text
stringlengths
237
575k
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے۔روافض کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خلافت حضرت علی کے سپرد کرنے کی قطعی اور صریح وصیت کی تھی۔ اس لیے پہلے تین خلفاء اور ان کی حمایت کرنے والے صحابہ و تابعین غلطی پر تھے اور نفاق کا شکار تھے اور اس وصیت کو چھپانے والے مسلمان بھی گمراہ تھے۔ اس عقیدہ کو رافضیت کہا جاتا ہے۔ اس فرقے کا یہ عقیدہ بقیہ امامیہ فرقوں میں سے شیعہ عقائد کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اور اسی بنا پر بعض لوگ نادانستگی میں اہل تشیع کو بھی رافضہ کہہ دیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’رافضیوں کی کہانی ان کی معتمد کتابوں اور علمائے سلف کی زبانی ‘‘جناب ڈاکٹر وسیم محمدی صاحب کی تصنیف ہے اس کتاب میں فاضل مصنف نے روافض بالخصوص اثنا عشریہ کے عقائد واصول کوپیش کر کے ان کا حقیقی چہرہ... مزید مطالعہ۔۔۔ اہل تشیع 2 #5883 مصنف : ڈاکٹر وسیم محمدی مشاہدات : 5324 عالم اسلام پر سعودی عرب کے عظیم احسانات اور ایران کی ریشہ دوانیوں کا تجزیاتی مطالعہ (اتوار 22 ستمبر 2019ء) ناشر : مکتبہ آل بیت #5883 صفحات: 221 پوری دنیا بالعموم اور عالَمِ اسلام بالخصوص سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے، مسلمان اسلام سے ہٹ کر کئی ایک محبتوں اور نعروں میں الجھ چکے ہوئے ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈہ ایک عام سی بات ہے، دنیا کا سب سے بہترین اسلام ملک سعودی عرب سمجھا جاتا ہے، جبکہ بالمقابل جن لوگوں کو مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک تصور کیا جاتا ہے، وہ ایرانی لوگ ہیں، ڈاکٹر وسیم محمدی صاحب زیر نظر کتاب ’’ عالمِ اسلام پر سعودی عرب کے عظیم احسانات اورایران کی ریشہ دوانیوں کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘اسی مقدمہ کے گرد گھومتی ہے، بلکہ پورے عالَمِ اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کرکے، حمایتیوں کو اپنا دوست اور مخالفین کو ایران نواز گردانا ہے، جس میں اخوانیت، جماعت اسلامی اور مصر کے سیاسی حالات اور وہاں مسلمانوں کی دگرگوں حالت بھی زیر بحث آگئی ہے، مصنف عرصہ دارز تک سعودی عرب میں زیر تعلیم رہے ہیں، سیاسی عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں،اپنی وسعتِ مطالعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بڑے ذوق و شوق بلکہ جوش و خر...
سالگرہ مبارک میری پیاری بہن – بہنیں خدا سے ملا ہے تحفہ بھی ہیں نعمت بھی. مجھے اپنی امی اور ابو پر ناز ہے جو انہوں نے مجھے ایک اچھی بہن کا تحفہ دیا ہتا کے میں اکثر چھوٹی سی بات پی بھی اپنی بہن سے لڑتا ہوں لیکن مجھے وہ لڑنا اس لئے بھی اچھا لگتا ہے کے اس میں ہم بہن بھائی کا پار چھپا ہوا ہوتا ہے. اکر میں اس کی چاکلیٹس چرا لیتا ہوں یا جب بھی مانگوں تو میری پیاری بہن مجھے خود ہی دے دیتیں ہیں. کبھی ہمارا ٹی وی کے ریموٹ کو لے کر جھگڑا ہوتا ہے تو کبھی کسی اور بات پر مگر مجھے اس کی کمی ٹیب محسوس ہوتی ہے جب وہ کہیں خالہ یا نںیال کو جاتی ہیں آج میری پیاری بہن کا جنم دن اور میں اپنی پیاری بہن کو دل سے سالگرہ کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں. تم سلامت رہو ہزار برس. آمین خوش قسمت سالگرہ کا دن میری پیاری بہن. آپ میری زندگی میں بہت خاص ہیں نہ صرف میری بہن بلکہ میرے بہترین دوست ہونے میں بھی۔ آپ کے بغیرمیں سہی سے جی پاؤں اس کے لئے میں کبھی بھی اس کی تیاری نہیں کرسکتا۔ آپ کو بہت بہت سالگرہ مبارک ہو! سالگرہ مبارک پیاری بہن سالگرہ مبارک پیاری بہن بہنیں تحفہ ہیں۔ خدا نے اگر کوئی ایک خوبصورت اور قیمتی تحفہ پیش کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں تو وہ ایک بہن ہے۔ میری پیاری بہن آپ کو سالگرہ مبارک ہو میں واقعی میں آپ کے ساتھ رہنا گھومنا پھرنا آپ کو تنگ کرنا پسند کرتا ہوں کیونکہ آپ کے ساتھ رہنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ کی سالگرہ ایک خوشی کی لہر بن کر آپ کی زندگی کو خوبصورت بنا دیگی. سالگرہ مبارک ہو میری پیاری بہن بہنیں خدا سے ملا تحفہ میرا کنبہ سب کچھ ہے۔ میں وہی ہوں جو میں اپنی والدہ ، اپنے والد ، بھائی ، میری بہن کا شکر گزار ہوں… کیونکہ انہوں نے مجھے سب کچھ دیا ہے۔ میری تعلیم ان کی بدولت ہے۔ میرے بہت اچھے دوست ہیں ، لیکن میری بہن ہی ایک ہے۔ میرے محبوب خاندان آپ کا شکریہ جو مجھے ایسی بہن کا تحفہ دیا جس کا وجود ہمارے گھر ک لئے بائث نعمت ہے. بہت بہت اور دھری سری سالگرہ کی مبارکیں میری با حیا اور سلیقامند بہن اس جدید کائنات میں مثبت طور پر انتہائی خیال رکھنے والی اور دلکش بہن ہونے کے سبب ، میں آپ کی خلوص دل سے تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے بہتر کوئی مجھے نہیں پہچان سکتا۔ آپ کو یہ سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو پیاری بہنا جنم دن مبارک میری بہن میری با حیا اور سلیقامند بہن اس جدید کائنات میں مثبت طور پر انتہائی خیال رکھنے والی اور دلکش بہن ہونے کے سبب ، میں آپ کی خلوص دل سے تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سے بہتر کوئی مجھے نہیں پہچان سکتا۔ آپ کو یہ سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو پیاری بہنا Salgirah.pk ایک بہن ایک نادر کتاب ہے جو کے صرف ایک کاپی بنائی گئی تھی۔ پیاری بہن، میں آپ کے اس بڑے دن اور ہرآنے والے دن کے لئے خلوص دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ کی زندگی خوشی ، محبت ، اور غیر معمولی خوشحالی سے بھرپور رہے! یہاں تک کہ آپ کے سمجھے ہوئے الفاظ میرے ہونٹوں پر ہنسی کے چھلکنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مجھے ایسی محبت کرنے والی اور دیکھ بھال کرنے والی بہن کو تحفا بھیج کر دینے کے لئے میں خدا کا انتہائی پابند نوافل اور شکرگذار ہوں۔ خوشگوار سالگرہ میری خوبصورت بہن. ضروری گزارش: تازہ تازہ سالگرہ مبارک کی پوسٹ کے ہمارے فیس بک پیج کولائک اور فالو کریں مزید شاعرانہ پوسٹ کے لئے ہماری پوسٹ پڑھیے – سالگرہ پر اردو اشعار پرمسرت لمحوں کے تم سلامت رہو ہزار برس خلوص کا اظہار کیجئے Tags: سالگرہ مبارک پیاری بہن Post navigation متاثرکن سبق آموز کہانی میری اور ایک گول گپے والے کی – انسانیت زندہ ہے جنم دن مبارک دوست – پروردگار ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین Leave a Reply Cancel reply You must be logged in to post a comment. تجویز کردہ سالگرہ مبارک بیٹا بیٹے کا جنم دن – ماں یا باپ کی طرف سے بیٹوں کے لیے 20 August, 2022 خاندان محبوب سالگرہ مبارک میری جان سالگرہ مبارک 6 July, 2022 محبوب سالگرہ مبارک رومینٹک سالگرہ مبارک ٹیکسٹس محبوب کے لئے 25 June, 2022 محبوب سالگرہ مبارک جانم سالگرہ مبارک ہو ہمیشہ مسکراتی رہو سدا خوش رہو 11 May, 2022 سالگرہ سالگرہ مبارک ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید – سالگرہ ڈاٹ پی کے اردو میں سالگرہ کے موضوع پر آن لائن سب سے بڑا ذخیرہ ہے. آپ کو بہت بہت سالگرہ مبارک ہو! “سالگرہ” ویب سائٹ پر آپ کو سالگرہ کی مزاحیہ شاعری، سالگرہ وش، بیٹی کی سالگرہ مبارک، بیوی کو شادی کی سالگرہ مبارک، سالگرہ مبارک بھائی، میری سالگرہ کا دن مضمون، سالگرہ مبارک کیک، سالگرہ مبارک ہو بہن، سالگرہ مبارک دعائیں، جنم دن مبارک دوست، سالگرہ مبارک ہو بھائی، جنم دن کی شبھ کامنائیں، بیوی کو سالگرہ مبارک، جنم دن مبارک بھائی، جنم دن مبارک بہن، سالگرہ کی مبارکبادیاں، شوہر کو شادی کی سالگرہ مبارک، شادی کی پہلی سالگرہ مبارک، منگنی مبارک شاعری، سالگرہ کے گانے شریک حیات شاعری، امی سالگرہ مبارک ، ابو سالگرہ مبارک، بیٹی سالگرہ مبارک، بیٹا سالگرہ مبارک، دوست سالگرہ مبارک، محبوب سالگرہ مبارک، ساتھی سالگرہ مبارک، جان سالگرہ مبارک، منگیتر سالگرہ مبارک، استاد سالگرہ مبارک، یار سالگرہ مبارک، آپ کی شخصیت، آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں، جنم دن زائچہ، آپ کے برج، سالگرہ کی تقریبات، سالگرہ انتظامات، سالگرہ پیغامات، سالگرہ لطیفے، اقوال زریں، سبق آموز کہانیاں، سالگرہ ویڈیوز، سالگرہ تصاویر، مختصر سالگرہ پیغام، متاثر کن تحریریں، واقعات، تاریخ میں آج کے دن کیا ہوا؟ پڑھنے کو ملے گا.
سائرہ یوسف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی نئی تصویر پوسٹ کی، تصویر مبہم سی بلیک اینڈ وائٹ ہے جس میں سائرہ سفید شرٹ میں ملبوس ہیں۔ View this post on Instagram A post shared by Syra Yousuf (@sairoz) لوگوں نے ان کی تصویر کو بے حد پسند کیا اور اس پر بے شمار تعریفی تبصرے کیے۔ حال ہی میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والا ان کا ڈرامہ صنف آہن ختم ہونے کے بعد سائرہ مختلف ماڈلنگ شوٹس میں مصروف ہیں View this post on Instagram A post shared by Syra Yousuf (@sairoz) سنہ 2019 میں شوہر شہروز سبزواری سے علیحدگی کے بعد وہ اپنی بیٹی کی پرورش بھی کر رہی ہیں جبکہ سبزواری خاندان سے بھی ان کے اچھے تعلقات قائم ہیں۔
خالدؓ نے اس ایک مہینے کے دوران میں رومیوں کی ترتیب اور صف بندی کا بہ غور مطالعہ کر لیا تھا۔ انہوں نے ان کے مقابلے کے لیے ایک ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہا جو نہ صرف رومیوں پر رعب ڈالنے والا ہو بلکہ اس کے ذریعے سے فتح بھی حاصل ہو سکے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کو اڑتیس دستوں میں تقسیم کیا (ہر ایک دستہ کم و بیش ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا) اور فرمایا: ’’ تمہارے دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ کثرت تعداد پر نازاں ہے۔ اس کے مقابلے میں یہی تدبیر مناسب ہے کہ ہم اپنی فوج کے بہت سے دستے بنا لیں تاکہ دشمن کو ہماری تعداد اصل سے بہت زیادہ نظر آئے۔‘‘ قلب میں انہوں نے اٹھارہ دستے رکھے اور ابو عبیدہ کو ان کا سردار بنایا۔ ان دستوں میں عکرمہ بن ابوجہل اور قعقاع بن عمرو بھی شامل تھے۔ میمنہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار عمرو بن عاص کو بنایا۔ ان دستوں میں شرحبیل بن حسنہ بھی تھے۔ میسرہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار یزید بن ابی سفیان کو مقرر کیا۔ ہر دستے کا علیحدہ سردار بھی تھا جو میمنہ، میسرہ اور قلب کے سرداروں سے احکام حاصل کرتا تھا۔ ان دستوں کے سردار وہ لوگ تھے جو بہادری، جواں مردی اور شجاعت میں اپنی نظیر آپ تھے، مثلاً قعقاع بن عمرو، عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن ا میہ وغیرہ۔ خالدؓ نے اس ترتیب کے علاوہ لشکر کا ایک ہر اول دستہ بھی بنایا تھا۔ جس پر غیاث بن اشیم مقرر تھے۔ قاضی کی خدمت ابوالدراء کے سپرد ہوئی۔ لشکر کے قاری مقداد تھے جو لشکر کو سورۂ انفال پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ سامان کے افسر عبداللہ بن مسعود تھے۔ واعظ ابو سفیان تھے۔ وہ لشکر میں گشت کرتے رہتے اور ہر دستے کے سامنے ٹھہر کر کہتے: ’’ اللہ اللہ! تم حامیان عرب ہو اور دین اسلام کے مددگار۔ تمہارے مد مقابل حامیان روم اور شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ آج کی جنگ صرف تیرے نام کے لیے ہے۔ اے اللہ! اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما۔‘‘ ہر شخص کے سامنے پچھلی جنگوں کے منظر آ گئے جن میں کفار بے پناہ طاقت سے مسلمانوں کے مقابلے میں آئے لیکن ایمانی قوت کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور ہر ایک بار انہیں انتہائی ذلت و رسوائی سے پسپا ہونا پڑا۔ مسلمانوں میں اس وقت اتنا جوش و خروش پیدا ہو چکا تھا کہ شام آنے کے بعد سے اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ خالدؓ نے آج فتح حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب خالدؓ کسی کام کا ارادہ رک لیں تو کوئی طاقت انہیں باز نہیں رکھ سکتی۔ ادھر انہوں نے رومیوں کو پوری طاقت و قوت سے میدان جنگ میں صفیں باندھتے ہوئے دیکھا۔ وہ مسلمانوں کی طاقت کو کلیۃً ختم کر دینے کے ارادے سے میدان میں آئے تھے جس طرح مسلمانوں کو رومیوں کی تیاری کی اطلاع مل گئی تھی اسی طرح رومیوں کو بھی مسلمانوں کی نقل و حرکت کا حال معلوم ہو گیا۔ غالباً اس علاقے کے رہنے والے کچھ بدو دونوں لشکروں کے درمیان جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ خالدؓ کو منجملہ دیگر اطلاعات کے یہ اطلاع بھی ملی کہ ان کے آنے کی وجہ سے رومیوں کے بعض سرداروں کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ ان گھبرائے ہوئے بے چین سرداروں میں ’’ چرچہ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ شخص یا تو عربی النسل تھا یا تھا تو رومی لیکن سالہا سال سے شام میں رہنے کے باعث عربی بہت اچھی طرح جانتا تھا اور اسے مسلمانوں کی بہت سی باتوں کا بخوبی علم تھا۔ جب اس کے جاسوسوں نے اسے خالدؓ کی بے نظیر اور عظیم الشان فتوحات کی اطلاع دی تو بے اختیار اس کے دل میں خالدؓ سے ملنے اور ان سے گفتگو کی خواہش پیدا ہوئی۔ خالدؓ کو بھی اس کی اس خواہش کا علم ہو گیا۔ جب باہان نے رومی دستوں کو مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو چرچہ ہر اول دستے پر متعین تھا۔ اس نے موقع غنیمت جان کر خالدؓ کو پکارا۔ خالدؓ فوج سے نکل کر آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان اسے ملے دونوں میں باتیں ہونے لگیں۔ رومیوں نے یہ سمجھا کہ چرچہ کو مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور شور سے حملہ کیا اور انہیں اپنی جگہ سے پیچھے ہٹا دیا۔ عکرمہ خالدؓ کے خیمے کے سامنے اپنا دستہ لیے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں رومیوں کے حملے کی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے لگے تو غیرت و حمیت ان کی رگ رگ میں سرایت کر گئی اورانہوں نے چلا کر رومیوں سے کہا: ’’ میں رسول اللہ جیسے مقدس انسان ے ہر میدان میں لڑتا رہا ہوں، کیا آج کی لڑائی تم سے ڈر کر بھاگ جاؤں گا؟ واللہ! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ساتھیوں کی طرف مڑے اور کہا: ’’ آؤ، موت کے لیے کون بیعت کرتا ہے؟‘‘ یہ سن کر ضرار بن ازور، حارث بن ہشام، ان کے لڑکے عمرو بن عکرمہ اورچار سو دو سرے بہادر معزز مسلمانوں اور شہسواروں نے عکرمہ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی اور عکرمہ انہیں لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ رومیوں کے پاؤں اس ناگہانی حملے کی وجہ سے لڑ کھڑا گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عین اسی وقت چرچہ نے خالدؓ سے گفتگو کے نتیجے میں اسلام قبول کر لیا اور اپنا دستہ لے کر مسلمانوں سے مل گیا۔ یہ امر رومیوں میں مزید بدحواسی اور ابتری پیدا کرنے کا موجب ہوا۔ Labels: اابو بکر رضی اللہ عنہ Email This BlogThis! Share to Twitter Share to Facebook 0 comments: اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔ نئی تحاریر پرانی تحاریر سرِورق ۔ محفوظات ▼ 2016 (154) ▼ July (49) فتح بابل و کوثی جنگِ قادسیہ اسلامی سفارت ایران میں حضرت سعد بن ابی وقاص عراق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود ایرانیوں کے مقابلے پر... جنگِ کسکر ابو عبید بن مسعود رضی اللہ عنہ جنگِ فحل اور بیسان فتح دمشق خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی خلافت واقعہَ حدیبیہ - 6 ہجری غزوۃَ احد - 3 ہجری غزوہَ بدر - 2 ہجری ولادت، جوانی کے حالات قبولِ اسلام عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت عمر رضی اللہ عنہ - نام و نسب جنگِ الیس ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نظامِ حکومت اسلام کی طاقت کا سبب عہدِ صدیقی میں تیار کردہ نسخے کی خصوصیات جمعِ قرآن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ وفاتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا آخری خطبہ جانشینی کا مسئلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مرضِ وفات فتحِ یرموک یرموک - رومی فوجیوں کی چڑھائی فریقین کی جنگی تیاریاں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ملکِ شام میں خالد رضی اللہ عنہ کا خفیہ حج جنگِ فراض خالد رضی اللہ عنہ کی عراق واپسی فتح دومتہ الجندل دومتہ الجندل فتح عین التمر فتح انبار خالد رضی اللہ عنہ کا اہلِ حیرہ کے ساتھ معاھدہ فتح حیرہ جنگَ الیس جنگِ ولجہ جنگِ قارن یا جنگِ مذار مسلمانوں کے بلند حوصلے خالد رضی اللہ عنہ کا ہرمز سے مقابلہ خالد رضی اللہ عنہ کی روانگیِ عراق مثنٰی بن حارثہ اور عراق حضرت ابو بکر صدیق کی حکمتِ عملی ► June (51) ► May (54) ► 2015 (367) ► December (47) ► October (46) ► August (90) ► May (62) ► March (29) ► February (22) ► January (71) ► 2014 (26) ► December (4) ► October (22) آمدو رفت بلاگ کا کھوجی Home بلاگر حلقہ احباب جملہ حقوق © مستند اسلامی تاریخ | تقویت یافتہ بلاگر | بلاگر اردو سانچہ (BUT-1) | تدوین و اردو ترجمہ بی یوٹمپلٹس
اسلام آباد: اثاثہ جات ریفرنس میں احتساب عدالت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کردیئے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اثاثہ جات ریفرنس میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے، اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے عدالت سے اسحاق ڈار کے وارنٹس مستقل طور پر منسوخ کرنے کی استدعا کی، وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار کی جائیداد ضبطگی کا آرڈر بھی ختم کیا جائے، اسحاق ڈار اب عدالت کے سامنے موجود ہیں۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ کیا نیب نے خود بھی اسحاق ڈار کے کوئی وارنٹس جاری کیے تھے؟ تفتیشی افسر نادر عباس نے جواب دیا کہ ہم نے وارنٹس جاری کئے تھے لیکن وہ معطل ہو گئے تھے۔ عدالت نے صرف اسحاق ڈار کی حاضری کیلئے وارنٹس جاری کیے تھے، عدالت نے نیب سے سوال کیا کہ اب آپ کا کیا موقف ہے وارنٹس منسوخ کئے جائیں یا نہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے بھی وارنٹس منسوخی کی حمایت کی اور کہا عدالت کا وارنٹ صرف اسحاق ڈار کی حاضری کیلئے ہی تھا۔ اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار نے ایک کانفرنس کیلئے بیرون ملک جانا ہے، جج محمد بشیر نے کہا کہ ضمنی ریفرنس بھی آیا ہوا اس کے تحت دوبارہ فرد جرم ہونی ہے، وکیل نے جواب دیا کہ اس پر ہم دلائل دیں گے ضمنی ریفرنس بنتا نہیں۔ اسحاق ڈار کی جانب سے جائیداد ضبطگی کیخلاف درخواست دائر کی گئی جس کے ساتھ ہی اسحاق ڈار نے حاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کر دی۔ وزیر خزانہ کی دونوں درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کر دیا گیا جس کے بعد اسحاق ڈار کیخلاف کیس کی سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی حاضری معافی اور جائیداد قرقی کے خلاف درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کیا گیا، احتساب عدالت نے نیب سے 12 اکتوبر تک جواب طلب کرلیا۔ کیٹاگری میں : اہم خبریں، پاکستان مزید پڑھیں بھارت:مسلمان طالبعلم سے تعصب اور نفرت کا اظہار کرنے والا پروفیسر معطل روپے کی بے قدری، ڈالر مزید مہنگا، سٹاک مارکیٹ میں اضافہ پاکستان کو ایشیائی انفراسٹرکچر بینک سے 50 کروڑ ڈالر قرض کی رقم موصول نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 32 پیسے کمی کی منظوری دے دی صدر اور وزیراعظم کا فلسطینی عوام کی مسلسل حمایت جاری رکھنے کا اعلان چھڑی کے بعد اب 2 ماہ میں الیکشن کی گھڑی بھی بدل جائیگی: شیخ… Load/Hide Comments اپنا تبصرہ بھیجیں Cancel reply آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا اپنا تبصرہ لکھیں آپکا نام* آپکا ای میل ایڈریس* Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. فیس بک اشتہار تازہ ترین بھارت:مسلمان طالبعلم سے تعصب اور نفرت کا اظہار کرنے والا پروفیسر معطل روپے کی بے قدری، ڈالر مزید مہنگا، سٹاک مارکیٹ میں اضافہ پاکستان کو ایشیائی انفراسٹرکچر بینک سے 50 کروڑ ڈالر قرض کی رقم موصول نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 32 پیسے کمی کی منظوری دے دی صدر اور وزیراعظم کا فلسطینی عوام کی مسلسل حمایت جاری رکھنے کا اعلان اس ہفتہ کی شخصیت مقبول ترین زرداری کا ٹیلیفونک رابطہ، نواز شریف کو اِن ہاؤس تبدیلی کیلئے قائل کر لیا راجہ اورنگزیب صاحب کے آنسو….! کورونا وبا میں رمضان المبارک کی سعادتوں کے بعد میٹھی عید کی خوشیاں بھی ادھوری قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی، افضل کھوکھر کی تحریک استحقاق پیش امریکہ کی جانب سے کسانوں کی حمایت پر بھارتی وزارت خارجہ بوکھلاہٹ کا شکار مختلف خبریں آج کے کالمز اہم خبریں بین الاقوامی تصاویر اور مناظر دلچسپ و عجیب دیگر سائنس اور ٹیکنالوجی سیر و تفریح شوبز صحت صحت فٹ بال فیچر کالمز پاکستان پاکستان پکوان کاروبار کالم کالمز کرکٹ کھیل ہاکی یو کے ہمارا نیٹ ورک ہمارے بارے میں ہم سے رابطہ کاپی رائٹس قوائد و ضوابت پرائیویسی پالیسی اس ہفتہ کی شخصیت تعارف اور ہفتہ وار شخصیت کا سلسلہ خبریں آن لائن ہمارا پیغام پیار، محبت، امن، بھائی چارہ کا فروغ ہے۔ Copyright © 2021, Khabrain.Online We value your privacy We use cookies to enhance your browsing experience, serve personalized ads or content, and analyze our traffic. By clicking "Accept All", you consent to our use of cookies. Customize Reject All Accept All Customize Consent Preferences We use cookies to help you navigate efficiently and perform certain functions. You will find detailed information about all cookies under each consent category below. The cookies that are categorized as "Necessary" are stored on your browser as they are essential for enabling the basic functionalities of the site. We also use third-party cookies that help us analyze how you use this website, store your preferences, and provide the content and advertisements that are relevant to you. These cookies will only be stored in your browser with your prior consent. You can choose to enable or disable some or all of these cookies but disabling some of them may affect your browsing experience. Necessary Always Active Necessary cookies are required to enable the basic features of this site, such as providing secure log-in or adjusting your consent preferences. These cookies do not store any personally identifiable data. No cookies to display. Functional Always Active Functional cookies help perform certain functionalities like sharing the content of the website on social media platforms, collecting feedback, and other third-party features. No cookies to display. Analytics Always Active Analytical cookies are used to understand how visitors interact with the website. These cookies help provide information on metrics such as the number of visitors, bounce rate, traffic source, etc. No cookies to display. Performance Always Active Performance cookies are used to understand and analyze the key performance indexes of the website which helps in delivering a better user experience for the visitors. No cookies to display. Advertisement Always Active Advertisement cookies are used to provide visitors with customized advertisements based on the pages you visited previously and to analyze the effectiveness of the ad campaigns.
کیا آپ نے لکی لوقا پڑھا ہے؟ بچپن میں، اس مزاحیہ کو پڑھنے کے بعد، میں اکیلے گھوڑے پر سوار ایک کاؤ بوائے کی تصویر سے متاثر ہوا، امریکی مغرب کے پار جا رہا تھا اور اس کے سائے سے زیادہ تیزی سے فائرنگ کر رہا تھا۔ آپ کسی کی زندگی، موت کا فیصلہ کر سکتے ہیں، انصاف کی نمائندگی کر سکتے ہیں یا صرف ایک گولی سے اس کے برعکس۔ اب، آپ [ایکس] (ایم او ڈی لامحدود پیسہ) میں پوری چیز کا تجربہ کر سکتے ہیں. اچھی خبر کیا ہے؟ یہ کھیل بہت اچھا ہے اور آپ اسے پسند کریں گے۔ بری خبر کے بارے میں کیا؟ کچھ نہیں. آئیے اس گیم کو ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اب دریافت کرتے ہیں! [ایکس] کے بارے میں متعارف کرائیں مغربی کاؤ بوائے اس کھیل میں، آپ اکیلے کاؤبوائے بن جائیں گے. آپ کا واحد دوست وہ گھوڑا ہے جس پر آپ روزانہ سوار ہوتے ہیں۔ آپ کا کام آسان ہے۔ آپ صرف وہی کرتے ہیں جو ایک عام کاؤ بوائے کرتا ہے۔ بجلی کے اعداد و شمار سے ملیں، مطلوبہ پرچوں کی تلاش میں گھومیں، اور پھر مطلوبہ پراسیس کریں اور بونس حاصل کریں۔ آپ کاؤبوائے فلموں میں ایک مقبول کام [ایکس] کے سب سے اوپر باونٹی شکاریوں میں سے ایک بن جائے گا. [ایکس] مہم جوئی اور شوٹنگ (تیسرا شوٹر) کا مجموعہ ہے. دشمن کو گرانے کے لئے بندوق کو مناسب طریقے سے گولی مارو۔ اگر آپ کو شیروں، پینتھرز یا ہنگامہ آرائی کے دشمنوں سے نمٹنا ہے تو نقصان سے نمٹنے اور ان کے ساتھ فاصلہ بڑھانے کے لئے ہٹ اینڈ رن کے ہتھکنڈے استعمال کریں۔ ہندوستانیوں کے تمام صحراؤں، قصبوں، قبروں، جنگلوں اور قبائل میں اپنے گھوڑے کے ساتھ گھومو، اس سب کے پیچھے موجود شخص کو تلاش کرو اور اسے مار ڈالو۔ بہت سی دلچسپ سرگرمیاں [ایکس] کا مشن آپ کو مغربی کے کونے کونے کی تلاش کرنے کے لئے لے جائے گا۔ آپ برائی تلاش کر سکتے ہیں اور انہیں سزا دے سکتے ہیں، شہر کے امن کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اپنی بندوق سے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے جاؤ. وہ شیر، تیندوے ہو سکتے ہیں … یہاں تک کہ زومبیز. لڑنے، گھڑ دوڑ، ڈارٹس کی طرح دلچسپ منی گیمز کی ایک بہت … آپ کے انتخاب کے لئے. پھر آپ اپنے پیسے کپڑے، سازوسامان خریدنے یا صرف “گرل” انہیں کیسینو میں استعمال کر سکتے ہیں. اگر آپ تھک چکے ہیں، بار میں بیٹھے ہیں، شراب کے گلاس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور رقص کرنے والے رقاصوں کو دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی کوئی برا خیال نہیں ہے۔ یہ ایک ہزار سال کا موقع ہے کہ آپ کے لئے ایک سچے کاؤ بوائے کے طور پر زندگی کا تجربہ کرنے کے لئے ایک ہے. امریکی طرز کے مغربی ملبوسات اور ہتھیار آپ کاؤ بوائے کے لئے 8 مختلف ملبوسات کو اپنی مرضی کے مطابق بنا سکتے ہیں۔ کاؤ بوائے ٹوپی اور جینز کبھی پرانی نہیں ہوتی ہیں۔ [ایکس] کا ہتھیاروں کا نظام بھی کافی متنوع ہے۔ آپ مغربی مشہور ہتھیار جیسے شاٹ گن یا پستول استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر یہ آپ کو راغب کرنے کے لئے کافی نہیں ہے تو خنجر کی طرف سوئچ کریں۔ اس کھیل کے بارے میں دلچسپ کیا ہے؟ متاثر کن تھری ڈی گرافکس، اعلی معیار. بہت سی دلچسپ سرگرمیاں، جنگلی مغرب کی تلاش. ہتھیاروں کی ایک رینج کھولنا, ملبوسات. سادہ کنٹرول سسٹم، موبائل ڈیوائسز کے لئے بہتر بنایا گیا ہے۔ ایم او ڈی اے پی کے ورژن کا [ایکس] ایم او ڈی فیچر لامحدود پیسہ اینڈروئیڈ کے لئے [ایکس] ایم او ڈی اے پی کے ڈاؤن لوڈ کریں کاؤ بوائے گیمز کھلاڑیوں کے لئے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ مجموعی طور پر، [ایکس] ایک کھیل ہے کہ آپ کو ایک مستند کاؤبوائے کی زندگی کا تجربہ کرنے کی اجازت دیتا ہے, کچھ آپ صرف فلم یا کامکس میں دیکھتے ہیں. اپنی بندوق لے لو، انصاف کے تحفظ کے لئے سفر شروع کرنے کے لئے گھوڑے پر چڑھو. Open Comments Space Agency Unlocked All Size: 23 MB Rating: 4.8 Install: 1316 Type: Game Ori Dentist Bling Free Shopping Size: 98 MB Rating: 4.5 Install: 4592 Type: Game Mod Pokémon Quest Unlimited Money, God Mode, High Damage Size: 161 MB Rating: 4.6 Install: 226 Type: Game Mod Undead Horde Size: 228 MB Rating: 5.0 Install: 202 Type: Game Ori Spotlight X: Room Escape All Chapters Unlocked Size: 89 MB Rating: 4.3 Install: 784 Type: Game Mod Death Road to Canada Size: 83 MB Rating: 4.6 Install: 35 Type: Game Ori About Me vicitleo.org ایک ایسی سائٹ ہے جو جدید ترین اینڈرائیڈ موڈ ایپس اور گیمز کا اشتراک کرتی ہے۔ ہماری APK فائلیں بڑے اور تیز سرورز پر رہتی ہیں، فریق ثالث کی خدمات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مزید معیار کی ضمانت، محفوظ اور پائیدار بنانے کے لیے۔
میرے دماغ میں کھدبد سی ہونے لگی کہ یہ آواز تو میں نے کئی بار سنی ہے لیکن یہ شکل و صورت پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نیاز لے کر کونے میں بیٹھ گیا۔ بابا تیلے شاہ تو مزار کے اندر چلے گئے تھے لیکن بھوک کی وجہ سے میں چاول کھانے لگ گیا۔ اصولی طور پر تو یہ بداخلاقی تھی لیکن بھوک کی ننگی تلوار میرے سر پر ضربیں لگا رہی تھی اس لئے میں ”شوہدا اور ندیدا“ بن کر نیاز کے چاول کھاتا رہا۔ میری نظریں ابھی تک سفید باریش بزرگ پر تھیں۔ ان کا ہاتھ دیگ کے اندر جاتا تھا اور بھری پلیٹ باہر آ جاتی تھی مگر دیگ تھی کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں اس عجیب اسرار پر حیران تھا اور شاید میری حیرانی کبھی ختم نہ ہوتی کہ ایک مجہول سا نوجوان لڑھکتا ہوا میرے پاس آ بیٹھا۔ اس کی ناک بہہ رہی تھی۔ بال گندے تھے۔ تن پر صرف ایک چیتھڑا تھا اس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ مجھے ناگوار تو لگا لیکن کراہت کے باوجود میں کچھ نہ کہہ سکا۔ مزار کی روشنیاں جل اٹھیں۔ وہ لڑکا میری جھولی میں ہاتھ ڈال کر چاول کھانے لگا۔ میرے اندر ناگواری کی لہر اٹھی لیکن میں نے ضبط کیا اور سارے چاول اس کے سامنے کر دئیے۔ لڑکا بھوکوں کی طرح چاولوں پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے چاول کا ایک دانا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ جب کھا چکا تو میری طرف دیکھ کر ہنس دیا۔ میرے چہرے پر اندر کی ناگواری رینگ کر باہر نکلتی نظر آ رہی تھی۔ وہ بولا ”بھیا …. سواد آیا ہے“ اس کی بات سنتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ”غازی تم“ ”ہاں میں …. اور وہ …. بابا جی سرکار“ اس نے دیگ والے باریش بزرگ کی طرف اشارہ کیا تو اس لمحہ انہوں نے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں اس عجیب اتفاق پر ابھی حیران ہو ہی رہا تھا کہ بابا جی سرکار نے مجہول لڑکے کے روپ میں غازی کو آواز دی تو وہ پھدکتا ہوا ان کی طرف بڑھ گیا اور ان کے اشارے پر دیگ کو یوں اٹھا کر ایک طرف کو چل دیا جیسے وہ دیگ نہ ہو پیالی ہو۔ میں جھولی جھاڑتا ہوا بابا جی کی طرف بڑھا تو انہوں نے ہاتھ سے ادھر ہی مجھے رک جانے کا اشارہ کیا۔ بابا جی کا یہ روپ مجھے اچھا لگا تھا۔ لیکن میں حیران تھا کہ انہوں نے مجھے قریب آنے سے کیوں روکا ہے۔ میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا کہ کیا کروں۔ بابا جی کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ اس اثنا میں غازی دیگ رکھ کر آ گیا۔ ”بابا جی نے مجھے پاس آنے سے منع کر دیا ہے“ میں نے شکوہ کے انداز میں غازی سے کہا۔ ”اس کی وجہ ہے“ غازی نے کہا ”کیا وجہ ہو سکتی ہے“ میں نے دریافت کیا۔ ”آج سرکار کے ساتھ ایک اور مہمان ہستی آئی ہے۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ تم ان کے قریب جاﺅ اور کوئی بات کرو“ ”کون سی ہستی ان کے ساتھ آئی ہے“ میں نے پراشتیاق لہجے میں پوچھا۔ ”بتا دوں گا …. لیکن پہلے ایک وعدہ کرو“ ”وعدہ“ میں نے سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا۔ ”ادھر تمہارے شہر میں قلفیوں کی ایک بڑی مشہور دکان ہے۔ مجھے قلفیاں لا دو پھر تمہیں بتاﺅں گا“ غازی کی فرمائش سن کر میں نے بے اختیار قہقہہ لگایا ”بس …. اتنی سی بات تھی“ یہ کہہ کر میں نے جیب سے پیسے نکال کر اسے تھما دئیے۔ ”یہ لو اور موج اڑاﺅ“ ”بھیا میں فقیر تو نہیں ہوں خود لا کر دو ناں“ ”چھوڑ یار …. شکل سے تو آج فقیر ہی لگ رہا ہے“ میں نے اسے چھیڑا اور کہا ”ویسے غازی تمہیں یہ عجیب و غریب روپ بھرنے کا خیال کیسے آتا ہے“ ”مجھے مزہ آتا ہے ایسے سوانگ بھرنے سے۔ لوگ مجھے پاگل مجہول سمجھ کر مجھ سے بھاگتے ہیں اور میں اندر ہی اندر انجوائے کرتا ہوں“ ”غازی تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں بہت سے ایسے مجہول ملنگ ٹائپ بچے جوان اور بوڑھے لوگ موجود ہیں جنہیں لوگ بزرگ ہستی مان کر ان سے دعائیں کراتے ہیں“ ”جانتا ہوں میں …. میں خود بھی یہ کام کرتا ہوں۔ کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ مل کر کسی علاقے میں چلا جاتا ہوں کسی کو گالی دیتا ہوں‘ کسی کو جوتے مارتا ہوں۔ کسی پر پتھر اٹھا مارتا ہوں مجذوب بن کر۔ اپنے پاگل پن سے لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ پھر ایسے شعبدے بھی دکھاتا ہوں جنہیں لوگ ایک مجنوں کی کرامت سمجھ کر اس کا احترام کرنے لگ جاتے ہیں۔ مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ تمہیں ایک بات بتاﺅں“ ”ہوں۔۔ کہو“ میں نے کہا ”ہو سکتا ہے تم غصہ کرو۔ لیکن ایک بات ہے ہمارے جد امجد ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ لوگوں کا اعتقاد کمزور کرنے کے لئے انہیں ایسے شعبدے دکھایا کرو جنہیں دیکھ کر لوگ کرامت سمجھنے لگ جائیں اور لوگ ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے مسلمان ، ایسے لوگوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اللہ کی حقیقی عبادت سے دور ہو جاتے ہیں۔ شریعت کے احکامات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بھیا …. میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے ہر مسلمان کو اس کے کردار اور اس کی عبادات کی وجہ سے معاف کرنا ہے لیکن ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہماری نجات کا باعث ہوں گے۔اگرچہ اخلاقیات اور حقوق کے حوالے سے ہمارے اعمال دوسروں سے منسلک ہوتے ہیں مگر یہ اعمال نیکی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان نیکی کے اسباب اور طریقہ کار کو بھول جاتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے بھیا کہ مسلمان اب شیطان سے بھی نیکی کرنے لگے ہیں۔ اس پر بھی رحم کھاتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ نیکی کے لباس میں چھپا ہوا شیطان ہماری ہمدردی کا مستحق نہیں ہے جیسا کہ میں اعتراف کر رہا ہوں کہ مجھ جیسے شرارتی جنات اور شیاطین بھی ایسے کراماتی روپ دھار کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ یہ دیکھیں کہ جس شخص کی کرامات سے وہ متاثر ہو رہے ہیں کیا وہ شریعت کا پابند ہے۔ شریعت کے دائرہ عمل سے باہر نکل جانے والا کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ مجذوب قسم کے لوگ جو ہوش و حواس سے بیگانہ ہوں ان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔“ ”غازی …. تم نے بڑے کام کی بات بتائی ہے لیکن کیا تم مجھے کوئی ایسا نکتہ بتا سکتے ہو جس سے جنات یا شیاطین کی پہچان ہو جائے“ ”یہ بڑا مشکل کا م ہے۔ انہیں پہچاننے کا ایک طریقہ تو شریعت کا آئینہ ہے جس میں ہر کسی کے ا صلی چہرے کو پہچانا جا سکتا ہے۔ دوسرا طریقہ وظائف کا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا وظیفہ ہے جسے آپ پڑھ کر اس شخص کی طرف پھونک ماریں گے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ شخص خاکی ہے یا آتشی۔ ہم جنات اور شیاطین آتشی مخلوق ہیں۔ یہ نورانی آیات ان کے بدن کی کھال ادھیڑ دیتی ہیں“ غازی کی بات سن کر میرے ذہن میں بہت سے سوالات سر ابھارنے لگے۔ میں نے غازی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور ہم دونوں مزار سے چند قدم دور پتھروں سے بنی قبور کے پاس جا بیٹھے۔ میں نے اس سے پوچھا ”غازی …. تم مجھے بہت کارآمد باتیں بتا رہے ہو لیکن ایک سوال مجھے تنگ کر رہا ہے“ ”وہ کیا“ اس نے پوچھا ”سچی بات تو یہ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے بہت سے وظائف یاد ہیں لیکن میں نے جب بھی یہ وظائف پڑھے ہیں میں اپنے سامنے حاضر ہونے والے جنات کی پہچان نہیں کر پایا“ ”میں تمہاری بات نہیں سمجھا“ غازی نے الجھے لہجے میں سوال کیا۔ ”مثلاً یہ کہ …. جب بابا جی اور آپ لوگوں کی حاضری ہوا کرتی تھی تو میں اس شک میں مبتلا رہتا تھا کہ آپ لوگ شیطان ہیں۔ حقیقی جنات نہیں ہو سکتے۔ میں دل ہی دل میں بہت کچھ پڑھتا تھا مگر آپ لوگ پھر بھی میرے سامنے سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ اب تم کہہ رہے ہو کہ وظائف کی نورانی طاقت سے جنات و شیاطین کا اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور وہ غائب ہو جاتے ہیں“ میری بات سن کر غازی نے قہقہہ لگایا اور پھر دیر تک ہنستا رہا۔ ”ہنس کیوں رہے ہو“ ”بابا …. وہ میں …. تمہاری سادگی پر ہنس رہا ہوں“ غازی ہنستا ہی چلا جا رہا تھا۔ اس اثنا میں ایک شخص ہمارے پاس سے گزرنے لگا تو غازی اسی طرح قہقہے لگاتا اس سے لپٹ گیا۔ وہ شخص پریشان ہو گیا۔ غازی نے ہنستے ہوئے ایسا پنیترا بدلا کہ میں حیران ہو کر رہ گیا۔ وہ اس کے گلے میں بازو ڈال کر جھولا جھولنے کے انداز میں لٹک گیا اور منمناتے ہوئے گنگنانے لگا۔ ترے من کی مراد بابا شاہ کرے پوری رکھ لاج فقیر کی بابا شاہ کرے پوری وہ شخص خاصی عمر کا تھا۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال ڈیرے ڈالے نظر آ رہا تھا۔ اس نے جب ایک مجہول لڑکے کو یوں اپنے ساتھ لپٹے دیکھا اور پھر اس کے نعرہ مستانہ کو سنا تو وہ اس سے گھبرانے کی بجائے خود اس سے لپٹ گیا۔ ”میں مر جاﺅں گا سرکار …. میرے لئے کچھ کریں“ وہ شخص بلک بلک کر رونے لگ گیا۔ میں حیرت میں گم سم غازی کی اس حرکت کو دیکھ رہا تھا اس نے اپنی بات کو سچ ثابت کر دکھایا تھا۔ غازی نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ تیر رہی تھی۔ مجھے ایسے لگا جیسے کہہ رہا ہو دیکھا بھیا میں نے اس کو پھانس لیا ہے۔ غازی اب اس کو دلاسہ دینے کے انداز میں زور زور سے پیٹھ پر تھپکیاں دینے لگا۔ ”بابا شاہ تری مراد پوری کرے گا“ غازی مجہول سے لہجے میں اسے کہنے لگا یہ بات کرتے ہوئے اس کا ڈھیر سارا لعاب دہن اس شخص کے چہرے پر گرا۔ میں نے اس وقت کراہت سے آنکھیں میچ لیں۔ اس شخص نے بڑی عقیدت سے سارا لعاب دہن دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے پر یوں مل لیا جیسے لوشن لگا رہا ہو۔ مجھے ابکائی آتے آتے رہ گئی۔ ”شاہ بابا …. شاہ بابا ۔۔دھم دھما دھم…. شاہ بابا …. دھم دھما دھم…. شاہ بابا“ غازی اب لہک لہک کر دھمال کے انداز میں نام لیتا جا رہا تھا۔ وہ شخص بھی دیوانہ وار اس کا ساتھ دینے لگا۔ اس لمحہ ایک ڈھولچی کہیں سے ادھر آ نکلا۔ اس نے ڈھول کو ایسی تھاپ دی کہ کچھ ہی دیر بعد ایک پرکیف‘ وجدانی اور سرفروشانہ ماحول پروان چڑھ گیا۔ مزار کی نکڑوں سے‘ قبروں کے آس پاس لیٹے بھنگ کے نشہ میں غرق ملنگ اور عقیدت مند ادھر آ نکلے اور ایسے سرمست ہو کر دھمال ڈالنے لگے کہ میرا انگ انگ بھی ڈھول کی تھاپ پر مچلنے لگا۔پہلے ایک ڈھولچی‘ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا میدان میں اتر آیا۔ ایک طرف دھمال ڈالنے والے اور دوسری طرف ڈھول کو تھاپ کے نئے نئے آہنگ دینے والے۔ میرے لئے اب بیٹھنا دوبھر ہو گیا تھا مجھے لگا جیسے یہ تھاپ مجھے مدہوش کئے جا رہی ہے۔ ایک سرور ہے جو میرے ذہن پر تسلط جما رہا ہے۔ میرے پیر مچلنے لگے،،، پورا بدن پھڑکنے لگا اور پھر میں ڈھول کی تھاپ کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ میں دیوانہ وار دھمال ڈالنے لگا۔ مجھے نہیں معلوم کب تک میں دھمال ڈالتا رہا تھا اور پھر میں تھک کر جیسے گر گیا۔ شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔ میری آنکھ کھلی تو میرے گرد بہت سارے لوگ اکٹھے تھے۔ میرا سر غازی کی گود میں تھا ۔ قریب ہی وہ شخص بھی بیٹھا میرے چہرے پر پانی چھڑک رہا تھا ”غغ …. غاز“ میں غازی کو پکارنے ہی لگا تھا کہ اس نے میرے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا ”شاہ بابا …. شاہ بابا شاہ بابا“ مجھے ہوش میں آتے دیکھتے ہی اس نے خفیف انداز میں مجھے اپنا اصلی نام لینے سے روک دیا تھا۔ لیکن اس کی حرکت سے اس کا ڈھیروں تھوک میرے چہرے پر گر گیا اور میں یکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنی قمیض کے پلو سے فوراً چہرہ صاف کیا اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن غازی سرمست ہو کر شاہ بابا ، شاہ بابا کی گردان کئے جا رہا تھا۔ مگر وہ شخص میرے پاس آ گیا اور بولا ”بیٹے غصہ نہ کرو یہ سائیں بچہ ہے۔ میں نے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ایسے بچے کی بددعائیں نہیں لینی چاہئے یہ کسی پر تھوک دیں تو اس کے غم دھل جاتے ہیں ، تم غصہ نہ کرنا مجھے تو لگتا ہے اس سائیں کو تم سے کوئی خاص نسبت ہے“ ”مم …. میری کوئی نسبت نہیں ہے اس سے“ میں ناراض ہو کر اپنے گرد کھڑے لوگوں کو دیکھنے لگا تو اس شخص نے ملنگوں اور عقیدت مندوں کو وہاں سے جانے کے لئے درخواست کی۔ لوگ تتر بتر ہو گئے۔ اب صرف وہ شخص اور غازی ہی میرے پاس تھے۔ ”اگر تمہاری نسبت نہیں ہے تو دھمال کے بعد جب تم نیچے گرنے لگے تھے تو اس نے تمہیں نیچے کیوں نہیں گرنے دیا۔ اس نے تمہیں یوں اٹھا لیا تھا جیسے نومولود بچے کو اس کی ماں سینے سے لگا کر چارپائی پر لٹاتی ہے۔ میں ہی نہیں ان سب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا۔ اس نے بڑی چاہت سے تمہیں اٹھایا تھا۔ خود سوچو یہ اللہ والا ہے۔ کیا تمہارا وزن اس سے زیادہ ہے۔ اس نے بغیر کسی تردد کے تمہیں اٹھا لیا تھا۔ اس کا مطلب ہے اس کے اندر اتنی روحانی قوت ہے کہ تمہیں اٹھاتے ہوئے اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جس انداز میں تم گرنے لگے تھے تمہیں چوٹ لگ سکتی تھی مگر اللہ کے اس سائیں نے تمہارا بال بیکا نہیں ہونے دیا“ ”آپ کون ہیں“ وہ خاموش ہوا تو میں نے دریافت کیا۔ غازی اب اٹھ کر اس قبر کے پاس جا بیٹھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے ہم باتیں کر رہے تھے۔ ”میں تو اس مزار پر آتا رہتا ہوں مجھے بڑا سکون ملتا ہے یہاں برسوں سے ادھر آتا ہوں اور سکون بھر کر لے جاتا ہوں“ اس نے عقیدت سے مزار کے گنبد پر روشن رنگین ٹیوب لائٹس کی طرف دیکھا اور پھر حسرت بھرے لہجے میں بولا ”سکون تو مل جاتا ہے لیکن من کی مراد پوری نہیں ہو رہی۔ میرے دکھوں کی چادر ابھی تک میلی ہے۔یہ نہیںدھلے ۔ اصل مراد پوری نہیں ہو رہی“ ”آپ کا نام کیا ہے“ ”بیٹے …. میرا نام اصغر شیخ ہے۔ میں ایک معلم ہوں۔ یہاں کالج میں اردو پڑھاتا ہوں۔ بیٹا ایک وقت تھا جب میں مزاروں پر نہیں آتا تھا۔ پھر مجھے ایک بزرگ ملے۔ وہ بھی اس صاحب مزار کے عقیدت مند تھے۔ ان کے وصال کے بعد میں بھی یہاں آنے لگا۔ ان کے ساتھ آتا تھا‘ تو یہاں بزرگوں کی کرامات سنتا۔ نذر نیاز کرتا۔ میری اولاد نہیں ہوتی تھی۔ پانچ سال بعد اللہ نے ایک بیٹی دی۔ میں نے منت یہاں چڑھائی۔ اب دس سال ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ میرے دل میں اولاد نرینہ کی خواہش جڑ پکڑ چکی ہے۔ میں ہر جمعرات کو خاص طور پر یہاں آتا ہوں اور جو بھی اللہ والا ملتا ہے اس سے دعا کراتا ہوں۔ ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا کہ اب میری بیوی کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ عزیز رشتہ داروں نے کہا دوسری شادی کر لو۔ میں نے دو سال پہلے دوسری شادی کی تھی لیکن اس سے اولاد نہیں ہوئی۔ اب احساس جرم بھی رہتا ہے کہ میں نے پہلی بیوی کی بے قدری کی اور اولاد نرینہ کے لئے دوسری بیوی کر لی لیکن ہری بھری شاخ بھی سوکھ گئی۔ میں اب اس امید پر دئیے جلاتا ہوں کہ ایک دن میری شاخ مراد پھر سے ہری ہو جائے گیِِِ“۔ اصغر شیخ کے لہجے میں امید بھی تھی اور احساس جرم بھی۔ دونوں ہاتھ تھام کر بولا ”بیٹے اگر تمہارا اس سائیں سے کوئی تعلق واسطہ ہے تو اسے کہو میرے لئے دعا کرے“ ”محترم! میں اس سائیں کو نہیں جانتا“ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور کہا ”میں بھی آپ کی طرح عقیدت مند ہوں میں ادھر بیٹھا ہوا تھا کہ یہ بچہ بھی ادھر آ گیا“ ”تمہیں معلوم ہے اس صاحب مزار کی کرامات اور تصوف میں پہنچ کا یہ عالم ہے کہ جنات بھی ان کے مزار پر حاضری دیتے اور جاروب کشی کرتے ہیں۔ ان کے خدمت گاروں میں بھی جنات ہوا کرتے تھے۔ صاحب مزار جب درس تصوف دیتے تھے تو جنات قطار باندھ کر کھڑے رہتے تھے“ ”کیا آپ نے صاحب مزار کو دیکھا ہے“ میں نے پوچھا ”نہیں بیٹے وہ تو ایک صدی پہلے وصال فرما گئے تھے۔ مجھے یہ باتیں میرے بزرگ سنایا کرتے تھے‘ ‘ اصغر شیخ نہایت ادب سے کہنے لگے ”حق مغفرت کرے میرے بزرگ دوست آغا حامدی خود بھی صاحب کرامت تھے تہجد اور شب گزار تھے۔ شریعت کے پابند ایسے ولی اللہ تھے کہ ہر وقت ان کے چہرے پر بشاشت کا نور چمکتا نظر آتا۔ جودوسخا کے مالک تھے“ اس دوران غازی دوبارہ بابا شاہ کی گردان کرنے لگا۔ میں اور اصغر شیخ اس کے پاس چلے گئے۔ نہ جانے میرے دل میں کیا آیا میں نے غازی سے کہا ”بابا شاہ۔ یہ ہمارے استاد ہیں ان کے لئے دعا کرو اللہ انہیں بیٹا عطا کرے“ غازی نے مجذوبانہ نظروں سے اصغر شیخ کو دیکھا پھر ایک شان سے سر ہلا کر بولا ”جا …. جا …. وہ دے گا“ اصغر شیخ یہ سن کر خوشی سے پاگل ہو گیا آگے بڑھا اور والہانہ انداز میں غازی کے میلے کچیلے ہاتھوں پر بوسے دینے لگا۔ غازی نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور ایک بار پھر میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگا ”اب جا …. دفع دور ہو جا“ غازی نے اسے ایک طرح سے دھتکار کر اٹھایا …. اصغر شیخ بڑا خوش تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو ”ہاں بھیا اب سناﺅ ۔ دیکھا ایک پروفیسر بھی شرع و شریعت کو بھول گیا۔ تم ایک عام سیدھے سادھے مسلمان کو کیا کہو گے“ ”غازی اس میں اس بیچارے کا زیادہ قصور نہیں ہے۔ تم نے بہروپ بھر کر اسے اکسایا“ ”میں نے اکسایا ۔ ارے بھیا یہ لوگ تو اکسنے پر ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ انسان کی مجبوریاں‘ خواہشیں‘ بے قراریاں اور مایوسیاں اس کو قبروں پر ماتھے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں“ غازی بولا ”یہ تو اندھیروں کے مارے لوگ ہیں۔ جہاں روشنی ملے گی یہ اس سراب کی طرف چل دیں گے۔ تم انہیں روشنی بن کر اپنی طرف نہ بلایا کرو۔ وہ ذات کبریا …. جو مشعل راہ ہے انہیں اس طرف ہی جھکنا چاہئے۔ ہاں بزرگوں کی مغفرت اور ان کی دعاﺅں کے لئے حاضریاں ہو جائیں تو غلط نہیں“ یہ کہتے کہتے مجھے ایک گھن آلود خیال آ گیا ”کمبخت تو نے میرے چہرے پر بھی تھوک دیا تھا“ یہ سن کر غازی ایک بار پھر ہنسنے لگا اور بولا ”بھیا میں مجذوب جو ٹھہرا …. مجھے تو معلوم ہی نہیں ہوتا“ ”تو باز آ جا غازی …. تری انہی شرارتوں کی وجہ سے یہاں کے بزرگ خفا ہیں“ میں نے اسے بتایا ”سرکار تیلے شاہ اس وقت مزار کے اندر عبادات میں مصروف ہیں“ ”میں جانتا ہوں لیکن آج وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ آج جنات اپنے بزرگوں کے ساتھ یہاں حاضری دے رہے ہیں۔ ان کی بیبیاں بھی ساتھ آئی ہیں“ ”کن کی بیبیاں ….“ میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔اس کے چہرے پر عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔ ”جنات کی …. ہماری بیبیاں“ وہ بولا ”یعنی جن زادیاں“ میں نے استفسار کیا ”جی ہاں …. لیکن وہ ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ البتہ ایک دو بزرگ جن زادیاں ملنگنیوں کے روپ میں ہوں گی“ ”باقی انسانوں کے روپ میں کیوں نہیں ظاہر ہوتیں“ ”نہیں …. انہیں اس کی اجازت نہیں ملی“ ”اجازت …. کیوں نہیں ملی“ میں نے حیرت سے سوال کیا ”بابا جی سرکار نے منع کیا تھا۔ میں تو برسوں سے یہاں اسی روپ میں آ رہا ہوں اس لئے بابا جی سرکار نے مجھے کچھ نہیں کیا۔ بابا جی سرکار کے علاوہ دوسرا کوئی بھی جن انسانی روپ میں نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا پورا گروہ اس درخت اور مزار کے اردگرد موجود ہے“ میں نے غازی کے اشارہ کرنے پر چند قدم دور بیری کے ایک بوڑھے درخت کی طرف دیکھا جس کی شاخوں پر رنگ برنگے دھاگے اور کپڑوں کے چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے۔ ”بھیا یہ بیری کا درخت بھی کراماتی درخت ہے“ غازی نے کہا ”جو اس کا بیر کھاتا ہے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر عورتیں ہی اس بیری پر آ کر دھاگے اور کپڑے باندھتی ہیں۔ کچھ تو اس کی جڑوں میں چاول اور چینی ڈال جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں درخت پر چڑھنے والے کیڑے مکوڑے یہ خوراک کھائیں گے تو ان کی شجر مراد کی لاج بڑھ جائے گی اس لئے تو صاحب مزار کو بیری والا پیر بھی کہا جاتا ہے“ ”بیری والا پیر“ میں زیر لب بڑبڑایا۔ یہ نام پہلی بار سن رہا تھا۔ ”ہاں …. صاحب مزار بڑے روشن ضمیر ولی اللہ تھے۔ وہ اس کے نیچے بیٹھ کر عبادت اور تبلیغ کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ درخت بھی معتبر بن گیا۔ اس درخت پر پھل بہت کم لگتا ہے۔ یہ بھی ایک کرامت ہے کہ اگر اسے پھل لگ بھی جائے تو ہر کسی کو نظر نہیں آتا۔ صرف وہ انسان ہی اس پھل کو دیکھ سکتا ہے جس کی مراد پوری ہونے کا وقت آ پہنچا ہو“ ”اللہ تیری شان“ میں غازی کی بات سن کر بیری والے درخت کی طرف جانے کے لئے اٹھنے لگا کہ ایک ادھورا سوال پھر میرے ذہن میں کلبلانے لگا۔ ”غازی تم نے میرے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا تھا“ ”اچھا …. ہاں …. وہی سوال …. ہاں میں تمہیں بتا دیتا ہوں“ غازی اب کی بار سنجیدہ ہو کر بتانے لگا ”بھیا آپ نے پوچھا تھا کہ وظائف پڑھنے کے باوجود جنات اور شیطان دفع دور کیوں نہیں ہوتے۔ اس کا ایک جواب تو آپ کو مل چکا ہے۔ دوسرا سوال ہماری ذات سے متعلقہ تھا۔ آپ کا کہنا ہے کہ جب ہماری حاضری ہوتی تھی تو آپ وظائف پڑھتے تھے اس پر میں ہنس پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم مسلمان جنات ہیں۔ ہمارے من میں ابلیس کی گندگی نہیں اس لئے ایک سچا مسلمان جن بشرطیکہ کوئی غلط حرکت نہ کر رہا ہو تو اسے ان وظائف سے نقصان نہیں پہنچتا لیکن میں تمہیں ایک وظیفہ بتاتا ہوں۔ اگر تم یہ پڑھ کر مسلمان جنات پر بھی پھونک مارو گے تو تمہیں اس کا ثبوت مل جائے گا کہ تمہیں جس شخص پر جن ہونے کا شبہ ہے وہ اپنی اصلیت ظاہر کر دے گا“ غازی نے مجھے وظیفہ بتایا یہ قرآن پاک کی آیت تھی جسے میں بچپن سے پڑھتا آ رہا تھا لیکن اس کے ساتھ غازی نے مجھے ایک اور آیت مبارکہ پڑھنے کے لئے کہا۔ ”اب میں یہ وظیفہ پڑھ کر تم پر پھونک ماروں گا“ میں نے غازی کو چھیڑا ”تاکہ تم اپنی شکل میں ظاہر ہو جاﺅ“ ”ارے بھیا یہ حرکت نہ کرنا ورنہ بابا جی سرکار اتنے جوتے ماریں گے کہ پھر ترستے ہی رہ جاﺅ گے اور میں تمہارے سامنے نہ آﺅ ں گا“ غازی نے میرے ہاتھ پکڑ لئے۔ ”کیوں ایسی بھی کیا بات ہے“ میں نے کہا ”ہے ناں مسئلہ“ وہ زور دے کر بولا ”بابا جی سرکار کا کہنا ہے کہ انسان وعدہ کرکے مکر جاتا ہے اور وظائف کا غلط استعمال شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے وہ کسی کو ایسا وظیفہ پڑھنے کے لئے نہیں دیتے۔ جب تک کوئی انسان ریاضت کی بھٹی میں پک کر کندن نہیں ہو جاتا تب تک اسے وظائف کی حقیقی معراج نہیں ملتی“ غازی کی بات میں واقعی بڑی دلیل تھی۔ میں نے اس کی بات مان لی اور پھر ہم دونوں مزار کے اندر جانے کے لئے اٹھ پڑے۔ میرے ذہن میں ان لوگوں کو دیکھنے کی خواہش مچل رہی تھی جو بیری والا پیر کے عقیدت مندوں کے روپ میں مزار کے احاطے میں محو عبادت تھے۔ مزار کے احاطے میں اگربتیوں کی سحرانگیز مہک نے ہمارا استقبال کیا۔ کالی شیشم کے منقش دروازے سے اندر داخل ہونے کے لئے تقریباً سر اور کاندھے جھکا کر اندر داخل ہونا پڑتا تھا۔ دروازے پر مغلائی خطاطی سے بیری والے پیرر کا نام اور القابات لکھے ہوئے تھے۔ میں اندر داخل ہونے لگا تو ایک مجاور کہیں سے نکل کر ادھر آ گیا۔ اس نے غازی کو قیمض کے کالر سے پکڑ لیا اور درشت لہجے میں بولا۔ ”تو کدھر جاتا ہے سائیں۔ چل ادھر دیگوں کے پاس“ غازی نے غیر محسوس انداز میں مجھے آنکھ ماری اور منہ کھول کر مجاور کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں سے رالیں ٹپکنے لگیں۔ آنکھیں کھچ گئیں۔ بدن پر تشنج کے آثار نظر آنے لگے۔ وہ ہمک ہمک کر مجاور سے غیر مانوس زبان میں کچھ کہنے لگا۔ مجاور کو اس کی باتوں کی سمجھ نہ آئی تو اس نے پاس سے گزرنے والے دربار کے ایک ملنگ کو بلایا اور کہا ”سائیں کو لنگرخانے میں لے جاﺅ۔ ناپاک حالت میں مزار کے اندر جانا چاہتا ہے“ ________ –**–**– جاری ہے —— آپکو یہ ناول کیسا لگا؟ کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ Share this: Twitter Facebook Pinterest Reddit Tumblr Telegram WhatsApp Email Like this: Like Loading... Related Download EZ Reading Free Jinnat Ka Ghulam Novels Hi Novels pdf Read Online Shahid Nazir Chaudhry Urdu Novel Urdu Novels urdu novels free download جنات کا غلام شاہد نذیر چوہدری FacebookTwitterWhatsAppRedditPinterestEmail Jinnat Ka Ghulam Novel By Shahid Nazir Chaudhry Read Online – Episode 32 Jinnat Ka Ghulam Novel By Shahid Nazir Chaudhry Read Online – Episode 30 You may also like Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... About the author Peerzada M Mohin View all posts Leave a Reply Cancel reply Download Urdu Novels Search by Novelist Search by Novelist Select Category Aaban Dawood Aaira Shah Aamir Siddiqui Aasma Aziz Abid Jan Tarnao Afsana Afsanay Afsheen Durrani Aiman Raza Aish Khan Alaya Rajpoot Aleem ul Haq Haqqi Aleem-ul-Haq Haqi Amina Khan Amrah Sheikh Ana Ilyas Anwar Aleegi Anwari Ramzan Areej Shah Armani Arwa Malik Asiya Munir Hashmi Asra khan Awais Chohan Ayesha Jabeen Ayesha Khanzadi Badar Saeed Barda Beenish Jamil Bella Bukhari Bella Subhan Bichoo Bilal Malik Blogs Book Reviews Bushra Zahid Qureshi Chand Mera Humsafar Chanda Ali Darr Dr Hamid Hassan Hami Dr Rauf Parekh Dr. Fayyaz Ahmad Dr. Muhammad Iqbal Huma Durr E Shahwar Malik Durr-e-shahwar Malik Eshnaal Syed Fairy Malik Faiza Ahmed Falak Kazmi Farhad Farooq Farhat Nishat Mustafa Fatima Niazi Filza Arshad Fizza Batool Galti Ghazal Khalid Ghulam Abbas Saghar Habib ur Rahman Hadia Sahar Hafsa Rahman Hammad Sultan Hashim Nadeem Hashmi Hashmi Hasifah Nazneen Hiba Sheikh Hifza Javed Hijab Rana Hina Khan Hina Memon Historical Novels Hoor e Shumail Horror Novels Huma Waqas Ibn e Safi Ifrah Khan Imran Liaqat Imran Series Inayatullah Inayatullah Altamash Insia Awan Iqbal Zarqash Iqra Aziz Irving Karchmar Isha Maqbool Ishaa Ishq Ka Qaaf Ishq Zard Rang Maiel Islamic Books Janaa Mubeen Jannat Kay Pattay Jargaa Javed Iqbal Jawad Ahmad Jiya Mughal Junoon E Ishq Kaho Mujh Se Mohabbat Hai Kaise Ho Gayi Mohabbat Karakoram Ka Taj Mahal Khalid Rahi Khalish Kids Stories Kiran Malik Kiran Rafique Lok Kahani Lubaba Hafeez Maha Ali Maham Shoukat Mahi Shah Makafat e Amal Mamuna Zaib Mannat Manto k Afsany Maqbool Jahangir Maria Awan Mariam Sajid Maryam Dastgeer Maryum Fatimah Meerab Ali Baloch Mir Afsar Aman Mirza Meer Hakim Mohabbat aur Ibadat Mohay Piya Milan ki Ass Mubarra Ahmed Mubashra Ansari Muhammad Ibrahim Joyo Muhammad Monsoor Muhammad Shariq Muhammad Shoaib Muhammad Zia Mukhtar Ahmed Munazza Mirza Mushaf Muskan Kanwal Nabila Aziz Nageen Hanif Naseem Hijazi Nasir Hussain Nazia Kanwal Nazi Nazia Shazia Neha Malik Nimra Ahmed Nimra Khan Noor Rajput Noshi Gilani Nuzhat Jabeen Zia Pari Chehra Pari Saa Parizad Perveen Sarwar Pyaar Dobara Na Ho Ga Qaid Qaisar Nazir Khawar Qanita Khadija Qudsiyy Arain Raaz e Sahar Radaba Noureen Rafaqat Hayat Rah E Mujazi Se Ishq E Haqiqi Tak Ramsha Iftikhar Ramsha Yaseen Rana Kashif Ravi Ranjan Goswami Riaz Aqib Kohlar Rimsha Yaseen Rizwan Ali Ghuman Rose Marie Roshan Khayal Rubab Naqvi Saadat Hasan Manto Sabahat Rafique Cheema Safa Asim Safar Namay Safiur Rahman Mubarakpuri Sahir Mirza Salma Syed Salman Bashir Sama Chaudhary Sana Luqman Sanaya Khan Sarfaraz Ahmad Rahi Sarfraz Ahmed Rah Scandal Girl Seema Shahid Shagufta Iram Durrani Shahid Nazir Chaudhry Shaista Meer Arzo Shorish kashmiri Shumaila Hassan Sidra Sheikh Suhaira Awais Sumaira Hameed Sumaira Sharif Syed Mustafa Ahmad Syeda Farheen Jaffari Syeda Gul Bano Syeda Javeria Shabir Tawaif Tawasul Shah Tere Mere Darmiyan Tu Lazmi Tum Faqat Mery Umair Rajpoot Umera Ahmad Umera Ahmed Umm e Rubas Umme Muhammad Abdullah Umme Umair Urdu Novels Urdu Poem Urdu Poetry Books Usama Ansari Usama Rahman Mani Waheed Sultan Wajeeha Yousafzai Wajiha Saher Waseem Anwar Yaar Deewane Yaaran Naal Baharan Yaqeen e Kamil Yaqoob Masood Ye Jo Raige Dasht e Firaq Hai Yeh Junoon e Manzil e Ishq Yusra Shah Zafar Iqbal Zaha Qadir Zahid Hasan Zakham e ishq Zeela Zafar Zeeshan Ul Hassan Usmani Zoya Liaqat زیادہ پڑھی جانے والے تحاریر Categories Urdu Novels Horror Novels Imran Series Safar Namay Islamic Books Historical Novels Kids Stories Urdu Poetry Books Book Reviews Blogs Need Help Find Books By Authors How to Read Online Urdu Novels Copyright Privacy Policy Subscribe Now Contact Us Random Urdu Novels Nakhreeli Mohabbatain by Seema Shahid – Episode 15 Add Comment Jahan Pariyan Utarti Hain By Dr. Muhammad Iqbal Huma... Add Comment Hisar e Ishqam Novel by Pari Saa – Episode 11 Add Comment Ahlaam Khwab Ishq Novel Hifza Javed – Episode 5 Add Comment Online Urdu Novels کتابوں کے جملہ حقوق بحق ناشرین ومصنفین محفوظ ہیں۔ ہمارا مقصد صرف سہولت تحقیق وتلاش ہے۔ آپ اپنی کتابیں ہمیں ارسال فرماکر ہمارے کام میں تعاون کرسکتے ہیں۔اگر آپکو بھی کوئی کتاب چاہیے ہو تو آپ ہم سے درخواست کرسکتے ہیں ۔
وردان دیانیوز نٹورک نامی فیس بک پیج پر ایک خاتون کی تصویر شیئر کی گئی ہے۔یوزر کا دعویٰ کہ خاتون کا نام لیزا مونٹوگومیری ہے۔جسے 67 سال بعد پھانسی دی گئی ۔ امریکی سپریم کورٹ نے سال دہائی کے بعد کسی خاتون کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ ورادان دیا کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔ Fact Check/Verification وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئےدعوے کی سچائی جاننے کئے لئے ہم نے سب سے پہلے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران ہمیں نیوز18اردو اسکائی نیوز اور یو ایس ٹو ڈے کے ویب سائٹ پر لیزا مونٹوگومیری کے حوالے سے خبر ملی۔جو حقیقت پر مبنی ہے۔لیکن جس تصویر کو فیس بک پر لیزا بتایا جارہاہے وہ کوئی دوسری خاتون ہے۔ وائرل تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج کی مددس سے سرچ کیا تو ہمیں غیرملکی نیوزویب سائٹ اے بی سی پر وائرل تصویر کے حوالے سے جانکاری ملی۔جس کے مطابق خاتون کا نام اینامیری ہالواکا (Anna Marie Hlavka) ہے۔جسے اورے گان کے پورٹ لینڈ میں24 جولائی 1979 میں قتل کردیا گیا تھا۔آپ کو بتادوں کہ اینامیر ہالکا پہلی وہ خاتون ہے۔جس کے کیس میں پہلی مرتبہ قاتل کی شناخت کرنےکےلئے ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کا استعمال کیا گیا تھا۔ وہیں جب ہم نے اینا میری ہالواکا کے حوالے سے کیورڈ سر چ کیاتو ہمیں فائند آ گریو نامی ویب سائٹ پر پورتفصیلات ملیں۔جسےآپ لنک پر کلک کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں اور نیچے دونوں خواتین کی تصاویر پیش کی جارہی ہے۔جہاں آپ واضح تمیزکی جاسکتی ہے۔ Conclusion نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے حقیقت پر مبنی ہے۔لیکن جس تصویر کوامریکہ کی لیزا مونٹوگومیری بتایاگیا ہے وہ دراصل پورٹ لینڈ کی اینامیری ہالواکا نام کی مقتول خاتون ہے۔ Result:Manipulated Our Sources N18:https://urdu.news18.com/news/international/us-woman-murderer-hanged-after-67-years-snm-337035.html Sky:https://news.sky.com/story/lisa-montgomery-only-woman-on-us-federal-death-row-to-die-by-lethal-injection-today-12185537 UT:https://www.usatoday.com/story/news/nation/2021/01/12/lisa-montgomery-first-us-execution-female-inmate-67-years-halted/6635530002/ abc:https://abcnews.go.com/US/murderer-executed-1999-identified-dna-man-allegedly-womans/story?id=60778094 F:https://www.findagrave.com/memorial/160635055/anna-marie-hlavka نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔ 9999499044 Tags Lisa Montgomery Oregon Portland Featured share pic Fake Claim US murder woman 1979 67 years Anna Marie Hlavka Court executed feds hang July 24 Mohammed Zakariya Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University. Facebook Twitter WhatsApp Linkedin Previous article لائف جیکٹ میں محفوظ بچے کی تصویر جکارتہ طیارہ حادثے کی نہیں ہے Next article Weekly Wrap:پانچ منٹ میں ہفتے کی 5 اہم تحقیقات پڑھیں Mohammed Zakariya Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University. RELATED ARTICLES Fact Check Weekly Wrap: اس ہفتے فیفا ورلڈ کپ سے متعلق وائرل ہونے والے پوسٹ کا فیکٹ چیک محض 5 منٹ میں پڑھیں Mohammed Zakariya Fact Check اذان پر معصوم بچی کے رد عمل کی اس ویڈیو کا تعلق قطر فیفا ورلڈ کپ سے نہیں ہے Mohammed Zakariya Fact Check کیا قطر فٹبال اسٹیڈیم میں اذان کے باعث عارضی طور پر روک دیا گیا میچ؟ فرضی دعوے کے ساتھ ویڈیو وائرل Mohammed Zakariya LEAVE A REPLY Cancel reply Comment: Please enter your comment! Name:* Please enter your name here Email:* You have entered an incorrect email address! Please enter your email address here Website: Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Most Popular پاکستانی ٹویٹر ہینڈل سے ہندوستانی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش۔پڑھیئے ہمارا ریسرچ فیس ایپ کے ذریعے بنائی ہوئی اداکار شارخ خان کی تصویر کشمیری لڑکے کا بتاکر وائرل سعودی عرب کے علماء دین اور شاہی عدالت نے بغیر چاند دیکھے روزے رکھنے کا کیا اعلان؟ وائرل دعوے کا پڑھیئے سچ ہوائی جہاز حادثے کی یہ ویڈیو چین کی نہیں بلکہ روس کے ماسکو کی ہے وائرل ویڈیو میں افغانستان اور پاکستان کے پرچم کو بوسہ دے رہا شخص کرکٹر محمد نبی نہیں ہے کیا وائرل ویڈیو سعودی عرب میں کرونا دور میں ہوئے شراب خانے کے افتتاح کی ہے؟ لائف جیکٹ میں محفوظ بچے کی تصویر جکارتہ طیارہ حادثے کی نہیں ہے کیا وائرل تصویر میں نظر آرہی قمیض مبارک حضور پاکﷺ کی ہے؟ وائرل دعوے کا پڑھیئے سچ ABOUT US Newschecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check.
حیات و موت کے مالک، صحت بخشنے والے اور شفاءاور ہر علاج کے خالق کی قسم کھا کر کہتا ہوں، اسقلیبوس کی قسم اٹھاتا ہوں، مردوں اور عورتوں میں اللہ کے جو اولیاءپیدا ہوئے ان سب کی قسم کھاتا ہوں اور انہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں اس قسم اور شرط کو پورا کروں گا اور جس نے مجھے اس فن کی تعلیم دی ہے اسے اپنے آباءکے بمزلہ تصور کروں گا۔ اپنی معاش سے اس کی مدد کروں گا، اسے مال کی ضرورت ہوگی تو اپنی دولت سے اس کی خدمت کروں گا۔ اس کی نسل کو اپنے بھائیوں کے برابر سمجھوں گا۔ اگر ضرورت ہوگی تو یہ فن انہیں بغیر کسی اجرت اور شرط کے سکھاﺅں گا۔ اپنی اولاد، اپنے معلم کی اولاد اور ان تلامذہ کو جن پر شرط فرض ہو چکی ہو اور جنہوں نے طبی ناموس کی قسم کھالی ہو، وصیتوں علوم و مصارف اور جو کچھ کہ اس فن کے اندر ہے ان سب میں شریک کروں گا، ان کے علاوہ دوسروں کے ساتھ یہ سلوک نہ کروں گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ آج عہدے سے سبکدوش ہونگے امکان کی حد تک تمام تدابیر میں مریضوں کے فائدے کا خیال رکھوں گا، جو اشیاءان کے حق میں مضر اور ان پر ظلم و زیادتی کے مترادف ہوں گی، اپنے خیال کی حد تک انہیں ان سے محفوظ رکھوں گا۔ اگر کوئی مریض مہلک دوا کا طالب ہوگا تو نہ دوں گا نہ ہی اسے اس قسم کا کوئی مشورہ پیش کروں گا۔ عورتوں کے حوالے سے پاکیزگی پر ثابت قدم رہوں گا۔ جس مریض کے مثانہ میں پتھری ہوگی اس پر گراں نہ بنوں گا بلکہ اسے اس شخص کےلئے چھوڑ دوں گا جس کا یہ پیشہ ہوگا۔ میں جس گھر میں داخل ہوں گا اس میں محض مریضوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر داخل ہوں گا۔ ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا؟ میں تمام باتوں میں عورتوں اور مردوں، خواہ آزاد ہوں خواہ غلام ،کے باب میں ہر ظلم و ستم اور بدنیتی سے پاک رہوں گا۔ مریضوں کے معالجہ کے وقت جو چیزیں دیکھوں گا یا سنوں گا یا لوگوں کے تعرفات میں جو باتیں مریضوں کے معالجاتی اوقات کے علاوہ نظر آئیں گی کہ انہیں خارج میں کہا نہ جا سکے، ان سے باز رہوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ اس طرح کی باتیں نہیں کہی جاتی ہیں، جو اس قسم کو پورا کرے گا اور اس میں سے کسی چیز کی خلاف ورزی نہ کروں گا، اسے یہ حق پہنچے گا کہ اس کی تدبیر اور اس کا فن نہایت خوب صورتی اور افضل طریقہ پر کمال پر پہنچے اور لوگ آنے والے زمانے میں اس کے فن کی نہایت خوبصورتی سے ہمیشہ تعریف کریں گے۔ فیفا ورلڈ کپ، برازیل سوئٹزرلینڈ کو شکست دے کر پری کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا مگر جو اس سے تجاوز کریں گے، اس کا حال برعکس ہوگا یہ ناموس طب کا وہ نسخہ ہے جسے بقراط نے تیار کیا تھا۔ اس نے کہا ہے کہ طب تمام فنون کے اندر ایک اعلیٰ اور اشرف فن ہے اسے اختیار کرنے والے کی کوتاہ فہمی اس بات کا سبب بن جائے گی کہ لوگ اس فن کو چھین لیں گے۔ کیونکہ تمام دنیا میں اس کے علاوہ کوئی اور عیب نہیں ہے کہ دعویٰ تو فن طب کا کیا جائے مگر اس کی اہلیت نہ ہو۔ اس کی مثال سراب کی ہے جسے لوگوں کی تفریح کی خاطر داستان گو حضرات پیش کرتے ہیں۔ جس طرح سراب کی محض صورتیں ہوتی ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی طرح نام کے اطباءتو زیادہ ہیں لیکن بالفعل بہت کم ہیں۔ جنرل یحییٰ اس انتظار میں تھے کہ چین یا امریکہ کی طرف سے امداد مل جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا فن طب حاصل کرنے والے کے لیے مناسب ہے کہ عمدہ اور ساز گار طبیعت، شدید سچی طلب اور مکمل رغبت رکھتا ہو۔ ان تمام باتوں میں سب سے افضل طبیعت کا مسئلہ ہے۔ یہ ساز گار موافق ہو تب ہی تعلیم کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ طالب فن گھبراہٹ اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے تاکہ اس کے فکر کے پردہ پر فن کی تصویریں چھپ سکیں اور بہتر نتائج برآمد ہوں۔ مثال کے لیے زمین کا پودا پیش نظر رکھو۔ طبیعت مثل مٹی کے تعلیمی عفت مثل کھیتی کے اور تعلیمی تربیت عمدہ زمین کے اندر بیج پڑنے کی مثل ہے۔ فن طب کے بارے میں جب ان باتوں پر توجہ مبذول کی جائے گی تب جو طلباءفارغ ہوں گے وہ محض نام کے نہیں بلکہ کام کے اطباءہوں گے۔ علم طب عالم طب کا ایک عمدہ خزانہ اور شاندار ذخیرہ ہے، کھلے اور چھپے طور پر وہ اسے خوشیوں سے بھر دے گا۔ مگر پیشہ طب اختیار کرنے والا اگر جاہل ہے تو اس کا فن برا ہے اس کا ذخیرہ خراب ہے وہ خوشی نہیں پا سکتا بے صبر ضعف کی علامت اور فن طب سے کم واقفیت کی دلیل ہے۔( جاری ہے ) مغربی فلسفے کی تاریخ میں والٹیروہ واحد دانشور ہے، جو شاید خود کو فلسفی کہلوانا بھی پسند نہ کرے نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔ مزید : ادب وثقافت - مشہور خبریں مزید Nov 27, 2022 | 15:42:PM امریکانے پاکستان کا خزانہ، پاکستان کو واپس کر دیا Nov 27, 2022 | 15:53:PM ” میڈم آپ مسلمان ہیں یا انگریز“ سارہ علی خان کی تازہ تصویر پر سوشل میڈیا صارفین ... Nov 27, 2022 | 14:34:PM والدنے بیٹی کی شادی کے موقع پر تقریب کے دوران ہی مائیک پکڑ کر بیوی کو طلاق دیدی Nov 28, 2022 | 22:12:PM لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا استعفیٰ فوری طور پر قبول کرلیا گیا Nov 27, 2022 | 16:55:PM ڈیفالٹ رسک خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے، مفتاح اسماعیل نے خبردار کر دیا Nov 27, 2022 | 22:23:PM حکمران کوئی اور ہیں ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں، مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بیان ای پیپر ویڈیو گیلری مزید کیا آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں؟ بھارتی تجزیے اور خدشے 3 ماہ بعد پاکستان میں پہلا موبائل فون لانچ Vivo Y35 مارکیٹ میں آگیا بلاگ جناب صدر!یہ آئین سے مذاق ہے؟ امجد عثمانی فیصلے کہاں ہو رہے ہیں،قبول کون کریگا ، این آر ٹو ... طیبہ بخاری معاملہ آرمی چیف کی تعیناتی کا سید عارف مصطفیٰ ملک ہے تو سب ہے بیرسٹر امجد ملک قدر کرنے کے لیے موت کا انتظار کیوں؟؟؟ محمد راحیل معاویہ گھر داماد ۔ ۔ ۔ راضیہ سید چین کی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے ثمرات شاہد افراز خان نیوزلیٹر You are subscribed Successfully اہم خبریں شیئرکریں ہوم ہمارے بارے میں رابطہ اشتہارات Privacy Policy Terms of Service Copyright 2022. Reproduction of this website's content without express written permission from 'Daily Pakistan' is strictly prohibited.
دیپالپور،جگنو ویلفیئر فاؤنڈیشن کے وفد کی ایم ایس ٹی ایچ کیو ہسپتال نعیم عطا سے ملاقات دیپالپور،سپیرئیر کالج کے زیرِ اہتمام سائنس اینڈ آرٹس نمائش منعقد اوکاڑہ،عوامی شکایات کا فوری ازالہ میرا مشن ہے،چوہدری عرفان سگی عمران خان کے پاس الزام تراشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،راؤ محمد اجمل خان دیپالپور،پرائم نیوز چینل کا افتتاح،معروف موٹیویشنل سپیکر سید قاسم علی شاہ کی خصوصی شرکت یوٹیلٹی سٹور کی سہولت اور او ٹی پی کی مصیبت ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ،پاکستان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا دیپالپور،نیشنل تھیلیسیمیا ڈے پر جگنو ویلفیئر اور ریسکیو 1122کے زیراہتمام واک دیپالپور،پی ڈی ایم کیساتھ اتحاد سیاسی ہے انتخابی نہیں،مفتی صفی اللہ دیپالپور کے نوجوان عمر بن عبدالعزیز کی صوبائی سطح پر تقریری مقابلوں میں دوسری پوزیشن 488 شیئر کریں شیرگڑھ،ٹریکٹر ٹرالی کی زد میں آکرپانچ سالہ بچہ جاں بحق Qasim Ali اگست 5, 2018 August 5, 2018 Post Views: 184 دیپالپور کے نواحی علاقے شیر گڑھ میں ایک پانچ سالہ بچہ گلی میں کھیل رہاتھا کہ وہاں سے گزرنے والی ٹریکٹر ٹرالی نے اسے کچل ڈالا جس کے باعث پانچ سالہ زین موقع پر جاں بحق ہوگیا.
الله تعالیٰ نے جس طرح حضرات انبیائے کرام علیہم السلام میں سے فخر ِ دو جہاں ، رحمت عالم، خاتم النبیین، سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا انتخاب فرمایا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی الله عنہم کا انتخاب بھی الله تعالیٰ نے خود فرمایا۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر صحابہ کرام رضی ا لله عنہم کے مقام اور ان کی حیثیت کو نہایت خوب صورت انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، بلاشبہ صحابہ کرام انتخاب ِ خدا وندی ہے ۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ کیجیے: ﴿ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْْنَا مِنْ عِبَادِنَا﴾(سورہ فاطر:32) ترجمہ:” پھر وارث بنایا ہم نے کتاب کا ان لوگوں کو، جن کا ہم نے اپنے بندوں میں سے انتخاب کیا۔“ لفظ”الکتاب“ یعنی قرآن مجید کے اولین وارث صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں۔ تفسیر مظہری میں ہے۔ ”عباد سے مراد صحابہ کرام ہیں او ران کے بعد قیامت تک آنے والے علمائے اُمت“۔ ا لله تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ایمان کو معیاری قرار دیتے ہوئے اسے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا۔ یعنی ایمان وہی قابل قبول ہو گا جو صحابہ کرام رضی الله عنہم جیسا ہو گا۔ چناں چہ سورة البقرة کی آیت نمبر137 ملاحظہ فرمائیں۔ ترجمہ:” سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح پر تم ایمان لائے، ہدایت پائی انہوں نے بھی اور اگر پھر جاویں تو پھر وہی ہیں ضد پر، سواب کافی ہے تیری طرف سے ان کو الله اور وہی ہے سننے والا، جاننے والا“۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں یہود ونصاریٰ مدعی تھے کہ ہدایت کا مدار یہودیت ونصرانیت ہے۔ اس کے جواب میں الله تعالیٰ نے ہدایت کا اصل معیار بیان فرمایا کہ اصل ہدایت تو انبیائے کرام او ران کی تعلیمات کی پیروی کا نام ہے۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ یہود ونصاری او رمشرکین اگر ایسا ہی ایمان لائیں جیسا کہ تمہارا ہے۔ یعنی تمام انبیاء پر ایمان تو پھر وہ بھی یقینا ہدایت یافتہ ہو جائیں گے او راگر وہ تم جیسا ایمان لانے سے پہلوتہی کریں اور اس سے انکار کریں تو سمجھ لو کہ یہ لوگ بغض وحسد اور ضد وعناد میں گرفتار ہیں۔ طلب ہدایت ان کا مقصد ہی نہیں ہے۔ ”اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا ایمان معیاری اورعندالله مقبول تھا اور وہ ہدایت یافتہ تھے۔ کیوں کہ یہود ونصاریٰ اور مشرکین کا ہدایت یافتہ ہونا ان جیسا ایمان لانے پر موقوف کیا گیا ہے۔“ (جواہر القرآن) اسی آیت کے ضمن میں معارف القرآن میں موجود ہے۔ ”شروع سورہٴ بقرة سے یہاں تک ایمان کی حقیقت کہیں مجمل کہیں مفصل بیان کی گئی ہے۔ اس آیت میں ایک ایسا اجمال ہے کہ جو تمام تفاصیل اور تشریحات پر حاوی ہے۔ کیوں کہ ”انتم“ کے مخاطب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایمان کو ایک مثالی نمونہ قرار دے کر حکم دیا گیا ہے کہ الله تعالیٰ کے نزدیک مقبول ومعتبر صرف اس طرح کا ایمان ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام ر ضی الله عنہم نے اختیار فرمایا۔ جواعتقاد اس سے سر مومختلف ہو، الله کے نزدیک مقبول نہیں“۔ الله تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے انتخاب ،یعنی صحابہ کرام رضی الله عنہم کے لیے بارہا سلام بھیجا۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَی آللَّہُ خَیْْرٌ أَمَّا یُشْرِکُونَ﴾ ترجمہ:” کہہ دیجیے( اے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم) تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے منتخب فرمایا ہے۔ بتاؤ کیا الله بہترہے یا وہ جن کو ان لوگوں نے الله کی خدائی میں شریک بنا رکھا ہے ؟“ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں۔ سفیان ثوری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر مظہری، اخرجہ عبد بن حمید والبزارو جریر وغیرہم) سورة الفتح آیت نمبر:28 میں الله تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی شان وشوکت اور رفعت ومنزلت کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ” محمد الله کے رسول ہیں او رجو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں۔ آپس میں مہربان ہیں۔ تو ان کو اس حال میں دیکھے گا کہ وہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجود میں ہیں، وہ الله کے فضل او ررضا مندی کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کی شان یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان ہیں۔ ان کی یہ مثال توریت میں ہے۔ اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی ہو، اس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس نے اسے قوی کیا، پھر وہ کھیتی موٹی ہو گئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، جو کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی، تاکہ الله ان کے ذریعے کافروں کے دلوں کو جلائے۔ الله نے ان لوگوں سے، جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، مغفرت او راجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔“ آپ درج بالا آیت کا باریک بینی سے جائزہ لیجیے کہ الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجنے سے بہت پہلے تو رات اور انجیل میں صحابہ کرام کی صفات وخصوصیات بیان فرمادیں۔ گویا آپ علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی رفعت وعظمت ، شان وشوکت اور فضیلت ومنقبت کے چرچے زبان زد عام تھے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے سابقہ انبیاء او ران کے پیروکاروں پر واضح فرما دیا تھا کہ سب سے آخر میں آنے والے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ساتھیوں کا انتخاب ہو چکا ہے او ران میں یہ خصوصیات موجود ہوں گی۔ چناں چہ اس آیت مبارکہ میں الله تعالیٰ نے صحابہ کرام کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ الله تعالیٰ نے صحابہ کرام کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ تو ان کو اس حال میں دیکھے گا کہ وہ کبھی رکوع کر رہے ہیں، تو کبھی سجدہ کر رہے ہیں۔ تیسری صفت الله تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ وہ الله کا فضل او راس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں۔ اسی آیت میں الله تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی۔ ”سیماھم في وجوھھم من اثر السجود“ اس کامطلب بتاتے ہوئے صاحب معالم التنزیل نے بہت سے اقوال بیان کیے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے جو ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آرہا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنے کی وجہ سے ان کے ماتھوں پر کچھ مٹی لگ جاتی ہے۔ بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ ”قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے۔ ان کے ذریعے پہچانے جائیں گے۔ یہ لوگ نماز پڑھنے میں زیادہ مشغول رہتے تھے“۔ (انوار البیان) پھر فرمایا کہ ان کی مذکورہ صفت تورات میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ پھر انجیل میں صحابہ کرام کی جو صفت بیان کی گئی اس کو بیان فرمایا۔ یعنی مثلہمفی الانجیل، اس مثال میں واضح کیا گیا کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ اولاً تھوڑے سے ہوں گے۔ پھر بڑھتے رہیں گے۔ مجموعی طور پر وہ ایک بڑی قوت بن جائیں گے۔ چناں چہ چشم فلک نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین پہلے تھوڑے سے تھے۔ پھر بڑھتے گئے، یہاں تک کہ زمانہ نبوت ہی میں صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو گئی تھی۔ انوار البیان میں ہے کہ” انہوں نے دین اسلام کو خوب پھیلایا۔ قیصرو کسریٰ کے تخت اُلٹ دیے۔ ان کے مقابلہ میں کوئی جماعت جم نہیں سکی تھی۔“ اسی آیت کے ضمن میں تفسیر مظہری میں ہے:”دانہ کے اندر سے جو سب سے پہلی سوئی پھوٹتی ہے، اس کو ”شطا“ کہتے ہیں۔” فاستغلظ“ وہ موٹی ہو گئی۔ یعنی پتلے پن سے موٹاپے کی طرف مائل ہوگئی۔ ” یعجب الزراع“ یعنی موٹی او رقوی اور خوب صورت ہو جانے کی وجہ سے وہ کاشت کاروں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔ الله نے دونوں بیانوں میں صحابہ کرام کی حالت بیان کی ہے ۔ پہلی تمثیل میں صلحائے امت اور تمام اولیائے امت بھی شامل ہیں،لیکن دوسری تمثیل صرف صحابہ کرام کے اوصافِ خصوصی کے ساتھ مختص ہے۔“ الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تنہا معبوث فرمایا۔ جیسے کاشت کار بیج زمین میں بوتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر، حضرت علی، حضرت بلال ایمان لائے۔ ان حضرات کے بعد حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت سعید، حضرت حمزہ ،حضرت جعفر اور دوسرے حضرات مسلمان ہوئے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر چالیسیویں نمبر پر ایمان لائے۔ شروع میں اسلام بے وطن( بے مدد گار) تھا۔ اسلام کومٹانے کے لیے ہر طرف سے ٹھٹ کے ٹھٹ چڑھ آئے۔ اگر الله کی حمایت نہ ہوتی تو ابتدائی پودے کی بالیدگی نہ ہوتی ، لیکن مہاجرین وانصار کی کوششوں سے الله نے اس پودے کو قوی کر دیا۔ صحابہ نے اس نونہال کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے خون سے سینچا اور سینچائی حضور علیہ السلام کے بعد بھی جاری رہی۔ (تفسیر مظہری) لیغیظ بھم الکفار… بھا کی ضمیر الذین معہ کی طرف راجع ہے۔ یا معنوی طور پر شطا کی طرف راجع ہے۔ کیوں کہ پہلی سوئی جودانے سے برآمد ہوتی ہے، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو (آغاز اسلام کے زمانہ میں ہی ) مسلمان ہو گئے۔ یعنی کافروں کو جلانے کے لیے الله نے اہل ایمان کو کافروں کے لیے سخت اور آپس میں مہربان اور نرم دل بنا دیا۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ نے فرمایا: ”صحابہ کے خلاف جس کے دل میں کوئی جلن اور غیظ ہو، وہ اس آیت کا مصداق ہے ۔“ بلاشبہ صحابہ کرام الله تعالی کا بے مثال اور لازوال انتخاب ہیں۔ اس بات کی گواہی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان مبارک سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت عویمر بن ساعدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الله تعالیٰ نے ( سب مخلوق میں سے) مجھے چن لیا او رمیری صحبت کے لیے میرے صحابہ کو چن لیا۔ ان میں سے بعض کو میرا وزیر، بعضوں کو میرا مدد گار اور بعضوں کو میرے قرابت دار بنایا۔ پس جو کوئی ان کو گالی دے (یا ان کے بارے میں بدگوئی کرے) اس پر الله کی لعنت ہو او رتمام فرشتوں کی لعنت ہو او رتمام لوگوں کی لعنت ہو۔ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض قبول نہ ہو گا نہ ہی نفل قبول ہو گا ( یعنی اس کے اعمال قیامت کے دن اس کے کسی کام نہیں آئیں گے)۔“ (طبرانی وحاکم) درج بالا فرمان نبوی سے بھی بخوبی واضح ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھیوں، یعنی صحابہ کرام رضی الله عنہم کا انتخاب، انتخاب خداوندی ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی او ربعد میں آنے والوں کے لیے انہیں ایمان کی کسوٹی قرار دیتے ہوئے فرمایا:”اصحابی کالنجوم فبایھم اقتدتیم اھتدیتم“․ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ صحابہ کرام روئے زمین پر ایک ایسی مقدس ومطہر جماعت کا نام ہے جس سے الله تعالیٰ راضی ہیں اور وہ الله تعالیٰ سے راضی۔ الله تعالیٰ نے اپنے انتخاب یعنی صحابہ کرام سے اپنی رضا مندی کا اعلان بھی قرآنِ مجید میں کر دیا۔ چناں چہ، سورة التوبة کی آیت نمبر100 ملاحظہ کیجیے۔ ﴿ والسبقون الاولون من المھٰجرین والانصار والذین اتبعوھم بإحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھٰر خلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم﴾․ ترجمہ:”مہاجرین او رانصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، الله ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بڑی کام یابی ہے“۔ قارئین محترم! جس گروہ سے الله تعالیٰ ہمیشہ کے لیے راضی ہو جائے او ران کے لیے ایسے باغات تیار کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں تو اس سے بڑی کام یابی او رکیا ہو سکتی ہے؟! دعا ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں نبی کریم علیہ السلام اور آپ کی مقدس جماعت صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ! شاہ فیصل کالونی نمبر4، کراچی پوسٹ کوڈ نمبر75230 ، پاکستان 0092-21-34571132 info@farooqia.com صفحہ اول تعارف دارالافتاء ماہنامہ الفاروق شعبہ تعلیم جامعہ فاروقیہ کراچی فیز II رابطہ طریقہ تعاون تجاویز ، تبصرے اور سوالات کا خیرمقدم info@farooqia.com پر کیا جاتا ہے کوئی حق اشاعت کا نوٹس نہیں۔ www.farooqia.com پر ظاہر ہونے والے تمام مواد کو غیر تجارتی مقاصد کے لئے آزادانہ طور پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ، اعتراف کی تعریف کی جائے گی. Suggestions, comments and queries are welcomed at info@farooqia.com No Copyright Notice. All the material appearing on www.farooqia.com can be freely distributed for non-commercial purposes. However, acknowledgement will be appreciated.
جس انقلاب نے نہ صرف ترکی کی معیشت کو سہارا دیا بلکہ بگڑے ہوئے ترک جرنیلوں کے ناک میں نکیل ڈال دی حتیٰ کے چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ترک عوام اور پولیس نے فوجی بغاوت کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ بلاشبہ ترکی کا دھاندلی سے پاک شفاف انتخابی نظام بھی اس جمہوری انقلاب کا ایک اہم اور بنیادی سبب ہے مگر ایک اور بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اردگان نے اپنی قوم کو مذھبی/ سیکولر، شیعہ/سنی، دیوبندی/بریلوی، نمازی/بےنمازی، ٹوپی/ پی کیپ، داڑھی/کلین شیو، برقعہ/میک اپ اور تسبیح و گٹار کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بجائے قوم کو روٹی، روزی و روزگار سے جڑے مسائل، انصاف، مساوات، مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے منشور پر اکٹھا کیا اور جب اقتدار نصیب ہوا تو قوم کو معاشی ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ بتدریج اسلامائزیشن بھی کی۔ نتیجتاً آج اردگان عالم اسلام کی سب سے زیادہ با عزت اور توانا آواز بن چکے ہیں۔ مغرب، روس اور اتحادی اردگان کے خلاف صف آرا ہیں، ممکن ہے انہیں دوبارہ اندرونی بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ جائے مگر اردگان نے اسلامی تحریکوں کو اس راز سے آشنا کر دیا ہے کہ ایک پرامن جمہوری انقلاب کیونکر ممکن ہے۔ پاکستان کی بہترین سوشل میڈیا سائٹ: فیس لور www.facelore.com پاکستان: ترکی کے مقابلے میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ پر ہے، تحریر و تقریر کی ایسی بے لگام آزادی کہ ساری دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر مذہبی و غیر مذہبی، علاقہ و قبیلہ کے خانوں میں تقسیم "گروہی جتھہ بندی" نے قوم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ سیکولر یا خود کو اعتدال پسند کہلوانے والے عناصر جو 1948 سے آج تک کسی نہ کسی روپ میں مسلط رہے، بدترین کرپٹ، بزدل اور نااہل ثابت ہوئے جنہوں نے سیاست و اقتدار کو صرف و صرف لوٹ مار اور اپنے ذاتی کاروبار کی وسعت کا زریعہ بنایا۔ مسلکی اور فرقہ پرستی میں لتھڑی ہوئی مذہبی سیاست کے علمبرداروں نے بھی قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مذہبی پیشواؤوں نے حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت ہر حکومت کے سانچے اور کھانچے میں فٹ ہو کر ایک دو وزارتوں، ایک دو چئیرمینیوں کے ساتھ ساتھ اپنے لیے مٹن بریانی کی دیگ اور اپنے مدارس کے طلبہ اور جذباتی پیروکاروں کے لیے چاول چنا کی چند پلیٹوں کا حصول کافی سمجھا۔ ایسے میں اردگان کی جیت پر جشن منانے والی اور خود کو ماڈرن اسلامی جمہوری جماعت کہلوانے والی جماعت اسلامی بھی اسلام کی حقیقی آئیڈیالوجی کو سمجھنے اور بہت حد تک اس پر عمل پیرا ہونے کے باوجود بھی آج تک قوم کو یہ سمجھا ہی نہیں سکی کہ وہ کہاں کھڑی ہے؟ جماعت اسلامی کے صالحین بھی اختلافی مسائل، فروعی و مسلکی مباحث، شخصیات کی نجی زندگیوں اور ذاتیات کو ہدف بنانے میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کیا ترکی، مراکش، کویت، الجزائر، فلسطین، تیونس اور مصر کے لوگ اسلامی تحریکات کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ وہاں کے کارکنان اپنا منشور پیش کرنے کے بجائے مخالف پارٹی کی لڑکیوں کے ڈانس، مجرے، ٹھمکے، ناچ گانے، برقعے اور میک اپ ڈسکس کرتے ہیں؟ کیا وہاں بھی اسلامی تحریکوں کے کارکن بنیادی انسانی مسائل کو زیر بحث لانے کے بجائے اپنا تقوی، داڑھی، ٹوپی، تسبیح، پرنا، کرتا، پاجامہ اور خشوع/خضوع دوسروں پر زبردستی ٹھونستے ہیں؟ Advertisements جوابآ ہر حال میں روایتی بھیڑ چال پر ڈٹے رہنے کے لیے فوراً سقراطی تاویل آ جائے گی، "ترکی، تیونس اور سوڈان کے حالات پاکستان سے مختلف ہیں" اب آپ ہی بتلائیے کہ اس کا کیا جواب ہے؟ Related پاکستان کی بہترین سوشل میڈیا سائٹ: فیس لور www.facelore.com سردار جمیل خان کرپشن فری آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے جدوجہد بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں Post navigation نکاحِ متعہ، حُرمت، دلائل اور اعتراضات کا اجمالی جائزہ نیا سال Leave a Reply Cancel reply یہ بھی پڑھیں موتیے کا ہار۔۔سیّد مہدی بخاری عوامی شعور اپنے آخری پڑاؤ پر۔۔۔۔محمد انس انیس گلگت بلتستان کا غیرمحفوظ مستقبل ۔۔ کچھ عملی اقدام وقت کا تقاضا ہے۔/شیر علی انجم مصالحوں کا بادشاہ جو 1500 روپوں سے 1500 کروڑ کے کاروبار کا مالک بن گیا۔۔ثنااللہ خان احسن EduBirdie Promo Code EduBirdie Discount Code EssayPro promo code samedayessay promo code Mukaalma Tv https://www.youtube.com/watch?v=acYEjmBW65Y پرانی تحاریر پرانی تحاریر Select Month December 2022 November 2022 October 2022 September 2022 August 2022 July 2022 June 2022 May 2022 April 2022 March 2022 February 2022 January 2022 December 2021 November 2021 October 2021 September 2021 August 2021 July 2021 June 2021 May 2021 April 2021 March 2021 February 2021 January 2021 December 2020 November 2020 October 2020 September 2020 August 2020 July 2020 June 2020 May 2020 April 2020 March 2020 February 2020 January 2020 December 2019 November 2019 October 2019 September 2019 August 2019 July 2019 June 2019 May 2019 April 2019 March 2019 February 2019 January 2019 December 2018 November 2018 October 2018 September 2018 August 2018 July 2018 June 2018 May 2018 April 2018 March 2018 February 2018 January 2018 December 2017 November 2017 October 2017 September 2017 August 2017 July 2017 June 2017 May 2017 April 2017 March 2017 February 2017 January 2017 December 2016 November 2016 October 2016 September 2016 Travel اہم روابط DONATE پالیسی تعارف رابطہ مکالمہ ٹیم تازہ تحاریر پیری کی پونجی/ڈاکٹر ستیہ پال آنند ٹپڑی واس/خنساء سعید (مقابلہ افسانہ نگاری) واخان کوریڈور ترقی کا درخشا ں راستہ، لیکن– قادر خان یوسف زئی آڈیو لیک پر زلفی بخاری کا ردعمل آ گیا ڈیلی میل نے شہباز شریف سے معافی مانگ لی پالیسی ”مکالمہ“ پر شائع شدہ تمام تحاریر اور تصاویر ”مکالمہ“ کی ملکیت ہیں۔ مصنف کے علاوہ کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ”مکالمہ“ پر شائع یا نشر شدہ مواد کو ادارے کی پیشگی اجازت اور مکالمہ کے حوالے کے بغیر استعمال کر سکے۔ ادارہ ”مکالمہ“ ایسی کسی صورت میں متعلقہ فرد، افراد یا ادارے کے خلاف کسی بھی ملک میں اسکے قانون کے تحت چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے۔ ایڈیٹر ”مکالمہ“ یا اسکا مقرر کردہ کوئی فرد یہ استحقاق استعمال کر سکے گا۔ ادارہ ”مکالمہ“۔۔۔ مزید معلومات
 طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق ۔ سرکاری ٹی وی | Urdu News - The 3rd Largest Online Urdu Newspaper The 3rd Largest Online Urdu Newspaper Wednesday, 22 December 2010 - 16:53 Publications Comments Home sitemap Download Urdu Font Urdu News طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق ۔ سرکاری ٹی وی awais on January 31, 2010 — Leave a Comment اورکزئی ایجنسی کے علاقے مامون زئی میں اتوار کے روز سپردخاک کردیا گیا ہے اسلام آباد ‘ طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے ۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق حکیم اللہ محسود پچھلے دنوں ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ چل بسے ۔ ذرائع کے مطابق اورکزئی ایجنسی کے علاقے مامون زئی میں انہیں اتوار کے روز سپرد خاک کردیا گیا۔ حکیم اللہ محسود طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر مقرر ہوئے تھے۔
یوپی ایس سی ریزلٹ: سرفہرست تینوں مقامات پر لڑکیاں قابض، اوّل رینک لانے والی شروتی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام کیا روشن 30 May 2022, 3:11 PM قومی خبریں جامعہ ملیہ کی رہائشی کوچنگ اکادمی کے 34 طلبا سول سروسز کے ’مین امتحان‘ میں کامیاب 24 Mar 2021, 3:11 PM قومی خبریں سدرشن ٹی وی معاملہ: فرقہ ورانہ بیانات سے نفرت پھیلا رہا چینل، کئی سابق افسران نے مودی حکومت کو لکھا خط
بیت المقدس(اےجنسےاں)مقبوضہ مغربی کنارے اسرائیلی فوج کے سرچ آپریشن میں جاں بحق ہونے والے سات سالہ فلسطینی بچے کو اہل خانہ نے سپرد خاک کردیا جبکہ امریکہ نے واقعہ کی مکمل اور فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 7 سالہ ریان یاسر سلیمان کا جسد خاکی فلسطینی اسکارف سے لپٹا ہوا تھا، جبکہ بیت المقدس کے قریب بچے کے آبائی شہر طوق کے راستے سے گزرنے والے جنازے میں سےکڑوں افراد نے شرکت کی۔ریان کے کزن محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ اسکول سے واپس آتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں نے ریان کا پیچھا کیا تھا، ریان اسرائیلی فوجیوں سے خوف زدہ ہو کر بھاگا اور گرگیا، کزن نے بتایا کہ اسے قریبی بیت جالا اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا۔یہ واقعہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں اسرائیلی فوج کے چھاپے میں 4 فلسطینیوں کی ہلاکت کے ایک دن بعد پیش آیا ہے۔فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے ریان کا پیچھا کیا جس کے بعد وہ اونچی عمارت سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔اسرائیلی فوج کاکہنا ہے کہ متعدد فلسطینیوں کی جانب سے شہریوں پر پتھراو ¿ کیا گیا جس کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے علاقہ کی تلاشی لی۔تاہم ابتدائی تحقیقات کے مطابق آئی ڈی ایف کی طرف سے علاقے میں لی گئی تلاشی اور بچے کی المناک موت کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ادھر امریکہ نے ریان سلیمان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل بچے کی پراسرار موت کی مکمل تحقیقات کرے۔واضح رہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب اسرائیلی فوج نے راد حازم کے بھائی عابد حازم کو گرفتار کرنے کےلئے جینن میں چھاپے مارے ، عابد حازم نے رواں سال اپریل میں تل ابیب کے ضلع میں فائرنگ کے تبادلے میں 3 اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS TAGS boy's death crime Palestinian Child Facebook Twitter Telegram WhatsApp Email Print Previous articleیوکرینی علاقوں کے انضمام کےخلاف قراردادکوروس کا ویٹو Next articleامریکہ سمندری طوفان سے پرےشان ،27افرادہلاک SNB Web Team RELATED ARTICLESMORE FROM AUTHOR تاریخ میں آج کا دن: ہندوستانی اور عالمی تاریخ کے اہم واقعات ۔ کیا ترکی اورامریکہ کے درمیان محاذ تیار ہورہا ہے عبیداللّٰہ ناصر: ہر موقع کو ایونٹ بنا دینا اسکی سنجیدگی اور بردباری کو ختم کر دیتا ہے advertisement Take your live gaming experience to the next level and play online roulette at PureWin where, thanks to its secure payment methods, Pure Win players are assured that they can play roulette online for real money with ease.
لاہور: کبڈی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان نے ایران کو شکست دے دی، فائنل میچ اب روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان آج کھیلا جائےگا۔پنجاب اسٹیڈیم لاہور میں جاری کبڈی کے سیمی فائنل میں پاکستان نے ایران کو 30 کے مقابلے میں 52 پوائنٹس سے شکست دی جب کہ بھارت نے آسٹریلیا کو 32 کے مقابلے میں 42 پوائنٹس سے ہرایا۔ پاکستان نے ایران کے خلاف زبردست پرفارمنس دیتے ہوئے برتری ثابت کی۔ ہاف ٹائم پر پاکستان کو 17 کے مقابلے میں 29 پوائنٹس کی سبقت تھی۔ پاکستان کی جانب سے کپتان عرفان مانا، شفیق چشی، ملک بن یامین، مشرف جنجوعہ، وقاص بٹ، اکمل شہزاد ڈوگر نے ٹیم کو کامیابی دلانے میں اہم کردار اداکیا۔قبل ازیں ایک اور سیمی فائنل بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا جس میں بھارتی کھلاڑیوں نے بہترین کھیل پیش کیا۔ ہاف ٹائم پر بھارت کو 14 کے مقابلے میں 28 پوائنٹس کی سبقت حاصل تھی۔ اسٹیڈیم میں موجود تماشایوں کی بڑی تعداد نے دونوں ٹیموں کو عمدہ کھیل پر بھرپور داد دی۔ دوسرے ہاف میں بھی بھارتی ٹیم نے خوب داو¿ پیچ لگائے اور مدِمقابل ٹیم پر غلبہ برقرار رکھا۔فائنل جیتنے والی ٹیم کو ٹرافی کے ساتھ ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گا جب کہ رنر اپ کو 75 لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔ اتوار کو شیڈول فائنل میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی آمد متوقع ہے۔ ضرور پڑھیں: امریکی سفارتخانے کے قریب راکٹوں سے حملہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں راکٹوں سے حملہ ہوا ہے جبکہ کئی راکٹ سفارتی کمپاونڈ میںامریکی سفارتخانے کے قریب گرے ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بغداد میں علیٰ الصبح سفاری زون میں راکٹ حملے کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ راکٹ امریکی سفارتخانے کے قریب آگرے تاہم ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ آیاراکٹوں کا ٹارگٹ واقعی امریکی سفارتخانہ تھا یا کچھ اور۔ Categories Sport Tags kabaddi, pak vs ind Post navigation Corona virus, US refuses to help China, Pak Air Force sends full luggage Pakistan’s most expensive wedding hit the FBR’s radar Leave a Comment Cancel reply Comment Name Email Website Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Δ Search Search Recent Post News of Prime Minister’s salary increase: ‘I will not apologize’ ہوائی ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد چھ افراد کی لاشیں ملی ہیں Pakistan most improved country in handling Nuclear weapons SBP has released bank note of Rs 75 PSL 8 set to kick off on February 9 Categories Courses (4) Crime (7) Daily Tips (7) Digital Marketing (1) Economy (3) News (36) Politics (15) SEO (1) Sport (13) technology (3) Uncategorized (6) Ilmeasy is free online courses, and tutorials website with an amazing LMS solution where you can complete the courses and get verified certificates.
یہ ایک ایسے شخص کی داستان حیات ہے جس کا انتقال ہمارے ہی زمانے میں ہوا یعنی 1910 میں یہ عظیم شخص اس قدر ہر دلعزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ۔ ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیںیا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں ۔اس کے دوست مسلسل کئی کئی برس تک اس کے گھر پرڈیرہ ڈالتے رہتے اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سا معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ صفحہ قرطاس پر رقم ہو جاتا بعد میں ان تمام واقعات کو موٹی موٹی جلدوں کی شکل میں شایع کیا گیا۔ اس کا نام ٹالسٹائی تھا اس کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 237,000 کتابیں او ر 56,000 مضامین لکھے جاچکے ہیں اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو جلدیں ہیں ایک شخص کے لیے اتنا زیادہ لکھنا ایک بہت بڑے معجزے کی سی بات ہے۔ اس کی داستان حیات بھی اس کے لکھے ہوئے بعض ناولوں کی طرح دلچسپ اور رنگین ہے وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا اس کے آس پا س دو لت کے انبار لگے ہوئے تھے اس نے قدیم روسی رئیسوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنی تمام زمین سے دستبردار ہوگیا۔ اس نے تمام دنیوی سازوسامان بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ مالی اعتبار سے یہ ایک غریب شخص کی موت تھی جسے چاروں طرف سے عقیدت مند کسانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ نوجوانی میں وہ بہت خوش لباس تھا وہ بڑی نزاکت سے زمین پر جچے تلے قدم رکھتا اور ماسکو کے اچھے سے اچھے درزیوں کی دکانوں کا طواف کرتا رہتا لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا اور لکڑی کی ایک بوسیدہ سی میز کرسی پر بیٹھ کر لکڑی کے چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا۔ نوجوانی میں خود اس کے الفاظ میں وہ ’’ایک گندی اور ناپاک زندگی ‘‘ بسر کرتا تھا شراب پیتا لوگوں سے لڑائیاں مول لیتا اور ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا جس کاذہن تصور کرسکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے کی سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی اس کی بیوی عیش و آرام کی دلدادہ تھی اور ٹالسٹائی کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی وہ شہرت اور وقار کی بھوکی تھی اور ٹالسٹائی ان باتوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا تھا جب کہ اسے دولت سے محبت تھی اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ دولت اکٹھی کرنا اور ذاتی جائیداد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے اور یہ کہ صرف محبت سے ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ کئی برس تک وہ اسے گالیوں ، بدعائوں اور طعنوں کا شکار بناتی رہی اور خود ٹالسٹائی کے الفاظ میں اس نے گھر کو جہنم کا نمونہ بنا دیا اس سارے فساد کی جڑ یہ تھی کہ ٹالسٹائی اس بات پر مصر تھا کہ وہ کوئی معاوضہ لیے بغیر روسی عوام کے لیے کتابیں لکھتا رہے گا آخر کار جب وہ بیاسی برس کا ہوا تو اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ اپنے ناخوشگوار گھریلو حالات کا مزید مقابلہ کر سکے چنانچہ 21 اکتوبر 1910 کی ایک تاریک اور خنک رات کو گھر سے نکل گیا یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کونسی ہے گیارہ روز بعد وہ نمونیے کا شکار ہوکر یہ کہتا ہوا ایک ریلوے اسٹیشن پر انتقال کر گیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے ‘‘ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’جستجو مسلسل جستجو ۔‘‘ ادب جدید کا رہبر میکسم گورکی کہتا ہے کہ ’’ ادب انسانیت کا نقاد ہے وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مکاریوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے ادب کی بے کلی اور تڑپ اس لیے ہے کہ آدمی کو سمجھائے کہ وہ حالات کا غلام نہیں ہے بلکہ حالات اس کے غلام ہیں۔ وہ آدمی کو بتلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کا مالک ہے اور اسے جس روش پر چاہے لے جا سکتا ہے اس لحاظ سے ادب تغیر پسند، قدامت شکن اور دور جدید کا پیش رو ہے۔‘‘ ادب زندگی کے اس سوال کا جواب ہے کہ انسان کس سے محبت اور کس سے نفرت کرے اور کس طرح زندہ رہے۔ ریاست کسی فرد یا طبقہ کا نام نہیں ہے ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہر سچا اورترقی پسند ادیب اپنے عوام کا وفادار ہوتاہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے انھیں زندگی اورترقی کی جدوجہد میں مدد دیتا ہے ۔ ہمارے عوام اس وقت غیر منظم ہیں کم تعلیم یافتہ ہیں انھیں یہ معلوم ہے کہ رجعتی مضبوط اور طاقتور ہیں اور انھوں نے عوام کو گمراہ کر نے کے لیے لاتعداد ذہنوں کو خرید رکھا ہے جس نظام میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں وہ گل سڑ چکا ہے۔ اب اس کی طبعی عمر بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت سے محروم ہے آج عوام کی جنگ آزادی ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جب طبقاتی کشمکش بڑھ رہی ہے۔ لوٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہو رہے ہیں۔ مرتا ہوا طبقاتی اور عدم مساوات کا نظام بڑھتے ہوئے انقلابی دھارے کو روکنا چاہتا ہے رجعتی طبقہ مختلف نظریات کے ذریعے عوام کے شعور اور عمل کو مفلوج کرنے کی کوشش کررہاہے تعلیم اور پرچار کے اکثر ذرایع اس کے ہاتھ میں ہیں وہ مخصوص اخبارات اور مخصوص ٹی وی چینلز کے ذریعے مسلسل زہریلا پرچار کررہا ہے رجعتی نظریات کے خلاف جدوجہد ترقی پسند ادیبوں کا بہت بڑا فرض ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف جم کر جنگ کرنی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے تعصب، نفرت ، انتہا پسند نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ فوچک ، چیکو سلواکیا کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اورایک ترقی پسند ادیب تھا جب جرمنوں نے چیکو سلواکیہ پر قبضہ کیا اور پارٹی غیر قانونی ہوگئی تب اس نے بڑے مشکل حالات میں پارٹی کے غیر قانونی پوشیدہ مرکز قائم کرنے اورغیر قانونی مرکزی اخبار نکالنے کے کام میں حصہ لیا لیکن جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالآخر انھوں نے اسے قتل کر ڈالا فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں یہ مضامین لکھے جو چیک قوم کے جیل کا نگراں محفوظ کرتا رہا،جب چیکو سلواکیہ آزاد ہوا تو ان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کردیا۔ فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ’’ میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے میں اس کی ہزاروں تفصیلوں سے واقف ہوں اب میں اسے لکھ ڈالنے کوشش کرتا ہوں چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندہ کتاب ختم کر نے سے پہلے ہی میر ا گلا گھونٹ دے پھر بھی لاکھوں ، کروڑوں انسان اس کاخوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے ‘‘ ایک انسان اور ایک ادب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرا اس سے متاثر ہوتا ہے، استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ہمارے عوام کی جیت یقینی ہے، بس ہم سب کو اپنی جدوجہد اور تیز کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے ۔ شیئر ٹویٹ شیئر مزید شیئر ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ سروے کیا عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ درست ہے؟ ہاں نہیں نتائج ملاحظہ کریں مقبول خبریں وسیم اکرم نے سابق ساتھیوں پرالزامات کی بوچھاڑ کردی سینٹورس مال کو ڈی سیل کر دیا گیا عاشق مست جلالی سپریم کورٹ؛ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ آج ہی درج کرنے کا حکم میچ میں مقامی افراد کی بدتمیزی پر حسن علی کو غصہ آگیا بے نظیر بھٹو کا مجسمہ؛ عزت دے رہے ہیں یا مذاق اڑا رہے ہیں؟ لیڈی گاگا کے کتے کو گولی مارنے والے شخص کو21 سال قید کی سزا فیفا ورلڈکپ؛ کیا میچز میں استعمال ہونیوالی فٹبالز کو چارج کیا جاسکتا ہے؟ تازہ ترین سلائیڈ شوز انگلینڈ اور پاکستان کرکٹ ٹیموں کے اعزا زمیں عشائیہ پاک انگلینڈ کرکٹ ٹیموں کا پریکٹس سیشن Showbiz News in Urdu Sports News in Urdu International News in Urdu Business News in Urdu Urdu Magazine Urdu Blogs The Express Tribune Express Entertainment صفحۂ اول تازہ ترین پاکستان انٹر نیشنل کھیل کرکٹ انٹرٹینمنٹ دلچسپ و عجیب سائنس و ٹیکنالوجی صحت بزنس بلاگ ویڈیوز express.pk خبروں اور حالات حاضرہ سے متعلق پاکستان کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع شدہ تمام مواد کے جملہ حقوق بحق ایکسپریس میڈیا گروپ محفوظ ہیں۔ ایکسپریس کے بارے میں ضابطہ اخلاق ایکسپریس ٹریبیون ہم سے رابطہ کریں © 2022 EXPRESS NEWS All rights of publications are reserved by Express News. Reproduction without consent is not allowed.
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری اور پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار کے درمیان ٹوئٹر ... عظمیٰ بخاری کا بزدار کیخلاف چوری کا مقدمہ درج کرانے کا اعلان by Web Desk مارچ 24, 2022 0 ترجمان مسلم لیگ ن پنجاب، عظمیٰ بخاری نے وزیراعلیٰ ہاﺅس کا ریکارڈ غائب کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ...
پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر راہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک عبوری متحدہ حکومت کی ضرورت ہے جو بنیادی اصلاحات کے بعد فوری طور شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرا دے۔ لندن سے جہاں نواز لیگ کے سینئر رہنما اپنی پارٹی کی قیادت کے ساتھ اہم امور پر صلاح مشورے کے لیے موجود ہیں، احسن اقبال نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گتگو میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ معاشی ابتری کے علاوہ فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا مسئلہ ہو یا الیکشن کمشن کے سربراہ اور ممبران کی تعیناتی، ہر جگہ بحرانی کیفیت نظر آتی ہے۔ ان حالات میں لازم ہو گیا ہے کہ حکومت گھر جائے اور اس کی جگہ متحدہ حکومت لائی جائے جو دو تین ماہ کے اندر نئے انتخابات کرا دے۔ انہوں نے کہا کہ لندن میں پارٹی کی سینئر قیادت کی موجودگی کا مقصد فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کے بارے میں مشاورت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمشن میں نئے سربراہ اور اراکین کے انتخاب کے لیے بھی رہنمائی لینا ہے۔ انہوں نے کہا ہے حکومت کی اپنی اتحادی جماعتیں عمران خان حکومت سے خوش نہیں ہیں اور کئی امکانات کھلتے ہیں۔ مسلم لیگ بحیثیت سیاسی جماعت تمام اپوزیشن اور حکومت کی اتحادیوں پارٹیوں کے، سب کے ساتھ ملک کی بہتری کے لیے رابطے میں ہے اور توقع رکھتی ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی ہو یا کسی عبوری حکومت کی ضرورت، تمام پارٹیاں ملک کے مفاد میں فیصلہ کریں گی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پارٹی کا بیانیہ اب بھی ووٹ کو عزت دو ہے لیکن اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ جب سے مسلم لیگ کی سنئر لیڈرشپ لندن پہنچی ہے، پاکستان میں ذرائع ابلاغ میں مائنس ون (عمران خان) فارمولا زیربحث ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کی قیاس آرائیاں ہیں تو کہیں نئے انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایسے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ پارٹی کے سنیئر رہنما جہانگیر ترین اور وزیردفاع پرویز خٹک نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت یا تحریک انصاف میں مائنس ون فارمولے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان ہیں تو حکومت ہے اور تحریک انصاف ہے۔ پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگر کچھ پارٹی اراکین ناراض ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ پارٹی کے وفاردار نہیں۔ سب پارٹی کے ساتھ ہیں اور گلے شکوے ہوتے ہیں جن کا وقت کے ساتھ ازالہ کر لیا جاتا ہے۔ ادھر جہانگیر ترین نے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ سب اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں اور کوئی بھی اتحاد سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ احسن اقبال نے مزید بتایا کہ پارٹی کے تاحیات سپریم لیڈر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں ڈاکٹر ہنوز تشخیص کے مرحلے میں ہیں اور دیکھا جا رہا ہے کہ آخر ان کے خون میں سفید خلیوں کی تعداد میں کیوں اچانک کمی بیشی ہو رہی ہے۔ ان کے بقول ممکن ہے کہ میاں صاحب کو علاج کی غرض سے امریکہ جانا پڑے اور جب تک وہ زیرعلاج ہیں، میاں شہباز شریف بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کی نائب صدر اور میاں نواز شریف کی صاحبزادی بھی اپنے والد کے ساتھ چند دن گزارنا چاہتی ہیں۔ جس کی اجازت کے لیے اعلی عدلیہ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ فیس بک فورم یہ بھی پڑھیے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ عدالتیں، نواز شریف اور ریلیف نواز شریف کی بیماری یا مسئلہ کچھ اور ہے؟ مریم نواز کا ملک سے باہر جانے کے لیے عدالت سے رجوع ویو 360 Embed share ویو 360 | پاکستانی معیشت: آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں ہوا، تجزیہ کار| منگل، 7 دسمبر 2022 کا پروگرام Embed share The code has been copied to your clipboard. width px height px فیس بک پر شیئر کیجئیے ٹوئٹر پر شیئر کیجئیے The URL has been copied to your clipboard No media source currently available 0:00 0:24:30 0:00 ویو 360 | پاکستانی معیشت: آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں ہوا، تجزیہ کار| منگل، 7 دسمبر 2022 کا پروگرام
فراہم کنندہ\_نام کے بارے میںprovider\_name پر پیش کردہ گیمزProvider\_name پر دستیاب سافٹ ویئرڈیپازٹ کے طریقے provider\_name پر قبول ہیں۔provider\_name پر کیوں کھیلیں؟ فراہم کنندہ\_نام کے بارے میں provider_name ایک اچھی طرح سے قائم کردہ عمودی_نام ہے، جو provider_year_founded میں قائم کیا گیا تھا۔ provider_name کو site_url پر provider_date_added کے بعد سے درج کیا گیا ہے، اور کھلاڑی کی مجموعی درجہ بندی کی بنیاد پر 10 میں سے فراہم کنندہ_درجہ بندی کی گئی ہے، بشمول تجربہ، جمع کرنے کے طریقے، بونس، پیش کردہ مختلف قسم کے گیمز اور بہت کچھ۔ provider\_name پر پیش کردہ گیمز provider_name کے پاس منتخب کرنے کے لیے گیمز کا ایک اچھا انتخاب ہے۔ یہاں site_url پر ہم ان کے مقبول فراہم کنندہ_bonus_amount vertical_name بونس کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ casinorank_provider_random_games_linked_list کچھ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی گیمز ہیں جو Provider_name کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، بہت سے دوسرے لوگوں کے درمیان۔ Provider\_name پر دستیاب سافٹ ویئر جوئے کے شوقین کے لیے سافٹ ویئر کا انتخاب اہم ہو سکتا ہے۔ Provider_name کی طرف سے پیش کردہ گیمز کو کچھ معروف پروڈیوسرز، جیسے casinorank_provider_random_softwares_linked_list کے ذریعے تعاون فراہم کرتے ہیں۔ ڈیپازٹ کے طریقے provider\_name پر قبول ہیں۔ چاہے آپ مقبول ادائیگی کے طریقوں کو ترجیح دیں یا شاید زیادہ مقامی طریقوں کو، provider_name نے آپ کا احاطہ کیا ہے۔ provider_name جمع کرنے کے طریقوں کو سپورٹ کرتا ہے جیسے casinorank_provider_random_deposit_methods_linked_list، casinorank_provider_deposit_methods_count دیگر ادائیگی کے اختیارات کے ساتھ۔ provider\_name پر کیوں کھیلیں؟ یہاں CasinoRank میں ہم ہمیشہ اپنی تحقیق کرتے ہیں، تاکہ آپ آرام سے بیٹھ سکیں، آرام کر سکیں اور گیمنگ کا بہترین تجربہ حاصل کر سکیں۔ site_url پر موجود تمام کیسینو کی طرح، provider_name مکمل طور پر لائسنس یافتہ ہے اور site_url کی جانب سے اس کا اچھی طرح سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ سیکورٹی کے علاوہ، یہ vertical_name شاندار گرافکس اور مجموعی طور پر صارف دوست تجربہ کا حامل ہے۔ اگر آپ کے ذمہ دار گیمنگ کے بارے میں سوالات ہیں یا آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہے، تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے نیچے دی گئی ویب سائٹس پر جائیں۔ گیم کیئر GambleAware جواری گمنام Casino Kakadu Online Casino جائزہ Casino Kakadu Mobile Casino جائزہ Casino Kakadu Live Casino جائزہ فائدے + ادائیگی کے اچھے حل + بہت سے لوکلائزیشنز + 1-3 گھنٹے واپس لے لو فوری کیسینو حقائق Year founded: 2021 بونس (1) مفت گھماؤ بونس جمع کرنے کے طریقے (14) Credit Cards Debit Card EcoPayz Interac MasterCard Neosurf NetellerPaysafe CardSkrill Trustly Visa iDEAL instaDebit instaDebit زبانیں (2) انگریزی جرمن سافٹ ویئر (26) 1x2GamingAmatic IndustriesAuthentic GamingBGAMINGBetsoftBooming GamesEndorphinaEvolution GamingGreenTubeMicrogamingNetEntNolimit CityPlaysonPlaytechPocket Games Soft (PG Soft)Pragmatic PlayPush GamingQuickfireQuickspinRelax GamingSpinomenalThunderkickTom Horn GamingTrue LabWazdanYggdrasil Gaming سپورٹ کی اقسام (2) براہراست گفتگوسپورٹ ای میل لائسنس (1) Malta Gaming Authority ممالک (7) آسٹریا آسٹریلیا جرمنی فن لینڈ ناروے پولینڈ کینیڈا کرنسیاں (6) امریکی ڈالر جاپانی ین نارویجن کرونر پولش زلوٹی کینیڈین ڈالر یورو کھیل (9) BaccaratMini BaccaratScratch Cardsبلیک جیکرولیٹیسلاٹسویڈیو پوکرٹیکساس ہولڈمپوکر About CasinoRankContact usResponsible gamingCookie policyPrivacy policy BitcoinSkrillMasterCardVisaNeteller RTPBaccaratبلیک جیکپوکرسلاٹس ٹاپ 5 آن لائن کیسینو گیمز جن میں 2022 میں جیتنے کے لیے بہترین امکانات ہیں۔ہر وقت کے سب سے دلچسپ کیسینو لطیفے اور پنسہر وہ چیز جو آپ کو کیسینو پٹ باسز کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔2022 میں شرط لگانے کے تقاضوں کو صاف کرنے کے لیے بہترین سلاٹس
توضیح المسائل: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ » توضیح المسائل: آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی دام ظلہ ، واجب غسل → عبادات (وضو) اِستِحاضَہ ← واجب غسل واجب غسل سات ہیں : (پہلا) غسل جنابت (دوسرا) غسل حیض (تیسرا) غسل نفاس (چوتھا) غسل استحاضہ (پانچواں) غسل مس میت (چھٹا) غسل میت اور (ساتواں) و غسل جو منت یا قسم وغیرہ کی وجہ سے واجب ہو جائے۔ جنابت کے احکام 351۔ دو چیزوں سے انسان جُنُب ہو جاتا ہے اول جماع سے اور دوم منی کے خارج ہونے سے خواہ و نیند کی حالت میں نکلے یا جاگتے ہیں، کم ہو یا زیادہ، شہوت کے ساتھ نکلے یا بغیر شہوت کے اور اس کا نکلنا متعلقہ شخص کے اختیار میں ہو یا نہ ہو۔ 352۔ اگر کسی شخص کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا پیشاب یا کوئی اور چیز اور اگر وہ رطوبت شہوت کے ساتھ اور اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست ہو گیا ہو تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن اگر ان تین علامات میں سے ساری کی ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم میں نہیں آئے گی۔ لیکن اگر متعلقہ شخص بیمار ہو تو پھر ضروری نہیں کہ وہ رطوبت اچھل کر نکلی ہو اور اس کے نکلنے کے وقت بدن سست ہو جائے بلکہ اگر صرف شہوت کے ساتھ نکلے تو وہ رطوبت منی کے حکم میں ہوگی۔ 353۔ اگر کسی ایسے شخص کے مخرج پیشاب سے جو بیمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو جس میں ان تین علامات میں سے جن کا ذکر اوپر والے مسئلہ میں کیا گیا ہے ایک علامت موجود ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ باقی علامات بھی اس میں موجود ہیں یا نہیں تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پہلے اس نے وضو کیا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ اسی وضو کو کافی سمجھے اور اگر وضو نہیں کیا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے اور اس پر غسل کرنا لازم نہیں۔ 254۔ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پیشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس کے مخرج پیشاب سے رطوبت خارج ہو جس کے بارے میں وہ نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے۔ 355۔ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل سپاری کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی فرج میں داخل ہو جائے تو خواہ یہ دخول فرج میں ہو یا دُبُر میں اور خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ اور خواہ منی خارج ہو یا نہ ہو دونوں جنب ہو جاتے ہیں۔ 356۔ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل سپاری کی مقدار تک داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔ 357۔ نعوذ باللہ اگر کوئی شخص کسی حیوان کے ساتھ وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو اور اس نے وطی کرنے سے پہلے وضو کیا ہوا ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر وضو نہ کر رکھا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور وضو بھی کرے اور مرد یا لڑکے سے وطی کرنے کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔ 358۔ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہیں تو اس پر غسل واجب نہیں ہے۔ 359۔ جو شخص غسل نہ کر سکے لیکن تیمم کر سکتا ہو وہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے۔ 360۔ اگر کوئی شخص اپنے لباس میں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس نے اس منی کے لئے غسل نہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی تھیں ان کی قضا کرے لیکن ان نمازوں کی قضا ضروری نہیں جن کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے سے پہلے پڑھی تھیں۔ وہ چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں: 361۔ پانچ چیزیں جنب شخص پر حرام ہیں: (اول) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کے الفاظ یا اللہ تعالی کے نام سے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو مس کرنا۔ اور بہتریہ ہے کہ پیغمبروں، اماموں اور حضرت زہرا علیہم السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔ (دوم) مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں جانا ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔ (سوم) مسجد الحرام اور اور مسجدی نبوی کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ٹھہرنا۔ اور احتیاط واجب کی بنا پر اماموں کے حرم میں ٹھہرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کو عبور کرے مثلاً ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (چہارم) احتیاط لازم کی بنا پر کسی مسجد میں کوئی چیز رکھنے یا کوئی چیز اٹھانے کے لئے داخل ہونا۔ (پنجم) ان آیات میں سے کسی آیت کا پرھنا جن کے پرھنے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے اور وہ آیتیں چار سورتوں میں ہیں (1) قرآن مجید کی 32 ویں سورۃ (آلمّ تنزیل) (2) 41 ویں سورۃ (حٰمٓ سجدہ) (3) 53 ویں سورۃ (وَالنَّجم) (4) 96 ویں سورۃ (عَلَق) وہ چیزیں جو مجنب کے لئے مکروہ ہیں 362۔ نو چیزیں جنب شخص کے لئے مکروہ ہیں: (اول اور دوم) کھانا پینا۔ لیکن اگر ہاتھ منہ دھولے اور کلی کرلے تو مکروہ نہیں ہے اور اگر صرف ہاتھ دھولے تو بھی کراہت کم ہوجائے گی۔ (سوم) قرآن مجید کی ساتھ سے زیادہ ایسی آیات پڑھنا جن میں سجدہ واجب نہ ہوا۔ (چہارم) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجید کی جلد، حاشیہ یا الفاظ کی درمیانی جگہ سے چھونا۔ (پنجم) قرآنی مجید اپنے ساتھ رکھنا۔ (ششم) سونا۔ البتہ اگر وضو کرلے یا پانی نہ ہونے کی وجہ سے غسل کے بدلے تیمم کرلے تو پھر سونا مکروہ نہیں ہے۔ (ہفتم) مہندی یا اس سے ملتی جلتی چیز سے خضاب کرنا۔ (ہشتم) بدن پر تیل ملنا۔ (نہم) احتلام یعنی سوتے میں منی خارج ہونے کے بعد جماع کرنا۔ غسل جنابت 363۔ غسل جنابت واجب نماز پڑھنے کے لئے اور ایسی دوسری عبادات کے لئے واجب ہو جاتا ہے لیکن نماز میت، سجدہ سہو، سجدہ شکر اور قرآن مجید کے واجب سجدوں کے لئے غسل جنابت ضروری نہیں ہے۔ 364۔ یہ ضروری نہیں کہ غسل کے وقت نیت کرے کہ واجب غسل کر رہا ہے، بلکہ فقط قُربَۃ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالی کی رضا کے ارادے سے غسل کرے تو کافی ہے۔ 365۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور غسل واجب کی نیت کرلے لیکن بعد میں پتہ چلے کہ اس نے وقت سے پہلے غسل کر لیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے۔ 366۔ غسل جنابت دو طریقوں سے انجام دیا جا سکتا ہے ترتیبی اور ارتماسی۔ ترتیبی غسل 367۔ ترتیبی غسل میں احتیاط لازم کی بنا پر غسل کی نیت سے پہلے پورا سر اور گردن اور بعد میں بدن دھونا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ بدن کو پہلے دائیں طرف سے اور بعد میں بائیں طرف سے دھوئے۔ اور تینوں اعضاء میں سے ہر ایک کو غسل کی نیت سے پانی کے نیچے حرکت دینے سے ترتیبی غسل کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط اس پر اکتفانہ کرنے میں ہے۔ اور اگر وہ شخص جان بوجھ کر یا بھول کر یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کا غسل باطل ہے۔ 368۔ اگر کوئی شخص بدن کو سر سے پہلے دھوئے تو اس کے لئے غسل کا اعادہ کرنا ضروری نہیں بلکہ اگر بدن کو دوبارہ دھولے تو اس کا غسل صحیح ہو جائے گا۔ 369۔ اگر کسی شخص کو اس بات کا یقین نہ ہو کہ اس نے سر، گردن اور جسم کا دایاں و بایاں حصہ مکمل طور پر دھولیا ہے تو اس بات کا یقین کرنے کے لئے جس حصے کو دھوئے اس کے ساتھ دوسرے حصے کی کچھ مقدار بھی دھونا ضروری ہے۔ 370۔ اگر کسی شخص کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ بدن کا کچھ حصہ دھلنے سے رہ گیا ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ کونسا حصہ ہے تو سر کا دوبارہ دھونا ضروری نہیں اور بدن کا صرف وہ حصہ دھوا ضروری ہے جس کے نہ دھوئے جانے کے بارے میں احتمال پیدا ہوا ہے۔ 371۔ اگر کسی کو غسل کے بعد پتہ چلے کہ اس نے بدن کا کچھ حصہ نہیں دھویا تو اگر وہ بائیں طرف ہو تو صرف اسی مقدار کا دھو لینا کافی ہے اور اگر دائیں طرف ہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد بائیں طرف کو دوبارہ دھوئے اور اگر سر اور گردن دھلنے سے رہ گئی ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھونے کے بعد دوبارہ بدن کو دھوئے۔ 372۔ اگر کسی شخص کو غسل مکمل ہونے سے پہلے دائیں یا بائیں طرف کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک گزرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار دھوئے اور اگر اسے سر یا گردن کا کچھ حصہ دھوئے جانے کے بارے میں شک ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر سر اور گردن دھونے کے بعد دائیں اور بائیں حصے کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔ ارتماسی غسل ارتماسی غسل دو طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ دَفعی اور تَدرِیجِی۔ 373۔ غسل ارتماسی دفعی میں ضروری ہے کہ ایک لمحے میں پورے بدن کے ساتھ پانی میں ڈبکی لگائے لیکن غسل کرنے سے پہلے ایک شخص کے سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا معتبر نہیں ہے۔ بلکہ اگر بدن کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو اور غسل کی نیت سے پانی میں غوطہ لگائے تو کافی ہے۔ 374۔ غسل ارتماسی تدریحی میں ضروری ہے کہ غسل کی نیت سے ایک دفعہ بدن کو دھونے کا خیال رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ لگائے۔ اس غسل میں ضروری ہے کہ بدن کا پورا حصہ غسل کرنے سے پہلے پانی سے باہر ہو۔ 375۔ اگر کسی شخص کو غسل ارتماسی کے بعد پتہ چلے کہ اس کے بدن کے کچھ حصے تک پانی نہیں پہنچا ہے تو خواہ وہ اس مخصوص حصے کے متعلق جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ضروری ہے کہ دوبارہ غسل کرے۔ 376۔ اگر کسی شخص کے پاس غسل ترتیبی کے لئے وقت نہ ہو لیکن ارتماسی غسل کے لئے وقت ہو تو ضروری ہے کہ ارتماسی غسل کرے۔ 377۔ جس شخص نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھا ہو وہ ارتماسی غسل نہیں کر سکتا لیکن اگر اس نے بھول کر ارتماسی غسل کر لیا ہو تو اس کا غسل صحیح ہے۔ غسل کے احکام 378۔ غسل ارتماسی یا غسل ترتیبی میں غسل سے پہلے سارے جسم کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں غوطہ لگانے یا غسل کے ارادے سے پانی بدن پر ڈالنے سے بدن پاک ہو جائے تو غسل صحیح ہوگا۔ 379۔ اگر کوئی شخص حرام سے جنب ہوا ہو اور گرم پانی سے غسل کرلے تو اگرچہ اسے پسینہ بھی آئے تب بھی اس کا غسل صحیح ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے۔ 380۔ غسل میں بال برابر بدن بھی اگر ان دھلا رہ جائے تو غسل باطل ہے لیکن کان اور ناک کے اندرونی حصوں کا اور ہر اس چیز کا دھونا جو باطن شمار ہوتی ہو واجب نہیں ہے۔ 381۔ اگر کسی شخص کو بدن کے کسی حصے کے بارے میں شک ہو کہ اس کا شمار بدن کے ظاہر میں ہے یا باطن میں تو ضروری ہے کہ اسے دھولے۔ 382۔ اگر کان کی بالی کا سوراخ یا اس جیسا کوئی اور سوراخ اس قدر کھلا ہو کہ اس کا اندرونی حصہ بدن کا ظاہر شمار کیا جائے تو اسے دھونا ضروری ہے ورنہ اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔ 383۔ جو چیز بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو ضروری ہے کہ انسان اسے ہٹا دے اور اگر اس سے پیشتر کہ اسے یقین ہو جائے کہ وہ چیز ہٹ گئی ہے غسل کرے تو اس کا غسل باطل ہے۔ 374۔ اگر غسل کے وقت کسی شخص کو شک گزرے کہ کوئی ایسی چیز اس کے بدن پر ہے یا نہیں جو بدن تک پانی پہنچنے میں مانع ہو تو ضروری ہے کہ چھان بین کرے حتی کہ مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں ہے۔ 385۔ غسل میں کہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کو جو بدن کا جزوشمار ہوتے ہیں دھونا ضروری ہے اور لمبے بالوں کا دھونا واجب نہیں ہے بلکہ اگر پانی کو جلد تک اس طرح پہنچائے کہ لمبے بال تر نہ ہوں تو غسل صحیح ہے لیکن اگر انہیں دھوئے بغیر جلد تک پانی پہنچاجا ممکن نہ ہو تو انہیں بھی دھونا ضروری ہے تاکہ پانی بدن تک پہنچ جائے۔ 386۔ وہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے لئے بتائی جا چکی ہیں مثلاً پانی کا پاک ہونا اور غصبی نہ ہونا وہی شرائط غسل کے صحیح ہونے کے لئے بھی ہیں۔ لیکن غسل میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان بدن کو اوپر سے نیچے کی جانب دھوئے۔ علاوہ ازیں غسل ترتیبی میں یہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن دھونے کے بعد فوراً بدن کو دھوئے لہذا اگر سر اور گردن دھونے کے بعد توقف کرے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد بدن کو دھوئے تو کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری نہیں کہ سر اور گردن یا تمام بدن کو ایک ساتھ دھوئے پس اگر مثال کے طور پر سر دھویا ہو اور کچھ دیر بعد گردن دھوئے تو جائز ہے لیکن جو شخص پیشاب یا پاخانہ کے نکلنے کو نہ روک سکتا ہو تاہم اسے پیشاب اور پاخانہ اندازاً اتنے وقت تک نہ آتا ہو کہ غسل کرکے تماز پڑھ لے تو ضروری ہے کہ فوراً غسل کرے اور غسل کے بعد فوراً نماز پڑھ لے۔ 387۔ اگر کوئی شخص یہ جانے بغیر کہ حمام والاراضی ہے یا نہیں اس کی اجرت ادھار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خواہ حمام والے کو بعد میں اس بات پر راضی بھی کرلے اس کا غسل باطل ہے۔ 388۔ اگر حمام والا ادھار غسل کرنے کے لئے راضی ہو لیکن غسل کرنے والا اس کی اجرت نہ دینے یا حرام مال سے دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کا غسل باطل ہے۔ 389۔ اگر کوئی شخص حمام والے کو ایسی رقم بطور اجرت دے جس کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو تو اگرچہ وہ حرام کا مرتکب ہوگا لیکن بظاہر اس کا غسل صحیح ہو گا اور مستحقین کو خمس ادا کرنا اس کے ذمے رہے گا۔ 390۔ اگر کوئی شخص مقعد کو حمام کے حوض کے پانی سے پاک کرے اور غسل کرنے سے پہلے شک کرے کہ چونکہ اس نے حمام کے حوض سے طہارت کی ہے اس لئے حمام والا اس کے غسل کرنے پر راضی ہے یا نہیں تو اگر وہ غسل سے پہلے حمام والے کو راضی کر لے تو صحیح ورنہ اس کا غسل باطہ ہے۔ 391۔ اگر کوئی شخص شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ غسل کرے لیکن اگر غسل کے بعد شک کرے کہ غسل صحیح کیا ہے یا نہیں تو دوبارہ غسل کرنا ضروری نہیں۔ 392۔ اگر غسل کے دوران کسی شخص سے حَدَثِ اصغر سرزد ہوجائے مثلاً پیشاب کردے تو اس غسل کو ترک کرکے نئے سرے سے غسل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس غسل کو مکمل کر سکتا ہے اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر وضو کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ شخص غسل ترتیبی سے غسل ارتماسی کی طرف یا غسل ارتماسی سے غسل ترتیبی یا ارتماسی دفعی کی طرف پلٹ جائے تو وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔ 393۔ اگر وقت کی تنگی کی وجہ مکلف شخص کا وظیفہ تیمم ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ غسل اور نماز کے لئے اس کے پاس وقت ہے غسل کرے تو اگر اس نے غسل قصد قربت سے کیا ہے تو اس کا غسل صحیح ہے اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لئے غسل کیا ہو۔ 394۔ جو شخص جنیب ہو اگر وہ شک کرے کہ اس نے غسل کیا ہے یا نہیں تو جو نمازیں وہ پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں لیکن بعد کی نمازوں کے لئے غسل کرنا ضروری ہے۔ اور اگر نماز کے بعد اس سے حدث اصغر صادر ہوا ہو تو لازم ہے کہ وضو بھی کرے اور اگر وقت ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر جو نماز پڑھ چکا ہے اسے دوبارہ پڑھے۔ 395۔ جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں وہ ان سب کی نیت کرکے ایک غسل کر سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک مخصوص غسل کا قصد کرے تو وہ باقی غسلوں کے لئے بھی کافی ہے۔ 396۔ اگر بدن کے کسی حصے پر قرآن مجید کی آیت یا اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا ہو تو وضو یا غسل ترتیبی کرتے وقت اسے چاہئے کہ پانی اپنے بدن پر اس طرح پہنچائے کہ اس کا ہاتھ ان تحریروں کو نہ لگے۔ 397۔ جس شخص نے غسل جنابت کیا ہو ضروری نہیں ہے کہ نماز کے لئے وضو بھی کرے بلکہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی سوائے غسل اِستِخاضئہ مُتَوسِطّہ اور مستحب غسلوں کے جن کا ذکر مسئلہ 651 میں آئے گا بغیر وضو نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ وضو بھی کرے۔ فائل اٹیچمنٹ: حالیہ تبصرے اس کہانی کے بارے میں تبصرے نام ای میل ایک تصویر میں کوڈ درج کریں: × درباره نویسنده بستن یکشنبه ۱۳ آذر ۱۴۰۱ * ۱۰ جمادی الاول ۱۴۴۴ * Sunday 4 Dec 2022 * مناسبت های روز نماز جمعہ تقریریں شرعی احکام نماز جمعہ تقریریں Powered by Ferdows CMS Pro 1.2.0 2011 All right reserved. سیستم مدیریت محتوا فردوس ، اتوماسیون اداری فردوس ، سیستم اتوماسیون اداری، ویدئو کنفرانس، سیستم مدیریت محتوا فردوس ، بهترین سایت ساز امنیت اطلاعات و ارتباطات ناجی ممیزی امنیت Security Audits سنجش آسیب پذیری ها Vulnerability Assesment تست نفوذ Penetration Test امنیت منابع انسانی هک و نفوذ آموزش هک
یو ٹیوب آج کی سب سے زیادہ مقبول آن لائن ذرائع میں سے ایک ہے ۔ تازہ ترین خبریں، موسیقی، فلم ٹریلرز، دستاویزی فلموں، شوقیہ ریکارڈنگ اور مضحکہ خیز ویڈیو وغیرہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یوٹیوب کا دورہ کریں ۔ یو ٹیوب میں زیادہ اہم چیز یہ آپ اپنے لمحات ویڈیوز کی شکل میں اشتراک کرنے کے لئے کی صلاحیت دیتا ہے کہ یہ حقیقت ہے ۔ تاہم، وہاں ہو سکتا دفعہ جب آپ حذف کر دی جو آپ نے پہلے اپ لوڈ ہوتی تھی ایک ویڈیو چاہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اپ لوڈ بہت ایک سوچ اور ایک لمحے کی ایک گانٹھ میں دینے کے بغیر کیا گیا تھا یا آپ کو محض پرانی وڈیو چاہتے ہیں اس حقیقت کی وجہ سے چلے گئے اور ایک نئی اور تازہ ترین اس کی جگہ ڈال دیں ۔ ہو بھی آپ اپنی ویڈیو یا بعض اوقات پورے چینل یوٹیوب پر گرانے کے لیے مجبور ہو کاپی رائٹ کے ساتھ مسائل ہیں ۔ کیا وجوہات ہیں کوئی بات نہیں، ہم آپ کو آپ کی یو ٹیوب ویڈیوز اور چینلز بہت آسان مراحل کی مدد سے حذف کرنے کا طریقہ بتانے کے لئے جا رہے ہیں ۔ حصہ 1 ایک انفرادی ویڈیو یوٹیوب سے حذف کرنے کا طریقہ شروع ساتھ شروع کرنے کے لئے ایک انفرادی ویڈیو یو ٹیوب پر حذف کرنے کا طریقہ سیکھنے کے ساتھ ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ صرف ان ویڈیوز کو آپ خود اپ لوڈ ہوتی ہے کہ حذف کر سکتے ہیں ۔ ایک بار حذف کر دی ہے، کوئی بھی اب تمہارا اس خاص ویڈیو دیکھنے کے لئے کے قابل نہیں ہوگا ۔ بھی، اس وقت آپ صرف ویڈیوز iOS پر یو ٹیوب اپلی کیشن کا استعمال کرتے ہوئے خارج کر سکتے ہیں اور android ڈاؤن لوڈ، اور بھی طور پر لاگ آن ہونے میں آپ یو ٹیوب کے لئے using اکاؤنٹ ایک کمپیوٹر ہے ۔ iOS مرحلہ 1 ۔ یو ٹیوب کو میں لاگ ان کریں اور پھر مینو کے سب سے اوپر بائیں ہاتھ کی طرف کونے سے درج ذیل بٹن کا استعمال کرتے ہوئے کھولیں ۔ مرحلہ 2 ۔ میرے چینل کے لئے جانا > ویڈیو ویڈیوز کی فہرست دیکھنے کے لیے آپ کی طرف سے اپ لوڈ ہے ۔ مرحلہ 3 ۔ ایک بار جب آپ حذف شدہ حسب ویڈیو ملی، مینیو کے ساتھ ویڈیو تفصیلات دی کے لئے نیچے دیئے گئے شبیہ پر کلک ۔ مرحلہ 4 ۔ اس کے بعد صرف 'حذف کریں' بٹن یا شبیہ پر کلک کریں اور یہ ہے ۔ Android ڈاؤن لوڈ، مرحلہ 1 ۔ یو ٹیوب کو میں لاگ ان کریں اور پھر درج ذیل شبیہ یا بٹن پر کلک کریں ۔ مرحلہ 2 ۔ میرے چینل کے لئے جانا > ویڈیو ویڈیوز کی فہرست دیکھنے کے لیے آپ کی طرف سے اپ لوڈ ہے ۔ مرحلہ 3 ۔ ایک بار جب آپ حذف کیا آپ چاہتے ہیں اس ویڈیو سے ملا ہے، جو آپ کے سامنے ویڈیو ڈی تلاش کرنا چاہئے مینیو کے لئے نیچے دیئے گئے شبیہ پر کلک اس ویڈیو کو اب خارج کرنے کے لئے 'ڈیلیٹ' کا اختیار پھر منتخب کریں ۔ کرنے کی ویڈیو کو اب ۔ کمپیوٹر مرحلہ 1: اس ربط کے لیے - http://www.youtube.com/my_videos جائیں اور اپنے YouTube اکاؤنٹ میں سائن ان کریں ۔ مرحلہ 2: نشان زد کریں اس ویڈیو کو آپ حذف کرنا چاہتے ہیں پڑتال خانہ حق کے ساتھ استعمال کریں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں آپ بھی کثیر وڈیو مسلیں منتخب کر سکتے ہیں ۔ مرحلہ 3: اب، اعمال اور منتخب حذف کریں یہ عمل مکمل کرنے کے لئے جانا ۔ حصہ 2 ایک یو ٹیوب چینل کو حذف کرنے کا طریقہ / YouTube اکاؤنٹ اگر آپ یو ٹیوب کا چینل ہے, امکانات ہیں کہ یہ بھی اپنا Google + پروفائل سے وابستہ ہے ۔ یہاں ہے کہ کس طرح آپ اپنا چینل اس صورت میں حذف کرسکتے ہیں ۔ مرحلہ 1: پر اس ربط http://www.google.com/settings پر کلک کریں اور پھر بٹن پر انتہائی دائیں ہاتھ کی طرف یا نیچے اسکرین شاٹ میں نشان زد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سائن ان کریں ۔ اس بات کو یقینی بنانے آپ آپ یو ٹیوب کا چینل ہے کہ ایک ہی اکاؤنٹ استعمال کرتے ہوئے سائن ان ہیں کہ ۔ مرحلہ 2: ایک بار جب آپ لاگ ان ہیں, اب اکاؤنٹ ترجیحات پر کلک کریں ۔ مرحلہ 3: جب تک آپ 'حذف کریں آپ کے اکاؤنٹ یا خدمات' کا اختیار دیکھ لیں اب اگلے صفحے پر، صفحے کے نیچے بہت نیچے طومار کریں ۔ ایک بار جب آپ یہ پایا جاتا ہے، اس پر کلک کریں ۔ مرحلہ 4: اگلی سکرین میں، 'میں اسکرین شاٹ دیا اختیار حذف کی مصنوعات' کے طور پر منتخب کریں ۔ مرحلہ 5: اب صرف 'یو ٹیوب' اگلی حذف شبیہ پر کلک کریں اور آپ کو کیا جاتا ہے ۔ آپ کو بالآخر پورے یو ٹیوب کا چینل کی حذف ہے ۔ حصہ 3 کچھ ٹپس اور ٹرکس کے لئے ویڈیوز یو ٹیوب اور دیگر ویڈیو ویب سائٹ سے حذف کر رہا ہے ۔ اگر یو ٹیوب اور دیگر ویڈیو سائٹس سے ویڈیوز حذف کرنا چاہتے ہیں تو اب آپ براہ راست ماخذ سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ کچھ اور دیگر تمام ویڈیو ویب سائٹس کے لئے کا ایک طریقہ ہو گی زیادہ سے اکثر آپ کو ان کے ساتھ اپنے اکاؤنٹ تک رسائی اور جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ وہی حذف ہے یو ٹیوب کے ساتھ معاملہ ۔ اگر آپ نے اپ لوڈ ہوتی ہے نہ حذف شدہ ایک وڈیو چاہتے ہیں تو بہر حال، پھر آپ اس سے پہلے کہ آپ حاصل ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کچھ ناکامیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار حاصل کریں ۔ آپ دیکھیں کہ یہ ویب سائٹ ایک تفصیلی وضاحت کی ضرورت ہے گا کیوں کے وہ اس ویڈیو کے نیچے لینا چاہئے ۔ تو, آپ قبل اس کے کہ تم ان سے رجوع آپ حقائق کے ساتھ تیار رہنا ہوگا ۔ آپ اس کا نتیجہ فوری طور پر مل سکتا نہیں بھی، اس سے پہلے کہا تھا کہ مسلسل ہو ۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ایک شعبہ ہے جو اس طرح کی شکایات کے ساتھ معاملہ کے ساتھ رابطے میں حاصل کرنے کے لئے ہے ۔ ان کی طرف سے ای میل یا باقاعدہ رابطہ فارم دستیاب ان ویب سائٹس کے ذریعے سے رابطہ کریں ۔ آپ کیس اور آپ اسے اچھی طرح بنائیں کہ بات کو یقینی بنائیں ۔ آپ بھی اپنے علاقے میں متعلقہ حکام کو قانونی خلاف ورزیوں کی رپورٹ اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فوری طور پر اس معاملے کا پیچھا کیا ۔ کسی بھی صورت میں پہلا اور اہم ترین قاعدہ ہے آپ حصہ داری یا پہلی جگہ پر اپنے ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے ساتھ دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لئے. بہت سے مسائل کو اس طرح روک دیا جا کر سکتے ہیں ۔ مصنوعہ سے متعلق سوالات؟ بات ہماری سپورٹ ٹیم کو براہ راست >> گرم، شہوت انگیز مضامین اوپر 10 ذیلی بنانے والا سافٹ ویئر اوپر 10 سب سے زیادہ دیکھا 4K فلموں میں 2014 میں ڈینیل پیریز مسلیں سکیڑیں میں میک جیت (ونڈوز 10 شامل) کرنے کے لئے کیسے اوپر 10 ویڈیو گرفت سافٹ ویئر 2015 تک ونماک کے لئے مفت IPhone پر اور android ڈاؤن لوڈ، انگور نہیں ہاتھ سے کیا کرنے کے لئے کیسے فیس بک وڈیو نہیں چل رہا؟ چلو یہ درست کریں ۔ 4 K فوٹیج میں ایڈوب پریمئیر میں مداخلت کی تدوین کرنے کے لیے کس طرح سب سے اوپر 3 مفت ویڈیو بدل کار سیمسنگ ٹی وی پر اتکو کھیلنے کا طریقہ 3D فلیش تصویر گیلری، نگارخانہ بنانے کا طریقہ > وسیلہ > ویڈیو > یوٹیوب ویڈیوز اور چینل کو حذف کرنے کا طریقہ دکان وونڈرشری ڈاؤن لوڈ سینٹر مصنوعات کی تلاش وونڈرشری کی دریافت صوت لائسنس کاری شراکت دار کمپنی کی تاریخ میڈیا سینٹر ایوارڈ کی حمایت رجسٹریشن کوڈ باز گیری اکثر پوچھے گئے سوالات کے مرکز رابطہ کریں سپورٹ ٹیم وونڈرشری سائٹس لفظ آن لائن مفت PDF وسیلہ فون ڈیٹا کی وصولی آئی فون کی بیرونی ہارڈ ڈرائیو کے لیے فوٹو سب سے اوپر فون ٹرانسفر سافٹ ویئر میک پر کوڑا کرکٹ بحال SD کارڈ وصولی Windows کے لیے سریع وقت میڈیا Player Android ڈاؤن لوڈ، ماہرین سے جوابات ہم سے رابطہ کریں ہمارا نیوزلیٹر حاصل کریں سبسکرائب کریں آپ کے ملک کو منتخب کریں امریکہ سب سے اوپر Wondershare کے بارے میں | قواعد و شرائط | پرائیویسی | لائسنس معاہدہ | سائٹ کا نقشہ | ہم سے رابطہ | بلاگ | وسیلہ
انڈونیشیا کے دوسرے بڑے شہر سورابایا میں تین گرجا گھروں پر خودکش حملوں کے ایک روز بعد شہر میں پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر دھماکہ ہوا ہے۔ سورابایا پولیس کے ترجمان فرانس برونگ منگیرا نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پولیس ہیڈکوارٹر پر پیر کو موٹرسائیکل سوار حملہ آور دھماکہ خیز مواد پھینک کر فرار ہوگئے جس کے نتیجے میں چھ عام شہری اور چار پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔ حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو موٹرسائیکلوں پر سوار چار افرادپولیس ہیڈکوارٹر پر پہنچے اور اس کے دروازے پر تعینات پولیس اہلکاروں کے نزدیک رکے جس کے فوراً بعد ہی دو دھماکے ہوئے۔ اس حملے سے قبل اتوار کو شہر کے تین گرجا گھروں پر خود کش حملوں میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اتوار کو حملے کا نشانہ بننے والے ایک گرجا گھر میں آگ بھڑک رہی ہے پولیس حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق گرجا گھر حملوں میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ملوث تھے جن میں والدین اور ان کی نو اور 12 سال کی دو بچیاں اور دو بیٹے شامل تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاندان کے سربراہ نے بارود سے بھری اپنی گاڑی شہر کے ایک مرکزی گرجا گھر سے ٹکرائی۔ واقعے کے چند منٹ بعد ہی اس کی اہلیہ نے اپنی دو بچیوں کے ساتھ ایک دوسرے گرجا پر حملہ کیا۔ تینوں خواتین نے بارودی جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ اسی خاندان کے 16 اور 18 سالہ بیٹوں نے اپنی موٹر سائیکل ایک تیسرے گرجا کے نزدیک دھماکے سے اڑادی۔ گرجا گھروں پر حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں قبول کرلی ہے۔ تاہم داعش نے اپنے بیان میں حملے کی وجوہات یا حملہ کرنے والے خاندان سے متعلق کچھ نہیں کہا اور دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں تین خودکش بمبار ملوث تھے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور خاندان شام سے واپس لوٹا تھا۔ انڈونیشین پولیس کے سربراہ ٹیٹو کارناویان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ خودکش حملے میں ملوث خاندان کا سربراہ داعش سے منسلک انڈونیشی شدت پسند تنظیم 'جماعۃ انشورۃ الدولہ' کی سورابایا شاخ کا سربراہ تھا۔ پولیس ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے سڑک بند کر رکھی ہے یہ تنظیم گزشتہ سال بھی انڈونیشیا میں ہونے والے بعض دہشت گردوں حملوں میں ملوث تھی۔ اتوار کے حملوں میں بچوں کے ملوث ہونے کے انکشاف نے انڈونیشیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور آبادی کےا عتبار سے دنیا کے سب سے بڑے اس مسلم ملک میں انتہا پسندی کے رجحانات پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ انڈونیشیا کی آبادی 26 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ حکام کا کہناہے کہ داعش کے پروپیگنڈے سے انڈونیشی مسلمان بھی متاثر ہوئے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق انڈونیشیا کے 1100 شہری داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے شام جاچکے ہیں۔ اتوار کو ہی ایک دوسرے واقعے میں سورابایا کے نزدیک ایک قصبے سدوآرجو میں ایک گھر میں گھریلو ساختہ بم پھٹنے سے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ فیس بک فورم یہ بھی پڑھیے انڈونیشیا: تین گرجا گھروں کے باہر خودکش حملے انڈونیشیا میں جاری ہونے والا اجتماعی فتویٰ کس حد تک مؤثر؟ پرتشدد انتہا پسندی اور خود کش حملے اسلام کے منافی ہیں: علمائے دین کا فتویٰ زیادہ پڑھی جانے والی خبریں 1 فٹ بال ورلڈ کپ: سعودی کوچ کی والدہ ان سے مایوس کیوں؟ 2 وسیم اکرم کی سوانح عمری: پی سی بی میں اقربا پروری کے الزامات 3 عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا 4 پی کے میپ میں پھوٹ: کیا محمود اچکزئی کی پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہو رہی ہے؟ 5 کرونا پابندیوں میں سنکیانگ کی عمارت میں اموات؛ چین کے مختلف حصوں میں احتجاج شروع زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر 1 عمران خان کی ٹیلی تھون: 15 ارب کے اعلانات کے بعد صرف چار ارب روپے کیوں جمع ہوئے؟ 2 عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑنے میں آدھا منٹ بھی نہیں لگاؤں گا: وزیرِ اعلیٰ پنجاب 3 آئیوری کوسٹ میں سونے کی تلاش کیوں بڑھ گئی ہے؟ 4 امریکہ: تارکینِ وطن نے تھینکس گیونگ کیسے منایا؟ 5 پاکستان: سال بہ سال | 2006 ویو 360 Embed share ویو 360 | پاکستان میں مہنگائی؛ غریبوں کو مفت بجلی دینا ہوگی، تجزیہ کار| جمعہ، 25 نومبر 2022 کا پروگرام Embed share The code has been copied to your clipboard. width px height px فیس بک پر شیئر کیجئیے ٹوئٹر پر شیئر کیجئیے The URL has been copied to your clipboard No media source currently available 0:00 0:24:30 0:00 ویو 360 | پاکستان میں مہنگائی؛ غریبوں کو مفت بجلی دینا ہوگی، تجزیہ کار| جمعہ، 25 نومبر 2022 کا پروگرام
کھانے کا ضیاع تب ہوتا ہے جب سٹور "بدصورت" سبزی اور پھلوں یا میعاد ختم ہونے والے کھانے کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیونکہ صارفین انہیں نہیں خریدتے۔ کئی امریکی تنظیمیں اس طرزعمل کو تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ (© Shutterstock.com) خوراک کا ضیاع دنیا میں بھوک کے مسئلے کو بد سے بدتر بناتا ہے اور موسمیاتی بحران کے ایک بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک تہائی خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پھینکے جانے والے کھانے گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراجوں میں سے 8% اخراجوں کا باعث بنتے ہیں۔ امریکہ میں فعال کارکن اور تنظیمیں کھانوں کی ری سائیکلنگ کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کی کوششوں سے کمیونٹیوں کو کھانا کھلانے اور کاربن کے اخراجوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ “خوراک کھیت سے کچرے میں جائے” یہ نہیں ہو سکتا جب 14 سالہ ماریہ روز بیلڈنگ رضاکارانہ طور پر خیراتی کام کر رہی تھیں تو انہوں نے ایسے میں میعاد ختم ہونے والا کھانا کچرے میں پھینکتے ہوئے دیکھا جب لوگ ایک مقامی فوڈ بینک میں قطار میں کھڑے کھانا لینے کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے جنوری میں بی بی سی کو بتایا، “مجھ میں آج تک جتنے بھی تکلیف دہ احساسات پیدا ہوئے ہیں یہ احساس اُن میں سے ایک تھا۔” انہوں ‘ مینز’ کے نام سے ایک ڈیٹا بیس تیار کرنے میں کئی برس صرف کیے۔ یہ پلیٹ فارم ریستوراںوں اور پرچون کی دکانوں کو [مفت کھانا فراہم کرنے والے] اُن فوڈ بینکوں، فوڈ پینٹریز، سوپ کچن، شیلٹرز اور عبادت گاہوں سے جوڑتا ہے جو فاضل یا ایسا کھانا تقسیم کرتے ہیں جن کی معیاد ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ اگر اس قسم کے کھانے کو تقسیم نہ کیا جائے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کی ابتدا تو ایک چھوٹے سے پہلیٹ فارم کی شکل میں ہوئی مگر اس کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ بیلڈنگ بتاتتی ہیں، “ہم نے دو ریاستوں سے اس کا آغاز کیا [مگر] 2015 کے آخر تک یہ پلیٹ فارم 26 [ریاستوں] میں استعمال کیا جانے لگا۔ ہم نے یہ پلیٹ فارم امریکی یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے سے چلایا۔” ماریا روز بیلڈنگ کو جارج ایچ ڈبلیو بش کے ‘ پوائنٹس آف لائٹ ایوارڈز گالا’ کی نیو یارک سٹی میں 2019 میں ہونے والی ایک تقریب میں ایوارڈ دیا گیا۔ (© Jamie McCarthy/Getty Images) اس وقت سے لے کر اب تک ‘ مینز’ ڈیٹا بیس کے ذریعے 3.1 ارب کلوگرام سے زیادہ خوراک بچائی جا چکی اور اور امریکہ میں 537,000 سے زائد افراد کو کھانا دیا جا چکا ہے۔ امریکی طلبا کی زیرقیادت چلنے والی ‘ فارم لنک پراجیکٹ’ ایک ایسی غیر منفعتی تنظیم ہے جو کسانوں کو فوڈ بینکوں سے براہ راست جوڑ کر اپنا کام کرتی ہے۔ اس تنظیم کے سی ای او اور شریک بانی جیمز کنوف کہتے ہیں، “ہم ایک ایسا فوڈ سسٹم بنانے کے مشن پر ہیں جو لوگوں اور ہماری زمین کو اولیت دیتا ہے۔” رضاکار طلباء کسانوں کی فالتو پیداوار کو قریبی فوڈ بینکوں میں پہنچاتے ہیں جو انہیں ضرورت مند امریکیوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ 2020 سے اب تک فارم لنک پراجیکٹ نے تقریباً 24.5 ملین کلوگرام خوراک کو بچا کر امریکہ بھر میں 44.8 ملین افراد کو کھانا فراہم کیا۔ اس سے 10,300 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراجوں کو روکا گیا جس کی مثال 2,200 کاروں کو سڑکوں سے ہٹا لینے کے برابر ہے۔ فارم لنک پراجیکٹ کے حال ہی میں شروع کیے گئے ‘ فارم لنک پراجیکٹ میکسیکو’ اب تک 112,000 کلوگرام سے زیادہ سبزی ملک کے فوڈ بینکوں میں پہنچا چکا ہے۔ ‘ بدصورت’ پھلوں اور سبزیوں کو بچانا 2019 میں اربن ڈیل، آئیوا میں سبزی کی دکان پر “نامکمل” آلو (© Charlie Neibergall/AP Images) سبزیوں کے سٹور بعض اوقات کھانے کے لیے مکمل طور پر موزوں مگر دیکھنے میں بدصورت دکھائی دینے والی سبزی یا پھلوں کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیونکہ صارفین “نامکمل سبزیاں یا پھل نہیں خریدتے۔ گھروں پر سودا سلف پہنچانے والی ‘ امپرفیکٹ فوڈز” نامی کمپنی امریکہ کے سٹوروں سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ کر لیتی ہے اور انہیں ہر ہفتے لوگوں کے گھروں پر پہنچاتی ہے۔ سات سال قبل ‘ امپرفیکٹ فوڈز’ کے قیام سے لے کر اب تک اس تنظیم نے 14.5 ارب لٹر پانی کی بچت کر کے اور 35,000 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیدا ہونے کو روک کر 63,049,000 کلوگرام خوراک کو ضائع ہونے سے پچایا۔ اس کمپنی کا کہنا ہے، “جب ہم کھانے کی جو چیزیں اگاتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ انہیں کھایا جائے تاکہ اس کے اگانے میں کام آنے والے تمام وسائل یعنی پانی، توانائی، مالی سرمایہ کاری، وقت اور دیکھ بھال کی قدر کی جائے۔” ٹیگز آب و ہوا میں تبدیلی خوراک رضاکاری کچرا کم کرنا گرین ہاؤس گیسیں شامل کریں اِسے شیئر کریں Tweet on Twitter ShareAmerica متعلقہ مضامینمصنف کی مزید تصانیف امریکی اور افریقی لیڈروں کا سربراہی اجلاس: ایک روزافزوں شراکت کاری ہر قسم کے بحران میں پہنچنے والے … اور کھانے بنانے والے موسمیاتی تبدیلی خوراک کے بحران کو کس طرح متاثر کرتی ہے امریکہ اور گھانا کے گہرے تعلقات کی غماز نئی چاکلیٹ فیکٹری پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لیے دنیا کا مقدمہ تیار کرنا رابطے میں رہیے رابطے میں رہیے Email Address reCAPTCHA شئیر امیریکہ کے لیے پرائیویسی پالیسی ہمارے متعلق اس سائٹ کومحکمہ خارجہ کا عالمی امور کا بیورو چلاتا ہے۔ دوسری انٹر نیٹ سائٹوں کے لیے بیرونی لنکوں کے دیےجانے کو، ہماری طرف سے اُن کے نقطہائے نظر یا پرائیویسی پالیسی کی توثیق نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
ہالینڈسےتعلق رکھنےوالےاکاونٹنگ جائنٹ کےپی ایم جی کی جانب سےکئےگئےحالیہ سروےکےمطابق مندرجہ ذیل 10شہروں کاشمارٹیکنالوجی کےمیدان میں ان کی غیرمعمولی ترقی کےباعث دنیاکے10بہترین شہروں میں کیاجاسکتاہے۔ وہ عوامل جن کی وجہ سےان شہروں کودنیاکے10جدیدترین شہروں کادرجہ دیاگیاان میں سےایک ان شہروں میں گہری تحقیق کی حامل جامعات کاہونا،متحرک اورتوانائی سےبھرپورلائف اسٹائل اورتربیت یافتہ نوجوان ٹیلنٹ شامل ہیں۔ آسٹن اورسیاٹل نوےکی دہائی کاثقافتی پاورہاوس سیاٹل مائیکروسوفٹ ، ایمازون اورکافی کنگ سٹاربکس جیسی دنیاکی معروف کمپنیوں کاگھرہےاورجس کی مقبول ایپ ادائیگی کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہے۔دوسری جانب آسٹن ٹیکساس ہےجس نےڈراپ باکس،اوریکل اورٹیسلاجیسی کمپنیوں کی سیلی کون ویلی سےہجرت کاسب سےزیادہ فائدہ اٹھایااورانہیں لون سٹارسٹیٹ کےٹھنڈےمرکزمیں لےگیا۔ ہانگ کانگ ہانگ کاسائنس پارک اپنی مثال آپ ہےاوردیکھنےوالوں کوتعریف پرمجبورکردیتاہے۔ تیزی سےترقی کرتاہوایہ وسیع وعریض شہرجدت کامرکزسمجھاجاتاہے۔ اس ایک شہرمیں 600ٹیکنالوجی کمپنیاں ہیں اورلگ بھگ 13ہزارکےقریب ٹیک ٹیلنٹس ہانگ کانگ کواپناگھرسمجھتےہیں۔ بنگلورو بھارتی شہربنگلورویابنگلوراپنےملک کاہائی ٹیک صنعتی شہرگرداناجاتاہے۔ انفوسس ، ٹیک مہندرااورایس اےپی لیبزانڈیااسی شہرمیں بیسڈہیں۔ یہ شہربھارت اورپوری دنیاکےسکلڈاورٹیلنٹڈنوجوانوں کیلئےایک پرکشش شہرکی حیثیت رکھتاہے۔ ٹوکیو جاپان کےدارلحکومت ٹوکیوکی دنیامیں بڑی اہمیت ہے۔ ٹیکنالوجی اورجدت کےحوالےسےاس شہرکی تاریخ بہت طویل ہےجس نےفوجیٹسو،ہٹاچی اوراین ٹی ٹی جیسی نامورکمپنیوں کوجنم دیا۔اب منی ٹری اوریپلی جیسےاداروں کےساتھ ٹوکیونےٹیکنالوجی اورجدت کےمیدان میں لمباسفرطےکرناہے۔ شنگھائی چین کاسب سےبڑاشہرشنگھائی توپہلےسےہی گلوبل فنانشل حب کےطورپرجاناجاتاہےاوراس کےساتھ ساتھ ڈیلائٹ،آئی بی ایم اورپی ڈبلیوسی جیسی کمپنیوں کےریجنل ہیڈکوارٹرزکےساتھ اس شہرکی بطورٹیکنالوجی حب اورتخلیقی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے۔ لندن ایسٹ لندن ٹیک سٹی کوٹیک سٹی یاسیلیکون راونڈاباوٹ بھی کہاجاتاہے۔ جہاں سسکو،فیس بک،گوگل اورانٹل جیسی کمپنیوں کےدفاترہیں اوراس جگہ سرمایہ کاری کےسنہری مواقع ہیں۔ اس کےعلاوہ امپیریل کالج لندن،لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی اوریونیورسٹی آف لندن جیسےعالمی شہرت کےحامل تعلیمی ادارےبھی اس جگہ واقع ہیں۔ اس طرح اس شہرکی اہمیت دوچندہوجاتی ہے۔ بیجنگ چین کادارلحکومت بیجنگ جدت اورجدیدیت کےان گنت ذرائع کاحامل شہرسمجھاجاتاہے۔ اس شہرمیں 90یونیورسٹیاں ، 1000سائنٹفک ریسرچ کےادارےاورریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، اوراس کےعلاوہ ژون گوان چن حب بھی موجود ہے۔ یہاں 9000ٹیک کمپنیاں جن میں ال چیمپئن بائیدواورسوشل میڈیاجائنٹ سیناکارپوریشن شامل ہیں۔ تل ابیب فی کس کےحساب سےدیکھاجائےتودنیامیں سب سےزیادہ ٹیک سٹارٹ اپس کی تعدادتل ابیب میں سب سےزیادہ ہے۔ اس شہرکوسیلیکون وادی کےنام سےبھی جاناجاتاہے۔ نیویارک امریکی شہرنیویارک کوجدت کی دنیاکامرکزسمجھاجاتاہےاوراس کی وجہ وہ کمپنیاں ہیں جنہوں نےاس شہرکی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن میں اپناکرداراداکیاہے۔ اب ٹیکنالوجی کےپہلےسےزیادہ ترقی کرجانےکی وجہ سےاس شہرکی اہمیت اوربھی بڑھ گئی ہےاوریہ دنیابھرکےٹیکنالوجی ماہرین کیلئےسب سےزیادہ پرکشش شہربن چکاہے۔ سنگاپور کم ٹیکس اورحکومت کی زیادہ سےزیادہ مدداورسپورٹ نےاس شہرمیں ٹیکنالوجی سیکٹرمیں سرمایہ کاری کی بہت حوصلہ افزائی کی ہےاوراب اس شہرکوٹیکنالوجی اورجدت کی دنیاکانمبرون شہرقراردیاجائےتوہرگزغلط نہیں ہوگا۔ حال ہی میں عالمی بنک نےسنگاپورکوبزنس کرنےکےحوالےسےدنیاکادوسرابہترین شہرقراردیاہے۔ اسےاےپی اےسی ریجن کیلئےبہترین گیٹ وےکادرجہ بھی حاصل ہے۔ بانٹیں Facebook Twitter Stumbleupon LinkedIn Pinterest About Zaheer Ahmad Muhammad Zaheer Ahmad is a senior journalist with a career spanning over 20 years in print and electronic media. He started from the Urdu language Daily Din, proceeding to Daily Times, where he stayed as sub-editor for 2 years. In 2008, he joined broadcast journalism as a Producer at the English language Express 24/7, and later to its major subsidiary, Express-News. Zaheer currently works there as a Senior News Producer. He is also the Managing Editor of newsmakers.com.pk. Zaheer can be reached at [email protected] @ZaheerAhmad17 پچھلا جیمزبانڈکورائل نیوی میں نوکری مل گئی اگلے ایلوویرا: جسم کی فالتوچربی کادشمن Zaheer Ahmad کےمزیدمضامین فلموں سےزیادہ ہٹ ڈائیلاگ 3 دن ago سیانی کی آخری قسط ،کیاکرن پھرجیت جائےگی؟ 1 ہفتہ ago پاکستانی شوبزانڈسٹری : عجب کرپشن کی گجب کہانیاں 1 ہفتہ ago یہ بھی چیک کریں ٹویٹرختم ہونےجارہاہے؟اندرکی باتیں باہرآگئیں ایلون مسک کےٹویٹرکاچارج سنبھالتےہی جیسےایک بھونچال آگیاہےجوسنبھلنےکانام نہیں لےرہا۔ ایک کےبعدایک مسئلہ ملازمین اورمنیجمنٹ کیلئےدردسربناہواہے۔ … پی ٹی آئی کی فوج سےتوقعات تبدیل فلموں سےزیادہ ہٹ ڈائیلاگ عمران خان کوٹینشن دینےکافیصلہ کینیڈاسےپاکستانیوں کیلئےاچھی خبر عمران ہمیں جزیرےپرتنہاچھوڑکرخاتون کےساتھ چلےگئے حالیہ پوسٹس پی ٹی آئی کی فوج سےتوقعات تبدیل 2 دن ago فلموں سےزیادہ ہٹ ڈائیلاگ 3 دن ago عمران خان کوٹینشن دینےکافیصلہ 3 دن ago کینیڈاسےپاکستانیوں کیلئےاچھی خبر 4 دن ago عمران ہمیں جزیرےپرتنہاچھوڑکرخاتون کےساتھ چلےگئے 5 دن ago بلاگ 3 دن ago فلموں سےزیادہ ہٹ ڈائیلاگ 1 ہفتہ ago سیانی کی آخری قسط ،کیاکرن پھرجیت جائےگی؟ 1 ہفتہ ago پاکستانی شوبزانڈسٹری : عجب کرپشن کی گجب کہانیاں 2 ہفتے ago ٹویٹرختم ہونےجارہاہے؟اندرکی باتیں باہرآگئیں اکتوبر 23, 2022 عورت ڈائن نہیں ۔۔ پاکستانی ڈرامےکیادکھارہےہیں؟ مقبول پوسٹس نورمقدم قتل کیس : فرانزک رپورٹ میں خوفناک انکشافات اگست 12, 2021 ٹوکیواولمپکس: پاکستانی ایتھلیٹس کی بدترین کارکردگی جولائی 29, 2021 چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کابوریابسترگول مارچ 4, 2021 ملکی تاریخ کاسب سےبڑافراڈ جنوری 28, 2021 جیک ما کی پراسرارگمشدگی کےپیچھےکون؟ جنوری 29, 2021 سیکشن بلاگ انٹرنیشنل پاکستان انٹرٹیمنٹ کوئک لنکز پرائیوسی پالیسی رابطہ کریں شرائط و ضوابط کورونا معلومات ہمارے ای میل نیوز لیٹر کو سبسکرائب کریں ہمارے بارے میں وہ پلیٹ فارم جہاں آپ کوخبر ملتی ہےاورخبرکےاندر کی کہانی بھی ۔ حقائق پر مبنی تجزئیےاورمختلف الخیال لوگوں کی آراپرمبنی بلاگز بھی ۔ ہمارامقصدآپ تک نیوزپہنچاناہی نہیں بلکہ اسےدلچسپ بنانابھی ہے۔ انشااللہ خبرکےراستےآپ کےدل میں اترنےکی کوشش جاری رہےگی۔ پاکستان زندہ باد
Report Error! مارلین ۔ تیز ترین مچھلی ۔ ۸۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیرتی ہے ۔ اس کا جسم چار میٹر لمبا اور باریک ہوتا ہے ۔ اس کا منہ نوکیلی چونچ جیسا ہوتا ہے ۔ کشتیوں کی لکڑی میں سوراخ کر دیتا ہے ۔ 4927 MARLIN R Name Report Error! مارلین ۔ بھروسے والی ۔ 4928 MARLIN R Noun Report Error! مارلِن ۔ کوئی سی سَمُندری شِکاری مَچھلی جو بادبان مَچھلی اور نیزہ مَچھلی کے خاندان سے تَعلُّق رَکھتی ہو ۔ 4929 MARLINE,MARLIN,MARLING R Noun Report Error! دو بَلوں کی ڈھیلی بَٹی ہُوئی رَسّی ، اِسے رَسّوں کے گِرد لپیٹا جاتا ہے تا کہ وہ رَگَڑ سے محفُوظ رہیں ۔
سناٹا اور اتنا گہرا۔۔۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے ۔۔۔ ایسی جگہ جہاں انسانوں پر انسان خدا ہیں، پالنے والی تو رب کی ذات ہے، ہاں بس وہی، لیکن جہاں ارباب ہوں وہاں کیا ہوتا ہوگا۔۔۔ میں نہیں جانتا ۔۔۔ لیکن جانتا تو وہی ہے، جس پر بیت رہی ہو ۔۔۔ ہم تو بس صفحات کو سفید صفحات کو اپنے من کی سیاہی میں ڈبوتے رہتے ہیں ۔۔ یاد آیا ایک دن میں نے اپنے استاد سے جو ہمیں تختی پر لکھنا سکھاتے تھے، کہا، سر سیاہی ختم ہوگئی ہے اب میں تختی کیسے لکھوں ۔۔؟ ہاں یاد ہے مجھے مسکرائے تھے اور کہا تھا، بیٹا سیاہی کا مقدر ختم ہوجانا ہی ہے، لکھنا ہے تو روشنائی سے لکھو کہ جسے زوال نہیں ۔۔ وقت کی دھول سر میں ڈالتا، در بدر گھومتا پھرتا میں ایک اور جگہ پہنچا، جہاں میں نے سنا، چراغ تو بجھائے جاسکتے ہیں، پھونکوں سے نہ بجھ سکیں تو زورآور ہوائیں انہیں گل کردیتی ہیں۔۔۔ لیکن نور ۔۔۔ ہاں نور کو کوئی نہیں بجھا سکتا ہاں کوئی بھی نہیں کہ زوال بس تاریکی کا نصیبا ہے۔۔ ہم سب۔۔۔۔ نہیں سب کیوں، میں ہاں میں ہوں، تھر کی اس حالت کا ذمے دار ۔۔ اور کوئی نہیں ۔۔۔ میں پچھلے بیس برس سے تھر جاتا رہتا ہوں ۔۔۔ میں نے ان تھریوں کا نمک کھایا ہے جن کے پاس نمک خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ ہاں میں نے ان کا نمک کھایا ہے ان کے گیت سنے ہیں ۔۔۔۔ انہوں نے اپنے حصے کا پانی مجھے پلایا، خود پیاسے رہے اور میری پیاس بجھائی ہے ۔۔۔ میں شہروں کے اذیت ناک خون آلود ماحول سے فرار ہوکر وہاں جاتا رہا ہوں اور وہ مجھے آسودہ اور تازہ دم کرکے واپس بھیجتے رہے ہیں اور اس اصرار کے ساتھ کہ میں واپس آؤں گا، اور میں جاتا بھی رہا اور وہ خندہ پیشانی اور کشادہ دل سے اپنے بازو وا کیے رہے، ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ۔۔۔ ان کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے، میں کیا کیا لکھوں ۔۔۔۔ لیکن کبھی انہوں نے مجھ سے کوئی تقاضا نہیں کیا ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں مانگا انہوں نے، کبھی نہیں، کبھی بھی تو نہیں ۔۔۔۔ تپتی ریت کے جہنم میں انہوں نے میرے لیے جنت بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ کالی، مگر تاروں بھری رات میں وہ پیتل کی تھالی اور خالی مٹکے کو ساز بناتے اور گیت گاتے، سوز سے تو وہ خود بنے ہوئے ہیں، ہجر کے گیت، فراق کی آگ میں جلتے ہوئے گیت، محبوب اور برسات کو رجھانے والے گیت اور نجانے کیا کیا گیت، دل میں اتر جانے والے گیت، اکھیوں کو بگھو دینے والے گیت۔۔ سوتے سمے، وہ میرے لیے دودھ بھرا پیتل کا کٹورا لاتے اور پیار سے کہتے، سائیں ہمارا سب کچھ آپ کے لیے حاضر ہے، لیکن سائیں، ہمارے پاس یہی کچھ ہے، بس قبول کریں ۔۔۔ میرا سن کر نہ جانے کتنے کوسوں سے کوئی تھری آتا، ہاں ننگے پاؤں،’’بس سائیں آپ کا سنا کہ آئے ہیں تو ملنے آگیا‘‘، آپ میری حاضری قبول کریں، اور جاتے سمے وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا، سائیں حاضری قبول۔۔۔۔ اتنی عاجزی تو میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔۔۔ میں ان کی آنکھوں میں نمی اس وقت بھی دیکھتا تو تھا، لیکن میں سوچتا کہ ان کی آنکھیں ریت کی چنگاریاں، جو تھر میں اڑتی رہتی ہیں، کی وجہ سے نم ہوں گی ۔۔۔۔ بینا دیکھتے ہیں اور میں کہاں ہوں بینا، ہاں خالق نے ہی تو کہا ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں لیکن یہ دیکھتے کہاں ہیں، ان کے کان تو ہیں لیکن سماعت سے محروم ۔۔۔۔ ہندو مسلم ہاں دونوں ہی میرے دوست ہیں ۔۔۔ ایک ہی محلے میں رہنے والے۔۔۔ جن کی جھونپڑیاں، جنہیں وہ گھاس پھونس سے بناتے اور انہیں چونرا کہتے ہیں، ساتھ ساتھ تھیں اور تھیں کیا اب بھی ہیں ۔۔۔ کوئی ایک دوسرے کو برا نہیں کہتا ۔۔۔ عید دیوالی ساتھ ساتھ، ہاں ایسا ہی ہے ۔۔۔ عیدِقرباں قریب تھی، جب میں تھر میں تھا، میں نے اپنے دوست جان محمد، جسے ہم جانو کہتے ہیں، جو مجھے اپنے بچوں کی طرح پیارا ہے، کے چونرے میں مقیم تھا ۔۔ میں نے اس کے والد، جنہیں میرے بچے دادا کہتے ہیں، سے پوچھا۔۔۔ بابا سائیں عید آگئی ہے، آپ کس جانور کی قربانی کریں گے۔۔۔؟ ’’تو بڑا چریا ہے، دیکھ نہیں رہا کتنی بکریاں اور بکرے گھوم رہے ہیں۔ بس کر لیں گے قربانی ۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا بابا سائیں گائے کی قربانی کیوں نہیں ۔۔۔؟ پریشان ہوکر ادھر ادھر دیکھا اور قریب آکر رازدارانہ انداز میں کہا ۔۔۔ ’’دیکھو! ہم یہاں گائے کی قربانی نہیں کرتے ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا کیوں۔۔۔؟ تو کہا، ’’اس لیے کہ ہندو ہمارے بھائی ہیں اور ان کے لیے گائے مقدس ہے۔ ہاں گؤماتا کہتے ہیں وہ اسے، اس لیے ہم گائے کی قربانی نہیں کرتے۔۔۔۔‘‘ حیرت سے پوچھا، کیا آپ نہیں کرتے یا۔۔۔۔ ابھی میرا سوال ادھورا تھا کہ بابا سائیں بولے، ’’پورے تھر میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اب سے نہیں سدا سے ایسا ہی ہے۔۔۔‘‘ رواداری کسے کہتے ہیں یہ مجھے اس دن معلوم ہوا تھا۔۔۔ لچھمن داس اور ماماشیرو، دین محمد اور رام لعل، در محمد اور کیلاش اگر ساتھ بیٹھے کھانا کھارہے ہوں، ایک ہی کٹورے سے پانی پی رہے ہوں، ایک سا لباس پہنے ہوئے ہوں، تو کون پہچان پائے گا کہ ہندو کون ہے اور مسلم کون۔۔۔ جب شادی بیاہ میں، دکھ سکھ میں، رونے ہنسنے میں سب ایک جیسے ہوں تو کون پہچان پائے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلم، اور پھر جب درد سانجھا اور بھوک ایک جیسی ہو تو پھر رہ جاتا ہے، بس انسان اور درد۔ تھر میں ایسی ہی رواداری ہے، ہاں کبھی کبھی سننے میں ضرور آتا ہے کہ کوئی ساہوکار وڈیرا کسی معصوم کو روند دیتا ہے ۔۔۔ لیکن اس مظلوم کے درد کا مداوا نہ بھی کرسکتے ہوں، اس کے ساتھ کھڑے ضرور ہوتے ہیں، سب، کبھی اس کی سنگت نہیں چھوڑتے کہ بس یہی کچھ وہ کرسکتے ہیں۔۔ بھوک، پیاس، دکھ درد تھریوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔۔۔لیکن وہ مجسم صبر رہتے ہیں اور یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ ابر برسے گا اور بھوک پیاس کو صحرا میں دفن کر دے گا۔۔۔ اور جب برسات ہوتو پھر بے خودی کو سراپا دیکھا جا سکتا ہے تھر میں۔۔۔ تھری بے خود ہوجاتے اور مست ملنگ ناچتے ہیں کہ بارش وہاں زندگی کی علامت جو ہے۔۔۔ لیکن برسات بھی تو ساتھ نہیں دیتی اُن کا۔۔۔۔ بس برسی تو برسی نہیں تو نہیں۔۔۔ قناعت کیا ہوتی ہے، ہاں یہ آپ تھر میں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ میں نے اگر کبھی کسی کا قصیدہ پڑھا ہے تو وہ بس تھر ہی کے باسی ہیں، اخلاص ، محبت، اپنائیت کے پتلے۔۔۔ لیکن کیا بس یہی کافی تھا جو میں نے کیا ۔۔۔ ان کی بھوک کا مذاق اڑایا میں نے۔۔۔ مرتا چھوڑدیا انہیں ۔۔۔ موت تو سدا سے رقص کناں ہے وہاں۔۔۔ ہمیں ہوش کیوں نہیں آیا ۔۔۔ ہاں اس لیے جس تن لاگے وہ تن جانے۔۔۔۔ ہمیں کیا مرتے ہیں تو مریں۔۔ بھوک سے کہا ں مرے وہ ۔۔۔ وہ تو نمونیے سے مرے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ نمونیا لاعلاج ہے کوئی دوا ہی نہیں دریافت ہوئی اس مرض کی۔ میری دیہاتی ماں نے بچپن میں ایک واقعہ سنایا تھا، ایک اﷲ والے تھے، رب نے ان کا رزق فراواں کیا ہوا تھا کہ جو رب کے بندوں کو دیتا ہے، رب اسے اس سے زیادہ اسے دیتا ہے، تو بس وہ تقسیم کرتے رہتے تھے اور رب سائیں اس تقسیم کو ضرب دے کر انہیں لوٹاتا رہتا تھا، ایک دفعہ ایک مفلوک الحال آیا اور تنہائی میں ملاقات کی التجا کی ، وہ فوراً مان گئے اور کہا بتاؤ کیا مسئلہ ہے تو وہ شخص آزردہ ہوکر بولا، جناب! بہت مشکل میں ہوں، گھر پر بچے بھوکے ہیں، پہلے تو قرض مل جاتا تھا اب تو وہ بھی نہیں ملتا، خود تو بھوکا رہنے کا عادی ہوگیا ہوں لیکن بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔ وہ اپنی بپتا سنائے جاتا تھا اور روئے جاتا تھا، بزرگ نے انہیں دلاسا دیا اور اپنے گھر سے اشرفیوں کی ایک تھیلی اسے لاکر دی اور کہا مجھے معاف کردینا، وہ سائل تو چلا گیا لیکن وہ بزرگ گھر آکر زاروقطار رونے لگے، احباب نے پوچھا کیا ہوا تو پورا واقعہ سنایا اور کہنے لگے، اس سائل کی عزت نفس میری وجہ سے تباہ ہوگئی۔ وہ سوال کی ذلت میں مبتلا ہوا، یہ کام تو میرا تھا کہ میں خود اس کی خبرگیری کرتا، میں نے اپنا کام نہیں کیا تو وہ سوال کی ذلت میں مبتلا ہوا۔ اس کی اس حالت کا ذمے دار میں ہوں۔ اب میں اپنے خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ واقعہ میں کیوں سنا رہا ہوں۔ شاید اس لیے کہ سوچ رہا ہوں اب ایسے بزرگ کہاں گئے۔ یہ جو ہمارے حکم راں ہیں۔۔۔۔ کیا کرتے ہیں یہ ۔۔۔۔ ساری قوم کو انہوں نے بھکاری بنا دیا ہے اور عمرے پہ عمرہ اور حج پر حج کیے جاتے ہیں، عوامی وسائل پر ڈاکا ڈالنے والے اب بھی بس اپنا پیٹ آسودہ کر رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں سوائے اس کے۔ ویسے سچ پوچھیں تو ہمارے مزے آگئے اگر وہ نہ مرتے تو ہمارے کیمرے اداس رہتے اور وہ جو ہمارے گھروں میں کالا ڈبا جس کا نام ٹیلی وژن ہے اور اس ڈبے کے کتنے ہی بیٹے بیٹیاں ہیں جو چینلز کہلاتے ہیں، ان کا پیٹ کیسے بھرتا۔ تو صاحبو! تھریوں کی موت سے ہمارا پیٹ آسودہ ہونے لگا ہے اور شاید ہوتا رہے گا ۔۔۔ کیا آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو خود مرجائیں اور ہمارا پیٹ بھرنے کا انتظام کرجائیں ۔ ہاں ایسے ہی ہیں تھری۔۔۔ لیکن صاحبو! کچھ بھی تو نہیں رہے گا ۔۔۔ ہاں کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔ شیئر ٹویٹ شیئر مزید شیئر ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ سروے کیا عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ درست ہے؟ ہاں نہیں نتائج ملاحظہ کریں مقبول خبریں بھارتی اداکارہ نے اسلام کی خاطر شوبز کو خیر باد کہہ دیا ملتان ٹیسٹ؛ انگلینڈ کیخلاف پاکستان کی پہلی وکٹ گر گئی سیلاب متاثرین کے امدادی سامان کا جے یو آئی کے کنونشن میں استعمال آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات کا آخری مرحلہ، غیر حتمی نتائج میں پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری سعودی عرب نے پاکستان کی مزید مالی امداد کا عندیہ دے دیا فلم تارے زمین پر بڑے دانتوں کی وجہ سے ملی تھی، درشیل سفاری کیچ تھامنے کی کوشش میں چمیکا کرونارتنے 4 دانت تڑوا بیٹھے اجے دیوگن کو ایک فلم کا معاوضہ 120 کروڑ بھارتی روپے تک دیا گیا تازہ ترین سلائیڈ شوز انگلینڈ اور پاکستان کرکٹ ٹیموں کے اعزا زمیں عشائیہ پاک انگلینڈ کرکٹ ٹیموں کا پریکٹس سیشن Showbiz News in Urdu Sports News in Urdu International News in Urdu Business News in Urdu Urdu Magazine Urdu Blogs The Express Tribune Express Entertainment صفحۂ اول تازہ ترین پاکستان انٹر نیشنل کھیل کرکٹ انٹرٹینمنٹ دلچسپ و عجیب سائنس و ٹیکنالوجی صحت بزنس بلاگ ویڈیوز express.pk خبروں اور حالات حاضرہ سے متعلق پاکستان کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع شدہ تمام مواد کے جملہ حقوق بحق ایکسپریس میڈیا گروپ محفوظ ہیں۔ ایکسپریس کے بارے میں ضابطہ اخلاق ایکسپریس ٹریبیون ہم سے رابطہ کریں © 2022 EXPRESS NEWS All rights of publications are reserved by Express News. Reproduction without consent is not allowed.
عمر بھر میں اندازہ یہ ہے کہ پانچ ارب مرتبہ پھیپھڑوں کو پھلایا جاتا ہے، پھیپھڑوں میں بیک وقت اٹھارہ گیلن کھینچی۔۔۔ شایان تمثیل اتوار 31 مارچ 2013 شیئر ٹویٹ شیئر ای میل تبصرے مزید شیئر مزید اردو خبریں کالم کی ابتدا میں یہ باور کرادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ احقر کو کسی طور پر بھی روحانی و مخفی علوم کا ماہر نہ سمجھا جائے، جیسا کہ گزشتہ دنوں متواتر ایسی فون کالز اور ای میل موصول ہوئی ہیں جن میں اس کالم کے پڑھنے والوں نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ آپ کے جذبات اور احترام کا تہہ دل سے مشکور ہوں لیکن جیسا کہ گزشتہ کالموں میں بھی وضاحت کی جاچکی ہے کہ یہ کالم عاشق حسین البدوی مرحوم کی یاد میں اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا اور اب بھی مطمع نظر محض علم کے پیاسوں کو نفسیات و مابعد نفسیات کے موضوع پر معلومات فراہم کرنا ہے، یہ معلومات وہ مستند کتابوں اور شخصیات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں اور آزمودہ ہیں۔ ہم نے جب ان مشقوں کی ذاتی طور پر ابتدا کی تو مطمع نظر کبھی بھی روحانی یا خفیہ علوم کا حصول نہیں رہا اور ہم اپنے قارئین کو بھی یہی مشورہ دیں گے کہ وہ ان مشقوں کو تنظیم شخصیت و کردار سازی کے تناظر میں دیکھیں، یہ اور بات کہ بلاشبہ یہ مشقیں کثیر جہتی فوائد کی حامل ہیں۔ تنظیم شخصیت و کردار سازی کے حوالے سے سانس کی مشقوں کے فوائد پر سیر حاصل بحث کی جاچکی ہے اور ’’مشق تنفس نور‘‘ کا احوال بھی بیان کرچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی سانس کی سادہ مشق کے فوائد بھی کم نہیں ہیں۔ ہم سانس کے ذریعے آکسیجن جسم میں داخل کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ آکسیجن کے ذریعے پروٹو پلازم (مادہ حیات) کی تکسید ہو کر توانائی پیدا ہوتی ہے، سانس کے عمل میں ناک، نگلنے کی جگہ، حنجرہ اور پھیپھڑے سب کے سب حصہ لیتے ہیں۔ ناک کا اندرونی حصہ ایک منفی ہڈی کے ذریعے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ دونوں حصے سانس کے ذریعے اندر جانے والی ہوا گرم کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ ان حصوں کی ہڈیوں کے گرد ایسی بافتیں ہوتی ہیں جنھیں خون کافی تعداد میں بہم پہنچایا جاتا ہے۔ جب سانس (ناک کے اندر) ان بافتوں کے اندر سے گزرتا ہے تو گرم ہو کر ریڈی ایٹر (آلہ حرارت آفریں) کا کام انجام دیتی ہیں۔ موسم سرد ہو تو خون کی شریانیں پھیل کر زیادہ حرارت پیدا کرنے لگتی ہیں۔ موسم گرما ہو تو برعکس عمل ہوتا ہے۔ ہوا میں گیسوں کے ساتھ مختلف ذرات اور جراثیم شامل ہوتے ہیں، یہ اگر پھیپھڑوں میں داخل ہوجائیں تو اسے ناکارہ کردیتے ہیں، ناک کی چھلنی سانس کے ذریعے کھینچے جانے والی ہوا کو گرد و غبار اور جراثیم سے صاف کرکے پھیپھڑے کے اندر بھیجتی ہے۔ ناک کے اندرونی استر پر باریک باریک بال ہوتے ہیں۔ گرد کے بڑے ذرّے ان ہی میں اٹک کر رہ جاتے ہیں، ننھے ذرات کو ہوا کی نالیوں میں صاف کیا جاتا ہے۔ ناک کی نالیوں میں چند غدود ہیں جن سے لیس دار مادہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ اس مادہ کا فعل اس کاغذ سے مشابہ ہے جس پر بیٹھتے ہی مکھیاں چپک جاتی ہیں۔ اسی طرح ننھے منے مہلک ذرات ناک کی نالیوں کے غدود کے لیس دار مادہ سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور پھیپھڑوں میں صاف شفاف ہوا داخل ہوتی ہے۔ ہم ایک منٹ میں 14 سے 18 مرتبہ سانس لیتے ہیں، ہر سانس میں 1/8 گیلن ہوا یعنی ایک منٹ میں اوسطاً دو گیلن ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہیں۔ عمر بھر میں اندازہ یہ ہے کہ پانچ ارب مرتبہ پھیپھڑوں کو پھلایا جاتا ہے، پھیپھڑوں میں بیک وقت اٹھارہ گیلن کھینچی ہوئی ہوا سما سکتی ہے۔ لیکن ہم صرف دو گیلن فی منٹ پر قانع رہتے ہیں۔ یہ حقیقت کتنی افسوسناک ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا داخل ہوتی ہے تو پھول جاتے اور خارج ہوتی ہے تو سکڑ جاتے ہیں اور زندگی بھر یہ خودکار قدرتی مشین اسی طرح کام کرتی ہے۔ جتنی زیادہ آکسیجن پھیپھڑوں میں سمائے گی، اتنی ہی زیادہ روح حیات (جس کا تفصیلاً ذکر گزشتہ کالم میں کیا جاچکا ہے) ہم اپنے اندر جذب کرسکیں گے۔ ایک مرتبہ پھر ان حقیقتوں پر غور کیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اگر نور کے بغیر بھی مشق تنفس نور کی جائے تو کتنی مفید ثابت ہوگی۔ سانس کی ابتدائی مشق جس سے اس نصاب کا آغاز ہوتا ہے، یہ ہے کہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے۔ کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں کرلیں۔ اس طرح بیٹھ کر آنکھیں اور ہونٹ بند کرلیں اور ناک کے سوراخوں سے جتنی دیر میں سانس کھینچیں، اتنی ہی دیر سینے میں روکیں اور اتنی ہی دیر میں ناک کے راستے خارج کردیں۔ بہتر یہ ہے کہ تمام مشقیں شمال کی طرف منہ اور جنوب کی طرف پشت کرکے کی جائیں۔ شمال رویہ مشق کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان جو برقی مقناطیسی لہریں چلتی رہتی ہیں وہ سانس کی رو میں شامل ہوجاتی ہیں ۔ (2) ہونٹوں کی وہ شکل بنائیے جو بوسہ یا سیٹی بجاتے وقت قدرتی طور پر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ سانس کو باہر نکال دیں اور پھر کچھ دیر رک کر ناک کے سوراخوں سے ہوا خارج کردیں، پھر ہونٹوں سے سانس لیں اور ناک سے نکالیں۔ یہ عمل (ہونٹوں سے سانس خارج کرنا اور ناک کے راستے کھینچنا) خون کی صفائی کے لیے بے حد مفید ہے۔ پھر اس کے برعکس کریں، یعنی ہونٹوں سے سانس ہولے ہولے کھینچیں اور ناک سے دھیرے دھیرے نکال دیں۔ ہر بار ایسا ہی کریں۔ (3) آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناک کی نوک پر جمادیں اور کوشش کریں کہ خیال اور توجہ کی تمام قوت نظروں کے ساتھ ناک کی نوک پر مرکوز ہوجائے، اس عالم میں ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچتے اور اسی راستے سے خارج کرتے رہیے۔ (4) دوزانو آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اور نظریں ناف پر جما کر زبان تالو سے لگا لیجیے، منہ بند رہنا چاہیے اور ناک کے راستے سانس اندر کھینچ کر سینے میں روک لینا چاہیے۔ جب جی گھبرانے لگے تو ناک کے راستے خارج کردیں۔ (5) صبح و شام ننگے پائوں گھاس پر چلیں، کمر و گردن میں ٹیڑھ نہ ہو۔ چند قدم چلتے ہوئے ناک کے راستے سانس اندر کھینچیے، روک لیں اور پھر ناک کے راستے خارج کردیجیے۔ سانس کھینچتے، روکتے اور نکالتے وقت آہستہ آہستہ سر اٹھا کر چلتے رہیں، قدم روکنے کی ضرورت نہیں۔ بھرپور سانس وہ ہے جس میں پھیپھڑے، سینہ اور پیٹ ہوا سے بھر جائیں، بھرپور سانس کے معنی ہیں بھرپور حیات! اور جسے یہ دولت میسر ہے اسے اور کس نعمت و دولت کی تمنا ہوسکتی ہے۔ دھونکنی کی طرح تیز تیز سانس لینا بھی جسمانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس مشق میں آدمی پسینے میں نہا جاتا ہے، دوران مشق پسینہ آنا، مخفی قوت کی بیداری کی علامت ہے۔ سیدھے بیٹھ کر یا سیدھے کھڑے ہو کر، جس قدر نرمی اور آہستگی کے ساتھ ممکن ہو، بھرپور سانس ناک کے راستے کھینچیے اور جتنی دیر ممکن ہو سینے میں روکیں اور پھر ہونٹوں کو گول کرکے (جس طرح سیٹی بجاتے ہیں) اندر کی تمام گندی ہوا کو باہر نکالیے، مگر رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر اور تھم تھم کر! گویا سانس خارج کرنے کا عمل قسطوں میں ہونا چاہیے۔ مشق تنفس کے طالب علم کو سانس کے ادخال اور اخراج کی مدت میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے ورنہ اعصابی نظام کو سخت نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔ شروع میں سانس کھینچنے کی مدت آٹھ سیکنڈ، روکنے کی مدت آٹھ سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت بھی آٹھ سیکنڈ ہو تو بہتر ہے۔ چالیس روز کے بعد سانس کھینچنے کی مدت دس سیکنڈ، روکنے کی مدت بیس سیکنڈ اور خارج کرنے کی مدت دس سیکنڈ۔ قابل اطمینان طریق کار یہ ہے کہ تمام مشقیں کسی ماہر فن کی نگرانی میں کی جائیں، بطور خود کسی شخص کو یہ کوشش ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ (نوٹ:پرانے آرٹیکل پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.faceboock.com/shayan.tamseel) شیئر ٹویٹ شیئر مزید شیئر ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ سروے کیا عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ درست ہے؟ ہاں نہیں نتائج ملاحظہ کریں مقبول خبریں علی ظفر اور اہلیہ کو 2009 میں کس نے اغواء کیا تھا؟ گلوکار کا انکشاف پاکستان کا ڈیفالٹ رسک خطرناک سطح تک جا پہنچا، مفتاح اسماعیل بھارتی پروفیسر نے کلاس میں مسلم طالبِ علم کو دہشتگرد کہہ دیا، ویڈیووائرل صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے پر قومی نہیں بلکہ صوبائی کے ضمنی الیکشنز ہونگے، الیکشن کمیشن بھارت؛ بلے باز نے ایک ہی اوور میں 43 رنز جڑ دیے کترینہ نے بھی کراچی کی وائرل لڑکی کے گانے ’میرا دِل یہ پکارے آجا‘ پر ویڈیو بنا لی فوج غیر سیاسی رہنے کے فیصلے پر ثابت قدم رہے گی، آرمی چیف فٹبال ورلڈکپ؛ مراکش سے شکست پر بیلجیئم میں ہنگامے پھوٹ پڑے تازہ ترین سلائیڈ شوز سعودی عرب کی ارجنٹائن کو اپ سیٹ شکست فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب Showbiz News in Urdu Sports News in Urdu International News in Urdu Business News in Urdu Urdu Magazine Urdu Blogs The Express Tribune Express Entertainment صفحۂ اول تازہ ترین پاکستان لانگ مارچ انٹر نیشنل کھیل کرکٹ انٹرٹینمنٹ دلچسپ و عجیب سائنس و ٹیکنالوجی صحت بزنس ویڈیوز express.pk خبروں اور حالات حاضرہ سے متعلق پاکستان کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع شدہ تمام مواد کے جملہ حقوق بحق ایکسپریس میڈیا گروپ محفوظ ہیں۔ ایکسپریس کے بارے میں ضابطہ اخلاق ایکسپریس ٹریبیون ہم سے رابطہ کریں © 2022 EXPRESS NEWS All rights of publications are reserved by Express News. Reproduction without consent is not allowed.
