text
stringlengths
225
131k
ٹورچلائٹ: باہمی تعاون سے متعلق معیشت کے حل کے ساتھ ڈیجیٹل مارکیٹنگ | Martech Zone ٹورچلائٹ: باہمی تعاون سے متعلق معیشت کے حل کے ساتھ ڈیجیٹل مارکیٹنگ جمعرات، نومبر 5، 2015 جمعرات، نومبر 5، 2015 Douglas Karr ابھی تک ، آپ شاید اس حوالہ سے آگئے ہوں گے ٹام گائیوان، حواس میڈیا میں حکمت عملی اور جدت کے سینئر نائب صدر: دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی اوبر کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ دنیا کا سب سے مقبول میڈیا مالک ، فیس بک کوئی مواد تیار نہیں کرتا ہے۔ سب سے قیمتی خوردہ فروش علی بابا کی کوئی فہرست نہیں ہے۔ اور دنیا کا سب سے بڑا رہائش فراہم کرنے والا ایئربنب غیر منقولہ جائداد کا مالک نہیں ہے۔ اب موجود ہے 17 ارب ڈالر کی کمپنیاں نام نہاد میں باہمی معاشی معیشت. ان کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر کامیابی کا تجربہ کیا ہے نہ کہ کسی نئی مصنوع کی ایجاد کرکے ، بلکہ اس سے ان کے نقطہ نظر کو دوبارہ جاننے سے جو لوگوں کو ملاپ کے ذریعہ قیمت پیدا کرتا ہے جو ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس پیش کردہ چیزیں ہوں۔ اگر یہ آسان لگتا ہے ، ٹھیک ہے ، کیونکہ یہ ہے۔ بعض اوقات ذہانت کا سیدھا مطلب واضح کو سمجھنا۔ سوزن مارشل ، ایک تجربہ کار مارکیٹر کے نزدیک ، یہ واضح ہو گیا کہ اس طرح کی سوچ - بالکل مماثل رابطے پیدا کرنا marketing صرف مارکیٹنگ کی صنعت میں کارآمد نہیں ہوگی ، یہ ضروری ہوگا۔ مارکیٹرز یہ کہنے کی عادت ڈال چکے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے کھیل کے میدان کو برابر کردیا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے پاس اب تجارتی سامان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے ل tools ٹولز موجود ہیں۔ عملی طور پر ، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اگرچہ پہلے سے کہیں زیادہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ٹولز بہتر اور وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں ، لیکن پھر بھی کمپنیوں کو ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو بہتر نتائج حاصل کرنے کے ل those ان اوزاروں کا استعمال کس طرح جانتے ہیں۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں مارکیٹنگ کے عمومی ماہر اب بدلتے ڈیجیٹل زمین کی تزئین کے ساتھ پیش قدمی نہیں کرسکتے ہیں۔ اس میں ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے ، اور زیادہ تر کاروباری اداروں کے لئے ، ان ماہرین کو ڈھونڈنا ناممکن ہوسکتا ہے۔ مارکیٹنگ کی مہارت حاصل کرنے والے کاروباری اداروں کو بہتر ماہر بنانے کے ل they ، جو ان کی ضرورت ہے ، مارشل نے تشکیل دیا مشعل - ایک باہمی تعاون کے ساتھ معیشت کا حل جو کسی بھی کاروبار کو خصوصی مارکیٹنگ ٹیم بنانے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ اینٹی ایجنسی کے اس نقطہ نظر میں ، ٹورچلائٹ کاروباریوں کو ایک مطالبہ پر منڈی فراہم کرتی ہے جس سے وہ ڈیجیٹل مہمات کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے لئے انفرادی مارکیٹنگ کے ماہرین کے وسیع نیٹ ورک کو ٹیپ کرسکتے ہیں۔ ہر ایک ماہر ، یا مشعل راہ، کا انتخاب بزنس کی مخصوص ضروریات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر مزید ٹریفک چلانے کے لئے تلاش کر رہے ہیں؟ ٹورچلائٹ آپ کو ایک SEO کے ماہر کے ساتھ آپ کی صنعت کے تجربے سے ملائے گی تاکہ آپ کی سائٹ کو بہتر بنایا جاسکے اور آپ کے گاہک آپ کو تلاش کرسکیں۔ ٹورچلائٹ کاروباروں کو گھر میں اضافی عملہ یا بیرونی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کرنے کا متبادل پیش کرتی ہے۔ ان کی قیمتوں کا موازنہ کسی ایجنسی کے فی گھنٹہ کی شرح یا گھر میں ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی لاگت (سوشل میڈیا منیجر کے لئے $ 50,000،85,000 ، ایک ای میل مارکیٹر کے لئے $ 65,000،XNUMX ، SEO / ویب ماہر کے لئے ،XNUMX XNUMX،XNUMX) سے کریں ، اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیسے ہوسکتا ہے مالی فوائد مشعل کاروباری اداروں کو اپنی موجودہ مارکیٹنگ ٹکنالوجی کا اسٹیک رکھنے کے قابل بھی بناتا ہے۔ عملی طور پر ہر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے آلے کو استعمال کرنے میں مہارت رکھنے والے ماہرین کے پورے بازار تک رسائی حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ کاروبار کو اپنی موجودہ ٹیکنالوجی کو چیرنا اور تبدیل نہیں کرنا ہوتا ہے۔ ٹورچلائٹ استعمال کرنے والے کاروبار میں بھی یہ اختیار ہے آن کر دو, اپ کی باری ہے or بند کر دیں کسی بھی وقت مخصوص آن لائن مارکیٹنگ کی تدبیریں یا پروگرام۔ مثال کے طور پر ، اگر ای میل مارکیٹنگ ، تبدیلی کے ل driving ڈرائیونگ کے تبادلوں کے ل the بہترین ثابت ہوتی ہے جبکہ دیگر تدبیریں کم موثر ہوتی ہیں تو ، کاروبار اپنی توجہ کو تبدیل کرنے اور آسانی سے اپنے وسائل کو دوبارہ آباد کرنے میں آزاد ہیں۔ ٹورچلائٹ شروع سے ختم ہونے تک اس سارے عمل کا انتظام کرتی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ کاروباری مالکان کو اضافی صلاحیتوں کی خدمات حاصل کرنے ، اس کے انتظام یا آؤٹ سورس کرنے کے بارے میں کبھی بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ کاروباری مالکان کو ان کے مشعل راز رکھنے والے کام پر نظر رکھنے میں مدد کرنے کے ل Tor ، ٹورچلائٹ ہر گاہک کو ایک سرشار اکاؤنٹ منیجر کے ساتھ ساتھ آن لائن ڈیش بورڈ تک رسائی بھی فراہم کرتی ہے۔ ٹورلائٹ ڈیش بورڈ کے توسط سے ، مؤکلوں کے پاس پیشرفت کی نگرانی کرنے ، طے شدہ کاموں کو دیکھنے ، مواد کی منظوری دینے اور اپنے مارکیٹنگ کے اہداف تک پہنچنے کے ل how کتنے قریب ہیں اس کی مکمل نظر رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ٹیم میں کپتان کیخلاف سازشیں کس طرح کی جاتی ہیں؟ سعید ٹیم میں کپتان کیخلاف سازشیں کس طرح کی جاتی ہیں؟ سعید اجمل کی زبانی جانئے Jun 17, 2019 | 18:44:PM 6:44 PM, June 17, 2019 کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) جادوگر سپنر سعید اجمل نے انکشاف کیا ہے کہ 2009 میں چیمپیئنز ٹرافی کے دوران کپتان یونس خان کے خلاف لڑکوں نے قرآن پاک پر حلف لے کر گروپ بندی کی، یونس خان کو پوری ٹیم یعنی زیادہ تر کھلاڑی پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ تھوڑے غصے والے تھے ، یونس خان کیخلاف طبقے میں شاہد آفریدی بھی شامل تھے ، مرحوم منیجر یاور سعید کے پاس بھی یہ رپورٹ گئی تھی ۔ نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سعید اجمل نے کہا کہ 2009 میں یونس خان کپتان تھے لیکن کھلاڑی انہیں پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ان میں غصہ زیادہ تھا۔ جنوبی افریقہ میں چیمپیئنز ٹرافی کے دوران کھلاڑیوں نے کپتان یونس خان کے خلاف قرآن پاک پر حلف دے کر گروپ بندی کی،انہوں نے کہا میں سب سے جونیئر تھا ، یونس خان نے مجھے کمرے میں بلایا اور گروپ بندی کے حوالے سے پوچھا۔ 'میں نے قرآن پاک پر حلف دیا ہے کہ میں کسی کو نہیں بتاﺅں گا، اس گرو پ میں ایک میں تھا، اور نہیں بتا سکتا کہ کتنے بندے تھے، حلف دے چکا ہوں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ بات تین منٹ کے بعد میڈیا پر کیسے چل گئی؟ کسی نے تو حلف کی خلاف ورزی کی'۔ شاہد آفریدی کی اس کمرے میں موجودگی کے بارے میں سوال کے جوا ب میں سعید اجمل نے کہا کہ کپتان کے خلاف گروپ بندی کے موقع پر اس کمرے میں 10 سے زیادہ بندے تھے، یونس خان کے خلاف اس وجہ سے تھے کہ کھلاڑیوں کیساتھ رویہ ٹھیک تھا لیکن گراؤنڈ میں ایگریسو تھے ، وہ محنتی تھے اور میں سب سے جونیئر تھا جہاں آٹھ سینئرز بیٹھے ہوں اور مجھے ڈرا یادھمکایاجائے ، مجھے کہا گیا کہ اگر تم ہمارے گروپ کا حصہ نہیں بنتے تو تمہیں ٹیم سے باہر نکال دیں گے، اگر میری جگہ کوئی اور جونیئرہوتا تو وہ کیا کرتااور یہی بات میں نے یونس خان کے سامنے بھی رکھی ؟ ۔سعید اجمل نے کہاکہ یہی بات یونس خان سے بھی پوچھی کہ آپ اگر میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کچھ کیا ، ٹھیک کیا، آپ جاسکتے ہیں۔ویڈیو دیکھئے
داعش میں شمولیت کے بعد اپنی برطانوی شہریت کھو دینے والی خاتون شمیمہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے واپس برطانیہ جانے کو تیار ہیں۔شمیمہ بیگم 15 سال کی تھیں جب وہ 2015 میں لندن میں سکول کے اپنے دو دوستوں کے ساتھ شام پہنچ گئیں جہاں انہوں نے داعش کے ایک جنگجو سے شادی کر لی تھی۔ اب ان کے تین بچے بھی ہیں۔ 'داعش کی دلہن' کے نام سے مشہور شمیمہ کی برطانوی شہریت اس وقت منسوخ کر دی گئی تھی جب صحافیوں نے 2019 میں ان کا ایک کیمپ میں سراغ لگا لیا تھا۔ عسکریت پسندوں کا دفاع کرنے پر مغربی میڈیا ان کے خلاف بھڑک اٹھا تھا۔رواں سال کے آغاز میں برطانوی سپریم کورٹ نے عوامی تحفظ کی بنیاد پر ان کی برطانیہ واپسی کی اجازت مسترد کر دی تھی۔ شمیمہ برطانیہ واپس آ کر ان کی شہریت کی منسوخی کے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہتی تھیں۔ شمیمہ کا موقف ہے کہ وہ کبھی بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی یا تیاری میں براہ راست ملوث نہیں رہیں۔آئی ٹی وی کو انٹرویو میں شمیمہ نے بتایا: 'میں عدالت جانے اور ان لوگوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں جنہوں نے یہ دعوے کیے لیکن میں ان دعوؤں کی تردید کرتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں نے داعش کے لیے کچھ نہیں کیا۔ میں محض ایک ماں اور بیوی ہوں۔'ان کا مزید کہنا تھا: 'یہ دعوے مجھے مزید برا دکھانے کے لیے کیے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس میرے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ میں نے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔' شمیمہ جن کی عمر اب 22 سال ہے، نے مزید کہا کہ 'ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ داعش میں شمولیت کے الزامات پر خاموش رہیں اور ان تمام لوگوں سے معافی مانگی جو شدت پسندوں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھو چکے تھے۔'عرب نیوز کے مطابق شام سے دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: 'یہاں آنے سے اگر کسی کو کوئی تکلیف ہوئی تو مجھے بہت افسوس ہے۔'بنگلہ دیشی نژاد شمیمہ کے وکیل نے برطانوی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ان کی موکلا کے ساتھ نسل پرستانہ سلوک روا رکھ رہی ہے۔ انہوں نے حکومت پر انہیں قربانی کا بکرا بنانے کا بھی الزام لگایا۔ انہوں نے کہا ہے کہ شمیمہ 'جنسی استحصال اور جبری شادی کے مقاصد کے لیے شام میں سمگل کی جانے والی ایک برطانوی بچی تھی لیکن حکومت کے اقدامات نے ان سے ان کا وطن ہی چھین لیا۔'بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ شمیمہ کو شہریت دینے پر غور نہیں کریں گے۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً 900 افراد نے برطانیہ سے شام اور عراق کا سفر کرتے ہوئے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے جو برطانیہ کے حکام کے لیے قانونی درد سر بنے ہوئے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ شام اور عراق کا سفر کرنے والے تقریباً 150 افراد کی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے۔
گزشتہ 28 مارچ کو وزارت صحت کے تحت سرکاری کمپنی ایچ ایل ایل لائف کیئر نے جنوب مغربی ریلوے کے چیف میڈیکل ڈائریکٹر کو بھیجے ایک ای میل میں کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حفاظتی آلات پہنچنے میں 25 سے 30 دن کا وقت لگ سکتا ہے۔ نئی دہلی: کورونا وائرس وبا سے لڑنے میں اہم کردار نبھا رہے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر میڈیکل پیشہ وروں تک حفاظتی آلات پہنچنے میں قریب ایک مہینے تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ این ڈی ٹی وی کو حاصل ہوئے ایک ای میل میں سرکاری ایجنسی نے یہ قبول کیا ہے۔گزشتہ 28 مارچ کو وزارت صحت کے تحت ایک سرکاری کمپنی' ایچ ایل ایل لائف کیئر 'نے جنوب مغربی ریلوے کے چیف میڈیکل ڈائریکٹر کو بھیجے ایک ای میل میں پی پی ای کے پہنچنے میں تاخیر کی بات قبول کی ہے۔ جنوب مغربی ریلوے نے ریلوے ہاسپٹل کے لئے ایچ ایل ایل سے 18000 حفاظتی آلات مانگے تھے۔ اس میں باڈی کور، ماسک، دستانے اور چشمے شامل ہیں۔ اس کے جواب میں ایچ ایل ایل نے کہا کہ اس وقت بازار میں اس کی بھاری کمی ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ چیزیں ان تک پہنچنے میں 25 سے 30 دن تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ معلوم ہو کہ یہ صرف ریلوے کا ہی معاملہ نہیں ہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ اسپتالوں میں حفاظتی آلات کی کمی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر جان خطرے میں ڈال‌کر علاج کر رہے ہیں۔وزارت صحت نے گزشتہ سوموار کو ایک بیان جاری کرکے حفاظتی آلات کی خرید کو لےکر اپنی کوششوں کے بارے میں بتایا۔ حالانکہ حکومت کے بیان میں ہی ان کی کوششوں میں کمی صاف دکھائی دیتی ہے۔ وزارت نے بتایا کہ انہوں نے صرف 60000 پی پی ای ابھی تک خریدا ہے اور تقریباً 60 لاکھ پی پی ای کا آرڈر دیا گیا ہے، جس میں سے آدھے پی پی ای گھریلو مینوفیکچررز سے خریدے جائیں‌گے۔ باقی کے سامان سنگاپور اور جنوبی کوریا سے آئیں‌گے۔ پورے ہندوستان میں تقریباً چار لاکھ پی پی ای اسٹاک میں رکھے گئے ہیں۔ حالانکہ وزارت نے یہ واضح طور پرنہیں بتایا کہ کب تک غیر ممالک سے مال آ جائے‌گا۔ ایچ ایل ایل کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے گلوبل اور گھریلو ٹینڈر کے مطابق ہندوستان نے 20 لاکھ باڈی کور، 20 لاکھ چشمے، 50 لاکھ این-95 ماسک، چار کروڑ سرجیکل ماسک، 40 لاکھ دستانے اور 10 لاکھ ہینڈ سینٹائزر بوتل کی مانگ کی ہے۔ حفاظتی آلات کی کمی کو لےکرمختلف ریاستوں کے ڈاکٹروں سے بات چیت بے حد تشویش ناک داستاں بیاں کرتی ہے۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق،مغربی بنگال کے کولکاتہ میں کلکتہ میڈیکل کالج کو پوری طرح سے کووڈ-19 ہیلتھ کیئر سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کو لےکر یہاں کے ڈاکٹروں، نرسوں سمیت دیگر میڈیکل پیشہ وروں کو ٹریننگ دی گئی تھی جس میں ان کو دکھایا گیا کہ ان کو کس طرح کے پی پی ای دیے جائیں‌گے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کو جو باڈی کور دکھایا گیا اس پر 'رین ویئر '، مطلب برساتی کپڑا، لکھا ہوا تھا۔ ہاسپٹل کے ایک ڈاکٹر نے بتایا، ' ہم ہاسپٹل انتظامیہ کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ رین کوٹ ہمیں دئے جائیں‌گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف دکھانے کے لئے دکھایا گیا تھا، اصلی کٹ ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے مطابق ہیں۔ ' حالانکہ جب گزشتہ سوموار سے یہاں پر کووڈ-19 کی تفتیش شروع کی گئی تو ایسا کوئی حفاظتی آلات نہیں آیا تھا۔ ڈاکٹر نے دی وائر کو بتایا، ' اب ہمارے سامنے مظاہرہ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ پلیز اس کے بارے میں لکھیے، یہاں پر خودکشی جیسی حالت ہے۔ ' اس کے علاوہ ممبئی کے کستوربا ہاسپٹل میں کووڈ-19 مریضوں کی جانچ‌کر رہے ایک میڈیکل افسر نے کہا ان کو جو حفاظتی آلات دیے گئے ہیں وہ حقیقت میں ایچ آئی وی حفاظتی آلات ہیں۔ انہوں نے ایک فیس بک ویڈیو میں کہا، 'اس سے کورونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے میں کوئی خاص اثر نہیں پڑے‌گا۔ ' دی وائر کے ذریعے میڈیکل پیشہ وروں کے مختلف طبقوں سے کی گئی بات چیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں ایک طرف ایسی وبا میں بھی ڈاکٹر، نرس ہر پل کام کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف انتظامیہ حفاظتی آلات پہنچانے کی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس وبا کو روکنے میں رکاوٹ آئے‌گی بلکہ یہ میڈیکل پیشہ وروں کی جان کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ بہار میں پٹنہ کے نالندہ میڈیکل کالج اور ہاسپٹل میں کووڈ-19 کے مریضوں کا علاج کر رہے ڈاکٹروں کو ضروری سہولیات نہیں مل پا رہی ہیں۔ یہاں کے ایک ڈاکٹر نے کہا، 'میں عمر دراز ہوں اور میری بیوی بھی ڈاکٹر ہیں لیکن ہمیں آئسولیشن وارڈ میں صرف سرجیکل ماسک دیا گیا ہے۔ 'جب یہاں کے دو ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے انتظامیہ سے اس کی شکایت کی اور کہا کہ پی پی ای کے بغیر علاج کرنا خودکشی کے برابر ہے، تو انتظامیہ نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دی۔ اتنا ہی نہیں ہاسپٹل کے 83 جونیئرڈاکٹروں نے کوروناوائرس سے خود کے متاثر ہونے کو لے کر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ہاسپٹل کے سپرنٹنڈنٹ کو خط لکھ کر خود کو15 دن کے لیے کوارنٹائن کرنے کی اپیل کی ہے۔ نارتھ بنگال میڈکل کالج اور ہاسپٹل میں ڈاکٹروں کو رین کوٹ، کپڑے کا ماسک اور بغیر سینٹائزر کے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ سوموار کو یہاں پر ایک مریض کی موت ہو گئی جس کے بعد ڈاکٹروں نے پی پی ای نہ ہونے کو لےکر ناراضگی ظاہر کی۔ حالانکہ انتظامیہ نے کہا کہ اگر ان کو کوئی مسئلہ ہے تو کام چھوڑ دیں۔
بوئنگ نے فجی ایر ویز کا پہلا 737 میکس جیٹ پہنچایا ایئر لائن نیوز ایئر لائن نیوز • ہوائی اڈے کی خبر • سفر کی خبریں • فجی ٹریول نیوز • بین الاقوامی زائرین کی خبریں • ٹرانسپورٹیشن کی خبریں • سفر کی خبریں • ریاستہائے متحدہ امریکہ بوئنگ نے فجی ایر ویز کا پہلا 737 میکس جیٹ فراہم کیا 0a1a-2۔ ہوم پیج (-) » خطوط » ایئر لائن نیوز » بوئنگ نے فجی ایر ویز کا پہلا 737 میکس جیٹ فراہم کیا بوئنگ نے فیجی ایئرویز کے لئے پہلا 737 میکس کی فراہمی کی ، جو اپنے 737 جیٹ کے مشہور ایندھن سے چلنے والے طویل طوالت والے ورژن کو اپنے سنگل گلیارے کے بیڑے کو وسعت اور جدید بنانے کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فجی ائیرویز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او آندرے ولجین نے کہا ، "ہمیں اپنے پہلے 737 میکس 8 کی ترسیل کرنے پر بہت خوشی ہے ، جس کا نام جزیرہ کڈاو ہے۔ "737 میکس کا تعارف فجی ایئر ویز کے لئے ایک نئے باب کا آغاز ہے اور ہم ہوائی جہاز کی اعلی کارکردگی اور معاشیات سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔ یہ نئے ہوائی جہاز ہمیں بوئنگ اسکائی داخلہ کے نئے کیبنوں کے ذریعے تمام مہمانوں کے لئے اندرون نشست تفریح ​​کے ساتھ عالمی معیار کے کسٹمر کا تجربہ پیش کرنے کے اہل بنائیں گے۔ فجی ایئرویز نے پانچ میکس 8 ہوائی جہازوں کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے ، جو اگلی نسل کے 737s کے اپنے بیڑے کی کامیابی کو تقویت بخشے گا۔ میکس نے کارکردگی کو بہتر بنانے اور آپریٹنگ اخراجات کو کم کرنے کے لئے جدید ترین ٹکنالوجی سی ایف ایم انٹرنیشنل ایل ای اے پی -1 بی انجن ، ایڈوانسڈ ٹکنالوجی ونگلیٹ اور ایئر فریم میں اضافہ کیا ہے۔ پچھلے 737 ماڈل کے مقابلے میں ، میکس 8 600 سمندری میل دور اڑ سکتا ہے ، جبکہ ایندھن کی 14 فیصد کارکردگی مہیا کرتا ہے۔ میکس 8 ایک معیاری دو درجے کی ترتیب میں 178 مسافروں کو بٹھا سکتا ہے اور 3,550،6,570 سمندری میل (XNUMX،XNUMX کلومیٹر) کی پرواز کرسکتا ہے۔ بوئنگ کمپنی کے کمرشل سیل اینڈ مارکیٹنگ کے سینئر نائب صدر احسان موئنر نے کہا ، "ہم آپریٹرز کے میکس فیملی میں فجی ایئر ویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے خوش ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بحر الکاہل میں 737 میکس آپریٹر ہوں گے۔" "بوئنگ مصنوعات میں ان کی مستقل شراکت داری اور اعتماد سے ہمیں اعزاز حاصل ہے۔ میکس کی مارکیٹ میں نمایاں کارکردگی فجی ایئر ویز کے لئے فوری طور پر منافع ادا کرے گی اور ان کے کام اور روٹ نیٹ ورک کو بہتر بنانے میں مدد دے گی۔ نادی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مبنی ، فجی ایئرویز 13 ممالک اور 31 مقامات / شہروں میں کام کرتا ہے جن میں فجی ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، سموعہ ، ٹونگا ، تووالو ، کیریباتی ، وانواتو اور سولومن جزیرے (اوقیانوسیہ) ، ریاستہائے متحدہ ، ہانگ کانگ ، جاپان اور سنگاپور شامل ہیں۔ . اس میں اپنے کوڈ شیئر شراکت داروں کے ذریعہ 108 بین الاقوامی مقامات کا توسیع نیٹ ورک بھی ہے۔ اپنے بیڑے کو جدید بنانے کے علاوہ ، فجی ایئر ویز بوئنگ گلوبل سروسز کو اپنے کاموں کو بڑھانے کے ل. استعمال کرے گی۔ ان خدمات میں ایئرپلین ہیلتھ مینجمنٹ شامل ہے ، جو ریئل ٹائم ، پیش گوئی کرنے والی سروس الرٹس ، اور سافٹ ویئر ڈسٹری بیوشن ٹولس تیار کرتی ہے ، جو ایئر لائنز کو ڈیجیٹل گراؤنڈ بیسڈ ڈیٹا کو محفوظ طریقے سے انتظام کرنے اور سافٹ ویئر کے پرزوں کو موثر طریقے سے انتظام کرنے کی طاقت فراہم کرتی ہے۔ 737 میکس فیملی بوئنگ کی تاریخ کا سب سے تیزی سے فروخت ہونے والا ہوائی جہاز ہے ، جس نے دنیا بھر میں 4,800 سے زیادہ صارفین سے لگ بھگ 100،200 آرڈر جمع کیے ہیں۔ بوئنگ نے مئی 737 سے 2017 XNUMX سے زیادہ میکس ہوائی جہاز فراہم کیے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان: سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک جب کہ پنجاب رینجرز کا کرنل یعقوب اور سپاہی ریحان زخمی ہوگئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں دہشت گردوں نے رینجرز کی ٹیم پر فائرنگ کی، فائرنگ کے نتیجے میں رینجرز کا کرنل یعقوب اور سپاہی ریحان زخمی ہوگئے جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق رینجرز کی ٹیم معمول کے گشت پر تھی کہ دہشت گردوں نے رینجرز کی گاڑی پر فائرنگ کردی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کر گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کردیا گیا۔ The post ڈی جی خان میں دہشت گردوں کی رینجرز ٹیم پر فائرنگ، کرنل اور سپاہی زخمی appeared first on ایکسپریس اردو.
امر دوبے شادی کے سات دن بعد ہی بکرو واقعہ میں مارا گیا تھا، اس کے بعد خوشی دوبے کی گرفتاری اور لگاتار جیل میں بند ہونے سے برہمنوں میں برسراقتدار بی جے پی کے خلاف زبردست ناراضگی ہے۔ گایتری تیواری، تصویر آئی اے این ایس Published: 25 Jan 2022, 7:11 PM سماجوادی پارٹی نے خوشی دوبے کی ماں گایتری تیواری کو الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ کی پیشکش کی ہے۔ خوشی دوبے بکرو واقعہ میں ہلاک گینگسٹر وکاس دوبے کے قریبی امر دوبے کی بیوہ ہیں اور فی الحال جیل میں بند ہیں۔ خوشی دوبے کی ماں گایتری دیوی نے بھی کہا ہے کہ اگر اس سے انھیں اپنی بیٹی کو جیل سے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے تو وہ الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ بکرو واقعہ میں مارے گئے گینگسٹر وکاس دوبے کے قریبی امر دوبے کی ساس گایتری تیواری سے پیر کے روز سماجوادی پارٹی کے منیجر آشیش چترویدی نے رابطہ کیا اور انھیں کانپور میں گووند نگر سے ٹکٹ کی پیشکش کی۔ گایتری تیواری نے نامہ نگاروں سے کہا کہ اگر اس سے انھیں اپنی بیٹی کو جیل سے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے تو وہ انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ گایتری تیواری نے کہا کہ ''میں نے اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کے لیے ڈیڑھ سال تک جدوجہد کی، لیکن ناکام رہی۔ اس کی شادی کو صرف تین دن ہوئے تھے جب بکرو قتل عام ہوا تھا اور پولیس نے اسے نابالغ ہونے کے باوجود گرفتار کر لیا تھا۔'' انھوں نے کہا کہ انھیں اکھلیش یادو کی قیادت پر پورا بھروسہ ہے اور پارٹی نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ خوشی کو ان کی حکومت بننے کے ایک مہینے کے اندر رِہا کر دیا جائے گا۔ دراصل امر دوبے شادی کے سات دن بعد ہی بکرو واقعہ سے متعلق انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔ اس کے بعد خوشی دوبے کی گرفتاری اور لگاتار جیل میں بند ہونے سے ریاست کے برہمنوں میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے خلاف غصہ دیکھا گیا۔ برہمن طبقہ کو لگتا ہے کہ واقعہ کے وقت لڑکی کو غلط طریقے سے پھنسا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں : سی اے اے مخالف احتجاج: دہلی کی عدالت نے شرجیل امام کے خلاف بغاوت کے الزامات طے کئے ایسے میں گایتری تیواری کو سماجوادی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کی پیشکش برہمنوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر مانا جا رہا ہے۔ پارٹی پہلے ہی لکھنؤ کے پاس بھگوان پرشورام کی مورتی قائم کر چکی ہے اور بڑے پیمانے پر برہمنوں کو لبھا رہی ہے۔
اگر انسان عزم اور حوصلہ کرلے ! in مضامین و مقالات Comments Off on اگر انسان عزم اور حوصلہ کرلے ! میرے قارئین باتمکین! واقف ہیں کہ میرا وطن دگھی مہگاواں ضلع گڈا جھارکھنڈ* ہے (قدیم صوبہ بہار) آج کے پیغام میں، میں اپنے علاقہ کے ایک عظیم ملی سماجی اور سیاسی شخصیت *سعید احمد* ( ایم ایل اے ولادت ۱۹۳۳ ء(سابق ریاستی وزیر ) کا تعارف کراوں گا اور ان کے عزم و حوصلے کا ذکر کروں گا ۔ ابھی دو تین سال پہلے ان کا انتقال ہوا ہے ۔ دوران طالب علمی ندوہ میں دینی تعلیمی کونسل کے ایک دو پروگرام میں ان سے ملاقات اور گفتگو کا موقع خاکسار کو ملا ہے ۔ ان کو حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی ذات سے بڑی عقیدت و محبت تھی اور ان کی تصانیف کو اہتمام سے پڑھتے تھے ۔ *جناب وزیر سعید احمد صاحب مرحوم* ہمارے علاقہ کے واحد شخص ہیں جھنوں اپنی ذاتی محنت اور جدوجہد سے سیاست کے اوج فلک تک رسائ حاصل کی وہ دو بار *مہگاواں اسمبلی* حلقہ سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور 1977ء میں بہار اسمبلی میں ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد ڈھائ سال تک جنتا پارٹی حکومت میں منصب وزارت اوقاف کو زینت بخشی اور اس دور وزارت میں انہوں نے بڑی دریا دلی سے مساجد و مقابر کی حفاظت کی اور بہار اسمبلی سے ایک خطیر رقم مساجد و مقابر کو دلوایا ۔ آپ کا کاروان زندگی بہت ہی نشیب و فراز اور زیر و بم سے گزرا اور اس راہ میں بہت سے تجربات سے ہمکنار ہوا ہے ،آپ نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز اپنی آپ بیتی *کاروان حیات* میں پیش کیا ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے حقائق و واقعات اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ اور خلاصہ بھی بیان کیا ہے ۔ آگے بھی وہ اس راہ اور منصب سے قوم کی خدمت کر سکتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے پوری کوشش بھی کی، لیکن وہ بھی مولانا ابو الکلام آزاد رح کے اس تاثر ، صداقت اور سچائ کے شکار ہوگئے *کہ دو چیزیں ہندوستان سے کبھی ختم نہیں ہو سکتں ایک ہندوں کا تعصب اور دوسری مسلم قوم کا اپنے قائدین پر سے بے اعتمادی* استاد محترم *حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رح* (بانی و سابق ناظم اعلی دار العلوم سبیل السلام حیدر آباد ) نے ایک جگہ شک۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ تذبذب ناکامی کا نقیب ،شکست کا پیامبر اس عنوان کے تحت لکھا ہے : *خواہ خواہش کا کوئ بھی دائرہ ہو یا کسی قسم کی بڑی سے بڑی چاہت کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔ اگر انسان اپنی زندگی کے مقصد اور پھر مقصد کے حصول کے لئے کمر باندھ کر تیار ہوجائے اور عمل پیہم جاری کر دے تو بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا ۔لیکن شرط ہے انسان ہمت،صبر و ضبط اور تحمل کا دامن پکڑے ہوئے لگن ،جوش اور ولولے کے ساتھ کوشش و محنت شروع کر دے ،اس میں ذرا بھی تاخیر نہ کرے اور ہرگز شک و شبہ میں نہ پڑے۔ کہ خدا جانے اپنی منزل پر پہنچ جاوں گا یا نہیں، ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی تذبذب یا شک ہے، ناکامی کا وہم انسانی ترقی اور مقصد کے حصول کے راستے میں نہ صرف روڑے اٹکاتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو مقصد ہی کو دل سے نکال باہر کرتا ہے ،اس لئے کہ اول تو وہم اس کی انفرادی خوبیوں اور قابلیت پر پردہ ڈال دیتا ہے اور پھر اسے کام کرنے کا نا اہل بنا دیتا ہے ،ایسے لوگ ہر روز اپنا ارادہ بدلتے رہتے ہیں،پلان میں ترمیم کرتے رہتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا کوئ بھی کام بنتا نہیں بلکہ ہر روز نیا مقصد جنم لیتا ہے پھر پانی کے بلبلے کی طرح فنا ہوجا ہے اور انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ لہذا اپنی اہلیت اور قابلیت پر بھروسہ رکھ کر ہمت اور لگن کے ساتھ ایک خاص مقصد کی خاطر جٹ جانا بھی کامیابی کی کنجی ہے حالانکہ حصول مقصد کی راہ میں بہت ساری دشواریاں سامنے آتی ہیں اور آتی ہی رہیں گی لیکن یہ دشواریاں مقصد کو ختم نہیں کرسکتیں اگر راہ میں شباب کا طوفان اور محنت میں پسینہ کا جزو زیادہ سے زیادہ ہو* ۔( چراغ راہ صفحہ ۳۸۳)
۱۸۵۷ء میں جب ہندوستان سے مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوگیا، اور سیاسی اقتدار پر مسلمانوں کے بجائے انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو یہاں کے عام باشندے اور بطور خاص مسلمان "اِنَّ الْمُلُوْکَ اذَا دَخَلُوا قَرْیَةً أفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْا أعِزَّةَ أہْلِہَا أذِلَّة"([1])کے فطری اصول کا تختہٴ مشق بن گئے۔ "فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہکاتاج سرپر۔"
حج ہاوز یا سیاسی پارٹیوں کا ہیڈکوارٹر ؟ - The Siasat Daily حج ہاوز یا سیاسی پارٹیوں کا ہیڈکوارٹر ؟ August 12, 2018 اے پی ڈائری Leave a comment صحافت کی آزادی کو سلب کرنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے حکومت پر شدید تنقیدیں کی ہیں ۔ تلنگانہ میں صحافت کا مقام ہو یا ہندوستان کے کسی بھی علاقہ کی صحافت ، مرکز و ریاستی حکومتوں کی تنگ نظری کا شکار ہورہی ہے ۔ بکاؤ میڈیا نے حکمرانوں کا مزاج ہی بدل دیا ہے ۔ اے بی پی ٹی وی چیانل کے 3 صحافیوں کو سیاسی دباؤ کے بعد استعفیٰ دینا پڑا ۔ یہ واقعہ ہندوستانی صحافت ، سیاسی طاقتوں کے شکنجہ میں چلے جانے کا افسوسناک المیہ ہے ۔ قومی سطح کی قیادت ہو یا ریاستی سطح کی حکمرانی نے صحافت کو اپنے تابع کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرلئیے ہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ پر الزام ہے کہ وہ صحافت کے راستے تلنگانہ کے حصول میں کامیاب ہونے کے بعد گذشتہ چار سال سے علاقائی صحافت کو بری نگاہ سے دیکھتے آرہے ہیں ۔ لفافہ بردار صحافت نے حکومت کی خرابیوں کو اچھائی کی آنکھ سے دیکھ کر گمراہ کن خبریں پھیلانے میں مصروف ہے ۔ صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک سمینار ہورہا تھا ۔ مختلف ملکوں سے آئے صحافیوں نے اپنے ملک اور حکومت کی اچھائیوں اور خرابیوں کو بیان کررہے تھے ۔ ایک فوجی اکثریت والی حکمرانی کے ملک سے تعلق رکھنے والے صحافی نے کہا کہ ان کے ملک میں میڈیا سے زیادہ آزادی اظہار کی اہمیت کوئی نہیں جانتا ۔ اس ڈکٹیٹر شپ والی حکمرانی کے ملک کے صحافی کا دعویٰ سن کر سب لوگ مرعوب ہوگئے ۔ یہ صحافی صحافت کی آزادی کے موضوع پر سمینار سے خطاب کررہا تھا ۔ مغربی ملک کے صحافیوں نے اپنا احوال بیان کیا ۔ برصغیر کے صحافی نے اپنے علاقہ کی اطمینان بخش صورتحال سے آگاہ کیا لیکن ڈکٹیٹرشپ والے ملک کے صحافی کا خطاب متاثر کن تھا ۔ اس نے کہا کہ ' میں کئی سال تک آمر حکومت کے خلاف تقریریں کرتا رہا کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ سب نے تالیاں بجائیں ۔ یہ سن کر سمینار میں شریک سامعین نے پوچھا کہ آپ وہ تقریریں کہاں کرتے تھے ؟ اس صحافی نے کہا کہ ' جیل میں ' ۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو صحافیوں سے چڑ ہے وہ کسی کو خاطر میں لانا نہیں چاہتے ۔ اپنی چار دیواری کی حکومت کو ہی کسی بڑی سلطنت کا قلعہ سمجھ رکھا ہے ۔ اس سے باہر ہی نہیں نکل رہے ہیں ۔ کے سی آر واحد چیف منسٹر ہیں جو چار سال کے دوران سکریٹریٹ کی صورت نہیں دیکھی ۔ ریاست کے عازمین حج کو وداع کرنے کے لیے حج ہاوز آنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی ۔ ان کی اس بے اعتنائی سے ان کا غرور آشکار ہوتا ہے ۔ حج ہاوز پہونچکر انہوں نے ریاستی عازمین حج کو وداع نہیں کیا ۔ اس پر لوگوں کا تاثر بھی طنزیہ تھا ۔ ان کے غیاب میں ٹی آر ایس اور دیگر پارٹیوں کے قائدین نے حج ہاوز کو سیاسی پارٹی آفس بنانے کی کوشش کرتے ہوئے جگہ جگہ اپنی تصاویر کے ساتھ بیانرس آوایزں کرلیئے تھے ۔ اس سال حج ہاوز ، کسی سیاسی پارٹی کے ہیڈکوارٹر کا منظر پیش کررہا تھا ۔ عازمین حج کے ساتھ اپنے خلوص و محبت کا سیاسی مظاہرہ کرنے والے نے خود نمائی اور سستی شہرت حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ سیاسی لیڈروں کی اس حرکت کو عازمین حج اور انہیں وداع کرنے کے لیے آنے والے رشتہ داروں نے پسند نہیں کیا ۔ مقدس فریضہ حج کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کو سیاسی رنگ دیا جانا افسوسناک حرکت ہے ۔ حج ہاوز میں منعقدہ حج کیمپ کو سیاسی قائدین کا اڈہ بنانے کی اجازت دینے والی تلنگانہ حج کمیٹی کے سامنے بھی کئی سوال اٹھائے گئے ہیں ۔ ریاستی حج کمیٹی کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں ۔ عازمین حج کے لیے خصوصی انتظامات اور سفر حج کو آسان بنانے کی ذمہ داری ادا کرنا ایک مستحسن کام ہے ۔ حج گناہوں کا کفارہ اور خطاؤں کا مداوا ہے ۔ حضور ﷺ نے حج کے بارے میں فرمایا کہ جس شخص نے اس بیت اللہ کا حج کیا اور اس دوران میں کوئی شہوانی فعل اور کوئی بدعملی نہ کی تو وہ اس پاک صاف حالت میں واپس آئے گا جیسے اس دن اس نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو ۔ فریضہ حج کے لئے جانے والے خوش نصیب ریاستی باشندوں کو حج ہاوز میں سہولتیں راحتیں فراہم کرنے کے بہانے حج کمیٹی نے انہیں مشکلات اور تکالیف سے گذارتے ہوئے سفر حج پر روانہ کیا ہے ۔ حج ٹرمنل شمس آباد ایرپورٹ پر عازمین کو ہونے والی مشکلات کی کسی نے خبر نہیں لی ۔ عازمین حج کے تقویٰ کو ٹھیس پہونچانے والی حرکتوں سے باز آنا چاہئے ۔ حج ہاوز کو پاکیزہ ماحول سے معطر کرنے کے بجائے سیاسی اودھم مچانے کا مقام بنایا جانا غلط ہے ۔ تقویٰ سے بہتر کوئی سامان سفر نہیں ۔ تقویٰ کے معنی رب کی نافرمانیوں سے اجتناب ہے ۔ معاصی سے دور رہنا ہے ، محرمات و لغویات سے بہر صورت اجتناب کرنا ہے ۔ لیکن حج ہاوز پہونچکر اپنا سفر حج شروع کرنے والے عازمین کو ذہنی و جسمانی طور پر تکلیف دیتے ہوئے ان کے تقویٰ میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کو نہ صرف عازمین نے پسند نہیں کیا بلکہ حج ہاوز آنے والے رشتہ داروں نے بھی حج کمیٹی کے ذمہ داروں کے خلاف ناراضگی ظاہر کی ۔ عازمین حج کی حرمت کی تعظیم کرنا ہر ذمہ دار شخص کا فرض ہے ۔ مسافر حج جب کعبہ کی حرمت کو تصور میں لاکر سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اس کے مسلمان بھائی کی حرمت فوراً اس کے حیط خیال میں ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ اسے یاد آجاتا ہے کہ مسلمان کی عزت و آبرو اور اس کا خون اور مال سب محرمات الہٰی ہیں ۔ حج اور اس کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع آج کی مہذب و ترقی یافتہ انسانیت کے لیے حیات آفریں ہے ۔ حرمتوں کی پاسداری کے بارے میں جو گوشہ پایا جاتا ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں اور ان کے دینی فریضہ کی حرمت کو پامال کرنے والے سیاستدان حج ہاوز کو سیاسی شہرت کا مرکز بنا لیتے ہیں تو ان میں اور دنیا کے دیگر ان سیاستدانوں کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ آج مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک مسلمانوں کی جانی مالی اور عزت و آبرو کے ساتھ دین کی حرمتوں کو جس بری طرح پامال کیا جارہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ آج کوئی حرمت تقدس کی حامل نہیں رہی ۔ ہر حرمت کو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے پامال کیا جارہا ہے ۔ عازمین حج کے سفر کو آسان بنانے پر دھیان دینے کے بجائے انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سفر میں ہونے والی دشواری اور تکلیف کا کسی سے شکوہ نہ کریں ۔ حج کمیٹی کے لوگ یہ بتانا چارہے ہیں کہ عازمین کو اگر حج ہاوز اور سفر حج میں حج کمیٹی کے ذمہ داروں کی وجہ سے کوئی دشواری ہو تو اس کا شکوہ نہ کریں ۔ دراصل عازمین کی دشواری اور تکلیف کا حوالہ میدان عرفات اور مناسک حج کی تکمیل کے دوران ہونے والی تکالیف کے تعلق سے ہے ۔ حج ہاوز میں بدنظمی اور بدانتظامی کے ساتھ گلی کے سیاسی لیڈروں کا اڈہ بناکر دشواریاں پیدا کردی جائیں تو اس کا نہ صرف شکوہ کیا جائے گا بلکہ آئندہ عازمین حج کو از خود رمی جمار میں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کی طرح حج ہاوز سے سیاستدانوں کو دھتکار کر باہر کردینے کی ضرورت پڑے گی ۔ Need to integrate film production and tourism: FICCI-EY report https://t.co/RVR4PpkX4z https://t.co/nDTr36szmW14 mins ago Finger-spinners still have a role to play, says Harbhajan Singh https://t.co/jaju4vAbBX https://t.co/lxGtLCJB5D17 mins ago
عافیہ صدیقیوقار یونسپروین شاکربابر اعوانتوہین عدالتعمران فاروقروس ترکی کشیدگیپانیجمیعت علماء اسلامنور الامینڈاکٹر عاصمماروی مظہرحمید گلعمان ، گھریلو ملازمینلو لو ہائپر مارکیٹمشتاق احمد گرمانیعالمی بینکسعودی عربعاصم کرد گیلوروبوٹ یروشلم(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔09 اگست ۔2016ء)اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے اہلکار کو گرفتار کر لیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کو حماس کی مادی مدد کرنے پر گرفتار کر لیا ہے۔ انجینیئر وحید بورش 2003 سے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی ) کے لیے کام کر رہا تھا۔ اسرئیلی حکومت کے ایک بیان کے مطابق انہیں 16 جولائی کو گرفتار کیا گیا جبکہ آج منگل نو اگست کو ایک اسرائیلی سول کورٹ میں پیش کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بورش اقوام متحدہ کے ایسے دوسرے اہلکار ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے کے دوران حماس کی مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بالی ووڈکے کئی ستارے دیکھے گئے جنہوں نے آغاز تو بہت بالی ووڈکے کئی ستارے دیکھے گئے جنہوں نے آغاز تو بہت کامیاب کیا, بہت جلد ہی کہیں گم ہوگئے با لی وڈ کی دنیا ایک خواب سی ہے جہاں ہر روز اداکاروں کی قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے 07:33 PM, 27 Jan, 2017 با لی وڈ کی دنیا ایک خواب سی ہے جہاں ہر روز اداکاروں کی قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے، کوئی اس امتحان میں کامیابی کی سیڑھی چڑھتا چلا جاتا ہے تو کوئی بھیڑ میں کہیں گم ہی ہوجاتا ہے۔ویسے تو ایسا مانا جاتا ہے کہ بولی وڈ میں کامیاب ڈیبیو کرنے والے اداکار لمبی ریس کے گھوڑے کی طرح ہوتے ہیں، جو طویل عرصے تک کامیاب فلموں میں کام کرکے مداحوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔تاہم ہر کسی کا مقدر دپیکا پڈوکون جیسا نہیں، جنہیں بولی وڈ کے کنگ شاہ رخ خان کے ہمراہ فلم 'اوم شانتی اوم' سے بولی وڈ میں انٹری دینے کا موقع ملا اور آج ان کا شمار دنیا کی کامیاب اور امیر ترین اداکاراوں میں کیا جارہا ہے۔ لیکن بولی وڈ کی تاریخ میں ایسے بھی کئی ستارے دیکھے گئے جنہوں نے آغاز تو بہت کامیاب کیا، جس کے بعد ان کے مداح ان کی فلمیں دیکھنے کو بے تاب رہے، تاہم وہ بہت جلد ہی کہیں گم ہوگئے اور اپنے مداحوں کی امیدوں کو توڑ دیا۔ایسے ہی بولی وڈ کے چند 'گمشدہ' ستارے آج بھی یاد کیے جا سکتے ہیں۔ گریسی سنگھ: راہول روئے: بولی وڈ فلم 'عاشقی' کے ساتھ زبردست آغاز کرنے والے اداکار راہول روئے، اس کامیابی کو دوبارہ دھرانے میں ناکام رہے اور جلد ہی فلمی دنیا سے باہر ہوگئے۔ عائشہ جھلکا: بولی وڈ اداکارہ عائشہ جھلکا نے کامیاب فلم 'جو جیتا وہی سکندر' میں عامر خان کے ہمراہ کام کیا، انہوں نے اکشے کمار کے ساتھ بھی فلم 'کھلاڑی' میں کام کیا تھا، بہترین اداکار اور خوبصورتی کے ساتھ اداکارہ نے بولی وڈ میں خود کو منوا لیا تھا تاہم سمیر وسائی نامی شخص سے شادی کے بعد انہوں نے بولی وڈ کو خیرباد کہہ دیا۔ ممتا کلکرنی: بولی وڈ کی ایک دور میں کامیاب اداکارہ سمجھی جانے والی ممتا کلکرنی نے کم عمری سے ہی بولی وڈ فلموں میں کام کا آغاز کردیا، 90 کی دہائی میں انہوں نے کئی کامیاب اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں عامر خان، شاہ رخ خان اور سلمان خان شامل ہیں، تاہم بعد ازاں انڈر ورلڈ کے ساتھ منسلک ہونے کی خبروں نے ممتا کا کیریئر ختم کردیا اور وہ بھارت چھوڑ کر چلی گئیں۔
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے- بشریٰ نسیم - Daleel.Pk وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایاتھا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنایا جائے گا لیکن یہ کیا ہوا وزیراعظم یو ٹرن کے ماہر تو ویسے بھی ہیں انہوں نے اس بار شاید تاریخ کا بڑ ا یوٹرن لے لیا اور ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب دیکھنے والی قوم کو قبر تک پہنچا دیا اور بھوک ، افلاس ،مہنگائی ، بے روزگاری کے عفریت میں پھنسی ہوئی قوم کو یہ مشورہ دیدیا کہ سکون تو صرف قبر میں ہی ملتا ہے ۔ اب وزیر اعظم کو کون سمجھائے کہ قبر میں بھی انہی کو راحت نصیب ہو گی جن کے اعمال اچھے ہو نگے ۔اس سے تو یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں وطن عزیز میں ٹھٹرتی و جان لیوا سردی میں اپنے بچوں کو گرم کپڑے نہ دلوانے پر خودسوزی کرنے والے لااچار ، غریب باپ کو قبر میں سکون مل گیا ہو گا ۔ تو کیا اب اس کے پانچ بچے بھی سکون کے لئے اپنی جانیں لے لیں ۔ کیونکہ ریاست مدینہ کی طرز پر ملک میں حکومت بنانے والے وزیر اعظم کا یہ قیمتی مشورہ ہے کہ وہ تنگدستی و عسرت اور بھوک سے بلکتے اور گرم کپڑوں کے لئے ترستے بچوں کے رونے سے نہ گھبرائیں بلکہ انہی سمیت سکون کے لئے قبر میں اتر جائیں ۔ وزیراعظم سے ہی مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اشرافیہ کو چھوڑ کروڑ غریب عوام کے لئے مفت قبریں بنوا دیں کیونکہ آپ کی ریاست مدینہ میں جینا تو مشکل تھا ہی مرنا بھی دشوار ہو چکا ہے ۔ قبرستان ٹیکس ، قبر بنوانے کی فیس میں اضافے نے 80 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں سے باعزت موت کو گلے لگانے اور بعدازاں وقار سے دفن ہونے کی استطاعت بھی چھین لی ہے ۔ موجودہ حالات میں ایک عام پاکستانی اس مشہور شعر کی صورت بن چکا ہے ۔ یہ بھی بہت بڑی تلخ حقیقت ہے کہ غربت انسان کوگمراہ کردیتی ہے ۔غربت سے تو نبیوںنے بھی اللہ کی پناہ مانگی تھی لہٰذامشکل ترین دور میں زندگی کیلئے جدوجہدکرتے لوگوں میں مایوسی پھیلانے والے عمل یاگفتگوسے گریز کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ قبر میں سکون کی زندگی میسرآئے گی یا عذاب ملے گا اس کا فیصلہ کرناہمارے اختیار میں نہیں۔ یہ فیصلہ تواعمال کے مطابق عادل حقیقی اللہ رب العزت فرمائے گا۔ بطور مسلمان یہ تو کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کے مرنے کے بعد کیا ہو گیا وزیر اعظم کیسے کہہ سکتے ہیں سکون قبر میں ہی ملتا ہے کیا انہیں یہ کہنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ مرنے کے بعد جب گھروالے قبر میں اتارکرچلے جاتے ہیں اور فرشتے انسان سے قبر میں سوال وجواب سے فارغ ہو جاتے ہیں تب نیک وپرہیزگار اور گناہ گار قبر میں قیامت تک ایک جیسی پرسکون زندگی گزاریں گے یا پھربرابرعذاب میں مبتلا رہیں گے۔ وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ سکون قبر میں ملے گا میں لیکن اپنے ملک کی اشرافیہ ، امیر و دولتمند طبقے اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں ملوث بااثر خاندانوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکون دنیا میں بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اشرافیہ کے بیوی بچوں کے عیش و آرام اور بیگمات کی لاکھوں نہیں کروڑوں روپوں کی شاپنگ ، ان کے برانڈڈ پہناووٗں سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کیا ان کے لئے تو یہ عارضی زند گی بھی جنت ہے اور ہمارے ملک کے غریبوں کے لئے تو یہ دنیا بھی کسی جہنم سے کم نہیں وہ روز اپنی جائز ضرورتوں کی عدم تکمیل پر مرتے اور جیتے ہیں اب وزیر اعظم کے مشورے نے انہیں حوصلہ دیدیا ہے کہ کوئی غم نہیں اگر انہیں اس دنیا میں سکون نہیں تو مر جائیں! قبر میں سکون میسر ہو گا۔وزیر اعظم صاحب! آپ 22کروڑ لوگوں کی امید ہے آپ کو تبدیلی ، انصاف ، ترقی کے نام اور وعدے پرمنتخب کیا تو اس نئے پاکستان میں ان کے حصے میں کیا آیا اور اس ڈیڑھ سال میں آپ کی حکومت نے کیا دیا سوائے مایوسی اور صبر کی تلقین کے ۔ ٹیکسوں کی بھرمار ، بجلی گیس مہنگی ، پٹرول پہنچ سے باہر ، آٹا ، گھی ،دالیں ، چینی اور سبزیوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں ایسے میں سکون تو قبر میں ملے گا مگر کیسے ۔ مرنے کے بعد کفن دفن کا انتظام ، میت پر رونوں والوں کے لئے کھانے کا بندوبست ، قل خوانی پر دیگیں یہ سب کون کرے گا َ؟ آپ سوچیئے کہ اس کے مرنے پر ریاست مدینہ کی ماڈل حکو مت میں اس کی مہنگائی کی چکی میں پستی ہو ئی اولاد کیا کرے گی کیسے سارا اہتمام و بندو بست کر ے گی ؟۔ میرا تو وزیر اعظم سے ایک ہی بلکہ آخری مطالبہ ہے کہ ہمارے لئے مفت قبریں ہی بنوا دیں تاکہ ہم لوگ آسانی سے انہی میں زندہ دفن ہو جائیں تا کہ ہمیں سکون مل سکے ۔ آفٹر آل ہمارے وزیر اعظم نئے پاکستان کے حکمران کا نیک مشورہ ہے ۔فرمان مصطفی ؐہے کہ یہ دنیا کی زندگی مومن کے لئے ایک آزمائش ہے ایک قید خانہ ہے(دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے) اور وہ اس میں سزا کاٹ رہا ہے جس کے بعد اس کی ابدی جزا کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے..۔زندگی آسانی کا نام نہیں مشکلات سے عبارت ہے۔ویسے بھی انسان کسی حال میں خوش نہیں۔ہم نے خود اپنی زندگیوں کو مشکل میں ڈالے رکھنے میں کردار ادا کیا۔خود کو مشکلات میں مبتلا ہم نے خود کئے رکھا۔ہمیں سکون تب ہی ملے گا جب ہماری آخری سانس نکل جائے گی۔خوشی تو اس بات کی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو یہ الہام ہوچکا ہے کہ پاکستان کی غریب ،بے بس ،لا چار عوام کو قبریں نصیب ہو جائیں گی اور ان کو قبروں میں سکون مل سکے گا ۔بہت شکریہ حاکم وقت حشر میں پھر ملیں گے۔ مجھے خوف کہاں موت کا میں تو زندگی سے ڈر گئی ہوں ٹیگزبشریٰ نسیم ریاست مدینہ سکون قبر میں مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے وزیر اعظم عمران خان وزیراعظم یو ٹرن
باران کوساری 2018/06/4 ویڈیو سبق بذریعہ RelRR - 8 اکتوبر ، 2017. یہ تاؤ رسی کی نقل و حرکت اور سمت کی تبدیلی کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ رسی ایک پہیے کے گرد لپیٹتی ہے۔ پہیے کے موڑتے ہی ، رسی کسی بھی سمت بڑھتی ہے۔ بہترین کرنسی ٹریڈنگ جوڑیوں کا تجزیہ کرنے سے پہلےبہتر یہ ہے کہ فاریکس یا فارن ایکسچینج کرنسی کی تجارت میں دنیا میں پائی جانے والی مقبول ترین کرنسیوں کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کیا اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ جائے۔ ان میں شامل ہیں: صارفین کے ذریعہ متعلقہ مضمون کا خیال. اگر آپ کے پاس کبھی بھی ایپل ڈیوائس کی ملکیت نہیں ہے تو ، آپ کو ایپل آئی ڈی بنانے اور کچھ اضافی اقدامات اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی ، لیکن فون آپ کو مرحلہ وار ہدایات دکھائے گا۔ 1.2- روایتی لاگت اکاؤنٹنگ اور انتظامی لاگت اکاؤنٹنگ کا رشتہ۔ نیکولیس رینج سلاخوں کو 1990 کی دہائی کے وسط میں برازیل کے ایک تاجر و بروکینٹ ویکینٹ نیکولیس نے تیار کیا تھا ، جس نے ساؤ پولو میں ایک تجارتی ڈیسک چلانے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گذارا تھا۔ اس وقت کی مقامی منڈیوں میں بہت اتار چڑھاؤ تھا ، اور نیکولس اپنے مفاد میں اتار چڑھاؤ کو استعمال کرنے کا طریقہ تیار اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ کرنے میں دلچسپی لیتے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ عدم استحکام کو سمجھنے (اور منافع کمانا) کے نزدیک ہے۔ لہذا ، نیکولس نے رینج بارز کا خیال تیار کیا ، جو صرف قیمت پر غور کرتے ہیں ، اس طرح مساوات سے وقت ختم کرتے ہیں۔ لمبی پوزیشن: اثاثوں کی اکائیوں اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ * خرید قیمت * (6.4٪ + 1 مہینہ LIBOR) / 365 دن. بیڈوائے جیسے ٹول کا استعمال کریں جو ای بے پر ، مصنوعات کی فروخت کی اصل قیمتوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ انگوٹھے کی حکمرانی کے طور پر ، ایک سال بعد جب نیا ماڈل سامنے آتا ہے تو ایک آئی فون اپنی قیمت کا 40 فیصد برقرار اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ رکھتا ہے۔ وکیف میتھڈ ایک وسیع تجارتی اور سرمایہ کاری کی حکمت عملی ہے جسے چارلس ویکف نے 1930 میں تیار کیا تھا۔ اس کے کام کو متعدد مالیاتی منڈیوں میں جدید تکنیکی تجزیہ کی تکنیک کا سنگ بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ ہیجنگ کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ انشورنس کی ایک شکل کے طور پر سوچیں۔ جب لوگ ہیج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ، وہ اپنے مالی معاملات پر ہونے والے منفی واقعات کے اثرات کے خلاف خود انشورنس کر رہے ہیں۔ یہ تمام منفی واقعات کو ہونے سے نہیں روکتا ہے۔ تاہم ، اگر کوئی منفی واقعہ پیش آتا ہے اور آپ کو صحیح طریقے سے ہیج دیا جاتا ہے تو ، واقعے کے اثرات کم ہوجاتے ہیں۔ - آلٹن میک ڈویل ، ٹیکنالوجی اور خلل ڈالنے والے کامرس کے شریک سربراہ ، جے پی مورگن مڈل مارکیٹ بینکنگ. یہ اختیارات صرف مثالوں کی ہیں نہ کہ سفارشات۔ آپ ان کی خصوصیات ، شہرت اور استعمال میں آسانی اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ کے بارے میں آن لائن جائزے پڑھ کر بہترین سافٹ ویئر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ مارکیٹ تیار ہورہی ہے ، اور بہترین آپشنز کی تلاش کے ل your اپنے راستے پر چلنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ ذاتی طور پر ، میں بہت سارے وسائل ڈھونڈنے کے لئے اپنے سرچ انجن پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہوں ، اور پھر میں ان نتائج کا موازنہ کرتا ہوں جس کا انتخاب کرنے میں مجھے زیادہ سے زیادہ راحت ہو۔ انسٹاگرام اور ٹویٹر:celiasandaniels. یاد رہے کہ مالی سال 2020 کے دوران حکومت پاکستان کے اندازوں کے مطابق ملک کی مجموعی قومی پیداوار منفی 0.4 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو ملکی تاریخ کے 68 سال بعد اس قدر کم رہی۔ فارم ایریا وہ جغرافیائی علاقہ ہے جس کو آپ نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ کی حیثیت سے پریکٹس کرنے کے لئے منتخب کیا ہے ، اور اسے دانشمندی سے منتخب کرنے سے آپ کے ابتدائی کیریئر کو خراب یا توڑ سکتا ہے۔ کچھ ریاستیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مواقع کی پیش کش کرتی ہیں ، لہذا ایک کامیاب رئیل اسٹیٹ ایجنٹ خریداروں اور فروخت کنندگان کی آبادیاتی آبادی اور طرز عمل پر تحقیق کرنا یقینی بناتا ہے تاکہ وہ استرا پر مرکوز اور انتہائی ہدف بنائے ہوئے مارکیٹنگ کی حکمت عملی تشکیل دے سکیں۔ یقینا ، یہ کیو 2 کی تمام کمزوریوں کو مسترد نہیں کرسکتا ہے ، لیکن پوزیشننگ ایک بار پھر مختصر ہوگئی ہے ، حقیقی شرحیں کم ہوسکتی ہیں اور مجموعی طور پر نمو وقفے کی علامت ظاہر کرتی ہے۔ گرمی کے مہینوں میں داخل ہونے کے ساتھ ہی تمام نشانیاں امریکی ڈالر میں کچھ استحکام کی توقع کرتی ہیں۔ اپنے یا اپنے ایک دوست کی تصویر رکھنے کا تصور کریں جو آپ واقعی پسند کرتے ہیں ، لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپ فوٹوشاپ کے جادو سے تھوڑا تھوڑا سا استعمال کرسکتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ آپ فوٹو ریچنگ کے بارے میں واق. دوسری طرف ، جب ٹیرف متعارف کرایا گیا تھا اور قومی مارکیٹ میں قیمت میں اضافہ ہوا تھا ، کچھ ایسی کمپنیاں جو پہلے پیدا نہیں کرتی تھیں کیونکہ ان کی فروخت کی قیمت سے معمولی لاگت زیادہ ہوتی تھی ، اب مارکیٹ میں داخل ہوجائیں۔ ان کمپنیوں کے اعلی معمولی اخراجات کے ساتھ پیداوار میں داخلے کی وجہ سے ناکارہ ہونا پڑتا ہے ، یعنی معاشی اخراجات کی وجہ سے معاشرے کو لاگت آتی ہے۔ ٹیرف کے قیام کے دوران عام طور پر صارفین اور معاشرے کو ضائع کرنا پڑتا ہے ، چونکہ محصولات کے ذریعہ محفوظ صنعت سے حاصل ہونے والے وسائل کو دوسرے شعبوں میں موثر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بنیادی انڈیکیٹرز ہیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اسٹاک ٹریڈنگ بمقابلہ اسٹاک CFD ٹریڈنگ کسی کمزور یا مضبوط معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
فاریکس ٹریڈنگ حلال ،Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں جہانگیرفوروہار 2019/06/21 فاریکس بروکر کا انتخاب کیسے کریں Metales : وہ عام طور پر مختلف اقسام کے فولاد ، تانبے کے مرکب ، ایلومینیم مرکب ، کاسٹ آئرن یا گرے کاسٹ آئرن ، میگنیشیم مرکب دھات وغیرہ سے بنا ہوتے ہیں۔ پلاسٹک : وہ الیکٹرانکس ، کھلونے وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ وہ پولی کاربونیٹ ، پولیامائڈ یا پیویسی گیئرز ، ایسیٹل رال ، پیئیک پولیٹیرتھیرکٹون ، پولیٹیٹرا فلوروائیتھیلین (پی ٹی ایف ای) ، اور مائع کرسٹل پولیمر (ایل سی پی) ہیں۔ لکڑی : یہ عام نہیں ہیں ، صرف پرانے میکانزم میں یا کچھ کھلونوں Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں میں۔ دوسروں : امکان ہے کہ بہت ہی خاص معاملات کے ل other دوسرے ریشے یا مخصوص مواد استعمال ہوں۔ ٹک ٹوک براہ راست آپ کو کسی بھی چیز کی ادائیگی نہیں کررہا ہے ، لیکن آپ کا کاروبار اب حوالہ جات اور نئے صارفین پر ہزاروں ڈالر کما رہا ہے جسے آپ اپنے ویڈیوز کے ساتھ راغب کررہے ہیں۔ (اور ظاہر ہے ، آپ ویڈیوز کو اپنے فیس بک پیج ، اپنے یوٹیوب چینل وغیرہ پر بھی ڈال سکتے ہیں)۔ فاریکس (FX) سے مراد بین الاقوامی کرنسیوں اور کرنسی سے ماخوذ تجارت کے لئے عالمی الیکٹرانک مارکیٹ ہے۔ اس کا کوئی مرکزی جسمانی مقام نہیں ہے ، پھر بھی غیر ملکی کرنسی مارکیٹ تجارتی حجم کے ذریعہ دنیا کی سب سے بڑی ، سب سے زیادہ مائع مارکیٹ ہے ، جس میں ہر روز کھربوں ڈالر کا ہاتھ بدلا جاتا ہے۔ بیشتر ٹریڈنگ بینکوں ، دلالوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ آئیے یہ بیان کرنے کے لئے بی این بی (بی ای پی 2) استعمال کریں کہ آپ کے بائننس اکاؤنٹ سے کریپٹو کو بیرونی پلیٹ فارم یا بٹوے میں کیسے منتقل کرنا ہے۔ اگر ایسی شرط پوری ہوجاتی ہے ، تو آپ کے پاس سگنل ہے اور حد احکامات ترتیب دینے کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ که تاسو بیرته هغه ته لاړ شئ او دا مسله ده؛ تاسو کولی شئ د یوګانډا اسعارو بیرته وپلورئ (په خورا ګران بیه) د ګټې ترلاسه کولو لپاره. فاریکس ٹریڈنگ حلال :Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں ملائشیا میں پیسہ Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں تبدیل کرنے کے خواہشمند افراد کو مناسب نرخ ملیں گے جو گھر میں واپس آنے سے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ مختلف فرقوں ، جیسے $ 100 اور $ 10 کے لئے مختلف شرحیں لاگو ہوتی ہیں۔ زیادہ تر تبادلہ کے دفتر چھوٹے نوٹ یا سکے قبول نہیں کریں گے۔ جوڑے کے معاملات میں کرنسیوں کو درج کرنے کا طریقہ کرنسی کے جوڑے میں درج پہلی کرنسی بیس کرنسی ہے۔ دوسرے کو قیمت کرنسی کہا جاتا ہے۔ کرنسیوں کو دنیا بھر کی منڈیوں میں مستعمل مختص مختصر الفاظ کے ذریعہ درج کیا گیا ہے۔ میں واپس لائے۔ اس کردار کو ٹائم لائن میں پہلے نقطہ پر دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ہر آن لائن بروکریج کی اپنی طاقتیں اور کمزوری ہوتی ہیں۔ آپ کون ہیں اور جس کی آپ قدر کرتے ہیں وہ آپ کو اس کی طرف لے جائے گا جو آپ کے لئے بہترین ہے۔ مثال کے طور پر ، کچھ لوگ اپنے تمام مالی اکاؤنٹس ایک ہی چھت کے نیچے رکھنے کی سہولت کی قدر کرسکتے ہیں۔ دوسروں کو انٹرایکٹو چارٹنگ کی قدر ہوسکتی ہے۔ پھر بھی ، دوسرے لوگ آئی پی اوز تک رسائی کی قدر Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں کرسکتے ہیں۔ اس ماڈیول کی مدد سے ، اب آپ کسی کو اپنی گیلری میں سیلفی کی بے دین رقم ، یا کام کے لئے محفوظ نہ ہونے والے ٹیکسٹ میسجز دیکھے بغیر کسی کو اپنا قرض دے سکیں گے۔ پہلا آپشن - اور ممکنہ طور پر سب سے آسان کیونکہ یہ بہت لچکدار ہے اور اسے روز مرہ کی زندگی میں ڈھالا جاسکتا ہے - گھر سے تجارت کر رہا ہے۔ تاہم ، گھر سے دن کا تجارتی اسٹاک بھی سب سے زیادہ سرمایے والے اکھاڑے میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر کے لئے جو کم سے کم ایکوئٹی کی ضرورت ہوتی ہے جسے پیٹرن ڈے تاجر کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے $ 25،000 ہے ، اور اس رقم کو ہر وقت برقرار رکھنا چاہئے۔ اگر تاجر کا اکاؤنٹ اس کم سے کم سے کم ہوجاتا ہے تو ، انہیں اس وقت تک تجارت کی اجازت نہیں ہوگی جب تک کہ کم سے کم ایکوئٹی لیول بحال نہ ہو (یا تو نقد رقم جمع کروا کر یا سیکیورٹیز)۔ اگر آپ نے کبھی پچر کی تشکیل کے ساتھ تجارت کی ہے تو ذیل کے تبصرے کے سیکشن میں ہمیں بتائیں۔ مجھے آپ کی بات سن کر خوشی ہوگی۔ بہت سے معاملات میں ، تجارت کرنے کی اہمیت گاہک کو نفسیاتی طور پر ہیرا پھیری کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ آخر کار ، کھانے ، پانی اور لباس سے پرے ، کسی دکان میں ملنے والا سامان کا کوئی ٹکڑا گاہک کی ضرورت کا نہیں بنتا ہے۔ خریداری کے لئے کسی صارف کو قائل کرنے کے لئے قائل کرنے یا کم سے کم کسی خاص مصنوعات کو خریدنے پر غور کرنے کے ل Mer مرچائزائزنگ بصری اشارے جیسے رنگ ، شکل اور تصو .رات کے ذریعے تخلیق شدہ انجمنوں کا استعمال کرتا ہے۔ جب کامیاب ہوجاتا ہے تو ، تجارت کرنے کے نفسیاتی اثرات فروخت کو بڑھاتے ہیں ، مصنوعات سے آگاہی پیدا کرتے ہیں ، کسٹمر کے لئے آرام دہ اور پرسکون بصری ماحول پیدا کرتے ہیں اور خوردہ دکان میں پیسہ پمپ کرتے Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں ہیں۔ اس سے لوگوں کو کچھ مخصوص مصنوعات دیکھنے کے انداز پر بھی اثر پڑ سکتا ہے ، اس طرح مستقبل میں خریداری کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کاروبار بعض اوقات اپنے آپ کو مالیات سے زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع مل سکتے ہیں۔ اگرچہ ایک اچھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس کے بارے میں فیصلے کرنے ہوں گے کہ کون سے مواقع کو تلاش کرنا ہے اور کون سا رد کرنا ہے۔ کیپٹل بجٹ میں داخلے کی شرح اور ریٹرننگ کی اکاؤنٹنگ ریٹ جیسے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے امکانی منصوبوں کے تجزیہ سے متعلق ہے۔ سونے میں سرمایہ کاری ETFs کے ذریعے سونے میں سرمایہ کاری کرنے کا ایک بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہے ہیں تو ، کسی کو بنیادی انتخاب کرنا چاہئےگولڈ کے بہترین ای ٹی ایف سونے کے تمام ETFs کی کارکردگی کو بغور دیکھ کر انویسٹمنٹ کرنے اور پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا۔ بائنانس دو تجارتی پلیٹ فارم انٹرفیس ، "بنیادی" اور "اعلی درجے کی" پیش کرتا ہے۔ بنیادی فرق ظاہری شکل ہے ، اور اعلی درجے کی ورژن میں زیادہ بہتر چارٹنگ ویژلائزیشن۔ بائننس ٹریڈنگ پلیٹ فارم میں سے نہ ہی تکرار کرنا نئے صارفین کے لئے واقعی بدیہی ہے ، لیکن دونوں بالکل ٹھیک کام کرتے ہیں۔ پلیٹ فارم کے دونوں ورژن پر صارفین حد ، منڈی اور اسٹاپ لیمٹ آرڈر کی اقسام بناسکتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ، ہم نہیں سوچتے کہ پلیٹ فارم کے دونوں ورژن کا استعمال دوسرے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہے ، لیکن صارف کا ہمیشہ ہی ترجیح ہوتا ہے۔ اگرچہ ڈیسک ٹاپ ایپس کسی پی سی پر فلو چارٹس بنانے کے لئے مثالی ہیں ، لیکن وہ زیادہ سفری دوست نہیں ہیں۔ اگر پورٹیبلٹی ایک کلیدی مسئلہ ہے تو ، آپ ان میں Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں سے ایک موبائل فلو چارٹ ایپس کے ذریعہ بہتر ہوں گے جو چلتے پھرتے چارٹ بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ ٹیوٹوریل کا احاطہ کرنے والے باقی مراحل میں درخواست دہندگی کے اختیارات کو آب و ہوا گراف میں لے جانے کے Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں لۓ یہ قدم قدم میں دکھایا گیا گراف کی طرح ہے. تجارتی اختیارات کی خرابیاں. اگر حاملہ عورت کو زیکا کا سامنا کرنا پڑا تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کار واش کاروبار درحقیقت کینیا میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے؟ جہاں کے ای ایکویٹی سرمایہ کی قیمت ہے۔ یو ایس ٹریژری بل کی شرح کو اکثر خطرہ سے پاک ریٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بہترین: وہ ٹیمیں جو اپنی ویب سائٹ میں چیٹ بوٹ کی فعالیت کو شامل کرنا چاہتی ہیں قیمتوں کا تعین: 100 تک کے ایجنٹوں کے لئے مفت؛ ادا کردہ منصوبے سالانہ بل آنے پر ، ہر مہینے agent 15 سے شروع ہوتا ہے مفت جانچ: 21 دن. ایک بار میں ایم ٹی 4 اور ایم ٹی 5 چلانا ممکن ہے۔ بس ان دونوں کو کھول دو۔ صرف پابندی یہ ہے کہ تجارتی اکاؤنٹس کا مناسب استعمال پر انتظام کیا جائے۔ MT4 پر MT4 پر مبنی تجارتی اکاؤنٹس اور MT5 پر MT5 پر مبنی تجارتی اکاؤنٹس۔ اگر فنڈز کافی عرصے سے اسٹیک ہوجاتے ہیں ، تو پھر فارمڈ ٹوکن کی قیمت اور لین دین کی فیس مشترکہ طور پر نقصان کو پورا کرنے کے ل. آؤٹ لک میں ای میلز کو کیسے روکا جائے آؤٹ لک میں پڑھنے کی رسیدیں کیسے بند کردیں آپ کے بھیجے جانے کے بعد آؤٹ لک میں ای میل کو کیسے یاد کریں مائیکروسافٹ آؤٹ لک میں پوشیدہ Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں خصوصیات جو آپ کو نظرانداز کرسکتی ہیں. طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم میں کامیابی کے لیے تیار کرنا۔ زیادہ تر ٹولز آپ کو مختلف رپورٹنگ ٹائم فریم ترتیب دینے کی اجازت دیتے ہیں۔ یانگ یونگمنگ: پچھلے دو سالوں میں متعدد دالیں ایم ایس پی ڈی ٹیسٹ کا معیار نافذ کیا گیا. اضافی طور پر ، یہ نہ بھولنا کہ بڑے اکاؤنٹ راتوں رات نہیں بنتے ہیں۔ اس میں بڑے خطرات لینے کے بجائے مستقل مزاجی اور طویل مدتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ فاریکس ٹریڈنگ میں "بڑی مچھلی" کی تجارتی جیت کی شرح 55 and سے 70 between کے درمیان ہے ، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں ، یقینی طور پر یومیہ تجارتی تجربہ نہیں Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں ہے۔ فی الحال ، فاریکس الگورتھمک تجارتی حکمت عملی کے قیام کے ل the سب سے موثر کوڈنگ زبان میٹا کوٹیز لینگوئج 4 (ایم کیو ایل 4) ہے۔ ایف ایکس کرنسی مختصر مدت کے اثاثے ہیں جو تجارت کے ل. ہیں ، طویل عرصے تک اس کی ملکیت نہیں ہے۔ آخر میں ، واٹر مارک جو استعمال میں آسان ہے!
