id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
8
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
040514_israel_gazahomes_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040514_israel_gazahomes_am
غزہ میں گھروں کی تباہی کا حکم
اسرائیلی ریڈیو کے مطابق فوج کو غزہ کی پٹی میں رفاہ میں واقع سینکڑوں گھروں کو مسمار کرنے کے اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔
رفاہ میں گزشتہ تین روز کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں بارہ فلسطینی اور پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ریڈیو کے مطابق گھروں کی مسماری جنوبی غزہ اور مصر کے درمیان بفر زون کو وسیع کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ اسرائیلی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق ’نکل مکانی کرنے والے لوگوں کے لئے گھروں کی فراہمی کی ذمہ داری‘ اسرائیل پر ہو گی۔
030916_sexhyd_ali_mateen
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/09/030916_sexhyd_ali_mateen
جنسی امراض کی روک تھام
تحریر: علی حسن، بی بی سی، حیدراباد
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں جنسی تعلقات کے نتیجے میں ایچ آئی وی اور ایڈز جیسے امراض سے متعلق آگاہی کے لئے ایک دو سالہ منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے تعاون سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے لئے حیدرآباد چنا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حیدرآباد کے بازارِ حسن کی پیشہ ور جسم فروش عورتوں کو محفوظ جنسی تعلقات کے سلسلے میں تربیت دی جائے گی۔ منصوبے کے پروجیکٹ سپروائزر ڈاکٹر شمس ایچ صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ’ پیشہ ور جسم فروشوں میں وہ ایک ایسا گروپ ہے جس کا رویہ نہایت خطرناک ہے۔ پاکستان کے اندر ایڈز کے مریض ایک فی صد سے کم ہیں۔ جسم فروش خواتین میں جنسی بیماریاں ہوتی رہتی ہیں کیونکہ انہیں معلومات سے آگاہی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم انہیں احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتاتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کاروبار پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ڈاکٹر شمس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تربیت کے دوران جسم فروش عورتوں کو غیر فطری جنسی تعلقات کے مضر رساں نتائج سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ اس منصونے کے تحت ایک خاتون ڈاکٹر عشرت شاہ کو بھی مقرر کیا گیا ہے جو روزانہ چھ گھنٹے ان خواتین کے لئے کلینک چلانے کے ساتھ ساتھ جسم فروش عورتوں کی مشاورت کے فرائض بھی انجام دیں گی۔ ڈاکٹر شاہ ان عورتوں میں موجود بیماریوں اور ان کے تدارک کے سلسلے میں بتاتی ہیں ’ خاص طور پر یہ جبکہ ان عورتوں کا چوبیس گھنٹے کا کام ہے تو انہیں اپنی جان بھی بچانی ہوتی ہے لہذا ہم ان کو مختلف مشورے دیتے ہیں‘۔ منصوبے کے آغاز پر ان خواتین نے اسے خوش آمدید کہا ہے اور بازار ہی کی خواتین نے آگے بڑھ کر اپنی رضاکارانہ خدمات بھی پیش کی ہیں۔ کرن ایسی ہی خاتون ہیں، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پچاس فی صد لوگ سمجھ ہی نہیں پائے کہ یہاں پر کلینک کیسے اور کیوں کھلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کچھ لوگوں کو ڈر بھی لگ رہا ہے جبکہ کچھ ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں خود بھی ان کا ساتھ دے رہی ہوں۔ انہوں نے صحت کے لئے یہ اچھا ذریعہ بنایا ہے‘۔ حیدرآباد میں جہاں کبھی جسم فروشی کا کاروبار بڑے عروج پر تھا، اب تو سمٹ کر بہت محدود ہوگیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر شمس کے مطابق جتنے بھی لوگ ہیں انہیں کم از کم موذی بیماریوں سے آگاہ تو کیا جائے تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں۔
041025_reserves_khaliq_sq
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/10/041025_reserves_khaliq_sq
زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار
پاکستان کے زرمبادلہ کے بارہ ارب کے ذخائر کئی سالوں بعد پہلی دفعہ دباؤ کا شکار ہیں۔ پیسہ تیزی کے ساتھ ملک سے باہر جا رہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قیمت میں کمی جبکہ افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیپیٹل فلائیٹ کا سب سے بڑا سبب خلیجی ممالک میں سرمایہ کاری ہے۔ متعدد کمپنیاں جائیداد میں سرمایہ کاری کی سکیموں کے ذریعے خلیجی ممالک میں پیسہ کھینچ رہی ہیں۔
اس رجحان کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بہت محدود ہیں اور بچت سکیموں میں منافع کی شرح بھی کم ہے۔ فیملی ویزوں اور یقینی منافع جیسی مراعات کے ذریعے غیر ملکی کرنسی خلیجی ریاستوں میں برآمد کی جا رہی ہے۔ خلیجی کمپنیاں اس سلسلہ میں مختلف ٹی وی چینلز پر اشتہارات دے رہی ہیں۔ سٹیٹ بنک کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق صرف کراچی کے ہوائی اڈے سے روزانہ دس سے پندرہ ملین ڈالر کی غیرملکی کرنسی کسٹم حکام کی ملی بھگت سے دبئی سمگل کی جاتی ہے۔ یہ کاروائی ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں سے بھی ہو رہی ہے اور چیکنگ سخت ہونے کی صورت میں کشتیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں سنٹرل بورڈ آف ریوینیو کے چیرمین عبداللہ یوسف نے اپنی نگرانی میں کراچی ائیرپورٹ پر کارروائی کے دوران تقریباً چار ملین ڈالر کی کرنسی سمگل کرنے کے کوشش ناکام بنائی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق پاکستانی روپے کی قیمت میں گزشتہ چار ماہ کے دوران تقریباً چار فیصد کمی ہوئی جس کی سب سے بڑی وجہ غیر ملکی کرنسی کی غیرقانونی منتقلی ہے۔ جولائی کے مہینے میں امریکی ڈالر 57.50 روپے میں دستیاب تھا جبکہ اب کی کی قیمت 61.10 روپے ہو چکی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان سے نو سو ملین ڈالر سے زائد کی غیر ملکی کرنسی جائیداد میں سرمایہ کاری کی غرض سے متحدہ عرب امارات میں سمگل کی جا چکی ہے۔ قانونی طور پر ایک مسافر دس ہزار کی رقم ساتھ لے کر جا سکتا ہے۔کرنسی کا کاروبار کرنے والے اس قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئےدن میں ایک سے زیادہ دفعہ خلیجی ریاستوں کے سفر کر سکتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق سٹیٹ بنک کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے حکومتی سطح پر اس معاملہ کو اٹھایا ہے۔ لیکن پاکستان کو خلیجی حکومتوں سے خاطر خواہ تعاون کی امید نہیں ہے کیونکہ یہ حکومتیں خود سرمایہ کاری کی سکیموں کا اعلان کرتی ہیں۔حکومت نے اس معامہ پر آئی ایم ایف اور امریکہ سے بھی بات چیت کی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ پاکستانی روپے کی قیمت میں گزشتہ چار ماہ میں تقریباً چار فیصد کی کمی آ چکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی برآمد ہے۔ تاہم عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور مشینری اور پانی میں کمی کی وجہ سے ایندھن کی عالمی طلب میں اضافہ بھی روپے کی قیمت کو متاثر کر رہا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے تجارتی خسارہ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر زر مبادلہ کے ذخائر موجودہ مالی سال میں بارہ ارب سے نیچے نہ آئے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔ حکومت کے معاشی امور کے مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق اس سال درآمدات، تیل کی قیمتوں اور تجارتی خسارہ میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے تاہم خطرے کی کوئی بات نہیں کیونکہ مجموعی اقتصادی صورت حال، زرمبادلہ کے ذخائر اور معیشت کے اہم خدوخال کافی حوصلہ افزاء ہیں۔ کئی دوسرے ماہرین کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران روپے کی قیمت میں مزید کمی ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر بارہ ارب ڈالر کی نفسیاتی حد سے نیچے ضرور آئیں گے۔غیر ملکی کرنسی کی برآمد کے ملکی معیشت پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔
060304_guantanamo_detainees
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/03/060304_guantanamo_detainees
گوانتانامو: قیدیوں کی شہادت
امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے پہلی بار گوانتانامو کے قیدیوں کے نام اور قومیتیں شائع کی ہیں۔ آزادئ اطلاعات کے قانون کے تحت امریکی خبررساں ایجنسی اے پی کی درخواست پر پینٹاگون نے چھ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویزات شائع کی ہیں ان کا مطالعہ کرنے میں ہفتوں لگ سکتا ہے جس کے بعد ہی قیدیوں کی شناخت واضح ہوگی۔
بعض اوقات ٹرائیبونل میں شہادت دینے والے قیدی کا نام صرف ’قیدی‘ لکھا ہے۔ کچھ قیدیوں کے نام جن کی شناخت سماعت کے دوران ابھرکر سامنے آئی ہے حسب ذیل ہیں: فیروز علی عباسیفیروز علی عباسی برطانوی شہری ہیں۔ انہوں نے تحریری شکایت کی ہے کہ جب وہ عبادت کررہے تھے تو ان کے سامنے ملٹری پولیس کے ارکان نے جنسی روابط قائم کیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جیل کے محافظوں نے انہیں ’سؤر‘ کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جو کہ اسلام میں منع ہے۔ فیروز علی عباسی نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں غلط انفارمیشن دی گئی تاکہ وہ شمال یعنی امریکی کی جانب رخ کرکے عبادت کریں، مکہ کی جانب نہیں دی گئی۔ وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی قیدی کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن انہیں ایک امریکی کرنل نے کہا: ’میں بین الاقوامی قوانین کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں دوبارہ بین الاقوامی قانون کا لفظ نہیں سننا چاہتا۔‘ قاری احتشام اللہ ان کا کہنا ہے کہ پشتون معاشرے میں ’یہ بری بات ہے اگر آپ چیلنج قبول نہ کریں۔‘ انہوں نے کہا ہے کہ دشمن امریکہ نہیں تھا بلکہ ’فارسی بولنے والے لوگ جن کے پشتو بولنے والے لوگوں سے اختلافات ہیں۔‘ عبدالحکیم بخاریعبدالحکیم بخاری کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان نے اس لیے قید کردیا کیوں کہ طالبان مخالف رہنما احمد شاہ مسعود کی تعریف کرنے کی وجہ سے انہیں مخبر سمجھا جانے لگا۔ گوانتانامو کی جیل میں حالات کے بارے میں انہوں نے کہا: ’یہاں قیدی جنت میں ہیں۔ امریکی لوگ بڑے اچھے ہیں۔ حقیقت میں۔ وہ ہمیں تین وقت کھانا دیتے ہیں، پھلوں کا رس اور سب کچھ۔‘ پھر عبدالحکیم بخاری نے کہا کہ وہ واپس گھر جانا چاہتے ہیں اپنی فیملی سے ملنے۔ محمد شریفانہوں نے انکار کیا ہے کہ وہ طالبان کے گارڈ رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں پکڑ لیا اور کام کرنے کے لیے مجبور کیا اور انہیں ان کی بات ماننی پڑی کیوں کہ ڈر تھا کہ ان کے گھروالوں پر حملہ کیا جائے گا۔ محمد شریف نے بار بار اپنے خلاف شواہد کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’کوئی شواہد نہیں ہیں۔۔۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے، مجھے معلوم ہے کہ (میرے خلاف) کوئی شواہد نہیں ہیں۔‘ عبدالغفارچین کی اُگیور نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان ’میں تھے تاکہ چینی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے کچھ تریبت حاصل کرسکیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ سے انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ عبدالغفار کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان میں پکڑ کر امریکی حکومت کو ’فروخت‘ کردیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چینی حکومت ان کی فیملی اور ان کے لوگوں کو اذیت دے رہی ہے۔ ظاہر شاہان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں رائفل اس لئے تھی کیوں کہ ایک خاندانی رنجش کی وجہ سے اپنے کزن سے تحفظ کرسکیں۔ ظاہر شاہ نے بتایا ہے کہ انہوں نے امریکی افواج کے خلاف لڑائی نہیں کی ہے۔ انہوں نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ ان کے پاس راکٹ سے داغا جانے والا گرینیڈ لانچر تھا۔ ’ہم آر پی جی سے کیا کرتے؟ میں نے افغانستان میں صرف ایک کام کیا: کاشتکاری۔ ہم گیہوں، مکئی، سبزیاں اور تربوز کی کاشت کرتے تھے۔‘ سیف اللہ پراچہتھائی لینڈ سے گرفتار کرکے انہیں گوانتانامو بھیجا گیا۔ وہ کروڑ پتی تاجر ہیں اور نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دو بار اسامہ بن لادن سے ملاقات کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ سیف اللہ پراچہ نے انکار کیا ہے کہ انہوں نے القاعدہ کی مالی مدد کی یا اسامہ بن لادن کے لیے مترجم کا کام کیا۔ ان کا اس الزام سے بھی انکار ہے کہ انہوں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد پہنچانے کی منصوبہ سازی کی۔ انہیں بتایا کہ وہ اپنا کیس امریکی عدالتوں میں پیش کرسکیں گے۔ انہوں نے ایک بار کہا: ’میں یہاں سترہ ماہ سے ہوں، ایسا کب ہوگا (کہ عدالت تک رسائی ہوگی) ، جب میں مرجاؤں گا؟‘ میش ارشد الرشیدانہوں نے بتایا ہے کہ وہ عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود سے لڑنے کے لیے افغانستان گئے۔ ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری ٹریننگ القاعدہ کی ٹریننگ سمجھی جائے گی۔ میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا ہے: ’میں طالبان سے تعلق نہیں رکھتا۔ میں ایک صرف ایک شخص ہوں، ایک مددگار۔ میں دوستم کے خلاف لڑنے گیا تھا۔‘ ٹرائیبیونل کے سامنے دیگر شواہداتکچھ ایسے قیدیوں نے جن کی شناخت نہیں کی گئی ہے بتایا کہ ٹرائیبیونل کے ارکان میں سے تین امریکی فوجی تھے۔ ایک نے کہا: ’امریکی فوج میری مخالف ہے۔۔۔ اگر میرا مخالف میرا جج ہے۔۔۔ تو مجھے انصاف کی امید نہیں کرنی چاہیئے۔‘ ٹرائیبیونل کے سربراہ نے کہا: ’آپ یا آپ کے بغیر یہ سماعت جاری رہے گی۔ آپ چاہیں تو اس میں حصہ لیں یا نہ لیں۔‘ دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ مشال عواد سیاف الحباری نامی ایک شخص نے خودکشی کرنے کی کوشش کی جس سے ’دماغ کافی زخمی ہوگیا کیوں کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی۔‘ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ صوفیان حیدرباش محافظوں کے حکم کے خلاف جیل کی ’اپنی کوٹھری میں ننگے کھڑے رہے۔‘ دستاویز کے مطابق، ’قیدی کا تحریر شدہ رویہ، طبی تاریخ، سائکلوجیکل (ذہنی امداد کی) سروسز سے فائدہ اٹھانے کی (ناکام) کوششوں سے لگتا ہے کہ اس قیدی کی حالت بدتر ہی ہورہی ہے۔‘
world-51870917
https://www.bbc.com/urdu/world-51870917
اٹلی میں کورونا وائرس کا خوف: ’سب سنسان ہے اور ایک خوف کی فضا ہے‘
بریشیا کی گلیاں کرفیو زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ نہ سڑک پر کوئی ذی روح دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی دکان کھلی ہے لیکن یہ منظر صرف شمالی اٹلی کے اس قصبے کا نہیں بلکہ دو روز سے اس ملک کا کوئی بھی بڑا شہر ہو یا دیہی علاقہ ہر جانب یہی منظر دکھائی دے رہا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے براعظم یورپ کورونا وائرس کا نیا مرکز قرار دیا ہے اور یورپ میں اٹلی وہ ملک ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اطالوی حکام نے اس صورتحال میں پورے ملک میں ’لاک ڈاؤن‘ کا حکم دیا ہوا ہے جس سے ملک کی چھ کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اٹلی میں مقیم ہے اور قیصر شہزاد بھی ان میں سے ہی ایک ہیں۔ قیصر اسی بریشیا شہر کے باسی ہیں جہاں گذشتہ دنوں ایک پاکستانی کی کورونا سے ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ کورونا وائرس: اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 366 ہو گئی پہلے سے بیمار افراد کورونا وائرس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ ٹیلیفون پر بی بی سی اردو کی حمیرا کنول سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اٹلی میں مقیم ہیں لیکن کورونا کے پھیلاؤ کے بعد جو صورتحال ہے ایسا انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا تھا ’ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے، ہاں سنتے تھے کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔ یہاں بسنے والے پرانے لوگ بتاتے ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘ قیصر کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایئرپورٹ، بازار سب کچھ بند اور سڑکیں سنسان ہیں۔ باہر جانا ممنوع ہو گیا ہے اور ایک خوف کی فضا ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ اپنے خاندان کے ساتھ گھر کے اندر رہیں۔‘ اٹلی میں مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے ان کے مطابق ’ہماری بہتری کے لیے اعلان کر دیا ہے کہ آپ گھر سے بلاضرورت باہر نہیں نکل سکتے۔ آپ مارکیٹ جا سکتے ہیں یا نوکری پر جا سکتے ہیں لیکن احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔ قیصر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد علاقے میں بینکوں کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی چند بڑی دکانیں اور فارمیسی ہی کھلی ہیں اور چھوٹی مارکیٹیں اوردیگر سب کچھ بند ہے۔‘ قیصر بطور الیکٹریشن کام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے ’ہر فیکٹری اور ہر دفتر میں لکھ کر لگا دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔ آپ گھر سے باہر جائیں گے بھی تو کسی بھی دکان یا دفتر میں ایک وقت میں ایک بندہ داخل ہو سکتا ہے اور ایک میٹر فاصلہ بھی لازمی ہے۔‘ ان کے مطابق اس کے علاوہ کسی بھی دفتر اور مارکیٹ میں داخل ہوتے وقت لوگوں کی سکریننگ بھی کی جاتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ جو لوگ اب بھی کام پر جا رہے ہیں انھیں ان کے اداروں کے مالکان کی جانب سے خط دیے گئے ہیں اور پوچھ گچھ پر وہ یہ خط دکھا کر ہی جا سکتے ہیں۔ اٹلی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 17 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس سے 1244 افراد ہلاک ہو چکے ہیں قیصر کا کہنا ہے ’سکول اور یونیورسٹیاں تو دو ہفتوں سے بند ہیں اور والدین کہتے ہیں کہ اب بچے گھر میں رہ کر اکتا چکے ہیں کیونکہ نہ تو اب کوئی ریستوران کھلا ہے نہ سینما گھر اور نہ ہی کوئی پارک ہر سو ہو کا عالم ہے۔‘ شمالی اٹلی میں ہی بلونیا کے علاقے میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ مرکزی بلونیا میں مین چینترو کے علاقے میں سات برس سے مقیم پاکستانی شہری عاطف مہدی بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’یہاں چرچ، سکول، مسجدیں سب بند پڑا ہے۔‘ عاطف کا کہنا تھا کہ وہ دودھ پیک کرنے کے کارخانے میں کام کرتے ہیں جہاں ان حالات میں بھی کام ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا ’ابھی تو ہماری فیکٹری کھلی ہے لیکن اب ہمارے کام کے اوقات کم کر کے صبح چھ سے شام چھ تک کر دیے گئے ہیں۔‘ ریسٹورنٹس میں بھی ہو کا عالم ہے ان کا کہنا تھا ’بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے۔ پندرہ، بیس دن سے یہ حالات ہیں۔ پہلے رات بارہ سے دو بجے تک مارکیٹس اور کاروبار کھلا ہوتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی اس لیے اب انھوں نے اوقات کار بدل دیے ہیں اور کہا ہے کہ کوئی خلاف ورزی کرے گا تو اسے جرمانہ ہو گا۔‘ عاطف کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے پر250 یورو جرمانہ اور قید بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق اگر انھیں بازار تک بھی جانا ہو تو اس کے لیے فارم پر کرنا پڑتا ہے۔ ’یہاں باہر مارکیٹ جانے کے لیے انٹرنیٹ سے فارم ڈاون لوڈ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر اپنا نام، گھر کا پتا، کام کی نوعیت لکھنی ہوتی ہے۔ راستے میں پولیس چیک کر سکتی ہے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ان کے علاقے میں اشیائے خوردونوش اور ماسکس کی بھی قلت ہو گئی ہے۔ ’ماسک کے بغیر باہر نہیں جا سکتے اور ماسک مل تو رہے ہیں لیکن تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اسی طرح میں نے نوٹ کیا ہے کہ کل شام جب میں مارکیٹ گیا تو بہت سی سبزیاں جیسے شملہ مرچ اور پالک وغیرہ غائب تھیں۔‘
070917_lee_hatrick_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2007/09/070917_lee_hatrick_as
بریٹ لی کی ہیٹ ٹرک، انگلینڈ کی ہار
آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں آسٹریلوی تیز بولر بریٹ لی نے آئی سی سی ورلڈ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کپ کی پہلی ہیٹ ٹرک بنائی ہے۔ انہوں نے تین لگاتار گیندوں پر بنگلہ دیش کے تین کھلاڑی آؤٹ کر کے یہ کارنامہ انجام دیا۔
بنگلہ دیش نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر 123 رنز بنائے جو آسٹریلیا نے 13.5 اوورز میں صرف ایک وکٹ گنوا کر پورے کر لیے اور اس اس طرح یہ میچ نو وکٹ سے جیت لیا۔ بریٹ لی کا شکار بننے والوں میں ثاقبل، مشرفے مرتضیٰ اور الوک کپالی تھے۔ بنگلہ دیش کی طرف سے تمیم اور آفتاب ہی قابلِ ذکر رنز بنا سکے۔ انہوں نے بالاترتیب 32 اور 31 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کی طرف سے گلکرسٹ اور ہیڈن نے اننگز کا آغاز کیا۔ جب سکور ایک 104 پر پہنچا تو گلکرسٹ رن آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے 28 گیندوں پر ایک چوکے اور چار چھکوں کی مدد سے 43 رنز بنائے۔ ہیڈن نو چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے 73 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ انگلینڈ بمقابلہ جنوبی افریقہ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں سپر ایٹ کے مقابلوں کے ابتدائی میچ میں جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کو 19 رنز سے شکست دی ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں آٹھ وکٹوں کے نقصان پر صرف 154 رنز بنا سکی۔ لیکن انگلینڈ کی ٹیم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جب سکور 28 پر تھا تو انگلینڈ کے تین وکٹ گر چکے تھے۔ جس میں پیٹرسن رن آؤٹ اور کالنگوڈ بنا کوئی رن بنائے پویلین واپس جا چکے تھے۔ انگلینڈ کی طرف سے قابلِ ذکر سکور شاہ (36) اور پرائر (32) کا تھا۔
040301_oscar_awards_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/03/040301_oscar_awards_yourviews
لارڈ آف دی رِنگز اور آسکر ایوارڈز
لارڈ آف دی رِنگز ہالی ووڈ میں فلمی دنیا کی مقبول ترین تقریب آسکر اعزازات پر حاوی رہی۔ لارڈ آف دی رنگز نے گیارہ ایوراڈز حاصل کیے۔ ماضی میں صرف بین ہر اور ٹائٹانِک کو گیارہ ایوارڈز ملے ہیں۔ بعض شائقین کا کہنا ہے کہ کچھ اچھی فلمیں جیسے ماسٹر اینڈ کمانڈر، لاسٹ اِن ٹرانسلیشن، مِسٹک ریور اور کولڈ ماؤنٹین کو لارڈ آف دی رِنگز کی وجہ سے نقصان ہوا۔
کیا آپ نے یہ فلمیں دیکھی ہیں؟ کیا آپ نے آسکر اعزازات کی تقریب دیکھی؟ اس تقریب میں ملنے والے اعزازات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا لارڈ آف دی رِنگز گیارہ اعزازات کی مستحق تھی؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔ نوید باوجہ، لاہور: آسکر کی تقریب فیبولس تھی۔ لیکن لارڈ آف دی رِنگز اتنی بھی اچھی فلم نہیں تھی کہ اسے گیارہ ایوارڈ دیے جاتے۔ ابوزین، ٹورانٹو: اس سال کے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں مرکزی میزبان نے بہت ہی زیادہ اوورایکٹِنگ کی جس کی وجہ سے سارا مزہ کرکرا ہوگیا۔ میرے خیال میں لارڈ آف دی رِنگز اعزازات کی مستحق تھی۔ لیکن بعض ایوارڈ بالکل غلط دیے گئے ہیں۔ جیسے کہ رینی کو بیسٹ سپورٹِنگ ایکٹریس کا ایوارڈ میرے خیال میں بالکل غلط تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آسکر ایوارڈ میں بھی گھپلا ہوتا ہے۔ محمد عبیر خان، چترال، سرحد: یہ آسکر ایوارڈ کس چِڑیا کا نام ہے؟ لِنڈا اے، برِسبین آسٹریلیا: لارڈ آف دی رِنگز اعزازات کی مستحق تھی۔ لیکن پائریٹس آف دی کیریبین میں جانی ڈیپ نے کتنی اچھی ایکٹِنگ کی؟ محمد یوسف اقبال، دوبئی: اگر اس تقریب میں جنوبی ایشیا کی بھی کوئی فلم ہوتی تو پھر مزہ آتا۔ بہرحال، تقریب اچھی تھی، سب لوگ بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ مجھے لارڈ آف دی رِنگز کے تیسرے حصے کی بہ نسبت پہلے دو حصے زیادہ پسند آئے۔ صلاح الدین لنگا، جرمنی: اب سلطان راہی اور سید نور تو آسکر ایوارڈ لینے سے رہے۔ لارڈ آف دی رِنگز دنیا کی چند بہترین فلموں میں سے ہے۔ سعید احمد، پاکستان: یہ اچھی تقریب تھی۔ لارڈ آف دی رِنگز ایوارڈ کی مستحق تھی۔ فلم کے ڈائرکٹر کو مبارکباد۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں بھی اس طرح کی اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں گی۔ جننا آغا، کراچی: میرے خیال میں لارڈ آف دی رِنگز کو گیارہ سے زائد ایوارڈ ملنے چاہئے تھے۔ یہ سب سے اچھی فلم ہے جو میں نے دیکھی ہے۔ شفیق اعوان، لاہور: بہت خوبصورت تقریب رہی۔ فلم اچھی ڈائرکشن کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اپنے ملک کے ڈائرکٹر کو چاہئے کہ وہ ان فلموں کے بنانے کے عمل سے سبق حاصل کریں۔ عمران چٹھہ، پاکستان: میرے خیال میں یہ لوگ صرف انگلِش لوگوں کو ہی ایوارڈ دیتے ہیں، بہت کم ایسا سننے میں آیا ہے کہ کسی پاکستانی یا انڈین فلم کو ایوارڈ ملا ہو۔ نامعلوم: آسکر کی تقریب اچھی تھی۔ اسد عاطف، کوئٹہ: کاش مجھے شادی کرنے کے لئے انجلینا جولی جیسی کوئی لڑکی مل جائے۔
world-53920210
https://www.bbc.com/urdu/world-53920210
میلانیا ٹرمپ: ایک غیر روایتی خاتونِ اول
امریکہ کی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ نے منگل کو 2020 ریپبلیکن نیشنل کنوینش کی دوسری رات ملک میں نسلی اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نسل کی بنیاد پر سوچنا بند ہونا چاہیے۔
امریکی خاتونِ اول زیادہ تر سیاست سے دور ہی رہی ہیں وسکونسن میں پولیس کی شوٹنگ کے بعد احتجاج کرنے والے مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ تشدد اور لوٹ مار بند کر دیں۔ صدر ٹرمپ اس وقت رائے عامہ کے جائزوں کو مطابق اپنے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن سے پیچھے ہیں۔ عام طور پر منظرِ عام پر زیادہ نہ آنے والی امریکی خاتونِ اول نے اپنا اہم خطاب وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک چھوٹے سے ہجوم سے کیا، جس میں ان کے شوہر بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ سب لوگوں کی طرح میں نے بھی اپنے ملک میں نسلی بدامنی کے بارے میں غور کیا ہے۔ ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کے کچھ حصوں پر فخر نہیں ہے۔ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہوں کہ ماضی سے سیکھتے ہوئے مستقبل پر توجہ دیں۔‘ یہ بھی پڑھیے امریکہ کی خاتون اول کون؟ میرے خاوند شریف انسان ہیں: میلانیا ٹرمپ برطانوی اخبار کی ملانیا ٹرمپ سے معافی ’مجھے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں لوگوں سے کہتی ہوں کہ وہ مہذب طریقے سے اکٹھے ہوں تاکہ ہم کام کر سکیں اور اپنے امریکی نظریات پر پورے اتر سکیں۔‘ سنہ 1998 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو، جو کہ بہت زیادہ مالدار اور دلکش شخصیت کے مالک تھے، عادت نہیں تھی کہ وہ کسی سے فون نمبر مانگیں اور سامنے والا انکار کر دے۔ لیکن میلانیا کناوس کے کیس میں ان کو انکار سننا پڑا۔ ہوا یوں کہ جب پراپرٹی کنگ نے نیو یارک میں ایک پارٹی میں ایک نوجوان ماڈل سے نمبر مانگا تو ان کو جواب ملا۔ ’میں تمہیں اپنا نمبر نہیں دے رہی۔ تم مجھے اپنا نمبر دو، میں کال کروں گی۔‘ یہ تھیں میلانیا جن کی اس وقت عمر 28 سال تھی۔ اب ذرا سات سال آگے بڑھیں تو ان دونوں کی شادی فلوریڈا میں ہو رہی ہے جس میں کئی مشہور شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ اب ذرا اور آگے، تو اب وہ امریکہ کی خاتونِ اول ہیں اور ان کے شوہر دوسری مرتبہ صدر بننے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن آخر میلانیا ٹرمپ ہیں کون اور ہم ان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ ایک ’روایتی‘ خاتونِ اول پرکشش اور مکمل طور پر اپنے شوہر اور ان کی کامیابی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والی میلانیا ٹرمپ کو ریٹرو یا قدامت پسند صدارتی شریکِ حیات کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یا یوں کہیں کہ ماڈرن جیکی کینیڈی۔ سابق مسز کینیڈی کی طرح مسز ٹرمپ بھی چار زبانیں بولتی ہیں: سلوینین، فرانسیسی، جرمن اور انگلش۔ جب 1999 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ صدارتی عہدے کی طرف اشارہ کیا تھا تو میلانیا نے رپورٹروں کو بتایا تھا کہ ’میں بڑی روایتی (ثابت) ہوں گی، بیٹی فورڈ اور جیکی کینیڈی جیسی۔‘ لیکن کئی طرح سے وہ بالکل بھی روایتی خاتونِ اول نہیں ہیں: وہ پہلی خاتونِ اول ہیں جنھوں نے ماضی میں ایک جریدے میں برہنہ تصاویر چھپوائی ہوں۔ سنہ 2016 میں صدارت کے امیدوار کی ریپبلیکن نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق حریف ٹیڈ کروز کے حمایتیوں نے ملانیا کے ماڈلنگ کے دنوں کی برہنہ تصاویر نکال کر کہا تھا: ’ملیے میلانیا ٹرمپ سے، آپ کی اگلی خاتونِ اول۔ یا آپ ٹیڈ کروز کو ووٹ دیں گے۔‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور میلانیا کا ایک بیٹا، بیرون، بھی ہے سنہ 2016 کے اوائل میں ریڈیو پریزینٹر ہوارڈ سٹرن کا کیا ہوا ڈونلڈ اور میلانیا کا ایک فحش فون انٹرویو سامنے آیا جس میں پریزینٹر نے یہ تک پوچھ ڈالا کہ اس وقت انھوں نے کیا پہنا ہوا ہے۔ جواب تھا ’تقریباً کچھ نہیں۔‘ اور آپ کتنی مرتبہ مسٹر ٹرمپ کے ساتھ سیکس کرتی ہیں، جواب تھا ’ہر رات اور کئی مرتبہ زیادہ۔‘ اس انٹرویو کو بعد میں خواتین سے نفرت کے زمرے میں لیا گیا۔ میلانیا نے ایک مضمون کی وجہ سے ڈیلی میل پر بھی ہرجانے کا دعویٰ کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ 1990 کی دہائی میں ایک سیکس ورکر تھیں۔ اخبار نے بعد میں ان سے معافی مانگی اور ہرجانہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ ان کے ساتھ اس رویے کو کچھ تجزیہ کار ’سلٹ شیمنگ‘ بھی کہتے ہیں جو کہ عورتوں کو ملبوسات اور رہن سہن کی وجہ سے نشانہ بنانے کی ایک پریکٹس ہے۔ سلوینیا سے نیو یارک تک مسز ٹرمپ کا پیدائشی نام میلانیا کناوس رکھا گیا اور وہ سلوینیا کے دارالحکومت لبلانا سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع چھوٹے سے قصبے سیونیکا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد وکٹر پہلے ایک میئر کے ساتھ کام کرتے تھے اور بعد میں ایک کامیاب کار ڈیلر بن گئے۔ ان کی والدہ امالیجا ایک فیشن برانڈ کے لیے ڈیزائن پرنٹ کرتی تھیں۔ میلانیا نے لبلانا میں ڈیزائن اور آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پروفیشنل ویب سائٹ پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، لیکن بعد میں یہ سامنے آیا کہ وہ پہلے ہی سال تعلیم چھوڑ گئی تھیں۔ اس کے بعد اس ویب سائٹ کو بالکل صاف کر دیا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کاروباری ویب سائٹ کی طرف ری ڈائریکٹ کیا جانے لگا۔ 18 سال کی عمر میں انھوں نے میلان میں واقع ایک ماڈلنگ ایجنسی سے معاہدہ کیا اور یورپ اور امریکہ کے دورے کرنے لگیں، جس دوران وہ بڑی اشتہاری کیمپینز میں بھی نظر آئیں۔ ان کی ٹرمپ سے ملاقات نیو یارک فیشن ویک کے دوران ایک پارٹی میں ہی ہوئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اپنے شوہر کی طرح وہ شراب نہیں پیتیں، اور رات گئے تک جاری رہنے والی پارٹیوں سے اجتناب کرتی ہیں۔ ان کا اپنا برانڈڈ جیولری کا کاروبار ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ڈیزائن بھی کرتی ہیں۔ مزید پڑھیے امریکہ کی دوسری 'فرسٹ لیڈی' اپنے دور میں امریکہ کی عظمت کو بحال کیا ہے، صدر ٹرمپ امریکی صدر کا رہائی پانے والے شہریوں کا استقبال دونوں نے 2005 میں شادی کر لی اور 2006 میں ان کے ہاں بیٹے بیرون کی پیدائش ہوئی۔ وہ صدر ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد ابتدائی دنوں میں وائٹ ہاؤس منتقل نہیں ہوئیں بلکہ بیٹے کی سکول ٹرم مکمل ہونے تک نیو یارک میں ہی رہیں۔ وہ 2017 میں واشنگٹن منتقل ہو گئیں۔ منتقل ہونے کے بعد میلانیا وائٹ ہاؤس کو ہر سال کرسمس کے موقع پر سجانے میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ جب ان کے شوہر نے امیگریشن پر حملے شروع کر دیے تو ملانیا نے بظاہر اپنی حیثیت کو شفاف رکھنے کی بھی کوشش کی اور کہا کہ انھوں نے ہر کام قانون کے مطابق کیا ہے۔ انھوں نے جریدے ہارپر بازار کو بتایا کہ ’یہ میرے دماغ میں کبھی نہیں آیا کہ میں یہاں کاغذات کے بغیر رہوں۔ آپ قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ آپ قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ ہر مرتبہ کچھ مہینوں کے بعد آپ کو یورپ واپس جانا ہے اور ویزے پر مہر لگوانی ہے۔‘ جولائی 2020 میں ان کے آبائی شہر میں واقع ان کے ایک مجسمے کو آگ لگا دی گئی تھی جس کی پولیس نے تحقیقات کیں۔ ’پالیسی بنانا میرے شوہر کا کام ہے‘ میلانیا زیادہ تر سیاسی لڑائیوں سے دور ہی رہی ہیں، اور انھوں نے اپنی سیاسی مصروفیات کو صرف اپنے شوہر کے ساتھ کھڑے ہونے تک ہی محدود رکھا ہے۔ انھوں نے 2016 میں جی کیو جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے سیاست اور پالیسی میں شرکت نہ کرنے کو چنا ہے۔ یہ پالیسیاں میرے شوہر کا کام ہے۔‘ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ان کے لیے سب سے بڑا موقع اس وقت آیا تھا جب وہ جولائی میں ریپبلیکن نیشنل کنوینشن کے پہلے ہی دن سٹیج پر شریکِ حیات کے طور پر روایتی تقریر کرنے آئیں۔ لیکن وہ تجربہ کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں نے فوراً ہی نوٹس کیا کہ ان کی اور 2008 میں مشیل اوباما کی کنوینش کی تقریر میں کتنی زیادہ مماثلت تھی، اور ان پر تقریر کے الفاظ چوری کرنے کا الزام بھی لگا۔ سنہ 2018 میں انھوں نے ایک اور بڑا تنازع اس وقت کھڑا کر دیا جب وہ ایک جیکٹ پہنے باہر نکلیں جس پر لکھا تھا کہ ’میں واقعی پرواہ نہیں کرتی، کیا تم کرتے ہو؟‘ وہ اس وقت پناہ گزینوں کے ایک حراستی مرکز میں جا رہی تھیں۔ میڈیا میں اس وقت بہت بات ہوئی کہ میلانیا نے پناہ گزینوں کے حراستی مرکز میں جاتے ہوئے ہی کیوں اس جیکٹ کا انتخاب کیا انھوں نے بعد میں اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ان لوگوں اور بائیں بازو کے میڈیا کے لیے تھا جو مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔‘ ’میں انھیں دکھانا چاہتی ہوں کہ میں پرواہ نہیں کرتی۔‘ ان واقعات کے باوجود اگر ان کا موازنہ ان سے پہلے کی خواتین اول سے کیا جائے تو وہ تقریباً ایک نامعلوم شخصیت لگتی ہیں۔ انھوں نے جی کیو جریدے کو بتایا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو مشورہ دیتی ہیں۔ لیکن کیا مشورہ ہوتا ہے اس بارے میں وہ چپ رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس کا کسی کو کچھ نہیں پتہ اور کسی کو کبھی بھی پتہ نہیں چلے گا کیوں کہ یہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان ہے۔‘
040513_india_elex_2
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/05/040513_india_elex_2
کانگریس بی جے پی سے آگے نکل گئی
انڈیا میں لوک سبھا کے انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق کانگریس کی سرکردگی میں قائم اتحاد کو بی جے پی کی قیادت والے اتحاد پر واضح سبقت حاصل ہے۔
بی جے پی کے صدر وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ بی جے پی اب اپوزیشن میں بیٹھے گی۔ جبکہ کانگریس نے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی کی کوشش شروع کر رہی ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق کانگریس اور اس کے اتحادیوں کو بی جے پی اتحادیوں پر برتری حاصل ہے۔ چار مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل پیر کے روز ختم ہوا تھا جس میں سڑسٹھ کروڑ سے زیادہ رجسٹرڈ رائے دہندگان کی چھپن فی صد تعداد نے ووٹ ڈالے۔ لوک سبھا کی کُل 543 نشستوں میں سے 539 حلقوں میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ جبکہ چار نشستوں کے لئے بعض وجوہ کی بنا پر ووٹوں کی گنتی بعد میں ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی وجہ سے اب نتائج آنے کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ ملک بھر میں ایک ہزار دو سو چودہ مقامات پر گنتی ہو رہی ہے۔
world-50407448
https://www.bbc.com/urdu/world-50407448
پورن: عرب دنیا میں نوجوان پورن سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟
یہ صرف مسعود کی بات نہیں، بلکہ لاکھوں نوجوان ایسے ہیں جو اپنے دبے ہوئے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے انٹرنیٹ کا رخ کرتے ہیں اور برہنہ تصاویر اور پورن ویڈیوز دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
اسکندریہ میں بھی لڑکوں کے لیے پورنوگرافی سے بچاؤ کے خصوصی تربیتی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں کئی نوجوانوں کی طرح مسعود کا خیال بھی یہی تھا کہ ان کا ہر وقت پورن دیکھنے کا یہ شوق اس وقت ختم ہو جائے گا جب ان کی شادی ہو جائے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جب وہ 20 برس پہلے تک اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے تو وہ چھپ چھپا کر کوئی بلیو فلم دیکھ لیتے تھے، اور آج جب وہ اپنے مکان میں رہتے ہیں تو تب بھی ان کا یہ شوق کم نہیں ہوا۔ اگر کوئی چیز بدلی ہے تو وہ یہ ہے کہ اب مسعود ایک پورن ویب سائٹ سے دوسری پر چلے جاتے ہیں اور اپنے سمارٹ فون پر اسی قسم کا مواد دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن مسعود (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں اپنے اس جنسی جنون کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات بری طرح متاثر ہو گئے اور اب انھیں پورن دیکھنے میں بھی کوئی مزا نہیں آتا۔ ’قربت کے بغیر قربت‘ ایک اور صاحب نے بی بی سی کو بتایا کہ اپنی روایتی عرب بیوی کے ساتھ ان کے جنسی تعلقات نارمل تھے، لیکن وہ بوسہ یا کِس بالکل نہیں کرتی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان موبائل فون حائل ہو جاتا تھا۔ ان کے بقول پورن دیکھنے کی عادت کی وجہ سے ان میں جنسی ہیجان صرف پورن دیکھ کر ہی پیدا ہوتا۔ اہلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ’قربت کے بغیر قربت‘ تھی۔ ہم مسعود کی کہانی کی طرف واپس آئیں گے، لیکن ان کی کہانی انوکھی نہیں کیونکہ بہت سے عرب گھروں میں یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ عرصے میں دنیا کے اِس حصے میں انٹرنیٹ کی سپیڈ دوگنا تیز ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ موبائل فونز میں اضافے سے ہر کسی کو پورن فلموں کے ٹکڑے پہلے سے کہیں زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں۔ شریف طلیانی کے خیال میں خوشی سے بھرپور شادی اور پورن دیکھنے کی عادت میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ’پورن کلچر‘ مصر کی زقازیق یونیورسٹی سے منسلک نفسیاتی امراض کے ماہر پروفیسر وائل ابو ہندی کہتے ہیں کہ لاکھوں عرب نوجوان پورنوگرافی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ ’پورنوگرافی عرب معاشروں میں پھیل چکی ہے۔‘ ابو ہندی کے بقول ’بہت سی خواتین ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ان کے شوہر انھیں پورنوگرافی دیکھنے کو کہتے ہیں تاکہ ان کے جنسی جذبات میں اضافہ ہو۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ چاہے شوہروں کی اس خواہش کی تکمیل کریں یا انکار کر دیں، دونوں صورتوں میں خواتین کو پچھتاوا ہوتا ہے۔‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ جن گھروں میں بیوی اور بچوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ والد پورنوگرافی دیکھتا ہے، ان میں دس سے 15 فیصد یقیناً ایسے خاندان ہوتے ہیں جہاں میاں بیوی کے تعلقات متاثر ہو جاتے ہیں یا وہ خاندان ٹھیک سے اکھٹے رہنے کے قابل نہیں رہتا۔‘ ’مخالفت نہ کریں‘ لیکن پورن فلموں کے اداکار شریف طلیانی کے خیال میں شادی کے رشتے اور پورن دیکھنے میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں پورن دیکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘ ’میں ایک ایسی دلہن کی تلاش میں ہوں جو میرے خیالوں کے مطابق ہو۔‘ طلیانی کو فخر ہے کہ یورپ منتقل ہونے سے پہلے وہ مصر میں جہاں رہتے تھے، وہ وہاں خاصے مقبول تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورن فلمیں بنانے والی کمپنیوں کے لیے کام کرنے پر ان کے خاندان والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ پورن فلموں میں کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ شوٹنگ سے پہلے جنسی طاقت میں اضافہ کرنے والی چیزیں یا ٹانک وغیرہ استعمال کریں۔ ’لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ اداکاروں میں کوئی جنسی کمزوری ہوتی ہے، بلکہ آپ کو ایک مقررہ وقت میں ایک منظر کی فلمبندی مکمل کرنا ہوتی ہے۔‘ چرچ کی جانب سے شروع کیے جانے والے پروگرام میں شادی کے جھگڑوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے ’تباہ کن اثرات‘ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹیلیگرام‘ پر ایک چیٹ میں، جس کا مقصد شادی شدہ جوڑوں کو پورن دیکھنے کی لت سے جان چھڑانے میں مدد کرنا ہے، وہاں ایک شوہر نے لکھا کہ پورن دیکھنے کی عادت کی وجہ سے انھوں نے اپنی بیوی سے بھی پورن سٹار کی طرح دکھائی دینے کا کہنا شروع کر دیا، لیکن جب انھوں نے اپنی بیوی کو موبائل پر دیکھا تو انھیں لگا کہ یہ کوئی نارمل جنسی تعلق نہیں تھا، بلکہ یہ محض ایک حماقت تھی۔ مصر میں جاری ایک رضاکارانہ پروگرام ’واعی‘ کے بانی ڈاکٹر محمد عبدالجواد کہتے ہیں کہ اس قسم کے رویے آپ کی اہلیہ کے جذبات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے ساتھی کا ساتھ دینے کے لیے، یا اپنے گھر کو بچانے کے لیے اس قسم کی بات تسلیم بھی کر لیتی ہے، تب بھی اس کے منفی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس قسم کے تجربے کے بعد اکثر میاں بیوی کا رشتہ ایک موڑ پر ٹوٹ جاتا ہے یا ان میں طلاق ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی زندگی میں خوشی کی کمی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر جواد کا اندازہ ہے کہ آج کل 15 سے 20 فیصد طلاقیں پورن ویب سائٹس کی وجہ سے ہو رہی ہیں کیونکہ بیویوں کو لگتا ہے شوہر ان کا مقابلہ پورن فلموں کی اداکاراؤں سے کرتے ہیں جو کہ ناجائز ہے۔ ڈاکٹر جواد کے بقول ’پورن دیکھنا والا ہمیشہ اپنا دفاع یہ کہہ کر کرتا ہے کہ اُس کی اس عادت سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں ہر کوئی متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر اس کے گھر کے افراد ضرور متاثر ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ ڈاکٹر جواد بتاتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق بہت زیادہ پورن دیکھنے کے اثرات ویسے ہی ہوتے ہیں جو کسی نشہ آور چیز کے استعمال سے ہوتے ہیں۔ حساس مسائل عرب دنیا میں ’لو کلچر‘ کے نام سے ایک سروس شروع کی گئی ہے جس کا مقصد معاشرے کو درپیش جنسی مسائل سے نمٹنا ہے۔ عرب معاشرے میں اس سروس کا آغاز ایک دلیرانہ قدم ہے۔ اگر پورن دیکھنے والے کو اس کی لت نہ پڑ جائے اور وہ اپنی ساتھی سے عجیب وغریب جنسی حرکات کا مطالبہ نہ کرے تو ’لو کلچر‘ سے منسلک ماہرین پورنوگرافی کو ایک مسئلہ نہیں سمجھتے۔ لیکن خاندانی مسائل پر کام کرنے والی صحافی دالیا فکری اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ عرب دنیا میں جنسی مسائل کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی، کوئی سیکس ایجوکیشن نہیں دی جاتی، اس لیے اس قسم کے مسائل میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ’عدالتوں کی راہداریوں میں آپ کو اس قسم کے بہت سے معاملات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض اوقات ایک بیوی صرف اس وجہ سے طلاق لینے عدالت پہنچ جاتی ہے کہ اسے اذیت کا احساس ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنے شوہر کی پورن دیکھنے کی عادت کا ذکر بھی نہیں کرتی کیونکہ اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا کہ اس نے اپنی شادی کے خفیہ راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔‘ ’اس لحاظ سے ’لو کلچر‘ اپنی قسم کا پہلا قدم ہے جہاں ماہرین لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا کے بند کواڑوں کے پیچھے چیٹ رُومز ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو رضاکارانہ طور پر اپنے جنسی تجربات ایک دوسرے کو بتا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مرد ہماری خدمات سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنے مسائل کو مزید پیچیدہ کر لیں۔‘ دالیا فکری کے بقول انٹرنیٹ نے اپنے مسائل کھل کر بیان کرنے میں عورتوں کی مدد کی ہے، لیکن خواتین کو غیرتربیت یافتہ ماہرین کے مشوروں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔‘ حسام اور ماریان کہتے ہیں کہ بہت سی بیویوں کو شکایت ہے کہ ان کے شوہر پورن دیکھتے ہیں شادی سے پہلے بحالی کچھ عرصہ پہلے بی بی سی کو مصر کے تبلیغی چرچ کی جانب سے ایک دعوت نامہ بھی ملا جس میں ہمیں ان کے ایک تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب میں شمولیت کے لیے بلایا گیا۔ اس پرگرام کے تحت شادی شدہ افراد اور حال ہی میں شادی کرنے والے میاں بیوی کو باہمی تعلقات اور شادی کے جھگڑوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ فیملی کاؤنسلِنگ پروگرام کے بانی پادری اشرف فارس کہتے ہیں کہ مصر میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا مطلب یہ ہے کہ ’اب ایسے خاندانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی جا رہی ہے جو خاندان ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں اور ناخوش ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان شکایات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ بہت سے مرد پورن ویب سائٹس دیکھتے ہیں اور اپنی بیویوں سے ’معمول سے زیادہ چیزوں` کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ اشرف فارس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو سمجھنا پڑے گا کہ پورن فلموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ نارمل نہیں ہوتا۔ ’اکثر مصری بیویوں کو الزام دیا جاتا ہے کہ ان کے جذبات بہت سرد ہیں اور وہ بہت بھولی ہوتی ہیں، لیکن اکثر مسئلہ خاوند کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس اپنی بیوی کے جذبات کی چابی نہیں ہوتی۔‘ اس سروس کے تحت میاں بیوی، ماریان اور حسام، ایسے مسیحی خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں جو مشکلات میں پھنسے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دونوں نے خصوصی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ ماریان بتاتی ہیں کہ ان کے پاس جو شادی شدہ جوڑے آتے ہیں ان میں ہمیشہ بیوی گلہ کرتی ہے کہ شوہر نے اسے دھوکہ دیا ہے، چاہیے شوہر کے تعلقات کسی دوسری خاتون کی بجائے صرف کمپیوٹر سے ہوں۔ ’پورنوگرفی ایسے ہی جیسے آپ کی شادی میں کوئی تیسرا فریق بھی آ گیا ہو۔ اور اس سے وہ عہد و پیمان ٹوٹ جاتے ہیں جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔‘ ’اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ اگر انہوں نے کسی پورن سائٹ پر ’دیکھیے‘ کا بٹن دبا دیا اور انہیں پورن دیکھنے کی عادت پڑ گئی تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔‘ ’شادی سے مسائل بگڑ جاتے ہیں‘ جہاں تک خواتین کی دنیا کا تعلق ہے، ان کے ہاں صورت حال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے کیونکہ روایتی طور پرخواتین کے لیے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ان کے شوہر پورن دیکھتے ہیں۔ ان خواتین میں سے ایک کا کہنا تھا کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق زندگی کا صرف دس فیصد ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات باقی 90 فیصد زندگی پر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ سلمیٰ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ پورن مناظر کے ساتھ ان کا تعلق اس وقت بنا تھا جب وہ پندرہ سولہ سال کی تھیں اور ان کی سہیلیاں ترکی زبان کی فلموں میں رومان سے بھرپور مناظر کی باتیں کرتی تھیں۔ لیکن سلمیٰ بتاتی ہیں کہ یہ چیز شادی کے بعد ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئی کیونکہ ان کے شوہر ہم بستری سے پہلے کے جذبات انگیز مناظر پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس کے بعد سلمیٰ نے بھی پورن سائٹس کا رخ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے پورن مناظر دیکھے تو انہیں اپنی زندگی کا موازنہ کر کے بہت حیرت ہوئی۔ ’میں سوچتی تھی کہ جب دوسرے مرد جنسی طور پر اتنے پرجوش ہیں تو میرا شوہر ایسا کیوں نہیں ہے۔‘ 'لو کلچر' کا آغاز عرب دنیا میں ایک دلیرانہ قدم ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے شوہر بھی پورن دیکھتے ہیں تو سلمیٰ کا کہنا تھا کہ ’اگر شوہر پورن دیکھتا ہے تو بیوی کو پتہ چل جاتا ہے۔ وہ یہ بات زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتا۔‘ تین بچوں کی والدہ سلمیٰ کہتی ہیں کہ ’میں نے پورن دیکھنے کی عادت سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک تربیتی پروگرام میں جانا شروع کر دیا، لیکن اس کے باوجود شوہر کے ساتھ میرے تعلقات زیادہ بہتر نہیں ہوئے۔‘ ’جس چیز کو تباہ ہونے میں برسوں لگے، وہ ایک دن میں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔‘ ’بحالی کا دروازہ‘ سلمیٰ کے برعکس، مسعود کا کہنا تھا کہ اگرچہ مشکل ہوئی، لیکن انھیں مسئلے کا حل مل گیا ہے۔ انھوں نے پورن کی عادت سے بحالی کے لیے ایسے تربیتی پروگرام پر عمل کیا جس میں انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ مسلسل 90 دن کسی بھی قسم کے جنسی فعل سے پرہیز کریں گے۔ نہ کسی قسم کی خود لذتی میں ملوث ہوں گے اور کسی جنسی ساتھی کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے کمپیوٹر پر ایک بلاک کر دینے والا سافٹ ویئر انسٹال کر دیا، انٹرنیٹ کا کنکشن کٹوا دیا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ 90 دن گن گن کے گزارے کیونکہ پورن سے دور رہنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ اس پروگرام میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ 90 دن کے لیے مسعود اپنی بیوی کے قریب بھی نہیں جا سکتے تھے۔ ’یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب آپ کو پورن دیکھنا اور کسی قسم کی جنسی حرکت کرنا نہایت گھٹیا کام لگتا شروع ہو جاتا ہے، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ میں معمول کی نارمل زندگی کی طرف لوٹ رہا تھا۔‘ اتنے دنوں کے پرہیز سے ایک نیا جھگڑا بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ آپ کی بیوی کو نہیں پتا کہ آپ اپنا علاج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’میں نے اپنی بیوی سے دیانتداری سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا رویہ حوصلہ افزا نہیں تھا، اس لیے میں نے اس سے اپنی پورن دیکھنے کی لت کے بارے میں بات کرنے سے پرہیز کیا۔‘ لیکن مسعود کہتے ہیں کہ کچھ وقت گزرنے کے ساتھ شاندار نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے۔ کمپیوٹر کی سکرین کو ’بدلتے رہیں‘ مسعود کا کہنا تھا کہ ’میں نے سوچا کہ پچھلے عرصے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بات کا ہر موقع گنوا رہا تھا، لیکن اب میرے پاس موقع تھا کہ میں کمپیوٹر کے سامنے سے اُٹھ جاؤں اور ان سے بات کروں۔ اس سے پہلے میں ہر وقت کمپیوٹر پر کوئی اہم کام کرنے کا ڈھونگ رچا رہا تھا اور جب سب سو جاتے تھے تو دھڑا دھڑ پورن دیکھنے لگ جاتا تھا۔‘ ’میں ہر رات چار گھنٹے پورن دیکھتا رہتا تھا۔ لیکن جب میں نے یہ حرکت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو آہستہ آہستہ اپنے ارد گرد کے ہر شخص کے ساتھ میرے تعلقات بہتر ہونے لگے۔ تربیت والے 90 دن کے دوران مجھے اپنی بیوی سے بھی ہم بستری کی اجازت نہیں تھی، چنانچہ میرے پاس بیوی سے بات کرنے کا وقت بھی زیادہ تھا۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔‘
070714_un_gaza_israel_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/07/070714_un_gaza_israel_rs
غزہ کے راستے کھولے جائیں: یواین
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل سے غزہ کے تمام سرحدی راستے دوبارہ کھولنے کو کہا ہے تاکہ علاقے میں جاری معاشی بحران کو روکا جا سکے۔
بان کی مون کا کہنا تھا کہ بنیادی ضروریات زندگی، امدادی کارکنوں اور تجارتی اجناس کو اندر داخلے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اگر غربت میں مزید اضافہ ہوا تو لوگ تقریباً امداد پر ہی انحصار شروع کردیں گے۔ دوسری طرف عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ غزہ میں تین ہزار سے زائد کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق 65 ہزار افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالرز کی ہنگامی امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں غزہ میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے سرحدی راستوں کو یا تو بند کر رکھا ہے یا ان پر رکاوٹیں حائل ہیں۔
071211_usconsern_pakatomic_weapons
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071211_usconsern_pakatomic_weapons
امریکی تشویش، پاکستانی جوہری اثاثے غیر محفوظ
پاکستان میں غیریقینی سیاسی حالات اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی لہر نے مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو ایک قدرے مختلف تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ انہیں موجودہ سیاسی بحران سے زیادہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی فکر لاحق ہے۔
کئی امریکی تِھنک ٹینکس نے تو موجودہ غیریقینی حالات کی وجہ سے حکومت کے گرنے کی صورت میں فوجی کارروائی کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کو اپنی حفاظتی تحویل میں لینے جیسے منصوبوں پر ذرائع ابلاغ میں بحث بھی شروع کر دی ہے۔ ان کو یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ یا دیگر شدت پسند تنظیمیں ان غیریقینی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں سرکاری اداروں کے بعض اہلکاروں کی مدد یا چوری سے کہیں یہ ہتھیار نہ حاصل کر لیں۔ کیا واقعی صورتحال اتنی خراب ہے اور پاکستانی جوہری ہتھیار اتنے غیرمحفوظ؟ امریکہ مخالف جذبات والے ممالک تو اور بھی کئی ہیں جو جوہری ہتھیار بھی رکھتے ہیں؟ تو پھر آخر پاکستان ہی کیوں؟ یہ دن جہاں پاکستان میں یومِ تکبیر کے طور پر منایا جانے لگا تو دوسری جانب امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کے لیے انتہائی تشویش کے آغاز کا روز بھی ثابت ہوا۔ بعد میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک اور پاکستان میں حالیہ کشیدگی اور انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے اس تشویش میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ حکومت پاکستان کی بار بار تردیدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود تشویشں میں بظاہر کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بڑھتی تشویش کا مظہر امریکہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے مضامین ہیں۔ انتہائی اہم شخصیات کی جانب سے لکھے جانے والے ان مضامین کی تعداد میں حالیہ سیاسی و قانونی بحران کے بعد کچھ غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بش انتظامیہ کے ساتھ نظریاتی روابط رکھنے والے امریکی تِھنک ٹینک انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے فریڈرک کاگن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستانی ہتھیاروں کو قبضے میں لے کرامریکہ کی ریاست نیو میکسیکو کے محفوظ مقام پر پہنچا دیا جانا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہے کہ پاکستانی وضاحتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا۔ اس بارے میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد صادق کہتے ہیں کہ وہ بار بار تردید کرچکے ہیں کہ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ ’پاکستان کے جوہری اثاثے انتہائی جدید اور منظم کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کے تحت ہیں اور ان سے متعلق تمام خدشات بےبنیاد ہیں۔‘ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کے قریب جب ملک میں تقریبا روزانہ خودکش حملے ہوں اور ملک کا سب سے مضبوط ادارہ یعنی فوج ہی نشانے پر ہو تو تشویش میں کمی کیسے آسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکہ نے یقینا ایسے چند ’کنٹنجینسی‘ منصوبے تیار کر رکھے ہوں گے جس کے تحت غیریقینی حالات کے پیش نظر وہ ان ہتھیاروں کو قبضے میں لے سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ اگر کوئی اور ملک امریکہ کی جگہ ہوتا تو شاید وہ بھی یہی کرتا۔ بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ القاعدہ امریکہ میں نائن الیون جیسے حملوں کے بعد اب اس سے بھی زیادہ خطرناک حملوں کے بارے میں کوششیں کر رہا ہوگا۔ اس خواہش کو پایہء تکمیل تک با آسانی پہنچانے کا یقیناً ایک ذریعہ جوہری ہتھیار ہوسکتے ہیں۔ امریکیوں کو یقین ہے کہ اس تنظیم کی کوشش ہوگی کہ وہ ان ہتھیاروں کو حاصل کر سکے۔ لیکن کیا القاعدہ جیسی تنظیم کے لیئے یہ ہتھیار حاصل کرنا ممکن ہے؟ پروفیسر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ القاعدہ یا اس سوچ کے حامل لوگ مستقبل میں یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ لیکن اس میں زیادہ تشویش کی بات مغربی ممالک کا یہ خوف ہے کہ شاید پاکستانی حساس اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے شدت پسند یہ ہتھیار حاصل نہ کر لیں۔ پروفیسر پرویز ہودبھائی کہتے ہیں: ’پاکستانی ہتھیاروں کو چرانا شاید انتہائی سخت سکیورٹی کی وجہ سے ممکن نہ ہو لیکن اگر وہ لیبارٹریوں سے بم تیار کرنے کا مواد تھوڑا تھوڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو شاید وہ ایک ایسا ’کروڈ‘ بم یعنی خام کسم کا بم تیار کرسکیں جس سے اچھے بم جیسی تباہی تو حاصل نہ ہو لیکن ایک شہر کو پھر بھی تباہ کرسکیں گے۔‘ آخر پاکستان کی جانب شک کی انگلی کیوں اٹھتی ہے کہ شدت پسندوں کو جوہری ہھتیار ملیں گے تو یہیں سے ملیں گے۔ ناقدین کے خیال میں اگر پاکستان سے پورے کہ پورے سینٹی فیوجز برآمد کیے جاسکتے ہیں تو چھوٹا موٹا مواد کیوں نہیں۔ اس کی وجہ پروفیسر پرویز ہودبھائی کے مطابق حکومت کی کمزور رٹ قرار دی جاسکتی ہے۔ ’خفیہ اداروں یا فوج میں مجموعی طور پر اس کا امکان نہیں لیکن اندر کا ہی کوئی ایک شخص ایسا کر سکتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ایک چھٹی پر سپاہی کے کوہاٹ میں گزشتہ دنوں ویڈیو کی دوکانوں کو بموں سے اڑانے کی کوشش کے دوران گرفتاری ہے۔‘ حکومتِ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کے جوہری ہتھیاروں کے مبینہ کاروبار میں ملوث ہونے کو ماضی کا ایک بند باب قرار دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان محمد صادق کہتے ہیں کہ وہ ایک انفرادی عمل تھا جس کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے لیئے یہ بات اب بھی وجہ تشویش ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں مذہبی لوگوں کا زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اس ادارے کے ایک اعلی اہلکار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اب بھی یہ بلاجھجک کہتے ہیں کہ انہیں غیرمسلم پسند نہیں۔ اس افسر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے نوبل انعام یافتہ عبدالسلام سے مصافحہ نہیں کیا کیونکہ وہ بقول ان کے ’قادیانی‘ تھے۔ نہ امریکی اور نہ پاکستان کے ماہرین موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد اور انہیں رکھے جانے والے مقام کے بارے میں کوئی زیادہ واضع معلومات رکھتے ہیں۔ اس بارے میں قیاس زیادہ اور قوی معلومات کم دستیاب ہیں۔ اگر جوہری بموں کی تعداد ہی لے لیں تو کوئی اسے تیس چالیس کے درمیان جبکہ بعض اور لوگ سو سے زیادہ بموں کی توقع کرتے ہیں۔ عسکری امور کے تجزیہ نگار برگیڈئر ریٹائرڈ شوکت قادر اس سے متفق نہیں کہ جوہری ہتھیاروں کے پاکستان سے چوری ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مغرب میں حفاظتی انتظامات سخت اور جدید ہیں تو وہاں کے چور بھی زیادہ جدید اور ماہر ہیں۔ ’پاکستان اور کسی دوسرے جوہری ملک سے ان ہتھیاروں کے غائب ہونے کا امکان ایک ہی طرح کا ہے۔ نہ کم نہ زیادہ۔‘ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندوں کا حکومت میں آکر ان ہتھیاروں کا کنٹرول سنبھالنا ممکن نہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستانی مذہبی جماعتوں کو انتہا پسند نہیں کہا جاسکتا۔ ’رہی بات طاقت کے ذریعے انتہا پسندوں کے ہاتھ ان ہتھیاروں کے آنے کی تو اس کا امکان بھارت یا کسی مغربی ملک میں اتنا ہی ہے جتنا کہ کہیں اور۔‘ تو پھر پاکستان کیوں زیادہ مشکوک ہے۔ شوکت قادر اس شک کو بجا قرار دیتے ہیں۔ ’پاکستان کا جوہری پروگرام خود چوری کی بنیاد پر چلایا گیا۔‘ حالانکہ ان کے بقول کئی امریکی اور مغربی اشخاص بھی اس غیرقانونی کاروبار میں ملوث تھے لیکن جو پکڑا جائے چور وہی۔ شوکت قادر اس شک کی دوسری بڑی وجہ یہاں امریکہ مخالف انتہا پسندوں کی موجودگی کو قرار دیتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ وسطی ایشیا میں آج بھی جوہری سامان باآسانی دستیاب ہے جو کہ کافی تشویش کی بات ہے۔ ماہرین کے مطابق ایٹم بم بنانا آجکل کے جدید کمپیوٹر کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اگر ضروری سامان اور آلات میسر ہو تو مناسب تکنیکی سوجھ بوجھ رکھنے والے کمتر سہی لیکن ایک چھوٹا سا بم تیار کرسکتے ہیں۔ پروفیسر ہودبھائی اگرچہ مستقبل کی پیشن گوئی کے لئے شہرت نہیں رکھتے لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ اچھا مستقبل نہیں دیکھ رہے۔ ’اس صدی میں، شاید ہماری زندگی میں نہیں ہماری اگلی نسلوں کی زندگی میں وہ وقت شاید آئے جب اس دنیا کو ایک بڑا جوہری سانحہ دیکھنا پڑے گا۔‘ اس صورتحال سے بچنے کی خاطر ماہرین کے مطابق کم از کم پاکستان کی حد تک یہاں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو مزید نہ بڑھایا جائے، پہلے سے موجود ہتھیاروں کے حفاظتی اقدامات مزید بہتر کیے جائیں اور پاکستان اور بھارت کو مل کر ان ہتھیاروں کے خاتمے یا کم کرنے کا معاہدہ کرنا چاہئے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں سے ڈسے امریکہ کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کے پاس جوہری ہتھیار یقینا باعث تشویش ہیں۔ اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیئے اس کی سوچ بچار جاری ہے۔ بین الاقوامی ردعمل جاننے کے لیئے ہی سہی تاہم پاکستان جیسے کسی ملک پر حملے جیسی خبریں شاید جان بوجھ کر ہی وہاں کا ردعمل جاننے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔
080325_iftikhar_analysis_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080325_iftikhar_analysis_ra
’صدر مشرف بیرونی دروازے پر‘
کہتے ہیں کہ سیاست ممکنات کا فن ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سال پندرہ دن قبل اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے آرمی ہاؤس میں جنرل پرویز مشرف سمیت چار فوجی جرنیلوں کو انکار کر کے ’مشرف زدہ‘ سیاسی جماعتوں کو ممکنات کے اس فن سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا سیاسی سٹیج مہیا کیا کہ آج معتوب سیاستدان اقتدار سنبھالنے کی خوشی میں قومی اسمبلی میں بیٹھ کر ڈیسک بجا رہے ہیں۔
معزول چیف جسٹس افتخار چودھری چار ماہ بیس روز کی حراست کے بعد اپنی رہائش گاہ کی بالکونی میں اپنے معتقدین کو ہاتھ ہلا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ پرویز مشرف اپنی فوجی وردی اور حلیف سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی قوت سے محرومی کے بعد اب بقول اعتزاز حسن کے ’باہر جانے والے دروازہ‘ پر کھڑے ہیں۔ جسٹس افتخار چودھری کے ایک’ نو‘ نے پاکستان کی اکسٹھ سالہ عدالتی اور سیاسی تاریخ کو جنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ پہلی بار پاکستانی عوام، وکلاء، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہوا کہ افتخار چودھری نے وردی میں ملبوس طاقتور جرنیلوں کو انکار کر کے نو مارچ کو ہی ’نظریہ ضرورت‘ کو آرمی ہاؤس میں دفن کر کے عدلیہ کوآمریت کی زنجیروں سے ہمیشہ کے لیے آزاد کرا دیا۔ مگر تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد افتخار چوھری سمیت ساٹھ ججوں کی ’ معزولی‘ اور انکی نظر بندی نے وقتی طور پر لوگوں کے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ ایک سال پندرہ دنوں کے دوران کئی تاریخی واقعات نے جنم لیا۔ وکلاء کی تحریک نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کو اتنا کمزور کر دیا کہ انہوں نے پاکستانی کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن مرحومہ بینظیر بھٹو سے ان کی شرائط پر ڈیل کی۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرنا پڑا اور انیس سو ننانوے تک کرپشن کے تمام کیسز کو ختم کردیاگیا۔ اس گنگا میں پیپلز پارٹی کے حریف اور جنرل ریٹائرڈ مشرف کے حلیف جماعتوں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی شیر پاؤ اور دیگر شخصیات نے بھی اپنے ہاتھ دھو ڈالے۔ افتخار چودھری کے انکار کے نتیجہ میں جو احتجاجی تحریک چلی وہ بلاآخر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی کی جلاوطن رہنماء بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد نواز شرف کی وطن واپسی پر منتج ہوئی اور یہاں سے ہی حکمران مسلم لیگ کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوا۔ دونوں سیاسی رہنماؤں کی آمد کیساتھ ہی انتخابات کا اعلان ہوا مگر ساتھ میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کی اہلیت کے بارے میں سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ سے قبل ہی پرویز مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر کے چیف جسٹس افتخار چودھری اور پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے تقریباً ساٹھ ججوں کو معزول کردیا اور یوں انہوں نے خود اپنے پاؤں پر کھلاڑی مار دی جس کے نتیجہ میں لوگوں کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوا جب پرویز مشرف نے بڑی نیم دلی کیساتھ طاقت کی چھڑی نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپ دیا۔ دوسری طرف راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی ہلاکت، اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں ان کے استقبالی جلوس پر حملہ میں ایک سو پچاس کے قریب لوگوں کی ہلاکت اور بارہ مئی کو کراچی میں پیش آنے والے جیسے واقعات کا محض چند ماہ میں پیش آنا پاکستان کی تاریخ کےناقابل فراموش واقعات ہیں۔ اپنی پہلی تقریر میں نومنتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑا کہ آج کی جمہوریت بینظیر بھٹو کے خون اور سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں نصیب ہوئی ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں معزول ججوں کی رہائی کا حکم میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونیوالا ’معاہدہ مری‘ پر عملدرآمد کی جانب اٹھائے جانے والا پہلا قدم ہے جبکہ منزل تک پہنچنے کے لیے اب بھی انتیس دن مزید باقی ہیں۔ نئی حکومت اور اٹھاون ٹو بی کے اختیارات کے مالک صدرپرویز مشرف کے درمیان تو باقاعدہ کھیل اب شروع ہوا ہے، سو آئندہ کیا ہوسکتا ہےاس بارے میں سرِدست کہنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ آخر کار’سیاست ممکنات کا ہی فن ہے۔،
060608_girlchild_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060608_girlchild_sen
گیارہ مویشیوں کے عوض دو پوتیاں
سندھ میں ایک شخص نےگیارہ مویشیوں کے بدلے سات اور آٹھ سالہ پوتیاں رشتےمیں دی ہیں۔صلح کے لیے کم سِن بچیاں سے نکاح شکارپور ضلع کی تحصیل لکھی غلام شاہ کے رہائشی محمد عالم کو مویشیوں کے تاجر امداد علی نے گیارہ مویشی چرانے کے لیئے دیئے تھے جو اس نے بیچ دیئے، جس پر دونوں میں تناز عہ کھڑا ہوگیا۔
علاقے کی معززین کی جانب سے کیئے گئے فیصلے میں گیارہ مویشی کی قیمت ایک لاکھ ستر ہزار رپے مقرر کی گئی لیکن محمد عالم کے پاس رقم نہیں تھی۔ رقم نہ ہونے کی وجہ سے محمد عالم سے اس کی دو پوتیوں سات سالہ کریماں اور آٹھ سالہ ہیر زادی کے رشتے طے کیئے گئے ہیں۔محمد عالم کے بیٹے اور بچیوں کے والد محمد رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ شکارپور کے وکیل آغا ثنا اللہ نے ان کے والد اور امداد علی کے درمیان تنازعے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ مسجد میں جاکر رقم طے کی جائے۔ رمضان کے مطابق کلام پاک پر قسم اٹھانے کے بعد میرے والد محمد عالم کو ایک لاکھ ستر ہزار روپے ادا کرنے کو کہا گیا جو قسطوں میں دینے تھے۔ بعد میں زبردستی میرے والد سے میری بچیوں کے رشتے ایک حلف نامے پر لکھوائے گئے جبکہ میں رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ محمد رمضان کے مطابق وہ اپنی بیٹیاں کسی صورت میں نہیں دیں گے مگر مخالف فریق دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہم نکاح پڑھوائیں گے۔ دوسری جانب آغا ثنااللہ نے بتایا کہ انہوں نے فریقین کو مسجد میں جاکر کلام پاک پر معاملہ طے کرنے کو کہا تھا جس کے بعد فریق واپس چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بچیاں دینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بعد میں فریقین نے اپنی برادری کے معزز یونین کونسل کے ناظم عبدالقادر سے فیصلہ کروایا ہے۔ چک کے یونین کونسل کے ناظم عبدالقادر کا کہنا ہے کہ محمد عالم نے اپنی مرضی سے اپنی بچیاں امداد علی کو دی ہیں اگر فریقین راضی ہیں تو ہم کیوں اعتراض کریں گے۔ بنگلانی برداری کے اس جرگے میں شریک ایم این اے میر ہزار خان بجارانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ فریقین کی باہمی رضامندی سے کیا ہے اگر ہم یہ فیصلہ نہیں کرتے تو یہ خونی تنازعہ اور بھی بڑھ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے میں خون کا معاوضہ مقرر کیا گیا تھا لیکن رشتہ داری فریقین کے اصرار پر بحال کی گئی ہے۔سرداروں کے اس فیصلے پر جیکب آباد میں این جی اوز کی جانب سے مظاہرے کیئے گئے ہیں جبکہ سیاستدانوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ سندھ میں دو سال قبل ہائی کورٹ نے جرگوں پر پابندی عائد کی تھی اور آئندہ جرگے منعقد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی اعلان کیا تھا۔ جرگے پر پابندی کے لیئے پٹیشن دائر کرنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے رہنما شبیر شر کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد بھی سندھ میں ہر روز کہیں نہ کہیں جرگہ ہو رہا ہے مگر عدالت نے کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ پابندی کے فیصلے کے بعد ہونے والے جرگوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا مگر وہ مقدمات ابھی تک التوٰی کا شکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹھل میں پانچ بچیوں کو ایک خون کے بدلے میں دینے کے خلاف بھی وہ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے جس میں عدالت کو متوجہ کیا جائے گا کہ اس فیصلے سے توہین عدالت ہوئی ہے جس کا نوٹس لیا جائے۔ شبیر شر کے مطابق پاکستان کا قانون کسی کو کسی کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے نہ ہی کوئی شخص نجی کورٹ چلا سکتا ہے ان نکات کو بھی پٹیشن میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک قانون کے تحت سرداری نظام کا خاتمہ کیا گیا ہے اس قانون کے تحت کوئی بھی خود کو سردار نہیں کہلا سکتا اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے تین سال سزا مل سکتی ہے اس کو بھی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسمبلیوں میں وہی سردار اور جاگیردار موجود ہیں جو ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیں سندھ کے موجودہ اور سابق وزیر اعلیٰ خود جرگوں میں بیٹھے کر فیصلے کرچکے ہیں۔
040930_fallujah_raid_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040930_fallujah_raid_am
عراق پر حملے، بائیس افراد ہلاک
عراقی پولیس کا کہنا ہے کہ مزاحمت کاروں نے امریکی فوجی قافلے کو دو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں موقع پر موجود پولیس اہلکار کے مطابق سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق دوسرا بم دھماکہ اس وقت ہوا جب امریکی فوجی پہلے دھماکے کی زد میں آنے والی فوجی گاڑیوں کی مدد کے لیے پہنچے۔ اس کے علاوہ بغداد کے قریب واقع ایک امریکی فوجی اڈے سے راکٹ ٹکرانے کے نتیجے میں ایک فوجی ہلاک ہو گیا ہے مگر اس واقعہ کی مزید تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ عراق کے شمالی شہر موصل کے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایک گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں اس میں سوار پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔ عراق میں ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ فلوجہ پر امریکی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکی فوج کے بقول حملے میں ابو مصعب الزرقاوی کے حامی شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ حملے کے باعث یہ گھر تباہ ہو گیا ہے۔
061224_qazi_iran_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/12/061224_qazi_iran_sq
’ایران، یکجہتی دکھانے کا موقع‘
پاکستان میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر پابندیوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ مسلمان ملکوں کے لئے اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا اچھا موقعہ ہے۔
اتحاد کے سربراہ قاضی حسین احمد نے اتوار کو کراچی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہ ایٹمی طاقت ہیں مگر ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی، دوسرح طرف ایران بار بار اعلان کر رہا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقصد کے لئے ہے لیکن اس پر پابندیاں عائد کی جارہی ہے ۔ قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اس معاملے پر مسلمان ملکوں نے خاموش اختیار کی ہوئی ہےحالانکہ یہ موقعہ اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا ہے۔ قاضی حسین کے مطابق اگرمسلمان ممالک اسی طرح الگ الگ رہے، ایک دوسرے کی مدد کو نہ آئے تو خدشہ ہے کہ وہ ایک ایک کر کے مارے جائیں گے۔ مجلس عمل کے سربراہ نے قبائلی علاقے میں امریکی بمباری کی مذمت کی اور کہا کہ ایک تازہ واقعے میں ایک مسجد پر بمباری کی گئی ہے مگر حکومت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ ایک سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کا معاملہ طے ہوگیا ہے اور اس پر عملد رآمد عید کے بعد ہوگا۔
040606_batt_deeday
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/06/040606_batt_deeday
کیا آپ سپاہی کمل رام اور عبدالحفیظ کو جانتے ہیں
آپ میں سے اکثر نے چکوال کے صوبیدار خدادادخان کا نام تو سنا ہوگا۔وہ بھی اس لئے کہ خدادادخان پہلا ہندوستانی سپاہی تھا جسے پہلی عالمگیرجنگ میں شجاعت کے زبردست مظاہرے کے اعتراف میں سلطنتِ برطانیہ کی طرف سے پہلا وکٹوریہ کراس ملا تھا۔لیکن کم لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی ہے کہ اس جنگ میں شریک برطانوی نوآبادیات کے ایک ملین سپاہیوں میں سے ایک لاکھ سے زائد نے برطانیہ سے وفاداری نبھاتے ہوۓ یورپ، عراق، فلسطین، گیلی پولی، چین، مغربی اور مشرقی افریقہ کے محازوں پر اپنی جان نچھاور کردی۔ان لڑنے والوں میں پائلٹ آفیسر لیفٹیننٹ اندرالال بھی شامل تھا جس نے یورپ کے محاز پر دشمن کے دس طیارے مار گرانے کے بدلے فلائنگ کراس حاصل کیا۔کیا آپ لیفٹیننٹ اندرالال کو جانتے ہیں ؟
اسی طرح دوسری عالمگیر جنگ میں برطانوی نوآبادیات کے جن تین ملین فوجیوں اور سویلینز نے حصہ لیا ان میں سے ڈھائی ملین کا تعلق ہندوستان سے تھا۔چاہے شمالی افریقہ میں جنرل رومیل کے طوفانی جرمن ٹینک دستوں کو تباہ کرنے کا فرض ہو یا برما کے محاز پر جاپانیوں کو پیچھے دھکیلنے کا مشن۔روم میں اتحادی افواج کے داخلے کو آسان بنانے کے لئے بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے کی ڈیوٹی ہو یا پھر رائل انڈین ایرفورس کی جانب سے دشمن کے عقب میں پیراشوٹ رجمنٹ اتارنے کی زمہ داری۔آپ نے جنرل پیٹن، فیلڈمارشل منٹگمری، جنرل آئزن ہاور اور جنرل میک آرتھر کے کارناموں پر ہالی وڈ کی فلمیں تو دیکھی ہوں گی لیکن وکٹوریہ کراس پانے والےنائک گیان سنگھ، سپاہی کمل رام،جمعدار عبدالحفیظ اور جارج کراس پانے والی خاتون فوجی نورعنائت خان کو کتنے لوگ جانتے ہیں۔فی الحال میں ان چھتیس ہزار ہندوستانی فوجیوں کا تزکرہ چھوڑتا ہوں جو دوسری عالمی جنگ میں کام آۓ۔ ساٹھ برس پہلے چھ جون کو ڈیڑھ لاکھ امریکی اور برطانوی فوجی یورپ کو نازیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے فرانس میں نارمنڈی کے ساحل پر اترنا شروع ہوۓ۔لیکن کیا یہ ڈی ڈے ممکن تھا اگر اس دن اسی فی صد جرمن افواج کو سوویت فوجوں نے مشرقی محاز پر نہ الجھایا ہوا ہوتا۔ بیشتر مغربی مورخ گزشتہ ساٹھ برس سے بتا رہے ہیں کہ نازی جرمنی اور فاشسٹ جاپان سے آزادی چھیننے کی قیمت آٹھ لاکھ فرانسیسیوں، پانچ لاکھ امریکیوںاور تین لاکھ نوے ہزار برطانوی فوجیوں نے اپنے خون سے ادا کی۔لیکن سوویت یونین کے ان ڈھائی کروڑ سویلینز اور فوجیوں کے بارے میں فرانس برطانیہ اور امریکہ کے کتنے بچے جانتے ہیں جنہوں نے نازیوں کو دو ہزار کیلومیٹر تک برلن تک دھکیلنے کے سفر میں اپنی جانیں لٹا دیں۔لندن نازیوں کی مسلسل بمباری سے کھنڈر بن گیا تھا۔اس موضوع پر کئی کتابیں شائع ہوئیں اور کئی دستاویزی اور غیر دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں لیکن روس اور یوکرائن کے وہ دو ہزار قصبے اور دیہات کیا ہوۓ جنہیں نازی بلڈوزروں نے برابر کر دیا۔یہ بات کتنی دفعہ سامنے آ سکی کہ دوسری عالمی جنگ میں ایک کروڑ چودہ لاکھ چینی جاپانی فاشزم کی مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے۔ ساٹھ برس میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر اور روسی صدر کو ڈی ڈے کی تقریبات میں مدعو کیا گیا۔لیکن ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ، چینی وزیرِاعظم جیاؤ باؤ اور پاکستانی صدر پرویز مشرف کو اس تقریب کے بارے میں کتنا بتایا گیا ہے ؟ کیا غلام ملکوں کے فوجیوں کے بل پر لڑی جانے والی دونوں عالمی جنگیں صرف یورپ کی آزادی کی جنگیں تھیں ؟
051208_irani_films_as
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/12/051208_irani_films_as
ایرانی فلمیں لاہور میں
’ایک پہر دِن چڑھے ہم عازمِ نمائش گاہ ہوئے جہاں تصاویر انواع و اقسام کی ہمارے دیکھنے کو آویزاں تھیں۔۔۔ بعد ازاں ہمیں عمارت کے اس گوشے میں لے جایا گیا جسے حیرت کدہ کہیئے تو بے جا نہ ہوگا۔ وسط میں اس کمرے کے ایک بڑا پردہ سفید تان دیا گیا اور پھر کمرے میں روشن برقی قمقمے بجھا دیئے گئے۔ اب اس ’کَل‘ (مشین) میں سے کہ پروجیکٹر کہلاتی تھی، ایک دھار سفید روشنی کی نمودار ہوئی اور سفید پردے پر صحرائے عرب کا منظر نمودار ہوا جس میں بدو لوگ اونٹوں پر سوار محوِ سفر تھے۔ یہ تصاویر بطریقِ سینما ٹوگراف تیار کی گئی تھیں اور ہم انھیں دیکھ کر انتہائی محظوظ و مُتحیّر ہوئے۔‘
یہ اقتباس ایران کے فرماں روا مظفرالدین شاہ کے روزنامچے سے لیا گیا ہے اور اس پر 13جولائی 1900 کی تاریخ درج ہے جب شاہِ ایران یورپ کے اوّلین دورے پر گئے تھے اور فلم دیکھنے کا یہ منظر پیرس میں پیش آیا تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے، مظفرالدین شاہ نے اپنے شاہی فوٹو گرافر مرزا ابراہیم خان عکاس کو حکم دیا کہ فلم سازی کا تمام سازوسامان فوری طور پر خریدا جائے تاکہ ایران واپس جا کر وہ بھی شاہی محل اور درباریوں کی فلم بنا سکیں۔ اور اسطرح شاہی سرپرستی میں آج سے سو برس پہلے ایران میں فلم سازی کا آغاز ہوا۔ 1930 کے عشرے میں تفریحی مقاصد کے تحت فلمیں بننی شروع ہوئیں اور سینما گھروں کا رواج بھی اسی زمانے میں پڑا۔ 1960 کے عشرے میں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی سرپرستی میں نئے فلم سٹوڈیو تعمیر ہوئے اور غیر ملکی فلموں کو فارسی میں ڈب کرنے کے لئے جدید سازوسامان درآمد کیا گیا۔ ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے غیر ملکی فلموں کو فارسی میں ڈب کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔ 1964 میں ایران کی پہلی فلم اکیڈمی کھُلی جہاں گزشتہ 40 سال کے دوران بہت سے فلمی مصّنفوں، ہدایتکاروں اور تکنیک کاروں نے تربیت حاصل کی ہے۔ انھی تربیت یافتہ لوگوں میں ڈاکٹر محمد شہبا بھی شامل ہیں جن کی بنیادی تربیت تو ایک فلم ایڈیٹر کے طور پر ہوئی تھی لیکن بعد میں انھوں نے سکرپٹ رائٹنگ اور ڈائریکشن کی تربیت بھی حاصل کی۔ وہ فلم تکنیک کے موضوع پر چالیس کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کر چکے ہیں اور آج کل فلم آرٹ کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں انھوں نے ایرانی فلموں کی جِس نمائش کا اہتمام کیا وہ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ ہر فلم سے پہلے وہ اسکا تفصیلی تعارف کراتے تھے، اور فلم دکھانے کے بعد حاضرین کے سوالات کے مفصّل جواب بھی دیتے تھے۔ انھیں ذاتی طور پر ہدایتکار مخمل باف کی ’ ناصرالدین شاہ: اکتورِ سینما‘ بہت پسند ہے۔ یہ فلم عالمی حلقوں میں اپنے انگریزی نام سے معروف ہے یعنی:ONCE UPON A TIME, CINEMAیہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے جسے فوٹوگرافروں سے سخت نفرت ہے اور اس نے حکم جاری کر رکھا ہے کہ سلطنت میں کوئی فوٹوگرافر نظر نہیں آنا چاہیئے۔ لیکن ایک جیالا کیمرہ مین پہرے داروں کو دھوکہ دے کر محل میں اپنے متحرک کیمرے سمیت داخل ہو جاتا ہے اور شاہی رسمِ تاج پوشی اور جشن کی تمام تقریبات کو فلم بند کر لیتا ہے۔ تاہم محل سے نکلتے وقت وہ پکڑا جاتا ہے اور اُسے سر قلم کرنے کے لئے دربار میں پیش کیا جاتا ہے لیکن سر قلم کرنے سے پہلے بادشاہ سلامت کو جرم کا مکمل ثبوت مہیّا کیا جاتا ہے اور شاہی جشن کی فلم دکھائی جاتی ہے۔ بادشاہ سلامت یہ فلم دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور فلم میں اُن کی دلچسپی جنون کی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر ملوکانہ شان و شوکت کو تج کر ایک فلمی اداکار بننے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ بادشاہ کی، فلم آرٹ سے جو دلچسپی دکھائی گئی ہے وہ دراصل خود مخمل باف کے عشقِ فلم کی غماز ہے۔ یہ فلم کئی بین الاقوامی میلوں میں انعامات حاصل کر چکی ہے اور اہلِ لاہور نے بھی اسے کُھل کر داد دی ہے۔ لاہور میں دکھائی جانے والی ایک اور فلم ’نامہء نزدیک‘ ہے جو کہ اپنے انگریزی نام Close up کے تحت امریکہ، یورپ اور سکینڈے نیویا میں دکھائی جا چکی ہے۔ اس کہانی کا پس منظر بھی عجیب ہے: ایران میں ایک شخص خود کو ہدایتکار مخمل باف کے طور پر پیش کرتا ہے اور کئی روز تک مخمل باف کے مداحوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ آخر شک پڑنے پر پولیس کو مطلع کیا جاتا ہے اور یہ جعلی مخمل باف گرفتار کر کے حوالات بھیج دیا جاتا ہے۔ عدالت میں یہ شخص اعتراف کرتا ہے کہ اس نے دھوکہ دیا تھا لیکن اس کی نیت ٹھیک تھی اور وہ محض چند روز تک شہرت اور عزت کا لطف اُٹھانا چاہتا تھا جو کہ اسے زندگی بھر نصیب نہیں ہوئی تھی۔ عدالت مُدّعی کی منشاء کے مطابق ملزم کو معاف کر دیتی ہے اور جب وہ رہا ہو کر حوالات سے باہر آتا ہے تو وہاں اصلی مخمل باف اُس سے ملاقات کے لئے موجود ہے۔ پھر دونوں اس گھر میں جاتے ہیں جہاں جعلی مخمل باف کئی روز تک مہمان بن کے پڑا رہا تھا ۔۔۔ اور یوں یہ فلم ہنسی خوشی کے ایک منظر پہ ختم ہو جاتی ہے۔ اس فلم کی بُنیادی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی اداکار نہیں ہے بلکہ اُن اصل لوگوں نے کام کیا ہے جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ عدالت کی کارروائی بھی اصلی ہے اور عدالت کی اجازت سے پیشی کے روز اسکی فلم بندی کی گئی تھی۔ عباس کیا رُستمی اور جعفر پناہی۔ یہ تینوں نوجوانی کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور ایرانی سینما کو عالمی سطح پر متعارف کرانا اِن کا پرانا مشن تھا جو کہ اب بخیروخوبی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ لاہور میں ایرانی فلموں کی نمائش کے موقعے پر ایرانی ماہرِ فلم ڈاکٹر محمد شہبا نے بتایا کہ ایران میں ہر برس 80 کے قریب فیچر فلمیں بنتی ہیں، اِن کے علاوہ بچوں کے لئے بھی سات آٹھ فلمیں تیار کی جاتی ہیں اور اتنی ہی فلمیں خاص طور پر عالمی میلوں میں نمائش کےلئے بھی بنائی جاتی ہیں جو کہ ’فیسٹیول فلمیں‘ کہلاتی ہیں۔ اگرچہ فیچر فلموں کی پروڈکشن پرائیویٹ سیکٹر میں ہوتی ہے لیکن حکومت فلم سازوں کو آسان قرضے مہیّا کرتی ہے، خام فلم بہم پہنچاتی ہے اور تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔ محسن مخمل باف، عباس کیا رستمی اور جعفر پناہی جیسے مشاہیرِ فلم کے بعد اب ایرانی فلم سازوں کی ایک نئی پود تیار ہو چکی ہے جو اس روایت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ نوجوان مصّنف اور ہدایتکار ابوالقاسم طالبی کی نئی فلم ’بچپن کا جھگڑا‘ حال ہی میں نمائش کے لئے پیش ہوئی جس میں عراق کے ایک دیہاتی لڑکے کی داستان بیان کی گئی ہے۔ بارہ سالہ علی کا سارا خاندان امریکی بمباری کے دوران ہلاک ہو چکا ہے اور بچ نکلنے والے دیہاتی اپنا تباہ شدہ آبائی گاؤں چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں فرار ہو چکے ہیں۔ علی کو خبر ملتی ہے کہ اسکا شِیرخوار بھائی بمباری میں بچ گیا تھا ۔۔۔ چنانچہ علی اپنے ایک سالہ بھائی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔ اور یہ ساری فلم اسی تلاش پر مبنی ہے۔ لاہور کی نمائش میں پیش ہونے والی فلم Secret Ballot کو خواتین نے خاص طور پر پسند کیا۔ اس میں ایران کا ایک دور افتادہ علاقہ دکھایا گیا ہے جہاں عورتیں پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کر رہی ہیں۔ اس فلم کے مصنف اور ہدایتکار بابک پیامی ہیں لیکن جس فلم نے سب سے زیادہ داد وصول کی وہ عباس کیا رُستمی کی فلم ’10‘ تھی۔ یہ ساری کی ساری فلم ایک کار کے اندر ڈیجیٹل کیمرے سے تیار کی گئی ہے اور بعد میں اسے35 ایم ایم پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ کار میں وقفے وقفے سے سوار ہونے والے مسافروں کی کہانیوں کے ذریعے ایرانی معاشرے کے مختلف رُخ بے نقاب کئے گئے ہیں۔ فلم ’10‘ کو دیکھ کر اس عمومی تاثر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ ایران میں فلموں پر سخت سینسر شپ عائد ہے اور معاشرے کے بُرے پہلوں پر تنقید کی اجازت نہیں ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو کر آزادانہ زندگی گزار رہی ہے اور اسکا نو سالہ بیٹا اس سے باغی ہو چکا ہے۔ اس کار کے مختلف مسافروں میں ایک طوائف بھی ہے جو شادی شدہ عورتوں کو ’بے وقوف‘ کہہ کر اُن کا مذاق اُڑاتی ہے اور انھیں مردِ واحد کی غلامی کا طعنہ دیتی ہے۔
070909_sharif_gtroad_feature
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070909_sharif_gtroad_feature
نواز شریف، جی ٹی روڈ پر پراسرار خاموشی
اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف سوموار کے روز اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کے ذریعے لاہور روانہ ہوں گے۔ اپنی وزارت عظمی کے دور میں بڑے چاؤ سے تعمیرکردہ موٹر وے پر پانچ سو سال پرانی گزر گاہ کو فوقیت دینے میں نواز شریف کی یہ توقع پنہاں نظر آتی ہے کہ اسلام آباد سے لاہور تک ان کا عوامی استقبال کیا جائے گا۔
پنجاب کے چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں سے گزرتی اس شاہراہ پر نواز شریف کے ممکنہ سفر سے ایک روز قبل جی ٹی روڈ کے کنارے ان آبادیوں میں نواز شریف کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جاری آنکھ مچولی اس بات کی مظہر ہے کہ کم از کم انتظامیہ تو سمجھتی ہے کہ ایسا عین ممکن ہے۔ لیکن اگر استقبالی تیاریوں کی بات کی جائے، تو دو سو کلومیٹر سے زائد اس سفر میں جی ٹی روڈ کے ساتھ نہ تو بڑی مقدار میں بینرز اور پوسٹرز نظر آتے ہیں اور نہ ہی روایتی خیر مقدمی نعروں سے دیواریں رنگی ہیں۔ گوجر خان، دینہ، جہلم، سرائے عالمگیر، گوجرانوالہ سمیت جی ٹی روڈ پر واقع اکثر بڑے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کی تنظیم خاصی مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ تو پھر آٹھ سالہ جلاوطنی ترک کے واپس آنے والے رہنما کے استقبال سے صرف ایک روز پہلے یہ منظر اتنا پھیکا کیوں؟ جی ٹی روڈ کنارے بسے شہروں میں مسلم لیگ (ن) کے دفاتر کے مناظر اسکی کچھ وضاحت کرتے ہیں۔ جہلم مسلم لیگ کے دفتر پر تالہ پڑا ہے۔ قریب ہی مقامی رہنما راجہ افضل کی رہائش گاہ ہے۔ اس پر بھی تالہ نظر آیا لیکن موبائل فون پر رابطوں کے بعد اس گھر کا تالہ کھلا تو معلوم ہوا کہ اہل خانہ تو اندر ہی موجود ہیں۔ استفسار پر راجہ افضل کے قریبی عزیز اور شہر کی ایک کونسل کے نائب ناظم شاہ نواز نے بتایا کہ گزشتہ شب سے انکے شہر میں مسلم لیگی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گلی محلوں میں پولیس اور انٹیلیجنس کے ارکان نواز شریف کے حامیوں کی بو سو نگھتے پھر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ راجہ افضل اور دیگر اہم رہنما عملاً روپوش ہیں لیکن سوموار کے روز تک۔ اس روز وہ باہر بھی نکلیں گے اور جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ بھی جائیں گے۔ جھنڈوں اور بینرز کی عدم موجودگی کی وجہ گوجر خان میں مسلم لیگی رہنما راجہ خورشید زمان کی رہائش گاہ جا کر معلوم ہوا کہ ایک کمرے میں سینکڑوں خیرمقدمی بینرز اور پوسٹرز ڈھیر کی صورت پڑے ہیں۔ راجہ خورشید زمان کے سیکرٹری محمد صابر کا کہنا ہے کہ تین روز سے ان بینرز کو جی ٹی روڈ کنارے آویزاں کرنے کی کوشش جاری ہے لیکن جب بھی کوئی کارکن بینر لگانے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا بلکہ اسکی خبر مقامی تھانے سے آتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بینرز اور خیرمقدمی نعرے آویزاں ہونے کے لئے لائے گئے ہیں، اور یہ نواز شریف کے جی ٹی روڈ سے گزرنے کے وقت ان کا استقبال کریں گے، چاہے مزید کارکنوں کو جیل جانا پڑے۔ عبدالرؤف شیخ لاڑکانہ سے آئے ہیں اور اب براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد ایئرپورٹ کی جانب گامزن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکے ساتھ ایک سو سے زائد لوگ ہیں جو سندھ کے مختلف علاقوں سے نواز شریف کا استقبال کرنے آئے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ پولیس نے روکا، رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن یہ پولیس کو جل دیتے گوجر خان تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب سفر بھی تھوڑا رہ گیا ہے۔ گجرات مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران (شجاعت حسین اور پرویز الہی) کا گڑھ ہے۔ علاقے میں ترقیاتی کاموں کے باعث لوگ ان کے حامی ہیں۔ لیکن چند لوگوں سے گفتگو کے بعد اندازا ہوا کہ مخالف وہ نواز شریف کی واپسی کے بھی نہیں ہیں۔ فدا گجرات میں ایک نجی ادارے کے ملازم ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ وہ چوہدریوں کے حامی ہیں اور رہیں گے لیکن نواز شریف کی واپسی کے مخالف نہیں۔ ’نواز شریف ضرور واپس آئیں۔ لیکن بدامنی کی وجہ نہ بنیں۔ پرامن طریقے سے آئیں اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انتخاب میں حصہ لیں۔‘
071021_fazlu_presser_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/10/071021_fazlu_presser_nj
’فراہمیِ تحفظ میں حکومت ناکام‘
متحدہ مجلس عمل کے مرکزی رہنما اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ کراچی میں بم دھماکوں کے بعد حکومت کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے لئے قوائد وضوابط بنانے کی جو تجاویز دی جارہی ہیں وہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تاحال حکومت کی جانب سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔
اتوار کو پشاور میں جے یو آئی ضلع پشاور کی مجلس عمومی کے آئینی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بم دھماکوں کے بعد حکومت نے سیاسی جماعتوں کےلئے قوائد و ضوابط مرتب کرنے کے جو اعلانات شروع کررکھے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرانے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے میں اختلافات کے بارے انہوں نے کہا کہ’اختلافات تو موجود ہیں لیکن اتحاد کو برقرار رکھا جائےگا اور اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے ایک دوسرے سے جوگلے شکوے ہیں ان کو سپریم کونسل کے اجلاس میں طے کیا جائے گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ پارٹی کی مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں 24 اور 25 اکتوبر کو کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان سے امریکی افواج واپس نہیں جاتی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتیں بھی اب اس سلسلے میں ان کے اس موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہورہی ہے۔ انہوں نے اس بابت پاکستان میں متعین امریکی سفیر سے اپنی حالیہ ملاقات کا خصوصی طورپر تذکرہ کیا جس میں ان کے مطابق امریکی سفیر نے عندیہ دیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے پر غور کر رہا ہے۔ جے یو آئی کی مجلس عمومی کا آئینی اجلاس خصوصی طورپر اس سلسلے میں بلایاگیا تھا تاکہ ایم ایم اے میں اختلافات ، اسمبلیوں سے استعفوں اور سرحد اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے پارٹی کارکنوں کے خدشات کو دور کیا جاسکے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس حوالے سے تفصیلاً کارکنوں کو تمام سیاسی صورتحال سےآگاہ کیا اور تمام حالات کا ذمہ دار جماعت اسلامی کو ٹھہرایا۔ اس موقع پر اجلاس میں جے یو آئی کے ایک کارکن نے جوش میں آکر ’ نہیں مانتے نہیں مانتے مودودی کو نہیں مانتے‘ کا نعرہ بھی لگایا تاہم پارٹی سربراہ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ سابق اپوزیشن رہنما نے صدراتی انتخاب کے دوران ذرائع ابلاغ کے کردار کو بھی دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملک میں جو بھی صورتحال بنتی ہے میڈیا اس کا ذمہ دار ان کو ٹھہراتا ہیں۔
world-52734364
https://www.bbc.com/urdu/world-52734364
سعودی عرب کا محدود حج کا اعلان، تاریخ میں حج کب کب منسوخ ہوا؟
سعودی عرب کی حکومت نے رواں برس کورونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سلطنت میں مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق 22 جون کی شب سعودی وزارت حج و عمرہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دنیا کے 180 سے زائد ممالک میں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر محدود تعداد میں سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کا موقع دیا جائے گا۔‘ جبکہ سعودی عرب کی وزارت خارجہ کی جانب سے ٹوئٹر پر بھی سعودی وزارت حج و عمرہ کے اس فیصلے کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ سعودی وزارت حج و عمرہ نے بیان میں مزید کہا کہ ’کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں پانچ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں اور 70 لاکھ سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔ کورونا کی وبا اور روزانہ عالمی سطح پر اس وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہ طے کیا گیا ہے کہ رواں برس 1441ھ کے حج میں سعودی سلطنت میں مقیم مختلف ممالک کے عازمین کو محدود تعداد میں شریک کیا جائے گا۔‘ یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کو حج سے کتنی آمدن ہوتی ہے؟ 'حج کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے' حج پر سبسڈی حج کے فلسفے سے متصادم ہے: حکومت سعودی وزارت حج و عمرہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ حج محفوظ اور صحت مند ماحول میں ہو۔ کورونا سے بچاؤ کے تقاضے پورے کیے جائیں، عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکے اور انسانی جان کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔‘ یاد رہے کہ کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سعودی حکومت نے اس سے قبل اپنے مقدس مقامات پر عمرے کی ادائیگی بھی معطل کر دی تھی۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں کورونا وائرس کے باعث 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 61 ہزار سے زائد ہے۔ سعودی حکومت نے کورونا کے باعث لاک ڈاؤن بھی 22 جون سے ختم کر دیا ہے جس کے بعد معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔ اب جب کہ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پیش نظر رواں برس حج کو محدود کرتے ہوئے صرف ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو حج کرنے کی اجازت دی ہے وہیں کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے قبل حج کب کب اور کتنی مرتبہ منسوخ کیا گیا ہے؟ ماضی میں حج کب کب منسوخ ہوا؟ سنہ 2005 میں حج کے مناظر تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ فریضہ ہر سال ادا ہوتا رہا۔ اگرچہ مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی سال حج نہیں ہو سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقعے ایسے ہیں جن میں حج ادا نہ ہو سکا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، چور اور ڈاکوؤں کے حاجیوں کے قافلے لوٹنا اور موسم کی انتہائی لہر شامل ہیں۔ سنہ 865: السفاک کا حملہ سنہ 865 میں اسماعیل بن یوسف نے، جنھیں السفاک کے نام سے جانا جاتا ہے، بغداد میں قائم عباسی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور مکہ میں عرفات کے پہاڑ پر حملہ کیا۔ ان کی فوج کے اس حملے میں وہاں موجود حج کے لیے آنے والے ہزاروں زائرین ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی وجہ سے اس سال حج نہ ہو سکا۔ سنہ 930: قرامطہ کا حملہ اس حملے کو سعودی شہر مکہ پر سب سے شدید حملوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ سنہ 930 میں قرامطہ فرقے کے سربراہ ابو طاہر الجنابی نے مکہ پر ایک بھرپور حملہ کیا جس دوران اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی کہ کئی سال تک حج نہ ہو سکا۔ سعودی عرب میں قائم شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اسلامی تاریخ دان اور احادیث کے ماہر الذهبي کی کتاب ’اسلام کی تاریـخ‘ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’316 ہجری کے واقعات کی وجہ سے کسی نے قرامطہ کے خوف کے باعث اس سال حج ادا نہیں کیا۔‘ سنہ 1889 کی اس تصویر میں زائرین کو خانہ کعبہ کے اردگرد جمع دیکھا جاسکتا ہے قرامطہ اس وقت کی اسلامی ریاست کو نہیں مانتے تھے اور اسی طرح وہ ریاست کے تحت مانے جانے والے اسلام کے بھی منحرف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ حج پر ادا کیے جانے والے فرائض اسلام سے پہلے کے ہیں اور اس طرح وہ بت شکنی کے زمرے میں آتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابو طاہر خانہ کعبہ کے دروازے پر آٹھ ذی الحج کو تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے اپنے جنگجوؤں کے ہاتھوں زائرین کا قتلِ عام کرواتے اور دیکھتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ کہتے رہے کہ ’عبادت کرنے والوں کو ختم کر دو، کعبہ کا غلاف پھاڑ دو اور حجرِ اسود اکھاڑ دو۔‘ اس دوران کعبہ میں 30 ہزار حاجیوں کا قتلِ عام ہوا اور انھیں بغیر کسی جنازے، غسل اور کفن کے دفنا دیا گیا۔ سنہ 1908 میں خانہ کعبہ کے قریب مکہ میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں مورخین کے مطابق حملہ آوروں نے لوگوں کو قتل کرنے کے بعد کئی ایک کی لاشیں زم زم کے کنویں میں بھی پھینکیں تاکہ اس کے پانی کو گندہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ حجرِ اسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ اس وقت کے سعودی عرب کے مشرقی صوبے البحرین لے گئے جہاں یہ ابو طاہر کے پاس اس کے شہر الاحسا میں کئی سال رہا۔ بالآخر ایک بھاری تاوان کے بعد اسے واپس خانہ کعبہ میں لایا گیا۔ سنہ 983: عباسی اور فاطمی خلافتوں میں جھگڑے حج صرف لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال سیاست کی نظر بھی ہوا۔ سنہ 983 عیسوی میں عراق کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں کے سربراہان کے درمیان سیاسی کشمکش رہی اور مسلمانوں کو اس دوران حج کے لیے سفر کرنے نہ دیا گیا۔ اس کے بعد حج 991 میں ادا کیا گیا۔ مزید پڑھیے ’ماضی کا پورا مدینہ آج کی مسجدِ نبوی کا حصہ بن چکا ہے‘ حج پر سبسڈی حج کے فلسفے سے متصادم ہے: حکومت سعودی عرب میں ’تبدیلی کی لہر‘ سعودی عرب میں حج کی ادائیگی کے دوران لاکھوں مسلمان عرفات کے پہاڑ پر چڑھتے ہیں بیماریوں اور وباؤں کی وجہ سے حج منسوخ شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 357 ہجری میں ایک اور بڑے واقعے کی وجہ سے لوگ حج نہ کر سکے اور یہ واقعہ دراصل ایک بیماری تھا۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ بہت سے زائرین راستے میں ہی ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے بھی تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔ سنہ 1831 میں انڈیا سے شروع ہونے والی ایک وبا نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کے لیے مکہ آئے تھے۔ حج اور عمرے کے دوران لوگ مدینہ میں مسجدِ نبوی کا دورہ بھی کرتے ہیں اسی طرح 1837 سے لے کر 1858 میں دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔ سنہ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں سنہ 1850 تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔ اکثر تحقیق کاروں کے مطابق یہ وبا انڈیا سے زائرین کے ذریعے آئی تھی جس نے نہ صرف ان کو بلکہ مکہ میں دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے دیگر زائرین کو بھی متاثر کیا تھا۔ مصری زائرین جوک در جوک بحرہ احمر کے ساحلوں کی طرف بھاگے جہاں انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہ وبا بعد میں نیو یارک تک پھیلی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سلطتِ عثمانیہ کے دور میں ہیضے کی وبا کے خاتمے کے لیے قرنطینہ پر خصوصاً زور دیا گیا تھا۔ رہزنی کا خوف اور حج کے بڑھتے ہوئے اخراجات سنہ 390 ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں مصر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔ سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضۂ حج متاثر ہوا۔ 654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔ جب کڑاکے کی سردی نے حج روک دیا سنہ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔ اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے حج کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ 2016 میں سعودی عرب کو حج سے 12 ارب ڈالر کی براہ راست آمدن ہوئی تھی کسوہ پر حملہ سنہ 1344 ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے کر جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔ یہ عیسوی کے حوالے سے 1925 کا سال بنتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے سعودی عرب وجود میں آیا ہے، یعنی 1932 سے لے کر اب تک، خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا۔
world-55961158
https://www.bbc.com/urdu/world-55961158
بائیڈن انتظامیہ کا یمنی محاذ پر سعودی حمایت ختم کرنے کا اعلان: امریکہ کے ’بدلتے رویے‘ کے بعد سعودی عرب کا رد عمل کیا ہوگا؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کو حاصل امریکی تعاون روکنے کا اعلان کیا ہے۔
چھ سالوں سے جاری اس تباہ کن جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق اپنی پہلی اہم تقریر میں صدر بائیڈن نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ 'یمن میں جنگ ختم ہونی چاہیے۔' سنہ 2014 میں یمن کی کمزور حکومت اور حوثی باغیوں کے مابین تنازع شروع ہوا۔ ایک سال بعد تنازعے نے اس وقت شدید شکل اختیار کرلی جب سعودی عرب سمیت آٹھ عرب ممالک نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت سے حوثی باغیوں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ اور یہ حملے ہنوز جاری ہیں۔ جو بائیڈن نے جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بہت سے اہم فیصلے کیے ہیں اور اپنے پیش رو صدر کے کچھ فیصلوں کو الٹ دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’یمن جنگ میں امریکہ سعودی عرب کی مدد نہ کرے‘ ’امریکہ کے بغیر بھی سعودی عرب کا وجود رہا ہے‘ امریکہ میں زیر تربیت سعودی فوجیوں کی بے دخلی انھوں نے امریکہ میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور جرمنی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو واپس لیا ہے۔ یہ فوجی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے ہی جرمنی میں ہیں۔ صرف یہی نہیں، بائیڈن کے زیرقیادت امریکی حکومت سابق صدر ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے فوجی معاہدوں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسلحہ کی فروخت کے سودوں کو بھی عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اثر ایف 35 جنگی طیاروں کے معاہدے پر بھی پڑے گا۔ امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو گائیڈڈ میزائلوں کی فروخت بھی روک رہا ہے۔ اس سے یمن کی جنگ تو متاثر ہوگی لیکن جزیرۃ العرب میں القاعدہ کے خلاف جنگ پر اثر نہیں پڑے گا۔ دریں اثنا صدر بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی فوجی مہم میں امریکی حمایت روکنے کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ یمن میں 'سیاسی حل' کے لیے پر عزم ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی حکومت نے کہا: 'سعودی عرب، یمن بحران کے جامع سیاسی حل کی حمایت کے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے یمن بحران کے حل کی سفارتی کوششوں کا پرزور خیرمقدم کرتا ہے۔' سعودی عرب نے بائیڈن کی جانب سے سعودی عرب کی خودمختاری کے تحفظ اور اس کے خلاف خطرات سے نمٹنے میں تعاون کے عزم کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ٹویٹر پر لکھا: 'ہم بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے، خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کے حملوں سے نمٹنے کے لیے صدر بائیڈن کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم گذشتہ سات دہائیوں کی طرح امریکہ میں اپنے تمام دوستوں کے ساتھ کام کرنے کے متمنی ہیں۔' اپنے بیان میں شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا: 'ہم یمن کے بحران کا حل تلاش کرنے اور وہاں انسانی حالت کو بہتر بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔' سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پیغام صدر بائیڈن نے سینیئر سفارت کار ٹموتھی لینڈرکنگ کو یمن کے لیے امریکہ کا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ انھیں اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور یمن بحران کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے بیشتر حصوں پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے۔ ٹیموتھی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ باغیوں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے مابین بات چیت دوبارہ شروع کرائیں۔ بی بی سی کی نمائندہ لیس ڈوسٹ کے مطابق صدر بائیڈن کا اعلان یمن جنگ کے خاتمے کے ان کے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ تاہم یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد کے لیے امریکی تعاون روکنے سے یہ خونی باب فوراً ختم نہیں ہوگا۔ لیکن امریکی صدر کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے لیے یہ ایک ’مضبوط پیغام‘ ضرور ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت بھی یمن جنگ سے نکلنے کے طریقوں کی تلاش میں ہے۔ بہرحال صدر بائیڈن کے لیے یمن میں امن کا قیام ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بائیڈن نے یہ کام ٹموتھی لینڈرنگ کو سونپا ہے جو کئی سالوں سے اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں اور اس میں شامل تمام لوگوں سے واقف ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے۔ انھوں نے نہ صرف یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے تعاون کو جاری رکھا بلکہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو امریکی دفاعی صنعت کے لیے بھی اہم قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کے دور کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں بدلاؤ آنا شروع ہوگیا ہے۔ بائیڈن کے حالیہ اعلان کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو اب نئی شکل دی جائے گی۔ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی تو آئے گی، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا سعودی عرب پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ مشرقی وسطی کے امور کے ماہر اور نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر پی آر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'یمن کے بارے میں بائیڈن پالیسی سے سعودی عرب کو اس جنگ سے نکلنے کا موقع ملے گا۔' دوسری طرف انقرہ میں یلدرم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر عمیر انس کہتے ہیں کہ 'امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔ توانائی اور سکیورٹی کے شعبے میں دونوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ اگر امریکہ سعودی عرب کو دوست نہیں رکھتا ہے تو خلیج فارس کی سلامتی پر سوالات پیدا ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں بائیڈن کی آمد سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔' بائیڈن کا یمن کے متعلق موقف پہلے سے ہی واضح تھا۔ عمر کا کہنا ہے کہ 'یمن کے متعلق سعودی عرب پر یقینا دباؤ رہے گا۔ متحدہ عرب امارات نے خود کو اس جنگ سے پیچھے ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات پیچھے ہٹتا ہے تو یمن کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ جمال خاشقجی خاشقجی کا معاملہ سعودی عرب کے لیے پریشانی کا باعث بائیڈن انتظامیہ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کا معاملہ سعودی عرب کو پریشان کر سکتا ہے۔ خیال رہے کہ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔ عمیر انس کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ میں خاشقجی کی موت کا معاملہ ایک بار پھر کھڑا ہوسکتا ہے۔ عمیر کا کہنا ہے کہ 'بائیڈن انتظامیہ جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی عرب کو ضرور گھیرے گی۔ امریکہ میں بہت سارے قانونی عمل شروع ہوسکتے ہیں اور اس میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اگر ولی عہد کا نام لیا گیا تو پریشانی ہوسکتی ہے۔ یہ معاملہ اور اس سے متعلق قانونی پہلوؤں کو کس طرح حل کیا جائے گا یہ سعودیوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے۔' سعودی عرب اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ خاشقجی کی موت میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ملوث تھے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مصنف اور تجزیہ کار علی شہابی کہتے ہیں کہ امریکہ کو سعودی شہزادے کو شبے کا فائدہ دینا پڑے گا کیوں کہ ’ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔' خفیہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ سی آئی اے کا 'خیال ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کا حکم دیا ہوگا۔' لیکن علی شہابی کہتے ہیں کہ 'خواہ وہ سی آئی اے ہو یا محکمہ داخلہ یا پینٹاگون، حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں کچھ کرنے کے لیے امریکہ کا سعودی عرب کے ساتھ رہنا بہت ضروری ہے۔' دریں اثنا عمیر انس کا کہنا ہے کہ 'خلیج فارس کی سلامتی اہم ہے اور بائیڈن انتظامیہ چین یا روس کا اثر و رسوخ یہاں نہیں ہونے دینا چاہے گی۔ بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جہاں جہاں بھی روس کا اثر و رسوخ ہے امریکہ اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا۔' ایران کا جوہری معاہدہ اور سعودی اختلاف سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ایران کے جوہری معاہدے پر بھی اختلافات ہوسکتے ہیں۔ اوباما کے دور میں سعودی عرب نے بھی متفقہ طور پر ایران معاہدے کی حمایت کی تھی۔ بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد کرنے جارہے ہیں۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ یقینی طور پر ایران پر کچھ نیا دباؤ بنانے کی کوشش کرے گی۔ سعودی عرب چاہے گا کہ اس معاملے میں اس کے کچھ مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ تاہم ایران نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے جو معاہدہ منسوخ کیا تھا اس پر دوبارہ عملدرآمد کیا جائے گا۔ خارجہ امور سے متعلق یورپی کونسل کی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایلی جیرانمایہ کہتی ہیں کہ 'اگر آپ خارجہ پالیسی، جوہری ڈس آرمامنٹ اور محصول کے عہدوں پر بائیڈن انتظامیہ کی تقرریوں کو دیکھیں تو سارے جوہری مذاکرات اور معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے براہ راست منسلک رہے ہیں۔' عمیر انس کہتے ہیں: 'ایران کے ساتھ معاہدے پر ایران اور امریکہ کے درمیان کیا ہوتا ہے یہ بات بھی سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہوگی۔ سعودی عرب اپنے پڑوس میں شیعہ ملک کو بااختیار دیکھنا نہیں چاہے گا۔' سعودی عرب مشرق وسطی میں امریکہ کا ایک اہم سکیورٹی حلیف ہے اور خطے میں شیعہ باغی گروپوں کو روکنے میں اس کا کردار کارآمد رہا ہے۔ پروفیسر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'بائیڈن ایران کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی نہ اپنا سکیں گے۔ وہ سعودی عرب کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن کی ایران پالیسی میں سعودی عرب بھی شامل ہوگا۔' وائٹ ہاؤس میں نئی ٹیم کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا چیلنج صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کے نام پر ایک خالی چیک کاٹ دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ٹرمپ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ’آنکھیں بند کر رکھی ہے۔' وائٹ ہاؤس کی نئی ٹیم نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات دوبارہ طے کیے جائیں گے اور اس رشتے کے مرکز میں انسانی حقوق کو اہمیت حاصل ہوگی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2017 میں اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد سے انھوں نے سعودی عرب میں بہت سی معاشرتی تبدیلیاں کیں۔ لیکن اظہار رائے کی آزادی پر اب بھی شدید پہرا ہے۔ پروفیسر پی آر کمارسوامی کا کہنا ہے کہ 'یہ واضح ہے کہ یہ حکومت ٹرمپ جیسی دوستانہ نہیں ہوگی۔ لیکن پچھلے چار سالوں میں سعودی عرب میں بہت کچھ بدلا ہے۔ سعودی عرب اب اسرائیل کے قریب ہے۔ 'امریکہ میں نئی حکومت کی وجہ سے جو نئے حالات پیدا ہوئے ہیں وہ سعودیوں کے لیے ایک چیلنج اور ایک موقع دونوں ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کس طرح اپنے کارڈ کھیلتا ہے۔'
091206_baat_sa_baat_zee
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2009/12/091206_baat_sa_baat_zee
قاتل نامعلوم !
خدا خدا کرکے ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت کے بیٹے اور بے نظیر کے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل کا عدالتی فیصلہ ہو ہی گیا۔جب تیرہ برس پہلے بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کو مرتضیٰ بھٹو کراچی میں اپنی آبائی رہائش گاہ ستر کلفٹن کے باہر اپنے سات ساتھیوں سمیت مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تو جائے وقوعہ تفتیشی افسر کے آنے سے پہلے پہلے صاف ہوگئی اور ٹریفک بحال ہوگئی۔
مرتضی بھٹو کے چھ ساتھیوں اور بقیہ اٹھارہ اعلیٰ و ادنی پولیس افسران کو سیشن عدالت نے باعزت بری کردیا سرکار نے مرتضیٰ کے چھ ساتھیوں پر فردِ جرم عائد کی اور مرتضیٰ بھٹو کے وارثوں نے آصف علی زرداری، وزیرِ اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ ، انٹیلی جینس بیورو کے سربراہ مسعود شریف کے علاوہ آئی جی شعیب سڈل سمیت اٹھارہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ دو پولیس افسر شاہد حیات اور حق نواز سیال پولیس مقابلے میں سرکاری طور پر زخمی قرار دیےگئے لیکن میڈیکل بورڈ نے فیصلہ دیا کہ دونوں افسروں نے خود ساختہ طور پر اپنے آپ کو زخمی کیا۔چند روز بعد حق نواز سیال پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔ ایک سے زائد ججوں نے یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ سننے سے انکار کردیا اور سندھ ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ یہ کیس کسی اور جج کے پاس بھیج دیا جائے۔استغاثہ کی چارج شیٹ میں دو سو تئیس گواہوں کے نام شامل کیے گئے۔لیکن ان میں سے تہتر گواہوں پر ہی جرح ہوسکی۔جس جوڈیشل مجسٹریٹ نے گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے وہ تک عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔ دو ملزم دورانِ مقدمہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آصف علی زرداری کو گزشتہ برس اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے ریویو پیٹیشن کی بنیاد پر بری کردیا۔ایس پی شکیب قریشی گزشتہ نومبر میں باعزت بری ہوگئے۔ جبکہ مرتضی بھٹو کے چھ ساتھیوں اور بقیہ اٹھارہ اعلیٰ و ادنی پولیس افسران کو سیشن عدالت نے چار اور پانچ دسمبر دو ہزار نو کو باعزت بری کردیا۔جس سیشن جج نے یہ فیصلہ سنایا اس نے تبصرہ کیا کہ مرتضی بھٹو قتل کیس کی فردِ جرم اور تحقیقاتی عمل میں نقائص پائے گئے ہیں تاہم یہ تبصرہ ملزمان کو بری کیے جانے کے فیصلے کا حصہ نہیں بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب استغاثے اور صفائی کی جانب سے نامزد کردہ تمام ملزم بے قصور ہیں تو پھر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے سات ساتھیوں کو کس نے مارا؟ اب صرف دو امکانات باقی ہیں۔ یا تو مقتولین نے خودکشی کرلی یا پھر ستر کلفٹن کے اردگرد پھیلے گھنے درختوں پر رہنے والے پرندوں نے فائرنگ کی، آوازوں سے گھبرا کر آٹھ افراد کو اجتماعی ٹھونگیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد اب بھٹو خاندان کی اموات کا گوشوارہ کچھ یوں ہے۔ نام قاتل ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل شاہنواز بھٹو نامعلوم مرتضیٰ بھٹو نامعلوم بے نظیر بھٹو نامعلوم جئے بھٹو، جئے بھٹو۔۔
040425_taleban_karzai_mki
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/04/040425_taleban_karzai_mki
طالبان کو انتخابات کی دعوت
افغانستان کے صدر حامدکرزئی نے معزول حکمراں طالبان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو افغانستان کی تعمیرِنو اور آئندہ کچھ عرصے کے دوران ہونے والے قومی انتخابات میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔
حامد کرزئی نے اپنی تمام شرائط میں نرمی کرتے ہوئے صرف ان ایک سو پچاس فوجی اہلکاروں کو مجرم قرار دیا ہے جن کا تعلق القاعدہ سے پایا جاتا ہے۔ انھوں نے قندھار میں خطاب کرتے ہوئے حالیہ دہشت گردی کی وارداتوں کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا ہے۔ صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت گذشتہ چند مہینوں سے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند عناصر سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے قندھار میں ایک آدمی کو ایک بم سمیت گرفتار کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کا ارادہ اس وقت حملہ کرنا تھا جب صدر حامد کرزئی کا قافلہ وہاں سے گزرنے والا تھا۔ حامد کرزئی کے دورہ قندھار کے دوران پولیس کو انتہائی چوکنا رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
040513_india_elections_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/05/040513_india_elections_yourviews
کیا سونیاگاندھی وزیراعظم بنیں؟
انڈیا کے انتخابات میں شکست کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ اب وہ پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما ہونگے۔ سونیا گاندھی کی رہنمائی میں سیکولر کانگریس اتحاد کو تمام علاقوں میں کامیابی ملی ہے۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں ایک حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ چونکہ سونیا گاندھی غیرملکی ہیں اس لئے انہیں وزیراعظم نہیں بننا چاہئے۔
سونیا گاندھی اطالوی نژاد ہیں۔ برصغیر کے معاشرے میں کیا ایک غیرملکی نژاد شہری کو ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا؟ آپ کی خیال میں واجپئی کے حکمران اتحاد کی شکست کی کیا وجہ ہے؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں جہانگیر احمد، دوبئی: مجھے یقین ہے کہ سونیا وزیراعظم بنیں گیں کیونکہ وہاں پاکستانی سیاست کی طرح نہیں ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت حکومت نہ کرے، بلکہ فوج کرے۔ انڈیا میں حقیقی جمہوریت ہے۔ عمران خان، پاکستان: سونیا گاندھی کافی ذہین خاتون ہیں۔ ان کا وزیراعظم بننا انڈوپاکستان تعلقات کے لئے بہتر ہوگا۔ راحت ملک، پاکستان: بے شک سونیا گاندھی کو وزیراعظم ہونا چاہئے، واجپئی نے اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اسلم پرویز میمن، کراچی: مجھے امید ہے کہ سونیا گاندھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے کام کریں گی۔ وہ نیوٹرل بھی ہیں کیونکہ وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی ہندو۔ لیاقت خان، جھنگ: امید ہے کہ اب ہم پاکستانیوں کو فری ویزہ انڈیا کے سیر کے لئے ملے گا۔ آپ چونکہ ایک جمہوری ملک میں پیدا ہوئی ہیں اس لئے جمہوری قدروں کا پاس کریں گی۔ انجینیئر ہمایوں رشید، کراچی: واجپئی کی شکست کی وجہ صرف غریب عوام کی غربت ہے۔ بی جے پی سارے ڈرامے کرتی رہی لیکن غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ شاہد مقصود، اسلام آباد: ہاں انہیں وزیراعظم بننا چاہئے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی: پتہ نہیں سونیا گاندھی ہمیشہ سے ہی مجھے اچھی لگتی رہیں، شاید راجیو گاندھی کی اچانک موت کی وجہ سے یا شاید کوئی اور وجہ ہو۔ اس وقت ان کی جیت اچھا شگون ہے۔ ان کو ہی انڈیا کا وزیراعظم بننا چاہئے۔ ملک کے لئے اچھی حکمران ثابت ہونگی۔ غیرملکی ہونے کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابو وفا شیخ، سعودی عرب: جب تک راہول گاندھی اس قابل نہیں ہوجاتے کہ وزیراعظم بن سکیں، سونیا کو ہی اس عہدے کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ ان میں قابلیت بھی ہے۔ ارشاد احمد سادات، سرحد: سونیا گاندھی ایماندار ہیں، امن کی خواہاں ہیں، فیصلے کرنے میں ہمت دکھاتی ہیں اور کول مائنڈیڈ ہیں۔ عبدالقدیر انصاری، دوبئی: سونیا گاندھی کو بھی آزماکر دیکھنا چاہئے۔ کم از کم وہ کٹر ہندوؤں سے تو ٹھیک رہیں گی۔ اور جمہور کی بھی یہی رائے۔ عارف اقبال، نیویارک: سونیا گاندھی موجودہ حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ بی جے پی کی حکومت میں انتہاپسند عناصر تھے۔ انڈیا کے شہری کی حیثیت سے سونیا کو حق ہے کہو وزیراعظم بنیں۔ حنیف نعیم، پاکستان: سونیا ہی وزیراعظم کے عہدے کے لئے منتخب ہوئی ہیں۔ شفیع اللہ خان، سعودی عرب: میں چاہتا ہوں کہ سونیا گاندھی ہی وزیراعظم بنیں۔ صادق عباسی، چمن کوٹ: ہاں! سونیا کو ہی وزیراعظم بننا چاہئ غلام قادر، دوبئی: ہاں، سونیا گاندھی کو وزیراعظم بننا چاہئے کیونکہ وہ سیکولر کانگریس پارٹی کی رہنما ہیں۔ میری تمام نیک خواہشات ان کے لئے۔ شفیق اعوان، لاہور: سونیا گاندھی کا جیتنا ہی خوشی ہے۔ وہ ایک بہت وزیراعظم ہونگیں۔ ان کو میری مبارکباد۔ غلام فرید شیخ، سندھ: ویسے عورت کی کی عقل کمزور تو ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ عورت امن پرست اور دوستی پسند ہوتی ہے۔ اس لئے انڈیا اور پاکستان کے لئے سونیا گاندھی بہتر ہیں اور میں ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ طارق حسن، ملتان: سونیا وزیراعظم بن سکتی ہیں کیونکہ انڈیا کسی ایک قوم کا ملک نہیں ہے۔ انہوں کانگریس اور سیکولرزم میں ایک نئ روح پھونکی ہے۔ عابد، ہانگ کانگ: واجپئی صاحب نے دل جیتے، کرکٹ میچ بھی جیتے، مگر الیکشن نہ جیت سکے۔ محمد صادق خان، جدہ: سونیا جی انڈیا کی وزیراعظم بنیں گی۔ طاہر ملک، ہانگ کانگ: سونیا کو پرائیم منسٹر بننا چاہئے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ اطالوی نژاد ہیں۔ وہ ایک اچھی لیڈر ہیں۔ عابد علی بیگ، ہانگ کانگ: جمہوریت کا تقاضہ یہی ہے کہ سونیا گاندھی کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ اگر بات پیدائش کی ہے تو نہ جاتنے کتنے ایسے ہونگے کہ جن کے آباءو اجداد کہیں باہر سے ہندوستان آئے ہونگے۔ وقار احمد، نوشہرہ: جہاں تک سونیا کے غیرملکی ہونے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اکثریت نے انہیں قبول کیا ہے، اسی لئے وزیراعظم کے لئے ان کا کوئی مثال نہیں ہوگا۔ افتخار لطیف، آسام: انڈیا کو ایک عملی جمہوریت کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف نام کی جمہوریت۔ علاء الدین خان، کویت: بھارتی نژاد تمام سیاستدان کرپٹ ہیں اس لئے غیرملکی نژاد سونیا گاندھی کو ٹرائی کریں، کیونکہ انہوں نے کانگریس کی کامیابی کے لئے کافی محنت کی ہے۔ کشش، ممبئی: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتا، مجھے اس بات کی فکر ہے کہ قوم کی خدمات بہتر کون کرے گا۔ فرخ مقصود، لاہور: میرا خیال ہے کہ سونیا گاندھی کو انڈیا کا وزیراعظم بنانا چاہئے، اگر وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان پرامن ماحو بنا سکتی ہیں اور اپنے عوام کے حق میں بہتر ہیں۔ وہ ہندو مسلم جھگڑے ختم کرنے کی کوشش کریں اور انڈیا اور علاقے میں امن قائم کریں۔ اے موکھرجی، کمبرِج: میرے خیال میں کانگریس کی واپسی اچھی علامت ہے، اس لئے نہیں کہ واجپئی کی حکومت بری تھی، بلکہ اس لئے کہ ہر پانچ سال پر حکومت تبدیل ہوتی رہنی چاہئے۔ ریحان شیخ، لاہور: تمام پاکستانی امید کرتے ہیں کہ سونیا ہی انڈیا کی نئی پرائیم منسٹر بنیں گی کیونکہ انڈیا کے عوام نے ہی ان کی پارٹی کو ووٹ دیکر موقع دیا ہے کہو اب ملک کی دوسری خاتون پرائیم منسٹر بنیں۔ ملک احمد، کراچی: عوام نے جب کانگریس کو اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب بنایا ہے تو وہ سونیا گاندھی کو بھی قبول کرلے گی۔ صوفیہ کمال، جرمنی: میں کانگریس کو کامیابی پر مبارکباد دیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کانگریس ایک سیکولر جماعت ثابت ہوگی، اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے لئے کام کرے گی۔ کانگریس کو چاہئے کہ ہندو شدت پسند گروہوں پر پابندی عائد کرے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرے۔ شاہزیر خان، اسلام آباد: ہاں! وہ انڈیا کی اگلی وزیراعظم ہوں گی۔ اور میرے خیال میں وہ بی جے پی کی حکومت سے بہتر ہیں۔ انڈیا کے عوام سونیا کو ہی وزیراعظم کی حیثیت سے چاہتے ہیں۔ محمد اصغر ڈار، پاکستان: ہاں! یہ اکثریت کا فیصلہ ہے، اور سونیا گاندھی وزیراعظم واجپئی سے بہتر ہیں۔ انعام اللہ، آسٹریلیا: چونکہ انڈیا کے لوگوں نے سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو منتخب کیا اس لئے انہیں اگلا وزیراعظم بننا چاہئے۔ اقبال پٹیل، برطانیہ: سونیا گاندھی کو اطالوی کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ بھارتی ہیں اور ان کے پردھان منتری بننے میں کوئی حرض نہیں، انہیں ہی بننا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ جمہوریت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر ابھی تک ان کو غیرملکی کہا جائے تو یہ ناانصافی ہے کیونکہ سب بھارتی غیرملکوں میں رہتے ہیں اور انہیں غیرملکی نہیں کہا جاتا۔ عبدالقدیر نومانی، دوبئی: سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ فرقہ پرست ذہن والے سے تو اچھی رہیں گی۔ نواز خان، ٹوکیو: انڈیا کے لوگ امن پسند کرتے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ ملک کی نئی وزیراعظم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں گی۔ محسن مغنی، ٹورانٹو: اگرچہ میں بی جے پی کو پسند نہیں کرتا تھا، لیکن مسٹر واجپئی ایک عظیم اسٹیٹسمین ہیں۔ اس میں کوئی نقصان نہیں کہ سونیا گاندھی وزیراعظم بن جائیں کیونکہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے، پاکستان کی طرح نہیں جہاں ہم اپنے شہریوں کو ملک بھی واپس نہیں دینے دیتے۔ خورشید عالم، سعودی عرب: ہندوستان کے چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی لوگ امن کو پسند کرتے ہیں اور بی جے پی ایک بہت بڑی فرقہ پرست پارٹی ہے۔ اس لئے وہ ہارگئی کیونکہ عوام امن چاہتے ہیں اور رہی بات سونیا گاندھی کی تو وہ عوام کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
050115_saudi_security_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050115_saudi_security_as
حج پر سخت حفاظتی انتظامات
سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ حج کے موقع پر مکہ میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور تقریباً پچاس ہزار پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
وزارتِ داخلہ کے ترجمان بریگیڈیر منصور الترکی نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی بنیادی ذمہ داری ہجوم کو کنٹرول کرنا ہو گا تاکہ ماضی کی طرح بھگدڑ اور افراتفری میں حاجیوں کی ہلاکت کے واقعات دوبارہ نہ دہرائے جا سکیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے بھی تیار رہیں گی۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ حج کے دوران کسی بھی طرح کے سیاسی اجتماع کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس سال پوری دنیا سے پندرہ لاکھ کے قریب لوگ سعودی عرب حج کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب میں گزشتہ اٹھارہ مہینوں میں تشدد کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور اس دوران تشدد کی واقعات میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
071103_bb_maulvi_faqir_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071103_bb_maulvi_faqir_zs
’بینظیر پر ہمارا قرض ضرور رہتا ہے‘
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں سرگرم مقامی طالبان کے کمانڈر مولوی فقیر محمد نے ذرائع ابلاغ میں ان سے منسوب اس بیان کی سختی سے تردید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو پر کراچی میں ہونے والے حملوں میں ان کا ہاتھ ہے۔
ہفتہ کو کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی کو ٹیلی فون کر کے انہوں نے بتایا کہ’میں اس پر فخر کرتا اگر کراچی کے حملے میں نے کیے ہوتے لیکن بینظیر خاتون ہے اور ہم خاتون کو نہیں مارتے بلکہ ہمارا کام مردوں کے ساتھ ہوتا ہے‘۔ انہوں نے کہاکہ ذرئع ابلاغ میں ان کے حوالے سے شائع شدہ اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ بینظیر پر ہونے والے حملوں میں وہ ملوث ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بینظیر پر ہمارا قرض ضرور رہتا ہے کیونکہ انہوں نے 1994 میں ملاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کر کے ’ٹی این ایس ایم‘ کے رضاکاروں کو بڑی تعداد میں ہلاک کیا تھا‘۔ ایک سوال کے جواب میں مولوی فقیر کا کہنا تھا کہ سوات میں سکیورٹی فورسز نے’ مجاہدین‘ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہےکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ |ن کے مطابق ’ فوج اور سکیورٹی فورسز کے دیگر اہلکار مجاہدین کے ساتھ جنگ سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ لڑنے سے انکار کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو آزاد کر کے اچھا اقدام کیا ہے اور وہ بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔
130409_skiing_winter_olympics_rh
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/04/130409_skiing_winter_olympics_rh
سکیئنگ:’پاکستان سرمائی اولمپکس میں حصہ لے گا‘
پاکستان کی سکینگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سکیئرز کو سرمائی اولمپکس کے لیے دوسری بار کوالیفائی کر لیا ہے اور امید کی ہے کہ ملک میں اس کھیل کو مزید فروغ دیا جائے گا۔
محمد عباس نے 2010 میں کینیڈا میں منعقد ہوئی سرمائی اولمپکس میں حصہ لیا تھا پاکستان سکینگ فیڈریشن کے عہدیدار افتخار باجوہ نے کہا ’پاکستان کی سکینگ ٹیم نے یورپ اور ایشیا میں مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور سرمائی اولمپکس 2014 کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کھلاڑی میر نواز، محمد کریم اور محمد عباس نے پچھلے ماہ اٹلی، ترکی اور لبنان میں مختلف ایونٹس میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل محمد عباس نے 2010 میں کینیڈا میں منعقد ہوئی سرمائی اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ افتخار باجوہ نے کہا کہ اولمپکس میں حصہ لینے کے باعث امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں اس کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔ ’یہ بہت اہم موقع ہے پاکستان کے لیے۔ ایک بار تینوں کھلاڑی جنوری میں پانچ ریسیں مکمل کر لیں گے اس کے بعد بہترین کھلاڑی کا انتخاب کیا جائے گا۔‘
world-54898971
https://www.bbc.com/urdu/world-54898971
ڈونلڈ ٹرمپ: وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد صدر ٹرمپ مستقبل میں کیا کیا کر سکتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ ہر صورت 20 جنوری تک وائٹ ہاؤس میں بطور صدر موجود رہیں گے۔ اس روز کی شب وہ اپنے جانشین (امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے متوقع نتائج کے مطابق جو بائیڈن) کو صدارت منتقل کر دیں گے اور سابق امریکی صدور کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