ننگبو ہائشو ین جیانگ جنٹانگلی میٹل پروڈکٹس فیکٹری 2014 میں قائم کی گئی تھی ، جو جیانگ ننگبو میں واقع ہے ، اور یہ پالتو جانوروں کی گرومنگ ٹیبلز ، ملٹی فنکشن روف ڈاگ کریٹ ، الیکٹرک لفٹنگ گرومنگ ٹیبل ، سٹینلیس سٹیل ڈاگ کریٹ ، میٹل روف ڈاگ کیج ، میٹل ریک ، سٹیمپنگ پارٹس ، اور دیگر دھاتی مصنوعات وغیرہ ، جو بنیادی طور پر یورپ ، امریکن ، جاپان وغیرہ کو برآمد کرتی ہیں ، اس کا آغاز ، مصنوعات کے معیار کو مارکیٹ کے مقابلے میں کمپنی کی شرکت کی بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ خبریں۔ نمبر 1 ، لین 79 ، سمنگ ایسٹ روڈ ، ہائشو ضلع ، ننگبو شہر ، جیانگ صوبہ ، چین +86-574-88190564 1642501484@qq.com گھر ہمارے بارے میں مصنوعات خبریں۔ ڈاؤن لوڈ کریں انکوائری بھیجیں۔ ہم سے رابطہ کریں SiteMap کاپی رائٹ © 2021 ننگبو ہیشو ین جیانگ جنٹانگلی میٹل پروڈکٹس فیکٹری - گرومنگ ٹیبل ، سٹینلیس سٹیل ڈاگ کریٹ ، میٹل روف ڈاگ کیج - تمام حقوق محفوظ ہیں۔
کریم نگر _ 24 نومبر ( اردولیکس) عام طور پر سیاست دان اور بزنس مین اپنی حفاظت کے لئے گن لائسنس کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ لیکن رام نرسیا، جو تلنگانہ کے کریم نگر ضلع کے ماناکنڈور منڈل میں ویگروپلی پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے بندوق کے لائسنس کے لیے درخواست دی ہے۔ انہوں نے پولیس کمشنر کریم نگر کو ایک درخواست پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بندوق کا لائسنس دیا جائے۔کیونکہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے ہیڈماسٹر رام نرسیا نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ” رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے ذریعہ میں نے بہت سے ملازمین کی بے قاعدگیوں کو سامنے لایا ہے۔ جس پر کئی ملازمین کو معطل کیا گیا۔ میں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعہ لڑائی لڑی اور بہت سارے بدعنوان ملازمین کو بے نقاب کیا اور ان کی جانب سے لوٹی گئی رقم سرکاری خزانے میں واپس کروائی راما نرسیا نے درخواست میں انکشاف کیا کہ میری وجہ سے معطل ہونے والوں سے میری جان کو خطرہ ہے۔اس لئے مجھے گن لائسنس دیا جائے۔ تاحال کمشنر پولیس نے اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی Tags exclusive 2 ہفتے پہلےLast Updated: نومبر 24, 2022 1,049 1 minute read Facebook Twitter LinkedIn Facebook Twitter LinkedIn Messenger Messenger WhatsApp Telegram Share via Email Print ملاریڈی اورآئی ٹی حکام کی ایک دوسرے کے خلاف پولیس سے شکایت۔ ریاستی وزیرکے خلاف کیس درج! ریاض میں بزم اردو ٹوسٹ ماسٹر کلب ریاض کا 159 واں اجلاس _ ایڈیٹر اردولیکس و دیگر حیدرآبادی صحافیوں کی تہنیت
خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش کرنے کا سبقت ایم پی اے گران خان کو حاصل عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ جنرل ساحر شمشاد نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے،شازیہ مری معیشت پر سیاست ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے بند ہونی چاہیے،اسحاق ڈار انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی سابق صدر آصف علی زرداری سے اسحاق ڈار کی ملاقات پشاور میں سردی کی آمد،زندہ مرغی،انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ اسمبلی استعفوں سے متعلق عمران خان کے حکم پر فوری عمل ہوگا،بیرسٹرسیف پنجاب کی بے بس پولیس فیض آباد میں سٹیج نہیں لگواسکی،شیخ رشید یہ خبریں بھی پڑھئے خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش کرنے کا سبقت ایم پی اے گران خان کو حاصل سوات(مانند نیوز)خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش کرنے کا سبقت ایم پی اے گران خان کو حاصل ٗ سوات کے حلقہ پی کے 4سے منتخب ممبرصوبائی اسمبلی عزیز اللہ گران خان نے مزید پڑھیں عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ راولپنڈی (مانند نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ملک کی تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے اور اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین مزید پڑھیں جنرل ساحر شمشاد نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق تقریب میں تینوں مسلح افواج کے حاضر اور ریٹائرڈ افسران بڑی تعداد میں مزید پڑھیں پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے،شازیہ مری میڈرڈ(مانند نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث رواں سال پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔انہوں نے سپین کے شہر میڈرڈ میں 26 مزید پڑھیں معیشت پر سیاست ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے بند ہونی چاہیے،اسحاق ڈار اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر برائے خزانہ وریونیوسینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاک فوج میں نئی تعیناتیوں کا مرحلہ پُرامن طریقہ سے مکمل ہو چکا ہے۔ جو ماضی کی فوجی قیادت ہے اس نے اپنی صلاحیتوں اور مزید پڑھیں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم سترہ سال بعد ٹیسٹ سیریز کھیلنے کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی۔پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان اہم ہے۔ انگلش ٹیم اپنا پہلا ٹیسٹ میچ یکم مزید پڑھیں 0 شیئر کریں چترال میں گولین واٹر سپلائی سکیم ایک سال بعد بحال Manend Team 21 نومبر , 2020 21 November, 2020 0 تبصرے چترال (گل حماد فاروقی) چترال شہر کو گولین سے آنے والا پینے کی پانی کا پائپ لائن 7 جولائی 2019 کو اس وقت تباہ ہوا تھا جب گولین میں گلوف کا واقعہ پیش آیا یعنی برفانی تودہ پھٹ جانے سے علاقے میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ جس کے باعث اس علاقے میں متعدد مکانات، زیر کاشت اراضی، دکانیں، سڑکیں، پل، آبپاشی کی نہریں اور پینے کی پانی کا یہ پائپ لائن بھی تباہ ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں چترال ٹاؤن اور مضافات میں پچاس ہزار لوگ پینے کی صاف پانی سے محروم تھے۔اس منصوبے کی بحالی کیلئے علاقے کے لوگوں نے کئی بار احتجاج بھی کیا تھا مگر اس کے باوجود حکومت ایک سال تک فنڈ فراہم نہ کرسکا۔ عوام کے پر زور مطالبے پر صوبائی حکومت نے اس منصوبے کیلئے پونے چار کروڑ روپے کا فنڈ منظور کرکے اس بحالی پر 14 جون 2020 کو کام شروع ہوا تاہم 13 جولائی کو ایک بار پھر گولین میں گلوف یعنی برفانی تودہ پھٹنے سے سیلاب آیا اور اسے ایک بار پھر تاحیر کا شکار ہونا پڑا۔تاہم عوام کے دباؤ پر متعلقہ تعمیراتی کمپنی نے دن رات محنت کرکے اس منصوبے کو بالآحر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے معاون حصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کیلاش نے اس منصوبے کا افتتاح کرکے چترال شہر کو پانی کی فراہمی بحال کردی۔اس موقع پر انہوں نے وزیر اعلےٰ محمود خان کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے سیلاب کی وجہ سے تباہ شدہ منصوبوں کی بحال کاری کیلئے؛پچھلے سال چالیس کروڑ ستر لاکھ روپے دئے تھے جس سے محتلف منصوبوں کا دوبارہ بحالی ہوئی۔ اس سال جو سیلاب آیا تھا اس پر بھی وزیر اعلےٰ نے 65 کروڑ روپے کا گرانٹ دیا تھا جس کیلئے میں ان کا بے حد مشکور ہوں جو چترال کی تعمیر و ترقی میں کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر عبد الولی خان نے بتایا کہ اس منصوبے کی بحالی کیلئے عوام کی طرف سے انتظامیہ پر کافی دباؤ تھا اب شکر ہے یہ مکمل ہوا اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو اس سے فایدہ ہوگا۔محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیرنگ کے ایگزیکٹیو انجنیر محمد زاہد نے کہا کہ ہم اس کام سے کافی مطمئن ہے کیونکہ اس مرتبہ اسے نہایت محفوظ ر استے سے لایا گیا ہے۔ اب عوام کو پانی کا مسئلہ نہیں ہوگا۔تعمیراتی کمپنی کے ڈائریکٹر فہیم اعظم نے بتایا کہ اس منصوبے کو ہم بہت پہلے مکمل کرلیتے اگر دوبارہ سیلاب نہ آتا تاہم ہماری ٹیم نے دن رات محنت کرکے اسے دو ماہ پہلے مکمل کروایا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس منصوبے کو قبل از وقت پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بار اس کی حفاظت کیلئے محتلف جگہوں میں کنکریٹ کا کام بھی ہوا ہے اور پائپ لائن کو دریا کی بجائے سڑک کے کنارے لایا گیا ہے تاکہ آئندہ سیلاب کی وجہ سے اسے نقصان نہ پہنچے۔گولین واٹر سپلائی سکیم کی بحالی پر علاقے کے لوگ نہایت خوش ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ پانی کیلئے ترس رہے تھے اب لوگوں کا پانی کا مسئلہ حل ہوگا۔ واٹر سپلائی سکیم کی افتتاح کے موقع پر تحصیل میونسپل آفیسر مصباح اللہ، ڈبلیو ایس یو کا عملہ اور علاقے کے معززین بھی موجود تھے۔ کیٹاگری میں : تازہ خبریں خبر پر آپ کی رائے سخت نا پسند 0 Votes بہتر کرو 0 Votes ٹھیک ہے 0 Votes اچھی ہے 0 Votes بہت اچھی ہے 0 Votes مزید پڑھیں خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش… عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ جنرل ساحر شمشاد نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے،شازیہ مری معیشت پر سیاست ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے بند ہونی چاہیے،اسحاق ڈار انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی اپنا تبصرہ بھیجیں Cancel reply آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا اپنا تبصرہ لکھیں آپکا نام* آپکا ای میل ایڈریس* Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Δ یہ خبریں بھی پڑھئے خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش کرنے کا سبقت ایم پی اے گران خان کو حاصل سوات(مانند نیوز)خیبر پختونخوا میں عمران خان کے حکم پر سب سے پہلے تحریری استعفیٰ پیش کرنے کا سبقت ایم پی اے گران خان کو حاصل ٗ سوات کے حلقہ پی کے 4سے منتخب ممبرصوبائی اسمبلی عزیز اللہ گران خان نے مزید پڑھیں عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ راولپنڈی (مانند نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ملک کی تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے اور اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین مزید پڑھیں جنرل ساحر شمشاد نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چارج سنبھال لیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق تقریب میں تینوں مسلح افواج کے حاضر اور ریٹائرڈ افسران بڑی تعداد میں مزید پڑھیں پاکستان میں سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے،شازیہ مری میڈرڈ(مانند نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث رواں سال پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔انہوں نے سپین کے شہر میڈرڈ میں 26 مزید پڑھیں معیشت پر سیاست ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے بند ہونی چاہیے،اسحاق ڈار اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر برائے خزانہ وریونیوسینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاک فوج میں نئی تعیناتیوں کا مرحلہ پُرامن طریقہ سے مکمل ہو چکا ہے۔ جو ماضی کی فوجی قیادت ہے اس نے اپنی صلاحیتوں اور مزید پڑھیں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی اسلام آباد(مانند نیوز ڈیسک)انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم سترہ سال بعد ٹیسٹ سیریز کھیلنے کیلئے اسلام آباد پہنچ گئی۔پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان اہم ہے۔ انگلش ٹیم اپنا پہلا ٹیسٹ میچ یکم مزید پڑھیں سیکشنز اہم خبریں ایداریہ تازہ خبریں دلچسپ دنیاء ریډيو سائینس شوبز صحت فوٹو نظم ٹی وی ٹیکنالوجی پاکستان کاروبار کالمزواداریہ کھیل
وزارت اعلیٰ پنجاب:ق لیگ نے اپوزیشن کو فیصلہ سنا دیا.موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر پیپلز پارٹی، ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل و دیگر سیاسی جماعتیں جس طرح سر سے سر جوڑ کر پلاننگ کر رہی ہیں اور رابطے کر رہی ہیں اس کے پیش نظر کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومتی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش میں نظر آرہی ہیں۔ اسی تناظر میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں چوہدری برادران نے سابق صدر آصف علی زرداری کو اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنی ڈیمانڈ سامنے رکھ دی۔ ق لیگ کی ڈیمانڈ کے مطابق اگر اپوزیشن اپنے مطلوبہ حد ف میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا جائے اور ق لیگ کے مطبق یہ ق لیگ کا دو ٹوک موقف ہے‘جس پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ق لیگ کے مطابق مرکز میں مکمل طور پر اپوزیشن کی حمایت کریں گے تاہم ق لیگ نے ملک میں فوری نئے انتخابات کی مخالفت کی ہے‘ان کے مطابق ضروری ہو تو قومی اسمبلی کے انتخابات کروا دئیے جائیں لیکن صوبائی اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چائیے۔ آصف زرداری نے ق لیگ کے دو ٹوک موقف سے ن لیگ کو آگاہ کر دیا ہے‘جس کے بعد لیگی قیادت نے بھی اہم رہنماؤں سے مشاورت شروع کر دی ہے۔اگرتمام جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے درمیان یہ طے پاجاتا ہے تو پھر ق لیگ اپوزیشن کا ہر طرح سے ساتھ دینے کے لئے مکمل تیار ہے۔ واضح ہو کہ ق لیگ حکومتی اتحادی ہے لیکن حکومت نے وعدوں کے باوجود ابھی تک ق لیگ کو وزارتوں سے نہیں نوازا ہے جس کی بناء پر ق لیگ حکومت سے سخت ناراض ہے‘دوسری طرف حکومت نے ق لیگ اور ایم کیو ایم سے وزارتیں دینے کا ایک بار پھر سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ دودھ کی نئی قیمت 170روپے فی لیٹر ہونے کا امکان. فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ YouTube کیٹاگری میں : اہم خبریں، سیاست مزید پڑھیں ٹرانسپر نسی انٹرنیشنل پاکستان کے سروے کے مطابق پاکستان میں پولیس کا ادارہ سب… سعودی عرب اورچین کے درمیان ہائیڈروجن توانائی اوربراہ راست سرمایہ کاری کے معاہدے طے… ایف آئی اے کو سیاستدانوں اور سفارتکاروں کے لیے خصوصی امیگریشن کاؤنٹر قائم کرنے… پانچ برس میں مکمل اسلامی بینکنگ نظام رائج کرنا ممکن نہیں: اسٹیٹ بینک پنجاب کابینہ میں ‘خفیہ’ توسیع پر عمران خان ‘پریشان’ معروف کمیٹی والی باجی نے 420 ملین کے فراڈ کے الزام پر عدالت سے… Load/Hide Comments اپنا تبصرہ بھیجیں Cancel reply آپکا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا اپنا تبصرہ لکھیں آپکا نام* آپکا ای میل ایڈریس* Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Please enter an answer in digits: five × 2 = ہمارا فیس بک پیج اہم کیٹا گریز انٹرنیشنل انٹرٹینمنٹ اہم خبریں بلاگ تعلیم جرائم خواتین دلچسپ معلومات سیاست سیاست صحت لاہور مسائل معیشت معیشت موسم نوکری پاکستان پکوان کالم کھیل
پانی کی ایک بوتل میں 7 لہسن کی جوے ڈال کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیں،فوائد جان کر آپ دنگ رہ جائیںگے (47,343) میں نے یہ وظیفہ صرف تین دن پڑھا اور 50 لاکھ کا مالک بن گیا یہ وظیفہ آپکی قسمت بدل دے گا (45,533) قربت کے وقت لائٹ بند کرنا ضروری ہے ؟ یہ بات ہر لڑکی کو ضرور معلوم ہونی چاہئے (45,073) رب کعبہ کی قسم اگر مرد ایک دفعہ پیاز اس طرح کھا لیتا ہے تو ؟ (43,822) اگرمیاں بیوی یہ کام کریں توان کانکاح ٹوٹ جاتاہے ،آنکھیں کھول دینے والاانکشاف (43,485) ان راتوں میں بیوی سے ہم بستر ی نہ کر یں ، مسلمانوں لازماً جان لو (43,317) جنت کا حسین منظر (43,124) منہ کے چھالوں کا بہترین گھریلو علاج، چھالے ایسے ختم جیسےکبھی تھے ہی نہیں،یہ نسخہ ضرور آزمائیں (41,902) ایک 110 سال جینا ہے تو یہ سبزی ہفتے میں دو دن آج سے ہی کھانا شروع کر دو (39,915) میاں بیوی قربت کے وقت تین غلطیاں بالکل بھی نہ کر یں۔ یہ تین کام سخت حرام کبیرہ گنا ہ ہیں۔ (36,734) سرسوں کے تیل میں یہ کیپسول ملا کر لگائیں،مزید جانیں اس آرٹیکل میں (35,131) رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا: جب تم فجر کی نماز ادا کر لو تو تین مر تبہ پڑ ھ لیا کرو۔ اللہ آپ کو اندھے پن، کوڑھ اور فالج سے محفوظ رکھے گا (32,517) آپﷺ نے قسم کھا کر فرمایا جبرائیل آئے جوشخص یہ پانی پیےگا اسکے جسم سے ہر بیماری دورہوجائے گی ،مزید جانیں (31,989) خشخاش اور سفید تلوں کا کمال بار بار پیشاب آنا اور مثانہ کی کمزوری ختم پہلی خوراک ہی اثر دکھائے گی (31,139) //whairtoa.com/4/5522501 اس چیز نے مجھے حاملہ کردیااور 15 منٹوں میں بچہ پیدا ہوگیا ڈیلی کائنات! جکارتہ انڈونیشیا کی ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کسی مرد سے جسمانی رشتہ قائم نہیں کیا تاہم وہ اچانک ہوا سے حاملہ ہوگئی اور 15 منٹ کے بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈونیشیا کی ایک خاتون نے ایسا عجیب و غریب اور حیران کن دعوی کیا ہے۔ خاتون کا دعوی ہے کہ وہ ہوا سے حاملہ ہوگئی ۔ مقامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس نے کسی مرد سے جسمانی رشتہ نہیں بنایا ۔ اچانک لیٹے لیٹے ہوا سے ہی وہ حاملہ ہوگئی ۔ اس نے بتایا کہ وہ دوپہر کے وقت نماز کی ادائیگی کے بعد کمرے میں آرام کررہی تھی کہ اچانک اس کو لگا کہ ہوا اسکے جسم میں داخل ہورہی ہے ۔ 15 منٹ کے بعد اس کے پیٹ میں درد ہونے لگا اور اسکا پیٹ بڑا ہونے لگا جس کے بعد خاتون ہسپتال پہنچی اور جہاں اس نے ایک صحتمند بچے کو جنم دیا ۔ انڈونیشی خاتون کی یہ عجیب کہانی چند گھڑیوں میں وائرل ہوگئی ۔ خبر مشہور ہونے کے بعد مقامی کمیونٹی کلینک کے سربراہ معاملہ کی معلومات حاصل کرنے کیلئے خاتون کے پاس پہنچ گئے، اس دوران انہیں پتہ چلا کہ خاتون کی شادی ہوچکی ہے ۔ اب وہ اپنے شوہر سے الگ رہ رہی ہے ۔ اس کے پاس پہلے سے ہی ایک بچہ ہے ۔کمیونٹی کلینک کے سربراہ ایمان سلیمان نے بتایا کہ خاتون کے ہاں نارمل ڈیلیوری ہوئی ہے ۔ بچی کا وزن 2 اعشاریہ 9کلو گرام ہے۔سلیمان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پوشیدہ حمل کا معاملہ لگتا ہے ، جس میں خاتون کو زچگی سے پہلے حمل کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔مقامی پولیس نے بھی اس معاملہ کی تحقیات شروع کردی ہے
سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے یا تعلقات معمول پر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فلسطینی نصب العین ( کاز) میں دلچسپی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے،اس لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا ایشو بھی رو بہ انحطاط ہونا چاہیے۔ سعودی عرب کی اولین ترجیحات اقتصادی اصلاحات ، ایران کے توسیع پسندانہ عزائم اور پڑوسی ممالک کے سقوط سے لاحق سکیورٹی خطرات ہیں۔اسرائیل کا ان ایشوز میں کوئی براہ راست کردار نہیں ہے اور اس کو ان میں کوئی حصہ بھی نہیں لینا چاہیے۔ سعودی عرب کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے اسرائیل کے رضاکارانہ دورے کے بعد قومی دھارے کے ایک سعودی اخبار میں متعدد مضامین شائع ہوئے تھے۔ان میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے مزعومہ فوائد وثمرات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ پھر بین الاقوامی اخبارات اور تحقیقی مراکز نے اس ایشو پر اپنی توجہ مبذول کی اور ان میں سے بعض نے تو اس کو دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں ایک پُرخطر پیش رفت قرار دیا۔بعض اخبارات نے ان ملاقاتوں کے بارے میں افواہیں پھیلائیں جو درحقیقت اسرائیل اور سعودی عرب کے سینیر عہدے داروں کے درمیان ہوئی ہی نہیں تھیں۔ جیسا کہ اسرائیلی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے میں گریزپا رہا ہے۔سعودی مملکت اگر ایسا کرتی ہے تو اس کو اسلامی شناخت ، الحرمین الشریفین کے خادم اور ضامن کی حیثیت ،اپنی تاریخ ، ماضی کے مؤقف ،جن میں فلسطینی اور عرب حقوق کی بحالی پر زوردیا گیا تھا اور اس کی اسرائیلی عہدے داروں یا سفارت خانوں میں کسی قسم کی ملاقاتوں اور تعلقات کی استواری کو مسترد کرنے کے مؤقف کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔اس سے سعودی مملکت کو کیا مفاد حاصل ہوگا؟ میں لوگوں سے اس بات کی توقع کرتا تھا کہ وہ یہ کہیں گے کہ اسرائیل الریاض کی اقتصادی اصلاحات اور سکیورٹی خطرات کے مقابلے میں مدد کرے گا کیونکہ اس کو مبینہ طور پر ماسکو سے واشنگٹن تک اثرورسوخ حاصل ہے۔پھر وہ فلسطینیوں کو رعایتیں دے گا تا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ تاہم اسرائیل اقتصادی اصلاحات کے معاملے میں کسی مدد کی پیش کش نہیں کر سکتا ہے۔سعودی عرب کو جن چیزوں کی ضرورت ہے ،وہ اس کی مدد کے بغیر بھی دستیاب ہے۔ اگر ہم یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں سعودی عرب میں کسی تزویراتی منصوبے کی تکمیل کے لیے اسرائیل سے کسی جدید ڈیوائس خریدنے کی ضرورت ہے تو ایسی ہزاروں تھرڈ پارٹیاں ( تیسرے فریق) موجود ہیں جو اس ڈیوائس کو خریدنے اور اس کو ہمیں برآمد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سکیورٹی اسرائیل سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی بہت کچھ نہیں کرسکتا ہے۔جب ہم مسلم اور عرب اتحاد بنائیں گے تو وہ ایک بوجھ ہوگا۔الریاض مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات عامہ کے ضمن میں جو بدترین امر کرسکتا ہے،وہ اس کا ایران کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ اتحاد ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تہران کے لیے ایک ایسا تحفہ ہوگا جس کا وہ ایک طویل عرصے سے منتظر ہے۔ اسرائیل یمن یا شام میں سعودی عرب کی حمایت کے لیے کیا پیش کرسکتا ہے؟ کیا وہ شام میں سلفی اسلامی گروپوں کے ساتھ کھڑا ہوگا اور انھیں طیارہ شکن ہتھیار مہیا کرے گا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی مرکزی حریف فلسطینی جماعت حماس کی ہوبہو نقل ہیں۔ کیا وہ ایسی کوئی چیز مہیا کرتا ہے جو سعودی عرب ،ترکی اور قطر مہیا نہیں کرسکتے ہیں؟ سعودی عرب یمن میں ( حوثیوں کے خلاف) اتحاد کی قیادت کررہا ہے اور اس کو مزید امداد یا حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یمن میں پیچیدہ سیاسی اتھل پتھل اور اعداد وشمار آڑے نہ آتے اور یمنی شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کا معاملہ نہ ہوتا تو سعودی عرب فوجی لحاظ سے اس جنگ کو کب کا ختم کرسکتا تھا۔ سعودی عرب اور عالمی برادری تنازعے کا کوئی پُرامن حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اگر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی حالیہ سفارتی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں تو سعودی عرب پھر بھی اس جنگ کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ ان ہر دو صورتوں میں اسرائیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل سراغرسانی میں مضبوط ہے ،مگر اس کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کے پاس یمن میں وہ ڈیٹا ہو جس سے سعودی عرب بے خبر ہو اور جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اہمیت کا حامل ہو۔اس کا شام میں بھی اطلاق ہوتا ہے جہاں سعودی عرب ،اردن ،ترکی اور قطر کے شاندار انٹیلی جنس ذرائع موجود ہیں۔وہاں ایک بین الاقوامی ”حلقہ” ( سرکل) بھی بروئے کار ہے جو انٹیلی جنس ڈیٹا کا آپس میں تبادلہ کرتا ہے۔اس حلقے میں امریکا ،یورپی یونین ،سعودی عرب اور اس کے اتحادی شامل ہیں۔ اثرورسوخ اسرائیل کے اثرورسوخ کے بارے میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔اسرائیلی ،فلسطینی تنازعے پر تحقیقی کام کرنے والے مشرق وسطیٰ منصوبے کے ڈائریکٹر ڈینیل لیوی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ”عربوں کے علاوہ چین میں یہ شدید احساس پایا جاتا ہے کہ اسرائیل واشنگٹن اور لندن ایسے دارالحکومتوں میں فیصلہ ساز حلقوں میں گہرے اثر ونفوذ کا حامل ہے۔یہ ایک مبالغہ آمیز ایشو ہے اور اسرائیل کے براہ راست مفادات سے ماورا اس پر انحصار کرنا کوئی عقل مندانہ بات نہیں ہوگی کیونکہ اسرائیل صرف اپنے مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتا ہے۔ جب اسرائیل نے ایران کے جوہری منصوبے کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی سیاست دانوں کو بھرتی کیا تھا تو اس وقت دراصل اس کو خطے نہیں بلکہ اپنی سکیورٹی سے متعلق تشویش لاحق تھی۔ اسرائیل کو یقینی طور پر ان ہتھیاروں کے بارے میں کوئی تشویش لاحق نہیں ہے جو شامیوں کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں۔ الریاض کو واشنگٹن یا کسی اور یورپی دارالحکومت میں اپنے مفادات کے فروغ کے لیے اسرائیلی اثر ورسوخ کی کبھی ضرورت نہیں ہوگی۔تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ سعودی عرب کا اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنا ہی کافی اثرو رسوخ ہے۔جب کبھی اسلحے کے کسی سودے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کو ووٹ کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنا یہ اثر ورسوخ استعمال کیا ہے۔ کیا اسرائیل کے شام میں وہی مقاصد ہیں جوسعودی عرب کے ہیں؟ کیا اسرائیل واقعی صدر بشارالاسد کے نظام کی رخصتی چاہتا ہے؟بالخصوص جبکہ وہ نصف صدی تک شامی صدر اور ان کے والد کے ساتھ گزارہ کرتا رہا ہے۔اسد رجیم نے اسلام پسندوں اور اسرائیل کے قبضے کے مخالف لوگوں کی بالادستی کی حامل منتخب حکومت کی جگہ لی تھی۔اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات اور اسرائیل کے تحقیقی مراکز کی جانب سے شائع شدہ تجزیوں کے مطابق تو اسرائیل ہرگز بھی ایسا نہیں چاہتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے فلسطینیوں کے لیے صورت حال میں بہتری آئے گی،انھیں لیوی کا مضمون پڑھنا چاہیے:”نیتن یاہو فلسطینیوں کے بغیر امن چاہتے ہیں”۔یہ مضمون گذشتہ ماہ اسرائیلی اخبار ہارٹز میں شائع ہوا تھا۔یہ واضح ہے کہ اسرائیلی برطانوی شہری لیوی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی وکالت کرنے والے سعودیوں سے زیادہ حقیقت پسند ہیں۔ —————————— جمال خاشقجی سعودی عرب کے تجربے کار صحافی ، کالم نگار اور مصنف ہیں۔ وہ جلد نشریات آغاز کرنے والے العرب نیوز چینل کے جنرل مینجر ہیں۔ماضی میں وہ امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل کے میڈیا مشیر رہے تھے۔ وہ مختلف اخبارات کے افغانستان ،الجزائر ،کویت ،سوڈان اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں غیرملکی نامہ نگار رہ چکے ہیں۔وہ سعودی عرب اور دوسرے بین الاقوامی چینلوں پر حالات حاضرہ اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر تجزیے اور تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ فیس بک تبصرے تبصرے Previous اداکارہ جاناں ملک نے گلوکارنعمان جاوید سے شادی کرلی Next ایرانی حکومت کی قیادت کے خلاف عدالتی کارروائی کا بین الاقوامی مطالبہ About the author ٹیم آئی بی سی اردو نیوز Related Articles انگریزوں کی Shameful Flight December 07, 2022 عمران نیازی اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ December 07, 2022 ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم) December 06, 2022 آئی بی سی کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں آئی بی سی کا فیس بک پیج لائک کریں تجزیے و تبصرے انگریزوں کی Shameful Flightیاسر پیر زادہ عمران نیازی اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہسلیم صافی ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم)خورشید احمد ندیم کیا ایلون مسک پاگل ہے ؟سید مہدی بخاری چنڈ مار کے پیریں پے جاؤوسعت اللہ خان میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو چھٹی نہ ملنا ذہنی تشدد کے برابروجیہہ اسلم دوست کے اتباع میںوجاہت مسعود اُمید سے بھرپور اردو کانفرنسحامد میر گوادر بدل رہا ہے مگر قدیم شاہی بازار مہندم ہورہا ہےظریف بلوچ گلگت شہر کے پانی کے قدیم لاوارث چینلزکرن قاسم موسمیاتی تغیرات کا پاکستان کے اور خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات کا ایک جائزہ پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس عمران خان کا مداخلت کے لئے ”غیروں“ کو اُکسانانصرت جاوید دو درویشوں کی کہانی !عطا ء الحق قاسمی آگ ایسی لگائی مزا آ گیاحامد میر ہم اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں ۔شمع صدیقی اقتدار کے سفاک کھیل میں مستقبل کی نقشہ سازینصرت جاوید الوداع جنرل باجوہ، چھ سالہ دور کا ایک جائزہسلیم صافی تین دن تیونس میںجاوید چوہدری پابہ زنجیر مزاحمتیوں کو آج کا دن پھر مبارکوسعت اللہ خان پمز ہسپتال کے سفید کوٹ میں درندےاظہر سید سخت گیر ماحول اور غصیلے والدین اور بےجا سختیاںبشری اقبال حسین پروجیکٹ عمران: وصال یار فقط آرزو کی بات نہیںوجاہت مسعود خان صاحب کا ’’فیض‘‘حامد میر تیسری دنیا کے لوگامجد اسلام امجد کیچڑجاوید چوہدری شادی سے پہلے لڑکی کے ’چناؤ‘ کا طریقہیاسر پیر زادہ ایک تھپڑ کی قیمت نسلیں چکاتی ہیںوسعت اللہ خان جنرل ایوب خان اور ان کے ہم نوا جرنیلعطا ء الحق قاسمی 24 نومبر: ترکماں حجرت ِاکبر آئیووجاہت مسعود کسی اور ہی دنیا کا باسیعطا ء الحق قاسمی آئی بی سی کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں آئی بی سی کا فیس بک پیج لائک کریں تجزیے و تبصرے انگریزوں کی Shameful Flightیاسر پیر زادہ عمران نیازی اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہسلیم صافی ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم)خورشید احمد ندیم کیا ایلون مسک پاگل ہے ؟سید مہدی بخاری چنڈ مار کے پیریں پے جاؤوسعت اللہ خان میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو چھٹی نہ ملنا ذہنی تشدد کے برابروجیہہ اسلم دوست کے اتباع میںوجاہت مسعود اُمید سے بھرپور اردو کانفرنسحامد میر گوادر بدل رہا ہے مگر قدیم شاہی بازار مہندم ہورہا ہےظریف بلوچ گلگت شہر کے پانی کے قدیم لاوارث چینلزکرن قاسم موسمیاتی تغیرات کا پاکستان کے اور خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات کا ایک جائزہ پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس
دبئی: قومی کپتان بابر اعظم سے ٹی ٹوئنٹی رینکنگ کی پہلی پوزیشن چھن گئی، ہم وطن محمد رضوان ٹی ٹوئنٹی کے نمبر ون بلے باز بن گئے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پلیئرز کی نئی رینکنگ جاری کردی ہے۔ پلیئرز رینکنگ کے مطابق قومی وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان نمبر ون ٹی ٹوئنٹی بیٹر بن گئے۔ بابر اعظم رینکنگ میں دوسرے نمبر پر آ گئے، وہ ایک ہزار سے زائد دنوں تک نمبرون ٹی ٹوئنٹی بیٹر رہے۔ ایشیا کپ کی تین اننگز میں بڑا اسکور نہ کرنے پر بابر اعظم کے رینکنگ پوائنٹس 810 سے 794 ہوگئے، انہوں نے ایشیا کپ میں اب تک تین میچز میں 10، 9 اور 14 رنز بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقا کے ایڈن مارکرم ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں تیسرے نمبر آ گئے جب کہ بھارت کے سوریا کمار یادیو چوتھے نمبر پر چلے گئے۔ دھیان رہے کہ پاکستان کے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان ایشیا کپ کے اب تک ٹاپ اسکورر ہیں۔ پڑھنا جاری رکھیں Asia cupBabar Azam Fail in Asia CupBabar Azam No 2 BatterICC RankingMohammad RizwanRizwan Top ScorerT20 No 1 batter
راجستھان کی الور پولیس کے مطابق، یہ مقدمہ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کے ضلع کے گووند گڑھ میں چرنجی لال سینی کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد وائرل ہونے والے ویڈیو کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔ سینی کو مبینہ طور پر میو مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے ٹریکٹر چوری کے شبہ میں مارا پیٹاتھا، جس کے بعد اس کی موت ہوگئی تھی۔ ادے پور قتل کے بہانے سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے اپوروانند 29/06/2022 ادے پور میں بہیمانہ قتل کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہ قتل و غارت گری اور تشددکے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جارہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو اورمسلمان ایک ساتھ ایک آواز میں نہ بول پائیں۔ سریش چوہانکے نے بی جے پی ایم ایل اے اور دیگر کو ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کا حلف دلایا دی وائر اسٹاف 04/05/2022 ہریانہ کے امبالا شہر میں منعقد پروگرام کی ایک مبینہ ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ہے، جس میں سدرشن نیوز کے چف ایڈیٹرسریش چوہانکے، ایم ایل اے اسیم گوئل اور دیگر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہم ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا حلف لیتے ہیں۔ ان لوگوں نے اس کے لیے ضرورت پڑنے پر ‘قربانی دینے یا لینے’ کی بات بھی کہی۔ دہلی: سریش چوہانکے نے دلایا ’ہندو راشٹر کے لیے لڑنے، مرنے-مارنے‘ کا حلف دی وائر اسٹاف 23/12/2021 • 1 comment سوشل میڈیا پر سامنے آئے ویڈیو میں سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے 19 دسمبر کو دہلی میں ہندو یووا واہنی کے ایک پروگرام میں یہ حلف دلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سریش چوہانکے کے خلاف ایف آئی آر، مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام دی وائر اسٹاف 31/07/2021 راجستھان آدی واسی مینا سیوا سنگھ کے رکن گریراج مینا کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 23 جولائی کی شام سدرشن ٹی وی کے مدیرسریش چوہانکے نے انہیں اور پوری آدی واسی کمیونٹی کو گالی دی۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ فرہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لیےانتشار اور فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ راجستھان: 12ویں جماعت کی کتاب میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ نے کو لے کر ایف آئی آر دی وائر اسٹاف 19/03/2021 بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن راجستھان کے لیےچھپی12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب کو لےکرتنازعہ ۔ جئے پور میں کتاب سے متعلق ایک جوابی کتاب شائع کرنے والےاشاعتی ادارے کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے کے سلسلے میں تین افراد گرفتار۔ راجستھان: زندہ جلائی گئی ریپ متاثرہ کی موت، ریپ کے ملزم سمیت دو لوگ حراست میں دی وائر اسٹاف 07/03/2021 راجستھان کے ہنومان گڑھ ضلع کا معاملہ۔ متاثرہ کی نانی کا الزام ہے کہ ان کی نواسی کے ساتھ ریپ کرنے والے پردیپ وشنوئی نے ہی اسے زندہ جلایا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سی سی ٹی وی میں نظر آ رہے نوجوان کی پہچان نہیں ہو پائی ہے۔ وشنوئی کے رول کی جانچ کی جا رہی ہے۔ رکبر خان لنچنگ: عدالت پر جانبداری کا الزام، معاملہ منتقل کر نے کی اپیل خارج دی وائر اسٹاف 13/02/2021 راجستھان کے الور ضلع کاواقعہ۔ 20 جولائی2018 کو رکبر خان اور ان کے ایک ساتھی پر گائے کی اسمگلنگ کے شک میں گئورکشکوں کی بھیڑ نے حملہ کر دیا تھا۔ بے رحمی سے پٹائی کے بعد رکبر کی موت ہو گئی تھی جبکہ ان کے ساتھی بچ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب رہے تھے۔ راجستھان: ریپ کے الزام میں بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف کیس درج دی وائر اسٹاف 06/02/2021 راجستھان کے ادے پور ضلع میں گوگندہ سے ایم ایل اے پرتاپ لال گمیتی پر مدھیہ پردیش کی رہنے والی خاتون نے شادی کا جھانسہ دےکرریپ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ معاملے کی جانچ سی بی- سی آئی ڈی کو سونپ دی گئی ہے۔ صحافی روہنی سنگھ کو ریپ کی دھمکی دینے کے الزام میں اے بی وی پی سے وابستہ اسٹوڈنٹ گرفتار دی وائر اسٹاف 01/02/2021 صحافی روہنی سنگھ نے ٹوئٹر پر دھمکیاں ملنے کے بعد ادے پور پولیس سے شکایت کی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ اسٹوڈنٹ نے قبول کیا کہ روہنی کی کسان ریلی پر رپورٹنگ سے ناراضگی کی وجہ سے اس نے سنگھ کو دھمکی بھرے پیغامات بھیجے۔ راجستھان: آٹھ سالہ بچی سے ریپ کے بعد قتل کا الزام دی وائر اسٹاف 30/11/2020 راجستھان کے پرتاپ گڑھ ضلع میں گزشتہ27 نومبر کی رات کو ماں کے ساتھ سو رہی بچی کا اغوا کر لیا گیا تھا۔ اگلے دن رات میں اس کی لاش پاس کے ایک سوکھے کنویں میں ملی تھی۔ راجستھان: مبینہ طور پر جئے شری رام نہیں بولنے پر آٹو رکشہ ڈرائیور سے مارپیٹ، دو گرفتار دی وائر اسٹاف 08/08/2020 یہ معاملہ سیکر کا ہے۔ ڈرائیورکا کہنا ہے کہ ان کی داڑھی نوچی گئی، لات اور گھسے مارے گئے، جس سے ان کے دو سے تین دانت ٹوٹ گئے۔ ان کی بائیں آنکھ، گال اور سر پر چوٹیں آئی ہیں۔الزام ہے کہ ڈرائیورکو پاکستان بھیجنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ ’بی جے پی سے مقابلے کے لیے کانگریس کو اپنی سبزی خورسیاست چھوڑنی ہوگی‘ عارفہ خانم شیروانی 24/07/2020 ویڈیو:راجستھان میں سیاسی کھینچ تان کے موضوع پر اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت سے د ی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔ ’نریندر مودی کا کوئی صلاح کار گروپ نہیں، صرف چاپلوسی گروپ ہے‘ عارفہ خانم شیروانی 19/07/2020 ویڈیو: راجستھان میں کانگریس رہنما سچن پائلٹ کی بغاوت اور گہلوت سرکار کے بحران میں پڑنے سے سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر چنی ہوئی سرکاروں کو خوف یا لالچ سے گرایا جا سکتا ہے اور اپنی من مرضی کی پارٹی کی سرکار کو بنایا جا سکتا ہے تو پھر جمہوریت میں انتخابات کے معنی ہی کیا رہ گئے؟ جانے مانے مؤرخ رام چندر گہا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔ میڈیا بول: راجستھان میں سرکار پلٹ پروجیکٹ اور نیوز چینل اُرملیش 15/07/2020 ویڈیو: راجستھان میں کئی دنوں سے چل رہی سیاسی کھینچ تان کے بیچ سچن پائلٹ کو نائب وزیر اعلیٰ اور کانگریس کے ریاستی صدرکے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس سیاسی الٹ پھیر اور اس دوران میڈیا کے رول پرسینئر صحافی ارملیش کا نظریہ۔ راجیہ سبھا الیکشن: گجرات میں بی جے پی کو تین، کانگریس کو ایک سیٹ، آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس کا دبدبہ دی وائر اسٹاف 20/06/2020 دگوجئے سنگھ، جیوترادتیہ سندھیا، شیبو سورین اور کےسی وینوگوپال جیسےتجربہ کار رہنماؤں نے جیت درج کی۔ راجیہ سبھا کی 19 سیٹوں کے لیے آٹھ ریاستوں میں انتخاب ہوئے تھے۔ راجستھان: چوری کے الزام میں لڑکے کو برہنہ کر کے پیٹا، بال کاٹے، ملزمین گرفتار دی وائر اسٹاف 15/06/2020 معاملہ12 جون کو جھالاواڑ کے بال گڑھ میں ہوا،جہاں تین نوجوان نے بکری چوری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے لڑکے سے ایک لاکھ روپے مانگے۔ اس کے انکار کرنے پر اس کوبرہنہ کرکے بری طرح سے پیٹا گیا اور بال کاٹ کرکے منھ کالا کر دیا گیا۔ راجیہ سبھا انتخاب کے لیے کیوں زمین آسمان ایک کر رہی ہے بی جے پی؟ اجے آشیرواد مہاپرشست 15/06/2020 ویڈیو: ملک بھر میں راجیہ سبھا کی 18 سیٹوں کے لیے 19 جون کوانتخاب ہونے ہیں۔ راجیہ سبھاانتخاب سے پہلے راجستھان میں چل رہی سیاسی اٹھاپٹک کے بیچ ریاست کی تین سیٹوں پرانتخاب ہوگا۔ اس مدعے پر چرچہ کر رہے ہیں دی وائر کے ڈپٹی ایڈیٹر اجئے آشیرواد۔ ملک کورونا سے لڑ رہا ہے بی جے پی انتخاب لڑ رہی ہے عارفہ خانم شیروانی 13/06/2020 • 1 comment ویڈیو: ایک طرف ملک میں کورونا کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، دوسری طرف راجیہ سبھا انتخاب سے پہلے راجستھان میں سیاسی ہلچل تیز ہو چکی ہے۔ اس مدعے پر عارفہ خانم شیروانی کی دی وائر کے اجئے آشیرواد اور ٹاک جرنلزم کے بانی اویناش کلہ سے بات چیت۔ راجستھان: نوجوان کا الزام، دلت ہو نے کی وجہ سے بال کاٹنے سے انکار کیا گیا، دی گئیں گالیاں دی وائر اسٹاف 12/06/2020 معاملہ ٹونک ضلع کے ڈانگرتھل گاؤں کا ہے۔نوجوان کاالزام ہے کہ دلت ہونے کی وجہ سے دکاندار نے اس کے بال کاٹنے سے انکار کیا اور اس کی کمیونٹی کو لے کر گالیاں دیتے ہوئے اپنی دکان سے نکال دیا۔ اس کے بعد گاؤں کے دوسرے دکانداروں نے بھی بال کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس سلسلے میں تین لوگوں پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔ راجستھان: ہاسپٹل کے اسٹاف کے ذریعے مسلمان مریضوں کی مدد نہ کر نے کا وہاٹس ایپ چیٹ لیک، کیس درج دی وائر اسٹاف 08/06/2020 معاملہ راجستھان کے چورو ضلع کا ہے۔مسلمان مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو لے کراسٹاف کی مبینہ بات چیت لیک ہونے کے بعد شری چند برڈیا روگ ندان کیندر کے ڈائریکٹر سنیل چودھری نے فیس بک پر معافی مانگی ہے۔ راجستھان: انتظامیہ نے کہا-مسلمان ہو نے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا الزام ثابت نہیں ہو سکتا دی وائر اسٹاف 06/04/2020 بھرت پور کے اربن امپرومنٹ ٹرسٹ کے سکریٹری امید لال مینا کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون کے شوہر عرفان خان نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ذاتی طور پریہ نہیں کہا کہ آپ مسلمان ہیں اور ہم آپ کا علاج نہیں کریں گے۔ مسلمان حاملہ خاتون کو ہاسپٹل میں بھرتی نہیں کر نے کا الزام، ایمبولینس میں نوزائیدہ کی موت دی وائر اسٹاف 05/04/2020 یہ معاملہ راجستھان کے بھرت پور کا ہے۔ حاملہ خاتون کے شوہر عرفان خان نے کہا کہ جو اسٹاف ان کی بیوی کے رابطے میں تھے، انہیں ایسا لگا کہ ہم تبلیغی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں۔ راجستھان: کوٹہ میں چلتی ٹرک سے آٹے کی لوٹ، 10 گرفتار دی وائر اسٹاف 30/03/2020 یہ معاملہ کوٹہ کے کنہاڈی کا ہے، جس ٹرک سے آٹے کی لوٹ ہوئی ہے۔ اس کے مالک کا کہنا ہے کہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، جہاں بھوک مری ہے، وہاں لوگ مجبور ہیں؟ سرکار کو دیکھنا چاہیے کی تالے بندی کی وجہ سے کہیں آٹا وغیرہ کی کمی نا ہو۔ پہلو خان لنچنگ: دونوں قصوروار نابالغوں کو 3 سال کے لئے جووینائل ہوم بھیجا گیا دی وائر اسٹاف 14/03/2020 راجستھان کے الور میں پہلو خان کا پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کے معاملے کے جانچ افسروں نے کہا کہ جب جرم ہوا اس وقت دونوں مجرم نابالغ تھے۔ اب وہ 18-21 سال کے ہیں، اس لئے ان کو جووینائل ہوم بھیجنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ پہلو خان لنچنگ: جووینائل جسٹس بورڈ نے 2 نابالغ کو مجرم قرار دیا دی وائر اسٹاف 07/03/2020 سال 2017 میں پہلو خان کا بھیڑ کے ذریعے پیٹ-پیٹ‌کر قتل کرنے کے معاملے میں یہ پہلی سزا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں الور کی نچلی عدالت نے معاملے کے 6 دیگر ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ راجستھان: ناگور میں بربریت کا شکار ہو ئے دلت نوجوانوں کو انصاف کی امید کیوں نہیں ہے؟ اودھیش آکودیا 02/03/2020 گراؤنڈ رپورٹ : 16 فروری کو ناگور کے دو نوجوانوں کو کرنو گاؤں میں چوری کے الزام میں بےرحمی سے پیٹا گیا، جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعدکانگریس رہنما راہل گاندھی اور وزیراعلیٰ اشوک گہلوت سمیت تمام بڑے رہنماؤں نےملزمین کو سزا اور متاثرین کو انصاف دلانے کی بات کہی، لیکن متاثرین اور ان کی فیملی اس کو لےکر مطمئن نظر نہیں آتے۔ راجستھان: چوری کے الزام میں دو دلتوں کی بےرحمی سے پٹائی دی وائر اسٹاف 20/02/2020 کانگریس رہنما راہل گاندھی نے واقعہ کو ‘خوفناک اورگھناونا ‘ قراردیتے ہوئے جمعرات کو راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت سے کہا کہ وہ اس معاملے میں فوراً کارروائی کرے۔ مہاراشٹر کے بعد راجستھان کے اسکولوں میں بھی 26 جنوری سے پڑھی جائے گی آئین کی تمہید دی وائر اسٹاف 25/01/2020 راجستھان کے وزیر تعلیم گووند سنگھ ڈوٹاسرا نے کہا کہ ملک میں جس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے، اس میں ہمارے آئین بننے کی تمہید اور جذبات کی تشہیر سے ہی ہم ملک میں ہم آہنگی، اتحاد، سالمیت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ راجستھان: کوٹا ہاسپٹل میں دسمبر میں 100 بچوں کی موت، 2019 میں 963 بچوں کی جان گئی دی وائر اسٹاف 02/01/2020 راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا کہ حکومت بیمار بچوں کی موت پر پوری طرح حساس ہے اور اس معاملے میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ سال 2008 جئے پور بلاسٹ معاملے میں 4 کو پھانسی کی سزا دی وائر اسٹاف 21/12/2019 جئے پور میں 13 مئی 2008 کو ہوئے سلسلے وار بلاسٹ میں 80 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور تقریباً 170 زخمی ہوئے تھے۔ راجستھان کی ایک خصوصی عدالت نے معاملے میں 4 ملزمین محمد سرور اعظمی، محمد سیف،محمد سلمان اور سیف الرحمن کو مجرم ٹھہرایا جبکہ ایک ملزم شہباز حسین کو الزام سے بری کر دیا تھا۔ چائلڈ اسمگلنگ کے معاملے میں راجستھان ٹاپ پر، بہار سے ہر دن ایک بچے کی اسمگلنگ: این سی آر بی دی وائر اسٹاف 09/12/2019 نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، بچہ اسمگلنگ کے 886 معاملوں کے ساتھ راجستھان پہلے مقام پر ہے، جبکہ مغربی بنگال 450 ایسے معاملوں کے ساتھ دوسرے مقام پر ہے۔ بچہ اسمگلنگ کے 121 درج معاملے میں بہار پولیس نے چارج شیٹ ہی دائر نہیں کی۔ راجستھان: الور میں سر پنچ کے شوہر کا پیٹ پیٹ کر قتل دی وائر اسٹاف 25/11/2019 راجستھان کے الور ضلع کے منڈاور تھانہ حلقہ کا واقعہ۔ رشتہ داروں نے قتل کے پیچھے سیاسی رنجش ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ پولیس نے قتل کا کیس درج کیا ۔ راجستھان: مسلم پولیس اہلکاروں کے داڈھی نہ رکھنے کا فیصلہ واپس لیا گیا دی وائر اسٹاف 23/11/2019 معاملہ الور ضلع کا ہے، جہاں جمعرات کو ایس پی نے ضلع میں تعینات 9 پولیس اہلکاروں کے داڑھی رکھنے پر روک لگانے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ سبھی 9 پولیس اہلکار مسلم کمیونٹی سے تھے۔ راجستھان: سانبھر جھیل کے کنارے اب تک 17000 سے زیادہ پرندوں کی موت دی وائر اسٹاف 19/11/2019 اب تک 32طرح کے پرندوں کی موت ہو چکی ہے۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ جب تک گھونگھٹ نہیں ہٹے‌ گا عورت کبھی آگے نہیں بڑھ پائے‌ گی: اشوک گہلوت دی وائر اسٹاف 06/11/2019 راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے ایک پروگرام میں کہا کہ سماج کو کسی عورت کو گھونگھٹ میں قید کرنے کا کیا حق ہے؟ پہلو خان کے خلاف گئو تسکری میں درج کیس راجستھان ہائی کورٹ نے خارج کیا دی وائر اسٹاف 30/10/2019 راجستھان کے الور میں اپریل 2017 میں مبینہ گئورکشکوں کی بھیڑ نے مویشی لے جا رہے پہلو خان، ان کے دو بیٹوں اور ٹرک ڈرائیور پرحملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کےدو دن بعد پہلو خان کی ہاسپٹل میں موت ہو گئی تھی۔ الور لنچنگ معاملہ: راجستھان حکومت نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی دی وائر اسٹاف 18/10/2019 سال 2017 میں گئو تسکری کے الزام میں 55 سالہ پہلو خان کو راجستھان کے الور میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار دیا تھا ۔ اس سال اگست مہینے میں نچلی عدالت نے معاملے میں تمام 6 ملزمین کو بری کر دیا ہے۔ الور: مسلم جوڑے کو پریشان کرنے اور زبردستی جئے شری رام کا نعرہ لگوانے کے الزام میں دو گرفتار دی وائر اسٹاف 07/10/2019 ملزمین کو 18 اکتوبر تک کے لیے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ایف آئی آر کے مطابق، ملزمیننے جئے شری رام کا نعرہ لگانے کے لیے ان کے ساتھ زبردستی کی اور ان میں سے ایک نے خاتون کے سامنے اپنی پینٹ کھول دی ۔ راجستھان: آر ٹی آئی کارکن کی حراست میں موت، پورا تھانہ لائن حاضر، تھانیدار سمیت 10 پر کیس درج دی وائر اسٹاف 07/10/2019 راجستھان کے باڑمیر ضلع کا معاملہ ہے۔زمینی تنازعہ کے دوران آئی ٹی آئی کارکن سے مار پیٹ کی گئی تھی،اس سے انہیں اندرونی چوٹیں آئی تھیں۔الزام ہے کہ پولیس نے علاج کرانے کے بجائے ،انہیں حراست میں رکھا تھا۔ Posts navigation 1 2 3 4 Older › Copyright All content © The Wire, unless otherwise noted or attributed. The Wire is published by the Foundation for Independent Journalism, a not-for-profit company registered under Section 8 of the Company Act, 2013. CIN: U74140DL2015NPL285224 Twitter پیروی @TheWireUrdu Acknowledgment The Wire’s journalism is partly funded by the Independent and Public Spirited Media Foundation Top categories: خبریں/فکر و نظر/ویڈیو/ادبستان/گراؤنڈ رپورٹ/حقوق انسانی/عالمی خبریں/الیکشن نامہ/خاص خبر Top tags: اردو خبر/ News/ The Wire/ Urdu News/ دی وائر اردو/ The Wire Urdu/ دی وائر/ Narendra Modi/ BJP
گذشتہ کچھ عرصے سے پوری دنیا میں اسلام دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہاءکردی گئی ہے۔کچھ ملکوں میں براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور کچھ ملکوں مثلا پاکستان وغیرہ میں کافروں کے ایجنٹ نہتے شہریوں، تعلیمی اداروں کے بچوں اور بے گناہ مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب بچوںاور بے گناہوں کے تڑپتے لاشے آسمان سے ایسے عذاب کو کھینچ لائیں گے جو اسلام دشمنوں کو خَس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، اللہ تو بے گناہ اور مظلوم کافروں کی آہوں اور سسکیوں پر بھی ظالم مسلمانوں سے ایسا انتقام لیتا ہے کی تاریخ اسے یاد رکھتی ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں چنگیز خان اور ہلاکو خان کی مہموں کوبدترین ظلم وسربریت سے یاد کیا جاتا ہے لیکن اس کے پس منظر کو دیکھا جائے توایسی حیرت انگیز باتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ اللہ کا قانون تمام ظالموں کے لئے ایک جیسا ہی ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔ چنگیز خان نے مغولستان کی جب بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستوں کوختم کرکے ایک ریاست قائم کرلی تو اس نے مناسب سمجھا کہ مسلمانوں کے حکمران سلطان محمد خوارزم شاہ سے دوستی اور امن معاہدے کرلیے جائیں تاکہ آپس میں تجارت بھی کی جاسکے۔ چنانچہ چنگیز خان نے سلطان کو دوستی کا خط لکھا اورپھر دونوں مملکتوں میں تجارت بھی شروع ہوگئی۔پھرسلطنت عباسیہ کے خلیفہ ناصرالدین عباسی نے چنگیز خان کو خط لکھا کہ آپ سلطان خوارزم شاہ پر حملہ کردو میں تمہارا ساتھ دوں گا، لیکن چنگیز خان نے کہا میں نے دوستی کرلی ہے میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔اس کے بعد چنگیز خان نے سلطان کی طرف اظہار محبت سے بھرا ایک اور خط لکھ کر اپنا سفیر تاجروں کے قافلے کے ساتھ روانہ کیا، لیکن راستے میں سلطان کے نائب نے اس سفیر سمیت تمام تاجروں کو جاسوس قرار دے کرقتل کردیا اور تمام سامان بھی لوٹ لیا۔ اتنے بڑے واقع کے بعد بھی چنگیز خان مشتعل نہیں ہواپھرایک اور خط سلطان کو لکھا کہ تمہارے نائب نے بڑا ظلم کیا ہے بے گناہوں کو قتل کیا ہے، لہٰذا اسے سزا دو۔لیکن بدقسمتی دیکھیے سلطان خوازم شاہ نے اس خط کو پڑھتے ہی خط لانے والے سفیر کو بھی قتل کردیا۔اب کی بار بھی چنگیز خان مشتعل نہیں ہوا اور ایک تیسرا خط لکھا کہ بادشاہوں کے لائق نہیں کہ وہ سفیروں کو قتل کریں ایسا کرنا آپ کے شایان شان نہیں۔ یہ خط جب سلطان خوارزم شاہ کو ملا تو اس نے پھر وہی حرکت کی یعنی خط لانے والے اس تیسرے سفیر کو بھی قتل کردیا۔چنانچہ اب مشیت الٰہی میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ کافروں کے ذریعہ فاسق مسلمانوں کو سزا ملنی چاہیے۔چنگیز خان غم.اور غصے کی حالت میں رات کی تاریکی میں اکیلا ایک پہاڑ پہ چڑھا اور آسمان کی طرف منہ کر کہ بولا ـ اے مسلمانوں کے اللہ ـ تیرے ماننے والوں نے میرے ساتھ دھوکا اور میری رعایا کے ساتھ ظلم کیا ـ مجھے پتہ ہے کہ تو مظلوم کی دعا رد نہیں کرتا چاہے وہ مسلمان نہ ہو ـچنانچہ میں ایک کافر ـ تموجن عرف چنگیز خان آج تجھ سے مدد مانگتا ہے تاکہ ظالموں کو ان کے کیئے کا مزہ چکھا سکوں ـ۔ چنگیز خان نے لشکر تیار کرنا شروع کیا۔ یہاں سوچنے کی بات ہے کہ مسلمان بادشاہ کیسی نالائقی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کافر بادشاہ کن مجبوریوں میں حملہ کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔چنانچہ چنگیز خان مغلوں کا لشکرعظیم لے کر ایران اور ممالک اسلامیہ کی طرف روانہ ہوا، اب سلطان خوارزم شاہ نے بجائے مقابلہ کرنے کے فوج کمانڈروں کے حوالے کرکے بھاگنا شروع کردیا، چنگیز خان اس کا پیچھا کرتا رہا، سلطان کبھی سمرقندبھاگتا تو کبھی ہرات، کبھی بلخ تو کبھی ماوراءالنہر۔ سلطان کی اس بزدلی کو دیکھ کر چنگیز خان اور دلیر ہوگیا۔ کئی ملکوں میں بھگاتے بھگاتے بالاخر اکثر شہر چنگیز خان نے اپنے قبضے میں لے لیے، اس کے بعد خراسان،سمرقند،بخارا،ہرات وغیرہ میں چنگیزخان نے اتنا خون بہایا کہ کسی نفس کو زندہ نہیں چھوڑا عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کی گردنیں کاٹی گئیں، یہاں تک کہ چنگیز خان نے یہ حکم بھی دیا کہ شہر کے پرندوں کو بھی قتل کردو کوئی نفس زندہ نہیں ہونا چاہیے اور پھرایسا ہی کیا گیاکسی کو زندہ نہیں چھوڑا۔چنگیز خان کی اتنی دہشت تھی کہ ان کی کوئی عورت کسی گلی میں داخل ہوتی وہاں اگر سو مسلمان کھڑے ہوتے تو وہ ان کو کہتی ابھی یہی رکو میں تلوار لے کر آتی ہوں اور تمہیں قتل کرتی ہوں، چنانچہ وہ جاکرتلوار لاتی اور ایک ایک مسلمان کو ذبح کرتی لیکن کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اور مقابلہ کرتے تو بھی کیسے کرتے، یہ تو اللہ کا عذاب تھا، اللہ کے عذاب کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ دنیائے اسلام کا عظیم حادثہ بغداد کی تباہی تھا جو چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔ یہاں بھی مسلمانوں کے بادشاہ کی نالائقی اس سانحے کی وجہ بنی، بادشاہ کے وزیرعلقمی نے خود ہلاکو خان کوحملے کی دعوت دی،ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کرکے ایک کروڑ چھ لاکھ انسانوں کو ذبح کیا، دریائے دجلہ کا پانی خون سے سرخ ہوکربہہ رہا تھا، عورتیں سرپر قرآن رکھ کر پناہ مانگ رہی تھیں لیکن تاتاریوں نے کسی کو نہیں بخشا، وہ منظر دہرایا گیا کہ کوئی نفس زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ چاہے بچہ ہے یا بوڑھا سب کو قتل کردو، ایک دن کے بچے کو بھی ذبح کردو۔ ہلاکوخان نے بادشاہ مستعصم کو زندہ گرفتار کرلیا۔ کئی دن تک خونرزیز جاری رہی، کیاسردار اور کیا علماءسب کو لائنوں میں کھڑا کرکے باری باری ذبح کیا گیا۔خلیفہ نے لاکھوں لوگوں کو اپنی آنکھوں سے ذبح ہوتے دیکھا، جب سب انسان ختم ہوگئے پھر ہلاکوخان شاہی محل میں داخل ہوا، خلیفہ کو طلب کیا اور کہاہم تمہارے مہمان ہیں کوئی ضیافت کرو۔ خلیفہ اتنا کانپ رہا تھا کہ خزانے کے تالے نہیں کھول سکتا تھا،تالے توڑ کرخزانہ نکالا گیا، پھر ہلاکوخان نے وہ خزانہ اپنی فوج میں تقسیم کردیا اور کہایہ خزانہ توویسے بھی ہمارا تھا اب وہ خزانہ جو تم نے زمین میں دفن کیا ہوا ہے وہ بھی نکالو، خلیفہ نے اس کا پتا بتایا تو زمین کے اندر سے سونے جواہرات کے بڑے بڑے حوض نکلے۔پھرخلیفہ کو ایک کمرے میں بندکردیا گیا، خلیفہ نے کہا مجھے بھوک لگی ہے، ہلاکو خان نے حکم دیا ایک پلیٹ میں سونے کے جواہرات اور اشرفیاں اس کو کھانے کے لئے دی جائیں۔ خلیفہ نے کہا یہ میں کیسے کھاوں، ہلاکو خان نے کہاجس چیز کو تم کھا نہیں سکتے اسے اتنا سنبھال کر کیوں رکھا تھا، اگر اپنی عوام اور سپاہیوں پر خرچ کرتے تو وہ آج تمہاری طرف سے مقابلہ بھی کرتے۔بالاخر خلیفہ کو ایک بوری میں بند کرکے لاتیں اور مکے مارمار کرختم کردیا گیا۔ دراصل باپ کے بعد بیٹا حکمران اور پھر پوتا حکمران کی ایسی روش چل نکلی تھی کہ یہ عقیدہ بن گیا تھا کہ خاندان عباسیہ کے علاوہ کوئی شخص خلیفہ بن ہی نہیں سکتا۔اس خطرناک اور نازک ترین حالت کی اصلاح آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی کی کیونکہ مسلمانوں کی حالت انتہائی پستی کو پہنچ چکی تھی۔چنگیز خان اور ہلاکوخان غیرمتمدن، جاہل،اور وحشی لوگ تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو فاجر مسلمانوں کا سزا دہندہ بناکرنازل کردیا۔چنگیز خان اور ہلاکوخان کی خونریزیاں درحقیقت ایک ڈاکٹر سرجن کی خون ریزی سے بہت مشابہ تھیں، جس طرح ایک سرجن گندے پھوڑے میں زخم لگا کر گندہ خون باہر نکالتا ہے اسی طرح چنگیزخان مشیت الٰہی سے امت مسلمہ کے لئے سرجن بن کرآیا اور گندہ خون بہاکرصاف کردیا۔ پھر یہی لوگ بعد میں اسلام قبول کرکے نہ صرف مسلمان ہوگئے بلکہ بڑے بڑے فاتح بنے، چنانچہ قرآن میں اللہ کا وعدہ بھی پورا ہوگیا کہ اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لاکر کھڑا کردے گا اور پھر اپنے دین کا کام ان سے لے گا۔ فیس بک تبصرے تبصرے Previous جب قائداعظم کا بنگلہ گنگا جل سے دھلوایا گیا Next ذرا سوچیے!ہم میں سے کون کرپٹ نہیں؟ About the author ٹیم آئی بی سی اردو نیوز Related Articles ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم) December 06, 2022 کیا ایلون مسک پاگل ہے ؟ December 06, 2022 چنڈ مار کے پیریں پے جاؤ December 06, 2022 آئی بی سی کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں آئی بی سی کا فیس بک پیج لائک کریں تجزیے و تبصرے ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم)خورشید احمد ندیم کیا ایلون مسک پاگل ہے ؟سید مہدی بخاری چنڈ مار کے پیریں پے جاؤوسعت اللہ خان میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو چھٹی نہ ملنا ذہنی تشدد کے برابروجیہہ اسلم دوست کے اتباع میںوجاہت مسعود اُمید سے بھرپور اردو کانفرنسحامد میر گوادر بدل رہا ہے مگر قدیم شاہی بازار مہندم ہورہا ہےظریف بلوچ گلگت شہر کے پانی کے قدیم لاوارث چینلزکرن قاسم موسمیاتی تغیرات کا پاکستان کے اور خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات کا ایک جائزہ پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس عمران خان کا مداخلت کے لئے ”غیروں“ کو اُکسانانصرت جاوید دو درویشوں کی کہانی !عطا ء الحق قاسمی آگ ایسی لگائی مزا آ گیاحامد میر ہم اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں ۔شمع صدیقی اقتدار کے سفاک کھیل میں مستقبل کی نقشہ سازینصرت جاوید الوداع جنرل باجوہ، چھ سالہ دور کا ایک جائزہسلیم صافی تین دن تیونس میںجاوید چوہدری پابہ زنجیر مزاحمتیوں کو آج کا دن پھر مبارکوسعت اللہ خان پمز ہسپتال کے سفید کوٹ میں درندےاظہر سید سخت گیر ماحول اور غصیلے والدین اور بےجا سختیاںبشری اقبال حسین پروجیکٹ عمران: وصال یار فقط آرزو کی بات نہیںوجاہت مسعود خان صاحب کا ’’فیض‘‘حامد میر تیسری دنیا کے لوگامجد اسلام امجد کیچڑجاوید چوہدری شادی سے پہلے لڑکی کے ’چناؤ‘ کا طریقہیاسر پیر زادہ ایک تھپڑ کی قیمت نسلیں چکاتی ہیںوسعت اللہ خان جنرل ایوب خان اور ان کے ہم نوا جرنیلعطا ء الحق قاسمی 24 نومبر: ترکماں حجرت ِاکبر آئیووجاہت مسعود کسی اور ہی دنیا کا باسیعطا ء الحق قاسمی خلفشار کو بااختیار ”ثالث“ ہی قابو میں لا سکتے ہیںنصرت جاوید بے بس پارلیمینٹ کا نوحہحامد میر آئی بی سی کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں آئی بی سی کا فیس بک پیج لائک کریں تجزیے و تبصرے ’عوامی دانش مند‘کہاں ہیں؟ (مکمل کالم)خورشید احمد ندیم کیا ایلون مسک پاگل ہے ؟سید مہدی بخاری چنڈ مار کے پیریں پے جاؤوسعت اللہ خان میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو چھٹی نہ ملنا ذہنی تشدد کے برابروجیہہ اسلم دوست کے اتباع میںوجاہت مسعود اُمید سے بھرپور اردو کانفرنسحامد میر گوادر بدل رہا ہے مگر قدیم شاہی بازار مہندم ہورہا ہےظریف بلوچ گلگت شہر کے پانی کے قدیم لاوارث چینلزکرن قاسم موسمیاتی تغیرات کا پاکستان کے اور خیبر پختون خواہ کے آبی ذخائر پر اثرات کا ایک جائزہ پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 ) حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص)کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص)کے 9 نام ہیں۔ فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص)کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89) اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا(ص) کنیت : ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الائمہ و ام ابیھا ۔ القاب : زھرا، بتول، صدیقہ، کبری، مبارکہ، عذرہ، طاھرہ، و سیدۃ النساء ۔ والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ۔ ولادت : 20 جمادی الاخر، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ ۔ وفات : 11 ھجری بروز پیر مقام وفات : شہر مدینہ منورہ مقام دفن : نامعلوم پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص)کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا(س)کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بہت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطہر حضرت زھرا(س)کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پہونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ہوئیں کہ حضرت زھرا(س)پیامبراسلام(ص)کے بعد گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا(ص)کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رہتا تھا ۔ چونکہ آپ(س)کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو"" بیت الحزن"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زہرا(س)حسنین علیھم السلام کو لیکروہاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وہاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ہوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زہرا(ص)کو گھر لاتے ۔ یہاں تک کہ آپ مریض ہوگئیں ۔ پیامبر اسلام(ص)کے فراق میں حضرت زہرا(ص)کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام(ص)کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں ۔ اور بے حال ہوجاتی تھیں ۔ بلال جو رسول(ص)کے زمانے میں مؤذن تھے انھوں ‎نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب کسی کے لۓ اذان نہیں کہوں گا ۔ ایک دن حضرت زھرا(س)نے کہا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاہتی ہوں ۔ یہ خبر بلال تک پہونچی اور ‌حضرت زہرا(ص)کے احترام میں اذان کہنے کے لۓ کھڑے ہوگۓ ۔ جیسے ہی بلال نے اللہ اکبر کہا حضرت زہرا(ص)گریہ نہ روک سکیں اور جیسے ہی بلال نے کہا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زہرا(س)نے ایک فریاد بلند کی اور بیہوش ہوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان روک دو۔ رسول(ص)کی بیٹی دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زہرا(س)کو ہوش آیا تو کہا بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کہا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا دیا ہے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پہن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بہت قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے جسد اطہر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک پوشیدہ ہے اس لۓ تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کہاں ہے کیونکہ اس وقت کے سیاسی افراد فاطمہ(س)کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر کمر بستہ تھے۔ فاطمہ(س)کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول(ص)کی بیٹی فاطمہ(س)پر ظلم ہوا ہےاور فاطمہ(س)ان ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رہیں ۔ حضرت فاطمہ(س )کی وفات کے بعد علی علیہ السلام تن تنہا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ(ص)کی قبر پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دہراۓ ۔ اور پھر پیغمبر اسلام(ص)کی قبر کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا(ص)آپ نے جو امانت میرے سپرد کی تھی میں آپ کو واپس کررہا ہوں، آقا جوکچھ ہم پہ گزر گئی فاطمہ(س)سے دریافت کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر 13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر(ص)کے 75 یا 90 دن کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی اور اپنے شیعوں کو ہمیشہ کے لۓ غم زدہ کردیا ۔ نظرات (۰) هیچ نظری هنوز ثبت نشده است ارسال نظر ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید. نام * پست الکترونيک سایت یا وبلاگ پیام * شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید: <b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align=""> کد امنیتی * ارقام فارسی و انگلیسی پذیرفته می‌شوند نظر بصورت خصوصی ارسال شود نظر شما به هیچ وجه امکان عمومی شدن در قسمت نظرات را ندارد، و تنها راه پاسخگویی به آن نیز از طریق پست الکترونیک می‌باشد. بنابراین در صورتیکه مایل به دریافت پاسخ هستید، پست الکترونیک خود را وارد کنید.
سر کو میل کرنے کے بعد میں گارڈن میں چلی آئی جہاں میں نے وہ اسکیچ غور سے دیکھا جسے میں بنانے جا رہی تھی۔ ” کان کا کچا ہے “ ”عقل کا پیدل “ سچ ہی تو کہا تھا صارم نے اور وجہ اسنے جان بوجھ کر نہیں بتائی وہ سب جانتا ہے یہ بھی کے آبی مجھ سے نفرت کیوں کرتا ہے؟؟ ناپسندیدگی نفرت کا روپ نہیں لے سکتی یہ نفرت ہی ہے لیکن میں قصوروار ہوں تو میرا قصور تو بتائے؟؟ اور آگر بےگناہ ہوں تو کیا گناہ اسکے زمر میں نہیں آئے گا؟؟؟ جو بےقصور کو سزا دے رہا۔۔ میں نے وہ رات دیر تک اس اسکیچ کو مکمل کر کے پینٹ کیا۔ چہرے کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا ایک سیاہ چہرہ اسکا دوسرا حصہ سفید۔ سیاہ چہرہ وہ دنیاوی چہرہ جسے انسان دنیا کی باتوں میں آکر اپنے منہ پر مل کے چلتا ہے۔ جبکے سفید وہ چہرہ جو اللہ‎ کی طرف سے دی قوت دانائی کو استعمال کر کے اپنے فیصلے خود کرتا نا کے عقل پر پٹی باندھ کر اوروں کے دماغ سے سوچتا۔۔ صبح جب میں اُٹھی آبی روم میں نہیں تھا میں اٹھ کر دادو کے پاس چلی آئی وہیں کچھ دیسی ناشتہ ملنے کے امکان تھے کیوں کے اکثر گھر کے بڑے انگریزی ناشتہ کرتے جبکے دادو ہر جمعرات کچھ نا اسپیشل ناشتہ بنواتیں۔ میں آبی کے جانے تک وہیں رہی پھر روم میں آکر نیٹ سے ڈیشز دیکھ کر کچھ الگ بنانے کا سوچا لیکن کوکنگ کے نام پر چائے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے؟؟ بریانی بنانے کا سوچا لیکن بریانی چاول دونوں اس طرح چپکے ہوے تھے کے امی نے سر پکڑ لیا اوپر والے کچن میں امی زیادہ تر بس چائے بناتیں باقی کھانا وغیرہ سب نیچے ہی بنتا۔ آج وہ میرا حال دیکھ کر سر پکڑ کے رہ گئیں۔۔ ” رابی شکر ہے ابھی پاؤں کچن میں نہیں پڑھے ورنہ بھابی کے سامنے میری ناک کٹوا دیتیں “ امی نے میرے کندھے پر ایک چپت رسید کی۔۔ ” امی کوشش کر تو رہی ہوں “ ” خوب دیکھ رہا کس طرح کوشش کر رہی ہو بریانی سے زیادہ دھیان موبائل کی طرف ہے۔۔۔ “ امی نے مجھے غصّے سے جھڑکا کیوں کے میرا سارا دھیان موبائل پر تھا جہاں ایک طرف بریانی کی ریسپی دیکھ رہی تھی تو دوسری طرف سب کی الگ الگ رائے پیج پر پڑھ رہی تھی جو اسکیچ کے مطلق دے رہے تھے۔۔ بریانی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد امی نے مجھے کچن سے نکال دیا میں نے آکر پہلے اپنی تھوڑی پینٹنگ مکمل کی پھر آفس چلی آئی جہاں سر نے مجھے ایک ساؤنڈ چیک کرنے کے کیے بلایا تھا کے میرے بناۓ گئے کریکٹر پر یہ فٹ ہوگا یا نہیں اور میں نے انکے ریکارڈ تینوں ساؤنڈز ریجیکٹ کردیے کوئی تین گھنٹہ خوار کرنے کے بعد سلیکٹ انہوں نے اپنا ہی کیا اور میں منہ تکتی رہ گئی بھلا مجھے پھر بلایا کیوں تھا؟؟ کوئی بہت ہی بُرا دن تھا گھر آتے وقت پٹرول ختم ہوگیا۔ وہ تو شکر سی این جی قریب ہی تھی فل کروا کر میں گھر چلی آئی جہاں کسی نے میری پینٹنگ کو پھاڑ دیا بورڈ تک توڑ دیا ایسی حالت دیکھ کر میرا چہرہ سُرخ پڑ گیا۔ جب میں کسی کو چھیڑتی نہیں تو کیوں کوئی میرے آشیانے میں آتا ہے یہ وہ پینٹنگ تھی جو میں نے خود کیسے بنائی مجھے علم نا تھا آبی میرا نام الگ الگ پڑا ہوا تھا اور وہ پہلی بار تھا جب میری آنکھیں نم ہوئیں خود با خود گالوں تک پانی بہتا چلا گیا ایسا ہی دن تھا جب بنانا شروع کی تب صارم تھا جس نے حوصلہ دیا اب بھی مجھے لگا کہیں سے نکل آئے گا حوصلہ دیگا لیکن نہیں اِس دن میں تنہا تھی۔۔ کوئی نہیں تھا۔۔ کوئی بھی نہیں اکیلے میرے آنسوؤں اس سرخ دل پر گر رہے تھے جسے نجانے کس ظالم نے دو حصوں میں بانٹ دیا۔۔ آنسوؤں پونچھتے میں نے واشروم میں آکر اپنا چہرہ صاف کیا پھر امی سے آکر پوچھا میرے روم میں کون آیا تھا؟؟ انکا ایک لفظ آبی مجھے اپنی اوقات دیکھا گیا ایک بار پھر اس شخص نے بےمقصد اس گناہ کی سزا دی جسکا مجھے خود علم نہیں۔۔ ناپسندیدگی کی اذیت کیا ہوتی ہے کوئی رابیل سکندر سے پوچھے ایک بااعتماد لڑکی جسکے باپ نے اسے چلنا لڑنا سکھایا تھا وہ اپنے ہی پسندیدہ شخص کے ہاتھ مات کھا گئی بس وہ وقت تھا جب میں نے دعا مانگی رو کے باقاعدہ کے ” اسے مجھ سے محبت ہوجاے “ ” میری قدر ہو “ تب میں اُسے ٹھکرائوں گی۔۔ منہ کے بل گراونگی کوئی ایسا وقت آئے اُسے میری ضرورت ہو اور میں اُسکی بےبسی دیکھوں اور بھیک کے نام پر اُسے مدد سے نوازوں۔ پورا دن گزر گیا وہ نہیں آیا نجانے کیوں میری نیند بھی اُڑھ گئی حالانکہ خاص پروا نہیں تھی پر بےچینی عجیب سی تھی میں نیچے تائی کے پاس آئی انکا ڈور نوک کر کے انھیں اطلاع دی کے آبی اب تک نہیں آیا پر انہوں نے بتایا وہ پرسوں آئے گا اُس لمحے بھی مجھے اُس شخص پر شدید غصّہ آیا۔ اُسے اندازہ نا تھا یہ چھوٹی باتیں ہی تو ہوتیں ہیں جو لوگوں کو میاں بیوی کے بیچ دیوار پیدا کرنے میں مدد کرتی ہیں جب وہی اعلان کریگا تو لوگ تو آئیں گے نا اور آج بھی اُسکی لاپروائی کی وجہ سے تائی کو سوچنے کا موقع دیا۔۔۔ میں نے یہ باتیں صارم تک سے نا کیں لیکن بابا جو پل پل مجھے حفظ کرتے کچھ کھوجتے شاید ہمارے مابین رشتے سے بھی آگاہ ہوں میں جانتی نہیں لیکن شک ضرور تھا۔۔ جس دن وہ آیا میں اُسکا حلیہ دیکھ کر حیران رہ گئی پرفیوم میں نہاتا شخص آج جیل کا قیدی لگ رہا تھا میں نے تو صاف نظرانداز کیا لیکن اُسکا حلیہ دیکھ کر دل کو سکون ملا تھا بیوی کو بےسکون کرکے خود بھی کون سا سکون سے ہے؟؟ ڈائننگ ٹیبل پر تایا نے اُسکی خوب کلاس لی اور میں مسلسل مسکراتی رہی جس پر بابا نے مجھے گھورا اور یہی اُنکا گھورنا مجھے ضد دلا گیا ڈھٹائی سے آبی کا جھوٹا جوس خود پی لیا۔ جبکے وہ اپنی صفائی دیتا تایا کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ دعائیں اس طرح بھی قبول ہوتی ہیں مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا ہاں لیکن اُس دن میں روئی تھی اپنی بےبسی پر اور آج وہ چور میرے آسرے کھڑا ہے۔ کوئی سمجھے نا سمجھے پر اِسکے سفید پڑتے چہرے سے میں جان گئی تھی وہی چور ہے۔ میرے خوشی اُچھل اُچھل کے آرہی تھی میری دعا تھی بس ایک بار وہ شرمندہ نظریں جو جھکی ہوئیں تھیں اٹھا کر میری ان آنکھوں میں دیکھے جہاں جیت کی خوشی تھی اور پوچھوں میں اُس سے اب بتاؤ؟؟ ہر جگہ ٹھکرایا ہے مجھے یہاں میں انجان بن جاؤں؟؟؟ پھر تمہاری عزت کا کیا ہوگا؟؟؟ زندگی بھر تمہارا باپ بھی تم پر یقین نہیں کریگا۔ بلکے خود کی نظریں کبھی کسی کے سامنے اٹھ نہیں سکیں گی بولو نا اس پل خاموش کیوں ہو؟؟ کیا کہا تھا ناپسندیدہ چیز کو جلانا بہتر سمجھتا ہوں؟؟؟ اُس دن میں نے اُسے بچا کر احسان کیا تھا۔۔ بھیک میں دی تھی مدد اور بہت بہت پُر سکون تھی ہر ضد ہر بدلے سے آزاد لیکن پھر آبی کی حالت دیکھ کر میں شرمندہ ہوئی کمرے میں آئی تو وہ بخار میں تپ رہا تھا۔ میں نے باقاعدہ چلا کر بابا کو بلایا تھا وہ خود پریشان ہوگے جلدی سے ڈاکٹر کو بلایا کہیں نا کہیں وہ بھی جان گئے تھے اور انہیں سمجھنے میں دیر بھی نا لگی اور اس پل میں پتھر کی ہوگی جب انہوں نے محبت سے میری پیشانی چوم کر کہا۔۔۔ ” آج تم نے اُسکی نہیں اپنی عزت بچائی ہے۔۔ آئی ایم پرائوڈ اوف یو رابی ہر غلطی گناہ نہیں ہوتی وہ شرمندہ تھا شاید وقتی لمحوں نے گہرا حصار اسکے گرد پھیرا تھا ورنہ مدد کرنے والا لُٹیرہ نہیں ہو سکتا۔۔ “ بابا مجھے اپنی پسند سے آگاہ کر رہے تھے یہی خوبی تو مجھے پسند آئی تھی اُسکی۔ بابا کے لفظوں نے مجھے شرمندہ کردیا یہ کیوں نا سوچا میں نے میں خود بھی تو ذلت کا شکار ہوتی۔ میں اتنی شرمندہ تھی کے اسکے سامنے تک نا گئی میں نے بھی تو کسی انسان کی بےبسی کا مذاق اڑایا اس پر ہنسی کیا غلط نہیں تھا؟؟ اگر چپ رہتی خود بھی تو رسوا ہوتی یہ کیوں نا سوچا؟؟ میں کچھ دیر بابا کے پاس بیٹھ کر ٹھنڈا پانی اور پٹیاں اندر لے آئی کافی دیر آبی کے سر پر پٹیاں رکھتی رہی۔ جب باڈی ٹیمپریچر نارمل ہوا پھر دھیرے دھیرے نرمی سے کبھی اسکے بال سہلائے کبھی سر دبایا جب تک خود وہ انجکشن کے زیرِ اثر سو نہیں گیا۔۔۔ صارم کہتا ہے پہل کرو میں نے سوچا کیوں نا میں اُسکے گرد ایسا حصار پھیروں کے صرف میں ہی اُسکی سوچوں کا مرکز رہوں چاہے کسی طریقے سے بھی بُری یا اچھی یاد؟ لیکن میں نہیں چاہتی وہ میری اُس دنیا میں آئے وہ صرف صارم میری اور بابا کی ہے کسی اور پر مجھے ٹرسٹ نہیں نا یہ ضروری ہے کے وہ انسان مجھے سمجھ سکے میں تو نجانے کن کن کے بارے میں لکھتی ہوں؟؟ عام آدمی سے لیکر سیاست دان تک اس چکر میں نجانے کتنے اکاؤنٹس تک بند ہوگے لیکن میں نے انکے گناہ انکے منہ پر مارنا نہیں چھوڑے بابا میری انہی حرکتوں سے ڈرتے ہیں لیکن میں نے اگر یہ سب چھوڑا میں خود بھی رہ نہیں پاؤنگی۔۔ میں پاپِٹ کی زندگی نہیں گزار سکتی جو سوچتی ہوں سمجھتی ہوں دیکھتی ہوں اپنی نظروں سے وہی لکھونگی چاہے انصاف نا ملے وہ انسان تو تڑپے گا سوچے گا کے جن پیسوں سے آج لوگوں کے منہ بند کرا رہا ہے وہی لوگ اسکی گواہی وہاں دیں گئے جہاں پیسے کی اہمیت تک نہیں ہوتی۔۔۔۔ میں نے اب نوٹس کیا تھا وہ بلا ارادہ ہی مجھے دیکھتا رہتا ہے اور میں اُسکے سامنے وہ کرتی جس سے وہ مجھے دیکھے، مجھے جانے، مجھے سوچے اُسکے لئے میں ایک سوال ضرور چھوڑ جاتی ہوں جیسے صفائی کا الحمداللہ مجھے کوئی بھوت نہیں۔ اُسکے دیکھتے ہی جہاں گند نظر آتا ایسے صاف کرتی جیسے نا کیا تو دنیا ختم ہوجاے گی کبھی ڈریسنگ ٹیبل کی سیٹنگ چینج کرتی امی جو ٹوکتی رہتیں جہیز کا سامان نکالو وہ بھی کیا نکال کر ہر روز نیو بیڈ شیٹ لگانے لگی اپنی شکل سے زیادہ میں نے کمرے کو چمکایا۔ پھر آئینے میں خود کو دیکھ کر میں نے سوچا آخر کمی کیا ہے مجھ میں؟ اچھی خاصی دیکھتی ہوں۔ آج بھی رشتے لائن سے میرے لئے کھڑے ہیں کبھی میں نے خود کو کمتر نہیں سمجھا بس محنت کی ہے تعریف، عزت دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ لیکن آبی کی سوچ آتے ہی دماغ اُس چیز پر بٹھایا کے کچھ کمی تو ہے بس پھر یوٹیوب کھولا سرچ کیا راؤنڈ فیس ہیر اسٹائل اب جیسے بھی بالوں کو بناتی وہ مجھ پر ایسے سوٹ کرتے جیسے بنے ہی میرے لئے ہوں اور آبی اسکی نظریں تو مجھے گھور گھور کر پوچھتی ہیں بتاؤ تمہیں اتنا کیوں سوچتا ہوں؟؟؟ یہی نہیں امی نے جو شادی کے لئے کپڑے سلوائے تھے وہ تک پہننے لگی مجھے لونگ شرٹس پسند نہیں لیکن امی کہتیں ہیں لمبے قد پر یہی اچھا لگتا پہلے تو بھنگن جیسا حلیہ بھی چلتا لیکن شوہر کے سامنے کسی تیاری کی کمی نہیں ہونی چاہیے اب یہ دیکھنا پڑتا۔۔ آہستہ آہستہ میرے پہل نے میری محنت نے مجھے کامیابی دی جب وہ صبح کسی پروجیکٹ کا کہہ کر میرا ماتھا چوم کر گیا بار بار مجھے بلاتا رہا میری حیرانگی کی انتہا نہیں تھی اُسکا لمس مجھے اتنا بھلا لگا کے پتا نہیں کیوں میں نے پورے دن اپنا منہ ہی نہیں دھویا پھر شام کو اُسکے خیال سے ویسے ہی فریش ہوکر آئی اور آج ڈریسنگ کی سیٹینگ اپنے حساب سے کی جیسے لڑکی کا روم ہے بیڈ شیٹ تک پنک بھچائی۔ اُس دن میں بہت خوش تھی تبدیلی فائینلی آگئی لیکن میری خوشی دو پل کی رہی جب دادو نے مجھ سے پوچھا۔۔ ” آبی تیرے بیچ سب سہی ہے؟؟ “ ” جی دادو کیوں کیا ہوا آپ کو کسی نے کچھ کہا؟؟ “ ” کلثوم نے بتایا تھا آبی کی جاب چلی گئی اور تم دونوں خوش نہیں “ دادو نے پھپو کا ذکر کیا۔ میرے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں پھپو بول اپنی زبان رہیں تھیں لیکن نشانہ آبی کو بنا رہیں تھیں اور وہ اُسنے نجانے کیا پھپو سے کہا اور پھپو نے بھی نجانے کیسے اُسکے کان بھرے یا اللہ‎ کیا یہ باتیں ہیں جو صارم نے مجھے نہیں بتائیں اور کیا پھپو کی وجہ سے اُسنے اچانک انکار کیا جس نے کبھی منہ نہیں کھولا خاموشی سے نکاح کیا؟؟ میرا اچھا خاصا موڈ خراب ہوا اور میں کمرے میں آتے ہی لیپ ٹاپ لیکر بیٹھ گئی تبھی آبی بھی آفس سے آگیا وہ بہت خوش تھا اور مجھے بھی اپنی اس خوشی میں شریک کرنا چاہتا تھا تبھی باہر لے آیا لیکن وہاں مجھے اسکی سوچ دنگ کر گئی اپنی طرف سے رائے دینے والا وہ کون ہے ضروری ہے ایک بُرا ہو تو دوسرا اسی کے نفشِ قدم پر چلے گا؟؟ اُس دن مجھے صارم کی باتیں یاد آرہیں تھیں کیسے میں نے اُسے دھڑلے سے کہا تھا جہاں کچھ غلط لگا وہیں بولونگی لیکن یہاں وہ بحث کر رہا تھا لیکن سیدھی سی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا۔۔ مجھے غصّہ ہی آگیا اسی غصّے میں دوبارہ اُسے جوس لانے کا کہا اور ارد گرد دیکھنے لگی۔ میری نظریں ایک درخت پر آن روکیں کیا خاص تھا اُس میں جو میں دیکھے جا رہی تھی؟؟ کچھ نہیں وہ مضبوط درخت بس لوگوں کو چھائوں دیتا رہا ہے۔ اب بھی ایک دو لوگ درخت کے سائے تلے بیٹھے تھے۔ خود ہی بہت غور سے دیکھتے میں نے اپنی امیجینیشن بنائی ایک عورت اپنے شوہر سے کہ رہی تھی ” جلدی چلو عشاء کی نماز بھی پڑھنی ہے “ عشاء میرا ذہن وہاں تھا لیکن دھیان انکی باتوں کی طرح عکس خود بنتا گیا ایک گرین ٹوپی جیسے پرانے زمانے میں لوگ مسجدوں میں پہنتے تھے پلاسٹک کی ہوتی تھی وہی میرے ذہن میں گھومی اُس درخت میں آدمی دیکھا جو ٹوپی پہنے ہوے تھا بہت غور سے میں اُسے دیکھ رہی تھی اور یکدم اس درخت کی شیپ میں مجھے وہ انسان رکوح میں جاتا دیکھا۔۔۔ بہت خوبصورت لگا مجھے وہ منظر لیکن وہ ایسا تھا نہیں بس لمحے کے ہزارویں حصے نے مجھے اُس منظر میں قید کردیا تبھی آبی نے مجھے متوجہ کیا اور وہیں میرا ذہن الرٹ ہوا ایک سوچ دماغ میں آئی میں نے بس ٹرائے کیا تھا اور ویسا ہوا۔ میں نے اُسے جو بولا اُسنے یقین کرلیا اپنا دماغ نہیں چلایا وہ درخت ویسا نہیں تھا بس میں نے اُسے اپنے نظریے سے دیکھا تھا اور وہی نظریہ میں نے آبی کے دماغ میں بنایا پھر میں نے اُس سے اُسکا نظریہ پوچھا لیکن میری سوچ تب یقین میں بدلی جب وہ مکمل اپنی اُس تصویر سے نکل چکا تھا وہ اِس وقت میرے آنکھوں سے دیکھ اور میرے ہونٹوں کا سن رہا تھا بس اُسکا اپنا دماغ اس وقت جیسے میرے قابو میں تھا۔۔ ایک بار بھی اُسنے میرے حصار سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور آخر تک اُسکا وہ اپنا نظریہ اُسکے پاس واپس نہیں لوٹا۔۔ گھر آکر جب کہیں جاکر اُسے اپنے نظریہ کی جھلک دیکھی اُسنے مجھے سمجھانا چاہا تب میں نے اُسے اُسکا اصل دکھایا جو اب تک وہ اوروں کو سوچ کر اُسکا اثر اپنی زندگی پر ڈال رہا تھا مجھے اندازہ تھا میرے بارے میں بھی اُسکی رائے دوسروں کی پیدا کردہ ہے۔ کتنے ہی پل وہ مجھے دیکھتا رہا اُسکے اُس نظریہ کا جواب بھی میں نے دیا کے وہ بیوٹی میری تھی میری آنکھوں کی تلاش کردہ جسے میں نے خود ڈھونڈا ہے۔ وہ میری باتیں سن کر روم سے نکل گیا۔۔۔ اُسکا اچانک سے بدلتا رویہ وہ سب تو مجھے اُس وقت پتا لگا۔۔ بابا نے میرے ساتھ چالاکی کی ہے اُسے میرے بارے میں سب بتا دیا جب میں نے اُسکی اصل آئی ڈی سے اُسکا لائک اپنے پیج پر دیکھا اور مجھے تبھی یاد آیا اُس دن جب میں باہر گئی تھی واپس لوٹی تو بابا آبی ساتھ تھے آبی کتنی ہی بار مجھے محبت سے دیکھتا رہا لیکن میں نے ہر بار اُسے نظرانداز کیا بھلا باپ کے سامنے کوئی اُسکی بیٹی کو اِس طرح گھورتا ہے؟؟ میرا رونے پیٹنے ماتم کرنے کا دل چاہ رہا تھا بابا نے مجھے دھوکہ دیا اور اگلے ہی پل میں نے پوسٹ لگا کر اُسکا دماغ درست کیا جو میری جاسوسی کر رہا تھا ابھی اسکے دماغ سے میں کھیل رہی تھی اب وہ اپنی چال چل رہا تھا۔۔ آج سہی معنوں میں بابا نے مجھ سے بدلہ لیا دن میں تارے دیکھا دیے۔ ابھی پوسٹ لگاے آدھا گھنٹا ہوا ہوگا کے ایک آئی ڈی نے مجھے پیج پر میسج کیا وہ فضول قسم کی گفتگو کر رہا تھا نجانے کیوں بیوی کے ذکر پر مجھے آبی لگا اور پھر جو ڈھٹائی سے اُسنے میری پہیلی کا پوچھ کر مجھے اپنی تصویر سینڈ کی میرا غصّے سے بُرا حال ہوگیا ٹھرکی انسان ایک تو فیک آئی ڈی اوپر سے خود کو کنوارا بتا رہا تھا؟؟ میں نے بھی اُسکی تصویر کی اچھی خاصی عزت افزائی کی ایسے ڈرپوک کا کنوارا رہنا ہی بہتر ہے۔۔ اور پوری طرح سے تصویر کی عزت افزائی کو ایکسپلین کر کے میسج کا انتظار کیا لیکن جب کافی دیر تک جواب نہیں آیا تو موبائل رکھ کے لیٹ گئی۔۔ ☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔☆ ” آپ۔۔ “ مندی مندی آنکھیں مجھے دیکھ کر پوری کھل گئیں میں بیڈ سائیڈ کورنر پر اُسکے بےحد قریب بیٹھا تھا۔۔۔ ” بہت سکون سے سوئی ہوگی میں جو پوری رات نہیں تھا “ میں نے کڑے تیوروں سے اُسے گھورتے کہا میری سخت نظریں ہی تھیں جو اُسنے بیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنے گرد لپیٹا۔۔ ” ایسا کچھ نہیں “ جمائی لیتے منہ پر ہاتھ رکھے وہ اس موڈ میں بولی کے میری آنکھیں سرخ ہوگئیں بھلا ایسی بیویاں ہوتی ہیں جنہیں شوہر کی پروا ہی نہیں؟؟ خود نیند پوری کرلی دوسرے کی حرام کر کے۔۔۔ ” تمہارے شکریہ بلکہ تمہاری خوشی جو اُچھل اُچھل کے باہر نکل رہی تھی سب سنا میں نے “ میں نے یہ بات اُسکے گوش گذار کردی کے میں بھی لاؤڈ اسپیکر میں اُسکا اچھلنا سن رہا تھا۔۔۔ ” صبح صبح میرا دماغ کھانے کا جواز؟؟ “ وہ چڑ کر بولی۔۔ ” میری نیندیں حرام کرنے کا جواز؟؟ “ میں نے اپنا چہرہ اسکے قریب کیا اور دونوں ہاتھ بیڈ پر اسکے دائیں بائیں رکھ کے جانے کے سارے راستے بند کردے۔۔ ” کب کی؟؟ “ وہ الٹا حیران تھی۔ اسکے جواب پر میں مسکرا اٹھا۔۔ ” تین چار دنوں سے “ مخمور لہجے میں کہا نظریں ان آنکھوں پر جمی تھی جو مجھے کچا کھانے کی حسرت میں تھیں۔۔ ” اب ہٹیں گئے مجھے اٹھنا ہے “ وہ میرے لہجے، ان آنکھوں سے، پہلی دفع کنفیوز ہوئی تھی اس کانپتے ہاتھ نے دل کا حال بیان کیا تھا۔۔۔ ” چوہے بلی کا کھیل کب تک کھیلو گی؟؟ تمہیں کیا لگتا ہے تم میرے سامنے ایک الگ شخصیت بن کر آؤ گی تو تمہارا اصل میں بھول جاؤنگا؟؟ “ میں نے اُسکا کانپتا ہاتھ اپنی گرفت میں لیکر زور سے دبایا ” سی “ کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔۔۔ ” اِس سے کہیں زیادہ تکلیف ہوئی تھی جب میرے بدلتے رویے کو تم نظرانداز کرتی ہو میرے بلانے پر آ تو جاتی ہو لیکن میری نظروں سے بھاگتی ہو جان بوجھ کر کرتی ہو نا؟؟۔۔ “ میں نے اِسکا ہاتھ چھوڑ کر شہادت کی انگلی سے اِسکی ٹھوڑی کو اونچا کیا۔۔۔ ” آپ کی کوئی بات میرے پلے نہیں پڑھ رہی “ اس نے اپنی ٹھوڑی سے میرے ہاتھ کو جھٹکتے بےزار کن لہجے میں کہا۔۔ ” میرے لائک کرنے کے بعد جو پوسٹ لگائی؟؟ شوہر کی ناکام سی کوشش بیوی کے دماغ تک رسائی حاصل کرنے کی۔۔ کیا سوچ رہے ہونگے چچا اور تمہارا وہ خالہ زاد “ میں نے اِسکے الجھے بالوں میں ہاتھ پھیرنا چاہا جو اِسنے ایک بار پھر غصّے سے جھٹک دیا ” کیا لائک کیا آپ نے؟؟ آپ میرے پاس ایڈ ہی نہیں تو لائک کیسے کریں گئے “ وہ سخت کوفت میں مبتلا تھی کہتے ہی ایک نظر میری ہاتھوں کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش میں تھی اب بھی میرا ایک ہاتھ بیڈ پر دھرا تھا جو اسِکے جانے کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔۔ ” تمہارا پیج “ بُرا نہیں لگا تھا اب تو جان چکا ہوں خود سے اعتراف نہیں کرے گی۔۔۔ ” کونسا پیج؟؟؟ “ وہ انجان بن گئی۔۔ ” وہاں جہاں تم شغل فرماتی ہو “ میں نے آنکھیں سکوڑ کر اسے تنبیہہ کی۔۔ ” میں تو اصل زندگی میں بھی نہیں فرماتی میری تو چائے پر بھی پابندی ہے۔۔ “ لہجہ جتایا ہوا تھا میرے پچھلے کارنامے اب گنوا رہی تھی۔۔۔۔ ” آئ ایم سوری میں نے۔۔۔ “ میں نے پہل کرنے کے ساتھ معزرت کرنی چاہی لیکن وہ تو اس وقت شیرنی بنی ہوئی تھی میرا ” سوری “ کہنا اسے تیش دلا گیا کارلر کو اپنے ہاتھوں میں جکڑے چیخ اٹھی۔۔۔ ” میں نے معاف کرنا نہیں سیکھا آبنوس تم ایک بات بتاؤ کانوں کے کچے انسان کوئی تمہیں کہتا ہے تمہاری بیوی کل اسکے ساتھ ڈیٹ مار۔۔۔ “ ” شٹ اپ “ میں چلا ہی تو اٹھا تھا آئینہ دیکھاتے ان لفظوں سے جو مجھے زہر کی مار مار رہے تھے۔ باقاعدہ ان ہاتھوں کو جکڑ کے دور ہٹانا چاہا جو میرا کالر پکڑے ہوے تھے۔۔ ” نو ڈونٹ انٹرفیر میں تمہیں سن رہی تھی اب تم سنو۔۔۔ جب مخلص ہوں میں جب اپنی چیز پر کوئی داغ برداشت نہیں کرتی اُسکی حفاظت کرتی ہوں تو سامنے والے سے بھی وہی ایکسپیکٹ کرتی ہوں۔ لیکن تم؟؟ تمہیں لوگوں نے کہا جیل گئی ہے تم نے یقین کرلیا؟؟ تمہیں لوگوں نے کہا سائیکو ہے تم نے یقین کر لیا؟؟؟ تمہاری پاس اپنی عقل نہیں تم نے جو میرے ساتھ سلوک کیا ان دنوں اُسکا حساب وہ دیں گئے یا تم؟؟ میں نہیں جانتی کس عمل نے تمہیں شرمندہ کیا لیکن ایک بات بتاؤ کیا دوسرے انسان کو حق نہیں اِس ناپسندیدگی کی وجہ جانے؟؟؟ کیا کسی انسان کو بدلنے کا حق نہیں ؟ مجھے میری خامی بتاتے لڑتے لیکن تم نے تو خاموشی کی مار ماری اور سب کے سامنے ایک نا پسندیدا شخصیت میری زندگی میں گھسائی گئی ہے اسکا اظہار کرنا نہیں بھولے۔۔ تمہیں ایک بات کہوں۔۔ مسٹر آبنوس بیوی کو بےگناہ سزا دینا اُسکا بھی حساب تم سے ہوگا لیکن وہاں تمہارے پاس افسوس اوپشن نہیں ہوگا پتا ہے کیوں ایک بڑی مثال تمہیں دیتی ہوں۔۔۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے نہیں جانتا کے مسلمان ہے، ہندو ہے، یا کرسچن لیکن پیدا وہ مسلمان ہوتا ہے اور جب یہ قوت دانائی اسے حاصل ہوتی ہے نا وہ چائے ہندو ہو یا کرسچن حساب سیکھانے والے ماں باپ سے نہیں بلکے خود اُس انسان سے لیا جائے گا کیوں کے اب وہ ناسمجھ بچہ نہیں ہے اللہ‎ نے اسُے شعور دیا ہے وہ اپنا بھلا برا جانتا ہے قوت دانائی عطا کی گئی ہے۔ اسکا استمعال وہ کس طرح کرتا ہے؟؟ یہ اُسکا اعمال ہے تم کٹہرے میں لوگوں کو لاکر کھڑا نہیں کروگے کے اُس نے مجھے بہکایا تھا جسے گناہ کر کے ہم خود کو جسٹی فائی کرنے کے لیے کہتے ہمیں شیطان نے بہکایا تھا۔۔۔ تو تم جو غلط کرو گے اُسکا حساب صرف تم سے ہوگا لوگوں کو پوجنا چھوڑدو اپنا دماغ استعمال کرو۔۔ “ اسکے الفاظوں نے مجھے پتھر کا کردیا۔ کڑوے الفاظ مجھے اپنا آئینہ دیکھا گئے تھے لیکن پورا سچ وہ بھی نہیں جانتی میں بھٹکا وقتی تھا اب لوٹ آیا ہوں پہلے سے بہتر بن کر۔ وہ جو میرا کالر چھوڑ کر غصے سے اٹھی تھی میں نے تیر کی تیزی سے اٹھ کر دروازہ لوک کیا اور ایک بار پھر اسے جکڑ کے جانے کے سارے راستے خود کی طرف موڑ دیے۔۔۔ –**–**– جاری ہے —— آپکو یہ ناول کیسا لگا؟ کمنٹس میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ Share this: Twitter Facebook Pinterest Reddit Tumblr Telegram WhatsApp Email Like this: Like Loading... Related Download Free Free Urdu Pdf Books Nazia Shazia Novels Hi Novels Parishay pdf Read Online Urdu Novel Urdu Novels urdu novels free download اردو اردو ناولز ارو ناول جستجو تھی خاص کی جستجو تھی خاص کی از یسرا شاہ ناول ناولز یسرا شاہ FacebookTwitterWhatsAppRedditPinterestEmail Justajo Meri Akhri Ho Tum Novel by Yusra Shah – Episode 14 Justajo Meri Akhri Ho Tum Novel by Yusra Shah – Episode 12 You may also like Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... Karakoram Ka Taj Mahal • Nimra Ahmed • Urdu Novels Karakoram Ka Taj Mahal Novel By Nimra Ahmed – Episode... About the author Peerzada M Mohin View all posts Leave a Reply Cancel reply Download Urdu Novels Search by Novelist Search by Novelist Select Category Aaban Dawood Aaira Shah Aamir Siddiqui Aasma Aziz Abid Jan Tarnao Afsana Afsanay Afsheen Durrani Aiman Raza Aish Khan Alaya Rajpoot Aleem ul Haq Haqqi Aleem-ul-Haq Haqi Amina Khan Amrah Sheikh Ana Ilyas Anwar Aleegi Anwari Ramzan Areej Shah Armani Arwa Malik Asiya Munir Hashmi Asra khan Awais Chohan Ayesha Jabeen Ayesha Khanzadi Badar Saeed Barda Beenish Jamil Bella Bukhari Bella Subhan Bichoo Bilal Malik Blogs Book Reviews Bushra Zahid Qureshi Chand Mera Humsafar Chanda Ali Darr Dr Hamid Hassan Hami Dr Rauf Parekh Dr. Fayyaz Ahmad Dr. Muhammad Iqbal Huma Durr E Shahwar Malik Durr-e-shahwar Malik Eshnaal Syed Fairy Malik Faiza Ahmed Falak Kazmi Farhad Farooq Farhat Nishat Mustafa Fatima Niazi Filza Arshad Fizza Batool Galti Ghazal Khalid Ghulam Abbas Saghar Habib ur Rahman Hadia Sahar Hafsa Rahman Hammad Sultan Hashim Nadeem Hashmi Hashmi Hasifah Nazneen Hiba Sheikh Hifza Javed Hijab Rana Hina Khan Hina Memon Historical Novels Hoor e Shumail Horror Novels Huma Waqas Ibn e Safi Ifrah Khan Imran Liaqat Imran Series Inayatullah Inayatullah Altamash Insia Awan Iqbal Zarqash Iqra Aziz Irving Karchmar Isha Maqbool Ishaa Ishq Ka Qaaf Ishq Zard Rang Maiel Islamic Books Janaa Mubeen Jannat Kay Pattay Jargaa Javed Iqbal Jawad Ahmad Jiya Mughal Junoon E Ishq Kaho Mujh Se Mohabbat Hai Kaise Ho Gayi Mohabbat Karakoram Ka Taj Mahal Khalid Rahi Khalish Kids Stories Kiran Malik Kiran Rafique Lok Kahani Lubaba Hafeez Maha Ali Maham Shoukat Mahi Shah Makafat e Amal Mamuna Zaib Mannat Manto k Afsany Maqbool Jahangir Maria Awan Mariam Sajid Maryam Dastgeer Maryum Fatimah Meerab Ali Baloch Mir Afsar Aman Mirza Meer Hakim Mohabbat aur Ibadat Mohay Piya Milan ki Ass Mubarra Ahmed Mubashra Ansari Muhammad Ibrahim Joyo Muhammad Monsoor Muhammad Shariq Muhammad Shoaib Muhammad Zia Mukhtar Ahmed Munazza Mirza Mushaf Muskan Kanwal Nabila Aziz Nageen Hanif Naseem Hijazi Nasir Hussain Nazia Kanwal Nazi Nazia Shazia Neha Malik Nimra Ahmed Nimra Khan Noor Rajput Noshi Gilani Nuzhat Jabeen Zia Pari Chehra Pari Saa Parizad Perveen Sarwar Pyaar Dobara Na Ho Ga Qaid Qaisar Nazir Khawar Qanita Khadija Qudsiyy Arain Raaz e Sahar Radaba Noureen Rafaqat Hayat Rah E Mujazi Se Ishq E Haqiqi Tak Ramsha Iftikhar Ramsha Yaseen Rana Kashif Ravi Ranjan Goswami Riaz Aqib Kohlar Rimsha Yaseen Rizwan Ali Ghuman Rose Marie Roshan Khayal Rubab Naqvi Saadat Hasan Manto Sabahat Rafique Cheema Safa Asim Safar Namay Safiur Rahman Mubarakpuri Sahir Mirza Salma Syed Salman Bashir Sama Chaudhary Sana Luqman Sanaya Khan Sarfaraz Ahmad Rahi Sarfraz Ahmed Rah Scandal Girl Seema Shahid Shagufta Iram Durrani Shahid Nazir Chaudhry Shaista Meer Arzo Shorish kashmiri Shumaila Hassan Sidra Sheikh Suhaira Awais Sumaira Hameed Sumaira Sharif Syed Mustafa Ahmad Syeda Farheen Jaffari Syeda Gul Bano Syeda Javeria Shabir Tawaif Tawasul Shah Tere Mere Darmiyan Tu Lazmi Tum Faqat Mery Umair Rajpoot Umera Ahmad Umera Ahmed Umm e Rubas Umme Muhammad Abdullah Umme Umair Urdu Novels Urdu Poem Urdu Poetry Books Usama Ansari Usama Rahman Mani Waheed Sultan Wajeeha Yousafzai Wajiha Saher Waseem Anwar Yaar Deewane Yaaran Naal Baharan Yaqeen e Kamil Yaqoob Masood Ye Jo Raige Dasht e Firaq Hai Yeh Junoon e Manzil e Ishq Yusra Shah Zafar Iqbal Zaha Qadir Zahid Hasan Zakham e ishq Zeela Zafar Zeeshan Ul Hassan Usmani Zoya Liaqat زیادہ پڑھی جانے والے تحاریر Categories Urdu Novels Horror Novels Imran Series Safar Namay Islamic Books Historical Novels Kids Stories Urdu Poetry Books Book Reviews Blogs Need Help Find Books By Authors How to Read Online Urdu Novels Copyright Privacy Policy Subscribe Now Contact Us Random Urdu Novels Sulphite Novel by Noor Rajput – Episode 45 Add Comment Jinnat Ka Ghulam Novel By Shahid Nazir Chaudhry Read... Add Comment Jo Tu Mera Humdard Hai by Filza Arshad – Episode 4 Add Comment Surkh Gulab Novel by Farhat Nishat Mustafa – Episode... Add Comment Online Urdu Novels کتابوں کے جملہ حقوق بحق ناشرین ومصنفین محفوظ ہیں۔ ہمارا مقصد صرف سہولت تحقیق وتلاش ہے۔ آپ اپنی کتابیں ہمیں ارسال فرماکر ہمارے کام میں تعاون کرسکتے ہیں۔اگر آپکو بھی کوئی کتاب چاہیے ہو تو آپ ہم سے درخواست کرسکتے ہیں ۔
مسلم ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ اویسی کی باتوں اور ارادوں سے تو متفق نظر آتا ہے لیکن اکیلے میدان میں اُتر کر بی جے پی کے لیے کسی طرح کا چیلنج پیش کرنے کی اُمید نہیں رکھتا۔ ووٹروں کا بڑا طبقہ مجلس کو محض ووٹ کاٹنے اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والی جماعت مانتا ہے۔ مسلم ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ اویسی کی باتوں اور ارادوں سے تو متفق نظر آتا ہے لیکن اکیلے میدان میں اُتر کر بی جے پی کے لیے کسی طرح کا چیلنج پیش کرنے کی اُمید نہیں رکھتا۔ ووٹروں کا بڑا طبقہ مجلس کو محض ووٹ کاٹنے اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والی جماعت مانتا ہے۔ News18 Urdu Last Updated : December 24, 2021, 11:08 IST Share this: تنظیرانصار حیدرآباد حلقے سے باہر پہلی مرتبہ مہاراشٹرا میں شروعاتی سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے بعد مجلس اتحاد المسلمین نے بہار اور بنگال میں اپنی قسمت آزمائی بنگال الیکشن میں مجلس کے تجربات تلخ رہنے کے بعد مجلس صوبے اتر پردیش میں اپنے قدم جمانے کے لئے ہر ممکن کوشش انجام دے رہی ہے۔ اب یو پی کے دو ہزار بائیس اسمبلی انتخابات کے ذریعہ پارٹی صوبے میں اپنی سیاسی زمین تلاش رہی ہے گزشتہ روز میرٹھ میں عوامی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے مجلس سربراہ اسد الدین اویسی نے خاص طور پر مسلم ووٹ بینک کو متوجہ کرنے کی کوشش اور مسلم ووٹروں سے متحد ہوکر مسلم قیادت کے لیے ووٹ کرنے کی اپیل کی لیکن میرٹھ ریلی میں بھیڑ جمع کرنے میں کامیاب رہے۔ اویسی پر مسلم ووٹر کتنا بھروسہ رکھتے ہیں اس کا ملا جلا ردعمل نظر آ رہا ہے۔ یو پی جیسے ملک کی بڑی آبادی والے صوبے کی سیاست ذات برادری اور علاقائیت کی سیاست رہی ہے کانگریس کے بعد سماجوادی بی ایس پی اور بی جے پی نے ووٹ بینک کی سیاPostست کا بھرپور فائدہ حاصل کیا۔ مذہب اور طبقات کے نام پر جہاں ووٹ بینک کی سیاست نے یو پی جیسے صوبے میں ایک الگ طرح کا ماحول پیدا کیا، وہیں روایتی سیاست سے الگ پیس پارٹی اور اسی طرح کی دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے ماحول بھی تیار کیا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی اسی کڑی کی ایک نئی سیاسی جماعت ہے جو پسماندہ طبقے اور خاص طور پر اقلیت کے حق کی بات کرکے صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کے سامنے خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ میرٹھ میں منعقدہ عوامی ریلی کے ذریعے اویسی نے مسلمانوں کو جو پیغام دینے کی کوشش کی اُس کا ایک طبقے اور خاص طور پر نوجوانوں میں اثر نظر آ رہا ہے۔ وہیں مسلم ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ اویسی کی باتوں اور ارادوں سے تو متفق نظر آتا ہے لیکن اکیلے میدان میں اُتر کر بی جے پی کے لیے کسی طرح کا چیلنج پیش کرنے کی اُمید نہیں رکھتا۔ ووٹروں کا بڑا طبقہ مجلس کو محض ووٹ کاٹنے اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والی جماعت مانتا ہے۔ قومی، بین الاقوامی اور جموں وکشمیر کی تازہ ترین خبروں کےعلاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں ۔ Published by:Sana Naeem First published: December 24, 2021, 11:08 IST سب سے پہلے پڑھیں نیوز18اردوپر اردو خبریں، اردو میں بریکینگ نیوز ۔ آج کی تازہ خبر، لائیو نیوز اپ ڈیٹ، پڑھیں سب سے بھروسہ مند اردو نیوز،نیوز18 اردو ڈاٹ کام پر ، جانیئے اپنی ریاست ملک وبیرون ملک اور بالخصوص مشرقی وسطیٰ ،انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس، بزنس، ہیلتھ، تعلیم وروزگار سے متعلق تمام تفصیلات۔ نیوز18 اردو کو ٹویٹر ، فیس بک ، انسٹاگرام ،یو ٹیوب ، ڈیلی ہنٹ ، شیئر چاٹ اور کوایپ پر فالو کریں ۔ Asaduddin OwaisiMeerututtar pradesh فوٹو ... ... ... LIVE TV سیکشن انٹرٹینمنٹ معیشت دلچسپ اسپورٹس جرائم عالمی منظر قومی منظر فوٹو ویڈیو RSS Sitemap تازہ خبر جھارکھنڈ ہائی کورٹ کا فیصلہ: 15سال کی مسلم لڑکی اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے کو ہے آزاد ڈیجیٹل روپئے کے آغاز سمیت آج سے ہوں گی یہ اہم تبدیلیاں، جانیں آپ پر کیا پڑے گا اثر؟ سلمان خان سے پنگا لینا فوٹوگرافر کو پڑا تھا مہنگا، پٹائی کرنے کے لیے نکل پڑے تھے شاہ رخ خان زیادہ سود نہیں وصول پائیں گے ڈیجیٹل پلیٹ فارم، آر بی آئی کے ترمیمی گائیڈلائنس آج سے لاگو گووندہ نام میرا کا’بنا شرابی‘ گانا ریلیز، وکی-کیارا نے کہا’شائقین کو سننے میں آئے گا مزہ‘ ہمارے بارے میں ہم سے رابطہ کریں سائٹ میپ پرائیویسی پالیسی Cookie Policy Advertise With Us NETWORK 18 SITES News18 India CricketNext News18 States Bangla News Gujarati News Urdu News Marathi News TopperLearning Moneycontrol Firstpost CompareIndia History India MTV India In.com Burrp Clear Study Doubts CAprep18 Education Franchisee Opportunity CNN name, logo and all associated elements ® and © 2017 Cable News Network LP, LLLP. A Time Warner Company. All rights reserved. CNN and the CNN logo are registered marks of Cable News Network, LP LLLP, displayed with permission. Use of the CNN name and/or logo on or as part of NEWS18.com does not derogate from the intellectual property rights of Cable News Network in respect of them. © Copyright Network18 Media and Investments Ltd 2016. All rights reserved.
وزیراعظم سے آصف زرداری کی ملاقات،پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل پر مشاورت… فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے سفارتخانے میں ملاقات… عمران خان آئندہ ہفتے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اہم اعلان کرینگے… بھارت یکم دسمبر کو ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرائے گا… برطانیہ:بجلی کی بچت کیلئے صارفین کیلئے خصوصی اسکیم مؤخر… اطالوی ماڈل کی ارباز خان سے شادی کرنے سے متعلق لب کشائی… فیروز کیساتھ کام کرنے میں اچھا محسوس نہیں کرتی:اقرا عزیز بشریٰ انصاری اور اسما عباس کی والدہ انتقال کرگئیں… جنوبی ایشیائی افراد کو ذیابیطس جیسے مرض سے نجات دلانے کا طریقہ دریافت… شادی میں بوڑھے شخص کو تھپڑ مارنے والا سعودی شہری گرفتار… 27 شیئر کریں برطانوی بادشاہ چارلس سوئم کی تصویر والے سکے منظر عام پر آگئے… admin ستمبر 30, 2022 September 30, 2022 0 تبصرے Spread the love بادشاہ چارلس سوئم کی تصویر والے سکے منظر عام پر آگئے ہیں جن کوکرسمس تک جاری کردیا جائے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق شاہی ٹکسال کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ برطانوی بادشاہ چارلس سوئم کی تصویر والے دو نئے سرکاری سکوں کی جھلک منظر عام پر آگئی ہے۔ سکوں پر بادشاہ سوئم کی تصویر مجسمہ ساز مارٹن جیننگز کی جانب سے بنائی گئی ہے. منظر عام پر آنے والے سکوں میں 5 پاؤنڈ کا یاد گاری سکہ ہے ۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو لکھے گئے خط کے مندرجات پر تنقید کی ہے۔ ایک بیان میں ن لیگ کے سینئر رہنما نے کہا کہ وزیراعظم نے نریندر مودی کو بھجوائے گئے خط میں لکھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بھارتی ہم منصب کو بھیجے گئے خط میں مسئلہ کشمیر سے جڑی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ شاہد خاقان عباسی نے استفسار کیا کہ کیا چینی بھارت کے سوا کسی اور ملک سے نہیں منگوائی جاسکتی تھی؟ وزیراعظم اس کا جواب دیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم مسئلہ کشمیر پر یو این قراردادوں سے ہٹ گئے؟ وزیراعظم اس سے متعلق پارلیمنٹ میں آکر جواب دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ کس قسم کے حکمران ملک پر مسلط ہیں، ملک میں کیا ہورہا ہے سب کو نظر آرہا ہے۔ بشکریہ جنگ Jang You might also like Urdunews سندھ میں خسرہ سے 10 بچے جاں بحق Urdunews پاک جنوبی افریقا پہلا ون ڈے میچ آج کھیلا جائے گا Urdunews عوامی مسائل حل کرنا اولین ترجیح ہے، پرویز الٰہی Urdunews رمضان میں یوٹیلٹی اسٹورز پر گھی 90 روپے سستا ملے گا Prev Next Comments are closed. حالیہ پوسٹیں ری پلے ۔20 مئی 2021 | ابوظہبی میں پی ایس ایل 6 ، پی سی بی کے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن نے خصوصی تفصیلات کا انکشاف کیا
MERICAN W4 ایک پروفیشنل گریڈ ہوم ٹیننگ بیڈ ہے جو اتنا ہی اسٹائلش ہے جتنا کہ یہ موثر ہے۔ایلومینیم اور سٹیل کے مکس سے بنے پائیدار فریم کے ساتھ دیرپا رہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا، W4 اعلی طاقت کے اثرات کے لیے جدید اندرونی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک پرتعیش بیرونی حصے کو ملاتا ہے۔W4 ٹیننگ بیڈ کے لیے 24-ٹیوب اور 28-ٹیوب آپشنز ہیں جو بہترین کوریج اور ناقابل یقین، حتیٰ کہ چہرے اور جسم پر روشنی کی تقسیم بھی پیش کرتے ہیں۔ٹیننگ ٹیوبوں کی زیادہ تعداد کا مطلب یہ ہے کہ منتخب لیمپ پر منحصر ہے، جلد کی ہر قسم کے لیے مطلوبہ نتائج 20 منٹ سے کم میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ W4 کو ہر فرد کی اپنی ضروریات اور جلد کی قسم کے مطابق بنایا جا سکتا ہے، جس میں سے منتخب کرنے کے لیے ٹیننگ لیمپ کے انتخاب کے ساتھ۔W4 سن بیڈ کے لیے لیمپ کے اختیارات میں شامل ہیں: معیاری UV: اعلی کارکردگی والی ٹیننگ ٹیوبیں جو جلد کی زیادہ تر اقسام کے لیے موزوں ہیں۔ ہائی پاور پلس: ایک انتہائی تیز ٹیننگ ٹیوب 5-7 منٹ میں نتائج پیدا کرتی ہے۔ کولیج: ایک غیر ٹیننگ لیمپ جو کولیجن کی پیداوار کو تیز کرتا ہے۔ کولیٹن: ایک انقلابی چراغ جو ٹیننگ اور کولیجن محرک دونوں پیش کرتا ہے۔ وٹامن ڈی لائم لائٹ ٹوئسٹ: جلد کی ظاہری شکل کو بہتر بنانے کے لیے ایک گرین تھراپی لیمپ Merican کے پاس ایک مضبوط تکنیکی تحقیق اور ترقی کی ٹیم ہے، جسے آپ کی ضروریات کے مطابق بھی بنایا جا سکتا ہے۔تفصیلات کے لیے براہ کرم ہم سے مشورہ کریں۔ ہمیں ای میل بھیجیں۔ مصنوعات کی تفصیل پروڈکٹ کا جائزہ W4 سیریز ٹیننگ بیڈ یورپی خلائی سطح کے فل کیبن کے ڈیزائن کو اپناتا ہے۔اندرونی ڈیزائن بہت سے کلینیکل ٹرائلز سے گزر چکا ہے اور اس نے ایک ایسا ڈیزائن تیار کیا ہے جو انسانی جسم کے مطابق ہو۔جب گاہک لیٹتا ہے تو پورا جسم لپٹا ہوا ہوتا ہے اور بہت آرام دہ ہوتا ہے۔بلٹ ان میوزک فنکشن کے ساتھ، آپ خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آرام کر سکتے ہیں۔ درخواست ٹیننگ سیلون، کلب، گھروں، سپا، صحت کے مراکز، جلد کے انتظام کے مراکز، گھریلو، پلاسٹک سرجری ہسپتال وغیرہ کے لیے۔ Merican کے پاس ایک مضبوط تکنیکی تحقیق اور ترقیاتی ٹیم ہے، جسے آپ کی ضروریات کے مطابق بھی بنایا جا سکتا ہے۔تفصیلات کے لیے براہ کرم ہم سے مشورہ کریں۔ پروڈکٹ کے پیرامیٹرز پروڈکٹ ماڈل W4|ڈبلیو 4 پلس ٹیوب کی مقدار 24 ٹیوبیں *100W|28 ٹیوبیں *100W روشنی کا ذریعہ جرمن Cosmedico Cosmosun حرارت کا خلاصہ کرنے والا چار مشین کولنگ پنکھے۔ کنٹرول سسٹم انٹیلجنٹ کنٹرول سسٹم، پیڈ وائی فائی کنٹرول سسٹم بجلی کی فراہمی 110V / 220V کرنٹ (220V) 10.9A|12.7A مصنوعات کی طاقت 2.4 کلو واٹ|2.8 کلو واٹ پروڈکٹ کا سائز L1920 * W850 * H850 ملی میٹر مصنوعات کا وزن 110 کلوگرام وزن کی گنجائش 200 کلوگرام پچھلا: OEM مینوفیکچرر لو لیول لیزر لائٹ تھراپی ریڈ اورکت 633/850/940 ایل ای ڈی ڈایڈڈ بستر خون کی گردش مخالف سوزش وزن کم کرنے والی فلاح و بہبود اگلے: ہول سیل ہول باڈی کولیجن بیڈ کولیجن ایل ای ڈی لائٹ تھیراپی ریڈ انفراریڈ بیڈ برائے سکن ریجووینیشن تھراپی باڈی تھراپی کے لیے اپنا پیغام یہاں لکھیں اور ہمیں بھیجیں۔ مصنوعات کے زمرے کمرشل اسٹینڈ اپ ٹیننگ بوتھ F11 کمرشل اسٹینڈ اپ ٹیننگ بوتھ F11R کمرشل عمودی ڈیزائن ٹیننگ بیڈ F10 حرکت پذیر ہوم سیلف ٹیننگ کیپسول W1 ہم سے رابطہ کریں۔ ایڈریس: بلڈنگ A، Yimei انڈسٹریل ڈسٹرکٹ، نمبر 8 Fuyuan 3rd روڈ، Jinghu Street، Huadu District، Guangzhou
طالبان نے روس کے ساتھ ایک عارضی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ماسکو افغانستان کو پٹرول، ڈیزل، گیس اور گندم فراہم کرے گا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی نے منگل کو کہا کہ ان کی وزارت اپنے تجارتی شراکت داروں کو متنوع بنانے کے لیے کام کر رہی ہے اور روس نے طالبان انتظامیہ کو اشیاء کی اوسط عالمی قیمتوں میں رعایت کی پیشکش کی ہے۔ عزیزی نے کہا کہ اس معاہدے میں روس کو تقریباً 10 لاکھ ٹن پٹرول، 10 لاکھ ٹن ڈیزل، 500,000 ٹن مائع پیٹرولیم گیس اور 20 لاکھ ٹن گندم سالانہ فراہم کی جائے گی۔ مزیز ملتان ٹیسٹ: ابرار نے ڈیبیو پر پانچ وکٹیں حاصل کیں جب انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف ہنگامہ کیا۔ پہلے وزیر اعظم شہباز نے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اداروں کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔ پہلے اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی جب ایک افغان تکنیکی ٹیم نے ماسکو میں کئی ہفتے بات چیت میں گزارے، عزیزی کے گزشتہ ماہ وہاں جانے کے بعد بھی یہ معاہدہ برقرار رہا۔ یہ اقدام، طالبان کی جانب سے ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے کیا جانے والا پہلا بڑا بین الاقوامی اقتصادی معاہدہ ہے، اس کی تنہائی کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے جس نے اسے عالمی بینکنگ سسٹم سے مؤثر طریقے سے کاٹ دیا ہے۔ کوئی بھی ملک باضابطہ طور پر طالبان کو تسلیم نہیں کرتا، جس نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کابل میں جھڑپ کرنے سے پہلے مغربی افواج اور ان کے مقامی افغان اتحادیوں کے خلاف 20 سال تک بغاوت لڑی۔ روس طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، لیکن ماسکو نے کابل کے زوال کے دوران اس تحریک کے رہنماؤں کی میزبانی کی اور اس کا سفارت خانہ افغان دارالحکومت میں کھلے رہنے والے چند مٹھی بھر افراد میں سے ایک ہے۔ ستمبر 28, 2022 0 0 1 minute read Share Facebook Twitter Pinterest WhatsApp Print اردو پوائنٹ 2 اردو پوائنٹ 2 پاکستان کو بہترین نیوز پبلیشر سنٹر یے۔ یہاں آپ پاکستانی خبریں، انٹرنیشنل خبریں، ٹیکنالوجی، شوبز، اسلام، سیاست، اور بھی بہیت کہچھ پڑھ سکتے ہیں۔
JavaScript is disabled. For a better experience, please enable JavaScript in your browser before proceeding. You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser. امریکی حملہ شامی شہریوں کی ممکنہ حملے کے خلاف انسانی ڈھال بنانے کی مہم شامی شہریوں کی ممکنہ حملے کے خلاف انسانی ڈھال بنانے کی مہم دمشق…شام کے شہریوں نے ممکنہ امریکی حملے کے خلاف انسانی ڈھال بنا کر " Overs"Our Dead Bodies مہم شروع کی ہے۔دمشق میں ممکنہ امریکی حملے کے خلاف Overs"Our Dead Bodies " مہم میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہیں تاکہ دمشق کے اہم مقامات کا تحفظ کیا... کاشفی لڑی ستمبر 6، 2013 اسرائیل امریکہ امریکی حملہ انسانی ڈھال ایران سعودی عرب شام پر حملہ شامی شہری ممکنہ حملہ مہم جوابات: 0 فورم: آج کی خبر امریکی حملے کی صورت میں شام کی آخری وقت تک مدد کرینگے، ایران امریکی حملے کی صورت میں شام کی آخری وقت تک مدد کرینگے، ایران تہران … ایران نے کہا ہے کہ امریکا شام پر حملے کرنے کیلئے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا ر ہاہے ، شام کی آخری وقت تک مدد کریں گے۔ ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کا کہناہے کہ اسد حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگاکر مغربی ملک...
