہے اور جب وہ اپنے گھروں میں خود مجرے کریں گی تو انہیں اپنی آمدنی کا حصہ کسی اور کو نہیں دینا پڑے گا۔ حکومت مجروں پر پابندی عائد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ثقافت کا حصہ ہے۔ ڈانس بار گرلز کی بڑی تعداد بنگلور اور حیدرآباد کی جانب منتقل ہوگئی ہے جہاں ڈانس باروں میں انہیں کام مل جائےگا۔ ڈانس بار مالکان ایسوسی ایشن کے صدر منجیت سنگھ سیٹھی ڈانس بار کو بند کیے جانے کے حکومتی کے فیصلے کو عدالت میں چیلینج کرنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران ڈانس بار مالکان اپنے ہوٹل کو پب اور ڈسکو میں تبدیل کر دیں گے جس پر حکومت نے پابندی عائد نہیں کی ہے ۔ ممبئی میں خود سیاسی، سماجی حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ آیا ڈانس باروں کو بند کرنے سے ہی جوان نسل کو برائی سے بچایا جا سکتا ہے؟
regional-56873157
https://www.bbc.com/urdu/regional-56873157
’آکسیجن! آکسیجن! کیا آپ مجھے آکسیجن دے سکتے ہیں؟‘، دہلی میں آکسیجن کی کمی، متاثرین کے خاندانوں کی اپیل
‘آکسیجن! آکسیجن! کیا آپ مجھے آکسیجن دے سکتے ہیں!‘
آکسیجن دستیاب نہیں، مریض کو داخل نہیں کیا جا سکتا۔ ہسپتالوں کا رخ کریں تو انڈیا میں یہ نوٹس دکھائی دینا عام بات بن چکی ہے جسے دیکھ کر مریضوں کو واپس پلٹنا پڑتا ہے میں آج صبح اٹھا تو مجھے ایک سکول ٹیچر کی پریشانی والی فون کال موصول ہوئی جن کے 46 سالہ شوہر آکسیجن کی کمی کے شکار دہلی ہسپتال میں کووڈ سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ میں نے خود سے کہا کہ ہم پھر وہیں چلے گئے ہیں۔ اس شہر میں ایک اور دن جب سانس بہت سوں کے لیے ایک لگژری چیز بن چکی ہے۔ ہم نے فون گھمانے شروع کیے، امداد کے لیے کوششیں کیں۔ ہسپتال کی مشینوں کی آوازوں کے درمیان سے اس خاتون نے ہمیں بتایا کہ ان کے شوہر کی آکسیجن سیچوریشن کی سطح 58 سے کم ہے مگر پھر تھوڑی دیر میں 62 تک بڑھی۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا: کورونا وائرس کے مریضوں کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کورونا وائرس: جب انڈیا کا دارالحکومت دہلی سنسان ہو گیا انڈیا میں کورونا: ’جس طرف بھی دیکھیں لاشیں اور ایمبولینس نظر آتی ہیں‘ انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟ اگر آکسیجن کی سیچوریشن لیول 92 یا اس سے کم ہو تو ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ اس خاتون نے ہمیں بتایا کہ وہ خوش ہیں کہ آکسیجن کا لیول اوپر چلا گیا ہے اور اب ان کے شوہر بات کر رہے ہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ میں ایک ڈاکٹر دوست کو فون کیا جو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں کام کر رہی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ لیول اگر 40 ہو تب بھی مریض بات تو کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے اخبار نکالا۔ ایک معروف ہسپتال میں 25 مریض ہلاک ہوئے۔ ہسپتال کا کہنا ہے کہ آکسیجن پریشر کی کمی کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کے بہت سے ہسپتالوں میں آکسیجن خودکار کے بجائے زبردستی طریقے سے دی جا رہی ہے۔ وہاں اخبار کے صفحہ اوّل پر ایک تصویر چھپی جس میں دو مردوں اور ایک خاتون کو ایک سلینڈر سے آکسیجن فراہم کی جا رہی ہے۔ تین اجنبی ایک عوامی سانحے اور حکومتی غفلت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انھیں مردوں میں سے ایک کا 40 سالہ بیٹا اسی ہسپتال کے باہر بستر کا انتظار کرتے کرتے کچھ دن پہلے مر گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسے آخر میں سٹریچر تو مل گیا تھا۔ 17 جون کو بھی کورونا کی وجہ سے ریکارڈ اموات ہوئیں اور اب ایک بار پھر صورتحال خراب ہو چکی ہے اور اب یہ صورتحال ہے کہ بہت سے غمزدہ انڈین اس پر بھی شکرگزار ہیں کہ اگر آپ ہمارے پیاروں کو بستر، دوا یا آکسیجن نہیں دے سکتے تو کم ازکم ان کی لاشوں کو منتقل کرنے کے لیے سٹریچر تو فراہم کریں۔ جیسے جیسے دن آگے بڑھے میں نے محسوس کیا کہ کچھ بھی نہیں بدلا۔ لوگ اس لیے مر رہے ہیں کیونکہ آکسیجن نہیں ہے۔ ادویات اب بھی کم ہیں اور بلیک مارکیٹ میں ہیں۔ ان کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے اور انھیں خریدتے ہوئے اتنا خوف و ہراس ہے جیسے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس استاد نے پھر فون کیا۔ ہسپتال کے بعد اب فالتو آکسیجن فلو میٹر بھی نہیں رہا جس کے بعد خاتون نے اسے خود خریدا۔ وی ورک دا فونز نے ٹوئٹر پر اپیلیں کی جارہی ہیں۔ ایک میں کہا جا رہا ہے کہ کوئی جا کر اس ڈیوائس کو لے کر آئیں جس سے سلینڈر کے ذریعے مریض کو آکسیجن کی سپلائی ریگولیٹ کی جاتی ہے۔ باوجود اس کے جو حکومت کہہ رہی ہے چیزیں بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔ شہر میں آکسیجن کے ٹینکرز مریضوں کی جان بچانے کے لیے وقت پر نہیں پہنچ رہے۔ وہاں بستر بھی نہیں ہیں اور ادویات کم رہ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ انڈیا میں امرا کے پاس بھی کوئی سہولت نہیں رہی ہے۔ ایک میگزین ایڈیٹر نے مجھے دوپہر میں کال کی جنھیں ایک بیمار مریض کے لیے آکسیجن سلینڈر کی ضرورت تھی۔ دہلی انڈیا میں صحت کے شعبے میں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے بہترین ہے لیکن اس وقت وہاں بھی انتھائی نگہداشت کے شعبے میں 99 فیصد سے زیادہ میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش ختم ہو چکی ہے میری رہائش جس بلڈنگ میں ہے وہاں کے رہنے والے آکسیجن خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اگر کسی کو کبھی سانس لینے میں دشواری ہو تو اس سے مدد ملے۔ یہاں 57 رہائشیوں میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے جو گھروں میں بند ہیں۔ مریضوں کو اپنی جان خود بچانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ موت کی جانب ایک سست رفتار راستہ ہے۔ کوویڈ 19 ایک مرض ہے جو بہت زیادہ بار اچانک حملے کرتی ہے۔ ایک نیورو سرجن پال کالنیتھی نے اپنی تکلیف دہ یادوں جس کا عنوان تھا جب سانس ہوا بن گیا میں لکھا حتیٰ کہ اگر میں مر رہا ہوں۔ تو جب تک میں اصل میں مر نہ جاؤں میں زندہ ہی ہوں۔ انڈیا میں اس اندھوناک وائرس کے شکار ہانپتے کانپتے مریضوں کے لیے بہت تھوڑا رحم ہے۔
150703_isis_palmyra_statues_sa
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/07/150703_isis_palmyra_statues_sa
’شام اور عراق سے لوٹے گئے نوادرات برطانیہ میں بیچے گئے‘
شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں تنظیم کے جنگجو چھ مجسموں کو تباہ کر رہے ہیں اور یہ مجسمے مبینہ طور پر شام میں پیلمائرا کے کھنڈرات کے ہیں۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان مجسموں کو ایک سمگلر سے حاصل کیا گیا ہے اور اس سمگلر کو بطور سزا کوڑے مارے جانے کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ چھ مجسموں کو بڑی ہتھوڑیوں سے تباہ کیا جا رہا ہے اور وہاں پر ایک ہجوم بھی اکٹھا ہے۔ ’دولتِ اسلامیہ نے پیلمائرا میں بارودی سرنگیں بچھا دیں‘ دوسری جانب اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو کا کہنا ہے کہ شام اور عراق سے ’دولتِ اسلامیہ‘ کے ہاتھوں چوری ہونے والے نوادرات برطانیہ میں بیچے گئے ہیں۔ اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی تنظیم کا مزید دعویٰ ہے کہ ان مجسموں کو ایک سمگلر سے حاصل کیا گیا ہے اور اس سمگلر کو بطور سزا کوڑے مارے جانے کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی ثقافتی ایجنسی یونیسکو کا کہنا ہے کہ شام اور عراق سے ’دولتِ اسلامیہ‘ کے ہاتھوں چوری ہونے والے نوادرات برطانیہ میں بیچے گئے ہیں۔ شام میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر مامون عبدالکریم نے جمعرات کو کہا کہ ’دولتِ اسلامیہ‘ نے پیلمائرا کے کھنڈرات سے دو ہزار سال پرانے شیر کے ایک مجسمے کو تباہ کر دیا ہے۔ مامون عبدالکریم کا کہنا ہے کہ تین میٹر اونچے اس مجسمے کو تباہ کرنا ’دولتِ اسلامیہ‘ کی جانب سے پیلمائرا کی ثقافت کے خلاف کیے گئے جرائم میں سب سے سنگین ہے۔ ’پیلمائرا شہر دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا ہو چکا ہے اور یہاں صورتحال خطرناک ہو چکی ہے۔‘ مامون عبدالکریم اس سے قبل مامون عبدالکریم خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتا چکے ہیں کہ انھیں بھی اس بات میں سچائی نظر آتی ہے کہ ’دولت اسلامیہ‘ نے کھنڈرات کے گرد بارودی سرنگیں بچھائی ہیں۔ ان کے بقول پیلمائرا شہر ’دولت اسلامیہ کے ہاتھوں اغوا ہو چکا ہے اور یہاں صورتحال خطرناک ہو چکی ہے۔‘ مئی میں شہر پر قبضہ کرنے کے بعد سے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے یہاں کے فوجی ہوائی اڈے اور قریب میں واقع ایک بدنام زمانہ جیل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ادھر یونیسکو کی ڈائریکٹر ارینا بوکوا نے بی بی سی کو بتایا کہ نوادرات کی چوری ایک بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور ’دولتِ اسلامیہ‘ ان نوادرات کی فروخت سے ملنے والی رقم کو شدت پسندی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم انھوں نے اپنے اس دعوے کے کوئی شواہد نہیں دیے کہ برطانوی افراد ان نوادرات کو خرید رہے ہیں۔ بی بی سی کے فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ نوادرات کے ایک ماہر نے اس تاثر کو رد کیا ہے۔ ارینا بوکوا نے نوادرات کی سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ واضح رہے کہ ’دولت اسلامیہ‘ کے جنگجوؤں نے عراق کے بہت سے تاریخی مقامات کو تباہ کر دیا ہے جن میں نمرود کا قدیمی شہر بھی شامل ہے جسے عراق کے آثار قدیمہ کے بڑے خزانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب برطانیہ نے کہا تھا کہ وہ جنگوں میں ثقافتی ورثے کو بچانے کے ایک اہم بین الاقوامی معاہدے کی بالآخر توثیق کرنے جا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیرِ ثقافت جان وہیٹنگڈیل کا کہنا تھا کہ ’دولت اسلامیہ‘ کے ہاتھوں شام اور عراق میں ثقافتی ورثوں کی تباہی کے پیش نظر اب اس کی توثیق ضروری ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ دنیا کے اہم ممالک میں واحد ملک ہے جس نے ہیگ کنوینشن کی توثیق نہیں کی تھی۔
pakistan-45516779
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45516779
کلثوم نواز کی تدفین جاتی امرا میں کر دی گئی
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی تدفین جمعہ کو جاتی امرا میں کر دی گئی ہے۔
بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ اور تدفین شریف میڈیکل سٹی کمپلیکس، رائیونڈ جاتی امرا میں کی گئی۔ کلثوم نواز کی آخری رسومات میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کا طویل علالت کے بعد منگل کو لندن کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال ہو گیا تھا۔ نواز شریف کے بھائی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف جمعے کی صبح بیگم کلثوم نواز کی میت کے ہمراہ لاہور پہنچے جبکہ بیگم کلثوم نواز کے لندن میں مقیم بیٹے حسن اور حسین نواز اپنی والدہ کی میت کے ساتھ پاکستان نہیں آ رہے ہیں۔ کلثوم نواز کی میت کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 758 کے ذریعے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچایا گیا اور وہاں سے ایمبولینس کے ذریعے جاتی امرا کے لیے روانہ کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیے ’وہ بیگم کلثوم سے نواز اور مریم کی بھی آخری ملاقات تھی‘ ’کلثوم نواز نہ ہوتیں، تو نواز شریف باہر نہ جا سکتے‘ کلثوم نواز کے سوگوران میں ان کے شوہر نواز شریف، بیٹیاں مریم صفدر اور اسما اور دو بیٹے حسن اور حسین نواز شامل ہیں اس سے قبل جمعرات کو لندن کے ریجنٹ پارک اسلامک سینٹر میں کلثوم نواز کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں شہباز شریف، بیگم کلثوم نواز کے بیٹے حسن اور حسین نواز سمیت مسلم لیگ کے رہنماؤں، کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دوسری جانب نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کو کلثوم نواز کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے منگل کی رات پیرول پر ابتدائی طور پر 12 گھنٹے کے لیے رہا کیا گیا تھا تاہم بدھ کو پیرول پر رہائی میں مزید تین دن کی توسیع کر دی گئی تھی۔ بیگم کلثوم نواز تقریباً گذشتہ ایک سال سے لندن میں زیرِ علاج تھیں۔ انھیں پچھلے سال سرطان کے مرض کی تشخیص کی گئی تھی۔ ان کی عمر 68 سال تھی اور وہ برصغیر کے مشہور پہلوان رستمِ ہند گاما پہلوان کی نواسی تھیں جبکہ سنہ 1971 میں ان کی شادی نواز شریف سے ہوئی تھی۔ کلثوم نواز کے سوگوران میں ان کے شوہر نواز شریف، بیٹیاں مریم صفدر اور عاصمہ اور دو بیٹے حسن اور حسین نواز شامل ہیں۔
150601_christian_fleeing_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150601_christian_fleeing_fz
’ پاکستان اب بھی ہمارے خون میں شامل ہے‘
’ پاکستان اب بھی ہمارے خون میں شامل ہے بہت بھاری دل کے ساتھ ملک چھوڑ کر آئے ہیں لیکن جب جان محفوظ نہیں تو وہاں کیسے رہا جا سکتا ہے۔‘ لیاقت مسیح (حفاظت کے پیشِ نظر اصل نام مخفی رکھا جارہا ہے ) کا شمار ان ہزاروں عیسائی پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو حالیہ برسوں میں پناہ کی تلاش میں تھائی لینڈ پہنچے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چار ہزار پاکستانی عیسائی پناہ گزین اس وقت تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ جبکہ مذہبی اور نسلی بنیاد پر تعصب کے شکار افراد کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی خیراتی ادارے انٹرنیشنل سوسائٹی فار ہیومن رائٹس کے مطابق یہ تعداد آٹھ ہزار کے قریب ہے۔ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے بی بی سی اردو سے بات کرت ہوئے لیاقت مسیح نے بتایا کہ ان کے خاندان کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق تھے اسی لیے وہ سب کچھ چھوڑ کر بھاری دل کے ساتھ تھائی لینڈ آ ئے ہیں۔ جب ان سے پو چھا گیا کہ وہ اور ان جیسے دیگر پاکستانی عیسائی تھائی لینڈ کا انتخاب کیوں کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایران اور افغانستان تو جا نہیں سکتے ، یورپ کا ویزہ ملنا تقریباً ناممکن ہے ، تھائی لینڈ کا ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے اور خرچہ بھی زیادہ نہیں ہوتا اسی لیے پاکستان سے بھاگنے والے اکثر عیسائی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔‘ لاہور میں ایک گرجا گھر پر بم حملے کے بعد مسیحی برداری نے احتجاج بھی کیا تھا جو پرتشدد رنگ اختیار کر گیا تھا لیاقت کے مطابق ان کا خاندان پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک مسلم اکثریت والے علاقے میں کئی دھائیوں سے مقیم تھا لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان کو علاقہ چھوڑنے کے لیے دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ ان کے مطابق علاقے کے کچھ لوگ ان کے مکان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ لیاقت کے خاندان کو ڈرا دھمکا کر اونے پنے داموں گھر بیچنے پر مجبور کر دیا جائے۔ پاکستان سے تھائی لینڈ آنے والوں کو ملک میں کام کرنےکی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں سے بیشتر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیاقت نے بتایا کہ ان کو اور ان جیسے دیگر پناہ گزینوں کو یو این ایچ سی آر سمیت کسی ادارے سے کوئی مداد نہیں ملتی اور لوگ اپنی گزر بسر مقامی چرچوں کی جانب سے دی جانے والی خیرات سے کرتے ہیں۔ واضع رہے کہ تھائی لینڈ نے اقوامِ متحدہ کے مہاجرین سے متعلق کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہوئے اس لیے ملک میں موجود پناہ گزینوں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اکثر پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ ان کو وہاں سے کسی مغربی ملک بھیجوا دیا جائے۔ پاکستانی عیسائیوں کے مسائل کوملک میں اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے برٹش پاکستانی کرسچین ایسوسی ایشن کے سربراہ ولسن چوہدری نے حال ہی میں تھائی لینڈ کا دورہ کیا ہے اور وہاں مقیم عیسائی پاکستانی پناہ گزینوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ وہاں پر بیس بیس لوگ ایک کمرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو رہائش تعلیم اور خوراک جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔‘ ولسن چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ آئے روز پولیس لوگوں کو گرفتار کر کے جیل بھیجوا دیتی ہے اور رہائی کے عوض ہزاروں روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ولسن کے مطابق جن پاکستانیوں نے تھائی لینلڈ میں اقوامِ متحدہ کو پناہ کی درخواستیں دی ہوئی ہیں ان کی شنوائی میں سال ہا سال لگ جاتے ہیں۔ ولسن کا کہنا تھا کہ ’میں حکومتِ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک سے اپیل کرونگا کہ وہ ان لوگوں کی پناہ کی درخواستوں سے نمٹنے کے عمل میں تیزی لانے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں۔‘ لاہور کے ایک چرچ سے وابستہ پادری امینویل کھوکھر کے مطابق مسیحی برادری پاکستان میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہے اس لیے بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پادری امینویل کھوکھر کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں کوٹ راھدا کشن ، جوزف کالونی اور اسی طرح کے پیش آنے والے دیگر واقعات کے بعد سے پاکستانی مسیح خوف کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ ’لوگ ڈرتے ہیں کہ کسی بھی وقت ان پر مذہب کی بے حرمتی کا الزام لگا کر انھیں ہجوم کے ہاتھوں مروایا جاسکتا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ جمہوری ادوار میں بدقسمتی سے اقلیتوں کے خلاف اقدامات میں اضافہ ہوا ہے ’ آپ کو شاہد یہ بات پسند نہ آئے لیکن ہم لوگ فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے تھے۔‘ پادری امینویل کا کہنا ہے کہ وہ لاہور اور اس کے مضافات سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایسے خاندانوں کو جانتے ہیں جو اپنی حفاظت کے مدِ نظر بیرونِ ملک منتقل ہوئے ہیں۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہری اشرفی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کے کچھ واقعات پیش آئے ہیں لیکن یہ دعویٰ کہ پاکستان میں عیسائی محفوظ نہیں ہیں قطعاً درست نہیں ہے۔ حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پائی ہے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان میں ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد دہشت گردی کا شکار بنے ہیں اور ان میں اقلیتوں کی تعداد چار پانچ سو سے زیادہ نہیں ہے۔‘ طاہر اشرفی کے مطابق پاکستان علما کونسل نے ملک میں مذہبی رواداری پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ رمشا مسیح کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں جب بھی اقلیتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ملک کے علما اور خصوصاً انھوں نے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مسیحوں کے ملک چھوڑنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ مذہبی نہیں معاشی معاملہ ہے ہم سب جانتے ہیں کے لوگ بہتر روزگار کی تلاش میں باہر جا رہے ہیں۔‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روز گار کی تلاش میں لوگ اپنے بچے بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عیسائیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک لمبی داستان ہے ۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران عیسائی عبادت گاہوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں جہاں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے ہیں وہاں عیسائی آبادیوں کو بھی گہراؤ جلاؤ کا سامنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی مسیح ایک ایسے ملک میں ہجـرت کرنے اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں کی نہ زبان اور نہ ہی تہذیب سے وہ واقف ہیں۔
040411_vajpayee_pak_rza
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/04/040411_vajpayee_pak_rza
’بہت ہوچکا، اور کتنا لڑیں گے‘
بھارت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا ہے کہ لڑنے جھگڑنے کی بجائے پاکستان کو اب بھارت کے ساتھ مل کر رہنے کا احساس ہونے لگا ہے۔
بھارتی ریاست بہار کے ایک دن کے دورے کے دوران ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی نے پاکستان اور بھارت کے تبدیل ہوتے ہوئے رشتے کا خاص طور پر تذکرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان کے دوستوں سے کہا ہے کہ ’ہماری آپ کی لڑائی بہت ہو چکی، اور کتنا لڑیں گے اور لڑ کر کیا نتیجہ پائیں گے۔ بہت ہو چکی آؤ بیوپار کریں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔‘ بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری سے دنوں ملکوں کو لابھ ہوگا اور دنیا ’ہمارے جھگڑوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی۔‘ انہوں نے کہا ’یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ اس میں کچھ وقت تو لگ سکتا ہے مگر یہ بات سمجھ میں آ جائے گی۔‘ انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران انہوں نے خود کو ایک سچا بہاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ریاست سے انہیں مکمل حمایت کی پوری امید ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے کانگریس کے اس الزام پر کڑی نکتہ چینی کی کہ ہندو اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے میں مرکزی حکومت کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس اس طرح کے الزامات نہ لگائے بلکہ ان کو ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے اس الزام سے بھی انکار کیا کہ گزشتہ پانچ برس میں بھارت میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کا کہنا تھا کہ پچھلے پانچ برس میں اٹھاسی لاکھ نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوا ہے۔
061230_saddam_quotes_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/12/061230_saddam_quotes_rs
صدام کی پھانسی پر عالمی ردِعمل
عراق کے معزول صدر صدام حسین کو سنیچر کی صبح بغداد میں پھانسی دے دی گئی ہے۔
ان کی پھانسی پر عالمی رہنماؤں نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین، روس، لیبیا، فلسطین میں حماس کی حکومت نے پھانسی کے عمل کی مخالفت جبکہ امریکہ، ایران، کویت، اسرائیل اور جاپان سمیت کئی ممالک نے عراق کے معزول صدر صدام حسین کو پھانسی دیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔لیبیا نے صدام حسین کی پھانسی پر ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش آج صدام کو ایک شفاف عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔ ان کے جابرانہ اعمال کے خلاف یہ انصاف ہے۔ صدام حسین کی پھانسی ایک ایسے مشکل سال کے اختتام پر ہوئی ہے جس میں عراقیوں اور ہمارے فوجیوں نے بڑی مشکلات اٹھائیں ہیں۔انہیں (صدام کو) ان کے کیے کی سزا دینے کا مطلب عراق میں تشدد کا خاتمہ نہیں ہے لیکن یہ عراق کا جموریت کی طرف ایک اہم قدم ہے جس کے تحت وہ سکون اور استحکام سے حکومت کر سکتے ہیں، اپنا دفاع کر سکتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن سکتے ہیں۔ ویٹیکن ویٹیکن کی جانب سے صدام کی پھانسی کو ’افسوس ناک خبر‘ قرار دیا گیا ہے۔ ویٹیکن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی پھانسی سے انتقامی جذبات پیدا ہونے اور تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ برطانوی خارجہ سیکرٹری مارگریٹ بیکٹ صدام نے اپنے دور اقتدار میں جو کچھ کیا، عراق کی عدالت میں ان پر ان کے جرائم کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور اب انہیں ان کے کرتوں کی سزا مل گئی ہے۔ برطانیہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا خیرمقدم کرتا ہے۔ برطانیہ کی حکومت عراق یا دنیا کےکسی اور مقام پر موت کی سزا دیے جانے کی حمایت نہیں کرتی۔ ہم نے اس بارے میں عراقی حکومت کو واضح طور پر بتا دیا تھا۔ ہم ایک خودمختار ریاست کے طور پر ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ فرانس کی وزارتِ خارجہ فرانس تمام عراقیوں سے مستقبل کے بارے میں سوچنے، باہمی اتحاد، اتفاق اور قومی یکجہتی کے فروغ کی درخواست کرتا ہے۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ پیش نظر یہی مقصد ہونا چاہیے کہ عراق مکمل خود مختاری اور اندرونی استحکام کی راہ پر گامزن ہو۔ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر ڈونر نہیں معلوم کہ کوئی موت کی سزا کے بارے میں کیا سوچتا ہے تاہم عراق کی حکومت موت کی سزا کے حوالے سے آسٹریلیا کے مؤقف سے آگاہ ہے۔ ہم خودمختار ریاست کی حیثیت سے عراقی حکومت کی اپنی حدود میں عوام کے خلاف جرائم پر اس قسم کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ صدام کو شفاف عدالتی کارروائی اور پھر اپیل کے بعد ہی ان کے کیے کی سزا دی گئی ہے۔ اٹلی موت کی سزا کے خلاف ہے، چاہے وہ صدام حسین جیسا کوئی ڈرامائی کیس ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا اب بھی یہی کہنا ہے کہ موت کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ افغانستانصدر حامد کرزئی نے صدام حسین کو پھانسی دیے جانے کے وقت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عید کا دن بدلے کا نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہے۔ ایرانعراق کے اہم پڑوسی اور موجودہ امریکی انتظامیہ کے مخالف ملک ایران نے صدام حسین کی سزائے موت کی خبروں کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد علی حسینی کا کہنا تھا کہ پھانسی کا عدالتی فیصلہ صدام کے ظلم کا نشانہ بننے والے ہزاروں ایرانی، عراقی اور کردوں کے لیے خوش کا سبب بنا ہے۔ صدام دور میں عراق ایران جنگ آٹھ سال تک چلتی رہی جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ کویت 1990 میں کویت پر چڑھائی کرنے والےصدام حسین کی پھانسی پر کویت میں کسی بھی جگہ افسوس کا اظہار نہیں کیا گیا۔ کویت کے ایکٹنگ وزیراعظم شیخ جابر المبارک کا کہنا تھا کہ صدام عراقی عوام اور ملتِ اسلامیہ کے دشمن تھے۔ اسرائیل امریکہ کے مضبوط اتحادی اسرائیل نے صدام کی پھانسی کے اقدام کو سراہا ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق انصاف ہوا ہے۔ روس روس کی وزرات خارجہ نے ایک بیان میں صدام کی پھانسی پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدام کو معافی دینے کی بین الاقوامی درخواست کو رد کردیا گیا۔ فلسطین حماس کی حکومت کا کہنا تھا کہ صدام ایک جنگی قیدی تھے۔ اور ان کی پھانسی ایک’ سیاسی قتل‘ ہے۔ اس معاملے میں بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ جرمنی جرمنی کے جونیئر وزیر خارجہ جرنوٹ ارلر کا کہنا تھا کہ وہ صدام دور میں جبر کا نشانہ بننے والے افراد کے جذبات سمجھ سکتے ہیں تاہم ان کا ملک موت کی سزا کی مخالفت کرتا ہے۔ جاپان جاپان کے وزیراعظم شینو ابے کا کہنا تھا کہ وہ عراق کے اس فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جاپان امید کرتا ہے کہ عراق میں استحکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور وہ بین الاقوامی برداری میں اپنا کردار ادا شروع کردے گا۔ رچرڈ ڈکر، ہیومن رائٹس واچ عراقی حکومت کی انسانی حقوق کی پاسداری کا امتحان یہی ہے کہ وہ اپنے بدترین مخالفین سے کس قسم کا سلوک کرتی ہے۔ تاریخ خود ہی دجیل مقدمے اور اس بدترین پھانسی کی خامیوں کی نشاندہی کرے گی۔ ہمیں صدام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ صدام کی پھانسی سے عراق میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ فرقہ وارانہ تشدد بڑھے گا اور ہمیں یقین ہے کہ صدام کی پھانسی عراق کو توڑنے کا امریکی منصوبہ ہے۔
130517_syria_russian_weapons_tim
https://www.bbc.com/urdu/world/2013/05/130517_syria_russian_weapons_tim
شام کو ہتھیار فراہم کرنے پر امریکہ کی تنقید
امریکہ نے روس کی جانب سے شام کو میزائل فراہم کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’بدقسمت فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔
امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس نے شام کو اینٹی شپ میزائل بھجوائے ہیں۔ امریکی اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ مستقبل میں اگر شام میں غیر ملکی فوجی مداخلت ہوتی ہے تو اس صورت میں وہ ان میزائلوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس رپورٹ کی تصدیق کیے بغیر، روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروو نے کہا ہے کہ شام کو ہتھیاروں کی فراہمی میں کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ یہ ساری خبریں اس وقت آ رہیں ہیں جب شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کیے جانے کی خبروں کے مبینہ ثبوت ملے ہیں جسے امریکی صدر اوباما نے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دیا ہے۔ روس، شام کے چند ساتھی ممالک میں سے ایک ہے، ساتھ ہی وہ شام کو ہتھیار فراہم کرنے والا ایک اہم ملک بھی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں روس نے اربوں ڈالر کے ہزاروں ٹینک، لڑاکا جہاز، ہیلی کاپٹر اور حفاظتی نظام شام کو فروخت کیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں روس نے شام کو جدید میزائل اور اعلی درجے کا ریڈار کا نظام فروخت کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے کہا ’انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ میڈیا اسے اتنا سنسنی خیز بنانے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟‘۔ انہوں نے کہا ’ہم نے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، ہم نے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے یا اپنے ملک کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ہم نے معاہدہ کے تحت ہی شام کو ہتھیاروں کی فراہمی کی ہے‘۔ اسی دوران شام کے تنازع کو حل کرنے کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے کانفرنس کی منصوبہ بندی پر بحث کرنے کے لیے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو سے ملاقات کی ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان گی مون نے کہا ہے کہ کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے بات چیت جاری ہے تاہم سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ادھر اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے جمعہ کو کہا ہے کہ 15 لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق شامی پناہ گزین بھاگ کر اردن اور لبنان میں پناہ لے چکے ہیں تاہم ان کی صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق شام کے تنازع میں اب تک 80,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
160219_wahab_riaz_fz
https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/02/160219_wahab_riaz_fz
ٹی ٹوئنٹی دلیری کی کرکٹ ہے: وہاب
پاکستان کرکٹ ٹیم کے تیز رفتار بولر وہاب ریاض نے کہا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ دلیری کی کرکٹ ہے اور اس میں ہر بولر کو دلیری سے باولنگ کرنا ہوتی ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے جعمہ کو کوئٹہ گلیڈیٹر اور پشاور زلمی کے درمیان میچ سے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں وہاب ریاض نے کہا ’میں بہت اچھی فارم اور ردھم میں ہوں، اس کو برقرار رکھنے کی کوشش کروں گا‘۔ وہاب ریاض جنہوں نے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران آسٹریلیا کے خلاف ایک میچ میں اپنی تباہ کن بالنگ سے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کے جیت لیے تھے اب پی ایس ایل کے میچوں میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بن گئے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے بارے میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کرکٹ میں رن پڑتے ہیں لیکن بولر کو جارحانہ انداز اختیار کیے رکھنا چاہیے اور اگر بیٹسمین پر دباؤ برقرار رکھا جائے تو وہ چانس ضرور دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ باوجود اس کے وہ بہت اچھی فارم میں ہیں ان کو اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو پوری طرح احساس ہے اور وہ ان کو دور کرنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہاب ریاض آئندہ ماہ بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلوں کے لیے منتخب کی جانے والے پاکستان ٹیم میں شامل ہیں اور پاکستان ٹیم کے بالنگ دستے میں اہم کردار ہو گا۔ جمعہ کو پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈیٹر کے درمیان ہونے والے میچ میں سٹیڈیم میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹ شائقین بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔
140527_waziristan_grand_jirga_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/05/140527_waziristan_grand_jirga_zz
شمالی وزیرستان میں جرگہ، فوجی کارروائی بند کرنے کا مطالبہ
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مقامی قبائل کے نمائندے جرگے نے علاقے میں جاری غیر اعلانیہ فوجی کاروائیاں فوری طورپر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں طالبان کے حملوں اور ہدف بناکر قتل کی واقعات کی وجہ سے جرگوں کا انعقاد بند ہوکر رہ گیا تھا یہ گذشتہ دس سال کے دوران پہلا موقع ہے کہ مقامی قبائل نے اس قسم کا نمائندہ جرگہ منعقد کیا ہے۔ شمالی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ جرگہ منگل کی صبح میرعلی کے علاقے کسکی میں اتمان زئی وزیرقبائل کے ایک سرکردہ قبائلی رہنما اور جنگ آزادی کے ہیرو فقیر آف ایپی کے نواسے اور جانشین حاجی شیر محمد کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ جرگے میں اتمان زئی وزیر اور داواڑ قبائل کے مشران اور علماء کرام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقامی باشندوں کے مطابق قبائلی جرگہ شمالی وزیر ستان میں کچھ عرصے سے جاری فوجی کارروائیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اور علاقے میں امن برقرار رکھنے کےلیے طلب کیا گیا تھا۔ شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی حالیہ کارروائیوں میں حکام کے مطابق سو کے قریب عسکریت پسند مارے گئے تھے تاہم مقامی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 150 کے قریب بتائی تھی۔ جرگے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ علاقے میں جاری غیر اعلانیہ فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے اور وزیرستان سے کرفیو کے نفاذ کا بھی خاتمہ کیا جائے ۔ جرگے نے طالبان اور حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کی بھی پیشکش کی۔ جرگے میں شریک افراد نے بتایا کہ اتمان زئی وزیر قبائل نے حکومت کے ساتھ 2008 میں ہونے والے امن معاہدے کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ وزیرستان کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قبائلی جرگہ کے سربراہ اور فقیر اف ایپی کے جانشین حاجی شیر محمد نے بتایا کہ جرگے کے انعقاد کا مقصد علاقے میں پائیدار امن کا قیام اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جس کی وجہ سے وزیرستان کے حالات خراب ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان ہندوستان کے ساتھ امن کی بات کر سکتا ہے تو پھر اپنے لوگوں سے امن مذاکرات میں کیا حرج ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس جرگے کو مقامی طالبان حافظ گل بہادر گروپ کی حمایت حاصل تھی۔ یہ جرگہ اس لحاظ سے بھی ہم ہے کہ قبائلی علاقوں میں طالبان کی طرف سے جرگوں اور قبائلی عمائدین پر کئی مرتبہ بڑے بڑے حملوں اور ہدف بناکر قتل کی واقعات کی وجہ سے وہاں جرگوں کا انعقاد بند ہو کر رہ گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ادھر اس جرگے کی کوریج کےلیے وزیرستان جانے والے مقامی صحافیوں کو سکیورٹی فورسز نے بنوں میں روک کر انھیں وہاں سے واپس بھیج دیا۔ وزیرستان کے سینیئر صحافی سیلاب محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین دیگر غیر ملکی میڈیا سے منسلک مقامی صحافیوں کے ہمراہ وزیرستان جا رہے تھے کہ سکیورٹی فورسز نے بنوں شہر میں تمام صحافیوں کو کوئی وجہ بتائے بغیر جانے سے روک دیا۔ دوسری طرف شمالی وزیرستان میں ایک ہفتے قبل ہونے والی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ تین دنوں کے دوران میر علی سب ڈویژن سے مقامی باشندوں نے بڑے پیمانے پر بنوں اور آس پاس کے علاقوں کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ علاقے میں بدستور ایک خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم کے ایک ترجمان نے بتایا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران شمالی وزیرستان میں آپریشن کی وجہ سے سات ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے متاثرین کے لیے تاحال کوئی کیمپ نہیں بنایا گیا ہے۔
world-48490908
https://www.bbc.com/urdu/world-48490908
امریکہ: ایران سے بغیر کسی شرط کے بات چیت کرنے کے لیے تیار
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی شرط عائد کیے بغیر اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
امریکہ نے ایران سے بغیر کسی شرط کے مذاکرات کا اعلان کردیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بیلینزونا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران ایران سے مذاکرات کی بات کی تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایران ایک معمول کے ملک کی طرح کا رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ سوئٹزر لینڈ کے وزیرِ خارجہ انگازیو کاسِس بھی تھے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے اتوار کی صبح کہا تھا کہ ایران امریکہ سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ ایران کی عزت کرے، لیکن ایران مذاکرت کسی دباؤ میں آکر نہیں کرے گا۔ جب مائیک پومپیو سے حسن روحانی کے بیان پر ردعمل پوچھا گیا تو بظاہر نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے مائک پومپیو نے کہا کہ 'ہم بغیر کسی شرط کے بات چیت کے لیے تیار ہیں، ہم اکٹھا بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔' ایرانی صدر حسن روحانی نے اس سے پہلے یہ اشارہ دیا تھا کہ ایران پابندیاوں ہٹنے کی صورت میں بات چیت کرسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے حزب اللہ اور شامی حکومت کی مدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کو مشرقِ وُسطیٰ میں مجرمانہ سرگرمیاں دوبارہ سے شروع کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پومپیو نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ 'ہم یقیناً بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں جب ایرانی یہ ثابت کردیں گے کہ وہ ایک عام قوم جیسا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔' صدر ٹرمپ نے گزشتہ سوموار کہا تھا کہ وہ ایران سے بات چیت کے لیے مذاکرات کے میز پر بیٹھنے کےلیے تیار ہیں۔ لیکن ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے بدھ کو کہا تھا کہ ایران امریکہ سے مذاکرات نہیں کرے گا باوجود اس کے کہ حسن روحانی نے بات چیت کا اشارہ دیا تھا بشرطیکہ ایران سے پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ سوئٹزرلینڈ کے وزیرِ خارجہ کاسِس نے اس موقعہ پر کہا تھا کہ ایرانی عوام ایران پر پابندیوں کی وجہ سے تکلیف میں ہیں اور سوئٹزر لینڈ ایک غیر جانبدار ملک ہوتے ہوئے چاہتا ہے کہ ایرانی عوام کو انسانی بنیادوں پر ضروری اشیا خاص کر 'ادویات اور خوراک' مہیا کرنے کی اجازت ہونی چاہئیے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کو ان اشیا کو خریدنے کے لیے ادائیگیاں کرنی ہوں گی اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب امریکہ بینکوں کو ایسی ادائگیاں کرنے کی اجازت دے گا۔ سوئس وزیرِ خارجہ نے اس موقعہ پر کہا کہ امریکہ جلد ہی مسئلے کا حل پیش کردے گا۔ کاسِس نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ امریکی جلد ہی اس مسئلے کو طے کرنے کے لیے'ممکنہ طور پر بہترین حل' پیش کرے گا۔ گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے مشترکہ جامع معاہدہ عمل سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے ایران پر خطہ میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام عائد کیا اور ساتھ ہی امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز کو خلیج فارس کی جانب روانہ کردیا اور بی 52 بمبار طیاروں کو قطر کے ہوائی اڈّے پر تعینات کر دیا۔ اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگراں ادارے آئی اے ای اے نے حال ہی میں کہا ہے کہ ایران سنہ 2015 میں ہونے والے جوہری پروگرام کو روکنے والی عالمی معاہدے کے بعد سے اپنے اوپرعائد ہونے والی پابندیوں پر سختی سے عمل کرتا چلا آرہا ہے۔ آئی اے ای اے کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایران نے یہ دھمکی دی ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے عائد ہونے والی نئی پابندیوں کی وجہ سے اس معاہدے کی شرائط توڑنے جا رہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ پر سوئٹزر لینڈ کی پریس کانفرسن میں کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ انھوں نے یہ کہا کہ واشنگٹن آئی اے ای اے کی رپورٹ کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور ساتھ ہی انھوں نے مزید کہا کہ 'ہمارے اپنے آزاد ذرائع ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔'
040608_sun_ven_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040608_sun_ven_rza
محبت کی دیوی، خرابی کی باتیں
کوشش کے باوجود مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جب آسمان پر سیارے آپس میں خاص فاصلوں پر پہنچ کر خاص زاویے بناتے ہیں تو جوتشی انسانی زندگی پر ان زاویوں کا یکساں اثر ثابت کرنے کے لئے بے قرار کیوں ہو جاتے ہیں؟
