text
stringlengths
332
578k
فی الحال ، ڈیجیٹلائزیشن اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کی وجہ سے ، روایتی کاروبار کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اگر وہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کو قبول کرتے ہیں تو انہیں زیادہ فائدہ ہوگا۔ "موبائل کا سال" کئی سالوں سے ڈیجیٹل دنیا میں چرچا رہا ہے۔ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ سال 2014 مسلسل تیسرا "موبائل کا سال" تھا۔ اگلے سالوں سے ، 2016 سے لیکر ، لائف ہیک کے مطابق بھی اس کی تعریف موصول ہوئی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ موبائل براؤز کرنے کے لئے استعمال ہونے والے موبائل ڈیوائسز کے بتدریج عروج کو بڑھتا ہے اور نہ کہ کسی خاص سال کو۔ سیمالٹ کے کسٹمر سکس مینیجر ، اینڈریو ڈہن ، مقامی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی لوازمات اور اس کی موجودہ اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ: فیس بک کا تخمینہ ہے کہ 2016 میں اشتہارات کی آمدنی 26 ارب ڈالر تھی۔ اس میں 80 فیصد تک بننے والے موبائل آلات (21.98 بلین ڈالر) پروگرام میں ڈیجیٹل ڈسپلے کے اشتہار کا 69 فیصد تک موبائل آلہ جات کا پتہ لگاتا ہے۔ 500 ملین سے زیادہ صارفین کے ساتھ ، انسٹاگرام تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشرتی نیٹ ورک کی حیثیت رکھتا ہے اور فیس بک مارکیٹنگ میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ تروی تجزیات ، ای مارکٹر پوسٹ ، ریاستہائے متحدہ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں سے حاصل شدہ ڈیٹا 2017 میں موبائلوں پر زیادہ زور دینے کے ساتھ اشتہار پر زیادہ خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسمارٹ فونز کے مالک ہیں۔ امریکہ میں اسی فیصد انٹرنیٹ صارفین کے پاس کومسکور کے نتائج پر مبنی اسمارٹ فون موجود ہے۔ اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ کا سلسلہ جاری رکھنے کی کچھ وجوہات یہ ہیں کہ ایپل نے آئی فون کے لئے ایک سی سیریز تیار کی تھی ، اینڈرائیڈ کے پاس کم آخر والے اسمارٹ فون موجود ہیں جو زیادہ تر کیریئر دے دیتے ہیں ، اور ایک مضبوط دوسرے ہاتھ والے اسمارٹ فون مارکیٹ کی جگہ ہے۔ کاروبار سے فائدہ اٹھانے کے کچھ مواقع میں شامل ہیں: مقامی اہداف کے ل Google گوگل ایڈورڈز اور فیس بک اشتہارات۔ کسی خاص جگہ پر صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے اسنیپ چیٹ کے فلٹرز۔ ییلپ ایڈورٹائزنگ ییلپ پر حریف پروفائلز میں کاروبار رکھنے میں معاون ہے۔ انسٹاگرام کی نمو اور مقبولیت۔ روایتی کاروباروں کو ڈیجیٹل ٹرین سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ بصورت دیگر ، اعلی کھلاڑی یقینی طور پر انہیں باہر لے جائیں گے۔ ایمیزون جب لوگ کاروبار اور مارکیٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ، ایمیزون پلیٹ فارم ہمیشہ اپنی گفتگو میں تبدیل ہوتا ہے۔ 80 ملین سے زیادہ صارفین ایمیزون کے بنیادی کاروبار کی رکنیت لیتے ہیں۔ ایمیزون کے لئے سالانہ خریداری کی فیس 8 ارب ڈالر ہے ، یہ وزیر اعظم کے اخراجات کا محاسبہ نہیں ہے۔ ایمیزون بڑے کاروباروں کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک چھوٹا یا مقامی کاروبار اتنی بڑی کمپنیوں سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ بہت زیادہ ممکن ہے لیکن ان کے مارکیٹرز سے بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ چھوٹے اور مقامی ڈیجیٹل اشتہارات کو کیا کرنا چاہئے وہ چار شعبے ہیں جن میں کاروبار کو ڈیجیٹل دنیا سے بچنے کے ل into تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام کاروباروں کے ل businesses کام نہیں کرسکتے ہیں ، لیکن وہ ابتدائی نقطوں کے طور پر بہترین کام کرتے ہیں۔ 1. فیس بک ، یا انسٹاگرام کا استعمال کرتے ہوئے مقام پر مبنی اشتہار۔ 2. فائدہ اٹھانا جو صارفین کو آن لائن خریداری جیسے سیملیس ، انسٹاکارٹ ، کیویر اور پوسٹ میٹس کو آرڈر کرنے اور خریدنے میں مدد کرتا ہے۔ 3. اسٹور میں بہتر تجربات یا ایسے مقامات کی فراہمی جو صارفین کو آسان خریداری کے ساتھ پیش کریں۔ 4. ای کامرس چینلز بنائے۔ ان کے ذریعہ ، کسی کو فروخت میں اضافہ کرنے کے ل social سوشل میڈیا (فیس بک) کے ذریعے دوبارہ نشانہ لگانے جیسے ٹولوں کو فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔ نتیجہ اخذ کرنا سخت مقابلہ کی وجہ سے چھوٹے کاروباروں کے لئے یہ آسان نہیں ہے۔ امید ہے کہ ، Semalt سے حاصل کردہ بصیرت نے کچھ چیزوں پر روشنی ڈالی جو وہ متعلقہ رہنے اور فروغ پزیر رہنے کے ل to کرسکتے ہیں۔
لاہور (نیا ٹائم ویب ڈیسک)سائنسدانوں نے انسانی مدافعتی نظام اور پھیپھڑوں کے خلیوں کو نقصان پہنچانے والے ایک ہائبرڈ وائرس کو دریافت کیا ہے۔یہ پہلاموقع ہے جب سائنسدانوں نے نظام تنفس کو ہدف بنانے والے 2 عام وائرسز کے مدغم کے بعد بننے والے ایک ہائبرڈ وائرس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ پتا چلتا ہے کہ بیک وقت 2 بیماریوں سے متاثر مریضوں کی حالت بدتر ہو جاتی ہے ، دنیا بھر میں ہر سال انفلوائنزا اے وائرس کے باعث 50 لاکھ افراد ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں ، جبکہ آر ایس وی نامی وائرس 5 سال سے کم عمر بچوں یا معمر افراد کے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے ۔ سکاٹ لینڈ کی ایم آر سی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق نظام تنفس کے وائرسز عموماً جسم کے کسی ایک ہی حصے کو ہدف بناتے ہیں، تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کس طرح یہ انفیکشن ایک دوسرے کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ اس کو جاننے کیلئے سائنسدانوں نے انسانی پھیپھڑوں کے خلیات کو دونوں وائرسز سے دانستہ طور پر متاثر کر کے دریافت کیا کہ انسانی جسم میں دونوں وائرسز نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں مدغم ہوکر ایک ہائبرڈ وائرس کی شکل اختیار کرلی۔ محققین کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ وائرس کا مشاہدہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ، ہم 2 مختلف اقسام کے وائرسز کی بات کررہے ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر نئی قسم کا وائرس بناتے ہیں ۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ہائبرڈ وائرس ان خلیات کو بھی متاثر کرتے ہیں جن میں انفلوائنزا کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔یہ اینٹی باڈیز انفلوائنزا کے پروٹینز سے جڑنے میں بھی کامیاب رہیں تاہم وائرس نے آر ایس وی پروٹینز کو خلیات کو متاثر کرنے کیلئے استعمال کیا اور وائرسز کو مدافعتی نظام پر حملہ کرنے میں بھی مدد ملی ، جبکہ وہ زیادہ بڑے پیمانے پر پھیپھڑوں کے خلیات تک پہنچنے کے بھی قابل ہوگئے۔ محققین کا ماننا ہے کہ اس وجہ سے کچھ کیسز میں انفلوائنزا کی شدت سنگین ہو جاتی ہے اور مریض کو وائرل نمونیا کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ واضح رہے انفلوائنزا وائرس عموماً ناک، حلق اور سانس کی نالی کے خلیات کو متاثر کرتا ہے جبکہ آر ایس وی پھیپھڑوں کے اندر تک جاتا ہے، بیماری جتنی گہرائی میں پہنچے گی اس کی شدت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اب محققین کی طرف سے ایسے مریضوں پر تحقیق کی جائے گی جو بیک وقت 2 بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں تاکہ نتائج کی تصدیق کی جا سکے ۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا دیگر وائرسز بھی ایسے ہی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں یا نہیں۔
مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ==تعلیم اور خدمات== ... آفت عام انسانوں کی زندگی میں "آفتیں" اور عاشق مزاجوں کی زندگی میں "عورتیں" کبھی بول کر نہیں آتیں !!! زندگی بھلی چ... ان سے آیا نہ گیا ہم سے بلایا نہ گیا فیس بک گروپ "قوسِ قزح" میں 30 اگست 2016 کو عالمی سطح پر ایک فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرہ میں میر تقی میر کی مشہور... کاش میں مولوی ہوتا! 15 جون 2019 بڑے افسوس کی بات ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے بعض فارغین ایک جذباتی مضمون "کاش میں مولوی نہ ہوتا" کو بہت جذبے کے ساتھ... جملے باز 17 ستمبر 2017 ہند کی سیاست میں لفظ "جملہ" ایک اصطلاح بن چکا ہے۔ اور یہ اصطلاح اس وقت "ایجاد" ہوئی جب حالیہ حکومت ن... شیر شاہ آبادی ہا تحریر: ظفر شیرشا ه بادی، کٹیہار ملاحظہ :اس مضمون میں شیر شاہ آبادیوں کے تعلق سے کچھ معلومات میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ہیں... #رافضی_رضاکار ایک عرصے سے سلمان و بن سلمان پر جو لوگ ستّو پانی باندھ کر طوفان بدتمیزی کا محاذ کھولے ہوئے ہیں، آج رافضیت کے ہاتھوں بہت معمولی قیمت پر صحا... غلامی کئی روز سے مسلسل مختلف گروپوں میں یہ پیغام نشر ہورہا ہے کہ بابری مسجد فیصلے کی وجہ سے کسی قسم کا بیان آگیا تو ہماری واٹ لگ جائے گی! اس لیے... #10YearsChallenge سال 2019کی شروعات ہوتے ہی سوشل میڈیا میں گزشتہ دس سالوں کی ایک جھلکی دکھانے کے لیے ایک ہیش ٹیگ چلا۔ تو مجھے بھی دس سال قبل کی ا... عزت عزت اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے! جو دیگر نعمتوں کی طرح ہی ہے۔ اگر اس کی ناقدری ہوئی تو یہ کسی بھی لمحے چھن سکتی ہے! اس لئےعقل مندوں کے...
چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ بیجنگ ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کی حمایت کرتا رہے گا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے شینہوا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے روس کے صدر ولادیمیر پوتین ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ ماسکو کی خودمختاری اور سلامتی کی حمایت کرتا رہے گا۔ اطلاعات کے مطابق صدر شی جن پنگ نے پوتین سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین روس کی خودمختاری اور سلامتی سے متعلقہ امور میں مشترکہ طور پر تعاون کرسکتا ہے۔ 24 فروری کو روس کی طرف سے یوکرائن میں فوجی آپریشن کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ دوسرا ٹیلیفونک رابطہ تھا۔ چین اس قبل یوکرائن میں ماسکو کے فوجی آپریشن کی مذمت کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے ہونے والی عالمی تبدیلیوں اور بحران کے تناظر میں دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے مشترکہ تعلقات کو چینی صدر نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ بیجنگ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ واضح رہے کہ چین روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ برس تجارتی حجم 147 ارب ڈالر تھا۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری کی چلبلی اداکارہ و ماڈل اقراء عزیز آج اپنا 24 واں جنم دن منا رہی ہیں اس موقع پر شوہر یاسر حسین نے بیوی کیلئے محبت بھرا پیغام شیئر کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے معروف اداکار، ہدایتکار اور میزبان یاسر حسین نے اپنی بیوی اقراء عزیز کی 24 ویں سالگرہ منانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کردیں۔ یاسر حسین نے فوٹو شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام پر تصاویر کے ساتھ ایک طویل تحریر بھی شیئر کی جس میں انہوں نے اپنی اہلیہ اقراء عزیز سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے محبت بھرا پیغام دیا۔ یاسر حسین نے اپنی پوسٹ میں اقراء عزیز کو بیوی نمبر 1 قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘محبت کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ محبت کی نشانی کبیر حسین ہمارے ساتھ ہے’۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ شادی کی پیشکش، پھر شادی اور بچے تک آپ خوبصورت اور میں بےباک رہا اور ہر سال آپ بڑھی ہونے کے بجائے چھوٹی ہوجاتی ہیں، زندگی ایسے ہی گزرتی رہے تو میں بہت خوش ہوں۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا PCPorn.Games? PCPorn.Games میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے PCPorn.Games دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے PCPorn.Games? PCPorn.Games کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر PCPorn.Games, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر PCPorn.Games? آپ ادا کر سکتے ہیں PCPorn.Games دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, PCPorn.Games بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ PCPorn.Games کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, PCPorn.Games فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے PCPorn.Games پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے PCPorn.Games? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے PCPorn.Games کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
تفصیلات کے مطابق عوامی سواری موٹر سائیکل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا، موٹرسائیکل کی قیمتوں میں 1600سے 2000روپے تک اضافہ کیا گیا، ہنڈا 125 کے دام 2000روپے تک بڑھادیئے۔ ہنڈا 125سی سی ایک لاکھ31ہزار900 روپے کا کردیا گیا۔ ہنڈا 70 سی سی موٹر بائیک بھی 1600 روپے تک مہنگی کردی گئی۔ 70 سی سی موٹر سائیکل 79ہزار500 روپے کی کردی گئی۔ ہنڈا کمپنی نے قیمتوں میں اضافے کا اطلاق کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں: نئی 1000 سی سی گاڑی پاکستان میں آنے کو تیار یاد رہے کہ ہنڈا نے یکم اگست 2020 کو بھی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں تبدیلی کی تھی۔ ہنڈا CD70 کی قیمت 1 ہزار روپے اضافے کے ساتھ 76,900 روپے سے بڑھا کر 77,900 روپے ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ‏CG-125 اب 1,29,900 روپے کی ہو گئی تھی جبکہ اس کی پرانی قیمت 1,28,900 روپے تھی۔ CG-125S اور CG-125SE کی قیمتوں نے 2,000 روپے کا اضافہ دیکھا گیا تھا جو 1,54,900 روپے اور 1,56,900 روپے ہو گئی تھی۔
بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، تفتیش کے دوران ایلون مسک نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر لگائے جعلی اکاؤنٹس کی تعداد غلط بتانے کے الزامات کی پشت پناہی نہیں کی۔ ٹوئٹر کے وکیل بریڈلی ولسن نے ڈیلاویئر جج کو بتایا کہ ’ایلون مسک کے ملازم، دو ڈیٹا سائنٹسٹس سے حاصل کی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جولائی کے آغاز میں ہی اندازہ لگایا تھا کہ پلیٹ فارم پر جعلی اکاؤنٹس کی تعداد 5.3 فیصد اور 11 فیصد ہے‘۔ وکیل کا کہنا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا تجزیہ ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ جس سے ہم یہ بتا سکیں کہ ایلون مسک نے کس بنیاد پر ٹوئٹر ڈیل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ٹوئٹر کے وکلاء ایلون مسک سے دھوکہ دہی کے مقدمے میں تفتیش کیلئے تیار معروف امریکی کمپنی ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک سے ٹوئٹر کے وکلاء سے تفتیش کے لیے تیار ہیں۔ البتہ، ایلون مسک اور ان کے وکیل نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ ایلون مسک اور ٹوئٹر کے درمیان عدالتی جنگ جاری ہے، ٹوئٹر کی جانب سے ایلون مسک پر 54.20 ڈالرز فی شیئرکےحساب سے کی گئی ٹوئٹر ڈیل کو پورا کرنے کے لیے عدالت کی مدد سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگلے ماہ 17 تاریخ سے ولیمنگٹن میں ڈیلاویئر کی کورٹ آف چانسری میں اس مقدمے کی سماعت کا آغاز ہونے والا ہے۔
اسلام آباد: ترجمان وزارت خزانہ نے سعودی عرب سے تیل ادھار لینے کی سہولت سے متعلق وضاحتی بیان جاری کردیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب سے 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا تیل ادھار ملنےکی سہولت ایک سال کے لیے تھی جس کی تجدید ہوسکتی تھی۔ ترجمان وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی سہولت رواں سال 9 جولائی کو ختم ہوگئی ہے اور اس معاہدے میں توسیع کی درخواست سعودی عرب کے ساتھ زیر غور ہے۔ پاکستان کیلئے سعودی عرب کا پیکج کیا تھا؟ واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 12 ارب ڈالر کا امدادی پیکج دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیر خزانہ اسد عمر اور سعودی وزیر خزانہ محمد عبداللہ الجدان کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے تھے جس کے مطابق سعودی عرب نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ وہ پاکستان کے اکاؤنٹ میں 3 ارب ڈالر ایک سال کیلئے ڈپازٹ کرے گا جس کا مقصد ادائیگیوں کے توازن کو سہارا دینا ہے۔ عوام کی خدمت سے بڑھ کر حکومت کی کوئی اور ترجیح نہیں، چودھری سرور معاہدے میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ تاخیر سے ادائیگی کی بنیاد پر سعودی عرب پاکستان کو سالانہ 3 ارب ڈالر مالیت کا تیل دے گا اور یہ سلسلہ 3 سال تک جاری رہے گا جس کے بعد اس پر دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ امدادی پیکج کے تحت سعودی حکومت نے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کے اکاؤنٹ میں رکھوانے تھے جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط 19 نومبر 2018 ، دوسری قسط 14 دسمبر 2018 اور تیسری قسط 25 جنوری 2019 کو موصول ہوئی تھی۔ سعودی حکومت نے اب پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں جس کی تصدیق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’کرونا وائرس کی وجہ سے سعودیہ کی معیشت پر کافی دباؤ آیا ہے، تیل کی قیمتیں جس طرح گری ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اس کا اثر ان کی معیشت پر پڑا، انہوں نے ہماری مشکلات کو سمجھا اور ہم نے ان کی مشکلات کو سمجھنا ہے ان کے لیے ہم کل بھی حاضر تھے آج بھی حاضر ہیں
سوچنے کا یہ انداز اور طریقہ مریضانہ ہے اکثریت مادی ہوس میں غوطہ زن ہے ماہ محرم الحرام – فضیلت و اہمیت اعلان داخلہ عربی ادب کا تعارف شیئر کریں مطالعہ کیا ہوا یاد نہیں رہتا Admin اگست 8, 2021 August 11, 2021 اکثر دوست یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو زیادہ تر باتیں حافظہ میں باقی نہیں رہتی، اور بعض اوقات ایک ہی مضمون کو ذہن میں رکھنے کے لیے کئی بار پڑھنا پڑتا ہے۔ میں عموما ایسا مشورہ نہیں دیتا کہ آپ ایک مضمون یا تحریر یاد کرنے کے لیے مکرر پڑھیں، اس سے فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ سمجھ کر پڑھتے جائیں اور پچھلے صفحات پر بار بار نظر دوڑانے کے بجائے، آگے مطالعہ کرتے جائیں۔ آپ کو رفتہ رفتہ خود ہی مطالعہ کا فائدہ محسوس ہونے لگےگا۔ __ شیخ سلمان العودہ کی مختصر سی کتاب ہے، جس کا نام ہے “زنزانۃ”۔ اس کتاب میں چھوٹے موٹے اہم شذرے جمع ہیں۔ اس کی ایک تحریر (فک السحر!) کے ضمن میں ایک پیرا بڑا عمدہ ہے جو اس مسئلہ کے بارے میں رہنائی کرتا ہے۔ عربی تحریر کی تصویر لگادی ہے، جس کا اردو ترجمہ یہ ہے: آپ لکھتے ہیں: “ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ: میں نے ایک کتاب پڑھی، لیکن مجھے اس میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ چناں چہ انہوں نے مجھے ایک کھجور دی اور فرمایا: لو یہ چباؤ! پھر مجھ سے پوچھا: کیا اب تم بڑے ہوگئے؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئی۔ چناں چہ اس کا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ، پٹھا، کچھ کھال، کچھ بال کچھ ناخن اور مسام وغیرہ۔ تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں وہ تقسیم ہوجاتی ہے، چناں چہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ اخلاق سنوارتا ہے، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے؛ اگرچہ میں اس کو محسوس نہیں کرپاتا۔
Home » Everyday News » میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاوز کر گئیں میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاوز کر گئیں Posted on اکتوبر 29, 2021 اسلام آباد: میرا پاکستان میرا گھر کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں 200 ارب روپے سے تجاویز کر گئیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ اب تک 78 ارب روپے فنانسنگ کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بینکوں کو 200 ارب روپے سے زائدکی درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ بینکوں نے 78 ارب روپے کی فنانسنگ کی منظوری دی۔ کمرشل بینک اب تک 18 ارب روپے کی رقم تقسیم کر چکے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا کہنا ہے کہ میرا پاکستان میرا گھر کے نام سے مکانات کے قرضوں سے متعلق کمرشل بینک فنانسنگ کی درخواستوں کی منظوری کی رفتار بڑھائیں۔ یاد رہے کہ رواں سال ستمبر کے آخر تک بینکوں کے مکانات اور تعمیرات کے قرضے بڑھ کر 305 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس ستمبر کے آخر تک یہ 166 ارب روپے کی سطح پر تھے۔
بھارت کی خارجہ سیکرٹری نروپما راؤ آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گی جہاں وہ 24 جون کو اپنے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کے ساتھ بات چیت میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیا ن اسلام آباد میں 15 جولائی کو ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دیں گی۔ نروپما راؤ پہلی بھارتی عہدے دار ہیں جو نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستان کا دورہ کر رہی ہیں۔ ا ن حملوں میں 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ پاک بھارت رابطوں کی بحالی ایک خوش آئند پیش رفت ہے کیونکہ بات چیت میں تعطل کافائدہ اُن کے بقول ایسی قوتوں کو ہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی مخالف ہیں ۔ عبدالباسط نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں دو طرفہ امن بات چیت میں کوئی تعطل نہیں آنا چاہیئے ۔ انھوں نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان اور بھارت میں باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور یہ اُسی صورت دور ہو گا جب مذاکرات میں حل طلب تنازعات پرٹھوس پیش رفت ہوگی۔ بھارت کے وزیر داخلہ پی چدم برم بھی آئندہ ہفتے علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے اجلاس میں شرکت کرنے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ اپنے پاکستانی ہم منصب رحمن ملک سے دوطرفہ اُمور پر بات چیت بھی کریں گے۔ ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اُن کے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کے درمیان ملاقات سے پہلے اعلیٰ بھارتی عہدے داروں کے پاکستان کے دوروں سے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھارت نے اس کا الزام پاکستانی انتہاپسند تنظیموں پر لگاتے ہوئے یکطرفہ طور پر امن مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی اور بھارتی وزیراعظم سنگھ سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر تاہم اس سال اپریل میں بھوٹان میں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کے ساتھ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پاکستان نے ممبئی کے ہلاکت خیز واقعات کی تحقیقات میں بھارتی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اسلام آباد میں متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے سلسلے میں ا ب تک جو بھی شواہد بھارت نے فراہم کیے ہیں وہ پاکستان میں زیر حراست مشتبہ افرادکو مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
کبری احمدی جو کئی سالوں سے ثقافتی اور اجتماعی کاموں میں مصروف ہیں، اُن کی جوانی کی شروعات انقلاب اسلامی کی کامیابی اور صدامی افواج کی ایران پر مسلط کردہ جنگ سے ہوئی تھی۔ جنگ کے نقارہ کی آواز نے اس جوان بسیجی خاتون کو اُن دنوں میں جب دشمن نے ان کی سرزمین پر حملہ کیا، جنگ کو سپورٹ کرنے والے اسٹاف کی طرف مائل کر دیا۔ ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی خبر نگار نے اُن سے گفتگو کے لئے وقت لیا تاکہ وہ محاذ کے پشت پردہ خواتین کے کردار کے بارے میں بات کریں۔ محترمہ احمدی نے مہربانی اور دل لگی سے اپنے واقعات سناتے ہوئے ہمیں اس سرزمین کے بیشتر لوگوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے محاذ کی سپورٹ اور لاجسٹک سرگرمیوں کو کس زمانے سے شروع کیا؟ میری سرگرمیوں کی ابتداء جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔ جب انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا اس وقت میں ۱۴ سال کی تھی اور میں اپنے شوہر کے ساتھ انقلاب کے لئے ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد میں بسیج کی ممبر بن گئی اور وہاں پر کام کرنا شروع کردیا۔ ہم اُس زمانے میں کونسل ۱۶ اور تہران کی ابوذر چھاؤنی میں کام کرتے تھے۔ کونسل ۱۶ میں جوادیہ، نازی آباد، یاغچی آباد، ہزار دستگاہ، چہار صد دستگاہ اور اُن کے اطراف کے علاقے شامل تھے۔ جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے اپنے گھروں سے فوجی بھائیوں کے لئے اوڑھنے والی چادریں اور کپڑے سی کر کام کا آغاز کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سن ۱۹۸۰ء کے اکتوبر یا نومبر کا مہینہ تھا ہمیں ابوذر چھاؤنی کے ذریعے پتہ چلا کہ پہلے مرحلے کے لئے کافی مقدار میں اوڑھنے والی چادروں کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس ان کو سینے کا سامان ہی نہیں تھا۔ میں اپنے محلہ اور گلی میں جن افراد کو جانتی تھی، میں نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی سلائی مشینیں ہمارے گھر لے آئیں تاکہ ہم ایک جگہ رہ کر کام کرسکیں۔ دو لوگ کٹنگ کریں اور بقیہ افراد سلائی کریں۔ ہمیں دو دن کے اندر ہزار چادروں کو تیار کرنا تھا۔ احباب پانچ سلائی مشینیں لے آئے لیکن ہمارے پاس کٹنگ کے لئے نہ میز تھی اور نہ ہی کوئی مناسب قینچی۔ ہم نے یہ سوچا نہیں تھا کہ ہم چند افراد کے ساتھ دو دن میں چادروں کو سی لیں گے۔ آپ کا یہ کہنا کہ ہم سلائی مشینوں سے سیتے تھے تو ہماری نسل اور جدید نسل کے ذہن میں موٹر والی سلائی مشین آتی ہے، حالانکہ اُس زمانے میں زیادہ تر ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشینیں تھیں۔ ہاتھ سے چلانے والی سلائی مشین سے کیسے ممکن تھا کہ چادریں دو دن کی مدت میں تیار ہوجائیں؟ بہت مشکل تھا۔ اتفاق سے تین ہاتھ والی سلائی مشینیں اور دو موٹر والی سلائی مشینیں تھیں۔ اُس زمانے میں لائٹ بہت جاتی تھی، جب لائٹ نہیں ہوتی تھی وہ لوگ جو ہاتھ والی سلائی مشین سے سیتے تھے وہ اپنا کام جاری رکھتے تھے لیکن وہ افراد جن کے پاس موٹر والی سلائی مشین تھی وہ اس کے پہیے کو ہاتھ سے گھوماتے تھے جبکہ اس کا دستہ بھی نہیں ہوتا تھا تاکہ وہ سلائی کا کام جاری رکھ سکیں۔ آپ لوگ چادریں سینے کے علاوہ اور کون سے کام کرتی تھیں؟ جنگ شروع ہوتے ہی ہم نے سب سے پہلے جس کام کا آغاز کیا وہ بسیج اور سپاہ کے ساتھ تعاون کرنا تھا۔ کچھ عرصے کیلئے سپاہیوں کے گھر بھی چکر لگاتے تھے، بعد میں یہ کام ہم نے دوسرے افراد کے سپرد کردیا۔ محاذ تک عوامی امداد پہنچانے کا کام مساجد اور امام بارگاہوں سے اُسی طرح جاری تھا اور ہمیں وہاں پتہ چلا کہ کن چیزوں کی کمی ہے۔ البتہ وہ ادارے جو سپاہ سے رابطے میں تھے وہ زیادہ اس معاملہ کو کنٹرول کر رہے تھے، دوسری طرف سے ان امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ بعض چیزوں کی محاذ پر ضرورت نہیں تھی اور انہیں الگ کرنا چاہیے تھا یا ہم دوائیوں کی ایکسپائری ڈیٹ کو چیک کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ لوگوں کی امداد کو الگ کرنے اور منظم کرنے کے لئے ایک الگ مرکز کی ضرورت ہے، اس کام کو گھر سے انجام دینا ممکن نہیں، ہم نے جنوب تہران میں سپورٹنگ اسٹاف تشکیل دیا۔ میرے خیال سے جنگ کو تقریباً تین چار مہینے گزرے ہوں گے کہ کیمپ مکمل طورپر تشکیل پا گیا۔ آپ کی ذمہ داری کیا تھی؟ میں سن ۱۹۸۰ء میں کونسل ۱۶ میں کام کرتی تھی اور سن ۱۹۸۰ء سے کونسل ۱۹ میں نئے خانی آباد کے کیمپ کی مسئولیت مجھ پر تھی۔ اُس زمانے میں آج کی طرح سوشل نیٹ ورک موجود نہیں تھا ، حتی کہ بہت سے افراد کے گھروں میں ٹیلی فون تک نہیں تھا لیکن مسجد اور بسیج کے کیمپوں میں رفت و آمد تھی۔ وہاں کے لوگوں کے درمیان اچھا رابطہ قائم تھا اور سب کو پتہ چل جاتا تھا کہ کیا خبر ہے اور کون سا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ خبریں ایک دوسرے کے ذریعہ پھیل جاتیں۔ ہم کام کرنے والے افراد کی تلاش میں نہیں جاتے تھے، وہ لوگ خود رضاکارانہ طور پر آجاتے۔ حالات بھی خاص قسم کے حالات تھے۔ دیکھیں اس وقت بھی ملک میں کرونا کی وجہ سے خاص حالات ہیں، جبکہ اُس وقت جنگ تھی۔ آپ ان جدوجہد کرنے والی ٹیموں کو دیکھیں کہ کس طرح کام کررہی ہیں، اُس زمانے میں بھی کسی اور طریقہ سے تھا۔ البتہ اس طرح نہ سمجھا جائے کہ تمام لوگ جنگ میں درگیر تھے، نہیں ایسا نہیں تھا، لوگوں میں سے وہ افراد واقعاً جنگ میں درگیر تھے جو پشت پردہ محاذ کو کنٹرول کر رہے تھے اور اُن کے شوہر اور بیٹے محاذ پر موجود تھے۔ یہ خواتین ایک دوسرے سے مذہبی محافل، مساجد اور دوسرے کیمپوں میں ملتی تھیں اور بہت سرگرم تھیں۔ میرے شوہرفوجی تھے اور محاذ پر تھے اور میرا ایک فرزند تھا۔ جنگ سپورٹنگ اسٹاف میں آپ کی سرگرمی کس نوعیت کی تھی؟ پہلے چادریں سی کر اور بعد میں سپاہیوں کے لئے لباس سی کر شروع ہوئی لیکن بعد میں موسم کے اعتبار سے ہماری سرگرمیاں تبدیل ہوتی رہیں۔ ہم اچار، مربہ اور شربت بناتے تھے اور سپاہیوں کو حوصلہ دلانے اور اُن کے جوش و جذبات میں اضافہ کرنے کیلئے پرچم اور سر پر باندھنے والی پٹیاں سیتے اور لوگوں کی طرف سے لکھے گئے خطوط اُن تک پہنچانے کا کام انجام دیتے تھے۔ سردیوں میں سپاہیوں کے محاذ پر جانے کے وقت، ہم اُن کے لئے سوپ بناتے جنہیں بسوں میں بیٹھے سپاہیوں میں تقسیم کیا جاتا۔ پھر سپاہ پاسداران کی طرف سے کپڑوں کے تھان آنے لگے اور ہم اُس سے سپاہیوں کے فارم سیتے تھے۔ کچھ خواتین اپنے گھر سے کپڑے سی کر لاتی تھیں۔ جن خواتین کو جنگی علاقوں میں جانے کا مسئلہ نہیں تھا جیسے اُن کا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوتا تو اُن لوگوں کو اہواز یا دو کوھہ بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا اور وہ وہاں لانڈری میں مدد کرتی تھیں۔ آہستہ آہستہ سپورٹنگ اسٹاف کا کام بہت زیادہ وسیع ہوگیا، یعنی فوجی سامان کے علاوہ محاذ کے تمام لوازمات سپورٹنگ اسٹاف کی طرف سے مہیا ہوتے۔ اُس زمانے میں آج کل کی طرح نہیں تھا کہ ہر چیز وافر مقدار میں ہو – حتی مہنگائی کے باوجود – اُس وقت چیزیں کوٹہ سسٹم اور ٹوکن کی صورت میں تھیں۔ اُس زمانے کا ایک واقعہ ایسا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں میں اُسے نہیں بھولوں گی، یعنی میں نے اُس وقت یوسف کی خریداری کے معنی کو حقیقت میں درک کیا اور اب بھی جب مجھے یاد آتا ہے تو میں خود کوکنٹرول نہیں کرپاتی۔ شاید آپ کیلئے اتنا حساس نہ ہو، لیکن اُس زمانے میں لوگوں کو شکر اتنی آسانی سے نہیں ملتی تھی۔ ہر فرد کو ہر مہینہ ۴۰۰ گرام شکر کا ٹوکن دیا جاتا تھا اور ہم اس ۴۰۰ گرام کو جس طرح بھی ہوتا تھا پورے مہینے تک چلاتے تھے۔ یہ مقدار اتنی تھی جو اندازاً روزانہ استعمال ہوتی تھی نہ یہ کہ ہم اس سے شربت یا مربہ بنا سکیں۔ سن ۱۹۸۲ء میں ہونے والے رمضان آپریشن کے بعد گرمیوں میں جب بہت شدید گرمی پڑتی تھی ہم نے اعلان کیا کہ ہم محاذ کے لئے لیموں کا شربت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم سو گرام، سو گرام شکر جمع کرتے تاکہ مثال کے طور پر شربت کے دس بڑے پتیلے تیار کرلیں۔ ایک دن ہم ایک امام بارگاہ میں کام کر رہے تھے اور لوگ سامان لیکر آ رہے تھے۔ ایک بہت ہی ضعیف خاتون جنہوں نے اپنی چادر کو سمیٹا ہوا تھا اور اپنا ہاتھ کمر پر رکھ کر مشکل سے ہمارے پاس پہنچیں۔ اُن کے ہاتھ میں لیموں کے رس کی ایک بوتل تھی کہ شاید اُس کے اندر ایک کپ کے انداز کے مطابق لیموں کا رس تھا۔ انھوں نے سانس پھولی حالت میں کہا: "میرے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ میں صرف یہ لائی ہوں تاکہ خدا سے کہوں خدایا میں بھی یوسف کی خریدار ہوں۔" اس چیز نے تمام خواتین پر اثر کیا۔ اُس دن بس میں یہی سوچ رہ تھی کہ اس ضعیف خاتون کے ایک کپ لیموں کے رس کی برکت سے ہم نے بہت زیادہ امداد جمع کی اور دس پتیلوں میں لیمو ں کا گاڑھا شربت بنا کر محاذ پر بھیج دیا۔ وہ خواتین جو کیمپ میں آپ کے ساتھ کام کرتی تھی اُن کی تعداد کتنی تھی؟ اگر ہم حساب لگائیں تو ۲۵ خواتین۔ چونکہ بعض اوقات چکر لگانے والی خواتین بھی آتی تھیں اور کیمپ غالباً بند نہیں ہوتا تھا۔ وہ خواتین جو آپ کے ساتھ کام کرتی تھیں وہ کتنے سن و سال کی تھیں؟ میرے خیال سے ہمارے ساتھ ۵ سالہ بچی سے لیکر ۷۰ سال کی ضعیف خاتون تھیں۔ آپ ہفتہ میں جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف میں کتنی دفعہ جاتی تھیں؟ ہم روزانہ سپورٹنگ اسٹاف جایا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم کسی خاص دن وہاں جائیں۔ کسی وقت ہم خود سپورٹنگ اسٹاف میں ہوتے اور بعض اوقات کچھ معاملات کو نمٹانے کے لئے ابوذر کیمپ جانا پڑتا تھا یا اُس اسٹور میں جاتے تھے جو شاہراہ تختی کے شروع میں تھا۔ کیمپوں اور محلوں سے لوگوں کی جو امداد اکٹھی ہوتی تھی انہیں اُس اسٹور میں منتقل کیا جاتا اور پھروہاں مرد حضرات اُس کو الگ کرتے، منظم کرتے اور محاذ کی طرف بھیج دیتے۔ اسٹاف میں آپ کا کام کس وقت شروع اور کس وقت ختم ہوتا تھا؟ کام پر منحصر ہوتا تھا۔ آپریشن کے زمانے میں ہم دن و رات کام کرتے تھے، اس کے علاوہ روزانہ بارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ اتنی مدت میں کام کرنے سے آپ کے شوہر کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا؟ میرے شوہر زیادہ تر محاذ پر ہوتے تھے اور انہیں میرے کام کرنےسے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اُس زمانے میں منافقین شہروں میں بہت سرگرم تھے، آپ کا اُن سے کبھی سامنا نہیں ہوا؟ کیوں نہیں، ہمیں بہت دھمکیاں ملتی تھیں۔ البتہ یہ بات سن ۱۹۷۹ء کی ہے۔ منافقین نے سن ۱۹۷۹ء میں کونسل ۱۶ میں کسی شخص کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اُس زمین کے مالک کا اُن پر زور نہیں چلتا تھا بلکہ وہ اُن سے ڈرتا تھا۔ ایک دن جمعہ کو ہم کچھ بسیجی افواج کے ساتھ کہ جن کی عمریں کم تھیں اُس عمارت میں داخل ہوئے اور اُس جگہ کو اُن کے قبضہ سے آزاد کرالیا۔ جب ہم نے اُس جگہ کو آزاد کرالیا تو زمین کے مالک نے اپنی رضایت سے وہ جگہ ہمارے اختیار میں دیدی۔ ہم اُن منافقین کے ساتھ ایک محلہ میں رہتے تھے اور ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم سے راضی نہیں تھے لیکن اس ماجرا کے بعد اُن کی ہم سے دشمنی آشکارہوگئی اور وہ ہمیشہ سے کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ ہماری ٹیم کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ اس معاملے میں ہمارے ایک یا دو لوگ شہید ہوئے۔ ہمارا گھر گلی کے نکڑ پر تھا اور وہ مسلسل کاغذ پر دھمکیاں لکھتے اور اُسے پتھر پر لپیٹ کر گھر کے اندر پھینک دیا کرتے تھے۔ گھر کے بالائی حصے میں لگا شیشہ مسلسل پھینکے جانے والے پتھروں کی وجہ سے چٹک گیا تھا۔ اسی وجہ سے میں اپنے بچوں کو تنہا گھر سے باہر بھیجنے کی ہمت نہیں کرتی تھی۔ میں ہمیشہ اُنہیں ساتھ لیکر آتی جاتی تھی اور ہمیشہ وضو کی حالت میں باہر جاتی تھی اور ہر لمحہ شہادت کی منتظر رہتی تھی۔ اُن میں سے کسی ایک کے گھر میں، جہاں کی سپاہ نے تلاشی لی تھی۔ وہاں میری اور میرے ساتھ کام کرنے والی کچھ خواتین کی تصویریں ملیں اور ہمارا نام اُس لسٹ میں تھا جن خواتین کو انھوں نے قتل کرنا تھا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اُن کا نقشہ کیا تھا لیکن میرے خیال سے خواتین کو قتل کرنا اب اُن کے منصوبہ میں نہیں تھا چونکہ اُس کے بعد کسی کو نہیں مارا گیا۔ شاید اس معاملہ میں خواتین کو نہیں لانا چاہتے تھے کہ لوگوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچے لیکن اُن کی دھمکیاں اور اذیتیں اُسی طرح جاری و ساری تھیں۔ آپ اجتماعی کاموں کو انجام دینے کیلئے اپنی ذاتی زندگی کو کیسے مرتب کرتی تھیں ؟ میں بہت کم آرام کرتی تھی۔ میں اپنے لئے بہت کم وقت رکھتی تھی۔ آج کل بھی میرا یہی معمول ہے اور اب تو میری عادت بن گئی ہے۔ اگر میں چوبیس گھنٹوں میں سے دو گھنٹے تک اچھی طرح سوجاؤں تو میرے لئے کافی ہوتا ہے اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس وقت بھی میرے پاس بہت سے سوشل کام ہیں لیکن یہ چیز اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ میرے گھر کے کاموں میں خلل ایجاد کرے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد میں ثقافتی شعبہ میں چلی گئی اور میں آٹھ سال تک شہید محلاتی ٹاؤن میں خواتین کے امور سے متعلق دفتر میں سپاہ کے نمائندے کی حیثیت سے رہی اور وہاں پر جوانوں اور نوجوانوں کے لئے ثقافتی کام انجام دیئے، ہم تفریحی، زیارتی اور ورزشی پکنک اورراہیان نور کے پروگرام منعقد کرتے تھے۔ میں چار سال تک بسیج تربیت کرنے والے ادارے اور دو سال تک بسیج کے ثقافتی امور میں رہی اور اس وقت چودہ سال سے قدر علوی خیریہ میں مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر ہوں اور خواتین کی سربراہی میں رہنے والوں گھروں کی مدد کرتی ہوں۔ یہ تمام کام منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔ میرے لئے اصل چیز میرا گھر اور گھرانہ ہے۔ اگر میں اپنی بہوؤں،بیٹوں، پوتے، پوتیوں میں ہم آہنگی اور ہم دلی ایجاد نہ کرسکوں اور گھر میں خوشی اور نشاط برقرار نہ رکھ سکوں اور دوسرے لوگوں کے گھروں میں پھل دار درخت کی آرزو رکھوں تو میرے اجتماعی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہذا اُس زمانے میں بھی اگر ہمیں گھر سے باہر بہت سے کام ہوتے تو ایسا نہیں تھا کہ ہم نے گھر کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا، گھر اور گھر والوں کا اپنا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ میرا پہلا بیٹا اُسی سن ۱۹۷۸ء میں پیدا ہوگیا تھا اور جنگ کے اختتام تک میرے تین بچے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا میں بچوں کو اپنے ساتھ اسٹاف لے جاتی تھی، دوسرے لوگ بھی یہی کام کرتے تھے۔ بچوں کو انجام دیئے جانے والے کام کی تعداد شماری میں مزہ آتا تھا۔ مجھے اسٹاف کے علاوہ کچھ اورجگہوں پر بھی جانا ہوتا تھا۔ میری ایک سہیلی تھیں جن کا نام محترمہ رضوان مُزدارانی تھا کہ ہم نے ہم آہنگی کی ہوئی تھی۔ ایک دن میں بچوں کو سنبھالتی اور وہ کیمپ یا دوسری جگہوں پر جاتی اور ایک دن وہ بچوں کا خیال رکھتیں اور میں جاتی۔ ہمارے شوہر حضرات زیادہ تر اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے تھے۔ آپ جنگ کی مدت میں جنگی علاقوں میں نہیں گئیں؟ میں نے خود بہت سی خواتین کو بھیجا لیکن میں خود جنگی علاقوں میں نہیں گئی۔ میرا بچہ چھوٹا تھا، میرے شوہر محاذ پر تھے اور بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی جس کی وجہ سے محاذ پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سن ۱۹۸۵ء یا ۱۹۸۶ ء میں طے پایا کہ میرے شوہر کو ایک سال کی ڈیوٹی پر کردستان بھیجا جائے۔ میں نے مضبوط ارادہ کرلیا اور اُن سے کہا : "میں آپ کے ساتھ چلوں گی۔" وہ راضی نہیں ہو رہے تھے اور مسلسل کہہ رہے تھے: "کردستان کے حالات اہواز سے بہت مختلف ہیں۔" اہواز میں بہرحال صرف بمباری کا مسئلہ تھا۔ لیکن کردستان میں معاملہ فرق کرتا تھا ہم دشمن کے درمیان تھے اور ہمیں دشمن کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ دشمن کوملہ اور ڈیموکریٹ وغیرہ کے عنوان سے ملک کے مختلف مقامات سے وہاں موجود تھا ۔ وہاں پر بہت سے مسائل تھے جن کی وجہ سے دشمن کی شناخت بہت مشکل تھی۔ جنگی محاذ پر دشمن آپ کے روبرو ہوتا ہے لیکن کردستان میں ایسا نہیں تھا۔ سامنے والا دن میں آپ سے سلام علیک کرتا ہے اور رات میں جو اُس کے دل میں آتا ہے وہ آپ کے ساتھ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے میرے شوہر کسی صورت بھی راضی نہیں ہو رہے تھے کہ میں اُن کے ساتھ چلوں۔ خلاصہ یہ کہ میں نے بہت منّت مانی دعا کی اور آخر میں اُن سے کہا: "یا ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے یا آپ بھی نہیں جائیں گے۔" بہرحال وہ راضی ہوگئے اور ہم ارومیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید آپ کہیں مغربی آذر بائیجان کا کردستان سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن کرد نشین علاقے جو مہاباد، دیواندرہ اور اُس کے مضافات میں تھے ، سے نزدیک تھے۔ جس موقع پر ہم ارومیہ گئے وہ مجھے یاد نہیں ارومیہ کی چھاؤنی ابھی تک کومولوں کے اختیار میں تھی یا آزاد ہوچکی تھی۔ بہرحال شہر ارومیہ ابھی تک کچھ معاملات کی وجہ سے محفوظ نہیں تھا اور لوگوں کے ساتھ وہاں مختلف مسائل پیش آتے تھے۔ آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ جانے پر کیوں اصرار کیا؟ مجھے پتہ تھا وہاں ہماری موجودگی کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سے شوہر کا نہ ہونا میرے لئے باعث پریشانی تھا۔ ہم کہ جنہیں تہران میں بھی خطرے تھا، پس میرے لئے خطرے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ آپ ارومیہ میں کیا کرتی تھیں؟ جیسا کہ میں ابوذر چھاؤنی میں کام کرتی تھی وہیں سے مجھے ارومیہ میں اُسی مرکز کے لئے کچھ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ وہاں پر ہمیں تاکید کی گئی کہ ہم ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے گھروں میں نہ رہیں تاکہ ہمیں کوئی پہچان نہ سکے۔ لہذا ہم نے شہر کے اندر ایک گھر کرایہ پر لیا۔ جب میں کچھ خریدنے کے لئے دوکان جاتی تھی تو میں وہاں کی زبان کے بہت سے کلمات سے نا آشنا تھی اس وجہ سے اُنہیں پتہ تھا کہ ہم تہران سے آئے ہیں اور اجنبی ہیں۔ سب سوچتے تھے کہ ہمارا کام اس طرح کا ہے جس کی وجہ سے ہم وہاں منتقل ہوگئے ہیں چونکہ وہاں سب ترکی بولنے والے تھے وہاں پر کوئی نیا آتا تو اُنہیں بہت جلدی پتہ چل جاتا تھا کہ یہ علاقائی باشندہ نہیں ہے۔ حاجی صاحب نے پڑوسیوں کو اپنے پیشے کے بارے میں بتایا تھا؟ آپ یقین کریں مجھے نہیں معلوم۔ آپ وہاں کیا کرتی تھیں۔ میں وہاں پر تہران کی طرح کام نہیں کرتی تھی۔ جہاں میرے شوہر کی ڈیوٹی لگتی تھی میں بھی اُن کےساتھ چلی جاتی او ر واپس آجاتی۔ جہاں پر مسائل کو حل کرنے کیلئے خواتین کی ضرورت ہوتی تھی تو مجھے فون کرتے تھے اور میں وہاں جایا کرتی تھی۔ مثلاً کومولوں کی کچھ جوان لڑکیاں تھیں جو خاکی یونیفارم پہنتی تھیں اور اُن کو گرفتار کرنے کے لئے خواتین فورس کی ضرورت ہوتی تھی۔ خطرات کے پیش نظر سپاہ کے افراد اس بات کی طرف مائل نہیں تھے کہ اس کام کے لئے تہران سے فورس بلائی جائے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا اور اگر کسی سے کام لینا چاہتے بھی تھے تو ایسے افراد کا انتخاب کرتے تھے جن کی عمر پچاس سے سال سے زیادہ ہو؛ عام طور سے جوانوں کا انتخاب نہیں کرتے تھے۔ آپ کو وہاں کا کوئی واقعہ یاد ہے؟ میں وہاں کا کوئی واقعہ نہ سناؤں تو بہتر ہے۔ دیکھیں میں ہمیشہ کہتی ہوں ہماری تاریخ کے مظلوم ترین شہداء کردستان کے شہداء ہیں جو اُس زمانے میں شہید ہوئے۔ اس وجہ سے کہ سنی شیعہ اور اُن کے درمیان اتحاد کی بحث اور بہت سے دوسرے مسائل تھے۔ کچھ کردی چاہتے تھے کردستان کو ملک سے الگ کرلیں اور وہاں پر ایک خودمختار حکومت بنائیں۔ وہاں پر افراد مظلومانہ ترین صورت میں شہید ہوئے اور ہم کبھی بھی یہ نہیں بتا سکے کہ وہ شہداء کیسے شہید ہوئے۔ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں گولی سے ماریں، اُنہیں قیدی بنالیں۔ اُن کے پیروں کو تاروں سے باندھ دیتے یا اُن کے جسم پر گرم گرم استری لگا دیتے یا اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے۔ ایسا کام کرتے تھے کہ اُن کی جان آہستہ آہستہ نکلے۔ اُن کے بارے میں بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ آپ ارومیہ میں کب تک موجود رہیں؟ میں چھ سات مہینہ وہاں رہی پھر وہاں پر کچھ مسائل کھڑے ہوگئے اور میں تہران واپس آگئی۔ ہمارے پاس ایک پیکان کار تھی جس میں بیٹھ کر ہم ڈیوٹی پر جاتے تھے۔ اس گاڑی میں بہت سی ٹیکنیکل خرابیاں تھیں، اگر آج مجھ سے کہا جائے آپ اس طرح کی گاڑی پر یہاں سے شہر ری میں حضرت عبد العظیم حسنی کے حرم تک جاکر واپس آئیں، میں کہوں گی یہ گاڑی محفوظ نہیں ہے۔ اس کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب بند ہوجاتی ہے تو پھر اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ یعنی ہم اگر پٹرول پمپ بھی جاتے تھے تو اُس کو بند نہیں کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو دوبارہ اسٹارٹ نہ ہو۔ آپ سوچیں ہائی وے پر گاڑی بار بار بند ہوجائے اور میں سخت سردی اور برفباری میں ایک طویل مسافت تک اُسے دھکا لگاؤں۔ کبھی کبھار میں پھسل جاتی اور دھکا نہیں دے پاتی۔ ایک دن جمعہ کو ہم ارومیہ سے صبح ۸ بجے کسی کام کے سلسلے میں مہاباد کے لئے روانہ ہوئے۔ اُس وقت میرے دو فرزند تھے جو ہمارے ساتھ تھے۔ وہاں پر کوئی آپریشن ہونا تھا جسے شہر مہا باد کی آزادی پہ ختم ہونا تھا اور ہم وہاں پر اُس ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے۔ میرے شوہر نے فوجی لباس نہیں پہنا ہوا تھا لیکن امریکی اوورکوٹ پہنا ہوا تھا اور اُن کے داڑھی والے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ انقلابی ہیں اور میں نے مقنعہ اور چادر پہنی ہوئی تھی۔ شہر مہا باد کے ٹول پلازہ کے پاس گاڑی بند ہوگئی۔ اسٹارٹ کرنے اور دھکا لگانے میں جتنا بھی زور لگا سکتے تھے لگا لیا، گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ سب سمجھ گئے کہ ہم اجنبی اور مسافر ہیں اور ہر کوئی اپنی بات کر رہا تھا۔ ایک جوان مرد نے ہم سے کہا: "مجھے ایک مکینک کی دوکان کا پتہ ہے گاڑی کو وہاں تک دھکا دیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔" گاڑی کو ایک بہت بڑے گیراج میں لے گئے۔ میرے شوہر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رہے اور نیچے نہیں اُترے۔ گاڑی گیراج کے اندر آنے کے بعد اُس آدمی نے گیراج کا شٹر نیچے گرادیا اور شٹر کو تالا لگا دیا! ایسا لگا جیسے اُس نے میرے دل کا شٹر بند کردیا ہو! میرے ذہن میں ہزار باتیں آئیں کہ کیا ہوا ہے کہ اس مرد نے شٹر کو نیچے کرکے اُسے تالا لگا دیا ہے؟ کیا ہمارا راز فاش ہوگیا ہے؟ خدایا یہاں پر کیا ہونے والا ہے؟! مہاباد میں ہمیں نہیں پتہ چلتا تھا کہ کون فوجی ہے اور کون عام شہری ہے۔ اس بات کی تشخیص دینا کہ کون سپاہی ہے اور کون کومولہ ہے بہت مشکل تھا۔ ہر کسی نے گولیوں والی بیلٹ پہنی ہوئی تھی اور پورا شہر جنگی حالت میں تھا۔ وہ مرد گیراج کے پیچھے گیا اور وہاں سے اوزار لاکر میرے شوہر سے کہا: "اسٹارٹ کرو، ایسا کرو، ویسا کرو۔" میں مسلسل یہ سوچ رہی تھی کہ یہ دیگر ساتھیوں کے آنے تک ہمیں چکر دے رہا ہے ۔ شاید سوچ رہا ہے یہ اکیلا ہم دو کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بچے پچھلی سیٹ پر سورہے تھے۔ میرے اور شوہر کے درمیان بھی سکوت طاری تھا۔ اپنی زندگی کے تمام لحظات میں سے ا گر میں خوف کی تعریف کرنا چاہوں تو میں اُسی وقت کو بیان کرسکوں گی۔ میں اتنا ڈری ہوئی تھی کہ میری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ کوئی بھی واقعہ پیش آئے تو میرا ردّ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ میں نے سوچا کہ اگر اس وقت میرے بچوں اور میرے شوہر کے سر کو میرے سامنے کاٹ دیں تو مجھے کیسے ردّ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟ اگر میرے شوہر کے سامنے میرے ساتھ زیادتی کریں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں دل ہی دل میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو پکار رہی تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ میں کیا کروں اور کس طرح اس مسئلہ کو نمٹاؤں؟ اس وجہ سے میرا پورا وجود خوفزدہ تھا۔ دیکھیں خدا جانتا ہے مجھے مرنے کا خوف نہیں تھا، صرف میری حیثیت کا مسئلہ تھا اور اس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔ آہستہ آہستہ میرے پیر کے ناخنوں نے لرزنا شروع کیا، پھر یہ لرزنا میرے گھٹنوں تک پہنچا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تاکہ میرے شوہر کو میرے لرزنے کا پتہ نہ چلے لیکن آہستہ آہستہ یہ لرزہ میرے دانتوں تک پہنچ گیا اور میرے دانت آپس میں ٹکرانے لگے۔ میرے شوہر نے مجھ سے ایک جملہ کہا: "سردی لگ رہی ہے؟" میں نے اس وجہ سے کہ کہیں اُن کو پتہ نہ چل جائے میں ڈری ہوئی ہوں کہا: "ہاں!" حالانکہ مجھے سردی نہیں لگ رہی تھی۔ میرے شوہر نے اپنا اوورکوٹ اُتار کر میرے شانوں پر ڈال دیا۔ وہ لحظات میرے لئے ایک عمر طولانی کی طرح تھے۔ مجھے نہیں پتہ گاڑی صحیح ہونے میں کتنا وقت لگا، میرے شوہر نے اسٹارٹ دبایا اور گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ اُس کے بعد اُس مرد نے شٹر کو اوپر اٹھایا اور کہا: "معاف کیجئے گا جیسا کہ روز جمعہ ہے اور ظہر کا وقت نزدیک ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مشتری میرے پاس آئے اس لئے میں نے گیراج بند کردیا تھا۔ آئیں میرے ساتھ دوپہر کے کھانے پر چلیں۔" اس تجربہ کے بعد جو میرے لئے بہت ہی تلخ اور سخت تھا میں راضی ہوگئی کہ میرے شوہر وہیں رہیں اور میں واپس آجاؤں۔ جب آپ دوبارہ تہران آگئیں آپ نے جنگ کے سپورٹنگ اسٹاف کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھا؟ میں آٹھ سالہ دفاع مقدس کے آخر تک وہاں پر کام کرتی رہی لیکن ہمارے کام کی نوعیت بدلتی رہتی۔ میرے خیال سے جب عراق کی نے پہلی مرتبہ کیمیائی بمباری کی کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ میں نے ابتدائی طبی امداد اور فوجی ٹریننگ کورس کیا ہوا تھا، میں مدد کرنے کے لئے وہاں گئی۔ کیمیائی زخمیوں کے حالات واقعاً دردناک تھے۔ اُن کے جسم بڑے بڑے تولیوں میں لپٹے ہوئے تھے اُن میں سے کچھ کیمیائی زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ بمب پھٹنے کی آواز سے ذہنی توازن میں خلل کی مصیبت میں مبتلا ہوگئے تھے اور اُنہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت تھی۔ ہمیں ایک ایسی مشکل کا سامنا تھا جس کی ہمیں شناخت ہی نہیں تھی۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ ان گیسز نے لوگوں کو کس مصیبت میں گرفتار کردیا ہے۔ ہم سے جو ہوسکتا تھا ہم انجام دیتے تھے۔ اس طرح نہیں تھا کہ صرف زخموں کی مرہم پٹی کرتے یا انجکشن لگاتے، اگر ضرورت ہوتی تو زخموں کی صفائی بھی کرتے یا اوزاروں کو اینٹی سپٹک کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کیمیائی بمباری کی تھی، ہمارے پاس بہت سے وسائل نہیں تھے۔ اُس وقت میں اپنے تیسرے فرزند سے حاملہ تھی لیکن مجھے پتہ نہیں تھا اور میں وہاں کام کر رہی تھی۔ میری حالت بہت خراب ہوجاتی لیکن میں سوچتی کہ وہاں کے حالات کی وجہ سے میری ایسی حالت ہوجاتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم جب میں آپ سے باتیں کر رہی ہوں تو آپ میری آواز میں خش خش کو سن رہے ہیں یا نہیں؟ میرے پھیپھڑے اُس وقت سے خراب ہیں۔ ذرا سی سردی لگ جائے تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مجھے معمولی حالت میں واپس آنے کے لئے بہت علاج معالجہ کروانا پڑتا ہے ۔ کیمیائی بمب سے زخمی ہونے والے افراد کی دیکھ بھال میں کتنا عرصہ لگا؟ میں تین مہینے تک وہاں رہی تھی۔ اس مدت میں بچے کس کے پاس تھے؟ وہی باری باری بچوں کی دیکھ بھال والا مسئلہ جو میں نے پہلے بیان کیاکہ میں نے اپنی دوست محترمہ رضوان مُزدارانی سے طے کیا ہوا تھا۔ جنگ کے آخری سالوں میں میرے تین بیٹے تھے اور اُن کے بھی تین بیٹے۔ ہم ان آٹھ سالوں میں ایک ساتھ کام بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے کے دوست بھی تھے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ایران کی اورل ہسٹری سائٹ کو دیا۔ ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران صارفین کی تعداد: 2713 آپ کا پیغام  نام: ای میل: پیغام: گذشتہ مطالب صحت و سلامتی کے محافظ ملتان کا مصلح، چھبیسواں حصہ بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-3 ملتان کا مصلح، پچیسواں حصہ بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-2 ایران میں ایک جاپانی ماں کی داستان ملتان کا مصلح، چوبیسواں حصہ جنگ بندی کا اعلامیہ، اس کی قبولی اور جنگ کا خاتمہ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10820).popover({title: "", content: " کتنا منع کر رہی کہ نہیں جانا نہیں جانا۔ بس اسی لئے ضد کر رہے تھے؟ اب اس اتنے بڑے پارک میں اتنے گھنے درختوں میں رات کے اس وقت میں بچے کو کہاں ڈھونڈوں؟ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10841).popover({title: "", content: " سورج غروب ہو چکا تھا۔ میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگلے دس دنوں تک ایک ہاتھ اوپر کرنے کے لیے دوسرے ہاتھ سے سہارا دینا پڑتا تھا اور پھر واپس بہت آرام سے نیچے آتا تھا اور جو ہاتھ زخمی تھا اس کو دوبارہ واپس لانے سے تو چیخیں نکلتی تھیں ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10819).popover({title: "", content: " ایسا لگا کسی نے بالٹیاں بھر کر ٹھنڈا پانی مجھ پر ڈال دیا ہے ۔ میرے الفاظ میرے منہ میں جم گئے۔ ملتان مقدر کئے جانے کا لفظ سننے کے بعد اب میں کچھ نہ کہہ سکی سوائے اس کے کہ بچوں کے امتحانات نمٹنے تک صبر کیا جائے۔ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10840).popover({title: "", content: " چھے دن کے بعد ہمیں الرشید چھاؤنی لے گئے۔ وہیں پہ آقا حیدری اور آقاے کامبیز کمال وند بھی آگئے، ان کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی۔ در اصل ہماری بچپن کی دوستی اور محلہ داری بھی تھی ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10826).popover({title: "", content: " اسے ابھی گئے ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بسیجیوں کی جانب سے ایک خط مجھے موصول ہوا۔ لفافے پر محمد کے دستخط دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ خط کھولا تو اس میں لکھا تھا: " پہلے میں مغربی جنگی محاذوں پر، جو پہاڑی علاقوں میں ہیں، مصروف تھا۔ لیکن اب جنوبی علاقے کی طرف آگیا ہوں ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10818).popover({title: "", content: " یہ چند روز جو مشہد میں گذرے انہوں نے مجھے ہندوستان کی یاد دلا دی۔ علی بغیر کی تعطل کے مسلسل کام میں لگا رہتا میری اور اس کی ملاقات بہت کم ہی ہو پاتی تھی۔ کھانے کے کمرے میں ہم سب جمع تھے اور میری نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ", html: true, placement: "bottom", trigger: "hover" }); $(lastnews10837).popover({title: "", content: " میں وہاں سے اٹھا اور مورچے میں جاکر اسدی صاحب اور ید اللھی صاحب کے پاس جا یٹھا، وہ بھی رو رہے تھے لیکن حقیقت کا علم انہیں بھی نہ تھا۔ بہرحال ان کا اصرار یہ تھا کہ کسی صورت اس حکم کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے بھی کہا: اگرچہ یہ سب بہت افسوس ناک ہے لیکن کوئی اس کی مخالفت نہیں کرے گا
اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے نومبر کے لیے درآمدی آر ایل این جی کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے نومبر کے لیے درآمدی آر ایل این جی کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا جس کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔ سوئی ناردرن کے لیے فی یونٹ قیمت ترسیل میں 0.31925 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے، سوئی سدرن سسٹم پر آر ایل این جی کی قیمت ترسیل میں 0.32974 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کمی کی گئی ہے۔ سوئی ناردرن سسٹم پر آر ایل این جی کی نئی قیمت 13.3888 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ قیمت تقسیم 14.4387 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔ سوئی سدرن سسٹم پر آر ایل این جی کی نئی قیمت 13.0157 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ قیمت تقسیم 14.8105 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں واقع بدھ دور کے آثار قدیمہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں کیوں کہ یہاں تانبہ نکالنے کے لیے کان کھودی جا رہی ہے۔ اے ایف پی اتوار 10 جولائی 2022 17:30 کابل کے نزدیک بڑی تعداد میں تانبے کے ذخائر میں دریافت ہوئے ہیں لیکن ان کی کھوج اور کان کنی نے یہاں واقع بدھ دور کے آثار قدیمہ کے لیے خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس جگہ سے تانبے کی کان کنی چینی کمپنیوں کا ایک گروپ سرانجام دے رہا ہے۔ ان آثار قدیمہ کی دیکھ بھال پر معمور محکمے کے منتظم جلات سرخابی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’اگر تانبے کو نکالنے کا آغاز ہوا تو اس سے آثار قدیمہ کو نقصان ہو گا کیوں کہ کان کنی نازک کام نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا: ’انہیں بم پھاڑ کر تانبے تک پہنچنا ہو گا۔ دھماکے بہت بھاری ہوتے ہیں جن سے بت ٹوٹ سکتے ہیں۔‘ آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کے لیے فرانس کی ایک کمپنی کام کر رہی تھی لیکن طالبان حکومت کو درپیش اقتصادی مشکلات نے تانبے کی کان کنی کو ترجیح دلا دی ہے۔ 2010 تک بدھ مت کے ان آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کا پراجیکٹ دنیا کے چند بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا۔ افغان وزارت کان کنی کے ترجمان عصمت اللہ برہان کا کہنا ہے کہ ’افغان انتطامیہ وزارت کان کنی اور وزارت اطلاعات اور ثقافت کی موجودہ پالیسی یہ ہے کہ تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ بدھ دور کی کوئی نشانی ضائع نہ جائے۔‘ اس جگہ سے دریافت ہونے والے زیادہ تر آثار دوسری اور نویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مٹی کے کچھ ایسے برتن بھی ملے ہیں جن کی عمر بدھ دور سے بھی زیادہ ہے۔ جلات سرخابی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یونیسکو یا جو ممالک ہماری حمایت کر رہے ہیں ان کا تعاون چاہیے تاکہ ہم کچھ آثار قدیمہ کو یہاں سے منتقل کر سکیں۔‘
امریکہ میں چین کے خلاف پکنے والا نفرت سے بھرپور لاوا دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی پیک منصوبے سے کیپٹیل ازم کے بچاریوں کے پیٹ میں کتنے مروڑ اٹھتے ہوں گے۔ منصور جعفر [email protected] جمعہ 29 جنوری 2021 13:30 کیلی فورنیا میں ایک خاتون نے کرونا وبا کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کے دوران ’مجھے کیپٹل ازم سے پیار ہے‘ کی عبارت والا بینر اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی) یہ دنیا انتہائی حیران کن جگہ ہے اس میں لاکھوں افراد کی ہلاکت کے باوجود کرونا وائرس ایسی عالمی وبا سے متعلق متعدد سازشی نظریے گردش کر رہے ہیں۔ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بے لگام پلیٹ فارم پر بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ اسی شور شرابے حال ہی میں امریکی ای کامرس کمپنی ’ایمازون‘ نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دو کتابوں کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ ایک کتاب کرونا (کورونا) وائرس سے متعلق متفرق سازشی نظریات سے عبارت ایک ایسے مصنف کے تحریر تھی جس نے کووڈ-19 کو بے بنیاد شوشا سمجھ کر اسے جھٹلانے کے لیے کتاب میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ کتاب پر پابندی کے فیصلے کو چینلج کیا گیا، جس کے بعد’ایمازون‘ کو اپنے نیٹ ورک پر اس کی فروخت کی اجازت دینا پڑی۔ اس طرح عالمی وبا سے متعلق سازشی نظریے سے بھرپور کتاب ’ایمازون‘ پر بکنے لگی۔ ایک دوسری کتاب میں مصنفہ سارہ فلاؤنڈرز نے دنیا، امریکہ اور بالخصوص چین میں کووڈ-19 کے حوالے سے ہونے والی بحث کا موازنہ پیش کیا۔ انھوں نے مستند اعداد وشمار کی روشنی میں ثابت کیا کہ چین عالمی وبا کو کنڑول کرنے میں کامیاب رہا جبکہ امریکہ ایسی عالمی طاقت ابھی تک ناکام چلی آ رہی ہے۔ یہی وجہ سے نئے امریکی صدر نے اپنی ترجیحات کا تعین کرتے وقت عالمی وبا پر قابو پانا اہم نقطہ قرار دے رکھا ہے۔ سارا فلاؤنڈرز کی کتاب کا عنوان Capitalism on a Ventilator: The Impact of COVID-19 in China & the U.S. امریکہ کے لیے ایک فکری تازیانہ ثابت ہوا۔ مصنفہ نے کتاب کی ایمازون پر فروخت کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا، لیکن ان کی کتاب کو آن لائن فروخت کی اجازت نہ ملی۔ سارہ فلاؤنڈرز کی کتاب میں کھل کر اس بات پر بحث کی گئی: کیا جو بائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ دنیا میں مزید جنگوں کی راہ ہموار کرے گی؟ بائیڈن کی انتخابی مہم کے وقت خواہشات اور امیدوں کا گراف ناقابل یقین حد تک اونچا کر دیا گیا تھا، جسے دیکھتے ہوئے کتاب میں کسی لگی لپٹی کے بغیر کیا گیا تجزیہ امریکی کار پردازوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور اس طرح کتاب کی آن لائن فروخت پر پابندی لگا دی گئی حالانکہ ایمازون پر اس سے زیادہ متنازع کتابیں اور اشیا کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی انتخاب کے نتائج میں اہم بات بائیڈن کی کامیابی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست تھی کیونکہ وہ نسل پرستی، غرور اور جارحانہ سیاست کا جو داغ دار ترکہ چھوڑ کر گئے ہیں، اسے دھونے میں امریکہ کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔ انتخاب کا شور تھم چکا ہے اور وائٹ ہاؤس ٹرمپ کے بوجھ سے آزاد ہو گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جو بائیڈن اپنی پالیسیوں میں کسی ٹھوس تبدیلی کا اشارہ نہیں دے رہے۔اب تک سامنے آنے والی کابینہ کے ناموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید نہ ختم ہونے والی جنگوں کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلنا امریکہ کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ دنیا بھر میں 800 امریکی فوجی اڈے اور مختلف ملکوں میں اس کی دسیوں ہزار سپاہ تعینات ہیں۔ جن ملکوں کے حکمران امریکی پالیسیوں کے سامنے سرجھکانے سے انکار کرتے ہیں، وہاں نہتے اور معصوم لوگوں کو پابندیاں لگا کر بھوکے مارنے کی پالیسی ایک کھلا راز ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی امریکی پابندیوں کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ امریکی عوام کو احساس نہیں کہ ان کا ملک جنگ کی حالت میں ہے کیونکہ قتل اور ڈرون حملے روزانہ کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے امریکہ کو دنیا بھر کے عسکری اخراجات سے بڑھ کر اپنی فوجی چوکسی اور تیاری پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں اگر سارہ جیسی بیدار ضمیر امریکی دانشور قلم اٹھاتی ہیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہے کہ امریکہ میں صحت عامہ کا کوئی منظم پروگرام کیوں نہیں۔ جن چیزوں کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے لیے اشد ضرورت ہے، انہیں انجام دینے کے لیے مطلوبہ وسائل میسر نہیں جبکہ دوسری جانب ٹریلین ڈالرز جنگی جنون پر صرف ہو رہے ہیں۔ کاش سابق صدر اوباما کا یہ قول سچ ثابت ہو جائے کہ ’جو بائیڈن اپنے اقتدار میں کسی جنگ کی حمایت نہیں کریں گے۔‘ مشہور کہاوت ہے کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،‘ امریکہ کی حد تک تو یہ مقولہ سو فیصد حد تک درست ہے کیونکہ امریکہ میں صدر کے اکیلے اعلانات الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ وہاں ایک بڑی مؤثر اور منظم اسٹبلشمنٹ ہے، جسے دنیا بھر میں 18 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پھیلے ہوئے نیٹ ورک معلومات فراہم کرتے ہیں۔ امریکی صدر کے مشیران کی فوج ظفر موج، تھنک ٹینکس اور سب سے بڑھ کر فوج وتیل کی صعنت اور بینکنگ سیکٹر کا دباؤ مل کر ان کی امن یا جنگ کی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔ اوباما اور بائیڈن ایک سے زائد مرتبہ فوجی اقدامات کے حق میں بات کر چکے ہیں۔ وہ نیٹو میں توسیع، یوکرائین میں کارروائی، عراق اور افغانستان میں فوج رکھنے کے حامی رہے ہیں۔ بائیڈن کبھی امن کے حق میں نہیں بولے۔ خوش فہمی کا لبادہ اتار کر ہمیں امریکی پالیسیوں کے اصل ماخذ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے نہ صدور کی ذاتی حیثیت میں دیے گیے بیانات پر۔ چین کی طرف سے امریکہ کو درپیش چیلنجز دیکھتے ہوئے یہ بات حقیقت معلوم ہونے لگی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدگی دراصل ’سرد جنگ‘ہے۔ اوباما اپنے دور حکومت میں جس pivot asia پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اسی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی فوج کو ری فوکس کیا گیا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) چین کے گرد امریکہ کی بیڑیوں کا جال بچھایا جا چکا ہے۔ ساؤتھ چائینا سمندر میں امریکی میرینز کی موجودگی امریکہ کی سرحد سے ہزاروں میل دور کوئی دفاعی اقدام قرار نہیں دی سکتی۔ ٹرمپ کی نسلی امتیاز کی پالیسی صرف امریکہ کو داخلی طور ہی نہیں بلکہ چین کو بھی گھائل کر رہی ہے۔ تجارتی بائیکاٹ اور طلبہ پر امریکی جامعات میں تعلیم کے دروازے بند کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہونے والے ثقافتی اور آرٹ منصوبے ختم کیے جا رہے ہیں۔ ہواوے سمیت بڑی بڑی دوسری چینی کمپنیوں سے کاروبار اور سفارتی تعلقات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جو 40 برس سے جاری تھے۔ ایسی ’سرد جنگ‘ دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ہے۔ سی این این سکرین سے چمٹے امریکی عوام نہیں جانتے کہ ان کی حکومت کے لڑاکا بحری جہاز چین کے اندر ہزار کلومیٹر تک پہنچ چکے ہیں۔ اوسط امریکی شہری، چین کی تاریخ سے نابلد ہے۔ انہیں چین کی ایک ہی تصویر دکھائی جاتی ہے جس میں وہ ایک غریب اور ترقی پذیر ملک کے طور پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انقلاب کے بعد چین، امریکہ کے لیے انتہائی خطرہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے روزانہ کئی جتن ہو رہے ہیں۔ امریکی سیاست کی غلام گردشوں میں چین کے خلاف نفرت کا لاوا پکتا دیکھ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمسائے ملک کے تعاون سے مکمل کیا جانے والا ’ون بلٹ، ون روڈ‘ المعروف ’سی پیک‘ منصوبہ سرمایہ داری کے بچاری کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ کووڈ۔19 کا مقابلہ کرنے میں امریکی ناکامی کو دیکھتے ہوئے عالم اسلام کے عظیم مصلح ابو الاعلیٰ مودودی کی تاریخی پیش گوئی ذہن میں گونچ رہی ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔‘ یہی حقیقت خود امریکی شہری سارہ فلاؤنڈرز نے بیان کرنے کی کوشش کی تو اظہار آزادی، شہری حقوق اور جمہوریت کا راگ آلاپنے والوں نے کتاب ’کیپیٹل ازم آن وینٹیلیٹر‘ کو دنیا بھر کے لیے شجر ممنوعہ بنا ڈالا۔
مقتول کی شناخت نہیں ہو سکی ہے، لاش شناخت اور پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دی گئی ہے۔دھر منگھو پیر میں گزشتہ روز واٹر بورڈ کے پانی کے ٹینک سے بچے کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش ملی تھی۔ مذکورہ بچے کی کی ہاتھ پاؤں بندھی لاش کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس کو مقتول بچے کے ورثاء کی تلاش ہے جس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دی گئی ہے۔ کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن سیکٹر 7D میں حسنین مسجد کے قریب نالے سے 1 شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے جسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ہے۔ ایدھی ایمبولینس کے ذریعے مذکورہ 30 سالہ نامعلوم شخص کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ہے۔ گھر سے لڑکے کی لاش برآمد، فائرنگ سے 1 شخص زخمی پاپوش نگر کے علاقے میں واقع گھر سے 16سال کے ایک لڑکے کی لاش ملی ہے جسے پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ادھر لانڈھی کی مانسہرہ کالونی میں واقع قبرستان کے قریب ڈکیتی میں مزاحمت پر فائرنگ کے نتیجے میں 1 شخص زخمی ہو گیا جسے طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا گیا ہے۔
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے مسئلہ کشمیر کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے گا۔ مقامی خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ایک مقامی نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹر ویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے، یہ پاکستان کا بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جسے مذاکرات ذریعے حل ہونا چاہیے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہندوستان نہتے کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور اب تک ریاستی دہشت گردی میں ہندوستانی فوج نے 90 سے زائد نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ انڈین آرمی کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ انھوں نے ہندوستان پر زور دیا کہ نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو فوری طور پر روکا جائے۔ وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ یہ خارج از امکان نہیں کہ تحریک آزادی کو بدنام کرنے کیلئے مذکورہ حملہ ہندوستان نے خود کرایا ہو۔ جموں و کشمیر کے اوڑی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو فصل بوتے ہیں وہی کاٹنی پڑتی ہے۔ خواجہ آصف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اخلاقی، سفارتی، سیاسی طور پر کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھے گا، جن کا ان سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں میں وعدہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو غصب کررہا ہے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کیلئے پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان، پاکستان پر اوڑی حملے کے الزامات لگا کر عالمی برادری کی توجہ کشمیر کے اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے جو اسے مہنگا پڑے گا۔ اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ہندوستان کی جانب سے اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا تھا۔ دوسری جانب جموں و کشمیر میں اوڑی فوجی کیمپ پر حملے کے حوالے سے ہندوستان کی درخواست پر پاکستان اور انڈین ڈائریکٹر جنرل ملڑی آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا جس میں لائن آف کنٹرول کی صورت حال سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خیال رہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے قصبے اوڑی میں قائم انڈین فوجی مرکز پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 17 فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حملہ آوروں اور ہندوستانی فورسز کے درمیان فوجی مرکز کے اندر فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد تمام 4 حملہ آوروں کو ہلاک کیے جانے کا دعویٰ سامنے آیا۔ ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی اپنا دورہ امریکا اور روس ملتوی کردیا جبکہ ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے فوری بعد ہندوستان نے جموں و کشمیر کے علاقے اوڑی میں انڈین فوجی مرکز پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے حملے کے بعد پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا سہارا لیا۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا کہ ’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اسے پہچانا جانا چاہیے اور تنہا کردینا چاہیے‘۔ ہندوستانی وزیر داخلہ نے ٹوئیٹر پر انتہائی سخت الفاظ میں مزید الزامات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ انتہائی تربیت یافتہ تھے‘۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے خطاب میں کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔ دوسری جانب تجزیہ کار اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ حملے کے بعد نئی دہلی کی جانب سے اسلام آباد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنا اقوام متحدہ میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور دوران جھڑپوں اور ہندوستانی پولیس کی فائرنگ سے 100 کے قریب کشمیری ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پاکستان نے کئی بار ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن اس نے ہر بار یہ کہہ کر پیشکش مسترد کردی کہ وہ صرف سرحد پار سے ہونےوالی دہشت گردی پر بات چیت کرے گا۔
علیہ رحمۃ الرحمن جب 21 برس کے نوجوان تھے اُس وَقْت کا واقِعہ خود اُن ہی کی زَبانی ملاحَظہ ہو ، چُنانچِہ فرماتے ہیں : سَتْرہویں شریف ماہِ فاخِر ربیعُ الآخِر۱۲۹۳؁ھ میں کہ فقیر کو اکیسواں سال تھا۔اعلیٰ حضرت مصنِّف عَلّام سیِّدُنا الوالِدقُدِّسَ سِرُّہُ الماجِد و حضرت مُحِبُّ الرسول جناب مولیٰنا مولوی محمد عبدالقادِر صاحِب بدایونی رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمراہِ رِکاب حاضِرِ بارگاہِ بیکس پناہ ِحُضور پُر نُور محبوبِ الہٰی نظامُ الحقِّ وَالدّین سلطانُ الْاَولیاء رَضِیَ اللہ تعالٰی عنہہوا۔حُجرۂ مُقدَّسہ کے چار طرف مجالسِ باطِلہ لَہْو و سَرَوْد گرْم تھیں ۔شور و غَوغا سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی۔دونوں حضراتِ عالیات اپنے قُلوبِ مُطْمَئِنّہ کے ساتھ حاضِرِمُواجَہَۂ اَقدس ( مُ۔وا۔جَ۔ہَ۔ ئِ۔ اَقدس )ہوکر مشغو ل ہوئے ۔ اِس فقیرِ بے تَوقیرنے ہُجومِ شور و شَر سے خاطِر( یعنی دل ) میں پریشانی پائی ۔دروازۂ مُطہَّرہ پر کھڑے ہوکر حضرتِ سلطانُ الْاَولیاء رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کی کہ اے مولیٰ ! غلام جس کیلئے حاضِر ہوا ،یہ آوازیں اس میں خَلَل اندازہیں ۔ (لفْظ یِہی تھے یا ان کے قَریب ،بَہَرحال مضمونِ مَعْروضہ یِہی تھا ) یہ عرض کرکے بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں دروازۂ حُجرۂِ طاہِرہ میں رکھا بِعَونِ رَبِّ قدیر وہ سب آوازیں دَفْعَۃً گُم تھیں ۔ مجھے گمان ہوا کہ یہ لوگ خاموش ہورہے ،پیچھے پھر کر دیکھا تو وُہی بازار گَرْم تھا ۔قدم کہ رکھا تھا باہَر ہٹایا پھر آوازوں کا وُہی جوش پایا ۔ پھر بِسمِ اللہ کہہ کر دَہنا پاؤں اندر رکھا ۔ بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی پھر ویسے ہی کان ٹھنڈے تھے ۔اب معلو م ہوا کہ یہ مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کا کرم اور حضرتِ سلطانُ الْاَ ولیاء رحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامت اور اس بندۂ ناچیز پر رَحْمت و مَعُونَت ہے ۔ شکر بجا لایا اور حاضِر مُواجَہَۂ عالِیہ ہوکر مشغول رہا ۔ کوئی آواز نہ سنائی دی ،جب باہَر آیا پھر وُہی حال تھا کہ خانقاہِ اقدس کے باہَر قِیام گاہ تک پہنچنا دشوار ہوا ۔ فقیر نے یہ اپنے اوپرگُزری ہوئی گزارِش کی ،کہ اوّل تو وہ نعمتِ الٰہیعَزَّوَجَلَّ تھی اور ربَّعَزَّوَجَلَّفرماتاہے: وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴿٪۱۱﴾ ’’ اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکی نعمتوں کو لوگوں سے خوب بیان کر ۔‘‘ مَع ھٰذا اِس میں غُلامانِ اولیائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکیلئے بِشارت اور مُنکِروں پر بَلا و حسرت ہے۔ الہٰی!عَزَّوَجَلَّ صَدَقہ اپنے محبوبوں (رِضْوانُ اللّٰہِ تعالیٰ علیھم اَجمعین ) کاہمیں دنیا و آخِرت و قَبْر و حَشْر میں اپنے محبوبوں عَلَیہِمُ الرِّضْوَان کے بَرَکاتِ بے پایاں سے بَہرہ مند فرما۔ (اَحْسَنُ الْوِعَاء لِاٰدَابِ الدُّعاء ص ۱۴۰) اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حِکایت’’ بائیس خواجہ کی چَوکھٹ دِہلی شریف‘‘ کی ہے ۔اِس میں تاجدارِ دِہلی حضرت سیِّدُنا خواجہ محبوبِ الہٰی نظام ُالدّین اولیا ءرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی نُمایا ں کرامت ہے۔اِس حِکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باِلفرض اگر مزاراتِ اولیاء پر جُہَلاء غیر شَرْعی حَرَکات کررہے ہوں اور ان کو روکنے کی قُدرت نہ ہو تب بھی اپنے آپ کو اَہلُ اللّٰہ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکے درباروں کی حاضِری سے محروم نہ کرے۔ ہاں مگر یہ واجِب ہے کہ اُن خُرافات کو دل سے بُرا جانے اور اِن میں شامل ہونے سے بچے۔ بلکہ اُن کی طرف دیکھنے سے بھی خود کو بچائے۔ (فیضانِ بسم اللہ، ص۸)
پارس شاہد صدیقی وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں میرا آخری مہینہ تھا۔ان دنوں میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم اے کر رہا تھا‘ میرا ک... ماسٹر فضل صاحب ماسٹر فضل صاحب شاہد صدیقی بعض دفعہ چشم تصور بھی کیا کیا منظر دکھاتی ہے؛ کبھی بیابانوں میں مہکتے گلاب ‘کبھی صحراؤں میں میٹھے پانی ... Languages: Politics and Practices Languages: Politics and Practices By Shahid Siddqiui Language plays an important role in the sociopolitical and education systems o... حاجی صاحب ترنگ زئی بمقابلہ تاجِ برطانیہ حاجی صاحب ترنگ زئی بمقابلہ تاجِ برطانیہ شاہد صدیقی تاجِ برطانیہ کے خلاف سرحدی علاقے کے حریت پسندوںنے بھرپور جدوجہد کی۔ ان میں ایک... پنجابی زبان اور معاشرتی رویے پنجابی زبان اور معاشرتی رویے شاہد صدیقی کچھ عرصہ پیشتر صوبہ پنجاب میں ساہیوال کے ایک سکول نے طلباء کوایک ہدایت نامہ جاری کیاہے جس ...
جایک ملٹی نیشنل بینک کے سی ای او نے معاشی ماہرین کو اس وقت سوچ میں ڈال دیا جب اس نے کہا کہ: سائیکل ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے – اس لئے کہ سائیکل چلانے والا کار نہیں خریدتا، وہ کار خریدنے کے لئے قرض بھی نہیں لیتا۔ انشورنس نہیں کرواتا – پیٹرول بھی نہیں خریدتا۔ اپنی گاڑی سروس اور مرمت کے لئے نہیں بھیجتا۔ کار پارکنگ کی فیس ادا نہیں کرتا۔ وہ ٹال پلازوں پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔ سائیکل چلانے کی وجہ سے صحت مند رہتا ہے موٹا نہیں ہوتا !! صحت مند رہنے کے باعث وہ دوائیں نہیں خریدتا۔‏ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ملک کے جی ڈی پی میں کچھ بھی شامل نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہر نیا فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ اپنے ملازمین کے علاوہ کم از کم 30 طرح کے لوگوں کے لئے روزگار کا سبب بنتا ہے۔‏ جن میں ڈاکٹر ، امراض قلب کے ماہر، ماہرِ معدہ و جگر، ماہر ناک کان گلہ، دندان ساز، کینسر سپیشلسٹ، حکیم اور میڈیکل سٹور مالکان وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سائیکل معیشت کی دشمن ہے اور مضبوط معیشت کے لئے صحت مند افراد سخت نقصان دہ ہیں۔‏
مؤرخہ 10 نومبر 2022ءبروز جمعرات حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے 145ویں یوم ولادت کی مناسبت سے شعبہ اُردو ،ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز یونی ورسٹی آ ف ایجوکیشن لوئر مال کیمپس کے زیر اہتمام"فکر اقبال" سمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ سیمینار کی صدارت محترمہ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین "ڈائریکٹر اقبال اکادمی،پاکستان " نے کی ۔پاکستان سے ماہر اقبالیات و ریسرچ اسکالر حسن رضا اقبالی اور تہران یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ماہر اقبالیات محترمہ ڈاکٹر وفا یزداں منش نے دعوت پر خصوصی شرکت کی ۔ ان کے ساتھ ساتھ ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کے ڈائریکٹر و ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمن خان اور یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے پرو وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد بھی سیمینار میں شریک ہوئے۔ میزبانی کے فرائض ڈاکٹر صائمہ علی نے سر انجام دئیے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد کلام اقبال پیش کیا گیا جس کے بعد ڈائریکٹر ڈویژن آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سب مہمانوں کا فردا فردا مختصر تعارف کرایا ۔ اس مختصر تعارف کے بعد حسن رضا اقبالی نے اقبال کے فلسفہ خودی پر فکر انگیز لیکچر دیا۔ ڈاکٹر وفا یزداں منش نے اقبال کی فارسی شاعری اور خصوصا ایران میں اقبال شناسی کے حوالے سے ہونے والی تحقیق پر روشنی ڈالی ۔ پروفیسر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ نے اقبال کی فکر و نظر اور اقبال کی نظر میں نوجوانوں کی اہمیت کے حوالے سے بصیرت افروز لیکچر دیا۔ جامعہ ہذا میں اس سیمینار کی حیثیت و اہمیت اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اقبال کی فکری تعلیمات آج کے مسلمان اور خصوصا پاکستانی نوجوان کے لیے سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ایک مثبت اور فعال انسان کے طور پر معاشرے کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکے ۔ سیمینار کے اختتام پر طلبا نے معزز مہمانوں کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کیے ۔ شعبہ اُردو کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کے اساتذہ و طلبا نے بھی جوش و جذبے سے اس سیمینار میں شرکت کی ۔
كتاب تعليم دين سادہ زبان ميں حوزہ علميہ قم كى ايك بلند پايہ علمى شخصيت حضرت آية اللہ ابراہيم امينى كى گران مايہ تاليفات ميں سے ايك سلسلہ ''آموزش دين در زبان سادہ كا اردو ترجمہ ہے _ اس كتاب كو خصوصيت كے ساتھ بچوں اور نوجوانوں كے لئے تحرير كيا گيا ہے _ ليكن اس كے مطالب اعلى علمى پيمانہ كے حامل ہيں اس بناپر اعلى تعليم يافتہ اور پختہ عمر كے افراد بھى اس سے استفادہ كر سكتے ہيں _ بچوں اور جوانوں كى مختلف ذہنى سطحوں كے پيش نظر اس سلسلہ كتب كو چار جلدوں ميں تيار كيا گيا ہے _ كتاب ہذا اس سلسلہ كتب كى چوتھى جلد كے ايك حصّہ پر مشتمل ہے جسے كتاب كى ضخامت كے پيش نظر عليحدہ شائع كيا جارہا ہے _ اس سلسلہ كتب كى امتيازى خصوصيات درج ذيل ہے _ _كتاب كے مضامين گوكہ اعلى مطالب پر مشتمل ہيں ليكن انھيں دل نشين پيرائے اور سادہ زبان ميں پيش كيا گيا ہے تا كہ يہ بچّوں كے لئے قابل فہم اور دلچسپ ہوں _ _اصول عقائد كے بيان كے وقت فلسفيانہ موشگافيوں سے پرہيز كرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالى طريقہ اختيار كيا گيا ہے كہ نو عمر طلبا اسے آسانى سے سمجھ سكتے ہيں _ _مطالب و معانى كے بيان كے وقت يہ كوشش كى گئي ہے كہ پڑھنے والوں كى فطرت خداجوئي بيدار كى جائے تا كہ وہ از خود مطالب و مفاہيم سے آگاہ ہوكر انھيں دل كى گہرائيوں سے قبول كريں اور ان كا ايمان استوار پائيدار ہوجائے _ _ہمارى درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمين شيخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں كتابوں كا ترجمہ كيا _ ان كتابوں كا پہلا ايڈيشن پاكستان ميں شائع ہواتھا اور اب اصل متن مؤلف محترم كى نظر ثانى كے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندى كى نظر ثانى اور بازنويسى كے بعد دوبارہ شائع كيا جارہاہے اپنى اس ناچيز سعى كو حضرت بقية اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف كى خدمت ميں ہديہ كرتا ہوں _
استنبول: ترکی کے مرکزی شہر استنبول میں بم دھماکے کی تحقیقات میں ترکیہ پولیس کی جانب سے گرفتاریاں جاری ہیں، گرفتار افراد کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کو استنبول شہر کے استقلال ایونیو میں بم دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور 81 زخمی ہو گئے تھے، دھماکے کے بعد تحقیقات کے دوران ترکیہ پولیس نے ایک شامی خاتون احلام البشیر کو یونان فرار ہونے سے قبل گرفتار کیا۔ بم نصب کرنے والی 46 سالہ شامی خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ وہ کرد عسکریت پسندوں کے لیے کام کر رہی تھیں۔ ادھر ترکیہ پولیس نے آج عمار جے اور اس کے بھائی احمد جے کو گرفتار کر لیا ہے، ترک میڈیا کے مطابق احمد جے مبینہ طور پر حملہ آور کو یونان فرار کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا، جب کہ عمار جے پولیس کو مطلوب تھا جو حملہ کرنے والی خاتون کے ساتھ رہتا تھا۔ ترکیہ کا دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کیخلاف جوابی کارروائی کا اعلان ترکی نے استنبول حملے پر امریکی تعزیت بھی سختی کے ساتھ مسترد کر دی ہے، وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے کہا کہ امریکی تعزیت ’جائے وقوعہ پر سب سے پہلے قاتل کے پہنچنے‘ جیسی ہے۔ خیال رہے کہ صدر رجب طیب اردوان نے واشنگٹن پر شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کا متعدد بار الزام لگایا، کرد جنگجوؤں کو انقرہ نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔
Afrikaans Azərbaycan Dili Bisaya Bosanski Dansk Deutsch English Español Estonia Euskara Français Gaeilge Galego Indonesia Italiano Kiswahili Kreyòl Ayisyen Latviešu Valoda Lietuvių Kalba Magyar Malti Melayu Nederlands Norsk Oʻzbekcha Polski Português Română Shqip Slovak Slovenščina Suomi Svenska Tagalog Tiếng Việt Türkçe isiXhosa Íslenska Čeština Ελληνικά Башҡортса‎ Беларуская Мова Български Македонски Јазик Русский Српски Українська Мова Қазақша עִבְרִית اَلْعَرَبِيَّةُ اُردُو فارسی नेपाली मराठी मानक हिन्दी বাংলা ਪੰਜਾਬੀ ગુજરાતી தமிழ் తెలుగు ಕನ್ನಡ മലയാളം සිංහල ไทย ລາວ မြန်မာ ქართული ენა አማርኛ ភាសាខ្មែរ ᠮᠣᠩᠭᠣᠯ ᠬᠡᠯᠡ ᮘᮞ ᮞᮥᮔ᮪ᮓ 日本語 繁體中文 ꦧꦱꦗꦮ 한국어 اکثر پوچھے گئے سوالات کیا HentaiPorn.Games? HentaiPorn.Games میں سے ایک ہے سب سے بڑا کھیلنے کے لئے مفت شوٹنگ کے کھیل کے ساتھ کے ارد گرد سب سے بہترین گیمنگ کمیونٹیز بوٹ کرنے کے لئے! ہر روز, ہزاروں لوگوں کو آنے کے لئے HentaiPorn.Games دریافت کرنے کے لئے ہمارے مختلف حالتوں, اپنی مرضی کے مطابق ان کی جنسی حروف اور مکمل کرنے کی کوشش کریں ہمارے تمام کے تمام مفت شہوانی ، شہوت انگیز quests. کیا میں ادا کرنے کے لئے ہے کھیلنے کے لئے HentaiPorn.Games? HentaiPorn.Games کھیلنے کے لئے مفت ہے اور ہمیشہ رہے گا. ہماری ٹیم کے لئے مصروف عمل ہے کو یقینی بنانے کے کہ ہمارے عنوان مکمل طور پر تیمادارت کے ارد گرد ایک freemium ماڈل ، لیکن تمام خریداری کے ساتھ کیا جا رہا ہے مکمل طور پر اختیاری ہے ۔ تو ، مختصر میں ، آپ کی ضرورت نہیں ہے کچھ خریدنے کے لئے ، لیکن آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں. کیا آپ کو ضرورت ہے اپنے کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات? ہم پابند ہیں کی طرف سے مختلف کھیل لائسنسنگ کے جسم کے ارد گرد کی دنیا کے لئے صرف فراہم کرنے کے لئے ہمارے کھیل رہے ہیں جو لوگوں سے زیادہ 18 سال کی عمر. مقابلہ کرنے کے لئے نابالغ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر HentaiPorn.Games, ہم استعمال کرتے ہیں ایک منفرد کریڈٹ کارڈ کی تصدیق کے نظام کی تصدیق کرنے کے لئے سال کی عمر کے تمام کھلاڑیوں. ہیں وہاں حقیقی کھلاڑیوں کے اندر HentaiPorn.Games? آپ ادا کر سکتے ہیں HentaiPorn.Games دونوں میں ایک پر multiplayer اور ایک کھلاڑی کی شکل میں! ہماری زیادہ تر توجہ ادا کر دیا گیا ہے کے لئے ایک کھلاڑی کے تجربے, لیکن ہم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کی رہائی کے لئے ایک گروپ کی نئی خصوصیات اور اوزار کو بڑھانے کے لئے multiplayer gameplay میں بہت دور نہیں مستقبل دیکھتے رہنا! کر سکتے ہیں میں کھیلنے پر iOS اور میک آلات? جی ہاں. کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر حمایت کی iOS اور میک کے لئے, HentaiPorn.Games بھی کی صلاحیت ہے لوگوں کے لئے لوڈ ، اتارنا Android پر آلات ، کے لئے کھیلنے کے. اتنی دیر کے طور پر آپ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کروم ، سفاری یا فائر فاکس ، آپ کے پاس کوئی مسائل لوڈنگ اپ HentaiPorn.Games کا استعمال کرتے ہوئے جو کچھ بھی آلہ آپ کی خواہش. یہ تصوراتی ، بہترین چیزیں – یہ واقعی ہے! کیا کے بارے میں اپنی مرضی کے مطابق جنسی mods? ہم نے وسیع پیمانے پر حمایت کے لئے تمام مختلف اقسام کی ترمیم ، کے طور پر اچھی طرح سے کے طور پر ایک ٹول کٹ اور گائیڈ تا کہ یہاں تک کہ رکن ڈویلپرز ادا کر سکتے ہیں کے ساتھ کے ارد گرد ہمارے انجن اور مختلف چیزیں باہر کرنے کی کوشش. پمم سے محبت کرتا ہے modding کمیونٹی اور ہم بھی ایک فورم بورڈ ان کے لئے. کیا مجھے اس کی ضرورت ایک انٹرنیٹ کنکشن کھیلنے کے لئے ؟ اگر آپ چاہتے ہیں کرنے کے لئے صرف استعمال اپنے براؤزر کے ورژن, آپ کو ہو جائے گا کی ضرورت ہے کے لئے ایک فعال انٹرنیٹ کنکشن کی اپ لوڈ کرنے کے لئے تمام فائلوں ، لیکن اس کے بعد آپ کر سکتے ہیں آف لائن جانے. تاہم, ہم بھی ایک اسٹینڈ کلائنٹ کے لئے ونڈوز اور میک کے لئے ایک حقیقی آف لائن تجربے پر اپنے کمپیوٹر. میں ادا کر سکتے ہیں یہ کھیل ایک سے زیادہ آلات پر? مندرجہ بالا کے طور پر, HentaiPorn.Games فی الحال اجازت دیتا ہے کسی کو مربوط کرنے کے لئے کھیل کے لئے تو انہوں نے فائر فاکس ، سفاری یا کروم کسی بھی ڈیوائس پر. یہ محفوظ ہے اور محفوظ? جی ہاں. کنکشن کے لئے HentaiPorn.Games پیش کی جاتی ہے HTTPS کے ذریعے. ہم نے بھی صرف آپ کی ای میل ایڈریس ، صارف کا نام اور پاس ورڈ ہیش ریکارڈ پر – کہ یہ ہے. میں نے انسٹال کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی چیز کو کھیلنے کے لئے HentaiPorn.Games? کوئی. کے طور پر طویل عرصے کے طور پر آپ کو ایک فائر فاکس ، سفاری یا کروم براؤزر میں, آپ کے لئے قابل ہو جائے گا کھیلنے کے HentaiPorn.Games کے بغیر کچھ بھی ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے آپ کے آلے. کیوں مجھے بھیج کہیں بعد inputting میرے جوابات? ہم کام کے ساتھ بہت سے شراکت داروں کے لئے پیش کرتے ہیں آپ کو بہترین گیمنگ کے تجربے ممکن ہے. یہ کبھی کبھی ضرورت ہے تیسری پارٹی کے کھیل اثاثہ لوڈنگ.