ایسا لگتا ہے کہ سال دو ہزار گیارہ کا سورج پاکستان کرکٹ کیلئے نئی امیدیں اور کامیابیاں اپنے ساتھ لے کر طلوع ہوا ہے ، اس کے اوائل میں قومی ٹیم تقریباً چار سال ایک ماہ اور ایک ہفتے کے طویل انتظار کے بعد کسی بھی ٹیسٹ سیریز میں فتح کیلئے فیورٹ قرار دی جارہی ہے وہیں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات میں پھنسے کھلاڑیوں کی قسمت کا فیصلہ سنائے جانے کا بھی آج قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ پاکستانی ٹیم نے آخری مرتبہ یکم دسمبر دو ہزار چھ میں ویسٹ انڈیز کو اپنی سر زمین پر تین ٹیسٹ میچوں کی سیریزمیں دو صفر سے مات دی تھی تاہم اس کے بعد سے اب تک پاکستان مختلف ممالک سے دس ٹیسٹ سیریز کھیل چکا ہے جس میں اسے چھ مرتبہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور چار مرتبہ سیریزبغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوئی تاہم ہمیلٹن ٹیسٹ میں کیویز کے خلاف شاندار فتح نے شائقین میں ایک مرتبہ پھر کسی بھی سیریز میں فتح کی نئی امنگیں پیدا کر دی ہیں ۔ گزشتہ سال اگست کا آخری عشرہ پاکستانی کرکٹ کیلئے انتہائی بھیانک ثابت ہوا اور لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کے تین کھلاڑیوں محمد آصف ، محمد عامر اور سلمان بٹ پر اسپاٹ فکسنگ جیسے داغ ثبت کر گیا جو گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصے سے شائقین کیلئے ذہنی کرب کا باعث ہیں ۔اگر چہ سلمان بٹ کی قیادت میں پاکستان نے پندرہ سال بعد آسٹریلیا اور پانچ سال بعد انگلینڈ کو مات دی تاہم ان پر لارڈز کی سر زمین پر لگائے گئے الزامات نے ان کی ساری شہرت مٹی میں ملا دی اور اس کے بعد ٹیسٹ ٹیم کی قیادت مصباح الحق کو سونپی گئی ۔ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مصباح پر مختلف حلقوں سے کھل کر تنقید کی گئی لیکن انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف اپنی کارکردگی سے ناقدین کے منہ پر تالے لگا دیئے۔ الزامات کے انبار تلے دبی ٹیم نے شاندار طریقے سے دونوں مقابلے بغیر ہار جیت کے ختم کر دیئے ۔ اس کے بعد اب نیوزی لینڈ سے سیریز کا پہلا ٹیسٹ جیت کر سیریز اپنے نام کرنے کیلئے پرعزم ہیں اور ثابت کر دیا کہ وہ سلمان بٹ سے کسی طرح بھی کم نہیں ۔ تنویر احمد اور رہاب ریاض کی کارکردگی نے بھی بہت حد تک محمد عامر اور محمد آصف کی ٹیم میں کمی کو پورا کر دکھایا ہے ۔ اس کے علاوہ اسدشفیق ،توفیق عمر اور اظہر علی جیسے کئی ستارے بھی ملک کا نام روشن کرنے کیلئے بے تاب ہیں ۔ دوسر ی جانب تقریبا پانچ ہفتوں کے کٹھن اور صبر آزما انتظار کے بعد اسپاٹ فکسنگ کی فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کل یعنی منگل کو محمد عامر ، محمد آصف اور سلمان بٹ کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ چھ جنوری سے قطر (دوحہ ) میں شروع ہونے والے اس کیس کی سماعت مائیکل بیلوف کی سربراہی میں البائی ساچز اور شردراؤ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی کر رہی ہے اور اتوارکو پانچ روز مکمل ہونے پر تینوں کھلاڑیوں ،ان کے وکلاء اور آئی سی سی کے وکلاء نے اپنے دلائل پیش کر دیئے ہیں ۔ اس کے علاوہ دورہ انگلینڈ کے دوران تینوں کھلاڑیوں کے ٹیلی فونک ریکارڈ اور اس راز کو افشاں کرنے والے انگلش جریدے کے رپورٹر مظہر محمود سے ہونے والی کھلاڑیوں کی گفتگو کا ریکارڈ بھی پیش کر دیا گیا ہے جو اس کیس میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق کل(منگل ) کو دوحہ میں مقامی وقت کے مطابق دن گیارہ بجے میڈیا کے نمائندوں کو آئی سی سی کی جانب سے مدعو کر لیا گیا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ میڈیا کو اسپاٹ فکسنگ کیس کے حوالے سے بریف کیا جائے گا ۔ بعض میڈیا ذرائع اس بات کا امکان ظاہر کررہے ہیں کہ اس کیس میں سابق کپتان سلمان بٹ کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ محمد آصف پر پانچ سال اور محمد عامر پر دو سال تک کی پابندی لگائی جا سکتی ہے لیکن اصل صورتحال تو فیصلہ آنے کے بعد ہی سامنے آئے گی ۔ ماہرین اس فیصلے کو پاکستانی کرکٹ کیلئے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ فیصلے کے بعد پاکستانی کھلاڑی نفسیاتی طور پر دباؤ سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے اور فتوحات کا سلسلہ نہ صرف دو ہزار گیارہ بلکہ آنے والے دور میں بھی مایوسیوں کے بادل چھٹ جائیں گے اور شائقین ایک مرتبہ پھر کرکٹ پر جان نچھاور کریں گے ۔ یہ بھی پڑھیے بین الاقوامی کرکٹ: جنوبی افریقہ اور پاکستان مدِمقابل کرکٹ کو بدعنوانی سےپاک کرنےپر زور خانہ بدوش ٹیم: 2009ء اور پاکستان کرکٹ ویو 360 Embed share ویو 360 | پاکستانی معیشت: آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں ہوا، تجزیہ کار| بدھ، 7 دسمبر 2022 کا پروگرام Embed share The code has been copied to your clipboard. width px height px فیس بک پر شیئر کیجئیے ٹوئٹر پر شیئر کیجئیے The URL has been copied to your clipboard No media source currently available 0:00 0:24:30 0:00 ویو 360 | پاکستانی معیشت: آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں ہوا، تجزیہ کار| بدھ، 7 دسمبر 2022 کا پروگرام
بھارت میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے پر پاکستان کا اظہار مذمت، سخت کارروائی کا مطالبہ - dailygulfnews اہم خبریں نیب ترامیم سے وائٹ کالر کرائم پکڑنا ناممکن ہوگیا، عمران خان عمران خان کو چیلنج کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کریں، رانا ثنا اللہ شاہد خاقان عباسی کا برطانوی اخبار ڈیلی میل کے معافی مانگنے کا خیرمقدم پی ٹی آئی کے لوگ کسی ایماندار شخص کو چیئرمین بنائیں، رانا ثنا اللہ عالمی ادارے ہمیں اقتصادی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمان جو تلاش کرنا چاہ رہے ہیں یہاں لکھیں صفحہ اول اہم خبریں پاکستان انٹرنیشنل کاروبار کھیل سائنس اور ٹیکنالوجی شوبز صحت فیچر کالمز جو تلاش کرنا چاہ رہے ہیں یہاں لکھیں صفحہ اول اہم خبریں پاکستان انٹرنیشنل کاروبار کھیل سائنس اور ٹیکنالوجی شوبز صحت فیچر کالمز زیادہ پڑھی جانے والی 2022، قومی انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی کا شیڈول جاری بھارتی پولیس بھی پاکستان کی پارٹی گرل سے متاثر ہو گئی. حکومت نے بجلی کے نئے میٹر لگوانے کا آن لائن طریقہ کار متعارف کروا دیا. جرمنی میں بھارت کے یوم جمہوریہ پر احتجاجی مظاہرہ ، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی. وزیر اعظم عمران خان کی وزیر داخلہ شیخ رشید کو پرامن مظاہرین کو نہ روکنے کی ہدایت. بھارت میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے پر پاکستان کا اظہار مذمت، سخت کارروائی کا مطالبہ اکتوبر 8, 2022 October 8, 2022 39 مناظر فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ اسلام آباد (گلف آن لائن)پاکستان نے بھارت میں حالیہ دنوں میں ہونے والے مذہبی تہواروں نوراتری اور دسہرہ کے دوران انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں مسلمان لڑکوں کو کھمبوں سے باندھ کر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ جس طرح ہندوتوا انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس کے حامیوں نے مسلمان لڑکوں کو مذہبی تہوار کے مقام پر پتھرا کرنے کے الزام میں کھمبوں سے باندھ کر بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا یہ عمل انتہائی خوفناک ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ اسی طرح کا پریشان کن واقعہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں مسلمان خاندانوں کے مکانات کو مسمار کرنے کی صورت میں پیش آیا ہے جن پر ہندوں کے مقدس مقامات پر مبینہ طور پر پتھرا کرنے کا بے بنیاد الزام عائد کیا گیا تھا۔بیان میں کہا گیا کہ یہ بات قابل غور ہے کہ جہاں آج کے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد ایک معمول بن چکا ہے وہاں مذہبی تہواروں کے دوران صورتحال انتہائی تشویشناک ہو جاتی ہے۔دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ بھارت میں اسلامو فوبیا میں خوفناک حد تک اضافہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس حکومت کی اکثریتی ہندوتوا ایجنڈے کی اندھی تقلید اور اسلام اور مسلمان مخالف بیانیے کی واضح حمایت کا خوفناک نتیجہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ بھارت سے نام نہاد سیکولرزم کا لبادہ مکمل طور پر اٹھ گیا ہے جس نے اپنا غیر اعلانیہ ہندو راشٹرا کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا ہے جہاں مسلمانوں کو ہمیشہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اذیتیں دے کر پسماندہ کیا جاتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ بنیادپرست ہندو انتہاپسند عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے جو مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور تشدد کو اکسا رہے ہیں ۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ انتہاپسند عناصر کو مکمل استثنی دینے کے بجائے بھارتی حکومت کو ملک میں بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا کی لہر کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مسلمان ان کے عقیدے کا شکار نہ ہوں۔بیان کے مطابق پاکستان نے عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور اس کی انسانی حقوق کونسل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت میں اسلامو فوبیا کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کا نوٹس لیں اور مسلمان شہریوں کی سلامتی اور بہبود کو یقینی نہ بنانے پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔
مودی کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر کشمیریوں، پاکستانیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتیوں کا بڑا احتجاجی مظاہرہ – Pak Kashmir News اہم خبریں عمران خان کی عہدہ سنبھالنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو مبارکباد عمران خان ایک رہبر، رہبر کو مائنس نہیں کیا جاسکتا، وزیراعظم سردار تنویر الیاس بلدیاتی انتخابات کا سہرا تنویر الیاس کے سر۔۔۔ تحریر: انجینئر اصغر حیات وزیراعظم تنویرالیاس۔۔۔بلدیاتی انتخابات اور مسائل کا حل وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی صحافیوں کیلئے جرنلزم اکیڈمی کے قیام کی ہدایت جو تلاش کرنا چاہ رہے ہیں یہاں لکھیں Select Your Location Lahore, Punjab, PK Karachi, Sindh, PK Islamabad, PK Update Weather Toggle navigation صفحہ اول اہم خبریں پاکستان کشمیر بین الاقوامی شوبز کھیل تعلیم و صحت خصوصی فیچرز کالم و مضامین مودی کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر کشمیریوں، پاکستانیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتیوں کا بڑا احتجاجی مظاہرہ ستمبر 27, 2020 September 27, 2020 0 تبصرے 296 مناظر اقوام متحدہ (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کے دوران کشمیریوں، پاکستانیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتیوں نے نیویارک میں بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا، مظاہرین نے مودی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نازی مودی اور انتہا پسند بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت کو نہ صرف مقبوضہ وادی بلکہ پورے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکے۔ہفتہ کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی ورچوئل اجلاس میں نریندر مودی کے خطاب کے موقع پر نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر کشمیریوں، پاکستانیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں نے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا اور مودی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مظاہرین نے کہا کہ انتہاپسند مودی حکومت کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بھارتی مسلح افواج نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر رہی ہیں۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر بھارت کے خلاف اور تحریک آزادی کشمیر اور خالصتان کے حق میں نعرے درج تھے۔ مظاہرین نے بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، مظاہرین نے مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے بھارتی فاشسٹ حکومت کی گھنائونی سازش کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ نازی مودی اور انتہا پسند بھارتی اجنتا پارٹی کی حکومت کو نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پورے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکے۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے اقوامِ عالم پر زور دیا ہے کہ وہ کرونا وائرس سے بحالی کی کوششوں میں انسانی حقوق کو پہلی ترجیح دیں تاکہ اپنے شہریوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کا حصول ممکن ہو۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جمعرات کو اپنے ایک انٹرویو میں انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا نے فرنٹ لائن ورکرز، بزرگوں، معذوروں، خواتین، بچیوں اور اقلیتوں سمیت کمزور گروپوں پر غیر متناسب اثرات مرتب کیے ہیں۔ انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ وائرس اس لیے پھلا پھولا کیوں کہ، غربت، عدم مساوات، تعصب، ہمارے قدرتی ماحول کی تباہی اور دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں نے ہمارے معاشروں میں بے تحاشہ کمزوریاں پیدا کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لیڈروں کو یہ بہانہ ملا کہ وہ سخت سیکیورٹی اور جابر اقدامات اٹھائیں جس سے میڈیا کی آزادی اور شہری حقوق سلب ہوئے۔ بدھ کے روز جنیوا میں خطاب کرتے ہوئے، انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی کمشنر، مشعل بیشلیٹ کا کہنا تھا کہ متعدد ملکوں نے کرونا وائرس کے پھیلاو ¿ کو روکنے میں سنجیدگی اختیار نہیں کی اور اس کی فوری روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی، شہری اور سیاسی حقوق سمیت انسانی حقوق سے متعلق متعدد معاملات کو نقصان پہنچا۔ مشعل بیشلیٹ کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کو سیاسی رنگ دینا غیر ذمہ داری سے کہیں بڑھ کر ہے بلکہ قابلِ ملامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائینسی ثبوت اور عمل کو رد کیا گیا اور اس کی جگہ سازشی نظریوں اور غلط معلومات کو پھلنے پھولنے دیا گیا۔ چلی کی سابق صدر ،مشعل بیشلیٹ کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے دنیا میں یمن کی طرح تنازعات کا شکار ممالک میں بسنے والے کمزور ترین اور غیر محفوظ افراد کو تعصب اور منظم نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ یمن کو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تنازعات، بیماریوں، رکاوٹوں، اور انسانی بنیادوں پر ملنے والے فنڈ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ مشعل بیشلیٹ کا کہنا تھا کہ دنیا اس نکتہ پر کھڑی ہے جہاں کم از کم ایک محفوظ اور موثر کووڈ 19 ویکسین بنا لے گی، لیکن وہ عالمی وبا سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی نقصانات کو نہ روک سکے گی اور نہ ہی ان کا ازالہ کر سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سب کا مداوا انسانی حقوق کی ویکسین ہے، جس کے بنیادی اجزا یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائیٹس میں مرقوم ہیں، اور جس کی منظوری دس دسمبر انیس سو اڑتالیس کو اقوام متحدہ کی جینرل اسمبلی نے دی تھی۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق، اس عالمی وبا سے اب تک دنیا بھر میں کم از کم 6 کروڑ اسی لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 15 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ Facebook Twitter Pinterest WhatsApp گزشتہ مضمونٹک ٹاک میں 3 منٹ کی ویڈیوز کی آزمائش شروع اگلا مضمونعظیم فٹبالرمیراڈونا وفات پا گئے چیف ایڈیٹر متعلقہ مضامینزیادہ مصنف کی طرف سے انٹرنیشنل دنیا بھر میں سولہ کروڑ بچ... صحت و تندرستی کورونا وائرس: انڈیا میں د... صحت و تندرستی یورپی ممالک میں اتوار سے ... جواب چھوڑ دیں جواب منسوخ کریں براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں! اپنا نام یہاں درج کریں آپ نے غلط ای میل پتہ درج کیا ہے! برائے مہربانی اپنا ای میل پتہ یہاں درج کریں میرے براؤزر میں میرا نام، ای میل، اور ویب سائٹ محفوظ کریں اگلا وقت میں تبصرہ کریں. EDITOR PICKS پاکستان:نئے آرمی چیف پر تنقید روکیں‘، صدر عارف علوی نے عمران خان کو ریڈلائن سے خبردار کردیا پاکستان ایڈیٹر - December 6, 2022 0 پاکستان فوج میں کمان کی ... مزید پڑھیں پاکستان،فوج،عمران نیازی اور انکا مستقبل،۔ ملک اسلم خان مضامین ایڈیٹر - December 6, 2022 0 پاکستان اپنی وجود سے... مزید پڑھیں مقبوضہ بلوچستان: 2800سے زائد اسکولز کے غیر فعال ہونیکا انکشاف مقبوضہ بلوچستان ایڈیٹر - December 6, 2022 0 مقبوضہ بلوچستان میں 2800... مزید پڑھیں POPULAR POSTS پاکستان:نئے آرمی چیف پر تنقید روکیں‘، صدر عارف علوی نے عمران خان کو ریڈلائن سے خبردار کردیا پاکستان ایڈیٹر - December 6, 2022 0 پاکستان فوج میں کمان کی ... مزید پڑھیں پاکستان،فوج،عمران نیازی اور انکا مستقبل،۔ ملک اسلم خان مضامین ایڈیٹر - December 6, 2022 0 پاکستان اپنی وجود سے... مزید پڑھیں مقبوضہ بلوچستان: 2800سے زائد اسکولز کے غیر فعال ہونیکا انکشاف مقبوضہ بلوچستان ایڈیٹر - December 6, 2022 0 مقبوضہ بلوچستان میں 2800... مزید پڑھیں POPULAR CATEGORY مقبوضہ بلوچستان549 پاکستان408 انٹرنیشنل199 پاکستانی مقبوضہ کشمیر170 مضامین78 ہندوستان67 فیچرز/تجزیہ/رپورٹ52 ABOUT US نیوز انٹرونشن انڈیا کی ایک آزاد میڈیاہاؤس ہے جو سچی اورحقیقی صحافت پر یقین رکھتی ہے اوردنیا کو حقائق سے آگاہ کرنا اپنا کرتویہ سمجھتا ہے۔دنیابھرمیں ہونے والی ناانصافیوں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدلتی صورتحال کو براہ راست تازہ ترین بریکنگ نیوز، اسٹوریز، تجزیہ و تبصرے اور ویڈیوزکی صورت میں سامنے لاتی ہے۔
Islam is a religion of peace and tolerance. Through promotion of free debate on our website, New Age Islam encourages people to rethink Islam. Thursday, January 19, 2012 Urdu Section 19 Jan 2012, NewAgeIslam.Com اسلام ، مسلمان اورتعلیم اگر مسلمانوں نے تعلیم کے میدان میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائیں تو پسماندگی ہمیشہ ان کا مقدر بن جائے گی۔ انیسویں صدی میں مسلمان اس سے بھی زیادہ برے حالات کا شکار تھے ۔1857کی پہلی جنگ ِآزادی کی ناکامی کے بعد وہ ٹوٹ چکے تھے اس وقت علما کے ایک گروپ نے مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور دینی سرمائے کے تحفظ کیلئے دیوبند میں دارالعلوم کی بنیاد ڈالی تو دوسری طرف دانشوروں کے ایک طبقے نے جس کے قائد سرسید تھے مذہبی تشخص برقرار رکھتے ہوئے سیاسی ، انتظامی اور معاشی میدان میں ترقی اور ساجھیداری کیلئے مغربی طرز تعلیم کو اپنایا،اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی داغ بیل پڑی ۔ دونوں ادارے دینی وعصری تعلیم کیلئے آج بھی بقعۂ نور ہیں لیکن اس کیلئے جس ہمہ وقتی تحریک ،لگن اور توجہ کی ضرورت ہے وہ موجودہ اکابرین میں مفقود ہے۔ خالد شیخ
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ ۔ ۱۹۷۹) بیسویں صدی کے ایک جلیل القدر عالم اور مفکر تھے۔ ان کی فکر اور دینی تعبیر نے نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ذمیوں (یعنی غیر مسلموں )کے حقوق بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنایا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنابھی اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۸۹) اس اقتباس سے واضح ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے سے ذمی کا ذمہ نہیں ٹوٹتا اور نتیجتاً وہ سزائے قتل کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی، مولانا مودودیؒ کے نزدیک، لازمی طور پر فساد فی الارض یا حکومتِ اسلامیہ کے خلاف بغاوت کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ بات مولانا مودودیؒ نے چونکہ فقہ حنفی کی کتب بدائع اور فتح القدیر کے حوالے سے بیان کی ہے، اس لیے مولانا مودودیؒ کی رائے قطعی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ شاتم رسول ذمی کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس اقتباس کے حوالے سے ایک سائل کے سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے نسبتاً تفصیل سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ ہم یہ سوال و جواب من و عن یہاں نقل کرتے ہیں: ’’سوال: راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف ’ الجہاد فی الاسلام‘ کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح و جنگ کے باب میں ص ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ : ’ ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنایا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنابھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا، ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جا ملے، دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔‘ فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے اور میں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔میری تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، ان سے ذمی کا عقد ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے اپنی رائے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع ص ۱۱۳ کا حوالہ دیا ہے، لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہ نے ’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘ کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زادالمعاد، تاریخ الخلفاء عون المعبود، نیل الاوطارجیسی کتابوں میں علمائے سلف کے دلائل آپ کی رائے کے خلاف ہیں۔ یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔ عن علی ان یھودیۃ کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ فختقھا رجل حتی ماتت فابطل النبی صلی اللہ علیہ وسلم دمہا۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی کرتی تھی اور آپ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخض نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔ (ابو داود، ملاحظہ ہومشکوۃ باب قتل اہل الردۃ والافساد ص ۳۰۸) ۔ ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کہ ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس رائے کے خلاف ایک مضمون بعنوان ’مولانا مودودی کی ایک غلطی ‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علماء کے فتاویٰ درج کیے ہیں۔ جواب: یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں آپ یا دوسرے حضرات جو رائے بھی رکھتے ہوں ، رکھیں اور اپنے دلائل بیان کریں۔ دوسری طرف بھی علماء کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا، یا سب نبی صلعم ، یا ہتک مسلمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستور مملکت کے خلاف۔ ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہوجا تا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ذمی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علماء کے نزدیک ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔ اس میں کسی کے ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ جن صاحب نے مضمون لکھا ہے، انہوں نے انصاف نہیں کیا کہ اسے صرف میری غلطی قرار دیا۔ یہ اگر غلطی ہے تو سلف میں بہت سے اس کے مرتکب ہیں۔ میرا تو صرف یہ قصور ہے کہ کسی مسئلے میں مسلک حنفی کی تائید کرتا ہوں تو اہل حدیث خفا ہوجاتے ہیں اور کسی مسئلے میں اہل حدیث کی تائید کرتا ہوں تو حنفی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔‘‘ (ترجمان القرآن ذی القعدہ ۱۳۷۴ھ۔جولائی ۱۹۵۵ء) ‘‘[رسائل و مسائل ۴/ ۱۳۲ ۔ ۱۳۳] ْْْاس جواب میں مولانا مودودیؒ نے بالکل واضح کردیا ہے کہ غیر مسلم شاتم رسول (ذمی) کی سزا کے حوالے سے ان کی رائے وہی ہے جو متقدمین فقہائے احناف کی رائے ہے۔اور فقہائے احناف کی رائے معلوم و معروف ہے کہ ذمی کو شتم رسول کے جرم میں عمومی حالات میں موت کی سزا نہیں دی جائے گی، البتہ اگر کوئی فرد اعلانیہ یا سرکشی کے ساتھ اس جرم کو عادت بنا لے تو اسے تعزیراََ یا سیاسۃََ موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ فقہ اسلامی میں اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے (اگرچہ آج کل تاثر اس سے مختلف دیا جاتا ہے) کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن و سنت میں متعین نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ فقہاء کی اجتہادی اور استنباطی رائے ہے۔ اس بات پر فقہائے کرام متفق ہیں کہ اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہوگا تو وہ چونکہ مرتد ہوجائے گا، اس لیے اسے ارتداد کے جرم میں قتل کیا جائے گا۔ اگر کوئی غیر مسلم اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے تعزیر کے طور پر سزا دی جائے گی۔ مولانا مودودیؒ بھی اسی رائے کے حامل نظرآتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کردیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ، تیسرے اسلامی نظامِ حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا، چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا، پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہوجاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہوجاتا ہے۔‘‘ ( تفہیم القرآن ۲/ ۶۱۴) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے، ہلاک نہ کی جائے مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ’ حق کے ساتھ‘ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دو صورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دوسرے انسان کے قتلِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہوگیا ہو۔ (۲) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دارالاسلام کے حدود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں : (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صورتوں کے علاوہ کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے، خواہ وہ مومن ہو یا ذمی یا عام کافر۔‘‘ ( تفہیم القرآن ۱/۵۹۹۔۶۰۰) یہاں جس قطعیت اور حصر کے ساتھ مولانا مودودیؒ نے ان جرائم کو بیان کیا ہے جن کی سزا قرآن و حدیث کے مطابق موت ہے، اس سے بالکل واضح ہے کہ وہ توہین رسالت کو ان جرائم میں شمار نہیں کرتے جن کی سزا قرآن و حدیث نے متعین کر دی ہے۔ مرتد کو سزائے موت دینے کے معاملے میں، احناف کی رائے کے عین مطابق ،مولانا مودودیؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ اسے توبہ کا موقع دیاجائے گا اور اگر وہ توبہ کرلے تو اسے معاف کردیاجائے گا۔ بدیہی طور پر اس اصول کا اطلاق شاتم رسول پر بھی ہونا چاہیے۔ فرماتے ہیں: ’’اسلامی قانون صدور ارتداد کے بعد فوراََ ہی مرتد کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کو اپنی غلطی محسوس کرنے اور توبہ کا موقع بھی دیتا ہے اور اگر وہ توبہ کرلے تو اسے معاف کردیتا ہے۔‘‘ (رسائل و مسائل ۲ / ۵۲) رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے وہ واقعات جن سے بالعموم توہین رسالت کی سزا کا قانون اخذ کیا جاتا ہے، ان میں ایک اہم واقعہ کعب بن اشرف کا قتل ہے۔ مولانا مودودیؒ اس واقعہ کی جو توجیہ کرتے ہیں، وہ ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں: ’’عہد رسالت کا ایک اور واقعہ جس پر سخت اعتراضات کیے جاتے ہیں، یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک دشمن کعب بن اشرف کو خفیہ طریقے سے قتل کرادیا۔ مخالفین کا اعتراض یہ ہے کہ یہ وہی جاہلیت کا ’فَتک‘ تھا اور بزدلی کے علاوہ آدابِ جنگ کے بھی خلاف تھا ۔ لیکن اس واقعہ کے بھی چند مخصوص اسباب تھے جن کو معترضین نے نظر انداز کردیا ہے۔ یہ شخص یہود بنی نضیر میں سے تھا اور اپنی قوم کے ساتھ اس معاہدہ میں شریک تھا جو ہجرت کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان ہوا تھا۔ مگر اسے اسلام اور خاص کر داعی اسلامؐ سے سخت عداوت تھی۔ آپؐ کی شان میں ہجویہ اشعار کہتا، مسلمان عورتوں کے متعلق نہایت گندے عشقیہ قصائد کہتا اور کفارِ قریش کو آنحضرت ؐ کے خلاف اشتعال دلاتا تھا۔ جب جنگِ بدر میں آنحضرت کو فتح ہوئی تو اس کو سخت رنج ہوا اور شدتِ غضب میں پکار اٹھا کہ واللہ لئن کان محمد اصاب ھولاء القوم لبطن الارض خیرُُ لنا من ظھرھا۔(خدا کی قسم اگر محمدؐ نے قریش کو واقعی شکست دے دی ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے)۔ پھر وہ مدینہ سے مکہ پہنچا اور وہاں نہایت درد انگیز طریقہ سے قریش کے مقتولوں کے مرثیے کہہ کہہ کر ان کے عوام اور سرداروں کو انتقام کا جوش دلانے لگا۔ اس کی یہ سب حرکات اس معاہدہ کے خلاف تھیں جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا اور جس میں وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ شریک تھا۔ تاہم انھیں کسی نہ کسی طرح معاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان سب سے گزر کر وہ اپنے جذبہ عناد میں یہاں تک پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک لینے کا تہیہ کرلیا۔ اس نے ایک سازش کی تیار ی کی جس کا مقصد آپؐ کو دھوکہ سے قتل کرنا تھا ۔۔۔ اُس کے جرائم کی فہرست کو اِس سازشِ قتل نے مکمل کردیا اور اس کے بعد اس کے کشتنی ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ ایک شخص اپنے قومی معاہدہ کو توڑتا ہے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کرتا ہے، مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے، اور مسلمانوں کے امام کو قتل کرنے کی خفیہ سازشیں کرتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا بجز قتل کے اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ (الجہادفی الاسلام، ص ۳۱۱ ۔ ۳۱۲) یہاں دیکھ لیجیے،مولانا مودودیؒ نے بالکل واضح طور پر لکھا ہے کہ کعب بن اشرف کاقتل توہین رسالت کے جرم میں نہیں کیا گیا، بلکہ یہ جرم تو ’کسی نہ کسی طرح‘ معاف بھی کیا جاسکتا تھا۔ اس کا اصل جرم جو قتل کی وجہ بنا، وہ اُس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اس واقعہ کو ’چند مستثنیات ‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے اور استثنا کی وضاحت میں لکھا ہے کہ: ’’اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کے سرداروں کو قتل کرادینا اسلام کے قانونِ جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ابو جہل اور ابو سفیان جیسے دشمنوں کو قتل کراتے، اور صحابہ میں ایسے فدائیوں کی کمی نہ تھی جو اس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کر کے قتل کرسکتے تھے۔ لیکن عہد رسالتؐ اور عہدِ صحابہ کی پوری تاریخ میں ہم کو کعب بن اشرف اور ابو رافع کے سوا کسی اور شخص کا نام نہیں ملتا جسے اس طرح خفیہ طریقہ سے قتل کیا گیا ہو، حالانکہ آپؐ کے دشمن صرف یہی دو شخص نہ تھے۔ پس یہ واقعہ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کو قتل کرنا اسلام کی کوئی مستقل جنگی پالیسی نہیں ہے، بلکہ ایسے مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے جب کہ دشمن خود سامنے نہ آتا ہو اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر خفیہ سازشیں کیا کرتا ہو۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۱۳ ۔۳۱۴) اس واقعہ کو مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں بھی بیان کیا ہے۔ یہود کی معاندانہ روش اور شرارتوں کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتحِ مبین حاصل ہوئی تو وہ تَلمَلا اٹھے اور اُن کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابو جہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔بنی نَضِیر کا سردار کَعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ’خدا کی قسم اگر محمدؐ نے اِن اشرافِ عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے‘۔ پھر وہ مکہ پہنچااور بدر میں جو سردارانِ قریش مارے گئے تھے، اُن کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینے واپس آکر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اظہارِ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول ۳ھ ؁ میں محمد بن مَسلَمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔‘‘ ( تفہیم القرآن۵/ ۳۷۷) یہاں بھی توہین رسالت کو اس کے اصل جرم کے طور پر بیان نہیں کیا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اس واقعہ کو بھی توہین رسالت کی سزا کے ماخذ کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ اس کی توجیہ بھی مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں تو ’ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی روا نہیں‘، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظامِ باطل کی جگہ نظامِ حق قائم ہو جائے تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا ، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے جنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنینِ صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں، مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو اُن کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایانِ شان نہ تھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عُقبہ بن ابی مُعَیط اور نضَر بن حارث کا قتل اور فتحِ مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ ؍آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔‘‘ ( تفہیم القرآن۱/ ۱۵۲) ان مجرموں کا اصل جرم بھی جس کی وجہ سے وہ قتل کی سزا کے مستحق قرار دیے گئے تھے،مولانا مودودیؒ کے نزدیک، نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردینا تھا، نہ کہ سادہ طور پر توہین رسالت کا ارتکاب کرنا۔ محترم اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ صاحب نے اپنی کتاب ’ ناموسِ رسول اور قانونِ توہین رسالت‘ میں مولانا مودودیؒ کا ایک مضمون نقل کیا ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودیؒ نے ۱۹۲۷ء ؁ میں تحریر کیا تھا اور ان کی اس زمانے کی تحریروں کے مجموعے’آفتابِ تازہ‘ میں شامل ہے۔ یہ مضمون مولانا مودودیؒ نے ’رنگیلا رسول‘ نامی کتاب کے عدالتی مقدمے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوا لکھا تھا۔ ہم اس مضمون کا متعلقہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس کے متعلق مسلمانوں کے جذبات کا صحیح اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے اسلام میں قتل کی سزا ہے اور آپ کو گالی دینے والے کا خون مباح قرار دیا گیا ہے۔ نسائی میں کئی طریقوں سے ابو برزہ الاسلمی کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک شخص پر ناراض ہو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا میں اس کی گردن ماروں؟ یہ سنتے ہی آپ کا غصہ دور ہوگیااور آپ نے جھڑک کر مجھے فرمایا: لیس ھذا لا حد بعد رسول اللہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کا درجہ نہیں ہے کہ اس کی گستاخی کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے)۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے میں ایک اندھے مسلمان کی لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور اس مسلمان نے تکلے سے اس کا پیٹ پھاڑ دیا، دوسرے دن جب اس کے مارے جانے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی ، تو آپ نے فرمایا کہ جس نے یہ کام کیا ہے، اس کو میں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سن کر وہ اندھا گرتا پڑتا آیا اور اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! یہ فعل میں نے کیا ہے۔ وہ میری لونڈی تھی۔ مجھ پر مہربان تھی، مگر آپ کی شان میں بہت بد گوئی کرتی تھی۔ میں اسے منع کرتا، تو نہیں مانتی تھی۔ میں ڈانٹتا تو اس پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ کل رات پھر اس نے آپ کو برا کہا۔ اس پر میں اٹھا اور تکلا چبھو کر اس کا پیٹ پھاڑ دیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا! الا اشھدوا ان دمھا ھدر، سب لوگ گواہ رہو کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔‘ اس طرح بخاری شریف میں کتاب المغازی میں کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ موجود ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کر کے اور قریش کو آپ کے خلاف بھڑکا کر آپ کو ایذا دیتا تھا، اس لیے آپ نے محمد ابن مسلمہ کے ہاتھوں اسے قتل کرادیا۔ ابی داؤد میں کعب بن اشرف کے قتل کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ’ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف جوش دلاتا تھا‘۔قسطلانی نے بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ: ’ وہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتا تھا، اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہجو کرتا اور قریش کو ان کے خلاف بھڑکاتا‘۔ ابن سعد نے بھی اس کے قتل کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ :’وہ ایک شاعر آدمی تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی ہجو کرتا اور ان کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتا تھا۔‘ کتب فقہیہ میں بھی اس کے متعلق صریح احکام موجود ہیں۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ: ’ابو بکر بن المنذر کا قول ہے کہ اس امر پر عامہ اہل علم کا اجماع ہے کہ جو کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے، وہ قتل کیا جائے گا۔ اس قول کے قائلین میں سے مالک بن انس، لیث اور احمد اور اسحاق ہیں اور یہی مذہب ہے شافعی کا اور یہی مقتضا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قول کا۔ ان بزرگوں کے نزدیک اس کی توبہ مقبول نہیں ہے۔ ایسا ہی قول ہے ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور ثوری اور اہل کوفہ اور اوزاعی کا بھی‘۔ شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول میں لکھتے ہیں کہ: ’اس طرح ہمارے اصحاب یعنی حنابلہ کی ایک دوسری جماعت نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی خواہ وہ کافر ہو یا مسلم‘۔ پس جزئیات میں فقہاء کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظمت میں حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی سب کا اتفاق ہے کہ آپ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے۔ اس سے صحیح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرمت و عزت کے متعلق کیا احکام ہیں اور اس بارے میں مسلمانوں کا مذہب ان کو کیا تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (آفتابِ تازہ، ص ۱۸۴۔ ۱۸۶) اس مضمون میں مولانا مودودیؒ نے جو رائے اختیار کی ہے، وہ قطعی طور پر اس موقف سے مختلف بلکہ متضاد ہے جو ہم اوپر بیان کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس تضاد کی یہی توجیہ ممکن ہے کہ یہ مانا جائے کہ اس مضمون میں مولانا مودودیؒ کی اختیار کردہ رائے ان کی ابتدائی رائے تھی جبکہ ان کا حتمی اور آخری موقف وہ ہے جو ان کی بعد کی تحریروں میں بیان ہوا ہے اور جسے ہم نے اپنی اس تحریر میں واضح کیا ہے۔اس مضمون کو ۲۴ سالہ نوجوان صحافی کی ایک جذبہ انگیز تحریر سمجھنا چاہیے۔ اصل اور حتمی موقف بہرحال وہی سمجھا جائے گا جو بعد کے دور میں اختیارکیا گیاہے۔ توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کو سمجھنے کے لیے ایک اور نکتہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن و حدیث میں بیان نہیں ہوئی ہے۔ بعد کے دور میں لوگوں نے اس جرم کی سزا کے ماخذ کے طور پر قرآن کی بعض آیات سے استدلال کیا ہے۔ ان میں نمایاں ترین اور غالباََ اولین نام امام ابن تیمیہؒ کا ہے۔ (ان آیات کی تفصیل کے لیے دیکھئے امام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘ اور جناب اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ کی کتاب ’ناموس رسول اور قانونِ توہین رسالت‘)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکۃ الآرا تفسیر تفہیم القرآن میں (ہمارے استقصاکی حد تک) ان محولہ آیات بلکہ کسی بھی آیت کے ذیل میں اشارۃََ بھی توہین رسالت کی سزا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک بھی ، فقہاء کے اجماع کی طرح، قرآن میں توہین رسالت کی کوئی سزا بیان نہیں کی گئی ہے۔ توہین رسالت کی سزا نافذ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ ۱۹۲۷ء میں ’رنگیلا رسول‘ اور راجپال کے قضیے کے ہنگام مولانا مودودیؒ نے ایک مضمون لکھا۔ یاد رہے کہ اس وقت ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم تھی۔ اس مضمون میں فرماتے ہیں: ’’کوئی شخص جو تھوڑی بہت بھی عقل رکھتا ہو، اس بنیادی حقیقت سے غافل نہیں رہ سکتا کہ اگر افراد قانون و آئین کی قوت سے بے نیاز ہو کر انصاف اور تعزیر کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ہر شخص اپنی جگہ خود جج اور کوتوال بن کر دوسرے لوگوں کو سزا دینے لگے تو ایک لمحہ کے لیے بھی جماعت کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ افراد میں ، خواہ کسی قسم کی عداوت ہو، ذاتی رنج و کاوش پر مبنی ہو، یا مذہبی و سیاسی شکایات پر، ہر حالت میں ان کا فرض ہے کہ ضبط نفس سے کام لیں، ملک میں جو حکومت قیام امن و عدل کی ذمہ دار ہو، اس کے ذریعے سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اگر وہ انصاف نہ کرے، تو اپنی طاقت کو غیر آئینی افعال میں صرف کرنے کے بجائے اس حکومت کو ادائے فرض پر مجبور کرنے میں استعمال کریں۔ جو لوگ اس صحیح طریقے کو جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور قانون کی طاقت کو خود اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے فعل کا اصلی محرک خواہ ایک شریف جذبہ ہو یا رذیل اور ان کی شکایت خواہ حق بجانب ہو یا غیر حق بجانب، دونوں صورتوں میں وہ کم از کم اس حقیقت سے سوسائٹی کی نظر میں یکساں مجرم ہیں کہ وہ جماعت کے آئین و نظام کا احترام نہیں کرتے اور ملک میں طوائف الملوکی و فوضویت کا فتنہ پھیلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جب عدالت عالیہ لاہور نے موجود الوقت قانون کی رو سے توہین رسول کو ناقابل سزا جرم قرار دے کر بد گوئی کے فتنے کا دروازہ کھول دیا تو علمائے اسلام نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ اسلام کے قانون میں توہین رسول کی سزا قتل ہے، لیکن اس کا مقصد گورنمنٹ پر اس جرم کی اہمیت اور حرمت رسول کے بارے میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی نزاکت ظاہر کرنا تھا تاکہ وہ قانون کی اس کمی کو جلد سے جلد پورا کرے اور اس فتنے کا دروازہ بند کردے۔ اس مسئلے کے اظہار سے یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ مسلمان موجودہ انگریزی حکومت میں اسلام کے قانون تعزیرات کو نافذ کریں۔ ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں اور اب دوبارہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں حدود و تعزیرات کے متعلق جتنے احکام ہیں ، ان سب کی تنفیذ امام کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب مسلمانوں کا کوئی با اختیار امیر یا امام موجود نہ ہو اور وہ کسی غیر اسلامی حکومت کے مطیع ہوں تو نہ اسلامی حدود قائم ہو سکتی ہیں اور نہ تعزیری احکام نافذ ہو سکتے ہیں ۔ پھر خود اسلامی حکومت میں بھی ہر فرد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ خود کسی شخص کو کسی جرم کی سزا دے دے ۔ جرم کی تحقیق کر کے سزا کا حکم دینا قاضی شرع کا کام ہے اور اسے نافذ کرنا اسلامی سلطنت کے با اختیار حاکم سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان خود قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی مجرم کو سزا دے گا تو فوری اشتعال ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس کو خلاف ورزی آئین کی یقیناًسزا دی جائے گی‘‘۔ (آفتاب تازہ، ص ۳۴۴۔۳۴۷) یہ تحریر اپنے مفہوم و مدعا میں بالکل واضح ہے کہ ،مولانا مودودیؒ کے نزدیک، کسی منظم ریاست و حکومت میں، خواہ وہ غیر مسلموں کی ہو یا مسلمانوں کی، کسی فرد کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کرتوہین رسالت سمیت کسی بھی جرم کی سزا خود نافذ کردے۔۔ یہ مضمون اگرچہ مولانا مودودی ؒ کے ابتدائی زمانے کا ہے، لیکن چونکہ اس رائے میں تبدیلی کے کوئی شواہد ہمیں بعد کی تحریروں میں نہیں ملے، اس لیے اس معاملے میں اسی کو مولانا مودودی ؒ کی آخری اور حتمی رائے سمجھنا چاہیے۔ اوپر بیان کی گئی تصریحات اور اشارات کی روشنی میں ہم توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے موقف کا خلاصہ اس طرح کرسکتے ہیں: توہین رسالت کی کوئی سزا قرآن میں بیان نہیں کی گئی ہے ۔ کعب بن اشرف، ابو رافع، بدر کے قیدیوں اور فتح مکہ کے موقع پر جن کفار کو قتل کیا گیا، وہ توہین رسالت کی سزا کے طور پر نہیں بلکہ معاہدہ شکنی، دشمنوں سے ساز باز، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ انگیزی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش جیسے جرائم کی سزا تھی۔ اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہو تو چونکہ وہ مرتد ہو جائے گا، اس لیے اسے ارتداد کے جرم میں قتل کی سزا دی جائے گی، لیکن اس سے پہلے اسے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ شاتمِ رسول ذمی (یعنی غیر مسلم) کا ذمہ برقرار رہے گا اور عمومی حالات میں اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ تمام جرائم کی طرح توہین رسالت کی سزادینے کا اختیار بھی صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے۔ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہم نے مولانا مودودیؒ کا موقف غیر جانبداری سے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی تائید یا تردیدیہاں ہمارا مقصود نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ کسی عام انسان کی طرف بھی کوئی غلط بات منسوب کریں، کجا کہ ایک جلیل القدر عالم و مفکر کے ساتھ ایسا کیا جائے۔ ہم نے جو کوشش بھی کی ہے وہ اپنے محدود علم اور ناقص فہم کے ساتھ کی ہے۔اس بات کا پورا امکان ہے کہ ہم مولانا مودودیؒ کے موقف کو درست طریقے پرنہ سمجھ سکے ہوں۔اگر کوئی صاحبِ علم مولانا مودودیؒ کی ان تحریروں کا جو ہم نے نقل کی ہیں، کچھ مختلف مفہوم واضح کر دیں گے یا اس موضوع سے متعلق مولانا مودودیؒ کی کچھ اور تحریروں سے، جن تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے، ان کا کوئی مختلف موقف بیان کردیں گے تو ہم ان کے شکر گزار ہوں گے۔ ہم اپنی اس تحریر کو مولانا مودودیؒ ہی کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں۔ اس میں بھی غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے۔ ’’جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہواور دین حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بے ہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سنتے رہیں، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں ، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں‘‘۔ (تفہیم القرآن ۴/۱۰۴) اللہ تعالیٰ ہمیں بات کو صحیح طریقے سے سمجھنے، اسی طرح قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین آراء و افکار (جولائی ۲۰۱۶ء) جولائی ۲۰۱۶ء جلد ۲۷ ۔ شمارہ ۷ مسلم حکمرانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ دوستیاں / اختلاف اور منافرت / جدید مغربی فکر اور تہذیبی رواداری محمد عمار خان ناصر اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲۰) ڈاکٹر محی الدین غازی اسلام اور جدیدیت کی کشمکش مولانا ابوعمار زاہد الراشدی مذہب حنفی کے حوالے سے دو سنجیدہ سوالات مولانا سمیع اللہ سعدی ریٹائرڈ اساتذہ کی دوبارہ تعیناتیاں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری ڈاکٹر عرفان شہزاد ارباب اقتدار اور قومی زبوں حالی چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ توہین رسالت کی سزا اور مولانا مودودیؒ کا موقف ڈاکٹر عبد الباری عتیقی سود، کرایہ و افراطِ زر : اصل سوال اور جواب کی تلاش محمد انور عباسی تلاش کریں الشریعہ اکادمی الشریعہ اکادمی ماہنامہ الشریعہ گزشتہ شمارے مقالات و مضامین رابطہ گزشتہ شمارے 1989 1990 1994 1995 1996 1997 1998 1999 2000 2001 2002 2003 2004 2005 2006 2007 2008 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 2019 2020 2021 2022
قیامِ پا کستان کے بعد پاکستان کی یکجہتی اور بقا کے خیال کے پیشِ نظر اہلِ ا قتدار نے پاکستانی سماج کو وطنیت کی بنیادوں پر ایک یکساں قومی شناخت کے تصور سے ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کو مستحکم رکھنا ممکن ہو سکے گا ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دولخت ہونے میں جس مسئلے نے اہم کردار دا کیا ، وہ بنگالی شناخت سے جڑا ہے۔ آج بھی موجودہ پاکستان میں حقوق کی متعدد آوازیں اپنی علاقائی و لسانی شناختوں کے ساتھ سراپا صدا ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ریاست دراصل ہماری شناخت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اسی کی بدولت ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستانی معاشرے میں شناخت کا مسئلہ انتہائی اہم ہو جاتا ہے اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے ملک بھر میں شناختی تنوع اور بقاے باہمی کے عنوان سے مکالماتی نشستوں کا آغاز کیا جن میں بالخصوص مختلف طبقہ ہاے فکر کی نمائندہ نوجوان شخصیات کے مابین شناخت کے موضوع پر باہمی مکالمے کا اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں مختلف اہلِ علم نے بھی اظہارِ خیال کیا اور یکساں شناخت کی صورت گری کی کوششوں کے مضمرات و نتائج پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان نشستوں کا احوال ’تجزیات‘ کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد کی جانب سے شناختی تنوع اور بقاے باہمی کے عنوان سے مارچ 3سے مارچ 13تک مختلف اوقات میں پشاور ،لاہور اور کراچی میں چار مکالماتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا جس میں متنوع شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو مدعو کیا گیا ۔ چونکہ پاکستان میں کئی بڑے اور اہم مسائل شناخت کے قضیے کے ساتھ جڑے ہیں اور اس پر آزادی کے ساتھ سنجیدہ وعلمی گفتگو بھی بہت کم ممکن ہوتی ہے ،خصوصا نوجوانوں کو اپنی رائے دینے سے محروم رکھا جاتا ہے اس لیے ان نشستوں میں بالخصوص نوجوانوں کو مدعو کیا گیا تھا یہ جاننے کے لیے کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔یہ ایک صحت مند مکالمہ تھا جس میں کئی مختلف خیالات پر ایک ہی مجلس میں بات چیت کی گئی۔نوجوانوں نے احترام اوردلیل کے ساتھ اختلاف کیا اور اپنی آرا پیش کیں۔ان نشستوں میں بطور مہمان ڈاکٹر قبلہ ایاز،قاضی جاوید،وسعت اللہ خان اور ڈاکٹر سید جعفر احمد کو کومدعو کیا گیا تھا۔ پشاور میں ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام متنوع شناختوں کو احترام دیتا ہے اور ہر شہری کو یہ آزادی بھی فراہم کرتا ہے کہ پرامن طور پروہ اپنی پہچان کا قولی و عملی اظہار کرسکے۔اگر مذہب کی حقیقی تعلیمات کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شناخت کے مسائل کو حل کرتا ہے،الجھاتا نہیں ہے۔ معروف دانشور اور مصنف قاضی جاوید نے لاہور کی نشست میں شرکت کی ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم مقامی تاریخی تشخص کو زندہ کریں اور اپنی تاریخی تہذیب کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کریں۔انہوں نے شناخت کے بحران کا ذمہ دار ریاست اور متشدد بیانیوں کے حامل طبقات کو ٹھہرایا ۔ان کا کہناتھا کہ اس بحران سے باہر نکلنے کاراستہ یہ ہے کہ نوجوان تعینِ شناخت میں اپنا حصہ ڈالیں اور اس حق سے دستبردار نہ ہوں۔جب تک وہ اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس وقت تک مسائل باقی رہیں گے۔ کراچی کی پہلی نشست سے صحافی وکالم نویس وسعت اللہ خان نے شناخت کے مسئلے کو ریاست سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ شناخت کا بحران محض ریاست کے کردار کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا،ریاست تو اِس کھیل میں بہت دیر سے شریک ہوئی ،جبکہ ہم تو کئی سو سال پہلے سے ایک دوسرے کے ساتھ تصادمی کیفیت میں ہیں۔ایک دوسرے کو کافر کہہ رہے ہیں۔ شناخت کا بحران نیا نہیں ہے بلکہ ہماری ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس کے حل کے لیے ریاست کو بھی بلاشبہ ذمہ داری ادا کرنی ہے لیکن اس سے زیادہ خود سماج کوکردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے دوقومی نظریے کو پہلے کی دوئیت زدہ نفسیات کا تسلسل قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ دو قومی نظریے کو قبول کرنے میں اس لیے مشکل پیش نہیں آئی کہ تقسیم کی نفسیات پہلے سے ہی موجود تھیں اور جب اٹھارہ سو ستاون کے بعد برصغیر کی قوم کو ہندو مسلم قرار دے کر لکیر کھینچی گئی تو اس پر حیرانی کا اظہار نہیں کیا گیابلکہ اسے خوش آئند سمجھاگیا۔ کراچی کی دوسری نشست میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے آئیڈیالوجی کو سنگین مسئلہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ریاست سماج کے قومی،لسانی وثقافتی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوئی تو اس نے آئیڈیالوجی کا سہارا لیا ۔ایسا ہر وہ ریاست کرتی ہے جوسماج کو اس کے حقوق دینے اور زمینی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ مکالمہ میں شریک نوجوانوں نے شناخت کے جوہرپر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ شناخت جہاں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے وہاں سادہ بھی۔یہ کب پیچیدہ ہوتا ہے اور کس وقت سادہ وآسان ،اس کا تعلق تعامل سے ہے۔ اگر اسے ایک سماجی نوعیت کا مسئلہ سمجھا جائے اور اس کے انتخاب کی انفرادی واجتماعی سطح پر آزادی دی جائے تو پھر اس حوالے سے کوئی مسائل جنم نہیں لیتے۔ لیکن اگر شناخت کو کسی بیانیے کے ساتھ جوڑ کر اسے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر یہ معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ظہور کرتی ہے کیونکہ تشخص انسان کے ہر قول وعمل کے ساتھ ساتھ چلتاہے اور اپنے اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔ جامد اور ناقابل تغیر شناختیں بقاے باہمی پر یقین رکھتی ہیں نہ ان کے اندر برداشت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ نوجوان شرکا کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ پاکستان کے نوجوان کس شناخت کواولیت دیتے ہیں ؟ اس پر زیادہ ترنے جواب دیاکہ مذہبی تشخص کو ملک میں اولیت حاصل ہے، نوجوان اپنا پہلا تعارف اسی سے کراتے ہیں ۔ دوسرے درجے پر یہ رائے سامنے آئی کہ وہ قومی ، لسانی وعلاقائی شناختوں کو ترجیح دیتے ہیں، انہی سے اپنا تعارف کرانا پسند کرتے ہیں۔ جبکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے کہا کہ اُن کی پہچان صرف پاکستان ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شناخت تمام شہریوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہے۔مختلف پہچانوں میں ترجیح کے قضیے پر ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ عالمگیریت کے دور میں جہاں مارکیٹ اور معیشت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں وہاں انسان کا پروفیشن اور ذریعہ معاش اولین شناخت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔پاکستان سے باہر تو یہی ہوتا ہے لیکن اب پاکستان کا نوجوان بھی باقی ہر شے کو ثانوی درجہ دیتے ہوئے پروفیشن اور ذریعہ معاش کو اہمیت دینے لگا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان سے باہر کی طرف ہجرت کرنے والا نوجوانوں کا ایک بڑاطبقہ شناخت کے بحران کو نہیں بلکہ معاشی مسائل کو سبب بتاتا ہے۔ جب ان سے شناخت کے بحران میں ریاست کے کردارکی نوعیت سے متعلق سوال کیا گیا تو اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ریاست شناخت کے بحران کو پیدا کرنے کی ذمہ دارہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ ریاست نے مذہبی سیاسی بیانیے کو اولیت دی جس کی وجہ سے پاکستان کے اس طبقے کو، جو ملک کو ایک قومی فلاحی ریاست بنانے کا خواہاں تھا، نظرانداز کیا گیا۔ نتیجے میں اس کے اندر جہاں مایوسی نے جنم لیا وہاں وہ ملک کے ان شہریوں سے بھی بدظن ہوا جو مذہبی بیانیے کے مبلغ تھے۔یہ صرف دو بیانیوں کا اختلاف نہیں تھا بلکہ ایک سماج کی تقسیم تھی جس میں ریاست کے کردار کی وجہ سے اس پر بے اعتمادی بھی شامل رہی۔انہوں نے تعینِ شناخت میں ریاستی عملداری کے تسلسل پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ چونکہ ریاست سماج کے تشخص کی تشکیل کرتی رہی ،اس لیے اب معاشرے کی یہ ذہنیت بن گئی ہے کہ شناخت کو ریاست سے الگ کرکے دیکھاجا تاہے نہ ہی ریاست خود کو اس سے جدا کرنے کے لیے تیار ہے۔ نوجوان شناخت کے انتخاب کی آزادی کو اپنا انفرادی حق نہیں سمجھتے بلکہ وہ اپنی ذات کو ریاست کے پر تو میں دیکھتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ہماری شناخت وہی ہوگی جو ریاست طے کرے گی ۔ اپنے اِس حق سے دستبرداری تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ یہی وہ حد ہے جہاں سے ہم غلطی کی ابتدا کرتے ہیں، اس کے بعد کئی بحران پے در پے سرکتے چلے آتے ہیں اور فلاح وتعمیر کے دروازے پر پتھر بن کر ٹھہر جاتے ہیں۔البتہ ریاست اور شناخت کے قضیے پر پارلیمان میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کو اچھا اقدام خیال کیا گیاکہ اس سے صوبائی شناختوں کے تنوع کو تحفظ اورآزادی کا احساس ملے گا۔ نوجوانوں سے سوال کیا گیاکہ کیا پاکستان کا آئین وعمرانی معاہدہ ان کی شناخت کو تحفظ دیتا ہے، تو اس پر رائے منقسم نظر آئی ۔بعض کا خیال تھا کہ آئین وعمرانی معاہدہ تو حفاظت کرتے ہیں لیکن اصل مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے ۔تاہم کچھ کی رائے یہ تھی کہ پاکستان کے آئین کا مجموعی مزاج یہ ہے کہ وہ تنوع کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ تنوع کو احترام دیے بغیر شناخت کے بحران کا حل ممکن نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مہذب معاشروں میں تنوع کے احترام کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ سماج میں موجود ہر قسم کی شناختوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے ۔ ہم بنیادی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اتحاد صرف اسی وقت قائم کیا جاسکتا ہے جب یکسانیت ہو، حالانکہ اگر تنوع کے ساتھ احترام ہمقدم ہو تو یہ ہم آہنگی اتحاد کی مضبوط ترین شکل ہوتی ہے۔ مذہبی طبقے اور شناخت کے مسئلے پر جوآرا سامنے آئیں ان کے مطابق مدارس میں شناخت کو سماجی قضیہ نہیں خیال کیا جاتا بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے طلبہ ومعلمین عام لوگوں کی نسبت اس حوالے سے زیادہ الجھن کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے ایک طرف حب الوطنی ہوتی ہے اور دوسری جانب اعتقادی ذہنیت۔ اس طرح وہ شناخت کے انتخاب اور اظہاریے میں مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا ہر شہری محب وطن ہے اور برابر حقوق رکھتا ہے لیکن اس کے بعد اعتقادی ذہنیت انہیں اس پر بھی ابھارتی ہے کہ وہ اپنی خاص پہچان پر اصرار کریں اور اسے ایک سماجی مسئلہ سمجھنے کی بجائے عقیدہ خیال کریں،اس کے بعد عملی طور پر تفریق شروع ہوجاتی ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ریاست سمیت ملک کا ہر شہری اس پر ایمان لائے۔ صوبائی سطح پر شناخت کے بحران کی بابت نوجوانوں کی اکثریت کاخیال تھا کہ مختلف ثقافتوں وزبانوں کے حامل صوبے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے سے دُور ہو رہے ہیں،ان کے نزدیک اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو معاشی عدمِ مساوات ، جس کی بناپر کہیں احساسِ محرومی تو کہیں احساسِ تقویت کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ دوسرا سبب نصاب میں صوبائی ثقافتوں کا متوازن وجاذب تعارف نہ ہونا ہے۔اِس بُعد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ نشست میں کراچی کے بعض نوجوانوں نے اِس شہر کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نقل مکانی پر خدشات کا اظہارکیا اور کہا کہ اس سے کراچی کی مقامی ثقافت اور پہچان متأثر ہو رہی ہے ۔ پنجاب میں سماجی تحریکوں کوبطورِخاص زیرِ بحث لایا گیا۔ ان تحریکوں کے بارے میں مثبت آرا سامنے آئیں۔شرکا کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کا اپنی زمین کے ساتھ تعلق مضبوط ہوا۔البتہ مقامی استبدادی کلچر جسے جاگیرداری بدمعاشی کے نام سے تعبیر کیا گیا،کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا،جس کی وجہ سے کمزور کی شناخت کو زک پہنچتی ہے اور اسی کے سبب بہت سارے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں ۔ سندھ اور بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے نوجوانوں نے بھی اپنے صوبوں میں اس کلچر کے وجود کا اعتراف کیا اور اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ بلوچستان سے آئے ہوئے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ شناخت کے حوالے سے پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت ان کے صوبے میں زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے۔ جب اُن سے اسباب کی بابت پوچھاگیاتو انہوں نے کہاکہ دراصل شناخت کا مسئلہ اس وقت زیادہ اُبھر کر سامنے آتا ہے جب استحصال ہوتا ہے،جب معاشی اور ثقافتی سطح پر خطرات لاحق ہوتے ہیں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کی ذات کہاں ہے اور اس کے تشخص کی حیثیت کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے نوجوان شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ۔انہیں یہ لگتا ہے کہ ریاست اور سماج نے انہیں مسترد کردیا ہے ۔اُن کے تشخص پر سب سے بڑا سوالیہ نشان اُس وقت لگتا ہے جب انہیں سفر کے دوران چیک پوسٹ پر روک کر الگ کر دیا جاتاہے اور ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں نوجوانوں نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ شناخت کے مسائل اگرچہ سماج میں بے چینی پیدا کرتے ہیں ،جیساکہ پورے پاکستان میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ہمارا صوبہ جہاں بری طرح متأثر ہوا ہے وہاں اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ہم روایتی ذہنیت سے باہر نکلے ہیں اورمسلط کی ہوئی شناختوں سے آزاد ہونے کی سعی کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے حالیہ سماجی تحریک پشتون تحفظ تحریک پر بعض وجوہ کی بِنا پر خدشات کا اظہار کیا لیکن اسے ان عوامل میں سے ایک عامل بھی بتایا جن کی وجہ سے صوبے کے نوجوانوں نے شناخت کے قضیے پر نظرثانی کی ۔ پشاور کی نشست میں فاٹا سے بھی نوجوانوں کی نمائندگی شامل تھی ۔انہوں نے بدامنی اور پشتون ثقافت کے ساتھ ربط پیدا کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا کہ مسلسل ابترحالات اور جغرافیائی اتفاق کی وجہ سے پشتون کلچر کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جو حقیقت نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے خیبر پختونخواہ کے ساتھ الحاق کو خوش آئند قرار دیا کہ اس سے وہ ایک مضبوط اور بڑی شناخت کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں۔ شرکا نے ان مکالماتی نشستوں کے انعقاد پر ڈائریکٹر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز محمد عامر رانا کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسے حساس اور اہم سماجی موضوعات پر مکالموں کامسلسل اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ شناخت کے حوالے سے نوجوانوں میں موجود ابہام اور کنفیوژن دور ہو سکے اور وہ اس حوالے سے اپنی سمت متعین کرنے کے قابل ہو سکیں۔ Share this: Tweet 763 Share Prev Post قومیت ایک مذہب Next Post مسلم سماج اور شناخت کی تلاش یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین پروفائل فضیلہ عالیانی، سیاست میں بلوچوں کے حقوق کی علمبردار مضامین پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں: ایک تاریخ، ایک ثقافت معدومیت کی راہ پر پرنٹ ایڈیشن برطانیہ کی تعلیمی ثقافت: استفادے کی جہات Prev Next فیس بک پر تبصرے Loading... فیس بک پر لائک کریں ‎Tajziat Online تجز یات آن لائن‎ رواں تبصرے فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ : پنجابی ثقافت کے تناظر میں داعش کی مضبوطی کے امکانات بڑھ رہے ہیں جب بات احمدی برادری کی ہو تو خاموشی کیوں طاری ہوجاتی… ٹی ٹی پی کے حوالے سے ابہام کب تک؟ پولیس حراست کے دوران تذلیل و تشدد کے معاملے پر ریاست… سہ ماہی تجزیات کے نئے شمارے میں کیا کچھ شامل ہے؟ نیوز لیٹر سائن اپ تازہ ترین آرٹیکلز اپنی ای میل میں حاصل کریں Subscribe مقبول ترین آرٹیکلز پاکستان کا علمی وفکری منظر نامہ اور نظامِ تعلیم فرقہ واریت کی تشکیلِ جدید مقدس شخصیات کی توہین اور جدید قانونی تصورات حج کے سفر نامے اور اسلامی عالمگیریت کے مذہبی تخیلات شہروں میں آبادی کا ارتکاز منٹو کی کہانیاں سنیئے منٹو کی کہانیاں(جگت) سنیئے منٹو کی کہانیاں(جیبِ کفن) سنیئے منٹو کی کہانیاں(حیا ت نامہ) سنیئے منٹو کی کہانیاں(ہتک) سنیئے منٹو کی کہانیاں(عصمت فروشی) سنیئے منٹو کی کہانیاں(1919ء کی بات) فیس بکہمارا پیچ جوائن کریں ٹویٹرٹویٹر پر جوائن کریں گوگل+گوگل پر جوائن کریں یوٹیوبیوٹیوب پر فالو کریں RSSسبسکرائب RSS ہمارے بارے میں اگر آپ تجزیات آن لائن کے لیے لکھنا چاہتے ہیں یا دیگر ادارتی امور سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ای میل کیجیئے tajziat@tajziat.com یا اس نمبر پر کال کریں 051-8359475-6 تجزیات آن لائن میں شائع ہونے والے تجزیے ،کالم اور رپورٹس اداراتی احتیاط سے شائع کی جاتی ہیں ،لیکن ادارے کا مصنفین اور کالم نگاروں کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے لگا عمران خان صورتحال تو کیا اپنے سیاستدان مشکل سے سنبھالے ہوئے ہیں، آصف زرداری اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا وزیراعظم عمران خان نے رمیز راجہ کو چیئرمین پی سی بی بنانے کا عندیہ دیدیا طالبان نے یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی عائشہ اکرم کو جان کا خطرہ، پولیس نے بڑا قدم اٹھالیا کیا 14 اگست کی یہ ویڈیو پلانٹڈ ہے؟ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی مینار پاکستان واقعہ،عدالت نے ملزم شہروز سعید کو 3ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا بڑی خبر آگئی ،طالبان سربراہ نے کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کے تحفظات پر کمیشن قائم کردیا طالبان کی پنجشیر کی طرف پیش قدمی شروع مقبول خبریں فاسٹ باؤلر حسن علی نے اولمپکس کھلاڑی ارشد ندیم کیلئے بڑا اعلان کردیا پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر اشفاق احمدکا خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی جنسی ہراسگی میں ملوث ہونےکا انکشاف ناخن آپکی صحت کا راز بیان کرتے ہیں – جانیے اس ویڈیو میں اپنے دل کی آواز سنو! ریلوے ملازمین 31اگست تک ویکسی نیشن کرالیں ورنہ ۔۔۔ ، ریلوے نے اہم اعلان کردیا غیرملکیوں کے لئے کینیڈامیں ملازمت کے ساتھ ساتھ مفت زمین کی آفرسامنے آگئی شکریہ پاکستان – راحت فتح علی خان ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے لگا کراچی بدل گیا ہے اب بڑے جرائم نہیں ہوتے، گورنر سندھ ڈانلڈ ٹرمپ اور ہلاری کلنٹن کے مابین تقریری مقابلہ 197 شیئر کریں اپنے دل کی آواز سنو! Web Desk اگست 7, 2021 August 7, 2021 0 تبصرے دنیا کے عظیم باکسر محمد علی کا قول ہے ” مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے۔ میں آج تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا”۔ یہ قول پڑھنے میں بہت سادہ اور آسان ہے لیکن اس فقرے میں چھپی اہمیت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ اپنےخاندان ، معاشرے اور ملک وقوم کی بہتری اور ترقی کےلیے دکھ اور تکالیف سہتے ہیں اور آگے بڑھ کر منزل پانے کی جدوجہد میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں کیونکہ انہیں بہتر سے بہترین کر گزرنے کا جنون سوار ہوتا ہے۔چاہے وہ بکھر جائیں، تنہا ہو جائیں، ٹوٹ جائیں یا پھر مشکلات کے گھن چکروں میں پھنس جائیں، مگر کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور نہ ہی کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے تقدیر کے بدلنے اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے نو برس پہلے زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا۔ یہ 2012 کی بات ہے جب میں نے ACCA(UK) کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دیا۔ یہ فیصلہ اس لیے بہت مشکل تھا کیونکہ تین سال سے اسلام آباد اور لاہور کے بہترین اداروں میں اسٹڈی کرتا رہا، اور اس ڈگری میں داخلہ لینے کا فیصلہ اپنے سکول کے بہترین دوست قاضی امجد کے کہنے پر کیا تھا۔اس نے تو دو تین دن میں اچھا فیصلہ کیا اور داخلہ لینے کے بعد ہی ACCA چھوڑدیا اور گریجویشن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن مجھے برطانوی ڈگری کی دُھن سوار تھی اور میں اسی چکر میں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا۔ یہ بات سچ ہے کہ میری طبیعت اور مزاج میں مادہ پرستی کا کیڑا نہیں ہے اور نہ ہی اکیس،بائیس سال کی عمر میں کوئی کمپنی بنانے یا بزنس کرنے کا ارادہ تھا۔ اس لیے مجھے اکاؤنٹس، حساب کتاب اور کمپنیز کا کوئی شوق تھا اور نہ ہی ان چیزوں میں کبھی دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی خود کو بہلا پھسلا کر گھسیٹتا رہا اور تین سالوں میں فیسوں اور اخراجات کی مد میں بیس سے پچیس لاکھ خرچ بھی کئے ۔ایک سچی بات جو قارئین کو بتانا لازمی ہے کہ دوران اسٹڈی میرا دل کبھی بھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔شاید میرے جیسا انسان وہ کام اچھی طرح سرانجام دے سکتا ہے جس میں گہری دلچسپی ہو اور روح کو بھی سکون نصیب ہو۔ خیر 2012 میں کافی سوچ بچار کے بعد برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا تو شومئی قسمت کہ 2010/2011 میں پاکستان میں لگاتار سیلاب آنے سے ہمارا کافی مالی نقصان ہوچکا تھا، ساری فصلیں تباہ ہوچکی تھیں۔پہلے ہی والدین مجھ پر اتنا پیسہ لگا چکے تھے تو حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے دکھی دل سے برطانیہ تعلیم حاصل کرنے کا خیال ذہن سے نکال دیا اور پاکستان میں ہی ایم اے انگلش کرنے کی ٹھان لی۔یقین مانیں یہ زندگی کا مشکل ترین لیکن بہترین فیصلہ تھا۔جس کی بدولت مجھے تین سے چار سال دبئی میں انٹرنیشنل سطح پر سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن یہ بہت کٹھن اور تلخ تجربات سے بھری ایک طویل داستان ہے جس کا ذکر پھر کبھی کرونگا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ جب انسان ایک فیلڈ سے نکل کر دوسری فیلڈ میں زیرو سے شروعات کرتا ہے تو کتنی کڑوی کسیلی باتیں اور طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔سچ پوچھیں تو یہ زندگی کے مشکل ترین لمحات ہوتے ہیں جب انسان کو ہر جگہ سے دھتکارا جاتا ہے۔ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوتے ہیں، اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ تب انسان اکیلا ہوتا ہے اور کوئی سمجھنے والا بھی نہیں ہوتا۔کیونکہ ہم معاشرتی و ظاہری طور پر مالی نقصان دیکھتے ہیں لیکن کسی طالبعلم یا زندہ انسان کی اپنی مرضی اور منشا کیا ہے ؟ اس پر کوئی غور نہیں کرتا۔ میرے ساتھ بھی ایسے ہی کچھ ہورہا تھا جو ہمارے معاشرے کے ہر تیسرے بچے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن میں ظاہری نقصان سے زیادہ اپنے مقاصد پر غوروفکر کرتا تھا۔کیونکہ بچپن سے مجھے اچھی کتابیں اور عظیم لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا جنون تھا شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے میرے اندر ایک اعلیٰ سوچ اور بڑا بننے کا خواب تھا۔ کبھی حالات کی ستم ظریفی دیکھ کر زندگی کے فیصلے نہیں کیے بلکہ ہمیشہ دل کی آواز سنی۔ اس لیے فیملی اور دوست احباب کی مخالفت کے باوجود اپنے فیصلوں پر ڈٹا رہا۔ گو کہ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں لیکن مجھے معلوم تھا کہ آج اگر دل کی آواز نہ سنی، ہمت ہار دی اور حوصلہ چھوڑدیا تو پھر زندگی شاید دوبارہ کبھی دل کی آواز سننے کا موقع نہ دے۔انسانی فطرت ہے اور تحقیق سے بھی ثابت ہے کہ جب انسان بنا کسی بڑے مقصد کے زبردستی کوئی بھی کام کرتا رہے ،چاہے وہ تعلیم ہو،دوستی اور تعلق ہو، شادی ہو،کیرئیر ہو، کوئی مشغلہ ہو، مذہبی عقائد ہوں یا پھر کوئی جاب اور بزنس ہو، ہم جب تک کوئی کام فیملی اور معاشرتی پریشر کی وجہ سے زبردستی خود پر تھوپتے رہیں گے تب تک ہم ڈپریشن، نفسیاتی امراض اور بے سکونی کا شکار رہیں گے۔اس لیے میں اپنی فیملی اور دوستوں میں دل کی آواز سننے والے اُن چند خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے ہزارہا مخالفت کے باوجود دل کی آواز سنی اور اطمینان قلب پایا۔ کیونکہ اللہ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے۔ دوستو! میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جب کبھی اپنی زندگی میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے لگیں تو اس کے فوائد اور نقصانات لازمی لکھ لیا کریں۔اگر لکھ نہیں سکتے تو تصور کیا کریں، غوروفکر کیا کریں کہ میرے اس فیصلہ سے مجھے کیا نقصان متوقع ہے اور کیا فائدہ مل سکتا ہے۔اگر نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو۔ تو آپ فیصلہ کرنے میں دیر مت کریں کیونکہ میں اگر ایک ماہ میں ہی فیصلہ کر لیتا تو خطیر رقم اور وقت کے ضیاع سے بچ جاتا۔ جب دل کی آواز سن لیں اور فیصلہ کر لیں تو ڈٹ جائیں، چاہے اس کے لیے آپ کو دن رات مشقت کرنی پڑے، فیملی کو ہاتھ جوڑ کر منانا پڑے یا پھر بھوکا بھی رہنا پڑے تو پھر بھی آگے بڑھتے رہنا اور ہار مت ماننا۔ اگر میں بھی سوچتا کہ برطانوی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری چھوڑنے سے میرا پیسہ،وقت سب ضائع جائےگا اور اسی ڈر میں رہتا کہ فیملی غصہ کرے گی اور بہت مسائل جنم لیں گے تو مجھ میں کبھی بہت بڑا فیصلہ کرنے کی ہمت، خود پر سو فیصد یقین اور زندگی زیرو سے شروع کرنے کا جذبہ پیدا نہ ہوتا۔اور آج میں مطمئن نہ ہوتا بلکہ دنیا کی نظر میں کامیابی حاصل کرکے بھی کڑھتا رہتا اور شاید کتاب لکھنے کا خیال تک نہ آتا۔ میرے پیارو! جب آپ کو زندگی موقع دے تو اپنے دل کی آواز سننا اور خود پر یقین رکھنا کیونکہ خالق کائنات نے دنیا میں کسی بھی انسان کو بے وجہ پیدا نہیں کیا۔ہر انسان گوہر نایاب ہے بشرطیکہ وہ خود کو پہچان لے اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں دن رات جُت جائے اور تب تک ہمت اور محنت کرتا رہے جب تک اس کے وجود سے فیملی یا معاشرے میں پھیلے اندھیروں میں امید کی کرنیں پیدا ہونا نہ شروع ہو جائیں۔ نئی آنے والی کتاب “یقین کی طاقت ” سے اقتباس از ساجد بھٹو کیٹاگری میں : آج کے کالمز اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں سخت نا پسند 0 Votes بہتر ہو سکتی تھی 1 Votes ٹھیک ہے 1 Votes اچھی ہے 0 Votes بہت اچھی ہے 4 Votes مزید پڑھیں عمران خان صورتحال تو کیا اپنے سیاستدان مشکل سے سنبھالے ہوئے ہیں، آصف زرداری ” جن تصویروں اور ویڈیوز کا انتظار ہے وہ نہیں آئیں گی” قاسم علی… اپنے دل کی آواز سنو! خواتین یونیورسٹی کا قیام ناگزیر ہے؟ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں لاپتہ افراد کا کمیشن مقبول خبریں فاسٹ باؤلر حسن علی نے اولمپکس کھلاڑی ارشد ندیم کیلئے بڑا اعلان کردیا پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر اشفاق احمدکا خواتین ڈاکٹروں و نرسوں کی جنسی ہراسگی میں ملوث ہونےکا انکشاف
' ; } //document.getElementById(idanswernazarold).innerHTML += tmp; } xmlhttp.send(null) } function closeForm(idnazar) { var idButton = document.getElementById('idButton').value; if (idButton>0) { var idanswernazarold = 'answer_container_'+ idButton; document.getElementById(idanswernazarold).innerHTML = ''; document.getElementById(idanswernazarold).style.display='none'; } } function renderForm(codenews,idnazar) { var idanswernazar = 'answer_container_'+ idnazar; var answernazarcontent = document.getElementById('answer_container_example').innerHTML; var idButton = document.getElementById('idButton').value; if (idButton>0) { var idanswernazarold = 'answer_container_'+ idButton; document.getElementById(idanswernazarold).innerHTML = ''; document.getElementById(idanswernazarold).style.display='none'; } document.getElementById(idanswernazar).innerHTML = answernazarcontent; document.getElementById(idanswernazar).style.display='block'; document.getElementById(idanswernazar).innerHTML = answernazarcontent; document.getElementById("sendButton").outerHTML = ' '; document.getElementById("cancelButton").outerHTML = ' '; document.getElementById('idButton').value = idnazar; } function savetxt_news(savetxtfile) { //var savetxtfile = 0; headerhtml = document.getElementById('headerlogo').innerHTML; if (savetxtfile == 2) { headerhtml = headerhtml.replace(new RegExp('width="100%"', 'g')," "); } var form = document.createElement("form"); form.setAttribute("method", "POST"); form.setAttribute("action", "save_txt.php"); var hiddenField = document.createElement("input"); hiddenField.setAttribute("type", "hidden"); hiddenField.setAttribute("name", "headerhtml"); hiddenField.setAttribute("value",headerhtml); form.appendChild(hiddenField); var hiddenField = document.createElement("input"); hiddenField.setAttribute("type", "hidden"); hiddenField.setAttribute("name", "idnews"); hiddenField.setAttribute("value","1994"); form.appendChild(hiddenField); var hiddenField = document.createElement("input"); hiddenField.setAttribute("type", "hidden"); hiddenField.setAttribute("name", "savetxtfile"); hiddenField.setAttribute("value",savetxtfile); form.appendChild(hiddenField); var hiddenField = document.createElement("input"); hiddenField.setAttribute("type", "hidden"); hiddenField.setAttribute("name", "temid"); hiddenField.setAttribute("value",108); form.appendChild(hiddenField); document.body.appendChild(form); form.submit(); } function myTimer() { var d = new Date(); document.getElementById("demo").innerHTML = d.toLocaleTimeString(); } function print_news() { var is_chrome = function () { return Boolean(window.chrome); } var printContents = document.getElementById('tablemain').outerHTML; var printContents2 = document.getElementById('headerlogo').innerHTML; w=window.open('','printwin','left=200,top=200,width=820,height=550,toolbar=1,resizable=0,status=0,scrollbars=1'); w.document.open(); w.document.write(' '); w.document.write(' '); if(is_chrome) { w.document.write(' '); } else { w.document.write(' '); } w.document.write(' '); w.document.write(' '); w.document.write(printContents2); w.document.write(printContents); w.document.write(' '); w.document.write(' '); w.document.close(); w.focus(); if (!(is_chrome)) { w.print(); } } var fontSize = 1; function norm() { fontSize = 1; var item; item = document.getElementById('maintext'); item.style.fontSize = fontSize + "em"; } function zoomIn() { var item; item = document.getElementById('maintext'); fontSize += 0.1; item.style.fontSize = fontSize + "em"; } function zoomOut() { var item; fontSize -= 0.1; item = document.getElementById('maintext'); item.style.fontSize = fontSize + "em"; } function shidden(nameobject) { var item; item = document.getElementById(nameobject); if (item.style.visibility == "hidden") { item.style.visibility = "visible"; item.style.display = "block"; } else { item.style.visibility = "hidden"; item.style.display = "none"; } } صداقت کے پیکر سے گواہ کا مطالبہ کیوں ؟ مندرجات: ١٩٩٤ تاریخ اشاعت: ٢٧ June ٢٠٢١ - ١٨:٢١ مشاہدات: 1536 پروگرام » پبلک صداقت کے پیکر سے گواہ کا مطالبہ کیوں ؟ صداقت کے پیکر سے گواہ کا مطالبہ کیوں ؟ آیت اللہ حسینی قزوینی سے سوال اور جواب : سوال : « فدک کے غصب » کا موضوع ہمارے لئے بہت روشن اور واضح موضوع ہے اور یہ شیعہ کتابوں میں واضح اور قطعی طور پر نقل ہوا ہے ۔لیکن ہم اس موضوع کو اہل سنت کی کتابوں میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا غصب فدک والا موضوع اہل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے یا نہی ؟ آیةالله حسینی قزوینی: اس سلسلے کے مطالب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صدیقه طاهره سلام اللہ علیہا جب فدک کا مطالبہ کرتی ہیں اور یہ کہتی ہیں کہ فدک کو میرے والد نے مجھے بخش دیا ہے تو اس وقت ابوبکر گواہ اور دلیل مانگتا ہے. خود یہی اس بات کی دلیل ہے کہ فدک غصب ہوگیا تھا اور اس کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے چھین لیا تھا اور یہ یقینی اور قطعی بات ہے۔ جیساکہ یہی بات اہل سنت کے بعض کتابوں میں بھی ذکر ہے مثلا «ابن شبة النمیری» متوفی 262 هجری کہ جو «مسلم» سے ایک سال بعد دنیا سے گیا ، وہ اپنی مشہور کتاب «تاریخ مدینه منوره» میں نقل کرتا ہے ۔ «ان ابابکر رضی الله عنه انتزع من فاطمة رضی الله عنها فدک» ابوبکر نے فدک جناب زہرا سے چھین لیا ۔ تاریخ المدینة المنورة با تحقیق فهیم محمد شلتوت، ج1، ص 199 لہذا یہ بہت ہی روشن اور واضح ہے جیساکہ «ابن حجر هیثمی» نے اسی عبارت کو «الصواعق المحرقه» میں نقل کیا ہے : «قيل له إن أبا بكر انتزع من فاطمة فدك» ابوبکر نے فدک کو جناب زہرا سے چھین لیا ۔ الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي، دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط؛ ج1، ص 157 «أبي بكر أحمد بن عبدالعزيز الجوهري البصري البغدادي» نے بھی کتاب «السقیفه و فدک» میں نقل کیا ہے «انتزع ابوبکر فدک من فاطمة» انہوں نے اس کو مکمل طور پر نقل کیا ہے . قابل توجہ نکتہ : سوال : حضرت زهرا (سلام الله علیها) فدک کو شخصی ملکیت کے طور پر خلیفه اول سے مطالبہ کرتی ہیں لیکن خلیفه اول حضرت زهرا (سلام الله علیها) سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں مزید کتابوں کے حوالے اور سند پیش کریں ۔ آیةالله حسینی قزوینی: جی یہی گواہ اور دلیل طلب کرنے والی روایت بھی «فدک» کے غصب ہونے پر دلیل ہے۔ دیکھیں «بلاذری» متوفی 279 هجری کہ جو جس سال «ترمذی» دنیا سے گئے یہ بھی دنیا سے گئے} یہ اپنے کتاب میں نقل کرتے ہیں : «أن فاطمة رضي الله عنها قالت لأبي بكر الصديق رضي الله عنه اعطني فدك فقد جعلها رسول الله لي فسألها البينة» فاطمه نے ابوبکر سے کہا : فدک مجھے واپس کردو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو میری ملکیت قرار دی ہے ۔ابوبکر نے ان سے گواہ اور دلیل طلب کیا. فتوح البلدان، اسم المؤلف: أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1403، تحقيق: رضوان محمد رضوان؛ ج1، ص 44 یہاں کچھ نکات قابل توجہ ہے ۱فدک کا مطالبہ کرنا ۔۔ ۲: فدک پیغمبر (ص) کی ملکیت تھی اور اس کو حضرت فاطمہ(س) کی ملکیت قرار دیا تھا ۔۔۔۳ : حضرت زہرا (س ) کا سوال یہ تھا کہ تم نے فدک مجھ سے کیوں چھین لیا ؟ کہتے ہیں: «فسألها البینه»!! ان سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کیا ۔ یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ خلیفہ اول یہ کہے :کہ اگر اس کو رسول اللہ (ص) نے تمہیں بخش دیا ہے تو جائے دلیل اور گواہ لے کر آئے۔ دیکھتے ہیں آپ کے گوہ کون ہے ؟کون آپ کے حق میں یہ گواہی دیتا ہے کہ پیغمبر (ص) نے یہ فدک آپ کے حوالے کیا ہو ؟ دیکھیں «فتوح البلدان» «بلاذری» کی کتاب ہے، اس میں تفصیل سے یہ باتیں آئی ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع ) نے گواہی دی . کہا : ایک اور گواہ لے آو۔ «ام ایمن» نے گواہی دی ،کہا گواہ میں یا دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں۔ «یاقوت حمویی متوفی ۶۲۶» نے بھی «معجم البلدان» میں اس واقعے کو نقل کیا ہے ۔وہ فدک کے بارے میں لکھتا ہے : «و هی التی قالت فاطمة سلام الله علیها نحلنیها ان رسول الله فدک وہی ہے جس کے بارے میں حضرت فاطمہ (سلام الله علیها) نے ابوبکر سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے بخش دیا ہے ۔ فقال ابوبکر رضی الله عنه ارید لذلک شهودا ابوبکر نے کہا : اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے دلیل اور گواہ پیش کرو۔ بعد میں کہتا ہے :و لها قصة۔ ایک خود ہی ایک داستان ہے ۔ معجم البلدان، اسم المؤلف: ياقوت بن عبد الله الحموي أبو عبد الله، دار النشر: دار الفكر – بيروت؛ ج4، ص 238 بلاذری اس کے بعد کہتا ہے : ابوبکر نے فدک نہیں دیا . لیکن بعد میں خلیفہ دوم نے اجتھاد کر کے فدک حضرت زہرا (ع) کے فرزندوں کو واپس کردیا۔ «شمس الدین سرخسی» متوفی 483 کہ جو بڑا حنفی عالم ہیں وہ بھی لکھتے ہیں : «انها یعنی فاطمة سلام الله علیها ادعت ان رسول الله وهب فدک لها» فاطمہ نے یہ دعوا کیا: فدک رسول اللہ (ص) نے مجھے ھبہ کیا ہے اور یہ میری ملکیت ہے۔ سرخی نے اس کو اپنی کتاب " مبسوط " میں نقل کیا ہے اور یہ کتاب حنفی مکتب کی سب سے تفصیلی اور فقہی کتاب ہے ۔۔۔ ان رسول الله وهب فدک لها و اقامت رجلا و امراة فاطمہ(س) نے فدک کے بارے میں یہ ادعا کیا کہ اس کو رسول اللہ (ص) نے ھبہ کیا ہے اور اس کے لئے ایک مرد اور ایک عورت کو گواہ کے طور پر پیش کیا ۔ ضمی الی الرجل رجلا او الی المراة امراة ابوبکر نے فاطمه زهرا (س) سے کہا : علی نے گواہی دی ہے اب ایک اور مرد یا ام ایمن کے ساتھ ایک اور عورت لے آو . فلما لم تجد ذلک فاطمه زهرا کو کوئی اور گواہی دینے کے لئے نہیں ملی . اب حضرت فاطمہ کی مظلومیت دیکھیں ،کوئی گواہی دینے والا نہیں ملا ۔ جعلت تقول من یرثک فاطمه زهرا نے ابوبکر سے کہا : اگر تم مرے تو تیرا وارث کون ہوگا ؟ فقال ابوبکر رضی الله عنه اولادی ابوبکر نے کہا : میری اولاد میرے وارث ہوں گے . فاطمه نے فرمایا : ان یرثک اولادک و لا ارث انا من رسول الله؟ عجیب بات ہے کہ تماری اولاد تم سے ارث لے لیکن میں اپنے والد رسول اللہ (ص) سے ارث نہ لوں ؟ ابوبکر نے کہا :ہاں ،میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے : انا معشر الانبیاء لا نورث ہم پیغمبر حضرات ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ۔ ما ترکناه صدقة جو چھوڑے جاتے وہ صدقہ ہے ۔ المبسوط، اسم المؤلف: شمس الدين السرخسي، دار النشر: دار المعرفة - بيروت ج12، ص 29 لیکن سرخی نے اس کو نقل نہیں کیا ہے کہ جناب فاطمہ زہراء (سلام الله علیها) نے پلٹ کر جواب دیا کہ یہ حدیث جو تم نقل کر رہے ہو«انا معشر الانبیاء لا نورث»؛ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن نے حضرت سلیمان کے بارے میں کہا ہے۔ «وَ وَرِثَ سُلَيْمانُ داوُد» سلیمان نے داود سے ارث لیا ۔ سوره نمل(27): آیه 16 حضرت یحیی اور زکریا کے بارے میں قرآن میں اللہ نے فرمایا :«يَرِثُني‏ وَ يَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوب» مجھے ایسا وارث دے جو مجھ سے اور آل یعقوب سے ارث لے ۔ سوره مریم (19): آیه 6 «ابوجعفر طحاوی» کہ جو اہل سنت کے اہم علماء میں سے ہیں، ان کی کتابیں اہل سنت کے دینی مدارس کے کورس میں شامل ہے وہ «شرح معانی الاثار» میں اسی مسئلے میں «ام هانی» سے ایک روایت نقل کرتا ہے : «فَاطِمَةَ رضي الله عنها قالت لِأَبِي بَكْرٍ من يَرِثُك إذَا مِتَّ فاطمہ نے ابوبکر سے کہا : تم اگر مرجائے تو کون تجھ سے ارث لے گا ؟ ابوبکر نے جواب میں کہا : میرے گھر والے ۔ فمالك تَرِثُ رَسُولَ اللَّهِ دُونَنَا اب یہ کیسے ہوا کہ تو رسول اللہ ص سے ارث لے لیکن ہم ان سے ارث نہ لیں ۔ قال يا ابْنَةَ رسول اللَّهِ ما وَرَّثَ أَبُوك دَارًا وَلاَ مَالًا وَلاَ غُلاَمًا وَلاَ ذَهَبًا وَلاَ فِضَّةً ابوبکر نے کہا : اے رسول اللہ (ص) کی بیٹی ! آپ کے والد نے نہ گھر ارث میں چھوڑا ہے، نہ کوئی مال ، نہ کوئی غلام ،نہ سونا اور نہ چاندی ، کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں گیے ہیں۔ شرح معاني الآثار، اسم المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة بن عبدالملك بن سلمة أبو جعفر الطحاوي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1399، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد زهري النجار؛ ج3، ص 308 عجیب بات ہے کہتا ہے : نہ کوئی گھر، نہ کوئی مال کچھ بھی ارث میں چھوڑ کر نہیں گیا ہے۔ اب کیا رسول اللہ )ص( کے پاس کوئی مال نہیں تھا! رسول اللہ )ص( کے ۸ یا ۹ ازواج کے حجرے ان کی اپنی ملکیت تھی یا رسول اللہ )ص( کی ؟ اللہ کی قسم معلوم نہیں اصل داستان کیا ؟ قرآن تو کہتا ہے : (يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِي) اے ایمان والوا نبی کے گھر میں داخل نہ ہوجائے۔ سوره احزاب (33): آیه 53 اب یہ تو قرآن کہہ رہا ہے ،آپ کیا کہیں گے ؟یہاں تو قرآن ہے ،واضح طور پر جمع کا صیغہ لاکر کہہ رہا ہے ، رسول کے گھریں یا حجرے ۔ اب ابوبکر کہتا ہے ؟ رسول اللہ (ص) نے نہ کوئی گھر وراثت میں چھوڑا ہے نہ کوئی مال ،نہ غلام ،نہ سونا اور نہ کوئی چاندی۔ جبکہ حضرت زهرا (س) فرماتی ہیں: «فَدَكُ التي جَعَلَهَا اللَّهُ لنا وَصَافِيَتَنَا التي بِيَدِك لنا» فدک کو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اب جو تیرے قبضے میں ہے وہ ہماری ملکیت ہے ۔ یہ جو فرمایا : فدک اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے یہ اس آیه «و آت ذا القربی حقه» کی طرف اشارہ ہے ۔۔ ابوبکر نے پلٹ کر کہا : إنَّمَا طُعْمَةٌ أَطْعَمَنِيهَا اللَّهُ عز وجل یہ حقیقت میں خرچہ پانی تھا کہ جو اللہ نے آپ لوگوں کے اختیار میں دیا تھا ۔ فإذا مِتَّ فَهِيَ بين الْمُسْلِمِينَ۔ جب رسول اللہ ص دنیا سے چلے جائے تو یہ سب مسلمانوں میں تقسیم ہونا چاہئے۔ شرح معاني الآثار، اسم المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة بن عبدالملك بن سلمة أبو جعفر الطحاوي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1399، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد زهري النجار؛ ج3، ص 308 اب لگتا ایسا ہے کہ حضرت زهرا)س( اور حضرت علی)ع( ، مسلمانوں میں سے نہیں تھے !!! کیونکہ اگر تقسیم ہی ہونا ہے تو ان کا حصہ انہیں ملنا چاہئے تھا بقول «ابن تیمیه» ابوبکر اسی لئے حضرت زہرا کے گھر آیا تھا تاکہ یہ دیکھ لے کہ ان کے گھر میں بیت المال کا کوئی مال چھپایا ہوا ہے یا نہیں؟ : وغاية ما يقال إنه كبس البيت لينظر هل فيه شيء من مال الله الذي يقسمه وأن يعطيه لمستحقه ثم رأى أنه لو تركه لهم لجاز فإنه يجوز أن يعطيهم من مال الفيء منهاج السنة النبوية، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم؛ ج8، ص 291 یہ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت علی اور حضرت زهرا کے گھر میں بیت المال کی کوئی چیز تو نہیں {مثلا انہوں نے کوئی چیز چھپا رکھی ہو تو اسے باہر نکال کر مسلمانون میں تقسیم کیا جائے} ۔ «ابن شبة النمیری» نے یہی بحث «اخبار مدینه منوره» میں تفصیل سے نقل کیا ہے؛ وہ لکھتا ہے : حضرت فاطمہ نے ابوبکر سے کہا :«من یرثک اذا مت» جب دنیا سے چلا جائے تو کون تیرا وارث ہوگا ؟ ابوبکر نے کہا : ما ورث اباک دارا و لا مالا و لا ذهبا و لا فضة۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اے رسول اللہ (ص) کی بیٹی ! آپ کے والد نہ گھر ارث میں چھوڑ کر گیا ہے نہ کوئی مال ، نہ کوئی غلام ،نہ سونا اور نہ چاندی، کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں گیے ہیں۔ حضرت زہراء نے جواب دیا : فدک کو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اب جو تیرے قبضے میں ہے وہ ہماری ملکیت ہے ۔ابوبکر کہتا ہے : یہ خرچہ پانی تھا ، اللہ نے آپ لوگوں کے اختیار میں دیا تھا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے چلے گئے تو یہ سب مسلمانوں کا ہے ۔۔۔ تاريخ المدينة المنورة، اسم المؤلف: أبو زيد عمر بن شبة النميري البصري، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1417هـ-1996م، تحقيق: علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان؛ ج1، ص123 اھل سنت کے ہاں رائج ایک قانون اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف سے ادعا: یہ گفتگو متعدد کتابوں میں مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں ۔ اہل سنت کے ہاں رائج ایک قانون ۔کسی روایت کی سند ضعیف بھی ہو لیکن اس کے طرق متعدد ہو تو یہ پھر ضعیف نہیں رہے گئ۔ جیساکہ ابن تیمیہ کہتا ہے : «فَإِنَّ تَعَدُّدَ الطُّرُقِ وَ كَثْرَتَهَا يُقَوِّي بَعْضَهَا بَعْضًا حَتَّى قَدْ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِهَا وَ لَوْ كَانَ النَّاقِلُونَ فُجَّارًا فُسَّاقًا» طرق متعدد اور زیادہ ہو تو اس صورت میں بعض طرق بعض کو قوی بناتا ہے ، ایک دوسرے کی تقویت کرتا ہے ۔ کثرت طرق سے ہمیں ان کے مضمون کی صحت پر علم حاصل ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ نقل کرنے والے فاجر اور فاسق ہی کیوں نہ ہو ۔ كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، اسم المؤلف: أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي؛ ج18، ص 26۔ لہذا اہل سنت کے ہاں رائج اس قانون کی وجہ سے جو روایتیں ہم نے نقل کی ہے ان میں سے ہر ایک کی سند ضعیف بھی ہوں پھر بھی کیونکہ طرق متعدد ہیں لہذا یہ اب ضعیف نہیں ۔ کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرنا قرآن اور سنت کے خلاف عمل نہیں ہے !؟ سوال : یقینا آج کے مسلمانوں کے لئے اس چیز کا تصور انتہائی سخت ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سے گواہ طلب کیا ہو ۔ اب یہاں کس شخصیت سے گواہ کا مطالبہ ہورہاہے ؟ فاطمہ زہرا جیسی شخصیت سے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد گار ، آپ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ، تمام عورتوں کی سردار ، صداقت اور سچائی کے پیکر ہیں ۔ کیا اس طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کرنا قرآن اور سنت کے مطابق کوئی مناسب کام تھا ؟ آیةالله حسینی قزوینی: جی ہمارا درد بھی یہی ہے کہ رسول اللہ )ص( کی وہ بیٹی جن کی فضیلت کے بیان میں اتنی ساری آیات اور روایات ہیں ۔کیا ان سب فضائل کے باوجود ان کے ادعا کو قبول نہ کیا جائے ؟ حضرت زہرا)س( کی مظلومیت کی نشانیوں میں سے ایک یہی ہے ، بہت سی روایات کہتی ہیں کہ حضرت زہرا )س( نے یہ دعوا کیا کہ فدک میری ملکیت ہےلیکن آگے سے جواب ملتا ہے ؛ گواہ لے آو۔ اب دیکھیں کہ اللہ کی قسم آیت تطہیر میں ازواج شامل ہوں یا نہ ہوں دونوں صورتوں میں حضرت زہرا )س( اس میں ضرور شامل ہیں ،حضرت علی )ع( بھی آیت تطہیر میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن حضرت زہرا)س( تو ضرور اس میں شامل ہیں ۔اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ۔ «صحیح مسلم» دارالطیبة ریاض اور حدیث نمبر 2424 میں دقت کریں «قالت عَائِشَةُ خَرَجَ النبي غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ من شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بن عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جاء الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ معه ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جاء عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قال (إنما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)» جناب عائشہ نقل کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے اس حالت میں نکلے کہ آپ ایک سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں امام حسن آئے اور چادر کے نیچے انہیں بٹھا دیا اور پھر امام حسین آئیں ان کو بھی چادر کے نیچے بھٹادیا ،پھر جناب فاطمہ آئیں انہیں بھی چادر کے نیچے بھٹا دیا پھر حضرت علی آئیں ،انہیں بھی چادر کے اندر داخل کردیا پھر آپ نے فرمایا : بے شک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ آپ اہل بیت کو ہر قسم کی ناپاکی سے پاکیزہ رکھا جائے ۔«إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» صحيح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي؛ ج4، ص1883، ح2424 کیا حضرت زہرا آیت تطہیر شامل ہے یا نہیں ؟ اللہ کی پناہ ؛ اگر حضرت زہرا اپنے ادعا میں نعوذ باللہ جھوٹی ہو تو پھر یہ آیت «لیذهب عنکم الرجس اهل البیت» باطل نہیں ہوگی؟ کیا آیت کے باطل ہونے سے رسول اللہ )ص( کا ادعا باطل نہیں ہوگا ؟ « محمد ناصرالدین البانی » اپنی تالیف «صحیح سنن ترمذی» میں کہتا ہے «إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ...» یہ آیت پیغمبر پر نازل ہوئی ؛ آپ جناب ام سلمہ کے گھر پر تھے ایک یمانی چادر اوڑھی اور جناب فاطمہ امام علی اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام کو بلایا اور چادر ان پر اوڑھ کر یہ دعا کی : «اللهم هؤلاءُ اهل بیتی فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیراً» اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کی رجس اور ناپاکی کو اس طرح دور فرما جس طرح دور کرنے کا حق ہے اب یہ تو رسول اللہ )ص( ہیں اور آپ ہر قسم کی ناپاکی دور کرنے کی دعا فرمارہے ہیں ۔ام سلمہ کہتی ہے : یا رسول الله انا معهم؟ اے رسول اللہ ص کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟ فرمایا: انت علی مکانک و انت علی خیر آپ اپنی جگہ بیٹھی رہے آپ نیک اور ایک اچھی عورت ہے ۔ ترمذی بھی لکھتا ہے : «هذا حدیث حسن صحیح و هو احسن شیء روی فی هذا الباب» یہ روایت ایک اعتبار سے حسن اور ایک اعتبار سے صحیح ہے اور یہ اس سلسلے کی بہترین روایت ہے ۔۔۔صحيح وضعيف سنن الترمذي؛ المؤلف: محمد ناصر الدين الألباني (المتوفى: 1420هـ)، مصدرالكتاب: برنامج منظومة التحقيقات الحديثية - المجاني - من إنتاج مركز نور الإسلام لأبحاث القرآن والسنة بالإسكندرية؛ ج8، ص 371 کیا اس سے واضح تر جناب زہرا کی صداقت پر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟ اب جو یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے تو کیا ان سے گواہ طلب کرنا اس آیت کے خلاف کام نہیں ہے ؟ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ حضرت علی بن ابیطالب)ع( نے بھی گواہی دی آپ بھی اس آیت کے مصداق ہیں لیکن گواہی قبول نہیں ہوئی ۔ اب جو کچھ شیعہ کہتے ہیں وہ سب جھوٹ ہی صحیح ۔۔، کیا یہ خود حضرت امیر المومنین اور جناب صدیقه طاهره علیہما کی مظلومیت کی دلیل نہیں ؟ ۔ اسی طرح «مباهله» کے واقعے میں بھی دیکھیں رسول اللہ )ص( کن لوگوں کو ساتھ لے کر گئے؟ شیعہ اور اہل سنت کے برادران ذرا غور تو کریں مباہلہ میں رسول اللہ )ص( کیا ثابت کرنا چاہتے تھے ؟ مباھلہ یہ دیکھنے کے لئے تو تھا کہ حضرت محمد )ص( پیغمبر ہے یا نہیں ہے ؟ ادعای رسالت اور نبوت میں آپ سچے ہیں یا نہیں ،یہی تو ثابت کرنا تھا ؟ اب دیکھیں نبوت اور رسالت کی صداقت کے گواہ کے طور پر کن لوگوں کو ساتھ لے کر گئے؟ آپ نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ ،حضرت امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو ساتھ لیا ۔ اب عجیب بات یہ ہے کہ حضرت علی ، حضرت زہرا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام نبوت کو ثابت کرنے اور اللہ کے نص کے مطابق پیغمبر )ص( کی صداقت کے اثبات کی قابلیت تو رکھتے تھے۔ لیکن فدک کے معاملے میں آپ لوگوں میں یہ شائستگی نہیں تھی ؟ کیا یہ ان کی مظلومیت کی دلیل نہیں ؟ «صحیح مسلم» دارالطیبة ریاض کی چھاپ کے مطابق حدیث نمبر 2404 ملاحظہ کریں : «و لما نزلت هذه الآیة (آیه 61 سوره آل عمران)جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ فقل تعالوا ندعوا ابناءنا و ابناءکم رسول اللہ )ص( کو حکم ہوا کہ ان سے کہہ دینا : ہم اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں تم لوگ بھی اینے بچوں کو لے کرآو۔ ہم اپنی جانوں اور نفسوں کو لے کر آتے ہیں تم لوگ بھی اپنے بچوں کو لے کر آو ۔۔ دعا رسول الله علیا و فاطمة و حسنا و حسینا پیغبمر )ص( نے امام علی ،جناب فاطمہ اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو بلا کر فرمایا: اللهم هؤلاء اهلی۔۔ اے اللہ! یہی میرے گھرانے کے افراد ہیں۔ صحيح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي؛ ج4، ص 1871، ح2404 یہاں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ «ابن کثیر دمشقی» نے اپنی تفسیر «تفسیر قرآن العظیم» میں اسی مباہلہ کے واقعے کو بیان کیا ہے اور جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے مسیحیوں سے بحث کی اور جب وہ لوگ تسلیم نہیں ہوئے تو مباہلہ کا فیصلہ کیا اور مقرر وقت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ، فاطمه ، حسن اور حسین علیہم السلام کو ساتھ لیا اور آگے بڑے : یہاں تک لکھا ہے: «نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُم قال جابر و انفسنا و انفسکم رسول الله و علی بن ابی طالب» جابر کہتے ہیں : اس میں انفسنا سے مراد رسول اللہ )ص( اور حضرت علی بن ابی طالب )ع( ہیں تفسيرالقرآن العظيم،: إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء، دار النشر: دار الفكر - بيروت – 1401؛ ج1، ص372 ابناءنا سے مراد امام حسن و حسین ، نساءنا سے حضرت فاطمه زهرا ہیں. پھر ابن کثیر آگے لکھتا ہے کہ اس کو حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور شیخیص کی شرط کے مطابق یہ روایت صحیح ہے ۔ پھر شعبی و غیره سے نقل کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ صحیح ترین روایات میں سے ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ہستیوں سے اس معاملے میں دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرنا ان روایات اور آیات سے نہیں ٹکراتا؟ اب یہ ہستیاں جو رسول اللہ )ص( کی رسالت اور نبوت کے گواہ کے طور پر جاسکتے ہیں تو کیا فدک کے مسئلے میں ان کی گواہی اور ادعا کو قبول نہیں کرنا چاہئے ؟ فدک کی ان ہستیوں کے مقابلے میں کیا حیثیت تھی ؟ اگر مان لیا جائے کہ فدک سارے مسلمانوں کی ملکیت تھی اب جب جناب فاطمہ)س( مطالبہ کر رہی تھیں تو کیا ان کے مطالبے کی اتنی قیمت نہیں تھی کہ وہ ممبر پر جاکر مسلمانوں سے کہہ دیتے : جناب فاطمہ)س( نے فدک کا مجھ سے مطالبہ کیا ہے ۔اب کیا آپ لوگ اس بات پر راضی ہے کہ میں اسے جناب فاطمہ)س( کو دے دوں ؟ یہاں کوئی ایک بندہ بھی اعتراض کرتا تو دیکھتے۔ یہ بھی چھوڑے جناب فاطمہ)س( نے ایسے ہی دینے کا مطالبہ کیا ہو تو کیا فدک انہیں دے دینے میں کیا مشکل تھی،جبکہ اسی فدک کو بعد کے دور میں دوسروں کے قبضے میں دیا گیا ؟ یا جس طرح جابر بن عبد اللہ نے آکر خلیفہ کے سامنے یہ ادعا کیا کہ رسول اللہ )ص( نے مجھے بحرین سے آئے مال سے کچھ دینے کا وعدہ دیا ۔ ابوبکر نے اس کے دوبرابر انہیں دے دیا ان سے گواہی کا کوئی کا مطالبہ ہی نہیں کیا ۔اسی طرح «ابولؤلؤ» کی بیٹی کا قاتل عبد الرحمن بن عمر جب انہیں ناحق مار دیتا ہے اور اگر مان لے «ابولؤلؤ» ہی عمر کا قاتل تھا تو اس کی بیٹی کا کیا قصور تھا؟ اب یہاں سارے مسلمان کہتے ہیں : اس پر حد جاری کیا جائے اور اس کو قتل کے بدلے قتل کیا جائے ،حضرت علی ع کہتے ہیں اس پر حد جاری کرو اور آپ یہ کہتے تھے اگر طاقت اور قدرت میرے ہاتھ آئے تو میں اس پر حد جاری کروں گا اسی لئے امیر المومنین نے جنگ جمل میں اس کو قتل کر دیا ۔ لیکن خلیفہ سوم ممبر پر جاکر کہتا ہے : لوگو !میں نے اس مقتول اور اس کے بھائی کی نسبت سے اپنے حق سے درگز کیا ہے آپ لوگ بھی اس سے درگزر کریں ، سب نے کہا : ہم نے بخش دیا ۔ اب کیا یہی کام خلیفہ فدک کے مسئلے میں نہیں کرسکتا تھا ؟۔ حضرت زهرا (سلام الله علیها) کا لقب «اصدق الناس» ایک اور سوال : اہل سنت کی کتابوں میں یہ چیز موجود ہے کہ جناب عائشہ کہتی ہے کہ حضرت فاطمہ ، رسول اللہ )ص( کے بعد سب سے زیادہ سچا انسان ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جو ہستی «اصدق الناس» ہو ،رسول اللہ )ص( کے بعد سب سے صادق اور سچی ذات ہو تو کیا ایسی ہستی سے دلیل اور گواہ مانگنا صحیح عمل ہے ؟ آیةالله حسینی قزوینی: اب یہاں تو دلی صدمہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے ،اہل سنت کے برادران بھی غور کریں ،ہم اہل سنت کے مقدسات کی توہین کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ! لیکن علمی بحث کرنا توہین کے زمرے میں نہیں آتا ، علمی بحث کرنے کو توہین کرنا نہیں کہا جاتا ۔علمی بحث کا تعلق عقل و منطق سے ہے جبکہ برا بلا کہنے کا تعلق احساسات اور جذبات سے ہے . اب ہم مذکورہ لقب کو «مسند ابویعلی الموصلی» سے نقل کرتے ہیں ۔ «قالت عایشه ما رایت احدا قط اصدق من فاطمة کان بینهما شیء فقالت یا رسول الله سلها فانها لا تکذب » جناب عائشہ کہتی ہے : میں نے حضرت زهرا )ع( سے زیادہ سچی نہیں دیکھی ، جناب عایشه اور ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا ۔ تو اس وقت جناب عائشہ رسول اللہ )ص( سے کہتی ہے : یا رسول اللہ )ص( آپ فاطمہ سے پوچھیں کیونکہ فاطمہ جھوٹ نہیں بھولتیں ۔ مسند أبي يعلى، المؤلف: أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (المتوفى: 307هـ)، المحقق: حسين سليم أسد، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984؛ ج8، ص 153، ح4700 «قط» یعنی هرگز ۔ اب یہاں " کان بینهما شیء " سے مرد شاید جناب عایشه اور حضرت پیغمبر )ص( کے درمیان کوئی اختلاف تھا ، عایشه کہتی : حضرت زهرا)س( سے پوچھیں . اب یہاں پر قاضی حضرت زهرا ہیں کہ جو ہر گز جھوٹ نہیں بھولتیں۔ اس کی سند میں یہ کہتے ہیں : اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ عمر بن دینار نے جناب عائشہ سے یہ خبر نہیں سنی ہے ،جبکہ اہل سنت والے تابعی کے مرسل روایت کو حجت سمجھتے ہیں ۔ محقق کہتا ہے : «هیثمی» نے کہا ہے اس روایت کے راوی صحیحین کے راوی ہیں . «ابن حجر» نے «المطالب العالیة» اور حاکم نیشابوری نے مستدرک میں اس سند کو صحیح کہا ہے . اور ایک جگہ پر حاکم نیشاپوری نے کہا ہے یہ صحیح مسلم کے شرائط کے مطابق صحیح ہے ، ذهبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔ اب «مستدرک حاکم» میں موجود سند کے بارے میں دقت کریں ؛ «ان عائشة رضي الله عنها أنها كانت إذا ذكرت فاطمة بنت النبي قالت ما رأيت أحدا كان أصدق لهجة منها إلا أن يكون الذي ولدها» «هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم» یحی بن عباد اپنے والد {عباد } سے نقل کرتا ہے۔جس وقت جناب عائشہ کے سامنے جناب زہراء سلام اللہ علیہا کا تذکرہ ہوتا تو وہ کہتی تھی کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی میں نے نہیں دیکھی مگر وہ کہ جس سے آپ کی پیدائیش ہوئی۔{یعنی آپ کے والد گرامی} حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں کہ یہ روایت صحیح مسلم کی شرط کے مطابق صحیح سند ہے لیکن اس نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔ المستدرك على الصحيحين، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1411هـ - 1990م، الطبعة : الأولى، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا؛ ج3، ص175، ح4756 «حلیه الاولیاء» میں «ابو نعیم اصفهانی» نے بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے «ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه غیر ابیها» میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی نہیں دیکھی سوای ان کے والد کے۔ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، اسم المؤلف: أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، دار النشر: دار الكتاب العربي - بيروت - 1405، الطبعة: الرابعة؛ ج2، ص42 انہوں نے مسند ابویعلی کی روایت کو نقل کیا ہے ، «ابن عبدالبر» نے بھی «الاستیعاب» میں اس سلسلے کی کئ روایات نقل کی ہیں ۔ وہ یہ بھی نقل کیا ہے کہ جب بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ کے پاس آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے گھڑے ہوجاتے ،ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ۔ جناب عائشہ کہتی ہے :«ما رایت احدا اصدق لهجة من فاطمه» میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بھولنے والی نہیں دیکھی۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب، اسم المؤلف: يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر، دار النشر: دار الجيل - بيروت - 1412، الطبعة: الأولى، تحقيق: علي محمد البجاوي؛ ج4، ص 1896 «مجمع الزوائد» میں «هیثمی» متوفی 807هجری، نے بھی نقل کیا ہے : «عن عایشه قالت ما رایت افضل من فاطمه غیر ابیها» میں نے فضیلت میں فاطمہ جسی کسی کو نہیں، دیکھی سوای ان کے والد کے ۔ اگرچہ انہوں نے اصدق کے جگہ پر افضل کا لفظ لایا ہے ،اب اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ہمیں معلوم نہیں لیکن پھر بھی شاعر کے بقول : المعنی فی بطن الشاعر ۔شعر کا معنی شاعر کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے ۔ فکان بینها شیء فقالت یا رسول الله سلها فانها لا تکذب ان دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ تھا ،جناب عائشہ کہنے لگی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ؛ آپ فاطمہ سے پوچھیں ۔ کیونکہ فاطمہ جھوٹ نہیں بولتیں۔ ہیثمی آگے کہتا ہے : طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے ؛ ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه» میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی نہیں دیکھیں ۔ «و رجالهما رجال الصحیح» طبرانی اور ابو یعلی کی سند کے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علي بن أبي بكر الهيثمي، دار النشر: دار الريان للتراث/‏دار الكتاب العربي - القاهرة , بيروت – 1407؛ ج9، ص 201 «ابن حجر عسقلانی» نے «المطالب العالیة» میں نقل کیا ہے ،حدیث نمبر 3957 میں دقت کریں: «ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه غیر ابیها» فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی میں نے نہیں دیکھی سوای ان کے والد کے ۔ المطالب العالیۃ کا محقحق لکھتا ہے :«صحیح بهذا الاسناد» اس روایت کی سند صحیح ہے ۔ المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، دار النشر: دار العاصمة/ دار الغيث - السعودية - 1419هـ ، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشتري؛ ج16، ص177 «هیثمی» ، «طبرانی» اور «ابویعلی» نے نقل کیا ہے اور سند بھی صحیح ہے . «حاکم نیشابوری» نے بھی کہا ہے : «صحیح علی شرط شیخین»؛ صحیح بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق یہ صحیح ہے ،ذھبی نے بھی کہا ہے : کذا قال بل صحیح بلکہ یہ روایت صحیح ہے ۔ «ابن حجر عسقلانی» نے «الاصابه» میں بھی یہی نقل کیا ہے «ما رایت قط احدا افضل من فاطمه غیر ابیها» الإصابة في تمييز الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي، دار النشر: دار الجيل - بيروت - 1412 - 1992، الطبعة: الأولى، تحقيق: علي محمد البجاوي؛ ج8، ص55 ابن حجر اس کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے : اخرجه الطبرانی «و سنده صحیح علی شرط شیخین» اس کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ «ذهبی» نے بھی «سیرالاعلام النبلاء» میں نقل کیا ہے اس کی تحقیق بھی مشہور وہابی محقق «شعیب الارنؤوط» نے کی ہے ۔اس میں بھی نقل ہوا ہے : «ما رایت احدا کان اصدق لهجة من فاطمة» سير أعلام النبلاء، اسم المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413، الطبعة: التاسعة، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي؛ ج2 ص131 محقق کتاب کے حاشیے میں لکھتا ہے ، اس روایت کو حاکم نیپشاپوری اور ذہبی نے صحیح کہا ہے . «محمد بن یوسف صالح شامی» نے بھی «سبل الهدی و الرشاد» میں اس کو نقل کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے «وروى أبو يعلى برجال الصحيح عن عائشة...» سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، اسم المؤلف: محمد بن يوسف الصالحي الشامي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1414هـ، الطبعة: الأولى، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض؛ ج11، ص 47 اب دیکھیں کتنے علماء نےاس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ اب ہم یہ سب ذکر کرنے کے بعد "مستدرک حاکم نیشابوری " کی طرف پلٹ کر آتے ہیں ، دقت کریں وہ لکھتا ہے «هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم» ذہبی نے بھی کہا ہے :علی شرط مسلم۔ لہذا مذکورہ روایت کے مطابق یہ ثابت ہوا کہ حضرت زهرا، سب سے زیادہ سچی ذات ہے ،صرف سچی نہیں بلکہ سب سے زیادہ سچی۔" اصدق الناس، یہاں صرف ان کے والد گرامی کو مستثنی کیا ہے ۔ ممکن ہے کہ کہا جائے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ سب سے سچی ہیں ، ممکن ہے یہ بھی کہے کہ علاوہ میں حضرت آدم سے لے کر خاتم تک سب شامل ہو ، لیکن کم از کم اتنا ضرور ہے کہ یہاں تمام اصحاب اور تمام خلفاء سے زیادہ صادق ہونا تو مراد ہے ۔ اب دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو سب سے سچی ذات ہیں وہ آتی ہیں اور کہتی ہیں : میرے والد نے «فدک» مجھے دیا ہے ۔ اب کیا ان سے دلیل اور گواہی کا مطالبہ کرنا چاہئے ؟ گواہ اور دلیل قضاوت کے لئے ہے : مثلا میں کہوں یہ کوٹ جو احمد کے بدن پر ہے وہ میرا ہے ،اب یہاں قاضی مجھ سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کرئے گا ۔ لیکن جب میں کہوں یہ لباس جو میرے جسم پر ہے وہ میرا ہے ،اب یہاں مجھ سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ تو نہیں ہوگا ،کیونکہ یہاں قاعده «ید» جاری ہوتا ہے یعنی جس کے ہاتھ میں مال ہو اس سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے . یا مثلا کوئی میرے گھر میں آکر کہے جناب کہاں سے معلوم یہ آپ کا ہی گھر ہے ؟ لہذا گواہ اور دلیل پیش کرو ۔اب یہ تو غلط ہے کیونکہ مال جس کے ہاتھ میں ہو اس سے دلیل کا مطالبہ تو نہیں کیا جاتا ۔ فدک کے مسئلے میں جناب فاطمہ زہرا اور حضرت علی کہتے ہیں : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بخشا ہے اور اس میں حضرت زہرا کے ہی مزدور کام کرتے تھے ، اب ان کو باہر نکال دیا جاتا ہے اور اس پر قبضہ کیا جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ گواہ پیش کرو. یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے اسی لئے حضرت صدیقه طاهره بھی میدان میں آتی ہیں اور ایسا خطبہ دیتی ہیں کہ جس میں آپ نے کوئی بھی عذر اور بات باقی نہیں چھوڑی، سب کچھ آپ نے خطبے میں بیان فرمایا ۔ یہ خطبہ آپ نے دیا تاکہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور تاریخ کے صفحات پر یہ باقی رہے۔ حضرت زہرا مہاجرین اور انصار کے اجتماع میں آجاتی ہیں اور فریاد بلند کرتی ہیں، تاکہ تاریخ کے صفحات سے یہ حقیقت مٹ نہ جائے اور آئندہ آنے والے ان حقیقتوں کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں ۔خود ہی دیکھیں کہ کیا ہوا تھا اور حقیقت کیا تھی ۔ سوچنے کی باتیں : کم از تھوڑا سے فکر کریں کہ جو سب سے زیادہ سچی ذات ہو اور ان کی اتنی ساری فضیلتیں ہوں ۔ ان سب کے باوجود ان کی بات کو ٹھکرا کر یہ کہا جائے کہ اپنےمدعا کی حقانیت پر گواہ پیش کرو۔ سب سے بافضیلت خاتون کے بارے میں یہ تصور دیا جائے کہ آپ ایسی چیز کا مطالبہ کر رہی تھیں جو آپ کا حق نہیں تھا اور یہاں تک کہا جائے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان اور فیصلے کو سننے اور حق واضح ہونے کے باوجود ناراض ہوگئیں ،رنجیدہ حالت میں رہیں ۔ کیا یہ باتیں اسلام کی خاتون اول اور سب سے بافضیلت خاتون کی شان میں توھین اور گستاخی نہیں ہے؟ اصحاب میں سے بعض کے کردار پر تنقید پر یہ سوال تو اٹھاتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں آپ لوگوں کو شک ہے ؟ لیکن کیا خود ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد کی تربیت میں شک ہے ؟ آپ کی رائے * نام: * ایمیل: * رائے کا متن : * سیکورٹی کوڈ: نام: ایمیل: سیکورٹی کوڈ: * رائے کا متن: آخری مندرجات صداقت کے پیکر سے گواہ کا مطالبہ کیوں ؟ امام حسن مجتبي (عليه السلام) کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات. پہلا صفحہ | ہم سے رابطہ کریں | محفوظ شدہ دستاویزات | تلاش کریں | روابط | اراکین تبصرے | ہمارے بارے میں | RSS | سوال | موبائل ورژن | فارسی | العربیة | English