کرونا وائرس : فوڈ اینڈ ہیلتھ سیکیورٹی Apr 15, 2020 9:24 AM, April 15, 2020 چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس کسی عذاب کی طرح پوری دنیا پر مسلط ہو گیا ہے۔ پوری دنیا کا اقتصادی نظام بُری طرح دباؤ کا شکار ہوا کہ معیشت ہی نہیں معاشرت بھی زیر نگیں آ گئی۔ سرطان، فلو اور چیچک کے بعد اب کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ایک بار پھر گویا مفلوج کرکے رکھ دیاہے۔ چین میں کرونا وائرس کے حملے کے بعد مغربی دنیا نے اسے سنجیدہ نہ لیا اور اپنے شہریوں کو چائنا سے واپس آنے کی تلقین کی۔ انہیں اپنے نظامِ صحت پر بڑا ناز تھا۔ کرونا وائرس سے آلودہ ان شہریوں نے اپنی معاشی و معاشرتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو یہ متعدی وائرس بڑی تیزی سے بڑھا۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب بڑی تعداد میں اس مرض کے شکار ہسپتال جانے پر مجبور ہوئے لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔ کرونا نے اپنا شکار شروع کر دیا اور پھر بہترین صحت عامہ کا نظام رکھنے والے اور دنیا کی معیشت پر راج کرنے والے G-8 ممالک بھی بے بس ہو گئے۔ چین کے ہمسایہ ممالک سنگاپور، ملائشیا، جاپان اور روس وغیرہ نے نے اس وائرس کو سنجیدگی سے لیا اور معاشی سرگرمیوں کے باوجود اس وائرس کا زیادہ پھیلاؤ نہ ہونے دیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ چین نے دو طرفہ برادرانہ تعلقات کے تحت پاکستانیوں کو روک لیا۔ 15 جنوری کو وزیر اعظم عمران خان نے بھی کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خدشات کو محسوس کرتے ہوئے نوٹس لیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ انتظامات قطعاً نہ کئے گئے جن کے ذریعے کرونا کو محدود کیا جا سکتا تھا۔ 15 جنوری کے بعد جس طرح ایران سے آئے زائرین کا مسئلہ درپیش ہوا اور نہ ہی دیگر ممالک سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کی گئی۔ کرونا کے بڑھنے کے باوجود تبلیغی اجتماع کو نہ روکا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرونا پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں پہلے صوبہ سندھ اور پھر پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان میں ڈیزاسٹر سروسز کی انتہائی کمی محسوس کی گئی چنانچہ 2007 میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام عمل میں آیا لیکن محض نوٹیفیکیشن کے اس اہم ادارہ کو وہ مروجہ سہولیات اور بجٹ ہی مہیا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ پاکستان میں زلزلہ، سیلاب اور دیگر آفات کے بچاؤ کیلئے فوری اور قطعی اقدامات کر سکے۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے فیصلے لیتی ہیں جن میں پروفیشنل ازم کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ 15 جنوری کو وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے فوراً بعد این ڈی ایم اے کو ضروری فنڈز مہیا کر دیئے جاتے تاکہ ابتدائی طور پر ٹیسٹنگ کٹس ، ماسک اور دیگر سامان مہیا کر دیا جاتا تاکہ کرونا جیسے موذی وائرس کے خلاف جنگ کرنے کیلئے پیرامیڈیکل فورس کی ٹریننگ مکمل ہو جاتی۔ اس کے ساتھ ہی تفتان یا بائی ایئر آنے والے مسافروں کی فوری ٹسٹنگ کرکے کرونا کے قطعی مریضوں کی نشاندہی کی جاتی اس طرح صرف چند سو کرونا مریض پاکستان کیلئے کسی خطرے کا باعث نہ بنتے۔ بہرحال جو ہوا، سو ہوا۔ اب ایسے صائب فیصلے لینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم نہ صرف اس موذی مرض کا مقابلہ کر سکیں بلکہ پہلے سے دباؤ میں آئی معیشت کو بھی سنبھال سکیں۔ اس کے لئے ہمیں صحت عامہ اور معیشت کی بنیاد کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دنیا میں کرونا وائرس کے مسلسل حملوں کی وجہ سے نہ صرف ان کی معاشرت تباہ ہو کر رہ گئی ہے بلکہ صنعتی بحران کی وجہ سے بڑی تعداد میں بیروزگاری بھی بڑھی ہے۔الیکٹرانکس و دیگر سامانِ تعیش کی انڈسٹری کے ڈیمانڈ گر جائے گی۔ غذائی بحران کی شدت پوری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں قحط کی صورتحال پیدا کرے گی۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتی پیداوار میں خسارے کی وجہ سے مالیاتی بحران کا شکار ہوں گے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے۔ اگر معمولی سی توجہ دی جائے تو ہم اپنی زرعی معیشت کو سپیڈ دے سکتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کے ادارے انتہائی مضبوط تھے۔ زرعی یونیورسٹیز بڑے منظم انداز میں نت نئے تجربات کر رہی تھیں چنانچہ فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور دیگر میڈیکل کی تعلیم دینے والے ادارے اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کی تعلیم کا معیار بہترین تھا۔ لیکن پھر ان اداروں نے اپنی ساکھ کھو دی۔ اگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد یا کسی بھی زرعی ریسرچ کے ادارے کا رقبہ ملاحظہ کیا جائے تو وہ سنگاپور کے کل زرعی رقبہ سے کہیں زیادہ ہے تو کیا ہمارے لئے شرم کا مقام نہیں ہے کہ ہائی برڈ سیڈ سنگاپور سے درآمد کیا جاتا ہے؟ جب اٹامک سنٹرز کیلئے تمام جدید مصنوعات لوکل انجینئرنگ اداروں میں تیار کی جاتی ہیں تو کیا وینٹی لیٹر اور دیگر آلات جراحی بنانا کوئی مشکل کام ہے؟ بات ہو رہی ہے کہ ان حالات میں کونسے اقدامات کئے جائیں جن کی وجہ سے ہم کرونا وائرس پر قابو پا سکیں بلکہ اپنی معیشت کو بھی سہارا دے سکیں۔ فی الوقت کرونا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے فوری طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کئے گئے ٹسٹوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کا تعین نہیں ہو رہا۔ اس ماہ کے آخر تک 60/70 ہزار کرونا متاثرین کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیںمسلسل ڈبل مائنڈ ڈہیں کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟ صنعتی ادارے، فیکٹریاں اور کاروباری شخصیات پریشانی کے عالم میں رائے دے رہے ہیں۔ فیکٹریوں کی طویل تالہ بندی یقینا قومی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔ اور اگر لاک ڈاؤن ختم کیا گیا تو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا محال ہو جائے گا۔ صوبائی و وفاقی حکومتوںنے خلوص نیت سے اربوں روپے کرونا متاثرین کیلئے مہیا کئے ہیں جو یقینا قابل تحسین ہے لیکن مہیا کردہ یہ فنڈز متوسط اور غریب افراد کی ضرورت سے کہیں کم ہیں۔ نہ لاک ڈاؤن ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فیکٹریوں کو مسلسل بند رکھ کر کروڑوں عوام کو بھوکا رکھا جا سکتا ہے۔ صنعتی پہیہ رواں رکھنے کیلئے حکومت کو جزوی طور پر لاک ڈاؤن کی سہولت اپنانی ہوگی۔ ملک میں کئی صنعتی زون موجود ہیں۔ ان زونوں میں انڈسٹریز کو لوکلی لاک کرکے چالو کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے مجوزہ فیکٹریاں اپنی لیبر کیلئے قیام و طعام کا بندوبست کرنے کی پابند ہوں۔ مارکیٹوں کے سامان کی ترسیل کیلئے Ober / Cream کی سہولت حاصل کرکے مارکیٹنگ نظام کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ تمام شہروں میں بے شمار آبادیاں بڑی منظم ہیں۔ انہیں لاک کرنے کے بعد کمیونٹی پلاننگ کے ذریعے کرونا کے مریضوں کی مکمل نشاندہی ہو سکتی ہے۔ اس طرح یہ آبادیاں اندرونی طور پر بحال کی جا سکتی ہیں اور پھر بعد ازاں پورے شہر اور ملک کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں کرونا وائرس نے جس طرح تباہی مچائی ہے۔ پوری دنیا خطرناک غذائی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان ایک ایسا ملک ہو سکتا ہے جو اپنی بہترین زرعی پیداوار کے ذریعے دنیا میں اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں ہیلتھ سیکیورٹی، فوڈ سیکیورٹی اور فوڈ سیکیورٹی کیلئے واٹر سیکیورٹی کے اہم قومی ایشوز پر دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور شہری انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ کراچی میں صفائی ستھرائی کے انتظامات یقینی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے سندھ میں پانی کی ابتر صورتحال پر زیر سماعت کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت پانی کے مسئلے پر قائم عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ وفاقی حکومت فنڈز بھی دے رہی ہے۔ لیکن صوبے میں پانی کی ابتر صورتحال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطالعے کے بعد ہمارے سامنے بڑی بھیانک تصویر آرہی ہے۔ چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سپریم کورٹ اور واٹر کمیشن کی کارروائی سے بہتری آرہی ہے۔ دوران سماعت بینچ نے مئیر کراچی وسیم اختر سے کراچی میں گندگی کے ڈھیر اور صفائی کی ناقص صورتحال کے بارے میں اسفتسار کیا، جس پروسیم اختر نے کہا کہ صفائی ستھرائی سے متعلق اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ سپریم کورٹ صفائی کے لئے قائم سالڈ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بلدیاتی اداروں کو دینے کا حکم دے چکی ہے لیکن صوبائی حکومت عمل نہیں کر رہی۔ دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ نے اعتراف کیا کہ شہر میں 4,5 ہزار ٹن کچرا نہیں اٹھایا جا رہا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شہر میں کچرا اٹھانے کا کام بڑے پیمانے پر شروع کردیا گیا ہے, اور یہ نظام کمپیوٹرائزڈ بھی کردیا گیا ہے۔ نظام میں مزید بہتری کے لئے مزید وقت درکار ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی کے 6 اضلاع میں سے 4 اضلاع میں کچرا اٹھانے کا کام آوٹ سورس کردیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا کہ تمام ادارے اپنے وسائل سے کراچی کو صاف کرنے کے لئے انتطامات کریں، اور ایک ہفتے میں کراچی کو کچرے سے صاف کیا جائے۔ عدالت نے مزید کہا کہ جس کی جو ذمہ داری ہے اسے ادا کرنا ہوگی۔ مشترکہ کاوشوں سے کراچی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی تحلیل کے حوالے سے کیس پانی سے متعلق عدالتی کمیشن کو بھیجنے کا حکم بھی دیا۔ کراچی میں روزانہ تقریبا 15 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن حکومتی ادارے اس کا صرف آدھا ہی اٹھا پاتے ہیں۔ باقی کچرا شہر کے گلی محلوں، چوراہوں اور ندی نالوں میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے شہر میں ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت اور متحدہ قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والے کراچی کے مئیر وسیم اختر کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی کے باعث شہر کا یہ اہم مسئلہ اب تک حل نہیں ہوپایا۔ جس کا خمیازہ شہری بھگت رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبے بھر میں کچرا اٹھانے سے متعلق ایک کیس میں یہ آبزرویشن دے چکی ہے کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو تحلیل کرکے بلدیاتی اداروں کو صفائی ستھرائی کے لئے اختیارات اور وسائل فراہم کرنے چائیے۔ اس آبزرویشن کی بنیاد پر ایم کیو ایم کی آئینی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت بھی ہے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ نے جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سندھ میں پانی کی صورتحال پر قائم عدالتی کمیشن کو بھجوادیا ہے۔
پاکستان کی ایک ذیلی عدالت نے سزائے موت کے مبینہ ذہنی مریض قیدی کی سزا پر عمل درآمد کے لیے بلیک ورانٹ جاری کر دیے ہیں۔ 55 سالہ خضر حیات سابق پولیس اہلکار ہے جسے اپنے ایک ساتھی پولیس اہلکار کو گولی مار کر قتل کرنے کے جرم میں 2003 میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے لاہور کی سنٹرل جیل میں بند ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم "جسٹس پروجیکٹ پاکستان" کا کہنا ہے کہ خضر حیات کے وکیل نے اس کی ذہنی بیماری کی بنا پر سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لیے 2015 میں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ترجمان رمل محی الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منگل کو خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے ہیں اور ان کو پھانسی دینےکے لیے17 جنوری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ رمل نے کہا کہ "آج (بدھ) کو ہم نے (سزا رکوانے کے لیے) لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جمعرات کو ہو گی۔" رمل محی الدین نے کہا کہ خضر حیات کو پھانسی دینا نا صرف بین الاقوامی کنونشنز کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ملکی قانون کے بھی خلاف ہو گا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ایک اور ایسے ہی قیدی کی سزائے موت کو رکوانے کا معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ذہنی طور پر معذور سزائے موت کے قیدی امداد علی کی سزا پر گزشتہ سال عمل درآمد روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ان کی ذہنی صحت کے جائزے لیے ایک طبی بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے آٹھ ہزار سے زائد قیدی بند ہیں۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر مہلک حملے کے بعد ملک میں سزائے موت پر عائد عارضی پابندی کو ختم کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک لگ بھگ 400 مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں پاکستانی حکومت سے سزائے موت کو ختم کرنے اور پھانسیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی رہیں ہیں تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات میں قانون کے مطابق دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد ضروری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات اک نئے موڑ پر – Advance Pakistan Home / News / پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات اک نئے موڑ پر yasir March 17, 2018 News 1,697 Views روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات سردمہری کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں اور ان کے بچوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد پاکستان نے مشاورت کے لیے اپنے سفیر کو وطن واپس بلالیا اور اب اس معاملے میں خفیہ ایجنسیوں نے بھی اپناکام دکھانا شروع کردیا۔ تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کے بگڑتے سفارتی تعلقات میں نیا موڑ آیا ہے اوردعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تعینات بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کے دروازے کی گھنٹی رات تین بجے بجائی گئی جس کے چند دنوں بعد پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر کے گھر کی گھنٹی بھی اسی وقت پر بجائی گئی ۔ اب دونوں ممالک نے الزام لگایا ہے کہ رات کے تین بجے سفراءکے گھروں کی گھنٹیاں بجائیں گئی اور پھر نامعلوم افراد موقع سے فرار ہوگئے ، جے پی سنگھ اور سید حیدرشاہ نے گھنٹیاں بجنے پر کوئی جواب نہیں دیاتاہم دونوں کا خیال ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ کارفرماہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کی گاڑیوں کو روکا گیا، ان کے بچوں کوہراساں کیاگیا جس کے بعد پاکستان نے واضح کیا کہ وہ اپنے سفارتکاروں کی حفاظت یقینی بنائے گا اور اس ضمن میں مشاورت کیلئے بھارت میں تعینات اپنے سفیر کو بھی وطن واپس بلایا۔ ذرائع کے مطابق یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کی اسلام آباد کلب کی ممبرشپ رکی جبکہ کلب انتظامیہ نے موقف اپنایا کہ انہیں غیرملکی باشندے کو رکنیت دینے کے لیے وزارت داخلہ کی طرف سے نوآبجیکشن سرٹیفکیٹ چاہیے ہوتا ہے اور یہ معمول ہے ۔ اسلام آباد کلب انتظامیہ کی طرف سے سفارتکار کو جزوی انکار کا خمیازہ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کو بھگتنا پڑا جنہوں نے بتایا کہ دہلی جمخانہ کلب اور گالف کلب ان سے زیادہ پیسے وصول کررہے ہیں۔ ٹائمز انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں بھارتی سفارتکار تین سال کیلئے 1500 سے 1800ڈالر ادا کرتے ہیں جبکہ اتنے ہی عرصے کے لیے دہلی گالف کلب 15000 ڈالر وصول کررہا ہے ۔ اسی طرح پاکستان میں بھارتی سفارتکاروں کی پوری فیملیز کو جانے کی اجازت ہے لیکن بھارت بچوں کو جانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ ان انکشافات کے بعد بھارتی حکومت نے موقف اپنایا کہ گالف کلب اور جمخانہ کلب پرائیویٹ ہیں اور بھارتی حکومت انہیں کسی کیلئے بھی قیمتوں میں کمی کا نہیں کہہ سکتی ۔ بھارتی حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب سفارتکار کیلئے اسلام آباد میں انہوں نے نئی تعمیرات شروع کیں تو اس پر چھاپہ مارا گیا اور بجلی و پانی منقطع کردیا گیا جبکہ پاکستانی حکام نے موقف اپنایا کہ وہاں کام کرنیوالے افراد کی مناسب سیکیورٹی کلیئرنس نہیں کروائی گئی تاہم یہ معاملہ حل کر لیا گیا۔
فروری 23, 2018 323 Views فروری کے مہینہ میں میونخ میں بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والی میونخ کانفرنس دنیا کے سیاسی حالات اور منظر نامہ پر نئے نقش مرتب کر گئی ہے، جہاں دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے سرکاری اعلٰی عہدیداروں نے دنیا کے امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے مختلف قسم کی آراء پیش کیں اور خطوں میں رونما ہونے والے واقعات و سیاسی معاملات کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کانفرنس میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی اور 1948ء میں قائم ہونے والی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی دنیا کی سکیورٹی سے متعلق تقریر کی، حیرت کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ اسرائیل ایک ایسی جعلی اور غاصب ریاست ہے کہ جس کا وجود ہی دہشت گردی پر مبنی ہے اور دنیا میں کون ایسا شخص ہے، جو یہ بات نہیں جانتا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل گذشتہ ستر سال سے کس طرح انسانیت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف عمل ہے، فلسطین کی بات کریں یا پھر فلسطین سے باہر گرد و نواح کے ممالک کی تو ہر طرف اسرائیل ہی نظر آتا ہے کہ جس نے دیگر ممالک کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور خطے میں نت نئے انداز سے براہ راست اور دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش اور النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کرتا ہے، تاکہ خطہ غیر مستحکم رہے اور معصوم انسانوں کا خون ضائع ہوتا رہے۔ اب بات کرتے ہیں میونخ کانفرنس کی، جہاں اسی جعلی اور ظالم ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے خطاب کیا۔ اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ سکیورٹی کے بغیر نہ تو امن ہے، نہ ہی خوشحالی، نہ ہی ہمدردی اور نہ ہی آزادی ہے۔ اب ذرا کوئی ان سے پوچھتا کہ جناب آپ تو خود دنیا کی سکیورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں، کیونکہ موساد نامی دہشت گرد قسم کی خفیہ ایجنسی تو آپ ہی کی ہے، جو نہ صرف فلسطین میں لوگوں کی قتل و غارت کرتی ہے بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں ان کے دہشت گرد جا جا کر دوسرے ممالک کی اہم شخصیات کو اغوا اور قتل کرتے پھرتے ہیں۔ حال ہی میں ترکی سے لبنان کے جنوبی علاقے میں پہنچنے والے اسرائیلی موساد ایجنٹوں نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، جسے لبنانی سکیورٹی اداروں نے ناکام بنا دیا تھا، تو آپ اب کس منہ سے یہ باتیں کرتے ہیں؟ جبکہ اسرائیل ہی ہے کہ جس نے نہ صرف فلسطینیوں کی سکیورٹی کو تہس نہس کیا ہے، بلکہ سکیورٹی سے مربوط وہ تمام موارد کہ جنہیں نیتن یاہو نے بیان کیا ہے، یعنی فلسطینیوں کی آزادی بھی سلب کی گئی، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا گیا، ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں کو بھی اسرائیل نے اپنا دشمن بنا کر ان کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔ اس طرح کے کئی ایک موارد ہیں، جو خود اسرائیل پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، لیکن شرم کی بات ہے کہ یہان میونخ سکیورٹی کانفرنس میں آپ بھاشن دیتے نہیں تھک رہے۔؟ مزید بھاشن میں ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران ہمارے خطے یعنی مشرق وسطٰی میں اپنی بالادستی قائم کر رہا ہے، حیرت کی بات پھر یہ ہے کہ نیتن یاہو کو معلوم ہی نہیں کہ مشرق وسطٰی صیہونیوں کا خطہ ہونے سے پہلے عرب دنیا اور وہاں کے مقامی باشندوں کا خطہ ہے، جن کی نسل در نسل اس خطے میں چلی آرہی ہے تو یہ صیہونی جو دنیا کے دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے 48ء سے قبل یہاں پر لائے گئے، تاکہ غاصب صیہونیوں کی سازش یعنی اسرائیل قائم ہوسکے تو آج یہ کس منہ سے اس خطہ کو اپنا کہتے ہیں؟ اور اگر مان لیجئے کہ اپنا خطہ ہے تو کیا کوئی اپنے خطے کے لوگوں کا قتل عام کرتا ہے۔؟ کیا اسرائیل نے 48ء کے بعد سے 67ء اور پھر متواتر 1975ء اور 1982ء اور 2006ء اور 2008ء سمیت مختلف مواقع پر اس خطے کے ممالک اور عوام پر جنگیں اور مظالم مسلط نہیں کئے؟ تو یہ خطہ کسیے نیتن یاہو کا ہوسکتا ہے۔؟ ماہرین سیاسیات کے مطابق جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعطم نیتن یاہو دراصل ایک عجیب سی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور بلکہ یہ کہا جائے کہ مسلسل سیاسی و جنگی میدانوں میں اسرائیل کے حصے میں آنے والی شکست نے تمام اسرائیلی عہدیداروں کی ذہنی حالت و کیفیت کو متاثر کیا ہے اور یہی اثر نیتن یاہو کی جانب سے ہمیشہ بین الاقوامی فورمز پر ظاہر ہوتا ہے، جس میں وہ ہمیشہ دشمنوں کی فتح کا خود اعلان کرتے ہیں، یہاں میونخ کانفرنس میں بھی نیتن یاہو نے ایسا ہی کیا ہے۔ بہرحال یہ نیتن یاہو کی جانب سے دکھائے جانے والے ایرانی ساختہ ڈرون کے بعد دنیا کو یہ اندازہ بھی ہوچکا ہے کہ ایران فلسطین کے عوام کی کس حد تک مدد کرنے میں مصروف ہے، یعنی فلسطین کی عوام و مزاحمتی تحریکوں کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کے لئے نہ صرف ایران مالی مدد کر رہا ہے، بلکہ ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں بھی فلسطینیوں کو خود کفیل کر رہا ہے، جس کا ثبوت اس طرح کے متعدد ڈرون طیاروں کا غاصب اسرائیلی فضاؤں میں پرواز کرنا ہے۔ نہ صرف فلسطین و دیگر خطوں سے ڈرون بھیجے جاتے ہیں بلکہ فلسطینیوں نے اب اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرانا بھی شروع کر دیا ہے اور اس طرح کے چند ایک واقعات گذشتہ برس بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ ایسے ہی واقعات فلسطین کی سرحدوں پر واقع دیگر ممالک کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں، جب اسرائیل کی طرف سے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرایا گیا، حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجہ میں ایک ایف سولہ طیارہ گر کر تباہ بھی ہوا، جس کا بھی شاید اسرائیل کو شدید رنج و الم بھی ہے اور دنیا پر آشکار ہوچکا ہے کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر جعلی ریاست اسرائیل فلسطین سمیت خطے کی دوسری اقوام کے خلاف جنگیں مسلط کرنے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے سمیت ان ممالک کی حدود میں داخل ہونے سمیت دوسروں کی سکیورٹی کو چیلنج کرسکتا ہے تو پھر فلسطین و لبنان و شام و عراق مصر اور دیگر تمام ان اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دفاع کو بہتر بنانے کے لئے اسرائیل کی سکیورٹی کو چیلنج کریں، نیتن یاہو کی جانب سے ایرانی ساختہ ڈرون کے ٹکڑے دکھا کر سرکس کرنا ایک طرف ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی دشمن نے اپنے دشمن کی برتری کا خود اعلان کر دیا ہے، کیونکہ اگر وہ ڈرون کا ٹکڑا ایرانی ساختہ بھی تھا تو کیا وہ ایران سے چل کر اسرائیل کی حدود تک آیا؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہوگا۔ کیونکہ اب خطے کی دیگر اقوام غیرت مندانہ اور شجاعت مندی کے ساتھ اپنی عزت و ناموس کے دفاع میں سرگرم عمل ہیں اور اس معاملے میں فلسطین کی شجاع و پائیدار قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس اسرائیل چونکہ ایک جعلی و غاصب ریاست ہے، تاہم خطے سمیت دنیا کا امن اب اسرائیل کی نابودی سے مشروط ہوچکا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ظالموں کو نابود کرکے ہی رہے گا اور وہ لوگ جن کو مظلوم تر بنا دیا گیا ہے، ان کو اس زمین پر حاکم قرار دے گا۔
گلگت بلتستان کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حقوق دیا جائے،گندم سبسڈی کو چھیڑنا تاریخی غلطی ہوگی۔اپوزیشن لیڈر – Gilgit-Baltistan's first online premier news network گلگت بلتستان کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حقوق دیا جائے،گندم سبسڈی کو چھیڑنا تاریخی غلطی ہوگی۔اپوزیشن لیڈر in اہم خبریں October 1, 2018 1 تبصرہ 673 مناظر اسلام آباد (تحریر نیوز نیٹ ورک) گلگت بلتستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کیپٹن(ر) محمد شفیع نے تحریر نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ۔ ایک عجیب المیہ ہے کہ اس وقت دنیا بھرمیں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لیکن تحریک گلگت بلتستان دنیا کی واحد تحریک ہے جو ریاست پاکستان میں ضم ہونے کیلئے پچھلے ستر سالوں سے منتظر ہیں۔انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام محب وطن پاکستانی ہے اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ لیکن ریاستی اداروں سے ہمارے عوام کا شکوہ ضرور ہے کیونکہ اداروں نے گلگت بلتستان کو آج تک عوامی اُمنگوں کے مطابق حقوق نہیں دیا۔ اُنکا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے آذاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان ایک ہی ایشو کے تین اکائیاں ہیں لہذا تمام اکائیوں کی حیثیت ایک جیسا ہونا چاہئے۔لہذا گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ ہمارے حقوقکیلئے ان میں سے کوئی ساماڈل مسلہ کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں پارلیمنٹ میں قانون سازی اور آئینی ترمیم کے ذریعے اختیار کر لیا جائے تو ہمیں قبول ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان اب مزید کسی آرڈر یا پیکج کا متحمل نہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ گلگت بلتستان کی حکومت کرپشن میںبراہ راست ملوث ہیں۔وزیر اعلیٰ اربوں روپے کے فنڈ پارٹنروں میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 475 کلو میٹر کا سی پیک گلگت بلتستان میں واقع ہے لیکن پورے سی پیک کاکوئی پراجیکٹ گلگت بلتستان میں نہیں، اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بے گناہ طالب علموں اور لوگوں کو شیڈول فور میں ڈالا ہوا ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی طرح دیامرڈیم کے ساتھ بھاشا کا لفظ لگا کر گلگت بلتستان کے رائیلٹی کے حق کو پامال کیا گیا انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو آرڈروں سے چلانے کے بجائے مکمل پاکستانی شہری کے حقوق دیے جائیں۔ اُنکا مزید کہنا تھا کہ گندم سبسڈی گلگت بلتستان کے عوام کیلئے موت اور زندگی کا معاملہ ہے یہاں کے عوام سے اس حق کو چھینے کی کوشش کرنا گلگت بلتستان میں حالت خراب کرنے کے مترادف ہوگا لہذا وفاق کو چاہئے کہ اس معاملے میں جذبات کے بجائے گلگت بلتستان کی بین لاقوامی اہمیت اور حیثیت کا سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنکا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اپنے وزیر اعظم سے ملاقات میں یقینا سبسڈی ہٹانے کی بات کریں گے کیونکہ اُنکی خواہش ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام تحریک انصاف سے بدظن ہوجائے اور عوام تحریک انصاف کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے آئینی حقوق، گلگت،بلتستان،پاکستان تاریخ،کشمیر،پاکستان،اقوام متحدہ۔گلگت بلتستان،ڈوگرہ،بھارت،آزادی سٹیٹ سبجیکٹ،گلگت بلتستان،کشمیر،مہاراجہ،قانون،وفاق،پاکستان گندم،سبسڈی،خوراک 2018-10-01 Previous: محکمہ تعمیرات عامہ بلتستان ریجن چیف انجینئر کی من مان مانیاں عروج پر، نیب سے نوٹس کا مطالبہ۔ Next: بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما مرحوم حسن سدپارہ کے بیٹے نے معاشی بدحالی سے تنگ آکر چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔ تبدیلی کا تحفہ گلگت بلتستان کےلے ایک کٹ پتلی گورنر اور سبسٹی کے خاتمے کی صورت میں ملی تمام کٹ پتلے کھلاڑیوں کو مبارک
ذاتی مصروفیات کی وجہ سےاجلاس میں شریک نہیں ہوا، فواد چودھری | Nation 92 | Pakistan, World, Business, Sports, Entertainment, Education, Health فاقی وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوا، ذاتی مصروفیات کی بناء پر لاہور میں ہوں، اس لیے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت بنی گالہ میںآ ج پارٹی کا اہم اجلاس ہوا، جس میں جہانگیرترین، عمر ایوب، عبدالرزاق داؤد، پرویز خٹک، فیصل جاوید، فیصل واوڈا، شیخ رشید، فردوس عاشق اعوان، عثمان ڈار، خسروبختیار، ندیم افضل چن، شہزاد اکبر، افتخار درانی،حماد اظہر سمیت وفاقی وزراء ، مشیران ، معاونین خصوصی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان پارٹی ترجمانوں کو پارٹی کے لائحہ عمل سے آگاہ کریں گے۔اسی طرح اجلاس میں پارٹی بیانیہ سے متعلق بھی بات چیت کی جائے گی۔ ملکی معیشت اور سیاسی صورتحال کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔معاشی استحکام سے متعلق اقدامات سے پارٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔قابل غور بات یہ ہے کہ چند ایسے وزراء جن کی وزارتیں تبدیل کردی گئیں یا پھر وزارت دی نہیں گئی، انہوں نے آج پارٹی کے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی،ان میں سابق وزیرخزانہ اسد عمر، فواد چودھری، شہر یار آفریدی اور عامر کیانی شامل ہیں۔ فواد چودھری سے وزارت اطلاعات کا قلمدان لیکر انہیں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی دے دی گئی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق فواد چودھری کا کہنا ہے کہ وہ لاہور میں ہیں اور ذاتی مصروفیات کی بناء پر اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں سابق وزیرخزانہ اسد عمرشریک نہیں ہوئے، پی آئی آئی کے اہم اجلاس میں سینئر رہنماء اسد عمر کی عدم شرکت سے ناراضگی کھل کرسامنے آگئی،اسد عمر کا کہنا کہ وزیراعظم کے ساتھ کھڑا ہوں پھر نئے پاکستان کی تعمیرسے متعلق اہم اجلاس میں شرکت نہ کرنا پارٹی قیادت سے ناراضگی کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم اسد عمر اگر کپتان کے ساتھ کھڑے ہیں توپھر انہیں وزارت کو نہیں کپتان کودیکھنا چاہیے تھا، اور پارٹی اجلاس میں شریک ہوکر پارٹی سے اپنی وابستگی کو ظاہر کرنا چاہیے تھا۔لیکن ان کے پارٹی کے اہم اجلاس میں شرکت کی بجائے ایک روز قبل اسلام آباد سے کراچی چلے جانا ناراضگی کو ظاہرکرتا ہے۔
بے خبر بانجھ پن: ایک Underactive تائرواڈ کا ممکنہ کردار - عصبی سائنس اہم زبان اور مواصلات معاشرتی شناخت علمی - طرز عمل نفسیاتی دیکھ بھال ایک مطالعے میں ایک ہلکے سے underactive تائرواڈ اور بانجھ پن کے درمیان تعلقات کو اجاگر کیا گیا ، دوسری وجوہات سے اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ جرنل آف کلینیکل اینڈو کرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں ایک نئی تحقیق شائع ہوئی ہے جو ایک کے مابین تعلقات کو نمایاں کرتی ہے کنٹھ قدرے کم underactive (یہاں تک کہ اگر غدود کم حدوں پر کام کرتا ہے ، لیکن ایک عام حد کے اندر اندر) اور ممکن ہے بانجھ پن . ایوڈوپیتھک بانجھ پن اشتہار جب کوئی جوڑے حتمی وجہ کے بغیر حاملہ نہیں ہو سکتے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے بیوقوف بانجھ پن یا ناقابل بیان . بانجھ پن ، یہ قابل فہم ہو یا idiopathic مضبوط وجہ ہے دباؤ اور جذباتی اور رشتہ دارانہ تکلیف حیاتیاتی والدین کی ناممکنات کسی شخص یا جوڑے کے معیار زندگی اور فلاح و بہبود کو متاثر کرسکتی ہے: ہر ماہواری کے ساتھ یا ہر نئی پیدائش کے ساتھ ، ایک سخت مصائب کا سامنا ہوتا ہے جو روزمرہ کی زندگی کو نشان زد کرسکتا ہے۔ تائرواڈ اور ٹی ایس ایچ ہارمونز ہارمون TSH پٹیوٹری غدود یا پٹیوٹری غدود کے ہارمون ہیں ، جو ، دوسرے افعال کے علاوہ ، حوصلہ افزائی کے لئے ذمہ دار ہیں کنٹھ . کی اعلی سطح ہارمون TSH ایک کی ایک اچھی علامت ہیں underactive تائرواڈ گلٹی (یہاں تک کہ ایک ہلکی یا ذیلی کلینک سطح پر بھی)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تائرواڈ ہارمونز کے سراو پر TSH کمزور ہے۔ تائیرائڈ گلٹی اور حاملہ ہونے میں دشواری کے مابین تعلق کا مطالعہ تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین پیش کررہی ہیں نامعلوم بانجھ پن جس کی اعلی سطح کے امکانات تقریبا دوگنا ہیں TSH ہارمون ، ان خواتین کے مقابلے میں جو پیش نہیں کرتے ہیں نامعلوم بانجھ پن . محققین نے 18 اور 39 سال کی عمر کی خواتین مریضوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ، جن کی تشخیص کی گئی تھی نامعلوم بانجھ پن بوسٹن ہیلتھ پارٹنرز ہیلتھ سسٹم ہسپتالوں میں۔ شامل کرنے کے عوامل باقاعدگی سے ماہواری تھے۔ محققین نے دیکھا اور اس کی سطح کا موازنہ کیا TSH ان 187 مریضوں میں سے 52 مریضوں کے ساتھ ، جن کے شراکت داروں میں شدید بیماری کی اطلاع ہے بانجھ پن مرد عنصر سے اداسی کا رنگ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کس طرح کی ہیں نامعلوم بانجھ پن ان کی سطح تھی TSH خون کی سطح خواتین کی سطح سے نمایاں طور پر زیادہ ہے بانجھ پن معلوم وجہ سے خاص طور پر ، کی قدر ہارمون ، کے ساتھ خواتین کے ڈبل میں نامعلوم بانجھ پن دوسروں کے مقابلے میں ، اس کی سطح 2.5 ملی لیٹر / ایل سے زیادہ تھی۔ مستقبل کی پیشرفت اشتہار محقق فضیلی پی کے نتائج کا خلاصہ کچھ یوں ہے:چونکہ اب ہم اپنے مطالعے سے جانتے ہیں کہ سطح کی سطح کے مابین ایک انجمن ہے TSH عام حد اور بالواسطہ بانجھ پن کے اوپری سرے پر ، یہ ممکن ہے کہ سطح کی ہو ہائی نارمل ٹی ایس ایچ حاملہ ہونے کی کوشش کرنے والی خواتین پر منفی اثر پڑ سکتا ہے'۔ اس کی بنا پر جو ممکن ہوا مستقبل کے علاج کے لئے نامعلوم بانجھ پن کی سطح کو کم کرنے پر غور کرسکتا ہے TSH . تحقیق کو پہلے یہ اندازہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ اس کو کم کرنے کو فروغ دینے میں کتنا مفید ہوگا تصور .
کیپ ٹاوٴن میں فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا ڈرا | کھیل | DW | 04.12.2009 کیپ ٹاوٴن میں فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کا ڈرا دُنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں فُٹ بال شائقین آئندہ سال کے عالمی کپ کے لئے ٹیموں کے ڈرا کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ فُٹ بال ٹورنامنٹ میں کُل 32 ٹیمیں شریک ہوں گی۔ ڈرا کے بعد ہی ان ٹیموں کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ کس گروپ میں ہیں، وہاں اُن کی حریف ٹیمیں کون کون سی ہیں اور کس دن اُن کا مقابلہ کون سی ٹیم کے ساتھ ہوگا۔ ورلڈ کپ 2010ء ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ گیارہ جون کو جبکہ فائنل میچ ایک ماہ بعد یعنی گیارہ جولائی کو کھیلا جائے گا۔ فٹ بال ورلڈ کپ کا فائنل جوہانسبرگ کے ساکر سٹی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ ٹورنامنٹ کے ڈرا کے سلسلے میں جمعہ، چار دسمبر کو کیپ ٹاوٴن میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے سابق صدر اور نوبل امن انعام یافتہ نیلسن منڈیلا اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے تقریب میں شریک افراد سے خطاب کریں گے۔ جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے انعقاد کے حوالے سے 91 سالہ منڈیلا کے کردار کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ فیفا کے صدر Sepp Blatter جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما اور آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے ہمراہ ڈرا کی تقریب کا افتتاح کریں گے۔ کیپ ٹاون میں اس خصوصی تقریب کے موقع پر انگلینڈ کے معروف فُٹ بال سٹار ڈیوڈ بیکھم اور جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام کرکٹر مکھایا اینٹینی بھی موجود رہیں گے۔ لیکن ارجنٹائن فٹ بال ٹیم کے کوچ اور سابق کپتان ڈیگو میراڈونا اس تقریب میں شریک نہیں ہوسکیں گے کیونکہ ابھی حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں ''قابل اعتراض'' جملے کہنے پر اُن کے خلاف فٹ بال کی کسی بھی چھوٹی بڑی تقریب میں حصّہ لینے پر دو ماہ تک کی پابندی عائد ہے۔ تمام فٹ بال شائیقن کی نظریں فٹ بال ورلڈ کپ کی ٹرافی پر بھی مرکوز ہوں گی، جو 83 ہزار میل سے زائد کا عالمی سفر طے کر کے کیپ ٹاون پہنچی۔ کیپ ٹاوٴن پہنچنے سے قبل اس ٹرافی نے براعظم افریقہ کے تقریباً تمام ہی ممالک کا سفر کیا۔ دریں اثناء انگلینڈ کو ٹورنامنٹ کی آٹھ بڑی یعنی ٹاپ سیڈڈ ٹیموں میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے گروپ اسٹیج میں اسپین، برازیل، ارجنٹائن، جرمنی، ہالینڈ، عالمی چیمپیئن اٹلی اور میزبان جنوبی افریقہ کا مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا۔ ڈرا کے ذریعے 32 ٹیموں کو آٹھ مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا، یعنی ہر گروپ میں چار ٹیمیں رکھی جائیں گی۔ ٹاپ سیڈڈ ٹیمیں پاٹ ون میں ہیں۔ ہر گروپ کی ٹاپ دو ٹیمیں ہی ناک آوٴٹ اسٹیج کے لئے کوالیفائی کریں گی۔ ڈرا کی تقریب 90 منٹ تک جاری رہے گی اور اسے براہ راست ٹیلی وژن پر دکھایا جائے گا۔ ورلڈ کپ میں شامل بتیس ٹیمیں ہیں: جنوبی افریقہ، برازیل، اسپین، ہالینڈ، اٹلی، جرمنی، ارجنٹائن، انگلینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ، میکسیکو، ہونڈوراس، آئیوری کوسٹ، گھانا، کیمرون، نائیجیریا، الجزائر، پیراگوائے، چلی، یوروگوائے، فرانس، پرتگال، سلووینیا، سوئٹزرلینڈ، یونان، سیربیا، ڈنمارک اور سلوویکیا۔
عمران خان کی کراچی آمد کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کا صحافیوں پر تشدد کراچی(92نیوز)تحریک انصاف کے قائدعمران خان کی کراچی آمد کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا جس پر صحافیوں نے شدید احتجاج کیا ۔ تفصیلات کےمطابق عمران خان کی کراچی امد پر تبدیلی کے متوالوں کا جذبہ عروج پر تھا۔ حسب روایت پی ٹی آئی کے رہنما تو ائیر پورٹ چلے گئے اور اسٹار گیٹ استقبالیہ کیمپ میں بھپرے کارکنان رہ گئےجب کسی پر زور نہ چلا تو سونامی کے متوالے میڈیا پر چڑھ دوڑے ۔ میڈیا کے نمائندوں نےاحتجاج کیااور تحریک انصاف کی قیادت کی گاڑیوں کو روک لیا تو کچھ رہنماوں کو خیال آگیا اور میڈیا کو منانے چلے آئے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کے آزادی کے متوالے سونامی کارکنان نے میڈیا کو زدوکوب کیا ہو کراچی میں رہنماوں کی گروپ بندی سے ایسے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں ۔
فیصل دیوجی تاریخ کے ایک مایہ ناز پروفیسر ہیں اور نوآبادیاتی نظام، ہندوستان کی تاریخ پر خصوصی طور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کا نیا دور کے چیف ایڈیٹر رضا رومی کے ساتھ ایک انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے جس میں وہ علامہ اقبالؒ کے سیاسی نظریات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اقبال سیکولر ازم کے خلاف ضرور ہیں لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ نظریہ دین سے دور ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ مسیحیت ہی کے ایک فرقے کی سوچ کے مطابق ہے، جس میں دین اور دنیا کو دو علیحدہ خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ وہ اقبال کی شاعری، نثر اور فلسفے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس انٹرویو کو پڑھنے والے یقیناً ان کے خیالات سے متفق ہوں یا نہ ہوں، سیکھ بہت کچھ سکتے ہیں۔ اس انٹرویو کو انگریزی زبان میں اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ نیا دور کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ رضا رومی: آج ایک مرتبہ پھر میرے ساتھ ڈاکٹر فیصل دیوجی ہیں۔ ڈاکٹر دیوجی، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا اور آپ انہیں اس پلیٹ فارم پر ماضی میں دیکھ چکے ہیں، یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور دنیا بھر میں مانے ہوئے محقق ہیں، خصوصاً پاک و ہند پر۔ اور آج میں ڈاکٹر فیصل دیوجی سے اقبال پر بات کرنا چاہوں گا، یا علامہ اقبال، جیسا کہ ان کو پاکستان میں کہا جاتا ہے۔ ان سے اقبال کی سیاسی اور سیکولر سوچ پر بھی بات کریں گے۔ ڈاکٹر دیوجی، سب سے پہلے تو خوش آمدید۔ آپ کے حالیہ مقالے نے مجھے سوچ میں مبتلا کر دیا جو کہ آپ نے کچھ دنوں پہلے مجھ سے شیئر کیا تھا جس میں آپ نے سیکولر اسلام پر بات کی ہے۔ یہ ایک خاصہ متنازع موضوع ہے، خصوصاً پاکستان میں جہاں لفظ 'سیکولر' ایک گالی سمجھا جاتا ہے، یا قومی ریاست کے لئے ایک خطرہ مانا جاتا ہے۔ آپ بتائیے کہ آپ کیسے اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال ایک سیکولر مفکر ہیں اور آپ اقبال کی سیاسی فکر کو اپنی تحقیق کی روشنی میں کس طرح دیکھتے ہیں؟ فیصل دیوجی: ایک لمحے کے لئے یہ ایک طرف رکھیے کہ وہ سیکولر مفکر تھے یا نہیں لیکن اپنے دور اور ہمارے دور کی طرح ان کو بھی سیکولر ازم سے بطور ایک نظریے کے جھوجنا پڑا۔ ان کے مشہور و معروف لیکچرز کا مجموعہ جو کہ Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہوا، اس کے بالکل آغاز میں دیکھیں تو اقبال کہہ رہے ہیں کہ فلسفہ ہمیشہ آزاد ہونا چاہیے۔ یہ انسانی آزادی کی سیاست ہی کی طرح ہے اور اس آزادی کے ساتھ کوئی اگر مگر نہیں ہونی چاہیے۔ وہ مسئلہ جس کا اقبال کو سامنا ہے وہ یہ ہے کہ پھر اس آزادی کا اتنی ہی اہم معاشرتی استحکام کی خواہش کے ساتھ ملاپ کیسے ہو جس کی بنیاد ہی ادارہ جاتی روایت پسندی ہے، جس کے مطابق بہت سی چیزوں پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، مختلف قسم کی بااختیار قوتوں کا ہونا ضروری ہے، اور یہ کہ معاشرے میں عوامی سطح پر مقبول مذہبی خیالات ہمیشہ آزاد خیالی کی سیاست اور فلسفے کے تابع نہیں ہو سکتے؟ تو اقبال کے خیال میں ان دو چیزوں کا قریب لایا جانا ضروری ہے اور ان کے یہ مضامین انہی دو چیزوں کے ملاپ سے متعلق ہیں۔ اقبال دراصل ایک ایسی مختلف راہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ آزادی اور اختیار یا آزادی اور مروجہ خیالات کے درمیان جو بحث ہے، اس میں سے ایک درمیانی رستہ نکال سکیں اور یہ درمیانی رستہ نکالنے کا عمل ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے۔ سیاست کی فطرت ہی ایسی ہے، معاشرے کا خمیر ہی یوں گندھا ہے۔ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کوئی درمیانی رستہ ہے جو کہ اس سے مختلف ہے جو مغربی یورپ کے مفکرین سمجھتے آئے ہیں۔ لہٰذا ان کے سامنے سوال سیکولر ازم کی مخالفت یا حمایت کا نہیں ہے بلکہ اقبال آزادی اور اختیار یا آزادی اور مروجہ خیالات کے درمیان رشتے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ دونوں ہی چیزیں کسی بھی معاشرے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ رضا رومی: درست۔ آپ نے ان کے مضامین کی بات کی اور مجھے ہمیشہ یہ مضامین کئی حوالوں سے کافی انقلابی لگے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں پاکستان میں پلا بڑھا ہوں اور وہاں جو مروجہ اصولِ قانون ہے، اسی کو حتمی سمجھا جاتا ہے آپ اس سے آگے کا نہیں سوچ سکتے، اس پر سوالات نہیں اٹھا سکتے اور اقبال، غالباً اپنے چھٹے مضمون میں کہتے ہیں کہ ہمیں ان فقہوں سے آگے کا سوچنا چاہیے اور ایک نئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ تو میں اپنے پہلے سوال کی طرف واپس جاؤں گا کہ پھر آپ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں اقبال کا کیا مقام دیکھتے ہیں، خصوصاً بیسویں صدی کے اوائل میں جب سیاسی ہلچل عروج پر تھی اور دنیا کو نئے سیاسی مباحث درپیش تھے، اقبال کا اس پر کیا اثر ہے؟ کیونکہ پاکستان میں بچوں کو بھی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اقبال ایک اسلامی ریاست پاکستانی مسلمانوں کی ایک مذہبی شناخت ہونے کے داعی تھے۔ تو آپ جنوبی ایشیا کے سیاق و سباق میں اقبال کو کہاں دیکھتے ہیں؟ فیصل دیوجی: کچھ حوالوں سے اقبال اکیلے نہیں ہیں اور میں، یہ میرا پسندیدہ حربہ ہے، کہ ان کا تقابل گاندھی سے کرتا ہوں۔ یہ دونوں سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت سے اختلافات رکھتے تھے لیکن بطور دانشور کے یہ دونوں خاصے مماثل تھے۔ مثلاً گاندھی بھی ایک انتہائی مذہبی آدمی تھے اور مانتے تھے کہ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات سے ان کا، اور بلاشبہ اقبال کا بھی، جو مطلب تھا، وہ اس سے بہت مختلف ہے جو اقبال کے خود ساختہ پیروکاروں کا ہے۔ سیاست اور مذہب کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کے حوالے سے اقبال اور گاندھی دونوں کا ماننا تھا کہ سیاسی زندگی کو مذہبی زندگی سے علیحدہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سیاست مکمل طور پر مادیت پرست اور متشدد ہو جائے کیونکہ مذہب کے بغیر یہ نظریات سے عاری ہوگی۔ کیونکہ نظریے کو آپ فرد کی انفرادی زندگی تک محدود کرنے کی بات کر رہے ہیں لہٰذا وہ بنیادی طور پر مذہب نہیں، مذہب کو نظریے کے اظہار کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اسے انسان کی معاشرتی زندگی میں ایک کامل تصور کے طور پر دیکھتے تھے۔ لہٰذا مغربی معاشروں نے جس طرح مذہب اور سیاست کو مکمل طور پر علیحدہ کیا، اسے اقبال اور گاندھی دونوں ہی انتہائی نقصان دہ سمجھتے تھے، کیونکہ اس نے سیاست یا معاشرتی زندگی کو مکمل طور پر مادیت پرست بنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ان کے نزدیک تشدد جنم لیتا ہے تو یہ جو کامل تصورات ہیں، جو کہ مذہب فراہم کرتا ہے، یہ معاشرے میں کیسے رائج ہوں گے جو کہ ظاہر ہے کہ اُس دوسرے نظریے میں فرد کی معاشرتی زندگی سے بالکل غائب ہوگا۔ تو یہ وہ اصل مسئلہ ہے جو ان دونوں کو درپیش تھا لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال مغربی سیکولر خیالات پر اس لئے تنقید نہیں کر رہا کہ وہ مذہبی نہیں ہیں بلکہ وہ ان پر اس لئے تنقید کر رہا ہے کہ یہ بیحد مذہبی ہیں۔ یا جو اس کے نزدیک مکمل طور پر روحانی ہو چکے ہیں۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ فرد اور معاشرے کی ایک ایسی تقسیم کہ جس میں ہماری مادیت پرستی اور تشدد معاشرتی زندگی کا حصہ مد نظر رہے اور مذہب اور یہ بلند اخلاقیات ذاتی زندگی تک محدود ہیں، ایک تو یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ زندگی یوں تقسیم نہیں ہوتی اور دوسرا اس کے ساتھ اقبال کے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ تقسیم دراصل ایک مذہبی تقسیم ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ مسیحیت میں موجود راہبانہ تصور کی بنیاد پر استوار ہے کہ جس کے مطابق روحانیت اور مادّیت میں پہلے ہی تقسیم ہے۔ راہبانہ مسیحیت میں مادی زندگی اور مذہبی زندگی کو الگ الگ ہی دیکھا جاتا تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، مگر Reformation کے دوران اقبال کے مطابق ان کو ایک دوسرے سے جدا دیکھا جانے لگا۔ پھر اس کا ماننا ہے کہ یہ مادیت پر مبنی معاشرتی زندگی پر سیاست بالخصوص وطن پرستی کی سیاست کی بنیاد اٹھائی گئی جو کہ معاشرے کو اس بنیاد پر تقسیم کرتی ہے کہ فرد کی حیثیت اس کی جائیداد کی ملکیت کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ قومی ریاست کا تصور ہی قوم کی مشترکہ ملکیت پر استوار ہے اور یہ نجی یا ذاتی ملکیت کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتی ہے۔ جب کہ روحانیت ایسے میں صرف ایک ذہنی سکون کا ذریعہ بن جاتا ہے جو کہ آپ کو تنہائی میں میسر آتا ہے۔ اقبال اس کو ایک روحانی یا مذہبی تقسیم کے طور پر دیکھتا ہے۔ لہٰذا اسے مغربی سیکولر ازم سے مسئلہ یہ ہے کہ یہ مذہبی اور روحانی ہی ہے۔ تو جب آپ روحانیت پر ایک معاشرے کی بنیاد اٹھا رہے ہوں گے تو پھر آپ آزادی اور اختیار کے سوال کو مختلف انداز میں کیسے دیکھ سکیں گے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا سامنا اقبال بھی کرتا ہے، اور کچھ طریقوں سے گاندھی بھی۔ اور میں آپ کے اگلے سوال کی طرف بڑھنے سے پہلے ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ اقبال اور گاندھی دونوں کے نزدیک یہ تقسیم اس لئے نہیں ہے کہ کسی شخص کو اچانک ایک بڑا اچھا خیال آیا کہ ہمیں دنیا کو یوں ترتیب دینا چاہیے بلکہ یہ ایسا اس لئے ہے کہ نوآبادیاتی ادارے دنیا کو لامحالہ ایسا بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا گاندھی اور اقبال دونوں کا ماننا ہے کہ نوآبادیاتی ریاست جو کہ خود کو ایک غیر جانبدار تیسرے فریق کے طور پر پیش کرتی ہے، جو کہ بھارتی معاشرے کے مختلف اور باہم متصادم مفادات کے درمیان ایک منصف تقسیم کار ہے، یہ معاشرتی رشتوں کا ایک ایسا تصور پیش کرتی ہے جو خود معاشرے کو مذہبی گروہوں کی صورت تقسیم کرتی ہے، مثلاً ہندو اور مسلم، یا سکھ، مسیحی اور دیگر جو بھی گروہ ہیں، جو کہ صرف ریاست کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی نوآبادیاتی طاقت کا راز ہے کہ ریاست خود کو ناگزیر بنا لے تاکہ بھارت میں اس کے بغیر مختلف گروہوں کے آپسی تعلقات ممکن ہی نہ رہیں۔ اور یہ ایک طرح سے سیکولر ازم کی ہی ایک شکل تھا جو کہ انفرادی زندگی کو معاشرتی زندگی سے علیحدہ کر کے دیکھتا تھا اور ان گروہی اور شخصی مفادات کا تحفظ ریاست کے بغیر ناممکن بنا دیا گیا جو کہ پارلیمنٹ اور مختلف اداروں کی صورت میں موجود تھیْ ان دونوں افراد کے نزدیک یہ ایک انتہائی متشدد صورتحال تھی کیونکہ اس سے مذہب کے گروہی مفادات تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں جو کہ ان کے خیال میں نہیں ہونا چاہیے تھا اور دوسرے یہ مذاہب کا انحصار مکمل طور پر ریاست پر بنا دیتا ہے کہ جس میں یہ ایک دوسرے سے تعلق ہی صرف ریاستی سرپرستی میں رکھ سکتے ہیں اور وہ بھی متحارب انداز میں کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہ رہے۔ لہٰذا گاندھی نے تحریک خلافت، جو کہ ترکی میں خلافت کی حمایت میں عالمِ اسلام کا تصور ذہن میں رکھتے ہوئے چلائی گئی، کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا کہ جس کے ذریعے ہندوستان کے مختلف مذاہب ایک دوسرے سے ریاست سے مبرا ہو کر تعلق پیدا کر سکیں۔ اس نے کہا کہ ہندو اور مسلمان کسی معاہدے کے تحت جڑے ہوئے نہیں۔ یہ تو ایک نوآبادیاتی نظام کرتا ہے، اس کا طریقہ واردات ہی یہ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دوران تعلق کسی معاہدے کے تحت نہیں کیونکہ معاہدہ کاروباری معاملات میں ہوتا ہے اور یہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی آپ کا ایک دوسرے سے مفاد ختم ہوتا ہے، تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ مذاہب ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں، بغیر کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے، مگر یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے بغیر ایک مذہب میں ایمان رکھے جڑے ہوئے ہیں۔ تو گاندھی کا کہنا ہے کہ تحریک خلافت بہت ضروری ہے کیونکہ وہ مسلمان جو اس کی حمایت کر رہے ہیں، وہ یہ دکھاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم تصور کے حصول کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں۔ شاید تمام مسلمان ایک عظیم تصور کی خاطر نہ کر رہے ہوں لیکن یہ تحریک سیاسی طور پر تو کوئی عملی منطق نہیں رکھتی تھی۔ چونکہ یہ ایک عظیم تصور کی خاطر چلائی جا رہی ہے تو جو ہندو اس کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک عظیم تصور کے موجود ہونے کے تصور سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ خلافت کو بچانے میں تو ایمان نہیں رکھتے، یہ صرف اپنے ہمسایوں کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایک ایسے تصور کے لئے جس میں ان کے ہمسائے یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہمسائیگی، دوستی اور قربانی کے جذبے کے تحت ان کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح مسلمان جو ہندوؤں کی دوستی چاہتے ہیں، وہ یہ قربانی دیں، اور بلاشبہ خلافت رہنماؤں نے گاندھی کو پیشکش بھی کی، کہ وہ گائے کی قربانی کو چھوڑ دیں گے کیونکہ یہ ہندوؤں کے لئے باعثِ اشتعال تھا۔ گاندھی نے ان کو جواب دیا کہ یہ کسی بھی طرح سے کوئی contract نہیں ہے۔ ہم گائے کے بدلے آپ کو خلیفہ نہیں دے رہے۔ اگر آپ ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے گائے کی قربانی چھوڑنا چاہتے ہیں تو آپ ایسا ضرور کریں۔ مگر گائے کی قربانی کرنا چھوڑنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ مسلمان بھی گائے کے مقدس ہونے میں ایمان رکھتے ہیں، لہٰذا دونوں معاملات میں ہندو خلافت میں یقین رکھے بغیر اس کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ مسلمان گائے کو مقدس سمجھے بغیر اس کی قربانی چھوڑ رہے ہیں۔ یہ دونوں مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں۔ گائے اور خلیفہ کا تبادلہ اس لئے ہو رہا ہے کہ یہ بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ یہ ایک زمرے میں نہیں آتیں لیکن یہ ایک زمرے میں آ جائیں گی اگر آپ اسے نوآبادیاتی نظام کے تحت ایک غیر جانبدار فریق کی بطور ریفری کے حیثیت تسلیم کر لیں کہ وہ سب فریقین کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ یہاں دو گروہ ہیں جو ایک دوسرے سے نظریات کی بنیاد پر تعاون کر رہے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے مذاہب میں ایمان نہیں رکھتے اور ان کا تعلق کاروباری نوعیت کا نہیں ہے بلکہ یہ دوستی اور محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے تو یوں آپ ایک غیر جانبدار تیسرے فریق کے طور پر نوآبادیاتی ریاست کے بغیر بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور کر سکتے ہیں جہاں یہ مذہبی گروہ صرف گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے سے نہیں جڑے ہوئے۔ رضا رومی: صحیح کہا آپ نے، یہ ایک بہت دلچسپ نقطہ نظر ہے لیکن آپ نے ایک بہت اہم بات کہی ہے کہ کس طرح مذہبی گروہ مفادات کے گرد گھومنے لگتے ہیں اور ریاست پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔ کیا یہی کچھ 1947 کے بعد والے برصغیر میں نہیں ہوا جہاں، خصوصاً پاکستان میں، ایسے مذہبی گروہ موجود ہیں جو ریاست کی چھتر چھایا میں پروان چڑھتے ہیں، اور ایسا بڑی حد تک بھارت میں بھی ہے۔ کیا یہ اقبال اور گاندھی کا خوف ہی حقیقت میں بدلتا دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں؟ فیصل دیوجی: ہاں یہ درست ہے، بلکہ ان کی اپنی زندگیوں میں بھی یہ دونوں ہی سمجھتے تھے کہ ہندوستان کو بچانے کے لئے، اور جب میں ہندوستان کہتا ہوں، تو میں برطانوی ہندوستان کی بات کر رہا ہوں۔ جس میں آج کے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں شامل ہیں، کہ نوآبادیاتی ریاست کا کردار بہت محدود ہو، جو عوام کی زندگیوں پر اثر انداز نہ ہو اور مفادات پراپرٹی کی بنیاد پر طے ہوں، یعنی آپ کا مفاد اس چیز میں ہے جو آپ کی اپنی ہے، خواہ یہ آپ کا اپنا جسم یا شناخت ہی کیوں نہ ہو، جس میں آپ کا ذاتی مفاد ہو سکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان، کسی حد تک غربت کے باعث، ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں تمام معاشرتی تعلقات ایک ہی زاویے سے نہیں دیکھے جا سکتے تھے۔ اسی لئے گاندھی اور اقبال دونوں کے مطابق اس قدر قربانی کا جذبہ نظر آتا تھا جو کئی مرتبہ غیر معقول ہوتا تھا، جیسا کہ تحریکِ خلافت۔ اگر اس کو مفاداتی سیاست کی نظر سے دیکھا جائے، کیونکہ جدید ہندوستان میں سماجی تعلقات محض جنس کی ملکیت سے جانچے نہیں جا سکتے تھے لہٰذا مفاداتی گروہ اتنی آسانی سے اور اتنی مضبوطی سے قائم نہیں کیے جا سکتے تھے مگر یہ درست ہے، میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج کے حالات میں ایسے مذہبی گروہوں کا تصور بھی محال ہے جو کہ مفاداتی نہ ہوں۔ یہ ان کے سیاسی وجود کے لئے آج ناگزیر ہو چکا ہے۔ پھر بھی میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام سماجی تعلقات کو اسی نکتہ نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا، اور یہی وجہ ہے کہ ان کو اکثر قربانی کا جذبہ بھی ابھارنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار یہ مثالیت پسند عناصر بہت متشدد اور نقصان دہ بھی ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ مثالیت پسند پھر بھی رہتے ہیں، اس کی ایک مثال خودکش حملہ آور ہیں۔ جو کہ مثالیت پسند رہتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھرلنا چاہیے کہ یہ تمام اعمال خواہ کتنے ہی کراہیت آمیز ہوں، ان میں کہیں نہ کہیں ایک ابھار موجود رہتا ہے جو کہ منطقی اور گروہی مفادات پر مبنی سیاست بدل نہیں سکتی جن کا مقصد محض ہر حال میں اپنی ملکیتی جنس کو بڑھانا ہوتا ہے، چاہے وہ آپ کی اپنی ذات ہو، آپ کا مذہب یا نظریہ ہو یا آپ کی کوئی حقیقی جائیداد، یہ سب چیزیں انسان اپنی ملکیت کے زاویے سے دیکھ سکتا ہے۔ اقبال اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، ان کے نزدیک سامراجیت اور وطن پرستی کی بنیاد ہی مادّی شے کی ملکیت پر ہے بلکہ وطن پرستی شاید ملکیت کے قانون کو مزید جابرانہ بناتی ہے۔ کیونکہ قومی ریاست خود مشترکہ ملکیت کے تصور پر کھڑی ہے۔ رضا رومی: صحیح۔ اقبال کی مذہبی اور سیاسی سوچ کی طرف واپس آتے ہیں۔ فیصل، آپ نے انہی موضوعات کو ان کی شاعری میں بھی دیکھا ہے اور ان پر اکثر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اقبال نے بالکل متضاد باتیں کر رکھی ہیں یعنی ایک دن آپ لینن کی تعریف کر رہے ہیں، اگلے روز آپ مذہبی استعارے کی طرف واپس آتے ہوئے مغرب کا رد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کی شاعری میں سے اپنی پسند کے موضوعات کو اٹھایا جاتا ہے جو کہ مغرب مخالف ہے، مغربی سیکولر سوچ کے خلاف ہے اور یہی اشعار سیکولر ازم کو رد کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ تو اس حساب سے آپ اقبال کی سوچ کیا دیکھتے ہیں اور آج کے پاکستان میں اس کی کیا جگہ دیکھتے ہیں، کیونکہ آپ پاکستان پر بھی تحقیق کر چکے ہیں تو میں آپ کی اس بارے میں رائے جاننا چاہوں گا۔ فیصل دیوجی: دیکھیے، میں نہیں سمجھتا کہ ان کی باتوں میں بہت زیادہ تضاد ہے۔ ان کی سوچ میں شروع سے ہی ایک تواتر ہے گو کہ وہ اپنے بیان اور الفاظ میں تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ ضرور لائے ہیں لیکن آپ ان کے ڈاکٹرل مقالے میں جو بھی موضوعات دیکھتے ہیں The Development of Metaphysics in Persia جو کہ انہوں نے 1908 میں لکھا اور اس کا تقابل جاوید نامہ سے کریں جو کہ ان کے آخری وقت کی تصنیف ہے اور فارسی شاعری کی کتاب ہے، یہ مختلف موضوعات پر بات مختلف زبانوں میں کرتے ہیں۔ فارسی میں لکھتے ہوئے ان کا موضوع ہندوستان ہے، وہ تاریخِ ہندوستان پر بات کرتے ہیں، مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، مثلاً بدھا، ہندو مت، ویدک دور، سنسکرت عبارت کے موضوعات ان کی فارسی شاعری میں اردو شاعری کے مقابلے میں کہیں زیادہ آتے ہیں، جو کہ بہت دلچسپ ہے، لہٰذا میں کہوں گا کہ وہ ایک پیچیدہ شخصیت ہیں، لیکن ان کی سوچ میں تضاد نہیں ہے۔ گو کہ مختلف زبانوں میں ان کا کام ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک سیکولر ازم کا تعلق ہے تو ہاں، وہ یورپی سیکولر ازم کے خلاف ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، لیکن وہ جزوی طور پر اس کے خلاف اس لئے بھی ہیں کہ یہ حد سے زیادہ مذہبی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ مذہبی اور دنیاوی کے درمیان جو فرق یہ قائم کرتا ہے، اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ اور یہ مسیحیت میں تاریخی سدھار کا ایک نتیجہ تھا، لہٰذا وہ آزادی اور محکومیت کے درمیان تعلق کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ ایک راستہ یہ بھی اختیار کرتے ہیں، کہ یورپی نظریہ سیکولر ازم انفرادی اور اجتماعی میں واضح طور پر فرق کرتا ہے لیکن اگر ہم انہی سماجی تعلقات کو مکانی کی جگہ زمانی زاویے سے دیکھیں اور اقبال کی شاعری میں زمانے سے متعلق بہت بات کی گئی ہے، لہٰذا وہ تجرباتی طور پر سمجھنے کے لئے دو مثالیں دیتا ہے۔ ایک مثال شیعہ کی اور ایک سنی کی ہے، وہ اس بنیاد پر کوئی فرق نہیں کر رہا۔ شیعہ مثال یہ ہے کہ بارہویں امام کے غائب ہونے کی صورت میں آپ ایک پرفیکٹ مذہبی سماج کو جنم نہیں دے سکتے۔ ایک کامل نظام ان کی غیر موجودگی میں تصور کرنا بھی ایک گناہ ہوگا کیونکہ صحیح اسلامی ریاست ایک امام ہی معاشرے کو بنا سکتا ہے۔ لہٰذا جب تک امام واپس نہیں آ جاتے، تب تک ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو کہ مذہبی طور پر کامل نہیں لیکن یہ ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشرہ بھی ہے جو کہ انسانی آزادی کا منظر پیش کرتا ہے، کیونکہ یہی چیز انسان کو آزاد کرتی ہے۔ لہٰذا یہ مذہب کے ہونے اور نہ ہونے کو مکان کی جگہ زمان میں تلاش کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ سنی نظریہ وہ کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ چونکہ پیغمبرِ اسلامؐ آخری پیغمبر ہیں، مسلم اعتقاد کے مطابق، براہ راست الوہی ابلاغ، جو دنیاوی معاملات پر وحی کی حیثیت سے ہو، پیغمبرِؐ اسلام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبرِؐ اسلام کے بعد، ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جو کہ ایک طرف غیر کامل ہے کیونکہ پیغمبرؐ موجود نہیں لیکن یہ انسان کو آزادی بھی دیتا ہے اور اقبال ختمِ نبوتؐ کو اسلام کا بہترین تحفہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے اسلام الوہی اختیار کو لمحہ موجود میں ختم کر دیتا ہے اور یوں یہ پہلی مرتبہ بنی نوعِ انسان کو ایک تاریخی کردار عطا کرتا ہے۔ لہٰذا شیعہ اور سنی دونوں ہی مذاہب میں غیر کاملیت آزادی کی ایک شرط ہے۔ دونوں ہی معاملات میں وقت یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس معاملے میں آزادی ہے اور کس میں نہیں یا کس معاملے میں اختیار حاکم کا ہے اور کس میں آزادی۔ اور آپ نے ان کی شاعری کی بات کی تو اس میں بھی غیر کاملیت اور نامکمل ہونے کے خیال پر جابجا بات دکھائی دیتی ہے (ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے)۔ حافظ کے ایک مشہور مصرعے سے اس کی شروعات ہوتی ہے۔ ستارے اور آسمان گھومتے ہیں لیکن کبھی ملتے نہیں، جیسے دو محبت کرنے والوں کے درمیان فراق ہو۔ اقبال کے نزدیک غیر کاملیت بیک وقت خوشی اور غم کا سامان لیے ہے لیکن یہ آزادی بھی عطا کرتی ہے کیونکہ آزادی ہوتی ہی غیر کامل ہے۔ آپ کبھی مکمل اختیار آزادی میں حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ایک طرف ختمِ نبوتؐ اور دوسری طرف بارہویں امام کے غائب ہونے سے انسان کو آزادی عطا کی گئی۔ اور ان کی شاعری میں اکثر ایسے کردار بھی آتے ہیں، مثلاً خود شیطان جو کہ اس آزادی کے نمائندے ہیں۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam کے لیکچرز میں وہ آدمؑ کی کہانی بیان کرتے ہیں کہ جب شیطان نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، اور ایسا کرنے میں وہ بیک وقت اللہ کا حد سے زیادہ وفادار بھی ہے، کیونکہ اللہ نے اس کو اپنے سوا کسی کے آگے سجدہ کرنے سے منع کر رکھا ہے اور ساتھ میں وہ خدا کے حکم کا انکار بھی کر رہا ہے۔ تو یہ آزادی کی ایک شکل ہے، اور دوسری شکل آدمؑ کی حکم عدولی ہے، کیونکہ انہوں نے بھی خدا کا حکم نہیں مانا، ایک ممنوعہ پھل کھایا، اور جنت سے نکالے گئے۔ اقبال کے نزدیک یہ بغاوت کی نہیں، انسانی آزادی کی علامت ہے کہ حکم کا انکار ہی آزادی کی ظاہری شکل ہے۔ وہ یہ سب کچھ بیان کرنے کے لئے اسلامی استعارے کا سہارا لیتے ہیں۔ نہ صرف اس لئے کہ یہ مسلمان پڑھنے والوں کے لئے قابلِ قبول بن جائے بلکہ وہ انہیں دکھانا چاہتے تھے کہ ایسی سوچ پہلے ہی موجود ہے۔ یہ ان کی اپنی اختراع نہیں ہیں۔ رضا رومی: اسلامی روایت کے اندر بھی، درست فیصل دیوجی: یہ نئی چیز نہیں تھی، خصوصاً تصوف اور شاعری میں یہ اختلافی خیالات بڑی حد تک رائج تھے۔ تو خدا ایک طرف تو محبوب ہے لیکن جیسا کہ اردو اور فارسی شاعری میں ہوتا ہے کہ آپ اپنے محبوب سے لڑتے جھگڑتے ہیں، اس کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، تو یہ ایک بہت قربت کا، وفا کا اور جذباتی تعلق ہے لیکن یہ ساتھ ساتھ ایک ایسا تعلق بھی ہے جس میں غیر کاملیت، ناتابعداری اور آزادی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تکلیف بھی اپنے اندر خوبصورتی لیے ہے۔ اور اقبال کی نظر میں خوبصورتی غیر کامل ہوتی ہے۔ غیر کامل ہونے سے میری مراد یہ نہیں کہ خوبصورت چیز بدصورت ہے بلکہ غیر کامل ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ اس سطح پر نہیں پہنچے جہاں آپ مکمل ہو جائیں، آپ ابھی سفر میں ہیں، اور یہ سفر خوبصورت ہے۔ اور انسان اسی خوبصورتی کو پا سکتا ہے۔ تو اقبال اپنی فلسفیانہ اور سیاسی تحاریر اور شاعری دونوں میں آزادی کے مختلف تصورات سے جھوجھ رہا ہے۔ زمانی طور پر، مکانی طور پر نہیں۔ شاعری اور مذہب کے استعارے میں، نجی اور اجتماعی زندگی یا سیکولر اور گروہی پیرائے میں نہیں۔ یہ تمام چیزیں ان کی تمام تحاریر میں موجود ہیں۔ آپ کو بس دیکھنے کی ضرورت ہے۔ رضا رومی: یہ بہت دلچسپ ہے، اور اس لئے بھی کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی روایت کے اندر بھی نہ صرف سوچنے کی گنجائش موجود ہے بلکہ جیسا کہ اقبال اور دوسروں نے بھی بیان کیا ہے کہ خود شناسی اور انسان کے اس غیر کامل سفر کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی گنجائش ہے تو میرا آخری سوال یہ ہے کہ آپ اس اصطلاح 'سیکولر اسلام' کو کیسے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے، خصوصاً لسانی اعتبار سے۔ میں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہوں گا کیوںکہ ہمارے دیکھنے والے اس میں یقیناً بہت دلچسپی لیں گے کیونکہ اسلام کی پوری دنیا میں ایک ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ یہ منطق سے دور ہے اور یہ سیکولر ازم کے خلاف ہے، اور یہ خیالات عوام میں اس حد تک رائج ہو چکے ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی مشکل ہے۔ تو یہی میرا یہاں پر آخری سوال ہوگا۔ فیصل دیوجی: میں اس پر بات نہرو رپورٹ سے شروع کروں گا۔ 1929 میں نہرو رپورٹ آئی جو کہ مستقبل کے بھارتی آئین کا ایک پلان ہے۔ اقبال اس پر تنقید کرتا ہے اور وہ جس زبان میں اس پر تنقید کرتا ہے، وہ بہت دلچسپ ہے کیونکہ وہ نہرو رپورٹ کی جس چیز سے اتفاق کر رہا ہے کہ وہ ایک حساب سے سیکولر ہے اور اس کے لکھنے والے اس چیز سے دور ہیں جسے وہ فرقہ واریت یا گروہی سیاست کہتے ہیں یعنی نہرو کی مذہبی وفاداری پر بات ہو رہی ہے، اس کی قومی پرستی کی نہیں لیکن وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھیں، ہم نہرو کے مذہبی رجحان کے خلاف ہیں، لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قوم پرستی بھی اتنی ہی تنگ نظر ہوتی ہے، جتنی کہ بین الاقوامی وفاداریاں ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ ان سب چیزوں کو ایک دوسرے کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں، بجائے ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کے اور اقبال اسے بالکل ٹھیک سمجھتا ہے، گروہی سیاست اور قوم پرستی ایک دوسرے کا تسلسل ہیں، ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ میں اس کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ آزادی کے وقت تک یہ لفظ 'سیکولر ازم' ہندوستان میں بہت زیادہ مقبول نہیں تھا۔ بحث دراصل قومی پرستی اور مذہب کے پیرائے میں کی گئی گروہی سیاست کے درمیان تھی۔ آزادی کے بعد سیکولر ازم ایک بڑے نظریے کے طور پر سامنے آیا۔ جب ہم آج اس بحث کو فرقہ واریت بمقابلہ سیکولر ازم کے طور پر دیکھتے ہیں جب آپ قوم پرستی اور مذہبی گروہی سیاست کو دیکھتے ہیں۔ تو وہ ایک دوسرے کا تسلسل ہیں، ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ یہاں معاملہ محض یہ تھا کہ کون کس پر مقدم ہے۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی مباحث کی زبان بدل چکی ہے۔ دوسری بات میں یہ کہنا چاہوں گا، اور اقبال یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک سیکولر ریاست کے بننے کے بعد ہی، اور یہ یاد رہے کہ نوآبادیاتی ہندوستان سیکولر تھا، وہ یوں کہ ریاست کہتی تھی کہ وہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرے گی اور ان سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرے گی۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو اس وقت برطانیہ میں نہیں تھی۔ تب کیا، برطانیہ میں تو آج بھی ایک ریاستی چرچ Anglican Church ہے اور ریاست کی سربراہ، یعنی ملکہ عالیہ، اس چرچ کی بھی سربراہ ہیں۔ اور یہ مسیحیوں کے ایمان کی محافظ ہیں، ہندوستان میں ایسا نہیں تھا۔ لہٰذا برطانویوں نے ہندوستان میں سیکولر ازم کو برطانیہ سے پہلے متعارف کروایا۔ یہ ریاست اس حساب سے بھی سیکولر تھی کہ تعزیراتِ ہندوستان جو کہ لارڈ میکالی نے لکھا تھا، اس میں توہینِ مذہب کا کوئی قانون نہیں تھا جو کہ برطانوی قانون کا حصہ تھا، بلکہ ماضی قریب تک رہا ہے۔ میرے خیال میں 1990 کی دہائی تک یہ موجود تھا اور اس قانون میں توہینِ مذہب کا قانون اس لئے نہیں تھا کیونکہ یہ ایک غیر مذہبی ریاست تھی جسے آپ سیکولر ریاست بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ سیکولر ریاست ہی تھی جس کی وجہ سے مذہب کی آزادی تھی کیونکہ اس نے مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق ختم کر دیا تھا اور اس نے ایک طرح سے مذہب کو آزاد کر دیا۔ ایسا ہی امریکہ میں اٹھارہویں صدی میں اس کی آزادی کے وقت سے ہے۔ چونکہ وہاں مذہب آزاد ہے، اسی لئے یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایک انتہائی مذہبی معاشرہ ہے، اور برطانیہ نہیں۔ یہاں پر دوسرے ملکوں سے آئے مہاجرین مذہبی ہیں۔ جو یہاں کے رہنے والے انگریز ہیں، وہ اتنے مذہبی نہیں۔ تو ایسا مذہب جو خود کو سیکولر ازم کی ضد کے طور پر پیش کرتا ہےم وہ دراصل خود سیکولر ازم ہی کی پیداوار ہوتا ہے۔ یہ سیکولر ازم کی پیداوار یوں ہے کہ یہ سیاست سے علیحدہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور گاندھی اور اقبال کے لئے یہ افسوسناک ہے لیکن وہ جس تعلق کی بات کر رہے ہیں، اس میں ایسا نہیں ہے کہ تمام سیاسی معاملات مذہبی قانون کے تابع ہوں گے۔ وہ مذہب کو محض اس حد تک ریاستی امور میں شامل کرنا چاہتے تھے کہ وہ اس کے مقدس اصول مستعار لے سکیں اور ان کے گرد ایک معاشرہ خود بخود تشکیل پائے۔ لہٰذا یہاں محض ہندو، یا چونکہ ہم پاکستان کی بات کر رہے ہیں، تو مسلمانوں کی حاکمیت کے ختم ہو جانے کا مسئلہ ہے۔ جب تک مسلمان بادشاہ، شہزادے یا شہنشاہ تھے، وہ مذہبی طبقے کو قابو میں رکھتے تھے یا کم از کم رکھنا چاہتے تھے۔ اور ان کی حکومتیں سیاسی منطق کی بنیاد پر ہی چلتی تھیں۔ وہ صرف مذہب کے تابع رہ کر نہیں چلائی جاتی تھیں، بلکہ اس کے تابع بالکل نہیں تھیں۔ شریعت اپنی جگہ تھی اور ساتھ ہی قانون بھی موجود تھا اور قانون سے یہاں ہماری مراد وہ قانون ہے جو مذہبی نہیں، شاہی ہے۔ کچھ معاملات میں شریعت سے مدد لی جاتی تھی لیکن شریعت کے تابع یہ حکومتیں نہیں تھیں۔ مثلاً مغلوں کی سیاسی تاریخ ایک منگول دیوی سے جا ملتی ہے۔ وہ مسلمان تھے لیکن وہ پھر بھی اس دیوی کا نام لیتے تھے اور چنگیز خان و دیگر حکمرانوں کے بھی، تو یہ ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سے چلی آ رہی تھیں اور یہ جانتے بوجھتے کیا جاتا تھا کیونکہ وہ ریاست کو مذہبی قوانین کے تابع نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ یہ ایک ایسی دیوی تھی جس میں ان کا ایمان نہیں تھا جیسے مسلمان گائے کو مقدس نہیں سمجھتے لیکن اس کے ذبح کرنے سے خود کو روکنے پر تیار ہیں تو یہ جو نو آبادیاتی نظامی سے پہلے کی بادشاہتیں تھیں، خواہ دوسرے معاملات میں یہ کتنی ہی اچھی یا بری رہی ہوں۔ ان کے جانے سے ہی مذہب جنوبی ایشیا میں آزاد ہوا ہے۔ آج ہندو مت اور اسلام جس حالت میں ہیں، وہ ان کے جانے سے ہیں اور یوں یہ مذاہب سیکولر ازم کی پیداوار ہیں۔ اس سیکولر ازم کی پیداوار جس کے خلاف آج ان کے لیڈران صف آرا ہیں۔ اور یہ بہت عجیب بات ہے، اگر آپ غیر مذہبی اقتدار کی تشریح چاہتے ہیں تو آپ صرف نو آبادیاتی نظام سے پہلے موجود، ہمارے سیاق و سباق میں مسلم، بادشاہتوں کو دیکھ لیجئے، صرف جنوبی ایشیا میں نہیں، پوری دنیا میں جتنی بھی نئی تحقیق ان بادشاہتوں پر سامنے آ رہی ہے، یہی بتاتی ہے۔ مثلاً سلطنتِ عثمانیہ میں خلافت کی قانونی ساکھ اسلامی قانون سے نہیں بلکہ یہ تصوف اور فلسفے سے مستعار لی جا رہی ہے اور یہ سب باتیں اس موضوع پر تازہ ترین تحقیق سے ثابت ہیں۔ تو میرے خیال میں آج مذہب جس حالت میں ہے، اس کی ذمہ داری نو آبادیاتی نظام سے پہلے کی بادشاہتوں کے ختم ہونے پر ہے۔ اور اس پرانی بادشاہت میں ہمیں وہ سیاسی زبان ملتی ہے جو کہ سیاست قبل از جدیدیت میں استعمال ہوتی تھی اور اب ہم میں موجود نہیں۔ میں یہاں ان سلطنتوں یا ان شہزادوں کی شان بیان نہیں کر رہا۔ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسی سیاسی زبان تھی جو اب متروک ہے۔ ان کے محض چند حصے ہمارے وقت تک برقرار رہ پائے ہیں۔ ہم آج بھی نظام، حکومت یا سلطنت، جو کہ اب پاکستان میں جمہوریت کے دور میں اتنا زیادہ استعمال نہیں ہوتا، لیکن یہ چند حصے ہیں اور اس زمانے کی سیاسی زبان کا مکمل احاطہ نہیں کرتے۔ ہمارے پاس اس زمانے کی سیاسی زبان موجود نہیں۔ اور مذہبی زبان جو کہ اس سیاسی زبان کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے۔ وہ اصل میں ایسا کر نہیں سکتی، یہ کام انجام دینا اس کے بس میں نہیں۔ یہ اس زبان کی آزاد حیثیت تھی جو اقبال یا ان جیسے مفکرین کے لئے دلچسپی کا باعث تھی کیونکہ وہ نو آبادیاتی نظام کے خلاف تھے اور وہ سیاست کو ایک آزادی کا رستہ سمجھتے تھے کیونکہ جدید دور میں سیاست ہی وہ ذریعہ ہے جس سے آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور فلسفہ بھی سیاست سے جڑا ہے کیونکہ یہ بھی انسان کی آزادی اور اس کی فکر کی آزادی کو موضوعِ بحث بناتا ہےْ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں، سیاست اور فلسفہ۔ اور اسی لئے اقبال بار بار ان کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ اور اس کے نزدیک شاید شاعری بھی، خصوصاً ان کے انداز کی شاعری جب کہ مذہبی اختیار اور عوامی رجحانات اس صورت میں جڑتے ہیں۔ جب آپ رجعت پسند سوچ کے حامل ہوں اور یقیناً سیاسی اختیار بھی موجود ہے، اور یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ لیکن اقبال کی خواہش تھی کہ یہ ایک دوسرے سے بالکل ایسے جدا نہ ہوں، جیسے یورپی سیکولر ازم نے کیا بلکہ ان سب کا تعلق برقرار رہے اور ان کے درمیان موجود فرق بھی ملحوظ رہے۔ ایک ایسا نظام جس میں ان کی بقائے باہمی ممکن ہو سکے۔ ایک ایسے انداز میں کہ یہ ایک دوسرے سے قانونی طور پر نہ جڑ جائیں۔ جواہر لعل نہرو کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے کہا کہ جیسے یورپی سیکولر ازم اپنی فطرت میں مابعد الطبیعیاتی ہے کیونکہ یہ مادّی اور روحانی کے درمیان تقسیم پر مبنی ہے۔ وہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب آپ تاریخ میں شیخ الاسلام کے عہدے کی مثال کو دیکھیں جو کہ وزیر کے عہدے سے الگ ہے، تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ قبل از جدیدیت مسلم بادشاہتوں میں فرائض کس طرح تقسیم کیے گئے۔ شیخ الاسلام اسلام کے لئے ذمہ دار ہے، وہ وزیر کے عہدے پر نہیں۔ وہ سلطان یا خلیفہ نہیں۔ اقبال نہرو کو کہتے ہیں کہ یہ ایک اختیارات کی تقسیم ہے۔ یہ مابعد الطبیعیاتی نہیں۔ وہ نہرو کو یہ کہہ رہے ہیں کہ قبل از جدیدیت مسلم ریاست میں یہ ایک صاف تقسیم ہے کہ کیا چیز اسلامی ہے اور کیا غیر اسلامی۔ یہ تقسیم ایسی ہے جسے آپ سیکولر کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے چھپی منطق مغربی سیکولر ازم کی طرح مذہبی نہیں۔ یہ ان کا استدلال ہے، ہمیں اس کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ وہ سمجھانا کیا چاہ رہے تھے۔ وہ کچھ اور نہیں صرف آزادی کے معنی سمجھانا چاہ رہ تھے۔ سیاسی معاملات میں آزادی، سوچ کی آزادی، فلسفیانہ اور شاعرانہ آزادی۔ رضا رومی: بہت شکریہ، فیصل۔ یہ ایک مسحورکن گفتگو تھی۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے دیکھنے والوں نے اس سے بہت لطف لیا ہوگا۔ یہاں بنیادی بات سوچ کی آزادی کی ہے، اور مجھے امید ہے کہ پاکستان اور پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا، ایسے لوگ جو اسے سنیں گے، اقبال کے بارے میں آپ کی کہی باتوں کو یاد رکھیں گے۔ اور ان پر عمل کرتے ہوئے ان کا اطلاق کرنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ پاک لعنت بھیجتے ہیں ایسے مرد و عورت پر | Geo Urdu اللہ پاک لعنت بھیجتے ہیں ایسے مرد و عورت پر Posted on May 19, 2015 By Zulfiqar Ali تارکین وطن Sanan Ibny Majah موجودہ زمانے میں ایک نئی جہت سامنے آئی ہے جس میں کچھ مرد و حضرات اکٹھے ہو کر کسی کو بھی پریشان کرنے کیلیۓ سستے طریقے رواج دے رہے۔ جس میں خواتین کئی کئی ناموں سے جن میں مردانہ نام شامل ہیں استعمال کرتی ہیں۔ آئی ڈی بنا کر احمقانہ اور اپنی ذہنی سوچ کے مطابق خبریں بھیجتیں۔ افسوس نام کے ہی سہی ہم آج مسلمان تو ہیں کاش یہ جان سکتیں کہ ایسی عورتوں اور مردوں پر اللہ پاک کی لعنت ہے جو اللہ کی بنائی ہوئی جسامت کو تشخیص کو محض چند خیالات کی وجہ سے تبدیل کر کے انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے۔ ایسے لوگ صحتمند مقابلہ کرنے سے گھبراتے بزدلانہ انداز استعمال کرتے ان کیلیۓ اجتماعی ہدایت کی دعا کی اشد جہاد بالقلم اور جہاد قرآن کے ساتھ اب یہی ہے کہ حق لکھنا ہے کہنا ہے اور انشاءاللہ اللہ پاک کی خاص مدد اور رحمت شامل حال ہے۔ دنیاوی فائدے کیلیۓ نہ کسی سے مرعوب ہونا ہے اور نہ کسی سے ڈرنا ہے کیونکہ یہ سب لوگ خود کچھ بھی نہیں نہ علم والے نہ عمل والے نہ قرآن والے تو ان کی جانب سے کسی بات کا کیا اثر؟ اس لئے آخرت برباد نہیں کرنی اللہ پاک اس دنیا کو نہیں قبر کی تاریکی اور حساب کتاب کی سوچ کو راسخ کر کے ہمیں درست انداز میں زندگی گزارنے اور قناعت پسندی کو اپنا کر اسلامی اطوار اپنانے والا بنائے آمین۔ رائیٹر، ڈائریکٹر، کے ایس کاظمی، موسیقار وجاہت اور فلمسٹار مدھو کا ایک خوبصورت انداز چوہدری اکرم منہاس، چوہدری ذوالفقار اور دیگر دوست ایک خوبصورت انداز میں
اہم ترین | Daily Aghaz - Part 5 ایف بی آر نے تحقیقات تیز کردیں، کرپشن میں ملوث 15 سیاستدانوں کے گرد گھیرا تنگ دو صوبوں میں سیاست دانوں نے ہزاروں کینال بے نامی زمین اور اثاثے اداروں کے نام رجسٹرڈ کرا رکھے ہیں ہائی پروفائل کیسز 15 لاہور میں ہیں کراچی اور حیدرآباد میں 5، 5 کیسز کی تحقیقات جاری ہیں اسلام آباد(آن لائن) وفاقی بورڈ آف ریونیو کے بے نامی زونز نے […] عمران خان کی پشت پر امریکا اور یورپ کھڑے ہیں، فضل الرحمن جعلی انتخابات سے ناجائز حکومت بنائی گئی، تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کیا لیکن کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا آسمان کو چھوتی مہنگائی نے عوام کو خودکشی پر مجبور کردیا ہے' سربراہ جے یو آئی(ف) کا چارسدہ میں خطاب لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل […] مولانا فضل الرحمن پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ ہونا چاہیے کرپشن کرنیوالے فوج سے ڈرتے ہیں ٗ وزیراعظم February 15, 2020 12:48 pm0 comments میں کرپٹ نہیں ہوں ، فوج میرے ساتھ کھڑی ہے ، تحقیقات ہونی چاہئیں کہ مولانا فضل الرحمن کو آخرکس نے یقین دہانی کرائی ہے ؟ حکومت کہیں نہیں جارہی،اپوزیشن کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ،آٹا بحران کی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام نہیں اسلام […] طیب اردوان ترک صدر کی پارلیمنٹ میں ٹرمپ ' مودی کو للکار کشمیر ہمارے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کیلئے ہے ٗ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ سے متعلق امن نہیں بلکہ قبضے کا منصوبہ ہے،مسئلہ کشمیر کا حل جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف سے ممکن ہے لیبیا سے لے کر یمن تک ترکی کا اولین مقصد خون اور آنسو […] غداری کے مقدمے کی بات چھوٹا پن ہے ٗ بلاول بھٹو حکومت سیاسی قیادت کو غداری کی مد میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گی؟ یہاں احسان اللہ احسان اور راؤ انوار آزاد گھوم رہے ہیں سیاسی رہنماؤں کو پابند سلاسل رکھا گیا ہے، یہ غیر جمہوری سوچ اور ہتھکنڈے ہیں کہاں سے کہاں لے جائیں گے'نکتہ اعتراض پر گفتگو اسلام […] کراچی میں 313مزارات' درگاہوں پر صرف 58پولیس اہلکار تعینات بلدیہ شرقی میں 29، ملیرمیں 41، کورنگی میں 61مزارات ودرگاہیں ہیں ، جہاں کوئی پولیس اہلکاربھی تعینات نہیں ہے عدالت نے پولیس رپورٹ پر درخواست گزار سے جواب الجواب طلب کرتے ہوئے سماعت 18 مارچ تک ملتوی کردی کراچی(اسٹاف رپورٹر) کراچی کے313مزارات اور درگاہوں پر صرف 58 پولیس اہلکارتعینات ہونے […] پاکستان ہمیشہ ترکی کیساتھ بھائی کی طرح کھڑا ہوگا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ترک وزیر دفاع کی ملاقات، علاقائی سیکورٹی اور دو طرفہ دفاعی تعاون کے فروغ پرگفتگو ترک وزیر دفاع نے خطے میں تناؤ کو روکنے او رکشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان کے کردار کی تعریف کی' آئی ایس پی آر راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف آف آرمی […] سہراب گوٹھ پولیس کی کارروائی، بدنام زمانہ لینڈ گریبر گرفتار اسلحہ برآمد' ملزمان نے ایس ایچ او سہراب گوٹھ غلام رسول سیال پر تشدد بھی کیا علی حسن بروہی سندھ کی اہم شخصیات کا دست راست سمجھا جاتا ہے' پولیس ذرائع کراچی (اسٹاف رپورٹر) سہراب گوٹھ پولیس نے اہم کارروائی کرتے ہوئے ہوئے بدنام زمانہ لینڈ گریبر علی حسن بروہی […] سانحہ ماڈل ٹاؤن: نیا بنچ تشکیل دے کر 3 ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم February 14, 2020 12:00 pm0 comments سانحہ میں لوگ جاں بحق ہوئے اور زخمی بھی، فیصلہ ہر صورت ہونا چاہیے' جسٹس گلزار احمد پولیس افسران نوٹس کے باوجود پیش ہوئے نہ جے آئی ٹی کی مخالفت کی'جسٹس اعجاز الاحسن اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عدالت عظمیٰ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو […] سندھ حکومت ' سابق مشیران 'بیوروکریٹس 25 سرکاری گاڑیاںلے کر غائب عہدہ چھوڑنے کے بعدگاڑیاں واپس نہیں کیں اصغر علی جنید جونیجو سال 2013ء سے 2018ء تک صوبائی مشیر رہے اور 2 سال سے سرکاری گاڑی کے مزے لے رہے ہیں سابق ایم این اے شگفتہ جمانی کے پاس سرکاری گاڑی جی ایس 9547 موجود ہے اور وہ حکومت سندھ کی گاڑی استعمال کررہی ہیں کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت […] صبح سویرے ٗ فلیٹ میں آتشزدگی ٗ باپ بیٹے ٗ رشتہ دار جاں بحق سکھر ٗ غریب آباد میں 4منزلہ رہائشی عمارت کی پہلی منزل کے فلیٹ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ٗ کپڑے کی دکان پر لگنے والی آگ نے بالائی منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ٗ عینی شاہدین متوفین با پ بیٹو ں کی نماز جنازہ آج سکھر میں ادا […] ملاوٹ مافیاکیخلاف ایمرجنسی نافذ ٗ ذخیرہ اندوزوں 'منافع خوروں کیخلاف کریک ڈائون ٗوزیراعظم کی سندھ حکومت کو ہدایت وزیراعظم کا کراچی میں آٹے کی قیمت پر تحفظات کا اظہار ،صوبائی حکومتیں ملاوٹ کی روک تھام کیلئے ایک ہفتے میں حکمت عملی تیار کریں ملاوٹ کی روک تھام سے متعلق جامع اور موثر منصوبہ بندی کی جائے ، عمران خان کاذخیرہ اندوزی سے متعلق اجلاس سے خطاب اسلام آباد(مانیٹرنگ […] بلاول بھٹو نے منی لانڈرنگ کی رقوم سے جائیدادیں بنائیں شہزاد اکبر ٹنڈو الہ یار میں ان پیسوں سے زرعی زمین خریدی گئی، کلفٹن میں 5 پلاٹ خریدے گئے جن کو بلاول ہاؤس کا حصہ بنایا گیا، معاون خصوصی بلاول آپ اَن ٹچ نہیں ہیں کہ آپ سے کوئی ادارہ بھی سوال نہیں کرسکتا،یہ تو نیب کے سامنے جھوٹ بھی بول رہے […]
کرنسی ٹریڈنگ پلیٹ فارم ،فاریکس لین دین کی مثال ڈیلاوئر-مہسا 2020/11/24 تجارتی پلیٹ فارم وہ عمل جو متحرک نہیں ہوتے ہیں. آڈیو کی نقل آن لائن گیگ کی قسم ہے جو اضافی نقد رقم کے ل فاریکس لین دین کی مثال for اچھی ہے لیکن پوری وقتی نوکری کے ل. بھی نہیں۔ تم سکتا ہے اسے پورے وقت پر کام کرنے پر مجبور کریں ، لیکن میں اس کی سفارش نہیں کروں گا جب تک کہ آپ خود ہی کوئی ایسا موکل تلاش نہ کریں جو اضافی رقم ادا کرنے کو تیار ہو۔ استعمال میں بہت آسان ہے۔ دھندلا ہونا اور دھندلا ہونا۔ آئی فون کے لئے MP3 یا M4R میں آؤٹ پٹ۔ ہینڈلز کو گھسیٹ کر یا وقت کے نشانات داخل کرکے منتخب کریں۔ اگر ملازمین زیادہ تخلیقی ہوجائیں تو ، یہ انھیں مزید دلچسپ خیالات کے ساتھ ان کی مجموعی پیداوار میں بہتری لانے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ پڑھیں : بٹ کوائن بمقابلہ لٹیکائن بمقابلہ ڈوگوکوئن - موازنہ. مرحلہ 2 ایک ڈرل اور 3 "(75 ملی میٹر یا 76 ملی میٹر) کے سوراخ آری کا استعمال کرتے ہوئے ، قدم 1 سے سطح پر نشان پر مرکوز ایک سوراخ کاٹ دیں۔ حفاظتی شیشے پہننا مت بھولنا! بچوں کے لئے دوستانہ مواد کو ایک ساتھ بنڈل کرنے میں اسکائ ہمیشہ ہی اچھا رہا ہے۔ اسکائی Q کے ساتھ بچوں کے لئے ایک سرشار مینو ہے ، جو آپ کو سفارشات ، آن ڈیمانڈ پروگرامنگ اور 12 سال سے کم عمر کے افراد کے لئے موزوں ریکارڈنگز دکھاتا ہے۔ اگر cryptocurrency کان کنی کے پول کی قسم تبدیل کردی گئی ہے تو ، ادائیگی والے بٹوے کا پتہ بھی تبدیل کیا جانا چاہئے۔مثال کے طور پر ، اگر آپ لیٹیکائن کان کنی کے تالاب سے کان کنی کررہے ہیں تو ، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی ادائیگی والیٹ کا پتہ لیٹیکوئن پرس کے لئے ہے۔ غلط cryptocurrency والیٹ کے استعمال سے غلطی ہوگی اور آپ اپنی کمائی ختم کردیں گے۔ اس اصول میں کچھ مستثنیات ہوسکتی ہیں جہاں کان کنی کا ایک پول آپ کو اتھیرئم جیسے ایک کریپٹوکائن کی کان کھینچنے اور بٹ کوائن میں ادا کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ پول کی سرکاری ویب سائٹ یا مباحثے کے فورمز میں ذکر کیا جائے گا کہ اگر یہ دوائی ممکن ہے۔ آپ کو مختلف ٹائم فریموں کیلئے انحراف ایڈجسٹ کرنا چاہئے. HSA کی شراکت آجر ، ملازم یا دونوں فریقوں کے ذریعہ مشترکہ شراکت کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ ملازم کی طرف سے تیسرا فریق بھی حصہ ڈال سکتا ہے۔ ملازمین اپنے IRA سے اپنے HSA میں ایک وقتی منتقلی بھی کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی جو خود ملازمت ، شراکت دار یا ایس کارپوریشن کا حصہ ہے اسے کسی کمپنی کا فاریکس لین دین کی مثال ملازم نہیں سمجھا جاتا ہے اور وہ آجر کی شراکت وصول نہیں کرسکتا ہے۔ وہ HSA کھول سکتے ہیں ، لیکن اسے خود مالی اعانت فراہم کرنا ہوگی۔ ایک مختصر سرمایہ کاری کے لئے ، آپ کو عروج کی شرح کو پکڑنے اور منافع بخش ڈیجیٹل کرنسی فروخت کرنے کے ل high اعلی اتار چڑھاؤ والی کرنسیوں کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ، کیا ہوگا اگر مارکیٹ کے بڑے آرڈر کو پورا کرنے کے لئے مطلوبہ قیمت کے ارد گرد اتنی لیکویڈیٹی نہ ہو؟ جس قیمت سے آپ اپنے آرڈر کو پُر کرنے کی توقع کرتے ہیں اور جس قیمت سے یہ پُر ہوتا ہے اس میں بڑا فرق ہوسکتا ہے۔ اس فرق کو پھسلنا کہتے ہیں۔ تو ، اہم غیر ملکیوں میں شامل ہیں: ForexTime کمپنی کی خبریں ،فاریکس لین دین کی مثال اس کی سمجھی گئی محبت کی دلچسپی کبھی نہیں پہنچی ، اور اس کے بجائے ، اس کی دوستی ایک اجنبی (اسکامر) نے کی جس نے اسے آسٹریلیا واپس بیگ لے جانے کے لئے راضی کیا۔ ماریہ کو منشیات کی اسمگلنگ کی ملائشیا کی عدالت نے سزا سنائی تھی اور مئی 2018 میں اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس کی سزا ختم ہونے سے قبل اسے فاریکس لین دین کی مثال پانچ سال جیل اور 18 ماہ موت کی سزا سنائی گئی تھی اور اسے رہا کردیا گیا تھا۔ دریں اثنا ، سونے کی قیمت چھ سالوں میں اپنی اعلی ترین سطح کے قریب ہے ، جزوی طور پر کیونکہ بانڈز پر کم آمدنی سونے کو سرمایہ کاروں کے لئے زیادہ مسابقتی متبادل بناتی ہے۔ اضافی طور پر ، مرکزی بینک شاید ڈالر کے علاوہ دیگر اثاثوں میں بھی ذخائر چاہتے ہیں ، ٹی ڈی سیکیورٹیز میں اجناس کی حکمت عملی کے سربراہ ، بارٹ میلک نے جرنل کو بتایا۔ انہوں نے مزید کہا ، انہیں امریکی بجٹ کے بڑے خسارے پر تشویش ہوسکتی ہے اور انہیں یقین ہے کہ فیڈ شرحوں میں کمی کرنے میں کافی حد تک جارحانہ ہوسکتا ہے۔ اپنے کیبل موڈیم راؤٹر کو اس علاقے کے مرکز کے قریب رکھیں جہاں آپ کے کمپیوٹر اور دیگر آلات کام کرتے ہیں ، اور آپ کے وائی فائی آلات پر نظر کی لائن میں رہتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیبل موڈیم راؤٹر کسی AC پاور آؤٹ لیٹ کے قریب اور وائرڈ کمپیوٹرز کے لئے ایتھرنیٹ کیبلز کے قریب ہے۔ کیبل موڈیم راؤٹر کو بلند مقام پر رکھیں ، کیبل موڈیم راؤٹر اور اپنے دوسرے آلات کے مابین تعداد کی دیواروں اور چھت کو کم سے کم کریں۔ کیبل موڈیم روٹر کو برقی آلات جیسے دور رکھیں: - چھت پرستار - ہوم سیکیورٹی کے نظام - مائکروویو - کمپیوٹر - بے تار فون کی بنیاد - 2.4 گیگا ہرٹز کارڈلیس فون کیبل موڈیم راؤٹر کو بڑی دھات کی سطحوں ، شیشوں کی بڑی سطحوں اور موصل دیواروں سے اور اس طرح کی اشیاء سے دور رکھیں: - ٹھوس دھات کے دروازے - ایلومینیم کی جڑیں - مچھلی کے ٹینک. اگر ان میں سے کوئی انتباہی نشان موجود ہو تو ، آپ کا عمل قابو سے باہر ہوسکتا ہے یا قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ آپ کی پیمائش اب بھی قابل قبول حدود میں ہوسکتی ہے ، اگر آپ کا عمل قابو میں نہیں ہے تو ، کارروائی کرنے کا پہلے ہی وقت آگیا ہے کیونکہ آپ جلد ہی اس عمل کے ذریعہ تیار شدہ ناقص اکائیوں کو دیکھیں گے۔ ای بے ہمیشہ سستی شاپنگ سائٹ نہیں ہوتی ہے. .کرنسی ٹریڈنگ پلیٹ فارم ایسا کسی انٹروورٹ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ کوئی نیا کام یا چیلینجنگ کرتے وقت وہ اسی طرح کے جوش کا تجربہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ایک گہری سطح پر ، ایک انٹروورٹ کو تکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، حالانکہ یہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا ہے۔ مسل پھر اگلے صفحہ میں آتا ہے اور آؤٹ پٹ سیٹنگیں بھی اثبات کریں کہ کہ بہترین منتخب کرنے کے لئے اپ لوڈ ہے: ایپ سے میری لوئی ، ہم ترتیبات اطلاعات اجازت اور ترجیحات تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور باکس کو غیر چیک کرتے ہیں «میں قبول نہیں کرتا ہوں کہ لوئی گمنامی ڈیٹا دیتا ہے .
ابلیس گھر کے اندر ہے - Dunya Pakistan قرآن ِ مجید میں شیطان کی نافرمانی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب فرشتوں سے کہا گیا کہ آدم کے سامنے جھک جاؤ توسب حکم ِ ربی کی تعمیل بجالائے سوائے شیطان کے۔ وہ جنات میں سے تھا اور اس نے تکبر کیااور پھر اُسے راندہ ِ درگاہ کردیا گیا۔ خدا نے اُسے انسانوں کا کھلا دشمن قرا ر دیا۔ افطار کا وقت ہے اور تمام اہل ِ خانہ ایک دوسرے سے بحث کررہے ہیں۔ خاتون ِ خانہ افطاری کے لیے تیارکی جانے والی اشیا کو حتمی شکل دینے کی کوشش میں ہے لیکن ہونے والی بحث اُس کی پریشانی میں اضافہ کررہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ سب خاموشی اختیار کریں اور خدا کے عاجز بندے بن کرافطاری کے وقت کا انتظا رکریں۔ آخر کار اُس نے کہا، "بچو، لگتا ہے گھر میں شیطان گھس آیا ہے۔"یہ سنتے ہی گھر میں خاموشی چھا گئی۔ پھر اُس خاتون نے اپنی بات کررکھتے ہوئے کہا کہ شیطان شور پسند کرتا ہے کیونکہ اُسے خاموشی راس نہیں آتی۔ اُس کا کام ہمیں بہکانا ہے، اس لیے وہ چاہتا ہے کہ شور شرابے کے عالم میں ہمارے ذہن ماؤف رہیں اور اُسے موقع مل جائے۔ یہ نصیحت سن کر بچوں نے خاموشی سے سرجھکا لیا۔ اُنہیں خوف تھا کہ کے ان رویے سے گھر میں شیطان داخل ہوکر اُن پر غلبہ پاسکتا ہے۔ اُنھوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اُن کے گھر میں سکون نامی رحمت داخل ہوگئی۔ دراصل اہل ِ ایمان وہی ہیں جو شیطان سے دور رہتے ہوئے خدا کو خوش کرتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کے مسلمان مرد و عورتیں ایسا کرپاتے تو اسلام میں نہ کوئی فرقہ واریت ہوتی اور نہ کوئی اختلافی نظریات اور نہ ہی ان اختلافات کی بنیاد پر قتل وغارت ہوتی اور نہ ہی مسلمان اتنے کمزور کہ تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود جرم ِ ضعیفی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دنیا میں کسی مذہب کے پیروکار مسلمانوں کی طرح ایک دوسرے کو اس طرح ہلاک نہیں کرتے۔ چلیں غزہ میں تو صیہونی افواج فلسطینیوں کا قتل ِ عام کررہی ہیں لیکن شام، مصر اور شمالی وزیرستان میں ایسا نہیں۔ یہاں مرنے والے اور مارنے والے، دونوں کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے۔ عرب دنیا میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کی خلیج خون سے بھرتی جارہی ہے۔ اس رمضان میں تمام عالم ِ اسلام ایک سنگین بحران میں گھر چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وارننگ کی مہلت تمام او ر بستیاں داغدار۔ آج عالم ِ اسلام میں ہونے والی قتل وغارت نائن الیون کے بعد سے کھیلی والی خون کی ہولی سے مختلف ہے۔ اُس وقت وائٹ ھاؤس جا رج ڈبلیو بش کے نیو کنزرویٹو جنگجووں سے بھرا ہوا تھا۔ اپنے ارد گرد سے امریکی صدر کے کانوں سے ایک صدا ہی ٹکرارہی تھی کہ عراق اور افغانستان پر چڑھائی کردو۔ نیو کنزرویٹوزاکثر زور دیتے ہیں کہ امریکی فوجی طاقت استعمال کرتے ہوئے نہ صرف دنیا میں جمہوری قدورں کو رائج کرے بلکہ امریکی مفادات کا تحفظ بھی کیا جائے، اور ان "نیک مقاصد"کے لیے بہائے جانے والے خون کی پروا نہ کی جائے۔ نائن الیون، ورلڈ ٹریڈ سنٹرز پر حملوں کے وقت میں امریکہ میں تھی اور میں جانتی ہوں کہ اُس وقت امریکی مسلمانوں کو کس طرح نشانہ بنایا گیا۔ مجھے ایک حدیث ِ مبارک کے الفاظ یاد آتے تھے..."ایک وقت آئے گا جب تمہارا دین تمہارے ہاتھوں میں جلتے ہوئے کوئلوں کی طرح بن جائے گا۔"ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں ہم پر وہ وقت آگیاہے۔ چہروں پر شیطانی مسکراہٹ سجائے جیری فلول(Jerry Falwell) اور بل گراہم(Billy Graham) اسلامی شعائر پر حملہ آور ہورہے تھے۔ ایک اسلامی سکالر اکبر احمد اس بے بسی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ..."پچپن ممالک، جن میں ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، میں رہنے والے1.3 بلین مسلمانوں کے ساتھ کوئی سنگین مسلہ ضرور ہے ورنہ مسلمان اتنے بے بس کبھی بھی نہیں رہے۔"اکبر احمد، جو نائن الیون حملوں کے وقت واشنگٹن ڈی سی کی امریکن یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفسیر اور اسلامک سٹیڈیز کے شعبے کی "ابن ِ خلدون چیئر"رکھتے تھے، کامزید کہنا تھا..."آپ کیا کرسکتے ہیں جب مذہبی تعلیمی اداروں کے سربراہ آپ کے پیغمبر ﷺ کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کریں اور "نیشنل رویو" کا ایڈیٹر مکہ پر ایٹم بم گرانے کا مشورہ دے۔ اس وقت شناخت کے بحران سے دوچار اسلامی دنیا اس طوفان ِ بدتمیز ی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے جو مغرب نے اسلام کے بارے میں اٹھا رکھا ہے۔ اس وقت (2002 میں) امریکی کانگرس میں ایک بھی مسلمان رکن نہیں اور نہ کوئی مسلمان میڈیا کی قدآور شخصیت کے طور پر دنیاکے سامنے موجود ہے اور نہ ہی کوئی اسلامی سکالرز ہیں جو مغرب کا جواب دے سکیں۔" مسلمان شیطان کا خصوصی ہدف تو ہیں ہی، اس راندہ ِ درگاہ کا ہاتھ بٹانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اسلامی دنیا میں ہمہ وقت اتنا ہنگامہ مچا رہتا ہے، ایک دوسرے کو دائرہ ِ اسلام سے خارج کرنے کے لیے انوکھے انوکھے جواز گھڑے جاتے ہیں، ایک دوسرے کی گردن زنی کی جاتی ہے کہ اغیاروں کا ہاتھ روکنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ایسا لگتا ہے کہ فرقہ واریت(قطع ِ نظر اس سے کوئی درست ہے اور کون غلط) شیطان کا سب سے قوی ہتھیار ہے۔حکیم الاامت ؒ نے کہا تھا..."شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا، یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا ہے آدم کو"۔ آج جب حقیقت خرافات میں اور یہ امت روایات میں کھو چکی ہے تو سب سے ضروری بات ہے کہ گھر میں داخل ہو کر فرقوں میں بانٹنے والے شیطان کو گھر سے نکالا جائے۔ نائن الیون کے تیرہ سال بعد آج امریکی فورسز کے حملے ختم ہوچکے لیکن مسلمان ہی مسلمان کے قتل پر آمادہ ہے۔ ایک ترک اخبار کے مطابق روزانہ دنیا میں ایک ہزار کے قریب مسلمان ہلاک کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے نوے فیصد اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں ہی جان کی بازی ہارتے ہیں۔ اس وقت حماس لڑ تو اسرائیل سے رہا ہے لیکن اس کی قیمت غزہ کے شہریوں کو اپنی خون سے چکانا پڑتی ہے۔ دراصل اس انسانی قیدخانے(غزہ) میں بھیانک ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو میڈیا پر دکھائی جارہی ہے۔ دنیا یاد رکھے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ رہا ہے اور کوئی بھی اسے روکنے کا چارا نہیں کررہا۔اس پانی نے آخرکار سمندر تک پہنچ جانا ہے اور قطرہ قطرہ بہم دریا شود کی طرح یہ ایک جوئے خون کی صورت دھار لے گا۔ اُس وقت کوئی مت کہے کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے۔ غزہ اور دیگر دنیا میں ٹپکنے والا خون ہر گز رائیگاں نہیں جائے گا، صرف ایک سمندر تک اس کے ارتکاز کی ضرورت ہے۔ تاہم اُس وقت تک مسلم معاشروں نے ان شیاطین کو اپنے اپنے گھروں سے نکالنا ہے جنھوں نے اُنہیں فرقوں میں بانٹ کر دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رکھے ہیں۔رمضان کے اختتامی لمحات ہیں اور یہ بہت قیمتی دن ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام دنیا کے مسلمان اس دنوں میں کم از کم ایک وعدہ کرلیں کہ کل سے شیطان کو شکست دینے کی کوشش کا آغاز اس طرح کیا جائے گا کہ ہر مسلمان خود کو کسی فرقے کی شناخت کے شیطانی طوق سے آزاد کرائے گا۔ یا د رکھیں، امت میں ڈالی جانے والی تمام تفاریق فتنہ ہیں، چاہے ان کے نام کتنے ہی نیک کیوں نہ دکھائی دیں۔ ان فتنوں نے آج ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ عرب دنیا سے لے کر پاکستان تک، فرقہ واریت کی جنگ سیاسی غلبے کی جنگ بن چکی ہے... اگر ہم نے خود کو جلد نہ سنبھالاتو ایک مرتبہ پھر ہلاکوخان کے ہاتھوں بغداد اجڑنے والا ہے۔
چیف سلیکٹر قومی کرکٹ ٹیم انضمام الحق مستعفی 03:15 PM | 17 Jul, 2019 لاہور(24نیوز)ورلڈ کپ میں شکست کے بعد پہلا استعفیٰ آگیا۔چیف سلیکٹر قومی کرکٹ ٹیم انضمام الحق مستعفی ہوگئے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف سلیکٹر کےعہدےپرمزید کام نہ کرنے کا اعلان کردیا ،انہوں نے کہا کہ نئے لوگوں کو نئی سوچ کے ساتھ آگے آنا چاہیے، انگلینڈ سے واپسی پر چیئرمین اور ایم ڈی سے ملاقات ہوئی،30جولائی تک معاہدے کا وقت پورا کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ بورڈمجھےسلیکشن کےعلاوہ کوئی آفرکرےگاتومیں حاضرہوں، جوکرسکتاتھاساڑھے3سال میں کردیا،کرکٹ میری محبت میراجنون ہے، شعیب ملک کواچھی کارکردگی پرسلیکٹ کیا، ورلڈکپ میں ٹیم کی کارکردگی بہت اچھی رہی،پاکستان کرکٹ کی مستقبل میں بہت سی مصروفیات ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ساتھی سلیکٹرزکابےحدمشکور ہوں جنہوں نےمیراساتھ دیا ، سلیکشن کمیٹی15رکنی ٹیم میں کوچ اورکپتان سےمشاورت کرسکتی ہے ، 11رکنی ٹیم کاانتخاب کرناکوچ اورکپتان کاکام ہوتاہے ،بورڈنےکسی قسم کی کوئی آفرنہیں کی، میں سمجھتاہوں ورلڈکپ میں ٹیم نےاچھاپرفارم کیا۔
شہناز شہبازی 2020/01/2 تکنیکی تجزیہ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل (جے سی آئی) صحت کی دیکھ بھال فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے کی خدمات کے معیار اور حفاظت کو بہتر بنانے پر مرکوز ایک غیر منافع بخش صحت مشترکہ تنظیموں کے جوائنٹ کمیشن برائے جے ڈی سی کی بین الاقوامی منظوری خدمات کے لئے ہے۔ تخلیق شدہ یونٹ ہے۔ دوسری طرف ، اگر ولیمز٪ R منحنی خطہ ، رقبہ ، نقطہ یا ہسٹگرام نیچے -50 سے اوپر بڑھ جاتا ہے تو فروخت کی پوزیشن سے باہر نکلیں۔ ڈے ٹریڈنگ میں کیا مشکل ہے. جدید سائنسی علم کے محور اور اخلاقی مسائل. آپ گوگل یا کسی بھی دوسرے سرچ انجن سے کتنا ٹریفک وصول کرسکتے ہیں اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے جو آپ کے قابو سے باہر ہیں۔ مقررہ سالانہ کے بارے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ آسان اور پیش قیاسی ہیں۔ آپ کو اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے معاہدے کی بنیاد پر کیا توقع رکھنا چاہتے ہیں۔ [1] فکسڈ سالوں کی ضمانت ہے۔ جب تک کمپنی ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے اس وقت تک انہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ قیمت اوپری بینڈ پر ہے تو آپ توقع کرینگے کہ آر ایس آئی قریب ہے یا ذیادہ خرید کی لائن سے گزر چکا ہے۔ تاہم، آر ایس آئی ڈائیورجنس ہائیر – ہائی(higher high) کی جگہ اس مقام پر وقوع میں آتی ہے جہاں لور – ہائی (lower high)دکھائی دے۔ دوسری طرف قیمت نچلے بینڈ پر ہو سکتی ہے ۔ لیکن آر ایس آئی لور لو (lower low)کی جگہ ہائیر لو (higher low)دکھائے گا۔ یہاں تک کہ اگر آپ خود گہرائی سے بنیادی تجزیہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں تو ، اہم تناسب اور شرائط کو سمجھنا آپ کو اسٹاک پر زیادہ قریب سے فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے اور درست طریقے سے عمل کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ان تمام فرائض، سنتیں اور نوافل کو ادا کرنا چاہئے جنہیں ہم پہلی رمضان سے ہی کرتے آئیں ہیں یا جو ہماری ہمشہ کی معمولات میں شامل ہیں جیسے: اس اضافی میل پر جائیں اور معلوم کریں کہ آیا آپ کا مقامی بروکر اصل میں ہانگ کانگ اسٹاکس کو تجارت کی اجازت دیتا ہے۔ بہت زیادہ اعصاب رکھتے ہیں۔ ہر مطلوبہ الفاظ کے لئے کلکس ٹریفک کی صلاحیت کا ایک اہم اشارے ہیں۔ تمام تلاشیاں کلکس کے نتیجے میں نہیں ہوتی ہیں ، لہذا اپنے مطلوبہ مطلوبہ الفاظ کا انتخاب کرتے وقت اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ موبائل ایپ کے ذریعہ ، آپ کو اپنے فون پر بصری پاپ اپ ، آڈیو سگنلز ، ویب ہیکس ، ای میل اطلاعات اور PUSH الرٹس ملتے ہیں۔ الرٹ کی 12 مختلف شرائط ہیں جن کا استعمال اشارے ، حکمت عملی ، یا ڈرائنگ ٹولز پر کیا جاسکتا ہے۔ تیل اور قدرتی گیس میں کمی جاری ہے. . تجارتی منزل سے مراد وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں مالی آلات جیسے تجارتی سرگرمیاں جیسے ایکوئٹی ، فکسڈ انکم ، فیوچر وغیرہ واقع ہوتے ہیں۔ ٹریڈنگ فلور مختلف ایکسچینج کی عمارتوں میں بیٹھتے ہیں ، جیسے نیو یارک اسٹاک ایکسچینج (این وائی ایس ای) اور شکاگو تجارت کا بورڈ (سی بی او ٹی) .اوپن چیخنا بنیادی تجارتی طریقہ تھا جو تجارتی فرش پر الیکٹرانک تجارت کے عروج سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔ اپنے فاریکس بروکر کو کیسے ادائیگی کریں. تجارتی میدان میں آپ کو بہت کچھ کرنا چاہئے۔ اور بڑی خوشخبری یہ ہے کہ Binomo پر ایک مفت ڈیمو اکاؤنٹ ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی لتیں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ہمیشہ کی طرح نشے میں شراب نوشی ، تمباکو نوشی ، منشیات کی لت ، جنسی تعلقات اور جوئے کی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ تاہم ، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہر روز عملی طور پر سب کچھ ہوا ہے ، نئی ٹکنالوجیوں نے نئی قسم کی لتوں کے ابھرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، سب سے زیادہ جدید ہونے کی وجہ سے اور جس میں سے کرپٹو کارنسیوں کے ساتھ جوئے کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔ باہمی فنڈز امریکی مالی منڈیوں کا ایک لازمی جزو ہیں۔ ایک اچھا باہمی فنڈ اس بات کی عکاسی فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے کرتا ہے کہ ایک صنعت یا دیگر شعبہ کیسی ہے۔ باہمی فنڈ کی اقدار روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں۔ جو فنڈ کے پورٹ فولیو میں اثاثوں کی قدر کو ظاہر کرتا ہے۔ معیشت بہت زیادہ آہستہ آہستہ چل رہی ہے لہذا فنڈ میں وسیع پیمانے پر تغیرات کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں رہتا ہے کہ سیکٹر جتنا زیادہ جارحیت کررہا ہے۔ لیکن اگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک میوچل فنڈ کی قیمت میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو ، پھر یہ اچھی بات ہے کہ جس صنعت کو اس کی نظر میں ہے وہ بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ جب آپ کم سے کم $ 500 جمع کرتے ہیں تو آپ آسانی سے فیوچر اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور ٹریڈنگ شروع کرسکتے ہیں. یہ آپ کو براہ راست ترتیب فراہم کرتا ہے جو آپ کو فوری طور پر ٹریڈنگ شروع کرنے کے قابل بناتا ہے. صرف ایسوسی ایشن اور اختیارات اکاؤنٹس، جب آپ اس اکاؤنٹ کو کھولتے ہیں تو آپ کاغذ ٹریڈنگ تک بھی رسائی حاصل کریں گے. اگر اپ کا کوئی سوال ھے تو اس کورس میں شامل موضوعات کے بارے میں ، براہ کرم بلا جھجک پوچھیں . ان میں سے کچھ اہم کرداروں کو قریب سے دیکھنے کے ل reading پڑھتے رہیں: متعارف کرانے والا بروکر (IB) ، اس سے وابستہ شخص (اے پی) ، کموڈٹی ٹریڈنگ ایڈوائزر (سی ٹی اے) ، اور کموڈٹی پول آپریٹر (سی پی او)۔ صرف آئی فون ایکس کے لئے ڈیزائن کیا گیا (ماڈل A1865 ، A1901 ، A1902)۔ 2716 ایم اے ایچ کی حامل اس کوالٹی کی بیٹری بالکل نیا 0 سائیکل ہے۔ نیز یہ 500-800 سائیکل یعنی زیادہ بیٹری کی زندگی تک چلنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ نیز ہر بیٹری ایس جی ایس / سی ای / یفسیسی / UL / RoHS / MSDS مصدقہ ہے۔ زیادہ استعمال سے زیادہ چارجنگ ، ضرورت سے زیادہ خارج ہونے والی مادہ ، اور زیادہ گرمی سے بچنے کے ل More زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مربوط سمارٹ چپ۔ اس کے علاوہ ، دستیاب تمام ٹولز اور ہدایات کے مطابق انسٹال کرنا بہت آسان ہے۔ وہ 30 دن کی غیر مشروط رقم کی واپسی ، معیار کے ل 18 24 ماہ کی گارنٹی اور XNUMX گھنٹے جواب فراہم کرتے ہیں۔ اس ریٹنگ کے تعین میں قرض کی واپسی سے جڑے خدشات کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ نجی سرمایہ کاری کی شراکت سب کے ل are نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ جن کے پاس سرمایہ کاری کے لئے پیسہ ہے وہ اپنی رقم کم پابندی کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کسی فنڈ میں ہونے والی سرمایہ کاری کے بارے میں سب جاننا چاہتے ہیں اور جب وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں تو اسے فروخت کرنے کا حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام نجی شراکتیں ان سرمایہ کاروں کو وہ سب کچھ نہیں بتاتی ہیں جن کو وہ جاننا چاہتے ہیں۔ میں کٹ اور پیسٹ کے ذریعہ واٹر مارک کے دستخط کے طور پر اس میں اعلی ریزولیوشن png حاصل کرنے کے قابل تھا۔ میں نے صفحات میں شروع کیا پھر اسے iWatermark میں کاٹ لیا۔ سال 1: - سال 2: 10.0٪ سال 3: 9.1٪ سال 4: -4.2٪ یورو / امریکی کرنسی کی جوڑی امریکی ڈالر کے مقابلے یورو کی نمائندگی کرتی ہے اور بیشتر دوسروں سے مختلف ہے کیونکہ ڈالر مالیت یا قیمت کرنسی ہے۔ امریکی ڈالر سے وابستہ دیگر کرنسی کے جوڑے میں عام طور پر ڈالر کو عددی یا بیس کرنسی شامل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ، جب یورو کے مقابلے میں ڈالر مضبوط ہوتا ہے تو ، یورو / امریکی ڈالر کم جاتے ہیں ، اور ڈالر کی کمزوری (بمقابلہ یورو) کے دوران ، جوڑی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ روایتی ہیڈلائٹس گاڑی کے سامنے ایک مقررہ علاقہ کو روشن کرتی ہیں۔زیادہ تر سسٹم میں دو سیٹنگیں ہوتی ہیں ، اور اونچی ترتیب رات کے وقت دیکھنے کے فاصلے کو بڑھانے کے لئے بنائی گئی ہے۔ تاہم ، اونچے بیم آنے والے ڈرائیوروں کے لئے مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اهو چ knownي طرح thatاڻي ٿو ته اسلامي عقيدن جي پيروڪارن لاءِ جوا منع ٿيل آهي ، پر ڇا فاریکس جي تجارت به چانس جي راند آهي؟ خود ڈیٹا ، ایپ ، اور خود فون کی حفاظت کے ل Hu ، ہواوے لاک اسکرین پاس کوڈ تحفظ اور فیکٹری کو دوبارہ ترتیب دینے کی پیش کش کرتا ہے۔ ایف آر پی لاک ایک حفاظتی دیوار ہے جو فیکٹری ری سیٹ کرنے پر دوسرے لوگوں کو آپ کے اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ کے استعمال سے روکنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر اب آپ اپنے گوگل اکاؤنٹ تک رسائی نہیں رکھتے ہیں تو آپ صرف گوگل اکاؤنٹ ریکوری سویٹ کی مدد حاصل کرسکتے ہیں ، لیکن ایسے معاملات ہوتے ہیں جب آپ کو اپنے گوگل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے ، آپ اکاؤنٹ کی بازیافت نہیں کرسکتے ہیں اور ایف آر پی نے مقفل ہواوے فون جیت لیا ہے ۔ t آپ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس مضمون میں ، میں آپ کو اس بارے میں ہدایت دینے جارہا ہوں کہ آپ اسے کیسے ختم کرسکتے ہیں ایف آر پی لاک ہواوے اسمارٹ فونز تفصیل سے. بہت سے سپلائرز کریڈٹ کارڈ یا C.O.D کے ذریعے ادائیگی کے لئے پہلے آرڈر کی ضرورت کرسکتے ہیں۔ (کیش / چیک آن ڈلیوری) جب تک کہ کاروبار کو قابل اعتبار نہ سمجھا جائے۔ ایک بار جب یہ قائم ہوجاتا ہے فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے کہ کوئی کاروبار اپنے بلوں کا بروقت ادائیگی کرسکتا ہے تو ، تجارتی کریڈٹ اور سپلائرز کے ساتھ شرائط پر بات چیت کرنا ممکن ہے۔ موکل کے ذریعہ ڈوکاسکوپی بینک SA خدمات پر انحصار کرتے ہوئے ، مختلف کمیشن درخواست دے سکتے ہیں۔ آخر میں ، قیمتیں آرڈر کی کافی مقدار کے ذریعہ کی جاتی ہیں ، جو لامحالہ بڑے کھلاڑیوں کی طرف سے آتی ہیں۔ واٹر فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے مارک کے آس پاس مربع پس منظر کے لئے رنگ اور دھندلاپن کو منتخب کریں۔ آن لائن خوردہ فروشوں کو ایسے تاجروں کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کو اچھ waysا کرنے کے ل smart ہوشیار طریقوں کے ساتھ آسکیں۔ ا) ویب سائٹ ملاحظہ کریں ، ب) کچھ خریدیں ، اور ج) دوبارہ یہ کام مکمل کریں۔ جب بات لوگوں کو دیکھنے کے ل getting آتی ہے ، تو آپ ایک علاقے میں ماہر یا بہت سے لوگوں میں جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو ، 100 میں سے دو سے کم خواتین جو LAM استعمال کرتی ہیں وہ پہلے چھ ماہ میں حاملہ ہوجائیں گی۔ تاہم ، LAM ہر ایک کے لئے نہیں ہے کیونکہ اسے صرف دودھ پلانے والی خواتین ہی استعمال کرسکتی ہیں۔ لیکن یہ سب نہیں ہے: 1 XBet offre également l'option Multiplex grâce à laquelle vous pouvez suivre différentes réunions simultanément . کیا آپ اپنا فنڈ دینا چاہتے ہیں؟ Olymp Trade بٹ کوائن کا استعمال کرتے ہوئے اکاؤنٹ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کیسے کرنا ہے؟ تم نہیں کرتے؟ اسے وہاں رکھو۔ آج کی پوسٹ میں ، ہم آپ کو دکھاتے ہیں کہ اپنے اولمپک کو فنڈ کیسے مہیا کریں . • در حسابداری نقدی صرفاً معاملاتی که در برگیرنده دریافت و پرداخت وجه نقد می‌باشند، در دفاتر منعکس می‌گردند بدون اینکه در طی دوره هیچگونه تلاشی برای ثبت صورتحساب‌ها یا مبالغ پرداخت نشده و مطالبات یا بدهی‌ها صورت پذیرد. در این روش هدف اولیه از تهیه صورت‌های مالی، ارائه اطلاعاتی درباره دریافت‌ها و پرداخت‌های وجه نقد سازمان طی دوره مالی مورد نظر می‌باشد . . آپ اپنے گندے سیل فون پر بات کر رہے ہیں. بسته شدن پوزیشن در فارکس چیست؟ . مثال کے طور پر ، ٹائر لگانے والے لیں۔ آپ میں سے کچھ لوگ ان سے پیار کرسکتے ہیں ، کیونکہ وہ یقینی طور پر کہتے ہیں کہ ملک - جو کہ کوئی بری چیز نہیں ہے - لیکن وہ اعلی درجے کا ملک نہیں کہتے ہیں۔ اگر آپ مضافاتی علاقوں میں رہتے ہیں اور اپنے تاثرات کی پرواہ کرتے ہیں تو آپ اپنے ٹائر پلانٹر کے پچھواڑے میں ایک جگہ بنائیں۔ اس کا تعلق آپ کے اگلے حصے کے ڈیزائن میں نہیں ہے ، چاہے وہ آپ کے ڈرائیو وے کی زمین کی تزئین کے دروازے پر ہو یا آپ کے میل باکس لگانے کے حصے کے طور پر۔ مزید یہ کہ ، اگر آپ اپنا گھر بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ، ہم مشورہ نہیں دیتے ہیں کہ اگلے صحن میں یا پیچھے والے ٹائر لگانے والوں کو استعمال کریں۔ سرمایہ کاری بینکاری میں کیریئر. خریدنے والے اداروں کی بنیادی ذمہ داری ان کی سرمایہ کاری کا استعمال کرنا ہے. وہ عموما تحلیل یا قیمت کا حوالہ دیتے ہیں جو بیچنے والے ادارے، جیسے سرمایہ کاری کے بینکوں، سرمایہ کاری کے فیصلے کرنے کے لئے فراہم کیے گئے ہیں. اس کے علاوہ، وہ سرمایہ کاری فاریکس ٹریڈنگ کے طریقے کی سرگرمیوں کے لئے ایک فنڈ برقرار رکھتے ہیں. کتنی دیر تک ایک کتاب فروخت کرنا چاہئے؟
انشاءاللہ میں کشمیر کو اپنی زندگی میں آزاد دیکھوں گا " پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی کشمیر پر ہے" 03:36 PM | 2 Feb, 2019 اسلام آباد(24نیوز)آصف علی زرداری نے کہاکہ پاکستان نےہرفورم پرمسئلہ کشمیرسےمتعلق آوازبلندکی،کشمیرکازپرتمام سیاسی جماعتوں کومل کرکام کرناہوگا،انشاءاللہ میں کشمیر کو اپنی زندگی میں آزاد دیکھوں گا۔ تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کوکبھی بھول نہیں سکتے، پیپلز پارٹی کی بنیاد ہی کشمیر پر ہے اور یہ ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے، ہم کشمیر سے اور کشمیر ہم سے جدا نہیں ہوسکتا،بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کوسمجھنا چاہیے کہ کشمیر پر پاکستان کاموقف صرف حکومت کانہیں بلکہ پورے ملک اور عوام کا ہے۔ آصف علی زرداری کاکہناتھاکہ کشمیر کاز کو سب سے زیادہ نقصان آمریت کےدور میں پہنچا،ہم کشمیر کو کبھی نہیں بھولیں گے،کشمیریوں کی قربانیوں کوکبھی بھول نہیں سکتے،پاکستان نےہرفورم پرمسئلہ کشمیرسےمتعلق آوازبلندکی،کشمیرکازپرتمام سیاسی جماعتوں کومل کرکام کرناہوگا،انشاءاللہ میں کشمیر کو اپنی زندگی میں آزاد دیکھوں گا۔ سابق صدر کاکہناتھاکہ بھارت سے جب بھی مذاکرات ہوئے کشمیر پر بات ہوئی، بیظیر بھٹو نے راجیو گاندھی سے جب کشمیر کے معاملے پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے آج تک کبھی کسی نے اس پر بات ہی نہیں کی، انڈین آرمی کشمیریوں کو ذلیل وخوار کررہے ہیں، ہم کشمیرکو ہرگز نہیں چھوڑیں گے، میری نسل بھی اس کے حق میں بولے گی مسئلہ کشمیر پر ہم سب ایک ساتھ ہیں۔
اپنی قومی ایئر لائن پر دھبہ برداشت نہیں کریں گے، سردار اپنی قومی ایئر لائن پر دھبہ برداشت نہیں کریں گے، سردار مہتاب عباسی 05:04 PM, 17 May, 2017 اسلام آباد: مشیر ہوا بازی سردار مہتاب عباسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پی آئی اے کے جہاز سے منشیات برآمدگی کے معاملے پر تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائیں گے اور ہائی کمیشن کو براہ راست خط لکھا ہے۔ سیکریٹری ایوی ایشن کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطے کا بھی کہا ہے۔ سردار مہتاب نے کہا اپنی قومی ایئر لائن پر دھبہ برداشت نہیں کریں گے اور اگر کوئی مجرمانہ ذہن ایئر لائن کو استعمال کر رہا ہے توم عاف نہیں کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کسی ادارے کے ایجنٹ کے طور پر کام نہیں کر سکتی برطانیہ کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کے لیے بھی تیار ہیں۔ یاد رہے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے طیارے سے گذشتہ رات لندن ہیتھرو ہوائی اڈے پر ہیروئین برآمد ہوئی تھی۔ ایجنسی نے بیان میں مزید دعویٰ کیا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور صرف تفتیش جاری ہے۔ قومی ایئر لائن کے ترجمان مشہود تاجور نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پیش آنے والے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد سے لندن جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے-785 پیر کی دوپہر 2 بج کر 50 منٹ پر ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچی تھی۔ لینڈنگ پر مسافر طیارے سے اتر گئے تاہم انتظامیہ نے پی آئی اے کے عملے کو حراست میں لے لیا جبکہ طیارے کی بغور تلاشی لی۔ مشہود تاجور کے مطابق عملے میں شامل 14 ارکان کو برطانوی انتظامیہ نے 2 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔
مکرم آدم عابد الیگزینڈر صاحب کا احمدیت کی طرف سفر – خادم مسرور مکرم آدم عابد الیگزینڈر صاحب کا احمدیت کی طرف سفر تبصرہ بھیجیں اگست 23, 2019 August 23, 2019 64 مناظر 0 پسندیدہ ماہنامہ ''احمدیہ گزٹ'' کینیڈا جنوری فروری 2010ء میں مکرم آدم عابد الیگزینڈر صاحب نے احمدیت کی طرف اپنے سفر کو مختصراً بیان کیا ہے۔ مکرم آدم عابد صاحب رقمطراز ہیں کہ ابتدائی عمر سے ہی مَیں مذہب سے متأثر تھا کیونکہ میرے خاندان کا تعلق عیسائی فرقہ Jehovah's Witness سے تھا۔ لیکن میرے سوتیلے والد رومن کیتھولک تھے اور اسی طرح جب خاندان میں کچھ دوسرے فرقوں کے لوگ شامل ہوئے تو میرے سوتیلے دادا نے مجھے میری عمر کے چھٹے سال میں ہی یہ سمجھانا شروع کیا کہ مجھے اپنے فرقہ کے علاوہ دیگر فرقوں کی معلومات بھی حاصل کرنا چاہئیں تاکہ میرے ذہن میں وسعت پیدا ہو۔ وہ بھی مجھے عقائد کے اختلافات سے آگاہ کرتے۔ چنانچہ میں یہواوا وٹنس اور رومن کیتھولک کے عقائد کے ساتھ جوان ہوا اور بائبل کی تعلیمات کے ایک گروپ میں بھی شامل ہونے لگا جو ہر ہفتہ کے دوران تین بار منعقد ہوتا تھا۔ لیکن وہاں ہر بار اٹھنے والے سوالات مزید سوالات کو جنم دیتے تھے۔ بائبل میں انبیاء کرام کا تذکرہ پڑھتے ہوئے مَیں اُن سے ملاقات کرنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ 14 سال کی عمر میں ملنے والی ایک خبر نے میرے روحانی سفر کا رُخ موڑ دیا۔ میری والدہ نے مجھے بتایا کہ چونکہ میری اور میری بہن کی پیدائش شادی سے پہلے ہوئی تھی اس لئے آئندہ ہم یہواوا وٹنس کے چرچ میں شامل نہیں ہوسکیں گے۔ میری والدہ نے ہمیں نصیحت کی کہ ہم خدا کو پانے کے لئے اپنی تحقیق جاری رکھیں اور جہاں سے بھی وہ ملے اُسے پائیں۔ چنانچہ مَیں نے مختلف مذاہب کے عقائد کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلے بدھ ازم کی طرف مائل ہوا لیکن اندرونی اطمینان حاصل نہ ہوا۔ تب مَیں نے لمبی سیریں شروع کیں اور خدا کے بارہ میں سوچنے لگا کہ وہ کہاں رہتا ہے اور میرا اُس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا مجھے اکیلے دعا کرنی چاہئے یا کسی چرچ سے وابستہ ہوجانا چاہئے؟ اس دوران میری ملاقات کالج میں اپنے پہلے مسلمان دوست سے ہوئی۔ اُس سے خدا کے وجود کے متعلق میری باتیں ہونے لگیں۔ جس قدر ہم بات چیت کرتے اُسی قدر مجھے احساس ہوتا کہ خدا کے بارہ میں میرے خیالات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ چنانچہ اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے کا مجھے شوق پیدا ہوا یہاں تک کہ مَیں 2007ء میں اپنی آنٹی کے پاس البرٹا چلا آیا۔ البرٹا میں مجھے خیال آیا کہ کسی مسجد میں جاکر اسلام کے بارہ میں مزید معلومات حاصل کروں چنانچہ کسی سے مسجد کا پتہ پوچھ کر مَیں ایک جمعہ کے روز مسجد پہنچ گیا۔ وہاں ایک بوڑھے شخص سے ملاقات ہوئی جس کو انگریزی نہیں آتی تھی تاہم وہ میرے کہنے پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ لے آیا جس میں مختصر تفسیر بھی تھی۔ جوں جوں مَیں قرآن کا مطالعہ کرنے لگا میرے احساسات پر کوئی چیز غالب آنے لگی۔ چنانچہ مَیں نے آنکھیں موند لیں اور خدا سے باتیں کرنے لگا کہ اگر مَیں اُس کی تلاش میں کسی غلط راستہ پر چل نکلا ہوں تو وہ مجھے سیدھے راستہ پر ڈال دے۔ اس دوران مجھے کانوں میں کسی کے گانے کی آوازیں آنے لگیں۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ مسجد میں گانا گانا منع ہے۔ تاہم گانے کی آواز تیز تر ہونے لگی۔ یہ ایک مردانہ آواز تھی جو نہایت مسحورکُن تھی۔ مَیں نے اپنی آنکھیں بند ہی رکھیں۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ مسجد لوگوں سے بھرنے لگی ہے اور وہ ایسی زبان بول رہے ہیں جو میری سمجھ سے بالا ہے۔ مَیں نے آنکھیں کھول دیں تو دیکھا کہ مَیں سب سے اگلی صف میں بیٹھا ہوں اور میرے دائیں بائیں اور پیچھے لوگ بیٹھے ہیں۔ اسی اثناء میں لوگ کھڑے ہوگئے تو مَیں بھی کھڑا ہوگیا۔ پھر ''اللہ اکبر'' کی صدا آئی اور نماز شروع ہوگئی۔ میرے لئے پچھلی صفیں توڑتے ہوئے باہر جانا ناممکن تھا اس لئے مَیں بھی وہی حرکات کرنے لگا جو دوسرے لوگ کررہے تھے۔ مَیں کَن انکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے نقل کرتا رہا۔ جب سلام پھیرا گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے لوگ مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ جمعہ کی میری پہلی نماز تھی۔ جب مَیں کھڑا ہوا تو بہت سے لوگ میرے گرد آگئے اور مجھ سے سوالات کرنے لگے۔ یہ صورتحال کسی حد تک پریشان کُن تھی۔ مَیں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ عاریۃً اپنے ساتھ گھر لے جانے کی اجازت اُن سے مانگی۔ لوگوں نے مجھے قرآن کریم اور رمضان کے بارہ میں بھی بتایا جو چند روز میں شروع ہونے والا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں بھی اگر چاہوں تو بے شک روزے رکھ لوں۔مَیں نے گھر جاکر یہ سب کچھ اپنی آنٹی کو بتایا۔ میری آنٹی اور اُن کی فیملی اِن معاملات میں میرے معاون تھے۔ جب مَیں نے سارا قرآن پڑھا تو وہ مجھے سنتے تھے۔ میری آنٹی اس بات پر خوش تھی کہ اسلام مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا حکم دیتا ہے۔ حالانکہ ایک عرصہ سے وہ یہی سمجھتی آرہی تھی کہ اسلام میں مردوں کی طرف سے عورتوں کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ بہرحال رمضان کے اختتام تک مَیں بہت خوش تھا کیونکہ اس دوران مَیں نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔ دسمبر 2007ء میں جب مَیں اپنی فیملی کو ملنے ہملٹن پہنچا تو اسلام کے بارہ میں ساری باتیں اُن کو بھی بتائیں۔ اپنے گھر میں بھی مجھے اپنے خدا کی عبادت کرنے کی آزادی تھی۔ مَیں نے اپنے کالج والے مسلمان دوست کو بھی مسلمان ہونے کے بارہ میں بتایا تو اُس نے مجھے کہا کہ البرٹا کی مسجد شیعوں کی ہے اس لئے مجھے اُس دوست کے ساتھ اُس کی مسجد میں جاکر سنّی اسلام قبول کرلینا چاہئے۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں صرف مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور فرقے میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سنّیوں کی مسجد میں بھی پہلے دن مجھ سے بیشمار سوالات کئے گئے۔ پھر مَیں تین ماہ تک ایک مصری شخص کے ساتھ رہا جو حج کرکے آیا تھا اور اس نے مجھے نماز سکھائی، قرآن پڑھنا سکھایا اور دیگر اسلامی معلومات سے روشناس کروایا۔ جب میں نے اپنے سوتیلے والد کے ساتھ اُن کے ریسٹورنٹ میں کام شروع کیا تو مجھے علم ہوا کہ وہاں سے کچھ ہی فاصلہ پر بھی ایک مسجد ہے۔ جب مَیں نے اپنے والد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے نصف گھنٹہ کی اجازت طلب کی تو انہوں نے مجھے اس مقصد کے لئے چار گھنٹے کی رخصت دیدی۔ جب مَیں پہلی بار مسجد پہنچا تو مَیں نے کوشش کی کہ میری نظریں کسی سے نہ ملیں تاکہ پہلی دو مساجد کی طرح مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ نہ ہو۔ لیکن مجھے خوشگوار حیرت تھی کہ کسی نے مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ صرف مجھے السلام علیکم کہتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر مَیں نے خطبہ جمعہ بھی سنا اور بہت لطف اٹھایا۔ چنانچہ اب ہر جمعہ کے روز مَیں وہاں جانے لگا۔ چند ماہ بعد ایک جمعہ کے روز ایک شفیق شخصیت (رومی ساہی صاحب) نے مجھ سے پوچھا کہ یہ مسجد کس فرقہ کی ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ فرقہ بندی میرے لئے بے معنی بات ہے اور مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ یہ مسجد سنّیوں یا شیعوں کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسجد ایک مختلف فرقہ کی ہے جن کے پاس ایک خاص لیڈر ہے جن کا نام حضرت مرزا غلام احمد ہے۔ یہ وہ مسیح موعود ہیں جن کی آمد کی خبر تمام مذاہب میں دی جاچکی ہے۔ میرے لئے یہ خبر اتنی مسرّت انگیز تھی کہ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ کیا لوگوں کو اس کی اطلاع ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ یہ خبر دوسروں تک پہنچائے۔ انہوں نے مجھے بیعت سے متعلق بتایا تو مَیں اُسی وقت بیعت کرنے کے لئے تیار تھا۔ تاہم انہوں نے مجھے بیعت کرنے سے پہلے احمدیت کے بارہ میں مزید تعارف حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ احمدیت کے بارہ میں مزید جاننا میرے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ مَیں خود کو ایمان لانے والوں میں ہی سمجھنے لگا تھا۔ تاہم مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا اور پھر دو احمدیوں (عطاء الواحد LaHaye صاحب اور انصر رضا صاحب) سے تفصیلی ملاقات بھی کی۔ انہوں نے مجھے کتاب ''احمدیت یعنی حقیقی اسلام'' پڑھنے کے لئے دی اور ایک ویڈیو دی ۔ چنانچہ 16 ستمبر 2008ء کی شب مَیں نے بیعت فارم پر دستخط کردیئے۔ اس وقت میرا زیادہ وقت اسلام احمدیت کی تعلیمات کے مطالعہ میں گزرتا ہے۔ ایک سو سے زیادہ کتب میرے پاس جمع ہوچکی ہیں۔ مَیں اپنی بیوی سے بھی اس بارہ میں گفتگو کرتا رہتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ آج کی دنیا کی روحانی قحط سالی کا مداوا صرف احمدیت کی تعلیمات ہی کرسکتی ہیں۔
2020 بہترین فاریکس کمپنی :ٹریڈز کی اقسام علی سدیگی 2020/12/19 فاریکس کے ساتھ آغاز کرنا 2002 میں چینل Dzhetiks قرار دیا تھا. اس میں تمام کارٹون کی فہرست تبدیل نہیں ہے. نئے مالکان پرانے ٹی وی سیریز، اسٹور میں نئے منصوبوں کے نہ ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے جاری ہے. وقت گزرنے کے ساتھ، ہوا وقت دیگر کارٹون کے ساتھ بھرا ہوا تھا. ان میں سے: ٹی رو قیمت کے ساتھ اکاؤنٹ ترتیب دینا سست ہے۔ انفرادی اسٹاک اور اختیارات کی تجارت کے ل a ، بروکریج اکاؤنٹ کی منظوری میں ایک دن یا زیادہ وقت لگتا ہے۔ اکاؤنٹ مینجمنٹ ، مشورتی تعلقات ، اور دلال ایک دوسرے سے منقطع ویب صفحات کی شکل و صورت ٹریڈز کی اقسام یکساں نہیں ہے۔ آپ شروع سے ایک اکاؤنٹ بنا سکتے ہیں یا اپنے گوگل یا فیس بک اکاؤنٹس استعمال کرسکتے ہیں۔ سائن اپ فوری اور سیدھا ہے ، اور یہاں تک کہ آپ کو 14 دن کی مفت آزمائش کی مدت بھی مل جاتی ہے ، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا زپیئر واقعی آپ کے لئے کام کرتا ہے۔ پیداوار کے طریقہ کار کی اکائیوں کا مقصد اثاثہ کے اصل استعمال کو قیمت میں ہونے والے تخمینی نقصان سے جوڑ کر سیدھے راستے کی طریقہ کار کی حدود کو دور کرنا ہے۔ فرض کریں کہ ایک بوتلنگ مشین بنانے میں ،000 120،000 کی لاگت آتی ہے اور یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ 20 ملین بوتلیں سافٹ ڈرنک تیار کرنے سے پہلے اسے ،000 20،000 میں بچا سکے گی۔ 20 ٹریڈز کی اقسام ملین یونٹوں کے دوران مجموعی طور پر فرسودگی $ 100،000 ہے۔ لہذا ، مشین فرض کی جارہی ہے کہ فی بوتل تیار کردہ قیمت میں آدھے فیصد کی کمی ہوسکتی ہے۔ فائدہ فرسودگی کی لاگت کا کہیں زیادہ درست تخمینہ ہے ، جو نہ صرف حقیقی اخراجات کی ایک بہتر تصویر مہیا کرے گا بلکہ فرم کی ملکیت میں آنے والے ہر اثاثہ کی صحیح حالت کا اندازہ کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔ 6) آپ کو واقعی ایک زبردست ویڈیو کی ضرورت ہے. معاشی تجزیہ انفرادی اشارے کے مطالعہ کے ذریعے انٹرپرائز ٹریڈز کی اقسام کی معاشی سرگرمی کا مطالعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، یہ عناصر میں ایک پوری کی تقسیم ہے۔ ہر چیز کا مطالعہ کیا جاتا ہے: اس طرح کے اشارے میں تبدیلی کی وجوہات ، ان کے درمیان تعلقات اور دیگر مظاہر وغیرہ۔ آفسٹی YTD نمبروں کی گنتی کرنے یا فارمولے بنانے میں جو مفید ثابت ہوسکتا ہے جو قطار میں ڈیٹا لیتے ہیں اور کالموں میں استعمال کرتے ہیں۔ Vimeo پر ویڈیوز دیکھ رہا ہے. زیادہ تر لوگوں ٹریڈز کی اقسام کے آئی کیو اسکور کی نمائندگی گھنٹی کے وسط میں ہوتی ہے ، 85 اور 115 کے درمیان۔ مجموعی طور پر ، تقریبا 98 فیصد لوگوں کا اسکور 130 سے ​​کم ہے۔ اگر آپ 2 فیصد میں اعلی اسکور کے ساتھ ہیں تو ، آپ ایک ہیں آؤٹ لیٹر. ایک بار جب شخص آپ کے لنک (یعنی ، آپ کا اشتہار) پر کلیک کردے اور مصنوع خرید لیا تو ، ملحق ، مرچنٹ ، وابستہ اور نیٹ ورک سب پیسہ کماتے ہیں۔ غیر جمہوری معلومات کے بغیر سرمایہ کار. حیرت کی بات ہے ٹریڈز کی اقسام ، سب سے پہلے مسئلہ کے ماہانہ میگزین "دنیا کی سائنس فکشن" شائع کیا گیا تھا میں ، سوویں-نومبر میں.