آپ یا تو رشک ہو یا آپ تنہا حالت زار کے بارے میں افسوس محسوس ہو گا. اگر آپ کو لگتا ہے آپ کے ساتھی پوری طرح unromantic ہے اور پھر آپ کو شاید غصہ ہو جائے گا (صرف شادی شدہ جوڑے پوچھیں)! پیڈیی Relfies میں تبدیل کر رہے ہیں! پیار کی عوامی دکھاتا ہے زمانہ قدیم کے ایک رجحان ہے. اس بلاگ میں, کے عنوان سے, “امریکی تاریخ میں جنسیت“, نوجوان مردوں اور عورتوں کو زیادہ آزاد ہو جائے کرنے کے لئے شروع کر رہے تھے اور انہوں نے کھل کر ایک دوسرے کے ساتھ mingling شروع. بلاگ کی بھی آزادی گاڑیوں کے ساتھ آتا ہے کہ میں بھی کچھ اکیلے وقت حاصل کرنے کے لئے نوجوان مردوں اور اسباب ہونے کی خواتین میں کردار ادا کیا حوالہ دیا ہے! سنتری پر وایلیٹ ویا یہاں تک کہ بھارت میں, ہم اقتصادی ترقی اور ذاتی نقل و حرکت کے اثرات دیکھ رہے ہیں. ہم کھلے عام کیفے میں ممتا کی نمائش نوجوان مردوں اور عورتوں کو دیکھنے کے لئے زیادہ امکان ہے, مالز اور مووی تھیٹرز. بلکل, ہم ہر جگہ اخلاقی پولیس والے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر وقت کی ایک بہت خرچ کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ جوڑوں کے اشتراک کے نتیجے میں ہے ان کی “رشتہ داری سیلفیز”, کی طرف سے گڑھا ایک اصطلاح Dr.Benjamin. یہاں اس نے ایک کرانے کے بعد کہنا پڑا کیا ہے یہ کیسے relfies سمجھی جاتی ہیں اور کیا مطلب ہے پر مطالعہ. یہاں ان کا نتیجہ ہے. دوسروں کو فورم میں اگر آپ کو ایک اچھا رشتہ میں ہیں سنبھالیں گے relfies, "معاشقہ ..." کو آپ کی حیثیت کو تبدیل, اور فیس بک پر آپ کے تعلقات کے بارے میں بات. اس کے علاوہ, آپ کے پروفائل دیکھنے والے لوگوں سے آپ کے تعلقات کی ان کی درجہ بندی میں بہت درست ہیں. آپ ایک مضبوط رشتے میں ہیں، تو, ناظرین اپنے فیس بک پروفائل سے کہ اٹھا سکتے ہیں. البتہ, بھی حاصل کرنے میں کچھ خطرہ نہیں ہے schmoopie فیس بک پر آپ کے تعلقات کے بارے میں; آپ کے دوست آپ کے تعلقات اچھا چل رہا ہے لگتا ہے کہ جائے گا، اگرچہ, وہ آپ کو کم پسند آئے گی. کوئی بات نہیں جو آپ کی صورتحال کیا ہے, آپ کی گرفتاری کی محبت کرنے والوں کو بھول کہ دنیا بھی ان کے ارد گرد موجود ہے کہ ان تصاویر سے محبت کرتا ہوں شاید گے. یہ سب نہیں ہے. ہم گرفتار کر لیا ہے 13 محبت اور محبت کے مترادف ہیں کہ دو چیزوں پر توجہ مرکوز ہے کہ تصاویر – بارش اور کافی! بارش اور کافی رومانوی اور گرم جوشی کے ساتھ کی تصاویر کو جادو اور ہم اس کو ثابت کرنے کے لئے باہر قائم کیا ہے. محبت بھی ہمیشہ نہیں ہے “پرجوش” (کے لئے محفوظ لفظ “ہونٹ تالا”). ایک دوسرے کی آنکھوں میں گھورتی جوڑے, ہاتھ یا اس سے بھی آہستہ گاڑی میں اپنے پیاروں کی مدد کر انعقاد محبت اور پیار کا مظاہرہ. ان تمام جذبات قبضہ کرنے کی کوشش نیچے دی گئی تصاویر میں سے سیریز. محبت اور محبت: بارش میں محبت کرنے والوں کی تصاویر محبت اور محبت: کافی کی دکانوں میں سے محبت کرنے والوں کی تصاویر جب بارش ہو رہی ہے, ایک کپ کافی آپ کو مکمل محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ تمام ہے. گرمی اور محبت کے ساتھ brimming کر رہے ہیں کہ ان تصاویر کو چیک کریں.
والد کی بیٹی سے محبت کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں، لیکن کیا آپ نے ایسا کبھی سنا ہے کہ بیٹی کو نقصان پہچانے والے جانور کو والد زندہ کھا لے؟ چین میں ایک شخص نے بیٹی کا انتقام لینے کے لیے کیکڑے کو زندہ کھا لیا، جس کے بعد خود اسپتال پہنچ گیا۔ چین کے صوبے زجیانگ میں ایک شخص پیٹ اور کمر کی شدید تکلیف کی شکایت لے کر اسپتال پہنچا تو ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ جس کے بعد اس کی بیوی نے ڈاکٹر کو بتایا کہ ایک چشمے کے قریب میری بیٹی پر ایک چھوٹے کیکڑے نے حملہ کیا تھا، جس پر مشتعل ہوکر میرے شوہر نے اسے اٹھا کر کھا لیا۔ یہ بات معلوم ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے مریض کے خون کے ٹیسٹ کیے اور پھر انہیں معلوم ہوا کہ انتقام لینے کی اس کوشش کے باعث وہ شخص 3 مختلف پیراسائیٹ انفیکشنز کا شکار ہوگیا ہے۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مردِ بحران میدان میں ہو اور اس کی ٹیم ایسے چھوٹے سے مارجن سے شکست کھا جائے۔ اس میں قصور مردِ بحران کا ہرگز ںہیں ہوتا بلکہ اس بے احتیاطی کا ہوتا ہے جو وکٹ کے دوسرے اینڈ پہ موجود بلے بازوں میں کروٹیں لے رہی ہوتی ہے۔ فخر زمان کا کرئیر اگرچہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے مگر وانڈررز کرکٹ گراؤنڈ کی یہ اننگز ان کی نشاطِ ثانیہ کا علمبردار تھی۔ جدوجہد کے وہ تمام لمحات جب فخر زمان اپنی ہستی کا ثبوت دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہ اننگز ان سبھی سوالوں کا جواب ہو سکتی تھی۔ لیکن اگر کوئی فخر کا ساتھ دیتا تو ۔۔۔۔۔ پاکستان کرکٹ میں ایسے لمحات بہت ہی نایاب ہیں کیوںکہ اگر کبھی کوئی مردِ بحران حالات کے مقابل ڈٹ کے کھڑا ہوا بھی تو اسے دوسرے کنارے سے کوئی نہ کوئی مدد بہر طور میسر رہی۔ یہ بھی پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم: اگر ذرا سا بھی ڈرامہ نہ ہو تو جیت کا کیا مزا؟ کیا پاکستانی ٹیم دورہ جنوبی افریقہ میں شائقین کی توجہ آئی پی ایل سے ہٹا پائے گی؟ پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: اب شاید یہ پہاڑ بھی سر ہو جائے انضمام الحق کی 2005 کی احمد آباد اننگز کو ہی لیجیے تو انھیں بھی دوسرے کنارے سے بہرحال کچھ نہ کچھ مدد میسر ہی رہی۔ لیکن فخر زمان کو ایسی کوئی مدد میسر نہیں تھی کیونکہ ’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔‘ اگر بابر اعظم یا محمد رضوان یا حتیٰ کہ شاداب ہی دوسرے کنارے پہ موجود رہتے تو فخر کو کوئی دلاسہ تو ہوتا کہ ان کے بعد بھی کوئی اس کشتی کو پار لگانے کی فکر تو کرے گا۔ مگر جب وقت نے سوال اٹھایا تو پاکستان کی جیب خالی تھی۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images عین ممکن ہے کہ اگر بابر اعظم نورکیہ کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب عجلت کی بجائے مصلحت سے دے دیتے تو یہاں پاکستاںی کارکردگی نہایت مختلف ہوتی۔ بعید از قیاس نہیں کہ اگر رضوان بھی منھ زور جارحیت اختیار کرنے کی بجائے فخر کی صلاحیتوں پہ اعتماد برقرار رکھتے تو نتیجہ پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہوتا۔ مگر ایسا ہو نہ پایا۔۔۔۔ کیونکہ 300 سے زائد مجموعے کا تعاقب کبھی بھی پاکستانی بیٹنگ کی قوت نہیں رہا۔ یہ ٹیم اس قابل تو یقیناً ہے کہ اچھی بولنگ کے بل پہ حریف کو 300 سے کم مجموعے پہ زیر کر ڈالے اور پھر آسان ہدف کا تعاقب کر لے مگر یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ 300 سے زائد ہدف کا تعاقب ویسے ہی کرے جیسے اوئن مورگن کی انگلش ٹیم کیا کرتی ہے۔ سیریز کے آغاز سے پہلے ہی بابر اعظم بے خوف کرکٹ کی بات کر رہے تھے۔ کیا یہ وہی بے خوف کرکٹ ہے جس کی بابت ان کے پیش رو کپتان سرفراز احمد نے چیمپئنز ٹرافی سے قبل اشارہ کیا تھا؟ بادی النظر میں یہ وہ کرکٹ نہیں ہے جو بابر اعظم چاہتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ نورکیہ کے پہلے ہی اوور میں بے وجہ جارحیت نہ اپناتے تو نتائج یقیناً مختلف ثابت ہوتے مگر نورکیہ کی برق رفتاری بابر اعظم کے سبھی منصوبے لے ڈوبی۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images پاکستان کے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اسے ایسے بہترین بولر میسر ہیں جو بیٹنگ وکٹ پہ بھی حریف کو 350 سے کم کے مجموعے پہ روک سکتے ہیں۔ کمی صرف اس امر کی ہے کہ پاکستانی بلے باز بھی ایسے ہدف کا تعاقب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ امام الحق میں یہ خاصیت ہے کہ وہ رن ریٹ سے قطع نظر اپنا کنارہ سنبھال سکتے ہیں۔ یہی خوبی ہمیں آج فخر زمان میں بھی دکھائی دی کہ وہ دوسرے اینڈ کی تباہ کاری سے قطع نظر اپنا کام بخوبی نبھاتے رہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کو ایسے قابلِ اعتماد لوگ میسر نہیں جو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا جانتے ہوں۔ دانش عزیز کا چونکہ یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے، اس لیے انھیں تنقید کا ہدف بنانا مناسب نہیں مگر ٹیم مینیجمنٹ کو بہرحال یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر دانش پانچویں نمبر پہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے تو شاید اس کی وجہ چوتھے نمبر کی کم مائیگی ہے۔ ویسے بھی اگر ٹیم انتظامیہ کو پانچویں نمبر پہ کوئی خطرہ مول لینا ہی تھا تو حیدر علی میں کیا برائی تھی جو انٹرنیشنل کرکٹ کا ذائقہ چکھ بھی چکے ہیں اور اسے نبھانا بھی جانتے ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کے لیے انٹرنیشنل ڈیبیو عموماً ہوم کنڈیشنزمیں ہی سودمند رہتا ہے۔ عابد علی اس کی بہترین مثال ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images پاکستانی بولنگ کی کہیے تو یہ عقدہ ابھی تک سبھی کی فہم سے بالاتر ہے کہ حسن علی اس پلیئنگ الیون کا حصہ کیوں نہیں ہیں۔ ایک طرف پاکستانی بولنگ بیچ کے اوورز کی ماراماری کا جواب دینے سے قاصر ہے تو دوسری جانب مکمل فٹ حسن علی بینچ پہ بیٹھے، کپتان کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں۔ اگر اسی بولنگ اٹیک میں پاکستان کو محمد حسنین کی بجائے حسن علی کی خدمات میسر ہوتیں تو اس مقابلے کا معیار ہی یکسر مختلف ہوتا۔ حسن علی کی موجودگی کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ شدید دقت کے آخری اوورز میں گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچانا بھی جانتے ہیں۔ یہ میچ ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے قابلِ فتح تھا اور یہاں پاکستان اپنی کسی صلاحیتی کمی کی وجہ سے نہیں ہارا بلکہ ٹیم سلیکشن کے چند فیصلے اس قدر اہم ثابت ہوئے کہ بابر اعظم کی ٹیم کے گلے پڑ گئے۔
اسرائیلی سفیر نے کہا متحدہ عرب امارات اسرائیلی معیشت کے لیے ایک اہم ترقی کا انجن ہو سکتا ہے۔ تصویر: اسکرین گریب اماراتی نیوز ایجنسی اسرائیلی سفیرعامر ہائیک کا کہنا ہے کہ دو سے تین سال میں متحدہ عرب امارات (یواے ای) اسرائیل کے 10 بڑے تجارتی شراکت داروں میں شامل ہوگا۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یواے ای) کی باہمی تجارت میں گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران 117 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی سفیرعامر نے بتایا کہ گزشتہ سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 560 ملین ڈالر(2.06 ارب درہم) مالیت کی دو طرفہ تجارت 2022 کی پہلی ششماہی کے دوران 1.214 ارب ڈالر (4.46 ارب درہم) تک پہنچ گئی ہے، جو117 فیصد زائد ہے۔ ابوظہبی میں اسرائیلی سفارت خانے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کی دوسری سالگرہ کی تقریب میں شریک اسرائیلی سفیرعامر ہائیک کا کہنا تھا کہ یقین ہے کہ اگلے 2 سے 3 سال میں ہم (یواے ای) کو ان 10 سرِفہرست ممالک میں دیکھیں گے، جن کے ساتھ اسرائیل تجارت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ (یواے ای) اسرائیلی معیشت، اسرائیلی صنعتوں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لیے ترقی کا انجن ثابت ہوگا۔ اسرائیلی سفیر نے کہا کہ جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے (CEPA) پر31 مئی 2022 کو (یواے ای) کے ساتھ 6 ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد دستخط کیے تھے۔ دوسری جانب (یواے ای) کی وزارت اقتصادیات کے مطابق توقع ہے کہ مذکورہ معاہدے سے دو طرفہ تجارت 5 سال میں 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ وزارت اقتصادیات نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کی GDP میں 1.9 ارب ڈالرکا اضافہ ہوگا جس کے بعد 2030 تک (یواے ای) کی کل برآمدات میں 0.5 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
موسم سرما میں اکثر گلے کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جو نہایت تکلیف کا باعث بنتے ہیں، گلے کی صحت کا خیال سارا سال ہی رکھنا ضروری ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد گلے کی مناسب دیکھ بھال اور اس کی صحت کا خیال نہیں رکھتی اس لیے اس میں اکثر خراش یا نگلتے ہوئے تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ کچھ ایسے طریقے ہیں جنہیں اپنانا گلے کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ نم رکھیں گلے کی اندرونی سطح نہایت نرم بافتوں سے بنی ہوئی ہیں جنہیں صحت مند رکھنے کے لیے نم رکھنا بے حد ضروری ہے، کوشش کریں کہ کیفین سے بھرپور مشروبات سے دور رہیں جو جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ پیاس لگنے کی صورت میں سافٹ ڈرنک کے بجائے پانی پینے کو اپنی عادت بنائیں، ماہرین صحت کا مشورہ ہے کہ روزانہ 6 سے 8 گلاس پانی لازمی پیئں، اور اگر آپ ایسی جگہ کام کر رہے ہیں جہاں کا موسم خشک ہے یا ایئر کنڈیشنڈ چل رہا ہو تو پانی کا استعمال بڑھا دیں۔ ٹوتھ برش کی صفائی کو یقینی بنائیں جس طرح دانتوں کو باقاعدگی سے صاف کرنے کے لیے برش کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح ٹوتھ برش کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھیں۔ دانتوں کی صفائی کے دوران کھانے کے اجزا اور دیگر مواد سے جراثیم اور بیکٹیریا برش پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے صبح دانت برش کرنے سے پہلے ایک کپ گرم پانی میں ایک چائے کا چمچ نمک ملا کر اس میں اپنے ٹوتھ برش کو بھگو دیں۔ نمکین پانی بیکٹیریل خلیوں کو دور کر کے برش کو صاف کر دے گا۔ حفظان صحت کے اصول اپنائیں بنیادی حفظان صحت کے طریقے، جیسے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانے کے برتن اور دیگر ذاتی اشیا کا اشتراک نہ کرنا، گلے کی خراش کو روکنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طرح وائرل یا بیکٹیریل گلے کے مسائل دوسروں تک نہیں پھیلیں گے۔ گلے کو آرام دیں اگر آپ کسی ایسے پشے سے وابستہ ہیں جس میں بات کرنا یا زیادہ بولنا شامل ہے جیسے گلوکار، اداکار، اسپیکر، استاد، یا ڈاکٹر تو ایسی صورت میں کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کریں تاکہ گلے کو آرام دیا جاسکے۔ نیم گرم نمکین محلول سے غرارے کریں نمک ملے پانی سے غرارے کرنا بہترین جراثیم کش عمل ثابت ہوتا ہے، اس طرح بیکٹیریا کی نشوونما رک جاتی ہے۔ لہٰذا، صحت مند گلے اور صبح کے وقت صاف ستھرا سانس لینے کے لیے، سونے سے قبل نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے ضرور کریں۔
٭ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے اسلامی تعاون تنظیم (او۔آئی۔سی)کی وزرا خارجہ کونسل کے نیامے میںمنعقدہ اجلاس کے موقع پر آج ملاقات کی۔ ٭ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی امور، کثیرالقومی اداروں کی سطح پر تعاون اور کورونا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ ٭ وزیر خارجہ نے ’جی۔بیس‘ اجلاس کے کامیاب انعقاد پر سعودی قیادت کو مبارک دی۔ ٭ وزیرخارجہ نے زوردیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے اور طویل المدتی تعلقات استوار ہیں۔ ٭ اطراف نے توانائی کے شعبے سمیت دوطرفہ تجارت اور معاشی تعاون کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ ٭ دونوں وزرا خارجہ نے امت مسلمہ کے کلیدی پلیٹ فارم کے طورپر ’او۔آئی۔سی‘ کی اہمیت اور کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے کردار پرگفتگو کی۔ ٭ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں جاری سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔ ٭ انہوں نے سلطنت کی کشمیر کے منصفانہ کاز کے لئے ٹھوس اور اصولی حمایت پر سعودی عرب کے اپنے ہم منصب کا شکریہ ادا کیا۔ ٭ شہزادہ فیصل نے اس اہمیت پر زور دیا جو سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے بردرانہ اور سٹرٹیجک تعلقات کو دیتا ہے۔
ن لیگ کے صدر نے احتساب عدالت کے سامنے نیب کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ عمران خان اور مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ فاطمہ علی @FatimaAli09 سوموار 5 اکتوبر 2020 15:00 پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پیر کو لاہور میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے روا رکھے گئے سلوک کی شکایت کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر نیب نے 28 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ سے حراست میں لیا تھا۔ پیر کو احتساب عدالت کے جسٹس جواد الحسن نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت میں کہا: 'میری ایک بہت ضروری شکایت ہے، سارا زمانہ جانتا ہے کہ مجھے کمر کی تکلیف ہے، میں 25 سال سے کمر کے درد میں مبتلا ہوں، نماز پڑھنے کے لیے کرسی کا رخ تبدیل کرنے کے لیے بھی مدد لیتا ہوں لیکن یکم اور دو اکتوبر کو میری مدد کرنے سے انکار کردیا گیا، پہلےکھانا میز پر رکھا جاتا تھا لیکن اب زمین پر رکھ دیتے ہیں اور یہ سب جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ مجھے جھکنا پڑے۔' انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب کو بھی شکایت بھجوا چکے ہیں۔ 'میرے ساتھ یہ سلوک عمران خان اور شہزاد اکبر کی ایما پر ہوا، مجھے کچھ ہوا یا میری جان گئی تو ایف آئی آر عمران خان اور شہزاد اکبر کے خلاف درج کراؤں گا۔' اس پر جسٹس جواد الحسن نے استفسار کیا: 'آپ نے اپنی شکایت مجھے بتا دی، جب تک آپ عدالتی تحویل میں ہیں، میرے احکامات چلیں گے، دوران تحویل کوئی غیرانسانی سلوک برداشت نہیں کروں گا۔ آئندہ یہ شکایت ہوئی تو میں اس کا نوٹس لوں گا۔' نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کو حوالات میں نہیں بلکہ خاص روم ڈسپنسری میں رکھا ہوا ہے اور انہیں کھانا گھر سے لانے کی اجازت دے رکھی ہے، اس پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ انہیں دو روز تک حوالات میں رکھا گیا تھا اور شکایت کرنے پر انہیں ڈسپنسری منتقل کیا گیا۔ جسٹس جواد الحسن نے دیگر وکلا کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا: 'مجھے سیاست میں آپ سے زیادہ تجربہ ہے، میں آج ہی اس سے متعلق مکمل آرڈر پاس کروں گا، یہ ہرگز درست نہیں کہ کھانا زمین پر دیا جائے۔' اس کے ساتھ ہی احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ شہباز شریف کی شکایات کے حوالے سے ن لیگ کی سیکرٹری اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'شہباز شریف کا کھانا دن میں ایک مرتبہ گھر سے جاتا ہے، جس میں مختلف ڈشز ہوتی ہیں۔ چونکہ شہباز شریف کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے پرہیزی کھانا بھیجا جاتا ہے۔' انہوں نے مزید کہا 'نیب کی تحویل میں شہباز شریف کے ساتھ کیا جانے والا سلوک سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں جیل میں اضافی احتیاط کی ضرورت ہے اور انہیں جان بوجھ کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا اظہار آج نے احتساب عدالت میں بھی کیا۔' جب اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: 'ہم شکایت ڈاٹ کام سننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔' مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) مسرت چیمہ نے مزید کہا: 'سب سے پہلی بات یہ کہ کسی کے کہنے پر کسی کو نہیں بلایا گیا۔ دراصل منی لانڈرنگ کیس میں ان کے ملازمین کے اکاؤنٹس میں سے جو پیسے نکلے ہیں یہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ان کا بیانیہ عوام اور میڈیا کے لیے اور ہے جبکہ جب نیب حکام ان سے سوال جواب کرتے ہیں تو یہ بالکل فلیٹ جواب دیتے ہیں۔' ان کا کہنا تھا: 'شہباز شریف جتنے الزامات لگا رہے ہیں انہیں بالکل اسی طرح دیکھا جائے جس طرح انہوں نے نوز شریف کے پلیٹ لیٹ کاؤنٹس کا ڈرامہ رچایا تھا، کہ ایک انتہائی بیمار مریض جو اس وقت بستر مرگ پر تھے لیکن جیسے ہی ایئر ایمبولینس میں بیٹھے تو وہ بالکل ٹھیک ہوگئے اور آج اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔' بقول مسرت چیمہ: 'ان کے قول و فعل میں تضاد ہے اور ان کی ساکھ صفر ہے۔ ان کی باتوں پر کسی کو کان اس لیے نہیں دھرنا چاہیے کیونکہ ان کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ جھوٹ پر مبنی ہے۔' مزید پڑھیے شہباز کی گرفتاری: 'کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہمیں جھکایا جا سکتا ہے' کاغذی لاک ڈاؤن اور شہباز شریف کی پکڑ کھٹی میٹھی گولیاں اور شہباز شریف شہباز شریف کی واپسی میں تاخیر پر لیگی اراکین میں بے چینی اسی بارے میں: شہباز شریفمسلم لیگ ناحتساب عدالتقومی احتساب بیورونیبعدالتمنی لانڈرنگ کیسلاہورپاکستانانڈپینڈنٹ اردو
مصر کے ایک چرچ میں آتشزدگی سے 41 افراد شہید روس یوکرین جنگ بندی کے لیے مسیحیوں کا 25مارچ کو یوم دعا منانے کا اعلان سکھر: ’زبردستی شادی‘ سے انکار پر ہندو لڑکی قتل پوپ فرانسس نے ویٹیکن کے نئے اصلاحاتی دستور کی منظوری دے دی کراچی سے اغوا ہونیوالی مسیحی بچی کو پولیس نے بازیاب کرا لیا مسیحی برادری ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کررہی ہے: آرمی چیف قمر باجوہ اوکاڑہ : نابالغ مسیحی لڑکی اغوا کے بعد زیادتی کی شکار مسیحی مشنری اہل خانہ سمیت اغوا، تاوان مانگ لیا گیا مسیحی مشنری کے اہل خانہ سمیت 17 افراد کا اغوا صوبائی وزیر اقلیتی امور اعجاز عالم کا دورہ ساہیوال شیئر کریں جسم فروشی کے لیے پاکستانی لڑکیوں کی چین اسمگلنگ پاکستان نے آٹھ ایسے چینی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے، جو مبینہ طور پر پاکستان سے نوجوان لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر انہیں چین لے جانا اور وہاں ان سے جسم فروشی کرانا چاہتے تھے۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک عہدیدار جمیل احمد کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان آٹھ چینی شہریوں کے ساتھ ساتھ ایسے چار پاکستانیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے،جو ایسی جعلی شادیوں کے لیے سہولت کار کا کام کرتے تھے۔ ایف آئی اے کے ایک دوسرے اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور مزید گرفتاریاں عمل میں آ سکتی ہیں۔ جمیل احمد نے اس حوالے سے مزید بتایا، ’’پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ سے متعلق ایف آئی اے کو معلومات ملی تھیں کہ انہیں چین لے جا کر وہاں ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔‘‘ جمیل احمد کے مطابق انہیں متعدد ایسے جرائم پیشہ گروہوں کا پتہ چلا ہے، جو خاص طور پر مسیحی خواتین کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں ’دلہنوں‘ کی اسمگلنگ کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد حکومت کو ایسی رپورٹوں کے حوالے سے ’چوکنا‘ ہو جانا چاہیے۔ اس رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کا طریقہء کار بالکل ویسا ہی ہے، جیسا ایشیا کے پانچ دوسرے ممالک میں اپنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ہزاروں چینی شہری میانمار اور ویتنام جیسے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی خواتین سے شادی کرتے ہیں۔ چین کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں تک نافذ العمل رہنے والی ’ون چائلڈ پالیسی‘ کی وجہ سے خواتین اور مردوں کی مجموعی تعداد میں واضح فرق پیدا ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے مقامی میڈیا میں بھی ایسی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ لاہور کے ایک میرج بیورو میں غریب خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیاں پیسوں اور ویزے کے عوض چینی شہریوں سے کرائی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں واقع چینی سفارت خانے کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’چین پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اس طرح کے غیرقانونی شادی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکے۔ ہم چین اور پاکستان دونوں ممالک کے شہریوں سے محتاط رہنے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ وہ دھوکہ دہی سے بچ سکیں۔‘‘ پاکستانی خواتین کی چین میں اسمگلنگ کے علاوہ بھی اس ملک کو مشرق وسطیٰ میں بچوں کی اسمگلنگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی بچوں کو خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والی اونٹوں کی دوڑوں ریسوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کراچی: پاکستانیوں میں خود کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیٹول کی مہم ’ہوگا صاف پاکستان‘ کے تحت نیا صفائی ترانہ پیش کردیا گیا۔ اس ترانے کا مقصد صاف پاکستان کے تصور کی عکاسی کرنا ہے۔ آفیشل ترانے کی ویڈیو ’ہوگا صاف پاکستان‘ مہم کے چیمپئنز فہد مصطفیٰ ، وسیم بادامی، اقرار الحسن اور شنیرہ اکرم شامل ہیں، ترانے کی دھن شجاع حیدر نے بنائی جبکہ عاصم اظہر اور آئمہ بیگ نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ ریکٹ بینکر پاکستان کے مارکیٹینگ ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ موسیقی عوام کو متحرک کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے، ہوگا صاف پاکستان محض ایک سماجی مقصدنہیں جس کو برانڈ سپورٹ کررہا ہے بلکہ یہ ایک سماجی تحریک ہے جس کو ڈیٹول بھی زبان زدِ عام کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ہاتھ دھونے کی عادات کو عام کرنے کے لیے لاتعداد مہمات، مفادِ عامہ کے پیغامات اور ٹی وی شوز پیش کیے جارہے ہیں مگر یہ ترانہ بھی پاکستانیوں کو اسی مقصد سے متحرک کرنے کی کوشش کا ہے تاکہ سب مل کر صحت مند اور پاکستان کی تشکیل کی ذمہ داری لیں‘۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جرجیس سیجا کا کہنا تھا کہ ’ہوگا صاف پاکستان نے ملک بھر کی صفائی کا بیڑا اٹھا لیا ہے تاکہ کچرے کو لے کر ہمارے رویے میں تبدیل آئے کیونکہ اس کی شرح میں سالانہ دو فیصد اضافہ ہورہا ہے جو بالآخر ہماری سڑکوں کی نظر ہوتا جارہا ہے‘‘۔   جرجیس سیجا کا کہنا تھا کہ ’ہوگا صاف پاکستان کے ساتھ پارٹنر شپ کا مقصد شہریوں کو تبدیلی اپنانے اور اس خواب پر عمل کرنے کے لیے راغب کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ملک کی ذمہ داری لینے کے لیے خود سے آگے بڑھیں‘۔ اے آر وائی اور ڈیٹول کی ’ہوگا صاف پاکستان‘ مہم وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ سال شروع کردہ ’کلین گرین پاکستان‘ کے اقدام کو آگے بڑھانے میں فعال کردار ادا کررہی ہے۔
جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو پچاس برس مکمل ہوچکے۔20 ویں صدی میں انسانیت کی تباہی کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے دنیا آگاہ ہوچکی تھی کہ یہ طاقت دنیا کے تحفظ کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ دنیا اس وقت تک جنگ عظیم اوّل و دوم جھیل چکی اور امریکا کی جانب سے جاپان پر جوہری طاقت کا استعمال بھی کیا جاچکا ہے۔جوہری ہتھیارکرہ ارض کے لئے ایک مہلک ایجاد ہے جس نے دنیا میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا۔ جوہری ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے ایک معاہدہ پچاس برس قبل عمل میں لایا گیا تھا جسے این پی ٹی(Non-Proliferation Treat) کا نام دیا گیا۔ جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں میں کمی کرنا تھا۔ این پی ٹی معاہدے کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں کمی کا اہم عنصر تسلیم کیا جاتا ہے، امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کا دعویٰ ہے کہ 1950کے مقابلے میں ایٹمی ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔5 مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا اساسی بنیاد کا حامل یہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے جو دنیا کے ممالک کو جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا پابند بناتا ہے۔ تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں اس معاہدے کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔این پی ٹی میں شامل ممالک نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا:1۔جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔2۔جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔3۔جوہری ہتھاروں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی نیک نیتی سے پیروی کرنا۔این پی ٹی معاہدے میں 191کے قریب ممالک شامل ہیں، شمالی کوریا این پی ٹی میں شامل ہوا تھا لیکن بعد ازاں اُس نے2003میں خود کو معاہدے سے الگ کرلیا۔ اسی طرح پاکستان، ایران، بھارت اور سوڈان این پی ٹی معاہدے میں شروع سے ہی شامل نہیں ہوئے۔ بھارت کی جانب سے خطے میں مہلک ہتھیاروں کی دوڑ و جوہری طاقت کے ممکنہ غلط استعمال کے خدشے کے سبب پاکستان کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ جب تک بھارت جوہری معاہدے میں شامل نہیں ہوتا، پاکستان کو اپنی مملکت کی بقا و تحفظ کے لئے ملک دشمن عناصر سے بچاؤ کے لئے حفاظتی اقدامات کرنا ناگزیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کے لئے ہے اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی جانب سے بارہا کوشش کی جاتی رہی کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی برادری کو گمراہ کیا جاسکے تاہم پاکستان کا موقف رہا کہ اس نے جو بھی قدم اٹھایا وہ اپنی مملکت کے دفاع کے خاطر اٹھایا، اس کے لئے پاکستان پر شدید دباؤ بھی بڑھایا گیا، پابندیاں بھی عاید کیں گئیں لیکن عوام نے سرزمین کے دفاع کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ اس وقت دنیا میں 9مملکتیں جوہری طاقت ہیں، جن میں پانچ ریاستیں امریکا، چین برطانیہ، فرانس اور روس کو تسلیم شدہ قرار دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان، بھارت، اسرائیل و شمالی کوریا بھی محدود تعداد میں جوہری ہتھیار رکھتی ہیں، امریکی سائنس دانوں کی تنظیم کے مطابق اسرائیل نے اپنے جوہری صلاحیتوں کے متعلق خاموشی اختیار کررکھی ہے تاہم اس کے بعد 80سے زاید جوہری ہتھیار موجود ہیں، جب کہ پاکستان کے پاس150، بھارت140شمالی کوریا25جوہری ہتھیارکے ذخائر رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں روس اس وقت سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والی مملکت ہے جن کی تعداد 6930بتائی جاتی ہے جبکہ امریکا کے پاس 5550، فرانس300، چین290اور برطانیہ215جوہری ہتھیاروں کے ذخائر رکھتا ہے۔پانچ جوہری طاقتوں نے ایٹمی صلاحیت جنوری1967میں حاصل کی تھی جو معاہدے کے نفاذ سے قبل تھا، تاہم معاہدے کے تحت انہیں اپنے ایٹمی ذخائر میں کمی لانا ہوگی اور انہیں مستقل بنیادو ں پر نہیں رکھ سکتے۔ ایران اور امریکا نے درمیان جوہری صلاحیت پر تنازعہ خطے میں تشویش ناک حد تک جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایران نے اپنا جوہری پروگرام1951میں شروع کیا تھا لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے پانچ ممالک کو تحفظات ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے، اس لئے امریکا نے ایران کے توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ سے اپنے ہی صدر بارک اوبامہ کا کیا گیا2015کا معاہدہ منسوخ کرکے ایران پر دباؤ بڑھایا کہ وہ ازسرنو جوہری معاہدہ کرے۔ ایران نے امریکی تجارتی پابندیوں اور دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے بارک اوبامہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر قائم رہنے پر زور دیا لیکن صدر ٹرمپ اس معاہدے میں کئی خامیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 1986میں جوہری ہتھیاروں کے تعداد70ہزار کے لگ بھگ تھی جو اب کم ہوکر 14ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔عالمی برادری اس اَمر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جوہری ہتھیار کا استعمال جنگ عظیم دوم میں کرلیا گیا تاہم اب کسی جنگ میں جوہری ہتھیار کو استعمال کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بظاہر امریکا، برطانیہ نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی پیدا کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید طرز میں ڈھالنے کا عمل شروع یا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے 2040تک اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید نظام کے تحت بنانے کے لئے ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی مناسبت سے امریکا نے بیان بھی جاری کیا ہے جس میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ”11 مئی 1995 کو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں فریق ممالک نے یہ فیصلہ کیا کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے یا این پی ٹی کے نام سے معروف یہ معاہدہ غیرمعینہ مدت تک موثر رہنا چاہیے۔ این پی ٹی کا آغاز 1970 میں ہوا تھا اور ابتدائی طور پر اِس معاہدے کی مدت 25 برس رکھی گئی تھی۔ اسی لیے 1995 میں این پی ٹی کے جائزے اور اس میں توسیع کے لیے ہونے والی کانفرنس کے سامنے دو راستے تھے کہ آیا اِس معاہدے میں توسیع ہونی چاہیے اور اگر ایسا کیا جائے تو کیا اس کی کوئی مقررہ مدت ہونی چاہیے، یا یہ معاہدہ غیرمعینہ مدت تک موثر رہنا چاہیے۔ دانشمندانہ طور سے این پی ٹی کے فریقین نے معاہدے میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کا فیصلہ کیا جس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملی کہ جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کی کوششوں کی بنیاد قائم رہے گی“۔ جوہری ہتھیار کسی جنگ میں استعمال کئے جانا ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے، پاکستان نے محدود فاصلوں تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیار رکھے ہیں، کیونکہ اُس کے نزدیک بھارت کے جارحانہ عزائم قیام پاکستان کے وقت سے مملکت کے لئے خطرات کا سبب بنے ہوئے ہیں، پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارتی سازشوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا تو دوسری جانب ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف وزریوں و پاکستان کو دہمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ بھارت فالس فیلگ آپریشن کی سازش میں جُتا ہوا ہے اور اپنی سازشوں سے پورے خطے میں جنگ کے مہیب سائے مسلط کئے ہوئے ہیں، مقبوضہ کشمیر، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے علاقوں میں بھارت نے سازشوں کا جال بندھا ہوا ہے، جس وہ برملا اظہار بھی کرتا ہے اور ڈھٹائی سے تسلیم بھی کرتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کرانے میں بھارت نے اپنا سازشی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے مطابق وہ کسی قسم کی جارحانہ سوچ کے تحت جوہری صلاحیت میں توسیع پسندانہ رجحان نہیں رکھتا، اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی جو صلاحیت ہے وہ پُرامن و سرزمین کی حفاظت کے لئے ہے، جو بھارت جیسی شاطرحکومت کے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان این پی ٹی میں یکطرفہ طور پر شامل ہوکر بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو نہیں روک سکتا، اس لئے جب تک بھارت این پی ٹی کے معاہدے کا حصہ نہیں بنتا، اُس وقت تک پاکستان بھی ایم پی ٹی معاہدے میں شامل ہونے میں شدید تحفظات رکھتا ہے۔ عالمی برداری اگر مقبوضہ کشمیر کا پُر امن حل نکال کر کشمیری عوام کو حق خوداردایت دے دے تو خطے میں جوہری جنگ کا سبب بننے والاخدشہ ختم ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری و جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عمل درآمد کرائے تاکہ پاک۔ بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے تنازعے کے باعث کسی مس ایڈونچرنگ کے خطرناک نتائج نہ نکلیں۔ پاکستان جوہری پروگرام کو پُرامن اور مفاد عامہ کے تحت محفوظ رکھنے پر مکمل طور پر کاربند ہے تاہم بھارت کے عزائم کو دیکھنا بھی عالمی برداری کی ذمے داری ہے۔
حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم کسی مجلس میں بیٹھو تو بسم اﷲ الرحمن الرحیم اور صلی اﷲ علٰی محمد کہو تو اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کر دے گا جو تمہیں غیبت کرنے سے باز رکھے گا۔ :: قول البديع : 133،علامہ سخاوی حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ شام کا ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک میرا باپ بوڑھا ہے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے کا مشتاق ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اپنے باپ کو میرے پاس لے آؤ آدمی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نابینا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو کہو کہ وہ سات راتیں صلی ا ﷲ علی محمد (اللہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے) پڑھ کر سوئے بے شک (اس عمل کے بعد) وہ مجھے خواب میں دیکھ لے گا اور مجھ سے حدیث روایت کرے گا آدمی نے ایسا ہی کیا تو اس کو خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ :: القول البديع : 133 حضرت خضر بن انشا اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص صلی ا ﷲ علی محمد (اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے) کہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رحمت کے ستر دروازے کھول دیتا ہے۔ :: قول البديع : 133 حضرت خضر بن ابو عباس اور الیاس بن بسام رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مؤمن بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو ترو تازہ اور منور کردیتا ہے۔ :: قول البديع : 132 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت سمرہ سوائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کثرت ذکر اور مجھ پر درود بھیجنا فقر کو ختم کر دیتا ہے۔ :: قول البديع، 129 حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جبرئیل سے پوچھا اﷲ کے ہاں محبوب ترین عمل کون سے ہیں؟ تو جبرئیل نے کہا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا۔ :: قول البديع، 129 حضرت علی علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت والے دن تین اشخاص اﷲتعالیٰ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے کہ جس دن اﷲتعالیٰ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عرض کیا گیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ (تین اشخاص) کون ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک وہ شخص جس نے میری امت کے کسی مصیبت زدہ سے مصیبت کو دور کیا دوسرا وہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اور تیسرا وہ جس نے کثرت سے مجھ پر درود بھیجا۔:: قول البديع : 123 کثرتِ درود و سلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچہری کی حاضری نصیب کرتا ہے۔ زمین کے ٹکڑے بھی جن پر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے، اس شخص پر فخر کرتے ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا بندے اور جہنم کی آگ کے درمیان ڈھال بن جائے گا۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والے تمام اہل عمل سے آخرت میں سبقت لے جائیں گے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے والے کی روح اعلیٰ مقامات پر فائز کی جاتی ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا تمام امور کی انجام دہی کو آسان بنا دیتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا تمام امور میں حائل مشکلات کو رفع کر دیتا ہے درود و سلام کی مجالس فرشتوں کی مجالس اور جنت کے باغات ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا دل کی مفلسی اور اس کے غموں کو دور کرتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ولایت کی طرف جانے والا راستہ ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا ایسی عبادت ہے جو تمام اوقات اور احوال میں بلاشرط جائز ہے اس کے وقت کی کوئی پابندی نہیں یہ عبادت ہر وقت ادا ہے اس میں قضا نہیں ہے جبکہ دوسری تمام عبادات ایسی نہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا جنت کی شادابی عطا کرتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا بندے کے لئے دنیا، قبر اور یوم آخرت میں نور کا باعث بنتا ہے۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے سے فرشتے کا درود بھیجنے والے کو اپنے پروں کے ساتھ گھیر لیتے ہیں۔ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنا طبیعت اور مزاج سے وحشت کو ختم کر دیتا ہے۔ کسی عارف شخص سے روایت ہے کہ جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک نہایت ہی پاکیزہ خوشبو پیدا ہوتی ہے جو آسمان کے کناروں تک پہنچ جاتی ہے (اس خوشبو کی وجہ سے) فرشتے کہتے ہیں یہ اس مجلس کی خوشبو ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا گیا۔:: سعادة الدارين : 471،علامہ نبھانی حضرت امام ابی القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے رسالہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تجھ میں دس ہزار کان پیدا فرمائے یہاں تک کہ تو نے میرا کلام سنا اور دس ہزار زبانیں پیدا فرمائیں جس کے سبب تو نے مجھ سے کلام کیا۔ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب اور نزدیک ترین اس وقت ہوگا جب تو محمد عربی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود شریف بھیجے گا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کہ، بروز قیامت اللہ تعالٰی کے حکم سے حضرت ابو البشر آدم علیہ السلام عرش الٰہی کے پاس سبز حلہ پہن کر تشریف فرما ہوں گے اور یہ دیکھتے ہوں گے کہ میری اولاد میں کس کس کو جنت میں لے جاتے ہیں اور کس کس کو دوزخ لے جاتے ہیں۔ اچانک آدم علیہ السلام دیکھیں گے کہ سید انبیاء و المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ایک امتی کو فرشتے دوزخ لے جا رہے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ دیکھ کر ندا دیں گے۔ اے اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ کے ایک امتی کو ملائکہ کرام دوزخ لے جا رہے ہیں۔ سید دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ یہ سن کر میں اپنا تہبند مضبوط پکڑ کر ان فرشتوں کے پیچھے دوڑوں گا اور کہوں گا، اے رب تعالٰی کے فرشتو ! ٹھہر جاؤ۔ فرشتے یہ سن کر عرض کریں گے۔ یا حبیب اللہ ! ہم فرشتے ہیں اور فرشتے اللہ کی حکم عدولی نہیں کر سکتے اور وہ کام کرتے ہیں جس کا ہمیں دربار الٰہی سے حکم ملتا ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی ریش مبارک پکڑ کر دربار الٰہی میں عرض کریں گے۔ اے میرے رب کریم کیا تیرا میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں ہے کہ تجھے تیری امت کے بارے میں رسوا نہیں کروں گا تو عرش الٰہی سے حکم آئے گا۔ اے فرشتو ! میرے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو اور اس بندے کو واپس میزان پر لے چلو۔ فرشتے اس کو فوراً میزان کے پاس لے جائیں گے اور جب اس کے اعمال کا وزن کریں گے تو میں اپنی جیب سے ایک نور کا سفید کاغذ نکالوں گا اور بسم اللہ شریف پڑھ کر نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دوں گا تو اس کا نیکیوں والا پلڑا وزنی ہو جائے گا۔ اچانک ایک شور برپا ہوگا کہ کامیاب ہو گیا، کامیاب ہوگا۔ اس کو جنت میں لے جاؤ۔ جب فرشتے اسے جنت کو لے جاتے ہوں گے تو وہ کہے گا، اے میرے رب کے فرشتو ! ٹھہرو میں اس بزرگ سے کچھ عرض کر لوں۔ تب وہ عرض کرے گا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کا کیسا نورانی چہرہ ہے اور آپ کا خلق کتنا عظیم ہے۔ آپ نے میرے آنسوؤں پر رحم کھایا اور میری لغزشوں کو معاف کرایا۔ آپ کون ہیں ؟ فرمائیں گے، میں تیرا نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہوں اور یہ تیرا درود پاک تھا جو تونے مجھ پر پڑھا ہوا تھا۔ وہ میں نے تیرے آج کے دن کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا۔
مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم ِنبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور اس سے انکار کو ناممکنات میں سے گردانتے تھے ،نیز ختم ِنبوت کے منکرین خصوصاََ قادیانیوں کے کفر کا بر ملا اظہار فرماتے تھے ۔ذیل میں علامہ اقبال مرحوم کے عقیدۂ ختم ِنبوت اور قادیانیت کے حوالے سے چند ارشادات نقل کیے جارہے ہیں ۔ ٭ علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’ذاتی طور پر مجھے اس تحریک ) قادیانیت ( کے متعلق اس وقت شبھات پیدا ہوئے جب ایک نئی نبوت ،جو پیغمبر اسلام کی نبوت سے بھی بر تر تھی، کا دعوی کیا گیا اورتمام عالم اسلام کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا ۔بعدازاں میرے شبھات نے اس وقت مکمل بغاوت کی صورت اختیار کرلی ،جب میں نے اپنے کا نوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت ناز یبا زبان استعمال کرتے سنا ‘‘۔ ٭’’ ختم ِنبوت اسلام کا ایک نہایت اہم اور بنیادی تصور ہے ۔ اسلام میں نبوت چو نکہ اپنے معراج کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے ٭ختم ِنبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کا فر ہے تو وہ شخص کا ذب ہے ‘‘۔ ٭’’اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تنظیم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ،جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔جو شخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے‘‘۔ ٭جو اہر لعل نہرونے مرزائیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھا ،جس کا علامہ صاحب نے مدلل اور جامع جواب دیا چنا نچہ آخر میں لکھتے ہیں "In Islam Prophancy Reaches it's Perfection"- ٭قادیانی تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو بے حد نقصان پہنچا یا ہے ۔اگر استیصال نہ کیا گیا تو آئندہ شدید نقصان ہوگا ۔ ٭ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بنیاد نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے ،مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گااور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم ِنبوت ہی سے استوار ہو تی ہے ۔ ٭تمام ایکٹر جنہوں نے احمدیت کے ڈرامے میں حصہ لیا ہے ،وہ زوال اور انحطاط کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ ٭ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے ۔اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کررہی ہے ۔کیو نکہ ابھی وہ ) قادیانی( اس قابل ہیں کہ چوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچا سکے ۔ ٭قادیانی جماعت کا مقصد پیغمبر عرب کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی امت تیار کرنا ہے ۔ ٭بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے ،کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے ،لیکن مؤخرالذکر کو ) قادیانیت ( اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہر طور پر قائم رکھتی ہے لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے ،اس کے ضمیر میں یہودیت کے عناصر ہیں۔گویا تحریک ہی یہودیت کی طرف راجع ہے۔ ٭نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم ِنبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا۔ مغربیت کی ہوا نے انہیں حفظ نفس کے جذبہ سے عاری کردیا ہے لیکن عام مسلما ن جو ان کے نزدیک ملازدہ ہے ،اس تحریک ) قادیانیت ( کے مقابلہ میں حفظ نفس کا ثبوت دے رہا ہے۔ ٭رواداری کی تلقین کرنے والے اس شخص پر عدم رواداری کا الزام لگا نے میں غلامی کرتے ہیں جو اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ٭قادیانی نظریہ،ایک جدید نبوت کے اختراع سے قادیانی افکار کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس سے نبوت محمدیہ کے کامل واکمل ہونے کے انکار کی راہ کھلتی ہے ۔
یورپی یونین کی جانب سے کورونا وائرس سے محفوظ 14 ملکوں کے شہریوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے کورونا وائرس سے محفوظ 14 ملکوں کے شہریوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ، برازیل اور چین یورپی یونین کی اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق یورپی یونین کے شہریوں کے لیے بھی یونین کے اندر سرحدی کنٹرول ختم کر دیئے گئے ہیں۔ یورپ سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی موذی وباء نے مسلسل اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، جس کے ناصرف مریضوں میں بلکہ اس سے اموات میں بھی ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِىۡ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِهٖ‌ؕ وَاِلَيۡهِ النُّشُوۡرُ‏ ﴿15﴾ وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست و مطیع کر دیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ ( پیو ) اسی کی طرف ( تمہیں ) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے ۔ Arabic simple هو الذي جعل لكم الارض ذلولا فامشوا في مناكبها و كلوا من رزقه و اليه النشور English translation It is He who made the earth tame for you - so walk among its slopes and eat of His provision - and to Him is the resurrection. Roman urdu Woh zaat jiss ney tumharay liye zamin ko past-o-mutee kerdia takay tum uss ki raahon mein chaltay phirtay raho aur Allah ki roziyan khao ( piyo ) ussi ki taraf ( tumhen ) ji ker uth khara hona hai. Translation Taqi Usmani وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو رام کردیا ہے ، لہذا تم اس کے مونڈھوں پر چلو پھرو ، اور اس کا رزق کھاؤ ، اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے ۔ ( ٣ ) Translation Kanzul Iman وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین رام ( تابع ) کر دی تو اس کے رستوں میں چلو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ ( ف۲٤ ) اور اسی کی طرف اٹھنا ہے ( ف۲۵ ) Translation Abul A'la Maududi وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے ، چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا 23 رزق ، اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے24 ۔ Translation Tahir ul Qadri وُہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم و مسخر کر دیا ، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو ، اور اُس کے ( دئیے ہوئے ) رِزق میں سے کھاؤ ، اور اُسی کی طرف ( مرنے کے بعد ) اُٹھ کر جانا ہے Tafseer Abdul A'la Muadudi سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :23 یعنی زمین تمہارے لیے آپ سے آپ تابع نہیں بن گئی اور وہ رزق بھی جو تم کھا رہے ہو خود بخود یہاں پیدا نہیں ہو گیا ، بلکہ اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اس کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں تمہاری زندگی ممکن ہوئی اور یہ عظیم الشان کرہ ایسا پرسکون بن گیا کہ تم اطمینان سے اس پر چل پھر رہے ہو اور ایسا خوان نعمت بن گیا کہ اس میں تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کا بے حدو حساب سرو سامان موجود ہے ۔ اگر تم غفلت میں مبتلا نہ ہو اور کچھ ہوش سے کام لے کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ اس زمین کو تمہاری زندگی کے قابل بنانے اور اس کے اندر رزق کے اتھاہ خزانے جمع کر دینے میں کتنی حکمتیں کار فرما ہیں ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حواشی 73 ۔ 74 ۔ 81 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حواشی 29 ۔ 32 ۔ المومن ، حواشی 90 ۔ 91 ۔ الزخرف ، حاشیہ 7 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 7 ۔ جلد پنجم قٓ ، حاشیہ 18 ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :24 یعنی اس زمین پر چلتے پھرتے اور خدا کا بخشا ہوا رزق کھاتے ہوئے اس بات کو نہ بھولو کہ آخر کار تمہیں ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔
میں نے ایک تجارتی کام کیا اوریہ وعدہ کیا کہ اس کے نفع میں سے کچھ معین رقم اللہ تعالی کے لیے خرچ کرونگا ، میراسوال یہ ہے کہ : کیا میں یہ رقم اپنے بھائي یا چچازاد اوراپنے رشتہ داروں کی شادی پرخرچ کرسکتاہوں اس لیے کہ ان کی مالی حالت صحیح نہيں ؟ اورکیا انہيں لازما بتانا ہوگا کہ یہ صدقہ ہے ؟ اورکیا میں کسی قریبی کو اس میں دے سکتاہوں چاہے وہ ایسے لوگ ہی ہوں جو شادی میں فخر کرتے ہوں اوررقم اپنی ضروریات میں صرف کریں ؟ جواب کا متن متعلقہ الحمد للہ. آپ پر واجب ہے کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں اوراللہ تعالی کے لیے معین کردہ رقم کواس کے راستے میں صرف کریں ، اوراگر آپ نے اس رقم کوکسی خاص جگہ میں صرف کرنے کی نذر مانی تھی تو پھر آپ اسی مد میں رقم صرف کرسکتے ہیں کسی اورمیں نہیں ، لیکن اگر آپ نے نہ توکسی خاص مد کی نیت کی اور نہ ہی اسے ذکر کیا ہے تو آپ کو خیروبھلائي کے راستے میں جہاں چاہيں خرچ کرنے پر اختیار ہے ۔ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی کے فتوی ) میں ہے کہ : اصل تویہی ہے کہ جب نذر کسی شرعی معاملہ میں مانی گئي ہو تویہ نذر بھی اسی میں پوری کی جائے گي جس کی تعیین نذر ماننے والے نے کی ہے ، اوراگر کوئي جہت معین نہيں کی گئي تویہ عمومی صدقات وخیرات میں سے ایک صدقہ ہی ہے ، اورصدقات وخیرات کی طرح غرباء ومساکین پر خرچ کیا جائے گا ۔۔۔ اھـ دیکھیں فتاوی الاسلامیۃ ( 3 / 485 ) ۔ آپ کا اپنے محتاج بھائي اورچچازاد کورقم دینا بھی بھلائي اورخير ہی ہے ، بلکہ اپنے محتاج رشتہ داروں کی مدد کرنا توزيادہ اجروثواب کا باعث اوردوسروں کودینے سے افضل ہے ۔ امام بخاری اورمسلم رحمہمااللہ نے اپنی اپنی صحیح میں انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ : مدینہ میں انصار صحابہ میں سے سب سے زيادہ کھجوروں کے مالک ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ تھے اورانہيں سب سے زيادہ محبوب باغ بیر حاء تھا اوریہ مسجد کے قبلہ والی جانب واقع تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہوتے اوروہاں سے ٹھنڈا اورمیٹھا پانی نوش فرماتے تھے اورجب یہ آیت نازل ہوئي : تم اس وقت تک نیکی حاصل ہی نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی سب سے زيادہ محبوب چيز اللہ کے راستے میں خرچ نہ کردو توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکھڑے ہوئے اورکہنے لگے : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ : تم اس وقت تک نیکی حاصل ہی نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی سب سے زيادہ محبوب چيز اللہ کے راستے میں خرچ نہ کردو اورمیرا سب سے پسندیدہ اورمحبوب باغ بیر حاء ہے میں اسے اللہ تعالی کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اس کے اجروثواب کی امید رکھتا ہوں ، لھذا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے اللہ تعالی کے حکم سے جہاں چاہیں صرف کریں تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : شاباش اورآفریں ! یہ مال توبہت نفع والا ہے ، یہ مال توبہت نفع مند ہے ، جوکچھ تو نے کہا میں نے سن لیا ہے ، میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے عزيز واقارب میں صرف کرو توابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا ہی کرتا ہوں ، لھذا ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے اپنے چچازاد اوررشتہ داروں میں تقسیم کردیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1461 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 998 ) ۔ اورمسئلہ یہ ہے کہ کسی قریبی اوررشتہ دار پر صدقہ کرنا صدقہ اورصلہ رحمی دونوں ہی ہیں ، آپ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 21810 ) اور ( 20173 ) کے جوابات کا مطالعہ ضرور کریں ۔ اوراس کے یہ بھی ضروری نہيں کہ آپ انہيں یہ بتائيں کہ یہ صدقہ کا مال ہے آپ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 33777 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔ لیکن یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ یہ مال آپ ایسے شخص کو نہ دیں جواس مال سے اللہ تعالی کی کوئي معصیت کرے یا اس کی معصیت میں مددگار معاون ثابت ہو ، یا ایسے شخص کوبھی نہ دیں توفضول خرچی میں معروف ہو اوربطور فخر مال خرچ کرتا ہو کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : نیکی اوربھلائي کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتےرہو لیکن برائي اورشر میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو المائدۃ ( 2 ) ۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ آپ انہيں نقد رقم دینے کی بجائے ان کی ضروریات کی اشیاء خرید کرانہيں دے دیں ، اس سے آپ کو یقین ہوجائے گا کہ آپ کا صدقہ صحیح جگہ میں صرف ہوا ہے ۔
مردان : فیس بک استعمال پر خاتون نے شوہرکوگرفتار کرا کر مقدمہ درج کرادیا ، خاتون نے الزام عائد کیا کہ شوہرفیس بک پر رات بھر غیر لڑکیوں سے بات کرتاہے جبکہ شوہر کا کہنا ہے کہ فیس بک ضرور استعمال کرتاہوں لیکن غیر لڑکی سے بات نہیں کرتا۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ پیش آیا، جہاں خاتون نے رات بھر فیس بک کے استعمال پر شوہر کے خلاف درخواست دائر کردی ، پولیس نے خاتون کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے شوہر کو گرفتار کرلیا۔ شوہررات بھرفیس بک پر غیرلڑکیوں سےبات کرتا ہے ، خاتون کا الزام بیوی نے الزام عائد کیا شوہررات بھرفیس بک کااستعمال کرتا ہے اور غیرلڑکیوں سےبات کرتا ہے جبکہ شوہر کا اپنے بیان میں کہنا ہے فیس بک ضرور استعمال کرتاہوں لیکن غیرلڑکی سےبات نہیں کرتا۔ یاد رہے گذشتہ سال فیصل آباد میں ایف آئی اے نے سوشل میڈیا کے ذریعے سابقہ بیوی کو بلیک میل کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیا تھا اور ملزم سے نازیبا تصاویر اور دیگر مواد برآمد کرلی تھیں۔ خیال رہے ایک تحقیق میں آسڑیلیا کی قانونی کمپنی سلیٹر اینڈ گورڈن کے ماہرین نے دعوی کیا تھا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے سوشل نیٹ ورک شادی شدہ زندگی کے لئے بڑا خطرہ بن گئے ہیں، ہر سات میں سے ایک طلاق انہی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق فیس بک پر ہونے والی دوستیاں اور تعلقات شادی شدہ جوڑوں کی زندگی میں تلخی بڑھانے کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات اس کے ذریعے شوہر یا بیویاں اپنے ساتھی کی ایسی مصروفیت کے بارے میں بھی جان لیتے ہیں, جن سے وہ عموما ً بے خبر ہوتے ہیں اور یوں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے اسحاق ڈار اور نواز شریف کی تقاریر میڈیا پر نشر کرنے پر ڈی جی پیمرا کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ تفصیلات کے لاہورہائی کورٹ میں اسحاق ڈار اور نواز شریف کی تقاریر میڈیا پر نشر کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیمرا نے عدالتی اشتہاریوں کو میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، پیمرا کی ہدایات کے باوجود نواز شریف اور اسحاق ڈار کی تقاریر کو میڈیا پر نشر کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں کہنا تھا کہ پیمرا اپنی ہی ہدایات پرعمل نہ کرکے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ پیمرا کے وکیل کی جانب سے جواب داخل کرنے کے لئے مہلت کی استدعا کی گئی ، جس پر عدالت نے ڈی جی پیمرا کو جواب سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ یاد رہے لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی لائیو تقریر نشر کرنے کیخلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پیمرا نے اشتہاریوں اور مفرور ملزمان کی کوریج پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن نواز شریف کی تقریر تمام ٹی وی چینلزپر براہ راست دکھائی گئی۔ دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اشتہاریوں اور مفرورملزمان کی کوریج پر پابندی کے احکامات پر عملدرآمد کرانے کا حکم دے۔
اسلام آباد: وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ڈپلومیٹک سائفر وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ سائفر کو کابینہ نے ’من گھڑت‘ قرار دے دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سائفر سے متعلق لیکڈ آڈیوز پر اہم فیصلے کیے گئے۔ آڈیوز کے معاملے پر تحقیقات کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی میں حکومتی جماعتوں نمائندے، خارجہ، داخلہ اور قانون کے وزرا شامل ہوں گے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی جانب سے معاملے کی مکمل تحقیق کے فیصلے کی تائید کی گئی۔ کابینہ نے سائفر کو من گھڑت قرار دے دیا۔ اجلاس کے دوران ڈپلومیٹک سائفر وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف بھی سامنے آیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ آڈیوز نے سابق حکومت اور عمران خان کی مجرمانہ سازش بے نقاب کر دی، سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے، سائفر کی وزیراعظم ہاؤس سے چوری سنگین معاملہ ہے۔ کابینہ نے کہا کہ ڈپلومیٹک سائفر کو من گھڑت معنیٰ دے کر سیاسی مفادات کے لیے قومی مفاد کا قتل کیا گیا، فراڈ، جعلسازی اور فیبریکیشن کے بعد اسے چوری کیا گیا، حلف، متعلقہ قوانین اور ضوابط خصوصاً آفیشل سیکریٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مزید کہا گیا کہ ریاست کے خلاف ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کیا گیا، آئین، قانون اور ضابطوں کے تحت معاملے کی باریک بینی سے چھان بین لازم ہے، ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے، قانون کے مطابق سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس کی ملکیت ہے۔ اجلاس میں سابق وزیر اعظم، سابق پرنسپل سیکریٹری اور سابق وزرا کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا جبکہ لندن میں مریم اورنگزیب کیساتھ پیش آئے واقعے کی مذمت سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔
کرپٹ سیاست دانوں، غنڈے بد معاشوں، انتہا پسندوں اور معاشرتی ناہمواری کے خلاف قلم اور کتاب سے لڑنے والی برقع ایونجر صرف ایک کارٹون سپر ہیرو ہی نہیں ہے بلکہ حلوہ پور میں سکول بند کرانے ، موسیقی اور بسنت پر پابندی لگانے والی سوچ سے آنے والی نسلوں کے بچاﺅ کی کوشش بھی ہے۔ پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ سیریز میں ایک سکول ٹیچرجیا "بخت کبڈی ” کے ذریعے تعلیم اور انصاف کی جنگ ہتھیاروں سے نہیں قلم اور کتاب سے جیتنا چاہتی ہے۔ برقع ایونجرز کی مرکزی کردار جیا اس وقت بابا بندوق اور وڈیرو پجیرو کے خلاف آواز اٹھاتی ہے جب کہیں اور امید کا کوئی اورراستہ سجھائی نہیں دیتا۔ جیا کے کردار کی اہمیت ایک مردانہ ، قدامت پسند اور تنگ نظر معاشرے میں عورت ہونے کے باوجود اپنے حق اور ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے سے بڑھ جاتی ہے۔ مذہبی شدت پسندی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلق بھی اس سیریز کا ایک اہم پہلو ہے جسے بابا بندوق اور وڈیرو پجیرو کے درمیان گٹھ جوڑ سے واضح کیا گیا ہے۔ پاکستان میں طالبان اور مذہبی انتہا پسند گزشتہ چھ برس میں بارہ سو سے زائد سکول تباہ کر چکے ہیں۔ تمام سپر ہیروز کی طرح جیا کا خاندانی پس منظر بھی اذیت ناک ہے۔ ایک حادثے میں والدین سے بچھڑنے والی بچی کو کبڈی جان کی صورت میں ایک ہمدرد ملتا ہے جواسے بخت کبڈی کے فن کی تربیت دیتا ہے۔ اپنی شناخت چھپانے کے لئے برقع کاسٹیوم کا استعمال ایک دلچسپ پہلو ہے۔ برقع کاا ستعمال بظاہر توسپر ہیرو کی شناخت چھپانے کے لئے ہے مگر ایسا کرنا متنازعہ بھی ہو سکتا ہے۔ برقع پاکستان میں محدود پیمانے پر پردہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کارٹون فلم میں برقع کا استعمال سماجی اور مذہبی شناخت کے طور پر زیر بحث بھی آسکتا ہے جس سے اس فلم کے اصل موضوع سے لوگوں کی توجہ ہٹنے کا اندیشہ بھی ہے۔ جب سوات میں تعلیم کا حق حاصل کرنے اور سکول جانے کی کوشش کرنے والوں کو گولی سے خاموش کرانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے ، برقع ایونجر کی جیا تعلیم اور امن کا پیغام لے کر ٹی وی سکرین کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہی ہے خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے برقع کو جبر کی علامت قرار دیتے ہوئے اسے حقوق نسواں کی تحریک کے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اینیمیٹڈ سیریز بنانے والے ادارے کا کہنا ہے کہ برقع کا استعمال صرف سپر ہیرو کی شناخت چھپانے کا ایک ذریعہ ہے۔ برقع ایونجرز پاکستان کے معروف پاپ گلوکار ہارون رشید کی تخلیق ہے جو اسی کردار پر مبنی ایک موبائل گیم بھی پیش کر چکے ہیں۔ اینیمیٹد سیریز ہونے کی وجہ سے اس پروگرام کا انتہا پسندی کے خاتمے اور لڑکیوں کے لئے تعلیم کی فراہمی جیسے مسائل بارے بچوں پر اس کے اثرات اہم ہوں گے۔ پاکستان میں تین چوتھائی بچیاں سکول جانے سے محروم ہیں اس سیریز سے ان بچیوں کے لئے تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایسے میں جب سوات میں تعلیم کا حق حاصل کرنے اور سکول جانے کی کوشش کرنے والوں کو گولی سے خاموش کرانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے ، برقع ایونجر کی جیا تعلیم اور امن کا پیغام لے کر ٹی وی سکرین کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے دو برس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی نشست کے لیے امیدوار بننے کا اعلان کردیا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے عرب ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے دو برس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی نشست کے لیے امیدوار بننے کا اعلان کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عرب امارات 2022-2023 کے لیے سلامتی کونسل کا رکن بننا چاہتا ہے۔ امارتی وزیر خارجہ شیخ عبداللّٰہ بن زاید نے یہ اعلان گزشتہ روز نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس کے پانچ مستقل ممبران ہیں جن کے پاس ویٹو کا اختیار ہے، ان میں امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں۔ عرب امارات اس سے قبل 1986 اور 19087 میں بھی سلامتی کونسل کا رکن رہ چکا ہے۔ رکنیت کے لیے ووٹنگ کا آغاز جون 2021 میں ہوگا اور امیدواروں کو جیت کے لیے جنرل اسمبلی کے دو تہائی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کرکے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو شہید کرکے اپنا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔
فٹبال ورلڈکپ 2022میں ایک اور اپ سیٹ ہوگیا، ارجنٹائن کے بعد 4 بار کی چیمپئن جرمنی بھی اپنا پہلا میچ ہارگئی، جاپان نے شاندار کم بیک کرکے 1-2سے شکست دے دی۔ قطر میں کھیلے جارہے فیفا فٹبال ورلڈکپ 2022 میں اپ سیٹ پر اپ سیٹ ہورہے ہیں، 4 بار کی چیمپئن جرمنی اس بار نشانہ بنی، خلیفہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں جاپان نے جرمنی کو 1-2 سے ہرادیا۔ گنڈوگن کی گول کی بدولت جرمنی نے برتری لی، ہاف ٹائم تک مقابلہ ایک صفر رہا، پھر دوسرے ہاف میں جاپان نے کم بیک کیا اور آخری 15منٹ میں میچ کا پانسہ پلٹ دیا، 75ویں منٹ میں ڈاؤں نے گول داغا، 8 منٹ بعد اسانو نے گیند کو جال میں پہنچادیا۔ جرمنی نے مقابلہ برابر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، میچ میں فتح کے بعد جاپان کے کھلاڑی اور فینز خوشی سے جھوم اٹھے۔ اسپین کا فٹبال ورلڈکپ 2022میں فاتحانہ آغاز دوسری جانب اسپین نے بھی فٹبال ورلڈ کپ 2022 میں فاتحانہ آغاز کردیا۔ گروپ ای کے میچ میں اسپین نے کوسٹا ریکا کو 0-7 سے آؤٹ کلاس کردیا، اسپین کی جانب سے دونوں گول فرنینڈو ٹورس نے اسکور کیے۔
گوادر(گوادر پرو)گوادر سیلاب متاثرین کے لیے بھیجے جانے والےعطیات کا وصول کنندہ بن گیا ۔ چین کے سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے کی طرف سے بھیجا گیا عطیہ کا پہلا ٹرک گوادر پہنچ گیا ہے جو پاک چین دوستی کی بہترین مثال ہے جو قدرتی آفات بشمول سیلاب اور متعدد آزمائشی اوقات کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ چین کے سنکیانگ کے شمال میں واقع شہر کرامے کی حکومت نے 200,000 یوآن مالیت کے امدادی سامان کا ایک ٹرک بھیجا جس میں سلیپنگ بیگز، خیمے اور دیگر موسم سرما سے محفوظ اشیاء شامل ہیں۔ امدادی سامان گوادر پہنچا دیا گیا اور سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچایا جائے گا۔ امدادی سامان کی یہ کھیپ 5 اکتوبر کو سنکیانگ کے خنجراب سے روانہ ہوئی اور پاکستان کے گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے گزری۔ پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک بحفاظت پہنچنے میں 3,150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 13 دن لگے۔ کرامے سٹی کے حکام کا خیال ہے کہ پاکستانی عوام جلد ہی اس تباہی پر قابو پالیں گے اور اپنے خوبصورت وطن کی تعمیر نو کریں گے۔ امدادی اشیاء چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی (COPHC) نے وصول کیں اور انہیں لوکل گورنمنٹ کے چیف آفیسر ایاز گورگیج کے حوالے کیا گیا۔ مقامی حکومت کے عہدیدار نے گوادر پرو کو بتایا کہ بلوچستان اور دیگر صوبوں کی حکومتیں ضرورت کے مطابق امداد کی تقسیم کے لیے سیلاب زدگان کی تفصیلات طلب کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شفافیت اور ٹریک ایبلٹی کو یقینی بنانے کے لیے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے تمام امدادی اشیاء کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کا تخمینہ ہے کہ اس کے حالیہ سیلاب سے ہونے والا کل نقصان 40 بلین امریکی ڈالر تک ہو سکتا ہے، جو حکومت کے ابتدائی تخمینہ سے 10 بلین امریکی ڈالر زیادہ ہے۔ لگ بھگ 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں تقریباً 16 ملین بچے بھی شامل ہیں۔ بلوچستان پر ریپڈ نیڈز اسسمنٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے 117,400 ایکڑ یا 43 فیصد فصلوں اور سبزیوں اور تقریباً 35,000 ایکڑ یا 30 فیصد باغات کو نقصان پہنچایا ہے جن کا سروے کیا گیا ۔
’میری نسل نایاب ہوچکی ہے۔ میں جس قوم کا فخر ہوں ان کو شاید میرا خیال ہی نہیں۔ کیا ان کی محبت لفظی یا زبانی حد تک ہی محدود ہے؟‘ شائع 07 جنوری 2022 04:55pm وادی شندور کی خوبصورت جھیلوں کا سفر صاحب! ہم کوہستان میں 40 سال گزار چکے ہیں اور یہاں کے چپے چپے سے واقف ہیں لیکن کوہستان میں شندور کی وادی کے بارے میں نہیں سنا۔ اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2021 02:28pm آنکھوں سے اوجھل شازور جھیل کا مشکل مگر یادگار سفر نظارہ قدرت سے تسکین اور طمانیت کا حصول چاہنے والوں کے لیے کمراٹ سے شازور جھیل تک کے دلچسپ سفر کا احوال پیشِ خدمت ہے۔ شائع 10 جولائ 2021 03:27pm جہاز بانڈہ میں گزری ایک رات اور برفیلی کٹورا جھیل کی سیر برف سے ڈھکے پہاڑوں کے دامن میں برف کی سفید چادر اوڑھے کٹورا جھیل کا حسن دیکھ کر رب کائنات کی کبریائی کا خیال بارہا دل میں آیا۔ شائع 12 مارچ 2021 06:11pm چارسدہ کی گُڑ گانی میں گزرا ایک دن ’گُڑ نقصاندہ تب ہوتا ہے جب شیرے میں کوئی کیمیکل جیسے چینی، کھاد اور رنگ بدلنے والے نقصاندہ فوڈ کلرز وغیرہ ڈالے جائیں‘۔ اپ ڈیٹ 23 جنوری 2021 06:45pm جب ’کے 2‘ سرنگوں ہوا جی ہاں، یہ انوکھا واقعہ موسمِ سرما میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی چوٹی ’کے 2‘ کی کامیاب سرمائی مہم کے دوران پیش آیا۔ شائع 18 جنوری 2021 11:44am وادی بروغل اور کرومبر جھیل سے جڑی انمٹ یادیں اس سفرمیں اندازہ ہوا کہ محبوب کو حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ مسلسل برفانی طوفان کےدوران چڑھائی چڑھنے ہوئے میرا حال بےحال ہوچکا تھا شائع 01 دسمبر 2020 08:03pm 'لڑم ٹاپ': دیر لوئر کا گہنا فطرت کی رعنائیوں سے بھرپور یہ خوبصورت وادی اپنے دلکش حُسن کی وجہ سے برطانوی دور سے ہی خصوصی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ شائع 08 جولائ 2020 05:46pm سیاحت کھلنے کے امکانات، خدشات اور احتیاطی تدابیر اس صورتحال سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کے فیصلے کو ہضم کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ شائع 24 جون 2020 02:31pm شبقدر: 180 سال سے قید دروازے اور تاریخ کے انمٹ نقوش عدالت نے قلعے کا ڈیزائن بنانے والے ماہرِ تعمیرات کو قصوروار قرار دے کر اس کے ہاتھ کاٹنے اور قلعے کے دروازوں کو 100 سال کی قید کا فیصلہ سنایا۔ شائع 02 جون 2020 05:29pm پاکستانی سیاحت پر کورونا بحران کے بڑھتے سائے اور خدشات موجودہ صورتحال سے گرمیوں کا سیزن بھی متاثر ہوگا۔ غیرملکی سیاحوں کی آمد تو درکنار مقامی سیاح بھی نکلنے سے گریز کریں گے۔ شائع 11 اپريل 2020 07:48pm کیلاشی ثقافت کے رنگوں میں پِنہاں فِکریں کیلاش کے بارے میں یہ تاثر غلط اور من گھڑت ہے کہ یہاں پر خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اپ ڈیٹ 20 جنوری 2020 12:59pm کمال بن اور دیودار کے جدِ امجد کی فریاد دنیا کے شوروغل سے دور اس خوبصورت سیاحتی مقام پر قدرت کی رعنائیوں سےمحظوظ ہوکر میں خود کو بہت خوش نصیب محسوس کرنے لگا تھا شائع 13 دسمبر 2019 06:06pm گبین جبہ، جس کے حُسن نے ہمیں لاجواب کردیا گروپ بضد تھا کہ سوات کے کسی ایسے مقام کی سیر کی جائے جو نئی ہو یا پھر جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو خبر ہی نہ ہو۔ شائع 19 نومبر 2019 07:17pm قصہ کمراٹ کی وادی کا چاہے موسمِ گرما ہو،خزاں، بہار یا پھر جما دینے والی سردی،وادی کمراٹ جس روپ میں بھی ملی، حیران کیا اور فرحت بخش احساس دیا۔ شائع 07 مارچ 2019 04:03pm آنسو جھیل: قدرت کی آنکھ سے ٹپکا ایک خوشی کا آنسو دوستوں کے مطابق اس چڑھائی کے بعد آنسو جھیل نظر آجاتی ہے لیکن اس چڑھائی کو دیکھ کر ہمارے اپنے آنسو نکلنے شروع ہوگئےتھے اپ ڈیٹ 01 فروری 2019 03:50pm دیوسائی کا دیومالائی حسن یہ پھول محض ایک ڈیڑھ مہینے کے لئے عالم عدم سے عالم وجود میں آتے ہیں، غدر برپا کرتے ہیں اور مدہوش کن خوشبوئیں پھیلاتے ہیں شائع 05 نومبر 2018 05:26pm فلپائن: خوبصورت جزیروں، فطرت کے رنگوں اور ایڈونچر کی دنیا کا نام فلپائن میں شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔ یہاں کا معیار تعلیم بہت اچھا اور یورپ و امریکا کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں سستا ہے۔ شائع 05 اکتوبر 2018 05:19pm نوری جھیل؛ جس کو دریافت کرنا تمام خوشیوں سے بڑھ کر لگا جھیل پر پہنچے تو فطرت کے اس تحفے کو دیر تک دیکھتے رہے اور سچ پوچھیے تو ٹریک کی دشواریوں کا ثمر بہت ہی میٹھا ثابت ہوا۔ اپ ڈیٹ 13 جون 2018 02:45pm منجمد سیف الملوک کو دیکھنے کی آرزو بالاخر پوری ہوگئی سردی ہو گرمی، 10578 فٹ بلند سیف الملوک جھیل ہمیشہ سے ہی پاکستان اور پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اپ ڈیٹ 19 مئ 2018 09:31am
یہ سب اتفاقات نہیں ہو سکتے۔ آخری بار کب ہماری دنیا ایک ہی وقت میں اتنے شدید موسمی حالات سے متاثر ہوئی تھی؟ بلاشبہ، یہ موسمیاتی بحران کے اثرات ہیں اور صرف اس بات کی علامت ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ سنی ہنڈل ہفتہ 27 اگست 2022 8:45 26 اگست 2022 کی اس تصویر میں بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں سیلاب سے متاثر ہونے والا ایک شخص متاثرہ علاقے سے بچوں کو محفوظ مقام کی جانب لے جاتے ہوئے(فوٹو: اے ایف پی) کبھی کبھی درختوں کے لیے جنگل کی کمی محسوس کرنا آسان ہوتا ہے۔ ہم ان چیزوں پر بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، جو کچھ ہمارے سامنے ہو۔ اس طرح ہم بڑا منظر دیکھنے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں اور ہمیں انہیں سننے کی ضرورت ہے۔ شدید گرمی کی لہر اور خشک سالی چین کو مسلسل 70 دن سے متاثر رہی ہے، جس کی ’اس ضمن میں چین یا دنیا بھر کے جدید ریکارڈ میں کوئی مثال نہیں ہے۔‘ چین کے ہمسایہ ملک پاکستان میں ’بڑے پیمانے پر ہونے والی موسلا دھار بارشوں‘ کے نتیجے میں اب تک 900 (سے زائد) افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت اس سال اب تک شدید گرمی کے 200 دن کا شکار ہو چکا ہے۔ گذشتہ سال یہ تعداد صرف 32 تھی۔ جنوبی کوریا میں سیئول میں 80 سال کے دوران فی گھنٹہ سب سے شدید بارش ہوئی، جس سے دارالحکومت میں سیلاب آ گیا اور 50 شہروں اور قصبوں کو پہاڑی تودے گرنے کے حوالے سے خبردار کیا گیا۔ یقینی طور پر مغربی ممالک بھی بچ نہیں پائے۔ جولائی کی ہیٹ ویو جس نے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، اس نے ملک بھر میں زیادہ درجہ حرارت کے ساڑھے تین سو ریکارڈ قائم کیے اور دیگر انتہائی موسمی واقعات جیسے کہ سیلاب اور سمندری طوفان کے مقابلے میں زیادہ لوگ جان سے گئے۔ یورپ پانچ سو سال کی بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے اور برطانیہ نے 1976 کے بعد سے بدترین خشک سالی اور گرمی کی لہر کا سامنا کیا ہے۔ متوقع طوفانی بارشوں سے محض یہ احساس بڑھتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت ہو سکتی ہیں۔ یہ سب اتفاقات نہیں ہو سکتے۔ آخری بار کب ہماری دنیا ایک ہی وقت میں اتنے شدید موسمی حالات سے متاثر ہوئی تھی؟ بلاشبہ، یہ موسمیاتی بحران کے اثرات ہیں اور صرف اس بات کی علامت ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ گرمی، خشک سالی اور سیلاب سے متاثرہ افراد پر اس کا فوری اثر محسوس ہوگا، لیکن سونامی کی طرح بڑی لہریں آنے والی ہیں جو کہیں زیادہ نقصان پہنچائیں گی۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) چین میں شدید گرمی کی لہر نے نہ صرف اس کے بہترین کھیتوں کے بڑے حصے کو تباہ کیا اور نقصان پہنچایا بلکہ اس نے سینکڑوں دریا خشک کر دیے، جن میں دریائے یانگزی کے کچھ حصے بھی شامل ہیں، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دریا ہے۔ گرمی کی لہر نے جہاز رانی اور پن بجلی کی پیداوا روک دی اور بہت سی کمپنیوں کو بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین کو خوراک کی کمی پورا کرنے کے لیے بڑی مقدار میں خوراک اور توانائی درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی، جس سے پہلے سے ہی دباؤ کا شکار دنیا مزید دباؤ میں آئے گی۔ رواں موسم گرما میں جرمنی بھی اسی مسئلے دوچار ہوا ہے کیوں کہ وہاں دریا خشک ہو چکے ہیں اور نقل و حمل، توانائی کی پیداوار، جنگلی حیات اور کھیتی باڑی کو نقصان پہنچا ہے۔ ان حالات میں توانائی کی بلند قیمتیں پہلے ہی یورپ اور دنیا بھر میں کاروباری سرگرمیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ہم ان کو مسلسل نظر انداز نہیں کر سکتے۔ موسمیاتی بحران صرف گرمی کی لہروں، خشک سالی اور سیلاب میں محسوس نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ خوراک، اشیا اور توانائی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی شکل میں بھی محسوس کیا جائے گا۔ اسے قحط، پانی کی قلت اور بھوک سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی کے ذریعے محسوس کیا جائے گا۔ یہ موسمیاتی بحران ایک ایسی دنیا میں محسوس کیا جائے گا، جو موجودہ دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ عدم استحکام کا شکار ہوگی۔ ہم اس مقام پر ہیں جہاں سے مسئلے کا آغاز ہو رہا ہے۔ جب تک حکومتوں اور کمپنیوں پر کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لانے کے لیے زور نہیں دیا جاتا، یہ دنیا جسے ہم جانتے ہیں ہماری آنکھوں کے سامنے بکھرجائے گی۔ اگر بنیادی اشیا جیسے خوراک، پانی اور توانائی کی قلت ہوئی تو جس رفتار سے معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا ہم ہل کر رہ جائیں گے۔ 2030 بلکہ 2050 میں نیٹ زیرو (کاربن کے اخراج کے مکمل خاتمے) کو بھول جائیں، ہم اتنی دیر تک انتظار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے بجتے ہوئے اس سائرن پر اب توجہ نہ دی تو اگلی بار بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب ترامیم پر تمام سوالات عمران خان اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے۔ ‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، ‏چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ آج دوران سماعت ‏چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل دیے جب کہ نیب نے اٹارنی جنرل کا مؤقف اپنانے کی درخواست جمع کرائی۔ یہ بھی پڑھیں: ’احتساب کا قانون آج تک وقتی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا‘ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نیب قانون کو مضبوط کرنے کے بجائے حالیہ ترامیم سے غیر مؤثر کیا گیا، ماضی میں سپریم کورٹ کرپشن کو ملک کے لیے کینسر قرار دے چکی ہے، احتساب کے جتنے بھی قوانین آئے عوامی عہدیداروں کو استثنیٰ نہیں دیا گیا، عوامی عہدیداروں کے احتساب کا قانون 1949 سے اب تک ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان نیب کے قانون کو ختم کردے تو عدالت کیا کرسکتی ہے، کیا عدالت نے کبھی ختم کیے گئے قانون کو بحال کرنے کا حکم دیا جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 1990میں ختم کیے گئے قانون کو عدالت نے بحال کیا تھا، عوامی عہدیدار ہونا ایک مقدس ذمہ داری ہوتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت اور پارلیمان آئین اور شریعت کے تابع ہے، احتساب اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے سوال کیا آپ نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں لائے ہیں، بہتر نہیں تھا آپ کے مؤکل (عمران خان) پارلیمنٹ پر اعتماد کرتے؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا، میں اس میں کچھ نہیں کہہ سکتا، پلی بارگین سے متعلق قانون میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، ‏پلی بارگین کی قسط نہ دینے والے کو سہولت دی گئی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ‏پہلے پلی بارگین کی رقم نہ دینے والے کے خلاف کارروائی ہوتی تھی،‏ ترمیم کے بعد قسط نہ دینے والی کی پلی بارگین ختم ہوجائے گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ملزم کا کیس 50 کروڑ روپے سے کم ہو تو ازخود ختم ہوجائے گا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ‏ترمیم کے تحت ملزم بری ہوکر جمع کرائی گئی پلی بارگین رقم واپس مانگ سکتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو ریاست کو اربوں روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی، خواجہ حارث نے کہا کہ پلی بارگین کی پوری رقم ادا کرنے والا بھی پیسے واپس مانگ سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ‏گرفتاری کے دوران پلی بارگین کرنے والا دباؤ ثابت بھی کر سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اتحادی حکومت کے رہنماؤں کےخلاف دائر کرپشن کیسز عملی طور پر بند ہوگئے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ‏کیا دباو ڈال کر ملزم سے پیسے لینا درست ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ‏پلی بارگین احتساب عدالت کی منظوری سے ہوتی ہے، اگر ملزم پر دباؤ ہو تو عدالت کو آگاہ کر سکتا ہے، منتخب نمائندے حلقے میں کام نہ ہونے پر عدالت ہی آسکتے ہیں اسمبلی نہیں جاتے۔ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عمران خان پر بھی عوام نے اعتماد کرکے اسمبلی بھیجا تھا،‏ عمران خان حلقے کے عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑ آئے؟ ‏نیب ترامیم پر تمام سوالات عمران خان اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اسمبلی میں حکومت اکثریت سے قانون منظور کروا لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی جہاں خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئی ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ نیب ترامیم خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: نیب قانون میں ترمیم کےخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔ Email نام* وصول کنندہ ای میل* Cancel 0 Desk Mrec Top video link Teeli ویڈیوز Filmstrip زیادہ پڑھی جانے والی خبریں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران آرمی چیف کے آخری خطاب کے بعد مایا علی ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ لوگوں نے اداکارہ سے سوال کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کون سی دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑی تھی؟ نئے آرمی چیف کو فوج پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کا چیلنج درپیش ہے، امریکی میڈیا عمران خان کی فوج پر شدید تنقید کی وجہ ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور سیاسی انتشار فوج کے اندر اختلافات کی وجہ بنے، امریکی اخبار پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے سپہ سالاروں کی فہرست پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف انگریز تھے، جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں ملک کا 16 واں آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ عمران خان ہمیں جزیرے پر چھوڑ کر خاتون کے ساتھ ’باتیں کرنے‘ گھر چلے گئے تھے، وسیم اکرم ہم تقریباً 7، 8 گھنٹے دریا میں کشتی پر گھومتے رہے، واپس آئے تو عمران خان جانے کے لیے تیار تھے، سابق فاسٹ باؤلر نئے سپہ سالار کی آمد: ’چین و امریکا سے پہلے پاکستان کو اہمیت دی جائے گی‘ جہاز وزیرِاعظم کا، سوار عارف علوی اور ملاقاتی عمران خان، گویا حکومت اور صدرِ پاکستان نے عمران خان کو فیس سیونگ کا موقع بر محل وقوع پذیر کردیا۔ عمران خان نے جس دن کہا اسی وقت پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی، مونس الہٰی 27 جولائی کو اللہ پاک نے ہمیں سرخرو کیا تھا اور چوہدری پرویز الہٰی وزیراعلیٰ بنے تھے، اس دن سے ہم بونس پر چل رہے ہیں، رہنما مسلم لیگ (ق) جو اپنی غلطی تسلیم نہ کرے وہ لیڈر ہی نہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ لیڈر مشکل فیصلے کرتا ہے، کبھی کامیاب، کبھی ناکام ہوتا ہے، ناکامی کی صورت میں غلطی تسلیم کرنی چاہیے، کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں عشائیے سے خطاب ’میرا دل یہ پکارے آجا‘ فیم ٹک ٹاکر کے ندا یاسر کے شو میں ڈانس کے چرچے عائشہ نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں ایک شادی کی تقریب میں لتا منگیشکر کے پرانے گانے ’میرا دل یہ پکارے آجا‘ پر ڈانس کیا تھا۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کون ہیں ؟ وزیراعظم کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سمری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیجی جنہوں نے منظوری دے دی۔
معروف بزرگ صحافی نامہ نگانوائے وقت و سابق وائس چیئرمین بلدیہ گکھڑ صابر علی چوہدری اچانک ہارٹ اٹیک ہونے سے انتقال کر گئے محسن پاکستان معروف ایٹمی سائنسدا ن ڈاکٹر عبدالقدیر خان خالق حقیقی سے جا ملے ملک عبدا لصبور فلائنگ آفیسر (ر) کو مسلم لیگ ن یو سی نمبر 1گکھڑ کیصدر منتخب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عالی سے اللہ کریم نے امت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کرم فرمایا(امیر عبدالقدیر اعوان) جی ٹی روڈ پر شرطیں لگا کر ریس لگانے والے چنگ چی رکشہ ڈرائیوروں اور ون ویلر منچلوں نے حکومتی احکامات ہوا میں اڑا دیے
پانی کی ایک بوتل میں 7 لہسن کی جوے ڈال کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیں،فوائد جان کر آپ دنگ رہ جائیںگے (47,315) میں نے یہ وظیفہ صرف تین دن پڑھا اور 50 لاکھ کا مالک بن گیا یہ وظیفہ آپکی قسمت بدل دے گا (45,511) قربت کے وقت لائٹ بند کرنا ضروری ہے ؟ یہ بات ہر لڑکی کو ضرور معلوم ہونی چاہئے (45,058) رب کعبہ کی قسم اگر مرد ایک دفعہ پیاز اس طرح کھا لیتا ہے تو ؟ (43,795) اگرمیاں بیوی یہ کام کریں توان کانکاح ٹوٹ جاتاہے ،آنکھیں کھول دینے والاانکشاف (43,467) ان راتوں میں بیوی سے ہم بستر ی نہ کر یں ، مسلمانوں لازماً جان لو (43,297) جنت کا حسین منظر (43,112) منہ کے چھالوں کا بہترین گھریلو علاج، چھالے ایسے ختم جیسےکبھی تھے ہی نہیں،یہ نسخہ ضرور آزمائیں (41,878) ایک 110 سال جینا ہے تو یہ سبزی ہفتے میں دو دن آج سے ہی کھانا شروع کر دو (39,897) میاں بیوی قربت کے وقت تین غلطیاں بالکل بھی نہ کر یں۔ یہ تین کام سخت حرام کبیرہ گنا ہ ہیں۔ (36,709) سرسوں کے تیل میں یہ کیپسول ملا کر لگائیں،مزید جانیں اس آرٹیکل میں (35,102) رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا: جب تم فجر کی نماز ادا کر لو تو تین مر تبہ پڑ ھ لیا کرو۔ اللہ آپ کو اندھے پن، کوڑھ اور فالج سے محفوظ رکھے گا (32,507) آپﷺ نے قسم کھا کر فرمایا جبرائیل آئے جوشخص یہ پانی پیےگا اسکے جسم سے ہر بیماری دورہوجائے گی ،مزید جانیں (31,975) خشخاش اور سفید تلوں کا کمال بار بار پیشاب آنا اور مثانہ کی کمزوری ختم پہلی خوراک ہی اثر دکھائے گی (31,121) //whairtoa.com/4/5522501 طوائف کی بیٹی ایک طوائف کی بیٹی جوان ہوئی تو ایک دن اپنی ماں سے پوچھنے لگی کہ ’’اماں محبت کیا ہوتی ہے؟ طوائف جل کر بولی’’ ہونہہ مفت عیاشی کے بہانے، ہمارے ہاں زیادہ تر محبت کی شادیاں‘ نفر ت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے؟ ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے؟ آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں؟ وجہ بہت آسان ہے۔ بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا‘ پانی بھی پیتا تھا‘ گانے بھی گاتا تھا‘ لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا۔ اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے‘ قید سے نہیں۔ ہمارے ہاں الٹ حساب ہے‘ جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے‘ ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے۔ لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں’’شکیل اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے۔ اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا ۔ روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا۔ میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا۔ فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا۔ لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں۔ جان! اب تم نے اپنے کسی Male کزن سے بات نہیں کرنی۔ کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا۔ وعدہ کروکہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو‘ تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی۔ جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلاکرو‘ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ‘ محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے‘ لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر انا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہوجائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے‘ لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔ غور کیجئے۔ ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘ ہم اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس دیتے ہیں‘ خود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے آتے ہیں‘ لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے‘ ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن سے محبت ہوتی ہے۔اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے۔ اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں‘ لیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے‘ ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا‘ کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا‘ زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہونا ۔ ان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اُتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے‘ میں نے کہا ناں۔ محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ‘ ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے‘ اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں محبت گرف.تاری نہیں رہائی ہے۔ ٹینشن سے رہائی۔ تنہائی سے رہائی۔ مایوسی سے رہائی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی۔ لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ دن دوگنی اور’’رات‘‘ چوگنی ترقی بھی کرتی ہے۔ ہمارا المیہ ہےکہ ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے‘ یہ محبت کا ایک جزو تو ہوسکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی‘ بالکل ایسے جیسے کسی اسلم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے تو اُس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی اسلم نہیں کہے گا‘ اسلم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا۔ ویسے بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے۔محبت زندان نہیں ہوتی‘ حوالات نہیں ہوتی‘ جیل نہیں ہوتی‘ بند کمرہ نہیں ہوتی‘ کال کوٹھڑی نہیں ہوتی۔ محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے‘ کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں۔ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے‘ جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے۔ ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی‘ ہو جاتی ہے۔ غلط ہے۔ محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے ‘شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے‘ اس کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے‘ کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے۔ میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں‘ ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے‘ حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے‘ رہ گئی بات انا کی ‘ تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائڈ ایفیکٹس بہت ہیں!!انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن پھر اُس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی 2021ء کی انڈیکس کے مطابق پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی نچلی رینکنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی یہ رینکنگ نہ صرف دنیا میں بہت نیچے ہے بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی اس کی رینکنگ حوصلہ افزا نہیں ہے اور اس حوالے سے نیپال، سری لنکا، انڈیا اور بنگلہ دیش کی کارکردگی پاکستان سے نسبتا بہتر ہے۔ صرف افغانستان کی کارکردگی پاکستان سے بدتر ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بدعنوانی کو قابو کرنے، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ریگولیشنز کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی انتہائی بری ہے۔ اس کے علاوہ کرمنل جسٹس، سول جسٹس، اہل اقتدار یا اہل اختیار کے طرز عمل میں قانون کی حکمرانی کا اصول اور شفاف حکومت کے حوالے سے بھی پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ سول جسٹس کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 126واں اور ریگولیشن کے حوالے سے 130واں ہے۔ معروف قانون داں علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ ملک بہت خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے اور ملک میں ہر ادارے کی ابتری کی عکاسی یہ بین الاقوامی رپورٹ بھی کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کوئی عدالت، کوئی پارلیمنٹ، کوئی حکومت وجود نہیں رکھتی۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، بولنے اور سوچنے کی آزادی پر قدغن لگائی جا رہی ہیں۔ ہر چیز کو اسٹیبلشمنٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ سرکار کی طرف سے تعلیم، روزگار، صحت اور جان و مال سمیت کسی بھی بنیادی حق کی آزادی نہیں ہے۔‘‘ علی احمد کرد کا مزید یہ کہنا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اس لیے نہیں ہے کیونکہ تمام اختیارات ایک ادارے نے اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں اور وہ سب چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو حراست میں لیا جانا یا گرفتار کرنے کا عمل بھی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان قانون کی حکمرانی کے اصول سے دور ہے یا یہاں یہ حکمرانی کمزور ہے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بنیادی حقوق کی ضمانت آٗئین نے دی ہے اور ملک کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس حوالے سے کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک میں جبری گمشدگی کا معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے اور ایسا ملک کے طاقتور ترین اداروں کی طرف سے کیا جاتا ہے، جب کوئی سائل ہائی کورٹ میں درخواست لے کر پہنچتا ہے تو یا ایسے افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘‘ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے حوالے سے قوانین بھیح ہیں لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر وہ اتنے موثر ثابت نہیں ہو پاتے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو پایا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس میں پاکستان کی رینکنگ اس لیے کمزور ہے کیونکہ پاکستان کبھی بھی بنیادی انسانی حقوق یا گورننس کے کسی بھی مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ ڈاکٹر حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''ملک میں بنیادی انسانی حقوق عوام کو دینے کا کوئی تصور نہیں، حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے آپ کو قانونی سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ سول اور کرمنل جسٹس سسٹم صرف طاقتور کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ آزادی اظہار رائے اور سوچ کی آزادی ناپید ہے۔ غریب آدمی کو انصاف نہیں ملتا اور غریب آدمی کے لیے انصاف انتہائی مہنگا ہے۔ انصاف کے اداروں تک اس کی رسائی ممکن نہیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا مزید کہنا تھا کہ ایسی رپورٹوں میں رینکنگ ان ممالک کی ہوتی ہے جو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہیں 'لیکن ہمارے یہاں حکمران جماعتیں ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں، طاقتور بیوروکریٹس یا کسی اور ادارے کے لوگ کوئی بھی جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ قانون کی حکمرانی کے فلسفے کو سمجھتے ہیں یا اس کے اصولوں کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگ ایسا رہا ہے کہ پاکستان کسی بھی لمحے ڈیفالٹ کر جائے گا کیوںکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر خدا کا یہ فرمان ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ظلم پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا”۔ اس لیے ہمیں اس نظام کو تبدیل کرنا ہو گا اور اسلام کے قوانین کو نافذ کرنا ہو گا تاکہ یہ ملک ایک درست سمت پر جا سکے۔