تو پھر ایک معروف کارویاری شخصیت اور سیاستدان بلکہ سابق صدر کے طور پر ٹرمپ کا مستقبل کیا ہو گا؟ ان کے پاس کئی راستے ہیں۔ وہ پُرجوش تقاریر کرنے والے سپیکر بن سکتے ہیں، صدارت سے متعلق اپنے تجربات پر کتاب لکھ سکتے ہیں یا اپنے نام سے منسوب ایک صدارتی لائبریری کا منصوبہ سوچ سکتے ہیں۔ جمی کارٹر نے انسانی حقوق کے تحفظ کا راستہ اپنایا جبکہ جارج ڈبلیو بش نے ہاتھ میں پینٹ برش تھام لیا۔ لیکن ٹرمپ کبھی روایتی سیاستدان نہیں رہے تو ان سے کسی روایتی سیاستدان جیسے مستقبل کی توقع کیوں کی جائے۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کے پروفیسر ٹِم کالکنز کا کہنا ہے ’ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کئی روایات توڑی ہیں۔ ’یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک عام سابق صدر جیسا رویہ اپنائیں گے جو ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔‘ ممکنہ طور پر ہم یہ دیکھ سکتے ہیں: وہ دوبارہ صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب 2020 سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی خواہشات کا اختتام نہ ہوا ہو۔ وہ اپنے دوسرے دور کے لیے دوبارہ صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں گروور کلیولینڈ وہ واحد صدر تھے جنھوں نے وائٹ ہاؤس سے رخصت کے بعد چار سال انتظار کیا اور 1893 میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ ان کا پہلا دور 1885 میں شروع ہوا تھا۔ امریکی آئین میں درج ہے کہ کوئی بھی دو مرتبہ سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس حوالے سے کوئی شرائط نہیں کہ ایسا مسلسل دو ادوار میں کرنا لازم ہے۔ یہ بھی پڑھیے ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا؟ امریکی صدارتی انتخاب 2020: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کیوں ہوئی؟ صدر ٹرمپ کے ساتھ گزرا وہ دن جب وہ انتخاب ہارے جو بائیڈن: وہ سیاستدان جنھیں قسمت کبھی عام سا نہیں رہنے دیتی امریکہ کی پہلی خاتون اور غیر سفیدفام نائب صدر منتخب ہونے والی کملا ہیرس کون ہیں؟ ٹرمپ کے سابق ساتھیوں نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں ٹرمپ کے سابق چیف آف سٹاف مِک ملوانے کہتے ہیں کہ ’میں ٹرمپ کو ان لوگوں کی فہرست میں رکھوں گا جو 2024 میں صدارتی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘ ٹرمپ واضح طور پر انتخابی مہم کی ریلی میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں اور انھیں اس کے بدلے سات کروڑ 15 لاکھ ووٹ بھی ملے۔ یہ کسی بھی ہارنے والے امیدوار کے ریکارڈ ووٹ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام میں وہ اب بھی مقبول ہیں۔ پروفیسر کالکنز کا کہنا ہے کہ ’وہ اسی طاقت سے صدارت چھوڑیں گے جیسے انھوں نے صدارت شروع کی تھی۔‘ یہ قیاس آرائی بھی ہو رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے سب سے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر بھی صدارتی دوڑ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اب تک انھوں نے اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ ایک راستہ پھر سے کاروبار ہے؟ سیاستدان بننے سے قبل ٹرمپ معروف کاروباری شخصیت تھے اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں ان کا کافی نام تھا۔ انھیں ٹی وی سٹار کے طور پر بھی جانا جاتا تھا اور وہ اپنے ہی برانڈ کے برانڈ سفیر تھے اور اپنے نام کو منافع بخش لائسنس کے سودے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چار سال قبل انھوں نے جہاں اپنے کام کو چھوڑا تھا وہ وہاں سے ہی آغاز کر کے کاروبار کی دنیا میں واپس آ جائیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق آئندہ تین برسوں میں ٹرمپ پر 40 کروڑ ڈالر کے واجب الادا قرضے ہیں اگرچہ وہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ان کی مجموعی مالیت کے ’بہت کم فیصد‘ کی نمائندگی ہے۔ ٹرمپ آرگنائزیشن کے پاس متعدد ہوٹل اور گولف کورس ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے علاوہ ممبئی، استنبول اور فلپائن میں بھی ان کی پراپرٹی ہے جبکہ امریکہ، برطانیہ، دبئی اور انڈونیشیا میں بھی ان کے گالف کورسز ہیں۔ لیکن اگر ٹرمپ دوبارہ اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں تو انھیں بہت زیادہ کام کرنا ہوگا۔ ان کے بہت سے کاروبار سفر اور سیر و سیاحت کے شعبے سے متعلق ہیں جو کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ فوربز کے مطابق کووڈ 19 کی وجہ سے ٹرمپ کی دولت ایک ارب ڈالر تک کم ہو سکتی ہے۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ نے گذشتہ 15 برسوں میں سے 10 برسوں میں کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ریکارڈ کے مطابق (کاروبار میں) بڑا نقصان ہوا اور کئی برسوں تک ٹیکس دینے سے بچا گیا۔‘ ٹرمپ آرگنائزیشن اور صدر ٹرمپ دونوں اس رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دے چکے ہیں۔ ٹم کالکنز کہتے ہیں کہ صدر وقت کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے پاس ’گفتگو میں‘ اپنے برانڈ کو برقرار رکھنے کی ناقابل یقین صلاحیت موجود ہے اور صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے برانڈ کو بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ بڑے کسٹمرز نے اس برانڈ کی خریداری اس وقت چھوڑ دی جب انھوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے سینئر مشیر کے کردار کو قبول کیا۔ ان کے بیٹے ایرک اور ڈونلڈ جونیئر ٹرمپ اپنے والد کے دور صدارت کے دوران ٹرمپ آرگنائزیشن کی دیکھ بھال کر رہے تھے لیکن وہ اپنے والد کے سیاسی کیریئر میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پروفیسر کالکنز کہتے ہیں ’سب سے اہم چیز جس کے بارے میں وہ سب سوچ رہے ہوں گے، وہ یہ ہے کہ اس خاندان کے لیے آگے کون سا راستہ بہترین ہوگا۔‘ وہ میڈیا کی ایک زبردست شخصیت بن جائیں صدر ٹرمپ ٹی وی کے لیے کوئی اجنبی چہرہ نہیں لہذا بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ نیوز میڈیا میں شامل ہو سکتے ہیں اور کسی قدامت پسند نیٹ ورک کے ساتھ تعاون کر کے اپنا چینل لانچ کر سکتے ہیں۔ کیو سکورز کمپنی کے ایگزیکٹو نائب صدر ہینری شیفر کہتے ہیں ’ان کے پاس یقینی طور پر ممکنہ ناظرین ہوں گے۔‘ وہ کہتے ہیں ’ٹرمپ کارڈیشیئنز یا ہاورڈ سٹیرن کی طرح ’محبت سے نفرت والی شخصیت‘ کے طور پر اپنے برانڈ کی تعمیر میں کامیاب ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2015 میں ریئلٹی شو ’سلیبرٹی اپرینٹس‘ کے ریڈ کارپٹ میں شرکت کی تھی۔ ہینری شیفر توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ اس طرف واپس جائیں گے جو ان کے لیے سب سے بہترین ہے یعنی تنازع۔ ’وہ تنازعات پر پھلتے پھولتے ہیں، وہ اپنے فائدے کے لیے تنازع کو گھماتے ہیں، یہی ان کا طریقہ کار ہے۔‘ ان کے ممکنہ شراکت دار کیبل نیٹ ورکس ’ون امیرکن نیوز نیٹ ورک (او اے این این) یا نیوز میکس ہیں۔ او اے این این صدر ٹرمپ کو بہت پسند ہے جبکہ او اے این این بھی صدر ٹرمپ کو بہت پسند کرتا ہے ریٹائرمنٹ کے منصوبے بھی ہو سکتے ہیں صدور اکثر کتاب کے معاہدوں پر بھی دستخط کرتے ہیں، براک اور مشیل اوباما نے ریکارڈ توڑ مشترکہ معاہدہ کیا، جس کی اطلاعات کے مطابق مالیت 65 ملین ڈالر ہے۔ افواہوں کے مطابق جارج ڈبلیو بش کو اپنی یادداشت لکھنے کے لیے 10 ملین ڈالر پیشگی رقم دی گئی۔ اوباما فیملی نے نیٹ فلکس کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے پروڈکشن معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے اور دونوں کلنٹنز نے پوڈ کاسٹ کے معاہدے کیے۔ صدارت کے بعد ریٹائرمنٹ صدر ٹرمپ جب صدارت سے سبکدوش ہوں گے تو ان کو صدر کی پینشن کے علاوہ دیگر بہت سے مراعات بھی ملیں گی۔ سابق صدور کی پینشن اور مراعات سے متعلق ایک قانون جو 1958 میں منظور کیا گیا تھا، اس کا مقصد صدارت کے عہدے کی عزت اور وقار برقرار رکھنا تھا اور اس کے تحت سنہ 2017 میں سابق صدور کو سالانہ 2 لاکھ 7 ہزار 8 سو ڈالر پینشن کی مد میں ملتے ہیں۔ سابق صدور کو تاحیات خفیہ اداروں کی طرف سے سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، انہیں مفت علاج کرانے کی سہولت حاصل ہوتی ہے اور اس کے علاوہ سفری اور سٹاف یا ذاتی عملے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی مالی مراعات دی جاتی ہیں۔ صدر ٹرمپ جن کی عمر 74 برس ہو چکی ہے وہ خاموشی سے ریٹائرمنٹ بھی اختیار کر سکتے ہیں. وہ اپنی باقی زندگی رفاحی کاموں کے لیے بھی وقف کر سکتے ہیں، اپنے بینک بیلنس میں لیکچر اور تقریریں کر کے اضافہ کر سکتے ہیں اور کوئی صدارتی لائبریری بھی بنا سکتے ہیں۔ عام طور پر صدر اپنی آبائی ریاست میں اپنی صدارت کے دور اور اپنے دور کی انتظامیہ کے بارے میں ایسے میوزیم بناتے ہیں جہاں پر ان کے دور کی اہم دستاویزات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ وہ اپنا فارغ وقت فلوریڈا کی ریاست میں مار آ لاگو جو ان کی پام بیچ سیر گاہ ہے، وہاں گزار سکتے ہیں۔ لیکن پروفیسر کالکنز ایک ایسے شخص کے لیے جس نے اپنی زندگی میں اس قدر توجہ حاصل کی ہو اور مرکز نگاہ رہا ہو، ایک خاموش زندگی یا کنارہ کشی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی شخصیت کے مالک نہیں جو اتنی خاموشی سے پس منظر میں چلی جائے۔ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ کا برانڈ ابھی کافی عرصے تک منظر عام پر رہے گا۔ اس سال اکتوبر میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ الیکشن ہار گئے تو انھیں بہت برا محسوس ہوگا اور ہو سکتا ہے وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔
051119_education_quake_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/11/051119_education_quake_sen
تعلیمی اداروں پر 61 کروڑ 40 لاکھ
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ ایک سو مکانوں کے ایک گاؤں میں پرائمری سکول، چار گاؤں میں مڈل سکول، بارہ گاؤں میں ہائی سکول، پچاس گاؤں میں ایک کالج ہے اور ایک تحصیل میں تین سے چار کالج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امدادی اداروں سے کہا کہ وہ اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے تعمیر نو میں حصہ لیں۔
صدر نے کہا ہے کہ زلزلے سے چار لاکھ مکانات تباہ ہوئے ہیں اور ان کے مالکان کو فی مکان دو لاکھ روپے یعنی تینتیس سو ڈالر دیے جائیں گے۔ عالمی امدادی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور پاکستان حکومت نے اتفاق رائے سے زلزلے کی تباہ کاریوں کا سروے کر کے اعداد وشمار مرتب کیے ہیں۔ جس کے مطابق پانچ ارب بیس کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ کانفرنس میں پچھتر وفود شریک ہوئے۔ انہوں نے تعمیر نو، بحالی اور امداد کے بارے میں عالمی اداروں کی مشاورت سے بنائی گئی حکمت عملی کی تفصیل بتائی اور کہا کہ فی ہلاک شدگاں ایک لاکھ روپے، فی شدید زخمی پچاس ہزار روپے اور معمولی زخمی کو پچیس ہزار روپے دیے جارہے ہیں اور رواں ماہ کے آخر تک بیس ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے۔ صدر نے کہا کہ جو لوگ اب بھی اپنے تباہ حال گھروں میں موجود ہیں انہیں فوری طور پر ایک کمرہ بنانے کے لیے پچیس ہزار روپے دیے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت تباہ شدہ سرکاری دفاتر، تعلیمی اور صحت کے ادارے، سڑکیں اور پل بنائے گی۔ صدر نے کہا کہ لوگوں کو رقم دیں گے اور زلزلے اور سردی سے بچاؤ کے لیے مکان بنانے کے لیے رہنمائی بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا اگر ڈونرز کچھ لوگوں کو بہتر مکان بناکر دیں گے تو دوسرے اعتراض کریں گے اس لیے لوگ خود اپنے مکان بنائیں گے۔ انہوں نے کانفرنس کو بتایا کہ صوبہ سرحد کے پانچ اور کشمیر کے چار اضلاع کی پچیس تحصیلوں کے چار ہزار گاؤں میں چار لاکھ مکان تباہ ہوئے ہیں۔ جس سے ان کے مطابق تیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ تباہ شدہ مکانوں میں سے نوے فیصد دیہی علاقوں میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ضرورت میں نے بتائی ہے اور اگر اس ’پیٹرن‘ سے ہٹ کر کوئی تعمیراتی کام ہوگا تو شاید اس کا زیادہ فائدہ نہ ہو اور رقم ضائع جائے گی‘۔ صدر نے کہا کہ پاکستانی چاہے ملک کے اندر ہیں یا بیرون ممالک میں وہ یا دیگر مخیر افراد، ادارے اور مالک چاہیں تو ایک گاؤں، تعلیمی اور صحت کے اداروں کی تعمیر کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اور وہ گاؤں یا ادارہ ان کے نام سے منسوب بھی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ ڈونر خود تعمیراتی کام کرنے کے بجائے صدارتی فنڈ میں نقد رقم دیں۔ صدر نے کہا کہ تباہ حال مظفر آباد سے بیس منٹ کے فاصلے پر واقع ایک مقام پر ماڈل ضلعی حکومت کے سرکاری دفاتر بنائے جائیں گے۔ صدر نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ہزاروں پاکستانی ایک ایک مکان بناکر دے سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایک گاؤں کے سو مکان بنانے پر دو کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ جبکہ ایک تحصیل کے مکان بنانے کے لیے پانچ کروڑ ڈالر اور ایک ضلع کے مکان بنانے پر صرف پندرہ کروڑ ڈالر لگیں گے۔ ان کے مطابق جب ایبٹ آْباد اور جیکب آْباد کے شہر ان کے بسانے والوں کے ناموں سے منسوب ہیں تو دوسرے کیوں نہیں ہو سکتے۔ صدر نے کہا کہ ساڑھے نو ہزار پرائمری سکولز کی ضرورت ہے اور ایک سکول کی تعمیر پر پندرہ لاکھ روپے یا پچیس ہزار ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ ان کے مطابق سات سو بانوے مڈل سکولز کی ضرورت ہے اور ہر سکول پر تراسی ہزار ڈالر یا تیس لاکھ روپے لاگت آئے گی۔ ایک سو نوے کالج تعمیر کرنے ہیں فی کالج پانچ کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ مظفر آباد کی یونیورسٹی پر دو ارب روپے خرچ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک تحصیل کے تعلیمی ادارے بنانے پر چار کروڑ بیس لاکھ ڈالر جبکہ پورے ضلع کے تعلیمی اداروں کی تعمیر پر ساڑھے چھ کروڑ اور تمام یعنی نو اضلاع کے تعلیمی اداروں کی تعمیر کے لیے اکسٹھ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر درکار ہیں۔ صدر کے مطابق یہ اندازہ عالمی ماہرین کے اندازے سے کچھ زیادہ ہے۔ جناح کنوینشن سینٹر میں زخمیوں اور معذوروں کی تصاویر لگائی گئی تھیں جبکہ نقشے بھی لگے ہوئے تھے۔ کانفرنس میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔
080708_twenty_twenty_women_pak_rh
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/07/080708_twenty_twenty_women_pak_rh
عورتوں کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی جولائی میں
پاکستان کرکٹ بورڈ پہلی بار پاکستان میں چار ٹیموں پر مشتمل خواتین کے پہلے قومی ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کرا رہا ہے۔
یہ چار ٹیمیں پاکستان کے چار مختلف علاقوں کی نمائندگی کریں گی۔ بیس بیس اوورز پر مشتمل یہ ٹورنامنٹ اٹھارہ سے ستائیس جولائی تک کراچی میں کھیلا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ کو کروانے کا مقصد سن دو ہزار نو میں خواتین کے ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی ٹیم تیار کرنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے چار مختلف زون کے لیے چونسٹھ کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ چار زون کچھ اس طرح ہیں: شمالی زون میں پشاور، ایبٹ آباد اور اسلام آباد کی خواتین کرکٹر شامل ہیں۔ سنٹرل زون بلو میں لاہور اور سیالکوٹ کی کھلاڑی ہیں۔ سنٹرل زون گرین میں ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی کی کرکٹرز ہیں۔ اور جنوبی زون میں کراچی، حیدر آباد اور کوئٹہ کی خواتین کرکٹر شامل ہیں۔
150208_baat_se_baat_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/02/150208_baat_se_baat_rh
تو پھر کیا کریں؟
سولہ مئی انیس سو سولہ۔
امریکہ کی سب سے بڑی جنوبی ریاست ٹیکساس کا قصبہ ویکو جو اپنی مذہبی شہرت کے سبب آج تک عیسائی بیپٹسٹ فرقے کا ویٹیکن کہلاتا ہے۔ شہر میں اس روز یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایک نوجوان سیاہ فام جیسی واشنگٹن نے ایک گوری مالکن لوسی فرائر کو ریپ کے بعد قتل کردیا ہے۔ جیسی واشنگٹن کو شیرف کے سامنے پیش کیا گیا اور ہنگامی جیوری نے ملزم کو فوری اعترافِ جرم کی بنا پر بغیر کسی گواہی کے چار منٹ کی سماعت کے بعد سزائے موت سنا دی۔ جیسی واشنگٹن کو سرکاری اہلکار ٹاؤن ہال سے کھینچ کے باہر لائے جہاں دس سے پندرہ ہزار سفید فام کاشت کار، مزدور، دکان دار، عورتیں اور بچے کھڑے چیخ رہے تھے انتقام انتقام ۔ اور پھر مجمع نے جیسی کو ٹاؤن ہال کے سامنے ہی ایک درخت سے ٹانگ دیا اور نیچے آگ جلا دی۔ جیسی واشنگٹن کو لگ بھگ دو گھنٹے پولیس اہلکاروں اور سرکاری ملازموں کی موجودگی میں آگ کے شعلوں پر رسہ اوپر نیچے کرکے بھونا جاتا رہا۔ اس دوران مجمع آوازے کستا رہا، ہنستا رہا، چلاتا رہا، ناچتا رہا۔ جب آگ بجھ گئی تو جیسی واشنگٹن کے کوئلہ جسم کو ٹکڑے کرکے بطور یادگار فروخت کیا گیا۔ مقامی فوٹو گرافروں نے اس واقعے کی لمحہ با لمحہ تصاویر بنائیں اور پکچر پوسٹ کارڈ بنا کر پیسے کھرے کیے۔ ایک لڑکے نے ایسا ہی پوسٹ کارڈ خرید کے اس کے پیچھے لکھا: ’پیاری اماں! یہ گذشتہ شام کے بار بی کیو کی تصویر ہے۔ تم مجھے اس میں بائیں جانب کھڑا ہوا دیکھ سکتی ہو۔ تمہارا بیٹا جو۔‘ اور پھر قصبے کے مرکزی گرجے میں شکرانے کی عبادت ہوئی۔ (اٹھارہ سو بیاسی سے انیس سو اڑسٹھ تک امریکہ میں سرسری عوامی انصاف کے ایسے چار ہزار سات سو سینتالیس رجسٹرڈ واقعات ہوئے۔ ایک چوتھائی ہلاک شدگان وہ گورے تھے جو سیاہ فاموں کے ہمدرد تھے) اٹھائیس فروری دو ہزار دو بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کے علاقے چمن پورہ کی مسلمان اکثریتی گلبرگ سوسائٹی کا تلواروں، ڈنڈوں، پائپوں اور مٹی کے تیل سے مسلح سینکڑوں ہندو بلوائیوں نے گھیرا کرلیا۔ انھوں نے سابق کانگریسی رکنِ پارلیمان تہتر سالہ احسان جعفری کے گھر کی دیوار توڑ کے باہر نکالا۔ ان کا ایک ایک عضو کاٹا اور پھر تیل چھڑک کے ماچس بتا دی۔ اس روز چھ گھنٹے میں 35 مسلمانوں کو اس علاقے میں یا تو سڑک پر نکال کے ٹکڑے کیا گیا یا زندہ جلایا گیا۔ پولیس کمشنر کا دفتر جائے وقوعہ سے ڈیڑھ کلو میٹر اور تھانہ ایک کلو میٹر پرے تھا اور تھانے میں اسلحے اور آنسو گیس سے مسلح ایک سو تیس اہلکار موجود تھے۔ چھ جولائی دو ہزار بارہ جنوبی پنجاب کے قصبے چنی گوٹھ میں ایک فاتر العقل شخص غلام عباس کو توہینِ قرآن کے الزام میں کسی شخص کی شکایت پر گرفتار کرکے پولیس لاک اپ میں بند کردیا۔ اس دوران مساجد سے توہینِ قرآن کے بارے میں اعلانات ہونے پر ہزاروں مسلمانوں نے تھانے کا گھیراؤ کرکے ملزم کو لاک اپ سے نکالا اور چوک پر لے جا کر پٹرول چھڑک کے آگ لگا دی۔ لاش دو گھنٹے تک سینکڑوں تماشائیوں کے گھیرے میں سلگتی رہی۔ لاش کا کوئی وارث سامنے نہیں آیا۔ بائیس اپریل دو ہزار تیرہ برما کے صوبے اراکان کے قصبے میکتلا میں ایک مسلمان کے ہاتھوں ایک بودھ عورت کے قتل کی خبر پھیل گئی اور مشتعل ہجوم نے بودھ بھکشؤں کی قیادت میں مسلمان املاک کو آگ لگانا شروع کردی۔ ایک نوجوان مجمع کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کے بازو اور پاؤں تلوار سے کاٹے گئے اور پھر آگ لگا دی گئی۔ وہ پانی پانی چیختا مرگیا۔ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بقول پولیس والے بھی تماش بین تھے۔ پانچ جولائی دو ہزار چودہ مشرقی یروشلم کے مضافاتی جنگلاتی علاقے سے سترہ سالہ محمد ابو خدیر کی سوختہ لاش ملی۔ فلسطینی اٹارنی جنرل محمد العادی کے بقول لاش نوے فیصد جلی ہوئی تھی۔ ابو خدیر کو زندہ جلانے کے شبہہ میں اسرائیلی حکام نے تین یہودی نوجوانوں کو حراست میں لیا۔ تین فروری دو ہزار پندرہ داعش نے تئیس سالہ اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو آہنی پنجرے میں بند کرکے پٹرول اور کیمیکل کے آمیزے سے زندہ جلا دینے کی وڈیو جاری کی۔ معاذ کو چوبیس دسمبر کو داعش کے گڑھ رقہ کے نزدیک بمباری کے دوران طیارہ گرنے کے بعد پکڑا گیا اور اردنی حکام کے بقول اسے تین جنوری کو جلا دیا گیا۔ ان مثالوں کی روشنی میں یہ فرمایے کہ کوئی ایسا عقیدہ یا نظریہ یا قوم جو انسان کی انفرادی یا اجتماعی جبلی خباثت کو اکھاڑنے میں کبھی کلی یا جزوی کامیاب ہوئے ہوں؟ سوال یہ ہے کہ جب زخم ہی نہیں بھرتے تو پھر کسی نے یہاں کون سا کمال کیا (جاوید صبا)
070521_mosque_update_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/05/070521_mosque_update_fz
سڑک پر قبضہ، پانچ میں سے تین رہا
جامعہ فریدیہ کے طلباء نے پیر کی شام پولیس کے جن تین مزید اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔ اب لال مسجد اور متعلقہ مدرسہ کی تحویل میں یرغمال پولیس اہلکاروں کی تعداد دو ہے۔
اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لال مسجد کی انتظامیہ نے حکومت پر مزید پندرہ طلبہ کو اغوا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ مسجد کے نائب مہتمم عبدالرشید غازی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتھیوں کی رہائی کے برعکس پولیس نے جامع فریدیہ کے سامنے سے پندرہ مزید طلبہ کو پیر کو اغوا کر لیا۔ مقامی انتظامیہ نے کل رات مسجد کو جانے والے تمام راستے بند کر دئیے تھے جنہیں تاہم آج صبح دوبارہ کھول دیئے گئے۔ قریبی پولیس سٹیشن پر تعینات اضافی نفری اور رینجرز کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم مسجد کے طلبہ سامنے کی ایک سڑک پر اپنا قبضہ آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ لال مسجد کے طلبہ نے گزشتہ جمعے کے روز چار پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ان میں سے دو کو تو بعد میں رہا کر دیا گیا تاہم دو ابھی بھی طلبہ کے قبضے میں ہیں۔ مسجد کے پانچ طلبہ کی عدالت سے ضمانت پر آج متوقع رہائی کے بعد ان پولیس اہلکاروں کی رہائی کا امکان ہے۔ تاہم ان تازہ گرفتاریوں سے حالات دوبارہ کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔ مسجد انتظامیہ نے کل دو سو طلبہ کی گرفتاری کا دعوی کیا تھا تاہم حکام نے صرف چالیس کی تصدیق کی تھی۔
pakistan-44041507
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44041507
اصغر خان کیس کے فیصلے میں کیا ہے؟
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے معاملے پر سابق ایئر چیف اصغر خان کی درخواست پر فیصلے سے متعلق سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجینس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔
اصغر خان اس سال جنوری میں ستانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ اصغر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے فوج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو پیسے دیے تھے۔ مزید پڑھیے ’اصغر خان کیس آئین شکنی کا نہیں بدعنوانی کا مقدمہ ہے‘ ’صرف اپنے آپ کو بچانے کے لیے فوج کو بدنام نہ کریں‘ اصغر خان کیس کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت تفتیش سے کوئی امید نہیں: اصغر خان اصغر خان کیس کے نام سے مشہور اس مقدمے میں دیے گئے عدالتی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے۔ اس کے اہم نکات کچھ یوں ہیں۔ سنہ 2012 کا فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے سیاست دانوں میں 1990 کے انتخابات میں رقوم کی تقسیم کے معاملے میں ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ 19 اکتوبر 2012 کو سنایا تھا۔ اِس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم مرزا بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔ سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اپنے مختصر فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں البتہ جو سیاست دان اُن رقوم سے مستفید ہوئے اُن کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ ایوانِ صدر میں سیاسی سیل اُس وقت تک جو شواہد سامنے آئے تھے اُن کے مطابق ایوانِ صدر میں ایک سیاسی سیل قائم تھا جو پسندیدہ اُمیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے رقوم دے رہا تھا۔ اس عمل سے پاکستان کے عوام کو اُن کی پسند کے اُمیدوار منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا۔ قانونی کارروائی کا حکم •سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اُس وقت کے صدر اپنے عہدے کا پاس نہیں رکھ پائے لہذا اُن کے خلاف بھی آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ •وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ذریعے یونس حبیب سمیت اُن سیاست دانوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے جو اُس رقم سے مستفید ہوئے تھے۔ •اُس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم مرزا بیگ اور انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا اور سپریم کورٹ نے عہد کی پاسداری نہ کرنے پر اُن کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔ افتخار محمد چوہدری دسمبر سنہ 2013 میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تھے آئی ایس آئی اور ایم آئی کا سیاسی کردار سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس قانون کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے سرحدوں کا تحفظ کرسکتی ہیں یا حکومت کو مدد فراہم کر سکتی ہیں لیکن اُن کا سیاسی سرگرمیوں، سیاسی حکومتوں کے قیام یا اُنھیں کمزور کرنے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت یا گروپ یا انفرادی طور پر کسی سیاست دان کی حمایت کسی بھی انداز میں کر سکتے ہیں جس سے وہ انتخابات میں کامیاب ہو جائے۔ کل رقم کتنی تھی؟ •سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق حبیب بینک کے اُس وقت کے سربراہ یونس حبیب نے جنرل اسلم مرزا بیگ اور جنرل اسد درانی کے کہنے پر 14 کروڑ روپے قومی خزانے سے فراہم کیے جن میں سے چھ کروڑ سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے۔ اِس کی بھی نا مکمل تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔ •سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ آٹھ کروڑ کی رقم حبیب بینک کے اکاؤنٹ نمبر 313 میں جمع کرائی گئی ہے جو کہ سرورے اینڈ کنسٹرکشن گروپ کے نام سے موجود ہے اور اس اکاؤنٹ کو ملٹری انٹیلیجنس چلاتی ہے۔ اگروہ رقم حبیب بینک کے کھاتوں میں شامل نہیں کی گئی تو اُسے قومی خزانے میں بمع منافع جمع کرایا جائے۔ تفصیلی فیصلے میں اُن تفصیلات کو شامل کیا گیا جن میں بتایا گیا کہ کس سیاستدان کو کتنی رقم دی گئی۔ کس سیاستدان کو کیا ملا؟ فوجی افسران اور اداروں کو کتنی رقم ملی؟ یونس حبیب نے خود کتنی رقم کس کس کو بانٹی؟ اس مقدمے کی سماعت اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی جس میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین بھی شامل تھے۔ بینچ نے کہا تھا کہ اِس مقدمے کو نمٹائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1990 کے عام انتخابات کے تاریخی پس منظر کو دوبارہ لکھا جائے۔ آٹھ نومبر 2012 میں سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ بھی سنا دیا جسے اُس وقت کے سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے ایک پُر حجوم پریس کانفرنس میں بیان کیا تھا۔
031107_computer_blessing_as
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2003/11/031107_computer_blessing_as
آشیر باد آن لائن
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اب کس طرح زندگی کے ہر شعبے کا لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے، اس کی ایک مثال ہندوستان میں بننے والی ایک نئی ویب سائٹ نے قائم کی ہے۔
بمبئی کی چھبیس سالہ فنکارہ شلپا گپتا کی اس ویب سائٹ پر آنے والے لوگوں کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو ، اس ویب سائٹ پر انہیں ان کے عقیدے کے مطابق دعائیں مل سکتی ہیں۔ ویب سائٹ پر جانے کے بعد آپ اپنا مذہب چنیں اور پھر اپنا سر کمپیوٹر سکرین سے جوڑ لیجئے ۔ بس آپ پر دعائیں نچھاور ہونا شروع ہوجائیں گی کم ازکم اس ویب سائٹ کے مطابق تو ایسا ہی ہوگا۔ اور یہی نہیں اس کے بعد آپ ایک ایسا سرٹیفکیٹ بھی پرنٹ کر سکتے ہیں جس میں آپ کو زندگی میں خوشحالی کی گارنٹی دی جائے گی۔ blessed-bandwidth.net نامی اس سائٹ کو لندن کی مشہور آرٹ گیلری ٹیٹ نے بنوایا ہے اور اس پر آنے والے لوگ اسلام، ہندومت، بدھ مت، عیسائیت اور سکھ مذہب میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔
031201_mush_qurstiontime2_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2003/12/031201_mush_qurstiontime2_ms
آپ کے سوالات مشرف کے جوابات (دوسرا حصہ)
اس موقعے پر شفیع نقی جامعی نے پاکستان سے مختلف لوگوں کی صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کے بارے میں آراء سنائیں۔
شفیع نقی جامعی ان آراء میں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کے دور میں دوائیں، پیٹرول اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ ان پر قابو پانے کے لئے آپ کی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟ یقیناً مہنگائی ہوئی ہے لیکن جو ایک صاحب ٹماٹر کی بات کر رہے تھے کہ ایک سو بیس روپے کلو تک چلا گیا ہے۔ کیا انہوں نے وہ ایک سو بیس روپے کلو والا ٹماٹر ہی کھانا ہے؟ صدر پرویز مشرف صدر جنرل پرویز مشرف جی ہاں، قیمتیں ضرور بڑھی ہیں لیکن یہ ان میں سے جو ایک صاحب ٹماٹر کی بات کر رہے تھے کہ ایک سو بیس روپے کلو تک چلا گیا ہے۔ دیکھئے جو موسم کی سبزی ہو بس وہی کھائیں، بے موسمی چیز خریدیں گے تو وہ مہنگی ہوگی۔ ٹماٹر نہ کھائیں، میرا مطلب ہے کیا دوسری سبزیاں نہیں مل رہیں۔ کیا انہوں نے وہ ایک سو بیس روپے کلو والا ٹماٹر ہی کھانا ہے؟ یہ درست ہے کہ قیمتیں نہیں بڑھنی چاہئیں لیکن اس کا انحصار عالمی منڈی میں قیمتوں پر ہوتا ہے۔ ہم اس پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ منور ملک، سندھ، پاکستان آپ ایک آئینی حکومت کو ہٹا کر صدر بن بیٹھے ہیں۔ اگر آپ پر بغاوت کا مقدمہ دائر ہوجائے جیسے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ دائر ہوا تھا اور انہیں پھانسی دے دی گئی تھی، اس سلسلے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ اگر ہم یہ اقدامات نہ کرتے تو ایک ناکام اور دہشت گرد ریاست بھی قرار دے دیئے جاتے اور وہ آپ کو شاید بہتر لگتا۔ صدر پرویز مشرف صدر جنرل پرویز مشرف یہ آپ سندھ سے بول رہے ہیں ناں کیوں کہ اس طرح کے سوالات عموماً سندھ کے لوگ کرتے ہیں۔ میں آپ پر واضح کردوں کہ میں سب کچھ پاکستان کے حق میں کرتا ہوں۔ آپ اس بات پر توجہ دیں کہ آیا پاکستان میں بہتری آئی ہے؟ آپ تین چار برس پہلے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں۔ ہم ایک ناکام ریاست قرار دیئے جانے والے تھے۔ اگر ہم یہ اقدامات نہ کرتے تو نہ صرف یہ ہوچکا ہوتا بلکہ ہم ایک دہشت گرد ریاست بھی قرار دے دیئے جاتے اور وہ آپ کو شاید بہتر لگتا۔ دیکھیں میں ڈرتا صرف اللہ تعالیٰ سے ہوں، میں آپ جیسے لوگوں سے یا کسی سے نہیں ڈرتا۔ اللہ انصاف کرے گا۔ نعیمہ احمد مہجور، اردو سروس پاکستان میں ماضی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، کیا ان سے ملک میں واقعی جمہوریت آئی؟ صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان میں صحیح جمہوریت کبھی چلی ہی نہیں ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں پائیدار جمہوریت آئے۔ عبدالعزیز انصاری، دوبئی آپ پاکستان کے مضبوط ترین رہنماؤں میں سے ایک ہیں آپ کی کیا مجبوری ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں جو ماضی یا حال میں بھی بدعنوان رہے ہیں؟ آپ گِلا کریں ان لوگوں سے جنہوں نے بدعنوان لوگوں کو چنا ہے۔ صدر پرویز مشرف صدر جنرل پرویز مشرف آپ خود سوچیں میری کوئی مجبوری تو ہوگی ہی لیکن بہرحال مجھے نہیں معلوم کہ آپ کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو لوگ بھی ساتھ ہیں انہیں لوگوں نے منتخب کیا ہے۔ آپ گِلا کریں ان لوگوں سے جنہوں نے ان کو چنا ہے۔ امتیاز راہی، امریکہ جنرل صاحب، حکومت میں آنے سے پہلے آپ کے بلند بانگ دعوے تھے کہ آپ بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے لیکن حکومت کی تشکیل کے بعد آپ انہی بدعنوان لوگوں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ اس سے آپ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گے؟ صدر جنرل پرویز مشرف میں نہیں جانتا کہ آپ کن لوگوں کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ سب منتخب نمائندے ہیں اس لئے آپ کو شکوہ ان لوگوں سے کرنا چاہئے جو انہیں منتخب کرتے ہیں کیوں کہ میں نے انہیں منتخب نہیں کروایا۔ میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ کسی بھی بے ایمان شخص کو میں نامزد نہیں کروں گا۔ آپ ماضی کو بھول کر موجودہ حکومت پر نظر ڈالیں اور مجھے بتائیں کہ کیا کوئی بے ایمانی ہو رہی ہے۔ میں اس معاملے پر بڑی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔ جاوید شیخ، دوبئی صدر صاحب، گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد آپ نے افغانستان مخالف امریکی کارروائیوں کا ساتھ دیا جسے کسی حد تک جائز بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ امریکہ میں بہت زیادہ خون خرابہ ہوا تھا۔ لیکن آج امریکہ جو کچھ عراق میں کر رہا ہے، آپ نے اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ صدر جنرل پرویز مشرف دیکھیں ہم نے کبھی بھی عراق میں جنگ کی حمایت نہیں کی۔ نہ ہم نے سلامتی کونسل میں اس کے حق میں کبھی ووٹ ڈالا، نہ کبھی اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ہم نے دباؤ کے باوجود فوجیں بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ میں نے اور پاکستان نے جو موقف اختیار کیا وہ پاکستان کے قومی مفاد میں تھا اور ہم آئندہ بھی یہی کریں گے۔ پروفیسر خواجہ احمد حئی، دہلی، بھارت لفظ مہاجر پر پابندی کیوں نہیں؟ پاکستان جمہوریت کے لئے بنا تھا لیکن جمہوریت کب آئے گی اور آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟ صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان میں ہم نے جب نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینے کی بات کی تو ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں عوامی سطح پر جمہوریت نہیں پنپ سکی۔ ووٹ تو لوگ ضرور ڈالتے ہیں لیکن جمہوری اقدار کا وجود نہیں ہے۔ پہلا کام ہم نے یہ کیا ہے کہ مقامی سطح پر انتظامی نظام متعارف کروایا ہے اور لوگ اسے ایک خاموش انقلاب کا نام دیتے ہیں۔ جب تک احتساب اور نگرانی موجود نہ ہوں بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ہم نے ان پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ باقی جہاں تک مہاجر کا تعلق ہے، میں یہ مانتا ہوں کہ یہ نہیں کہنا چاہئے۔ ہم انہیں کب تک مہاجر کہتے رہیں گے۔ انہیں سندھی کہنا چاہئے۔ مانک گپتا، ہندی سروس پاکستانی عوام نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی وی پر اپنا میچ خود ہی نہیں دیکھ سکے۔ کیا آپ کرکٹ کے معاملات سے مطمئن ہیں؟ پاکستان کے عوام کے میچ نہ دیکھ سکنے پر میں تہِہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن میں اس معاملے کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا کہ قصور کس کا ہے۔ صدر مشرف صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان میں میچ نہ دیکھے جانے کا مجھے بھی بڑا افسوس ہے اور اسی لئے میں نے فوراً ایکشن لیا اور ہم نے دوسرا میچ دیکھا۔ میں اس بات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا کہ قصور کس کا ہے۔ پاکستان کے عوام کے میچ نہ دیکھ سکنے پر میں تہِہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ شفیع نقی جامعی، اردو سروس آپ نے پاکستان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں اور افغان سرحد پر جاری حالات اگر بہتر نہ ہوئے تو پھر ہم پر بھی بم گرائے جا سکتے ہیں۔ آپ کی اس سے کیا مراد تھی؟ صدر جنرل پرویز مشرف میں ان پر یہ عیاں کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان کو خطرہ کس چیز سے ہے۔ ہم طاقتور ہیں، ہمیں باہر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اندرونی طور پر ہماری معیشت بہتر ہو رہی ہے البتہ ہمیں ایک چیز سے خطرہ ضرور ہے اور وہ ہے فرقہ ورانہ اور مذہبی انتہا پسندی اور یہ ہمیں لے بیٹھے گی۔ دراصل اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے ایک انتہائی نقطہ نظر پیش کیا تھا کہ اگر ہم نے اس صورتِ حال پر قابو نہ پایا تو شاید دوسرے لوگ یہ سمجھیں کہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر کچھ نہیں کر پا رہے تو کیوں نہ ہم ہی ان پر بم گرانا شروع کر دیں۔ میں نے محض ایک خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ نعیمہ احمد مہجور، اردو سروس پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ لوگ اپنے فیصلے خود نہیں کر پاتے؟ صدر جنرل پرویز مشرف میں بھی حکومت کا حصہ ہی ہوں۔ آپ کے سوال سے ایسا لگتا ہے کہ صدر گھر میں تالے کے اندر بیٹھا رہے چپ کر کے۔ اگر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میری خوش قسمتی ہے۔ نگیندر شرما، ہندی سروس ایک بی بی سی سننے والے کا کہنا ہے کہ آپ نے ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ پاکستان کا کوئی بھی لیڈر کشمیر کو چھوڑنے کی بات نہیں کر سکتا، جو کشمیر کو چھوڑنے کی بات کرے گا وہ رہنما نہیں رہ سکتا۔ کیا بھارت اور پاکستان کے سربراہان کشمیر کو صرف اپنی کرسی کے لئے استعمال کر رہے ہیں؟ صدر جنرل پرویز مشرف نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ ہمیں حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا چاہئے۔ کشمیری ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں جو کہ اپنے منفرد احساسات و نظریات کے حامل ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ اپنی توقعات بھی وابستہ کرتے ہیں۔ میرے چیف آف جوائنٹ سٹاف اور انفرمیشن منسٹر بھی کشمیری ہیں۔ گزشتہ پچاس برس سے ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی سفارتی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حکمراں پچاس برس بعد اچانک یہ کہہ دے کہ ہم کشمیر کو بھول جاتے ہیں اور دیگر مسائل پر بات کرتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر حقیقت پسندانہ اور خطرنا ک رویہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ حکومت سے باغی ہو جائیں۔ کوئی بھی رہنما قومی مفادات پر سودا نہیں کر سکتا۔ جمال الدین، کراچی، پاکستان اللہ میاں ضیاء الحق صاحب کو جنت نصیب کرے، انہوں نے معذور افراد کا دو فیصد کوٹہ مقرر کر رکھا تھا۔ لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ آپ کی حکومت اس بارے میں کیا کر رہی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف میری ہمدردیاں معذور افراد کے ساتھ ہیں لیکن سچی بات تو یہ کہ مجھے واقعی اس بارے میں سوچنے کا موقعہ نہیں ملا۔ میں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ میں اس معاملے پر بغور نظر ڈالنا چاہوں گا۔ میجر اعجاز شاہ، دیبال پور، پاکستان کیا آپ ایک معزول جنرل اور غیر آئینی صدر نہیں ہیں؟ کیا آپ نے جہاد کے متعلق قرآنِ پاک کی آیت کی نفی کر کے دوسرا یاسر عرفات، میر جعفر اور کمال اتاترک بننے کی کوشش نہیں کی؟ کیا آپ نے ایک کٹر ہندو بننے کی کوشش نہیں کی؟ یہ اس قسم کے لوگ ہیں جن کو میں انتہا پسند اور پاگل سمجھتا ہوں، اصل میں انہی کو قابو کرنا ہے۔ صدر پرویز مشرف صدر جنرل پرویز مشرف میں ان کے سوال کا جواب ایک جملے میں ضرور دینا چاہوں گا۔ یہ اس قسم کے لوگ ہیں جن کو میں انتہا پسند اور پاگل سمجھتا ہوں، اصل میں انہی کو قابو کرنا ہے۔ نگیندر شرما، ہندی سروس اگلے ماہ اسلام آباد میں سارک ممالک کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ آپ کی اس سلسلے میں کیا امیدیں ہیں؟ صدر جنرل پرویز مشرف سب سے پہلے تو مجھے یہ امید ہے کہ سارک سمٹ ہوگی۔ کیونکہ یہی مسئلہ تھا کہ سارک اجلاس ہو نہیں رہا تھا۔ دوسری امید مجھے یہ ہے کہ وزیرِ اعظم واجپئی صاحب یہاں آئیں گے۔ تیسری امید یہ ہے کہ واجپئی صاحب سب سے ملیں گے اور چوتھی امید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ملاقات کارآمد اور فائدہ مند ہو۔ نگیندر شرما، ہندی سروس کیا آپ وزیرِ اعظم واجپئی صاحب سے ملیں گے؟ صدر جنرل پرویز مشرف اگر وہ ملنا چاہیں گے تو ملوں گا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ چونکہ بار بار میں ہی کہے جا رہا ہوں تو انہیں یہ تاثر نہ ملے کہ جیسے میں انہیں ملے بغیر رہ نہیں سکتا۔ میں بہت خوش ہوں، آرام سے بیٹھا ہوا ہوں۔ ثاقب کامران، پاکستان پاکستان بھی امریکہ اور برطانیہ کے شہریوں کے لئے ویسی ہی امیگریشن کی پابندیاں عائد کیوں نہں کرتا جس طرح ان ممالک نے پاکستان کے شہریوں پر عائد کر رکھی ہیں؟ صدر جنرل پرویز مشرف میری دعا ہے کہ کبھی ہم بھی اس قدر طاقتور ہو جائیں کہ وہاں سے بھی اتنے ہی لوگ یہاں آ رہے ہوں جتنے ہم وہاں جا رہے ہیں اور ادلے کا بدلہ اسی وقت ہو سکے گا۔ فی الحال تو یہ یکطرفہ ٹریفک ہے۔ ختم شد
science-39586603
https://www.bbc.com/urdu/science-39586603
ایورسٹ ڈائری: بیس کیمپ سے تین دن دور
پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کوہ پیما سعد محمد دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی مہم پر روانہ ہوئے ہیں۔ اگر وہ یہ چوٹی سر کرنے میں کامیاب رہے تو وہ یہ کارنامہ سرانجام دینے والے چوتھے پاکستانی ہوں گے۔ سعد اس سفر کے دوران بی بی سی اردو کے لیے تصویری و تحریر ڈائری کی شکل میں اپنے تجربات شیئر کریں گے۔ نیپال کا قصبہ ڈبوشا ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ سے تین دن کی دوری پر واقع ہے۔ ایورسٹ کی جانب بڑھتے ہوئے ایسی کالی چٹانیں راستے میں دکھائی دیتی ہیں جن پر قدیم تبتی زبان میں دعائیہ کلمات درج ہیں۔
ایورسٹ اپنی پہلی جھلک دکھانے کے لیے آپ کو نامچے بازار سے چار سو میٹر کی بلندی پر بلاتی ہے۔ چلتے چلتے تھک جائیں اور بھوک لگے تو راستے میں جگہ جگہ کیفے نما ڈھابے ہیں جہاں مشروبات اور کھانے کی مختلف اشیا دستیاب ہیں۔ کسی بھی ڈھابے پر آرڈر دے کر سکون سے بیٹھ جائیں اور کھانا آنے تک ارد گرد کے مسحور کن قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوں۔ کالی چٹان پر قدیم تبتی زبان میں دعائیہ کلمات درج ہیں راستہ جہاں خوبصورت ہے وہیں پُرپیچ بھی۔ نیپالی حکومت نے راستے میں آنے والے ندی، نالے عبور کرنے کے لیے جو لوہے کے پل بنا رکھے ہیں انھیں عبور کرتے ہوئے ایک بار تو پلِ صراط ضرور یاد آ ہی جاتا ہے۔ تیز ہوائیں ان پلُوں کو جھولا جھلاتی ہیں اور ایسے وقت میں اگر آپ ان پر موجود ہوں تو سارے وظیفے اور دعائیں بھی بھول جاتی ہیں۔ یہ چھوٹے قد مگر مضبوط جسامت رکھنے والے شرپاؤں کا علاقہ ہے۔ ایورسٹ کے بیس کیمپ کے راستے میں لوہے کے کئی پل آتے ہیں بلتستان اور تبت کے افراد سے مشابہت رکھنے والے ان افراد کے سر پر ہی نیپال میں مہم جوئی کا کاروبار چل رہا ہے۔ ساٹھ کلو تک کا وزن اٹھا کر پرخطر پہاڑی راستوں پر باآسانی چلتے جانا ان کا خاصہ ہے۔ وزن اٹھانے کے لیے یہ رواتی ٹوکری نما پٹھو استعمال کرتے ہیں جس میں وزنی چیز ہو یا بڑے حجم کا سامان سب کچھ سما جاتا ہے۔ شرپا وزن اٹھانے کے لیے روایتی ٹوکری نما پٹھو استعمال کرتے ہیں ایورسٹ جسے نیپال میں ’ساگھر ماتا‘ اور تبت میں ’چومولگما‘ کہتے ہیں اپنی پہلی جھلک دکھانے کے لیے آپ کو نامچے بازار سے چار سو میٹر کی بلندی پر بلاتی ہے۔ نامچے بازار پاکستان کے مقبول پہاڑی تفریحی مقام مری جیسا قصبہ ہے مگر یہ ایسا مری ہے جس میں نہ سڑکیں ہیں نہ گاڑیاں مگر لوگ انتہائی خوش مزاج ہیں۔ نامچے بازار پاکستان کے مقبول پہاڑی تفریحی مقام مری جیسا قصبہ ہے یہ ایورسٹ کے راستے میں آنے والا آخری بڑا گاؤں ہے اور یہاں مہم جوئی کے لیے درکار تقریباً ہر چیز ہی دستیاب ہے مگر اتنی مہنگی کہ الامان۔ پانی کی بوتل ڈیڑھ سو کی ہے تو کٹھمنڈو میں 50 روپے میں دستیاب کوکا کولا کی ایک بوتل ایورسٹ کے قریب پہنچنے تک 250 روپے کا ہو جاتی ہے۔
040923_gujarat_riots_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/09/040923_gujarat_riots_fz
’مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا‘
امریکی میں قائم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی حکام پر الزام لگایا ہے کہ تین سال قبل ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات کے مسلمان عینی شاہدوں کوتحفاظ فراہم کرنے کے بجائے ان کو ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔
بھارت کی ریاست گجرات میں تین سال قبل ہونے والے ان فسادات میں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر بریڈ ایڈم نے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتہ پارٹی کی صوبائی حکومت نے ریاست میں خوف ہراس کی فضا قائم رکھی اور ان فسادات میں ملوث عناصر کو پکڑنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے ریاستِ گجرات کے حکام پر الزام لگایا کہ وہ ان لوگوں کو پولیس اور ٹیکس کے اہلکاروں کے ذریعے ہراساں کرتے رہے جو انصاف کے متلاشی تھے اور ان فسادات کا نشانہ بنے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان فسادات کے متاثریں اور عینی شاہدوں اور ان کے وکلاء کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ بدھ کے روز ممبئی میں ایک عدالت نے ان سولہ افراد کے خلاف نئے سرے سے فرد جرم عائد کی جن کو اس سے پہلے اس گجرات کے فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری کیا جا چکا تھا۔ ان لوگوں کو گواہوں کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے بری کیا گیا تھا۔
130508_bannu_suicide_attack_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/05/130508_bannu_suicide_attack_rh
بنوں: پولیس کوارٹروں پر خودکش حملہ، 3 ہلاک
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں پولیس تھانہ ڈومیل کے قریب پولیس کے رہائشی مکانات پر ایک کر خودکش دھماکے میں تین افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوئے ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار، ایک خاتون اور ایک شہری شامل ہے پولیس افسر نبی شاہ نے ہمارے نامہ نگار دلاور خان وزیر کو بتایا کہ صبح فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد خودکش حملہ آور نے بارود سے لدی پک اپ پولیس کوارٹروں سے ٹکرا دی۔ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار، ایک خاتون اور ایک شہری شامل ہے۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ایک سویلین رہائشی ڈاکٹر گل کا مکان مکمل طور پر گر گیا اور ان کے بچے اور خواتین ملبے تلے دب گئے۔ پولیس افسر نے کہا کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جا رہا ہے۔
060224_balochistan_travel_2_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060224_balochistan_travel_2_ra
بلوچستان کے ویرانوں میں
بلوچستان کے علاقہ ڈیرہ بگٹی کے سفر کے دوران جب ہم راستہ بھول گئے اور اندھیرا چھا چکا تھا تو ڈرائیور پریشان ہو کر کہنے لگا کہ ’میری کیوں مت ماری گئی کہ آپ کے ساتھ آیا‘۔بلوچستان کے ویرانوں میںمیں نے ڈرائیور کو دلاسہ دیا اور کہا کہ بھائی اب تو آگئے ہیں گھبرائیے نہیں اللہ بہتر کرے گا۔ آگے گئے تو ریتلا راستہ ختم ہوا اور پھر پتھریلا راستہ شروع ہوا۔ ڈرائیور نے کہا کہ یہاں سے گاڑی نہیں جاسکتی۔
ہم اندھیرے میں پریشان کھڑے بگٹی کے لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا اور اپنا نام لونگ بگٹی بتایا اور کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ ہم نواب اکبر بگٹی کے مہمان ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اچھا ہوا آپ یہاں آئے اگر دوسری طرف جاتے تو ایف سی کی چیک پوسٹ ہے اور وہ ہمیں پکڑ لیتے۔ لونگ نے بتایا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد بگٹی قلعہ میں پہنچ جائیں گے۔ انتہائی دشوار گزار اور خستہ حال ایک سو کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے کر کے اس جگہ پہنچے تھے۔ لیکن لونگ کے مشورے کے برعکس ہم نے راستہ بدل لیا اور فیصلہ کیا کہ ایف سی کی چیک پوسٹ سے گزریں گے۔ پونے گھنٹے کی مسافت کے بعد جب ہم سنگسیلا چیک پوسٹ پر پہنچے تو ایف سی کا چھوٹا قلعہ نظر آیا۔ گاڑی کی لائٹ دیکھ کر ایف سی کے اہلکار چوکس ہوگئے اور سڑک پر رکاوٹ کی وجہ سے گاڑی رکی تو تین اہلکاروں نے بندوقیں تان کر گھیر لیا۔ تعارف کرانے پر ان کے رویے میں یکسر تبدیلی آ گئی۔ ایک سپاہی نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے اس طرف سے کوئی گاڑی نہیں گزری۔ انہوں نے بی بی سی کی تعریفیں شروع کردیں اور کہا کہ اس جنگل میں ان کی معلومات کا واحد ذریعہ ریڈیو ہے۔ اس دوران انہوں نے کرسیاں لائیں اور بتایا کہ میجر صاحب گشت پر ہیں انہیں اطلاع کردی ہے۔ دس منٹ بعد میجر آئے اور وہ اندر قلعے میں لے گئے۔ یہاں بجلی نہیں تھی اور لالٹین جل رہی تھیں۔ میجر نوید کا تعلق راولپنڈی سے تھا جبکہ کیپٹن ڈاکٹر بھکر کے تھے۔ انہوں نے چائے پلائی اور کرنل فرقان کو مطلع کیا اور انہوں نے ڈیرہ بگٹی شہر جانے کی اجازت دے دی۔ ہم نواب بگٹی کے آدمیوں سے رابطے میں تھے اور انہوں نے کہہ رکھا تھا کہ اگر ایف سی والے سنگسیلا سے نہ چھوڑیں تو وہ انتظام کریں گے۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ سنگسیلا سے ڈیرہ بگٹی شہر تک درمیان ڈیرہ بگٹی شہر سے پہلے ایف سی کے چیک پوسٹ پر جامہ تلاشی ہوئی اور پورے سامان میں ہر ایک چیز انہوں نے غور سے دیکھی اور جانے دیا۔ شہر میں پہنچے تو ایف سی چیک پوسٹ والوں نے روکا اور کہا کہ پہلے ان کے قلعہ یعنی ہیڈ کوارٹر جانا پڑے گا۔ ایف سی کے کرنل فرقان اور ان کے جونیئر افسر منتظر تھے۔ کرنل صاحب خاصے جارحانہ موڈ میں تھے اور کہنے لگے میں نے کرنل سے کہا کہ میں بھی خاصے دنوں سے سفر میں ہوں اور اگر آپ بگٹی سے ملاقات کرنے کی اجازت دیں تو جو رقم ملے گی آپ کے ساتھ بانٹ لوں گا۔ اس پر جونیئر افسر مسکراتے ہوئے کمرے سے نکلے اور کرنل صاحب نے ایک لمحے کے لیے کچھ محسوس کیا۔ ہم نے کرنل سے اجازت لی اور وہ گاڑی تک چھوڑنے آئے اور سنگسیلا چیک پوسٹ والوں کے لیے سگریٹ اور نسوار سمیت کچھ اشیاء ایک چھوٹی بوری میں ڈال کر ہماری گاڑی میں رکھ دیں۔ اس دوران اکبر بگٹی نے فون کر کے ہمارے کوئٹہ کے ساتھی عزیز اللہ سے کہا کہ آپ کا نمائندہ دو تین گھنٹے سے ایف سی ہیڈ کوارٹر میں ہے اور پتہ کریں کہیں انہیں حراست میں تو نہیں لے لیا۔ ہم جیسے ہی بگٹی قلعہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک ٹرالی سڑک پر کھڑی تھی اور اس کے پیچھے مسلح لوگ موجود تھے جنہوں نے بندوقوں کا رخ ہماری طرف کر رکھا تھا۔ میں ہاتھ اوپر کر گاڑی سے باہر نکلا اور اپنا تعارف کروانے پر انہوں نے کہا:’ خیر ہے خیر ہے جاؤ‘۔ میں نے رات بگٹی قلعہ میں گزاری۔ رات تین بجے ایک بڑا دھماکہ ہوا اور آنکھ کھل گئی۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔خیال آیا کہ کہیں ایف سی والوں نے سگریٹ اور نسوار کی بوری میں قابل اعتراض اشیاء تو نہیں رکھیں اور صبح کہیں چیک پوسٹ پر خود ہی پکڑ لیں۔ اتنے میں دھماکوں کی آوازوں میں اضافہ ہوگیا اور یکے بعد دیگرے دھماکے ہوتے رہے۔ دھماکوں کے شور اور ایف سی کی بوری نے پریشان کردیا اور نیند اڑ گئی۔( جاری ہے)
050313_drugfatawa_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050313_drugfatawa_sen
بلوچستان: منشیات کے خلاف فتویٰ
پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی دہشت گردی کے خلاف مہم سے انسداد منشیات کے اقدامات متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں پوست کی کاشت میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور خطرہ ہے کہ پاکستان میں پوست کو ذخیرہ کرنے کے سٹور اور ہیروئن کی لیبارٹریاں دوبارہ سے جنم لیں گی۔
اینٹی نارکوٹکس فورس کے سربراہ میجر جنرل ندیم احمد نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ افغانستان میں اس سال پوست ایک لاکھ اکتیس ہزار ہیکٹر پر کاشت کی گئ ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2003 سے پاکستان میں بھی پوست کی دوبارہ کاشت شروع ہو گئی ہے جس میں سے تقریبا اسی فی صد فصل کو تباہ کر دیا گیاہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی عدم توجہی اور پاکستان کو اس سلسلے میں قلیل امداد سے اس بات کا خطرہ بڑھے گا کہ پاکستان میں پوست کی کاشت اور افغانستان میں کاشت کی پاکستان کے راستے سمگل کی جائے گی۔ میجر جنرل ندیم نے کہا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس کاشت اور سمگلنگ کو روکنے کے لئے فضائی اور زمینی نگرانی کا کام کر سکے۔ ملک میں منشیات کے استعمال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں مگر اب اس میں کمی آ رہی ہے۔ تاہم ان کے مطابق زیادہ سنگین صورتحال انجکشن کے ذریعے نشہ کرنے والوں کی ہے جو بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے ہیپٹاٹیٹس اور ایڈز جیسی مہلک بیماریوں کا خدشہ بہت بڑھ گیا ہے۔
pakistan-56106109
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56106109
بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟
کراچی کے علاقے لیاری میں ریکسر لین، گل محمد لین، جمن شاہ پلاٹ اور غلام شاہ لین میں روزانہ ساڑھے سات گھنٹے کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی یہ لوڈ شیڈنگ اعلانیہ ہے جبکہ کبھی کبھار غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اس کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ غلام شاہ لین کے رہائشی فہیم علی کے مطابق بعض اوقات بجلی ساڑھے سات گھنٹے سے زیادہ ہی چلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر روز سات سے آٹھ گھنٹے بجلی کے بغیر رہنے کے باوجود ان کے بجلی کے بل میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ گذشتہ چند برسوں سے تو اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ فہیم علی کا جو بل آج سے چند سال قبل دو سے ڈھائی ہزار روپے آتا ہے اب ساڑھے تین ہزار ماہانہ سے تجاوز کر چکا ہے۔ فہیم علی کہتے ہیں کہ ’بجلی نہ آنے سے پانی بھی نہیں آتا اور چولہوں میں گیس بھی نہیں آتی کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گھر گیس پر جنریٹر چلاتے ہیں جس کی وجہ سے چولہوں میں گیس آنا کم ہو جاتی ہے اور بجلی کی بندش سے پانی بھی لائن سے نہیں کھینچا جا سکتا۔‘ پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ صرف لیاری کے ان علاقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ صورت حال کراچی کے دوسرے حصوں اور اس سے بھی بڑھ کر ملک کے مختلف شہروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ تاہم ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہے اور اس کی پیداوار ملک کی مجموعی طلب سے زیادہ ہے۔ اضافی بجلی پیدا ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی اس وقت پاکستان میں بجلی کے صارفین کے لیے دو بڑے مسئلے ہیں۔ پاکستان میں طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار اس وقت ملک میں توانائی کے شعبے کے لیے ایک بڑا بحران ہے جس کی وجہ سے اس شعبے کا گردشی قرضہ دو ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر وفاقی کابینہ نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے ایک معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے تحت آئی پی پیز کو دی جانے والی ادائیگیوں کی مد میں اگلے 20 برسوں میں 800 ارب روپے سے زائد کی بچت ہو گی۔ یہ بھی پڑھیے توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2300 ارب سے زائد، آخر اس کا حل کیا ہے؟ ’بل زیادہ اور بجلی کم، ہر طرف ہے گیس بند‘ بجلی بچائیے سے بجلی جلائیے تک۔۔۔ پاکستان کے پاس بجلی اضافی ہے تو پھر بھی لوڈشیڈنگ کیوں پاکستان میں بجلی کی پیداوار و طلب کتنی ہے؟ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ گذشتہ مالی سال کے اکنامک سروے میں جہاں ملک 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا تو دوسری جانب پاکستان میں بجلی کی کھپت ضرورت اور موسم کے لحاظ سے آٹھ ہزار سے 23 ہزار میگاواٹ کے درمیان رہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے توانائی کے شعبے پر معاون خصوصی تابش گوہر کے انٹرویو میں دیے گئے بیان کے مطابق 2023 تک پاکستان میں طلب سے 50 فیصد زیادہ بجلی موجود ہو گی۔ ان کے مطابق پاکستان کے پاس بہت زیادہ اور مہنگی بجلی ہے جو ملک پر ایک بوجھ ہے۔ توانائی کے شعبے کے ماہر سید اختر علی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں بجلی کے نئے پروجیکٹ لگے ہیں جن میں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت لگنے والے بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ ان تمام منصوبوں کے مکمل ہونے کی وجہ سے ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت بہت بڑھی اور اب یہ 35 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار میں مزید اضافہ بھی ہو گا کیونکہ ملک کے جنوبی حصے میں کوئلے اور نیوکلیئر بجلی کے چند نئے منصوبے بھی مکمل ہونے والے ہیں جو ملک میں بجلی کی پیداوار کو مزید بڑھا دیں گے۔ اضافی بجلی مسئلہ کیوں؟ پاکستان میں حکومت اور نجی شعبہ دونوں ملک کر بجلی بنا رہے ہیں۔ حکومت کی زیر نگرانی چلنے والے بجلی کے کارخانوں کے ساتھ نجی شعبے کے کارخانے بھی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ تاہم ملک میں بجلی کی خریدار صرف حکومت ہے اور ماضی میں بجلی کے پلانٹس لگانے کے معاہدوں میں یہ لازمی تھا کہ ملک میں بجلی کی کھپت ہو نہ ہو، بجلی کا ہر پیدا ہونے والا یونٹ حکومت کو خریدنا پڑے گا اور اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں حکومت کو اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ یوں پاکستان میں طلب سے زیادہ بجلی کی پیداوار ملک کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) سے طویل عرصے سے مذاکرات کر رہی تھی۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے آئی پی پیز سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اب پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ان آئی پی پیز سے معاہدے کے لیے حکومت کو منظوری دے دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت حکومت کو اگلے 20 سالوں میں 800 ارب روپے کی بچت اور بجلی کی قیمت کم ہونے کی توقع ہے۔ سید اختر علی جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں ممبر انرجی کے طور پر کام کر چکے ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں اگر بجلی کی کھپت ہو رہی ہے تو اس کی ادائیگی تو صارف کرے گا لیکن اگر اس کی پیداوار ہے اور کھپت نہیں تو بھی حکومت کو اس کی ادائیگی کمپنیوں کو کرنی پڑے گی۔ حکومت کو یہ ادائیگی کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں کرنی پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ دو ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اختر علی نے کہا اگر حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا جائے تو بجلی کے نئے پلانٹس کافی بڑی تعداد میں لگے ہیں جن میں کوئلے، گیس اور جوہری ایندھن کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس شامل ہیں۔ ان میں وہ منصوبے بھی شامل ہیں جو پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بجلی کے شعبے میں لگے ہیں۔ ’جیسے جیسے یہ نئے منصوبے لگتے گئے، حکومت کی اُنھیں ادائیگی کی ذمہ داری بھی بڑھتی گئی۔ بجلی کی پیداوار تو بہت تیزی سے بڑھ گئی لیکن اس کی طلب میں اس کے مقابلے میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس نے گردشی قرضے کو بڑھایا۔‘ اختر علی کے مطابق جس رفتار سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے، اگر یہی صورت حال رہی تو اگلے چند برسوں میں یہ گردشی قرضہ تین ہزار ارب سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہا کہ ’پاکستان میں بجلی کے شعبے میں نئے پلانٹ اور کیپسٹی پیمنٹ کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک گھر میں چار افراد رہتے ہیں لیکن اُنھوں نے قرضے پر چھ گاڑیاں خرید لی ہیں۔ اب اُنھیں ان چھ گاڑیوں کے قرض کی واپسی کے ساتھ ان پر اٹھنے والے روز مرہ کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوتے ہیں۔‘ مزمل اسلم نے بتایا کہ حکومتوں کو بجلی کے پلانٹس لگانے اور ان میں بننے والی بجلی پر دوہری ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ ’ایک تو سی پیک کے تحت لگنے والے منصوبوں پر اٹھنے والی لاگت کو حکومت نے واپس کرنا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔ دوسری جانب ان سے پیدا ہونے والی بجلی کو خریدنا بھی ہے چاہے اس کی کھپت ہو نہ ہو۔‘ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر بجلی کے جو معاہدے ماضی میں کیے گئے وہ بجلی کی ضرورت سے زائد پیداوار کے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مہنگے داموں بھی کیے گئے۔‘ اُنھوں نے اسے پالیسی کی خامی قرار دیا۔ تابش گوہر نے کہا کہ ’اسی طرح بجلی کے ان معاہدوں میں جو ٹیرف سٹرکچر تھا وہ بھی مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ بنا۔ یہ تمام معاہدے ’ٹیک اور پے‘ کے اصول کی بنیاد پر تھے کہ پیدا کی جانے والی بجلی لو یا اس کی ادائیگی کرو۔‘ اُنھوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے شعبے میں یہ مسائل پچیس تیس سال سے چلے آرہے تھے جس نے نا صرف بجلی کو مہنگا کیا بلکہ اس کی وجہ سے بجلی کے شعبے میں گردشی قرضہ بھی بڑھا کیونکہ کوئی بھی سیاسی حکومت بجلی کی ساری لاگت صارفین پر ڈالنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ معاون خصوصی نے بتایا کہ اب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیا گیا ہے تاکہ پرانی شرائط پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے ساتھ حکومت نے اپنی تحویل میں چلنے والے پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ بھی کم کیے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں طلب کیوں نہ بڑھ سکی؟ پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے مقابلے میں طلب اس شرح سے نہ بڑھ سکی۔ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اختر علی نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں ہر 10 سال کے بعد طلب دگنی ہو جاتی ہے جس میں گھریلو صارفین کے ساتھ تجارتی صارفین بھی شامل ہیں تاہم پاکستان میں یہ طلب اس طریقے سے نہیں بڑھی جس طریقے سے بڑھنی چاہیے تھی۔ کسی بھی ملک میں بجلی کی طلب کا زیادہ تر انحصار تجارتی اور صنعتی شعبے پر ہوتا ہے۔ جب معیشت میں تیزی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بجلی کی طلب میں بھی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے تاہم ملک کی معیشت اس شرح سے ترقی نہیں کر سکی کہ وہ اس اضافی بجلی کو استعمال کر سکے۔ پاکستان کی اقتصادی شرح نمو گذشتہ مالی سال میں 70 برسوں کے بعد منفی ہوئی اور اس برس بھی یہ دو فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اختر علی نے کہا کہ معیشت میں تیزی آئے گی تو طلب بھی بڑھے گی جو گذشتہ چند برسوں میں نظر نہیں آئی۔ عارف حبیب لمیٹڈ میں توانائی کے شعبے کے تجریہ کار راؤ عامر نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں بجلی کے 50 فیصد صارفین گھریلو ہیں۔ اُن کے مطابق جب بجلی مہنگی ہوتی ہے تو ان کی کھپت کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے ان گھریلو صارفین نے بجلی کا خرچ کم کیا ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی بجلی کے سلسلے میں عامر نے کہا کہ پاکستان میں جب سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبے لگے تو اس کے ساتھ صنعتی زونز کا بھی منصوبہ تھا۔ تاہم بجلی کے منصوبے تو لگ گئے لیکن صنعتی زونز پر اس طرح کام نہ ہوا کہ وہ ان پراجیکٹس کے مکمل ہونے کے فوراً بعد کام شروع کر دیتے۔ تابش گوہر نے اس سلسلے میں کہا کہ طلب نہ بڑھنے کی وجہ ایک تو کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سست روی تھی تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی شرائط نے بھی معیشت کے پہیے کو سست کیا۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ اب معیشت میں بحالی کے آثار موجود ہیں اور بجلی کی طلب میں بھی اس کی وجہ سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی طرح گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے کہا گیا ہے کہ بجلی کے ذریعے اسی کی مزید پیداوار کریں جس سے طلب بڑھے گی۔ ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور یہ مہنگی کیوں ہے؟ ملک میں طلب سے زیادہ بجلی ہونے کے باجود اس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ ملک میں بجلی مہنگی بھی ہے! تجزیہ کار راؤ عامر نے اس سلسلے میں بتایا کہ ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی ایک وجہ تو واجبات کی عدم وصولی ہے، کیونکہ جہاں بلوں کی ادائیگی کم ہو گی وہاں پر بجلی کی ترسیل بھی کم ہوگی۔ دوسری وجہ لائن لاسز بھی ہیں، یعنی بجلی پیدا ہونے سے لے کر صارف تک پہنچنے تک ضائع ہو جاتی ہے۔ اُنھوں نے کہا پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر تو سرمایہ کاری کی گئی لیکن اس کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر سرمایہ کاری نہیں ہوئی، اور اس وجہ سے بجلی پیداوار کے مرحلے سے لے کر ترسیل و تقسیم میں ضائع ہو جاتی ہے۔ اختر علی نے کہا کہ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لائن لاسز بھی صارف کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں جو ملک میں اوسطاً 18 فیصد ہیں۔ راؤ عامر نے بتایا کہ بجلی کے بل میں دو طرح کے اخراجات ہوتے ہیں کیپسٹی پیمنٹ اور فیول پیمنٹ۔ ’حکومت بجلی خریدے نہ خریدے اسے ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس کا اثر صارفین کے بلوں میں اضافی رقم کی صورت میں آتا ہے۔‘ تابش گوہر کے مطابق مہنگی بجلی کی ایک وجہ ماضی میں کیے گئے معاہدے تھے جو بجلی کی زیادہ قیمت کا باعث ہیں جبکہ ان کے مطابق لائن لاسز کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک فیصد لائن لاسز سے سالانہ 17 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اُنھوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ کراچی میں کے الیکڑک کی سربراہی کر رہے تھے تو اس وقت یہ پالیسی متعارف کروائی گئی تھی کہ جن فیڈرز سے کم ریکوری ہے وہاں کم بجلی فراہم کی جائے۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ اب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ پالیسی بوسیدہ ہو چکی ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ’اگر ایک ایک فیڈر پر ایک صارف اپنا بل پورا دے رہا ہے تو اسے دوسرے صارف کی جانب سے عدم ادائیگی پر بجلی کی بندش کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ناکہ اجتماعی طور پر ایک فیڈر پر موجود سارے صارفین کو سزا دی جائے۔‘
050524_iraq_zaraqawi
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/05/050524_iraq_zaraqawi
ابو مصعب الزرقاوی زخمی؟
ایک عربی ویب سائٹ نے مبینہ طور پر القاعدہ کے ایک گروپ کا بیان جاری کیا ہے جس میں القاعدہ کے انتہائی مطلوب رہنما ابومصعب الزرقاوی کے زخمی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مسلم امّہ سے ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل کی گئی ہے۔
اس بیان کے درست ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور بغداد میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل سٹیو بوائے لینڈ نے کہا ہے کہ انہیں مسٹر زرقاوی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ سلامتی کے امور کے لیے بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ یہ بیان گروپ کی عمومی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا لیکن اس کی زبان گروپ کے بالکل سابقہ بیانات جیسی ہے۔ ابو مصعب الزرقاوی مبینہ طور پر عراق میں سر قلمی اور اغواء کی متعدد وارداتوں اور عراقیوں پر حملوں کے ذمہ دار گردانے جاتے ہیں۔
031125_eid_multan_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/captions/story/2003/11/031125_eid_multan_ms
عید: عنوان بھیجیں
دنیا بھر میں رمضان کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ پاکستان میں عید سے قبل رمضان کی آخری رات لڑکیاں اور عورتیں مہندی لگاتی ہیں اور چوڑیاں پہنتی ہے۔ یہ تصویر ملتان میں چوڑیوں کے ایک بازار میں چاند رات کو لی گئی ہے۔ اس کیلئے عنوانات تجویز کیجئے
اپنی عنوانات آپ اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھیج سکتے ہیں علی ارباز، اسلام آباد ہن ایتھے کیہہ دسیئے محمد دانیال، بارسلونا، سپین ان نازک ہاتھوں کو آزمانے کی کبھی غلطی مت کرنا کاشف ڈار، پاکستان کاش میں بھی شاپنگ کر سکتی علی نقوی، امریکہ یہاں کم نظر کا گزر نہیں، یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے نسیم رانا، پاکستان زلفوں کو کبھی دیکھ کبھی بندِ قبا دیکھ ڈاکٹر افضال ملک، راولپنڈی، پاکستان روپ بہروپ عامر ہاشمی، گوجرانوالہ، پاکستانی ذرہ بچ کے اقبال ملک، اوٹوا، کینیڈا چوڑیاں پہنے ہاتھ بندوق چلانا بھی جانتے ہیں عبداللہ غفور، لاہور، پاکستان اب بھی مان لو کہتی ہوں میں پیار سے مرد سارے نکل جائیں عورتوں کے بازار سے طارق محمود، مانسہرہ، پاکستان تو تیر آزما میں جگر آزماؤں حسیب خان، سرگودھا، پاکستان کلاشنکوف پاؤ نی اگلے ڈرامے میں پھر ملیں گے نسیم رانا، پاکستان ’وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے‘ شیخ خرم شہزاد، جرمنی
050428_indianfilms_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/04/050428_indianfilms_yourviews
پاکستان میں بھارتی فلمز: آپ کی رائے
پاکستان میں سینما مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوری طور پر بھارتی فلموں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔
سینما مالکان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلموں کی تعدادمیں شدید کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے حکومت کو بھی مالی فائدہ ہو گا۔ سینما اور فلم پروڈکشن کے نمائندوں نے حکومت کو اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ مشروط طور پر سالانہ پانچ بھارتی فلموں کی درآمد کی اجازت دی جائے جبکہ اس کے جواب میں پاکستان سے بھی پانچ فلمیں بھارت برآمد کی جائیں۔ یاد ر ہے اس وقت قانون کے مطابق پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش ممکن نہیں کیونکہ کوئی درآمد شدہ فلم جو ایسی زبان میں ہو جو پاکستان میں بولی جاتی ہے اور جس میں بھارتی اداکاروں نے مرکزی کردار ادا کیا ہو، اس کی نمائش پاکستان میں نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی سنسر بورڈ اسے پاس کر سکتا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا سینما مالکان کا یہ مطالبہ جائز ہے؟ کیا آپ بھارتی فلموں کی نمائش کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟ اگرہاں تو کیوں اور نہیں تو کیوں نہیں؟ اصغر خان، جرمنی:انڈین فلموں کو بالکل دکھانا ہوگا اگر پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ترقی دینا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان کی فلم انڈسٹری صرف ایک صوبہ تک محدود ہے اسلیے اس کی بہتری کے امکانات بھی کم ہیں۔ صفدر علی ، سوات، پاکستان:بالکل نہیں۔ عدیل شیخ، اٹک، پاکستان:سوائے گنتی کے چند لوگوں کے کوئی بھی پاکستانی فلمیں نہیں دیکھتا، اس لیے سینما پر انڈین فلموں کا فیصلہ اچھا ہو گا۔ نبیل خان، ٹورانٹو:یہ ایک اور بہانہ مل جائے گا مذہبی جماعتوں کو سڑکوں پر نکل آنے کا۔ قدرت اللہ، لاہور، پاکستان:ہمیں انڈین فلمیں، بلکہ انڈیا کی ہر چیز ناقابل قبول ہے کیونکہ انڈیا ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اکرام للہ، ٹانک، پاکستان:اجازت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اب پاکستانی فلموں کا معیار ٹھیک ہو گیا ہے۔ شبانہ نثار، سائراکیوز، امریکہ:ہر ایک انڈین فلمیں دیکھتا ہے، اس لیے ان کی نمائش کی اجازت ہونا چاہیے۔ لیکن ایک فرق ہے۔ جب ہم یہ فلمیں سی ڈی پر دیکھتے ہیں تو یہ زیادہ تر غیر قانونی کاپیاں ہوتی ہیں لیکن ہم جب سینما پر دیکھیں گے تو اس کا براہ راست فائدہ انڈیا کی معیشت کوہوگا۔ قیس ایاز، نیو یارک، امریکہ:میں بھارتی فلموں کے خلاف نہیں۔۔ لیکن دل پھر بھی نہیں مانتا کہ یہ فلمیں ہمارے سینما گھروں میں دکھائی جائیں۔ اس طرح ہماری فلم انڈستری ختم ہو جائے گی۔ میرے خیال میں نوجوانوں کو اس طرف آنا چاہیے، جس طرح ہم میوزک اور ڈراموں میں ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔لائبہ راجپوت، پاکستان:جی ہاں کیوں نہیں۔۔کیونکہ ہم مسلمان تو ہیں نہیں، ہم تو ’اعتدال پسند‘ ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہمیں۔ شیخ محمد یحٰیی، کراچی:جب انڈین فلمیں ویڈیو پر دیکھی جا سکتی ہیں، ہمارے اداکار انڈین فلموں میں کام کر سکتے ہیں تو انڈین فلمیں پاکستانی سینماؤں میں کیوں نہیں چل سکتیں۔ عفاف اظہر، ٹورانٹو:جی بالکل چل سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھارتی فلمیں بھی چل سکتی ہیں کیونکہ کلچر تو پہلے ہی چل رہا ہے، رسم ورواج تو ابھی تک بھارتی ہے۔ باقی رہی بات حکومت اور عوام کی، تووہ تواوپراوپر سے دشمنی جتاتے ہیں، اندر سے دل تو ہمسائیوں کے نام پر ہی دھڑکتے ہیں۔جب سب کچھ ان کا اپنانا ہی تھا تو پھر اتنے جوش جذبے سے الگ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ کامران صابر، لاہور، پاکستان:کوئی حرج نہیں کیونکہ انڈین فلم کی سی ڈی اسی دن پاکستان میں دستیاب ہوتی جس دن وہ فلم انڈیا میں ریلیز ہوتی ہے۔اس سے ہمارے سینما ہال بھی تباہ ہونے سے بچ جائیں گے۔ کاظم چوہان:کیا پہلے ننگا پن کم ہے جو انڈین فلموں کی ضرورت بھی پڑ گئی؟ ندیم رانا، بارسلونا، سپین:پاکستان اور انڈیا دونوں کو ایک دوسرے کی فلمیں دکھانی چاہئیں، اس سے دونوں ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ احمد علی، ٹورانٹو:نمائش کی اجازت دینے سے پہلے حکومت پاکستان کو ایک قانون بنانا چاہیے جس کا اطلاق انڈین فلموں پر ہو۔ ثناء خان، کراچی:انڈین فلمیں سینما گھروں میں ضرور لگنا چاہئیں کیونکہ کیبل پر تو چوبیس گھنٹے چل رہی ہیں۔ جب ڈرامے بھی ہم انڈین دیکھتے ہیں تو فلموں میں کیا حرج ہے؟ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ انڈین فلمیں یا موسیقی نہیں سنتے، ان کے گھر جا کر دیکھیں تو پتا چلے گا وہ انڈین میوزک ہی سنتے ہیں۔اصل میں ہم نے صرف منافقت میں ترقی کی ہے۔ شہباز بھٹی:مجھے تو واقعی حکومت کی یہ دوغلی پالیسی کی مجھ نہیں آتی کیونکہ آپ پورے پاکستان میں جہاں چاہیں انڈین فلم خرید سکتے ہیں۔ میرے خیال میں انڈین فلموں کے آنے سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہوگا۔ کچھ لوگوں کا کاروبار تو ٹھپ ہو گا، لیکن آپ ہر کسی کوتوخوش نہیں کر سکتے۔ امداد جھوکیو، لاڑکانہ، پاکستان:اگر سینما گھروں پر فلمیں چلیں گی تو حکومت بھی کمائے گی اور غیر قانونی دھندا بھی بند ہو گا۔ ابراہیم عابد، ٹورانٹو:بالکل نہیں۔ ہم اپنے ملک میں بھارتی رسموں اور کلچر کو کیوں پروموٹ کریں؟ ہمیں پتا ہے کہ ہم دو مختلف قومیں ہیں،ان کی فلمیں لانے کا مطلب ہوگا کہ ہم ایک دوسری کلچر کو لا رہے ہیں۔ یہ زہر آہستہ آہستے پھیلتا ہے اور ہمیں اس سے خبردار رہنا چاہیے۔ شاہد ارشاد، خان پور، پاکستان:یہاں ہالی وڈ کی فلمیں چلتی ہیں تو پھر انڈین فلموں پر پابندی کیوں؟ رابعہ ارشد، ناروے:ابراہیم صاحب شاید جانتے نہیں کہ پہلے پاکستان اور انڈیا ایک ہی تھے اور انڈیا میں جو لوگ فلموں میں اب بھی جو کام کرتے ہیں ان میں سے تقریباً چالیس فیصد مسلمان ہیں۔ سید سرور ظاہر، برلن، جرمنی:فلم تفریح کا سامان ہے اور اس پر پابندی لگانے سے اب تک صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے دور میں یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ سرکاری اجازت کے ساتھ فلمیں آئیں گی تو یہ معلوم رہے گا کہ ہمارے بچے کیا دیکھ رہے ہیں ورنہ چھپ کر وہ کیا دیکھتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں۔ اعجاز احمد، صادق آباد، پاکستان:ابھی عوام کے پاس تفریح کے اور بہت سے ذریعے آگئے ہیں اس لیے اگر سینما پر انڈین فلمیں لگا بھی دی جائیں تو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی نہیں آئے گا دیکھنے۔ عامر مستوئی، ڈیرہ غازی خان:قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ ہندوازم اور اسلام دو الگ مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف تہذیبیں ہیں جو اس حد تک ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری کا دشمن ہے۔ آج اگر انڈین فلموں کی نمائش کی اجازت دے دی جائے تو ہماری نئی نسل نہ تو غزنوی سے واقف ہوگی اور نہ ہی محمد بن قاسم سے، بلکہ ان کے ہیرو شاہ رخ خان اور امیتابھ ہوں گے۔ دوسرے اس سے پاکستانی فلم انڈسٹری کا تو جنازہ ہی نکل جائے گا۔ حکومت بجائے غیر ملکی فلمیں برآمد کرنے کے اپنی انڈسٹری کو سہارا دے۔ کاشف اعوان کاشی، ریاض، سعودی عرب:نہیں کیونکہ یہ ہماری کلچر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر برے اثرات ڈالے گی۔ سید ایف فہیم، نیو جرسی، امریکہ:بالکل نہیں ، ہمارے ہاں پہلے ہی خاصی گندگی ہے۔ اور اگر اجازت دے دی بھی جاتی ہے تو لوگوں کو چاہیے کہ اس کا بائیکاٹ کریں۔ یہ تو اپنے دشمن کو مالی طور پر مضبوط کرنے والی بات ہوئی۔ عمیر شاہ، اسلام آباد:میراخیال ہے اچھا ہوگا کیونکہ اس سی پاکستانی ٹی وی چینلز کے لیے مقابلہ تو بڑھے گا اور ان کا معیار تو بہتر ہوگا جیسا کہ ماضی میں تھا۔جن لوگوں کا خیال ہے کہ سینما میں انڈین فلموں سے فحاشت پھیلے گی انہیں چاہیے کہ ذرا جا کر پنجابی اور پشتو ڈرامے تو دیکھیں۔ امتیاز آفریدی، دمام، سعودی عرب:باقی بچا کیا ہے؟ کوئی بھی پاکستانی فلم دیکھنے کو تیارنہیں اور پاکستانی فلمیں بھی انڈیا کی نقل کر کے بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اپنی تو کوئی تخلیق نہیں ہورہی اور جہاں تک بات ہے فحاشت کی تو اس میں بھی پاکستانی کوئی کم نہیں۔ جس طرح پاکستان میں شراب پر پابندی ہے مگر ہر جگہ مل جاتی ہے یہی حال پاکستان میں انڈین فلموں کا ہے۔ نوید احمد، لاہور:یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے بھارتی کلچر کو قبول کر لیا ہے اور اب سرکاری طور بھی یہ بات مان رہے ہیں۔ علی ہمدانی، عرب امارات:ہمیں ایسی فلموں کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو ہماری ایشین تہذیب کو خراب کریں۔ جو لوگ اس سلسلہ میں انگریزی فلموں کا حوالہ دیتے ہیں انہیں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ انگریزی فلم کو ہر کوئی ایک دوسری تہذیب سمجھ کر دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن بھارتی فملموں میں ہماری اپنی ایشیائی کلچردکھائی جاتی ہے جس کے اثرات زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ سید ہاشمی، کوپن ہیگن، ڈنمارک:ہمیں کبھی بھی اپنی پاک سرزمین پر انڈین فلمیں دکھانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ ہماری اپنی اقدار ہیں۔ عارف جبار قریشی، ڈھورو نارو:جب دونوں ملکوں میں امن اور مفاہمت کی ہوا چل رہی ہے تو فلمیں بھی چلنی چاہئیں۔ ویسے یہ لوگ کون سی فلمیں دکھائیں گے کیونکہ ساری فلمیں تو انڈیا سے پہلے پاکستان میں سی ڈی پر آجاتی ہیں اور کیبل پر دیکھی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں سینما کو ذوال سے بچانے کے لیے یہ ایک اچھا قدم ہوگا۔ ضیاء رحمٰن، لندن:پاکستان میں انڈین فلموں کی اجازت ہونی چاہیے لیکن صرف ایک مقررہ تعداد تک کیونکہ ایک طرف تو اس سے پاکستانی اور انڈین فلموں میں مقابہ بڑھے گا لیکن دوسری طرف لوگ پاکستانی فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں گے کیونکہ انڈین فلمیں پاکستانی فملوں سے کہیں زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔ اس سے بہرحال دونوں ملکوں میں اداکاروں وغیرہ کا تبادلہ ہوگا اورتعلقات بہتر ہوں گے۔ منظور بانیان، اسلام آباد:میرے خیال میں ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے لیکن لوگ بہرحال اس بات کا شوق رکھتے ہیں کہ وہ انڈین فملیں دیکھیں۔میرا تو خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں بھی فملیں بنانے پر پابندی لگائے تا کہ بے حیائی کو روکا جا سکے کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ محمد چودھری:سیدھا ساجواب ہے کہ نہیں۔ ہم نےآزادی لی ہی اسی بنیاد پر تھی کہ ہندؤوں اور مسلمانوں میں تہذیب کا فرق ہے اور مذہب مختلف ہیں۔ زیادہ تر انڈین فلموں میں ہندؤانا رسموں اور عقیدوں کا پرچار ہوتا ہے اور اگر مسلمانوں یا اسلام کے بارے میں کوئی بات دکھائی بھی جاتی ہے تو اس کو منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آحر انہیں بھی تو یاد ہے کہ مسلمان ان سے الگ ہوئے اس لیے وہ ان کے دوست نہیں ہو سکتے۔ میرا خیال ہے فلموں کی نمائش اس وقت تک نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسلامی شعار کو صحیح طور پر پیش نہیں کرتے۔ عاصم، مکّانی، پاکستان:ّمیرا خیال ہے کہ قانون اور سینسر بورڈ کی پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میں نمائش کی اجازت کی بھرپور حمایت کرتا ہوں۔ خالد عباسی، کراچی:صاف ستھری فلمیں جو ہماری ثقافت سے مطابقت رکھتی ہوں ایسی فلموں کی اجازت ہونا چاہیے۔اس فارمولے کے تحت انڈین فمسازوں میں بھی تبدیلی آئے گی۔ موجودہ انڈین فلموں کو سینسر کرنے کے بعد تو صرف ٹائیٹل اور ’دی اینڈ‘ باقی بچے گا۔ ایشا، پاکستان:میرا خیال ہے اجازت ہونا چاہیے کیونکہ پاکستانی فلمیں ویسے بھی کہاں چلتی ہیں۔ لوگ سینما جانا چاہتے ہیں لیکن پاکستانی فلمیں دیکھنے کے لیے نہیں۔ ایسی فلمیں آنی چاہئیں جو فیملی کے ساتھ دیکھ سکیں۔ امین اللہ ساہ، میانوالی:اب یہی کسر باقی تھی۔ روشن خیالی کے اس دور میں ایسےمطالبات کوئی انہونی بات نہیں۔ہم لوگ تو نقالی کے شیر ہیں اپنی تو کوئی تخلیقی سوچ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھارتی فلموں کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ سینماگھر بند کر دیے جائیں۔ صالح محمد، راولپنڈی:بات بالکل صحیح سی ہے، اگر انگریزی فلمیں سینما پر چل سکتی ہیں، اور وہ بھی وہ فلمیں جو فیملی کے ساتھ آپ کبھی بھی نہ دیکھ سکیں، اور اگر ہر گھر میں لوگ ڈی وی ڈی اور کیبل پر انڈین فلمیں دیکھ رہے ہیں تو پھر یہ دوغلا پن کیوں؟ آپ کا بچہ بچہ انڈین فلموں،ان کے ہیروز، ہیروئنوں اور ولنز کو جانتا ہے، آخر آپ نے کس چیز پر پابندی لگا رکھی ہے؟ میرا خیال ہے انڈین فلموں پر پاکستان میں کبھی بھی پابندی نہیں لگ سکتی۔ یہ تو سراسر بے وقوفی اور دوغلا پن ہے کہ آپ کے ہر گھر میں تو انڈین فلمیں چل سکتی ہیں لیکن چند سینما گھروں پر نہیں۔ ابو بکر احمد، ٹورانٹو:راولپنڈی سے صالح محمد صاحب نے سب کچھ تو کہہ دیا ہے، اب میں اس کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ انڈین فلموں کے آنے سے شاید پاکستانی فلمساز بھی کام کرنا شروع کر دیں۔ عثمان شوکت، نیو یارک:یہ ایک اچھا قدم ہوگا، پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے۔ پھریا تو آر ہوگا اور یا پار۔ شاید مقابلے کی فضا میں پاکستانی بھی اچھی فلمیں بنانا شروع کر دیں۔ فرحان علی، عرب امارات:اگر۔۔اگر۔۔اگر سنسر بورڈ فلموں کو ٹھیک سے سنسر کرے۔ عریانیت، ماردھاڑ اور خلاف پاکستان پروپیگنڈہ نہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اظہار زیدی، کینیڈا:تمام نئی اور پرانی بھارتی فلمیں ہمارے بازاروں میں ملتی ہیں اور جو بھی انڈین فلم دیکھنا چاہتا ہے وہ کرائے پر لےسکتا ہے یا خرید سکتا ہے تو پھر سینما میں اس کی اجازت کیوں نہیں؟ بلکہ یہ طریقہ بہتر ہوگا کیونکہ فلمیں سنسر کی اجازت کے بعد دکھائی جائیں گی اور اس سے حکومت کو ٹیکس بھی ملے گا۔ علی مجید، دبئی: میرا خیال ہے یہ پاکستانی انڈسٹری کے لیے اچھا ہوگا۔ جب پاکستانی اداکار وغیرہ انڈین فلموں میں کام کر سکتے ہیں تو حکومت کو ان فلموں کی نمائش کی اجازت بھی دے دینی چاہیے۔
140410_musa_case_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140410_musa_case_fz
پولیس کی غفلت عمر اور نام معلوم کیے بغیر ایف آئی آر درج
لاہور کی ایک عدالت میں چند روز قبل نو ماہ کے بچے موسیٰ کو اقدام قتل کے ایک مقدمے میں ملزم کے طور پر پیش کیے جانے کے واقعے کی پولیس تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ درج کرنے والے پولیس اہلکار نے عیمی اور اس کے بیٹے کے خلاف آیف آئی آر درج کی تھی لیکن بیٹے کا نام اور اس کی عمر کا تعین کرنے کا تردد نہیں کیا۔
روتے ہوئے بچے کے انگھوٹے ضمانت کے کاغذات پر لگائے گئے پولیس ذرائع کے مطابق ایف آئی آر درج کرتے وقت غفلت سے کام لینے پر اس پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار نے ایف آئی آر ’عیمی اور اس کے بیٹے‘ کے نام درج کی اور یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ عیمی کے جس بیٹے کو قتل کے اس اہم مقدمے میں نامزد کر رہا ہے اس کا نام اور اس کی عمر کیا ہے۔ نو ماہ کا بچہ ہاتھ میں فیڈر لیے جب عدالت میں اقدام قتل کے ملزم کے طور پر پیش ہوا اور پھر روتے روتے اس نے اپنی ضمانت کے کاغذوں پر انگوٹھا لگایا، یہ مناظر ایسے تھے کہ شاید دیکھنے والے کبھی فراموش ہی نہ کرسکیں۔ پولیس کے مطابق یہ مقدمہ یکم فروری کو گیس چوری روکنے کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر حملے کرنے کے واقعے کے بعد درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران نو ماہ کے بچے کو لاہور کی سیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے شیرخوار بچے کو ملزم کے طور پر پیش کرنے پر پولیس کی خوب سرزنش کی اور معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ جج صاحب نے ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری کیے، پچاس ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کے عوض موسی کی عبوری ضمانت پر رہائی کا حکم دیا اور مقدمے کی سماعت بارہ اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ اہم عدالت کے حکم کے بعد بننے والی پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کے آیف آئی آر تحریر کرتے وقت پولیس اہلکار نے غفلت اور لاپرواہی سے کام لیا۔ ٹیم کے سربراہ معروف صفدر واہلہ کے مطابق ’پولیس نے ایف آئی ار میں موسی کا نام کبھی درج ہی نہیں کیا تھا۔ بلکہ ’عیمی کے بیٹے‘ کو نامزد کیا گیا تھا۔ اورمقدمے درج کرنے والے اہلکار کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ عیمی کا بیٹا کون ہے اور اس کی عمر کیا ہے۔اور اب کی جانے والی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یونین کونسل کے ریکارڈ کے مطابق عیمی کے دو بیٹے ہیں جن میں سے کسی کی عمر بھی نوماہ نہیں۔‘ پولیس کی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ معتلقہ ایس ایچ او کی طرف سے عیمی کے بیٹے کی عمر اور نام وغیرہ کر تصدیق میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ قانون کے مطابق سات سال سے کم عمر کے بچے کو کسی مقدمے میں نامزد کیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اس پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے۔ عدالت کے حکم پر متعلقہ پولیس اہلکار کو پہلے ہی معطل کیا جا چکا ہے۔ موسی کے وکیل عرفان تارڑ کا کہنا ہے کہ ان کا موسی اور اس کے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں۔ عرفان تارڑ کے مطابق پولیس کے دباو کے باعث موسی اور اس کا خاندان شہر چھوڑ کر کہیں اور جاچکا ہے اور ان سے رابطہ ممکن نہیں۔ ’میری اطلاع کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر سے موسی کا نام خارج کردیا ہے۔ لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کرسکتاہے۔ اس بات کا پتہ تو تب ہی چل سکے گا جب کہ تحریری طور پر عدالت میں کوئی دستاویز پیش کی جائے گی۔‘ لاہور کے ڈی آئی جی آپریشن رانا جبار کہتے ہیں کہ ’پولیس نے موسی کو کبھی ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا تھا تو اس کا نام خارج کرنے کا تو سوال ہی نہیں۔ تاہم اس مقدمے میں موسی کے خاندان پر دھوکہ دہی کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔‘ بارہ تاریخ کو اس مقدمے کی سماعت ہے۔ بارہ کو پولیس کی جانب سے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ آئندہ یہ مقدمہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اس کا پتہ تو اگلی سماعت پر ہی چلے گا۔ کیا موسی اور اس کا خاندان عدالت میں پیش ہوں گے؟ ان کے وکیل عرفان تارڑ کہتے ہیں کہ وہ جمعے کی شام سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مقدمہ جس طرح سے بھی آگے بڑھے سوال یہ ہے کہ اس مقدمے سے پاکستان اور اس کے اداروں کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے کیا اس سے کوئی سبق سیکھا گیا ہے یا نہیں؟ ’پولیس نے موسی کو کبھی ایف آئی آر میں نامزد ہی نہیں کیا تھا تو اس کا نام خارج کرنے کا تو سوال ہی نہیں۔ تاہم اس مقدمے میں موسی کے خاندان پر دھوکہ دہی کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔‘
science-51402132
https://www.bbc.com/urdu/science-51402132
کورونا وائرس: کیا سائنسدان کورونا وائرس کے علاج کے لیے کم وقت میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ویکسین ایجاد کر پائیں گے؟
جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثر افراد دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آ رہے ہیں، اس نئے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کی دوڑ تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور یوں ماہرین میڈیکل ٹیکنالوجی کی حدود کو بھی پیچھے دھکیل رہے ہیں۔
اب دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں، تحقیقی ادارے، دوا ساز کمپنیاں اور مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے دھڑا دھڑ پیسہ بھی لگا رہے ہیں اور دیگر وسائل بھی۔ یہ بھی پڑھیے کورونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی کورونا وائرس: پاکستانیوں کو احتیاط کی ہدایت کیا کورونا وائرس ایک عالمی وبا بن سکتا ہے؟ عام طور پر کسی ویکسین کو بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں، لیکن جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اب یہ کام حیرت انگیز طور پر کم وقت میں کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالےسے ہم یہاں چار چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو کم سے کم وقت میں ویکسین بنانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ’مالیکیولر کلیمپ‘ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئینزلینڈ میں ایک نئی ویکسین پر ’بے مثال تیزی‘ سے کام ہو رہا ہے جس میں ایک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جو یونیورسٹی کے اپنے ماہرین نے بنائی ہے۔ اسے مالیکیولر کلیمپ‘ یا شکنجہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدان اب وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدان اب وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں ا جاتا ہے یونیورسٹی کے سکول آف کیمسٹری اینڈ مالیکیولر بائیو سائنس کے سربراہ پروفیسر پال ینگ بتاتے ہیں کہ ’عام طور پر کسی بھی ویکسین میں جو پروٹین پائے جاتے ہیں وہ غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اکثر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا ان کی ساخت اتنی تبدیل ہو جاتی ہے کہ ان سے جسم میں درست اینٹی باڈیز نہیں پیدا ہو پاتیں۔‘ مالیکیولر شکنجہ کرتا یہ ہے کہ ان پرویٹینز کی ساخت کو قابو میں رکھتا جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی انفیکشن ہوتی ہے تو ہمارا مدافعتی نظام مذکورہ پروٹینز کی درست شناخت کر لیتا ہے اور یوں اس کے خلاف کام شروع کر دیتا ہے۔ پروفیسر ینگ کا خیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین صرف چھ ماہ کے اندر اندر تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسین بنانے میں اتنا کم وقت لگنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چینی حکام نے کورونا وائرس کا جنیٹک کوڈ فوراً دنیا کو بتا دیا تھا۔ ’بے مثال تیزی‘ روایتی طور پر کسی بھی مرض سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کے لیے وائرس یا بیکٹیریا کو کمزور شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اس پر ایسے کیمیائی عمل کیے جاتے ہیں جس سے اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب جنیٹک کوڈ کو استعمال کر کے وائرس کے ڈی این اے کے کچھ حصوں کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ یوں ویکسین بنانے کے لیے درکار وقت حیرت انگیز طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ چین نے کورونا وائرس کی شناخت ہونے کے تین دن بعد ہی، 10 جنوری کو اس کا جنیٹِک کوڈ اور دیگر معلومات انٹرنیٹ پر چڑھا دیں تھیں، جس کے بعد دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ویکسیسن کی تیاری پر جلد ازجلد کام کرنا ممکن ہو گیا۔ کورونا وائرس کو 2019-nCoV کا نام دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف کویئن لینڈ میں جو تحقیق ہو رہی ہے، اس کی مالی معاونت متعددی امراض سے پچاؤ کے لیے کام کرنی والا ایک گروپ (سی ای پی آئی) کر رہا ہے جسے دنیا بھر کی کئی حکومتیں اور فلاحی نتظیمیں فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ اس گروپ نے دنیا کی تمام تنظیموں اور اداروں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے پاس ویکسین بنانے والی کوئی ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو کورونا وائرس کو مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ مالی امداد کے لیے درخواست بھیجیں تا کہ گروپ انہیں پیسے دے سکے۔ پروفیسر ینگ کا خیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین صرف چھ ماہ کے اندر اندر تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے ٹیسٹ کیا جا سکے گا سی ای پی آئی اور دنیا کی مشہور دواساز کمپنی ’جی ایس کے‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دونوں مل کر ایڈجووینٹ نامی کیمائی ایجنٹ استعمال کرنے جا رہے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف ہماری مدافعت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ جب اس ایجنٹ کو کسی ویکسین میں ملایا جاتا ہے تو اس سے جسم کا دفاعی نظام کسی انفیکشن سے زیادہ بہتر انداز میں اور زیادہ دیر تک لڑ کر سکتا ہے۔ ایس کے ایف کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی مرض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جِن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت سی ویکسین بناسکتے ہیں۔‘ یہ ایڈجووینٹ اس سے پہلے سوائین فُلو اور برڈ فُلو کی وبا کے دنوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ جنیٹِک سوفٹ ویئر کوڈِنگ امریکی کپمنی موڈرنا اور جرمنی کی کمپنی ’کِیور ویک‘ ویکسین بنانے کے لیے ایک مختلف ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ’میسنجر آر این اے‘ کہلانے والے مالیکیولز پر کام کرتی ہے جو جسم کو بتاتے ہیں کہ وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے خود اپنا دفاعی نظام کیسے بنا سکتا ہے۔ اگر آپ تصور کریں کہ ڈی این اے ایک قسم کی یو ایس بی سِٹک ہے، تو آر این اے اس رِیڈر کا کام کرتا ہے جو ڈی این اے میں موجود ڈیٹا کو پڑھتا ہے۔ یوں جب جسم کے خلیوں کو کسی قسم کی پروٹین پیدا کرنا ہوتی ہے تو آر این اے ہی وہ چیز ہے جو ڈی این اے میں پوشیدہ معلومات جسم میں موجود ان ’فیکٹریوں‘ تک پہنچاتا ہے جو پروٹینز پیدا کرتی ہیں۔ جرمن کمپنی آر این اے کی مدد سے کئی امراض کی ویکسین بنا رہی ہے۔ 'اگر کوئی مرض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جِن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت سی ویکسین بناسکتے ہیں' کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹِلمن رڑوز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلیوں کو جسم کے دفاعی نظام کو بڑھانے میں محض ایک دو گھنٹے لگتے ہیں۔ ان کے بقول کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ’اگلے چند ہی ماہ‘ میں اس قابل ہو جائے گی کہ اسے محدود پیمانے پر ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔ تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ کمپنی ایک ایسا ’آر این اے پرنٹر‘ بنا رہی ہے جسے اس جگہ لے جایا جا سکے گا جہاں اس کی ضرورت ہو۔ یہ ایم آر این اے فراہم کر کے موقع پر ویکسین کی پیداوار بڑھانے میں مدد کرے گا۔ آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال میساچوسٹس میں موڈرنا انک نامی کمپنی میں بھی ہو رہا ہے جس کی مالی اعانت سی ای پی آئی اور امریکہ کا قومی ادارہ برائے الرجی اور وبائی امراض کرتا ہے۔ اس حوالے سے انسانوں پر تجربہ تو اگلے تین ماہ میں ہو جائے گا تاہم موڈرنا کے سربارہ سٹیفین بانسل نے خبردار کیا کہ ’کوئی بھی موسمِ سرما تک ( عام استعمال کے قابل) ویکسین بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔‘ وائرس کی کمزوری پر حملہ کرنا سان ڈیئیگو کی انوویو لیب میں سائنسدان ویکسین بنانے کے لیے ایک نئی قسم کی ڈی این اے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور وہ موسمِ سرما کے آغاز میں اسے انسانوں پر آزمانا چاہتے ہیں۔ انوویو میں تحقیق اور تخلیق کے محکمے کی سینیئر نائب صدر کیٹ براڈرک کا کہنا ہے کہ ’ہماری ڈی این اے کی مدد سے بنائی گئی ویکسینز اس لیے منفرد ہیں کیونکہ یہ وائرس سے ڈی این اے کی ترتیب کا استعمال کرتے ہوئے اس کے ایسے حصوں کو نشانہ بنائیں گی جن کو انسانی جسم کی جانب سے بھی سخت ردِ عمل کا سامنا ہو۔‘ ’ہم پھر مریضوں کے اپنے خلیوں کو ویکسین کے لیے فیکٹری بنا دیتے ہیں جس سے جسم کا اس وائرس سے لڑنے کا قدرتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے۔‘ خبر رساں آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال میساچوسٹس میں موڈرنا انک نامی کمپنی میں بھی ہو رہا ہے جسے سی ای پی آئی اور امریکہ کے قومی انسٹیٹیوٹ برائے الرجی اور وبائی امراض امداد دیتے ہیں انوویو کا کہنا ہے کہ اگر آغاز میں کیے گئے تجربے کامیاب رہے تو اسے ’اس سال کے آخر میں‘ بڑے پیمانے پر چین میں آزمایا جا سکے گا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے ذیکا وائرس سے نمٹنے کے لیے سات ماہ میں ویکسین ایجاد کر لی تھی۔ انوویو کے سربراہ جوزف کم کے بقول 'ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چین میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مزید تیزی سے ویکسین تیار کر سکتے ہیں۔' عالمی کوششیں یہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانی والی تحقیق کی کچھ مثالیں ہیں۔ دنیا بھر میں برطانیہ سے جاپان اور چین میں بھی ادارے اس کا علاج تلاش کر رہے ہیں۔ مثلاً، آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی سی ایس آئی آر او میں اس بات پر تحقیق ہو رہی ہے کہ وائرس کی تخلیق اور نقل بننے میں کتنا وقت لگتا ہے، اس کا ہمارے پھیپھڑوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور یہ وبا پھیلتی کیسے ہے۔ فرانس کے پاسچر انسٹیٹیوٹ نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس کورونا وائرس کو سمجھ سکے، ایک ویکسین تیار کر سکے اور اس وبا کی تشخیص اور اسے کنٹرول کرنے کے مختلف طریقے وضع کر سکے۔ تاہم اگر یہ ویکسین انتہائی کم وقت میں بھی بنا دی گئی تو بھی شاید حالیہ وبا اس وقت تک ختم ہو چکی ہو لیکن امریکہ میں نوواویکس لیب میں ہونے والی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری گلین کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حالیہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ڈاکٹر گلین نے صحافیوں کو بتایا کہ 'کورونا وائرس ایک وبا کے دوران تبدیل بھی ہو سکتا ہے اس لیے اس کی ویکسین بنانا انتہائی ضروری ہے۔'
050421_ambessedors_summons_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/04/050421_ambessedors_summons_zs
بلجیئم،یورپی یونین سے جواب طلبی
پاکستان نے بیلجیئم اور یورپین یونین کی طرف سے بدھ کوجمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا سمیع الحق کی پاکستانی وفد میں شمولیت کے خلاف احتجاج کے طور پر یورپی پارلیمینٹ کی پاکستانی پارلیمانی وفد کے ساتھ بات چیت منسوخ کر نے پر بیلجیئم اور یورپین یونین کے سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کر لیا ہے اور ان سے اس رویے کی جواب طلبی کی ہے۔
یورپی پارلیمینٹ کی جنوبی ایشیاء انٹر پارلیمینٹری کمیٹی کی سربراہ اور برطانوی لیبر پارٹی کی رکن نینا گِل نے ان ملاقاتوں کی منسوخی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب یورپی پارلیمینٹ کے ارکان کو معلوم ہوا کہ پاکستان وفد میں ماضی میں طالبان کے حامی مولانا سمیع الحق بھی شامل ہیں تو یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی۔ نینا گِل کا کہنا ہے کہ یورپی پارلیمینٹ جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق جیسے اعلیٰ مقاصد کی پاسداری کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ پارلیمنٹ کے ارکان مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن وہ مولانا سمیع الحق کی پاکستان وفد میں شمولیت کو قبول نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ’ ہم ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتے جو جمہوریت، مساوات اور انسانی حقوق کے دائرہ کار سے باہر رہتے ہیں اور ایسے لوگ ان اصولوں کی ترجمانی کرتے ہیں جن کے ہم خلاف ہیں۔‘ پاکستانی وفد یورپی پارلیمینٹ کے خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایلمار بروک سے بھی ملاقات کرنے والا تھا۔ مولانا سمیع الحق پاکستانی پارلیمینٹ کے ایوان بالا یا سینیٹ کے رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔ وہ اُن مذہبی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کی مخالفت کی ہے اور ان حملوں کے خلاف جلوس نکالے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعرات کو اس واقعے کے خلاف حکمران اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے مشترکہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں بیلجیئم کی حکومت کے پاکستانی پالیمانی وفد کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی مذمت کی گئی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر یورپین یونین اور بیلجیئم سے سخت باز پرس کرے۔ جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو کئی ارکانِ اسمبلی نے فلور پر اِس واقعہ پر احتجاج کیا جس کے بعد وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن نے ایوان کو بتایا کہ وہ اس مسئلے پر ایک تحریک پیش کریں گے جس میں اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے اپنی تقاریر میں کہا کہ مولانا سمیع الحق پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن ہیں اور ان کی توہین پاکستان کی پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ وزیرِ صحت نصیر خان نے ایوان کو بتایا کہ مولانا سمیع الحق کو برسلز ایئرپورٹ پر بھی روکا گیا اور وزیرِاعظم شوکت عزیز نےاس مسئلے پر خود بیلجیئم کے حکام سے بات کی جس کے بعد مولانا سمیع الحق کو جانے کی اجازت دی گئ۔ اس موقع پر پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ کی تضحیک اس وجہ سے ہوئی ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پارلیمنٹ کو ربر سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا ہے جس سے دوسرے ممالک کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کی وقعت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک کے اندر ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروع ہوتا ہے تو پھر بیرون ملک بھی ایسا ہی ہو گا۔ تاہم انھوں نے اس واقعے کی مذمت کی۔ اعتزاز کی تقریر پر حکومتی ارکان نے شور مچایا جس کے بعد ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان نعرے بازی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد جب اپوزیشن رکن عمران خان کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تو تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے احتجاجا واک آؤٹ کیا۔ اس کے بعد وزیر مملکت برائے امور خارجہ خسرو بختیار نے ایوان کو بتایا کہ حکومت نے اس واقعے کے بعد آج دفتر خارجہ میں بیلجیئم اور یورپی یونین کے اسلام آباد میں سفیروں کو طلب کر لیا گیا ہے اور ان سے اس سلوک پر جواب مانگا گیا ہے۔ وزیر کے بیان کے بعد ڈاکٹر شیر افگن نے اس واقعے کی مذمت میں تحریک پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ایوان برسلز کے واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے اور بیلجیئم کی حکومت کے غیر مناسب رویے پر حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بیلجیئم کی حکومت سے سرکاری طور پر احتجاج کرے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔
090109_diary_swatgirl_part1
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2009/01/090109_diary_swatgirl_part1
طالبہ کی ڈائری: سکول جانا ہے۔۔۔۔
صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہونے والی فوجی کاروائی جاری ہے۔ اگر ایک طرف سکیورٹی فورسز اور مسلح طالبان کی جھڑپوں میں درجنوں عام شہریوں کے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلح طالبان نے ایک سو تیس سے زائد سکولوں کو تباہ کرنے کی بھی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں سے زیادہ تر لڑکیوں کے ہیں۔
اب طالبان نے پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی ارود ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کرے گا۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی: سنیچر، تین جنوری: میں ڈر گئی اور رفتار بڑھا دیکل پوری رات میں نے ایسا ڈراؤنا خواب دیکھا جس میں فوجی، ہیلی کاپٹر اور طالبان دکھائی دیے۔ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس قسم کے خواب بار بار دیکھ رہی ہوں۔ ماں نے ناشتہ دیا اور پھر تیاری کرکے سکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ مجھےسکول جاتے وقت بہت خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ لڑکیاں سکول نہ جائیں۔ آج ہمارے کلاس میں ستائیس میں سے صرف گیارہ لڑکیاں حاضر تھیں۔ یہ تعداد اس لیے گھٹ گئی ہے کہ لوگ طالبان کے اعلان کے بعد ڈرگئے ہیں۔ میری تین سہیلیاں سکول چھوڑ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور، لاہور اور راولپنڈی جاچکی ہیں۔ ایک بجکر چالیس منٹ پر سکول کی چھٹی ہوئی۔گھر جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک شخص کی آواز سنائی دی جو کہہ رہا تھا: ’میں آپ کو نہیں چھوڑونگا۔‘ میں ڈرگئی اور اپنی رفتار بڑھادی۔جب تھوڑا آگے گئی تو پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کسی اور کو فون پر دھمکیاں دے رہا تھا، میں یہ سمجھ بیھٹی کہ وہ شاید مجھے ہی کہہ رہا ہے۔ اتوار، چار جنوری: کل سکول جانا ہے، میرا دل دھڑک رہا ہےآج چھٹی ہے، اس لیے میں نو بجکر چالیس منٹ پر جاگی لیکن اٹھتے ہی والد صاحب نے یہ بری خبر سنائی کہ آج پھر گرین چوک سے تین لاشیں ملی ہیں۔اس واقعہ کی وجہ سے دوپہر کو میرا دل خراب ہو رہا تھا۔ جب سوات میں فوجی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی اس وقت ہم تمام گھر والے اتوار کو پِکنک کے لیے مرغزار، فضاء گھٹ اور کانجو چلے جاتے تھے۔ اب حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم ڈیڑھ سال سے پِکنک پر نہیں جاسکے ہیں۔ ہم رات کو کھانے کے بعد سیر کے لیے باہر بھی جایا کرتے تھے۔اب حالات کی وجہ سے لوگ شام کو ہی گھر لوٹ آتے ہیں۔ میں نے آج گھر کا کام کاج کیا، ہوم ورک کیا اور تھوڑی دیر کے لیے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیلی۔ کل صبح پھر سکول جانا ہے اور میرا دل ابھی سے دھڑک رہا ہے۔ پیر، پانچ جنوری: زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں۔۔۔ اس دوران میری ایک سہیلی ڈرتی ہوئی میرے پاس آئی اور بار بار قرآن کا واسطہ دیکر پوچھنے لگی کہ ’خدا کے لیے سچ سچ بتاؤ، ہمارے سکول کو طالبان سے خطرہ تو نہیں؟‘ میں سکول خرچ یونیفارم کی جیب میں رکھتی تھی لیکن آج جب بھی میں بھولے سے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو ہاتھ پھسل جاتا کیونکہ میرےگھر کے کپڑوں میں جیب سرے ہی نہیں۔ آج ہمیں اسمبلی میں پھر کہا گیا کہ آئندہ سے زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں کیونکہ اس پر بھی طالبان خفا ہوسکتے ہیں۔ سکول کی چھٹی کے بعد گھر آئی اور کھانا کھانے کے بعد ٹیوشن پڑھا۔ شام کو میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو اس میں بتایا گیا کہ شکردہ سے پندرہ روز کے بعد کرفیو اٹھالیا گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ہمارے انگریزی کے استاد کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ شاید کل پندرہ دن کے بعد پڑھانے کے لیے سکول آجـائیں۔
051021_relief_commissioner
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051021_relief_commissioner
’وقت کے ساتھ جنگ کررہے ہیں‘
پاکستان میں زلزلے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد اکیاون ہزار تین سو سے زائد ہوگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی بڑھ کر چوہتر ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ زلزلے سے زخمی اور بےگھر ہونے والے افراد کے لئے وقت کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں برف باری شروع ہوا ہی چاہتی ہے۔
وفاقی ریلیف کمشنر میجر جنرل فاروق احمد خان نے اسلام آباد میں زلزلے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی ترجیح اس وقت بھی زخمیوں کو طبی امداد دینا ہے۔ تاہم ریلیف کمشنر کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت خیموں کی ہے اور ابھی بھی پانچ لاکھ خیمے چاہئے ہوں گے جو نہ صرف زلزلے سے متاثرہ افراد کوپناہ فراہم کریں بلکہ ان کو سردی سے بچائیں۔ان کے مطابق پاکستان نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ اب ایسے خیمے پاکستان بھیجے جائیں جو نہ صرف سردی اور برف باری کا مقابلہ کر سکیں بلکہ ان خیموں میں چار سے چھ افراد کو رکھا بھی جا سکے۔ میجر جنرل فاروق نے کہا کہ اس وقت زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں دوست ممالک اور عطیات دینے والی ایجنسیوں کے اکیس جبکہ پاکستان کے پانچ فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے ہیں جہاں زلزلے سے متاثرہ افراد کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشنج (ٹیٹنس) سے بچاؤ کی ویکسین کل پاکستان پہنچ گئی ہے اور اب اس بیماری سے بچاؤ کے ٹیکے ہر متاثرہ جگہ دستیاب ہیں۔ ریلیف کمشنر نے کہا کہ نیلم، جہلم اور کاغان وادیوں کی سڑکوں کو کچھ حد تک کھول دیا گیا ہے۔ بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول کھولنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر جلد سے جلد دونوں جانب کے کشمیری اس مصیبت میں ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی تک بھارت کی طرف سے کسی بھی کشمیری خاندان کو لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت نکل رہا ہے اور اگر بھارت پاکستان کی تحریری تجویز کا انتظار کرتا رہا تو دونوں جانب کے کشمیری ایک دوسرے کی مصیبت کے وقت میں مل نہ پائیں گے۔
140628_washington_diary_rh
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/06/140628_washington_diary_rh
امریکہ میں پاکستانی آم کی دھوم
جو عام ہوتا ہے وہ ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ تھانے میں رپورٹ لكھواني ہو، ریلوے کا ریزرویشن کروانا ہو، راشن کارڈ بنوانا ہو، سکول میں بچے کا داخلہ کروانا، عام ہمیشہ گالیاں سنتا ہے، سرکاری بابو کی جھڑكياں سنتا ہے، بھیڑ کے دھکے کھاتا ہے، پٹتا ہے، گڑگڑاتا ہے۔ چودھراہٹ تو بس خاص کی ہوتی ہے۔
پاکستان میں پلا بڑھا، امریکہ کا ہر روز ذکر سنا تو سوچا امریکہ چلتے ہیں لیکن جس آم کی میں بات کر رہا ہوں وہ دیسی لوگوں کے لیے ہمیشہ خاص ہوتا ہے۔ پھلوں کا شہنشاہ کہلاتا ہے۔ اکبر کا دربار ہو یا مودی کی حکومت اس کی ہمیشہ پوچھ رہی ہے۔ لیکن جب زیادہ پوچھ ہوتی ہے تو بڑے بڑوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ یہ بیچارا تو آم ہے۔ اسے بھی لگا ملک میں بہت عیش کر لی اب ذرا پردیس چلتے ہیں۔ پاکستان میں پلا بڑھا، امریکہ کا ہر روز ذکر سنا تو سوچا امریکہ چلتے ہیں۔ اب اسے کیا پتہ کہ یہاں بڑے بڑے دیسی وی آئی پی امریکی سكيورٹي کے چکر میں بے آبرو ہو چکے ہیں۔ جارج فرناڈیز ہوں، عبدالکلام ہوں، شیخ رشید احمد ہوں یا شاہ رخ خان ہوں سب ایک برابر۔ اب شاہ رخ خان کو تو اتنا غصہ آیا کہ انھوں نے اپنی بے عزتی پر ایک پوری فلم ہی بنا ڈالی اور کود کود کر پوسٹر ہلاتے رہے ’مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ‘۔ اس دیسی آم کا نام نہ تو خان تھا، نہ ہی بیچارے نے مذہب والے کالم میں مسلمان لکھا تھا۔ لیکن پاکستان سے امریکہ آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھائی، ہوم لینڈ کا خوف تو لازمی ہے۔ امریکہ آنے کے لیے کئی برس تک تو امریکی ویزا کے چکر میں پڑا رہا۔ بڑے بڑے وزیروں اور سینیٹروں کا خط لے کر گیا لیکن یہاں تو کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ایک پیلے اور پلپلے عام سے کیوں گھبرا رہا ہے۔ کسی نے بتایا کہ امریکہ کو خوف لاحق ہے کہ کہیں عام کے اندر گھس کر کوئی پاکستانی کیڑا ان کی سرحد میں نہ گھس آئے۔ اس لیے جیسے آگ میں کود کر سیتا میّا نے امتحان دیا تھا ویسے ہی اسے بھی امریکی ریڈيشن مشینوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اور ساتھ ہی اس کا خرچ بھی برداشت کرنا ہوگا۔ لیکن پٹّھے نے ہمت نہیں ہاری۔ اس سال کود گیا ریڈيشن مشین کے سامنے۔ مختصر سا دیسی دماغ بھی لگایا۔ پتہ کر لیا کہ شکاگو میں ریڈيشن مشین کا خرچ ایک کلو پر پانچ ڈالر ہے جبکہ ٹیکساس میں صرف پچاس سینٹ ہے۔ تو تیاری پوری ہوئی، دوستوں یاروں کو ٹاٹا اور بائی بائی کیا، باکس میں بند ہوا اور پہنچ گیا ٹیکساس کے ہیوسٹن اور ڈیلس شہر۔ دیسی لوگوں نے اس گرمجوشی سے گلے لگایا کہ مت پوچھیں، بس بینڈ اور باجے کی کمی رہ گئی۔ بھارتی، پاکستانی، بنگلہ دیشی سب پہنچے اور دو گھنٹے کے اندر دکانیں خالی۔ دیسیوں کی چھوٹی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آم پہنچ گیا ان ایئركنڈيشنڈ گھروں میں اور پھر سے بن گیا خاص۔ بڑے سے عالیشان ریفریجریٹر میں پھیل گیا، سوچ رہا تھا یہاں تو پاکستان کی طرح بجلی جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک نے راستہ دکھا دیا ہے تو اب اور آم آنے والے ہیں۔ اس بار نیویارک کی سیر کا ارادہ ہے۔ اور جیسے امریکہ میں کچھ برس پہلے آیا دیسی دوسرے دیسی کو اس نظر سے ناپتا ہے کہ اچھا، تو تم بھی گھس آئے یہاں۔ ان دنوں اسی نظر سے پاکستانی عام کو ہندوستانی عام گھور رہے ہیں۔ ہندوستانی الفانزو کہہ رہا ہے میں تو 35 ڈالر میں تین کلو فروخت ہوتا ہوں، تیری اوقات کیا ہے میرے سامنے؟ پاکستانی آم نیا ہے تو اس نے جواب نہیں دیا بس پھسپھسایا۔ سنبھل کر رہنا، میرے اور بھی بھائی آر ہے ہیں۔ یورپ میں تو تمہارے گھسنے پر پابندی لگ ہی گئی ہے، امریکی دیسيوں کو کہیں میری لت لگ گئی تو پھر تمہارا یہاں سے بھی پتہ صاف ہو جائے گا۔ اور ہاں آپ بھی ذرا اپنے آموں پر نظر رکھیں۔ جب آم گاؤں سے شہر گئے توگاؤں والوں کو ٹھینگا دکھا دیا۔ اب انہیں امریکہ کا چسكا لگا ہے تو پھر پورے ملک سے ہی ندارد ہو جائیں گے۔ امریکی دیسی آام کھائیں گے، آپ گٹھلياں گننا!
vert-fut-53851655
https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-53851655
دنیا کی سب سے زیادہ پائیدار ’قوم‘ نخجوان
امکان یہی ہے کہ شاید آپ نے نخجوان کا نام سنا ہی نہ ہو۔ آرمینیا، ایران اور ترکی کے درمیان کوہ قاف سے پرے ایک پہاڑی علاقہ، یہ ایک خود مختار علاقہ ہے، جو اپنے وقت کے سویت یونین کی ایک دور دراز جنوبی خطے آذربائیجان کا ایک علاقہ ہے جہاں بہت ہی کم سیاح جاتے ہیں۔
نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں یہ خود مختار جمہوریہ، آذربائیجان سے جغرافیائی طور پر کٹا ہوا حصہ ہے (نخجوان اور آذربائیجان کے درمیان آرمینیا کی ایک 80 سے 130 کلو میٹر بڑی ایک پٹّی جو دنیا سے سب سے زیادہ بڑا خشکی سے گھرا ہوا بیرونی علاقہ جس کا جزیرہِ بالی کے برابر رقبہ، جو سنہرے گنبد والی مسجد کے ساتھ بحیرہِ اسود اور بحیرہِ کیسپین کے درمیان خشک پہاڑوں پر مشتمل ایک خطہ ہے۔ ترکی، ایران اور آرمینیا میں گھرا ہو یہ علاقہ جو کہ اصل میں آذربائیجان کا علاقہ ہے۔ نخجوان دنیا کا سب سے بڑا خشک زمین میں گھرا ہوا ایک بیرون ملک خطہ ہے یہاں ایک بہت ہی بلند مزار ہے جہاں حضرتِ نوح مدفون ہیں، ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ بنا ہوا ہے جسے کرہِ ارض کے ایک معلوماتی پروگرام 'لونلی پلانیٹ' نے یوریشیا کا 'ماچو پیچو' قرار دیا ہے (ماچو پیچو اصل میں جنوبی امریکہ کی 'انکا' تہذیب کا پہاڑ کی چوٹی پر آباد ایک قدیمی شہر کا نام ہے)، دنیا کا صاف ترین دارالحکومت جہاں سرکاری ملازمین درخت لگاتے ہیں اور ہر ہفتےگلیاں صاف کرتے ہیں۔ یہ وہ پہلا خطہ ہے جس نے سویت یونین کے ٹوٹتے وقت سب سے پہلے آزادی کا اعلان کیا تھا، جو کہ لتھوانیا سے چند ہفتے قبل کیا تھا، تاکہ دو ہفتوں بعد اپنے آپ کو آذربائیجان کا حصہ بنانے لے۔ ظاہر ہے کہ مجھے بھی ابھی حال ہی میں آذربائیجان کے تیل کی بو میں رچے بسے دارالحکومت باکو سے جمہوریہ نخجوان کے دارالحکومت 'نخجوان شہر' کے اتفاقیہ سفر سے پہلے اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ میں نے گذشتہ پندرہ برسوں میں سابق سویت یونین کے کئی علاقوں میں سیر و سیاحت کی ہے، میں نے روسی زبان بھی سیکھی ہے، اور 'ٹرانس نِسٹریا' جیسی کئی چھوٹی چھوٹی قوموں کو دریافت کیا، اس کے علاوہ تاجکستان اور کرغزستان کا انتخابات کی مانیٹرنگ بھی کی ہے۔ لیکن نخجوان جانے کا کبھی موقعہ ہی نہیں بنا تھا۔ کیونکہ یہ سرد جنگ کے دوران سویت یونین کا ایک دور دراز مقام تھا جو کہ اس وقت امریکی فوجی اتحاد نیٹو کے دو ارکان ترکی اور ایران کی سرحد پر وجود تھا اور یہ تزویراتی طور پر منفرد ہونے کی وجہ سے الگ تھلگ اور اتنا خفیہ اور بند علاقہ تھا کہ خود سویت یونین کے شہریوں کو سیکیورٹی کی وجہ سے یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ سویت یونین سے علحیدہ ہونے کے تیس برس بعد بھی یہ قوم آج بھی روس اور دنیا بھر کے لیے ایک نامعلوم خطہ ہیں۔ بہت ہی کم غیر ملی سیاح سابق سویت یونین کے اس دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہیں آج اگر کسی کے پاس آذربائیجان کا ویزا ہے تو وہ اس خطے میں جا سکتا ہے، اور کیونکہ یہ قدرے محفوظ خطہ ہے، یہاں کے حکام فوراً ہوشیار ہو جاتے ہیں جیسے ہی وہ کسی غیر ملکی کو وہاں آتے ہوئے دیکھتے ہیں، کیونکہ اس علاقے میں غیر ملکی کم ہی آتے ہیں۔ آذربائیجان ائر لائین کے طیارے سے اترتے ہی اور امیگریشن کے مختلف ڈیسکوں سے ہوتے ہوئے جب میں گزرا تو ایک شخص نے میرے کانوں میں کھسر پسر کرتے ہوئے کہا 'پولیس ۔۔۔۔ یہ تمہارے بارے میں بات کر رہی ہے۔' میں نے اُسے کہا کہ 'تم کیسے جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ 'انھوں نے کہا تھا کہ یہ آنے والا برطانوی شہری چمکتی ہوئی سرخ قمیض پہنے ہوئے ہے۔' اس کا مطلب ہے کہ باکو ائر پورٹ پر سکیورٹی نے میرے آنے کی اطلاع نخجوان آنے سے پہلے ہی دے دی تھی۔ اور بہت ممکن ہے کہ میری بہت ہی بھڑکیلی نیکر نے مجھے عام لوگوں جیسے لگنے نہیں دیا تھا۔ آپ کو نخجوان میں کہیں اتنا سا بھی کوڑا کرکٹ نظر نہیں آئے گا جب میں اپنے ٹیکسی ڈرائیور مرزا ابراہیموو کی زبردست مرسیڈیز کار میں بیٹھ کر ائر پورٹ سے باہر نکلا تو اُس نے مجھے بتایا کہ 'آپ کو اتنا سے کوڑا کرکٹ نخجوان کے کسی بھی حصے میں نظر نہیں آئے گا۔' نخجوان شہر سے وہ اس خطے کے دوسرے بڑے شہر اردوآباد روانہ ہوگیا۔ وہ درست کہہ رہا تھا: اس بیرونی خطے کے بارے میں میرا پہلا تاثر بہت ہی مسحور کن تھا، یہ شہر حیران کن حد تک صاف ستھرا تھا۔ میں اُس سے جاننا چاہتا تھا کہ سویت یونین کے زمانے کی رہائشی عمارتیں جن کے پاس سے میں گزر رہا تھا، اتنی زیادہ صاف ستھری کیوں ہیں، لیکن میری توجہ دور سے نظر آنے والی ایک آٹھ تکونی انداز میں لکھی اسلامی آیات کی ایک یادگار کی جانب ہو گئی، جس کے بارے میں ابراہیموو نے بتایا کہ اس کا یہاں کے مقامی لوگوں میں بہت احترام ہے۔ نخجوانی باشندے اپنے خطے کو ارضِ نوح کہتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حضرتِ نوح یہاں دفن ہیں حضرت نوح کا ایک مقبرہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پانچ مقامات میں سے ایک ہے، لیکن یہ بات آپ نخجوانی باشندوں سے مت کہیے گا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کا وطن 'ارض نوح' ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لفظ 'نخجوان' آرمینائی زبان کے دو الفاظ کا ایک مرکب ہے جس کا مطلب 'آبائی نسل کا خطہ' بنتا ہے، جبکہ کئی آذربائیجانی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ قدیم فارسی زبان کے لفظ 'نخ' (نوح) اور 'چوان' (جگہ) سے بنا ہے۔ مقامی روایت کے مطابق، جب طوفانِ نوح تھما تو حضرتِ نوح کی کشتی ایلاندغ نامی پہاڑ پر آکر ٹھہری تھی اور اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ پر اس کے نشانات بھی بتائے جاتے ہیں۔ بہت ساری نجوانی باشندے آپ کو بتائیں گے کہ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے اس مقام پر کئی دنوں تک ٹھہرے رہے، اور یہاں کے لوگ نوح کی آل اولاد سے ہیں۔ ابراہیموو نے چند دنوں کے بعد مجھے بتایا کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو ایک کٹا ہوا نشان نظر آرہا ہے یہ وہ جگہ ہے جب یہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی تو نوح کی کشتی اس سے ٹکرائی تھی۔ ایک دن جب میں اردوآباد کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک زیادہ عمر کے بزرگ میرے پاس آئے، وہ جان چکے تھے کہ میں ایک غیر ملکی ہوں۔ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سگریٹ سے اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے 'وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر وہاں نوح کی کشتی آکر ٹھہری تھی۔' روایت کے مطابق کوہ الانداغ کی چوٹی سے حضرت نوح کی کشتی پانی کے اترنے کے بعد ٹکرائی تھی جس سے وہاں نشان پڑ گیا ایک لحاظ سے نخجوان حضرت نوح کا دوسرا نام ہے، لیکن ساڑھے سات ہزار برس پہلے وہکوہ الانداغ پر اترے تھے (بعض لوگوں کے مطابق، اس کے ساتھ والے پہاڑ کوہِ ارارات پر اترے تھے، اس کا انحصار اس بات پر ہے آپ کس سے پوچھ رہے ہیں)، اور ان کی نسلیں ایرانیوں، عثمانیوں اور پھر روسیوں کے ادوار دیکھتی ہوئی آج مسلم اکثریتی آبادی کے طور پر وہاں موجود ہیں۔ چند دہائیاں پہلے سویت یونین کے زمانے کا آرمینیا سے ان کا ایک تنازع ماضی کی 'سرد باقیات' کے طور پر اب بھی موجود ہے۔ سنہ 1988 میں ماسکو کا سویت یونین کی جمہوریاؤں پر سے کنٹرول کمزور ہو رہا تھا، نخجوان کے ہمسائے میں آذربائیجان کے جنوب مغرب میں نگورنو-قراباغ میں آرمینیا کی حمایت یافتہ آرمینائی اقلیت اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ سنہ 1994 میں جنگ بندی ہوتی اس میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بہرحال اس جنگ کے دوران قریبی آرمینائی آبادی نے سویت یونین اور آذربائیجان اور نخجوان کے درمیان ریل اور سڑک کے تمام رستے بند کردیے تھے۔ دریائے آرس پر ترکی اور ایران کی جانب بچ جانے دو پلوں کی وجہ سے نخجوان کے لوگ مکمل تباہی سے بچ پائے۔ نخجوان کے اس محاصرے سے پیدا ہونے والی غذائی قلت کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں میں خود انحصاری کی شدید ضرورت کا احساس رچ بس گیا۔ وہ اپنے ہمساؤں اور دریا پر پلوں پر انحصار نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے نخجوانی باشندوں نے اپنی غذا خود پیدا کرنی شروع کردی اور اپنی ضروریات کا سامان خود تیار کرنا شروع کردیا اور آذربائیجان میں سنہ 2005 کے تیل کی دریافت سے پیدا ہونے والی ترقی کے بعد سے، باکو نے اس علاقے میں زیادہ سرمایہ کاری کی جس سے اس خطے میں قومی سطح پر خود انحصاری کا جذبہ اور زیادہ گہرا ہوا جو کہ پائیدار ترقی کے مطالعے کے لیے ایک زبردست مثال ہے۔ محاصرے کے دنوں میں نخجوان میں خودانحصاری کی شدید ضرورت کی وجہ سے ایک مضبوط قومی شناحت کا احساس پیدا ہوا شمالی کوریا کی طرح آج آذربائیجان کا یہ بیرونی خطہ خود مختار اقتصادی ترقی کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے، جہاں ایک بادشاہت یا ایک ملک کسی بین االاقوامی مدد یا تجارت کے بغیر اپنے وسائل پر خود زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن مجھے جلد پتہ چلا کہ نخجوان کی اندرون بین اقتصادی حکمت عملی کے آہستہ غذا کھانے، نامیاتی اور ماحولیاتی-دوست اثرات بہت زیادہ ہیں --- اور یہ سوچ اس خطے کے تفخر اور اس کی شناخت کی وجہ بن گئی ہے۔ نخجوان میں کھانے کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ 'ہم اس طرح آج کھانا کھا رہے ہیں کیونکہ ہم آج کھا سکتے ہیں۔' ابراہیموو کے ایک دوست الشاد حسنوو نے یہ بات اس وقت کہی جب ہم ایرانی سرحد کے قریب کھانا کھا رہے تھے۔ اس نے اور ابراہیموو نے کہا کہ خوراک سٹور کرنے کی یادیں اب بھی ان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، لیکن سویت یونین پر اقتصادی انحصاری کی پالیسی سے آزاد ہونے کے بعد نخجوان نے اپنے خطے میں کسی قسم کی کرم کُش ادوایات کے استعمال پر سخت پابندی عائد کردی ہے، صرف نامیاتی خوراک۔ بہت صحت کا خیال رکھنے والے اب کوشش کرتے ہیں کہ اس بھیڑ کا گوشت کھایا جائے جو کسی نخجوان فارم سے آئی ہو، مچھلی وہ ہو جو نخجوانی جھیل سے آئی ہو، جنگلی سویا، سونف، ترخون اور تخم بالنگا ہو تو نخجوان کی پہاڑیوں سے حاصل کیا گیا ہو، نخجوانی باغات کے پھل اور یہاں تک کہ نمک بھی نخجوانی غاروں سے نکالا گیا ہو۔ کچھ ہی دیر بعد جہاں ہم کھانا کھا رہے تھے وہاں بھیڑ کے گوشت اور اس کی نرم ہڈیوں کا ڈھیر جمع چُن دیا گیا۔ یہ سب منقل سلاد، پنیر، بڑے بڑے نان، کباب، سینکڑوں قسم کے مصالحوں سے تازہ تازہ تیار کی ہوئی رہو مچھلی، بیئر اور واڈکا --- ان میں ہر شہ میں کسی نہ کسی بیماری کا علاج موجود تھا۔ جب میں نے نخجوانی نامیاتی مقامی غذا کے کھانے کے پیچھے محرکات جاننے کے بارے میں سوال کیا تو حسنوو نے کہا کہ اصل محرک ہماری اپنی بہتری ہے۔ 'ہماری لوگ صحت مند ہیں، اور ہم ان بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے ہیں جو ہمیں پہلے ہوتی تھیں، کیونکہ ہم وہی کچھ کھاتے ہیں جو کہ قدرتی ہوتا ہے۔' جب میں یہ سن رہا تھا تو میں نے ایک بڑے ٹماٹر کو دانتوں سے کاٹا اور میرا ایک میٹھے رس سے بھر گیا۔ بلا شبہ میں نے اس پہلے کبھی بھی اتنا مزیدار ٹماٹر نہیں کھایا تھا۔ اس خطے میں خوارک کی پیداوار کے لیے سائینسی اختراہوں کے استعمال پر سخت پابندی عائد ہے، آہستہ آہستہ کھانے کھانے کی ثقافت نے اسے مقامی غذا کے استعمال کی جنت بنا دیا ہے نخجوانی باشندوں کی صحت کا راز صرف سائنسی اختراہوں سے پاک خوراک ہی نہیں ہے۔ نخجوان شہر سے چودہ کلو میٹر دور دُزدگ میں نمک کی کانیں ہیں، بہت متاثر کن ماحول ہے اور ان کانوں کے غاروں میں سویت زمانے کا ایک سینیٹوریم بھی موجود ہے۔ ان کانوں کا نقشہ طبی سیاحوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کانوں میں موجود ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن خالص نمک سانس کی کئی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے، دمہ سے لے کر تپ دق تک۔ نخجوان کا 30 سیلسیس درجہ حرارت تھوڑی دیر میں ختم ہوگیا جب ابراہیموو اور میں تاریک غار میں داخل ہوئے جہاں نمک کے ذرات کا ایک دھواں محسوس ہوا اور اس ماحول میں سانس کی بیماریوں کے علاج کے فوائد کا خیال ذہن میں آیا یا اسے ہم غار کے ماحول سے علاج کہہ سکتے۔ ہم نے گہری سانس لی۔ ابراہیموو نے بتایا کہ ہمارے پاس یہاں دنیا بھر کے علاقوں سے سیاح آتے ہیں۔ پچھلے برس ایک شخص یہاں یوروگوئے سے آیا تھا جسے شدید دمے کی بیماری تھی۔ وہ یہاں سے ٹھیک ہو کر گیا۔' عین اسی وقت وہاں سکول کے طلبا اور اساتذا کا ایک وفد آیا جنہوں نے وہاں نمک اور خاموشی کے ساتھ رات بسر کی۔ جب ہم کانوں سے باہر نکلے تو میں نے طے کیا کہ میں اس شہر کی بہترین صفائی کی جنونیت کا راز جانوں گا۔ ہر لحاظ سے نخجوان کو پورے کوہ قاف خطے کا نہیں تو کم از کم آدربائیجان کا صاف ترین شہر کہا جا سکتا ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں، موٹرویز مکمل طور پر پختہ، گلیاں بہترین طور پر صاف ستھری، درختوں کے جھاڑ کو نفاست کا ساتھ کاٹ کر خوبصورت بنایا گیا تھا اور زمین میں سے جنگلی بوٹیوں کا مکمل صفایا کردیا گیا تھا۔ نخجوان کو کوہ قاف خطے کا ایک صاف ترین شہر کہا جاتا ہے ناروے کی ایک تفصیلی ہیلسنکی رپورٹ کے مطابق، اس شہر کی اتنی بہترین حالت کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے سرکاری ملازمین ہیں۔ جن میں اساتذا، فوجی، ڈاکٹر، اور دیگر سرکاری ملازمین جو رضاکارانہ طور پر اپنی چھٹی کے دن اپنی گلیوں کو صاف کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان جنگلات کو پھر سے سرسبز کرنے کے لیے جن کے درخت کو کاٹ کر محاصرے کے دنوں میں جلایا گیا تھا، شہریوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ درخت لگائیں اگر وہ کام نہیں کر رہے ہیں یا گلیوں کی صفائی نہیں کر رہے ہیں۔ یہ سویت دنوں کی روایت ہے جسے 'سوبوٹنِک' کہا جاتا ہے۔ جو کے اب ایک متروک تصور ہے جس کے مطابق بغیر اجرت کے رضاکارانہ طور پر کام کیا جاتا تھا۔ یا اسے سویت یونین کے دنوں میں کسی نے بیان کیا تھا کہ ایک کام 'جو رضاکارانہ-لازمی طریقے سے کیا جاتا تھا۔' میرے وہاں قیام کے دوران ایک ہفتے کی صبح ابراہیموو نے اپنی مرسیڈیز کار کھڑی کی اور قریبی فاصلے پر ہرے ہرے کھیتوں کی جانب اشارہ کیا۔ اس دن سورج کی تمازت میں لوگوں کا ایک گروہ اُس جگہ موجود تھا۔ اُس نے کہا کہ 'یہ لوگ درخت لگا رہے ہیں۔' بظاہر 'سوبوٹنِک' کی روایت دوسروں کی بھلائی کے لیے تھی: ہر ایک درخت کے لگانے سے اس خطے میں صاف ہوا میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی پھیپھڑوں کو بہتر کرتی ہے، بلکہ یہ ساتھ ساتھ اس خطے کے پسندیدہ پھلوں کی فراہوانی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس خطے کی بہترین صفائی مقامی حکومت کی سخت گیر پالیسی کا نتیجہ ہے لیکن، اسی ناروے کی ہیلسنکی رپورٹ جس کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کے مطابق، نخجوان کی وزارتِ اقتصادی ترقی کے ایک اہلکار نے تسلیم کیا کہ اگر کوئی بھی سرکاری ملازم اس 'رضاکارانہ' کام پر اعتراض کرتا ہے تو اسے سرکاری ملازمت سے فورا مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ نخجوان کی ریاستی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تسلیم کیا کہ نخجوان کی حکومت کے موجودہ سربراہ، واصف طالیبوو جن کو کئی لوگ ایک سخت گیر حکمران کہتے ہیں، اس مفت کے کام سے بہت زیادہ آمدنی کما رہے ہیں۔ نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جسے میں سمجھ نہیں سکا اپنے اس دورے کے اختتام پر میں اس پر غور کرنے لگ گیا کہ کیا نخجوان کا ایک صاف ستھرے اور سر سبز شہر کا تاثر سنگاپور جیسا ہے جہاں صفائی اور دیکھ بھال سرکاری سطح پر کم اجرت والی مزدوری اور اس خوف سے ہے کہ حکومت سخت سزا دے گی اگر صفائی نہ رکھی گئی۔ نخجوان ایک ایسا معمہ ہے جس میں سمجھ نہیں پایا: کیا یہ ایک ترقی پسند اور روشن فکر خطہ ہے جہاں لوگ دوسروں کی بھلائی کے لیے رضاکارانہ کام کرتے ہیں، یا یہ ایک محتاط طریقے سے ایک درویشانہ جاگیردارانہ نظام کھڑا کیا گیا ہے یا یہ ان دونوں باتوں کا ایک ملا جلا نظام ہے۔ تاہم ایک بات جو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ میں اس سے پہلے جہاں جہاں گیا ہوں، اس جیسا ایک الگ تھلگ بیرونی خطہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھا: سابق سویت یونین کا ایک خفیہ مضبوط خطہ جہاں نوجوان لوگ آج بھی ریستورانوں میں ایک دوسرے سے کم آواز میں بات کرتے ہیں تاکہ انہیں ارد گرد کا کوئی اور شخص نہ سنے، لیکن یہ 'نامیاتی فارم سے اپنی میز تک' کی اپنی روشن فکری کی باتوں کو کسی غیر ملکی کے سامنے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں، جہاں قومی مجموعی پیداوار میں 300 فیصد اضافے کے باوجود سرکاری ملازمین گزشتہ پندرہ برسوں سے ہر ہفتے کی چھٹی کے دن بغیر کسی اجرت کے کام کرتے ہیں، اور جس کے شہری ایک نبی کے ساتھ اپنا تاریخی رشتہ بہت فخر کے ساتھ جوڑتے ہیں جو کسی دور دراز علاقے سے یہاں اپنی کشتی میں پہنچا تھا اور جہاں آج کی مقامی حکومت اپنے آپ کو اب خود سے محصور کیے ہوئے ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ مقامی غذا کو کھانے والے اس خطے کا کیا مستقبل ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ اپنے دروازے کھلے رکھے گا تاکہ میں ان میں خود مزید دریافت کرسکوں۔
131025_pak_south_africa_test_analysis_rh
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/10/131025_pak_south_africa_test_analysis_rh
دم توڑتی یہ مزاحمت آخر اور کتنی دیر؟
کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جس ٹیم کی بساط ایک یا دو سیشن میں ہی لپیٹ دی جاتی ہو وہ پورے دو دن بیٹنگ کرکے میچ بچاسکے۔ تیسرے دن چار وکٹیں گرجانے کے بعد اب صرف اس سوال کا جواب باقی ہے کہ دم توڑتی یہ مزاحمت آخر اور کتنی دیر؟ کیا شاید اتنی دیر جب تک کپتان مصباح الحق کریز پر ہیں؟
اظہر علی ایک بار پھر بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے لیکن تیسرے دن کی سب سے بڑی خبر جنوبی افریقی ٹیم کا بال ٹیمپرنگ میں ملوث ہونا ہے اس پر پانچ رنز کا جرمانہ ہوا اور کھیل کے بعد کھلاڑیوں کو میچ ریفری کے سامنے پیشی بھی بھگتنی پڑے گی۔ 2006 کے اوول ٹیسٹ کے بعد ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے لیکن انضمام الحق کے برعکس جنہوں نے یہ ماننے سے انکار کردیا تھا کہ ان کی ٹیم نے بال ٹیمپرنگ کی ہے جنوبی افریقی کپتان گریم سمتھ کی خاموشی اعتراف جرم ہے۔ گریم سمتھ نے دوسرے دن کے اختتام پر ہی یہ واضح کردیا تھا کہ انہیں ڈکلیئرکرنے کی جلدی نہیں اور وہ پاکستانی بولنگ کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کی کوشش کریں گے۔ سمتھ اور ڈی ویلئرز کی ٹرپل سنچری پارٹنرشپ تیسرے دن طول نہ پکڑسکی اور آخری چھ وکٹیں سکور میں صرف ستاون رنز کا اضافہ کرسکیں۔ لیکن چار سو اٹھارہ رنز کی برتری پاکستانی ٹیم کو بے سکون کرنے کے لیے بہت تھی ۔ محمد عرفان نے ایک مرتبہ پھر دل سے بولنگ کی اور تین وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن بار بار وکٹ کے سامنے آجانے پر امپائرز کی تنبیہہ کے بعد بالآخر وہ بولنگ سے روک دیے گئے۔ اجمل مورکل کے خلاف اپیل پر ریویو بھی لینا چاہتے تھے لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی ریویو نہیں بچا ہے عرفان گریم سمتھ کی وکٹ کے بجا طور پر حقدار تھے لیکن ’چھوٹے اکمل‘ نے ’بڑے اکمل‘ کی یاد دلاتے ہوئے آسان کیچ گرادیا۔ اس سے قبل وہ عرفان ہی کی گیند پر ڈی ویلیئرز کا صفر پر کیچ گراچکے تھے۔ عدنان اکمل کو دیکھ کر اس سیریز میں ایسا محسوس ہوا جیسے کامران اکمل کھیل رہے ہوں۔ سعید اجمل نے آج چار وکٹوں پر ہاتھ صاف کیا۔ انہوں نے مورکل کو آؤٹ نہ دیے جانے پر امپائر ایئن گلڈ کو آنکھیں بھی دکھائیں اور جب اگلی ہی گیند پر انہوں نے مورکل کی وکٹ حاصل کی تو ان کے جشن میں خوشی کے بجائے غصہ تھا۔ ان کا یہ انداز امپائر گلڈ کو بالکل پسند نہ آیا۔ اجمل مورکل کے خلاف اپیل پر ریویو بھی لینا چاہتے تھے لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی ریویو نہیں بچا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز کرکٹ کے بدلتے قوانین کے بارے میں کتنی معلومات رکھتے ہیں۔ جنوبی افریقی بیٹنگ کے گھاؤ کے بعد پاکستانی بیٹنگ نے بھی جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ خرم منظور اور شان مسعود کا اعتماد پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز کی سنچری کی شراکت کے بعد ایک کے بعد ایک تین اننگز میں بری طرح ناکام ہونے کے نتیجے میں بکھر چکا ہے۔ دونوں کو یقیناً اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کرنا کتنا آسان ہے۔ پارٹ ٹائم بولر ڈومینی کا شکار بننے والے اظہر علی چودہ اننگز میں صرف دو نصف سنچریاں سکور کرنے کے بعد ٹیم سے ڈراپ ہوگئے تو کسی کو حیرت نہیں ہوگی۔ یونس خان نے کیلس کے ڈراپ کیچ سے بھی سبق نہ سیکھا اور عمران طاہر کی گیند پر جس طرح بولڈ ہوئے وہ کسی اعتبار سے ان جیسے تجربہ کار اور جوش کے بجائے ہوش سے کھیلنے والے بیٹسمین کے شایان شان نہ تھا۔
041204_ukraine_elex_na
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041204_ukraine_elex_na
بحران ختم کرنے کی کوششوں کو دھچکا
یوکرین میں سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ ووٹنگ کے عمل میں دھاندلی روکنے اور صدر کے اختیارات محدود کرنے کے لیے مجوزہ اقدامات ملک کی پارلیمان نے منظور نہیں کیے ہیں۔
ملک میں تین ہفتوں کے بعد صدارتی انتخابات دوبارہ منعقد کیے جارہے ہیں۔ یوکرین کے دستبردار ہونے والے صدر لیونڈ کچما نے حزب اختلاف پر گزشتہ ہفتے طے کیا گیا سمجھوتے کا معاہدہ سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے یورپی مذاکرات کاروں سے معاملے میں دخل اندازی کی درخواست کی ہے۔ یوکرین کی سپریم کورٹ نے صدراتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے دعوے کو درست قرار دیا تھا۔ عدالت نے جمعہ کو انتخابات دوبارہ کروانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے جج اناتولے یاریما نے حکم دیا کہ 26 دسمبر تک نئے انتخابات ہونے چاہیئیں۔ عدالت کا فیصلہ سنتے ہی مغرب نواز امیدوار وکٹر یشچنکو کے حمایتی سڑکوں پر نکل آئے اور خوشیاں منانے لگے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ وہ وکٹر یشچنکو اور ماسکو نواز وزیرِ اعظم وکٹر یانوکووچ کے درمیان نئے انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ چھبیس نومبر کے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے یانوکووچ کو فاتح قرار دیا تھا۔ اس فیصلے پر مغربی مبصرین نے بہت تنقید کی تھی۔ اس انتخابی جنگ میں حصہ لینے والے دونوں فریقوں نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کا احترام کریں گے۔
070227_diplomats_hurt_srilanka_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/02/070227_diplomats_hurt_srilanka_ra
امریکی،اطالوی سفیر زخمی
سری لنکا میں امریکی اور اطالوی سفیر تامل ٹائیگر کے ایک مبینہ حملے میں معمولی زخمی ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق امریکی سفیر رابرٹ بلیک اور اطالوی سفیر پرائیو ماریانی جب میٹنگ میں شرکت کے لیے بیٹیکولا ائیر بیس پر ہیلی کاپٹر سے اترے تو دور سے داغے جانے والے مارٹر گولے ان کے نزدیک پھٹے۔ اطالوی سفیر کے سر میں چوٹ آئی جبکہ امریکی سیفر کو معمولی زخم آئے۔دونوں سفیر واپس کولمبو روانہ ہو گئے ہیں۔سری لنکا کی سکیورٹی فورسز کے اراکان بھی اس حملے میں زخمی ہو گئے ہیں۔ سری لنکا کی حکومت نے تامل ٹائیگر کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ ٹائیگر کی طرف کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
pakistan-39094200
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39094200
پر یہ بھی چاہتی ہوں تیرا گھر بسا رہے!