2005ء میں ترکی کے مشرقی صوبہ ’’وان‘‘ کے پہاڑی علاقے ’’گیواز‘‘ میں گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلے کو آزاد چھوڑ کر ناشتہ کررہے تھے کہ انہیں اچانک بھیڑوں کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ چرواہے جیسے ہی آواز کی سمت میں گئے، تو انہوں نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بھیڑیں ایک ایک کرکے اونچی پہاڑی کے کونے سے نیچے کود رہی ہیں اور یہ کام بغیر کسی دھکم پیل کے ہورہا تھا۔ لگ بھگ 1500 بھیڑوں نے آناً ًفاناً یہ کام سرانجام دیا، جن میں سے سب سے پہلے کودنے والی تقریباً 450 بھیڑیں مرگئیں جب کہ باقی بھیڑیں مرنے والی بھیڑوں پر کودنے کے باعث صرف زخمی ہوئیں۔ ماہرین ابھی تک بھیڑوں کی اس اجتماعی خودکشی کی گتھی سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ قارئین، بحیثیتِ قوم ہم بھی اکثر معاملات میں ایسی ہی بھیڑ چال چلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے تعلیمی فیصلے بھی بھیڑ چال کی طرح ہوتے ہیں۔ جس شعبے کی تعلیم خاندان کے زیادہ تر افراد نے حاصل کی ہوتی ہے، عمومی طور پر وہ اپنے بچوں کو بھی اسی شعبے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے گھرانوں والے محلے یا علاقے میں موجود بھیڑ چال کی پیروی کرتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ جو تعلیم انہوں نے حاصل کی ہے، وہ ان کا معاشی بوجھ برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ پاکستانی طلبہ پر کی جانی والی تحقیق کے مطابق زیادہ تر طلبہ بھیڑ چال کی بنیاد پر کسی پروگرام میں داخلہ لے لیتے۔ طلبہ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے منتخب کردہ پروگرمات میں ہی داخلہ لیتے۔ بھیڑ چال کی وجہ سے چند پروگرامات میں داخلوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اُس پروگرام کے علاوہ باقی تمام پروگرامات بے کار ہیں۔ اگر ماضیِ قریب کی مثال لیں، تو میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر اور کامرس کے پروگراموں میں طلبہ سیلاب کے ریلے کی طرح آئے اور اب بے روزگار پھر رہے ہیں۔ ہم ملازمت کے معاملے میں بھی یہی بھیڑ چال چلتے ہیں۔ سرکاری نوکری کے خمار نے ہمیں مدہوش کر دیا ہے۔ ہماری پہلی کوشش ہوتی ہے کہ سفارش یا رشوت سے سرکاری نوکری مل جائے۔ سرکاری نوکری کی بھیڑ چال نے ہمیں فنی تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم تعلیم سے مراد ہنر کے بجائے یونیورسٹیوں سے ملنے والی ڈگریاں لیتے۔ بھیڑ چال کو دیکھتے ہوئے جتنے طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیتے ہیں، اگر یہ فنی تعلیم یا ہنر سیکھ لیں، تو بے روزگاری ا نتہائی کم ہو جائے۔ ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ، چین، جاپان وغیرہ میں سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ شرح ہنر مند اور کاروباری افراد کی ہے۔ اعلا تعلیم میں بھی ہماری یونیورسٹیاں بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔ کسی ایک پروگرام کا پاکستان کی سبھی یونیورسٹیوں کا نصاب اٹھا کر موازنہ کرلیں، تو سوائے دو تین مضامین کے سارا نصاب ایک جیسا ہے۔ ٹھیک یہی حال ہمارے امتحانی نظام کا بھی ہے ۔ سارے بورڈوں کا پیپر پیڑن دیکھ لیں۔ معمولی فرق کے علاوہ سب بھیڑ چال ہے۔ ہمارا تدریسی نظام بھی بھیڑ چال کی طرح چلتا ہے، جس نے جیسے پڑھا ہو، ویسے ہی پڑھائے گا، تا کہ بھیڑ چال کی عادت ختم نہ ہوجائے۔ سیاست میں بھی ہم بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ جس پارٹی کی ہوا چلی، سب اپنے ووٹوں کی پتنگیں بنا کر اس سمت دوڑ پڑتے ہیں اور کچھ عرصے بعد رونا رونا شروع کر دیتے ہیں۔ سیاسی بھیڑ چال کی سب سے بڑی مثال گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے الیکشن میں ملتی ہے۔ وفاق میں جس کی حکومت ہوتی ہے جی بی اور آزاد کشمیر کے عوام دہائیوں سے اسی پارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ہم اتنا بھی نہیں سوچتے کے آزادکشمیر الیکشن کے کتنے عرصہ بعد پاکستان کے الیکشن ہونے اور اگر وفاق میں موجود پارٹی دوبارہ حکومت نہ بنا پائی، تو ہمارا کیا بنے گا؟ مذہبی معاملات میں بھی ہم بھیڑ چال چلتے ہیں اور جنونیت اور اندھی تقلید میں ملک قوم کاناقابل تلافی نقصان کر دیتے ہیں۔ بھیڑ چال چلنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا، فرانس اور اسرائیل کا غصہ آپ سرکاری و عوامی املاک پر نہ نکالیں، مگرہم اندھی تقلید اور جنونیت میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ ہم نئے شعبوں کی طرف جانے کے لیے نہ تو تیار ہوتے ہیں او ر نہ کسی کے مشورہ پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے ملکِ عظیم میں ویسے بھی تجزیہ کار، تبصرہ نگار، مشیر اور طبیب تھوک کے حساب سے موجود ہیں۔ دینی واعظوں میں بھیڑ چال کے نتیجے میں لوگ جمعہ کے خطبے سے چند منٹ پہلے مسجد جاتے اورسلام پھیرنے کے بعد ایسے بھاگتے ہیں جیسے قید سے آزاد ہوئے ہوں۔ سالہا سال سے وہی پرانی تقریریں، وہی باتیں، تحقیق نہ جدید اسلوب، نہ سائنسی بنیادوں پر تشریح، نہ جدید تقاضے کے مطابق امثال۔ ہم کپڑوں کی خریداری میں بھی بھیڑ چال چلتے ہیں، جسے ہم فیشن کا نام دے دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ہم بھیڑ چال چلتے ہیں اور اسے ٹرینڈ کا نام دے دیتے ہیں ۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم جس بھیڑ چال میں شامل ہو رہے ہیں یا ہمیں شامل کیا جا رہا ہے، وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس کی تحقیق اور ثبوت کے بنا ہی بس جدھر گئی ایک بھیڑ، سب بھیڑیں اس کے پیچھے گئیں۔ ہم کھانے پینے، پیری مریدی اور طبعی علاج معالجے میں بھی بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ ہم ڈراموں، فلموں اور ٹی وی پروگراموں کے انتخاب میں بھی بھیڑ چال پر کاربند رہتے ہیں۔ ارطغرل کی تازہ ترین مثال آپ کے سامنے ہے۔ تقریباً ساری قوم ہی اسے دیکھنے لگ گئی۔ حتی کہ دور دراز دیہاتوں میں جہاں پورے گاؤں میں ایک ڈش ٹی وی ہے، وہاں پورا گاؤں جمع ہو کر ارطغرل دیکھتا ہے۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ ساری قوم ارطغرل کے پیچھے کیوں پڑی ہے؟ جی ہاں، اس کا جواب بھی بھیڑ چال ہی ہے۔ ہمارے سارے ڈرامے بھیڑ چال دیکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ان میں کوئی نئی جہت متعارف نہیں کروائی جاتی۔ ٹھیک یہی حال ہمارے ٹی پروگراموں اور شوز کا ہے جو پروگرام یا شو کسی ایک چینل پر کامیاب ہو جاتا ہے۔ سبھی اس کی نقل بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے روزمرہ کے معاملات میں بھی بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔ اگر کسی کو کوئی بڑا عہدہ مل جائے، تو وہ بھیڑ چال کی وجہ سے اپنے سے نیچے شخص کو اپنا غلام سمجھنے لگ جاتا ہے۔ یہ بھیڑ چال اب ہمارے گلے کی زنجیر بن چکی ہے اور ہم اس کے بغیر رہ نہیں پاتے۔ اس عمل کو ہم صرف اپنے آپ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اگلی نسل تک منتقل کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اس بھیڑ چال کی وجہ سے آدھی نسل ٹک ٹاک پر مصروف ہے۔ باقی انسٹا گرام، واٹس اپ، یوٹیوب ، فیس بک وغیرہ سے چپکی ہوی ہے۔ بھیڑ چال کی وجہ سے ہم پر سرمایہ دار، جاگیر دار اورموروثی سیاست دان مسلط ہیں۔ کیوں کہ ہم سیاست پر ان وڈیروں، لٹیروں اور بدعنوانوں کی جگہ پڑھے لکھے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو لانے کے لیے تیار نہیں۔ساری قوم بھیڑ چال کی وجہ سے آج تک تین یا چار سیاسی جماعتوں کے گرد چکر لگا لگا کر چکرا گئی ہے، مگر قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں آج سے دہائیاں پہلے کھڑی تھی۔ بھیڑ چال سے الگ ہونے والے کو ہم بے وقوف اور پاگل قرار دیتے ہیں۔ اس سے کوئی نئی جہت لانا ممکن نہیں۔ لہروں کے ساتھ زندہ لاشیں بہتی ہیں۔ کچھ کر دکھانے والے لہروں کی مخالف سمت تیرنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ جب تک ہم بھیڑ چال کو ترک کرتے ہوئے نئی جہتوں کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے۔ تب تک ہم مصائب کے اس بھنور سے نہیں نکل سکیں گے۔ ………………………………………………. لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] یا [email protected] پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔ Share: Rate: Previous10 جولائی، مارسل پروست کا یومِ پیدائش Nextخیر سلّا About The Author پرفیسر عبدالشکور شاہ پروفیسر عبدالشکور شاہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر ماہرِ تعلیم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات کے لیے کالم اور مضامین لکھتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) کے اسوۂ حسنہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں، لیکن ان سے صاحبِ علم حضرات ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے کم پڑھے لکھے بھائی یا آج کل کے نوجوان اُن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے وہ اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ خواہش بہت دنوں سے تھی کہ اسوۂ حسنہ کا کوئی ایسا مجموعہ مرتب ہو جائے جس سے ہر کس و ناکس فائدہ اٹھا سکے اور اپنے امتی ہونے کا حق کسی نہ کسی حد تک ادا کر سکے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس واقعہ کو نظر انداز کروں اور کس کو منتخب کروں۔ اس گلدستہ کا ہر پھول بے مثال، ہر ایک کی خوشبو میرا دامنِ دل کھینچ رہی تھی کہ”میں یہاں ہوں”۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ نہ چھوڑتے بن رہا تھا نہ پکڑتے بن رہا تھا۔ میرے اللہ نے میری مدد فرمائی۔ ذہن میں ایک خیال ابھرا ” کیوں نہ سیرت کے ان واقعات کو مرتب کر دوں جو ہماری روزمرّہ کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتے ہوں۔” اس خیال کے آتے ہی میری آنکھیں جگمگا اٹھیں، دل خوشی سے لبریز ہو گیا، منہ مانگی مراد مل گئی۔ اسی بہانہ سے ایک بار پھر اپنے آقاﷺ کی خدمت کا موقع نصیب ہو گیا۔ دماغ آسمان پر اُڑنے لگا۔ قلم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ اللہ کی مدد مجھ کم مایہ کے شاملِ حال رہی۔ یہ مختصر سا مجموعہ مرتب ہو گیا جو حجم میں چھوٹا ضرور ہے مگر ہے بہت قیمتی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر عنوان ایک ہی صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور زبان آسان ہے۔ ناظرین سے گزارش ہے کہ اس کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی زندگیوں میں اسے سمونے کی کوشش کریں۔ اس مجموعہ کو مرتب کرنے میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرتبین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین! 1۔ اسوۂ حسنہ از امام ابن قیم رحمہ اللہ، مطبوعہ مکتبہ الحسنات دہلی 2۔ سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی رحمہ اللہ، مطبوعہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ 3۔ سیرت النبیﷺ از علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ، مطبوعہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ 4۔ آدابِ زندگی از مولانا یوسف اصلاحی، مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی عرفان خلیلی (صفی پوری) مرکزی درسگاہ اسلامی۔ رامپور ٭٭٭ 2: آپﷺ گفتگو کیسے کرتے تھے؟ رسول اللہﷺ اپنا وقت فالتو باتوں میں برباد نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ زیادہ تر خاموش رہتے۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ آپﷺ اسی وقت گفتگو فرماتے جب بولنے کی ضرورت ہوتی۔ آپﷺ جلدی جلدی اور کٹے کٹے لفظ نہیں بولتے تھے۔ آپﷺ کی گفتگو بہت صاف اور واضح ہوتی۔ نہ آپ ضرورت سے زیادہ لمبی بات کرتے اور نہ اتنی مختصر ہوتی کہ سمجھ میں نہ آتی۔ آپ کے جملے بہت نپے تلے ہوتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” آپ ٹھیر ٹھیر کر بولتے۔ ایک ایک فقرہ اس طرح واضح ہوتا کہ سننے والے کو پوری تقریر یاد ہو جاتی۔” آپﷺ کی آواز بلند تھی اور اچھی طرح سنی جا سکتی تھی۔ آپﷺ کسی کی بات بیچ سے کاٹتے نہ تھے بلکہ پوری بات کہنے کا موقع دیتے اور توجہ سے سنتے تھے۔ آپﷺ مسکراتے ہوئے نرم لہجہ میں بات کرتے تھے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی یا چاپلوسی کی باتیں زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ آپﷺ ہمیشہ انصاف کی بات کہتے تھے اور منہ دیکھی بات پسند نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ کٹ حجتی سے پرہیز کرتے تھے۔ دشمن کو بھی نہ تلخ جواب آپ ﷺ نے دیا اللہ رے حلاوتِ گفتارِ مصطفےٰ (ابو المجاہد زاہد) ٭٭٭ 3: آپﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے رسولﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے اور جھوٹ کے پاس بھی کبھی نہ پھٹکتے تھے۔ آپ کی زبانِ مبارک سے کبھی کوئی غلط بات سننے میں نہیں آئی یہاں تک کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹی بات آپﷺ کی زبان سے نہیں نکلتی تھی۔ آپﷺ کے دشمنوں نے آپﷺ پر طرح طرح کے الزامات لگائے مگر آپ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ابو جہل آپ کا کتنا بڑا دشمن تھا۔ وہ بھی کہا کرتا تھا: “محمدﷺ ! میں تم کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ تم نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں، البتہ جو باتیں تم کہتے ہو ان کو میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔” یاد کیجئے اُس واقعہ کو جب حضورﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش والوں سے یہ سوال کیا تھا: “اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟” سب نے ایک زبان ہو کر جو جواب دیا تھا وہ آپ کے صادق القول ہونے کی دلیل ہے۔ بولے ” ہاں! ہم ضرور یقین کریں گے کیوں کہ تم کو ہمیشہ سے ہم نے سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔ جانِ حیات ہے ترے اخلاق کی جھلک خود زندگی ہے موت کا ساماں ترے بغیر (ماہر القادری) ٭٭٭ 4: آپﷺ وعدے کے پکے تھے پیارے نبیﷺ بات کے دھنی تھے۔ جو وعدہ فرما لیتے تھے اسے پورا کر کے رہتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جس سے عہد شکنی ثابت کی جا سکے۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اعتراف کرتے تھے۔ تاریخ کو دیکھیے۔ قیصرِ روم ابو سفیان سے دریافت کرتا ہے” کیا محمد نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟” ابو سفیان کا جواب نفی میں سن کر وہ کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔ صلح نا مۂ حُدیبیہ کی ایک شرط تھی “کوئی مکہ والا مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو واپس کر دیا جائے گا۔” ٹھیک اسی وقت جب یہ عہد نامہ تحریر کیا جا رہا تھا ابو جندل رضی اللہ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر مدینہ آ جاتے ہیں اور رسول اللہﷺ کو اپنی حالتِ زار دکھا کر فریادی ہوتے ہیں۔ یہ منظر بہت ہی درد انگیز اور جذباتی تھا۔ تمام مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں، لیکن حضورﷺ نہایت اطمینان اور پُر وقار انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ______ “ابو جندل ! تم کو واپس جانا ہو گا، میں بد عہدی نہیں کرسکتا۔” الفاظ کرب و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ آپ کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔ ٭٭٭ 5: آپﷺ بد زبانی سے پرہیز کرتے تھے بد زبانی ایسی بری عادت ہے کہ جس میں یہ عادت پائی جاتی ہے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، وہ شخص دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے، سب اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ بد زبان آدمی سے لوگ ملنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ “خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بُرا شخص وہ ہو گا جس کی بد زبانی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔” بد زبانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔” بد زبانی ہی کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ حضورﷺ نے صاف صاف فرمایا ہے کہ (مسلمان کا) مسلمان کو برا بھلا کہنا فِسق ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔” ایک بار رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے۔” صحابہ رضی اللہ عنہم نے حیرت سے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ‘اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا کہے گا تو جواب میں وہ اُن کے ماں باپ کو برا کہے گا۔” اللہ تعالیٰ ہمیں بد زبانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین لہجۂ لب سے ہوئے سنگ بھی موم کتنا پیار آپ کی گفتار میں ہے (اقبال صفی پوری) ٭٭٭ 6: آپﷺ کو غیبت سے نفرت تھی غیبت سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں، اچھے دل برے ہو جاتے ہیں۔ عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو قرآن کریم میں غیبت کرنے والے کی مثال ایسے شخص سے دی گئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ ___ توبہ! توبہ _____ کتنی گھناؤنی عادت ہے کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا۔ غیبت کے بارے میں پیارے نبیﷺ سے سوال کیا گیا کہ “یا رسول اللہ ! غیبت کس کو کہتے ہیں؟” آپﷺ نے فرمایا ” تمہارا اپنے بھائی کی اُن باتوں کا ذکر کرنا جن کو وہ سنے تو اُسے ناگوار گزرے۔” پھر پوچھا گیا کہ “اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کو بیان کیا گیا ہے؟” آپﷺ نے جواب دیا کہ ___ “اگر وہ عیب اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان (جھوٹا الزام) لگایا۔” اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم کو بچائے۔ آمین! ترے کردار پر دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا ترے اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی ماہر القادری ٭٭٭ 7: آپﷺ میٹھے بول بولتے تھے رسول اللہﷺ جب بھی کسی سے بات کرتے تو اس کے منصب اور ادب و احترام کا خیال رکھتے تھے۔ اس سے آپس کے تعلقات اچھے رہتے ہیں اور میل جول بڑھتا ہے۔ اچھی عادتوں میں سلام کرنا، شکریہ ادا کرنا، مزاج پوچھنا، نصیحت کرنا اور نیکی کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا “جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ زبان سے اچھی بات نکالے ورنہ چپ رہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بد کلامی اور ایسی باتوں سے بچنا چاہیے جس سے دوسروں کا دل دُکھے۔ ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” اچھی بات صدقہ ہے یعنی میٹھی زبان استعمال کر کے دوسروں کے دل جیت لینا بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک صحابی نے دریافت کیا کہ “یا رسول اللہ ! نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟”۔۔۔۔۔ آپﷺ نے فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو۔ “یعنی پہلے تولو پھر بولو۔ تاکہ تمہاری باتوں سے کسی کا دل نہ دکھنے پائے اور تمہاری زبان سے ایسے کلمے نہ ادا ہوں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔ ایک دفعہ آپﷺ نے جنت کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ ایک صحابی بے تاب ہو کر بولے: یا رسول اللہ ! یہ جنت کس کو ملے گی؟” حضورﷺ نے فرمایا “جس نے اپنی زبان سے بری باتیں نہیں نکالی ہوں گی۔” دیکھیے جنت حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی زبان سے کوئی بری بات نہ نکالیں۔ ٭٭٭ 8: آپﷺ مذاق بھی کرتے تھے پیارے نبیﷺ مذاق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں بھی آپ (صلی اللہ ولیہ وسلم) کبھی غلط بات زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ ایک بار ایک بوڑھی عورت آپﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے دعا کیجئے اللہ مجھے جنت عطا فرمائے۔ “حضورﷺ نے ارشاد فرمایا “مائی مجھے افسوس ہے کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔” یہ سن کر وہ بڑھیا زار و قطار رونے لگی۔ آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ” بے شک کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جانے پائے گی البتہ اللہ تعالیٰ ان کو جوان بنا دے گا پھر وہ جنت میں جائیں گی۔” یہ سنتے ہی بڑھیا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ایک شخص نے حضورﷺ سے سواری کے لیے اونٹ مانگا۔ آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: “ہم تمہیں اونٹنی کا ایک بچہ دیں گے۔” اس نے حیرت سے کہا “میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ مجھے تو سواری کے لئے ایک اونٹ چاہئے۔” آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا “ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔” سب ہنس پڑے۔ ایک دفعہ کھجوریں کھائی جا رہی تھیں۔ حضورﷺ مذاق کے طور پر اپنی گٹھیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈالتے رہے۔ آخر میں فرمایا کہ “علی نے سب سے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں۔” انھوں نے جواب دیا کہ “آپ نے تو گٹھلیوں سمیت کھائی ہیں۔” ٭٭٭ 9 : آپﷺ کس طرح کھاتے پیتے تھے؟ کھانے پینے کے سلسلے میں آپﷺ کا یہ معمول تھا کہ جو چیز سامنے رکھ دی جاتی، آپﷺ ہنسی خوشی تناول فرما لیتے، بشرطیکہ وہ پاک و حلال ہو۔ اگر طبیعت کراہت محسوس کرتی تو ہاتھ روک لیتے مگر دسترخوان پر کھانے کی برائی نہ فرماتے۔ ہاتھ دھو کر کھانا شروع کرتے اور پلیٹ کے کنارے سے کھاتے۔ بیچ میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ اگر پلیٹ میں کچھ بچ جاتا تو آپ اسے پی لیتے یا انگلی سے چاٹ لیتے۔ کھانے سے فارغ ہو کر آپﷺ انگلیاں چاٹتے اور پھر ہاتھ دھو لیتے۔ ٹیک لگا کر کھانے سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔ پانی ہمیشہ بیٹھ کر پیتے۔ آپﷺ نے فرمایا “پانی پیوں تو چوس کر پیو، برتن میں سانس مت لو بلکہ برتن ہٹا کر سانس لے لو۔ ایک ہی سانس میں پانی نہ پیو، دو یا تین دفعہ کر کے پیو۔ اس طرح پینا مفید ہے۔” آپﷺ بسم اللہ کہہ کر کھانا پینا شروع فرماتے۔ جب کھا پی چکتے تو الحمد اللہ فرماتے یا پھر یہ دعا پڑھتے: الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین ترجمہ: ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہمیں مسلمانوں میں سے بنایا۔ ٭٭٭ 10: آپﷺ بہت شرمیلے تھے شرم و حیا انسان کی قدرتی خا صیت ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس سے ہم میں بہت سی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور پرورش پاتی ہیں اور ہم بہت سی برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔ اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ “حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔” جس میں شرم و حیا نہیں وہ ایماندار نہیں۔ پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ ننگے ہونے سے بچو کیوں کہ تمہارے ساتھ ہر وقت اللہ کے فرشتے رہتے ہیں البتہ جب تم پیشاب پاخانے کو جاتے ہو تو وہ الگ ہو جاتے ہیں تو تم ان سے شرم کرو اور ان کا خیال رکھو۔ آپ کو رسولﷺ کے بچپن کا واقعہ تو یاد ہو گا جب کعبہ کی دیوار کی مرمت ہو رہی تھی۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی پتھر کندھوں پر رکھ کر لا رہے تھے۔ پیارے نبیﷺ بھی ان میں شریک تھے۔ جب کندھے دکھنے لگے تو لڑکوں نے تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لیے۔ حضورﷺ کے چچا نے آپﷺ سے ایسا ہی کرنے کو کہا۔ جب بہت اصرار کیا تو مجبوری کی حالت میں آپﷺ نے تہبند کھولنا چاہا تو مارے شرم کے بے ہوش ہو گئے۔ جب چچا نے یہ دیکھا تو منع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھا آپ نے ہمارے نبیﷺ کتنے حیا دار تھے۔ آئیے ہم بھی بے شرمی کی باتوں سے بچیں تاکہ ہمارا اللہ ہم سے خوش ہو۔ ٭٭٭ 11: آپﷺ بہت رحمدل تھے اچھے اخلاق کی بنیادی صفتوں میں سے ایک صفت رحمدلی ہے۔ رحم کا جذبہ ہمیں نیکی کرنے پر ابھارتا ہے۔ یہی جذبہ ہمیں دوسروں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے اور اچھے سلوک کرنے پر ابھارتا ہے، بدسلوکی سے بچاتا ہے۔ پیارے نبیﷺ نے فرمایا “جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔” صرف انسانوں ہی کے ساتھ نہیں بلکہ بے زبان جانوروں پر بھی رحم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفریح کے طور پر جو لوگ جانوروں کو لڑاتے ہیں جس سے وہ لہو لہان ہو جاتے ہیں، رسول اللہﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ ذبح کرنے سے پہلے جانور کو پانی پلانے اور چھری تیز کر لینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ایک دفعہ ایک صحابی چڑیا کے بچوں کو پکڑ لائے۔ چڑیا چوں چوں کرتی ان کے پیچھے پیچھے آئی۔ حضورﷺ نے جب یہ دیکھا تو صحابی سے فرمایا کہ بچے اس گھونسلے میں رکھ آؤ۔ آئیے ہم بھی عہد کریں کہ ہم ہر ایک کے ساتھ بھلائی اور رحمدلی کا برتاؤ کریں گے۔ تمہیں یتیموں کے چارہ گر ہو، تمہیں شکستہ دلوں کے پُرساں سبھی کے ہمدم، سبھی کے یاور، سلام تم پر درود تم پر (اقبال صفی پوری) ٭٭٭ 12 : آپﷺ بہت تیز چلتے تھے حضورﷺ کی چال بہت تیز تھی۔ آپ چلتے تو مضبوطی سے قدم جما کر چلتے۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں قدم گھسیٹ کر نہ چلتے۔ بدن سمٹا ہوا رہتا۔ قوت سے آگے قدم بڑھاتے۔ آپﷺ کا جسم مبارک بہت تھوڑا سا آگے جھکا ہوا رہتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اونچائی سے نیچے کی طرف آ رہے ہوں۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ “آنحضرتﷺ جب چلتے تو اس طرح چلتے کہ جیسے ڈھلوان پہاڑی پر سے اتر رہے ہوں۔” آپﷺ کی چال شرافت، عظمت اور احساس ذمہ داری کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ آپﷺ کے چلنے کا ڈھنگ ہمیں یہ پیغام دیتا تھا کہ “زمین پر گھمنڈ کی چال نہ چلنا چاہئے۔” آپﷺ کی رفتار کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہما) فرماتے ہیں کہ “آپ معمولی رفتار سے چلتے تب بھی ہم مشکل ہی سے ساتھ دے پاتے تھے۔” آپﷺ کا دستور تھا کہ جب صحابہ ساتھ ہوتے تو آپﷺ ان کو یا تو ساتھ کر لیتے یا آگے کر دیا کرتے تھے۔ نسیمِ وادی و صحرا ہویا شمیم چمن ہر اک انہیں ﷺ سے ادائے سبک روی مانگے (اقبال صفی پوری) ٭٭٭ 13: آپﷺ بالوں کا خیال رکھتے تھے رسول اللہﷺ کے بال بکھرے ہوئے اور پریشان نہیں رہتے تھے کہ جنھیں دیکھ کر وحشت پیدا ہو۔ آپﷺ ان میں اکثر تیل ڈالا کرتے تھے اور کنگھا فرماتے تھے۔آخر زمانہ میں آپﷺ مانگ بھی نکالنے لگے تھے۔ آپﷺ کی داڑھی کے بال بھی پریشان نہیں رہتے تھے بلکہ ان میں بھی آپ کنگھی کرتے تھے۔ ایک بار آپﷺ نے ایک شخص کے بال بہت پریشان دیکھے تو فرمایا کہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ بالوں کو درست کر لے۔ آپﷺ دانتوں کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ پنج وقتہ وضو کرتے ہوئے آپ مسواک ضرور فرماتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ “مسواک منہ کی صفائی اور پروردگار کی خوشنودی ہے۔” ہر برائی کو دیا دیس نکالا جس نے ڈگمگاتے ہوئے انساں کو سنبھالا جس نے آدمیت کو نئے طرز پہ ڈھالا جس نے کر دیا مشرق و مغرب میں اجالا جس نے اسی انسان کو محبوبِ خدا کہتے ہیں نام سنتے ہیں تو سب صل علٰی کہتے ہیں (ماہر القادری) ٭٭٭ 14: آپﷺ کا لباس کیسا تھا؟ لباس کے بارے میں حضورﷺ کی سنت یہ تھی کہ آپ کسی خاص وضع قطع کے کپڑے کے پابند نہ تھے بلکہ ہر وہ کپڑا جو ستر کو پوری طرح ڈھانک سکے آپﷺ نے استعمال فرمایا ہے۔ آپ نے اچھے سے اچھے کپڑے بھی پہنے ہیں اور معمولی سے معمولی بھی، یہاں تک کہ پیوند لگے کپڑے بھی پہنے ہیں۔ جو لوگ تقویٰ کے خیال سے اچھے کپڑے اور اچھے کھانے کو منع کرتے ہیں، یا جو لوگ موٹے جھوٹے کھانے کپڑے کو غرور کی وجہ سے نا پسند کرتے ہیں، دونوں کا رویہ پیارے نبیﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ حضورﷺ ہمیشہ درمیانی راستہ اختیار فرماتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا “جو کوئی دنیا میں اپنی شہرت کے لیے لباس پہنے گا (خواہ عمدہ لباس ہو یا پھٹا پرانا ہو) آخرت میں خدا اُسے ذلت و خواری کا لباس پہنائے گا۔” آپﷺ نے یہ بھی فرمایا “جس کسی نے غرور سے اپنے لباس کا دامن بڑا رکھا، قیامت کے دن خدا اس کی طرف نہ دیکھے گا۔” ایک صحابی نے دریافت کیا “یا رسول اللہ! میں ہمیشہ یہ چاہتا ہوں کہ میرا لباس اچھا ہو، میرا جوتا اچھا ہو، کیا یہ غرور ہے؟” آپﷺ نے وضاحت فرمائی “نہیں اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ غرور۔۔ حق کو ٹھکرانا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔” ٭٭٭ 15: آپﷺ کپڑے کیسے پہنیں؟ پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہمیں ایسا لباس پہننا چاہیے جو پوری پوری ستر پوشی کر سکے اور جس سے ہم میں غرور نہ پیدا ہو سکے۔ عورتوں اور مردوں کے لباس میں فرق ضروری ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ “خدا نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں جیسے کپڑے پہنتے ہیں اور ان عورتوں پر بھی لعنت ہے جو مردوں کے لباس کی نقل کرتی ہیں۔” آپﷺ نے مردوں کے لیے ریشمی کپڑا پہننا حرام قرار دیا ہے۔ آپﷺ کو سفید رنگ کا کپڑا بہت پسند تھا۔ آپﷺ نے فرمایا “سفید کپڑا سب سے بہتر ہے۔” اور سرخ کپڑا مردوں کے لئے ناپسند کیا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “ٹخنوں سے اونچا پائجامہ اور لنگی رکھنے سے انسان ہر طرح کی نجاستوں سے پاک رہتا ہے۔” یعنی راستہ کی گندگی اور دل کی گندگی (غرور) سے بچا رہتا ہے۔ حضورﷺ نے سادہ، با وقار اور سلیقہ کا لباس پہننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ آپﷺ بے ڈھنگے پن کے لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ٭٭٭ 16: آپﷺ چھینک اور جمائی کیسے لیتے تھے؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺ چھینک لیتے تو منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیتے جس سے آواز یا تو بالکل دب جاتی یا بہت کم ہو جاتی ایک اور حدیث میں ہے کہ “اونچی جمائی اور بلند چھینک شیطان کی طرف سے ہے، اللہ ان دونوں کو نا پسند فرماتا ہے۔” ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو آپﷺ کے سامنے چھینک آئی، آپ نے قاعدے کے مطابق “یرحمک اللہ” کہا۔ ذرا دیر بعد اُسے پھر چھینک آئی تو آپﷺ نے کچھ نہیں کہا بلکہ فرمایا “اسے زکام ہے۔” صحیح حدیث میں ہے کہ “اللہ تعالیٰ چھینک کو دوست رکھتا ہے اور جمائی سے نفرت کرتا ہے (کیونکہ یہ کاہلی اورسستی کی نشانی ہے) جب چھینک آئے تو “الحمد للہ” کہو، دوسرے کو چھینکتے اور یہ کہتے سنو تو “یرحمک اللہ” کہو، پھر چھینکنے والا جواب میں “یھد یکم اللہ و یصلح بالکم” کہے۔ (بخاری) ٭٭٭ 17: آپﷺ سلام کرنے میں پہل کرتے رسول اللہﷺ کو سلام کرنے کی عادت بہت پسند تھی۔ آپ سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا “تین باتیں جس کسی میں جمع ہو گئیں(سمجھ لو کہ) اس میں ایمان جمع ہو گیا۔ 1۔ اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا 2۔ ہر جانے انجانے کو سلام 3۔ تنگی میں خدا کے نام پر خرچ کرنا۔ (بخاری) آپﷺ کی سنت تھی کہ جب کہیں آپﷺ جاتے سلام کرتے۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر کوئی سلام سے پہلے کچھ پوچھے تو جواب مت دو۔” ایک مرتبہ کچھ لڑکے کھیل رہے تھے، ان کے پاس سے آپﷺ کا گزر ہوا تو آپﷺ نے ان کو سلام کیا۔(مسلم) آپﷺ سلام کا جواب ہمیشہ زبان سے دیا کرتے تھے۔ ہاتھ یا انگلی کے اشارے یا صرف سر ہلا کر کبھی جواب نہیں دیتے۔ جب کوئی کسی دوسرے کا سلام آ کر پہنچاتا تو آپﷺ سلام کرنے والے اور پہنچانے والے دونوں کو جواب دیتے۔ فرماتے “علیہ وعلیکم السلام۔” ہم چھوڑ کے در ان کا برباد ہوئے کیا کیا؟ اس در سے لپٹ جائیں پھر ان کے کرم دیکھیں (اقبال صفی پوری) ٭٭٭ 18: آپﷺ کو صفائی و سادگی پسند تھی رسول اللہﷺ صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔ اسی لئے تو آپﷺ نے فرمایا ہے۔ “صفائی آدھا ایمان ہے” ایک دفعہ ایک شخص بہت ہی میلے کپڑے پہن کر آپ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا “کیا یہ آدمی اپنے کپڑے دھونے کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا؟” ایک بار ایک خوشحال شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بہت ہی گھٹیا درجہ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا “اللہ تعالیٰ نے تم کو مال و دولت دی ہے اس کا اظہار تمہاری ظاہری حالت سے بھی ہونا چاہئے۔” مسجد کی دیواروں پر اگر تھوک وغیرہ کے نشانات دیکھتے تو آپ کو بہت برا معلوم ہوتا۔ آپ خود چھڑی سے کھرچ کر اُسے صاف کر دیتے۔ مسجد میں خوشبو کے لیے لوبان وغیرہ سلگانے کی ہدایت فرماتے۔ آپﷺ خود بھی سادہ زندگی گزارتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے، آپ اپنا کام خود کر لیا کرتے تھے۔ یہ راز اس کملی والے نے بتایا سکوں کا راستہ بس سادگی ہے (اقبال صفی پوری) ٭٭٭ 19: آپﷺ نفاست پسند تھے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں عربوں میں نفاست پسندی بالکل نہ تھی۔ وہ جہاں چاہتے تھوک دیتے اور راستہ میں رفع حاجت کر لیا کرتے تھے۔ پیارے نبیﷺ اس عادت کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور اس سے منع کرتے تھے۔ احادیث میں کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ حضورﷺ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو راستوں میں یا درختوں کے سایہ میں پیشاب پاخانہ کرتے ہیں۔ امراء اپنی کاہلی کی وجہ سے کسی برتن میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ آپﷺ اس سے بھی منع فرماتے تھے۔ آپﷺ نے بیٹھ کر پیشاب کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ عرب میں پیشاب کر کے استنجا کرنے یا پیشاب سے کپڑوں کو بچانے کا کوئی دستور نہ تھا۔ حضورﷺ ایک دفعہ کہیں تشریف لیے جا رہے تھے، راستہ میں دو قبریں نظر آئیں، آپﷺ نے فرمایا ان میں سے ایک پر اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچاتا تھا۔ اللہ اللہ یہ فیضانِ ختمِ رسلﷺ جس کو کہتے تھے دنیا وہ دیں بن گئی (ماہر القادری) ٭٭٭ 20: آپﷺ دوستوں کا خیال رکھتے تھے نبی اکرمﷺ اپنے ساتھیوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے دوستوں سے سچی محبت کرے اور اس کے دوست اس سے محبت کریں۔ آپﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے ہمیں دوستی کے سلسلہ میں حسب ذیل ہدایات ملتی ہیں: 1۔ ہمیشہ نیک، شریف اور سچے شخص سے دوستی کرنا چاہئے۔ 2۔ دوستی خلوص کے ساتھ کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی مطلب یا غرض شامل نہ ہو۔ 3۔ دوستوں پر بھروسہ کرنا چاہئے، ان کے ساتھ خیر خواہی اور وفا داری سے پیش آنا چاہئے۔ 4۔ ان کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہیں اور مسکراتے ہوئے ملیں۔ 5۔ اگر وہ کسی معاملے میں مشورہ چاہیں تو نیک نیتی اور سچے دل سے مشورہ دیں۔ 6۔ دوست کی طرف سے اگر کوئی بات طبیعت کے خلاف بھی ہو تو زبان پر قابو رکھیں اور نرمی سے جواب دیں۔ 7۔ اگر کسی بات پر آپس میں اختلاف ہو جائے تو جلد ہی صلح صفائی کر لیں۔ 8۔ اپنی اور اپنے دوست کی اچھے ڈھنگ سے اصلاح و تربیت کی کوشش کرتے رہیں۔۔۔۔۔۔ ! ٭٭٭ 21: آپﷺ حسنِ سلوک کے عادی تھے رسول اکرمﷺ ہر ایک کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے، پاس بیٹھے ہوئے ہر شخص سے آپ اس طرح مخاطب ہوتے جیسے سب سے زیادہ آپ اسی سے محبت کرتے ہیں اور ہر شخص یہی محسوس کرنے لگتا کہ جیسے حضورﷺ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔ جب کوئی شخص کوئی بات دریافت کرتا تو آپﷺ مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے۔ جب کسی خاندان یا قبیلہ کا کوئی معزز آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا، اُس کے مرتبہ کے مطابق اس کی عزت فرماتے لیکن دوسروں کو نظر انداز بھی نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کو گود میں لیے پیار کر رہے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا “یا رسول اللہ ! میں تو اپنی اولاد کا بوسہ نہیں لیتا۔” آپﷺ نے فرمایا “اگر اللہ تمہارے دل سے محبت کو چھین لے تو میں کیا کروں۔” جب آپ صحابہ کی مجلس میں بیٹھتے تو کبھی ان کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے۔ آپﷺ مشورہ کے محتاج نہ تھے پھر بھی صحابہ سے برابر مشورہ فرماتے تھے۔ ٭٭٭ 22: آپﷺ دوسروں کے کام آتے تھے دوسروں کے آڑے وقت میں کام آنا، ان کی مدد کرنے کے لئے تیار رہنا، یہ پیارے نبیﷺ کی ایک صفت تھی، آپﷺ خدمت خلق کے پیکر تھے۔ ایک مرتبہ حضرتِ خباب بن ارت(رضی اللہ عنہ) کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ ان کے گھر میں کوئی اور مرد نہ تھا۔ عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا۔ آپﷺ روزانہ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور دودھ دوہ آیا کرتے تھے۔ ایک بار آپﷺ نماز کی نیت باندھنے جا رہے تھے کہ ایک بدو آیا۔ آپﷺ کا دامن پکڑ کر بولا “میری ایک معمولی سی ضرورت رہ گئی ہے میں بھول جاؤں گا، اُسے اِسی وقت پورا کر دیجئے۔” آپﷺ فوراً اس کے ساتھ تشریف لے گئے، اس کا کام کر دیا اور پھر واپس آ کر نماز ادا کی۔ بیواؤں اور یتیموں، مسکینوں اور معذوروں کی مدد کرنا نہ آپ کوئی عار سمجھتے تھے اور نہ تھکتے تھے بلکہ ان کی خدمت کر کے آپﷺ اطمینان، سکون اور خوشی محسوس فرماتے تھے۔ صحابہ کو بھی آپﷺ اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ٭٭٭ 23: آپﷺ معاملے کے کھرے تھے رسول اللہﷺ کی امانت داری اور معاملات کی صفائی کا ذکر بیان سے باہر ہے۔ یہ اوصاف آپﷺ کی ذاتِ مبارک میں اس طرح نمایاں تھے کہ آپﷺ کے دشمن بھی ان کا انکار نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ “صادق” اور “امین” کے لقب آپ کو اہلِ خاندان نے نہیں، دوستوں نے نہیں بلکہ آپﷺ کے دشمنوں نے دیے تھے اور انہی لقب سے آپ کو پکارا کرتے تھے۔ مشرکینِ مکہ کے دل آپﷺ کی طرف سے بغض و کینہ اور نفرت و عداوت سے بھرے ہوئے تھے مگر اپنی امانتیں وہ آپﷺ ہی کے سپرد کر کے مطمئن ہوتے تھے۔ آپﷺ کے مقابلے میں وہ کسی دوسرے کا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہجرت کرتے وقت بھی رسول اللہﷺ نے کفار مکہ کی امانتوں کا کتنا معقول انتظام فرمایا تھا۔ ایک دفعہ آپﷺ نے کسی سے ایک اونٹ قرض لیا۔ جب واپس کیا تو اس سے بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا “سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کو خوش معاملگی سے ادا کرتے ہیں۔” ٭٭٭ 24: آپﷺ بہت سخی تھے نبی اکرمﷺ سخاوت کے دریا تھے۔ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس کرنا آپﷺ جانتے ہی نہ تھے۔ اگر اس وقت آپﷺ کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آئندہ اُسے دینے کا وعدہ فرما لیتے۔ ایک روز عصر کی نماز پڑھ کر معمول کے خلاف آپﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر فوراً واپس بھی آ گئے۔ صحابہ کو بہت تعجب ہوا۔ آپﷺ نے ان کی حیرت کو دور کرنے کے لیے فرمایا “کچھ سونا گھر میں پڑا رہ گیا تھا۔ رات ہونے کو آئی اس لیے اُسے خیرات کر دینے کو کہنے گیا تھا۔” ایک بار بحرین سے خراج آیا۔ اس میں اتنی زیادہ رقم تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ حضورﷺ نے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر تقسیم کرنا شروع کر دی۔ شام ہونے سے پہلے ہی آپﷺ دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپﷺ کے پاس کوئی بھی کھانے پینے کی چیز آتی، آپﷺ اسے تنہا نہیں کھاتے بلکہ تمام صحابہ کو جو وہاں موجود ہوتے اس میں شریک فرما لیتے تھے۔ ٭٭٭ 25: آپﷺ بہت انکسار پسند تھے رسول اللہﷺ کبھی سر اٹھا کر مغرورانہ انداز میں نہیں چلتے تھے، آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔ جب دوسروں کے ساتھ چلتے تو خود پیچھے چلتے اور دوسروں کو آگے کر دیتے۔ آپﷺ بڑی خاکساری کے ساتھ بیٹھتے، کھانا کھاتے وقت غلاموں کی طرح بیٹھتے۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے “میں اللہ کا فرمانبردار بندہ ہوں اور اس کے غلاموں کی طرح کھانا کھاتا ہوں۔ جب کسی مجلس میں پہنچتے تو بیٹھے ہوئے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے نہیں گزرتے تھے، بلکہ پیچھے کی صف میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ جب آپﷺ کو آتا دیکھ کر صحابہ کرام تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے تو آپ فرماتے “میری تعظیم کے لیے کھڑے ہو کر عجمیوں کی نقل نہ کرو۔” فتح مکہ کے موقع پر جب آپ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو عاجزی اور انکساری کے طور پر سرِ مبارک کو اس قدر جھکا لیا تھا کہ وہ اونٹ کے کجاوے کو چھو رہا تھا۔ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی رعب دار شخصیت کو دیکھ کر کانپنے لگا۔ آپﷺ اس کے قریب گئے اور فرمایا “میں تو اس غریب قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھاتی تھی۔” ٭٭٭ 26: آپﷺ کو غرور پسند نہ تھا انسان میں جب کوئی خاص صفت یا کمال پیدا ہو جاتا ہے تو قدرتی طور پر وہ اترانے لگتا ہے۔ یہ کوئی بری عادت نہیں ہے بلکہ اِسی کو فخر کرنا کہتے ہیں لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو جن میں یہ صفت یا کمال نہیں ہوتا، اپنے سے ذلیل یا کم درجہ کا سمجھنے لگتا ہے تو اسی کو غرور کہتے ہیں۔ غرور کی عادت کو اللہ تعالیٰ بالکل پسند نہیں فرماتا۔ نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک خوبصورت شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے خوبصورتی پسند ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ خوبصورتی میں کوئی بھی مجھ سے بازی لے جائے۔ کیا یہ غرور ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا “نہیں یہ غرور نہیں ہے، غرور تو یہ ہے کہ تم دوسروں کو اپنے سے حقیر(کم درجہ)سمجھو۔” ایک اور موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ “جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہو گا، وہ جنت میں نہ جائے گا”۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بری عادت سے محفوظ رکھے۔ ٭٭٭ 27: آپﷺ بہت مہمان نواز تھے رسول اللہﷺ مہمانوں کا بہت خیال کرتے تھے۔ اس کام کے لیے آپﷺ نے حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو خاص طور پر مقرر فرمایا تھا تاکہ مہمان کی خاطر تواضع ٹھیک سے ہو سکے۔ باہر سے جو وفد آتے آپﷺ خود ان کی خاطر مدارات فرماتے تھے۔ اگر ان کو کوئی مالی ضرورت ہوتی تو آپ اس کا بھی انتظام فرما دیتے۔ آپﷺ کی خاطرداری کافر اور مسلمان دونوں کے لیے عام تھی۔ کوئی غیر مسلم بھی آپﷺ کے یہاں آ جاتا تو اس کی تواضع بھی مسلمان مہمان کی طرح سے ہوتی۔ اکثر ایسا ہوتا رہتا کہ گھر میں کھانے پینے کا جو سامان ہوتا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا اور آپﷺ اور آپﷺ کے گھر والے فاقہ سے رہ جاتے۔ ایک دن اصحابِ صُفّہ کو لے کر آپﷺ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر پہنچے (خود آپﷺ کے یہاں کچھ نہ تھا) اور کھانا لانے کے لئے فرمایا۔ چونی کا پکا ہوا کھانا لایا گیا، پھر چھو ہارے کا حریرہ آیا اور آخر میں ایک بڑے پیالے میں دودھ۔ یہی کل کھانا تھا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ مہمانوں کی خبر گیری فرماتے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: “مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے۔” ٭٭٭ 28: آپﷺ بہت خود دار تھے سوائے اس کے جب کسی کی ضرورت اسے ہاتھ پھیلانے پر بالکل مجبور کر دے، آپﷺ سوال کرنے اور بھیک مانگنے کو بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ “اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اور بیچ کر اپنی آبرو بچائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔” ایک دفعہ ایک انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کچھ سوال کیا۔ آپﷺ نے دریافت کیا: تمہارے پاس کچھ ہے؟۔” وہ بولے بس ایک بچھونا اور ایک پیالہ ہے۔ آپﷺ نے انہیں لے کر فروخت کیا اور رقم ان انصاری کو دے کر فرمایا “ایک درہم کا کھانا لا کر گھر میں دے آؤ اور دوسرے سے رسی خرید کر جنگل جاؤ۔ لکڑی باندھ کر لاؤ اور شہر میں بیچ لو۔” 15 روز کے بعد وہ انصاری آئے۔ ان کے پاس کچھ درہم جمع ہو گئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا” یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرے پہ گداگری کا داغ لگا کر جاتے۔” آپﷺ نے فرمایا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف 3 شخصوں کے لیے مناسب ہے۔ 1۔ وہ شخص جو بہت زیادہ قرض دار ہو۔ 2۔ وہ شخص جس پر ناگہانی مصیبت آ پڑی ہو۔ 3۔ وہ شخص جو کئی فاقوں سے ہو۔ ان کے علاوہ اگر کوئی کچھ مانگتا ہے تو حرام کھاتا ہے۔” ٭٭٭ 29: آپﷺ برابری کا برتاؤ کرتے رسولﷺ کی نظر میں امیر غریب، چھوٹے اور بڑے، غلام اور آقا سب برابر تھے۔ آپﷺ سب کے ساتھ برابر کا سلوک کیا کرتے تھے۔ آپ جب صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوتے اور کوئی چیز وہاں لائی جاتی تو بغیر کسی امتیاز کے دائیں طرف سے اس کو بانٹنا شروع کر دیتے۔ آپﷺ اپنے لئے بھی کسی قسم کا کوئی امتیاز پسند نہ فرماتے تھے۔ آپﷺ ہمیشہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتے۔ دوسروں سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی مخصوص جگہ بھی پسند نہ کرتے تھے۔ آپﷺ سب کے ساتھ مل جل کر کام کیا کرتے تھے یا ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ دیکھ لیجئے احزاب کی جنگ کے لئے تیاری ہو رہی ہے، مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کھودی جا رہی ہے۔ تمام صحابہ خندق کھود رہے ہیں اور مٹی لا لا کر پھینک رہے ہیں، وہ دیکھئے رسول اکرمﷺ بھی سب کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ جسم مبارک گرد سے اَٹا ہوا ہے۔ 3 دن کا فاقہ ہے مگر پھر بھی مستعدی میں کوئی فرق نہیں۔ یاد ہو گا کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی آپﷺ مزدوروں کی طرح سب کے ساتھ شریک رہے تھے۔ ٭٭٭ 30: آپﷺ ایثار کے عادی تھے سخاوت کا سب سے اونچا درجہ ایثار کہلاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ضرورت روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کر دینا۔ خود بھوکا رہے اور دوسروں کو کھلائے، خود تکلیف اٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچانے کی کوشش کرے، اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔ رسولﷺ کی مبارک زندگی اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایک دفعہ ایک مسلمان عورت نے اپنے ہاتھ سے ایک چادر بُن کر حضورﷺ کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کی۔ اس وقت آپﷺ کو چادر کی سخت ضرورت تھی۔ آپﷺ نے اس تحفہ کو قبول فرما لیا۔ اسی وقت ایک صحابی نے عرض کیا “یا رسول اللہ ! یہ چادر تو بہت خوبصورت ہے، مجھے عنایت فرما دیں تو بڑا اچھا ہو۔” پیارے نبیﷺ نے ایثار سے کام لیا اور فوراً وہ چادر ان صحابی کو دے دی حالانکہ آپ کو خود ضرورت تھی مگر آپ نے ان کی ضرورت کو مقدم سمجھا۔ ایسی ہی مثالیں ہمارے لئے اندھیرے کا چراغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ٭٭٭ 31: آپﷺ بڑے بہادر تھے انتہائی نرم دل اور رحم دل ہونے کے باوجود نبی اکرمﷺ بہت ہی نڈر اور بہادر تھے۔ اللہ کے ڈر کے سوا اور کسی کا خوف آپﷺ کے دل میں نہ تھا۔ انتہائی بے خوفی کے ساتھ آپ مقابلے کے لیے نکل آتے تھے۔ ایک مرتبہ رات کے وقت مدینہ منورہ میں کچھ شور ہوا۔ مدینہ والے گھبرا گئے۔ سمجھے کہ قریشِ مکہ نے اچانک حملہ کر دیا ہے۔ کسی کو ہمت ہی نہ ہوئی کہ باہر نکل کر حالات معلوم کرے، آخر کار کچھ لوگوں نے ہمت کر کے باہر جانے کا ارادہ کیا۔ مگر دیکھتے کیا ہیں کہ رسول اللہﷺ تن تنہا واپس تشریف لا رہے ہیں اور سب کو تسلی دیتے جاتے ہیں کہ “گھبراؤ نہیں، میں مدینہ سے باہر جا کر دیکھ آیا ہوں، کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے۔” غزوہ حنین میں جب مشرکین نے چاروں طرف سے گھیراؤ کر لیا تھا تو ناقہ سے اتر کر آپﷺ نے حملہ آوروں کا جس بہادری سے مقابلہ کیا تھا اسے دیکھ کر صحابہ دنگ رہ گئے تھے۔ مشرکین عرب کا مشہور پہلوان رکانہ جب اسلام قبول کرنے کی یہ شرط رکھتا ہے کہ “محمدﷺ کشتی میں مجھے پچھاڑ دیں گے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔” تو دیکھنے والی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ایک دو بار نہیں بلکہ مسلسل 3 دفعہ آپﷺ نے اس کو شکست دی۔ آخر کار رُکانہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ ٭٭٭ 32: آپﷺ معاف کر دیا کرتے تھے رسول اللہﷺ کی صفات حمیدہ میں سے ایک نمایاں صفت صبر کرنا اور معاف کر دینا بھی ہے۔ آپﷺ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ “آنحضرتﷺ نے کبھی کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں بدلہ نہیں لیا۔” قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دی، راستہ میں کانٹے بچھائے، جسم مبارک پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر دم گھونٹنے کی کوشش کی، آپﷺ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کیں، توبہ توبہ ! آپﷺ کو پاگل، جادوگر اور شاعر کہا مگر آپﷺ نے کبھی اُن کی اِن حرکتوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ معاف فرما دیا۔ اور تو اور طائف والوں نے آپﷺ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا، یہاں تک کہ آپﷺ لہو لہان ہو گئے، آپﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ اگر تم چاہو تو طائف والوں کو اِن حرکتوں کے بدلہ میں پیس کر رکھ دوں۔ تو یاد ہے آپﷺ نے کیا جواب دیا تھا، آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے اور فرمایا تھا “اے اللہ ان کو معاف فرما دے، یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ اِن کی اولاد اِسلام قبول کر لے۔” ٭٭٭ 33: آپﷺ بیماروں کی عیادت کرتے تھے رسولﷺ جب بھی کسی کی بیماری کی خبر سنتے تو اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے، بڑے چھوٹے اور امیر و غریب میں کوئی فرق نہ کرتے۔ آپﷺ مریض کے پاس تشریف لے جاتے، اس کے سرہانے بیٹھتے، سر اور نبض پر ہاتھ رکھتے، حال دریافت فرماتے، اُسے تسلی دیتے اور پھر صحت کے لئے 7 بار یہ دعا فرماتے: اسأل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک “میں بڑائی والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے، سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔” حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا اور شور و غل نہ کرنا سنت ہے۔” نبی کریمﷺ نے فرمایا “قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا اور تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ عرض کرےگا” پروردگار! آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں، بھلا میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟”۔ اللہ تعالی فرمائے گا: “میرا فلاں بندہ بیمار پڑا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔” (یعنیٰ تجھے میری خوشنودی اور رحمت حاصل ہوتی)۔۔ (مسلم) ٭٭٭ 34: آپﷺ غیر مسلموں کی بھی عیادت کرتے صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی آپﷺ کا یہ طرز عمل نہ تھا بلکہ غیر مسلم اور دشمنوں کے ساتھ بھی آپﷺ کا ایسا ہی برتاؤ تھا۔ آپ نے پڑھا ہو گا کہ جس راستہ سے حضور اکرمﷺ کا گزر ہوتا تھا وہیں پر ایک یہودی کا گھر تھا۔ وہ آپﷺ کو بہت ستایا کرتا تھا۔ جب آپﷺ اس راستے سے گزرتے وہ آپ پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا کرتا تھا۔ آپﷺ اس سے کچھ نہ کہتے تھے۔ کپڑے جھاڑ کر مسکراتے ہوئے گزر جاتے۔ اتفاق کی بات ہے ایک دن اس نے آپ پر کوڑا نہیں پھینکا۔ حضورﷺ کو تعجب ہوا۔ لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپﷺ اس کی عیادت کے لئے پہنچ گئے۔ اس نے جو آپﷺ کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ آپﷺ کے اس برتاؤ سے اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ ایک یہودی لڑکا حضورﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار پڑا۔ آپﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس کے سرہانے بیٹھے، تسلی دی اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔ حضورﷺ یہ کہتے ہوئے واپس آئے: “خدا کا شکر ہےجس نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا۔” ٭٭٭ 35: آپﷺ بہت عبادت گزار تھے رسول اللہﷺ پر خوفِ خدا ہر وقت طاری رہتا تھا۔ آپﷺ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے اللہ کو یاد کرتے اور کسی وقت بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہ رہتے۔ رمضان شریف کا مہینہ تو آپﷺ کی عبادت کا موسمِ بہار ہوتا تھا۔ جب بھی آپﷺ قرآن شریف پڑھتے یا دوسرے کی زبان سے سنتے تو اللہ کی محبت اور اس کے خوف کے سبب آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ فرض نمازوں کے علاوہ آپﷺ اس کثرت سے نوافل ادا کرتے کہ پائے مبارک وَرم کر آتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ “نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور مومنوں کے لیے معراج ہے۔” آپ راتوں کو سوتے سوتے اٹھتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ نماز میں صفیں سیدھی رکھنے کا بہت اہتمام فرماتے۔ رمضان شریف کے علاوہ بھی آپﷺ کثرت سے روزے رکھتے۔ آپﷺ اپنے گھر جا کر کوئی چیز کھانے کے لئے طلب کرتے، جواب ملتا کوئی چیز نہیں ہے۔” تو آپ فرماتے: “آج ہمارا روزہ رہے گا۔” جب بھی آپﷺ کے پاس کوئی رقم آتی، اسے جب تک ضرورت مندوں میں تقسیم نہ کر دیتے آپﷺ کو چین نہ آتا۔ خود فاقہ کر لیتے مگر دوسروں کا پیٹ بھرنا آپ اپنے لیے لازمی سمجھتے تھے۔ ٭٭٭ 36: آپﷺ کو تلاوت کا بہت شوق تھا رسول اللہﷺ نے قرآن شریف پڑھنے کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا اس کے علاوہ بھی ہر وقت آپ کی زبانِ مبارک تلاوتِ قرآن سے تر رہتی تھی۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، غرض ہر حال میں آپﷺ تلاوت فرماتے رہتے۔ آپ بڑی پیاری آواز میں تلاوت فرماتے تھے۔ آپ کی ہدایت تھی کہ “قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو، جو ایسا نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ “ آپﷺ دوسروں کی زبان سے بھی قرآن شریف سننے کے بہت شوقین تھے۔ صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ ایک بار حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کا حکم دیا۔ انھوں نے بڑی خوش الحانی سے تلاوت شروع کی۔ آپﷺ اتنے متاثر ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ تلاوتِ قرآنِ پاک کے سلسلے میں ہمیں یہ ہدایات ملتی ہیں:۔ 1۔ وضو کر کے تلاوت کرنا چاہئے اور جس جگہ بیٹھ کر تلاوت کریں وہ جگہ پاک و صاف ہونا چاہئے۔ 2۔ تلاوت کے وقت کعبہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا چاہئے اور دل لگا کر توجہ کے ساتھ تلاوت کرنا چاہئے۔ 3۔ تلاوت درمیانی آواز سے کرنا چاہئے۔ ٭٭٭ 37: آپﷺ کیسے سوتے تھے؟ رسول اکرمﷺ عشا کی نماز سے پہلے کبھی نہ سوتے تھے اور نماز کے بعد سونے کی تیاری کرتے تھے۔ آپﷺ رات میں جلد سوتے اور جلد اٹھتے تھے۔ سونے سے پہلے آپﷺ بستر اچھی طرح جھاڑ لیتے تھے۔ بستر پر پہنچ کر آپﷺ قرآن پاک کا کچھ حصہ ضرور پڑھتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا “جو شخص سونے سے پہلے قرآن کی کوئی سورت پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو جاگنے کے وقت تک اس کی حفاظت کرتا ہے”۔ جب آپﷺ سونے کا ارادہ فرماتے تو دایاں ہاتھ اپنے بائیں رخسار کے نیچے رکھ کر دائیں کروٹ پر لیٹتے۔ پَٹ یا بائیں کروٹ پر لیٹنے سے آپﷺ نے منع کیا اور فرمایا کہ اس طرح لیٹنا اللہ کو نا پسند ہے۔” سونے سے پہلے آپ یہ دعا پڑھتے:۔ اللھم باسمک اموت واحیٰ۔ “اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے جیوں گا۔” جب آپ نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:۔ الحمد للہ الذی احیانا بعدما اما تنا والیہ النشور۔ ” ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف جانا ہے۔” ٭٭٭ 38: آپﷺ ایسے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ نبی اکرمﷺ کا برتاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ۔۔۔۔۔۔ آپﷺ * ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔ * بہت نرم مزاج تھے اور طبیعت میں سختی نہ تھی۔ * سہولت آسانی کو پسند فرماتے تھے۔ * کبھی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالتے تھے۔ * کسی کے عیب نہیں نکالا کرتے تھے۔ * غرور سے بہت دور رہتے تھے۔ * فضول اور بےکار باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔ * نہ کسی کی برائی کرتے تھے اور نہ اسے نیچا سمجھتے تھے۔ * کسی کے چھپے ہوئے عیبوں کو ظاہر کر کے اسے شرمندہ نہیں کرتے تھے۔ * مال و دولت کی لالچ نہیں کرتے تھے۔ اور * اگر آپﷺ کو کوئی چیز پسند نہ آتی تو اسے چھوڑ دیتے۔ نہ اس کی برائی کرتے اور نہ رغبت ظاہر فرماتے۔ کتنے اچھے تھے پیارے نبیﷺ ! ٭٭٭ 39: آپﷺ کی دعائیں * دعا صرف اللہ سے مانگئے۔ ہماری حاجتیں صرف وہی پوری کر سکتا ہے۔ * دعا عبادت کا جوہر ہے اور عبادت کا حق دار صرف اللہ ہے۔ * جب آپﷺ بستر پر تشریف لے جاتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ لیتے اور سورۂ اخلاص، الفلق، اور الناس پڑھ کر ان کو پھونکتے اور جسم پر جہاں تک ہوسکتا پھیر لیا کرتے تھے۔ ابتدا سر۔ چہرے اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے۔ یہ عمل 3 بار فرماتے۔ * آپ کو جب پاخانہ جانا ہوتا تو جوتا اور ٹوپی پہن لیتے اور یہ دعا پڑھتے۔ اللھم انی اعوذبک من الخبث و الخبائث۔ “اے اللہ! میں گندگی اور گندی چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں”۔ * جب پاخانہ سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے۔ غفرانک اللھم۔ “اے اللہ! تیری مغفرت چاہتا ہوں” * آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر وضو شروع فرماتے۔ *وضو کرتے وقت یہ دعا پڑھتے۔ 1۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔ “میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔”
ڈونالڈ ٹرمپ کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہفتے کے روز اس پلیٹ فارم کے نئے مالک ایلون مسک کی جانب سے ایک رائے شماری کے بعد بحال کر دیا گیا جس میں ووٹروں کی ایک کم اکثریت نے اس اقدام کی حمایت کی۔ رائے شماری کے نتائج سابق امریکی صدر کی جانب سے وائٹ ہاؤس کی ایک اور بولی کے اعلان کے چند دن بعد سامنے آئے ہیں۔ 2020 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی کوشش کرنے والے ان کے حامیوں کے ایک ہجوم کے ذریعہ 6 جنوری کو یو ایس کیپیٹل پر حملے میں ان کے کردار کی وجہ سے ٹرمپ کو پچھلے سال کے اوائل میں پلیٹ فارم سے پابندی لگا دی گئی تھی۔ “لوگ بول چکے ہیں۔ ٹرمپ کو بحال کر دیا جائے گا،” مسک نے 24 گھنٹے کی پولنگ ختم ہونے کے فوراً بعد ٹویٹ کیا۔ “Vox Populi، Vox Dei،” انہوں نے مزید کہا، ایک لاطینی کہاوت کو دہراتے ہوئے جو انہوں نے جمعہ کو پوسٹ کیا جس کا مطلب ہے “لوگوں کی آواز خدا کی آواز ہے”۔ 15 ملین سے زیادہ لوگوں نے – 237 ملین یومیہ ٹویٹر صارفین میں سے – متنازعہ پروفائل کو بحال کرنے کے حق میں 51.8 فیصد اور مخالفت میں 48.2 فیصد کے ساتھ ووٹ دیا۔ ٹرمپ – جن کے اکاؤنٹ معطل ہونے پر 88 ملین سے زیادہ صارفین تھے – نے اپنے دور صدارت میں ٹویٹر کو ایک ماؤتھ پیس کے طور پر استعمال کرنے، پالیسی کے اعلانات پوسٹ کرنے، سیاسی حریفوں پر حملہ کرنے اور حامیوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں خوشی کا اظہار کیا۔ مسک کے سروے نے “سابق صدر ٹرمپ کو بحال کریں” کے بیان پر ایک سادہ “ہاں” یا “نہیں” جواب دینے کو کہا، جسے ارب پتی ٹویٹر باس نے جمعہ کو پوسٹ کیا تھا۔ “ٹوئٹر ٹرمپ پول دیکھنے کے لئے دلچسپ!” مسک نے ہفتے کی صبح ایک سے کئی پیغام رسانی پلیٹ فارم کے متنازعہ اور سخت چارج کرنے والے نئے مالک کی ٹویٹس کے ایک دھماکے میں سوچا تھا۔ اس نے ماضی میں بھی اسی طرح کے پولز کیے ہیں، پچھلے سال پیروکاروں سے پوچھا کہ کیا اسے اپنی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا میں اسٹاک فروخت کرنا چاہیے۔ اس رائے شماری کے بعد، اس نے $1 بلین سے زیادہ کے شیئرز بیچے۔ میرے پاس سچائی سماجی ہے۔ ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ مقبول پلیٹ فارم پر واپس نہیں آئیں گے بلکہ اس کے بجائے اپنے ہی نیٹ ورک، ٹروتھ سوشل پر رہیں گے، جو ٹوئٹر پر پابندی کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ لاس ویگاس میں ریپبلکن جیوش کولیشن کے ایک اجتماع میں ویڈیو کے ذریعے نمودار ہوتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ رائے شماری کا خیرمقدم کرتے ہیں اور مسک کے مداح ہیں، لیکن وہ کسی بھی واپسی کو مسترد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ “اس نے ایک رائے شماری کی اور یہ بہت زبردست تھا […] لیکن میرے پاس کچھ ہے جسے […] سچائی سماجی،” انہوں نے کہا۔ اس بارے میں کہ آیا وہ پلیٹ فارم پر واپس آئے گا، اس نے کہا: “میں اسے نہیں دیکھ رہا ہوں کیونکہ مجھے اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔” ٹرمپ نے ہفتے کے آخر تک ٹویٹر پر پوسٹ نہیں کیا تھا، حالانکہ اس نے اپنے سچائی کے سوشل اکاؤنٹ پر غیر متعلقہ پیغامات کی ایک سیریز کا اشتراک کیا تھا – جس میں رائے کے مضامین بھی شامل ہیں جس میں امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے اس ہفتے کیپیٹل حملے میں ان کے کردار کی تحقیقات کے لیے خصوصی وکیل کی تقرری پر تنقید کی گئی تھی۔ لیکن ان کے کئی سیاسی اتحادی ان کی واپسی پر روشنی ڈال رہے تھے۔ “واپس خوش آمدید، @realdonaldtrump !” ہاؤس ریپبلکن پال گوسر نے ٹویٹ کیا۔ ممتاز ٹرمپ کی حمایتی کانگریس وومن مارجوری ٹیلر گرین، جن کا ذاتی اکاؤنٹ بھی معطل ہے، نے اپنے سرکاری سرکاری اکاؤنٹ سے اپنی پچھلی کئی پوسٹس کو دوبارہ ٹویٹ کیا، جن میں کچھ ایسی ٹویٹس بھی شامل ہیں جن پر 2020 کے انتخابی فراڈ کے بارے میں ان کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے حقائق کی جانچ کرنے والے بیجز کے ساتھ نشان زد کیا گیا تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، “جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ صدر ٹرمپ 2024 کی پرائمری جیتنے والے نہیں ہیں، وہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔” ٹرمپ مخالف ریپبلکن لز چینی، کیپیٹل حملے کی تحقیقات کرنے والی کانگریسی کمیٹی کی شریک چیئر جو دوبارہ انتخابی بولی ہار گئی تھی، نے ٹویٹر کے صارفین کو کمیٹی کی سماعتوں میں سے ایک کی ویڈیو کے ساتھ ایک لنک کی ہدایت کرتے ہوئے اس خبر کا جواب دیا۔ “ٹرمپ کے ٹویٹر پر واپسی کے ساتھ، یہ 6 جنوری کی سماعت کو دیکھنے کا اچھا وقت ہے،” انہوں نے ٹویٹ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اس میں ٹرمپ کی اس دن کی ہر ٹویٹ کا احاطہ کیا گیا ہے، بشمول وہ جو حذف کر دیے گئے ہیں، اور اس میں متعدد ٹرمپ ڈبلیو ایچ کے عملے کو تشدد کے دوران ان کے ناقابل معافی طرز عمل کو بیان کیا گیا ہے۔” مسک نے دیگر ممنوعہ اکاؤنٹس کو بحال کر دیا ہے، بشمول کامیڈین کیتھی گریفن کے، جو سائٹ پر اس کی نقالی کرنے کے بعد ہٹا دیے گئے تھے۔ ٹویٹر افراتفری مسک، جو کہ ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او بھی ہیں، کیلیفورنیا میں قائم ٹویٹر میں بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے آگ لگ گئی ہے، جسے انہوں نے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل 44 بلین ڈالر میں خریدا تھا۔ تب سے، اس نے ٹویٹر کے 7,500 عملے میں سے نصف کو برطرف کر دیا ہے اور گھر سے کام کرنے کی پالیسی کو ختم کر دیا ہے، جب کہ کمپنی کو اوور ہال کرنے کی ان کی کوششوں کو ردعمل اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکڑوں ملازمین نے مسک کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا کہ وہ نئے ٹویٹر پر طویل اور سخت دن کام کرنے کے لیے خود کو مستعفی کر دیں۔ ایک متنازعہ سبسکرپشن سروس کے ساتھ صارف کی توثیق کو بہتر بنانے کی اس کی ٹھوکریں کھانے کی کوششوں کے نتیجے میں جعلی اکاؤنٹس اور مذاق کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور بڑے مشتہرین کو پلیٹ فارم سے الگ ہونے پر اکسایا۔ Posted in ٹیکنالوجی, ڈان Post navigation Previous: ایلون مسک کا کہنا ہے کہ ٹویٹر بلیو چیک کی تصدیق کو دوبارہ شروع کرنے سے روکے گا۔ Next: Next Post Related Posts ٹیکنالوجی ڈان چین میں آئی فون کی سب سے بڑی فیکٹری میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے atPakistan November 28, 2022 وسطی چین میں Foxconn کی آئی فون کی وسیع فیکٹری کے ارد گرد پرتشدد مظاہرے […] ٹیکنالوجی ڈان ایپل کے سپلائر فاکسکن نے کوویڈ سے متاثرہ چین پلانٹ میں غلطی کی خدمات حاصل کرنے پر معذرت کی atPakistan November 28, 2022 ایپل کے بڑے سپلائر Foxconn نے جمعرات کو کہا کہ چین میں کوویڈ سے متاثرہ […] ٹیکنالوجی ڈان کیا ہم اب بھی مسک کے تحت ٹویٹر پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ atPakistan November 28, 2022 ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے مالک کے ‘صوابدیدی’ فیصلوں کے سنگین نتائج ہوں گے۔ بامعاوضہ […] Leave a Reply Cancel reply Your email address will not be published. Required fields are marked * Comment * Name * Email * Website Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Search Search Recent Posts اعظم نذیر تارڑ نے وزیر قانون کا عہدہ سنبھال لیا۔ شہباز شریف نے زرداری سے پنجاب کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کی درخواست کی اسلام آباد کی عدالت نے سینیٹر اعظم سواتی کے ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع کر دی۔ جنرل عاصم منیر نے 17ویں چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کمان سنبھال لی اطالوی جزیرے پر لینڈ سلائیڈنگ سے 7 افراد ہلاک ہو گئے۔ Recent Comments No comments to show. Archives November 2022 Categories Uncategorized اخبار ایکسپریس تبصرہ ثقافت دنیا رائے سیاست مقبول ٹیکنالوجی پاکستان ڈان کاروبار کراچی کھیل Copyright © 2022 atPakistan Theme: Adore News By Adore Themes. We value your privacy We use cookies to enhance your browsing experience, serve personalized ads or content, and analyze our traffic. By clicking "Accept All", you consent to our use of cookies. Customize Reject All Accept All Customize Consent Preferences We use cookies to help you navigate efficiently and perform certain functions. You will find detailed information about all cookies under each consent category below. The cookies that are categorized as "Necessary" are stored on your browser as they are essential for enabling the basic functionalities of the site. We also use third-party cookies that help us analyze how you use this website, store your preferences, and provide the content and advertisements that are relevant to you. These cookies will only be stored in your browser with your prior consent. You can choose to enable or disable some or all of these cookies but disabling some of them may affect your browsing experience. Necessary Always Active Necessary cookies are required to enable the basic features of this site, such as providing secure log-in or adjusting your consent preferences. These cookies do not store any personally identifiable data. No cookies to display. Functional Always Active Functional cookies help perform certain functionalities like sharing the content of the website on social media platforms, collecting feedback, and other third-party features. No cookies to display. Analytics Always Active Analytical cookies are used to understand how visitors interact with the website. These cookies help provide information on metrics such as the number of visitors, bounce rate, traffic source, etc. No cookies to display. Performance Always Active Performance cookies are used to understand and analyze the key performance indexes of the website which helps in delivering a better user experience for the visitors. No cookies to display. Advertisement Always Active Advertisement cookies are used to provide visitors with customized advertisements based on the pages you visited previously and to analyze the effectiveness of the ad campaigns.
وادی سندھ کی تہذیب کا خاتمہ مون سون میں کمی کے باعث ہوا۔یہ تہذیب مصری تہذیب اور میسوپوٹیمین تہذیب یعنی عراقی تہذیب سے بھی پرانی ہوسکتی ہے۔ اس دور میں یہاں سے عرب اور عراق کے ساتھ باقاعدہ تجارت ہوا کرتی تھی۔ بھارت کے سائنسدانوں نے بذریعہ تحقیق اس ثبوت سے پردہ اُٹھایا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب 5 ہزار 500 سال نہیں بلکہ یہ تہذیب 8 ہزار سال قدیم ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب مصری تہذیب اور میسوپوٹیمین تہذیب یعنی عراقی تہذیب سے بھی پہلے وجود رکھتی تھی۔ واضح رہے کہ عراقی تہذیب 65 سو قبل سے مسیح سے 31 سو قبل مسیح، مصری تہذیب 7 ہزار قبل مسیح سے 3 ہزار قبل مسیح قدیم ہے۔ بھارتی سائنسدانوں کی اس تحقیق میں تہذیب پر نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس میں تحقیق میں آئی آئی ٹی کھرگپور، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے مشترکہ طور پر کام کیا ہے۔ ان اداروں کے ماہرین نے ظروف یعنی مٹی کے برتن کے ٹکڑوں اور جانوروں کے باقیات پر کارین تاریخ اندازی کا طریقہ اختیار کیا۔ جس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وادی سندھ کی تہذیب پر پہلے سے موجود تحقیق خلاف حقیقت بھی ہوسکتی ہے۔ رواں سال 25 مئی کو یہ تحقیق نامور سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔ اس نئی تحقیق سے کریڈلز آف سویلائزیشن کی ٹائم لائن پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ سائنسدانوں کو ماننا ہے کہ وہ تقریباً 3 ہزار سال قبل کی تہذیبوں کے خاتمے کی وجہ جانتے ہیں جو کہ آب و ہوا میں تغیر و تبدل کے باعث ہوئیں۔ شعبہ طبقات الارض اور علم طبیعات الارض آئی آئی ٹی کھرگپور کے مطابق اس تحقیق میں ابتدائی ہٹرپن دور سے چھ ہزار قبل اور ہڑپن یاکرا سے 8 ہزار سال پہلے کے ثقافتی مدارج کا جائزہ لیا ہے۔ اس عمل میں سائنسدانوں نے آپٹیکلی سٹیمولیسٹیڈ لیو میسنیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ سائنسدانوں نے پاکستان کے معروف تہذیبی مقامات ہڑپہ اور موہن جوداڑو سمیت ہندوستان کے علاقوں کو بھی شامل کیا تھا۔ نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق پہلی بار ہندوستان کے علاقے بھرانہ، ہریانہ، راکھی گڑھی، بوتھل، دھلاویرا اور کالی بنگن کو شامل کیا گیا کیونکہ وادی سندھ کی تہذیب ان علاقوں تک بھی پھیلی تھی۔ اس تحقیق کے دوران پہلی بار ہندوستان کے علاقے بھرانہ میں غیر دریافت شدہ مقام پر کھدائی کی گئی۔ اس کھدائی سے بڑی تعداد میں جانوروں کے باقیات جیسے ہڈیاں ، دانت ، بیل کے سنگ کا مرکزی حصہ ، بکری ، ہرن اورمرگ نکالے گئے ۔ بعد ازاں یہ باقیات ایام قدیم کی رمز کشائی کےلئے کاربن تجزیہ کی بدولت ان آب و ہوائی کیفیات میں رکھے گئے جن میں یہ تہذیب پھلی پھولی ۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ہندوستان کے موجودہ گم گشتہ دریا ئے سرسوتی اور دریائے گھاگھرہا کرا کے کناروں سے ہوتی ہوئی وسیع علاقے تک پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کا زیادہ مطالعہ نہیں کیا گیا۔ میگزین میں شائع شدہ ریسرچ کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب پر جو تحقیق برطانوی محقیقین کی جانب سے کی جا چکی ہے صرف اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر از سرنو تحقیق کی گئی ہے۔ اس تحقیق میں وادی سندھ کے تمدنی دور سے پہلے (8 ہزار سال قبل مسیح سے 9 ہزار سال قبل مسیح) جو بحثیت ابتدائی ہڑپن دور (یعنی 7 ہزار قبل مسیح سے 8 ہزار قبل مسیح) سے ہڑپن دور کے عروج تک زمرہ بندی کے ذریعے تمام ثقافتی مدارج کا جائزہ لیا گیا۔ ابتدائی ہڑپن دور کو چرواہے اور دیہی زرعی معاشروں میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ مکمل ہٹرپن دور کو نہایت منظم شہروں، ترقی یافتہ مواد، فن دستی کی ثقافت میں تقسیم کیا گیا ہے جب آبادکاری کافی حد تک شہری طرز کی تھی۔ محققین کہتے ہیں کہ ابتدائی ہڑپن دور بڑے پیمانے پر شہر کاری کے ختم ہونے ، آبادی میں کمی ، قائم شدہ آبادیوں سے دست برداری ، بینادی ضررویات کی کمی ، تشدد حتیٰ کہ ہڑپن رسم الخط کی گمشدگی کا عینی شاہد ہے ۔ اس نئی تحقیق میں آب و ہوا کے طرز عمل کو سلجھانے کے لیے ان باقیات کے دانتوں، ہڈیوں کے فاسفیٹ اور آکسیجن آئسو ٹوپ کی ساخت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ ممالیہ جانوروں کے دانتوں اور ہڈیوں میں موجود آکسیجن آئسو ٹوپ قدیم شہابی پانی کے نشان کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور مون سون بارشوں کی شدت کو سلسلہ وار کرتا ہے۔ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ہڑپن دور سے قبل انسانوں نے گھاگھر ہاکرا دریاﺅں کے ساتھ اس علاقے میں سکونت اختیار کرنا شروع کر دی جو کہ انسانی اور زرعی آباد کاری کےلئے سازگار تھا۔ آج سے سات ہزار سال اور نو ہزار سال کے درمیان مون سون کا سلسلہ کافی زیادہ طاقتور تھا اور غالباً ان دریاﺅں کو مزید طاقتور بنانے کےلئے وسیع سیلابی میدانوں سے سیراب کیا گیا۔ Leave a Reply Cancel reply Your email address will not be published. Required fields are marked * Comment * Name * Email * Website Δ متعلقہ خبریں ماہواری کی جانچ کیلئے 68 طالبات کو زیر جامہ اتارنے پر مجبور کردیا گیا ذہنی دبائو، ایک سال میں 9474 طلباء نے خود کشی کر لی ایشیائی جامعات کی تازہ درجہ بندی میں پاکستان کی 23 جامعات شامل اُترپردیش بورڈ: 165 سکولوں کے تمام طلباء امتحان میں فیل ہوگئے تازہ ترین مقبول ترین ماہواری کی جانچ کیلئے 68 طالبات کو زیر جامہ اتارنے پر مجبور کردیا گیا ذہنی دبائو، ایک سال میں 9474 طلباء نے خود کشی کر لی ایشیائی جامعات کی تازہ درجہ بندی میں پاکستان کی 23 جامعات شامل اُترپردیش بورڈ: 165 سکولوں کے تمام طلباء امتحان میں فیل ہوگئے نوآبادیاتی تعلیمی نشانی: کانووکیشن میں گاؤن پہننے پر پاپندیوں کا آغاز امریکا میں 129 بھارتی طلباء جعلی یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر گرفتار بنگلہ دیش میں ٹیکسٹ بُک فیسیٹول، 35 کروڑ کتابیں تقسیم 50 ہزار روپے میں فضائی آلودگی ماپنے کا آلہ ایجاد ایشیائی جامعات کی تازہ درجہ بندی میں پاکستان کی 23 جامعات شامل نظریہ ارتقاء تو ڈارون سے 6 سو سال پُرانا ہے نوآبادیاتی تعلیمی نشانی: کانووکیشن میں گاؤن پہننے پر پاپندیوں کا آغاز صوفی بزرگ اور شاعر مولانا جلال الدین رومی کا 744 واں عرس دہلی کا 370 سال قدیم لال قلعہ پچیس کروڑ روپے میں نیلام کر دیا گیا گوگل وائس ٹائپنگ میں اردو سمیت 30 نئی زبانوں کا اضافہ بنگلہ دیش: 85 پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں انسداد انتہا پسندی سیل قائم ہاورڈ یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی یافتہ چیئرمین ایچ ای سی تعینات تعلیم پر پاکستان کی یہ منفرد ویب سائٹ ہے، یہاں تعلیمی دُنیا، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت اور فنون لطیفہ سے متعلق خبریں قارئین تک پہنچائی جاتی ہیں۔
دل کا مرض تھا ، اللہ پاک کا ایک نام پڑھا ، جہاں آپ ریش ن ہونا تھا وہاں دوائی کی ضرورت بھی نہیں پڑی (1,277) حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب (1,227) جس نے یہ درود 7 بار فجر کے بعد پڑھ لیاوہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ کبھی مالی پریشانی ہو گی (1,133) ہر مشکل کے حل کے لیے آگ سے زیادہ تیز اثر کرنے والا طاقتور ترین وظیفہ (1,128) جب کافی عرصے تک عورت کی جن.سی ضرورت نہ پوری نہ کیا جائے تو اپنی (1,098) ایسی عورت جس سے شادی کرنے والا آدمی لازمی غریب ہو جاتا ہےوہ کونسی عورت (1,069) آپ بھی عمل کے بغیر رہ نہ پائیں گے؟سبز چائے میں الائچی ڈال کرپینے کا ایسا شاندار فائدہ،جانیں سبز الائچی پاک و ہند سمیت ایشیائی ممالک میں گھروں میں عام مستعمل ہے اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ریاست میسور کی الائچی بہترین ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہ پائی جاتی ہے۔ اردو اور ہندی میں اسے چھوٹی الائچی یا سبز الائچی اور انگریزی میں کارڈاموم کہتے ہیں۔ چھوٹی سی الائچی بڑے بڑے فائدے رکھتی ہے جن میں سے چند ایک درج زیل ہیں۔ الائیچی کے کیا فائدے ہیں دیکھنے کے لیے اس اردو کے;ایسی چیزیں دوسروں کو بھی بتانی چاہئے ا یہ تیزابیت کو ختم کرتی ہے۔ خوابیدگی کے خمار کو کم کرتی ہے جبکہ معدے میں پانی کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہوئے ریاح پیدا ہونے سے روکتی ہے۔بدہضمی سے ہونیوالی گیس اور سردرد کیلئے سبر چائے میں الائچی ڈال کر پینے سے افاقہ ہوتا ہے۔ الائچی معدے میں موجود لعالی جھلی کو مضبوط بناتی ہے، اس لیے یہ تیزابیت کیلئے اکسیر ہے۔اس کو چبانے سے منہ بننے والے لعاب میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، جو خوراک کو ہضم کرنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ السر کی بیشتر اقسام میں بھی فائدہ مند ہے۔ تبخیر اور السر میں اس کا درج ذیل مرکب انتہائی مفید ہے۔ سفوف تبخیر: سبز الائچی ، سونف ، طیا شیر کبود انڈیا ، کشنیز ہموزن سفوف بنالیں اورا یک چمچ چائے والا ہر کھانے کے بعد استعمال کریں۔ ہیضہ اور دست آنے کی صورت میں الائچی کا عرق پلانا بے حد مفید ہے۔ الائچی خورد دافع اسہال اور کمزوری امعامیں بے حد مفید ہے۔اس کیلئے الائچی خورد تین گرام طبا شیر تین گرام مصطگی رومی تین گرام اور چینی نوگرام ان تمام ادویہ کو پیس کر سفوف تیار کریں اور آدھا چمچہ چائے والا ہمراہ پانی دن میں دو تا تین بار استعمال رکرنا بے حد مفید ہے۔ اگر آپ کے سانس کی بدبو ہزار کوشش کے باوجو د بھی ختم نہیں ہوتی تو الائچی استعمال کریں یہ اینٹی ہیکٹریل خصوصیات کی حامل ہے اور اس کی تیز خوشبو منہ کی بدبو دور کردیتی ہے۔ یہ نظام انہضام کو بہتر بناتی ہے اور منہ کی بدبو کی ایک بڑی وجہ نظام انہضام کی خرابی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سبر الائچی دیگر اور ل ڈیز یز منہ کے السر‘ منہ کے چھالے‘ خناق ‘ ٹانسلز وغیرہ میں زرور دیا گگانے کی ادویات میں مستعمل ہے۔ سبز الائچی کا سفوف آدھی چمچ صبح نہار منہ مسلسل استعمال کرنے سے پسینے کی بدبو کو خوشبو میں بدل دیتی ہے۔ الائچی پھیپھڑوں میں خون کے دورانیہ کو بڑھا کر نزلہ، زکام، کھانسی ، دمہ کے امراض میں آرام پہنچاتی ہے جبکہ بلغم کو باہر نکالنے کیلئے بھی انتہائی مددگار ہے۔ اس کے آدھی چمچ پا?ڈر کو دن میں دو تین بار کھانے سے ڈیپریشن ‘سٹریسااور دیگر دماغی و نفسیاتی امراض میں فائدہ ملتا ہے الائچی میگنیشیم ، پوٹاشیم اور کیلشیم کے مرکبات سے بھرپور ہوتی ہے اس لیے یہ خون کے الٹرولائٹس کیلئے صحت کا خزانہ ہے۔ یہ اجزا دوران خون کو بہتر بنانے میں اور بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھتے ہیں Post Views: 47 FacebookTwitterGoogle+WhatsApp مزید پڑھیں BEST MANAGEMENT SOFTWARES OF 2023 میت کو قرآن پڑھ کر کیسے بخشنا ہے؟ فرشتے نے کہا خوشخبری ہو اس کیلئے جو 3بار یہ دعا پڑھے ، ہر دعا ہر حاجت قبول ، بڑا ہی طاقتور وظیفہ دنیا کا واحد ایسا ناشتہ ، جو وزن کم کرنے کےساتھ درجنوں بیماریاں ، ختم کردیتا ہےایک بار ضرور آزمائیں سورۃ الم نشرح کا معجزہ،ایسے لوگ جو دنیاوی طور پر کافی پریشان رہتے ہیں رات کو پڑھ کر سوجاؤ،ہر مقصد پورا ہوجائے گا Leave a Comment X Comment Name * ای میل * ویب سائیٹ Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. ہم سے رابطہ پرائیویسی پالیسی ٹرمز کنڈیشن ڈس کلیمر کوکیز پالیسی ہمارے بارے میں تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کسی قسم کی اشاعت ممنوع ہے Copyright © 2022 By News Update
قُل، چالیسواں، برسی اور عرس وغیرہ تمام ایصال ثواب کی صورتیں ہیں اور اس میں ایک بھی خلاف شرع نہیں ہے۔ صرف یہ بات یاد رکھیں کہ قُل، چالیسواں، برسی اور عرس عرف عام میں ایک خاص تاریخ کو منعقد ہوتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوں تخصیص ہوگئی اور تخصیص منع ہے؟ ایک قاعدہ اور کلیہ ہے کہ ایک تخصیص شرعی ہے اور ایک عرفی ہے، شرعی تخصیص مثلاً عیدین کے لیے دن مقرر کرنا، حج، رمضان اور نماز کے لیے وقت مقرر ہے، مگر یہ شارع کی طرف سے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ جو عرفی تخصیص ہے وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ بعض ایسے امور ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کے لیے کوئی وقت، کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً دعوت و تبلیغ، ایصال ثواب، اسی طرح حسن سلوک، صلہ رحمی، نیکی کرنا، تلاوت قرآن کرنا، وعظ ونصیحت کرنا وغیرہ وغیرہ یہ ایسے تمام امور ہیں جن کا حکم موجود ہے۔ مگر کوئی خاص طریقہ یا ٹائم مقرر نہیں اس لیے لوگ اپنے اپنے عرف کے مطابق تاریخ وغیرہ مقرر کرتے ہیں یا اپنے علاقے کے رواج کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کو عرفی تخصیص کہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ ایصال ثواب ہر وقت، ہر دن، کسی بھی مہینے اور کسی بھی سال پہنچتا ہے۔ اسی طرح مسجد بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر یہ تخصیص نہیں کیا کہ کون سے دن بنیاد رکھنی چاہیے؟ لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کے لیے کون سی جگہ مناسب ہے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ مسجد کی تعمیر پر کسی مکتب فکر نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ مدرسہ کا بھی یہی حکم ہے۔ پوری دنیا میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میری مسجد عین سنت کے مطابق ہے اور فلاں کی سنت کے مطابق نہیں ہے۔ اس میں شریعت نے کوئی تفصیل نہیں دی۔ بس یہی حکم ایصال ثواب کا ہے، جس دن بھی ممکن ہو کر سکتے ہیں۔ چاہیے تیسرے دن، چالیسویں دن یا کوئی اور دن مقرر کریں۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ مفتی: صاحبزادہ بدر عالم جان پرنٹ کریں Are the endings of Qul Chaliswan and Birsi permissible or not? متعلقہ سوالات کیا قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے؟ گیارہویں شریف کب اور کیوں شروع ہوئی؟ کیا تدفین سے قبل دعائے مغفرت ممنوع ہے؟ حضور نبی اکرم (ص) کی طرف سے نفل کیسے ادا کیے جاتے ہیں؟ کیا حیلہ اسقاط جائز ہے؟ کیا اولیاء و صالحین کے معجزات ماننا جائز ہے؟ دسواں اور چالیسواں وغیرہ کس دلیل کے تحت درست ہے؟ اولیاء کرام کے عرس منانے کی کیا افادیت ہے؟ کیا والدین مرنے کے بعد قبر سے بھی اولاد کو دعا دیتے ہیں؟ کیا زندہ انسانوں کو ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے؟ اہم سوالات فتویٰ آن لائن ویب سائٹ دارالافتاء تحریک منہاج القرآن کا آن لائن پراجیکٹ ہے، جس کے ذریعے عوام الناس کو دین کے بارے میں بنیادی معلومات اور روزمرہ زندگی میں پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں فراہم کیا جاتا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کو اسلامی طرزِ حیات کے مطابق ڈھالنے کیلئے یہاں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، سوالات پوچھتے ہیں اور پہلے سے شائع شدہ سوالات سے اپنے دینی علم میں اضافہ کرتے ہیں۔
-آئینے لیس کیمرے کی مارکیٹ میں کینن کا لین دین دلچسپ رہا ہے: اپنے ڈی ایس ایل آر کے کاروبار کو کم کرنے سے بچنے کے لیے ایم سیریز کے نظام کو ناقص طور پر متعارف کرانے کے بعد ، کینن کو زیادہ قابل عمل ایم سیریز کے کیمرے کے قیام میں کئی سال لگ گئے۔ یہ 2016 کے ساتھ ہوا۔ EOS M5۔ . 2017 میں چلے جائیں اور جاپانی ساز اب اپنی چالیں آئینے کے بغیر مرکوز کر رہا ہے ، مرحلہ وار EOS M6 کے ساتھ لائن اپ کو مزید جامع کنٹرول سسٹم کے ساتھ مزید بڑھا رہا ہے ، جبکہ بلٹ ان ویو فائنڈر کو کھودتے ہوئے (ایک آلات کو شامل کیا جا سکتا ہے) . یہ مکمل طور پر کم DSLR طرز کا ہے اور بالآخر ، کینن کو ایک ایسی پوزیشن میں رکھنا شروع کر دیتا ہے جہاں اس کا آئینہ لیس مصنوع حقیقی طور پر قابل ہو۔ اسے ابھی دیکھیں۔ ایمیزون یو ایس۔ - اسے ابھی دیکھیں۔ ایمیزون یوکے۔ تاہم ، M6 کو درپیش مسئلہ یہ ہے کہ یہ خاص طور پر مسابقتی نہیں ہے۔ کی پسند کے ساتھ۔ پیناسونک لومکس جی ایکس 80۔ اور یہاں تک کہ ویو فائنڈر ٹوٹنگ۔ فوجی فلم X-T20۔ ایک ہی پوچھنے والی قیمت کے لیے مزید پیشکش ، کیا M6 اپنی کینن برانڈ نام پر انحصار کر رہا ہے؟ کینن EOS M6 جائزہ: M5 کے مقابلے میں نیا کیا ہے؟ کوئی ویو فائنڈر نہیں ، ہاٹ شو شامل ہے (اختیاری EVF-DC2 کے لیے) اسٹیکڈ کنٹرول ڈائل لے آؤٹ شامل کرتا ہے۔ تازہ ترین 24.2MP سینسر اور 45 نکاتی آٹو فوکس۔ کے درمیان بنیادی فرق۔ EOS M5۔ اور M6 ان کا جسمانی ڈیزائن ہے - M6 M5 کے بلٹ ان حل کے مقابلے میں ویو فائنڈر کو کاٹ رہا ہے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ فائنڈر کو ختم کر دیا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ایک ہونے کے امکان کو ختم کرتا ہے: جیسا کہ ہاٹ شو اوپر ٹاپ دکھاتا ہے۔ M6 ایک اسٹیکڈ کنٹرول ڈائل بھی شامل کرتا ہے ، جو کہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو ہم نے کینن سے شاذ و نادر ہی دیکھی ہے۔ G7X کمپیکٹ اور اسی طرح). یہ زیادہ پیچیدگی کے بغیر کیمرے کا استعمال آسان بنا دیتا ہے ، ان ڈیپ ڈائی ویو مینو کھودنے سے پرہیز کرتا ہے جن کا پرانے ایم سیریز کے کیمروں نے مطالبہ کیا تھا۔ فوسل جین 5 بمقابلہ جین 4۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کینن نے M6 میں 'گائیڈڈ UI' سے گریز کیا ہے - جو کہ EOS 800D DSLR کے برعکس ، ہر شوٹنگ موڈ کیا کرتا ہے ، یہ سمجھنے میں رشتہ دار نئے آنے والوں کی مدد کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نئے آنے والے اور قائم شدہ فوٹوگرافر M6 کو بغیر کسی مسئلے کے سمجھ لیں گے۔ کینن EOS 800D پیش نظارہ: درمیانی رینج کو قابل رسائی بنایا گیا۔ M6 کی مجموعی شکل نہایت اعلی درجے کی ہے ، چاندی کے رنگ کے چمکدار کپڑے پہنے ہوئے جائزے کے نمونے کے لیے جو ہمیں قرض دیا گیا ہے۔ M6 کا جسم نسبتا چھوٹا ہے ، لیکن جیسا کہ کینن پیناسونک جی سیریز کے کیمروں کے مقابلے میں بڑے سینسر کا استعمال کرتا ہے ، یہ جیب کے سائز کے بجائے چھوٹا ہے۔ کینن EOS M6 جائزہ: یہ کیسے انجام دیتا ہے؟ 45 نکاتی ڈوئل پکسل اے ایف آٹو فوکس۔ 1 پوائنٹ ، زون اور ٹریکنگ AF موڈز۔ کینن EOS M لینس ماؤنٹ۔ M6 کا آٹوفوکس سسٹم وہی 45 نکاتی ڈوئل پکسل AF سیٹ اپ ہے جیسا کہ آپ کو پہلے M5 میں مل جائے گا (پلس EOS 80D۔ ، 77 ڈی۔ اور 800D (ان کے ذریعے ویو فائنڈر سیٹ اپ کو نظر انداز کرتے ہوئے) ، جو تیزی سے نتائج کے لیے آن سینسر فیز ڈٹیکشن آٹو فوکس ، کنٹراسٹ ڈٹیکٹ آٹو فوکس کے ساتھ جوڑتا ہے۔ موٹو جی 6 پلے بمقابلہ جی 6۔ اور یہ حقیقی طور پر اچھا کام کرتا ہے - جیسا کہ ہم نے M5 کے بارے میں کہا۔ یہ تیز ہے اور توجہ مرکوز کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ شکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، حالانکہ اس ماڈل کے ساتھ شامل 18-55 ملی میٹر کٹ لینس کی مکمل توسیع پر f/5.6 کی زیادہ سے زیادہ یپرچر کی حد ہے جو کم روشنی والے حالات میں خاص طور پر موثر نہیں ہے۔ دیگر قابل لینس دستیاب ہیں ، تاہم ، اگر آپ کچھ اضافی نقد رقم نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس فوکس سسٹم میں ایک انتباہ ہے: تین فوکس آپشنز - 1 پوائنٹ ، زون اور ٹریکنگ - مقابلے کی پیچیدگی کا فقدان ہے ، جیسے پیناسونک لومکس جی ایکس 80۔ پیناسونک ایک پن پوائنٹ فوکس موڈ پیش کرتا ہے ، مثال کے طور پر ، جو کہ ایک بہتر طریقہ پیش کرتا ہے ، جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے ، پن پوائنٹ فوکس کا حصول۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ پیناسونک تیز اور دونوں کا بہتر نظام ہے۔ EOS M6 کو دیکھتے ہوئے اس کے کٹ لینس کے ساتھ £ 840 ہے اور بغیر کسی اڈاپٹر کے کینن (EF/EF-S) DSLR لینس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ، لہذا اگر آپ مزید تلاش کر رہے ہیں تو ایک مختلف آئینے لیس سسٹم کی طرف جھکنے کی ایک اچھی دلیل ہے۔ اعلی درجے کی توجہ کے اختیارات کینن EOS M6 جائزہ: سکرین اور اختیاری فائنڈر۔ 3 انچ ، 1،040 کلو ڈاٹ ، ٹلٹ اینگل ایل سی ڈی ٹچ اسکرین۔ M5 کے مقابلے میں M6 میں ایک اور معمولی فرق یہ ہے کہ اس کی سکرین متغیر بریکٹ پر لگائی گئی ہے: یہ سیلفیز کے لیے آگے کا سامنا کرنے کے لیے پلٹ نہیں سکتی ، لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کوئی بڑا نقصان ہے۔ یہ اوپر کی طرف جھکا ہوا ہے ، تاہم ، جو کہ ان دنوں ہمارے لیے لازمی خصوصیت ہے۔ کمر کی سطح کے کام کے لیے سکرین کو جوڑنا آسان ہے ، یا کم واضح شوٹنگ کے لیے۔ سکرین کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی ٹچ حساسیت ہے۔ یہ ذمہ دار ہے ، مینو کے اندر حساسیت کے اختیارات کے ساتھ آپ کی ترجیح میں ردعمل ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دیتا ہے ، جو کہ دوسرے مینوفیکچررز کو بھی غور کرنا چاہئے۔ یا تو سکرین پر تھپتھپائیں یا پریس اینڈ ڈریگ آٹوفوکس ایریا کو آسانی سے منتقل کردے گی ، جس سے M6 سسٹم کو اسمارٹ فون کے طور پر استعمال کرنا آسان ہوجائے گا۔ اگر آپ واقعی ویو فائنڈر کے خواہشمند ہیں تو ، ٹھیک ہے ، اس کے بجائے ایم 5 خریدنے پر غور کرنا سستا ہوگا (چاہے یہ کیمرہ دیکھنا اچھا کیوں نہ ہو)۔ M6 کے لیے EVF-DC2 آلات تلاش کرنے والا-جو اپنے 0.39 انچ کے پینل پر 2.36m-dot ریزولوشن پیش کرتا ہے-اس کا مطلب تب ہی ممکن ہے جب آپ کے پاس دوسرے ہم آہنگ کینن کمپیکٹ کیمرے ہوں۔ لیکن یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے ، لہذا وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کینن EOS M6 جائزہ: تصویری معیار۔ 24.2MP سینسر۔ ڈیجک 7 پروسیسر۔ مسلسل آٹو فوکس میں 7 ایف پی ایس۔ ہم نے EOS M6 کو ٹھیک کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے پایا ہے ، لیکن جو چیز واقعی اس کو بہت سارے مقابلے سے الگ کرتی ہے وہ اس کے دل میں 24.2 میگا پکسل کے سینسر کے نتیجے میں تصویری معیار ہے۔ یہ کینن کی خاصیت ہے اور ، بالآخر ، زیادہ تر حریفوں کے مقابلے میں ایم سیریز خریدنے کی وجہ (اگرچہ ہمارے خیال میں فوجی اسے اپنے پیسوں کے لیے ایک رن دیتا ہے)۔ کیا ایکس بکس ون کا کھیل 4k ہے؟ عظیم روشنی کے حالات میں شوٹنگ کرتے وقت آئی ایس او 100 میں تیز نتائج رنگین ، روشن اور کرکرا نظر آتے ہیں۔ اعلی آئی ایس او حساسیت امیج شور کو چھونے میں شرم محسوس نہیں کرتی ، حالانکہ جیسا کہ ہم نے ای او ایس ایم 5 کے بارے میں کہا ہے - لیکن اس سے کم روشنی والے شاٹس میں اضافی ادراکی نفاست اور تصاویر میں حقیقت پسندی کا زیادہ احساس رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ چونکہ کینن اپنے بیشتر آئینے کے مقابلے سے زیادہ بڑے سینسر کا استعمال کرتا ہے ، اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے زیادہ کمرے کا فائدہ ہے۔ تصویر کے معیار کے لیے سب سے بڑا انتباہ ، جیسا کہ کسی بھی تبادلہ لینس کیمرے کی طرح ، سامنے والا عینک ہے۔ اور وہ 18-55 ملی میٹر وہ سب کچھ نہیں ہے۔ یہ کناروں کی طرف تھوڑا نرم ہے ، جو بہترین آفاقی نرم پس منظر کا اثر نہیں دیتا ، جبکہ نفاست اتنی کاٹنے والی نہیں جتنی ہمیں 50 ملی میٹر f/1.8 کے ساتھ ملتی ہے جسے ہم EOS M5 کیمرے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کینن EF لینس کے ڈھیر ہیں جو EOS M سیریز کے ساتھ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے ، اگر آپ اڈاپٹر خریدیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اڈاپٹر بڑے پیمانے پر اضافہ کرتا ہے اور لینس جسم سے مزید پھیل جاتے ہیں ، جو کہ ان کے ڈیزائن کے پیش نظر ناگزیر ہے ، لیکن پھر یہ ہمیں حیران کردیتا ہے کہ اس کے بجائے صرف 800D DSLR کیوں نہ خریدیں؟ یہ کینن کے آئینے لیس بمقابلہ ڈی ایس ایل آر لائن اپ میں جاری جنگ ہے۔ ویسے بھی ، EOS M6 کی صلاحیتوں پر واپس جائیں۔ ڈیجک 7 پروسیسنگ کو نافذ کرنے والا یہ دوسرا تبادلہ کنین کیمرا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ یہ انتہائی تیز ہے ، مسلسل آٹو فوکس موڈ میں 7 ایف پی ایس پر گولی مارنے کے قابل ہے۔ بورڈ میں دائیں SD کارڈ کے ساتھ بفر بھی اہم ہے ، تصاویر کا ایک بیچ لینے کے بعد بند ہونے سے گریز کریں۔ یہ کوئی فوجی X-T2 بیٹر نہیں ہے ، لیکن یہ بالکل آپ کو محدود نہیں کرے گا۔ کینن EOS M6 جائزہ: ویڈیو اور رابطہ۔ 1080p 60/50/30/25/24 ایف پی ایس پر (4K نہیں) 3.5 ملی میٹر مائیک جیک (کوئی ہیڈ فون نہیں) وائی ​​فائی اور بلوٹوتھ لی ایپ کنٹرول۔ یہ آج کل 4K کی دنیا ہے ، جس میں پیناسونک ، فوجی فلم اور ، ٹھیک ہے ، کسی بھی میکر کے بارے میں جو 4K مووی کیپچر کو آگے بڑھاتا ہے۔ کینن EOS M6 کے ساتھ ایسا نہیں ہے: یہ بجائے مکمل ایچ ڈی (1080p) تک محدود ہے۔ فریم ریٹس ہمہ گیر ہیں ، حالانکہ ، ہموار کیپچر کے لیے 60/50fps ، یا اگر آپ چاہیں تو زیادہ سنیما کے لیے 24fps۔ ہم نے لوزیانا میں کچھ مگرمچھوں کو گولی مار دی اور ہر چیز حرکت میں ریشمی ہموار لگ رہی تھی۔ ایک 3.5 ملی میٹر مائیکروفون ساکٹ بھی ہے ، لیکن کوئی ہیڈ فون جیک نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ اعلی درجے کے ویڈیو کام کے لیے ایک چھوٹے تبادلے والے لینس کیمرے کی تلاش کر رہے ہیں تو بالآخر M6 وہ نہیں ہے۔ یہ سب آرام دہ اور پرسکون شوٹنگ کے بارے میں ہے ، ٹچ اسکرین آٹو فوکس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ جو کہ ٹھیک اور ڈانڈی ہے۔ بہترین آئینے لیس کیمرے 2021: بہترین تبادلہ لینس کیمرے جو آج خریدنے کے لیے دستیاب ہیں۔ کی طرف سےمائیک لو۔31 اگست 2021 M6 بلوٹوتھ ایل ای (کم توانائی) اور وائی فائی کو بھی سپورٹ کرتا ہے ، جو فون یا ٹیبلٹ پر متعلقہ سمارٹ ایپ کے ذریعے کیمرے کے ریموٹ کنٹرول کے لیے پس منظر میں بلبلا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت سمارٹ اقدام ہے ، کیونکہ جب سمارٹ ایپس کی بات آتی ہے تو کیمروں کا مسلسل کنکشن اور دوبارہ کنکشن بہت زیادہ پریشان کن ہوتا ہے۔ اگر آپ پہلی مثال میں کیمرے کو ریموٹ کنٹرول کرنے کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں تو وہ ہے۔ فیصلہ کینن EOS M6 اتنی ہی کامیابی ہے جتنا کہ یہ ایک پریشانی ہے: یہ اچھی طرح سے بنایا گیا ہے ، کنٹرول کرنے میں آسان ہے اور اچھی طرح کام کرتا ہے اس جھکاؤ زاویہ ٹچ اسکرین اور جسمانی ڈائلوں کے امتزاج کی بدولت۔ اس سلسلے میں یہ کینن اپنے آئینے کے بغیر کیمرے کو اپنی بہترین پوزیشن میں سیدھا کر رہا ہے۔ بندر فلموں کے سیارے کا کیا حکم ہے؟ تاہم ، EOS M6 کے خلاف جو کام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بالآخر مقابلے سے بہتر نہیں ہے۔ پیناسونک لومکس جی ایکس 80 بہتر آٹو فوکس ہے اور بہت کم پیسوں میں 4K ویڈیو سمارٹ پیش کرتا ہے۔ Fujifilm X -T20 اسی طرح کی کارکردگی کے ساتھ چمکدار ، ریٹرو سٹائل کو مجسم کرتا ہے - اور ، پاؤنڈ کے لیے پاؤنڈ ، مفت میں ویو فائنڈر میں پھینک دیتا ہے۔ کینن ٹھیک ہے ، لیکن ٹھیک ہمیشہ اسے کاٹتا نہیں ہے۔ M6 کیا فروخت کرے گا دو چیزیں ہیں: برانڈ کا نام اور نتیجے میں امیج کا معیار۔ یقینا ، اس میں EF-M لینس کی دستیابی کا کوئی فقدان نہیں ہے ، جبکہ اس کے حریفوں کے پاس شیشے کے زیادہ مقامی اختیارات ہیں ، لیکن اس کیمرے سے براہ راست نکلنے والا معیار بہت اچھا ہے۔ M6 کسی دوسرے کیمرے کو آزمائے بغیر خریدیں اور آپ زیادہ خوش ہوں گے - یہی اس کی اصل بات ہے۔ لیکن اگر آپ مقابلے کے ساتھ کھیلتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ M6 کو کئی حوالوں سے بادشاہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاہم ، قیمت کم ہونے کا انتظار کریں ، اور کینن - آخر میں - آئینے لیس کیمرے کی نبض پر اپنی انگلی اٹھانا۔ اس پر بھی غور کریں ... پیناسونک لومکس جی ایکس 80۔ squirrel_widget_137204 انداز میں ایک جیسا ، لیکن زیادہ سستی ، آٹو فوکس کے ساتھ زیادہ قابل ، اور مزید خصوصیات سے بھرا ہوا۔ یہ چاندی اور چمکدار نہیں لگ سکتا ہے ، لیکن پیناسونک EOS کو تقریبا ہر معاملے میں بہتر کرتا ہے۔ s20+ بمقابلہ s21+ مکمل مضمون پڑھیں: پیناسونک GX80 جائزہ فوجی فلم X-T20۔ squirrel_widget_140065 یہ بلٹ ان ویو فائنڈر کی وجہ سے کافی بڑا ہے - جو کہ ویسے تو بہترین ہے - لیکن فوجی تصویر کے معیار کے لحاظ سے کینن کو آسانی سے لے سکتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ بوٹ کرنے کے لیے ڈھیر ساری خصوصیات ہیں۔ مکمل مضمون پڑھیں: فوجی X-T20 جائزہ زمرے کیمرے۔ دلچسپ مضامین ٹی وی ہر مارول فلم اور شو بلیک بیوہ سے پہلے دیکھنے کے لیے۔ اسمارٹ فونز۔ بہترین آئی فون 11 اور 11 پرو کیسز: اپنے نئے ایپل اسمارٹ فون کی حفاظت کریں۔ ویڈیو گیم پرو ارتقاء ساکر 2018 کا جائزہ: جب میدان میں بہت اچھا ہوتا ہے ، جب نہیں ہوتا تو پریشان ہوتا ہے۔ مقبول خطوط فونز۔ LG G6 جائزہ: ایک زیربحث پرچم بردار۔ کھیل تھور: تھنڈر کا خدا۔ ایپس ایک ساتھ دیکھیں: فیس بک میسنجر میں گروپ واچ پارٹی کیسے شروع کی جائے۔ کھیل ایکس بکس سیریز X / S اور PS5 رے ٹریسنگ لسٹ: اگلے نسل کے کون سے گیمز میں رے ٹریسنگ ہے؟ کھیل ایکس باکس 360 کے لیے کائنیکٹ۔ اے آر اور وی آر سکلی AR-1 سمارٹ موٹرسائیکل ہیلمٹ اب پری آرڈر کے لیے تیار ہے ، اس کی قیمت گوگل گلاس جتنی ہے۔ کھیل PS5 DualSense کنٹرولر: کلیدی خصوصیات ، تفصیلات اور ہر وہ چیز جو آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ فونز۔ سام سنگ گلیکسی نوٹ ایج ریویو: ایکسلینس کا کنارہ۔ فونز۔ ایپل آئی فون 5 سی کا جائزہ ٹی وی فلپس نے OLED اسکرین جلانے کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی تیار کی۔ ہمارے کھیل ویڈیو کانفرنسنگ کے لئے کسی بھی سافٹ ویئر کے ساتھ کام کرتے ہیں. تفریح، تعمیر اعتماد ہے، ٹیم ورک کو بہتر بنانے!
آج بھی مولانا طارق جمیل کی بالواسطہ مذمت میں ہمارے قابلِ احترام دوستوں کے دو کالم چھپے۔ مذمت نہ سہی، ان کے خلاف تو ضرور ہیں! کسی اور موضوع پر لکھنا تھا۔ ایک اور پے کمیشن تشکیل پایا ہے۔ کچھ معروضات اس کی خدمت میں پیش کرنا تھیں۔ دوست گرامی، سابق سفیر جناب جاوید حفیظ نے آج کے کالم پر بذریعہ فون تبصرہ کیا اور بہت قیمتی اشارات دیئے کہ شرقِ اوسط والوں سے بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی امید رکھنا حقیقت پسندی کے خلاف ہو گا۔ مگر ان موضوعات پر کیا لکھنا! نیکو کاروں کی بستی میں ایک گنہگار پھنس گیا ہے۔ ہر ہاتھ نے دستانہ پہنا ہوا ہے۔ ہر ہاتھ میں سنگ ہے۔ ہر قلم کار رسّہ اٹھائے درخت کی شاخ تلاش کر رہا ہے جہاں گنہگار کو لٹکا دے۔ ساری اقلیم میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔ ہر نیکو کار کی انا سے زخم رِس رہا ہے۔ مولوی طارق جمیل نے قوم کو جھوٹا کہہ دیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم، اس سے بڑی نا انصافی کوئی نہیں! چھوڑنا نہیں! بچ کر نہ جائے! مولانا نے معافی مانگ لی۔ غیر مشروط معافی! کوئی دلیل دی نہ بحث کی! صرف اور صرف معافی! اس کے بعد متانت کا اور وضعداری کا اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ معاملہ ختم ہو جاتا مگر حملے اور مسلسل حملے دیکھ کر یوں لگتا ہے مولانا نے معافی نہیں مانگی، للکار دیا ہے! مانا یہ عذاب نہیں، یاد دہانی ہے۔ تنبیہہ ہے! چلیے، میڈیا کے بارے میں مولانا کو بات نہیں کرنا چاہیے تھی اس لیے کہ میڈیا ایک طبقہ ہے اور کسی طبقے کو Single out کرنا مناسب نہیں‘ مگر یہ جو سیاپا پڑا ہوا ہے کہ قوم کو جھوٹا کہا‘ تو ہاں بھئی! بالکل غلط کہا ہے! ہم تو دنیا کی صادق ترین اور امین ترین قوم ہیں! ہم جیسا دیانت دار روئے زمین پر کوئی نہیں! مولوی طارق جمیل پر فرد جرم عائد کر کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے اور پھر پا بہ جولاں، دست بہ زنجیر کر کے حوالۂ زنداں کر دینا چاہیے! اس سے پہلے بھی ایک گنہگار عبدالستار ایدھی ہمارے ہتھے چڑھا تھا۔ کبھی ترنگ میں آتا تھا تو اہلِ سیاست کی اصلیت بتا دیتا تھا۔ اہلِ مذہب نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ خوب فتوے لگے۔ اب مولوی طارق جمیل مل گیا ہے۔ اس کے پیچھے اہلِ دنیا لگے ہیں۔ اہلِ مذہب میں سے بہت سے خوش ہو رہے ہیں۔ معاصرت بھی عجب روگ ہے۔ دوسرے کی شہرت، مقبولیت، ہر دلعزیزی راس نہیں آتی! کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے! چھوٹا منہ بڑی بات! کہاں ایک بے بضاعت کالم نگار کہاں مولانا! مگر اختلاف اُن سے کچھ معاملات میں ضرور ہے۔ دربار نواز شریف کا ہو ، یا کپتان صاحب کا، ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ پھر تقریر میں مبالغہ آرائی بھی ہے۔ جنت کا احوال بیان کرتے ہیں تو نعمتوں کے حوالے سے ضعیف روایات بیان کر جاتے ہیں۔ سماں تو بندھ جاتا ہے‘ لیکن پورا بیان غیر سنجیدہ ہوتا ہے۔ عورت کو بھی ایک طبقہ کے طور پر، الگ سے نشانے پر نہیں لینا چاہیے۔ مرد کو بھی تو غض بصر کا حکم ہے۔ اس پر بھی برابر کا زور دینا چاہیے۔ سب بجا... مگر طوفان اس پر مچا ہے کہ جھوٹا کیوں کہا! غلط کہا، بالکل غلط! سراسر غلط! ہمارے ہاں تو جھوٹ وہ جنس ہے جو مکمل نایاب ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے والا ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ سب ولی زادے ہیں! یہ جو زنداں میں مر جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بے گناہ تھا تو یہ جھوٹی گواہی کا نہیں، سچی گواہی ہی کا تو کرشمہ ہے! خدا کا خوف بھی کوئی شے ہے یا نہیں! میڈیا تلملا رہا ہے کہ قوم کو، من حیث المجموع، جھوٹا کیوں کہا؟ یہی میڈیا تو ہے جس نے ایک ایک جھوٹ، ایک ایک بے ایمانی، ایک ایک فریب کو طشت ازبام کیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، استعمال شدہ گندے تیل کو موٹروں کے انجنوں میں ڈالنے کے لیے دوبارہ بیچا جا رہا تھا تو میڈیا کی ٹیم نے پکڑا۔ شہر شہر جعلی دوائیوں کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ مرچ ہے یا بیسن، دودھ ہے یا گھی، آٹا ہے یا چائے کی پتی، شیمپو ہے یا منہ پر لگانے کی کریم، شہد ہے یا مکھن، کون سی شے ہے جو نقلی، یا ملاوٹ والی نہیں!! کھلے عام تیار ہو رہی ہے اور بِک رہی ہے! درست ہے کہ غیر مسلم ملکوں میں بھی جعلی خوراک بن اور بک رہی ہے، مگر انہیں تو اس پیغمبر پر کوئی یقین نہیں جس کا نامِ نامی سن کر یہاں بے ایمانی کرنے والا انگوٹھے چومتا ہے اور درود شریف پڑھتا ہے۔ غیر مسلموں نے تو سنا ہی نہیں کہ ''مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘۔ جس نے ملاوٹ کی ہم میں سے نہیں! انہیں تو معلوم ہی نہیں کہ مُحَتَکِر (ذخیرہ اندوز) ملعون ہے۔ انہیں کیا پتہ کہ بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانے والے پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ وہ تو فرشتوں کو مانتے ہی نہیں! وہاں تو مسجدیں ہیں نہ محراب نہ منبر جہاں سے بیچارا واعظ آئے دن یاد دلاتا ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں‘ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا، امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کا ارتکاب کرتا ہے! امتحان گاہوں میں بوٹی مافیا کا راج ہے۔ ملازمتیں دینے کا وقت ہو تو وزیروں، مشیروں اور سیکرٹریوں کی درازیں چٹوں سے بھر جاتی ہیں۔ یہ تو ابھی دو سال پہلے کی بات ہے‘ میرٹ پر بیرون ملک بھیجے جانے والوں کی فائل اُس وقت کے وزیر اعظم نے پورا ایک سال اپنے دفتر میں رکھی اور پھر سارا عمل دوبارہ کیا گیا تا کہ وہ جو زیادہ ''برابر‘‘ (Equal) ہیں، انہیں نوازا جائے! جھُوٹ کے الزام پر تلملانے والے کُنڈے ہی گِن لیں جو بجلی کی تنصیبات پر لگے ہیں۔ سچ بولنے والوں کی گیس کنکشن کی درخواستوں کو کیڑے کھا رہے ہیں اور چوری کے گیس کنکشن ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہیں۔ اوپر سے نیچے تک سب ''سچوں‘‘ کو ایک ایک جعلی کنکشن کا علم ہے! سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں۔ لاکھوں افراد پلاٹوں کے الاٹ منٹ لیٹر ہاتھوں میں لے کر پھر رہے ہیں کہ پلاٹ کا وجود ہی نہیں، مگر داد رس کوئی نہیں! اس لیے کہ جعلی لیٹر ایشو کرنے والوں کے ہاتھ لمبے ہیں! اس ملک کے سارے صوبوں میں کتنی کچہریاں ہوں گی! کیا کوئی ایک کچہری بھی ہے جس کے بارے میں کوئی دعویٰ کر سکے کہ جھوٹ بولے بغیر، رشوت دیئے بغیر کام ہو جائے گا! مولانا کا حلقوم دیکھ کر چھریاں تیز کرنے والے صرف سرکاری ٹیکس دے کر زمین یا جائیداد کا انتقال کرا کے دکھا دیں بشرطیکہ اپنی پوزیشن، اپنی حیثیت، اپنے تعلقات کا استعمال نہ کریں۔ خدا کے بندو! ایک ایک سائل کو ایک ایک کچہری میں بھنبھوڑا جاتا ہے۔ پٹواری سے لے کر تحصیل دار تک۔ تحصیل دار سے لے کر اوپر تک... کہاں کہاں حصّہ نہیں جاتا! یہ جن کے سرکاری اور غیر سرکاری گھروں میں اور ڈیروں پر اور حویلیوں میں ''لنگر‘‘ چل رہے ہیں اور سینکڑوں ''وابستگان‘‘ صبح شام تنورِ شکم بھرتے ہیں، ان کا حساب کتاب کیا ہے؟ کیا تنخواہ سے، یا جائز روٹین کی کمائی سے سب کچھ ہو رہا ہے؟ بھید ہے نہ معمّہ ! ہر شخص جانتا ہے کن کے اخراجات کون پورے کرتا ہے!! کورونا عذاب نہیں! اس کا ہمارے جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں! کورونا تو پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے! ہمارے جھوٹ کا حساب تو ابھی ہونا ہے! فَانْتَظِرُوا اِنِّی مَعَکُم مِنَ المُنتظرین! تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں! بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Tuesday, April 28, 2020 کیا خلیج میں بھارت کے چہرے سے نقاب اُترنے کو ہے؟ آزاد پاکستان میں جب ہم ان جھگڑوں کو رونق بخش رہے ہیں کہ نماز مسجدوں میں پڑھیں یا گھروں میں‘ اور جب مولانا کی دعا پر طول و طویل بحث مباحث ہو رہے ہیں اور جب یہ طے کیا جا رہا ہے کہ قوم جھوٹی ہے یا دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں...تب‘ سرحد پار بھارت میں مسلمان کس قیامت سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ہمیں اندازہ ہے نہ اندازہ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے‘ اس لئے کہ ہم آزاد ہیں! یہ دہلی کا مضافاتی علاقہ ہے۔ ایک مسلمان کو ہجوم پیٹ رہا ہے۔ لاٹھیوں اور جوتوں سے مار رہا ہے۔ اس کے منہ‘ ناک اور کانوں سے خون بہنے لگا ہے۔ وہ ایک تبلیغی اجتماع سے واپس آیا ہے۔ حملہ آور کہہ رہے ہیں کہ یہ ''کورونا جہاد‘‘ میں ملوث ہے اور اُس سازش کا حصّہ ہے جس کے تحت بھارتی مسلمان ملک میں کورونا پھیلا رہے ہیں اور ایک منظم پلان کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔ہجوم مارتا مارتا اسے ایک قریبی مندر میں لے جاتا ہے۔ یہاں اسے اور مارا پیٹا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرے۔ اس کے بعد ہی اسے ہسپتال جانے دیا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر مقامات پر مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہیں ''کورونا دہشت پسند‘‘ جیسے القابات سے پکارا جا رہا ہے۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلمان خوراک اور پانی پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس پھیلے۔ دہلی کے علاوہ کرناٹک ‘مدھیہ پردیش اور تلنگانہ کی ریاستوں میں ایسے پوسٹر جابجا نظر آ رہے ہیں جن میں مسلمانوں سے بچنے کی وارننگ دی گئی ہے۔تبلیغی جماعت کے ارکان کو ''انسانی بم‘‘ کہا جا رہا ہے۔کچھ انہیں پھانسی پر لٹکانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کے چہروں پر تھوک رہے ہیں تاکہ وائرس مزید پھیلے۔ کرناٹک میں آڈیو کلپ کے ذریعے لوگوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ مسلمان سبزی فروشوں اور میوہ فروشوں کو اپنی آبادیوں میں نہ داخل ہونے دو کیونکہ یہ ان اشیا کی مدد سے کورونا پھیلا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ غریب آبادیوں میں راشن تقسیم کر رہا تھا‘ گروہ کے ارکان کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا۔ پیٹنے والے کہہ رہے تھے کہ تم راشن پر تھوکتے ہو تاکہ وائرس پھیلے۔ یہاں تک کہ ہندو تنظیموں کے مسلمان ارکان کو بھی راشن تقسیم کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ایک گاؤں کی پنچایت کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ مسلمانوں سے میل جول رکھنے والے ہندو پر ایک ہزارر وپے جرمانہ کیا جائے گا۔ زہریلے پروپیگنڈے کا یہ حال ہے کہ ہسپتالوں میں مسلمانوں کا علاج کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ جھوٹ کا ایک کارخانہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف دن رات چل رہا ہے۔ ناقابلِ یقین الزامات! مثلاً یہ کہ تبلیغی جماعت کے ارکان نے خواتین نرسوں کے سامنے اپنے آپ کو برہنہ کر دیا اور ڈاکٹروں پر تھوکا! بنگلور میں مسلمان خوانچہ فروشوں کو کرکٹ کے بَیٹوں سے مارا گیا۔یو پی میں چیف منسٹر ادتیا ناتھ یوگی کے احکام یہ ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ارکان جہاں نظر آئیں‘ گرفتار کر لئے جائیں۔ 23خصوصی جیل ان کیلئے تیار کئے گئے ہیں‘ ہندو مریضوں کو قرنطینوں میں رکھا جا رہا ہے‘ مگر مسلمان مریضوں کو جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ اصطلاحی طور پر انہیں ''عارضی‘‘ جیل کہا جا رہا ہے۔ پھر‘ جن مسلمانوں میں مرض کے آثار بالکل موجود نہیں‘ انہیں بھی پکڑ کر ان ''عارضی‘‘ جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم رمضان کے مہینے میں ہو رہا ہے! یوگی ادتیا ناتھ سے یوں بھی کسی انسانیت کی توقع لاحاصل ہے۔ مودی اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بعد یوگی ادتیا ناتھ تیسرا متعصب ترین ہندو ہے جو بی جے پی کی حکومت کا اہم ترین فرد ہے۔ ایک پیشہ ور پنڈت۔ ہمیشہ زعفرانی رنگ کے مذہبی لبادے میں ملبوس۔ سر سے مصنوعی گنجا! شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جب اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اُگلا ہو! یو پی کی آبادی دوسری تمام ریاستوں سے زیادہ ہے۔ بیس کروڑ۔ مسلمان تقریباً ساڑھے چار کروڑ ہیں اور اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک اور اذیت ناک دور سے گزر رہے ہیں۔ حال ہی میں گورکھپور میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ چند ماہ پہلے اس نے ایک درفطنی چھوڑی اور یو پی کے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم اگر پاکستان نہیں گئے‘ یہاں رہ گئے تو بھارت پر احسان نہیں کیا‘ پاکستان کی تو تم نے‘ تقسیم سے پہلے‘ حمایت ہی کی تھی!جس طرح تقسیم سے پہلے کچھ ہندو اور سکھ عورتیں مسلمانوں سے شادی کرنے کی متمنی تھیں اور اسے ہندو اور سکھ ہمیشہ فساد کی بنیاد بناتے تھے‘ اسی طرح آج بھی ایسے واقعات بھارت میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ہندو لڑکیاں‘ اپنی مرضی سے‘ مسلمان لڑکوں سے محبت کی شادی کرتی ہیں۔ کوئی پاگل بھی نہیں مان سکتا کہ آج کے بھارتی معاشرے میں‘ جہاں مسلمان جان بچاتے پھر رہے ہیں‘ کوئی کسی ہندو عورت کو جبراً مسلمان کرے گا‘ مگر ادتیا ناتھ کا اعلان یہ ہے کہ اگر وہ ایک ہندو عورت کو مسلمان کریں گے تو ہم سو مسلمان عورتوں کو ہندو بنائیں گے۔ اپنے آبائی قصبے میں اس نے ایک انتہا پسند تنظیم خصوصی طور پر بنائی ہے۔ اس کے اجتماع میں‘ ایک ہندو لیڈر نے حاضرین کو مسلمان عورتوں کی لاشوں کے ساتھ جس انسانیت سوز سلوک کی تلقین کی‘ اسے لکھنے کی قلم اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت ادتیا ناتھ اس جلسے میں موجود تھا اور سٹیج پر بیٹھ کر یہ شرمناک بکواسات سُن رہا تھا۔ مسلمانوں کے بسائے ہوئے شہر‘ جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں‘ ان کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ الٰہ آباد اور آگرہ کے نام بدلے جا چکے۔ مسلمان مدارس کو حکم دیا گیا ہے کہ ''قومی‘‘ تعطیلات کے مواقع پر ''تقاریب‘‘ منعقد کی جائیں اور ثبوت کیلئے وڈیوز اعلیٰ حکام کو پیش کی جائیں۔عالمِ اسلام تو اس حوالے سے بے نیاز ہے ہی‘ خود پاکستان میں اس ظلم و ستم کو نمایاں طور پر اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا جس طرح پیش کرنے کا حق ہے۔ جو کچھ آسام میں ہوا‘ پھر کشمیر میں‘ اور اب کورونا کے نام پر جو کچھ پورے بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس پر مسلمان حکومتیں مُہر بہ لب ہیں۔ گویا؎ نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا تاہم ایک کرن مشرقِ وسطیٰ سے ابھری ہے۔ یہ کرن‘ بارش کا پہلا قطرہ تو تاحال ثابت نہیں ہوئی مگر امید ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا‘ بھارتی چیرہ دستی کے چہرے سے نقاب مسلمان ملکوں میں ضرور اُترے گی۔ ہوا یہ کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم سورابھ اوپا دھائے نامی ایک بھارتی نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ہندؤں کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا! اس نے یہ بھی کہا کہ دبئی جیسے شہر ہندوؤں نے تعمیر کیے اور یہ کہ یہاں کے کاروبار میں ان کا حصّہ ہے۔ ساتھ ہی اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کئے۔ اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند فیصل القاسمی نے ٹویٹ کیا کہ اگرچہ حکمران خاندان‘ بھارت کا دوست ہے مگر ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہیں برداشت کی جائے گی۔ یہاں جو کام کرتا ہے‘ وہ معاوضہ پاتا ہے۔ مفت کوئی نہیں کام کرتا۔ جس سرزمین کی تم توہین کر رہے ہو‘ اسی سے روٹی کما کر کھا رہے ہو۔ اس تضحیک کا نوٹس لیا جائے گا۔ ساتھ ہی شہزادی نے یہ بھی لکھا کہ نسل پرستانہ اور امتیازی رویہ دکھانے والوں کو جرمانہ کیا جائے گا اور ملک سے نکال دیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں‘ سعودی سکالر عابدی زاہرانی نے کہا ہے کہ لاکھوں بھارتی‘ خلیج کی ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ کچھ کورونا وائرس میں بھی مبتلا ہیں۔ ان کا علاج مفت کیا جا رہا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ دوسری طرف فاشسٹ مودی اور اس کے انتہا پسند جتھے اپنی ہی مسلمان آبادی کے خلاف جرائم سرزد کر رہے ہیں۔زہرانی نے تجویز کیاکہ متعصب ہندوؤں کو خلیج کی ریاستوں سے نکال کر‘ واپس بھارت بھیج دیا جائے۔ کیا عجب‘ یہ آغاز ہو اور عالمِ اسلام بھارت کے عزائم سے خبردار ہو جائے۔ بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Monday, April 27, 2020 ایک عقیدت مند کی گزارش مولانا طارق جمیل صاحب نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ شاید رفعِ شر کے لیے۔ شاید انکسار کے سبب! غلطی کو تسلیم کرنا بڑائی کی علامت ہے۔ اس سے شان میں کمی نہیں‘ اضافہ ہوتاہے! اس میں کیا شک ہے کہ میڈیا نے قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک میں صحافیوں نے جان کی بازی لگائی ہے۔ میڈیا کا ایک کردار ہے قومی تعمیر میں۔ سکینڈل بریک کرنے میں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکومتِ وقت کی جہاں حمایت ہوتی ہے وہاں اسی میڈیا پر حکومتِ وقت پر تنقید بھی ہوتی ہے جو آسان کام نہیں! اس میں پرنٹ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کا معیار ریٹنگ ہے۔ ریٹنگ کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سطح سے نیچے آنا پڑتا ہے۔ جبھی تو بعض ایسے افراد کو بھی اینکر حضرات اکثر و بیشتر انٹرویو کے لیے بلاتے رہتے ہیں جو متین کم اور مقبول زیادہ ہیں! رہی مولانا صاحب کی یہ بات کہ ساری قوم یا سارا معاشرہ ہی جھوٹا ہے تو انہوں نے وضاحت کر دی کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمومی رویہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اس دورِ فتن میں بھی سچ بولتے ہیں اور بول رہے ہیں۔ یوں بھی کُلّیہ یہ ہے کہ جب ہم سو فیصد کہتے ہیں تو مراد نوے پچانوے فیصد ہوتی ہے اور جب صفر فیصد کہتے ہیں تو مراد پانچ دس فیصد ہوتی ہے! اس میں کیا شک ہے کہ بحیثیت مجموعی ہماری دیوار جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور بے تحاشا بولتے ہیں۔ دکاندار گاہک سے‘ گاہک دکاندار سے‘ والدین اولاد سے‘ اولاد والدین سے‘ افسر ماتحت سے‘ ماتحت افسر سے‘ عوام رہنمائوں سے‘ رہنما عوام سے سب جھوٹ بولتے ہیں۔ برملا بولتے ہیں۔ جھوٹ کی ایک بدترین قسم وعدہ خلافی ہے اور ہمارے ہاں تو ریاست کے ایک سابق سربراہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ وعدہ قرآن و حدیث نہیں کہ پورا کیا جائے! گویا وعدہ خلافی کا جواز مہیا کیا جا چکا ہے! دکاندار گاہک سے کہتا ہے یہ کپڑا یا جو بھی چیز ہے‘ لے جائیے‘ کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ گاہک گارنٹی کی تحریر مانگتا ہے تو دکاندار کہتا ہے گارنٹی زبانی ہے۔ دوسری طرف گاہک جھوٹ بولتا ہے کہ گزشتہ ہفتے اس قیمت پر لے گیا تھا۔ تب دکاندار کہتا ہے کہ خدا کا خوف کیجیے‘ دکان تو تین دن پہلے شروع کی ہے۔ پچھلے ہفتے تھی ہی نہیں! کیا ہم مقررہ وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ملاقات کا وقت پانچ بجے طے ہو تو سات بجے پہنچتے ہیں۔ گھر میں بیٹھے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ راستے میں ہیں۔ سائل چل چل کر جوتے توڑ دیتا ہے مگر ہر بار دفتر کا اہلکار کہتا ہے :کل آئیے کام ہو جائے گا۔ کتنی باراتیں مقررہ وقت پر پہنچتی ہیں؟ کتنے ولیمے دیئے ہوئے وقت پر منعقد ہوتے ہیں؟ لڑکی والوں کا انتظار ہو رہا ہے۔ وہ گھنٹوں تاخیر سے آتے ہیں۔ تب حاضرینِ مجلس کو کھانا ملتا ہے۔ ٹرینیں اور جہاز چلانے والے وعدے کے کتنے پابند ہیں؟ جہاں دوسری ائیر لائنوں کے جہاز وقت سے پانچ منٹ پہلے لینڈ کرتے ہیں‘ وہاں ہمارے جہاز گھنٹوں لیٹ پہنچتے ہیں۔ ہماری ائیر لائنز کے بارے میں تو یہ کہاوت ہی بن گئی تھی کہ کنکٹنگ فلائٹ مِس کراتی ہے۔ یہ بھی تب کی بات تھی جب دنیا کے بہت سے شہر‘ ہماری منزلوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب تو بہت کچھ چھن چکا! جھوٹ کو کوّر کرنے کے لیے ہم نے یُو ٹرن کی اصطلاح عام کی! ایک زمانہ تھا کہ وعدہ خلافی معشوق کی مشہور تھی۔ اب ہر شخص معشوق ہے! ہماری ٹیلی فون کالوں کا سروے کیا جائے تو چالیس پچاس فیصد کالیں تو صرف اس ''یاددہانی‘‘ کی نکلیں گی کہ آپ نے فلاں وقت آنا تھا‘ آئے نہیں۔ فلاں شے پہنچانا تھی‘ نہیں پہنچائی۔ مال ڈیلیور کرنا تھا‘ انتظار کر رہے ہیں! جب ہم بورڈ پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ کھانے یا نماز کا وقفہ ایک سے دو بجے تک ہے تو یہ وعدہ ہے کہ دو بجے آ جائیں گے‘ مگر سائل کھڑے ہیں‘ دو بجے کوئی نہیں آتا۔ کھڑکی اُس وقت کھلتی ہے جب مرضی ہو‘ جب دل چاہے!! مثال ہم سرورِ کونینﷺ کی دیتے ہیں کہ کسی نے انتظار کرنے کا کہا اور پھر بھول گیا۔ آپؐ تین دن وہاں انتظار فرماتے رہے۔ رویّہ ہمارا بالکل مختلف ہے۔ جنہیں ہم کفار گردانتے ہیں‘ ان کے ہاں ایک ایک سیکنڈ کے حساب سے وعدے کی پابندی ہے۔ دعوت پر بلائیں تو عین مقررہ وقت پر پہنچیں گے۔ دکانیں دیئے ہوئے وقت پر کھلیں گی اور بند ہوں گی! زندگی اس وجہ سے ہموار ہے اور سہل ہے۔ اپنے ہاں کچھ مشکلات کا حل تو ہمارے بس میں نہیں‘ مگر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے ہم نے مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رکھا ہے جبکہ یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ایک عام شہری جھوٹ بولتا ہے یا وعدہ شکنی کرتا ہے تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے یا سیاست دانوں کو کیسے ملزم ٹھہرا سکتے ہیں یا اہلِ مذہب کی کیا غلطی ہے؟ کون سا واعظ ہے جو سچ بولنے کی تلقین نہیں کرتا؟ کون سا عالمِ دین ہے جو عہد شکنی کی سزا سے نہیں ڈراتا مگر ہم عوام ہیں کہ اسی ڈھرے پر چلے جا رہے ہیں! خدا کا خوف ہے نہ معاشرے کا! ایسے میں اگر مولانا نے ایک عمومی رنگ میں‘ اکثریت کے حوالے سے کہہ دیا ہے کہ سب جھوٹ بولتے ہیں تو کیا غلط کہا ہے؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سچ کوئی نہیں بولتا۔ بہت سے لوگ‘ الحمد للہ ایسے موجود ہیں جو سچ بولتے ہیں اور دروغ گوئی سے احتراز کرتے ہیں! ہاں! ایک گزارش کرنی ہے۔ یہ کالم نگار ان کا مداح ہے! وہ بھی اس بے بضاعت پر کرم فرمائی کرتے ہیں۔ کوئی غلط فہمی ہو تو فون پر وضاحت فرماتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے مسئلہ اٹھا تو انہوں نے بیرون ملک سے وڈیو کال پر یاد فرمایا اور مسئلہ سمجھایا۔ وضاحت بھی فرمائی۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ ہر شخص سے‘ قطعِ نظر اس کی حیثیت کے‘ بات کرتے ہیں اور خود بات کرتے ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صرف مشاہیر اور Celebrities پر توجہ دیتے ہیں تو یہ یوں غلط ہے کہ مشاہیر سے بات کرتے ہیں تو وہ میڈیا میں خبر بن جاتی ہے۔ عام لوگوں سے وہ ہر وقت رابطے میں ہیں‘ مگر ظاہر ہے اس کی خبر نہیں بنتی نہ بن سکتی ہے! گزارش یہ ہے کہ اگر حضرت مولانا کسی حکمران کے پاس بھی نہ جائیں تو کیا حرج ہے! نواز شریف کے پاس جاتے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اعتراض کرتے تھے۔ اب موجودہ وزیراعظم سے ملتے ہیں تو حکومت کے مخالف معترض ہیں۔ اگر اس ہنگامہ خیزی سے گریز کرنے میں عافیت ہو تو اس عافیت کو کیوں نہ اپنایا جائے؟ حکمرانِ وقت کو‘ خواہ میاں صاحب ہوں خواہ کپتان صاحب ہوں‘ اگر نصیحت کی ضرورت ہے تو کنواں پیاسے کے پاس چل کر کیوں آئے؟ پیاسا کنوئیں کی طرف کیوں نہ قدم بڑھائے؟ اقبال نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا؎ قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ حکمرانی کی تاریخ بھی عجیب ہے! حکمران پامسٹوں‘ نجومیوں یہاں تک کہ ملنگوں کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ پیٹھ پر ڈنڈے کھاتے‘ دور افتادہ بستیوں کا سفر کرتے ہیں۔ ''بابوں‘‘ کے ہاں حاضریاں لگواتے ہیں۔ پیر مردوں اور پیر خواتین کی درگاہوں میں جاتے ہیں۔ تو پھر مولانا طارق جمیل صاحب جیسے علما اور مبلغین کے حضور کیوں نہیں حاضر ہوتے؟ دعا کرانی ہے تو انہیں زحمت دینے کے بجائے‘ ان کے آستانے پر جائیں! حکمران ہمیشہ متنازعہ ہوتے ہیں۔ لاکھ حامی تو دو لاکھ مخالف! کوئی حکمران بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو سو فیصد ہم نوائی حاصل ہو! اس لیے ان سے احتراز ہی میں عافیت ہے! بجائے اس کے کہ بعد میں وضاحتیں کرنا پڑیں اور اعتذار کرنا پڑے‘ کیا بہتر نہیں کہ دامن ہی بچا لیا جائے؟ میڈیا کے اس طلسماتی دور میں کسی حکمران کو نصیحت کرنی ہو‘ تنبیہ کرنی ہو‘ تو مسجد میں بیٹھ کر کریں‘ تب بھی چند منٹ کے اندر اندر وہاں پہنچ جائے گی! یہ الگ بات کہ حکمران اس پر توجہ دیں یا درخورِ اعتنا نہ سمجھیں! بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Thursday, April 23, 2020 وبا کے دنوں میں ٹرالی بیگ کی یاد ‎ٹرالی بیگ ڈھونڈ رہے تھے۔ ہم دونوں میاں بیوی ایک ایک بازار میں، ایک ایک دکان میں! چھوٹے سائز کا ٹرالی بیگ جو ایک تین سالہ بچے کے لیے موزوں ہو، مل نہیں رہا تھا! ‎ٹرالی بیگ کا شوق موصوف کا، اُس وقت سے ظاہر تھا جب مشکل سے دو سال کے تھے۔ جب بھی ایئر پورٹ پر جاتے، کسی نہ کسی مسافر کے ٹرالی بیگ کو دھکیلنا شروع کر دیتے۔ کچھ ماہ اور گزرے تو ہینڈل سے پکڑ کر کھینچنا شروع ہو گئے۔ سفر کے ارادے سے ہم گھر والے نکلنے لگتے تو ایک نہ ایک ٹرالی بیگ کے در پے ہو جاتے کہ اسے میں لے کر جائوں گا۔ ہلکا ہوتا تو کھینچ لیتے۔ بھاری ہوتا تو خوب زور لگاتے۔ ایئر پورٹ پر ایک بار یہ بھی ہوا کہ ایک مسافر کا ٹرالی بیگ پکڑا اور اسے چلاتے چلاتے کافی دور نکل گئے۔ مسافر کو پتہ چلا نہ ہم گھر والوں کو۔ جیسے ہی نظر پڑی، واپس لے آئے۔ مسافر سے معذرت کی تو وہ ہنس پڑا۔ ‎یہ شوقِ فراواں دیکھ کر ایک دن ہم دونوں نے باہمی مشورہ کیا کہ حمزہ کے لیے ایک چھوٹا ٹرالی بیگ ہونا چاہئے جو اس کا اپنا ہو، آسانی سے اِدھر اُدھر لے جا سکے۔ یوں شوق بھی پورا ہو اور ایک اعتبار سے اس کے کام بھی آئے! ‎اس ارادے سے اُن دن گھر سے چلے۔ کہاں ملے گا؟ کوئی آئیڈیا نہ تھا۔ اس کے ماں باپ سے رہنمائی لیتے تو معاملہ سہل ہو جاتا مگر یہ ممکن نہ تھا۔ انہوں نے ایک تقریر جھاڑنا تھی کہ پہلے ہی اس کے اتنے کھلونے اور بے ہنگم سامان جمع ہو چکا ہے۔ اور پھر اس کے اپنے الگ ٹرالی بیگ کے آئیڈیا کو انہوں نے غلط قرار دینا تھا کہ کیا کرے گا، چار دن بعد اس کی طرف دیکھے گا ہی نہیں! اور اس قسم کی اور بہت سی باتیں! ‎یہ بھی ایک عجیب دائرہ ہے جو نسل در نسل گھومتا ہے اور گھومتا ہی رہتا ہے۔ سیاروں کی طرح! یوں کہ مدار سے باہر نہیں نکلتا۔ عورت جوان ہوتی ہے تو ہر برائی ساس میں نظر آتی ہے۔ وہی جب ساس بنتی ہے تو پورے کا پورا PARADIGM شفٹ ہو جاتا ہے۔ برائیاں ساس سے بہو میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ بالکل یہی دائرہ ماں باپ کا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ جس طرح کا برتائو کرتے ہیں، جس طرح ڈسپلن سکھاتے ہیں‘ جس انداز میں سختی کرتے ہیں، دادا دادی یا نانا نانی بننے پر وہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک سو اسّی ڈگری کے زاویئے پر گھوم جاتے ہیں۔ جو کچھ خود کرتے تھے، پوتے یا نواسی کے ساتھ بالکل وہی ہوتا دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں، کبھی بیٹی کو، کبھی بہو کو تلقین ہوتی ہے کہ بچوں کو سمجھانے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں! ڈانٹو مت، کھیلنے دو! چھوٹے ہیں۔ بڑے ہوں گے تو سیکھ جائیں گے! آج سکول نہ جانے کی ضد کر رہا ہے تو چھٹی کر لینے دو۔ کون سا پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ دوسری طرف ماں باپ کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ دادا، دادی نے نانا ، نانی نے بچے کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کے لیے فرنگی زبان کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ Spoil کر دیا ہے! پھر یہی ماں باپ، دادا دادی بنتے ہیں تو ع ‎تھا جو نا خوب، بتدریج وہی خوب ہوا ‎ایک بچے نے دادا دادی پر مضمون لکھا جو کچھ اس طرح کا تھا۔ ‎''نہیں معلوم دادا دادی کہاں رہتے ہیں۔ ہم انہیں ایئر پورٹ سے لاتے ہیں اور وہیں چھوڑتے ہیں۔ ہماری وہ باتیں سنتے ہیں جو امی ابو نہیں سنتے۔ ہمیں ہمارے کھلونے ڈھونڈ کر دیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی نہیں کہتے کہ خاموش ہو جائو۔ ہماری خاطر ہمارے امی ابو سے جھگڑا بھی کرتے ہیں!‘‘ ‎دوسرا پہلو بھی عجیب ہے۔ پوتوں، نواسوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی صرف لطف اندوزی ہوتی ہے۔ شاید یہ وہ تلافی ہے جو قدرت بڑھاپے کے بدلے میں عطا کرتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر معلوم ہوتا کہ پوتے ، نواسے اتنے مزیدار ہوتے ہیں تو اپنے بچوں کے بجائے پہلے انہیں حاصل کرتے۔ یہ محاورہ بھی مشہور ہے کہ دروازے سے جیسے ہی دادا، نانا داخل ہوئے، ڈسپلن کھڑکی سے باہر کود گیا۔ یا یہ کہ وہی ماں باپ ترقی کر کے دادا، دادی بنتے ہیں جو اس قابل ہوں! ایسے ماں باپ تو ہوتے ہیں جو اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے مگر ایسے دادا، دادی، نانا، نانی کا کوئی وجود نہیں جو پوتوں، نواسوں سے پیار نہ کریں۔ ایک عجیب منظر ہوتاہے جب بچے اس بات پر جھگڑ رہے ہوں کہ کس نے دادا یا دادی کے پاس سونا ہے۔ پھر جھگڑا ختم کرنے کے لیے باریاں مقرر کی جاتی ہیں، جنہیں کوئی بچہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کالم نگار کی ایک عزیزہ ایک سکول کی پرنسپل ہیں۔ بتاتی ہیں کہ ماں باپ شکایت کرنے آئیں تو ہم مطمئن کر کے انہیں واپس بھیجنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر دادا، دادی یا نانا، نانو کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی بھی سکول والوں سے بچے کے حق میں ہو جائے تو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور بہت زیادہ فساد ڈالتے ہیں۔ ‎ایک حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اکثر چیزوں کی نوعیت اور ماہیت ہم بتا سکتے ہیں کہ کیا ہیں‘ مگر کسی ایسے شخص کو جو عملی طور پر ابھی دادا یا نانا نہیں بنا، کبھی بھی نہیں سمجھا سکتے کہ پوتے یا پوتی یا نواسی سے زندگی کیسی ہو جاتی ہے، کتنا لطف آتا ہے‘ اور یہ تجربہ کیسا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے نہیں سمجھایا جا سکتا کہ باہر دنیا کیسی ہے اور ریل یا جہاز کیا ہے۔ ‎ایک دوست نے، جو معروف کالم نگار ہیں، بہت عرصہ ہوا ایک واقعہ لکھا تھا کہ غالباً کوئی سابق بیورو کریٹ تھا۔ اسے وائٹ ہائوس سے فون آیا کہ آنے والے اتوار کو امریکی صدر اس سے مل کر کسی مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ سابق بیورو کریٹ نے معذرت کر دی کہ اتوار کو وہ مصروف ہے۔ صدر کے سٹاف افسر نے مصروفیت کی نوعیت پوچھی کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو امریکی صدر کے ساتھ ملاقات سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس نے بتایا کہ پوتی کو چڑیا گھر لے جانا ہے۔ سٹاف افسر بے اختیار ہنس پڑا کہ یہ کون سا ایسا ضروری کام ہے! دادا نے جواب دیا کہ یہ کئی گنا زیادہ ضروری ہے۔ امریکی صدر ملاقات کے چند گھنٹے بعد مجھے بھول چکا ہوگا مگر پوتی ساری زندگی یاد رکھے گی کہ دادا ابو مجھے چڑیا گھر لے کر گئے تھے!! ‎ہم گھر میں کسی کو بتائے بغیر کہ کس کام کے لیے باہر جا رہے ہیں، نکلے۔ ٹرین پر بیٹھ کر ''سنٹرل میلبورن‘‘ کے سٹیشن پر اترے۔ کئی سپر سٹوروں، دکانوں میں گئے، ایسا ٹرالی بیگ نہیں مل رہا تھا جو تین سالہ مسافر کے لیے موزوں ہو! ایک جگہ ملا مگر وہ سرخ رنگ کا تھا۔ ان ملکوں میں ضروری ہے کہ رنگوں کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ گلابی یا سرخ رنگ لڑکیوں کے لیے اور نیلا، کالا یا سفید لڑکوں کے لیے! بڑے بڑے مال بھی جھانکے‘ کہیں نہ ملا۔ پھر ایک دکاندار نے مشورہ دیا کہ Southern-cross جا کر دیکھو۔ یہ ایک ریلوے سٹیشن ہے۔ اس کے ساتھ بہت بڑا بازار ہے۔ وہاں گئے۔ صندوقوں اور بیگوں کی بہت سی دکانیں تھیں۔ شام ہو چلی تھی۔ پانچ ساڑھے پانچ بجے بازار بند ہو جانے تھے۔ دل میں قائل ہو چکے تھے کہ مہم ناکام گئی۔ بالآخر ایک دکان میں نیلے رنگ کا ننھا منا ٹرالی بیگ مل گیا۔ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر یوں قابو کیا جیسے کئی دوسرے گاہک اس کے درپے ہوں‘ حالانکہ ہمارے علاوہ اس کا خریدار کوئی نہ تھا۔ ‎گھر پہنچے تو حمزہ سویا ہوا تھا۔ صبح اٹھا اور ٹرالی بیگ پا کر جو خوشی اسے ہوئی، ظاہر ہے اس کا اظہار اس کے لیے نا ممکن تھا۔ ‎کِھلتا ہوا چہرہ کچھ کچھ بتاتا تھا۔ کئی بار زِپ کھولی اور بند کی۔ پھر اس میں الم غلّم اپنا سامان ڈالا۔ کھلونے،بلاکس،پرفیوم کی خالی بوتل، وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ گویا اس کے جسم کا حصہ ہو گیا۔ جہاں جاتا، اس کا ہینڈل ہاتھ میں ہوتا اور چلاتا جاتا۔ صبح اپنی خواب گاہ سے نکلتا تو ٹرالی بیگ لیے۔ کسی بھی کمرے میں، طعام گاہ میں، کچن میں، لائونج میں، یا باہر صحن میں، ٹرالی بیگ ساتھ ہوتا۔ ایک رات، بہت دیر ہو چکی تھی، اس کے ماں باپ اپنی خواب گاہ میں سو چکے تھے، یہ ٹرالی بیگ چلاتا، ہمارے بیڈ روم میں آیا۔ ٹرالی بیگ چار پائی کے ساتھ لگایا اور میرے پاس لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اٹھا، میں نے کہا کہ دیر ہو چکی ہے، میرے پاس ہی سو جائیے، کہنے لگا : نہیں، میں ممی کے پاس جا رہا ہوں۔ ہاتھ میں ٹرالی بیگ کا ہینڈل سنبھالا، اور چل پڑا۔ میں بھی ساتھ ہی اٹھا اور ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلا۔ ٹرالی بیگ کے ساتھ ہی خواب گاہ میں داخل ہوا۔ ‎اب نو برس کا ہے۔ وہ آسٹریلیا میں کورونا کا قیدی ہے اور دادا، دادی پاکستان میں نظر بند!! رمضان اس کے ساتھ گزارنا تھا مگر قدرت کو منظور نہ تھا۔ دو دن پہلے کمپیوٹر پر بات ہو رہی تھی۔ اچانک مجھے ٹرالی بیگ یاد آیا۔ پوچھا: کہاں ہے! کیا چھوٹے بھائی کو دے دیا ہے؟ کہنے لگا: نہیں! میرے پاس ہے۔ اس میں میرا سامان پڑا ہوا ہے!! Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Tuesday, April 21, 2020 علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں ادب کے ساتھ بات گھبرانے کی بھی ہے اور فخر کرنے کی بھی! یہ کیسا وقت آن پڑا کہ بے دینی اور اسلام دشمنی کی لہر‘ عالم اسلام تک آ پہنچی! دشمن کے ایجنٹ ہمارے ملکوں میں گھس آئے۔ کسی نے ایک لبادہ پہنا‘ کسی نے دوسرا! ہم پہچان ہی نہیں سکتے کہ کون کیا ہے! کورونا کے نام پر ترکی سے لے کر مصر تک‘ ایران سے لے کر مراکش تک‘ ہماری مسجدیں بند ہو گئیں اور تو اور علما نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ مسلمانوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ اذان میں حیَّ عَلی الصٰلواۃ کے بجائے صلوا فی بیوتکم کے الفاظ ادا کئے جا رہے ہیں۔ جامعہ ازہر مصر کی سپریم کونسل نے بھی فتویٰ دے دیا کہ نماز باجماعت اور نمازِ جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے بھی ہدایت کر دی کہ تراویح اور عیدالفطر کی نمازیں گھروں میں ادا کریں اور یہ کہ تراویح سنّت ہے فرض نہیں اور یہ کہ نبی اکرمﷺ تراویح کی نماز گھر پر بھی ادا فرماتے تھے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق سعودی علماء سپریم کونسل نے بھی مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ جہاں کورونا کا حملہ جاری ہے تو وہ نماز اور تراویح گھروں میں ادا کریں! قصّہ مختصر‘ اسلامی ملکوں میں غیر معینہ مدت کیلئے مساجد میں نماز باجماعت پر پابندی ہے‘ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ پیش آیا ہے حرمِ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ میں بھی زائرین کے داخلے پر پابندی ہے! ان دگرگوں حالات میں ہم اہل پاکستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے اسلام کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا اور تھام لیا۔ عالم اسلام میں یہ صرف ہمارے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے مسجدیں کھولے رکھنے کا فتویٰ دیا‘ نمازِ باجماعت جاری رکھنے کا حکم دیا اور اب رمضان میں تراویح کی نماز بھی گھروں کے بجائے مسجدوں میں ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ہمارے دینی پیشواؤں کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتِ پاکستان کو بھی قائل کر لیا کہ حکومت ان کے مؤقف کی حمایت کرے؛ چنانچہ اب ہمارا ملک‘ کورونا زدہ اسلامی ملکوں میں‘ کم و بیش واحد ملک ہے جہاں مسجدوں میں نمازی باقاعدہ حاضر ہو رہے ہیں! اس امتیازی حیثیت پر‘ ہم اہلِ پاکستان‘ جتنے خوش ہوں‘ جس قدر اطمینان کا اظہار کریں‘ جتنا شکر بجا لائیں‘ اتنا ہی کم ہے! یہ ایک سرخاب کا پَر ہے ‘جو ماشا ء اللہ ہماری ٹوپی میں لگا ہے! کچھ ناعاقبت اندیش اس قسم کی غلط باتیں کہہ رہے ہیں کہ دوسرے مسلمان ملکوں میں مذہب کو کاروبار کا ذریعہ بنانے کی اجازت ہے نہ چندہ مدارس اور طلبہ کے نام پر جمع کر کے ذاتی مصارف پر خرچ کرنے کا رواج ہے۔ نہ ہی مدرسہ قائم کرنا اور چلانا پیشوں میں سے ایک پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ بدنہاد یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ ملائیشیا ‘مصر‘ ترکی‘ مراکش اور مڈل ایسٹ کے تمام عرب ملکوں میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں اور یہ کہ ان تمام ملکوں میں مسجدوں کی امامت اور خطابت کا سلسلہ موروثی اور خاندانی نہیں! مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے ناعاقبت اندیش‘ بدنہاد‘ مفسد اور مذہب دشمن لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا چاہیے نہ انہیں کوئی اہمیت دینی چاہیے! ان کم فہم معترضین کو معلوم ہی نہیں کہ نیک مقاصد کیلئے چندہ جمع کرنا کارِ ثواب ہے اور مسجدوں کو خاندانی سلسلوں کی تحویل میں دینے سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ کسی وقت خدانخواستہ امام صاحب داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیں تو نیا امام تلاش نہیں کرنا پڑتا اور خلف الرشید فوراً تیار ملتا ہے! مگر ایک بات کا قلق ہے اور بہت قلق ہے! عالمِ اسلام پر ابتلا کا وقت ہے اور ہمارے محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام اس ابتلا کی فکر نہیں فرما رہے! وہ صرف اس پر مطمئن ہیں کہ پاکستان میں مسجدیں کھلی ہیں‘ نماز باجماعت ہو رہی ہے اور تراویح کی نماز بھی ادا کی جائے گی۔ انہیں دوسرے مسلمان ملکوں کی فکر نہیں نہ ان ملکوں کے نمازیوں کی پروا ہے! عالم اسلام ہمارے علما کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ہمارے علماء کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ غلط کو غلط کہنا ایک مسلمان عالمِ دین پر فرض ہے! الازہر‘ سعودی مفتی صاحب اور ان ملکوں کی سپریم علما کونسلیں‘ اگر درست بات کرتیں تب تو ہمارے علما کی خاموشی قابل ِفہم تھی مگر وہ درست نہیں‘ جبھی تو ہمارے علما نے ان کے فتاویٰ کے برعکس یہاں مختلف احکام جاری کئے۔تو ان حالوں‘ ہمارے علما کی خاموشی ہم مقتدیوں کیلئے باعثِ تشویش ہے!ہم التجا کرتے ہیں کہ ان ملکوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے خلاف علماء کرام قدم اٹھائیں‘ حرمین شریفین بند ہیں۔ اگر یہ درست نہیں تو علما خاموش کیوں ہیں؟ وہ احتجاج کریں‘ ہم عوام ان کا ساتھ دیں گے! دوسرے ملکوں کے علما اور مفتیوں کی آخر ہمارے علما اور ہمارے مفتیوں کے سامنے حیثیت ہی کیا ہے؟ اسلام کا جو علم ہمارے ان مقدس رہنماؤں کو حاصل ہے‘ اس کی ثقاہت کا دوسرے مسلمان ملکوں کے علما سوچ ہی نہیں سکتے! کہاں ہمارے علما! کہاں مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ! کہاں ہمارے مفتیان عظام کہاں الازہر کی سپریم کونسل! چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک! علما کی خاموشی اس نازک موقع پر ہماری فہم سے باہر ہے۔ ہمیں تو انہی بزرگوں نے یہ پڑھایا تھا کہ ؎ اگر بینم کہ نابینا و چاہ است اگر خاموش بنشینم‘ گناہ است بصارت سے محروم ایک شخص کنویں کی طرف جا رہا ہے تو ایسے موقع پر خاموشی گناہ کے مترادف ہے! اے ہمارے مقدس علما ء کرام! اے واجب الاحترام مفتیانِ عظام! اُٹھیے! عالم اسلام پر چھائے ہوئے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیے! آپ ہمارے رہنما اور ہادی ہیں! ہم آپ کے پیچھے ہیں۔ پہلے تو علما حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کریں کہ وہ مداخلت کرے اور ان ملکوں میں‘ مسجدوں کو‘ بشمول حرمین شریفین‘ کھلوانے کے اقدامات کرے! اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنما‘ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے‘ ان مسلمان ملکوں کے سفارت خانوں سے رجوع فرمائیں اور جا کر اپنا احتجاج نوٹ کرائیں تاکہ دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص معلوم ہو جائے کہ جب مراکش سے لے کر ملائیشیا تک اور ترکی سے لے کر یمن تک دین کا علم عنقا ہو گیا ہے اور کسی کو اسلامی احکام کا پتہ نہیں‘ تو ہمارے علما اس وقت بھی علم اور تفقہ سے پوری طرح بہرہ ور ہیں! اگر یہ تدبیریں کارگر نہ ثابت ہوں تو یہ جہاد رکنا نہیں چاہیے۔ اگلے مرحلے میں ہمارے علماء کرام کا وفد ان تمام ملکوں میں جا کر ان کی حکومتوں کو سمجھائے۔ ان کے اہلِ علم سے مناظرہ کرے اور اگر حق بات کیلئے مجادلہ بھی کرنا پڑے تو پیچھے نہ ہٹیں!اس وفد کے تمام اخراجات ہم عوام اٹھائیں گے اس لیے کہ ہمارے مالی وسائل اس نیک کام پر نہ خرچ ہوئے تو پھر کہاں خرچ ہوں گے؟ پش نوشت۔ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دوسرے مسلمان ملکوں کے علما کو سمجھانے کے بجائے حضرت مولانا فضل الرحمن نے ایک لحاظ سے ان کی حمایت کردی ہے اور فرمایا ہے کہ ''میں نماز گھر میں پڑھوں گا اور تراویح بھی گھر میں پڑھوں گا‘‘۔ مولانا نے یہ بھی فرمایا ہے کہ''ایک وبا پوری دنیا کو لاحق ہے تو پھر جو بھی احتیاطی تدابیر اس حوالے سے ہیں وہ سب اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ سعودی حکومت نے بھی وہاں اگر پابندیاں لگائی ہیں تو ہم سے زیادہ وہ حرمین کے تقدس اور مقام کو جانتے ہیں اور ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ کرئہ ارض کے کونے کونے سے مسلمان اُدھر کا رخ کرتے ہیں تو اس کا ان کو بھی احساس ہے‘ لیکن انسانی ہمدردی کا تقاضا اس وقت یہ ہے کہ اس قسم کے اجتماعات سے پرہیز کیا جائے اور یہی پرہیز اس کا علاج ہے‘‘۔ یہ جو بازار‘ بینک وغیرہ کھلے ہیں تو اس کے متعلق مولانا ... نے کہا ہے کہ ''ردعمل یہ آیا کہ اگر یہ جگہیں کھلی ہیں تو پھر مساجد کو کیوں بند کیا جاتا ہے تو میں نے ذاتی طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ مناسب بات نہیں ہو گی کہ وہ کھلی ہیں تو مسجد بھی کھلی رہے‘ جب ہم قبول کر رہے ہیں تو دوسری جگہ جہاں حکومت کی نظر نہیں پڑ رہی ہے وہاںبھی اس کی نظر پڑے اور وہاں بھی قدغن لگائیں تاکہ لوگوں کا جمگھٹا نہ ہو اور یہ بیماری کم سے کم پھیلے‘‘۔ ہم محترم علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی توجہ مولانا کے اس بیان کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی عرض ہے کہ جو وفد ہمارے علما کا مسلمان حکومتوں کو سمجھانے اور وہاں کے علما سے مناظرے (اور بوقت ضرورت مجادلے) کیلئے جائے تو اس میں مولانا فضل الرحمن کو شامل نہ کیا جائے!! Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Monday, April 20, 2020 صدر اور وزیراعظم کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟ ‎سردار جی ولایت سے ہو کر آئے تو مرچ مصالحہ لگا کر وہاں کی رنگینیوں کی خوب خوب داستانیں سنائیں۔ آخر میں کہا کہ معاملہ وہاں بھی وہی ہے جو یہاں لدھیانہ میں ہے۔ ‎اس حکومت میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہوتا آیا ہے ع ‎طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ‎تبدیلی کا خواب بکھر چکا۔ جڑیں تبدیل ہوئیں نہ تنا! وہی شاخیں‘ وہی زاغ و زغن! وہی برگ و بار! اس دیار کا بخت بھی عجیب ہے! گلاب دکھا کر دھتورا دیا جاتا ہے! عہد و پیمان بلبل سے ہوتا ہے آواز بُوم کی سنائی دیتی ہے!؎ ‎میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں ‎مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں ‎ایک وفاقی سیکرٹری گزشتہ ہفتے جس دن ریٹائر ہوئے‘ ٹھیک اسی دن ان کی نئی تعیناتی کے آرڈر جاری ہو گئے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگ گئے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ معمول کی سرکاری کارروائی ہے تو آپ کو حقیقتِ حال کا علم نہیں! ‎فیڈرل پبلک سروس کمیشن وہ بلند ترین آئینی ادارہ ہے جو وفاقی حکومت کو نئے ملازمین مہیا کرتا ہے۔ سی ایس ایس کے تحریری امتحان‘ انٹرویو اور تمام مراحل کا مالک و مختار یہی ادارہ ہے! اس کے علاوہ بھی تمام وفاقی محکموں کی افرادی قوت کے لیے یہی انٹرویو لیتا ہے۔ تعیناتیاں اسی کی سفارشات پر ہوتی ہیں۔ 1977ء کے آرڈیننس میں تفصیلات موجود ہیں۔ ‎منطقی سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو ادارہ پورے وفاق کے لیے ملازم اور افسر چنتا ہے‘ انٹرویو لیتا ہے‘ سی ایس ایس کے امتحان کا کرتا دھرتا ہے‘ خود اس ادارے کے ممبر کس طریقِ کار کے تحت لائے جاتے ہیں؟ کیا ان کے انتخاب کے لیے بھی کوئی انٹرویو ہوتا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی جاتی ہیں؟ کیا مقابلہ ہوتا ہے؟ کیا اس امر کی ضمانت دی جاتی ہے کہ بہترین افرادی قوت ہی اس ادارے کو مہیا کی گئی ہے؟ ‎نہیں! ایسا نہیں! آپ حیران ہوں گے کہ اس ادارے کے ممبران صرف اور صرف جان پہچان اور اعلیٰ سطح تک رسائی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔آرڈی ننس کے تحت‘ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین اور ممبران کی تعیناتی صدر مملکت کرتے ہیں۔ کُل ممبران میں سے نصف تعداد اُن افراد کی ہوگی جو حکومت پاکستان کے گریڈ 21 یا اس سے اوپر کے افسر رہے ہوں! اس کے علاوہ کم از کم ایک ممبر عدلیہ کا ریٹائرڈ جج ہونا چاہیے۔ ایک ممبر مسلح افواج سے اور ایک نجی شعبے سے! ‎اصل سوال یہ ہے کہ نصف ممبران جو ریٹائرڈ سرکاری افسروں میں سے ہونے چاہئیں‘ کس طرح چُنے جاتے ہیں؟ یہی مثال لے لیجیے۔ گزشتہ ہفتے ریٹائر ہونے والے سیکرٹری صاحب کا نام جب وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوا رہے تھے تو کیا انہوں نے پوچھا کہ گزشتہ چھ ماہ یا ایک سال کے دوران کتنے افراد ریٹائر ہوئے؟ اس فرد کو کس طرح چنا گیا ہے؟ کیا درخواستیں طلب کی گئی تھیں؟ کیا کوئی انٹرویو ہوا؟ آخر نامزدگی کا معیار کیا ہے؟ کیا شفافیت اور یکساں مواقع کے اصول مدِّ نظر رکھے گئے؟ کون کون سے ریٹائرڈ افسران اس تعیناتی کے لیے مناسب نہیں سمجھے گئے؟ اور کیوں نہیں سمجھے گئے؟ ‎عملاً‘ سول سروس کے متعدد گروپوں میں سے ایک اور صرف ایک گروپ یا حلقے کی کمیشن پر اجارہ داری ہے! مسلح افواج سے آئے ہوئے ایک ممبر کو چھوڑ کر‘ بقیہ تمام ممبران ایک ہی سروس گروپ‘ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) (سابق ڈی ایم جی)سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم نجی شعبے سے کوئی لیا جا رہا ہے یا نہیں‘ مگر اوپر سے نیچے تک اسی حلقے کا غلبہ ہے! وزیراعظم کے دفتر میں بھی ٹاپ بیورو کریسی ساری کی ساری اسی حلقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ‎وزیراعظم اور صدر مملکت کو پوچھنا چاہیے کہ کتنے ممبر فارن سروس سے ہیں؟ کیا کوئی ریلوے سے بھی ہے؟ کوئی ایف بی آر سے بھی ہے؟ آڈیٹر جنرل کے ادارے سے؟ انفارمیشن سروس سے؟ پوسٹل سروس سے؟ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ سے؟ ‎سرحد پار‘ بھارت میں‘ یونین (یعنی فیڈرل) پبلک سروس کمیشن کا موجودہ چیئرمین اروند سکسینہ پوسٹل سروس سے ہے! اس سے پچھلا چیئر مین ریلوے سے تھا! اس سے بھی پچھلا یونیورسٹی کا پروفیسر تھا! ممبران میں پولیس سروس سے بھی ہیں۔ اکنامک سروس سے بھی! ایک ممبر سابق وائس چانسلر ہے! اس لیے کہ جب معاملہ حکومت کے سامنے رکھا جاتا ہے تو حکومت اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ سارے گروپوں کی شمولیت ہو! ‎ہم وزیراعظم اور صدر مملکت سے بصد احترام یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ آپ نے اتنا اہم اور کلیدی ادارہ صرف ایک گروپ کے سپرد کیوں کر رکھا ہے؟ کیا خدانخواستہ آپ اس ایک حلقے ہی کے وزیراعظم اور صدر ہیں؟ کیا ایف بی آر‘ پولیس‘ آڈیٹر جنرل‘ ریلوے‘ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ‘ انفارمیشن‘ کامرس اینڈ ٹریڈ کے ریٹائرڈ افسران اس قابل نہیں کہ کمیشن کے ممبر بن سکیں؟ کیوں؟؟ کیا یہ کوئی چراگاہ ہے جو ایک ہی ریوڑ کی ملکیت ہے؟ کیا وزیراعظم شفافیت اور یکساں مواقع کے حوالے سے اپنا اطمینان کرتے ہیں؟ کیا صدر مملکت منظوری دیتے وقت اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بیورو کریسی کے بہت بڑے حصے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے؟ صریح زیادتی؟؟ ‎اول تو 1977ء کا آرڈی ننس ہی غلامی کی یادگار ہے! انگریز سرکار نے 1935ء کے ایکٹ کی شق نمبر 265 میں جب قرار دیا تھا کہ کمیشن کے نصف ممبران ملکہ برطانیہ کے سابق ملازم ہوں گے تو وہ استعمار کا تقاضا تھا! آج آزادی کے تہتّر سال کے بعد بھی وہ شق جوں کی توں موجود ہے! 1977ء کا آرڈی ننس وضع کرتے وقت مکھی پر مکھی ماری گئی! نصف ممبران ریٹائرڈ سرکاری افسر کیوں ہوں؟ اکثریت نجی شعبے سے کیوں نہ ہو؟ صنعتکار‘ ماہرینِ زراعت‘ ماہرینِ قانون‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر‘ دانشور‘ ادیب‘ کئی کئی درجن کتابوں کے مصنف کیوں نہ ہوں؟ سول سروس کا یہ لاڈلا‘ راج دلارا‘ گروپ جو کمیشن پر مارِ سرِ گنج بن کر بیٹھا ہے‘ کیا اُن تمام مضامین کا ماہر ہے جو سی ایس ایس کے امیدوار منتخب کرتے ہیں؟ اس پروردگار کی قسم! جس نے دانش کو اقتدار سے دور رکھا ہے‘ افسر شاہی میں پڑھنے لکھنے‘ مطالعہ کرنے اور تازہ ترین مطبوعات سے تعلق رکھنے والے افراد آٹے میں نمک کے برابر ہیں! ‎چلئے! جب تک قانون میں ترمیم نہیں ہوتی تو ریٹائرڈ افسر ہی رکھیے! مگر خدا کا خوف کیجیے! شفافیت بھی ایک چیز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی حکمرانوں کا استحصال کیا جاتا رہا‘ کیا آج کے وزیراعظم بھی اپنا استحصال ہونے دیں گے؟ وزیراعظم آفس سے لے کر ‘ پبلک سروس کمیشن تک‘ مشیر سے لے کر کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تک ...خزانہ سے لے کر پرنسپل سیکرٹری تک‘ ہر اہم مقام پر ایک ہی قبیلے کے ارکان پوزیشنیں سنبھالے ہیں! دوسرے گروپوں کے لیے یہ سب شجرِ ممنوعہ ہے! اور کیا پارلیمنٹ کو نہیں معلوم کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا حزبِ اختلاف اس مسئلے کی نزاکت اور عدم انصاف سے یکسر بے خبر ہے؟ ‎نادر شاہ دلّی میں تھا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی! دوا کے طور پر گُل قند کھلائی گئی! کہنے لگا : ''حلوائے خوب است! دیگر بیار!‘‘ کہ مزیدار حلوہ ہے! اور لائو! فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں حلوہ مزیدار ہے اور بہت سا بھی ہے! پانچ ساڑھے پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ ہے! ڈیڑھ دو لاکھ ماہانہ ٹی اے ڈی اے کی مد میں مل جاتا ہے! گاڑی‘ ڈرائیور‘ پٹرول سرکاری ہے! دورے پر بیگم صاحبہ بھی سرکاری خرچ پر جانے کی قانوناً مجاز ہیں! جب لقمۂ تر ہے اور بڑا بھی ہے تو پھر ایک مخصوص حلقے کی اجارہ داری کیوں نہ ہو؟ اہلیت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ حکمران آپ سے شناسا ہو اور اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے معتبر افراد آپ ہی کے طائفے سے ہوں!! مگر ایک منٹ رُکیے! باہر دروازے پر دستک ہوئی ہے! ذرا دیکھ آئوں! تبدیلی تو نہیں آ گئی؟ Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Thursday, April 16, 2020 ہمارے ملک کی انفرادیت قائم رہنی چاہئے بغیر کسی سیاسی جرم کے یہ جو گھر میں نظر بندی (ہائوس اریسٹ) ہے اس سے دماغ پر اثر پڑ رہا ہے۔ بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آ رہیں! سوچ رہا ہوں‘ ڈاکٹر کے پاس جائوں یا کسی بابے کے پاس جو تعویذ دے اور پڑھ کر کچھ پھونکے۔ یہ محبت تو ہے نہیں کہ کوئی دوا، کوئی تعویذ، کوئی منتر کارگر نہ ہو! مختار صدیقی کہہ گئے ؎ پیر، فقیر، اوراد، وظائف اس بارے میں عاجز ہیں ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا یا یہ کہ؎ مسجد میں دیا جلا چکی میں تعویذ سب آزما چکی میں یہ محبت نہیں، روزمرہ کے مسائل ہیں جنہیں سمجھنے سے ذہن انکار کر رہا ہے۔ مثلاً یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ صدرِ مملکت کو وزیراعظم صاحب کوئی ڈیوٹی کیسے سونپ سکتے ہیں۔ صدر نے جو فرائض سرانجام دینے ہیں، وہ آئین میں درج کر دیئے گئے ہیں! اور یہ بات تو بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی جو صدرِ مملکت نے خود ارشاد فرمائی ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے مجھے بطور چیئرمین آئی ٹی ٹاسک فورس کے فروغ کا ٹاسک سونپا ہے‘‘ کیا صدر مملکت، وزیراعظم کے ماتحت ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کل زرتاج گل صاحبہ یا شفقت محمود صاحب کوئی ٹاسک وزیراعظم کو سونپ دیں! یعنی بازی بازی بازی باریش بابا ہم بازی! لطائف و ظرائف قسم قسم کے صدر کے عہدے کے ساتھ پہلے بھی منسوب چلے آتے رہے ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی صدر تھے تو گائوں سے کوئی سائل آیا کہ واپڈا میں اس کا کام پھنسا ہوا تھا۔ صدر مملکت نے خاصی دیر سوچنے کے بعد بے بسی کا اظہار کیا کہ بھئی! واپڈا میں میرا کوئی جاننے والا نہیں! بھٹو صاحب کے زمانے میں اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس ہوئی تو بھٹو وزیراعظم تھے اور فضل الٰہی صدر مملکت! ٹی وی پر دیکھا گیا کہ مہمانوں کا استقبال کرتے وقت صدر صاحب کنفیوز ہو جاتے تھے کہ آگے ہونا ہے یا پیچھے، ایسے موقع پر وزیراعظم انہیں پشت سے تھوڑا سا دھکیلتے ہوئے آگے کرتے تھے۔ یوں کہ دیکھنے والا آسانی سے نوٹ کرتا تھا! مگر یہ متانت کے زمانے تھے۔ اس کے بعد اس عہدے کے ساتھ جو جو تیرہ تالیاں اور مضحکہ خیز تلمیحات وابستہ ہوئیں تو الامان والحفیظ! کبھی بریف کیس مشہور ہوا تو کبھی دہی بڑے! اور یہ شعر بھی اس حوالے سے لوگوں کو بہت یاد آیا؎ بہ نادان آنچنان روزی رساند کہ دانا در آں حیران بماند قدرت کی بے نیازیاں کہ نادان کو روزی یوں مہیا کرتی ہے کہ دانا حیران رہ جاتا ہے! ویسے بھی اٹھاون بی کی تلوار نیام میں رکھے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ صدر مملکت کو ان کے ماتحت ٹاسک سونپنے لگ جائیں! حفظِ مراتب بھی ایک شے ہوتی ہے! بات، لاک ڈائون کے دوران دماغ کی کارکردگی کے بارے میں ہو رہی تھی۔ اس کالم نگار کے دماغ نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ ہی اسے سمجھائیے کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کاروبار پھر بھی چل سکتے ہیں، زندگیاں دوبارہ نہیں مل سکتیں اور یہ کہ پورے ملک کا بیانیہ ایک ہونا چاہئے اور یہ کہ وزیراعظم کو قیادت کرنی چاہئے، کیوں کہ ہر صوبہ الگ پالیسی بنائے تو وائرس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو گا تو کیا غلط کہا ہے۔ آخر وفاقی وزرا، جن کے محکمے کا صحت سے تعلق ہے نہ کسی اور متعلقہ شعبے سے، اس بیان کی تردید محض برائے تردید کیوں کرتے پھر رہے ہیں۔ جیسے ایک وفاقی وزیر نے وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس کے جواب میں یہ الزام لگایا کہ وزیر اعلیٰ عوام کو دھمکا رہے ہیں اور خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں! کیا یہ موقع اس قسم کے مناظروں کا ہے! اور کیا قانونی اور منطقی طور پر، ایک وزیر کو اپنے محکمے کے امور تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے؟ ذہن مختل ہو گیا ہے۔ کیا کوئی اس کالم نگار کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ مکمل اعداد و شمار کے ساتھ پوری صورت حال کا میڈیا کے سامنے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں اور عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں، اُس طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیوں نہیں کرتے؟ وہ تو ماشاء اللہ تمام وزرائے اعلیٰ میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، سب سے زیادہ تجربہ کار، سب سے زیادہ ذہین و فطین اور زبان و بیان پر سب سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں! بولتے ہیں تو الفاظ دست بستہ سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں! ابوالکلام آزاد اور شورش کاشمیری جیسے مقرّر ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سامنے طفلانِ مکتب لگتے ہیں!؎ پھر دیکھیے اندازِ گُل افشانیٔ گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے! جید علمائے کرام نے اعلان کیا ہے کہ اب لاک ڈائون کا اطلاق مساجد پر نہیں ہوگا۔ یہ بھی کہا ہے کہ لاک ڈائون کی اصطلاح بھی مساجد پر استعمال نہیں ہوگی۔ زیادہ وضاحت کرتے ہوئے علما نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ''آج سے (یعنی 14 اپریل سے) مساجد پر لاک ڈائون کا اطلاق نہیں ہو گا‘‘ دوسری طرف وزیر مذہبی امور نے کہا ہے کہ فیصلہ 18 اپریل کو علما کے ساتھ مشاورت سے کیا جائے گا! کوئی سمجھائے کہ جب علما فیصلہ کر چکے ہیں‘ اعلان بھی ان کی طرف سے ہو چکا ہے تو پھر اٹھارہ کو‘ یعنی چار دن کے بعد‘ وزیر صاحب کون سا فیصلہ کریں یا کرائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اٹھارہ اپریل کی تاریخ، چودہ اپریل سے پہلے پڑ رہی ہے؟ اس سے بھی زیادہ ناقابلِ فہم یہ خبر ہے کہ صدر مملکت نے مساجد میں اجتماعات اور نماز تراویح سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لیے تمام صوبوں کے گورنروں اور علما کرام کا اجلاس بھی اٹھارہ اپریل ہی کو طلب کیا ہے‘ جبکہ علما علی الاعلان میڈیا پر مکمل صراحت کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ چودہ اپریل سے مسجدوں میں تمام عبادات باقاعدگی سے ادا کی جائیں گی! تو کیا اٹھارہ اپریل کو صرف شلغموں سے مٹی جھاڑی جائے گی؟ ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے ملک کے علما پر تنقید کریں، یا ان سے اختلاف کریں یا ان کے کسی فرمان کے آگے سوالیہ نشان لگائیں مگر بُرا ہوا اس انٹرنیٹ کا کہ دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں بھی دے رہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس انٹرنیٹ پر، اس دشمنِ دین پر، پابندی لگا کر اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب کیا ضرورت ہے ہم اہلِ پاکستان کو دوسرے مسلمان ملکوں کی خبریں پہنچانے کی! اس روزنامہ گلف نیوز کی قبیح حرکت دیکھیے۔ خلیج کا یہ اخبار بتا رہا ہے کہ سعودی مملکت میں نمازِ تراویح نہیں پڑھی، پڑھائی جائے گی۔ وہاں کے وزیر برائے اسلامی امور جناب عبداللطیف شیخ نے کہا ہے کہ مساجد میں پانچ وقت کی نماز کا تعطل، تراویح کے تعطل سے بھی بڑی بات ہے! انہوں نے اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ تراویح جہاں بھی پڑھی جائے، مسجد میں یا گھروں میں، قبول فرمائی جائے۔ روزنامہ عرب نیوز (سعودی عرب کے اخبار) نے خبر دی ہے کہ اردن کی وزارت اوقاف نے رمضان المبارک کے دوران اس سال تراویح کی نماز پر پابندی لگائی ہے تاکہ کورونا کو روکنے کے عمل میں خلل نہ پڑے۔ اردن کے وزیر اسلامی امور جناب محمد خلیل نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کی اور گھروں کی حفاظت بھی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے۔ مشرقِ وسطیٰ ہی کے روزنامہ ''العربیہ‘‘ نے اطلاع دی ہے کہ مصر میں بھی نماز تراویح پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مصر میں افطار کی مجالس رمضان کا لازم حصہ ہیں‘ جہاں گروہوں کے گروہ افطار مل کر کرتے ہیں۔ رمضان میں خصوصی خیمے نصب کیے جاتے ہیں جہاں بیٹھ کر، خاندان والے، دوست احباب کی ہمراہی میں قہوہ اور شیشہ پیتے ہیں۔ ایسی تمام سرگرمیاں حکماً ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔ اب ترکی کی سنیے: ''مڈل ایسٹ آئی‘‘ ایک ایسی نیوز ویب سائٹ ہے جو انگریزی، عربی اور فرانسیسی میں خبریں دیتی ہے اور جسے الجزائر، بحرین، مصر، ایران، عراق، اسرائیل، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، ماریطانیہ، مراکو، اومان، فلسطین، قطر، سعودیہ، سوڈان، شام، تیونس، ترکی، یو اے ای اور یمن میں کروڑوں افراد ہر تھوڑی دیر کے بعد تازہ ترین خبروں کے لیے دیکھتے ہیں۔ اس کی رو سے ترکی کے وزیر مذہبی امور جناب علی ارباس نے مساجد میں تمام اجتماعی عبادات کو معطل کرنے کے حکم کی تجدید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اسلام ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتا جو انسانی زندگی کو خطرے سے دو چار کریں‘‘ ڈاکٹر احمد عبدالعزیز الحداد، متحدہ عرب امارات کے مفتیٔ اعظم ہیں، اور حکومت کے فتویٰ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ فرماتے ہیں: ''شریعت کے عمومی قوانین میں ایک یہ ہے کہ نقصان سے بچا جائے اور مدافعت کی جائے۔ شریعت ہر پہلو پر محیط ہے۔ اور ایسی ایمرجنسی کے حالات کے لیے شریعت کے پاس مناسب حل موجود ہیں۔ اسی لیے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ نماز اپنے اپنے گھروں میں ادا کریں تا کہ محفوظ رہیں اور خیریت سے ہوں‘‘۔ مجھے تو یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آخر دوسرے مسلمان ملکوں کے علما نے یہ سوچا بھی کیوں کہ میرے ملک کے علما سے مختلف رائے دیں اور مختلف فتویٰ دیں! اس بے دین، گستاخ انٹرنیٹ پر پابندی لگوایئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ملک کی انفرادیت مجروح ہو بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Tuesday, April 14, 2020 گریبان تو ہماری قمیضوں میں بھی لگے ہیں آفرین ہے ہم مسلمانوں پر اور شاباش ہے ہم پاکستانیوں کو۔ کہ ان حالوں بھی‘ عبرت کا نشان نیو یارک اور لندن ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ جیسے ہم خود دودھ سے دُھلے ہیں! وہ پانچ انگلیاں نظر نہیں آ رہیں جو ایک انگلی دوسروں کی طرف کرتے ہوئے‘ اپنی طرف ہوتی ہیں! یہ وقت خود احتسابی کا تھا! اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کا! اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کا! طعن و تشنیع کا نہ تھا! بہادر شاہ ظفر کہاں یاد آ گیا ؎ نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا خبر آئی ہے کہ بادشاہ جزیروں میں چلے گئے۔ خلقِ خدا کو ساحلوں کے اُس طرف چھوڑ کر۔ کہ تم جانو اور تمہاراخدا۔ ہم تو اپنے محلات میں بند ہوئے۔ استنبول میں موت ہوئی۔ یوں کہ جسم کے اعضا تک نہ ملے۔ ایسا کسی مغربی ملک میں ہوتا۔ اگر ہوتا۔ تو حشر سے پہلے حشر برپا ہو جاتا! لیکن ہم تو پکے بہشتی ہیں۔ پوتّر !! ہم جو کچھ کریں‘ درست ہے۔ سارے گناہ‘ تمام بدمعاشیاں بحرِ اوقیانوس کے مشرقی اور مغربی کناروں پر ہیں۔ ساری عیاشیاں بحرالکاہل کے ساحلوں پر ہیں۔ یہ عذاب بھی اُنہی پر آیا ہے! ؎ ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اٹھتا تھا بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی ہم جو مسجدوں میں جانے سے بھی رہ گئے‘ طواف بند ہو گئے۔ حرمین شریفین رسائی سے باہر ہو گئے۔ شام عراق اور ایران میں واقع ہمارے مقدس مقامات پہنچ سے دور ہو گئے۔ کیا یہ عبرت کا سامان نہیں؟ کیا ہم خود اپنے گریبان میں نہ جھانکیں؟ کیا ہم خود نہ سوچیں کہ ہم پوتّر ہیں یا چلتّر؟ ہم نے کیا کیا نہ کیا! اور کیا کیا نہیں کر رہے! موت سامنے کھڑی‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‘ پلک تک نہیں جھپک رہی‘ ان حالوں بھی ہماری فارمیسی کی دکانیں جعلی سینی ٹائزروں سے بھری ہوئی ہیں! کتنے ملک ہیں جو ملاوٹ‘ چور بازاری اور ناروا نفع خوری میں ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جھوٹ کو ہم جھوٹ سمجھتے ہی نہیں! مگر خوش ہیں کہ امریکہ پر عذاب مسلط ہے۔ مطمئن ہیں کہ یورپ میں اموات زیادہ ہو رہی ہیں! ہم تو وہ ہیں جو خلقِ خدا سے بھاری رقوم طلبہ کے لئے جمع کرتے ہیں اور پرورش اپنے خاندانوں کی کرتے ہیں؟ کتنے ہیں مذہبی اداروں کے مالکان جو الگ ذریعۂ معاش رکھتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین مخلوق مدارس کے اساتذہ ہیں؟ ساری زندگی چٹائی پر گزرتی ہے۔ کسی مسجد کی امامت یا خطابت مل گئی تو گزران ہو گیا ورنہ مدرسہ سے اتنی قلیل تنخواہ کہ قوتِ لایموت سے بھی کم! ساری زندگی قال اللہ اور قال الرسولؐ پڑھا کر‘ آخر میں پنشن نہ جی پی فنڈ! نہ علاج معالجے کی سہولت! نہ کوئی ہاؤس رینٹ! نہ کوئی تنظیم نہ کوئی یونین نہ کوئی باڈی جو احتجاج ہی کر سکے‘ مطالبات ہی پیش کر سکے! اور مالکان؟؟ مالکان کا کیا کہنا! ان کے پاس صوفے بھی ہیں‘ گاڑیاں بھی۔ ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھی! امریکہ کے سال بہ سال دورے بھی! خاندان کے خاندان پَل رہے ہیں جن کے نام پر سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے وہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں! کیوں؟ کیا مدارس کے اساتذہ انسان نہیں؟ کیا پرائمری سکولوں کے اساتذہ سے بھی ان کی حیثیت کم ہے! اور کیا کبھی مدارس کے طلبہ کے بارے میں کسی نے سوچا ہے؟ اگر میز کرسی پر بیٹھ کر قدوری اور کنز پڑھنا منع ہے تو مالکان کے دفتروں میں فرنگی صوفے کیوں ہیں؟ مالکان کفار کی بنائی ہوئی فراٹے بھرتی گاڑیاں کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اپنے لئے دبیز قالین اور اساتذہ اور طلبہ کیلئے چٹائیاں! واہ جناب! واہ! پھر بھی کورونا کا عذاب امریکہ کیلئے ہے!! خود‘ حساب نہ کتاب‘ نہ آڈٹ‘ نہ رپورٹ‘ نہ ٹیکس نہ کچھ اور۔ لَا تاکُلُوا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکم بِالباَطل کے سارے پند و مواعظ دوسروں کیلئے۔ خود را فضیحت‘ دیگران ر انصیحت! ماں صدقے!! یہ تو دنیا کی تذکیر ہے اور یاد دہانی! آخرت میں ہم سے امریکہ کا پوچھا جائے گا نہ یورپ کا! یہود کا نہ ہنود کا! جو پوچھا جائے گا کیا اس کیلئے ہم تیار ہیں؟ اندر ہم دشمنیاں پالتے ہیں۔ باہر سے مسکراہٹیں بکھیر کر معانقے کرتے ہیں! نفاق ہم سے پناہ مانگتا ہے! معصیت ہم پر ہنستی ہے! گھر گھر قطع رحمی ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر برسوں تک تعلقات کا خاتمہ یہاں روز مرہ کا معمول ہے! کوئی اتنا بھی کہہ دے کہ بھائی صاحب! آپ نے گاڑی غلط پارک کی ہے تو کھانے کو پڑتے ہیں۔ بنیادی ادب آداب تک عنقا ہیں! ایفائے عہد کی حالت یہ ہے کہ لوگ منتظر رہتے ہیں اور ہم وقتِ موعود پر سو رہے ہوتے ہیں۔ دلوں پر پڑنے والے سیاہ نقطے پھیل پھیل کر‘ ناقابلِ عبور دائروں میں تبدیل ہو چکے! بیٹیوں‘ بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے میں کیا تھری پیس سوٹ اور کیا کلف لگے عمامے‘ سب ایک ہی قطار میں کھڑے ہیں! ایسی ایسی وڈیوز موجود ہیں جن میں خدائی ٹھیکیدار مشورہ دے رہے ہیں کہ آبرو ریزی ہو تو عورت چُپ کر جائے! چھ چھ سال کی بچیاں‘ دوسروں کے گناہ دھونے کیلئے‘ ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں سے ''بیاہی‘‘ جاتی ہیں لاؤڈ سپیکروں میں ذرا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے نہ کسی مقدس عبا پر ہلکی سی شکن پڑتی ہے! غیرت کے نام پر قتل و غارت روکنے کا بل پیش ہوتا ہے بندہ و غنی‘ محمودو ایاز‘ منتخب ایوانوں میں ایک ہو جاتے ہیں۔ جس غیرت کا حکم اللہ نے دیا نہ رسولؐ نے‘ وہ غیرت نہیں کچھ اور ہے! اور تم کہاں کے معزز ہو؟؟ عزت تو اللہ کیلئے ہے اور اس کے رسولؐ کیلئے ہے! اور ان کیلئے جنہیں دوسروں کا نہیں‘ اپنی جواب دہی کا خیال ہے! کفار کے ملکوں میں ہر شہری کو کورونا کے حوالے سے مالی امداد دی جا رہی ہے۔ گھر بیٹھے بیٹھے چیک مل رہے ہیں‘ بینکوں میں رقوم‘ خود بخود آ رہی ہیں۔ دھکم پیل نہ منت زاری! ہمیں چونکہ بخشش کی اور جنت کی گارنٹی ہے اس لئے ہم مستحقین کو ذلیل و رسوا کر کے ایک آدھ ٹکڑا دے رہے ہیں۔ ایک ایک ووٹ کیلئے کروڑوں دینے والے آج منہ دوسری طرف کئے بیٹھے ہیں! ہم کتنے دیانت دار ہیں اور بحیثیت قوم کتنے خود دار ہیں‘ اس کا اندازہ ہماری کابینہ کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے! حکومت نئی ہو یا پرانی‘پرویز مشرف کی ہو یا زرداری صاحب کی یا میاں صاحبان کی یا عمران خان صاحب کی‘ کابینہ وہی ہوتی ہے! وہی زبیدہ جلال‘ وہی فہمیدہ مرزا‘ وہی شیخ رشید‘ وہی اعظم خان سواتی‘ وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی عمر ایوب خان! وہی محمد میاں سومرو! وہی فواد چودھری! ہماری بوتلیں وہی ہیں‘ ان کے اندر محلول بھی وہی صرف لیبل نئے ہوتے ہیں! ہم ہر بار الماریوں سے نکال کر وہی پرانے ڈھانچے عوام کو دکھاتے ہیں‘ فقط لبادے اُن پر نئے ڈالتے ہیں! ہم بقول عباس تابشؔ درختوں کو تو طعنے دیتے ہیں کہ ؎ عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں مگر جو ہمارے سامنے پارٹیاں بدلتے ہیں‘ دن رات موقف بدلتے ہیں‘ ہمارے سامنے ترازو میں اپنے ایمان تولتے ہیں‘ انہیں ہم کچھ نہیں کہتے! کہنا تو دور کی بات ہے‘ انہیں ہم سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں! معزز سمجھتے ہیں! ایلیٹ کا خطاب دیتے ہیں! اب بھی وقت ہے! اس وبا کو یاد دہانی سمجھو! کفار پر کیا بیتے گی‘ یہ تمہارا مسئلہ نہیں! فکر اس کی کرو کہ تم پر‘ ہم پر‘ کیا بیتے گی! کیا خبر یہ آخری وارننگ ہو ‘کیا عجب یہ آخری تنبیہ ہو! کاش اب تو ہم حرام کھانے سے باز آ جائیں! اب تو حقوق العباد کے قتل سے باز آ جائیں! اب تو گاہکوں‘ سائلوں‘ موکلوں‘ پڑوسیوں‘ رشتہ داروں کو اذیت پہنچانے سے رُک جائیں! اب تو ظاہر پر زور دینے کے بجائے اپنے اپنے باطن کو آراستہ کریں! اب تو دوسروں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے ایمان کی فکر کریں! آخر گریبان تو ہماری قیمضوں میں بھی لگے ہیں۔ Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Monday, April 13, 2020 کورونا کی جنگ… پانچ رکاوٹیں کسی ملک کی صورت حال سمجھنا ہو تو اسے ایک خاندان تصوّر کیجیے! خاندان میں کوئی بیمار ہو جائے تو اصل ذمہ داری اس کے علاج و نگہداشت کی خاندان کے سربراہ پر پڑتی ہے۔ خاندان کے سربراہ پر یہی نہ واضح ہو کہ کس ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے‘ کس ہسپتال کا رخ کرنا ہے‘ ادویات کہاں سے لینی ہیں‘ پرہیز کیا کیا کرانی ہے‘ تو مریض کا‘ یوں سمجھیے اللہ ہی حافظ ہے! جس قدر بھی اس ضمن میں غور کیا جائے‘ وفاقی حکومت کی کوئی پالیسی کہیں بھی واضح نہیں نظر آتی! اہم ترین فیصلہ یہ کرنا تھا کہ لاک ڈائون کیا جائے یا نہیں! کبھی یہ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا۔کبھی نیم دلی سے لاک ڈائون کرانے کی بات کی گئی‘ کبھی لاک ڈائون کے نقصانات کا ذکر کیا گیا۔ سب سے بڑی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ دیہاڑی دار طبقہ کہاں سے کھائے گا؟ گویا دیہاڑی دار طبقے کو اُس موت کے منہ میں ڈال دیا جائے جو کوروناکے جلو میں چلی آ رہی ہے! بجائے اس کے کہ اس طبقے کو کورونا سے بچا کر‘ گھروں میں رکھا جائے اور خوراک وہاں پہنچائی جائے‘ اس طبقے کو مزدوری کے نام پر باہر بھیج دیا جائے۔ کورونا کا شکار ہوا تو دیہاڑی کا مسئلہ بھی ساتھ ہی حل ہو جائے گا! تادمِ تحریر‘ پوری دنیا میں صرف ایک ملک‘ چین‘ نے اس وبا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ اور صرف اور صرف لاک ڈائون سے حاصل کیا ہے۔ چین کا اندرونی نظام اس قدر سخت ہے کہ اگر حکومت لاک ڈائون کا حکم دے تو کسی فرد یا گروہ کی مجال نہیں کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔ اسے آمریت کہہ لیجیے یا نظم و ضبط‘ بہر طور‘ لاک ڈائون کے اصول پر پوری طرح عمل کیا گیا اوروبا کو کنٹرول کر لیا گیا۔ ہمارے ہاں وفاقی حکومت ابھی تک اس ضمن میں کوئی واضح پالیسی نہیں بنا سکی! فرض کیجیے لاک ڈائون‘ کرفیو کے طفیل مکمل طور پر نافذ کر لیا جاتا ہے تو غریب طبقات کو خوراک پہنچانے کا سوال اٹھے گا! یہاں پر دوسری رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے مقامی حکومتوں کا نہ ہونا! دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوریت حقیقی معنوں میں موجود ہے‘ اس کی بنیاد لوکل گورنمنٹ کا نظام ہے۔ ہمارے ہاں اس کا وجود ہی نہیں! کئی بار عرض کیاجا چکا کہ صدر پرویز مشرف نے ضلعی حکومتیں قائم کر کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے استعماری اداروں سے قوم کی جان چھڑائی تھی‘ مگر افسوس! صد افسوس! جمہوریت کے نام نہاد علم بردار آئے تو لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کے تخت و تاج کو برقرار رکھنے کے لیے ضلعی حکومتوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ آج مقامی حکومتیں ہوتیں تو ضلع ناظم‘ تحصیل ناظم اور یونین کونسل کے سربراہ کو‘ ایک ایک محلّے‘ ایک ایک گھر کا علم ہوتا۔ وفاقی سطح پر اپوزیشن جماعتیں بھی سرگرمِ کار ہوتیں۔ آپس میں مقابلہ ہوتا۔ یوں زیریں طبقات کی نگہداشت کا مرحلہ سر ہو جاتا۔ ہوگا کوئی کوئی بیورو کریٹ ‘ کوئی کوئی ڈپٹی کمشنر‘ جو دل سوزی اور صدقِ دل سے یہ کام کرے مگر اکثریت اس طبقے میں اُن افراد کی ہے جو آرام دہ دفتروں سے نکلنے کی مشقت برداشت ہی نہیں کر سکتے! افسر شاہی کا مقامی حکومت سے سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا! یہ سیاست دان ہے جو‘ ووٹوں کی لالچ میں ہی کیوں نہ ہو‘ ہر شخص ‘ ہر گھر‘ ہر خاندان‘ ہر کنبے تک پہنچتا ہے۔ آپ نے یہ خبر کئی بار پڑھی ہوگی کہ شاہ محمود قریشی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر‘ گلیوں میں پھر رہے ہیں یا شیخ رشید‘ ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ مگر ایسی خبر کسی ڈی سی‘ کمشنر یا کسی اے سی کے حوالے سے کبھی نہیں پڑھی یا سنی ہوگی! اپنے ضلع کی بات کروں تو تحریک انصاف کے میجر(ر) طاہر صادق ہوں یا پیپلز پارٹی کے سلیم حیدر خان یا نون لیگ کے ملک سہیل‘ یہ سب حضرات ایک ایک قریے‘ ایک ایک بستی‘ ایک ایک گھر کو جانتے ہیں اور مصیبت کے وقت پہنچتے ہیں۔ میجر طاہر صادق جب تک ضلعی حکومت کے سربراہ رہے‘ ضلع کے اطراف و اکناف میں مسلسل سرگرداں رہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے آ کر‘ ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے‘ اس ملک کو ایک سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھا رہی! تیسری مصیبت یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں کو آرڈی نیشن نہیں نظر آتی۔ سندھ حکومت ‘ وفاق سے نالاں ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں کیا ہو رہا ہے‘ کچھ معلوم نہیں! صرف پنجاب اور وفاق کا باہمی رابطہ نظر آتا ہے۔ چوتھی مصیبت اس تیسری سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ہے صوبوں کا آپس میں ربط و مساعدت کا مکمل فقدان! کتنے مریض کس صوبے سے نکل کر کس صوبے میں داخل ہو رہے ہیں‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں! یہ کو آرڈی نیشن بھی وفاق کی چھتری تلے ہی ممکن تھی! یہ تو حکومتوں کا کچا چٹھا تھا۔ عوام کی بات کی جائے تو جو پانچویں اور سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ مائنڈ سیٹ ہے۔ مائنڈ سیٹ دو حوالوں سے رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ ایک ذہنیت وہ ہے جو کھلنڈری ہے۔ لا ابالی اور لاپروا ہے۔ غیر سنجیدہ ہے! 1965ء کی جنگ میں سنتے تھے کہ مورچوں میں پناہ لینے کے بجائے پاکستانی چھتوں پر چڑھ کر بھارتی اور اپنے ہوائی جہازوں کی ڈاگ فائٹ دیکھتے تھے۔ یہ رویہ جنگ کے دوران تو بہادری سے موسوم کیا جا سکتا ہے‘ مگر کورونا جیسی مہلک وبائوں کے دوران اسے غیر سنجیدگی اور مجرمانہ لاپروائی ہی کہا جا سکتا ہے! ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ لاک ڈائون کی خلاف ورزی‘ غیر ضروری طور پر باہر نکلنا‘ بھیڑ سے اجتناب نہ کرنا‘ ہم لوگوں کا مجموعی طور پر‘ معمول ہے! دوسرے حوالے سے مائنڈ سیٹ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے! صرف مذہبی رہنما ہی نہیں‘ خود عوام بھی حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں! کراچی میں خاتون ایس ایچ او جس طرح زخمی ہوئی اور لیہ میں ایس ایچ او پر جس طرح چاقو سے وار کیے گئے ‘ لمحۂ فکریہ ہے۔ ایک مشہور و معروف مفتی صاحب کی وڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ ساری صورت حال کو امریکہ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں! ایک سروے کے مطابق‘ جو حال ہی میں کیا گیا ہے‘ 43 فیصد لوگ ہمارے ہاں سمجھتے ہیں کہ کورونا امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے! 68 فیصد کے نزدیک با جماعت نماز سے کورونا نہیں پھیل سکتا! 48 فیصد یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مصافحہ کرنا ان حالات میں خطرناک ہے۔بہت سے لوگ اس مسئلے کو کسی عقیدے یا فرقے کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایک بزرگ ایک اینکر پرسن کو سمجھا رہے تھے کہ اگر عہدِ رسالتؐ میں بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو اُس وقت گلیاں کچی تھیں‘ پرنالے برستے تھے۔ مسجد نبوی کا فرش کچا تھا۔ چھت گھاس پھونس کی تھی۔ آج وہ صورت حال نہیں۔ جب اینکر نے یہ دلیل دی کہ بہر طور مسجد میں نہ آنے اور گھر پر نماز پڑھنے کی مثال تو موجود ہے! مخصوص صورتِ حال میں جواز تو بنتا ہے ‘ تو اس دلیل کا حضرت کے پاس کوئی جواب نہ تھا! ایسے بھی واقعات‘ خاصی تعداد میں ہوئے ہیں کہ مریض قرنطینوں سے فرار ہو گئے۔ کچھ مریض کہیں لے جائے جا رہے تھے‘ وہ ویگن سے باہر نکلے اور بھاگ گئے۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کا لیکچر وائرل ہو رہا ہے۔ ان کے بارے میں لکھا ہے کہ کلونجی پر پی ایچ ڈی کی ہے! کہاں سے؟ کس یونیورسٹی سے کی ہے؟ کچھ معلوم نہیں‘ نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ غرض ہر شخص دکان کھول کر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گردے جب زیادہ خراب ہو جائیں تو ٹیسٹ کرنے کیلئے مریض کو 24 گھنٹے کا پیشاب جمع کرنے کا کہا جاتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک دوست ڈاکٹر نے بتایا کہ ایسے ایسے مریض بھی ہیں جو پیشاب بوتل میں کرنا بھول جاتے ہیں تو اس میں پانی ملا دیتے ہیں تا کہ لیبارٹری والے کو مقدار کم نہ محسوس ہو! انہیں یہ سمجھانا ممکن ہی نہیں کہ اس حرکت سے ان کا ٹیسٹ خراب ہو جائے گا۔ ایک حکومت‘ ایک قوم‘ کورونا سے تو لڑ سکتی ہے مگر جہالت‘ تعصّب اور صدیوں سے منجمد مائنڈ سیٹ سے نہیں لڑ سکتی! Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Thursday, April 09, 2020 پارلیمانی طرزِ حکومت میں تو یہی کچھ ہوگا بزرجمہر رپورٹ کے تجزیے کر رہے ہیں، سبسڈی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں پر بحث کر رہے ہیں، پنجاب اور سندھ گورنمنٹ کے موازنے کر رہے ہیں، انڈیا کی سبسڈی کی مثالیں دے رہے ہیں۔ کبھی وفاقی حکومت کو الزام دے رہے ہیں‘ کبھی صوبائی کو! جبکہ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے! بیماری زیادہ خطرناک ہے۔ صرف خون کے ٹیسٹ سے نہیں، خون کے کلچر کیلئے بھی لیبارٹری والوں کوکہنا ہوگا! گزشتہ حکومت میں ایک بات ہر روز کہی جاتی تھی بلکہ ایک ایک دن میں یہ فرمان کئی بار یاد دلایا جاتا تھا کہ کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے نہ کرو! کہاں گئی آج یہ نصیحت؟ آج بھی کاروبارِ حکومت تاجروں کے حوالے ہے، صنعت کاروں کی مٹھی میں ہے! آج اس فرمان کی یاد کسی کو نہیں آ رہی؟ کیوں؟ کیا یہ اصول کہ تاجروں کے حوالے کاروبارِ حکومت نہ کرو، صرف اُس وقت قابلِ عمل ہوگا جب سربراہ حکومت تاجر یا صنعتکار ہو؟ وزیروں، مشیروں کی اکثریت تاجروں پر مشتمل ہو تو سب ٹھیک ہوگا؟ ای سی سی سے لے کر شوگر بورڈ تک، سب وہی لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں جن کے کارخانے ہیں، جن کی فیکٹریاں ہیں۔ جن کے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات ہیں! انسان ہیں! فرشتے نہیں! سوال یہ اٹھتا ہے کہ فیصلے انہی لوگوں کے سپرد کیوں کر دیئے گئے ہیں؟ کارخانوں کے مالک وزارتوں پر بیٹھے! فیصلے صادر کرتے وقت اپنے مفادات کو کیونکر فراموش کر سکتے ہیں؟ نسلیں صرف ہوئیں، عمریں لگیں تب جاکر وہ صنعت کار بنے۔ تب جاکر تجارت میں ان کی حیثیت قائم ہوئی۔ اب کیا وہ فرشتے ہیں کہ اپنے مفادات، اپنے پس منظر، اپنے خاندانی علائق پر خطِ تنسیخ پھیر دیں؟ کاروبار کو حکومت سے الگ رکھنے کا اصول اسی دن طے ہو گیا تھا جس دن، حکومت پر متمکن ہونے کے بعد، امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے حسبِ معمول کپڑے کا گٹھر اٹھایا اور فروخت کرنے کے لیے نکلنے لگے‘ جیساکہ خلیفہ المسلمین بننے سے پہلے وہ ہر روز کیا کرتے تھے۔ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے ٹوکا کہ جب حاکم کا مال مارکیٹ میں ہوگا تو دوسروں سے کون خریدے گا؟ اس کے بعد ہی سرکاری خزانے سے، گزر بسر کے لیے، حکمران اعلیٰ کا وظیفہ یا تنخواہ، مقرر ہوئی۔ اس سے یہ اصول طے ہو گیا کہ حکمران، حکومت میں شامل ہونے کے بعد کاروباری سرگرمیاں معطل کر دے! اب یہاں وہ نقص سامنے آتا ہے جو پارلیمانی طرزِ حکومت کا جزو لا ینفک ہے۔ وزیر وہی افراد بنیں گے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں وہی بیٹھیں گے جنہیں عوام منتخب کریں گے! مشیروں کا مسئلہ الگ ہے۔ وزیر اعظم پانچ مشیر رکھ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ صنعتکاروں کو اپنے ہی شعبے کے اوپر مشیر مقرر کرنے کے نتائج کیا نکلیں گے؟ Conflict of interests!! مفادات کا تصادم! مفادات کا ٹکرائو! یہ ہے وہ دیمک جو انصاف کو چاٹ جاتی ہے۔ اجتماعی غیر جانبداری کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہے! اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجہ میں وہ لوگ ایوانوں میں پہنچتے ہیں جو استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہیں 1857ء کی مکروہ خدمات کے صلے میں جاگیریں ملیں۔ وہ جاگیریں آج تک انہیں اقتدار دلوا رہی ہیں۔ کسی کے پردادا نے مجاہدین کو قتل کیا۔ کسی کے وڈے وڈیرے نے مخبری کی۔ زرعی اصلاحات ہو نہ سکیں۔ سرحد پار بھارت اس معاملے میں بازی لے گیا۔ تقسیم کے چار سال بعد انہوں نے آکاش بیلوں سے، طفیلیوں سے نجات حاصل کر لی! ہاں! یہ سچ ہے کہ آج بھارت کے منتخب ایوانوں میں غنڈے بیٹھے ہیں، مگر اس کا سبب اور ہے! ایک ایسے ملک میں جہاں جھنگ سے لے کر ملتان تک، ہالہ سے لے کر خیرپور تک، گجرات سے لے کر رائے ونڈ تک، وراثتیں ہی وراثتیں ہوں، گدیاں ہی گدیاں ہوں، جہاں کھرب پتی صنعت کاروں کو منتخب ہونے سے کوئی نہ روک سکے، جہاں دولت اور نام نہاد ذہانت کا منبع اوجڑی کیمپ جیسے ''سانحے‘‘ ہوں، وہاں پارلیمانی طرزِ جمہوریت ایک عذاب سے کم نہیں! اس طرزِ حکومت کا کمال ہی یہ ہے کہ جن کی شوگر ایمپائرز ہیں وہی شوگر پالیسیاں بناتے ہیں۔ جن کی اپنی فیکٹریاں ملک سے باہر ہیں، وہی ملک کے اندر چلنے والی فیکٹریوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں! انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان حدِ فاصل ہی کوئی نہیں، پوری انتظامیہ، بشمول سربراہِ حکومت، اس ایوان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے جس میں نسل در نسل منتخب ہونے والی ایلیٹ بیٹھی ہے۔ انہی میں سے وزیر بننے ہیں۔ پالیسیاں بناتے وقت یہ وزیر وزرا، اپنی فیکٹریوں، اپنے کارخانوں، اپنی جاگیروں، اپنی ٹریڈنگ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ رہی سہی کسر ان مشیروں نے پوری کر دی جو مفادات کے اسیر ہیں! جن کی اپنی صنعتی سلطنتیں ہیں! پاکستان جیسے ملک میں، جہاں انتخابات ان سیاسی جماعتوں کی مٹھی میں ہوں جو خاندانوں کی میراث ہیں‘ پارلیمانی طرزِ حکومت وہی گل کھلائے گا جو کھلا رہا ہے! کون سی سیاسی جماعتیں؟ کون سی جمہوریت؟ کون سا پارلیمانی نظام؟ بیس فیصد سے زیادہ خواندگی کی شرح نہیں! آبادی کا درست شمار ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر اے این پی تک، مسلم لیگ سے لے کر تحریک انصاف تک، جے یو آئی سے لے کر پختونخوا ملی عوامی پارٹی تک... ساری سیاست خاندانوں کے گرد گھومتی ہے یا افرادکے گرد! ایم کیو ایم نے مالکانہ آمریت سے چھٹکارا پا لیا مگر ملک کے ایک حصّے میں محدود ہے۔ جماعت اسلامی کے اندر ایک مخصوص طریقے سے انتخابات ضرور ہوتے ہیں مگر، بوجوہ، پارٹی مین سٹریم سے دور ہے اور ان پڑھوں اور پڑھے لکھوں میں یکساں اجنبی! وجوہ کیاہیں؟ یہ ایک لاحاصل بحث ہو گی کیونکہ دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح ان حضرات کی طرف سے بھی جوابی کارروائی (Back Lash) ناقابلِ برداشت ہوتی ہے! اس لیے خیر اندیش بھی عزت بچانے کی خاطر چُپ رہتے ہیں اور مشورہ بازی کا خطرہ مول نہیں لیتے! کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بُری، پاکستان جیسے ملک میں صدارتی نظمِ حکومت ہی اُن اجارہ داریوں کا مقابلہ کر سکتا ہے جو معاشرے پر قابض ہیں۔ اگر کابینہ کا انتخاب، منتخب ارکان ہی سے کرنا ہے تو پھر کابینہ کی کمپوزیشن وہی ہو گی جو نظر آتی ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر ٹائیکون! مِل اونر! کارخانہ دار! جاگیردار! سردار! صدارتی نظمِ حکومت میں صدر مملکت کو یہ تو اختیار ہے کہ کسی غیر جانب دار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، دردِ دل رکھنے والے کو کابینہ میں لے‘ جو مفادات کے تصادم کا شکار نہ ہو! امریکہ میں صدر، کابینہ کے لیے کسی کو چُنتا ہے تو اس کی تصدیق ایوان بالا کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ایوانِ بالا کو صنعت کاروں، تاجروں اور جاگیرداروں سے بچایا جا سکتا ہے بشرطیکہ سیاسی جماعتیں، خاندانوں کی غلامی سے باہر آ جائیں! کوئی ایک بدقسمتی ہو تو رونا بھی رویا جائے! جہاں وزیراعظم کو آزادی ہے کہ مشیر جسے چاہیں بنائیں، وہاں بھی طالع آزما نظر آتے ہیں۔ کل جسے بہترین حکمران کا سرٹیفکیٹ دے رہے تھے‘ آج اسی کے مخالف کی کابینہ میں بیٹھے ہیں! کل جو بھی حکمران ہوگا، اس کے گردوپیش میں بھی یہی افرادی قوت ہوئی تو روزِ نجات کی امید ہی نہ رکھیے! ایک مکروہ دائرہ ہے! ایک Vicious circle ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا! ایک دو نہیں پانچ چھ نہیں، بیس بیس، تیس تیس سالوں سے وہی چہرے نظر آ رہے ہیں۔ حکومتیں آئیں، تاریخ کی گرد بنیں، یہ چہرے، یہ خاندان، یہ کنبے، اسی طرح مسلط ہیں! انہی خاندانوں کی نئی نسل اب حکمرانی کے لیے پر تول رہی ہے! کچھ نام نہاد پارلیمنٹ میں تشریف لا بھی چکے! اثاثے اربوں سے اوپر ہیں! ابھی سے اربوں سے اوپر ہیں۔ ع ابھی تو قرضِ مہ و سال بھی اتارا نہیں! سنتے ہیں کہ اسی کرۂ ارض پر کچھ ولایتیں ہیں جن کے حکمران سائیکلوں پر آتے جاتے ہیں۔ ٹرینوں میں عام مسافروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ سبزی، گوشت خریدنے ملکہ سے لے کر وزیراعظم تک خود دکانوں پر آتے ہیں۔ اپنے ناشتے، لنچ، ڈنر اپنے ہاتھوں سے پکاتے ہیں۔ سرکاری ضیافتوں میں چار پانچ سے زیادہ مہمان نہیں ہوتے۔ بیویوں کے لیے سیکنڈ ہینڈ کاریں خریدتے ہیں۔ ٹیکس ان کا ڈاکخانے کی کھڑکی پر کھڑے ہو کر اپنے ہاتھوں سے ادا کرتے ہیں، سرکاری گھر سے نکلنا ہو تو اپنا سامان خود پیک کرتے ہیں! اقتدار سے نکلنے کے بعد بس سٹاپوں پر نظر آتے ہیں! بیٹے کو بیماری کے سبب، ملازمت چھوڑنی پڑے تو اس کا گھر چلانے کے لیے مکان بیچنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے حکمران، ایسے ارکانِ کابینہ، ہمیں کب ملیں گے؟ کیا ہم اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ کھرب پتی ہم پر حکمرانی کریں؟ بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Tuesday, April 07, 2020 بیچارہ ‘ ناکام ! شکست خوردہ کل شام کو اس نے پیغام بھیجا کہ ملنا چاہتا ہے ۔ پہلے تو میں ڈرا کہ اس مکروہ شخصیت کی طرف سے یہ سندیسہ خطرے کی گھنٹی ہے‘ مگر پھر تجسس ہوا کہ آخر مجھے ہی کیوں یاد کیا ہے؛ چنانچہ دل کو مضبوط کیا اور مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ تیاری میں نے پوری کی تھی ‘ ہاتھوں پر دستانے تھے ‘ منہ پر ماسک ‘ ریستوران کا جو گوشہ اس نے بتایا تھا وہاں اور کوئی نہ تھا‘ بیٹھا ہی تھا کہ السلام علیکم کی آواز آئی۔ پوچھا: کہاں سے بول رہے ہو‘ کہنے لگا: اس مسئلے میں نہ ہی پڑو تو تمہارے لیے بہتر ہے ۔ بہر طور تمہارے اطمینان کے لیے بتائے دیتا ہوں کہ تمہاری میز سے چار میزیں چھوڑ کر جو میز ہے اس پر دھری پیالی کے دستے پر بیٹھا ہوں ۔ جس گاہک نے اس سے چائے پی اسے میں لاحق تھا‘ اس کے ہاتھ سے دستے پر منتقل ہوا ۔اور اب یہیں سے بات کر رہا ہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوااور جھنجھلا کر کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اپنا مکروہ محل ِوقوع تو بتا دیا اب یہ بھی بتاؤ کہ مجھے تم نے کیوں بلایا ہے ؟ کیا لاحق ہونے کا ارادہ ہے ؟ نہیں ! ایسا کوئی ارادہ نہیں‘ تمہاری عمر پرترس کھائے دیتا ہوں ۔تمہارا نام نہاد تعلق چونکہ میڈیا سے ہے اس لیے تمہارے توسط سے اپنی ناکامی اور نامرادی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں ۔ فرشتے تمہاری قوم سے ناامید ہو چکے تھے ۔ جس دن وہ بارگاہِ ایزدی میں اس ناامیدی کا اظہارکر رہے تھے میں وہاں موجود تھا۔ غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیں اور دعویٰ کیا کہ اس قوم کو میں ٹھیک کر کے دکھاتا ہوں۔ اجازت مل گئی اور میں نے آکر دھاوا بول دیا ورنہ میرے اصل پلان میں پاکستان کا نام تھا نہ ذکر ۔مجھے خوش فہمی تھی کہ جیسے ہی حملہ کروں گا تم لوگ سیدھے ہو جاؤگے ‘ مگر مجھے تو منہ کی کھانا پڑی اور اب فرشتوں کی اس رائے سے متفق ہوں کہ تم لوگ اسفل السافلین میں ہو۔ ‏Scum of earthہو اسقط الناس ہو۔ روئے زمین پر تم سے بڑا نفاق پرور کوئی نہیں ۔ میں نے اس کی بات کاٹی '' اے انسانوں کے دشمن ! کیا یاوہ گوئی کر رہے ہو‘ میری قوم کے متعلق! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ خیراتی کاموں میں میری قوم کا نام سر فہرست ہے ‘‘۔ہاں ! اسی لیے ماسک کی قیمت چار گنا ہو گئی۔ سینی ٹائزر مارکیٹ میں غیر معیاری آگئے ! ملاوٹ جوں کی توں ہے‘ چوربازاری ویسی ہی ہے ! چینی اور آٹے کی انکوائری رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں تمہارے تاجروں کو راہ راست پر لا سکا نہ صنعتکاروں کو۔ سب سے زیادہ مایوسی اہل سیاست سے ہوئی ہے ۔ ابتلا کے اس خوفناک لمحے میں بھی حکومت اپوزیشن کی طرف رواداری کا ہاتھ نہ بڑھا سکی ۔ ایک بار بھی ایسا نہ ہواکہ سب مل کر بیٹھ جاتے ‘اختلافات کی چادر اُتار کر ایک طرف رکھ دیتے ‘ مجھ سے نمٹنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ۔مگر حکومت تو خیر حکومت ہے خود حزبِ اختلاف یکجہتی نہ پیدا کر سکی ۔ مولانا فضل الرحمان‘ زرداری ‘ شہباز شریف ‘ اسفند یار ولی ہی ایک مشترکہ پالیسی بنا لیتے ۔ اہلِ اقتدار اپنی الگ فورس بنانے کے بجائے ‘ قومی سطح کی تنظیم بنا لیتے جس میں ساری پارٹیوں‘ سارے صوبوں‘ سارے طبقات کی شمولیت ہوتی ‘ بے شک اس کی قیادت حزبِ اختلاف کے سپرد کر دیتے۔ افسوس ! صد افسوس! اس موقع پر بھی اس ملک کے اہلِ سیاست ایک پیج پر نہ آسکے ۔اس سے بھی زیادہ مایوسی مذہبی رہنماؤں کے انداز فکر سے ہوئی ۔کسی کا منہ اس طرف ہے تو کسی کا اُس طرف! یہ حرم کی اتباع میں بھی مناسبت نہ دکھا سکے یعنی ـ؎ گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہَری ہَری کسی نے کہا کہ فرض نمازیں گھر پر پڑھنی چاہئیں‘ کسی نے کہا کہ نہیں صرف سنتیں اور نوافل گھر پر پڑھیں۔ مقتدی حیران پریشان‘ کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ؎ کس کا یقین کیجیے کس کا یقیں نہ کیجیے لائے ہیں بزم ِناز سے یار خبر الگ الگ کہیں امام اور پولیس کا جھگڑا۔ کہیں عوام کا امام سے اختلاف اور کہیں نمازیوں کا کوتوالی والوں سے تصادم ! یعنی موت کا ہر طرف رقص جاری ہے اور اس حال میں بھی لوگ پولیس کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں اس لیے کہ پیشواؤں کا رویہ معاندانہ ہے ! اس عالم میں کہ مخالفتیں ترک کر دینی چاہئیں تھیں‘ مسلکی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ خدا کا خوف نہ رہا۔ ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں ۔ تبلیغی جماعت کو زیر بحث لایا گیا۔ زائرین پر اعتراضات کیے گئے حالانکہ میں شیعہ ہوں نہ سنی‘ ایران نواز ہوں نہ عرب دوست ! دیوبندی ہوں نہ بریلوی ! میں تو کورونا کا وائرس ہوں۔مجھے تو انسانی خون چاہیے ۔ خون سب مسلکوں کا ایک ہی ذائقے کا ہے۔ پھیپھڑے ہر فرقے کے ایک ہی بناوٹ کے ہیں ۔آہیں اور کراہیں ایک جیسی ہیں۔ پروردگار سب کا وہی ہے ۔ مجھے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مان گیا ہوں تم پاکستانیوں کو ! تمہارے تاجروں کر تمہارے سیاستدانوں کو تمہارے حکمرانوں کو تمہارے پیشواؤں کو اگر میں بھی ذاتی اغراض سے پاک کر کے راہ راست پر نہیں لا سکا تو پھر فرشتے سچ ہی کہہ رہے تھے کہ تم لاعلاج ہو ! حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دعوے ‘ تمہارے وعدے ‘‘ تمہاری تقریریں‘تمہارے خطبے‘ تمہارے مواعظ‘ تمہاری نمازیں ‘ تمہارے حج‘ تمہارے عمرے‘ تمہاری تسبیحیں ‘ تمہاری خیراتیں ‘تمہارے عطیات‘ سب دکھاوے کے ہیں ۔ اندر سے تم آلائشوں سے بھرے ہوئے ہو۔ تم باہر سے جتنے صاف ہو اندر سے اتنے ہی کثیف ہو ! تم نے موت کو سامنے ناچتے دیکھا مگر تم نے قطع رحمی سے توبہ کی نہ حقوق العباد کے حوالے سے اپنا رویہ بدلا ۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کل کو میرے استیصال کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہوئی تو تم نے ایک اور حشر برپا کر دینا ہے۔ پہلے تو تم اس میں ملاوٹ کر کے چار مریضوں کی ویکسین آٹھ کو لگاؤ گے‘ پھر تم ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب کر کے اسے بلیک میں فروخت کرو گے ۔ امیر اسے ہتھیا لیں گے ‘ غریب غربا دیکھتے رہ جائیں گے ‘ سرکاری ہسپتال اس سے محروم رہیں گے ‘ مہنگے نجی کلینک تیرہ تالی کھیلیں گے ۔ اپنی تحریر کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کو میری طرف سے بتا دو کہ میں جلد ہی بوریا بستر سمیٹ کر چلا جاؤں گا ۔ میں تو وہ بچھو ہوں جو سردیوں میں باہر نہیں نکلتا اس لیے کہ گرمیوں میں میری کون سے عزت ہوتی ہے۔ مگر یہ اعلان بھی کردو کہ اس سے پہلے کہ کوئی مصیبت مجھ سے بھی بڑی نازل ہو‘ اپنی اصلاح کر لیں ۔ قوم کو تفرقوں میں نہ بانٹیں ‘ اس ملک کو ذاتیات کی نذر نہ کریں۔ اسے آگے بڑھنے دیں۔ اہلِ اقتدار اپنے دوستوں کو کارِ حکومت سے الگ کر لیں۔ پرانی دوستیاں نبھانی ہیں تو اپنے طور پر نبھائیں۔ قوم کی قیمت پر نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہی پڑے گا ۔ اس بلائے بے درماں سے جان چھڑا کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں فارمیسی کی دکان پر نظر پڑی ‘اندر جا کر کاؤنٹر والے سے ماسک کا پوچھا تو کہنے لگا نہیں ہے۔ ایک اور صاحب آئے ‘ کاؤنٹر والا ان سے گلے ملا ‘ حال احوال پوچھا ‘ انہوں نے بھی ماسک مانگا ‘ دکاندار نے آنکھ مار کر انہیں انتظار کرنے کا کہا ! میں بہت سخت کنفیوزڈ ہوں ‘ کیا ہم واقعی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ کوروناسے بڑی کسی آزمائش کے مستحق ہیں ‘کیا ہم دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کر نے کو تیار ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم جو کچھ مانگ رہے ہیں ‘ اسے حاصل کرنے سے پہلے ہمیں کچھ دینا بھی ہے جس کا ہم سوچ ہی نہیں رہے ! بشکریہ روزنامہ دنیا Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Monday, April 06, 2020 مبارک ہو جناب وزیراعلیٰ، مبارک ہو سب سے پہلا فون جو وزیراعلیٰ کو آیا وہ صدر ٹر مپ کا تھا! احساسِ کمتری کا یہ عالم تھا کہ صدر ٹرمپ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہکلا ہکلا کر بول رہے تھے۔ مبارک باد دی۔ وزیراعلیٰ کی قسمت پر رشک کیا۔ ان کے خیال میں یہ واقعہ اپنی مثال آپ تھا۔ دوسرے ملکوں کے متعلق تو بقول صدر ٹرمپ، انہیں زیادہ معلومات نہ تھیں مگر کم از کم امریکہ کی اڑھائی سو سالہ تاریخ میں ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد ٹیلی فون کالوں کی قطار لگ گئی۔ ہر بادشاہ، ہر صدر، ہر وزیر اعظم، ہر وزیر خارجہ مبارکباد دے رہا تھا۔ وزیراعلیٰ کے مجوزہ سرکاری اجلاس‘ کانفرنسیں، ملاقاتیں سب منسوخ کرنا پڑیں۔ بین الاقوامی سفارت کاری کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت سے رابطہ کیا گیا اور وزارت خارجہ کا ایک سینئر افسر مع عملہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں تعینات کرانا پڑا۔ تاریخ میں ایسے قابلِ فخر واقعات کم ہوئے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کی اور بات ہے۔ عروج کے عہد میں دنیا بھر سے سفیر قسطنطنیہ میں واقع ''بابِ عالی‘‘ میں حاضر ہوتے تھے۔ خورجینوں میں قیمتی تحائف اور زربفت میں لپٹے مودبانہ خطوط! وہ زمانہ لد چکا۔ اب نیا زمانہ تھا۔ یہ قابلِ رشک مقام تاریخ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو عطا کیا تھا۔ قدرت کے کھیل نیارے ہیں۔ کہاں پاکستانی پنجاب! کہاں اس کے حکمران کو، عالمی طاقتوں سمیت، دنیا بھر سے تہنیتی پیغامات! جاپان کے وزیر اعظم سے لے کر سعودی شاہ تک! مراکش کے بادشاہ سے لے کر انڈونیشیا کے صدر تک۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے لے کر کینیڈا کے وزیر اعظم تک! رشک تھا اور حیرت تھی! مبارکبادیں تھیں اور نیک تمنائیں تھیں! حسرتیں تھیں اور اپنی اپنی قوم، اپنے اپنے ملک پر سب افسوس کناں تھے! موٹروے پر اس دن جھنڈوں والی کاروں کی لائنیں لگی تھیں! قطار اندر قطار! یہ سفیر تھے دوسرے ملکوں کے جو وفاقی دارالحکومت سے لاہور کی جانب رواں تھے! انہیں اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے فوری احکام موصول ہوئے تھے کہ بنفسِ نفیس جائیں اور وزیراعلیٰ کو مبارکباد پیش کریں! لاہور شہر کی شاہراہوں پر پروٹوکول کا غلغلہ تھا۔ خوبصورت ، کلف لگی کھڑکھڑاتی، اجلی وردیوں میں ملبوس ٹریفک کے سپاہی، جھنڈے والی کاروں کو سلیوٹ کرتے تھے اور رہنمائی کرتے تھے۔ وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ارد گرد، عام ٹریفک روکنا پڑی کہ مہمانانِ گرامی کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ بھیڑ ذرا کم ہوئی تو ملک کے اندر سے ملاقاتوں اور تبریک کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سب سے پہلے آئے۔ گلے ملے، پیشانی پر بوسہ دیا اور برملا اعتراف کیا کہ لاہور اس معاملے میں کراچی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اور پیچھے بھی کوئی ایسا ویسا نہیں چھوڑا۔ کوسوں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ فرسنگ در فرسنگ ۔ منزل بہ منزل! پھر کوئٹہ، پشاور، گلگت اور مظفر آباد سے حکمرانوں کی سواریاں آئیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے سب سے سینئر وزیر کو پورے پروٹوکول، ڈھیر سارے لوازمات اور شاہانہ تکلفات کے ساتھ بھیجا۔ سچ پوچھیے تو شادی کا سماں تھا! لگتا تھا ستاروں نے سالگرہ کی کوئی تقریب اس سرکاری عمارت میں رکھ دی ہے! وزیراعلیٰ، بار بار، دل میں پروردگارِ عالم کا شکر ادا کرتے تھے۔ احساس تشکّر سے ان کا سر جھکا جاتا تھا۔ یہی اہلِ دل کی نشانی ہوتی ہے۔ پھلوں سے لدی ٹہنی، نیچے کی طرف جھکتی ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو نا ممکن کو ممکن بناتا ہے۔ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ‘ وہاں سے عطا کرتا ہے جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا!؎ شکر نعمت ہائے تو چنداں کہ نعمت ہائے تو عذر تقصیراتِ ما چنداں کہ تقصیراتِ ما ملاقاتوں، فون کالوں، مبارکبادوں، تہنیتوں اور پروٹوکول کا طوفان تھما تو اصل مسئلہ خم ٹھونک کر سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس رقم کو خرچ کیسے کیا جائے گا؟ کہاں کہاں خرچ کیا جائے گا؟ کتنے محکموں کی ضروریات پوری ہوں گی؟ ترجیحات کے مسائل کیسے طے ہوں گے؟ ظاہر ہے رقم معمولی نہیں تھی، غیر متوقع طور پر خطیر تھی! جیسے صوبائی حکومت کی لاٹری نکل آئی ہو، جیسے طلسمی داستانوں کا کوئی ورق سامنے کھل گیا ہو۔ اس سے کئی برسوں کے ترقیاتی بجٹ بن سکتے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا۔ کابینہ کے ارکان، تمام محکموں کے سربراہ، صوبائی اسمبلی کے ممبر، اپوزیشن کے رہنما، سب کو دعوت دی گئی۔ کل کوئی یہ نہ کہے گا‘ ہُن برسا تو اپنے آپ میں نہ رہے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ حزبِ اختلاف کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ فیصلے باہمی مشاورت اور رضا مندی سے ہوں! سب سے پہلے صوبے بھر میں ان تمام لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کی منظوری ہوئی جو دیہاڑی دار تھے اور لاک ڈائون کی وجہ سے روزانہ کی مزدوری نہیں کر پا رہے تھے۔ اس کے بعد محکمۂ تعلیم کو ٹاپ کی ترجیح دی گئی۔ صوبے کے ہزاروں سکولوں کو جو چھتوں، فرنیچر اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم چلے آ رہے تھے‘ رقوم فراہم کی گئیں اور کھلے دل کے ساتھ فراہم کی گئیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں دو گنا کر دی گئیں۔ صوبے بھر کی نہروں کی صفائی کا پروگرام منظور کیا گیا۔ پانچ سو نئے کارخانے لگانے کے لیے صنعت کاروں کو گرانٹ دی گئی۔ پانچ لاکھ کسانوں کو مفت ٹریکٹر، تھریشر، ٹیوب ویل اور کھاد اور بیج کی ایک ایک ہزار بوری مفت دینے کا منصوبہ فائنل کیا گیا۔ تحصیل کی سطح پر موٹر وے جال بچھانے کا پروجیکٹ طے کیا گیا۔ آئی جی پنجاب کی تجویز پر پولیس کی تنخواہیں تین گنا بڑھا دی گئیں۔ دس لاکھ، پانچ پانچ مرلے کے گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ اور امریکہ جیسا ملک رشک کر رہا تھا تو بلا وجہ نہیں کر رہا تھا۔ ان سارے منصوبوں کے بعد بھی بھاری رقم بچ رہی تھی۔ اجلاس جاری تھا کہ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کا پی اے اندر آیا اور پرنسپل سیکرٹری کے کان میں کچھ کہا۔ پرنسپل سیکرٹری فوراً اٹھے اور وزیر اعلیٰ کے کان میں سرگوشی کی! وزیر اعلیٰ نے اجلاس آدھ گھنٹے کیلئے ملتوی کیا۔ حاضرینِ اجلاس اٹھ کر باہر جا رہے تھے تو وزیر اعلیٰ نے پرنسپل سیکرٹری، وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کو روک لیا۔ دروازہ کھلا تو سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے سیکرٹری خزانہ اندر آ رہے تھے۔ وزیراعلیٰ نے اٹھ کر سب سے ہاتھ ملائے۔ یہ ایک غیر متوقع اجلاس تھا‘ ایجنڈے پر نہ تھا مگر یہ صوبوں کے فنانس کے سربراہ تھے۔ اہم اور عالی مرتبت منصب دار۔ بات شروع ہوئی تو سندھ کے سیکرٹری خزانہ نے باقیوں کی بھی نمائندگی کی اور حرف مطلب ادا کیا۔ اس غیر معمولی خطیر رقم میں سے یہ بھائی، یہ صوبے، محبت اور تعلق کی بنیاد پر اپنا اپنا حصہ مانگ رہے تھے۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر وزیر اعلیٰ نے چاروں صوبوں کیلئے فیاضانہ گرانٹس منظور کیں۔ ان کے وزیر خزانہ نے بخوشی تائید کی! کچھ رقم خیر سگالی کے طور پر، صوبے کی طرف سے، وفاق کو بھی پیش کی گئی! یہ رقم یہ گنجِ گراں مایہ، کہاں سے آیا تھا؟ رقم تھی کتنی؟ قارئین سے معذرت! یہ اطلاع کالم کے شروع ہی میں دے دینا چاہیے تھی مگر فرطِ مسرت نے اور کمالِ حیرت نے بدحواس کر رکھا تھا۔ تاریخ کا یہ انوکھا قابلِ رشک واقعہ تین اپریل بروز جمعۃ المبارک پیش آیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس انڈ انڈسٹری کے دو معزز ممبران وزیر اعلیٰ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ادارے کی جانب سے ایک کروڑ روپے کا چیک کورونا فنڈ کے لیے عطیہ کیا! پورے ایک کروڑ روپے کا! لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کم از کم اس وقت پندرہ ہزار ارکان ہوں گے۔ یہ ایک انتہائی محتاط دقیانوسی اندازہ ہے کیونکہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق تیرہ سال پہلے ممبران کی تعداد دس ہزار تھی۔ ان ممبران میں بڑے بڑے مال، کمرشل کارپوریشنیں، بلڈرز، گلاس انڈسٹری، عظیم الجثہ کاروبار، شاہ عالمی کے ہول سیلرز، غلّے کے آڑھتی، پراپرٹی ٹائیکون، کپڑے کے تاجر، دوا ساز، بجلی کی مارکیٹوں کے کرتا دھرتا، گاڑیوں، ٹرکوں اور بسوں کے ڈیلر اور دیگر سینکڑوں ہزاروں اقسام کے کاروبار کے مالکان شامل ہیں۔ ارکان یقینا پندرہ ہزار سے زیادہ ہوں گے مگر فرض کیجیے، پندرہ ہزار ہی ہیں تو ایک کروڑ روپے کورونا فنڈ میں دینے کا مطلب ہے چھ سو چھیاسٹھ روپے چھیاسٹھ پیسے فی ممبر!! Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Thursday, April 02, 2020 The World is no more the Same عبداللہ صاحب یاد آ رہے ہیں! یہ ملازمت کے درمیانی عرصہ (مِڈکیریئر) کی بات ہے۔ اگلی ترقی کیلئے تربیتی کورس لازم تھا۔ ساڑھے چار ماہ کا یہ تربیتی کورس کراچی کرنا تھا یا لاہور یا پشاور! اسلام آباد سے پشاور نزدیک ترین تھا؛ چنانچہ پشاور کا انتخاب کیا۔ اس میں قدرت کی مصلحت تھی۔ تربیتی کورس بھی ہو گیا‘ ترقی بھی مل گئی‘ مگر کورس کا اصل حاصل عبداللہ صاحب سے ملاقات تھی۔ وہ ان اکابر میں سے ہیں جن سے راہ و رسم زندگی کی راہیں تبدیل کر دیتی ہے؎ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں وہ ان رجالِ خیر سے ہیں جن سے مل کر زندگی گزارنا نہیں زندگی بسر کرنا آ جاتا ہے۔ ڈی ایم جی کے افسر رہے۔ ڈی ایم جی کے افسر تو بہت ہیں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، مگر عبداللہ صاحب، سول سروس کے اس گروپ کیلئے خود باعثِ اعزاز تھے۔ ملازمت اپنے ڈھب سے کی۔ بے خوف اور بے نیاز ہو کر! فارسی شعروادب پر مکمل دسترس! انگریزی زبان کے غضب کے مقرّر! ہمارے تربیتی کورس کے دوران محمدعلی کلے نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ہمارے ادارے میں بھی آئے۔ عبداللہ صاحب نے تقریر کی۔ ایسی کہ سننے والوں کو یاد ہی نہ رہا کس دنیا میں، کس زمانے میں بیٹھے ہیں! الفاظ گویا کسی نامعلوم سمت سے آ رہے تھے اور کانوں کے راستے سے نہیں، براہ راست دل میں اتر رہے تھے۔ محمدعلی کلے کا تقریر پر تبصرہ یہ تھا کہ کسی نان انگلش سپیکنگ شخص کی زبان سے اس نے ایسی تقریر آج تک نہیں سنی۔ اس تقریر کی وڈیوکیسٹ رکھی ہوئی تھی۔ پھر وی سی آرکا زمانہ لدگیا۔ نہیں معلوم اب اسے نئے میڈیم پر کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے! تربیتی کورس کرانے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ پشاور کے معروف عالم دین قاری روح اللہ صاحب کو درسِ قرآن پر مامور کیا۔ ایبٹ آباد سے چلاسی بابا کو بلایا جنہوں نے ان گردن بلند افسروں سے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کیا۔ یہ کالم نگار بعد میں بھی چلاسی بابا کے ہاں حاضری دیتا رہا۔ اچھے زمانے تھے۔ مڈ کیریئر کورس میں بھی دوملکوں کا بیرونی دورہ شامل تھا۔ ہم ترکی اور اردن گئے۔ وقت کی قلت کے باوجود عبداللہ صاحب نے اسی ٹکٹ میں عمرے کا بندوبست کرایا۔ یہ اس کالم نگار کی پہلی حاضری تھی۔ چار غزلوں کی سیریز ''حرم سے واپسی پر‘‘ اسی عمرے کی دَین ہے!؎ میں تھا قلّاش یا زردار جو بھی تھا وہیں تھا کہ میرا اندک و بسیار جو بھی تھا وہیں تھا وہیں تھا ایک پتھر جس پہ تفصیلِ سفر تھی یہ رستہ سہل یا دشوار جو بھی تھا وہیں تھا وہیں میزان تھی، اوزان لکھے جا رہے تھے اثاثہ کاہ یا کہسار جو بھی تھا وہیں تھا وہیں مٹی مری اظہارؔ گوندھی جا رہی تھی ازل کا اولیں دربار جو بھی تھا وہیں تھا ترکی میں دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی سفیر کے ہاں مدعو تھے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں ایسی بات کہہ دی جس سے کمال اتاترک کی قائداعظمؒ پر برتری کا پہلو نکلتا تھا۔ عبداللہ صاحب کہاں درگزر کرنے والے تھے۔ بحث چھڑی اور ایسی کہ عبداللہ صاحب نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ انداز ان کا تربیت دینے کا خطرناک تھا۔ بیرون ملک مختلف اداروں کے ہاں اجلاس ہوتے تھے۔ زیر تربیت افسر کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کب اسے دعوتِ مبارزت دی جائے گی! جس دن استانبول چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ میٹنگ تھی، اچانک عبداللہ صاحب نے اٹھ کر کہا: ‏Mr. Izhar has been midwifing many commercial organization. He will wind up the meeting. تقریر کیا کرنا تھی۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر بات کی اور قصّہ وسط ایشیا سے شروع کیا۔ اس وقت سوویت یونین کے خاتمے کا کوئی سین نہیں تھا۔ تقریر کے بعد خالد عزیز نے‘ جو پشاور کے کمشنر تھے، خراجِ تحسین یہ کہہ کر پیش کیا کہ ہم سے افغانستان کے مہاجر نہیں سنبھالے جا رہے۔ اظہار! تم وسط ایشیا سے بھی مہاجر منگوانے کے چکر میں ہو! عبداللہ صاحب مذہبی امور کے وفاقی سیکرٹری رہے۔ پھر کے پی صوبے کے چیف سیکرٹری! اور اگر میں بھول نہیں رہا تو صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین بھی! مگر یہ سب کچھ جملۂ معترضہ تھا۔ اصل بات جو بتانا ہے وہ فقرہ ہے جو عبداللہ صاحب نے اپنے والد گرامی کی وفات کی خبر سن کر کہا۔ بتاتے ہیں کہ جدہ میں تعینات تھے۔ والد کی رحلت کا تار پہنچا۔ درماندگی کی کیفیت میں دھڑام سے بیٹھ گئے۔ غیر ارادی طور پر منّہ سے نکلا: ‏The World Is No More The Same . کہ دنیا اب کبھی ویسی نہ ہو گی جیسی تھی! ہر شخص پر انفرادی طور سے یہ وقت آتا ہے۔ کوئی ایسا واقعہ، ایسا حادثہ، ایسا سانحہ پیش آتا ہے کہ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ زندگی ایک موڑ مڑتی ہے اور منظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوئی تو کچھ دن بعد ہم میاں بیوی، بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔ اہلیہ نے ایک فقرہ کہا ''اب وہ دن کبھی نہیں لوٹیں گے‘‘ دل میں پیوست ہو گیا۔ کسی کی ماں، کسی کا باپ، کسی کا لخت جگر چلا جائے، کوئی ٹانگ یا بازو سے محروم ہو جائے۔ کوئی صبح اٹھے اور اس کا ملک، ایک اور ملک بنا بیٹھا ہو، کوئی جلا وطن ہو جائے، ان سب صورتوں میں دنیا پہلے جیسی نہیں رہتی مگر صرف اس ایک شخص کے لیے! یہ سب انفرادی سانحے ہیں۔ پہلی بار یہ ہوا ہے کہ کرۂ ارض کے ایک ایک فرد کے لیے دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! عالمی جنگیں آئیں تو بہت سے ملک متاثر ہوئے مگر سارے نہیں! نائن الیون کے بعد یہ فقرہ بہت کہا گیا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی مگر کورونا نے نائن الیون کو جیسے صدیوں پیچھے چھوڑ دیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے کچھ بدقسمت ملک نشانہ بنے۔ دہشت گردی کے واقعات کثیرتعداد میں رونما ہوئے مگر بہت سے ملک بالکل متاثرنہ ہوئے جیسے جنوبی امریکہ کے ممالک، جیسے مشرق بعید کے اکثر علاقے! ایئرپورٹوں پر سب کچھ بدل گیا۔ جوتے، کپڑے اتروانے کا رواج پڑا مگر دنیا کی کل آبادی کا کتنا حصّہ ہوائی سفر کرتا ہے؟ اعدادوشمار پانچ فیصدسے لے کر بیس فیصد تک ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں! کچھ اندازے پچاس فیصد تک پہنچتے ہیں مگر یہ سراسر مغالطہ ہے کیونکہ کچھ افراد باربار ہوائی سفر کرتے ہیں۔ ایک ہفتے یا ایک مہینے میں کئی باراور اکثر ساری زندگی ایک بار بھی نہیں کرتے! یوں نائن الیون کے حوالے سے یہ کہنا کہ دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، مبالغہ کے سوا کچھ نہیں! دنیا عملی طورپر لاک ڈائون ہے! کسی کوخبر ہے نہ اندازہ کہ یہ صورتحال کب تک رہتی ہے۔ چھ ماہ! ایک برس! دو برس! یا اس سے بھی زیادہ! ویکسین کب بنتی ہے؟ بن گئی تو کتنوں تک پہنچے گی؟ کتنے ملک اور کتنے لوگ اسے حاصل کرنے کی استطاعت رکھیں گے؟ کتنی مقدار میں بنے گی؟ ہر متاثرہ فرد تک پہنچ بھی پائے گی یا نہیں؟ حکومتوں کی ترجیحات یکسر بدل گئی ہیں۔ اب گاڑیوں، جہازوں، اسلحہ، ملبوسات اور مشینری کی باتیں نہیں ہو رہیں، اب یہ طے کیا جارہا ہے کہ وینٹی لیٹر کتنے بنانے ہیں؟ کتنے درآمد کرنے ہیں؟ ماسک کیسے پورے پڑیں؟ گھروں میں بیٹھے ہوئوں کو ضروریات زندگی کیسے فراہم کی جائیں؟ قرنطینوں کی بڑھتی ہوئی طلب سے کیسے نمٹا جائے؟ پاکستان جیسے ملکوں میں حکومتوں کو صرف کورونا سے نہیں، ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے جو الٰہیات کی من مانی تعبیر کرکے مشکلات پیدا کرتے اور خطرات بڑھانے کا باعث بنتے ہیں! کلاس روموں میں حاضری خواب و خیال ہوگئی ہے۔ کچھ طلبہ وطالبات آن لائن پڑھائی پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ باقی کیلئے بھی صورتیں نکل آئیں گی! گھر میں بیٹھ کر کمپنی کیلئے کام کرنے کا کلچر پہلے سے محدود تعداد میں موجود ہے۔ گوگل جیسے عظیم الجثہ اداروں کے ملازمین کو یہ سہولت ابتدا ہی سے حاصل تھی۔ اب یہ طریقہ عام کرنا پڑے گا۔ یہ ابتلا اگر چھ ماہ یا سال یا دو سال رہتی ہے تو کاروبارِ دنیا ٹھپ نہیں ہو سکتا۔ نئے طریقے دریافت ہوں گے۔ اس لیے کہ زندگی پانی کی مثال ہے۔ جیسا راستہ ہو، ویسا جسم بنا لیتی ہے۔ میدان میں دریا پھیل جاتا ہے۔ پہاڑی راستہ ہو تو اپنے آپ کو تنگ گزر گاہوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے؎ بدلتے جا رہے تھے جسم اپنی ہیئتیں بھی کہ رستہ تنگ تھا اور یوں کہ اس میں خم بہت تھا دنیا پہلے جیسی نہیں رہی! پہلے شہروں کے محاصرے ہوتے تھے۔ آج پوری دنیا محصور ہے! وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنo ابھی تو وہ کچھ ہو گا جس کا تصوّر ہی محال ہے! Email ThisBlogThis!Share to TwitterShare to Facebook 0 comments Newer Posts Older Posts Home Subscribe to: Posts (Atom) Search Columns izharulhaq.net on Facebook Previous Columns ► 2022 (134) ► December (2) ► November (13) ► October (12) ► September (12) ► August (13) ► July (10) ► June (11) ► May (11) ► April (12) ► March (14) ► February (12) ► January (12) ► 2021 (150) ► December (12) ► November (13) ► October (13) ► September (13) ► August (14) ► July (12) ► June (14) ► May (11) ► April (12) ► March (14) ► February (11) ► January (11) ▼ 2020 (139) ► December (11) ► November (12) ► October (12) ► September (10) ► August (12) ► July (11) ► June (14) ► May (9) ▼ April (13) سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے کیا خلیج میں بھارت کے چہرے سے نقاب اُترنے کو ہے؟ ایک عقیدت مند کی گزارش وبا کے دنوں میں ٹرالی بیگ کی یاد علماء کرام اور مفتیانِ عظام کی خدمت میں ادب کے ساتھ صدر اور وزیراعظم کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہمارے ملک کی انفرادیت قائم رہنی چاہئے گریبان تو ہماری قمیضوں میں بھی لگے ہیں کورونا کی جنگ… پانچ رکاوٹیں پارلیمانی طرزِ حکومت میں تو یہی کچھ ہوگا بیچارہ ‘ ناکام ! شکست خوردہ مبارک ہو جناب وزیراعلیٰ، مبارک ہو The World is no more the Same ► March (12) ► February (12) ► January (11) ► 2019 (187) ► December (12) ► November (15) ► October (15) ► September (16) ► August (15) ► July (16) ► June (17) ► May (17) ► April (16) ► March (16) ► February (14) ► January (18) ► 2018 (171) ► December (15) ► November (11) ► October (17) ► September (16) ► August (15) ► July (18) ► June (15) ► May (16) ► April (9) ► March (8) ► February (14) ► January (17) ► 2017 (165) ► December (18) ► November (13) ► October (16) ► September (10) ► August (13) ► July (15) ► June (16) ► May (19) ► April (12) ► March (4) ► February (14) ► January (15) ► 2016 (195) ► December (18) ► November (14) ► October (17) ► September (15) ► August (18) ► July (15) ► June (16) ► May (17) ► April (18) ► March (15) ► February (17) ► January (15) ► 2015 (177) ► December (16) ► November (16) ► October (14) ► September (12) ► August (18) ► July (15) ► June (14) ► May (12) ► April (15) ► March (16) ► February (14) ► January (15) ► 2014 (180) ► December (8) ► November (13) ► October (16) ► September (18) ► August (17) ► July (14) ► June (15) ► May (16) ► April (15) ► March (17) ► February (14) ► January (17) ► 2013 (178) ► December (15) ► November (16) ► October (12) ► September (13) ► August (13) ► July (15) ► June (13) ► May (15) ► April (17) ► March (16) ► February (15) ► January (18) ► 2012 (103) ► December (15) ► November (18) ► October (17) ► September (19) ► August (3) ► July (4) ► June (3) ► May (5) ► April (4) ► March (6) ► February (5) ► January (4) ► 2011 (54) ► December (3) ► November (4) ► October (4) ► September (4) ► August (5) ► July (4) ► June (6) ► May (5) ► April (5) ► March (5) ► February (5) ► January (4) ► 2010 (77) ► December (4) ► November (8) ► October (8) ► September (4) ► August (7) ► July (5) ► June (5) ► May (4) ► April (8) ► March (7) ► February (9) ► January (8) ► 2009 (85) ► December (8) ► November (7) ► October (9) ► September (6) ► August (4) ► July (9) ► June (10) ► May (10) ► April (9) ► March (6) ► February (4) ► January (3) ► 2008 (10) ► December (3) ► November (2) ► October (3) ► July (2) Subscribe To Posts Atom Posts All Comments Atom All Comments Some Popular Columns فرانس سے ایک خط بہت سے دوسرے مسلمان خاندانوں کے ساتھ میں بھی ہجرت کر کے فرانس آئی تھی۔یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے میں نے اور میرے شو... کراچی کے گڈریے اگر یہ سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا! کراچی کی طرح سنگاپور میں بھی کئی زبانیں بولنے والے اور کئی قومیتیں رکھنے والے... اسے مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائینگے ایک چھوٹی سی خبر.... کسی نے دیکھی کسی نے نہیں.... لیکن اگر ذہن کھلا ہو اور نیت صاف ہو تو یہ چھوٹی سی خبر ہی بیماری کی تشخیص بھی ہے اور عل... خضاب کے رنگ دھنک پر میں نے اخبار میں پڑھا تو یقین آیا اور اطمینان ہوا کہ اللہ کے دین کے سپاہی سو نہیں رہے ،جاگ رہے ہیں۔ حضرت مولانا نے جو وفاق المدارس کے ناظم... فال اور اُلّو اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا... پانچ بیماریاں وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا‘ سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ کار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا مش... عبا پوش ائرپورٹ کی پارکنگ میں جیسے ہی داخل ہوئے دو آدمیوں نے روک لیا۔میرے دوستوں کا خیال تھا کہ انہوں نے بندوقیں تانی ہوئی ہیں جب کہ میرا خیال یہ ت... بچّہ جو خواجہ سرائوں کے گھر پیدا ہئوا وہ تو بھلا ہو متقی اور متشرع حافظ سعید صاحب کا جنہوں نے یہ بات کہی۔ ورنہ ہم جیسے گنہگار تو کب سے شور مچا رہے تھے۔ بقول ناصرکاظمی.... ... نو بار پیسا‘ دس بار چھانا قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واپس آئینگے یا نہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کارناموں کے پیش نظر پاکستان کا رخ کرنے کی ہ... عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں یہ دانشوروں کا اجتماع تھا۔ سیکورٹی سخت تھی۔ سکینر لگے ہوئے تھے۔ صرف تین ملکوں کے دانشور اندر آ سکتے تھے۔ مجھے اپنا حُلیہ بدلنا پڑا۔ واسکٹ پہ...
چین کی طرف سے پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ضروری امداد جاری رکھنے کا اعلان ،چینی وزارت خارجہ Choose language Choose a language Chinese Simplified Chinese Traditional Albanian Arabic Belarusian Bengali Bulgarian Cambodian Croatian Czech English Esperanto Filipino French German Greek Hausa Hebrew Hindi Hungarian Indonesian Italian Japanese Korean Laos Malay Mongol Myanmar Nepal Persian Polish Portuguese Pushtu Romanian Russian Serbian Sinhalese Spanish Swahili Tamil Thai Turkish Ukrainian Urdu Vietnamese ہوم چین پاکستان دنیا ریڈیو ویڈیوز تبصرہ ایزی چائینیز میرا چین چین کی طرف سے پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ضروری امداد جاری رکھنے کا اعلان ،چینی وزارت خارجہ 2022/09/01 16:59:59 شیئر: یکم ستمبر کو چینی وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس میں ایک نامہ نگار کے پوچھے جانے پر کہ 30 تاریخ کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نےکہا کہ پاکستان کو سیلاب کے حوالے سے امدادی سامان فراہم کرنے پر چین کا شکریہ۔ کیا چین پاکستان کو اپنی امداد کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر سکتا ہے؟ ترجمان وانگ وین بین نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب آنے کے بعد سے چین نےسیلابی صورت حال پر بھرپور توجہ دی ہے، فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کی ہے۔ اسی دن چینی صدر شی جن پھنگ نے پاکستانی صدر کو فون کر کے پاکستان میں سیلاب کے شدید نقصانات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ہر موسم کےاسٹریجک تعاون کے ساتھی اور "آہنی " دوستوں کی حیثیت سے، چین اور پاکستان ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔چین پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ضروری امداد فراہم کرتا رہے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایپل کی مصنوعات کے دانت بہت خوشگوار ہیں ایپل کی مصنوعات کے لئے ایک پوری کالی مارکیٹ ہے جس کے ذریعے آپ بہتر طور پر گزر نہیں جاتے ہیں. صارفین سے چوری شدہ مصنوعات ، تقسیم کاروں سے چوری شدہ مصنوعات وغیرہ۔ اور اسی اثنا میں لوگوں کو چوری شدہ مصنوعات کی مالیت سے مالا مال ہو رہا ہے ... تازہ ترین ، ایمیزون کے گوداموں میں ایپل کی مصنوعات کی چوری ، کیا آپ کو یاد ہے کہ ایمیزون نے ابھی ہی کیپرٹینو مصنوعات فروخت کرنا شروع کردی ہے؟ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ لڑکے خود تھے ایمیزون جنھوں نے مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز اور اے کے افراد کی لاشوں کو آگاہ کیا چوری جو ان کے ڈیلاویئر گوداموں میں ہوتی، اور ہمارے لئے اہم بات یہ ہے کہ یہ چوری ہے سیب کی مصنوعات. چھلانگ کے بعد ہم آپ کو اس بدمعاش ڈکیتی کے بارے میں سب بتاتے ہیں ... یہ پچھلے جمعرات کو ہوا ، ایمیزون سے آنے والے لڑکوں نے ڈیلاویر میں ایمیزون کے گوداموں میں اپنے پاس موجود ایپل اسٹاک کے ایک بڑے حصے کی گمشدگی کے بارے میں مڈلیٹاون پولیس کو آگاہ کیا ہوگا۔ ایسی مصنوعات جن کی ایک ساتھ قیمت $ 100.000،XNUMX سے زیادہ ہوگی. کس نے ان مصنوعات کو غائب کردیا ہے؟ ٹھیک ہے ، ہاں ، اس بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ اس گودام کے کچھ ملازمین بھی ، چوری کے پیچھے بھی ہوں گے ان ملازمین کے نام لیک ہوگئے ہیں: تایاشہ بٹلر ، تنیشہ پنکیٹ ، آئزک فرانسس ، اور شادریہ بیل۔ اور مذاق مہنگا پڑسکتا ہے ، ان ملازمین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جرمانے جو دوسری ڈگری میں چوری شدہ اور یہاں تک کہ سازش کے کچھ الزامات کی قیمت تک پہنچ سکتے ہیں (اگر میں پہلے ہی جانتا ہوں کہ سازشی چیز بہت ہی فلمی ہے)۔ آپ میں سے بہت سے سوچیں گے: یقینا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ایمیزون کے پاس ایپل کی مصنوعات اسٹاک میں ہیں۔ لیکن ظاہر نہیں ، آخر یہ حادثات لوگوں کا نتیجہ ہیں ، ہم ہمیشہ اس قسم کی خبریں پڑھتے ہیں اور یہ کسی بڑی ڈکیتی کی پہلی خبر نہیں ہے۔ ہم Cupertino مصنوعات سے متعلق تمام پریس پروگراموں سے بہت آگاہ رہیں گے ، ہمیں بور نہیں ہوگا ... مضمون کا مواد ہمارے اصولوں پر کاربند ہے ادارتی اخلاقیات. غلطی کی اطلاع دینے کے لئے کلک کریں یہاں. مضمون کے لئے مکمل راستہ: آئی فون کی خبریں » ایپل کی مصنوعات » ایمیزون کے گوداموں سے چوری شدہ ایپل کے مال کی مالیت Apple 100،XNUMX سے زیادہ ہے آپ کو دلچسپی ہو سکتی ہے تبصرہ کرنے والا پہلا ہونا اپنی رائے دیں جواب منسوخ کریں آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت ہے شعبوں نشان لگا دیا گیا رہے ہیں کے ساتھ * تبصرہ * نام * الیکٹرانک میل * میں قبول کرتا ہوں رازداری کی شرائط * ڈیٹا کے لیے ذمہ دار: AB انٹرنیٹ نیٹ ورکس 2008 SL ڈیٹا کا مقصد: اسپیم کنٹرول ، تبصرے کا انتظام۔ قانون سازی: آپ کی رضامندی ڈیٹا کا مواصلت: اعداد و شمار کو تیسری پارٹی کو نہیں بتایا جائے گا سوائے قانونی ذمہ داری کے۔ ڈیٹا اسٹوریج: اوکیسٹس نیٹ ورکس (EU) کے میزبان ڈیٹا بیس حقوق: کسی بھی وقت آپ اپنی معلومات کو محدود ، بازیافت اور حذف کرسکتے ہیں۔ میں نیوز لیٹر وصول کرنا چاہتا ہوں NOMAD بیس اسٹیشن کا تجزیہ ، وائرلیس چارجر جو کمال کی حدود میں ہے یہ رینڈر تازہ ترین آئی فون الیون اور آئی فون الیون میکس لیک کو ظاہر کرتا ہے آپ کے ای میل میں خبریں اپنے ای میل میں تازہ ترین آئی فون کی خبریں حاصل کریں نام دوستوں کوارسال کریں روزانہ نیوز لیٹر ہفتہ وار نیوز لیٹر میں قانونی شرائط کو قبول کرتا ہوں ↑ فیس بک ٹویٹر یو ٹیوب Pinterest پر تار ای میل RSS آر ایس ایس فیڈ میں میک سے ہوں ایپل گائیڈز Android مدد Androidsis۔ Android گائڈز تمام اینڈرائیڈ گیجٹ کی خبریں موبائل فورم ٹیبلٹ زون۔ ونڈوز نیوز لائف بائٹس تخلیقات آن لائن تمام ای آرڈرز مفت ہارڈ ویئر لینکس لت یوبنلوگ لینکس سے واہ گائڈز دھوکہ دہی ڈاؤن لوڈ موٹر نیوز بیزیا Spanish Afrikaans Albanian Amharic Arabic Armenian Azerbaijani Basque Belarusian Bengali Bosnian Bulgarian Catalan Cebuano Chichewa Chinese (Simplified) Chinese (Traditional) Corsican Croatian Czech Danish Dutch English Esperanto Estonian Filipino Finnish French Frisian Galician Georgian German Greek Gujarati Haitian Creole Hausa Hawaiian Hebrew Hindi Hmong Hungarian Icelandic Igbo Indonesian Irish Italian Japanese Javanese Kannada Kazakh Khmer Korean Kurdish (Kurmanji) Kyrgyz Lao Latin Latvian Lithuanian Luxembourgish Macedonian Malagasy Malay Malayalam Maltese Maori Marathi Mongolian Myanmar (Burmese) Nepali Norwegian Pashto Persian Polish Portuguese Punjabi Romanian Russian Samoan Scottish Gaelic Shona Serbian Sesotho Sindhi Sinhala Slovak Slovenian Somali Spanish Sudanese Swahili Swedish Tajik Tamil Telugu Thai Turkish Ukrainian Urdu Uzbek Vietnamese Welsh Xhosa Yiddish Yoruba Zulu
صفحہ اول پاکستان آس پاس عالم اسلام دنیا کشمیر سائنس کھیل ثقافت کالم دلچسپ و عجیب فیچر اور تجزئیے مبصر اسپیشل آرکائیو ☰ مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوجیوں کی ریاستی دہشتگردی، مزید دو نوجوان شہید متحدہ اپوزیشن کا علامتی اجلاس، حمزہ شہباز وزیراعلیٰ منتخب یومِ ارض پر گوگل نے پھولدار وال پیپر پیش کردیئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، چیف جسٹس قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سندھ اسمبلی میں مذمتی قرار داد منظور آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی ادائیگی کی منظوری دے دی وقت اشاعت: Monday, 29 August, 2022 21:40 PST اسلام آباد - عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو قرض کی ادائیگی سے متعلق پروگرام کی منطوری دے دی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانے والی منظوری سے متعلق کہا کہ ’آئی ایم ایف بورڈ نے ہمارے ای ایف ایف پروگرام کے تجدید کی منظوری دے دی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کو 1.17 ارب ڈالر کی 7 ویں اور 8 ویں قسط ملے گی۔ مفتاح اسماعیل نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے سخت فیصلے کیے۔ آخر میں مفتاح اسماعیل نے قوم کو مبارکباد بھی دی۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان کو قرض کی ادائیگی سے متعلق پروگرام کی منطوری کی تصدیق کی اور کہا کہ پاکستان تحریک اںصاف کی دغا بازی کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان پروگرام منظور کرلیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کسی بھی خبر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر [email protected] پر ای میل کر سکتے ہیں۔ ادارہ اپنا تبصرہ دینے کے لیے نیچے فارم پر کریں نام ای میل تبصرہ 52132 کوڈ متعلقہ خبریں آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے دھچکا پہنچا، تحریک انصاف پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس سے دھچکا پہنچا، ہم اداروں کی نیوز کانفرنس کا جواب نہیں دے سکتے۔ لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں اسد عمر، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیری مزاری لانگ مارچ کا اعلان جمعرات یا جمعہ کو کروں گا، عمران خان چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہےکہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا، آئندہ ہفتے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردوں گا۔ اسلام آباد میں سینیٹر اعظم سواتی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا خوشخبری: فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا۔فیٹف کا 2 روزہ اجلاس پیرس میں ہوا جس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کا جائزہ لیا گیا۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کیلئے غیرملکی فنڈنگ کا حصول آسان ہو جائے گا۔ فوج میں عمران کے بیان پر غم و غصہ ہے، آئی ایس پی آر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کی سینئر قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش افسوسناک ہے۔ مقبول ترین جنرل عاصم منیر پاکستان کے نئے آرمی چیف مقرر صدر مملکت عارف علوی نے اہم تقرریوں سے متعلق سمری پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف اور جنرل ساحر شمشاد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر ہوگئے ہیں۔ صحافی ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا، تدفین کر دی گئی سینئر صحافی اور اینکرپرسن ارشد شریف کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ادا کردی گئی ۔ نماز جنازہ خطیب فیصل مسجد پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد الیاس نے پڑھائی، سیاسی، سماجی رہنمائوں، صحافی برادری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ارشد شریف کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظر عام پر آگئی سینئر صحافی ارشد شریف کی موت گولیاں لگنے کے بعد دس سے تیس منٹ کے اندر واقع ہوئی۔ ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ سامنے آگئی، ارشد شریف کی لاش کا اندرونی و بیرونی تفصیلی معائنہ کیا گیا، ارشد شریف کے جسم کے مختلف اعضا کے نمونے لئے گئے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے دھچکا پہنچا، تحریک انصاف پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس سے دھچکا پہنچا، ہم اداروں کی نیوز کانفرنس کا جواب نہیں دے سکتے۔ لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں اسد عمر، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیری مزاری
نئی دہلی (ایجنسیاں) : مذہب، ملک اور زبان پیار میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتے، یہ کہاوت ایک بار پھر صحیح ثابت ہوئی۔ افریقی ملک مراقش کی مسلم لڑکی کو اپنے ملک سے 8ہزار کلو میٹر دور گوالیار کے ہندو لڑکے سے پیار ہوگیا۔ لڑکی نے پیار کی خاطر اپنا ملک چھوڑ دیا۔ لڑکے نے بھی لڑکی کے والد کو بھروسہ دلایا کہ وہ اس کا مذہب کبھی تبدیل نہیں کرائے گا۔ دونوں اپنے اپنے مذہب- کلچرپر عمل کرتے ہوئے میاں بیوی بنے رہیں گے۔ اس کے بعد مراقش کی مسلم لڑکی نے اور گوالیارکے ہندو لڑکے نے بدھ کو اے ڈی ایم کورٹ میں شادی کرلی۔ کچھ دنوں میں دونوں ہندو رسم وراج سے بھی شادی کریں گے اور کووڈ کے بعد ریسپشن بھی دیں گے۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS TAGS Covid19 Education Muslim Girl Religion Facebook Twitter Telegram WhatsApp Email Print Previous articleمہاراشٹر میں24 جنوری سے کھلیں گے تمام اسکول Next articleپارلیمنٹ کی نئی عمارت،لاگت میں29 فیصد کا اضافہ SNB Web Team RELATED ARTICLESMORE FROM AUTHOR عبدالعزیز: مسلمان اور تعلیمی منصوبہ بندی راجستھان کے سیاسی گھماسان پر راہل کا بڑا بیان، گہلوت پائلٹ دونوں ہمارے لے قابل قدر لیونل میسی کے 2گول نے میکسیکو کو شکست دے کرسپر16میں پہنچنے کی اپنی امید برقرار رکھی advertisement Take your live gaming experience to the next level and play online roulette at PureWin where, thanks to its secure payment methods, Pure Win players are assured that they can play roulette online for real money with ease. Recent Posts شاہد زبیری : پھر ایک متنازع فیصلہ: ائمہ مساجد کی تنخواہوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف مرکزی انفارمیشن کمشنر کا فیصلہ
(زیر نظر مکتوب کی اشاعت سے مقصود زیر بحث مسئلے پر کسی کلامی مناقشے کی دعوت دینا نہیں، بلکہ محض علمی مسائل میں اختلافی تعبیرات کے حوالے سے وسعت نظرکے پہلو کو اجاگر کرنا ہے۔ مدیر) مکرمی ومحترمی حضرت مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی صاحب دامت مکارمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عذاب قبر کے متعلق آنجناب کا محققانہ مضمون عرصہ سے آیا ہوا ہے، مگر مطالعہ کا موقع نہ مل رہا تھا۔ حال میں اس کا حرفاً حرفاً مطالعہ کیا۔ ماشاء اللہ بہت مفید مضمون ہے۔ احقر کو بہت فائدہ ہوا، البتہ اس کے مطالعہ سے احقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب عذاب قبر کے علی الاطلاق منکر نہیں بلکہ برزخ میں روح کے عذاب وثواب کے قائل ہیں۔ جسد عنصری کے ساتھ روح کے عذاب وثواب کے قائل نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ عالم برزخ کا عذاب اجسام مثالیہ کی وساطت سے روح پر وارد ہوتا ہے۔ یہ بات اگرچہ جمہور اہل سنت کے مسلک کے خلاف ہے، لیکن کسی نص صریح کے بھی خلاف ہے؟ یہ بات اس مضمون سے ثابت نہیں ہوتی۔ پھر مولانا موصوف کا یہ قول بھی آنجناب نے نقل فرمایا ہے کہ عالم برزخ میں تعلق روح بابدان عنصریہ کے بارے میں سکوت سب سے احوط مسلک ہے، کیونکہ قرون مشہود لہا بالخیر میں تعلق کا کوئی ذکر اذکار نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسد عنصری کے ساتھ روح پر عذاب کی نفی پر بھی ان کو اصرار نہیں، ہاں اثبات کے دلائل سے بھی وہ مطمئن نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس مضمون کے پڑھنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کا مسلک اتنا غلط اور بے بنیاد نہیں جتنا کہ یہ سننے سے سمجھا تھا کہ ’’وہ عذاب قبر کے منکر ہیں۔‘‘ بہرحال ان کا مسلک علماء دیوبند اور جمہور سے مختلف ضرور ہے۔ اگر قرآن کریم یا سنت کی کوئی نص صریح صحیح ان کے مسلک کے ابطال پر آنجناب کے علم میں آئی ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ یہ سطور بہت عجلت میں حوالہ قلم کی ہیں۔ فرو گذاشت درگزر فرما کر ممنون فرمائیں۔ دعا کی درخواست ہے۔ (مولانا مفتی) محمد رفیع عثمانی (بشکریہ مجلہ ’’الحقانیہ‘‘ ساہیوال، ستمبر ۲۰۱۰ء) (۲) محترم ومکرم حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب مدظلہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں اور دینی خدمات صدق واخلاص کے ساتھ ترقی پذیر ہوں۔ آمین یہ عریضہ ایک ضروری امر کی طرف توجہ مبذول کرانے کی خاطر آنجناب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۱۰ء کے شمارے میں حکیم ظل الرحمن صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’فتاویٰ کے اجراء میں احتیاط کی ضرورت‘‘ شائع ہوا ہے جس میں موصوف نے حضرت والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ایک موقعہ پر طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں اہل حدیث کے مسلک پر تحریری فتویٰ دینا منسوب کیا ہے۔ بندے کے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تحقیق کے بغیر لکھی گئی ہے۔ ان سے پوچھنا بھی چاہیے ان کی اس حکایت کا ماخذ کیا ہے؟ نیز مسئلے کی حساس نوعیت کے پیش نظر آنجناب سے موصوف کو اس پر متنبہ فرمانے کی درخواست ہے کہ ایسے حساس مسائل پر بلا تحقیق قلم اٹھانے سے گریز فرمائیں۔ نیز چونکہ اس قسم کے مسائل پر تبصرہ یا گفتگو جب عوام تک پہنچتی ہے تووہ اکثر الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور بات کو اس کے سیاق سے ہٹ کر سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لیے بندے کا نہایت ادب کے ساتھ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ ایسے مضامین کو ’’الشریعہ‘‘ میں شامل نہ کیا جائے، نیز اگلے شمارے میں ذکر کردہ واقعہ کے بارے میں وضاحت شائع فرمانے کی بھی درخواست ہے۔ امید ہے کہ ان مودبانہ گزارشات پر جناب والا ضرور توجہ فرمائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آنجناب کی دینی خدمات میں ترقی عطا فرمائیں۔ آمین۔ بندے کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد فرمانے کی درخواست ہے۔ بندہ محمد تقی عثمانی جامعہ دار العلوم کراچی (۳) محترم عمار خان ناصر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الشریعہ اگست ۲۰۱۰ء میں آپ کا دلچسپ اورمعلومات افزا سفرنامہ لبنان ’’حزب اللہ کے دیس میں‘‘ نظر سے گزرا جس میں آپ نے اہل تشیع کے حوالے سے عمدہ معلومات فراہم کی ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے بیان کو مزید مفصل فرمائیں جس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ اس میں آپ نے ایک جگہ مولانا مودودیؒ سے یہ بات منسوب کی ہے کہ ’’غالباً مولانا مودودی نے کسی مغربی ملک کے سفر سے واپسی پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ وہاں کی ہر چیز پھیکی ہے، یہاں تک کہ عورتیں بھی۔‘‘ دست بستہ عرض ہے کہ مولانا سے اس کا انتساب درست نہیں۔ خود آپ نے یہ بات ’’غالباً‘‘ سے شروع کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا یقین نہیں کہ بات مولانا نے کہی ہے۔ اسی ’’غالباً‘‘ سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے۔ ویسے بھی یہ بات بے معنی ہے۔ مغرب کی ہر چیز پھیکی نہیں ہے او رعورتوں کا پھیکا ہونا ان سے لطف اندوز ہونے والا ہی بیان کر سکا ہے جبکہ مولانا دو دفعہ بیماری کی حالت میں وہاں گئے اور وہ وہاں پاکستانی کھانا ہی کھاتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ جس بات کا یقین نہ ہو تو اس کو مجہول کر دینا زیادہ مناسب ہے تاکہ اللہ کی پکڑ سے بچا جا سکے، جیسے کہ ایک عالم نے یا اہل علم نے یا اہل دین نے یہ فرمایا۔ شمس الرحمن نزد اسلامیہ کالج، کراچی مکاتیب (اکتوبر ۲۰۱۰ء) اکتوبر ۲۰۱۰ء جلد ۲۱ ۔ شمارہ ۱۰ چند بزرگ اہل علم کا سانحہ وفات مولانا ابوعمار زاہد الراشدی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ محمد عمار خان ناصر کیا اب اسلام جیت نہیں سکتا؟ مولانا مفتی محمد زاہد القاعدہ، طالبان اور موجودہ افغان جنگ ۔ ایک علمی و تجزیاتی مباحثہ محمد عمار خان ناصر مکاتیب ادارہ ’’نقد فراہی‘‘ ادارہ گلے کے کینسر کا ایک اچھوتا نسخہ حکیم محمد عمران مغل تلاش کریں الشریعہ اکادمی الشریعہ اکادمی ماہنامہ الشریعہ گزشتہ شمارے مقالات و مضامین رابطہ گزشتہ شمارے 1989 1990 1994 1995 1996 1997 1998 1999 2000 2001 2002 2003 2004 2005 2006 2007 2008 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 2019 2020 2021 2022
میں جدہ میں رہتی ہوں ۔ میرے شوہر یہاں ملازمت کرتے ہیں ۔کچھ دنوں پہلے ہم نے عمرہ کیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ امسال حج بھی کرلیں ۔لیکن یہاں بعض لوگوں نے اس سے منع کیا ۔ وہ کہتےہیں کہ مکہ مکرمہ سے قریب رہنے والے اگر عمرہ کرلیں توانہیں اس سال حج نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ انہیں حج تمتع کرنے سے روکا گیا ہے۔کیا یہ بات صحیح ہے؟ جواب حج کی تین صورتیں ہیں  اول یہ کہ آدمی صرف حج کرے۔اسے حجِ افراد کہتے ہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی احرام باندھنے کے بعد عمرہ بھی کرے،اسے حجِ قران کہتے ہیں ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے،پھر جب حج کا زمانہ آئے تو دوبارہ احرام باندھے، اسے حج تمتّع کہتے ہیں ۔ اس صورت میں حاجیوں کے لیے سہولت ہے، اس لیے وہ عموماً اس کو اختیارکرتے ہیں ۔ حج تمتع کرنے والے پرقربانی واجب ہوتی ہے، یا دس روزے،جن میں تین دوران حج اورسات وطن واپس آنے کے بعد رکھے جائیں گے۔ حج تمتّع کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ (البقرۃ۱۹۶) ’’توجو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدورقربانی دے اور اگر قربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں ۔‘‘ اس آیت میں دراصل عربوں کے ایک عام خیال کی تردید کی گئی ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرنا درست نہیں ہے۔دونوں اعمال تقرب میں سے ہیں ، اس لیے انہیں الگ الگ انجام دینا چاہیے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ’’عرب جاہلیت میں یہ خیال کیاجاتا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اورعمرہ دونوں ادا کرنا گناہ عظیم ہے۔ ان کی خودساختہ شریعت میں عمرے کے لیے الگ اورحج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اڑادیا اورباہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرلیں ۔ البتہ جو لوگ مکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا،کیوں کہ ان کے لیے عمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرکے احرام کھول لے اوران پابندیوں سے آزادہوجائے جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں ۔ پھر جب حج کے دن آئیں تو ازسرنو احرام باندھ لے۔‘‘ (تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،۲۰۱۵ء،۱؍۱۵۵) آیت بالا میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حج تمتع کی سہولت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو حدودِ میقات کے باہر رہتے ہیں ۔ یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو لوگ حدودِ میقات کے اندر رہتے ہیں وہ ایک سال میں عمرہ اورحج الگ الگ نہیں کرسکتے۔ علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے ’’جمہورعلما نے کہا ہے کہ جو شخص حج کے مہینوں یعنی (شوال،ذی قعدہ اور ذی الحجہ) میں عمرہ کرے، پھر اپنے علاقے اور گھر کی طرف لوٹ جائے، پھر وہ اسی سال حج کرے، تو وہ متمتع (حج تمتع کرنے والا) نہیں ہوگا۔ نہ اس پرقربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمہ روزے لازم ہوں گے۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن موسستہ الرسالۃ بیروت، ۲۰۰۶ء ۳؍۳۰۷) اس سے معلوم ہوا کہ حدودمیقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ اگر وہ عمرہ کرلیں تو اس سال وہ حج نہیں کرسکتے۔ مولانا محمد رضی الاسلام ندوی Leave a Comment جواب منسوخ کریں Comment Name Email Website اس براؤزر میں میرا نام، ای میل، اور ویب سائٹ محفوظ رکھیں اگلی بار جب میں تبصرہ کرنے کےلیے۔ فتوی پوچھیں اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے، جس کا فقہی حل معلوم کرنا چاہتے ہیں، تو نیچے دیے گئے فارم کے ذریعے آپ بھی سوال پوچھ سکتے ہیں۔ آپ کا نام اور شناخت مخفی رکھی جائے گی۔ Please enable JavaScript in your browser to complete this form. نام * آپ کا سوال یا استفسار * سوال بھیجیں نیوز لیٹر سبسکرائب کیجیے آپ کا ای میل پتہ Leave this field empty if you're human: فتاویٰ کے زمرے احکام میت اراضیات اسلام اور سائنس اسلامی تاریخ اسلامی قانون انبیاے کرام اُصولِ تفسیر اُصولِ حدیث اِقامتِ دین ایمان اور عمل تحریک اسلامی تصوّف، تزکیۂ نفس اور اخلاق تعلیمات تفسیری اِشکالات توحید جدید طبی مسائل جدید فقہی مسائل جمعہ و عیدین حجاب حج و عمرہ ختم نبوت ذبیحہ و قربانی رسالت زکوۃ و صدقات سماجیات سیاسیات سیرت طیبہ و احادیث مبارکہ شخصی مخالفتیں صلوة (نماز) صوم (روزہ ) طہارت عائلی قوانین عام فقہی مسائل عبادات قرآنیات مالیات متفرقات متفرق احادیث کی تأویل معاشرت معاشیات ملازمت ملازمت و کاروبار میراث و وصیت نکاح و طلاق و خلع و ازدواجی معاملات ڈاڑھی شریعہ کونسل شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کے تحت قائم کردہ ادارہ ہے جس کا مقصد قرآن و سنت کی روشنی میں، اجتماعی غور و خوض اور مشاورت کے بعد ،عامتہ المسلمین نیز جماعت کے ارکان و وابستگان کی شرعی رہ نمائی کرنا اور ان کے مسائل کا حل تجویز کرنا ہے۔ شریعہ کونسل کسی مخصوص فقہی مسلک کی پابند نہیں ہے، سوالات کا جواب دینے میں فقہی توسّع کے مقصد سے حنفی مسلک کے علاوہ دیگر مسالک کی بھی وضاحت کی جاتی ہے، تاکہ قارئین کو تمام مسالک کا علم رہے اور عمل کی آزادی برقرار رہے۔
March 16, 2007 <a href="https://irak.pk/byline/jeremy-bowen/" rel="tag">Jeremy bowen</a> شمارہ 16 مارچ 2007 0 ایک سال قبل مقبوضہ غرب اردن میں فلسطینی الیکشن سینٹر سے جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو حماس اور الفتح کے اہلکاروں کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ حماس سرفہرست تھی اور یہ بتانا مشکل تھا کہ کون زیادہ محوِ حیرت تھا، حماس کے کارکن یا الفتح کے۔ حماس کے لوگوں کو اچھی کارکردگی کا اندازہ تھا لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ اپوزیشن میں رہیں گے، انہیں اُمید نہیں تھی کہ وہ پارلیمانی انتخابات جیت جائیں گے اور فلسطینی انتظامیہ پر ان کا کنٹرول ہو گا۔ الفتح کو شکست کی امید نہیں تھی۔ دونوں جماعتوں کو انتخابات کے نتائج سمجھنے میں مہینوں لگے۔ حماس نے حکومت سازی کے لیے انتخاب نہیں جیتا تھا، کیونکہ فلسطین ایک ریاست نہیں ہے۔ جس خطے کو وہ ریاست کا درجہ دلانا چاہتی ہے وہ اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے۔۱۹۹۰ء کے عشرے کے امن عمل کا جو کہ اب ناکام ہو گیا ہے، ایک اثر یہ ہوا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو اپنی زندگی کے کچھ شعبوں جیسے پولیس، صحت اور تعلیمی نظام میں انتظامی امور سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے۔ چونکہ فلسطینی الفتح کی برسوں کی کرپشن اور بدانتظامیوں سے پریشان تھے اور اسرائیل کی جانب اس کی پالیسیوں کو کامیاب نہیں سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے حماس کے حق میں ووٹ دے دیا۔الفتح اور اس کے رہنما محمود عباس نے، جو اَب بھی فلسطینیوں کے منتخب صدر ہیں، اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر یقین رکھتے ہیں جس کے ساتھ اسرائیل ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے وجود میں رہے گا۔ فلسطینی بھی کچھ حقیقت پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک سال قبل جب فلسطینی ووٹ دینے گئے تو ان پر واضح تھا کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے کی اعتدال پسندانہ سیاست انہیں آزادی کی جانب لانے میں کامیاب نہیں رہی۔ وہ ۲۰۰۰ء میں شروع ہونے والی مسلح تحریک مزاحمت سے بھی بیزارہو گئے تھے۔ فلسطینی عوام الفتح کو چانٹا لگانا اور اسرائیل کو ایک پیغام بھیجنا چاہتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ ایسے وقت تعاون نہیں جاری رکھ سکتے جب وہ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا جیل بنا کر رکھیں اور غرب اردن میں یہودی بستیاں بسا کر اسرائیلی قبضے میں توسیع کرتے رہیں۔ فلسطینیوں کو بھی اندازہ تو رہا ہو گا کہ حماس کو ووٹ دینا ایک پُرخطر راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ان کے اندر ہر طرف مایوسی تھی، شاید خودکش رجحان بھی اور جہاں انہیں معلوم تھا کہ حماس کی کامیابی اسرائیل قبول نہیں کرے گا، وہیں انہیں یقین تھا کہ جمہوری انتخابات کے نتائج کو باقی دنیا میں سراہا جائے گا۔امریکی اہلکار عربوں میں زوال، کرپشن اور پسماندگی کے حل کے لیے جمہوریت کی بات تو کر ہی رہے تھے۔ تاہم امریکا، یورپی یونین اور روس کی جانب سے یہ پیغام بھی تھا کہ فلسطینی جس کو چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں لیکن اگر انتخابی فاتح انہیں قبول نہیں ہو گا تو ان کی لیے اس کے ساتھ تعلقات رکھنا لازمی بھی نہیں۔ گذشتہ ایک سال فلسطینیوں کے لیے ایک پُرخطر سال ثابت ہوا ہے۔ حماس نے اسرائیل کی حقیقت کو تسلیم کرنے، تشدد کا راستہ ترک کرنے اور الفتح کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاہدوں کو تسلیم کرنے کے بیرونی دنیا کے الٹی میٹم کو ٹھکرا دیا۔ لہٰذا اسرائیل اور بڑے ممالک نے فلسطینیوں کو وہ پیسے دینا بند کر دیے جو ۱۹۹۰ء کے عشرے کے امن کے عمل کا نتیجہ تھے۔ جب حماس نے انتخاب جیتا، اس وقت فلسطینی انتظامیہ مالی مشکلات کا شکار تھی جو کہ خراب تر ہوتی گئی۔ فلسطینی انتظامیہ کے ملازمین جیسے ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو تنخواہیں نہیں ملیں، ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی رک گئی۔ جب اسرائیل کے سرحدی شہر سیدروت پر راکٹ داغے جانے لگے اور ایک کارروائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کو قبضے میں لے لیا گیا تو اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک فوجی آپریشن شروع کر دیا جو کہ سال بھر تک جاری رہی۔۲۰۰۶ء میں اقوامِ متحدہ نے ایک اندازہ لگایا کہ مقبوضہ علاقوں میں ۸۷۶ فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ چار ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دوسری جانب ۲۵ اسرائیلی ہلاک ہوئے اور ۳۷۷ زخمی۔ یاسر عرفات کی جماعت الفتح اقتدار کی عادی ہو چکی تھی، نئے حالات اس کے لیے مشکل ثابت ہو رہے تھے۔ فلسطینی سکیورٹی فورسز کے بیشتر دھڑوں پر الفتح کا کنٹرول بھی باقی ہے۔ انتخابات سے قبل بھی فلسطینی معاشرہ مستقبل کے بارے میں مستقل نااُمیدی سے کمزور ہو چکا تھا اور اسرائیل کے فوجی قبضے کے تحت بکھر رہا تھا۔اسرائیل نے ۲۰۰۵ء میں غزہ سے آبادکاروں کو نکال لیا لیکن ابھی وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غزہ پر ایک قابض طاقت ہے۔ اقتدار کھونے کا الفتح کا افسوس، حماس کے حامیوں کے اندر اس بات پر غصہ کہ ان کی انتخابی کامیابی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اسرائیلیوں کی جانب سے جاری رہنے والے دبائو نے مزید تشدد کو جنم دیا۔ حماس اور الفتح کے درمیان جاری رہنے والی کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات میں کم سے کم ۶۰ فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر ایک گولی بھی کسی اہم رہنما کو لگ جاتی تو فلسطینیوں کے اندر خانہ جنگی شروع ہو جاتی جس کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ امریکا کی جانب سے اب تک سب سے اہم مداخلت یہ رہی ہے کہ اس نے محمود عباس اور ان کے حامیوں کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی شروع کر دی ہے۔ محمود عباس سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ایک متحدہ قومی حکومت کے لیے بات چیت اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں فلسطینی صدر کے حامی یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ ایک ایسی نئی حکومت قائم کر سکیں گے جو اسرائیل کے وجود سے متعلق کچھ الفاظ کی تشکیل پر متفق ہو سکے اور بیرونی امداد پھر سے فلسطینیوں کو جاری کی جاسکے جو حماس کی انتظامیہ کو کمزور کرنے کے لیے روک دی گئی ہے۔ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ورنہ اب تک یہ ہو گیا ہوتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ سڑکوں پر جاری تشدد ختم ہو۔ کچھ فلسطینی حماس کی کارکردگی سے مایوس بھی ہیں۔ رائے شماری کے حالیہ جائزوں سے جن پر ہمیشہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ آج اگر انتخابات منعقد ہوں تو محمود عباس کی الفتح کامیاب ہو جائے گی۔ آئندہ ایک سال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یہ پورا علاقہ ہی کئی نسلوں کی سب سے وسیع پسماندگی میں مبتلا ہے۔ کچھ لوگوں کی نظر میں موجودہ دور کی سب سے بڑا پسماندگی ہے۔ حماس اقتدار میں رہنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ کرے گی۔ اس کے خلاف پابندیاں اب بھی عائد ہیں لیکن مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی صدر کے دفتر کے ذریعے پیسے اور امداد آنا شروع ہو گئے ہیں۔لیکن حماس دور تک نظر رکھتی ہے۔ اس کو یقین ہے کہ وقت اور تاریخ اس کے ساتھ ہیں اور یہ کہ مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ حماس یہ سمجھتی ہے کہ گذشتہ ۵۰ برسوں کی الفتح کی سیکولر قومیت فلسطینیوں کو آزادی دلانے میں ناکام رہی ہے۔تمام دبائو کے باوجود حماس جہاں ایک سیاسی راستے پر چل رہی ہے وہیں اس نے مسلح جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا ہوا ہے جسے ہر فلسطینی جائز سمجھتا ہے۔ حماس کے رہنما جو غرب اردن کی اسرائیلی جیلوں میں نہیں ہیں، کچھ اعتدال پسندانہ تصور کیے جانے والے بیانات بھی دیتے رہتے ہیں جس کے تحت غرب اردن، غزہ اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے میں اسرائیل کو ’دیرپا فائر بندی‘ کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مستقل جنگ کے بدلے سکون بہتر ہے کیونکہ باقی فیصلے اگلی نسلوں کو کرنے ہیں۔اسرائیل پورا غرب اردن چھوڑنے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی دارالحکومت کے قیام کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر وہ تیار بھی ہوتا تو بیشتر اسرائیلیوں اور بیرونِ ملک ان کے دوستوں کے پاس ایسے الفاظ کے لیے وقت نہیں ہے جنہیں وہ دہشت گرد تنظیموں کے ترجمانوں کی چالاکی سمجھتے ہیں۔وہ سوال کرتے ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ فائر بندی ہو جائے تو حماس اس وقفے کو ہتھیار اکٹھا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گی اور حماس کے اس چارٹر سے کیا سمجھیں جسے مذہبی استعارات میں تحریر کیا گیا ہے اور اس کے تحت تمام فلسطینی خطے کو اسلام کے کنٹرول میں تصور کیا جاتا ہے جہاں اسرائیل کے لیے جگہ نہیں تو حماس کو بنیاد کیوں فراہم کریں کہ اسے اسرائیل کو تباہ کرنے کا ایک موقع مل جائے؟ حماس کو ایک ریاست قائم کر کے ’فتح‘ کیوں دلا دیں جبکہ اس نے یہودیوں کو ہلاک نہ کرنے کے صرف زبانی بیان سے زیادہ کچھ نہیں کیا؟ اسرائیلیوں اور بیرونِ ملک ان کے دوستوں کے یہ سوالات سمجھ میں آنے والے ہیں۔ گذشتہ گیارہ برسوں کے دوران حماس نے سیکڑوں اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن اگر حماس تبدیل ہور ہی ہے، مسلح جدوجہد کی آسانیوں اور سیاست کی پیچیدگیوں کو اپنانے کی کوشش کر رہی ہے، تو کیا کریں؟ ایسا ضرور دکھائی دیتا ہے کہ حماس کے کچھ رہنما اسرائیل کے ساتھ رہنے کے راستے کی جانب چل رہے ہیں، اسی راستے پر جس پر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں کے درمیان الفتح اور فلسطینی تنظیم یعنی پی ایل او کے رہنما چل رہے تھے۔مغربی ممالک کے رہنمائوں نے اب تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ رہنے کے بارے میں حماس کے رہنمائوں کے بیانات کتنے سنجیدہ ہیں۔ لیکن مغربی ملکوں کے ان رہنمائوں میں سے کوئی ایک بھی، مثال کے طور پر امریکا کا اگلا صدر، اگر مشرقِ وسطیٰ کے اس سیاسی تعطل کو توڑنا چاہے تو حماس کی اس سنجیدگی کو سمجھنا ہی ایک راستہ ہے۔ (بحوالہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام) اسرائیل الفتح حماس فلسطین Related Posts فتح قربانیوں سے حاصل ہوتی ہے! فلسطین کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ’’سب سے پہلے یورپ‘‘ حماس کی حکمت عملی غزہ ناکہ بندی: حماس کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا! دہشت گردی اور جمہوریت Previous صلاحیتوں کا استعمال Next سانحہ الٰہ آباد Be the first to comment Leave a Reply Cancel reply Your email address will not be published. Comment Name * Email * Website Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. Δ This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed. معارف فیچر مینو مختصر مختصر انٹرویوز شخصیات رپورٹ خبریں ہماری مطبوعات گزشتہ شمارہ معارف فیچر یکم دسمبر 2021 December 1, 2021 0 عدم مساوات کے خلاف عالمی جنگ December 1, 2021 0 چین اور روس، برطانیہ کی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں December 1, 2021 0 ’’مسلم صیہونیت‘‘۔ ایک نیا ابھرتا ہوا فتنہ! December 1, 2021 1 افغانستان: غلطیوں کے اعادے سے گریز December 1, 2021 0 بھارت چین تعلقات:ایک نیا تناظر December 1, 2021 0 آلودگی سے کراہتے سمندر December 1, 2021 0 مطلق العنانیت سے بڑھ کر کوئی وبا نہیں! December 1, 2021 0 ہم کب تک ہیں؟ December 1, 2021 0 اسلامی اساس پر علوم کی تدوینِ نو December 1, 2014 0 Archives Archives Select Month October 2022 September 2022 August 2022 May 2022 April 2022 March 2022 December 2021 November 2021 October 2021 September 2021 August 2021 July 2021 June 2021 May 2021 April 2021 March 2021 February 2021 January 2021 December 2020 November 2020 October 2020 September 2020 August 2020 July 2020 June 2020 May 2020 April 2020 March 2020 February 2020 January 2020 December 2019 November 2019 October 2019 September 2019 August 2019 July 2019 June 2019 May 2019 April 2019 March 2019 February 2019 January 2019 December 2018 November 2018 October 2018 September 2018 August 2018 July 2018 June 2018 May 2018 April 2018 March 2018 February 2018 January 2018 December 2017 November 2017 October 2017 September 2017 August 2017 July 2017 June 2017 May 2017 April 2017 March 2017 February 2017 January 2017 December 2016 November 2016 October 2016 September 2016 August 2016 July 2016 June 2016 May 2016 April 2016 March 2016 February 2016 January 2016 December 2015 November 2015 October 2015 September 2015 August 2015 July 2015 June 2015 May 2015 April 2015 March 2015 February 2015 January 2015 December 2014 November 2014 October 2014 September 2014 August 2014 July 2014 June 2014 May 2014 April 2014 March 2014 February 2014 January 2014 December 2013 November 2013 October 2013 September 2013 August 2013 July 2013 June 2013 May 2013 April 2013 March 2013 February 2013 January 2013 December 2012 November 2012 October 2012 September 2012 August 2012 July 2012 June 2012 May 2012 April 2012 March 2012 February 2012 January 2012 December 2011 November 2011 October 2011 September 2011 August 2011 July 2011 June 2011 May 2011 April 2011 March 2011 February 2011 January 2011 December 2010 November 2010 October 2010 September 2010 August 2010 July 2010 June 2010 May 2010 April 2010 March 2010 February 2010 January 2010 December 2009 November 2009 October 2009 September 2009 August 2009 July 2009 June 2009 May 2009 April 2009 March 2009 February 2009 January 2009 December 2008 November 2008 October 2008 September 2008 August 2008 July 2008 June 2008 May 2008 April 2008 March 2008 February 2008 January 2008 December 2007 November 2007 October 2007 September 2007 August 2007 July 2007 June 2007 May 2007 April 2007 March 2007 February 2007 January 2007 December 2006 November 2006 October 2006 September 2006 August 2006 July 2006 June 2006 May 2006 April 2006 March 2006 February 2006 January 2006 December 2005 November 2005 October 2005 September 2005 August 2005 July 2005 June 2005 May 2005 April 2005 March 2005 February 2005 January 2005 December 2004 November 2004 October 2004 September 2004 August 2004 July 2004 June 2004
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے فور میں ضمنی انتخاب کا معرکہ سر ہوگیا۔ صوبے میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منتخب رکن قومی اسمبلی گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی نشست دوبارہ جیت لی۔الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار ارباب عامر ایوب نے پنتالیس ہزار سات سو سینتیس ووٹ لے کر فتح کا تاج اپنے سر پر سجالیا۔ اے این پی کے امیدوار خوشدل خان کو چوبیس ہزار آٹھ سو چوہتر، مسلم لیگ ن، قومی وطن پارٹی اور جے یو آئی کے مشترکہ ا میدوار ناصر موسیٰ زئی کو چوبیس ہزار سات سو نوے ووٹ ملے۔ مرحوم ایم این اے گلزار خان کے صاحبزادے اسد گلزار نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ان انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ انہیں تیرہ ہزار دو سو ووٹ مل سکے۔ آزاد امیدوار ڈاکٹر شفیق کو نو ہزار نو سو پنتیس، جماعت اسلامی کے وصال فاروق کو سات ہزار چھ سو اڑسٹھ اور آزاد امیدوار الحاج لیاقت علی کے حصے میں تین ہزار سات سو نواسی ووٹ آئے۔ آزاد امیدواروں محمد تنویر نے تین سو چھیاسٹھ، وحید عالم نے دو سو اسی، ضیاء الرحمن نے ایک سو ستانوے، سمیع اللہ نے ایک سو ترپن،مبشر خان نے ایک سو تریالیس ووٹ لئے تین آزاد امیدوار تین ہندسوں تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ فرحان قدیر کو بیاسی، امان اللہ کو چون اور شوکت مہمند کو صرف تینتیس ووٹ ملے۔حلقہ این اے چار کے انتخابی نتائج نے بعض چشم کشا انکشافات کئے ہیں۔سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جو اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ نئی نسل روایتی سیاست سے نالاں ہے۔ وہ انتخابی اتحادوں کی سیاست کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس انکشاف سے سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اگر انہوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل نہیں کیا۔ اور عوامی امنگوں کے برعکس پالیسیاں جاری رکھیں تو نوجوان سیاسی بساط کا پانسہ آئندہ بھی پلٹ دیں گے۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت سرکردہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنا سیاسی منشور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ بنانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے۔ چھ سات ماہ بعد ملک میں عام انتخابات ہوں گے۔رائے عامہ کا رحجان تبدیل ہوچکا ہے۔ اسی کو دانشور طبقہ بھی تبدیلی قرار دے رہا ہے۔ الزامات، جوابی الزامات، دشنام طرازی، فتووں اور فتنوں کی سیاست اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ این اے چارمیں پولنگ کے روز اخبارات میں مختلف سیاسی رہنماوں اور انتخابی امیدواروں کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ایک امیدوار کا دعوی تھا کہ آج حق اور باطل کا فیصلہ ہوگا۔جب شام کو نتیجہ سامنے آیا۔ تو یہ بیان جاری کرنے والا امیدوار ہار چکا تھا۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ وہ باطل کی نمائندگی کر رہا تھا۔ایک امیدوار کا بیان چھپا تھا کہ فتح حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی ہوگی۔ یہ بیان دینے والا امیدوار بھی شکست کھا گیا۔ تو کیا اس نے تسلیم کرلیا۔ کہ جیتنے والا امیدوار ہی حق کی جدوجہد کرنے والی جماعت کا علمبردار تھا۔بدقسمتی نے ہمارے ہاں انتخابی منشور کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑا جاتا۔ اب بھی سیاسی جماعتیں اپنا وژن پیش کرنے کے بجائے دوسروں کی ٹانگیں کھینچ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی مخالف امیدوار اور اس کی پارٹی کو دشمن کا ایجنٹ اور یہود و ہنود کا ہم نوا قرار دیا جاتا ہے۔ کبھی اس کے خاندان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ کبھی اس کی قومیت، ذات، قوم، قبیلے اور مسلک و عقیدے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔انسان کی حیرت اس وقت انتہا کو پہنچتی ہے جب ایک دوسرے کو کافر، زندیق ،غدار، ملک دشمن اوراغیار کا ایجنٹ قرار دینے والے ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کوگلے لگاتے ہیں ماتھا چومتے ہیں ان کے ساتھ انتخابی اتحاد کرتے ہیں۔انہیں فرشتہ قرار دیتے ہیں اوران کی تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیتے ہیں۔اور اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی‘‘کسی کی مخالفت میں دشمنی کی حدوں کو چھونے اور اسے روئے زمین پر بدترین مخلوق قرار دینے کے بعد جب سب کچھ بھول کر انہیں گلے لگایاجاتا ہے اور ان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے جاتے ہیں تو عام آدمی سوچنے لگتا ہے کہ کیا یہی سیاست کا مفہوم ہے۔خدا را! سیاست کو اب گالی نہ بنائیں۔ اسے خدمت کا ذریعہ بنائیں۔کیونکہ خدمت میں ہی عظمت ہے۔اور ہر دور میں یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے۔ Post Views: 25 شیئر کریں: متعلقہ خبریں: اسلام آباد، معروف ادیب وشاعر پرنسپل مولانگاہ نگاہ مرحوم کی یاد میں‌تعزیتی ریفرنس اساتذہ کی ترقی کیلئے ڈی پی سی کاعمل مکمل ، ترقی کے اعلامیے جلد جاری کئے جائینگے ڈی اے ای سالانہ امتحان 2019 کے نتائج کا اعلان ہفتے کے روز 2 بجے ہوگا تین روزہ بروغل فیسٹیول 6 ستمبر سے شروع ہوگا، اختتامی تقریب 8 ستمبرکومنعقد ہوگی Post navigation بونی میں جلسہ عام کی منسوخی سے عوام میں مایوسی اور بے چینی پھیل گئی ہے؍ نظر ثانی کی جائے۔۔ پی ٹی آئی ورکرز
سان فرانسسکو: دنیا بھر کے 50 کروڑ واٹس صارفین کے فون نمبر لیک ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 487 ملین صارفین کے واٹس ایپ فون نمبرز چوری کر کے ایک معروف ہیکنگ کمیونٹی فورم پر مزید پڑھیں ٹوئٹر ویری فائیڈ اکاؤنٹس رکھنے والوں کو بڑی خبر نومبر 29, 2022 November 29, 2022 سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے نئے سربراہ نے ویری فائیڈ اکاؤنٹس کیلئے اب بلیو کی جگہ مختلف رنگوں کے ’ٹک‘ استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔اپنے تازہ پیغام میں ایلن مسک نے بتایا ہے کہ دو نئے رنگوں مزید پڑھیں وائس نوٹ سٹیٹس ،واٹس ایپ نے صارفین کی دلی خواہش پوری کردی نومبر 28, 2022 November 28, 2022 پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے مقبول ایپلی کیشن واٹس ایپ نے نیا فیچر متعارف کروادیا۔واٹس ایپ کی جانب سے حالیہ دنوں میں متعدد نئے فیچر متعارف کروائے گئے ہیں جس کا مقصد صارفین کا مزید پڑھیں چین :دنیا کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری کے باہراحتجاج،پولیس کالاٹھی چارج نومبر 25, 2022 November 25, 2022 چینی شہر ژینگژو میں قائم دنیا کی سب سے بڑی آئی فون فیکٹری کے باہر سیکڑوں ملازمین کے کمپنی کی جانب سے مبینہ طور پر کانٹریکٹ تبدیل کرنے کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق آئی فون مزید پڑھیں چاند پر رہائش ؟ ناسا کا نیا دعویٰ سامنے آگیا نومبر 22, 2022 November 22, 2022 انسان کب تک چاند پر رہائش اختیار کرلے گا اس حوالے سے ناسا کے ایک عہدیدار کا حوصلہ افزا دعویٰ سامنے آیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق آرٹِمس 1 راکٹ کی لانچ کے بعد ناسا کے عہدے دار کا کہنا مزید پڑھیں خلا میں انٹری ،متحدہ عرب امارات کی تیاری آخری مراحل میں داخل نومبر 20, 2022 November 20, 2022 ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات اپنا پہلا خلائی مشن 28 نومبر کو چاند پر بھیجے گا، مشن کی کامیابی کی صورت میں امارات امریکا، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر اترنے والا پہلا عرب اور دنیا کا مزید پڑھیں ٹوئٹرنے اپنے دفاتر کی بندش سے متعلق اہم اعلان کر دیا نومبر 18, 2022 November 18, 2022 ایلون مسک کے الٹی میٹم کے بعد سینکڑوں ٹوئٹر ملازمین دستبردار ہوگئے ،ٹوئٹر نے کمپنی کے دفاتر آج سے عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا۔برطانوی میڈیا کےمطابق ٹوئٹر کی جانب سے سرکولر میں لکھا گیا عارضی طور پر مزید پڑھیں چاند پر دوبارہ قدم، ناسا کا راکٹ کامیابی سے لانچ ہو گیا نومبر 17, 2022 November 17, 2022 فلوریڈا: نصف صدی بعد چاند پر دوبارہ قدم رکھنے کے امریکی منصوبے کے تحت اس بار ناسا کا آرٹیمس وَن مشن کامیابی سے لانچ ہو گیا۔امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اپالو کے پچاس سال بعد ناسا کا آرٹیمس وَن مزید پڑھیں اسمارٹ فونز آپ کو بیمار کرسکتے ہیں،ئنی تحقیق سامنے آگئی نومبر 17, 2022 November 17, 2022 لوگ اوسطاً روزانہ اپنے اسمارٹ فون کو 2 ہزار سے زیادہ بار چھوتے ہیں اور یہی عادت انہیں مختلف الرجیز کا شکار بناکر بیمار بھی کرسکتی ہے۔یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔امریکا کے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کی مزید پڑھیں سائنسدانوں کا کارنامہ ،خون کا ایک اور نیا گروپ دریافت کرلیا نومبر 16, 2022 November 16, 2022 مگر کیا آپ نے کبھی ’ای آر بلڈ گروپ‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اگر نہیں تو جان لیں کہ سائنسدانوں نے خون کا ایک اور نیا گروپ دریافت کرلیا ہے۔ یہ دریافت خون کے اس گروپ کے حامل افراد مزید پڑھیں
مستقبل کا تعلیم کا نظام کیسا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے حالیہ برسوں میں بہت بحث مباحثہ دیکھا گیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے کہ جنوبی کوریا اور فِن لینڈ وغیرہ ، مستقبل ضروریات کو دیکھتے ہہوئے اپم۔۔ ہوا وئے اپمپ وا ن ن ن ر ر ر اگر صرف فِن لینڈ کی بات کریں تو یہ اسکینڈے نیویائی ملک تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہے۔ یہاں کے نظامِ تعلیم کو دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فِن لینڈ کے تعلیمی نظام میں متعارف کرائی جانے والی جدتوں کی دنیا بھر میں تقلید کی جاتی ہے۔ فِن لینڈ کے مستقبل کے اسکولوں میں دیواروں کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ان اسکولوں میں صرف تعمیری رکاوٹیں ہی ختم نہیںکی گئیں بلکہ مضامین اور طلبا کی عمرمیں فرق کو بھی ختم کیا گیاہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں زیرِ تعلیم طلبا کے مقابلے میں فِن کے ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم ط آرکیٹیکچر ویب سائٹ CityLab کے مطابق, فن لینڈ نے اسکولوں کو بدلنے کا ایک بلند نظر منصوبہ متعارف کرایا کے تحت ملک کے 4,800 روایتی اسکولوں کو مستقبل کے اسکولوں کے نظریے کے تحت ری-ڈیزائن کیا گیا ہے. اس منصوبے کا آغاز 2015 ء میں کیا گیا ، جب سب سے پہلے 57 جدید ڈیزائن کے اسکولوں کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا۔ سٹی لیب کا تجزیہ ہے کہ, ان تبدیلیوں کے باوجود اسکولوں کا ڈیزائن روایتی اسکولوں کی طرح ہی تاہم فن لینڈ کی حکومت یہ ہے کہ تمام اسکولوں کو سوچ کے مطابق ڈھالا جائے. نئے اسکولوں کی تعمیر اور تزئین نو اس طرح کی ہے کہ طلبا کی سماعت یعنی صلاحیت متاثر نہ ہو ، کہ اشاا ہکہو ، کہ اس طرح کےت ت سک د فِن لینڈکے محکمہ تعلیم کے چیف آرکیٹیکٹ کے مطابق ، اسکولوں کا ڈیزائن اس طرح پلان کیا گیا کہ وہاں شور بہت کم ہوگا۔ نرم کرسیاں ، بڑے کشن ، راکنگ چیئرز اورصوفے اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ طلبا کو اونچی میں باکوت کرےنے کی ضرووت محسوت محسوت نس اس کے علاوہ منقولہ (ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی) دیواریں اور پردے بھی رکھے گئے ہیں ، ج جن کے عقب حث لطب کے عقب میںن تلب کے عقب میںن ت ت ب فن لینڈ کے نئے اسکولوں میں روایتی ڈیسک اور کرسی ہوگئی ہے اور اس کی جگہ ایسے لے لی ہے, جہاں عمروں سے تعلق رکھنے طلبا اکٹھے ہوکر باہمی دلچسپی معلوما ت کا تبادلہ کرتے ہیں. فِن لینڈ کے اسکولوں کو مکسڈ-ایئر گروپس (یا گریڈز) میں تعلیم اور چھوٹی عمر میں ہی بچوں کے ریے کاکا ام ت تی جاچا اہم تیو جاچا نم تیو جاچا ام تیو جاچا نہم تیو جاچا نم تیو جاچا نم تیو جاچا نہمیت تی فِن لینڈ کی وزارتِ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ نظامِ تعلیم کو اس طرح کرناا چاہاتے ہیں م بچے ‘اےاتے ہیں کہم بچے’ اےا ہیں م ب اا م ب اب م ب ع بند گوتیںن لع بتان ی م بچے ‘شاےا م بض ع بن م بر ع بن بم ب ع م بچے شاےا م بم ضع بن دم بر ع با م ب اس نظریے کے تحت طلبا کے لیے روزانہ کم از کم پیریڈ ضرور رکھا جاتا ہے ، جو عام کے مقابلے میںوم طیوال و ترت اس پیریڈ کی پلاننگ میں طلبا بھی شامل ہوتے ہیںاوراس بات کو یقینی جاتا ہے کہ پیریڈ کے اختتام پر اےنھیں کیا با سن طر اس پیریڈ میں اسکول کسی بھی موضوع کا انتخاب کرسکتا ہے, جیسے ‘ماحولیاتی تبدیلی’ اور پھر طلبا اسے ایک مختلف نظریےاور بالکل مختلف مضمون جیسے ‘ریاضی’ کے نقطہ نظر سے پڑھ سکتے ہیں. اس طرح طلبا کو ‘ماحولیاتی تبدیلی’ کے موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ تعلیمی نفسیات کے ماہر پروفیسر کرسٹی لونکا کہتے ہیں ، ‘بات حقیقی زندگی کی آتی ہے تو ہمارا ذہن مخ۔تلفا سپلنز میں فسڈلنزت میں یں ہمارا ذہن تمام معاملات کو کُلی طور پر لیتا ہے۔ جب آپ مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں عالمی بحران ، نقل مکانی ، معیشت غذائی تحفظ جیسے مسائل آتے تے مسائل آتے بدقسمتی سے ہم نے اپنے بچوں کو اس ‘اِنٹر-کلچرل’ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیا ”۔ فِن لینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے ‘فری اسٹائل’ کو دنیا بھر میں کامیاب ماڈل مانا جاتا ہے۔ ہر چند کہ حالیہ برسوں میں فن لینڈ بین الاقوامی PISA ایجوکیشن رینکنگ میں تھوڑا نیچے چلا گیا ہے, تاہم ریاضی, سائنس اور روانی سے پڑھنے (ریڈنگ) کے مضامین میں فن لینڈ اپنے یورپی ہم عصروں سے بہت آگے ہے. PISA ایجوکیشن رینکنگ کے مطابق ریاضی کے مضمون میں 564 کے اوسط اسکور کے ساتھ سنگاپور پہلے, 548 کے ساتھ ہانگ کانگ دوسرے اور 544 کے اوسط اسکور کے ساتھ مکاؤ تیسرے نمبر پر ہے. فِن لینڈ 511 کے اوسط اسکور کے ساتھ ریاضی کے شعبہ میں 12 ویں نمبر پر ہے۔ روانی سے پڑھنے کی صلاحیتوں کی بات کریں تو اس شعبہ میں 535 کے اوسط اسکور کے ساتھ سنگاپور پہلے ،اااااگ پہپہو۔ے پدد ا کےو۔ 527 ن باھ ت ت سسن ریاضی کے شعبے میں 526 کے اوسط اسکور کے ساتھ فِن لینڈ چوتھے نمبر پر ہے۔ سائنس کے شعبے میں اسکور کی بات کریں تو یہاں بھی 556 کے اوسط اسکور کے ساتھ سنگاپور ہی اولین درجے پر ہے۔ دوسرے نمبر پرجاپان براجمان ہے ، جس کا اسکور 538 ہے۔ 534 کے اوسط اسکور کے ساتھ تیسرا درجہ ایسٹونیا حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ فِن لینڈ کا نمبر سائنس کے مضمون میں چوتھا ہے جب کہ اس کا اوسط اسکور 531 ہے۔ نیز ، فِن لینڈ کے مستقبل کے اسکولوں سے دنیا بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ Supply hyperlink Share Facebook Twitter Stumbleupon LinkedIn Pinterest About admin Previous درہ بولان کے حسین و دل نشیں تفریحی مقامات Next پختونخوا میں احتجاج اور مظاہرے Check Also اِبن الہیثم، دنیا کا پہلا حقیقی سائنس دان بطور طالب علم آپ نے ابو علی الحسن اِبن الہیثم کا نام ضرور سُنا ہوگا۔ … Leave a Reply Cancel reply Your email address will not be published. Required fields are marked * Comment * Name * Email * Website Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. تازہ ترین تصاویر کرنسی کنورٹر کراچی: نزلہ، زکام اور کھانسی سے یومیہ eight سے 10 افراد کا انتقال 4 hours ago آرٹس کونسل میں پاکستان میوزک فیسٹیول 5 hours ago مٹھی بھر بادام کے صحت پر جادوئی اثرات 5 hours ago موسیقی، رقص اور ادب کا خوبصورت سنگم 6 hours ago کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ 20 hours ago کراچی: نزلہ، زکام اور کھانسی سے یومیہ eight سے 10 افراد کا انتقال 4 hours ago حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج June 9, 2021 ن لیگ کا گزشتہ انتخابات جیتنے والوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ June 9, 2021 اپنے بچے میں خواندگی کی صلاحیت پروان چڑھائیں June 9, 2021 مائیکرو بائیولوجی میں کیریئر June 9, 2021 John Doe: Love the TieLabs Logo :)... Advertisement اقسام New Online casino Uncategorized ادب اسلام پکوان تعلیم تفریح ٹکنالوجی خبریں دلچسپ و عجیب دنیا کی خبریں سفر سیاحت سیاست شوبز صحت فیشن کاروبار کھیل مضحکہ خیز حالیہ پوسٹس کراچی: نزلہ، زکام اور کھانسی سے یومیہ eight سے 10 افراد کا انتقال 4 hours ago آرٹس کونسل میں پاکستان میوزک فیسٹیول 5 hours ago مٹھی بھر بادام کے صحت پر جادوئی اثرات 5 hours ago موسیقی، رقص اور ادب کا خوبصورت سنگم 6 hours ago کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ 20 hours ago عالمی منڈی میں کمی کے باوجود سونے کی قیمت میں پھر اضافہ 21 hours ago پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں مزید کمی 22 hours ago سردیوں کی سوغات، خشک میوہ جات کے صحت پر اثرات 23 hours ago Advertisement ٹائم لائن 4 hours ago کراچی: نزلہ، زکام اور کھانسی سے یومیہ eight سے 10 افراد کا انتقال 5 hours ago آرٹس کونسل میں پاکستان میوزک فیسٹیول 5 hours ago مٹھی بھر بادام کے صحت پر جادوئی اثرات 6 hours ago موسیقی، رقص اور ادب کا خوبصورت سنگم 20 hours ago کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ ہم آپ کو بہترین آن لائن تجربہ دینے کے لیےکوکیز استعمال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ ان تمام کوکیز کے استعمال سے متفق ہیں
دل کا مرض تھا ، اللہ پاک کا ایک نام پڑھا ، جہاں آپ ریش ن ہونا تھا وہاں دوائی کی ضرورت بھی نہیں پڑی (1,277) حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب (1,227) جس نے یہ درود 7 بار فجر کے بعد پڑھ لیاوہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ کبھی مالی پریشانی ہو گی (1,133) ہر مشکل کے حل کے لیے آگ سے زیادہ تیز اثر کرنے والا طاقتور ترین وظیفہ (1,128) جب کافی عرصے تک عورت کی جن.سی ضرورت نہ پوری نہ کیا جائے تو اپنی (1,098) ایسی عورت جس سے شادی کرنے والا آدمی لازمی غریب ہو جاتا ہےوہ کونسی عورت (1,069) اللہ پاکـ کو راضی کرنے کیلئےاللہ پاک کی یہ پسندیدہ دعا پڑھ لیں ڈیلی نیوز! ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا عقل والے لوگ کہاں ہیں ؟ عقل والے کہاں ہیں ؟لوگ پوچھیں گے کہ عقل والے کون ہیں ؟جواب دیا جائے گا وہ لوگ جو اللہ کو کھڑے بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے تھے اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور کرتے تھے اور کہہ اٹھتے تھے خدایا تو نے ان کو بے کار نہیں بنایا تو پاک ہے پس ان کو جہنم کے آگ سے بچا لے یہ ہیں عقل والے جن کا ذکر ان کے اندر فکر پیداکرتا ہے کہ یا رب آخرت کے عذاب سے بچا لے یعنی وہ سارے غو رو فکر کے نتیجے میں اللہ کی عظمت اور ہیبت کے قائل ہوتے ہیں فورا ان کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر ہونے لگتی ہے حضرت ابو ہریرہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص چھت پر لیٹا ہوا تھا آسمان اور ستاروں کو دیکھ رہا تھا دیکھتے دیکھتے اس کے دل پر اللہ کی ایسی ہیبت آئی ایسا عظمت کا احساس ہوا کہ بولا خدا کی قسم مجھے یقین ہے۔ کہ تمہارا پیدا کرنے والا کوئی ہے تم خود نہیں بنے یعنی ساروں کو دیکھ کر وہ کہتا ہے اے اللہ تو مجھے بخش دے اے اللہ توجو بھی ہے کہ تو مجھے بخش دے اسے کوئی پتہ نہیں کہ پیغمبر کون ہے کتاب کیا ہے صرف نشانیوں کو دیکھ کر اپنے رب کو پہچان رہا ہے کیونکہ جو واقعی اللہ کی عظمت و ہیبت اور قدرت و کمال کو جان لیتا ہے تو اس کے دل میں پہلا خیال یہی آتا ہے یا اللہ تو مجھے بخش دے مجھے معاف کردینا میں بہت چھوٹی چیز ہوں بہت گناہ گار ہوں جب کوئی اللہ کی قدرتوں کو دیکھتا ہے تو اس کو اپنی کوتاہیاں یاد آتی ہیں اپنا آپ حقیر نظر آتا ہے اور جو اللہ کی قدرت نہیں دیکھتا اس کو اپنی بڑائیاں اپنے ہی آرٹ اپنی ہی ذہانتیں اور اپنے ہی کمالات اس کے ذہنوں میں سمائے رہتے ہیں کہ میں ایسا بھی ہوں اور میں ویسابھی ہوں یہ سارے تکبر نتیجہ ہے اس بات کہ ہم نے اپنے رب کو نہیں پایا سارا دھیان اپنی ہی تعریفوں اور اپنے ہی کمالات کی طرف لگارہتا ہے۔اس میں ایک اور بات یہ بھی ہے کہ تنہائی میں یاد کرنا رب کو اور اپنے انداز میں یاد کرنا اور واقعی یاد کرنا کسی رٹے رٹائے جملے کی شکل میں نہیں یا کسی بنے بنائے سانچے کے طریقے پر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں رب کو یاد کرنا اسی لئے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص تنہائی میں اللہ کو یاد کرے وہ ایسا ہے جیسے اکیلا کفار کے مقابلے میں چل دیا ہو یعنی دشمنوں سے لڑنے کے لئے چل پڑا ہو یعنی اس کامقام اجرو ثواب کے اعتبار سے اتنا بڑا ہے ایک اور حدیث میں آتا ہے سات آدمی وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اور ان میں سے ایک شخص کون ہوگا جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ پڑیں کوئی نہیں ہے اس کے پاس اکیلا ہے اپنے رب کو اس طرح پہچانتا ہے اپنے رب سے اتنا قریب محسوس کرتا ہے۔ کہ اپنی کوتاہیوں پر نظر پڑتے ہی رو پڑتا ہے یا اللہ میں گناہگار ہو پاک تو صرف تو ہے ہر عیب اور ہر خطا اور ہر کمزوری سے پاک صرف تیری ذات ہے مجھ میں تو بہت غلطیاں ہیں تو مجھے معاف کردے اس لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں نبی ﷺ نے فرمایا اللہ کی وہ مخفیات جس کو فرشتے بھی نہ سن سکیں یعنی اتنی گہرائی میں اللہ کی یاد اور اللہ کی طلب کہ جس کو فرشتے بھی نہ سن سکیں اس کا ثواب ستر درجہ زیادہ ہے ٹھیک ہے زبان سے بھی ذکر کرنا چاہئے بلند آواز سے بھی کرنا چاہئے لیکن تنہائی میں کہ کوئی نہ ہو صرف آپ ہوں اور آپ کا رب ہو اور واقعی پھر دل کے پورے تاثر کے ساتھ یاد کر کے روئیں وہ چیز ہر ریاکاری سے پاک ہوتی ہے ہر دکھاوے سے پاک ہوتی ہے۔ Post Views: 278 FacebookTwitterGoogle+WhatsApp مزید پڑھیں BEST MANAGEMENT SOFTWARES OF 2023 میت کو قرآن پڑھ کر کیسے بخشنا ہے؟ فرشتے نے کہا خوشخبری ہو اس کیلئے جو 3بار یہ دعا پڑھے ، ہر دعا ہر حاجت قبول ، بڑا ہی طاقتور وظیفہ دنیا کا واحد ایسا ناشتہ ، جو وزن کم کرنے کےساتھ درجنوں بیماریاں ، ختم کردیتا ہےایک بار ضرور آزمائیں سورۃ الم نشرح کا معجزہ،ایسے لوگ جو دنیاوی طور پر کافی پریشان رہتے ہیں رات کو پڑھ کر سوجاؤ،ہر مقصد پورا ہوجائے گا Leave a Comment X Comment Name * ای میل * ویب سائیٹ Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment. ہم سے رابطہ پرائیویسی پالیسی ٹرمز کنڈیشن ڈس کلیمر کوکیز پالیسی ہمارے بارے میں تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کسی قسم کی اشاعت ممنوع ہے Copyright © 2022 By News Update
افغانستان کی صورت حال روز بروز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جانب تو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ تعطل میں پڑا ہوا ہے اور دوسری جانب دو سیاسی حریفوں یعنی صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان رسہ کشی نے بین الافغان مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ کرونا کی وبا، باخبر حلقوں کے مطابق ایران سے ہزاروں کی تعداد میں بغیر کسی ٹیسٹ آنے والے افغان مہاجرین کے سبب آنے والے دنوں میں شدت اختیار کر سکتی ہے۔ افغانستان کے ایک رکن پارلیمنٹ انجینئر کمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہرچند کہ اشرف غنی کی حکومت نے محمد حنیف اتمر کو نیا وزیر خارجہ مقرر کرتے ہوئے انکو ہدایت کی ہے کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے معاملے کو دیکھیں اور اسے آگے بڑھانے کے لئے اقدامات کریں۔ لیکن انجینئر کمال نے کہا کہ جب تک اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوتی، افغان حکومت کو بین الافغان مذاکرات میں مضبوط پوزیشن حاصل نہیں ہو گی اور اس کے برخلاف طالبان مضبوط پوزیشن حاصل کرتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ترجیح اس سیاسی تعطل کو ختم کرانے کو دی جانی چاہیئے۔ جس کے بعد ہی حکومت متحدہ طور پر ایک مضبوط حیثیت میں مذاکرات میں اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ اور اس کے لئے ریجنل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جو جرگہ سیاسی مفاہمت کے لئے کام کر ریا ہے اس نے دونوں فریقوں یعنی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے کہا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سے سات روز تک نہ تو کوئی تقرر کریں، نہ نئے احکامات جاری کریں اور بالکل خاموشی اختیار کریں اور اس دوران جرگہ مفاہمت کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرے گا۔ انجینئر کمال نے ایران سے ہزاروں کی تعداد میں بغیر کسی ٹیسٹ کے افغان مہاجرین کی افغانستان آمد کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایران کی سرحد سے ملنے والے افغان صوبے ہرات کی انتظامیہ انہیں روکنے یا ٹیسٹ کر کے اندر آنے کی اجازت دینے کے حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر سکی۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مہاجرین اب پورے افغانستان میں پھیل جائیں گے اور ساتھ ہی کرونا وائرس بھی پھیلا دیں گے۔ ایک اور تجزیہ کار اور افغان صحافی میر ویس افغان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کوئی مثبت نتائج حاصل کئے جا سکیں گے۔ کیونکہ نہ تو افغان حکومت متحدہ طور پر خود کو پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی طالبان کے تمام دھڑ ے اب اس معاہدے پر متفق ہیں۔ اور معاہدے میں تشدد میں کمی کرنا طے کیا گیا تھا۔ جب کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے اور طالبان کی جانب سے تشدد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق افغان افواج کی تنظیم نو وغیرہ اور انہیں زیادہ فعال بنانے کے لئے دی جانے والی امریکی امداد میں کوئی ایک ارب ڈالر کی کمی کی جا رہی ہے اور اگر ایسا ہی ہوا تو اس سے افغان افواج کے مورال پر بہت برا اثر پڑے گا اور طالبان زیادہ مضبوط پوزیشن میں آ جائیں گے۔ فیس بک فورم یہ بھی پڑھیے بین الافغان مذاکرات کے لیے حکومتی وفد کا اعلان خوش آئند اور اہم قدم ہے، زلمے خلیل زاد افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی ملتوی کر دی قیدیوں کا تبادلہ کسی بھی وقت متوقع ہے: ترجمان طالبان امریکہ کا عالمی امداد کے لیے افغانستان میں جامع حکومت کے قیام پر زور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے، طالبان سرحد کُھلنے سے افغان باشندوں کی واپسی شروع، پاکستانی افغانستان میں ہی پھنسے ہوئے ہیں زیادہ پڑھی جانے والی خبریں 1 فیفا ورلڈ کپ: پری کوارٹر فائنل مرحلے میں کون کس کے مدِمقابل ہو گا؟ 2 بنگلہ دیش کی بھارت کو ایک وکٹ سے اپ سیٹ شکست، سیریز میں ایک صفر کی برتری 3 'اُمید تھی کہ نئی عسکری قیادت جنرل باجوہ کے اقدامات سے لاتعلق ہو جائے گی' 4 سعودی عرب: عمرے کے لیے اب موبائل سے بائیو میٹرک تصدیق اور ویزا کا حصول ممکن 5 ناک آؤٹ مرحلے میں گول، میسی نے میرا ڈونا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر 1 پنڈی ٹیسٹ: حیران ہوں اتنی ناتجربہ کار بالنگ لائن اپ کھلائی گئی: مصباح الحق 2 قطر: فیفا ورلڈکپ کے ساتھ ساتھ اونٹوں کا مقابلۂ حسن ویو 360 Embed share ویو 360 | آئی ایم ایف کو غریبوں کو سبسڈی دینے پر اعتراض نہیں، تجزیہ کار| جمعہ، 2 دسمبر 2022 کا پروگرام Embed share The code has been copied to your clipboard. width px height px فیس بک پر شیئر کیجئیے ٹوئٹر پر شیئر کیجئیے The URL has been copied to your clipboard No media source currently available 0:00 0:24:28 0:00 ویو 360 | آئی ایم ایف کو غریبوں کو سبسڈی دینے پر اعتراض نہیں، تجزیہ کار| جمعہ، 2 دسمبر 2022 کا پروگرام
جہلم چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ایس ایم منیر کی روح کو ایصال ثواب کیلئے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد جہلم میں خاتون سے زیادتی اور نازیبا ویڈیو خاتون کے شوہر کو بھیج کر طلاق دلوانے والا ملزم گرفتار دینہ میں محکمہ فوڈ اتھارٹی کی کارروائی، 350 لیٹر زائد المیعاد کولڈ ڈرنکس برآمد، ضائع کر دی گئیں کھیوڑہ جپسم لیز کے پاس حادثہ، ٹریکٹر ڈرائیور موقع پر جاں بحق خوراک میں ملاوٹ کرنے والوں کے دن گنے گئے، سپیشل ہیلپ لائن متعارف ضلع جہلم میں اڑیال ہرن کے شکار کی قیمت 25 ہزار ڈالر مقرر دینہ میں 22 سالہ نوجوان ٹرین کی زد میں آ کر جاں بحق ضلع جہلم میں تعلیمی سیمینار اور نمائش کا انعقاد، یونیورسٹیوں کے نمائندگان کی شرکت چکوال کے 2 نوجوان ہونہار بھائیوں نے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں نئی تاریخ رقم کر دی جہلم میں الفلاح فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام فری میڈیکل کیمپ 2 دسمبر کو منعقد ہو گا متحدہ اپوزیشن نے ایک ہی گیند پر وزیراعظم اور اسپیکر کی وکٹیں گرادی۔ راجہ طاہر ایوب، چوہدری تصدق محمد نبیل حسناپریل 10, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber ڈومیلی: متحدہ اپوزیشن نے ایک ہی گیند پر وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی وکٹیں گرادی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارایسا ہواعمران خان کا تختہ الٹاگیا، خط ایک ڈرامہ تھا،وہی عمران خان ہے جوکہتاتھافرانس کے سفیرکونکالنے سے امریکہ ناراض ہوگا، آئین کو بھی توڑا گیا۔ ان خیالات کا اظہار سابق وائس چیئرمین یونین کونسل نگیال راجہ طاہرایوب اور سابق کسان کونسلر چوہدری تصدق نے مقامی اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو بڑاموقع تھاکہ وہ استعفیٰ دیکر گھرچلے جاتے لیکن وہ چھوٹے بچے کی طرح ضد پر قائم رہا۔پاکستان کے آئین کو توڑ کر رولنگ دیلوائی گئی لیکن سپریم کورٹ نے اس غیرآئینی رولنگ کا ازخودنوٹس لیکر آئین کے مطابق فیصلہ دیااور رولنگ کو غیرآئینی دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بھی پھر نہیں ماناگیا ، اسپیکر ڈپٹی اسپیکرنے استعفیٰ دے دیا لیکن اسپیکرنے اچھا اقدام اٹھاتے ہوئے ایاز صادق کو اجلاس کی صدارت کا بولا جس نے تحریک عدم اعتمام پر ووٹنگ ہوئی اوروزیراعظم عمران خان کیخلاف متحدہ اپوزیشن کو 174ووٹ ملے جبکہ حکومتی ممبران نے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ خط ایک ڈرامہ ہے اگر واقعی حقیقت تھا تو جب آیاتب آپ نے سنبھال کرکیوں رکھا، تب عوام کے سامنے لاتے، جب تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی، اکثریت کھوچکے پھر خط سامنے لاکرکرسی بچانے کیلئے عوام کو اکسانہ شروع کردیا کہ پاکستان کے خلاف سازش ہوئی۔جب تم نے فرانس کے سفیر کو نکالنے کیلئے کہاتھاکہ اگر سفیرکو نکالاتو امریکہ ناراض ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ اپوزیشن نے اب ایک گیند پر تین وکٹیں گرادی ہے۔ عمران خان جو کہتاتھا آخری گیند تک کھیلوں گا وہ گراؤنڈ میں آکربھاگ نکلا، شہباز شریف وزیراعظم پاکستان ہوں گے، ملک کی معیشت بہتر اور ترقی دیں گے۔ عمران خان خود امریکی سفیر سے ملتارہا جبکہ او آئی سی اجلاس میں بھی مدعو کیاگیا وہاں احتجاج کرتے۔عمران نیازی کا کھیل اب ختم ہوگیاہے۔ محمد نبیل حسناپریل 10, 2022 Facebook Twitter Pinterest Skype Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Facebook Twitter LinkedIn Tumblr Pinterest Reddit VKontakte Messenger Messenger WhatsApp Telegram Viber Line ای میل کے ذریعے شیئر کریں پرنٹ کریں
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام حقوق العباد کے معاملے میں کہ جیسا کہ میں اور میر ا گھرانا اپنے بڑے بیٹے سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں، کیوں کہ اس کا گھر میں آنا جانا میری باقی اولادوں کے لیے خطرناک ہے، تو اس صورت حال میں کیا میرا اس کو معاف کرنا او راسے گھر میں دوبارہ بلا لینا شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ میرے بڑے بیٹے کی اولاد کے متعلق ہے کہ کیا مجھے اپنے پوتے سے تعلق رکھنا چاہیے یا نہیں؟ او راگر تعلق رکھنا چاہیے تو کن شرائط پر رکھنا چاہیے؟ جواب واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا حرام ہے ، ہاں! اگر یہ قطع تعلق خالص الله تعالیٰ کی خاطر ہو تو پھر اس کی ایک حد تک گنجائش ہے ،لہٰذا اگر آپ کا بیٹا اپنی ان حرکتوں سے باز آتا ہے اور اس کے گھر آنے جانے میں کوئی دینی یا دنیاوی نقصان نہیں ہے، تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس سے تعلق جوڑیں اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور اس کے لیے دعاؤں کا اہتمام کریں کہ الله تعالیٰ اسے نیک، صالح اور مطیع وفرماں بردار بنائے، نیز اس کی اولاد سے بحیثیت دادا آپ کو اچھا اور مشفقانہ معاملہ کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی شاہ فیصل کالونی نمبر4، کراچی پوسٹ کوڈ نمبر75230 ، پاکستان 0092-21-34571132 info@farooqia.com صفحہ اول تعارف دارالافتاء ماہنامہ الفاروق شعبہ تعلیم جامعہ فاروقیہ کراچی فیز II رابطہ طریقہ تعاون تجاویز ، تبصرے اور سوالات کا خیرمقدم info@farooqia.com پر کیا جاتا ہے کوئی حق اشاعت کا نوٹس نہیں۔ www.farooqia.com پر ظاہر ہونے والے تمام مواد کو غیر تجارتی مقاصد کے لئے آزادانہ طور پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ، اعتراف کی تعریف کی جائے گی. Suggestions, comments and queries are welcomed at info@farooqia.com No Copyright Notice. All the material appearing on www.farooqia.com can be freely distributed for non-commercial purposes. However, acknowledgement will be appreciated.
پی سی بی نے پی ایس ایل 2021 کے بقیہ میچز کا شیڈول جاری کردیا۔ پی ایس ایل کے میچز یکم جون سے شروع ہوں گے، پی ایس ایل 6 کا فائنل 20 جون کو کھیلا جائے گا، پی ایس ایل کیلئے کھلاڑی 22 مئی کو بائیو ببل میں رپورٹ کریں گے ۔ We are ready te we are sure oye! Who's going to take home the #HBLPSL6 trophy? ????#MatchDikhao ایل پی جی کی قیمت میں پھر اضافہ More: https://t.co/UBE3Z9YHsX pic.twitter.com/expxoKbNXf — PakistanSuperLeague (@thePSLt20) April 11, 2021 دوسری جانب پی ایس ایل 2021 فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ گورننگ بورڈ کے سامنے پیش کردی گئی، بورڈ اراکین کا رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد سامنے آنے والی خامیوں پراظہار مایوسی بقیہ میچز کے لیے گورننگ بورڈ کی سخت اقدامات کرنے کی ہدایات، گورننگ بورڈ کی سخت پروٹوکولز کے نفاذ اور فیکٹ فائنڈنگ پینل کی تیار کردہ تمام تجاویز کی تائید کوویڈ 19 ایس او پیز کی خلاف ورزی پر تمام افراد کے لئے زیرو ٹالیرنس پالیسی بنانے کی تجویز لیگ کے بقیہ میچز محفوظ ماحول میں کرانے کے لئے حکمت عملی تیار کرلی گئی۔ عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری بائیو ببل کے لیے بین الاقوامی کمپنی کی تقرری آخری مراحل میں ہے، پی ایس ایل کے تمام شرکاء کے لئے بائیس مئی سے سات روزہ قرنطینہ کا آغاز ہو گا۔ تین روزہ ٹریننگ کے بعد یکم جون سے ایونٹ شروع ہو گا بیس جون کو فائنل کھیلا جائے گا، تمام میچز کراچی میں ہوں گے۔
ہوش کے ناخن اب بھی نہ لیے تو کب؟ انگیخت: امتیاز عالم مری کے ہوٹل میں بے ہوش پائے گئے 3 افراد اسپتال میں انتقال کر گئے… سینیٹ:ایم کیو ایم پی پی امیدوار کے حق میں دستبردار،کاغذات واپس لے لیے عمران خان نے اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اندر جانا ہے:راناثنااللہ فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے سفارتخانے میں ملاقات… وزیراعظم سے آصف زرداری کی ملاقات،پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل پر مشاورت… فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے سفارتخانے میں ملاقات… عمران خان آئندہ ہفتے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اہم اعلان کرینگے… بھارت یکم دسمبر کو ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرائے گا… برطانیہ:بجلی کی بچت کیلئے صارفین کیلئے خصوصی اسکیم مؤخر… 13 شیئر کریں آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات:ن لیگ کا فوج کی تعیناتی کیلئے الیکشن کمیشن کو خط… admin نومبر 21, 2022 November 21, 2022 0 تبصرے Spread the love مسلم لیگ ن نے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں فوج اور رینجرز کی تعیناتی کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا۔مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر نے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا کہ امید ہے الیکشن کمیشن انتخابات پاک فوج اور رینجرزکی نگرانی میں کرائے گا۔دوسری جانب الیکشن کمیشن آزاد کشمیر نے چیف سیکرٹری کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا ہےکہ پولنگ اسٹیشنز پر لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے.پولنگ کے دن سکیورٹی کی ذمہ داریاں کسی دوسرے ادارے پر نہیں ڈالی جاسکتیں۔خط کے متن میں مزید کہا گیا ہےکہ آئین تمام اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کاپابند کرتا ہے.انتخابات کے لیے مطلوبہ سکیورٹی فراہم کرکے رپورٹ الیکشن کمیشن کو ارسال کی جائے۔
ہوش کے ناخن اب بھی نہ لیے تو کب؟ انگیخت: امتیاز عالم مری کے ہوٹل میں بے ہوش پائے گئے 3 افراد اسپتال میں انتقال کر گئے… سینیٹ:ایم کیو ایم پی پی امیدوار کے حق میں دستبردار،کاغذات واپس لے لیے عمران خان نے اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اندر جانا ہے:راناثنااللہ فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے سفارتخانے میں ملاقات… وزیراعظم سے آصف زرداری کی ملاقات،پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل پر مشاورت… فواد چوہدری کی امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے سفارتخانے میں ملاقات… عمران خان آئندہ ہفتے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اہم اعلان کرینگے… بھارت یکم دسمبر کو ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرائے گا… برطانیہ:بجلی کی بچت کیلئے صارفین کیلئے خصوصی اسکیم مؤخر… 10 شیئر کریں مجھے اقتدار میں آنا ہی ہے،ہمیں الیکشن مہم کی بھی ضرورت نہیں:عمران خان admin نومبر 23, 2022 November 23, 2022 0 تبصرے Spread the love چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دعویٰ کیا ہےکہ انہوں نے تو پاور میں آنا ہی ہے اور انہیں تو الیکشن مہم چلانے کی بھی ضرورت نہیں.چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے زمان پارک لاہور میں برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے ملاقات کی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے انگلش کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی نشاندہی کرنے والی ایک ٹکنالوجی ہے 5G کی آمد، حتمی تیز رفتار وائرلیس کنیکٹوٹی۔ ایک ایسی ٹیکنالوجی جو پہلے ہی ہم نے موبائل ورلڈ کانگریس کے آخری ایڈیشن میں دیکھا ہے اور جن میں سے ہم ایپل کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اب ہمیں اس کے بارے میں نیا ڈیٹا ملتا ہے ایپل آلات میں 5G کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے، اور ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ وہ بالکل چاپلوسی نہیں کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ لڑکے کپیرٹنو سے ہیں سپلائر کا فیصلہ کرتے وقت وہ پابند ہوں گے ہمارے لئے نئی 5G وائرلیس ٹکنالوجی لانے کے لئے۔ چھلانگ کے بعد ہم آپ کو تمام تفصیلات ... بلومبرگ کے لوگ یہ کہتے ہیں: جب ایپل اپنے نئے 5 جی موڈیم کے لئے فراہم کنندگان کی تلاش کرنے کی بات کرے تو ایپل چٹان اور مشکل جگہ کے درمیان ہوسکتا ہے، کچھ موڈیم جو اصولی طور پر 2020 کے آلات کو شامل کریں۔ وہ 1 جاسکتے ہیں8 ماہ بعد اس کے حریفوں سے 5 جی شامل کرنے میں موڈیم کے ساتھ انٹیل موڈیم جس میں ایم ایم ویو ٹکنالوجی نہیں ہوگی (ایک بلومبرگ ٹیک تجزیہ کار) کاوین کا کہنا ہے کہ (ایک بہتر اسپیکٹرم جسے 5G تیز رفتار وائرلیس رابطے کے حصول کے لئے استعمال کرے گا)۔ مؤخر الذکر ایک ناکامی ہوگی کیونکہ اگر وہ کچھ شروع کرتے ہیں تو اسے ہر ممکن وضاحت کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور معاملہ سام سنگ کے موڈیم کا استعمال کرنا ہے ، لیکن تکنیکی جنگ کے وسط میں یہ سب سے زیادہ ناقابل استعمال آپشن لگتا ہے۔ لیکن آخر میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سام سنگ کا استعمال کرتے ہوئے کوالکم پر واپس جانا پڑے گا۔ اتنا اچھا ، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے مہینوں میں کپیرٹنو لڑکوں کے شاٹس کہاں جاتے ہیں۔ یقینی طور پر جب iOS 13 کے پہلے ورژن جاری ہوں گے تو ہم مستقبل میں 5G کو کپیرٹنو آلات میں شامل دیکھنے کے اہل ہوں گے۔ آپ پہلے ہی جان چکے ہیں کہ ڈویلپرز آلہ کوڈ کا تجزیہ کرنا پسند کرتے ہیں ، اسی طرح اگر آئی او ایس 13 ایپل کے 5 جی والے موبائل آلات کے لئے آپریٹنگ سسٹم ہے تو ، ہم مستقبل کے اس تکنیکی تکمیل کے آثار دیکھیں گے. یہ واضح ہے کہ ایپل کو اپنے سپلائرز کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے لیکن جو یقینی بات ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ مستحکم ٹکنالوجی ہے تو وہ 5 جی کے ساتھ آلات لانچ کریں گے۔ مضمون کا مواد ہمارے اصولوں پر کاربند ہے ادارتی اخلاقیات. غلطی کی اطلاع دینے کے لئے کلک کریں یہاں. مضمون کے لئے مکمل راستہ: آئی فون کی خبریں » ایپل کی مصنوعات » ایپل اپنے آلات 5G کے ساتھ لانچ کرنے کے لئے غیر متوقع واقعات کرسکتا ہے آپ کو دلچسپی ہو سکتی ہے 2 تبصرے ، اپنا چھوڑیں اپنی رائے دیں جواب منسوخ کریں آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت ہے شعبوں نشان لگا دیا گیا رہے ہیں کے ساتھ * تبصرہ * نام * الیکٹرانک میل * میں قبول کرتا ہوں رازداری کی شرائط * ڈیٹا کے لیے ذمہ دار: AB انٹرنیٹ نیٹ ورکس 2008 SL ڈیٹا کا مقصد: اسپیم کنٹرول ، تبصرے کا انتظام۔ قانون سازی: آپ کی رضامندی ڈیٹا کا مواصلت: اعداد و شمار کو تیسری پارٹی کو نہیں بتایا جائے گا سوائے قانونی ذمہ داری کے۔ ڈیٹا اسٹوریج: اوکیسٹس نیٹ ورکس (EU) کے میزبان ڈیٹا بیس حقوق: کسی بھی وقت آپ اپنی معلومات کو محدود ، بازیافت اور حذف کرسکتے ہیں۔ میں نیوز لیٹر وصول کرنا چاہتا ہوں رکی گارسیا۔ کہا پہلے 4 سال آپ نے اشارہ کیا ہے کہ 5G XXVI صدی کی دوسری دہائی میں آئے گا ، مجھے توقع تھی کہ یہ اگلے آئی فون میں ہوگا لیکن ہمیں تھوڑا اور انتظار کرنا پڑے گا۔ رکی گارسیا کو جواب دیں کریم ہمیدان کہا پہلے 4 سال بلیڈ رنر کو دیکھنا مجھے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے ، حالانکہ ہم پہلے ہی بلیڈ رنر کے لمحے پر پہنچ چکے ہیں۔ کریم ہمیدان کو جواب دیں ایپل تیسری پارٹی کی بیٹریوں سے آئی فون کی مرمت کرے گا فولڈنگ فونز کے لچکدار گلاس پر کارننگ پہلے ہی کام کر رہی ہے آپ کے ای میل میں خبریں اپنے ای میل میں تازہ ترین آئی فون کی خبریں حاصل کریں نام دوستوں کوارسال کریں روزانہ نیوز لیٹر ہفتہ وار نیوز لیٹر میں قانونی شرائط کو قبول کرتا ہوں ↑ فیس بک ٹویٹر یو ٹیوب Pinterest پر تار ای میل RSS آر ایس ایس فیڈ میں میک سے ہوں ایپل گائیڈز Android مدد Androidsis۔ Android گائڈز تمام اینڈرائیڈ گیجٹ کی خبریں موبائل فورم ٹیبلٹ زون۔ ونڈوز نیوز لائف بائٹس تخلیقات آن لائن تمام ای آرڈرز مفت ہارڈ ویئر لینکس لت یوبنلوگ لینکس سے واہ گائڈز دھوکہ دہی ڈاؤن لوڈ موٹر نیوز بیزیا Spanish Afrikaans Albanian Amharic Arabic Armenian Azerbaijani Basque Belarusian Bengali Bosnian Bulgarian Catalan Cebuano Chichewa Chinese (Simplified) Chinese (Traditional) Corsican Croatian Czech Danish Dutch English Esperanto Estonian Filipino Finnish French Frisian Galician Georgian German Greek Gujarati Haitian Creole Hausa Hawaiian Hebrew Hindi Hmong Hungarian Icelandic Igbo Indonesian Irish Italian Japanese Javanese Kannada Kazakh Khmer Korean Kurdish (Kurmanji) Kyrgyz Lao Latin Latvian Lithuanian Luxembourgish Macedonian Malagasy Malay Malayalam Maltese Maori Marathi Mongolian Myanmar (Burmese) Nepali Norwegian Pashto Persian Polish Portuguese Punjabi Romanian Russian Samoan Scottish Gaelic Shona Serbian Sesotho Sindhi Sinhala Slovak Slovenian Somali Spanish Sudanese Swahili Swedish Tajik Tamil Telugu Thai Turkish Ukrainian Urdu Uzbek Vietnamese Welsh Xhosa Yiddish Yoruba Zulu
[ایکس] ایم او ڈی اے پی کے پکسل اسٹار گیمز کی طرف سے تیار کردہ ریٹرو پکسل طرز کا زومبی گیم ہے۔ آپ کے لئے کھیل جو اس موضوع کو پسند کرتے ہیں لیکن ایک سخت گیر زومبی کھیل کی پرتشدد اور خونی پیچیدہ دنیا میں بہت زیادہ ڈوب جانا نہیں چاہتے. بس کھیلو اور آرام سے تفریح. [ایکس] کے بارے میں متعارف کرائیں آہستہ آہستہ زومبی زکومار، جلدی کرنے کی ضرورت نہیں مخالف چیزوں سے ایک کشش کہانی موبائل گیمز کی دنیا میں ایسے کھیل ہوتے ہیں جو تضادات اور تضادات سے بھرے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کھیل میں ایک تفصیلی کہانی ہے، لیکن اصل میں، ایسا نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ یہ بہت خونی ہو جائے گا، لیکن آخر میں، وہاں کوئی گور نہیں تھا. اور میں نے سوچا کہ زومبیز کے ساتھ لڑائی شدید ہو جائے گا, لیکن اصل میں, یہ بہت آرام دہ اور آرام دہ ہے. [ایکس] اس طرح کا کھیل ہے۔ غیر متوقع طور پر، وہ تمام غیر متوقع تضادات اس کی کشش ہیں، جس کی وجہ سے کھلاڑی میٹھے جال میں پھنس جاتے ہیں اور گھنٹوں اس میں رہتے ہیں یہاں تک کہ انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ نشے کے عادی ہیں۔ [ایکس] میں، آپ اپوکالیپس کے زندہ بچ جانے والے کے طور پر کھیلتے ہیں۔ مشن نہیں کہتا، ہم یہ بھی جانتے ہیں، آپ زندہ رہنے کا راستہ تلاش کریں گے، زومبیز اور ریسرچ ویکسین کا شکار کریں گے، دنیا کو بچائیں گے۔ گیم پلے اصل میں، میں بھی اس کھیل کے گیم پلے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا. کیونکہ یہ … اصل میں کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. آپریشن اتنا آسان ہے کہ میری بلی بھی زومبیز سے لڑ سکتی ہے۔ آپ کو صرف زومبیز کو مارنے کے لئے سکرین پر چھونے کی ضرورت ہے۔ لیکن سادگی کا مطلب بورنگ نہیں ہے۔ ایک یا دو زومبیز کو مارنا آسان ہے۔ لیکن زومبیز کے بڑے جھنڈ کو مارنے کے لئے، آپ کو بہت سی چیزیں کرنی ہوں گی۔ ہتھیاروں کو تیار کرنے کے لئے مواد اکٹھا کریں، پھر اپنے آپ کو اپ گریڈ کریں، ضرورت پڑنے پر مدد کے لئے لوازمات جمع کریں، پھر مسلسل درجنوں ہتھیاروں کے ساتھ ہتھیار تبدیل کریں جو کھیل فراہم کرتا ہے۔ آپ بہت سے بے دماغ زومبیز کو تیزی سے تباہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لئے اپنی اشرافیہ روبوٹ فوج بھی بنا سکتے ہیں۔ اور راستے میں، یقینا، آپ کو ضروری اشیاء جمع کرنے کے لئے نظام کی طرف سے پیش کردہ ان گنت چیلنجوں (منی گیمز) پر قابو پانا ہوگا۔ یہ سب چیزیں صرف نہیں کرنا چاہتیہیں۔ آپ کو سوچنے، حکمت عملی اور ایک کامل منصوبہ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ تو میں نے شروع سے ہی کہا تھا کہ یہ کھیل خود تضادات کا پہاڑ ہے۔ آہستہ آہستہ، کھیل بھی آپ کو اپنے کردار کا انتخاب کرنے دیں گے اور لے جانے کے لئے مختلف ہتھیاروں کی ایک بہت کا انتخاب کریں گے. لیکن مجھ پر یقین کریں، ہتھیاروں اور کرداروں کو دیکھنا زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ سب صرف ریٹرو پکسل گرافکس کے پکسلز ہیں۔ فرق صرف رنگ ہے. یہ ریٹرو گیم آپ کے بچپن کو واپس لے آئے گا ایک اہم نکتہ جس کے بارے میں میں اس کھیل کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ [ایکس] کا گرافک انداز ہے۔ آپ پہلے ہی جانتے ہیں، ریٹرو ہر شعبے میں ہے اور ایک رجحان کی نمائندگی کرتا ہے کہ آپ کو سامنا کرنا پڑے گا چاہے آپ نہیں چاہتے ہیں. لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ سب کچھ واپس آجائے گا۔ ناسٹلجیا اب ایک انداز نہیں ہے، یہ ایک طرز زندگی ہے۔ کھیل میں ریٹرو اسٹائل کافی عجیب ہے۔ اگر آپ جنرل زیڈ نسل ہیں، تو کیا آپ کو وہ پہلے کھیل یاد ہیں جو آپ نے کنسول پر کھیلے تھے؟ وہ بہت گٹھلی، تفریح، اور تقریبا صرف ایک پکسل گرافکس کا استعمال کرتے ہیں. گیم میں تمام تصاویر، اشارے، اقدامات سکرین پر جمع پکسلز ہیں۔ صرف ان تصاویر کو دوبارہ دیکھ کر، آپ بچپن کی جنت واپس آتے ہوئے دیکھیں گے۔ اور یہاں، ہم ایک ریٹرو کھیل ہے, [ایکس] ہے کہ کھیلنے کے قابل ہے. یہ ڈیزائن ایک فطری طور پر بھاری موضوع آسان، راحت بخش، اور یہاں تک کہ کافی پیارا ہو جاتا ہے. [ایکس] ایک ریٹرو گیم کی تمام کلاسیکی خصوصیات ہے, ڈیزائن سے, رنگ اسکیم سے گیم پلے تک. لیکن آپ کام کی مقدار کی پیش گوئی نہیں کریں گے کہ کھیل میں چھوٹے کرداروں کو صرف اس وقت تک کرنا پڑے گا جب تک کہ آپ واقعی “پلے” بٹن نہ دبائیں۔ پس منظر موسیقی کی شرکت سے ہر چیز کو دوبارہ عروج پر دھکیل دیا گیا۔ دہائیوں پہلے کی موسیقی پر زومبی کھیل کھیل رہے ہیں جب آپ بھڑکتی جینز، باب بال پہنے ہوئے تھے، کیا آپ کو یہ معلوم تھا؟ جب پہلی پریشان کن موسیقی سامنے آئی تو میں ایک طرح سے حیران رہ گیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ موضوع “٧٠ کی دہائی ٨٠ کی دہائی کا فیشن” بن جائے گا۔ لیکن یہ عجیب و غریب موسیقی کا پس منظر ہے جو گیم کے پکسل اسٹائل کے ساتھ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ ایم او ڈی اے پی کے ورژن کا [ایکس] ایم او ڈی خصوصیات مفت اپ گریڈ ایکس پی میں اضافہ کریں کوئی اشتہار نہیں اینڈروئیڈ کے لئے [ایکس] ایم او ڈی اے پی کے ڈاؤن لوڈ کریں [ایکس] ایک کھیل ہے جو آپ تصویر اور تعارف کو دیکھتے وقت واقعی پسند نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن اسے ایک موقع دیں، اور آپ کو کچھ سفید راتیں اس کھیل میں زومبیز کو مارنے کے لئے قیام کریں گے. مجھ پہ بھروسھہ کرو. ڈاؤن لوڈ، اتارنا [ایکس] ایم او ڈی اے پی کے یہاں، لوگو! Open Comments This Is the Police Unlimited Money Size: 669 MB Rating: 4.8 Install: 14690 Type: Game Mod Inked Size: 623 MB Rating: 5.0 Install: 152 Type: Game Ori Peace, Death! 2 Unlimited Money Size: 32 MB Rating: 4.9 Install: 533 Type: Game Mod Max Payne Mobile Cheat Panel Size: 1 GB Rating: 4.8 Install: 139 Type: Game Mod World of Warcraft Mobile Size: 1 GB Rating: 4.3 Install: 88 Type: Game Ori Vainglory Size: 1 GB Rating: 4.7 Install: 6579 Type: Game Ori About Me vicitleo.org ایک ایسی سائٹ ہے جو جدید ترین اینڈرائیڈ موڈ ایپس اور گیمز کا اشتراک کرتی ہے۔ ہماری APK فائلیں بڑے اور تیز سرورز پر رہتی ہیں، فریق ثالث کی خدمات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مزید معیار کی ضمانت، محفوظ اور پائیدار بنانے کے لیے۔
پہلے تو ميں اس طرح كا سوال كرنے ميں معذرت چاہتا ہوں، ليكن اپنى نيت ميں شك كى مجال نہ چھوڑنے كے ليے ميں يہ كہتا ہوں: ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور ميں مكمل طور پر راضى ہوں كہ اللہ تعالى ميرا رب ہے اور اسلام دين ہے، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم رسول ہيں. ميں سنت يعنى حديث كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں كيونكہ ايك ہى حديث كى كئى ايك روايات پائى جاتى ہيں مثلا صحيح بخارى ميں ہم ايك حديث پاتے ہيں جو اسلوب ميں مسلم كى روايت مختلف ہے، لہذا سنت نبويہ قرآن عظيم كى طرح كيوں نہيں ؟ اور سنت مطہرہ اور قرآن عظيم ميں كيا فرق ہے، آيا سنت نبويہ شريف وحى ميں شامل ہوتى ہے جو رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوتى تھى، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال اور افعال ميں سے ؟ اور كيا يہ خصائص نبوت ميں سے ہے يا كيا ؟ جواب کا متن متعلقہ الحمد للہ. اول: ہر مسلمان كے دل اور عقل ميں يہ بات بيٹھ جانى چاہيے كہ سنت ـ وہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال يا اقوال يا تقرير كى طرف منسوب كى جائے ـ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے ايك قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى دوسرى قسم قرآن كريم ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے النجم ( 3 - 4 ). مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو. خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے " سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 ) ترمذى نے اسے غريب من ھذا الوجہ كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2870 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے. ہمارے دين حنيف سے سلف صالحين رحمہ اللہ تو يہى سمجھے تھے. حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے " ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. سنت كى اہميت اس سے بھى واضح ہوتى ہے كہ سنت نبويہ كتاب اللہ كا بيان اور اس كى شرح كرنے والى ہے، اور پھر جو احكام كتاب اللہ ميں ہيں ان سے كچھ احكام زيادہ بھى كرتى ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں النحل ( 44 ). ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے: پہلى قسم: كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام. دوسرى قسم: كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے " انتہى ديكھيں: جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 ). دوم: جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے. ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں: اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں الحجر ( 9 ). اور ارشاد ربانى ہے: كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے الانبياء ( 45 ). اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے " انتہى ديكھيں: الاحكام ( 1 / 95 ). سوم: جب يہ ثابت ہو گيا كہ سنت نبويہ وحى الہى ہے تو يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس سنت اور حديث ميں ايك فرق ہے، اور وہ فرق يہ ہے كہ قرآن مجيد تو اللہ كى كلام يعنى كلام اللہ ہے، اسے اپنے لفظوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نازل فرمايا، ليكن سنت بعض اوقات كلام اللہ نہيں ہو سكتى، بلكہ وہ صرف وحى ميں شامل ہو گى، پھر يہ لازم نہيں كہ آپ اس كے الفاظ كى ادائيگى كريں، بلكہ معنى اور مضمون كے اعتبار سے ادا ہو سكتى ہے. اس فرق كو سمجھ جانے سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ سنت نبويہ كے نقل ميں معتبر معنى اور مضمون ہے، نہ كہ بذاتہ وہ الفاظ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بولے، شريعت اسلاميہ تو اللہ كى حفاظت سے محفوظ ہے، اللہ تعالى نے قرآن مجيد كى مكمل حفاظت فرمائى، اور سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اجمالى طور پر اور اس كے معانى كى حفاظت كى، اور سنت نبويہ نے جو كتاب اللہ كى وضاحت و تبيين كى اسے محفوظ ركھا، نا كہ اس كے الفاظ و حروف كى. اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا. اور عزيز سائل جو ايك ہى حديث كى كئى روايات ديكھتا ہے ا سكا معنى يہ نہيں كہ سنت نبويہ كے نقل كرنے اور اس كى حفاظت ميں كوئى كوتاہى ہے، بلكہ كئى ايك اسباب كى بنا پر روايات مختلف ہيں جب يہ ظاہر ہو جائيں تو جواب واضح ہو جائيگا. تو يہ كہا جاتا ہے: چہارم: روايات كئى ايك ہونے كے كئى اسباب ہيں: 1 - حادثہ اور واقعہ كئى بار ہوا ہو: ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " جب معنى ايك ہى ہو تو روايات كا مختلف ہونا حديث ميں عيب نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ جب آپ كوئى حديث بيان كرتے ت واسے تين بار دھراتے، اس طرح ہر انسان اپنى سماعت كے مطابق نقل كرتا، جب معنى ايك ہو تو روايات ميں يہ اختلاف اس مين شامل نہيں ہوتا جو حديث كو كمزور كر دے " انتہى ديكھيں: الاحكام ( 1 / 134 ). 2 – روايت بالمعنى: كسى ايك حديث كى كئى روايات ہونے كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ مہم تو حديث نقل كرنا اور اس كے مضون اور اس حديث ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى ادائيگى ہے، رہے حديث كے الفاظ تو يہ قرآن مجيد كى طرح تعبدى نہيں. اس كى مثال درج ذيل حديث ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " انما الاعمال بالنيات " اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے. يہ حديث " العمل بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى مروى ہے، اور " انما الاعمال بالنيات " كے الفاظ سے بھى، اور " الاعمال بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى، اس تعدد روايت كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ حديث كا مخرج ايك ہى ہے اور وہ يحي بن سعيد عن محمد بن ابراہيم التيمى عن علقمۃ عن عمر رضى اللہ تعالى عنہ ہے، ديكھيں كہ ان سب جملوں سے جو معنى سمجھ ميں آتا ہے وہ ايك ہى ہے، تو پھر تعدد روايات يعنى حديث كا كئى ايك روايات سے مروى ہونے ميں كيا ضرر ہے ؟! اور علماء كرام اپنا زيادہ كرنے كے ليے كہ راوى نے حديث كا معنى صحيح نقل ہے روايت بالمعنى صرف اس راوى كى قبول كرتے تھے جو عربى زبان كا ماہر اور علم ركھتا ہو، پھر علماء كرام اس راوى كى روايت كا دوسرے ثقات راويوں كى روايت سے مقارنہ اور موازنہ كرتے اس طرح ان كے ليے نقل ميں جو غلطى ہوتى وہ واضح ہو جاتى، اس كى مثاليں بہت ہيں ليكن يہ اس كے بيان كرنے كا مقام نہيں. 3 - راوى كا حديث كو مختصر كر كے روايت كرنا: يعنى راوى كو پورى اور مكمل حديث حفظ ہے ليكن وہ فى الحال وہ اس كا جزء اور حصہ ہى نقل كرنے پر اكتفا كرتا ہے، اور كسى دوسرى حالت ميں مكمل حديث بيان كر ديتا ہے، اس كى مثال درج ذيل حديث ہے: ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ظہر كى نماز ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے بھولنے كے قصہ كے متعلق ذكر كردہ روايات ميں سارى روايات ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے مروى ہيں اور قصہ بھى ايك ہے، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ روايات كا اختلاف راوى كا روايت اختصار كے ساتھ بيان كرنا ہے. ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) اور ( 715 ) اور ( 1229 ). 4 - غلطى و خطا: كسى راوى سے غلطى اور خطا واقع ہو جاتى ہے تو وہ حديث كو اس كے علاوہ روايت كر ديتا جس طرح دوسرے راوى روايت كرتے ہيں، اس غلطى و خطا كى پہچان دوسرى روايات كے ساتھ مقارنہ و موازنہ كرنے سے ہو جاتى ہے، اور كتب سنہ اور كتب تخريج ميں اہل علم نے يہى كام كيا ہے. شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ليكن اللہ تعالى نے اس امت كے ليے جو نازل كيا ہے اس كى حفاظت فرمائى ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے: ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں الحجر ( 9 ). چنانچہ قرآن كى تفسير يا نقل حديث يا اس كى شرح ميں جو غلط ہے اللہ تعالى امت ميں ايسے شخص پيدا فرمائيگا جو اس غلطى كو صحيح كرينگے، اور غلطى كرنے والے كى غلطى اور جھوٹ بھولنے والے كے كذب كى دليل بيان كرينگے، كيونكہ يہ امت كسى گمراہى و ضلالت پر جمع نہيں ہو سكتى، اور ہر وقت اس ميں حق پر ايك گروہ موجود رہيگا حتى كہ قيامت قائم ہو جائے، كيونكہ امتوں ميں سے يہ سب سے آخرى امت ہے ان كے نبى كے بعد كوئى اور نبى نہيں، اور ان كى كتاب كے بعد كوئى اور كتاب نہيں. پہلى امتوں نے جب اپنے دين ميں تبديلى و تغير كر ليا تو اللہ تعالى ان ميں نبى مبعوث فرما ديا كرتا تھا جو انہيں حكم ديتا اور برائى سے منع كرتا، ليكن محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں، اور پھر اللہ تعالى نے جو ذكر نازل كيا ہے اسے محفوظ ركھنے كى ضمانت لے ركھى ہے " انتہى ديكھيں: الجواب الصحيح ( 3 / 39 ). سنت نبويہ اس وجہ پر جو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں كہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے وحى ہے: يہ لوگوں كے ليے نازل كردہ كتاب كى وضاحت و تبيين كرتى ہے، اور انہيں ان كے دين كے ضرورى احكام سكھاتى ہے، اگرچہ اس كى تفصيل يا اس كى اصل كتاب اللہ ميں آئى ہے، ہم يہ كہينگے: اس طريق اور وجہ سے سنت نبويہ نبوت كے خصائص ميں شامل ہوتى ہے؛ اور يہ كام اور وظيفہ نبوت كے وضائف ميں سے ہے، اور اب تك لوگ سنت كو اس وجہ اور طريق سے ہى ديكھتے ہيں، جو كتب ميں موجود ہے، يا بعض الفاظ كے اختلاف كے ساتھ زبانى روايات ميں پائى جاتى ہے، يا حديث كے كئى ايك سياقات ميں، اور اس ميں ايسى كوئى چيز نہيں جو اس كے مقام و مرتبہ ميں شك پيدا كرتى ہو، يا اس كى حفاظت ميں كوئى قلق و پريشانى كا باعث ہو، يا اس كى حجيت ميں تردد و اختلاف پيدا كرے، اور لوگوں كو اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ لوگ كثرت سے علمى و عملى مسائل ميں اختلاف و تردد كا شكار ہو چكے ہيں. علامہ شيخ عبد الغنى عبد الخالق رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہم غزالى اور آمدى اور بزدوى اور ان كے طريقوں كے سب متبعين جو اصولى مؤلف ہيں ان كى كتب اس كى تصريح نہيں پاتے اور نہ ہى كوئى اس مسئلہ ميں اختلاف كا اشارہ ہى پاتے ہيں، اور يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے سے قبل سابقہ لوگوں كى كتابيں اور مذہب كا پيچھا كيا، اور ان كے اختلافات كو كا تتبع كيا حتى كہ شاذ قسم كے اختلافات كا بھى، اور اس كے رد كا بہت زيادہ خيال كيا " پھر انہوں نے " مسلّم " كے مؤلف سے كتاب و سنت اور اجماع و قياس كى حجيت سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ: يہ علم كلام ميں سے ہے، ليكن دو اصولوں اجماع اور قياس كى حجيت پر كلام كى ہے، كيونكہ بےوقوف قسم كے خوارج اور رافضيوں ( اللہ انہيں ذليل كرے ) نے ان دونوں سے ہى اكثر دليل لى ہے اور وہ ان ميں مشغول ہوئے ہيں. رہى كتاب و سنت كى حجيت تو دين كے سب آئمہ اس كى حجيت پر متفق ہيں اس كے ذكر كرنے كى كوئى ضرورت نہيں " انتہى
جہلم: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آج کے حالات کی ذمہ دار دھاندلی سے آنے والی سابق حکومت ہے، اگلے الیکشن میں جیت مسلم لیگ ن کی ہوگی۔ آرمی چیف تقرر: سمری موصول، وزیراعظم صحتیاب، 5 ناموں پر مشاورت ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ن لیگ آج بھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ 2023 کے انتخابات میں ن لیگ کو کامیابی ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے طے کرلیا ہے کہ اب عوام کا مینڈیٹ چوری نہیں ہونے دیں گے، ن لیگ نے سیاست قربان کر کے ملکی حالات ٹھیک کرنے کی ٹھان لی ہے، ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے ہم نے مشکل فیصلے کیے، آج ہمیں اپنے ملک کے حالات کو دیکھنا ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گزشتہ چار سال کے دوران صرف جھوٹ بول کر ملک کو تباہ کیا گیا، 2018 کے انتخابات چوری کیے گئے، مسلم لیگ ن اپنی کارکردگی کی بات کرتی ہے، ہمیں ملک میں اتفاق کی ضرورت ہے، جس گھر میں اتفاق نہ ہو وہ گھر نہیں چل سکتا۔ عمران خان کو 9 ارب روپے ہرجانے کا نوٹس سابق وزیراعظم نے ورکرز کنونش سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خا ن کی دھمکیوں اور مارچ کا مقصد آرمی چیف کی تعیناتی پر اثرانداز ہو نا ہے، 26 تاریخ کو آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ ہونا ہے، عمران خان دھمکیاں دے کر آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں، آرمی چیف کی تعیناتی کا حق صرف وزیراعظم کے پاس ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اب بھی بلیک میلنگ اور انتشار کی سیاست کر رہے ہیں، انہوں نے چار سال کے دوران صرف سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے چین، سعودی عرب اور روس سے تعلقات بگاڑے، ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے امریکہ سے بھی تعلقات خراب کیے، عمران خان بتائیں آج کس مقصد کے لیے کوششیں کر رہے ہیں؟ آرمی چیف کی تقرری دو تین روز میں ہو جائے گی،وزیراعظم کا خط جی ایچ کیو کو بھیج دیا، وزیر دفاع ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عمران خان اہم معاملات کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں، توشہ خانہ کیس عمران خان کے جھوٹ کا واضح ثبوت ہے۔ ٹیگز : آرمی چیفشاہد خاقان عباسیعمران خانن لیگ متعلقہ خبریں پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی پھر گرفتار تحریک حقیقی آزادی کے قیام تک جاری رہے گی، عمران خان بلاول بھٹو نے عمران خان کے استعفوں کے اعلان کو ڈرامہ قرار دے دیا تازہ ترین عمران خان پر تنقید سے میرا 95 فیصد میوزک کا کام ختم ہو گیا، جواد احمد پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی پھر گرفتار تحریک حقیقی آزادی کے قیام تک جاری رہے گی، عمران خان بلاول بھٹو نے عمران خان کے استعفوں کے اعلان کو ڈرامہ قرار دے دیا جس دن عمران خان نے کہا پنجاب اسمبلی توڑ دیں گے، مونس الہیٰ وفاقی حکومت کا پنجاب، کے پی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ جب تک اللہ نہ چاہے،پنجاب حکومت کو کچھ نہیں ہو گا، پرویزالہی ویڈیوز عمران خان نے سپریم کورٹ سے اہم مطالبہ کر دیا راولپنڈی: بھارتی خاتون کی 75 سال بعد پریم نگر کی پریم گلی آمد، شاندار استقبال، بھنگڑے،جذباتی مناظر ہم نیوز پر شائع یا نشر ہونے والا مواد ادارتی ٹیم کی کاوش ہے۔ اس مواد کو بغیر پیشگی اجازت کسی بھی صورت میں استعمال یا نقل کرنا درست نہیں۔
ویو ریج پی ٹی اے ایک غیر منفعتی پیرنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن ہے جو ریج کے سیکھنے والوں ، اساتذہ ، والدین ، اور عملے کو مربوط کرتی ہے ، اور ان کو مربوط کرتی ہے اور ہماری برادری کی تعمیر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ہمارا وژن ایک ایسی جماعت ہے جو: سیکھنے کے ایسے ماحول کی حمایت کرتا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں ، تجسس اور تخیل کو جنم دیتا ہے انفرادی کردار ، عزم اور لچک کو مضبوط کرتا ہے کنبہ ، برادری اور اسکول کو جوڑتا ہے تعاون اور ذمہ داری کو فروغ دیتے ہیں کلک کریں یہاں آج پی ٹی اے میں شامل ہونے کے لئے! مجلس عاملہ 2021-2022 تعلیمی سال شریک صدر -کیلسی ڈینر نائب صدر - ڈوئی ٹران سکریٹری - کیسی وائٹ خزانچی - Iryna مرے اسسٹنٹ خزانچی - کیسینڈرا ایکور کچھ بانٹنا ہے؟ برائے کرم آرٹیکلز اور ایونٹس کو ویب سائٹ کے ذریعے بھیجا جاسکتا ہے لاگ ان کریں یا رجسٹر کریں جمع کرنے کے لئے ، براہ کرم یہ دیکھیں ہدایات ویب سائٹ پر مضمون پیش کرنے کا طریقہ منگل کو عام طور پر ہفتے میں ایک بار ہمارے ای میل نیوز لیٹر ، اوٹر جان ، میں بھی مضامین شامل ہوتے ہیں۔ جمعہ کے روز ضرورت پڑنے پر اوٹر نئ اپڈیٹ بھیجا جاتا ہے۔ منگل کی اشاعت سے پہلے جمعہ کو اوٹٹر جانکاری کے مضامین جمعہ کو ہونے والے ہیں۔
(۲۶ ستمبر ۲۰۲۱ء کو ادارۃ النعمان پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے طلبہ کے ساتھ گفتگو) بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج میں آپ حضرات کو موجودہ معروضی حالات میں اسلام کے قانون و نظام کو کسی بھی سطح پر تسلیم کرنے والی مسلم حکومتوں کی صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن کے دستور و قانون میں اسلام کا نام شامل ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومتیں اور ریاستیں ہیں۔ سعودی عرب، پاکستان اور ایران تو سب کے سامنے ہیں البتہ مراکش میں بھی سربراہ مملکت کو امیر المؤمنین کہا جاتا ہے جس کا پس منظر اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔ سعودی عرب کا باقاعدہ نام ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ ہے جو آج سے کم و بیش ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے بکھرنے کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس ریاست میں ’’آل سعود‘‘ کے زیر اقتدار وہ علاقے شامل ہیں جن میں اس وقت مختلف معاہدات کی صورت میں آل سعود کے دائرۂ اقتدار میں شامل کیا گیا تھا اور ان پر بین الاقوامی طور پر آل سعود کا حق حکمرانی خاندانی اور نسلی بنیاد پر تسلیم کیا گیا تھا، جبکہ آل سعود نے حکمرانی کا حق ملنے کے بعد قرآن کریم کو اپنی مملکت کا ریاستی مذہب اور دستور و قانون کی بنیاد قرار دینے کا اعلان کیا تھا، سعودی عرب کی حکومتی نظام میں الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا خاندان بھی ’’آل شیخ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ کے تحت شریک تھے اور ان کے درمیان تقسیم کار چلی آرہی ہے۔ سعودی عرب کا عدالتی نظام مکمل طور پر قرآن و سنت کے تابع ہے جس کی برکات پورے ملک میں دکھائی دے رہی ہیں، البتہ اب موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دستور و قانون کی بنیاد قرآن کریم کے ساتھ حدیث و سنت بھی ہے یا صرف قرآن کریم ہی ریاست و حکومت کی اساس ہے۔ بہرحال خاندانی حکومت ہونے کے باوجود اپنے دستور و قانون کے حوالہ سے ایک اسلامی ریاست ہے اور حالات میں مختلف تغیرات کے باوجود اسلامی ریاست اور حرمین شریفین کے انتظام و خدمت کے حوالہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت و احترام سے بہرہ ور ہے۔ پاکستان ایک سیاسی اور عوامی تحریک کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء کے دوران برطانوی استعمار کے تسلط کے خاتمہ اور متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر وجود میں آیا تھا، اور اس نئی مملکت کے قیام کی تحریک چلانے والے قائدین نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کے لیے کر رہے ہیں، چنانچہ ملک کے باقاعدہ قیام اور مسلم لیگ کو اقتدار منتقل ہونے کے بعد اس کے ریاستی و حکومتی نظام کی تشکیل کا سوال کھڑا ہوا تو اگرچہ سیکولر حلقوں اور لابیوں نے پوری کوشش کی کہ اس نوزائیدہ مملکت کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست کی حیثیت دے دی جائے مگر دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت اس کی نظریاتی بنیاد ہمیشہ کے لیے طے کر دی کہ (۱) حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔ (۲) حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا اور (۳) پارلیمنٹ اور حکومت قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہوں گی۔ ان اصولوں کی تشریح تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام نے متفقہ ’’۲۲ دستوری نکات‘‘ کی صورت میں کر دی جن میں سے بیشتر نکات دستورِ پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہیں اور انہی اسلامی دستوری بنیادوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ عملی صورتحال شروع سے اب تک اس سے مختلف چلی آرہی ہے اور مقتدر حلقے دستوری صراحتوں کے باوجود عملی طور پر اسلامی احکام و قوانین کو نفاذ و فروغ کا کوئی راستہ نہیں دے رہے۔ البتہ دستوری اساس کے لحاظ سے ہر ایک اسلامی ریاست ہے اور اگر دستور پر تمام ادارے اور طبقے خلوص کے ساتھ عمل کریں تو پاکستان اسلامی ریاست کے طور پر ایک آئیڈیل ملک کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آسکتا ہے۔ تیسری طرف ایران نے جناب آیت اللہ خمینی کی قیادت سے مذہبی انقلاب کے بعد خود کو ’’اسلامی جمہوریہ ایران’’ کی شکل دی اور اسلام کو ریاست کا سرکاری دین اور ’’اثنا عشری فقہ‘‘ کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا، دستور کے مطابق ملک میں حاکمیت اعلیٰ ’’امامِ غائب‘‘ کی تسلیم کی گئی اور ان کی نمائندگی ’’ولایتِ فقیہ‘‘ کے عنوان سے ملک کے سب سے بڑے فقیہ کرتے ہیں جو اپنے دور میں خمینی صاحب تھے، اور اب جناب آیت اللہ خامنہ ای صاحب کو وہ مقام حاصل ہے جو مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام ریاستی و حکومتی اداروں کے لیے حکمران اعلیٰ اور فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ نظام حکومت چلانے کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کو ذریعہ بنایا گیا ہے اور پارلیمنٹ اور حکومتی مناصب عوامی الیکشن کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ گویا ایران میں اہلِ تشیع کے اثنا عشری طبقہ نے اپنے ’’تصور امامت‘‘ کو دستوری اور قانونی حیثیت دے دی ہے جو ان کے دائرہ میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔ اس پس منظر میں افغانستان اور طالبان پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ طالبان نے اب سے دو عشرے قبل اپنے دور اقتدار میں افغانستان کو ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا عنوان دیا تھا جس میں امیر المؤمنین کے طور پر ملا محمد عمر مجاہدؒ نے کم و بیش پانچ سال حکومت کی جس کے مثبت ثمرات و نتائج اور برکات کا ابھی تک عالمی سطح پر اعتراف کیا جا رہا ہے، اس کے بعد انہیں امریکی اتحاد کے ساتھ بیس سال تک جنگ لڑنا پڑی جس میں سرخرو ہونے کے بعد اب پھر وہ پورے افغانستان میں برسر اقتدار ہیں اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے اقتدار اور نظام کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں باقی تفصیلات سے قطع نظر دو باتوں کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان شرائط اور قیود کو بہرحال تسلیم کریں جو عالمی اداروں نے ان کے لیے طے کر رکھے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ زیادتی اور نا انصافی کی بات ہے، وہ اسلامی عقیدہ اور افغان ثقافت کے ساتھ بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور ان کا ایک مستقل ’’وژن‘‘ ہے جسے یکسر مسترد کر دینے کی بجائے معاشرتی تجربہ اور سماجی عملداری کا موقع ملنا چاہئے۔ عالمی قوتیں اپنے نظام اور سولائزیشن کو ہر جگہ مسلط کرنے کے لیے دباؤ، جبر اور مکر کے جو حربے مسلسل استعمال کر رہی ہیں وہ بجائے خود ان کے نظام و ثقافت کے کھوکھلا ہونے کی علامت ہے۔ انہیں اگر اپنی سولائزیشن کے انسانی سماج کے لیے مفید ہونے کا یقین ہے تو اس کا فیصلہ انسانی سماج کو کرنے دیں جو تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ متبادل نظام و ثقافت کے طور پر امارت اسلامی افغانستان کو کسی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کے بغیر آزادی کے ساتھ اپنا نظام قائم کر نے کا موقع دیں اور کچھ عرصہ انہیں مکمل خود مختاری کے ساتھ اپنے نظام و ثقافت پر عمل کرنے دیں، تاکہ دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہو سکے کہ انسانی سماج کی بہتری کے لیے مغرب کا نظام و ثقافت زیادہ کارآمد ہے یا اسلامی نظام و قانون زیادہ مفید ہے۔ یہ فیصلہ خود کرنے کا کسی بھی فریق کو حق حاصل نہیں ہے، جبکہ مغرب یکطرفہ طور پر دھونس، دھاندلی، جبر اور دباؤ کے تمام حربے اختیار کر کے افغانستان میں اسلامی نظام و ثقافت کے نفاذ کا راستہ روکنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ دوسری بات مسلم حکومتوں سے کرنا چاہوں گا کہ اسلام کے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ وہ بھی اپنے ایمان و کمٹمنٹ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عالمی دباؤ کے سامنے خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں، ان کے لیے اپنے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ وابستگی کے اظہار کا طریقہ یہی ہے کہ وہ امارت اسلامی افغانستان کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے اسے آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں، وہ اگر تعاون نہیں کر سکتے تو رکاوٹیں کھڑی کرنے سے گریز کریں، ہمیں یقین ہے کہ اگر امارت اسلامی افغانستان کو کسی قسم کی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کے بغیر کم از کم دس سال آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا تو دنیا کے سامنے اسلامی احکام و قوانین کو آئیڈیل نظام کے طور پر پیش کرنے کا جو خواب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے پیش کیا تھا وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پڑوس میں امارت اسلامی افغانستان کی صورت میں دنیا ضرور دیکھ لے گی، ان شاءاللہ تعالیٰ۔ اسلام اور عصر حاضر (دسمبر ۲۰۲۱ء) دسمبر ۲۰۲۱ء جلد ۳۲ ۔ شمارہ ۱۲ خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات محمد عمار خان ناصر اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۳) ڈاکٹر محی الدین غازی علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۵) مولانا سمیع اللہ سعدی امام شافعی: مستشرقین و ناقدین مستشرقین کی نظر میں ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل دورحاضرمیں اسلامی فکر : توجہ طلب پہلو ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی مسلم حکومتیں اور اسلامی نظام مولانا ابوعمار زاہد الراشدی شرعی احکام اور ہمارا عدالتی نظام مولانا ابوعمار زاہد الراشدی مجمع العلوم الاسلامیہ: اصولی موقف اور بنیادی اعتراضات محمد عرفان ندیم تلاش کریں الشریعہ اکادمی الشریعہ اکادمی ماہنامہ الشریعہ گزشتہ شمارے مقالات و مضامین رابطہ گزشتہ شمارے 1989 1990 1994 1995 1996 1997 1998 1999 2000 2001 2002 2003 2004 2005 2006 2007 2008 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 2019 2020 2021 2022
شاہ جی نے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی امت کا درد لینے کی کوشش میں آپ ﷺ کی پیاری امت کی رشد و ہدایت کا بیڑہ اٹھایا ۔آپ نے لوگوں کے ساتھ ورکنگ کا آغاز فرمایاتو اپنے ساتھ منسلک لوگوں کو '' احساس کی کرن '' کے نام سے ایک مختصر آن لائن پیغام روزانہ صبح بھیج کر مختلف موضوعات پر دل میں احساسات بیدار کرنے کی کوشش فرمائی ۔اس کتاب میں انہی موضوعات کو مجتمع کیا گیا ہے۔ یہ موضوعات ذات پر کام، محاسبہ نفس ، پیارے آقائے دو جہانﷺ کی شان ، محبتِ اہل بیت اطہارؑ اور فضائل صحابہ کرامؓ اور محبت قران کریم سے متعلق ہیں۔ ان موضوعات پر نہایت عام فہم انداز اور مختصر پیرائے میں قرانی آیات اور احادیث کے حوالے کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ موضوعات کسی بھی طرح پڑھنے والوں کے لیئے نئے نہیں اور ان پر معلومات بھی باآسانی ہر جگہ پڑھنے والوں کو مہیا ہیں مگر یہاں ان موضوعات پر معلومات کے ساتھ ان کے حوالے سے احساس بیدار کرنا خصوصیت کا حامل ہے۔ ہر ایک موضوع پر کئی زاویوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس روشنی کے دل میں اترنے سے پڑھنے والوں کے اندر کے در کھلتے اور ان کے احساسات بیدار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان موضوعات کے حوالے سے احساسات کو جگا کر عمل کی جانب رغبت دلانا ہی اصل مقصد بھی ہے کیونکہ احساسات کا جامد ہو نا ہی عمل کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بیداری احساس سے ہی عمل کی راہ آسان ہوتی ہے۔ Write a review Please login or register to review Ehsas Ki Kiran Brand: Shah Jee Product Code: Ehsas Ki Kiran Availability: 501 $3.00 Ex Tax: $3.00 Qty Add to Cart 0 reviews / Write a review Related Products Marka 'e' Haq 'o' Batil خالق کا ئنات نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سے افضل ترین مخلوق ’’بشر‘‘ کو بنا یا اور روزِ ازل سے اس ک.. $5.00 Ex Tax: $5.00 Haq Baat خالق کا ئنات نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سے افضل ترین مخلوق ’’بشر‘‘ کو بنا یا اور روزِ ازل سے اس ک.. $10.00 Ex Tax: $10.00 Haq Ka Alm Thamy Rakhna شاہ جی عاشق رسول ﷺ ہیں۔ آپ نے پیارے آقا ئے دو جہاں ﷺ کے عشق میں آپ ﷺ کی امت کا درد اپنا درد بنا لیا ..