قدرتی آفات کو برداشت کرنے کے لیے تعمیراتی کوڈز اور قوانین کا سختی سے اطلاق ناگزیر ہے، علی امین گنڈاپور - dailygulfnews قدرتی آفات کو برداشت کرنے کے لیے تعمیراتی کوڈز اور قوانین کا سختی سے اطلاق ناگزیر ہے، علی امین گنڈاپور admin اکتوبر 8, 2021 October 8, 2021 0 تبصرے 22 مناظر اسلام آباد (گلف آن لائن)وفاقی وزیر آمور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ قدرتی آفات کو برداشت کرنے کے لیے تعمیراتی کوڈز اور قوانین کا سختی سے اطلاق ناگزیر ہے۔ جمعہ کو وفاقی وزیر نے 8 اکتوبر 2005 کے المناک زلزلے کے 16 سال مکمل ہونے پر اپنے پیغام میں کہاکہ 16 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود متاثرہ عوام کے دلوں میں اپنے پیاروں کی یادیں اور غم آج بھی زندہ ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ 2005 کے المناک زلزلے میں کشمیری عوام نے اپنی پوری ایک نسل کو کھو دیا۔ وفاقی وزیر نے بلوچستان میں زلزلے کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان پر بھی گہرے دکھ ورنج کا اظہار کیا اور کہاکہ ہم نے اپنی نسلوں کو بڑھتی ہوئی قدرتی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے منظم منصوبہ بندی سے کام کرنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پاکستان کو بے پناہ چیلنجز درپیش ہیں، وزیراعظم عمران خان موسمیاتی تبدیلیاں سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنا ایک وژن رکھتے ہیں ۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کے بلین ٹری منصوبے کو عالمی سطح پر سہرا جا رہا ہے ، تعمیرات کے شعبے کی ترقی کو جغرافیائی خدوخال کے مطابق بنانا ہے۔علی امین گنڈاپور نے کہاکہ قدرتی آفات کو برداشت کرنے کے لیے تعمیراتی کوڈز اور قوانین کا سختی سے اطلاق ناگزیر ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہر شعبے میں مافیاز کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے، حکومت شفاف طرز حکومت سے ہر شعبے میں معیار اور میرٹ کو یقینی بنا رہی ہے
» سیکرٹری پرندہ (سانپوں کا سب سےبڑا شوقین) سیکرٹری پرندہ (سانپوں کا سب سےبڑا شوقین) منہ عقاب جیسا ، ٹانگیں بغلے جیسی جسم تقریباً 5 کلو وزنی اور قد انسانی بچے جتنا 4 فٹ اور کچھ انچ۔یہ پرندہ سو ڈان اور سائوتھ افریقہ کے درمیان گھاس اور بوٹیوں کے گرم میدانوں(Savanna) میں پایا جاتا ہے۔ اس پرندے کی پہچان کی خاص وجہ اسکی من پسند خوراک سانپ اور کوبرا ہیں اس کے علاوہ یہ چھپکلیوں، مینڈک، کیڑے، بھڑ، چوہے اور خرگوش کے بچے بھی کھا جاتا ہے۔یہ اس کام کے لئے اپنے پنجوں کا استعمال کرتا ہے۔ سانپ کے ساتھ سامنا ہوتے ہی یہ اپنے پر لمبے کرکے پھیلا لیتا ہے اور سر کو اٹھا کر اپنے سر کا کالے پروں کا تاج اٹھا لیتا ہے۔ سانپ چونکہ کمزور نظر رکھتے ہیں اور دشمن کی حرارت محسوس کرکے اسکی جسامت کا اندازہ لگاتے ہیں اس لئے یہ پرندہ سانپ کو ڈرانے میں کامیاب رہتا ہے ۔ اسکی نظر سانپ کے سر پر جمی رہتی ہے اور موقع پاتے ہی یہ اس کے سر پر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیتا ہے۔ سانپ اس پر جوابی کاروائی بمشکل ہی کرسکتا ہے کیونکہ سانپ کی رفتار اسکے مقابلے میں کم ہے اور اگر کر بھی لے تو اسکے پھیلے ہوئے خشک پر ہی اس کے منہ میں آئیں گے اور اسکی خشک ٹانگیں اور ان پر چڑھی ہوئی جلد پر سانپ کا منہ نہیں پڑ سکتا حالانکہ یہ پرندہ سانپ کے زہر سے مر سکتا ہے اور نیولے کی طرح زہر سے immune نہیں ہے ۔ اس کے پنجہ مارنے کی رفتار آپ کی پلک جھپکنے سے بھی تیز یعنی 10 سے 15 ملی سیکنڈ ہوتی ہے اور پنجے میں طاقت اسکے جسم سے بھی تین گنا زیادہ یعنی 20 کلو ہوتی ہے یعنی جیسے سانپ کے سر پہ 20 کلو کا پتھر مار دیا ہو۔ یہ اپنے شکار کو مارنے کے بعد سالم نگل جاتا ہے۔اسکا نام بھی دلچسپ ہے اور اسکے پیچھے کئی کہانیاں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے شروع میں چونکہ کلرک اور سیکٹری پرندوں کے کھمب(Quills) سیاہی میں استعمال کرکے ان سے لکھا کرتے تھے اور اس پرندے کے سر کے کھنمب بھی پھیلے ہوئے اسی طرح لگتے ہیں تو اس وجہ سے اسکا نام پڑا۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ اسکا نام سو ڈان کی قومی زبان عربی سے لفظ سقر الطیر سے نکالا گیا ہے جسکا مطلب ہے صحرائی عقاب۔ بہرحال جیسا اس کا نام ہے اسی لحاظ سے یہ پرندہ Secret بھی ہے یعنی اسکے عمل تولید (sex life) کے بارے میں کچھ معلوم نہیں البتہ یہ ضرور جانکاری ملی ہے کہ یہ گھاس کے میدانوں میں موجود ببول کے درخت ( acacia) پر سوکھی ٹہنیاں ڈال کے اپنا گھونسلہ بناتے ہیں اور سال میں دو سے تین انڈے دیتے ہیں۔ مادہ یہ سبز و نیلے رنگ کے انڈے دو سے تین دن کے وقفے سے ایک ایک کرکے دیتی ہے۔ نر بھی انڈے سینکنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر کام شکار کا ہوتا ہے۔ تقریباً 50 دن میں انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جنہیں نر اور مادہ دونوں کھلاتے ہیں بعض اوقات خوراک کافی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایک یا دو بچے مر جاتے ہیں اور زیادہ تر مرنے کے چانس سب سے چھوٹے بچے کے ہوتے ہیں۔ یہ پرندہ سو ڈان کی خاص پہچان ہے وہاں اسکی تصویروں کے ڈاک ٹکٹ بھی موجود ہیں اسکے علاوہ صدراتی جھنڈے اور صدارتی مہر پر بھی اس پرندے کا Logo درج ہے۔ یہ پرندہ زہریلے سانپوں سے مقابلہ کرتا ہے جو اس ملک کے لئیے دشمن سے مقابلہ کرنے کے مشابہہ ہے۔ یہ پرندے ایسی گھاس کے آس پاس رہنا پسند کرتے ہیں جو دو فٹ سے زیادہ اونچی نہ ہو کیونکہ وہاں یہ اپنا شکار آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی کا بڑا حصہ زمین پر چل کر ہی گزارتے ہیں اور دن میں 35 کلومیٹر تک 120 قدم فی منٹ کی رفتار سے چلتے رہتے ہیں۔ یہ بہت اونچی اڑان بھر سکتے ہیں اور اکثر اپنے مسکن کے اوپر دن کے وقت کھلی فضا میں اڑتے رہتے ہیں تاکہ گرمی سے بچ کر ٹھنڈی ہوا کے مزے لیں۔ شکار کا وقت عموماً سہ پہر سے شام تک رہتا ہے اور شام کے بعد یہ اڑ کر اپنے گھونسلے میں چلے جاتے ہیں جہاں یہ رات گزارتے ہیں۔ حضرت انسان کا گھاس کے میدانوں کو جلا جلا کر گھریلو مویشیوں کی جگہ بنانے اور سڑکیں تعمیر کرنے کی وجہ سے ان پرندوں کو شکار ڈھونڈنے میں مشکل پیش آرہی ہے جسکی وجہ سے یہ اپنی نسل ٹھیک طرح سے بڑھا نہیں پارہے اور انکی نسل ڈرامائی انداز میں کم ہوئی ہے جس پر بین القوامی جانوروں کی تنظیموں نے اسے معدومیت کے خطرے میں شمار کر کے گورمنٹ کو آگاہ کیا ہے اور گورمنٹ ان کی نسل کی حفاظت کے لئیے حرکت میں آئی ہے۔ اسکے علاوہ کئی مقامی قبیلے اس کے جسم کی چربی کو ابال کر گھریلو مرغیوں کو کھلاتے ہیں اس کے انڈے استعمال کرتے ہیں اور اسکے پروں کو جلا کر بیماریوں سے بچائو کے لئیے دھونی لیتے ہیں اس کا بھی ان کی نسل کم ہونے پر اثر پڑا ہے۔ قدرتی ایکو سسٹم میں ایسے جانوروں کا بقائو بہت ضروری ہے جو زہریلے جانوروں کو کھا کر انکی آبادی میں تناسب رکھیں جس سے انسانی نسل محفوظ رہے۔سیکرٹری پرندوں پر کوئی بھی مائی کا لال جانور عام طور پر حملہ نہیں کرتا البتہ انکے بچے مقامی کووں ، الو اور عقاب کا شکار ضرور ہوجاتے ہیں۔
بہار اسمبلی تشدد کی راہل گاندھی نے مذمت اورتیجسوی یادو نے نتیش کمار سے معافی کا مطالبہ کیا – Urdu Tahzeeb بہار اسمبلی تشدد کی راہل گاندھی نے مذمت اورتیجسوی یادو نے نتیش کمار سے معافی کا مطالبہ کیا نئی دہی، پٹنہ:بہار اسپیشل آرمڈ پولیس بل2021 پر بحث کے دوران منگل کے روز بہار قانون ساز اسمبلی میں کافی ہنگامہ ہوا۔ اس دوران اپوزیشن کی مرکزی جماعت آر جے ڈی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کے ساتھ ایوان کے اندر بھی پولیس کی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعلی نتیش کمار پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس واقعے سے یہ بات واضح ہے کہ وزیر اعلی آر ایس ایس کے زیر اثر آچکے ہیں۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ، "بہار قانون ساز اسمبلی کے شرمناک واقعہ سے یہ بات واضح ہے کہ وزیر اعلی مکمل طور پر آر ایس ایس / بی جے پی کے زیر اثر آچکے ہیں.جمہوریت کو پامال کرنے والوں کو حکومت کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے.اپوزیشن اب بھی عوامی مفاد میں آواز اٹھائے رکھے گی ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے نتیش حکومت کو پانچ سال تک اسمبلی کا بائیکاٹ کرنے کی وارننگ دی ہے۔ بدھ کو بہار اسمبلی انتخابات میں ایوان کی کارروائی سے متوازی اراکین اسمبلی کے ساتھ بیٹھے تیجسوی یادو نے اسمبلی احاطے میں ہوئی مارپیٹ اور لاٹھی چارج کے حادثہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ کھلے طور پر نتیش کمار کو وارننگ دی۔ ساتھ ہی کہا کہ اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس کے لئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو معافی مانگنی چاہئے،اسمبلی میں اپنے اراکین اسمبلی کے ساتھ کالی پٹی باندھ کر پہنچے تیجسوی یادو نے کہا کہ نتیش کمار سی گریڈ پارٹی کے لیڈر ہیں۔ اسمبلی میں اخلاقیات کو تار تار کرتے ہوئے ہمارے اراکین اسمبلی کو گندی گندی گالیاں دی گئیں۔ تیجسوی نے کہا کہ ایوان میں ہمارے سوال پر نتیش کمار کچھ نہیں بولتے ہیں۔ نتیش جی کو کوئی خود سے علم نہیں ہے، لیکن وہ مجھے نصیحت دیتے ہیں۔
اہلِ کتاب اور نااہلِ کتاب !! 🌹 – QALAMDAN Home / اسلام / اہلِ کتاب اور نااہلِ کتاب !! 🌹 اہلِ کتاب اور نااہلِ کتاب !! 🌹 Babar 10/06/2020 اسلام Leave a comment 57 Views ((((( الماٸدہ ، اٰیت 77 ))))) 🌹 🌹 علم الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لاٸن ھے جس سے روزانہ 75 ہزار سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹 🌹 قل یٰاھل الکتٰب لا تغلوافی دینکم غیرالحق ولاتتبعوا اھوا ٕ قوم قد ضلوامن قبل واضلواکثیرا وضلواعن سوا ٕ السبیل 77 اے ھمارے سفیرِ جہان ! آپ اہلِ کتاب کے نام اپنا یہ فرمان جاری کردیں کہ وہ اللہ کے مُتوازن دین کو اپنی مُبالغہ آمیز تعبیرات کے ذریعے غیر مُتوازن دین بناکر خود کو اُن پہلے گُم راہ لوگوں کے ساتھ شامل نہ کریں جو دین کی ایسی ہی لایعنی تعبیرات کر کے پہلے خود گُم راہ ھوۓ اور پھر دُوسرے لوگوں کو بھی گُم راہ کرنے کا باعث بنے ، یہاں تک کہ گُم راہ کرنے والے سارے لوگ اور گُم راہ ھونے والے سارے لوگ بھی اجتماعی گُم راہی کا شکار ھو کر دین سے بُہت دُور چلے گۓ ! 🌹 دینِ بلُوغ اور دینِ مُبالغہ ! 🌹 اٰیتِ ھٰذا میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کے اِس فرمانِ عام کے ذریعے اہلِ کتاب کو دینِ حق میں ناحق اضافوں سے اجتناب کا جو حکم دیا ھے اِس سے قبل سورةُالنسا ٕ کی اٰیت 171 میں بھی اللہ نے اپنے ایک براہِ راست خطاب میں اہلِ کتاب کو یہی حُکم دیا ھے جس کا اِس مقام پر اُس نے اپنے نبی اور اپنے رسول کی زبان سے اِعادہ و تکرار کیا ھے تاکہ سُننے والوں کو اِس دُوسرے دُھرے حکم کے بعد وہ پہلا حکم بھی یاد آجاۓ اور اُن پر اِس حُکمِ مکرر کی اَہمیت پہلے سے زیادہ بہتر طور پر واضح ھو جاۓ ، اللہ تعالٰی نے اہلِ کتاب کو پہلے بذاتِ خود اور بعد ازاں اپنے نبی کی زبان سے جس عمل سے احتراز کا حکم دیا ھے اُس عمل کا نام" غُلوّ " ھے اور جو شخص اِس غُلوّ کا اِرتکاب کرتا ھے وہ انسانی معاشرے میں اپنے نظریات کے حوالے سے ایک ایسا مُتشدد طبع اور غالی صفت انسان بن کر سامنے آتا ھے جو ہر وقت اور ہر مقام پر اپنی اِس عادتِ بَد کے تحت اپنی ذات کو ایک بے وُقعت ذات اور اپنی بات کو ایک بے حقیقت بات بنادیتا ھے اور اپنی اِس عادتِ بَد کے ساتھ وہ اور تو جو چاھے بن جاۓ لیکن وہ دین کے ایک داعی و مُبلغ کے طور دین کی کوٸ خدمت بجالانے کے قابل نہیں ھوتا کیونکہ دین کے اُس داعی کے حوالے سے دین کا جو تصور سامنے آتا ھے وہ انسانی فطرت کے لیۓ ناقابلِ قبُول ھوتا ھے اسی لیۓ اللہ تعالٰی نے غُلوّ کے اِس عمل کی سختی کے ساتھ مُمانعت کی ھے ، علمِ لُغت اور علماۓ لُغت کے نزدیک غُلوّ کا ایک لُغوی معنٰی تیر کو دَست و کمان کے زور سے دُور تک پُہنچانا ھوتا ھے اور اِس کا ایک معنٰی اپنی بات کو اپنی زبان اور اپنے بیان کے زور سے دُوسروں کے دل میں بٹھانا بھی ھوتا ھے ، اسی طرح غُلوّ کا ایک معنٰی اپنی قابلِ فروخت اَشیا ٕکی قیمت کو بڑھاچڑھا کر بتانا اور بیچنا ھوتا ھے اور اِسی غلُوّ کا ایک معنٰی اپنے قابلِ فروغ نظریات کی حقیقت کو اصل سے بڑھا چڑھا کر دُوسروں کو سُنانا اور پھر اپنے اِس دروغ کے ذریعے اُن کو اپنے اِن نظریات کے زیرِ اثر لانا ھوتا ھے ، اسی طرح غُلوّ کا ایک معنٰی درخت کا شاخ دار ھونا اور اِس کا ایک معنٰی گوشت کا چربی دار ھونا بھی ھوتا ھے اور اسی طرح غُلوّ کا ایک معنٰی ہانڈی کا وہ اُبال ھوتا ھے جو ہانڈی کے کناروں کو جَلا دیتا ھے اور اِس کا ایک معنٰی انسانی فکر و نظر کا وہ جَنجال ھوتا ھے جو انسان کے دین و ایمان کے لیۓ ایک وبال ھوتا ھے ، اِنسانی اَعمال کے اِس مآل کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ انسان جب اپنے تیر کو اُس کی مناسب حَد سے زیادہ دُور تک پُہنچانے کی کوشش کرتا ھے تو وہ تیرِ ھوا کے زور سے اپنے ہَدف کے بجاۓ کہیں اور جا پُہنچتا ھے اور جب انسان ایک سچی بات میں جُھوٹ کی ملاوٹ کرتا ھے تو اُس کا سچ بھی جُھوٹ میں شامل ھو کر ایک جُھوٹ بن جاتا ھے ، اسی طرح جب ایک درخت زیادہ شاخ دار ھو جاتا ھے تو اُس کا پَھل اُس کے پَتوں میں چُھپ کر ایک عام ضرورت مند کی انسان کی دَسترس سے دُور ھو جاتا ھے اور اسی طرح جو گوشت بہت زیادہ چربی دار ھوجاتا ھے تو وہ گوشت بھی انسانی جسم میں جا کر انسانی جسم کے لیۓ نفسانی و رُوحانی فساد کا باعث بن جاتا ھے اور اسی طرح جب ہانڈی کا اُبال ضرورت سے زیادہ ھو جا تا ھے وہ اپنے ہی کناروں کو جلا کر ہانڈی کو بیکار کر دیتا ھے اور بالکُل اسی طرح جب ایک انسان اپنے اَعمال کو ھوش و حواس کے بجاۓ وحشیانہ جوش و جذبات سے اَنجام دیتا ھے تو وہ توازن کے بجاۓ عدمِ توازن کا شکار ھو جاتا ھے ، قُرآنِ کریم نے غُلوّ کے اِس عملِ بَد سے اجتناب کے حق میں یہ تاریخی دلیل دی ھے کہ گزشتہ اَقوام اسی عملِ غُلوّ کے باعث عدم توازن کا شکار ھو کر ایک فکری و نظری موت کا شکار ھوتی رہی ہیں اور دُوسرے انسانوں کو بھی اسی فکری و نظری موت سے ہَمکنار بناتی رہی ہیں ، نتیجہِ کلام یہ ھوا کہ اگر انسان فطری اِرتقا کے تدریجی عمل سے گزرکر حَدِ کمال کو پُہنچتا ھے تو یہ اِس کا بلُوغ کہلاتا ھے اور انسان کا دین بھی ارتقاۓ وقت کے فطری عمل سے گزر کر حَدِ کمال تک پُہنچتا ھے تو کارِ اِبلاغ قرار پاتا ھے لیکن ہر وہ شٸ جو ارتقاۓ حیات و ارتقاۓ وقت کے فطری دورانیۓ سے گزرے بغیر اَنجام پزیر ھوتی ھے وہ اسی غُلوّ کے زُمرے میں آتی ھے جس سے اللہ نے منع کیا ھے ، مرضِ غُلوّ کا پہلا راستہ کسی بڑے انسان کی غیر ضروری تعظیم ھوتا ھے اور دُوسرا ذریعہ دین کی وہ غیر فکری اور غیر فطری تعلیم ھوتا ھے جس کی بُنیاد میں وہ غُلوّ یا مُبالغہ ھوتا ھے جو اپنے نتاٸج و عواقب کے اعتبار سے ایک ایسا خطرناک مرض ھوتا ھے جو غُلوّ کے مریض کو اُس وقت بھی محسوس نہیں ھوتا جب چشمِ بینا رکھنے والا ہر ایک شخص اُس کو فرقہ پرست اور غالی کہہ رہا ھوتا ھے ! 🌹 اہلِ کتاب اور نا اہلِ کتاب ! 🌹 انسان جب مرضِ غُلوّ کا شکار ھو کر غالی ھو جاتا ھے تو وہ اپنے عقاٸد و نظریات کو دُوسروں کے سامنے مُبالغے اور غُلوّ کے ساتھ پیش کرتا ھے جس کی وجہ سے پہلے تو ایک وقت تک اُس کے وہ عقاٸد و نظریات حقیقت اور اَفسانے کے ایک ملے جُلے قالب میں جمع ھو کر زندہ رہتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد انسان کے وہ عقاٸد و نظریات اُس اَفسانے کے تاریک سمُندر میں اُتر کر فنا ھوجاتے ہیں اور اُس اَفسانے کے اُس سمندر پر اُس کا وہ چمکتا ھوا جھاگ رہ جاتا ھے جس کی جُھوٹی چمک کو دیکھ کر ہی گُم راہ اہلِ عقاٸد کے یہ گُم راہ قافلے ہمیشہ خوش ھوتے رہتے ہیں کہ وہ مزعومہ نظریات کو پھیلا رھے ہیں حالانکہ وہ اپنی ذات اور اپنے نظریات کو مٹا رھے ھوتے ہیں ، ھم جن مُردہ اہلِ عقاٸد کے مُردہ عقاٸد و نظریات کی جو حقیقت بیان کر رھے ہیں اُس حقیقت کو سمجھنے کے لیۓ ہمیں کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں ھے کیونکہ یہ حقیقت اللہ تعالٰی نے اِس اٰیت کے متن میں خود ہی بیان کر دی ھے کیونکہ ھم یہ بات جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ کٸ صدیوں سے ھم جن لوگوں کو اہلِ کتاب کہتے چلے آ رھے ہیں اُن سے ھماری مُراد یھُود یا نصارٰی ہیں لیکن کیا ھم نے اِس بات پر بھی کبھی کُچھ غور کیا ھے کہ یھُود و نصارٰی کے اپنے دین میں غُلوّ کرنے سے اللہ کو ایسی کیا خاص دِل چسپی ھے کہ اُس نے ایک بار بذاتِ خود اہلِ کتاب کو دین میں غُلوّ کرنے سے منع کیا ھے اور دُوسری بار اپنے رسول کے توسط سے اُن کو اِس کام سے اِجتناب کی تلقین کی ھے اور ہمیں نہ تو خود اللہ نے اِس بُرے کام سے رُکنے کا کوٸ حکم دیا ھے اور نہ ہی اپنے رسول کے توسط سے ہمیں اِس عمل سے اِجتناب کی کوٸ تعلیم دی ھے ، یھُود و نصارٰی سے اللہ کے اِس لگاٶ اور اہلِ اسلام کے ساتھ عدمِ لگاٶ کی کوٸ تو قابلِ فہم وجہ ھونی چاہیۓ جو موجود نہیں ھے اور اِس وجہ کے موجود نہ ھونے کا مطلب صرف اور صرف یہ ھے کہ اِس اٰیت کا وہ مفہوم بہر حال نہیں ھے جوصدیوں سے اِس اُمت کے اَحبار و رُہبان اِس اُمت کو سمجھاتے چلے آرھے ہیں بلکہ اُن کی اِس تفہیم اور تعلیم کے بر عکس زمینی حقیقت یہ ھے کہ جو لوگ ھمارے ہَم وطن ھوتے ہیں ھم اُن کو اہلِ وطن کہتے ہیں ، جو لوگ ھمارے گھر میں رہتے ہیں ھم اُن کو اہلِ خانہ کہتے ہیں ، جو لوگ کسی زبان میں ماہر ھوتے ہیں ھم اُن کو اہلِ زبان کہتے ہیں ، جو لوگ کسی کام کے ماہر ھوتے ہیں ھم اُن کو اہلِ حرفہ کہتے ہیں ، جو لوگ کسی زبان میں شاعری کرتے ہیں ھم اُن کو اہلِ سُخن کہتے ہیں لیکن ھم اللہ کی آخری کتاب کے آخری وارث ھونے کے باوصف بھی خود کو بھی اہلِ کتاب کہنے کے بجاۓ صرف اُن لوگوں کو اہلِ کتاب کہتے ہیں جن کے پاس سرے سے کوٸ کتاب ہی موجود نہیں ھے ، اِس اُمت کے ساتھ یہ سب کُچھ جو ھوا ھے وہ اِس سبب سے ھوا ھے کہ اِس اُمت کے اَحبار و رُہبان نے اسلام کی پہلی صدی کے نصف اَوّل میں ہی اُمتِ مُسلمہ کے اہلِ کتاب ھونے کے اِس اعزاز کو اِس سے چھین کر اِس کی ایک جماعت کو اہلِ تشیع اور ایک جماعت کو اہلِ تسنن بنا دیا تھا ، پھر اسلام کی پہلی صدی کے پہلے نصف کے اسی دُوسرے حصے میں اُمت کی ایک جماعت کو اہلِ فقہ اور ایک جماعت کو اہلِ حدیث بنادیا گیا تھا جس کے بعد اِس اُمت میں اہلِ تسنن بھی ہمیشہ موجود ر ھے ہیں ، اہلِ تشیع بھی ہمیشہ موجود رھے ہیں ، اہلِ فقہ بھی مُستقل طور پر موجود ر ھے ہیں ، اہلِ حدیث بھی مُستقل طور پر موجود رھے ہیں ، اہلِ تصوف بھی ہمہ وقت موجود رھے ہیں اور اہلِ سلُوک و اہلِ طریقت بھی ہمہ وقت موجود ر ھے ہیں لیکن اِس اُمت میں اہلِ کتاب کبھی بھی موجود نہیں ر ھے ہیں اور نہ ہی اُن کو موجود رہنے دیا گیا ھے ، حالانکہ اللہ نے اِس اٰیت میں غُلوّ سے مُمانعت کا جو خطاب فرمایا ھے اُس خطاب کی مخاطب یہی اُمت ھے جس کے پاس قُرآن کی صورت میں اللہ کی یہ کتاب موجود ھے اور اللہ کے رسول کے خطاب کی مخاطب بھی یہی عظیم اُمت ھے جس عظیم اُمت کو اُس عظیم نبی نے اپنے اُوپر نازل ھونے والی اِس عظیم کتاب کا وارث بنایا ھے لیکن گزشتہ کٸ صدیوں سے اِس اُمت کی کتاب بخاری و مُسلم ھے یا ترمذی و ابُو داٶد ھے اور یا پھر نَساٸ اور ابنِ ماجہ ھے لیکن قُرآن اِس اُمت کی کتاب نہیں ھے اور یہ سب کُچھ نتیجہ ھے اُس غُلوّ کا جس غُلوّ سے اللہ نے ہمیں اجتناب کا حکم دیا ھے لیکن ھمارے عجمی مَکتب کے عجمی مُعلم ہمیں مُسلسل یہی افسانہ سناتے چلے آ رھے ہیں کہ اللہ اور اُس کے رسول کے اِس خطاب کے مُخاطب یھُود و نصارٰی ہیں ، مُسلمان اِس خطاب کے مُخاطب نہیں ہیں کیونکہ مُسلمان اہلِ کتاب نہیں بلکہ نااہلِ کتاب ہیں !!
حامد ابراہیمی 2020/11/14 فائدہ مند تجارت وکر می فری ٹیر ہے ، جس میں ایک سے ایک کو خفیہ مواصلات یا ایک نجی گروپ کی اجازت ہے جس میں دس تک شرکاء شامل ہیں۔ آپ بھی ، خفیہ کردہ صوتی کالنگ کے لئے ویکر کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ویکر میں ایک فرہمی پیغامات کا آپشن شامل ہے ، جو آپ کو اپنے پیغامات کے فاریکس میں کتنا سرمایہ لگانا ہے لئے خود ساختہ ٹائمر مرتب کرنے دیتا ہے۔ (میسنجر کی دیگر خدمات بھی خود ساختہ پیغامات کی تائید کرتی ہیں۔) کوئی بھی فائلیں ، صوتی پیغامات ، تصاویر ، یا ویڈیوز جو آپ وکر کے ذریعہ بھیجتے ہیں وہی ایک ہی خفیہ کاری بھی رکھتے ہیں۔ یقینی بنائیں کہ آپ اندر ہیں SEPA کی منتقلی. جب آپ بلاک کرنے کا شیڈول کرتے ہیں تو ، اسی شیڈول کا استعمال سائٹس کو مسدود کرنے اور خدمات کو مسدود کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت کے بارے میں معلومات کے ل block کہ آپ کیبل موڈیم راؤٹر کو کس طرح روکنا چاہتے ہیں ، دیکھیں انٹرنیٹ سائٹس کو مسدود کرنے کیلئے کلیدی الفاظ استعمال کریں صفحہ 30 اور پر انٹرنیٹ سے خدمات بلاک کریں صفحہ 32 پر۔ پلازما جھلی اس طرح ایک ہے semipermeable جھلی : پانی ، (H2O) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) جیسے چھوٹے ، نانچارج انو آسانی سے راستے میں بدل سکتے ہیں ، جبکہ دوسروں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے یا وہ جھلی کو سیدھے عبور کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ بھی یہ کہے بغیر چلے جانا چاہئے کہ اگر ہمارے کسی ہوسٹنگ اکاؤنٹ میں اگر کوئی سکیورٹی کا کوئی بڑا مسئلہ پاپ اپ ہو جاتا ہے تو ، اگر بہت ہی کم وقت ہوتا ہے ، یا اگر ڈیٹا کی کوئی بڑی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہم اپنے جائزوں میں اس کی اطلاع دیتے ہیں۔ شکر ہے ، یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ آپ کی کتاب کے لئے سامنے اور پیچھے کے معاملات کی تشکیل. کولیور کے مطابق ایسے پیچیدہ نیٹ ورکس کی تحقیقات میں سوشل میڈیا پر مختلف پیجز اور اکاؤنٹس کے مواد کی کارکردگی جانچنے والے پلیٹ فارمز اہم کردار ادا کرتے ہیں جیسا کہ کراؤڈ ٹینگل (CrowdTangle) گیپی ( Gephi) اورBellingcat's List of OSINT Tools آئی ایس ڈی کے محققین نے مشکوک "نیچرل نیوز" سے جڑے اداروں کے آن لائن ایڈریسز کو گوگل ارتھ ( Google Earth ) کے ذریعے ڈھونڈا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ان ایڈریسز پر حقیقت میں دفاتر کی عمارتیں موجود ہیں کہ نہیں. یہ فلم اسی نام سے مائیکل اونڈاٹجی کے ناول کی موافقت ہے۔ ایک انتہائی جلائے ہوئے شخص ، الماسی کی دیکھ بھال اس کی نرس ، ہانا کی تھی ، جو دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ایک اطالوی خانقاہ میں اس سے ملا تھا۔ اس فاریکس میں کتنا سرمایہ لگانا ہے کا ماضی ایک شادی شدہ انگریز خاتون اور افریقی زمین کی تزئین کی نقشہ سازی کے کام کی یادوں کے ذریعہ سامنے آیا ہے۔ حنا مرنے والے انسان کی مدد کرتے ہوئے اپنے زخموں کو ٹھیک کرنا سیکھتی ہے۔ پرچون دلالوں میں فیس کے ڈھانچے کی ایک وسیع رینج ہوتی ہے جو بہت مسابقتی ہوتی ہے۔ زیادہ تر فرمیں پلیٹ فارم کی فیس کے ساتھ فی ٹریڈ فی فلیٹ کمیشن وصول کرتی ہیں جب تک کہ جب کاروباری حجم یا اکاؤنٹ کے سائز کی بات نہ کریں تو وہ کچھ کم سے کم پورا نہ کریں۔ یہ اکاؤنٹ ذیلی فیس کے ساتھ بھی آسکتے ہیں جیسے غیر فعالیت کی فیس یا اکاؤنٹ کی منتقلی کی فیس۔ فیسوں اور کمیشنوں کے جمع ہونے کے بعد ، آپ کے کامیاب تجارت سے حاصل ہونے والا منافع آپ کے پاس ہے۔ ہمارے پاس ڈی اسکیلیشن ٹیم تھی ، جو واقعتا طاقتور تھی۔ ہم لوگوں سے بات کرتے تھے جب وہ بحث کرتے تھے۔ ہم کہہ رہے تھے ، ہمیں پولیس کی ضرورت نہیں ہے ، لڑکوں ، آپ کو بات چیت کرنے کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ آپ کو ایک دوسرے کو سمجھنے یا ایک دوسرے کو پسند کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آئیے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ احترام سب سے نیچے کی لکیر ہے۔ جسمانی تشدد کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ، ایک دوسرے پر زبانی طور پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس اتنی جگہ ہے ، آئیے ہم اسے پھیلائیں ، ٹھنڈا کریں اور بات فاریکس میں کتنا سرمایہ لگانا ہے کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ ہمارے گروپوں میں بہت سارے حلقے تھے جہاں ہم ایک دوسرے سے بات کرتے تھے یہاں تک کہ دوسرے منتظمین کے ساتھ بھی جو اس جگہ کو منظم کرنے کے ہمارے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ کامل اکاؤنٹنگ اسسٹنٹ ایپ کے ذریعہ آپ کے پاس دیکھنے کے لچکدار اختیارات ہیں۔ صرف آمدنی ، صرف اخراجات ، یا دونوں دیکھیں۔ ایک پائی یا بار چارٹ منتخب کریں اور مرکزی سکرین پر مہینے کے لئے تمام لین دین دیکھیں۔ آپ اسے کسی رنگ یا تھیم کی مدد سے بھی ذاتی نوعیت بنا سکتے ہیں اور اپنے اکاؤنٹس ، ممبروں اور زمرے کو آسانی سے منظم کرسکتے ہیں۔ پوزیشن‌ها می‌توانند به صورت داوطلبانه یا غیر داوطلبانه بسته شوند. . یقینا ، ذائقہ ایک ذاتی چیز ہے۔ آپ اپنی چائے کو اوسط شخص سے کہیں زیادہ مضبوط یا کمزور پسند کرسکتے ہیں۔ ذائقہ جڑی بوٹیوں کے معیار اور تازگی پر بھی منحصر ہے ، لہذا مزہ اور تجربہ کریں۔ صرف اس پرانے کہاوت کو یاد رکھیں ، آپ ہمیشہ مزید اضافہ کرسکتے ہیں ، لیکن آپ اس میں کم اضافہ نہیں کرسکتے ہیں۔ آراء یا چارج بیکس کی وجہ سے لاک آؤٹ. فری لانس کی ادائیگی مشکل ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی مقررہ شرح نہیں ہے اور کام کی ضرورت کی بنیاد پر قیمتوں میں ڈرامائی طور پر اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ بہت سے پیشہ ور افراد اس وقت سے چارج لیں گے اور ان کی شرحوں پر معاہدہ کریں گے (عام طور پر $ 25- $ 85 / hr کے درمیان ہیں) انشورنس ایجنٹوں اور دلالوں کے ساتھ ساتھ انشورنس سے متعلقہ سرگرمیوں میں مصروف پروڈیوسر اور ایڈجسٹرز کو این پی این تفویض کیا جاتا ہے۔ اس تعداد کے ساتھ ، ریگولیٹری باڈیز آسانی سے کسی شخص کی شناخت کرسکتی ہے چاہے اسے متعدد ریاستوں میں کاروبار کرنے کا لائسنس ملا ہو۔ مزید برآں ، یہ سوشل سیکیورٹی نمبروں کے استعمال کو روکنے کے ذریعے شناخت کی حفاظت کرتا ہے۔ MICRO: بیس کرنسی کے 1،000 یونٹ کے برابر 1 micro لاٹ ہے STANDARD: بیس کرنسی کے 100،000 یونٹ کے برابر 1 standard لاٹ ہے Ultra Low Micro: بیس کرنسی کے 1،000 یونٹ 1 micro لاٹ کے برابر ہے Ultra Low standard: بیس کرنسی کے 100،000 یونٹ کے برابر 1 standard لاٹ ہے. گراہم فاریکس میں کتنا سرمایہ لگانا ہے نے ایک ایسے سرمایہ کاری کے نقطہ نظر کی بھی وکالت کی جو انسانی غلطی کے ل safety سرمایہ کاری کے ل safety حفاظت یا کمرے کا ایک فرق فراہم کرے۔ اس کو پورا کرنے کے لئے کچھ راستے ہیں ، لیکن کم قیمت یا غیر منحصر اسٹاک خریدنا سب سے اہم ہے۔ سرمایہ کاروں کی غیر معقولیت ، مستقبل کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ، اور اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاو سرمایہ کاروں کو تحفظ کا ایک معمولی فرق فراہم کرسکتا ہے۔ سرمایہ کار اپنے محکموں کو متنوع بناتے ہوئے اور اعلی منافع بخش پیداوار اور کم قرض سے ایکویٹی تناسب والی کمپنیوں میں اسٹاک خرید کر بھی حفاظت کا ایک حاشیہ حاصل کرسکتے ہیں۔ حفاظت کے اس مارجن کا مقصد سرمایہ کاروں کے نقصانات کو کم کرنا ہے جب ایسی صورت میں جب کوئی کمپنی دیوالیہ ہوجائے۔ ٹی شرٹ فیکٹری ڈیلکس میں بھی سکین شدہ تصاویر یا اسکین ڈیزائنوں میں ترمیم کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو 30 ڈالر کی سستی قیمت کے ساتھ آتے ہوئے بھی کافی اچھی ہے۔ استراتژی معاملات فارکس روشی است که توسط معامله گر فارکس برای تعیین خرید یا فروش یک جفت ارز در هر زمان مشخص استفاده می شود. سودے بازی کی خریداری میں ان حصص کا انتخاب کرنا شامل ہے جو ان کی اصل قیمت سے کافی نیچے فروخت ہو رہے ہیں ، جیسا کہ معقول اعتبار سے قابل اعتماد تکنیک کے ذریعہ ماپا جاتا ہے۔ عام طور پر پیمائش کا تعین کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ آیا اسٹاک کو کم قیمت دی گئی ہے یا اس کی زیادہ قیمت کی جارہی ہے اس کی قیمت سے کمائی (P / E) تناسب ہے جو کمپنی کے حصص کی قیمت کو اس کے حصص کی فی حصص (EPS) کے ذریعہ تقسیم کرکے پایا جاسکتا ہے۔ ای پی ایس کمپنی کے منافع کو اس کے بقایا حصص کے ذریعہ تقسیم کرکے پایا جاتا ہے۔ کھلی حمایت یافتہ خانوں کو یہ فائدہ ہے کہ وہ ختم ہونے والی جگہ کے حجم کو باکس کے سائز تک محدود نہیں کرتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے منظرنامے دیئے گئے ہیں جہاں ایک باکس فراہم کرتی ہے اس سے زیادہ حجم رکھنا ضروری ہے: دولت مشترکہ بمقابلہ ہنٹ میساچوسٹس سپریم کورٹ کا معاملہ تھا جس نے مزدور یونینوں پر اپنے فیصلے کی مثال قائم کی۔ اس معاملے کے فیصلے سے قبل ، واضح نہیں تھا کہ امریکہ میں لیبر یونینیں دراصل قانونی تھیں یا نہیں۔ تاہم ، عدالت نے مارچ ، 1842 میں فیصلہ دیا کہ اگر یونین کو قانونی طور پر تشکیل دیا گیا تھا اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے صرف قانونی ذرائع استعمال کیا گیا تھا ، تو یہ حقیقت میں قانونی تھا۔ 3ـ سومین انگیزه، اعمال مدیریت ARMS – LENGTH در شرکت های دولتی است که به آنها اجازه می‎دهد تا به تدریج با عوامل و نیروهای بازار مواجه شوند. امر، یک روش کلاسیک در افزایش بازده اقتصادی است که در بند قبل توضیح داده شد. همین انگیزه، دلیل اصلی تاسیس شرکت های هولدینگ در الجزایر (سال 1988) بود. تغییر ساختار شرکت های دولتی مصر (1991) و تبدیل آنها به شرکت های هولدینگ نیز به منظور افزایش تمرکز زدایی و بازده عملیاتی صورت گرفته است. . ایکسچینج لسٹنگ کا مطلب کمپنی کے حصص یافتگان کے حصص کے ل ready تیار لیکویڈیٹی ہے۔ یہ کمپنی کو مزید حصص جاری کرکے اضافی رقوم اکٹھا کرنے میں اہل بناتا ہے۔ عوامی تجارت میں حصص کی خریداری سے باصلاحیت ملازمین کو راغب کرنے کے لئے اسٹاک آپشنز کے منصوبے مرتب کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ فہرست کمپنیوں مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ مرئیت ہے۔ تجزیہ کار کی کوریج اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کا مطالبہ حصص کی قیمت کو بڑھا سکتا ہے۔ درج کمپنیوں کو حصول کے ل currency کرنسی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے حص orے میں یا سارے حص considerationے پر سود ادا کیا جاتا ہے۔ خطرے میں کم/درمیانی حد تک اضافہ اور معاشرے میں انفیکشن کا کم پھیلاؤ. خاص طور پر ، حصص یافتگان کے کارکنوں کے کام میں دلچسپی لیں (جو اپنے حصص کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے کمپنی فاریکس میں کتنا سرمایہ لگانا ہے کے رہنماؤں پر شیئر ویلیو بڑھانے کے ل make تبدیلیاں لیتے ہیں) ، اور قدر والے سرمایہ کاروں (جو کمپنیوں کے اسٹاک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں) یقین کریں ابھرتی ہوئی منڈیوں میں۔ آئی بی ایم کے ذریعہ تیار کردہ اور فروخت کردہ ، یہ جامع ، لچکدار ہے اور تقریبا کسی بھی قسم کی ڈیٹا فائل کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ، بڑے پیمانے پر سروے کے اعداد و شمار کے تجزیہ کے ل it یہ خاص طور پر مفید ہے۔
ہنگو میں خود کش بم حملہ، پانچ افراد ہلاک | حالات حاضرہ | DW | 24.03.2011 پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک پولیس اسٹیشن پر ایک موٹر گاڑی کی مدد سے کیے گئے خود کش بم حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ پچیس سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ آج جمعرات کی صبح ضلع ہنگو کے علاقے دو آبہ میں پیش آیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس خود کش حملے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جبکہ چار شہری ہلاک ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دھماکے کی شدت سے پولیس اسٹیشن کے علاوہ اس کے ساتھ واقع دس گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ مقامی پولیس کے اعلیٰ اہلکار عبدالرشید نے بتایا،' بمبار دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی میں سوار تھا، اس نے پولیس اسٹیشن کے نزدیک پہنچ کر گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہو گئے'۔ انہوں نے بتایا کہ بظاہر بمبار کی کوشش تھی کہ وہ پولیس اسٹیشن کو براہ راست نشانہ بناتا تاہم وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ راستے میں رکاوٹیں کھڑی تھیں۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے حامی اس طرح کے حملے کرتے رہتے ہیں فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ ایک اور مقامی پولیس اہلکار محمد مسعود خان آفریدی نے بھی اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے حامی اس طرح کے حملے کرتے رہتے ہیں۔ طالبان باغی اس طرح کے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ 2007ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے طالبان جنگجوؤں کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد سے اب تک کم ازکم چار ہزار ایک سو افراد خود کش حملوں اور دیگر پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ موضوعات خیبر پختونخوا, عالمی ماحولیاتی کانفرنس ایک یا ایک سے زیادہ کلیدی الفاظ درج کریں ہنگو, دوآبہ, خیبر پختونخوا, شمالی مغربی علاقے, ستحڈ, بون, خود کش حملہ, کار خود کش حملہ, جرمنی ڈوئچے ویلے
پرچی میرے پاس آگئی ہے سندھ اسمبلی کا اجلاس 08/06/2021 08/06/2021 0 تبصرے 40 مناظر کراچی (نامہ نگار خصوصی )سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل کواسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے شروع ہوا۔کارروائی کے آغاز میںبحریہ ٹاون میں پیش آنے والے واقعہ کی مذمت کی گئی اور اس واقعہ میں زخمی ہونے والے افراد کی جلد صحت یابی کے ساتھ ساتھ اربوں روپے نقصانات کے ازالے کی استدعا کی گئی ۔ارکان کا کہنا تھا کہ کئی افراد کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔انہوں نے کہا کہ سندھ دھرتی پر جس قسم کے واقعات ہورہے ہیں وہ تشویشناک ہیں ۔پی ٹی آئی کے رکن خرم شیر زمان نے کہا کہ امید ہے وزیراعلیٰ سندھ اس معاملے پر پالیسی بیان دینگے۔ایوان میںٹرین حادثے میں جاںق افراد کے ایصال ثواب کے لئے دعا مانگی گئی اورزخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعاکی گئی۔ ایوان نے کینڈا میں پاکستانی نژاد فیملی کے افراد کی ہلاکت پر اظہار افسوس اور ایصال ثواب کے لئے دعاکی ۔اجلاس میںکورونا وباءسے جاں بحق افراد کے لئے بھی دعاکی گئی ۔ اجلاس میںعلامہ سعد حسین رضوی کی جلد رہائی کے لئے دعاکی استدعا کی گئی ۔اجلاس کی تاخیر کے حوالے سے پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان نے اسپیکر آغا سراج درانی سے کہا کہ اسپیکر صاحب اپ وقت پر آجاتے ہیں مگر حکومتی ارکان وقت پر نہیں آتے ۔خرم شیرزمان نے حکومتی بینچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے کہیں یہ بھی وقت پر آجایا کریںکیونکہ ٹیکس کا پیسہ ضائع ہوتا ہے۔اس موقع پر وزیر پارلیمانی امور مکیش کمار چاﺅلہ نے کہا کہ یہ تین روز سے احتجاج کرکے ٹیکس کا پیسہ ضیاع کررہے ہیں ان کو بھی احساس ہونا چاہیے۔ کراچی (نامہ نگار خصوصی )پارلیمانی سیکرٹری برائے ماحولیات یوسف بلوچنے کہا ہے کہ گڈاپ میں جتنی بھی غیر قانونی فیکٹریاں موجود ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔حکومت سندھ نے 200 غیر قانونی فیکٹریاں بند کی ہیں۔انہوں نے یہ بات منگل کو سندھ اسمبلی میں محکمہ ماحولیات سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان نے کہا کہ غیر قانونی فیکٹریاں حکومت سندھ کی نالائقی کی وجہ سے کھلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں شراب کی دکان پر گیا وہاں رش تھا،پورا شہر بند تھا لیکن کورنگی شراب کی دکانیں کھلی تھی جس پر وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ خرم شیرزمان کو زیب نہیں دیتاکہ وائن شاپ جائیں۔مکیش کمار چاﺅلہ کی اس بات پر ایوان میں قہقہے بلند ہوئے۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر سیما ضیا نے کہا کہ پارلیمانی سیکریٹری کو ایوان میں جواب دیناچایئے ۔جس پر یوسف بلوچ نے کہا کہ پرچی میرے پاس آگئی ہے سوال کا جواب دے سکتاہوں ۔ ٹی ایل پی کے رکن اسمبلی مفتی قاسم فخری نے سوال کیا کہ غیرقانونی فیکٹری کب سے قائم ہیں اور کتنی غیرقانونی فیکٹریوں کے خلاف حکومت نے ایکشن لیا جس پر پارلیمانی سکریٹری یوسف بلوچ نے کہا کہ جہاں سے شکایات موصول ہوتی ہیں ہم ایکشن لیتے ہیں۔پارلیمانی سکریٹری ماحولیات نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سندھ بھر میں 38ہزار گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ دھواں خارج کرنے والی گاڑیوں کے کارروائی کی جاتی ہے ۔ان گاڑیوں کے چالان کیے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ای پی اے کے ریجنل دفاتر موجود ہیں۔پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے دریافت کیا کہ 50لاکھ گاڑیوں کی فٹنس کا نظام کیوں نہیں لایا جارہا۔جس پر وزیر ایکسائز مکیش کمار نے کہا کہ سندھ میں 40لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور فٹنس سرٹیفکیٹ لوڈنگ گاڑیوں کا ہوتا ہے۔ کراچی (نامہ نگار خصوصی ) سندھ اسمبلی کے اجلاس میں منگل کو پرائیوٹ ممبرز ڈے کے موقع پر اپوزیشن کے ارکان کی جانب سے کئی نجی بل منظور ی کے لئے پیش کئے گئے لیکن حکومت کی جانب سے ان بلوں کی مخالفت کے باعث کوئی ایک بل بھی منظور نہ ہوسکاجن میں ایم ایم اے کے رکن سید عبدالرشید کا اٹھارہ سال کی عمر والے بچوں کی لازمی شادی سے متعلق بل بھی شامل ہے۔اس بل کے ذریعے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے لازمی شادی کی تجویز پیش کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ مجوزہ قانون کے تحت 18سال کے بچوں کی شادی نہ کرانے پر والدین کو جرمانہ عائد کیا جائے۔وزیر اپرلیمانی امور مکیش کمار چاﺅلہ کی مخالفت کے باعث یہ بل منظور نہ ہوسکا اور اسپیکر نے اسے مسترد کردیا ۔سندھ اسمبلی کی خاتون رکن رابعہ اظفر کی جانب سے سندھ پروہیبیشن آف میتھامیٹافائن کا غیر سرکاری بل پیش کیاگیا تھا جو بعد میں انہوں نے واپس لے لیا گیا۔ایوان نے پی ٹی آئی کی رکن ادیبہ حسن کا ایک اور نجی بل بھی رد کردیا ۔ادیبہ حسن سندھ نے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ترمیمی غیر سرکاری بل پیش کیا اسے بھی ایوان کی جانب سے رد کردیا گیا۔بل کے تحت اتھارٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس میں کس طرح کام ہورہا ہے۔وزیر پارلیمانی امور مکیش کمار چاولہ کی مخالفت کے بعد ایوان نے غیر سرکاری بل کو مسترد کردیا۔تحریک انصاف کے سعید آفریدی نے سود کے خلاف غیر سرکاری بل ایوان میں پیش کیا ، ان کا کہنا تھا کہ سود حرام ہے اس لئے یہ بل ایوان سے منظور کیا جائے۔مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ اس طرح کاسرکاری بل ہم ضرور لیکر آئیں گے فی الوقت اس کی منظوری نہیں دلاسکتے۔ایوان نے اس بل کو مسترد کردیا۔ پی ٹی آئی کے رکن فردوس شمیم نقوی نے سندھ بچوں کی شادی پر پابندی سے متعلق ترمیم کا غیر سرکاری بل پیش کیا۔ اور کہا کہ ہم نے این جی اوز کی درخواست پر بل لیکر آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے کم عمر بچوں کی شادی کرتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔وزیر اپرلیمانی امورمکیش کمار چاولہ نے کہا کہہم اس کو اس لیے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ پہلے سے قانون میں موجود ہے۔اسپیکر نے بل کومسترد کردیا جس کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل پندرہ جون تک ملتوی کردیا گیا۔
مشرقی اور مغربی ممالک میں پہنے جانے والے روایتی عروسی ملبوسات- خبریں دنیا - تسنیم نیوز ایجنسی مشرقی اور مغربی ممالک میں پہنے جانے والے روایتی عروسی ملبوسات شادی کا دن زندگی کا اہم ترین ہوتا ہے اور اس دن کی مناسبت سے ہر جوڑا ہی سجتا سنورتا ہے لیکن مشرقی اور مغربی ممالک کی دلہنیں اپنے ملک کی ثقافتی اور روایتی عروسی لباس زیب تن کر سجتی سنورتی ہیں۔ 12 اپریل 2017 - 18:19 خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ہر ممالک میں دلہن کا لباس وہاں کی ثقافت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کا رنگ اور دیگر تفصیلات اُس جگہ کے مذہب وغیرہ کی روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں دلہن "شرارا اور لمبی قمیض" پہنتی ہیں اور لمبا دوپٹہ اوڑھتی ہیں جو بھاری کام سے تیار کیا گیا ہوتا ہے، اسی طرح ترکی میں دلہن ایک سرخ 'دوشیزگی' کی بیلٹ خوش قسمتی کی علامت کے طور پر پہنتی ہے، اریٹیریا میں دلہن گہرے رنگ کے ریشمی تاج اور جامنی و گولڈ عبادہ زیب تن کرتی ہے۔ دنیا بھر میں جوڑے کس طرح کے عروسی ملبوسات پہنتے ہیں، آپ بھی جان کر یقینا لطف اندوز ہوں گے۔ پاکستان کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اپنے ملک کی روایات کے بارے میں کافی کچھ علم ہے۔ سرخ یا گلابی عروسی ملبوسات بھارتی ثقافت میں دلہن کا روایتی انتخاب ہوتا ہے۔ چین کا روایتی عروسی لباس سرخ ہے، چین میں ویسے سفید رنگ کو ماتم کا رنگ مانا جاتا ہے، شادی کے بعد دلہا دلہن کے سر سے سرخ دوپٹے کو ہٹاتا ہے۔ جاپانی شادیوں میں دلہن اکثر دو یا اس سے زائد ملبوسات پوری تقریب میں استعمال کرتی ہے جو کہ سفید اور سرخ رنگ کے ہوتے ہیں۔ انڈونیشیا میں ایک سے دوسرے جزیرے میں شادی کی روایات مختلف ہوتی ہیں، ویسے بھی تین سو نسلی گروپس اور چھ بڑے مذاہب کو ماننے والے افراد پر مشتمل اس ملک کی ثقافت متعدد رنگوں کی حامل ہے۔ یورپ اور ایشیا کی سرحد پر موجود اس خطے میں روایتی شادی کے موقع پر دلہا وہاں کا روایتی کوٹ پہنتا ہے جبکہ بیلٹ سے تلوار بندھی ہوتی ہے، دلہن اکثر سفید عروسی لباس میں ہوتی ہے جس پر خوبصورت سیاہ پٹیاں لگی ہوتی ہیں۔ ملائیشیا میں اکثر دلہن جامنی یا کریم رنگ کے عروسی لباس کا انتخاب کرتی ہے۔ جنوبی کوریا میں روایتی انداز سے شادی کرنے کا رواج حالیہ عرصے میں زور پکڑتا جا رہا ہے ہے، یہاں کی تاریخی روایات کے مطابق دلہا اپنی بیوی کو کمر پر اٹھا کر میز کے گرد گھومتا ہے، جو اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلہن اپنے شوہر پر انحصار کرسکتی ہے۔ نائیجریا میں دلہنیں روایتی عروسی ملبوسات کا انتخاب کرتی ہیں، جبکہ سر پر ایک مخصوص پگڑی ٹائپ کپڑا بندھا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کسی سری لنکن روایتی شادی میں شرکت کا موقع ملے تو آپ کی نگاہیں دلہا سے نہیں ہٹ سکیں گی۔ آج کل اس ملک میں اکثر نوجوان شادی کے موقع پر جدت کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم روایتی تقریبات اب بھی اس کے دیہی علاقوں میں ہوتی ہیں، اگرچہ یہ ملک زیادہ بڑا نہیں مگر اس کے ہر خطے کی شادی کے حوالے سے اپنی روایات ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں دلہا عام طور پر اسکرٹ پہنتا ہے، جبکہ شادی کی تقریب کے بعد دلہا ایک شال دلہن کے کندھے پر ڈالتا ہے جو اس کے خاندان کے رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس طرح یہ دلہن کی نئے خاندان میں رکنیت کی علامت بن جاتا ہے۔
مینار پاکستان واقعہ ، 'ویڈیوز کے زریعے ملزمان کی شناخت نادرا سے کرائی جائے گی' مینارِ پاکستان واقعہ ، 'ویڈیوز کے زریعے ملزمان کی شناخت نادرا سے کرائی جائے گی' لاہور : معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا ہے کہ مینار پاکستان واقعے میں ملوث ملزمان کی ویڈیوز کے ذریعے نادرا سے شناخت کرائی جائے گی، قانون ہر صورت ملوث ملزمان کو سخت ترین سزائیں دے گا۔ تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مینار پاکستان واقعے کے حوالے سے بتایا کہ اعلی پولیس افسران لاہور واقعے کی ویڈیوز کا جائزہ لے چکےہیں ، ویڈیوز سے ملزمان کی شناخت نادرا سے کرائی جائے گی، عاشور کی وجہ سے نادرا کے دفاتر بند ہیں ، نادرا سے رابطہ کر کے اس پر فوری کام شروع کیا جائے گا، قانون ہر صورت ملوث ملزمان کو سخت ترین سزائیں دے گا۔ دوسری جانب سینیٹر فیصل جاوید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا مینارپاکستان پر پیش آنیوالےواقعےکےمجرموں کوسخت سزادی جائے گی ، وزیراعظم اسطرح کےوحشیانہ سلوک کوقطعا برداشت نہیں کریں گے۔ PM will not tolerate any type of violence and barbaric acts against humanity. Culprits of these crimes will be severely punished. Govt is committed to stand up for victims of violence and abuse. #MinarePakistan — Faisal Javed Khan (@FaisalJavedKhan) August 18, 2021 گورنرپنجاب چوہدری سرور نے گریٹراقبال واقعہ کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا خاتون پرتشددمیں ملوث افرادانجام سے بچ نہیں سکیں گے، خواتین ملک وقوم کی عزت ہیں ان کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا ، خواتین کی مضبوطی سے پاکستان مضبوط ہوگا تاہم خواتین کیساتھ مظالم کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجائے گا۔
'پہلےکے وزیر شریف تھےمیں اتنا شریف نہیں ہوں' 'پہلے کے وزیر شریف تھےمیں اتنا شریف نہیں ہوں' وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ جیل میں قیدی کیساتھ غیر انسانی سلوک اپنایا جائے تو مجھ سے رابطہ کریں پہلےکے وزیر شریف تھےمیں اتنا شریف نہیں ہوں، یہ برداشت نہیں کروں گا۔ ایک بیان میں فیاض چوہان نے کہا کہ جیل خانہ جات کی ذمہ داری دی گئی تو واویلہ مچایا گیا، م لیگ جتنا کھلےگی اتنا ش لیگ اورپی ڈی ایم کابیڑا غرق کرے گی، جیل میں قیدی کیساتھ غیر انسانی سلوک اپنایاجائےتو مجھ سے رابطہ کریں اگر اس قسم کی کوئی شکایت آئی تو برادشت نہیں کروں گا۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ حمزہ شہباز اورشہباز شریف جیل میں سرپکڑےبیٹھے ہیں کہ بیگم صفدر اعوان نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ حمزہ شہباز اورشہباز شریف کی آخری پیشی میں مریم نوازملنے گئیں، پورا آل خاندان تقسیم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیگم صفدر اعوان نےانٹرویودیا جوفرمایا عجیب و غریب تھا کل کہتی ہیں میں سب کےسامنےبات کروں گی،ڈیل ہوگی، بیگم صفدر صاحبہ اکیلے رہ گئی ہیں مریم نواز نےجتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا کسی سیاستدان نے نہیں پہنچایا، مریم نوازکواللہ سےاپنےگناہوں کی معافی مانگنی چاہیے، جمہوریت کی واحد ضامن پاک فوج اورریاستی ادارے ہیں اب مریم نواز نے بھی کہہ دیا ہے فوج کو عزت دو، فوج اور عوام کی درمیان جو محبت ہےوہ کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ پی پی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول کی اپنی ڈفلی ہے اور مولانا اپنی بانسری بجارہے ہیں، پچلھے 6سال میں ووٹ کوعزت دونعرے نےکان پکادئے، آصف زرادری جیسےانٹرنیشنل ڈاکونے 5سال پورے کیے، سلطان مفرور ارتغرل کی پارٹی نے5سال کی مدت پوری کی، جب ایسی شکلیں اپنی مدت پوری کرسکتی ہیں تو عمران خان کیوں نہیں؟ عمران خان نےمعیشت کو مضبوط کیا۔
اداریہ جدوجہد: 18 اکتوبر کی شکست 2007ء میں آمریت اور جمہوریت کا ایک بے ہودہ ملغوبہ بکھرنے لگا تھا۔ معاشی شرح نمو کا تیز ابھار آٹھ سالوں میں سماج میں تضادات کو مٹانے کی بجائے ان کو بھڑکا گیا تھا۔ہر روز 10 ہزار انسان غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے تھے۔زندگی مزید اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ سماج میں اضطراب اور اور ہلچل تیز ہو رہی تھی۔ دہشت گردی کی سامراجی جنگ پورے معاشرے میں خلفشار کو بڑھا رہی تھی۔اس معاشی سماجی اور اقتصادی بحران میں شدت سے حکمرانوں کے ایوان لرزنا شروع ہو گئے تھے۔اس سرمائے کی استحصالی جمہوریت کی متوالی سول سوسائٹی حرکت میں آگئی تھی۔ جابر انہ ریاست کے ایک ہی مقصد اور کردار کے حامل اداروں کے باہمی تضادات جو سماج میں ابھرتے ہوئے لاوے سے پھٹ رہے تھے وہاں عدلیہ کی آزادی کے نام پر اسی نظام کو آسرا دینے کیلئے ہر نظریاتی تفریق اور طبقاتی کشمکش کو ہذف کرتے ہوئے درمیانے طبقے کے افراد و وکلاء کی تحریک کے نام پر ایک غیر سیاسی تحریک کو چلانے کی کوشش کر رہے تھے حکمرانوں کے چند سنجیدہ ماہرین نیچے سے ابھرنے والی غیر سول (Uncivil) سوسائٹی یعنی محنت کشوں اور محروم عوام کی تحریک کے خوف سے اس سول سوسائٹی کی تحریک کو طبقاتی کشمکش کو زائل کرنے کی کوشش میں سرگرم تھے۔لیکن سول سوسائٹی کی تحریک ایک محدود پیمانے پر چلتی رہی محنت کش عوام اس کو دیکھتے رہے۔ محظوظ ہوتے رہے۔لیکن اس تحریک کے مقاصداور مطالبات میں نہ تو ان کے مسائل کا حل تھا نہ ہی انکے دل کو لگتی تھی۔ ان کے اندر جلنے والے آگ ٹھنڈی نہیں ہورہی تھی۔ ان کے اندر کسی اور راستے اور مقصد و منزل کی جستجو بھڑک رہی تھی۔ اور پھر 18 اکتوبر2007ء کو بے نظیر بھٹو جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو عدلیہ کی تحریک کے ہزاروں کی جگہ یہاں لاکھوں اپنے دلوں میں اس ذلت کی نجات کی آرزو لئے کراچی میں ایک جم غفیر کی صورت میں تاریخ کے میدان میں داخل ہوئے۔اتنے بڑے اجتماع میں جہاں ہر کوئی اپنے انفرادی مسائل کے حل کے لئے آیا تھا وہاں پہنچ کر یہ ایک اجتماعی مقصد اور مطالبہ کی صورت اختیا ر کر گیا تھا۔اس کی خاموش سرسراہٹ نے جہاں مشرف اور بے نظیر کے درمیان دبئی میں ہونے والی ڈیل کے پرخچے اڑا دئیے تھے وہاں اس نے روائتی قیادت کواس کے اپنے ہی استقبال سے ششدر اور حیران کر کے رکھ دیا۔ ریاست گھبراہٹ کا شکار ہوگئی۔ اس بوکھلاہٹ میں دہشت گردی نے دو سو معصوم جانوں کو ان امیدوں سے بھرے محنت کشوں سے چھین لیا۔ لیکن تحریک اس خونی ضرب سے رکنے کی بجائے اور شدت اختیار کر گئی۔جوں جوں یہ شمال کی طرف بڑھنے لگی اس کی وسعت اور طاقت میں تیزی آتی گئی۔ ایک مرتبہ پھر یہاں کے عوام ایک نئی جدوجہد میں اجاگر ہورہے تھے۔ریاست کے قدامت پرست دھڑے اس کو ایک خطرے کا الارم سمجھ کر اس کو کچلنے کے لئے بے قرار ہو رہے تھے۔ اصلاح پسند دھڑے اس امید میں تھے کہ شاید یہ نعرہ بازی اور وعدوں میں کنٹرول اور زائل ہو جائے گی۔ لیکن راولپنڈی میں ہونے والے جلسے میں فوج کی تمام تر تعریفیں بھی ریاست کے رجعتی عناصر کو وار کرنے سے نہ روک سکیں۔امریکی سامراج اور مصالحت کروانے والے دھڑے دیکھتے ہی رہ گئے۔شاید وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس تحریک کے روایتی محور کو ختم کیے بغیر یہ تحریک پورے نظام کے لئے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کا وحشیانہ قتل کیا گیا۔ پورے ملک میں ایک حشر بپا تھا۔ لیکن ایک مارکسی لیننسٹ پارٹی کے فقدان میں عوام کا یہ لاوا بے سود بہہ کر بکھر گیاتھا۔پیپلز پارٹی کی نئی وراثتی قیادت نے ریاست اور سامراج سے مل کر اس خون کا انقلابی انتقام لینے کی بجائے اسی رائج سرمایہ دارانہ نظام کو ''جمہوریت'' کے نام پر تحفظ دینے کی پالیسی اختیا ر کی۔عوام کے غم کو ان کی مایوسی اور بدگمانی میں منتقل کرنے کا لائحہ عمل اختیار کیا۔ نئی جمہوری حکومت میں سرمایہ داری نے محنت کش عوام پر اقتصادی درندگی کی انتہا کر دی۔ مہنگائی ،بیروزگاری ،غربت اور ذلت کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں تک پہنچ گئیں۔ دکھی عوام پر مزید زخموں کی بوچھاڑ کر دی۔ 18 اکتوبر کی تحریک شکست اور پسپائی کا شکار ہو گئی۔ جو سرمایہ داری نے تابڑتوڑ حملے عوام کی زندگیوں پر کئے ان سے مایوسی مزید گہری ہوئی۔سماج کے اس جمود اور تحریک کی پسپائی میں لوٹ مار ،بدعنوانی اور استحصال کی انتہا کر دی گئی۔آج عوام اس بربادیوں کے معاشرے میں سلگ رہے ہیں۔لیکن وقت آہستہ آہستہ ان کے زخم مندمل کر رہا ہے۔ذلت میں پھر وہ ابھرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔بہت سے اسباق حاصل ہوئے ہیں۔رائج سیاست اور حاوی پارٹیوں سے وہ اچاٹ دلبرداشتہ اور مایوس ہیں۔کریں بھی کیا؟فرق بھی کیا ہے؟ لیکن عوام کی سیاسی بے حسی کے نیچے پھر سے ایک لاوا پک رہا ہے۔ وہ آتش فشاں پھر پھٹنے والا ہے۔لیکن کسی جمہوریت یا آمریت کی لڑائی کے لئے نہیں، سیکولرازم اور قدامت پرستی کی معرکہ آرائی کے لئے نہیں بلکہ صدیوں سے نسل در نسل استحصال اور ظلم کے خلاف اس اذیت ناک زندگی سے نجات کے لئے ایک نئے سماج کے لئے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے لئے۔ اس سماجی بغاوت میں شاید کچھ دیر ہے لیکن یہ اندھیرنہیں چل سکتا۔ اس انقلابی تحریک کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے بھر پور تیاری اور تربیت کی ضرورت ہے۔وقت شاید کم ہے اورفریضہ بہت بڑا۔ لیکن اس کے علاوہ نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں!
افغانستان اور پاکستان کی سرحد طورخم کے ذریعے 10 ہزار سے زائد پاکستانی روپوں کی ترسیل پر پابندی عائد ہونے سے دونوں ممالک کا تاجر طبقہ اور علاج کی غرض سے آنے والے افراد پریشانی سے دوچار ہیں۔ افغانستان کی حکومت نے چند روز قبل پاکستان کے سرحد سے ملحقہ جلال آباد شہر اور دیگر علاقوں میں پاکستانی کرنسی میں لین دین کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس پابندی کے بعد چند سرکاری اہل کاروں نے لین دین میں استعمال ہونے والی پاکستانی کرنسی ضبط کر کے اسے جلا ڈالا تھا۔ اس واقعے کے بعد سرحدی حکام نے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والوں کے لیے صرف 10 ہزار روپے رکھنے کی حد مقرر کر دی ہے۔ حکومت کے فیصلے کے بعد کابل، جلال آباد اور دیگر شہروں میں عرصہ دراز سے موجود پاکستانی تاجروں نے پاکستانی روپے طورخم کے ذریعے پاکستان منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہیں اجازت نہیں دی گئی۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اُن کے کروڑوں روپے ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ طورخم میں دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے تاجر قاری نظیم گل شینواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان سے افغانستان جانے والوں کو 10 ہزار روپے سے زائد روپوں کے علاوہ غیر ملکی کرنسی لیجانے پر بھی پابندی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے بقول دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ طورخم میں ایک کسٹم کلیرنگ ایجنٹ ابلان علی نے بھی تصدیق کی کہ 10 ہزار روپوں سے زیادہ لانے اور لیجانے پر پابندی سے عام لوگوں جو دونوں ممالک کے درمیان علاج معالجہ اور دوستوں اور عزیز و اقارب سے ملنے آتے ہیں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پشاور کے کرنسی مارکیٹ میں ایک تاجر کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے اور افغان حکومت پر زور دے کہ وہ پاکستانی تاجروں کو رقوم پاکستان منتقل کرنے کی اجازت دے۔ افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والوں کے لیے غیر ملکی کرنسی لانے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر اس کے لیے معقول وجہ بتانا لازمی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا سب سے زیادہ فائدہ خیبر پختونخوا ہی کو ہے۔ لہذٰا صوبائی حکومت اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تاجروں سے رابطہ کرے گی۔ عرصہ دراز سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کے علاوہ پشاور، کوئٹہ، کابل اور جلال آباد میں دونوں ممالک کے کرنسی میں لین دین کا سلسلہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ افغانستان میں جنگ اور داخلی محاذ آرائی کے دوران پشاور کے چوک یاد گار کے کرنسی مارکیٹ کو افغانستان کے لیے اسٹاک ایکس چینج کا درجہ حاصل تھا۔ دونوں ممالک کے ہزاروں تاجر اور دیگر کاروباری شعبوں سے وابستہ لوگوں کے دونوں ممالک میں تجارتی اور کاروباری مراکز اور دفاتر قائم ہیں۔ مگر دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کے باعث یہ طبقات پریشان ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر صدر اردوان کا صائب مشورہ سندھ ہائیکورٹ،سابق وزیر قانون ضیا الحسن لنجارکی درخواست پر نیب کی مزید مہلت کی درخواست مسترد فواد چوہدری کے معذرت کے بعد بھی مونس الہیٰ وفاقی وزیر فواد چوہدری پر برس پڑے جسٹس آصف سعید کھوسہ کل حلف اٹھائیں گے پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند ہی دھند، اہم شاہراہوں پر حد نگاہ انتہائی کم Nov 19, 2016 12:15 AM, November 19, 2016 ترکی کے صدر رجب طیبّ اردوان نے کہا ہے کہ کشمیر کے دُکھ کا احساس ہے مسئلے کا فوری بامعنی حل چاہتے ہیں، ترکی کو کشمیر میں بھارتی مظالم پر گہری تشویش ہے اور وہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں ہے اور اِس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے گا، دونوں ممالک(پاکستان اور بھارت) کو مذاکرات کے ذریعے اِس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔ بین الاقوامی طاقتوں کو بھی اِس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ اور اچھے تعلقات خطے کے لئے ضروری ہیں۔ ترک صدر نے پارلیمینٹ سے اپنے خطاب میں مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت پر زور دیا۔ ترک صدر رجب طیبّ اردوان عالمی سطح پر مسلم جہاندیدہ سیاست دان اور سٹیٹسمین ہیں پاکستان کے ساتھ اُن کے خصوصی دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں ،اِس لئے وہ پاکستان کو وہی مشورہ دیں گے جو پاکستان کے حق میں مفید ہو گا،اِس لئے وہ اگر کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے پُرامن طور پر حل کرنے پر زور دیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں جدید دور میں جنگ کی تباہ کاریوں کا ادراک ہے۔ مشرق وُسطیٰ کا جنگی تھیٹر ترکی کے بہت قریب ہے اور وہاں ہونے والی تباہ کاریوں کا وہ بنظرِ غائر مشاہدہ کر رہے ہیں، اِس لئے وہ جنگ کی حمایت تو نہیں کر سکتے، قبرص کے مسئلے پر انہوں نے ہمیشہ اصولی موقف اپنایا تاہم اس کی وجہ سے جنگ چھیڑنے سے گریز کیا،اِس لئے اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کا تنازعہ بات چیت کے ذریعے حل کریں تو اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے تاہم اِس ضمن میں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر کیسے لایا جائے،کیونکہ بھارت اِس سے گریز پا ہے اور حیلوں بہانوں سے راہِ فرار اختیار کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ برس بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا، جو اب تک شروع نہیں ہو سکے، اِس دوران پٹھان کوٹ ائر بیس اور مقبوضہ کشمیر میں اُڑی جیسے واقعات کی بنیاد پر نہ صرف مذاکرات سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی، بلکہ پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی دراز کیا گیا۔بعد کے واقعات میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ پٹھان کوٹ اور اُڑی کے واقعات میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، خود بھارتی اداروں نے بھی یہ بات تسلیم کی،لیکن بھارتی میڈیا یک طرفہ الزام تراشی کی روش پر اڑا رہا اور بھارتی حکومت کشمیر کی کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا کرتی رہی۔ ایک موقع پر تو ''سرجیکل سٹرائیک'' کا ڈرامہ بھی رچا دیا گیا،لیکن اِس سلسلے میں جو بھی سوالات اُٹھے بھارتی حکومت اور اس کے ذمہ دار اداروں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، جس فورم پر بھی سوال کئے گئے یہی جواب دیا گیا کہ سوال نہ ہی کریں گویا بھارتی حکومت اپنے ڈرامے کو سوالات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند روز قبل کنٹرول لائن کے بھمبھر سیکٹر میں بھارتی فوج نے بلا اشتعال فائرنگ کر کے پاکستان کے سات فوجی شہید کر دیئے، پاکستان میں جہاں جہاں اِن شہدا کی تدفین ہوئی اُن کی تمام تر تفصیلات محفوظ ہیں، تصویریں موجود ہیں اور پاکستانی قوم اپنے اِن شہدا کے جنازوں میں شریک ہوتی ہے اور اس پر فخر کرتی ہے کہ وہ وطن کی حُرمت پر قربان ہو گئے۔ اِس واقعہ کے جواب میں پاکستانی فوج نے حملہ کر کے 11بھارتی فوجی ہلاک کر دیئے اور تین چیک پوسٹیں تباہ کر دیں،لیکن بھارتی سورماؤں کو سانپ سونگھ گیا اور انہوں نے اپنی افواج کے نقصانات کا کسی جگہ تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔کسی اخبار میں اپنے مرنے والوں کا ذکر تک نہیں کیا، کسی ٹی وی چینل پر اس کی خبر نہیں چلی، وجہ غالباً یہ ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج نے اپنے مُلک میں یہ جعلی اور مصنوعی تاثر قائم کر رکھا ہے کہ اس کی فوج علاقے کی بالادست قوت ہے اور کوئی اس کا مدمقابل نہیں، اگر وہ اپنی اموات کو کھلے عام تسلیم کرتے ہیں تو اِن سارے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے،اِس لئے بھارتی فوج اور حکومت اپنے نقصانات کو چھپاتی پھرتی ہے اور اپنی خیالی ''سرجیکل سٹرائیک'' کے چرچے کرتی ہے، چند روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اس کا تذکرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت جرأت کے ساتھ اپنے نقصانات کو تسلیم کرے۔ اس کے بعد بھارت نے اپنی افواج کی تردید کر دی۔ جنگ یا جنگی کارروائیاں ایسی چیز نہیں ہیں جن میں کسی ایک فریق کا تو نقصان ہوتا رہے اور دوسرا مزے سے چین کی بنسری بجاتا رہے،بھارت اگر اشتعال انگیزی کرے گا، پُرامن ماحول کو خراب کرے گا اور پاکستانی پوزیشنوں پر گولہ باری کرے گا تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا جواب بھی اسی شدت سے آئے گا۔پاکستان نے ہمیشہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے تاہم جہاں جواب دینے کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں پوری طاقت سے جواب بھی دیا ہے اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ کنٹرول لائن پر اگر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی تو پھر اسی زبان میں جواب بھی ملے گا، اِس لئے بہتر یہی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے اس کی مخالفت سے بھارت کا بھی نقصان ہو گا اور خطے کا امن بھی غارت ہو گا۔ صدر رجب طیبّ اردوان نے مقبوضہ کشمیر کے حالات اور کشمیریوں کے دُکھوں پر جائز طور پر تشویش ظاہر کی ہے اور بڑی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے،جو اِس صورت میں ادا ہو سکتا ہے کہ بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کریں۔پاکستان نے تو ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے اور کبھی اِس سے راہِ فرار اختیار نہیں کی۔ یہ بھارت ہے جو ہمیشہ مذاکرات سے بھاگتا ہے اور کبھی شروع بھی ہو جائیں تو جب بات کشمیر کی ہوتی ہے تو طرح دے جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اِس سلسلے میں اپنی خدمات کئی بار پیش کر چکے ہیں،لیکن بھارت نے ہمیشہ اِس کا جواب نفی میں دیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیر باہمی مسئلہ ہے اِس پر بات چیت کے لئے کسی تیسری قوت کی ضرورت نہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ تیسری قوت کے بغیر بھارت مذاکرات شروع کیوں نہیں کرتا؟ اب ترکی کے صدر نے مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے پر جو زور دیا ہے وہ خطے کے امن کے لئے بہت اہم ہے اور اِس پر لبیک کہتے ہوئے دونوں ممالک کو مسئلے کا پُرامن حل تلاش کر کے آگے بڑھنا چاہئے تاکہ خطہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ البتہ بھارت کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ وقت گزاری کا رویہ نہیں چلے گا اور مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔
علی اوجی 2018/02/4 فاریکس مارکیٹ کی بنیادی باتیں کچھ سی ای ایس سی ای فوریکس ِ بروکرز دوسروں سے بہتر ہیں ، لہذا یہ ہمیشہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ بہت سارے تعلیمی وسائل کے ساتھ ساتھ تکنیکی اشارے کے ڈھیر کے ساتھ بروکر تلاش کریں۔ دونوں FX مارکیٹوں میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ اگرچہ کچھ خوردہ سرمایہ کار ایک مربوط کارکن کی تحریک کا حصہ ہیں ، اور بہت سے لوگ آسانی سے مارکیٹ کی رفتار سے فائدہ اٹھانے کے لئے ڈھیر ہوگئے ہیں۔ 10 پرسنل فنانس کی کتابیں ہزار سالہ پڑھیں. ہم نے متعدد آلات کو نیٹ ورک سے منسلک کیا: ڈیسک ٹاپ پی سی ، لیپ ٹاپ ، ٹیبلٹ ، اسمارٹ فونز ، ایک ایکس بکس ون کنسول ، چند سمارٹ پلگ ، ایک سمارٹ بلب ، اور ایک وائرلیس پرنٹر۔ ہمارے پاس نیٹ ورک پر مواد بانٹنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا ، اور وائی فائی نیٹ ورک کی کوریج قابل اطمینان ہے۔ جب ہم نے اپنے وائرلیس نیٹ ورک کی منتقلی کی استحکام کی پیمائش کی تو ہمارے مناسب نتائج برآمد ہوئے۔ نیچے گراف میں ، آپ 5 گیگاہرٹج وائرلیس بینڈ پر نیٹ ورک کی منتقلی کا ارتقا دیکھ سکتے ہیں۔ اچانک کوئی قطرہ نہیں ہوا ، لیکن ہم نے منتقلی کی رفتار میں کچھ تغیر محسوس کیا۔ یہ اچھا نہیں تھا ، لیکن اوسط شرح ہماری توقع کے قریب تھی۔ آپ اپنے ایر پوڈس کو باہر لے جانے سے پہلے بہت لمبے وقت تک استعمال کر رہے ہیں. ریڈیوس بینک ایک آن لائن واحد بینک ہے جو 1987 میں قائم ہوا تھا اور اس کا صدر دفتر بوسٹن میں ہے۔ 2020 تک 1.4 بلین ڈالر سے زائد کے اثاثوں کے ساتھ ، یہ ذاتی اور تجارتی بینکاری خدمات کی مکمل تکمیل کی پیش کش کرتا ہے ، بشمول چیکنگ ، بچت ، قرضے ، اور بہت کچھ۔اس لامحدود اے ٹی ایم فیس معاوضے کی پالیسی سے صارفین کو سہولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کریک کراسنگ ، واوبلی گراؤنڈ اور کھڑی خطوں کیلئے عمدہ چلنے کی امداد ہلکا پھلکا ایلومینیم سے بنا عام پیدل سفر کی لاٹھی سے 4 اونس کم وزن کارک ہینڈلز گرم اور سرد دونوں درجہ حرارت میں گرفت کے ل comfortable آرام دہ اور پرسکون ہیں ، نمی پیتے ہیں اور آپ کے ہاتھ کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں. خریداری : ایک ماہ میں. 14.99 کے ل For ، آپ جتنے چاہیں تجارت کرسکتے ہیں ، یا ایک مہینہ 99 6.99 کے ل you ، آپ دو آزاد تجارت کرسکتے ہیں۔ ان قیمتوں پر ، دن کے دوران تجارت میں صف آراء ہوتے ہیں اور تین میں سے ایک تجارتی سیشن کے دوران انجام دیا جاتا ہے۔ سوال 2۔ اگر میں کریپٹوز کی خریداری کے لئے بینک آن لائن تجارت کیا ہے کارڈ استعمال کرتا ہوں تو ، ادائیگی کے معاون طریق کار کیا ہیں؟ خبروں کو ٹریک کرنے کے ل You آپ کو ایک بہت ہی اچھ Calendarا فاریکس کیلکولیٹر ، اقتصادی کیلنڈر اور آسان حساب کتاب کے ل calc کرنسی کنورٹر سے مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ، ایف بی ایس گھر گھر اندر ڈیزائن کردہ ڈیلی مارکیٹ تجزیہ فراہم کرتا ہے اور فاریکس ٹی وی چلاتا ہے ، جہاں آپ کی بہتر معلومات کے ل all تمام خبریں اور تازہ ترین سلسلہ تیار ہوتا ہے۔ - انہوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کی پیچیدگی کو کم کردیا ہے۔ انہوں نے لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔ مبنای نقدی تعدیل شده، روش حسابداری است که به روش حسابداری نقدی کامل شباهت زیادی دارد. تفاوت مبنای نقدی کامل با مبنای نقدی تعدیل شده در نحوه شناسایی و ثبت هزینه هاست. درامدها هم در مبنای نقدی کامل و هم در مبنای نقدی تعدیل شده فقط در زمان وصول وجه شناسایی و در دفاتر ثبت می شوند، لذا این دو مبنا در مورد درامدها مشابه هم عمل می-کنند و تفاوتی با هم ندارند (باباجانی، 1385). مثال کے طور پر ، یہ کہتے چلیں کہ آپ کا اصل خوردہ اسٹور سیلاب میں پڑ گیا ہے۔ آپ کو صفائی کی لاگت کا تخمینہ لگانے ، عمارت کی مرمت ، پانی سے خراب اسٹاک آن لائن تجارت کیا ہے کی جگہ ، نئے ڈسپلے شیلف وغیرہ خریدنے کی ضرورت ہوگی۔ تیل اور گیس کی صنعت میں سرمایہ کاروں کو بیلنس شیٹ پر قرضوں کی سطح پر نظر رکھنی چاہئے۔ یہ ایسی سرمایہ دار صنعت ہے جس میں قرض کی اعلی سطح کمپنی کے کریڈٹ ریٹنگ پر ایک دباؤ ڈال سکتی ہے ، جس سے نئے سازوسامان خریدنے یا دوسرے دارالحکومت کے منصوبوں کی مالی اعانت کرنے کی صلاحیت کمزور ہوسکتی ہے۔ ناقص کریڈٹ ریٹنگ سے اس کے نئے کاروبار کو حاصل کرنے کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ (یہ بھی دیکھیں : قرض کا تناسب: ایک تعارف ۔) مثلاً، اگر آپ بازیابی کے ایک اختیار کے بطور کوئی فون نمبر شامل کرتے ہیں تو آپ کو اپنا پاس ورڈ بھول جانے کی صورت میں آپ کو اسے دوبارہ ترتیب دینے کا اہل بنانے کیلئے Google آپ کو کوڈ پر مشتمل ایک متنی پیغام بھیج سکتا ہے۔ مزید جانیں۔ کریپٹوکرنسی کان کنی کرنے والے افراد نے جی پی یو کی قیمت بڑھادی ہے۔ لہذا ، اگر آپ محفل ہیں اور آپ کے گیمنگ پی سی میں پہلے سے ہی ایک طاقتور جی پی یو ہے ، تو کیا آپ واقعی اپنے پی سی کے ساتھ کچھ اضافی نقد. اگر آپ پہلے سے نہیں جانتے ہیں تو ، Reddit ایک ملین سے زیادہ آن لائن برادریوں کا گھر ہے۔ ریئل اسٹیٹ بزنس سے متعلق چند فتاویٰ درکار ہیں۔ اگر آپ برادران کے لئے ممکن ہوکہ محدث فتویٰ فورم سے وابستہ علمائے کرام سے ترجیحی بنیادوں پر درج ذیل جوابات فراہم کرسکیں تو احقر ممنون ہوگا ۔پہلے چار سوال تو ریئل اسٹیٹ بزنس میں معمول کے ہیں جبکہ اسی سے متعلق پانچواں سوال اس وقت کراچی کے لاکھوں لوگوں سے متعلق ہے۔ عام روٹ سے ہٹ کر آپ منتظمین کی معرفت سوال کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جواب فوری طور پر مل سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو یہ کام فوری طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ سیکیورٹیز مارکیٹوں میں ، ان کے چہرے یا برابر قیمت سے نیچے کے بانڈز کی خریداری کو چھوٹ میں خریدنا سمجھا جاتا ہے ، جبکہ چہرے کی قیمت سے اوپر کی خریداری کو پریمیم پر خریدنا جانا جاتا ہے۔ فنانس میں ، ایکٹریشن قیمت کی بنیاد پر خریداری کی رقم (ڈسکاؤنٹ) سے پختگی پر متوقع چھٹکارے کی رقم کو ایڈجسٹ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ، اگر چہرے کی کل رقم کی کل رقم کے لئے بانڈ خریدا جاتا ہے تو ، اس میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ بینچ مارک انڈیکس سے ملنا چاہئے. ، پس برای یقین به چیزهایی که فرا می گیریم چه باید کرد ؟ سیدھے سیدھے ہونے کے باوجود ، سر اور کندھوں کی تجارت کرتے وقت اسٹاپ نقصان کی جگہ کا تعین ایک متنازعہ موضوع ہے۔ کچھ تاجر دائیں کندھے سے اوپر کے اسٹاپ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ دوسرے زیادہ جارحانہ مقام کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایکویٹی منڈیوں میں تجارت کے لئے اپ ٹرینڈ سب سے زیادہ سازگار ہے۔ یہ واضح بات ہے ، لیکن اس کے لئے بہت سی باریکیاں درکار ہیں تاکہ آپ کر سکیں منیٹائز بچت زیادہ سے زیادہ کارکردگی اور کامیابی کی ضمانتوں کے ساتھ۔ کیونکہ عملی طور پر ، یہ بہت ضروری ہوگا کہ آپریشن ایک کے ساتھ انجام دیئے جائیں estrategia اس سے نتیجہ مثبت نکلا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ان کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو ، آپ کو اپنے آخری اہداف میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوگی۔ وہ سطح جہاں آپ خریداری اور فروخت کرتے ہو اسے خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ حیرت کی بات نہیں ، آپ کو ان حرکتوں کو زیادہ سے زیادہ سطح پر ایڈجسٹ کرنا چاہئے۔ آرام دہ اور پرسکون واقعات یا گھومنے پھرنے کے ل je ، جینز مناسب ہیں۔ شارٹس کو عوام میں نہیں پہنا جاتا ہے۔ اورلینڈو سینٹینیل کے مطابق ، روبیو نے ایک بیان میں کہا ، مطالعات میں سال بھر کے دن کی روشنی کی بچت کے بہت سے فوائد دکھائے گئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ فلوریڈا کی مقننہ نے اس کو مستقل بنانے کے لئے گذشتہ سال بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ ریاست فلوریڈا کی مرضی کی عکاسی کرتے ہوئے ، مجھے فخر ہے کہ ڈائی لائٹ سیونگ ٹائم کو قومی سطح پر مستقل کرنے کے لئے اس بل کو دوبارہ پیش کیا جائے۔ اس کے برعکس ، الیکٹرانک خوردہ فروش اور دیگر صوابدیدی کمپنیاں مصیبت کا شکار ہوسکتی ہیں کیونکہ صارفین اعلی خریداری بند کردیتے ہیں۔ فلیٹ ڈالر کیسے کام کرتے ہیں. اپنے ڈاکٹر یا آپٹومیٹرسٹ سے ملیں اگر آپ کے پاس دردناک داغ ہو جو بہتر نہیں ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، اسٹائی کو ایک چھوٹی سوئی کا استعمال کرتے ہوئے نالی کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ آپ کو اپنی ویب سائٹ بنانے کے لئے کسی پروگرامنگ کے تجربے کی ضرورت نہیں ہے ، صرف ورڈپریس پر جاکر صرف 20 منٹ میں اپنی ویب سائٹ بنائیں۔ کام کیا ہے؟ مائیکرو سافٹ آفس اور گوگل دستاویزات پر ای ورک کا جواب ہے۔ یہ صفحات ورڈ پروسیسر پر مشتمل ہے۔ نمبر اسپریڈشیٹ ایڈیٹر؛ اور کلیدی پیشکش آن لائن تجارت کیا ہے ڈیزائنر۔ ایپل اپنے آپ کو ایک سادہ صارف انٹرفیس اور مصنوعا. غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی کو غیر ملکی کرنسی ، ایف ایکس ، یا کرنسی مارکیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں سے ایک تھا جو بڑھتی ہوئی عالمی آن لائن تجارت کیا ہے معیشت میں ڈھانچے کو لانے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ تجارتی حجم کے لحاظ سے ، یہ ، اب تک ، دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی منڈی ہے۔ کرنسیوں کی خرید ، فروخت ، تبادلے اور قیاس آرائی کے لئے ایک مقام فراہم کرنے کے علاوہ ، غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ بھی بین الاقوامی تجارتی بستیوں اور سرمایہ کاری کے لئے کرنسی کے تبادلوں کا اہل بناتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی اعداد و شمار تیزی سے نکل جاتا ہے تو ، اس سے آپ کے نتائج کو نقصان پہنچے گا۔ یہ منافع بخش تجارت اور کھونے کے مابین ایک استرا پتلی لکیر ہے۔ 100 سے زیادہ تجارت ، 50 جیتنا ایک اچھی آمدنی کا مطلب ہے ، جبکہ صرف 40 جیتنے کا مطلب ہے کہ کمیشنوں کا حساب کتاب کرتے وقت آپ بھی توڑ جاتے ہیں یا رقم کھو دیتے ہیں۔ سلورمین کے مطابق زیسٹیڈز نامی کمپنی نے فیس بک پیج کی تصدیق شدہ ملکیت رجسٹر کروانے کی شرط کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیا تھا ایسا کرکے یہ کمپنی بڑی تن دہی سے لوگوں کو گمراہ کر رہی تھی اور فیس بک کے قواعد سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی تھی اسی تسلسل میں سلورمین نے whois.net پر موجود تمام آن لائن سٹورز کی رجسٹریشن کا ماضی کا ریکارڈ چیک کرنے کے لئیے DomainBigData.com کے لنک پر سرچ شروع کی. حکمت عملی ہے کہ کمپنیوں کے ساتھ اپنی پوچھ گچھ کا آغاز کریں جس کے ساتھ آپ پہلے سے واقف ہیں۔ اگر آپ گھریلو سجاوٹ میں ہنرمند اور تجربہ کار ہیں تو ، ان کمپنیوں کے ساتھ شروعات کریں جو آپ کو معلوم ہے اور پسند ہے کہ گھر کے ڈیزائن کی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ ان مینوفیکچروں سے رابطہ کریں اور ان سے ہول سیل ریٹ اور طریقہ کار کے بارے میں پوچھیں۔ آپ ان کی تھوک کی قیمتوں کا ان کی قیمتوں سے موازنہ کرنا چاہتے ہیں جو آپ خوردہ اسٹوروں میں ان کی مصنوعات کے ل see دیکھتے ہیں۔ ان مصنوعات کو لے جانے میں شپنگ اور آپ کے اوور ہیڈ اخراجات میں اضافہ کریں تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ کارخانہ دار آپ کی کمپنی کے لئے اچھا فروش ہے یا نہیں۔ نندارتون د 5 پیښو په جریان کې د څو پیړیو په اوږدو کې وړاندې کوي ، له 200 څخه ډیر نادر تهنګ (خزانې) چې د قیمتي معدني توکو څخه راوتل شوي ، پشمول د 96 های ټیکي (د انسان شکل ب )ه) ، د 20 میندو (کلبونو) مجموعه لنډ) ، او 4 "لمس ډبرې". ټول د خپل مالک د مینې ویکتورونه دي ، سپيڅلي ځواک له پلرونو او خدایانو څخه په میراث اخیستل شوي او د لوړ پوړو شخصیتونو لخوا مجسم شوي. اهو 18 بلين ڊالر کان وڌيڪ جي مارڪيٽ جي سيڙپڪاري سان گڏ ، قيمت جي لحاظ کان بهترين ڊائي فائي سکن مان پڻ آهي. جڏهن توهان UNI خريد ڪندا آهيو ، توهان يونيساپ پروٽوڪول تي انڪشاف ۽ رعايتون به حاصل ڪندا. مثال طور ، UNI جي انعقاد جي سائيز تي منحصر آهي - توهان Uniswap ماحولياتي نظام جي تجويز ڪيل مختلف پاليسين تي ووٽ ڏيڻ جي قابل هوندا. . "مجھے آپ سے کچھ پوچھنے دو۔ جب آپ پیر کے دن اندر آجاتے ہیں اور آپ کو اچھا محسوس نہیں ہوتا ہے تو کیا کبھی کوئی آپ کو یہ کہتے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے کسی میں پیر کے دن کا معاملہ ہو؟ - پیٹر گبنس. دیکھیں کہ آپ کے درد کے نکات کو معلوم کرنے کے بارے میں میرا کیا مطلب ہے؟ ایک سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح کی شرح سود سے وہ اپنے رہن کے قرض کو باقاعدہ بنانے کے لئے کم رقم ادا کرے گی۔ ٹھیک ہے ، ہر ایک چیز پر منحصر ہوگا کہ ہر لمحے سود کی شرحیں کس منظر نامے پر پیش ہوں گی۔ اس کے ل you ، آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ ماہانہ قسطوں کے ذریعہ چند یورو بچائیں۔ موجودہ میں ، سب سے زیادہ آن لائن تجارت کیا ہے فائدہ مند چیز متغیر شرح کی طرف جھکاؤ ہے۔ دوسری وجوہات میں ، کیوں کہ آپ موجودہ رہن کی پیش کش تلاش کرسکتے ہیں پھیلتا ہے یہاں تک کہ 1٪ سے بھی کم. مہنگائی کی شرح واضح طور بلند. چونکہ آن لائن تجارت کیا ہے سبسڈی اپنی جگہ پر موجود ہے ، اس نے یہ بھی یقینی بنایا کہ حکومت بڑھتے ہوئے اخراجات کا ایک فیصد اٹھا لے گی۔ یہ آلہ روٹ کٹ کی طرح کام کرتا ہے لہذا اس کے کچھ ناپسندیدہ ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں ، جیسے ہارڈویئر کی تنصیب کو مسدود کرنا اور پروگرام چلتے ہوئے پردیوں کو چالو کرنا۔ یہ آپ کے کمپیوٹر کی یادداشت پر بھی نگرانی کرتا ہے ، لہذا اس کی کارکردگی پر اثر پڑے گا جب اس کھیل کو محفوظ کیا جارہا ہے جو بیک وقت مزید وسائل کو لوڈ کرتا ہے۔ روئ = خالص منافع / ایکویٹی (یا کمپنی کا ایکویٹی) اگر میں ایک سے زیادہ بینک کارڈ استعمال کرتا ہوں تو کیا میں واپس لے کر جمع کر سکتا ہوں؟ سخت بجٹ پر اپنے گھر کا سٹیریو بنائیں. خوردہ کاروبار میں ، فروخت کا نقطہ نظر گاہک کے کاروبار کا آخری تاثر ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ کاروبار سے کاروبار سے مختلف ہوتا ہے ، لیکن عام طور پر ایک خوردہ اسٹور میں فروخت کا مقام POS ٹرمینل والے آن لائن تجارت کیا ہے سیل کاؤنٹر پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مشین ایک کیشیئر یا دوسرے کاروباری ملازم کے ذریعہ چلتی ہے۔ POS سسٹم کے آس پاس POS ڈسپلے کو کم قیمت والی مصنوعات کی مارکیٹنگ میں ڈالنے کے لئے ایک اچھی جگہ ہے جو خریدار خریدنے کے لئے متاثر ہوسکتا ہے۔
آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 کے گروپ میچوں سمیت سیمی فائنل کے ریکارڈز کے مطابق گروپ ٹو کے میچوں میں ناقابل شکست پاکستان واحد ٹیم ہے جس نے تمام میچوں میں کامیابی حاصل کرکے 10 پوانٹس حاصل کئے اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تاہم اسے سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے 5 وکٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے راؤنڈ میچوں میں کوئی ٹاس نہیں ہارا اور گروپ کے تمام پانچ میچوں میں ٹاس جیت کر انڈیا، نیوزی لینڈ، افغانستان کے خلاف پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف کھیلے گئے میچو ں میں پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان نے انڈیا کو 10جبکہ نیوزی لینڈ اور افغانستان کو پانچ 5 وکٹوں سے شکست دی، اسی طرح نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کو بالترتیب 46 اور 72 رنز سے ہرایا۔ گرین شرٹس نے آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں نہ صرف ٹاس ہرا بلکہ اسے 5 وکٹوں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کے بابراعظم نے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا ہوا ہے۔ انہوں نے چھ میچوں میں چھ اننگز کھیلیں اور ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے،انہوں نے5 چھکوں اور 28 چوکوں کی مدد سے126.25 اسٹرائک ریٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 303 رنز بنائے جس میں ان کی چار نصف سینچریاں بھی شامل ہیں،ان کا سب سے زیادہ انفرادی اسکور 70 رنز رہا۔ اسی طرح سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں پاکستان کے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کا دوسرا نمبر ہے، انہوں نے چھ میچوں میں چھ اننگز کھیلی ہیں اوروہ دو مرتبہ ناٹ آئوٹ بھی رہے ہیں، انہوں نے 79 رنز ناٹ آئوٹ کی بڑی اننگز کے ساتھ مجموعی طور پر 281 رنز اسکور کئے ہیں جس میں 12چھکے اور 23 چوکے شامل ہیں۔انگلینڈ کے جے سی بٹلر تیسرے نمبر پر ہیں جنہوں نے چھ اننگز کھیل کر 13 چھکے اور 22 چوکوں کی مدد سے 269 رنز بنائے، تین مرتبہ ناٹ آئوٹ رہے۔ ورلڈ کپ کی واحدسنچری101 رنز ناٹ آئوٹ بھی بٹلر نے بنائی ہے جبکہ تاحال 48 نصف سینچریاں بھی بن چکی ہیں جس میں سب سے زیادہ 4 نصف سینچری بابراعظم نے بنائی ہیں۔ اسی طرح کے ایل راہول اور محمد رضوان نے تین 3 نصف سینچریاں اسکور کی ہیں۔رنز کے اعتبار سے محمد رضوان اور بابراعظم سب سے بڑی پارٹنرشپ قائم کی اور بھارت کے خلاف پہلی وکٹ کی شراکت میں ناقابل تسخیر 152 رنز بنائے۔ کے ایل راہول اور آر جی شرما نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 140 رنز اسکور کئے۔ٹورنامنٹ میں بٹلر نے سب سے زیادہ 13 چھکے مارے ہیں جبکہ پاکستان محمد رضوان نے 12 اور ڈی ویز نے 11 چھکے لگائے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر 260 چھکے لگ چکے ہیں ۔پاکستان کے بابر اعظم اور آسٹریلیا کے ڈے اے وارنر نے 28، 28 چوکے لگائے ہیں جبکہ 644چھکے لگائے جاچکے ہیں۔ سب سے زیادہ اوسط کی فہرست میں بٹلر نے 89.66 کی اوسط سے چھ میچوں میں 13 چھکوں اور 22 چوکوںکی مدد سے 269 رنز بنائے جبکہ ایم پی اسٹونیس نے 80 کی اوسط سے چھ میچوں میں چار اننگز کھیل کر 80رنز بنائے۔سب سے وکٹیں حاصل کرنے والوں میں ڈی سلوا نے آٹھ میچوں میں 9.75 کی اوسط سے بولنگ کرتے ہوئے 156 رنز کے عوض 16 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جبکہ اے زمپا نے چھ میچوں میں 10.91 کی اوسط سے 131 رنز دیکر 12 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اے زمپا نے ایک اننگ میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مقررہ چار اوورز میں 19 کے عوض 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیاجبکہ مجیب الرحمان نے بھی 20 رنز دیکر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ایک اننگ میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرنے والوں کی فہرست میں حارث رئوف کا نام بھی شامل ہے، انہوں نے اپنے ایک میچ میں 22 رنز دیکر 4 کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا جبکہ انہوں نے مجموعی طور پر 8 وکٹیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ اسی طرح شاہین شاہ آفریدی نے ابتک مجموعی طور پر 6 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ وکٹوں کے پیچھے شکار کرنے والے ایم ایس ویڈ نے چھ میچوں میں 8 کیچ آؤٹ کئے جبکہ ایم ایچ کراس نے بھی 8 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا جس میں 6 کیچ اور 2 اسٹمپ شامل ہیں۔فیلڈنگ کے دوران سی ایس میک لیوڈ نے7 میچوں میں 8جبکہ ایس پی ڈی اسمیتھ نے 6 میچوں میں 7 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ واضح رہے کہ مجموعی طور پر 45 میچوں پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دو رائونڈز پر مشتمل ہے۔ورلڈ کپ کے رائونڈ و ن کے کولیفائرز میں آٹھ ٹیموں بشمول بنگلہ دیش، سری لنکا، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، اسکاٹ لینڈ، نمیبیا، عمان اور پاپوا نیو گنی کے درمیان بارہ میچ کھیلے گئے، جس میں ٹاپ چار ٹیمیں سپر 12 کے مرحلے میں پہنچی تھیں۔ اسی طرح رائونڈ ٹو کے سپر 12 کے مرحلے میں ٹیموں کو دوگروپس میں تقسیم کیاگیا، جس میں گروپ اے میں انگلینڈ، آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کو شامل کیا گیا جبکہ گروپ بی میں پاکستان، نیوزی لینڈ، انڈیا، افغانستان، نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ شامل تھیں۔ سپر 12 کے مرحلے میں مجموعی طور پر 30 میچ کھیلے گئے۔ غرور میں مست میزبان بھارتی ٹیم آج اس وقت چھٹے ٹی 20 ورلڈ کپ کی ریس سے فارغ ہوگئی جب نیوزی لینڈ کی ٹیم نے افغانستان کو 8 وکٹوں کی شکست سے دوچار کیا۔بھارتی ٹیم کے سیمی فائنل میں جانے کی معمولی امید اس میچ پر تھی تاہم افغانستان کی شکست کے ساتھ ہی ٹورنامنٹ کی شروع کی فیورٹ بھارتی ٹیم ٹورنامنٹ سے خارج ہوگئی۔ بھارتی ٹیم اور اس کے چاہنے والوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا کرکٹنگ سبق ہے۔بھارتی ٹیم افغانستان سے جیتی تھی اس کے بارے میں کرکٹ کے ایکسپرٹ اور سوشل میڈیا کے لوگ انتہائی شک و شبہ کا اظہار کررہے ہیں اور ہم نے خود دیکھا کہ کئی افغان باشندوں نے سوشل میڈیا پر اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ شعیب ملک کی طوفانی اور تیز ترین نصف سینچری کی بدولت پاکستان اپنے آخری گروپ میچ میں اسکاٹ لینڈ کو شکست دے کر ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست واحد ٹیم بنی۔ ملک نے صرف 18 گیندوں پر نصف درجن چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے ناقابل شکست 54 رنز بنائے۔ اس طرح انہوں نے بھارت کے کے ایل راہول کا 18 گیندوں پر ریکارڈ برابر کردیا۔
''ہماری تھکن گواہ ہے'' - Chitral Today "ہماری تھکن گواہ ہے" sultan January 7, 2022 No Comments ہم اس قوم کا حصہ ہیں کہ نہیں۔ ہم اس ملک کا باشندہ ہیں کہ نہیں۔ یہ ہمارے لیے معمہ ہے اس لیے کہ ہماری زندگیاں کوئی قیمت نہیں رکھتیں۔ ہم قحط فاقے سے مرتے ہیں۔ خبر چلتی ہے ہاو ہو ہوتا ہے مگر ہم برابر مر رہے ہوتے ہیں ہم عدم سہولیات کی وجہ سے زندگی کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں ہماری فریادیں ہوتی ہیں ہماری دھایاں ہوتی ہیں لیکن یہ سب صدا بہ صحرا ہوتی ہیں۔ ہسپتال مانگتے ہیں ہمارے مریض ایڑیاں رگڑتے ہیں۔کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا راستے مانگتے ہیں لیکن وہی پگڈنڈیاں ہیں پینے کا پانی، روشنی کے لیے بجلی، چولہے جلانے کے لیے گیس پھر آگے روزگار پھر مزدوری۔۔۔ ہم کیا کیا نہیں مانگتے لیکن ہماری حالت وہی ابتر کو ابتر ہے۔ ادھر پروپگنڈے ہیں۔۔ٹی وی پہ اپوزیشن لیڈر آتا ہے کہتا ہے حکومت کو چلتا کرنا چاہیے۔ اتنا غبن ہوا اتنی چوریاں ہوئیں۔اتنی نا انصافیاں ہوئیں اتنی مہنگائیاں ہوئی لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔دوسرا اسی لمحے صحافیوں سے محو گفتگو ہوتا ہے۔۔یہ حکومت فلان ہے فلان ہے ملک دیوالیہ ہے خزانہ خالی ہے خطرناک حالات ہیں۔صاحب اقتدار فوراً قوم کے سامنے آتا ہے۔ یہ مثالی حکومت ملک کی تاریخ میں پہلی بار آئی ہے۔ یہ جو بات کرتے ہیں یہ بچے ہیں خیر ان کی عمریں بڑی ہیں لیکن عقل کے لحاظ سے بچے ہیں۔ملک میں کوئی منی لانڈرنگ نہیں۔۔عدالتوں میں انصاف ہے۔۔کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہے۔چوروں کو پکڑا گیا ہے۔ ملک جمہوری ٹریک پر ہے۔ اب کون جھوٹا ہے کون سچا یہ فیصلہ بیس کروڑ بد قسمت عوام نہیں کر سکتے۔ ایسے لیڈر جن کو سچ کی توفیق نہیں ہوتی یہ کم بختوں کے ہی راہنما ہو تے ہیں۔جب ان کا چہرہ روشن نہیں تو قوم کا چہرہ کیا روشن ہو جب ان کی نیتوں میں فتور ہو تو قوم کیا خاک کامیابی اورترقی کی راہ پہ ہو گی۔ اس اندھیر نگری میں ہماری تھکن گواہ ہے کہ ہم بے سکون ہیں۔ہماری جیبیں خالی ہیں۔ہماری امیدیں مٹ چکی ہیں۔مایوسیوں نے ہمارے ارد گرد گیرا تنگ کیے ہیں۔ ورنہ تو ایک راج مزدور صبح ترو تازہ گھر سے مزدوری کے لیے نکلتا اور شام کو واپسی پر اس کا چہرہ کھلتا ہوا آتا کیونکہ اس نے کمائی کی ہے۔ایک بندہ عدالت اس امید پہ جاتا کہ اس کو انصاف ملے گا وہ اس خوف میں مبتلا نہ ہوتا کہ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ ایک ذمہ دار نوکر اپنے آفس اس مان کو لیے جاتا کہ وہ اس قوم کی سچی خدمت کرے گا اپنے فرایض کما حقہ ادا کرکے شام کو لوٹے گا۔ایک ماں اپنے بچوں کو اس آرزو میں سکول کے لیے تیار کرکے رخصت کرے گی کہ ان کے بچے تعلیم و تربیت کے لیے سکول جا رہے ہیں۔ لیکن یہاں پہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ سب خوف زادہ ہیں سب مایوس ہیں۔ جس سے پوچھو مایوسی کی باتیں کرے گا مجبوریاں گنوایے گا۔مسائل کی لمبی فہرست بتا دے گا۔وہ سب سے مایوس دکھائی دے گا۔اس کو کسی پارٹی کسی سسٹم کسی حکومت سے بھلائی کی کوئی امید نہ ہوگی۔وہ تھکا تھکا دیکھائی دے گا۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہان عدالت متنازعہ، جچ بے اعتبار، استاد بے صلاحیت انتظامیہ مصلحت پسند اقربا پرور۔ تو بے سکونی لازم ہوگی اور کیا ہوگی۔ لوگ تھکے ماندھے اور پژمردہ و افسردہ دیکھائی دیں گے۔ ہم طاقت طاقت کا پہاڑہ پڑھتے رہتے ہیں۔۔ جمہوریت کی طاقت۔۔۔ووٹ کی طاقت۔۔ عوام کی طاقت۔۔ لیکن یہ ساری طاقتیں ایک غیرت مند قوم کے لیے کارگر ہوتے ہیں۔ ان کے حس ہوتی ہے قوت فیصلہ ہوتا ہے ذوق انتخاب اور تدبر و ادراک ہوتا ہے کہ انتخاب کیا بلا ہے ورنہ تو یہ سب بے کار کی باتیں۔۔۔۔افسانے۔۔۔
جمیلh شیخhi 2019/05/29 فاریکس مارکیٹ تجزیہ کار کیوٹ خالق 4.3.1 آئی ڈی ای جو تنصیب میں شامل ہے بڑی ایپلی کیشنز تیار کرنے کے لئے ایک اچھا ٹول ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ IDE نہ صرف نحو کو اجاگر کرنے ، مثالوں تک رسائی اور سبق حاصل کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ یہ مختلف ٹول کینز تشکیل دینے پر بھی ہماری مدد کرے گا۔ اگر کسی کو یاد نہیں ہے تو ، بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے یہ IDE وہی تھا جو ربط استعمال کرتا تھا SKD دیر سے اوبنٹو فون سے. متعدد موخر التواء سالانہ ضمانت کی شرح سے زیادہ اضافی فوائد کی پیش کش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، ان کی آمدنی کی ضمانت کی ضمانت ہوسکتی ہے۔ یہ شق رائڈر بیان کرتا ہے کہ ریٹائرمنٹ انکم کی مخصوص رقم جو مستقبل میں دس یا بارہ سال آپ کو ادا کی جاسکتی ہے۔ بينما بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے تقوم DAC بتحويل الإشارة الثنائية الرقمية إلى إشارة تناظرية مثل الجهد الكهربي ، يقوم ADC بالعكس. يستغرق مصدرًا تمثيليًا ويقوم بتحويله إلى مصدر رقمي. يمكن استخدام المحول ومحول ADC ، إذا تم استخدامه معًا من أجل DAC ، في تكوين جزء كبير من تقنية هندسة الصوت والتسجيل. الطريقة التي يتم استخدامها على حد سواء تجعل للتطبيقات في تكنولوجيا الاتصالات التي يمكنك معرفة المزيد من خلال تعليمي ADC و DAC. اگر از سر و کله زدن با گزینه‌های مختلف بیزار بوده و به دنبال نرم افزاری برای استخراج بدون دردسر ارز دیجیتال با گوشی هستید، ای ای ماینر انتخاب مناسبی است. این برنامه از نزدیک به 50 رمز ارز نظیر بیت کوین، لایت کوین، دش، بایت کوین و دیگر موارد پشتیبانی می‌کند. به ادعای توسعه‌دهنده آن، الگوریتم مورد استفاده توسط نرم افزار در مقایسه با سایر برنامه های استخراج بیت کوین اندروید سودآوری بیشتری دارد. الگوریتم برنامه CryptoNight نام دارد. this. اس غیر ملکی غیر ملکی تجارت پر بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے آپ کی کیا رائے ہے؟ اعلی درجے کی تکنیکی تجزیہ کے ل Over ایک سے زیادہ اشارے چڑھائیں چارٹس پر آٹو ٹرینڈ لائن اشارے کا تسلسل دیکھیں آسانی سے محفوظ کریں ، برآمد کریں ، پرنٹ کریں یا ای میل چارٹ چارٹس کو اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق بنائیں. رجحانات کی پہچان اور ان پر عمل کرنے میں تاجر اکثر تکنیکی اشارے کی ایک حد کو استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اشارے محض تاریخی اعداد و بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے شمار پر مبنی ہیں اور کبھی بھی 100 acc درستگی کے ساتھ یہ پیش گوئی نہیں کرپاتے ہیں کہ کرنسی کے جوڑے کسی خاص لمحے میں کیا کرنے جارہے ہیں۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ایک ٹکڑا یا 5 کورس چارٹ دیکھنے کے لئے ہے جو واضح رجحانات دکھاتا ہے. یہ صرف نہ صرف خیبرپختونخواہ کی طرح ہی حصص کی جانی چاہئے، مثال کے طور پر لیکن ایک کرنسی جوڑی کی بنیاد پر بھی جاری کیا جاسکتا ہے. پہلی چیزیں ، PR مہنگا ہے۔ جب یہ غور کریں کہ آیا یہ قابل قدر سرمایہ کاری ہے تو ، آپ جو البم جاری کررہے ہیں اس پر غور کریں۔ کیا امکانات ہیں کہ اس کو قومی میڈیا یا ریڈیو ڈراموں میں واقعی اعلی جائزے ملیں گے؟ اگر یہ کسی نامعلوم فنکار کا پہلا البم ہے تو ، یہ PR کمپنی کے ل a بھی سخت جنگ ہے۔ بٹ کوائن کی آف شور منتقلی کے لئے پہلا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے اگر بٹ کوائن کسی بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے شخص کے اپنے نام پر رکھتا ہو۔ اس معاملے میں ، بیرون ملک ایک بین الاقوامی کمپنی قائم کی جاسکتی ہے ، اور اس کے بعد بٹ کوائن کو ساحل سے کھاتے سے آف شور کمپنی کے ایک غیر ملکی اکاؤنٹ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ واردات ماشین آلات برش لیزر از کشور چین | ماشین الات و دستگاه های برش لیزر در مدل ها و اندازه های مختلف توسط برند ها و شرکت های بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے زیادی تولید می شوند و فراوانی بسیار زیادی در بازار فروش و کار دارند و خواهان زیادی نیز در بازار کار دارند . ان نظریات کو دو سنہری اصول کی طرف سے خلاص کیا جا سکتا ہے: قرآن مجید اور مروجہ صوفی ازم کی تعلیمات میں سب سے بڑا تضاد "وحدت الوجود (Pantheism) " کا نظریہ ہے۔ صوفیاء کی اکثریت اس نظریہ کی قائل ہے۔ قرآن کا تصور توحید تو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ اکابر صوفیاء قرآن کے اس تصور توحید کو "عوام کی توحید" قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں لا الہ الا اللہ کی توحید عام لوگوں کی توحید ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق توحید "لا موجود الا اللہ" ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بھی چیز خدا کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کائنات میں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ ٹیلی ویژن کی مخصوص اسکرپٹ کو کیسے لکھتے ہیں 2021 - تفریح-کیریئرز. دریں اثنا ، عراق کی سپریم کورٹ جو انتخابات کے حتمی نتائج بروکریج تجارت کی تصدیق کیا ہے کی توثیق کرنے کی ذمہ دار ہے فی الحال اپنے فرائض کو پورا نہیں کرسکتی ہے کیونکہ اس کے نو ارکان میں سے دو کی جگہ بدلے بغیر ہی انتقال ہوگئی ، یعنی اکتوبر میں انتخابات بھی ممکن نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب کہ کچھ پلیٹ فارم بیڈ ہیڈ بورڈ یا فٹ بورڈ شامل کرتے ہیں ، ان کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے وہ ان لوگوں کے ل a اچھ choiceے انتخاب میں شامل ہوسکتے ہیں جو شاید کم سے کم نظر چاہتے ہو۔
شمالی کوریا کی جوہری تجربات کی تنصیب جسے مبینہ طور پر تباہ کر دیا گیا۔ فائل فوٹو دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی خفیہ تیاری کے اقدامات کا پتا لگانے والے سائنس دانوں کو اب مصنوعی ذہانت کے ایک نئے اور جدید نظام سے مدد ملنا شروع ہو گئی ہے۔ ایٹمی دھماکے چاہے زیر زمین ہی کیوں نہ کئے گئے ہوں، تابکاری گیسوں کے نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ اس نئے نظام کے ذریعے بڑی مقدار میں دستیاب ہونے والی معلومات میں سے چھانٹی کرتے ہوئے یہ پتا لگانا ممکن ہو گیا ہے کہ تابکاری کے کون سے نشانات ایٹمی دھماکوں سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ یہ معلومات اس لئے بھی اہم ہیں کہ کچھ حلقوں کے مطابق شمالی کوریا اور ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا کام خفیہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی کی ریاست واشنگٹن کے مشرقی حصے میں پہاڑوں کے نیچے 25 میٹر کی گہرائی پر ایک صاف کمرے میں اس کرہ ارض کا ایک انتہائی جدید نظام نصب کیا گیا ہے جو حالیہ طور پر تربیت یافتہ گہرے اعصابی نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ ہونے والی جوہری سرگرمی کے سگنل وصول کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پیسفک نارتھ ویسٹ قومی لیبارٹری کے ایک حصے کے طور پر یہ آلات تابکاری کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں اس لیبارٹری کی ایملی میس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ''ہمیں جن سگنلز کی تلاش ہے، وہ ناکارہ ہونے والے تابکاری اثرات ہیں جو ڈیٹیکٹرز میں موجود گیس کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سگنلز اور ان کی مقدار ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گیس میں جمع ہونے والی توانائی کی مقدار کتنی تھی۔ اس سے ہمیں آئی سوٹوپس کا پتا لگانے میں مدد ملتی ہے۔'' اس سلسلے میں خاص طور پر آرگون ۔ 37 کا پتا لگانے میں خصوصی دلچسپی پائی جاتی ہے جو زمین میں نیوٹرونز کے کیلشیم سے اختلاط کے ذریعے جنم لیتی ہے۔ پیسفک فارتھ ویسٹ قومی لیبارٹری کے تحقیقی سائنس دان کریگ آل سیٹھ بتاتے ہیں کہ زیر زمین جوہری تجربے جیسی سرگرمی سے بڑی مقدار میں آرگون ۔ 37 پیدا ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ لہذا مختلف انداز کے جوہری معاہدوں اور سمجھوتوں کے ایک حصے کے طور پر انہیں اس میں خاصی دلچسپی ہے۔ ان سگنلز کو پلسز کہا جاتا ہے۔ ڈیپ لرننگ سے موسوم مصنوعی ذہانت کے اس نظام کو استعمال کرتے ہوئے سائنس دان غیر متعلقہ سگنلز کو الگ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ آئی سو ٹوپس کے سگنلز کا باآسانی پتا لگا سکتے ہیں۔ عام طور پر ماہرین اپنی مخصوص مہارت کے ذریعے ایسی سرگرمیوں کا کھوج لگاتے رہے ہیں۔ تاہم اس نئے نظام کے ذریعے یہ کام کہیں زیادہ تیز رفتاری اور درستگی سے انجام پاتا ہے۔ یوں اس کے ذریعے ان ممالک کے بھی جوہری تجربات کا بخوبی پتا لگایا جا سکتا ہے جو اپنی جوہری ترقی کی سرگرمیوں کو عالمی معاہدں کے تحت بند کرنے پر بظاہر رضامند ہو جاتے ہیں لیکن خفیہ طور پر انہیں جاری رکھتے ہیں۔
میری "تربیت" تھوڑی خراب ہے - Qalamkar | قلم کار میری "تربیت" تھوڑی خراب ہے ساجد علی ساحل 16/03/2019 16/03/2019 0 Comment یہ بلکل سچا واقعہ ہے۔ اردو ہماری مادری زبان نہیں ہے اس لیے میرے ساتھ اور میرے جیسے بے شمار لوگوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم اردو کے بے شمار لفظوں کو غلط ادا کرتے ہیں ، اور تذکیروتانیث کی بھی سمجھ نہیں رکھتے ۔ ہمارے ابو کی اردو بھی تذکیروتانیث اور صحیح تلفظ سے آزاد ہوتی ہے۔ ایک دن میں بھی ابو کے ساتھ مارکیٹ جارہا تھا تو راستے میں ہماری ملاقات ہمارے ایک جاننے والے (پنجابی) سے ہوئی ۔ ابو فوراََ ان کے ساتھ بغل گیر ہوئے اور احوال پرسی کرتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔ " کیسی تربیت ہے سلمان بھائی آپ کی ؟" یقین کریں میرے منہ میں چیونگم تھی مگر ابو کے منہ سے یہ جملہ سن کر سچ میں چیونگم چھلانگ مار کے منہ سے باہر آگئی۔ مگر اللہ بھلا کرے سلمان صاحب کا ، ماتھے پر شکن لائے بغیر گرم جوشی سے جواب دیا ۔" شکر ہے بلتی بھائی (ہم بلتستان سے ہیں ) ، کدھر جارہے ہیں دونوں باپ بیٹے؟" خیر مختصر ہم وہاں سے گھر آگئے ۔ پھر موقع پا کر میں نے ابو سے کہا ، "ابو جان جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو ہمیں "تربیت " کے بارے میں نہیں بلکہ "طبیعت" کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔ " تربیت " کے بارے میں پوچھنے سے دوسرا بندہ برا مان سکتا ہے ۔ لہذا آپ کی تربیت کیسی ہے نہیں بلکہ آپ کی طبیعت کیسی ہے ۔ ایسے پوچھنا چاہیے"۔ابو نے خاص توجہ تو نہیں دی ۔ بس اتنا کہا "ارے ٹھیک ہے ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھوں گا"۔ یہ بھی پڑھئے: سحر اور زینب کی باتیں خیر کچھ دنوں بعد ہمیں پیرودھائی کسی کام سےجانا پڑا۔ کام نمٹانے کے بعد واپسی پہ ہم ویگن میں بیٹھ گئے۔ ویگن میں اکثر ابو کی طبیعت خراب ہوتی ہے ، مطلب دل خراب ہوتا ہے اس لئے ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ سیٹ کے شیشے والی طرف پر بیٹھیں۔ خیر ابو شیشے والی طرف بیٹھ گئے اور میں ابو کے ساتھ ۔ ابو نے طبیعت خراب ہونے کے ڈر سے ویگن کی کھڑکی کھلی رکھی حالانکہ کافی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ باقی سواریوں کا اعتراض کرنا تو بنتا تھا لہذا ایک صاحب بول اٹھے "خان صاحب آپ پلیز کھڑکی بند رکھیں کافی ٹھنڈی ہوا آرہی ہے ہمیں سردی لگتی ہے"۔ اب یہاں پر ابو نے کہنا تھا کہ "میری طبیعت خراب ہے " مگر ابو نے ادھر بھی وہی غلطی دہرائی ۔ ابو کہنے لگے "یار معاف کرنا " میری تربیت تھوڑی خراب ہے۔ اس لیے میں نے کھڑکی تھوڑی کھلی رکھی ہے"۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان - Naibaat On اپریل 7, 2022 جوئے اور نشے کی لت قبر تک جاتی ہے۔ عمران خان نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے اور اب اس کی پوری کوشش ہے کہ مسئلہ کی گہرائی تک نہ جایا جائے اور فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔ ذرا بریک پر پاؤں رکھیں، سنبھل تو لیں پھر آگے بڑھتے ہیں اتنی جلدی کیا ہے۔ الیکشن کے حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں 16 ضمنی انتخابات میں ایک کے سوا سب میں عمران خان کے امیدوار ہارے تھے۔ عمران خان کا بیانیہ پٹ گیا تھا۔ ان کے پاس عوام میں جانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور اس سے بچنے کے لیے حکومت کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا گیا۔ دوسرا یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے اس کے تانے بانے کسی نہ کسی جگہ سے جا کر جڑ رہے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین نے جو غیر آئینی اقدام کیا تھا اس پر روک لگائی جاتی تو آج ملک اس آئینی بحران کا شکار نہ ہوتا۔ یہ تو اپوزیشن کی شرافت ہے کہ وہ فائلیں اٹھا کر عدالتوں میں پھر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے مگر سماعت سست روی کا شکار ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر فوری طور پر فیصلہ دیا جاتا۔ یہ مقدمہ فیصلہ کرے گا کہ ملک کا مستقبل کیا ہے۔ اس سماعت کے دوران عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے جائیں کہ سپریم کورٹ کے لیے تمام معاملات کو پہلی پوزیشن تک لے کر جانا مشکل ہو جائے۔ عدالت بھی ان ہتھکنڈوں کو سمجھ رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد اس کا فیصلہ ہو جائے گا اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے گا۔ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان کو توہین رسالت کے مسئلہ پر فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی جرات نہیں ہوئی اور اب وہ امریکہ کے خلاف ڈٹ جانے کا بھاشن دے رہا ہے۔ بہت ہو گیا آپ کی دھنوں پر رقص کرنے والے آپ کو مبارک۔ ہم نے وہی بات کرنی ہے جو حق اور سچ ہے۔ ان کے لیے آئین اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر آئین کے تقدس کا علم ہوتا تو یوں رسوا نہ ہوتا۔ اکیلے میں یہ لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوں گے کہ کیسا بے وقوف بنایا( بے وقوف کی بجائے یہاں پنجابی کا لفظ زیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہو سکتا تھا)۔ ایک گل صاحب ہیں پیشے کے اعتبار سے خود کو پروفیسر کہتے ہیں اور دعوی ہے کہ پی ایچ ڈی کر رکھی ہے مگر ابھی تک وہ ڈجکوٹ کے تھڑے سے نہیں اترے اپنی گفتگو سے پرائمری پاس لگتے ہیں۔ کوئی شرم نہ کوئی لحاظ۔ منہ کو کتا باندھا کی اصطلاح جس نے سمجھنا ہو ان کی گفتگو سنے۔ ابھی تو فرح کے قصے سامنے آئے ہیں، ذرا صبر کریں چالیس چوروں والی الف لیلوی داستانیں لوگ بھول جائیں گے۔ اے ٹی ایم مشینوں کو ایک طرف رکھ دیا گیا کہ کون روز روز کارڈ مانگتا پھرے، انہوں نے دفتر میں ٹکسال لگا لی جو صبح شام دھڑا دھڑ کرنسی چھاپ رہی تھی۔ اب پتہ چلا کہ پنجاب میں اتنی تیزی سے تبادلے کیوں ہو رہے ہیں۔ اے سی اور ڈی سی تعینات کرنے کے ریٹ مقرر تھے تو باقی جو عہدے ہیں ان کا بھی کوئی نہ کوئی ریٹ مقرر ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ پیکج بھی چل رہا ہے کہ دو تبادلوں کے ساتھ ایک فری یا تیسرے پر 50 فیصد آف۔ جو تعینات ہوئے انہوں نے کون سا پیسہ اپنی جیب سے دیا ہے، عوام کا خون نچوڑا ہو گا۔ اے سی اور ڈی سی کی تعیناتی کے نرخ نامے ان کے ساتھیوں نے بے نقاب کیے ہیں، ان سے دست بدست عرض ہے کہ باقی پوسٹوں کے ریٹ بھی سامنے لائے جائیں تاکہ گراں فروشی سے بچا جا سکے۔ اب ان سوالوں کا جواب تو دیں کہ فرح نامی خاتون کس حیثیت سے سرکاری پروٹوکول انجوائے کر رہی تھی اس کے پاس کونسا عہدہ تھا کہ وہ سیون کلب میں بیٹھ کر بیوپار کر رہی تھی۔ ابھی تو بس اتنا ہی سامنے آ رہا ہے کہ پنجاب میں اصل چیف منسٹر فرح خان تھی اور اسی لیے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فرح نامی خاتون پنجاب حکومت کے طیارے پر دبئی فرار ہو گئی ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس پر کمال کی فلم بن سکتی ہے۔ ڈنکی راجہ بنانے والی کمپنی کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔ بنا بنایا سکرپٹ ان کو مل گیا تھا۔ علیم خان کے الزامات نئے نہیں ہیں ایک برس پہلے بھی ان کی آڈیو لیک ہوئی تھی کہ ایک حساس ادارے کے ڈی جی کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اپنی حد کراس کر کے یہ بتا رہا تھا کہ ایک پراپرٹی ڈیلر نے آپ کے گھر سونے کا سیٹ پہنچایا ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے اپوزیشن کو غدار بنا دیا گیا۔ حساس اداروں کے ذمہ داران نے رائٹر کو اس بات کی تصدیق کی کہ ان الزامات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔ اب یہ فیصلہ ہونا ہے کہ غدار کون ہے۔ اگر اپوزیشن نے ملک اور حکومت کے خلاف غداری کی ہے تو ان کے خلاف مقدمات درج کرائے جائیں، گرفتار کیا جائے اور ان کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور اگر کپتان نے یہ سب الزامات اپنی انتخابی مہم کے لیے لگائے ہیں تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے خود کو تیار کریں۔ سپریم کورٹ صرف ایک نکتے پر فیصلہ دے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی ہے یا نہیں اس پر اس سارے کھیل کا دارومدار ہے۔ کپتان شکست ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہیں بھی انتخابات میں جانے پر اعتراز نہیں ہے بس کوئی ان کے دور میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانیوں پر سوال نہ کرے۔ قومی اسمبلی والا ڈرامہ پنجاب اسمبلی میں بھی دہرایا جا رہا ہے۔ یہاں بھی اپوزیشن اکثریت میں ہے اور تحریک انصاف کا امیدوار پرویز الٰہی ہار رہا ہے۔ وہ بھی کسی صورت شکست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہونے والا جمہوری تماشا ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ پرویز الٰہی اور عمران خان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ عمران خان مقدمات سے خوفزدہ تھے پرویز الٰہی بھی ان کی ' نیک نامی' کے وارث بن گے۔ حکومتی اتحاد مرکز اور پنجاب میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کا پہلا بنیادی اصول ہے مگر یہاں یہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک لحاظ سے اچھا ہو رہا ہے کہ معاشرے میں دو طبقے سامنے آ رہے ہیں ایک وہ جو جمہوریت پسند ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو انتظامی مشینری کو استعمال کر کے ہر حال میں اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔ مان لیں شکست آپ کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور حیرت ہو رہی ہے کہ وہ بھی اقتدار کے لیے اتنے اندھے ہو گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی تو ان کا ڈیرہ لگتی ہے۔سیکرٹری پنجاب اسمبلی کبھی ان کے ذاتی ملازم تھے آج انہوں نے سب کچھ سنبھال رکھا ہے اور پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کو روکنے کے لیے وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دیر کر دی تو حالات خراب ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ سول نافرمانی کا نعرہ عمران خان نے لگایا تھا کہیں قوم کو پھر سے وہ نعرہ نہ سننا پڑ جائے۔ ابھی اپوزیشن انتظامیہ اور بیوروکریسی سے صرف یہ کہہ رہی ہے کہ ان کے احکامات پر آنکھ بند کر کے عمل نہ کریں اگر انہوں نے اس سے زیادہ کی کال دے دی تو پھر حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہا ہے اس سے لگتا ہے کہ شائد ہی آج قائد ایوان کا تقرر ہو سکے۔ حکومت اپنے اقدامات سے دنیا تک یہ پیغام پہنچانا چاہ رہی ہے کہ یہ ایک بنانا ری پبلک ہے۔ کہنے کو اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں نہ اسلام کے اصولوں کی پاسداری ہو رہی ہے اور نہ ہی جمہوریت یہاں مضبوط ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قانون چلتا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی تقسیم کا خواب دیکھنے والوں کو کبھی تعبیر نہیں ملے گی، کھیل تماشے چھوڑو،بند ہوتے کارخانوں، بےروزگار مزدوروں کو دیکھو۔ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ فاقہ کشی پر مجبور عوام اور بد دعاؤں کےلیے اٹھےہاتھوں کو دیکھو ،خلق خدا تم سے پناہ مانگ رہی ہے۔ مریم نواز کا اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہنا تھا کہ عوام کی بجائے کرائے کے شخصیات پر کھڑی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی فکر چھوڑ کر عوامی مسائل پر توجہ دیں جن کو ان کی نا اہلی و نالائقی نے تباہ حال کر دیا اور فاقوں تک پہنچا دیا۔ حکومت شریف فیملی کی فکر چھوڑ دیں۔ متحد رہنا شریف فیملی کے خون میں شامل ہے ۔