سوشل میڈیا پر کبھی کبھار ایسے افکار بھی نظر آ جاتے ہیں کہ ان کی داد دیے اور حسبِ مقدور اضافہ کیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ جیسے آج ہی یہ پوسٹ دیکھنے کو ملی کہ عجیب لوگ ہیں جلسے عمران خان کے بھرتے ہیں اور جتاتے نواز شریف اور آصف زرداری کو ہیں اور پھر چیف آف آرمی سٹاف کی طرف دیکھتے ہیں۔
عجیب لوگ ہیں قرضہ چین کا اچھا لگتا ہے اور اسلحہ امریکی ساختہ پسند ہے۔ سدا بہار دشمنی بھارت سے ہے مگر طالبان اور داعش کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنی شعیت اور سنّیت پر ناز کرنا اور مشکوک نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنا بھی نہیں چھوڑتے۔ عجیب لوگ ہیں مغربی جمہوریت سے بھی نالاں ہیں، مگر سیاسی پناہ کے لیے بہترین ملک برطانیہ کو سمجھتے ہیں۔ حکومت ترکی جیسی چاہتے ہیں مگر قوانین سعودی عرب جیسے۔ جب ایٹمی ہتھیار نہیں تھے تب بھی عدم تحفظ کا شکار تھے اب ایٹمی ہتھیار ہیں تو ان ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے پریشان ہیں۔ عجیب لوگ ہیں نوکری سرکاری پسند ہے مگر خواہش بل گیٹس جتنی دولت کمانے کی لیکن بل گیٹس جیسی محنت اور لگن کے بغیر۔ تعلیم کے لیے بچوں کو امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ واپسی پر قبیلے کا سردار بن کے کاروکاری کے فیصلے کرے یا پھر عوام کی خدمت کرنے یا اردگرد کی دنیا بدلنے کا شوق ہے تو کسٹمز، پولیس، ایف آئی اے وغیرہ میں افسر لگ کے یہ خواب پورا کرے یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نمائندہ بن کے ملک و قوم کی ترقی میں ہاتھ بٹائے۔ کم ازکم ٹیچر نہ بنے۔ لڑکیوں کو پڑھانا لکھانا بھی چاہتے ہیں اور گھر بھی بٹھانا چاہتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں معیشت کی زبوں حالی پر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں مگر ٹیکس دینا سور برابر سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اکنامک ٹائیگر اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مقناطیس بنانا چاہتے ہیں مگر اپنے بینکوں سے زیادہ آف شور بینکنگ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فلم بالی وڈ کی پسند کرتے ہیں مگر فیورٹ ٹی وی اینکرز عامر لیاقت حسین، اوریا مقبول جان، مبشر لقمان وغیرہ اور فیورٹ پروگرام کرائم تھرلرز۔۔۔ عجیب لوگ ہیں جن کے نزدیک سب سے بڑا قومی مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے مگر پوری توجہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پلس مقابلوں پر ہے۔ اور چاہتے یہ ہیں کہ نظریہ سازوں اور ان کے اداروں کو بنا ہاتھ لگائے اور ذہن مسخ کرنے والوں کی جانب انگلی اٹھائے بغیر دہشت گردی کی بیخ کنی کا معجزہ ہو جائے تو کیا بات ہے۔۔ یعنی میں یہ بھی چاہتی ہوں تیرا گھر بسا رہے پر یہ بھی چاہتی ہوں کہ تو اپنے گھر نہ جائے (ریحانہ روہی ) عجیب لوگ ہیں قانون کی مکمل حکمرانی اور مکمل انصاف کے لیے بھی مرے جا رہے ہیں مگر اندھا بھروسہ فوجی عدالتوں پر ہے۔ عجیب لوگ ہیں جن میں سے کسی کو یقین نہیں کہ اس فانی دنیا میں ملاوٹ کے ذریعے خلقِ خدا کو مارنے یا کسی کو ذاتی انتقام کے لیے قتل کرنے یا زیردست لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے یا اندھا دھند دولت جمع کرنے یا حرام و حلال کی تمیز ختم کرنے یا کسی کا مال جعل سازی کے ذریعے غصب کرنے پر جہنم رسید ہونے کی پکی پکی نوید ہے۔ مگر سب کو کامل یقین ہے تو جنت الفردوس میں جانے کا۔ اور وہ بھی مکے اور مدینے میں تدفین کی آرزو لیے۔ خون تھوکے، کبھی روئے، کبھی تقریر کرے ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے ( احمد نوید)
070106_noida_sonia_zs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/01/070106_noida_sonia_zs
سونیا گاندھی نوئیڈا کے دورے پر
بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے ہفتہ کو دلی کے نواحی علاقے نوئیڈا کے نتھاری گاؤں کا دورے کے بعد کہا ہے کہ ریاستی امن و امان کی بحالی اترپردیش حکومت کی ذمے داری ہے اور ریاست میں قانون کی حکمرانی نہيں ہے۔
مسزگاندھی نے کہا’ اترپردیش میں امن وامان کی صورت حال بالکل خراب ہے اور یہاں ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا رہتا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس کی دباؤ میں آ کر ہی اترپردیش کے وزیراعلٰی ملائم سنگھ یادو نوئیڈا واقعے کی تفتیش سی بی آئی سے کرانے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ سونیاگاندھی کے دورے کے موقع پر علاقے میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے تھے۔ سونیا گاندھی نے نتھاری گاؤں کے دورے کے دوران لواحقین کے خاندان والوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے نوئیڈا کے سیکٹر اکتیس میں واقع اس بنگلے کے اطراف کا بھی معائنہ کیا جہاں مبینہ طور پر ملزم مونندر سنگھ پنڈھار اور ان کے نوکر نے سترہ بچوں اور عورتوں کو اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ادھر معاملے کی سچائی جاننے کے لیے احمد آباد میں مقدمے کے دو اہم ملزمان سریندر کوہلی اور مونندر سنگھ کے’ لائی ڈیٹیکٹر‘ اور’نارکو اینالیسز‘ ٹیسٹ جاری ہیں۔ ہفتے کی صبح دونوں ملزمان کو جسمانی معائنے کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ گجرات میں واقع لیبارٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جے ایم بیاس کا کہنا تھا کہ کچھ معلومات کم وقت میں بھی مل جائیں گی لیکن کچھ ٹیسٹوں کے نتائج آنے میں کئی گھنٹوں کا وقت لگےگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے مکمل نتائج حاصل کرنے میں تین دن کا وقت لگےگا۔
pakistan-45328245
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45328245
چیف صاحب کی چپیڑ
زندگی کی بارے میں یار لوگوں نے کچھ رومانوی سی باتیں بنا رکھی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پہلا پیار کبھی نہیں بھولتا۔ کوئی کہتا ہے ریل کا پہلا سفر ساری عمر یاد رہتا ہے۔ کسی کو اپنے گاؤں میں دیکھا ہوا پہلا میلہ ہمیشہ یاد رہتا ہے تو کسی کو گرمیوں کی پہلی چھٹیوں کا مزہ بڑھاپے میں یاد آتا ہے۔ ہمیں بھی اس طرح کی چیزیں کبھی کبھی یاد آتی ہیں لیکن جو چیز کبھی نہیں بھولتی وہ زندگی میں پڑنے والا پہلا تھپڑ ہے اور تھپڑ مارنے اور کھانے کے بارے میں بچپن میں سنا ہوا ایک لطیفہ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے نجی ہسپتال کے دورے پر سوشل میڈیا میں بہت بحث ہو رہی ہے زندگی کا پہلا تھپڑ اس ویک اینڈ پر اور شدت سے یاد آیا جب چیف جسٹس صاحب کراچی تشریف لائے اور ایک سماعت کے دوران بچپن میں مار کھانے کا واقعہ سنایا۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ ہم ارائیں بچوں پر بہت ظلم ہوا ہے لیکن پھر ذات پات سے اوپر ہو کر سوچا اور دل کو لگا کہ چیف صاحب جب بھی کسی ویک اینڈ پر کراچی آتے ہیں تو رونق لگ جاتی ہے۔ محمد حنیف کے دیگر کالم پڑھیے دوستووسکی اور خلیفہ ہارون رشید عمران خان کا سفر ’وزیراعظم عمران خان‘ نیا نیب، پرانا ہیرا باجوہ ان کنٹرول صحافیوں سے ذرا بچ کے عام طور پر ہم کراچی والوں کو شکایت رہتی ہے کہ یا تو ہمیں دیوار سے لگایا جاتا ہے یا ہمیں فراموش کر دیا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو دیوار سے لگا کر فراموش کر دیا جاتا ہے لیکن چیف صاحب کی نظرِ کرم پڑتی ہے تو ہمارا بور اور بوسیدہ سا کراچی تھوڑی دیر کے لیے چہکنے لگتا ہے۔ یہاں کب ایسے ہوتا ہے کہ کوئی ضیاالدین ہسپتال کے کمرے پر دستک دے اور کہے ہائے شرجیل (شرجیل میمن نے سوچا ہو گا، ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں) اور کہاں ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہی صبح ہر چینل پر گرے گوز ووڈکا کی بوتلیں نظر آنے لگیں۔ کچھ کراچی والے اتنے ترسے ہوئے ہیں کہ ٹی وی پر مہنگی شراب کی بوتلیں دیکھ کر ہی سرور میں آ جاتے ہیں۔ شرجیل میمن کی اچھی طرح عیادت کرنے کے بعد چیف صاحب نے پی ٹی آئی کے اس ایم پی اے کو بلا لیا جس کی پہلے تھپڑ مارنے والی ویڈیو مشہور ہوئی پھر معافی والی ویڈیو، پھر تھپڑ کھا کر معاف کرنے والے کی بےبسی کی ویڈیو۔ کوئی معاملہ وائرل چل رہا ہو اور چیف صاحب کی نظر سے بچ جائے، ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف صاحب نے اپنے بچپن کا واقعہ سنایا کہ انھوں نے اپنے ایک نوکر کو تھپڑ مارا تھا جس کے بعد ان کے والد نے پہلے نوکر سے کہا کہ اس کو مارو اور جب نوکر مار مار کر تھک گیا تو اس کے بعد والد صاحب نے خود مارا۔ دل کمزور ہے۔ بچوں کو مار پڑنے کے بارے میں پڑھ کر یا سن کر بھی دل تھوڑا سا لرز جاتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اگر بچپن میں والد صاحب نے چھوٹے چیف صاحب کو وہ پھینٹی نہ لگائی ہوتی تو کیا وہ بڑے ہو کر اتنے دبنگ قاضی بن سکتے تھے۔ عمران علی شاہ کو چیف جسٹس نے 30 لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کا حکم دیا ہے نہ صرف دبنگ بلکہ فیصلہ بھی ایسا جس سے سارے فریق مطمئن۔ پی ٹی آئی والے بھائی کی تھوڑی بےعزتی ہوئی لیکن سیٹ بچ گئی اور صرف 30 لاکھ جرمانہ دینا پڑا۔ جس کو تھپڑ پڑا تھا اس کی بھی تسلی ہو گئی اور قوم کا مستقبل بھی محفوظ ہو گیا یعنی ڈیم کے لیے ڈونیشن بھی مل گیا۔ یہ بھی پڑھیے چیف جسٹس کا چھاپہ اور زرداری کا جملہ 'اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے' جب چیف صاحب پچھلی مرتبہ کراچی آئے تھے تو اس سے بھی زیادہ دبنگ کام کر گئے تھے۔ مسنگ پرسنز کے خاندان والوں کو بلا لیا تھا۔ ان کا رونا پیٹا دیکھ کر کچھ پریشان ہوئے اور چیمبر میں چلے گئے۔ پھر دوبارہ عدالت لگی تو اپنے بیٹے کو برسوں سے ڈھونڈتی ایک ماں روسٹرم پر چڑھ دوڑی اور بےادبی کرنے لگی۔ آپ نے فرمایا اگر تو عورت نہ ہوتی تو ہتکِ عدالت میں جیل بھجوا دیتا۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ بچپن کی پٹائی سے نہ صرف انسان دبنگ ہو جاتا ہے بلکہ اس کا دل بھی گداز ہو جاتا ہے۔ اب بس اس دن کا انتظار ہے کہ چیف صاحب مسنگ پرسنز والے کسی تہہ خانے پر چھاپہ ماریں گے اور ہمارے اداروں کو سمجھائیں گے کہ قومی سلامتی کے مسائل کو بندے اٹھا کر، انھیں غائب کر کے اور انھیں چپیڑیں مار کر حل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ چیف صاحب کی بچپن کی پٹائی کا سن کر اپنے بچپن کا تھپڑ حقیر سا لگا۔ وجہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ گھر میں نوکر نہیں تھا بلکہ ہمارے گھروں میں تو بچوں کو ہی نوکر سمجھا جاتا تھا تو یقیناً کسی نوکر کو نہیں مارا تھا۔ نماز کا کہہ کر گلی میں گلّی ڈنڈا کھیلنے چلا گیا ہوں گا یا ہمسائی کے گھر لگی بیری پر وٹہ مارا ہو گا۔ اس پہلے تھپڑ کی گونج آج تک باقی ہے لیکن اس تھپڑ کو برداشت کرنے میں ایک لطیفے نے مدد دی جو بچوں کے رسالے نونہال میں پڑھا تھا۔ باپ بیٹے کی پٹائی کرنے لگتا ہے تو بیٹا کہتا ہے، ابو آپ مجھے کیوں مار رہے ہیں، باپ نے کہا کیونکہ میرا باپ بھی مجھے مارتا تھا۔ بیٹے نے پوچھا، ابو آپ کے والد آپ کو کیوں مارتے تھے، جواب ملا کیونکہ ان کے باپ ان کو مارا کرتے تھے۔ اس پر بیٹا بولا ابو کیا خیال ہے، اب ہمیں اپنے خاندان میں نسل در نسل ہونے والی اس بدمعاشی کو بند نہیں کر دینا چاہیے؟
050202_army_hq_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/02/050202_army_hq_as
چالیس روپے فی مربع فٹ
اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر E-10 میں پاکستان فوج کو اپنے ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو کی تعمیر کے لیے 1,165 ایکڑ زمین چالیس روپے فی مربع فٹ کے حساب سے الاٹ کی گئی ہے جبکہ اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس زمین کی کبھی نیلامی ہوئی ہی نہیں۔
یہ بات وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں ایک تحریری جواب میں کہی۔ نئے جی ایچ کیو کی اسلام آباد میں تعمیر عنقریب شروع ہونے والی ہے جس کی وجہ آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف کی حفاظت بتائی جاتی ہے۔ جی ایچ کیو اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ جنرل مشرف پر دسمبر 2003 میں ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد کیا گیا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے جی ایچ کیو کے لیے سستے داموں زمین کے حصول کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے پارلیمینٹیرینز نے اس مسئلے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک التوا بحث کے لیے جمع کرائی ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ جی ایچ کیو کو زمین سستے داموں فروخت کرنے سے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ ان 1,165 ایکڑ کے علاوہ سکیورٹی کے نام پر آرمی کو 870 ایکڑ مزید زمین گزشتہ سال دسمبر میں الاٹ کی گئی ہے۔ اس زمین کو 150 روپے مربع فٹ کے حساب سے الاٹ کیا گیا ہے جبکہ اس سے ملحقہ سیکٹر ایف ٹین میں زمین ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے فی مربع فٹ ہے۔
pakistan-45328247
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45328247
گدھ، عقاب یا مُردار، ہم کیا ہیں؟
گدھ عجب پرندہ ہے جس میں کئی خوبیاں ہیں، سیاہ چمکدار بڑے بڑے پر، اس کی چونچ بھی عقاب جیسی اور اڑان بھی اونچی ہے، مضبوط قوت مدافعت، نگاہ اس قدر تیز کہ دور تک۔۔ بہت دور تک دیکھ سکتا ہے، زبردست ہاضمہ کہ بڑے سے بڑے جانور کے گلے سڑے گوشت کو نگلنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں، تحقیق یہ بتاتی ہے کہ لاکھوں سال پہلے عقاب اور گدھ ایک ہی نسل سے تھے مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ گدھ اور عقاب الگ الگ ہو گئے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں دونوں پرندوں میں ایک بہت نمایاں فرق ہے اور شاید یہی فرق عقاب کو گدھ سے بہت ممتاز کر دیتا ہے اور وہ ہے خود شکار کر کے کھانا جبکہ گدھ کسی اور کے شکار کے مردار پر گزارہ کرتا ہے۔ عالمی سامراجی نظام میں ہم ایک اہم جزو ہیں۔ پرواز کے لیے پر موجود ہیں، اڑان اونچی بھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، عقاب سی نگاہ اور بلندی کا جنوں رکھتے ہیں لیکن اس تخیل سے دور کہ ہم عالمی سطح پر کس نام سے پکارے جائیں۔۔۔ وہ جو اپنا شکار خود کرتے ہیں یا وہ جو کسی کے مارے ہوئے شکار کو نوچتے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے دولے شاہ کے چوہے بلوچستان بنام جناب وزیراعظم پاکستان کیسا ہو گا نیا پاکستان ہماری پالیسیوں کی صورتحال اس وقت کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم آزاد معیشت کے دور میں قرضوں کی زنجیریں پہنے کبھی چین اور کبھی امریکہ کی پالیسیوں کے ہاتھوں اسیر اور کہیں مبہم خارجہ پالیسی اور وقتی فیصلوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ امریکہ بہادر کچھ اور، کچھ اور کے مطالبے کر رہا ہے اور وہ کچھ اور، ہمارے بس میں ہوتے ہوئے بھی بس میں نہیں ہے۔ عالمی گدھ ہمارے اردگرد منڈلا رہے ہیں اور ہمسائے ہمیں نوچنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ صاحب بہادر ایک طویل فہرست ہاتھ میں تھامے شاید حتمی فیصلے کرنے آ رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارا بہترین دوست اس معاملے پر اُن کا ہمنوا ہے کہ اپنا گھر تو سیدھا کرنا ہو گا۔ ایسے میں نوزائیدہ سیاسی جماعت جو اقتدار تو رکھتی ہے، کیا اختیار بھی؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان نے حال ہی میں آٹھ گھنٹے جی ایچ کیو میں گزارے خبریں بری نہیں کہ پنڈی کے بڑے گھر میں پشت پر ہاتھ رکھ کر ہر فیصلے کے پیچھے کھڑے ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ بہت ہی خوش کن، بہت ہی سہانا اور دل کو لبھانے والا تصور کہ سویلین بالادستی ہی اصل وعدہ ہے مگر۔۔۔ یہ بھی پڑھیے یہ امریکی امداد نہیں ’واجب الادا رقم ہے‘: پاکستان اس مگر کے آگے بہت سے سوالات ہیں۔ سیاسی حکومت کے پاس آنے والوں کو دینے والے جوابوں میں کیا ہو گا، خالی نعرے؟ کیا ہم مطالبات کی فہرست پر عملدرآمد کو تیار ہوں گے؟ ہمیں آئندہ چند مہینوں میں نہیں دنوں میں مضبوط معیشت کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے ہیں، مضبوط دفاع کو یقینی بنانا ہے جس کے لیے نئی حکومت کو پیسے چاہییں۔ دمڑی نہ ملی تو چمڑی والی کیفیت سے دو چار یہ مملکت کیا کرے کہ ارباب خوش ہو جائیں۔ ایسے میں ہم محض مقبول فیصلے کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ شاہین بننے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ تحقیق تو بتاتی ہے کہ سفید پشت والے گدھ مردار پر سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ہماری معیشت کسی مردار کا گوشت بن جائے۔ ٭ پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی اب باقاعدگی سے بی بی سی اردو پر کالم تحریر کریں گی اور قارئین ہر منگل کو ان کا نیا کالم پڑھ سکیں گے۔
081002_charsadda_blast_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/10/081002_charsadda_blast_uk
چارسدہ: ولی باغ پر خودکش حملہ
صوبہ سرحد کے ضلع چارسدہ میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نےحکمران جماعت عوامی نینشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کی رہائش گاہ کے سامنے مبینہ خود کش حملہ آور کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا ہے جبکہ اس دوران ہونے والے دھماکے میں پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ حملے میں اے این پی کے رہنما اسفندیار ولی خان خود محفوظ رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس حملے میں چار افراد مارے گئے ہیں تاہم موقع پر موجود ایک سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں مبینہ خودکش حملہ آور سمیت پانچ افراد ہلاک اور اٹھارہ زخمی ہوگئے ہیں۔ صوبہ سرحد پولیس کے سربراہ ملک نوید نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کی دوپہر ایک مبینہ خودکش بمبار ضلع چارسدہ میں واقع عوامی نینشل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی رہائش میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ پولیس نے اسے مشکوک سمجھ کر گولی مار دی۔ ان کے بقول سر میں گولی لگنے کے بعد مشکوک شخص جونہی زمین پر گرا تو اس دوران ایک دھماکہ ہوا۔ ان کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار، اسفندیار ولی کا ایک محافظ اور بینک کا ایک منیجر موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ہیں۔ صوبہ سرحد پولیس کے سربراہ ملک نوید نے مزید کہا کہ مبینہ حملہ آور کا ہدف اسفند یار ولی کا حجرہ تھا جہاں پر وہ درجنوں افراد کے ساتھ موجود عید کی مبارکباد وصول کرنے میں مصروف تھے۔ آئی جی پولیس کے مطابق اسفندیار ولی خان جہاں بیٹھے ہوئے تھے اس جگہ سے یہ واقعہ تقریباً ستر گز دور ہوا ہے۔ ان کے بقول اس قسم کے حملوں کا خطرہ پہلے ہی موجود تھا اسی لیے وہاں پر پولیس کو الرٹ کردیا گیا تھا۔ موقع پر موجود ایک سکیورٹی اہلکار محمد اسحاق نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ڈیوٹی پر مامور تھے کہ تقریباً سترہ یا اٹھارہ سالہ لڑکا آیا اور اس نے رہائش گاہ کے سامنے نصب حفاظتی گیٹ کے سامنے تلاشی دینے سے انکار کرتے ہوئے اسفندیار ولی کی جانب بھاگنے کی کوشش کی۔ چارسدہ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس اب تک تین لاشیں اور اٹھارہ زخمی لائے گئے ہیں۔ ان کے بقول ہلاک ہونے والوں میں دو افراد کو سینے اور پیٹ میں گولیاں لگی ہیں جبکہ تیسرا شخص دھماکہ کے نتیجے میں ہلاک ہوا ہے۔ یاد رہے کہ صوبہ سرحد کی حکمران جماعت عوامی نینشل پارٹی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کر رہی ہے جس کی وجہ سے مبصرین کے بقول وہ علاقہ میں موجود شدت پسندوں کی نشانہ پر ہیں۔ اٹھارہ فروری کے انتخابات سے قبل بھی چارسدہ میں پارٹی کے ایک انتخابی جلسے پر حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ ضلع سوات جہاں پر فوجی آپریشن جاری ہے عوامی نینشل پارٹی کے متعدد مقامی قائدین کو ’ٹارگٹ ’ کلنگ کا نشانہ بنایا گیاہے جبکہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء اور اراکین کے گھروں پر حملے کیے گے ہیں۔تاہم تازہ حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
050314_razzaq_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/03/050314_razzaq_sen
’پاپا سے کہو آرام سے کھیلیں‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر عبدالرزاق کی بیگم کرکٹ سے اتنی زیادہ واقفیت نہیں رکھتیں لیکن جب موہالی ٹیسٹ میں عبدالرزاق وکٹ کیپر کامران اکمل کے ساتھ اپنی ٹیم کو شکست سے بچانے میں مصروف تھے تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹی وی پر میچ دیکھ رہی تھیں اور اسے کہتی جارہی تھیں کہ اپنے پاپا سے کہو کہ آرام سے کھیلیں اور آؤٹ نہ ہوں۔
جب عبدالرزاق میچ کے بعد ہوٹل گئے تو ان کی بیٹی نے بتایا کہ امی اور وہ دعائیں مانگ رہے تھے امی بار بار صرف یہی کہہ رہی تھیں کہ پاپا سے کہو کہ وکٹ پر ٹھہریں اور آؤٹ نہ ہوں۔ عبدالرزاق یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ صرف ون ڈے کے اچھے کھلاڑی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں ایک طرح کی ہی کرکٹ ہے ٹیسٹ کرکٹ میں ٹمپرامنٹ درکار ہوتا ہے۔ ایڈم گلکرسٹ کی بیٹنگ دیکھیں وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ون ڈے کی طرح کھیلتا ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ انہیں سابق کرکٹرز کی طرف سے ان پر ہونے والی تنقید پر بہت افسوس ہوتا ہے پتہ نہیں کہ وہ تنقید کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے وہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ موہالی ٹیسٹ کے بارے میں عبدالرزاق کہتے ہیں کہ یہ ڈرا دراصل ٹیم کی جیت ہے کیونکہ چوتھے دن بڑی مایوسی تھی اور میچ بچانا بہت ہی مشکل نظرآرہا تھا۔ کامران اکمل نے شاندار اننگز کھیلی لیکن جب وہ بیٹنگ کررہا تھا تو انہیں بہت ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ آؤٹ نہ ہوجائے کیونکہ وہ جارحانہ انداز میں بیٹنگ پسند کرتا ہے لہذا انہوں نے کامران کو سمجھایا کہ وکٹ پر تمہاری موجودگی بہت ضروری ہے خیال سے کھیلو اور جذباتی نہ ہو۔
pakistan-54947779
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54947779
کیا پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنی اکلوتی بیٹی کو عاق کردیا تھا؟
یہ 15 نومبر سنہ 1938 کی بات ہے جب قائداعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی دینا جناح نے نیول واڈیا نامی ایک پارسی نژاد عیسائی نوجوان سے شادی کرلی۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ جناح اس شادی سے خوش نہیں تھے۔ انھوں نے اپنے طور پر دینا جناح کو اس شادی سے باز رکھنے کی تمام کوششیں کیں مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ شادی میں شرکت نہ کرنے کے باوجود وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے اس اہم دن پر گلدستہ بھیجنا نہیں بھولے۔ انھوں نے یہ گلدستہ اپنے ڈرائیور عبدالحئی کے ذریعے بھجوایا تھا۔ دینا جناح محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔ 1929 میں صرف 10 برس کی عمر میں وہ اپنی والدہ رتی جناح کے سائے سے محروم ہوگئی تھیں جس کے بعد محمد علی جناح نے فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان کے بجائے انگلستان میں سکونت اختیار کریں چنانچہ وہ اپنی بہن فاطمہ جناح اور دینا جناح کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے۔ محمد علی جناح نے دینا کو کانونٹ سکول میں داخل کروا دیا مگر انھیں سنہ 1934 میں ہندوستان لوٹنا پڑا۔ ان کی واپسی سے پہلے ہی بمبئی کے مسلمانوں نے انھیں اپنی زندگی کے لیے مجلس قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرلیا تھا۔ چنانچہ واپس آتے ہی وہ سیاسی سرگرمیوں میں بری طرح مصروف ہوگئے اور ان کا اور محترمہ فاطمہ جناح کا زیادہ تر قیام دہلی میں رہنے لگا۔ سنہ 1936 میں محمد علی جناح نے دینا کو بھی ہندوستان واپس بلا لیا۔ انھوں نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر دینا کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اسے اس کی ننھیال میں چھوڑ دیا جائے۔ یہ فیصلہ اس حوالے سے تو بڑا اچھا ثابت ہوا کہ دینا کو ایک محبت سے بھرپور فضا میسر آگئی مگر اس حوالے سے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک سراسر غیر اسلامی ماحول میں ڈھل گئیں۔ یہ بھی پڑھیے محمد علی جناح کی بیٹی دینا واڈیا انتقال کر گئیں دینا واڈیا: آزادی کے رہنماؤں سے آخری تعلق بھی ختم ممبئی میں ’جناح ہاؤس کو مسمار‘ کرنے کی تجویز سر ڈنشا پیٹٹ اور لیڈی پیٹٹ پارسیوں کے انتہائی معزز ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا خاندان بہت آزاد خیال اور جدت پسند واقع ہوا تھا۔ دینا آہستہ آہستہ اس ماحول کے رنگ میں رنگتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ رفتہ رفتہ اسلام اور اس کی رسوم و رواج حتیٰ کہ اپنے والد کے اصولوں سے دور ہٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک پارسی نژاد عیسائی شخص نیول واڈیا سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ جب قائداعظم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انھیں سخت فکر لاحق ہوئی۔ انھوں نے پہلے تو خود دینا کو اس روش پر چلنے سے روکنا چاہا۔ انھیں سمجھایا، بجھایا، افہام و تفہیم سے کام لے کر اسے اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد انھوں نے مشہور مسلمان رہنما مولانا شوکت علی کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ دینا کو اسلام کے اصولوں اور ان کی اہمیت سے روشناس کروائیں۔ مگر وہ بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دینا کے خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ قائداعظم کے ایک دوست جسٹس ایم سی چھاگلہ نے اپنی سوانح حیات 'روزز ان دسمبر میں لکھا: ’جناح نے حسب معمول اپنے نادر شاہی انداز میں دینا سے کہا ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے موجود ہیں اور وہ جسے پسند کرے اسی کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی۔‘ اس پر دینا نے جو حاضر جوابی میں اپنے باپ سے بڑھ کر تھی، برجستہ کہا ’ابا جان! ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں موجود تھیں، آپ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی تھی؟‘ ’پاپا نے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں فیصلہ سنایا‘ دینا نے اپنی شادی کے ایک طویل عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’پاپا نے میری بات سکون سے سننے کے بعد انتہائی متانت سے جواب دیا 'میری پیاری بیٹی، تمھاری ممی نے بھی مجھ کو منتخب کرنے کے بعد اپنے ڈیڈی سے شادی کی اجازت طلب کی تھی جو انھوں نے بطبیب خاطر دے دی تھی۔ میں بھی تمھیں اس کی خوشی کے ساتھ اجازت دوں گا لیکن شرط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ تمھارا ہونے والا شوہر اسلام قبول کرلے تاکہ تمھارا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہوسکے۔‘ پھر پاپا نے نہایت شفقت سے مجھے ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی عقائد میں ہم آہنگی سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔‘ ’پاپا نے یہ سب باتیں کسی قسم کے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں کہیں۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ پاپا کا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ میری زندگی کا پہلا فیصلہ کن مرحلہ ہے، میں نے پاپا سے وعدہ کیا کہ میں اپنے شوہر کے اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گی اور اگر ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں پاپا کی رہنمائی بھی حاصل کروں گی۔‘ ’جب میں نے مسٹر واڈیا سے شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے متعلق کہا تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف صاف انکار کردیا۔ اب میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو میں اپنے باپ کی خواہشات کے مطابق مسٹر واڈیا سے شادی کرنے سے انکار کردوں یا مسٹر واڈیا سے شادی کر کے باپ کی ناراضی مول لے لوں۔ میں نے دل میں کہا، واڈیا سے شادی کر لینی چاہیے باپ آخر باپ ہے چند دن، مہینے، ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ناراض رہنے کے بعد خود بخود مان جائیں گے چنانچہ میں نے ایک دن پاپا کو اپنے اس ارادے سے مطلع کردیا۔‘ ’میری باتیں سننے کے بعد پاپا نے برف کی سی ٹھنڈک کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’بیٹی، تم جانتی ہو کہ تمھارے سوا میری اور کوئی اولاد نہیں۔ مجھے تم سے جتنی محبت ہے اس کا اندازہ لگانا تمھارے لیے ممکن نہیں۔ میرا بیٹا بھی کوئی نہیں اس لیے لے دے کے زندگی میں تم ہی میری آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہو لیکن اب تم بالغ ہو۔ میں تمھارے فیصلے میں دیوار بننا پسند نہیں کرتا۔ اب تم میرا فیصلہ بھی سن لو اگر تم نے جان بوجھ کر برضا ورغبت ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تم شرع محمدی کے مطابق مسلمان نہیں رہ سکتیں۔ تم مرتد قرار پاؤ گی۔ اسلام خون کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اس لیے اس کے بعد تم میری اصطلاحی بیٹی تو شاید کہلا سکو۔ لیکن درحقیقت تم میری بیٹی اور میں تمہارا باپ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس فیصلے کے بعد جونھی تم میرے گھر کی چار دیواری سے باہر پاؤں رکھوگی تمھارے اور میرے درمیان تمام تعلقات منقطع متصور ہوں گے۔‘ ’تھوڑی دیر توقف کے بعد پاپا نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا ’کاش میں تمھیں تمھارے فیصلے سے باز رکھ سکتا۔ کاش، تمھیں معلوم ہوتا کہ میرے سینے میں باپ کے دل کی جس کی ایک ہی بیٹی ہو کیفیت کیا ہے، لیکن میں اسلامی احکام کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور لاچار پاتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر پاپا گردن جھکائے ہوئے میری سسکیوں کے درمیان اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔‘ ’جب میرے پاپا مجھ سے یہ گفتگو کر رہے تھے تو ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ کسی اور ہی دنیا کے نظر آتے تھے۔‘ قائداعظم کے بیشتر سوانح نگاروں نے جن میں سٹینلے وولپرٹ تک شامل ہیں، یہ لکھا کہ قائداعظم نے شادی کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی سے کبھی گفتگو نہیں کی۔ بعض مصنفین نے یہاں تک لکھا کہ جب قائداعظم شدید علیل ہوئے اور ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو دینا نے باپ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، مگر قائداعظم نے اس ملاقات کی بھی اجازت نہ دی۔ اس طرح وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ دینا کی اور دینا ان کی شکل نہ دیکھ سکی۔ مگر حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ 30 مئی 1939 کو قائداعظم نے اپنا آخری وصیت نامہ تحریر کیا۔ اس وصیت نامے کی پہلی شق تھی، یہ میرا آخری وصیت نامہ ہے۔ میں اپنے دیگر وصیت نامے منسوخ کرتا ہوں۔ دوسری شق میں انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح، سولسٹر محمد علی چائے والا اور نواب زادہ لیاقت علی خان کو اس وصیت نامے کا موصی، عامل اور ٹرسٹی مقرر کیا۔ اس وصیت نامے کی شق نمبر10 میں واضح طور پر تحریر تھا کہ ’میں اپنے عاملین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ 200000روپے (دو لاکھ یا دو سو ہزار) مختص کر دیں جن سے چھ فی صد کے حساب سے ایک ہزار روپے آمدنی ہوگی اور وہ اس سے جو بھی آمدنی ہو ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات ادا کریں اور اس کی وفات کے بعد دو لاکھ کی مذکورہ رقم اس کے بچوں، لڑکے یا لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیں اور بے اولاد ہونے کی صورت میں وہ رقم میری بقیہ جائیداد کا حصہ شمار ہوگی۔‘ قائداعظم نے اپنی وصیت میں واضح طور پر اپنی بیٹی کو اپنی جائیداد کے ایک حصے کا وارث قرار دیا مگر اس کے باوجود چند برس تک وہ اپنی بیٹی سے ملنے سے گریز کرتے رہے۔ جبکہ دینا مسلسل کوشش کرتی رہیں کہ ان کے تعلقات ان کے والد سے دوبارہ استوار ہوجائیں۔ اپریل 1941 میں قائداعظم مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران بیمار ہوگئے۔ یہ خبر دینا کو ملی تو اس نے فوری طور پر ایک ٹیلی گرا م کے ذریعے اپنے والد کی خیریت دریافت کی۔ ٹیلی گرام کی عبارت یہ تھی: ’ایم اے جناح، صدر مسلم لیگ مدراس، آپ کی صحت کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ بہت پیار دینا بائی۔‘ یہ ٹیلی گرام حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ میں آج بھی محفوظ ہے۔ سنہ 1943 کے لگ بھگ دینا اور ان کے شوہر نیول واڈیا میں علیحدگی ہوگئی۔ اس وقت تک دینا دو بچوں، بیٹی ڈائنا اور بیٹے نصلی کی ماں بن چکی تھیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد قائداعظم اور ان کی بیٹی میں ایک مرتبہ پھر روابط استوار ہوگئے، گو اب ان میں پہلی جیسی گرم جوشی موجود نہ تھی۔ دینا اپنی ایک یادداشت میں تحریر کرتی ہیں: ’میرے والد اگرچہ اپنے جذبات کو چھپانے والے شخص تھے لیکن وہ ایک محبت کرنے والے باپ تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات سنہ 1946 میں بمبئی میں ہوئی۔ وہ نئی دہلی سے آئے تھے جہاں وہ انتہائی اہم مذاکرات میں مصروف رہے تھے۔ انھوں نے مجھے فون کیا اور مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت میری بیٹی ڈائنا پانچ برس کی اور بیٹا نصلی دو برس کا تھا۔ وہ تمام وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں بولتے رہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ پاکستان ناگزیر ہے۔ وہ دہلی میں انتہائی مصروف وقت گزار کر آئے تھے مگر ہمارے لیے تحفے خریدنا نہیں بھولے تھے۔ جب ہم ان سے رخصت ہونے لگے تو وہ نصلی کو بازوؤں میں جکڑنے کے لیے جھکے۔ ان کی سرمئی ٹوپی، جو وہ اب اکثر پہننے لگے تھے اور جو انھی کے نام کی نسبت سے جناح کیپ کہلانے لگی تھی، نصلی کے ہاتھ میں آگئی۔ میرے والد نے اگلے ہی لمحے وہ ٹوپی نصلی کے سر پر رکھ دی اور بولے ’میرے بچے! یہ تمہاری ہوئی۔‘ نصلی یہ تحفہ پا کر بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ واقعہ اس لیے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سے میرے والد کی وہ بے کراں محبت ظاہر ہوتی ہے جو ان کے دل میں میرے اور میرے بچوں کے لیے تھی۔‘ ’میرے والد کے کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ بہت متکبر تھے۔ یہ غلط ہے۔ دراصل وہ جیسے کو تیسا کے قائل تھے۔ وہ میری طرح ایک بہت نجی شخص تھے۔ اصولوں کی خاطر وہ اپنا سر ہمیشہ اونچا رکھتے تھے۔ وہ خود سے اور دوسروں سے عوامی یا ذاتی زندگی میں کبھی جھوٹ بھی نہیں بولتے تھے۔ جب لوگ ان کے بارے میں غلط سلط باتیں کرتے ہیں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ ایسے لوگ جو ان سے کبھی ملے تک نہیں وہ بھی میرے اور میرے والد کے تعلق کے حوالے سے غلط باتیں بیان کرتے ہیں۔ وہ میرے والد کو عام انسانوں کی سطح پر لانے کے لیے داستان طرازیوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں: ’برصغیر نے مسلمانوں کے بہت سے رہنما پیدا کیے مگر میرے والد کے علاوہ کسی نے انھیں ایک آزاد ملک نہیں دلوایا۔ اہل پاکستان کو اگر میرے والد پر فخر ہے تو بالکل ٹھیک فخر ہے۔ جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔‘ قائداعظم اور دینا میں قیام پاکستان سے کچھ پہلے تک باقاعدہ خط کتابت بھی رہی۔ اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ڈپارٹمنٹ آف آرکائیوز میں دینا کے ایسے کئی خطوط موجود ہیں جو انھوں نے اپنے عظیم باپ کو وقتاً فوقتاً تحریر کیے تھے۔ ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دینا اپنے باپ کی سیاسی سرگرمیوں سے نہ صرف لمحہ بہ لمحہ باخبر رہتی تھیں بلکہ ان پر اظہار رائے بھی کرتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے ایک خط میں جو 28 اپریل سنہ1947 کو لکھا گیا تھا، قائداعظم کو مبارک باد پیش کی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک خط میں جو دو جون1947 سنہ کو شروع ہوا اور پانچ جون تک لکھا جاتا رہا، قائداعظم کی اس تاریخی تقریر پر اظہار رائے کیا گیا جو انھوں نے تین جون سنہ 1947 کو آل انڈیا ریڈیو سے کی تھی۔ اس خط میں دینا نے لکھا: ’میں نے تین جون کو آپ کی تقریر سنی۔۔۔ میرا خیال ہے آپ کی تقریر بہترین اور برمحل تھی۔ اگرچہ آپ وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکے جو آپ چاہتے تھے مگر جو کچھ آپ کو مل گیا ہے کانگریس سے وہ بھی ہضم نہیں ہوگا۔ ہندو پاکستان کے مطالبے کے مانے جانے اور دو آزاد ریاستوں کے قیام سے بہت ناخوش ہیں۔ تاہم آپ کا اصل کام تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوگا۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ اس میں بھی کامیاب رہیں گے۔‘ 28 اپریل1947 سنہ کے خط میں دینا نے قائداعظم کو یہ بھی لکھا تھا: ’میں نے سنا ہے کہ آپ نے ’ساؤتھ کورٹ‘ بیس لاکھ روپے میں ڈالمیا کو بیچ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی قیمت ہے اور یقیناً آپ بھی خوش ہوں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان کی قیمت میں فرنیچر اور رتی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ رتی کی کتابوں میں سے کچھ کتابیں بالخصوص بائرن، شیلے اور آسکر وائلڈ کے شعری مجموعے مجھے دلوا دیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں مطالعہ کی کتنی شوقین ہوں اور یہاں بمبئی میں اچھی کتابوں کا حصول کتنا مشکل ہے۔‘ تین اور پانچ جون والے خط میں دینا نے ایک مرتبہ پھر سائوتھ کورٹ کا ذکر کیا اور لکھا: ’مجھے افسوس ہے کہ سائوتھ کورٹ کو فروخت کرنے والی اطلاع غلط ثابت ہوئی۔ میں نے اس بارے میں فورم میگزین میں پڑھا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کا رسالہ اس قدر جھوٹی خبریں شائع کرتا ہے۔‘ سائوتھ کورٹ میں قائداعظم کا جو فرنیچر اور ذاتی اشیا تھیں، انھیں قائداعظم کے دوست رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے اپنی نگرانی میں پیک کروایا اور برٹش انڈیا کے بحری جہازوں دوارکا اور دمرا کے ذریعہ کراچی بھجوا دیا۔ کراچی میں لکڑی کے ان بڑے بڑے صندوقوں کے میکننز کے منیجر اقبال شفیع نے وصول کیا۔ لگتا ہے کہ ان صندوقوں میں رتی کی کتابیں بھی تھیں۔۔۔ قائداعظم کا یہ فرنیچر اس وقت فلیگ سٹاف ہاؤس (قائداعظم ہاؤس) کراچی میں موجود ہے۔ جبکہ رتی کی کتابیں جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے قائداعظم سیکشن کی زینت ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد دینا اپنے بچوں کے ہمراہ بمبئی میں مقیم رہیں۔ ایک روایت کے مطابق قائداعظم کی علالت کی خبریں سن کر دینا نے ان کی عیادت کے لیے پاکستان آنا چاہا مگر قائداعظم کی ذاتی ہدایات کے باعث انھیں ویزا جاری نہیں کیا گیا۔ 11 ستمبر 1948 کو قائداعظم وفات پا گئے۔ 12 ستمبر 1948 کو صبح سوا آٹھ بجے گورنر جنرل کا ایک طیارہ خصوصی طور پر انڈیا گیا جہاں سے وہ دینا کو لے کر شام سوا پانچ بجے واپس کراچی آگیا۔۔۔ اس وقت تک قائداعظم کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔ روزنامہ جنگ کراچی نے تدفین کی خبر رقم کرتے ہوئے تحریر کیا: ’قائداعظم کی اکلوتی صاحبزادی مسز نیوائل واڈیا ایک خاص طیارے میں بمبئی سے کراچی پہنچیں تاکہ اپنے مرحوم باپ کا آخری دیدار کرلیں۔‘ اسی خبر میں آگے چل کر مزید کہا گیا تھا: ’مس فاطمہ جناح علی الصبح سے برابر رو رہی تھیں۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ قائداعظم کی صاحبزادی کے آجانے سے ذرا آپ کو تسلی ہوئی۔‘ دینا کے بیان کے علاوہ قائداعظم کی تدفین کے موقع پر دینا جناح کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعہ انڈیا سے بلوایا جانا بھی اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ قائداعظم اپنی بیٹی کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، والا افسانہ محض افسانہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ قائداعظم کی تدفین کے اگلے روز 13 ستمبر1948 کو محترمہ فاطمہ جناح اور دینا واڈیا فلیگ سٹاف ہاؤس تشریف لے گئیں جسے نہ تو قائداعظم نے خود تعمیر کرایا تھا اور نہ ہی اس میں کبھی رہے تھے۔ ان کی وہ ذاتی اشیا جو گورنر جنرل ہاؤس میں استعمال نہیں کی جاسکتی تھیں، اس عمارت میں محفوظ کردی گئی تھیں۔ ان میں عمدہ قسم کے قالین اور فرنیچر بھی شامل تھا۔ مسز واڈیا فلیگ سٹاف ہاؤس کے کمروں میں گئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس موقع پر انھوں نے بہت ساری اشیا شناخت کرلیں۔ انھیں ان کی خریداری کا سال اور جگہ بھی یاد تھی۔ انھیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آرہا تھا جو قائداعظم نے اس چیز کے متعلق فرمایا تھا۔ یہ بات اور بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ ان اشیا کو تقریباً 10 سال سے وہ نہیں دیکھ سکی تھیں۔ قائداعظم کی وفات کے 55 برس کے بعد 23 مارچ سنہ 2004 کو دینا جناح ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لائیں۔ اس مرتبہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلی جانے والی ایک روزہ کرکٹ سیریز کے آخری میچ کو دیکھنے کے لیے پاکستان آئی تھیں اور انھیں اس دورے کی دعوت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے دی تھی۔ ان کے ہمراہ ان کے بیٹے نصلی واڈیا، بہو اور پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی تھے۔ پاکستان میں انھیں سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا اور یہاں ان کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد ہوئیں۔ 26 مارچ سنہ 2004 کو محترمہ دینا واڈیا اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے کے لیے کراچی تشریف لائیں جہاں انھوں نے 56 برس بعد اپنے والد کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور کچھ دیر احتراماً خاموش کھڑی رہیں۔ انھوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کئے کہ’آج کا دن میرے لیے انتہائی دکھ کا اور حیرت انگیز دن ہے خدا کرے کہ قائداعظم نے پاکستان کے لیے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہو۔‘ اس موقع پر انھوں نے اپنی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح کے مزار پر بھی حاضری دی اور مزار قائد کے کمرہ نوادرات کو بھی دلچسپی سے دیکھا۔ انھوں نے وہاں نمائش پزیر تصویروں میں سے تین تصاویر کی نقول بھی مانگیں، بعدازاں انھوں نے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ہمراہ فلیگ سٹاف ہاؤس اور وزیر مینشن کا دورہ بھی کیا۔ انھوں نے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مختلف شخصیات سے ملاقات بھی کی اور سات گھنٹے قیام کے بعد ممبئی واپس روانہ ہوگئیں۔ دو نومبر سنہ 2017 کو دینا جناح 98 سال کی عمر میں نیویارک میں وفات پاگئیں۔
world-51987167
https://www.bbc.com/urdu/world-51987167
کورونا وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟
اپنے اپارٹمنٹ میں مقید ہو کر میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ خوف نے کیسے امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ امریکی شہریوں کی بڑی تعداد اس کورونا وائرس سے متاثر ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کا سب سے طاقتور ملک اس وائرس کے علاج کی تگ ودو میں ہے، جس وائرس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض ایک سیاسی افوا قرار دیا تھا۔
یہ وہ ملک ہے جسے باہر سے دیکھنے والے ہر لحاظ سے ایک محفوظ جگہ تصور کرتے ہیں اور یہاں آ کر پرسکون زندگی گزارنے کی خواہش میں وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو خطرے میں ڈال کر اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن چند دنوں میں ہی یہ ملک اب بدل چکا ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے 260 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ اس وائرس سے 19624 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ابھی کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ صورتحال کتنی بگڑ سکتی ہے اور کب تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔ یہ بھی پڑھیے کورونا وائرس کا خوف امریکہ کو کیسے متاثر کر رہا ہے کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت امریکہ میں بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کیسے اندرونی طور پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو رہا ہو اس پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کے رہنما اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے پیچھے نہیں رہتے۔ امریکہ کے وفاقی تحفظ صحت ایجنسی کے بیماریوں پر قابو پانے اور بچانے والے ادارے (سی ڈی سی) کے سابق ڈائریکٹر ٹام فرائیڈن نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ زیادہ خراب صورتحال میں، جو کہ دکھائی دے رہی ہے، امریکہ کی آدھی آبادی کووڈ-19 وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ایک ملین سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی صورتحال وہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ یہاں سے لوگ اپنے آبائی وطن واپس جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جن چینی والدین نے بڑے فخر سے اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ یا لندن بھجوایا تھا وہ اب انھیں ماسک اور سینٹائزر بھیج رہے ہیں یا انھیں جلد از جلد گھر واپس بلا رہے ہیں جس پر 25 ہزار ڈالر تک خرچ آ سکتا ہے۔ دو ماہ پہلے تک چین اس وائرس پر قابو پانے کی تگ ودو میں تھا تاکہ اموات سے بچا جا سکے مشرقی چین سے آئے 24 برس کی طالب علم جنھوں نے حال ہی میں گریجوئیشن کی ہے نے بتایا ہے کہ وہ اپنی روم میٹ کے ساتھ واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔ دو ماہ پہلے تک چین اس وائرس پر قابو پانے کی تگ ودو میں تھا تاکہ اموات سے بچا جا سکے۔ امریکہ میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ٹیسٹ کرنے اور بچاو کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ صدر ٹرمپ نے جنوری میں ڈیوس میں ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر سی این بی سی کو بتایا کہ ہم نے اسے مکمل قابو میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین سے جو اطلاعات آ رہی ہیں ان کا اس پر مکمل اعتماد ہے۔ صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ یہ دیکھنا باعث تعجب ہے کہ کیسے امریکہ میں ہیلتھ کیئر سے شروع ہونے والی کئی دن کی سیاسی گہما گہمی والی بحث آخر میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ پر ختم ہوئی۔ ہیلتھ کیئر ایجنسی (سی ڈی ایس) نے کورونا وائرس سے متعلق اپنا ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا لیکن مینوفیکچرنگ خامیوں کی وجہ سے ابتدائی ٹیسٹ کے حاصل ہونے والے ابتدائی نتائج بے نتیجہ ہی رہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔ اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں رپورٹس کے مطابق کاٹن سویب، دستانوں (گلوز) اور دیگر آلات کی کمی کی وجہ سے کورونا کے ٹیسٹ مطلوبہ رفتار سے نہیں ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے لوگوں نے حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو صدر ٹرمپ نے اجلاس اور کانفرنسز شروع کردیں اور کیمروں کے سامنے اپنی انتظامیہ کو متحرک کر دیا جو ٹی وی پر بھرپور مدد اور اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں۔ امریکی صحافی ڈیوڈ ویلاس ویلس نے اپنے ایک کالم America is broken میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی خوب خبر لی۔ انھوں نہ لکھا کہ یہ کتنا افسوسناک ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کا نظام نجی کمپنیوں اور مخیر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے جہاں امریکہ میں بھی ضرورت کے اس وقت میں اس وبا سے متعلق ضروری طبی امداد فراہم کریں گے۔ ہمارے موجودہ نظام کی خرابی کی اس سے زیادہ بھیانک مثال کیا ہوگی کہ صفِ اول کے طبی اداروں اور انشورنس کمپنیوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فیس معاف کرنے یا مشترکہ ادائیگی پر زبردستی مجبور کرنا پڑا۔ اگر ٹیسٹ دستیاب بھی ہوں تو بہت سارے اسے برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اگر آپ کی انشورنس نہیں ہے تو آپ انتہائی خطرے میں ہیں۔ صحافی کارل گبسن نے انشورنس نہیں کرائی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ کورونا وائرس کے دور میں رہنا کتنا خوفناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سڑک پر موٹر سائیکل سے گرنے کے بعد جب میں 2013 میں ڈاکٹر کے پاس گیا تو زیادہ فیس دیکھ کر پھر کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس ہی نہیں گیا ہوں۔ چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر نے میرے بازو پر پٹی باندھی، درد کی دوا لکھی اور مجھے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اتنے سے کام کے لیے مجھے 4000$ سے بھی زیادہ دینے پڑے۔ اور جو میں نہیں دیکھ سکا وہ آج تک میرا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نہ کوئی اپارٹمنٹ کرائے پر لے سکتا ہوں اور نہ ہی گاڑی خرید سکتا ہوں۔ سنہ 2018 تک امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 27.5 ملین لوگ جو کہ کل آبادی کا 8.5 فیصد بنتے ہیں نے ہیلتھ انشورنس نہیں کرا رکھی ہے۔ عوامی احتجاج کے بعد دباؤ میں آکر امریکی حکومت نے کورونا وائرس کے جلد اور مفت ٹیسٹ کی سہولت کا قانون بنایا ہے۔ تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکیوں جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں میں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس کے صحن میں کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ملین کے حساب سے ماسک تیار کیے جارہے ہیں تاہم زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ تقریباً پانچ لاکھ بے گھر امریکی جو کیمپ، پناہ گاہوں اور گلیوں میں رہتے ہیں اس وبا کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات ہیں ایسی افسوسناک اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی ریاست سیٹل میں ڈاکٹر پلاسٹک شیٹ سے اپنے لیے ماسک خود تیار کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق صحت اور ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن نے کنسٹرکشن کمپنیوں، دانتو اور جانوروں کے ڈاکٹرز سمیت دیگر گروپس جن کے پاس ماسک ہو سکتے ہیں سے ماسک عطیہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایک ایمرجنسی روم میں ڈاکٹرز کو زائدلمدت والے ماسک دیے گئے اور جب انھوں نے ان ماسک کو باندھنے کی کوشش کی تو ان کی ربڑ ڈھیلی پڑ گئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انھیں محض صرف ایک ماسک ہی دیا جا رہا ہے جسے وہ لامتناہی وقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اسے صاف کر کے دوبارہ استعامل کر رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کتنا موثر ہو سکتا ہے۔ شگاگو میں ایک میڈیکل سنٹر پر ہسپتال کے عملے نے ’واش ایبل لیب گوگلز‘ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔ بروکلن میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ماسک کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے تک ایک ماسک کو استعمال کرتے رہے۔ ترقی یافتہ ملک سے غیر معمولی قسم کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی محکمہ صحت (سی ڈی ایس) نے یہ اعلان کرنے کی بھی کوشش کی کہ ماسک کی کمی کی وجہ سے اگر ضروری ہو تو منہ کو ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سکارف کا استعمال کیا جائے۔ سی ڈی ایس کے مطابق جہاں اگر ماسک دستیاب نہ ہوں تو پھر آخری آپشن کے طور پر گھر کے بنائے ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں تاکہ کووڈ-19 کے متاثرہ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کی جا سکے۔ ہیلتھ کیئر کے محکمے میں کام کرنے والے اس صورتحال پر سخت غصے میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی ڈی ایس کے یہ اقدامات انھیں اور ان کے خاندانوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔ اس طرح کی صورتحال میں مریض جب سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے تو پھر ایسے میں وینٹیلیٹر انتہائی زیادہ ضروری ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کے پاس اس وقت 160،000 وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 89،000 ابھی سٹاک میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بہت زیادہ وینٹیلیٹر کی ضرورت ہے۔ اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی لیکن اس صورتحال کی انتہا دیکھیں۔ اس ملک میں اکثر پیشگی تیاریوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کورونا سے نجات حاصل کرنے کے لیےل بنکرز کی فروخت کی مثال ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق اگر یہ وبا 1968 کی طرح کی ہوتی جو ایک انفلوئنزا اے (فُلو) کی وجہ سے پھوٹی تو اس کے لیے ایک ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت ہوتی۔ تقریباً 38 ملین کو میڈیکل کیئر کی ضرورت ہوتی اور دو لاکھ کو آئی سی یو کی ضرورت ہوتی۔ اگر یہ 1918 کی فلو کی وبا کی طرح کی ہوتی تو اس کے لیے 9.6 ملین کو ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت پڑتی اور 2.9 ملین کو آئی سی یو کی ضرورت رہتی۔ سنہ 1968 کی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ایک ملین سے زائد بنتی ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی بھی شامل تھے۔ سنہ 1918 میں فلو سے 500 ملین افراد متاثر ہوئے جو دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی بنتا ہے۔ اس وبا سے 50 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جس میں 675000 امریکی تھے۔ امریکہ میں ہسپتال سے متعلق ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ بھر کی ہسپتالوں میں 924،107 بستر اور 46،825 بستر میڈیکل سرجیکل انٹینسو کیئر والے ہیں اور 50،000 سے زائد کارڈیالوجی اور دیگر امراض کے لیے بستر دستیاب ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مطلوبہ بستر کی تعداد میں بڑا فرق ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ امریکہ کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے تقریباً 2.8 بستر دستیاب ہیں۔ اتنے ہی افراد کے لیے جنوبی کوریا کے پاس 12 بستر سے زائد دستیاب ہیں۔ چین کے پاس ایک ہزار افراد کے لیے 4.3 بستر دستیاب ہیں۔ اس طرح کے موازنے جاری رہیں گے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صحت کے شعبے میں ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد مختص کردیے ہیں۔
050227_tel_aviv_blast_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/02/050227_tel_aviv_blast_yourviews
تل ابیب حملہ: آپ کی رائے
اسرائیل کے شہر تل ابیب کے نائٹ کلب میں ہونے والے حالیہ خودکش حملے کی وجہ سے اسرائیل۔فلسطینی تنازعہ کے حل کی جانب ہونے والی پیش رفت پر نئے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے دھمکی دی ہے کہ اگر شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کی گئی تو قیام امن کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
شدت پسند تنظیم اسلامی جہاد کے فلسطینی دفتر نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ شام میں اسلامی جہاد کے دفتر سے ایک وڈیو کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اس حملے کے لئے شام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ وہائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں صدر جارج بش نے اس کی پوری شدت سے مذمت کی ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی پولیس نے علیحدہ علیحدہ کارروائیوں میں حملے کے سلسلے میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے۔ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس نے حملے کے ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی بات کی ہے۔ سکیورٹی کے حالات کے مدنظر فلسطینی کو ریاست کا درجہ دینے کے سلسلے میں لندن میں ہونے والی کانفرنس میں فلسطینی وزیراعظم احمد قریعہ شریک نہیں ہوسکیں گے۔ آپ کے خیالات میں تل ابیب کے نائٹ کلب میں ہونے والے حملے کا مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے۔ محمد علی، کراچی:اس بم حملے میں اسرائیل خود ملوث نظر آتا ہے کیونکہ مسلمان ممالک قیامِ امن کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتے۔ عبدالغفور، ٹورنٹو:خود کش حملے سے مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کی طرف دنیا کی توجہ تو دلائی جا سکتی ہے مگر یہ قتل و غارت کسی طرح سے بھی اس مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ آج جب کہ پوری دنیا مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کے حل کی خواہاں ہے تو اس وقت طرفین کو مذاکرات پر زور دینا چاہیے۔ گل انقلابی، دادو:اسرائیل اور پاکستان دونوں جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے پٹھو ہیں۔ یہ دونوں ملک مذہب کے نام پر بنے تھے اور ان کے وجود میں آنے سے اب تک یہ سی آئی اے کی سرگرمیوں کا گڑھ رہے ہیں جو ان خطوں میں قوموں اور عوام کی جائز تحریکوں کو کچلنے کی ذمہ دار رہی ہے۔ جب تک یہ دونوں ممالک اپنی موجودہ شکل میں قائم ہیں، ان خطوں میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا۔ راشد علی، ٹورنٹو:اسرائیل کا وجود اسلامی دنیا کے سینے میں خنجر کی طرح ہے۔ اسرائیلیوں کو امریکہ اور ’مہذب کہلانے والی دنیا‘ کی حمایت حاصل ہے۔ حقیقت میں معربی دنیا اخلاقی تباہی کے دہانے پر ہے۔ گنج بخش یوسف زئی، مردان:بش، شیرون اور مشرف کی تکون ان خطوں میں لوگوں کی خواہشات کو ناکام کرنے کی پوری کوشش میں مصروف ہے۔ بدی کا اصل محور امریکہ اسرائیل، اور پاکستان ہیں۔ یاسر، میرپور:مومن ہو تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی شاہد جاوید، امریکہ:جب کچھ دن پہلے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی مارے گئے تھے تو اس وقت شیرون کو کچھ یاد نہیں آیا کہ اس سے امن کی کوششوں پر برا اثر پڑ سکتا ہے؟ وقار اعوان، کراچی:ہر جگہ دونوں طرف کے سبھی لوگ ایک جیسے خیالات نہیں رکھتے۔ اگر امن ہوجائے تو فلسطین اور اسرائیل کے کئی لوگوں کا روزگار بند ہوجائے گا۔ جب تک یہ مسئلہ جاری ہے ان کی طوطی بولتی رہے گی۔ اسی لیے امن قایم ہونا مشکل لگتا ہے۔ ہارون رشید، سیالکوٹ:جب تک اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، مشرقِ وسطیٰ میں یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ آخر کیا وجوہات ہیں جو اقوامِ متحدہ کو اس مسئلے کے حل سے روک رہی ہیں؟ دنیا میں امن کے لیے ہمیں برداشت سے کام لینا ہوگا۔ جبل بلوچ، خضدار:میرے خیال میں سی آئی اے، آئی ایس آئی اور موساد جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی میں جنگ اور دہشت گردی کے لئے ذمہ دار ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ ان علاقوں کی قومیں کبھی بھی صحیح آزادی نہ حاصل کرسکیں۔ بش، مشرف اور شیرون ایک ہی سکے کے چہرے ہیں۔ محمد حسن، چترال:میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی لڑائی کے منفی پہلوؤں کو نظرانداز کرکے مذاکرات کریں۔ انہیں امن اور ترقی کی جانب پیش قدمی کرنی ہے۔ اسرائیلیوں کو بھی چاہئے کہ اس طرح چند واقعات کو نظر انداز کریں، فلسطینی بھی ایسا کریں۔ اگر امن کی خواہش ہے تو تشدد اور دھمکیوں کی جگہ اعتدال پسندی کو ترجیح دینی ہوگی۔ اشعر سلمان، پاکستان:جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی یہودی بستیوں اور متنازعہ دیوار کو ختم کرنے کے لئے کتنی مخالفت ہورہی ہے۔۔۔۔ جنم سندھی، ٹھٹہ:یہ آئی ایس آئی کی ایک اور کوشش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوشش کو ناکام بنادیا جائے۔۔۔۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد سندھ:فلسطینی تنظیمیں وہ کررہی ہیں جس کی ان کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ فلسطینین اتھارٹی کے پاس صرف امریکی اور اسرائیلی حمایت حاصل ہے۔۔۔۔ محمد سعید شیخ، بحرین:ہر خود کش دھماکہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کوئی بھی فلسطینی اسرائیل کے کھوکھلے امن دعووں سے مطمئن نہیں ہے اور سب یہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کبھی بھی امن پسند نہیں رہا اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ وہ اس قسم کے حادثات کو بہانہ بناکر صرف مسلمانوں پر حملے کرنے کا جواز تلاش کرتا ہے۔ قیام امن کی کوشش صرف ایک سبز باغ ہے جو اسرائیل دنیا کو دکھاکر اس کی آڑ میں اپنا ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے۔ نغمانہ نیازی، اسلام آباد:مسٹر بش اور شیرون کی چالاکیاں اور مظلوم فلسطینیوں اور دوسرے مسلم عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جب تک پٹھو مسلمان حکمران ہیں۔۔۔۔ شاہد احمد، امریکہ:اسرائیل امن کے عمل کو روکنے کے لئے بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔۔ نوید نقوی، کراچی:اثر تو تب پڑے گا جب امن کوشش ہورہی ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل خود فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں چاہتا اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اس نے خود یہ حملہ کرایا ہے تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔۔۔۔ عبدالمجید، اسلام آباد:وہ کون سا دن ہے جب فلسطینی نہیں مرتے۔۔۔۔اب تو چار کے مرنے پر کوئی خبر بھی نہیں بنتی۔ مگر جب کوئی اس طرح کا دھماکہ ہوتا ہے تو پھر امن کے خلاف ہونے والی سازشوں پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔ نہ کبھی مڈل ایسٹ میں امن تھا اور نہ ہی مستقبل قریب میں ہونے کا امکان ہے جب تک اسرائیل اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتا۔۔۔۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی:دونوں طرف کی ہلاکتوں میں نقصان عام اور بےقصور عوام کا ہوتا ہے، خون ان کا ناحق بہتا ہے جن کا قصور کوئی نہیں ہوتا۔ حکومت کرنے والے اور حکومتیں صرف گھر پھونک تماشہ دیکھتے ہیں۔ امن کی کوشش کا کہنے والوں کو ایک آخری موقع دے کر دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ کوئی نہیں، اور یہ اور اس طرح کے حملے بش اور ان کی حکومت کو بہت کلیر نظر آتے ہیں۔۔۔۔ اعجاز ملغنی، لاہور:قیام امن کے لئے اسرائیل کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہا، فلسطین کو خود مختاری دی جائے اور امن قائم ہوجائے گا۔ فضل سبحان جان، ابوظہبی:کوئی بھی مہذب انسان بےگناہ لوگوں کو مارنے کو جائز نہیں سمجھتا لیکن دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ اسرائیل امریکہ کی۔۔۔ (واضح نہیں) سے ہر وہ کام کرتا ہے جسے وہ اپنے لئے جائز سمجھتا ہے، خواہ پوری دنیا اس کو ناجائز سمجھے۔ دونوں طرف سے جب تک اعتدال پسند قیادت سامنے نہیں آتی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یوں ہی یہ خون خرابہ چلتا رہے گا۔ جاوید اقبال ملک، چکوال:یہ بہت برا ہے، جب امن کی کوشش ہورہی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ختم نہیں ہوسکتا۔۔۔کچھ اسرئیلی اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکتے۔ مصطفیٰ اجتہادی، ریاض:میرا خیال ہے کہ یہ دھماکہ کرکے وہ اپنا گول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔۔۔۔ صمدانی صدیقی، لاہور:فلسطینیوں کو اس کنسپائریسی کو سمجھنا چاہئے۔ امن کا ڈرامہ کرکے اسرائیل دنیا کو دھوکہ دے سکتا ہے مگر فلسطینیوں کو نہیں۔ اسرائیل کو ڈنڈے کی زبان ہی سمجھ آتی ہے۔ محمد اشفاق مسلمان، لاہور:بڑی مشکل سے امن کی بات شروع ہوئی ہے۔ یہ دہشت گرد حملہ ہے تاکہ امن کی کوششوں کو ناکام کیا جائے۔ ایم علی، کینیڈا:اب بس کردینی چاہئے۔ تربیلی، امریکہ:یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک قبضہ ختم نہیں ہوتا۔ افغانستان، فلسطین اور عراق میں قبضہ غلط ہے۔ اگر امریکہ اور اقوام متحدہ قبضہ نہیں ختم کرتے تو تحریک مزاحمت بھی ختم نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ عبدالصمد، اوسلو:اس طرح کے بلاسٹ ہوتے رہیں گے جب تک فلسطینیوں کی خودمختار ریاست قائم نہیں ہوجاتی۔ علاوہ ازیں یہ سب شام کو گھیرنے کا طریقہ۔۔۔۔رفیق حراری کو قتل، تل ابیب کا دھماکہ۔۔۔۔ مرزا اظہر بیگ، جاپان:میرے خیال سے فلسطینیوں کو صبر سے کام لینا چاہئے اور قیام امن کے لئے اسرائیل کو ایک آخری موقع اور دینا چاہئے۔ امتیاز مغل، اسلام آباد:میرے خیال میں دونوں فریق کو چاہئے کہ شہریوں کا قتل بند کریں۔۔۔ مزمل شاہ، اردن:سالہا سال سے جاری مزاحمت نے فلسطینیوں کی ساری نفسیات ہی بدل دی ہے۔ نسلوں سے چلی آئی یہ ذہنیت کیا پلک جھپکتے بدل جائے گی؟ حالات نے ان بےچاروں کو خود نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ منظور بنیان، اسلام آباد:یہ دونوں کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ کیوں کہ امن قائم کرنے کے لئے جنگ ایک حل نہیں ہے۔ دونوں کو صبر ظاہر کرنا چاہئے اور شہریوں کا قتل بند کرنا چاہئے۔ محمد بخش بابر، حیدرآباد سندھ:پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب مشرق وسطیٰ میں مکمل امن اور سکون ہوگا، کسی بے گناہ کا خون نہیں بہے گا، کہ بش یہ مجھ سمیت کروڑوں امن پسند لوگوں کی یہ خواہش پوری کرے گا۔ عالیہ وسوندرا، جوہی:یہ پہلی بم دھماکہ ہے جس کی ابھی تک کسی تنظیم نے ذمہ داری نہیں قبول کی، ہوسکتا ہے یہ بم دھماکہ تازہ امن کوششوں کو ناکام بنانے کا یہودی انتہاپسندوں کی سازش ہو۔۔۔ افشان بخش، حیدرآباد سندھ:دنیا میں سرد جنگ کے بعد ہتھیار بند جد و جہد آزادی کے طریقوں کو دہشت گرد کارروائیوں کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر فلسطینیوں کو ایک بار پرامن تحریک شروع کرنی چاہئے اور اسرائیل کو بھی چاہئے کہ وہ قابض علاقوں کا کنٹرول فلسطینی انتظامیہ کو دیں۔ اس کے سوا مشرق وسطی میں امن ممکن نہیں۔ ہلال باری، کراچی:جناب، فلسطینیوں کو اتنی آسانی سے حماس اور فلسطینی رہنماؤں، شیخ یاسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو معاف نہیں کرنا چاہئے۔ یہ امن کا دکھاوا اسرائیل کی اپنے آپ کو تسلیم کروانے تک کی ایک ایپیسوڈ ہے، جیسے پاکستان اور پوری دنیا اس غیرقانونی ریاست کو قبول کرلیں گے۔ یہ پھر ٹیرورزم پر اتر آےگا، بدلہ لینا انسان کا لیگل رائٹ ہے۔
pakistan-54930945
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54930945
خان آف قلات: جب اسکندر مرزا نے میر احمد یار خان کی گرفتاری کے لیے قلعہ میری پر فوجی آپریشن کروایا
قلات کے گلی کوچے اجنبی لوگوں کی چلت پھرت سے اُس روز کچھ جلد ہی جاگے، فوج کی بھاری گاڑیوں کے شور اور زنجیر کی کڑیوں پر دھیمی رفتار سے رینگنے والے ٹینکوں کی دھمک سے ماحول بوجھل ہو گیا۔