آج ہی کی مثال لیجیئے۔ شمس اور زہرہ ایک خاص فاصلے پر ہیں۔ کل تک ان کے درمیان فاصلہ وہ نہیں رہے گا جو آج ہے۔ مگر علمِ نجوم کی دنیا میں آفت مچی ہوئی ہے۔ چونکہ نجوم میں ’دل کے معاملات‘ کو زہرہ سے منسوب کیا جاتا ہے لہذا ہر طرف یہی پکار ہے کہ شمس کے ساتھ ایک خاص فاصلے پر ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کے معاملات میں انقلاب برپا ہو نہ ہو اہم تبدیلیاں ضرور آئیں گی۔ کچھ نجومی ذرا اور آگے بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے فلمی صنعت میں حادثات کی پیشگوئی کر ڈالی ہے کہ زہرہ کا تعلق فلم اور فلم سے متعلق بہت سے شعبوں سے بھی ہے۔ ایک عمومی پیشگوئی یہ ہے کہ آج کی وضعِ فلکی سے عورتیں بہت متاثر ہوں گی۔ جو بات نہیں بتائی گئی وہ یہ ہے کہ عورتیں کس طرح متاثر ہوں گی؟ پھر اس وضعِ فلکی کو دیکھ کر دلوں کے ٹوٹنے کی بات بھی ہوئی ہے مگر اس کے لئے تو کسی زہرہ اور سورج کی ضرورت ہی نہیں یہ تو کسی بھی وقت بغیر کسی وجہ کے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ کاش جیوتش ودیا کے ماہر یہ بتا دیں کہ جب آسمان پر تبدیلیاں ہوتی ہیں تو آخر وہ انسانی زندگی کے ان تمام شعبوں میں تبدیلی کی خبر کیوں نہیں دیتے جن کا تعلق ان سیاروں سے ہوتا ہے جو آسمان پر کوئی خاص وضع یا شکل بنا رہے ہوتے ہیں۔ آج کی ہی مثال پھر لیجیئے۔ کہا جا رہا ہے کہ دل کے معاملات میں تبدیلیاں ہوں گی یا فلمی صنعت میں حادثے ہوں گے۔ بات یہ ہے کہ زہرہ کا تعلق زندگی کے صرف انہی دو شعبوں سے تو نہیں ہے۔ سیاروں کے منسوبات قائم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زائچۂ حملی سے جن جن گھروں میں سیاروں کے بروج ہیں ان ان گھروں سے مسنوب باتیں سیاروں کے نام لکھ دیں اور نجوم میں اس اصول کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر برجِ ثور کی ملکیت کے اعتبار سے زہرہ کا تعلق مال و دولت سے بھی ہے، گلے سے بھی سے۔ لہذا آج چونکہ زہرہ کا گزر سورج کے پہلو سے ہے اور فرض کر لیا گیا ہے زہرہ نے محض خرابی دل کے معاملات میں کرنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر لوگوں کو مالی نقصان کیوں نہیں ہوگا یا پھر لوگوں کے گلے خراب کیوں نہیں ہوں گے؟ موسیقی پر بھی زہرہ کی حکمرانی ہے اب آج کی وضع سے کیا آلاتِ موسیقی ٹوٹ جائیں گے یا پھر موسیقار دھنیں بنانا بھول جائیں گے؟ (میں خرابی کی بات یوں کر رہا ہوں کہ پیشگوئی صرف خرابی ہی کی ہوئی ہے) مان لیجیئے کہ زہرہ اور شمس کی اس خاص وضع سے لوگوں پر اثر ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا بھر میں سب لوگ اس سے ایک ہی طرح متاثر ہوں گے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ صرف چند لوگ ہی اس وضعِ فلکی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر زہرہ دل کے معاملات سے متعلق ہے تو پھر آفتاب یعنی شمس کا کیا قصور ہے؟ وہ زہرہ کو متاثر کر رہا ہے تو کیا خود متاثر نہیں ہو رہا؟ اگر وہ بڑا ستارہ ہے تو اس کے ساتھ بڑی نہیں تو چھوٹی موٹی خرابی ہی ہو جائے۔ مگر منجمین صرف زہرہ پر ہی نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ چلیں اسے بھی چھوڑیے۔ ایک بات تو طے ہے کہ نو عمر بچے زہرہ کے ’شر‘ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ ان میں وہ جذبے ابھی تک نشو نما نہیں پا سکے جن کا تعلق جوتشیوں کی پیش گوئی والے ’دل کے معاملات‘ سے ہے۔ تو پھر کیا کریں؟ کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منگل کو آسمان پر بننے والی وضع ہر شخص کی پیدائش کے وقت کے سیاروں کی پوزیشن کے لحاظ سے ہی اس شخص کو متاثر کرے گی اور اس کا فیصلہ خاص زاویے کریں گے جنہیں نجوم کی اصطلاح میں نظرات بھی کہتے ہیں۔ موجودہ وضعِ فلکی بعض لوگوں کی پیدائش کے زائچوں میں اہم کواکب کے ساتھ نظرِ تربیع اور مقابلہ بنائے گی اور اگر دونوں پوزیشنوں یعنی آج کی وضع اور پیدائش کے دن کی وضع کے درجات میں زیادہ فرق نہ ہوا تو ایسے افراد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دل کے معاملات کشیدہ ہو جائیں گے۔ البتہ ان لوگوں کو آج بہت فاعدہ پہنچنے کا بھی اتنا ہی امکان ہے جن کے پیدائش کے زائچوں میں اہم سیاروں کے ساتھ آج کی وضع نظرِ تسدیس یا تثلیت بنائے گی یا پھر کسی بھی طرح ان سیاروں کو متحرک کر دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آج کے بعد کچھ بے قرار دلوں کو قرار مل جائے۔ ممکن ہے کہ کچھ کے سروں پر مالی مشکلات کے جو بادل چھائے ہوئے وہ چھٹ جائیں۔ عجیب نہیں کہ کچھ کے لئے دوریاں سمٹ جائیں۔ آفتاب (چھوٹی یا بڑی ہر سطح پر) اقتدار کا سیارہ ہے اور اسے زہرہ کا قرب حاصل ہے۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ کچھ کو آج کی وضع کے باعث اقتدار مل جائے اور کچھ صاحبانِ اختیار کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے۔ میرے خیال میں کسی شخص کی پیدائش کے وقت کے سیاروں کے وضع کے ساتھ آج کی وضعِ فلکی کا تعلق جانے بغیر پیشگوئی کرنا ممکن تو ضرور ہے لیکن معقول نہیں۔
150127_indian_role_pak_militancy_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/01/150127_indian_role_pak_militancy_zz
بھارتی ’مداخلت‘ کے شواہد امریکہ کے حوالے
پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں اکثر تیسری طاقت کے ملوث ہونے کے الزامات سامنے آتے ہیں تاہم اب حکام نے ملک کے قبائلی علاقوں اور صوبہ بلوچستان میں اپنے روایتی حریف بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد اپنے سٹریٹیجک شراکت دار امریکہ کے حوالے کیے ہیں۔
’جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے دوران شواہد امریکی قیادت کے حوالے کیے گئے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ایک رکن کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گذشتہ سال نومبر میں امریکہ کے دورے کے دوران امریکی حکام کو بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد فراہم کیے تھے۔ دورہ پاکستان کا، ذکر ہمسایوں کا سیکریٹری دفاع نے اس بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔ کمیٹی کے رکن نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ’امریکہ کی اعلیٰ قیادت کو یہ شواہد فراہم کیے گئے ہیں اور انھیں کہا گیا ہے کہ آپ ایک طرف شدت پسندی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس میں دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے اور ہندوستان کو مغربی سرحدوں کے ذریعے مداخلت سے روکیں۔‘ امریکہ کی جانب سے دیے جانے والے جواب کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا: ’امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران یہ معاملہ وزیراعظم مودی کے سامنے اس معاملے کو اٹھائیں گے، اب مودی اور اوباما کی گفتگو میں کیا ہوا، اس کے بارے میں معلوم نہیں لیکن فرض حقائق ان کے سامنے پیش کرنا تھا وہ ہم نے کر دیا، اب ان کو آگے پہنچنا اور اس پر ایکشن لینا، یہ اب امریکہ جانے اور بھارت۔‘ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پہلی بار بھارت کی مداخلت کے بارے میں شواہد امریکہ کو فراہم کیے گئے ہیں کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے خلاف عوام اور فوج کامیابی سے بھرپور مزاحمت بھی کر رہا ہے، اور ان کوششوں کو بھارت قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں نقصان پہنچانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے شواہد اب امریکہ کے حوالے کیے گئے ہیں۔ معلومات کے مطابق امریکہ نے غیر قانونی شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو ہلاک کرنے یا گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی حکام کے مطابق تحریک طالبان کے شدت پسند پاکستان سے متصل افغان علاقوں میں روپوش ہیں اور وہاں سے پاکستان کے اندر کا کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح کے الزامات افغان حکومت اور نیٹو حکام پاکستان پر عائد کر چکے ہیں کہ’ اچھے طالبان جن میں حقانی نیٹ ورک نمایاں ہے‘ اس کے جنگجوؤں کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور وہاں سے یہ افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔ پاکستان گذشتہ چند ماہ سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں کرنے کے متعدد بار اعلانات کر چکا ہے۔ کمیٹی کے رکن کے مطابق شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد سے ملک میں ایک شدت پسندی کے خلاف ایک نیا موقف آیا ہے جس میں اب اچھے اور برے طالبان کے درمیان کوئی تمیز نہیں کی جا رہی ہے۔ ’ شمالی وزیرستان کے حالیہ دورے کے دوران ہم نے حقانی نیٹ ورک کے تباہ ہونے والے ٹھکانے دیکھیں ہیں۔‘ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے بارے میں اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں خدشات آئے روز سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سال 2009 میں مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان بات چیت کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا معاملہ شامل تھا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کبھی گرمجوشی اور کبھی آنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سال 2013 سے دونوں ممالک کی جانب سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈی پر جنگ بندی کے معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزیاں کرنے کے الزامات سامنے آ چکے ہیں۔ حالیہ ہفتوں دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول اور برکنگ باؤنڈری پر جھڑپوں کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہںی تاہم ان میں شدت اس وقت آئی جب بھارت میں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی۔اگرچہ بے جی پی کے رہنما نریندر مودی کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اور اب وقت گزرنے کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ تلخی آئی ہے جس میں پاکستان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ ہندوستان نے توڑا اور اب اسے ہی پہل کرنا ہو گی جبکہ اب مذاکرات میں مسئلہ کشمیر نمایاں ہو گا۔ دوسری جانب بھارت کی جانب سے ہند مخالف شدت پسندوں کے خلاف موثر کارروائیوں کے مطالبات میں تیزی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہاں سکیورٹی کے کردار پر بھی کشیدگی ہے اور اسی وجہ سے موجودہ افغان صدر اشرف غنی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں کسی کو پراکسی وار یعنی درہ پردہ جنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح کے خدشات کا اظہار پاکستان کے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف بھی کر چکے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ سال نومبر میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا پاکستان اور بھارت کو افغانستان میں پراکسی وار کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
151004_na_122_byelection_campaign_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/10/151004_na_122_byelection_campaign_zz
لاہور کے حلقہ این 122 کے ضمنی انتخاب کی مہم جاری
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 11 اکتوبر کو این اے 122 میں ہونے والے ضمنی انتخاب نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے مابین ایک بڑے معرکے کی شکل اختیار کر لی ہے اور دونوں جماعتیں اس الیکشن میں فتح کو اپنی دور رس کامیابی کی ضمانت سمجھ رہی ہیں۔
اگست میں الیکشن ٹربیونل نے اس حلقے میں دوبارہ انتخاب منعقد کرنے فیصلہ دیا تھا ایاز صادق کا انتخاب کالعدم، این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کا حکم ضمنی انتخاب پاکستانی سیاست میں کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن موجودہ انتخاب میں دونوں فریقین اپنی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ چونکہ 11 اکتوبر کو ہی لودھراں کے حلقہ این اے 154 کا ضمنی انتخاب ملتوی ہو گیا ہے اِس لیے دونوں جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کی تمام تر توجہ این اے 122 پر مرکوز ہو گئی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اُن کا مقابلہ مسلم لیگ نون سے نہیں بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، چوہدری سرور، شفقت محمود، علیم خان جبکہ نون لیگ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، طلال چوہدری، ماروی میمن پوری سرگرمی سے حلقے کے عوامی اجتماعات میں خطاب کر رہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ واضح رہے کہ این اے اُن چار حلقوں میں سے ایک ہے جن کے نتائج کی دوبارہ پڑتال کے لیے عمران خان روز اول سے مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اِس حلقے کی اہمیت اِس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ یہاں سے جیتنے والے امیدوار سردار ایاز صادق کے انتخابات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ہرا کر سپیکر قومی اسمبلی بنے تھے۔ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان کی سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے اتوار کو تحریک انصاف کا جلسہ سمن آباد کے مشہور ڈونگی گراؤنڈ میں منعقد ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اُن کا مقابلہ مسلم لیگ نون سے نہیں بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہے۔ عمران خان نے کہا کہ مسلم لیگ نون نے ایک دفعہ پھر دھاندلی کا منصوبہ بنا لیا ہے لیکن اِس بار تحریک انصاف دھاندلی کو روکنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ مسلم لیگ نون نے بھی لاہور کے علاقے سمن آباد میں جلسہ منعقد کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان کی سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے اچھا ہوتا اگر عمران خان سیاست کی بجائے کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کرتے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ وہ پہلے بھی اِس حلقے سے دو بار عمران خان کو شکست دے چکے ہیں اور اب دوبارہ اُن کو شکست دیں گے۔
051127_younas_brother_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051127_younas_brother_ra
یونس کو صدمہ، اگلے ٹیسٹ سے باہر
پاکستان کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان یونس خان اپنے بھائی شریف اللہ کی وفات کی خبر سن کر مردان روانہ ہو گئے ہیں اور وہ لاہور میں ہونے والے پاک انگلینڈ سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔
یونس خان اتوار کے روز قذافی سٹیڈیم میں پریکٹس کرنے کے لیے آئے ہی تھے تو ان کے بھائی کے ایک دوست نے انہیں فون پر اطلاع دی کہ یوکرائن میں ان کے بھائی شریف خان کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ یونس خان اسی وقت ہوٹل واپس چلے گئے جہاں سے وہ پشاور کے لیے روانہ ہو گئے۔ پاکستان ٹیم کے نائب کپتان یونس خان کے بھائی سعید خان نے اپنے آبائی شہر مردان سے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرائن میں وفات پانے والے انکے بھائی شریف خان کی عمر تینتالیس سال تھی اور وہ گزشتہ گیارہ سالوں سے یوکرائن میں چینی مصنوعات کا کاروبار کر رہے تھے۔ سعید خان نے کہا کہ تاحال انہیں شریف اللہ کی ہلاکت کی وجہ کے بارے میں درست معلومات موصول نہیں ہوئی ہیں البتہ بقول انکے یوکرائن میں مرحوم کے دوستوں نے بتایا ہے کہ شریف اللہ بیماری کیوجہ سے ہلاک ہوئے ہیں انہون نے مزید بتایا۔ یونس خان کے بھائی نے بتایا کہ دو روز قبل مرحوم نے انکے دوسرے بھائی کو فون پر بتایا کہ انہیں سخت بخار ہے۔ سعید خان نے کہا کہ انہیں ابھی تک کسی نے حادثے میں ہلاک ہونے کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی ہے۔ دوسری طرف یونس خان لاہور سے روانہ ہونے کے بعد مردان پہنچ گۓ ہیں اور بقول سعید خان کہ اگر کوئی پرواز ملی تو کل مرحوم کی میت یوکرائن سے روانہ ہوگی۔انہوں نے میت کی پاکستان پہنچنے میں دو دن مزید لگنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
150910_beef_ban_indian_kashmir_sr
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/09/150910_beef_ban_indian_kashmir_sr
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گائے ذبح کرنے پر پابندی
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی عدالت عالیہ کے ڈویژن بیچ نےگائے کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
عدالت میں پری موکش سیٹھ نامی ایک وکیل نے درخواست دی تھی جس کے بعد جسٹس جنک راج کوتوال اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے حکومت اور پولیس کو حکم دیا کہ ریاست میں دودھ دینے والے بڑے جانوروں جن سے مراد گائے اور بھینس ہے، کوذبح کرنے پر پابندی نافذ کی جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کہ ریاست میں نافذ پینل کوڈ کے سیکشن 298-A کے مطابق جموں کشمیر میں گائے کشی پر پابندی ہے، تاہم مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے ناطے یہاں گائے، بیل یا بھینس کا گوشت، جسے عرف عام میں ’بڈماز‘ کہتے ہیں، عام تھا۔ 35 سال قبل بھی جب بڈماز پر پابندی کی بات ہوئی تو جنوبی کشمیر کے اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما قاضی نثار نے چوراہے پر ایک گائے کو ذبح کیا جس کے بعد کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ قاضی نثار کے بیٹے قاضی یاسر اب اُمت اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔ قاضی یاسر نے بی بی سی کو بتایا: ’دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو وہ سب کھانے سے منع نہیں کرسکتی جسے اللہ نے ہمارے لیے حلال کیا ہو۔‘ قاضی نثار نے بتایا کہ کشمیر کی مذہبی اور سیاسی قیادت اس بارے میں مناسب ردعمل کے ساتھ سامنے آئے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ میر واعظ عمرفارورق نے بھی مذہبی رہنماؤں کی انجمن متحدہ مجلس علما کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
110304_blasphemy_shamsi_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2011/03/110304_blasphemy_shamsi_si
توہینِ رسالت قوانین پر بحث شدید تر
تقریباً تیرہ سال پہلے، ایک کیتھولک پادری نےساہیوال کی سیشنز عدالت میں خود کشی کر لی۔خود کشی کرنے والے ریورنڈ جان جوسف تھے، جو اسی فیصل آباد سے تعلق رکھتے تھے جو کہ شہباز بھٹی کا بھی آبائی شہر ہے۔
پروفیسر خورشید شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ریورنڈ جان جوسف کا یہ عمل ایک احتجاج تھا جو انہوں نے اپنے ڈایئوسیز کے ایک مسیحی کو ناموسِ رسالت قانون کے تحت سزائے موت سنائے جانے پر کیا تھا۔ خود کو مٹانے کا یہ عمل اب کس کو یاد ہے۔ آج کے پاکستان میں ناموسِ رسالت کے قوانین ایسا موضوع ہے جس کے خلاف احتجاج یا اس پر محض بحث، چاہے وہ اس کے اصول پر ہو یا عمل درآمد پر، تشدد کو دعوت دینا ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی نے یہ کوشش کی، اور ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان اموات کی وجہ سے یہ باب اب بظاہر بند ہوچکا ہے۔ مسیحی اور حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے۔ اس بارے میں جماعتِ اسلامی کے رہنما اور سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں: ’یہ ضیا نے نہیں بنایا تھا ۔ پارلیمنٹ نے ِاسے 1991 میں منظور کیا تھا۔ لیکن اس معاملے میں ایسا تشدد اور خون خرابہ نہیں تھا اور نہ ہونا چاہیے۔‘ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف کی حکومت تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موجودہ پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز تشدد کی مذمت تو کرتی ہے لیکن توہین رسالت قانون میں ترمیم کے بارے میں چپ ہے۔ پروفیسر خورشید نے بھی شہباز بھٹی کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور قانون کے اعتبار سے ان کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں: ’اس کو محض ناموسِ رسالت کے قانون کے بنیاد پر نہ کہا جائے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پاکستانی طالبان کون لوگ ہیں، کون لوگ ان کو پیسے دے رہے ہیں، کس کس کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں صحیح تحقیق بھی کرنی چاہیئے اور بلا وجہ اس کو ان قوانین پر نہیں ڈالنا چاہیے۔‘ دوسری طرف حقوق انسانی کے کارکن آئی اے رحمان ہیں۔ وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس معاملے پر پہلے اتنا تشدد دیکھنے میں نہیں آیا۔ آخر اس سے پہلے بھی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور فوجی آمر پرویز مشرف نے حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی اداروں اور مسیحی برادری کے مستقل اصرار کے بعد اس قانون میں ترمیم لانے کی کوشش کی۔ لیکن آئی اے رحمان رحمان کہتے ہیں کہ حالیہ تشدد کے پس منظر میں پہلے معاملات مذہی تھے اور اب یہ مسئلہ سیاسی ہو گیا ہے۔ ’ہمارے ملک کے انتہاپسند عناصر ریاست پر قبضہ کرنے کے لیے اسے استعمال کر ہے ہیں اور وہ لوگوں میں اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔‘ دونوں کے نظریے فرق تو ہیں، لیکن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رحجان کی وجہ سے یہ قانون تشدد میں اضافے کا ایک اور جواز بن چکا ہے۔ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اب دیکھیں کتنے لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں۔ وہ سب ناموسِ رسالت کی بنا پر نہیں مارے گئے، وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ وہ ان کے ریاست پر قبضے کے پیش رفت میں رکاوٹ تھے۔ مسیحی کارکنوں کے لیے اصل مسئلہ ناموسِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے تحت سزائے موت شامل کیا جانا ہے پروفیسر خورشید اس رائے سے انکار کرتے ہیں۔ ’یہ غلط ہے۔ اس کی ایک اور وجہ شدت پسندوں کی عدالت میں سزا دلوانے میں، تفتیشی اداروں اور خفیہ اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ پورے سکیورٹی نظام کی ناکامی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں کسی کیس کا واضح طور پر حل نہیں ملا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ان لوگوں کو احساس نہیں ہو گا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملتی ہے، اور یہ رکاوٹ نہیں بن رہا ۔تو یہ جو حالات ہیں، ان میں حکومت کی کارکردگی اور ناکامی کا بہت بڑا دخل ہے۔ دوسری جانب آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ تشدد کا پہلو اب زیادہ ہو رہا ہے کیونکہ مذہبی انتہا پسندوں کے پاس پہلے بندوقیں نہیں تھیں۔ لیکن انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ رحمان صاحب کے مطابق، ایک وزیر مارا گیا ہے اور ایک گورنر لیکن بہت سے لوگ اس کی مذمت نہیں کرر ہے۔ ’ان کے دلوں میں خاص نرم گوشہ ہے ان انتہا پسندوں کے لیے جو یہ کارروائی کرتے ہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی جماعتیں کہتی ہیں لیکن درحقیقت مذہبی جماعتیں ہیں۔‘ کیا اس کا حل ڈھونڈنے کے لیے دیر ہو چکی ہے؟ کیا پاکستان تشدد کی راہ پر مستقل طور پر چل پڑا ہے؟ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کا حل سیاسی جماعتوں کے پاس ہی ہے اگر وہ مل بیٹھ کر ڈھونڈیں۔ ‘کسی بھی چیز کے لیے دیر نہیں ہوتی۔اگر ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جائیں تو کل بھی دیر تھی، اگر ہاتھ نہ چھوڑیں تو آنے والا کل بھی دیر نہیں ہو گی۔‘ چاہے تشدد اور انتہا پسندی کی راہ سے مڑنے کے لیے سیاسی حل نکالا جائے یا سکیورٹی نظام کی اصلاحات کی جائے، جب تک پاکستان میں کلیدی کردار رکھنے والی قوتوں میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا، یہ ممکن نہیں ہوگا۔
080305_qadeer_hospitalised_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080305_qadeer_hospitalised_uk
ڈاکٹر قدیر ہسپتال میں داخل
پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خرابی صحت کی وجہ سے بدھ کی صبح طبی معائنہ کرانے کے لیے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
پاکستان کے فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ ڈاکٹر خان فشارِ خون کی کمی یعنی ’لو بلڈ پریشر‘ کے علاوہ بخار ہوا جو کہ شاید انہیں انفیکشن ہونے کی وجہ سے ہوا ہو۔ ڈاکٹر خان کے مثانے میں کینسر کی تشخیص کے بعد ستمبر سن دو ہزار چھ کو کراچی میں آپریشن کیا گیا تھا اور ڈاکٹروں نے ان کے آپریشن کو کامیاب قرار دیا تھا۔ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ منگل کو ڈاکٹر خان نے کمزوری کی شکایت کی جس پر انہیں فوری طبی امداد دی گئی۔ ان کے معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ ہسپتال میں منتقلی کے بعد ڈاکٹروں کا وہ ہی پینل ان کی نگہداشت کر رہا ہے جو پہلے سے ان کا علاج معالجہ کرتے رہے ہیں۔ ان ڈاکٹروں نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو چند روز میں واپس اپنے گھر منتقل کردیا جائے گا۔ فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر خان کی صحت کے بارے میں عوام کو مطلع کیا جاتا رہے گا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جوہری پھیلاؤ کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہونے کے اقرار کے بعد سن دو ہزار چار میں وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے برطرف کر کے کئی ساتھیوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر خان نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا سرکاری ٹیلی ویژن چینل پر اعتراف کیا تھا۔ بعد میں ڈاکٹر خان نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے معافی کی درخواست دی جو صدر نے قبول کر لی تھی۔ اس معافی کے بعد ان کے ساتھیوں کو رہا کردیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر خان اس وقت سے فوج کے سخت پہرے میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ اس دوران بین الاقوامی جوہری ادارے کے اہلکاروں یا امریکی تفتیش کاروں کو ڈاکٹر قدیر سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
061115_indo_pak_talks_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2006/11/061115_indo_pak_talks_fz
کشمیر اور دہشتگردی، بات چیت کا دوسرا دن
ہندوستان اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان دلی میں پہلے دن کشمیر اور دہشتگردی کے موضوعات پر مفصل تبادلہ خیال کے بعد بدھ کو مذاکرات کا دوسرا دورہ شروع ہو گیا ہے۔
یہ مذاکرات چار ماہ کے تعطل کے بعد ہو رہے ہیں اور مذاکرات میں شامل حکام نے کشمیر اور دہشت گردی جیسے پیچیدہ امور پر اب تک کی بات چیت کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نوتیج سرنا نے پہلے دور کے اختتام پر کہا کہ بات چیت ’بڑی مفصل رہی اور مثبت ماحول میں ہوئی۔‘ مسٹر سرنا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے مسئلہ پر بات چیت کی اور اس پر قابو پانے کے لیئے مجوزہ مشترکہ طریقہ کار پر غور کیا۔ مسٹر سرنا نے مزید بتایا کہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اعتماد سازی کے اقدامات پر بات ہوئی ہے۔ ممبئی دھماکوں کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں مسٹر سرنا نے صرف یہی کہا کہ دہشت گردی پر تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے اور دونوں ہی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے سلسلے میں درپیش چیلنج کا مقابلہ مشترکہ طور پر کیا جائے۔ پہلے روز کی بات چیت ميں اعتماد سازی کے اقدامات، سفر کی سہولیات، باہمی تجارت اور اقتصادی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور کمپوزٹ ڈائیلاگ کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ خارجہ سیکرٹریوں اور ان کے وفود کے درمیان بات چیت بدھ کے روز بھی جاری رہےگی اور بات چیت میں حقیقی پیش رفت کا اندازہ مذاکرات کے اختتام پر ہی ہو سکے گا۔ پاکستان کے خارجہ سیکرٹری ریاض محمد خان نے ہندوستان کے وزیر خارجہ پرنب مکھرجی سے بھی ملاقات کی ہے۔ جولائی میں ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع ہو ئے ہیں۔ ہندوستان نے جولائی میں ممبئی بم دھماکوں کا الزام پاکستان پر لگایا تھا تاہم پاکستان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کا عمل ستمبر میں کیوبا میں غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے اجلاس کے دوران صدر پرویز مشرف اور منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات سے قبل تک تعطل کا شکار تھا۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان دو روزہ مذاکرات کے لیئے پیر کو دلی پہنچے۔ دلی پہنچنے پر ریاض محمد خان کا کہنا تھا ’وہ تعمیری مذاکرات کی امید لے کر یہاں آئے ہیں‘۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات سے کسی بریک تھرو کی امید نہیں ہے تاہم اس سے یہ تاثر ضرور ملے گا کہ جنوبی ایشیا کے ان حریفوں کے درمیان خطے میں قیامِ امن کی کوششیں متاثر نہیں ہوئی ہیں۔ تجزیہ نگار اودھے بھاشکر نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تمام بات چیت سے کسی بڑے نتیجے کی توقع تو نہیں کی جائے گی تاہم کسی بڑی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مذاکرات کا عمل پھر سے جمود کا شکار نہ ہو۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور صدر پرویز مشرف نے ہوانا میں ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکنزم کے قیام پر بھی اتفاق کیا تھا۔ اس بات کی قوی امید ہے کہ مسٹرمینن پاکستان پر اس معاملے میں مزید اقدامات اٹھانے کے لیئے دباؤ ڈالیں گے۔ انڈیا کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ماضی میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان اس یقین دہانی پر قائم رہے گا۔ دوسری طرف پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں قرار داد ہی اس خطے میں جاری مزاحمت کی اہم وجہ ہے۔ واضح رہے کہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا دونوں اپنی اپنی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ مسٹر ریاض محمد خان مذاکرات کے دوران اس نکتے کو بھی اٹھائیں گے۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن مذاکرات کا عمل دو ہزار چار میں شروع ہوا تھا جو اس سال جولائی میں ممبئی دبم دھماکوں کی وجہ سے جمود کا شکار ہو گیا تھا۔ ان دھماکوں میں تقریبًا دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہندوستان کے حکام کا کہنا تھا کہ ان دھماکوں میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس قسم کے بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے قبل فریقین کو اس قسم کے ’غیر سنجیدہ الزامات‘ سے گریز کرنا چاہیے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ممبئی دھماکوں میں خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے بارے میں ہندوستان کی جانب سے ثبوت کا منتظر ہے۔ سیاچن کے معاملے پران کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دونوں جانب معمولی اختلافات موجود ہیں۔
080411_israel_attack_gaza_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/04/080411_israel_attack_gaza_zs
اسرائیلی حملہ، بچے سمیت آٹھ ہلاک
غزہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج کی کارروائی میں ایک بارہ سالہ بچے سمیت آٹھ فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں۔
طبی عملے کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں چار عام شہری اور چار عسکریت پسند شامل ہیں۔ اسرائیلی ٹینک جنہیں ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل تھی جمعہ کی صبح غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے تھے اور بریج کے پناہ گزین کیمپ کے قریب سارا دن اسرائیلی فوج اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد میں سے حماس اور ایک دیگر تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو عسکریت پسند ہیلی کاپٹر سے چلائے جانے والے میزائل کا نشانہ بنے۔ اس سے قبل جنوبی غزہ میں خان یونس کے قریب اسرائیلی فضائی حملوں میں حماس کے دو عسکریت پسند مارے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائی بدھ کو غزہ کو ایندھن فراہم کرنے والے اڈے پر حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں دو اسرائیلیوں کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی ہے۔اسرائیل نے ان ہلاکتوں کے بعد غزہ کو ایندھن کی فراہمی بھی معطل کر دی ہے۔
050506_pak_ind_investors
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/05/050506_pak_ind_investors
’بھارتی سرمایہ پر پابندی رہے گی‘
پاکستان کے وزیرِاعظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ جب تک کشیر کے مسئلے کے حل میں پیش رفت نہیں ہوتی پاکستان میں بھارتی سرمایہ کاری پر پابندی رہے گئی۔
شوکت عزیز نے اپنے دورہ ملیشیاء میں سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے دوسرے ملکوں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے اور تجارت بڑھانے کو دعوت دی۔ شوکت عزیز نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی کشمیر پر اپنا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کے راستے کی واحد ر کاوٹ ہے۔ مسٹر عزیز نے کہا کہ دونوں ممالک کی درمیان تعلقات پہلے سے بہتر ہونے کے باعث تجارت میں اضافہ ہوا ہے جس سے معاشی حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ نمائندوں کے مطابق پاکستان نے بھارتی سرمایہ کاری پر کوئی باقدہ پابندی لاگو نہیں کی ہے لیکن بھارتی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ کی تجاویز کو مسترد کرتا رہا ہے۔ شوکت عزیز نے کہا کہ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اوپن معاشی پالیسی اپنا رکھی ہے اور کوئی بھی دوسرے ملک کو پاکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بھارت سے تمام مذاکرات میں پیش قدمی نہیں ہوتی تب تک بھارت کی پاکستان میں سرمایہ کاری مشکل ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں بڑے یقین کے ساتھ کشمیر کے مسلہے کے خاتمے پر زور دیا ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان شاید اپنے جوہری ادارے سے استعمال شدہ سینٹریفیوجز کو اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کے حوالے کرئے جو ایران کے ایٹمی پرگرام کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔ پاکستان اب تک سینٹریفیوجز کسی اور ادارے کے حوالے کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ گذشتہ سال پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق عبد لقدیر خان نے قبول کیا تھا کہ ا نہوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی دی تھی۔
040913_quetta_protest_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/09/040913_quetta_protest_ra
کوئٹہ میں بے روزگاروں کا مظاہرہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خواتین اساتذہ نے پیر کے روز سے علامتی بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے ان کا مطالبہ ہے کہ انھیں چالیس فیصد الاؤنس دیا جائے اور صوبے کے سکولوں میں تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
اس کے علاوہ بے روزگار زرعی گریجوئٹس، انجینیئروں اور ویٹرنری ڈاکٹروں نے سیکریٹریٹ کے سامنے روزگار کے حصول کے لیے زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ مرد اساتذہ مزدور اور دیگر ملازمین حکومت کی توجہ اپنے طرف مبذول کرانے کے لیے اکثر مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ خواتین اساتذہ نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے وعدے اور دعوے سب جھوٹ ہیں۔ خواتین اساتذہ کی تنظیم کی عہدیدار میمونہ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انھیں چالیسں فیصد الاؤنس نہیں دیا جا رہا جبکہ باقی صوبوں میں یہ الاؤنس اساتذہ کو دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ صوبے کے بیشتر سکولوں میں بنیادی سہولیات میسر ہی نہیں ہیں۔ سکولوں میں پینے کے لیے پانی، بچوں کے بیٹھنے کے لیے ٹاٹ اور تختہ سیاہ نہیں ہیں جبکہ اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں جانے کا الاؤنس بھی نہیں دیا جا رہا۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں پیر کے روز بے روز گار زرعی گریجوئٹس انجینیئروں اور ویٹرنری ڈاکٹرز نے وزیر اعلی سیکرٹیریٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے ۔ میں پولیس نے بے روز گاروں کو گرفتار کر لیا۔ مظاہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ عرصہ دس سال سے انھیں روزگار فراہم نہیں کیا جا رہا۔ جس وجہ سے کئی نوجوان سرکاری ملازمت کے لیے متعین زیادہ سے زیادہ عمر کی حد پار کر چکے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کے شہر سوئی میں بھی بےروزگار نوجوان بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت نے کئی دفعہ بے روزگاروں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا لیکن کبھی اس وعدے کو پورا نہیں کیا جس سے لوگوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
050602_sharon_abbas_talks_nj
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/06/050602_sharon_abbas_talks_nj
شیرون، عباس ملاقات21 جون کو
اسرائیلی وزیر اعظم ایریئل شیرون اور فلسطینی رہنما محمود عباس 21 جون کو مذاکرات کریں گے۔
مسٹر عباس کے منتخب ہونے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسری ملاقات ہوگی۔ فروری میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنما جنگ بندی کے لئے رضامند ہوگئے تھے ۔ فلسطینی افسران کے مطابق مسٹر عباس اینجیئو پلاسٹی کے لئے اردن کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ عمان میں ڈاکٹروں نے کامیابی کے ساتھ ان کا آپریشن کر لیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم سے مذاکرات کی تاریخ فلسطین کے چیف مذاکرات کار سائب ارکات اور مسٹر شیرون کے نمائندے کے درمیان تبادلہ خیال کے بعد طے ہوئی ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ شیرون اور عباس کی اہم ملاقات سے قبل وہ دو اور ملاقاتیں کریں گے ۔ مسٹر ارکات نے بتایا کہ 8 فروری کو مصر میں ہونے والے دونوں رہنماؤں کے اجلاس میں جو ورکنگ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں اس دوران ان کو بھی سرگرم کیا جائے گا۔ مسٹر شیرون کے دفتر کے مطابق اس اجلاس میں موجودہ جنگ بندی اور اگست میں غزہ سے اسرائیلی انخلاء کے سلسلے میں تعاون جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔ مسٹر اراکات کے مطابق دیگر جن مسائل پر بات ہوگی ان میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غرب اردن کے قصبوں کا کنٹرول فلسطین کے حوالے کرنا شامل ہے۔ مسٹر اراکات نے کہا کہ فلسطینی اس اجلاس کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ دریں اثناء اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات کو 400 فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔ مسٹر شیرون کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے فلسطینی اتھارٹی میں اعتدال پسند طبقے کو حوصلہ ملے گا۔ فروری کے اجلاس کے بعد 500 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا لیکن اسرائیلی رہنما نے وعدے کے مطابق مزید 400 قیدیوں کی رہائی یہ کہہ کر روک دی تھی کہ فلسطینی قیادت شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں زیادہ سرگرم نہیں ہو رہی۔
040108_india_moon2_rza
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/01/040108_india_moon2_rza
چاند پر جانے کی بھارتی تیاریاں
بھارت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے العبدل کلام نے سائنسدانوں کو دعوت دی ہے کہ بھارت کے چاند پر جانے والے پہلے مشن پر تجربات کریں۔
یہ مشن جس کا نام ’چندریان‘ ہے بغیر کسی فرد کے چاند پر دو ہزار سات یا دو ہزار آٹھ میں بھیجا جائے گا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اب ایشیا میں بھی خلائی دوڑ شروع ہوگئی ہے اور برِ اعظم کے کئی ممالک سیٹلائٹ اور راکٹ کی نئی نئی ٹیکنالوجی سے تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل چین نے ایک شخص کو خلا میں بھیجا دے جس پر دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ بھارت کو بھی امید ہے کہ جب آدھا ٹن وزنی مشن بھارت میں بنے ہوئے راکٹ پر چاند کے مدار کی طرف بھیجا جائے گا تو لوگ متاثر ہوں گے۔ بھارت کے اس مشن کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ چاند پر مشن بھیجنے کا مطلب ہے کہ بھارت یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس جیسے ترقی پذیر ملک نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں اتنی ترقی کر لی ہے۔ ڈاکٹر کلام جو خود بھی ایک ممتاز سائسندان رہے ہیں، کہا کہ اب یہ بھارت کے تحقیق کاروں پر ہے کہ وہ نئے نئے تصورات کے ساتھ سامنے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ چندریان کے مشن کے ذریعے تحقق سے پورے ملک میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوگا اور خاص طور سے نوجوان سائنسدانوں اور بچوں میں نیا جوش پیدا ہوگا۔ بھارتی صدر نے کہا: ’چونکہ آپ سب سائسندان ہیں لہذٰا میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو سائنسدان بھی چاند پر یا چاند کے ماحول پر کسی طرح کی کوئی تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ آگے آئے اور اس کے لئے ہم اس کی مدد کریں گے۔‘
regional-53922290
https://www.bbc.com/urdu/regional-53922290
ایران دو مشتبہ سابق جوہری مراکز کے معائنے پر رضامند
ایران اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کو ان دو مشتبہ سابق جوہری مراکز کا معائنہ کرنے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گیا ہے جس سے وہ پہلے انکار کرتا رہا ہے۔
یہ معاہدہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کے ایران کے دورے کے دوران طے پایا ہے ایران اور آئی اے ای اے کے ایک مشترکہ بیان میں ایران نے کہا ہے کہ وہ ان مراکز کے معائنے کی اجازت خلوص نیت کے تحت دے رہا ہے تاکہ کچھ دیرینہ مسائل حل ہو سکیں۔ یہ معاہدہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کے ایران کے دورے کے دوران طے پایا ہے۔ آئی اے ای اے ماضی میں ایران کی طرف سے ان مشتبہ مقامات کے حوالے سے سوالوں کا جواب نہ دینے پر تنقید کرتا رہا ہے۔ آئی اے ای اے کو شبہ ہے کہ یہ دونوں مقامات جوہری مواد کے حوالے سے کارروائیوں کے مراکز رہے ہیں اور ایران اسی لیے جوہری انسپکٹروں کو ان مراکز تک جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ بھی پڑھیے ایران جوہری معاہدہ: کیا کوئی راستہ بچا ہے؟ ایران نے جوہری انسپکٹر کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا ایران جوہری معاہدہ تھا کیا اور اس کے کیا فوائد تھے؟ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ معائنہ کاروں کو ان دو مراکز سے متعلق کیا شک ہے کہ وہاں کیا ہوتا رہا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ سنہ 2000 سے پہلے ہو رہا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان مراکز میں ہونے والی مشتبہ کارروائیاں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں سے ہونے والے معاہدے سے بہت پہلے ہو رہی تھیں۔
050530_gaza_strikes_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/05/050530_gaza_strikes_rza
جبالیا کیمپ پر اسرائیلی حملہ
اسرائیل کے فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی ایئرفورس نے شمالی غزہ کے پناہ گزین کیمپ جبالیا پر اتوار کی رات حملہ کیا اور وہاں میزائل داغے۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ میزائلوں کے اس حملے میں دو فلسطینی شہری اس وقت زخمی ہوگئے جب جنگی جہازوں سے مارے گئے میزائل کیمپ میں آ کر گرے۔ اسرائیل کی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جبالیا پر کیے جانے والے اس حملے کا مقصد ان شدت پسندوں کو نشانہ بنانا تھا جو اسرائیلیوں پر مارٹر کے ذریعے حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ اور غربِ اردن میں اپنی فوجی کارروائیاں نسبتاً کم کر رکھی ہیں اور ایسا فروری میں ہونے والے جنگ بندی کے ایک سمجھوتے کے بعد ہوا ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں واقع اپنی اکیس خمیہ بستیوں کو خالی کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور یہ اس کے یکطرفہ منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت غزہ کے کچھ فلسطینی علاقوں سے یہودی خیمہ بستیوں کو ہٹا لیا جائے گا۔ تاہم غزہ میں اسرائیلی کنٹرول باقی رہے گا اور سرحدوں، فضائی حدود اور ساحلی علاقوں پر اسرائیل نظر رکھے گا جہاں تقریباً پندرہ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔
130808_quetta_blast_killing_zz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/08/130808_quetta_blast_killing_zz
کوئٹہ: نمازِ جنازہ میں دھماکہ، ڈی آئی جی سمیت تیس ہلاک
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس لائن میں نمازِ جنازہ کے دوران خودکش دھماکے میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت تیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی سال سے امن و امان کی صورتحال خراب ہے کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار کے مطابق آئی جی بلوچستان مشاق احمد سکھیرا نے ایک نیوز کانفرس میں بتایا کہ خودکش دھماکے میں پولیس کے اعلیٰ اہلکار ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ دھماکے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا:آڈیو تصاویر: کوئٹہ میں خودکش حملہ موجودہ حکومت کے دور میں شدت پسندی کے واقعات ’کہاں کی خوشیاں، شہر کی گلیاں لہو لہو ہیں‘ آئی جی بلوچستان کے مطابق ہلاک ہونے والے تیس افراد میں سے اکیس کی شناخت ہو گئی ہے اور یہ تمام پولیس کے افسران اور جوان ہیں۔ کوئٹہ پولیس کے ایک ترجمان میر زبیر محمود نے خبر رساں اداروں کو بتایا تھا کہ ’نمازِ جنازہ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب جمعرات کو پولیس لائن میں ایس ایچ او محب اللہ جان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔ ایس ایچ او محب اللہ جان ایک دن پہلے بدھ کو کوئٹہ میں ہی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس لائن میں نماز جنازہ کے وقت پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ جائے وقوعہ کو سکیورٹی اہلکاروں نے گھیر رکھا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور شہر میں شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور طالب علموں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ کوئٹہ میں کچھ عرصہ قبل جون میں دو دھماکوں اور فائرنگ کے واقعے میں کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر اور 14 طالبات سمیت 25 افراد ہلاک جبکہ اسسٹنٹ کمشنر اور ایف سی کے کپتان سمیت 25 سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے فوری بعد فاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کوئٹہ کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ جو لوگ دہشتگردی پر بضد رہیں گے، انھیں ویسا ہی جواب دیا جائے گا۔ اس کے چند دن بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے عہدہ سنبھالنے کےبعد کوئٹہ کے اپنے پہلے دور کے موقع پر کہا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں آئی بی اور آئی ایس آئی بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے صوبے کے وزیراعلیٰ اور گورنر کی مدد کریں اور مجرموں کو پکڑیں۔
050414_baghdad_bombing_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/04/050414_baghdad_bombing_zs
خود کش دھماکے، پندرہ ہلاک
عراقی وزارتِ داخلہ کے مطابق بغداد کے مرکزی علاقے میں دو خود کش کار بم دھماکوں میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دو گاڑیاں یکے بعد دیگرے وزارتِ داخلہ کے دفتر کی جانب جانے والی سڑک پر دھماکے سے اڑ گئیں۔ دھماکے کے وقت سڑک پر ٹریفک کا بہت رش تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق مرنے والوں میں پولیس اہلکار اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ تیس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ عراقی وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آوروں کا نشانہ جادریہ کے علاقے میں پولیس کے قافلے میں موجود سات گاڑیاں تھیں۔ جادریہ کے علاقے میں بغداد یونیورسٹی، آسٹریلیا کا سفارت خانہ اور مغربی باشندوں کے زیرِ استعمال رہنے والے ہوٹل واقع ہیں اور مزاحمت کار اس علاقے میں اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔ مزاحمت کار عراق میں گزشتہ اٹھارہ ماہ سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
150813_hrcp_karachi_killings_sh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150813_hrcp_karachi_killings_sh
’کراچی میں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں پانچ گنا اضافہ‘
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ایک اہلکار نےدعویٰ کیا ہے کراچی میں پچھلے ڈھائی برسوں میں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران مبینہ مقابلوں میں 348 افراد ہلاک ہوچکے ہیں ایچ آر سی پی کے سندھ کے لیے وائس چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ’بالکل اسی طرح جس طرح بلوچستان لوگوں کو مار کے پھینکا جارہا تھا۔ اب وہی طریقہ کار یہاں پر سندھ میں کراچی میں بھی رائج ہوگیا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’2012 میں مبینہ مقابلوں اور حراست کے دوران 118 اموات ہوئیں جو 2013 میں بڑھ کے 193 ہوگئیں اور 2014 میں ان ہلاکتوں کی تعداد 621 ہوگئی جبکہ اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ان مقابلوں میں 348 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے سیاسی کارکنوں کو اٹھارہے ہیں اور ان پر تشدد کرکے انھیں جان سے مارکے پھینک رہے ہیں۔‘ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں جاری آپریشن میں ایم کیو ایم کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے کراچی میں رینجرز کی قیادت میں جاری آپریشن کے نتیجے میں حکام کے مطابق حالیہ مہینوں میں سٹریٹ کرائم سے لے کر اغوا اور ٹارگٹ کلنگ تک کے واقعات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے مگر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات سے بحالی امن کی کوششوں پر پھر سے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
060511_inzi_tv_umrah_uk
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/05/060511_inzi_tv_umrah_uk
انضمام اور تھرڈ امپائر سے اپیل
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق نےآئی سی سی کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت میچ کے دوران ایمپائر کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کرتے ہوئے تھرڈ ایمپائر کو رجوع کیا جا سکتا ہے۔
انضمام کے مطابق اس سے میچ کے دوران درست فیصلے کرنے میں بہت مدد ملےگی۔ فیصلے سے متعلق شکوک و شبہات ختم ہوں گے اور کھلاڑی بھی اپنے متعلق ہونے والے فیصلے پر مطمئن ہوں گے۔ انضمام نے کہا ابھی تو یہ طریقہ کار چمپئنز ٹرافی میں متعارف کیے جا نے کی امید ہے اور ’اگر یہ کامیاب ہوا تو ہی مستقبل میں اس کا استعمال کیا جائے گا تاہم میرے نزدیک یہ اچھا اقدام ہے۔‘ انضمام اس سے پہلے متعدد بار اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ رن آؤٹ کی طرح دیگر فیصلوں میں بھی ٹی وی ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے۔ انضمام نے کہا کہ انگلینڈ کے دورے کے لیئے لگنے والے کنڈیشنگ کیمپ میں 20 سے 25 کھلاڑیوں کو بلانے کا امکان ہے اور پاکستان اے ٹیم میں حال ہی میں کارکردگی دکھانے والے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کا اس کیمپ میں جائزہ لیا جائے گا۔ اطلاع ہے کہ کیمپ کے کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کا اجلاس ہفتے کے روز لاہور میں ہو رہا ہے۔ انضمام الحق کے مطابق کیمپ دو مرحلوں میں ہو گا اور پہلے مرحلے میں فٹنس پر توجہ رہے گی۔ انہوں نہ کہا کہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی دوسرے مرحلے میں کیمپ میں شامل ہوں گے۔ فیلڈنگ کوچ کی بابت پاکستانی ٹیم کے کپتان کا کہنا ہے کہ جونٹی روڈز کو بلانا اچھا اقدام ہے کم عرصے ہی کے لیے صحیح اس کی تربیت سے کچھ نا کچھ فائدہ تو ٹیم کو ضرور ہو گا۔ اپنی ذاتی فٹنس کے متعلق انضمام کا کہنا تھا کہ وہ فٹ ہیں اور انگلینڈ کے دورے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کچھ مہربان ایسے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ میں کرکٹ سے الگ ہو جاؤں لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے میرا کام ہے کہ میں کھیلتا رہوں اور بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہوں۔ فاسٹ بالر شعیب اختر کی فٹنس کی بابت انضمام پُر امید ہیں کہ وہ دورہ انگلینڈ کے لیے فٹ ہو جائیں گے اور یہ ٹیم کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ پاکستان کو تین بڑے ایونٹس کی میزبانی ملنے کوخوش آئند قرار دیتے ہوئے انضمام نے کہا کہ اس سے ملک میں کرکٹ کا اور کرکٹ سٹیڈیمز کا معیار بہتر ہو گا۔ انضمام الحق الیون اور ایشین الیون کے درمیان 18 اور 19 مئ کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں دو ایک روزہ میچز کی تجویز ہے۔ انضمام کے مطابق ان میچز کو آرگنائز کرنے کے درپردہ مقصد کرکٹ سے زیادہ عمرے کی سعادت حاصل کرنا ہے اور ’میری خواہش ہے تمام ٹیم وہاں جائے تاکہ سب عمرہ کر سکیں۔‘
150624_hungary_suspends_key_eu_migrant_law_mb
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150624_hungary_suspends_key_eu_migrant_law_mb
’ہنگری پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت دینے سے انکاری‘
ہنگری نے یورپی یونین کے اس اہم قانون پر عمل درآمد معطل کر دیا ہے جس کے تحت اسے ان پناہ گزینوں کو واپس ملک میں داخلے کی اجازت دینی ہے جو ہنگری میں آنے کے بعد کسی دوسرے ملک چلے گئے تھے۔
حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کا مسئلہ یورپی یونین میں متنازع فیہ رہا ہے حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہنگری پر غیر قانونی تارکین وطن کا زبردست بوجھ ہے۔ ہنگری کی حکومت نے حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ تارکین وطن کو روکنے کے لیے اپنی سرحد پر دیوار بنانا چاہتا ہے۔ ہنگریئن حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال اب تک غیر قانونی طور 60 ہزار سے زیادہ افراد ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ ہنگری حکومت کے ترجمان نے منگل کو کہا کہ ’ہنگری نے اپنی اہلیت کا استعمال کیا ہے۔ حالات تیز کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان ابتر حالات میں ہنگری کو یورپی یونین سے پہلے کوئی فیصلہ کرنا ہے۔‘ ناقدین کا خیال ہے کہ منگل کو کیا جانے والا اعلان ہنگری کی حکومت کی جانب سے پناہ گزین مخالف تازہ بیان بازی ہے یورپی یونین نے ہنگری کی حکومت سے اس بارے میں فوری وضاحت طلب کی ہے۔ یورپی کمیشن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ہنگری نے کہا ہے کہ پناہ گزین کو واپس لینے کو معطل کیے جانے کے فیصلے کی تکنیکی وجہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا: ’کمیشن نے تنکیکی خامیوں کے بارے میں ہنگری سے فوری وضاحت طلب کی ہے۔‘ پناہ گزینوں کے بارے میں یورپی یونین کے ڈبلن ریگولیشن کے ایک اصول کو ہنگری کی حکومت نے معطل کر دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزین کی درخواست کو جانچنے کی ذمہ داری اس یورپی یونین کے ملک پر ہے جہاں پناہ گزین سب سے پہلے پہنچا تھا۔ اگر پھر پناہ گزین دوسرے یورپی ملک چلاجاتا ہے تو انھیں پہلے داخل ہونے والے ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے تاکہ وہاں ان کے پناہ حاصل کرنے کے دعوے کی جانچ ہو سکے۔ خیال رہے کہ ڈبلن ضابطہ یورپی یونین میں تنازع کا موجب رہا ہے اور یہ نظر ثانی کے لیے زیر غور ہے۔ رواں سال جنوری اور مارچ کے درمیان ہنگری کو پناہ حاصل کرنے والوں کی 32810 نئی درخواستیں موصول ہوئیں فن لینڈ اور جرمنی ان متعدد ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے پناہ گزینوں کو یونان واپس بھیجنا اس وقت بند کر دیا جب یونان نے شکایت کی کہ ان کے یہاں پناہ حاصل کرنے والوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ منگل کو کیا جانے والا اعلان ہنگری کی حکومت کی جانب سے پناہ گزین مخالف تازہ بیان بازی ہے۔ اس نے پہلے ہنگری نے سربیا کی سرحد پر 175 کلومیٹر لمبی دیوار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ہنگری میں حکومت کی جانب سے ایک مہم نظر آئی جس میں لکھا تھا کہ ’اگر آپ ہنگری آتے ہیں تو ہنگری کے باشندوں کے روزگار نہ چھینیں۔‘ اس پوسٹر مہم پر بھی تنازع اٹھا تھا جسے حکومت کی جانب سے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کہا جا رہا ہے اور ملک میں امیگریشن کے سخت قانون متوقع ہیں۔ ملک میں امیگریشن کے سخت قانون متوقع ہیں رواں سال جنوری اور مارچ کے درمیان ہنگری کو پناہ حاصل کرنے والوں کی 32810 نئی درخواستیں موصول ہوئیں جو کہ جرمنی کے بعد کسی بھی یورپی ملک میں داخل کی گئی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
140424_hrcp_report_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140424_hrcp_report_fz
طالبان سے مذاکرات پر انسانی حقوق کمیشن کو تشویش
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں ساڑھے آٹھ سو افراد ہلاک ہوئے اور جبری گمشدگیوں کے نوے واقعات رپورٹ ہوئے۔
انسانی حقوق کی صورت حال پر کمیشن ہر سال اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے رپورٹ کے مطابق بلوچستان سے 129 تشدد سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی ہی تھیں۔ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے کہا کہ دو ہزار تیرہ کی سب سے خوش آئند بات ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک اقتدار کی منتقلی تھی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومتی عدم دلچسپی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے معاملات کو پورے منظر نامے میں جگہ نہیں دی جا رہی ۔ انھوں نے حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ طالبان کو عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کی قیمت پر رعایتیں دی جائیں گی۔‘ ملک میں ہونے والی قانون سازی کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا کہ پچھلے سال پارلیمان نے دو درجن کے قریب قانون منظور کیےگئے اورآٹھ صدارتی آرڈیننس جاری کیے گئے جن میں تحفظ پاکستان آرڈیننس بھی شامل ہے ۔ سکیورٹی کے سلسلے میں بنائے گئے اِن قوانین کے باوجود سن دو ہزار تیرہ کے پہلے چند ہفتوں کے دوران فرقہ ورانہ تشدد کے مختلف واقعات میں صرف بلوچستان میں دوسو شیعہ مسلمان ہلاک ہوئے جن کا تعلق ہزارہ بِرادری سے تھا۔ جبکہ اسی سال دیگر دو سو فرقہ ورانہ حملوں میں 687 افراد اپنی جانوں سے گئے۔ یوں تو فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات ملک بھر میں پیش آئے لیکن سب سے زیادہ کوئٹہ ، کراچی ، پشاور ، ہنگو اور پاراچنار اس کی زد میں رہے ۔ گذشتہ برس کے دوران سات احمدیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا اور لاہور میں مسلمانوں کے ایک مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کی بستی جوزف کالونی پر حملہ کیا اور سو گھر جلا دیئے۔ جبکہ توہین مذہب کے الزام میں سترہ احمدیوں ، تیرہ عیسائیوں اور نو مسلمانوں کو سزا سُنائی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق مختلف جرائم کے ارتکاب میں کم از کم227 افراد کو سزائے موت سُنائی گئی اگرچہ اُن پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یورپی یونین کی جانب سے سزائے موت دینے پر تشویش کا اظہار کیاگیا تھا جس کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کا سلسلہ رکا ہوا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال 869 عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ آٹھ سو سے زیادہ خواتین نے خودکشیاں کیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران گیارہ صحافی ہلاک ہوئے اور ورلڈ فریڈم انڈیکس میں ایک سو انہتر ممالک میں پاکستان ایک سو اُنسٹھ ویں نمبر پر آگیا ۔ جبکہ انٹرنیٹ کی آّزادی کو بھی صلب کیاگیا اور یوٹیوب سمیت دیگر ویب سائیٹوں کو بھی بلاک کیا گیا۔
130513_election_commissioner_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/05/130513_election_commissioner_sa
’بےضابطگیاں ثابت ہونے پرمناسب احکامات ہوں گے‘
سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی اور دیگر شکایات سُنے کے لیے ملک بھر میں چودہ الیکشن ٹربیونل قائم کردیئےگئے ہیں اور پولنگ کے دوران بےضابطگیاں ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن مناسب احکامات جاری کرے گا۔
انتخابی نتائج میں تاخیر کی وجہ سے دھاندلی کے شکوک شہبات پیدا ہو رہے ہیں پیر کے روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کسی پولنگ سٹیشن پر ہونے والی بے ضابطگیوں پر یہ ٹربیونل وہاں پر دوبارہ پولنگ کے احکامات بھی جاری کرسکتے ہیں۔ اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹربیونل ایک سو بیس روز کے اندر اندر شکایات سے متعلق فیصلہ سُنائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک بھر سے پولنگ کے دوران بےضابطگیوں سے متعلق شکایات نہیں ملیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بدعنوانی ثابت ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن حلقے میں دوبارہ انتخابات کا بھی حکم دے سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 میں 43 پولنگ سٹیشن پر عام انتخابات دس روز کے اندر اندر کروا دیے جائیں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اب تک 90 فیصد اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج موصول ہوچکے ہیں جبکہ باقی ماندہ نتائج رات گئے تک موصول ہو جائیں گے۔ ادھر الیکشن کمیشن نے ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے چاروں صوبوں کے چیف الیکشن کمشنروں سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد غیر سرکاری نتائج کو مکمل کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائیں۔ ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن شیر افگن کی طرف سے صوبائی چیف الیکشن کمشنروں کو لکھے گئے خط میں کہاگیا ہے کہ کمپپوٹرائزڈ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا اس لیے روایتی طریقے سے ہی انتخابی نتائج کو فیکس کے ذریعے بھیجا جائے تاکہ ان انتخابات کے نتائج کا اعلان جلد از جلد کیا جاسکے۔ ریٹرنگ افسران کی طرف سے انتخابی نتائج میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں اور بلخصوص اُمیدواروں میں دھاندلی کے شکوک شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صوبائی الیکشن کمشنروں نے اپنے اپنے علاقوں میں ریٹرنگ افسران کو ہدایت کریں کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے انتخابی نتائج کو حتمی شکل دے کر فوری طور پر الیکشن کمیشن کو بھجوائیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں پولنگ کو ہوئے اڑتالیس گھنٹے ہوچکے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے اب تک ڈیڑھ سو سے زائد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج کا غیر سرکاری اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی اور لاہور میں انتخابات کے دوران دھاندلی کی شکایت کی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد میں دھاندلی کے خلاف دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان انتخابات کے دوران ریٹرنگ افسران کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹس کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
051017_toll_rise_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051017_toll_rise_zs
ہلاک شدگان کی تعداد چّون ہزار
پاکستان میں آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد چوّن ہزار ہو گئی ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے سے صرف کشمیر میں ہی چالیس ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے صوبہ سرحد میں چودہ ہزار افراد کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق کی جا چکی ہے۔ ادھرمتاثرہ علاقوں میں آسمان صاف ہوتے ہی دوردراز علاقوں میں امداد پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر پروازوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ پروازیں گزشتہ دو دن سے وقفے وقفے سے معطل کی جاتی رہی ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار ماییک وولرج کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امدادی ٹیموں پر اس دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں میں تیزی لائیں کیونکہ زلزلے کے نو دن بعد کھلے آسمان تلے گزرتی ہر رات کے ساتھ زخمیوں کے زندہ بچنے کا امکان کم ہو رہا ہے اور بے گھر افراد کے سردی کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ زلزلےسے شدید متاثر ہونے والے بیس فیصد علاقہ اب بھی امداد سے محروم ہے جبکہ اس قدرتی آفت سے بیس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ موسم کے بہتری سے اب یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ان علاقوں تک رسائی ہو سکے گی جہاں سڑکیں بند ہونے کے سبب ایک ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی امداد نہیں پہنچ پائی ہے۔ مظفرآباد میں ایک عارضی ہسپتال بھی قائم کیا جا رہا ہے اور امریکی ٹیمیں جلد ہی دوردراز کے علاقوں میں موبائل ہسپتال کی سہولت بھی فراہم کرنے والی ہیں تاکہ ان علاقوں کے زخمیوں کا موقع پر ہی علاج کیا جا سکے۔
041102_dutchdirector_killed_nj
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/11/041102_dutchdirector_killed_nj
ہالینڈ کےمتنازعہ فلمساز کا قتل
ہالینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ اسلامی کلچر پرمتنازعہ فلم بنانے والے ہالینڈ کے فلمساز تھیو وان گوف کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے نزدیک ہی پارک سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔پولیس کے مطابق اس شخص کے پاس ہالینڈ اور مراکش دونوں ملکوں کی شہریت ہے۔ وان گو کو ان کی فلم’ سبمشن ‘ ہالینڈ کے ٹی وی پر دکھائے جانے کے بعد سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ فلم میں اسلامی معاشرے میں عورتوں کے خلاف تشدد دکھایا گیا تھا۔یہ فلم آزاد خیال سیاسی رہنما ایان حرسی علی کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔وہ ایک صومالی بناہ گزین ہیں اور والدین کی مرضی سے ہونے والی اپنی شادی کو توڑ چکی ہیں۔ اس فلم کی نمائش کے بعد سے وہ پولیس کے تحفظ میں ہیں۔انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور انہوں نے اسلام سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وان گوف پر ایک شخص نے اس وقت حملہ کیا جب وہ سائکلنگ پر نکلے تھے حملہ آور نے مراکش کاروایتی لباس پہن رکھا تھا۔ پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے بعد اس شخص کو گرفتار کیا گیاجو اس وقت زخمی حالت میں اسپتال میں ہے۔ فلم ’سبمشن ‘ ایک ایسی مسلمان عورت کی کہانی ہے جس کی مرضی کے خلاف زبردستی شادی کر دی گئی ، شوہر نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا اور انکل نے اس کے ساتھ زبردستی کی ۔ فلم پر ہالینڈ کے مسلمانوں نے اعتراض کیا تھا۔ ہا لینڈ میں تقریباً ایک ملین مسلمان رہتے ہیں۔ وان گوف کو اکثر قتل کی دھمکیاں ملتی تھیں لیکن انہوں نے ان کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔
061011_music_classes_protests
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/10/061011_music_classes_protests
موسیقی کی کلاسز، احتجاج
پنجاب کی یونیورسٹی میں موسیقی کی پوسٹ گریجویٹ کلاسیں شروع کرنے کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ کے احتجاج میں شدت آتی چلی جارہے اور بدھ کو لاہور میں طلبہ نے دو مقامات پر ٹریفک بلاک کرکے احتجاجی مظاہرہ کیا اور نعرے بازی کی پولیس کی بھاری نفری نے ٹریفک بحال کرائی۔
پنجاب یونیورسٹی میں دو تین روز پہلے ایم اے میوزیکالوجی کی کلاسوں کا اجراء ہوا ہے۔ یہ کلاسیں پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس کی بجائے الحمرا حال میں پڑھائی جارہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹس ونگ، اسلامی جمعیت طلبہ کا جس کا پنجاب یونیورسٹی میں خاصا اثر رسوخ ہے موقف ہے کہ 'موسیقی کی کلاسوں کا اجراء غیر اسلامی اور نظریہ پاکستان کےخلاف ہے۔‘ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے تقریبا ایک ڈیڑھ ماہ قبل موسیقی کی پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کے اجراء کا اعلان کیا تھا جس کے ساتھ ہی پنجاب یونیورسٹی میں اس طلبہ تنظیم کے کارکنوں نےاحتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور ہر دوسرے تیسرے روز کسی نہ کسی شکل میں احتجاج کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ادھر یونیورسٹی انتظامیہ نے ہر حال میں میوزک کی کلاسوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیاہے اخبار کے اشتہارات کے بعد طلبہ کو ٹیسٹ انٹرویو کے بعد میوزیکالوجی کی کلاس میں داخلے دیے گئے اور نواکتوبر سے کلاسیں شروع کی جاچکی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے چند کارکنوں نے الحمرا کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے مظاہرے میں حصہ لینے والے طلبہ کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے تین طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کردیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے احتجاج کو بلا جواز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ موسیقی کی کلاسوں کے اجراء کو جان بوجھ کر غلط رنگ دیا جارہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں موسیقی کی کلاسوں کی مخالفت کرنے والی اسلامی جمعیت طلبہ مذہب کے بارےمیں نسبتا سخت موقف رکھتی ہے۔ اس تنظیم کے عہدیدار اور کارکن عام طور پر یونیورسٹی کے پارکوں میں لڑکا لڑکی کے اکیلے بیٹھنے پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’موسیقی اور پرفارمنگ آرٹ کے تحت یونیورسٹی میں غیراسلامی اور مغربی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘ ایک نجی ادارے لاہور گرائمر سکول کی وائس پرنسپل گل رخ کا کہنا ہے موسیقی سمیت کوئی بھی پرفارمنگ آرٹ انسان کے اندر توازن پیدا کرتا ہے اسی لیے ان کے سکول میں ابتدائی کلاس سے ہی بچوں کو میوزک پڑھایا جاتا ہے۔ میوزک کی ایک استاد شاہدہ حسین کا کہنا ہے کہ ’موسیقی کوئی بری چیز نہیں ہے یہ انسان کو اچھا بناتا ہے اور اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتی ہے۔‘ یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد خان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کے تعلیمی سیشن معمول کے مطابق جاری رہیں گے اور کسی کو رکاوٹ ڈالنےنہیں دی جائے گی۔
151017_karachi_police_encounter_zh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/10/151017_karachi_police_encounter_zh
پولیس مقابلے میں آٹھ ’شدت پسند‘ ہلاک، ایس ایچ او زخمی
کراچی پولیس کے مطابق منگھوپیر کے علاقے میں سنیچر کو ایک مقابلے کے دوران آٹھ شدت پسند مارے گئے ہیں۔
منگھو پیر تھانے کے ہیڈ محرر نے بتایا کہ مخبر خاص کی اطلاع پر پولیس کی ایک ٹیم نے منگھو پیر میں ایک مکان پر چھاپہ مارا پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں مقامی تھانے کے ایس ایچ او اور ان کا ڈرائیور زخمی بھی ہوا ہے۔ منگھو پیر تھانے کے ہیڈ محرر عبدالوحید نے بتایا کہ ’مخبر کی اطلاع پر پولیس کی ایک ٹیم نے منگھو پیر میں ایک مکان پر چھاپہ مارا جہاں یہ دہشت گرد ایک کمپاؤنڈ میں روپوش تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ چھاپے کے دوران مقابلے میں آٹھ مشتبہ شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ ان کے قبضے سے ہتھیار، دستی بم اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ’اس مقابلے میں دہشت گردوں کی فائرنگ کی زد میں آکر منگھو پیر تھانے کے ایس ایچ او غلام حُسین کورائی اور ان کے ڈرائیور الطاف بھی زخمی ہوئے ہیں جنھیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔‘ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام افراد پولیس پر حملوں اور ان کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔ تاہم اس بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ ان کا تعلق کس تنظیم یا گروہ سے ہے۔