مودی پر سوار عقل ِکُل کا بھوت - ہم سب 30/08/2019 سید عاصم محمود n/b Views قدرت کا یہ انتہائی انوکھا عجوبہ ہے کہ ایک حکمران کو لامحدود طاقتیں حاصل ہو جائیں تووہ خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ "آسمانی" کیفیت ہے جب حکمرانوں سے ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جن کا خمیازہ عموماًپوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس عجوبے کی ایک مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔ جب 2014 ءمیں ڈویلپمنٹ مین "کا تمغہ سینے پہ سجائے مودی مہان منتری بنے تو تیل کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں۔ یہ رجحان 2017 ءتک جاری رہا۔ بھارتی حکومت کا سب سے بڑا خرچہ تیل ہے۔ جب یہ کم ہوا تو لامحالہ قومی معیشت پر خوشگوار اثرات پڑے اور وہ ترقی کرنے لگی۔ مودی جی نے اس ترقی کو خوش قسمتی سے تعبیر کرنے کے بجائے اپنے ذہنِ رسا اور انتظامی صلاحیتیوں کا چمتکار قرار دیا۔ لہذا ان کا غرور واعتماد انتہا پر جا پہنچا۔ اسی عالم ِسرمستی میں انھوں نے کالا دھن ختم کرنے کی خاطر 2016 ءمیں بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ختم کر دیے۔ اس اچانک اقدام نے مگر قومی معیشت سے کثیر سرمایہ نکال دیا۔ سرمائے کی کمی سے کئی چھوٹے بڑے کارخانے اور کاروبار بند ہو گئے اور لاکھوں بھارتی بیروزگار ہوئے۔ بھارتی معیشت نوٹ بندی کے منفی اثرات تلے سسک رہی تھی کہ 2017 ءمیں متکبر مودی نے اس پہ جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروس ٹیکس) بم پھینک دیا۔ یہ نظام بھی جلد بازی میں عوام و خواص پر تھوپا گیا اور لوگوں کی اکثریت اسے سمجھ نہ سکی۔ اس حکومتی حملے نے بھی مذید کارخانے اور کاروبار بند کرا دیے۔ لاکھوں بھارتی بیروزگار ہو گئے۔ اس دوران طاقت کے نشے میں مخمور مودی حکومت مملکت میں قرضے لینے دینے کا نظام درست نہ کر سکی۔ بھارت میں کاروباری اور صنعتکار سرکاری وغیر سرکاری بینکوں سے سالانہ کھربوں روپے قرض لیتے ہیں۔ جب مودی سرکار کے اقدامات سے معیشت زوال پذیر ہوئی تو یہ طبقہ قرض واپس کرنے میں مشکلات محسوس کرنے لگا۔ بہت سے کاروباری اور صنعتکار مثلاً وجے ملایہ، نرو مودی وغیرہ فراڈ نکلے اور وہ بینکوں کے اربوں روپے ڈکار گئے۔ آج بھارت میں بینکاری نظام کافی کمزور ہو چکا کیونکہ کاروباری طبقے نے اس کے "ڈیڑھ سو ارب ڈالر" واپس کرنے ہیں۔ مگر واپسی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مودی حکومت مجبور ہے کہ بینکوں کو مال کھلاتی رہے تاکہ بینکاری نظام ٹھپ نہ ہو۔ حتی کہ بڑھتی مہنگائی کے باوجود بھارتی سٹیٹ بینک شرح سود گھٹا رہا ہے۔ اگر بڑھائی تو قرضوں کی مالیت میں کئی ارب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔ اسی دوران 2017 ءسے تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ 2015 ءمیں بھارت چونسٹھ ارب ڈالر کا تیل خریدتا تھا۔ آج وہ 112 ارب ڈالر کا تیل منگواتا ہے۔ 48 ارب ڈالر کے اضافے نے سرکاری بجٹ پہ منفی اثر مرتب کیا اور وہ خسارے میں چلا گیا۔ غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششیں اورنئے ٹیکس نظام نے معاشی سرگرمیاں سست کر دیں اور بھارتی عوام کی قوت خرید کو ضعف پہنچا۔ بڑھتی آبادی نے بھی رنگ دکھایا کہ بھارت میں ہر چوبیس گھنٹے ایک سیکنڈ فی پیدائش کے حساب سے 86000 نئے جی آ پہنچتے ہیں۔ اِدھر بڑھتی بیروگاری آفت بن گئی اور تنخواہیں بڑھنے کا نام نہیں لیتیں۔ معیشت کی گراوٹ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ شاید مودی حالیہ الیکشن ہار جائیں۔ مگر پلوامہ حملے نے پانسہ پلٹ دیا۔ انھوں نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بے وقوف بھارتی عوام کو پھر اپنے پلیٹ فارم پر جمع کیا اور الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ اب بھارتی کاروباری طبقے کو امید تھی کہ مودی نئے بجٹ میں ان کو مراعات دیں گے۔ خاص طور پہ بھارتی آٹو سیکٹر شدید بحران میں مبتلا ہو چکا۔ مگر حکومت نے نئے ٹیکس لگا دیے۔ وجہ یہ بنی کہ ٹیکسوں سے حاصل شدہ سرکاری آمدن گھٹ گئی تھی۔ اس وار نے معیشت کو ایک اور دھچکا پہنچا دیا۔ یہ ممکن ہے کہ عوام کی توجہ معاشی زوال سے ہٹانے کے لیے مسئلہ کشمیر پیدا کر دیا گیا۔ اس سے مودی سرکار کے خلاف اٹھتی آوازیں خاموش ہو گئیں اور مودی کو فائدہ پہنچا۔ اسی اثنا میں سٹیٹ بینک نے سرکار کو اپنی زنبیل سے 24 ارب ڈالر فراہم کر دیے۔ یہ رقم حاصل کرنا مودی حکومت کے لیے وبال جان بن گیا تھا۔ اسے دو مخالف گورنر گھر بھجوانے پڑے۔ آخر تیسرے کٹھ پتلی گورنر نے یہ رقم فراہم کر دی۔ رقم ملنے پر مودی سرکار کو اچھی خاصی آکسیجن مل گئی اور سرکاری لاشے میں کچھ جان پڑی۔ ماضی میں تیل کی کم قیمت اور کاروباری و سرمایہ دار طبقے کی حمایت کے باعث مودی قومی معشیت کو ترقی دینے میں کامیاب رہے۔ اب تیل کی قیمت بڑھ چکی اور درج بالا طبقے بھی زیادہ حمایتی نہیں رہے۔ لہذا مودی جی کی انتظامی صلاحیتیوں کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں وہ بھارتی معیشت کو ترقی دیں گے یا اس کا زوال نہیں روک پاتے۔ مستقبل ہی یہ دلچسپ بات بھی افشا کرے گا کہ کیا معاشی بحران نے مودی کے سر پہ سوار عقل ِکل کا بھوت اتار دیا؟ (سید عاصم محمود ادیب، مدیر اور قاموس نگارسید قاسم محمود کے فرزند ہیں۔ تیس سال سے سائنسی، معلوماتی، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پہ لکھ رہے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کے مدیر رہے۔ آج کل روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں )
درویش موڈابیان 2017/05/28 فاریکس کے بہترین اشارے براڈ بیسڈ انڈیکس FLEX آپشنز کے ل position پوزیشن کی حدیں ، مذکورہ بالا درج فہرست کے علاوہ ، 200،000 معاہدے ہیں ، ہر ایک انڈیکس کے لئے معاہدے مارکیٹ کے ایک ہی طرف ہیں۔ ۔ یہاں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ کہانی حال ہی صحیح اثاثہ کا انتخاب میں اپڈیٹ کی گئی تھی۔ اب دستیاب ہے: آئی آر ایس میری ادائیگی سے باخبر رہنے کی درخواست حاصل کریں. ECN(شبکه ارتباطات الکترونیکی) بازار ساز. جیسا کہ کوئی شخص جو ہارتھ اسٹون کی طرف آنے پر کشتی سے محروم ہوا ، گراونڈ میں گراؤنڈ فلور میں داخل ہونے کا خیال پوری طرح مائل ہے۔ اگرچہ سی ڈی پروجیکٹ سرخ نے اس بات پر زور دیا کہ وینچر 3 سے آپ کے ڈیک گوانٹ میں بیکار ہوں گے ، لیکن میرے لئے لمبا ٹیوٹوریل کے بغیر لینے اور کھیلنا (اور جیتنا) اس سے زیادہ واقف تھا۔ شیعہ مکھن کے پلانٹ ایسٹرز میں سوزش کی خصوصیات پائی گئی ہیں۔ Olymp Trade فاریکس ٹریڈنگ کے لئے صحیح ٹول کا انتخاب کیسے کریں - صحیح اثاثہ کا انتخاب نیٹ ورک کی ترتیبات ونڈو سے ، آپ کو اپنے وائرڈ کنکشن کو درج دیکھنا صحیح اثاثہ کا انتخاب چاہئے۔ نیٹ ورک مینیجر کو کھولنے اور نیٹ ورک کنکشن کی تشکیل کے ل these ان اقدامات پر عمل کریں: کیا متحدہ مائلیج پلس میل کی میعاد ختم ہو جاتی ہے؟ برای شروع صحیح اثاثہ کا انتخاب فعالیت در یک بازار فارکس یا باینری آپشن یا سهام : ایک دن کے تاجر کے لئے ٹریڈنگ کا غیر ملکی کرنسی کا آغاز کرنے کے لئے اچھی رقم around 500 سے $ 1000 کے لگ بھگ ہونی چاہئے۔ جبکہ ing 1،500 سوئنگ کے تاجروں کے لئے بہتر نمبر ہے ۔ یہ وزن صد فیصد کے طور پر ظاہر کیے جاتے ہیں۔ تمام ادوار کے لئے تمام وزن کی کل میں 100٪ تک اضافہ کرنا ضروری ہے۔ 2. اپنا خوف کم کرنے کے لئے کام کریں. چلانے کے لئے یا نہیں چلانے کے لئے؟ بالکل ، بھاگ جاؤ! دوڑنا مجموعی طور پر جسم پر مثبت اثر ڈالتا ہے ، قلبی نظام کو بہتر بناتا ہے اور وزن کم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ بونس کے طور پر شامل کریں ، استثنیٰ کو مستحکم کریں ، میٹابولزم اور کردار کی ترقی کو بہتر بنائیں۔ متعلقہ: سن اسکرین لغت: ہر ایس پی ایف صحیح اثاثہ کا انتخاب اصطلاح کو ڈیکوڈنگ کرنے کے لئے ایک رہنما جو آپ کو جاننے کی ضرورت ہے. فاریکس ڈیمو اکاؤنٹ - صحیح اثاثہ کا انتخاب اگر آپ کسٹم ٹریڈنگ پلیٹ فارم استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس پر تحقیق کریں جو آپ کے لئے صحیح ہے۔ اس میں آپ کی حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے اور تجارتی انداز اور ضروریات سے مطابقت رکھنے کیلئے آپ کو اہل بنانے کے ل function فعالیت اور ٹولز ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر ، ایکسینس 2019 میں ایم ٹی 5 سے چلنے والے کسٹم ٹریڈنگ پلیٹ فارم کو جاری کرے گی۔ یہ ویب پر مبنی اور موبائل مطابقت رکھتا ہے ، لہذا آپ کو کسی بھی وقت ، کہیں بھی ٹریڈنگ کی تازہ ترین فعالیت مل جائے گی۔ ایکسیس پلیٹ فارم موصل اوسط ، تعاون اور مزاحمت کی سطحوں ، اور خرید و فروخت کے لئے کرنسی کے جوڑے کا ایک بہت بڑا انتخاب کی بھی حمایت کرتا ہے ۔ رابن ہڈ کے مقابلے میں ویبل کا ڈیزائن جمالیاتی بہت زیادہ خوفناک ہے۔ "اب ہم جس ویب کو جانتے ہیں ، جو مستحکم صحیح اثاثہ کا انتخاب اسکرینفورز میں براؤزر ونڈو میں بھرتا ہے ، آنے والا ویب کا صرف ایک برانن ہے۔ ویب 2.0 کی پہلی جھلکیاں ظاہر ہونے لگیں ہیں اور ہم ابھی یہ دیکھنا شروع کر رہے ہیں کہ یہ جنین کیسے تیار ہوسکتا ہے۔ ویب کو متن اور گرافکس کی اسکرینفلز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ٹرانسپورٹ میکانزم کے طور پر سمجھا جائے گا ، جس آسمان کے ذریعے باہمی تعامل ہوتا ہے۔ یہ [. ] آپ کے کمپیوٹر اسکرین پر ظاہر ہوگا ، [. ] آپ کے ٹی وی سیٹ پر [. ] آپ کی کار کا ڈیش بورڈ [. ] آپ کا سیل فون [. ] ہاتھ سے پکڑی جانے والی گیم مشینیں [. ..] شاید آپ کا مائکروویو اوون بھی۔ " سی آر ایم کے ذریعہ کسٹمر کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ، اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ، صارفین کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مزید فروخت اور آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اس سے کسی بھی کاروبار کو فائدہ ہوسکتا ہے ، کمپنی کی جسامت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہمارا پسندیدہ مفت مونوگرام جنریٹر مارک اور گراہم میں موجود ہے۔ یہاں 27 مختلف مونوگرام اسٹائل ہیں جن میں سے آپ کو منتخب کرنے کے ل and ہیں اور آپ ان کو 16 رنگوں میں اپنی پسند کے مطابق بنا سکتے ہیں۔ چونکہ درخواست کی گئی رقم زیادہ ہے ، ان بینکاری کارروائیوں کے ذریعے بچت کرنے کی گنجائش میں اضافہ کیا جائے گا۔ کچھ معاملات میں قابل قیاس فوائد کے مقابلے میں کچھ زیادہ پیدا کرنے کے قابل ہونا جو آپ کو ذاتی اخراجات میں یا گھر کی دیکھ بھال کے ل other ، دوسرے اخراجات کو ضائع کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ سپیم اور موضوع سے ہٹے ہوئے خیالات: لیکن یقینا ، نتیجہ حقیقت سے بھی بدتر ہوسکتا ہے۔ ایجنٹوں کے برعکس ، دلالوں کو انشورنس کوریج باندھنے یا پالیسیاں جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ کسی مؤکل کی جانب سے کوریج کا آغاز کرنے کے لئے ، ایک بروکر انشورینس کمپنی سے انشورائڈر سے انشورنس بائنڈر جاری کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے۔ متبادل کے طور پر ، بروکر بائنڈر جاری کرسکتا صحیح اثاثہ کا انتخاب ہے اور پھر انڈرائٹر سے دستخط کی درخواست کرسکتا ہے۔ بروکر کے ذریعہ جاری کردہ پابندی اس وقت تک درست نہیں ہوجائے گی (اور اس پر کوئی کوریج شروع نہیں کی جائے گی) جب تک کہ انشورنس کمپنی کے کسی مجاز نمائندے کے ذریعہ دستاویز پر دستخط نہ ہوں۔
دعوتِ الی اللہ علم سے عبارت اور منسلک ہے۔بلکہ علم دعوتِ الی اللہ کی بنیادی شرائط میں سے ہے'جس کی دلیل سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیت ہے{وَلَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ والْبَصَرَ وَالْفُئَوادَکُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا } یعنی اُس بات کے پیچھے مت پڑو جس کا تمہیں علم نہیں بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہوگا[بنی اسرائیل؍36] اس آیت میں اُن افراد کے لئے شدید وعید بیان ہوئی ہے جو بغیر ِ علم لوگوں پر بہتان بازی اور فتویٰ بازی کرتے پھرتے ہیں'اسی ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہہ بغیر علم دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے گویا یہ بھی بہتان بازی ہی کی ایک قسم ہوئی ۔کیوں کہ لاعلم شخص کبھی اللہ پر غلط بیانی کرتا ہے اور کبھی بنی کی طرف جھوٹ منسوب کرتا ہے ۔ ''قَفَایَقْفُو''کا مطلب ہے پیچھے پڑنا یا پیچھے لگنا'گویا ''وَلَاتَقْفُ''کا معنی ہوا ایسی بات یا ایسی چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمہیں علم نہیں۔ابو نعمان سیف اللہ خالد اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں ''اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کو ایسی بات کہنے سے منع فرمایا ہے جس کا اسے علم نہ ہو''۱؎۔قتادہؒ کا ایک قول مفسرین نے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں [لَاتَقُل رَاَیْتُ وَلَم تَر وَ سَمِعْتُ وَلَم تَسْمَعُ وَعَلمْتُ وَلَم تَعْلَم]یعنی ایسامت کہا کرو کہ میں نے دیکھا جب کہ تم نے نہ دیکھا ہو اور نہ یہ کہا کرو کہ میں نے سنا جبکہ تم نے نہ سنا ہو اور نہ یہ کہا کرو کہ میں نے جانا جبکہ تم نہ جانتے ہوں۔بغیرعلم جب آپ دعوت و تبلیغ کا کام کریں گے تو آپ کے ذریعے محض فساد پھیلے گا اور کچھ نہیں۔عربی زبان میں کہا جاتا ہے ''رَفْعُ الْجَھل عَن نَفْسِک ثُم عن غَیرِہ''یعنی پہلے خود کی لاعلمی کو دور کرو اُس کے بعد دوسری کی۔دعوت و تبلیغ کا کام حصولِ علم کے بعد ہی کیا جانا چاہیئے لیکن بہت سے لوگ اس کے برعکس معاملہ کرتے ہیںجیسا کہ اللہ کا فرمان ہے{اِنَّ کَثِیْرًا لَیُضِلُوْنَ بِاَھْوَائِھِم بِغَیرِ عِلم }اور بہت سے لوگ بغیر علم اپنی خواہشات کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں[انعام؍120]۔ایسے لوگ قرآن و سنت کی خود ساختہ تاویل کرکے عوام النّاس کو گمراہی میں دھکیلتے ہیں۔دعوت و تبلیغ کا کام قدرے حساس ہے۔یہاں ایک ایک بات دلیل سے ثابت شدہ ہو یہی علم کا تقاضا ہے،محمد بن عبدالوہابؒعلم کی تعریف میں کہتے ہیں ''العلم ہوا معرفۃ اللہ و معرفۃ بنیہ ومعرفۃ دین الاسلام بادلۃ''علم دلیل کے ساتھ اللہ کی پہچان کا نام ہے اور اُس کے نبی کی پہچان کا نام ہے اور دین اسلام کی پہچان کا نام ہے ۔امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک حدیث لائی ہے جسے ابو حریرہؓ نے روایت کیا ہے کہتے ہیںکہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے بلا تحقیق آگے بیان کردے۔ سورہ نحل کی آیت ایک آیت ہے{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَہِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَنُ الخ}یعنی اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو 'حکمت اور اچھ نصیحت کے ساتھ اور اُن یعنی لوگوں سے بحث (مناظرہ)کرو اچھے طریقے سے۔اس آیت میں دعوتِ الی اللہ کے کچھ اصول اور کچھ شرطیں بیان ہوئی ہیںجن میں پہلی شرط یا پہلا اصول ہے ''حکمت''۔ابن کثیرؒ نے امام ابن جریرؒ کا قول نقل کیا ہے کہ حکمت سے مراد کلام اللہ اور حدیثِ رسول ؐ ہے ۲؎۔بقول سید نذیر نیازی کتاب اللہ علم و حکمت کی اساس ہے۳؎۔گویا حکمت کا لفظ علم کے معنی اور مفہوم میں ہی وادر ہوا ہے'قرآن و سنت کا علم ہی حکمت ہے۔کچھ مفسرین نے اسے براہین اور دلائل پر بھی منطبق کیا ہے۔موالانا عبدالحفیظ بلیاوی ندوی حفظہ اللہ نے ''مصباح اللغات'' میں حکمت کے معنی انصاف ' علم ' بردباری 'فلسفہ 'حق کے موافق گفتگو وغیرہ کے بتائے ہیں۔مختصر یہ کہ حکمت ہر اعتبار سے حصولِ علم ہی کی طرف لوٹتی ہے۔گویا دعوت وتبلیغ سے پہلے ایک داعی کا علم وحکمت سے آراستہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ سورہ نبی اسرائیل کی آیت ''وَلَاتَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم'' سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ داعی اُ س بات میں خاموشی اختیار کرے جس بات پر اُس کی دسترس نہ ہو ۔اور یہ نتِ نبویہؐ ہے 'رسول اللہ ؐ سے بہت سے معاملات میں خاموشی ثابت ہے۔ایک داعی اپنی عزت نفس بچانے کے لئے ایسے سوالات کا جواب نہ دے جن کا اُس کو علم نہ ہو۔اس کے برعکس معاملہ فقہ میں ''جھلِ مرکب'' کہلاتا ہے یعنی سوال کا غیرصحیح جواب دینا ۔یہ عام طور پر تب ہوتا ہے جب انسان احساسِ کمتری کا شکار ہو اورحق بولنے میں اُس کی اپنی عزتِ نفس رکاوٹ بنے ۔یہاں اضافی طور پریہ بات بتادوں کہ ''جھل'' کی دو قسمیں ہیں ایک ''جھل مرکب''اور دوسرے ''جھل بسیط'' ۔جھل مرکب کی تعریف پیچھے گزر چکی ہے یعنی سوال کا غیر صحیح جواب دینا'اور ''جھل بسیط'' یہ ہے کہ معلوم نہ ہونے پر انسان اپنی لاعلمی کا برملا اظہار کرے اور یہ ایک داعئی حق کی پہچان ہے کہ وہ ہر اُس مسلے میں خاموشی اختیار کرے گا یااپنی لاعلمی کا عذر پیش کرے گا جو مسلہ اُس کے علم میں نہ ہویا وہ پہلے اُس مسلے کا علم حاصل کرے گا اُ سکے بعد ہی جواب دے گا۔ امام شافعیؒ کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے اجماع کے بارے میں حکم دریافت کرنے کے لئے تین سوایک مرتبہ قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور اُس بعد سورہ نساء کی اس آیت سے اجماع پر دلیل پکڑی{ومن یُّشاقِقِ الرّسول من م بعد ما تبیّن لہ الھدیٰ ویتّبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولّٰی و نصلہٖ جھنّم وساء ت مصیرًا} یعنی جو شخص باوجود راہِ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول کی مخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے 'تو ہم اُسے ادھر متوجہ کریں گے جدھر وہ خود متوجہ ہواور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے[سورہ النساء؍115 ۔ترجمہ جوناگڑھہؒ]۔یہاں سے آپ اخذ کریں کہ ایک مسلمان خاص کر ایک داعی کو کس قدر حساسرہنا چاہیے۔کسی بھی مسلے حکم صادر کرنے سے پہلے مکمل تحقیق اور علمی استداد حاصل کرنی چاہییا اور ہر اُس مسلے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے جس مسلے کا علم نہ بلکہ ایسے معاملات میں ''لاادری'' (میں نہیں جانتا) کہنا ہدایت کا غماز ہے۔بقول مشہور تابعی عامر بن شراحیلؒ ''لاادری نصف العلم''یعنی میں نہیں جانتا کہنا نصف علم ہے۔ حواشی۔۱؎دعوت القرآن (جلد سوم؍389)، ۲؎تفسیر ابن کثیرؒ سورہ نحل آیت نمبر 125 کی تفسیر میں،۳؎تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ ؍مقدمہ
سونامی کو پانچ برس ہو گئے، جاپان میں آنسو اور دعائیں | حالات حاضرہ | DW | 11.03.2016 سونامی کو پانچ برس ہو گئے، جاپان میں آنسو اور دعائیں جاپان میں لوگ آج ٹوکیو اور ملک کے شمال مشرقی ساحل پر بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور دن 2:46 پر کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کی۔ یہ دراصل پانچ برس قبل آنے والے خوفناک سونامی کی یادگاری تقریبات کا حصہ تھا۔ 11 مارچ 2011ء کو مقامی وقت کے مطابق دن 2:46 پر جاپانی ساحلوں کے پاس آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر نو درجے تھے۔ اس زلزلے کے بعد پیدا ہونے والی سونامی لہروں نے 18 ہزار سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنا دیا تھا اور وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ جاپان کے شمالی حصے میں آج یخ بستہ سہ پہر کو جب سونامی کے وقت پر سائرن بجائے گئے تو خصوصی تقریب میں شریک افراد میں سے بعض کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور بعض سر جھکائے دعاؤں میں مصروف تھے۔ جاپانی بادشاہ آکی ہیٹو اور ملکہ میچیکو کے علاوہ وزیر اعظم شینزو آبے نے ٹوکیو میں ہونے والی ایک خصوصی تقریب کی قیادت کی۔ اس تقریب میں حکام کے علاوہ سونامی سے متاثرہ افراد بھی شامل تھے۔ جاپانی بادشاہ آکی ہیٹو کا اس موقع پر کہنا تھا، ''یہ بات اہم ہے کہ تمام لوگ اپنے دلوں کو جوڑے رکھیں تاکہ کوئی ایک بھی ایسا شخص نظر انداز نہ ہو جو ابھی تک مشکل میں ہے اور ایسے لوگ جلد سے جلد معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں۔'' لوگوں نے سونامی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر دن 2:46 پر کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کی سونامی سے ہونے والی وسیع تر تباہی کے باعث ابھی تک ایک لاکھ 80 ہزار افراد بے گھر ہیں جبکہ تعمیر نو کا کام بھی جاری ہے۔ بہت سے لوگ فوکوشیما جوہری پاور پلانٹ کے قریبی علاقوں میں واقع اپنے گھروں کو لوٹنے کے سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ سونامی کے باعث یہ جوہری پاور پلانٹ بھی بری طرح متاثر ہوا تھا اور اس سے خطرناک تابکار شعاعوں کا اخراج کافی عرصے تک جاری رہا تھا۔ اس قدرتی آفت سے متاثر ہونے والا ٹوہوکو کا ساحل ابھی تک خالی پڑا ہے۔ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے تسلیم کرتے ہیں کہ سونامی سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگ ابھی تک جدوجہد کر رہے ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تعمیر نو کا کام بتدریج ہو رہا ہے اور گھروں کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کی کابینہ پہلے ہی 6.5 ٹریلین ین پانچ سالہ بحالی پروگرام کے لیے منظور کر چکی ہے۔ 2020ء تک کے عرصے میں خرچ کی جانے والی یہ رقم 57 بلین امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔ یہ رقم متاثرین کے لیے رہائشی سہولیات کی تعمیر کے علاوہ، طبی سہولیات، انفراسٹرکچر، سیاحت کے فروغ اور دیگر منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔
اداریہ،کالم Archives - Page 5 of 308 - Dailyaftab تحریر: سلمان احمد قریشی ملکی سیاست جس سمت جارہی ہے اس پر سب کو تشویش ہے۔نوبت یہاں تک نہیں آنی چاہیے کہ کسی ادارے کی قیادت پر نام لیکر تنقید ہو۔ آزادی اور ببیاکی سے آگے اب سیاستدان ایک دوسرے کے بارے نازیباالقابات کے بعد کھلے عام اداروں پر الزام تراشی سے بھی گریز نہیں […] خوفناک بات یہ ہے کہ وبائی مرض کرونا بھی سر اٹھانے لگاہے بھارت میں اس وقت ہلاکتیں ایک لاکھ سے تجاوزکرگئی ہیں، برطانیہ میں تو ایک بارپھر رات کا کرفیو لگانے کی تجویزسامنے آگئی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کرونا بے قابو ہونے لگاہے اور دیگر کئی شہروں میں صورت ِ […] بھارتی میڈیا جھوٹ اور غلاظت کا پلندہ حسیب اعجاز عاشرؔ کہتے ہیں کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بھلا لیکن اگر دشمن ہی عقل سے عاری ہوتو پھر بندہ کہاں جائے؟ کچھ ایسی صورتحال کا پاکستان کو بھی سامنا ہے جس کا ازلی مکار دشمن بھارت میں نہ تو عقل ہے اور نہ کوئی ظرف نام کی چیز۔یہ نفرت سے […] پی ایم سی اور کرغزستان میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کا مستقبل بادشاہ خان اس وقت ایک اہم مسئلہ جیسے بہت عرصے سے نظرانداز کیا جاتا رہا ، عفریت بن کر ابھررہا ہے ، جس کا ادارک پی ایم سی کو بھی شائد نہیں ہے ، یہ مسئلہ ہے ،کرغزستان میں زیرتعلیم دس ہزار پاکستانی طلبہ کے مستقبل اور تعلیم کا؟اس حل کیا ہے ؟کسی کو معلوم […] جب کسی کو راکھ ملی تو کسی کو ۔۔۔ ڈاکٹر جمشید نظر حفیظ سنٹر لاہور کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے جہاں کمپیوٹرز، لیپ ٹاب،موبائل فونز،ڈیجیٹل کیمرے اورپرنٹرز سمیت متعدد دیگر الیکٹرونکس کا کاروبار ہوتا ہے ۔17 کنال رقبے پر مشتمل اس سنٹر میں ایک ہزار سے زائددکانیں ہیں ۔تاجر رہنماوں کے ایک اندازے کے مطابق اس سنٹر میں روزانہ 15 سے 20 […] "ہم ایک دوسرے کی عزت کریں گے" تحریر: سلمان احمد قریشی پی ڈی ایم نے گوجرانوالا کے بعد کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ملک میں احتجاجی سیاست کا ماحول بن گیا۔ یہ جلسے جلوس جو الیکشن مہم کا حصہ ہوتے ہیں اگر الیکشن سے بہت پہلے شروع ہوجائیں تو سیاست میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ کہتے […] عمران امین شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا"مغالطہ سے کیا مراد ہے؟"اُستاد نے کہا کہ میں ایک مثال دیتا ہوں۔دو مرد میرے پاس آتے ہیںجن میں سے ایک صاف ستھرا اُور دوسرا گندہ ہے۔میں اُن کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ غسل کر کے پاک صاف ہو جائیں۔آپ بتائیں کہ اُن میں سے کون غسل کرے […] محکمہ تعلیم، حکمران اور تعلیمی تاجر جام ایم ڈی گانگا محترم قارئین کرام،، ہم، ہمارا معاشرہ، ہمارے ادارے کہاں جا رہے ہیں. متعلقہ ذمہ داران اور حکمران ملک و قوم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں. کیا احساس ذمہ داری چمک اور دھمک کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہو چکا ہے. اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کیا مذاق اور […] وقت بدل چکا ہے ۔،۔وقت بدل چکا ہے ۔،۔ طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال کسی لیڈر کی اتباع کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کے فلسفہ اور اس کے نظریات کی حقیقی پیروی کی جائے۔خالی الفاظ دہرانے یا پھر محض نعرے بلند کرنے سے نظریہ کی اتباع ممکن نہیں ہوتی۔وقتِ ابتلاءنظریہ کے ساتھ کھڑا ہونا اور نفع و نقصان سے […] محبوب عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریر :مجیداحمد جائی ملتان 03017472712 مدحت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قلم اُٹھانا کوئی معمولی اعزاز نہیں ۔بارگارِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری لگوانے کا ایک عاجزانہ انداز ہے پھر جب بارگاہ ِایزدی سے قبولیت کا پروانہ مل جائے تو سونے پے سہاگہ ہے ،ان قلم کاروں میں روحان دانش نے […]
میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ قبرستان میں اگربتی، موم بتی، پھول، چادر چڑھانا کیا یہ سب صحیح ہے؟ سوال نمبر: 7384 جواب نمبر: 738401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت فتوی: 866=866/ م مذکورہ امور شرعاً بدعت و ناجائز ہیں، ان سے اجتناب لازم ہے، در مختار میں ہے: واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یوٴخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربًا إلیہم فھو بالإجماع باطل وحرام الخ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ پر کہ تین جنازے جمع ہوئی جس میں ایک بالغ مرد ، ایک نابالغ لڑکا اور ایک نابالغ لڑکی ہے۔ کیا ان تینوں جنازوں کے لیے ایک نماز کافی ہے یا علیحدہ علیحدہ پڑھنی ہوگی؟ براہ کرم، جواب دیں۔ 6619 مناظر پرانے قبرستان کو راستے کے لئے استعمال کرنا 3989 مناظر Q. کیا فرماتے ہیں علما اکرام اس مسلے کے بارے میں کہ آجکل ڈاکٹر حضرات میّتوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں کی یہ شرع جائز ہے؟ نیز ڈاکٹر حضرات کن وجوہات کی بنا پر پوسٹ مارٹم کرتے ہیں. برائے مہربانی قرآن و سنّت کی روشنی میں مدلّل و مفصّل جواب عنایت فرمائیں ۔ 3096 مناظر Q. قریب مرگ اور بعد مرگ كے احكامات 3818 مناظر Q. کسی بھی صحابی کو برا بھلا کہنا اور ان کو تنقید وملامت کا نشانہ بنانا یقینا موجب فسق وضلالت ہے 1355 مناظر Q. پنجوقتہ نمازوں کی طرح وتر کا بھی فدیہ ہوتا ہے 1427 مناظر قادیانی کی قبر بنانا Q. میت کا سننے کا مسئلہ عہد صحابہ سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے 1112 مناظر Q. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس طرح پڑھی گئی؟ 5195 مناظر اگر کوئی گمنام لاش کسی ایسی جگہ سے ملے کہ جس سے یہ پتہ نہ چلے کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ 2389 مناظر میں اپنی جائداد جو کہ ایک مکان ہے جس کی مالیت ایک کروڑ پچاس لاکھ ہے اپنی زندگی میں ہبہ کرنا چاہتاہوں۔ میرے اوپر ایک بہن کا بارہ لاکھ کا قرضہ بھی ہے۔ میرا مکان میرے اور میری پہلی بیوی کے نام پر آدھا آدھاہے۔ میرا ایک بھانجا ہے جو کہ میرے ساتھ رہتا ہے میرے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اس کو میں اور میری بیوی دونوں پورا مکان دیناچاہتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ بھی تو ہیں (۱)میری دوسری بیوی (۲)میرے تین بھائی (۳)میری تین بہنیں۔آپ بتائیں میں کس طرح سے تقسیم کروں؟ Q. رات نو بجے ایک رشتہ دارکی والدہ کا انتقال ہوگیا عارضہ قلب کی وجہ سے یاٹھنڈ لگنے کی وجہ سے ۔اس کی بیٹی کی خواہش تھی کہ وہ اپنی مردہ ماں کو دیکھے اوروہ دوسرے دن تین بجے پہلی فلائٹ سے دہلی سے اپنے گھر پہنچ گئی۔ اس کے پہنچنے کے فورا بعد سوا تین بجے تدفین ہوئی ۔ اب وہ پریشان ہے کہ اس کے اپنی والدہ کو دیکھنے کی خواہش سے تدفین میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تدفین میں کچھ گھنٹے تاخیرکرانے پر اس کو کوئی گنا ہوگا؟ جب کہ دوپہربارہ بجے تک تجہیز و تکفین کا کام مکمل ہوچکا تھا۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ 1855 مناظر
رواں ماہ 107خطرناک اشتہاریوں سمیت 1872مشتبہ افراد کو گرفتار ہوئے، کوہاٹ پولیس پشاور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 26 اپریل2018ء) کوہاٹ پولیس نے ماہ رواں 107خطرناک اشتہاریوں سمیت 1872مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ۔ضلع بھر کے متعدد مقامات پر سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز میںبارودی مواد، خود کار ہتھیاروں اور مختلف قسم کی منشیات کی بھاری کھیپ بھی پکڑی گئی ہے۔گرینڈ سرچ آپریشن میں زیر حراست مشتبہ افراد کی نسبت ضابطہ فوجداری کے تحت ضمانت چال چلن کی کاروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
انسانی حقوق تنظیم کا انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے حالیہ تشدد آمیز واقعات سےمتعلق بیان کا جواب – Global News Pakistan ایرانی عوام امریکا کی طرف سے وسیع، ظالمانہ اور یکطرفہ طور پر ٹھونسی گئی ایسی پابندیوں کا شکار ہیں جن سے عالمی انسانی حقوق کی اقدار مٹ جاتی ہیں اور انکی زد میں معاشرے کے سب سے زیاده متاثر ہونے والے افراد، جیسا عورتیں بچے بوڑھے اور وه لوگ آتے ہیں جنہیں صحت و علاج کی خدمات اور دواؤں اور غذا کی ضرورت اسلام آباد: (جی این پی) 3 دسمبر2019 : اسلامی جمہوریہ ایران کی انسانی حقوق تنظیم نے ہائی کمیشنر انسانی حقوق اور کچھ وقایع نگاروں کی حالیہ متشدد واقعات کی رپورٹ کے جواب میں مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے: انسانی حقوق تنظیم نے ہائی کمشنر انسانی حقوق اور کچھ وقایع نگاروں کی حالیہ متشدد واقعات کی رپورٹ کے جواب میں واضح کیا ہے کہ: پر واضح ہے اسلامی جمہوریہ ایران احتجاج کو عوام کا حق سمجهتی ہے اور پر امن احتجاج کو تسلیم کرتی ہے. احتجاجی جلسوں سے متعلق واضح اور ریلیف اور ضمانت پر مبنی قوانین و ضوابط بهی وضع کر رکهے ہیں. لیکن ہنگامہ کرنے والوں اور امریکا اور دوسرے ممالک کی مداخلت و انتظام کے زیر اثر مسلح اقدامات کے ذریعہ معصوم شہریوں کا قتل عام، لوگوں کی املاک کو تباه کرنے، بنکوں اور دوسری عمارتوں کو جلانے اور لوٹ مار کرنے کا ارتکاب کرنے والوں کا حساب بالکل الگ بات ہے. انسانی حقوق تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے که اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلام کی نورانی تعلیمات پر مبنی انسانی حقوق کے ارتقاء اور حمایت پر یقین رکهتے ہوۓ اپنے شہریوں اور بین الاقوامی معاشرتی ذمہ داریوں کی ہمیشه پابندی کی ہے اور اپنے ملک کے عوام پر بهروسه کرتے ہوۓ گذشته چالیس سالوں میں پیهم اور متنوع غیر ملکی یلغار اور غیر منصفانہ مسلسل دباؤ کو برداشت کیا اور کر ر ہی ہے. ایرانی عوام امریکا کی طرف سے وسیع، ظالمانہ اور یکطرفہ طور پر ٹھونسی گئی ایسی پابندیوں کا شکار ہیں جن سے عالمی انسانی حقوق کی اقدار مٹ جاتی ہیں اور انکی زد میں معاشرے کے سب سے زیاده متاثر ہونے والے افراد، جیسا عورتیں بچے بوڑھے اور وه لوگ آتے ہیں جنہیں صحت و علاج کی خدمات اور دواؤں اور غذا کی ضرورت پیش ہے . یه سب اقدامات شہریوں کو سزا دینےکی کوشش اور بین الاقوامی قوانین اور انسان دوستی کے جملہ قوانین کی کهلی خلاف ورزی ہے. ایرانی قوم یه توقع کر ر ہی تهی که ہائی کمشنر کے ترجمان کسی بهی طرح کے نتیجہ تک پہنچنے سے پہلے، امریکی حکام کے کردار و مداخلت خصوصا امریکی وزیر خارجہ کے ان احتجاجی مظاہروں کو هنگاموں اور تشدد میں تبدیل کرنے سے متعلق بیانات کی پرزور طور پر مذمت کرے گا. یه واضح ہے که اسلامی جمہوریہ ایران احتجاج کو عوام کا حق سمجهتی ہے اور پر امن احتجاج کو تسلیم کرتی ہے اور احتجاجی جلسوں سے متعلق غیر مبہم، ریلیف اور ضمانت پر مبنی قوانین و ضوابط رکهتی ہے. لیکن ہنگامه کرنے والوں اور امریکا اور دوسرے ممالک کی مداخلت و انتظام کے زیر اثر مسلح کاروائیوں کے ذریعہ معصوم شہریوں کے قتل عام، لوگوں کی املاک کی تباہی، بنکوں اور دوسری عمارتوں کو نذر آتش کرنے اور لوٹ مار کا ارتکاب کرنے والوں کا حساب بالکل الگ بات ہے. اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا که جن ممالک نے ان ہنگاموں اور متشدد کاروائیوں کی حمایت کی ہے، انہیں اپنے اقدامات کی ذمہ داریوں کو قبول کرنا چا ہیۓ. یه امر نہایت افسوس ناک اور تعجب خیز ہے که انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ترجمان نے اپنے بیان میں احتجاج کو ہنگاموں اور تشدد آمیز کاروائیوں میں تبدیل کرنے کی سازش کو نظر انداز کرتے ہوۓ حقیقت سے دور واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے. اس کے ساتھ ہی عوام کے ایک ایک فرد کے آرام اور سلامتی سے متعلق حکومت کی ذمہ داری کو بهی نہیں دیکها گیا ہے. ہمیں اطمینان ہے که ترجمان انسانی حقوق کے ہائی کمشنر لوگوں کی املاک کو نذر آتش کرنے، ہنگامہ برپا کرنے، امن و امان کو بگاڑنے جیسے اقدامات کو پرامن احتجاج کا مصداق نہیں سمجهتے ہیں. اسلامی جمہوریہ ایران سب کیلۓ بنیادی آزادیوں، انسانی حقوق کے احترام اور ترویج کے مقصد کیلۓ، قومی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر عالمی، اقتصادی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کیلۓ تعاون اور تعمیری مکالمے کی اہمیت پر بهر پور یقین رکهتی ہے. اسلامی جمہوریہ ایران مغربی ایشیا کی سب سے بڑی اور اہم ترین جمہوریت ہے اور اس میں اقتدار کے تمام ارکان عوام کی براہ راست یا بالواسطه ووٹ کے ذریعہ تشکیل دیۓجاتے ہیں. اس وقت بهی قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں. یه اسمبلی ملک میں قانونسازی کا واحد اداره ہے. ملک کے قوه مجریہ، عدلیہ اور دوسرے ارکان اور امور مملکت کے جملہ ذرائع پر نگرانی، محاسبہ اور ترمیم کے مکمل اختیارات اس اسمبلی کو خاصل ہیں. اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات بهرپور تحرک اور خوشی کا موقع اور سنجیده اور وسیع مقابلے اور شاندار عوامی شراکتداری کا مظهر ہوتے ہیں. کیسے اور کیونکر اسقدر اہمیت کا حامل موقع، جس میں تمام امور سے متعلق عوام کی راۓ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، ہائی کمشنر کے بیان کو جاری کرنے والوں کی نظر سے اوجہل رہا ہے؟ کیا مقابلے اور دہڑےبندی کے میدان کو مختلف پارٹیوں اور دہڑوں کے درمیان مکالمے، مذاکرات اور تعامل کےعلاوہ بهی کچھ کہا جا سکتا ہے؟ البتہ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ امریکا، یورپ کے بڑےممالک اور ان کے علاقائی پٹھو جو خطہ کےتیل اور دوسرے ذخایر کی لوٹ مار کیلۓکٹھ پتلی آمریت قائم کرنیکےدر پے ہیں، ان کیلۓ ایسی طاقتور موثر اور کامیاب جمہوریت کا ظہور، اپنے ناجائز مفادات کیلۓ بڑا خطره تصور ہوتا ہے. اسلۓ انتخابات کے عمل کو مخدوش بنانے اور اس کا عالمی چہرہ مسخ کرنیکی کوششوں میں جتے ہیں اور اب تک اللہ تعالی کی مہربانی سےکامیاب نہ ہوۓاور مستقبل میں بہی انشااللہ نہ ہونگے. ہائی کمشنر انسانی حقوق کے بیان میں انٹرنٹ منقطع ہونے پر تشویش کا ذکر کرتے ہوۓ، آزادی اور اطلاعات تک رسائی کے حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے. جبکہ ملک میں انٹرنٹ کی سروس ہرگز منقطع نہیں کی گئی اور عام شہری اپنے قومی نٹ ورک کے ذریعہ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے ساتھ رابطہ میں رہےاور انہیں جملہ اطلاعات تک رسائی دستیاب رہی ہے. حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ فقط وہ انفارمیشن جو کہ مغربی ذرائع ابلاغ میں "مدعی" سے نقل کر کے بیان ہو وہ "انفارمیشن" تصور کی جاتی ہے! کیونکر مغربی اور یورپی سوشل میڈیا کا عوام کو تشدد، قتل عام، افواہ سازی اور ذہنوں کو پریشان کرنے پر اکسانے اور حوصلہ افزائی کیلۓ تخریبی کردار کو "اطلاعات تک رسائی" کا نام دیا جاتا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کیلۓ کسی کی سوچ، نفسیات اور شخصی اور اجتماعی زندگی پر اس حد تک یلغار انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ بدیهی طور پر عام لوگوں، انتظامی قوتوں کے خلاف، پبلک اور پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کیلۓ اسلحے اور تشدد کا استعمال قانونی ذمہ داریوں کا باعث ہے. مقامی اور بین الاقوامی قوانین میں مسلح اور پر تشدد مظاہروں کا کوئی جواز بیان نہیں کیا گیا ہے. حالیہ واقعات میں کوئی بهی پرامن احتجاج کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا ہے. انتظامی فورسز نے معاشرے میں امن و امان کے ذمہ دار کے طور پر تربیتی عمل کے تسلسل کی بدولت غیر معمولی برداشت کا مظاہرہ کیا ہے. یہاں تک کہ ہنگامہ خیز گروہوں کی طرف سے آتشین اسلحہ کا استعمال ہوا اور انتظامی فورسز کے کچھ جوان شہید اور زخمی ہوۓ. حالیہ واقعات کے متعلق غیر ملکی اور دنیا کے بدی کے محور ممالک کے میڈیا کی طرف سےہلاک ہونیوالوں اور عوام کو پہنچنے والےنقصانات کے بارے میں غیر مستند اور بے بنیاد اطلاعات پهیلائی گئیں، جن میں سے کسی ایک کی بهی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے. لہذا شفافیت کی ضرورت کے پیش نظر جانی و مالی نقصانات کے تخمینے کیلۓ مجلس شورای اسلامی (قومی اسمبلی) میں موجود عوامی نمایندوں اور جوڈیشری کی طرف سے تحقیقات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور وہ عوام کو ہونے والے نقصانات کے درست اندازے اور ازالےکیلۓ پرعزم ہیں. ترجمان انسانی حقوق ہائی کمشنر اور بعض دیگر بیان جاری کرنیوالے رپورٹرز سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ایسے ممالک جنکا مقصد یکطرفہ پابندیوں کی پالیسی کے ذریعہ عوام، خصوصا ان عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ایسے افراد جنہیں صحت اور معالجہ اور دواؤں اور غذا کی شدید ضرورت کےخلاف دباؤ بڑھانا ہے، ان کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے شایع کردہ غلط معلومات اور جلد بازی پر مبنی فیصلوں سے مکمل اجتناب کریں. یہ بات افسوسناک ہے کہ ترجمان انسانی حقوق کمشنر اور دوسرے بیان جاری کرنیوالے وقایع نگاروں کا موقف ہنگامہ پرور اور ملت کے حقوق کے مجرموں کی حمایت میں سامنے آیا ہے. انکے بیانات امریکی صدر اور وزیر خارجہ کے جانبدارانہ، یکطرفہ اور مداخلت آمیز اظہارات کی یاد دلاتے ہیں . وہ لوگ ایسے حالات میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ جان بوجھکر تخریبی عناصر کی طرف سے عوام کی املاک کو نقصان پہنچانے، امن و امان کی پایمالی، معصوم عوام عورتوں، بچوں کو قتل اور زخمی کرنے کےاقدامات سےمنہ پهیرتے ہوۓ، اسکی طرف معمولی اشارہ بهی نہیں کیا ہے.یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی سطح پر جهوٹے دعویدار انٹرنٹ پر پابندیوں پر انتقاد اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں، اور تشدد کے فروغ، تخریب کاری کے ایجنڈےاور کاروائیوں پر آنکہیں بند کر کے ایک طرح سے ان عناصر کے شانہ بشانہ کهڑے ہوتے ہیں. اس طرح کا موقف نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے عائد ذمہ داریوں سے انحراف اور مخصوص طریقہ کار ہے . بلکہ ان کے وقار اور حیثیت کو داغدار بناتا ہے. نوٹ: قابل ذکرہے کہ ایران میں انسانی حقوق تنظیم عدلیہ کی ذیلی تنظیم ہے جو کہ سن 1985 میں قائم کی گئی ہے.
''داعش ترکی میں روسی سیاحوں کو اغوا کرسکتے ہیں'' ترکی جانے والے سیاح اپنے تحفظ کو یقینی بنائیں :روس کی سیاحتی ایجنسی کا انتباہ پہلی اشاعت: 27 جنوری ,2016: 12:00 دن GST آخری اپ ڈیٹ: 27 جنوری ,2016: 06:12 رات GST روس کی وفاقی سیاحتی ایجنسی نے بدھ کے روز ایک انتباہ جاری کیا ہے کہ سخت گیر جنگجو گروپ دولت اسلامیہ عراق وشام (داعش) ترکی میں روسی شہریوں کے اغوا کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس ادارے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''مجاز ایجنسیوں کے مطابق دہشت گرد گروپ داعش کے لیڈر ترکی میں روسی شہروں کو یرغمال بنانے کی سازش کررہے ہیں۔ان یرغمالیوں کو شام میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے اور وہاں انھیں عوامی مقامات پر داعش کے جنگجو تہ تیغ کرسکتے ہیں یا پھر وہ انھیں شامی حکومت یا اتحادی فورسز کے ساتھ لڑائی میں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں''۔ بیان میں ترکی کے سفر پر روانہ ہونے والے تمام آزاد سیاحوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ اپنے ذاتی تحفظ اور سلامتی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ واضح رہے کہ ترکی روسی سیاحوں کی کئی سال تک جائے منزل رہا ہے اور وہ وہاں تاریخی مقامات کی سیر کے لیے جاتے رہے ہیں لیکن گذشتہ سال نومبر میں شام کی سرحد کے نزدیک روس کے ایک لڑاکا طیارے کو مارگرائے جانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں اور روس نے اپنے شہریوں کے سیاحت کے لیے ترکی جانے پر پابندی عاید کررکھی ہے۔ روس کے سرکاری ادارے کی جانب سے یہ نیا انتباہ اب تک ترکی میں موجود روسی سیاحوں کے لیے جاری کیا گیا ہے کیونکہ ماسکو نے ٹریول ایجنسیوں پر سیاحتی دورے منظم کرنے اور لوگوں کو ترکی لے جانے پر پہلے ہی پابندی عاید کردی تھی۔ روس نے ترکی پر اپنا لڑاکا طیارہ مارگرائے جانے کے بعد مختلف النوع پابندیاں عاید کردی تھیں۔اس نے ترکوں کے لیے دوبارہ انٹری ویزا متعارف کرایا تھا اور متعدد ترک مصنوعات کی درآمد پر پابندیاں عاید کردی تھیں۔
پنجاب کےوزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ آصف کو یاد دلایا ہے کہ نواز شریف اسامہ بن لادن کے سچے پیروکار تھے، 1989ءمیں بےنظیر بھٹو شہید کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لیے نواز شریف نے ہی اسامہ بن لادن سے10 ملین ڈالرز لیے تھے۔ فیاض الحسن چوہان نے خواجہ آصف کےمناظرے کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف وزیرِ اعظم پر اسامہ بن لادن کے حوالے سے تنقید سے پہلے نواز شریف کے گریبان میں جھانکیں۔ ان کاکہنا تھا کہ نواز شریف نےبے نظیر حکومت گرانے کے لیے 10ملین ڈالرز لے کر ایم این ایز کی خرید و فروخت کرنا تھی، مگر عادت سے مجبور ہو کر انہوں نے یہ رقم اپنی جیب میں ڈال لی، اس طرح بینظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوگئی ۔ خواجہ آصف لکشمی چوک میں ان کے ساتھ مناظرہ کر لیں، اگر وہ نواز شریف کوبمعہ اہل و عیال اسامہ بن لادن کا پیروکار ثابت نہ کر سکیں تو سیاست چھوڑ دیں گے، بصورت دیگر خواجہ آصف رنگ بازی چھوڑ کر الفلاح تھیٹر میں جگت بازی شروع کر دیں۔
عضو تناسل توسیع، یہ کس بارے میں ہے؟ سب حقائق اور تصویریں میں مرد اور خواتین دونوں کے جائزے شامل کروں گا۔ عضو تناسل میں توسیع کی بہت سی مصنوعات بہت زیادہ قیمت پر ہیں اور معیار ہمیشہ بہترین نہیں ہوتا ہے۔ میں آپ کو اپنے عضو تناسل کے ل the بہترین مصنوعات کا انتخاب کرنے کے ل what آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے وہ دکھاتا ہوں ، اور آخر میں ، چاہے یہ آپ کے پیسے کی قیمت ہے۔ عضو تناسل کاشتکاروں کے ساتھ میرا تجربہ: پہلی بار میں نے اپنی مطلوبہ مصنوعات میں سے کسی ایک کو آرڈر کیا تو ، میں نے "گروتھ عضو تناسل میں اضافہ کا فارمولا" آرڈر کیا۔ میں نے اس کا حکم دیا کیونکہ مجھے اپنے دوسرے عضو تناسل میں اضافہ کرنے والی مصنوعات کے ساتھ مشکل میں مشکل پیش آرہی تھی۔ میں نے متعدد مصنوعات آزمائیں ، اور انہوں نے زیادہ مدد نہیں کی۔ میں واقعتا. نتائج سے ناخوش تھا۔ کچھ مہینوں کے بعد ، میں نے ان مصنوعات کی تلاش شروع کی جو شاید مشکل ہونے میں مدد کرسکیں اور ان کے ساتھ کچھ کامیابی بھی حاصل ہو۔ مجھے "کمپن صحت" سے "عضو تناسل محرک" ملا جو ایک حقیقی دعویدار کی طرح لگتا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ نتائج جلد آئیں گے اور مجھے اس کی کوشش کرنی چاہئے۔ جیسے ہی میں نے مصنوع کا آغاز کیا ، میں بتا سکتا ہوں کہ عضو تناسل کی محرک رقم کے قابل ہوگی۔ میں بہت ہی کم وقت کے لئے واقعی میں ایک مضبوط تعمیر حاصل کرنے کے قابل تھا اور بیت الخلا پر بیٹھے ہوئے یہاں تک کہ یہاں تک کہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ، عضو ختم ہونا شروع ہوگیا ، لیکن اثرات باقی رہے۔ کے ساتھ ٹیسٹ Maxisize - ٹیسٹ میں ایک عضو تناسل توسیع واقعی ممکن ہے؟ ایک بڑا عضو تناسب زیادہ سے زیا... XtraSize ساتھ عضو تناسل کو XtraSize ؟ کیا یہ واقعی غیر منافع بخش ہے؟ کامیابی کے تجربات کے بارے میں ... Phallosan : کیا Penis کی توسیع کے Phallosan کوئی اور مضبوط حل فرا اور وسیع ہے؟ ایک بڑا عضو تناسل ک... MaleExtra بارے میں MaleExtra : کیا ویب پر عضو تناسل بڑھانے سے زیادہ اطمینان بخش مدد ہے؟ اگر ہم اس ... Virility EX ساتھ علاج - کیا امتحان میں اصل میں عضو تناسل میں اضافہ ہوا تھا؟ آپ شاید سوچتے ہیں کہ V... Titan Gel Gold ساتھ تجربہ - کیا عضو تناسل میں اضافہ ہوا ہے واقعی مطالعہ میں کامیاب؟ جب عضو تناسل م... BulgarischBosnianCzechDanishGermanGreekEnglishSpanishFinnishFrenchHindiCroatianHungarianIndonesianItalianHebrewJapaneseGeorgianKoreanKurdishLithuanianMalayDutchNorwegianPolishPortugueseRomanianRussianSlovakSerbianSwedishTamilTagalogTurkishUkrainianVietnamese
پار ہوتی مردان کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے طلباء نے گزشتہ 12 اپریل کو موبائل ایپلیکیشن بنائی۔ خیبرپختونخواہ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (کے پی آئی ٹی بی) اپنے ارلی ایج پروگرامنگ (ای اے پی) منصوبے کے تحت کلاس 6 تا 9 تک ڈیجیٹل صلاحیتوں میں تربیت فراہم کرتا ہے۔ ]وزارت برائے بنیادی و ثانوی تعلیم خیبرپختونخواہ[ پشاور – خیبر پختونخواہ انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (کے پی آئی ٹی بی) کے ارلی ایج پروگرامنگ (ای اے پی) منصوبے میں اندراج سے قبل پندرہ سالہ حفصہ طارق خان نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسمارٹ فون ایپلیکیشن بنانا ایسی چیز ہے جسے کوئی نویں کلاس کا طالب علم حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کمپری ہنسیو گرلز ہائر سیکنڈری اسکول پشاور کی طالبہ حفصہ نے یہ کر دکھایا۔ ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے فراہم کردہ ایک مفت آن لائن پروگرامنگ ٹول کا حوالہ دیتے ہوئے حفصہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں نے سکریچ استعمال کرتے ہوئے ایک اسمارٹ فون ایپلیکیشن پروگرام کی ہے جسے ٹیلیویژن کہا جاتا ہے۔ میری ایپ استعمال کرتے ہوئے آپ خبروں، موسم، کھیلوں، کارٹون، کھانا پکانے، موسیقی اور ڈراموں کے چینلوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔" اس نے کہا کہ "اس اقدام نے پروگرامنگ سے متعلق میری سوچ بدل دی ہے۔" پندرہ سالہ حفصہ طارق خان (دائیں) ان 3,000 بچوں میں ایک ہے جنہوں نے کے پی ٹی آئی بی کے ای اے پی منصوبے میں گزشتہ اپریل تا دسمبر حصہ لیا۔ تصویر میں دیے گئے طلباء نے گورنمنٹ پرائمری گرلز اسکول نمبر 1 مردان میں عملی کلاسوں کے دوران 12 اپریل کو اسمارٹ فونز کی گیمیں بنائیں۔ ]وزارت برائے بنیادی و ثانوی تعلیم خیبرپختونخواہ[ حفصہ جماعت چھ تا نو کے ان 3,000 اسکول طلباء میں شامل ہے جنہیں ای اے پی کے پہلے مرحلے میں تربیت فراہم کی گئی، جو مئی سے دسمبر 2017 تک جاری رہا۔ انہیں پورے صوبے کے 60 اسکولوں سے منتخب کیا گیا تھا۔ کے پی ٹی آئی بی نے اپریل میں منصوبے کے نفاذ کے لیے اساتذہ اور معلمین کو تربیت دی۔ ای اے پی مینیجر ذیشان خان کے مطابق جنوری میں شروع ہونے والے دوسرے مرحلے میں، کے پی ٹی آئی بی 300 سے زائد اسکولوں کے 15,000 طلباء کو مارکیٹ پر مبنی ڈیجیٹل صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کا حدف رکھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منصوبے کا مقصد سرکاری اسکولوں میں "فرسودہ" کمپیوٹر کورسوں کی بجائے سافٹ ویئر کوڈنگ اور پروگرامنگ میں تربیت فراہم کرنا ہے۔ آٹھ ماہ کے دورانیے میںِ طلباء اسکولوں میں اپنے فارغ پیریڈز میں دو سے تین گھنٹے فی دن ڈیجیٹیل مہارتیں سیکھتے ہیں۔ ذیشان خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ای اے پی نے دلچسپی اور باہمی تعاون والے ماحول میں طلبہ کی code.org اور سکریچ کے استعمال کے ذریعے سافٹ ویئر کوڈنگ میں تربیت پر توجہ مرکوز کی ہے۔ہماری توجہ بلاگ پروگرامنگ ]اس کے ساتھ ساتھ[ اسمارٹ فونز کے لیے ایپس اور گیم ڈویلپمنٹ پر ہے۔" ڈیجیٹیل صلاحیتوں کو ملازمتوں میں بدلنا ایک اسی طرح کے اقدام کے ذریعے کے پی ٹی آئی بی نے یوتھ ایمپلائمنٹ پروگرام (وائے ای پی) کا پہلا مرحلہ اپریل 2016 میں شروع کیا جو گزشتہ اکتوبر ختم ہوا۔ وائے ای پی کے تحت، 2,100 طلباء کو مختلف کورسوں میں گیم ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل کاروباری بات چیت، بلاگنگ اور مواد تحریری، گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، یوٹیوب اور باہمی تعاملی میڈیا، ورڈ پریس، فل سٹیک ڈویلپمنٹ اور ٹیکنالوجی میں خواتین اور ڈیٹا سائنسز جیسے موضوعات پر تربیت فراہم کی گئی ہے۔ وائے ای پی کا دوسرا مرحلہ گزشتہ اکتوبر شروع کیا گیا اور یہ دسمبر 2019 تک جائے گا جس کا مقصد 40,000 طلباء کو مارکیٹ پر مبنی ڈیجیٹل صلاحیتوں کا متحمل بنانا ہے۔ وائے ای پی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر شعیب خان کے مطابق وائے ای پی حکومت کے نئے "ڈیجیٹل خیبر پختونخواہ" اقدام کا حصہ ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ رسائی بڑھانا، ڈیجیٹل صلاحیتیں پیدا کرنا، ڈیجیٹل نگرانی بہتر بنانا اور صوبے میں ڈیجیٹل معیشت بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ان کورسوں کا مقصد ان اہم ڈیجیٹل صلاحیتوں کا فروغ ہے جو آج کی ڈیجیٹل معیشت میں انتہائی مطلوب ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "ہمارے زیادہ تر گریجویٹس نے آن لائن مارکیٹنگ اور مختلف مصنوعات کی فروخت کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔ ہم نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارا ہے اور انہیں وہ آلات اور تکنیکیں فراہم کی ہیں جو انٹرنیٹ پر ذریعہ معاش کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔" وزیر برائے بنیادی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخواہ عاطف خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان کے لیے ترقی کا بہترین وسیلہ یہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کریں اور تربیت فراہم کریں، اور یہ ہماری حکومت اور تعلیمی پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔" انہوں نے کہا کہ، "ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ہمدرست ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں کے استعمال کے ذریعےاپنا مسقبل مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں تمام بچے ٹیکنالوجی پر انحصار کریں گے اور تب ہی کامیاب ہو سکیں گے اگر وہ اپنے گرد موجود ٹیکنالوجی کے ماہر صارف ہوں۔"
تُوت الارض PI 3 - 64 بٹ اور وائی فائی کی چوتھی سالگرہ کے بنیاد میں رچے - ایک پیدل چلنے والے نیٹ ورک پبلیکدو ال 29 فروری, 2016 کی طرف سے پیاٹونیٹ اب چار سال اس کو فروخت کیا ۔ پہلا نمونہ کہ اس طرح کا پلیٹ فارم پوپلآراید چھوٹے انقلابی کمپیوٹر کی ایک ابھرتی ہوئی منڈی بنا رہا ہے ۔, کیا بہت سے اب غور کے حملہ میں سے ایک تیسرا صنعتی انقلاب. بہت اس کے بعد ہوا ہے اور جن میں سے بعض نے ہم میں اس کی صلاحیت تعریف جب دوسروں کو سادہ بحث و تکرار کرتے وقت کھلونا, ہم آج کے ڈیزائن میں رہتے ہیں, ترقی, اور مسائل کے حل اور اس پلیٹ فارم پر مبنی منصوبوں پر عمل درآمد کی دفعات ایک کمیونٹی کو اپنا جو اگنے کے ارد گرد مقدار اور معیار ہر روز میں. آج چاہوں تو کئی بار اس کمیونٹی کے ساتھ جس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں مشترکہ, کے بعد تم میں سے ہر ایک کا شکریہ میں یہاں یہ سطریں لکھ رہا ہوں, آپ کا شکریہ میں کے طور پر کام کر رہی ہوں فریلانسی کچھ نہ کچھ کر رہی ہے کہ مجھے سے محبت ہے اور جو مجھ ااکاٹیس, ایسی چیز ہے جو مجھے کرتا ہے ہر صبح بستر سے حاصل کریں. فاؤنڈیشن کی چوتھی سالگرہ پر, انہوں نے سب سے پہلے ٹرانکہی کی جاری ہے تُوت الارض PI ماڈل B3, یہ اس کے پروسیسر کے لئے باہر کھڑا ہے بازو پرانتستا-A53 کی 64 بٹ اور اس کنیکٹوٹی وائی فائی 802 ۔ 11n اور بلوٹوت 4.0, فروخت کی قیمت میں عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے 35 ڈالر لیکن میں اضافہ ایک 50% اور ایک 60% اپنی کارکردگی; میں اس کی جانچ کے لیے دو یونٹ خریدا ہے اور میری نتائج آپ کے ساتھ ایک مضمون ہے جس میں جلد ہی شائع کرے گا میں حصہ داری کریں. تُوت الارض Pi خاندانی فوٹو اگر آپ کے پاس ہے تجاویز یہ مضمون ہے جس میں تیاری کر رہا ہوں کے لئے پورا ہونے کے ٹیسٹ کے لحاظ سے, ان کا اشتراک کرنے کے لئے نہیں ہچکچاتے تبصرے یا سے رابطہ فارم کے ذریعے, میں سب سے بہترین شائع کرنے کے لیے خوش ہو جائے گا. اس اندراج میں پوسٹ کیا گیا تھا تُوت الارض PI اور ٹیگ بلاگ تُوت الارض PI, تُوت الارض PI 3, تُوت الارض PI 3 این عربی, تُوت الارض PI 3 سپين, تُوت الارض PI 3 سپينش, تُوت الارض PI B3, تُوت الارض Pi بلاگ, تُوت الارض PI این عربی کی طرف سے Antonio موناکو. نشانی permalink.