1948 میں خان آف قلات قائد اعظم کے ساتھ۔ ڈھاڈر، قلات میں۔ منھ اندھیرے نمازِ فجر کے لیے مسجد کو جانے والے حیران تھے کہ آج اس شہر پر جانے کیا افتاد آن پڑی ہے کیوںکہ فوج صرف شہر کے اندر ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے پہاڑوں اور آنے جانے کے راستے پر بھی قابض تھی۔ کچھ دیر ہی گزری ہو گی کہ جنگلی درختوں اور اونچے پہاڑوں سے شور مچاتی ٹھنڈی یخ ہوا کی تاثیر بدل گئی، شہر دھماکوں کے شور سے لرزا اور بارود کی بو نے فضا کی پاکیزگی ختم کر دی۔ چھ اکتوبر 1958 کی وہ صبح اس ماحول میں ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فوج صرف شہر کے اندر اور گردونواح میں ہی نہیں تھی بلکہ قلات تا کوئٹہ ایئرپورٹ 96 میل طویل شاہراہ کے علاوہ گرد وپیش کی پہاڑیوں پر بھی تعینات تھی۔ علاقے کے لوگ اس طرح کا کوئی واقعہ اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ 'یہ کون سی فوج ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے؟' لوگوں نے سوچا، یہی سوال قلعہ میری کے مکین یعنی خان آف قلات اور بلوچستان کی دیسی ریاستوں کی یونین کے صدر میر احمد یار خان کے ذہن میں بھی پیدا ہوا۔ یہ بھی پڑھیے جب ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے پاکستان پہنچے جب پاکستان کے پہلے صدر کو ’ملک کے مفاد میں‘ جلاوطن کیا گیا مشرقی پاکستان اسمبلی کے خوں چکاں واقعات اور ڈپٹی سپیکر کا پراسرار قتل جنرل موسیٰ، آپریشن جبرالٹر اور وہ عسکری منصوبے ’جن کا کوئی مالک نہیں‘ تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کے مخبر اور محل کے کچھ دیگر ذمہ داران خبر لائے کہ پاکستان کی مسلح فوج نے محل کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ 'میں نے کون سے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں کہ انھیں رکھنا بھی پڑے'، خان کے ذہن میں یہ خیال آیا اور گزر گیا۔ وہ لکھتے ہیں: 'میں نے خود کو فوراً ہی فوج کے حوالے کر دیا۔' اخبار میں لکھا ہے کہ خان نے بدعہدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے لیے جانے والے وفد پر فائرنگ کرا دی جس سے وفد کے تین ارکان زخمی ہو گئے کیا یہ واقعہ عین اسی طرح رونما ہوا جیسے خان بیان کرتے ہیں؟ سات اکتوبر کو پاکستان کے بڑے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کو گذشتہ شب سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی پی) نے جو خبر فراہم کی تھی، اس میں درج تھا کہ علی الصبح فوجی دستوں نے جب قلعہ میری کا گھیراؤ کیا تو اس کے محافظوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ جوابی کارروائی سے قلعے کی بندوقیں جلد ہی خاموش ہو گئیں اور خان نے پیغام بھیجا کہ اگر مجھ سے کچھ سروکار ہے تو اندر آ کر بات کر لی جائے۔ پیغام کے جواب میں فوجی دستے کی حفاظت میں ڈپٹی کمشنر کو قلعے کے اندر بھیجا گیا۔ اخبار میں لکھا ہے کہ خان نے بدعہدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے لیے جانے والے وفد پر فائرنگ کرا دی جس سے وفد کے تین ارکان زخمی ہو گئے۔ صورت حال ایک بار پھر نازک ہو چکی تھی چناںچہ ایک تازہ حملہ کیا گیا۔ ایک اور اخبار کے مطابق یہ لڑائی تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہی۔ لڑائی میں بندوقوں کے علاوہ بھاری ہتھیار استعمال ہوئے جن میں ٹینک بھی شامل تھے۔ اس لڑائی کے بعد خان بالآخر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر ان سے ’صدر جمہوریہ‘ کے احکامات کی تعمیل کروائی گئی جس کے تحت وہ اپنے منصب سے معزول، کر دیے گئے جبکہ ان کے اعزازات اور تمام مراعات کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ صدر جمہوریہ یعنی میجر جنرل اسکندر مرزا ایسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے؟ اس سلسلے میں پانچ تا سات اکتوبر 1958 اخبارات میں کئی اطلاعات شائع ہوئیں جن میں الزام لگایا گیا کہ خان آف قلات پورے بلوچستان پر قابض ہو کر اسے پاکستان سے علیحدہ کردینے کی سازش میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بیرونی ممالک، خاص طور پر افغانستان سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان دنوں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ خان آف قلات نے ’تاریخ بلوچستان‘ اور ’بلوچ قوم‘ کے ناموں سے دو کتابیں بھی شائع کرائی ہیں جن میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ ’تاریخ بلوچستان‘ نامی کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے آخری حصے میں ایک فتویٰ شائع کیا گیا ہے جس میں بانی پاکستان اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انھوں نے اپنے قلعے سے پاکستان کا قومی پرچم اتار کر اپنی سابق ریاست کا پرچم لہرا دیا تھا اور اس موقع پر ایک جشن بھی منایا گیا۔ ان سرگرمیوں کی حقیقت کیا تھی؟ کیا خان بغاوت کے لیے آمادہ ہو چکے تھے؟ خان آف قلات ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ قلات کا قلعہ: آزاد ریاستِ پاکستان کے خواب کا گواہ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1956 کے آئین کے تحت ملک جب ون یونٹ میں تبدیل ہو گیا تو ان سابقہ ریاستوں میں سرکاری معاملات کو نمٹانے کے لیے جن افسروں کو تعینات کیا گیا تھا، مقامی لوگوں کو ان سے بڑی شکایات تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ نہ مقامی لوگوں کی عزت نفس مجروح کی جائے اور نہ مقامی رسوم و رواج پر کوئی آنچ آئے۔ ان معاملات کے بارے میں عوامی بے چینی میں اضافہ ہو گیا تو خان آف قلات نے صدر اسکندر مرزا سے رابطہ کیا۔ صدر نے انھیں یقین دلایا کہ وہ بلوچستان کی ان ریاستوں کو ون یونٹ سے نکال دیں گے۔ صدر نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اس سلسلے میں برطانیہ کے ایک معروف ماہر قانون سے مشورہ کریں کہ ون یونٹ اور اس میں ان ریاستوں کے انضمام کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ صدر نے انھیں اس سفر کے لیے زرمبادلہ بھی فراہم کیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں آئندہ عام انتخابات کی آمد آمد تھی اور اسکندر مرزا چاہتے تھے کہ وہ آئندہ مدت کے لیے بھی صدر منتخب کر لیے جائیں لیکن معروضی حالات ان کے خلاف تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ انتخابات کسی نہ کسی صورت ملتوی کر دیے جائیں اور ایسا ممکن نہ ہو تو ملک میں مارشل لا لگا دیا جائے۔خان آف قلات کو انھوں نے اپنے راز میں شریک کیا اور بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مارشل لا لگا کر نواب آف بھوپال کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ نواب بھوپال نے پاکستان پہنچ کر خان آف قلات سے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو انھوں نے اِنھیں اسکندر مرزا کے اصل منصوبے سے آگاہ کر دیا جس پر انھوں نے اسکندر مرزا کے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور واپس چلے گئے۔ خان آف قلات دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اسکندر مرزا سمجھتے تھے کہ ان کے منصوبے کی ناکامی کا واحد ذمہ دار میں ہوں‘ جس کا انتقام لینے کے لیے قلات آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کے برعکس سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خان نے بغاوت کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کر رکھی تھی جس وقت فوج کے قلعہ میری کا محاصرہ کیا، اس وقت بھی باغی قبائلی سرداروں اور ان کے لشکریوں کی ایک بڑی تعداد قلعے میں موجود تھی۔ سرکاری ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ قلعے سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ باردو اور غذائی اجناس برآمد ہوئیں جو ناجائز مقاصد کے لیے قلعے میں ذخیرہ کی گئی تھیں۔ یہ آپریشن حکومت کے دعوے کے مطابق چاہے بغاوت سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو یا اس کا سبب اسکندر مرزا کی آتش انتقام رہی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ بلوچستان کے قوم پرست حلقوں میں جس پر کئی دہائیاں گزرنے کے بعد اب بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔سرکاری ذریعے کے مطابق اس آپریشن میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب فوجی دستہ خان کو گرفتار کر کے قلعے سے باہر لا رہا تھا، اس وقت تین سو افراد نے دستے پر حملہ کر دیا۔ جوابی کارروائی میں تین افراد ہلاک ہو گئے جب کہ خان دعویٰ کرتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ خان کے مطابق جب انھیں گرفتار کر لیا تو فوجی دستہ انھیں لے کر شہر کی سڑکوں پر نکل آیا۔ جنگوں کی قدیم روایت کے مطابق اس کا مقصد شہر والوں کا حوصلہ توڑنا اور خان کی تذلیل ہو سکتا ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر قلات کے لوگ دکھی ہوئے اور اپنے سابق حکمران کو خدا حافظ کہنے کے لیے ان کی طرف لپکے جس پر مسلح دستے نے نہتے شہریوں پر گولی چلا دی، فائرنگ سے بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا۔ خان نے اس آپریشن میں مرنے والوں کی تعداد تو نہیں لکھی لیکن یہ ضرور بتایا ہے جانی نقصان بہت زیادہ تھا۔ انھوں نے شہر کی جامع مسجد کی بے حرمتی کا ذکر بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپریشن کے دوران مسجد میں ہاتھوں میں قرآن اٹھائے ہوئے نہتے شہریوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ خان نے مسجد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران سابق ریاست قلات کے جھنڈے کی بھی توہین کی گئی جو جامع مسجد کے مینار پر لہرا رہا تھا اور اس پر کلمہ طیبہ درج تھا، البتہ انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ جھنڈا مسجد پر کیوں لہرا رہا تھا؟ انھوں نے قلعے سے قومی پرچم کے اتارے جانے اور سابق ریاست کا جھنڈا لہرائے جانے کے الزامات پر بھی خاموشی اختیار کی ہے۔ کیا قلات میں واقعی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا تھا یا نہیں، اس کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جیمز مناہن نے انسائیکلو پیڈیا برائے بے ریاست اقوام کی جلد اوّل میں دعویٰ کیا ہے کہ والی قلات میر احمد یار خان احمد زئی نے20 جون 1958 کو پاکستان سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی تصدیق خان آف قلات نے کہیں کی ہے اور نہ حکومت پاکستان نے ہی ان پر ایسا کوئی الزام لگایا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ کی کسی کتاب میں بھی ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا، اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ جامع مسجد کے مینار پر ریاست کا پرانا پرچم کیوں نصب تھا؟ آپریشن کے بارے میں سرکاری خبر ایجنسی کی طرف سے اخبارات کو فراہم کی گئی اطلاع میں بتایا گیا آپریشن کے دوران کوئٹہ ایئرپورٹ پر ایک جہاز تیار کھڑا تھا، گرفتاری کے فوراً بعد خان کو جہاز میں سوار کراکے کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ کردیا گیا۔ خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ خان کو پیش کش کی گئی تھی کہ یہاں سے جاتے ہوئے وہ اپنی ضرورت اشیا اور اہل خانہ کو ساتھ لے جاسکتے ہیں جب کہ خان دعویٰ کرتے ہیں کہ آپریشن کے دوران جس وقت محل میں لوٹ مار جاری تھی اور قیمتی اشیا غائب کی جا رہی تھیں۔ ان کے اہل خانہ کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا تھا، بعد میں انھیں پنجاب کے ایک پرفضا مقام چوآسیدن شاہ منتقل کر دیا گیا جب کہ خان کو لاہور جیل میں نظر بند کردیا تھا۔ مزید پڑھیے ایوب خان کا دور ترقی کی علامت یا ناہمواری کی نشانی؟ انڈین کپتان کے ہاتھوں بنا جنگی قیدی جو پاکستانی فضائیہ کا سربراہ بنا فقیر ایپی: جنگِ آزادی کا ’تنہا سپاہی‘ جس نے پاکستان بننے کے بعد علیحدہ مملکت کا اعلان کیا قلات آپریشن کے ردعمل میں کیا ہوا؟ اسکندر مرزا کی اپنی یاداشتوں، ان کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کی کتاب، ایوب خان کی خود نوشت، یہاں تک کہ اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی کتابوں میں اس کا کچھ تذکرہ نہیں ملتا لیکن خا ن آف قلات نے اپنی کتاب میں ان واقعات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ خان کے مطابق یہ ردعمل دو طرح کا تھا۔ اس کی پہلی نوعیت عسکری تھی جس میں کئی قبائلی سرداروں اور بعض مقامات پر لوگوں نے ذاتی طور پر حصہ لیا۔ انھوں نے مختلف جھڑپوں میں بہادری کا مظاہرہ کرنے والے کئی انفرادی واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن میں تین نوجوانوں کاذکر خاص طور قابل ذکر ہے جنھوں نے ایک دستے کو تین دن تک ایک مقام پر روکے رکھا۔ خان کے مطابق سب سے بڑی مزاحمت جھالاوان کے نواب نوروز خان نے کی جن کی عمر نوے برس تھی۔ ان مزاحمت کاروں کے گھر بموں سے اڑادیے گئے جب کہ نواب کو بات چیت کے بہانے دھوکے سے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد ان کے کئی ساتھیوں کو حیدر آباد اور سکھر کی جیلوں میں پھانسیاں دے دی گئیں جب نواب نوروز خان کی سزائے موت ان کی پیرانہ سالی کے باعث عمر قید میں بدل دی گئی، ان کا انتقال بھی جیل میں ہی ہوا۔ سکندر مرزا اپنی اہلیہ کے ہمراہ مزاحمت کی دوسری سطح سیاسی ہے۔ خان کے مطابق احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوس کا سلسلہ ان کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا اور جابرانہ ہتھکنڈوں اور سختیوں کے باوجود جاری رہا۔ سیاسی مزاحمت میں شدت 1961 کے انتخابات کے بعد اس وقت پیدا ہوئی جب بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت ہونے والے ان انتخابات میں بلوچستان سے ایسے نمائندے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے جو قلات آپریشن کے مخالف تھے یا کسی نہ کسی طرح اس سے متاثر ہوئے تھے۔ ان نمائندوں نے مغربی پاکستان اسمبلی میں جاکر قلات آپریشن، خان آف قلات کی گرفتاری اور بعد کی صورت حال پر بڑی قوت کے ساتھ آواز بلند کی، اس طرح یہ مسئلہ دنیا کے سامنے ایک بار پھر اجاگر ہوا۔ خان آف قلات نے لکھا ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں نے مغربی پاکستان اسمبلی میں ہونے والی ان تقاریر کو ریکارڈ کر کے دنیا تک پہنچایا جس سے ایوب حکومت دباؤ کا شکار ہو گئی، انھوں نے اس سلسلے میں صحافیوں کے کردار کی بھی تعریف کی ہے۔ یہ صورت حال ایوب خان کی آمریت کے لیے کچھ خوش گوار نہ تھی کیوں کہ اسکندر مرزا کے بعد اس دور میں بھی بلوچستان کے ساتھ یہی طرف عمل روا رکھا گیا تھا۔ خان کے مطابق ایوب خان کے ایک دورہ کوئٹہ کے موقع پر ایک بہت بڑے جلسۂ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے قائدین نے بھی شرکت کی۔ جلسے میں ایوب حکومت کو خبر دار کیا گیا کہ اگر خان آف قلات اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ ختم نہ کیا تھا تو نتائج کی تمام تر ذمہ داری ان پر ہوگی۔ حکومت کی طرف سے اس احتجاجی تحریک کے خلاف سخت ردعمل کا اظہا ر کیا گیا اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں لیکن تحریک ٹھنڈی پڑنے کے بجائے مزید پرجوش ہوتی چلی گئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ حکومت کے طرز عمل میں بھی تبدیلی رونما ہوئی اور اس نے صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے کر حقیقت پسندانہ فیصلے کیے جن کے نتیجے میں چھ نومبر 1962 کو خان آف قلات کو رہا کر دیا گیا اور خان اعظم قلات کے لقب سمیت ان کے تمام اعزازات بحال کر دیے گئے۔ میجر جنرل اسکندر مرزا کو اتنے بڑے ہنگامے کا بہانہ اس جرگے نے فراہم کیا تھا جو 17 دسمبر 1957 کو قلات میں منعقد ہوا۔ جرگے میں شریک قبائلی سرداروں نے خان آف قلات کو ایک چھ نکاتی میمورنڈم پیش کیا تھا جس میں ون یونٹ کا انتظام چلانے کے طریقہ کار اور اس کے ذمہ داران کے طرز عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ خان آف قلات نے یہ میمورنڈم جنرل اسکندر مرزا کو پیش کیا اور ان قبائلی سرداروں کے وفد کے ساتھ ان سے ملاقات کی۔ یہی ملاقات تھی جس میں سرداوں کے غم و غصے نے اسکندر مرزا کو ایک انتہائی قدم اٹھانے کا موقع فراہم کیا کیونکہ انھیں اس ملاقات میں کسی نہ کسی طرح یہ تاثر مل گیا تھا کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو وہ ہتھیار اٹھانے سے بھی گریز نہ کریں گے۔ خان آف قلات کہتے ہیں کہ انھوں نے اگرچہ معاملے کو ٹھنڈا رکھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اسکندر مرزا کے اپنے سیاسی عزائم تھے جن کی تکمیل کے لیے ایک بڑے ہنگامے کی انھیں ضرورت تھی تاکہ ان کے ہاتھ میں مارشل لا کے نفاذ کا جواز آسکے۔ یہ میمورنڈم اور قبائلی عمائدین کی شدت جذبات نے انھیں اس کا جواز فراہم کر دیا۔
pakistan-48411680
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48411680
چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں: ’بہتر تھا کہ میری بیٹی کی شادی ہی نہ ہوتی‘
چین میں پاکستانی لڑکیوں کی شادی کی خبر آنے کے بعد پاکستان کی فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے 19 سے زائد ملزمان کو پاکستانی لڑکیوں کو دھوکہ دے کر چین لے جانے کے الزام میں گرفتار کیا۔
پاکستان میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق پچھلے ایک سال سے پاکستان کے صوبے پنجاب میں چینی باشندے شادی کی غرض سے آ رہے ہیں اور لڑکیوں کو شادی کر کے چین لے جا رہے ہیں ان افراد کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور سے مزید خواتین کے واپس آنے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں۔ لیکن اس سارے معاملے میں شادی کے جھانسے میں پھنسنے والے والدین کے بارے میں بہت کم معلومات منظرِ عام پر آئیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان واقعات کے سامنے آنے کے بعد شرمندگی کا عنصر ہے جس کی وجہ سے والدین اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی حوالے سے مزید پڑھیے چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں پر بڑھتی تشویش پاکستانی لڑکیوں کو چین کیسے سمگل کیا جاتا تھا؟ پاک چین ’غیر قانونی شادیوں‘ پر چین کی وارننگ اسی حوالے سے دو والدین نے بی بی سی سے اپنی بیٹیوں کے چین جانے اور جسم فروشی کی اطلاعات جاننے کے بعد واپس آنے تک کے بارے میں بات کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ ساتھ ہی انھوں اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اس پورے واقعے میں بحیثیت والدین ان کا کردار کیا رہا اور وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر انھوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی چین میں کرنے کی حامی بھری۔ شناخت چھپانے کی غرض سے ان والدین کے نام فرضی بتائے گئے ہیں۔ ثمینہ: 'میرا نام ثمینہ ہے اور میں لاہور، محمود بوُٹی چوک کی رہائشی ہوں۔ یہاں پر ہمارے علاوہ اور بھی مسیحی خاندان ہیں۔ مجھے جب بتایا گیا کہ میری 19 سالہ بیٹی سکینہ کے لیے بیرونِ ملک سے رشتہ آیا ہے تو میں بہت حیران ہوئی۔ ہم ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔اس کے والد کلینر تھے، ان کا انتقال ہوچکا ہے اور ہمارا گھر اُن کی پنشن (12000) سے اور بیٹی کی کمائی (9000) سے چلتا ہے۔ میری بیٹی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہے اور وہیں اس کی دو دوستوں نے اسے اس رشتے کے بارے میں بتایا۔ ہم اتنے غریب لوگوں پر کوئی اچانک سے اتنا مہربان کیوں ہورہا ہے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ سکینہ کی دو دوستیں چندہ اور ثنا ہمارے گھر آئیں اور کہا کہ ایک چینی شخص اپنے لیے اچھے گھر کی لڑکی تلاش کررہا ہے اور ان کو آپ کا خاندان پسند آیا ہے۔ ہم تو کہیں نہیں جاتے تو پھر ان لوگوں نے ہمیں کہاں دیکھا؟ میں نے یہی باتیں اپنی بیٹی سے کیں اور ان کے والد کے ایک رشتہ دار سے بات چیت بھی کی۔ مجھے شروع ہی سے یہ رشتہ نہیں پسند آرہا تھا۔ لیکن میری بیٹی اپنے مستقبل کی خاطر شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس کی بات سن کر مجھے بھی لگا کہ میں نے اسے کیا دیا ہے اب تک؟ میری چار بیٹیاں اور دو لڑکے ہیں اور کسی نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ہمارے پاس کبھی اتنے پیسے بنے ہی نہیں کہ ان کی تعلیم کا سوچتے۔ اور پھر اگر میری بیٹی کو ایک موقع مل رہا تھا کہ وہ اپنے لیے کچھ کرسکے تو میں نے ہاں کردی۔ حالانکہ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ ہمارے اپنے لوگوں کی جلد بازی بھی ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ مجھے سکینہ کی دونوں دوستوں نے کہا کہ زیادہ سوچیں نہیں اچھے رشتے روز نہیں آتے اور میں نے بھی یہی سوچا کہ میں اتنا اچھا رشتہ نہیں لا سکتی۔ لیکن اب سوچتی ہوں کہ اس سے بہتر تھا کہ میری بیٹی کی شادی نہ ہوتی، کم از کم اتنی بے عزتی تو نہیں سہنی پڑتی۔ ہم نے لڑکے سے ملنے کو کہا لیکن ہمیں کہا گیا کہ لڑکا اسلام آباد میں ہے، وہیں آکر دیکھ لینا۔ میں نے اس بات پر شور مچایا تو مجھے کہا گیا کہ کام کی مصروفیت کی وجہ سے لاہور نہیں آسکتے اس لیے برا مت مانیں۔ ان سب باتوں میں ایک مہینہ لگا۔ اس کے بعد کہا گیا کہ اپنی بیٹی کو اسلام آباد میڈیکل ٹیسٹ کے لیے بھیجو اور وہیں پاسپورٹ بھی بنوالیں گے۔ میں نے کہا میری بیٹی بغیر شادی کے کہیں نہیں جائے گی۔ پھر یہیں شادی ہوئی۔ ایسا لگا ہم اپنے گھر کی شادی میں مہمان تھے۔ سارا انتظام ان لوگوں نےخود کیا اور زیادہ لوگوں کو بلانے سے بھی منع کیا۔ اسلام آباد پہنچنے کے تین دن بعد میری بیٹی نے فون کیا اور کہا کہ میں آرہی ہوں۔ اور میں نے بغیر کچھ پوچھے اسے واپس بلالیا۔ پھر میری بیٹی نے ضد لگا لی کہ اسے واپس نہیں جانا ہے۔ یہی کہہ رہی تھی کہ یہ لوگ صحیح نہیں ہیں، میرا نکاح صحیح نہیں ہوا، لڑکا مسیحی بھی نہیں ہے بلکہ کسی مذہب کو نہیں مانتا۔ پھر اس کی دوست چندہ کا فون آیا۔ کہنے لگی وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ائیر پورٹ تک بھیج دو، تین لاکھ روپے دیں گے۔ میں نے کہا بیٹا میں نے لڑکی شادی کر کے بھیجنی ہے، بیچنی نہیں ہے۔ اور پھر میں نے ان سے سکینہ کی بات چیت بند کروا دی۔ ہم نے کسی کو نہیں بتایا کہ کیا ہوا اور فون بھی کم استعمال کرنے لگ گئے۔ لیکن کسی طرح یہ بات پھیل گئی۔ مجھے ہر طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔ محلے میں بات پھیل گئی کہ ہم لوگ لڑکی بیچ کر پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ جس محلے میں میں نے اتنے سال کسی سے کبھی کچھ نہیں مانگا، اسی محلے میں مجھے بیٹی بیچنے والی کے نام سے مشہور کردیا گیا ہے۔' مہناز: 'میں نے اپنی بیٹی کو میڈیا میں کوئی بھی بیان دینے سے منع کیا، اس کے باوجود اس نے بات کی۔ میں نے اسے اس رشتے سے بھی منع کیا تھا لیکن اس کی ضد کے آگے ہم مجبور ہوگئے۔ اچھے رشتے سب کو پسند ہیں لیکن شادیاں ہم زبانوں میں ہوں تو زیادہ بہتر رہتا ہے۔ میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس وقت ہماری صورتحال ایسی ہے کہ مجھے بتانا پڑرہا ہے کہ یہ شادی کیوں ہوئی۔ میں اس وقت ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ ہمارا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ پیملہ کے والد رکشہ چلاتے ہیں اور فیصل آباد میں میری دو اور بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اسلام آباد میں رہتی ہوں کیونکہ یہ پارلر میں کام کرتی ہے اور اس کی کمائی سے ہم اس کی چھوٹی بہن کی سکول کی فیس بھرتے ہیں۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ فوج میں خانسامہ ہے۔ بیٹا ہمیں زیادہ پیسے نہیں دیتا، بلکہ اگر اس کی خواہش ہو تو وہ کچھ بھی نہیں دے۔ والد اس کے رکشہ چلا کر باقی دو بچیوں کو سنبھال لیتے ہیں اور پیملہ اپنا کام سنبھال لیتی ہے۔ ہمیں نہ تو چینی زبان آتی ہے اور نہ ہی ہمیں چینی ثقافت کے بارے میں کچھ خاص پتا ہے۔ چینی لڑکے کا رشتہ میری بہن نے بتایا تھا کیونکہ اس کی بیٹی کی شادی بھی چینیوں میں ہوئی تھی اور وہ بتاتے تھے کہ ان کی بیٹی بہت خوش ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ چینی بہت پیسہ لگا رہے ہیں پاکستان میں اور اسی وجہ سے پاکستانی لڑکیوں سے شادی بھی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے تو اعتراض نہیں تھا لیکن ہماری بیٹی وہاں کیسے رہے گی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر سوچا لڑکا اپنے ہی مذہب کا ہے، خیال رکھے گا۔ پھر پیملہ نے مجھ سے اور اس کے والد سے بات کی۔ اس نے کہا کہ چین جانا ہمارے گھر کے لیے بہت اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ پارلر کا کام وہاں جاری رکھے گی اور اس کے علاوہ بچوں کو سنبھالنے کا کام بھی کرلے گی۔ اس میں بھی اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں۔ جس سے ہمارے گھر کا خرچہ اور آگے کے لیے بچت بھی ہوجائے گی۔ یہاں تک تو بات سمجھ آرہی تھی۔ میڈیکل ٹیسٹ کی بات پر اس کے والد غصہ ہورہے تھے لیکن میں نے اس لیے کچھ خاص نہیں کہا کیونکہ باہر ملک جانے کے لیے ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں اور پاکستانیوں کو ایسے ویزا نہیں دیتے۔ بات اس وقت خراب ہوئی جب ہماری بیٹی فیصل آباد سے اسلام آباد گئی۔ وہاں اس کے ساتھ سات اور لوگ تھے اور اس کو اس کے شوہر کے دوستوں کا بھی خیال رکھنے کا کہا گیا۔ اس کا کیا مطلب تھا، وہ مجھے میری بیٹی کے گھر واپس آنے پر سمجھ آگیا۔ پھر تو ہر جگہ بات پھیل گئی۔ میرے رشتے داروں کے فون آئے، یہ جاننے کے لیے نہیں کہ میری بیٹی کیسی ہے بلکہ یہ پوچھنے کے لیے کہ کہیں میری بیٹی نے ان کا نام تو نہیں لیا کہیں۔ ساتھ ہی میرا بیٹا اس بات پر ناراض ہو رہا تھا کہ آخر میری بہن میڈیا میں کیوں بات کررہی ہے۔ اگر وہ بات نہ کرتی تو اور بہت ساری لڑکیوں کو پتہ نہ چلتا کہ کیا ہورہا ہے۔ ہم اس وقت کسی سے نہیں مل رہے ہیں۔ کہیں بھی جاتے ہیں پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میری بہن بھی اب بات نہیں کرہی، حالانکہ یہ رشتہ وہی لوگ لائے تھے۔ اس پورے واقعے کے بعد ہمیں ایسا محسوس کروایا گیا جیسے ہم مجرم ہیں۔ اپنے بچوں کے لیے اچھا مستقبل سوچناکیا جرم ہے؟
pakistan-55432431
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55432431
قندھار ہائی جیکنگ: انڈین ایئرلائنز کی پرواز 814 قندھار کیسے پہنچی اور پھر کیا ہوا
کسی طیارے کے ہائی جیک ہونے کے بعد ٹی وی سکرینز پر جو مناظر زیادہ نظر آتے ہیں ان میں جہاز کے اردگرد سیکورٹی اہلکاروں اور گاڑیوں کی تیزی سے حرکت کے ہوتے ہیں۔
لیکن دو دہائیوں قبل صحافیوں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انھوں افغانستان کے صوبہ قندھار کے ایئرپورٹ پر ہائی جیک ہونے والے طیارے کے گرد بکتر بند گاڑی کے بجائے ایک شخص کو سائیکل پر چکر کاٹتے دیکھا۔ یہ کہانی اس انڈین طیارے کی ہے جسے اڑان بھرنے کے بعد ہائی جیک کیا گیا اور پھر اسے تین ایئرپورٹس پر اتارنے کے بعد قندھار پہنچایا گیا۔ تاریخ میں افغانستان کے صوبہ قندھار کی اہمیت کسی طرح سے بھی کابل سے کم نہیں رہی۔ مگر نوے کی دہائی سے پہلے بین الاقوامی میڈیا نے اس صوبے کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ تاہم نوے کی دہائی کے دوران جن دو بڑے واقعات کے باعث یہ علاقہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا ان میں سے ایک طالبان کا ظہور اور قندھار پر قبضہ اور دوسرا انڈین ایئر لائنز کے طیارے کی ہائی جیکنگ تھی۔ یہ بھی پڑھیے TWA85: تاریخ کی ایک طویل اور سنسنی خیز ہائی جیکنگ دنیا کی اولین ہائی جیکنگ؟ مسعود اظہر کون ہیں؟ کئی پہلوؤں سے دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ اس لیے بھی مشہور ہے کیونکہ یہ ہوائی سفر کی تاریخ میں طویل ترین دورانیے کی ہائی جیکنگ میں سے ایک ہے جو سات دن تک جاری رہی۔ انڈین طیارے کو کب اور کہاں سے ہائی جیک کیا گیا یہ 24 دسمبر 1999 کی بات ہے جب انڈین ایئر لائنز کا طیارہ 814 نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے انڈیا کے شہر لکنھؤ کے لیے اڑا۔ اس ایئربس میں 176 مسافروں کے علاوہ پائلٹس سمیت جہاز کے عملے کے 15 افراد سوار تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنی منزل کی جانب روانگی پر مسافر انتہائی خوش تھے لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی کیونکہ جب یہ طیارہ انڈین فضائی حدود میں داخل ہوا تو ایک نقاب پوش شخص اٹھا اور کاک پٹ کی جانب بڑھا۔ اس نقاب پوش نے طیارے کے پائلٹ کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے طیارے کا رخ لکھنؤ کے بجائے مغرب میں لاہور کی جانب نہیں موڑا تو وہ طیارے کو بم سے اڑا دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے چار دیگر نقاب پوش ساتھی بھی کھڑے ہوئے اور جہاز کے مختلف حصوں میں پوزیشن سنبھال لیں۔ قندھار ایئرپورٹ سے پہلے طیارہ کہاں کہاں گیا؟ اگرچہ طیارے کے پائلٹ کیپٹن دیوی شرن نے لکھنؤ کے بجائے طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑا لیکن اس سفر کے لیے ان کے پاس ایندھن ناکافی تھا۔ یہ وجہ تھی کہ ہائی جیکروں کے اتفاق سے طیارے کو انڈین پنجاب کے شہر امرتسر میں اتارا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طیارے کی لینڈنگ پر انڈین پولیس نے ہائی جیکروں کے خلاف کارروائی کی تیاری کی تھی اور شاید ہائی جیکرز نے یہی خطرہ محسوس کرتے ہوئے طیارے کے پائلٹ کو ایندھن لیے بغیر ہی لاہور کے لیے اڑان بھرنے پر مجبور کیا۔ ابتدائی طور پر پاکستانی حکام نے طیارے کو لاہور میں اترنے کی اجازت نہیں دی اور اس مقصد کے لیے ایئرپورٹ کی لائٹس کو بند کر دیا گیا۔ لیکن ہائی جیکروں کے دباؤ کے باعث پائلٹ کے پاس ایندھن بھرنے کے لیے لاہور ایئرپورٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور بالآخر طیارے کو لاہور ایئرپورٹ پر اتارنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم ایندھن بھرنے کے بعد پاکستانی حکام نے طیارے کے پائلٹ کو فوری طور پر لاہور ایئرپورٹ چھوڑنے کا کہا۔ لاہور کے بعد یہ طیارہ دبئی ایئرپورٹ پہنچ گیا اور وہاں ہائی جیکروں نے 27 مسافروں کو طیارے سے اترنے کی اجازت دے دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین حکام نے دبئی ایئرپورٹ پر طیارے کو ہائی جیکروں سے چھڑانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے حکام سے کارروائی کے اجازت کی درخواست کی تھی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد یہ طیارہ افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار کے ایئرپورٹ پہنچا اور ہائی جیکنگ کے اختتام تک وہیں کھڑا رہا۔ قندھار ایئر پورٹ پر موجود صحافیوں کی گروپ فوٹو قندھار ایئرپورٹ دنیا کی توجہ کا مرکز قندھار میں طیارے کے اترنے کے چند گھنٹے بعد وہاں صحافیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ چونکہ قندھار ایئرپورٹ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے قریب ہے اس لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے نمائندے سب سے پہلے کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ سے جو صحافی سب سے پہلے قندھار پہنچے تھے ان میں کوئٹہ میں بی بی سی پشتو سروس کے ایوب ترین شامل تھے جبکہ ان کے بعد پہنچنے والوں میں سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار اور اے ایف پی سے وابستہ معروف فوٹو گرافر بنارس خان شامل تھے۔ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود، ہائی جیکنگ کے شروع سے اختتام تک کے تمام مناظر اب بھی ان افراد کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ایوب ترین نے بتایا کہ وہ پہلے روز قندھار میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ماہِ رمضان میں پیش آیا تھا۔ ’جب ہم سحری کے لیے اٹھے تو ہوٹل میں موجود لوگ ہمیں گھور کر دیکھنے لگے کہ بغیر داڑھی کے یہ مخلوق کہاں سے آئی ہے۔ ہوٹل میں موجود لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ کسی انڈین طیارے کو اغوا کر کے ان کے شہر کے ایئرپورٹ پر لایا گیا ہے۔‘ سائیکل اور موٹر سائیکل پر گشت طیارے کے چکر کاٹتا سائیکل سوار پولیس اہلکار شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ انھوں نے قندھار ایئرپورٹ پر جو سب سے عجیب و غریب چیز دیکھی وہ ایک شخص کا سائیکل پر ایئرپورٹ آنا اور اسی سائیکل پر طیارے کے گرد چکر لگانا تھی۔ بنارس خان کے مطابق وہاں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے سائیکل یا موٹر سائیکل پر ہی گشت کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات پر حیران تھے کہ ایسے موقعوں پر تو بکتر بند گاڑیاں اور سکیورٹی کے جدید آلے ہونے چاہئیں لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ان کے استفسار پر بتایا گیا کہ جو شخص زیادہ تر سائیکل پر چکر لگاتا تھا وہ ایئرپورٹ کے علاقے کی پولیس میں ایس ایچ او کے رتبے کا اہلکار ہے۔ شدید سردی اور سہولیات کا فقدان شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ چونکہ وہ ایک اہم واقعے کی کوریج کے لیے گئے تھے اس لیے وہ رات کو ایئرپورٹ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے کیونکہ رات کو کوئی بھی بڑا واقعہ ہوسکتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں غضب کی سردی تھی اور رہائش کا مناسب انتظام نہیں تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شدید سردی سے بچاؤ کے لیے ان کے پاس صرف گاڑیاں تھیں ۔ ’جتنے دن صحافی وہاں رہے ان کے پاس جو گاڑیاں تھیں انھوں نے سردی سے بچنے کے لیے ان کو مستقل اسٹارٹ رکھا اوروہ گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔‘ ’میں نے کوئٹہ سے جو جوتے پہنے تھے شدید سردی اور وہاں سونے کی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دو تین روز تک ان جوتوں کے تسمے تک نہیں کھولے۔‘ انھوں نے بتایا کہ جہاں سردی میں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں سو سکتے تھے وہاں اس اہم واقعے کی اہمیت کے پیش نظر کسی کے لیے نیند پوری کرنا ممکن بھی نہیں تھا اس لیے وہاں موجود صحافیوں نے باری باری چار چار گھنٹے سونے کا فیصلہ کیا۔ دستیاب وسائل میں بی بی سی کے نمائندوں کو پہلی ترجیح غیرجانبداری کی وجہ سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگوں میں بی بی سی کے لیے بہت زیادہ احترام پایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان حکام کے پاس جو دستیاب سہولیات تھیں ان کی فراہمی میں میڈیا کے اداروں میں بی بی سی پشتو سروس کے نمائندے کو پہلی ترجیح دی گئی۔ شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جب ایئرپورٹ پر کمبل اوردیگر اشیا لائے گئے تو طالبان حکام نے سب سے پہلے بی بی سی پشتو سروس کے ایوب ترین کا نام لیا۔ خود ایوب ترین نے بتایا کہ ان کو گورنر ہاؤس قندھار میں رہائش بھی دی گئی جہاں ان کے ساتھ بسا اوقات دوسرے صحافی بھی آتے تھے۔ خطرے کے باوجود جہاز کے قریب بڑی آگ چونکہ ایئرپورٹ بالخصوص طیارے کے قریب سردی سے بچنے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں تھا جس کے باعث سکیورٹی پر مامور طالبان اہلکاروں نے اس کا حل میدان میں لکڑیاں جلا کر نکالا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لکڑیاں بہت زیادہ دور نہیں بلکہ جہاز کے بالکل قریب جلائی جاتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ کسی بھی طیارے کے نیچے آگ جلانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتا ہے لیکن طالبان کو اس بات کی بالکل پرواہ نہیں تھی اور اس کا خیال رکھے بغیر اس کے بالکل قریب آگ جلاتے رہے۔ کھانے پینے کے حوالے سے مشکلات سامنا شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جس طرح قیام کے حوالے سے صحافیوں کو مشکلات کا سامنا تھا اسی طرح کھانے پینے کے حوالے سے بھی یہ مشکل درپیش تھی۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے ایک دو روز اس حوالے سے مشکلات زیادہ تھیں لیکن بعد میں یہ مشکل کسی حد تک حل ہوگئی کیونکہ ریڈ کراس کے ایک طیارے میں خوراک وہاں لائی جاتی رہی۔ تاہم بعض صحافی کھانا کھانے کے لیے شہر بھی جاتے رہے۔ ایوب ترین نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے طیارے میں موجود مسافروں اور دیگر افراد کو طالبان کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جاتی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا فوڈ پیکیج ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ایک روٹی، ایک لیگ پیس اور ایک مالٹے پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طیارے کے مسافروں نے اس کھانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر وقت یہ کھانا نہیں کھا سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کھانے کا مسئلہ حل ہوا کیونکہ اسلام آباد سے اقوام متحدہ کے ایک طیارے میں فائیو اسٹار ہوٹلوں سے کھانا آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کمانڈو ایکشن کی تیاری بنارس خان نے بتایا کہ جب شروع کے پہلے ایک دو روز میں مسئلہ حل نہیں ہوا تو طالبان کی جانب سے کسی کارروائی کے آثار نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے کوئی خاص فورس نہیں تھی بلکہ وہی طالبان جو ایئرپورٹ پر ہوتے تھے انھوں نے اپنے کپڑوں کے اوپر وہ والی وردی پہنی جو کہ عام طور پر ایئرفورس کے اہلکار پہنتے ہیں تاہم عملی طور پر طالبان کی جانب سے شاید کسی نقصان سے بچنے کے لیے کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔‘ تاہم شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے جو لوگ ایئرپورٹ پر تھے یا جو وہاں آتے جاتے تھے ان کو ایسی کسی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ اس دوران وہاں طالبان کی جانب سے بتایا گیا کہ انڈین حکومت کی جانب سے کمانڈو ایکشن کا بھی کیا گیا لیکن انھوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے یہ بتایا تھا کہ وہ کسی بھی غیر ملکی فورس کو اپنی سرزمین پر کارروائی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ تیکنیکی خرابی کی وجہ سے طیارے کی ایئر کنڈیشننگ سسٹم کی بندش بنارس خان نے بتایا کہ ہائی جیکنگ کے تیسرے روز طیارے کا ایئر کنڈیشننگ سسٹم بند ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یرغمالی مسافروں کو ایک بہتر ماحول کی فراہمی کے لیے ایئرکنڈیشننگ سسٹم کا چلنا ناگزیر تھا تاہم جب ایئر کنڈیشننگ سسٹم بند ہوا توپریشانی بڑھ گئی۔ انھوں نے بتایا کی چونکہ انڈین حکام تسلسل کے ساتھ قندھار ایئرپورٹ آرہے تھے ان کے ساتھ انڈین انجنیئر بھی آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان انڈین انجنیئرز میں سے ایک کو اندر لے جایا گیا اور وہ خرابی کو دور کرکے نکل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خرابی دور کرنے کے بعد جب انڈین انجنیئرز کو صحافیوں نے کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا تو انھوں نے بتایا کہ ہائی جیکروں نے ان کو جہاز کے کسی اور حصے میں جانے نہیں دیا بلکہ ان کو اس جگہ لے گئے جہاں فالٹ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ صحافیوں کی بہت زیادہ کوشش کے باوجود انڈین انجنیئرز نے بہت زیادہ باتیں نہیں کیں تاہم یہ بتایا تھاکہ ’جو ہائی جیکرز ہیں وہ عام ہائی جیکرز نہیں بلکہ ان کو جہاز کے بارے میں بھی بہت ساری معلومات ہیں۔‘ صفائی کے لیے آنے والا شخص مسافروں کی حالت زار بتانے والوں کا واحد ذریعہ شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ہائی جیکر ایک شخص کو طیارے کے اندر صفائی کرنے کے لیے چھوڑتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہی ایک شخص جہاز کے مسافروں کا حال جاننے کا ذریعہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی وہ شخص باہر آتا تھا تو وہ بتاتا تھا کہ جہاز کے مسافر انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صفائی والا شخص بتاتا تھا کہ ہائی جیکر ان کو کسی بھی مسافر سے بات نہیں کرنے نہیں دیتے بلکہ جلدی سے کام ختم کرکے نکلنے کا کہتے تھے۔ انڈین سمجھ گئے تھے کہ وہ پھنس گئے ہیں شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ انڈین حکام مذاکرات کے لیے متعدد باہر آئے اور طالبان حکام سے بات چیت کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈین حکام کی شاید بہت کوشش ہوگی کہ وہ اغوا کاروں کی بات کو نہ مانیں لیکن وہاں انھوں نے جو آثار دیکھے تو انہیں سمجھ آگیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ ’وہ سمجھ گئے تھے کہ وہ پھنس گئے ہیں اور اس سے نکلنا ممکن نہیں جس کے باعث انہیں اغوا کاروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان عسکریت پسندوں کو رہا کرنا پڑا جن کی رہائئ کے لیے جہاز کو ہائی جیک کیا گیا تھا۔‘ سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اوردیگر حکام کی قندھار ایئرپورٹ آمد شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ہائی جیکنگ کے ڈراپ سین تک قندھار ایئرپورٹ طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں اور انڈین حکام کی آمد و رفت کا مرکز رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے جو نمایاں عہدیدار وہاں آتے رہے ان میں سابق وزیرخارجہ عبد الوکیل متوکل اور سابق وزیر ہوا بازی و گورنر قندھار ملا اختر عثمانی کے علاوہ انڈیا کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نمایاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جسونت سنگھ کو دو مرتبہ قندھار ایئرپورٹ آنا پڑا تھا۔ ایک مرتبہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں آئے تھے جبکہ دوسری مرتبہ وہ اس روز آئے تھے جب ہائی جیکروں کے مطالبے پر انڈین جیل میں قید مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو رہا کرکے قندھار ایئرپورٹ لایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس روز طیارے کا ڈراپ سین ہوگیا تو اس روز انڈیا سے دو طیارے آئے تھے ان میں سے ایک میں جسونت سنگھ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ غالباً دوسرے طیارے میں مولانا مسعود اظہر سمیت تینوں عسکریت پسندوں کو لایا گیا تھا۔ ڈراپ سین سے پہلے ایمبولینس کی آمد اور ہائی جیکروں کی طیارے سے برآمدگی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ہائی جیکنگ کے ڈراپ سین سے پہلے اس طیارے کے قریب ایک ایمبولینس آکر کھڑی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ طیارے کے اگلے سائیڈ کی طرف سے پانچ نقاب پوش ہائی جیکرز رسی سے لٹک کر نیچھے اتر ے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمانڈوز کی طرح برق رفتاری سے وہ اترے اور ایمبولینس میں بیٹھ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا مسعود اظہر سمیت رہائی پانے والے تینوں عسکریت پسندوں کو انھوں نے دیکھا غالباً وہ بھی اسی ایمبولینس میں بیٹھ کر چلے گئے جن میں ہائی جیکرز تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں کہ یہ افراد ایئرپورٹ سے نکل کر کس جانب چلے گئے تاہم ہائی جیکروں اور رہائی پانے والے عسکریت پسندوں کو طالبان حکام کی جانب سے یہ حکم تھا کہ وہ دو گھنٹے میں افغانستان چھوڑ دیں۔ مسافروں کی خوشی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جہاں صحافی کھڑے تھے ہائی جیک ہونے والا طیارہ اس کے بالکل قریب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مسافروں کو صحافیوں کے قریب جانے نہیں دیا گیا لیکن صحافی ان کے چہرے بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائی جیک ہونے والے طیارے سے اترتے اور دوسرے طیارے میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے وہ اتنے خوش تھے کہ جیسے ان کو نئی زندگی ملی ہو۔
040312_iraq_killed
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/03/040312_iraq_killed
عراق: دو امریکی فوجی ہلاک
عراق کے دارالحکومت بغداد سے ستّر کلومیٹر مغرب میں بم کے ایک حملے میں دو امریکی فوجی ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
امریکی مرکزی کمانڈ کے مطابق ہلاک ہونے والے فوجی ایک گاڑی میں سوار تھے جو ایک کارواں کاحصہ تھی۔ اس طرح پینٹاگون کے اعداد و شمار کے مطابق یکم مئی سن دو ہزار تین کے بعد سے ہلاک ہونے والےامریکی فوجیوں کی تعداد دو سو اڑسٹھ ہو گئی ہے۔ اس سے قبل عراق میں بتایا گیا تھا کہ بصرہ میں غیر ملکی قابض افواج کی لانڈری پر کام کرنے والی دو عراقی خواتین کو ٹیکسی میں جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
070911_nawaz_intl_reax_ns
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070911_nawaz_intl_reax_ns
نواز کی ملک بدری پر عالمی تشویش
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو ایک بار پھر جلاوطن کیے جانے کی بین الاقوامی معاملات میں دلچسپی لینے والے ممالک کی طرف سے سفارتی محتاط انداز میں کم و بیش مذمت کی جا رہی ہے۔
امریکہ میں اس حوالے سے دو طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے مستقبل قریب میں ہونے والے عام انتخابات کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد پر زور دیا ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اگرچہ سیاست پاکستانی سیاستدانوں کا اندرونی معاملہ ہے لیکن برطانیہ کو موجودہ صورتحال پر تشویش ہے۔ ’ہم حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کے لیے قانونی اور عدالتی ضابطوں کا خیال رکھا جائے۔‘ ہمسایہ ملک بھارت نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان میں امن اور استحکام رہے گا۔ ادھر انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھی واقعہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کو زبردستی ملک بدر کر کے پاکستان اور سعودی عرب نے عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ نیو یارک میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے اقدامات پاکستانی آئین اور عدالتی فیصلوں سے براہ راست متصادم ہیں۔
science-51830270
https://www.bbc.com/urdu/science-51830270
بایو چار کیا ہے اور یہ ماحولیات کے لیے کتنا مفید ہے؟
مغربی آسٹریلیا میں دسمبر کی گرمیوں میں ایک مویشی فارم میں کھاد کی بو کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ہم نے دیکھا کہ گوبر کے کیڑوں کا ایک جھرمٹ تندہی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا اور جلد ہی گائے کا گوبر زمین کے اندر جانے والا تھا۔
کسی عام گرم دن میں ان کیڑوں کو گائے کے گوبر کو زمین سے پوری طرح صاف کرنے میں ایک گھنٹے سے بھی کم کا وقت لگتا ہے لیکن دوسرے مواقعوں پر جب موسم قدرے ٹھنڈا ہو اور کیڑے کم سرگرم ہوں تو اتنے ہی گوبر کو صاف کرنے میں دو ہفتوں تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ کسی بھی صورت میں یہ کیڑے بہت ہی نزاکت سے اس وقت تک کام کرتے ہیں جب تک کہ دیو قامت کاری کے درختوں سے گرمیوں کی خشک ہواؤں میں یوکلپٹس کی بو نہ آنے لگے۔ یہ مخصوص کیڑے جن گوبر کے ڈھیڑ کو دفن کرنے میں لگے ہیں وہ معمولی گوبر کے ڈھیر نہیں ہیں۔ جنوب مغربی آسٹریلیا میں منجیمپ کے پاس اس فارم پر پائے جانے والے گوبر کے ڈھیر میں بایوچارسے مالامال مادہ پایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ سینکنے کے عمل سے اس سے خاص طور پر تارکول نکلتا ہے جسے مویشیوں کے چارے میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تارکول کی طرح کا سیاہ مادہ دیہی آسٹریلیا کے اس علاقے میں گائے سے خارج ہونے والے میتھین کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ کاربن کو زمین میں دفن کرنے کے معاملے میں کسی انقلاب سے کم نہیں۔ یہ بھی پڑھیے 'سوا ارب افراد کو خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ' کیچوؤں کی وہ خدمات جن کی انسان کو قدر نہیں مویشیوں سے ماحولیات پر ہونے والے اثرات کو کم کرنے میں بایو چار ایک راستہ ہے جس پر کسان کام کر رہے ہیں۔ گائیں اپنے کھانے کو ہضم کرنے کے لیے جب جگالی کرتی ہیں تو ان سے میتھین خارج ہوتی ہے جو کہ ایسی گرین ہاؤس گیس ہے جو کاربن ڈائی آکسائڈ سے 25 گنا زیادہ شدید ہے۔ میتھین کے اثرات ڈکار اور ریاح دونوں کے اخراج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب ان کا کھانا ہضم ہو کر گوبر کی شکل میں باہر آتا ہے تو ان سے بھی کم مقدار میں میتھین گیس خارج ہوتی رہتی ہے۔ آج دنیا میں تقریبا ایک ارب 40 کروڑ مویشی ہیں اور مجموعی طور پر تمام جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیس میں سے یہ مویشی 65 فیصد گیس خارج کرتے ہیں۔ گایوں سے میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے انھیں ویکسین سے لے کر سمندری گھاس تک دی جاتی ہے۔ اب اس بات میں مزید دلچسپی پائی جاتی ہے کہ آیا گائے کی خوراک میں بایو چار جیسی کسی چیز کو شامل کرکے میتھین کے اخراج کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھربھرا سیاہ مادہ عام طور پر علم جنگلات اور دوسری صنعتوں کے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بایوماس یا حیاتی مادہ زیادہ درجۂ حرارت اور کم آکسیجن میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ پائیرولائسس نامی عمل سے گزرتا ہے۔ جدید کاشتکاری میں اس کے استعمال سے قبل امیزونیا کے کسان پانچویں صدی قبل مسیح میں اپنے کھیتوں میں اسکا استعمال کرتے تھے تاکہ انھیں زرخيز کالی مٹی حاصل ہو جسے امیزونیا بیسن میں ٹیراپیٹا کہا جاتا ہے۔ گائے کو بایوچار کھلانے کی تاریخ بھی لمبی اور قابل ذکر ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں کیٹو دی ایلڈر یعنی کیٹو کلاں نے لکھا کہ بیمار مویشیوں کو 'زندہ کوئلے کا تین ٹکڑا' یا تارکول دینا چاہیے۔ بہر حال انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ بیمار گائے کو تین پنٹ یعنی ساڑھے چار پاؤ شراب دینی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسرے قابل اعتراض مادے بھی۔ حالیہ مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ کیٹو دی ایلڈر کے نظریے میں دانشوری ہو سکتی ہے۔ سنہ 2012 میں ویت نام میں ہونے والی ایک تحقیق نے یہ پتہ چلایا کہ مویشیوں کے چارے میں نصف سے ایک فیصد بایوچار ملانے سے ان کے میتھین کے اخراج میں دس فیصد سے زیادہ کمی ہوسکتی ہے جبکہ بعض دوسری تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ 17 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے عظیم میدان میں گائے اور بھینس پر ہونے والی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ان کے چارے میں بایوچار ملانے سے میتھین کے اخراج میں 9۔5 سے 18۔4 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ اب جبکہ مویشیوں سے خارج ہونے والے میتھین گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا 90 فیصد ہیں تو ایسے میں یہ کمی قابل قدر ہے۔ بہر حال کس طرح بایوچار سے یہ کمی واقع ہوتی ہے ابھی اسے بہتر ڈھنگ سے نہیں سمجھا جا سکا ہے۔ ایک طریقہ جو سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ میتھین کے مولیکیولز کو 'جذب' کر لیتے ہیں یا پھر اسے وہیں روکے رہتے ہیں اور خارج نہیں ہونے دیتے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے بایوچار گایے کے مائیکروبایوم میں ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو کہ اچھی طرح سے ہاضمے کا سبب ہوتے ہیں۔ ہوشچولے گیزنہم یونیورسٹی کی کلاڈیا کیمّمن کا کہنا ہے کہ بایوچار کس طرح میتھین گیس کے اخراج کو کم کرتا ہے یا کس حد تک کم کرتا ہے کو جاننے کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔ مینجیمپ کے پاس والے فارم میں مویشیوں کو پالنے والے دو پو بایوچار پر ہونے والے مطالعے میں کئی برسو‎ں سے شامل ہیں۔ انھیں بایوچار مقامی سیلیکان پیدا کرنے والے سے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اس کی جانب میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں زیادہ کاربن ضبط کرنے کے متوجہ ہوئے تھے۔ اس کا دوہرا نتیجہ کاربن کو جذب کرنے اور زمین کو زخیز بنانے کے طور پر سامنے آيا۔ میلبرن یونیورسٹی میں مٹی کے سائنس کی لکچرر بھاونا بھٹ کا کہنا ہے کہ 'بایوچار کے انتہائی جذب کرنے والی فطرت اور اس کی سطح کی اونچائی کے سبب یہ زمین میں زیادہ پانی روکنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے۔۔۔ بایوچار میں موجود سوراخوں کے نیٹورک سے زمین کو مائیکرو آرگینزم کو رہنے کی جگہ ملتی ہے۔ اس سے مٹی میں موجود مائیکروبس میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔' لیکن شروع میں ڈو پو یہ سوچا کرتے تھے کہ وہ اپنے چراگاہ میں کس طرح بایوچار لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے عام طور پر بڑی اور مہنگی مشینیں چاہیے ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا: 'میں نے سوچا کہ ہمارے پاس فارمنگ کے بڑے آلات نہیں ہیں اور میرے دروازے بھی زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ ڈو پو سوچا کرتے تھے کہ کیا وہ اپنے کھیتوں میں بغیر کسی محنت کے اپنی گایوں کے گلوں سے بایوچار پہنچوا سکتے ہیں؟ اگر چہ وہ دن بھر ان چراگاہوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی اور اس کے گوبر ہر طرف بکھرے ہوتے تھے۔ گویا یہ ایک خودکار ڈلیوری کے نظام کی طرح تھا۔ لیکن بایوچار سے بھرپور گوبر کے ان کی زمین پر پھیل جانے کے بعد بھی مزید چیلنجز تھے کہ اب یہ گوبر کھیت میں کیسے جائيں گے۔ سخت آسٹریلین خطے میں گائے کی چپڑیاں بے محل ہیں۔ ابتدا میں یورپ سے آنے والوں نے یہاں گائے، بھیڑیں اور دوسرے مویشی متعارف کرائے۔ کنگارو اور دوسرے دیسی جانور کم مقدار میں فضلے خارج کرتے تھے۔ اس کی جگہ وہ نیریاں کرتے جس کے ساتھ مقامی کیڑوں نے کام کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ لیکن یہ کیڑے گائے کے رطوبت والے نرم گوبر کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ ڈو پو کو بووائن کیڑے تلاش کرنے پڑے جنھیں آسٹریلیا میں پہلی بار سنہ 1960 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھال لیکن یہ نسبتا نادر ہی ہیں۔ لیکن ایک ماہر حشریات سے مشورہ پانے کے بعد ڈو پو نے جانچ شروع کی کہ آیا بایوچار کھلانے سے گوبر والے کیڑے کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا اور اس تحقیق میں انھیں نیو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی میں محقق سٹیفن جوزف کا ساتھ ملا۔ بایو چار اور گڑ کو ملا کر دیے جانے والے چارے کو ان کی گائیں شوق سے کھاتیں اور گوبر کرتی اور پھر کیڑے اپنا کام کرتے۔ اس کے بعد بووائن کیڑے نے گائے کے گوبر پر جوڑوں میں کام کرنا شروع کیا۔ نر کیڑا گوبر مادہ کیڑے کے پاس لاتا جو اسے زمین میں سرنگ کھود کر غرق کر دیتی۔ ہر بار جب کوئی کیڑا سرنگ میں جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نئی مٹی لاتا ہے جس میں پھوسپھور کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ قدرتی طور پر زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ ڈو کے فارم پر تین سال پر محیط تحقیق میں پتہ چلا کہ وہاں مجموعی آرگینک کاربن میں اضافہ ہوا ہے اور پہلی بار جب اس کو شروع کیا گیا اس وقت سے یہاں کی مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ اس سے مٹی میں پانی کو جذب کرنے اور کاربن کو روکنے کی زیادہ صلاحیت پیدا ہوئی۔ مجموعی طور پر ڈو پو کو اپنی زمین کی کوالٹی میں 'چوگنا بہتری' نظر آئی کیونکہ یہ معاشی طور پر قابل عمل اور فائدہ مند تھا۔ پو نے کہا: 'ہم مٹی کی مثبت طریقے سے ری انجینیئرنگ میں لگے ہیں تاکہ دنیا کو دیر پا فوائد حاصل ہوں۔' مغربی آسٹریلیا کے جنوب مغربی علاقے میں قدرتی وسائل کے انتظام میں تعاون کرنے والے اور منافع نہ کمانے والی تنظیم وارن کیچمنٹ کونسل کی اگزیکٹو آفیسر کیتھی ڈاسن نے کہا کہ 'بغیر سرمایہ لگائے یہ زمین میں بایوچار پہنچانے کا بہت ہی اختراعی طریقہ ہے۔' بایوچار مخصوص طور پر کاربن کی مستحکم شکل ہے جو کہ بایو ماس سے مختلف ہے۔ بایو ماس کو زمین پر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائڈ چھوڑتا رہتا ہے۔ ایک بار جب بایوچار زمین اندر پہنچا دیا جاتا ہے تو وہ سینکڑوں سال تک وہاں رہتا ہے۔ بھٹ کا کہنا ہے کہ زمین میں بایوچار کی موجودگی سے یہ کہا جاتا ہے کہ زمین میں آرگینک کاربن بھی مستحکم رہتا اور اس کا نتیجہ زمین میں کاربن کا زیادہ جذب ہونا ہے۔ اس کوئلے جیسے مادے کو زمین میں دفن کرنے کے خیال نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے ایک حوصلہ افزا طریقہ ہے لیکن اس کے اثرات کو محسوس کرنے کے لیے جس مقدار پر اس کی ضرورت ہے وہ بہت وسیع ہے۔ لیکن اس مادے کی دوسرے ماحولیاتی فوائد دیکھ کر کیا دوسرے کسان بھی بایوچار اور گوبر کے کیڑے والے نظام کو اپنائيں گے؟ اس سلسلے میں ابھی ہچکچاہٹ ہے اور یہ سوال بھی ہے کہ یہ کسانوں کے لیے کس قدر کم خرچ ہوگا۔ زمین کی زرخیزی بھی اس بات پر منحصرہے کہ آپ کس قسم کے بایوچار کا استعمال کر رہے ہیں۔ ڈو پو کا خیال ہے کہ اس کے متعلق قانون اور مالی کریڈٹ جیسی مراعات سے اس قسم کی کاربن فارمنگ کی حوصلہ افزا‏ئی کرنے میں مدد ملے گی۔ انھیں امید ہے کہ جو طریقہ انھیں تیار کیا ہے اسے زیادہ سے زیادہ کسان بروقت اپنائیں گے۔ اگر چہ مویشیوں کے پالنے کے ماحولیات پر بڑے اثرات پڑے ہیں تاہم یہ تقریبا 13 کروڑ آبادی کے لیے گزربسر کا ذریعہ ہے۔ بایوچار اور گوبرکے کیڑے کا غیر ممکنہ مرکب ماحولیات کے بحران کو کم کرنے میں کسانوں کے تعاون کے ساتھ زیادہ زرخیز مٹی کے فوائد حاصل کرنے کا بھی طریقہ ہے۔
040505_india_assets_si
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/05/040505_india_assets_si
بھارتی سیاستدانوں کے ’معلوم‘ اثاثے
سپریم کورٹ کے ذریعہ عوامی نمائندگی کے خواہش مند افراد کے لئے اپنے اثاثہ کے اظہار کو لازمی قرار دیئے جانے کے نتیجے میں ہندوستان عوام کو پہلی بار اپنے صاحبِ ثروت سیاست دانوں کو جاننے کا موقع ملا ہے۔ موجودہ عام انتخابات کے دوران مختلف جماعتوں کے امیدواروں کے اس سلسلے میں جو حلف نامے داخل کئے ہیں ان کے مطابق اچھے خاصے لوگ کروڑ پتی ہیں اور امیدواروں کی تعداد گنتی سے باہر ہے۔
پارلیمانی الیکشن کے لئے دائر حلف نامہ کہ مطابق ریاست ناگالینڈ کی واحدلوک سبھا سیٹ کے آزاد امیدوار نمتھو نگولو تھا ہندوستان کے سب سے امیر امیدوار ہیں۔ مسٹر لوتھا کے مطابق وہ ضلع ووکھا میں پندرہ مربع کیلو میٹر زمین کے مالک ہیں جس کی قیمت نو ہزار کروڑ روپے ہیں۔ مسٹر لو تھانے اپنی زمین کی قیمت ضلعی انتظامیہ کے مطابق کچھ زیادہ ہی لگائی ہے۔ دوسرے سب سے امیر امیدوار میسور کے سابق شاہی خاندان کے چشم چراغ اور پچھلی لوک سبھا کے رکن مسٹر شری کانت دتانرسنگھ راجہ واڈیار ہیں۔ انھوں نے اپنی ملکیت میں میسور اور بنگلور کے دو محلات کے علاوہ بھی چند شاہی رہائش گاہوں کو دکھایا ہے۔ ریاست کرٹک کے وزیر اعلیٰ ایس ایم کرشنہ نے تقریباً اٹھارہ کروڑ کے اثاثوں کا اظہار کیا ہے۔ نہایت ہی نچلی ذات ذاتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی یو پی کی بہو جن سماج وادی پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ مس مایا وتی تقریباً دس کروڑ کے اثاثہ کی مالکن ہیں۔ آندھرا پردیش کے وزیرِاعلیٰ مسٹر چندراہا بونائیڈو خود تو ڈیڑھ کروڑ روپے کے مالک ہیں مگر ان کی اہلیہ تقریباً ساڑھے انیس کروڑ کی ملکیت ہے۔ بہار کے سابق وزیرِ اعلیٰ لالو پرساد کے پاس ساڑھے پانچ لاکھ روپے کی بینک ڈپازٹ ہے اور ان کے نام سولہ لاکھ کا ایک مکان بھی ہے۔ ان کی اہلیہ اور وزیرِ اعلیٰ رابڑی دیوی کی ملکیت بھی کافی دلچسپ ہے۔ ان کے نام سولہ لاکھ روپے ہیں۔ اس کے علاوہ رابڑی نے سترہ لاکھ کی زمین کے علاوہ پچاس گائیں اور اکتیس بچھڑے ہیں جن کی قیمت سوا پانچ لاکھ روپے ہے۔ اس کے علاوہ رابڑی دیوی نے تقریباً چار لاکھ روپے بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں اور ان کے زیورات کی قیمت ڈھائی لاکھ ہے۔ یو پی کے وزیرِ اعلیِ مسٹر ملائم سنگھ کی ملکیت ایک کروڑ روپے سے اوپر ہے۔ کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ وہ تقریباً پچھتر لاکھ کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ کی مالکن ہیں۔ ان کے بیٹے اور امیٹھی سے لوک سبھا کے امیدوار راہل گاندھی کے مطابق ان کا بینک ڈپاٹ گیارہ لاکھ ہے جبکہ سات لاکھ روپے انہوں نے بازار حصص میں لگا رکھے ہیں۔ جو بات ہندوستان کی عوام کے لئے خاصی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے وہ ہے بیرونِ ملک کے بنکوں میں جمع ان کے پینسٹھ ہزار ڈالرز۔ فلم اسٹار اور کانگریس کے امیدوار سنیل دت اپنی برادری میں سب سے امید سے ہیں۔ ان کے پاس بائیس کروڑ کی ملکیت ہے۔ ایک اور مشہور فلم اسٹار دھرمیندر نے اپنی اور بیوی ہیمامالنی کی کل ملکیت چار کروڑ بتائی ہے۔ اثاثوں کے متعلق حلف نامہ میں ہر امیدوار نے اپنی اور اپنی اہلیہ کی منقولہ اور غیر منقولہ ملکیت کا اظہار لازمی ہے۔ اس میں نقد، بینک ڈپازٹ، بانڈز اور شئیرز، دیگر بچت، موٹر گاڑی، زیورات اور بقیہ اثاثوں کے علاوہ زرعی اور غیر زرعی زمین، رہائشی یا تجارتی مقاصد کے لئے تعمیر یا حاصل شدہ عمارتوں اور ان کی قیمت کا اظہار ضروری ہے۔ اثاثوں کے متعلق ان حلف ناموں سے بعض دلچسپ باتیں قابل غور ہیں۔ مہنگی کاروں کے شوقین پاکستانی سیاست دانوں کے لئے یہ امر باعث تعجب ہو سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم واجپئی کے پاس محض ایک کار ہے۔ وہ بھی دس سال پرانی ایمبیسڈر۔ حلف ناموں کے مطابق ڈپٹی پرائم منسٹر لال کرشنا اڈوانی، لوک سبھا کے سابق اسپیکر منوہر جوشی، وزیر دفاع جارج فرنانڈس اور پٹرولیم کے وزیر رام نائک کے پاس تو کوئی گاڑی ہے ہی نہیں۔ ان حلف ناموں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بھارتی سیاست داں بچت کرنے میں کافی ماہر ہیں اور بازار حصص کے یہ اچھے کھلاڑی ہیں مثال کے لئے مسٹر اڈوانی کے پاس ساڑھے چار لاکھ کے آئی سی آئی سی آئی اور ساٹھ ہزار روپے کے آئی بی ڈی آئی کے بانڈز ہیں۔ چند معروف سیاست دانوں کو چھوڑ کر عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ کا ان حلف ناموں میں دولت کا اظہار حقیقت سے کافی بعید ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے امیدواروں کی تعداد کافی ہے جن کی منقولہ دولت اور ان کے طرز رہائش اور زیبائش میں کوئی مناسب نہیں۔
041026_kashmir_solution_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/10/041026_kashmir_solution_ms
کشمیر تقسیم ہونا چاہیے؟
صدر مشرف کی تجویز پر بھارت نے کہا ہےکہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی باتوں پر رد عمل نہیں دیا جا سکتا اور جموں اور کشمیر کا معاملہ ایسا نہیں جس پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مذاکرات کیے جائیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار نے بھارتی وزارت خارجہ کے حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان کی تجاویز پر رد عمل دینے کا مطلب پاکستان کو ایجنڈا طے کرنے کا موقع دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ بےاعتباری کا عنصر بھی ہے کیونکہ جب بھی پاکستان کوئی نئی تجویز پیش کرتا ہے دلِّی میں بہت سے لوگ اسے کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ یہ تجویز نئی اور دلچسپ ہے اور بھارت اس پر غور کے بعد جواب دے گا۔ جنرل مشرف نے پیر کو مسئلہ کشمیر کا ایک نیا حل پیش کیا تھا۔ ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو طے کرنا ہے کہ کون سے حصے دونوں ممالک کے پاس ہوں اور کون سے حصے کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔ مشرف فارمولہ کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا کشمیر کو اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنرل مشرف کی تجویز کشمیر کا مسئلہ نئے سرے سے اٹھانے اور بھارت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے؟ کیا کشمیر کشمیری عوام کو حقِ رائے دئیے بغیر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ عامر نواز، چکوال:ویسے تو پاکستان میں عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی پھر بھی میں اپنی رائے دیتا ہوں۔ صدر صاحب نے تو کشمیر کو سات حصوں میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ کیا بات ہے صدر صاحب کی۔ وحید رزاق، اوش، کرگستان:یہ جنرل مشرف کے حقیقت پسند اور بہادر ہونے کا ثبوت ہے۔ کشمیر کا مسئلہ جلد ازجلد حل ہونا چاہیے۔ لگتا ہے مشرف باقی حکمرانوں کے برعکس ’ڈنگ ٹپاؤ‘ کام کرنے کی بجائے اس ملک کے مستقبل کا خیال بھی رکھتے ہیں لیکن پھر بھی ایک خوف ہے کہ کہیں یہ سب وردی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے تو نہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ عبدالعزیز، انڈیا:اگر آج کشمیر کو تقسیم کیا جاتا ہے تو کل پنجابی کہیں گے کہ ہمیں بھیعلحیدگی چاہیے۔ اس لیے کشمیر جیسا ہے چلتا رہے تو بہتر ہے۔ ہم اپنے ملک میں خوش، آپ اپنے پاکستان میں۔ رضوان صدیقی، آکلینڈ، نیوزی لینڈ:میرا خیال ہے ہمیں کشمیر کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ملک پر توجہ دینا چاہیے کیونکہ پہلے ہمیں خود کو مضبوط کرنا چاہیے۔ علی طاہر، باغ، پاکستان:کشمیر مشرف یا من موہن سنگھ کی ذاتی جاگیر نہیں اور نہ ہی ان کو جہیز میں ملا تھا کہ وہ اسے تقسیم کرتے پھریں۔ باسط، لاہور:اگر بھارت اس فارمولے کو مان بھی لیتا ہے تب بھی یہ مسئلہ رہے گا کہ کون سا حصہ پاکستان کو دیا جائے، کون سا بھارت کو اور کون سا آزاد رہے گا۔ پاکستان اور انڈیا کی تقسیم آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ ستاون برس گزر جانے کے باوجودہم آئے دن سنتے ہیں کہ یہ تقسیم غلط تھی۔ مصدق حماد مغل، اسلام آباد:میرے خیال میں اس مسئلہ کو حل ہو ہی جانا چاہیے کیونکہ اس میں جتنی دیر کریں گے دونوں ملکوں کا نقصان ہوتا رہے گا۔ عدیل کامران، لاہور:اس فارمولے کو کیوں نہ آزمایا جائے؟ ہم کئی دوسرے منصوبوں کو ناکام ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ درحقیقیت بنیادی طور پر پاکستان اور انڈیا کے پاس دو ہی حل ہیں، امن یا جنگ۔ صاف ظاہر ہے کہ کوئی بھی فارمولا جس میں امن کی بات ہوتی ہے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے۔ مالک جعفری، امریکہ:نئی تجویز دیکر اپنا ستاون سالہ قربانیوں سے بھرا موقف خود ہی غلط ثابت کردیا۔ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بھکاری ضد کرتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے، بابا سو مکن نہیں تو پچاس ہی دے دو! علی ترین، کوئٹہ:کشمیر کی زمین سے زیادہ کمشیری عوام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، لہذا کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق نہ ہو۔ اگر یہ فارمولا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہئے۔ آمنہ افتخار، چین:میں کہنا چاہتی ہوں کہ صدر مشرف کا فیصلہ صحیح ہے، کشمیر کو جو بھی حصہ پاکستان میں آئے۔۔۔ اعجاز علی سیال، اونٹاریو:جنرل مشرف کا پلان ٹھیک ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔ ورنہ دونوں ملک خود کو تباہ کردیں گے اور مستقبل قریب میں دونوں کے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوسکے گا۔ اکرام، پاکستان:میں ذاتی طور پر مشرف کو بہت پسند کرتا ہوں اور جو حل انہوں نے بتایا ہے اس کو اس وجہ سے قابل عمل بنایا جاسکتا ہے کہ ایک صدر جب کوئی بات کرتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شاید اس طرح انڈیا اور پاکستان کے تعلقات آپس میں بحال ہوجائے۔ سید ذوالفقار علی کاظمی، مانسہرہ:میرے خیال میں صدر صاحب کی تجویز درست ہے۔ مزمل مفتی، چینیوٹ:اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مشرف صاحب کے پاس اپنی پالیسی نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ مشرف امریکہ کے ایجنٹ ہیں جو پاکستان پر رول کررہا ہے۔ اور چند مہینوں سے یہ بات سامنے آرہی تھی کہ مشرف صاحب کے پاس ’دوسرے‘ آپشن ہیں اور یہی آپشن سامنے ہے۔ اب کشمیری پاکستان پر کبھی یقین نہیں کریں گے، یا تو اب وہ انڈیا میں جائیں گے یا پاکستانی کشمیر کو ملاکر ایک آزاد کشمیر بنائں گے۔ اکرم ندیم چودھری، بورے والا:میں سوچتا ہوں کہ کشمیر کو تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تقسیم ہی ایک حل ہے تو کشمیروں کے طویل جدوجہد کا کیا ہوگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیری لوگ انڈیا اور پاکستان سے الگ ملک چاہتے ہیں تاکہ ان کا اپنا ملک، اپنی فوج، اپنے قوانین ہوں۔ اگر کشمیر ایک ملک نہ بنا تو ایک اور مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ شہلا سہیل، ٹورانٹو:ہم نے کیا سوچنا ہے کشمیر پر۔ ہم اپنے ملک پر نہیں سوچ سکتے تو کشمیر تو دور کی بات ہے۔ یہاں تو وہ حال ہے کہ ’نہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے، یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے۔‘ طارق عزیز، فیصل آباد:اب اس مسئلے کا حل ہو جانا چاہئے۔ بہت خون بہا ہے، بہت جانیں گئیں، رژلٹ کچھ بھی نہیں نکلا۔ ذرا سوچیں تو صحیح اور کتنے لوگوں کو شہید کروانا ہے؟ ابھی تو ہمیں بہت آگے جانا ہے لیکن کشمیر کا پرابلم ساتھ لیکر ممکن نہیں، بالکل ممکن نہیں۔ دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ لیکن اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو امریکہ، برطانیہ اور روس کے ہتھیار کون خریدے گا؟ کیرن احمد، واٹرلو:اپنے پاس جو پہلے ہے وہ تو سنبھالیں نہیں جارہے، کشمیر کو لیکر کیا کریں گے؟ انڈیا پاکستان دونوں کو چاہئے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں پر چھوڑ دیں اور جو ان کے پاس ہے اس پر اکتفا کریں۔ محمد احمد، آسٹن، امریکہ:میرے خیال میں بیسٹ آپشن یہ ہے کہ کشمیریوں کو تین متبادل دیے جائیں کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں: انڈیا یا پاکستان یا علیحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ زاہد ملک، مانٹریال:مجھے کوئی مثبت حل نظر نہیں آرہا۔ یہ صرف انڈیا کو فائدہ مند ثابت ہوگا۔ مشرف انڈیا کو فروٹس آفر کررہے ہیں۔ کشمیر کے حل کے ذریعے انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل سیٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حسن بٹ، امریکہ:کشمیر پاکستان کا شہ رگ ہے اور مشرف جیسے ڈِکٹیٹر کو کس نے یہ رائٹ دیا ہے کہ وہ آپشن پیش کریں؟ عامر عطا، اسلام آباد:میں سمجھتا ہوں کہ مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے۔ ایک عقل والا ذہن کبھی سوچ ہی نہیں سکتا کہ سمجھوتے کے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ہے۔ لیکن اس فارمولے پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ گورنمنٹ یا مشرف کی کوئی بھی پالیسی ہو اس پر حزب اختلاف کا اعتراض فرض معلوم ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی حالات کچھ زیاد بدلے نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ حل صحیح نہیں تو انہیں موقع دیا جانا چاہئے کہ کوئی اور حل بیان کریں۔ خالد محمود، ہملٹن، کینیڈا:میرے خیال میں وقت کی ضرورت یہ نہیں کہ حل کیسا ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بنیادی مسئلے کا حل نکالا جائے، کشمیریوں کے مفاد میں، نہ کہ انڈیا یا پاکستان کے مفاد میں۔ اس سے بونس یہ ملے گا کہ پاکستان اور انڈیا کو بڑی افواج نہیں پالنے پڑیں گے۔ محمد ایاز، ٹیکسلا:اب اس مسئلے کا فیصلہ ہوجانا چاہئے۔ ہمیں ایک اچھے پڑوسی کی طرح رہنا چاہئے۔ کوئی فارمولا اپنائیں لیکن کوئی حل نکالیں۔ عمران محمد، نیوزی لینڈ:میرے خیال میں وقت آگیا ہے جب دونوں ممالک کو سوچنا چاہئے۔ مشرف صحیح ہیں اور بات چیت کے ذریعے ہی کشمیر کے بارے میں صحیح پلان بنایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیسے ہتھیار پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ عوام پر صرف کیے جائیں۔ تسلیم وانی، بڈگام:مشرف کی تجویز صحیح ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ یہ حل ہو۔ ذیشان خان، کراچی، پاکستان:جنرل مشرف کا فارمولا دونوں ممالک کے لیے بہت اچھا ہے اور خود کشمیر کے لیے بھی۔ اتنے سالوں میں انڈیا اور پاکستان کو کیا ملے سوائے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کے۔ یاسر، میرپور، پاکستان:اگر کشمیر کو پاکستان اور انڈیا میں تقسیم کیا گیا تو پھر مشرف اور گلاب سنگھ ڈوگرا میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ صالحہ محمود، راولپنڈی، پاکستان:پہلے تو مشرف کو اپنی حیثیت ایک قانونی صدر کے طور پر قبول کروانی ہوگی۔ ان کی کسی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اب کشمیر کو تقسیم ہی کرنا ہے تو ستاون سال تک ساری قوم کو بے وقوف کیوں بنایا گیا۔ مبشر عزیز، جرمنی:اب رائے بھیجنے کا کیا فائدہ۔ بی بی سی اردو کے ناخداؤں کے نازک مزاج پر ناگوار گزرنے والی رائے سینسر کی نذر ہی تو ہوجاتی ہے۔ انور ہاشمی، لاہور، پاکستان:یہ مسئلہ صدر مشرف کی وردی کی معیاد ختم ہونے تک اٹھایا جا رہا ہے۔ اکتیس دسمبر کے بعد پاکستان کا موقف بدل جائے گا۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد، پاکستان:کیا کبھی دل کے ٹکڑے کیے جا سکتے ہیں؟ عفاف اظہر، ٹورنٹو:میری مشرف صاحب سے درخواست ہے کہ پہلے اپنے ملک کی خانہ جنگی پر قابو پالیں، پہلے اس کے ٹکڑے جوڑ لیں تو پھر کشمیر کو توڑیں۔ صمدانی صدیقی، کراچی، پاکستان:یہ تجویز صدر بش کی ہے جس کے آگے صدر مشرف نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ لچک کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ مشرف کا فارمولا کامیاب نہیں ہوگا۔ الطاف حسین، نیو جرسی، امریکہ:مشرف نوبل پرائز کمیٹی کو تو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن ہمیں نہیں۔ ان کی کسی بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ھلال باری، لندن، برطانیہ:جنرل مشرف کی تجویز پاکستان کے بنیادی موقف کی کھلی تذلیل ہے۔ پاکستان آرمی نے ثابت کر دیا ہے کہ انہیں اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں۔ مسئلہ کشمیر مسئلہ فلسطین میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ علی محمد، ٹورانٹو، کینیڈا:جنرل مشرف براہِ کرم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے پہلے وردی کا مسئلہ حل کریں۔ صرف ایک جمہوری حکومت ہی کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ عمران شیخ، لاہور، پاکستان:یقیناً، یہ مسئلہ اسی صورت میں حل ہو گا اگر دونوں ممالک کچھ لچک دکھائیں ورنہ بھارت، پاکستان اور کشمیر کے لوگ اس مسئلہ کی وجہ سے پریشان رہیں گے۔ محسن علی، ٹورانٹو، کینیڈا:کشمیر تقسیم ہونا چاہیے، اس طرح کشمیریوں کو آزادی تو ملے گی۔ صائمہ خان، کراچی، پاکستان:یہ خیال ہی کہ کشمیروں کو بے جان اشیاء کی طرح آپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کا کیا رویہ ہے کشمیر کے بارے میں۔ کشمیر کا دیرپا حل اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کشمیروں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ شاہد ریاض، فرانس:کشمیر کو مکمل خود مختار ہونا چاہیے، مشرف کی یہ تجاویز ہم نہیں مانتے۔ عابد غلام، برادہ، سعودی عرب:کشمیر کی تقسیم ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے کیونکہ آزادی کی تحریک نے ثابت کیا ہے کہ یہ صرف وادی کا مسئلہ ہے پورے کشمیر کا نہیں۔ آزادکشسمیر، جموں اور کشمیر کے دوسرے حصوں سے لوگوں نے تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ ہمیں یہ حقیقت مان لینا چاہیےاور وادئ کشمیر کشمیریوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔ خالد گرمانی، کوٹ چھٹہ، پاکستان:اگر کشمیر تقسیم ہوتا ہے تو اس بےگناہ لوگوں کے خون کا کون ذمہ دار ہوگا جو اب تک بہہ چکا ہے۔ مشرف صاحب کی تجویز ناقابل عمل ہے اور نہ ہی انڈیا اس مسئلہ پر سنجیدہ ہے۔ خالد شاہین، جرمنی:مشرف صاحب کی کوشش اچھی پیش رفت ہے۔ تقسیم کے سلسلہ میں وہ کچھ کنفیوز ہیں لیکن اب موقع آگیا ہے کہ اس مسئلہ پر کھل کر بات ہو۔ شاید کسی کے پاس کوئی بہتر حل ہو۔ محمد عمر فاروقی، کراچی، پاکستان:کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور شہہ رگ کے بغیر کوئی بھی زندہ نپیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر محمد الطاف، مالاکنڈ، پاکستان:میرا خیال ہے یہ جنرل مشرف کے بہترین اقدامات میں سے ایک ہے، خاص طور پر گیارہ ستمبر کے بعد کی بدلتی دنیا کے لحاظ سے۔ اگر کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تو مستقبل میں دونوں ممالک مشکلات کا شکار رہیں گے۔ سید زیدی، اونٹاریو، کینیڈا:پاکستان اور انڈیا دونوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر کو آزاد کر دیں۔ دونوں کو پہلے ہم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کشمیری کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں نہ کہ کسی کی کالونی بن کر۔ رضوان الحق، پیرس، فرانس:جنرل مشرف کی اس تجویز سے ان کا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں مخلص ہونا صاف ظاہر ہوتا ہے۔ دونوں ملک اپنے اپنے فرسودہ موقف کی وجہ سے بہت خون اور پیسہ برباد کر چکے ہیں۔ اب دونوں کو کسی بھی طرح یہ مسئلہ حل کرکے اپنی ساری توجہ تعلیم، ٹیکنالوجی میں اضافے اور غربت کو ختم کرنے پر دینا چاہیے۔ علاقے کی ترقی کے لیے اس مسئلہ کا حل ضروری ہے۔ طلعت بٹ، لُنڈ، سویڈن:ہم پاکستانی اور انڈین فوجوں کو کشمیر سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں اور کشمیر کی آزادی کے علاوہ کوئی دوسرا حل ٹھیک نہیں۔ کبیر احمد، راولاکوٹ، کشمیر:کشمیر جنرل مشرف کا گھر نہیں جسے وہ اپنے دوستوں میں تقسیم کر دیں۔ کشمیر ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد صرف مکمل خود مختاری کے لیے ہے۔
sport-54434431
https://www.bbc.com/urdu/sport-54434431
پہلوانی: جب ضیا الحق نے بھولو برادران کے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پُررونق علاقے پاکستان چوک میں واقع مشہور اکھاڑے ’دارالصحت‘ کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اس اکھاڑے پر نظریں ڈالے بغیر گزر جائے۔