پہلے مرحلے میں مال بردار ٹرینیں بحال کی جا رہی ہیں جبکہ مسافر بردار ٹرینوں کا آپریشن اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بحال ہوگا: ترجمان ریلویز — فوٹو: فائل پاکستان ریلویز کی جانب سے ملک بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد معطل ہو جانے والے ریلوے آپریشن کو مرحلہ وار بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے ریلوے آپریشن معطل ہوکر رہ گیا تھا جسے اب جزوی طور پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیلاب کے بعد پہلے مرحلے میں مال بردار ٹرینیں بحال کی جا رہی ہیں جبکہ مسافر بردار ٹرینوں کا آپریشن اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بحال ہوگا۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے پاکستان ریلوے کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، نقصان پر قابو پانے کیلئے حکام کی جانب سے کرائے بڑھانے پر بھی غور شروع کردیا گیا ہے۔ ترجمان ریلویز بابر علی کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں مال بردار گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں تا کہ ٹریک کی ٹیسٹنگ کے علاوہ کوئلے، فرنس آئل اور دیگر صنعتی سامان کی ترسیل ممکن بنائی جا سکے جبکہ مسافر بردار ٹرینیں بھی جلد بحال کر دی جائیں گی۔ ریلوے پولیس نے گمشدہ سونے کی انگوٹھی اور 61 ہزار روپے خاتون کو لوٹا دیے مسافر خاتون ٹرین رحمان بابا ایکسپریس میں سفر کر رہی تھی اور اپنا پرس وزیر آباد ریلوے سٹیشن پر بھول گئی تھی: ترجمان ریلوے پولیس انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے 28 اپ اینڈ ڈاؤن ٹرینوں کا پہیہ رک گیا تھا جس سے ریلوے کو 11 ارب کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے، سیلابی پانی سے ٹریک اور ریلوے پلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ترجمان کے مطابق ٹریک پر سیلابی پانی کے باعث مسافر ٹرینوں کے آپریشن کی بحالی میں تقریباً ایک ہفتہ مزید لگے گا۔ دوسری جانب وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ہدایت کی ہے کہ متاثرہ ریلوے تنصیبات کا جنگی بنیادوں پر سروے کیا جائے اور ٹریکس کی بحالی کیلئے تین شفٹوں میں کام کیا جائے۔ سبی۔کوئٹہ سیکشن پر متاثرہ پل کی بحالی کے بعد کوئٹہ کو جلد ہی نیشنل ریلوے نیٹ ورک سے جوڑ دیا جائے گا جبکہ کراچی تک اپ ٹریک فریٹ آپریشن بحال ہونے کے بعد تین اکتوبر تک فریٹ والیم بھی معمول پر آ جائے گا۔
جان کیری نے کہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اسلام کے نام پر لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ واشنگٹن — امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری دولتِ اسلامیہ کے خلاف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا تعاون حاصل کرنے کے لیے جاری دوروں کے سلسلے میں مصر پہنچ گئے ہیں۔ ہفتے کو دارالحکومت قاہرہ میں اپنے مصری ہم منصب سامح شکری کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ مسلمانوں میں شدت پسندی کی سوچ کو شکست دینے میں مصر کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو اسلام کے نام پر لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جان کیری کا کہنا تھا کہ دنیا بھرکے مسلمانوں کی اکثریت جنگجووں کے نفرت انگیز پیغام کو مسترد کرچکی ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتی ہے۔ سیکریٹری کیری نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف ایک وسیع تر بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے عفریت کو ایک مخصوص علاقے سے باہر نکل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے۔ لہذا، ان کے بقول، ضروری ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کا جلد سدِ باب کیا جائے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصری وزیرِ خارجہ سامح شکری نے کہا کہ ان کی حکومت دولتِ اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے باہمی تعلقات سے واقف ہے اور سمجھتی ہے کہ ان کی جانب سے لاحق خطرات ملکی سرحدوں سے ماورا ہیں۔ قاہرہ میں اپنے قیام کے دوران جان کیری مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ جان کیری امریکہ کی قیادت میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف علاقائی اور مغربی ممالک کا ایک وسعی تر اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں خطے کے ملکوں کے دورے پر ہیں اور اب تک انہیں اس میں نمایاں کامیابی ملی ہے۔ خلیج تعاون کونسل میں شامل چھ عرب ملکوں کے علاوہ لبنان، اردن ، مصر ، ترکی اور اسرائیل کی حکومتیں اب تک دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکہ کو اپنے تعاون کو یقین دلاچکی ہیں۔
آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان نے وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے اور آزادکشمیر کو مستقل مالی بحران سے نکالنے کے لئے بین الصوبائی رابطہ مہم کا آغاز کردیا ہے ۔اس ضمن میں انہوں نے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے بعد دو مختلف الخیال صوبائی حکومتوں سے بھی رابطے کئے ہیں جن میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک شامل ہیں ۔ دونوں وزرائے اعلیٰ نے وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے کی بھرپور حمایت کی ہے ۔اس طرح اب وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کا حصہ بڑھانے کے لئے کسی مزاحمت اور مخالفت کا امکان باقی نہیں رہا۔آئین پاکستان میںاٹھارہویں ترمیم کے بعداسلام آباد سے آزادکشمیر کو ملنے والے ٹیکسوں کا حصہ کم ہو کررہ گیا تھا ۔کل جمع شدہ ٹیکسوں کی آمدن سے آزادکشمیر اور بلوچستان کودو اعشاریہ نوفیصد حصہ دیا جاتا تھا ۔آٹھویں ترمیم کے بعد بلوچستان کا حصہ نو اعشاریہ پانچ فیصدتک پہنچ گیا جبکہ آزادکشمیر کا حصہ دو اعشاریہ نو فیصد ہی رہا ۔اس وقت آزادکشمیر اور اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کی ہی حکومتیں کام کررہی تھیں اس کے باوجود آزادکشمیر حکومت نے اسلام آباد سے محصولات کے اضافے کے لئے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔جس سے آزادکشمیر کا مالی بحران اندر ہی اندر گہرا ہوتا چلا گیا۔مشترکہ مفادات کونسل ،ارسا وغیرہ میں نمائندگی نہ ہونے کی بنا پر آزادکشمیر کا مقدمہ کمزور سے کمزور تر پڑتا چلا گیا۔ پاکستان کے آئینی اور انتظامی ڈھانچے میں آزادکشمیر دوہرے اور عجیب وغریب قسم کی صورت حال سے دوچار ہے ۔یہ خطہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اور اس بنا پر یہ پانچواں صوبہ یا یونٹ بھی نہیں ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اور معاہدہ کراچی کے تحت اس کا انتظام پاکستان نے سنبھال رکھا ہے اور خود آزادکشمیر کے آئین نے حکومت پاکستان کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں ۔اس لئے وفاقی محصولات کی تقسیم کرتے ہوئے آزادکشمیر کا یہ آئینی اور انتظامی سٹیٹس جسے مخمصہ ہی کیا جا سکتا ہے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے ۔دوسری طرف وسائل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادکشمیر اپنے محدود جغرافیے اور آبادی کے باوجود پاکستان کے لئے ایک منفعت بخش خطہ ہے ۔توانائی اور آبی ذخائر کا ایک بڑا ذریعہ منگلا ڈیم کی صورت میں آزادکشمیر میں قائم ہے ۔ آزادکشمیر کے جنگلات اور معدنیات،پن بجلی کے منصوبوں کی آمدن اور ٹیکسز کا بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاوسطہ وفاق کو جاتا ہے۔دفاعی لحاظ سے آزادکشمیر کے پہاڑ پنجاب کے میدانوں کے لئے قدرتی حصار کا کام دیتے ہیں۔آزادکشمیر کی سیاسی اور دفاعی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے سردار عبدالقیوم خان مرحوم اکثر کہا کرتے تھے کہ آزادکشمیرکو اس کی آبادی اور جغرافیے کے پس منظر کی بجائے اس کی نظریاتی اہمیت کی بنیاد پردیکھنا چاہئے۔کچھ تو آزادکشمیر کا مخمصوں سے بھرپور انتظامی اور آئینی سٹیٹس اس کے مسائل کی حل میں رکاوٹ رہا اور کچھ اسلام آباد میں آزادکشمیر کو بوجھ سمجھنے کا مائنڈ سیٹ غالب رہا اور یوں وفاقی محصولات میں آزادکشمیر کو جائز حصہ دینے کی بجائے اسے کشکول بردار قسم کی مخلوق اور علاقہ بنادیا گیا ۔جس سے احساس محرومی اندر ہی اندر پلتا رہا مگر آزادکشمیر کی کسی حکومت نے وسائل اور اختیارات کے اپنے مضبوط مقدمے کو سنجیدہ انداز میں اسلام آباد میں لڑنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ آزادکشمیر کے حکمرانوں نے اسلام آباد کے حکمرانوں کی شان میں قصیدہ گوئی اور مونچھ نیچی کر کے وقت گزارنے کی روش اختیار کرلی۔اس سے کسی حکومت اور حکمران کی مدت اقتدار تو بخیریت گزر گئی مگر خطے کے اصل مسائل قومی مفاد کی قالین تلے دبے ہی رہے۔یہ بہت سطحی سوچ ہے کہ مسائل کوبیان کرنے اور حل کرنے سے قومی مفاد کو زک پہنچتی ہے۔حقیقت میں مسائل کو بیان کرنے اور حل کرنے سے قومی مفاد ،قومی سوچ کو تقویت ملتی ہے اور زخم ناسور بننے کی حد تک نہیں پہنچتے۔ آزادکشمیر کے اس مقدمے کی حمایت میں اسلام آباد کے ایوانوں سے ایک توانا آواز اس وقت بلند ہوئی تھی جب امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپیکر سردار ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جناب سپیکر میری بات توجہ سے سنیں ۔راولپنڈی کے نالہ لئی کا سالانہ بجٹ بارہ ارب روپے ہے اور آزادکشمیر کا سالانہ بجٹ گیارہ ارب پچاس کروڑ روپے ہے آپ آزادکشمیر کے حکمرانوں کا لاکھوں روپے کے لئے اسلام آباد کے سینکڑوں چکرلگوا چکے ہیں ۔آزادکشمیر کو بلوچستان مت بنائیں۔ اب وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے جنہیں خزانہ خالی ،مالی بحران زدہ حکومت اور لوڈشیڈنگ کی سیاہیوں میں گم عوام ملے آزادکشمیر کے وسائل اور مسائل کا مقدمہ اسلام آباد میں لڑنے کا ایک پر خطراور کٹھن راستہ اپنالیاہے ۔اس راہ پر چلنے کا اعلان انہوں نے اسی رات کیا تھا جب قانون ساز اسمبلی کے انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ جاری تھا اور مسلم لیگ ن کی انتخابی برتری واضح ہو چکی تھی ۔رات گئے آزادکشمیر ٹیلی ویژن کی الیکشن نشریات میں ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں کیا وہ اب بھی آزادکشمیر کے وسائل اور مسائل کا مقدمہ زوردار انداز میں وفاق میں لڑنے کی بات پر قائم ہیں تو فاروق حیدر خان نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ کوئی خفا ہو یا خوش وہ آزادکشمیر کے مسائل اور اختیار کی بات کرتے رہیں گے ۔انہوں نے اس خوش گمانی کا اظہار کیا تھا کہ ابھی اسلام آباد میں قحط الرجال نہیں کہ وہ آزادکشمیر کے حقوق کی بات کو غداری قرار دیں ان کی بات کو اصل سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے والے بہت لوگ موجود ہیں۔اب یوں لگتا ہے وہ بہت محتاط روی کے ساتھ اس راہ پر چل پڑے ہیں ۔یہ مہم کس حد تک بار آور ہو سکتی یہ کہنا کچھ قبل از وقت ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے کہ گرین نمبرپلیٹ والی گاڑیوں سے شہری اغوا ہورہے ہیں وفاقی حکومت شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے شہری عبدالقدوس کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت کی جس میں عدالت نے شہری کی عدم بازیابی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور سیکرٹری داخلہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے طلبی کے احکامات جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹس بھی جاری کردیا۔ جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اٹارنی جنرل کو بتادیں آنکھیں بندکرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے، گرین نمبرپلیٹ والی گاڑیوں سے شہری اغوا ہورہے ہیں، اسلام آباد پولیس ناکام ہوچکی ہے توکیا تفتیش کرنے کیلئے سندھ پولیس کولکھیں؟ معزز جج نےکہا کہ کبھی کسی پولیس والے نے کسی ایجنسی والےکے خلاف لکھا نا ہی ملزم بنایا۔ دورانِ سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ ایس پی انویسٹی گیشن ملک نعیم نے عدالت کو بتایا کہ تھانہ کراچی کمپنی میں عبدالقدوس کے اغوا کی ایف آئی آر یکم جنوری 2020 کو درج ہوئی تھی، 50 لاپتا افراد کی جے آئی ٹی کی سربراہی میں کررہا ہوں۔
IQ Option پر تجارت کرنے کے لیے تاجروں کو ایک تجارتی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ IQ Option پر تجارت آسان اور محفوظ تر ہو گی۔ تمام خصوصیات براؤزر ورژن میں دستیاب ہوں گی۔ آپ کے آفیشل بروکر کی ویب سائٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کا تیز ترین اور محفوظ ترین طریقہ ہے۔ بروکر کی ویب سائٹ پر جائیں اور اپنا ڈاؤن لوڈ کا اختیار منتخب کریں۔ آئی کیو آپشن ونڈوز پی سی کو ڈاؤن لوڈ کرنا مفت ہے ! میں ونڈوز پی سی پر آئی کیو آپشن کیسے انسٹال کروں؟ انسٹالیشن کی تیاری کے لیے، ڈاؤن لوڈ کردہ آئی کیو آپشن ونڈوز پی سی کو کھولیں۔ "انسٹال کریں” پر کلک کریں اور انسٹالیشن مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ انسٹالیشن مکمل ہونے کے بعد، اپنے IQ Option اکاؤنٹ میں لاگ ان کریں اور اپنا صارف نام درج کریں۔ اگر آپ کے پاس ابھی تک کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے تو آپ درخواست میں اپنا ای میل ایڈریس اور پاس ورڈ درج کر کے رجسٹر کر سکتے ہیں ۔ میں IQ Option APP Windows PC کے ساتھ تجارت کیسے شروع کروں؟ آئی کیو آپشن ونڈوز کو ڈاؤن لوڈ کرنا آسان ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ تجارت کریں۔ اپنا پہلا لین دین کرنے کے لیے، آپ یا تو اپنا ڈیمو اکاؤنٹ یا اپنا باقاعدہ اکاؤنٹ استعمال کر سکتے ہیں۔ اپنی پہلی تجارت کرنے سے پہلے ٹریڈنگ کی بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ شامل ہے کہ اثاثے کیسے مختلف ہیں، تجارتی حکمت عملی کیسے کام کرتی ہے، آپ کون سے ٹولز استعمال کریں گے، اور آپ کو کتنے سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ رجسٹریشن کے عمل IQ Option APP پر لین دین ممکن ہے $1 سے شروع ہو کر آج ہی تھوڑی سی رقم کے ساتھ ٹریڈنگ شروع کریں اور آپ اپنا پہلا منافع کما سکتے ہیں! میں کیسے رجسٹر اور اسناد حاصل کروں؟ رجسٹر کرنا آسان ہے۔ آپ ڈیمو اکاؤنٹ کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں اگر آپ ابھی شروعات کر رہے ہیں اور پلیٹ فارم کا احساس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو بس ویب سائٹ پر اپنا ای میل ایڈریس اور پاس ورڈ شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ فوری طور پر تجارت شروع کر سکتے ہیں۔ ٹریڈنگ شروع کرنے سے پہلے آپ کو ایک تصدیقی عمل کو مکمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس میں عام طور پر ایک یا زیادہ دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے آپ کی شناخت کی تصدیق شامل ہوتی ہے۔ ہدایات پر عمل کرنے میں صرف چند منٹ لگیں گے۔ مجھے تصدیق کی ضرورت کیوں ہے؟ چونکہ ہر صارف کی توثیق ہوتی ہے، اس سے تاجروں کے لیے ایک محفوظ ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم کو دھوکہ دہی کے خلاف زیادہ محفوظ اور محفوظ بناتا ہے۔ میں ڈیمو اکاؤنٹ کیسے کھول سکتا ہوں۔ ڈیمو اکاؤنٹس آپ کو پلیٹ فارم پر ورچوئل رقم کی تجارت کرنے کی اجازت دیتے ہیں بغیر کسی سرمایہ کے خطرے کے۔ یہ آپ کو حقیقی رقم کی سرمایہ کاری کرنے کی تیاری میں مدد کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ورچوئل اکاؤنٹ اور حقیقی اکاؤنٹ میں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے۔ یہ آزمانا مفت ہے اور یہ آپ کے اصلی اکاؤنٹ سے لنک نہیں کرتا ہے۔ آپ یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ IQ Option ونڈوز پی سی کے ساتھ کون سی ٹریڈنگ ہے جو کہ ایک اکاؤنٹ کو منتخب کریں۔ ڈیمو اکاؤنٹ کھولنے کے لیے، رجسٹریشن کے دوران "رجسٹر ڈیمو اکاؤنٹ” کو منتخب کریں۔ میں حقیقی بینک اکاؤنٹ کیسے کھول سکتا ہوں؟ حقیقی بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے آپ کے پاس درج ذیل معلومات کی ضرورت ہوگی: اگر آپ نے پہلے ہی اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں کی ہے تو براہ کرم ایسا کریں۔ اپنا اکاؤنٹ مکمل کریں۔ میں اپنے ڈپازٹ کو کیسے بھر سکتا ہوں؟ اکاؤنٹ کو دوبارہ بھرنے کے لیے آپ کو اپنے گاہک کے دفتر یا مین اسکرین پر دوبارہ بھرنے کے مینو تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ اپنے اکاؤنٹ کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے آپ کے پاس کئی اختیارات ہیں۔ ان میں بینک کارڈ، بینک ٹرانسفر اور الیکٹرانک ادائیگیاں شامل ہیں۔ آپ کے لیے سب سے آسان طریقہ مل جائے گا۔ کم از کم جمع رقم بروکر اور درخواست کے تمام فوائد کے علاوہ، IQ Option کو منتخب کرنے کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ جس وقت یہ مضمون لکھا گیا تھا، IQ Option کے ساتھ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کم از کم ڈپازٹ $10 ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ بروکرز اس چھوٹے سے ڈپازٹ کو ادا کرنے کے قابل نہ ہوں۔ تاہم، زیادہ تر بروکرز محفوظ تجارت کے لیے اپنے سرمائے کا 10$ مختص کر سکتے ہیں۔ اب منافع! آپ پیسہ کیسے اکٹھا کرتے ہیں؟ اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکالنا آسان ہے۔ آپ "فنڈز نکالیں” پر کلک کرکے اور نکالنے کا طریقہ منتخب کرکے اپنے ذاتی لاکر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ عام طور پر، رقم بالکل اسی اکاؤنٹ میں نکالی جائے گی جہاں اسے آپ کے بٹوے میں جمع کیا گیا تھا۔ یہ بہت آسان ہے اور آپ اسے فوری طور پر استعمال کر سکیں گے۔ آئی کیو آپشن ونڈوز کیا ہے؟ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے تجارت اور سرمایہ کاری کی دنیا تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے۔ اسٹاک کی قیمتیں تلاش کرنے یا سیکیورٹی خریدنے یا فروخت کرنے کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرنے میں گھنٹوں گزارنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ کو صرف ایک کمپیوٹر اور مناسب سافٹ ویئر کی ضرورت ہے۔ ٹریڈنگ سافٹ ویئر انسٹال ہونے کے بعد، آپ ٹریڈنگ شروع کر سکتے ہیں ۔ اگلا، آپ کو رجسٹر کرنے اور ایک اکاؤنٹ کھولنے کی ضرورت ہوگی۔ اپنا اکاؤنٹ بنانے کے بعد، آپ ٹریڈنگ شروع کر سکتے ہیں۔ تجارت کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہو۔ زیادہ تر ایپلی کیشنز کو تجارت کرنے کے لیے آپ کے اکاؤنٹ میں کم از کم بیلنس رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تاجروں کو کم سے کم سرمائے کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ ونڈوز پی سی کے لیے IQ Option ایپ کے ساتھ کم از کم $1 میں تجارت بھی بند کر سکتے ہیں ۔ منافع بخش تجارت کرنے کے لیے تمام پیش رفت کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ رہنا اور مکمل تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ آپ مستقبل میں شرح کی تبدیلیوں کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں اور اس معلومات کی بنیاد پر پیشین گوئیاں کر سکتے ہیں۔ پہلے، آپ کو کسی کمپنی سے مالی خلاصے اور رپورٹیں فراہم کرنے کے لیے کہنا پڑتا تھا۔ حقیقی معلومات حاصل کرنے کے لیے، آپ کو صرف IQ Option ایپ والے کمپیوٹر کی ضرورت ہے ۔ انٹرفیس کمپنی بہت مقبول ہے کیونکہ اس کے تخلیق کاروں نے ایپلی کیشن کو بہتر اور بہتر کرنا جاری رکھا ہے، اور نئے ٹولز متعارف کرائے ہیں جو تاجروں کو موثر طریقے سے کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اپ گریڈ کے بعد سسٹم اب زیادہ لچکدار، آسان اور استعمال میں آسان ہے۔ مالیاتی منڈی پر تجارت کریں۔ یہ انتہائی تفصیلی ہے، صرف ضروری ڈیٹا اور شاندار ڈیزائن کے ساتھ۔ ایک ساتھ متعدد اثاثوں کو دیکھنا ممکن ہے اور کوئی پریشان کن معلومات نہیں ہے۔ آپ ایک اسکرین پر بیک وقت نو مکمل بزنس گراف دکھا سکتے ہیں۔ یہ آپ کو فوری طور پر صورتحال کا جائزہ لینے اور کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ کو متعدد ٹیبز کھولنے یا دوسرا مانیٹر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف اثاثوں پر شرط لگانا بہت آسان ہے۔ افعال IQ Option ایک کمپیوٹر پر مبنی ایپلی کیشن ہے جو آپ کو ایک فعال پارٹنر اور معاون فراہم کرے گی۔ آپ کے پاس وہ تمام خصوصیات ہوں گی جن کی پیشہ ور تاجروں اور ابتدائیوں کو ضرورت ہے۔ خبریں نیوز ٹکر آپ کو باخبر فیصلے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تمام معاشی خبریں آپ کی انگلی پر ہیں۔ آپ کو الگ سے مالیاتی نیوز پورٹل پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ونڈوز پی سی پر آئی کیو آپشن سے تمام خبروں تک براہ راست رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ آپ اقتصادی کیلنڈر تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ تجارتی پلیٹ فارم کے بارے میں خبریں۔ ویڈیو سبق آپ کے اپنے پیسے میں سرمایہ کاری اضافی مالی خطرات کے ساتھ آتی ہے۔ شروع کرنے سے پہلے، تمام رجسٹرڈ صارفین کو مفت ویڈیو ٹیوٹوریلز تک رسائی حاصل ہے۔ یہ اسباق تاجروں کو شروع سے شروع ہونے والے IQ Option کی تجارت میں مدد کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پلیٹ فارم کے بارے میں ویڈیو ٹیوٹوریل دیکھیں۔ اثاثوں کا ایک بڑا انتخاب بروکر 300 سے زیادہ اثاثے پیش کرتا ہے تاکہ آپ اپنے پورٹ فولیو کو متنوع بنا سکیں۔ اسٹاک، ETFs اور کرنسی کے اختیارات۔ CFDs لین دین کی اجازت دیتے ہیں۔ آئی کیو آپشن کے پی سی ورژن کی خصوصیات اس کے ویب ہم منصب سے ملتی جلتی ہیں۔ تخلیق کاروں نے IQ Option کو ایک سادہ ایپلیکیشن بنایا ہے جو ٹریڈنگ کو آسان اور سیدھا بناتا ہے۔ پی سی ورژن تیزی سے چلتا ہے اور براؤزر سے زیادہ ہموار ہے۔ گرافکس کی مختلف اقسام IQ Option مالیاتی منڈیوں میں تاجروں کی مدد کے لیے تکنیکی تجزیہ کی صلاحیتیں پیش کرتا ہے۔ 4 چارٹ اور اشارے ہیں۔ ان میں تھریڈ، ہیکن-آشی، ہیکن-آشی، اور جاپانی فانوس شامل ہیں۔ IQ Option چارٹس نیچے بائیں کونے میں مل سکتے ہیں۔ کینڈل سٹک کی علامت پر ٹیپ کرکے چاروں چارٹس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپ کو صرف وہی انتخاب کرنا ہوگا جو آپ کے تجارتی انداز کے مطابق ہو۔ آپ ٹائم پیریڈ بھی سیٹ کر سکتے ہیں۔ ایک وقت کی مدت یہ ہے کہ قیمت کی میز پر اقتباس کتنی دیر تک دکھایا جائے گا۔ ‘حجم’ (یا سلاخوں کی تعداد) وہ ہے جو تبدیل ہوتا ہے جب آپ ایک ٹائم فریم سے دوسرے میں جاتے ہیں۔ اس سے مراد وہ وقت ہے جس کی نمائندگی ایک موم بتی کرتی ہے۔ متعدد اثاثہ چارٹ کھولیں۔ تکنیکی تجزیہ کے اشارے تکنیکی اشارے تاجروں کو مارکیٹ کا تجزیہ کرنے، رجحانات کی نشاندہی کرنے اور داخلے کے مقامات تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ٹریڈنگ ایک گرم موضوع ہے. تکنیکی اشارے کی کئی اقسام ہیں۔ وہ سادہ حرکت پذیری اوسط یا پیچیدہ الگورتھم ہو سکتے ہیں۔ اشارے ہر جگہ ہوتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ آپ اسٹاک، کرنسی، کموڈٹیز، یا کرنسیوں کی تجارت کرتے ہیں۔ سرمایہ کاروں اور تاجروں نے اپنی فعالیت کی بنیاد پر اشارے کے لیے درجہ بندی کا نظام بنایا ہے۔ رجحان اشارے قیمتوں کی نقل و حرکت کے رجحانات کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اشارے عام طور پر انٹیگرل الگورتھم (اوسط) استعمال کرتے ہیں، جو مارکیٹ کے شور کو فلٹر کرتے ہیں اور مروجہ رجحانات کو نشان زد کرتے ہیں۔ چونکہ مارکیٹ کی سمت میں تبدیلی کے لمحے کو شور کے طور پر سمجھا جاتا ہے، وہ مارکیٹ کے الٹ پھیر کو پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ oscillators. وہ دوسروں کے برعکس مختلف (متفرق)، الگورتھم استعمال کرتے ہیں۔ یہ آپ کو سمت یا اقتباسات میں ہونے والی تبدیلیوں پر فوری رد عمل ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ نقطہ نظر مارکیٹ کی اصلاح یا مارکیٹ کے الٹ کے درمیان فرق نہیں کرتا ہے۔ اشارے فلیٹ حالات میں اچھی طرح کام کرتے ہیں، لیکن جب ایک مستحکم رجحان ہو تو وہ مارکیٹ میں داخلے کے دوران غلط سگنل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ حجم کے اشارے۔ مالیاتی منڈی میں ٹرن اوور کا زیادہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ قیمت کی تقریباً تمام حرکتوں کو درست کرنے کے قابل ہیں۔ انہیں دوسرے اشارے کے فلٹر کے طور پر یا بوسٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ اشارے غیر معیاری ہیں اور جرائد کی فعالیت سے میل نہیں کھاتے۔ ان میں غیر معیاری گراف بنانے کے اوزار بھی شامل ہو سکتے ہیں (مثلاً رینکو، کراس اور خندق)، یا سامان کو باہمی طور پر متاثر کرنے کے اوزار۔ ہر گروپ کا اپنا لیڈر ہوتا ہے، جو مارکیٹ کے شرکاء کے لیے ضروری ٹولز میں شامل ہوتا ہے۔ ونڈوز پی سی کے لیے آئی کیو آپشن پر، آپ کو درجنوں مختلف اشارے ملیں گے۔ مقبول تکنیکی اشارے احکامات کی اقسام آپ زیر التواء آرڈرز استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک زیر التواء آرڈر کو ایک آرڈر کو چالو کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ مارکیٹ آرڈر کے برعکس ہے جو موجودہ قیمتوں پر فوری طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔ اگر قیمتیں متعین قیمت پر نہ ہوں تو آرڈر منسوخ کر دیا جائے گا۔ ان آرڈرز کو تاجر اپنی تجارت میں فعال طور پر استعمال کرتے ہیں۔ سٹاپ نقصان ایک حفاظتی حکم ہے جو غیر منافع بخش تجارتی پوزیشن کو بند کر دیتا ہے۔ یہ تاجروں کی طرف سے منفی پیش رفت کے خطرات کو محدود کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ جب حفاظتی قیمت ایک خاص سطح تک پہنچ جاتی ہے، تو ٹیک پرافٹ ایک ایسا اختیار ہے جو منافع بخش تجارت کو خود بخود بند کر دیتا ہے۔
رحیم یار خان(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین ، سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابق وزیر اسحاق ڈار کو ڈیل کے تحت پاکستان واپس لایا جا رہا ہے،سیلاب متاثرین مشکل میں ہیں، شہباز شریف، بلاول امریکا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں،شہباز شریف کی روسی صدرکے سامنے کانپیں ٹانگ رہی تھیں، دنیا کو زرداری، شریف خاندان کی چوریوں کا پتا ہے اس لیے مدد نہیں کررہے،حقیقی آزادی کے لیے اگر قوم کھڑی نہ ہوئی تو اسی طرح کے چور مسلط رہیں گے، شہبازشریف، حمزہ کو ایف آئی اے کیس میں سزا ہونے والی تھی، 60فیصد کابینہ ضمانت پرہے، چار لوگوں نے بند کمرے میں مجھے مروانے کا فیصلہ کیا، یہ لوگ ابھی سازش میں لگے ہوئے ہیں، مریم نواز نے مریم اورنگزیب اور جاوید لطیف سے پریس کانفرنس کروائی اور پھر کہیں گے مذہبی جنونی نے قتل کیا، مجھے اپنی جان سے زیادہ ملک کی حقیقی آزادی کی فکر ہے،جس قوم کی مائیں، بہنیں، نوجوان جاگ جائیں اس قوم کو کوئی غلام نہیں بناسکتا۔ ہفتہ کو پاکستان تحریک انصاف کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ رحیم یارخان والوں کے جذبہ وجنون،شعور کو دیکھا ہے، گرمی کے باوجود خواتین جلسے میں آئیں، جلسے میں دیر سے پہنچنے کی معذرت کرتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ پورے پاکستان میں میرا جلسہ براہِ راست دکھایا جا رہا ہے، سیلاب میں ہمارے بہن، بھائی، بچے متاثر ہوئے، متاثرین کی ہرممکن مدد کریں گے، ہرپاکستانی کو چاہیے جتنی ہو سکے سیلاب متاثرین کی مدد کرے، چاروں طرف پانی کی وجہ سے متاثرین مشکلات کا شکارہیں، تین ٹیلی تھون میں 8 گھنٹے کے دوران مجھے 14 ارب پاکستانیوں نے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ کرائم منسٹر، بلاول بھٹو امریکا گئے ہوئے ہیں، امریکی اداکارہ متاثرین کی مدد کیلئے پاکستان آئیں، یہ امریکا میں مہنگے ترین ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، متاثرین مشکل میں امریکا کیا کرنے گئے ہیں، بلاول بھٹو کو اردوسیکھتے ہوئے چودہ سال ہوگئے۔اللہ کا شکرہے میری قوم میں شعور آ گیا ہے، اپنی قوم کو حقیقی آزادی کے لیے جگانے کی کوشش کر رہا ہوں، جس قوم کی مائیں، بہنیں، نوجوان جاگ جائیں اس قوم کو کوئی غلام نہیں بناسکتا۔پی ٹی آئی چیئر مین نے کہا کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں ہمارا مسئلہ ملک کی لیڈرشپ ہے، ہماری قوم خود دار اور غیرت مند ہے۔ انہوںنے کہاکہ شہبازشریف روسی صدر کے سامنے سکول کے بچے کی طرح بیٹھا تھا، شہباز شریف کی روسی صدرکے سامنے کانپیں ٹانگ رہی تھیں، بیرونی سازش کے ذریعے امپورٹڈ وزیراعظم کو بٹھایا جائے تو پھرملک کی شرمندگی ہوتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ رحیم یارخان والو!کیا آپ ایسا وزیراعظم چاہتے ہیں؟ شہباز شریف نے سیکرٹری جنرل سے کہا وعدہ کرتا ہوں امداد چوری نہیں کریں گے، اس کا مطلب ہے پہلے امداد چوری کرتے تھے۔ انہوںنے کہاکہ دنیا اس انسان کی عزت کرتی ہے جو اپنی خود کرتا ہے، بہنیں اپنے بچوں کی تربیت کریں ،خدا کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکنا، غریب آدمی میں بھی غیرت ہو تو دنیا اس کی عزت کرتی ہے، جس پرائم منسٹرمیں غیرت نہ ہواس کی کوئی عزت نہیں کریگا۔انہوںنے کہاکہ امریکی دورے پرقوم کے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔عمران خان نے کہا کہ شہبازشریف انٹرویومیں کہتا ہے ملک کے حالات بہت برے خدا کے واسطے پیسہ دلوادو، وزیراعظم کہہ رہا ہے ہمارا دیوالیہ نکل گیا ہے، ملک پرمصنوعی لیڈر کو بٹھادیا گیا، شہبازشریف کو اس لیے لایا گیا سارے حکم مانے گا۔ انہوںنے کہاکہ حقیقی آزادی کے لیے اگر قوم کھڑی نہ ہوئی تو اسی طرح کے چور مسلط رہیں گے، شہبازشریف، حمزہ کو ایف آئی اے کیس میں سزا ہونے والی تھی، شہبا زشریف کوسازش کے تحت مسلط کیا گیا، 60فیصد کابینہ ضمانت پرہے، ایک طرف دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں، امپورٹڈ حکومت نے نیب ترمیم کرکے چوری کیا ہوا 1100 ارب معاف کرایا، امپورٹڈ حکومت نے این آر او لیا، ان کا اقتدارمیں آنے کا مقصد اپنی چوری بچانا تھا، پاکستانیوں ہم نے حقیقی آزادی کی تیاری کرنی ہے، ہمیں حقیقی آزادی کیلئے باہر نکلنا پڑے گا، آزادی کبھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ بڑے ڈاکوملک کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک لیجاتے ہیں، اگر بڑے ڈاکوئوں کو سزا نہ ملے تو وہ قوم تباہ ہو جاتی ہیں، اگرہم نے ان کی غلامی کو تسلیم کر لیا تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں، ہمارا وزیراعظم بیرون ملک جا کر ہاتھ پھیلاتا ہے، پاکستانیوں یاد رکھو جو بھی ملک پیسہ دیگا وہ ہماری خود مختاری کا سودا کریگا۔ انہوںنے کہاکہ تیس سال دونوں پارٹیوں نے ملک کا دیوالیہ نکالا آج بیرون ملک پیسے مانگ رہے ہیں، بیرون ممالک سب کوپتا ہے ان کے اپنے پیسے باہرپڑے ہیں، یہ بھی پڑھیے اسحاق ڈار کا دعویٰ تھا کہ ڈالر 200 سے نیچے لاؤں گا لیکن نہیں آیا، آئی… نومبر 22, 2022 تاجروں کیلئے بڑی خوشخبری، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑا اعلان کر دیا اکتوبر 6, 2022 اسحاق ڈار کی وطن واپسی پر ڈالر کی قیمت کیسے کم ہوئی، ماہر معاشیات کا… ستمبر 29, 2022 عمران خان مجھ سے بچیں، اسحاق ڈار ستمبر 27, 2022 جس طرح کا پاکستان میں سیلاب آیا دنیا کو ہماری مدد کرنی چاہیے تھی، دنیا کو زرداری، شریف خاندان کی چوریوں کا پتا ہے اس لیے مدد نہیں کررہے۔انہوں نے کہا کہ مخالفین تحریک انصاف کی مقبولیت سے ڈرے ہوئے ہیں، چار لوگوں نے بند کمرے میں مجھے مروانے کا فیصلہ کیا، یہ لوگ ابھی سازش میں لگے ہوئے ہیں، مریم نواز نے مریم اورنگزیب اور جاوید لطیف سے پریس کانفرنس کروائی، میرے خلاف پریس کانفرنس کروائی تاکہ پھر کہیں گے مذہبی جنونی نے قتل کیا، مجھے اپنی جان سے زیادہ ملک کی حقیقی آزادی کی فکر ہے، میرا ایمان اللہ پر ہے زندگی موت اسی کے ہاتھ میں ہے، میرا ایمان ہے اگر غلام رہنا ہے تو پھر مر جانا بہتر ہے۔انہوںنے کہاکہ اپنی انا اور کرپشن کے قیدی یہ سازش کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہے جو ملک لوٹ کر باہر چلے جاتے ہیں، ان کے ساتھ سازشی ٹولہ ہے جو پوری کوشش کر رہا ہے، قوم سے کہتا ہوں خوف کی زنجیروں کو توڑ دو، فیصلہ کیا ہے ان چوروں کو کسی صورت تسلیم نہیں کرنا، ہر روز ان کے کرپشن کے کیسز معاف ہو رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اب اسحاق ڈار واپس آنے والا ہے، حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اسحاق ڈارنے شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کی گواہی دی تھی، سابق وزیر خزانہ نے خود بیان دیا شریف خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کرتا تھا، اسحاق ڈار(ن)لیگ کی حکومت میں وزیراعظم کے جہازمیں بیٹھ کربھاگا تھا، ڈارکی جائیدادیں اوربچے باہر ہیں، اب اسحاق ڈار کو این آر او ڈیل کے تحت واپس لایا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ڈارتاریخی خسارہ چھوڑ کر گیا تھا، ڈار نے معیشت اور کسانوں کا بیڑہ غرق کر دیا تھا، ہم بھیڑ بکریوں کی طرح تماشا نہیں دیکھ سکتے، جب تک جان ہے جدوجہد کروں گا قوم کو باہرنکالوں گا۔عمران خان نے کہا کہ نیویارک میں شہباز شریف نے مان لیا ملک کے حالات بہت برے ہیں، جنہوں نے سازش کر کے ہماری حکومت گرائی تھی ان سب سے پوچھتا ہوں آپ سب لوگ ذمہ دارہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے دور میں 6 فیصد سترہ سال بعد گروتھ ہو رہی تھی، ہمارے دور میں ملک کی انڈسٹریز ترقی کر رہی تھی، ہمارے دور میں کسان بھی خوش اور 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ ایکسپورٹ تھی، ہمارے دورمیں تاریخی ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا گیا، ہم نے عوام کو بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں سے بچایا ہوا تھا ۔ عمران خان نے کہاکہ پٹرول 236 روپے لٹر ہو چکا ہے، آج ڈیزل (فضل الرحمان)250 روپے تک پہنچ گیا ہے، ہم نے مہنگائی کو روکا اور ہر خاندان کو 10 لاکھ کی ہیلتھ انشورنس دی، احساس پروگرام کے ذریعے سود کے بغیر قرض دے رہے تھے، سوال پوچھتا ہوں کورونا کے مشکل حالات کے باوجود پاکستان ترقی کر رہا تھا، ہماری حکومت نے کورونا اور اپنی معیشت کو بھی بچایا، سوال پوچھتا ہوں ہماری حکومت کو گرا کر چوروں کو مسلط کیا گیا، شہباز شریف انٹرویومیں رو رہا تھا پیسے دے دو۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ شہبازشریف کہہ رہا ہے خدا کے واسطے ہماری مدد کرو ، انٹرویو کرنے والی کی آنکھ میں آنسو آ گئے تھے، شہباز شریف کو اچکن سلوانے کی بڑی جلدی تھی؟ ہماری حکومت گرا کر کبھی سیکرٹری جنرل کا بازو اور کبھی اینکر کے سامنے منتیں کرتا ہے، پاکستانیوں یہ ہمارا مستقبل نہیں ہے، شہبازشریف بھکاریوں کی طرح مانگ رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ سے پوچھتا ہوں چور کرپشن کے کیسز ختم کر رہے ہیں، کیا صرف میری ذمہ داری آپ لوگوں کی کوئی ذمہ داری نہیں، یہ چور 30 سال سے چوری کر رہے ہیں، چورباری باری اپنے کیسز ختم اور پیسہ ہضم کر رہے ہیں، کیا اس ملک میں کرپشن کے خلاف لڑنے کا میں نے ٹھیکا لیا کسی اورکی کوئی ذمہ داری نہیں۔
کراچی:جینڈر انٹرایکٹو الائنس (GIA) اور عورت مارچ کے عہدیداروں نے جمعرات کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں'ہماری خواجہ سرا بہنوں کی نسل کشی'کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس فلاحی ادارے کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے ایک ماہ میں چار خواجہ سراؤں کی موت واقع ہوئی جس میں دو کو قتل کیا گیا جبکہ دو کی موت صحت کی نا قص سہولیات کے باعث ہوئی۔ ریلیز میں ٹرانس جینڈر بجلی، 19 سالہ ٹوفے، شیرلی اور X کے ساتھ ہونے والی بر بریت کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواجہ سرا خواتین کو قتل اور جسمانی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا یا ریاست اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔ جی آئی اے اور عورت مارچ نے اپنے مطالبات بیان کئے اورکہا: "ہم ان قتل کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ریاست سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرکاری اور پرائیویٹ ہیلتھ کیئر سہولیات میں خواجہ سرا برادری کے ساتھ غیر آئینی امتیازی سلوک کا نوٹس لے۔ انہوں نے طبی برادری سے اپنے حلف کو برقرار رکھنے اور خواجہ سرا کے مریضوں کو بلا تفریق صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ خواجہ سرا بہنوں پر تشدد اور امتیازی سلوک کا نوٹس لیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکام ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018 کے تحت تمام ذمہ داریوں پر عمل درآمد کریں بشمول تحفظ مراکز اور محفوظ گھروں کا قیام"۔ پریس ریلیز کے مطابق بجلی ایک مہربان ٹرانس جینڈر خاتون تھیں جن کو اپنے ہی گھر میں گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ ایچ آئی وی پازیٹو ٹوفےکوڈاکٹر روتھ کے ایم فاؤ سول ہسپتال میں علاج سے انکار کر دیا گیا تھا ۔بر وقت علاج نہ میسر ہونے کے باعث وہ دم توڑ گئی۔ شیرلی کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کی جگہوں پر اس قدر جارحانہ طور پر امتیازی سلوک کیا گیا کہ جب اسے ضرورت پڑی تو وہ علاج کروانے سے گھبرا گئی اور ہیلتھ کیئر سسٹم کے ٹرانس فوبیا کی وجہ سے چل بسی۔ "X - کو لیاری میں پرتشدد طریقے سے قتل کیا گیا۔ان کے اہل خانہ کی جانب سے اس کا نام ظاہر کرنے کی مما نعت ہے۔ ان سب خواجہ سرا خواتین کو ان کی زندگی کے حق سے انتہائی ظالمانہ انداز میں محروم کر دیا گیا۔ خواجہ سرا برادری کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئےاس این جی اونے پریس ریلیز میں کہا کہ انہیں معاشرے میں ان کے مقام سے محروم کرنے کا عمل جنوبی ایشیا کی نوآبادیات سے شروع ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانوی نوآبادیات اور ان کے سماجی نظام کی آمد سے قبل خواجہ سراؤں کو بہت سے معزز پیشوں میں سماجی پہچان اور ملازمت حاصل تھی۔
گائیکی میری روزی روٹی ہے اور میرا کام مجھے مل رہا تھا میں انکار نہیں کرسکتی تھی ٗعلی ظفر کے ساتھ دوبارہ کام کر نے پر جو اسلام آباد: پاکستان کی معروف گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع نے اداکار و گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کے بعد ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ جب پہلی مرتبہ اس کا شکار ہوئیں تو اس لیے خاموش رہیں کیونکہ وہ اور علی ظفر دونوں بڑے اسٹار تھے جن پر سب کی نظر ہوتی ہے۔ میشا شفیع نے ایک نٹرویو میں بتایا کہ جب علی نے پہلی مرتبہ مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا تو میں نے اپنے شوہر محمود رحمان کو بتایا جس پر ہم نے خاموش رہنا مناسب سمجھا اس وقت میں نے سوچا کہ میں کون ہوں اور وہ کون ہے؟ آخر یہ جو ہوا ہے یہ کہاں تک جائیگا اور بالآخر میں نے اس بات کو دفن کردیا۔انہوں نے بتایا کہ دوسری مرتبہ علی ظفر نے انہیں اْس وقت ہراساں کیا جب وہ دونوں ایک کانسرٹ کے سلسلے میں جیم روم میں موجود تھے۔ جب میشا سے سوال کیا گیا کہ آپ ایک مرتبہ علی ظفر کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا شکار ہوچکی تھیں تو پھر آپ نے دوبارہ کیوں ان کے ساتھ کام کرنے کیلئے حامی بھری؟جس پر میشا نے جواب دیا کہ یہ گائیکی میری روزی روٹی ہے اور میرا کام مجھے مل رہا تھا میں انکار نہیں کرسکتی تھی۔انہوں نے کہاکہ میں لاہور میں کانسرٹ کیلئے اپنے بینڈز ممبرز کے ساتھ تیاری کر رہی تھی اور علی ظفر کو نظر انداز کر رہی تھی تاہم علی کوشش کر رہے تھے کہ وہ کسی بھی طرح مجھ سے بات چیت کر سکیں ٗمیرے قریب آسکیں اور یہ صورتحال میرے لیے مشکل ہو رہی تھی۔ان سے پوچھا گیا کہ اْس وقت تو علی ظفرکے ساتھ آپ کی تصاویر بھی موجود ہیں جن میں آپ کی ان کے ساتھ کافی قربت نظر آرہی ہے؟جس پر میشا کا کہنا تھا کہ وہ تصاویر سب کے ساتھ ایک گیدرنگ میں لی گئی تھیں تاہم ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے جب پہلے آواز نہیں اٹھائی تو اب کیسے ہمت کی؟۔میشا شفیع نے جواب دیا کہ اب میں جواب دینے کیلئے تیار ہوں ٗ میں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیاجس پر مجھے لگا کہ اب میں زیادہ دیر تک مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہاکہ میں نے دیکھا کہ ارد گرد لڑکیاں اور خواتین اپنے لیے آواز اٹھا رہی ہیں اور یہاں کی خواتین بھی اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں جس نے مجھے ہمت دی اور حوصلہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ میں ان لڑکیوں کی ہمت کی داد دیتی ہیں جنہوں نے سابق پٹاری سی ای او خالد باجوہ کے خلاف آواز بلند کی جو آسان نہیں تھا کیونکہ وہ لڑکیاں کوئی خاص شخصیات نہیں تھیں تاہم یہ میرے لیے اور مشکل تھا بلکہ سب کیلئے ہی مشکل ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ میں نے جتنا اس بارے میں سوچا، اتنا ہی مجھے احساس ہو کہ مجھے بھی سچائی سامنے لانا چاہیے، اگر میں نہیں لائی تو تبدیلی نہیں آسکے گی اور یہی چیز میرے اندر ہی اندر مجھے کھا رہی تھی اور میرے ضمیر پر بوجھ بڑھا رہی تھی۔انٹرویو کے دوران میشا نے کہاکہ جب میں اپنے بچوں کو یہ ہدایات دیتی ہوں کہ جب بھی کچھ غلط ہو تو خاموش نہیں رہنا تو پھر میں کیسے خاموش رہ سکتی تھی ٗمجھے پتہ تھا کہ یہ کوئی حادثہ یا بے دھیانی میں کیا گیا کام نہیں تھا۔انہوں نے بتایا کہ ہراساں کرنا صرف ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی حد تک نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر تھا اور جب ایک خاتون کو احساس ہو کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے تو اسے پورا حق ہے کہ وہ اپنے لیے آواز اٹھائے اور سب کو بتائے اور یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا۔میشا شفیع نے کہا کہ اس سے قبل میں یہ سب بتانے میں کافی شرم محسوس کرتی تھی تاہم جتنا زیادہ میں نے لوگوں کو اس سے آگاہ کیا اتنی ہی میرے اندر طاقت بڑھتی گئی کہ میں سب کو بتاؤں۔انہوں نے کہا کہ میں نے وہ کام کیا ہے، جس سے مجھے خوف آتا تھا، میں نے ایک اندھی چھلانگ لگائی ہے۔
Muslime fragen, Christen antworten: سوال نمبر114:۔محبت اور برداشت اسلام میں اجازت ہے کہ اہلِ کتاب (یہود اور نصاریٰ) سے شادی بِلا جھجک کر لی جائے۔ پر مسیحیت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں شادی سے منع کرتی ہے۔ کیا یہی ہے آپ کا محبت، پیار، چاہت جتانے کا آئیڈیا اور یہی وہ رواداری، تحمل، بے تعصّبی Muslime fragen, Christen antworten Home بائبل اور قرآنی اقتباسات جملہ سوالات سائٹ مصنّفین Navigation ein-/ausblenden Themen الہام و کلام / بائبل مقدّس اور کلامِ خداوندخُداوند یسوع مسیح کی خُدائی اور انسانی رُوپصلیب، گناہ اور نِجاتحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ مسیحیتخُدا: ایک میں تین.... تین میں ایک /تثلیثکلیسیاپاک یوخرستعبادت اوردُعادِین اور دُنیاخدا کی طرف سے مسیحیوں کے لیے کاہنانہ/راہبانہ زندگی اختیار کرنے کی بلاہٹ/طلبمذہبی آزادی ووسیع النظری تکسیریّترُوحِ مسیحیتاجل (موت)، حساب کتاب، انصاف (قیامت) اور ابدی زندگیاخلاقیات و عمرانیات کی تعلیممشن اورمکالمہ :سوال نمبر114 ۔محبت اور برداشت اسلام میں اجازت ہے کہ اہلِ کتاب (یہود اور نصاریٰ) سے شادی بِلا جھجک کر لی جائے۔ پر مسیحیت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں شادی سے منع کرتی ہے۔ کیا یہی ہے آپ کا محبت، پیار، چاہت جتانے کا آئیڈیا اور یہی وہ رواداری، تحمل، بے تعصّبی، بُردباری اور برداشت مسیحی دنیا جس کا پرچار کرنے میں آگے آگے رہتی ہے؟ جواب:۔زمانہء حال میں نہ صرف یہ بپتسمہ یافتہ لوگ یعنی تمام مسیحی اصحاب، چاہے ایک دوسرے سے بعض عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں، بہت سے دیگر مذہبی فرقوں سے بے شک دِینی تعلُّق ہو ان کا، صورتِ حالات ایسی بن گئی ہے کہ ان سب مسیحیوں کو اکٹھے رہنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی شہر میں ان کی بود و باش ہوتی ہے۔ علاقہ، دیار، سرزمین، برِّاعظم یہاں وہاں کہِیں بھی ہر جگہ رہن سہن اکٹھا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پرانے وقتوں والی پابندیوں، سختیوں میں خاصی لچک عصرِ حاضر کا تقاضا بن گئی ہے چناں چہ کیتھولک مسیحیوں اور بپتسمہ پائے دیگر غیر کیتھولک مسیحیوں کے درمیان شادی بیاہ، رشتوں کا لین دین اب عام ہوتا جا رہا ہے، بل کہ معاملہ بہ اِیں جا رسید کہ بپتسمہ سے محروم اقوام اور کیتھولکس بھی آپس میں رشتہ داریاں مضبوط کر رہے ہیں، مختلف مذاہب کے لوگوں میں رشتہ کرنا بتدریج رواج پاتا جا رہا ہے۔ مسیحیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان جب شادی کا بندھن قائم ہونا طے پانے لگے تو ہر پہلو سے احتیاط کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، شادیوں کے اس خلط ملط سے معاشرتی مسائل میں کمی نہیں آ رہی بل کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ زندگی میں ایک دوسرے کو شراکت دینے والے ہر پارٹنر کو خاص توجُّہ دینے اور محتاط رویّہ اپنانے کی ضرورت ہے، کل جن مسائل نے سر اُٹھانا ہے اُنھیں آج صاف کر لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں گرجا کے خادمین و ہادی صاحبان کے احسن کردار میں زیادہ ذمہ داریاں شامل ہو جاتی ہیں۔ کلیسیا کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً شرائط اور ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا مقصد شادی میں روڑے اٹکانا نہیں بل کہ ازدواجی رشتوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوتا ہے اس لیے ان پر استقامت کے ساتھ عمل اپنا اور آنے والے بچوں کا مستقبل سنوارنے پر منتج ہوتا ہے۔ اور جب مسیحیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں شادی کا سوچ عملی رُخ اختیار کرنے لگے تو احتیاط کی حاجت دو چند ہو جاتی ہے۔ آغبائیٹ ہِلفے نمبر172(Arbeitshilfe Nr 172)میں"Christen und Muslime in Deutschland"یعنی ورکنگ میٹیرئیل نمبر712میں ''جرمنی میں مسیحی اور مسلمان'' مضمون کے تحتwww.dbk.de/Schriften/Arbeitshilfenدینی اُمور کے فیصلوں کے لیے اراکینِ کلیسیا کی جرمن جنرل کونسل (مجلس) ایسے مسئلے مسائل، اعتراضات، سوالات اور تجاویز پر غور کرتی ہے جو اس وقت سامنے آتے ہیں جب کیتھولک مسیحیان مسلمانوں میں شادیاں کرتے ہیں (بحوالہ نمبر370سے 401اور صفحات186تا200)۔ پس ، مسیحی شریکِ حیات کے لیے بڑا ضروری ہے کہ اسے اسلامی شریعت میں اسلامی مسیحی شادیوں اور خاندانی رسوم اور کنبہ کے طریقِ زندگی کے بارے میں تمام جزئیات سے شناسائی حاصل ہو۔ اپنے دینی احکامات کا تو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اُسے پتا ہے، اسلامی شرعی قوانین جو اس شادی کے متعلق ہیں ان کا بھی اسے لازماً علم ہونا چاہیے۔ 1۔ اسلامی قانون مسلمان مرد کی مسیحی خاتون سے شادی کی اجازت تو دیتا ہے، مگر مسلمان بی بی اور مسیحی شخص کے مابین اس رشتے کے قائم ہونے کے حق میں نہیں۔ اس قانون کی اس سرنامہ پر فخریہ اساس قائم ہے کہ دِینِ اسلام کے ماننے والے ازدواجی زندگی اور خاندانی رہن سہن میں اپنے رسولؐ کی سُنّت سے عملی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ آخری کتاب، آخری شریعت، آخری اُمّت اور آخری مذہب ہونے کے سبب حتمی طور پر مُکمَّل، جائز و دُرُست دِین پر ہیں ان کے دِین کو سب ادیان پر فوقیت حاصل ہے اور خُدا تعالیٰ کے ہاں بھی اس آخری امت کو خیر الامہ کا مقام حاصل ہے۔ اور یہ کہ جب میاں بیوی میں کوئی اختلافات یا تنازعات پیدا ہوں تو دستِ بالا خاوند کو حاصل ہو گا۔ روایتی نقطہء نظر یہی سامنے آیا ہے کہ مسلم بیوی صرف مسلمان کی بیوی ہوتی ہے کِسی مسیحی کی نہیں ہو سکتی (مسیحی مرد کو اسلام قبول کرنا پڑے گا)۔ خاندان میں یہ بات تو صدیوں سے تسلیم شدہ ہے کہ مرد کو برتری، اثر اور فوقیت حاصل ہوتی ہے،مرد اگر مسیحی ہو تو اس کی وجہ سے مسیحی کلچر، مسیحی مذہبی آثار اور مسیحی عناصر بیوی، بچوں اور آیندہ نسلوں پر چھائے رہیں گے، اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ انسانی اقدار پر مبنی معاشرے میں ترکی کا سیکولر فیملی لا تو مسیحی مرد اور مسلم بی بی کے مابین رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے کے معاہدہ کی بخوشی اجازت دیتا ہے، تاہم ترک عوام میں ایسی شادیوں کی حوصلہ افزائی کی ریت ابھی اتنی پیدا نہیں ہوئی بل کہ یہ مخالفت ذہین و متین سیاستدانوں پر مشتمل حزبِ اختلاف کی نظر اندازیوں اور واجبی تنقید کو بھی یہی سمجھتی ہے کہ گونگلوؤں سے مٹّی جھاڑی جا رہی ہے۔ 2۔ مسلمانوں کے حساب سے مسلم مرد کی اولاد پیدایش کے اعتبار سے مسلم ہی ہوگی چاہے اُنھوں نے جنم بطنِ مسیحی مادر سے ہی کیوں نہ لیا ہو۔ اسلام میں والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی نگہداشت و پرداخت اور تعلیم و تربیت بہ ہر طور دِینِ اسلام کے مطابق ہی انجام دیں۔ مسیحی بیوی کو اپنے دِین پر قائم رہنے کی اجازت ہے مگر اسلام اولاد کو مسیحی بنانے کے عمل کی نفی کرتا ہے۔ شرعی قوانین مسلم شوہر کو اپنے اِن قوانین کی حفاظت اور ان پر ثابت قدمی سے عمل کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ معروضی طو رپر مسیحی بیوی اگر بچوں کو مسیحیت کی طرف مائل کرنا چاہے تو یہ عمل متضاد و ناموافق ہو گا اور شادی خانہ آبادی اس سٹیج پر جب کہ بچے بھی ہو چکے ہوں تب بھی ڈراپ سین سامنے لا کر بربادی پر انجام پذیر ہو سکتی ہے۔ بچوں کی مسیحی تعلیم و تربیت ماں کے دِین کا بھی اہم جزو ہے مگر ناقابلِ حل مشکلات و مسائل زندگی اجیرن کر سکتے ہیں، خود بچوں پر عمر کے ساتھ ساتھ بدترین اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی الجھنیں بڑھیں گی۔ ضروری اور فوری سفارش کی جاتی ہے کہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں نکاح سے پہلے ہی سب کچھ طے کر لیا جائے، ہر معاملہ شرط شرائط آئینے سی صاف اور شفاف صورت سامنے رکھ کر دیانتداری سے طے کر لی جائیں۔ سب کے علم میں ہو کہ بچے کِس دین کے سایہ میں پلیں گے۔ ان کی تعلیم و تربیت دنیاوی دینی کے وجوب ولزوم کی طے شدہ پابندی کا اعلان و اقرار پورے خلوصِ نیت سے کرنا ہو گا تا کہ آیندہ کی زندگی اور ساتھ دونوں فریق کا پُرلطف رہے اور بچوں کا مستقبل محفوظ۔ 3۔ مسلم مسیحی شادی کی گرہ بندھنے سے پہلے ان سوالات کو سامنے رکھ کر سب کچھ پکا پکا طے کر لیا جائے: ٭کیا مسلم شوہر کی مسیحی بیوی کو اپنے مذہب کے مطابق رسوم و عبادات کی آزادی میسر ہو گی؟ اپنی مذہبی برادری سے وابستہ رہنے کی بھی اس کو اجازت ہو گی یا نہیں؟ ٭سسرال میں اس بات پر کِسی کو اعتراض تونہ ہو گا کہ مسیحی خاتون اپنی ذات کے لیے مسیحی علامات اور لکھی چھپی چیزیں اپنی عبادت کی جگہ یا اپنے کمرے میں کہِیں نمایاں طور پر آویزاں کر لے یا عقیدت سے سجا لے۔ ٭کھانے پینے، حرام حلال کے ضمن میں اسے اجازت ہو گی کہ وہ اسلامی ضابطوں کے خلاف بھی عمل کر سکے؟ ٭ کیا اس سے یہ توقع باندھ لی جائے گی اور اسے اس پر پورا بھی اُترنا ہو گا کہ دلھن بن کر جب وہ اسلامی گھرانے میں آجائے گی تو اسے اسلامی مذہبی آداب و رسوم کے مطابق طہارت، پاکیزگی، صفائی ستھرائی کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ خواتین کے ایامِ حیض کے دنوں کے شرعی مسائل کی پابندی، نفاس کے مسائل، نجس چیزوں کو پاک کرنا، غسلِ جنابت وغیرہ کے بارے میں جاننا سیکھنا ہو گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مختلف مکتبہء فکر کے مسلمان علما و رہنماؤںنے درج بالا ان سوالوں اور دوسرے کئی نکات کے مختلف ہی جوابات سے نوازا ہے۔مسیحی خاتون جو مسلمان مرد سے شادی کی ہاں کیے پھرتی ہے اسے چاہیے کہ ازدواجی زندگی پر اپنے ہونے والے شوہر کے جملہ خیالات و نقطہ ہاے نظر کی پوری پوری جانکاری حاصل کرے، دونوں مستقبل کے منصوبوں پر ایک دوسرے کو شامل کرتے ہوئے ان کی تفصیلات طے کریں۔ دُولھا کے عزیز و اقارب کے خیالات جاننا بھی بہت ضروری ہے تا کہ شادی کے بعد ان کی طرف سے اڑچن پڑنے کا احتمال شادی سے پہلے ختم کر لیا جائے۔ ایک دوسرے کے مذہب کے احترام پر زور دیا جائے۔ ہر طرح کے تعصب سے پرہیز کِیا جائے۔ سب انسان ہیں کسی کو بھی اپنے سے کمتر نہ سمجھا جائے۔ جس گھر میں مسیحی خاتون گھر والی بن کر جا رہی ہے وہاں زندگی کے طور طریق، روز مرہ کے اصول اپنانے کی کوشش کرے، جیسا دیس ویسے بھیس میں ڈھل جانے کی کوشش کرے۔ ایک زندگی گزارنی ہے اور اکٹھے گزارنی ہے،ا چھی ہی گذرے، بہت سی چیزیں کامن ہوتی ہیں۔ اچھے مسیحی کی طرح دُلھن کو چاہیے کہ سب کے دِل موہ لے، مومن مسیحی بن کر اپنے لیے احترا م کے جذبات دوسروں کے دلوں میں اُبھارے، اپنے دین کی اچھائیوں کا تاثر اپنے اچھے اعمال سے دوسروںپر قائم کرے۔ 4۔ مسیحی خاتون کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ جب وہ مسلم خاندان میں بیاہ کر جائے گی تو اپنے خاوند کے فوت ہو جانے کے بعد وراثت میں اس کے بچوں اور بچوں کے بھی بچوں کا تو حصہ ہو گا مگر ترکے میں خود اسے کچھ نہیں، بس حوصلہ ملے گا۔ اس سے بڑی ایک اہم حقیقت جس کا اُسے سامنا کرنا ہو گا وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں رہے یہ بات کہ اس کا مرد کِسی بھی وقت دوسری شادی کر سکتا ہے، یہ اس کا شرعی حق ہے۔ مسیحی بیوی پر سوت آجانے کی تلوار ساری زندگی لٹکتی رہے گی۔ 5۔ کِسی بھی مسیحی خاتون کے لیے از بس اس کے فائدے میں ہے کہ کِسی مردِ مسلمان سے شادی کے فیصلہ سے پہلے اس بات کو اسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے جیسا نظر آتا ہے۔ شادی کے سوچ سے لے کر، طے پا جانے اور بعد میں اس کے پکّا ہونے اور شادی خانہ آبادی بننے اور اس خانہ آبادی کو مینیج کرنے میں بڑی دُر گھٹنائیں آتی ہیں جنھیں پاؤں تلے مسلنا ہوتا ہے۔ اپنوں میںشادیاں ہوں تب مشکلات کی چٹانوںکاسامنا ہوتا ہے، غیر مذہب والوں میں شادی کر بیٹھیں تو کٹھنائیوں کے پہاڑ رُوبرُو ہوتے ہیں جن کو سر کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ اور تو اور اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کی منزلیں بھی سوچ سمجھ کے پانے کی حکمتِ عملی بنانا پڑتی ہے، ہیئر سٹائل، نیل پالش، پہناوا، دوپٹّا، عبایا، حجاب حتّٰی کہ فیملی پلاننگ تک دُوسروں کی مرضی مشوروں کو صائب ماننے والی صورتِ حالات کا آئے روز سامنا ہوتاہے۔ اپنی فیملی کی خواتین سے ایسے معاملات پر نمٹنے اور گھر آئی مسیحی دُلھن کی آزادیوں خودمختاریوں میں دخل درمعقولات کے انداز بڑے مختلف ہوتے ہیں۔ عام حالات میں، اپنی اپنی کمیونٹی میں، ہر روایتی ساس کو شیشے میں اُتارنے کی ضرورت ہوتی ہے، مسیحی خاتون مسلم مرد سے بیاہ کر جب اُس کے گھر جاتی ہے تو جلد ہی اُسے احساس ہوتا ہے کہ یہاں تو سسُّو ماں والے ''محبت بھرے اختیارات'' گھر کی ہر خاتون سنبھالے بیٹھی ہے، حتّٰی کہ مردوں اور لڑکوںبالوں نے بھی بڑے اباؤں والے انداز اپنا رکھے ہیں۔ چھوٹے دیوروں، بھابیوں، دیورانیوں وغیرہ والے پنجابی لوک گیت، بولیاں، ٹپے، سب قصہء پارینہ ہو گئے۔ صدیوں کے راستے میں ہی کہِیں گُم ہو گئے یا پھر ماضی کے پنگوڑوں میں جا سوئے ہیں۔ جاگیں کیسے، نہ ڈھولک، نہ وٹے، نہ تالیاں نہ ڈُومنیاں اور نہ دریسیں نہ جھُومر۔ اِس لیے ہم خبردار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔''مشتری ہوشیار باش!''۔ آپ جرمنی میں ہوں، برطانیہ، سپین، اٹلی، کِسی بھی مغربی ملک میں ہوں یا کہِیں بھی، میاں بیوی ہر جگہ سُکھ چین آرام، مذہبی آزادی اور سماجی احترام میں کمی، کہِیں بہت کمی اور کہِیں بہت ہی زیادہ کمی کا شکار، کِسی نہ کِسی صورت، ضرور رہیں گے اس لیے ''ویلنے وچ بانہہ دین توں پہلاں'' یعنی شادی سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔ مثلاً فرض کریں بدیسی خاتون ہے اور شادی کے بعد ایک روز خاوند کے وطن(فرض کر لیجیے پاکستان) آ جاتی ہے، مکھیاں، مچھر، گرمی، گرد اور گندگی اس کا پہلا تعارف ہو گا اور یہ بڑا مستقل مزاج تعارف ہے، صدیوں سے جاری اور اب تک اس میں کمی نہیں آئی بل کہ اس پہلے پہلے تعارف میں گرمجوشی بڑھی ہے۔ ایئر پورٹ یا بندرگاہ پر ہی خاتون کو پتا چل جائے گا یہاں کچھ بھی ملاوٹ سے پاک نہیں، صاف ستھرا مصفّا و شفاف پانی تک ملنا مشکوک ہے، حفظانِ صحت کا محکمہ تو ہے مگر وہ اپنا ہی تن دُرُست رکھنے پر قانع ہے۔ زندگی بچانے کی دوائیں تک نمبر دو ہیں، یہاں آنے والی خاتون کو اپنا مذہب بچانے کے بھی لالے پڑے رہیں گے، اس کو اپنی شخصی آزادی، پاسپورٹ کی طرح مسلم خاوند اور اس کی فیملی کے پاس گروی رکھ دینا ہو گی۔ شوہر پھر بھی کچھ لحاظ کر لے تو کر لے، آخر باہر رہ کر آیا ہے، مگر معاشرہ اس خاتون کو نہیں بخشے گا، جب کہ اندر ہی اندر اس سے مرعوب بھی ہو گا اور رشک بھی کر رہا ہو گا۔ خود تو ہماری خواتین کو میم بنے رہنے اور مَیم کہلوانے کا ہر دم انگڑائیاں لیتا شوق ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر ایک مسلم مرد کی مسیحی بیوی چاہے وہ گوری ہو یا کالی یا پردیس گئی ہوئی ہمارے خطے والی، یعنی ایشیا نژاد، اس کی چال ڈھال رفتار، بات چیت سلیقہ، طور اطوار، لباس، شخصیت کا نکھار، رکھ رکھاو، خیالات و افکار مذہب سے لگاو (واجبی ہو یا گہرا، جیسا بھی ہو بات تو غیر مذہب کی ہے، بھلے وہ اہلِ کتاب ہو) ان سب باتوں پر ہمارے مرد اور خواتین نے آبزروریٹریز قائم کر رکھی ہوتی ہیں اور ہر کوئی ہر دم دُوربین فٹ کیے بیٹھا نظر آتا ہے۔ لینز فوکس کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی، بڑی بوڑھیاں اور قبروں میں پاؤں لٹکائے بزرگ خوردبینوں تلے گھر آئی سہاگن کے کردار میں کیڑے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ شادی سے پہلے جو فیصلہ آپس میں صلح صفائی سے طے کرنا چاہیے تھا، اب شکررنجیوں کے بعد اس پر غور شروع ہوتا ہے اور ایک دن سرتاج کے وطن آئی چڑیا واپس اپنے دیس اُڑن چھُو ہو جاتی ہے کیوں کہ اسے یہاں پہنچ کر نہ کہِیں کھیت نظر آیا تھا نہ دانہ، نہ حوصلہ تھا، نہ ہی کِسی نے ہمت بڑھائی، وہ پھُر سے بغیر کچھ چگے بغیر اپنے بچوں کو ساتھ لیے پرواز کر گئی، بچوں نے بھی خُدا کا شکر ادا کِیا اور واپس جا کر اپنے ساتھ بیتے لطیفے دوستوں کو سناتے پھرے۔ اچھے لوگ بھی موجود ہیں، اچھی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، اچھی مثالیں بھی زندہ اور قائم ہیں۔ ایسے بھی خواتین و حضرات ہیں جو کبھی پاکستان آئے اور اسے ہی اپنا وطن بنا لیا، لوٹ جانے کا کبھی سوچا بھی نہ۔۔۔۔۔۔ (دِل ہی دِل میں کہنا پڑتا ہے، بڑی ہمّت ہے اُن کی!)۔ دیسی ہو یا بدیسی خاتون، مسیحی ہو اور وہ بھی کیتھولک،تو مسائل دُگنا ہو جاتے ہیں۔ مسلم سوسائٹی میں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ ہم اس پر اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہوتی آئی ہے کہ اچھّوں کو بُرا کہتے ہیں درخواست ہے کہ مسیحی دُلھنوں پر مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوجانے کا دباو اب ختم کر دیا جانا چاہیے۔ برداشت اور رواداری کے ساتھ وفاداری کی صفت بہ رُوے کار لاتے ہوئے بے شک اپنا مذہب چھوڑئیے مت، یہ بھی تو ہے کہ دوسروں کا مذہب چھیڑئیے مت۔ خاتون کا اپنا جو وطن ہے وہاں اُسے اپنا مذہب چھوڑئیے مت اور دوسرے کا مذہب چھیڑئیے مت والی سہولت میسر ہے۔ ادھر یوں ہوتا ہے کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں بہت حد تک ایک دوسرے پر معاشی انحصار نہ ہونے، میاں بیوی کی ایک دوسرے پر محتاجی نہ ہونے بل کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی صورت میں میاں بیوی اور بچوں کا اکٹھے رہنا کہ آزاد و خودمختار بھی ہوں اپنے مرکز سے بھی جدا نہ ہوں یعنی اپنی فیملی کے نیوکلیئس سے جُڑے ہوں، یہ اصول ابھی تک ان ممالک میں مقبولیت تو دُورکی بات ہے قبولیت بھی حاصل نہیں کر سکا۔ (البتہ ماڈرن ترکی کا کیس دوسرا ہے۔ وہ ویسے بھی آدھا یورپ میں ہے آدھا ایشیا میں۔ ) ان مسلم اکثریت والے ممالک میں رائج ہے کہ سب مل کر ایک کنبے کی صورت میں بود و باش رکھیں۔ ماں باپ بیوی بچے، بہن بھائی، آگے ان کے بچے اور کئی صورتوں میں دادا، دادی، نانا، نانی سب جوائنٹ فیملی سسٹم کا اٹوٹ انگ ہوتے ہیں۔ اس کے فائدے بھی ہیں، نقصانات بھی۔ فائدے کم اور فی زمانہ خسارے زیادہ ہیں اور ایشیا میں ایسی کامل مثالیں عام ہیں۔ ایسی شادیوں کے جراثیم بل کہ آج کے دور میں تو کہنا چاہیے ایسا وائرس پھیلنے سے پہلے، کافی پہلے، غور و خوض کے بعد، اپنے اپنے حالات کے پیشِ نظر، موزوں ترین اور پختہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ شادی کے بعد جوڑے نے کہاں، کِن حالات میں رہنا ہے۔ کوئی لگی لپٹی نہ رکھی جائے کیوں کہ اسی فیصلے پر آیندہ کے دُکھوں سُکھوں کا دارومدار ہے۔ اگر وسیع القلبی اور روشن خیالی کا اظہار ممکن بنایا جا سکے تو فیصلہ کچھ یوں سامنے آنا چاہیے کہ دُلھن کو وہ ازدواجی زندگی ملے جس میں ناروا طور پر اور ناقابلِ برداشت حد تک اس پر ایسا جبر نہ ہو کہ اسے ویسا نہ کرنا پڑے جیسا کرنے کے اس نے خواب دیکھے تھے بل کہ اسے دباو میں آ کر وہ کرنا پڑے اور ویسا ہی کرنا پڑے جیسا دوسروں کی مطابقت پذیری میں کِیا جا سکتا ہو۔ خُدا کرے ہم اپنی بات صحیح طور سمجھا پائے ہوں! 6۔ اسلامی شرعی قوانین کے مطابق شادیوں کے دونوں امیدواران کے لیے کچھ چیزیں ایک دوسرے کے اُلٹ ہیں۔ ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہیں اور دوسرے کے حقوق فریقِ اوّل کے لیے فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے نہ دوسرے کے حقوق عورت کے لیے ضرر رساں ہیں اور نہ اس کے اپنے فرائض اس کے ساتھ کوئی بے انصافی ہیں۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ اسلامک جورس پروڈنس میں اور مسلم روایات میں بیوی کی قانونی حیثیت ازدواجی معاملات میں خاوند کے مقابلے میں کمزور تر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پس نیک، فرماں بردار عورتیں خاوندکی عدم موجودگی میں بہ حفاظتِ الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمھیں خوف ہو اُنھیں نصیحت کرو، اور اُنھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور اُنھیں مار کی سزا دو، پھر اگر وہ تابعداری کریں تو اُن پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔ القرآن۔۔۔۔۔۔34:4 ان آیات میں عورت کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی گئی ہے۔ اس کا فرض ہے کہ بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا بندوبست کرے۔ اور بیوی کی نافرمانی کی صورت میں اسے سمجھانے کے لیے سب سے پہلے پند و نصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر اُس سے عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وتیرہ ہے۔ اس ظلم کی اجازت کِسی مرد کو نہیں دی گئی۔ اگر بیوی اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو، تنگ نہ کرو یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارئہ کارباقی نہ رہے۔ نہ اپنی زندگی برباد کرو، نہ عورت کی اور بچے ہوں تو نہ ان کی۔ ازدواجی زندگی میں زن و شوہر کو حسنِ سلوک کا پابند کِیا گیا ہے۔ مسلمان ہوں یا مسیحی سلوک پر تحسین یا سرزنش کے لیے کتابِ مقدس کی، اس مضمون پر، محض ایک آیت کافی نہیں۔ ٹھیک ہے شریعت خاوند کو سزا کا حق دیتی ہے، یہ روایت سی چلی آ رہی ہے، تھوڑا یا بہت ہر معاشرہ مارپیٹ سے خالی نہیں۔ مسلمان ہوں، ہنود و یہود ہوں، مسیحی ہوں کوئی ہوں سب کے ہاں مارپیٹ ہے، یورپ امریکا میں بھی روز کِسی نہ کِسی گھر سے مار کھائی بیبیاں بلائی گئی پولیس کا اپنے دروازے پر انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ بہ ہر حال، ہلکی پھلکی مار والی موسیقی حق ہے جو دیا گیا ہے، حکم نہیں جس کی تعمیل ضروری ہو، مارپیٹ، تشدُّد اب ختم ہو جانا چاہیے۔ اصلاح، مفاہمت، مکالمہ کو رواج دیا جائے۔ دَھیں پٹاس کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے چہ جاے کہ اب شوہر بھی بیویوں کے ہاتھوں پٹنے لگے ہیں۔ شرم کے مارے نہ پولیس بلاتے ہیں نہ کِسی کو بتاتے ہیں۔ 7۔ گو معاشی مسائل نے اور معاشرتی گمبھیرتا ؤں نے زمانے کے حالات خاصے بدل دیے ہیں، پھر بھی اسلامی قوانین مرد کو یہ حق دیتے ہیں کہ بیوی کی آنیوں جانیوں پر نظر رکھے اور وہی طے کرے کہ کہاں اُسے جانا چاہیے کہاں نہیں۔ وہ جاب کے سلسلے میں بھی اُسے باہرجانے سے منع کر سکتا ہے تا کہ گھر گرھستی اور ننھے بچوں کے لیے کام کاج میں ہرج نہ آئے۔ خاوند جب باہرکے سارے کام خود نبیڑ آتا ہے تو وہ بیوی کے باہر نکلنے، جھانکنے پر بھی قدغن لگانے میں دیر نہیں کرتا۔ کئی کٹھور قسم کے شوہر دساور سے لائی گئی بیویوں کو بھی اپنے وطن جانے سے روک دیتے ہیں۔ اپنے نزدیکی عزیز واقارب، ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے بیوی کے میل ملاقات کی اجازت کے سلسلے میں اسلامی شرعی عدالتوں کے قاضی صاحبان کے اپنے اپنے فیصلے ہیں جو ایک دوسرے سے لگّا نہیں کھاتے، بالآخر انگریز کے عطا کردہ قانون کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ 8۔ اب آئیے، دیکھتے ہیں طلاق کے بارے میں اسلامی قانون کیا کہتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات،ا س میں رخنہ پڑنے کے حالات، وجوہ اور پھر طلاقِ بائن ہو جائے تو بچوں کی تحویل کے معاملات، مختصر یہ کہ ان سب اُلجھنوں سے کیوں کر نمٹا جا سکتا ہے اور اس کے اثرات فرد پر اور معاشرے پر کیسے کیسے مرتب ہوتے ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ شریعتِ محمدی بچوں کو باپ کے سپرد کرنے کے حق میں ہے۔ اسلامی قوانین تومطلقہ ماں کو اپنے بچوں کی ملاقات کی اجازت دینا بھی جائز نہیں سمجھتے۔ جب کہ یہ تو بلوغت تک بچوں پر ماں کا حق ہے، بالغ ہونے کے بعد اولاد کچھ بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس شریعت لا کے تحت طلاق کے بعد ماں سے بچے چھین لیے جاتے ہیں۔ جرمن عدالتیں بچوں کی کسٹڈی ماں کو دے تو دیتی ہیں مگر بہت سی شرائط عائد کر کے اور فریقین سے وعدے لینے کے بعد۔ بہ ہر صورت کہنا بھی پڑتا ہے کہ اگر کوئی جرمن خاتون کِسی مسلمان مرد سے جو کِسی اور ہی ملک کا باشندہ ہو اُس سے شادی کر لینے پر رضامند ہو تو ایسے فیصلے پر عمل سے پہلے اُسے چاہیے کہ وہ ان نافذ قوانین کا، کہ جن کے تحت شادی مؤثرہوتی ہے اور جو اس کے ہونے والے خاوند کے وطن میں رائج ہیں، بہتر طور مطالعہ کر لے،معلومات حاصل کر لے یا ضروری شُد بُد ہی حاصل کر لے تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اسے چاہیے کہ بہ اصرار نکاح کو قانونی/ کلیسیائی اعتبار سے تسلیم کرنے کروانے اور ایجاب و قبول اور تقدیس کرنے کے عمل کی سنجیدگی کے ساتھ رسم ادا کرتے ہوئے شادی کو جرمن آفس میں رجسٹرڈ کروائے۔ خُدا نہ کرے کہ ایسی کوئی ضرورت پیش آئے، خُداناخواستہ اگر کبھی طلاق کی نوبت آگئی، تو رجسٹری آفس کا ریکارڈ اس کے بہت کام آئے گا۔ جہاں تک شادی کا طریقِ کار اور ازدواجی کیتھولک قوانین اور ضوابط کا تعلُّق ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نِکات کی طرف، آپ کی توجُّہ چاہیے۔ 1۔ کیتھولک کلیسیا کے نزدیک شادی کیا ہے؟ میاں بیوی کے مابین تا حیات محبت بھرے سنگم کا نام شادی ہے۔ جس کا منتہاے مقصود دونوں شرکاے زندگی کی فلاح و بہبود، ایک فریق کا فیملی وے میں آجانا جسے بڑی بوڑھیاں شرما شرما کے کہتی ہیں دُلھن کا پاؤں بھاری ہو گیا، اور پھر فریقین جب والدین بن جاتے ہیں تو پھر بچوں کی پرورش ان کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ یہ جو شادی کا انسٹی ٹیوشن ہے اس کے نمایاں اوصاف اور خاصیتیں نمبر ایک وفاداری، نمبر دو وفاداری، نمبر تین وفاداری۔۔۔۔۔۔ علیٰ ہٰذاالقیاس وفاداری ہی وفاداری بشرطِ اُستواری۔ اس مقدس رشتے کے درمیان بس موت ہی حائل ہو سکتی ہے یا پھر بے وفائی و بد نیتی دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ وہ بھی در اصل موت ہی کی بگڑی شکل ہیں۔ ہاں، یہ بھی باور کروا دیں کہ یہ بداعمالیاں شاذونادر ہی جنم لیتی ہیں۔ مسیحیوں میں صحیح و جائز شادی ایک طرح کا مقدس ساکرامنٹ ہے۔ غیر مسیحی سے کِسی مسیحی کی۔۔۔۔۔۔ ''آئی ڈُو، آئی ڈو''۔۔۔۔۔۔ ''ہاں جی، ہاں جی'' ، ''مَیں ایسا ہی کروں گا''۔۔۔۔۔۔ غیر ساکرامنٹی عقد ہے۔ مختلف مذہبوں کا اختلاط۔ 2۔ کیتھولک کلیسیا جس شادی کو اپنا وثوق عطا کرتی ہے اس کے دونوں پارٹنر چرچ میں سب کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کر کے پوری آزادی سے میاں بیوی کہلوانے کے حقدار بن جاتے ہیں، سمجھو سب رکاوٹیں پھلانگ آئے۔ گاڑی کے پیچھے جسٹ میریڈ یا نیو لی ویڈکی تختی آویزاں کر کے سارے شہر، قصبے یا گاؤں کے چکر لگاتے ہیں، کنواروں کے دِل جلاتے ہیں اور وہ پھر بھی اُنھیں خوشیوں، سہانے مستقبل اور خوشحالی کی دعائیں دیتے ہیں، جو ضائع نہیں جاتیں کیوں کہ اگلے سال ان میں سے کِسی کی دُلھن اپنی سہیلیوں سکھیوں کی طرف وارے ہوئے پھول اُچھال رہی ہوتی ہے اور دُولھا میاں جو اب کنوارے نہیں رہے، باقی کنواروں کے لیے ''نیولی میریڈ'' لکھوا کے کار کا پیٹرول جلانے نکل جاتے ہیں جب کہ گھر والے ''بُور کے لڈُّو'' بانٹ رہے ہوتے ہیں۔ 3۔ حقیقت حقیقت ہوتی ہے اور اُسے جھُٹلانا رات کو دِن اور دِن کو رات کہنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شادی کی رات رات اور دِن دِن تبھی ہے جبھی اپنے مذہب پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے کے لحاظ سے اور آنے والے اپنے بچوں کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت اور اس کے استحکام کی خاطر مسیحیت کے کیتھولک پیروکاوں کا واقعی اپنی ہی تیار کردہ اوکھلی میں سر آجاتا ہے اور موسلوں کے ڈر سے وہ فکر مند اور پریشان پریشان نظر آتے ہیں، جب وہ اس مسئلہ سے دوچار ہو کر گھبرا اُٹھیں کہ ان کی ''ہاں'' جس شادی پر منتج ہو گی اس کے عہد کے تحت ساری عمر اکٹھے بتانا ہو گی اس شریکِ حیات کے ساتھ جو مسیحی المذہب نہیں، کیتھولک مسیحی نہیں، بالکل ہی کِسی اور مذہب یا فرقے کا پیرو ہے۔ اُس وقت اور وقت کے عین اُس لمحے اولاد کا دِین، ان کا مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر خطرے کی لال بتّی کی طرح جلنے بجھنے لگے گا۔ احساسِ ذمہ داری کے تحت اپنے مسیحیوں کے لیے ان کا مذہب بچانے کے لیے پیداشدہ تحریک کے جذبات اور احساسات کے حوالے سے کیتھولک کلیسیا مان گئی اور اس نے مشروط منظوری دینا گوارا کرلی کہ مسیحیت اور دیگر بہت سے مذاہب ایسی شادیوں کے خلاف سدِّ سکندری چُن دینے کے لیے متحدہو جائیں۔ طے پایا کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں شادی کی منظوری پر صرف اس صورت میں ہمدردانہ غور کِیا جا سکتا ہے جب نکاح کی مذہبی تقریب منانے سے پہلے پہلے کلیسیائی قانون سے اسے استثنا کی درخواست دے کر باقاعدہ منظوری لے لی گئی ہو۔ 4۔ کلیسیائی قانون کے تحت شادی میں کِسی قسم کی اڑچن، رکاوٹ آنے سے بچنے کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیتھولک امیدوارِ شادی کی طرف سے اپنے مذہب پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ اور ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی کرائی جائے کہ بچے لازمی طو رکیتھولک مسیحی عقیدہ پر بپتسمہ لیں گے اور کیتھولک کلیسیا میں ہی ان کی پرورش اور تربیت ہو گی۔ مسلم ساتھی کو اس وعدے اور یقین دہانی سے باخبر رکھا جائے تا کہ وہ اندھیرے میں نہ رہے۔ کوئی اعتراض نہ ہو، شرائط مان لینے والی رمز ہے۔ شادی کے سلسلے میں کلیسیا کی جو تعلیمات ہیں اور اس رسم کی ادائی کے لیے جو آداب مقرر ہیں ان کے بارے میں بھی مسلم فریق کو مُکمَّل آگاہ کِیا جائے۔ کیتھولک فادرصاحب کے علم میں ہونا چاہیے کہ شادی پر آمادہ مسلم فریق پر بھی کچھ پابندیاں ہوں گی کہ وہ اپنے مذہب کا وفادار رہے اور بچوں کی تربیت کے سلسلے میں مذہب کے معاملہ میں ان کا دفاع کرنا بطور فرض اس کی ذمہ داری ہو گی۔ اس کی اس تمنا کو چیلنج نہیں کِیا جا سکتا کہ بچے کے کانوں میں پہلی آواز اذان کی پڑے۔ معاملات کی ان پیچیدگیوں سے احسن طور عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے۔ ور نہ الجھاو آ سکتے ہیں جو زندگی کی گردشوں کو دعوت دے کر سکھ کی نیندیں حرام کر دیں گے۔ جو طے ہونا ہے شادی سے پہلے، وہیں، تبھی اور سب کے سامنے طے ہو جائے۔ اکثرکہہ دیتے ہیں کہ آنے والے کل تک سب کچھ دھیرج دھیرج ٹھیک ہو جائے گا، مگر وہی بات کہ کل کِس نے دیکھا، جو ہونا ہے آج ہو ۔ 5۔ کیتھولک اور مسلم میرج پارٹنرز کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ممکنہ طور جلد سے جلد تر اور شادی کی تقریبات کے آغاز سے بہت پہلے خیرسگالی کے جذبات کے ساتھ شروع کر کے انجام تک پہنچا دیے جائیں۔ کِسی فریق کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا جائے۔ افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ وقت کی کمی اور اس کی نزاکت کِسی فریق پر دباو کے لیے بہانہ ہرگز نہ بنائی جائے۔ تحمل کے ساتھ فریقین کو ٹھنڈے مزاج سے سوچنے، غور کرنے، فیصلہ پر پہنچنے کا موقع دینا واجب ہو گا۔ گُڑیا گڈّے کا بیاہ نہیں، د وانسانوں کی زندگی اور آیندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ کیتھولک شادیوں کے کچھ دینی لوازمات ہیں جنھیں پورا کرنا لازم ہوتاہے۔ شادی کے سلسلے میں بعض اصول و قواعد کیتھولک مسیحیوں اور مسلمانوں کے ہاں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مسلمان ایک سے ز یادہ شادیاں رچاسکتے ہیں، مسیحیت ایک شوہر ایک بیوی پر قانع ہے۔ طلاق اور علیحدگی کے مسائل، ازدواجی زندگی میں روزمرہ کے کام، دفتر، کاروبار، ملازمت، گروسری، بچوں کے دودھ اور خوراک کا بندوبست، خاتونِ خانہ کے گھرگرھستی کے بکھیڑے، ساس نند بھابیوں کی چخ چخ اور بیویوں کی مصروفیات، چہرے کی لیپا پوتی ، خاوند کا استقبال، بڑے بچوں کی دیکھ بھال، معصوم ننھے بچوں کی نگہداشت و پرداخت، میکا، میکے والوں سے تعلقات، خاطرداری۔۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں شادی کی تیاریوں کے دوران ہی طے ہو جانا چاہییں اور وہ بھی ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں'' کی بنیاد پر، ورنہ اپنی ہی دنیاوی اور مذہبی زندگی کے علاوہ دونوں خاندانوں کی دینی دنیاوی اُخروی زندگیاں بھی اجیرن ہو جائیں گی۔ 6۔ ایسے کِسی غیر مسیحی کے ساتھ جس کا خُداوند کریم کی ذاتِ اقدس پرپکّا ایمان ہو پاک کلمہ کی سروس میں شادی ہو سکتی ہے۔ عبادات، تلاوت، حمیدہ گیت، ایسے ادا کیے جائیں جو ایسے ہی مواقع پر ملتی جلتی صورت میں غیر مسیحی فریق کے مذہب میں بھی روا سمجھے جا سکیں، اگر وہ ساتھی مسلمان ہے تو ان دعاؤں، تلاوت، عبادت اور حمد و ثنا والے گیتوں کو وہ سمجھ سکے اور پھر کوئی ریزرویشن نہ ہونے کی صورت میں سب کے ساتھ ان کی برکت میں ہم آواز بھی ہو جائے، یوں دُولھا دُلھن اور ان کے خاندان سبھی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ جائیں گے۔ 7۔ شادی کی تقریب منعقد کرنے کے لیے کیتھولک کلیسیا کی طرف سے خاص صورتِ حالات میں شریعتِ مسیحی سے قدرے احتراز کا اجازت نامہ اگر دیا جا چکا ہو، تب کیتھولک قاعدہ و معیار کے مطابق تمام رسوم، ظاہر ہے پورے طور، ادا نہیں کی جائیں گی، اسی طرح کیتھولک اور غیر مسلم شریکِ حیات بننے کے خواہشمندوں میں شادی طے پا سکتی ہے، کورٹ میرج کے ذریعے بھی اور نکاح رجسٹرار کے دفتر میں بھی۔ کلیسیائی قوانین کے مطابق شادی سے استثنا کے بعد اگر امیدوارانِ شادی نے رجسٹری آفس سے رجوع کرنے کو ترجیح دینی ہو تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کیتھولک کلیسیا کے قوانین کِسی بھی اور طریقہ سے یہ تقریب انجام دیے جانے کی صورت کی قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کرتے اور نہ ہی اسلامی شریعت ایسی شادی اسلامی روایات کے مطابق قرار دیتی ہے۔اسلام میں بھی کورٹ میرج کا طریقہ مقبول نہیں۔ اور جب نکاح کامعاہدہ طے پاتا ہے 1۔ طلاق ولاق مسیحیت میں ہے ہی نہیں۔ اس حقیقت کے علی الرغم کیتھولک فہم، سوجھ بوجھ کے مطابق اور خاتون پارٹنر کے ایما پر مذہبوں کے اختلاط پر ہونے والی شادی کے بارے میں اگر یہ مطلوب ہو اور ہونا بھی چاہیے کہ اس کا آغاز خوشیوں سے ہوا ہے تو انجام بھی بخیر ہو، پھر تو سمجھداری کی بات یہ ہوگی کہ دُلھن نکاح نامہ اور اس میں درج کروائی جانے والی شرائط پر خاص توجُّہ مبذول رکھے جو رواجی ہے، خاص طور پر اسلامی شادیوں میں تو سب کچھ گواہوں، وکیلوں اور نکاح خواں (رجسٹرار) کی موجودگی میں تمام شرائط تحریراً فارم نکاح کی ہر پرت پر آجاتی ہیں۔ اور پھر نکاح فارم (نکاح نامہ) بوقتِ ضرورت بڑے کام کی چیز ثابت ہوتا ہے۔ نفاق کی صورت میں جب آخری حل طلاق ہو تو ممکنہ نتائج کی شدت میں کمی لانے اور اس ناپسندیدہ عملِ طلاق کی تلافی کے طور پر نکاح نامہ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ 2۔ رواجاً و روایتاً شادی کے اسلامی معاہدہ میں برّی، جہیز اور حق مہر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حق مہر معجل اور غیر معجل دونوں صورتوں میں ادا کِیا جاتا ہے اوریہ ادائی نقد رقم، زیور یا جایداد کے کاغذات کے ذریعے کرنا ہوتی ہے۔ بعض خواتین تکلف یا شرم شرما میں معاف بھی کر دیتی ہیں جو غلط ہے، حق سے دستبرداری کا فعل ہے۔ اور اس معافی و عافی کی شرعی کوئی حیثیت نہیں۔ فوری ادا کرنا، ثواب ہے۔ حجلہء عروسی سے باہر آنے سے پہلے پہلے طے شدہ رقم دُلھن کے حوالے کر دی جانا چاہیے۔ یورپ میں رہنے والی مسیحی خواتین جن کو ان مسئلوں کی آگاہی نہیں، وہ معاہدہ میں رقم کی گئی آفر اکثر ٹھکرا دیتی ہیں۔ ذاتی طور پر علم سے قطع نظر فوری جذباتی فیصلہ کے زیرِ اثر کہتی ہیں کہ جب ایک دوسرے کو قبول کر لیا، شریکِ حیات ہی بن گئے تو پیسا ویسا چہ معنی دارد، اصل چیز تو میاں بیوی کے درمیان اُنس، پیار و محبت اور ایک دوسرے کے درد کی سانجھ اور آپس میں خوشیوں کی بانٹ اور وفاداری ہے وہ قائم رہنی چاہیے۔ دولت تو آنی جانی ہے، محبت کے سوا سب کچھ فانی ہے۔ محبت دولت نچھاور کر سکتی ہے، دولت سے محبت نہیں خریدی جا سکتی۔ سب بجا، مگر حق مہر تو حق ہے، اس کی ادائی اس لیے نہیں ہوتی کہ دُلھنیں کوئی بکاؤ مال ہیں ، خُدا سب کو اپنی امان میں رکھے اگر کبھی خاتون کو بُرے وقتوں کا سامنا آجائے، میکے گھر بیٹھنا پڑ جائے تو حق مہر کی رقم، کاٹنے کو دوڑنے والے سیاہ دِن کاٹنے میں ضمانت بن کے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ اسلامی شریعت میں تو یہ بُرے دِن یعنی طلاق والی صورتِ حالات بیویوں سے پوچھے بتائے یا کِسی سمجھوتے کے تحت تو آتی نہیں۔ یہ تو مرد کو اجازت ہے وہ اس اجازت کا استعمال صحیح یا غلط کِسی بھی موقع پر، کِسی بھی وجہ سے کر سکتا ہے۔ اس استعمال کو روکنے کے لیے پاکستان میں ثالثی عدالتیں قائم ہیں مگر وہاں بھی تو اسّی فی صد مرد کی ہی شنوائی ہوتی ہے۔ گزارہ الاؤنس، بچوں کے اخراجات، عورت کی دوسری شادی تک اس کے نان و نفقہ، خرچہ کابندوبست اور اس کی قسم کی بہت سی سہولتیں ہیں جو مطلقہ عورت اور اُس کے بچوں کو قانوناً اور شرعاً ملنی چاہییں مگر۔۔۔۔۔۔ موئے دیندے نیں۔۔۔۔۔۔ پی جانے کے سو طریقے۔ 3۔ ایسے ہی خدشات و مشکلات کے سدِّ باب کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ دُلھنوں کو چاہیے حق مہر زیادہ سے زیادہ، جتنا ممکن ہو زیادہ، لکھوائیں۔ ورنہ کل کلاں کہنا پڑے گا کہ جب بویا ہی کچھ نہیں، تو کاٹیں گے کیا۔ بیویوں کے فائدے میں رہے گی یہ بات، اگر ہماری ہدایات کے مطابق عمل کریں گی تو ایسے خاوندوں کے لیے طلاق کا اعلان کرنے سے پہلے پہروں بیٹھ کے سوچنے کا مقام آجائے گا کہ طلاق کی صورت میں اتنی بڑی رقم وہ لائیں گے کہاں سے، لے بھی آئیں تو ادا کرتے وقت دل پر ہاتھ نہیں پڑے گا کیا؟ ایک موقع اور دینے کا سوچیں گے، سمجھانے بجھانے، عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں کو بیچ میں ڈال کے ٹوٹتا گھر نئے سرے سے بسانے کے منصوبے بنائیں گے، ہو سکتا ہے کالی گھٹائیں چھٹ ہی جائیں۔ سوکنوں سوتوں کی مصیبت سے بچنے کے لیے یہ شروع میں ہی طے کر لیا جائے کہ خاوند صاحب دوسری شادی کرکے سوتن مسیحی بیویوں کے سر پر نہ لا بٹھائیں گے بھلے شریعت اُنھیں کھلی ڈُلی اجازت دے، مشروط دے یا نہ دے۔ ملکی قانون بھی پہلی بیوی سے اجازت کی شرط پر دوسرا بیاہ رچانے کی چھٹی دیتا ہے۔ 4۔ ہم مسیحیوں کے بھلے میں یہ سفارش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ شادی کے معاہدہ میں بعض دوسری شقوں کو بھی ضرور شامل کِیا جائے۔ عبادت کے لیے مسیحی بیوی کو گرجا گھر جانے کی اجازت اور سہولت بہم پہنچانا۔ گھر پر پاسٹر صاحبان کی طرف سے ماس/سرو س کا انعقاد۔ محترم فادرز یا قابلِ احترام سسٹرز کے وعظ و نصیحت اور دیکھ بھال و رہنمائی پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ پیرش تقریبات اور تیوہاروں میں شمولیت۔ اپنی مسیحی فیملی اور برادری کی مذہبی رسوم، ریتوں رواجوں کے مطابق ان کے ہاں یا ان کے ساتھ شمولیت و مذہبی آزادی۔ خاوند کے وطنِ مالوف اور اس کی سماجی و معاشی حیثیت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس کی طرف سے یہ اجازت معاہدے میں شامل کر لینی مفید ہو گی کہ غیر ملکی بیوی طے شدہ مدت کے بعد اپنے ملک جا سکے تا کہ اپنے عزیز و اقارب اور خونی رشتوں سے مِل آیا کرے۔ یہ تحریری اجازت بھی ہو کہ اگر بیوی خود بھی ملازمت کرنا ضروری سمجھے تو کر سکے۔ 5۔ ترکی کے علاوہ کِسی بھی اور اسلامی ریاست کے مسلمان مرد سے شادی کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بدیسی مسیحی خاتون یہ تسلی ضرور کر لے کہ طلاق کی صورت میں بچے کِس کے حوالے ہوں گے۔ وہ بات ہونا چاہیے جو مسیحی ماں کو منظور ہو۔ 6۔ ہم خاص طور سے اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ ہر مسیحی خاتون کے لیے حفظِ ماتقدم کی اضافی کڑی ہے جب شادی کا معاہدہ یوں طے پا رہا ہو کہ اسلامی شرعی قوانین کی رُو سے وہ جائز قرار دیا جا سکتا ہو اور ہماری مسیحی بہن، بیٹی، ملک تُرکی کو چھوڑ کے باقی مسلم ممالک میں سے کِسی مملکت کے مرد سے شادی پر بغیر جبر و اکراہ رضامند ہو اور بھلے یہ شادی جرمن رجسٹری آفس میں انجام پا رہی ہو نکاح وہیں رجسٹرڈ ہو اور کلیسیائی قوانین کے تحت ایسی تقریب کو استثنا بھی حاصل ہو یا مسلمان ساتھی کی طرف سے شادی کی مذہبی رسوم و طریقِ کار کو قبول کر لیا گیا ہو اور حالاتِ حاضرہ کا تقاضا پیشِ نظر ہو کہ جہاں شادی طے پائی رہنا بھی وہیں ہے دونوں کو، خاوند کے اصل ملک جا کے رہنے کا فی الحال کوئی منصوبہ نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ایسی صورت میں ہمارا پُرخلوص، ہمدردانہ، مشفقانہ مشورہ یہی ہو گا غیر متوقع طور پر کچھ بھی پیش آ سکنے کی صورت میں اپنے، اپنے مستقبل بل کہ حال کے بھی دفاع کی گنجایش رکھنے سے لاتعلق نہ رہیں۔ شاید خاوند کو، یا میاں بیوی دونوں کو شوہر کے وطن جا آباد ہونا پڑے۔ ایسی صورت میں خُدا نہ کرے، کب اور نہ جانے کیا کیا انہونیوں کو ہونیوں کی شکل میں دیکھنا پڑ سکتا ہے، تب وہ شرائط کام آئیں گی جو حفظِ ماتقدم کے طور پر معاہدئہ شادی کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ جب حالات ایک مرتبہ بگڑیں تو اکثر یہی دیکھا ہے کہ پھر بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہی دیکھ لیجیے، مسیحی زوجہ نے پوری توجُّہ اور تسلّی سے میرج کانٹریکٹ یا نکاح نامہ فارم مُکمَّل کروایا، مُکمَّل کِیا کروایا ایک اہم شق سہواً رہ گئی۔ غور کیجیے، جرمنی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں مسلم مسیحی شادی ٹوٹ جاتی ہے، تعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم۔ ''شوہرِ نامدار'' بچوں کو اغوا کر لیتا ہے یا کروا لیتا ہے۔ ماں پریشان حال، تڑپتی، فریاد کرتی، قانون کی دہلیز پر جا سرپٹکتی ہے۔ بچے شوہر کے دیس پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ ملک ملک کا قانون فرق ہوتاہے۔ اغوا کے جرم کا ''جواز'' یہ بنایا جاتا ہے کہ حرماں نصیب ماں کی جنم بھومی میں بچوں کی اسلامی نہج پر پرورش و تربیت ناممکن تھی، انھیں زبردستی مسیحی بنا لیا جاتا اس لیے اسلامی تعلیم و تہذیب میں طاق کرنے کے لیے انھیں مسلم اکثریتی ملک میں بلوالیا گیاہے۔ خاوند والے ملک میں تو بیوی کی حمایت کے دلائل کمزور پڑ جائیں گے، اسلام کو خطرے سے بچانے کے لیے خاوند کے اقدام کو مناسب ثابت کرنے کے لیے اپنے ملک، اپنی عدالتوں اور اپنے آئین و قانون کے تحت انصاف و عدل برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک سے ایک لوہا دلیل موجود ہوتی ہے کہ بچوں کا ایمان ان کا مستقبل بچایا جائے۔ چناں چہ بدیسی بیوی کا ہی کیس کمزور پڑے گا، جو مطلقہ بھی ہے اور بچے ورغلائے بھی جا چکے ہیں۔ اب سے بلوغت اور بلوغت کے بعد تک ان کے ذہنوں میں مشرق مشرق ہے کے سہانے سپنے مچلتے رہیں گے۔ ایسے بھی کیس ہیں کہ بچے بالآخر امریکا ہی لوٹے، گو ماں کیس جیت گئی لیکن ہر چہ دانا کند ، کند ناداں لیک بعد از خرابیِ بسیار (کند: کرتا ہے۔ لیک: لیکن ۔ بعد از: کے بعد۔ بسیار: بہت) البتہ وہ بچے عام طور پر ٹِک جاتے ہیں جن کی مائیں ایشیا نژاد مسیحی یورپی، امریکی خواتین اور باپ ایشائی مسلم ہوتے ہیں۔ بچوں کی کسٹڈی لینے کے لیے مصدقہ نکاح نامہ اور اس کی نقل غیرملکی مسیحی ماں کے پاس ہونا ضروری ہے جس میں خاوند نے اقرار کِیا ہو کہ بچوں کی تحویل کی صورت میں جرمنی کی عدالتوں کے کسٹڈی قوانین کی تعمیل کی جائے گی۔ 7۔ شوہر کے وفات پا جانے کے بعد مسلم لا کے مطابق یہ ہے کہ مسیحی بیوی کو وراثت میں ٹکا بھی نہیں ملتا۔ بیوگی کا داغ ورثے میں باقی ہے۔ اس لیے مسیحی خاتون ہوش کے ناخن لیتے ہوئے بھرپور کوشش کرکے نکاح نامہ کی یہ شق جزوِ لاینفک بنوائے کہ وراثت سے محرومی کا یہ اسلامی قانون یا اس کے وارث نہ ہونے والی اس شق کا اطلاق اس پر نہ ہو گا۔ بصورتِ دیگر سچوئیشن کی نزاکت کو یوں سہارا دیا جا سکتا ہے کہ شوہر اپنی طرف سے جو وصیت نامہ تیار کروائے اس میں اپنے بچوں کی ماں یعنی اپنی بیوی کے لیے بھی ترکہ میں بہت کچھ، مناسب حد تک بہت کچھ، چھوڑ جائے اور ممکن ہو تو نکاح نامہ میں بھی اس با ت کا ہمیشگی اقرار و حوالہ درج کروا دیا جائے۔ 8۔ غیر مسیحی خاوند کو جتنا باندھا جا سکتا ہو، باندھ لیا جائے، یہ باندھنا آیندہ کی خوشگوار زندگی کا ضامن عمل ہو گا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے وفادار رہیں گے، ایک بہت کچھ دے کر، دوسرا بہت کچھ لے کر۔ ایک محسن اور نیک نیت، دوسرا احسان مند اور مطمئن دونوں میں اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسے کا رشتہ مضبوط ہو گا۔ تاہم، ایک اہم مسئلہ اور بھی ہے جس پر آنکھیں بند نہیں رکھی جا سکتیں۔ وہ گنجھلدار معاملہ ہے۔ میرج کانٹریکٹ بھی فائنل ہو گیا، گُڈ! نکاح نامہ میں احتیاط و تحفظ کی تمام شرائط پر سمجھوتا ہو گیا، خوب! لیکن اس کی کیاگارنٹی ہے کہ اُس کے سرتاج کے اپنے ملک کی عدالتیں اُسی مقدمہ پر جو اُس (زوجہ محترمہ ) نے وہاں آ کے کھڑا کِیا ہے، اس کے حق میں جائیں گی۔ یا اس کے لیے نرم گوشہ رکھیں گی؟ قانون تو قانون ہے، جو سب کے لیے برابر ہے۔ چاہے بچوں کی حوالگی و کفالت کا کیس ہو یا حقِّ وراثت کا مقدمہ، انصاف تو اُسے ملے گا مگر اس کے اپنے ملک کے قانون کی پیروی میں نہیں، خاوند کے ملک کے دستور و قانون کے مطابق۔ ایڈووکیٹس، وکلا، سارا زور لگا دیں گے کہ فیصلہ محترمہ کے حق میں ہو، انسانی حقوق کی انجمنیں، عورت کے تحفظِ حقوق کی این جی اوز، سوشل میڈیا اور اِس ملک کی مائیں بہو بیٹیاں سب اپنے اپنے پلیٹ فارم سے خاتون کی حمایت پر کمر بستہ ہو جائیں گی۔ مسیحی غیر ملکی خاتون کے حق میں بہت شور مچائیں گی، مگر قانون تو قانون ہے، وہ تو نہیں بدل سکتیں نا۔ مذہبی، سماجی، معاشی پس منظر، بچوں کی بہبود ان کا مستقبل اور ایسے دیگر بہت سے جوازات خاتون کو اس کا حق دِلانے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں، نہیں بھی۔ تحویل و ولایت والے مقدمات میں بطورِ خاص مذہبی تنظیمیں اور مسلم ممالک میں عوام اس مطالبے پر عدالتوں کے باہر اور سڑکوں پر آجاتے ہیں کہ بچے ان کے اپنے ملک کے فریق کی کسٹڈی میں دیے جائیں۔ ایشیائی عدالتوں کے لیے تو مسئلہ بن جاتا ہے، بعد میں سیاسی دباو بھی کِسی نہ کِسی طور آ موجود ہوتا ہے، یورپ و امریکا کے سفارتخانے بھی حرکت میں آجاتے ہیں، قانون کی کتابوں کا ورق ورق اس طوفان کی زد میں آ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے، حکومت تک مصیبت میں آجاتی ہے۔ ہر لحاظ سے ہر طرف رخنہ پڑ جاتا ہے۔ مشکل فیصلے کا جو پہاڑ ہے وہ اسلامی جمہوریاؤں اور مسلم اکثریت کی آبادیوں والے ممالک میں سر کرنے کے لیے شعوری نہ سہی، لاشعوری، تحت الشعوری خانوں والے کوہ پیمائی کے آلات اچھل اچھل کر باہر آنے لگتے ہیں کہ فیصلہ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر سنایا جائے کہ مسلمان بچوں کے ایمان کو بچانا ہے، ضروری ہے کہ ان کی پرورش و نگہداشت، تعلیم و تربیت اسلامی معاشرے میں ہو، اس لیے انھیں ''کافر معاشرے'' میں واپس نہ بھیجا جائے، خراب ہو جائیں گے، اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس لیے مسیحی ماں کو نہیں، مسلم باپ کو بچے ملنے چاہییں۔ وہ اس کے ساتھ اس کی سرپرستی، شفقت و محبت میں رہیں یا باپ کے رشتہ داروں میں پلیں بڑھیں۔ اس صورت میں کہ باپ نے بچوں سے دُور پھر دیارِ غیر میں کمائی کرنے بھاگنا ہو۔ ایسے باپ کے لیے عدل اپنا ترازو کیوںکر سنبھالے گا؟ سنبھال بھی سکتا ہے۔
روس میں 2 ترک صحافی زیرِ حراست ہیں، جن کا تعلق ترک خبری ویب سائٹ GZT سے ہے۔ ناز گل کنزیتے اور امین قراچاق 16 دسمبر سے حراست میں ہیں جس کا انکشاف اب ہوا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق دونوں صحافیوں کا تمام سامان بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کا سارا ڈیجیٹل ڈیٹا بھی زبردستی ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ صحافی روس میں رہنے والے ترکوں کے طرز زندگی اور ثقافتوں پر ایک دستاویزی فلم بنا رہے تھے۔ ان صحافیوں کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم بھی شروع ہوئی ہے جس میں ترک شہری ‎ #FreeNazgulEmin کے ہیش ٹیگ کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ ویب سائٹ نے بتایا ہے کہ ان صحافیوں کو جس مرکز میں زیر حراست رکھا گیا ہے، وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ وہاں گرمی سے بچنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں، ایئر کنڈیشنرز کھول دیے گئے ہیں تاکہ وہ بیمار پڑ جائیں اور انہیں گرم پانی بھی مہیا نہیں کیا جا رہا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کو جن کوٹھڑیوں میں رکھا گیا ہے، ان کی ہر وقت نگرانی کی جا رہی ہے اور ان کے فون بھی مستقل چیک کیے جا رہے ہیں، جو ان کی پرائیویسی کی واضح خلاف ورزی ہے۔ دریں اثنا روسی میڈیا دونوں صحافیوں پر "روس مخالف پروپیگنڈا، جاسوسی، روس میں ترک لوگوں کو بُرے حال میں دکھانے اور اسلام پھیلانے” کے الزامات لگا رہا ہے۔ دونوں صحافیوں کو پہلے روس کے دو ترک علاقوں ساخا (یاقوتیا) اور التائی میں حراست میں لیا گیا تھا۔ صحافی قراچاق کا کہنا ہے کہ انہیں روس کے مرکزی علاقوں میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن ترک علاقوں میں داخل ہونے کے بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھ گیا۔
واشنگٹن : دنیا کے امیر ترین انسان اور ایمازون کے بانی جیف بیزوس اور اہلیہ کی 25 برس بعد راہیں جدا ہوگئیں، علیحدگی معاہدے کے مطابق جیف کی اہلیہ کو شادی ختم ہونے پر 35ارب ڈالر کی خطیر رقم لے گی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ تین برس سے دنیا کے امیر ترین شخص کا اعزاز اپنے نام کرنے والے ایمازون کے بانی نے 25 برس بعد اپنی اہلیہ سے راہیں قانونی طور پر جدا کرلی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امیر ترین جوڑے کے درمیان طلاق کی کوئی اہم وجہ تو سامنے نہیں آئی البتہ امریکی میگزین نے دعویٰ کیا تھا کہ جیف امریکی نشریاتی ادارے کی سابقہ ہوسٹ لورین سینچیز سے تعلقات تھے جس پر ان کی اہلیہ نے انہیں متنبہ بھی کیا تھا مگر وہ نہیں مانے۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ جیف بیزوس کی اہلیہ طلاق کے بعد ایمازون میں 4 فیصدر حصحص (شیئرز) کی مالک بن جائیں گی لیکن وہ واشنگٹن پوسٹ اور جیف کی خلائی فرم بلیو اوریجن میں حصّہ نہیں لیں گی۔ واضح رہے کہ جیف اور ان کی اہلیہ کے درمیان طلاق معاہدے سے قبل جیف بیزوس آن لائن خریداری کی کمپنی میں 16اعشاریہ 3 فیصد شیئرز کے مالک تھے۔ برطانونی میڈیا کا کہنا ہے کہ جیف کو ایمازون میں 25 فیصد حصّہ اپنی اہلیہ میکنزی کو دینا پڑے گا جس کے بعد جیف ایمازون کے 75 فیصدر حصّے کے مالک رہ جائیں گے۔ خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مکینزی نے معاہدے کے تحت ملنے والے شیئرز کا ووٹنگ کا اختیار سابق شوہر کو دے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جیف بیزوس نے 1994 میں ایمازون کا آغاز کیا تھا اور اسی وقت سے میکنزی اور جیف ایک ساتھ زندگی گزار رہیں ہیں۔ فوربز میگزین کے مطابق جیف کی کمپنی ایمازون نے گزشتہ برس 232 ارب ڈالر کا کاروبار کیا تھا اور اس کمائی سے جیف نے اہل خانہ کے ہمراہ 131 ارب ڈالر کا منافع لیا تھا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جیف بیزوس اور میکنزی سے قبل سنہ 1999 امریکی ارب پتی ایلس ویلڈرسٹین اور ان کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی علیحدگی دنیا کی مہنگی ترین طلاق تھی جس کے بعد ایلس کی اہلیہ کو تقریباً 4 ارب ڈالر ملے تھے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں زلمی کی نمائندگی کرنے والے وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل نے پشاور زلمی کو چھوڑنے کی وجہ بتادی۔ قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل نے گزشتہ روز ٹویٹ میں پشاور زلمی سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا تھا، انہوں نے لکھا تھا کہ ’الوداع کہنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے زلمی کے ساتھ گزارے سات سال بہترین رہے۔ وکٹ کیپر بیٹر نے مشکل وقت میں سپورٹ کرنے پر پشاور زلمی فیملی کا شکریہ ادا کیا تھا۔‘ مزید پڑھیں: کامران اکمل نے پشاور زلمی سے راہیں جدا کر لیں پروگرام ’ہر لمحہ پرجوش‘ میں کامران اکمل نے پشاور زلمی چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پشاور زلمی نے ہمیشہ سپورٹ کیا ہے سات سال تک ٹیم کے ساتھ رہا لیکن اب آگے جانا چاہیے۔‘ میزبان وسیم بادامی کے معصومانہ سوال کے جواب میں کامران اکمل نے کہا کہ ’گزشتہ سال پشاور زلمی کو کیٹیگری کے مسئلے پر چھوڑنا چاہتا تھا لیکن محمد اکرم آئے تو کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’زلمی کے مالک جاوید آفریدی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا صرف کوچ کو اطلاع دی کہ پشاور زلمی چھوڑ رہا ہوں۔‘ View this post on Instagram A post shared by Wasim Badami (@waseembadami_official) انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پی ایس ایل میں اب وہ کس ٹیم کی نمائندگی کریں گے تاہم کامران اکمل اب زلمی کو دستیاب نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ کامران اکمل نے پی ایس ایل کے سات سیزن میں پشاور زلمی کی نمائندگی کی وہ لیگ کے 75 میچوں میں 1972 رنز بنا کر دوسرے کامیاب ترین بلے باز ہیں۔
بارہ اکتوبر 1999کی شام چند جرنیلوں نے وزیراعظم ہاؤس کی دیواریں پھلانگتے ہوئے اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کو فتح کر لیا تھا قوم کے منتخب نمائندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا . چوکیداروں نے آقا کو یرغمال بنا لیا تھا باوردی چند جرنیلوں نے ایسا کیوں کیا ؟اس سوال کا جواب جنرل شاید عزیز کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک. ؟میں دیکھ لیں . چند جرنیلوں نے ذاتی انا کی خاطر فوج کے ادارے کی سالمیت داؤ پہ لگا دی تھی جنرل ضیاءالدین بٹ کے چاہنے والے اگر بغاوت کردیتے تو فوجی ادارے میں جنگ شروع ہوجاتی لیکن حکومت کرنے کے شوقین لوگوں کو اس پہلو سے کیا غرض ؟ انہوں نے اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنا سیکھا ہے کچھ لوگ آج بھی فوجی آمر کو آواز دیتے ہیں سیاسی یتیم اور چند بوٹ پالشی اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی آمر کی راہ تک رہے ہوتے ہیں .. ان لوگوں کی مجبوری ہے اس لیے کہ ان کی روزی روٹی آمریت سے وابسطہ ہے لیکن یہ سادہ لوح لوگ کیوں فوجی آمریت کے گن گاتے ہیں .. آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ سیاستدانوں نے کیا کارنامے سرانجام دیے اور فوجی جرنیلوں نے کیا گل کھلائے؟ اس ملک میں پہلا مارشل لاء ایوب خان نے لگایا ایوب خان نے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سیاسی لوگوں پہ پابندیاں لگائیں مشرقی پاکستان میں غربت اور جہالت کو رواج دیا فاطمہ جناح کا مقابلہ کیا انہیں ھاندلی کے ذریعے ہرایا ان پہ الزامات لگائے اہل علم و قلم لوگوں کو گرفتار کیا معاہدہ تاشقند کیا تین دریا بھارت کو دیے اپنا بنایا ہوا آئین روندا ائیربیس امریکہ کے حوالے کیے اور پھر جب رخصت ہونے لگے تو ملک ایک ایسے شخص کے حوالے کیا جس کا کردار انتہائی متنازعہ تھا م اس نے فوج مشرقی پاکستان میں جھونکی ملک دو ٹکڑے کروایا نوے ہزار فوجی گرفتار کروائے پاک فوج کے چہرے پہ ہتھیار پھینکنے کا بدنما داغ لگوایا … جبکہ اس کے مقابلے میں بھٹو آئے جنہوں نے ایٹم کی بنیاد رکھی نوے ہزار فوجی رہا کروائے زمین واپس لی ملک کو معاشی ترقی کی راہ پہ لگایا تمام مسلم ممالک اکھٹے کیے چین اور روس سے دوستی کی امریکہ کو آنکھیں دکھائیں فوج کے ادارے کو مضبوط کیا اور ملک کو متفقہ آئین دیا .. اور پھر؟ اسی محسن کو ایک منافق شخص نے گرفتار کیا اسے سزائے موت دی جنرل ضیاء کا تاریک دور شروع ہوا امریکہ کو یہاں جگہ دی گئی افغان جنگ لڑی گئی اسلحہ کلچر عام ہوا منشیات عام ہوئیں غیر سیاسی لوگ لائے گئے جماعتیں توڑی گئیں لسانی و مذہبی بنیاد پہ ملک میں آگ لگائی گئی اقتدرا کو طول دینے کے لیے ملک کو مقتل گاہ بنایا جنرل ضیاء کے دور کی تاریکیاں آج بھی ختم نہیں ہوئیں اس کے بعد محترمہ اور نواز شریف اقتدار میں آئے ان پہ دو طرح کے الزامات دہرائے گئے محترمہ کو سیکورٹی رسک کہا گیا اور کرپشن کے الزمات لگائے گئے نواز شریف نے سہیل وڑائچ کو جلاوطن کے دوران جو انٹرویو دیے اس میں انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ طاقت ور اداروں کے کہنے پہ کیا لیکن یہی سیاست دان تھے جنہوں نے ایٹمی دھماکے کیے امریکی امداد ٹھکرا دی اسکی کالوں کے آگے لیٹنے کی بجائے ڈٹ گئے جبکہ دوسری طرف مشرف نے ایک کال پہ پالیسی تبدیل کی ملک کو جہنم بنا دیا افغانوں کو دشمن بنایا فاٹا وزیرستان میں فوج جھونکی نیٹو سپلائی کے لیے راستہ فراہم کیا لوگ امریکہ کو بیچے کراچی میں اسلحہ کلچر عام کیا بلوچوں کے خلاف آپریشن کیے اکبر بگٹی جیسے محب وطن بوڑھے کو مارا لال مسجد آپریشن کیا افغان سفیر امریکہ کے حوالے کیا پاکستان کو دہشستان بنایا کشمیر پہ سودے بازی کی ججوں کو گرفتار کیا نظام عدل تباہ و برباد کیا اور آخر میں این آر او کر کے مزید کرپشن کو فروغ دیا .. ان سب خرابیوں کے باوجود اگر آمریت اچھی ہے تو پھر ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنا چاہیے جمہوریت لاکھ بری ہو اچھی آمریت سے ہزار گنا بہتر ہے یہ کوئی طریقہ نہیں کہ قوم کے منتخب نمائندوں کو کوئی آمر اٹھا کے جیل میں ڈال دے یا انہیں سولی پہ لٹکا دے اگر کوئی سیاست دان عوامی اعتماد پہ پورا نہیں اتر رہا تو عوام کا حق ہے اسے مسترد کرے مولانا فضل الرحمن بھی کہاں یاد آئے مولانا نے ایک مثال دی اور کیا خوب دی..کہا ڈاکٹر اگر مریض کا علاج کرنے میں ناکام ہوجائے تو عقل کہتی ہے دوسرے ڈاکٹر کو لایا جائے وہ علاج کرے یہ تو نہیں ہوسکتا کہ مریض کو قصاب کو کے آگے ڈال دیا جائے . خلاصہ یہی ہے کہ علاج ڈاکٹر کریں قصاب نہیں .