اسلام امن وسلامتی،محبت اورمشترکہ پُر امن زندگی کا مکمل نظام ہے سامرہ پر ظالمانہ حملہ شیعوں کے عقیدے پر حملہ تھا حملے کے بعد نجف اشرف نے عراق کو خانہ جنگی سے بچاتے ہوئےعراقیوں کےخون کی حفاظت کی ہے مرجع مسلمین و جهانِ تشیّع حضرت آیة الله العظمیٰ الحاج حافظ بشیرحسین نجفی دام ظله الوارف نے مرکزی دفتر نجف اشرف میں ملاقات کو آئے جینیوا سے انسانی امور کی تنظیم کے وفد سے اپنے خطاب میں طرفین میں آپسی مصالحت کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آپسی مصالحت کو تمام آسمانی ادیان فروغ دیتے ہیں اور ان ادیان کےسربراہوں نے خون خرابے کےبدلے آپسی تفاہم کا پرچم بلند کئےرکھا اور یہی اسلام کا اساسی اور بنیادی اصول ہے لیکن کچھ ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا اسی کے نتیجے میں فرقوں اور دہشت گردانہ تنظیموں کا وجود عمل میں آیا جس سے اسلام مکمل طورپر بَری ہے اور اسلام کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مرجع عالی قدر دام ظلہ الوارف نےارشاد فرمایا کہ اسلام امن وسلامتی،محبت اورمشترکہ پُر امن زندگی کا مکمل نظام ہےاوراس پر بہترین دلیل حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جانب سے مصرمیں اپنی جانب سے مقررکئے گئے گورنرحضرت مالک اشتر ؓ کو نصیحت ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ'' لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو تمہارا دینی و مذہبی بھائی ہے اور دوسرا تمہاری طرح انسان ہے '' حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اس اصلاحی منصوبے کے مقابل دنیا میں کوئی اور اصلاحی منصوبہ اس حیثیت کا مالک نہیں ہے۔ مرجع عالی قدر دام ظلہ الوارف نے مزید بیان کیا کہ سامرہ میں حرم حضرت امام عسکریین علیہما السلام پر دہشت گردانہ حملےاور اس حملے کے نتیجے میں گنبدِ مبارک کے انہدام کے بعد نجف اشرف میں موجود مرجعیت نےعراق کو خانہ جنگی سے محفوظ کیا اور واضح رہے کہ اگر مرجعیت نے اپنا موقف اختیار نہ کیا ہوتا تو نہ جانے کتنےعراقیوں کا خون بہا ہوتا اسلئے کہ شیعہ عراق میں تقریبا ۷۵ فیصد ہیں اور حرم مبارک پر دہشت گردانہ حملہ شیعوں کے عقیدے پرحملہ تھا انہوں نے فرمایا کہ میں ان ایام میں ماحول استوار رہیں اسلئے خود سامرہ زیارت کے لئے گیا تھا۔ مرجع عالی قدر دام ظلہ الوارف نے فرمایا کہ عدالت، مظلوموں کو انصاف کی فراہمی اور ظالموں کو انکے کیفر کردارتک پہنچانے کو یقینی بنایا جائےاسلئے کہ یہ وہ حق ہے کہ جسکی ضمانت آسمانی ادیان اور ہمدرد دنیاوی قوانین نے بھی لی ہے اور اسی کے ذریعہ معاشرے کی حفاظت اورظالموں کو معاشرے میں فتنہ و فساد ظلم و دہشت گردی سے روکا جا سکتا ہے۔
محسن اورنگی 2019/09/19 تکنیکی تجزیہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کم ہوجاتی ہے ، لہذا اس اختیار کو فعال کرتے وقت محتاط رہیں۔ یہ لیپ ٹاپ کے لئے خاص طور پر ایک خراب خیال ہے فاریکس 2021 کے لئے بہترین انتظام کردہ پی اے ایم ایم اکاؤنٹس جسے چھین سکتا ہے۔ مستقل سرمائے اور متغیر سرمائے۔ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ OPV کیوں استعمال کرتے ہیں؟ پھر عرب ممالک IPV کیایہ درست ہے کہ اسرائیل میں صرف. ان 4 پوزیشنوں کی نمائش لمبی 25،000 یورو / امریکی ڈالر ہے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ جب کہ نمائش 25،000 ہے ، حجم 35،000 ہے۔ اسٹاکسٹک آر ایس آئی ایک تیز رفتار دوغلا پن ہے جس کا تعین کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اثاثہ زیادہ خریداری یا زیادہ فروخت کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے پتہ چلتا ہے ، یہ آر ایس آئی کا مشتق ہے ، جیسا کہ قیمت کے اعداد و شمار کی بجائے آر ایس آئی اقدار سے پیدا ہوتا ہے۔ اس نے عام RSI اقدار کے لئے اسٹاکسٹک آسکیلیٹر فارمولا کے نام سے ایک فارمولہ لاگو کرکے تشکیل دیا ہے۔ عام طور پر ، اسٹاکسٹک RSI اقدار 0 اور 1 (یا 0 اور 100) کے درمیان ہوتی ہیں۔ • دونوں تصورات اسی رجحان سے ماخوذ ہیں ، وقفے وقفے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ کوشش کے ل Thanks ایپل ، شکریہ ، مطابقت پذیری کی طرف سے اچھی اپ ڈیٹ ، ترتیبات کے لئے دوبارہ سیٹ کریں اور 6s کے لئے سب کچھ ٹھیک ہے. مارجن اکاؤنٹ کے ساتھ تجارت کا لالچ نہ لینا زیادہ سخت ہوسکتا ہے۔ تاہم ، جو چیز آپ کو دھیان میں رکھنی چاہئے وہ ہے کہ چیزیں فاریکس 2021 کے لئے بہترین انتظام کردہ پی اے ایم ایم اکاؤنٹس ٹھیک نہیں ہوسکتی ہیں جس کا نتیجہ خوف زدہ مارجن کال کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ آئیے تسلیم کرتے ہیں۔ آپ تجربے کے خطرات اور اتار چڑھاؤ کے بغیر اسٹاک مارکیٹ میں تجارت نہیں کرسکتے ہیں۔ سب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) ہیں۔ ویکیپیڈیا اور دیگر کریپٹو کرنسی اب جنگلی سواری پر ہیں۔ لیکن ، کیا یہ ایک اور پونزی اسکیم ہوگی یا یہ دنیا کا چہرہ بدل سکتی ہے؟ بهترین بروکر باینری آپشن چیست و معرفی آنها. . یہ عمومی پریشانی لاطینی امریکہ میں اشتہارات کی دنیا کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہیں ، مندرجہ ذیل سطروں میں ، میرے خیالات کے بارے میں کچھ خیالات وہ عوامل ہوں گے جو ہمارے خطے کے لئے اس زمانے میں دنیا کی تشہیر کی کامیابی کا تعین کریں گے۔ سان فرانسسکو میں قائم چھوٹے کاروبار سے متعلق صلاح کار ، زیسٹ بزنس کنسلٹنگ کے پرنسپل جینیفر مارٹن کا کہنا ہے کہ لیکن دوستوں اور کنبہ کے ل loan قرض یا سرمایہ کاری کے ل. اینجا جایی است که همه چیز جالب می شود. بیایید بررسی کنیم که شرط بندی گسترده و معاملات CFD چه تفاوتی دارند. 2020 کی بہترین انوسٹمنٹ ایپس. اینگلو سیکسن ممالک میں ٹن کے دوسرے ورژن استعمال کیے جاتے ہیں: مختصر ٹن ( مختصر ٹن ) ریاستہائے متحدہ میں استعمال شدہ 2000 پاؤنڈ اور لمبا ٹن کے برابر ہے۔ لمبی ٹن ) ، جو برطانیہ میں رائج ہے ، 2،240 پاؤنڈ کے برابر ہے۔ یہ مضمون میٹرک ٹن ، یا کے لئے وقف ہے میٹرک ٹن . مئی فاریکس 2021 کے لئے بہترین انتظام کردہ پی اے ایم ایم اکاؤنٹس 2021 کے لئے بہترین چین ای ٹی ایف. تعلیم کو دوبارہ تجربوں پر مرکوز کرنا جہاں آپ نے کسی قسم کی مہارت ، رہنمائی ، یا دوسروں کو مدد فراہم کی ہو اسے تعلیم میں ملازمت دینے کے خواہاں ملازمین ہمیشہ تعریف کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سیکھنے پر توجہ مرکوز کرنے والے ماحول میں دوسروں کو تعلیم دینے اور اس کی تائید کرنے میں اچھ communicationی مواصلات اور باہمی مہارت کے استعمال کی دستاویز کرنے کے قابل ہو رہا ہے۔ ڈائیلاگ باکس میں ، ٹیب پر کلک کریں تحفظ . یہ منصوبہ اوریکل سے شروع ہوا تھا ، لیکن اس کے بعد دیگر بڑی کمپنیوں نے ترقی میں حصہ لیا ہے۔ اس فہرست میں فیس بک ، نیٹ گیئر ، ریڈ ہیٹ ، اور سوس شامل ہیں۔ تاہم، محتاط رہیں کہ انٹرویو کو بہت زیادہ معلومات کے ساتھ ہتھیار نہ لائیں. امریکی اجارہ داری کا خاتمہ؟ کتنے بٹ کوائنز ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے ہیں؟ لیکن جب آپ فرش پر سوتے ہیں تو ایسا کوئی مواد نہیں ہوتا ہے جس سے آپ کے جسم سے خارج ہونے والی حرارت پھنس سکتی ہے۔ اس سے زیادہ گرمی روکتی ہے۔ ایک بڑے بروکر کے ساتھ آمنے سامنے ملاقاتیں جس کی ملک بھر میں شاخیں ہوں۔ فرشتہ سرمایہ کار کنبہ اور دوستوں اور وینچر کیپٹلسٹ کے ذریعہ فراہم کردہ چھوٹے پیمانے پر فنانسنگ کے مابین خلا کو پُر کرتے ہیں۔ فرشتہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے ، لیکن ایسی چیزیں بھی ہیں جو آپ کر سکتے فاریکس 2021 کے لئے بہترین انتظام کردہ پی اے ایم ایم اکاؤنٹس ہیں۔ پہلے ، غور کریں کہ آیا فرشتہ کی سرمایہ کاری واقعی آپ اور آپ کے کاروبار کے لئے صحیح ہے۔ آخر میں ، یہ آپ پر منحصر ہے کہ وہ تحقیق کریں اور اپنے حالات پر غور کریں۔ مستقبل کے لئے مزید اختیارات کی پیش کش کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے امکانات کے بارے میں معلوم کریں۔ اور ، یقینا ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس طرح کا اکاؤنٹ منتخب کرتے ہیں ، جتنی جلدی آپ بچت کرنا شروع کردیں گے ، آپ کا بچہ اتنا ہی بہتر ہوگا اور اپنی تعلیم کے لئے مالی اعانت کے ل debt انہیں قرض استعمال کرنے کی ضرورت بہت کم ہوگی۔ یہ آپ کے آس پاس کے ہر فرد کو بتاتا ہے کہ آپ ان باتوں پر غور نہیں کرتے ہیں جو آپ کو سننے کے ل enough کافی اہم ہیں۔ مرحلہ 10: صفائی اور ذخیرہ. . ۱) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو کوئی ظاہری مجبوری یا معذور کردینے والی بیماری حج سے روکنے والی نہ ہو( اور اس پر حج فرض ہو ) اور پھر وہ حج کیے بغیر مرجائے، اس کو اختیار ہے خواہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔
بیروت - جونی فخری پہلی اشاعت: 23 جولائ ,2019: 12:00 دن GST آخری اپ ڈیٹ: 23 جولائ ,2019: 01:14 رات GST لبنان اور شام کے درمیان غیر قانونی گزر گاہوں کے ذریعے اسمگلنگ ایسا دیرینہ مسئلہ ہے جس کی جڑیں گذشتہ صدی کی 70ء کی دہائی سے جا کر ملتی ہیں۔ یہاں اسے انسانوں کے علاوہ بہت سے اقسام کا سامان اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لبنان کی معیشت کو بھاری نقصانات کا سامنا ہوتا ہے اور ملک کی سیکورٹی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لبنانی حکام اس رجحان پر روک لگانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جو کسی وقت غائب ہو جاتا ہے اور کبھی پوری طرح زور پکڑ لیتا ہے۔ لبنان کے وزیر مالیات علی حسن خلیل نے چند ماہ قبل دفاعی سپریم کونسل کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ لبنان میں اسمگلنگ کے لیے 124 سے زیادہ (سرحدی) گزر گاہیں موجود ہیں۔ انہوں نے شکایتا کہا کہ ان گزر گاہوں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ لبنانی پارلیمنٹ میں بجٹ کو زیر بحث لانے کے دوران ایک سیکورٹی دستاویز سامنے آئی جس میں شام کے ساتھ زمینی سرحد پر 136 غیر قانونی گزر گاہوں کے وجود پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ ان میں ہر گزر گاہ کو اسمگلر کا نام اور اسمگل کی جانے والے سامان کی نوعیت کا نام دیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق کسٹم سے بچ کر نکلنے کے انسداد کے حوالے سے ریاست کی صلاحیت موجود نہیں۔ سرحد پر قانونی اور غیر قانونی گزر گاہوں کے راستے شام سے آنے والا سامان لبنان میں داخل ہوتا ہے اور اس پر کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ اس طرح لبنانی پیداوار اور مصنوعات پر کاری ضرب لگتی ہے۔ ان اشیاء میں مرغی، انڈے، گوشت، پھل، سبزیاں، دُھونی اور کپڑے وغیرہ شامل ہیں۔ لبنان کے علاقے البقاع میں کاشت کاروں اور کسانوں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ ابراہیم الترشیشی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ "لبنان کی مارکیٹ میں کسی بھی سامان یا زرعی پیداوار کی قیمت میں مندی کا مطلب ہے کہ یہ چیز شام سے پہنچ چکی ہے۔ ملک میں ایسی مافیائیں موجود ہیں جنہوں نے 25 برس سے زیادہ عرصے سے ریاست کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ خود کو ریاست سے زیادہ طاقت ور سمجھتی ہیں"۔ شام میں جنگ کے آغاز کے بعد اسمگلنگ کی کارروائیوں میں کافی اضافہ ہو گیا۔ اس لیے کہ شام میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کے سبب شامی تاجروں کو نقدی کی صورت میں ڈالر کی ضرورت ہوئی۔ علاوہ ازیں کئی عرب اور بین الاقوامی منڈیوں نے جنگ کے سبب اپنے دروازے شامی سامان اور مصنوعات کے لیے بند کر دیے۔ الترشیشی کے مطابق شامی تاجر کے سامنے لبنانی مارکیٹ کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا جاہں وہ محفوظ طریقے سے اپنی مصنوعات کو ٹھکانے لگا دے۔ الترشیشی نے بتایا کہ اسمگلنگ کے ذریعے لبنان میں داخل ہونے والی مصنوعات اور اشیاء پر طبی نقطہ نگاہ سے کوئی نگرانی نہیں لہذا ان کے نتیجے میں لبنانی صارفین کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لبنان اور شام کے درمیان 375 کلو میٹر کے قریب طویل سرحد ہونے کے پیش نظر اس پر پوری طرح کنٹرول رکھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لبنانی فوج گذشتہ چند ماہ سے دونوں ملکوں کے بیچ غیر قانونی گزر گاہوں کی ایک بڑی تعداد کو ریت کی دیواروں کے ذریعے بند کر دینے میں کامیاب رہی۔ یہ گزر گاہیں شمالی البقاع کے علاقے میں تھیں۔ عسکری ذرائع نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ غیر قانونی گزر گاہوں کے ذریعے اسمگل کی جانے والی اشیاء میں چوری کی ہوئی گاڑیاں سرفہرست ہیں۔ اس کے بعد ایندھن اور پھر زرعی مصنوعات کا نمبر آتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس رجحان کو روک لگانے کے لیے انتہائی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم دفاعی کونسل کے فیصلوں سے ہم آہنگ ہو کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لبنان میں بجٹ پر بحث کے دوران غیر قانونی گزر گاہوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی جن کے سبب ریاست کا خزانہ کروڑوں ڈالروں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ منڈیوں میں غیر ملکی مصنوعات کی بھرمار ہونے کے سبب مقامی مصنوعات کو خسارے کا سامنا ہوتا ہے۔ غیر قانونی گزر گاہوں کے راستے اسمگلنگ کے نتیجے میں لبنان کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹٰیکسوں کی مد میں ہونے والے مالی خسارے کا اندازہ 60 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے۔ لبنان کے معیشت کے وزیر منصور بطیش نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو میں باور کرایا کہ گزر گاہوں کے ذریعے اسمگل کیے جانے والے سامان کی مجموعی مالیت کا اندازہ ایک ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے۔ لبنانی وزیر کے مطابق دفاعی سپریم کونسل نے غیر قانونی گزر گاہوں کی بندش کا فیصلہ کر لیا ہے اور سیکورٹی ادارے اس میدان میں صورت حال درست کرنے میں مصروف ہیں۔ بطیش نے زور دے کر کہا کہ اس حوالے سے لبنانی موقف ٹھوس اور فیصلہ کن ہے اور غیر قانونی گزر گاہوں کی بندش کا فیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا۔ لبنان کے صوبے کار میں واقع وادی خالد کے علاقے میں ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی گزر گاہوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔ یہاں اسمگلنگ کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ وادی خالد کی بلدیہ کے سربراہ نور الدین الاحمد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ ان کے قصبے اور شامی اراضی کے بیچ مشترکہ سرحد کی کل لمبائی 18 کلو میٹر ہے۔ شام میں جنگ کے آغاز کے وقت سے بشار کی فوج نے سرحد پر بارودی سرنگیں بچھا دیں اور ریت کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس کے بعد یہ سرحدی پٹی پوری طرح کنٹرول میں آ گئی۔ الاحمد کے مطابق شام کی جنگ شروع ہونے سے قبل وادی خالد کا علاقہ شام سے اسمگلنگ کے لیے کھلا تھا۔
وفاقی بجٹ کی منظوری اور مافیاز کی سرکشی - Daily Jasarat News وفاقی بجٹ کی منظوری اور مافیاز کی سرکشی گزشتہ مالی سال 2019-20 کے جاتے جاتے حکومت نے اپنی سرتوڑ کوششوں اور اتحادی جماعتوں سے وعدے وعید کرتے ہوئے آنے والے مالی سال کے لیے اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ منظور کرالیا جس میں حکومتی بنچوں کو 160 اور اپوزیشن کو 119 ووٹ ملے۔ اس کامیابی پر حکومت کی خوشی قابل دید ہے اپنوں نے اپوزیشن جماعتوں پر ایک سے بڑھ کر ایک جملے کیے اور الزامات کی بارش کی لیکن کیا اس بجٹ کی منظوری سے وفاقی حکومت پاکستان کے عوام کو کچھ دے سکی جو اس سے دو دن پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوش ربا اضافے کے صدمے سے دوچار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ اور فنانس بل کی منظوری کے ساتھ کچھ اشیا میں ٹیکس کا جو اضافہ کیا گیا تھا اس میں ترمیم کرکے ٹیکس میں کمی کردی گئی ہے لیکن ان تمام کا تعلق عوام کی اشیائے ضرورت سے نہیں ہے۔ مثلاً انرجی ڈرنکس کی ڈیوٹی میں اضافہ کرکے دوبارہ 13 فی صد کردیا گیا ہے، درآمدی سگریٹ اور سگار پر ڈیوٹی کم کردی گئی ہے، سیمنٹ پر فی کلو گرام ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے سے کم کرکے ڈیڑھ روپے کردی گئی ہے۔ لیکن پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 17 فی صد کردیا گیا ہے اور پٹرولیم لیوی میں 300 فی صد اضافے کرکے 30 روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کوویڈ 19 کے باعث دنیا بھر کے تمام ممالک کی طرح پاکستانی معیشت بھی شدید سست روی کا شکار ہے۔ مختلف مالیاتی عالمی ادارے پاکستانی معیشت میں مزید گراوٹ، سرمایہ کاری میں کمی اور بے روزگاری میں اضافے کے تخمینے لگارہے ہیں اور یہ سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں بلکہ 2021ء تک جاری رہے گا۔ ایسے میں معیشت میں حرکت پیدا کرنے اور روزگار کے مواقعے بڑھانے میں حکومت کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ جس میں سب سے اہم عنصر پیداواری اخراجات ہیں، جدید معاشی نظریات کے مطابق یہ پیداواری اخراجات ہی ہیں جن کے ذریعے حکومت نئے نئے منصوبے اور پرانے منصوبوں میں اضافہ کرتی ہے جن میں سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی توسیع اور مرمت، سڑکوں، ہائی ویز اور فلائی اوورز کی تعمیر، صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ اس سے ایک طرف لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور دوسری طرف کارخانے اور فیکٹریاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں اور معیشت کا پہیہ حرکت میں آتا ہے۔ پاکستان کے وفاقی بجٹ جس کا حجم 7137 ارب روپے کا ہے، ترقیاتی اور پیداواری اخراجات کے لیے صرف 650 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ عوام کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستانی معیشت میں ایک نیا فیکٹر جو سامنے آیا ہے وہ مختلف مافیا اور پریشر گروپس ہیں جو اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ پوری حکومت کی مشینری اُن کے سامنے بے بس ہے پہلے شوگر مافیا اور سیمنٹ مافیا کا نام لیا جاتا تھا اب ان میں آٹو موبائل مافیا، پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں کا مافیا پاور جنریشن کمپنیز کا مافیا اور اسپتال مافیا بھی شامل ہیں۔ یہ آٹو موبائل مافیا ہے جو ایک طرف غیر معیاری کاریں بناتے ہیں اور دوسری طرف مزید کار سازی کے اداروں کو ملک میں آنے نہیں دیتے اور کار امپورٹ کو بھی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیاں اتنی بااثر ہیں جو ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہونے پر قلت پیدا کردیتی ہیں اور پھر اندرون خانہ سازباز کرکے وقت سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 30 فی صد تک اضافہ کردیتی ہیں اور حکومتی وزرا یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ ہمیں تو اس اضافے کا علم ہی نہیں۔ پاور جنریشن کمپنیوں نے گزشتہ حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے خوفناک معاہدے کیے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اور امور خزانہ کے مشیر حفیظ شیخ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ پاور سیکٹر ملک کے لیے بہت بڑا عذاب ہے جب کہ حکومت نے 3300 ارب کی سبسڈی اس سیکٹر کو دی ہے اور بیرونی قرضوں میں 2500 ارب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بجلی کے نرخ اس خطے کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہیں اور کارخانوں اور فیکٹریوں میں پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس طرح گزشتہ 21 ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں 65 فی صد اضافہ ہوگیا ہے جب کہ چینی کی قیمت 80 روپے فی کلو سے کم نہیں ہوسکی ہے۔ اس وقت عوام کی بھلائی کا سب سے اہم کام جو حکومت کو کرنا ہے وہ یہ کہ یہ طاقتور مافیاز جو لوگوں کی گردنوں پر سوار ہیں اُن سے عوام کو نجات دلائے یہ عوام اور ملکی معیشت دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔
شرحِ سود سے متعلق پالیسی وضع کرنے کے لیے 'فیڈرل ریزرو' کا ایک اہم اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا جس میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان بدھ کو متوقع ہے۔ امریکہ میں فروری کے مہینے میں بے روزگاروں کی تعداد میں معمولی کمی آئی ہے اور بے روزگاری کی سطح 7ء4 فی صد پر آگئی ہے۔ لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جمعے کو جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق فروری کے مہینے کے دوران امریکی معیشت میں دو لاکھ 35 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ یہ تعداد ماہرینِ معیشت کے بیان کردہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کے خیال میں امریکہ میں ورک فورس میں ہونے والے ماہانہ اضافے کو کھپانے کے لیے امریکی معیشت میں ہر ماہ تقریباً روزگار کے ایک لاکھ نئے مواقع پیدا ہونا ضروری ہیں۔ ماہرین کے خیال میں اگر امریکہ میں ہر ماہ ایک لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا ہونے لگیں تو کمپنیوں کو اچھے پروفیشنلز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اجرتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا جس کے مجموعی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران امریکہ میں ملازمین کی اجرتوں میں 8ء2 فی صد اضافہ ہوا جو جنوری کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ امریکہ میں محکمۂ محنت کی جانب سے ملازمتوں سے متعلق جاری کی جانے والی اس ماہانہ رپورٹ کو امریکی معیشت کی صورتِ حال کا ایک اہم انڈیکیٹر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کے مرکزی بینک 'فیڈرل ریزرو' کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملازمتوں کی صورتِ حال میں آنے والی بہتری اور اس کے معیشت پر اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے رہے تو شرحِ سود میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ کئی ماہرینِ معیشت نے پیش گوئی کی ہے کہ مرکزی بینک شرحِ سود میں 25ء0 فی صد تک اضافہ کرسکتا ہے۔ فیڈرل ریزرو نے چند سال قبل آنے والی کساد بازاری کے بعد شرحِ نمو میں اضافے اور بے روزگاری میں کمی لانے کے لیے شرحِ سود تقریباً صفر کردیا تھا تاکہ کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے قرض لینے پر ابھارا جاسکے۔
ترک سیاحت کی ڈوبتی صنعت - BBC News Urdu مارک لوئین بی بی سی نیوز، ترکی http://www.bbc.com/urdu/world/2016/06/160617_turkey_tourism_industry_crisis_zh تصویر کے کاپی رائٹ Goktay Koraltan برطانوی سیاحوں کا ایک گروپ تالاب میں واٹر پولو کھیل رہا ہے اور وہ جتنا چاہے انچی آواز میں چیخ سکتا ہے کیونکہ وہاں کوئی اور مہمان موجود نہیں ہیں جو ان کے چیخنے سے پریشان ہو سکیں۔ انطالیہ کے قریب کیمر میں فور سٹار گارڈن ریزورٹ بیرگاموت سال کے ان دنوں میں 70 فیصد بھرا ہونا چاہیے لیکن کل 233 میں سے صرف 25 کمرے ہی لیے گئے ہیں۔ ریزورٹ کے مالک سوہا سین کا کہنا ہے 'ہم نے اپنے سٹاف کی تعداد 80 سے 50 تک کم کر دی ہے جبکہ قیمتوں میں بھی تین گنا کمی آئی ہے۔' 'اگر آئندہ سال بھی ایسا ہی رہا تو شاید ہمیں یہ ریزورٹ بند کرنا پڑ جائے۔' شمالی ویلز سے آئے ڈیان رابرٹس کا کہنا ہے 'ہم نے دو لوگوں کا پیکج ایک ہفتے کے لیے 500 پاؤنڈز سے کچھ زیادہ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ ترکی کے لیے سب سے سسٹی ڈیل تھی۔' ان کا کہنا تھا 'ہمیں امید نہیں تھی لیکن لوگ یہاں آتے ہوئےڈرتے ہیں۔' یہ انطالیہ اور پورے ملک کی تصویر ہے۔ ترکی کی سیاحت بحران کا شکار ہے۔ ایک ایسا ملک جو سنہ 2014 میں 37 لاکھ سیاحوں کی میزبانی کر چکا ہے مگر رواں سال سیاحوں کی تعداد میں 40 فیصد کمی ہونے کا خدشہ ہے۔ سب سے زیادہ کمی روسی شہریوں کی وجہ سے آئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 45 لاکھ روسی ترکی کا دورہ کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں تقریباً 95 فیصد کمی آئی ہے۔ ترکی کی جانب سے نومبر میں روسی ملٹری طیارے کو ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے بعد مار گرانے کے بعد سے یہ کمی دیکھی گئی ہے۔ دو مضبوط رہنماؤں ولادی میر پوتن اور رجب طیب اردوغان میں اب بھی سرد مہری پائی جاتی ہے حالانکہ طیب اردوغان نے رواں ہفتے روس کے قومی دن کے موقع پر پیغام بھیجا تھا جس کا مقصد زخموں کو بھرنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی میں گذشتہ سال ہونے والے سلسلہ وار بم حملوں کی وجہ سے بھی لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے۔ ترکی میں آنے والے برطانوی اور جرمن سیاحوں کی تعداد میں بھی تین گنا کمی ہوئی ہے۔ انطالیہ کے پرانے قصبے میں دکاندار اس امید پر اپنی دکانوں کے باہر بیٹھیے ہیں کہ شاید کوئی گاہک آ جائے، لیکن وہ بھی نہیں آ رہا۔ استقلال سوک گذشتہ 30 سالوں سے ترکی میں جیولری کی دکان چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے 'جتنے حالات اب خراب ہیں اسے پہلے کبھی نہیں تھے۔ہاں ہمارے مرکزی شہروں میں دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری حکومت اور صدر اوردغان ہیں۔' 'اردوغان ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن قائم نہیں رکھتے اور ملک کا نام خراب کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے۔ ہمارے بس ایک ہی شخص ہے جو سب کچھ کرتا ہے اور وہ ہے اردوغان، اسی لیے سب کچھ الٹ ہے۔' بیلک کبھی روسیوں کی بڑی تعداد والا علاقہ ہوتا تھا لیکن وہاں کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ ایک ٹوور آپریٹر پیگس انطالیہ میں ایک دن میں روسیوں سے بھرے 19 طیارے لے کر آتا تھا۔ اب حال یہ ہے کہ اس کمپنی کو سٹاف کے عملے میں سے تین ہزار کو نکالنا پڑا۔ ڈیلفن امپیریئل ہوٹل اور نجی ساحل جہاں پہلے کبھی روس کے سیاحوں کا رش لگا رہتا تھا اب وہاں روسی زبان کا ایک لفظ بھی سننا مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر تعیش مقام کو نیو یارک کے کریسلر ٹاور کے ڈیزائن پر تعمیر کیا گیا اور اس کے فرنیچر پر سونے کا پترا لگا ہوا لیکن پھر بھی امیر روسی یہاں سے دور ہیں اور یہ ہوٹل صرف 40 فیصد بھرا ہوا ہے۔ انطالیہ ہوٹل ایسوسی ایشن کے بورڈ ممبران میں شامل ٹولگو کامرتاوغلو کا کہنا ہے 'میرا خاندان 40 سالوں سے سیاحت میں ہے لیکن میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ہم بہت نیچے چلے گئے ہیں، میں سوچنا بھی نہیں چاہتا کہ اگر اس سے بھی برا ہوا تو کیا ہوگا۔'؟
کووڈ 19 کی جعلی خبروں کو روکنے کیلئے فیس بک کا ایک اور فیچر - Tech - Dawn News کووڈ 19 کی جعلی خبروں کو روکنے کیلئے فیس بک کا ایک اور فیچر ویب ڈیسک 16 اپريل 2020 نئے نوول کورونا وائرس کے حوالے سے جعلی خبروں اور غلط معلومات کے خلاف مہم کے لیے فیس بک کی جانب سے ایک نئے ٹول کو پیش کردیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی صارف اس وائرس یا اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے کسی غلط معلومات یا جعلی خبر کو لائیک یا کمنٹ کرے گا تو اسے خبردار کیا جائے گا۔ درحقیقت اگر وہ گزشتہ دنوں بھی ایسا کرچکا ہے تو مواد کو ڈیلیٹ کرنے کے ساتھ اس پر کمنٹس، لائیک یا ری ایکشن کرنے والے افراد کو الرٹ کیا جائے گا۔ یہ الرٹ نیوزفیڈ پر نظر آئے گا اور اس میں عالمی ادارہ صحت کے ایسے لنکس دیئے جائیں گے جس میں کووڈ 19 کے حوالے سے توہمات کو مسترد کیا گیا ہے۔ یہ الرٹس صارفین کی نیوزفیڈ پر آنے والے دنوں میں نظرآنا شروع ہوجائیں گے۔ فیس بک ایسا پہلے بھی کرچکا ہے اور کچھ سال قبل اس نے بوگس پیجز کو لائیک یا فالو کرنے والوں کو اسی طرح کے الرٹ بھیجے تھے۔ فیس بک نے گزشتہ سال 'مسائل والے مواد' کے حوالے سے 3 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا جو ریموو، ریڈیوس اور انفارم پر مشتمل تھا۔ کووڈ 19 کی جعلی خبروں کے حوالے سے یہ سوشل میڈیا ریموو اور ریڈیوس کے نکات پر عمل کرچکا ہے اور اب انفارم کرنے کی جانب بڑ رھرا ہے۔
آج کے پاکستانی پوپ - ہم سب آج کے پاکستانی پوپ 24/12/2018 06/01/2019 محمد صالح مسعود n/a Views بابا آج ہم نے ہسٹری میں پوپ کے بارے میں پڑھا۔ اچھا بیٹا کچھ مجھے بھی بتائیں پوپ کے بارے میں۔ میں نے سرمد مسعود کی حوصلہ افزائی کرتے پوچھا۔ بابا! پوپ دنیا کا طاقتور ترین شخص تھا، اس سے بادشاہ وزیر سب ڈرتے تھے، اچھا بیٹا، اور کیا کرتا تھا پوپ۔ بابا پوپ لوگوں سے پیسے لے کر ان کے گناہ معاف کرتا تھا۔ جسے چاہتا اسے پھانسی چڑھا دیتا جسے چاہتا اسے پریسٹ بنا دیتا، اور ایک بار تو اس نے ایک بادشاہ کو تین دن ننگے پاؤں برفیلے پہاڑوں پر چلنے کی بھی سزا سنائی۔ لیکن پھر اس کا زوال آیا اور آج اس کے پاس پاورز نہیں ہیں۔ اچھا بیٹا۔ جی پاپا، سرمد مسعود نے خوشی سے گردن ہلاتے کہا۔ لیکن بیٹا آج کا پوپ اُس سے کہیں زیادہ پاورفل ہے۔ بابا آج کے پوپ کے پاس تو ہے ہی کیا؟ 44 ہیکٹر پر مشتمل ریاست ویٹیکن کا مالک ہے بس۔ بیٹا پاپائیت کسی ایک مذہب سے وابستہ نہیں۔ ہر لامحدود اختیار کے مالک، مطلق العنان شخص کو پوپ ہی سمجھو، کسی دور میں یہ کردار فرعون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو کسی دور میں یزید کی صورت میں تو کبھی ہلاکو کے نام سے ظلم کرتا ہے تو کبھی کسی بابے کی صورت میں۔ آج کے پاکستان میں بھی چھوٹے بڑے بہت سے پوپ مل جاتے ہیں۔ جسے چاہیں، اپنی توہینِ کی آڑ میں نا اہل کر دیں، رسوا کردیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ پوپ اگر چاہیں تو وزیراعظم وزیر اعلیٰ وزیروں مشیروں جسٹسز اور ججز کو بیک جنبشِ قلم گھر بھیج دیں، ان کے فیصلے کو کوئی چیلینج نہیں کرسکتا۔ یہ کبھی نظریہ ضرورت کے تحت آئین ساز اسمبلی کو گھر بھیجتے ہیں تو کبھی منتخب وزیراعظم کو جھوٹے کیس میں سزائے موت سناتے ہیں، کبھی پی سی او پر حلف اٹھا کر کسی ڈکٹیٹر کے اقتدار کو جواز بخشتے ہیں تو کبھی پارلیمنٹ سے منظور شدہ آئینی ترمیم کوٹھکراتے ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام ایک طرف اور یہ مٹھی بھر بزعم خود پوپ دوسری طرف ، اپنے آپ کو سب پہ بھاری سمجھتے ہیں۔ کبھی ایک بوتل پر ایک اداکارہ کو گھسیٹتے ہیں تو کبھی گم شدہ شہریوں پر چپ رہتے ہیں۔ دال چاول کے بھاؤ اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر از خود حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن 12 مئی اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے واقعات پر خاموش رہتے ہیں۔ کہیں ملک ریاض سے ڈیم کے نام پر پیسے لے کر ریلیف دیتے ہیں تو کہیں جاوید ہاشمی اور نہال ہاشمی جیسے سیاسی کارکنوں کو رگڑا لگاتے ہیں، کبھی اقامہ کو بنیاد بنا کر منتخب وزیراعظم کو چلتا کرتے ہیں اور کہیں 62 اور 63 کی چلتی پھرتی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کر کے صادق و امین کی اسناد بانٹتے ہیں۔ یہ پوپ جسے چاہیں، مافیا کا سرغنہ قرار دے کر اس کی عزت نفس مجروح کریں تو اگر چاہیں تو اشتہاری ملزموں کو عزت بخشیں۔ مجھے لگا کہ میری باتیں سرمد مسعود کے دماغ سے اوپر ہی اوپر گزر رہی ہیں جیسے کسی دور میں "آگ کا دریا" کا فلسفہ میرے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ یہ سوچ کر میں نے خاموشی اختیار کر لی اور سرمد مسعود کو ٹیلی ویژن آن کرنے کا کہا۔ عین اسی وقت ٹی وی پر ایک شخص کی تصویر اور بیان چل رہا تھا۔ سرمد نے شرارتی انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، بابا ہمارے پوپ یہ ہیں؟ یہ اکیلا تھوڑی ہے بیٹے، پاپائیت کی ایک ثقافت ہوتی ہےجس میں طاقت کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ پاپائیت کا ایک چہرہ اور ایک نام نہیں ہوتا۔ موقع ملتے ہی کیچوا ہاتھی بن جاتا ہے اور سورج کی کرن پڑتے ہی دریا سوکھ کر صحرا ہو جاتا ہے۔ میں نے گویا اپنے آپ کو کہتے ہوئے سنا۔۔۔
بیماری اور تنگ دستی سے بچنے کی دعا - موقع مركز سيد الشهداء ع بیماری اور تنگ دستی سے بچنے کی دعا معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ انصار میں ایک شخص چند روز تک حضرت رسول(ص) کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا آنحضرت(ص) نے اس سے پوچھا کس وجہ سے چند روز تک ہمارے پاس نہیں آئے؟ اس نے عرض کیا: تنگدستی اور طویل بیماری کی وجہ سے حاضر خدمت نہ ہوسکا اس پر آنحضرت(ص) نے اس سے فرمایاکہ تم صبح و شام یہ دعا پڑھا کرو: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّ نہیں کوئی طاقت و قوت مگر بِاﷲ تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ جو خدا سے ہے میں زندہ خدا پر الَّذِی لاَ یَمُوتُ وَالْحَمْدُ بھروسہ کرتا ہوں جسے موت نہیں لِلّٰہِِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ آئے گی حمد ہے اﷲ کے لیے وَلَداً وَلَمْ یَکُن لَہُ شَرِیکٌ جس کا کوئی فرزند نہیں اور نہ حکومت فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ میں اس کا کوئی شریک ہے نہ وہ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ کمزور کہ کوئی اس کامددگار ہو اور وَکَبِّرْھُ تَکْبِیراً۔
کریڈٹ کارڈ بنانے اور پیمنٹ کرتے وقت اس کارڈ سے ملنے والی رعایت کا حکم ہم دوستوں کے پاس بنک الفلاح کا کریڈٹ کارڈ ہے، جس پر ایک ماہ کے اندر رقم جمع کروا دیں تو کوئی اضافی رقم نہیں دینی پڑتی، کارڈ کے استعمال پر بنک کی جانب سے پوائنٹس ملتے ہیں، ایک پوائنٹ ایک روپے کا ہوتا ہے جو کہ شاپنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، کیا یہ سب جائز ہے ؟ کریڈٹ کارڈ بنانے کا حکم: کسی معاملے کے حلال وحرام ہونے کا مدار درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے بینک اور دیگر اداروں کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔ جس طرح سود کا لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعا ناجائز اور حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس کردے تو بھی معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے۔ اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کارڈ ہولڈر کو ملنے والی رعایت کا حکم: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ کریڈٹ کارڈ بنانا ہی جائز نہیں ہے تو اس کارڈ پر پوائنٹ کے ذریعے کارڈ ہولڈر کو ملنے والی رعایت کا حکم یہ ہے کہ پیمنٹ کرتے وقت جو رعایت بینک کی طرف سےکارڈ ہولڈر کو کریڈٹ کے ذریعے ملتی ہے، یہ رعایت حاصل کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے، جس سے اجتناب کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔ وفي الأشباه كل قرض جر نفعًا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن. (قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر. ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."
سورة الفاتحة - آیت 1 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف ١) سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتدا کے ہیں۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام الصلوۃ بھی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی۔ الحدیث صحیح مسلم کتاب الصلوۃ میں نے صلوۃ ( نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ لاصلوۃ لمن لم یقرا بفاتحہ الکتاب (صحیح بخاری و مسلم) اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اس حدیث میں (من) کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتفعلوا الابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا تم ایسا مت کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من صلی صلوۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج۔ ثلاثا غیر تمام جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) سے عرض کیا گیا (انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا (اقرا بھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ( صحیح مسلم۔ مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے (وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ) 007:204۔ جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث (واذا قرا فانصتوا (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورۃ فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہوجاتا ہے۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہوسکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ فتعوذ باللہ من ھذا۔ دیکھئے سورۃ اعراف آیت ٢٠٤ کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ )۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ٢٣/٢٦٥ ) ١ یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١ نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ بِسْمِ اللّٰہِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر ٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰہِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
پامیر ٹائمز – گلگت چترال بھائی بھائی تازہ ترین اپ ڈیٹس June 3rd, 2020 7:34 PM گلگت چترال بھائی بھائی Jul 12, 2017 جاوید حیات بلاگز Comments Off on گلگت چترال بھائی بھائی حضرت خضرؐ سے کسی نے دریافت کیا کہ کوئی عجوبہ دیکھا ہے تو بتا؟فرمایا کہ میں ایک سمندر کے کنارے گیا وہاں پر پہاڑی پر ایک گاؤں تھا گاؤں کے لوگوں سے سمندر کے بارے میں دریافت کیا لوگوں نے کہا ہمیں تومعلوم نہیں کہ کب سے یہ سمندر یہاں پر ہے۔میں واپس گیا،کئی سال بعد پھر وہاں پر آیا تو دیکھا کہ وہاں پر کوئی سمندر نہیں ریت کا ایک بے کراں صحرا ہے۔ لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمیں پتہ نہیں اس صحرا کے بارے میں۔۔۔۔میں واپس گیا پھر آیا دیکھا صحرا کہیں نہیں ایک ایک مصروف شہر آباد ہے۔پوچھا تو بتایا گیا کہ ہمیں اس شہر کی عمر کا پتہ نہیں۔کئی ہزار سال بعد واپس آیا تو اسی جگہ یونہی سمندر تھا۔میں اس تغیر ارضی پر ششدر ہوں یہ جغرافیائی تبدیلیاں اس زمین کا مقدر ہیں۔ کہیں سیلاب زلزلہ اس کی ہئیت بدل دیتا ہے کہیں مُرور زمانہ سے یہ آباد اور برباد ہوتی رہتی ہے۔اس زمین پر انسان کی زندگی انسانی تاریخ کہلاتی ہے جو ذرا اس سے مختلف اور مختصر ہے۔قومیں اُبھرتی ڈوبتی ہیں،آبادیاں بنتی بگڑتی ہیں۔اقتدار کا تاج سروں پر سجتے اور گرتے ہیں۔ شمالی علاقات میں چترال اور گلگت کی تین ہزار سالوں سے زیادہ معلوم تاریخ ہے اس مٹی پر یہی کشمکش رہی ہے۔جب سے یہ پہاڑ ،جھیلیں ،دریائیں،چشمے،صحرائیں بنے ہیں ان پر انسانوں کا غول دیکھا گیا۔کہیں خون خرابے،کہیں پیار محبت،کبھی دوستیاں دشمنیاں،کبھی حسد کینہ،بغض،کھنچا تانی۔۔۔۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ چترال اور گلگت دو بھائی ہیں۔یہ رشتہ اخوت اور محبت ،راجاؤں حکمرانوں ،حملہ آوروں یلغار کنندوں اور داغہ بازوں کی کارستانیاں بھی ختم نہ کرسکیں۔یہ بھائی بھائی ہی رہے۔ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے رہے ان کی آپس میں نفرت کبھی نہ اُبھری۔چترال مستوج،لاسپور شندور ،پھنڈر ،گاہکوچ،پنیال،یسین ورشگوم ان میں جو سب سے بڑا رشتہ ہے وہ زبان کارشتہ ہے۔پھنڈر میں ٹوپی پہنی جاتی ہے اور کھوار بولی جاتی ہے کون کہتا ہے کہ وہ کوئی علاقہ غیر ہے۔وہ چترال ہے،گاہکوچ ،پنیال،ورشگوم میں جاکر کوئی محسوس نہیں کرتا کہ بندہ چترال میں ہے یا گلگت میں،پھنڈر کا باشندہ چترال آکر احساس نہیں کرتاکہ وہ اپنے گھر سے دور ہے۔یہ رشتہ ختم کیسے کیا جاسکتاہے۔اس سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔شندور دونوں کی خوبصورتی ہے،دونوں کی پہچان ہے۔قدرت نے خود حد بندی بنائی ہے۔جھیلِ شندور پر گلگت کی طرف جانے والی ندیاں ،پھر اُس طرف کی اُترائی کھائی پھر زمانہ قدیم سے چراگاہوں کی نسبت اُسی پگڈنڈیوں پر کاروان حملہ آور فوجی یلغار،انگریز فوجیں توپوں کو کھینچ کے لانا چترال کے حکمرانوں کا گلگت پر اور گلگت کے حکمرانوں کا چترال پر اپنی مخاصمت کے وجہ سے حملے،پھر کشمیر کے راجا سے لڑائی،بہادری کی داستانیں یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔اور میری کم دانست میں مشترکہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اگر یہ تاریخ مشترک ہے تو ہم ایرے غیرے نہیں ہیں۔اور نہ کبھی رہے ہیں۔میں تین بار گلگت گیا مجھے تاریخی حقیقتوں کو نہیں چھیڑنا،مجھے تنازعات پر تبصرہ نہیں کرنا،مجھے فاصلوں ،حدبندیوں کو ڈسکس نہیں کرنا۔مجھے چراہ گاہوں کا تعارف پیش نہیں کرنا ،مجھے صرف اس بات کو ڈسکس کرنا ہے جوگلگتی بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے میرے حصے میں آئی۔میں ایک ورک شاپ میں تھا،میری پریزنٹیشن پر پنیال سے ایک بہن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ''چترالی بھائی'' میرے بھائی '' مجھے یاد ہے ،ورکشاپ کے آخر میں وہاں AKRSPکے جی ایم نے میری ایک غیر معیاری نظم جو اردو میں تھی اور اُس مناسب حال پہ تھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے ایک عظیم شاعر کو سُنا جو چترال اور گلگت دونوں کا ایک لائق فائق بیٹا ہے۔ایک ادبی وفد کے ساتھ گیا تو ہمارے اعزاز میں محفلیں جمی،گلگت کے مشہور فنکاروں نے ہمارے اعزاز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔عبدالخالق تاج،جمشید دکھی نے ہمارے اعزاز میں پروگرام کیا۔گلگت کے چیف جسٹس راجہ جلال الدین ہمیں اپنے گھر لے گئے۔مجھے یاد ہے کہ ملکہ خود ہمیں ملنے آئی اور میری پیشانی چھوم کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے بیٹا میرا ننھیال تورکہو میں ہے۔میںآپ کی بیٹی ہوں۔ہمارے اعزاز میں روایتی موسیقی کا بندوبست کیا گیا،مجھے یہ سب محبتیں یاد ہیں۔ دوچار سالوں سے شندور میلہ کے موقع پر چند تندو ترش جملوں کا جب تبادلہ ہوتا ہے تو میں ٹرپ اُٹھتا ہوں کہ دو پیار کرنے والوں میں تلخی اور دوری کیسے ممکن ہے ۔ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔یہ محبت ہماری روحوں میں رچ بس گئی ہے۔مسئلہ کم بخت پیسوں کا ہے مراعات کا ہے۔اشرافیہ کا ٹکراو ہے ۔۔۔۔ ایک طرف چراگاہ کا حق تسلیم ہے مسٹر کاب کے پولو کھیلنے کے ثبوت فراہم ہیں ۔۔۔۔۔ تاریخی حقائق واضح ہیں۔ ایک طرف حق ہمسائیگی ہے۔صوبے کی انا ہے، برابر شرکت کا مسئلہ ہے۔فیسٹیول کو کامیاب کرنے کا سہراہے۔ بھائیوں کے آپس میں مل بیٹھنے اور چند لمحے ہنسی خوشی گذارنے کامسئلہ ہے۔دنیا میں تعارف کا مسئلہ ہے گلگت اور چترال کو بین القوامی طورپر متعارف کرنے کا مسئلہ ہے۔CPECآئے گا تو کیا ہوگا۔یہی کچھ ہوگا کہ گلگت چترال دونوں مستفید ہونگے۔ترقی خوشحالی آئے گی۔اب بھی پیسہ آتا ہے۔شندور میں لوگ دکان کرتے ہیں۔کاروبار کرتے ہیں۔دونوں طرف سے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ٹرانسپورٹروں کا فائدہ ہوتا ہے سیاح دونوں طرف سے آتے ہیں۔گلگت کی طرف کاعلاقہ شندور سے خوبصورت ہے۔گولوغ موڑی تک جنت ہے اس کو پروجیکٹ کیا جائے۔فاصلے مٹائے جائیں۔حقائق تسلیم کیا جائے۔دونوں طرف کے عوام یہی چاہتے ہیں۔مٹی کو متنازعہ بنانے سے تاریخ مسخ نہیں ہوسکتی۔خدا نہ کرے کہ یہ دوصوبوں کا مسئلہ بن جائے اور دوریاں بڑھے۔ ہم دعا گو ہیں ،محبت خود دعا ہے ہم محبت سے ایک دوسرے کو جیت جائیں گے۔ہم ایک ہیں ایک رہیں گے۔مجھے یقین ہے کہ مجھ جیسا ادنا شہری جو گلگت میں رہتا ہو، یا چترال میں، اپنا ضمیر جھنجھوڑے گا اور اگر کہے گا کہ شندور چترال کا ہے اور جو یقیناًکہے گا کہ چترال ہمارا ہے۔
نفرت کے مبلغ - صفحہ اول نفرت کے مبلغ آخری اشاعت: جمعہ 14 رجب 1437هـ - 22 اپریل 2016م KSA 09:03 - GMT 06:03 جمعہ 14 رجب 1437هـ - 22 اپریل 2016م ایک عام آدمی کی مدد کے لیے وضع کیے جانے والے یورپی قوانین میں بھی سقم موجود ہیں،ان سے وہ جرائم پیشہ افراد ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں،جو اپنے اپنے ملکوں کو مطلوب ہوتے ہیں اور جو قتل وغارت کرنا چاہتے ہیں۔تاہم یہ قوانین ایسے نہیں رہیں گے جیسے کہ یہ اب دکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے ہنگامی حالت کے قانون کے تحت دوسرے ممالک اور خاص طور پر برطانیہ سے بھی بہت جلد مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔پیرس میں نومبر 2015ء کے حملوں اور برسلز میں مارچ 2016ء میں حملوں کے بعد یورپ میں احساس تحفظ بیدار ہوا ہے۔ بعض یورپی تنظیموں نے عرب اور خلیجی ممالک کا مضحکہ اڑایا ہے اور یہ الزام عاید کیا ہے کہ ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل اظہار رائے کی آزادی کے خلاف جنگ ہے۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ مساجد میں متعدد بمباروں نے ''مصیب زدگان کی مدد کیجیے'' ایسے نعروں اور مہموں کے تحت راستہ نکالا تھا۔وہ ٹویٹر کے اشتعال انگیز ہیش ٹیگز کے پردے میں آگے بڑھے تھے۔ یورپ اب شہریت منسوخ کرنے کی باتیں کررہا ہے اور بے دخلی کے لیے اقدامات کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔بالآخر اس کو خطرے کا ادراک ہوگیا ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسو اولاند نے گذشتہ جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ''ہم نے نفرت پھیلانے والے قریباً اسّی مبلغین کو بے دخل کیا ہے اور ہم فرانسیسی نوجوانوں کے انتہا پسندانہ نظریے کو قبول کرنے اور عراق اور شام میں داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی مظہریت کا مقابلہ کریں گے''۔ واضح رہے کہ قریباً چھے سو فرانسیسی شہری داعش کی صفوں میں شامل ہوکر لڑرہے ہیں۔ یورپ میں آزاد ماحول سے برے آدمیوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔اگر وہ اپنی سکیورٹی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر وہ دوسری اقوام کو مورد الزام تو نہ ٹھہرائیں۔ ایک وقت آئے گا یورپ بلند آہنگ انداز میں یہ کہہ رہا ہو گا:''یہاں نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے''۔ (ترکی الدخیل العربیہ نیوز چینل کے جنرل مینجر ہیں۔ان کے نقطہ نظر سے العربیہ ڈاٹ نیٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں)
ڈاکٹرز والدہ کی طبیعت کی بہتری کیلئےکوشاں ہیں ،مریم نوازmaryum ڈاکٹرز والدہ کی طبیعت کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں، دعاؤں کی درخواست ہے ،مریم نواز لندن : سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ کلثوم نواز کو گزشتہ رات دوبارہ اسپتال میں داخل کیا گیا ،ڈاکٹرز والدہ کی طبیعت کی بہتری کیلئےکوشاں ہیں، دعاؤں کی درخواست کرتی ہوں۔ تفصیلات کے مطابق ابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جو ان دنوں اپنی والدہ کلثوم نواز کی تیما رداری کیلئے لندن میں ہیں ، مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی والدہ کی صحت کے حوالے سے کہنا ہے کہ کلثوم نوازکی گزشتہ رات طبیعت خراب ہوئی تھی ، جس کے بعد انھیں دوبارہ اسپتال میں داخل کیاگیا۔ ڈاکٹرز والدہ کی طبیعت کی بہتری کیلئےکوشاں ہیں۔ Ami was taken & admitted to the hospital again late last night. Drs are trying to stabilise her condition. Request for prayers. Allahu Shafi — Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) September 27, 2017 مریم نواز نے اپنے ٹوئٹ میں اپنی والدہ کی صحت کیلئے دعاؤں کی درخواست کی ہے۔ مزید پڑھیں : بیگم کلثوم اسپتال سے فارغ، ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے، نوازشریف یاد رہے کہ چند روز قبل ہی بیگم کلثوم نواز کی تیسری سرجری ہوئی تھی، جس کے بعد انھیں اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا، اس موقع پر میڈیا سے بہت مختصر گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا تھا کہ ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے۔ حسین نواز نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی والدہ کی مزید رپورٹس آنا باقی ہیں ، قوم سے دعاﺅں کی درخواست ہے۔ واضح رہے کہ گلے کے کینسر میں مبتلا بیگم کلثوم نواز لندن میں زیر علاج ہے ، کینسر کی تشخیص کے بعد بیگم کلثوم نواز کے دو آپریشنز ہوچکے ہیں، جس میں حلق اور سینے کا آپریشن کیا گیا تھا ، بعد ازاں ماہر معالجین کی ٹیم نے ایک اور آپریشن کا فیصلہ کیا تھا۔
رمضان کا سب سے عظیم تحفہ (کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد) رمضان کا سب سے عظیم تحفہ کلمۂ حق ۔ مولانا محمد منصور احمد (شمارہ 597) ماہِ مقدس رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی اپنی تمام تر تجلیات، انوار و برکات کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہمارے سروں پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مبارک مہینے کو ہمارے لیے اور ساری امت کیلئے فلاح و بہبود اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ بنا دے۔آمین ثم آمین رمضان المبارک اﷲ کا مہینہ ہے اور اس مہینے کو اﷲ کے کلام سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ نے اپنے انبیاء کرام پر جو کتابیں وقتاً فوقتاً نازل فرمائیں ان میں سے اکثر اسی مہینے میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان المبارک کی یکم یا ۳ تاریخ کو عطاء کیے گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور ۱۲ یا ۱۸ رمضان المبارک کو ملی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات۶رمضان المبارک کو عطاء ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل ۱۲ یا ۱۳ رمضان المبارک کو ملی۔ اﷲ کی سب سے محترم کتاب قرآن مجیدبھی اﷲ کے سب سے محترم نبی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر اسی مبارک مہینے میں نازل ہوئی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید رمضان المبارک کی ۲۴ویں شب کو لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پرایک مرتبہ اتارا گیا اور پھر حالات اور ضروریات کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا۔ خود قرآن مجید میں ارشاد ہے: ترجمہ: ''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو کہ ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور روشن راستہ پانے اور حق و باطل کو جدا کرنے کی دلیل ہے۔'' (سورۃ البقرۃ) اگر ہم اندازہ لگانا چاہیں کہ رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے پاس رحمتوں اور برکتوں کا کتنا بڑا خزانہ موجود ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس مہینے کے ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے کتنی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ ایک منٹ… جی ہاں صرف ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی ایک مختصر سورت تلاوت کر سکتے ہیں، ایک مختصر آیت مبارکہ زبانی یاد کر سکتے ہیںاور اسی طرح اگر ہم اپنے ایک ایک منٹ کو قیمتی بناتے جائیں تو اندازہ کر لیں کہ ماہِ مبارک کے بقیہ دنوں میں ہم قرآن مجید کی کتنی تلاوت کر سکتے ہیں ۔ رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں گہرا تعلق اور مضبوط رشتہ ہے۔ اسی مہینے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ اس کا دور کرتے تھے۔ اسی مہینے میں نماز تراویح میں ایک مرتبہ پورا قرآن مجید پڑھنا یا سننا صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثابت ہے۔ کلامِ الٰہی قیامت تک کیلئے ایک زندہ و تابندہ معجزہ ہے۔ جو بھی انسان اس کو جس زمانے میں بھی تلاشِ حق کی نیت سے پڑھے گا، یہ قرآن اُس کو ضرور راہِ ہدایت دکھائے گا۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جس کا پڑھنا، پڑھانا، سننا، سنانا، سمجھنا، سمجھانا یہاںتک کہ اس کو محبت سے دیکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ یہ گمراہوں کیلئے نشانِ منزل ہے، ظاہری اور باطنی بیماروں کیلئے پیغام شفاء ہے اور یہ وہ نسخۂ کیمیا ہے جو دنیا اور آخرت کے تمام مسائل کا حل ہے۔ یہ انسان کے زنگ آلود دل سے قساوت، کجروی اور برے خیالات کو ختم کرکے نیک جذبات پیدا کرتا ہے، یہ وہ تیر بہدف نسخہ ہے جو صرف افراد نہیں بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کردیتا ہے اور یہ وہ چشمۂ صافی ہے جس پر آنے والا کبھی محروم اور مایوس نہیں پلٹتا۔ اس لیے اگر قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کرنے پر کوئی اجرو ثواب نہ ملتا تب بھی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم قرآنِ مجید کو پڑھتے اور سمجھتے رہیں ۔ لیکن قربان جائوں اللہ کی رحمت پر کہ قرآن مجید کی تلاوت پر ایسے انعامات عطا فرمائے جاتے ہیں کہ اگر انسان میں پوری زندگی اسی کام میں گزار دے تو بھی ان انعامات کا شکر ادا نہیں ہو سکتا ۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے جو اپنی زندگیوں کو اس پاک کلام کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ، اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلا َنِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ۔} (سورۂ فاطر: ۲۹،۳۰) ترجمہ: ''جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت (مع العمل) کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی ماند نہ ہو گی، تاکہ ان کو ان کی اجرتیں (بھی) پوری (پوری) دیں اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (بھی) دیں،بے شک وہ بڑے بخشنے والے قدردان ہیں'' ۔(ترجمہ از بیان القرآن) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے والوں کے بارے میں فرمایا: ''خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ''۔ (بخاری شریف: ۵۰۲۷) ترجمہ: ''تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے''۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِيْ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّۃِ: رِیْحُھَا طَیِّبٌ وَطَعْمُھَاطَیِّبٌ' وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِيْ لَا یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلَُ الْتَمْرَۃِ لَا رَیْحَھَا لَھَا وَطَعْمُھَا حُلْوٌ' وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِيْ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الرَّیْحَانَۃِ رِیْحُھَا طَیِّبٌوَطَعْمُھَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِيْ لَایَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَمَثَلِ الْحَنْظَلَۃِ لَیْسَ لَھَا رِیْحٌ وَطَعْمُھَا مُرٌّ''۔ (بخاری: ۵۰۲۰، مسلم: ۴۹۸) ترجمہ: ''جو مؤمن قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال ترنج( ایک پھل) کی سی ہے، اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ اور جو مؤمن قرآنِ مجید کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں مگر مزہ شیریں ہوتا ہے اور جو منافق قرآنِ کریم نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآنِ مجید پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبودار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا''۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ، فَأِنَّہٗ یَأْتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًالِأَصْحَابہٖ''۔ (مسلم: ۸۰۴) ترجمہ: ''قرآن کریم پڑھا کرو، کیوں کہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارش کرے گا''۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ، وَالْحَسَنَۃٌ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا، لَااَقُوْلُ ''الٓمٓ'' حَرْفٌ، وَلٰکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلَامٌ حَرْفٌ، وَمِیْمٌ حَرْفٌ''۔ (ترمذی: ۲۹۱۰) ترجمہ: ''جو شخص اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف کی تلاوت کرے، اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی کااجر دس نیکیوں کے برابر ملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم'' مکمل ایک حرف ہے بلکہ ''الف'' ایک حرف، ''لام'' ایک حرف اور ''میم'' ایک علیحدہ حرف ہے''۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' یَقُوْلُ الرَّبُّ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی: مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِيْ عَنْ مَسْأَلِتَيْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَا أُعْطِی السَّائِلِیْنَ، وَفَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَلٰی سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی خَلْقِہٖ''۔ (ترمذی: ۲۹۲۶) ترجمہ: ''اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جس شخص کو قرآن کریم یاد کرنے یا جاننے اور سمجھنے میںاور ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی، میں اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور حق تعالیٰ شانہٗ کے کلام کو سب کلاموں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی خود اللہ تبارک و تعالیٰ کو تمام مخلوق پر ہے''۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اِقُرَأُ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِيْ الدُّنْیَا، فَأِنَّ مَنْزِلَتَکَ عِنْدَ آخَرِ آیَۃٍ تَقْرَؤھَا''۔ ترجمہ: ''(قیامت کے دن صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن شریف پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کے پڑھ جیسے تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، بس تیرا آخری ٹھکانا وہی ہے جہاں آخری آیت ختم ہو''۔(ترمذی: ۲۹۱۴، ابوداؤد: ۱۴۶۶) حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَافِیْہِ اَلْبَسَ اللّٰہُ وَالِدَیْہِ تَاجاً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، ضَوْئُ ہٗ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْئِ الشَّمْسِ فِيْ بُیُوتِ الدُّنْیَا، فَمَا ظَنُّکُمْ بِالَّذِيْْ عَمِلَ بِھَذا؟'' ترجمہ: ''جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے، اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی اگر وہ آفتاب تمھارے گھروں میں ہو، پس کیا گمان ہے تمھارا اس شخص سے متعلق جو خود اس پرعمل کرنے والا ہو گا!۔''(ابوداؤد:۱۴۵۵) اللہ تعالیٰ نے اس اُمت مسلمہ کو یہ عظیم دولت عطا فرمائی، حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے علمبردارانِ حق کی پوری ایک جماعت اور قوم پیدا کردی جنہوں نے ایک ہاتھ میں اس کتاب کو تھاما اور دوسرے ہاتھ میں اس کتاب کی حفاظت کیلئے تلوار اُٹھائی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بحرو بر، مشرق و مغرب، شمال و جنوب، ایشیا و افریقہ، روم و فارس سب جگہ اس کی عظمت کے پرچم لہرانے لگے۔ انہوں نے کتاب اللہ کو پڑھا، سمجھا اور اُس پر عمل کیا تو پھر قیصرو کسریٰ کے تخت اُلٹ دئیے اور اُن کی شان و شوکت کو اپنے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ وہی قرآن آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور یہ زندہ کتاب ہمیں آج بھی دعوتِ عمل دے رہی ہے۔ افسوس کہ جب ہم مسلسل غلامانہ نظام تعلیم اور مادّی ذہنیت کی بناء پر قرآن مجید کی رفعتوں اور بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو ہم نے چاہا کہ قرآن کو بھی اپنی پستیوں پر اُتار کر لے آئیں۔ لیکن اگر اب بھی ہم قرآن کی طرف واپس پلٹنے کیلئے تیار ہیں تو یقین جانیں کوئی دیر نہیں ہوئی اور مہلتِ عمل کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مسلمان کیلئے رمضان اور قرآن اپنی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب برپا کرنے کی دعوت لے کر آئے ہیں۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ اﷲ کے پیارے بندے جن کی مبارک زبانوں پر ان مبارک راتوں میں اﷲ کا کلام ہے۔ کبھی پڑھ رہے ہیں ، کبھی سن رہے ہیں اور اگر اﷲ تعالیٰ نے حفظ کی نعمت عطا فرمائی ہے تو سنا رہے ہیں۔ ابھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جا رہی ہے۔ ابھی گھر میں اﷲ کے سامنے نوافل میں کھڑے ہوئے قرآن کی تلاوت ہو رہی ہے۔ کبھی قرآن کھلا ہے اور اس کی تلاوت سے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور حاصل کیا جارہا ہے اور کبھی لبوں کی تشنگی ختم کی جارہی ہے۔ مسجدیں آباد ہیں تو گھروں میں بھی رکوع و سجود، ذکر و تلاوت کی بہاریں ہیں۔ کچھ کھایا جاتا ہے تو اس لیے کہ اﷲ کی عبادت کیلئے جسم کو طاقت حاصل ہو۔ ذرا سا سویا جاتا ہے تو اس لیے کہ نماز کی ادائیگی اور تلاوتِ قرآن جی بھر کر تروتازگی کے ساتھ کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ایسے ہی سعادت مند لوگوں میں شامل فرمائے اور زندگی بھر ہمیں قرآنِ مجید کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔ (آمین ثم آمین)
سنجے دت کی ''بھومی'' کے ٹریلر نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا - JavedCh.Com جمعہ‬‮ 11 اگست‬‮ 2017 | 14:57 ممبئی( آن لائن ) بالی ووڈ میں سنجو بابا کے نام سے مشہور اداکار سنجے دت کی نئی فلم ''بھومی'' کے پہلے ٹریلر نے ریلیز ہوتے ہی مقبولیت میں سب کو پیچھے چھوڑدیا،فلم کے ٹریلر کو ایک منٹ میں 7000 سے زائد اور اب تک لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔بالی ووڈ کے ایکشن ہیرو سنجے دت کی فلم ''بھومی'' کا انتظار شائقین بے چینی سے کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فلم کے پہلے ٹریلر نے ریلیز ہوتے ہی مقبولیت کے تمامریکارڈ توڑ دئیے۔ٹریلر میں سنجے دت کیشانداراداکاری نے ثابت کردیا کہ وہ آج بھی اداکاری کے بے تاج بادشاہ ہیں۔فلم کی کہانی بدلے اور باپ بیٹی کے رشتے کے درمیان آنے والے اتار چڑھاؤ کے گرد گھومتی ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیے ہر حد پار کرجاتا ہے ،سنجے دت نے یہ کردار اتنی خوبی سے نبھایا ہے کہ حقیقت کا گمان ہوتا ہے، تقریباً 3 منٹ کے ٹریلر میں سنجے دت کی جاندار اداکاری نے شائقین کے دل جیت لیے ،
'فہمیدہ کی کہانی' سنانے والی بیگم خورشید شاہد چل بسیں | Independent Urdu ہوم پیچ » فن » 'فہمیدہ کی کہانی' سنانے والی بیگم خورشید شاہد چل بسیں 'فہمیدہ کی کہانی' سنانے والی بیگم خورشید شاہد چل بسیں ماضی کی سینئیر ریڈیو صدا کار اور ٹی وی اداکارہ بیگم خورشید شاہد کا انتقال لاہور میں 95 برس کی عمر میں ہوا۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھیں۔ اتوار 27 جون 2021 15:15 بیگم خورشید شاہد معروف اداکار سلمان شاہد کی والدہ ہیں (فوٹو: سلمان شاہد فیس بک اکاؤنٹ) ماضی کی سینئیر ریڈیو صدا کار اور ٹی وی اداکارہ بیگم خورشید شاہد ہفتے کی رات 95 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھیں۔ بیگم خورشید شاہد معروف اداکار سلمان شاہد کی والدہ ہیں۔ سلمان شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'میرے لیے ماں تو وہ تھیں ہی لیکن وہ میری مینٹور بھی تھیں اور میری دوست بھی۔ میں چونکہ اکلوتا بیٹا تھا، لہذا میرے لیے صرف وہ ہی تھیں۔ ان کی وفات مجھ سے میری دوست بھی لے گئی، استاد بھی اور ماں بھی۔' بیگم خورشید شاہد نے گذشتہ 18 برس سے انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔ 19 نومبر 1931 کو پیدا ہونے والی بیگم خوشید شاہد نے دہلی سے بطور اداکارہ اور گلوکارہ اپنے کیرئیر کا آغاز نو برس کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو سے کیا۔ انہیں موسیقی سے بھی خاصا لگاؤ تھا۔ بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پر صداکاری بھی کی اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ سلمان شاہد نے بتایا کہ ان کی والدہ نے اپنے کیریئر کا آغاز نئی دہلی میں آل انڈیا ریڈیو سے بچوں کے ایک پروگرام سے کیا اور اس میں ایک گانے کی دھن بھی بنائی۔ بقول سلمان: 'انہیں موسیقی کا بہت شوق تھا، لیکن انہوں نے باقاعدہ موسیقی نہیں سیکھی۔ اسی سلسلے میں روشن آرا بیگم کے ایک شو میں بھی انہوں نے تانپورہ بجایا تھا۔' 1947 میں بیگم خورشید ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئیں اور یہاں لاہور کے تھیٹر ڈراموں میں کام کیا۔ 1964 میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن کا حصہ بنیں اور پی ٹی وی کے معروف ترین ڈراموں میں اداکاری کی۔ ان کے مشہور ڈراموں میں اشفاق احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ 'فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی'کا نام سرفہرست ہے۔ بیگم خورشید شاہد 'اے ٹی وی' کے پروگرام 'ہو از ڈیٹ ویمن' میں انٹرویو دیتے ہوئے (فوٹو: یوٹیوب سکرین گریب) انہوں نے چند فلموں میں بھی کام کیا جن میں 'چنگاری' اور 'بھولا ساجن' کے نام شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1995 کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ بیگم خورشید شاہد نے اپنے بیٹے کے ساتھ بھی متعدد ڈراموں میں کام کیا۔ ان کے مقبول ڈراموں میں 'کرن کہانی'، 'زیر زبر پیش'، 'انکل عرفی'، 'پرچیاں' اور 'دھند' سمیت دیگر ڈرامے شامل ہیں۔ ان کی شادی سلیم شاہد کے ساتھ ہوئی۔ وہ ریڈیو کے پروڈیوسر تھے، جو بعد میں برطانیہ چلے گئے اور وہاں کام کیا۔ بیگم خورشید شاہد اور ان کے بیٹے سلمان شاہد کے قریبی دوست اور معروف اداکار عثمان پیرزادہ نے خورشید شاہد کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'بیگم خورشید شاہد کی صلاحیت تو اپنی جگہ لیکن وہ انتہائی خود مختار اور پختہ ارادوں والی خاتون تھیں۔ میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں کیونکہ وہ میرے والد کی شاگرد تھیں۔' انہوں نے مزید بتایا: 'خورشید شاہد اپنے آپ میں اداکاری کا ایک ادارہ تھیں۔ ان کا اداکاری اور موسیقی سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان کے بیٹے سلمان شاہد میرے بچپن کے دوست ہیں اور ہم نے اکٹھے بہت کام کیا۔ بیگم خورشید کے ساتھ بھی بہت کام کیا۔ وہ اپنے طریقے کی خاتون تھیں۔ پورا دن کس طرح گزارنا ہے اس کے لیے ان کے اپنے اصول ہوا کرتے تھے۔ وہ وقت کے مطابق چلتی تھیں کہ کس وقت کیا کرنا ہے۔ بہت خودمختار خاتون تھیں اور اپنے زیادہ تر کام وہ خود کرنا پسند کرتی تھیں۔' عثمان پیرزادہ نے بتایا کہ 'خورشید شاہد نے اپنا کیرئیر تو ہندوستان کی تقسیم سے پہلے شروع کر دیا تھا لہذا وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں، جنہوں نے 70، 80 برس پہلے اپنا کام شروع کیا تو وہ اداکارہ کسی ادارے سے کم نہیں ہوں گی۔ دنیا ان کے کام کو جانتی ہے، وہ ایک مثالی شخصیت تھیں۔' دوسری جانب پی ٹی وی کے سابق جنرل مینیجر، ڈرامہ نگار اور اجوکہ تھیٹر کے ڈائریکٹر شاہد ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: 'خورشید شاہد اور ان کے خاندان کو میں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ انہوں نے میرے ساتھ کوئی بہت زیادہ کام تو نہیں کیا لیکن ان کے بیٹے سلمان شاہد اجوکہ تھیٹر کا حصہ تھے، جب ہم نے اسے شروع کیا۔' ان کا کہنا تھا کہ خورشید شاہد تقسیم سے پہلے کے آرٹسٹوں میں شمار ہوتی ہیں۔ 'انہوں نے لکشمی مینشن میں بھی رہائش اختیار کی، یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں بہت بڑی بڑی شخصیات مقیم رہیں، جن میں سعادت حسن منٹو اور معراج خالد بھی شامل تھے۔' بقول شاہد ندیم: 'وہ اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص تھیں اور انہوں نے بہت عمدہ کام کیا، لیکن یہ بھی ہے کہ وہ شوبز سے کتراتی تھیں۔ ان کا ایک بہت محدود حلقہ ہوتا تھا جس میں وہ اٹھتی بیٹھتی تھیں۔' انہوں نے بتایا کہ 'خورشید شاہد کے شوہر جب برطانیہ چلے گئے تو اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی اکیلے اپنے بیٹے کے ساتھ یہاں گزاری اور بہت باوقار طریقے سے گزاری۔ وہ ہمیشہ اچھا پہنتی تھیں اور گفتگو بھی بہت اچھی کیا کرتی تھیں۔' 'ان کی زندگی آرٹ کے گرد ہی گھومتی تھی، اپنے وقت میں وہ کلچرل آرٹ ایلیٹ کا حصہ ہوتی تھیں اور فنکاروں و اداکاروں کی تقربات میں ایک اہم شخصیت کے طور پر جاتی تھیں۔ یقیناً ان کا جانا بہت بڑا نقصان ہے۔' خورشید شاہد کی نماز جنازہ اتوار کو چار بجے ڈیفنس فیز ٹو کی مسجد میں کی جائے گی جبکہ تدفین فیز سیون کے قبرستان میں کی جائے گی۔
قطر نے پاکستانیوں پر ویزا پابندی کیوں اٹھائی ?بڑی خبر سامنے آگئی - Urdu News Room اسلام آباد: قطر نے دنیا کے 80 ممالک کی طرح گزشتہ روز پاکستانی شہریوں پر بھی ویزا کی پابندی ختم کر دی ہے ۔ اب پاکستانی شہریوں کو قطر ائیر پورٹ پراترتے ہیں ویزا مل جائےگا۔ قطر ی حکومت کی طرف سے پاکستانیوں پر ویزا کی پابندی ختم کرنے کے حوالے سے قطر ائیر ویز نے اپنی ویب سائٹ ویزا کے متعلق باقاعدہ اہم ہدایات بھی جاری کر دیں ہیں ۔ ویب سائٹ کے مطابق پاکستانی شہری آن ارائیول ویزا حاصل کرنے کے بعد 30 دن تک قطر میں قیام کر سکیں گے۔ تاہم، بعد ازاں اس ویزہ کی معیاد مزید 30 روز بڑھانے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ قطر ایئر لائن قطر ائیرویز کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق پاکستانی شہریوں کو ویزا حاصل کرنے کے لیے قطر میں اپنا مشین ریڈایبل پاسپورٹ دکھانا ہوگا جس کے ختم ہونے کی کم از کم معیاد چھ ماہ یا اس سے زائد ہونی چاہیے جب کہ ساتھ ہی انہیں ریٹرن ٹکٹ بھی دکھانا ہو گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں قطر نے 80 ممالک کے لیے ویزا فری اسکیم متعارف کرائی تھی جس میں شامل ممالک کے شہریوں کو صرف اپنا مستند پاسپورٹ دکھانے پر ملک میں داخلے کی اجازت درکار ہے.
تھر میں ہلاکتوں کی سنچری حضرت انسان کو دنیا فانی میں زندہ رہنے کے لئے اپنے پاپی پیٹ کو غذا کے ایندھن سے بھرنا ہی پڑتا ہے اگر انسانی جسم کو ضرورت کے وقت غذا نہ ملے یا پھر بے وقت ملے تو پھر غذائی قلت کے باعث طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے مثلا معدہ ،انٹریوں کی سوزش اور جگر کی خرابی کے باعث کمئی خون، ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض پیدا ہوجاتے ہیں اور جب بیماری کسی انسانی جسم کو اپنی آماج گاہ بنا لے اور اسے اس بیماری کے مطابق دوا نہ دی جائے تو وہ انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد راہی ملک عدم ہوجاتا ہے غذائی قلت کے شکار لوگ خوشی سے موت کو سینے سے نہیں لگاتے بلکہ ان کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ضروریات زندگی بحال رکھ سکیں بے شک اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ امیری اور غریبی کا تعلق انسان سے نہیں بلکہ رب کائنات سے ہے وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہے نپا تلا دے ، اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا کے لئے روزگارکے مواقع اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر ے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے حکمرانوں نے ہمیشہ سے ایسی پالیساں ترتیب دیں جس سے امیری اور غریبی میں فرق بڑھتا گیا امیر لوگ مزید دولت مند اور غریب مسلسل غریب تر کیوں ہو رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم نے دنیا میں پائی جانے والی مالیاتی عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان پیدا خلیج پر مبنی ایک رپورٹ میں دیا ہے اس کے مطابق دنیا کی کل تین ارب پچاس کروڑ آبادی کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جتنی اسی زمین کے 62 افراد کے پاس ہے۔اوکسفیم نے ان افراد کو انتہائی امیر کبیر قرار دیا ہے۔ انتہائی امیرکبیر افراد میں سے 30 کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ 17 براعظم یورپ میں رہتے ہیں۔ بقیہ افراد چین برازیل میکسیکو جاپان اور سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں 2010 کے بعد دنیا کے امیر کبیر افراد کی دولت میں چوالیس فیصد اضافہ ہوا اور دوسری جانب دنیا بھر کی کل آبادی کی غربت اکتالیس فیصد بڑھی ہے۔ اس مالیاتی تفریق کو بنیاد بنا کر عالمی لیڈر منافقت سے کام لیتے ہیں اور عملی اقدامات کے بجائے صرف زبانی کلامی کام چلاتے ہیں دنیا کبھی بھی اتنی عدم مساوات کی شکار نہیں تھی جتنی اب ہے اور افسوسناک بات یہ بھی ہے تھر پارکر کے سرکاری اسپتالوں میں جہاں طبی سہولتوں کا شدید فقدان ہے وہیں خوراک کے گوداموں کے منہ ابھی تک نہیں کھولے گئے جس سے بچوں کی اموات کا سلسلہ نہیں تھم سکا۔عروس البلاد شہر کراچی سے 278 کلو میٹر دورہندوستانی سرحدیعنی بارڈر سے ملحقہ صحرائی علاقہ کی آخری قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق ضلع تھرپارکرکی آبادی 955،812 ہے جس میں سے صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے اس ضلع کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے جبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ یہاں کے اہم شہر مٹھی، اسلام کوٹ اور چھاچھرو ہیں جبکہ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ تھر میں 117سالوں میں 47 بارقحط سالی کا شکار ہوا 1994تک ہر حکمران نے بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات یہاں ایک اینٹ بھی لگانا گوارہ نہ سمجھی جو تھر کے باسیوں سے زیادتی کے زمرہ میں شامل ہے یہاں سے بہت سے لوگوں نے اقتدار حاصل کیاجن میں سندھ سے ذوالفقار علی بھٹو،محمد خان جونیجو،بے نظیربھٹووزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدہ تک پہنے لیکن وہ سب تھرکے عوام کو وہ سہولتیں نہ دے سکے جو یہاں کے باسیوں کو ملنا ضروری تھیںحکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کی بنا پہ تھر میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں ہلاکتوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور یہ سلسلہ کب تھمے گا یہ بتانا مشکل بات ہے 200 سے زائد بچے اب بھی زیرعلاج ہیںکوئی پرسان حال نہیں ہے اور تو اور اب مویشی بھی چارہ نہ ملنے پہ ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ سائیں سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی سندھ سرکار کے "وڈے سائیں " بڑی ڈھٹائی سے فرماتے ہیں " تھر میں بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں نہ ہی وہاں کوئی قحط سالی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تھر کی آبادی سولہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور ان کے پاس ساٹھ لاکھ مویشی ہیں۔سندھ حکومت پانچ سال سے تھر باسیوں کو مفت گندم فراہم کر رہی ہے۔صوبائی حکومت نے تھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا،دور دراز آبادیوں تک بجلی پہنچائی۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے دعوی کیا کہ تھر میں نہ تو کوئی قحط سالی ہے اور نہ ہی وہاں بھوک کے باعث بچوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں"اب "وڈے سائیں " کو کون بتائے اور سمجھائے کہ ایسا نہیں ہے جو آپ فرمارہے ہیں کیونکہ میڈیا چیخ چیخ کے غذائی قلت سے تھر میں ہونے والی ہلاکتوں سے خوفناک حقائق سامنے لا رہا ہے جس سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں 2015ء میں غذائی قلت کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 376 تھی اور اب نئے سال کے ماہ جنوری میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی ہلاکتوںکی تعدادسنچری سے تجاوز کرتے ہوئے 116 ہوگئی ۔حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث تھرپارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ تھم نہیں سکا ۔ قحط سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع نہ ہو سکیں حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ تھر کے باسی سسک سسک کر زندگی کی بازی ہارتے رہیں گے ۔
جمیکا · خاندانی تفریح ​​کینیڈا جمیکا کے بلیو فیلڈز بے ولاز میں خواب جیتا ہے دو چھوٹا بچہ اور ایک کل وقتی ملازمت کے ساتھ ، میں اکثر ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے میرے دن (اور راتیں) برداشت آزمائش ہیں۔ کبھی کبھی — جیسے جب میں ایک تپشناک بچے کا ڈایپر تبدیل کرتا ہوں جیسے دوسرا میرے میک اپ میں داخل ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے کھانے میں جلنے کا خطرہ ہے — میں کسی دنیا کے بارے میں تصور کرتا ہوں گلاب ہال کے عظیم ہاؤس ٹور میں گھوسٹلی حد کا انتظار ہے آج ، مونٹیگو بے کے نواح میں واقع ساحل سمندر کے کنارے ، سابقہ ​​گل ہال کے پودے لگانے کا میدان ، عالمی سطح کے گولف کورس اور فائیو اسٹار ریسارٹس پر فخر کرتا ہے۔ پھر بھی اگر جمیکا میں کہیں بھی ایسا ہے جو اب بھی اپنے ماضی کے بھوتوں کا شکار ہے ، وہ یہاں ہے۔ روز ہال گریٹ S ساحلوں اوچو ریوس، جمیکا میں سیسم اسٹریٹ کے لئے ہے کچھ لوگ گھاس کے ل go جاتے ہیں ، جبکہ دوسرے جرک چکن ، ساحل سمندر یا ریگے کے لئے جاتے ہیں۔ وہ ، مجھے یقین ہے ، جمیکا جانے کی تمام عمدہ وجوہات ہیں ، لیکن میری ایک اہم وجہ کوکی مونسٹر ہے۔ بہرحال ، ایک ماں کی حیثیت سے ، ایسا دیکھنے کی طرح کچھ نہیں ہے جب میں حاملہ ہونے کی کوشش کر رہا تھا تو ، میں نے جمیکا جانا چھوڑ دیا ، کیونکہ آئلینڈ روٹس کیریبین ایڈونچر اگر آپ کی توقع کر رہے ہیں تو ندی کے نلکوں کی سفارش نہیں کرتا ہے۔ میں دریائے وائٹ کی نلیاں لگانے کے لئے کتنا گہری تھا۔ میں اس کے آس پاس اپنے پورے سفر کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ، اس سال ، کب جمیکا کھائیں - جمیکا کے 5 فوڈ جو آپ چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں! جب آپ جمیکا میں رات کے کھانے پر بیٹھتے ہیں تو آپ کو جزیرے کا مستند ذائقہ ملتا ہے۔ اس کا اشنکٹبندیی جغرافیہ ، اس کی مختلف تاریخ اور اس کی عصری ثقافتی دھارے۔ جمیکا کا کچھ کھانا پورے کنبے کے لئے بہترین ہے ، جبکہ دیگر صرف ماں اور والد کے لئے ہیں۔ یہ ایک جمیکا کا سفر ہے جمیکا کا دورہ 3 دورے اور دلکشش یاد نہیں آسکتا جزیرہ جمیکا 10,991،XNUMX کلومیٹر کی دوری پر ہے جس میں قدرتی خوبصورتی اور نمایاں تاریخ ہے۔ اس تاریخی خوبصورتی کا پہلا ہاتھ اور تجربہ کیے بغیر اس شاندار مرکت جزیرے کا دورہ مکمل نہیں ہوگا۔ جبکہ کچھ لوگوں کو ساحل پر اچھ rotے کے ساتھ سڑنے کے علاوہ کچھ نہیں پسند ہے میں نے ایک شام کھانے کے راستے میں کیپٹن ہک سے ٹکرا دیا ، میری لڑکیوں کے بعد ہی میں نے سیڑھی پر پیٹر پین کے ساتھ بات چیت کی۔ لہذا جب میں لفٹ سے باہر نکلا تو مجھے گوفی سے گلے ملنے پر ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی۔ ڈزنی کے بارے میں جادوئی کچھ ہے جو متاثر کرتا ہے
ایم ڈبلیوایم کے قائدین کی کوئٹہ میں اہل سنت مکتب فکرکی مسجدمیں بم دھماکے کی پرزور مذمت انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے پٹھو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے دہشتگردی کا سہارا لے رہے ہیں۔ شیعت نیوز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور سابق وزیرقانون آغا سید محمد رضا نے سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں اہل سنت مکتب فکر کی مسجد میں تکفیری دہشتگردوں کی جانب سے بم دھماکے کی پرزورالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ اس دہشگرد حملے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے۔ یہ بھی پڑھیں: جنرل قاسم سلیمانی نے امت مسلمہ کوداعشی درندوں سےنجات دلائی، علامہ حافظ ریاض حسین نجفی انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سہولت کاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔بے گناہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں،بلوچستان میں موجود تکفیری گروہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں،ملک دشمن عناصر کے خلاف پوری قوم اپنے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: قاسم سلیمانی نے عراق، شام، لبنان اور افغانستان سمیت اسلامی ممالک کا تحفظ کیا، علامہ ناظر تقوی علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہاکہ دکھ کی اس گھڑی میں ایم ڈبلیوایم متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے ۔ انہوں نےاس افسوسناک سانحے میں شہید ہونے والےڈی ایس پی امان اللہ اور دیگر نمازیوں کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کرتے ہوئے شہداءکیلئے دعائے مغفرت اور پسماندگان کیلئے صبر جمیل کی دعا کی ہے ۔ علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےشوریٰ عالی کے رکن سابق وزیر قانون بلوچستان آغا سید محمد رضا کاسیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں اہل سنت مکتب فکر کی مسجد میں تکفیری دہشتگردوں کی جانب سے بم دھماکےپر اظہار مذمت ۔ میڈیا سیل سے جاری مذمتی بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے پٹھو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے دہشتگردی کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں مسجد پر حملہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف ہے،علامہ باقر زیدی انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔دہشت گرد ملک کی ترقی و استحکام کے دشمن ہیں، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا۔ دہشت گردوں کا مکمل صفایا تکفیریت کے خاتمے سے مشروط ہے۔ shiitenews آغا رضا بم دھماکہ تکفیری دہشت گرد شیعت نیوز علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کوئٹہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان مذمت
وزیر مملکت برائے قومی صحت سروسز سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ اس سال پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں میں سے اکثریت کا تعلق اُن علاقوں سے ہے جہاں گزشتہ دو سال سے سلامتی کے خدشات کے باعث اس وائرس کے خلاف مہم چلائی ہی نہیں جا سکی۔ پاکستان کے وزیراعظم نے ملک سے پولیو وائرس کے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ انسداد پولیو کے عالمی دن کے موقع پر جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف نے انسانی جسم کو اپاہج کرنے دینے والے اس وائرس سے متاثرہ بچوں اور اُن کے والدین سے ملاقات کی۔ انھوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوا کر انسداد پولیو کی حکومتی کوششوں کا حصہ بنیں۔ پاکستان میں رواں سال اب تک پولیو سے متاثرہ 208 کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 93 تھی۔ وزیر مملکت برائے قومی صحت سروسز سائرہ افضل تارڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں اس سال پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں میں سے اکثریت کا تعلق اُن علاقوں سے ہے جہاں گزشتہ دو سال سے سلامتی کے خدشات کے باعث اس وائرس کے خلاف مہم چلائی ہی نہیں جا سکی۔ ''بین الاقوامی برداری اس بات کو سمجھے کہ، پاکستان کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا، نائیجریا یا دیگر ممالک میں جو ریاست مخالف عناصر ہیں، بوکو حرام یا دیگر، وہ حکومت کے خلاف ہیں پولیو کے خلاف نہیں ہیں۔۔۔ لیکن ہماری صورت حال بالکل مختلف ہے۔'' انسداد پولیو کی مہم کو موثر بنایا جا رہا ہے: سائرہ افضل تارڑ پاکستان میں پولیو کیسز میں تشویشناک حد تک اضافے کی وجوہات میں اہم سلامتی کے خدشات کے باعث بچوں کی ایک قابل ذکر تعداد تک انسداد پولیو ٹیموں کی عدم رسائی اور ملک میں بار بار اس مہم میں تعطل بتائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کی طرف سے بچوں کو ویکسین پلوانے سے انکار بھی اس تعداد میں اضافے کا ایک سبب ہے۔ ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے علاوہ خیبر ایجنسی کے بعض مقامات میں گزشتہ دو برسوں میں تقریباً اڑھائی لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلوائے جا سکے تھے جب کہ دیگر قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی طرف سے اس مہم سے متعلق پروپیگنڈے اور سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو مہم بھرپور طریقے سے نہیں چلائی جاسکی۔ پاکستان میں پولیو سے متاثرہ زیادہ تر کیسز کا تعلق بھی قبائلی علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ دسمبر 2012ء سے ملک کے مختلف حصوں میں انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر جان لیوا حملے بھی ہوتے آرہے ہیں جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانے کی مہم میں تسلسل ہی سے انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی اس موذی بیماری کے وائرس پر قابو پانے کا ہدف حاصل کرنا ممکن ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائیجیریا میں بھی پولیو وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے لیکن ان ملکوں میں اس سال رپورٹ ہونے والے پولیو کے نئے کیسز کی تعداد پاکستان کی نسبت بہت ہی کم ہے۔
چینی کمپنی نے اطالوی فٹبال کلب اے سی میلان خرید لیا 05:12 PM, 14 Apr, 2017 بیجنگ: چین کے تاجر نے مشہور اطالوی کلب اے سی میلان کو خرید لیا ہے جس کے ساتھ ہی سلویو برلسکونی کی کلب پر 31 سالہ ملکیت کا اختتام ہو گیا۔ چینی تاجر یونگ ہونگ لی کی زیر قیادت کام کرنے والا گروہ کافی عرصے سے فٹبال کلب کو خریدنے کی تگ و دو میں مصروف تھا تاہم اس سلسلے میں ڈیل کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئی اور دو مرتبہ کلب کی خریداری کو ملتوی کردیا گیا تھا۔یونگ ہونگ لی نے کہا کہ میں برلسکونی اور فنن ویسٹ کی جانب سے اعتماد کرنے اور شائقین کے صبر و تحمل پر ان کا شکر ادا کرتا ہوں اور آج سے ہم کلب کے مستقبل کی تعمیر پر کام کریں گے۔ برلسکونی کی ہولڈنگ کمپنی فنن ویسٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے میلان سے روزونیری اسپورٹ لگزمبرگ کو 99.93 فیصد حصص ملکیت منتقل کردی۔اس ڈیل کے تحت کلب کی مالیت 800 ملین ڈالر ہے اور کلب کی بہتری کیلئے سرمایہ کاروں کو اگلے تین سال کے دوران 372ملین ڈالر خرچ کرنے ہوں گے۔ کمپنی کی ایک میٹنگ ہو گی جس میں نئے صدر اور ڈائریکٹر کا اعلان کیا جائے گا اور سلسلے میں متوقع طور پر پریس کانفرنس بھی کی جائے گی۔نئے مالک کے زیر انتظام کلب کا پہلا میچ ہفتے کو انٹر میلان سے ہو گا۔برلسکونی کے دور میں اے سی میلان نے کئی بڑی ٹرافیاں جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اے سی میلان نے 31 سال کے دوران پانچ مرتبہ چیمپیئنز لیگ، پانچ مرتبہ یوئیفا سپر کپ، آٹھ لیگ ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ تاہم ماضی میں دنیا کے بڑے کلبوں میں سے ایک شمار کیے جانے والا اے سی میلان حالیہ دنوں میں تنزلی کا شکار ہوا اور اس وقت اٹالین سیریز اے میں چھٹے نمبر پر ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بریفنگ | ابوعمار زاہد الراشدی صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو طلب کر لیا ہے جس میں حساس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پارلیمنٹ کے ارکان کو بریفنگ دیں گے، اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔ صدر اور وزیراعظم کا یہ اقدام موجودہ حالات میں یقیناً خوش آئند ہے، اس سے جہاں عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا وہاں حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے عوام کے جذبات اور تاثرات سے مزید آگاہی حاصل کر یں گے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے عنوان سے سرفہرست ہے۔ اور اس جنگ کا پھیلاؤ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے عوام کے اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری اور ملکی سالمیت کے بارے میں سوالات میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ ''دہشت گردی'' کیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے گزشتہ چند روز کے دوران قومی اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی بعض رپورٹوں اور خبروں پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۳۰ ستمبر کو شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے کرائے جانے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اپنے سب سے بڑے ہدف ''القاعدہ'' کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ۳۰ میں سے ۲۲ ممالک کے افراد کے مطابق اوسطاً ۲۲ فی صد رائے دہندگان کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے القاعدہ تنظیم کمزور ہوئی ہے جبکہ سروے میں شریک ۵ سے ۳ رائے دہندگان کہتے ہیں کہ اس جنگ کا القاعدہ پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ القاعدہ اس جنگ سے مضبوط ہوئی ہے۔ ۳۰ ستمبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے لاہور کے ایوان صنعت و تجارت کے کاروباری افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان اور قبائلی علاقوں میں تعلقات عامہ کی جنگ ہار چکے ہیں اور وہاں امریکہ کا پیغام نہیں پہنچا سکے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے متاثرہ علاقوں کے لیے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر سالانہ دے رہا ہے لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیسہ وہاں خرچ ہونے کی بجائے درآمدی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔ ۵ اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کے ترجمان مارکوسی نے اسلام آباد میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو دنیا کا نیا ''وار زون'' قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ قبائلی علاقے مکمل میدانِ جنگ بن چکے ہیں، پاکستانی فوج طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہے، بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں، فورسز کی بمباری اور جنگجوؤں کے خوف سے اڑھائی لاکھ افراد نقل مکانی کر گئے ہیں اور کئی ہزار افغانستان میں داخل ہونے کے منتظر ہیں، ہزاروں افراد پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور وادیٔ سوات جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ۵ اکتوبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹریوسی نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بغداد میں غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بعص لوگوں کا خیال ہے کہ عراق میں حاصل ہونے والے تجربے کو افغانستان میں استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن ہر جگہ صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ یکم اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق اعلیٰ سفارتکار فرانسس فشال نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو مزید تباہی و بربادی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سرگرمیوں اور حکمتِ عملی میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی کاروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے باعث عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہوا ہے جس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ۴ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ملکوں کے تمام انٹیلی جنس اداروں کے اہل کار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک اگلے ۷ برسوں میں بھی افغانستان کو زیر نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگ اب بھی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنے نائن الیون پر حملہ کے وقت تھے۔ ۶ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان نے یہ خبر شائع کی ہے کہ افغانستان میں برطانوی کمانڈر بریگیڈیئر مازک اسمتھ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح ممکن نہیں اس لیے برطانیہ کو طالبان کے ساتھ ممکنہ ڈیل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں کمانڈر مازک اسمتھ نے کہا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کا جنگ جیتنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں عوام کو اپنی توقعات میں کمی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی کی سطح کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، یہ کام افغان فوج کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور طالبان سے مذاکرات کر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران شائع ہونے والی بیسیوں خبروں اور رپورٹوں میں سے ان چند خبروں کا ہم نے بطور مثال حوالہ دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں امریکہ اور اتحادیوں نے گزشتہ ۷ برس میں کیا کچھ حاصل کیا ہے اور مستقبل قریب میں مزید کیا کچھ حاصل ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس جنگ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ برآمد ہونے والا نہیں تھا اور ہم جنگ کے آغاز میں ہی اس خیال کا اظہار اس کالم میں کر چکے ہیں، اس لیے کہ اس جنگ کی بنیاد ہی مغالطوں اور فریب کاری پر تھی۔ مغالطوں اور فریب کاری کی اساس پر لڑی جانے والی جنگوں کا نتیجہ یہی ہوا کرتا ہے۔ ''دہشت گردی'' کے خلاف یہ جنگ دہشت گردی کا کوئی واضح مفہوم اور مصداق طے کیے بغیر لڑی جا رہی ہے۔ کسی گروہ یا ملک کو دہشت گرد قرار دینے اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ موجود نہیں، بلکہ یہ اختیار اتحادی افواج اور ان کے قائد امریکہ کے پاس ہے کہ وہ جس کو چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف عسکری یلغار کر دیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ طالبان اور القاعدہ دہشت گرد ہیں اس لیے ان کے خلاف جنگ ضروری ہے جبکہ طالبان اور القاعدہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور مڈل ایسٹ میں غیر ملکی مداخلت اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف اپنی آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں کا موقف سن کر غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کرنے والا کوئی ایسا فورم دنیا میں موجود نہیں جس پر دونوں فریق اعتماد کرتے ہوں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں سے ہی لڑی جائے گی اور وہی غالب ہوگا جو طاقت اور ہتھیاروں سے دوسرے کو شکست دے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا ہے اور دنیا کو بھی مسلسل وہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان صرف دو طبقے ہیں جن کو زیر کرنے سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ صرف دو طبقے نہیں بلکہ افغان اور عرب عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی قوم کو زیر کرنے میں آج تک کسی کو کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ کبھی اس کا امکان موجود ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو غلط طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی محض غربت اور جہالت کی وجہ سے ہے اس لیے اگر مغربی تعلیم سے لوگوں کو بہرہ ور کر دیا جائے اور چار پیسے دے دیے جائیں تو فتح حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جسے دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے وہ دراصل امریکہ اور مغربی اقوام کی ان مسلسل زیادتیوں، نا انصافیوں اور مظالم کا ردعمل ہے جو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بالعموم اور فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بالخصوص طویل عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب تک ان زیادتیوں اور نا انصافیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا ان کے ردعمل کو روکنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت اسامہ بن لادن کو بتایا جاتا ہے جبکہ وہ اور ان کے گروپ کے افراد نہ غریب ہیں او رنہ ہی ان پڑھ ہیں۔ اس پس منظر میں ۸ اکتوبر کو عوام کے منتخب نمائندے اسلام آباد میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں تو ہم اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ بالآخر عوام کے منتخب نمائندوں کو اس کا موقع مل گیا ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی مسئلہ پر باہمی تبادلۂ خیالات کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہم یہ گزارش بھی کرنا چاہیں گے کہ بلاشبہ پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے ہمارے لیے دو بڑے چیلنج ہیں: ایک یہ کہ وطن عزیز کی سرحدوں میں بیرونی مداخلت و حملوں کو روکنے اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ملک کے اندر خودکش حملوں میں مسلسل اضافہ اور ان میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا کیسے سدباب کیا جا سکتا ہے؟ ہم پاکستان کی سرحدوں کے اندر بیرونی حملوں اور اندرون ملک خودکش حملوں کی یکساں مذمت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ہیں۔ البتہ یہ درخواست ہم ضرور کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے عمومی اور عالمی تناظر کو بھی سامنے رکھیں اور صورتحال کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ملک میں امن و امان کی بحالی، قومی خودمختاری کے تحفظ اور ملکی وقار کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو، آمین یا رب العالمین۔
پہلی اشاعت: 16 ستمبر ,2021: 06:55 رات GST آخری اپ ڈیٹ: 16 ستمبر ,2021: 06:58 رات GST متحدہ عرب امارات میں ایک نئی تحقیق کے مطابق نصف سے زیادہ مکین اپنی زندگی کے دوران میں دل کی بیماریوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک ہزار سے زیادہ افراد سے ایک سروے میں ان کے قلب کو درپیش مسائل کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔اس میں انکشاف ہوا ہے کہ 55 فی صد جواب دہندگان دل کی بیماری سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ان میں 12 فی صد میں خود قلب کی بیماری کی تشخیص ہوئی ہے اور 53 فی صد میں ان کے ساتھ کسی قریبی دوست یا خاندان کے کسی فرد میں دل کی بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ سروے کلیولینڈ کلینک ابوظبی نے 29 ستمبر کو عالمی یوم قلب سے قبل کیا ہے۔متحدہ عرب امارات میں امراض قلب موت کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔امراض قلب کا شکار افراد میں علامات اکثردیگرترقی یافتہ ممالک میں اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں ایک عشرہ پہلے ظاہرہوتی ہیں۔ کلیولینڈ کلینک کے ماہر امراض قلب ڈاکٹررونی شانتوف نے کہا کہ دل کی بیماری ایک مریض سے اس کے اہل خانہ اور دوستوں تک پھیلتی ہے جس سے قدرتی طور پر تمام متعلقہ افراد متاثر ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سروے کے نتائج اس بات کے غمازہیں کہ دل کی بیماری کا ہماری کمیونٹی پر کیا افسوس ناک اثر پڑتا ہے۔ سروے میں مثبت نتائج دل کی بیماری کے خطرے کے عوامل کے بارے میں مضبوط آگاہی کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔اس میں 78 فی صد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ خطرے کے عوامل کو سمجھتے ہیں اور 77 فی صد یہ بات جانتے ہیں کہ دل کی بیماری سے بچاجا سکتا ہے۔اس کے علاوہ سروے میں شامل نصف سے زیادہ افراد اس بات سے آگاہ تھے کہ معالج ہفتے میں 150 منٹ سے زیادہ دیر تک ورزش کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ دل کی بیماری سے بچنے میں مدد مل سکے۔ یو اے ای کے 53 فی صد مکینوں نے بتایا کہ انھوں نے گذشتہ دو سال سے زیادہ عرصے سے اپنے دل کی صحت کی جانچ نہیں کروائی ہے،قریباً ایک تہائی (30 فی صد) نے کہا کہ انھوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔یعنی دل کا کبھی طبی معائنہ نہیں کرایا۔ سروے میں 45 سال سے زیادہ عمر کے گروپ سے سے زیادہ خطرے سے دوچار قرار دیا گیا ہے۔مگر ان میں سے 49 فی صد نے دو سال سے زیادہ عرصے سے دل کی صحت کا معائنہ نہیں کرایا تھا، 22 فی صد اس ضمن میں کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے تھے۔ سروے میں شامل خواتین کا کہنا تھا کہ وہ امراض دل کی جانچ یا دل کی صحت کے بارے میں جانکاری کے لیے کم ہی ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہیں۔ ان میں سے 35 فی صد نے ایسا کبھی نہیں کیا اور26 فی صد نے دو سال سے زیادہ عرصے سے چیک اپ نہیں کرایاتھا۔ ڈاکٹرشانتوف کا کہنا ہے کہ ہماری کمیونٹی میں دل کی بیماریوں میں اضافے اوران سے متعلق نمایاں بیداری کے باوجود لوگ اب بھی کسی ڈاکٹرکو دکھانے اور دل کی بیماری سے بچنے کے اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ لوگ ڈاکٹر سےملاقات کریں، خاص طور پراگر انھیں زیادہ خطرہ لاحق ہو تو انھیں ضرور کسی ماہرمعالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت مندزندگی کے لیے دل کی صحت ضروری ہے اورصحت مند تبدیلیوں کے ساتھ سادہ طرز زندگی اور بروقت مناسب تشخیص سے نہ صرف آپ بلکہ آپ کے دوستوں اور خاندان کو بہت سے دکھ ،تکالیف اور پریشانیوں سے بچایاجاسکتا ہے۔ سروے میں جواب دہندگان کی اکثریت نے حالیہ برسوں میں دل کی صحت کا چیک اپ نہیں کیا ہے، صرف 15 فی صد نے بتایا کہ ان میں دل کی بیماری کے لیے کوئی خطرے کے عوامل نہیں ہیں۔سروے میں شامل افراد کی جانب سے رپورٹ کیے گئے سب سے عام خطرے کے عوامل ہائی بلڈ پریشر (46 فی صد)، تناؤ (45 فی صد)، کولیسٹرول (44 فی صد) اور ورزش کی کمی (44 فی صد) تھے۔ اس کے علاوہ موٹاپا اور ذیابیطس، دل کی شدید بیماری سے قریبی طور پر منسلک علامتیں ہیں اور سروے میں شامل افراد میں سے بالترتیب 35 فی صد اور 30 فی صد ان دونوں امراض سے متاثر تھے۔ قبل ازیں اسی ماہ العربیہ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ یواے ای میں دل کے دورے کے نصف مریضوں کی عمریں 50 سال سے کم ہیں۔ ڈاکٹروں نے دل کی بیماری میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں خبردارکیا تھا۔ امراض قلب (سی وی ڈی) دنیا بھرمیں اموات کاایک اہم سبب ہیں اورمتحدہ عرب امارات میں ہونے والی تمام اموات میں 40 فی صد کا تعلق امراض قلب کے مریضوں سے ہوتا ہے۔کلیولینڈ کلینک ابوظبی کے معالجین کے مطابق دل کی بیماری کے زیادہ کیس پیٹ کے موٹاپے،ذیابیطس، تمباکو نوشی،بلند فشار خون اور کولیسٹرول کی بلند سطح سمیت خطرے کے متعدد عوامل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اب ملک میں کم عمربالغوں میں بھی امراضِ قلب کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
نوازشریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر سماعت - لاہور: عدالت نے نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے دائر کردہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پولیس جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے درخواست پر سماعت کی جس میں پولیس کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج نہ کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت میں جواد اشرف کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے عدالت سے نااہلی کے فیصلے کے بعد اسلام سے لاہور تک ریلی نکالی اور ریلی کے دوران عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کے مخالف تقاریر کیں۔ نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قرار درخواست گزار کے مطابق سابق وزیر اعظم نے تقاریر میں عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور قوم کو اداروں کےخلاف بغاوت پر اکسایا ' نواز شریف کی یہ تقاریر بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ سابق وزیراعظم کے خلاف مقدمے کے لیے درخواست دائر کرنے والے درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ مقدمہ کے کے لیے درخواست دی لیکن پولیس اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی' لہذا عدالت پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے ۔ عدالت نے نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے پولیس سے 6 نومبر کے لیے جواب طلب کر لیا۔
نارووال(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مئی2018ء) موٹر سائیکل سوار محنت کش کنٹینر سے ٹکرا کر جاں بحق ہو گیا ۔بتایا جاتا ہے کہ نواحی گاؤں تتلے پُل کا رہائشی حاجی بشیر رحمانی اپنی موٹر سائیکل پرکپڑا فروخت کرکے واپس گاؤں آرہا تھا کہ کے حبکوکو پاور پلانٹ کے قریب تیز رفتاری کے باعث بے قابو ہو کر کنٹینر جا ٹکرایا،جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اور اسے فور ی طور پر تشویش ناک صورت حال کے پیش نظرہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں حاجی بشیر رحمانی شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں دم توڑ گیا۔
6؍اگست 1945ء ہیروشیما پر ایٹم بم کا حملہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تاریخی انتباہ - الفَضل انٹرنیشنل صفحۂ اول/مضامین/متفرق مضامین/6؍اگست 1945ء ہیروشیما پر ایٹم بم کا حملہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تاریخی انتباہ 6؍اگست 1945ء ہیروشیما پر ایٹم بم کا حملہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تاریخی انتباہ 6 اگست 2020ء جولائی 1945ءکے آخر میںامریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ کے لیڈر جرمنی میں پوٹسڈ یم (Potsdam) کے مقام پر ایک کانفرنس کے لیےجمع تھے۔دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ اٹلی اور جرمنی ہتھیار ڈال چکے تھے۔ اب صرف جاپان میدان جنگ میں موجود تھا۔فاتح اقوام کے لیڈر یہ فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے کہ شکست خوردہ جرمنی کا انتظام کیسے کرنا ہے۔ دنیا میں عمومی طور پر یہ اطمینان پایا جاتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بھیانک جنگ، جس میں کروڑوں انسانوں کے خون سے زمین رنگین ہو گئی، اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ اس وقت جاپان کے قبضے میں بہت سے علاقے تھے لیکن اس کی خستہ حال فضائیہ اور بحریہ اب اس قابل نہیں تھی کہ کسی اور ملک کے لیے خطرہ بن سکے۔ اس کی افواج میں آخر دم تک لڑنے کی روایت موجود تھی لیکن اب نوشتہ دیوار سب کو نظر آ رہا تھا۔ گو کہ جرمنی کے خلاف جنگ میں سوویت یونین برطانیہ اور امریکہ کے اتحادی کے طور پر شامل ہوا تھا لیکن سوویت یونین اور جاپان کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ تھا۔ کئی سال سے جاپان کی فوجیں امریکہ اور برطانیہ کی افواج سے لڑ رہی تھیں لیکن جاپان اور سوویت یونین کے درمیان یہ معاہدہ اب تک برقرار تھا۔چنانچہ خفیہ طور پر جاپان کی حکومت سوویت یونین کی وساطت سے جنگ کو بند کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔ بچے تسلی بخش طریق پر پیدا ہو گئے بہر حال اب امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے لیڈر پوٹس ڈیم میں سر جوڑ کر بیٹھےتھے تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں۔امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن (Stimson)امریکہ کے وفد میں شامل نہیں تھے اور اپنے ملک میں تھے۔ 17؍جولائی کو وہ اچانک پوٹسڈیم میں برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی عارضی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور ان کے آگے ایک کاغذ رکھا جس پر لکھا ہوا تھا ''بچے تسلی بخش طریق سے پیدا ہو گئے ہیں۔''اس پیغام کا مطلب یہ تھا کہ ایک روز قبل امریکہ میں دنیا کے پہلے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا ہے۔ اب انسان کے ہاتھ میں دنیا کی تاریخ کا مہلک ترین ہتھیار آ چکا تھا۔ یہ تجربہ امریکہ میں نیو میکسیکو کے مقام پر کیا گیا تھا۔اس تجرباتی ایٹم بم کو زمین سے سو فٹ کی بلندی پر نصب کیا گیا تھا۔ دس میل تک تمام علاقہ خالی کر الیا گیا تھا۔ دس میل کے فاصلے پر حفاظتی دیواروں کے پیچھے اس پراجیکٹ کے سائنسدان منتظر تھے۔ سب نے دھماکے کے وقت ایک عظیم شعلے کو بلند ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے معاًبعد دھوئیں اور گرد کی ایک چھتری بلند ہوئی۔ تجربہ کامیاب ہو گیا تھا۔یہ بم جہاں بھی گرے گا ایسی تباہی ہو گی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی۔ اسی وقت امریکہ کے صدر ٹرومین کو خفیہ پیغام کے ذریعہ اطلاع دی گئی۔ اور اگلے روز امریکہ کے سیکرٹری جنگ تفصیلی رپورٹ لے کر پوٹسڈیم پہنچ گئے۔ کیا ایٹم بم استعمال کرنے کے بارے میں اختلاف تھا؟ اب یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ اس ہتھیار کو استعمال کرنا ہے کہ روایتی طریق پر جنگ جای رکھنی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس وقت ونسٹن چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔چرچل نے کئی جلدوں پر مشتمل دوسری جنگ عظیم کی تاریخ بھی لکھی ہے۔اس کتاب کی چوتھی جلد 1953ء میں لکھی گئی اور اس جلد میں جاپان پر ایٹم بم گرانے کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اور 1953ء کے سال میں ہی انہیں لٹریچر کا نوبل پرائز بھی دیا گیا۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ اس بارے میں کبھی کوئی دو رائے نہیں تھیں کہ یہ بم جاپان پر استعمال کر کے انہیں جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جائے گا۔اور بقول اُن کے اتحادیوں کو امید تھی کہ ایٹم بم استعمال کرنے سے جنگ مختصر ہو گی اور نسبتاًکم جانیں ضائع ہوں گی۔اور کامیاب تجربے سے قبل 4؍ جولائی کو ہی برطانیہ اس کے استعمال پر اپنی رضامندی دے چکا تھا۔ [Churchill,W.(1953). The Second World War Vol 6.London, Cassel & Co, 1954. P532–554)] صدر ٹرومین کا بیان اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ چرچل بہت زور دے کر بیان کر نا چاہ رہے ہیں کہ اُس وقت تمام قائدین اس بات پر متفق تھے کہ یہ بم جاپان کے خلاف استعمال کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔چرچل کی یہ کتاب 1953ء میں لکھی گئی اور1954ء میں شائع ہوئی۔اس کے ایک سال بعد اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی یاداشتیں Year of Decisionsکے نام سے شائع ہوئیں۔ اس میں وہ بالکل مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے صدر بنتے ہی ایک کمیٹی قائم کر دی تھی جو یہ فیصلہ کرے کہ اگر امریکہ ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا اسے دشمن کے خلاف استعمال کیا جائے یا نہیں۔ اس کمیٹی میں وہ سائنسدان بھی شامل تھے جو ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ میں اہم کردار اداکر رہے تھے۔ یکم جون 1945ء کو انہوں نے اپنی رپورٹ بھجوا ئی جس کے مطابق اس کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ اس ہتھیار کو جتنا جلدی ہو سکے دشمن کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے استعمال سے پہلے کوئی معین وارننگ نہ دی جائے۔اگر دشمن کو تجرباتی طور پر کسی غیر آباد ٹارگٹ پر گرا کے دکھایا جائے کہ اس کے کتنے تباہ کن اثرات ہوں گے تو اس سے جنگ ختم نہیں ہو گی۔یہاں تک تو چرچل کی بات کی تائید ہوتی ہے لیکن جب ایٹمی دھماکے کا کامیاب تجربہ ہو گیا اور اس بم کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کا مرحلہ آیا تو اس کے بارے میں ٹرومین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اہم عہدیداروں کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں آرمی کے جنرل بھی شامل تھے اور اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا: ''We reviewed our military strategy in light of this revolutionary development. We were not ready to make use of this weapon against the Japanese, although we did not know as yet what effect the new weapon might have, physically or psychologically, when used against the enemy. For that reason the military advised that we go ahead with the existing military plans for the invasion of Japanese home islands.'' (Truman, HS(1955). Year of Decisions 1945. Great Britian (1955) .Hodder and Stoughton. P345-.349) ترجمہ: اس انقلابی پیش رفت کی روشنی میں ہم نے اپنی جنگی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لیا۔ ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اگر دشمن کے خلاف استعمال کیا گیا تو اس ہتھیار کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے؟ اس لیے ہم اسے جاپان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔اس وجہ سے فوج نے یہی مشورہ دیا کہ ہم جاپان کے جزیروں پر قبضے کے لیے انہی منصوبوں پر عمل کریں جنہیں تیار کیا گیا تھا۔ اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جب ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا توکمیٹی کے سابقہ فیصلے کو نظر انداز کر کے یہی فیصلہ کیا گیا کہ جاپان کے خلاف ایٹم بم کو استعمال نہ کیا جائے۔پھر یہ فیصلہ کس طرح تبدیل ہوا اور کن وجوہات کی بنا پر اور کس کے مشورے پر تبدیل ہوا ؟ اس کتاب میں اس کا کچھ ذکر نہیں ملتا۔بہر حال ایٹم بم کے کامیاب تجربہ کے بعد اتحادی طاقتوں نے جاپان کو ایک الٹی میٹم (Ultimatum)جاری کیا کہ جرمنی کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ ان کے سامنے ہے۔ اگر انہوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار نہ ڈالے تو وہ مکمل تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔ ننھا لڑکا گرایا جاتا ہے 6؍اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما کے باشندے اپنا معمول کا دن گذارنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بعض لوگوں کو آسمان پر امریکہ کی فضائیہ کا بی۔29جہاز نظر آ رہا تھا۔ اس جنگ کے دوران اتنی بمباری ہو چکی تھی کہ آسمان پر ایک جہاز کا منڈلاناکوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی۔ جہاز کے اندر پائلٹ سمیت آٹھ افراد کا عملہ موجود تھا۔انہیں سیاہ چشمے لگانے کی ہدایت تھی۔پال ٹیبٹس(Paul Tibbets) جہاز چلا رہے تھے۔ مقرر کردہ ہدف پر پہنچ کر عملے کے ایک اور فرد تھامس فور بی(Thomas Forebee) نے بم گرا دیا۔ نیچے ہیرو شیما میں شاید چند لوگوں نے ہی محسوس کیا ہو کہ اس جہاز نے ایک بم گرایا ہے۔اور فوری طور پر واپس پلٹ گیا۔اس بم کا سائز غیر معمولی نہیں تھا۔اس کا وزن چار سو پائونڈ کے قریب ہوگا۔ اس بم کے ساتھ ایک پیراشوٹ لگا ہوا تھا۔یہ بم زمین کی سمت آنا شروع ہوا۔جب وہ زمین سے کچھ فاصلے پر رہ گیا تو ایک عظیم دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ دنیاکی تاریخ میں اس سے زیادہ خوفناک دھماکاکبھی نہیں ہوا تھا۔ جب وہ بم گرانے کی جگہ سے دس میل کے فاصلے پر پہنچ گئے تو انہوں نے ایک عظیم شعلے کو دیکھا، جس نے ہیروشیما کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس کے ساتھ دھوئیں اور گرد کا ایک طوفان بلند ہوا۔جہاز کے اندر موجود عملے کے منہ سے ''اوہ میرے خدا''کے الفاظ نکلے۔وہ جو کچھ دیکھ رہے تھے انہیں اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ان میں صرف تین کو یہ علم تھا کہ ان کا ہوائی جہاز نیا اور نہایت مہلک بم گرانے جا رہا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس بم کا نام little boyیعنی ننھا لڑکا رکھا گیا تھا۔ اُس روز ہیرو شیما پر جو قیامت ڈھائی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت کی شائع ہونے والی خبروں کے مطابق چند لمحوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ کے قریب افراد جل کر یا جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ لیکن اس بارے میں صحیح اعدادو شمار کا جمع ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ شہر کا بیشتر حصہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ گنجان آباد شہر کے متاثرہ علاقے میں صرف کنکریٹ کی ایک بڑی عمارت کی کچھ دیواریں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔اس مقام پر کوئی ذی روح چیز باقی نہیں رہی تھی۔یہ بم اُس وقت دنیا کے مہلک ترین بم سے دو ہزار گنا زیادہ تباہ کن تھا۔اس حملے کے چند گھنٹے بعد امریکی ایئر فورس کے جہاز نے کافی اوپر سے شہر کی تصویریں لیں۔ شہر میں دو مقامات پر آگ جل رہی تھی اور باقی شہر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓکی مذمت اورانتباہ ہیروشیما کی تباہی کے ساتھ جنگوں کی تاریخ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ تاریخ کی کتاب میں ایک نئے باب کا پہلا ورق پلٹا گیا تھا اور یہ ورق خون سے تر تھا۔اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اُس وقت مختلف حلقوں کی طرف سے کیا رد عمل ظاہر کیا گیا۔ ہم یہ جائزہ نہیں لے رہے کہ اس سانحہ کے پانچ سال بعد، دس سال بعد یا پھر آج کی دنیا میں اس پر کیا تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ اب اس ایجاد کے بہت سے پہلو سائنسی طور پر اتنے واضح ہو چکے ہیں کہ انہیں جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔ اب دنیا میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کا ڈھیر اتنا بلند ہو چکا ہے اور اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کوئی شک نہیں رہا۔ ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اُس وقت جب جنگ کا جوش ذہنوں کو مفلوج کر رہا تھا اور اخلاقیات کا جنازہ نکال رہا تھا، کس کی کیا رائے تھی؟ اس وقت جب کہ ابھی بنیادی معلومات بھی صحیح طرح جمع نہیں ہوئی تھیں کس نے ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ اس ہتھیار کے استعمال کے مستقبل پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس مضمون کے موضوع کے حوالے سے ہم سب سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ کے اُس خطبہ جمعہ کے حوالے درج کرتے ہیں جو آپؓ نے 10؍ اگست 1945ء کو ارشاد فرمایا۔آپؓ نے فرمایا : ''یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطہ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے۔ لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں۔ لیکن با وجود ان عداوتوں کے اور با وجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا …''(الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ1تا2) پھر آپؓ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ احمدی بھی اس جنگ میں بھرتی ہو کر شامل ہوئے ہیں فرمایا: ''مگر اس کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ جنگی افسروں کے ہر فعل کو خواہ وہ انسانیت کے کتنا ہی خلاف ہو۔ خواہ وہ شریعت کے کتنا ہی خلاف ہو۔ جائز قرار دیں۔اگر اس قسم کی جنگ کا راستہ کھل گیا۔ تو وہ دنیا کے لئے نہایت ہی خطرناک ہو گا۔پہلے زمانے کے لوگوں نے لمبے تجربہ کے بعد کچھ حد بندیاں مقرر کر دی تھیں۔ جن کی وجہ سے جنگیں خواہ کتنی ہی خطرناک ہوتی تھیں ایک حد پر جا کر ان کا خطرہ رک جاتا تھا۔'' (الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ2) جیسا کہ بعد میں حوالے درج کیے جائیں گے کہ اُس وقت کم ازکم وقتی طور پر یہ اطمینان محسوس کیا جا رہا تھا کہ ایٹم بم بنانے کا نسخہ اور صلاحیت صرف چند بڑی طاقتوں تک محدود رہے گی اور اس طرح ان کے ہاتھ مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا : ''جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایٹومک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کر سکےگا۔یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ خیال صرف ایٹومک بم کے ایجاد ہونے پر ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جب بندوق ایجاد ہوئی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ بندوق والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ اور جب توپ ایجاد ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ توپ والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ جب ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے۔ تو لوگوں نے گمان کیا تھا کہ ہوائی جہاز والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ جب گیس ایجاد ہوئی تھی تو لوگوں نے خیال کیا کہ گیس والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ لیکن پھروی۔ ون (V.One)اور وی۔ ٹو (V.Two)نکل آئے۔ تو لوگ سمجھے کہ وی ون اور وی ٹو والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ اس کے بعد اب اٹومک بم نکل آئے۔ یاد رکھو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے لَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُو۔ یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹومک بم مل گیا ہے۔تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتے کی طرف توجہ دلا دے۔ وہ ایسی چیز تیار کر لے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹریوں کی بھی ضرورت نہ ہو۔بلکہ ایک شخص گھر بیٹھے بیٹھے اسے تیار کر لے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹومک بم کا بدلہ لینے لگ جائے۔پس جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مہلک چیزوں کو کم کیا جائے۔ نہ کہ بڑھایا جائے۔'' پھر آپؓ نے فرمایا : ''پس میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں۔ گو حکومت اسے برا سمجھے گی۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہےکہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں …ہمارا فرض ہے خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے مجبور ہیںکہ اس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔'' ( الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ3) امریکہ کے سیاسی اور عسکری حلقوں کا فوری رد عمل سب سے پہلے جس شخص کو اس کامیاب حملے کی اطلاع دی گئی وہ امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین تھے۔ وہ اس وقت پوٹس ڈیم کانفرنس سے واپس امریکہ آ رہے تھے۔وہ بحری جہاز پر دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ جہاز کے کیپٹن نے انہیں ایک کاغذ پر لکھا ہوا پیغام پہنچایا۔ ٹرومین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس کامیابی کی خبر سن کر میں جذباتی ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جہاز میں ہر ایک کو یہ خبر سنائی اور کہا کہ یہ دنیا کی تاریخ کا ''عظیم ترین'' لمحہ ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے اعلیٰ منصب پر فائز شخص '' بھیانک ترین '' اور''عظیم ترین''میں فرق نہیں کر پا رہا تھا۔ (Truman, HS(1955). Year of Decisions 1945. Great Britian (1955) .Hodder and Stoughton.p352) اب ہم یہ موازنہ کریں گے کہ اگلے چند روز میں اُس وقت کے سیاسی قائدین، اُس وقت کے اخبارات اور تجزیہ نگار اور اُس وقت کے سائنسدان کن آراء کا اظہار کر رہے تھے۔کیا وہ اُن پیچیدگیوں اور مسائل کا اندازہ کر پا رہے تھے جو ایٹم بم کی ایجاد اور استعمال سے پیدا ہو سکتے تھے یاپھر وہ وقتی کامیابی کے نشے میں ان پہلوئوں کو فراموش کیے بیٹھے تھے۔ جب ہم ہیروشیما پر حملے کے فوری بعد کے اخبارات کا جائزہ لیتے ہیں تو بالعموم ان میں صرف شادیانے بجانے کا ماحول نظر آ تا ہے۔اس پہلو کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ اس حملے کے نتیجے میں کچھ اخلاقی حدود پھلانگی گئی ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور عورتوں کا خون بہایا گیا ہے۔ ایٹم بم کے کامیاب تجربے کے صرف تین ہفتے بعد ہیروشیما پر یہ بم گرا دیا گیا۔ظاہر ہے کہ سب کو اس بات کا علم تھا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں ریڈیائی شعائیں خارج ہوں گی اور یہ شعائیں زندہ اشیاء پر اثر انداز ہوں گی۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ ان کے انسانوں اور دوسری زندہ اشیاء پرفوری اور طویل المیعاد کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ معلوم کرنا آسان تھا۔ صرف کچھ صبر درکار تھا۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ بم کے بننے کے بعد اسے عجلت میں استعمال کیا گیا کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ مزید ایٹم بم گرانے کا اعلان اس حملے کے ساتھ ہی امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن نے بیان دیا کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک بم بھی تیار کر رہے ہیں جو جلد تیار ہوجائے گا۔اور ان بموں کے استعمال سے یہ جنگ مختصر ہو جائے گی۔اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ جرمنی نے یہ بم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ جاپان اسے بنانے میں کامیاب ہو جائے۔(Evening Star 6 August 1945)اس بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم از کم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے اصل میں جنگ مختصر کی جا رہی ہے اور دوسرے ممالک یہ ہتھیار حاصل نہیں کر پائیں گے۔اس بیان سے صرف دور کی نظر کمزور ہونے کا شک ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریڈیو پر جاپان کے لوگوں کے نام یہ پیغامات نشر ہو رہے تھے کہ جاپان کی حکومت نے اتحادیوں کے الٹی میٹم کو جس طرح حقارت سے رد کیا تھا، یہ تباہی اس کے نتیجے میں آئی ہے۔ اور اگر اب بھی انہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو اُن پر آسمان سے تباہیوں کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔سیکرٹری جنگ سٹمسن نے بیان دیا کہ حکمت عملی کے اعتبار سے ہیروشیما کی وہی منطقی اہمیت ہے جو کہ تجربات میں ایک گنی پگ کی ہوتی ہے۔ لیکن ابھی صحیح طرح اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ہیروشیما ابھی دھوئیں اور بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔(The Morning Star 7 August 1947) اس شہر میں ایک سے دو لاکھ کے درمیان لوگ جل کر مر گئے لیکن ان کے نزدیک ہیروشیما کو اسی طرح استعمال کیا گیاتھا جس طرح ایک لیبارٹری میں گنی پگ کو استعمال کیا جاتا ہے۔دوسری طرف جاپان کی حکومت یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھی کہ ہیروشیما پر کس قسم کی قیامت برپا ہوئی ہے کہ چار میل کے قطر میں تو کوئی بھی ذی روح نہیں بچی۔ پہلے وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک سے زیادہ بم گرائے گئے ہیں۔کچھ دنوں میں انہیں سمجھ آنی شروع ہوئی کہ یہ نیا بم دنیا کے طاقتور ترین بم سے دو ہزار گنا زیادہ تباہ کن ہے۔ اور بم گرانے والوں میں اس وقت جوش کا یہ عالم تھا کہ بجائے اس کے کہ اس پر کوئی تأسف ہوتا کہ اتنی بڑی تعداد میں عام شہری جھلس کر ہلاک ہوگئے ہیں حکومت کے نمائندے سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے ہیروشیما پر یہ بم کیوں گرایا ؟ اس کی جگہ ٹوکیو پر یہ بم کیوں نہیں گرایا گیا ؟ ظاہر ہے کہ ٹوکیو کئی گنا زیادہ بڑا اور گنجان آباد شہر تھا۔ وہاں پر بم گرانے کا مطلب تھا کہ کئی گنا زیادہ لوگ متاثر ہوتے۔ اور ریڈیائی شعائیں بعد میں بھی تباہی پھیلاتی رہتیں۔ حکومت کے نمائندے نے اس پر یہ جواب دیا کہ شاید یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ اگر ٹوکیو پر یہ بم گراتے تو جنہوں نے ہتھیار ڈالنے کی کارروائی کرنی تھی وہ بھی مر جاتے۔ تو پھر ہتھیار کون ڈالتا؟ سوال اور جواب دونوں سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت عقلوں پر سنگ دلی اور انتقام کا بھوت سوا ر تھا۔اتنی تباہی کے بعد بھی جاپان میں عہدیدار اور اخبارات یہ آواز بلند کر رہے تھے کہ ہم اب بھی جنگ جاری رکھیں گے اور آخری دم تک لڑیں گے۔ اور دوسری طرف امریکہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ ہمارے پاس اس جیسے اور بھی بم تیار ہیں۔ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالے تو جاپان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ (The Evening Star 7 August 1945) بم بنانے والوں کی خام خیالی جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انتباہ فرمایا تھا کہ یہ خیال ہی بچگانہ ہے کہ کوئی اور اس ٹیکنالوجی کو حاصل نہیں کر سکے گا۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس وقت اس بم کے بنانے والوں کے دل میں بھی تو یہ خیال پیدا ہوا ہوگا کہ اگر دنیا میں کسی اور ملک نے یا اس سے بھی بد تر صورت میں کسی گروہ نے یہ بم بنا لیا تو کیا ہو گا؟ امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن صاحب نے اس بارے میں تسلی دیتے ہوئے ایک اعلان جاری کیا کہ ہم نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں اس بم کے لیے درکار ایندھن یعنی یورینیم کی پیداوار کے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔اس بات کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں کہ یہ بم اور سائنس کا یہ نیا میدان صرف امن پسند اقوام کی حفاظت اور انسانیت کی خدمت کے لیے ہی استعمال ہو سکیں گے۔ (Evening Star 6 August 1945) اب تک دنیا جو کچھ دیکھ چکی ہے اس کی روشنی میں سٹمسن صاحب کے اس بیان کو بطور لطیفے کے تو پڑھا جاسکتا ہے لیکن کوئی ہوش مند اس کو صحیح نہیں سمجھ سکتا۔لیکن اُس وقت اندھے جذبات کا یہ عالم تھا کہ امریکہ کے جنرل کارل سپاٹز(Spaatz)صاحب، جو کہ یورپ میں جنگ کے دوران فضائی حملوں کی مہم کے نگران تھے، انہوں نے اس بات کاافسوس کےساتھ اظہار کیا کہ اگر ہمیں یہ بم کچھ عرصہ پہلے میسر ہوجاتا تو ہم اسے جرمنی پر گرا کے جنگ کو چند ماہ مختصر کر سکتے تھے۔ اور اس سے جو تباہی ہونی تھی اور عام شہریوں کی جو ہلاکت ہونی تھی، انہوں نے اس کا کوئی ذکر کرنے کا تکلف نہیں کیا۔اور نیوی نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے اعلان جاری کیا کہ جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے چار پانچ شہروں کو تو تباہ کرنا ہوگا۔ جب سب بغلیں بجا رہے ہوں تو بم گرانے والوں کے اہل خانہ کس طرح پیچھے رہ جاتے۔ چنانچہ جو پائلٹ صاحب یہ جہاز اڑا رہے تھے ان کی بیگم صاحبہ نے بیان داغا کہ مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ میرے خاوند کے والدین تو انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن دیکھیں انہوں نے کیا کارنامہ سرا نجام دیا ہے۔ (The Evening Star 8 Aug 1945) اُس وقت ایٹم بم کو امن قائم کرنے کا ذریعہ ثابت کرنے کے لیے اتنا زور لگایا جا رہا تھا کہ ایک سائنسدان ڈاکٹر جیکبسن نے، جو کہ ایک مرحلہ پر اس پراجیکٹ سے بھی منسلک رہے تھے، اس رائے کا اظہار کر دیا کہ ایٹم بم کےریڈیائی اثرات ستر سال تک رہ سکتے ہیں۔سائنس کے میدان میں تو ہر قسم کے خیالات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں نے اُن کے خیالات کی تردید کی لیکن اس کے ساتھ حکومتی اداروں نے انہیں فون کرکے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ (The Evening Star 9 August 1945) سوویت یونین جاپان کے خلاف جنگ شروع کرتا ہے اب جبکہ جاپان کی مزاحمت دم توڑ رہی تھی تو سب اپنا اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ سوویت یونین نے جاپان سے معاہدے توڑ دیے اور جاپان کے زیر تسلط علاقے پر بڑا حملہ شروع کر دیا۔اور اس حملے کو شروع ہوئے صرف نو گھنٹے ہی گذرے تھے کہ امریکہ نے جاپان کے ایک اور شہر ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرادیا۔ اگلے روز ایک اخبار نے یہ شہ سرخی شائع کی کہ ''ساری چھت جاپان پر گر گئی''۔ اور جنرل سپاٹز نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ہیروشیما کی نسبت ناگاساکی میں گھر قریب قریب تعمیر کیے گئے تھے، اس لیے امید ہے کہ نقصان زیادہ ہوا ہوگا۔ظاہر ہے کہ گھروں کو عسکری ٹارگٹ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ تمام اخلاقی اور جنگی اصول ترک کر کے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جائے۔ (Monitor Leader 9th August 1945) جاپان ہتھیار ڈالتا ہے کہا جاتا ہے کہ ناگاساکی کے بم کے نتیجے میں 75000 شہری چند لمحوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔اور سوویت یونین کے حملہ نے اس کی رہی سہی امیدوں کو ختم کردیا تھا۔اب جاپان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا کہ ہتھیار ڈال دے اور اتحادی ممالک کی شرائط تسلیم کر لے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپان کی افواج نے دوران جنگ مفتوحہ علاقوں پر بہت مظالم کیے تھے۔ لیکن کسی بھی پہلو سے ان دو ایٹمی حملوں کا اخلاقی جواز موجود نہیں تھا۔ جاپان نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا کہ ہیروہیٹو کو بادشاہت سے معزول نہ کیا جائے۔ ایٹم بموں کے نتیجے میں جس طرح لاکھوں افراد خاک میں تبدیل ہو گئے تھے، وہ پڑھ کر بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اُس وقت اخبارات نے جاپان کی شکست پر کارٹون بنا کروالہانہ خوشی کا اظہار کیا۔اخبار مانیٹر لیڈر نے اپنی 10؍اگست کی اشاعت میں ایک بڑا کارٹون شائع کیا جس میں جاپان کے نقشے کو ایک عظیم دھماکے کی زد میں دکھایا گیا تھا اور سمندر میں اس کے جہاز جلتے ہوئے دکھائے تھے۔ اور اوپر جلی حروف میں لکھا تھا "FINIS"۔اسی روز اخبار ایوننگ سٹار نے یہ کارٹون شائع کیا کہ جاپان کے وزیر اعظم سوزوکی نے ہاتھ میں ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کی اور سوویت یونین کے حملے کی خبر پکڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے ماتحت کو کہہ رہے ہیں کہ کوڑے دان میں سے جلدی سے اتحادیوں کا وہ الٹی میٹم نکالو جو کہ انہوں نے پوٹس ڈیم سے جاری کیا تھا۔ مانیٹر لیڈر نے اپنی 11؍ اگست کی اشاعت میں ایک جاپانی قیدی کی برہنہ حالت میں نہاتے ہوئے تصویر شائع کی۔ اس پر الفاظ لکھے تھے All Washed Up یعنی سب کچھ دھل گیا۔ اور سیاسی حلقوں میں سخت دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک سینیٹر نے یہ بیان دیا کہ میں تو جاپان والوں کو ایک انچ بھی دینے کو تیار نہیں۔بھاڑ میں گیا ان کا بادشاہ۔ اسے تو پائوں کی انگلی سے باندھ کر الٹا لٹکا دینا چاہیے۔ایک اور سینیٹر نے یہ بیان دیا کہ جاپان کے بادشاہ سے وہی سلوک ہونا چاہیے جو کہ ہٹلر سے ہوا تھا۔ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی اور اس کی لاش کو جلا دیا گیا تھا۔بہر حال جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اورہیرو ہیٹو کو بطور بادشاہ برقرار رکھا گیا لیکن یہ شرط لگائی گئی کہ وہ اتحادیوں کی فوجی کمان کے ماتحت ہوں گے۔ (The Evening Star 10 Aug 1945) یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جب یہ اظہار مسرت ہو رہا تھا اور تمسخر کیا جا رہا تھا، اُس وقت موت کا رقص ختم نہیں ہواتھا۔ بلکہ تابکاری کے اثرات کی وجہ سے روزانہ دو ہزار سے زائد لوگوں کی اموات ہو رہی تھیں۔ ان میں سے اکثر کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ عام شہری تھے۔ایک خبر کے مطابق اس طرح دو ہفتہ میں تیس ہزار کے قریب لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔اور جو اس علاقے میں ان لوگوں کی مدد کے لیے جا رہے تھے ان میں سے کئی لوگوں کو خون کی بیماریاں شروع ہو گئیں۔ (The Evening Star 24 August 1945) اُس وقت ان حملوں کی کس نے مذمت کی؟ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایٹم بم گرانے کی مذمت فرمائی تھی، اُس وقت ہر طرف سے یہی صدا بلند ہو رہی تھی کہ یہ بم تو جنگ کو مختصر کرنے کے لیے گرائے گئے ہیں۔ جاپان سے باہر کون ان کی مذمت کرنے کو تیار تھا؟ ان ہفتوں میں وِ یٹیکن کے ایک اخبار میں یہ تبصرہ شائع ہوا کہ اس بم کو نہ ہی بنایا جاتا تو بہتر تھا۔ لیکن یہ اخبار کی طرف سے تبصرہ تھا پوپ پائس XIIکی طرف سے مذمت نہیں تھی۔ اس وقت بڑی طاقتوں کی طرف سے نفرت کا اتنا طوفان اُ ٹھایا جا رہا تھا کہ ان وحشیانہ حملوں کی کوئی مذمت نہیں کر رہا تھا۔ بر صغیر کی تاریخ میں گاندھی جی نے عدم تشدد کے پرچار میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔ اس وقت ستمبر 1945ء میں لندن کے ٹائمز نے گاندھی جی سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے ایٹم بم کے بارے میں کوئی بیان دیا ہے تو انہوں نے ایک سطر میں یہ جواب دیا: ''NEVER MADE ANY PUBLIC STATEMENT ABOUT ATOMIC BOMB''. یعنی میں نے ایٹم بم کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ 24؍ اکتوبر 1945ء کو گاندھی جی نے ایک خط میں تحریر کیا : ''I kept your letter with me thinking what I should do. The more I think the more I feel that I must not speak on the atomic bomb.'' ترجمہ : میں نے تمہارا خط اپنے پاس رکھا اور سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں جتنا زیادہ سوچتا ہوں مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ (The Collected Works of Mahatma Gandhi Vol 88 p 742) اس وقت تو سب خاموش رہے لیکن کچھ ہی عرصہ میں اتحادی ہائی کمان میں شامل افراد کی طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ جاپان پر بلاوجہ ایٹم بم برسائے گئے۔ اس سے پہلے ہی جاپان ہتھیار ڈالنے کا عندیہ دے چکا تھا۔ اور اس سلسلہ میں بات چیت آگے بڑھانا چاہتا تھا۔یہ نظریہ بھی پیش کیا گیا کہ ایٹم بموں کی بجائے سوویت یونین کی جنگ میں شمولیت نےزیادہ دبائو ڈالا تھا۔ جو لوگ اُس وقت خاموش تھے بعد میں یہ اظہار کرنے لگے کہ یہ ایک ظالمانہ اور غیر ضروری فعل تھا۔خود صدر ٹرومین کے چیف آف سٹاف William Leahyنے اسے غیر انسانی فعل قرار دیا۔نیوی کے Fleet Adm. Chester Nimitzنے بعد میں بیان دیا کہ بس ایک کھلونا ہاتھ آ گیا تھا جسے جاپانیوں پر چلا دیا گیا۔آئزن ہاور نے یورپ میں اتحادی افواج کی قیادت کی تھی اور وہ بعد میں امریکہ کے صدر بھی بنے۔انہوں نے کہا جب مجھے اس فیصلے کا بتایا گیا تو میں نے اُس کی مخالفت کی تھی کیونکہ اُس وقت تک جاپان جنگ ہار چکا تھا اور یہ غیر ضروری تھا۔مختصر یہ کہ اب ماہرین کی بڑی تعداد کا یہی خیال ہے کہ صرف سوویت یونین کی طرف سے اعلان جنگ اور یہ اعلان کہ جاپان کی بادشاہت قائم رکھی جائے گی کافی تھا۔ کیونکہ جاپان سوویت یونین کی وساطت سے جنگ ختم کرنے کا عندیہ دے چکا تھا۔ (https://www.thenation.com/article/archive/why-the-us-really-bombed-hiroshima/accessed on 1st Aug 1945) اس سانحہ کے چار روز بعد ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کئی خطرات کی نشاندہی فرمائی تھی۔ اب اس انتباہ کے درست ہونے کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ ایٹم بم پر ایک دو ممالک کی اجارہ داری نہیں ہے۔ 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اس وقت چودہ ہزار کے قریب ایٹم بم موجود ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد بم روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔ 6490؍جوہری بموں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے اور 6185؍بموں کے ساتھ امریکہ کا دوسرا نمبر ہے۔ اور ان دونوں ممالک نے ماضی میں ایک معاہدے کے تحت اس تعداد میں تدریجی کمی کی ہے۔اس کے بعد فرانس کے پاس تین سو، چین کے پاس 290؍اور برطانیہ کے پاس دو سو جوہری بم ہیں۔اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور پاکستان کے پاس 160؍جوہری بم موجود ہیں۔ بھارت کے اسلحہ خانے میں 140؍ اسرائیل کے پاس نوے اور شمالی کوریا کے پاس تیس جوہری بم ہیں۔اس کے علاوہ بعض ایسے ممالک ہیں جنہوں نے ایٹم بم تیار کرنے کی سمت میں کام شروع کر کے اسے روک دیا۔ دنیا میں ان کی تعداد کو روکنے کے لیے بہت سے معاہدے کیے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے ایسی ڈرائنگ بھی برآمد ہوئی ہیں، جن سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب اُس ابتدائی ایٹم بم سے بہت زیادہ خطرناک ہائیڈروجن بم اور دوسری خطرناک صورتیں سامنے آ چکی ہیں۔اس صورت حال میں عقل یہی نتیجہ نکال سکتی ہے کہ دنیا کو حضرت مصلح موعود ؓکی ان ہدایات کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ورنہ بموں کا یہ انبار انسانیت کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار بنا رہے گا۔
صوبے کی بد امنی میں بھارت ملوث ہے  آئی جی بلوچستان مدارس کا ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے 2014میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی آئی ہے انٹرویو پشاور میں انسداد پولیو مہم شروع، موٹر سائیکل چلانے پر پابندی پولیس نے کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں چھاپوں کے دوران دو سو ساٹھ مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا بلوچستان نیشنل پارٹی کا سریاب روڈ میں گرفتاریوں کے خلاف پولیس تھانے کے سامنے احتجاج کراچی :ملیر ، منگھو پیر مقابلے میں گینگ وار سمیت انتہائی مطلوب 9 ملزم ہلاک قمر زمان کائرہ کے بھائی کا موٹر سائیکل سوار پرتشدد ، نشہ کی حالت میں تھے : نوجوان کا الزام مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس کل طلب کر لیا گیا ' ذرائع چودہ رکنی بورڈ سینیٹ کے انتخابات میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے درخواستوں کا جائزہ لے گا کراچی :شہریوں نے تشدد کر کے دو ڈاکوئوں کو مار ڈالا ، ایک کی نعش کو آگ لگا دی راولپنڈی، گیس لیکج سے گھر میں دھماکہ، چار افراد جاں بحق کراچی  ملیر کے قریب رینجرز کے ساتھ مقابلے میں سنگین وارداتوں میں ملوث لیاری گینگ وار کے 5 کارندے ہلاک مجرمان کراچی کے مختلف علاقوں میں جرائم کے اڈے بھی چلا رہے تھے  ترجمان رینجرز حکومت نے پیٹرولیم قیمتوں کی مد میں مکمل ریلیف عوام تک منتقل کرنیکی بجائے 28ارب کا ڈاکہ ڈال لیا ' جمشید اقبال چیمہ حکمران جوڈیشل کمیشن کے قیام سے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں ،تحریک انصاف جلد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریگی داعش پاکستان کے حوالے سے اہم مسئلہ نہیں نہ ہی دولت اسلامیہ بڑا خطرہ ہے سرتاج عزیز داعش پاکستان کے حوالے سے اہم مسئلہ نہیں نہ ہی دولت اسلامیہ بڑا خطرہ ہے انٹرویو ڈیرہ بگٹی میں سوئی گیس کی 24انچ قطر کی پائپ لائن دھماکے سے تباہ  کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی
سعودی 'شہباز' کویت کی فضائی نمائش میں کرتب دکھاتے ہوئے: تصاویر کویت کے بین الاقوامی ایئرشو میں سعودی عرب کے 7 فالکن طیاروں کی شمولیت پہلی اشاعت: 16 جنوری ,2020: 12:00 دن GST آخری اپ ڈیٹ: 16 جنوری ,2020: 08:23 دن GST کویت میں ہونے والی بین الاقوامی فضائی نمائش برائے سال 2020ء میں سعودی عرب کے سات طیارے اپنے تکنیکی اور فضائی عملے کے ساتھ شریک ہیں۔ یہ نمائش کویت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پرجاری ہے جہاں اڑانیں بھرنے والے دوسرے ممالک کے طیاروں میں سعودی عرب کے فالکن طیارے بھی شامل ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کویت میں ہونے والے اس بین الاقوامی ایئرشو میں جس مہارت کےساتھ سعودی ہوابازوں نے شہبازوں کی طرح طیاروں کے کرتب پیش کیے ہیں، اس نے سعودی رائل ایئر فورس کے پائلٹوں کی پیشہ ورانہ مہارت ثابت ہوگئی ہے۔ برطانوی ساختہ 'ہاک' طیاروں کو عموما ہوابازوں کی تربیت اور جنگی مشقوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 'ہاک' پر تربیت پانے کے بعد پائلٹوں کو باقاعدہ طور پرفائٹراسکواڈرن میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان طیاروں پر سعودی عرب کی نمائندگی کے لیے پیش کرنے سے قبل مملکت کے سبز وسفید رنگ کے پرچم کا پینٹ کیا گیا اور اس کے بعد انہیں کویت میں ہونے والی نمائش میں پیش کیا گیا۔ سعودی فالکنز ٹیم کے کپتان لیفٹیننٹ کرنل عبد الرؤف السلامی نے سعودی ہوا بازوں کی اعلی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی اور کہا کہ مملکت کے فالکن طیاروں کے ہوابازوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں وطن کی سرحدوں کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