ویڈیو سرخیاں — سماء اسپیشل — ٧ سے ٨ — عوام کی آواز — عوام کی آواز — احتساب — گیم سیٹ میچ — ندیم مالیک — نیا دن — نیوز بیٹ — پکار — قطب آن لائن ٹی وی پروگرام اینکرز — شوز — شیڈول Subscribe to notifications Get the latest news and updates from Samaa TV Not Now Allow Notifications انٹرٹینمنٹ » فنون شاہ رخ خان اور سلمان خان فلم میں ایک ساتھ دکھائی دیں گے ویب ڈیسک Nov 05, 2018 بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان اور سلمان خان پہلی بار ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی کی فلم میں ایک ساتھ دکھائی دیں گے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی اپنے اگلے پراجیکٹ میں کنگ خان اورسلمان خان کو کاسٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ فلم میں دونوں کا کردار مرکزی ہوگا۔ فلم کی کہانی 1991ء میں ریلیز ہونے والی دلیپ کمار اور راج کمار کی مقبول فلم ’’سوداگر‘‘ سے ملتی جلتی ہے اور اس میں کسی حد تک شاہ رخ اور سلمان کی زندگی کا عکس بھی موجود ہے جس میں دونوں دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اوریہ دشمنی ایک بار پھر دوستی میں بدل جاتی ہے۔ فلم کا نام اور دیگر کاسٹ بارے فی الحال کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ سلمان خان نے حال ہی میں فلم ’بھارت‘کے دوسرے شیڈول کی عکس بندی ابوظہبی میں مکمل کروائی ہے۔ اس موقع پر اداکار نے ابوظہبی کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں یہاں اپنے قیام کے دوران ممبئی جیسا ہی محسوس ہوتا رہا۔ فلم کی کاسٹ میں کترینہ کیف، تبو، جیکی شروف، سنیل گروور، دیشا پتانی اور نورا فتحی شامل ہیں۔ فلم کے ہدایت کار علی عباس ظفر ہیں۔ فلم آئندہ سال عید پر نمائش کے لئے پیش کی جائے گی۔
ڈی۔پی۔او آفس لوئر چترال میں منشیات کے مقدمات میں موثر تفتیش اور منشیات فروشان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی نسبت ایک روزہ سیمنار کا انعقاد آغا خان ایجوکیشن سروس قوم کے نونہالوں کی مخفی صلاحیتوں کو نکھارنے اور قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے میں مصروف عمل ہے. کمانڈنٹ چترال اسکاؤٹس اپر چترال تحریک انصاف حقیقی ازادی مارچ روانگی سے قبل بدنظمی کا شکار ۔دو گروہ آپس میں مشت گریبان آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی چالیس سالہ تقریبات کے دوسرے روز ‘بااختیار خواتین، با اختیار معاشرہ’ کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام تجار یونین لوئیرچترال کے نمائندہ وفد کا ڈپٹی کمشنر چترال لوئیر سے ملاقات۔ تحصیل چئیرمین مستوج سردار حاکم نے بونی بازار میں اسٹریٹ لائٹ اور بونی دریا کے اس پار قصاب خانوں کا افتتاح کیا گیا۔ چترال میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی چالیس سالہ تقریبات کا آغاز ۔۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اپر چترال کا بونی میں ورکر کنونشن ۔سابق ایم این اے افتخار الدین کی خصوصی شرکت۔ امیرِ جماعت اسلامی جاوید حسین کی کال پر بونی اپر چترال میں عمائدین کا اہم اجلاس۔ تورکھو چوری کے مقدمے میں ملوث ملزمان گرفتار 5لاکھ سے زیاد مال مسروقہ بر آمد۔ ایس ایچ او خلیل الرحمٰن چترال پاکستان 9 ℃ اپر چترالتعلیمچترالیوں کی کامیابیخبریں عوامی کی خدمت ہماری اولین ترجیح ہے ۔ سینیٹر فلک ناز چترالی چمرکھن27/06/2022 90 2پڑھنے کے لئے اسلام آباد (نمائندہ ؛ چمرکھن ) سینیٹر فلک ناز چترالی صاحبہ نے ایک جاری اخباری بیان میں کہا ہے کہ عوامی شکایات پر چترالی طلباء و طالبات اور ٹیسٹوں کے لئے امیدواروں کی معاشی تنگدستی اور مجبوریوں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایٹا خالد الیاس اور ڈائریکٹر ایٹا ریاض اکبر سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ اسکول لیڈر کے لئے ہونے والے امتحانات کے مراکز چکدرہ کے بجائے ترجیحی اور مستقل بنیادوں پر چترال میں رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا میری احکامات کی روشنی میں ڈی جی اور ڈائریکٹر ایٹا نے ۳۰ جون کو ہونے والے اسکول لیڈر کے امتحانات کا مرکز چکدرہ کے بجائے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج فار بوائز چترال میں رکھکر آج باقاعدہ طور احکامات جاری کر دیئے گئے۔ انہوں مزید کہا کہ بے روزگار نوجوانوں کا مسئلہ حل ہونا خوش آئند بات ہے، میری درخواست پر ڈی جی ایٹا اور ڈائریکٹر ایٹا نے جلد از جلد اس مسئلے کو نمٹانے کا وعدہ کیا تھا اور الحمدللّٰہ آج چوبیس گھنٹے کے اندر اندر یہ مسئلہ حل ہوگیا جس کےلئے میں اپنی طرف سے اور چترال کی عوام کی جانب سے ڈی جی ایٹا اور ڈائریکٹر ایٹا کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ واضح رہے گزشتہ سال خیبرپختونخواہ کے مختلف میڈیکل کالجز میں داخلے سلسلے میں تین چترالی طالبات کو درپیش مسئلے پر سینیٹر فلک ناز چترالی نے وائس پریزیڈنٹ پی ایم سی علی رضا سے ملاقات کرکے ان طالبات کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے عوام اور طلبہ میں پائی جانی والی تشویش سے وائس پریزیڈنٹ پی ایم سی کو آگاہ کیا تھا۔ وائس پریزیڈنٹ پی ایم سی نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو جلد از جلد اس مسئلے کو حل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ جس پر متعلقہ حکام نے کیسز کا ازسر نو جائزہ لے کر ان طالبات کو ایڈمشن لیٹر جاری کر دئیے تھے ۔ یاد رہے چترال سے تعلق رکھنے والی ان طالبات نے اوپن میرٹ اور چترال کے مخصوص کوٹے دونوں کے ٹیسٹ پاس کئے تھے اور بعد ازاں ان کے ایڈمشن کیسز کو التواء رکھنے کے بعد داخلے کےلئے متعین کردہ وقت ختم ہونے کا کہہ کر متعلقہ کالجز انہیں داخلے نہیں دے رہے تھے۔ فلک ناز چترالی کی کوششوں کی وجہ سے ان طالبات کو ایڈمشن لیٹر جاری کر دئیے گئے۔ جو آج خیبرپختونخوا کے مختلف میڈیکل کالجوں سے ایم بی بی ایس کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا عوام کی خدمت ہماری اولین ترجیح ہے۔ Tags ایٹا پی این سی سینیٹر فلک ناز چترالی چمرکھن27/06/2022 90 2پڑھنے کے لئے شئیر کریں Facebook Twitter LinkedIn Messenger Messenger WhatsApp Share via Email یہ بھی پڑھیں Close پی ٹی آئی چترال اپر کی وفد کا سینیٹر فلک ناز چترالی کی قیادت میں وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ… 18/01/2022 عنقریب ضلع اپر چترال اور لوئر چترال کا تفصیلی دورہ کرکے وہاں پر عوام کو درپیش مسائل کا خود جائزہ… 29/12/2021 سینٹر فلک ناز چترالی کی قیادت میں پی ٹی آئی اپر چترال کی وفد کا چیئرمین نادرا سے ملاقات۔ 13/01/2022 سینٹر فلک ناز چترالی کی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات۔ تحصیل موڑکھو تورکھو اور مستوج میں نادرا… 21/01/2022 لوکل اشتہارات بلدیاتی الیکشن میں آپ کو ووٹ ملے گا 11/02/2022 موسم چترال Clear Sky 9 ℃ 13º - 7º 34% 3.22 km/h 13℃ پیر 13℃ منگل 13℃ بدھ چمرکھن سوشل میڈیا 49,632 47,732 ممبرز 0 فالورز 0 سبسکرائبرز 1,900 فالورز متعلقہ پوسٹ ڈی۔پی۔او آفس لوئر چترال میں منشیات کے مقدمات میں موثر تفتیش اور منشیات فروشان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی… 1 دن پہلے آغا خان ایجوکیشن سروس قوم کے نونہالوں کی مخفی صلاحیتوں کو نکھارنے اور قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے میں… 2 دن پہلے اپر چترال تحریک انصاف حقیقی ازادی مارچ روانگی سے قبل بدنظمی کا شکار ۔دو گروہ آپس میں مشت گریبان 3 دن پہلے آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی چالیس سالہ تقریبات کے دوسرے روز ‘بااختیار خواتین، با اختیار معاشرہ’ کے عنوان سے… 4 دن پہلے تجار یونین لوئیرچترال کے نمائندہ وفد کا ڈپٹی کمشنر چترال لوئیر سے ملاقات۔ 4 دن پہلے تحصیل چئیرمین مستوج سردار حاکم نے بونی بازار میں اسٹریٹ لائٹ اور بونی دریا کے اس پار قصاب خانوں کا… 5 دن پہلے چترال میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی چالیس سالہ تقریبات کا آغاز ۔۔ 6 دن پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) اپر چترال کا بونی میں ورکر کنونشن ۔سابق ایم این اے افتخار الدین کی خصوصی شرکت۔ 6 دن پہلے چمرکھن معاشرے کے ہر اس فرد کا پلیٹ فارم ہے جو معاشرتی اور سیاسی امور اور ان کے مفادات پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے پالیسیز پر پورا اترتا ہو۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم سمیت آن لائن نیوز کا ایک منفرد پلیٹ فارم جہاں سے پل پل بدلتی حالات واقعات کے وہ چیدہ چیدہ خبریں آپ تک پہنچائی جاتی ہیں جو واقعی میں آپ سے تعلق رکھتی ہوں۔ چمرکھن گروپ صحافیوں اور لکھاریوں کے ایسے گروپ کاحسین امتزاج ہے جو بیک وقت علاقائی، قومی اور ملکی سطح پر جانے مانے شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
بلوچ سامراج دشمنی کو انگیخت و انگیز کرنے میں سب سے اہم عنصریہ تھا کہ یہاں نیم فیوڈل، ماقبل فیوڈل پیداواری رشتے تھے۔ ایک طرف مصیبت زدہ مظلوم عوام الناس تھے اور دوسری طرف استحصال کے فیوڈل صورتوں کے ساتھ ساتھ اُن کے اتحادی کے مسلط کردہ کالونیل کپٹلسٹ رشتے تھے۔۔ یہ تو کمال بات تھی کہ کپٹلزم نے فیوڈلزم سے یاری کرلی تھی۔ (بعد میں تو امریکہ اور سعودی‘ امریکہ اور شاہِ ایران شاہی اردن شاہ افغانستان۔۔ ہر جگہ یہ اتحاد نظر آیا)۔اس طرح اب اگر آپ فیوڈل دشمن تھے تو آٹومیٹک طور پر آپ کو سامراج دشمن ہونا تھا۔ اور اگر آپ سامراج دشمن تھے تو پھر خود بخود فیوڈل و سردار دشمن ہونا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا تضاد تھا جس نے بلوچ سامراج دشمنی کو مہمیز دی۔ بلوچ اور انگریز کے بیچ ایک اور تضادبھی تھا۔ سابقہ سیاسی روایتی اداروں اور انگلینڈ کے جدید کالونیل انتظامی سٹیٹ سیاسی اداروں کے بیچ تضاد۔ ہماری سامراج دشمنی میں تیزی کی تیسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریز کی طرف سے بھاری ٹیکس لگائے گئے تھے۔ یہ ٹیکس خان، جام اور سردارکے بھاری ٹیکسوں کے علاوہ تھے۔ اور پھر عام لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ ان سب پر بھاری یہ بات کہ پہلی عالمی جنگ میں انگریز نے دور دراز محاذوں پر لڑنے کے لیے بلوچ میں سے سپاہیوں کی جبری بھرتی شروع کردی تھی۔ اس کے علاوہ بلوچ کے ہاں یہ بات بھی موجود تھی کہ اس کے پاس روایتی جنگجوئی کی شاندار نفسیات تھی۔ اور ماضی میں غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف فوری مسلح مزاہمتوں کی داستانیں موجود تھیں۔ (1)۔ انگریز سامراج کے خلاف بلوچ جدوجہد آزادی اُن عالمی حالات سے بھی سخت متاثر ہوئی جو1905کے روسی انقلاب سے وجود میں آئے۔ ان میں ایران، ترکی، انڈیا اور افغانستان میں انقلابی تبدیلیاں شامل تھیں۔ اور پھر عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب تو اتنے بڑے اثرات لایا کہ اُس پہ ایک الگ چیپٹر لکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال، 1918کے زبردست عوامی ابھار اور خونریز اور ہیروئک جنگوں کے باوجود ہم ناکام ہوئے تھے۔اُس کی بڑی وجوہات یہ تھیں:۔ ۔1۔ بلوچستان معاشی سماجی، سیاسی اور ٹکنالوجیکلی بہت پسماندہ تھا۔ اس کے مقابلے میں جو قوت تھی وہ کالونیل کپٹلزم کے ساتھ جڑے ہوئے مقامی فیوڈل اور نیم فیوڈل رشتوں کی مضبوط گرفت لیے ہوئی تھی۔ ۔2۔ بلوچ مسلح مزاہمتی تحریک بہت خود روتھی، ملی ٹنٹ قبائلی روایتی جذبات پہ مبنی تھی۔ ایسے حالات ہی نہ تھے کہ انفرادی قبائلی کے بجائے یہ ایک وسیع پیمانے کی قومی تحریک بن پاتی۔ اور پھر انگریز نے بہت عقلمندی کے ساتھ قومی ساخت کے قدرتی ارتقا میں مداخلت کی۔ ۔3۔ برطانیہ نے آکر ترقی کی ایک غیر مساوی تقسیم مسلط کردی۔ اُسی وجہ سے برطانیہ دشمن قومی مزاہمت غیرمساوی ہوگئی۔ یوں قبائلیت اور سردار یت مضبوط بھی ہوئیں، اور برطانیہ دوست اشرافیہ (elite) بھی وجود میں آگئے۔ یعنی اگر کپٹلزم تھوڑی بہت آبھی گئی تو بھی شمال اور شمال مشرقی بلوچستان میں آئی جبکہ دوسرے علاقوں میں انگریز جان بوجھ کر فیوڈل رشتوں اور ازکار رفتہ برادری نظام کو مضبوط کرتا رہا۔ ۔4۔بلوچوں کے اندر کوئی سیاسی پارٹی نہ تھی جو عوام الناس کو سامراج کے خلاف ایک ہی پرچم تلے متحد اور متحرک رکھ سکتی۔ ۔5۔ خودقبیلے میں جنگی نظام ایک سٹینڈنگ آرمی جیسا نہ تھا۔ بلکہ یہ خودرو، ہنگامی نیم منظم اور عدم مرکزیت والا تھا۔ *** مصری خان،کھیترانڑ سردار کا بھائی تھا اور رکھڑیں پوسٹ پر لیوی تھانیدار تھا۔ انگریز کے بقول وہ ”بہت کیریکٹر اور اثر والا شخص تھا“۔ یہ بھی انگریز ہی کی اطلاع ہے کہ وہ بہت سال پہلے بھی کابل میں پناہ گزیں رہا تھا اور 1905میں وہاں سے واپس آگیاتھا۔ اب اس نے 27فروری 1918کو لیویز کا بڑا عہدہ چھوڑ دیا اور یکم مارچ کو مری بہادروں سے جاملا(2)۔وہ فورٹ منرو اور ماوند کی لڑائیوں میں شامل رہاتھا۔ اس کے بھائی سوبدار خان نے بھی ان جنگوں میں حصہ لیا۔ آخری ماوند جنگ جب شکست پہ منتج ہوگئی تو مصری خان بگٹی علاقہ چلا گیا۔ اور پھر اپنے بھائی کے ہمراہ کندہار چلا گیا۔ اور وہاں سے کابل سردار عبدالقدوس خان کے ساتھ۔(3)۔ کابل میں سوویت سفیر کا نام”سُورِتس“ تھا۔اُس نے ایک رپورٹ میں اپنے احکامِ اعلیٰ کوبتایا کہ”ہندوستان بھر سے باغیوں کے گروہ افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ انگریز سے اپنے وطن کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اکتوبر انقلاب کو اپنی آزادی کی تحریک کے لیے اچھا نظریہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ خود سوویت یونین کو تفصیل سے سمجھنا بھی چاہتے ہیں اور سوویت یونین دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ظلم و جبر کے خلاف اس ملک کی کامیاب جدوجہد کے تجربات سے سیکھیں اوراپنی آزادی کے حصول میں اُس کی امداد سے فائدہ اٹھا سکیں۔ (4) ۔ یوں مصری خان اپنے بھائی اور رفیق سوبدار خان کے ساتھ سوویت یونین چلا گیا۔ ہمیں یہ اندازہ نہیں کہ مصری خان 1917کے سوشلسٹ انقلاب سے نظریاتی طور پر متاثر تھا، یاوہ محض سامراج دشمنی کی جنگ میں ایک زبردست حمایتی کے بطور اُس ملک کو اچھا سمجھتا تھا۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے کئی باغیوں کی طرح محض انگریز کے ظلم و جور سے بچنے کی خاطر افغانستان فرار ہوا ہو۔ اور اسے سوشلسٹ انقلاب کی کشش نے کھینچاہو اور وہ وہاں سے سوویت یونین گیاہو، اور وہاں کمیونسٹ بناہو۔ لینن نے کہا تھا کہ غلام ہندوستان کے لوگ ”ایک ستارے کی طرف دیکھتے ہیں۔ سوویت رپبلک کے ستارے کی جانب۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اُس نے امپیریلسٹوں کے خلاف لڑنے کے لیے زبردست قربانیاں دی ہیں، اور یہ کہ اِس نے سخت ترین آزمائشوں میں ثابت قدمی دکھائی“ (5)۔ واضح رہے کہ بلوچ تاریخ میں پہلی عالمی جنگ کے ہم پلہ اہم واقعہ یہ ہوا تھا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب آگیا۔ جب برطانیہ کا یہ اتحادی نہ صرف اتحاد سے نکل گیا بلکہ یہ بڑا ملک الٹا سامراجیت ہی کا مخالف ہوگیا۔ یوں بلوچ آزادی کی تحریک کو ایک نیا اور فیصلہ کن اتحادی مل گیا۔ سوویت یونین میں مصری خان کی سرگرمیوں کے متعلق بہت عرصے تک ہمیں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس صرف عنایت اللہ بلوچ (1987) کی ایک سطر موجود تھی کہ مصری خان نے1920میں ”اقوامِ مشرق کی باکو کانفرنس“ میں شرکت کی تھی۔ باکو کانفرنس ایک اہم سنگ میل تھا جس نے بلوچ کی 20ویں صدی کی شہری تحریک کو منظم کیا اور اسے دنیا کی دیگر قومی آزادی کی تحریکوں سے جوڑا۔ لیکن اب تو کھیترانڑ صاحب کی سوویت سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں بہت کچھ معلوم ہوگیا۔ اس بارے میں انگریز افسروں کے آپسی خط وکتابت کی پوری فائل کوئٹہ آرکائیوز سے دستیاب ہوگئی ہے۔البتہ وہ بھی سوویت یونین میں اس کے قیام کی زیادہ اور سیر حاصل تفصیل نہیں دیتے۔ اِن آرکائیوز میں درج ہے کہ مصری خان اور اس کا بھائی افغانستان سے سوویت یونین چلے گئے۔ وہاں کچھ سال گزارنے کے بعد وہ واپس یہاں سرحدی قبائلی علاقہ تیرہ میں رہے۔ جہاں سے انگریز کے ساتھ طویل مذاکرات ہوئے۔ یہ سارے مذاکرات اور اُن کی پیش رفت پشاور اور کوئٹہ کے انگریز افسروں نے ایک دوسرے کو ٹیلیگرام اور خطوط میں لکھے۔ کوئٹہ سے انگریز افسر مسٹر ڈیو نے 15جنوری 1922 کوپشاور میں انگریز ملٹری انٹیلی جنس چیف کو لکھا: ”مائی ڈیئر سنڈی میں خان بہادر سربلند خان کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ وہ مصری خان اور اس کے بھائی سوبدار خان کھیترانڑ کو واپس لاسکے جو ڈینیز کہتا ہے کہ آپ کے رابطے میں ہیں۔ میرے دل میں اُن کے خلاف بالکل کچھ نہیں ہے۔ مصری خان میرا ایک خاص دوست ہوا کرتا تھا۔ اور وہ ایک بہادر سپاہی ہے، مگر جلد باز شخص ہے۔ مگر میں اُس کا ذمہ لیتا ہوں اور قبیلہ بھی۔ اُس کے خلاف بالکل کچھ بھی نہیں ہے۔ میں ان دونوں احمقوں کو دوبارہ واپس لینے کا امکان دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ وہاں کے حکام کے لیے طاقت کا منبع بنیں گے۔ یہ سب کچھ اب ختم ہوچکا اور تصفیہ ہوچکا۔ کوئی بھی اس کے خلاف کوئی عداوت نہیں رکھتا۔ ہمیشہ آپ کا اے۔بی۔ ڈیو“ انگریزوں کے بیچ اسی مراسلہ نگاری میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ عبدالرب نامی ایک انڈین کے ساتھ تاشکند چلے گئے(6)۔ پشاور کے افسرنے سوبدار خان کا بیان کوئٹہ اے جی جی کو بھجوایا:”میں عبدالرب کے ساتھ تاشکند چلا گیا“(عبدالرب، دراصل، انڈین ریولیو شنریز کی کمیونسٹ مخالف پارٹی کا سربراہ تھا۔ انہی برطانوی ذرائع کے مطابق مصری خان کمیونسٹ تھا، اور نظریات میں اپنے بھائی سے زیادہ گہرا کمیونسٹ تھا۔مگرذرا دیکھیے کہ انگریز بدمعاش نے اس فقرے کو کس طرح بیان کیا تھا:”اس نے بلاشبہ بہت بالشویک پیسہ کھایا ہے“۔(7)۔ تا شکند جانے والی بیس رکنی پارٹی میں بلوچستان کے صرف یہی دو بھائی تھے۔ باقی لوگ پشاور، راولپنڈی،لاہور اورکوہاٹ کے تھے۔عبدالرب کے ساتھ تا شکند جانے والی پارٹی مندرجہ ذیل ہے۔ ۔1 سوبدارخان،2سید امین،3کوہاٹ کا مقدم شاہ،4بلوچستان کا مصری خان،5کوہاٹ کا محمد ابراہیم۔6پشاور کا فضل ِ قادر،7اشور،8پشاور کا عمر بخش، 9پشاور کا میاں محمد،10پشاور کا مردان شاہ،11پشاور کا محمد خان،12پشاور کا فتح حسین،13پشاور کا محمد حسین،14لاہور کینٹ کا نظام الدین، 15راولپنڈی کا افسار، 16پشاور کا غلام جیلانی پنجابی، 17زرداد خٹک،18علی شاہ راولپنڈی،19عبدالرب،20اچاریہ(8)۔ اِس تحریری مستند ثبوت کے بعد اب بہت ساری کتابوں میں دیے گئے سارے قیاسی اور فرمائشی نام ختم ہونے چاہییں۔ تاشقند میں صرف دو بلوچ تھے:سوبدار خان اور مصری خان کھیتران۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب سے سوویت آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں ”مشرق کی اقوام کا نگریس“ستمبر 1920میں منعقد ہوئی۔ اس کانگریس میں ایشیا اور یورپ کے 1900ڈیلیگیٹس نے شرکت کی۔کمیونسٹ انٹرنیشنل (کمنٹرن) کی اس کانگریس نے کالونیل ”مشرق“ میں انقلابی نیشنلسٹ تحریکوں کی مدد کا وعدہ کیا۔ کانگریس نے ”اقوام مشرق کا ایک مینی فیسٹو ”منظور کیا۔ انٹرنیشنل کے ترانے سے یہ کانگریس یکم ستمبر1920کو شروع ہوئی۔ اور سات ستمبر تک چلی اور اس کے سات سیشن ہوئے۔اس کانگریس میں امریکہ کمیونسٹوں کی نمائندگی مشہور مصنف اور صحافی جان ریڈ نے کی۔ ”انڈین انقلابیوں میں سے ایک 42سالہ سوبدار خان وہاں روسی انقلاب کا مطالعہ اور اس سے حاصل سبق سے اپنے ہاں انقلاب کے طریقے سیکھنا چاہتا تھا۔ باکو میں“۔(9)۔ ریولیوشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیانامی کتاب نے ذکر کیا کہ ان مفروروں میں بلوچ قبائل سے دو بھائی تھے۔ (اس کتاب نے مصری خان کی بجائے نصیر خان لکھا)۔کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ 1917-18میں ”انہوں نے دس ہزار پر مشتمل قبائلی باغی فوج کی قیادت کی تھی۔۔۔ انگریز،قبائل کی اس بہادرانہ مزاہمت کو دبانے میں کامیاب ہوا“۔(10)۔ وہاں انہیں شارٹ کورس کرائے جاتے تھے۔ لیکچروں کے عنوانات ”زمین اور انسان کی ابتدا“، کلاس سٹرگل کا جوہر، جغرافیائی اطلاعات وغیرہ(11)۔ انڈین ریولیوشنری ایسوسی ایشن کا پروگرام سوشلزم کا قیام بھی تھا۔ اس کے منشور کے اندر مثال بھی بلوچستان کی دی گئی جہاں“زمین شخصی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ یہ پورے قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہے جسے ہر سات یا دس سال بعد دوبارہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہاں کوئی ٹیکس نہیں، کوئی خراج نہیں ہیں۔۔۔ اس نظام اور کمیونزم میں صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے“ ۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ”فصل کو بھی ٹرائبل کونسل کے حوالے کیا جائے۔ اور اسے مساوی طور پر قبیلے کے افراد میں تقسیم کیا جائے“۔ (12)۔ لینن کے تھیسز کے ایک اہم نکتے میں کمیونسٹوں سے کہا گیا تھاکہ وہ مشرقی ملکوں میں بورژوا ڈیموکریٹک لبریشن موومنٹ کی حمایت کریں۔ اُس کا خیال تھا کہ ایشیا کی کالونیوں اور منحصر ممالک میں فیوڈل یا پدرسری والے رشتے حاوی ہیں۔(13)۔ انگریز نے لکھا کہ”مصری خان بالشویزم میں سوبدار خان سے بھی زیادہ گہرا شامل رہا ہے، اور ایک سال گزرا (یعنی 1921کی شروعات میں)کہ وہ چھ کی پارٹی میں سے ایک تھا، جس نے تاشقند چھوڑا تاکہ سرحد پر برطانیہ مخالف پروپیگنڈا منظم کرے۔ ان کا مشن افغان مخالف بھی تھا۔مگر انہیں کابل میں جیل ڈال دیا گیا تھا اور ابھی حال میں رہا کیا گیا“۔ (14)۔ سوبدار اپنے بیان میں انگریز افسر کو بتاتا ہے:۔ ”مجھے اور دوسروں کو سرحد کو لے جانے کے لیے بالشویک پروپیگنڈہ لٹریچر اور پیسہ دیا گیا۔چونکہ ہم واپس انڈیا جانا چاہتے تھے اس لیے ہم نے یہ سندیسا وصول کیا۔ ہم پہلے براستہ آندی جان اور پامیر بھیجے گئے، مگر وہاں سے واپس ہونا پڑا اس لیے کہ اسی طرح کا ایک پچھلا مشن برف میں گم ہوچکا تھا۔ ہمیں پھر پلِ خاتون کے راستے بھیجا گیا اور ہم تھانہ ذوالفقار کے قریب ایک چھ نفری چھوٹے پوسٹ پہ داخل ہوئے۔ ہمیں کراباغ کے حاکم عثمان خان کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہمیں ہرات بھیجا گیا اور وہاں نگرانی میں تین ماہ تک رکھا گیا اور پھر کابل بھیجا گیا۔ امیر الاساس سے جس قدر ہوسکا ہمیں عبدالرب کے اکسانے پر تکلیف پہنچائی۔ ہمیں کابل میں 7 یا آٹھ ماہ نگرانی میں رکھا گیا۔ پھر امیر نے ہمیں رہا کردیا۔مگر شجاع الدولہ نے ہمیں اس وعدے پر جانے دیا کہ ہم تیرہ میں برطانیہ مخالف پروپیگنڈہ کریں گے۔ ہم یکم دسمبر 1921کو کابل سے روانہ ہوئے“۔(15) پشاور کے افسر نے کوئٹہ کے افسر کو تار دیا کہ ”سوبدار خان پشاور میں ہے“ اور یہ بھی کہ محفوظ سلوک پر اسے 25جنوری (1922) کو بلوچستان انگریز کے بھیجے ہوئے آدمی کے حوالے کرے گا“(16)۔ سوبدار خان، بلوچستان میں انگریز کو مارچ سے پہلے وصول ہوچکا تھا۔ جبکہ مصری خان ابھی تک تیرہ میں تھا اور اس سے مذاکرات جاری تھے۔ ”مصری خان واپس آنے میں جوش کی حد تک تیار نظر آیا“ ۔ وہ صرف اس بات پر پریشان ہے کہ وہ اپنے گھر یا گھر کے قریب رہنے کے شرط کے بطور حرکت کی کسی بھی پابندی پر توعمل کرے گا۔ مگر وہ خود کوکسی ایسی جگہ پر نظر بند کروانا نہیں چاہتا جہاں ماحول اور گردو پیش عجیب اور ناموافق ہوں“۔ لگتا ہے کہ تیرہ میں وہ لوگ پناہ گزیں نہ تھے بلکہ پورے گروپ کے ساتھ کیمپ لگائے ہوئے تھے۔یہ قیاس پشاوری انگریز افسر جان میفی کے 17مارچ کو کوئٹہ اے جی جی کو بھیجے گئے ٹیلیگرام میں موجود ایک فقرے سے لگایا جاسکتا ہے:”یہ ذکر کردوں کہ میں نے مصری خان اور سوبدار خان کے ساتھیوں میں سے ایک کو ضمانت دینے پر اپنے گھر واپسی کی اجازت دی ہے جو پشاور ضلع کے ایک گاؤں کا ہے“۔ اس کے بعد مصری خان واپس بلوچستان آیا اور ایک بہت ہی غیر معروف زندگی گزاری۔ ریفرنسز ۔1۔حبیب جالب۔بلوچ سٹیٹ بُڈ اینڈنیشنلزم۔ 2006۔ پرکانی ہاؤس سریاب روڈ کوئٹہ۔ صفحہ170۔۔ ۔2۔ حوالہ ٹیلیگرام19جنوری1922از طرف: بیوروپشاوربہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ ۔Telegram From Bureu peshawar is AGG Bureu Quetta, 19 January 1922۔3۔ ۔4۔انڈینریولیوشنریز۔ صفحہ73 Lenin.col works: Vol 30.1977.P.155۔5۔ ۔ 6۔ ٹیلیگرام19جنوری1922از طرف: بیوروپشاوربہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ ۔7۔ کوئٹہ سے انگریز افسر مسٹر ڈیو نے 15جنوری 1922 کوپشاور میں انگریز ملٹری انٹیلی جنس چیف کو لکھا ۔8۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ ۔9۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔ صفحہ 88 ۔10۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 57 ۔11۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 91 ۔12۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 60 ۔13۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 127 ۔14۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ ۔15۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ ۔16۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ Share Tweet Share Whatsapp 2022-06-16 شاہ محمد مری گزشتہ: What Makes French Girls So Distinctive? آئندہ: College Essay Writers Must Be Creative دیگر تحاریر یوسف مستی خان 18 گھنٹے پہلے دل کا کیا کیجئے 1 دن پہلے ایک چراغ گل ہوا 2 دن پہلے قلم بھی دھڑکتا ہے 6 دن پہلے جواب لکھیں جواب حذف کریں آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے * تبصرہ نام * ای میل * ویب سائٹ اس براؤزر میں میرا نام، ای میل، اور ویب سائٹ محفوظ رکھیں اگلی بار جب میں تبصرہ کرنے کےلیے۔ اپنی تحریر ہمیں ای میل کریں editor@sangatacademy.net یااس نمبر پر واٹس ایپ کریں 03003829300 حالیہ تبصرے جدیدیت از محمد زکریا خان ٹی پارٹی، شوگر مافیا اور ٹڈی دل از محمد زکریا خان خالی مکان میں رہ جانے والے از سبین علی جون 2020 کا ماہنامہ سنگت کا اداریہ از ہم کپٹلزم کے آخری بحرانوں میں سے ایک کے گواہ بن رہے ہیں - Sohb-e-Haal
آرمی چیف کے اثاثوں سے متعلق اعدادو شمار گمراہ کن ہیں، آئی ایس پی آر وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلیے مسلم لیگ ن متحرک دوبارہ متنازع ٹوئٹس پر اعظم سواتی پھر گرفتار، جسمانی ریمانڈ منظور عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا کہیں گے تو ایک منٹ تاخیر نہیں ہوگی، وزیراعلی پنجاب ارشد شریف کا لیپ ٹاپ میرے پاس نہیں ہے، مراد سعید مقبول خبریں افسوسناک سانحہ،چینی انجینئراور پاکستانی مزدور کو نکالنے کیلئے پاک فوج کا دستہ پہنچ گیا سنیپ چیٹ نے کیمرے والا چشمہ تیار کر لیا بالی ووڈ خانز کیلئے خطرے کی گھنٹیاں فواد خان نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیئے جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے سربراہ مملکت کو قتل کرنے کا اعلان کر دیا سوشل میڈیا صارفین کیلئے زبردست خوشخبری۔۔ گوگل نے نئی ایپ متعارف کرا دی معروف اداکارہ شوہرسے طلاق لینے عدالت پہنچ گئی سونے کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں!! اب کتنی قیمت ہوگی؟ امریکہ کس ملک میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کررہاہے؟ترک صدر طیب اردگان کا انکشاف کھانے سے قبل پانی پینے کے حیرت انگیز فوائد شاہد آفریدی کیلئے انضمام الحق میدان میں کود پڑے،بڑا مطالبہ کردیا 0 شیئر کریں بلاول کو چاہیے کہ وہ اپنے قد کے مطابق بات کریں، شاہد خاقان مئ 2, 2021 May 2, 2021 کراچی: مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ این اے 249 میں جو چوتھے نمبر پر بھی نہیں تھے وہ کیسے جیت گئے؟ بلاول صاحب کا مقام نہیں کہ وہ اس پر بات کریں، بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ اپنے قد کے مطابق بات کریں۔کراچی کا انتخاب ڈسکہ سے بھی زیادہ متنازع بن چکا ہے ۔ریٹرننگ افسر سجاد خٹک نے فیصلہ لکھ کر رکھا ہوا تھا اور جس کے بعد ہماری پٹیشن مسترد کر دی۔ ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے عزائم کیا ہیں۔ قانون میں دوبارہ گنتی کا عمل موجود ہے۔وہ ہفتہ کو مسلم لیگ ہاس کارساز میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور دیگر مسلم لیگی رہنما بھی موجود تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے معاملے میں اتنی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں کہ دوبارہ گنتی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اس حلقے کے 34 پولنگ اسٹیشن کے واٹس ایپ رزلٹ ریٹرننگ افسران کے پاس نہیں آئے۔
بیجنگ (لاہورنامہ)چینی میڈ یا نے ایک تبصرہ میں کہا ہے کہ امریکہ کی سازش کا ہدف چین ہے، لیکن چاہے وہ کتنی ہی کوشش کر لے، اس سے علاقائی ترقی کے رجحانات متاثر نہیں ہوں گے۔ جو لوگ چین کو الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوں گے اور بالاخر خود الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ امریکی رہنما نے جاپان کا دورہ میں نام نہاد “انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک” (IPEF) کے آغاز کا اعلان کیا۔ تاہم،یہ فریم ورک بہت زیادہ مبہم ہے، سوائے سپلائی چین میں چین سے ” ڈی کپلنگ ” کرنے کے۔ منگل کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ ایشیا پیسیفک ایک ایسا خطہ ہے جس میں عالمگیریت اور آزاد تجارت کی اعلیٰ قبولیت ہے اور اس سلسلے میں شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر، چین خطے کے بیشتر ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے، اور 1.4 بلین کی آبادی والی چینی مارکیٹ علاقائی ممالک کے لیے مکمل طور پر کھول دی گئی ہے۔ کیا امریکہ ایسا کر سکتا ہے؟ ایشیا پیسیفک علاقہ تعاون اور ترقی کے لیے ایک بہترین مقام ہے، نہ کہ جغرافیائی سیاسی شطرنج کی بساط ۔ نام نہاد “انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک” امریکہ کی طرف سے تیار کیا گیا ہے جس میں اقتصادی ڈی کپلنگ، تکنیکی ناکہ بندی، اور صنعتی چین منقطع کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس سے خطے کے بنیادی مفادات کو لامحالہ نقصان پہنچے گا۔ ایشیائی ممالک کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، چوکنا رہنا چاہیے اور ترقی کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑنا چاہیے ۔ جو لوگ چین کو الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوں گے اور بالاخر خود الگ تھلگ ہو جائیں گے۔ فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ کیٹاگری میں : انٹرنیشنل خبریں Tagged امریکہ کی سازش، انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک، جاپان کا دورہ، چین، علاقائی ترقی، متاثر نہیں، منطقی انجام، ہدف مزید پڑھیں سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کا مثالی منصوبہ ہے، چاؤ لی… چین کا تائیوان کے معاملے پر جاپان کے غلط طریقوں پر عدم اطمینان کا… چین میں ویٹ لینڈز کی حیاتیاتی مصنوعات کی سالانہ مالیت 28.58 ٹریلین یوان ہو… چینی خلائی اسٹیشن اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے لیے کھلا ہے ،… بیجنگ میں 2022 فنانشل سٹریٹ فورم کے سالانہ اجلاس کا آغاز امر یکہ قومی سلامتی کے تصور پر اپنی مرضی کرنا بند کرے، چاؤ لی… چین کے خلائی انفراسٹرکچر سیٹلائٹس کا مدار میں مستحکم طور پر کام جاری ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ممالک کی مدد کیلئے کوپ 27 اختتام پزیر امریکہ کو چین کے بنیادی مفادات کا احترام کرنا چاہیے، وے فونگ حے Load/Hide Comments ہمارا فیس بک پیج حالیہ پوسٹس وزیر اعظم سے ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کی ملاقات بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لئے صوبے الگ وزارتیں قائم کریں، مریم اور نگزیب ٹی ٹی پی کا کوئٹہ خود کش دھماکے کی ذمے داری قبول کرنا خطرناک ہے، رانا ثناء اللہ عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی تیاریاں شروع،بیلٹ پیپرز چھاپنے کا امکان وزیر اعلی پنجاب سے پرویز خٹک کی ملاقات ، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال تازہ ترین تبصرے اہم کیٹا گریز آج کے ریٹ انٹرنیشنل خبریں اہم خبریں اہم مقامات تاریخی مقامات تصاویر اور مناظر تعلیم تفریحی مقامات جرم و سزا سرکاری عمارتیں شوبز صحت صفحہ اول عبادت گاہیں اور مقبرے عجائب گھر فیچر کالمز لاہور مزید ملٹی میڈیا ٹیکنالوجی پنجاب گورنمنٹ کاروبار کھیل
محمد عرفان ایک بہت اچھا بالر ہے لیکن بدقسمتی سے وہ فٹنس مسائل کا شکار ہے، محمد حفیظ۔ فوٹو؛ ایکسپریس نیوز لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ میں تمام ٹیمیں اچھی ہیں کسی بھی ٹیم کو ہاٹ فیورٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ ایشیا کپ میں تمام ٹیمیں اچھی ہیں، کسی بھی ٹیم کو آسان حریف نہیں لیں گے، ایشیا کپ کی تیاری کے لئے بھرپور موقع ہے، ٹورنامنٹ کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں، ایشیا کپ میں اعتماد سے جا رہے ہیں کیوں کہ ہم دفاعی چیمپین ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا سلیکٹرز کا کام ہوتا ہے اور ایشیا کپ کے لئے بہترین ٹیم منتخب کی گئی ہے، کامران اکمل اور شعیب ملک کو ان کے تجربے اور پرکارکردگی کی بنیاد پر میگا ایونٹ کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ کیمپ میں موجود کھلاڑی ایشین ڈان بریڈ مین ظہیر عباس کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کے لئے بھی پاکستان کی ٹیم ایک بہترین ٹیم ہے، پاکستان کے پاس سعید اجمل، شاہد آفریدی، ذوالفقار بابر، عمر گل کے ساتھ ساتھ جنید خان، بلاول بھٹی اور محمد طلحہ جیسے نوجوان بالر موجود ہیں۔ قومی ٹیم کے نائب کپتان کا کہنا تھا کہ محمد عرفان ایک بہت اچھا بالر ہے لیکن بدقسمتی سے وہ فٹنس مسائل کا شکار ہے، فٹنس مسائل کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ ہو سکتے ہیں، ٹی ٹوئنٹی میں محمد عرفان کے پہلے 2 اوور مخالف ٹیم پر دباؤ بڑھانے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں ان کی کمی کو محسوس کیا جائے گا، امید ہے کہ محمد عرفان جلد صحت یاب ہو کر ٹیم میں واپس آئے گا۔ محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیم گزشتہ 5 سالوں سے نیوٹرل میدانوں پر کھیلتی آرہی ہے اس کے باوجود ٹیم کی پرفارمنس بہت اچھی ہے، ایشیا کپ میں تمام ٹیمیں ایشیا کی ہیں اور بنگلہ دیش کی وکٹیں پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں ہیں، ٹورنامنٹ میں بہترین پرفارم کرنے کی کوشش کریں گے۔ شیئر ٹویٹ شیئر مزید شیئر ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ سروے کیا عمران خان کا تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ درست ہے؟ ہاں نہیں نتائج ملاحظہ کریں مقبول خبریں عمران خان دونوں صوبائی اسمبلیاں نہیں توڑ سکتے، رانا ثنا فاسٹ بولر محمد عامر ایک بار پھر ایکشن میں نظر آئیں گے مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنانے کیلیے متحرک، جوڑ توڑ پر غور شروع ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو دوبارہ گرفتار کرلیا عمران خان پر تنقید کیوجہ سے میرا میوزک کیرئیر ختم ہوگیا، گلوکار جواد احمد چھیڑ چھاڑ سے روکنے پر اوباش نوجوانوں کا طالبات کی وین پر حملہ تحریک انصاف کے استعفوں کے بعد 563 نشستوں پر انتخابات ہوں گے، فواد چوہدری برادر ملک پاکستان موجود ہے تو تجارت کسی اور سے کیوں کریں، صدرآذربائیجان تازہ ترین سلائیڈ شوز سعودی عرب کی ارجنٹائن کو اپ سیٹ شکست فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب Showbiz News in Urdu Sports News in Urdu International News in Urdu Business News in Urdu Urdu Magazine Urdu Blogs The Express Tribune Express Entertainment صفحۂ اول تازہ ترین پاکستان لانگ مارچ انٹر نیشنل کھیل کرکٹ انٹرٹینمنٹ دلچسپ و عجیب سائنس و ٹیکنالوجی صحت بزنس ویڈیوز express.pk خبروں اور حالات حاضرہ سے متعلق پاکستان کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع شدہ تمام مواد کے جملہ حقوق بحق ایکسپریس میڈیا گروپ محفوظ ہیں۔ ایکسپریس کے بارے میں ضابطہ اخلاق ایکسپریس ٹریبیون ہم سے رابطہ کریں © 2022 EXPRESS NEWS All rights of publications are reserved by Express News. Reproduction without consent is not allowed.
ضلع جہلم میں ہائی سکولوں کے مابین کھیلوں کے مقابلہ جات کا افتتاح، پہلے میچ میں تبلیغ الاسلام سکول فاتح بند کمروں میں فیصلے عوام کو قبول نہیں، فواد چوہدری جہلم میں خشک سردی میں اضافے کے ساتھ ہی ناک، کان، گلے کی بیماریوں میں اضافہ ڈومیلی میں غیرت کے نام پر نوجوان کو برہنہ کر کے تشدد کرنے والے مزید 2 ملزمان گرفتار کیئرٹیکرز جہلم کے رضا کاروں نے ریسکیو والنٹیئر مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی کرائم میٹنگ؛ ڈی پی او جہلم ڈاکٹر فہد احمد نے تمام ایس ایچ اوز کو ٹاسک دے دئیے ٹی ایچ کیو ہسپتال سوہاوہ میں خالی سیٹ پر جلد ڈاکٹرز تعینات کئے جائیں گے۔ میاں مظہر حیات ڈیلی جہلم - Jhelum Updates, Daily Jhelum News, Dina News, Apna Dina News, The jhelum News Photo & Videos website of District Jhelum, Pakistan صفحہ اول جہلم سوہاوہ دینہ پنڈدادنخان اردو کہانیاں کالم و مضامین تارکین وطن ویڈیوز ویب سٹوریز جمہوریت کی مضبوطی آئین کی پاسداری میں ہے۔ افتخار کاظمی جہلم دلنواز احمد وقت اشاعت اپریل 12, 2022 0 شیئر جہلم: اصل جمہوریت کی مضبوطی آئین کی پاسداری میں ہے، عدم اعتماد کی کامیابی اور نئی حکومت کی تشکیل پر تمام اتحادی سیاسی جماعتوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی ضلع جہلم کے صدر کلچرل ونگ افتخار کاظمی نے کیا۔ افتخار کاظمی نے کہا کہ سیاسی اتحاد کی انتھک محنت اور جدوجہد سے قانونی اور آئینی حکومت بنائے جانے پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سابقہ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بات تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اس بات کا کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو جاتا ہے عدم اعتماد کی کامیابی سے لے کر نہیں حکومت بننے تک تمام پارٹیوں کی محنت کو سراہتے ہیں۔ افتخار کاظمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کی بات کی انہوں نے کہا کہ اصلی جمہوریت کی مضبوطی آئین کی پاسداری میں ہے جس کا پاکستان پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر موقع پر عمل کرکے دکھایا۔ ہماری دعا ہے نئی حکومت آپس میں مل کر ملک کے پاکستان اور عوام کی ترقی اور کامرانی کے لیے بہتر سے بہتر فیصلے کرے تا کہ پاکستان ترقی کرے اور عوام خوشحال ہو۔
بین الاقوامی کمیونٹی نے افغانستان میں اپنے مشن کے جنگی مرحلے کو سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔ اس ہفتے بین الاقوامی فوجیں سیکورٹی کا کنٹرول افغان سیکورٹی کو منتقل کرنے کا آغاز کر رہی ہیں۔ سیکورٹی کے فرائض کی منتقلی کا ایک اہم جزو افغان فورسز کی تربیت ہے ۔ اس ہفتے نیٹو کی سیکورٹی فورسز نے سات اضلاع کی سیکورٹی، افغان فورسز کو منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اب افغانستان کے لوگ مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ افغانستان کے بعض حصوں کو جہاں باغی بہت کم سرگرم تھے، نسبتاً محفوظ خیال کیا جاتا ہے۔ اب ان علاقوں کی حفاظت ملک کی اپنی سیکورٹی فورسز کریں گی ۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فورسز کے نئے کمانڈر، میرین لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن نے لشکر گاہ میں اختیارات کی منتقلی کی تقریب سے خطاب کیا۔ لشکر گاہ ، ہلمند صوبے کا وہ قصبہ ہے جہاں تقریباً دس سالہ جنگ کے بد ترین معرکے دیکھنے میں آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ افغانوں کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کریں۔’’اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب یہ افغان سپاہیوں، افغان پولیس اور گشت کرنے والے افغانوں کا کام ہو گا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حالات پرانی ڈگر پر واپس نہ جانے پائیں ۔‘‘ جنوبی افغانستان کے بہت سے حصوں میں، امریکی فوجوں میں تیزی سے اضافے نے طالبان کی اس صلاحیت کو ختم کر دیا ہے کہ وہ علاقے کا کنٹرول حاصل کر سکیں۔تا ہم، باغیوں نے دکھا دیا ہے کہ وہ بعض مخصوص اہداف پر اچانک حملوں سے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکتے ہیں۔ قندھار میں صوبائی کونسل کے سربراہ احمد ولی کرزئی کے حالیہ قتل نے ، جو صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی تھے، ایسے وقت میں جب تبدیلی کا عمل تیز ہوتا جا رہا ہے، جنوب کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ ان کی ہلاکت سے طاقت کے ڈھانچے میں خلا پیدا ہو گیا ہے ۔ جیسے جیسے نیٹو کی قیادت میں یہ مشن سمیٹا جا رہا ہے، مضبوط اور اہل افغان فورسز کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے جو نئی ذمہ داریاں سنبھال سکیں، ایسی افغان فورسز جو افغانستان کی حفاظت کر سکِیں۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ کابل میں خیموں کے ایک شہر میں، ہزاروں ان پڑھ رنگروٹوں کو پڑھنا، لکھنا اور حساب کا مضمون پڑھایا جا رہا ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی ہتھیار اٹھانے کے بارے میں سوچیں، انہیں یہ بنیادی مہارتیں آنی چاہئیں۔ یہ کیڈٹ افغانستان کے تمام علاقوں سے آئے ہیں اور یوں انہیں تربیت دینے کا کام اور مشکل ہو گیا ہے۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے اس ملک میں کم از کم آٹھ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن نیٹو کے ٹرینر، کیپٹین کارل گنٹر کہتے ہیں کہ افغانستان کے لیے اس قسم کے پروگرام کے فوائد صرف سیکورٹی تک محدود نہیں۔ ’’اس پروگرام میں شرکت کرنے والا سپاہی آٹھ ہفتوں کے بعد بنیادی خواندگی اور ریاضی سیکھ لیتا ہے ۔ اس طرح اسے اپنا سپاہی کا کام کرنا ہی نہیں آتا بلکہ جب وہ اپنی فوجی ڈیوٹی ختم کرکے سویلین زندگی میں اپنے گھر واپس جاتا ہے تو وہ اپنی خواندگی اپنے گاؤں میں لے جاتا ہے۔ اس طرح ، لمبے عرصے کے لیے افغانستان کی مجموعی ترقی میں مدد مل رہی ہے۔‘‘ لیکن سپاہی کی اپنے گاؤں کو واپسی نیٹو اور حکومت کے لیے بھی چیلنج ہے کیوں کہ بہت سے سپاہی تربیت اور سامان حاصل کریں گے اور جلد اپنے گھر لوٹ جائیں گے ۔ نیٹو کے فوجی عہدے دار یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان سپاہیوں کو واپس جانے سے روکنا، ایک چیلنج ہے ۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے، وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ افغان سپاہی ثابت قدم رہیں۔ لیکن کچھ نوجوانوں میں، اپنے فرض سے لگن اور عزم و حوصلہ ظاہر ہے۔ کیڈٹ مصطفی ہوادی کو امید ہے کہ اسے ویسٹ پوائنٹ میں چار سالہ پروگرام میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔ اس کے بعد وہ ایک افسر کی حیثیت سے افغانستان واپس آ جائیں گے، اور دس برس تک ڈیوٹی انجام دینے کے پابند ہوں گے۔ ہوادی کہتے ہیں’’مجھے امید ہے کہ میں جنگ کے جدید طریقے سیکھوں گا، اور فوجی زندگی کے بارے میں جدید معلومات حاصل کروں گا۔ یعنی یہ کہ کس طرح جوابی کارروائی کی جائے، جنگی چالیں کس طرح استعمال کی جائیں، اپنی صلاحیت، اپنے اعتماد کو افغانستان کی قومی فوج اور عوام کے لیے کس طرح استعمال کیا جائے۔‘‘ جنوب میں اختیارات کی منتقلی کی تقریب میں، مقامی فورسز کہتی ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ یہ فرض کتنی اچھی طرح انجام دیتی ہیں، یہ ملک کے مستقبل کے لیئے، اور ایک ایسی جنگ میں جو اب امریکہ کے لیئے طویل ترین جنگ بن چکی ہے، امریکہ کی شرکت کے خاتمے کے لیے بہت اہم ہوگا۔ یہ بھی پڑھیے افغانستان: دو سرکاری عہدے دار اور چار شورش پسند ہلاک کسی نے ابھی تک وائنس ٹائن کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی: گروسمین سہ فریقی اجلاس میں افغانستان میں مفاہمتی عمل کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا دونوں ملکوں کےلیے بہتر ہے: کرزئی افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے مضمرات پر بحث جاری زیادہ پڑھی جانے والی خبریں 1 راولپنڈی ٹیسٹ: انگلینڈ کی 'بیزبال' طرز کی بیٹنگ کے سامنے پاکستانی بالرز بے بس 2 فیفا ورلڈ کپ: ارجنٹائن اور پولینڈ پری کوارٹر فائنل میں، تیونس اور ڈنمارک کا سفر ختم 3 کراچی: بیوی اور بیٹیوں کے قاتل نے یہ انتہائی قدم کیوں اُٹھایا؟ 4 پنڈی ٹیسٹ سے قبل انگلینڈ کے کئی کھلاڑی بیمار پڑ گئے 5 پنڈی ٹیسٹ: میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر 1 پاکستان ٹیم فیفا ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے قابل کب ہوگی؟ 2 کوئٹہ میں پولیس کی گا ڑی پر خود کُش حملہ 3 ٹی ٹی پی پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، امریکی تجزیہ کار 4 بھارتی کشمیر: 'پیلٹ گن سے بہت تباہی ہوئی، کئی لوگوں کا سہارا چھن گیا' 5 ویو 360 | ٹی ٹی پی کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کا امکان نہیں، امریکی تجزیہ کار| بدھ، 30 نومبر 2022 کا پروگرام
امریکی ریاست نیویارک کی مقامی عدالت نے معروف گلوکار رابرٹ سلویسٹر کیلی (آر کیلی) پر جنسی تعلقات کے ذریعے خواتین کو بیمار کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر جرمانہ عائد کردیا۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق نیویارک شہر کے نواحی علاقے بروکلن کی عدالت کی جج این ڈونیلے نے گلوکار کو قید کی سزا سنانے کے بجائے ان پر جرمانہ عائد کردیا۔ خاتون جج کے مطابق آر کیلی کو پہلے ہی قید کی بہت سزا مل چکی ہے، اس لیے اب انہیں جرمانے کی سزا سنائی جا رہی ہے اور وہ مجموعی طور پر 3 لاکھ ڈالر دو متاثرہ خواتین کو فراہم کریں گے۔ آر کیلی کی جانب سے جینے اور اسٹیفنی نام کی خواتین کو تین لاکھ امریکی ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی، جنہوں نے جنسی بیماری کے علاج پر بہت ساری رقم خرچ کی تھی۔ یہ بھی پڑھیں: دو سال کی تاخیر کے بعد آر کیلی کے خلاف ٹرائل کا آغاز عدالت نے ایک تیسری متاثرہ خاتون کو معاوضے کی رقم فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ بروکلن کی عدالت میں ہونے والی سماعتوں میں آر کیلی نے آن لائن شرکت کی، وہ اس وقت شکاگو کی جیل میں قید ہیں۔ آر کیلی کے خلاف جرمانے کی سزا سنانے والی خاتون جج نے ہی انہیں جون میں جنسی جرائم ثابت ہونے پر 30 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ علاوہ ازیں رواں ماہ ستمبر کے وسط میں بھی ریاست الینوائے کی عدالت نے آر کیلی کو ’چائلڈ پورنوگرافی‘ کا مجرم قرار دیا تھا، تاہم عدالت نے فوری طور پر انہیں سزا نہیں سنائی تھی۔ گلوکار کے خلاف الینوائے، نیویارک اور کیلی فورنیا سمیت دیگر ریاستوں کی عدالتوں میں ابھی متعدد کیسز زیر سماعت ہیں۔ آر کیلی 2020 سے ہی جیل میں ہیں اور جون میں نیویارک کی عدالت میں انہیں انہیں مجموعی طور پر تمام جرائم میں 30 سال قید اور ایک لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ مزید پڑھیں: آر کیلی کے خلاف ’ریپ‘ ٹرائل میں وکلا کے دلائل مکمل ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1990 سے 2018 تک متعدد نابالغ لڑکوں، لڑکیوں اور خواتین کو جنسی تعلقات کے لیے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے سمیت ان کا جنسی استحصال کیا اور ان کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرکے انہیں بعض جنسی بیماریاں بھی دیں۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے عالیہ نامی گلوکارہ سے 1994 میں اس وقت شادی کی جب لڑکی کی عمر 15 سال تھی جب کہ اس سے قبل ہی انہوں نے ان کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کیے تھے۔ گلوکار کے خلاف ابھی کم از کم مزید تین ریاستوں میں نابالغ افراد سے ریپ اور لوگوں کو جنسی تسکین کے لیے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے جیسے ٹرائل زیر سماعت ہیں اور ان کے فیصلے آنا ابھی باقی ہیں۔ Email نام* وصول کنندہ ای میل* Cancel 0 یہ بھی پڑھنا مت بھولیں ’جنسی جرائم‘ ثابت ہونے پر آر کیلی کو 30 سال کی سزا گلوکار آر کیلی ’چائلڈ پورنوگرافی‘ کے مجرم قرار آر کیلی کے خلاف ٹرائل کی سماعت کے دوران متاثرین کے ہوشربا انکشافات Desk Mrec Top video link Teeli ویڈیوز Filmstrip زیادہ پڑھی جانے والی خبریں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فیفا ورلڈ کپ: 2 فیوریٹ ٹیموں کا کوارٹر فائنل میں ٹکراؤ کافی دلچسپ ہوگا اپنے پہلے میچ میں سعودی عرب سے اپ سیٹ شکست کے بعد لیونل میسی کی ارجنٹینا نے ٹورنامنٹ میں شاندار کم بیک کیا اور اب یہ ٹیم عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ پاکستان کے 99 ارب ڈالر کے قرضوں کی ’ری اسٹرکچرنگ‘ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا بحران اتنا شدید ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر تک بھی پہنچا دیں تو بھی پاکستان غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہیں کرسکے گا، ڈائریکٹر ٹاپ لائن سیکیورٹی کمان میں تبدیلی کے دو ہی دن بعد آئی ایس پی آر کا سربراہ تبدیل میجر جنرل بابر افتخار کی جگہ پاج فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی قیادت کیلئے حیران کن طور پر الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجینئرنگ کور سے انتخاب کیا گیا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی، فائدہ کیا ہوا بے نقاب ہوگئے، عمران خان عقل یہ کہتی ہے کہ 66 فیصد ملک میں الیکشن ہو رہا ہے تو عام انتخابات کروادیں، اس میں کوئی لمبی بات نہیں ہے، سابق وزیر اعظم لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ’قبل از وقت ریٹائرمنٹ‘ لے لی نئی تعیناتیوں سے قبل ہی فیض حمید کا استعفیٰ قبول کرلیا گیا، نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر آج اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ مری: نجی ہوٹل میں 3 نوجوان پراسرار طور پر جاں بحق واقعے کی مکمل تحقیقات کیلئے مری پولیس اور فرانزک ٹیم کو راولپنڈی سے طلب کر لیا، موقع پر پہنچ کر تمام شواہد اکھٹے کیے، ڈی سی جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا، آپ کیلئے عمران خان والا راستہ بہتر ہے، چوہدری پرویز الہٰی اللہ تعالیٰ نے راستہ دکھانے کے لیے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھیجا، وزیراعلیٰ پنجاب پنجاب کی سیاست اور عدالتی کارروائیاں: ماضی، حال اور ممکنہ مستقبل اسمبلی تحلیل ہو، تحریک عدم اعتماد یا پھر گورنر راج کا نفاذ ہو، یہ بات یقینی ہے کہ گیند ایک بار پھر سے عدالتی کورٹ میں جائے گی۔ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ جنرل فیض اور جہانگیر ترین کا تھا، پرویز الہٰی فیض صاحب میری باتیں مان لیتے تو پنجاب میں چار سال ضائع نہ ہوتے، ڈبل گیم عمران خان نے کھیلی نہ باجوہ صاحب نے، وزیر اعلیٰ پنجاب
KARACHI, Dec 06 (APP):The first lady Samina Arif Alvi, on Tuesday, stressed on collective efforts for bringing change in mental approach towards differently abled... رینالہ خورد:اوکاڑہ یونیورسٹی میں فیشریز ویک کی تقریبات اختتام پزیر ،تقریبات میں سیمینار، واک،... Tue, 6 Dec 2022, 6:32 PM رینالہ خورد,6دسمبر(اےپی پی ):اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ فیشریز اینڈ ایکواکلچر کی جانب سے فیشریز ویک 2022 نہایت جوش و جذبے سے منایا گیا۔ اس... پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے درمیان سائنس کے فروغ... Tue, 6 Dec 2022, 4:39 PM اسلام آباد،06دسمبر(اے پی پی): پاکستان سائنس فاؤنڈیشن اور انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے درمیان سائنس کے فروغ اور مقبولیت کے لیے مفاہمت کی... سکھر: پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن اور روٹری کلب ڈیٹس ویلی اور کانفیڈنٹ ڈس ایبلڈ... Tue, 6 Dec 2022, 4:36 PM سکھر،06دسمبر(اے پی پی): پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن اور روٹری کلب ڈیٹس ویلی اور کانفیڈنٹ ڈس ایبلڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مشترکہ تعاون سے پریس... رضا کاروں کا عالمی دن منانے کا مقصد تربیت یافتہ رضا کاروں خراج تحسین... Tue, 6 Dec 2022, 4:33 PM مظفرگڑھ، 06 دسمبر (اے پی پی): ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر حسین میاں نے کہا کہ رضا کاروں کا عالمی دن منانے کا مقصد تربیت... پاک-انگلینڈ ٹیسٹ سیریز؛ دوسرا میچ کیلئے ملتان شہر اور سٹیڈیم کی خصوصی صفائی شروع Tue, 6 Dec 2022, 4:29 PM ملتان، 06 دسمبر(اے پی پی ): پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں اور آفیشلز کی ملتان آمد کے پیش نظر ملتان ویسٹ منیجمنٹ کمپنی... SSC on National Health Services ,Regulations & Coordination held Tue, 6 Dec 2022, 4:26 PM ISLAMABAD, Dec 06 (APP): A meeting of the Senate Standing Committee on Health Services,Regulations and Coordination was held under the chairmanship of Senator Dr.... ملتان؛35ویں مڈ کیریئر منیجمنٹ کورس کے وفد کا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا دورہ Tue, 6 Dec 2022, 4:22 PM ملتان، 06 دسمبر(اے پی پی ): نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ اسلام آباد کے 35ویں مڈ کیریئر منیجمنٹ کورس کے سینئر افسران کے وفد... عام انتخابات اکتوبر 2023 میں ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے،... Tue, 6 Dec 2022, 4:19 PM اسلام آباد،06دسمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات اکتوبر... سیلاب متاثرین کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں، ایف ایف سی اپنے ان بہن... Tue, 6 Dec 2022, 2:28 PM رحیم یارخان، 06 دسمبر(اے پی پی): سیلاب متاثرین کی مشکلات اور مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، فوجی فرٹیلائزرکمپنی لمیٹیڈ گوٹھ ماچھی اپنے ان بہن...
عراق و شام میں سنی مجاہدین کے گروپ نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسلام خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ ’’اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ان مجاہدین نے مسلح پیش رفت کر کے عراق اور شام کی سرحد پر دونوں طرف کے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا قبضہ ختم کرانے میں عراق اور شام دونوں طرف کی حکومتوں کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی گزشتہ دنوں بغداد کا دورہ کر کے اس سلسلہ میں ایک مشاورت میں شریک ہو چکے ہیں اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی درخواست پر امریکہ ان کی امداد کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ ’’اسلامک سٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشار الأسد دونوں کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور دونوں ملکوں کی سنی آبادی کو ان کے جارحانہ اور انتقامی طرز عمل کی شکایت ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ایک انٹرویو میں نوری المالکی کے بارے میں کہہ چکی ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب رکھتے ہیں۔ انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوج اور سول انتظامیہ سے سنی افسران کو چن چن کر نکال دیا تھا اور وہ سنی آبادی کو حکومتی معاملات میں شریک کرنے کی سوچ نہیں رکھتے۔ دوسری طرف شام کے صدر بشار الأسد کو ملک کی سنی اکثریت کے خلاف معاندانہ اقدامات اپنے والد حافظ الأسد سے ورثہ میں ملے ہیں اور وہاں یہ کشمکش گزشتہ چار عشروں سے تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔ جب حافظ الاسد نے سنی علماء اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے ان کے مضبوط مذہبی گڑھ اور تاریخی بستی ’’حماۃ‘‘ کو فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن اور کریک ڈاؤن میں دس ہزار کے لگ بھگ سنی علماء اور کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اور شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ سمیت سینکڑوں سرکردہ علماء کرام جلا وطنی پر مجبور ہوگئے تھے۔ موجودہ صورت حال میں نوری المالکی اور بشار الاسد کو نہ صرف ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ لبنان کی حزب اللہ اس لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ ہے اور عالمی سطح پر روس اور چین کی واضح سپورٹ کے بعد اب امریکہ بھی انہیں بچا لینے کی حکمت عملی پر آگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی حلقوں میں لگاتار گردش کرنے والی اس خبر پر بھی نظر ڈال لی جائے کہ عراق کو تین حصوں (۱) شیعہ عراق (۲) کرد عراق اور (۳) سنی عراق میں تقسیم کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں جس کے نتیجے میں سنی عراق صرف تین صوبوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور یہ وہ صوبے ہیں جہاں نہ تیل ہے اور نہ ہی انہیں دوسرے وسائل میسر ہیں۔ اور اس طرح ایک عرب صحافی کے بقول عراق کے سنی (السنۃ علی باب اللہ) مستقبل میں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردن کے شاہ عبد اللہ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے اہل سنت شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں۔ اور آج یہ بات علاقے کی صورت حال میں واضح عملی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں شام اور عراق کے سنی مجاہد گروپوں نے اتحاد قائم کر کے دونوں طرف کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا جو سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اس سے یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی نقشہ کو از سر نو تبدیل کرنے کی عالمی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی فکر میں ہیں۔ اس خطہ کی موجودہ جغرافیائی تقسیم پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور اس کے بیشتر علاقوں پر یورپی ممالک کے تسلط کے بعد اس وقت وجود میں آئی تھی جب بین الاقوامی معاہدات کے تحت ترکی کو خلافت کا ٹائیٹل ترک کر دینے کی صورت میں اس کی حدود میں محصور کر دیا گیا تھا۔ اور اس کے بہت سے صوبوں کو نئی سرحدات کے ساتھ آزاد ممالک کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ ورنہ یہ سب علاقے حتیٰ کہ اسرائیل بھی ترکی کی خلافت عثمانیہ کے صوبوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر یورپی قوتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے زیر نگیں علاقوں کو اس طرح تقسیم کر دینا بھی ضروری سمجھا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ عالمی استعمار کو ایک صدی کے بعد اپنے مفادات اور تسلط کے تحفظ اور اسرائیل کی بقا کے لیے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سرحدوں کی نئے سرے سے تشکیل کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ عالمی استعمار نے مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں خلافت اسلامیہ کے قیام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ کو ہر قیمت پر روکنے کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جو وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سے مغرب کی فکری قیادت کے لیے مسلسل سرگرم ہیں، ایک خطاب میں کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی، اور نہ ہی شریعت نافذ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ترکی نے ’’معاہدہ لوزان‘‘ میں جب خلافت و شریعت سے دست برداری اختیار کی تھی اور آئندہ کبھی خلافت و شریعت کو اپنی حدود میں دوبارہ واپس نہ لانے کا یورپی قوتوں سے وعدہ کیا تھا تو اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ترک لیڈر مصطفی کمال اتاترک اور عصمت انونو اس کانفرنس میں خلیفہ عثمانی کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اسی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ اس پر بعض مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ خلافت و شریعت سے مکمل اور مستقل دست برداری کا یہ معاہدہ عثمانی خلافت کے نمائندے نے کیا تھا جو پورے عالم اسلام کی طرف سے تھا۔ اس لیے پوری مسلم امہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ خلافت و شریعت سے دست برداری پر ہمیشہ قائم رہے۔ جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں خلافت کے احیاء کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک میں بیسیوں تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض نے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ بھی خلافت اسلامیہ کے احیاء و قیام کے لیے مصروف عمل ہیں اور عالم اسلام کی ایک اجتماعی دینی و ملی ضرورت کی تکمیل چاہتے ہیں۔ خلافت اسلامیہ امت مسلمہ کی دینی ضرورت تو ہے ہی، ملی اور عالمی ضرورت بھی ہے کہ عالم اسلام اس وقت زخموں سے چور ہے مگر عالمی سطح پر اس کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، جبکہ امت مسلمہ پوری کی پوری عالمی استعماری قوتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کا اندازہ ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے ایک انٹرویو میں عالم اسلام کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی حسرت کے ساتھ یہ جملہ کہا تھا کہ ’’اب تو کوئی Ottomon Empire (سلطنت عثمانیہ) بھی نہیں ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی آواز اٹھا سکے‘‘۔ اس ساری صورت حال میں سنی ممالک کی حکومتوں کا رویہ کیا ہے اور سنی دنیا کی علمی و فکری قیادتیں کس مزے سے خواب خرگوش میں مست ہیں، اس پر یہ شعر ان کی نذر کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ: گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری حالات و واقعات (اگست ۲۰۱۴ء) اگست ۲۰۱۴ء جلد ۲۵ ۔ شمارہ ۸ فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران مولانا ابوعمار زاہد الراشدی مشرق وسطیٰ میں سیاسی و مذہبی کشمکش مولانا ابوعمار زاہد الراشدی اعجازِ قرآن ۔ ایک مختصر جائزہ محمد حسنین عراق اور فرقہ واریت کی آگ / مسئلہ فلسطین خورشید احمد ندیم حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر رضوان علی ندوی کی تنقید (۲) مفتی امان اللہ نادر خان مادی ترقی اور شناخت کا بحران حافظ کاظم عثمان قرآنی مطالبہ تدبر کائنات: حقیقت مطلق تک رسائی کا عالمگیر مذہبی تجربہ یا ایک ناقابل ابلاغ سری کیفیت پر اصرار؟ عاصم بخشی روحانی تدبر کائنات؟ ڈاکٹر محمد شہباز منج دہشت گردی کے خلاف قومی مہم مولانا ابوعمار زاہد الراشدی تلاش کریں الشریعہ اکادمی الشریعہ اکادمی ماہنامہ الشریعہ گزشتہ شمارے مقالات و مضامین رابطہ گزشتہ شمارے 1989 1990 1994 1995 1996 1997 1998 1999 2000 2001 2002 2003 2004 2005 2006 2007 2008 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 2019 2020 2021 2022
ہمارے لئے، دیہی علاقوں میں بچوں کی تعلیم ہمیشہ ایک حساس موضوع ہے. اگر ان کو اسکول میں بھیجنے کی صلاحیت ہوتی ہے تب بھی غریب پڑوسی والدین اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ دلانے کے قابل نہیں ہوسکتے،. دیہی اسکول زیادہ تر اساتذہ کے جوش و جذبے پر کام کرتے ہیں جو صرف اتنا زیادہ ہی کر سکتے ہیں. کتابیں، اسکول کی یونیفارم، مناسب تعلیمی مواد اور اس سے زیادہ رقم نہیں ہے، بچوں میں اکثر مناسب طریقے سے مطالعہ کرنے کے لئے کافی توانائی نہیں ہے، اپنے والدین کی مدد کرنے کے لئے گھر میں اور اکثر سکول اور واپسی کے لمبے سفر کو سہارا دینے کے لئے. تعلیمی عمل میں اضافہ ہوتا ہے اور غربت کے چکر میں حصہ لینے والے بچوں کے چھوڑنے کا امکان ہے. ہم نے اپنے آپ صورت حال کو دیکھنے کے لئے ایسی جگہوں میں سے ایک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا، اس کی مدد کی پیشکش کریں جھاں کہ یہ واقعی ضروری ہے اور زیادہ اہم بات ہے، بچوں کی تعلیم کے مسئلے کو روشنی میں لائیں. تھائی لینڈ میں مائی چیم کے پہاڑوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، یہ باشندے محنت مند لوگ ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ وقت کھیتوں میں خرچ کیا ہے. کم آمدنی کاشتکار ملازمین ہونے کے باعث اس طرح کے عیش و آرام کی مدد کرنے کے لئے کافی رقم نہیں ھوتی ہے جیسے تعلیمی مواد اور یہاں تک کہ گرم کپڑے. زیادہ تر مقامی لوگ اپنے بچوں کو ہر چیز یا اس سے زیادہ نہیں فراہم کر سکتے، نوجوانوں نے ان کے والدین کی مدد کرنی ھوتی ہے. جو لوگ کھیتوں میں کام کرتے ہیں وہ کم ہی اپنے بچوں کو سکول میں بھیجتے ہیں، گھر کے کام کے لئے انہیں گھر پر رکھتے ہیں. بان سم سوپ گاؤں کے قریب ترین اسکول ہے، جو ایک خطرناک اور مشکل خطے کے ذریعہ گھر سے دور ایک گھنٹہ فاصلے پر ہے، جہاں گاڑی پر نہیں جاسکتا ہے. ہر دن اسکول جانے کے لۓ چھوٹے بچے کو اصلی مہم جوئی کے ذریعے جانا پڑتا ہے. اور اگرچہ وہ اس پر عادی ہیں اور اس سے بھی امید مند لگتے ہیں، سڑک کے خطرات ابھی تک ایک سخت حقیقت ہے. اس دن تک مقامی لوگوں کو ایک خوفناک سانحہ یاد آتا ہے جو بہت وقت پہلے ہوا. جب چند گاؤں کے بچوں کو اسکول کے معمول کے راستے پر ایک پہاڑی کے قریب گرنے والے پتھروں کے نیچےآکے مر گے. (بان سام سوم اسکول کی سڑک خوبصورت، لیکن اکثر خطرناک جگہوں سے گزرتی ہے) جیسے کہ سڑک کے بارے میں بات کرتے ہیں، یہ مشکل خطے جو انہیں پریشان کر رہا ہے، یا خراب موسم نہیں ہے. وہ جانتے ہیں کہ کوئی دوسرا اسکول نہیں ہے لہذا وہ راستے کو تبدیل نہیں کرسکیں گے. سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے گرم کپڑے نہیں دے سکتے. اوسط ہر لڑکے اور لڑکی کو اس گاؤں میں صرف ایک یا دو لباس ہے، جو سرد حالات میں آرام دہ اور پرسکون برقرار رکھنے کے لئے کافی نہیں ہے. پہاڑوں میں آب و ہوا غدار ہوسکتی ہے: گرم موسم بہت تیزی سے سردی میں بدل جاتا ہے. جب سورج بڑھ جاتا ہے تو، گاؤں کے بچوں کو اسکول میں طویل اور سرد سفر کے لئے تیار ہونا جاتا ہے. ان کا راستہ پہاڑوں سے گھیرا ہوا ہے جو پھیلا ہوا پتھر، لمبی اور غدار گندی سڑکوں اور پتلے جھولتے پلوں کے ساتھ ھے. شاندار خوشحالی اور عزم بچوں کو علم کے راستے پر تمام رکاوٹوں پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے. عمر سے وہ سیکھتے ہیں کہ سب کچھ، علم سمیت، کمائی کی جائے گی. لیکن ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام محنت کو بھی انعام دیا جانا چاہئے. بچوں کے ساتھ بات چیت کے بعد، بان سام سوپ اسکول کے استاد اور کچھ والدین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بچوں کے لئے کیا سب سے بہترین موقع ملے گا. ہماری ٹیم نے ہر بچے کی پیمائش کی اور ایک اسکول کی نئ یونیفارم کا ایک ڈیزائن بنایا جے انہوں نے بہترین قرار دیا. یونیفارم تخلیق کرتے ہوئے ہم کچھ چیزوں کو ذہن میں رکھے ہوئے ہیں: سب سے پہلے، یہ گرم ہونا چاہیے. والدین کا بنیادی تشویش سرد موسم تھا، لہذا ہم نے مناسب مواد استعمال کرنا پڑا جو گرم رکھنے کے لۓ. ہلکا پھلکا اور ڈھیلا ہونے کے لئے دوسرا ضروری معیار، لہذا یہ تحریک کو محدود نہیں کرے گا. بچے طویل فاصلے پر سفر کرتے ہیں اور اکثر ان کے راستے پر رکاوٹوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے. اور آخر میں، یونیفارم گھنے جنگلوں کے ذریعے طویل عرصے تک چلنے کے لئے کافی پائیدار ہونا ضروری ہے، اور سڑکوں کے بعد دھونے کے لئے آسان ہو. ہم واپس آ گئے ہیں، لیکن اس وقت پیش کے ساتھ. یونیفارم خاص طور پر بان سام سوپ اسکول، تعلیمی مواد اور اسکول میں بچوں کے لئےکھانے. بچے خوش تھے، اور ہم ہی تھے. مای چیم بچوں کی یہ واقعی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں، اور آپ کہاں سے ہیں، آپ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک موقع بنا سکتے ہیں اور کچھ زیادہ حاصل کر سکتے ہیں، آپ کو ضرورت ہے کہ آپ اپنے آپ پر قائل ہوں اور یقین رکھے. کامیابی کا راستہ نوکیلے پتھروں کی طرف سے جاتا ہے اور سست پلوں کے ذریعے جھوٹ بولتا ہے، لیکن کوئی بات نہیں، ہم ہمیشہ آپ کی طرف رہیں گے. 2805 مقبول مضامین فارکس پر ٹریڈنگ کیسے شروع کی جائے؟ 16708 ن لائن اسٹاک کی ٹریڈنگ 6653 فاریکس ٹریڈنگ کیسے منافع بخش ہو سکتی ہے 6135 سوشل میڈیا پر ہمیں تلاش کریں ہمارے ساتھ اپنی بہترین کہانیاں کا اشتراک کریں ٹیم اسپرٹ کو محسوس کریں سوشل میڈیا پر FBS facebook instagram youtube telegram ہم سے رابطہ کریں zopim fb-msg viber line telegram whatsApp ویب سائٹ FBS Markets Inc کیجانب سے چلائی جاتی ہے۔; رجسٹریشن نمبر۔ 119717; FBS Markets Inc کو IFSC کیجان بسے منظم کیا جاتا ہے، لائسنس IFSC/000102/310; ایڈریس: Guava Street, Belize Belama Phase 1, Belize۔2118۔ FBS Markets Inc، مخصوص دائرہ اختیار کے رہائشیوں کو مالی خدمات پیش نہیں کرتا ہے، بشمول، لیکن ان تک محدود نہیں: امریکہ ،یورپی یونین،برطانیہ،اسرائیل،ایران اور میانمار۔ رقوم کی ٹرانزیکشن کا انتظام НDС Technologies Ltd کرتی ہے۔; رجسٹریشن نمبر۔ HE 370778; ایڈریس: Arch. Makariou III & Vyronos, P. Lordos Center, Block B, Office 203. تعاون کے لئے، ہم سے اس ای میل support@fbs.com یا 23212 7251 35+ پر رابطہ کریں۔ رسک وارننگ : ٹریڈنگ شروع کرنے سے پہلے، آپ کو شامل ہونے والے خطرات کو مکمل طور پر سمجھنا چاہئے کرنسی مارکیٹ اور مارجن ٹریڈنگ کے ساتھ، آپ کو اپنے تجربے کے بارے میں آگاہ ہونا چاہئے. کسی بھی کاپی، ریپروڈکشن، ریپبلیکیشن، اور انٹرنیٹ بھی اس ویب سائٹ سے کسی بھی مواد کے وسائل صرف تحریری اجازت پر ممکن ہیں ڈیٹا جمع کرنے کا نوٹس ایف بی ایس اس ویب سائٹ کو چلانے کے لئے آپ کا ریکارڈ ترتیب دیتا ہے۔ "قبول" کا بٹن دبانے سے آپ ہماری پرائویسی پالیسی پر اتفاق کرتے ہیں۔ قبول کیا دوبارہ کال کریں فون نمبر 93 355 213 1684 376 244 1264 672 1268 54 374 297 61 43 994 1242 973 880 1246 375 32 501 229 1441 975 591 387 267 55 246 673 359 226 257 855 237 1 238 1345 236 235 56 86 61 61 57 269 242 243 682 506 225 385 53 357 420 45 253 1767 1809 593 20 503 240 291 372 251 500 298 679 358 33 594 689 241 220 995 49 233 350 30 299 1473 590 1671 502 224 245 592 509 39 504 852 36 354 91 62 98 964 353 44 972 39 1876 81 962 7 254 686 850 82 965 996 856 371 961 266 231 218 423 370 352 853 389 261 265 60 960 223 356 692 596 222 230 262 52 691 373 377 976 382 1664 212 258 95 264 674 977 31 599 687 64 505 227 234 683 672 1670 47 968 92 680 970 507 675 595 51 63 64 48 351 1787 974 262 40 7 250 590 290 1869 1758 590 508 1784 685 378 239 966 221 381 248 232 65 421 386 677 252 27 500 34 94 249 597 268 46 41 963 886 992 255 66 670 228 690 676 1868 216 90 993 1649 688 256 380 971 44 1 1 598 998 678 58 84 1284 1 681 2 967 260 263 کال کے اوقات 00:00 00:00 01:00 02:00 03:00 04:00 05:00 06:00 07:00 08:00 09:00 10:00 11:00 12:00 13:00 14:00 15:00 16:00 17:00 18:00 19:00 20:00 21:00 22:00 23:00 — 23:00 00:00 01:00 02:00 03:00 04:00 05:00 06:00 07:00 08:00 09:00 10:00 11:00 12:00 13:00 14:00 15:00 16:00 17:00 18:00 19:00 20:00 21:00 22:00 23:00 اپنا ای میل درج کریں اگر ضرورت ہو، تو اپنی رائے درج کریں دوبارہ کال کریں ایک مینجر جلد ہی آپکو کال کرے گا نمبر تبدیل کریں تصدیق کریں آپ کی درخواست موصول ہو گئ ہے ایک مینجر جلد ہی آپکو کال کرے گا اس فون نمبر کیلئے اگلی کال بیک کی درخواست ۔ میں دستیاب ہوگی اگر آپ کو کوئی فوری مسئلہ درپیش ہے تو براہ کرم ہم سے رابطہ کریں لائیو چیٹ کے ذریعے اندروانی مسئلہ ،تھوڑی دیر بعد کوشش کریں اپنا وقت ضائع نہ کریں – اس بات پر نظر رکھیں کہ NFP امریکی ڈالر اور منافع کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے! نوٹیفیکیشن کیلئے سائن اپ کریں ابتدائی فوریکس گائیڈ بک فاریکس پر نئے آنے والوں کیلئے یہ کتاب ٹریڈنگ کی دنیا کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔ ٹریڈنگ شروع کرنے کے لئے سب سے اہم چیزیں اپنا ای میل لکھیں اور ہم آپ کو مفت ابتدائی فوریکس گائیڈ بک بھیجیں گے اپنےای میل ایڈریس کو یہاں لکھ دینے سے، آپ ایف بی ایس کے نظر ثانی شدہ رازداری کی پالیسئ کو قبول کرتے ہیں۔
نیشنل ڈیسک:کورونا وائرس سے بچائو کے لئے گھر سے نکلتے وقت ماسک پہننا بیحد ضروری ہے۔ کئی لوگ بازاروں سے مہنگے ماسک خرید رہے ہیں ۔ ایسے میںوزیر اعظم نریندر مودی نے لوگوں سے درخواست کی کہ گھر میں بنے ماسک کا استعمال کریں اور آگے پانچ لوگوں کو بھی بنا کر دیں۔ پی ایم مودی کی درخواست پر ایک 10 سال کے لڑکے نے بھی خود گھر پر بیٹھ کر ماسک بنائے اس نے سلائی مشین کے ذریعے یہ ماسک تیار کیا ۔ 15 April,2020 کورونا :ماسک نہیں ، ''مودی گمچھا'' کے لئے کریزی ہوئے لوگ، فری میں بانٹے گئے غریبوں میں نیشنل ڈیسک:وزیر اعظم نریندر مودی جو بھی کہتے ہیں لوگوں کا ان پر زیادہ تر اثر ضرور پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ماسک کی جگہ اب مودی گمچھا کے لئے لوگ کریزی ہورہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں لوگوں میں تو مفت میں مودی گمچھا بانٹا بھی گیا ۔ کچھ دن پہلے پی ایم مودی نے اپنے ایم پی حلقے کے علاقے وارانسی کی عوام سے درخواست کی تھی کہ کورونا بحران سے بچنے کے لئے مہنگے ماسک کی جگہ گمچھے کا استعمال کریں، پھر کیا تھا کاشی واسیوں نے سپیشل مودی گمچھے تیار کرا کر غریب ضرورتمند وں میں بانٹا۔ 13 April,2020 اب ہر سال بچے گی 1کروڑ کتوں کی جان، کورونا سے ڈرا چین نہیں کھائے گا ان کا گوشت انٹر نیشنل ڈیسک:چین سے پیدا ہوئے کورونا وائرس کے انفیکشن نے آج دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی زد میں لے لیا ہے ۔ بھلے ہی چین اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کر رہا ہو لیکن اب بھی اس کا خطرہ ملک میں منڈرا رہا ہے۔ ڈر کے مارے چین نے ایک ایسا فیصلہ لیا ہے جس سے کروڑوں کتوں کی جان بچ جائے گی ۔ در اصل یہاں کتو ں کو پالتوں جانور کی کیٹیگر ی میںڈال دیا ہے یعنی کہ اب لوگ کتے کا مانس نہیں کھا پائیں گے۔ 12 April,2020 کورونا وائرس کی وجہ سے ایمر جنسی لاگوکرنے والا پہلا ملک بنا جاپان انٹرنیشنل ڈیسک:کورونا وائرس کی وجہ سے جاپان نے ایمر جنسی لاگو کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بیماری کی وجہ سے امیر جنسی لگانے والا جاپان پہلا ملک بن گیا ۔ جاپان کے زیادہ تر صوبوں میںمنگلوار سے ایمر جنسی لاگو ہو گئی ہے ۔ جاپان نے کورونا وائر س وبا پر لگام لگانے کے لئے یہ فیصلہ لیا ہے۔ وزیر اعظم آبے نے کہا کہ بنیادی معاشی سرگرمیاں ٹوکیو میں جاری رہی گی۔ 07 April,2020 لاک ڈاون:پولیس کے ڈر سے پیٹھ پرتختی لگا کر باہر نکلا نوجوان، لکھا''راشن لینے جا رہا ہوں نہ برسائیں ڈنڈا'' نئی دہلی:ملک میںکوروناوائر س ہر دن اپنے پائوں جمارہا ہے۔ کوروناوائر س کے بحران سے نپٹنے کے لئے وزیرا عظم نریندر مودی کی طرف سے 21دنوں کے لے ملک بھر میں لاک ڈائون کا اعلا ن کیاہے۔ لاک ڈائون کے دوران اگر کوئی شخص باہر گھومتا نظر آتا ہے تو پولیس ان سے سختی سے نپٹ رہی ہے۔ پولیس کی اسی سختی سے بچنے کے لئے ایک شخص نے ایسا طریقہ نکالا جس کو دیکھتے سارے حیران رہ گئے۔ 28 March,2020 کورونا کو لے کر وزارت ریلوے کا بڑا فیصلہ ،آئیسولیشن سینٹربنیں گے ریل کے کوچ نیشنل ڈیسک:کورونا وائرس (کووڈ19) کوملک میںپھیلنے سے روکنے کے لئے تمام اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ کورونا متاثرین کے علاج کے لئے حکومت نئے طریقے اپنانے پر غور کر رہی ہے ۔ اسی درمیان وزارت ریل نے بھی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ٹرین کے ڈبوں کو کورونا آئیسولیشن سینڑ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ 28 March,2020 ڈیفنس ایکسپو2020 : ہندوستان امن پسند ملک، ہم پہلے حملہ نہیں کرتے: مودی نیشنل ڈیسک: وزیر اعظم نریندر مودی نے لکھنؤ کے ورنداون علاقے میں منعقد ہو رہے اب تک کے 11 ویں اورسب سے بڑے ڈیفنس ایکسپو کا افتتاح کیا۔ ہر دو سال پر منعقد ہونے والے اس ایکسپو میں بھارت کی دفاعی ترقی عالمی مرکز کے طور پر ابھارنے کی صلاحیت کو ظاہر کیا جائے گا 05 February,2020 پاکستان دہشت گردوں کے خلاف ایسے اقدامات کرے جو سب کو نظر آئے: راجناتھ سنگھ نئی دہلی: وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے تنازعہ حل کرنے کے بجائے ہندوستان کے خلاف ''''دہشت گردی کو ریاستی پالیسی'''' کے طور پر استعمال کرنے کے لئے پاکستان پر نشانہ سادھا 28 January,2020 سی ڈی ایس بپن راوت کو ملی یہ خاص ٹیم، اگلے 6 ماہ میں پورا کریں گے یہ ہدف نئی دہلی: ہندوستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کے دفترکا خاکہ تیار ہوگیا ہے۔ سی ڈی ایس بپن راوت کے دفترمیں دو جوائنٹ سیکرٹری، 13 ڈپٹی سیکرٹری اور 25سیکرٹری سطح کے افسر مقررکئے گئے ہیں۔ 12 January,2020 آرمی چیف نرونے کا دعویٰ- اگر ہندوستان صحیح قدم اٹھائے تو نہیں ہوگی ایران جیسی غلطی نیشنل ڈیسک: بری فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نرونے نے بھارت میں ایئر ڈیفنس کمانڈ کی زوردار پیروی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہندوستان ایران جیسی غلطی کرنے سے بچ سکے گا۔آرمی چیف نے کہا کہ اگر ہندوستان میں ایئر ڈیفنس کمانڈ کی موجود گی ہو تو ایران جیسی غلطی سے بچا جا سکے گا 12 January,2020 مودی نے ملک کے پہلے سی ڈی ایس کو دی مبارکباد، کہا- جنرل راوت نے پورے جوش کے ساتھ ملک کی خدمت کی نئی دہلی: وزیراعظم نریندرمودی نے ملک کےپہلے چیف آف ڈفینس اسٹاف(سی ڈی ایس)جنرل بپن راوت کو ایک بہترین افسربتاتے ہوئے انہیں نئی ذمہ داریوں کےلئے مبارکباد اور دعائیں دی ہیں۔مسٹرمودی نے بدھ کو ٹویٹر پر کہا،’’مجھے خوشی ہے کہ نئے سال اور نئی دہائی کی شروعات کے ساتھ ہی ہندوستان کو جنرل بپن راوت کے طورپر اپنا پہلا چیف آف ڈفینس اسٹاف مل گیا ہے 01 January,2020 ملک کے پہلے چیف آف ڈیفینس بنے بپن راوت، کل ہوں گے فوجی سربراہ کے عہدے سے ریٹائر نئی دہلی : فوجی سربراہ بپن راوت ملک کے پہلے چیف آف ڈیفینس سٹاف ( سی ڈی ایس ) بنے ہیں ۔ پیر کی صبح ان کے نام کا اعلان کیا گیا ۔ بتا دیں کہ راوت منگل کے روز ( 31 دسمبر ) کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں ۔ بتا دیں کہ سی ڈی ایس ، 30 December,2019 بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا سپریم کورٹ سے مطالبہ، مسجد کے باقیات ہمیں سونپے جائیں بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے آج جمعرات کو سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر بابری مسجد کے باقیات کمیٹی کو دینے کا مطالبہ کیا ہے۔بابری ایکشن کمیٹی سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کا حصہ اب بھی وہاں موجود ہے 26 December,2019 مودی کابینہ سے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کو ملی منظوری، 4 اسٹار رینک کے برابر ہوگا عہدہ سیکورٹی معاملات کی مرکزی کابینہ نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف(سی ڈی ایس ) کا عہدہ بنانے کو منظوری دے دی ہے۔سکیورٹی معاملات کی کابینہ کمیٹی نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف ( سی ڈی ایس کی ذمہ داری کا تعین کرنے والی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی قیادت والی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دے دی۔ 24 December,2019 دفاعی میدان میں ملک کو خود کفیل بنانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں: راجناتھ سنگھ نیشنل ڈیسک: حکومت ملک کو دفاعی پیداوار کے میدان میں خود کفیل بنانے کی سمت میں مسلسل کام کر رہی ہے اور اس کا سامان کو مقامی کرنے پر زور ہے۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بدھ کو لوک سبھا میں سوال کے دوران اضافی سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میک ان انڈیا کے تحت دفاعی سامان بنانے والی کمپنیوں کو جو سہولات دی جا سکتی ہے وہ دی جا رہی ہیں 11 December,2019 اسرو نے رقم کی تاریخ : بھارت کی سب سے طاقتور سیٹیلائٹ ''ریسیٹ - 2 بی آر 1'' ہوئی لانچ نیشنل ڈیسک: بھارتی خلائی تحقیق تنظیم (اسرو)نے بدھ کو دوپہر 3.25 پر ریسیٹ- 2 بی آر 1 سیٹیلائٹ کو کامیابی سے لانچ کیا۔ ریسیٹ - 2 بی آر 1 سیٹیلائٹ سے بھارت کی راڈار امیجنگ کی طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی۔اس سے دشمنوں پر بھی ہندوستان کی گہری نظر رہے گی۔ 11 December,2019 راجناتھ سنگھ کی پاکستان کو وارننگ- بھارت کے خلاف ہر سازش کا دیں گے منہ توڑ جواب نیشنل ڈیسک: وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آج کہا کہ پاکستان نے '''''''' پراکسی وار چھیڑ رکھی ہے کیونکہ اسے احساس ہو چکا ہے کہ وہ روایتی جنگ نہیں جیت سکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جو پراکسی وار کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ ایک دن اس کی ہار کی وجہ بنے گا۔سنگھ پونے میں قومی دفاع اکیڈمی کے 137 ویں کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں بول رہے تھے۔ 30 November,2019 وزارت دفاع کمیٹی سے ہٹائی گئی سادھوی پرگیا ٹھاکر ، پارٹی سے با ہر کا راستہ دکھا سکتی بھاجپا نئی دہلی : مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن بتانا بھاجپا ایم پی سادھوی پرگیا ٹھاکر کو مہنگا پڑ گیا ہے ۔ بھاجپا کے ایگزیکٹو صدر جے پی نڈا کی سفارش کے بعد پارلیمانی امور وزیر پرہلاد جوشی نے 28 November,2019 آرمی چیف بین راوت کا بڑا بیان- بھارت کی سکیورٹی فُل پروف نہیں، ہوسکتی ہے نقب زنی نئی دہلی: بھارتیہ فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے ملک کی سلامتی کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ راوت نے کہا کہ بھارت سیکورٹی فل پروف (مکمل) نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسے نظام کے ذریعے آپریٹ ہو رہے ہیں، جس سے سیکورٹی میں سیندھ ( نقب زنی) لگ ہوسکتی ہے
لبنان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ جہاں خطے میں اپنا عسکری نیٹ ورک مضوط کررہی ہے وہیں اس نے اپنی اربوں ڈالر کی متوازی معیشت بھی قائم کررکھی ہے۔ ماہرین کے مطابق حزب اللہ نے ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرکے اپنا ایک مضبوط معاشی نیٹ ورک اور بنکنک سسٹم بنا رکھا ہے۔ یہ سلسلہ آج نہیں بلکہ سنہ 1980 کی دہائی میں تنظیم کے قیام کے بعد سے ہی جاری و ساری ہے۔ حزب اللہ لبنان میں اپنے فوجی ہتھیاروں کی تیاری کے بعد لبنان کے سرکاری اداروں سے باہر اپنی معیشت پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ معیشت سماجی شعبوں، صحت اور تعلیمی اداروں سے لے کراس کی فوجی تنظیم تک پھیلی ہوئی ہے۔ حزب اللہ کی معیشت کی بنیاد براہ راست ایرانی فنڈز پر منحصر ہے۔ Advertisement حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصراللہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ان کی جماعت کی ساری رقم، اس کے ممبروں کی تنخواہیں،اس کے اداروں کے بجٹ حالیہ برسوں میں ایران سے آتا ہے اور اس کا تخمینہ600 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ایران نے حزب اللہ کے معاشی اخراجات کو پورا کرنے میں اس کی بھرپور مدد کی چاہے ایرانی عوام بھوکے ہی کیوں نہ مرجائیں۔ ایران سے ملنے والی رقم سے حزب اللہ کے ہلاک ہونے والے جنگجوئوں کے خاندانوں کی کفالت، تنظیمی امور سے ریٹائر ہونے والوں کی امداد اور تنظیم کے ساتھ مختلف شعبوں میں ملازمت کرنے والوں کی تنخواہوں پر صرف کی جاتی ہے۔ اس متوازی معیشت میں جس میں حزب اللہ اپنے فنڈز کا نیٹ ورک رکھتی ہے میں "شہداء فاؤنڈیشن" امداد چیریٹی سوسائٹی "البنیان انجینئرنگ اینڈ کنٹریکٹنگ کمپنی" ،"الموسوی اسٹار" سپر مارکیٹ ، اوردیگر کمپنیاں شامل ہیں جن میں دودھ اور پنیر ، مصنوعی ربڑ مینوفیکچررز اور آٹوکمپنیاں اور کاروباری فرمیں‌بھی شامل ہیں۔ ان کمپنیوں اور فرموں کے ذریعے حزب اللہ نے ریاست کے اندر اپنی ایک متوازی معاشی ریاست قائم کررکھی ہےجس کا اپنا ایک مکمل مانیٹری سسٹم ہے۔ "حزب اللہ" کی متوازی معیشت کا سب سے نمایاں اشارہ "قرض الحسن ایسوسی ایشن" ہے جواس نے 1982 میں قائم کی تھی۔ حزب اللہ کےمالیاتی نظام کے لیے اس کا درجہ مرکزی بینک کی طرح ہے۔ اس نے بھاری مقدار میں سونے کے حصول کے ذریعہ پہلا مالیاتی مرکز قائم کیا۔ اس کے بارے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ایسوسی ایشن لبنانی بنکوں سے لائسنس یافتہ نہیں بلکہ لبنانی بینکاری نظام سے باہر کام کرتی ہے۔ ایسے وقت میں جب لبنانی بینکوں نے جمع صارفین کو ڈالرز دینا بند کردیئے اور لبنانی کرنسی میں کا اجرا کی حد مقرر کردی قرض حسن ایسوسی ایشن نے ایک "اے ٹی ایم" سروس متعارف کروائی۔ اسے اپنی کچھ شاخوں میں اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنے صارفین کو "تازہ" ڈالر دینے کا کام شروع کر دیا۔ حزب اللہ بینکنگ کمپنیوں کے توسط سے روایتی بینکنگ سسٹم پر انحصار نہیں کرتی بلکہ ترسیلات زر اور نقد زر مبادلہ کے نظام پر انحصاری کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں اور معاشی ماہرین کے مطابق حزب اللہ مالیاتی معیشت پر مبنی مالی اور بینکاری نظام کو اس کے متوازی نظام سے بدلنا چاہتی ہے۔ حزب اللہ نے اپنی متوازی معیشت کی مالی اعانت کے لیے لبنانی ریاست کی اہم سہولیات سے فائدہ اٹھایا۔ 4 اگست کو بیروت بندرگاہ میں ہونے والے دھمکاوں سے تباہ بندرگاہ حزب اللہ کی معیشت کا ایک بڑا دروازہ تھا۔ تنظیم کے جہاز کسٹم ڈیوٹی کے بغیر بندرگاہ میں داخل ہوتے۔ تمام تجارتی مواد ان کے مالکان کو بغیر ٹیکس اور فیس ریاست کو ادا کرنے کے داخل کیے جاتے۔ اس نے بیروت ہوائی اڈے سے اپنے سامان کی مفت آمدو ترسیل سے بھی فائدہ اٹھایا۔ عوامی افادیت کے علاوہ غیر قانونی عبور کے ذریعہ اسمگلنگ نے حزب اللہ کی متوازی معیشت کی معاونت کی اور اس میں ہم کردار ادا کیا۔ اس نے لبنان کے خزانے کو کسٹم محصولات سے محروم کردیا اور لبنان کے مرکزی بینک کے ذخائر کو ہارڈ کرنسیوں کے ذخائر سے محروم کردیا۔ بیشتر اسمگل شدہ سامان لیرا کے سرکاری زر مبادلہ کی شرح کے مطابق مرکزی بینک کے ذریعہ سبسڈی دیتا ہے۔ اس تناظر میں لبنان کے سابق سفیر ہشام حمدان نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ حزب اللہ ایران سے وابستہ ایک تنظیم ہے اور اس سے مالی اعانت حاصل کرتی ہے۔ اس طرح اپنی مالی استحکام کو مضبوط بنانے کے لبنانی نظام سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حزب اللہ کی معیشت ایرانی مالی مدد پر منحصر ہے اور ایرانی رقم کا کچھ حصہ بینکوں کے توسط سے آتا تھا لیکن لبنانی بینکاری نظام کے دہشت گردوں کی مالی اعانت روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے بعد حزب اللہ نے دیگر طریقوں کی طرف رجوع کیا۔ دوسری طرف سفیر حمدان کے مطابق ایرانی پیسہ نے حزب اللہ کو افریقہ اور لاطینی امریکا میں کمپنیاں بنانے میں مدد فراہم کی اور اس کی آمدنی دوسرے ترقی پذیر ممالک کے بینکوں میں منتقل کردی گئی اور پھر نقد رقم واپس لے لی گئی جسے ہوائی جہاز کے ذریعے لبنان منتقل کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رقوم پارٹی کے صحت ، معاشرتی اور فوجی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر متوقع آمدنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے حمدان نے کہا کہ حزب اللہ کئی غیرقانونی ذرائع سے بھی رقم حاصل کرتی ہے۔ ان میں منشیات کی اسمگلنگ جیسے منظم جرائم بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی انفارمیشن کارپوریشن کے محقق محمد شمس الدین نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کی متوازی معیشت لبنانی معیشت کا حصہ ہے مگر حزب اللہ کی سیاہ معیشت کے مکمل اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حزب اللہ کے بجٹ کے بارے میں اعداد و شمار اور تجزیے غلط اور بعض اوقات غیر منطقی ہوتےہیں۔ سیاسی محقق اور یونیورسٹی کے پروفیسر مکرم رباح نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ متعدد وجوہات کی بنا پر کالی معیشت پر انحصار کرتی ہے۔ اس میں منشیات اور اسلحے کی تجارت سے حاصل ہونے والی اپنی رقم شامل ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ حزب اللہ اپنے اسلحے کی غیر قانونی تجارت کو مستحکم کرتی ہے اور ٹیکس چوری کرتی ہے۔ العربیہ کی تازہ خبریں Google News کے ذریعے حاصل کریں لبنان ایران حزب_اللہ معیشت اشتہار مقبول خبریں اہم خبریں دن ہفتہ 1 1 ’بیٹی کو شادی مبارک اور بیوی کو طلاق مبارک ہو‘ بين الاقوامى 2 2 سعودی عرب کا النصرفٹ بال کلب رونالڈو کو تین سال کے معاہدہ کی پیش کش کرنے کوتیار بين الاقوامى 3 3 ڈالرکا بحران:پاکستان نے آن لائن گیمنگ اور دیگر ایپس کی بیرون ملک ادائی روک دی پاكستان 4 4 کشیدگی بڑھ گئی، ایران نے امریکہ کو ورلڈ کپ سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا بين الاقوامى 5 5 سعودی عرب کے دو گولوں کے صدمہ سے نکلنے کیلئے ماہر نفسیات کا سہارا لینا پڑا: گول کیپر بين الاقوامى 6 6 ’’ورلڈ کپ میچ دیکھنا جائز ‘‘ مصری دارالافتا کا ناجائز کہنے والے کو جواب بين الاقوامى 1 1 قطر ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والی فٹ بالز کا اصل مالک مصر یا پاکستان؟ پاكستان 2 2 زخمی سعودی کھلاڑی یاسر الشہرانی بسترعلالت پرقطر سےریاض منتقل مشرق وسطی 3 3 میچ کے دوران زخمی ہونے والے لیجنڈ سعودی فٹ بال یاسر اشہرانی کا قوم کے نام پیغام مشرق وسطی 4 4 مصری شہری نے بیٹی کی شادی کے دوران اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں بين الاقوامى 5 5 مسجد نبویﷺ کے صحن میں خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش ایڈیٹر کی پسند 6 6 تشدد سے بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتارنے پرعدالت نے 49 افراد میں موت بانٹ دی ایڈیٹر کی پسند 1 1 موگادیشو میں بم دھماکے، صومالی وزیرماحولیات بال بال بچ گئے بين الاقوامى 2 2 عرب شاعرہ عوشہ السویدی جن کا دن گوگل نے بھی منایا مشرق وسطی 3 3 حوثی ملیشیا نے لڑائی میں اپنے 9 رہنماؤں کی ہلاکت کا اعتراف کرلیا مشرق وسطی 4 4 مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں ڈیجیٹل اکانومی کا تیزی سے فروغ مشرق وسطی 5 5 ایران کے سپریم لیڈر کی بھانجی نےحکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کردی بين الاقوامى 6 6 کیف روسی شہر ہے اور ہم اسے واپس لیں گے: سابق روسی صدر دمتری میدویدیف بين الاقوامى یہ بھی پڑھیے حوثی ملیشیا نے لڑائی میں اپنے 9 رہنماؤں کی ہلاکت کا اعتراف کرلیا مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں ڈیجیٹل اکانومی کا تیزی سے فروغ مطالعہ موڈ چلائیں 100% Font Size Share یو آر ایل کاپی 5 منٹس (Reading time) مطالعہ موڈ چلائیں 100% Font Size Share یو آر ایل کاپی مطالعہ موڈ چلائیں 100% Font Size Share یو آر ایل کاپی اوپر کی طرف واپس پاكستان مشرق وسطی بين الاقوامی نقطہ نظر حج ہمارے بارے میں رابطه استعمال کی شرائط پرائیویسی پالیسی © جملہ حقوق بحق العربیہ نیٹ ورک محفوظ ہیں 2022 زبان English عربي فارسي اردو "یہ ویب سائٹ کوکیز کا استعمال کرتی ہے": آپ کے براؤزنگ تجربے کو پرلطف بنانے کے لیے اس ویب سائٹ پر کوکیز کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ آپ کے ذوق سے ہم آہنگ اشتہارات دکھائے جا سکیں۔ موافقت کی صورت میں، ’’ ٹھیک ہے‘‘ پر کلک کریں۔