دارالصحت بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ شام کے اوقات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع ہو جایا کرتی اور ورزش میں مصروف پہلوان نوجوانوں کو دیکھا کرتی تھی۔ ان نوجوانوں میں توجہ کا مرکز وہ زور آور پہلوان ہوا کرتے تھے جن کا تعلق مشہور بھولو پہلوان خاندان سے تھا۔ دارالصحت کو سب ’بھولو کا اکھاڑہ‘ کے نام سے جانتے تھے۔ اس اکھاڑے میں اس گھرانے کے تمام ہی پہلوان روزانہ ایک دوسرے کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے نظر آتے تھے۔ اس اکھاڑے کی زمین پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھولو پہلوان کے گھرانے کو عطیہ کی تھی۔ بھولو کا یہ اکھاڑہ اب بھی موجود ہے جہاں نوجوان باڈی بلڈنگ اور مختلف نوعیت کی ورزشیں کرنے آتے ہیں اور صبح سویرے کچھ کُشتیاں بھی ہوتی ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ بھولو خاندان اب یہاں موجود نہیں۔ اس خاندان کی پرانی نسل تو دنیا سے ُکوچ کر گئی جبکہ موجودہ نوجوان نسل اِس فن کی پاکستان میں بے قدری کے باعث اسے کب کا ترک کر چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیے پہلوانوں کی بہو بیٹی نواز شریف کے مدِ مقابل ’ڈاکٹر، انجینیئر کیا بننا، بیٹا پہلوانی میں نام کرنا‘ جب عمران خان نے تماشائی لڑکے کا گلا دبوچ لیا رستم زماں بھولو پہلوان گرز کے ساتھ بھولو خاندان میں کون کون شامل؟ بھولو برادران میں سب سے بڑے پہلوان منظور حسین تھے جنھیں دنیا ’رستم زماں‘ بھولو پہلوان کے نام سے جانتی ہے۔ بھولو پہلوان نے سنہ 1949 میں کراچی کے پولو گراؤنڈ میں یونس پہلوان کو پچھاڑ کر ’رستمِ پاکستان‘ کا ٹائٹل جیتا تھا۔ اُس کُشتی کے مہمان خصوصی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین تھے جنھوں نے بھولو پہلوان کو روایتی گرز پیش کیا تھا۔ بھولو پہلوان کو سنہ 1962 میں صدر ایوب خان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ بھولو پہلوان نے مئی 1967 میں لندن کے ویمبلے سٹیڈیم میں اینگلو فرنچ پہلوان ہنری پیری کو شکست دی اور ’رستم زماں‘ قرار پائے تھے۔ صدر ایوب خان بھولو پہلوان کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیتے ہوئے بھولو پہلوان کی روایت کو ان کے بھائیوں نے آگے بڑھایا جن میں حسین عرف حسو پہلوان، اسلم پہلوان، اکرم پہلوان، اعظم پہلوان اور معظم عرف گوگا پہلوان شامل تھے۔ یہ سب پہلوان بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ اس خاندان کی تیسری نسل میں بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو اور اسلم پہلوان کے بیٹے زبیر عرف جھارا نے شہرت حاصل کی۔ ناصر بھولو نے دیسی کُشتی کے علاوہ فری سٹائل کشتی میں بھی مہارت حاصل کی۔ زبیرعرف جھارا کی سب سے مشہور کشتی جاپانی پہلوان انوکی سے ہوئی تھی جس میں وہ فاتح رہے تھے۔ اس سے قبل انوکی نے ان کے چچا اکرم پہلوان کو شکست دی تھی۔ جھارا کا انتقال صرف 30 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا تھا۔ اسلم پہلوان کے پوتے اور جھارا کے بھتیجے ہارون عابد کو انوکی اپنے ساتھ جاپان لے جا چکے ہیں جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ پہلوانی کی تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔ انوکی پہلوان نے ناصر بھولو کو بھی اپنے ساتھ جاپان لے جا کر وہاں ٹریننگ دینے کی پیشکش کی تھی لیکن خاندان کے بڑوں نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ بھولو پہلوان اپنے بھائیوں اسلم اور گوگا کے ہمراہ رستم زماں گاماں پہلوان بھولو خاندان کا تعلق برصغیر میں پہلوانوں کے مشہور سلسلے سے ہے۔ بھولو پہلوان کے والد امام بخش اپنے دور کے بہترین پہلوان تھے اور ’رستمِ ہند‘ کے طور پر مشہور تھے۔ ان کے بڑے بھائی غلام حسین تھےجو دنیا بھر میں گاماں پہلوان کے نام سے مشہور ہوئے۔ گاماں پہلوان بھولو پہلوان کے تایا اور سُسر تھے جنھوں نے پورے ہندوستان میں کشتیاں لڑیں اور ان کے مقابلے پر کوئی بھی پہلوان نہ ٹھہر سکا۔ ان کی وجہ شہرت وہ کشتی ہے جو انھوں نے پولینڈ کے پہلوان زبسکو سے لڑی اور دونوں بار انھیں زیر کیا۔ ستمبر 1910 میں ہونے والی پہلی کشتی کا احوال بڑا دلچسپ ہے۔ جب گاماں پہلوان لندن پہنچے تو انھیں کسی نے اہمیت نہ دی اور انھیں دنیا کے بڑے بڑے پہلوانوں کے مقابلے میں شرکت کی اجازت تک نہ ملی۔ جس کے بعد انھوں نے ایک تھیٹر کے باہر رنگ لگا کر تمام پہلوانوں کو چیلنج کر دیا کہ جو بھی پہلوان انھیں ہرائے گا وہ اسے پانچ پاؤنڈ انعام دیں گے لیکن کوئی بھی انھیں زیر نہ کر سکا۔ عالمی مقابلے میں حصہ لینے والے آٹھ پہلوانوں کو ہرانے کے بعد جب گاماں پہلوان زبسکو کے مقابل آئے تو زبسکو کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی دال گلنے والی نہیں۔ انھوں نے شکست سے بچنے کے لیے رنگ میں مختلف حرکتیں شروع کر دیں یہاں تک کہ ریفری کو کئی بار انھیں وارننگ دینی پڑی۔ لندن: سنہ 1910 میں گاماں پہلوان پولینڈ کے پہلوان زبسکو کے ہمراہ آخرکار زبسکو نے یہ مقابلہ ملتوی کرنے کی درخواست کر دی لیکن چند روز بعد جب دوبارہ مقابلے کا وقت آیا تو زبسکو اکھاڑے میں موجود نہ تھے، لہذا منتظمین نے گاماں پہلوان کو فاتح قرار دے کر ورلڈ چیمپیئن شپ کی بیلٹ انھیں پیش کر دی۔ گاماں پہلوان اور زبسکو کے درمیان دوسرا مقابلہ سنہ 1928 میں انڈیا کے شہر پٹیالہ میں ہوا تھا، اس مقابلے میں گاماں نے اپنے حریف کو چند سیکنڈز میں ہی پچھاڑ دیا تھا۔ بھولو خاندان میں اب کوئی پہلوان کیوں نہیں؟ بھولو پہلوان کے صاحبزادے ناصر بھولو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کسی بھی فن کی سرپرستی بہت ضروری ہے، چاہے زیادہ ہو یا کم۔ ہماری تو تھوڑی سی بھی نہیں ہوئی۔ اگر تھوڑی بہت بھی سرپرستی ہوتی تو یہ سلسلہ ختم نہ ہوتا۔ ہمارے بڑوں نے اپنی محنت کے بل بوتے پر ملک کا نام روشن کیا۔ جب ہمارے بزرگ پاکستان آ رہے تھے تو ہندوستانی حکومت نے میرے والد صاحب کو وہیں رہنے کی پیشکش کی تھی کہ آپ کو جو کچھ چاہیے وہ دیں گے لیکن ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو ترجیح دی تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں انھیں ’اللہ نے بڑی عزت دی لوگوں نے بہت پیار دیا لیکن صاحب اقتدار حلقوں نے جو حالت کی، میں اسے کیا بیان کروں۔‘ ناصر بھولو کہتے ہیں ’میں اپنا یہ سلسلہ ختم نہیں کرنا چاہتا، اسی لیے کراچی میں اکھاڑا قائم رکھا ہے۔‘ ناصر بھولے کے مطابق ’ایک پہلوان بننے میں بہت زیادہ محنت اور پیسہ درکار ہوتا ہے۔ جب میرے چچا کے بعد جھارا نے انوکی سے کشتی کی تو اس دور میں ہم پہلوانوں نے دو سال تک اپنے گھر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم لوگ اتنی سخت ٹریننگ میں مصروف تھے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس ٹریننگ میں کوئی مخل ہو۔‘ ورلڈ چیمپئن شپ کی بیلٹ جو گاماں پہلوان نے زبسکو کو ہرا کر جیتی وہ کہتے ہیں ’دراصل ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ پہلوانی لوہے کے چنے ہیں جو انھیں چبائے گا وہی پہلوان ہے۔‘ انھوں نے کہا ’ہمارے دور میں ایک پی ٹی وی ہوتا تھا لیکن سرکاری ٹی وی ہونے کی وجہ سے اس کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا تھا۔ چند اخبارات تھے جن میں خبریں شائع ہو جاتی تھیں۔ آج میڈیا بہت مؤثر ہے اور اگر وہ چاہے تو آج بھی صرف ہمارے خاندان سے ہی نہیں بلکہ دوسری جگہوں سے بھی پہلوان سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ ٹیلنٹ موجود ہے۔‘ ناصر بھولو کو امید ہے کہ اُن کے خاندان سے کوئی نہ کوئی پہلوان دو تین سال میں سامنے آ جائے گا۔ ضیاء الحق بھولو پہلوان سے ناراض ناصر بھولو نے سابق فوجی حکمران ضیا الحق کی طرف سے عائد پابندی کے بارے میں بتایا کہ ’بھولو پہلوان نے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حکومت ہماری سرپرستی نہیں کرتی۔ ہمارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا جا رہا ہے کہ اگر ہمیں کسی دنگل کے لیے گراؤنڈ چاہیے تو اس کے لیے بہت زیادہ معاوضہ طلب کیا جاتا ہے۔ یہ حق تلفی نہیں ہونی چاہیے اگر آپ ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں تو ہمیں یہاں سے جانے کی اجازت دی جائے ہم یہاں رہنا نہیں چاہتے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ انٹرویو کرنے والے نے سوال کیا کہ آپ کہاں جائیں گے؟ ’میرے والد صاحب نے کہا کہ ظاہر سی بات ہے کہ جہاں ہماری زبان سمجھی جائے گی ہم وہیں جائیں گے، یعنی جہاں سے ہم آئے تھے۔‘ پھر سوال کیا گیا کہ انڈیا؟ ’والد صاحب نے کہا کہ بے شک۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس بات پر ضیا الحق ناراض ہو گئے اور انھوں نے ہمارے انڈیا جانے پر پابندی عائد کر دی حالانکہ ایک بار کرکٹ میچ کے سلسلے میں جانا چاہتے تھے اور ایک بار رستم ہند پہلوان سے مقابلے کا موقع تھا لیکن جانے کی اجازت نہ مل سکی۔ نوجوان ناصر بھولو فلم اور سیاست ناصر بھولو نے ایک فلم میں بھی کام کیا لیکن انھیں خاندان والوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ مزید فلموں میں کام نہ کر سکے۔انھیں انڈیا سے بھی فلم کی آفر ہوئی تھی لیکن اس وقت پوری فیملی کے انڈیا جانے پر پابندی تھی۔ ناصر بھولو کہتے ہیں ’میں سنہ 1985 میں الیکشن بھی لڑ چکا ہوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہوئی تھی کہ مجھے الیکشن لڑنا پڑا تھا حالانکہ والد صاحب اس بات کے سخت مخالف تھے۔‘ گاماں کی بیلٹ اور گُرز کہاں ہیں؟ ناصر بھولو کہتے ہیں ’میرے پاس خاندان کے بڑوں کے جیتے گئے گُرز کے علاوہ رستم زماں گاماں پہلوان کی وہ بیلٹ بھی یادگار کے طور پر موجود ہے جو انھیں لندن میں زبسکو کو شکست دینے پر دی گئی تھی۔ وہ بیلٹ ایسے پڑی ہے جیسے کسی کو اس بارے میں پتہ ہی نہیں ہے دراصل اس کی قدر وہی جانے جسے اس کا پتہ ہو۔‘ انھوں نے کہا کہ اب تو لوگوں نےگُرز کا بھی مذاق بنا دیا ہے کہ چھوٹی موٹی کشتیوں میں بھی گُرز دیے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں گُرز بند پہلوان وہ کہلاتا تھا جو پورے برصغیر کے پہلوانوں کو ہراتا تھا۔ کلثوم نواز سے رشتہ داری ناصر بھولو اور بیگم کلثوم نواز دونوں کی والدہ سگی بہنیں تھیں۔ ناصر بھولو کہتے ہیں ’ایک الیکشن کے بعد میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا لیکن بیگم کلثوم نواز سے بہت ملنا جلنا رہا۔ وہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح محبت کرتی تھیں۔ میرے لیے وہ بڑی بہن تھیں۔ ان کے انتقال سے چند روز پہلے میں نے انھیں فون کیا تھا حالانکہ ڈاکٹرز نے انھیں بات کرنے سے منع کر رکھا تھا لیکن انھوں نے مجھ سے بات کی تھی۔ میرے لیے وہ بہت قابل احترام تھیں۔‘
pakistan-39636343
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-39636343
لاہور: احمدی خاتون پروفیسر کا قتل، تین ملزمان گرفتار
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جماعتِ احمدیہ سے تعلق رکھنے والی پروفیسر طاہرہ پروین ملک کے قتل کے معاملے میں تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ واقعہ بظاہر قتل معلوم ہوتا ہے 61 سالہ طاہرہ ملک منگل کی شب اپنی رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ ٭ ننکانہ صاحب میں ڈاکٹر عبدالسلام کے کزن کا قتل ٭ ’جماعتِ احمدیہ کے خلاف خبریں باعثِ تعصب‘ پولیس کے مطابق ان کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق سی آئی اے نے موبائل فون کالز کے ڈیٹا کی مدد سے ملزمان کو گرفتار کیا اور ان میں سے ایک یونیورسٹی کا ہی الیکٹریشن ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سے آلۂ قتل بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ پروفیسر طاہرہ پروین نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔ وہ جامعہ پنجاب کی رہائشی کالونی میں رہائش پذیر تھیں جہاں منگل کو مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ جماعتِ احمدیہ پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے دوران احمدی جماعت کے 6 افراد کو قتل کیا گیا۔
070403_saarc_shaukataziz_rr
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2007/04/070403_saarc_shaukataziz_rr
سارک کو فعال بنانا ہوگا:شوکت عزیز
پاکستان کے وزیرا عظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ملکوں میں باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے بنیادی سوال ہے اور اسے حل کرنا ہی ہوگا۔
دلی میں سارک سربراہی اجلاس سے خطاب کے بعد مدیروں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سارک دیگر علاقائی تنظیموں کی طرح کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور اس کی وجہ باہمی تنازعات، خطے میں باہمی اعتماد کی کمی اور کشیدگی رہی ہے جس میں سارک کی توانائي صرف ہوتی رہی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تقریروں سے نکل کر ایک عملی ایسوسی ایشن بنانے کی ضرورت ہے ۔ مسٹر ع‍زیز نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بنیادی سوال ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ بات کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے لیکن اسے حل کرنا ہوگا،۔ انہوں نے مدیروں کو بتایا کہ تجارت کا معاملہ بھی کشمیر سے منسلک ہے لیکن آزاد تجارت کا معاہدہ سافٹا ایک راستہ فراہم کر رہا ہے اور اس میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ملک کی داخلی صورت حال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نےبتایا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور وہاں جسٹس افتخار محمد چودھری اور وکلاء سمیت سبھی کو احتجاج کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا اتنا کبھی آزاد نہیں رہا ہے جتناکہ آج ہے۔
041230_bbc_eyewitness
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/12/041230_bbc_eyewitness
’میرا بھائی مر گیا‘
انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں آنے والے زلزلے اور سونامی کی وجہ سے ایشیاء کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس علاقے میں کثیر تعداد میں غیر ملکی سیاح موجود تھے جنھوں نے دنیا کو وہاں پیش آنے والی صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنی داستانیں سُنائیں۔ درج ذیل کہانی بی بی سی سری لنکا کے رولینڈ بیورک کی ہے۔
میں اور میری بیوی ساحل سے کچھ میٹر کی دوری پر واقع ایک ہوٹل کی نچلی منزل کے ایک کمرے میں سو رہے تھے جب کرسیوں اور میزوں کے زبردست شور اور لوگوں کی چیخ و پُکار کی آوازوں سے اچانک ہماری آنکھ کھل گئی۔ پانی دروازے کے نیچے سے کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ جیسے ہی ہم نے دروازہ کھولا تو پانی کے شدید دباؤ سے کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور ہم پانی میں بہہ کر راہداری تک پہنچ گئے۔ ہم کرسیوں اور میزوں سے اپنا بچاؤ کر رہے تھے، برتن ٹوٹ رہے تھے اور لوگ چیخ رہے تھے۔ بہتے ہوئے ہم ہوٹل کے پچھلی جانب موجود ریستوران میں آ پہنچے۔ پھر ہم نے ایک درخت کو مضبوطی سے تھام لیا اور اس پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن پانی کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ درخت جُھک گیا۔ ہم زیادہ دیر درخت کا سہارا نہ لے سکے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آگے کی طرف بہتے چلے گئے۔ پانی کا زور اتنا تھا کہ ہمارے ساتھ موٹرسائیکلیں، گاڑیاں اور ٹوٹی ہوئی دیواروں کے ٹکڑے بھی بہہ رہے تھے۔ جان بچانے کے لیے تیرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ قریب ہی ایک جوان برطانوی عورت تیر رہی تھی اور ’چارلی! چارلی! ‘ کہہ کر آوازیں دے رہی تھی۔ ہم نے اس کے مدد کی تو اس نے لڑکھڑاتی آواز میں بتایا ’میں نے اپنے بوائے فرینڈ کو کھو دیا ہے‘۔ اچانک وہ چلائی۔ چارلی خون میں لت پت بڑی دقت سے ہماری ہی جانب بڑھ رہا تھا۔وہ بھی مکمل جذبات میں اس کی جانب ہاتھ پاؤں مارنے لگی اور جیسے ہی ایک دوسرے کے قریب پہنچے انھوں نے پانی میں ایک دوسرے کو گلے سے لگالیا۔ اس دوران ایک ادھیڑ عمر شخص قریب سے یہ الفاظ دہراتا ہوا گزرا ’میرے بیوی تیرنے گئی تھی‘۔ زندہ بچ جانے میں ایک قسم کا نشہ ہوتا ہے۔ میں تقریباً خوش محسوس کررہا تھا کہ میں دوسروں کو تسلی دے سکتا ہوں۔ یہ ایک شرمناک کیفیت تھی لیکن یہ کسی بھی طرح جا نہ رہی تھی۔ اچانک پھر افراتفری پھیل گئی اور لوگ چِلاّئے ’ایک اور لہر آرہی ہے‘۔ اس میں کویی سچ نہ تھا لیکن ہم پھر بھی جانیں بچانے کے لیے علاقے کے نزدیک موجود پہاڑیوں کی جانب دوڑے اور وہاں بڑے بڑے پتھروں پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس جگہ پر ہماری ملاقات اپنے ان دوستوں سے ہوئی جو چھٹیاں گزارنے کے لیے ہمارے ہمراہ سری لنکا آئے تھے اور اسی ہوٹل کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں ٹہرے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی جان چھت پر چڑھ کر بچائی تھی۔ ہم سوچ رہے تھے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں اور ہمارے بارے میں ان کی بھی کچھ ایسی ہی سوچ تھی کیوں کہ جب وہ ہماری تلاش میں کمرے میں پہنچے تو کمرہ پانی سے تباہ ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے اس قسم کے حالات کو دیکھ کر کون امید کر سکتا تھا کہ کوئی زندہ بھی بچ سکتا ہے۔ ہم نے پہاڑ کے اوپر سے سمندر کا نظارہ کیا۔ سمندر غصے سے ابل رہا تھا۔ پانی کچھ دیر کے لیے گیا اور پھر لوٹ آیا۔ ہم وہاں بہت دیر تک رکے رہے اور لوگ ہمارے پاس سے گزرتے رہے۔ ہمیں ایک برطانوی کنبہ دکھائی دیا جن کے ساتھ ایک سری لنکن ان کے بچے کی لاش اٹھائے ہوئے تھا۔ اس میں سے ایک منا سا پاؤں باہر نکلا ہوا تھا۔ انگلینڈ کی فٹبال شرٹ پہنے ہوئے ایک لڑکے نے کہا ’میرا بھائی مر گیا‘۔ اس نے یہ بات ایسے کہی جیسے یہ کوئی عام سی حقیقت ہو۔ وہ سب بےحس لگ رہے تھے۔ وہ ہمارے قریب سے گزرتے چلے گئے نجانے کس منزل کی طرف۔ اگلے روز ہمارے ساتھ بچ جانے والوں نے ہمیں کچھ کپڑے دیئے اور ہم قریب ترین شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے والی سڑک سے تباہی اپنی مکمل بھیانک شکل میں نظر آرہی تھی۔ گھر اور دکانیں تباہ ہو چکی تھیں۔ کشتیاں سینکڑوں میٹر تک زمین پر اندر آکر گری تھیں۔ شہر میں ہم وہاں سےگزرے جہاں ایک دن پہلے تک بازار ہوتا تھا۔ گاڑیاں اور بسیں تنگ گلیوں میں کھلونوں کی طرح الٹی پڑی تھیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی شخص ہمارے پاس آکر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا کہ ہم ان کے ملک میں بطور مہمان آئے تھے لیکن ہمیں اس قسم کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم ان سے کہتے کہ ہمیں بھی افسوس ہے، اس سب کا جو کھوچکا۔ لیکن یہ سارے الفاظ غیر ضروری تھے اور ہمیں یہ حساس بھی دلاتے رہے کہ اس وقت ہمیں صرف کسی محفوظ مقام تک پہنچنے کی فکر تھی۔
071212_pota_godhra_ka
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/12/071212_pota_godhra_ka
’ہمیں بھی پوٹا لگا کر جیل میں بند کر دیں‘
’جو کمانے والا تھا وہ تو جیل میں قید ہے۔چھ برس ہو گئے لیکن انہیں ضمانت نہیں ملی ہے۔ گھروں میں کام کر کے بچوں کو پال رہے ہیں۔ ہمارے گھروالے کو پوٹا میں بند کیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں صرف مسلمانوں پر ہی پوٹا لگایا گیا ہے وہ بھی گودھرا کے مسلمانوں پر۔ سب کو ضمانت مل جاتی ہے ابھی سنجے دت کو بھی مل گئی لیکن میرا گھر والا چھ برس سے جیل میں قید ہے۔ اب تو بس یہی راستہ ہے کہ ہمارے پر بھی پوٹا لگا دیں اور ہمیں جیل میں بند کر دیں‘۔
یہ خیالات ہیں ریاست گجرات کے شہر گودھرا کی باسی ریحانہ کے جن کے خاندان کے تین افراد گزشتہ چھ برس سے جیل میں قید ہیں۔ ان لوگوں کو پولیس اس وقت اٹھا کر لے گئی تھی جب گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ہندو کارسیوکوں سے بھری ہوئے ٹرین کے ایک ڈبے میں آگ لگا دی گئی تھی اور اس میں 59 ہندو ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے گودھرا میں گرفتاریاں کیں اور تقریباً اسّی لوگوں کو ’پوٹا‘ یعنی انسداد دہشتگردی قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا۔ جیل بھیجے جانے والے یہ سبھی افراد مسلمان تھے۔ سنہ دو ہزار چار میں جب مرکز میں یو پی اے کی حکومت بنی تو ’پوٹا‘ ہٹا لیا گیا لیکن گودھرا واقعے میں قید افراد ابھی بھی جیل میں ہیں۔ ریحانہ گزشتہ چھ برس سے اپنے گھر والوں کو جیل سے رہا کرانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔ اس جدوجہد میں وہ اکیلی نہیں ہیں۔ شہر کے مضافاتی علاقے میں ایسے کئی گھر موجود ہیں جہاں ایک بھی مرد نہيں ہیں اور ان گھروں کی عورتیں اپنی اور اپنے بچوں کی ذمے داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین دوسرے گھروں میں محض چند سو روپے کےعوض کام کرتی ہیں۔ کئی بزرگ عورتیں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور کچھ صرف انصاف کے انتظار میں ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون عطیہ ہیں جن کے والد عنایت عبدالستار سرکاری ملازم تھے۔ عطیہ نے بتایا کہ’واقعے کے دن وہ دفتر گئے تھے لیکن اس کے بعد واپس نہیں آئے۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ وہ جیل میں ہیں۔ لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا ہے۔ پندرہ دن بعد پتہ چلا کہ انہیں اس ٹرین والے واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے‘۔ عبدالستار کی اہلیہ عزیزہ خانم نے بتایا کہ ان کے جیل جانے کے بعد آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نوکری سے انہيں معطل کر دیا گیا تھا اس لیے انہیں کوئی فنڈ نہیں ملا۔گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔’پھر ہم نے مزدوری کرنی شروع کر دی اورگھر میں دودھ دہی بیچ کر زندگی گزارنی شروع کی۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی بچوں کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے‘۔ گودھرا آتشزدگی کے حوالے سے شہر کی جانی مانی ہستی مولانا حسین عمر جی کو بھی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گجرات کے متاثرہ مسلمانوں کی جس نے بھی مدد کرنے کی کوشش کی ہے انہیں کسی نہ کسی شکل میں ہراساں کیا گیا ہے۔ عمر جی کے بیٹے سعید حسین کہتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہمیں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ہمارا مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا گناہ ہے‘۔ سعید عمر جی بتاتے ہیں ’سپریم کورٹ میں گزشتہ ڈھائی برس سے ’پوٹا‘ کے تحت جیل میں قید افراد کی ضمانت پر نظر ثانی کی سماعت جاری ہے لیکن ہر سماعت میں اگلی شنوائی کی تاریخ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا‘۔ فی الوقت ریاست میں اسبملی انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ اور جب جیل میں قید افراد کے لواحقین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر ریاستی حکومت میں تبدیلی آتی ہے تو کیا ان کے حالات میں فرق پڑے گا؟ تو ان کا کہنا حکومت کوئی بھی ہو ہمیں تو اپنے گھر والے واپس گھر میں چاہئيں۔
051116_pakistan_wins
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/11/051116_pakistan_wins
ملتان ٹیسٹ، پاکستان کی فتح
پاکستان نے ملتان ٹیسٹ میچ میں ایک دلچسپ مقابلے کے بعد انگلینڈ کو ہرا دیا ہے۔
پاکستان نے میچ کے پانچویں روز شاندار بولنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کو 175 رنز پر آؤٹ کر کے میچ بائیس رنز سے جیت لیا۔ پاکستان کی اس جیت پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟ ذیشان خورشید، ملتان، پاکستان:پاکستانی ٹیم بہت اچھا کھیلی اور ایک حیران کن فتح حاصل کی۔ ہماری ٹیم نے بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں اچھی کیں اور کامیاب ہوئی۔ ہم بہت خوش ہیں اور ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مزید کامیابیوں کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ آصف ججہ، کینیڈا:اس کامیابی کا سہرا انضمام کی کپتانی کے سر ہے جنہوں نے باؤلرز کو صحیح طریقے سےاستعمال کیا۔ انہوں نے دکھایا کہ مشکل وقت میں ٹیم کی کس طرح رہنمائی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دانش کنیریا اور راولپنڈی ایکسپریس نے بھی بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ افتخار احمد، مردان، پاکستان:شعیب اختر نے اس میچ میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ میرا انضمام کو یہ مشورہ ہے کہ شعیب کو ٹیم سے ڈراپ نہ کریں کیونکہ وہ ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ نعمان عزیز، کراچی، پاکستان:پاسکتان کی فتح شاندار ہے۔ انگلینڈ کے بارے میں خیال تھا کہ اس کی ٹیم بہت مضبوط ہے، لیکن شبیر، شعیب اور کنیریا نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ امید ہے کہ وہ اگلے میچوں میں اس کارکردگی کو دہرائیں گے۔ نا معلوم:میچ کے پانچویں روز سب نے ٹیم سپرٹ کا مظاہرہ کیا، اس لیے ٹیم جیتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی ٹیم کسی بھی ٹیم کو کسی بھی وقت ہرا سکتی ہے۔ محمد عمران، کویتپاکستان نے بہت دیر بعد وہی نتیجہ دیا جس کے لیے وہ کبھی مشہور ہوا کرتے تھے۔ آفتاب اعوان، سعودی عرب:ہم نے پہلے دن سے یہ سوچ لیا تھا کہ یہ میچ پاکستان جیتےگا۔ پاکستان کو انگلینڈ ٹیم پر نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ ندیم رحمٰن، مظفرگڑھ، پاکستان:اگر پاکستان یہ میچ ہار جاتا تو یہ ایک زلزلے سے کم بات نہیں تھی۔ عبداللہ خان، لورالائی، پاکستان:میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ اگلے میچ میں حسن رضا کی جگہ آفریدی کو کھلانا چاہیے۔ شعیب ملک اور سلمان بٹ اچھے اوپنر ہیں، انہیں مزید موقع دینا چاہیے۔ کھلاڑیوں کی پوزیشن بار بار نہیں بدلنی چاہیے۔ محمد عظیم، ڈسکہ، پاکستان:میں بہت خوش ہوں۔ سب پاکستانیوں اور پاکستانی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ راشد علی، پاکستان:میرے خیال میں فلنٹوف اور جانز بہتر کھیلے لیکن انگلینڈ کو مزید پریکٹس کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔ شکیل آفتاب، دبئی:ویل ڈن پاکستان۔ اللہ کرے یہ اتحاد ٹیم میں برقرار رہے۔ شفیق رانا، پاکستان:اگلے میچ میں حسن رضا کی جگہ شاہد آفریدی کو کھلائیں۔ اویس صدیقی، کینیڈا:اس میں بھی کیا رائے دینا، ظاہر ہے خوشی تو ہو گی۔ فرحاج علی، ابو ظبہی:محمد سمیع کا ذکر نہ کرنا ذیادتی ہے۔ اس نے بہت محنت کی۔ امین اللہ، پاکستان:پاکستانی ہر کام کر سکتے ہیں مگر لگن، محنت اور ایمانداری شرط ہے۔ اس میچ میں یہ خوبیاں یکجا ہوئیں تو گوروں کا غرور خاک میں مل گیا۔ شان علی، قصور، پاکستان:یہ پاکستانی ٹیم کا بہت اچھا آغاز ہے۔ میرے خیال میں پاکستانی ٹیم سخت محنت سے یہ سیریز جیت سکتی ہے، اگر مڈل آرڈر بیٹسمین بہتر کارکردگی دیں تو۔ آصف محمود، لاہور، پاکستان:شاباش پاکستان ٹیم، مگر مجموعی ملکی صورتحال خصوصاً زلزلہ زدگان کے حالات سے دل کا وہ حال ہے کہ دل کانپ کانپ جاتا ہے ہر خوشی کے بعد۔ سمیع خان، امریکہ:میرے خیال میں یہ سیریز بہت اچھا موقع ہے فنڈ اکھٹا کرنے کا، اس کا سارا منافع زلزلہ زدگان کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔ عنی سعیدہ، کراچی، پاکستان:کاش ہم ان کھیل تماشوں کی بجائے حقیقی زندگی میں کوئی فتح حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ عارف حسین، سپینپاکستان نے ملتان ٹیسٹ جیت کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ دنیا کی بہترین ٹیم ہے اور کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتی ہے۔ پوری ٹیم کو مبارک ۔ سلمان بٹ بہترین کھلاڑی اور انضمام بہترین کپتان ہے۔ شہزاد اکبر، اوکاڑہ، پاکستان:اس میچ میں پاکستان ٹیم نے ثابت کیا ہے کہ انڈیا کے دورے کا نشہ ابھی نہیں اترا۔ کیونکہ اس دورے کے پہلے اور تیسرے میچ میں پاکستان ٹیم نے پانچویں دن بازی پلٹی تھی اور یہاں پر بھی وہی تاریخ دہرائی۔ شفیق پرویز، اٹک، پاکستان:کھیل ہار جیت کا نام ہے آج پاکستان تو کل انگلینڈ جیت جائے گا جواد یونس، لاہور، پاکستان:مجھے افسوس ہے کہ میں اس جیت پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کر سکتا کیونکہ میرے جو بھائی، بہن بےیارومددگار دکھوں کا بھوج اٹھائے بیٹھے ہیں، یقیناً یہ جیت ان کے دکھوں کی دوا نہیں بن سکتی۔ شبیر خٹک، پاکستان:کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب کیا ہوتا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ آج ویسے تو میچ اگلینڈ کے حق میں تھا پر پاکستانی بالرز نے واقعی درگت بنا ڈالی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ٹیم بھی کسی سے کم نہیں۔ فرید سید، جرمنی:میرے خیال میں یہ ایک دلچسپ میچ تھا اور دونوں ٹیموں نے بہت اچھا کھیلا۔ مگر یہ بات بھی ہے کہ انگلینڈ میچ جیت کر ہار گیا اور پاکستان کی تعریف کی جانی چاہیے کہ مشکل میں ہونے کے باوجود اس نے یہ میچ جیت لیا۔ میرے خیال میں اگلے میچ میں حسن رضا کی جگہ آفریدی کو موقع دیا جانا چاہیے۔ عرفان میمن، جاپان:بہت اچھے پاکستان۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان یہ سیریز جیت جائے گا۔ انشا اللہ۔ محمد عرفان بٹ، سپین:رات کو میں اپنے دوست کو کہہ رہا تھا کہ پاکستان میچ جیت جائے گا، تو میرا دوست بولا نہیں۔ لیکن پاکستان کی ٹیم نے میری بات ثابت کر دی۔ شکریہ پاکستان۔ بٹ بہت اچھا کھیلے اور دانش نے بہت اچھی بالنگ کی۔ ساجد آفریدی، دبئی:مجھے پتہ نہیں کیوں کل ہی یقین تھا کہ پاکستان جیت جائے گا۔ جب کہ کل تک پاکستان کے ہاتھ سے میچ نکل چکا تھا۔ شاید میرے یقین کی وجہ پاکستانی نوجوان ٹیم کا وہ جذبہ تھا جو کہ انڈین اور ویسٹ انڈیز کے دورے میں دیکھا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، لیکن آج پاکستان نے ثابت کر دیا کہ نہیں کوئی ہم جیسا۔۔۔ نوید الحسن، گوجرانوالا، پاکستان:شعیب اختر دنیا کے بہترین بالر ہیں۔ ویسے تو ٹیم کے تمام بالر بہترین ہیں، مگر شعیب کا کوئی جواب نہیں۔ محمد اسلم، لاہور، پاکستان:پاکستان نے نہایت شاندار فتح حاصل کی ہے جس کے لیے پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ ٹیم سپرٹ کے ساتھ کھیلی اور اس نے کامیابی حاصل کی۔ ایک اور بات یہ کہ انگلینڈ کے کھلاڑیوں ن پاکستان آنے کے بعد کہا تھا کہ وہ پاکستانیوں کو اپنے کھیل سے مسکرانے کا موقع دینگے۔ انہوں نےاپنی بات سچ کر دکھائی۔ انگلینڈ نے بھی بہت اچھا کھیلا لیکن پاکستان سے بہتر نہیں۔ اکرم، راولپنڈی، پاکستان:یہ ایک غیر معمولی اور غیر متوقع جیت ہے۔ انضمام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بہترین کپتان ہیں۔ بالرز نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ باقی میچوں کے لیے گُڈ لک۔ محمد زاہد حسین، گلشن اقبال، پاکستان:کیا شاندار فتح ہے۔ شعیب اختر، دانش، سلمان اور تمام ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ آگے بھی ایسی ہی امید ہے۔ بہت مبارک باد۔ جہاں گیر بنگش، پاکستان:کل تک مجھے لگا رہا تھا کہ شاید پاکستان ہار جائے گا۔ لیکن آج میچ دیکھنے میں مزہ آ گیا۔ بہت عرصے بعد ایک ٹیسٹ میچ اتنا دلچسپ اور مزےدار تھا۔ تمام بالرز نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اور سلمان بٹ تو سب سے بہتر تھے۔ جسٹ امیزنگ۔۔۔ مجتبی علی قادری، لندن، برطانیہ:آج ایک مرتبہ پھر پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم سے کم نہیں اور جس ٹیم میں انضی جیسا کپتان ہو، شعیب جیسی ایکسپریس ہو اور کنیریا جیسا جادوگر ہو، اسے ہرانا کسی فریڈی، ہاگی اور ہارمی کے لیے آسان نہیں۔ ندیم ضیا، سپین:چار دن میچ پر انگلینڈ نے راج کیا، لیکن پاکستان نے وہ اگریزی راج صرف اپنے ایک دن کے راج سے ختم کر دیا۔ اس سے پوری پاکستانی عوام کو بہت خوشی ہوئی ہے اور شاید اس خوشی سے پاکستانی عوام کو زلزلے سے ہوئے غم میں کافی کمی بھی آئی ہوگی۔ شعیب ایک عالمی معیار کے بالر ہیں اور انہوں نے یہ بات ایک مرتبہ پھر ثابت کر دی ہے۔ آنے والے میچوں کے لیے میری نیک خواہشات پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ مجیب راجہ، سعودی عرب:کافی عرصے بعد پوری ٹیم متحد ہو کر کھیلتی ہوئی نظر آئی۔ سلمان بٹ کی عمدہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ شبیر احمد، شعیب اختر اور دانش کنیریا نے نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم بیٹنگ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ شمشاد خان، لاہور، پاکستان:اب تو سب کو یقین ہو جانا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو کسی بھی وقت ہرا سکتی ہے۔ بہت اچھے انضی اور پوری ٹیم! گلفام نظیر، سپین:بٹ بہترین ہیں۔ فخر عباس، اسلام آباد، پاکستان:ویسے مجھے یقین نہیں آ رہا کہ پاکستان واقعی میچ جیت چکا ہے۔ اس میچ کا اہم موقع تب تھا جب ٹریسکاتھک کا وکٹ گرا۔ میں پاکستانی ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگلے میچوں میں بھی پاکستان اسی طرح کھیلے گا۔ میرے خیال میں اگلے میچ میں حسن رضا کی جگہ عاصم کمال کو موقع ملنا چاہیے۔ مسعود رضوی، کراچی، پاکستان:بہت خوشی ہوئی۔ مگر پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ پاکستانی ٹیم صرف اس وقت سنجیدہ کوشش کرتی ہے جب میچ بالکل ہاتھ سے جانے لگتا ہے۔ راشد احمد، جرمنی:میں پاکستانی ٹیم اور کوچ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جاوید اقبال ملک، چکوال، پاکستان:پاکستان نے ایک ناقابل یقین فتح حاصل کی ہے اور اس کا سہرہ پوری ٹیم کے سر ہے، لیکن انضی، باب وولمر، بٹ، شعیب، شبیر، سمیع اور کنیریا کے کیا کہنے۔ پوری ٹیم میں ایک اتحاد نظر آیا اور اگر اسی طرح ٹیم کھیلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دنیا کی بہترین ٹیم ہوگی۔ خالد حسین، اسلام آباد، پاکستان:نہیں کوئی ہم جیسا۔۔۔ شفیق الرحمان، پنجاب، پاکستان:بہت اچھے پاکستان!
040728_afghan_aid_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/07/040728_afghan_aid_rza
امدادای ادارہ افغانستان چھوڑ گیا
ڈاکٹروں کے امدادی ادارے ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ اس کے عملے کے پانچ ارکان کی ہلاکت کے بعد اس نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان سے اس لیے جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے عملے کی ہلاکتوں کے سلسلے میں کے جانے والی سرکاری تحقیقات کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔ ادارے کے مطابق اسے اففغانستان سے جانے پر دکھ ہو رہا ہے جہاں اس نے پچیس برس کام کیا ہے۔ تاہم، ادارے کا کہنا ہے کہ اب اس کے لیے افغانستان میں امداد کا سلسلہ جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ جون میں ہونے والے اس حملے سے قبل ادارے کے لیے اسی غیر ملکی اور چودہ سو افغانی کام کرتے تھے۔
pakistan-44933992
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44933992
الیکشن 2018: کیا خیبر پختونخوا میں الیکشن سے گلوکاروں کے دن پھر گئے؟
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں شاید پہلی مرتبہ مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی طرف سے حالیہ انتخابات میں ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پشتو کے مقامی گلوکاروں اور شعرا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جس سے نہ صرف غربت کے مارے ہوئے فنکاروں کے دن پھر گئے ہیں بلکہ وہ خوف کی کیفیت سے بھی نکل رہے ہیں۔
بیشتر انتخابی گیت پشتو زبان یا مقامی لہجوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جس کے لیے عام گلوکاروں کے علاوہ نامور فنکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور اور صوبے کے دیگر شہروں میں آج کل بمشکل ہی کوئی ایسا فنکار ہوگا جس نے کوئی نہ کوئی انتخابی ترانہ یا گیت نہ گایا ہو۔ بیشتر گلوکاروں کے پاس ریکارڈنگ کی اتنی آفرز تھیں کہ وہ ان کے لیے وقت نکالنے سے قاصر رہے۔ الیکشن 2018 سے متعلق یہ بھی پڑھیے الیکشن 2018: بی بی سی ک الیکشن میں گلوکاروں اور شعرا کی خدمات ’انتخابی مہم میں غالب رنگ بےیقینی اور تقسیم کا رہا‘ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا سیلز تو بہت پہلے سے اپنے عوامی جلسوں میں موسیقی کے ذریعے سے عوام کی توجہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن حالیہ انتخابات میں یہ رجحان پہلی مرتبہ آزاد امیدواروں کی جانب سے دیکھا جا رہا ہے جس میں انتخابی ترانے یا گیت گا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ انتخابی ترانے صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں بلکہ دیہاتی مقامات پر بھی امیدواروں نے اپنے نام سے انتخابی گیت ریکارڈ کروائے ہیں جنھیں عوامی جلسوں کے ساتھ ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر بھی شئیر کیا جا رہا ہے۔ بیشتر انتخابی گیت پشتو زبان یا مقامی لہجوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جس کے لیے عام گلوکاروں کے علاوہ نامور فنکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ تاہم یہ رجحان اتنا تیزی سے مقبول ہو رہا ہے کہ اب اس دوڑ میں غیر پیشہ ور یا شوقیہ فنکار بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اگر ایک طرف ان انتخابی گیتوں سے ایک گہما گہمی کی کفیت برقرار ہے تو دوسری جانب یہ نیا رجحان غربت اور خوف کے مارے ہوئے خیبر پختونخوا کے فنکاروں کے لیے کسی رحمت سے بھی کم نہیں۔ ہشمت سحر نے حالیہ انتخابات میں سات سے زیادہ انتخابی گیت ریکارڈ کروائے ہیں۔ فنکاروں کا کہنا ہے کہ کام کے بڑھنے کی وجہ سے نہ صرف انہیں معاشی طور پر فائدہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے ان میں ڈر اور خوف کی کیفیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہشمت سحر پشتو کے ایک نامور گلوکار سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے حالیہ انتخابات میں سات سے زیادہ انتخابی گیت ریکارڈ کروائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے کے دوران وہ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابی ترانے گا چکے ہیں جس میں پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 'آج کل کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ہمیں وقت نکالنا مشکل ہے کیونکہ ہر طرف سے امیدواروں کی جانب سے آفر دی جا رہی ہیں، جلسوں میں بھی لے کر جا رہے ہیں اور ان کے لیے ترانے بھی ریکارڈ کرائے جا رہے ہیں۔' ان کے مطابق پہلے میوزک صرف پی ٹی آئی کے جلسوں تک محدود ہوتا تھا لیکن اب یہ رجحان ہر جماعت میں مقبول ہو رہا ہے اور ویسے بھی عوام کو اکھٹا کرنے کے لیے ساز کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ان کے بقول ’2018 کے الیکشن میں یہ پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے کہ امیدواروں نے انفرادی طور پر بڑے پیمانے پر انتخابی مہم کی کامیابی کے لیے گلوکاروں اور شعرا کی خدمات حاصل کی ہیں جس سے میوزک سے وابستہ تمام افراد کی معاشی حالت بھی بہتر ہوتی جارہی ہے۔' خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے باعث جہاں ہر شعبہ زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، وہاں صوبے کی فنکار برادری بھی کئی قسم کے مسائل سے دوچار رہے۔ حالیہ انتخابات میں یہ رحجان پہلی مرتبہ انفرادی طور پر امیدواروں کی جانب سے دیکھا جارہا ہے جس میں انتخابی ترانے یا گیت گا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شدت پسندی کے باعث نہ صرف وہ بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہوئے بلکہ کئی نامور گلوکاروں کو ملک چھوڑ کر بیرون ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ تاہم صوبے میں امن کی بحالی کے بعد فنکاروں کے ڈیرے پھر سے آباد ہونے لگے ہیں۔ پشاور میں پشتو موسیقی اور ثقافت پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ نگار شیر عالم شنواری کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابی ماحول سے نہ صرف فن سے وابستہ ہنرمندوں کے دن پھر رہے ہیں بلکہ اس سے پشتو موسیقی کی ترقی بھی ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ انتخابی مہم میں دیکھا گیا ہے کہ کئی نئے اور نوجوان شوقیہ گلوکار سامنے آرہے ہیں جو مستقبل میں پشتو موسیقی کے لیے ایک سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا کی فنکار برادری کئی سالوں سے خوف کی کیفیت میں مبتلا رہی ہے لیکن ایسے ماحول میں جہاں دیہات میں بھی بلاخوف و خطر میوزک بج رہا ہو اس سے تمام فائدہ فنکاروں کا ہی ہے۔ شیر عالم شنواری نے مزید کہا کہ کچھ علاقوں میں انتخابی مہم کے دوران پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے کسی حد تک ماحول افسردہ ہو گیا ہے ورنہ اس سے پہلے ہر طرف جشن جیسا ماحول تھا اور شاید اس کی وجہ انتخابی مہم میں میوزک کا زیادہ سے زیادہ استعمال تھا۔
world-52541257
https://www.bbc.com/urdu/world-52541257
کورونا وائرس: مشرق وسطیٰ میں کووڈ 19 پھیلانے میں ایران کی ایئر لائن ماہان ایئر کا کیا کردار ہے؟
بی بی سی نے ایک تحقیق کی ہے کہ کس طرح ایک ایرانی ایئر لائن ماہان ایئر نے مشرق وسطیٰ میں کووڈ 19 پھیلانے میں کیا کردار ادا کیا اور متعدد ممالک کی جانب سے ایران کے ساتھ پروازوں پر پابندی کے باوجود انھیں کیسے جاری رکھا گیا۔
بی بی سی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ کچھ حکومتی کی جانب سے عائد کردہ فضائی پابندیوں کی خلاف ورزی کیسے کی گئی بی بی سی نیوز عربی نے فلائٹ ٹریکنگ کی معلومات کا جائزہ لیا اور ماہان ایئر کے اندر لوگوں سے بات کی تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ایئرلائن نے کس طرح جنوری کے آخر سے لے کر مارچ کے آخر تک ایران، عراق، متحدہ عرب امارات اور شام کے درمیان حکام کی جانب سے پابندیوں کے باوجود کئی سو بار پروازیں اڑائیں۔ ان سب ممالک نے اپنی جانب سے پابندیوں کے باوجود ماہان ایئر کے طیاروں کو اُترنے کی اجازت دی۔ ایران نے 31 جنوری کو چین اور وہاں سے آنے والی تمام پروازیں معطل کر دیں اور اس کے بعد متعدد ممالک نے فروری اور مارچ میں ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ وہ مشرق وسطیٰ میں وبا کا مرکز بن گیا تھا۔ تاہم ایئرلائن اس کے باوجود پروازیں چلاتی رہی جس کے نتیجے میں اس پر تنقید کی گئی کہ وہ مسافروں اور عملے کی صحت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ جب عملے نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ اُن کے پیاروں میں اور ملک میں وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے تو اُنھیں خاموش کرا دیا گیا اور دھمکایا گیا کہ اُن کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ بی بی سی نے ماہان ایئر سے اُن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔ ماہان ایئر کا کہنا ہے کہ اُن کی ملکیت میں 55 طیارے ہیں اور وہ سالانہ اوسطً پچاس لاکھ مسافروں کو دنیا بھر میں 66 مقامات تک لے جاتے ہیں۔ ماہان ایئر کیا ہے؟ ماہان ایئر ایران کی ایک نجی ایئر لائن کمپنی ہے۔ ماہان ایئر کا کہنا ہے کہ اُن کی ملکیت میں 55 طیارے ہیں اور وہ سالانہ اوسطً پچاس لاکھ مسافروں کو دنیا بھر میں 66 مقامات تک لے جاتے ہیں۔ اس کے ایرانی فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) کے ساتھ روابط ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے سنہ 2011 میں اس کی جانچ پڑتال ہوئی، امریکہ نے ایئرلائن پر پابندیاں عائد کی اور الزام لگایا کہ یہ کمپنی آئی آر جی سی کے لیے ہتھیار اور عملے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔ ایئر لائن شام ، لبنان اور عراق میں ایران کی کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے۔۔۔ ان سب ممالک کے آئی آر جی سی سے روابط ہیں۔ طبی مشورے نظر انداز کیے گئے فلائٹ ڈیٹا اور لبنان اور عراق میں اپنے رابطوں سے بات چیت کر کے بی بی سی نیوز عربی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان ممالک میں کووڈ 19 کے پہلے متاثرین ماہان ایئر کی پروازوں پر سفر کر کے آئے تھے۔ ماہان ایئر ایران کی سب سے بڑی ایئر لائن سمجھی جاتی ہے 19 فروری کو ایک ایرانی طالب علم نے ماہان ایئر کی پرواز ڈبلیو 55062 پر ایران کے دارالحکومت تہران سے عراقی شہر نجف تک سفر کیا۔ 24 فروری کو عراق میں کووڈ 19 کا پہلا باضابطہ کیس رپورٹ کیا گیا جو اسی شخص کا تھا۔ 20 فروری کو ایک 41 برس کی لبنانی خاتون زیارت کے بعد تہران سے ماہان ایئر کی پرواز ڈبلیو 5112 پر سفر کر کے لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچیں۔ اس کے اگلے ہی روز لبنان میں پہلے باضابطہ کیس کی تصدیق ہوئی۔ ان واقعات پر دونوں ممالک میں غصے کا اظہار کیا گیا لیکن اس کے باوجود ماہان ایئر نے اپنی پروازیں جاری رکھیں۔ عراقی حکومت نے 20 فروری کو ایران سے آنے اور جانے والی پروازوں کو معطل کر دیا۔ تاہم بی بی سی یہ بات منظر عام پر لایا ہے کہ پابندی کے بعد بھی کم از کم 15 مزید پروازیں چلیں جن کو عراقی حکومت کی طرف سے اجازت ملی۔ ان میں سے اکثر طیاروں پر ایران سے عراق کے مذہبی مقامات تک آنے والے زائرین سوار تھے۔ بی بی سی کو دیے گئے بیان میں عراقی حکومت نے کہا کہ یہ پروازیں شہریوں کی وطن واپسی کے لیے چلیں تھیں اور انھیں عراق کی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے منظوری حاصل تھی۔ انھوں نے کہا کہ عراق سے ایران جانے والی پروازیں جاری رہیں گی لیکن ایران کے مسافروں پر عراق میں داخل ہونے پر پابندی ہے۔ جب چین میں کووڈ 19 بلند ترین سطح پر تھا تو اس دوران ماہان ایئر کی پروازیں ایران سے چین کے چار بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی، گوانگژو اور شنزن کے درمیان چلتی رہیں۔ چین اور ایران میں وبا کی بلند ترین سطح کے دوران آپریشن جاری رہا بی بی سی کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جب چین میں کووڈ 19 بلند ترین سطح پر تھا تو اس دوران ماہان ایئر کی پروازیں ایران سے چین کے چار بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی، گوانگژو اور شنزن کے درمیان چلتی رہیں۔ ایران نے لازماً 31 جنوری کو اپنی ہی پابندیوں کے خلاف جاتے ہوئے ماہان ایئر کو چین جانے کی اجازت دی ہو گی۔ ماہان ایئر نے چینی سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کیں جن میں یہ دکھایا کہ جنوری کے آخر سے لے کر 20 اپریل کے دوران چھ پروازیں امداد کے لیے استعمال ہوئیں اور چار کی نشاندہی کی جنھیں چین سے ایرانی باشندوں کو نکال کر وطن واپس لانے کے لیے چلایا گیا۔ ان میں آخری پروازیں 5 فروری کو چلیں۔ فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کا جائزہ لے کر اور اسے ماہان ایئر کے باضابطہ بیان سے ملا کر ہماری تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ چین کے ساتھ پروازوں پر ایرانی پابندی کے اعلان کے بعد 157 پروازیں چلیں۔ چونکہ دوسری ایئر لائنز نے اپنی پروازیں بند کر دی تھیں، فلائٹ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 31 جنوری سے 20 اپریل کے دوران صرف ماہان ایئر وہ ایئرلائن تھی جس نے ایران اور چین کے درمیان براہِ راست پروازیں چلائیں۔ کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟ کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟ کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟ کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟ ماہان ایئر نے ایران میں وبا کی بلند ترین سطح کے دوران مسافروں کے ایران سے دوسرے ممالک تک سفر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ شام نے 8 مارچ کو باضابطہ طور پر ایران جانے اور وہاں سے آنے والی تمام پروازیں معطل کیں۔ تاہم ماہان ایئر نے پابندی کے بعد مزید 8 پروازیں چلائیں۔ ماہان ایئر نے دبئی کے لیے 37، ترکی کے لیے 19 اور ملائیشیا اور تھائی لینڈ سمیت دیگر مقامات کے لیے 18 مزید پروازیں چلائیں۔ اس دوران دوسری ایئر لائنز بھی تھیں جو ایران آ اور جا رہی تھیں لیکن صرف ماہان ایئر اتنے بڑے پیمانے پر چل رہی تھی۔ ماہان کے عملے کو خاموش کرا دیا گیا بی بی سی نے شواہد حاصل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وائرس پھیلانے میں ماہان ایئر کے کردار پر عملے کو خاموش کرا دیا گیا تھا حالانکہ اس بارے میں ان کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔ وائرس پھیلانے میں ماہان ایئر کے کردار پر عملے کو خاموش کرا دیا گیا تھا حالانکہ اس بارے میں ان کی پریشانی بڑھ رہی تھی ماہان ایئر کے اندر باوثوق ذرائع کے مطابق فروری کے آخر تک ماہان ایئر میں طیارے کے اندر کام کرنے والے عملے کے 50 ممبران میں وائرس کی علامت ظاہر ہوئی تھیں۔ عملے نے معاملہ اٹھانے کے لیے سوشل میڈیا کا رُخ کیا اور کہا کہ انھیں مخصوص حفاظتی سامان یا لباس نہیں دیا جا رہا۔ فروری کی 27 تاریخ کو ائیرلائن کے لیے کام کرنے والے عملے نے پہلی بار کھلے عام آواز اُٹھائی۔ شرق ڈیلی میں ایک مضمون شائع ہوا، ماہان ایئر کا عملہ فکرمند ہے کہ انھیں چین سے واپس لوٹنے کے بعد خود ساختہ تنہائی اختیار کرنے کے لیے وقت نہیں دیا جا رہا۔ اپریل کی 18 تاریخ کو ماہان ایئر کے عملے کے 1300 افراد نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے اور ایئرلائن پر الزام لگایا کہ انھوں نے مشکل صورتحال کا مقابلے کرنے میں بدانتظامی دکھائی ہے۔ ایویا نیوز میں شائع ہونے والے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ عملے کی پی پی ایز کے لیے درخواست جو ایئرلائن کی صنعت کے نمائندہ ادارے دی انٹرنیشنل ایئر اینڈ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی سفارشات کے مطابق ہے، اسے مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اور یہ کہ اُن پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ اُن کی وجہ سے اُن کے پیاروں اور ملک میں وائرس پھیلا ہے۔ بی بی سی نے ایک معاہدے کی نقل حاصل کی ہے جو ماہان ایئر کے ملازمین کو دیا گیا تھا، اس میں انھیں دھمکی دی گئی کہ اگر انھوں نے اپنے خدشات کا کھلے عام اظہار کیا تو اُن کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ بی بی سی نے ماہان ایئر اور دوسرے ممالک، جنھوں نے ایران سے آنے والی پروازوں پر پابندی کے باوجود انھیں اُترنے کی اجازت دی، سے اُن کا مؤقف جاننے کی کوشش کی ہے مگر اُنھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
050502_sharansky_resign_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/05/050502_sharansky_resign_fz
شیرون کابینہ، ایک اور وزیر مستعفی
اسرائیل میں وزیر اعظم ایریئل شیرون کے غزہ سے یہودی آبادکاروں کے انخلاء کےمنصوبے پر احتجاج کرتے ہوئے ان کی کابینہ کے ایک اور وزیر ناتھن شرانسکینے استعفی دے دیا ہے۔
شرانسکی نے اسرائیلی فوجی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک افسوسناک غلطی ہوگی اور اس کی بھاری قیمت ادا کرنے پڑے گی جس سے دہشت گردوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ غزہ اور غرب اردن کی چار بستیوں میں آباد آٹھ ہزار یہودیوں کا انخلاء اس سال جولائی اور اگست میں متوقع ہے۔ شرانسکی جو سابق سویت یونین کے منحرفین میں شامل ہیں، ایریئل شیرون کی کابینہ میں بیرون ملک اسرائیلوں کے امور کے وزیر تھے۔ یروشلم میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ شرانسکی دائیں بازو کے سیاست دانوں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہیں جو ایریئل شیرون کے منصوبے پر احتجاج کرتے ہوئے ان کی کابینہ سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ تاہم شرانسکی کے مستعفی ہوجانے سے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایریئل شیرون اپنا منصوبہ ترک کر دیں گے۔ ایریئل شیرون کی اپنی جماعت لکود پارٹی میں اختلافات کے باوجود وہ غزہ سے انخلاء کے منصوبے پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔
140527_india_new_cabinet_portfolios_mb
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/05/140527_india_new_cabinet_portfolios_mb
مودی حکومت میں کِسے ملی کون سی وزارت
نریندر مودی نے بھارت کے 15 ویں وزیر اعظم کے طور اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ نریندر مودی منگل کو تقریبا نو بجے گجرات بھون سے براہ راست ساؤتھ بلاک پہنچے۔
نریندر مودی نے اپنی کابینہ کے وزراء میں قلمدان تقسیم کیے ساؤتھ بلاک میں واقع وزیر اعظم کے دفتر کے ملازمین نے نریندر مودی پھولوں کے گلدستے سے استقبال کیا۔ بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اب سیاہ رنگ کی بی ایم ڈبلیو کا استعمال کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور انھوں نے سب سے پہلے اپنے وزرا کے درمیان قلمدان تقسیم کیا۔ بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ بنایا گیا ہے جبکہ ارون جیٹلی کو وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ وزارت دفاع کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ انھیں کارپوریٹ معاملات کا چارج بھی دیا گیا ہے۔ سشما سوراج کو وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ گوپی ناتھ منڈے کو دیہی ترقی کی وزارت دی گئی ہے۔ جبکہ مینکا گاندھی کو خواتین اور اطفال کی ترقی کی وزارت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
science-48054965
https://www.bbc.com/urdu/science-48054965
سات انسانی جذبات جو وقت کے ساتھ بدل گئے
عام خیال یہ ہے کہ جذبات ساری دنیا میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ خیال درست نہیں۔
جذبات اور ان کے بارے میں تجربہ، اظہار اور بات کرنا وقت کے ساتھ بدل بھی سکتا ہے جذبات بدلتے رہتے ہیں۔ یہ ہر علاقے میں مختلف ہوتے ہیں اور آپ اس کو جرمنی کی ایک کہاوت سے سمجھ سکتے ہیں کہ کسی کی خوشی کسی دوسرے کی بدقسمتی ہو سکتی ہے۔ اور ہر وقت نئے جذبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ اگر کسی نے فیئر آف مسینگ آؤٹ (فومو) یعنی پیچھے رہ جانے کے خوف کی تکلیف محسوس کی ہو تو وہ جانتا ہو گا کہ فومو ایک پریشانی کی کیفیت ہے جو کہیں بھی ہونے والے کسی بڑے واقعے یا تقریب پر محسوس کی جاتی ہے۔ اور اکثر اوقات سوشل میڈیا صارفین کی پوسٹ سے بھی یہ کیفیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے احساسات، جذبات اور چہرے ’میر ے دوست میرے لیے پریشان تھے' ڈپریشن اور خودکشی پر بات کیوں نہیں ہوتی؟ ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟ جذبات اور ان کے بارے میں تجربہ، اظہار اور بات کرنا وقت کے ساتھ بدل بھی سکتا ہے۔ بی بی سی ریڈیو تھری نے سینٹر آف ہسٹری آف اموشنز کی ڈاکٹر سارہ شینے سے یہ جاننے کے لیے بات کی کہ ماضی کے چند جذبات ہمیں یہ سمجھنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں جو کہ ہم آج محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ اسیڈیا (مزید جینے کی خواہش کا نہ رہنا) اسیڈیا میں لوگ ناامیدی، کاہلی اور دنیاوی زندگی کو چھوڑنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں چھٹی صَدی سے سولہویں صَدی کے دوران مخصوص مرد اسیڈیا کے خاص جذبات رکھتے تھے، جیسا کہ خانقاہوں میں رہنے والے راہب۔ یہ جذبات اکثر روحانی بحران سے آتے ہیں. جو لوگ اس کا سامنا کرتے ہیں وہ ناامیدی، کاہلی اور سب سے زیادہ موجودہ زندگی کو چھوڑنے کی ایک زبردست خواہش محسوس کرتے ہیں. ڈاکٹر شینے کا کہنا ہے کہ 'آج کل اس احساس کو ڈپریشن کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مگر اسیڈیا خاص طور پر روحانی بحران اور خانقاہوں کی زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ' یہ ممکن ہے کہ اسیڈیا سے ہونے والی کاہلی و سستی خانقاہوں کے مذہبی راہبوں کے لیے تشویش کا سبب تھی جس وجہ سے وہ ایسے رویے ناپسند کرتے تھے۔ درحقیقت وقت گزرنے کے ساتھ ایسڈیا کے جذبات کو سستی و کاہلی کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو عیسائیت میں 'سات بڑے گناہوں ' میں سے ایک ہے۔ فرینزی (ذہنی انتشار) فرینزی کے جذبات میں خاموش بیٹھنا ناممکن تھا ڈاکٹر شینے کا کہنا ہے کہ 'یہ بھی قرون وسطی کے اچھے جذبات میں سے ایک ہے۔ یہ غصے کی طرح ہے مگر یہ آج کے غصے سے مختلف ہے۔ ' 'اگر کوئی فرینزی کا شکار ہے تو وہ بہت مشتعل ہو گا۔ اسے غصے کے دورے پڑیں گے۔ وہ اپنے اردگرد چیزیں پھینکے گا اور بہت چیخے چلائے گا۔ ' اگر محتاط انداز میں بات کی جائے تو فرینزی کے جذبات کے زیرِ اثر خاموش بیٹھنا ناممکن ہے۔ یہ جذبات بنیادی طور پر ہمارے دورِ جدید کے اندرونی جذبات کی سوچ پر روشنی ڈالتے ہیں، یعنی آپ ان کو چھپا سکتے ہیں اگر آپ کافی کوشش کریں۔ مگر قرون وسطی میں وہ لوگ جو فرینزی کا شکار تھے ایسا نہیں کر پاتے تھے۔ ڈاکٹر شینے کا کہنا ہے کہ 'وہ زبان جو لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کرتے تھے اس کا مطلب تھا کہ انھوں نے کچھ ایسا محسوس کیا جو ہم کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔‘ میلنکلی (وحشت) میلنکلی کو خوف کی ظاہری شکل کہا جاتا تھا ڈاکٹر شینی کہتی ہیں کہ ’میلنکلی ایک ایسا لفظ ہے جس کا استعمال ہم آج انتہائی، افسردگی اور اداسی کے لیے کرتے ہیں۔ مگر ماضی میں اس کا مطلب مختلف ہوتا تھا۔ ابتدائی جدید دور میں میلنکلی کو خوف کی ظاہری شکل کہا جاتا تھا۔ ' 16ویں صدی تک صحت کا تعلق چار جسمانی مادوں میں توازن سے سمجھا جاتا تھا۔ ان میں خون، بلغم، جگر میں بننے والا بھورا مائع اور کالا مائع شامل تھے۔ میلنکلی تب ہوتا ہے جب انسان میں سیاہ مائع بہت زیادہ ہو جائے۔ ڈاکٹر شینی کا کہنا ہے کہ 'کچھ واقعات میں لوگ حرکت کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ شیشے کے بنے ہوئے ہیں اور وہ ٹوٹ جائیں گے۔ ' فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ میلنکلی کا شکار تھے اور کسی ممکنہ حادثے میں ٹوٹ کر بکھرنے سے بچنے کے لیے اپنے لباس کے اندر لوہے کی سلاخیں سلواتے تھے۔ نوسٹلجیا (ماضی کی یادیں) انتہائی نوسٹلجیا کی حالت میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے نوسٹلجیا بھی ایک ایسی اصطلاح جس کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹر شینے کا کہنا ہے کہ 'ہم اپنی گفتگو میں نوسٹلجیا لفظ کا استعمال اکثر اوقات کرتے ہیں مگر پہلی بار جب اس کا استعمال ہوا تھا تب اس کو ایک جسمانی بیماری سمجھا جاتا تھا۔ ' اٹھارویں صدی میں یہ بیماری جہاز رانوں میں پائی جانے والی بیماری سمجھی جاتی تھی جو انھیں اس وقت ہوتی جب وہ گھر سے دور ہوتے اور اس کو گھر کو یاد کرنے سے جوڑا جاتا۔ اٹھارویں صدی کا نوسٹلجیا آج سے مختلف تھا۔ اس وقت اس کی کچھ ظاہری علامات تھیں۔ نوسٹلجیا کا شکار ہونے والے جہاز ران تھکاوٹ، کاہلی اور دردوں کا شکار ہوتے تھے اور کام نہ کر پاتے تھے۔ انتہائی نوسٹلجیا کی حالت میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کا موازنہ نوسٹلجیا کی آج کی تعریف سے نہیں کیا جاتا۔ اب یہ ماضی کے بھلے وقتوں کی یاد کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ شیل شاک (دیکھنے اور سننے کی صلاحت کھو دینا) جو افراد شیل شاک کا شکار ہوتے ان کو عجیب دورے پڑتے تھے اور وہ اکثر دیکھنے اور سننے کی صلاحت کھو دیتے بہت سے لوگوں نے شیل شاک کا نام سنا ہو گا۔ ایک ایسی حالت جس نے پہلی جنگ عظیم کے فوجیوں کو خندقوں میں متاثر کیا تھا۔ ماضی میں شیل شاک بھی میلنکلی اور نوسٹلجیا کی طرح جذباتی کیفیت اور بیماری میں ایک باریک لکیر کھینچتی تھی جس کے بارے میں بات کی جاتی اور اس کا علاج کروایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر شینی کا کہنا ہے کہ ’جو افراد شیل شاک کا شکار ہوتے ان کو عجیب دورے پڑتے تھے اور وہ اکثر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کھو دیتے۔ حالانکہ ظاہری طور پر ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ جنگ کے آغاز میں انھوں نے سوچا کہ یہ دھماکے بہت قریب ہونے کی وجہ دماغ کو پہنچنے والے جھٹکے سے ہو رہا ہے مگر بعد میں یہ خیال کیا گیا تھا کہ یہ علامات مریض کے تجربات اور ان کی جذباتی حالت کی وجہ سے ہو رہی تھیں۔‘ ہپوکوڈیریایسس (مراق) ہپوکوڈیریایسس کا تعلق صرف جذبات سے سمجھا جاتا تھا ہپوکوڈیریایسس 19ویں صدی میں ایک ایسی حالت تھی جس کو سمجھا جاتا تھا کہ اس کا تعلق صرف جذبات سے ہے۔ ڈاکٹر شینی کا کہنا ہے کہ 'یہ بنیادی طور پر اس کیفیت کا مردانہ ورژن ہے جس کو 17ویں اور 18ویں صدی میں ڈاکٹروں نے ہسٹریا کا نام دیا۔ اس کے بارے میں خیال کیا گیا کہ یہ تھکاوٹ، درد اور ہاضمے کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ تاہم 17 ویں اور 18 ویں صدی میں خیال کیا گیا کہ ہپوکوڈیریایسس تلی کے باعث ہوتی ہے لیکن بعد میں اس کی وجہ اعصاب کو قرار دیا گیا۔ ' 18ویں صدی میں خیال کیا جاتا تھا کہ جسم کے بارے میں فکر مند ہونے کی علامات ہائپوڈنڈریسیس کی وجہ سے ہیں تاہم ظاہری علامات میں اس کو دماغ اور جذبات کی بیماری قرار دیا گیا. اخلاقی پاگل پن ’اخلاقی پاگل پن' کی اصطلاح سنہ 1835 میں ڈاکٹر جیمز کولز پریچارڈ کی جانب سے پیش کی گئی 'اخلاقی پاگل پن ' کی اصطلاح سنہ 1835 میں ڈاکٹر جیمز کولز پریچارڈ کی جانب سے پیش کی گئی۔ ڈاکٹر شینی کا کہنا ہے کہ 'دراصل اس کا مطلب جذباتی پاگل پن ہے۔ ' کیونکہ بہت عرصہ تک 'اخلاقی ' کے لفظ کا مطلب نفسیاتی اور جذباتی تھا اور آج جس کو ہم اخلاقی کہتے ہیں اس کے ساتھ بھی استعمال ہوتا رہا۔ ڈاکٹر جیمز نے جن مریضوں کو 'اخلاقی طور پر پاگل ' سمجھا تھا، انھوں نے غیر معمولی طور پر یا غلط رویہ اختیار کیا تھا۔ جبکہ ان میں دماغی صحت کی خرابی کی کوئی علامت نہیں تھی. ڈاکٹر شینی کا کہنا ہے کہ 'ڈاکٹر جیمز نے محسوس کیا کہ ان مریضوں کی بڑی تعداد ہے جو زیادہ تر دیگر افراد کی طرح رویے کا مظاہرہ نہیں کر سکتے، شاید ان کو اپنے جذبات پر قابو نہیں تھا اور غیر ارادی طور پر وہ کوئی جرم کا ارتکاب کر لیتے تھے۔ ' مثلاً معاشرے کی پڑھی لکھی خواتین میں کلپٹومینیا کو ایک اخلاقی بیماری سمجھا جاتا تھا کیونکہ بنا مالی ضرورت کے عادتاً چوری کرنے کا مقصد کسی کو سمجھ نہیں آتا تھا۔ اور بنیادی طور پر یہ انتہائی جذبات کا اظہار تھا اور اکثر اس کو ضدی بچوں پر آزمایا جاتا تھا۔
160407_putin_rejects_panama_allegations_rwa
https://www.bbc.com/urdu/world/2016/04/160407_putin_rejects_panama_allegations_rwa
پوتن نے پاناما پیپرز کے الزامات مسترد کر دیے
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے پاناما کی لا کمپنی موساک فونسیکا کی جانب سے ان پر لگائے گئے ’بدعنوانی‘ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مخالفین روس کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
وہ پاناما کی لا کمپنی موساک فونسیکا کی جانب سے جاری کیے گئے ایک کروڑ 15 لاکھ خفیہ دستاویزات جاری ہونے کے بعد ٹی وی پر براہِ راست پہلی بار خطاب کر رہے تھے۔ موساک فونسیکا کی جانب سے جاری خفیہ دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ متعدد آف شور کمپنیوں کے مالک ولادی میر پوین کےقریب رفقا تھے۔ خفیہ دستاویزات کے مطابق ہو سکتا ہے کہ ان کمپنیوں کو شاید منی لانڈرنگ میں استعمال کیا گیا ہو۔ ولادی میر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ ان کے مغربی مخالفین ’روس کے اتحاد اور یکجہتی سے پریشان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں مزید تابعدار بنانے کے لیے اندر سے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔‘ روسی صدر کے مطابق ان کے مخالفین پاناما پیپرز میں ان کا نام تلاش نہیں کر سکے اس لیے انھوں نے ’معلوماتی پروڈکٹ بنایا ہے۔‘ پاناما پیپرز میں روس کے صدر پوتن کے ایک دوست اور ان کی بیٹی کے سرپرست سرگے رولدوگن کا نام بھی ہے۔ رولدوگن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دو آف شور کمپنیوں انٹرنیشنل میڈیا اوورسیز اور سونٹیٹی اوورسیز کے مالک ہیں۔ دریں اثنا رولدوگن نے ابھی تک ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
pakistan-50969798
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50969798
آڈیو بکس: کتابیں جو پڑھنے کے بجائے سُنی جاتی ہیں
یہ سوال یقیناً عجیب سا لگتا ہے کیونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک ہم سب ہی کتابیں 'پڑھتے' چلے آئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب لانگ ڈرائیو پر جاتے ہوئے ہم اپنے موبائل پر کرنل محمد خان کی کتاب لگائیں گے اور سفر کے اختتام تک پوری 'بجنگ آمد' ختم کر لیں گے۔
عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ہے یہ انہونی ممکن ہوئی ہے ایک جدید ڈیجیٹل فارمیٹ سے جس کو 'آڈیو بک' کا نام دیا گیا ہے۔ اُردو زبان میں آڈیو بکس تیار کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں عثمان صدیقی اور جواد یوسف نے۔ تو آڈیو بکس ہیں کیا؟ یہ دراصل کسی بھی روایتی کتاب کو آواز کے ذریعے پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار صداکار پوری کتاب ابتدا سے اختتام تک تحت اللفظ میں پڑھتا ہے جسے ساؤنڈ سٹوڈیو میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اپنی مکمل صورت میں مخصوص ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی موبائل فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔ روایتی کتاب کی طرح اِس صوتی کتاب کے بھی مختلف اسباق یا چیپٹرز ہوتے ہیں جن کو حسبِ ضرورت منتخب کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کیا کہانیاں بچوں کا کتاب سے رشتہ بحال کر سکتی ہیں؟ اردو کے فروغ کی ویب سائٹ ’ریختہ‘ انڈیا میں مقبول کیوں؟ کتاب جو 43 سال بعد ملی 'اُردو سٹوڈیو' عثمان صدیقی اور جواد یوسف امریکہ میں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے اور وہیں انھوں نے پہلی بار آڈیو بکس کے بارے میں سُنا۔ عثمان صدیقی چاہتے تھے کہ وطن واپسی پر ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔ 'اِسی دوران ہم نے روایتی کتابوں سے متعلق کچھ آن لائن سروسز بھی شروع کیں۔ ہم نے امریکہ میں انگریزی آڈیو بکس کا رواج دیکھا تھا تو سوچا کہ کیوں نه پاکستان میں بھی یہ سلسلہ اُردو زبان میں شروع کیا جائے۔' اِس طرح سنہ دو ہزار گیارہ میں 'اُردو سٹوڈیو' کی بنیاد پڑی۔ آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے اُردو آڈیو بکس عثمان صدیقی اور جواد یوسف کے نزدیک اُردو آڈیو بکس کے سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا تھا۔ عثمان صدیقی کہتے ہیں کہ 'چونکہ موجودہ زمانے میں اُردو ادب پڑھنے کا رجحان کسی حد تک کم ہوا ہے تو ہم چاہتے تھے کہ اُسے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عوام تک پہنچایا جائے۔ اب لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور اُن کے لیے ادبی مواد کو دیکھنا یا سُننا زیادہ آسان ہے۔' آڈیو بکس کیسے تیار کی جاتی ہیں؟ آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے۔ عثمان صدیقی کے مطابق اِس طرح کتاب کے اصل مواد میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ 'مثلاً صداکار تحریر میں اپنے تاثرات کا اضافہ کرتا ہے اور پھر پڑھنے کے مخصوص انداز سے بھی لکھی ہوئی عبارت کئی گنا زیادہ پُر اثر ہو جاتی ہے۔' لیکن جواد یوسف کے بقول یہ ریکارڈنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ ایک طویل اور مہنگا مرحلہ ہے۔ 'ایک گھنٹے کی صوتی کتاب کے لیے کئی کئی گھنٹے ریکارڈنگ کی جاتی ہے جس کے بعد ایڈیٹنگ کے ذریعے اصل مواد کو چھانٹا جاتا ہے۔ اِس طرح کئی دنوں اور اکثر کئی ہفتوں میں جا کر ایک کتاب تیار ہوتی ہے۔ آخر میں آڈیو فائلز کو دنیا بھر کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔' عثمان صدیقی کے مطابق 'اُردو سٹوڈیو' نے اب تک اُردو ادب کی ایک سو سے زائد کتابیں کئی سو گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی صورت میں تیار کی ہیں۔ 'اِن کتابوں میں فکشن، نان فکشن، بچوں اور بڑوں کا ادب شامل ہے۔ اِس کے علاوہ سفرنامے، ناول اور آپ بیتیاں بھی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کے کام کو بھی شامل کیا جائے۔ ساتھ ساتھ سُننے والوں کی پسند ناپسند کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔' صوتی کتابوں کی مقبولیت ماہرین کے مطابق آڈیو بکس کا استعمال جدید ٹیکنالوجی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز تک رسائی میں اضافے سے اب اِن پراڈکٹس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں صرف امریکہ میں چوالیس ہزار آڈیو بکس شائع ہوئیں جنھوں نے نو سو چالیس ملین ڈالر کا بزنس کیا۔ 'اُردو سٹوڈیو' کے معاون بانی عثمان صدیقی پُرامید ہیں کہ آنے والے وقت میں آڈیو بکس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ 'یہ درست ہے کہ اب بھی بہت سے لوگوں کو آڈیو بکس کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ میرے نزدیک بے شمار ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی موجودگی میں لوگوں کو آڈیو بکس کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔' کتاب کی بدلی شکل اُردو کے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ سمجھتے ہیں کہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتاب کی ہی توسیع ہیں۔ 'میرے خیال میں اگر کوئی شخص آڈیو بک سُن رہا ہے تو وہ کتاب سے ہی محظوظ ہو رہا ہے۔ فرق صرف میڈیم کا ہے۔ کتاب جب چھپے گی تب ہی آڈیو بک کی صورت لے گی کیونکہ ظاہر ہے ایک ادیب خود تو اپنی کتاب کو تحت اللفظ میں نہیں ڈھالے گا۔' مستنصر حسین تارڑ کے مطابق آڈیو بکس جیسے ماڈرن ٹولز کتاب پڑھنے کے تجربے کو دلچسپ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی کچھ کتابیں آڈیو بکس کی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔ 'ہاں یہ ضرور ہے کہ جو شخص کتاب کی وائس اوور کرے وہ تحریر سے انصاف کرے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے والا لکھے جانے والے الفاظ کے معنی اور درست تلفّظ جانتا ہو اور کتاب کے مواد کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو۔' آڈیو بکس کیسے حاصل کریں؟ 'اردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف بتاتے ہیں کہ اُردو زبان میں آڈیو بکس حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔ 'ایمازون کی آڈیو بکس سروس کا نام 'آڈیبل ڈاٹ کام' ہے جہاں ہماری کمپنی اُردو سٹوڈیو بھی موجود ہے۔ وہاں سے کوئی بھی کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے کسی بھی سمارٹ فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔' اِن آڈیو بکس کی قیمت فی الحال روایتی کُتب سے کم نہیں تو کم از کم برابر ضرور ہے۔ جواد یوسف کہتے ہیں کہ 'بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چونکہ قیمت ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لحاظ سے یقیناً زیادہ ہے۔ ہمارا اگلا قدم یہ ہی ہوگا کہ قیمت کم کر کے اِن آڈیو بکس کو مقامی قارئین کی قوّتِ خرید کے اندر لایا جائے۔' کتاب زندہ ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں بائیس لاکھ کتابیں چھپتی ہیں جن میں سے تقریباً نصف امریکہ، چین اور برطانیہ سے شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد صرف چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا دعوی ہے کہ روایتی کتاب اب بھی زندہ ہے اور مستقبل میں بھی اپنی حالیہ شکل میں موجود رہے گی۔ 'ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن کتاب تک رسائی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کتابوں کی اشاعت کم نہیں ہوئی۔ ہاں ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا جب ڈیجیٹل پراڈکٹس کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں کچھ کمی ہوئی تھی لیکن اب صورتِ حال بہت بہتر ہے۔' پاکستان کے بیسٹ سیلر ادیب تصّور کیے جانے والے مستنصر حسین تارڑ کے بقول ایک زمانے میں لوگ سمجھا کرتے تھے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے آنے سے قارئین کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 'مغرب ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے لیکن وہاں آج بھی کتاب ایسے ہی چھپتی ہے جیسی پہلے چھپا کرتی تھی۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ کتاب پڑھی جا رہی ہے۔ ہر سال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے کُتب میلوں میں چند روز میں کئی کروڑ روپوں کی کتابیں فروخت ہو جاتی ہیں۔' اِس سلسلے میں تارڑ اپنی مثال دیتے ہیں۔ 'گذشتہ دنوں میری مقبول کتاب 'پیار کا پہلا شہر' کا پچھترواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ میری اکثر کتابوں کے تیس سے چالیس ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ یہ صرف میری کتابوں کی بات نہیں ہے۔ بے شمار ایسے ادیب ہیں جن کی کتابیں آج بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔' پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز کے مالک افضال احمد اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 'آبادی بڑھنے کے ساتھ شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں کتاب کی مانگ بھی زیادہ ہوگی۔ ہمارے یہاں پبلشنگ کے شعبے میں توسیع کے بے شمار مواقع ہیں۔' افضال احمد کے مطابق سنجیدہ قاری ڈیجیٹل میڈیمز پر کتاب سے متعارف ہونے کے بعد روایتی کتاب کا ہی رخ کرتے ہیں۔ 'فیس بک، یوٹیوب یا ڈیجیٹل بکس صرف کتاب کا ذائقہ ہی چکھا سکتی ہیں۔ اصل مزا تو کاغذ کی کتاب کو ہاتھ میں تھام کر پڑھنے میں ہی ہے۔ ہمارے یہاں قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات میں سمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل گیجٹس کا رجحان اب بھی کم ہے لہذا وہاں روایتی کتاب ہی واحد آپشن ہے۔' مستقبل کے چیلنجز 'اُردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا ماننا ہے کہ روایتی کتابوں کی فروخت اپنی جگہ لیکن ڈیجیٹل پراڈکٹس نے بھی قارئین میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ 'ہمارے خیال میں مستقبل میں ای اور آڈیو بکس مقبول تو ہوں گی لیکن روایتی کتابوں کی مانگ بھی موجود رہے گی۔ یہ ضرور ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گذارتے ہیں اور اِن سے مقابلہ کرنا روایتی اور ڈیجیٹل کتاب دونوں کے لیے مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔'
science-50864978
https://www.bbc.com/urdu/science-50864978
لاہور کی بادشاہی مسجد میں نکاح فوٹو شوٹ: ’شاہی جوڑے جیسی تصویر بنوانے کی اجازت ہے‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں واقع تاریخی بادشاہی مسجد نکاح، خاص کر کے نئے شادی شدہ جوڑے کی تصاویر، کے لیے ملک بھر میں بہترین جگہوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں شیئر کی جا رہی ہیں کہ یہاں ویڈنگ فوٹوگرافی سے متعلق کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
لاہور کی فوٹو گرافر پلواشہ منہاس کا کہنا ہے کہ بادشاہی مسجد میں نکاح کی تصاویر بنانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہاں کی انتظامیہ اس کام کے لیے زیادہ وقت نہیں دیتی جبکہ اس حوالے سے سختیاں کی جاتی ہیں۔ تاہم بی بی سی نے اس حوالے سے بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ نکاح فوٹو شوٹ کے لیے کیمروں کی اجازت ختم کر دی گئی ہے لیکن لوگ موبائل فون یا ایک کیمرے سے نکاح کی تصاویر بنا سکتے ہیں۔ اکثر جوڑوں کے لیے ان کی شادی کے فوٹو شوٹ کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ خاص طور پر تاریخی مقامات یا معروف جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کسی پسندیدہ اداکارہ کا نکاح ہو یا پاکستان میں کسی مشہور شخصیت کی بیرونی ممالک سے آمد، بادشاہی مسجد وہ جگہ ہے جہاں لوگ تصاویر بنوا کر اپنی یادوں کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’فوٹو گرافی کے جتنے پیسے لے رہے ہیں وہ کچھ نہیں‘ پٹنہ کی زیرِ آب سڑکوں پر فوٹو شوٹ پر تنقید ملائشیا کے شاہی جوڑے کا وائرل بوسہ انوشکا کی سرخ ساڑھی اور وراٹ کی پشمینہ شال بادشاہی مسجد میں نکاح کی تصاویر بنوانا مشکل کیوں؟ بادشاہی مسجد میں نکاح فوٹو شوٹ پر ’پابندی‘ کی خبریں اس وقت سامنے آئیں جب معروف فوٹو گرافر پلواشہ منہاس نے سنڈے میگزین کو بتایا کہ بادشاہی مسجد کے چوکیداروں نے 19 دسمبر سے یہاں ویڈنگ فوٹوگرافی پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی مسجد کی انتظامیہ نئے شادی شدہ جوڑے کی تصاویر کے لیے بہت کم وقت دیتی تھی جس کی وجہ سے انھیں مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔ ’یہاں جلد بازی ہوتی ہے۔ ہر فوٹو گرافر کو 15 منٹ دیے جاتے ہیں جبکہ 12 اور جوڑے قطار میں کھڑے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بادشاہی مسجد میں فوٹو شوٹ کروانے کے لیے لوگوں کو یہاں نکاح کی تقریب کی بکنگ کرانی پڑتی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بادشاہی مسجد میں فوٹو شوٹ کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس تاریخی مقام پر تصاویر بنوانے پر سختی نہیں ہونی چاہیے۔ ’شاہی جوڑے جیسی تصویر کی اجازت ہے‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد نے وضاحت کی کہ عام حالات میں مسجد میں تصاویر کھینچنا منع نہیں ہے تاہم نکاح پر پروفیشنل فوٹوگرافی یا ایک سے زیادہ کیمروں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ’یہ ایک تاریخی عمارت ہے۔ ہم لوگوں کو تصویر بنانے سے نہیں روک سکتے۔۔۔ (لیکن) کیمروں کی اجازت ختم کی گئی ہے۔ آپ موبائل یا ایک کیمرے سے تصاویر بنا سکتے ہیں لیکن جو لوگ 10، 10 کیمرے لے کر آتے تھے ان کے لیے پابندی لگائی گئی ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے یہ قدم کیوں لیا ہے تو انھوں نے بتایا ’تاکہ شریعت اور مسجد کا تقدس پامال نہ ہو۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ برطانوی شاہی جوڑا شہزادہ ولیم اور اُن کی اہلیہ شہزادی کیٹ مڈلٹن بھی بادشاہی مسجد آئے تھے اور انھوں نے مسجد میں ادب و احترام برقرار رکھا۔ ان کا کہنا تھا ’شاہی جوڑے جیسی تصاویر بنوانے کی سب کو اجازت ہے۔‘ ’لوگ یہاں آکر ایسے کام کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہم یہ قدم لے رہے ہیں۔ ہم مسجد کے اندر ‘غلط تصویریں‘ اتارنے کی بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ مسجد کے اندر ڈانس کرنا، کلب بنانا یا سٹوڈیا بنانا حرام اور ناجائز ہے۔‘ ’بادشاہی مسجد میں ایسے شخص کے نکاح کی کوئی جگہ نہیں ہے جو مسجد کے تقدس کو پامال کرے گا۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پلواشہ کے ساتھی فوٹوگرافر رضوان کا کہنا تھا کہ مسجد کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ ’کافی سارے فوٹوگرافر ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے انتظامیہ دخل کرتی ہے۔۔۔ اگر آپ اس پر عمل نہیں کرو گے تو باقیوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔‘
070505_timeline_justice_case_ns
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/05/070505_timeline_justice_case_ns
جسٹس کیس: کب کیا ہوا؟
حکومت کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کو عملی طور پر معطل کیے ہوئے دو ماہ ہونے کو ہیں۔ جسٹس افتخار کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل نے شروع کر رکھی ہے جبکہ انہوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔
اس قانونی رسہ کشی کے علاوہ وکلاء اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جسٹس افتخار سے اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی ’معطلی‘ سے لیکر اب تک کہ اہم واقعات کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ نو مارچ:صدر مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف جسٹس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ریفرنس دائر ہونے کے ساتھ ہی چیف جسٹس کو گھر میں بند کر دیا گیا۔ چیف جسٹس کے گھر کی طرف جانے والے تمام راستوں پر پولیس تعینات کر دی گئی۔اسی روز ہی سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس سپریم کورٹ میں ہوا جس کی سربراہی اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال نے کی۔ کونسل نے بند کمرے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا اور ریفرنس کی اگلی سماعت تیرہ مارچ کو کرنے کا فیصلہ کیا۔ دس مارچ: حکومت نے چیف جسٹس کے زیر استعمال گاڑیاں لفٹر کے ذریعے اٹھا لیں۔ ملک بھر میں وکلاء نے چیف جسٹس کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف تین روز مکمل ہڑتال کی اور پورے ملک میں سراپا احتجاج بنے رہے۔ تیرہ مارچ: چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سامنے پیشی پر پولیس کی طرف سے مہیا کی جانے والی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ پیدل سپریم کورٹ جائیں گے۔ انتظامیہ اور پولیس کے اہلکاروں نے چیف جسٹس کو زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی اور اس دوران چیف جسٹس سے بدسلوکی کا واقعہ پیش آیا۔ سولہ مارچ: چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بتایا کہ ان کو اور ان کے اہل خانہ کو گھر میں مقید کر دیا گیا ہے ۔ کونسل نےحکم جاری کیا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے اہل خانہ کی نقل و حرکت پر تمام پابندیاں ختم کی جائیں اور وہ جس شخص سے ملنا چاہیں مل سکتے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ذرائع ابلاغ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جسٹس افتخار کے معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ سترہ مارچ: صدر جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد کو ’جبری چھٹی‘ پر بھیج دیا۔ چیف جسٹس کو جبری چھٹی پر بھیجنے کا فیصلہ انیس سو اکہتر میں بنائے جانے والے ایک قانون کے تحت کیا گیا۔ اکیس مارچ: حکومت نے ملک بھر میں وکلاء اور دوسرے طبقوں کی طرف سے شدید احتجاج اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے کے اعلان کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ایک ’انتظامی‘ حکم کے ذریعے دس روز تک ملتوی کر دیا گیا۔ چوبیس مارچ: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس رانا بھگوان داس چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لے لیا۔ اٹھائیس مارچ: جسٹس افتخار نے اپنی نقل و حرکت پر پابندیوں کو اٹھائے جانے کے بعد سب سے پہلے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوی ایشن راولپنڈی بینچ سے خطاب کیا۔ جسٹس افتخار نے کہا کہ ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ تیس مارچ: جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف الزامات کی سماعت کے لیے بنائی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور تین مختلف وکلاء نے اپنے طور پر دائر کی جانے والی پیٹشنوں میں مؤقف تین اپریل: جسٹس رانا بھگوان داس کے قائم مقام چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی از سر نو تشکیل کی گئی جس کے بعد ان کی سربراہی میں کونسل کا پہلا اجلاس ہوا۔ اس سماعت میں جسٹس افتخار کے خلاف کارروائی بند کمرے یا کھلی عدالت کرنے کے سوال پر بحث ہوئی اور کونسل نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ تیرہ اپریل: سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل کی کارروائی کو بند کمرے میں یا کھلی عدالت میں کرنے سمیت دوسرے اعتراضات پر وکلاء کے دلائل سننے کے بعد تمام ابتدائی نکات کا فیصلہ ایک ہی دفعہ کیا جائے گا۔ اٹھارہ اپریل: صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد جسٹس افتخار کے وکلاء نے بتایا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو سماعت کے دوران کہا ہے کہ ان کے مؤکل نے کونسل کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے اس لیے اگر مناسب سمجھا جائے تو صدارتی ریفرنس کے حوالے سے کونسل کی مزید کارروائی روک دی جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سماعت چوبیس اپریل تک ملتوی کر دی۔ حسب روایت ملک بھر میں وکلاء نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور جلوس نکالے۔ چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل، اپنی جبری رخصت اور صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ چیف جسٹس نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کی آئینی درخواست کا فیصلہ ہونے تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کو فریق اوّل بنایا۔ انیس اپریل: چیف جسٹس کی آئینی درخواست کی ابتدائی سماعت ہوئی۔ جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جسٹس حامد علی مرزا پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔ بینچ کے سربراہ نے کہا کہ چیف جسٹس کی پٹیشن پر رجسٹرار نے اعتراض کیا ہے کہ معاملہ جوڈیشل کونسل میں ہے اس لیے اکیس اپریل: چیف جسٹس نے پشاور کا دورہ کیا اور بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا۔ تقریب میں پشاور ہائی کورٹ کے پندرہ حاضر سروس ججوں نے شرکت کی۔ نجی ٹی وی چینلز نے چیف جسٹس کا خطاب براہ راست دکھایا۔ بائیس اپریل: چیف جسٹس اور ان کے وکلاء کی تقاریر کی براہ راست کوریج پر نجی ٹی وی چینل آج کو پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے شو کاز نوٹس جاری کیا اور اس چینل کی نشریات بعض علاقوں میں کیبل آپریٹرز نے منقطع کردی۔ تئیس اپریل: سید شریف الدین پیرزادہ نے چیف جسٹس کی آئینی درخواست میں صدر کا دفاع کرنے کا اعلان کیا اور قومی اسمبلی کے چالیسویں سیشن کے پہلے روز اجلاس میں حزب مخالف نے عدالتی بحران پر احتجاج کیا اور بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن سپیکر نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے بحث نہیں ہوسکتی۔ چوبیس اپریل: چیف جسٹس کی آئینی درخواست کی سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی اور بینچ کے سربراہ جسٹس رضا محمد خان نے کہا کہ وہ اس درخواست کی سماعت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ نو مارچ کو چیف جسٹس کو کام سے روکنے کا حکم جاری کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے حکم کے وہ دستخطی ہیں اور چیف جسٹس نے اس حکم کو چیلینج کیا لہٰذا وہ اپنے حکم کے خلاف مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کے وکلاء نے زور دیا کہ وہ سماعت کریں کیونکہ وہ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن جسٹس رضا نے قائم مقام چیف جسٹس کو نیا اور بڑا بینچ بنانے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس کے وکلاء نے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن جسٹس رضا خان نے کہا کہ یہ قائم مقام چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ پچیس اپریل: چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے خلاف مبینہ بد سلوکی کرنے کے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے افسران سے کہا کہ وہ غیر مشروط طور پر معافی مانگیں یا مقدمہ لڑیں اور اس بارے میں واضح مؤقف کے ساتھ درخواست دیں۔ چھبیس اپریل: انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کا وفد نے، جو ایک ہفتے سے پاکستان میں عدالتی بحران کی تفصیلات جاننے آیا تھا، نیوز کانفرنس میں چیف جسٹس کو ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر تنقید کی اور کہا کہ اس کے آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے عدالت کو درخواست دی کی جوڈیشل کونسل کی سماعت سے پہلے ان کی درخواست سنی جائے۔ ستائیس اپریل: چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت روکی جائے اور اس بارے میں عدالت حکم امتناعی جاری کرے۔ قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوانداس نے چیف جسٹس کی آئینی درخواست کی سماعت کے لیے ان کی فل کورٹ قائم کرنے کی درخواست مسترد کردی اور جسٹس ایم جاوید بٹر کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم جاری کیا۔ یہ بینچ سات مئی سے روزانہ سماعت کرے گا۔ دو مئی : چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت ہوئی اور ان کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے اعتراضات کے بارے میں ابتدائی دلائل جاری رکھے۔ تین مئی : سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں اعتزاز احسن نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ جس کے بعد حکومتی وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے دلائل شروع کیے اور مزید سماعت نو مئی تک ملتوی کردی۔ نو اور دس مئی کو لگاتار سماعت ہوگی۔ جبکہ سات مئی کو چیف جسٹس کی آئینی درخواست کی سپریم کورٹ سماعت کرے گا۔ ادھر حکومت کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت روکنے اور صدارتی ریفرنس کو چیلینج کرنے کے بارے میں چیف جسٹس کی درخواست کی سماعت کے لیے قائم پانچ رکنی بینچ کی بجائے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ چار مئی : سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے قیام کے بارے میں حکوت کی درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس کردی۔ پانچ مئی : حکومت نے سپریم کورٹ کے اعتراضات دور کر کے فل کورٹ قائم کرنے کی اپنی درخواست دوبارہ دائر کردی ہے۔ واضح رہے کہ جب چیف جسٹس کے وکلاء نے فل کورٹ بینچ قائم کرنے کی درخواست کی اور سپریم کورٹ نے وہ مسترد کرتے ہوئے پانچ رکنی بڑا بینچ تشکیل دیا تو بعض وزراء نے کہا کہ عدالت نے ٹھیک کیا ہے۔ بعد میں جب چیف جسٹس کے وکلاء نے پانچ رکنی بینچ پر اعتماد کا اظہار کیا تو حکومت نے اس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی درخواست دی ہے۔
080612_us_investigation_rr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/06/080612_us_investigation_rr
’حملے کی تحقیقات کررہے ہیں‘
افغانستان میں امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی مہمند ایجنسی میں کل پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے جس میں گیارہ پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی فوجیوں نے اس بابت کابل میں ایک ویڈیو فلم بھی جاری کی ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے جاری ویڈیو بغیر پائلٹ کے طیارے سے بنائی گئی تھی جس میں اتحادی افواج کی جانب سے ایک پہاڑی کے پیچھے چھپے سات مشتبہ افراد کے ایک گروہ کو نشانہ بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے تاہم اس میں کوئی پاکستانی چوکی نظر نہیں آ رہی۔ کابل کے شمال میں بگرام کے فوجی اڈے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں البتہ امریکی فوجی حکام نے واضع کیا کہ وہ اس کارروائی کے دوران کسی بھی وقت پاکستانی علاقے میں داخل نہیں ہوئے۔ ادھر کل رات گئے اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن کو وزارت خارجہ طلب کرکے پاکستان نے باضابطہ احتجاج اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے امریکی سفیر کو بتایا کہ یہ بین الاقوامی سرحد کی بلا اشتعال خلاف ورزی کا واقع ہے۔ انہوں نے پاکستانی چوکی کو نشانہ بنانے کے واقعے کو ناقابل قبول اقدام قرار دیا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ایک مختصر بیان میں مہمند ایجنسی کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی بھی کیا گیا ہے۔
040521_gaza_israeli_action_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/05/040521_gaza_israeli_action_yourviews
غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی
سلامتی کونسل کی طرف سے غزہ میں اسرائیلی آپریشن کی مذمت کے باوجود اسرائیلی فوج غزہ کے اندر دور تک گھس گئی ہے۔ غزہ کی تاریخ میں اسرائیلی کی طرف سے کیے جانے والے سب سے بڑے فوجی آپریشن میں منگل سے لے کر اب تک 40 کے قریب فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے فلسطینی شدت پسندوں نے 13 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے طرف سے کی جانے والی مذمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسرائیل نے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بارے میں اپنے خیالات لکھ کر بھیجیں۔ محمد فاروق، جرمنی: مسئلہ عرب ممالک کے ساتھ ہے۔ ہم امریکہ کو اس مسئلے کے حل کے لئے نہیں کہہ سکتے۔ امریکہ کبھی بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کر سکتا کیونکہ امریکی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ عرب ممالک امریکہ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ جب تک عرب ممالک اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نہیں سوچیں گے، اس وقت تک صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ امتیاز احمد، کراچی: صرف مذمت سے کام نہیں چلے گا۔ جہاد تمام امت مسلمہ پر فرض ہو چکا ہے۔ میاں عاقب، امریکہ: یہ بربریت کی انتہا ہے جس کا کسی بھی طور دفاع نہیں کیا جا سکتا۔معصوم لوگوں کا قتل بہت بڑا جرم ہے۔ میں حیران ہوں کہ اقوام متحدہ اس سلسلے میں کیوں کچھ نہیں کر رہا۔ احسان خان، تربیلا، پاکستان: اسرائیل دراصل حقیقی دہشت گرد ملک ہے اور دنیا میں جاری تمام جنگوں کا باعث ہے۔ راحت ملک، پاکستان: اسرائیلی غزہ میں ظلم کی انتہا کر رہے ہیں۔ حماس کے رہنماؤں کے قتل کئےجانے سے نفرتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ لیکن اس ہاتھی کو روکنے والا کوئی نہیں۔ کامران سجاد، گوجرانوالہ، پاکستان: اسرائیل سلامتی کونسل کی پروا اس لئے نہیں کرتا کیونکہ امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اسرائیل کے خلاف جو بھی جو بھی قرارداد پیش ہوتی ہے، امریکہ اسے ویٹو کر دیتا ہے۔ایسی سلامتی کونسل کا کیا فائدہ جو چھوٹے ملکوں کا تحفط نہ کر سکے۔ صفدر بلوچ، لاہور: یہ بنیاد پرست حکومتوں کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ تمام روشن خیال ادارے تباہ کر دیئے جائیں تاکہ شدت پسندی میں اضافہ ہو۔ فلسطین اور عراق اب بنیاد پرستوں کے حوالے کئے جا رہے ہیں جیسے پہلے افغانستان میں کیا گیا تاکہ غاصب قوتیں آسانی سے عالمی تائید حاصل کر سکیں۔ عطاء حسین جعفری، دبئی: اسرائیل سے کسی قسم کی بھلائی کی امید رکھنا ناسمجھی ہے۔ اسرائیل کو پتہ ہے کہ امریکہ اس کے ہاتھ میں ہے تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اللہ مسلمانوں کو متحد کرے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد: اتنا ظلم کہ چنگیز خان اور ہٹلر کی روحیں بھی شرما جائیں۔ مسلمانوں کے رہنما جتنے بے حس ہیں، مسلمان عوام اتنے ہی افسردہ ہیں۔ بن یامین صدیقی، امریکہ: اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے اور امریکہ اس کی پشت پناھی کر رہا ہے۔ دنیا کا امن اس وقت تک برباد رہے گا جب تک امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک اسرائیل کی ناجائز اور غیراخلاقی حمایت کرتے رہیں گے۔ خود کش بم دھماکوں کے ذریعے بے گناہ شہروں کی ہلاکت اور فوجیوں کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت دونوں کس طرح مختلف ہو سکتے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی سب سے بڑی دہشت گردی ہوتی ہے۔ ہارون رشید، سیالکوٹ: جب چوہد ری ساتھ دے تو کمی کمین بھی اپنے |آپ کو چوھدری سمجھنے لگتے ہیں۔لگتا ہے یہی حال اسرائیل کا ہے۔ نور احمد، اومان: بش، بلئیر اور شیرون کی مثلث دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ یہ لوگ انسانیت میں یقین نہیں رکھتے۔ تاریخ انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی۔ نعمت اللہ خان، کراچی: اسرائیل اور امریکہ دنیا کے امن کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ محمد شہزاد، امریکہ: یہ سب کچھ اسرئیل اور امریکہ ملی بھگت سے کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے چالیس بے گناہ لوگ غزہ میں مار دیئے اور امریکی میڈیا میں اس کا نام و نشان بھی نہیں۔ شوکت حسین، متحدہ عرب امارات: ہم مسلمان اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر رہ گئے ہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر، عراق ہو یا افغانستان، جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، وہ ہمارے اپنے حکمرانوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مسعود قریشی، میرپور: غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی ظلم کی انتہا ہے۔ بےگناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو مارنا کسی مذہب میں جائز نہیں۔ امریکہ کے پالیسی ساز اندازہ کرلیں کہ اسرائیل کی حمایت سے امریکہ کی ساکھ کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ مسلم امہ اور عرب ممالک کو چاہئے کہ وہ متحد ہوکر اسرائیل کو لگام دیں۔ تمام مسلمان فلسطینیوں کی مدد کریں۔ عثمان عمر خان، قندھار: اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے کا حق ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو فلسطینی انہیں اڑا دینگے اور ہزاروں معصوم انسانوں کو ہلاک کردینگے۔ شاہدہ اکرم، ابوظہبی: کیا فائدہ ہے ان (سلامتی) کونسلوں کا جو انسان کی کونسلِنگ بھی نہ ہوسکے، اور شاید یہ مرنے والے تو انسان بھی نہیں ہونگے نا؟ جن میں اکثریت بچوں کی ہے جن کی عمریں آٹھ سے گیارہ سال تک ہیں۔ ان کا قصور کیا ہے؟ اور اگر ان کا قصور کچھ ہے تو یہی کہ وہ مسلم ہیں؟ صرف مذمت کرنے سے کیا ہوگا جب کہ ان کو پتہ ہے کہ کوئی بھی ہمارا کیا بگاڑ لےگا۔ (اقوام متحدہ) جیسے ان اداروں کو ختم ہی کردینا چاہئے جن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایم ہاشم، پاکستان: میرے خیال میں اس وقت اسرائیل دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ اس نے غزہ میں جو کارروائی کی، ہمیں اس کی میں پرزور مذمت کرتا ہوں۔ فلسطین میں جاری کارروائی فوری طور پر بند کردی جائے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں، انہیں بےدردی سے قتل کیا جارہا ہے۔ امریکہ کو چاہئے کہ اس کی پشت پناہی بند کردے اور اس سے فورا کارروائی بند کرنے کے لئے کہے۔ احمد سید، بہاولپور: یہ سب ہمارا قصور ہے۔ کیونکہ جب ہم کافروں کی زندگی اختیار کریں گے تو کافر ہم پر مسلط ہوجائے گا۔ اصغر خان، چین: ظلم پھر ظلم ہے بہتا ہے تو پھر مٹ جاتا ہے۔ چودھری محمد شفیق، پاکستان: عراق، فلسطین اور افغانستان میں معصوم مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور پاکستان کے حکمران آنیوالے انتخابات میں بش کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ میری رائے میں مسلم عوام کو بیرونی دشمنوں سے لڑنے سے پہلے اندرونی غداروں کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ عالمِ اسلام کے دغاباز حکمران امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ نیاز خان، اوٹاوا: مجھے نہیں معلوم کہ کیا کہوں۔ پہلے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اللہ فلسطینیوں کی مدد کرے اور مسلمانوں کو متحد کرے۔ محمد امین راجہ، میرپور خاص: دنیا کو سوچنا چاہئے کہ عراق کو امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے اس لئے مقبوضہ بنایا کہ وہاں لوگوں کی حق تلفی ہورہی تھی تو فلسطینی میں کیا ہورہا ہے؟ آخر یہ امن کے نام نہاد ٹھیکیدار اسرائیل کے خلاف قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ آخر اقوام متحدہ کس مرض کی دوا ہے؟
050312_us_nazi_gold_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/03/050312_us_nazi_gold_ra
نازی گولڈ: امریکہ جرمانہ دے گا
امریکہ دوسری جنگ عظیم میں ہنگری کے یہودیوں کا سونا اور قیمتی سامان لوٹنے پر 25 ملین ڈالر کا ہرجانہ دینے پر رضامند ہو گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج نے ہنگری میں یہودیوں کے قیمتی سامان جس میں سونا، چاندی، ہیرے بارہ سو پینٹنگز اور تین ہزار اورینٹیل کارپٹ جرمنی منتقل کرنے کے لیے ایک ٹرین میں لاد کر جرمنی کے لیے روانہ کیا تھا۔ جب یہ ٹرین آسٹریا پہنچی تو امریکہ فوج نے اس ٹرین کو روک لیا تھا اور اس میں قیمتی چیزوں کو دشمن ملکیت قرار دے کر اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ امریکی فوجیوں پر اس قیمتی سامان میں خرد برد کرنے کے بھی الزام لگتے رہے ہیں۔ امریکہ 25 ملین ڈالر کی رقم دوسری جنگ عظیم یہودی کی نسل کشی کی مہم کا شکار ہونے ہنگری کے یہودیوں میں میں تقسیم کرے گا۔
050206_bus_accident_zs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/02/050206_bus_accident_zs
جموں: بس حادثے میں 27 ہلاک
بھارت کے زیرِانتظام جموں اور کشمیر میں اتوار کو ایک بس حادثے میں ستائیس افراد ہلاک اور پینتیس زخمی ہوگئے ہیں۔
زیادہ تر زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ ادھم پور ضلع میں اس وقت پیش آیا جب مسافروں سے بھری ایک بس بے قابو ہو کر سڑک سے نیچے جا گری۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جموں کے سرمائی دارالحکومت سے نوے کلومیٹر دور برمین گوردھی نامی جگہ پر پیش آیا ہے۔ حادثے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے اور پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
060917_pakistan_hockey_ra
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/09/060917_pakistan_hockey_ra
ورلڈ کپ: پاکستان کی چھٹی پوزیشن
جرمنی میں ہونے والے عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم پانچویں پوزیشن کے لیئے کھیلے جانے والے میچ میں بھی انگلینڈ سے ہار گئی ہے اور اس طرح ٹورنامنٹ میں چھٹی پوزیشن پر آئی ہے۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹورنامنٹ کی پانچویں پوزیشن کے لیئے میچ کھیلا گیا جس میں انگلینڈ نے پاکستان کو ہرا دیا۔پاکستان کی ٹیم کوئی گول نہ کر سکی جبکہ انگلینڈ نے میچ کے اختتام سے صرف تین منٹ پہلے گول کر کے پاکستان پر برتری حاصل کر لی تھی۔ ورلڈ کپ کے لیے آسٹریلیا اور جرمنی کے درمیان فائنل کھیلا جائے گا۔ تیسری پوزیشن کے لیئے کوریا اور سپین کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ بھارت کی ٹیم نے بھی انتہائی غیر معیاری کھیل پیش کیا ہے اور سنیچر کے روز ارجنٹائن کی ٹیم نے بھارت تین دو سے شکست دے دی ہے۔ بھارت کی ٹیم اتوار کے روز جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیلے گئی جس کے نتیجے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ کون سی ٹیم ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن پر ہے۔ ٹورنامنٹ میں کل بارہ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور اگر بھارت نے جنوبی افریقہ کو ہرا دیا تو اس کو پوزیش گیارہویں ہوگی وگرنہ سب سے آخری پوزیشن اس کے حصے میں آئے گی۔
vert-fut-52167025
https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-52167025
ہزاروں میل سفر کرنے والے پھول، پیار کا اظہار بھی اور کاروبار بھی
دو صدیوں سے زائد عرصے تک ہالینڈ کٹے ہوئے پھولوں کی تجارت کا مرکز رہا ہے۔ ان پھولوں کی دنیا کی سب سے بڑی بولی ایک شراب خانے میں شروع ہوئی۔ ایک تاجر نے اپنے ساتھیوں سے استفسار کیا کہ کتنے کی بولی لگی ہے؟
یہ سوال دنیا کے سب سے بڑے اور منفرد تجارتی مرکز میں ہونے والی بولی کا محض آغاز تھا۔ ایمسٹرڈیم کے قریب آلسمیر میں فلورا ہالینڈ نیلام گھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بڑا گودام اب بڑی ٹیٹریس گیم کا مسکن ہے جہاں پھولوں کو ان کے تنوں سمیت ایک ٹرالی پر لایا جاتا ہے اور اس کے بعد خرید کر بیچا جاتا ہے اور پھر خریدار کے پتے پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ سالہا سال سے ہو رہا ہے، رائل فلورا ہالینڈ کا اب بھی اہم کردار ہے، جہاں دنیا کے 40 فیصد پھولوں کو درآمد اور پھر برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کرغستان: دنیا میں اخروٹ کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز سعودی گل پوش: پھولوں کا تاج پہننے والے قحطانی مرد زعفران: یونان کا ’سرخ سونا‘ تصاویر میں پھولوں کی تجارت میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت سے اب اس پیداوار میں اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جیسے جیسے ٹرانسپورٹ ٹیکنالوجی میں جدت آ رہی ہے، افریقہ سمیت دنیا کے ہر کونے میں پھولوں کی پیداوار کرنے والے ممالک ہالینڈ کی اس صنعت میں اس روایتی سبقت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کٹے ہوئے پھولوں کی عالمی منڈی بڑی ہوتی جا رہی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2018 میں صرف برطانیہ میں کٹے ہوئے پھولوں اور سجاوٹی پودوں کی مارکیٹ 1.3 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گئی۔ قریباً 90 فیصد پھول درآمد کیے جاتے ہیں جن کا بڑا حصہ اب بھی ہالینڈ سے ہی درآمد کیا جاتا ہے۔ سنہ 2015 میں عالمی سطح پر ہونے والی پھولوں کی تجارت کی مالیت 15 بلین یورو تک پہنچ گئی تھی۔ دنیا بھر میں پھولوں کی مانگ کو پورا کرنے کے مرحلے میں محنت کشوں، کسانوں، تھوک فروشوں، ایئرلائنز، سامان بردار بحری جہازوں، تاجروں، گل فروشوں اور سپر مارکیٹوں کا ایک نازک توازن شامل ہوتا ہے۔ پھولوں کے گلدستوں کی مانند کسی چیز کو خوبصورتی سے بغیر کسی نقصان کے ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک لے کر جانا ٹیکنالوجی کے بل پر ہی ممکن ہے۔ کٹے ہوئے پھولوں کو جلدی سے لے جاتے ہوئے ٹھنڈا رکھنے کے لیے فارم ہاؤسز، گاڑیوں، جہازوں اور کشتیوں میں ریفریجریٹر جیسی سہولیات یقینی بنانی ہوتی ہیں جس سے پھولوں کو ایسا رکھا جاتا ہے کہ وہ آخری منزل تک تازہ رہیں۔ پھولوں سے متعلق عالمی تنظیم کی سیکرٹری جنرل سلوی مامیاس نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر پھولوں کو جہاز سے لایا جاتا ہے تو پھر ان کو 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر اندر فارم سے دکان تک پہنچانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر پھولوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے دوران ایک دن بھی اضافی لگ جائے تو ان کی قیمت میں 15 فیصد تک کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گلدان کی زندگی سلوی مامیاس کا کہنا ہے کہ جب پھول گاہک تک پہنچنے کے بعد 12 سے 15 دن تک تازہ رہتے ہیں۔ ان کٹے ہوئے پھولوں کے سب سے بڑے خریدار امریکہ اور برطانیہ ہیں مگر ہالینڈ، ایکواڈور، کولمبیا، کینیا اور ایتھوپیا ان پھولوں کے پیداواری ممالک ہیں۔ ان پھولوں میں خاص طور پر گلاب، کارنیشن اور کرسنتیمیمس یعنی گلِ داؤدی کا کھلنا بہت منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ برٹس فلورسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق برطانیہ میں 80 فیصد تک پھول ہالینڈ کے رستے سے آتے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ان پھولوں کا سب سے بڑا پیداواری ملک کینیا ہے۔ کینیا سے کچھ پھول براہ راست نیروبی سے برطانیہ لائے جاتے ہیں، جہاں کچھ ایئرپورٹس نے پورے ٹرمینل پھولوں کو لے کر آنے والی پروازوں کے لیے مختص کر رکھے ہیں۔ سلوی مامیاس کا کہنا ہے کہ افریقہ کا 1970 سے پھول کی برآمد کی ایک وجہ تب شمالی ممالک میں تیل کے بحران سے گرین ہاؤسز کے درجہ حرارت میں اضافہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پھولوں کی پیداوار جنوب میں ہونے لگ گئی جہاں ان کی سال بھر کم محنت سے زیادہ پیداوار ہو جاتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب یورپ کو زیادہ تعداد میں پھول اسرائیل اور ماراکو سے منگوانے ہوں گے اور پھر اس کے بعد مشرقی افریقہ سے جبکہ امریکی خریداروں نے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ تجارت بڑھا دی ہے۔ پھول کے ان نئے پیداواریوں میں تین قدریں مشترک ہیں: زیادہ بلندی والے علاقے اور سرد راتیں، جس سے پھولوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خط استوا پر واقع اس طرح کے علاقے ہیں جہاں سستی مزدوری کے ساتھ سورج کی روشنی زیادہ وقت پڑتی ہے۔ اس تبدیلی کا مطلب یہ بھی ہے کہ موسمی پیداوار ختم ہو جائے اور سال بھر کے 365 دن تک تجارتی مسابقت کا آغاز رہے۔ کینیا گلاب کی پیداوار میں ایک خاص مقام اہمیت رکھتا ہے۔۔ یونین فلیرز کے مطابق ملک یورپی یونین میں فروخت ہونے والے تمام گلاب کے پھولوں میں سے ایک تہائی سپلائی کرتا ہے۔ چائے کے بعد کٹے پھول اب کینیا کی دوسری سب سے بڑی برآمد بن چکے ہیں، جو جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد حصہ بنتا ہے۔ اب پھول کی صنعت ملک میں سب سے بڑے روزگار کا ذریعہ بھی بن چکی ہے، جہاں ایک لاکھ سے زائد افراد براہِ راست پھولوں کی صنعت میں کام کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق بالواسطہ 20 لاکھ افراد اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ کینیا کا تمبوزی فلاور فارم کینیا میں تمبوزی فلاور فارم ہر سال 22 ہیکٹر میں تین جگہوں پر تقریباً آٹھ ملین پھول کی پیداوار ہوتی ہے۔ کینیا کی بارش والی پہاڑیوں کے دامن میں واقع یہ فارم، جو نیروبی کے شمال میں 180 کلومیٹر شمال کی جانب ہے۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی 1،800 میٹر پر بنتی ہے۔ کینیا یہ پھول برطانیہ، ہالینڈ، روس، آسٹریلیا، امریکہ اور چین سمیت دنیا بھر کے 60 ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ اس فارم کے مالک میگی ہوبس جو دو دہائیوں سے یہ کاروبار زندگی چلا رہے ہیں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے کینیا کے پھولوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے تو تمبوزی کی طلب بھی بڑھ گئی ہے۔ میگی ہوبس کا کہنا ہے کہ ہم بیس لوگوں کی مدد سے باہر کھلی جگہ پر گلاب کی کاشت کرتے ہیں جبکہ پانچ سو سے زائد لوگ تین جگہوں پر ہیں جو پلاسٹگ گرین ہاوسز میں ان کی پیداوار پر مامور ہیں۔ یہ فارم 30 کلومیٹر کے علاقے میں ملازت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس سے 3،000 سے زیادہ لوگوں کا کاروبار جُڑا ہوا ہے۔ مصدقہ فیئرٹریڈ فارم کے طور پر بیچے گئے پھولوں کی قیمت کا دس فیصد مزدوروں کے حصے میں آتا ہے۔ تمبوزی فارم میں 80 اقسام کے پھول اگائے جاتے ہیں، لیکن ڈیوڈ آسٹن کے خوشبو دار گلاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس میں موسم گرما کے پھول جپسوفِلا، ایمی بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں فلرز کی کاشت گلدستوں کے لیے کی جاتی ہے جیسے دونی، پودینہ اور لیوینڈر شامل ہیں۔ فارم کے ایچ آر اور ماحولیات کے منیجر کرسٹین شیکوکو کا کہنا ہے کہ اس پیکنگ ہاؤس میں حیرت انگیز خشبو آ رہی ہے اور ایسے ہی ہمارے گرین ہاؤسز بھی خوشگوار رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دفتر میں بیٹھے بیٹھے جب میں دباؤ محسوس کرتا ہوں تو میں بس گرین ہاؤسز میں چلنا شروع کر دیتا ہوں، یہ ایسی تھراپی ہے کہ جیسے سب تھکن اتر جاتی ہے۔ میرا کوئی ایک پھول پسندیدہ نہیں ہے یہ سب بہت پیارے ہیں۔‘ گلاب کے پھول کا انتخاب کر کے اس کا فارم پر تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس میں وہ خوشبو ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں، اس کے پتوں کی تعداد کتنی بنتی ہے اور اسی طرح ان کی مختلف کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت کتنی ہے، کیا رنگ ہے اور پیداوار کتنی ہے۔ تجارتی گرین ہاؤسز میں کارکن مٹی کے پی ایچ اور نامیاتی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں، ناکاسی کو یقینی بناتے ہیں، نک سک کے علاوہ گلاب کی نشونما کو یقینی بناتے ہیں۔ نالی کے دریعے آبپاشی سے ہر پلانٹ تک پانی پہنچ جاتا ہے اور اس سے پانی کا ضیاع بھی کم ہوتا ہے۔ پودوں کو کیڑوں اور بیماری سے بچانے کے لیے پھولوں پر سپرے کیا جاتا ہے اور شکاری ذرات کو چھوڑا جاتا ہے، جو کیڑے مکوڑوں کو کھا جاتے ہیں جیسا کہ پھول کے پتوں پر چپک کر مکڑی کے جال بن جاتے ہیں۔ آٹھ ہفتوں کے بعد مزدو گلاب کی تنوں کو اس جگہ سے موڑ دیتے ہیں جہاں سے جڑ کے قریب ٹہنیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کمزور تنوں کو کاٹ کر علیحدہ کر لیا جاتا ہے جبکہ مضبوط تنوں کو رہنے دیا جاتا ہے۔ تنوں کو درجہ بندی سے پہلے فوراً کولڈ سٹور میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں انھیں چار سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں رکھا جاتا ہے۔ پیکنگ ہاؤس میں ان کے جُھنڈ بنا دیے جاتے ہیں اور پھر انھیں واپس کولڈ سٹور میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بالآخر یہ ایک ریفریجریٹر بس میں نیروبی ایئر پورٹ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ تمبوزی فارم سال بھر پھولوں کی کاشت کرتا ہے۔ روزانہ پھولوں سے لدا ایک ٹرک یہاں سے نکل کے جا رہا ہوتا ہے۔ اگرچہ پیک ٹائم میں جیسا کہ مدرز ڈے، ویلنٹائن ڈے اور انٹرنیشنل ویمن ڈے پر اس کی طلب دگنا ہو جاتی ہے۔ شیکوکو کا کہنا ہے کہ پھول کٹائی سے لے کر برطانیہ میں خریدراوں تک تین یا چار دنوں تک پہنچ جاتا ہے۔ تمبوزی کی محتاط مینیجمنٹ کے باوجود اس فارم کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ شیکوکو کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں اس کی کاشت کو بہت مشکل بنا رہی ہیں۔ ان کے مطابق ’گذشتہ برس ایسے سیلاب آئے جو میں نے پہلے زندگی بھر کبھی نہیں دیکھے۔ اور پھر جب خشک سالی ہوتی ہے تو یہ ایک اور انتہا ہوتی ہے جو ہر سال بری سے بری تر ہوتی جا رہی ہے۔‘ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے فارم بارش کے پانی کو ذخیرہ کر لیتا ہے اور شمسی توانائی کو محفوظ کرنے کے لیے سولر پینل نصب کیے جاتے ہیں اور اپنی پیداوار کے کچھ حصے کو چار دیواری کے اندر لے آتا ہے تاکہ وہ ماحول کے مطابق پھول کی پیداوار کو یقینی بنا سکیں۔ یہ فارم اب آہستہ آہستہ ملازمت کے مواقع بھی بہم پہنچا رہا ہے۔ پچاس برس کی ونجیرو کرانجا اسے اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ ایک شفاف ڈیل یہ فارم اب آہستہ آہستہ ملازمت کے مواقع بھی بہم پہنچا رہا ہے۔ پچاس برس کی ونجیرو کرانجا اسے اپنی زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ ونجیرو کرانجا تمبوزی فارم ہاؤس پر گذشتہ پانچ برس سے کام کر رہی ہیں اور پھول چننے سے اپنے سفر کا آغار کرتے ہوئے اب وہ 64 افراد پر مشتمل ٹیم کی لیڈر بن چکی ہیں۔ وہ درزی اور کپڑے بنانے کا اپنا کاروبار چلا رہی تھیں مگر کم تنخواہ کی وجہ سے انھوں نے اس پھولوں والے فارم پر ملازمت اختیار کر لی۔ ذیادہ پیسوں کے باوجود یہ ایک ایسا کام ہے جس میں زیادہ حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ ونجیرو کرانجا فارم سے کوئی چھ کلومیٹر کے فاصلے پر رہتی ہیں۔ دو گھنٹوں کی یہ مسافت وہ ہفتے کے چھ دن پیدل طے کرتی ہیں۔ وہ صبح ساڑھے سات بجے کام کرنا شروع کر دیتی ہیں لیکن اس سے قبل وہ صبح سویرے پانچ بجے اٹھ کر اپنی فیملی کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انھوں نے فیئر ٹریڈ فارم پر ملازمت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا پہلا بچہ پرائمری سکول میں اور دوسرا بزنس کامرس کا طالبعلم ہے۔ ’تمبوزی نے مجھے بچوں کی یونیورسٹی اخراجات اٹھانے کے لیے پیسے دیے۔‘ ٹیم لیڈر کے طور پر ونجیرو کرانجا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو یہ سیکھنے میں مدد دی کہ پھول کے ان پودوں کو کیسے کاٹا جاتا ہے، صفائی کی جاتی ہے اور انھیں کس طرح خوراک دی جاتی ہے۔ اسے اپنے کام سے محبت ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ مضر جڑی بوٹیوں کو پھول سے علیحدہ کرنے کا عمل ایک بہت مشکل کام ہے۔ فارم کے پارٹنر شپس آفیسر کیلون نگاری کے مطابق تمبوزی فارم پر خواتین ملازمین کی کل تعداد 55 فیصد بنتی ہے۔ فئیر ٹریڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے کے نتیجے میں اب تمبوزی فارم مزید اور خواتین کو بھی لیڈرشپ کا کردار ادا کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نگاری کے مطابق ’ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین نے پھول کٹائی سے لے کر مینجرز تک ترقی کر کے پہنچ گئی ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میری جیسی خواتین اب پہلے سے رائج فرسودہ رسموں کو چیلنج کر رہی ہیں۔۔ اپنے بچوں کو ایسی اعلیٰ تعلیم دلوا رہی ہیں جس کا ہمارے گاؤں میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔‘ چار ممالک۔۔ کینیا، ایتھوپیا، ایکواڈور اور تنزانیہ۔۔ 98 فیصد پھول کی مصدقہ فیئر ٹریڈ پیداوار کرتے ہیں۔ اس پیداوار میں دنیا کی پھول کی 67 میں سے 39 مصدقہ فیئر ٹریڈ تنظیموں کے ساتھ کینیا کا حصہ ذیادہ بنتا ہے۔ اس میں لگ بھگ 30،500 افراد شامل ہیں جن کی ملک میں پھول کی صنعت میں 30 فیصد نمائندگی بنتی ہے۔ فیئر ٹریڈ فاؤنڈیشن کے مطابق فیئر ٹریڈ پریمیم کینیا میں پھول کی صنعت سے جڑے کارکنان اور کمیونٹی کے لیے 7.5 ملین ڈالر کو یقینی بناتا ہے۔ یہ کارکنان مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس رقم کو کیسے خرچ کرنا ہے، یہ براہِ راست انھیں اور ان کے خاندانوں کو بھیج دی جاتی ہے یا کمیونٹی کی خدمات کے لیے خرچ کی جاتی ہے، جس میں تعلیم اور ہاؤسنگ کے شعبے شامل ہیں۔ یہ پریمیم صرف صحت کی سہولیات کے لیے بھی وقف کیا جاتا ہے تاکہ دیہی علاقوں میں انتہائی ضروری صحت کی سہولیات کو یقینی بنایا جا سکے۔ پھول کے کچھ فارم اس سے بھی آگے بڑھ کر خدمات انجام دیتے ہیں اور وہ اپنے ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد کے لیے مفت علاج کی سہولت مہیا کرتے ہیں اور مقامی آبادی کے لیے سستے داموں صحت کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ فیئرٹریڈ فاؤنڈیشن کے فلاورز سپلائی اور پروگرامز مینیحر انا بارکر کا کہنا ہے کہ مشرقی افریقہ میں حالیہ برسوں میں پھول کی صنعت کی ترقی سے ان ممالک کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور ملازمتوں کے مواقع میسر آئے ہیں۔ تاہم بہت سے لوگوں کو کم اجرت اور نامساعد حالات میں کام کرنے پر مجور ہوئے ہیں۔ جب ہم برطانیہ میں فیئر ٹریڈ پھولوں کے ایک جھرمٹ کو چنتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہاں کام کرنے والوں کو محفوظ سہولیات میسر ہیں اور ان کے خاندان والے اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے قابل ہیں اور انھیں صحت جیسی بہتر سہولیات تک رسائی بھی حاصل ہے۔ برطانیہ میں فیئرٹریڈ فلاورز کی کل مالیت 21 ملین پاؤنڈ بنتی ہے، جو سرکاری اعداوشمار کے مطابق ملک کی مجموعی طور پر پھول اور پودوں کی مارکیٹ کا دو فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر پھولوں کی مارکیٹ پھل پھول رہی ہے۔ دنیا میں پھول کی طلب میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ نیروبی کے جومو کینیاتا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پھولوں کے لیے ایک ٹرمینل مختص کر دیا گیا ہے فیئر ٹریڈ فاؤنڈیشن کے مطابق 829 ملین فیئر ٹریڈ فلاور سنہ 2016 میں 15 ممالک میں فروخت ہوئے جس میں گذشتہ سال کے مقابلے میں پانچ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ تعداد سنہ 2017 میں بڑھ کر 834 ملین تک پہنچ گئی۔ تاہم یہ 3.8 ملین پھول جو 2016 میں فیئر ٹریڈ ورکرز کے ذریعے پیدا کیے گئے ہیں یہ ان کا 20 سے 30 فیصد تک ہی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب نان فیئر ٹریڈ مارکیٹ کو چلا جاتا ہے کیونکہ ابھی تک اس کی طلب بہت ذیادہ نہیں ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پھول کی صنعت میں کام کرنے والے ان پھولوں کی اس اضافی رقم کو وصول نہیں کر رہے ہیں۔ فیئر ٹریڈ پریمیم سے اور ذیادہ ورکرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے صارفین کی طلب اور فیئر ٹریڈ کے ذریعے مزید کاروباری مواقع پیدا کر کے پھولوں کی فروخت میں اضافہ ضروری ہے۔ دنیا میں پھول کی طلب میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ نیروبی کے جومو کینیاتا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پھولوں کے لیے ایک ٹرمینل مختص کر دیا گیا ہے۔ تمبوزی فارم سے ایئرپورٹ تک پھول پہنچانے کے لیے 118 کلومیٹر تک کی مسافت طے کرنا ہوتی ہے۔ ایک بوئنگ 747 طیارہ 90 ٹن تک پھول لے کر جا سکتا ہے۔ مندی والے ہفتے میں تقریباً 30 پروازیں مسافروں اور ایک حصے میں پھول رکھے نیروبی ائیرپورٹ سے باہر روانہ ہوتے ہیں۔ تاہم ویلنٹائن ڈے کے قریب یہ اعدادوشمار 100 تک پہنچ جاتی ہے۔ کچھ عرصے میں امریکہ، برطانیہ اور چین کے لیے براہِ راست پروازیں متعارف کرانے سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ پھولوں کو ہزاروں میل دور لے کر جانا یقیناً مختصر فاصلے پر لے جانے سے ایک مشکل کام ہے مگر خط استوا پر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ خود پھولوں کے فارم میں خود توانائی کم ہو سکتی ہے۔ یونین فلرز کی سلوی مامیاس کا کہنا ہے کہ آپ کو اپنے گرین ہاوسز کو گرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو سورج کا زیادہ خطرہ ہے، یورپ میں بڑھتے ہوئے پھولوں سے توانائی کا استعمال بہت کم ہو گا۔ فیئر ٹریڈ فاؤنڈیشن کی طرف سے کرائی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہوائی نقل و حرکت کے فرق کے باوجود کینیا میں کاشت اور یورپ میں فروخت کیے جانے والے گلاب ہالینڈ میں پیدا ہونے والوں پھولوں کے مقابلے میں 5.5 گنا کم گرین ہاؤس گیس کا اخراج کرتے ہیں۔ جب پھول اپنے اصل مقام تک پہنچتے ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے اس کا انحصار جگہ پر ہوتا ہے۔ مامیاس کے مطابق برطانیہ یورپ میں وہ واحد ملک ہے جہاں ان پھولوں کی بڑی تعداد سپر مارکیٹ میں لائی جاتی ہے اور پھر یہاں زیادہ لوگ خریداری کے لیے پھول فروخت کرنے والوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ پہنچنے والے پھولوں کی سپلائی کا طریقہ کار مختصر ہو جاتا ہے کیونکہ سپر مارکیٹ سپلائی کرنے والوں سے براہ راست خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے مڈل مین کے کردار کو ختم کر کے اخراجات کم کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ برطانیہ میں تھوک فروش مل سکتے ہیں جس سے وہ اپنے گلدستے ایک ساتھ رکھیں اور پوری دنیا کے پھولوں کو ملاسکیں۔ خاص پھول فروش اکثر پھول تھوک فروشوں سے خریدتے ہیں یا پھر لندن کی نیو کووِنٹ گارڈن فلاور مارکیٹ چلے جاتے ہیں جہاں براہِ راست ہالینڈ سے یہ پھول آتے ہیں۔ جنوبی لندن میں مقیم سائمن لیسیٹ پھولوں کے کاروبار میں سب سے زیادہ مہارت حاصل کرنے والے اور انتہائی مقبول ہیں۔ سائمن لیسیٹ اپنی تخلیقی صلاحتیوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ پرنس آف ویلز اور ڈچس آف کارن وال کی شادی کو پھولوں سے سجانے والے بھی سائمن ہی تھے۔ انھوں نے ہیمپٹن کورٹ پیلس، رائل اوپِرا ہاؤس، سینٹ پال کیتھیڈرل اور کینسنگٹن پیلس کے لیے پھولوں کے انتظامات کیے ہیں۔ وہ جو تقربیاً دس فیصد گلاب خریدتا ہے وہ کینیا سے آتا ہے، جس میں ڈیوڈ آسٹن بھی شامل ہے جس کی پیداوار میں تمبوزی فارم کو خاص سبقت حاصل ہے۔ سائمن لیسٹ کے مطابق کینیا سے آنے والے پھول کئی پنکھڑیوں والے اور انتہائی جاذب نظر ہوتے ہیں۔ ان کی خوشبو غیر معمولی قسم کی ہوتی ہے۔ ’اگر کوئی اسے اپنے باغیچے میں واپس لے جانا چاہتا ہے تو وہ خوشبو کے ذریعہ فوراً لے جایا جاتا ہے۔‘ سائمن کی ٹیم روزانہ نیو کوونٹ گارڈن فلاور مارکیٹ سے یہ پھول خریدتی ہے۔ سنیچر کے ایک پروگرام کے لیے وہ منگل اور بدھ کو خریداری کر لیتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ پھول اس دن بھی صیحح اپنی اچھی حالت میں رہیں۔ یہ گلاب گتے کی پیکنگ میں بھر کر لائے جاتے ہیں اور پھر سائمن اور اس کی ٹیم اس کے تنوں کو دوبارہ کاٹتے ہیں ،پتیوں کو اتار کر پھولوں کو ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک عام شادی پر سائمن 20،000 گلاب کا استعمال کرتے ہیں، تاہم وہ سینکڑوں مختلف اقسام کے پھول خریدتے ہیں، جس میں ہائیڈرنجاس، پونی اور آرکڈز پھول شامل ہیں۔ ہر گاہک کہے گا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ اسے سب اچھا نظر آیا۔ سائمن کے مطابق اس میں پھول کا اثر، خوشبو، کثرت اور کمال سجاوٹ شامل ہیں۔ کینیا جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے کٹے پھولوں کی صنعت انتہائی مطلوب روزگار اور دیگر مواقع لے کر آئی ہے اور یہ ان ممالک کی معاشی ترقی کا ایک بڑھتا ہوا اہم جزو ہے۔ کینیا میں پھولوں کی برآمدات سے تقریباً چار فیصد آبادی کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنتا ہے جبکہ جنوبی امریکہ میں یہ تجارت کولمبیا اور ایکواڈور میں روزگار کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ لیکن ابھی آگے اس صنعت کو کئی اور چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک تو اس صنعت کی غریب ورکرز کے لیے نامساعد حالات ہیں جس میں کم اجرت کا ملنا بھی شامل ہے۔ فیئرٹریڈ فاؤنڈیشن کے مطابق حالیہ دنوں میں کئی ممالک میں ورکرز کے لیے کام کے حالات میں بہت بہتری بھی آئی ہے۔ دوسرا بڑھتا ہوا چیلنج ماحولیاتی تبدیلی کا ہے، جس میں تمبوزی جیسے فارم ایسی کوششوں میں ہیں کہ وہ پانی کے کم ہوتے ہوئے اور کم زرائع کا بہتر استعمال کر سکیں۔ پھول کے کھیت سے لے کر خریدار تک پھول کے پہنچنے کا سفر خاصا طویل اور کسی کٹے ہوئے نازک پھول کی نزاکت کو برقرار رکھنا پیچیدہ بھی ہے۔ کسی کھلے ہوئے پھول کو اپنی قدر برقرار رکھنے کے لیے اسے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی ترو تازہ اور برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے۔ کئی برسوں بعد ٹیکنالوجی کے زریعے پھولوں کا تازہ دکھائی دینا کسی نازک فن سے کم نہیں ہے۔ اگلا بڑا قدم یکساں طور پر مضبوط سماجی اور ماحولیاتی حل تلاش کرنا ہو گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تجارت صیحح معنوں میں شفاف اور پائیدار ہے۔
pakistan-52830247
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52830247
لاک ڈاؤن کے دنوں میں خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات کی کارروائیاں، شکاری سوشل میڈیا سے خود شکار ہو گئے
کووڈ 19 کے پیشِ نظر جاری لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان کے کچھ علاقوں میں شکار میں زبردست اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث محکمہ جنگلی حیات کو بھی حرکت میں آنا پڑا۔
صوبہ خیر پختونخوا میں نقل و حرکت محدود ہونے سے جنگلی حیات انسانوں کی آبادی میں کھل کر سامنے آئی ہے تو وہیں شکاریوں نے چڑیوں، تیتروں اور چکوروں سے لے کر بڑے جانوروں تک کے بے دریغ شکار کیے ہیں۔ نایاب جانوروں کے شکار کے لیے محکمہ وائلڈ لائف سے اجازت لینا لازم ہوتا ہے۔ جبکہ محکمہ شکار کے حوالے سے کچھ اصول طے کرتا ہے۔ ایسے میں بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے ذریعے حکام نے قانون کی خلاف ورزی پر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں اور سزا کے طور پر متعلقہ افراد پر جرمانے بھی عائد کیے۔ یہ بھی پڑھیے کیا تیندوے اسلام آباد کے گنجان آباد علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں؟ چترال میں مارخور کے قانونی شکار پر تنازع کیوں ہوا؟ شیر اور چیتے کی افزائش نسل: شوق بھی، کاروبار بھی نایاب کھالیں پاکستان میں کیسے بک رہی ہیں؟ لاک ڈاؤن میں شکار اور اسے فخر سے سوشل میڈیا پر پیش کرنا بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات نے ایسے افراد کے خلاف بھی کارروائی کی ہے جنھوں نے غیر قانونی طور پر نایاب جانوروں کے شکار میں حصہ لیا اور پھر اپنے شکار کے ساتھ تصاویر یا ویڈیوز فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر جاری کیں۔ ان پرندوں اور جانوروں کے شکار کے ایک نمایاں واقعے میں ایک نایاب کونج، جسے ہوڈڈ کرین بھی کہا جاتا ہے، کا بھی شکار کیا گیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پہلی مرتبہ پاکستان میں داخل ہوئی تھی۔ نایاب جانوروں کے شکار کے علاوہ بعض افراد نے عام شکار میں بھی حدود سے تجاوز کیا۔ جیسے ایک شخص نے ’ساڑھے نو سو یوریشین چڑیوں کا شکار کیا‘، کسی نے غیر قانونی طور پر گھر میں ہی شیر پال لیا اور تو اور کسی نے ریچھ اور مادہ مارخور کے بچے کا شکار کر دیا۔ اسی طرح ایک شخص نے 60 سے زیادہ تیتروں اور چکوروں کو مار دیا تھا۔ شکاریوں کی جانب سے یہ سب سوشل میڈیا پر فخریہ انداز میں پیش کیا جا رہا تھا جس پر حکام نے کارروائی کی۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات کے مطابق انھوں نے صرف ان چند ماہ میں 300 کے لگ بھگ ایسے افراد کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ یاد رہے کہ صوبے میں سماجی فاصلے کی ہدایات کے تحت لوگوں کو گھروں تک محدود کی تلقین کی گئی تھی۔ موسم بہار میں بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آتے ہیں اور یہاں سے گزرتے ہیں۔ اس مرتبہ چونکہ کورونا وائرس کے وجہ سے لاک ڈاؤن رہا اور لوگ گھروں میں فارغ تھے تو ایسے میں انھوں نے پرندوں اور جانوروں کے شکار شروع کیے اور سوشل میڈیا کے پیجز پر ڈال دیے۔ ہوڈڈ کرین یا کونج ملاکنڈ ڈویژن کے ایک علاقے میں چند دوست شکار کے لیے نکلے اور انھیں ایک نایاب پرندہ نظر آیا جسے انھوں نے اپنی بندوق کی گولی سے ہلاک کر دیا۔ ان دوستوں نے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں جس میں تینوں دوست اس پرندے کے ساتھ سیلفی لیتے رہے۔ محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مطابق یہ ہوڈڈ کرین یا کونج تھی جو پہلی مرتبہ پاکستان میں دیکھی گئی ہے۔ یہ کونج نایاب ہے اور یہ جسامت میں دیگر کونجوں سے چھوٹی ہوتی ہے لیکن پھر بھی لگ بھگ یہ ایک میٹر تک ہوتی ہے۔ یہ پرندہ سائبیریا کا ہے لیکن اس کی بڑی تعداد جاپان میں پائی جاتی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے ضلعی فارسٹ حکام نے بتایا کہ نوجوان شکاریوں نے سوشل میڈیا پر تصاویر لگائیں جس پر متعلقہ اہلکاروں نے شکاریوں کی نشاندہی کی اور مقدمہ درج کر دیا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے عدالتی کارروائی میں اب تک پیشرفت نہیں ہو سکی۔ 965 چڑی مار خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک نوجوان نے لگ بھگ 965 یوریشین چڑیوں کا شکار کیا اور تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ واقعہ گذشتہ ماہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب کلاچی میں پیش آیا تھا جب شکاری محمد ساجد نے فیس بک پر ذبح شدی چڑیوں کی تصاویر پوسٹ کر دی تھیں۔ حیران کن طور پر اتنی بڑی تعداد میں ان معصوم پرندوں کا شکار کیا گیا اور پھر کڑھائی میں ڈال کر اس ان کا کھانا بنایا گیا۔ محکمہ جنگلی حیات کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق وہ شکار جرم نہیں لیکن محکمہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو قانون کا احترام نہیں کرتے۔ فارسٹ آفس کے اہلکاروں کے مطابق شکاری نے اپنی شہرت اور اپنا کمال دکھانے کے لیے تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں جو وائرل ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیم تشکیل دی اور مذکورہ نوجوان کی تلاش شروع کر دی اور جلد ہی ان کے ٹھکانے کی نشاندہی ہو گئی تھی۔ اہلکاروں کے مطابق پولیس کی مدد سے شکاری کو تلاش کیا گیا لیکن وہ اپنے گھر پر موجود نہیں تھا جس کے بعد خود ہی دفتر پہنچ گیا تھا۔ ملزم کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی گئی لیکن ملزم نے جرمانہ ادا کرنے کی استدعا کی جس پر انھیں ایک لاکھ 15 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور قریبی ضلع ٹانک کے علاقے ہجرت کرنے والے پرندوں کا اہم فضائی راستہ ہے اور ان علاقوں میں شکار بھی کیے جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے اب تک محکمہ جنگلی حیات نے لگ بھگ ڈھائی سو کیس رجسٹر کیے ہیں اور ان افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ ایمبولینس میں کونجیں (ڈیموزل کرین) خیبر پختونخوا کے جنوبی لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور پھر آگے بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقوں میں کونجوں کا شکار کیا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے اس پر مقامی اضلاع کی جانب سے پابندیاں بھی لگائی جا چکی ہیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ڈیموزل کونجوں کا شکار کیا گیا اور انھیں خیبر پختونخوا اور پنجاب لایا جا رہا تھا۔ ان پرندوں کو ایمبولینس میں چھپایا گیا تھا۔ حکام نے بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں درابن کے مقام سے کوئی 67 کونجیں برآمد ہوئیں جن میں سے دو ہلاک ہو چکی تھیں۔ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد ملزمان نے عدالتی کارروائی کے بجائے جرمانہ ادا کرنے کی حامی بھری جس پر انھیں تین لاکھ پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر شیر کی تشہیر خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں ایک زیر تعمیر آئل ریفائنری میں شیر رکھا گیا تھا۔ یہ شیر غیر قانونی طور پر رکھا گیا جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی تھیں۔ محکمہ جنگلی حیات کے مطابق انھیں اس بارے میں اطلاع تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی تاہم سوشل میڈیا پر آنے کے بعد انھوں نے کارروائی کرتے ہوئے اس مقام کی نشاندہی کی اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے شیر کو دفتر لایا گیا جہاں ویٹرنری ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور پھر شیر کو پشاور چڑیا گھر منتقل کردیا گیا جہاں وہ بہتر حالت میں ہے۔ کسی رہائش یا نجی مقام پر شیر رکھنے کے جرم میں محکمے نے کارروائی کی ہے لیکن اب تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ چترال کے مارخور (آئبیکس) پاکستان کے مختلف علاقوں میں نایاب جانور پائے جاتے ہیں جن میں مارخور شامل ہیں اور یہ مارخور چترال، گلگت بلتستان اور ادھر جنوبی خیبر پختونخوا میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں یہ بڑے سینگھوں والے جنگلی بکرے عام طور پر بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تحصیل تورکہو کے گاؤں بوزند میں ایک شکاری اور ان کے تین ساتھی بندوق سے شکار کی غرض سے نکلے تھے۔ ان افراد نے آئبیکس کا شکار غیر قانونی طور پر کیا جس پر جنگلی حیات کے محکمے کے اہلکاروں نے ان کے خلاف کارروائی کی اور ان کے قبضے سے بندوق اور ذبح شدہ جانور برآمد کیا ہے۔ ان افراد میں ایک میر غازی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ اس علاقے میں چیتے اور دیگر جانور بھی ہیں تو وہ اپنے ساتھ بندوق لے گئے تھے۔ وہاں دریا کے کنارے یہ جنگلی بکری کا بچہ موجود تھا جس پر ان کے ایک ساتھی نے فائر کیا اور اسے مار دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ واپسی پر اہلکاروں نے انھیں روکا اور ان سے ذبح شدہ جنگلی بکری کا بچہ برآمد کیا۔ اس پر انھیں دو لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔ میر غازی نے بتایا کہ وہ غریب لوگ ہیں شکار وغیرہ نہیں کرتے یہ جنگلی بکری کے بچے کا شکار ایک حادثہ تھا۔ تیتر اور چکور کا بے دریغ شکار خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں محمد رشید نامی ایک شخص نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شکار کیے گئے تیتروں اور چکوروں کی تصاویر اپ لوڈ کیں۔ اس پر محکمہ جنگلی حیات کے حکام ان کے گھر پہنچ گئے۔ اہلکاروں نے بتایا کہ انھیں سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ کوئی 40 عدد خاکی تیتر، 8 عدد کالے تیتر، 10 عدد چکور اور اور 6 عدد سسیاں شکار کی گئی ہیں۔ اہلکاروں نے قانونی کارروائی کرتے ہوئے ان پر جرمانہ عائذ کیا۔ بی بی سی کے رابطہ کرنے پر محمد رشید نے بتایا کہ اتنے زیادہ پرندے نہیں تھے جتنے رپورٹ میں درج کیے گئے ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جرمانہ ادا کیا ہے۔ کیا شکار کرنا غیر قانونی ہے؟ ملک میں شکار جرم نہیں ہے اور ناں ہی غیر قانونی ہے اگر اس کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کیے جائیں اور اس کے لیے متعلقہ حکام سے لائسنس حاصل کر لیا جائے۔ محکمہ جنگلی حیات کے اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو قانون کا احترام نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو جنگلی جانوروں یا پرندوں کا شکار بغیر کسی شوٹنگ لائسنس کے کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ یعنی ایسے افراد جو حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ ’کیونکہ لائسنس میں مقررہ بیگ کی تعداد متعین کی جاتی ہے کہ ایک بندوق سے دن میں کتنے فائر کیے جا سکتے ہیں اور کتنی تعداد میں پرندوں کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ شکار کی اجازت شکار کے لیے مخصوص موسم میں ہوتا ہے اس سے ہٹ کر شکار نہیں کیا جا سکتا اور اس کے علاوہ جن پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے ان کا شکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہوتی ہے جو زیادہ ظلم سے شکار کرتے ہیں یا ان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا شیر پالنا جرم ہے تو انھوں نے کہا کہ ہاں شیر گھروں میں نہیں پالا جا سکتا۔
040330_india_election_parties_if
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/03/040330_india_election_parties_if
بھارت میں انتخابی جوڑ توڑ
عام انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے مہینے بھر بعد بھی ہندوستان کے سیاسی منظرنامہ پر ملک کی دو سب سے بڑی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کا غلبہ نظر آتا ہے۔ لیکن دارالحکومت دہلی سے باہر نکلتے ہی یہ احساس بدلنے لگتا ہے۔ دونوں جماعتیں مختلف ریاستوں میں اپنے حلیفوں کو جس حد تک ریاعتیں دے رہی ہیں، اس سے علاقائی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سابق بھارتی وزیراعظم اور جنتا دل (سیکولر) کے رہنما ایچ دیوگوڑا کا خیال ہے کہ ’قومی‘ کہلائی جانے والی جماعتیں جو چاہے سمجھیں، مرکز میں حکومت سازی کے لئے علاقائی جماعتوں کا کردار حتمی ہو گا۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادیو بھی اس معاملے میں پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کچھ روز قبل ایک ریلی میں قومی جماعتوں پر الزام لگایا کہ یہ جماعتیں لوگوں میں اپنی اہمیت اور اعتبار کھو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سماج وادی پارٹی اور دیگر علاقائی جماعتیں حکومت کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ حکومت کی تشکیل میں علاقائی پارٹیوں کے رول کا اندازہ تو نتائج آنے کے بعد ہو گا۔ مگر فی الوقت انہوں نے انتخابی اتحاد میں اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ اس کے لئے ریاست بہار میں کانگریس اور آندھراپردیش میں نیشنل ڈیموکریٹک ایلائنسں (این ڈی اے) کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی کے انتخابی اتحاد کی مثالیں موزوں معلوم ہوتی ہیں۔ بہار کی چالیس پارلیمانی نشستوں کے لئے کانگریس کو لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) سے اتحاد کے بدلے محض چار نشستیں ملی ہیں۔ ریاست کی دوسری علاقائی جماعت لوک جن شکتی پارٹی کو آٹھ سیٹیں ملی ہیں جبکہ خود لالو پرشاد نے اپنی پارٹی کے لئے چھبیسں نشستیں مقرر کی ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی سابق مرکزی وزیر رام بلاس پاسوان کی ہے جن کا نچلی ذاتوں میں کافی اثرورسوخ مانا جاتا ہے۔ ایک سیٹ شردپوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے طارق انور کے لئے چھوڑ `دی گئی ہے۔ تقریباً پندرہ سال پہلے بدترین فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آئے بھاگلپور سیٹ معاہدے کے تحت کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ (سی پی ایم) کو دی گئ ہے۔ وہاں بی جے پی کے رہنما سشیل کمار مودی این ڈی اے کے امیدوار ہیں۔ آندھراپردیش کا ذکر کرنے سے پہلے بہار میں کانگریس کے اتحاد کے متعلق لالو پرساد کی طرف سے پریس کانفرنس میں دیئے گئے بیان کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں کانگریس کا کوئی قابل ذکر رہنما موجود نہیں تھا۔ صحافیوں کے سوال کرنے سے پہلے لالو پرساد نے صفائی دی کہ کانگریس نے انہیں مرکزی قیادت سے طے شدہ معاہدے کے اعلان کے لئے اختیار دیا ہے۔ ملک اور ریاست میں سب سے لمبے عرصے تک حکومت کرنے والی جماعت کانگریس پارٹی پر بعض علاقائی پارٹیاں کتنی حاوی ہو چکی ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہ تمثیل کافی ہے۔ بہار میں بی جے پی کی حلیف جنتا دل نے قریباً تئیس نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ جارج فرنینڈس کی اس جماعت کے بعض دیگر رہنما دو دو جگہ سے انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے اس معاہدے میں دو ایک جگہ دوستانہ مقابلہ بھی ہو سکتا ہے۔ کانگریس پر علاقائی جماعتوں کا غلبہ تو بہرحال اس وجہ سے ہے کہ وہ مرکز میں دوبارہ حکومت حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ مگر پچھلے انتخابات کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کے لئے ایسا کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ آندھراپردیش کی بیالیس پالیمارنی نشستوں کے لئے بی جے پی نے علاقائی جماعت تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) سے جو معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق اسے محض نو سیٹیں ملی ہیں۔ بات صرف تعداد کی نہیں ہے، ٹی ڈی پی کے قائد چندرابابو نائیڈو کا یہ بیان بھی میڈیا میں آ چکا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے امیدواروں کا انتخاب ان کے مشورے سے کیا جانا چاہئے۔ بہار میں ایسا ہی ایک بیان کانگریس کے لئے لالو پرساد نے دیا تھا۔ آندھراپردیش میں کانگریس کا اتحاد الگ ریاست کی مانگ کرنےوالی تلگانہ راشٹرسمیتی (ٹی آر ایس) کے ساتھ طے پایا ہے۔ اس کے مطابق کانگریس خود پینتیس سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور ٹی آر ایس کو پانچ نشستیں ملی ہیں۔ بہرحال ان دونوں ریاستوں کے علاوہ پارلیمانی لحاظ سے ملک کی دوسری بڑی ریاست مہاراشٹر میں کانگریس اپنی علاقائی حلیف نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) سے قدرے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ سابق مرکزی وزیر شردپوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو باضابطہ طور پر علاقائی پارٹی تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کا اثرورسوخ مہاراشٹر میں ہی مرکوز ہے۔ ریاست کی اڑ تالیس پارلیمانی سیٹوں کے لئے ہونے والے معاہدے کے تحت کانگریس کو چھبیس اور این سی پی کو اٹھارہ حلقے ملے ہیں۔ باقی چار نشستیں دوسری حلیف جماعتوں کے حصے آئی ہیں۔ یہاں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعت شیو سینا کو برابر سیٹیں ملی ہیں۔ اڑیسہ میں بیجو جنتا دل کے ساتھ معاہدے میں یہاں کی اکیس سیٹوں میں سے بی جے پی کو نو سیٹیں ملی ہیں۔ تامل ناڈو میں وزیراعلیٰ جے للیتا کی اے آئی اے ڈی ایم کے نے بی جے پی کے لئے انتالیس میں سے صرف چھ سیٹیں مختص کی ہیں۔ اس ریاست میں کانگریس کا معاہدہ ڈی ایم کے کے ساتھ ہوا ہے جس کے تحت کانگریس یہاں اپنے نو امیدواروں کو ٹکٹ دے گی۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی سبھی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کا اپنے مرکزی حلیف جے ڈی یو سے کوئی واضح سمجھوتہ نہیں ہو پایا۔ لیکن کانگریس کا معاہدہ علاقائی جماعت جھار کھنڈ مکتی مورچا (جے ایم ایم) سے ہوا ہے۔ اس کے تحت کانگریس کو ریاست کی چودہ میں سے آٹھ اور جے ایم ایم کو تین سیٹیں دی گئ ہیں۔ ’قومی‘ تسلیم کی جانے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) مغربی بنگال، کیرالہ اور تری پورا کو چھوڑ کر دیگر ریاستوں میں کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی نظر نہیں آ رہی۔ انتخابی اتحاد اور علاقائی جماعتوں میں سیاسی پیچ و خم کا کوئی بھی تذکرہ اترپردیش کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ لوک سبھا کی سب سے زیادہ ایک سو اسی سیٹوں والی ریاست میں فی الوقت کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ مایاوتی اپنے بل بوتے پر انتخاب میں کودنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ بی جے پی کا کسی سے اتحاد نہیں ہو سکا ہے۔ کانگریس کی پوری کوشش ہے کہ ملائم سنگھ کی سماج وادی پارٹی سے اتحاد ہو مگر ایسا ممکن ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ یوپی میں ان دونوں پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کے لئے جماعت اسلامی ہند جیسی کچھ مسلم تنظیمیں بھی کوشاں ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اس جماعت کو چالیس یا اس سے زائد سیٹیں مل جائیں تو اس کی کوشش مرکز میں ایک غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی حکومت کی تشکیل کی ہوگی۔
121118_baat_say_baat_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2012/11/121118_baat_say_baat_sa
’پاکستان کا مطلب کیا، ہندو سکھ مسیحی جا‘
دلکش لاہور کمیٹی نے شہر کے تیرہ انڈر پاسوں، چھ چوراہوں، چار موٹروے انٹر چینجز اور دو سڑکوں کے نام تاریخی شخصیات کے ناموں پر رکھنے کی منظوری دے دی۔ ان پچیس تاریخی شخصیات میں تحریک ِ آزادی کے ایک جنگجو بھگت سنگھ، پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل اور سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلئس سمیت تین غیر مسلم بھی شامل ہیں۔
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی بھگت سنگھ تو لائل پور میں پیدا ہو کر لاہور میں پھانسی چڑھا! تاریخی شخصیات سے اہم عمارات، تنصیبات اور شاہراہیں منسوب کرنا کسی بھی ملک میں معمول کی بات ہوگی مگر پاکستان میں کسی بھی معمولی کا غیر معمولی بننا دائیں ہاتھ کی چھنگلی کا کھیل ہے۔ چنانچہ ان پچیس ناموں میں سے ایک یعنی بھگت سنگھ کو جماعت الدعوۃ سمیت کچھ مذہبی تنظیموں کی حمایت یافتہ تحریکِ حرمتِ رسول نے لاہور ہائی کورٹ میں گھسیٹ لیا اور استدعا کی کہ شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ پر رکھنے کے سرکاری فیصلے کو منسوخ کر کے اس کا نام لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی پر رکھا جائے۔ پٹیشنر کے وکیل کا موقف ہے کہ شادمان چوک کا نام بدلنے کے پیچھے مضبوط بھارتی لابی اور بھارت نواز انسانی حقوق کے نام نہاد کارکن ہیں جو حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھنا قرآن و سنت کے منافی عمل ہے اور یہ عمل انیس سو ستانوے کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ ہائی کورٹ کے فاضل جج نے اس درخواست کی روشنی میں نام تبدیل کرنے کے سرکاری نوٹیفکیشن کے اجرا پر پابندی لگاتے ہوئے سرکار کو اگلی پیشی پر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ برطانیہ میں اگر کسی چوراہے، پارک یا سڑک کا نام بھگت سنگھ پر رکھنے کی کسی کوشش کو چیلنج کیا جاتا تو بات سمجھ میں آسکتی تھی۔ لیکن لاہور کے ایک پٹیشنر نے بھگت سنگھ کے نام کو کیوں چیلنج کیا؟ اور یہ کہ حرمتِ رسول کی تحریک کا بھگت سنگھ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ کیا بھگت سنگھ کو انگریزوں نے توہین ِرسالت کے جرم میں پھانسی دی تھی؟ اور کسی چوک کا نام بھگت سنگھ رکھنے کا عمل قرآن و سنت کے منافی کیسے ہے؟ اس بارے میں کون سی آیت ، حدیث یا آئمہِ کرام کے فتوے کا اطلاق ہوتا ہے؟ اور یہ اقدام انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ انیس سو ستانوے کے دائرے میں کیوں کر آتا ہے؟ کیا جس ایکٹ کے تحت بھگت سنگھ پر انیس سو تیس میں مقدمہ چلا، اسی ایکٹ کا نام بعد میں بدل کر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ انیس سو ستانوے رکھ دیا گیا؟ اور یہ کہ جو بھارتی لابی نئی دلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام آج تک نہ بدلوا سکی اسے لاہور کے ایک چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے نہ رکھنے سے کیوں دلچسپی ہے؟ جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تب نہ پاکستان تھا نہ بھارت، صرف برٹش انڈیا تھا۔ اور بھگت سنگھ تو لائل پور میں پیدا ہو کر لاہور میں پھانسی چڑھا؟ تو پھر بھارتی لابی اس معاملے میں کیوں کودی ۔ اور دلکش لاہور کمیٹی اپنے سربراہ جسٹس ( ریٹائرڈ) خلیل الرحمان رمدے سمیت اس لابی کے سحر میں کب اور کیسے مبتلا ہوگئی؟ اور سحر میں مبتلا ہونے کے باوجود اس نے ایک انڈر پاس کا نام چوہدری رحمت علی کے نام پر کیسے رکھ دیا؟ اور اس کے باوجود پٹیشنر کیوں بضد ہے کہ شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک کے بجائے چوہدری رحمت علی چوک رکھا جائے۔ کیا پٹیشنر ، وکیل اور فاضل جج تاریخ سے نابلد ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر عدالت نے پٹیشن کو سماعت کے قابل کیسے سمجھا؟ یقیناً کوئی نہ کوئی ٹھوس قانونی بنیاد ضرور ہوگی؟ شادمان چوک کا نام رحمت علی یا بھگت سنگھ چوک کے بجائے اگر حافظ محمد سعید چوک رکھ دیا جائے تو کیا یہ معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھ جائے گا؟ اور اس کے بعد لاہور پولیس کے ٹریفک وارڈن گلاب سنگھ کی ڈیوٹی اگر حافظ سعید چوک پر لگ گئی تب کیا ہوگا؟ پھر ایک پٹیشن ؟؟؟؟؟ ویسے یہ کہنے میں اب اور کتنی دیر ہے؟ پاکستان کا مطلب کیا، ہندو ، سکھ ، مسیحی جا اسی بارے میں متعلقہ عنوانات
060219_missile_test_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/02/060219_missile_test_fz
ابدالی میزائیل کا ایک اور تجربہ
پاکستان نے اتوار کو تھوڑے فاصلے پر جوہری ہتھیار لیے جانے کی صلاحیت رکھنے اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل حتف دو یا ابدالی کا ایک اور کامیاب تجربہ کیا ہے۔
امریکی خبررساں ادار ے اے پی نے پاکستانی فوجی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ابدالی پاکستان کا بنایا ہوا میزائل ہے۔ ابدالی جو کہ دو سو کلو میٹر کے فاصلے تک مار کرسکتا ہے جوہری اور روائتی دونوں ہتھیاروں سے لیس کیا جاسکتا ہے۔ فوجی ذرائع کے مطابق اس تجربے سے تمام متوقع نتائج حاصل کرلیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال اکتیس مارچ کو بھی پاکستان نے ابدالی یا حتف دو کا تجربہ کیا تھا۔ اس وقت حکام نے کہا تھا کہ یہ میزائیل ایک سو اسی کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تازہ ترین تجربے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ میزائیل دو سو کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے۔
041216_zardari_passport_court
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/12/041216_zardari_passport_court
پاسپورٹ، زرداری کی آئینی درخواست
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نےایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ای سی ایل سے نام خارج کرنے اور نیا پاسپورٹ جاری کرنے کے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی ہے۔
اس درخواست میں جو فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی گئی ہے وفاق، ایف آئی اے ایمگریشن ونگ کراچی ایرپورٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور کراچی ریجن کے پاسپورٹ سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے آصف علی زرداری کا نام فوری طور پر خارج کیا جائے اور فریقین کو ان کا پاسپورٹ جاری کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر بیرون ملک سفر کرسکیں۔ پانچ نومبر 1996 کو بے نظیربھٹو حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا تھا اور وہ مختلف مقدمات میں گرفتار کرلیے گئے تھے۔ وہ حال ہی میں ضمانت پر رہا ہونےہیں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ انہوں نے نئے پاسپورٹ کے اجرا کی درخواست دی تھی جو ان کے بقول اس جواز کے تحت مسترد کردی گئی کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اسے اس قسم کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