کراچی: مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو نوبل انعام دینے کا مشورہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق مشیراطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب کافوادچوہدری اورشیخ رشیدکےبیان پرردعمل دیتے ہوئے پوچھا کہ فوادچوہدری نیب کے ترجمان ہیں یا وفاقی حکومت کے ترجمان ہیں۔ مشیر اطلاعات سندھ نے الزام عائد کیا کہ فواد چوہدری سیاسی مخالفین کے خلاف چرب زبانی کرتے ہیں انہیں تیز طرار زبان استعمال کرنے پر نوبل انعام دیا جانا چاہیے۔ مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات عدالتوں سے مفرور سابق صدر کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں اسی طرح وزیر ریلوے بھی اپنے بیانات میں صرف جمہوری جماعتوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ مزید پڑھیں: وقت آگیا ہے کہ ہم سیاست اور جرم میں فرق طے کر لیں: فواد چوہدری یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد بے باکی اور دوٹوک انداز سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو جواب دیتے ہوئے اُن کی کرپشن پر سے پردہ چاک کرتے ہیں۔ حال ہی میں بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ کو فواد چوہدری نے ’ابو بچاؤ مہم‘ قرار دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سندھ حکومت کی کرپشن کے خلاف احتجاج کریں، اس سے عوام کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
اس کے مطابق ہے ایس اینڈ پی 500 میں کاروبار کا ایک نیا مطالعہ ، ترقی کی حکمت عملی سے متعلق مشورتی فرم انوسائٹ کے زیر اہتمام۔ یہاں رپورٹ کی دو اہم ترین بصیرتیں ہیں: 1965 میں ، S&P 500 پر کمپنیوں کی اوسط میعاد 33 سال تھی۔ 1990 تک ، یہ 20 سال کا تھا۔ 2026 تک یہ 14 سال سکڑنے کی پیش گوئی ہے۔ اگر انوسائٹ کی پیشن گوئی شدہ کارن ریٹ برقرار ہے تو اگلے 10 سالوں میں ایس اینڈ پی 500 کے تقریبا 50 فیصد کی جگہ لے لی جائے گی۔ صرف پچھلے سات سالوں میں ، بہت سی مشہور کمپنیوں کو ایس اینڈ پی کی فہرست سے بازیافت کیا گیا ہے: ایسٹ مین کوڈک ، نیشنل سیمیکمڈکٹر ، سپرنٹ ، یو ایس اسٹیل ، ڈیل ، اور نیو یارک ٹائمز۔ فہرست میں شامل نئی کمپنیوں میں فیس بک ، پے پال ، لیول 3 مواصلات ، انڈر آرمر ، سیگیٹ ٹکنالوجی ، اور نیٹ فلکس شامل ہیں۔ پچھلے 50 سالوں سے ایس اینڈ پی 500 میں آنے والے تمام کاموں اور معلومات کا پتہ لگاتے ہوئے ، اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ معیشت کی مجموعی حالت کی عکاسی کرنے والے چکروں میں کمپنیوں کی مدت میں اتار چڑھاؤ آتا ہے اور بائیوٹیک کامیابیاں ، سوشل میڈیا سمیت نئی ٹیکنالوجیز سے خلل پڑتا ہے۔ ، اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ۔ لیکن مجموعی طور پر رجحان یہ ہے کہ فہرست میں اوسط میعاد نیچے کی طرف ڈھل رہا ہے۔ یقینا ، اس کی متعدد وجوہات ہیں جو کمپنیوں نے اس فہرست کو ختم کردی ہیں۔ کچھ دیوالیہ پن کے لئے فائل یا مقابلہ کے لئے مارکیٹ شیئر کھو. دوسروں کو حاصل کیا جاتا ہے. اس مؤخر الذکر کی وجہ سے ، خاص طور پر دیر سے قابل ذکر رہا ہے ، 2015 نے معاہدے کے لئے ریکارڈ قائم کیا تھا ، جس میں انضمام اور حصول میں tr 5 ٹریلین سے زیادہ رقم ہے۔ ایس اینڈ پی 500 کی ہنگامہ آرائی میں دنیا کی کاروباری شخصیت بھی ایک عنصر ہے۔ انوسائٹ کی رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ ملٹی بلین ڈالر کی قیمتوں کے حامل اسٹارٹ اپ آئندہ آئ پی اوز اور اس وجہ سے ایس اینڈ پی 500 اہلیت کے امیدوار ہیں۔ اس رپورٹ میں خاص طور پر اوبر ، ایئربن بی ، ڈراپ باکس ، اسپاٹائف اور اسنیپ چیٹ جیسے ایک تنگاوالا کو پیش کیا گیا ہے۔ ایک بار عوامی ہوجانے کے بعد ، وہ S&P 500 کے پرانے محافظ کو ختم کرنے کے لئے کمپنیوں کی اگلی لہر بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد ٹیسلا موٹرز جیسی نئی سرکاری کمپنیاں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیسلا جیسی کمپنیاں 'آسانی سے تشخیص کی دہلیز کو بھی شامل کرنے کے لئے پوری کرتی ہیں اور ایک بار جب وہ کچھ لیکویڈیٹی بینچ مارک کو پورا کرتی ہیں تو S&P 500 میں شامل ہوجائیں گی۔' قائدین اور تنظیمی فیصلہ سازوں کے لئے ان سب کا کیا مطلب ہے؟ سب سے پہلے ، یہ ایک عام اصول کی یاد دہانی ہے: ایک کمپنی خود کو نوائے بغیر کسی طویل مدتی میں برداشت نہیں کر سکتی۔ اس کا مطلب ہے کہ رہنماؤں کو چوکنا رہنا ہوگا جس کی رپورٹ کو 'فالٹ لائنز' کہتے ہیں - آپ کے کاروباری ماڈل میں کمزور بنیادیں ، یا آپ کے صارف کی بنیاد کی تبدیلی کی ضروریات۔ آپ اپنی غلطی کی لکیروں کے بارے میں مزید کس طرح جان سکتے ہیں؟ رپورٹ میں پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے ہارورڈ بزنس ریویو دسمبر ، 2015 کا مضمون ، بلایا گیا 'کب جاننا ہے۔' انوسائٹ کے دو سینئر شراکت داروں اور ایٹنا کے سی ای او مارک برٹولینی کے شریک مصنف ، مضمون پانچ ممکنہ غلطی لائنوں کا پتہ لگانے کے لئے ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے: آپ کے بزنس ماڈل ، صارفین کی ضروریات ، کارکردگی کی پیمائش ، صنعت کی پوزیشن اور اندرونی صلاحیت / صلاحیتیں۔ اس میں اٹینا ، نیسلے ، اڈوب ، زیروکس ، اور نیٹ فلکس کی حقیقی دنیا کی مثالیں شامل ہیں۔ ایک اور اہم اقدام یہ ہے کہ آج کل کی ذمہ داریوں میں پھنسنے سے اجتناب سے اجتناب کریں۔ 20 سے زائد صنعتوں میں 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی آمدنی والی 91 کمپنیوں کے ایگزیکٹو کے ایک سروے میں ، انوسائٹ نے پوچھا: 'مارکیٹ میں تبدیلی اور رکاوٹ کے جواب میں تبدیلی کرنے میں آپ کی تنظیم کی سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟' سروے کے چالیس فیصد جواب دہندگان نے 'آئے دن فیصلوں' کو مورد الزام ٹھہرایا جس سے لازمی طور پر بل کی ادائیگی ہوتی ہے ، لیکن ہماری تبدیلی کی حکمت عملی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اب تک کا سب سے مقبول ردعمل تھا۔ اس کا اگلا مقبول جواب ، 24 فیصد پر ، 'مستقبل کے لئے مربوط وژن کی کمی' تھا۔ دوسرے لفظوں میں ، سروے کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ بڑی تنظیموں میں موجودہ ذہنیتوں اور عملوں - قائدین کو تنظیمی جڑتا سے آزاد کرنا کتنا مشکل ہے۔ پھر بھی یہی کرنا ہے ، اگر آپ پائیدار کمپنی بنانا چاہتے ہیں۔
وقت مقرر پر بہت آسانی کے ساتھ ہوجانے والا کام سال بھر کی بحث وتمحیص کے بعد مکمل ہوگیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ جنرل عاصم منیر چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوگئے ہیں جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزااپنے پیش رو جنرل ندیم رضا کی جگہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ہوں گے۔ دونوں افسران انتہائی لائق ، قابل احترام اورممتاز خدمات کا ریکارڈ ایک دوسرے سے بڑھ کر رکھنے والے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ آئند دنوں میں اپنے آپ کو ان ذمہ داریوں کا صحیح مستحق ثابت کریں گے ۔ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کا استحقاق ہمیشہ سے وزیر اعظم کا استحقاق رہا ہے لیکن بدقسمتی سے سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے استحقاق پر عمل کرنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ وہ موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کو بھی حاصل استحقاق پر عمل کرنے سے روکنے کی سازشوں میں شریک رہے۔ یہ سازشیں ناکام ہوئی اورملک میں پہلی دفعہ سینیر موسٹ افراد کوان دونوں عہدوں سے نوازا گیا۔ جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد نے ایسے وقت میں اپنے اپنے عہدے سنبھالے ہیں جب ملک میں شدید سیاسی افراتفری کا ماحول ہے، برسوں کی معاشی بدانتظامی اور نااہلی کے باعث وطن عزیز معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ موجودہ حکومت رات دن ایک کرکے معیشت کو سہارا دینے اور پاکستان کو بینک ڈیفالٹ سے بچانے کی مسلسل تگ و دو میں مصروف ہے۔ ان دنوں ملک کسی قسم کی غیر سنجیدہ سیاسی ایکٹیوٹیز کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے مستقبل کا خاکہ کیا ہوگا ؟ یہ کام بنیادی طور پر پاکستان کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمان کا ہے مگر اس میں عدلیہ اور ایگزیکٹیو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے تاہم پاکستان کو اندرونی وبیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کی خالص ذمہ داری مسلح افواج پر عائد ہوتی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سابق آرمی چیف نے جاتے جاتے واضح اعلان کیا کہ مسلح افواج سیاست سے دور رہیں گی۔ ضروری ہے کہ مسلح افواج دانشمندی کے ساتھ اپنی اس پالیسی کو آگے بڑھائیں اور پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے پر توجہ دیں۔ جن لوگوں کو ماضی میں جنرل عاصم منیر کے ساتھ بات چیت کرنے کا اتفاق ہوا ہے ،ان کے مطابق نئے آرمی چیف اپنے نقطہ نظر کو تحمل کے ساتھ پیش کرنے اور اپنی پالیسیز پر پختگی کے ساتھ عملدرآمد کروانے کے عادی ہیں۔ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس وقت میدان میں موجود کسی بھی سیاسی کھلاڑی کے دباؤ کی پرواہ کیے بغیر اپنے پیشرو جنرل قمر جاوید باجوہ کے وعدے پر پورا اتریں گے۔ جون 1947 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں آرمی افسران سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : "میں چاہتا ہوں کہ آپ آئین کا مطالعہ کریں، جو اس وقت پاکستان میں نافذ ہے، اور اس کے حقیقی آئینی اور قانونی مضمرات کو سمجھیں، جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ ڈومینین کے آئین کے وفادار رہیں گے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اس وعدے کو یاد رکھیں کیونکہ ایگزیکٹو اتھارٹی حکومتی سربراہ سے آتی ہے ۔ لہٰذا جب بھی کسی حکم پر عمل کیا جائے تویہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ ایگزیکٹو ہیڈ کی منظوری کے بغیرتو نہیں آیا۔
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارا وژن ملک کو پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، بھرپور کوشش ہے استحکام کا آئندہ مرحلہ معاشی ترقی کی شکل اختیار کرے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں اسد عمر، شفقت محمود، خسرو بختیار، فردوس عاشق اعوان، ڈپٹی چیئرمین مین پلاننگ کمیشن، سیکرٹری پلاننگ اور سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔ وزیرِ اعظم کو پی ایس ڈی پی کی پہلی اور دوسری سہ ماہی کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی، مختلف وزارتوں کی کی کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ بھی وزیرِ اعظم کو پیش کی گئی۔ بریفنگ کے دوران بتا یا گیا کہ رواں مالی سال پی ایس ڈی پی کے تحت 380 نئی اسکیموں کا اجرا کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود معاشی استحکام حاصل کیا، بھرپورکوشش ہے استحکام کا آئندہ مرحلہ معاشی ترقی کی شکل اختیار کرے، ہمارا وژن ملک کو پائیدار معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ طویل مدت جامع منصوبہ بندی نہایت اہمیت کی حامل ہے، بین الوزارتی روابط اور کوآرڈینیشن کلیدی اہمیت کے حامل ہیں، منصوبوں کی بر وقت تکمیل سے معاشی عمل تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ نوکریوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں گے، مختلف منصوبوں پرعمل درآمدکی رفتار پر مسلسل نظر رکھی جائے، کوئی ترقیاتی منصوبہ یا اسکیم سرخ فیتے کی بنا پر تاخیر کا شکار نہ ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت ترقیاتی کاموں میں نجی شعبے کو بھی شامل کرنا چاہتی ہے، حکومت ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ملکی دفاع ، غیر اخلاقی مواد یا توہین عدالت اور توہین مذہب کے الزامات کے بعد پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹری ادارے پی ٹی اے نے اب تک دس لاکھ 56 ہزار سوشل میڈیا اکاونٹس، ویب سائیٹس سمیت انٹرنیٹ لنکس بلاک کیے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ایک دستاویز کے مطابق بلاک کیے گئے لنکس میں ٹویٹر ، فیس بک اکاونٹس کے علاوہ ویب سائیٹس بھی شامل ہیں۔ دستاویز کے مطابق اس ماہ کے آغاز تک پاکستان کے دفاع کو نقصان پہنچانے والے 46,256 انٹرنیٹ لنکس (سوشل میڈیا اکاونٹس، ویب سائیٹس وغیرہ) کے خلاف متعلقہ اداروں یا عام افراد کی طرف سے پی ٹی اے کو شکایت کی گئی جس پر کاروائی کرتے ہوئے پی ٹی اے نے 31،230 لنکس بلاک کر دئیے جبکہ 1849 ایسی شکایتوں کو غلط ہونے پر مسترد کر دیا یعنی مانی گئی درخواستوں کی شرح 68 فیصد رہی۔ سب سے زیادہ یعنی نو لاکھ تیرہ ہزار شکایات غیر اخلاقی ویب سائیٹس کے حوالے سے آئیں جس پر ایکشن لیتے ہوئے نولاکھ ایک ہزار سات سو ایسے لنکس کو پاکستان میں بلاک کیا گیا ۔ دستاویز کو دیکھا جائے تو ہتک عزت اور جعل سازی کی شکایتوں پر اکاونٹس یا لنکس کو بلاک کرنے کی شرح سب سے کم رہی یعنی 49 فیصد درخواستیں منظور کی گئیں۔ اس حوالے سے 8144 شکایات پی ٹی اے کو موصول ہوئیں جس پر ایکشن لیتے ہوئے تقریبا چارہزار ایسے اکاونٹس بلاک ہو گئے۔ دستاویز کے مطابق پی ٹی اے نے ایک پورٹل بنا کر 38 مختلف اداروں کو اس تک رسائی دے دی ہے تاکہ کسی بھی ویب سائٹس کے حوالے سے شکایت پر خودکار طریقے سے معاملہ پی ٹی اے کے نوٹس میں لا سکیں۔ اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پی ٹی اے ترجمان خرم مہران کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ کارروائی غیر اخلاقی ویب سائٹس کے حوالے سے کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے حوالے سے شکایات وزارت مذہبی امور کی جانب سے پورٹل پر براہ راست پی ٹی اے تک پہنچائی جاتی ہیں جس کے بعد اتھارٹی ان کا جائزہ لے کر ان پر کاروائی کرتی ہے۔ دستاویز کے مطابق گرے ٹریفک کی شکایت پر پی ٹی اے نے اس سال کے پہلے چھ ماہ میں پانچ لاکھ چار ہزار موبائل سمیں بھی بلاک کی ہیں
سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی سالگرہ قریب پہنچ رہی ہے، اس موقع پرامریکہ خود کوخاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا حامی بنا کر پیش کررہا ہے، جبکہ امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں متضاد اور دوگانہ پالیسی کا سلسلہ جاری ہے ۔ مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی سالگرہ قریب پہنچ رہی ہے، اس موقع پرامریکہ خود کوخاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا حامی بنا کر پیش کررہا ہے، جبکہ امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں متضاد اور دوگانہ پالیسی کا سلسلہ جاری ہے ۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا ، سعودی عرب پہلے قتل سے انکار کرتا رہا لیکن بعد میں اس نے سعودی صحافی کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گيا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ کا آل سعود خاندان پر کافی اثر و رسوخ ،نفوذ اور تسلط ہے اور وہ اپنے اس نفوذ کے ذریعہ ابتدائی دنوں میں ہی خاشقجی کے قتل کے حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا تھا ، لیکن امریکہ نے ایسا نہیں کیا ، کیونکہ امریکہ جانتا تھا کہ اس کا قریبی دوست محمد بن سلمان اس قتل میں براہ راست ملوث ہے۔اب امریکہ نے سعودی عرب پر خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں دباؤ قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو خاشقجی کے قتل کی سالگرہ سے پہلے تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پر خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں سعودی عرب کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے اعلی اہلکار نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی برسی سے قبل قتل کی تحقیقات کو مکمل کرنا چاہیے۔ امریکی سی آئی اے اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان براہ راست خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدرکے داماد جیرڈ کوشنر اور سکیورٹی مشیرجان بولٹن سے ٹیلی فونک گفتگو میں سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کو خطرناک قرار دیا تھا، جبکہ جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے سعودی ولیعہد کے الزامات کو رد کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی اخبار کا دعویٰ ہے کہ سعودی ولی عہد کی جیرڈکوشنر اور جان بولٹن کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو 9 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے سعودی عرب کے جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے الزام میں گرفتار 11 ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی اقوام متحدہ کی 3 رکنی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے سعودی عرب سے ابتدائی طور پر حراست میں لیے گئے 11 ملزمان کے نام سامنے لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ " سعودی عرب کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ مقدمے کی کارروائی کے طریقہ کار سے عالمی برادری کو اس کے منصفانہ اور جانبدار ہونے سے اور اس کے اختتام پر حاصل کیے جانے والے نتائج سے متعلق مطمئن کردے گی تو وہ غلطی پر ہے "۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے اعلان کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی، جنہیں جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا، ان 11 ملزمان میں شامل نہیں ہیں۔ اگنیس کیلا مارڈ نے عالمی طاقتوں کے سفارتکاروں کی سعودی عرب کی سماعت میں شرکت پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کی عدم فراہمی میں کردار ادا کرنا خطرہ ہے، ہمیں یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ یہ ٹرائل انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔الجزیرہ کے سینئر سیاسی تجزیہ کار مروان بشارہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اوپن ٹرائل کرنے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ اوپن ٹرائل کے نتیجے میں اصل مجرمین تک پہنچنا آسان ہوجائےگا جبکہ سعودی عرب اصل مجرمین کو چھپانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔خیال رہے کہ 25 جنوری کو اقوام متحدہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے کولمبیا یونیورسٹی کی اگنیس کیلامارڈ کی سربراہی میں عالمی ماہرین کی 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا ، سعودی عرب نے پہلے قتل سے انکار کرتا رہا لیکن بعد میں اس نے سعودی صحافی کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گيا تھا۔ذرائع کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں امریکہ کی متضاد اور دوگانہ پالیسی جاری ہے اور امریکہ جمال خاشقجی کے قتل کی آڑ میں اور بعض دیگر بہانوں کے ذریعہ سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کررہا ہےاور بڑے پیمانے پر سعودی عرب کی دولت کو لوٹ رہا ہے۔
رات کی تاریکی اپنی سیاہ چارد پورے طورپر صحرا وگلشن ، آبادی اورویرانے ، شہراورگائوں سب جگہ پھیلاچکی ہے، چرند وپرند بھی اپنے اپنے ٹھکانوں پرپہنچ چکے ہیں ہرطرف خاموشی وسناٹاہے، لیکن وہ جوپوری دنیائے انسانیت کوچین وسکون، امن وامان کاپیغام پورے تیرہ سال سے ہرطرح کے دکھ درد جھیل کرسنارہاہے اس کے گھر کے اردگردسرداران قریش اورہرقبیلہ کے تنومند جوانوں کا گھیراہے، ہرقبیلہ کے جوان کے ہاتھ میں چمکتی ہوئی تلوار ہے کہ پوپھٹتے ہی جب یہ نماز کو نکلے تویکبارگی ان جوانوں کی تلواریں اس کا خاتمہ کردیں، مگروہ مالک کائنات، مالک جن وبشر جس نے انسانوں پرحجت تمام کردینے کے لیے اپنے اس بندے کورسول بناکر بھیجاتھا وہ اس کامحافظ ونگہبان ہے، اس کوصورت حال سے باخبرکرتاہے کہ تم ان سب کے سروں پر’’فَأغْشَیْنَاھُمْ فَھُمْ لاَیُبْصِرُوْنَ‘‘ [یٰسین:۹]کاورد کرتے ہوئے ، دھول ڈال کرنکل جائو، یہ تمہارابال بیکا نہ کرسکیں گے، اس کے ساتھی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میںنکل کر مدینہ پہنچ چکے ہیں، یہ بھی پوری احتیاط وحکمت کے ساتھ مدینہ کارخ کرتاہے اوروہاں بسلامت پہنچتاہے ، یہیں سے سن ہجری کاآغاز ہوتاہے ، اورپھر وہ سب کچھ ہوتاہے جس کودنیا ۱۴۴۰ھ؁ برسوں سے دیکھتی آرہی ہے ، وہ لوگ جواس کی اوراس کے ساتھیوں کی جان کے پیاسے تھے کس کس طرح سے ذلیل ہوئے ہیں، دنیاکاہرپڑھالکھا شخص اپناہو کہ پرایا، اس سے خوب واقف ہے، وہی مکہ جس سے اس سراپا رحمت کو نکالاگیاتھا ،اسی مکہ کے میدان عرفات میںیہ خدائی اعلان ہوتاہے(اے اہل اسلام اب) خداااور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کررکھاتھا بیزاری (اورجنگ کی تیاری ہے) تو(مشرکو! تم) زمین میں چارمہینے چل پھرلو اورجان رکھو کہ تم خداکوعاجزنہ کرسکوگے اوریہ بھی کہ خداکافروں کورسواکرنے والاہے، اورحج اکبر کے دن خدااور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کوآگاہ کیاجاتاہے کہ خدامشرکوں سے بیزار ہے۔[سورہ توبہ: ۱،۲] وہ مالک کائنات جس نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انہیں میںسے اپنے محبوب بندے کوبھیجاتھا، وہ اس کی حفاظت کے لیے ان فرشتوں کاپہرہ لگاسکتا تھا، جن فرشتوںنے غزوۂ بدر اورغزوۂ خندق میںمسلمانوں کی مدد کی تھی، لیکن چونکہ ابلیس کوقیامت تک کے لیے مہلت ملی ہے کہ وہ انسانوں کوبہکانے اوراپنے ساتھ جہنم میںلے جانے کی جان توڑکوشش کرے اور ہردور میں مسلمانوں کو راہِ حق سے دورلیجانے کے لیے خوبصورت جال لگاتارہے اورانسانوں کی اکثریت کواس دین حق کے خلاف ابھارتا اوراس دین سے عداوت ودشمنی کی آگ بھڑکاتارہے، حلیہ بدل بدل کربھڑکاتارہے ،بالکل اسی طرح جس طرح ایک بزرگ کی شکل میںدارالندوہ میںحاضرہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کامشورہ دیاتھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اوراصحاب رسول کوامتحان وآزمائش کے ان سخت مراحل سے گزارا، جوقیامت تک کے مسلمانوں کے لیے روشنی کامینار بنے رہیں ،اورسخت سے سخت حالات میں بھی مسلمان اپنے دین وایمان پرنہ صرف قائم رہیں، بلکہ حکمت ودانش مندی کے ساتھ خیرامت کی حیثیت سے اس پیغام امن کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں۔ اس حیثیت سے ہجرت مدینہ امت مسلمہ کے لیے مستقل ایک پیغام کی حیثیت رکھتی ہے کہ دین وایمان ایک مسلمان کی وہ پونچی ہے جس سے وہ کسی قیمت پردست بردار نہیںہوسکتا، وہ موت کو گلے لگالے گا، لیکن دین وایمان کے انمول ہارکو اپنے گلے سے نہیںاتارے گا، جس کامشاہدہ ہم اس وقت بھی کررہے ہیں کہ کتنے مسلمان مختلف سازشوں کے نتیجہ میں قید وبند کی زندگی گزاررہے ہیں، مگر اپنے دین کے ایک نقطہ سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ، سوائے ان قسمت کے ماروں کے جومغرب کے دام فریب میںآکراس دین ہی پرسے اپنااعتماد کھوبیٹھے ہیں اورحب دنیا،حب جاہ ومال کی ریس میں دوسری قوموں کی راہ پرچل پڑے ہیں۔ سفرطائف میںجہاں آپ بڑی امیدیں لے کرگئے تھے جب آپ کوآخری درجہ کی تکلیفیں پہنچائی گئیں توپردیس میںاللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب کی یہ حالت دیکھ کر خصوصی رحم آیا، اورخصوصی مدد کی پیش کش ہوئی ، اورحضرت جبرئیل علیہ السلام پیغام لائے کہ زلزلہ کے ذریعہ ان ظالموں کوتباہ وبرباد کردینے کے لیے فرشتہ تیار ہے، آپ کہیں توان کوابھی سزادی جائے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح وارشاد کی مصلحت کے اعلیٰ معیار کوترجیح دیتے ہوئے سزادینے کی فرمائش نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف سے واپس ہوتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:’’ میںان لوگوں کی تباہی کے لیے بددعا نہیںکرتا، اگریہ لوگ خداپرایمان نہیںلائے تو کیاہوا، امیدہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ایک خدا پرایمان لانے والی ہوں‘‘۔ حفیظ جالندھری کے الفاظ میں ؎ اگریہ لوگ آج اسلام پر ایمان نہیں لاتے خدائے پاک کے دامانِ رحمت میں نہیں آتے مگر نسلیں ضرور ان کی اسے پہچان جائیں گی درِ توحید پر اک روز آکر سر جھکائیں گی میں ان کے حق میں کیوں قہرِ الٰہی کی دعا مانگوں بشر ہیں، بے خبر ہیں، کیوں تباہی کی دعا مانگوں! انسانیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت بے پایاں کایہی جذبہ تھا جس کوقرآن کریم نے ان الفاظ میںاداکیاہے: ’’وَمَاأرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ [انبیاء:۱۰۷] ( ہم نے آپؐ کوپورے عالم کے لیے رحمت بناکربھیجاہے)۔ ماہِ محرم الحرام سے سن ہجری کاآغازہوتاہے، سال کی یہ ابتداء ہربندۂ مومن کواپنے عزم وہمت ،جذبہ وحوصلہ اورقوتِ ایمانی کوتازہ کرنے کاپیغام دیتی ہے۔
سنی حضرات جومضمون ’’متفقہ فیصلہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا اس میں مفتی پھلواری، مفتی ویلوری، مفتی حیدرآبادی کے سوا باقی سب متفقہ فیصلہ وہابیوں کا ہے۔اکثرگلابی وہابیہ کا اسمیں حصہ ہے ، بھوپالی وغیرہ تبرائی ہیں اور جمیعۃ لعلما ہند یا دہلی کر کے مشہور ہے یہ بھی انہیں کا مجمع ہے اس میں کوئی سنی عالم نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی سنی مسلمان ان فتوں کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائیں۔ خبردار رہیں۔ میں نے وہابیہ کا متفقہ فیصلہ کا خلاصہ ذیل میں لکھ دیا ۔غور سے پڑھیںاور میں دوفتوؤں کو جو استاد اور شاگرد کے ہیں۔ذراتشریح کے ساتھ لکھ دیا۔ وہ اس کوغور سےپڑھیں اور یاد رکھیںپھر ان وہابیوں کی ناک پکڑ کر خوب رگڑدیں۔ وہابی کی تردید کرنے کے لیے ایک معمولی سنی مسلمان کی گھنٹے بھر کی محنت کافی ہےچونکہ وہابیہ کو ایمان کے ساتھ سروکار نہیں ۔ان کو جھوٹ بولنے اور لکھنے میںکمال ہے ۔اسی لیے انہوں نے تین مہینہ کا عرصہ ان کی تردید کے لیے قرار دیا ہے۔ -وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَجو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی کافر ہیں۔ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۴۵)جو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی ظالم ہیں۔ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)جو شخص حکم نہیں کرتا موافق اس حکم کے جواللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ۔ایسے لوگ بالکل ہی فاسق ہیں۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); میں پہلے لکھ چکا تھا کہ ان کا مورد خاص اور حکم عام ہے۔ وہابیہ کہتے ہیں یہ آیۂ کریمہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں مگروہابیہ کوکیا معلوم مورد خاص حکم عام کس بلا کانام ہے۔ مورد خاص یعنی ہروہ شخص کافر اورظالم اور فاسق ہے۔جو اللہ کے نازل کیے ہوئےحکم کے موافق حکم نہیں کرتا مسلمانوں کے نزدیک یہ حکم ہرمسلمان کے لیے قیامت تک جاری رہے گا۔ وہابیہ کے نزدیک یہ حکم صرف یہود کے لیے مخصوص ہے ساراقرآن مجیدمخصوص مواقع مخصوص ضروریات اورمخصوص لوگوں کے لیے تھوڑا تھوڑا تینتیس سال تک نازل ہوتارہا ۔مگر حکم عام ہے۔سب لوگوں کو شامل تا قیام قیامت ان وہابیہ نے ثابت کردیا۔ یہ قرآن حکیم کا حکم انہیں ضروریات اور انہیں مخصوص لوگوں کے لیے منحصر ہے۔یہ اپنے زعم باطل سے اہل کتاب بھی نہ رہے۔جب قرآن حکیم ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوا جو چودہ سو برس سے پہلے تھے۔ ان وہابیہ کے نزدیک قرآن مجید کے احکام بھی انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔ان کو آزادی ملی، نہ ان کے لیے روزہ نہ نماز وغیرہ۔یہود ونصاریٰ اہلِ کتاب ہیں مگر یہ ان سے بھی گیے گزرے ہیں ان کے لیے نہ کوئی کتاب نہ احکام کتب جاری ہیں۔ ان کا پیر نیچر ان سےپہلے کہہ چکا اورلکھ چکا احکام قرآن انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہیں۔ جو لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں موجودتھے ۔ خصوصاً صحابہ اللہ تعالیٰ نے بصیغۂ جمع حاضرین کو مخاطب کیا۔ وضو اورغسل انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہیں۔ کیونکہ وہ محنت و مشقت کےسبب سے پسینہ و دھول میں آلودہ رہتے تھے۔ان کے بعد والوں کے لیے نہ قرآن نازل ہوانہ قرآن مجید نے ان کو مخاطب کیا۔ وہابی اس کے چیلے ہیں۔انہوں نے بھی مذکورہ آیتیں صرف یہودہی کے لیے مخصوص کیے ہیں۔اگر یہ بھی قرآن مجید کے احکام کوبصحابہ مخصوص کریں تو کوئی تعجب نہیں۔ مسلمانو! یاد رکھو اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کے احکام انہیں لوگوں کے لیے ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔یا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ قرآن کے احکام صرف صحابہ کے لیے ہیں، ان کے بعد آنے والوں کے لیے نہیں یا یہ عقیدہ مذکورہ بالاآیتیں صرف یہود کے لیے ہیں۔ اگر کوئی اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف دوسرا حکم دے وہ کافر ظالم فاسق نہیں ۔ یہ مذکورہ بالاسب کفریا ت ہیں۔ اس نے سارے قرآن کے احکام پر عمل کرنے سے انکار کیا۔اس نے اللہ رب العزت کے حکم کے خلاف یہ حکم دیا ایسا عقیدہ رکھنے والا اور حکم دینےوالا اسلام سے خارج ہے۔ مسلمانوں کو لازم ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہرگز تعلق نہ رکھیں اپنے ایمان کو بچائیں۔ میں نے مذکورہ بالاآیتیں ان مفتیوں کے زجروتوبیخ کے لیے پیش کی تھیں۔ جنہوں نے اللہ کے حکم کے خلاف اور غلط فتویٰ دیا۔ فاتحہ مروجہ ثابت کرنے کے لیے نہیں۔یہ وہابیہ سمجھ گے فاتحہ مروجہ کے ثبوت کے لیے ہے۔ جب ان کورمغزوں کو معمولی اردو عبارت سمجھنے کا مادہ نہیں تو عربی جملے کو کیا خاک سمجھیں گے۔ خرچہ میدا ند کہ زعفراں چیست (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); سنی حضرات اللہ پاک کے نازل کیے ہوے احکام بہت ہیں ۔ان میں سے بعض فرض، مباح ہیں اگرکوئی ان احکاموں میں سے اللہ پاک پرنازل کیے ہوے حکم کے موافق حکم نہیں کرتا۔بلکہ اس کے خلاف حکم دیتا ہے ،اس کے فرض ہونے سے اور مباح ہونے سے انکار کرتا ہے وہ کافر ظالم، فاسق ہے۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم دینے اور اس کے انکار کرنے سے کافر ہوے جو بیشتر ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار اور توہین کرنے سے کافر ہوچکے تھے۔ پھر کافر بنانا اس کو خوب وہابی ہی سمجھیں گے۔ قرآن پڑھنا اللہ تعالٰی کا نازل کیا ہوا حکم ہے، اس کے پڑھنے کے خلاف حکم دینے والا اس کے پڑھنے کوناجائز کہنے والا وہابیہ کے نزدیک کافر نہیں۔یہ تقسیم وہابیہ کی ٹیڑھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں نے میرے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف حکم دیا وہ کافر ہوئے، اگرکوئی دوسرا میرے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف حکم دے وہ کافر نہیں۔ سنی حضرات اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے حکموں میں سے یہ مندرجہ ذیل اللہ تعالیٰ کانازل کیا ہوا حکم غور سے ملاحظہ کریں۔ ۱)اس کتاب کو جو آپ کے طرف وحی کی گئی ہے پڑھا کیجیے۔ قرآن ترتیل کے ساتھ پڑھا کیجیے۔ ۲) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’ پڑھو جو کچھ تم کو آسان ہو قرآن میں سے۔مورد ان کا خاص ہے، حکم عام ہے‘ اس کی تشریح اوپر ہوچکی ہے اس کو خوب یاد رکھو۔ حالتِ جنابت اور حیض و نفاس کے سوا ہر وقت اللہ تعالیٰ کے طرف سے قرآن پڑھنے کا ہم مسلمانوں کو حکم ملا یہ حکم فاتحہ مروجہ اور غیر مروجہ کو بھی شامل ہے۔ کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے ۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); خواہ دن ہو یارات ، نماز سے پہلے ہو یا نماز کے اندر،بعد التزام کے ساتھ ہو یا غیر التزام کے اجتماع کے ساتھ ہو ، یا غیر اجتماع جنازے کی نماز کے پہلے ہو یا جنازے کی نماز کے بعد، میت کے دفن کرنے سے پہلے ہو یا دفن کرنے کے بعد چالیس قدم ہو یا چالیس قدم سے پہلے، ہاں بعض جگہوں میں قرآن پڑھنا فرض ہے، بعض جگہ واجب بعض جگہ میں سنت اور مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے مجھ سے دعامانگو میں سنتا ہوں ، قبول کرتا ہوں یہ حکم بھی عام ہے ۔خواہ نماز سے پہلے ہو یا نماز کے بعد اجتماع کے ساتھ یا انفراد کے ساتھ، التزام کے ساتھ ہو یا غیر التزام ، جنازے کی نماز سے پہلے ہو یا جنازے کی نماز کے بعد دفن کرنے سے پہلے یا دفن کرنے کے بعد ہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم مسلمانوں کو حکم ملا قرآن پڑھو جب ہم قرآن پڑھیں گے اور دعا کریں گے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تعمیل کرنے والے ٹھہریں گے ہم کو اجر عظیم اللہ کی طرف سے ملے گا۔افسوس ان مفتیوں کے اوپر! جو یہ کہتے ہیں کہ اس کا پڑھنا التزاماً اور اجتماعاًنبی کریم ﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے ثابت نہیں۔ میں کہتا ہوں اگر یہ اجتماع اور التزام کے ساتھ نبی کریم ﷺ سے اور صحابہ سے اور تابعین سے ثابت ہوتاتو اس کا پڑھنا فرض ہوجاتا۔حالانکہ اس کےفرض کے قائل کوئی نہیں نہ واجب کے قائل نہ سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ بلکہ اس کو ہم سنی سنت اور مستحب سمجھ کر ہمیشہ التزام اجتماع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔فاتحہ مروجہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل درود شریف کو فرداً فرداً نبی کریم ﷺ بیان فرمائے ہیں ان کے پڑھنے والے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے سنت مستحب کے ثبوت کے لیے یہی کافی ہے۔ مفتی کفایت اللہ صاحب مدرسہ امینیہ دہلی النکات شاگرد ضیاء الحق دہلی مفرور محمد شفیع مفتی سابق دیوبند ، مہدی حسن مفتی دیوبند، سعید احمدمفتی سہارنپور، ڈابھیلی لکھنوی ،وانمباڑی پیرم پٹی، رائے چٹی ، بھوپال، لاہوری، یہ سب دیوبندیوں کے متعقد اور مقلد اور اذناب ہیں۔ مذکوربالا مفتیوں کے فتویٰ کا خلاصہ یہ ہے ۔ ان سبھوں نے لکھا فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا نعوذ باللہ ان میں سے بعض نے بے اصل بے سند بعض نے مکروہ کہا بعض نے بدعت شنیع واجب الترک کہا ہے۔ ان کا یہ حکم اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے حکم کے خلاف ہے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص حکم نہیں کرتا۔ موافق اس حکم کے جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ایسے لوگ بالکل ہی کافر ہی ہیں بالکل ظالم ہیں۔ بالکل ہی فاسق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے طرف سے یہ حکم کفرانِ مفتیوں کے اوپر جاری ہیں اگر کوئی شخص کسی چیز کو بے اصل ناجائز حرام بدعت شنیع کہے۔اس نے اس کے کرنے سے انکار کیا۔یہ کہنے کے بعد وہ اس کو ہرگز نہ کر سکے گا اگر وہ کہے کہ ہم اس فاتحہ پڑھنے سے انکار نہیں کرتے تو عقلمندوں کے نزدیک اس دعویٰ میں وہ جھوٹاہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مسلمات سے ہیں اگر کوئی ایسے نفل یا ایسے مباح کو جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوانکار کرنے والا کافرہوجاتاہے۔ دیکھ لو حصول وغیرہ کو جناب مفتی صاحب سے گزارش یہ ہے اس وقت مفتی حقیقی نہیں ہیں بلکہ مجازی ہیں یعنی ناقل ہیں۔ لہٰذا آپ کو منقول منہ پیش کرنا ضرور ہے یعنی وہ کتاب مفتا بہ جس سے آپ نے استفتا کا جواب نقل کیا ہو مادہ قرآن کی آیت یا وہ حدیث رسولﷺ پیش نہ کی۔آپ کے اوپر کفر کا حکم عائد ہوتا ہے کیوں کہ آپ نے نص قطعی کو انکار کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اس کتاب کو جو آپ کی طرف وحی کی گئی پڑھا کیجئے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔ قرآن ترتیل کے ساتھ پڑھا کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے پڑھو جو کچھ تم کو آسان ہو قرآن میں سے بحالت جنابت اور حیض ونفاس کے سوا باقی سب حالت میں قرآن پڑھنا جائز ہے۔ اس میں کسی مکان اور زماں کی تخصیص نہیں ہے یہ حکم ہر وقت کو شامل ہے۔خواہ نماز سے پہلے ہو یا نماز کے بعد ہرگز بعض جگہوں میں یانماز کے اندر قرآن پڑھنا فرض ہے۔ بعض جگہوں میں قرآن پڑھنا واجب ہے بعض جگہوں میں سنت اور بعض مستحب ہے۔ انفراداً ہو یا اجتماعاً آہستہ ہویابلند آواز سے فاتحہ غیرمروجہ کو بھی شامل ہے ۔جنازے کی نماز سے پہلے ہو یا جنازے کے بعد کو بھی شامل ہے۔ دفن کرنے کے بعد کو بھی شامل ہے، چالیس قدم کے پہلے ، چالیس قدم کے بعد بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ خود اوراس کے فرشتے نبی کریمﷺ کے اوپر درود پڑھتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم بھی ان پر درود پڑھو ۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); اس میں کسی زماں ومکاں کی تخصیص نہیں اگر آپ نے یہ حکم اپنے اجتہاد سے دیا ہوتو آپ مقلد محض ہیں ۔ آپ اجتہاد کا حق نہیں رکھتے پھر آپ نے اجتہاد کیا۔ اس اجتہاد میں آپ نے غلطی کی سید عالم ﷺ نے آپ کے لیے ٹھکانا جہنم قرار دیا ہے۔ مستدرک حاکم اور مسند ابن حبان کی حدیث وغیرہ کو دیکھ لو جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا جب غیرمجتہد اس اجتہاد سے حکم دے پھر اس اجتہاد میں غلطی کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ آپ نے بڑی غلطی کی نص قطعی کے خلاف کے حکم دیاگیا۔ کیا نبی کریم ﷺ نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل نہیں پڑھا کیا صحابہ نے سورۂ قل نہیں پڑھا اس نہ پڑھنے پر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے۔ کیا آپ کے نزدیک عدم ذکر اور عدم نقل کو عدم وجود مستلزم ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہوتے ہوئے ۔زید ۔ عمر کا قول فعل دریافت کرنا۔ کمالِ بے وقوفی ہے اور نشانی گلابی وہابی کی ہے ۔ سنی حضرات مذکور حکم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ اوپر معلوم ہوچکا اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم دینے پر اللہ تعالیٰ نے اس حکم دینے والے کوکافر، ظالمِ فاسق کہا ہے۔ آپ کے فتوی سے یہ ثابت ہوتا ہے ۔ جس چیز کاوجود عہدِ رسالت میں ہووہی جائز ہے۔ جس کا وجود عہدِ رسالت میں نہ ہووہ چیز ناجائز بدعت ہے۔ خواہ عبادت سے ہو یا معاملات سے ۔ لہٰذا دارالافتا مدرسہ امینیہ اسلامیہ دہلی بہت کذابیہ عہدرسالت میں موجود نہ تھا نہ اس نام کی کوئی جگہ تھی لہٰذا مدرسہ امنیہ بہئیت کذبیہ بدعت کاگھر ہے۔ یہ نام رکھنے والے سب بدعتی ہیں۔اس نام کے پکارنے والے سب کے سب بدعتی ہیں۔ اس میں کام کرنے والے بدعتی ہیں۔ یہ دارالافتا نہ رہا بلکہ دارالبدعت بدعت کا گھر بنا ۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مسلمات سے ہیں ۔ جو کوئی کسی ایسے نفل کو یا کسی ایسے مباح کو جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوانکار کرے انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے، دیکھوحصول وغیرہ۔ نبی کریمﷺ کاارشاد ہے تم میں سے بہتر وہ ہے ۔ جو قرآن پڑھتا اور دوسروں کو پڑھتا ہے۔ نبی کریمﷺ کاارشاد ہے۔سورہ فاتحہ تین بار پڑھنے سے ایک پورے قرآن کا ثواب ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ شریف کو مقلب بقلب سبع مثانی فرمایا ہے، یہ ایسے اعلیٰ برتر سات آئتیں ہیں کہ بار بار پڑھی جاتی ہیں، باربار پڑھنا اس سورہ شریف کا اللہ تعالیٰ نے صفت ٹھہرایا باربار پڑھنا نماز سے پہلے ہو یا نماز کے اندر یا نماز کے بعد ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا سورۂ قل ثلث قرآن ہے یعنی تیسرا حصہ قرآن کا ہے۔ تین مرتبہ پڑھنے سے پورے قرآن کا ثواب ملتا ہے ۔ طبرانی اور طبقات ابن سعد میں ہے۔ تبوک میں جبرئیل امین رسولﷺ پر نازل ہوےاور خبر دیا ۔ معاویۃ ابن معاویۃ المزنی جن کو لیثی بھی کہتے ہیں۔ انتقال کر گیے آپ دوست رکھتے ہیں کہ آپ اس پر نماز پڑھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں۔ جبرئیل امیں نے ان کی لاش مبارک کونبی کریمﷺ کے سامنے حاضر کیا پھر آپ نے ان کے اوپر نماز پڑھی اور ان کے ہمراہ فرشتوں کی صفیں تھی ہر ایک صف میں ستر ستر ہزار فرشتے تھے ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریمﷺ نے جبرئیل امیں سےپوچھا معاویہ کو اس قدر بڑا درجہ کیوں ملا۔ حضرت جبرئیل نے عرض کی یارسول اللہﷺ یہ سورۂ قل کو بہت دوست رکھتا تھا۔ جاتے وقت آتے وقت کھڑے ہوتے وقت اٹھتے وقت ، بیٹھتے وقت یعنی ہر وقت اس سورۂ شریف کو تلاوت کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا بڑا مرتبہ دیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنازے کی نماز میں میت حاضرہونے کے سوا جائز نہیں ۔میت کا حاضر ہونا یاامام کومیت نظرآنا شرط ہے اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں یا دونوں میں سے ایک نہ ہو نماز جنازہ جائز نہیں بعض جہلا حنفی وہابیوں کے ساتھ مل کر کبھی جنازے کی نماز میت کے غائب ہونے پرپڑھتے ہیں۔ یہ ہرگز جائز نہیں اگر بلا میت یہ نماز جائز ہوجاتی تو حضرت جبرئیل امین کو میت حاضر کرنے کی ضرورت کیا تھی، اس سے ثابت ہوا یہ نماز میت حاضر ہونے کے سوا جائز نہیں۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); نجاشی کا واقعہ اس پر قیاس کروان کی لاش نبی کریم ﷺ کے سامنے حاضر کی گئی تھی یا نبی کریمﷺ اس کی لاش دیکھ رہے تھے، امام کادیکھنا مقتدیوں کی نماز کے جواز کے لیے کافی ہے یہاں پرزیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں۔ سبحان اللہ کیا خوش نصیب ہیں وہ مسلمان مرد ومسلمان عورت جو فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل کو ہروقت ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے ہیں۔ مذکوربالاحدیث پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے والوں کو سب سے سے بہتر قرار دیا کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے۔افسوس ہے ان وہابیوں پر جو فاتحہ مروجہ کو بدعت کہتے ہیں۔ فاتحہ مروجہ قرآن یعنی سورۂ فاتحہ اور سورہ قل پڑھنے والے ایسے مقدس جماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قسم کھاتا ہے قسم ہے مجھے ان لوگوں کی جو قرآن پڑھتے ہیں۔ قرآن مجید کا نام ذکر بھی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے قرآن پڑھنے والے کو ہر حرف کے بدلے میں دس نیکی دس سے ساٹھ تک ساٹھ سے زائد بھی آیا ہے ۔کیا فاسق بدعتی وہ مسلمان ہیں جو فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے کو بدعت شنیع کہتے ہیں، اس کو واجب الترک کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نےاور ان کے رسولﷺ نے حکم کہیں نہیںدیا کہ فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل ہروقت پڑھنا یا سب نمازوں کے بعد پڑھنا یا بعض نمازوں کے بعد پڑھنا بدعت شنیع واجب الترک ہیں۔ نہ کسی مجتہد نے یہ حکم دیانہ کسی مفتابہ کتاب میں یہ حکم موجود ہے۔ ان مفتیوں نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کےخلاف یہ حکم دیا ہے اور انہوں نے نصوص قطعی کے خلاف خانہ ساز فتویٰ دیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک قاعدہ کلیہ ہے۔ اگر خبرواحد کتاب اللہ کے مقابلہ میں آجائے تو اگر دونوں کے اوپر عمل کرنا ممکن ہوتو دونوں پرعمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ممکن نہ ہوتو اس خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں۔کتاب اللہ پر عمل کرتے ہیں ۔جب یہ حال خبرواحد کا ہے بغرض محال اگر قول صحابہ قول ائمہ اسلام جس کی کوئی سند نہ ہو کتاب اللہ کے مقابل میں آجائے وہ کب قابلِ عمل ٹھہرے گا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ان سب کے اوپر حکم کفرعائدہوتا ہے۔خواہ تبرائی ہو یا گلابی ان کا فتویٰ ہرگز اہل سنت والجماعت کے نزدیک قابل عمل نہیں۔ان سے دریافت کرو یہ مسئلہ جزئیہ کس مفتابہ کتاب میں موجود ہےیعنی فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل پڑھنا بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ ہم سنت جماعت کے مسلمان ان دونوں سورتوں کے پڑھنے کو سنت، مستحب جان کر التزاماً اجتماعاً بہ نیت ثواب پڑھتے ہیں۔ مسلمانو! جو کوئی نیک کام کرو التزاماً ہمیشہ کرو ہمیشہ نیک کام کرنا سنت ہے۔ نبی کریمﷺ کی عادت مبارک بھی یہی تھی جب کوئی نیک کام کرتے تھے ہمیشہ کرتے تھے۔ دیکھو حدیث مسلم کو۔۔ وہابیہ کا یہ کہنا کہ جب کوئی کام نیک التزاماً ہمیشہ کیا جائے۔ لوگ اس کو فرض جاننے لگیں گے اس لیے واجب الترک ہے صد حیف صدافسوس ہے ان وہابیوں پر جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلوب العقل بنا دیا ہم التزاماً رات دن میں بارہ رکعتیں سنت موکدہ پڑھتے ہیں۔ ابتدائے اسلام سے اب تک سب مسلمان التزاماً ان کو پڑھتے آئے اب بھی التزاماً پڑھ رہے ہیں۔ کوئی مسلمان نادان بے علم ان بارہ رکعتوں کو فرض نہیں جانتا۔ جب نبی کریم ﷺ کے ان سنتوں کو فرض نہیں جانتا تو آپ کے یا میرے کسی فعل مستحسن کو کوئی بیوقوف جاہل کیوں فرض سمجھے گا، یہ صرف وہابیوں کو طاعون کی بیماری لگ گئ ہے ۔ یہ ہمیشہ اس میں مبتلا رہیں گے اسی مرض سے اس دنیا فانی سے جائیں گے۔، (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); جناب مفتی صاحب!ً گزارش یہ ہے آپ ناقل ہیں حقیقی مفتی نہیں۔ لہٰذا آپ نے استفتا کا جواب جو نقل کیا اس مفتا بہ کتاب کا نام فوراً پیش کریں۔ کفایت اللہ صاحب! فاتحہ مروجہ کا یہ طریقہ جو آپ نے سوال میں ذکرکیا ہے ثابت نہیں۔ میں کہتا ہوں مذکورہ طریقہ کا نہ کر ناکہیں ثابت نہیں۔ عدم ثبوت سے اس کا ناجائز ہونا لازم نہیں آتا ۔ناجائز ہونے کے لیے دلیل پیش کیجیے۔ کفایت اللہ صاحب!سورۂ فاتحہ ایک بار سورۂ اخلاص تین باراور پھر بلند آوازسے درود شریف پڑھنے اوراس طرح دعا ختم کرنے کاااور اس کو لازم کرلینے کاثبوت حضورﷺ سےہے نہ صحابہ کرام اورنہ ائمہ اسلام سے میں کہتاہوں مذکورہ طریقہ کے لازم نہ کرنے کاثبوت حضور ﷺ سے نہ صحابہ کرام سے نہ ائمہ اسلام سے ثابت نہیں عدمِ ثابت اسلام میں کوئی دلیل نہیں کیوں عدم ثبوت خوونیست ونابود ہے۔ معدوم محض کسی چیز کے وجود کے لیے نفی کاسبب نہیں بن سکتا۔ علاوہ اس کے آپ کے پاس عدم ثبوت پرثبوت شرعی کیاہے۔ مفتی صاحب عدم ثبوت سے طریقہ مذکورکا ناجائز ہونالازم نہیں آتا۔ اس کے ناجائز ہونے کے لیے دلیل شرعی پیش کیجیے۔ کفایت اللہ صاحب! نماز جمعہ میں سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد کوئی اجتماعی دعا کاکرنا جائز ہے یا ناجائز ۔اس کے ناجائز ہونے کے لیے دلیل شرعی پیش کیجیے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); کفایت اللہ صاحب! نما ز جنازہ خود دعا ہے۔ میں کہتا ہوں نہ غلط ہے ۔ نمازجنازہ من کل وجوہ ۔۔۔نہیں من وجہ دعا ہے۔ من وجہ نماز ہے اور یہ ۔۔۔دعا ہوتی ہے تو بے وضو بھی جائز ہوجاتی ۔۔۔۔ بے وضو جائز نہیں دعا کے لیے وضو شرط نہیں۔ اس نماز جنازہ کے لیے وضو شرط ہے۔ کفایت اللہ صاحب! اس کے بعد اجتماعی دعا ثابت نہیں ، میں کہتا ہوں اس کے بعد کوئی اجتماعی دعا نہ کرنا ثابت نہیں!۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تم دعا کرو میں سنتا اور قبول کرتا ہوں۔ یہ حکم عام ہے ۔ ہر ایک وقت کو شامل ہے خواہ حالت اجتماعی ہویا حالت انفرادی ۔ جنازے کی نماز سے پہلے ہو جنازے کی نماز کے بعد ۔ مفتی صاحب! اجتماعی دعا ثابت نہ ہونے سے اس اجتماعی دعا کاکرنا ناجائز ہونا لازم نہیں آتا۔ ناجائز ہونے کے لیے دلیل پیش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جب فارغ ہوجاؤ یعنی قرب فرائض سے ٹھہر جاؤ اللہ کی طرف راغب ہو جاؤ بذریعہ قرب نوافل کے یعنی تسبیح، تہلیل، تکبیر، دعا، تلاقت، قرآن وغیرہ سے۔ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ ۔ اس آیۂ کریمہ سے فقہا ومفسرین نے نماز کے بعد دعا کرنے کااستدلال کیا ہے، نماز جنازہ قرب فرائض میں داخل ہے۔اس کے بعد دعا کرنا قرب نوافل سے ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی عبادت اور نماز کے بعد دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے ، وہ عبادت ہی کیا ہوئی جس سے اللہ ناراض ہوجائے۔ کفار اپنے زعم باطل سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر اللہ ان سے ناراض ہے ۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جنازے کی نماز عبادت ہے اس کے بعد بھی دعا کرنا اللہ کی رضامندی طلب کرنے کےلیے ضروری ہے۔ جولوگ جنازے کی نماز کے بعد دعا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے ۔ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی یہ دونوں نماز جنازے کے بعد دعا نہیں کرتے بلکہ حکم دیتے ہیں جنازے کی نماز کے بعد دعاکرنا ناجائز اور حرام ، بدعت ہے۔ یہ حکم ان کے اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کے خلاف ہے۔ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ مگر یہ ہمیشہ جہنم نہیں رہیں گے اگر ان میں ایمان ہے اگر ایمان نہیں ہے تو یہ بھی ہمیشہ کافروں کی طرح جہنم میں رہیں گے ، اگر کوئی کہے یہ نماز بھی پڑھتے ہیں روزہ بھی رکھتے پھر جہنم میں کیوں جائیں گے ، نماز و روزہ تب کام آجائے جب ایمان ہے ، جب ایمان نہیں تو نماز وروزہ کچھ کام نہیں آتا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); نبی کریمﷺ کے زمانے میں منافق نماز پڑھتے تھے۔ جہادوں میں بھی جاتے تھے۔ یہاں تک انہوں نے ایک مسجد بھی بنوائی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے واسطے جہنم کے طبقوں میں سے نچلا طبقہ مقرر کیا ہے کیوں کہ ان کے پاس ایمان نہیں تھا۔ کفایت اللہ صاحب! نے لکھا میت کی تدفین کے بعد اس کی مغفرت کے لیے ہرشخص دعاکرے اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ہے ، مولوی کفایت اللہ صاحب نے وہابیوں کی ناک کاٹ دی ، فرداً فرداً دعا کرنے کا حکم دیا وہابی اس کو بدعت کہتے ہیں، میں کہتاہوں کہ تدفین کے بعد کوئی اجتماعی دعا نہ کرنا ثابت نہیں۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ فرداً فرداً دعا کرنا کسی دلیل سے ثابت ہے؟ اور اجتماعی دعا کرنا جائز ہے یاناجائز؟ ناجائز کے لیے دلیل پیش کریں۔ ہر نیک کام کو لازم کرنا ہمیشہ مسنون ہے۔ نبی کریمﷺ جب کوئی نیک کام کرتے تھے ہمیشہ کرتے تھے جوکوئی اس کو نہ کرے اور اس کو جائز کہے اس پر طعن وتشنیع ضرور کرے، واغلظ علیہم کا مصداق ہے کیوں اس نےجائز کو اپنے طرف سے ناجائز کہا ہے۔ یہ وہابی خواہ تبرائی ہو گلابی۔ الفاتحہ کی آواز سنتے ہی ایسے بھاگ جاتے ہیں جیسے شیطان اذان کی آواز سن کر انگلی کانوں میں رکھ کر گوزمارتا ہوا بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مذمت کرتے ہوئے جو قرآن پڑھنے سے قرآن کے اوپر عمل کرنے سے بھاگ جاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کیا ہوگیا ان کو قرآن سے بھاگتے ہیں جیسے وحشی گدھے شکاری سے یا شیر سے بھاگتے ہیں ، وحشی گدھے شکار ی کو یاشیر کو دیکھ کر بھاگتے ہیں جیسا وحشی گدھا شیر یاشکاری دیکھ کر بھاگتا ہے۔اسلام کے اندر سب احکام آٹھ ہیں ۔اس میں تمام احکام آگئے خواہ عبادت ہو یا معاملات یا عادات فرض، واجب ، سنت موکدہ، مستحب ، مباح ، حرام مکرو ہ تحریمی مکروہ تنزیہی ،بدعت اور شبہ بدعت انہیں میں داخل ہے کوئی نواں قسم علیحدہ نہیں حرام بہ مقابلہ فرض کوآتا ہے۔ ۱) مکروہ تحریمی بمقابلہ واجب کو آتا ہے ۔مکروہ تنزیہی بمقابلہ سنت اور مستحب کو آتا ہے ۔ فرض کے واسطےدلیل موجود ہونا ضروری ہے۔ واجب کے واسطے دلیل ہونا ضروری ہے، سنت موکدہ کے واسطے دلیل موجود ہونا ضروری ہے اور مباح کے واسطے دلیل کی ضرورت نہیںکیون کہ اصل شئے میں اباحت جواز ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہےاللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے تمہارے فائدے کے لیے ہر وہ چیز جو زمین کے اندر ہے پیدا کیا۔جمیعاً کے ساتھ اس کو تاکید کیا ۔جس چیز کو قرآن مجید نے منع کیا وہ منع جس چیز کو حدیث رسولﷺ نے منع کیا منع ہے۔ جس چیز کے منع ثابت نہیں وہ سب مباح اور جائز ہے مگر وہابیوں کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ہرگز بدعت سے بچ سکتے نہیں۔ علمائے محققین ماتریدین واشاعرہ سب کا اتفاق اس پر ہے ، ۱) اشیا خباثت، ۲) اشیا مضر،۳) دم، ۴) فروج باقی سب چیزوں کے اندر اباحت جواز ہے۔ یہ سب کتب اصول وفروع میں موجود ہیں آپ کے اور دیوبندیوں اور سہارنپور یوں کے مفتیوں کے تحریر سے ثابت ہوا۔ مباح کوئی چیز نہیں آپ اور ان مفتیوں کے فتویٰ سے شریعت کا بہت بڑا حصہ باطل اور فاسد ہونا لازم آتا ہے۔ چند مثالوں کےساتھ میں اس کو واضح کروں گا ۔ ناظرین باقی چیزوں کو انہیں پرقیاس کریں مثلاً لفظ مفتی اور مولوی کسی نام کے ساتھ ہم سنیوں کے نزدیک لکھنا جائز اور مباح ہے اور ان مفتیوں سے کوئی پوچھے ان کا لکھنا جائز ہے یا ناجائز َ؟ آپ جواب یہ دیں گے اس کا لکھنا حضور ﷺ کے زمانے سے اور صحابہ کے زمانے سے اور ائمہ اسلام کے زمانے سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ آپ اس کو بدعت بھی کہیں اور آپ اپنے نام کے ساتھ لکھتے بھی رہیں۔ ہم سنیوں کے نزدیک یہ جائز ہے ۔ اگرکوئی آدمی دن کے دس بجے قرآن شریف کی تلاوت چند آدمیوں کے ساتھ التزاماً ہمیشہ کرتے رہیں اور قرآن تلاوت کے بعد چند غربا کوکھانا کھلاتے رہیں اور ان کو چند پیسے بھی تقسیم کرتے رہیں اگر آپ سے کوئی سوال کرے یہ جائز ہے یا ناجائز؟ آپ اور مفتی مذکور بالا یہ جواب دیں گے اس کا کرنا نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔ لہٰذا بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); نبی کریمﷺ نے سنت حسنہ کے موجد کے لیے دو اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا۔ آپ کے اور مفتی مذکور کے فتویٰ سے ثابت ہوا یہ حرام ہے۔ ہم سنیوں کے نزدیک ہر ایک میوہ کھانا مباح اور جائز ہے۔ اگرآپ سے کوئی دریافت کرے اخروٹ اور آم کھانا جائز ہےیا ناجائز ؟ آپ اور مفتی مذکور یہ جواب دیں گے ۔ اس کا کھانا نبی کریمﷺ سے اور صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔لہٰذا حرام واجب الترک ہے آپ اس کو حرام بھی کہیں اور کھاتے بھی رہیں۔ ہم سنیوں کے نزدیک ہر غذا حلال کھانا جائز ہے۔ اگر آپ سے کوئی بنگلوری سوال کرے یہاں ایک غلہ جس کو غیر مسلم راگی کہتے ہیں مسلمان بھی راگی بولتے ہیں اس کا کھانا جائز ہے یا ناجائز؟ آپ اور مفتی مذکور یہ جواب دیں گے نبی کریم ﷺسے، صحابہ، ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ اس کا کھانا ثابت نہیں۔ لہٰذا حرام واجب الترک ہے آپ لوگوں نے مسلمانوں کے اوپر راستہ بہت تنگ کردیا مسلمانوں کو حرج میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میں نے تمہارے دین میں ہرج اور تنگی پیدا نہیں کیااب بتلاؤ مباح تمہارے نزدیک کیا چیز ہے۔ حضور نبی کریمﷺ سے اجتماعی دعا کرناجنازے کی نماز پڑھنے کے بعد ثابت ہے ۔ مغازی واقدی میں ہے ۔ غزوہ موتہ میں جب مسلمانوں کورومیوں کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ نبی کریمﷺ مدینہ طیبہ میں منبر شریف پررونق افروز ہوئے نبی کریم ﷺ پر مدینہ سے لے کر سارا ملک شام موتہ جنگ کے جگہ سینکڑوں میل کا فاصلہ منکشف ہوا۔ جیسے ہم کسی چیز کو سامنے دیکھ رہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے منبر سے خبر دی لیا جھنڈا ہاتھ میں زید بن حارث نے ۔ دشمن کے مقابلے میں نکلا یہاں تک کہ شہیدا ہوا پھر نبی کریمﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور دعا کا حکم دیا صحابیوں کو ان کے واسطے دعاکرو۔پھر ارشاد ہوا لیا جھنڈا ہاتھ میں جعفر بن ابی طالب نے دشمنوں کے مقابلے میں نکلا یہاں تک کہ شہیدہوگیے پھر آپﷺ نے اس پر نماز پڑھی اوردعا کی صحابہ کو حکم دیا دعا کرو۔ آپﷺ نے یہ حکم صیغۂ جمع کے ساتھ دیا ہے۔ حضورﷺ نے خود بھی دعا کی آپ ﷺ کے ہمراہ سب صحابہ نے دعا کی یہی اجتماعی دعا ہے۔اصل موجوب کے لیے آتا ہے ۔ اگر قرینہ صاف ہو سنت مستحب مباح کے لیے بھی آتا ہے ۔ افسوس ہے وہابیہ کے اوپر جو یہ کہتے ہیں اجتماعی دعا نماز جنازے کے بعد ثابت نہیں حالاں کہ یہاں پر ابھی وہ شہدا دفن نہیں ہوئے تھے ۔ شہادت ہوتے ہی حضورﷺ نے ان پر نماز پڑھی اور اجتماعی دعا کا حکم دیا کسی مفتابہ کتاب میں نہیں ہے ، جنازے کی نماز پڑھنے کے بعد میت کے لیے دعا کرنا حرام بدعت ہے۔ یہ صرف وہابیوں کی بکواس ہے۔جب نبی کریمﷺ سے قولاً و فعلاً جنازے کی نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہوچکا اب اگر کسی زید عمر کا قول اس کے مقابلے میں آجاے ہرگزقابل اعتبار نہ ہوگا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); قبر اگر بغلی ہے تو اس کو اینٹوں کے ساتھ بند کرنا اجماع صحابہ کے ساتھ ثابت ہے۔ نبی کریمﷺ کی لحد شریف کو صحابہ نے کچے اینٹوں کو دہن پر کھڑے کیے تھے اس طور سے کہ مٹی اندرنہ جاے اگربغلی ممکن نہ ہو توشق بنانا جائز ہے۔ اس کو بند کرنا کچے اینٹوں کے ساتھ یا بڑے بڑے سلوں کے ساتھ تختہ دینا ضرورتاً جائز ہے۔ اس طور پر کہ مٹی میت کے اوپر نہ گرجائے۔جہاں تبرائی وہابی میت کے اوپر ہی مٹی ڈالتے ہیں میت کے اوپر مٹی ڈالنا میت کے لیے توہین وتحقیر، تذلیل ہے، اس میں ہندوؤں کے ساتھ مشابہت ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ بھی میت کے اوپر مٹی ڈالتے ہیں۔اور اس کو اینٹوں سے یا پتھروں سے یا تختوں سے بند نہیں کرتے۔ یہ اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں۔ صحابہ کاکچے اینٹوں سے نبی کریمﷺ کی قبر شریف کابند کرنا ثابت ہے۔ یہ اجماع قطعی ہے جو چیز اجماع قطعی سے ثابت ہوجائے اس کو بدعت اور اس کو انکار کرنے سے مسلمان کافرہوجاتاہے ۔دیکھو کتب اصول کو اس کو بدعت کہنا خلاف اجماع صحابہ کا ہے۔قبر کے اوپر اونٹ کی پیٹھ کی طرح بنانا مستحب ہے، اسی طرح نبی کریمﷺ کے قبر شریف کواسی طرح جمہور صحابہ نے بنایا تھا۔ادھر کے جہاں تبرائی وہابی اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں یہ بھی اجماع قطعی کے خلاف کفر ہے۔ قبر کے اوپر پانی چھڑکناامام محمد کے نزدیک کوئی حرج نہیں یعنی جائز ہے۔ جس کو ادھر کے لوگ مہرکرنا کہتے ہیں مہرکرنا بھی جائز ہے۔بیقہی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر میت دفن کرنے کے بعد سورہ بقر کاابتدا کوسورۂ بقر کے اخیر کوقبر پر پڑھنا مستحب جانتے تھے ۔ بیہقی شریف میں ہے اور ابوداؤد شریف میں ہے کہ نبی کریمﷺ جب میت کے دفن کرنے سے فارغ ہوتے تھے قبر پرٹھہرجاتے تھے اور صحابہ کو حکم دیتے تھے اپنے بھائی کے لیے اللہ سے دعا مانگو ۔اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے اب ان کو سوال ہوتے ہیں وہابی خواہ بترائی ہو یا گلابی اس کو بدعت شنیع واجب الترک کہتے ہیں ۔ دیکھو یہ اجتماعی دعا مانگتے تھے میت کے دفن کرنے کے بعد میت کے لیے دعا کرنا حضوررسول کریمﷺ کے قول و فعل سے ثابت ہے۔ مگریہ وہابی خواہ گلابی ہو یا تبرائی بعد دفن کے دعا نہیں کرتے بلکہ اس کو بدعت شنیع کہتے ہیں ہاں کسی فعل مستحسن کواجتماع التزام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے کرنے سے فرض ہونے کااحتمال تھا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے جب رمضان شریف کے اخیر عشرہ میں جب پہلی رات مسجد میں تشریف لائے لوگ بھی آپ کے ساتھ جمع ہوگیے پھر جب دوسری رات تشریف لائے لوگ زیادہ جمع ہو گیے پھر تیسری رات میں لوگوں کا بہت بڑا مجمع جمع ہوا۔ مسجد کے اندر انتظار میں رہے اور کھنکارتے رہے مگر نبی کریمﷺ تشریف نہ لائے ۔صبح کو جب لوگ نماز کے لئے جمع ہوئے تو نبی کریمﷺ نے عذربیان فرمایا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ارشاد ہوا کہ مجھ کو معلوم ہے کہ آپ لوگ مسجد میں رات نماز کے لیے جمع ہوگیے تھے مگر میں عمداًمسجد میں حاضر نہ ہواْ ۔اس احتمال سے شاید یہ نماز یعنی تراویح تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے کیوں کہ زمانہ نبوت اور وحی کا تھا اب یہ احتمال جاتا رہا۔ اب نہ زمانہ نبوت اور وحی کاہے نہ صحابہ کا نہ تابعین کا نہ تبع تابعین کا۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا مسلمانوں کے اوپر فرض کرنا وہ فرض کر چکا اب کوئی چیز ہمارے اوپر فرض نہیں ہو سکتی ۔ اگر تمام وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی ہندی ہو یا سندھی کوہی ہو یا جنگلی کسی چیز کے اوپر التزاماً اجتماع کے ساتھ ہمیشہ کرتے رہیں وہ چیز ان کے اوپر فرض نہ ہوجائے۔ جناب مفتی صاحب ! شاید آپ کے نزدیک عدم ذکر عدم نقل کوعدم وجود لازم ہوگا۔ اس لیے آپ نے ثبوت سے استدلال کیا مگر سب دنیا کے عاقلوںکے نزدیک عدم ذکر عدم نقل کو عدم وجود ہرگز لازم نہیںاور آپ نے عدم علت سے عدم حکم پر استدلال کیا حنفیہ کے نزدیک یہ باطل ہے۔ جب حکم کے لیے متعدد علتیں ہوں قرون ثلاثہ میں کسی فعل مستحسن کاثبوت نہ ملنے پر کسی فعل مستحسن کاناجائز ہونا ہرگز لازم نہیں آتا اول تو قرون ثلاثہ کو جائز اور ناجائز کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں نہ قرون ثلاثہ کسی حکم شرعی کے علت تامہ ہے۔نہ کسی حکم شرعی کے علت ناقصہ ہے فرض اور واجب اور سنت موکدہ کے سوا نبی کریمﷺ نے جتنے افعال مستحسن اپنی عمر شریف میں کیے ہیں وہ سب کے سب بتمامہ کیا لکھے گیے۔؟ وہ سب کے سب نقل کیے گئے ہیں ؟۔آپ کے پاس اس کا ثبوت ہے۔؟ صحابہ نے جتنے افعال مستحسن کیے ہیں۔ ائمہ اسلام نے کیے۔اس کاثبوت آپ کے پاس کیاہے؟۔ جب اس کے لیے کوئی ثبوت شرعی نہیں پھر یہ کہنا اس فعل مستحسن کا ثبوت نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے ثابت نہیں محض نادانی اور بیوقوفی ہے۔ خواہ یہ امور مستحسن ۔۔۔ترقی کے لیے ہوں یا دنیوی۔ خیر قرون کے بہتر ہونے میں نوراً اعلیٰ نوراً ہونے میں کسی سنی مسلمان کو انکار نہیں اگر صحابہ سے کسی امرحادث پر اجتماع ہو یابعض صحابہ کا امرحادثہ پر ہوبعض کاسکوت رد سے ہو یا کسی امر حادث پر تابعین کا اجماعی ہو یا تابعین کاکسی قول صحابہ پر اجماع ہو یہ سب دلائل شرعی اور دلائل وجود ہی واجب العمل ہیں۔ عدم ثبوت کوئی دلیل ہی نہیں مگراس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جوکچھ اس خیر قرون میں موجود تھا جولوگوں نے اس میں کیا تھا۔ وہ سب قابل سند واجب التقلید ہے۔ورنہ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); بدعات قدریہ بدعات جبریہ بدعات معتزلہ بدعات رافضیہ بدعات خارجیہ سب خیرقرون میں موجود تھے؟ یہ سب قابل سند واجب التقلید ہے؟ حالانکہ آپ اس کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے ضرور انکار کریں گے پھر خیرالقرون کو چار اصولوں کی طرح پانچواں اصل گردانا صریحاً لغو اور بیہودہ ہےلہٰذا آپ پر واجب لازم ہے کوئی ایسی دلیل شرعی پیش کریں جس سے یہ ثابت ہوجائے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا التزاماً اجتماعاً نعوذباللہ بدعت شنیع واجب الترک ہے مگر یہ کسی شرعی دلیل سے آپ ہرگزنہ ثابت کرسکیں گے اگر آپ کے نزدیک جائز اورناجائز کادارومدار خیرقرون ہی پر یعنی جس چیز کا وجود ان قرون میں ہو وہ جائز ہے جس کا وجود ان قرون میں نہ ہو وہ ناجائز خواہ از قسم عبادات ہویا معاملات سے دینی ترقی کے لیے ہے یا دنیاوی میں آپ سے دریافت کرتا ہوںآپ آپ کے اساتذہ اور آپ کے پیرومرشد اور سب دیوبندی اورسہارنپوری اور ان کے اذناب یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ نعوذ باللہ خدا جھوٹ بول سکتا ہے خدا کا جھوٹ بولنا جائز ہے خدا کاجھوٹ بولنا ممکن ہے۔ کیا اس عقیدے والے لوگ قرون ثلاثہ میں تھے ۔کیا نبی کریم ﷺ العیاذ باللہ اس عقیدے کے قائل تھے؟۔ کیا صحابہ ائمہ اسلام اس کے قائل تھے۔ ظاہر ہے ان پیشواے دین میں سے اس عقیدۂ کفریہ کے کوئی قائل نہ تھے۔ پھر آپ اور سب دیوبندی ، سہارنپوری اس کے قائل کیوں ہوئے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے ثبوت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔دیوبندیوں نے اور سہارنپوریوں نے اس کے متعلق متعدد رسالے شائع کرائے ہیں اور تبرائی وہابی امرتسری نے چند سال پیشتر اپنے اخبار میں متعدد مرتبہ اس کی اشاعت کرائی ہے۔ افسوس اس کفریات کے عقیدے آپ اور دیوبندیوں کے نزدیک رکھنااور اس کی اشاعت اور تبلیغ کرنا جائز ہے۔ اور فاتحہ مروجہ قرآن سورہ قل پڑھنا ناجائز اور واجب الترک ہے۔ فاالیٰ اللہ المشتکیٰ۔ سنی حضرات !!جو کوئی صفات مذمومہ میں سے کوئی صفت نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرے اس نے االلہ تعالیٰ کی توہین و تحقیر تذلیل کی وہ اسلام سے خارج ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے فتویٰ طلب کرنا ہرگز جائز نہیں ان مفتیوں کے اوپر اور ان کے عقیدے کی پیروی کرنے والوں پر بہت سے کفر کے فتوے موجود ہیں۔۱) مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے علما نے ان پر کفر کے فتویٰ دیئے ہیں جس کو جی چاہے ’حسام الحرمین‘ کو دیکھ لے ۔ ان مفتیوں نے اپنے فتوؤں میں گھریلو حکم جاری کیاہے۔ یہ فتویٰ بالکل بے اصل وبے سند ہے، ہرگز قابل عمل کے نہیں۔ (پتہ مولوی محمدابراہیم صاحب کتب فروش اہلِ سنت والجماعت محلہ سودا گران بریلی)۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); امام طحاوی نے حاشیہ درالمختار میں فرمایا جنت میںجانے والی جماعت آج کے دن ان چارمذہبوں میں مجتمع ہوگئی ہیں۔ وہ حنفی مالکی شافعی حنبلی ہیں جوکوئی ان چارمذہبوں سے اس وقت خارج ہے وہ بدعتی جہنمی ہے ۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے بدعتی کی نہ نماز قبول ہے نہ روزہ وغیرہ۔ حدیث دارقطنی میںآیا ہے بدعتی دوزخ کے کتے ہیں کیا دوزخی کتے کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ہرگز نہیں۔ لہٰذا ان سنیوں کو لازم ہے کہ وہابی کوامام ہرگز نہ بنائیں خواہ وہابی عقلی ہو یا اعتقادی، اعتقادی وہابی عملی وہابی سے بدتر ہیں۔ بدعتی فاسق کے پیچھے نماز مکرو تحریمی ہے فاسق اعتقادی بدترہیں ، فاسق عملی سے جتنی نمازیں اس وہابی کے پیچھے پڑھی گئی ہوں ان سب کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے اور اگر اس امام وہابی نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے سے انکار کیا العیاذ باللہ یا اس کو ناجائزکہا توجماعت کثیرہ کے سامنے توبہ اور اس کو دوبارہ کلمہ پڑھنا اس کو اگرنکاح ہو دوبارہ پڑھنا فرض ہے انکار کے بعد جتنے نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئی ہوں۔ ان کا دوبارہ پڑھنا فرض ہے کیوں کہ اس نے ایسی نفل اور مبا ح کوانکار کیا۔ جس کا ثبوت دلیل قطعی سے ہو، انکار کرے وہ کافر ہوجاتا ہے ۔ پہلی صورت میں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی تھی۔ انکار کی صورت میں ان نمازوں کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔امام تمرتاشی ذبح کے بارے میں کس کاذبح جائز اور کس کا ذبح ناجائز ۔ تنویر الابصار میں فرماتے ہیں۔ ولا جبری ابوہ سنی ، نہیں ذبح جائز جبری مذہب والے کا جس کا باپ سنی ہو۔ یعنی باپ ان چارمذہبوں میں سےکسی کا متبع اور مقلد تھا بیٹا یہ مذہب چھوڑ کر جبری ہوا۔اس کا ذبح جائز نہیں یہی حکم وہابیہ کا ہے جس کا باپ ان چار مذہبوں میں سے کسی مذہب کامتبع اور مقلد تھا ، بیٹا وہابی ہوا ۔ اس کا ذبح بھی جائز نہیں بلکہ ہربدعتی فرقے کا یہی حکم ہے۔ جن کا باپ ان چار مذہبوں میں سے کسی مذہب کا متبع اور مقلد تھا ۔ بیٹا یہ مذہب چھوڑااسی بدعتی فرقے میں مل گیا کیوں کہ اس وقت ان کی بدعت کفر تک پہنچ گئی۔ یہ اپنی زبان سے کافر بنتے رہتے ہیں مگر ہم ان کو کافر نہیں کہتے خصوصاً فرقہ تبرائی وہابیہ کا ان کا عقیدہ ہے کہ تقلید ائمہ اربعہ کی کفر اور شرک ہے۔ تقلید کرنے والا کافر اور مشرک ہے العیاذ باللہ تمام مسلمان اس طائفہ کے نزدیک کافراور مشرک ہے ۔کیوں کہ تمام دنیا کے مسلمان ائمہ اربعہ کے مقلد ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہی مقلدین ائمہ اربعہ مومن کامل اور مسلمان کامل ہیں ۔ان کو کافر کہنے والاخود کافرہوجاتاہے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اگرکوئی مسلمان کسی مسلمان کو کافر کہے اگر کفر اس میں ہے توخیر ، اگر اس میں کفر نہیں ہے تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے یعنی کہنے والا کافر ہوجاتا ہے نبی کریمﷺ نے کفر اس تبرائی وہابیہ کی طرف لوٹا دیا ۔جو تقلید کو کفر شرک کہتا ہے اور اس کو نبی کریم ﷺ نےکافرفرمایا۔ امام محمد بن علاؤالدین حصکفی نے تنویرالابصار کے شرح درالمختار میں جبری کا ذبح ناجائز ہونے کی یوں وجہ بیان فرمائی۔ یہ جبری سنت جماعت چارمذہبوں کے چھوڑنے سے جبری مذہب اختیار کرنے سے مرتد کی طرح ہوا۔ مرتد کا ذبح جائز نہیں گواہلِ کتاب یہودکا ذبح جائز ہے، کیوں کہ وہ مرتد نہیں یہ حکم وہابیہ کابھی ہے۔ جس کاباپ ان چارمذہبوں میں سے کسی مذہب کامقلد تھا سنت جماعت (چارمذہب) چھوڑنے سے مرتد کی طرح ہوا۔ مرتد کا ذبح جائز نہیں۔ہاں اگر اس وہابی کا بیٹا ذبح کرے بشرطیکہ وہ تقلید ائمہ اربعہ کو کفر و شرک نہ کہتا ہو اور کسی ضروریات دین کاانکار نہ کرتا ہو وہ جائز ہے کیوں کہ وہ مرتد نہیں ہے ۔اپنے باپ کے مذہب پرہے۔ اہلِ کتاب کی طرح وہابی کے بیٹے کا بھی ذبح جائز ہے بشرطیکہ تقلید ائمہ اربعہ کو کفروشرک نہ کہتاہو اور مقلدین کو کافرمشرک نہ کہتا ہو اور کسی ضروریات دین کا انکار نہ کرتا ہو اگر اس کایہ عقیدہ ہے کہ تقلید کرنا ئمہ اربعہ کی کفر وشرک ہے اور تقلید کرنے والے العیاذ باللہ کافرمشرک ہے تو اس کا ذبح جائز نہیں مذکور بالاحدیث میں اس کو کافر قرار دیا ہے ۔ کافر کا ذبح جائز نہیں مذکورہ بالا جو کچھ لکھا گیا پڑھو سمجھو اور یاد رکھو تمہارے لیے بہتر ہوگا ورنہ یہ سب اندھے اور بہرے کے سامنے رونا اور بھینس کے سامنے بین بجانا ہے ۔ جب اس مضمون میں جنازے کی نماز کے متعلق کچھ باتیں ہوئیں لہٰذا میں تبرائی وہابی حضرات سے مندرجہ ذیل سوالوں کے جواب کی فوراًطلب کررہا ہوں۔ ان سوالوں کے جوابوں کی اشد ضرورت ہے۔نماز جنازہ میں آپ لوگ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھوں کو باندھتے ہو اگرباندھتے ہوتو کہاں پر نبی کریم ﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو اگر ہاتھوں کو چھوڑتے ہوتو یہ نبی کریم کے قول وفعل سے ثابت کرو دوسرے تکبیر میں رفع الیدین کرتے ہو یا نہ کرتے ہوتو نبی کریمﷺ کے قول و فعل سے ثابت کرو ۔ اگر نہیں کرتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے نہ کرنا ثابت کرو اس پر قیاس کرکے تیسرے اور چوتھے تکبیر میں یہ سب جو کچھ کرتے ہو نبی کریم ﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو۔ نماز عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھوں کو باندھتے ہو یا (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); چھوڑتے ہو اگر باندھتے ہوتو کہاں پر باندھتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو تکبیرات زوائد میں جب رفع الیدین کرتے ہو پھر ہاتھوں کو باندھتے ہویاچھوڑتے ہو اگر باندھتے ہوتو کہاں پر باندھتے ہو نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو اگر چھوڑتے ہوتو بھی نبی کریمﷺ کے قول وفعل سے ثابت کرو، مذکورہ بالا دونوں نمازوں میں تم یہ سب ضرور کرتے ہو۔ اگر نبی کریم ﷺ کاقول وفعل پیش نہیں کیا۔ توتمہارے نزدیک یہ سب ناجائز حرام بدعت شنیع واجب الترک ہےان چیزوں کو کرنے والا بدعتی ہے بدعتی کی نم نماز مقبول ہے نہ روزہ نہ حج نہ فرض نہ نفل۔ لہٰذا گزارش ہے نبی کریمﷺ کا قول یافعل ضرور پیش کرکے اپنے تبرائی حضرات کوممنون ومشکور فرمائے گا۔ گلابی اورر تبرائی حضرات دونوں مل کر جواب فوراً دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا اور نبی کریمﷺ نے قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ سورۂ فاتحہ سورۂ قل عین قرآن ہے۔ کوئی مسلمان اس کا انکارنہیں کرسکتا۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل پڑھنا تمہارے نزدیک رسم ورواج ٹھہرا۔ تمہارے نزدیک عبادت کیا چیز ہے؟۔رسم کی تعریف جامع اور مانع کیجیے اور عبادت کی تعریف جامع اور مانع کیجیے۔ گلابی گلابیوں پر اور تبرائی تبرائیوں پراحسان کر کے ان کو شکریہ ادا کرنے کا موقع دیجیے۔ تنبیہ :۔ دلائل شرعی کے ساتھ فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل کو العیاذ باللہ ناجائز ثابت کرنے پر ہرگز قادر نہ ہوگا۔ خواہ گلابی ہو یا تبرائی ، غدودی ہو یا مردودی، بہائی ہو یا مودودی ، نیچری ہو چکڑالوی،خاکساری ہو بروزی۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); ان کی زبانی بکواس کوگوزِ شتر سمجھ کر ردی کے ٹوکرے میںدفن کر دو ۔ وہابیہ کہتے ہیں اس وقت کے مفتیوں کو مفتیٔ مجازی اور ناقل کہنا ان کی توہین ، تحقیروتذلیل ہے۔ اس جہالت کا کیا علاج ان بے بصروں کو معلوم نہیں کہ مفتی حقیقی کس کو کہتے ہیں اور مفتیِ مجازی کس کو کہتے ہیں۔ نہ یہ لوگ ان لفظوں کوکبھی سنا ہے ۔ان بےخبروں کو لازم تھا کہ کسی جاننے والے سے اس کی تحقیق کریں پھر اپنی جہالت کو جاہلوں میں ظاہر کریں ان کی جہالت ان پر ماتم کرتی ہے اور اس پر ہنسی اور مذاق اڑاتی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیںجوکسی چیز کو سمجھنے جاننے کے بغیر اس کے خرافات بکتے ہیں۔ صدہا سال گزر گیے مفتی حقیقی دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے شرط ہے ۔ شرط نہ ہونے سے مشروط بھی نہیں ہوتا۔ اس وقت مفتیوں کو مجازی ناقل کہنا اظہارِ حق ہے۔ گالی اور توہین تحقیر نہیں ہے مگر یہ نادان حق کو ناحق ، حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھ گیے ،ایسے لوگ خرد کو جنون، جنون کو خرد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ انہوں نے ناقل کو ناقابل سمجھے اگر کسی نااہل کاتب صاحب نے ایسا لکھ بھی دیا ہو سمجھ دار آدمی یہی کہے گا یہ کاتب صاحب کی غلطی ہے کیو ں کہ لفطا مجازاور لفط مفتی اور طلب کتاب قرینہ موجود ہے۔ ناقابل کو مفتی کون کہے گااورناقابل سے طلب کتاب کون کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا یہ لوگ بے مغزپوست ہیں ۔ بلکہ پوست برپوست ہم چوں ۔۔۔ہیں گلابی کہتے ہیں کہ ہم وہابی نہیں۔ کیا وہابی کو سینگ ہوتے ہیں یا دم ۔ جس سے پہچانا جائے۔ سینگ اور دم کسی میں نہیں یہ صرف اعتقاد سے معلوم ہوتے ہیں ۔ سنیوں کے خلاف تبرائی اور گلابی ہردو نے بہت سارے رسالے لکھے ہیں۔ ان کو دیکھ کر آپ کو یقین آ جائے گا۔ دور مت جایئے مولوی کفایت اللہ کے رسالوں کو دیکھ لیجئے گا۔ آپ کو معلوم ہو جائے کہ کہیں تیتر بنے کہیں بیٹر گلابی۔ وہابی مقلدیت اور حنفیت کے پردے میں وہابیت کی اشاعت کرتے ہیں ۔ یہ گندم نما جوفروش ہیں۔ عوام ان کی چال چلن پر جلدی واقف نہیں ہوتے۔ گلابی قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں ۔ آپ نے یہ بڑاغضب کیا ۔ آپ کو یہ معلوم نہیں ہے۔ ہرایک باطل فرقے نے اپنے زعم باطل سے قرآن (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); حدیث سے استدلال کرنے کی کوشش کی مثلا مرزا قادیانی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اپنے زعم باطل سے قرآن وحدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاہلوں کی ایک جماعت اس کے تابع ہوگئی۔ تبرائی وہابیوں نے تقلید ائمہ اربعہ کو کفر وشرک کہا ہے ۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل سے قرآن حدیث سےا س دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہوگئی۔ تبرائی اور گلابی دونوں نے فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے کواورجنازے کے بعد کی دعا کرنے کو ناجائز ، حرام، بدعت شنیع کہا۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل سے قرآن حدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہو گئی گلابی اور تبرائی دونوں نے فاتحہ مروجہ، سورۂ فاتحہ، سورۂ قل پڑھنے کو اور جنازے کے بعد کی دعا کرنے کو ناجائز حرام بدعت شنیع کہا ۔ انہوں نے بھی اپنے زعم باطل کوقرآن حدیث سے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جاہلوں کی ایک جماعت ان کے تابع ہوگی۔ سنی علما نے الحمداللہ ان کے دعوؤں کو ان کے دلیلوں کے پرخچے اڑادیئے ہیں۔ ہبا منثوراً کردیا سنی علما نے۔ بکثرت ان کی تردید میں رسالے لکھے ہیں۔ ہر سنی مسلمان کو لازم ہے کہ ان رسالوں کو منگائےاورپڑھے اورسمجھے اپنے ایمان کو مضبوط بنائے۔ وہابیہ اپنے اصول کے اعتبار سے جس میں کسی قسم سے تخصیص نہیں۔ہمیشہ بدعت ہی کے اندر رہیں گے اپنے آپ کو بدعتی ہی کہلائیں گے۔ خواہ دنیاکے ترقی کے گدھے کے اوپر سوار ہو یادنیا کے ذلت کے کیچڑ میں مبتلا ہو۔اس سے ان کو ہرگز نجات نہ ہوگی ۔ بعض ۔۔۔جہلا جو استنجا کرنے سے واقف نہیں مروجہ قرآن سوۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنے سے انکار کرتے ہیں العیاذ باللہ ان کے پڑھنے کوناجائز کہتے ہیں ۔ یہ سب کفر ہے ۔ اللہ اور رسولﷺ کے حکم کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ نے فاتحہ بہتر فرمایا۔کیوں کہ فاتحہ مروجہ قرآن ہی تو ہے ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ ان بے علم جہلا کو اس کفر سے بچانے کی غرض سے اور حصولِ ثواب کے لیے عبدالرحیم صاحب تاجر ابریشم مقیم ماب ہلی نے اس رسالہ کو طبع کراکر شائع کیا۔ امید ہے یہ بے علم جاہل اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اپنے عقیدہ فاسد کفریہ سے تائب ہو کر یہ کہ سنی مسلمان بن جائیں گے جب مذکورہ بالامفتیوں کے پاس فاتحہ کے ناجائز ہونے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ۔ انہوں نے خانہ سازی فتویٰ جاری کرکے جاہلوں کو گمراہ کیاجاہلوں اور بے علموں کے پاس کیا ثبوت ہوگا۔ اگر یہ ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہیں یہ بھی تبرائی وہابیوں کی طرح مسلمانوں کے درمیان تفریق اور فساد ڈالنے کے سبب مسلمانوں کے نزدیک ہمیشہ ذلیل وخوار رہیں گے۔ہمارے اوپرلازم تھا یہ احکام ان کے پاس پہنچانا وہ ہم پہنچادیئے۔آئندہ ان کو اختیار ہے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); مالک مطبع اور کاتب صاحب کی غفلت سے اس میں بہت سی عبارتیں چھوٹ گئی بعض جگہ میں غلط عبارت لکھی گئی بلکہ بعض جگہوں میں مستقل مضمون چھوٹ گیا۔ لہٰذا ہم نے اخیر صفحہ پر لکھ دیا ۔قارئین اس کو بھی پڑھیں ہم سنیوں کے نزدیک دعا کرنا ہر وقت مباح اور جائز ہے نمازوں کے بعد دعا کرنا سنت اور مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کرنے کے لیے حکم دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے دعا کرنے کے لیے حکم دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں، نبی کریمﷺ نے دعا کو اصلی عبادت قرار دیاہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے جوکوئی عبادت اور نماز کے بعد دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتا ہے ۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ حی و کریم ہے۔ شرم رکھتا ہے اس بندہ سے جو اس کی طرف ہاتھ اٹھاکر آجائے تواس کے ہاتھوں کو خالی کرے ۔آداب دعا یہ ہے دعا کے اندر ہاتھ اٹھانا جتنی ضرورت زیادہ رہی اتنے زیادہ دراز کرنا یہاں تک کہ اگر بیچ میں پردہ نہ ہوتو بغلوں کی سفیدی نظرآ جائے۔ورنہ ہاتھوں کو اونچا کرنا اور سینہ کے مقابلے میں رکھنا ۔ہم سنیوں کے نزدیک دعا کرنا اجتماعاً اور انفراداً دونوں طریقے سے جائز ہے ۔ جماعت کے ساتھ دعا کرنا بہتر ہے سبب یہ کہ بعض لوگ جو نیک اور صالح ہوتے ہیں ان کی دعا مقبول ہوتی ہے۔ ان کے وسیلے سے دوسروں کی دعا بھی قبول ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے لیے اعلان فرمائے اس وقت حضورﷺ نے اپنے اہل وعیال کو ساتھ نکالے ۔حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضوان اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ نے ۔ان کو فرمایامیں دعا کروں تو تم سب آمین ، آمین کہنا۔ امام جب قوم کے ساتھ دعا مانگے امام کو لازم ہے۔ ضمیر ماضی جمع متکلم کی صیغے کا استعمال کرے اورقوم کو لازم ہےکہ آمین آمین کرتے رہیں ۔ دعا کے وقت میں اپنے مظالم، مصیبت کو ذکر نہ کریں اللہ تعالیٰ سے اپنے دینی دنیوی ترقی و بہتری کے لیے درخواست کریں۔ یہ کتب سنیہ میں موجود ہے، زیادہ لکھنے کی یہاں حاجت نہیں ، وہابیہ کے نزدیک فاتحہ مروجہ قرآن سورۂ فاتحہ سورۂ قل پڑھنا ناجائز ہے۔ (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); نبی کریمﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام اور اجتماع کے ساتھ اس کا پڑھنا ثابت نہیں، وہابیہ کے نزدیک امام کا دعا مانگنا مقتدیوں کا آمین کہنا نبی کریم ﷺ سے صحابہ سے ائمہ اسلام سے التزام کے ساتھ ثابت نہیں۔ سوال: کیا نبی کریمﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تھے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ دعا مانگتے تھے۔ مقتدی آمین آمین کہتے تھے، اس کو ثابت کرو ور نہ تمہارے نزدیک امام کا دعا مانگنا اور مقتدیوں کا آمین آمین کرنا ناجائز حرام بدعت شنیع واجب الترک ہے۔ ہرہر جگہ وہابی خواہ تبرائی ہو یا گلابی امام کے ساتھ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں۔ خصوصاً نماز عصر اور صبح کے بعد امام دعا مانگتے ہیں یہ لوگ آمین آمین کرتے ہیں۔ اپنے اصول کے اعتبار سے اس کو حرام بدعت شنیع بھی کہتے ہیں۔ اور یہ وہابی اس کوالتزم اجتماع کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ گلابی اور تبرائی یہ سب مل کر اپنے عقل پر ماتم کریں جس کو یہ حرام کہتے ہیں اسی کو یہ کرتے بھی ہیں۔ مندرجہ بالا مضمون رسالہ کی صورت میں ۱۳۶۳؁ھ میں شائع ہوا تھا اور جناب کفایت اللہ صاحب کی خدمت میں پہنچا مگر ان سے جواب نہ بن سکا۔
آخرکار حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے زمانے کے خلفاء کے درمیان ہونے والی جنگ میں ظاہری اور باطنی طور پر فتح سے ہمکنار ہونے والے امام علی نقی علیہ السلام تھے؛ یہ بات ہماری تمام تقاریر اور بیانات میں ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے دور امامت میں یکے بعد دیگرے چھ خلفاء آئے اور واصل جہنم ہوئے۔ ان میں آخری معتز تھا، جیسا کہ امام نے فرمایا، معتز نے امام علیہ السلام کو شہید کیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد خود بھی مر گيا۔ یہ خلفاء غالبا بڑی ذلت کی موت مرے؛ ایک اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گيا، دوسرے کو اس کے بھتیجے نے قتل کر دیا اور اسی طرح عباسی خلفاء تتر بترہوگئے؛ لیکن اس کے برعکس اہل بیت پیغمبر کے محبین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ حضرت امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے زمانے میں، انتہائی سخت حالات کے باوجود اہل بیت پیغمبر رسول (ص) کے محبین کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا رہا اور وہ مضبوط ہوتے گئے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے بیالیس سال کی مبارک عمر پائی جس میں سے بیس سال سامراء میں بسر ہوئے جہاں آپ کی کھیتی باڑی تھی اور اس شہر میں وہ کام کرتے اور زندگی گزارتے تھے۔ سامراء در اصل ایک فوجی چھاؤنی کی مانند تھا جس کی تعمیر معتصم نے کروائی تھی تاکہ ترکستان، سمرقند اور منگولیا نیز مشرقی ایشیا سے اپنے لائے جانے والے قریبی ترک غلاموں کو، اس میں رکھا جاسکے البتہ یہ ترک آذربائیجان اور دیگر علاقوں میں رہنے والے ہمارے ترکوں سے مختلف تھے۔ یہ لوگ چونکہ نومسلم تھے اس لیے ائمہ علیھم السلام اور مومنین کو نہیں پہچانتے تھے بلکہ اسلام کو بھی بخوبی نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگوں کے لئے پریشانیاں کھڑی کرتے تھے اور عربوں یعنی بغداد کے لوگوں سے ان کے بہت اختلافات ہوگئے تھے۔ اسی سامراء شہر میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ علماء جمع ہو گئے اور امام علیہ السلام نے ان کے ذریعے امامت کا پیغام پورے عالم اسلام میں خطوط وغیرہ کی شکل میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ قم، خراسان، رے، مدینہ، یمن اور دیگر دور دراز کے علاقوں اور پوری دنیا میں ان ہی افراد نے شیعہ مکتب فکر کو پھیلایا اور اس مکتب پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہؤا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے یہ تمام کام ان چھ خلفاء کی خونچکاں شمشیروں کے سائے تلے اور ان کی مرضی کے برعکس انجام دیئے۔ آپ علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں ایک معروف حدیث ہے جس کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ اس طرح سے اکٹھا ہو گئے تھے کہ دربار خلافت انہیں پہچان نہیں پاتا تھا، کیونکہ اگر وہ انہیں پہچان جاتا تو ان سب کو تہ تیغ کر دیتا لیکن چونکہ ان افراد نے اپنا ایک مضبوط چینل بنا لیا تھا اس لیے خلافت بھی ان لوگوں کی شناخت نہیں کر سکتی تھی۔ ان عظیم شخصیات یعنی ائمہ علیھم السلام کی ایک دن کی سعی و کوشش، برسوں کا اثر رکھتی تھی؛ ان کی مبارک زندگی کا ایک دن، معاشرے پر برسوں تک کام کرنے والے ایک گروہ کی کارکردگی سے زیادہ اثر انداز ہوتا تھا۔ ائمہ نے اس طرح دین کی حفاظت کی ہے ورنہ جس دین کے علمبردار متوکل، معتز، معتصم اور مامون جیسے افراد ہوں اور جس کے علماء یحیٰی بن اکثم جیسے افراد ہوں جو دربار خلافت کے عالم ہونے کے باوجود انتہائی درجے کے فاسق و فاجر تھے، ایسے دین کو تو بالکل بچنا ہی نہیں چاہئے تھا اور ان ہی ابتدائی ایام میں اس کی بیخ کنی ہو جانی چاہئے تھی ۔ ائمہ علیھم السلام کی اس جدوجہد اور سعی و کوشش نے نہ صرف تشیع بلکہ قرآن مجید، اسلام اور دینی تعلیمات کا تحفظ کیا؛ یہ ہے خدا کے خالص و مخلص بندوں اور اولیائے خدا کی خصوصیت۔ اگر اسلام میں ایسے کمربستہ افراد نہ ہوتے تو بارہ سو، تیرہ سو برسوں کے بعد اسے حیات نو نہ ملتی اور وہ اسلامی بیداری پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوتا؛ بلکہ اسے دھیرے دھیرے ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر اسلام کے پاس ایسے افراد نہ ہوتے جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ان عظیم اسلامی تعلیمات کو انسانی اور اسلامی تاریخ میں موجزن کر دیا تو اسلام ختم ہو جاتا اور اس کی کوئی بھی چیز باقی نہ رہتی؛ اور اگر کچھ بچ بھی جاتا تو اس کی تعلیمات میں سے کچھ بھی نہیں بچنا چاہئے تھا؛ یہودیت اور عیسائیت کی طرح، جن کی اصل تعلیمات میں سے تقریبا کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے ۔ یہ کہ قرآن مجید صحیح و سالم باقی رہ جائے، حدیث نبوی باقی رہ جائے، اتنے سارے احکام اور تعلیمات باقی رہ جائیں اور اسلامی تعلیمات ایک ہزار سال بعد، انسان کی وضع کردہ تعلیمات سے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو ظاہر کریں، تو یہ غیر معمولی بات ہے جو مجاہدت کی بدولت انجام پائی۔ البتہ اس عظیم کام کی راہ میں زد و کوب کئے جانے، اسیر ہوجانے اور قتل کئے جانے جیسی باتیں بھی ہیں تاہم ائمہ علیھم السلام انہیں کبھی خاطر میں نہیں لائے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے بچپن کے بارے میں ایک حدیث ہے، پتہ نہیں آپ حضرات نے سنی ہے یا نہیں کہ: جب معتصم باللہ نے سنہ 218 ہجری قمری میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو ان کی شہادت سے دو سال قبل مدینہ سے بغداد بلوایا تو اس وقت حضرت امام علی نقی علیہ السلام - جن کی عمر چھ سال تھی - اپنے اہل خانہ کے ساتھ مدینے میں رک گئے۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو بغداد لایا گیا تو معتصم نے ان کے اہل خانہ کے بارے میں تفتیش کی اور جب اسے یہ پتہ چلا آپ کے بڑے فرزند علی بن محمد کی عمر چھ سال ہے تو اس نے کہا کہ یہ خطرناک ہے؛ ہمیں اس کی کوئی چارہ جو‏ئی کرنی چاہئے۔ معتصم نے اپنے ایک قریبی شخص کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ بغداد سے مدینہ جائے اور وہاں اہل بیت کے کسی دشمن کو تلاش کرکے اس بچے کو اس کے حوالے کردے تاکہ وہ شخص استاد کے طور پر اس بچے کو تعلیم دے اور اسے خاندان رسالت کا دشمن اور دربار خلافت کا دوست بنائے۔ وہ شخص بغداد سے مدینہ آيا اور الجنیدی نامی ایک عالم کو، جو اہل بیت علیھم السلام کے سب سے بڑے مخالفین اور دشمنوں میں سے تھا اور اس قسم کے علماء اس وقت مدینے میں موجود تھے، اپنے اس کام کے لیے مامور کیا اور اس سے کہا کہ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ تمہیں اس بچے کا استاد مقرر کروں تاکہ تم کسی کو اس سے ملنے جلنے نہ دو اور اس کی ویسی پرورش کرو جیسی ہم چاہتے ہیں۔ اس شخص کا نام یعنی الجنیدی تاریخ میں درج ہے۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی عمر چھ سال تھی اور معاملہ حکومت کا تھا، کون اس کے سامنے کھڑا ہو سکتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد دربار خلافت سے وابستہ ایک شخص نے الجنیدی سے ملاقات کی اور اس سے اس بچے کے بارے میں پوچھا جسے اس کے حوالے کیا گيا تھا۔ الجنیدی نے کہا: بچہ؟! یہ بچہ ہے؟! میں ادبیات کی کوئي بات اسے بتانا چاہتا ہوں تو وہ ادب کے ایسے ایسے گوشے میرے سامنے کھول دیتا ہے کہ جن کا مجھے بھی علم نہیں ہوتا! ان لوگوں نے کہاں تعلیم حاصل کی ہے؟! کبھی کبھی جب وہ حجرے میں داخل ہونا چاہتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں کہ پہلے قرآن مجید کے ایک سورے کی تلاوت کرو اور پھر حجرے میں داخل ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ الجنیدی حضرت کو پریشان کرنا چاہتا تھا، تو وہ پوچھتا ہے کہ کون سا سورہ پڑھوں؟ میں اس سے کہتا ہوں کہ کوئي بڑا سورہ؛ جیسے سورہ آل عمران پڑھو۔ وہ بچہ پوری سورت پڑھتا ہے اور اس کے مشکل الفاظ کے معنی بھی مجھے بتاتا ہے۔ یہ لوگ عالم ہیں، حافظ قرآن ہیں، قرآن مجید کی تاویل اور تفسیر کے عالم ہیں اور تم کہہ رہے ہو بچہ؟! اس بچے کا - جو بظاہر بچہ ہے لیکن ولی اللہ ہے؛ ((وآتیناه الحکم صبیا)) - استاد سے رابطہ کچھ عرصے تک جاری رہا اور استاد، اہلبیت علیھم السلام کا سچا شیعہ بن گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی و فضل ہے کہ سال میں ایک مرتبہ آپ حضرات سے ملاقات ہو جاتی ہے اور یوں دین کی کچھ باتیں کہنے اور سننے کا موقع مل جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ میری اِس حاضری قبول فرمائیں اور دین کے حوالے سے جو بھی گفتگو ہو، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائیں۔ میرا چند سالوں سے معمول ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے کسی ایک پہلو پر گفتگو ہوتی ہے۔ ایک سال بخاری شریف کی ’’ثلاثیات‘‘ پر بات ہوئی، ایک سال مسلم شریف کے ’’باب الفتن‘‘ کے بارے میں گفتگو ہوئی، اور ایک سال ابن ماجہ کی’’ کتاب السنن‘‘ پر خطاب کا موقع ملا۔ اس سال بھی احادیث مبارکہ ہی کے ایک پہلو ’’احادیث قُدسیہ‘‘ کا انتخاب کیا ہے جو کہ احادیث کریمہ میں ایک مستقل شعبہ ہے۔ حدیث و سنت کسے کہتے ہیں؟ اہل علم کے ہاں حدیث اور سنت میں تھوڑا سا تکنیکی فرق ہے لیکن عام لوگوں کے ہاں یہ دونوں لفظ ایک ہی معنٰی میں سمجھے جاتے ہیں۔ محدثین کی اصطلاح میں ایک قولی حدیث ہے، ایک فعلی حدیث ہے اور ایک تقریری حدیث ہے۔ ’’قولی حدیث‘‘ یہ ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے کوئی بات ارشاد فرمائی اور کسی صحابیؓ نے وہ بات سن کر آگے روایت کر دی کہ میں نے حضورؐ سے یہ بات یوں سنی ہے۔ ’’فعلی حدیث‘‘ کا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تو کچھ نہیں لیکن کسی صحابیؓ نے جناب نبی کریمؐ کو کوئی کام کرتے دیکھا اور آگے روایت کر دیا کہ میں نے حضورؐ کو فلاں کام یوں کرتے دیکھا۔ ’’تقریری حدیث‘‘ یہ ہے کہ حضورؐ نے خود نہ کچھ فرمایا اور نہ کوئی عمل کیا، لیکن کسی صحابیؓ نے کوئی بات کہی یا کوئی عمل کیا جو رسول اللہؐ کے علم میں آیا، اس پر حضورؐ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ خاموشی کا معنٰی یہ ہے کہ حضورؐ نے منع نہ فرما کر صحابیؓ کے اس قول یا عمل کی تصدیق کر دی۔ ایک اور بات بھی محدثین کے ہاں حدیث میں شمار کی جاتی ہے کہ کسی صحابیؓ نے حضورؐ کا حوالہ دیے بغیر کوئی ایسی بات کہی جو عقل، قیاس اور رائے سے معلوم نہیں کی جا سکتی۔ تو ایسی بات بھی حدیث میں شمار کی جاتی ہے کہ اس صحابیؓ نے لازماً یہ بات حضورؐ سے ہی سنی ہے۔ مثلاً کوئی صحابی قیامت کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے کہ قیامت کے روز ایسا ہوگا۔ اب قیامت کے بارے میں کوئی بات آدمی اپنی عقل یا رائے سے تو نہیں بتا سکتا۔ اور یہ بات بھی طے ہے کہ حضورؐ کا صحابی عمداً کوئی غلط بات نہیں کہتا۔ لہٰذا یہاں یہ کہا جائے گا کہ صحابیؓ نے ضرور یہ بات حضورؐ سے سنی ہوگی۔ یا مثال کے طور پر کوئی صحابی انسانی تخلیق سے پہلے کی کوئی بات بیان کرتا ہے کہ فلاں کام یوں ہوا تھا۔ اب یہ بات بھی عقل، قیاس یا رائے سے معلوم نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ ظاہر بات ہے کہ صحابیؓ نے یہ بات حضورؐ سے سنی ہوگی۔ اسی طرح قبر، جنت اور دوزخ وغیرہ کے متعلق باتیں جن کا علم حضورؐ کے بتائے بغیر معلوم نہ ہو سکے، ایسی تمام باتیں حدیث ہی شمار ہوں گی۔ حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟ احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔ احادیث قدسیہ سینکڑوں ہیں اور ہر درجہ کی ہیں۔ یہ مجموعہ جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے یہ چالیس احادیث قدسیہ کا منتخب مجموعہ ہے۔ مصر کے ایک عالم الشیخ علی الدین محمد ابراہیم نے اس مجموعہ کا انتخاب اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ ان تمام احادیث کی سندیں صحیح ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بخاری و مسلم کی ہیں، چند ایک دوسری احادیث کی کتب سے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ایسی احادیث لیں جن کی روایت کے صحیح ہونے میں انہوں نے پوری تسلی کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے غضب پر رحمت غالب رہے گی عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صل اللّٰہ علیہ وسلم لما قضی اللّٰہ الخلق کتب فی کتابہ علیٰ نفسہ فھو موضوع عندہ ان رحمتی تغلب غضبی او کما صلی اللّٰہ علیہ وسلم او کما قال اللّٰہ عز و جل۔ (رواہ مسلم) ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا جو اس کے پاس موجود ہے کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ یہ حدیث صحاح ستہ کی چار کتابوں میں روایت ہوئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کردہ اس حدیث میں حضورؐ مخلوقات کے آغاز کی بات فرما رہے ہیں کہ اللہ رب العزت نے جب کائنات اور اس کی مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے پہلے ایک اور فیصلہ کر کے لکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں صفات ہیں جن میں اثباتی بھی ہیں اور سلبی بھی۔ اثباتی یہ کہ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے ہیں اور رزق دینے والے ہیں۔ سلبی یہ کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ جھوٹ نہیں بولتے اور اللہ تعالیٰ کوئی برا کام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ’اللہ‘ ہے جبکہ باقی جتنے نام بھی ہم پڑھتے ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے معروف ۹۹ نام ہم پڑھتے ہیں جو کہ احادیث میں بھی ہیں، ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بہت سے صفاتی نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے دو بڑے نام ہیں القہار اور الرحیم۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْد اسی طرح اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرُ الرَّحِیْم۔ اللہ کی صفات میں قہر بھی ہے اور جبر بھی، رحم بھی ہے اور مغفرت بھی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو ان کی پکڑ بھی بہت سخت ہے لیکن اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم بھی ہیں۔ اسی لیے ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا الایمان بین الرجاء والخوف کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان کی کیفیت کا نام ہے۔ انسان ایک ہی پہلو پر اعتقاد رکھ لے کہ اللہ تعالیٰ بہت قہار اور جبار ہے، اللہ تعالیٰ تو سزا دے کر ہی رہیں گے۔ یا پھر انسان بالکل یہی بات دل میں بٹھا لے کہ اللہ تعالیٰ کسی بات پر پکڑے گا ہی نہیں، جو مرضی کرتے رہیں اللہ تو غفور و رحیم اور مہربان و رحمان ہے۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ بلکہ ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی امید بھی رکھنی چاہیے۔ نبی کریمؐ کی اس حدیث مبارکہ کی رو سے آدمی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے رحم کی امید بھی۔ چنانچہ اس حدیث قدسی میں یہ فرمایا کہ لما قضی اللّٰہ الخلق اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا تو اس سے پہلے کتب فی نفسہ علیٰ نفسہ وھو موضوع عندہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ایک فیصلہ کیا اور اسے لکھ لیا۔ وہ فیصلہ یہ تھا ان رحمتی تغلب غصبی کہ میرے غصے پر میری رحمت ہمیشہ غالب رہے گی۔ یعنی جب بھی غصے اور رحمت کا مقابلہ ہوگا، رحمت کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا اور گالی دینا عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال قال اللّٰہ تعالیٰ کذبنی ابن ادم ولم یکن لہ ذلک وشتمنی ولم یکن لہ ذلک أما تکذیبہ ایای فقولہ لن یعیدنی کما بدأنی ولیس اول الخلق بأھوی علی من اعادتہ واما شتمہ ایای فقولہ اتخذ اللّٰہ ولداً وانا الاحد الصمد لم الد ولم اولد ولم یکن لی کفواً احد او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (رواہ البخاری) ترجمہ: حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آدم کے بیٹے نے مجھے جھٹلا دیا جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے اور آدم کے بیٹےنے مجھے گالی دی ہے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے، اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں نہ میں کسی سے پیدا ہوا اور نہ مجھ سے کوئی پیدا ہوا۔ لن یعیدنی کما بداء نی کہ جب انسان موت کے بعد اپنے دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتا ہے کہ جب میں ختم ہو جاؤں گا کہ تو اللہ تعالیٰ مجھے کیسے دوبارہ اٹھائیں گے، تو یہ در اصل میری قدرت کو جھٹلاتا ہے۔ حضرات انبیاءؑ نے بنیادی طور پر تین عقیدوں کی تعلیم دی۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اللہ تعالیٰ کا رسولوں کے ذریعے بندوں کو ہدایات دینا، اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی، جس میں حساب کتاب ہوگا۔ انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو بعث بعد الموت یعنی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ کم و بیش ہر پیغمبر کے مخاطبین نے موت کے بعد کی زندگی کو جھٹلایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف انبیاء کی قوموں کی طرف سے اس عقیدے کو جھٹلانے کا ذکر کیا ہے ءَ اِذَا کُنَّا تُرَاباً وَّعِظَاماً ءَ اِنَّا لَمُخْرَجُوْن اور ءَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً وَّعِظَاماً ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْن۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ بعث بعد الموت کا انکار در اصل میری قدرت کا انکار ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کَمَا بَدَءْ نَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعَدًا عَلَیْناً۔ اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْن کہ جیسے ہم نے پہلے پیدا کیا ایسے ہی ہم دوبارہ پیدا کریں گے اور یہ ہمارا وعدہ ہےہم یہ ضرور کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ پہلے بھی ہم نے بنایا اب بھی ہم ہی بنائیں گے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّل کیا ہم ایک بار بنا کر تھک گئے ہیں؟ بلکہ ایک مقام پر تو عجیب بات فرمائی کہ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَ لَّن نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَن نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکتے؟ بلکہ ہم تو یہ بھی قدرت رکھتے ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے پوروے دوبارہ بنا دیں۔انسان کی ہڈیاں جب خاک میں مل جائیں گی ریزہ ریزہ ہو جائیں گی تو کیا ہم اکٹھی نہیں کر سکتے؟ اس بھول میں نہ رہنا، ہم تو یہ قدرت بھی رکھتے ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے فنگر پرنٹس بھی دوبارہ وہی بنا دیں۔ یعنی ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ تمہیں بعینہ ایسے ہی بنا دیں جیسے کہ تم مرنے سے پہلے تھے۔ پوروے برابر کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ فنگر پرنٹس بھی وہی ہوں گے جو مرنے سے پہلے تھے۔ جب انسان یہ اعتراض کرتا ہے کہ کون ہڈیاں جمع کرے گا اور کون دوبارہ زندہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ در اصل میری قدرت کو جھٹلاتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا ولیس اول الخلق بأھون علیَّ من اعادتہٖ کہ ان بے وقوفوں سے پوچھو کہ پہلی دفعہ بنانا مشکل ہوتا ہے یا دوبارہ بنانا؟ جب اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ انسان کو بنا لیا تو اس کا اعادہ کرنا کیا مشکل ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے گالی دینے کا مطلب بیان فرمایا کہ جب انسان یہ کہتا ہے کہ فلاں اللہ کا بیٹا ہے یا فلاں اللہ کی بیٹی ہے تو وہ در اصل اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس بات کو اتنی بڑی گالی قرار دیا ہے کہ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا ، اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ اس لیے کہ اولاد انسان کی حاجت و ضرورت ہے جبکہ اللہ ہر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔ اب یہ بات کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں چیز کی ضرورت ہے یا اللہ تعالیٰ فلاں چیز کا محتاج ہے، یہ در اصل اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تو احد ہوں، نہ میں کسی سے پیدا ہوا اور نہ مجھ سے کوئی پیدا ہوا۔ چنانچہ اِس حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ پہلی یہ کہ جو آدمی مرنے کے بعد کی زندگی سے انکار کرتا ہے وہ در اصل میری قدرت کا انکار کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو آدمی میرے لیے بیٹا یا بیٹی کا عقیدہ رکھتا ہے وہ در اصل مجھے محتاج قرار دیتا ہے جو کہ میرے لیے ایک گالی ہے۔
گلوکارہ نتاشہ بیگ نے انسٹاگرام پر کئی اسٹوریز شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی ان گلوکاروں اور اداکاروں کو نہیں سراہا جنہوں نے شعور اور ہدایت کے نام پر اپنا کیرئر چھوڑ دیا کیونکہ یہ انڈسٹری سے جڑے ہوئے غلط تاثر کوصحیح ثابت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹھیک ہے آپ کو ہدایت مل گئی ہے بہت بہت مبارک ہو، آگے بڑھیں مگر اس سارے عمل میں ہمیں ایک ولن اور گناہ گار انسان ظاہر مت کریں۔ نتاشہ بیگ نے کہا آپ کا عمل ایسا ہوسکتا ہے جسے اسلام پسند نہیں کرتا مگر موسیقی کی بات الگ ہے، یہ خدا کا تحفہ ہے، موسیقی کا گناہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان موسیقار کی بھی محنت اتنی ہی اللہ سے جڑی ہیں جتنی ایک شدید مسلمان مذہبی بندے کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنا دماغ وسیع کریں کیونکہ جذبات میرے بھی اتنے ہی ہیں جتنے آپ کے ہیں میرا بھی خدا وہی ہے جو تیرا ہے ۔ گلوکارہ نے کہا کہ موسیقی اس حال میں حرام ہے جب وہ آپکو کوئی غلط چیز کی طرف راغب کرے جب اس میں بات گھٹیہ ہورہی ہو غیر مہذبانہ ، اس کا مطلب ہے وہ سب چیزیں حرام ہیں جو ہمیں ہمارے ہوش سے ہلا دے ۔ نتاشہ بیگ نے کہا کہ میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں میری بات کو غور ست پڑھو جو عقل اللہ نے ہمیں عطا کی وہ کسی وجہ سے کی ہے ۔ یہ بھی کہا کہ آپ سب کے جذبات بلکل میرے جذبات جیسے ہیں بس نظریے کا فرق ہے اور نطریے کے فرق سے آپ بات سکون سے کر سکتے ہیں ، بحث کرسکتے ہیں تاکہ بات سمجھی جائے کسی کو کافر کہنا یہ سوائے اللہ کے کسی کا اختیار نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ برائے مہربانی گریز کریں ہم سب انسان ہیں اور ہم کبھی کبھار جذبات میں باتوں کو اپنے حساب سے جانچتے ہیں ۔ دوسری جانب حمزہ علی عباسی نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق گلوکارعبداللّٰہ قریشی کے اس اقدام پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں اور انہیں آگاہ کیا کہ ’موسیقی اسلام میں مکمل طور پر حرام نہیں ہے‘۔
نئے جاننے والوں میں پہلے سے ہی ہیں کے لئے انتظار کر انٹرنیٹ پر ڈیٹنگ, یہاں آپ کو مل جائے گا کیا آپ کے لئے تلاش کیا گیا ہے اتنی دیر کے لئےنئے دوست تلاش کریں اور پیاروں پراگ میں, میں آپ کے شہر ، آپ کے پڑوس میں. ہزاروں کی تعداد میں لوگوں سے ملنے کے ہر دن پر ایک آن لائن ملنہ ویب سائٹ ، سے ملنے میں سب سے زیادہ رومانٹک اور سرمی کونے کونے کے شہر ہے. آن لائن ملنہ کے سب سے بڑے سماجی نیٹ ورک سے جوڑتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کی دنیا بھر میں. بڑا پرانا شہر کے چوک ہے متحرک مرکز سے پراگ, منظم ایک پر چلنے کا حق بینک کے Vltava. ایک شام خرچ دوستوں کے ساتھ یا ایک سے محبت کرتا تھا ایک میں پرانا شہر کے چوک ہے جہاں شاندار شام ، نظم روشنی بہت اچھا ہے. روشن spotlights ماحول پیدا, تقریبا ایک پریوں کی کہانی تاثر کی شعاعوں کے اگواڑا پر کے مندر. میں اور اس کے ارد گرد مربع ، پر Karlova سٹریٹ, ماحول چیک کے دارالحکومت ہے enlivened کی طرف سے متعدد موسیقاروں اور فنکاروں. کا تعین کیا جائے گا, آپ کی زندگی کو تبدیل کے ساتھ آن لائن ملنہ. تخلیق آپ کے پروفائل اور پڑھنا شروع. رجسٹریشن پر Druzhba ویب سائٹ چارج کی مفت ہے. مفت ملنہ کے ساتھ خواتین میں دوشنبہ ، ضلع کے ریپبلکن Druzhba ቅድሚያ የሚሰጡዋቸውን, ነጻ ነፃ دوستی آن لائن عورت کے لئے چاہتا ہے سے ملنے کے اشتھارات شادی شدہ عورت کے لئے چاہتا ہے سے ملنے چیٹ رولیٹی آن لائن آپ کے فون سے رجسٹریشن کے بغیر آن لائن ویڈیو چیٹ بالغ ملنہ رجسٹریشن کے بغیر ویڈیو ویڈیو ملنہ مفت اسکائپ سے ملنے کے لئے اجلاسوں ویڈیو چیٹ لڑکیوں کے ساتھ ویڈیو چیٹ آن لائن چیک کریں
وُہ آئے گھر مرے اُردُو اَدَب سمجھنے کو پڑا ہے حُسن کو شاعر سے کام زِندہ باد پیام بھیجا ’’ وَہیں ! آج شام ‘‘ مزید پڑھیں گلوبل اردو فیملی نے، اس ویب سائٹ کو اردو کی خدمت اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے تیار کیا ہے۔ مذکورہ ویب سائٹ میں اردو نظم و نثر کو اردو رسم الخط میں، عوام وخواص تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ کام شروع کیا گیا ہے۔ حمد، نعت، غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، وغیرہ کے ساتھ ساتھ متفرق اشعار اور ادبی مضامین بھی ہماری ویب سائٹ کی زینت ہوں گے۔ (متفرق اشعار اردو کے ساتھ ہندی اور رومن میں بھی ہونگے، تاکہ ہندی والوں کو بھی اردو ادب کی چاشنی سے روبرو کرایا جاسکے۔) اردو ادب کی خدمت کرنے والے موجودہ دور کے اچھے شعرا و اُدَبا کے کلام و مضامین کو متعارف کرانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ۲۹ ستمبر کو دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تعلقات کے ۷۵ برس کی تکمیل پر ایک سفارتی عشائیے کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے لیے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے تقریب کے شرکاء جس میں امریکی و پاکستانی سفارت کار اور وزیر اعظم شہباز شریف بطور مہمان خصوصی شامل تھے، ایک اہم تقریر کی جو پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کے لیے خاکہ پیش کرتی ہے۔ اپنی تقریر میں ڈونلڈ بلوم نے تعلقات کے دو پہلوؤں پر خصوصی توجہ دی: تعلقات کی مضبوط بنیاد اور شراکت داری کے نئے مواقع کی تخلیق۔ بلوم نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ ماضی میں امریکا کی افغانستان میں جنگ کے باعث متاثر ہونے والے پاک امریکا تعلقات کو بھارت اور چین کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے خودمختار بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ بلوم کی تقریر کا سب سے طاقتور پہلو ان کا اس امر پر اصرار تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کو سلامتی کی بنیاد پر قائم شراکت داری سے بدلتے ہوئے معیشت کی بنیاد پر استوار وسیع شراکت داری بنایا جائے۔ پاکستان میں گزشتہ و موجودہ دونوں حکومتیں، امریکہ کے ہمراہ تجارت و سرمایہ کاری کی بنیاد پر استوار تعلقات کی خواہش کا برسرعام اظہار کر چکی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی خاطر امریکہ کا اپنی خارجہ پالیسی کو تیزی سے تبدیل کرنا اگرچہ اسلام آباد میں شکوک و شبہات کا باعث ہے تاہم پاکستان اور امریکہ دونوں کو تعاون کی رفتار کو برقرار رکھنے اور اس کے نتائج کو ترجیح دینی چاہیے۔ ناراضگی سے بحالی کا سفر امبیسیڈر بلوم کی تقریر سے صرف چند ہفتے قبل تک جغرافیائی سیاسیات بشمول افغانستان سے انخلاء جیسے امور پر اختلافات کے سبب اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات آلودہ تھے۔ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات نے بھی عدم اعتماد کو مزید بڑھاوا دیا۔ اس سال کے آغاز میں حکومتی سطح پر تعلقات جمود کا شکار ہو گئے تھے جس کی ایک وجہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان رابطہ نہ ہونا تھا۔ بہرحال پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے امریکہ نے انسانی امداد اور آفت سے نمٹنے کے لیے ۶۶ ملین ڈالر سے زائد فراہم کیے جس نے دوطرفہ تعلقات کی از سر نو مضبوطی کے اشارے کا کام کیا۔ امریکی شہریوں، غیر منافع بخش و نجی اداروں نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے اضافی معاشی امداد بھیجی جس کا پاکستان میں بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں نئی حکومت اب امریکہ کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ترتیب دے رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ دونوں نے امریکہ کے ہمراہ تعلقات بہتر بنانے کا علی الاعلان عندیہ دیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے ۷۵ برس کی تکمیل کی مناسبت سے پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے لیے اہم دورے کیے جس کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے مابین ۸۰ مختلف سرگرمیاں منعقد ہوئیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ ۷۷ویں اجلاس کے موقع پر امریکہ اور پاکستان کے نمائندوں کے مابین چھ ملاقاتیں ہوئیں جن میں افغانستان پر امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے درمیان جبکہ امریکی خصوصی صدارتی سفیر برائے ماحولیات جان کیری اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے مابین ملاقاتیں شامل ہیں۔ ۵ اکتوبر کو پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان سے علاقائی سلامتی کی صورتحال پر بات چیت کے لیے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے پاکستان کے واشنگٹن کے ہمراہ معاشی و دو طرفہ تعاون کے دوبارہ آغاز کی اہمیت پر زور دیا۔ نئے تعلقات کا محرک: معیشت تعلقات میں رکاوٹوں کے باوجود ڈونلڈ بلوم کا تبصرہ پاکستان کے حوالے سے امریکی نقطہ نظر میں اہم تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔ ان کا وسیع تر معاشی بنیادوں پر دو طرفہ تعلقات کی ترتیب نو کا مطالبہ، پاکستانی رہنماؤں کے اس مطالبے سے مطابقت رکھتا ہے کہ امریکہ صرف دہشتگردی کے خلاف تعاون کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون کو آگے بڑھائے۔ واشنگٹن کا یہ اعتراف کہ دو طرفہ تعلقات میں زیادہ تر توجہ افغانستان میں امریکی سلامتی کے خدشات پر رہی ہے، یہ تجویز کرتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب پاک امریکہ تعلقات کو بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسیات کی حقیقتوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ پس اب امریکہ کو پاکستان کے ہمراہ تجارت، سرمایہ کاری، آلودگی سے پاک توانائی، صحت، سلامتی اور تعلیم کے شعبے میں تعاون کی حمایت کرنی چاہیے۔ تعلقات کے بارے میں شکوک و شبہات کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاشی تعلقات گزشتہ برس کے دوران بہتر ہوئے ہیں۔ ۲۰۲۱ کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں گزشتہ برس کے مقابلے میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ امریکی کمپنیاں بھی پاکستانی ہم منصبوں کے ہمراہ کام سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ امریکی کمپنیاں اور ان سے ملحقہ مقامی ادارے پاکستان میں سب سے زیادہ ملازمین کے حامل اداروں میں شامل ہیں جو براہ راست ۱۲۰،۰۰۰ سے زائد پاکستانیوں کو ملازمت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۵۰،۰۰۰ سے زائد نفوس پر مشتمل رنگا رنگ اور کامیاب ترین پاکستانی امریکن کمیونٹی دونوں ممالک کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔ سرمایہ کاری کی بنیاد پر بڑھتے تعلقات اور کثیرالفریقی ملاقاتیں امریکہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ بات چیت میں اضافے کی حوصلہ افزائی کا امکان رکھتی ہیں۔ رفتار برقرار رکھنا اکثریت کا خیال تھا کہ پاکستان میں حالیہ سیاسی ابتری اور واشنگٹن کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے میں روابط میں تاریخی کمی کی وجہ سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات تلخی کا شکار رہیں گے۔ پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے بہت سے اتارچڑھاؤ متعدد مثبت پیش رفتوں پر چھائے رہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان دوریوں اور بدگمانیوں کے سلسلے وسیع ہوتے گئے۔ کچھ دیگر پیچیدگیاں جیسا کہ امریکہ اور چین کے مابین عظیم قوت کے مقابلے نے بھی ان تعلقات کو آلودہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کے لہجے میں تبدیلی محض واشنگٹن یا اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کا ردعمل نہیں بلکہ یہ تیزی سے بڑھتے پاک چین تعلقات کے بارے میں واشنگٹن کے حساب کتاب کی جانب بھی اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین میں جنگ پر بھارتی ردعمل نے واشنگٹن میں امریکہ بھارت شراکت داری کی پائیداری پر سوال کھڑے کیے ہیں جو کہ پاکستان کے ہمراہ دو طرفہ تعلقات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ مزید براں، پاکستان کے لیے ایف ۱۶ لڑاکا طیاروں کی دیکھ بھال کے ضمن میں ۴۵۰ کروڑ ڈالر مالیتی منصوبہ شروع کرنے کی پیشکش اگرچہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھارت کی جانب سے تنقید کا سبب بنا۔ امریکہ کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی، پاکستان کے ہمراہ روابط کے اپنے تاریخی محور سے ہٹتی ہوئی اور انڈوپیسفیک پر زیادہ توجہ دیتی دکھائی دیتی ہے، جس سے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ عظیم طاقتوں کے مقابلے کے جامع امریکی فریم ورک سے دوطرفہ تعلقات کو علیحدہ رکھنا دونوں ہی ممالک کے لیے آسان نہ ہوگا۔ تاہم دو طرفہ تعاون کو وسعت دینے کے لیے مختلف شعبہ جات کی نشاندہی آنے والی طویل مدت کے لیے ایک حل ہو سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی پاکستان کو واضح طور پر نظرانداز کرنے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو طرفہ تعلقات کو حیات نو بخشنے کا معاملہ دونوں ممالک میں سیاسی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کا اندیشہ رکھتا ہے۔ تعلقات کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے پر پاکستان اور امریکہ دونوں جانب کے بیانات خوش آئند ہیں لیکن مستقبل پر نظریں جمانے کے اس سفر کو برقرار رکھنے اور بیانات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے دونوں جانب سے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ بلوم کی تقریر کو پاک امریکہ تعلقات کو نئی توانائی فراہم کرنے کے لیے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس کے تحت ہمہ گیریت کی حامل معاشی پیداوار، ماحول دوست توانائی کی پالیسیوں اور جمہوریت کی بقا کے لیے کام کیا جائے۔ دو طرفہ تعلقات کے لیے ڈونلڈ بلوم اور وزیراعظم شہباز شریف کی تقریروں پر توجہ دینا، پہلے سے موجود فوائد کو مزید موثر بنانے اور تعاون کے لیے کلیدی شعبوں کی وضاحت انتہائی اہم ہے۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ جب پاکستان اور امریکہ اپنے اپنے ملکوں کو درپیش مسائل بشمول ماحولیاتی تبدیلی تعلیم اور ٹیکنالوجی پر تعاون کریں، ایسے میں پاکستان کو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معیشت کے لیے سرمایہ دار دوست پالیسیوں کا نفاذ کرنا چاہیے۔
اسلام آباد (یواین پی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا ہے,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی کارروائی روکنے کی استدعا منظور کرلی گئی جبکہ جسٹس قاضی فائز کیخلاف شوکازنوٹس بھی واپس لے لیا گیا,جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینا کا فیصلہ 10 ججز کاہے تاہم دیگر 3 جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کوقابل سماعت قراردیاہے۔عدالت نے مختصر حکم نامے میں ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ سات روز کے اندر فاضل جسٹس کی اہلیہ کو نوٹس جاری کریں، ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائش گاہ پر ارسال کیے جائیں، عدالت انکم ٹیکس کمشنر فریقین کو موقع دے، تاکہ وہ جواب دے سکیں اور فائنڈنگز جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کریں،ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے،انکم ٹیکس 60 روز میں اس کا فیصلہ کرے، عدالت اگر قانون کے مطابق کارروائی بنتی ہو تو جوڈیشل کونسل کارروائی کی مجاز ہوگی، چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار کو جمع کرائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق مقبول باقر منصور علی شاہ آفریدی نے اضافی نوٹ لکھا جبکہ یحیٰ آفریدی نے جسٹس قاضی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔ دس رکنی بینچ میں سے سات ججوں نے اکثریتی فیصلہ دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کیلئے آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران ایف بی آر نے قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں جمع کرایا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے بھی سربمہر لفافے میں دستاویزات پیش کیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے فروغ نسیم سے کہا کہ ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیں گے نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے، معزز جج کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کرائیں۔ درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کا اصل کیس ہے کیا ؟ فروغ نسیم کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے، حکومت ایف بی آرجانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے،ایف بی آر اپنا کام کرے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں عدلیہ ریفرنس کالعدم قرار دے۔سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے سورۃ النسا کا حوالہ دیتے ہوئے دلائل دیئے کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔ سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو لامحدود اختیارات دیئے گئے، یونٹ کے قیام کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ خیبرپختونخوا بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومتی ریفرنس بے بنیاد اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ آئین کا تحفظ کریں۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ریفرنس مکمل خارج کر دیں، ہمارے لئے یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔ منیر اے ملک نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پربدنیتی کے الزامات تھے، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے، فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کردی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔
پیرس : فرانسیسی عدالت نے غیر ملکی مسافروں سے معمول سے زیادہ پیسے وصول کرنے جعلی ٹیکسی ڈرائیور کو قید کی سزا سنا دی۔ تفصیلات کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس کے ایئر پورٹ سے سینٹرل پیرس تک پہنچانے کے معمولاً 45 (6 ہزار 800) سے 55 (8 ہزار 300) یورو کرایہ لیا جاتا ہے لیکن مذکورہ ڈرائیور نے افراد کے غیر ملکی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے بہت زیادہ رقم کا مطالبہ کیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ سے پیرس آنے والے مسافروں نے موبائل فون سے جعلی ٹیکسی ڈرائیور کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر شیئر کی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایونک سی نامی جعلی ٹیکسی ڈرائیور نے تھائی شہریوں سے ان کی منزل تک پہنچانے کے 247 یورو (37 ہزار 677 روپے پاکستانی) طلب کیے تو تھائی جوڑے نے 200 یورو دینے کی پیش کش کی تھی۔ برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جعلی ڈرائیور مسافروں سے یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ فرانس ’وی ٹی سی‘ نامی نجی ٹیکسی سروس کا ڈرائیور ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈرائیور نے پوری رقم ادا نہ کرنے پر گاڑی کے دروازے بند دئیے تاکہ تھائی جوڑا گاڑی سے پولیس اسٹیشن نہ جاسکے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جعلی ڈرائیور جو تھائی جوڑے نے 180 (27 ہزار) یورو کی پیش کش جس پر وہ طیش میں آگیا اور اونچی آواز میں 200 یورو کا مطالبہ کیا۔   غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے مسافر نے بتایا کہ میں نے سفر کے دوران ڈرائیور کی تصویر لینا چاہی تو اس نے اتنی زور سے مجھ پر حملہ کیا میرا موبائل میرے منہ پر لگا۔ مسافر نے بتایا کہ جب سفر کرتے بہت دیر ہوگئی تو ہم نے جعلی ڈرائیور کو 200 یورو ادا کیے تاکہ گاڑی سے آزادی حاصل کریں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فرانس کی نجی ٹیکسی سروس نے عدالت کو بتایا کہ اینوک سی نامی کوئی شخص ہمارے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے اور مذکورہ ڈرائیور نے بھی عدالت میں زائد رقم لینے کا اعتراف کیا اور بتایا میں ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہوں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عدالت نے جعلی ٹیکسی ڈرائیور کیس کی سماعت کرتے ہوئے اینوک سی نامی شخص کو دھوکا دہی کے کیس میں 8 ماہ کے لیے قید کی سنا دی۔
سرینگر/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/۲۹جنوری ۲۰۲۱/آنجہانی سیٹھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علمبردار تھے اور جموں و کشمیر کی آزادانہ حیثیت کی بحالی کی وکالت کرتے تھے۔ وہ سابق ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے رکن رہے تھےتجربہ کار صحافی اور کمیونسٹ رہنما کرشن دیو سیٹھی کا جموں میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔وہ نہ صرف جموں کے مشہور دانشوروں اور رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے بلکہ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی عزت کی نگاؤں سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ بہترین مقرر اور ادیب تھے۔ انکا ہفتہ وار کالم پر مغز ہوتا تھا جسے انہوں نے اپنے زندگی کے آخری پڑاؤ تک لکھا۔ وہ جموں و کشمیر میں اردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے آخری سانس تک اس زبان کی خدمت کی اور اسکی شمع کو فروزان رکھنے کی جدوجہد کی۔ انکے لواحقین کے مطابق انہوں نے جموں میں واقع اپنی رہائش گاہ محلہ دلپتیاں میں صبح چار بجے آخری سانس لی۔ کرشن دیو سیٹھی سابق ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے واحد رکن تھے جو بقید حیات تھے اور انکی نگاہوں کے سامنے ریاست کا آئین منسوخ کیا گیا اور ریاستی درجے کو ختم کرکے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ قابل ذکر یہ ہے کہ آئینی تبدیلی کیلئے انکے فرزند انشل سیٹھی نے اہم کردار ادا کیا جو اسوقت بھی مرکزی علاقے کے محکمہ قانون کے سیکرٹری ہیں۔ 1925میں میر پور میں پیدا ہوئے کرشن دیو سیٹھی تقسیم بر صغیر سے لے کر جموں کشمیر میں مسلح جد و جہد کے آغاز تک تمام اتار چڑھاؤ دیکھ چکے ہیں۔ڈوگرہ شاہی کے زمانے میں سیٹھی دو بار جیل میں قید بنائے گئے ۔ انہیں آج تک کئی مختلف عہدوں کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے اپنی فکراور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔سیٹھی سادہ زندگی بسر کرتا تھا اور جموںکشمیرکی ایک علمی اور دوراندیش ہونے والی شخصیت کے باوجود بھی کبھی سیاست کو مفادات بطور ابزار استعمال نہیں کیا۔ 1949 میں جب نیشنل کانفرنس کی جموں اکائی قائم ہوئی تو سیٹھی کو اس کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا تھا۔1951میں وہ پہلی آئین ساز اسمبلی کے رکن بنے۔سیٹھی نے غلام محمد صادق، سید میر قاسم، ڈی پی دھر، گردھاری لال ڈوگرہ کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس بنائی جو21ممبران کے ساتھ اسمبلی کی پہلی اپوزیشن پارٹی بنی۔بعد میں غلام محمد صادق، میر قاسم، ماسٹر ڈوگرہ اور کئی دیگر لیڈر بخشی کی قیادت والی نیشنل کانفرنس میں دوبارہ شامل ہو گئے اور سیٹھی نے کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ہند چین جنگ کے دوران سیٹھی سمیت کئی کیمونسٹ لیڈر گرفتار کر لئے گئے اور قریب اڑھائی برس تک پابند سلاسل رہے ۔ انکی آخری رسومات گجر نگر کے نزدیک جوگی گیٹ آشرم میں دن کے ایک بجے انجام دی گئی۔2019 میں کامریڈ کرشن دیو سیٹھی نے لانچنگ پر ای ٹی وی بھارت کو مبارکباد پیش کی تھی۔ ادھر کرشن دیو سیٹھی کے انتقال پر جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئےغمزدہ کنبے سے تعزیت کی او ر سیٹھی کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر عمر عبداللہ نے آئین ساز اسمبلی کے بزرگ رکن اور سابق ایم ایل اے نوشہرہ شری کرشن دیو سیٹھی کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ دونوں لیڈران نے آنجہانی کی آتما کی شانتی کے لئے دعا کی اور پسماندگان خصوصاً آنجہانی کے فرزند اتل سیٹھی کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔دونوں لیڈران نے آنجہانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیٹھی صاحب ایک دوراندیش سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے دانشور اور اہل قلم تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی اور ساتھ ہی جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلہ کے حل کے متمنی رہے۔
اینگرو انرجی کی کہانی 2008 سے شروع ہوتی ہے، جب پاکستان اور پاکستان سے باہر بجلی کی پیداوار کے لیے اینگرو کارپوریشن کی جانب سے ایک مکمل ذیلی ادارہ قائم کیا گیا۔ جیسا کہ کہتے ہیں گزرا ہوا سب تاریخ بن جاتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں ہماری پہلی شمولیت کے طورپر اینگرو پاور جن قادر پور لمیٹڈ کا قیام تھا جس کے تحت قادر پور میں 220 میگاواٹ کا ایک منفر د پاور پلانٹ کام کررہا ہے جو کہ پہلے سے بھڑکائی جانے والی پریمیئٹ گیس سے چلایا جارہا ہے۔اس خصوصیت کے سبب اینگرو پاورجن قادر پور پلانٹ پاکستان کے چند ماحول دوست پاور پلانٹس میں سے ایک ہے جو کاربن کی کمی کا سبب بنا ہوا ہے۔ مزید براں، ملک میں توانائی کی صلاحیت کو بہتر کرنے اور ایکو سسٹم کی کوششوں میں، اینگرو انرجی نے اپنے شراکت داروں کے تعاون سے سند ھ اینگرو کول مائننگ کمپنی تشکیل دی تاکہ تھر میں موجود دنیا کے سب سے بڑے لگنائٹ کوئلے کے ذخیرے کو نکالا جائے، ملک کے لیے اس کارنامے کو انجام دینے والے پہلے ادارے کی صورت میں،ہم نجی شعبے کاواحد ادارہ تھے جس نے اپنی انجینئرنگ صلاحیت، مہارت اور تجربے سے کام شروع کیا اور اوپن پٹ مائن کے ذریعے اس منصوبے کو عملی شکل دی۔بعد ازاں، کمپنی نے تھر پارکر میں کانوں کے قریب میں ہی 330 میگا واٹ کے بجلی گھر قائم کرنے کے لیے اینگرو پاورجن تھر پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے الگ سے ذیلی کمپنی تشکیل دی۔تھر کول پروجیکٹس کے اس مجموعہ کی نگرانی، آغاز سے مالی انتظام تک، شمولیت اور اشتراک عمل پر مبنی اسٹیلر پروجیکٹ کی مینجمنٹ،ہمارے ادارے کی انتظامی صلاحیت کا واضح ثبوت پیش کرتے ہیں اور خاص نوعیت اور کاروباری اہمیت کے حامل پروجیکٹس پر کام کرنے کی ہماری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اینگرو پاورجن قادر پور لمیٹڈ ہمارا پہلا انڈپینڈنٹ پاور پروجیکٹ (IPP)پاکستان میں ماحول دوست پروجیکٹس میں سے ایک ہے جو پرمیئیٹ گیس سے بجلی تیار کرتا ہے اور کاربن کے اخراج میں کمی لانے میں معاون ہے۔ مزید جانیں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی یہ حکومت سندھ اور اینگرو انرجی لمیٹڈ کے درمیان جوائنٹ وینچر ہے، جس کا قیام تھر سے حاصل ہونے والے کوئلے کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو توانائی کے شعبے میں خودکفیل کرنے کی سوچ کے پیش نظر عمل میں آیا۔ مزید جانیں اینگرو پاورجن تھر لمیٹڈ سندھ، پاکستان میں 660 میگا واٹ کا پاور پروجیکٹ اپنی نوعیت کا منفر د پروجیکٹ ہے جو ضلع تھرپارکر سے حاصل ہونے والے اپنے مقامی لگنائٹ کوئلے سے بجلی تیار کررہا ہے۔ مزید جانیں اینگرو انرجی سروسز لمیٹڈ اینگرو انرجی سروسز لمیٹڈ کو بجلی کے شعبے میں موجود مواقع کی نشاندہی کے ساتھ انڈپینڈنٹ پاور پروجیکٹس کے ساتھ سروسز سے متعلق معاہدے عمل میں لانے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
برّاعظم افریقا کے ملک مراکش پر کبھی فرانس کا راج تھا۔ مراکش کے عوام نے اپنی سَرزمین پر فرانسیسی قبضے کے خلاف سخت مزاحمت اور آزادی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور 1956ء میں ہزار ہا جانوں کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد اس میں کام یابی حاصل کی۔ اسی مراکش کے ایک نام وَر ادیب، شاعر اور ناول نگار طاہر بن جلون ہیں‌ جن کے فرانسیسی زبان میں‌ لکھے گئے ناولوں کا متعدد زبانوں جن میں انگریزی، عربی اور اردو بھی شامل ہیں، ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہاں ہم بدترین ظلم اور انسانیت سوز سلوک کی بنیاد بننے والے اُس ہولناک واقعے کی رودار نقل کررہے ہیں جس پر طاہر بن جلون نے بھی ناول لکھا۔ ملاحظہ کیجیے۔ "10 جولائی 1971ء کو مراکشی فوج کے ایک ہزار سپاہیوں کو ٹرکوں میں لاد کر الصخیرت کے گرمائی محل لے جایا گیا جہاں سلطان حسن الثانی (زمانۂ حکومت 1961ء تا 1999ء) اپنی بیالیسویں سالگرہ کی تقریب منا رہا تھا۔ تقریب میں پہنچ کر کمانڈنگ افسر نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سلطان کو ڈھونڈ کر قتل کر دیں۔ اس حکم سے شروع ہونے والے قتلِ عام میں تقریباً سو مہمان ہلاک کر دیے گئے لیکن سلطان بچ نکلا۔” "اس ناکام بغاوت کا ذمے دار سمجھے جانے والوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سے بعض کو مختصر سماعت کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور باقی کو دس سال کی سزا دے کر قنیطرہ کے بدنام زندان میں قید کر دیا گیا، لیکن دو سال بعد ان سزا یافتگان میں سے اٹھاون لوگوں کو ٹرکوں میں لاد کر صحرائی علاقے تازمامرت میں نو تعمیر شدہ جیل پہنچا دیا گیا۔” "اس جیل میں دس فٹ لمبی اور پانچ فٹ چوڑی زمین دوز کوٹھریاں بنائی گئی تھیں جن کی اونچائی پانچ فٹ سے زیادہ نہ تھی تاکہ قیدی کھڑا نہ ہو سکے۔ کوٹھریوں میں روشنی کا مطلق گزر نہ تھا۔ بستر کے نام پر دو پتلے کمبل دیے گئے تھے۔ کھانے کے لیے قلیل ترین غذا اور پانی دیا جاتا تھا کہ برسوں تک موت کی گگر پر اٹکے رہیں۔ رفع حاجت کے لیے کوٹھری کے فرش میں ہی ایک چھوٹا سا گڑھا تھا۔ کوٹھریوں میں کاکروچ اور بچھو رینگتے پھرتے تھے جن کو قیدی دیکھ نہ سکتے تھے، بس ان کی سرسراہٹ سن سکتے تھے۔” "اٹھاون قیدیوں کو، روشنی، علاج معالجے اور ورزش سے محروم کر کے ان زمین دوز کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے بند کر دیا گیا۔ انہیں صرف اس وقت باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی جب انہیں اپنے کسی ہلاک ہو جانے والے ساتھی کو دفن کرنا ہوتا۔ ان میں بیشتر لوگ جاں بحق ہو گئے، بعض مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر اور بیشتر ٹھنڈ سے ٹھٹھر کر۔ بعض کا کروچوں اور بچھوؤں کی خوراک بن گئے۔” "باہر کی دنیا تازمامرت کے جہنمی زندان کے وجود سے تیرہ سال تک بے خبر رہی۔ حقوقِ انسانی کے کارکنوں کی کوششوں کو رنگ لانے میں مزید پانچ سال لگ گئے۔ بین الاقوامی سطح پر دباؤ کے نتیجے میں اٹھارہ سال کے بعد 1991ء میں اس جیل کو مسمار کیا گیا۔” "تب تک صرف اٹھائیس لوگ زندہ بچے تھے۔ ان میں سے بیشتر کے جسم اس قدر مسنح ہو چکے تھے کہ سکڑنے کے سبب ان کے قد ایک فٹ تک گھٹ گئے تھے۔ بچ جانے والوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ کسی غیر ملکی صحافی سے بات نہ کریں۔ تاہم، ان میں سے ایک کیڈٹ نے باہر آنے کے بعد اس عقوبت خانے میں اپنے زندہ رہ جانے کی داستان طاہر بن جلون کو سنائی جس کے نتیجے میں فرانسیسی زبان میں ان کا ایک ناول وجود میں آیا۔” یہ انگریزی میں This Blinding Absence of Light کے نام سے 2002ء میں شائع ہوا۔ اور پھر بھارتی ادیب، محقّق اور اردو و ہندی زبانوں‌ میں متعدد کتب کی مترجم ارجمند آرا نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ اس ناول کی ایک خوبی یہ ہے کہ ایک ہولناک قید کا بیان اپنے فوری سیاق و سباق سے اوپر اٹھ کر ہر طرح کی بے انصاف انسانی صورتِ حال کا استعارہ بن جاتا ہے۔
میدہ سک ایک لکڑی نما چیز ہے جو پنسار سے عام مل جاتی ہے میدہ سک ان افراد کے لئے مفید ہے جن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو میدہ سک کو پیس کر رکھ لیں ۔پندرہ یوم تک صبح و شام آدھی چمچ نیم گرم دودھ کے ساتھ لیں انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے طبی سائنس میں مسلسل نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں، انھیں تجربات میں سے ایک اہم بائیوگلاس کا امپلانٹ بھی ہے۔یعنی ہڈیوں کو جوڑنے میں قدرتی گلاس کا استعمال۔ ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے کانچ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ سننے میں یہ بات تھوڑی عجیب ضرور لگ سکتی ہے لیکن اس وقت بہت سے ممالک میں ڈاکٹر بائيوگلاس کی مدد سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔اس کانچ کا استعمال اس مقصد کے لیے ہورہا ہے وہ کوئی معمولی گلاس نہیں ہے۔ یہ بائیو گلاس بہت ہی خاص ہے۔ یہ نہ صرف ہڈیوں سے زیادہ مضبوط ہے بلکہ لچکدار ہونے کی سبب مڑ بھی سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی انفیکشن بھی نہیں ہوتا ہے۔لندن کے معروف سرجن ایان تھامسن نے دنیا کا سب سے پہلا گلاس امپلانٹ کیا تھا۔ انھوں نے پہلی بار یہ تجربہ ایک مریض کی آنکھ میں بائیو گلاس کی پلیٹ ڈال کر کیا تھا۔ٹریفک حادثات انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ ان حادثات کے نتیجے میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کئی بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں۔ صرف امریکہ میں ایک سال کے دوران ساٹھ لاکھ افراد مختلف ٹریفک حادثات میں زخمی ہو کر ہڈیاں تڑوا بیٹھتےہیں۔ ہڈیاں ٹوٹنے یا فریکچر سے متاثر ہونے والے افراد کا علاج عموماً روایتی طریقے کے مطابق متاثرہ حصے پر پلاسٹر یا فائبر گلاس کے بنے ہوئے بھاری بھر کم غلاف پہنا کر کیا جاتا ہے اور مریض کو اس وقت تک اسے پہننا پڑتا ہے جب تک مریض کی ٹوٹی ہڈی جڑ نہیں جاتی۔ تاہم اب ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے باعث اس میدان میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی کے عام ہو جانے کے بعد اب ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کے لئے بھاری پلاسٹر کے بجائے اب تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ کئے جانیوالے پلاسٹک کے بنے ہوئے ایسے ہلکے مگر ہڈیوں کو اپنی جگہ پر کس کر جکڑنے والے ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے جو نہ صرف مریض کے لئے نہایت آرام دہ ہے بلکہ اس کی مدد سے ہڈیوں کے جڑنے کے عمل میں بھی تیزی آتی ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے اب طبی دنیا کے میدان میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اس وقت دنیا میں کئی کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جا رہے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں زید موسی بادوان نے ایک میکسیکو میں میڈی پرنٹ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہڈیوں کو جوڑنے کے لئے پلاسٹر کی جگہ ہلکے مگر آرام دہ اور پلاسٹک کے بنے ہوئے ڈھانچے ڈیزائن کئے۔ ان ڈئزائنز کو انہوں نے زکیلٹ کا نام دیا۔ ان ڈیزائنز کی عالمی سطح پر بہت پزیرائی کی گئی اور انہیں اس پر ریڈ ڈاٹ ڈیزائن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پلاسٹک کا یہ ڈھانچہ مریض کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کی نوعیت کے مطابق تیار کیا جاتاہے اور اس حوالے سے اپنائی جانیوالی تکنیک نہایت سادہ ہے۔ سیکنر کی مدد سے مریض کی ٹوٹی ہوئے ہڈی کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر خصوصی طور پر تیار کئے جانیوالے ایک سافٹ وئیر کی مدد سے مریض کے لئے اسکی ضروریات کے مطابق پلاسٹک سے بنا ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ڈھانچہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک جسم کے متاثرہ حصے کے اوپری جانب اور دوسرا متاثرہ حصے کے نچلی جانب رکھا جاتا ہے اور پھر اسے ایک دوسرے سے اس طرح منسلک کیا جاتا ہے کہ ڈھانچے کے دونوں حصے ایک دوسرے کو اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ ہڈی پر کسی طرح کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ ڈھانچہ ہڈیوں کو جلد جوڑنے میں بھی مدد کرتاہے۔ سپین کے صحت سے متعلق ادارے نے اس ڈھانچے کے کلینکل تجربات کی منظوری دے دی ہے اور اس کے دومریضوں پر تجربات ہونگے جس کی کامیابی کے بعد اس کو فروخت کی اجازت مل جائیگی۔ امید کی جا رہی ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے تیار ہونیوالا یہ ڈھانچہ آئندہ چھ ماہ کے دوران فروخت کے لئے پیش کر دیا جائیگا۔ اس کی قیمت 2000 سے 5000 ڈالرز تک ہو گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین Post navigation اُبلی ہوئی چائے پتی بچاسکتی ہے ہزاروں روپے 50 سال کے ہوکر بھی 20 کے نظر آؤ بوڑھی جلد ٹائٹ او ر ساری جھریا ں غائب Related Post Horoscope آرٹیکلز سال ’2022 میں سائبیریا سے ایک وائرس آئے گا اور تیزی سے دنیا میں پھیلے گا‘ معروف نجومی بابا وانگا کی نئے سال کیلئے خوفزدہ کردینے والی پیشگوئیاں
ج: نماز پنجگانہ شریعت اسلامیہ کے اہم واجبات میں سے ہیں، بلکہ یہ دین کا ستون ہیں اور ان کا ترک کرنا یا سبک سمجھنا شرعاً حرام اور عذاب کا موجب ہے۔ س 339: اگر کسی کو پانی یا ایسی چیز کہ جس پر تیمم صحیح ہے میسر نہ ہو (فاقد الطہورین) تو کیا اس پر نماز واجب ہے؟ ج: بنابر احتیاط وقت میں نماز پڑھے اور وقت کے بعد وضو یا تیمم کے ساتھ قضا کرے۔ س 340: آپ کی نظر میں واجب نماز میں کن موقعوں پر عدول کیا جا سکتا ہے؟ ج: مندرجہ ذیل موارد میں عدول کرنا واجب ہے۔ ١۔ عصر کے مخصوص وقت سے پہلے عصر کی نماز سے ظہر کی طرف، اگر نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔ ٢ ۔ عشاء کے مخصوص وقت سے پہلے عشاء کی نماز سے مغرب کی نماز کی طرف، اگر نماز عشاء کے اثنا میں متوجہ ہوجائے کہ اس نے نماز مغرب نہیں پڑھی بشرطیکہ اس نے محل عدول سے تجاوز بھی نہ کیا ہو ۔ ٣۔ جن دو نمازوں کی ادائیگی میں ترتیب ضروری ہے (مثلاً ایک دن کی نماز ظہر و عصر کی قضا) اس کے ذمے واجب ہو چانچہ بھول کر بعد والی نماز کو پہلے شروع کر دیا ہو۔ اور مندرجہ ذیل صورتوں میں عدول کرنا جائز ہے: ١۔ ادا نماز سے واجب قضا نماز کی طرف (البتہ ا گر صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قضا نماز کی طرف عدول کرے مخصوصا ًاگر اسی روز کی قضا نماز ہو۔) ٢ ۔ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے واجب نماز سے مستحب نماز کی طرف عدول کرنا۔ ٣ ۔ جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورۂ جمعہ کے بجائے بھول کر دوسرا سورہ شروع کر دیا ہو اور نصف یا اس سے کچھ زائد پڑھ چکا ہو۔ س 341: جمعہ کے دن جو نمازی جمعہ اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنا چاہتا ہے، کیا وہ دونوں نمازوں میں صرف "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گا یا ایک میں "واجب قربة ً الی اللہ" اور دوسری میں فقط "قربةً الی اللہ" کی نیت کرے گایا دونوں میں "واجب قربةً الی ﷲ" کی نیت کرے؟ ج: دونوں میں قربت کی نیت کرنا کافی ہے اور کسی میں وجوب کی نیت ضروری نہیں ہے۔ س 342: اگر نماز کے اول وقت سے لے کر آخر وقت کے قریب تک منہ یا ناک سے خون جاری رہے تو ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر بدن کے پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت نماز کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھے گا۔ س 343: نماز میں مستحبی ذکر پڑھتے وقت کیا بدن کو پوری طرح ساکن رکھنا واجب ہے یا نہیں؟ ج: خواہ ذکر واجب ہو یا مستحب، دوران نماز میں دونوں کی قرائت کے وقت جسم کا مکمل سکون و اطمینان کی حالت میں ہونا واجب ہے۔ہاں مطلق ذکر کے قصد سے حرکت کی حالت میں ذکر پڑھنے میں اشکال نہیں ہے ۔ س 344: ہسپتالوں میں مریض کو پیشاب کے لئے نلکی لگا دی جاتی ہے جس سے غیر اختیاری طور پر سوتے جاگتے یہاں تک کہ نماز کے دوران بھی مریض کا پیشاب نکلتا رہتا ہے، پس یہ فرمائیں کہ کیا اس پر کسی اور وقت میں دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے یا اسی حالت میں پڑھی جانے والی نماز کافی ہے؟ ج: اگر اس نے اس حال میں اپنی نماز اس وقت کے شرعی فریضہ کے مطابق پڑھی ہو تو صحیح ہے اور اس پر نہ تو اعادہ واجب ہے اور نہ قضا۔ اوقات نماز اوقات نماز پرنٹ ; PDF اوقات نماز س 345: مذہب شیعہ پنجگانہ نماز کے وقت کے بارے میں کس دلیل پر اعتماد کرتا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل سنت کے نزدیک وقت عشاء کے داخل ہوتے ہی نماز مغرب قضا ہو جاتی ہے، ظہر و عصر کی نماز کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔ اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ جب وقت عشاء داخل ہو جاتا ہے اور پیش نماز، نماز عشاء پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے تو ماموم اس کے ساتھ مغرب کی نماز نہیں پڑھ سکتا، تاکہ اس طرح وہ مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں پڑھ لے؟ ج: شیعہ کی دلیل، آیات قرآن اور سنت نبویہ کا اطلاق ہے، اس کے علاوہ بہت سی روایات موجود ہیں جو خاص طور سے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور اہل سنت کے یہاں بھی ایسی احادیث موجود ہیں جو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کر کے ادا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ س 346: اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا آخری وقت مغرب ہے اور نماز ظہر کا آخری وقت مغرب سے اتنا پہلے تک ہے کہ جتنی دیر میں صرف نماز عصر پڑھی جا سکے۔ یہاں میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب سے کیا مراد ہے؟ کیا غروب آفتاب مراد ہے یا اس شہر کے افق کے اعتبار سے اذان مغرب کا شروع ہونا ہے؟ ج: نماز عصر کا وقت غروب آفتاب تک ہے ۔ س 347: غروب آفتاب اور اذان مغرب میں کتنے منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے؟ ج: بظاہر یہ فاصلہ موسموں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ س 348: میں تقریباً گیارہ بجے رات ڈیوٹی سے گھر پلٹتا ہوں اورکام کی خاطر رجوع کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ڈیوٹی کے دوران نمازمغربین نہیں پڑھ سکتا، تو کیا گیارہ بجے رات کے بعد نماز مغربین کا پڑھنا صحیح ہے؟ ج: کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نصف شب نہ گزرنے پائے لیکن کوشش کیجئے گیارہ بجے رات سے زیادہ تاخیر نہ ہو بلکہ جہاں تک ممکن ہو نماز کو اول وقت میں پڑھیے۔ س 349: نماز کی کتنی مقدار اگر وقت ادا میں بجالائی جائے تو نیت اداصحیح ہے ؟ اور اگر شک ہو کہ اتنی مقدار وقت میں پڑھی گئی ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز کی ایک رکعت کا وقت کے اندر انجام پانا نماز کے ادا شمار ہونے کے لئے کافی ہے، اور اگر شک ہو کہ کم از کم ایک رکعت کے لئے وقت کافی ہے یا نہیں، تو پھر ما فی الذمہ کی نیت سے نماز پڑھے ۔ س 350: مختلف ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی طرف سے بڑے شہروں اور ممالک کے دار الحکومت کے لئے نماز کے شرعی اوقات کے نقشے شائع ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان نقشوں پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ج: معیار یہ ہے کہ انسان کو اطمینان حاصل ہو جائے اور اگر اسے ان نقشوں کے واقع کے مطابق ہونے کا اطمینان نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ احتیاط کرے، اور انتظار کرے یہاں تک کہ اسے وقت شرعی کے داخل ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔ س 351: صبح صادق اور صبح کاذب کے مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اور اس سلسلہ میں نمازی کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: نماز اور روزے کے وقت کا شرعی معیار، صبح صادق ہے اور اسکی تشخیص خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ س 352: دو شفٹ والے ایک ہائی سکول کے ذمہ دار حضرات ظہرین کی جماعت کو دو بجے ظہر کے بعد اور عصر کی کلاسیں شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے منعقد کراتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی شفٹ کے دروس اذان ظہر سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور ظہر شرعی تک طلباء کو ٹھہرانا مشکل ہے، لہذا اول وقت میں نماز ادا کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر نماز کے اول وقت میں طلاب حاضر نہیں ہیں تو نماز گزاروں کی خاطر نماز جماعت کی تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ س 353: کیا اذان ظہر کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا اور وقت نماز عصر کے شروع ہونے کے بعد نماز عصر کا پڑھنا واجب ہے؟ اور اسی طرح کیا نماز مغرب و عشاء کو بھی اپنے اپنے وقت میں پڑھنا واجب ہے؟ ج: دونمازوں کے وقت کے داخل ہونے کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھے یا ہر ایک کو اسکے فضیلت کے وقت میں پڑھے۔ س 354: کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح کے لئے ١٥ منٹ سے ٢٠ منٹ تک کا انتظار کرنا واجب ہے؟جبکہ آجکل گھڑیوں کی فراوانی کی وجہ سے طلوع فجر کا یقین حاصل کرنا ممکن ہے؟ ج: طلوع فجر جو نماز صبح اورروزہ شروع ہونے کا وقت ہے کے سلسلے میں چاندنی راتوں یا اندھیری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ اس سلسلہ میں احتیاط اچھا ہے۔ س 355: صوبوں کے درمیان افق کے اختلاف کی وجہ سے اوقات شرعیہ کی مقدار میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے کیا وہ یومیہ واجب نمازوں کے تین اوقات میں ایک جیسا ہے؟ مثال کے طور پر اگر دو صوبوں میں ظہر کے وقت میں ٢٥ منٹ کا اختلاف ہو تو کیا دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی اور اسی مقدار میں اختلاف ہو گا یا صبح، مغرب اور عشاء میں یہ مختلف ہو گا؟ ج: فقط طلوع فجر، زوال آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت کے فرق کی مقدار کے ایک جیسا ہونے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ باقی اوقات میں بھی اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہو، بلکہ مختلف شہروں میں غالباً تینوں اوقات کا اختلاف متفاوت ہوتا ہے۔ س 356: اہل سنت نماز مغرب کو مغرب شرعی سے پہلے پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ایام حج و غیرہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اسی نماز پر اکتفا کر لینا جائز ہے؟ ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نماز وقت سے پہلے ہوتی ہے، اور ان کی جماعت میں شرکت کرنے اور ان کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کافی ہے، لیکن وقت نماز کا درک کرنا ضروری ہے، مگر یہ کہ وقت بھی تقیہ کے موارد میں سے ہو۔ س 357: گرمیوں میں ڈنمارک اور ناروے میں صبح کے چار بجے سورج نکلتا ہے اور ۲۳ بجے غروب کرتا ہے لذا مشرقی سرخی کے زوال اور طلوع و غروب کی رعایت کرتے ہوئے تقریباً ۲۲ گھنٹے کا روزہ بنتا ہے۔ ایسی صورت میں میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز پنجگانہ اور روزے کے اوقات کے لحاظ سے انسان کے لئے اسی جگہ کے افق کا خیال رکھنا واجب ہے جہاں وہ رہائش پذیر ہے اور اگر دن کے طولانی ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا غیر مقدور یا حرج پر مشتمل ہو تو اس وقت ادائے روزہ ساقط ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔ س 358: سورج کی شعاعیں تقریباً سات منٹ میں زمین تک پہنچتی ہیں تو کیا نماز صبح کے وقت کے ختم ہونے کا معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کی شعاعوں کا زمین تک پہنچنا؟ ج: طلوع آفتاب کا معیار اس کا نمازگزار کے افق میں دیکھا جانا ہے۔ س 359: ذرائع ابلاغ ہر روز، آنے والے دن کے شرعی اوقات کا اعلان کرتے ہیں، کیا ان پر اعتماد کرنا جائز ہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے والی اذان کو وقت کے داخل ہوجانے کا معیار بنایا جا سکتا ہے؟ ج: اگر اس سے مکلف کو وقت کے داخل ہوجانے کا اطمینان حاصل ہوجائے تو اعتماد کرسکتاہے ۔ س 360: کیا اذان کے شروع ہوتے ہی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے یا اذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز شروع کی جائے اور اسی طرح کیا اذان کے شروع ہوتے ہی روزہ دار کیلئے افطار کرنا جائز ہے یا یہ کہ اس پر اذان کے ختم ہونے تک انتظار کرنا واجب ہے؟ ج: اگر اس بات کا یقین ہو کہ وقت داخل ہو جانے کے بعد اذان شروع ہوئی ہے تو آخر اذان تک انتظار کرنا واجب نہیں ہے۔ س 361: کیا اس شخص کی نماز صحیح ہے جس نے دوسری نماز کوپہلی نماز پر مقدم کر دیا ہو، جیسے عشاء کو مغرب پر مقدم کیا ہو۔ ج: اگر غلطی یا غفلت کی وجہ سے نماز کو مقدم کیا ہو اور نماز کو مکمل کرنے کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو تو وہ نماز باطل ہے۔ س 362: ماہ رمضان مبارک کی آمد آمد ہے؛ شہروں کی توسیع اور طلوع فجر کے وقت کی حتمی تشخیص ممکن نہ ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے نماز صبح اور اختتام سحری کے کے بارے میں اپنی رائے بیان فرمائیے۔ ج: ضروری ہے کہ مومنین روزے اور نماز صبح کے وقت میں احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے ریڈیو اور ٹی وی سے اذان صبح شروع ہوتے ہی کھانا چھوڑ دیں اور اذان کے شروع ہونے سے تقریباً دس منٹ کے بعد نماز صبح ادا کریں۔ س363: نماز عصر کا وقت اذان مغرب تک ہے یا غروب آفتاب تک؟ نیز نماز عشاء اور منیٰ میں رات بسر کرنے ( بیتوتہ ) کیلئے شرعی طور پر آدھی رات کو نسا وقت ہے ؟ ج: نماز عصر کا آخری وقت غروب آفتاب تک ہے اور آدھی رات کو معلوم کرنے کیلئے اول غروب سے طلوع فجر تک رات شمار کریں۔ س364: جوشخص نمازعصر کے اثناء میں متوجہ ہے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو اسکی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اگر اس خیال سے نماز عصر میں مشغول ہو کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے اور پھر نماز کے دوران متوجہ ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی اور ہو بھی ظہر و عصرکے مشترکہ وقت میں تو فوراً اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا لے اور نماز کو مکمل کرے اور اس کے بعد نماز عصر پڑھے لیکن اگر ایسا نماز ظہر کے مخصوص وقت(1) میں ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنی نیت کو نماز ظہر کی طرف پلٹا لے اور نماز کو مکمل کرے اور اس کے بعد ظہر و عصر کی دونوں نمازوں کو ترتیب کے ساتھ انجام دے۔ نماز مغرب و عشاء کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، البتہ اس صورت میں کہ جب چوتھی رکعت کے رکوع میں داخل نہ ہوا ہو۔ تاہم اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو احتیاط کی بناپر نماز کو پورا کرے اور اس کے بعد مغرب اور عشاء کو ترتیب کے ساتھ ادا کرے۔ 1 ۔ ظہر کا مخصوص وقت اول ظہر سے لے کر اتنا وقت ہے کہ جس میں نماز پڑھی جاسکے یعنی جس میں غیر مسافر چار رکعتیں اور مسافر دورکعتیں پڑھ سکے ۔ قبلہ کے احکام قبلہ کے احکام پرنٹ ; PDF قبلہ کے احکام س 365: درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔ ١ ۔ بعض فقہی کتابوں میں ذکر ہے کہ خرداد کی ساتویں اور تیر کی پچیسویں تاریخ بمطابق ۲۸مئی اور۱۶ جولائی کو سورج عمودی طور پر خانہ کعبہ کے اوپر ہوتا ہے، تو کیا اس صورت میں جس وقت مکہ میں اذان ہوتی ہے اس وقت شاخص نصب کر کے جہت قبلہ کو معین کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر مسجدوں کے محراب کے قبلہ کی جہت، شاخص کے سایہ سے مختلف ہو تو کس کو صحیح سمجھا جائے گا؟ ٢۔ کیا قبلہ نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے؟ ج: شاخص اور قبلہ نما کے ذریعہ اگر مکلف کو جہت قبلہ کا اطمینان حاصل ہو جائے تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے،بصورت دیگر جس طرف زیادہ گمان ہوجائے، اس طرف رخ کرکے نماز پڑھے مثلاً مسجد کے محراب سے گمان حاصل ہوجائے۔ س 366: جب جنگ میں شدید لڑائی جہت قبلہ کی تعیین سے مانع ہو تو کیا کسی بھی طرف رخ کر کے نماز کا پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اگر کسی طرف کا گمان نہ ہو اور وقت بھی ہو تو بنا بر احتیاط چاروں طرف نماز پڑھی جائے، ورنہ جتنا وقت ہو اس کے مطابق جس سمت میں قبلہ کا احتمال ہے اسکی طرف نماز پڑھے۔ س367: اگر کرۂ زمین کی دوسری سمت میں خانہ کعبہ کابالکل مقابل والا نقطہ دریافت ہو جائے، اس طرح کہ اگر ایک خط مستقیم زمین کعبہ کے وسط سے کرۂ ارض کو چیرتا ہوا مرکز زمین سے گزرے تو دوسری طرف اس نقطہ سے نکل جائے تو اس نقطہ پر قبلہ رخ کیسے کھڑے ہوں گے؟ ج: قبلہ رخ ہونے کا معیار یہ ہے کہ کرۂ زمین کی سطح سے خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرے، یعنی جو شخص روئے زمین پر ہے، وہ اس کعبہ کی طرف رخ کرے جو مکہ مکرمہ میں سطح زمین پر بنا ہوا ہے اس بنا پر اگر وہ زمین کے کسی ایسے نقطے پر کھڑا ہو جہاں سے چاروں سمتوں میں کھینچے جانے والے خطوط مساوی مسافت کے ساتھ کعبہ تک پہنچتے ہوں تو اسے اختیار ہے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے، لیکن اگرکسی سمت کے خط کی مسافت اتنی کمترہوکہ اسکی بناپر عرفی لحاظ سے قبلہ رخ ہونا مختلف ہوجائے تو انسان پر واجب ہے کہ تھوڑے فاصلے والی سمت کا انتخاب کرے۔ س 368: جس جگہ ہم جہت قبلہ کو نہ جانتے ہوں اور کسی جہت کا گمان بھی نہ ہو تو ایسی جگہ پر ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی کس سمت کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ؟ ج: بنابر احتیاط چاروں طرف رخ کر کے نمازپڑھیں اور اگر چار نمازوں کا وقت نہیں ہو تو جتنی نمازوں کا وقت ہے اتنی ہی پڑھیں۔ س369: قطب شمالی اور قطب جنوبی میں قبلہ کی سمت کو کس طرح معین کیا جائے گا؟ اور کس طرح نماز پڑھی جائے گی؟ ج: قطب شمالی و جنوبی میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا معیار نماز گزار کی جگہ سے کعبہ تک روئے زمین کے اوپر سب سے چھوٹا خط ہے اور اس خط کے معین ہو جانے کے بعد اسی رخ پر نماز پڑھی جائے گی۔ نماز کی جگہ کے احکام نماز کی جگہ کے احکام پرنٹ ; PDF نماز کی جگہ کے احکام س 370: وہ مقامات جن کو ظالم حکومتوں نے غصب کر لیا ہے، کیا وہاں بیٹھنا، نماز پڑھنا اور گزرنا جائز ہے؟ ج: اگر غصبی ہونے کا علم ہو تو ان مقامات کا حکم، غصبی چیزوں جیسا ہے۔ س 371: اس زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو پہلے وقف تھی اور پھر حکومت نے اس پر تصرف کر کے اس میں اسکول بنا دیا ہو؟ ج: اگر اس بات کاقابل اعتنا احتمال ہو کہ اس میں مذکورہ تصرف شرعی لحاظ سے جائز تھا تو اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ س 372: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ س 373: اگر کوئی شخص ایک مدت تک غیر مخمس جا نماز یا لباس میں نماز پڑھے تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اب تک اس میں جو نمازیں پڑھی ہیں، وہ صحیح ہیں۔ س 374: کیا یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں مردوں کا عورتوں سے آگے ہونا واجب ہے؟ ج: احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ نماز کی حالت میں مرد اور عورت کے درمیان کم از کم ایک بالشت فاصلہ ہو اور اس صورت میں اگر مرد اور عورت عرض میں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوں یا عورت آگے ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔ س375: مسجدوں میں امام خمینی اور شہدائے انقلاب کی تصویریں لگانے کا کیا حکم ہے، جبکہ امام خمینی مساجد میں اپنی تصویروں کے لگانے پر راضی نہ تھے، اور اس کی کراہت کے بارے میں بھی کئی مطالب موجود ہیں؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر یہ تصویریں مسجد کے هال کے اندر ہوں تو بہتر ہے کہ نماز کے وقت انہیں کسی طریقے سے ڈھانپ دیا جائے۔ س 376: ایک شخص سرکاری مکان میں رہتا ہے، اب اس میں اس کے رہنے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور مکان خالی کرنے کیلئے اس کے پاس نوٹس بھیجا گیا ہے، لہذا خالی کرنے کی مقررہ تاریخ کے بعد اس مکان میں اس کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مقررہ تاریخ کے بعد متعلقہ حکام کی طرف سے اس مکان میں رہنے کی اجازت نہ ہو تو اس کے لئے اس میں تصرف کرنا غصب کے حکم میں ہے۔ س 377: جس جائے نماز پر تصویریں اور سجدہ گاہ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہوں، کیا ان پر نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ ج: بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس سے شیعوں پر تہمت لگانے والوں کے لئے بہانہ فراہم ہوتا ہو تو ایسی چیزیں بنانا اور ان پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر اس سے توجہ ہٹ جائے اور نماز میں حضور قلب نہ رہے تو مکروہ ہے۔ س 378: اگر نماز پڑھنے کی جگہ پاک نہ ہو، لیکن سجدہ کی جگہ پاک ہو تو کیا نماز صحیح ہے؟ ج: اگر اس جگہ کی نجاست لباس یا بدن میں سرایت نہ کرے اور سجدہ کی جگہ پاک ہو تو ایسی جگہ پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س379: ہمارے دفتر کی موجودہ عمارت پرانے قبرستان پر بنائی گئی ہے۔ تقریباً چالیس سال سے اس میں مردے دفن کرنا چھوڑ دیا گیا تھا اور تیس سال پہلے اس عمارت کی بنیاد پڑی ہے۔ اب پوری زمین پر دفتر کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور اس وقت قبرستان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ کیا ایسے دفتر میں اس کے ملازمین کی نمازیں شرعی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں؟ ج: اس میں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ شرعی طریقے سے ثابت ہو جائے کہ یہ جگہ جہاں مذکورہ عمارت بنائی گئی ہے، میت دفن کرنے کے لئے وقف کی گئی تھی اور اس میں غیر شرعی طریقے سے تصرف کر کے عمارت بنائی گئی ہے۔ س 380: مؤمن نوجوانوں نے امر بالمعروف کی خاطر ہفتے میں ایک یا دو دن سیر گا ہوں میں نماز قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے، لیکن بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ سیر گاہوں کی ملکیت واضح نہیں ہے، لہذا ان جگہوں پر نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: موجودہ سیر گاہوں و غیرہ کو نماز قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غصب کے فقط احتمال کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔ س 381: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ س 382: ہمارے شہر میں دو ملی ہوئی مسجدیں تھیں جن کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا، کچھ دنوں پہلے بعض مؤمنین نے دونوں مسجدوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے درمیانی دیوار کے اچھے خاصے حصے کو گرا دیا ہے، یہ اقدام بعض لوگوں کے لئے شک و شبہ کا سبب بن گیا ہے اور اب تک وہ اس بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ فرمائیں اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ ج: دونوں مسجدوں کے درمیان کی دیوار کو گرانے سے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ س 383: شاہراہوں پر ہوٹلوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی بھی جگہ ہوتی ہے، پس اگر کوئی شخص اس ہوٹل میں کھانا نہ کھائے تو کیا اس کیلئے وہاں نماز پڑھنا جائز ہے یا اجازت لینا واجب ہے؟ ج: اگر اس بات کا احتمال ہو کہ نماز کی جگہ ہوٹل والے کی ملکیت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے نماز پڑھنے کیلئے ہے جو اس ہوٹل میں کھانا کھائیں، تو اجازت لینا واجب ہے۔ س 384: جو شخص غصبی زمین میں نماز پڑھے، لیکن اس کی نماز، جائے نماز یا تخت پر ہو تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا صحیح؟ ج: غصبی زمین پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہے خواہ وہ جائے نماز یا تخت پر ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔ س385: وہ ادارے اور کمپنیاں جو آجکل حکومت کے اختیار میں ہیں ان میں بعض افراد ایسے ہیں جو یہاں پر قائم ہونے والی نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے مالکوں سے شرعی عدالت کے فیصلہ پر ضبط کی گئی ہیں۔ براہ مہربانی اس سلسلے میں آپ اپنے فتوے سے مطلع فرمائیں؟ ج: اگر یہ احتمال ہو کہ ضبط کرنے کا حکم ایسے قاضی نے دیا تھا جس کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس نے شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تو شرعاً اس کا عمل صحیح تھا، لہذا ایسی صورت میں اس جگہ میں تصرف کرنا جائز ہے اور اس پر غصب کا حکم نہیں لگے گا۔ س 386: اگر امام بارگاہ کے پڑوس میں مسجد ہو تو کیا امام بارگاہ میں نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے؟ اور کیا دونوں جگہوں کا ثواب مساوی ہے؟ ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے سے زیادہ ہے لیکن امام بارگاہ یا دوسری جگہوں پر نماز جماعت قائم کرنے میں بذات خود شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔ س 387: جس جگہ حرام موسیقی بج رہی ہو کیا وہاں نماز پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اگر وہاں نماز پڑھنا حرام موسیقی سننے کا سبب بنے تو اس جگہ ٹھہرنا جائز نہیں ہے، لیکن نماز صحیح ہے اور اگر موسیقی کی آواز نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے تو اس جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ س 388: ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جن کو کشتی کے ذریعہ خاص ڈیوٹی پر بھیجا جاتا ہے اور سفر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور اگر وہ اسی وقت نماز نہ پڑھیں تو پھر وہ وقت کے اندر نماز نہیں پڑھ سکیں گے؟ ج: مذکورہ صورت میں ان پر واجب ہے کہ جس طرح ممکن ہو نماز پڑھیں اگر چہ کشتی میں ہی۔ مسجد کے احکام مسجد کے احکام پرنٹ ; PDF مسجد کے احکام س 389: اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے، کیا اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے شہر کی جامع مسجد جانے میں کوئی اشکال ہے؟ ج: اگر اپنے محلہ کی مسجد چھوڑنا دوسری مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کے لئے ہو خصوصاً شہر کی جامع مسجد میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 390: اس مسجدمیں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جس کے بانی یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہم نے اپنے لئے اور اپنے قبیلہ والوں کے لئے بنائی ہے؟ ج: مسجد جب مسجد کے عنوان سے تعمیر کی جائے تو قوم ، قبیلہ اور اشخاص سے مخصوص نہیں رہتی بلکہ اس سے تمام مسلمان استفادہ کر سکتے ہیں۔ س391: عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ ج: مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ س 392: دور حاضر میں مسجد الحرام اور صفا و مروہ کی سعی والی جگہ کے درمیان تقریباً آدھا میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی دیوار ہے یہ مسجد اور سعی والی جگہ کے درمیان مشترک دیوار ہے ، کیا وہ عورتیں اس دیوار پر بیٹھ سکتی ہیں جن کے لئے ایام حیض کے دوران مسجد الحرام میں داخل ہونا جائز نہیں ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر جب یقین ہوجائے کہ وہ مسجد کا جز ہے ۔ س 393: کیا محلہ کی مسجد میں ورزش کرنا اور سونا جائز ہے ؟ اور اس سلسلہ میں دوسری مساجد کا کیا حکم ہے؟ ج: مسجد ورزش گاہ نہیں ہے اور جو کام مسجد کے شایان شان نہیں ہیں انہیں مسجد میں انجام دینے سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور مسجد میں سونا مکروہ ہے ۔ س 394: کیا مسجد کے ہال سے جوانوں کی فکری ، ثقافتی اور عسکری ( عسکری تعلیم کے ذریعے ) ارتقاء کیلئے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ اور اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کاموں کے مراکز کم ہیں انہیں مسجد کے ایوان میں انجام دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ ج: بعض امور مثلاً تعلیمی کلاسیں رکھنا اگر مسجد کی شان کے منافی نہ ہو اور نماز جماعت اور نمازیوں کے لئے کسی مزاحمت کا باعث نہ بنے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 395: بعض علاقوں ، خصوصاً دیہاتوں میں لوگ مساجد میں شادی کا جشن منعقد کرتے ہیں یعنی وہ رقص اور گانا تو گھروں میں کرتے ہیں لیکن دوپہر یا شام کا کھانا مسجد میں کھلاتے ہیں ۔ شریعت کے لحاظ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ ج: مہانوں کو مسجد میں کھانا کھلانے میں فی نفسہ کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س396: پرائیوٹ کوآپریٹیو کمپنیاں رہائش کے لئے فلیٹ اور کالونیاں بناتی ہیں ۔ شروع میں اس بات پر اتفاق ہوتا ہے کہ ان فلیٹوں میں عمومی مقامات جیسے مسجد و غیرہ ہوں گے لیکن اب جب گھر اس کمپنی کے حصص کے مالکان کو دے دیئے گئے ہیں کیا ان میں سے بعض کے لئے جائز ہے کہ وہ اس معاہدہ کو توڑدیں اور یہ کہہ دیں کہ ہم مسجد کی تعمیر کے لئے راضی نہیں ہیں ؟ ج: اگر کمپنی اپنے تمام ممبران کی موافقت سے مسجد کی تعمیر کا اقدام کرے اور مسجد تیار ہوجانے کے بعد وقف ہوجائے تو اپنی پہلی رائے سے بعض ممبران کے پھرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ لیکن اگر مسجد کے شرعی طور پر وقف ہونے سے قبل بعض ممبران اپنی سابقہ موافقت سے پھر جائیں تو ان کے اموال کے ساتھ تمام ممبران کی مشترکہ زمین میں ان کی رضامندی کے بغیر مسجد تعمیر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کمپنی کے تمام ممبران سے عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط کرلی گئی ہو کہ مشترکہ زمین کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لئے مخصوص کیا جائے گا اور تمام ممبران نے اس شرط کو قبول کیا ہو اس صورت میں انہیں اپنی رائے سے پھر نے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ان کے پھرنے سے کوئی اثر پڑسکتا ہے ۔ س 397: غیر اسلامی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مسجد میں ابتدائی اور مڈل کلاسوں کے تیس لڑکوں کو گروہ ترنم کی شکل میں جمع کیا ہے اس گروہ کے افراد کو عمرو فکری استعداد کے مطابق قرآن کریم ،احکام اور اسلامی اخلاق کا درس دیا جاتا ہے ۔ اس کام کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ لوگ آلہ موسیقی جسے "ارگن" کہا جاتا ہے ، استعمال کریں تو اس کا کیاحکم ہے ؟ اور شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں اس کی مشق کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: مسجد میں قرآن کریم ، احکام اور اسلامی اخلاق کی تعلیم دینے اورمذہبی و انقلابی ترانوں کی مشق کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن بہر حال مسجد کے شان و مقام اور تقدس کی رعایت کرنا واجب ہے اور مسجد کی شان اور مقام سے منافات رکھنے والے کاموں سے پرہیز کیا جائے اور نمازیوں کے لئے مزاحمت پیدا کرنا جائزنہیں ہے ۔ س398: کیا مسجد میں ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کے لئے شرکت کرتے ہیں ، ایسی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج ہے جن کو ایران کی وزارت ثقافت نے جاری کیا ہو؟ ج: مسجد کو فلم دکھانے کی جگہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن ضرورت کے وقت اور مسجد کے پیش نماز کی نگرانی میں مفید اور سبق آموزمذہبی اور انقلابی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 399: کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولادت کے موقع پر مسجد سے فرح بخش موسیقی کے نشر کرنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ ج: واضح رہے کہ مسجد ایک خاص شرعی مقام رکھتی ہے،لذا اس میں موسیقی نشر کرنا اگر اس کی حرمت اور احترام کے منافی ہو تو حرام ہے،اگر چہ حلال موسیقی ہی کیوں نہ ہو۔ س 400: مساجد کے لاؤڈاسپیکر ، جس کی آواز مسجد کے باہر سنی جاتی ہے، کا استعمال کب جائز ہے؟ اور اذان سے قبل اس پر تلاوت اور انقلابی ترانے نشر کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: جن اوقات میں محلہ والوں اور ہمسایوں کے لئے تکلیف و اذیت کا سبب نہ ہو ان میں اذان سے قبل چند منٹ تلاوت قرآن نشر کرنے میں اشکال نہیں ہے۔ س 401: جامع مسجد کی تعریف کیا ہے؟ ج: وہ مسجد جو شہر میں تمام اہل شہر کے اجتماع کے لئے بنائی جاتی ہے اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہوتی ۔ س 402: تیس سال سے ایک مسجد کا چھت والا حصہ ویران پڑا تھا اس میں نماز نہیں ہوتی تھی اور وہ کھنڈر بن چکا تھا ، اس کا ایک حصہ سٹور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے رضا کاروں نے کہ جو تقریبا پندرہ سال سے اس چھت والے حصے میں مستقر ہیں اس میں کچھ تعمیراتی کام کیا ہے کیونکہ اسکی حالت بہت ہی غیر مناسب تھی اور اسکی چھت گرنے کے قریب تھی اور چونکہ یہ لوگ مسجد کے شرعی احکام سے ناواقف تھے اور جو لوگ جانتے تھے انہوں نے بھی ان کی راہنمائی نہیں کی ۔ لہٰذا انہوں نے چھت والے حصے میں چند کمرے تعمیر کرائے کہ جن پر خطیر رقم خرچ ہوئی اب تعمیر کا کام اختتام پر ہے۔ براہ مہربانی درج ذیل موارد میں حکم شرعی سے مطلع فرمائیں: ١۔ فرض کیجئے اس کام کے بانی اور اس پر نگران کمیٹی کے اراکین مسئلہ سے ناواقف تھے تو کیا یہ لوگ بیت المال سے خرچ کئے جانے والی رقم کے ضامن ہیں ؟ اور وہ گناہگار ہیں؟ ٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے ۔ کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ جب تک مسجد کو اس حصہ کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں نماز قائم نہیں ہوتی ان کمروں سے مسجد کے شرعی احکام و حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآن و احکام شریعت کی تعلیم اور مسجد کے دیگر امور کے لئے استفادہ کیا جائے یا ان کمروں کو فوراً گرادینا واجب ہے؟ ج: مسجد کے چھت والے حصے میں بنے ہوئے کمروں کو منہدم کر کے اس کو سابقہ حالت پر لوٹا نا واجب ہے اور خرچ شدہ رقم کے بارے میں اگر افراط و تفریط نہ ہوئی ہو اور جان بوجھ کر اور کوتا ہی کرتے ہوئے ایسا نہ کیا گیا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کا کوئی ضامن ہو اور مسجد کے چھت والے حصے میں قرائت قرآن ، احکام شرعی ، اسلامی معارف کی تعلیم اور دوسرے دینی و مذہبی پروگرام منعقد کرنے میں اگر نماز گزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو اورامام جماعت کی نگرانی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور امام جماعت ، رضاکاروں اور مسجد کے دوسرے ذمہ دار حضرات کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تا کہ مسجد میں رضا کاروں کا وجود بھی مستمر رہے اور مسجد کے عبادی فرائض جیسے نماز و غیرہ میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ س 403: ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے میں متعدد مساجد آتی ہیں۔ منصوبے کے اعتبار سے بعض مسجدیں پوری منہدم ہوتی ہیں اور بعض کا کچھ حصہ گرایا جائے گا تا کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں آسانی ہو براہ مہربانی اس سلسلے میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟ ج: مسجد یا اس کے کسی حصہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے مگر ایسی مصلحت کی بناء پر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہ ہو ۔ س 404: کیا مساجد کے وضو کے لئے مخصوص پانی کو مختصر مقدار میں اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے مثلا دوکاندار پینے، چائے بنانے یا موٹر گاڑی میں ڈالنے کے لئے اس سے استفادہ کریں واضح رہے کہ اس مسجد کا واقف کوئی ایک شخص نہیں ہے جو اس سے منع کرے؟ ج: اگر معلوم نہ ہو کہ یہ پانی صرف نماز گزاروں کے وضو کے لئے وقف ہے اور اس محلہ کے عرف میں یہ رائج ہو کہ اس کے ہمسائے اور راہ گیر اس کے پانی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔ س 405: قبرستان کے پاس ایک مسجد ہے اور جب بعض مومنین قبور کی زیارت کے لئے آتے ہیں تو وہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر پانی چھڑکنے کے لئے اس مسجد سے پانی لیتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف ہے یا عمومی استفادہ کیلئے ہے اور بالفرض اگر یہ مسجد کے لئے وقف نہ ہو تو معلوم نہیں ہے کہ یہ وضو اور طہارت کے ساتھ مخصوص ہے یا نہیں ۔ تو کیا اسے قبر پر چھڑکنا جائز ہے؟ ج: ان قبور پر پانی چھڑکنے کیلئے مسجد کے پانی سے استفادہ کرنا کہ جو اس سے باہر ہیں اگر لوگوں میں رائج ہو اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور اس بات پر کوئی دلیل نہ ہو کہ پانی صرف وضو اور طہارت کے لئے وقف ہے تو اس استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 406: اگر مسجد میں تعمیراتی کام کی ضرورت ہو تو کیا حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ضروری ہے؟ ج: اگر مسجد کی تعمیر اہل خیر افراد کے مال سے کرنا ہو تو اس میں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ س 407: کیا میں یہ وصیت کر سکتا ہوں کہ مرنے کے بعد مجھے محلہ کی اس مسجد میں دفن کیا جائے :جس کے لئے میں نے بہت کوششیں کی تھیں کیونکہ میں چاہتا ہوں مجھے اس مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں دفن کیا جائے؟ ج: اگر صیغۂ وقف جاری کرتے وقت مسجد میں میت دفن کرنے کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں آپ کی وصیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ س 408: ایک مسجد تقریباً بیس سال پہلے بنائی گئی ہے اور اسے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام مبارک سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مسجد کا نام صیغہ ٔ وقف میں ذکر کیا گیا ہے یا نہیں تو مسجد کا نام مسجد صاحب زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بجائے بدل کر جامع مسجد رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف مسجد کا نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 409: جن مساجد میں مومنین کے عطیوں اور مساجد کی خاص نذور سے بجلی اور ائرکنڈیشننگ کے سسٹم کا انتظام کیا جا تا ہے جب محلہ والوں میں سے کوئی مرجاتا ہے تو ان میں اس کے فاتحہ کی مجلس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مجلس میں مسجد کی بجلی اور ائرکنڈیشنر و غیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجلس کرنے والے اس کا پیسہ ادا نہیں کرتے شرعی نقطہ نظر سے یہ جائز ہے یا نہیں؟ ج: مسجد کے وسائل سے فاتحہ کی مجلس و غیرہ میں استفادہ کرنا وقف و نذر کی کیفیت پر موقوف ہے۔ س 410: گاؤں میں ایک نئی مسجد ہے جو پرانی مسجد کی جگہ بنائی گئی ہے موجودہ مسجد کے ایک کنارے پرکہ جس کی زمین پرانی مسجد کا جزہے ، مسئلہ سے نا واقفیت کی بنا پر چائے و غیرہ بنانے کے لئے ایک کمرہ تعمیر کیا گیا ہے اور اسی طرح مسجد کے نیم چھت جو کہ مسجد کے ہال کے اندر ہے پر ایک لائبریری بنائی گئی ہے، براہ مہربانی اس سلسلہ میں اپنی رأے بیان فرمائیں؟ ج: سابق مسجد کی جگہ پر چائے خانہ بنانا صحیح نہیں ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد کی حالت میں بدلنا واجب ہے اور مسجد کے ہال کے اندر کی نیم چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے اور اس پر مسجد کے تمام شرعی احکام و اثرات مترتّب ہوں گے لیکن اس میں کتابوں کی الماریاں نصب کرنا اور مطالعہ کے لئے وہاں جمع ہونے میں ، اگر نمازگزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 411: اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک گاؤں میں ایک مسجد گرنے والی ہے لیکن فی الحال اسے منہدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ راستہ میں رکاوٹ نہیں ہے کیا مکمل طور پر اس مسجد کو منہدم کرنا جائز ہے؟ اس مسجد کا کچھ اثاثہ اور پیسہ بھی ہے یہ چیزیں کس کو دی جائیں ؟ ج: مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور کلی طور پر مسجدکو گرانے سے وہ مسجد کے حکم کے خارج نہیں ہوگی ، اور مسجد کے اثاثہ و مال کو اگر اسکی خود اس مسجد کو ضرورت نہیں ہے تو استفادہ کے لئے دوسری مسجدوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ س 412: کیا مسجد کی عمارت میں کسی تصرف کے بغیر، مسجد کے ہال کے ایک گوشے میں میوزیم بنانے میں کوئی شرعی حرج ہے جیسا کہ آج کل مسجد کے اندر لائبریری بنادی جاتی ہے؟ ج: اگر مسجد کے ہال کے گوشہ میں لائبریری یا میوزیم بنانا مسجد کے ہال کے وقف کی کیفیت کے منافی یا مسجد کی عمارت میں تغیر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔ مذکورہ غرض کے لئے بہتر ہے کہ مسجد سے متصل کسی جگہ کا انتظام کیا جائے۔ س 413: ایک موقوفہ جگہ میں مسجد ، دینی مدرسہ اور پبلک لائبریری بنائی گئی ہے اور یہ سب اس وقت کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ سب بلدیہ کے توسیع والے نقشہ میں آرہے ہیں کہ جن کا انہدام بلدیہ کے لئے ضروری ہے ، ان کے انہدام کے لئے بلدیہ سے کیسے تعاون کیا جائے اور کیسے ان کا معاوضہ لیا جائے تا کہ اس کے عوض نئی اور اچھی عمارت بنائی جاسکے؟ ج: اگر بلدیہ اس کو منہدم کرنے اور معاوضہ دینے کے لئے اقدام کرے اور معاوضہ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی ایسی اہم مصلحت کے بغیر کہ جس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے موقوفہ مسجد و مدرسہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔ س 414: مسجد کی توسیع کے لئے اس کے صحن سے چند درختوں کو اکھاڑنا ضروری ہے ۔ کیا ان کو اکھاڑنا جائز ہے ، جبکہ مسجد کا صحن کا فی بڑا ہے اور اس میں اور بھی بہت سے درخت ہیں؟ ج: اگر درخت کاٹنے کو وقف میں تغیر و تبدیلی شمار نہ کیا جاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 415: اس زمین کا کیا حکم ہے جو مسجد کے چھت والے حصے کا جز تھی ، بعد میں بلدیہ کے توسیعی دائرے میں آنے کی وجہ سے مسجد کے اس حصہ کو مجبوراً منہدم کرکے سڑک میں تبدیل کردیا گیا؟ ج: اگر اس کی پہلی حالت کی طرف پلٹنے کا کوئی احتمال نہ ہو تو مسجد کے شرعی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ س 416: ایک مسجد منہدم ہوچکی ہے اور اسکے مسجد والے آثار محو ہوچکے ہیں یا اسکی جگہ کوئی اور عمارت بنادی گئی ہے اور اسکی تعمیر نو کی کوئی امید نہیں ہے مثلاً وہاں کی آبادی ویران ہوگئی ہے اور اس نے وہاں سے نقل مکانی کر لی ہے کیا اس ( مسجد والی) جگہ کو نجس کرنا حرام ہے؟اور اسے پاک کرنا واجب ہے؟ ج: سوال کے مذکورہ فرض میں اس جگہ کو نجس کرنا حرام نہیں؛ اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ اسے نجس نہ کیا جائے۔ س 417: میں عرصہ سے ایک مسجد میں نماز جماعت پڑھاتا ہوں ، اور مسجد کے وقف کی کیفیت کی مجھے اطلاع نہیں ہے، دوسری طرف مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں بھی مشکلات در پیش ہیں کیا مسجد کے سرداب کو مسجد کے شایان شان کسی کام کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے؟ ج: اگر سرداب پر مسجد کا عنوان صادق نہیں آتا ہے اور وہ اس کا ایسا جز بھی نہیں ہے جس کی مسجد کو ضرورت ہو اور اس کا وقف بھی وقف انتفاع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 418: مسجد کے پاس کوئی املاک نہیں ہیں که جن سے اس کے اخراجات پورے کئے جاسکیں اور مسجد کے ٹرسٹ نے اسکے چھت والے حصے کے نیچے مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ایک تہ خانہ کھود کراس میں ایک چھوٹی سی فیکٹری یا دوسرے عمومی مراکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ ج: فیکٹری وغیرہ کی تسیس کے لئے مسجد کی زمین کو کھودنا جائز نہیں ہے۔ س 419: کیا مسلمانوں کی مساجد میں کفّار کا داخل ہونا مطلقاً جائز ہے خواہ وہ تاریخی آثار کو دیکھنے کیلئے ہی ہو؟ ج: مسجد حرام میں داخل ہو نا شرعاً ممنوع ہے اور دیگر مساجد میں داخل ہونا اگر مسجد کی ہتک اور بے حرمتی شمار کی جائے تو جائز نہیں ہے بلکہ دیگر مساجد میں بھی وہ کسی صورت میں داخل نہ ہوں۔ س 420: کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے جو کفّار کے توسط سے بنائی گئی ہو؟ ج: کوئی حرج نہیں ہے۔ س 421: اگر ایک کافر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر کے لئے پیسہ دے یا کسی اور طریقہ سے مدد کرے تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے۔ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 422: اگر ایک شخص رات میں مسجد میں آکر سوجائے اور اسے احتلام ہوجائے لیکن جب بیدارہو تو اس کیلئے مسجد سے نکلنا ممکن نہ ہو تو اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: اگر وہ مسجد سے نکلنے اور دوسری جگہ جانے پر قادر نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ فوراً تیمّم کرے تا کہ اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنے کا جواز پیدا ہوجائے۔ دیگر مذہبی مقامات کے احکام دیگر مذہبی مقامات کے احکام پرنٹ ; PDF دیگر مذہبی مقامات کے احکام س 423: کیا شرعی نقطۂ نظر سے امام بارگاہ کو چند معین اشخاص کے نام رجسڑڈ کرانا جائز ہے ؟ ج: دینی مجالس برپا کرنے کے لئے موقوفہ امام بارگاہ کو کسی کی ملکیت کے طور پر رجسٹرڈ کرانا جائز نہیں ہے اور معین اشخاص کے نام وقف کے طور پر رجسٹرڈ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بعض معین افراد کے نام بطور وقف رجسٹرڈ کرانے کیلئے بہتر ہے کہ ان تمام افراد کی اجازت لی جائے جنہوں نے اس عمارت کے بنانے میں شرکت کی ہے۔ س 424: مسائل کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ مجنب شخص اور حائض عورت دونوں کے لئے ائمہ (علیہم السلام) کے حرم میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف قبہ کے نیچے کی جگہ حرم ہے یا اس سے ملحق ساری عمارت حرم ہے؟ ج: حرم سے مراد وہ جگہ ہے جو قبۂ مبارکہ کے نیچے ہے اور عرف عام میں جس کو حرم اور زیارت گاہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن ملحقہ عمارت اور ہال حرم کے حکم میں نہیں ہیں لہذا ان میں مجنب و حائض کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ کہ ان میں سے کسی کو مسجد بنادیا گیا ہو۔ س425: قدیم مسجد کے ساتھ ایک امام بارگاہ بنائی گئی ہے اور آج کل مسجد میں نمازگزاروں کیلئے گنجائش نہیں ہے، کیا مذکورہ امام بارگاہ کو مسجد میں شامل کر کے اس سے مسجد کے عنوان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟ ج: امام بارگاہ میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امام بارگاہ کو شرعاً صحیح طریقہ سے امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کیا گیا ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنا اور اسے ساتھ والی مسجد میں مسجد کے عنوان سے ضم کرنا جائز نہیں ہے۔ س 426: کیا اولاد ائمہ میں سے کسی کے مرقد کے لئے نذر میں آئے ہوئے سامان اور فرش کو محلہ کی جامع مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ج: اگر یہ چیزیں فرزند امام کے مرقد اور اس کے زائرین کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س 427: جو عزا خانے حضرت ابوالفضل العباس اور دیگر شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں کیا وہ مسجد کے حکم میں ہیں؟ امید ہے کہ ان کے احکام بیان فرمائیں گے۔ ج: امام بارگاہیں اور عزاخانے مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔ نماز گزار کالباس نماز گزار کالباس پرنٹ ; PDF نماز گزار کالباس س 428: جس لباس کی نجاست کے بارے میں شک ہے کیا اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے؟ جس لباس کے نجس ہونے میں شک ہو اور حالت سابقہ نجاست نہ ہو تو وہ پاک ہے اور اس میں نماز صحیح ہے۔ س 429: میں نے جرمنی میں چمڑے کی ایک بیلٹ خریدی تھی کیا اس کو باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی شرعی اشکال ہے؟ اگر مجھے یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا مصنوعی کی اور یہ کہ یہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال کی ہے یا نہیں تو میری ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو میں نے اس میں پڑھی ہیں؟ ج: اگر یہ شک ہو کہ یہ قدرتی اور طبیعی کھال کی ہے یا نہیں تو اسے باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر طبیعی کھال ثابت ہونے کے بعد یہ شک ہو کہ وہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال ہے یا نہیں؟ تو وہ نجس نہیں ہے لیکن اس میں نماز صحیح نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں جو اس حکم سے ناواقفیت کی بناپر پڑھی ہیں انکی قضا نہیں ہے۔ س 430: اگر نماز گزار کو یہ یقین ہو کہ اس کے لباس و بدن پر نجاست نہیں ہے اور وہ نماز بجالائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اگر نماز کے دوران میں کوئی نجاست لگ جائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اسے اپنے بدن یا لباس کے نجس ہونے کا بالکل علم نہ ہو اور نماز کے بعد متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ یا قضاء واجب نہیں ہے لیکن اگر اثنائے نماز میں نجاست عارض ہوجائے[1] اور وہ نجاست کو بغیر ایسا فعل انجام دینے کے جو نماز کے منافی ہے، دور کر سکتا ہو یا نجس لباس کو اتار سکتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نجاست دور کرے یا نجس لباس اتار دے اور اپنی نماز تمام کرے لیکن اگر نماز کی حالت کو باقی رکھتے ہوئے نجاست دور نہیں کرسکتا اور وقت میں بھی گنجائش ہے تو نماز توڑ کر پاک لباس اور بدن کے ساتھ نماز بجالانا واجب ہے۔ س 431: اگر کوئی ایک عرصے تک ایسے حیوان کی کھال پہن کر نماز پڑھتا رہا کہ جس کا شرعی طریقے سے ذبح ہونا مشکوک تھا تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: جس حیوان کاذبح مشکوک ہو وہ گوشت کھانے کی حرمت اور اسکی کھال میں نماز کے عدم جواز کے لحاظ سے مردار کے حکم میں ہے لیکن نجس نہیں ہے اور گذشتہ نمازیں اگر اس حکم سے ناواقفیت کی بنا پر پڑھی ہوں توصحیح ہیں۔ س 432: ایک عورت نماز کے درمیان متوجہ ہوتی ہے کہ اس کے کچھ بال نظر آ رہے ہیں اور فوراً چھپا لیتی ہے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے یا نہیں؟ ج: مذکورہ صورت میں چونکہ بلافاصلہ خود کو چھپایا ہے، دوبارہ پڑھنا واجب نہیں۔ س 433: ایک شخص پیشاب کے مقام کو مجبوراً کنکری ، لکڑی یا کسی اور چیز سے پاک کرتا ہے اور جب گھر لوٹتا ہے تو اسے پانی سے پاک کر لیتا ہے تو کیا نماز کے لئے اندرونی لباس ( انڈرویئر)کا بدلنا یا پاک کرنا بھی واجب ہے؟ ج: اگر لباس پیشاب کی رطوبت سے نجس نہ ہوا ہو تو اس کا پاک کرناواجب نہیں ہے۔ س 434: بیرون ملک سے جو بعض صنعتی مشینیں منگوائی جاتی ہیں وہ ان غیر ملکی ماہرین کے ذریعہ نصب کی جاتی ہیں جو اسلامی فقہ کے اعتبار سے کافر اور نجس ہیں اور یہ معلوم ہے کہ ان مشینوں کی فٹنگ گریس اور دوسرے ایسے مواد کے ذریعے انجام پاتی ہے کہ جسے ہاتھ کے ذریعے ڈالا جاتاہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ مشینیں پاک نہیں رہ سکتیں اور کام کے دوران ان مشینوں سے کاریگروں کا لباس اور بدن مس ہوتا ہے اور نماز کے وقت مکمل طور سے لباس و بدن کوپاک نہیں کرسکتے تو نماز کے سلسلے میں ان کا فریضہ کیا ہے؟ ج: اس احتمال کے پیش نظر کہ مشینوں کو فٹ کرنے والا کافر، اہل کتاب میں سے ہو کہ جنکے پاک ہونے کا حکم لگایا گیاہے یا کام کے وقت وہ دستانے پہنے ہوئے ہو ۔صرف اس بناء پر کہ مشینوں کو کافر نے نصب کیا ہے ان کے نجس ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر مشینوں کی نجاست اور کام کے دوران میں کاریگر کے بدن یا لباس کے سرایت کرنے والی رطوبت کے ساتھ ان مشینوں کے ساتھ مس ہونے کا یقین ہوجائے تو نماز کے لئے بدن کا پاک کرنا اور لباس کا پاک کرنا یا بدلنا واجب ہے۔ س 435: اگر نمازی خون سے نجس رومال یا اس جیسی کوئی نجس چیزا ٹھائے ہوئے ہو یا اسے جیب میں رکھے ہوئے ہو تو اس کی نماز صحیح ہے یا باطل ؟ ج: اگر رومال اتنا چھوٹا ہو جس سے شرم گاہ نہ چھپائی جاسکے تو اس کے نماز کے دوران ہمراہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 436: کیا اس کپڑے میں نماز صحیح ہے جو آج کل کے ایسے پرفیوم سے معطّر کیا گیا ہو جس میں الکحل پایا جاتا ہے؟ ج: جب تک مذکورہ پرفیوم کی نجاست کا علم نہ ہو اس سے معطر کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 437: حالت نماز میں عورت پر بدن کی کتنی مقدار کا چھپانا واجب ہے؟ کیا چھوٹی آستین والے لباس پہننے اور جوراب نہ پہننے میں کوئی حرج ہے؟ ج: عورتوں پر واجب ہے کہ وہ چہرے کی اتنی مقدار جس کا وضو میں دھونا واجب ہے اور ہاتھوں کو کلائی تک اور پاوں کو ٹخنوں کے جوڑ تک کا حصہ چھوڑ کر پورے بدن اور بالوں کو ایسے لباس کے ساتھ چھپائیں کہ جو مکمل طور پر بدن کو ڈھانپ لیتا ہے اور اگر کوئی نامحرم ہو تو پیروں کو بھی چھپائیں۔ س 438: کیا حالت نماز میں عورتوں پر پاؤں کے اوپر والے حصے کو چھپانا بھی واجب ہے یا نہیں؟ ج: اگر نامحرم نہ ہوتو پاوں کو ٹخنوں کے جوڑ تک چھپانا واجب نہیں۔ س439: کیا حجاب پہنتے وقت اورنماز میں ٹھوڑی کو مکمل طور پر چھپانا واجب ہے یا اس کے نچلے حصے ہی کو چھپانا کافی ہے اور کیا ٹھوڑی کا اس لئے چھپانا واجب ہے، کہ وہ چہرے کی اس مقدار کے چھپانے کا مقدمہ ہے جو شرعاً واجب ہے؟ ج: ٹھوڑی کا نچلا حصہ چھپانا واجب ہے نہ کہ ٹھوڑی کا چھپانا کیونکہ وہ چہرے کاجزء ہے۔ س 440: کیا ایسی نجس چیز جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے کے ساتھ نماز کے صحیح ہونے کا حکم صرف اس حالت سے مخصوص ہے جب انسان اس کے حکم یا موضوع کے سلسلے میں نسیان یا ناواقفیت کی بنا پر اس میں نماز پڑھ لے یا پھر یہ شبہۂ موضوعیہ اور شبہۂ حکمیہ دونوں کو شامل ہے؟ ج: یہ حکم نسیان یا جہل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایسی نجس چیز ،کہ جو شرمگاہ کو چھپانے کیلئے کافی نہیں ہے، میں علم کی صورت میں بھی نماز صحیح ہے ۔ س 441: کیا نمازی کے لباس پر بلّی کے بال یا اس کے لعاب دہن کا وجود نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے؟ ج: جی ہاں نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔ 1. ان صورتوں کے علاوہ جو فقہی کتابوں میں مثلا اسی سائٹ پر موجود نماز اور روزے کے رسالوں میں استثناء کیا گیا ہے. سونے چاندی کا استعمال سونے چاندی کا استعمال پرنٹ ; PDF سونے چاندی کا استعمال س442: مردوں کے بارے میں سونے کی انگوٹھی خصوصاً نماز میں پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ج: کسی حالت میں مرد کیلئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بناپر اس میں اس کی نماز بھی باطل ہے۔ س443: مردوں کے لئے سفید سونے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟ ج: جسے سفید سونا کہا جاتاہے اگر یہ وہی زرد سونا ہو کہ جس میں کوئی مواد ملا کراسکے رنگ کو تبدیل کردیا گیا ہو تو حرام ہے لیکن اگر اس میں سونے کی مقدار اتنی کم ہو کہ عرف عام میں اسے سونا نہ کہا جائے تو اشکال نہیں ہے اور پلاٹینم کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ س 444: کیا اس وقت بھی سونا پہننے میں کوئی شرعی اشکال ہے جب وہ زینت کے لئے نہ ہو اور دوسروں کو نظر نہ آئے؟ ج: مردوں کے لئے ہر صورت میں سونا پہننا حرام ہے چاہے وہ انگشتر ہو یا کوی دوسری چیز اور چاہے اسے زینت کے قصد سے نہ پہنا جائے یا دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جائے۔ س 445: مردوں کا تھوڑے سے وقت کے لئے سونا پہننا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیونکہ ہم بعض لوگوں کو یہ دعوی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم مدت کے لیے جیسے عقد کے وقت سونا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ ج: مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے، اور تھوڑے یا زیادہ وقت میں کوئی فرق نہیں ہے س 446: نماز گزارکے لباس کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اس حکم کے پیش نظر کہ مردوں کے لئے سونے سے مزین ہونا حرام ہے، درج ذیل دو سوالوں کے جواب بیان فرمائیں؟ ١۔ کیا سونے سے زینت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لئے مطلق طور پر سونے کا استعمال حرام ہے خواہ وہ ہڈی کے آپریشن اور دانت بنوانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو؟ ٢۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے شہر میں رواج ہے کہ نئے شادی شدہ جوان زرد سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں یہ چیز انکی زینت میں سے شمار نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس شخص کے لئے ازدواجی زندگی کے آغاز کی علامت سمجھی جاتی ہے، تو اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: ١) مردوں کے سونا پہننے کے حرام ہونے کا معیار زینت کا صادق آنا نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قصد سے سونا پہننا حرام ہے، چاہے وہ سونے کی انگوٹھی ہو یا ہار یا زنجیر و غیرہ ہو، لیکن زخم میں بھرنے اور دانت بنوانے میں مردوں کے لئے سونے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ٢) سونے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لئے ہر صورت میں حرام ہے۔ س 447: سونے کے ان زیورات کو بیچنے اور انہیں بنانے کا کیا حکم ہے جو مردوں سے مخصوص ہیں اور جنہیں عورتیں نہیں پہنتیں؟ سونے کے زیورات بنانا اگر صرف مردوں کے استعمال کے لئے ہو تو حرام ہے اور اسی طرح انہیں اس مقصد کے لئے خریدنا اور بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔ س 448: ہم بعض دعوتوں میں دیکھتے ہیں کہ مٹھائی چاندی کے ظروف میں پیش کی جاتی ہے، کیا اس عمل کو چاندی کے ظروف میں کھانے سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ ج: کھانے کے قصد سے چاندی کے برتن میں سے کھانے و غیرہ کی چیز کا اٹھانا اگرکھانے پینے میں چاندی کے برتنوں کا استعمال شمار کیا جائے تو حرام ہے۔ س 449: کیا دانت پر سونے کا خول چڑھوانے میں کوئی اشکال ہے؟ اور دانت پرپلاٹینم کا خول چڑھوانے کا کیا حکم ہے؟ ج: دانت پر سونے یا پلاٹینم کا خول چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اذان و اقامت اذان و اقامت پرنٹ ; PDF اذان و اقامت س 450: ماہ رمضان المبارک میں ہمارے گاؤں کا مؤذن ہمیشہ صبح کی اذان، وقت سے چند منٹ پہلے ہی دے دیتا ہے تاکہ لوگ اذان کے درمیان یااسکے ختم ہونے تک کھانا پینا جاری رکھ سکیں، کیا یہ عمل صحیح ہے؟ ج: اگر اذان دینا لوگوں کو شبہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ہوتو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 451: بعض اشخاص وقت نماز کے داخل ہونے کا اعلان کرنے کیلئے اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے کے سلسلے میں بڑا اثر ہوا ہے اور عام لوگ خصوصاً جوان حضرات اول وقت میں نماز پڑھنے لگے ہیں؟ لیکن ایک صاحب کہتے ہیں : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نہیں ہوا اور بدعت ہے، ہمیں اس بات سے شبہ پیدا ہو گیا ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: اذان یومیه نمازوں کے شروع هونے کا ایک اعلان هے اور اس کے سننے والوں کا تکرار کرنا شرعی لحاظ سے مستحب موکد هے اور اذان کا عام راستوں میں اجتماعی طور پر دینا اگر راسته بند هونے اور لوگوں کی اذیت کا سبب نه هو تو کویی اشکال نهیں هے. س 452: چونکہ بلند آواز سے اذان دینا عبادی، سیاسی عمل ہے اور اس میں عظیم ثواب ہے لہذابعض مؤمنین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر، واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل پر بعض ہمسائے اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: متعارف طریقے سے چھت پر اذان دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 453: ماہ رمضان المبارک میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کیا حکم ہے تا کہ سب لوگ سن لیں؟ ج: جہاں پر اکثر لوگ، رمضان المبارک کی راتوں میں تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذہبی پروگراموں میں شرکت کے لئے بیدار رہتے ہیں، وہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر یہ مسجد کے ہمسایوں کی تکلیف کا موجب ہو تو جائز نہیں ہے۔ س 454: کیا مساجد اوردیگر مراکز سے لاؤڈا سپیکر کے ذریعے اتنی بلند آواز میں کہ جو کئی کلومیٹر تک پہنچے، اذان صبح سے قبل قرآنی آیات اور اس کے بعد دعاؤں کا نشر کرنا صحیح ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ سلسلہ کبھی کبھار آدھے گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہتا ہے؟ ج: رائج طریقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ہو جانے کے اعلان کیلئے لاؤڈ اسپیکر سے اذان نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ مسجد سے آیات قرآنی اور دعاؤں و غیرہ کا نشر کرنا اگر ہمسایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو تو جاپز نہیں ہے۔ س 455: کیا نماز میں مرد، عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ہے؟ ج: مرد کیلئے عورت کی اذان پر اکتفا کرنا محل اشکال ہے۔ س 456: واجب نماز کی اذان اور اقامت میں شہادت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء (حضرت علی علیہ السلام ) کے امیر و ولی ہونے کی گواہی دینے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: " اشہد ان علیا ً ولی اللہ" شرعی لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے، لیکن اسے مذہب تشیع کے شعار کے عنوان سے کہا جائے تو بہت اچھا اور اہم ہے اور ضروری ہے کہ اسے مطلق قصد قربت کے ساتھ کہا جائے۔ س 457: ایک مدت سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں اور بعض اوقات تو اتناشدید ہوجاتا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس چیز کے پیش نظر اگر اول وقت میں پڑھوں تو حتماً بیٹھ کر پڑھوں گا لیکن اگر صبر کروں تو ہوسکتا ہے آخری وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکوں اس صورتحال میں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: اگر آخر وقت میں کھڑے ہوکر پڑھ سکنے کا احتمال ہو تو احیتاط یہ ہے کہ اس وقت تک صبر کیجئے لیکن اگر اول وقت میں کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ لی اور آخر وقت تک وہ عذر برطرف نہ ہوا تو جو نماز پڑھی ہے وہی صحیح ہے اور اسکے اعادے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اول وقت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی قدرت نہ تھی اور آپ کو یقین تھا کہ آخر وقت تک یہ ناتوانی برقرار رہے گی پھرآخر وقت سے پہلے وہ عذر زائل ہوجائے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنا ممکن ہو جائے تو دوبارہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنا واجب ہے۔ قرأت اور اس کے احکام قرأت اور اس کے احکام پرنٹ ; PDF قرأت اور اس کے احکام س 458: اگر نماز میں قرأت جہری (بلند آواز سے) نہ کی جائے تو ہماری نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مردوں پر واجب ہے کہ وہ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھیں لیکن اگر بھولنے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے آہستہ پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے تاہم اگر جان بوجھ کر اور حکم کو جانتے ہوے آہستہ پڑھیں تو نماز باطل ہے۔ س 459: اگر ہم صبح کی قضا نماز پڑھنا چاہیں تو کیا اسے بلند آواز سے پڑھیں گے یا آہستہ؟ ج: صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوںمیں چاہے وہ ادا ہوں یا قضا، مردوں پر حمد و سورہ کو ہر حال میں بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے اگرچہ ان کی قضا دن میں بھی پڑھی جائے اور اگر جان بوجھ کر بلند آواز سے نہ پڑھی جائیں تو نماز باطل ہے۔ س 460: ہم جانتے ہیں کہ نماز کی ایک رکعت: نیت، تکبیرة الاحرام، حمد و سورہ اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے، دوسری طرف مغرب کی تیسری رکعت اورظہر و عصر اورعشاء کی آخری دورکعتوں کو آہستہ پڑھنا واجب ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے جو نماز جماعت براہ راست نشر کی جاتی ہے اسکی تیسری رکعت میں امام جماعت رکوع و سجود کے ذکر کو بلند آواز سے پڑھتا ہے جبکہ رکوع و سجود دونوں ہی اس رکعت کے جزء ہیں جس کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں حکم کیا ہے؟ ج: مغرب و عشاء اور صبح کی نماز میں بلند آواز سے اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف حمد و سورہ سے مخصوص ہے، جیسا کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ باقی رکعتوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا واجب ہونا صرف سورہ حمد یا تسبیحات (اربعہ) سے مخصوص ہے، لیکن رکوع و سجود کے ذکر نیز تشہد و سلام اور اسی طرح نماز پنجگانہ کے دیگر واجب اذکار میں مکلف کو اختیار ہے کہ وہ انہیں بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز سے۔ س 461: اگر کوئی شخص، روزانہ کی سترہ رکعت نمازوں کے علاوہ، احتیاطاً سترہ رکعت قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے تو کیا اس پر صبح اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ آوازسے بھی پڑھ سکتا ہے؟ ج: نماز پنجگانہ کے اخفات و جہر کے واجب ہونے میں ادا اور قضا نماز کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، خواہ وہ قضا نماز احتیاطی ہی کیوں نہ ہو۔ س 462: ہم جانتے ہیں کہ لفظ " صلوة " کے آخر میں " ت ' ' ہے لیکن اذان میں "حی علی الصلاہ" ، "ھائ" کے ساتھ کہتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ ج: لفظ "صلوة" کو وقف کی صورت میں "ھا" کے ساتھ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہی متعین ہے۔ س 463: تفسیر سورۂ حمد میں امام خمینی کے نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر میں لفظ "مَلِکِ" کو "مالکِ" پر ترجیح دی ہے تو کیا واجب و غیر واجب نمازوںمیں اس سورۂ مبارکہ کو احتیاطاً دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اس مقام میں احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س464: کیا نماز گزار کے لئے صحیح ہے کہ وہ "غیر المغضوب علیھم"پڑھنے کے بعد فوری عطف کے بغیر وقف کرے اور پھر "ولاالضآلین" پڑھے اور کیا تشہد میں اس جملے "اللھم صل علی محمد" میں "محمد" پر وقف کرنا اور پھر "و آل محمد" پڑھنا صحیح ہے؟ ج: اس حد تک وقف اور فاصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک وحدت جملہ میں خلل پیدا نہ ہو۔ س 465: امام خمینی سے درج ذیل استفتاء کیا گیاہے : تجوید میں حرف "ضاد" کے تلفظ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں، آپ کس قول پر عمل کرتے ہیں؟ اس کا جواب امام خمینی نے یوں لکھا : علماء تجوید کے قول کے مطابق حروف کے مخارج کی شناخت واجب نہیں ہے بلکہ ہر حرف کا تلفظ اس طرح ہونا واجب ہے کہ عرب کے عرف کے نزدیک اس حرف کا ادا ہونا صادق آجائے۔ اب سوال یہ ہے: اولاً۔اس عبارت کے معنی کیا ہیں "عرب کے عرف میں اس حرف کا ادا ہونا صادق آ جائے"۔ ثانیاً۔کیا علم تجوید کے قواعد، عرف عرب اور ان کی لغت سے نہیں بنائے گئے ہیں جیسا کہ صرف و نحو کے قواعد بھی انہیں سے بنائے گئے ہیں؟ پس کس طرح ان دو کے درمیان فرق کا قائل ہونا ممکن ہے؟ ثالثاً ۔ اگر کسی کو معتبر طریقے سے یقین ہوجائے کہ وہ قرأت کے وقت حروف کو صحیح مخارج سے ادا نہیں کرتا یا بطور کلی حروف و کلمات کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا اور اسے سیکھنے کیلئے ہر لحاظ سے موقع فراہم ہے مثلا اسے سیکھنے کیلئے اچھی استعداد یا مناسب فرصت رکھتا ہے تو کیا استعداد کی حد تک صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے کوشش کرنا واجب ہے؟ ج: قرأت کے صحیح ہونے میں معیار یہ ہے کہ وہ اہل زبان کہ جن سے تجوید کے قواعد و ضوابط لئے گئے ہیں، انکی قرأت کی کیفیت کے موافق ہو۔ اس بنا پر حروف میں سے کسی حرف کے تلفظ کی کیفیت میں علمائے تجوید کے اقوال میں جو اختلاف ہے اگر یہ اختلاف اہل زبان کے تلفظ کی کیفیت کو سمجھنے میں ہو تو اس کا مرجع خوداہل لغت کا عرف ہے، لیکن اگر اقوال کے اختلاف کا سبب خود انکا تلفظ کی کیفیت میں اختلاف ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان اقوال میں سے جس قول کو چاہے اختیار کرے اور جو شخص اپنی قرأت کو صحیح نہیں سمجھتا اس کیلئے امکان کی صورت میں صحیح قرأت کو سیکھنے کیلئے اقدام کرنا ضروری ہے۔ س466: جو شخص ابتداء سے یا اپنی عادت کے مطابق(نماز میں) حمد اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے کا قصد رکھتا تھا، اگر وہ" بسم اللہ "پڑھے لیکن بھول کر سورہ کو معین نہ کرے تو کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے سورہ معین کرے اس کے بعد دوبارہ بسم اللہ پڑھے؟ ج: اس پر بسم اللہ کا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے، بلکہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کیلئے اس بسم اللہ پر اکتفا کرسکتا ہے۔ س 467: کیا واجب نمازوں میں عربی الفاظ کو کامل طور پر ادا کرنا واجب ہے؟ اور اگر کلمات کا تلفظ مکمل طور پر صحیح عربی میں ادا نہ کیا جائے تو بهی یه نماز؛ صحیح نماز کا حکم رکهتا هے؟ ج: نماز کے تمام واجب اذکار جیسے حمد و سورہ کی قرأت و غیرہ کا صحیح طریقہ سے ادا کرنا واجب ہے اور اگر نماز گزار عربی الفاظ کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کیفیت کو نہیں جانتا تو اس پر سیکھنا واجب ہے اور اگر وہ سیکھنے سے عاجز ہو تو معذور ہوگا اور ضروری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے۔ س468: نماز میں قلبی قرأت یعنی حروف کو تلفظ کئے بغیر دل میں دہرانے پر قرأت صادق آتی ہے یا نہیں؟ ج: اس پر قرأ ت کا عنوان صادق نہیں آتا اور نماز میں واجب ہے کہ کلمات کو اس طریقے سے ادا کیا جائے کہ اس پر قرأت صادق آئے۔ س469: بعض مفسرین کی رائے کے مطابق قرآن مجید کے چند سورے جیسے سورہ فیل و قریش اور انشراح و ضحی کامل سورے نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان سوروں میں سے کوئی ایک سورہ مثلا سورہ فیل پڑھے تو اس پر اس کے بعد سورہ قریش پڑھنا واجب ہے، اسی طرح سورہ انشراح و ضحی کو بھی ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ پس اگر کوئی شخص مسئلہ سے نا واقف ہونے کی وجہ سے نماز میں فقط سورہ فیل یا سورہ انشراح پڑھے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر اس نے مسئلہ سیکھنے میں کوتاہی نہ کی ہو تو گذشتہ نمازوں کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائیگا۔ س 470: اگر اثنائے نمازمیں ایک شخص غافل ہوجائے اور ظہر کی تیسری یا چوتھی رکعت میں حمد و سورہ پڑھ لے اور نماز تمام ہونے کے بعد اسے یاد آئے تو کیا اس پر اعاد ہ واجب ہے؟ اور اگر یاد نہ آئے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟ ج: مفروضہ صورت میں نماز صحیح ہے۔ س 471: کیا عورتیں صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں حمد اور سورہ کو بلند آواز سے پڑھ سکتی ہیں؟ ج: بلند بھی پڑھ سکتی ہیں اور آہستہ بھی لیکن اگر نامحرم انکی آواز سن رہا ہو تو آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔ س472: امام خمینی کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر میں آہستہ پڑھنے کا معیار، عدم جہر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ دس حروف کے علاوہ باقی حروف آواز والے ہیں، لہذا اگر ہم نماز ظہر و عصر کو آہستہ اور بغیر آواز کے (اخفات کی صورت میں ) پڑھیں تو اٹھارہ جہری حروف کا تلفظ کیسے ہوگا؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ ج: اخفات کا معیار جوہر صدا کو ترک کرنا(یعنی بالکل بے صدا پڑھنا) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جوہر صدا کا اظہار نہ کر نا ہے اور جہر کا معیار آواز کے جوہر کا اظہار کرنا ہے۔ س473: غیر عرب افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں جو اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے تو وہ اپنے دینی واجبات یعنی نماز وغیرہ کو کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ اور بنیادی طورپرکیا اس سلسلہ میں عربی زبان سیکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ ج: نماز میں تکبیرة الاحرام ، حمد و سورہ، تشہد، سلام اور ہر وہ چیز جس کا عربی ہونا شرط ہے اس کا سیکھنا واجب ہے۔ س 474: کیا اس بات پر کوئی دلیل ہے کہ جہری نمازوں کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھا جائے اور اسی طرح اخفاتی نمازوں کے نوافل کو آہستہ آواز سے پڑھا جائے، اور اگر جواب مثبت ہو تو کیا جہری نماز کے نوافل کو آہستہ آواز میں اور اخفاتی نماز کے نوافل کو بلند آواز سے پڑھنا کافی ہے؟ ج: جہری نمازوں کے نوافل میں قرأت کو بلند آواز سے پڑھنا اور آہستہ پڑھی جانے والی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے اور اگر اس کے بر عکس عمل کرے تو بھی کافی ہے۔ س475: کیا نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک کامل سورہ کی تلاوت کرنا واجب ہے یا قرآن کی تھوڑی سی مقدار کا پڑھنا بھی کافی ہے؟ اور پہلی صورت میں کیاسورہ پڑھنے کے بعد قرآن کی چند آیتیں پڑھنا جائز ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب ضروری ہے کہ روز مرہ کی واجب نمازوں میں حمد کے بعد ایک کامل سورہ پڑھا جائے اور کامل سورہ کے بجائے قرآن کی چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے، لیکن مکمل سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کے عنوان سے بعض آیات کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س476: اگر تساہل کی وجہ سے یا اس لہجہ کے سبب جس میں انسان گفتگو کرتا ہے حمد و سورہ کے پڑھنے یا نماز میں اعراب اور حرکات کلمات کی ادائیگی میں غلطی ہوجائے جیسے لفظ "یولَد"کے بجائے "یولِد"لام کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس نمازکا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ جان بوجھ کر ہو تو نماز باطل ہے اور اگر جاہل مقصر ہو(جو سیکھنے پر قدرت رکھتا ہو) تو بھی بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے بصورت دیگر نماز صحیح ہے۔ البتہ جو گزشتہ نمازیں اسی طریقے سے پڑھ چکا ہے اس نظر یے کے ساتھ کہ یہ صحیح ہے ان کی قضا کسی صورت میں بھی واجب نہیں ہے۔ اور اگر جاہل قاصر ہواور گذشتہ نمازوں کو صحیح سمجھتے ہوئے مذکورہ طریقے سے پڑھا ہوتو اس کی نماز پر صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا؛ ان کی نہ قضا ہے اور نہ اعادہ۔ س477: ایک شخص کی عمر ٣٥ یا ٤٠ سال ہے، بچپنے میں اس کے والدین نے اسے نماز نہیں سکھائی تھی، یہ شخص اَن پڑھ ہے اس نے صحیح طریقہ سے نماز سیکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ نماز کے اذکار اور کلمات کو صحیح طرح ادا کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ بعض کلمات کو تو وہ ادا ہی نہیں کر پاتا تو کیا اس کی نماز صحیح ہے؟ ج: جس کے تلفظ پر قادر ہے اگر اسے انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ س478: میں نماز کے کلمات کا ویسے ہی تلفظ کرتا تھا جیسا میں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا اور جیسا ہمیں ہائی اسکول میں سکھایا گیا تھا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں ان کلمات کو غلط طریقہ سے پڑھتا تھا، کیا مجھ پر۔امام خمینی طاب ثراہ کے فتوے کے مطابق۔ نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ یا وہ تمام نمازیں جو میں نے اس طریقہ سے پڑھی ہیں صحیح ہیں؟ ج: مفروضہ صورت میں چونکہ اشتباہ کا احتمال نہیں تھا اور صحیح ہونے کے اعتقاد سے پڑھا تھا لہٰذا گزشتہ تمام نمازوں کی صحت کا حکم لگایا جائے گا، نہ ان میں اعادہ ہے اور نہ ہی قضا۔ س479: کیا اس شخص کی نماز اشاروں کے ساتھ صحیح ہے جو گونگے پن کی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ بولنے پر قادر نہیں ہے، لیکن اس کے حواس سالم ہیں؟ ج: مذکورہ فرض کے مطابق اس کی نماز صحیح اور کافی ہے۔ ذکرنماز ذکرنماز پرنٹ ; PDF ذکرنماز س 480: کیا جان بوجھ کر رکوع و سجود کے اذکار کو ایک دوسرے کی جگہ پڑھنے میں کوئی حرج ہے؟ ج: اگر انہیں للہ تعالیٰ کے مطلق ذکر کے عنوان سے بجا لائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور رکوع و سجود اور پوری نماز صحیح ہے لیکن اس کے مخصوص ذکر کو بھی پڑھنا ضروری ہے۔ س481: اگر کوئی شخص بھولے سے سجود میں رکوع کا ذکر پڑھے یا اس کے برعکس، رکوع میں سجود کا ذکر پڑھے اور اسی وقت اس کو یاد آجائے اور وہ اس کی اصلاح کر لے تو کیا اس کی نماز باطل ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔ س 482: اگر نماز گزار کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد یا اثنائے نماز میں یاد آجائے کہ اس نے رکوع یا سجود کا ذکر غلط پڑھا تھا تو حکم کیا ہے؟ ج: اگر رکوع و سجود کے بعد متوجہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ س483: کیا نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا کافی ہے؟ ج: کافی ہے، اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ پڑھے۔ س484: نماز میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص بھولے سے چار مرتبہ پڑھ لے تو کیا خدا کے نزدیک اسکی نماز قبول ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س485: اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس نے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھی ہیں یا کم یا زیادہ؟ ج: ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے اور وہ بری الذمہ ہے اورجب تک رکوع میں نہیں گیا کم پر بنا رکھتے ہوئے تسبیحات کا تکرار کرسکتا ہے تا کہ اسے تین مرتبہ پڑھنے کا یقین ہوجائے۔ س486: کیا نماز میں حرکت کی حالت میں "بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد"کہنا جائز ہے نیزکیا یہ قیام کی حالت میں صحیح ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ا صولی طور پر اسے نماز کی اگلی رکعت کے لئے قیام کی حالت میں کہا جاتا ہے۔ س487: ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں نبی کریمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھی شامل ہے؟ ج: جو بهی عبارت اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مشتمل ہو وہ ذکر ہے اور محمد و آل محمد(علیھم السلام) پر صلوات بھیجنا بہترین اذکار میں سے ہے۔ لیکن رکوع اور سجدے کا واجب ذکر ایک دفعه « سبحان ربی العظیم و بحمده» کا رکوع میں پڑهنا اور ایک دفعه «سبحان ربی الاعلی و بحمده» کا سجدے میں یا تین مرتبه «سبحان الله» پڑهنا اور اسی طرح دوسرے اذکار جیسے «الحمد لله»، «الله اکبر» و غیره کو اسی مقدار میں پڑهنا کافی هے. س488: جب ہم نماز وتر میں کہ جو ایک ہی رکعت ہے، قنوت کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور خداوند متعال سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں تو کیافارسی میں اپنی حاجات طلب کرنے میں کوئی اشکال ہے؟ ج: قنوت میں فارسی میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ قنوت میں ہر دعا کو ہر زبان میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سجدہ اور اس کے احکام سجدہ اور اس کے احکام پرنٹ ; PDF سجدہ اور اس کے احکام س489: سیمنٹ اور پتھر کی ٹائلز پر سجدہ اور تیمم کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: ان دونوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ ان پر تیمم نہ کیا جائے۔ س 490: کیا حالت نماز میں اس ٹائل پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوں؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے۔ س491: کیا اس سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے جو چکنی اور کالی ہوگئی ہو اس طرح کہ ایک چکنی تہ نے اس کے اوپر کے حصے کو ڈھانپ رکھا ہو اور وہ پیشانی کے سجدہ گاہ پر لگنے سے مانع ہو؟ ج: اگر سجدہ گاہ پر اس قدرچکنامیل ہو جو پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان حائل ہو تو اس پر سجدہ باطل ہے اورنماز بھی باطل ہے۔ س492: ایک عورت سجدہ گاہ پر سجدہ کرتی تھی اور اس کی پیشانی خاص کر سجدہ کی جگہ، حجاب سے ڈھانپی ہوئی ہوتی تھی تو کیا اس پر ان نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے؟ ج: اگر وہ سجدہ کے وقت اس حائل کی طرف متوجہ نہ تھی تو نمازوں کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے۔ س493: ایک عورت سجدہ گا ہ پر اپنا سر رکھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی پیشانی مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہوئی ہے، گویا چادر یا دوپٹہ حائل ہے جو مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہونے دے رہاہے، لہذا و ہ اپنا سر اٹھاتی ہے اور حائل چیز کو ہٹا کر دوبارہ سجدہ گاہ پر اپنا سر رکھ دیتی ہے، اس مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس عمل کو مستقل سجدہ فرض کیا جائے تو اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اس پر واجب ہے کہ سر کو زمین سے اٹھائے بغیر پیشانی کو حرکت دے یا پیشانی کے نیچے سے مانع کو ہٹادے تاکہ کم از کم انگلی کے پورے کے برابر پیشانی سجدہ گاہ کے ساتھ مس ہوجائے اور اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے زمین سے پیشانی کا اٹھانا لاعلمی یا بھولے سے ہو اور یہ کام وہ ایک رکعت کے دو سجدوں میں سے ایک میں انجام دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اعادہ (دوبارہ پڑھنا) واجب نہیں ہے، لیکن اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے علم کے ساتھ اور جان بوجھ کر سر اٹھائے یاایک ہی رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا کرے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس پر نماز کا اعادہ(دوبارہ پڑھنا) واجب ہے۔ س494: حالت سجدہ میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھنا واجب ہے لیکن یہ عمل ہمارے لئے مقدور نہیں ہے، کیونکہ ہم ان جنگی زخمیوں میں سے ہیں جو ویلچیئر سے استفادہ کرتے ہیں۔ لہذا نماز کے لئے ہم یا سجدہ گاہ کو پیشانی تک لاتے ہیں یا سجدہ گاہ کو کرسی کے دستہ پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں توکیا ہمارا یہ عمل صحیح ہے یا نہیں؟ ج: اگر آپ کرسی کے دستے، اسٹول اور تکیے و غیرہ پر سجدہ گاہ رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتے ہیں تو ایسا ہی کریں اور آپ کی نماز صحیح ہے، بصورت دیگر سجدہ گاہ کو ہاتھوں میں اٹھائیں اور پیشانی کو اس پر رکھیں اور اگر کسی بھی طریقے سے جھکنا ممکن نہ ہو تو سجدہ کرنے کے بجائے سر سے اشارہ کریں اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو آنکھوں سے اشارہ کریں ۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مزید توفیق عنایت فرمائے۔ س495: مقامات مقدسہ میں زمین پر بچھائے گئے سنگ مرمر پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: سنگ مرمر پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س596: سجدہ کی حالت میں انگوٹھے کے علاوہ پیر کی بعض دیگر انگلیوں کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س497: حال ہی میں نماز کے لئے ایک سجدہ گاہ بنائی گئی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نماز گزار کی رکعتوں اور سجدوں کو شمار کرتی ہے اور کسی حد تک شک کو دور کرتی ہے واضح رہے کہ جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو وہ نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے کیونکہ سجدہ گاہ کے نیچے لوہے کی اسپرنگ لگی ہوئی ہے، کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے؟ ج: اگر پیشانی رکھنے کی جگہ ان چیزوں میں سے ہو کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور پیشانی رکھنے کے بعد وہ ایک جگہ ٹھہر جاتی ہو تو اس پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س498: سجدوں کے بعد بیٹھتے وقت ہم کس پیر کو دوسرے پیر کے اوپر رکھیں؟ ج: مستحب ہے کہ بائیں پیر پر بیٹھے اور داہنے پیر کے ظاہری حصہ کو بائیں پیر کے باطنی حصہ پررکھے۔ س499: رکوع و سجود میں واجب ذکر پڑھنے کے بعد کون سا ذکر افضل ہے؟ ج: اسی واجب ذکر کا تکرار اور بہتر یہ ہے کہ وہ طاق پر تمام ہواور سجود میں اس کے علاوہ صلوات پڑھنا اور دنیوی و اخروی حاجات کیلئے دعاکرنا بھی مستحب ہے۔ س500: اگر ریڈیو ، ٹیپ ریکارڈر اور ٹی وی کے ذریعہ ایسی آیات نشر ہورہی ہوں جن میں سجدہ واجب ہے تو ان کو سننے کے بعد شرعی فریضہ کیا ہے؟ ج: سجدہ کرنا واجب ہے۔ مبطلات نماز مبطلات نماز پرنٹ ; PDF مبطلات نماز س501: نماز کی تشهد میں ذکر شهادت ولایت امیر المؤمنین(علیه السلام) پڑهنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟ ج: نماز اورتشہد کو اسی طریقے سے پڑھیں جومراجع عظام کی توضیح المسائل میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ نہ کریں اگر چہ وہ بذات خود حق اور صحیح بھی ہو۔ س502: ایک شخص اپنی عبادتوں میں ریا کاری میں مبتلا ہے اور اب وہ اپنے نفس سے جہاد کر رہا ہے تو کیا اسے بھی ریا کاری سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور وہ ریاء سے کس طرح اجتناب کرے؟ ج: قربةً الی اللہ کے قصد سے جو عبادات بجالائی جائیں اور انہیں میں ایک ریا کے مقابلے میں جہاد ہے وہ ریا نہیں ہیں اور ریا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے چاہئے کہ وہ عظمت و شان خدا وندی اور دوسروں کے ضعف اور خدا کی طرف محتاج ہونے کو نظر میں رکھے نیز اپنی اور دیگر انسانوں کی اللہ تعالیٰ کے لئے عبودیت کے بارے میں غور کرے۔ س 503: برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت، امام جماعت کے سورۂ حمد پڑھنے کے بعداجتماعی صورت میں بلند آواز سے لفظ "آمین" کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: اگرتقیہ "آمین" کہنے کا اقتضا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 504: اگر ہم واجب نماز کے اثناء میں بچے کو کوئی خطرناک کام کرتے ہوئے دیکھیں تو کیا سورۂ حمد یا دوسرے سورہ یا بعض اذکار کے کچھ کلمات کو بلند آواز سے پڑھنا ہمارے لئے جائز ہے تا کہ بچہ متنبہ ہو جائے، یا اس بارے میں موجود کسی اور شخص کو متوجہ کریں تا کہ خطرہ دور ہو جائے؟ نیز اثنائے نماز میں ہاتھ کو حرکت دے کر یا بھنووں کے ذریعہ، کسی شخص کو کوئی کام سمجھانے یا اس کے کسی سوال کے جواب دینے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر آیات و اذکار پڑھتے وقت، دوسروں کو خبردار کرنے کے لئے آواز بلند کرنا نماز کو اپنی ہیئت (حالت) سے خارج نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ قرأت اور ذکر کو، قرأت و ذکر ہی کی نیت سے انجام دیا جائے۔ حالت نماز میں ہاتھ ، آنکھ یا ابرو کو حرکت دینا اگر مختصر ہو اور سکون و اطمینان یا نماز کی شکل کے منافی نہ ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ س505: اگر اثنائے نماز میں کوئی شخص کسی مضحکہ خیز بات کے یاد آنے یا کسی ہنسانے والے سبب کے پیش آنے سے ہنس پڑے توکیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ ج: اگر ہنسی جان بوجھ کر اور آواز کے ساتھ یعنی قہقہہ ہو تو نماز باطل ہے۔ س 506: کیا قنوت کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے؟ اور اگر یہ باطل ہونے کا باعث ہے تو کیا اسے معصیت و گناہ بھی شمار کیا جائے گا؟ ج: مکروہ ہے لیکن نماز کے باطل ہونے کا باعث نہیں ہے۔ س 507: کیا حالت نماز میں دونوں آنکھوں کا بند کرنا جائز ہے، کیونکہ آنکھیں کھلی رکھنے سے انسان کی فکر نماز سے ہٹ جاتی ہے؟ ج: حالت نماز میں آنکھوں کو بند کرنے میں شرعی ممانعت نہیں ہے اگرچہ رکوع کے علاوه دیگر حالات میں مکروہ ہے ۔ س 508: میں بعض اوقات اثنائے نماز میں ان ایمانی لمحات اور معنوی حالات کو یاد کرتا ہوں جو میں ایران و عراق جنگ کے دوران رکھتا تھا اس سے نماز میں میرے خشوع میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے؟ ج: اس سے نماز کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ س509: اگر دو اشخاص کے درمیان تین دن تک دشمنی اور جدائی باقی رہے تو کیا اس سے ان کا نماز روزہ باطل ہو جاتا ہے؟ ج: دو اشخاص کے درمیان دشمنی اور جدائی پیدا ہونے سے نماز روزہ باطل نہیں ہوتا اگر چہ یہ کام شرعاً مذموم ہے ۔ جواب سلام کے احکام جواب سلام کے احکام پرنٹ ; PDF جواب سلام کے احکام س510: جو تحیت (مثلا آداب وغیرہ) سلام کے صیغہ کی صورت میں نہ ہو تو اس کا جواب دینے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: اگر انسان نماز میں ہے تواس کا جواب دینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر حالت نماز میں نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کلام ہو جسے عرف میں سلام شمار کیا جاتا ہوتو جواب دے۔ س511: کیا بچوں اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ ج: لڑکے اور لڑکیوں میں سے ممیز بچوں کے سلام کا جواب دینا اسی طرح واجب ہے جیسے مردوں اور عورتوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ س512: اگر کسی شخص نے سلام سنا اور غفلت یا کسی دوسری وجہ سے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ تھوڑا فاصلہ ہوگیا تو کیا اس کے بعد سلام کا جواب واجب ہے؟ ج: اگر اتنی تاخیر ہوجائے کہ اس کو سلام کا جواب نہ کہا جائے تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔ س513: اگر ایک شخص چند لوگوں پر اس طرح سلام کرے :"السلام علیکم جمیعا"اور ان میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو توکیا نماز پڑھنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ اگرچہ حاضرین سلام کا جواب دے دیں۔ ج: اگر کوئی دوسرا جواب دے دے تو نمازی جواب نہ دے۔ س514: اگر ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی بار سلام کرے یا متعدد اشخاص سلام کریں تو کیا سب کا ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے؟ ج: پہلی صورت میں ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے اور دوسری صورت میں ایسے صیغہ کے ذریعہ جواب دینا جو سب کو شامل ہو اور سب کے سلام کا جواب دینے کی غرض سے ہو تو کافی ہے۔ س515: ایک شخص "سلام علیکم"کے بجائے صرف "سلام"کہتاہے۔ کیا اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہے؟ ج: اگر عرف میں اسے سلام و تحیت کہا جاتا ہو تو اس کا جواب دینا واجب ہے۔ احتیاط کی بناپر اس طرح جواب دینا چاہئے کہ سلام کا لفظ پہلے ادا کرے مثلا ً"سلام علیکم" یا "السلام علیکم" کہے۔ "علیکم السلام" نہیں کہنا چاہئے۔ شکیات نماز شکیات نماز پرنٹ ; PDF شکیات نماز س516: جو شخص نماز کی تیسری رکعت میں ہو اور اسے یہ شک ہو کہ قنوت پڑھا ہے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ اپنی نماز کو تمام کرے یا شک پیدا ہوتے ہی اسے توڑ دے؟ ج: مذکورہ شک کی پروا نہیں کی جائے گی اور نماز صحیح ہے اور اس سلسلہ میں مکلف کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ س 517: کیا نافلہ نمازوں میں رکعات کے علاوہ کسی اور چیز میں شک کی پروا کی جائیگی؟ مثلاً یہ شک کرے کہ ایک سجدہ بجا لایا ہے یا د و؟ ج: نافلہ کے اقوال و افعال میں شک کی پروا کرنے کا وہی حکم ہے جو واجب نمازوں کے اقوال و افعال میں شک کا ہے، یعنی اگر انسان محل شک سے نہ گزرا ہوتو شک کی اعتناء کرے اور محل شک کے گزر جانے کے بعد شک کی پروانہ کرے۔ س518: کثیرالشک اپنے شک کی پروا نہیں کرے گا، لیکن اگر نماز میں وہ شک کرے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اس کا فریضہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اس کے بجا لانے پر بنا رکھے، مگر یہ کہ اس کا بجالانا نماز کے بطلان کا سبب ہو تو اس صورت میں اسے بجانہ لانے پر بنا رکھے اس سلسلہ میں رکعات، افعال اور اقوال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ س 519: اگر کوئی شخص چند سال کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس کی عبادتیں باطل تھیں یا وہ ان میں شک کرے، تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: عمل کے بعد شک کی پروا نہیں کی جاتی اور باطل ہونے کے علم کی صورت میں قابل تدارک عبادتوں کی قضاء واجب ہے۔ س 520: اگر بھول کر نماز کے بعض اجزاء کو دوسرے اجزاء کی جگہ بجا لائے یا اثنائے نماز میں اس کی نظر کسی چیز پر پڑ جائے یا بھولے سے کچھ کہہ دے تو کیا اس کی نماز باطل ہے یا نہیں؟ اور اس پر کیا واجب ہے؟ ج: نماز میں بھولے سے جو اعمال سرزد ہو جاتے ہیں وہ باطل ہونے کا سبب نہیں ہیں ہاں بعض موقعوں پر سجدہ سہو کا موجب بنتے ہیں، لیکن اگر کسی رکن میں کمی یا زیادتی ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ س 521: اگر کوئی شخص اپنی نماز کی ایک رکعت بھول جائے اور پھر آخری رکعت میں اسے یاد آجائے مثلاً پہلی رکعت کو دوسری رکعت خیال کرے اور اس کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت بجا لائے، لیکن آخری رکعت میں وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اس کا شرعی فریضہ کیا ہے؟ ج: سلام سے قبل اس پر اپنی نماز کی چھوٹی ہوئی رکعت کو بجا لانا واجب ہے، اس کے بعد سلام پھیرے، اور اس صورت میں چونکہ واجب تشہد کو اس کے مقام پر بجا نہیں لایا لہٰذا واجب ہے کہ بھولے ہوئے تشہد کے لئے دوسجدے سہو انجام دے اور احتیاط یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا کرے۔ اور اگر تیسری رکعت کے دوران آخری رکعت کے خیال سے سلام کہہ لے تو احتیاط واجب کی بناپر مزید دو سجدہ سہو بجالائے اور یہ دونوں سجدہ سہو تشہد کی قضا بجالانے کے بعد انجام دیناہوں گے۔ س 522: مکلف شخص کے لئے نماز احتیاط کی رکعات کی تعداد کا جاننا کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک رکعت ہے یا دو رکعت؟ ج: نماز احتیاط کی رکعتوں کی تقدار اتنی ہی ہو گی جتنی رکعتیں احتمالی طور پر نماز میں چھوٹ گئی ہیں۔ پس اگر دو اور چار کے درمیان شک ہو تو دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور اگر تین اور چار کے درمیان شک ہو تو ایک رکعت کھڑے ہو کر یا دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط واجب ہے۔ س523: اگر کوئی شخص بھولے سے یا غلطی سے اذکار نماز، آیات قرآن یا دعائے قنوت کا کوئی لفظ غلط پڑھے تو کیا اس پر سجدۂ سہو واجب ہے؟ ج: واجب نہیں ہے۔ قضا نماز قضا نماز پرنٹ ; PDF قضا نماز س 524: میں سترہ سال کی عمر تک احتلام اور غسل و غیرہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور ان امور کے متعلق کسی سے بھی کوئی بات نہیں سنی تھی، خود بھی جنابت اور غسل واجب ہونے کے معنی نہیں سمجھتا تھا، لہذا کیا اس عمر تک میرے روزے اور نمازوں میں اشکال ہے، آپ مجھے اس فریضہ سے مطلع فرمائیں جس کا انجام دینا میرے اوپر واجب ہے؟ ج: ان تمام نمازوں کی قضا واجب ہے جو آپ نے جنابت کی حالت میں پڑھی ہیں، لیکن اصل جنابت کا علم نہ ہونے کی صورت میں آپ نے جو روزے جنابت کی حالت میں رکھے ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں اور ان کی قضا واجب نہیں ہے۔ س 525: افسوس کہ میں جہالت اور ضعیف الارادہ ہونے کی وجہ سے استمناء کیا کرتا تھا جس کے باعث بعض اوقات نماز نہیں پڑھتا تھا، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنی مدت تک نماز ترک کی ہے،میرا نماز نہ پڑھنا مسلسل نہیں تھا بلکہ صرف ان اوقات میں نماز نہیں پڑھتا تھا جن میں مجنب ہوتا تھا اور غسل نہیں کر پاتا تھا میرے خیال میں تقریبا چھ ماہ کی نماز چھوٹی ہوگی اور میں نے اس مدت کی قضا نمازوں کو بجا لانے کا ارادہ کر لیا ہے، کیا ان نمازوں کی قضا واجب ہے یا نہیں؟ ج: جتنی پنجگانہ نمازوں کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ ادا نہیں کی ہیں یا حالت جنابت میں پڑھی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔ س 526: جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں یا نہیں اگر بالفرض اس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں تو کیا اس کی مستحب اور نافلہ کے طور پر پڑھی ہوئی نمازیں، قضا نمازیں شمار ہو جائیں گی؟ ج: نوافل اور مستحب نمازیں، قضا نمازیں شمار نہیں ہوں گے، اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں تو ان کو قضا کی نیت سے پڑھنا واجب ہے۔ س527: میں تقریباً چھ ماہ قبل بالغ ہوا ہوں اور بالغ ہونے سے چند ہفتے پہلے تک میں یہ سمجھتا تھا کہ بلوغ کی علامت، صرف قمری حساب سے پندرہ سال کا مکمل ہونا ہے۔ مگر میں نے اب ایک کتاب کا مطالعہ کیا ہے جس میں لڑکوں کے بلوغ کی دیگر علامات بیان ہوئی ہیں،جو مجھ میں پائی جاتی تھیں، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ علامتیں کب سے شروع ہوئی ہیں، کیا اب میرے ذمہ نماز و روزہ کی قضا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ میں کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا اور گزشتہ سال ماہ رمضان کے مکمل روزے میں نے رکھے ہیں لہذا میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: ان تمام روزوں اور نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے شرعی طور پر بالغ ہونے کے بعد، چھوٹ جانے کا یقین ہو۔ س528: اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں تین غسل جنابت انجام دے، مثلاً ایک غسل بیس تاریخ کو، دوسرا پچیس تاریخ کو اور تیسرا ستائیس تاریخ کو انجام دے، اور اسے یہ یقین ہو جائے کہ ان میں سے ایک غسل باطل تھا، تو اس شخص کے نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟ ج: روزے صحیح ہیں، لیکن احتیاط کی بنا پر نماز کی قضا اس طرح واجب ہے کہ اسے بری الذمہ ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔ س 529: ایک شخص نے ایک عرصہ تک حکم شرعی سے لاعلمی کی بنا پر غسل جنابت میں ترتیب کی رعایت نہیں کی تو اس کی نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر غسل اس طرح انجام دیا ہو جو شرعاً باطل ہو تو جو نمازیں اس نے حدث اکبر کی حالت میں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے، لیکن اس کے روزوں کی صحت کا حکم لگایا جائیگا اگر وہ اس وقت اپنے غسل کو صحیح سمجھتا تھا ۔ س 530: جو شخص ایک سال کی قضا نماز یں پڑھنا چاہتا ہے اسے کس طرح قضا کرنی چاہیے؟ ج: وہ کسی ایک نماز کو شروع کرے اور پھر انہیں نماز پنجگانہ کی ترتیب سے پڑھتا رہے؟ س531: اگر کسی شخص پر کافی عرصے کی قضا نمازیں واجب ہوں توکیا وہ درج ذیل ترتیب کے مطابق ان کی قضا کر سکتا ہے؟ ١) صبح کی مثلا بیس نمازیں پڑھے۔ ٢) ظہر و عصر میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے۔ ٣) مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کی بیس بیس نمازیں پڑھے اور سال بھر اسی طریقہ پر عمل پیرا رہے۔ ج: نمازوں کی قضا کو مذکورہ طریقے سے یعنی ظہر کی نمازوں کو عصر سے پہلے اور مغرب کو عشاء سے پہلے بجالائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س532: ایک شخص کا سر زخمی ہو گیا ہے اور یہ زخم اس کے دماغ تک جا پہنچا ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ، بایاں پیر اور زبان شل ہو گئی ہے چنانچہ وہ نماز کا طریقہ بھول گیا ہے اور وہ اسے دوبارہ سیکھ بھی نہیں سکتا ہے، لیکن کتاب سے پڑھ کر یا کیسٹ سے سن کر نماز کے مختلف اجزاء کو سمجھ سکتا ہے، اس وقت نماز کے سلسلہ میں اس کے سامنے دومشکلیں ہیں: ١) وہ پیشاب کے بعد طہارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی وضو کر سکتا ہے۔ ٢) نماز میں قرأت اس کے لئے مشکل ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اور اسی طرح تقریبا چھ ماہ سے اس کی جو نماز یں چھوٹ گئی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر وضو یا تیمم کر سکتا ہوخواہ دوسروں کی مدد سے ہی تو واجب ہے کہ وہ جس طرح نماز پڑھ سکے، نماز پڑھے، چاہے کیسٹ سن کر یا کتاب میں دیکھ کر یاکسی اور طریقہ سے۔ اور اگر بدن کا پاک کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے حتی کہ کسی دوسرے کی مدد سے بھی تو اسی نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھے اور اسکی نماز صحیح ہے اور گزشتہ فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے، مگر جس نماز کے پورے وقت میں وہ بے ہوش رہا ہو تو اس کی قضا واجب نہیں ہے۔ س533: جوانی کے زمانہ میں مغرب و عشاء اور صبح کی نماز سے زیادہ میں نے ظہر و عصر کی نمازیں قضا کی ہیں، لیکن نہ میں ان کے تسلسل کو جانتا ہوں نہ ترتیب کو اور نہ ان کی تعداد کو، کیا اس موقع پر اسے نماز "دور" پڑھنا ہوگی؟ اور نماز "دور" کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ ج: قضا نمازوں میں ترتیب کی رعایت کرنا واجب نہیں ہے سوائے ایک دن کی ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے اور جتنی نمازوں کے فوت ہونے کا آپ کو یقین ہو انہی کی قضا بجا لانا کافی ہے اور ترتیب کے حصول کے لئے آپ پر دوریعنی اس طرح نمازوں کا تکرار کرنا کہ انکے در میا ن ترتیب کا علم ہوجائے واجب نہیں ہے۔ س 534: شادی کے بعد کبھی کبھی مجھ سے ایک قسم کا بہنے والا مادہ نکلتا تھا، جسے میں نجس سمجھتا تھا۔ اس لئے غسل جنابت کی نیت سے غسل کرتا اور پھر وضو کے بغیر نماز پڑھتا تھا، توضیح المسائل میں اس بہنے والے مادہ کو "مذی" کا نام دیا گیا ہے، اب یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ جو نمازیں میں نے مجنب ہوئے بغیر غسل جنابت کر کے بغیر وضو کے پڑھی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ تمام نمازیں جو آپ نے بہنے والے مادہ کے نکلنے کے بعد غسل جنابت کر کے وضو کئے بغیر ادا کی ہیں، ان کی قضا واجب ہے۔ س 535: کافر اگر بالغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد اسلام لائے تو کیا اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہے؟ جو اس نے ادا نہیں کیے ہیں؟ ج: واجب نہیں ہے۔ س 536: بعض اشخاص نے کمیونسٹوں کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کے زیر اثر کئی سال تک اپنی نماز اور دیگر واجبات ترک کر دئیے تھے، لیکن امام خمینی کی طرف سے سابق سوویت یونین کے حکمرانوں کے نام تاریخی پیغام کے آنے کے بعد انہوں نے خدا سے توبہ کر لی ہے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور اب وہ چھوٹ جانے والے تمام واجبات کی قضا نہیں کر سکتے، ان کا کیا فریضہ ہے؟ ج: جتنی مقدار میں بھی ممکن ہو ان پر چھوٹ جانے والی نماز اور روزوں کی قضا کرنا واجب ہے اور جس مقدار پر قادر نہیں ہیں اسکی وصیت کرنا ضروری ہے۔ س537: ایک شخص فوت ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے اور قضا نمازیں ہیں اور اس کا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے لیکن اس نے کچھ مال چھوڑا ہے کہ جو نماز اور روزوں میں سے صرف ایک کی قضا کیلئے کافی ہے تو اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے؟ ج: نماز اور روزہ میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے،اور وارثوں پر واجب نہیں ہے کہ اسکے ترکہ کو اسکی نماز اور روزوں کی قضا کے لئے خرچ کریں مگر یہ کہ اس نے اسکی وصیت کی ہو تو اسکے ایک تہائی تر کہ سے اسکی جتنی نمازوں اور روزوں کی قضا کیلئے کسی کو اجیر بنانا ممکن ہے اجیر بنائیں۔ س 538: میں زیادہ تر نمازیں پڑھتا رہا ہوں اورچھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا کرتا رہا ہوں۔ یہ چھوٹ جانے والی نمازیں وہ ہیں جن کے اوقات میں، میں سو رہا تھا یا اسوقت میرا بدن و لباس نجس تھا کہ جن کا پاک کرنا دشوار تھا، لہذا نماز پنجگانہ، نماز قصر اور نماز آیات میں سے اپنے ذمے میں موجود نمازوں کا حساب کیسے لگاؤں؟ ج: جتنی نمازوں کے چھوٹ جانے کا یقین ہو انہی کی قضا بجالاناکافی ہے اور ان میں سے جتنی مقدار کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ وہ قصر ہیں یا نماز آیات، تو انہیں اپنے یقین کے مطابق بجا لائیے اور باقی کو نماز پنجگانہ کے طور پر پڑھیے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔ ماں باپ کی قضا نمازیں ماں باپ کی قضا نمازیں پرنٹ ; PDF ماں باپ کی قضا نمازیں س 539: میرے والد فالج (برین ہیمبرج) کا شکار ہوئے اور اس کے بعد دو سال تک مریض رہے، اس مرض کی بنا پر وہ اچھے برے میں تمیز نہیں کر پاتے تھے یعنی ان سے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب ہو گئی تھی، چنانچہ دو برسوں کے دوران انہوں نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی نماز ادا کی۔ میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، لہذا کیا مجھ پر ان کے روزہ اور نماز کی قضا واجب ہے؟. جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ مرض میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی قضا مجھ پر واجب تھی۔ اس مسئلہ میں آپ میری راہنمائی فرمائیں۔ ج: اگر ان کی قوت عاقلہ اتنی زیادہ کمزور نہیں ہوئی تھی کہ جس پر جنون کا عنوان صادق آ سکے اور نماز کے پورے اوقات میں وہ بے ہوش بھی نہیں رہتے تھے تو ان کی چھوٹ جانے والی نمازوںاور روزوں کی قضا واجب ہے ورنہ اس سلسلے میں آپ پر کچھ واجب نہیں ہے۔ س 540: اگر ایک شخص مر جائے تو اس کے روزہ کا کفارہ دینا کس پر واجب ہے؟ کیا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں پر یہ کفارہ دینا واجب ہے؟ یا کوئی اور شخص بھی دے سکتا ہے؟ ج: جو کفارہ باپ پر واجب تھا اگر وہ کفارۂ مخیرہ تھا یعنی وہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت رکھتا تھا تو اگر اسکے ترکہ میں سے کفارہ کا دینا ممکن ہو تو اس میں سے نکالا جائے، ورنہ واجب یہ ہے کہ بڑا بیٹا روزے رکھے۔ س 541: ایک سن رسیدہ آدمی بعض معلوم اسباب کی بناپر اپنے گھروالوں سے الگ ہوجاتا ہے اور اس کیلئے ان سے رابطہ رکھنا مقدور نہیں ہے اور یہی اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا بھی ہے، اسی زمانے میں اس کے والد کا انتقال ہو جاتاہے اور وہ باپ کی قضا نمازوںو غیرہ کی مقدار نہیں جانتا ہے اور اس کے پاس اتنا مال بھی نہیں ہے کہ وہ باپ کی نماز اجارہ پرپڑھوائے۔ نیز بڑھاپے کی وجہ سے خود بھی باپ کی قضا نمازیں بجا نہیں لا سکتا اسکی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: باپ کی صرف انہی نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے چھوٹ جانے کا بڑے بیٹے کو یقین ہو اور جس طریقے سے بھی ممکن ہو بڑے بیٹے پر باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ اور اگر اس کی انجام دہی سے عاجز ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ س542: اگر کسی شخص کی اولاد میں سے سب سے بڑی بیٹی ہو اور دوسرے نمبر پر بیٹا ہو تو کیا ماں باپ کی قضا نمازیں اور روزے اس بیٹے پر واجب ہیں؟ ج: معیار یہ ہے کہ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا ہو اگر اس کے والدکے اور بیٹے بھی ہوں لہذا مذکورہ سوال میں باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا اس بیٹے پر واجب ہے جو باپ کی اولاد میں سے دوسرے نمبر پرہے اور ماں کی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا بھی بنا بر احتیاط واجب ہے۔ س 543: اگر بڑے بیٹے کا باپ سے پہلے انتقال ہو جائے ۔خواہ وہ بالغ ہو یا نابالغ۔ تو کیا باقی اولاد سے باپ کی نمازوں کی قضا ساقط ہو جائے گی یا نہیں؟ ج: باپ کے روزہ اور نماز کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے، جو باپ کی وفات کے وقت زندہ ہو خواہ وہ باپ کی پہلی اولاد یا پہلا بیٹا نہ بھی ہو۔ س 544: میں اپنے باپ کی اولاد میں بڑا بیٹا ہوں، کیا مجھ پر واجب ہے کہ باپ کی قضا نمازوں کی ادائیگی کی غرض سے ان کی زندگی میں ان سے تحقیق کروں یا ان پر واجب ہے کہ وہ مجھے ان کی مقدار سے با خبر کریں، پس اگر وہ با خبر نہ کریں تو میرا کیا فریضہ ہے؟ ج: آپ پر تحقیق اور سوال کرنا واجب نہیں ہے، لیکن اس سلسلہ میں باپ پر واجب ہے کہ جب تک اسکے پاس فرصت ہے خود پڑھے اور اگرنہ پڑھ سکے تو وصیت کرے بہر حال بڑے بیٹے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کے ان روزوں اور نمازوں کی قضا کرے کہ جن کے چھوٹ جانے کا اسے یقین ہے۔ س 545: ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، اور اس کا کل اثاثہ وہ گھر ہے جس میں اس کی اولاد رہتی ہے، اور اس کے ذمہ روزے اور نمازیں باقی رہ گئے ہیں اور بڑا بیٹا اپنی روزمرہ مصروفیات کی بنا پر انہیں ادا نہیں کر سکتا، پس کیا ان پر واجب ہے کہ وہ اس گھر کو فروخت کر کے باپ کے روزے اور نمازیں قضاکروائیں؟ ج: مذکورہ فرض میں گھر بیچنا واجب نہیں ہے لیکن باپ کی نمازوں اور روزوں کی قضا بہر صورت اس کے بڑے بیٹے پر ہے، لیکن اگر مرنے والا یہ وصیت کر جائے کہ اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے اجرت پر نماز اور روزہ کی قضا کرائیں اورایک تہائی ترکہ بھی اس کی تمام نمازوں اور روزوں کی قضا کے لئے کافی ہو تو ترکہ میں سے ایک تہائی مال اس کام میں صرف کرنا واجب ہے۔ س 546: اگر بڑا بیٹا جس پر باپ کی قضا نماز یںواجب تھیں، مر جائے تو کیا اس قضا کو بڑے بیٹے کے وارث ادا کریں گے یا یہ قضا اسکے دوسرے بڑے بیٹے پر واجب ہو گی؟ ج: باپ کی جو قضا نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب تھے، باپ کے فوت ہوجانے کے بعد اس بڑے بیٹے کے فوت ہوجانے کی صورت میں اسکے بیٹے یابھائی پر واجب نہیں ہیں۔ س 547: اگر باپ نے کوئی نماز نہ پڑھی ہو تو کیا اس کی ساری نمازیں قضا ہیں اور بڑے بیٹے پر ان کا بجا لانا واجب ہے؟ ج: بنا بر احتیاط اس کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ س 548: جس باپ نے جان بوجھ کر اپنے تمام عبادی اعمال کو ترک کر دیا ہو تو کیا بڑے بیٹے پر اسکی تمام نمازوں اور روزوں کا ادا کرنا واجب ہے کہ جن کی مقدار پچاس سال تک پہنچتی ہے؟ ج: اس صورت میں بھی احتیاط ان کی قضا کرنے میں ہے۔ س 549: جب بڑے بیٹے پر خود اس کی نماز اور روزوں کی بھی قضا ہو اور باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا بھی ہو تو اس وقت دونوں میں سے کس کو مقدم کرے گا؟ ج: اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ جس کو بھی پہلے شروع کرے صحیح ہے۔ س 550: میرے والد کے ذمہ کچھ قضا نمازیں ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہیں ہے اور میں ان کا بڑا بیٹا ہوں، کیا یہ جائز ہے کہ میں ان کی چھوٹ جانے والی نمازیں بجا لاؤں یا کسی شخص کو اس کا م کے لئے اجیر کروں جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں؟ ج: زندہ شخص کی قضا نمازوں اور روزوں کی نیابت صحیح نہیں ہے۔ نماز جماعت نماز جماعت پرنٹ ; PDF نماز جماعت س 551: امام جماعت نماز میں کیا نیت کرے؟ جماعت کی نیت کرے یا فرادیٰ کی؟ ج: اگر جماعت کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ امامت و جماعت کا قصد کرے اور اگر امامت کے قصد کے بغیر نماز شروع کر دے تو اس کی نماز میں اور دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 552: فوجی مراکز میں نماز جماعت کے وقت۔کہ جو دفتری کام کے اوقات میں قائم ہوتی ہے۔ بعض کارکن کام کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے، حالانکہ وہ اس کام کو دفتری اوقات کے بعد یا دوسرے دن بھی انجام دے سکتے ہیں تو کیا اس عمل کو نماز کو اہمیت نہ دینا شمار کیا جائے گا؟ ج: اول وقت اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ دفتری امور کو اس طرح منظم کریں جس سے وہ لوگ اس الٰہی فریضہ کو کم سے کم وقت میں جماعت کے ساتھ انجام دے سکیں۔ س 553: ان مستحب اعمال، جیسے مستحب نماز یا دعائے توسل اور دوسری دعاؤں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو سرکاری اداروں میں نماز سے پہلے یا بعد میں یا اثنائے نماز میں پڑھی جاتی ہیں کہ جن میں نماز جماعت سے بھی زیادہ وقت صرف ہوتا ہے؟ ج: وہ مستحب اعمال اور دعائیں جو نماز جماعت کہ جو الہی فریضہ اور اسلامی شعائر میں سے ہے، کے ساتھ انجام پاتے ہیں، اگر دفتری وقت کے ضائع ہونے اور واجب کاموں کی انجام دہی میں تاخیر کا باعث ہوں تو ان میں اشکال ہے۔ س 554: کیا اس جگہ دوسری نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے جہاں سے قریب ہی نماز گزاروں کی بڑی تعداد کے ساتھ ایک اور نماز جماعت بر پا ہو رہی ہو اس طرح کہ اس کی اذان اور اقامت کی آواز بھی سنائی دے؟ ج: دوسری جماعت کے قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن مؤمنین کے شایان شان یہ ہے کہ وہ ایک ہی جگہ جمع ہوں اور ایک ہی جماعت میں شریک ہوں تاکہ نماز جماعت کی عظمت کوچار چاند لگ جائیں۔ س 555: جب مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے تو اس وقت بعض افراد فرادیٰ نماز پڑھتے ہیں، اس عمل کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ عمل نماز جماعت کو کمزور کرنا اور اس امام جماعت کی اہانت اور بے عزتی شمار کیا جائے کہ جس کے عادل ہونے پر لوگ اعتماد کرتے ہیں تو جائز نہیں ہے۔ س 556: ایک محلہ میں متعدد مساجد ہیں اور سب میں نماز با جماعت ہوتی ہے اور ایک مکان دو مسجدوں کے درمیان واقع ہے اس طرح کہ ایک مسجد اس سے دس گھروں کے فاصلہ پر واقع ہے اور دوسری دو گھروں کے بعد ہے اور اس گھر میں بھی نماز جماعت بر پا ہوتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ ج: سزاوار ہے کہ نماز جماعت کو اتحاد و الفت کے لئے قائم کیا جائے نہ کہ اختلاف و افتراق کی فضا پھیلانے کا ذریعہ بنایا جائے اور مسجد کے پڑوس میں واقع گھر میں نماز جماعت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اختلاف و پراگندگی کا سبب نہ ہو۔ س 557: کیا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ مسجد کے مستقل امام ـکہ جس کو امور مساجد کے مرکز کی تائید حاصل ہے۔ کی اجازت کے بغیر اس مسجد میں نماز جماعت قائم کرے؟ ج: نماز جماعت قائم کرنا امام راتب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام راتب مسجد میں موجود ہو تو اس کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کی جائے، بلکہ اگر یہ مزاحمت فتنہ و شر کے بھڑک اٹھنے کا سبب ہو تو حرام ہے۔ س 558: اگر امام جماعت کبھی غیر شائستہ انداز سے بات کرے یا ایسا مذاق کرے جو عالم دین کے شایان شان نہ ہو تو کیا اس سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے؟ ج: اگر یہ شریعت کے مخالف نہ ہوتو اس سے عدالت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ س 559: کیا امام جماعت کی کما حقہ پہنچاں نہ ہونے کے با وجود اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے؟ ج: اگر ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقہ سے امام کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی اقتداء جائز ہے اور جماعت صحیح ہے۔ س 560: اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو عادل و متقی سمجھتا ہو اور اسی لمحہ اس بات کا بھی معتقد ہو کہ اس نے بعض موقعوں پراس پر ظلم کیا ہے تو کیا وہ اسے کلی طور پر عادل سمجھ سکتا ہے؟ ج: جب تک اس شخص کے بارے میں ۔جس کو اس نے ظالم سمجھا ہے۔ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے وہ کام علم و اختیار سے اور کسی شرعی جواز کے بغیر انجام دیا ہے تو اس وقت تک وہ اس کے فاسق ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا۔ س 561: کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرنا جائز ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کی قدرت رکھتا ہے، لیکن نہیں کرتا؟ ج: صرف امر بالمعروف نہ کرنا جو ممکن ہے مکلف کی نظر میں کسی قابل قبول عذر کی بنا پر ہو، عدالت کو نقصان نہیں پہنچاتا اور نہ ہی اس کی اقتداء کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ س562: آپ کے نزدیک عدالت کے کیا معنی ہیں؟ ج: یہ ایک نفسانی حالت ہے جو باعث ہوتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایسا تقوا رکھتا ہو جو اسے واجبات کے ترک اور شرعی محرمات کے ارتکاب سے روکے اور اس کے اثبات کے لئے ا س شخص کے ظاہر کا اچھا ہونا ہی کافی ہے۔ س563: ہم چند جوانوں کا ایک گروہ عزاخانوں اور امام بارگاہوں میں ایک جگہ جمع ہوتا ہے، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو اپنے درمیان میں سے کسی ایک عادل شخص کو نماز جماعت کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں، لیکن بعض برادران اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی نے غیر عالم دین کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے، لہذا ہمارا فریضہ کیا ہے؟ ج: اگر عالم دین تک دسترسی ہو تو غیر عالم دین کی اقتدا نہ کریں۔ س564: کیا دو اشخاص نماز جماعت قائم کرسکتے ہیں؟ ج: اگر مراداس طرح نمازجماعت کی تشکیل ہے کہ ایک امام ہو اور دوسرا ماموم تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س565: اگر مأموم ظہر و عصر کی نماز باجماعت پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کو متمرکز رکھنے کیلئے حمد و سورہ خود پڑھے جب کہ حمد وسورہ پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: ظہر و عصر جیسی اخفاتی نمازوں میں، احتیط واجب کی بنا پر ماموم حمد اور سوره نه پڑھے،چاہے اپنے ذہن کو متمرکز کرنے کی غرض ہی سے ہو اور مستحب یه هے که حمد اور سوره کی بجای کوئی ذکر پڑهے. س566: اگر کوئی امام جماعت ٹریفک کے تمام قوانین کی رعایت کرتے ہوئے سائیکل کے ذریعہ نماز جماعت پڑھانے جاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اس سے عدالت اور امامت کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ س567: جب ہم نماز جماعت سے نہیں مل پاتے اور ثواب جماعت حاصل کرنے کی غرض سے تکبیرة الاحرام کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں اور امام کے ساتھ تشہد پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور پہلی رکعت پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت کے تشہد میں ایسا کرنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ طریقہ، امام جماعت کی نماز کے آخری تشہد سے مخصوص ہے تا کہ جماعت کا ثواب حاصل کیا جا سکے۔ س 568: کیا امام جماعت کے لئے نماز کے مقدمات کی اجرت لینا جائز ہے؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 569: کیا امام جماعت کے لئے عید یا کوئی سی بھی دو نمازوں کی ایک وقت میں امامت کرانا جائز ہے؟ ج: نماز پنجگانہ میں دوسرے مامومین کی خاطرنماز جماعت کو ایک بار تکرار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز عید کا تکرار کرنے میں اشکال ہے۔ س 570: جب امام نمازعشاء کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری رکعت میں ہو تو کیا ماموم پر واجب ہے کہ حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھے؟ ج: واجب ہے کہ دونوں کو آہستہ آواز سے پڑھے۔ س 571: نماز جماعت کے سلام کے بعد نبی اکرمؐ پر صلوات کی آیت (ان اللہ و ملائکتہ…) پڑھی جاتی ہے۔ پھر نمازگزار محمد و آل محمد(علیہم السلام) پر تین مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور اس کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اور اس کے بعد سیاسی نعرے لگاتے ہیں۔ یعنی دعا اور برائت کے جملے کہے جاتے ہیں جنہیں مؤمنین بلند آواز سے دہراتے ہیں کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ ج: آیت صلوات پڑھنے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ مطلوب ہے اور اس میں ثواب ہے اور اسی طرح اسلامی نعرے اور اسلامی انقلاب کے نعرے، (تکبیر اور اس کے ملحقات)کہ جو اسلامی انقلاب کے عظیم پیغام و مقاصد کی یاد تازہ کرتے ہیں، بھی مطلوب ہیں۔ س572: اگر ایک شخص مسجد میں نماز جماعت کی دوسری رکعت میں پہنچے اور مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد و قنوت کہ جن کا بجا لانا واجب تھا نہ بجا لائے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟ ج: نماز صحیح ہے لیکن بنابر احتیاط تشہد کی قضا اور تشہد چھوڑنے کی وجہ سے دو سجدۂ سہو بجا لانا واجب ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ سجدہ سہو سے پہلے بھولے ہوئے تشہد کی قضا بجالائے۔ س 573: نماز میں جس کی اقتداء کی جا رہی ہے کیا اس کی رضامندی شرط ہے؟ اور کیا ماموم کی اقتداء کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ ج: اقتداء کے صحیح ہونے میں امام جماعت کی رضا مندی شرط نہیں ہے اور ماموم جب تک اقتدا کر رہا ہے اسکی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔ س 574: دو اشخاص، ایک امام اور دوسرا ماموم جماعت قائم کرتے ہیں، تیسرا شخص آتا ہے وہ دوسرے (یعنی ماموم) کو امام سمجھتا ہے اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام نہیں بلکہ ماموم تھا پس اس تیسرے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: ماموم کی اقتداء صحیح نہیں ہے، لیکن جب وہ نہ جانتا ہو اور اس کی اقتداء کر لے تو اگر وہ رکوع و سجود میں اپنے انفرادی فریضہ پر عمل کیا هو یعنی عمداً اور سہواً کسی رکن کی کمی اور زیادتی نہیں کیا هو تو اس کی نماز صحیح ہے۔ س 575: جو شخص نماز عشاء پڑھنا چاہتا ہے، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز مغرب کی جماعت میں شریک ہو؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 576: مامومین سے امام کی نماز کے مقام کے بلند ہونے کی رعایت نہ کرنے سے، کیا ان کی نماز باطل ہوجاتی ہے؟ ج: اگر امام کی جگہ، مامومین کی جگہ سے اس حد سے زیادہ بلند ہو کہ جس کی شرعاًاجازت ہے ( یعنی ایک بالشت یا اس سے زیادہ ہو) تو ان کی جماعت کے باطل ہونے کا سبب ہوگی۔ س577: اگر نماز جماعت کی ایک صف میں تمام وہ لوگ نماز پڑھیں کہ جن کی نماز قصر ہے اور اس کے بعد والی صف ان لوگوں کی ہو جن کی نماز پوری ہے تو اس صورت میں اگر اگلی صف والے دو رکعت نماز تمام کرنے کے فوراً بعد اگلی دو رکعت کی اقتداء کیلئے کھڑے ہو جائیں تو کیا بعد کی صف والوں کی آخری دو رکعت کی جماعت باقی رہے گی یا ان کی نماز فرادیٰ ہو جائے گی؟ ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں وہ فوراً اقتدا کر لیتے ہیں تو جماعت باقی رہے گی۔ س578: کیاوہ ماموم جو نماز کی پہلی صف کے آخری سرے پر کھڑا ہو ان مامومین سے پہلے نماز میں شامل ہو سکتا ہے جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں؟ ج: جب وہ مامومین کہ جو اس کے اور امام کے درمیان ہیں، امام جماعت کے جماعت شروع کرنے کے بعد، نمازمیں اقتدا کے لئے مکمل طور پر تیار ہوں اورتکبیر کہنے کے قریب ہوں تو وہ جماعت کی نیت سے نماز میں شامل ہوسکتا ہے۔ س579: جو شخص یہ سمجھ کر کہ امام کی پہلی رکعت ہے اس کی تیسری رکعت میں شریک ہو جائے اور کچھ نہ پڑھے تو کیا اس پر اعادہ واجب ہے؟ ج: اگر وہ رکوع میں جانے سے پہلے ہی اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس پر قرأئت واجب ہے اگر وقت نه هو تو فقط حمد پڑهے اور رکوع میں امام سے ملے اور اگر رکوع کی حالت میں متوجہ ہو جائےتو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے، اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ سہواً قرأئت ترک کرنے کے سبب دو سجدہ سہو بجا لائے۔ س580: سرکاری دفاتر اور اسکولوں میں نماز جماعت قائم کرنے کیلئے امام جماعت کی اشد ضرورت ہے اور چونکہ میرے علاوہ اس علاقہ میں کوئی عالم دین نہیں ہے، اس لئے میں مجبوراً مختلف مقامات پر ایک واجب نماز کی تین یا چار مرتبہ امامت کراتا ہوں۔ دوسری مرتبہ نماز پڑھانے کے لئے تو سارے مراجع نے اجازت دی ہے، لیکن کیا اس سے زائد کو احتیاطاً قضا کی نیت سے پڑھایا جا سکتا ہے؟ ج: مذکوره سوال کے مطابق نماز قضای احتیاطی کی نیت سے امامت صحیح نهیں هے. س581: ایک یونیورسٹی نے اپنے اسٹاف کے لئے یونیورسٹی کی ایسی عمارت میں نماز جماعت قائم کی ہے جوشہر کی ایک مسجد کے نزدیک ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ عین اسی وقت مسجد میں نماز جماعت قائم ہوتی ہے، یونیورسٹی کی جماعت میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟ ج: ایسی نماز جماعت میں شرکت کرنے میں کہ جس میں ماموم کی نظر میں اقتداء اور جماعت کے صحیح ہونے کے شرائط پائے جاتے ہوں، کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ جماعت اس مسجد سے قریب ہی ہورہی ہو جس میں عین اسی وقت نماز جماعت قائم ہوتی ہے۔ س582: کیا اس امام کے پیچھے نماز صحیح ہے جو قاضی ہے لیکن مجتہد نہیں ہے؟ ج: اس کا تقرر اگر ایسے شخص نے کیا ہے جس کو اس کا حق ہے تو اس کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ س583: جو شخص نماز مسافر میں امام خمینی کا مقلد ہے، کیا ایک ایسے امام جماعت کی اقتداء کرسکتا ہے جو اس مسئلہ میں کسی اور مرجع کا مقلد ہو خصوصاً جبکہ اقتداء نماز جمعہ میں ہو؟ ج: تقلید کا اختلاف اقتداء کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے، لیکن اس نماز کی اقتداء صحیح نہیں ہے جو ماموم کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق قصر ہو اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق کامل ہو یا اسکے برعکس ہو۔ س584: اگر امام جماعت تکبیرة الاحرام کے بعد بھولے سے رکوع میں چلا جائے تو ماموم کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر ماموم نماز جماعت میں شامل ہونے کے بعداور رکوع میں جانے سے پہلے اس طرف متوجہ ہوجائے تو اس پر فرادیٰ کی نیت کر لینا اور حمد و سورہ پڑھنا واجب ہے۔ س585: اگر نماز جماعت کی تیسری یا چوتھی صف کے بعد اسکولوں کے نابالغ بچے نماز کیلئے کھڑے ہوں اور ان کے پیچھے بالغ اشخاص کھڑے ہوں تو اس حالت میں بالغ افراد جو پیچهلی لائن میں کهڑے هیں، کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر(بالغ اشخاص) جانتے هوں ان(نا بالغ بچوں) کی نماز صحیح هے تو اقتدا اور جماعت کے ساته نماز پڑه سکتے هیں. س586: اگر امام جماعت نے معذور ہونے کے سبب غسل کے بدلے تیمم کیا ہو توکیایہ نماز جماعت پڑھانے کیلئے کافی ہے یا نہیں؟ ج: اگر وہ شرعی اعتبار سے معذور ہو تو غسل جنابت کے بدلے تیمم کرکے امامت کرا سکتا ہے اور اس کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے پرنٹ ; PDF اس امام جماعت کا حکم کہ جس کی قرأت صحیح نہیں ہے س587: کیا قرأت صحیح ہونے کے مسئلہ میں فرادیٰ نماز نیز ماموم یا امام کی نمازکے درمیان کوئی فرق ہے؟ یا قرأت کے صحیح ہونے کا مسئلہ ہر حال میں ایک ہی ہے؟ ج: اگر مکلف کی قرأت صحیح نہ ہو اور وہ سیکھنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اسکی نماز صحیح ہے، لیکن دوسروں کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ س588: حروف کے مخارج کے اعتبار سے، بعض ائمہ جماعت کی قرأت صحیح نہیں ہے توکیا انکی اقتداء ایسے لوگ کرسکتے ہیں جو حروف کو صحیح طریقہ سے ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوں؟ بعض لوگ کہتے ہیں تم جماعت سے نمازپڑھ سکتے ہو لیکن اس کے بعد نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، لیکن میرے پاس اعادہ کرنے کا وقت نہیں ہے، تو میرا کیا فریضہ ہے؟ اور کیا میرے لئے یہ ممکن ہے کہ جماعت میں شریک تو ہوجاؤں لیکن آہستہ طریقے سے حمد و سورہ پڑھوں؟ ج: جب ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء اور نماز جماعت باطل ہے اور اگر وہ اعادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اقتداء نہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے، لیکن جہری نماز میں آہستہ سے حمد وسورہ پڑھنا کہ جو امام جماعت کی اقتداء کے ظاہر کرنے کیلئے ہو صحیح اور کافی نہیں ہے۔ س589: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند ایک ائمہ جمعہ کی قرأت صحیح نہیں ہے، یا تو وہ حروف کو اس طرح ادا نہیں کرتے جس طرح وہ ہیں یا وہ حرکت کو اس طرح بدل دیتے ہیں کہ جس سے وہ حرف نہیں رہتاکیا ان کے پیچھے پڑھی جانے والی نمازوں کے اعادہ کے بغیر ان کی اقتداء صحیح ہے؟ ج: قرائت صحیح ہونے کا معیار حروف کی حرکات اور سکنات اور ان کے مخارج سے ادائیگی کی رعایت ہے اس طرح کہ عربی زبان والے اس کو (کوئی دوسرا حرف نہیں بلکہ) وہی حرف سمجھیں اور تجوید کے محاسن کی رعایت لازمی نہیں ہے؛ اگر ماموم، امام کی قرأت کو قواعد کے مطابق نہ پائے اور اس کی قرأت کو صحیح نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے اور اس صورت میں اگر وہ اس کی اقتداء کرے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے اور دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ س590: اگر امام جماعت کو اثنائے نمازمیں کسی لفظ کو ادا کرنے کے بعداس کے تلفظ کی کیفیت میں شک ہوجائے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہوکہ اس نے اس لفظ کے تلفظ میں غلطی کی تھی تو اس کی اور مامومین کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: نماز صحیح ہے۔ س591: اس شخص اور خاص کر قرآن کے مدرس کا شرعی حکم کیا ہے جو تجوید کے اعتبار سے امام جماعت کی نماز کو یقین کے ساتھ غلط سمجھتا ہے، جبکہ اگر وہ جماعت میں شرکت نہ کرے تو اس پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں؟ ج: علم تجوید کے خوبصورت قرأت کے معیارات کی رعایت ضروری نہیں ہے لیکن اگر مموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو اور نتیجةً اس کی نظر میں اس کی نماز بھی صحیح نہیں ہے، ایسی صور ت میں وہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا، لیکن عقلائی مقصد کے لیے نماز جماعت میں ظاہری طور پر شرکت کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ معذور کی امامت معذور کی امامت پرنٹ ; PDF معذور کی امامت س592: اُن معذور افراد کی اقتدا کرنے کا کیا حکم ہے کہ جن کا ہاتھ یا پاؤں مفلوج ہوچکا ہو؟ ج: احتیاط اس کے ترک کرنے میں ہے۔ س593: میں ایک دینی طالب علم ہوں، آپریشن کی وجہ سے میرا دایاں ہاتھ کٹ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم ہو اکہ امام خمینی کامل کے لئے ناقص کی امامت کو جائز نہیں سمجھتے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ان مامومین کی نماز کا حکم بیان فرمائیں جن کو ابھی تک میں نے امامت کرائی ہے؟ ج: مأمومین کی گزشتہ نمازیں کہ جنہوں نے حکم شرعی سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کی اقتداء کی ہے، صحیح ہیں۔ ان پر نہ قضا واجب ہے اور نہ اعادہ۔ س 594: میں دینی طالب علم ہوں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ جنگ میں میرا پیر زخمی ہوا اور میرا انگوٹھا کٹ گیا اور اس وقت میں ایک امام بارگاہ میں امام جماعت ہوں۔ کیا اس میں کوئی شرعی اشکال ہے یا نہیں؟ ج: امام جماعت میں اس قدر نقص، امامت کیلئے مضر نہیں ہے ہاں اگر پورا ہاتھ یا پیر کٹا ہوا ہو تو امامت کرنے میں اشکال ہے۔ نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت پرنٹ ; PDF نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت س 595: کیا شارع مقدس نے عورتوں کو بھی مسجدوں میں نماز جماعت یا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی اسی طرح ترغیب دلائی ہے جس طرح مردوں کو دلائی ہے، یا عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے؟ ج: عورتوں کے جمعہ و جماعت میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ان کو جماعت کا ثواب ملے گا۔ س 596: عورت کب امام جماعت بن سکتی ہے؟ ج: عورت کا فقط عورتوں کی نماز جماعت کے لئے امام بننا جائز ہے۔ س 597: استحباب و کراہت کے لحاظ سے مردوں کی طرح عورتوں کی نماز جماعت میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو اس وقت ان کا کیا حکم ہے؟ کیا جب وہ مردوں کے پیچھے نماز جماعت کے لئے کھڑی ہوں تو کسی حائل یا پردے کی ضرورت ہے؟ اور اگر نماز میں وہ مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو حائل کے لحاظ سے کیا حکم ہے؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جماعت ، تقاریر اور دیگر پروگراموں کے دوران عورتوں کا پردے کے پیچھے ہونا ان کی توہین اور شان گھٹانے کا موجب ہے؟ ج: عورتوں کے نماز جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردے اور حائل کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو نماز میں مرد کے برابر عورتوں کے کھڑے ہونے کی کراہت کو دور کرنے کے لئے سزاوار ہے کہ ان کے درمیان حائل ہو یہ توہم کہ حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل لگانا عورت کی شان گھٹانے اور اس کی عظمت کو کم کرنے کا موجب ہے محض ایک خیال ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، مزید یہ کہ فقہ میں اپنی ذاتی رائے کو دخل دینا صحیح نہیں ہے۔ س 598: حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردے اور حائل کے بغیر اتصال اور عدم اتصال کی کیا کیفیت ہونی چاہیے؟ ج: عورتیں فاصلہ کے بغیر مردوں کے پیچھے کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اہل سنت کی اقتداء اہل سنت کی اقتداء پرنٹ ; PDF اہل سنت کی اقتدا س 599: کیا اہل سنت کی اقتدا میں نماز جائز ہے؟ ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کے لئے ان کے پیچھے نماز جماعت پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔ س 600: میں کُردوں کے علاقہ میں ملازمت کرتا ہوں، وہاں ائمہ جمعہ و جماعات کی اکثریت اہل سنت کی ہے ان کی اقتداء کے سلسلے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا ان کی غیبت کرنا جائز ہے؟ ج: وحدت اسلامی کے تحفظ کیلئے ان کے ساتھ ان کی جماعت اور جمعہ کی نمازوں میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور غیبت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ س 601: اہل سنت کے ساتھ معاشرت اور ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر نماز پنجگانہ میں شرکت کے دوران بعض موقعوں پر ہم بھی ان ہی کی طرح عمل کرتے ہیں مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا، وقت کی رعایت و پابندی نہ کرنا اور جائے نماز پر سجدہ کرنا، تو کیا ایسی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے؟ ج: اگر اسلامی اتحاد ان تمام چیزوں کا تقاضا کرے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے یہاں تک کہ جائے نماز پر سجدہ و غیرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔ س602: ہم مکہ اور مدینہ میں، اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھتے ہیں اور ایسا کام ہم امام خمینی کے فتوے کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض اوقات مسجد میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے ظہر و مغرب کی نماز کے بعد، عصر و عشاء کی نمازیں بھی ہم اہل سنت کی مساجد میں سجدہ گاہ کے بغیر فرادیٰ پڑھتے ہیں، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ فرض میں اگر تقیہ کے خلاف نہ ہو تو ایسی چیز پر سجدہ کرے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔ س 603: ہم شیعوں کیلئے دوسرے ممالک کی مساجد میں اہل سنت کی نماز میں شرکت کرنا کیسا ہے؟جبکہ وہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں؟ اور کیا ان کی طرح ہاتھ باندھنا ہمارے اوپر واجب ہے یا ہم ہاتھ باندھے بغیر نماز پڑھیں؟ ج: اگر اسلامی اتحاد کی رعایت مقصود ہو تو اہل سنت کی اقتداء جائز ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے بلکہ جائز ہی نہیں ہے مگر یہ کہ ضرورت اس کا تقاضا کرے۔ س 604: اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت قیام کی حالت میں دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص کے پیروں کی چھوٹی انگلی سے انگلی ملانے کا کیا حکم ہے جیسا کہ اہل سنت اس کے پابند ہیں؟ ج: یہ واجب نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس سے نماز کی صحت پر اثر انداز نهیں هوتا۔ س 605: حج کے زمانے میں یا اس کے علاوہ برادران اہل سنت ہماری (شیعہ) اذان مغرب سے قبل مغرب کی نماز پڑھتے ہیں، کیا ہمارے لئے ان کی اقتداء کرنا اور اس نماز پر اکتفاء کرنا صحیح ہے؟ ج: یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے ہیں، لیکن اگر مکلف کے لئے وقت کا داخل ہونا ثابت نہ ہوا ہو تو اس کا نماز میں شامل ہونا صحیح نہیں ہے۔ مگر یه که تقیے کی خاطر هو ۔ نماز جمعہ نماز جمعہ پرنٹ ; PDF نماز جمعہ س 606: نماز جمعہ میں شریک ہونے کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ جبکہ ہم حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں، اور اگر بعض اشخاص امام جمعہ کو عادل نہ مانتے ہوں تو کیا نماز جمعہ میں شریک ہونے کی ذمہ داری ان سے ساقط ہے یا نہیں؟ ج: نماز جمعہ اگرچہ دور حاضر میں واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے، لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد و اہمیت کے پیش نظر، صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا دیگر کمزوربہانوں کی بنا پر مؤمنین خود کو ایسی نماز کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔ س 607: نماز جمعہ میں واجب تخییری کے کیا معنی ہیں؟ ج: اس کے معنی یہ ہیں کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ وہ نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔ س 608: نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کے سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟ ج: عبادی و سیاسی پہلو رکھنے والی نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے ناپسندیده ہے۔ س 609: کچھ لوگ کمزوراور عبث بہانوں کی بنا پر نماز جمعہ میں شریک نہیں ہوتے اور بعض اوقات نظریاتی اختلاف کے باعث شرکت نہیں کرتے، اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیاہے؟ ج: نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی طور پر ناپسندیده ہے۔ س 610: نماز ظہر کا عین اس وقت جماعت سے منعقد کرنا، جب نماز جمعہ تھوڑے سے فاصلہ پر ایک اور مقام پر برپا ہو رہی ہو، جائز ہے یا نہیں؟ ج: بذات خود اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور اس سے مکلف جمعہ کے دن کے فریضہ ٔ ظہر سے بری الذمہ ہو جائے گا، کیونکہ دور حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے، لیکن چونکہ جمعہ کے دن، نماز جمعہ کے مقام سے قریب با جماعت نماز ظہر قائم کرنا ممکن ہے کہ مومنین کی صفوں میں تفرقہ کا باعث بنے ،بلکہ اسے عوام کی نظر میں امام جمعہ کی توہین اور بے حرمتی اور نماز جمعہ سے لاپروائی کا اظہار شمار کیا جائے بنابرایں مناسب یہ ہے کہ مومنین اس کو انجام دینے کا اقدام نہ کریں بلکہ اگر اس سے مفاسد اور حرام نتائج بر آمد ہوتے ہوں تو اس سے اجتناب واجب ہے۔ س 611: کیا نماز جمعہ و عصر کے درمیانی وقفہ میں نماز ظہر پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور شخص نماز عصر پڑھائے تو کیا عصر کی نماز میں اس کی اقتداء کرنا جائز ہے؟ ج: نماز جمعہ، نماز ظہر سے بے نیاز کر دیتی ہے، لیکن نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر احتیاط کی رعایت کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھ کر نماز عصر کو جماعت سے پڑھنا مقصود ہو تو کامل احتیاط یہ ہے کہ نماز عصر اس شخص کی اقتداء میں ادا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر بھی پڑھی ہو۔ س 612: اگر نماز جمعہ کے بعد امام جماعت نماز ظہر نہ پڑھے تو کیا ماموم احتیاطاً نماز ظہر پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ ج: اس کے لئے نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔ س 613: کیا امام جمعہ کیلئے واجب ہے کہ وہ حاکم شرع سے اجازت حاصل کرے؟ اور حاکم شرع سے کیا مراد ہے؟ اور کیا یہی حکم دور دراز کے شہروں کے لئے بھی ہے؟ ج: نماز جمعہ کی امامت کا اصل جواز اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن امامت جمعہ کے لئے امام کے نصب کے احکام کا مترتب ہونا ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے پر موقوف ہے۔ اور یہ حکم ہر اس سرزمین اور شہر کے لئے عمومیت رکھتا ہے کہ جس میں ولی فقیہ کی اطاعت کی جاتی ہو اور وہ اس میں حاکم ہو۔ س 614: کیا منصوب شدہ امام جمعہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بغیر کسی مانع اور معارض کے اس جگہ نماز جمعہ قائم کرے جہاں اسے منصوب نہ کیا گیا ہو؟ ج: بذات خود نماز جمعہ قائم کرنا اس کے لئے جائز ہے، لیکن اس پر جمعہ کی امامت کے لئے نصب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔ س 615: کیا موقت اور عارضی ائمہ جمعہ کے انتخاب کے لئے واجب ہے کہ انہیں ولی فقیہ منتخب کرے یا خود ائمہ جمعہ کو اتنا اختیار ہے کہ وہ امام موقت کے عنوان سے افراد کو منتخب کریں؟ ج: منصوب شدہ امام جمعہ کسی کو اپنا وقتی اور عارضی نائب بنا سکتا ہے۔ لیکن نائب کی امامت پر ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہونے کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔ س 616: اگر انسان منصوب شدہ امام جمعہ کو عادل نہ سمجھتا ہو یا اس کی عدالت میں شک کرتا ہو تو کیا مسلمین کی وحدت کے تحفظ کی خاطر اس کی اقتدا جائز ہے؟ اور جو شخص خود نماز جمعہ میں نہیں آتا، کیا اس کے لئے جائز ہے کہ و ہ دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دے؟ ج: اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے جس کو وہ عادل نہ سمجھتا ہو یا جس کی عدالت میں شک کرتا ہو اور نہ ہی اس کی نمازجماعت صحیح ہے، لیکن وحدت کے تحفظ کی خاطر جماعت میں شریک ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ بہر حال اسے دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت سے روکنے اور دوسروں کو اس کے خلاف بھڑکانے کا حق نہیں ہے۔ س 617: اس نماز جمعہ میں شریک نہ ہونے کا کیا حکم ہے کہ جس کے امام جمعہ کا جھوٹ مکلف پر ثابت ہو گیا ہو؟ ج: جو بات امام جمعہ نے کہی ہے اس کے بر خلاف انکشاف ہونا اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے غلطی یا توریہ کے طور پر یہ بات کہی ہو، لہذا صرف اس خیال اور توہم سے کہ امام جمعہ کی عدالت ساقط ہو گئی ہے خود کو نماز جمعہ کی برکتوں سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ س 618: جو امام جمعہ، امام خمینی یا عادل ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہو، کیا ماموم کیلئے اس کی عدالت کا اثبات و تحقیق ضروری ہے، یا امامت جمعہ کیلئے اس کا منصوب ہونا ہی اس کی عدالت کے ثبوت کے لئے کافی ہے؟ ج: امام جمعہ کے عنوان سے اس کے منصوب ہونے سے اگر ماموم کواس کی عدالت کاوثوق و اطمینان حاصل ہوجائے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہے۔ س 619: کیا مساجد کے ائمہ جماعت کا ثقہ علماء کی طرف سے معین کیا جانا یا ولی فقیہ کی جانب سے ائمہ جمعہ کا معین کیا جانا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ عادل ہیں یا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق واجب ہے؟ ج: اگر امام جمعہ یا جماعت کے طور پر منصوب کئے جانے سے ماموم کو ان کی عدالت کا اطمینان و وثوق حاصل ہو جاتا ہو تو ان کی اقتداء کرنا جائز ہے۔ س620: اگر امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو یا خدا نخواستہ اس کے عادل نہ ہونے کا یقین ہو تو کیا اس کی اقتداء میںپڑھی جانے والی نمازوں کا اعادہ واجب ہے ؟ ج: اگر اس کی عدالت میں شک یاعدم عدالت کا یقین نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہو تو جو نمازیں آپ نے پڑھ لی ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کا اعادہ واجب نہیں ہے۔ س 621: اس نماز جمعہ میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جو یورپی ممالک و غیرہ میں وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسلامی ممالک کے طلباء قائم کرتے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے اکثر افراد اور امام جمعہ بھی اہل سنت ہوتے ہیں؟ کیا اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا ضروری ہے؟ ج: مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی خاطر اس میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز ظہر پڑھنا ضروری نہیں ہے ۔ س 622: پاکستان کے ایک شہر میں چالیس سال سے ایک جگہ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے اور اب ایک شخص نے دو جمعوں کے درمیان شرعی مسافت کی رعایت کئے بغیر دوسری نماز جمعہ قائم کر دی ہے جس سے نماز گزاروں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ شرعاً اس عمل کا کیا حکم ہے؟ ج: کسی ایسے عمل کے اسباب فراہم کرنا جائز نہیں ہے جس سے مؤمنین کے درمیان اختلاف اور ان کی صفوں میں تفرقہ پیدا ہو جائے، بالخصوص نماز جمعہ کہ جو شعائر اسلامی اور مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔ س 623: راولپنڈی کی جامع مسجد جعفریہ کے خطیب نے اعلان کیا کہ تعمیری کام کی بنا پر مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ نہیں ہوگی، جب مسجد کی تعمیر کا کام ختم ہوا تو ہمارے سامنے یہ مشکل کھڑی ہو گئی کہ یہاں سے چار کلو میٹر کے فاصلہ پر دوسری مسجد میں نماز جمعہ قائم ہونے لگی، مذکورہ مسافت کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ ج: دو نماز جمعہ کے درمیان اگر ایک شرعی فرسخ[1] کا فاصلہ نہ ہو تو بعد میں قائم ہونے والی نماز جمعہ باطل ہے اور اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو اکٹھا قائم کیا جائے تو دونوں باطل ہیں۔ س 624: کیا نماز جمعہ، جو جماعت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے، کو فرادیٰ پڑھنا صحیح ہے؟ اس طرح کہ کوئی شخص نماز جمعہ کو ان لوگوں کے ساتھ فرادیٰ پڑھے جو اسے جماعت سے پڑھ رہے ہوں؟ ج: نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جماعت سے پڑھا جائے، لہذا فرادیٰ صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہے۔ س 625: جس شخص کی نماز قصر ہے کیا وہ امام جمعہ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ سکتا ہے ؟ ج: مسافرماموم کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اسے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ س 626: کیا دوسرے خطبہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کا اسم گرامی مسلمانوں کے ایک امام کے عنوان سے لینا واجب ہے یاآپ کا نام لینے میں استحباب کی نیت ضروری ہے؟ ج: ائمہ مسلمین کا عنوان حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیھا کو شامل نہیں ہے اور خطبۂ جمعہ میں آپکا اسم گرامی لینا واجب نہیں ہے، لیکن برکت کے طور پر آپ کے نام مبارک کو ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ پسندیدہ امر ہے اور موجب ثواب ہے س 627: کیا ماموم، امام جمعہ کی اقتداء کرتے ہوئے جبکہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہا ہو کوئی دوسری واجب نماز پڑھ سکتا ہے؟ ج: اس کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔ س 628: کیا ظہر کے شرعی وقت سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے دینا صحیح ہے؟ ج: نماز جمعه کا خطبه زوال سے پہلے دینا جائز ہے. س 629: اگر ماموم دونوں خطبوں میں سے کچھ بھی نہ سنے بلکہ اثنائے نماز جمعہ میں پہنچے اور امام کی اقتداء کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے؟ ج: اس کی نماز صحیح اور کافی ہے، خواہ نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے رکوع سے ایک لحظہ پہلے امام کے ساتھ شامل ہوا ہو۔ س 630: ہمارے شہر میں اذان ظہر کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز جمعہ قائم ہوتی ہے تو کیا یہ نماز، نماز ظہر سے کافی ہے یا نماز ظہر کا اعادہ ضروری ہے؟ ج: شروع زوال آفتاب کے ساتھ نماز جمعہ کا وقت ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ زوال عرفی کے اوائل سے زیادہ تاخیر نہ هو۔ س 631: ایک شخص نماز جمعہ میں جانے کی طاقت نہیں رکھتا تو کیا وہ اوائل وقت میں نماز ظہر و عصر پڑھ سکتا ہے؟ یا نماز جمعہ ختم ہونے کا انتظار کرے اور اس کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھے؟ ج: اس پر انتظار واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اول وقت میں نماز ظہرین پڑھنا جائز ہے۔ س 632: اگر منصوب امام جمعہ صحیح و سالم ہو اور وہاں پر حاضر بھی ہو تو کیا وہ عارضی امام جمعہ کو نماز جمعہ پڑھانے کے لئے کہہ سکتا ہے؟ اور کیا وہ عارضی امام جمعہ کی اقتداء کر سکتا ہے؟ ج: منصوب امام جمعہ کے نائب کی امامت میں نماز جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی منصوب امام کے لئے اپنے نائب کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال ہے۔ 1. ایک فرسخ تقریباً 5125 میٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ نماز عیدین نماز عیدین پرنٹ ; PDF نماز عیدین س 633: آپ کی نظر میں نماز عیدین اور جمعہ، واجبات کی کونسی قسم میں سے ہیں؟ ج: عصر حاضر میں نماز عیدین واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے، لیکن نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔ س 634: کیا نماز عیدین کے قنوت میں کمی اور زیادتی اس کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے؟ ج: اگر اس سے مراد قنوت کو لمبا یا مختصر پڑھنا ہو تو اس سے نماز عید باطل نہیں ہوتی لیکن اگر مراد انکی تعداد میں کمی بیشی کرنا ہو تو ضروری ہے کہ نماز عید اسی طرح پڑھے جیسے فقہی کتب میں مذکور ہے۔ س 635: ماضی میں رواج یہ تھا کہ امام جماعت ہی مسجد میں عیدالفطر کی نماز پڑھایا کرتا تھا۔ کیا اب بھی ائمۂ جماعت کے لئے نماز عیدین پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ ج: ولی فقیہ کے وہ نمائندے جن کو ولی فقیہ کی طرف سے نماز عید قائم کرنے کی اجازت ہو نماز عید پڑھا سکتے ہیں اسی طرح وہ ائمہ جمعہ بھی دور حاضر میں نماز عید، جماعت سے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہے، لیکن ان کے علاوہ باقی افراد کے لئے احوط یہ ہے کہ نماز عید فرادیٰ پڑھیں، اور رجاء کی نیت سے جماعت کے ساتھ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ورود(یعنی اس نیت سے کہ اس کا حکم شریعت میں آیا ہے) کے قصد سے نہیں۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک ہی نماز عید قائم کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے ولی فقیہ کے منصوب کردہ امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور نہ پڑھائے۔ س 636: کیا نماز عید فطر کی قضا کی جا سکتی ہے؟ ج: اس کی قضا نہیں ہے۔ س 637: کیا نماز عید فطر میں اقامت ہے؟ ج: اس میں اقامت نہیں ہے۔ س 638: اگر نماز عید فطر کیلئے اما م جماعت، اقامت کہے تو اس کی اور دیگر نماز گزاروں کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اس سے امام جماعت اور دیگر مامومین کی نماز کے صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ نماز مسافر نماز مسافر پرنٹ ; PDF نماز مسافر س 639: مسافر کے لئے ہر نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے یا بعض نمازوں کو؟ ج: قصر کا وجوب پنجگانہ نمازوں کی صرف چار رکعتی یعنی "ظہر و عصر اور عشائ" کی نمازوں سے مخصوص ہے، صبح اور مغرب کی نماز قصر نہیں ہوتی۔ س 640: مسافر پر چار رکعتی نمازوں میں وجوب قصر کے شرائط کیا ہیں؟ ج: یہ آٹھ شرطیں ہیں: ١۔ سفر کی مسافت آٹھ شرعی فرسخ ہو یعنی صرف جانے کا فاصلہ یاصرف آنے کا فاصلہ یا دونوں طرف کا مجموعی فاصلہ آٹھ شرعی فرسخ ہو، بشرطیکہ صرف جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم نہ ہو۔ ٢۔ سفر پر نکلتے وقت آٹھ فرسخ کی مسافت کو طے کرنے کا قصد رکھتا ہو۔ لہذا اگرابتدا سے اس مسافت کا قصد نہ کرے یا اس سے کم کا قصد کرے اور منزل پر پہنچ کر دوسری جگہ کا قصد کر لے اور اس دوسری جگہ اور پچھلی منزل کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر نہ ہو، لیکن جہاں سے پہلے چلا تھا وہاں سے شرعی مسافت ہو تو نماز پوری پڑھے۔ ٣۔ سفر کے دوران شرعی مسافت طے کرنے کے ارادے سے پلٹ جائے، لہذا اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے ارادہ بدل دے یا اس سفر کو جاری رکھنے میں متردد ہو جائے تو اس کے بعد اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا، اگر چہ ارادہ بدلنے سے قبل اس نے جو نمازیں قصر پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں۔ ٤۔شرعی مسافت کو طے کرنے کے دوران اپنے سفر کو اپنے وطن سے گزرنے یا ایسی جگہ سے گزرنے کے ذریعے کہ جہاں دس روز یا اس سے زیادہ ٹھہرنا چاہتاہے قطع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ ٥۔ شرعی اعتبار سے اس کا سفر جائز ہو، لہذا اگر سفر معصیت کاہو، خواہ وہ سفر خود ہی معصیت و حرام ہو جیسے جنگ سے فرار کرنا یا غرضِ سفر حرام ہو جیسے ڈاکہ ڈالنے کے لئے سفر کرنا، تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا اور نماز پوری ہوگی۔ ٦۔ مسافر، ان خانہ بدوشوں میں سے نہ ہو کہ جن کا کوئی معین مقام (وطن) نہیں ہوتا بلکہ وہ صحراؤں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں انہیں پانی، گھاس اور چراگاہیں مل جائیں وہیں پر ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔ ٧۔ سفر اس کا پیشہ نہ ہو جیسے ڈرائیور اور ملاح و غیرہ اور یہ حکم ان لوگوں کا بھی ہے جن کا شغل سفر میں ہو۔ ٨۔ حد ترخص تک پہنچ جائے اور حد ترخص سے مراد وہ جگہ ہے کہ جہاں پر شہر کی اذان نہ سنی جا سکے۔ جس شخص کا پيشہ يا پينشے کا مقدمہ سفر ہو جس شخص کا پيشہ يا پينشے کا مقدمہ سفر ہو پرنٹ ; PDF جس شخص کا پیشہ یا پیشے کا مقدمہ سفر ہو س 641: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، کیا وہ سفر میں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے، یا یہ حکم (پوری نماز پڑھنا) اس شخص سے مخصوص ہے جس کا خود پیشہ سفر ہو اور مرجع دینی، امام خمینی(قدس سره) کے اس قول کے کیا معنی ہیں"جس کا پیشہ سفر ہو" کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کا پیشہ سفر ہو؟ اس لئے کہ چرواہے، ڈرائیور اور ملاح و غیرہ کا پیشہ بھی چرانا، ڈرائیونگ کرنا اور کشتی چلانا ہے، اور بنیادی طور پر ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا کہ جس نے سفر کو پیشے کے طور پر اختیار کیا گیا ہو. ج: جس شخص کا سفر اس کے پیشے کا مقدمہ ہو، اگر وه سفر کو اس حد تک جاری رکهنے پر بنا رکهے که عرفا اس کا سفر پیشے کا لازمه حساب هوتا هو مثلا وه یه اراده رکهتا هے که آٹھ یا نو مهینے یا آئنده ایک سال کے دوران هفتے میں ایک دن پیشے کی خاطر سفر کرے گا تو ان ایام میں اس کی نماز پوری اور روزه صحیح هوگا اور اسی طرح وه اپنے وطن یا غیر وطن میں دس دن ٹهر جائے تو اس دس دن کے بعد والے پهلے سفر میں نماز قصر هوگی. اور فقہاء (رضوان اللہ علیھم) کے کلام "جس کا شغل سفر ہو" سے مراد وہ شخص ہے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ہو جیسے وہ مشاغل جو سوال میں ذکر هوا یے۔ س642: ان لوگوں کے روزے اور نماز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو ایک شہر میں کام کرنے کے لئے ایک سال سے زائد مدت تک قیام کرتے ہیں یا وہ رضاکار جو کسی شہر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ہیں، کیا ان پرہر سفر کے بعد دس روزکے قیام کی نیت کرنا واجب ہے تاکہ وہ روزہ رکھ سکیں اور پوری نماز پڑھ سکیں یا نہیں؟ اور اگر وہ دس روز سے کم قیام کی نیت کریں تو ان کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں اس شہر میں نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س643: جنگی طیاروں کے پائلٹ، جو اکثر ایام میں فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور شرعی مسافت سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ہیں، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے۔ ج: اس سلسلہ میں ان کا حکم وہی ہے جو ڈرائیوروں، کشتیوں کے ملاحوں اور جہازوں کے پائلٹوں کا ہے یعنی سفر میں انکی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س644: وہ قبائلی جو تین یا چار ماہ کیلئے گرم علاقے سے سرد علاقے کی طرف یا برعکس نقل مکانی کرتے ہیں لیکن سال کا باقی حصہ اپنے ہی علاقے میں گزارتے ہیں تو کیا انکے دو وطن شمار ہوں گے ؟ نیز ان میں سے ایک مقام پر رہائش کے دوران میں جو دوسرے مقام کی طرف سفر کرتے ہیں اس میں انکی نماز کا قصر یا تمام ہونے کے لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ ج: اگر وہ ہمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف نقل مکانی کا قصد رکھتے ہوں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام دوسری جگہ گزاریں اور انہوں نے دونوں جگہوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو دونوں جگہیں ان کیلئے وطن شمار ہوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ہوگا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کا فاصلہ، شرعی مسافت کے برابر ہو تو ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کے راستے میں ان کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔ س645: میں ایک شہر (سمنان)میں سرکاری ملازم ہوں اورمیری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریبا ٣٥ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پہنچنے کے لئے طے کرتا ہوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شہر میں چند راتیں ٹھہرنے کا ارادہ کرلوں تو میں اپنی نماز کیسے پڑھوں گا؟ کیا مجھ پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سمنان جاؤں تو کیا مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا نہیں؟ ج: اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کیلئے نہیں ہے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ہیں تو اس پر شغل والے سفر کا حکم عائد نہیں ہوگا، لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کیلئے ہو لیکن اسکے ضمن میں دیگرکا موں، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات و غیرہ کو بھی انجام دیں اور بعض اوقات وہاں پر ایک رات یا چند راتیں ٹھہر جائیں تو کام کے لئے سفر کا حکم ان اسباب کی وجہ سے نہیں بدلے گا، بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ہوگی اور روزہ رکھنا ہوگا۔ س646: اگر ملازمت کی جگہ پر کہ جس کیلئے میں نے سفر کیا ہے، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں، مثلاً صبح سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: دفتری کام کو انجام دینے کے بعد ذاتی کاموں کو انجام دینا " کام کیلئے سفرکرنے" کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔ س647: ان رضاکاروں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ دس دن سے زائد ایک جگہ قیام کریں گے، لیکن اس کا اختیار خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ امید ہے امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟ ج: مفروضہ سوال میں اگر انہیں دس دن یا اس سے زائد ایک جگہ رہنے کا اطمینان ہوتو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے، اور یہی فتوی امام خمینی کا بھی ہے۔ س648: ان سپاہیوں کے روزے اور نمازکا کیا حکم ہے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ہیں اور دس دن سے زیادہ چھاؤنیوں میں اور دس دن سے زیادہ سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں؟ براہ مہربانی امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں؟ ج: اگر وہ دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جانتے ہوں کہ دس دن یا اس سے زیادہ وہاں رہنا ہوگا تو وہاں پر انکی نماز پوری ہوگی اور انہیں روزہ بھی رکھنا ہوگا اور امام خمینی کا فتوی بھی یہی ہے۔ س 649: امام خمینی کی توضیح المسائل کے باب "نماز مسافر" ،"ساتویں شرط" میں آیا ہے: "ڈرائیور پر واجب ہے کہ پہلے سفر کے بعد پوری نماز پڑھے، لیکن پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہے خواہ سفر طویل ہی کیوں نہ ہو" تو کیا پہلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ہے یا نہیں بلکہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جانے سے پہلا سفر مکمل ہوجائیگا؟ ج: اگر اس کی آمد و رفت عرف عام میں ایک سفر شمار ہوتی ہے مثلاً ایک ڈرائیور کسی شہر میں مال پہنچا کر واپس آتا ہے تو اس صورت میں اس کی رفت و آمد کو پہلا سفر شمار کیا جائے گا اور اگر عرف عام میں ایک سفر شمار نہ کیا جائے جیسے کہ وہ ڈرائیور جو سامان اٹھانے کیلئے ایک منزل کی طرف سفر کرتاہے اور پھر وہاں سے کسی دوسری جگہ مسافر سوار کرنے یا دوسرا سامان اٹھانے کیلئے سفر کرتاہے یا شروع میں ہی ایسا قصد رکھتا ہے اور اس کے بعد اپنے وطن کی طرف پلٹ آتاہے تو اس صورت میں پہلی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد اس کا پہلا سفر مکمل ہوجائے گا۔ س 650: وہ شخص جس کا مستقل پیشہ ڈرائیونگ نہ ہو، بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیونگ کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہو، جیسے چھاؤنیوں و غیرہ میں فوجیوں پر موٹرگاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے، کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ہے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے؟ ج: اگر عرف عام میں گاڑی کی ڈرائیونگ کو اس مدت میں ان کا پیشہ سمجھا جائے تو اس مدت میں ان کا وہی حکم ہے جو تمام ڈرائیوروں کا ہے۔ س 651: جب کسی ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پرزے خریدنے اور اسے ٹھیک کرنے کیلئے دوسرے شہر جائے تو کیا اس طرح کے سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر، جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نہیں ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں بھی اس کا سفر شغل والا ہے اور نماز پوری ہے۔ طلبہ کا حکم طلبہ کا حکم پرنٹ ; PDF طلبہ کے احکام س 652: یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کا کیا حکم ہے جو ہفتہ میں کم از کم دو دن تحصیل علم کیلئے سفر کرتے ہیں یا ان ملازمین کا کیا حکم ہے جو ہر ہفتہ اپنے کام کے لئے سفر کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ وہ ہر ہفتہ سفر کرتے ہیں لیکن کبھی یونیورسٹی یا کام کی جگہ میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے وہ ایک ماہ تک اپنے اصلی وطن میں رہتے ہیں اور اس ایک ماہ کی مدت میں سفر نہیں کرتے تو جب وہ ایک ماہ کے بعد پھر سے سفر کا آغاز کریں گے تو کیا اس پہلے سفر میں انکی نماز قاعدے کے مطابق قصر ہو گی اور اس کے بعد وہ پوری نماز پڑھیں گے اور اگر اس کام والے سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو حکم کیا ہوگا؟ ج: حصولِ علم کے لئے سفر میں نماز اور روزے کا حکم احتیاط پر مبنی ہے(1)، خواہ ان کا سفر ہفتہ وار ہو یا روزانہ ہو، لیکن جو شخص کام کے لئے سفر کرتا ہے خواہ وہ مستقل کام کرتا ہو یا کسی دفتر میں اگر وہ دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے وطن اور کام کرنے کی جگہ یا اپنی رہائش کے مقام کے درمیان رفت و آمد کرتا ہو تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ رکھنا بھی صحیح ہو گا اور جب وہ کام والے دو سفروں کے درمیان اپنے وطن میں یا کسی اور جگہ پر دس دن کا قیام کرے تو ان دس دنوں کے بعد کام کے لئے کئے جانے والے پہلے سفر میں نماز قصر پڑھے گا اور روزہ نہیں رکھ سکتا لیکن اگر اپنے کام والے اس سفر سے پہلے کسی ذاتی سفر پر گیا ہو تو اس ذاتی سفر کے دوران نماز قصر اور اس کے بعد کام والے سفر کے دوران یہ احتیاط کہ "نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے" ترک نہ کی جائے۔ س 653: میں رفسنجان کے قریب سکول میں ٹیچر ہوں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے پر بھی مامور ہوں چنانچہ ہفتے کے پہلے تین دن کرمان میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوتا ہوں اور باقی دن اپنے شہر میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتاہوں میری نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے کیا مجھ پر طالب علم و الا حکم عائد ہوگا یا نہیں ؟ ج: اگر آپ تعلیم حاصل کرنے پر مأ مور ہیں تو آپ کی نماز پوری ہے اور روزہ بھی صحیح ہے ۔ س 654: اگر دینی طالب علم یہ نیت کرے کہ وہ تبلیغ کو اپنا مشغلہ بنائے گا تو مذکورہ فرض کے مطابق وہ سفر میں پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور روزہ بھی رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس شخص کا سفر تبلیغ، ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس کے روزے نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تبلیغ و ہدایت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو عرف عام میں اس کا شغل اور کام کہا جاتا ہو تو ان چیزوں کے لئے اس کے سفر کا حکم وہی ہے جو شغل کے لئے سفر کرنے والوں کا ہے اور اگر کبھی ان کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے سفر کرے تو دیگر تمام مسافروں کی طرح نماز قصر پڑھے اور اس کا روزہ صحیح نہیں ہے ۔ س 655: جو لوگ غیر معینہ مدت کے لئے سفر کرتے ہیں جیسے حوزہ علمیہ کے طالب علم یا حکومت کے وہ ملازمین جو کسی شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے مامور کئے جاتے ہیں، ان کے روزوں اور نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں اگر وہاں ایک سال ٹھیرنے کا ارادہ ہو تو نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 656: اگر دینی طالب علم اس شہر میں رہتا ہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور وہاں دس روز قیام کی نیت کرنے سے قبل وہ جانتا تھا یا یہ قصد رکھتا تھا کہ شہر سے باہر واقع مسجد میں ہر ہفتے جائے گا۔ آیا وہ دس دن کے قیام کی نیت کر سکتا ہے یا نہیں؟ ج: قصد اقامت کے دوران شرعی مسافت سے کم اتنی مقدار باہر جانے کا ارادہ کہ جسے عرف میں ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کے ساتھ منافی شمار نہیں کیا جاتا، قصد اقامت کو ختم نہیں کرتا مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران دو تین دفعہ اور ہر دفعہ حد اکثر آدها دن شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا۔ 1. ایسی صورت حال رکھنے والے افراد شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی دوسرے مجتہد کے فتوا کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور اگر رجوع نہ کریں تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ نماز پوری بھی پڑھیں اور قصر بھی اور ماہ رمضان میں ضروری ہے کہ احتیاطاً روزہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضا بھی کریں۔ قصد مسافرت اور دس دن کی نیت قصد مسافرت اور دس دن کی نیت پرنٹ ; PDF قصد اقامت اورمسافتِ شرعی س 657: میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے، لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تا کہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ پر دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز کے دوران میں یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا، پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے؟ ١۔ جب میں اچانک یا کسی کام سے دس دن کامل ہونے سے پہلے اس شہر میں جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد اپنے کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔ ٢۔ جب میں دس روز کامل ہونے کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلے میں جاؤں اور میرے وہاں تک جانے کا فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اورایک رات ، وہاں قیام کر کے میں اپنی قیامگاہ کی طرف واپس آجاؤں۔ ٣۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی ایک معین محلہ کے قصد سے نکلوں، لیکن اس محلہ میں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں ایک اور محلے میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیامگاہ سے شرعی مسافت سے زیادہ دور ہے؟ ج: 1۔٢۔ اگر شروع سے ہی نکلنے کا قصد نہ رکھتا ہوت و کسی جگہ ٹھہرنا ثابت ہونے کے بعد وہاں سے ایک دن یا کئی دن[1] شرعی مسافت سے کم فاصلے تک باہر نکلنے سے قصد اقامت کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ اس صورت میں کوئی فرق نہیں ہے کہ خارج ہونا دس دن پورے ہونے سے پہلے ہو یا اس کے بعد، جب تک نیا سفر پیش نہ آئے نماز اور روزہ قصر نہیں ہیں۔ ٣۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شرعی سفر واقع ہی نہیں ہوا اس لیے قصد اقامت ختم نہیں ہوگا۔ س 658: مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی اذان کی آوازسنائی دے، یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی دیں تو کیا اس سے مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ ج: اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے شرعی مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس سے سفر کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، لیکن جب تک وہ اپنے وطن اور حد ترخص کے درمیان والے مقام میں ہے اس پر مسافر والا حکم جاری نہیں ہوگا۔ س 659: جہاں میں ملازم ہوں اور فی الحال جہاں میرا قیام ہے، وہ میرا اصلی وطن نہیں ہے اور اس جگہ اور میرے وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہاں فقط چند سال رہوں، میں بعض اوقات وہاں سے دفتری کاموں کے لئے مہینے بھر میں دو یا تین دن کے سفر پر جاتا ہوں لہذا جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں، میں رہائش پذیر ہوں مسافت شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟ اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں؟ ج: مذکورہ صورت میں اس جگہ آپ مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 660: ایک شخص چند سال سے اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہر ہفتہ گھر جاتا ہے لہذا اگر یہ شخص اس مقام کی طرف سفر کرے کہ جس کا اس کے وطن سے ٢۱ کلو میٹر کا فاصلہ ہے، لیکن جس جگہ وہ چند سال تعلیم حاصل کرتا رہاہے وہاں سے اس کا فاصلہ ٢۰ کلومیٹر ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اپنے وطن سے اس جگہ تک سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہوگی۔ س 661: ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصدکیا، لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس سفر کے دوران ایک خاص کام کی انجام دہی کیلئے ایک چھوٹے راستے سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آجائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس مسافر کے روزہ اور نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اس پر مسافر کا حکم جاری ہو گا اور شرعی مسافت کو پورا کرنے کے لئے اصلی راستے سے نکل کر دوبارہ اس پر لوٹ آنے کا شرعی مسافت کی تکمیل کے لئے اضافہ کرنا کافی ہے۔ س 662: امام خمینی کے (اس) فتویٰ کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر کرے تو نماز قصر پڑھے اور روزہ نہ رکھنا واجب ہے، اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جو چھ فرسخ سے زیادہ ہو تو اس صورت میں نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر جانا چار فرسخ سے کم ہو اور فقط واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔ س 663: جو شخص اپنی قیام گاہ سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو اور ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے، اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے؟ ج: اگر وہ گھر سے نکلتے وقت شرعی مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور اس کی پہلی منزل اور ان دوسری جگہوں کے درمیان کا فاصلہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ تھا تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہوگا۔ س 664: اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ اِدھر اُدھر گھومتا رہے تو کیا اس کا یہ اِدھر اُدھر گھومنا اس مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے؟ ج: منزل مقصود پر ادھر ادھر گھومنا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔ س 665: کیا قصد اقامت کے وقت قیام گاہ سے چار فرسخ سے کم فاصلے کی جگه پر جانے کی نیت کی جاسکتی ہے؟ ج: اقامت گاہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے کا قصد اگر دس دن کے قیام کے صادق آنے کو ضرر نہ پہنچائے جیسے کہ اس کا ارادہ یہ ہو کہ ان دس دنوں کے دوران دو تین دفعہ اور ہر بار زیاده سے زیاده آدها دن کی مدت شرعی مسافت سے کم تک جائے گا اور واپس آئے گا تو ایسی نیت قصد اقامت کے صحیح ہونے کے لئے مضر نہیں ہے۔ س 666: اس بات کے پیش نظر کہ اپنی قیامگاہ سے اپنی جائے ملازمت تک آنا جانا کہ جن کے درمیان ٢٤کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے، اگر میں اپنی ملازمت کے شہر کے حدود سے باہر نکلوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں کہ جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد اپنی ملازمت کی جگہ واپس آجاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہوگی؟ ج: ملازمت کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم فاصلے تک جانے سے اگرچہ اس کا آپ کے کام کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، جائے ملازمت پر آپ کے روزہ اورنماز کا حکم نہیں بدلے گا، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر ظہر سے قبل واپس آئیں یا اسکے بعد۔ س667: ایک شخص اپنے وطن سے کسی دوسرے شہر کی طرف سفر کرتا ہے جس کی ابتدا تک شرعی مسافت نہیں بنتی لیکن اس مقام تک جو اس کی منزل ہے شرعی مسافت بنتی ہے تو کیا شرعی مسافت کا حساب لگانے کے لئے شہر کی ابتداء معیار ہوگی یا وہ مقام جو اس شہر میں اس کی منزل ہے؟ جواب: اگر کسی شخص کی منزل خود شہر نہ ہو بلکہ شہر کے گرد ونواح میں کوئی مخصوص اور مستقل جگہ ہو اس طرح کہ عرف کی نظر میں شہر میں پہنچنا اس منزل پر پہنچنا شمار نہ ہوتا ہو بلکہ شہر میں پہنچ کر وہاں سے عبور کرنا منزل کی طرف راستہ شمار ہوتا ہو مثلاً ایسی یونیورسٹیاں، چھاؤنیاں یا ہسپتال جو شہر کے گردونواح میں ہوتی ہیں تو شہر کا ابتدائی حصہ مسافت کی انتہا شمار نہیں ہوگا بلکہ وہی جگہ مسافت کی انتہا ہوگی۔ س668: میں ہر ہفتہ حضرت سیدہ معصومہ "علیہا السلام "کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجالانے کی غرض سے قم جاتا ہوں، اس سفر میں مجھے پوری نماز پڑھنا ہوگی یا قصر؟ ج: اس سفر میں آپ کا حکم وہی ہے جوتما م مسافروں کا ہے اور آپ کی نماز قصر ہے ۔ س669: شہر"کا شمر" میری جائے ولادت ہے اور١٩٦٦(١٣٤٥ ہجری شمسی)سے ١٩٩٠ (١٣٦٩ ہجری شمسی) تک میں تہران میں مقیم رہاہوں اور اسے میں نے اپنا وطن بنا رکھا تھا اور اب تین سال سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ادارے کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر اپنے وطن تہران لوٹ جاؤں گا، اس بات کے پیش نظر کہ میں جب تک بندر عباس میں ہوں ہر لحظے امکان ہے کہ مجھے بندرعباس کے ساتھ ملحق شہروں میں ڈیوٹی کیلئے جانا پڑے اورکچھ مدت مجھے وہاں ٹھہرنا پڑے اور ادارے کی طرف سے میری جو ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اسکے وقت کا بھی پہلے سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ براہ مہربانی سب سے پہلے میرے روزہ و نماز کا حکم بیان فرمائیں؟ دوسرا یہ کہ میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے،جبکہ وہ خانہ دار ہے، اسکی جائے پیدائش تہران ہے اور وہ میری وجہ سے بندر عباس میں رہتی ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں آپ اُس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتے اور آپ اور آپ کی بیوی کی نماز وہاں پوری ہے اور روزہ صحیح ہے۔ س670: ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا ہے، کیونکہ اسے علم تھا کہ وہاں دس دن ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا عزم کررکھا تھا، پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس پر پوری نماز پڑھنے کا حکم لاگو ہوگیا۔ اب اسے ایک غیر ضروری سفر پیش آگیا ہے تو کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے؟ ج: اس کے سفر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔ س671: اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام کرے گا، لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا دس دن ٹھہرنے کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی نیت کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ وہاں نماز قصر پڑھے گا۔ س672: غیر مقامی ملازم پیشہ لوگ جو اپنے کام والے شہر میں کبھی بھی دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہوتا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟ ج: مفروضہ صورت میں اگر ملازمت کی جگہ میں دس دن قیام نہ کرے تو اس کا سفر شغل والا سفر شمار ہوگا اور رہائش گاہ، ملازمت کی جگہ اور ان دو کے درمیان نماز پوری ہوگی۔ س673: اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے، دس روز یا اس سے کم تو وہ کس طرح نماز پڑھے؟ ج: مردد شخص کی ذمہ داری یہ ہے کہ تیس دن تک نماز قصر پڑھے اور اسکے بعد پوری پڑھے اگرچہ اسے اسی دن واپس پلٹنا ہو۔ س674: جو شخص دومقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد بھی رکھتا ہے تو اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر عرف عام میں یہ دو علاقے شمار ہوں تو وہ نہ دونوں مقامات میں قصد اقامت کرسکتا ہے اور نہ ہی ایک مقام پر، جبکہ وہ دس روز کے اندر دوسرے مقام تک رفت و آمد کا قصد رکھتا ہو۔ [1] ۔ دن کے تعیین میں ملاک عرف ہےکہ جو سورج کے طلوع ہونے سے غروب تک ہوگا. حد ترخص حد ترخص پرنٹ ; PDF حد ترخص س675: جرمنی اور یورپ کے بعض شہروں کا درمیانی فاصلہ (یعنی ایک شہر سے نکلنے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کے سائن بورڈ کی مسافت) ایک سو میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا حتی کہ دو شہروں کے بعض مکانات اور سڑکیں تو ایک دوسرے سے متصل ہوتی ہیں، ایسے موارد میں حد ترخص کیسے ہوگی؟ ج: جہاں دو شہر ایک دوسرے سے اس طرح متصل ہوں جیساکہ مذکورہ سوال میں ہے تو ایسے دو شہر، ایک شہر کے دو محلوں کے حکم میں ہیں یعنی ایک شہر سے خارج ہونے اور دوسرے شہر میں داخل ہونے کو سفر شمار نہیں کیا جائے گا تاکہ اسکے لئے حد ترخص معین کی جائے۔ س 676: حد ترخص کا معیار شہر کی اذان سننا اور شہر کی دیواروں کو دیکھنا ہے، کیا (حد ترخص میں) ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے یا دونوں میں سے ایک کافی ہے؟ ج: حد ترخص وه جگه هے جهاں شهر کی متعارف آذان کی آواز لاؤٹ اسپیکر کے بغیر نهیں سنی جاسکتی هے. س 677: کیا حد ترخص میں شہر کے ان گھروں ۔ کہ جہاں سے مسافر شہر سے خارج ہوتاہے یا اس میں داخل ہوتا ہے۔ کی اذان کا سنائی دینا معیار ہے یا شہر کے وسط کی اذان کا سنائی دینا؟ ج: شہر کے اس آخری حصے کی اذان سننا معیارہے کہ جہاں سے مسافر شہر سے نکلتا ہے یا اس میں داخل ہو تا ہے۔ س 678: ہمارے یہاں ایک علاقہ کے لوگوں کے درمیان شرعی مسافت کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں شہر کے آخری گھروں کی وہ دیواریں معیار ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شہر کے گھروں کے بعد جو کارخانے اور متفرق آبادیاں ہیں، ان سے مسافت کا حساب کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ شہر کا آخر اس کا کون سا حصہ ہے؟ ج: شہر کی آخری حدود کی تعیین عرف عام پر موقوف ہے اگر عرف عام میں کارخانوں اور متفرق آبادیوں کو شہر کا حصہ شمار نہ کیا جائے تو مسافت کا حساب شہر کے آخری گھروں سے کیا جائیگا۔ سفر معصیت سفر معصیت پرنٹ ; PDF سفر معصیت س 679: جب انسان یہ جانتا ہو کہ وہ جس سفر پر جا رہا ہے، اس میں وہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہو گا تو کیا اس کی نماز قصر ہے یا پوری؟ ج: اگر اس کا سفر اور اس کا مقصد گناه نه هو لیکن سفر کے دوران حرام کام انجام پائے تو یه سفر، سفر معصیت کا حکم نهیں رکهتا هے. مگر یه که حرام کام سفر کے شروع سے آخر تک (مگر کچه گهنٹے) اس طرح انجام پاتے رهے که سفر معصیت کے زمرے میں آجائے تو اس صورت میں احتیاط یه هے که نماز جمع(کامل اور قصر) بجا لائے. س 680: وه شخص جو گناہ کی غرض کے بغیر سفر کرے، لیکن راستے میں اس نے معصیت کی غرض سے اپنے سفر کو تمام کرنے کی نیت کرے، تو کیا یه شخص نماز پوری پڑھے یا قصر؟ اور اثنائے سفر میں جو قصر نمازیں پڑھ چکا ہے کیا وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ ج: جس وقت سے اس نے اپنے سفر کو گناہ و معصیت کی غرض سے جاری رکھنے کی نیت کی ہے اس وقت سے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے اور اگر مسافت شرعی تک پهونچنے سے ہھلے تغییر نیت کی ھو تو تغییر نیت سے پھلے یا بعد میں جو نمازیں بطور قصر پڑهی ہیں ان کو دوبارہ پوری پڑھنا واجب ہے. اور اگر تغییر نیت مسافت شرعی تک پهنچنے کے بعد هو تو صرف ان نمازوں کو دوباره پڑهے جن کو تغییر نیت کے بعد بطور قصر پڑهی هیں۔ س 681: اس سفر کا کیا حکم ہے جو تفریح یا ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے کیا جائے اور اس سفر میں نماز اور اس کے مقدمات کے لئے جگہ میسر نہ ہو؟ ج: اگر وہ جانتا ہے کہ اس سفر میں اس سے بعض وہ چیزیں چھوٹ جائیں گی جو نماز میں واجب ہیں تو احوط یہ ہے کہ ایسے سفر پر نہ جائے مگر یہ کہ سفر ترک کرنے میں اس کیلئے ضرر یا حرج ہو۔ بہر حال کسی بھی صورت میں نماز کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ احکام وطن احکام وطن پرنٹ ; PDF احکام وطن س 682: میری جائے پیدائش تہران ہے، جبکہ میرے والدین کا وطن "مہدی شہر" ہے، لہذا وہ سال میں متعدد بار "مہدی شہر" جاتے ہیں، ان کے ساتھ میں بھی جاتا ہوں، لہذا میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں " مہدی شہر"کو رہائش کے لئے اپنا وطن نہیں بنانا چاہتا، بلکہ میرا ارادہ تہران ہی میں رہنے کا ہے؟ ج: مذکورہ فرض میں آپ کے والدین کے اصلی وطن میں آپ کے روزہ و نماز کا حکم وہی ہے جودیگر مسافروں کے روزہ و نماز کا ہوتاہے۔ س 683: میں ہر سال چھ ماہ ایک شہر میں اور چھ ماہ دوسرے شہر میں رہتا ہوں جو کہ میری جائے پیدائش ہے اور یہی شہر میرا اور میرے گھر والوں کا مسکن بھی ہے، لیکن پہلے شہر میں بطور مستمر نہیں ٹھہرتا، مثلاً دو ہفتے، دس روز یا اس سے کم وہاں رہتا ہوں پھر اس کے بعد اپنی جائے پیدائش اور اپنے گھر والوں کی رہائش گاہ میں لوٹ آتا ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں پہلے شہر میں دس روز سے کم ٹھہرنے کی نیت کروں تو کیا میرا حکم مسافر کا ہے یا نہیں؟ ج: اگر آپ اُس شہر میں اتنا رہتے ہیں کہ عرف میں مسافر شمار نہیں ہوتے تو اس جگہ آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س 684: جو شخص محدود تک کسی جگہ رہنا چاہتا ہے کتنی مدت تک وہاں رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہوگا؟ ج: اگر کسی جگہ کم از کم ایک سال رہنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وه جگه عرفا اس کا وطن بهی شمار نهیں هوگا اور اس پر مسافر بهی صدق نهیں آئیگا اسی لئے دس دن کے قصد اقامت کے بغیر اُس جگہ اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 685: ایک شخص کا وطن تہران ہے اور اب وہ تہران کے قریب ایک دوسرے شہر کو اپنے لئے وطن بنانا چاہتا ہے، اور چونکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تہران میں ہے، لہذا وہ دس روز بھی اس شہر میں نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ چھ ماہ تک رہے بلکہ وہ روزانہ اپنے کام پر جاتا ہے اور رات کو اس شہر میں لوٹ آتا ہے۔ اس شہر میں اس کے نمازو روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: نئے شہر کو وطن بنانے کی یہ شرط نہیں ہے کہ انسان اسے وطن بنانے کا ارادہ کرنے اور اس میں سکونت اختیار کرنے کے بعد مسلسل کچھ مدت اس جگہ رہے، بلکہ جب اسے نئے وطن کے طور پر انتخاب کرلے اور اس قصد کے ساتھ کچھ مدت "اگر چہ صرف راتیں" وہاں رہائش رکھے تو وہ اس کا وطن شمار ہوگا اسی طرح اگر ایسے کام انجام دے کہ جنہیں عام طور پر انسان کسی جگہ کو وطن بنانے کیلئے انجام دیتا ہے جیسے گھر تیار کرنا، کاروبار کی جگہ کا انتخاب کرنا "اگرچہ وہاں رہا نہ بھی ہو" تو وطن بن جائے گا۔ س 686: میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش "کاشمر" ہے، لیکن جب سے میں سرکاری ملازم ہوا ہوں اس وقت سے میں نیشاپور منتقل ہو گیا ہوں اگر چہ ماں باپ اب بھی کاشمر میں ہی رہتے ہیں۔ نیشاپور کی طرف ہجرت کے آغاز میں ہی ہم نے اصلی وطن (کاشمر) سے اعراض کر لیا تھا، مگر ١٥ سال گزر جانے کے بعداب ہم نے اپنا ارادہ پھر بدل لیا ہے۔ مہربانی فرماکر درج ذیل سوالات کے جواب بیان فرمائیں: ١۔ جب ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ہیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ہے؟ ٢۔ ہمارے والدین کے وطن (کاشمر) میں جاکر وہاں چند روز قیام کے دوران، ہمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ہے جو ہماری موجودہ رہائش گاہ نیشاپور میں پیدا ہوئے اور اب بالغ ہو چکے ہیں؟ ج: جب آپ نے اپنے اصلی وطن "کاشمر" سے اعراض کر لیا تو اب وہاں آپ دونوں کیلئے وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کیلئے دوبارہ وہاں لوٹ جائیں اور همیشه یا کچھ طولانی مدت(اگر چه سال میں کچه مهینے هی کیوں نه هو) یا مدت معین کیے بغیر وهاں رهے اس شرط کے ساته که ضروریات زندگی وهاں پر فراهم کرے یا کچه مدت وهاں پر ٹههر جائے. اور یہ شہر آپ کی اولاد کا وطن بھی نہیں ہے، بلکہ اس شہر میں آپ سب لوگ مسافر کے حکم میں ہیں۔ س 687: ایک شخص کے دو وطن ہیں اوردونوں میں وہ پوری نماز پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے توکیا اس کے بیوی بچوں پر کہ جن کی وہ دیکھ بھال اور کفالت کرتا ہے، اس مسئلہ میں اپنے ولی اور سرپرست کا اتباع واجب ہے؟ یا اس سلسلہ میں وہ اپنا مستقل عمل کر سکتے ہیں؟ ج: زوجہ یہ کرسکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے نئے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے، لیکن بچے جب تک چھوٹے ہیں اور اپنی کمائی اور ارادے میں مستقل نہیں ہیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ہیں تو باپ کا نیا وطن ان کے لئے بھی وطن شمار ہو گا۔ س 688: اگر ولادت کا ہسپتال (زچہ خانہ) باپ کے وطن سے باہر ہو اور وضع حمل کی خاطر ماں کو چند روز اس ہسپتال میں داخل ہونا پڑے اور بچے کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ہونے والے بچے کا وطن کو نسا ہو گا؟ ج: صرف کسی شہر میں پیدا ہونے سے وہ شہر اس بچے کا وطن نہیں بن جاتا، بلکہ اس کا وطن وہی ہے جو اس کے والدین کا ہے کہ جہاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ہوتا ہے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ س 689: ایک شخص چند سال سے اہواز شہر میں رہتا ہے، لیکن اسے اپنے لئے وطن ثانی نہیں بنایا ہے، تو اگر وہ اس شہر سے شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جائے اور دوبارہ اس شہر میں واپس آجائے تو وہاں واپس آنے کے بعد اس کے نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ صورت میں چونکہ اُس جگہ عرفاً مسافر شمار نہیں ہوتا اس لیے اُس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س 690: میں عراقی ہوں اور اپنے وطن عراق کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ہوں؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ہوں جہاں میں ساکن ہوں؟ یا اپنے لئے وطن بنانے کے لئے گھر خریدنا ضروری ہے؟ ج: نئے وطن کے لئے شرط ہے کہ کسی مخصوص اور معین شہر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور اس میں اتنا عرصہ زندگی بسر کرے کہ عرف عام میں کہا جائے یہ شخص اس شہر کا باشندہ ہے، لیکن اس شہر میں گھر و غیرہ کا مالک ہونا شرط نہیں ہے۔ س691: جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور وہ ترک وطن کے مسئلہ کو نہیں جانتاتھا اور اب وہ بالغ ہوا ہے تو وہاں اس کے روزہ و نما زکا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اس نے باپ کے ساتھ اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کرے اور اس کا باپ دوباره اس جگه نه لوٹنے کا قصد کیا هو تو وہ جگہ اس کیلئے بهی وطن نہیں ہوگی۔ س692: اگر انسان کا ایک وطن ہو اور وہ فی الحال وہاں نہ رہتا ہو، لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ہمراہ وہاں جاتا ہو تو کیا شوہر کی طرح زوجہ بھی وہاں پوری نماز پڑھے گی یا نہیں؟ اورجب زوجہ اکیلی اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف کسی جگہ کا شوہر کا وطن ہونا سبب نہیں ہے کہ وہ زوجہ کا بھی وطن ہو اور وہاں پر اس کے لئے وطن کے احکام جاری ہوں۔ س693: کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ہے؟ ج: کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نہیں بنتی ہے، لیکن اگر وہاں اس کی رہائش ہو اور کم از کم ایک سال وہاں رہنے کا ارادہ رکھتاہو تو اس کا حکم، مسافر والا نہیں ہوگا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ س694: کسی شخص کے اپنے وطن کو چھوڑنے کے کیا معنی ہیں؟ اور کیا عورت کے شادی کر لینے اور شوہر کے ساتھ چلے جانے سے وطن چھوڑنا ثابت ہوجاتا ہے یا نہیں؟ ج: وطن چھوڑنے سے مرادیہ ہے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں نہیں پلٹے گا اسی طرح اگر اسے اپنے نہ پلٹنے کا علم یا اطمینان ہو، اور عورت کے صرف دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے اصلی وطن سے اعراض کر لیا ہے۔ س695: گزارش ہے کہ وطن اصلی او روطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں ج: اصلی وطن : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان اپنی ابتدائی زندگی (یعنی بچپن اور لڑکپن) کا بیشتر حصہ وہاں رہ کر نشو و نما پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ وطن ثانی : اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جہاں مکلف ہمیشہ یا طویل مدت (اگرچہ سال میں کچھ مہینے) یا کوئی مدت معین کئے بغیر وہاں زندگی گزارنے کا یقینی قصد رکھتا ہو۔ س696: میرے والدین شہرِ"ساوہ" کے باشندے ہیں، دونوں بچپنے میں تہران آگئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بعد شہر چالوس منتقل ہو گئے کیونکہ میرے والد وہاں ملازمت کرتے تھے، لہذا اس وقت میں تہران اورساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں؟ واضح رہے میری پیدائش تہران میں ہوئی ہے، لیکن وہاں کبھی نہیں رہا ہوں۔ تهران اور ساوه میں میری نماز کیسی هوگی؟ ج: مذکورہ صو رت میں وہاں آپ کا حکم دیگر مسافروں والا ہے ۔ س697: جس شخص نے اپنے وطن سے اعراض نہیں کیا ہے لیکن چھ سال سے کسی اور شہر میں مقیم ہے، لہذا جب وہ اپنے وطن جائے تو کیا وہاں اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے یا قصر؟ واضح رہے کہ وہ امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے۔ ج: اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نہیں کیا ہے تو وطن کا حکم اس کے لئے باقی ہے اور وہ وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔ س 698: ایک طالب علم نے تبریز شہر کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے تبریز میں چار سال کیلئے کرایہ پر گھر لے رکھا ہے، علاوہ از ایں اب اس کا ارادہ ہے کہ اگر ممکن ہو ا تو وہ دائمی طور پر تبریز ہی میں رہے گا آج کل وہ ماہ رمضان مبارک میں کبھی کبھار اپنے اصلی وطن جاتا ہے تو کیا دونوں جگہوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا؟ ج: اگر مقام تعلیم کو اس وقت وطن بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نہیں ہے لیکن مذکورہ صورت میں اس جگہ مسافر والا حکم نہیں رکھتا اور اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے نیز اس کا اصلی وطن، حکم وطن پر باقی ہے جب تک اس سے اعراض نہ کرے۔ س 699: میں شہر "کرمانشاہ"میں پیدا ہوا ہوں اور چھ سال سے تہران میں مقیم ہوں، لیکن اپنے اصلی وطن سے اعراض نہیں کیا ہے، اور تہران کو بھی وطن بنانے کا قصد کیا ہے لہذا جب ہم ایک سال یا دو سال کے بعد تہران کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں منتقل ہوتے ہیں تواس میں میرے روزے ونماز کا کیا حکم ہے؟ اور چونکہ ہم چھ ماہ سے زائد عرصہ سے تہران کے نئے علاقے میں رہتے ہیں تو کیا ہمارے لئے یہاں پر وطن کا حکم جاری ہوگا یا نہیں؟ اور جب ہم دن بھر میں تہران کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے ہیں تو ہماری نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر آپ نے موجودہ تہران یا اس کے کسی ایک محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ہو تو پورا تہران آپ کا وطن ہے اور اس میں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے اور تہران کے اندر ادھر ادھر جانے پر سفر کا حکم نہیں لگے گا۔ س700: ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے آج کل اس کی ملازمت اور رہائش تہران میں ہے اور اس کے والدین گاؤں میں رہتے ہیں اور وہاں پر انکی زمین و جائداد بھی ہے، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور امداد کے لئے وہاں جاتا ہے، لیکن وہاں پر سکونت اختیار کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے واضح رہے کہ وہ گاؤں اس شخص کی جائے پیدائش بھی ہے، لہذا وہاں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر اس شخص کا اس گاؤں میں واپس جا کر زندگی بسر کرنے کا اراده نه هو بلکه وهاں واپس نه جانے کا اراده هو تو وه جگه اس کا وطن نهیں هوگی اور اس پر وطن کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ س701: کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ہونے والا وہاں نہ رہتا ہو؟ ج: اگر کچھ عرصہ(یعنی بچپن اور لڑکپن کا زمانہ) تک وہاں زندگی گزارے اور وہیں نشوو نما پائے تو جب تک وہ اس جگہ سے اعراض نہیں کرے گا اس وقت تک وہاں اس پر وطن کا حکم جاری ہوگا، ورنہ نہیں۔ س702: اس شخص کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے جو ایک سرزمین میں کہ جو اس کا وطن نہیں ہے طویل مدت (٩سال)سے مقیم ہے اور فی الحال اس کا اپنے وطن میں آنا ممنوع ہے، لیکن اسے یہ یقین ہے کہ ایک دن وطن واپس ضرور جائے گا؟ ج: سوال کی مفروضہ صورت میں اس شخص پر مسافر صدق نہیں کرتا اور اُس جگہ اس کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے ۔ س703: میں نے اپنی عمر کے چھ سال گاؤں میں اور آٹھ سال شہر میں گزارے ہیں اورحال ہی میں تعلیم کیلئے مشہد مقدس آیا ہوں، لہذا ان تمام مقامات پر میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ گاؤں جو آپ کی جائے پیدائش ہے اگر اُسے عرف میں آپ کا وطن شمار کیا جاتا ہے تو آپ کی نماز اُس جگہ پوری اور روزہ صحیح ہے اور اگر وطن کے صدق کرنے میں شک ہو تو محل احتیاط ہے اور اگر وہ گاؤں آپ کی جائے پیدائش نہیں ہے تو اُس پر وطن کے صدق میں شک ہونے کی صورت میں آپ کیلئے وطن کے احکام نہیں رکھتا اور جس شہر میں آپ نے کئی سال گزارے ہیں اگر آپ نے اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک آپ وہاں سے اعراض نہ کریں لیکن مشہد کو جب تک آپ وطن بنانے کا قصد نہ کریں وہ آپ کا وطن شمار نہیں ہوگا لیکن اگر کم از کم ایک دو سال تک وہاں رہنے کا ارادہ ہو تو وہاں آپ کی نماز پوری اور روزہ صحیح ہے۔ بیوی بچوں کی تابعیت بیوی بچوں کی تابعیت پرنٹ ; PDF بیوی بچوں کی تابعیت س704: کیا وطن اور اقامت کے سلسلے میں زوجہ شوہر کے تابع ہے؟ ج: صر ف زوجیت، جبری طورپر شوہر کے تابع ہونے کی موجب نہیں ہے، لہذا زوجہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قصد اقامت اور وطن اختیار کرنے میں شوہر کے تابع نہ ہو، ہاں اگر زوجہ اپنا وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں شوہر کے تابع ہو توا اس کے شوہر کا قصد اس کے لئے کافی ہے، پس اس کا شوہر جس شہر میں وطن کی نیت سے دائمی اور مشترکہ زندگی کیلئے منتقل ہوا ہے وہی اس کا بھی وطن شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر شوہر اس وطن کو چھوڑدے جس میں وہ دونوں رہتے تھے اور کسی دوسری جگہ چلا جائے تو یہ زوجہ کا بھی اپنے وطن سے اعراض شمار ہوگا اور سفر میں دس دن کے قیام کے سلسلے میں اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شوہر کے قصد اقامت سے آگا ہ ہو بشرطیکہ وہ اپنے شوہر کے ارادہ کے تابع ہو، بلکہ اگر وہ اقامت کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتو بھی اس کا یہی حکم ہے ۔ س705: ایک جوان نے دوسرے شہر کی لڑکی سے شادی کی ہے، تو جس وقت یہ لڑکی اپنے والدین کے گھر جائے تو پوری نماز پڑھے گی یا قصر؟ ج: جب تک وہ اپنے اصلی وطن سے اعراض نہ کرے اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گی۔ س706: کیا بیوی یا بچے، امام خمینی کی توضیح المسائل کے مسئلہ "1284"کے زمرے میں آتے ہیں؟یعنی کیا انکے سفر کے صدق کرنے کیلئے خود انکا سفر کی نیت کرنا شرط نہیں ہے ؟ نیز کیا باپ کے وطن میں ان سب کی نماز پوری ہوگی جو اسکے تابع ہیں ؟ ج: اگر سفر میں خواہ جبری طور پر ہی سہی وہ باپ کے تابع ہوں تو سفر کے لئے باپ کا قصد ہی کافی ہے، بشرطیکہ انہیں اس کی اطلاع ہو۔ تاہم وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں اگر وہ اپنے ارادہ اور زندگی میں خود مختار نہ ہوں، یعنی طبیعی اور فطری طورپر باپ کے تابع ہوں تو وطن سے اعراض کرنے اور نیا وطن اختیار کرنے کے سلسلے میں کہ جہاں باپ زندگی گزارنے کے لئے ان کے ساتھ منتقل ہوا ہے، باپ کے تابع ہوں گے۔ بڑے شہروں کے احکام بڑے شہروں کے احکام پرنٹ ; PDF بڑے شہروں کے احکام س707: بڑے شہروں کو وطن بنانے کے قصد اور ان میں دس دن اقامت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ج: بڑے اور عام شہروں میں، احکام مسافر، وطن اختیار کرنے اوردس روز قیام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ بڑے شہرکو اس کے کسی خاص محلہ کو معین کئے بغیر وطن بنانے کا قصد کرنے اور کچھ مدت اس شہر میں زندگی گزارنے سے اس پورے شہرپر وطن کا حکم جاری ہو گا، اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے شهر میں دس دن رهنے کا اراده کرے تو اس شهر کے تمام محلوں میں نماز پوری پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔ خواه اس وطن یا قصد اقامت کے لئے ان میں سے کسی محلے کو انتخاب کیا هو یا نهیں کیا هو. س708: ایک شخص کوامام خمینی کے اس فتوے کی اطلاع نہیں تھی کہ تہران بڑے شہروں میں سے ہے ، انقلاب کے بعد اسے امام خمینی کے فتوے کا علم ہواہے، لہذا اس کے ان روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے جو عادی طریقہ سے اس نے انجام دیئے ہیں؟ ج: اگر ابھی تک وہ اس مسئلہ میں امام خمینی کی تقلید پر باقی ہے تو اس پر ان گذشتہ اعمال کا تدارک واجب ہے جو امام خمینی کے فتوے کے مطابق نہیں تھے چنانچہ جو نمازیں ا س نے قصر کی جگہ پوری پڑھی تھیں ان کو قصر کی صورت میں بجا لائے اور ان روزوں کی قضا کرے جو اس نے مسافرت کی حالت میں رکھے تھے۔ البته اس مسئله میں وه کسی زنده مجتهد کی طرف رجوع کر سکتا هے جس میں گذشته نمازوں کی قضا واجب نه هو. نماز اجارہ نماز اجارہ پرنٹ ; PDF نماز اجارہ س709: مجھ میں نماز پڑھنے کی طاقت نہیں ہے، کیا میں کسی دوسرے شخص کو نائب بنا کر اس سے اپنی نمازیں پڑھوا سکتا ہوں؟ اور کیا نائب کے اجرت طلب کرنے اور نہ کرنے میں کوئی فرق ہے؟ ج: ہر شخص جب تک زندہ ہے جیسے بھی ممکن ہو اپنی واجب نماز کو خود ادا کرے، نائب کا اس کی طرف سے نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے خواہ وہ اجرت لے یا نہ لے ۔ س710: جو شخص اجارہ کی نماز پڑھتا ہے: ١۔ کیا اس پر، اذان و اقامت کہنا، تینوں سلام پڑھنا اور مکمل طور پر تسبیحات اربعہ پڑھنا واجب ہے؟ ٢۔ اگر ایک دن ظہر و عصر کی نماز بجا لائے اور دوسرے دن مکمل طور پر پنجگانہ نمازیں پڑھے، توکیا اس میں ترتیب ضروری ہے؟ ٣۔ نماز اجارہ میں کیا میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ ج: میت کے خصوصیات بیان کرنا ضروری نہیں ہے اورصرف ایک دن کی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کے درمیان ترتیب کی رعایت ضروری ہے اور جب تک عقد اجارہ میں اجیر کے لئے خاص کیفیت کی شرط نہ رکھی گئی ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے ضروری ہے کہ نماز کو واجبات کے ساتھ بجا لائے۔ نماز آیات نماز آیات پرنٹ ; PDF نماز آیات س٧۱۱: نماز آیات کیا ہے اورشریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ ج: یہ دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں، شریعت میں اس کے واجب ہونے کے اسباب یہ ہیں : سورج گرہن اور چاندگرہن خواہ ان کے معمولی حصے کو ہی لگے، اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ غیر معمولی چیز جس سے اکثر لوگ خوفزدہ ہوجائیں، جیسے سرخ، سیاہ یا پیلی آندھیاں کہ جو غیر معمولی ہوں یا شدید تاریکی، یا زمین کا دھنسنا ، پہاڑ کا ٹوٹ کر گرنا،بجلی کی کڑک اور گرج اور وہ آگ جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔ سورج گہن ،چاند گرہن اور زلزلہ کے علاوہ باقی سب چیزوں میں شرط ہے کہ عام لوگ ان سے خوف زدہ ہوجائیں لذا اگر ان میں سے کوئی چیز خوفناک نہ ہو یا اس سے بہت کم لوگ خوف زدہ ہوں تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔ س٧۱۲:نماز آیات پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ ج: اسے بجا لانے کے چند طریقے ہیں : ١۔ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے سر اٹھائے اورحمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہوکر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے، پھر سر اٹھا ئے اور حمد وسورہ پڑھے اور اسی طرح اس رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دوسجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح عمل کرے پھر دو سجدے بجالائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔ ٢۔ ہر رکعت میں فقط ایک مرتبہ سوره الحمد اور سورہ پڑھی جاتی ہے اس طرح کہ سورہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرے اور نیت اور تکبیرہ الاحرام کے بعد سوره الحمد اور سورے کا ایک حصہ (ایک آیت ہو یا اس سے کم یا زیادہ) پڑھے اور رکوع میں جائے (البتہ احتیاط واجب کی بناپر «بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحیمِ» کو سورے کا ایک حصہ شمار کرکے رکوع میں نہیں جاسکتا ہے) رکوع کے بعد الحمد پڑھے بغیر سورے کا بعد والا حصہ پڑھے اور اس کے بعد دوسرا رکوع کرے؛ اسی طرح جاری رکھے یہاں تک کہ آخری رکوع سے پہلے سورہ پورا ہوجائے، اس کے بعد پانچواں رکوع بجالائے اور سجدے میں چلا جائے؛ دونوں سجدوں کے بعد دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجالائے اور تشہد اور سلام کہے. ٣۔ مذکورہ دو طریقوں میں سے ایک رکعت کو ایک طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقے سے بجا لائے۔ ٤۔ وہ سورہ جس کا ایک حصہ پہلے رکوع سے قبل قیام میں پڑھا تھا، اسے دوسرے ، تیسرے یا چوتھے رکوع سے پہلے والے قیام میں ختم کردے تو اس صورت میں واجب ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام میں سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ یا اس کا ایک حصہ پڑھے اور اس صورت میں واجب ہے کہ اس سورہ کو پانچویں رکوع سے پہلے مکمل کرے ۔ س٧۱۳: کیا نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں ہے کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے یا ہر اس شخص پر واجب ہے جسے اس کا علم ہوگیا ہو، خواہ وہ اس شہر میں نہ ہو کہ جس میں نہ ہو کہ جس میں حادثہ رونما ہوا ہے؟ ج: نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو حادثے والے شہر میں ہو۔ س٧۱۴: اگر زلزلہ کے وقت ایک شخص بے ہوش ہو اور زلزلہ ختم ہو جانے کے بعد ہوش میں آئے تو کیا اس پر بھی نما زآیات واجب ہے؟ ج: اس صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز پڑهی جائے۔ س٧١۵: کسی علاقہ میں زلزلہ آنے کے بعد مختصر مدت کے درمیان بہت سے چھوٹے چھوٹے زلزلے اور زمینی جھٹکے آتے ہیں، ان موارد میں نماز آیات کا کیا حکم ہے؟ ج: ہر جھٹکا جسے مستقل زلزلہ شمار کیاجائے اسکے لئے علیحدہ نماز آیات واجب ہے خواہ شدید ہو یا خفیف۔ س٧١۶: جب زلزلے درج کرنے والا مرکز اعلان کرے کہ فلاں علاقہ میں جس میں ہم رہتے ہیں زلزلہ کے کئی معمولی جھٹکے آئے ہیں اور جھٹکوں کی تعداد کا بھی ذکر کرے، لیکن ہم نے انہیں بالکل محسوس نہ کیا ہوتو کیا اس صورت میں ہمارے اوپر نماز آیات واجب ہے یا نہیں؟ ج: اگر اس طرح ہو کہ کوئی اُسے محسوس نہ کرے اور صرف مشینوں کے ساتھ قابل ادراک ہو تو نماز آیات واجب نہیں ہے۔ نوافل نوافل پرنٹ ; PDF نوافل س٧١۷: کیا نافلہ نمازوں کوبلند آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ آواز سے ۔ ج: مستحب ہے کہ دن کی نافلہ نمازوں کو آہستہ اور شب کی نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھا جائے۔ س٧١۸: نماز شب جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے کیا اسے دو مرتبہ چار چار رکعت کر کے، ایک مرتبہ دو رکعت اور ایک مرتبہ ایک رکعت (وتر)پڑھ سکتے ہیں؟ ج: نمازشب کو چار چار رکعت کرکے پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ س٧١۹: جب ہم نماز شب پڑھتے ہیں تو کیا واجب ہے کہ کسی کو اسکی خبر نہ ہو اور واجب ہے کہ ہم تاریکی میں نماز شب پڑھیں؟ ج: تاریکی میں نماز شب پڑھنا اور اسے دوسروں سے چھپا نا شرط نہیں ہے ہاں اس میں ریا جائز نہیں ہے۔ س٧۲۰: نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد اورخود نافلہ کے وقت میں، کیا نافلہ ظہر و عصر قضا کی نیت سے پڑھے جائیں یا کسی اور نیت سے؟ ج: احتیاط یہ ہے کہ اس وقت قربةً الی اللہ کی نیت سے پڑھے جائیں، ادا اور قضا کی نیت نہ کی جائے۔ س٧۲۱: براہ مہربانی ہمیں نماز شب کے طریقہ سے تفصیل کے ساتھ مطلع فرمائیں؟ ج: نماز شب مجموعی طور پر گیا رہ رکعات ہیں، ان میں سے آٹھ رکعتوں کو، جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہیں، نماز شب کہتے ہیں اور انکے بعد دو رکعت کو نماز شفع کہتے ہیں اور یہ نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی آخری ایک رکعت کو نماز وتر کہتے ہیں اس کے قنوت میں مومنین کے لئے استغفار و دعا کرنا اور خدائے منان سے حاجات طلب کرنا مستحب ہے، اس کی ترتیب دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ہے۔ س٧۲۲: نماز شب کا کیا طریقہ ہے؟ یعنی اس میں کونسا سورہ، استغفار اور دعا پڑھی جائے؟ ج: نماز شب میں کوئی سورہ، استغفار اور دعا اسکے جز کے عنوان سے شرط نہیں ہے، بلکہ نیت اور تکبیرة الاحرام کے بعد ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھے اور اگر چاہے تو اسکے بعد دو سر ا سورہ پڑھے پھر رکوع و سجوداور تشہدو سلام بجالائے۔ نماز کے متفرقہ احکام نماز کے متفرقہ احکام پرنٹ ; PDF نماز کے متفرقہ احکام س723:وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر والوں کو نماز صبح کیلئے بیدا ر کیا جائے؟ ج: اس سلسلے میں گھر کے افراد کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔ س 724: ان لوگوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور بلا سبب ایک دوسرے سے بغض ، حسد اور حتی دشمنی رکھتے ہیں ؟ ج: انسان کیلئے دوسروں کے بارے میں بغض وحسداور عداوت کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے، لیکن یہ روزہ و نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں ہے۔ س725: اگر محاذ جنگ پر جہاد کرنے والا شدیدحملوں کی وجہ سے سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے یارکوع و سجود انجام نہ دے سکے تو وہاں پر کیسے نماز پڑھے؟ ج: اس کیلئے جس طرح نماز پڑھنا ممکن ہو پڑھے اور جب رکوع و سجود کرنے پر قادر نہ ہو تو دونوں کو اشاروں سے بجا لائے ۔ س 726: والدین اولاد کو کس سن میں احکام و عبادات شرعی کی تعلیم دیں؟ ج: ولی کے لئے مستحب ہے کہ جب بچہ سن تمیز (اچھے برے کو پہچاننے کی عمر) کو پہنچ جائے تو اسے شریعت کے احکام و عبادات کی تعلیم دے۔ س 727: شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کے بعض ڈرائیور مسافروں کی نماز کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ان کے کہنے پر بس نہیں روکتے تاکہ وہ لوگ اتر کر نماز پڑھ سکیں، لہذا بسا اوقات ان کی نماز قضا ہو جاتی ہے، اس سلسلہ میں بس ڈرائیور کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور ایسی حالت میں اپنی نماز کے سلسلہ میں سواریوں کا کیا فریضہ ہے؟ ج: سواریوں پر واجب ہے کہ جب انہیں نماز کے قضا ہو جانے کا خوف ہو تو کسی مناسب جگہ پر ڈرائیور سے بس روکنے کا مطالبہ کریں اور ڈرائیور پر واجب ہے کہ وہ مسافروں کے کہنے پر بس روک دے، لیکن اگر وہ کسی معقول عذر کی بنا پر یا بلا سبب گاڑی نہ روکے تو سواریوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تواسی وقت چلتی گاڑی میں نماز پڑھیں اور ممکنہ حد تک قبلہ، قیام اور رکوع و سجود کی رعایت کریں۔ س728: یہ جو کہا جاتا ہے "چالیس دن تک شراب خور کا نماز و روزہ نہیں ہے" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں اس پر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے؟ اور پھر وہ اس مدت کے بعد فوت ہوجانے والی نمازوں کی قضا بجا لائے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر قضا اور ادا دونوں واجب ہیں؟ یا پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے، بلکہ ادا ہی کافی ہے، لیکن اس کا ثواب دوسری نمازوں سے کم ہوگا؟ ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب پینا نماز اور روزہ کی قبولیت میں رکاوٹ ہے،[1] نہ کہ اس کی وجہ سے شراب خور سے نماز اور روزہ کا فریضہ ہی ساقط ہوجائے اور ان کی قضا واجب ہو یا ادا اور قضا دونوں لازم ہوں۔ س729: اس وقت میرا شرعی فریضہ کیا ہے جب میں کسی شخص کو نماز کے کسی فعل کو غلط بجا لاتے ہوئے دیکھوں؟ ج: چنانچہ اگر ایسے اجزاء اور شرائط کے بارے میں بارے میں جاہل ہو کہ جن اجزاء اور شرائط میں جہالت کی وجہ سے خلل واقع ہونا نماز کو کوئی نقصان نہ پہنچائے تو اس کو آگاہ کرنا واجب نہیں لیکن اگر وہ اجزاء اور شرائط ایسے ہوں جن میں حتی کہ جہالت کی وجہ سے خلل پڑے تو بھی نماز باطل اور دوبارہ پڑھنا واجب ہوتا ہو مثلا ًوضو، غسل، وقت، رکوع اور سجدے تو اس صورت میں ضروری ہے کہ اس کو صحیح حکم سے آگاہ کرے۔ س730: نماز کے بعد نماز گزاروں کے آپس میں مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ اس بات کی وضاحت کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض بزرگ علماء کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے، پس مصافحہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، لیکن واضح ہے کہ مصافحہ کرنے سے نماز گزاروں کی دوستی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے؟ ج: سلام اور نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کلی طور پر مومنین کا آپس میں مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ [1] نماز کی قبولیت میں رکاوٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کا کوئی ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر صحیح طریقے سے انجام دے تو تارک نماز شمار نہیں ہوگا اور نماز ترک کرنے کا عذاب نہیں ملے گا اگرچہ اس کوکوئی ثواب بھی نہیں ملے گا۔ احکام روزہ خمس کے احکام جہاد جہاد پرنٹ ; PDF جہاد س1048: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟ ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔ س1049: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ س1050: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟ ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔ س1051: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟ ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ س1052: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟ ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر حرام معاملات شطرنج اور آلات قمار موسیقی اور غنا موسیقی اور غنا پرنٹ ; PDF موسیقی اور غنا س 1128: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو، وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1129: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟ ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لذا فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ اور لہوی حرام موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔ س 1130: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔ س 1131: کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت،بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟ ج: وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی،راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو ۔ البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام،محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔ س 1132: کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔ غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے۔ س1133: غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟ ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔ س 1134: کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1135: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ س 1136: کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔ س 1137: بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟ ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ۔ہاں اگر موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی نہ ہو اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تا ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ س1138: موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟ ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو، غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی، آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1139: میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتا ہے کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا،راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔ س1140: وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟ ج: حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے چونکہ امام (قدس سرہ) ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہو۔ موضوع کی تشخیص موسیقی کے نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کو تشخیص دے تو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔ س 1141: ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے کہ جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے۔ کیا میرے لئے ایسی موسیقی سے اجتناب کرنا اور دوسروں کو بھی منع کرنا واجب ہے؟ ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی طرح حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔ س 1142: وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے انکے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔ س1143: مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میں گانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہو یا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟ ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیں یا نہ۔ س 1144: جائز اور معقول مقاصد کے لیے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔ س 1145: آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟ ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ س 1146: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟ ج: اگر خاتون کی آواز راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا ہو یا اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ ہو یا اس پر کوئی دوسرا مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جایز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1147: کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟ ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔ س 1148: عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے،آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟ ج: اگر عرف میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی شمار ہوتا ہو تو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔ س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟ ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1150: موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟ ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔ س 1151: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟ ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع (آواز کو گلے میں گھمانا) پر مشتمل ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔ س1152: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟ ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔ س 1153: اگر حرام غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: زوجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا،حرام غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔ س1145: عورتوں کے جمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟ ج: اگر کنسرٹ کا اجرا راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی، ترجیع کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو حرام ہے۔ س1155: اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کو نہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں؟اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟ ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں غنا یا حرام لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔ س1156: آیا شادی شدہ مرد اپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لے جایز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔ ج: حرام غنا(اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو)کو سننا مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد، غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔ س1157: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟ ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔ س1158: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔ ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ س 1159: ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1160: آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟ ج: غنا اور لہوی حرام موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔ س 1161: کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟ ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔ س1162: محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے؟ ج: آلات موسیقی کو اس طرح استعمال کرنا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو ،مطلقاً حرام ہے ۔ س 1163: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلباء استفادہ کرتے ہیں ؟ ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو تو حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں صرف لہو جو راہ خدا سے منحرف کرنے والے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں، انکا استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1164: کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟ ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔ س 1165: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟ ج: وہ آلات جو عام طور پر راہ خدا سے منحرف کرنے والی آواز میں استعمال ہوتا ہو جو فکر اور عقیدے میں انحراف کا سبب بنے یا گناہ کا سبب بنے اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔ س 1166: جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟ ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ رقص رقص پرنٹ ; PDF رقص س 1167: آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔ س 1168: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س 1169: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔ س 1170: مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔ س 1171: اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟ ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔ س 1172: آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟ ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1173: آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔ ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔ س 1174: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟ ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔ س1175: دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگر راہ خدا سے منحرف کرنے والا لہوی ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔ س 1176: ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔ س 1177: رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔ س 1178: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟ ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1179: آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔ س 1180: دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو) ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔ تالی بجانا تالی بجانا پرنٹ ; PDF تالی بجانا س1181: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔ س 1182: معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔ نامحرم کی تصویر اور فلم نامحرم کی تصویر اور فلم پرنٹ ; PDF نامحرم کی تصویر اور فلم س1183: بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟ ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔ س1184: ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1185: کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟ ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔ س1186: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوں اور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟ ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کے لئے زحمت و مشقّت ہو تو آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1187: ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔ ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ س1188: کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟ ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔ س 1189: کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟ ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔ س 1190: آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟ ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔ س 1191: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟ ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔ س 1192: بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1193: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔ س1194: ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟ ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔ س1195: اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔ س1196: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔ س1197: ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟ ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ س1198: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟ ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔ س1199: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟ ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1200: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا ان کا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ س 1201: شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟ ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔ س 1202: مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔ س1203: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟ ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔ س1204: آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟ ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔ س1205: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔ س1206: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟ ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔ س1207: ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟ ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔ س١٢٠۸: ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟ ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفا غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔ س 1209: زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟ ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔ س 1210: کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟ ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔ س 1211: فحش ویڈیو فلمیں اور وی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور ایسی لہوی موسیقی پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔ س 1212: غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔ ڈش ا نٹینا ڈش ا نٹینا پرنٹ ; PDF ڈش ا نٹینا س 1213: کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔ س1214: آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔ س1215: ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟ ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س1216: علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟ ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔ س1217: میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ تھیٹر اور سینما تھیٹر اور سینما پرنٹ ; PDF تھیٹر اور سینما س1218: کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟ ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔ س1219: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ س1220: اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔ س1221: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟ ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔ مصوری اور مجسمہ سازی مصوری اور مجسمہ سازی پرنٹ ; PDF مصوری اور مجسمہ سازی س1222: گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1223: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟ ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔ س1224: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔ س1225: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1226:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟ ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔ س1227: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟ ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔ س1228: جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟ ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔ س1229: ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟ ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔ جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا قسمت آزمائی قسمت آزمائی پرنٹ ; PDF قسمت آزمائی س1237: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟ ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ س1238: وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟ ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔ س1239: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی کو عرضہ کرنا اور پیش کرنا شرعاً جائز ہے؟ ج: احتیاط کی بنا پر ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔ س1240: کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟ ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔ س1241: کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی صرف بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟ ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔ رشوت طبی مسائل تعلیم و تعلم اور ان کے آداب تعلیم و تعلم اور ان کے آداب پرنٹ ; PDF تعلیم و تعلم اور ان کے آداب س 1319: کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟ ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔ س1320: اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟ ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ س1321: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟ ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔ س1322: حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟ ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔ س1323: اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔ س1324: اسلامی جمہوری (ایران) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟ ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔ س1325: آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟ ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔ س1326: گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟ ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔ س1327: حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟ ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1328: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟ ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔ س1329: آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟ ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔ س1330: کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟ ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔ س1331: حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟ ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔ س1332: گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟ ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔ س1333: بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟ ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1334: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟ ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ س1335: استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟ ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔ حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر پرنٹ ; PDF حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر س1336: وه کتب اور مقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامیه جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر ان کی اشاعت کا کیا حکم ہے؟ ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ س1337: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟ ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔ س1338: اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔ س1339: اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟ ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔ س1340: اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟ ج: احتیاط واجب کی بنا پر مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ س1341: آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1342: تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔ س1343: آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔ س1344: آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟ ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1345: بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟ ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔ س1346: بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کو ختم کردینا کافی ہے؟ ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو ختم کرنا کافی ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ تجارت غیر مسلموں کے ساتھ تجارت پرنٹ ; PDF غیر مسلموں کے ساتھ تجارت س1347: آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔ س1348: کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔ س1349: آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔ س1350: آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟ ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔ س1351: آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینیڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں؟ ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔ س1352: اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟ ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔ س1353: اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟ ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔ س1354: اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔ س1355: امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟ ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ س1356: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟ ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔ ظالم حکومت میں کام کرنا ظالم حکومت میں کام کرنا پرنٹ ; PDF ظالم حکومت میں کام کرنا س1357: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟ ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔ س1358: ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟ ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔ س1359: امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟ ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1360: آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟ ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔ لباس کے احکام لباس کے احکام پرنٹ ; PDF لباس کے احکام س1361: لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟ ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔ س1362: اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔ س1363: آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔ س1364: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟ ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ س1365: آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟ ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔ س1366: آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟ ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔ س1367: آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟ ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔ س1368: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟ ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ س1369: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟ ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1370: آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟ ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ س1371: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟ ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س1372: مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔ مغربی ثقافت کی پیروی جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا پرنٹ ; PDF جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا س1388: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟ ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔ س1389: بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟ ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔ س1390: کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟ ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔ س1391: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟ ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔ س1392: مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟ ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔ س1393: کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔ س1394: کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟ ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔ س1395: نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟ ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔ س1396: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔ س1397: بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال پرنٹ ; PDF سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال س1398: عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔ س1399: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟ ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔ س1400: آیا انفیه کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔ س1401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟ ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔ س 1402: آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔ س1403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟ ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔ س1404: کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟ ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔ س1405: خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔ س1406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟ ج: جائز نہیں ہے۔ س1407: آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟ ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔ س1408: آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟ ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔ س1409: ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔ داڑھی مونڈنا داڑھی مونڈنا پرنٹ ; PDF داڑھی مونڈنا س1410: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟ ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ س1411: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟ ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔ س1412: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1413: بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔ س1414: کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟ ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔ س1415: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟ ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔ س1416: ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟ ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1417: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔ س1418: اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟ ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔ س1419: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟ ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔ س1420 :کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟ ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔ س1421:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔ ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔ س1422: کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟ ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔ س1423 :بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟ ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔ س1424: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟ ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔ محفل گناہ میں شرکت کرنا محفل گناہ میں شرکت کرنا پرنٹ ; PDF محفل گناہ میں شرکت کرنا س1425: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔ س1426:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟ ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔ س1427: ١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟ ٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟ ٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکاان پر کوئی اثر نہ ہو؟ ٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی لہوی موسیقی کا سننا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے س1428:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔ س1429: آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟ ج: غنا اور لہوی موسیقی کی ایسی محفل میں جانا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو اگر اسکے سننے کا باعث ہو یا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔ س1430: ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟ ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔ س1431: بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوں میں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟ ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔ دعا لکھنا اور استخارہ دعا لکھنا اور استخارہ پرنٹ ; PDF دعا لکھنا اور استخارہ س1432: آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟ ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1433: ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ س1434: آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔ س1435: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟ ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔ س1436: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟ ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔ س1437: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔ س1438: آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟ ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔ س1439: بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ دینی رسومات کا احیاء ذخیرہ اندوزی اور اسراف ذخیرہ اندوزی اور اسراف پرنٹ ; PDF ذخیرہ اندوزی اور اسراف س1468: کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟ ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔ س1469: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟ ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار هوتا ہے، جو بات صحیح ہے وہ رسول اللہؐ(صلی الله علیه و آله و سلم) سے منقول یہ کلام ہے کہ آپ فرماتے هیں«لاسَرَف فی خیر» کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔ تجارت و معاملات سود کے احکام سود کے احکام پرنٹ ; PDF سود کے احکام س1619: ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟ ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا حقیقی قصد و ارادہ رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔ س1620: قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟ ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اس کے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔ س1621: سودی معاملے﴿لین دین﴾ کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہےجبکہ کسی دوسرے معاملے میں نہیں ہوتا؟ ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے ﴿لین دین﴾ میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اس کی ہم جنس شے کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔ س1622: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کے لئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ،اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اس کے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔ ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہوتی کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔ س1623: بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں،مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟ ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔ س1624: کیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی ﴿ذاتی حیثیت رکھنے والے﴾ اور حقوقی ﴿بحیثیت منصب یا عہدہ﴾ افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے کہ جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔ س1625: اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن طرفین اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے طور پر مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟ ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر اتفاق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔ س1626: اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟ ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کے لئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔ س1627: میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا: میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردے گا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔ س1628:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔ س1629: ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن فنڈ یا جی پی فنڈ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اس کے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اس کی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اس کی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔ س1630: بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کے لئے جُعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟ ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کے لئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام یا جُعل (عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام یا جُعل(عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔ س1631: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟ ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان اختلاف سود شمار نہیں ہوگا۔ س1632: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لہذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسخ کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کے لئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اس کی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اس کے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اس کی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔ حقِ شفعہ حقِ شفعہ پرنٹ ; PDF حقِ شفعہ س1633: اگر ایک چیز دو اشخاص کے نام پر وقف ہو جبکہ ان میں سے ایک شخص اپنے حصے کو بیچنے کا حق بھی رکھتا ہو اور کسی تیسرے شخص کو اپنا حصہ بیچنا چاہے تو کیا پہلا شخص شفعہ کا حق رکھتا ہے؟ اسی طرح اگر دو اشخاص مل کر کسی جائیداد یا وقف شدہ جگہ کو کرائے پر لیں پھر ان میں سے ایک شخص صلح یا کرائے کے ذریعے اپنا حق کسی تیسرے شخص کو دے دے تو کیا کرائے پر لی گئی جائیداد پر شفعہ کا حق بنتا ہے؟ ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین(خارجی اشیاء) کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کے لئے کوئی شئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز بھی ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی شئے میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔ س1634: شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور شہری قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے یا واضح طور پر کہے کہ اگر وہ خریدار اسکے شریک کا حصہ خریدے تو وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا ساقط ہونا شمار ہوگا؟ ج: محض ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے پر ابھارنا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت ہونے سے ٹکراؤ نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملہ انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا۔ س1635:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی واقع نہیں ہوئی (اسقاط ما لم یجب)ہے۔ ج: جب تک حق شفعہ واقع نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ عملی نہ ہو جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے تحت اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔ س1636: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادا نہیں کر رہے اس طرح کہ کرایہ دار کے لئے حق تقاص(ادھار کے بدلے کوئی چیز قبضے میں لینا) ثابت ہوجاتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے۔ اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار کے برابر اس گھرکا کچھ حصہ اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقی ماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟ ج: سوال کی مفروضہ صورت میں حق شفعہ کا موضوع نہیں ہے اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہو، تاہم اس شخص کو حق شفعہ حاصل نہیں جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ایں اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں بلکہ صرف دو شخص شریک ہوں۔ س1637: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترکہ ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے۔ تقسیم کے ایک ،سادہ اشٹام کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ جائیداد معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اگر ایک شریک تقسیم کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترکہ ہے حق شفعہ حاصل ہے؟ ج: فروخت شدہ حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترکہ ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔ اجارہ ضمانت ضمانت پرنٹ ; PDF ضمانت س 1682: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟ ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔ س 1683: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا، چنانچہ اس کے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا ،اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں۔ اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اس وقت مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟ ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔ رہن رہن پرنٹ ; PDF رہن س 1684: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اس کے پاس گروی رکھا پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اس کے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے۔ نتیجتاً بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور ان کے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟ ج: جن مقامات میں مرتہن (جس کے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کے لئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے فروخت کرنا جائز ہے، وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اس کے شرعی مالک کو لوٹا دے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔ س1685: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کے لئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اس کے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کے لئے کرایہ پر لے لے؟ ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے، اس کے علاوہ اس قسم کے معاملات، سودی قرض حاصل کرنے کے لئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔ س 1686: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی ایک زمین دوسرے شخص کے پاس گروی رکھی۔ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن(گروی رکھوانے والا) اور مرتہن(گروی لینے والا) دونوں انتقال کرگئے ہیں اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے ان کے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں ان کے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔ س 1687: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟ ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1688: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کےلئے اپنا مکان اس کے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اس کے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کے لئے کیا حکم ہے ؟ ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائے گا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔ س1689: میرے والد نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن انہوں نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا ۔پھر میں نے اپنے والد کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ والد کے قرض کو ادا کرنا یا انہیں برئ الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھ دوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کے لئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا ۔اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے؟ اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ والد کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں تھا، کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟ ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اس کا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اس کے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔ س1690: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑوانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟ ج: جب تک پہلا رہن چھڑوا نہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔ س1691: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں ان کے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے۔میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔ شراکت شراکت پرنٹ ; PDF شراکت س1692: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمایے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعاً حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1693: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جس کے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اس کی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔ س1694: دو افراد نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اس کے شریک کو اس کا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اس کا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟ ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔ س 1695: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کے لئے پیش کردیتاہے، در نتیجہ اس کی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی۔ اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی مالیت خود حصص کی قدر و قیمت کی بنیاد پر اور ان کی قدر و قیمت کا تعین ایسے شخص کے ذریعے انجام پایا ہو جو یہ کام کرنے کا مجاز ہو تو ان کے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان حصص کی مالیت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا ان کے سرمایہ کی بنیاد پر ہو، چونکہ حصص میں سے ہر ایک اس قیمت کی ایک مقدار (جزء) کو نمایاں کرتا ہے لہذا ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ حصص کے ہر حصے کی مالیت معلوم اور معین ہو۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔ س1696: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اس کے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ ذبح خانہ اور اس کی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کے لئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس و قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟ ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کےلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔ س 1697: ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اس کی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا لیکن اس کی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے ،کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟ ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔ س1698: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ۔ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اس کی کوئی بات قبول نہیں کرتا۔ نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ در نتیجہ پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا ۔عدالت کے ماہر نے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اس کی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کے لئے پیش کردیا اور مکان بیچنے کے بعد اس کی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟ ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1699:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟ ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لئے یا اپنی بیوی کے لئے خریدا ہو اور اس کی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اس کی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اس کی یا اس کی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں ان کا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے۔ س 1700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا ان کے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟ ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔ س1701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ ان کی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اور اگر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔ ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ س 1702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اس کے ساتھ مکان کی تعمیر میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے سلسلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا ۔ اب مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آجانے کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اور اس کی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے، اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟ ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اس کے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔ س 1703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں کارو بار کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی کہ انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے : ١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟ ٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟ ٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود رکھ لے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ ٢۔شرکاء میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔ ٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔ س 1704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کے لئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اس کا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔ س1705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟ ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور ان کا علیحدہ کرنا ممکن ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کے لئے کسی شریک کو اس کا حصہ بیچنے پر مجبور کرنے کا حق نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے درختوں والے باغ کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ جائیداد تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جاسکتا ہے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اس کا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔ س 1706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں، چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور ان کی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ، در نتیجہ دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے ان کا مشترکہ مال ان کے مابین کس طرح تقسیم ہوگا؟ ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا ۔ در نتیجہ انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دی جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔ س1707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کے لئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟ ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے اور تقسیم کرنے کے لئے چائے ان کی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر ان کے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔ س1708: کیا کسی کمپنی کے مینیجر کے لئے کمپنی کی آمدنی کو شیئر ہولڈرز کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اس کے خرچ کرنے کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے اجازت اور وکالت لئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی کیوں نہ خرچ کیا ہو۔ س 1709: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اس کا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟ ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار کے عوض اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔ س 1710: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور شیئرز ہولڈرزکے نمائندے اس کے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینیجر اور دیگر ملازمین کے لئے اس کے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرنا جائز ہے؟ ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب شیئر ہولڈرز یا ان کے نمائندے اس کی اجازت دیں۔ س 1711: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ کمیٹی جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے 51 فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اس لئے وہ اس کمیٹی کو تشکیل نہیں دے رہے ۔کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان حصص کے مالکان کے حقوق کی حفاظت کے لئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس کمیٹی کے تشکیل دینے میں حصہ ڈالیں۔ ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں فیصلہ کمیٹی کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ فیصلہ کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔ س 1712: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جس کی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں ۔حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اس وقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اس کے شریک نے اپنے لئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟ ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اس کا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔ س 1713: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اس کا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟ ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کرے گا اس کے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے، اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔ س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔ ہبہ ہبہ پرنٹ ; PDF ہبہ سوال 1715:کیا نابالغ یتیم کی طرف سے ہدیہ کردہ مال میں تصرف کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: اس کے شرعی ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔ سوال 1716: دو بھائی زمین کے ایک قطعے میں برابر شریک ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اپنا حصہ بڑے بھائی کے بیٹے کو ہبہ معوضہ کے طور پر بخشا اور تحویل میں دے دیا ؛ کیا ہبہ کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی وفات کے بعد زمین کے مذکورہ حصے میں ارث کا دعوی کرسکتے ہیں؟ جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ مرنے والے بھائی نے اپنی حیات میں اس زمین میں سے اپنا حصہ اپنے بھتیجے کو بخشا اور تحویل میں دے کر اس کے اختیار میں دے دیا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔ سوال 1717: اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زمین پر اس کے لئے کوئی گھر بنائے اور اس کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اپنے لئے ایک منزل تعمیر کرے؛ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ باپ کی وفات کے کئی سال بعد وہ شخص بھی مرجائے اور ہبہ یا اس میں تصرف کی کیفیت پر دلیل کے طور کوئی سند یا وصیت نامہ موجود نہ ہو؛ کیا دوسری منزل اس کی ملکیت ہوگی اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجائے گی؟ جواب: اگر بیٹے نے اپنے تصرف میں موجود دوسری منزل بنانے کے اخراجات ادا کئے ہوں اور باپ کی حیات میں کسی تنازع کے بغیر اس کے اختیار میں رہی ہو تو شرعی طور پر اس کی ملکیت کے حکم میں ہوگی اور وفات کے بعد بھی اس کا ترکہ شمار کیا جائے گا اور ورثاء کا ہوگا۔ سوال 1718: جب میں گیارہ سال کا تھا تو میرے باپ نے رسمی طور پر ایک گھر کو میرے نام پر کردیا؛ ایک زمین اور ایک مکان کا آدھا حصہ میرے بھائی کے نام اور دوسرا آدھا حصہ میری ماں کے نام کردیا۔ میرے باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء نے دعوی کیا کہ جو مکان والد نے میرے نام کردیا ہے وہ شرعا میرا نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ باپ نے قبضے سے بچانے کے لئے گھر میرے نام پر کردیا ہے حالانکہ جن املاک کو میرے بھائی اور ماں کے نام پر کردیا ہے ان پر ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ میرے باپ نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس بات پر کوئی ثبوت بھی نہیں ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: باپ نے اپنی حیات میں جن املاک کو بعض ورثاء کو ہبہ کرکے تحویل دیا ہو اور اس کے لئے ثبوت کے طور پر رسمی سند بھی اس کے نام پر کردی ہو تو شرعا اس کی ملکیت ہوگی اور دوسرے ورثاء اس کے ساتھ تنازع کا حق نہیں رکھتے، مگر یہ کہ معتبر طریقے سے ثابت کریں کہ ان کے باپ نے املاک کو اسے نہیں بخشا ہے اور رسمی سند (حقیقی نہ ہو بلکہ صرف) دفتری ہو۔ سوال 1719: جب میرا شوہر گھر کی تعمیر میں مصروف تھا تو میں بھی اس کی مدد کرتی تھی اور یہی تعمیراتی اخراجات میں کمی اور گھر کی تکمیل کا باعث بنی۔ اس نے خود کئی مرتبہ کہا کہ میں بھی گھر میں اس کے ساتھ شریک ہوں اور کام مکمل ہونے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ میرے نام پر کردے گا لیکن وہ اس کام کے انجام سے پہلے فوت ہوگیا اور میرا دعوی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کوئی سند اور وصیت نامہ میرے پاس نہیں ہے؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: گھر میں شریک کرنے کے فقط وعدے پر اس کی تعمیر میں صرف مدد کرنا ملکیت میں شراکت کا باعث نہیں ہےاس بنا پر جب تک معتبر طریقے سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آپ کے شوہر نے اپنی حیات میں گھر کا ایک حصہ آپ کو بخش دیا ہے ،اپنے ارث کے علاوہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سوال1720: میرے شوہر نے جب اس کی عقل صحیح و سالم تھی، بینک کے ذمہ دار شخص کو بلایا اور اپنے اکاونٹ میں موجود پیسے مجھے ہبہ کیا اور سند پر دستخط بھی کیا کہ پیسے نکالنے کا حق مجھے ہوگا جس پر ہسپتال کے سربراہ اور بینک کا مسئول گواہ بھی تھے۔ اسی بنیاد پر بینک نے مجھے چیک جاری کیا اور پورے مہینے میں، میں نے کچھ رقم نکال لی۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد شوہر کو اس کے بیٹے نے بینک لے گیا جب کہ اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے (شوہر سے) پوچھا کہ کیا یہ مال تیری بیوی کا ہے؟ اس نے سر کے ذریعے ہاں میں جواب دیا۔ دوبارہ سوال کیا کہ کیا یہ تیرے بچوں کا نہیں ہے؟ اسی طرح اثبات میں جواب دیا۔ کیا یہ مال میرا ہے یا میرے شوہر کے بچوں کا ہے؟ جواب: چونکہ ہبہ میں ملکیت حاصل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے اور فقط سند پر دستخط کرنا اور پیسے نکالنے کے لئے متعلقہ بینک سے چیک ملنا کافی نہیں ہے لہذا صرف دستخط اور چیک دریافت کرنا اس ہبہ کے صحیح ہونے کا باعث نہیں ہے لذا جو رقم شوہر کی ذہنی سلامتی کے دوران اس کی اجازت سے بینک سے نکالی ہے وہ آپ کا مال ہے اور بینک میں آپ کے شوہر کا باقی ماندہ مال اس کی وفات کے بعد ترکہ اور ورثاء کا ہوجائے گا اور اس اقرار کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس نے بے شعوری کے عالم میں کیا ہے اور اگر اس میں کوئی قانون موجود ہے تو اس کی رعایت کی جائے گی۔ سوال 1721: ماں کی حیات میں بچے اس کے استعمال کے لئے جو اشیاء خریدتے ہیں کیا اس کے ذاتی اموال ہوں گے کہ اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار کیا جائے؟ جواب: اگر بچوں نے مذکورہ اشیاء ماں کو بخش دیا اور اس کے اختیار میں رکھا ہو تو ماں کی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو گا۔ سوال 1722: شوہر اپنی بیوی کے لئے طلائی زیورات خریدے تو کیا شوہر کا مال شمار ہوگا کہ وفات کے بعد اس کا ترکہ سمجھا جائے اس طرح ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور بیوی بھی اس سے اپنا حصہ لے لے یا بیوی کا مال شمار ہوگا؟ جواب: اگر جواہرات بیوی کے اختیار اور تصرف میں ہوں اس طرح کہ مالک کی حیثیت سے تصرف کا حق رکھتی ہو تو جواہرات کی ملکیت بیوی کو مل جائے گی مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے۔ سوال1723: ازدواجی زندگی کے دوران میاں بیوی کو ملنے والے تحفے کیا شوہر کے ہوں گے یا بیوی کے یا دونوں کے؟ جواب: مذکورہ تحفے شوہر کے ہیں یا بیوی کے یا دونوں کے، تحفے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے مسئلہ بھی فرق کرتا ہے۔ جو تحفہ دونوں میں سے کسی کے لئے خصوصی طور پر ملا ہو تو اسی شخص کا ہوگا اور جو تحفہ دونوں کے لئے مشترک ملا ہو وہ دونوں میں مشترک ہوگا۔ سوال 1724: اگر مرد بیوی کو طلاق دے تو کیا بیوی شادی کے دوران ماں باپ کے گھر سے ساتھ لایے ہوے اموال (مثلا قالین، بیڈ، لباس وغیرہ) کا شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ایسی چیزیں ہوں جو بیوی نے اپنے گھر والوں سے لی ہوں یا ذاتی ہوں جس کو اپنے لئے خریدا ہو یا ذاتی طور پر اس کے لئے ہبہ کیا گیا ہو تو اس کی ملکیت ہوگی اور اگر موجود ہو تو شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن ایسی اشیاء جو بیوی کے خاندان یا قبیلے والوں نے داماد کو ہدیہ کردیا ہو تو شوہر سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے بلکہ ایسے اموال پر ہدیہ کرنے والے کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ ہدیہ باقی ہو اور شوہر اس کا رشتہ دار نہ ہوتو ہدیہ کرنے والا ہبہ کو فسخ کرکے واپس لے سکتا ہے۔ سوال 1725: میں نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد سونا،زیورات اور ان چیزوں کو اس سے واپس لے لیا جو میں نے ازدواجی زندگی کے دوران اس کو دی تھیں؛ کیا اب میرے لئے ان میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر ان چیزوں کو عاریہ کے طور پر بیوی کو دیا ہو تاکہ وہ استعمال کرے یا اس کو ہبہ کردیا ہو اور اسی حالت میں اب بھی اس کے پاس موجود ہوں اور وہ عورت اس کی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ہبہ کو فسخ کرکے مال واپس لے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائز ہے کہ مذکورہ چیزوں میں تصرف کرےجن کو اس سے واپس لیا ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔ سوال 1726: میرے باپ نے زمین کا ایک قطعہ مجھے بخش دیا اور رسمی طور پر اس کی سند بھی میرے نام کردیا لیکن ایک سال کے بعد پشیمان ہوا؛ کیا اس زمین میں تصرف کرنا میرے لئے جائز ہے؟ جواب: اگر زمین کو آپ نے تحویل میں لے کر قبضہ کرلیا اس کے بعد باپ ہبہ سے پیشمان ہوا اور رجوع کرے تو اس کا رجوع صحیح نہیں ہے اور شرعی طور زمین آپ کی ہے لیکن آپ کی طرف سے زمین کو قبضے میں لینے سے پہلے وہ پشیمان ہوجائے تو ہبہ سے منصرف ہونے کا حق رکھتا ہے اور اس کے بعد آپ زمین پر کوئی حق نہیں رکھتے اور فقط سند کا آپ کے نام پر اندراج ہونا ہبہ میں معتبر قبضہ ثابت ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ سوال 1727: میں نے کسی شخص کو زمین بخش دی اور اس نے زمین کے ایک گوشے میں رہائشی گھر بنا لیا؛ کیا میرے لئے جائز ہے کہ مذکورہ زمین یا بخشے جانے والے حصے کی قیمت کا مطالبہ کروں؟ اور کیا جائز ہے کہ جس حصے میں عمارت تعمیر نہیں کی ہے اس کو واپس لے لوں؟ جواب: جب اس شخص نے آپ کی اجازت سے زمین پرقبضہ کیا اور عمارت تعمیر کرکے اس میں تصرف کیا تو اس کے بعد ہبہ کو فسخ کرنےاور زمین یا اس کی قیمت لینے کا آپ کو حق نہیں ہے اور زمین کی مساحت اتنی ہو کہ اس کے ایک حصے میں گھر بنانا محلے والوں کی نظر میں عرفا پوری زمین پر تصرف سمجھا جاتا ہو تو اس کا کچھ بھی حصہ واپس لینے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ سوال 1728: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے تمام اموال کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے لئے ہبہ کرے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے؟ جواب: اگر یہ کام فتنے اور بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔ سوال 1729: کسی شخص نے اپنے گھر کو ہبہ معوضہ کے طور پر رسمی سند کے ساتھ پانچ افراد کو ہبہ کردیا تاکہ اس کی زمین پر حسینیہ (عزاخانہ) تعمیر کریں اس شرط کے ساتھ کہ تعمیر کے بعد دس سال تک حبس رکھیں اور اس کے بعد اگر چاہیں تو وقف کریں اس کے نتیجے میں انہوں نے عوام کی مدد سے حسینیہ کی تعمیر شروع کی اور مذکورہ مدت گزرنے اور متولی اور نگران کی تعییناتی کے بعد انتظامات اور نگرانی اور وقف کی شرائط سے مربوط امور کا اختیار اپنے پاس رکھا اور اس سے متعلق سند کا بھی اہتمام کرلیا؛ کیا اس صورت میں جب محبوس حسینیہ کو وقف کرنے کا قصد رکھتے ہوں، نگران اور متولی کے انتخاب میں ان لوگوں کی رائے کی پیروی واجب ہے؟ اور کیا ان شرائط پر کاربند نہ رہنا شرعامشکل ہے(یعنی ان کی رعایت ضروری ہے)؟ اگر مذکورہ پانچ افراد حسینیہ کو وقف کرنے کی مخالفت کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: ان پر واجب ہے کہ ہبہ کرنے والے نے عقد ہبہ معوضہ کے ضمن میں جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل کریں اور اگر اس کی حفاظت یا وقف کی کیفیت کے بارے میں عائد شرائط کی مخالفت کریں تو ہبہ کرنے والا یا اس کے ورثاء ہبہ معوضہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔لیکن جو شرائط ان پانچ افراد نے حفاظت اور اس کی نگرانی کے بارے میں رکھی ہیں اور اسی طرح وقف اور متولی و نگران کے بارے میں مقرر کرکے اندراج کی ہیں اگر ہبہ کرنے والے کے ساتھ عقد ہبہ میں ہماہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہو اس طرح کہ اس کے تمام امور کو ان افراد کے حوالے کردیا ہو تو اس صورت میں ان کی پابندی اور عمل کرنا واجب ہے اور ان میں سے بعض حسینیہ کو وقف کرنے سے اجتناب کریں چنانچہ ہبہ کرنے والے کی رائے یہ ہو کہ وقف کے حوالے سے یہ لوگ مل کر وقف کے معاملے میں فیصلہ کریں تو باقی افراد وقف کرنے میں پہل اور اقدام نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1730:کسی شخص نے اپنے گھر کا ایک تہائی حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے اور ایک سال کے بعد پورے گھر کو پندرہ سالوں کے لئے کرائے پر دے دیا اس کے بعد مرگیا؛ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ کیا یہ ہبہ حالانکہ ہبہ کرنے کے بعد گھر کو کرائے پر دیا ہے، صحیح ہے اور اگر مقروض ہو تو کیا اس کو پورے گھر سے ادا کرنا ضروری ہے یا دو تہائی حصے سےاور اس کے بعد باقی حصے کو ارث کے قانون کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا؟ اور کیا قرض خواہوں پر کرائے کی مدت پوری ہونے تک صبر کرنا واجب ہے؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے نے جو حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے پورا گھر کرائے پر دینے سے پہلے اپنی بیوی کے قبضے میں دیا ہو اگرچہ پورے گھر کو تحویل میں دینے کے ضمن میں ہی کیوں نہ ہو، اور بیوی اس کی رشتہ دار ہو یا ہبہ معوضہ ہو تو اس حصے کا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اجارہ فقط باقی حصے کی نسبت صحیح ہے اس صورت کے علاوہ چونکہ پورا گھر اس کے بعد کرائے پر دیا گیا ہے لہذا ہبہ باطل ہےالبتہ کرائے پر دینا ہبہ سے پلٹنے کی نیت سے ہو تو فقط وہ اجارہ صحیح ہے کہ جو ہبہ کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ میت کا قرض بھی اس مال سے ادا کرنا ضروری ہے جس کا وفات کے وقت تک وہ مالک تھا اور جس چیز کو اس کی حیات میں ایک مدت کے لئے کرائے پر دیا گیا ہو اس مدت کے دوران اس کا فائدہ کرائے دار کو ملے گا اور وہ چیز ترکہ شمار کی جائے گی اور اس کا قرضہ اسی سے منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ ورثاء کی میراث ہے اور اجارے کی مدت پوری ہونے تک اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ سوال 1731۔ کسی شخص نے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ اس کے تمام غیر منقولہ اموال اولاد میں سے کسی ایک کے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جب تک زندہ ہو ہر سال ان اموال کے بدلے میں چاول کی ایک خاص مقدار وہ (وصیت کرنے والے) اور اس کے گھر والوں کو دے۔ایک سال کے بعد تمام اموال اس کو بخش دیا؛چونکہ وصیت پہلے ہے لہذا کیا وصیت اب بھی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ایک تہائی حصے میں صحیح اور اس کے مرنے کے بعد باقی ماندہ اموال ورثاء کو ارث میں ملیں گے؟ یا ہبہ وقوع پذیر ہونے کے بعد وصیت باطل ہوگی؟ (یاد رہے کہ مذکورہ اموال اس شخص کے قبضے میں ہیں جس کو ہبہ کیا گیا ہے) جواب: اگر وصیت کے بعد ہبہ کیا جائے تو چونکہ ہبہ کرنے والے کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اس مال پر قبضہ اور تسلط قطعی اور یقینی ہوگیا تھا لہذا وصیت جوکہ ہبہ سے پہلے کی گئی ہے، باطل ہے کیونکہ ہبہ وصیت سے انحراف شمار ہوتا ہے نتیجے میں ہبہ کیا ہوا مال فرزند کا ہوگا اور دوسرے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے، اس صورت کے علاوہ جب تک وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت سے انحراف ثابت نہ ہوجائے وصیت کا اعتبار برقرار رہے گا۔ سوال 1732: جس وارث نے باپ سے ملنے والی ارث سے اپنا حصہ اپنے دو بھائیوں کو بخش دیا ہو کئی سال کے بعد کیا اس کو ان سے طلب کرسکتا ہے؟ اور اگر دونوں بھائی اس کے حصے کو واپس کرنے سے گریز کریں تو کیا حکم ہے؟ جواب: اگر قبضے میں لینے کی وجہ سے ہبہ ثابت ہونے کے بعد اس سے پلٹنا چاہے تو اس کا حق نہیں ہے لیکن اگر قبضہ مکمل ہونے سے پہلے پلٹے تو صحیح ہے اور کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال 1733: میرے ایک بھائی نے رضایت کے ساتھ ارث میں سے اپنا حصہ مجھے بخش دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد ارث کو ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ گیا؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر ارث میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ جائے تو صحیح ہے اور آپ کو اس حصے میں کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر اس حصے کو آپ نے قبضے میں لینے کے بعد ہبہ سے پلٹ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو حصہ آپ کو بخش دیا ہے اس میں اس کو کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1734: ایک عورت نے اپنی زرعی زمین کسی شخص کو بخش دیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں حج کا فریضہ ادا کرے اس گمان کے ساتھ کہ اس پر حج واجب ہوا ہے لیکن اس کے قبیلے والے اس کے ساتھ متفق نہیں ہیں اس کے بعد دوسری مرتبہ زمین کو اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو ہبہ کردیا اور دوسری مرتبہ ہبہ کرنے کے ایک ہفتے کے بعد مرگئی؛ پہلا ہبہ صحیح ہے یا دوسرا؟ پہلی مرتبہ جس کو ہبہ کیا گیا تھا حج کی ادائیگی کے بارے میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟ جواب: اگر پہلا شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار ہو اور اس کی اجازت سے مذکورہ مال کو قبضے میں لیا ہو تو پہلا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اس عورت کی نیابت میں حج کرنا واجب ہے اور دوسرا ہبہ فضولی ہے اور پہلے جس شخص کو ہبہ کیا گیا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہے لیکن اگروہ شخص اس عورت کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہو یا مذکورہ مال کو قبضے میں نہیں لیا ہو تو دوسرا ہبہ صحیح ہے اور ایسا سمجھا جائے گا کہ پہلے ہبہ سے پلٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں پہلا ہبہ باطل ہوگا لذا پہلے شخص کو زمین میں کوئی حق نہیں اور ہبہ کرنے والی عورت کی طرف سے حج انجام دینا بھی واجب نہیں ہے۔ سوال 1735: کیا حق ثابت ہونے سے پہلے ہبہ کرسکتے ہیں؟ اگرعورت مستقبل میں خود کو ملنے والے مالی حقوق (تنخواہ) کو عقد کے دوران اپنے شوہر کو بخش دے تو صحیح ہے؟ جواب: اس طرح کا ہبہ صحیح ہونے میں اشکال بلکہ منع ہے اس کے نتیجے میں اگر مستقبل میں عورت کے حقوق (تنخواہ) کا شوہر کو ہبہ کرنا صلح یا ثابت ہونے کے بعد ان کو ساقط کرنے کی طرف پلٹتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سوال 1736: کافروں کو تحفہ دینے یا ان سے لینے کا کیا حکم ہے؟ ج: ذاتا اشکال نہیں رکھتا ہے۔ سوال 1737: کسی شخص نے اپنی حیات میں اپنے تمام اموال اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو بخش دیا تو کیا یہ ہبہ اس کے تمام اموال حتی مرنے کے بعد کفن اور دفن وغیرہ کے امور کی نسبت بھی نافذ العمل ہوگا؟ جواب: اگر ہبہ کرنے والے کی طرف سے ہبہ کرنے کے بعد اس کی حیات میں ہی مذکورہ اموال کو اس کی اجازت سے قبضے میں لیا ہو تو جتنے اموال قبضے میں لیا ہے ان میں ہبہ نافذ العمل ہوگا۔ سوال 1738: جو اموال جنگ میں زخمی ہونے والوں کو دئے جاتے ہیں ان کو تحفہ شمار کیا جائے گا؟ جواب: ہاں؛ مگر جو کسی کام کے بدلے بعض لوگوں کو ادا کیا جاتا ہے وہ اس کام کی اجرت شمار کی جائے گی۔ سوال 1739: اگر کسی شہید کے گھر والوں کو کوئی تحفہ دیا جائے تو ورثاء کا مال شمار ہوگا یا کفیل یا ان کے ولی کا؟ جواب: ہبہ کرنے والے کی نیت سے وابستہ ہے۔ سوال 1740: بعض کمپنیوں یا افراد کی طرف سے وکیلوں اور ایجنٹوں کو اشیاء کی خرید و فروخت یا صنعتی معاہدوں کے دوران تحفے دیئے جاتے ہیں اس احتمال کے ساتھ کہ تحفہ لینے والا تحفہ دینے والے کے فائدے میں کام کرے یا اس کے حق میں فیصلے کرے تو کیا ان تحفوں کو اس سے قبول کرنا شرعا جائز ہے؟ جواب: خرید و فروخت یا معاملے میں بننے والے ایجنٹ یا وکیل کو معاملے کے بدلے طرف مقابل سے کوئی ہدیہ نہیں لینا چاہئے۔ سوال 1741: جو ہدیہ کمپنیوں اور لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہےاس ہدیہ کے مقابلے میں ہو جو بیت المال سے ان کو دیئے جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر بیت المال سے ملنے والے تحفے کے بدلے میں دیا جائے تو بیت المال کو ہی دینا چاہئے۔ سوال 1742: اگر تحفہ وصول کرنے والے پر اس تحفے کا اثر پڑجائے اور غیر مناسب تعلقات یا امن و امان کے لحاظ سے مشکوک روابط کا باعث بنے تو کیا ایسا تحفہ لینا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: ایسے تحفے وصول کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ سوال 1743: اگر احتمال ہو کہ تحفہ دینے کا مقصد تحفہ وصول کرنے والے کو تحفہ دینے والے کے حق میں تبلیغ کرنے پر تشویق اور ترغیب دینا ہے تو اس کو وصول کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر مذکورہ تبلیغات شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز ہوں تو کوئی اشکال نہیں اور ان تبلیغات کے بدلے تحفہ وصول کرنے میں کوئی منع نہیں ہے البتہ دفتری دائرہ کار میں ایسا کام متعلقہ قوانین و ضوابط کا تابع ہے۔ سوال 1744: اگر کسی کام کو انجام دینے کے لئے افسر کو تیار کرنے یا مخالفت سے باز رکھنے یا تغافل اور چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے تو تحفہ قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اس طرح کے تحفے قبول کرنے میں اشکال ہے بلکہ ممنوع ہے کلی طور پر اگر شریعت اور قانون کے مخالف ہدف تک رسائی یا قانونی افسر کو ایسے کام سے اتفاق کرنے پر مائل کرنے کے لئے جس سے اتفاق کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ہو، تحفہ پیش کیا جائے تو اس تحفے کو وصول کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرے اور متعلقہ افسران پر واجب ہے ایسے کاموں کی روک تھام کریں۔ سوال 1745: کیا دادا کی طرف سے اپنی حیات میں اپنے تمام یا بعض اموال کو اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی اور بچوں کو بخش دینا جائز ہے؟ کیا اس کی اپنی بیٹیاں اس کام میں اعتراض کرنے کا حق رکھتی ہیں؟ جواب: اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی حیات میں جتنا چاہے اپنی اولاد کے بچوں یا بہو کو بخش دے اور اس کی بیٹیوں کو اس کام میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سوال 1746: کسی شخص کی نہ اولاد ہے نہ بھائی نہ بہن اور نہ ماں باپ ہیں اور اپنے اموال کو اپنی بیوی یا اس کے قبیلے والوں کو ہبہ کرنا چاہتا ہے؛ کیا شرعا اس کے لئے یہ کام جائز ہے؟ کیا اس ہبہ کی مقدار مشخص اور معین ہے یا تمام اموال کو ہبہ کرسکتا ہے؟ جواب: مالک اپنی حیات میں اپنے تمام اموال یا کچھ مقدار کو اپنے ورثاء اور غیر ورثاء میں سے جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ سوال 1747: شہید فاونڈیشن کی طرف سے میرے شہید بیٹے کی برسی اور مجلس ترحیم کے لئے کچھ پیسے اور غذائی اجناس میرے حوالے کیا ہے؛ کیا ان اشیاء کو وصول کرنے کے اخروی اثرات ہیں؟ کیا یہ شہید کے ثواب اور اجر میں کمی کا باعث بنے گا ؟ جواب: شہداء کے خاندان کی طرف سے اس طرح کے امدادی سامان کو قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شہید اور اس کے خاندان کے اجر و ثواب میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سوال 1748: ہوٹل کے ملازمین اور چوکیداروں نے ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا تاکہ ان کو انعام کے طور پر ملنے والی چیزوں کو اس میں جمع کریں اور آپس میں مساوی تقسیم کریں لیکن ان میں سے بعض افراد جو صدر یا نائب صدر کا عہدہ رکھتے ہیں، دوسروں سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں یہ امر ہمیشہ سے فنڈ کے ممبران کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟ جواب: یہ مسئلہ اس شخص کے قصد سے وابستہ ہے جس نے مال کو انعام کے طور پر انہیں دیا ہے اس کے نتیجے میں جو انعام کسی مخصوص فرد کو دیا گیا ہے اس کا اپنا مال ہے اور جو سب کواجتماعی دیا گیا ہے ان کے درمیان مساوی تقسیم کرنا چاہئے۔ سوال 1749: جو چیز مثلا چھوٹے بچے کو عیدی کے طور پر تحفے میں ملتی ہے کیا بچے کی شمار کی جائے گی یا اس کے ماں باپ کی ہوگی؟ جواب: اگر باپ چھوٹے بچے کا ولی ہونے کے طور پر اس چیز کو قبضے میں لے تو بچے کی ہوگی۔ سوال 1750: کسی عورت کی دو بیٹیاں ہیں اور اپنی پراپرٹی کو جو کہ زرعی زمین کا ایک قطعہ ہے، بیٹیوں کی اولاد (یعنی بیٹیوں میں سےایک کے بیٹے) کو ہبہ کرنا چاہتی ہے اس کے نتیجے میں دوسری بیٹی ارث سے محروم ہوجائے گی کیا اس کا یہ ہبہ صحیح ہے یا دوسری بیٹی ماں کی وفات کے بعد زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ جواب: اگر ماں نے اپنی حیات میں اپنے نواسے کو اپنی پراپرٹی بخشی اور تحویل میں دی ہو تو اس صورت میں اس کا مال شمار ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر وصیت کی ہو کہ اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی نواسے کو دی جائے تو ایک تہائی کے برابر اس کی وصیت نافذ العمل ہوگی اور اضافی مقدار میں ورثاء کی اجازت سے وابستہ ہے۔ سوال 1751: کسی شخص نے اپنی زرعی زمین کا کچھ حصہ اپنے بھتیجے کو اس شرط پر ہبہ کردیا کہ اپنی دو ربیبہ ( زیر پرورش لڑکی جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو) کی شادی ہبہ کرنے والے کے دونوں بیٹوں سے کردے۔ لیکن بھتیجے نے ایک ربیبہ کی شادی ایک بیٹے سے کرادی لیکن دوسری ربیبہ کی شادی سے گریز کیا تو کیا مذکورہ شرائط کے ساتھ انجام پانے والا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے یا نہیں؟ جواب: یہ ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے لیکن شرط باطل ہے کیونکہ غیر حقیقی باپ ربیبہ پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ باپ اور دادا نہ ہونے کی صورت میں ان کی شادی ان کی اپنی مرضی سے وابستہ ہے۔ ہاں اگر مذکورہ شرط کا مطلب یہ ہو کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بھتیجا اس شخص کے بچوں سے شادی کرنے کے لئے لڑکیوں کی رضایت حاصل کرے تو یہ شرط صحیح اور پورا کرنا لازم ہے اگر اس شرط پر عمل نہ کرے تو ہبہ کرنے والا اس کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ سوال 1752: میرا ایک رہائشی اپارٹمنٹ ہے جس کو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے نام کردیا۔ اس کی ماں کو طلاق دینے کے بعد میں ہبہ سے پلٹ گیا اور اس لڑکی کے اٹھارہ سال پورے ہونے سے پہلےاس کو اپنی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے کے نام پر کردیا؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: اگر پراپرٹی کو حقیقت میں ہی اپنی بیٹی کو ہبہ کردیا ہو اور اس کی ولایت میں اس پر قبضہ کیا ہو تو ہبہ نافذ العمل ہے اور قابل فسخ نہیں ہے لیکن حقیقی معنوں میں ہبہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو بلکہ فقط اس کی سند اپنی بیٹی کے نام کردی ہو تو یہ ہبہ ثابت ہونے اور اس بیٹی کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپارٹمنٹ آپ کا ہے اور اس کا اختیار بھی آپ کے پاس ہوگا۔ سوال 1753: میں نے ایک سخت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی پوری جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کردی اور اس کے متعلق سند بھی ان کے لئے لکھ دی اور ٹھیک ہونے کے بعد ان سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ میرے اموال میں سے کچھ حصہ مجھے دیں لیکن انہوں نے اس سے اجتناب کیا اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟ جواب: صرف سند لکھنا بچوں کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے نتیجے میں اگر اپنے اموال اور جائیداد ان کو ہبہ کیا ہو اور اس طرح تحویل میں دیا ہو کہ ان کے اختیار اور مالکانہ تصرف میں ہوں تو رجوع کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے لیکن اگر بالکل ہبہ واقع نہ ہوا ہو یا ہبہ کرنے کے بعد قبضے میں نہیں دیا گیا ہو یا قبضے میں نہیں لیا گیا ہو تو وہ اموال آپ کی ملکیت اور اختیار میں باقی ہیں ۔ سوال 1754: کسی شخص نے اپنے وصیت نامے میں گھر میں موجود اشیاء اپنی بیوی کو بخش دیا اور گھر میں وصیت کرنے والے کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب ہے کیا اس کی بیوی اس کتاب کی ملکیت کے علاوہ طباعت اور نشر یاتی حقوق وغیرہ کی بھی مالک ہوگی یا باقی ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہوں گے؟ جواب: تالیف شدہ کتاب کی طباعت اور نشر کا حق اس کی ملکیت کا تابع ہے لذامولف نے اپنی حیات میں جس کو کتاب ہبہ کرکے تحویل دی ہے یا جس کے لئے وصیت کی ہے، مولف کی وفات کے بعد کتاب اس شخص کی ہوگی اور تمام حقوق اور امتیازات بھی اسی شخص سے مخصوص ہوں گے۔ سوال 1755: بعض ادارے اور دفاتر مختلف مواقع پر اپنے ملازمین کو تحفے دیتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے؛ کیا ملازمین کے لئے ان کو قبول کرنا اور تصرف کرنا جائز ہے؟ جواب: اگر تحفہ دینے والا حکومتی قوانین کے مطابق اس کی صلاحیت اور اختیارات کا حامل ہو تو اس صورت میں حکومتی اموال میں سے تحفہ دینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور اگر وصول کرنے والے کو احتمال ہو کہ تحفہ دینے والا ان صلاحیتوں اور اختیارات کا حامل ہے یہ احتمال قابل توجہ ہو تو اس سے تحفہ قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ سوال1756: ہبہ کرنے والے سے قبضے میں لینے میں صرف وصول کرنا کافی ہے یا اس کے علاوہ ہبہ کو خصوصی طور پر بعض موارد میں مثلا گاڑی، گھر اور زمین وغیرہ میں اس شخص کے نام اندراج کرنا بھی ضروری ہے؟ جواب: ہبہ میں قبضہ، شرط ہونے سے مراد معاہدے کو لکھنا اور دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مال حقیقت میں ہی اس کے اختیار اور تصرف میں چلا جائے اور ہبہ واقع ہونے اور ملکیت حاصل ہونے کے لئے یہی کافی ہے اور ہبہ کئے جانے والے اموال میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ سوال 1757: ایک شخص نے شادی، ولادت یا دیگر امور کی مناسبت سے کسی کو مال ہبہ کردیا اور تین یا چارسال گزرنے کے بعد اس کو واپس لینا چاہے تو ہبہ وصول کرنے والے پر اس کو واپس کرنا واجب ہے؟ اور اگر کسی نے عزاداری یا میلاد کی محفل کے لئے کوئی مال دیا تو اس کے بعد کیا مذکورہ مال کو واپس لے سکتا ہے؟ جواب: جب تک وہ ہدیہ اس شخص کے پاس موجود ہے، ہبہ کرنے والا اس کا مطالبہ کرکے واپس لے سکتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار نہ ہو اور ہبہ بھی معوضہ نہ ہو لیکن اگر ہدیہ تلف ہوا ہو یا پہلے کی نسبت جس وقت اس کو ہبہ کیا گیا تھا، اس میں تبدیلی رونما ہوچکی ہو تو اس صورت میں ہدیہ یا اس کا متبادل طلب کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح جس پیسے کو انسان نے قصد قربت اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا ہو، واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ دین و قرض دین و قرض پرنٹ ; PDF دین و قرض س 1758: ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کےلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اس کی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کا لینا جائز ہے ؟ ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔ س 1759: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض دینے والا چیک کی رقم وصول کرنے کےلئے اس کے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اس کی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجرا کے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاً اس کا ذمہ دار ہے؟ ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ س 1760: میرا بھائی میرا کچھ مقروض ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دی جسے میں نے ہدیہ تصور کیا لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دی ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟ ج: قالین یا اس کے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جو قرض کی گئی جنس میں سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی تک اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آپس میں صلح کرلیں۔ س 1761: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔ س 1762: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کا تیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک ضمانت کے طور پر اسے ایک چیک دے دیا۔ اب جبکہ فریقین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور ان کے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھر کا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردینا کافی ہے؟ ج: قرض دینے والے کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کےلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اس کا قرض ادا کرنے کےلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے اختلاف کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔ س 1763: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھار لی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اس کے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔ س 1764: قرض دینے والا عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کےلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض دینے والے نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔ س1765: اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اس کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض دینے والا اس کا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟ ج: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض دینے والا اس کے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض دینے والا کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض دینے والا کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔ س 1766: کیا میت کا مقروض ہونا حق الناس میں سے ہے کہ ورثاء پر اس کی میراث سے اس کا ادا کرنا واجب ہو؟ ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض دینے والے یا اس کے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اس کا قرض ادا نہ کردیں انہیں اس کے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔ س 1767: ایک شخص کی ایک زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کےلئے ضبط ﴿قرق﴾ کرلیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟ ج: انہیں اس چیز کی ضبطی ﴿قرقی﴾ کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔ س 1768: کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اس کے اہل و عیال کو رہائش کے لئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟ ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کےلئے جن چیزوں کا محتاج ہے جیسے گھر اور اس کا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اس کی زندگی کا جزء اور اس کی شان کے مطابق ہو وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔ س 1769: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کے بوجھ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کےلئے پیش کردیا ہو لیکن اس کے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتا ہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتا ہو توکیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض آہستہ آہستہ ادا کرے؟ ج: اگر وہ عمارت اس کا اور اس کے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کےلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کےلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض دینے والے اسے اس کےلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کےلئے صبر کریں تاکہ وہ اس کے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔ س 1770: کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟ ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔ س 1771: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے تو کیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اس کا عوض دے؟ ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے اسے اس کا عوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کی ادا کردہ رقم اسے دے۔ س 1772: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض دینے والا قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟ ج: قرض دینے والا شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ س 1773: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اس کے منافع کے طور پر ادا کرتارہا اور قرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض منافع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ کیا وہ رقم جو منافع کے طور پر ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اور قرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟ ج: اس فرض کے پیش نظر کہ حقیقت میں اسے یہ رقم قرض کے طور پر دی گئی تھی لذا جو منافع ادا کیا گیا ہے وہ پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ کے برابر ہو تو اشکال نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ جو رقم بھی پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ سے ذیادہ منافع کے طور پر ادا کیا گیا یے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا باقی رقم، قیمت میں آنے والی گراوٹ کو حساب کرکے قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اس کے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔ س 1774: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے منافع دریافت کرے؟ ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں منافع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا منافع ، سود اور حرام ہے۔ س 1775: ایک شخص نے کسی معاشی منصوبے کےلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اس کےلئے نفع بخش ہو تو کیا اس کےلئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض دینے والے کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض دینے والا اس کا مطالبہ کرے ؟ ج: قرض دینے والا اس تجارت کے منافع میں جو مقروض نے قرض والے مال کے ذریعہ حاصل کیا ہے؛ کوئی حق نہیں رکھتا اور نہ وہ اس حاصل شدہ منافع سے کچھ مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض دینے والے کو دے کر اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔ س 1776: ایک شخص نے تین مہینے کےلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کرےگا کیا ان دونوں کےلئے یہ جائز ہے ؟ ج: یہ زائد رقم سود ہے اور حرام ہے ۔ س 1777: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اس کی شرائط کو ان کےلئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جس کا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ ان کے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹر میں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی ان کے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اس کا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جس کی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اس کی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اس کے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اس کا کام بھی حرام ہے ؟ ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اس کی انجام دہی یا تکمیل یا مقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتا ہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔ س 1778: بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟ ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔ س1779: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کےلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کرےگا کیا ان کےلئے یہ کام جائز ہے ؟ ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔ س 1780: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟ ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1781: ایک کو آپریٹو کمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟ ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کےلئے باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جس کی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔ س 1782: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے کہ جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں، زمینیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں سے متفق نہیں ہوتے، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان سے خرید و فروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟ ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اس لئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیے گا تو اس صورت میں جائیداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اس کے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائیداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1783:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع اور سود کی شرط لگانا باطل ہے اور یہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اس کا لینا جائز نہیں ہے ۔ س 1784: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟ ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اور اس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اس کےلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں ان کے اختیارات کی حدود کے تابع ہے ۔ س 1785: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے ان کی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟ ج: ادارے کےلئے اس رقم سے عمارت خریدنا جو اسے قرض دی گئی ہے اگر ادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو معاملہ فضولی ہوگا اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔ س 1786: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟ ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اور اس کی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اس کے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1787: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کو قرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کےلئے شرط لگاتا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کےلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گا اور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: اگر ادارے میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارے کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دے گا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کےلئے صحیح ہے۔ س 1788: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دینے کےلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اس کی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟ ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کےلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھولنے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔ س 1789: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کےلئے کوئی راستہ ہے ؟ ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے ان کی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔ س 1790 :وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کےلئے مختلف افراد کو دیتا ہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟ ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1791:اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کےلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اس طرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کےلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کےلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اس کی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔ صلح صلح پرنٹ ; PDF صلح س 1792: ایک شخص نے اپنی تمام جائیدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ماں باپ، کو اس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح سے کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کےلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو ان کی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اس کی زندگی میں اس کی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔ س 1793: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اس وقت اس کے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟ ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کےلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔ س 1794: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اس کے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اس کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کےلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جس کے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اس کا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔ س 1795: ایک صلح کی دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟ ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو اس وقت تک یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اس کی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی، البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اس کے شرعی طور پر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔ س 1796: میرے سسر نے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اس کے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔ س 1797: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ ان کی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویز پر دستخط کردیئے، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لیئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟ ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ س 1798: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟ ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اس کی اولاد کے درمیان فتنہ و فساد اور نزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔ س 1799:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے وہ یہ مال اسی استفادے کےلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا کسی شخص کو صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر استفادہ کرنے میں شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟ ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔ س 1800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیر وہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟ ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جس کا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔ س 1801: ماں کی جائیداد اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اس کی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اس کے اور اس کے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اس کی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی اس وقت ماں کا پورا ترکہ لینا چاہتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی زندگی میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور صرف صلح کی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اس کی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔ س 1802: ایک باپ نے اپنی جائیداد صلح کے ساتھ اپنی اولاد کو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیز کے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟ الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟ ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائے گا ؟ اور اگر بالفرض یہ صلح سے عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائے گا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟ ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ ج: الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔ ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر موقوف ہے۔ ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اور نہ کسی دوسرے کو اموال منتقل کرنے کا حق۔ وکالت صدقہ صدقہ پرنٹ ; PDF صدقہ س 1820: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کےلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقامات پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچا سکیں کیا جائز ہے کہ اس ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد انعام (Reward) کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں؟ ج: ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم انعام (Reward) کے طور پر دینے میں اشکال ہے بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے یہ کام جائز نہیں ہے تاہم ان لوگوں کو جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اجرۃ المثل (اس جیسے کاموں کے لئے دی جانے والی اجرت)کے طور پر اس میں سے کچھ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں ان کی امداد کی ضرورت ہو، اور ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کرے ورنہ ان رقوم کو فقرا ء پر خرچ کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسرے کام میں مصرف میں لانا اشکال سے خالی نہیں ہے۔ س 1821: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟ ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1822: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟ ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔ س1823: میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اور مخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لئے اس کا لینا جائز ہے ؟ ج: جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ ان کی طرف سے آپ پر ایک نیکی ہے لہذا آپ کے لئے حلال ہے اور اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ عاریہ اور ودیعہ عاریہ اور ودیعہ پرنٹ ; PDF عاریہ اور ودیعہ س 1824: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک ان کا ضامن ہے یا مینیجر ؟ ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔ س 1825: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اس کی وفات کے بعد اس کے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اس کا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟ ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔ س1826: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کے لئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا ان کی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟ ج: وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود ان کا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر ان کی نگہداشت و حفاظت میں آپ کی کوتاہی کی وجہ سے تلف ہوگئی ہوں اگرچہ ایسا واپس کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہوا ہو تو فوج کو ان کی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ س 1827: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کے لئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟ ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔ س 1828: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کے لئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اس کے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج : اگر آپ نے اس کی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔ وصیّت وصیّت پرنٹ ; PDF وصیّت س1829: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کے لئے صرف کیا جائے اب جبکہ ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال ان کے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔ س1830: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اس کے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگ زدہ مہاجرین کے لئے صرف کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگ زدہ مہاجر موجود نہیں ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگ زدہ مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحال اس شہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اس کا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگ زدہ مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ فی الحال وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔ س 1831: کیا کسی شخص کے لئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کے لئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟ ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اس کے لئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت اس کے ترکہ کے صرف ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔ س 1832: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گناہ کا مرتکب ہوگا ؟ ج : اگر اس کے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اس کے ذمے حقوق العباد اورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو ان کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں ہے ۔ س1833: ایک شخص نے اپنے اموال کا ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کی وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم حصے میں ہو تو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔ س1834: اگر ورثاء ، وصیت کا سرے سے ہی انکار کردیں تو اس صورت میں کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت کا دعوی کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔ س 1835: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اس کے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اس کے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ان کی ادائیگی کے لئے اس کی بعض املاک اس کے ترکہ سے الگ کر لی جائیں لیکن اس کے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟ ج : وصیت کے شرعی دلیل یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ املاک جن کی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوں تو ورثا کو اس کی تقسیم کے مطالبے کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جو مالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جن کی میت نے وصیت کی ہے ان کی ادائیگی میں خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ متوفی لوگوں کا مقروض ہے یا اس کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اس کے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کے پورے واجب الاداء امور اس کے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ ان کے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔ س1836: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے، نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اس کے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے۔ کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس زمین کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟ ج: اگر وصیّت کا مضمون یہ ہو کہ خود زرعی زمین کو بیچ کر اس کی قیمت مسجد کی تعمیر میں صرف کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س1837: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب بھی کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1838: کیا جائز ہے کہ کچھ مال کو ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اس کی وفات کے بعد خود اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟ ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کے لئے اس کے دوبرابر مال باقی رہے۔ س 1839: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی جو قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں ان کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنا دے، اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اس کے باپ پر واجب ہے کہ وہ اس کی قضا نما زوں اور روزوں کے لئے کسی کو اجیر بنائے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اس کی طرف سے اس کی قضا نمازوں اورروزوں کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔ س1840: میرے والد نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟ ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ان کا ارادہ خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اس کی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔ س 1841: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اس کی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کے لئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟ ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور سے کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔ س 1842: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پر دے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟ ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں میت کے بدن سے جدا کرنا اس کی بے حرمتی شمار نہ کیا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ س 1843: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی زندگی میں ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کے لئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے انتقال کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟ ج :وصیت کرنے والے کی زندگی میں ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کے لئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1844: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی ہے لیکن اس کا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اس کے نابالغ بچوں کے لئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اس کے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟ ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اس کا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اس کا تیسرا حصہ اس کی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔ س 1845: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کے لئے موصیٰ لہ(جس کے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟ ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔ س1846: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو نگراں کے طور پر منتخب کیا ہے لیکن اس کے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اس کی نگرانی سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں رائے کا مالک ہے اور وصی کے کاموں کا اس نگراں کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پانا ضروری ہے اس صورت میں نگراں کے اختیارات کیا ہیں؟ ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کے امور میں نگراں کے ساتھ مشاورت کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور نگراں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کے لئے نگرانی کرے۔ س 1847: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر نگراں بناکر فوت ہو گیا پھر اس کا بیٹا بھی وفات پاگیا اور اس کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کا واحد ذمہ دار میں بن گیا لیکن اس وقت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے میرے لئے اس کے وصیت کردہ امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ کیا میرے لئے وصیت کردہ امور کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اس کے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے؟ ج : نگراں بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد نگراں کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔ س 1848: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اس کے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کے لئے خرچ کرنا ممکن ہو تو واجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔ س1849: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں ان کا سونا جمعراتوں میں نیک کاموں میں صرف کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہا ہوں لیکن بیرون ممالک کے سفر کے دوران کہ جن کے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ صرف کرنے سے ان کی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا تو واجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں پر بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کے لئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر صرف کرے۔ س 1850: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اور نیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گا کیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اس کی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور نگراں کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے؟ ج: ورثاء کے لئے وہ زمین اپنے لئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اس کی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اس کی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور نگراں بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اس طرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔ س1851: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں سے وصی اور نائب وصی کے طور پر وصیت کی لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر کے وصیت کو باطل کر دیا اور وصی اور اس کے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اس کا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کریں تو کیا ان کا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟ ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اس کے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔ س1852: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اس کی جائیداد میں سے ایک ملک اس کے بیٹے کی ہے پھر دو سال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ کیا اس کا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ اس صورت میں کہ جب یہ شخص بیمار ہو اور اسے خدمت و نگہداری کی ضرورت ہو ، کیا یہ ذمہ داری اس کے مقرر کردہ وصی یعنی اس کے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ یہ ذمہ داری اس کے تمام بچوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے؟ ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کا اپنی وصیت سے عدول کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی لحاظ سے صحیح اور معتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کے لئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو بیمار کی خدمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے ان تمام بچوں پر بطور مساوی ہے جو اس کی نگہداری کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ س1853: ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے. کیا میں اس کی وصیت کو پورا کرنے کے لئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟ ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اس کی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اس کی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔ س1854: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور نگراں کو معین کرے، لیکن ان کے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور ان کے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے تو اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اس کے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کر کے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟ ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔ س 1855: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلائی شدہ اور غیر سلائی شدہ کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اس کے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتے اور اس جیسی چیزیں؟ ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اس کی مراد معلوم نہ ہوجائے اور کسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اس کی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔ س1856: ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کے ترکے کے ایک تہائی مال سے اس کی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے دو سال کی نمازوں کے لئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذ جنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟ ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کے لئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔ س 1857: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی وفات کے بعد جو کچھ وصیت نامہ میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھا ہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اس کے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اس کا ایک تہائی حصہ جدا کر کے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥ اور ٦ کے مطابق خرچ کیا جائے، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اس کے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اس کی وفات سے لے کر اس مدت کے ختم ہونے تک اس کے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کے لئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکا ہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اس کی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک ان کی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ س 1858: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور ان کے نام ملکیت کی دستاویز جاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اس کے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں۔ کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟ ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے تو وقت گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس کے وصیت کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔ س 1859 : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا فروخت کر کے اس کی نیابت میں حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ اس دوران ایک تیسرا شخص سامنے آیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور نگران کی اجازت کے بغیر اس کی نیابت میں حج انجام دے دیا ہے۔ اب وصی فوت ہوچکا ہے اور نگران زندہ ہے کیا نگران کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی نیابت میں فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟ ج: اگر میت پر حج واجب ہو او وہ نائب کے ذریعے حج کی انجام دہی کی وصیت کر کے بریٴ الذمہ ہونا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی نیابت میں حج بجا لے آئے تو اس کے لئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے بصورت دیگر نگران اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو نگراں پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔ س 1860: کیا ورثاء، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کے لئے کوئی مخصوص رقم ادا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ج: میت کی وصیتوں پر عمل کرنا وصی کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اور ضروری ہے کہ جس مصلحت کو تشخیص دے اسی کی بنیاد پر عمل کرے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1861: تیل کے ذخائر پر بمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اس کے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اس کے متن اور مضمون سے آگاہ نہیں ہے۔ اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اس کی ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔ س 1862: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے اس کام کی مخالفت کرے ؟ ج : ان افراد کے درمیان میں سے وصی کو منتخب اور مقرر کرنے کا دار و مدار کہ جنہیں وصیت کرنے والا اس کام کے لائق سمجھتا ہے خود اس کی رائے پر ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اس کے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ س 1863: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے طور پر اس کے لئے انفاق کریں ؟ ج: اگر اس کام سے ان کی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اس کے لئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔ س 1864: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اس کا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پر اس کے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اس کا وصی ہے؟ ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اس کے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔ س1865: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟ ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔ س 1866: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر ان کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن انہوں نے وصیت کی ہو کہ ان کے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اس کے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بنانا جائز ہے اور اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جس کی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر ان کا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کے لئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔ س 1867: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اس کی اراضی میں سے ایک مخصوص ٹکڑا فروخت کر کے اس کی رقم سے اس کی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجا لائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اس وقت ناممکن ہوگیا ہے او وہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے اس کے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اس کا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟ ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔ س1868: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اس کے ترکہ سے اس کے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟ ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اس کے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لہذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار میں حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اس کے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔ س 1869: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اس کی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کر اس کی رقم اس کے لئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اس کے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اس کے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟ ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اس کے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اس کے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟ س 1870: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جس کی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اس کی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اس کے شوہر کی وفات کے وقت سے اس کے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ کیا اسکی بنا پر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کو جسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اس کی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟ ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اس کے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لے کر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اور بیٹی کو اس کا حصہ دیتے وقت اور اس کا اپنے حصے کو کسی دوسرے کو فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔ اس کے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اس کا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔ س 1871: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اس کے قرض کی ادائیگی اس کا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو مکان بیچ دے اور اس کی رقم سے قرض ادا کرے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اس کے ماموں کو دی جائے اور اس کی ماں کو حج پر بھیجے اور کچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کی طرف سے بجالائے جائیں پھر اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے۔ شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اس کا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟ ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس کے تمام مالی واجب الاداء امور اسی سے ادا کرنے کے بعد ، اس کے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اس کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اس کی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اس کی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے ورثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اس کے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے بصورت دیگر وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔ س1872: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس کے تمام اموال جو تین ایکڑ پھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اس کی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہو اور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگا اور ایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟ ج : جب تک اس کی طرف سے اس کی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے -کہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے- اس وقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اس کی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی میراث ہے ۔ س 1873: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہر بہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اس کی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہیں تھی لہذا وہ اپنا حق نہ لے سکی۔ جب وہ اس شہر میں واپس آئی تو اس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا۔ اب جب کہ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اس کے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اس کا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔ س 1874: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک ٹکڑا مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اور چونکہ ان کی وفات کے بعد ان کے پاس نقد رقم نہیں تھی لہذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی۔ کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔ ج: جو کچھ آپ نے میت کے لئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اس کے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 1875: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اس کی بیوی اس کے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اس کی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اور دیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟ ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جس کی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اس کی بیوی کو دے دیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔ س1876: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کا ارادہ کیا جو انہیں اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اس کی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ کیا ان کا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟ ج: مفروضہ صورت میں لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب کریں۔ س 1877: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اس وقت اگر اس کی وصیت پر عمل کے ممکن ہونے تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھنا چاہیں تو اس کے تلف ہونے کا خوف ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟ ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔ س 1878: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی بعض جائیدادوں کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری جائیدادیں غصب ہوگئی ہیں اور ان کے غاصب سے واپس لینے کے لئے بہت سے اخراجات ہوئے ہیں۔ کیا ان اخراجات کا اس کی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیا صرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟ ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کے لئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔ س1879: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کے لئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟ ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اس کی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔ غصب کے احکام غصب کے احکام پرنٹ ; PDF غصب کے احکام س 1880: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اس کے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ ان کے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ کیا اس صورت میں ورثا دوسرے خریدار کے لئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟ ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اس کی ملکیت کی دلیل نہیں ہے اس لئے اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اس کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کےلئے رکاوٹ پیدا کرے یا اس سے زمین چھینے۔ س 1881: زمین کا ایک قطعہ جسے چند خریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اس کی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اس کے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اس کے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟ ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خریدنا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کےلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔ س 1882: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اس کی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اس کے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کےلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟ ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اس کی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اس کے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔ س1883: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جس کا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اور ان دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اس کی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟ ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اس کی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اس کے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔ س 1884: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہو کیا اس میں اس کے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟ ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کےلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس پر تصرف کےلئے ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔ س 1885: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اس کے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟ ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اس کی ملکیت یا اس کے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔ بالغ ہونے کے علائم اور حَجر بالغ ہونے کے علائم اور حَجر پرنٹ ; PDF بالغ ہونے کے علائم اور حَجر س 1886:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اس کے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟ ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔ س 1887: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟ ج : قمری سال معیار ہے۔ س 1888 : اس امر کو تشخیص دینے کےلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟ ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اس کی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ س 1889: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟ ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔ س1890: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟ ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کےلئے کافی نہیں ہے۔ س 1891: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہوتا ہے اور اس کے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہو جاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اس کے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس طرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟ ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتا ہے لہذا بلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کےلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔ س 1892: ہمارے اسکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن ان کے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے ان کا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ ان کی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل ہیں کہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کےلئے ایک معیار ہے؟ ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں ان کا کوئی اثر نہیں ہے۔ س 1893: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ اچھے اور برے کو پہچانتا ہو " اچھے اور برے سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟ ج: اچھے اور برے سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف اچھا اور برا سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اور مقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔ س 1894: کیا لڑکی کےلئے نو سال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اس کے بالغ ہونے کی علامت ہے؟ ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کا حکم نہیں رکھتا ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔ س 1895 جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کو خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اور وہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اس کی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاجائز ہے کہ عدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرے؟ ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت ہو تو شرعی طور پر اسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کےلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو اس سے وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔ مضاربہ کے احکام مضاربہ کے احکام پرنٹ ; PDF مضاربہ کے احکام س 1896: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟ ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اس کے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔ س 1897: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟ ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔ س 1898: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے طور پر ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گا۔ کیا یہ کام صحیح ہے ؟ ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کریں گے مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے۔ تاہم اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملکیت قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اس کی روشنی میں یہ اس کے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔ س 1899: ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاہدے کے تحت ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں۔ کیا حکم رکھتاہے ؟ ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔ س1900: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اس کے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟ ج: اگر یوں طے کریں کہ اس کے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اس کے منافع میں سے اس کے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔ س 1901: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟ ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اس کے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لئے حلال ہے۔ س1902: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کے لئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے علی الحساب کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟ ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدار لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کے لئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اور اس کے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔ س 1903: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟ ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔ س1904: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اس کے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان ان کی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟ ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اس کا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اس کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ ان کے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اس کے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔ س 1905: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی طور پر مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا۔ کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟ ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میں شرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔ س1906: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کو دی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتا ہے اور نقصان نہیں اٹھاتا، کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ، میں اس کے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہو تو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟ ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہو لہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اس کے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔ س1907: ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اس کا منافع اس کے اور صاحبان اموال کے درمیان ان کی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اس کے مالکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س1908: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اس کے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟ ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اس کے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔ س1909: ایک تاجر نے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے طور پر اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا۔ در نتیجہ اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟ ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو لہذا اگر عقد مضاربہ اس کی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ س 1910: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لے کر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کو حق ہے کہ اپنی رقم لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے؟ ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لہذا وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے ۔ س 1911: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہو یا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جو انھوں نے اس کے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عُدوانی) شمار کیا جائے گا ؟ ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اس کی نسبت اس کی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔ بینک بیمہ (انشورنس) بیمہ (انشورنس) پرنٹ ; PDF بیمہ (انشورنس) س 1952:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 1953: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کارڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟ ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔ س1954: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اس کی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کرے گی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اس کا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟ ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔ سرکاری اموال وقف قبرستان کے احکام قبرستان کے احکام پرنٹ ; PDF قبرستان کے احکام س 2101: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائےگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویز اپنے نام کرا لینا نہ تو اس کی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اس کے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہر کے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کے لئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لئے وقف ہوا ہے تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔ س 2102: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اور پچھلی حکومت کے زمانے میں اس کے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟ ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اور مؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کےلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ س 2103: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف کی گئی ہے اور اس کے بیچ میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کےلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟ ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہدا کی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ س 2104: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟ ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کی لئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2105: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟ ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کی لئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔ س 2106: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اس کے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اس کے مالک سے ضبط کر کے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟ ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اس کا شرعی مالک شمار ہوتا ہے تو اس میں اس کی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2107: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کےلئے عمومی قبرستان قرار دے دیا۔کیا جائز ہے کہ اس کی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟ ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کی لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2108: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کےلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگر اس کام کےلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟ ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا مسلمانوں کی قبریں کھودنے یا ان کی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2109: ہم نے دیہات میں مدفون شہدا کی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟ ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگار بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو تو دوسروں کےلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2110: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کےلئے اس کی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کےلئے منتخب کی گئی ہے اس کے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کےلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کےلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتا ہوا ور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔ س 2111: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اس کے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کےلئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کےلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کےلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟ ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کےلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کےلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2112: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کےلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کےلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: وہ پرانی قبریں کہ جن کے مردے خاک بن چکے ہیں ان کے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور اگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔ س 2113: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہو کیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کےلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟ ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کےلئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ س 2114: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟ ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اس کے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کےلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتا ہے۔ س 2115: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اس کی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2116: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جس کا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کےلئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اور انہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ س 2117: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار ہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کےلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟ ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہرحال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔ س 2118: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ اسکول کی زمین مردوں کے دفن کےلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جس کی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کےلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے اسکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کےلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل ” اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کیجیے جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور ان سے بچ کر رہیے کہ وہ آپ کو کسی ایسے حکم سے بہکادیں جو اللہ نے آپکی طرف نازل کیا ہے، پھر اگر وہ پھرجائیں تو جان لیں کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے کچھ گناہوں کی سزا پہنچائے اور بے شک بہت سے لوگ نافرمان ہی ہیں۔ (٤٩) تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین حق کے لیے بڑے فائدے سے دستبردار ہونا: یہود کی آپس میں کسی مسئلہ میں نزاع کی صورت پیدا ہوگئی ایک فریق میں بڑے بڑے علماء اور مشائخ تھے، یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اس نزاع کا فیصلہ کردیجئے، پھر اگر آپ فیصلہ ہمارے حق میں کردیں، تو ہم خود بھی اور اکثر یہود بھی اسلام لے آئیں گے، کیونکہ یہود کی اکثریت ہمارے ہی زیر اثر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رشوتی اسلام کو قبول نہ کیا اور ان کی خواہشات کی پیروی سے انکار کردیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرماکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ہوشیار رہیے ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے، اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیے، حق اور انصاف کو پیش نظر رکھیں آپ کو اگرچہ کسی ایک فرد کا اسلام لانا بھی انتہائی محبوب تھا چہ جائیکہ یہود کی اکثریت کے ایمان لانے کی توقع ہو۔ حق پرستی کی خاطر اگر ہمیں بہت بڑے متوقع فائدے سے دستبردار ہونا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیے، ہر قیمت پر حق پر قائم رہنا چاہیے۔ تفسیر احسن البیان - تفسیر تیسیر القرآن - تفسیر تیسیر الرحمٰن - تفسیر ترجمان القرآن - تفسیر فہم القرآن - تفسیر سراج البیان - تفسیر ابن کثیر - تفسیر سعدی - تفسیر ثنائی - تفسیر اشرف الحواشی - تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - تسہیل البیان فی تفسیر القرآن -
Auckland, Wellington, Christchurch, Manukau City, Waitakere, Hamilton, Dunedin, Tauranga, Lower Hutt, Palmerston North, Rotorua, Hastings, Nelson, Napier, Mangere 3G / 4G / 5G میں بھی موبائیل نیٹورک کوریج دیکھیں۔ NPerf پروجیکٹ کا حصہ بنیں ، ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں! nPerf نقشے کیسے کام کرتے ہیں ؟ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے؟ یہ اعدادوشمار nPerf ایپ کے صارفین کے ذریعہ کئے گئے ٹیسٹوں سے جمع کیا گیا ہے۔ یہ ایسے میدان ہیں جو براہ راست میدان میں واقع حالتوں میں ہوتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ کو بس اپنے اسمارٹ فون پر nPerf ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا ہے۔ مزید اعداد و شمار جتنے زیادہ ہوں گے ، نقشے اتنے ہی جامع ہوں گے! اپ ڈیٹس کس طرح کی گئی ہیں ؟ نیٹ ورک کوریج کے نقشے ہر گھنٹہ بوٹ کے ذریعہ خود بخود اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں۔ رفتار کے نقشے ہر 15 منٹ میں اپڈیٹ ہوتے ہیں۔ ڈیٹا دو سال کے لئے ظاہر کیا جاتا ہے. دو سال بعد ، سب سے قدیم ڈیٹا کو ماہ میں ایک بار نقشوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ کتنا قابل اعتماد اور درست ہے؟ ٹیسٹ صارفین کے آلات پر کئے جاتے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع کی جانچ پڑتال کے وقت GPS سگنل کے استقبال کے معیار پر منحصر ہے۔ کوریج ڈیٹا کے لیے ، ہم صرف زیادہ سے زیادہ 50 میٹر جغرافیائی مقام کے ساتھ ٹیسٹ برقرار رکھتے ہیں۔ بٹریٹ ڈاؤن لوڈ کے لیے ، یہ چوکھٹ 200 میٹر تک جاتا ہے۔ میں خام ڈیٹا کا ہولڈ کیسے حاصل کر سکتا/سکتی ہوں ؟ کیا آپ CSV فارمیٹ میں نیٹ ورک کوریج ڈیٹا یا nPerf ٹیسٹ (بٹریٹ ، لیٹینسی ، براؤزنگ ، ویڈیو اسٹریمنگ) ان کو اپنی پسند کے مطابق استعمال کرنے کے کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی مسئلہ نہیں! ہم سے رابطہ کریں کیا کوریج کے نقشے کے نقطہ نظر کے لئے ایک پرو آلہ موجود ہے ؟ جی ہاں. یہ آلہ بنیادی طور پر موبائل آپریٹرز کے لئے ہے۔ اس کو ایک موجودہ کاک پٹ میں ضم کردیا گیا ہے جس میں پہلے ہی کسی ملک میں موجود تمام آپریٹرز کے انٹرنیٹ پرفارمنس کے اعدادوشمار شامل ہیں ، نیز اسپیڈ ٹیسٹ کے نتائج اور کوریج ڈیٹا تک رسائی بھی شامل ہے۔ ان ڈیٹا کو ٹکنالوجی کے ذریعہ (کوئی کوریج ، 2 جی ، 3 جی ، 4 جی ، 4 جی + ، 5 جی) فلٹر لگانے سے کسی قابل ترتیب مدت میں (مثال کے طور پر صرف آخری 2 ماہ) نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ نئی ٹکنالوجی کی تعیناتی ، حریفوں کی نگرانی اور ناقص سگنل کوریج والے علاقوں کی نشاندہی کرنے کا یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ nperf.com کو براؤز کرنے سے ، آپ ہماری رازداری اور کوکیز کے استعمال کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ہمارے nPerf ٹیسٹ صارف کا لائسنس کا آخری معاہدہ ۔ OK
مشہور ترکش سیریز ’ارطغرل غازی‘ میں حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے والی ترک اداکارہایسرا بیلگیچ کی انتہائی بولڈ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔ ایسرا بیلگیچ نے فوٹو اینڈ ویڈیو شئیرنگ ایپ انسٹاگرام پر چند تصاویر اور ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے۔ View this post on Instagram A post shared by Esra Bilgic (@esbilgic) شئیر کی گئی تصاویر میں اداکارہ کو انتہائی بولڈ لباس میں دیکھا جاسکتا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا صارفین انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے قبل اداکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر چند تصاویر شیئر کی تھیں جنہیں دیکھتے ہی صارفین کا پارہ ہائی ہوگیا۔ شیئر کی گئی تصاویر میں ایسرا بیلگیچ نے سفید رنگ کا انتہائی غیر مناسب لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور صوفے پر لیٹی ہوئی تھیں۔ اداکارہ کی یہ تصاویر کسی میگزین کے لیے لی گئی تھیں۔ View this post on Instagram A post shared by Esra Bilgic (@esbilgic) ایسرا بیلگیچ کی یہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو صارفین کی جانب سے ملے جلے ردعمل سامنے آئے، کسی نے اداکارہ کی خوب تعریفیں کیں تو کسی نے انہیں لباس کی وجہ سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ ایسرا بیلگیچ نے ’ارطغرل غازی‘، ’رامو‘ اور کئی مشہور فلموں اور ڈراموں میں اپنی اداکاری سے مداحوں کو متاثر کیا ہے۔
آپ ان دنوں جن معاملات کا شکار ہیں اس میں سے نکلنے میں ابھی چند دن لگ سکتے ہیں صبر سے کام لینا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرنا ہے خاموشی سے چلیں۔ برج ثور، سیارہ زہرہ، 21 اپریل سے 20 مئی ان دنوں آپ کی پوزیشن اور آپ کے معاملات کو کوئی بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا آپ ان پر بلا وجہ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں خاموشی سے صرف اپنے روز گار پر توجہ دیں بس۔ برج جوزہ، سیارہ عطارد، 21 مئی سے 20 جون آپ کی اہم کوشش کسی کامیابی سے ہمکنار کرے گی اور وہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس کو لے کر کافی دنوں سے پرستان ہیں۔ بس مخالفین سے بچ کر چلنا بے حد ضروری ہے۔ برج سرطان، سیارہ چاند، 21 جون سے 20 جولائی جو لوگ کسی بھی دوسرے کے کام میں مداخلت کریں گے وہ بلا وجہ اپنے لئے مشکل پیدا کر سکےت ہیں اور جن کو صرف روز گار کی فکر ہو گی وہ کامیاب ہوں گے۔ برج اسد، سیارہ شمس، 21 جولائی سے 21 اگست حالات تھوڑے سے نازک ہیں۔ آپ کو اس وقت صرف اس کے مطابق قدم اٹھانا ہے اور ہر اس معاملے سے دور رہنا ہے جو ذرا سا بھی غیر قانونی اور غیر شرعی ہو خیال رہے۔ برج سنبلہ ، سیارہ عطارد، 22 اگست سے 22 ستمبر آپ کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں جس قدر آپ سمجھ رہے ہیں اور ہر کام تو آپ کے بس مںی نہیں ہے آپ بس جس قدر اپنی کوشش کر سکتے ہیں کر لیں۔ باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔ برج میزان ، سیارہ زہرہ، 23 ستمبر سے 22 اکتوبر صحت کا صدقہ دیں اور آپ کا زائچہ بتا رہا ہے کہ آپ پر چھوٹی موٹی بات پر ٹیشن لیتے رہتے ہیں اس لئے ایسا ہوتا ہے ہونا تو وہی ہے جو قسمت میں ہونا ہے آپ کیوں پریشان ہیں۔ برج عقرب ، سیارہ مریخ، 23 اکتوبر سے 22 نومبر آپ نے غلط فیصلے کر کے خود حالات خراب کئے ہیں ابھی بھی وقت ہے ان پر نظر ثانی کر لیں تاکہ خرابیوں سے نکلا جا سکے اور اس کے لئے چاہے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ برج قوس ، سیارہ مشتری، 23 نومبر سے 20 دسمبر جو لوگ کسی بھی ایسے رشتے میں ہیں جو اندرون خانہ مخالفت رکھ رہا ہے تو فوری طور پر اس سے دور ہو جائیں اور کوشش کریں کہ اب کچھ دنوں تک اس طرف دیکھیں بھی ہیں۔ برج جدی ، سیارہ زحل، 21 دسمبر سے 19 جنوری آپ نے اب صورت حال کے مطابق چلنا ہے ضروری نہیں کہ آپ کی ہر معاملے میں مرضی شامل ہو۔ حالات کا جو تقاضا ہے بس اس کو پورا کریں اور آج صدقہ بھی لازمی دیں۔ برج دلو ، سیارہ زحل، 20 جنوری سے 18 فروری ایک مشکل ختم نہیں ہوئی دوسری گلے پڑ جاتی ہے جیسے جکڑن ہو گئی ہو اس کو صرف روحانی طریقے سے حل کرنا ہے اور نماز کے نزدیک آپ جاتے ہیں ہیں توبہ کر لیں نماز پکڑیں۔ برج حوت ، سیارہ مشتری، 19 فروری سے 20 مارچ اولاد کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تو پھر اس کی ہاں میں ہاں ملانی ہو گی حکمت عملی کے ساھت ان شاءاللہ آپ جو چاہتے ہیں وہی ہوگا ان کو اپنے مقصد میں کامیابی ملنا مشکل ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی و آبادکاری کا کام جلد مکمل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی سے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور میں ملاقات کی۔ اس موقع پر جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کی بحالی و آباد کاری کے پلان پر ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ پنجاب حکومت کی سیاسی و انتظامی ٹیم نے جذبے کے ساتھ سیلاب زدگان کی مدد کی ہے- متاثرین کی بحالی کے کام کو ذاتی طور پر مانیٹر کر رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم کے لوگوں نے سیلاب پر بھی سیاست کی، اس قومی چیلنج کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔
Peace be upon you. First of all, I pray to all of you friends for the second Eid Mubarak. May Allah bless us all with the happiness of Eid and grant us all the Muslims unity. Today was the second day of Eid-ul-Fitr. I got up at 5 in the morning and after that I went to take a bath and after that I went to pray in the mosque. After the prayers I went to the graveyard to recite Fateha. I walked for a while and took pictures of sunrise during the walk and then I went home. I left and returned home. I had breakfast السلام و علیکم سب سے پہلے آپ تمام دوستوں کو میری طرف سےدوسری عید مبارک اللہ ﷻ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو عید کی آئندہ بھی خوشیاں نصیب فرماۓ اور ہم سب مسلمانوں کو اتحاد نصیب فرماۓ آج چونکہ عیدالفطر کا پہلا دن تھا تو میں صبح 5 بجے اٹھا اوراس کے بعد میں نہانے چلا گیا اور اس کے بعد مسجد میں نماز ادا کرنے گیا نماز کے بعد میں قبرستان میں فاتحہ خوانی کے لیے گیا تھوڈی دیر واک کی اور واک کے دوران سورج کے نکلنے کی تصاویر لیں اور پھر میں گھر کو روانہ ہو گیا گھر واپس آ کر میں نے ناشتہ کیا Then today we had a fun program with my brother. We got ready, got on a motorbike, crossed the cemetery road and reached Lift Irrigation Scheme Trikhel. My son was with us. We also took some pictures there and after that We went ahead. After a while, we reached Lake Namal. We visited the court there and after that make some pictures which I am presenting to you. پھر آج ہم نے بھائ کے ساتھ تفریح کا پروگرام بنایا ہم تیار ہو کر موٹرسائیکل پر سوار ہو کر قبرستان والے روڑ سے ہوتے ہوۓ لفٹ ایریگیشن سکیم تریخیل پر جا پہنچے ہمارے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا ہم نے وہاں کچھ تصاویر بھی بنائیں اور اس کے بعد ہم اگے چلے گۓ کچھ دیر بعد ہم نمل جھیل پر جا پہنچے وہاں دربار پر حاضری دی اور اس کے بعد وہاں بھی کچھ تصاویر بنائیں جو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں Then after a while we left for home. We had a good time and then we came back home and we ate because we were very hungry. We also had a small breakfast after lunch. We drank tea and then I prayed Zuhr. Then I came back home. My brother had to go to his house, so he took permission and went home. پھر وہاں سے کچھ دیر کے بعد ہم گھر کی طرف روانہ ہو گۓ ہم نے خوب انجواۓ کیا اور پھر ہم گھر واپس آ گۓ گھر پہنچ کر ہم نے کھانا کھایا کیونکہ ہم بہت بھوکے تھے ناشتہ بھی معمولی سا کیا تھا دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم نے چاۓ نوش کی اور پھر میں نے ظہر کی نماز ادا کی پھر میں گھر واپس آ گیا بھائ نے اپنے گھر جانا تھا تو اس نے اجازت لی اور گھر چلے گۓ I also went to my friends. When did Maghrib come back from there? Then after Maghrib prayers, the food was ready. I hope you will like my diary today. May Allah be with you all. میں بھی اپنے دوستوں کی طرف چلا گیا وہاں سے مغرب کت وقت واپس آیا اور پھر نماز مغرب ادا کی تھوڈی دیر کے بعد کھانا تیار ہو گیا کھانا کھانے کے بعد میں نے تھوڈی دیر چہل قدمی کی اور پھر ڈائری لکھنے میں مصروف ہو گیا تاکہ آپ کے سامنے پیش کر سکوں امید ہے آپ کو آج کی میری ڈائری بہت پسند آۓ گی اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو
بھارتی میڈیا کے مطابق سلمان خان ڈینگی میں مبتلا ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بگ باس کے آنے والے ایپی سوڈز میں میزبانی نہیں کر سکیں گے۔ سلمان خان کی طبیعت گزشتہ کچھ دنوں سے ناساز تھی، ڈاکٹروں نے ڈینگی کی تشخیص کر دی ہے، اور آرام کرنے اور جسمانی مشقت سے مکمل پرہیز کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ بگ باس کی آنے والی اقساط میں کم از کم ایک دو ہفتوں تک کرن جوہر میزبانی کریں گے۔ سلمان خان کے قتل کی منصوبہ بندی کرنیوالے 2 افراد گرفتار خیال رہے کہ سلمان خان اپنی نئی آنے والی فلم ’کسی کا بھائی، کسی کی جان‘ کی شوٹنگ میں بھی مصروف ہیں، اب فلم کریو سلمان کے بغیر باقی اداکاروں کے ساتھ شوٹنگ شیڈول پورا کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ خلیجی ملکوں میں خدمات انجام دینے والے غیر ملکی کارکنوں کی صحت و سلامتی خطرے میں ہے۔ ان میں دس فی صد کارکنوں کا تعلق پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال سے ہے۔ وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ڈیل گیولک نے عمان سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کی صحت، سلامتی اور معاشی حالات پر عدم اطمینان اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان ملکوں میں دس فیصد کارکنوں کا تعلق پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال سے ہے۔ جن ملکوں میں یہ کام کر رہے ہیں ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور اومان شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی حیا ضیاالدین کہتی ہیں کہ یہ غیر ملکی انتہائی تنگ اور پرہجوم جگہوں میں رہ رہے ہیں، انھیں مہیا طبی سہولتیں بھی نا کافی ہیں، خوراک بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کرونا وبا کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان ملکوں میں آجرون کو بہت زیادہ تحفظ حاصل ہے اور وہ اپنے ملازمین کا استحصال کر ہے ہیں۔ ایک طرف ان کی اجرتیں روکی جارہی ہیں تو دوسری طرف صحت خطرے میں ہے۔ بعض کمپنیاں بند ہوگئی ہیں، اس طرح وہاں کام کرنے والوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض کمنیاں اپنے ملازمین کو واپس ان کے وطن بھیجنا چاہتی ہیں مگر نیپال جیسے ملک کے کارکن واپس نہیں جا سکتے، کیوں کہ داخلے کے تمام راستے بند ہیں۔
سائٹ کے اس حصہ میں شیعہ سائٹس کے موجودہ مطالب کو باعتبار موضوع فھرست کیا گیا ہے اور چند حصوں میں تقسیم بندی کرکے اردو ، انگلش، عربی، فارسی اور فرینچ زبانوں میں پیش کیا گیا ہے ۔ تقسیم بندی: 1- مذھب شیعہ کی سب سے بڑی لائبریری و آڈیو ویڈیوز اور سافٹ ویئرز جو اس حصہ میں پیش کیے گئے ھیں وہ تمام شیعہ سائٹس میں ماخوذ اس ترتیب سے مندرج ھیں :کتب، مقالات، مجلات، سافٹ ویئرز، آڈیوز، ویڈیوز اور تصاویر۔ 2- دوسری تقسیم بندی میں مطالب کو موضوع کے اعتبار سے فھرست کیا گیا ہے تاکہ وزیٹر آسانی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرسکے۔ اس تقسیم بندی میں بعض عناوین اس طرح سے ہیں : قرآن، حدیث، پیغمبراکرم(ص)، اھل بیت(ع)، دعاو زیارت، تاریخ، عقائد، فقہی احکام، اخلاق، گوشہ ادب و ۔ ۔ ۔ 3- علماء سے رابطہ، مراجع تقلید سے استفتاء کا امکان، کتابوں کی ڈاؤنلوڈ و ۔ ۔ ۔ تقسیم بندی کے اس حصہ میں شخصیتوں کے بارے میں، شیعہ سائٹس ، مراکز و ادارہ جات، امکانات و خدمات، گفتگو و مناظرے، لائبریریز اور سوال و جواب کو پیش کیا گیا ہے۔ 4- آخری تقسیم بندی میں جنسیت کے اعتبار سے ان کے سن و سال کو مدنظر رکھتے ہوئے مفید و حذاب مطالب کو بچوں، جوانوں اور خواتین کے پیش کیا گیا ہے ۔اس حصے میں عناوین اس طرح سے ھیں: بچوں کا صفحہ ، جوانوں کا صفحہ، خواتین کا صفحہ۔ اس حصے کی اس طرح ہر صنف سے مخصوص مطالب کو پیش کیا گیا ہے کہ وزیٹر کمترین وقت میں بہت زیادہ مطالب کو حاصل کرلیتا ہے ۔ Shiasearch.com کی جانب پوری دنیا سے وزیٹرز کا ہر روز کا استقبال خصوصا عربی ممالک ، امریکا و یورپی ممالک کی جانب سے بہت زیادہ استقبال اور اسی طرح نویں عالمی انفارمیشن فسٹیوال (انفارمیشن و کلچر) میں سب سے پھلا رتبہ حاصل کرنے کے سبب اس کی اھمیت اور مختلف جھات سے انفارمیشن جیسے کاموں کو بھتر و مفید تر بنانے کی ضرورت زیادہ نظر آنے لگی ہے ۔ امید ہے کہ انفارمیشن میں خصوصی اھمیت کے مدنظر اس کو آگے بڑھاتے اور تکراری امور سے اجتناب کرتے ہوئے بنیادی اور اساسی کاموں میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں گے ۔
سوہاوہ: پٹرولنگ پولیس مسہ کسوال کے انچارچ سب انسپکٹر وسیم حسن، اسسٹنٹ سب انسپکٹر رستم عباس نے اپنی ٹیم ضیاء الرحمٰن ASI، محمد احسان Asi، علی مرتضی،بدر منیر،ندیم رزاق، کامران اصغرکے ہمراہ SP پٹرولنگ راولپنڈی ریجن میڈم زنیرہ اظفر DSP پٹرولنگ جہلم رضا اللہ خان کی خصوصی ہدایت پر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرتے 2 افراد سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد کر کے دونوں اشخاص کے خلاف زیر دفعہ 9C / CNSA کے تحت مقدمہ درج کروا کر تھانہ سوہاوہ میں پابند سلاسل کر دیا۔ اسکے علاوہ رواں ماہ اوور لوڈ اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 6 ڈرائیوران پر مقدمات درج رجسٹر کروائے گئے۔ دوران چیکنگ 3 عدد خطر ناک اشتہاری مجرمان کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کروایا گیا۔ دوران سفر خراب ہوجانیوالی متعدد گاڑیوں کی مدد کی گئی اور دوران سفر پریشان اور مشکل میں مبتلا لوگوں کو باحفاظت انکی منزل کی طرف روانہ کیا گیا،مختلف حادثات میں زخمی لوگوں کو بروقت ہسپتال پہنچا کر فوری طبی امداد فراہم کر کے ان کی جان و مال کو بچایا گیا۔ انچارج پوسٹ راجہ وسیم حسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ میں اور میری ٹیم کا ہر ممبر ہمہ وقت روڈ پر لوگوں کو محفوظ سفر کی فراہمی اور جرائم پیشہ افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کیلئے کوہشاں ہیں، پورے پنجاب دوران سفر کسی بھی مشکل اور پریشانی کی صورت میں پٹرولنگ پولیس ہیلپ لائن 1124 پر کال کریں. پٹرولنگ پولیس ہمہ وقت آپ کی خدمت اور محفوظ سفر کو یقینی بنانے کیلئے شاہراہوں پر موجود ہے۔ محمد نبیل حسنستمبر 26, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Facebook Twitter LinkedIn Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Line ای میل کے ذریعے شیئر کریں پرنٹ کریں
فی الحال، سیاہ فام اور سفید فام خواتین کے درمیان شرحیں تقریباً ایک جیسی ہیں، لیکن چھاتی کا کینسر اب بھی سیاہ فام خواتین کے لیے نمایاں طور پر زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ چھاتی کے کینسر کی موجودگی کو مکمل طور پر روکنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے، لیکن ایسے اقدامات ہیں جن سے ہم چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ 1 دلچسپ حقائق پہلی نظر میں شادی کے ڈی سی سیزن سے برینڈن ریڈ کو یہ منسوخی مل گئی کہ وہ ٹیلر ڈنکلن سے شادی منسوخ کرنا چاہتا تھا۔ جب آپ کو وادی کا تجربہ ہو رہا ہو تو پرہیز کرنے کے لیے شخصیت کی 5 اقسام 'خدا نے کہا، جاؤ' میلوڈی ہولٹ نے اپنی شادی کو صحیح وقت پر چھوڑنے کی بات کی، مارٹیل کی جوابدہی کی کمی اور بہت کچھ غیر ملکی ڈانسر کا دعویٰ ہے کہ عشر نے کلب میں جعلی پیسوں سے بارش کر دی اور ٹویٹر کے پاس اس کے بارے میں بہت کچھ کہنا ہے۔
عمران خان حسب معمول جس وقت نوجوانوں کا جوش و خروش ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں عین اسی وقت ایک طالب علم نیند کے مزے لے رہا تھا (فوٹو: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا) سابق وزیراعظم عمران خان بڑے زوروشور سے بقول ان کے نوجوانوں کو خوابِ غلفت سے جگانے کی کوششوں میں لگے ہیں لیکن پشاور کے ایڈورڈز کالج میں ایک ایسا نوجوان سامنے آیا ہے جو ان کی تقریر کے دوران بھی سویا رہا۔ سامنے آنے والی ویڈیو میں ایسا کافی کچھ ہے جو سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر صارفین کی توجہ حاصل کرتا، یہی ہوا بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کے، کیونکہ معاملہ صرف شیئر کرنے اور کمنٹس تک ہی محدود نہ رہا اور میمز بنانے والے بھی میدان میں کود پڑے اور اس پر ٹک ٹاکس بھی بنیں۔ مزید پڑھیں ’کیا جی سی یو دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھی پلیٹ فارم فراہم کرے گی؟‘ Node ID: 704196 ’جاوید اور زاہد کی نہاری‘: مفتاح اسماعیل کراچی جا کر کیا کھائیں گے؟ Node ID: 704281 ’شکر ہے سائفر غائب کیا، وزیراعظم ہاؤس کو آگ نہیں لگادی‘ Node ID: 705431 19 سیکنڈز پر مشتمل اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب عمران خان ذکر کر رہے کہ دو تھوڑے وقت میں دو ایمپائرز کو کیسے اور کس نے گرایا، عین اس وقت جمع طلبہ کے عقبی حصے میں ایک طالب علم کرسی پر نیم دراز اور دوسری پر پاؤں دھرے ہوئے ہے جبکہ چہرے کے اوپر کتاب یا کاپی کو کھول کر رکھا گیا ہے۔ پیڈسٹل فین بھی چل رہا ہے اور اس کے آگے وہ مزے سے نیند کے مزے لے رہا ہے اگرچہ خراٹوں کی آواز نہیں آتی تاہم اس واقعے کی طرح ان کا ہونا بھی انہونی بات نہیں۔ بہرحال اس ویڈیو کے سامنے آنے کی دیر تھی کہ جو صارفین قبل ازیں حاضرین کی تعداد پر ایک دوسرے کو غلط قرار دے رہے تھے وہ اس پر گفتگو کرتے دکھائی دیے۔ رانا فہد نامی صارف نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جو کہتے ہیں کہ نوجوان اور طلبہ خان کے ساتھ ہیں، ان کے لیے یہ ویڈیو کافی ہے۔‘ تاہم ساجد اکرام نامی صارف نے اس سے بڑے طنزیہ انداز میں اختلاف کرتے ہوئے لکھا ’ماشااللہ کیا وچار ہیں۔ مطلب سینکڑوں لوگوں میں سے ایک بندہ سو رہا ہے تو نوجوان عمران خان کے ساتھ نہیں ہیں۔‘ شمع جونیجو نے ویڈیو کو شیئر کرتے اردو کا پرانا محاورہ یاد دلایا کہ ’نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے ہنسنے کے ایموجیز بھی لگائے۔ اس کے نیچے ظفر حجازی نے تبصرہ کرتے ہوئے میڈیا کے کردار پر ہی سوال اٹھا دیا۔ ’جلسے کی یہ وڈیو دیکھ کر میرا تو میڈیا پہ جلسوں کی رپورٹنگ پہ یقین نہیں رہا۔ ٹی وی حد نگاہ تک بندے دکھاتا ہے اور اس ویڈیو میں چار پانچ ہزار لوگ بھی نہیں۔‘ راجہ زاہد نے انہیں کچھ یوں جواب دیا ’عجب گورکھ دھندہ ہے، ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔‘ صائم رحمان نے بھی شعر کی صورت اپنے خیالات کا اظہار کیا ’نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے ۔۔۔۔ ان کی گود میں سر ہو، یہ ضروری تو نہیں۔‘ رضوان جرال نامی ایک اور ٹوئٹر صارف نے ویڈیو شیئر کرتے کیپشن لکھا کہ ’اس ویڈیو کے آخر میں جو سٹوڈنٹ پنکھے کے سامنے اپنی نیند پوری کر رہا ہے لگتا ہے اُسے خان صاحب کی تقریر زبانی یاد ہے۔‘ ناصر گجر قادری نے انہیں جواب میں لکھا کہ ’اس نے ساری رات عمران خان کی حفاظت کی ھے اسی لیے سو رہا ھے۔‘
گزشتہ دنوں خلیجی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزاکی شادی 12 سال رہنے کے بعد ختم ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ جہاں ان کے مداح سچائی جاننے کا انتظار کر رہے ہیں، وہیں اس جوڑے نے اب تک اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے،ان تمام افواہوں کے درمیان ثانیہ مرزا گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر نئی تصاویر پوسٹ کرتی نظر آرہی ہیں۔ جمعرات کو بھی ثانیہ نے بیٹے ازہان اور بھانجی دعا کے ہمراہ ایک نئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ فوٹو: ثانیہ انسٹاگرام تصویر میں ازہان اور دعا کو ثانیہ کی گود میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس دوران ثانیہ بھی خوشگوار موڈ میں نظر آئیں۔دعا ثانیہ مرزا کی بہن انم کی بیٹی ہے جو رواں سال اگست میں پیدا ہوئی۔ واضح رہے کہ 31 اکتوبر کو ثانیہ مرزا نے سوشل میڈيا پر بتایا تھا کہ وہ اپنے گھر منتقل ہوگئی ہیں جبکہ انہوں نے نئے گھر کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی۔ گزشتہ دنوں شعیب ملک کی جانب سے اپنی اہلیہ بھارتی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو سوشل میڈیا پر سالگرہ کی مبارکباد دی گئی لیکن ثانیہ مرزا نے کوئی جواب نہ دیا، تھینک یو کہنا تو دور کی بات، پیغام کو لائیک بھی نہیں کیا۔ یہ بھی پڑھیں علیحدگی کی افواہیں، ثانیہ نے اپنی ایک نئی تصویر جاری کردی شعیب کیجانب سے سالگرہ کی مبارکباد پر ثانیہ خاموش، مداحوں کی تشویش مزید بڑھ گئی حال ہی میں شعیب ملک اور ثانیہ مرزا نے نئے شو کا بھی اعلان کیا ، لوگوں کا کہنا ہے کہ علیحدگی کی خبریں شعیب اور ثانیہ کا اس شو کیلئے پبلسٹی حاصل کرنے کا طریقہ بھی ہوسکتا ہے۔