text
stringlengths
0
57
بدستِ ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست
دُعا بگو ز فقیراں بہ تُرکِ شیرازی
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دِگرگُوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
کنارِ دریا خضَر نے مجھ سے کہا بہ اندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردُوں ہے بے کرانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
مری اسیری پہ شاخِ گُل نے یہ کہہ کے صیّاد کو رُلایا
کہ ایسے پُرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
حاجت نہیں اے خطّۀ گُل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دلِ پُر خوں کی ہے لالہ
تقدیر ہے اک نام مکافاتِ عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایانِ ہمالہ
سرما کی ہواؤں میں ہے عُریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہُنر جس کا امیروں کو دوشالہ
اُمّید نہ رکھ دولتِ دنیا سے وفا کی
رَم اس کی طبیعت میں ہے مانندِ غزالہ
خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی
حرام آئی ہے اُس مردِ مجاہد پر زِرہ پوشی
آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی بازوے پدر آور
غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے مری فریاد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد
مری نوائے غم آلود ہے متاعِ عزیز
جہاں میں عام نہیں دولتِ دلِ ناشاد
گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے
سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد
“٭صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگر است
خبر بگیر کہ آوازِ تیشہ و جگر است”
تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ لے، اور شہنشاہی کر
حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
مَیں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات
حُسین احمد
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
حضرتِ انسان
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھُپ نہیں سکتی کہ یہ عالَم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسّم ہائے پِنہانی
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عُریانی
یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خُونیں سے
کِیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے
غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
اگر مقصودِ کُل مَیں ہُوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہائے نَو بہ نَو کی انتہا کیا ہے؟