text
stringlengths
0
57
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ، اچھّی وفا تم نے کی
جو بچّے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اُس نے مُنہ پھیر کر یوں جواب
رُلاتی ہے تجھ کو جُدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بُجھایا اسے
پرندے کی فر یاد
بچوں کے لیے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر، آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مُسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اُس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
کیا بد نصیب ہوں مَیں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں، مَیں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار، کلیاں پھُولوں کی ہنس رہی ہیں
مَیں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دُکھڑا کسے سُناؤں
ڈر ہے یہیں قفسں میں مَیں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھُٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سُننے والے
دُکھّے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے
مَیں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دُعا لے
خُفتگانِ خاک سے استفسار
مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھّی نقابِ رُوئے شام
شانۀ ہستی پہ ہے بکھرا ہُوا گیسُوئے شام
یہ سیَہ پوشی کی تیّاری کسی کے غم میں ہے
محفلِ قُدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے
کر رہا ہے آسماں جادُو لبِ گُفتار پر
ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۀ بیدار پر
غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا
ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا
دل کہ ہے بے تابیِ اُلفت میں دنیا سے نفُور
کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۀ عالم سے دُور
منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں
ہم نشینِ خُفتگان کُنجِ تنہائی ہوں میں
تھم ذرا بے تابیِ دل بیٹھ جانے دے مجھے
اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے
اے مئے غفلت کے سر مستو کہاں رہتے ہو تم؟
کُچھ کہو اُس دیس کی آخر، جہاں رہتے ہو تم
وہ بھی حیرت خانۀ امروز و فردا ہے کوئی؟
اور پیکارِ عناصِر کا تماشا ہے کوئی؟
آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصُور کیا؟
اُس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبُور کیا؟
واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟
اُس چمن میں بھی گُل و بُلبل کا ہے افسانہ کیا؟
یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل
شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتاہے دل؟
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں
اُس گُلستاں میں بھی کیا ایسے نُکیلے خار ہیں؟
اس جہاں میں اک معیشت اور سَو اُفتاد ہے
رُوح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں، اندیشۀ رہزن بھی ہے؟
تِنکے چُنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟
خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
واں بھی انساں اپنی اصلیّت سے بیگانے ہیں کیا؟
امتیازِ ملّت و آئِیں کے دیوانے ہیں کیا؟
واں بھی کیا فریادِ بُلبل پر چمن روتا نہیں؟
اِس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟
باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟
یا رُخِ بے پردۀ حُسنِ ازل کا نام ہے؟
کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟
آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟
کیا عوض رفتار کے اُس دیس میں پرواز ہے؟
موت کہتے ہیں جسے اہلِ زمیں، کیا راز ہے؟
اضطرابِ دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے
علمِ انساں اُس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟
دید سے تسکین پاتا ہے دلِ مہجُور بھی؟
’لن ترانی‘ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طُور بھی؟
جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟
واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟
آہ وہ کِشور بھی تاریکی سے کیا معمُور ہے؟
یا محبّت کی تجلّی سے سراپا نُور ہے؟
تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے
موت اک چُبھتا ہُوا کانٹا دلِ انساں میں ہے
شمع و پروانہ
پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آدابِ عشق تُو نے سِکھائے ہیں کیا اسے؟
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھُونکا ہُوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا؟
آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟
غم خانۀ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو